Language: UR
مصنفہ نے اس کتاب میں اپنے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والےاور نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب اور اپنے والد محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان کے حالات جمع کرکے اس مفید تحریک کی تعمیل کی ہے جس میں خاندانوں کو اپنے اپنے بزرگان کے حالات کو زندہ رکھنے کی تحریک کی گئی تھی، یقیناً یہ ابتدائی بزرگان حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہیں جو اُسی خُو بُو کے ساتھ آگے اپنے پھلوں اور پھولوں سے برکات و فیوض کو عام کررہی ہیں۔
جتنے درخت زندہ تھے وہ سب ہوئے ہرے پھل اس قدر پڑا کہ وہ میووں سے لد گئے زنده درخت حضرت میاں فضل حمد سے حب ہر سیاں ہوا.ب در دیش قادیان حضرت حکیم اللہ ش صاحب مدرس
زنده درخت نام زنده درخت Printed in India 1
زنده درخت احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے اظمه تشکر و درخواست دعا شعبہ اشاعت لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان کے اہل خاندان کا شکر گزار ہے جنہوں نے اپنے بزرگوں کو ایصال ثواب کے لئے اس کتاب کی اشاعت میں مالی تعاون کیا ہے.مولا کریم سب محسنین کے اخلاص، اموال اور نفوس میں برکت عطا فرمائے.نیز ان کے بزرگوں کو اعلیٰ علیین میں اپنے مقام قرب سے نوازے اور ان کی نسلوں کو ہمیشہ اپنی رضا کی راہیں نصیب فرماتا چلا جائے.ان کے تقویٰ میں ترقی ہوتی رہے آمین اللهم آمین.فجزاهم الله تعالى احسن الجزاء في الدارين خيراً 2
صفحه نمبر 15 18 23 23 33 39 44 47 48 49 56 56 666 56 زنده درخت بسم الله الرحمن الرحيم مندرجات مندرجات نمبر شمار حصہ اول نانه -2 -3 -4 -5 -6 -7 -8 -9 حضرت میاں فضل محمد صاحب کے اعزازت حضرت میاں فضل محمد صاحب تحریر محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت حضرت میاں فضل محمد صاحب کی بیان فرمودہ روایات سیرت المہدی کا ایک ورق از حضرت میاں یعقوب علی صاحب عرفانی مدیر الحکم اک زماں کے بعد پھر آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا.از محترم صالح محمد صاحب مربی سلسله حضرت والد صاحب مولائے حقیقی سے جاملے.از محترم عبدالرحیم صاحب در ویش روز نامہ الفضل میں وفات کی خبر ایم ٹی اے اردو کلاس میں حضرت میاں فضل محمد صاحب کا ذکر خیر عمر دگنی کئے جانے اور اولاد میں برکت کا نشان از محترم محمد اسلم خالد صاحب -10 - حضرت میاں فضل محمد صاحب کے متعلق چند تاثرات -| -|| حضرت مفتی محمد صادق صاحب محترم نذرحسین صاحب 3
|||- -IV زنده درخت محترم مولانا عبدالمالک خان صاحب محترم چودھری فاروق احمد صاحب لاہور 11 حضرت برکت بی بی صاحبہ اہلیہ حضرت میاں فضل محمد صاحب 12 - محتر مہ صوباں بیگم صاحبہ اہلیہ ثانی حضرت میاں فضل محمد صاحب -13- حضرت میاں فضل صاحب کی اولاد -| -|| -||| -۱۷ -V -VI محترمہ رحیم بی بی اہلیہ ماسٹر عطا محمد صاحب ابوالبشارت مولا نا عبد الغفور صاحب فاضل مربی و مناظر سلسله محترم عبد الرحیم صاحب دیانت درویش قادیان محترم مولوی صالح محمد صاحب مربی سلسله محترمہ صالحہ فاطمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم غلام محمد صاحب محترم محمد عبد اللہ صاحب ۷۱۱- محترمه حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد حسن صاحب |||V - محترمہ صادقہ شریف صاحبہ اہلیہ محترم مولوی محمد شریف صاحب -IX (اکاؤنٹنٹ جامعہ احمدیہ ) 59 60 62 69 76 76 ه م له له لا لا لا چه 77 79 79 81 82 84 86 محترم عبدالحمید صاحب ( شاہین سویٹ اینڈ ریسٹورنٹ یوایس اے) 87 14 - درویش قادیان محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت 15- کیا محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت در ویش رفیق حضرت مسیح موعود تھے؟ تحریر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد 16 - خودنوشت سوانح حیات 17 - میرا بچپن اور تعلیم -18 میری شادی 88 91 93 95 888 99 4
103 105 105 107 113 114 117 117 118 118 119 120 121 122 123 124 125 126 126 127 129 130 زنده درخت 19 کام کا آغاز اور حضرت مصلح موعود کی دعا سے برکت 20- بزرگانِ سلسلہ کی پیاری یادیں ۱.حضرت مصلح موعود کی انمول رفاقتیں ||-حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی شفقتیں |||- حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد کے ہاں ذکر خیر ۱۷- حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا حسنِ سلوک 21- دعوت الی اللہ کا جنون اور اس میں پیش آنے والے چند واقعات ا-نصرت بالرعب ||- اینٹ پتھر کھانے کی سعادت 1- بظاہر حقیر چیز صبر وشکر کا سامان بن گئی IV.ہمارے دلائل کا سامنانہ کر سکا V - گھر میں کچا کنواں کھودا ۷۱- مکرم چودھری محمد اعظم صاحب ۷۱۱- مولوی عبدالغفار غزنوی صاحب کو دعوت الی اللہ |||V-گالیاں سن کر دعادو IX - یہی کوئی دوکوس - ایک مزے دار بات X1 میلے میں مار X۱۱- قصہ عربی پیر کا |||X - دعوت الی اللہ کے دوران رام لیلا دیکھنے کا موقع XIV- ویرووال کے شدید معاند کو دعوت الی اللہ کا موقع - اردو میں جواب دیا اردو نہیں جانتا 5
زنده درخت XVI - کشمیر میں حضرت عیسی کی قبر پر XVII - ایک رات میں سارے تاشقند میں دعوت الی اللہ |||XV-عدالت خان صاحب کی قبر سے روشنی XIX - مسلمان بھینسا XX- ایک دعا 22-اکرام ضیف اور خدمت خلق کی تمنا 1- کار خیر کا موقع || - دارالشیوخ کے بچوں کی پکنک |||- ارشاد سے پہلے تعمیل ارشاد IV-حضرت ٹھیکیداراللہ یار صاحب کی روایت ۷.حضرت بدرالدین صاحب اور اُن کی اہلیہ کی باتیں 23 - متفرق واقعات 1- خاطر تواضع کا عجیب انداز 11 - سفر میں احتیاط ||| معجزانہ سلوک - یونیورسٹی میں داخلہ ۱۷- شامت اعمال 24 - درویشی کے زمانے کے ابتدائی حالات 25 - درویش سے چند سوالات ا - قادیان ٹھہر کر کیا کیا؟ 11.میں نے قادیان ٹھہر نے کا فیصلہ کیا |||- قادیان میں کیوں ٹھہرے؟ ۱۷- قادیان میں ٹھہر کر کیا پایا؟ 131 132 134 136 136 137 138 139 140 141 144 147 147 148 149 152 155 159 159 160 160 160 6
162 162 162 163 163 164 164 165 166 167 167 181 186 189 194 203 207 209 212 225 235 241 26- زمانہ درویشی کے چند واقعات 1- دیانت لوشن ||-غیب سے رزق کے سامان |||- شان ربوبیت IV- موت سامنے نظر آنے لگی ۷ محض للہی تعاون ۷۱ - قادیان کی برکت زنده درخت ۷۱۱- ایک اتفاقی حادثہ کی دیر پا تکلیف VIII - پہرے ہی پہرے 27 - درویش کے خطوط 1- علم اور کتابوں کا عشق 11- حفاظت مرکز کے لئے تعمیراتی کاموں کی سعادت 111- دفتر زائرین میں خدمات اور سیکرٹری دعوت الی اللہ کے فرائض ۱۷- عهد درویشی کی عیدیں اور معمولات روز و شب - حالات اور تاریخ کے اشارے ۷۱ - حلقہ احباب ۷۱۱- طبابت سے دلچسپی |||V - جائداد چھن جانے پر صبر ورضا X - خيركم خيركم لاهله X-اکرموا اولادكم XI - بچوں کو نصائح X1 - انگلی نسل سے ذاتی رابطہ، رہنمائی اور دعائیں 7
245 247 251 253 255 261 263 266 268 269 270 279 281 286 286 291 296 305 311 314 زنده درخت |||X - پھلوں اور پھولوں سے محبت 28 شام زندگی از محتر مہ امته اللطیف صاحبه 29 افسوس مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش وفات پاگئے -30 -31 -32 -33 حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی تصویر کی شناخت ایک درویش کی کہانی از محترم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد میرے دعا کرنے والے ابا جان از محترمہ امتہ الحمید صاحبہ ظافر میرا بچپن جہاں گزرا - از محترمہ امتہ الشکور ارشد صاحبه 34 - وہ پھول جو مرجھا گئے از محترم بدرالدین عامل صاحب -35 میرے پیارے خالو جان از محترم حبیب احمد طارق صاحب 36- ایک قیمتی تحفہ از محترم شیخ ناصر احمد خالد صاحب 37 محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم عبدالرحیم صاحب درویش از محترم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد -38 محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کا تاریخ میں ذکر خیر 39 میرے بچپن کا ایک یادگار واقعہ تحریر صاحبزادی امۃ الرشید بیگم بنت حضرت مصلح موعود 40- برگ و بار ۱ - محتر مدامتة اللطیف صاحبہ اہلیہ محترم شیخ خورشید احمد صاحب ||- محترم عبدالمجید صاحب نیاز ||| - محترم مولانا عبدالباسط صاحب شاہد مربی سلسلہ ۱۷- محترمہ امۃ الرشید صاحبہ اہلیہ محترم صادق محمد صاحب ۷- محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ محترم عبدالسلام صاحب ظافر ۷۱- خاکسار امتہ الباری ناصر اہلیہ محترم ناصر احمد قریشی صاحب 8
315 317 319 322 328 342 348 349 زنده درخت ۷۱۱- محترمہ امۃ الشکور صاحبہ اہلیہ محترم چودھری محمد ارشد صاحب ۷۱۱۱- محترم عبد السلام صاحب طاہر حضرت حکیم اللہ بخش صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام روایات بیان فرمودہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحب ۱- موتی بازار منظوم سوانح عمری ||- حضرت حکیم صاحب کے کچھ حالات تحریر میاں عبدالرحیم صاحب درویش |||- حضرت حکیم صاحب کی اولاد ۱۷- دعوت الی اللہ کا شوق اور فن شعر و شاعری 9 41
زنده درخت پیش لفظ بفضلہ تعالیٰ لجنہ اماءا وجشن تشکر کے سلسلے میں کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اب تک دینی علمی تربیتی موضوعات پر ستانوے کتب شائع ہو چکی ہیں زیر نظر کتاب اس سلسلے کی 98 ویں کڑی ہے.الحمد للہ علی ذالک.زنده درخت عزیزہ امتہ الباری ناصر کی پیشکش ہے.کتاب کا موضوع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہے.جو اُسی خُو بُو کے ساتھ آگے اپنے پھلوں اور پھولوں سے برکات و فیون کو عام کر رہی ہیں.اپنے دادا جان اور نانا جان کے حالات جمع کر کے عزیزہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے اس ارشاد کی تعمیل کی ہے جس میں آپ نے اپنے بزرگوں کے حالات کو زندہ رکھنے کی تحریک فرمائی.تاکہ اُن کی قربانیوں، خدمات اور اخلاص سے آگاہ ہو کر آئندہ آنے والی نسلیں اپنے لئے راہ عمل متعین کریں.اس کتاب میں عزیزہ نے اپنے والد صاحب درویش قادیان محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت کے حالات بھی لکھے ہیں جن سے تاریخ احمدیت کے اس باب سے واقفیت ہوتی ہے کہ درویشانِ کرام نے کن حالات میں مرکز قادیان کی خاطر جان ، مال ، وقت اور اولاد کی قربانیاں دیں.یہ ایک بہت قابل قدر خدمت ہے.درویشان قادیان کے متعلق ہمیشہ لکھا جاتارہے گا مگر خودنوشت حالات کو مرتب کر کے پیش کرنا بہت بڑی امانت تھی جو اہلِ جماعت کے سپرد کر دی گئی ہے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آگے اُن کی اولا دیں بھی خلافت سے وابستگی اور دین کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہیں.10
زنده درخت 11
زنده درخت عرض حال سب تعریف رب العالمین رحمن و رحیم کے لئے ہے جس نے حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ذریعے دینِ حق کی نشاۃ ثانیہ کا انتظام فرمایا.اس بہار ٹو میں جن درختوں میں اتنی زندگی تھی کہ وہ روحانی پانی کوقبول کر سکیں وہ آپ کی برکات و فیوض سے پھر ہرے ہو گئے.اُن کو قادر و توانا خدا نے اس قدر پھل عطا فر مایا کہ وہ میوں سے لد گئے.پھلوں اور میووں سے لدا ہوا ایک خاکسار کے دادا جان حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے تھے جنہیں خاص طور پر برکت کا نشان دیا گیا.آپ کے حالات جمع کرتے ہوئے حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گرامی پیش نظر تھا:.”اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو یاد رکھنا اور ان کے احسانات کو یادرکھ کے ان کے لئے دعائیں کرنا یہ ایک ایسا خلق ہے کہ اس خُلق کو ہمیں صرف اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہیے...اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور اس تاریخ کو ان کی بڑائی کے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کے لئے ،ان کی مثالوں کو زندہ کرنے کے لئے ان کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ وہ لوگ جو تمہارے آباء واجداد تھے کن حالات میں کس طرح وہ لوگ خدمت دین کیا کرتے تھے کس طرح وہ چلا کرتے تھے کس طرح بیٹھا کرتے تھے اوڑھنا بچھونا کیا تھا، ان کے انداز کیا تھے.( خطبہ جمعہ 17 مارچ 1989ء مطبوعہ الفضل ربوہ 6 جولائی 2002 ، صفحہ 3) وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قیمتی یادیں سینے میں لئے بزرگ رخصت ہوتے جارہے 12
زنده درخت ہیں.نیا گا آگے بڑھنے والا ورثہ رفتہ رفتہ یادوں سے محو ہونے لگتا ہے.اس طرح بہت سے تاریخی اہمیت کے واقعات نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جماعتی اخبارات الحکم، بدر، الفضل اور تاریخ احمدیت و دیگر رسائل نے جماعت کی تاریخ کو خوب سنبھال رکھا ہے.ان خزائن سے دستیاب مواد ابا جان کے خود نوشت حالات، ان خط کو نیز کچھ بزرگوں سے دریافت کر کے یہ حالات ترتیب دئے.اس کتاب میں خاکسار نے حضرت دادا جان ، اُن کی دونوں بیگمات اور اولا د کا خیر کر کیا ہے.نیز اپنے پیارے والدین اور نانا جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کے حالات بھی جمع کر دئے ہیں.ایسی تحریروں میں بعض دفعہ تکرار محسوس ہوتی ہے جو نا گزیر ہے تھا شش کی ہے کہ اعا کم کم ہو.کتاب کی تیاری میں جن کر مفر ماؤں کسی بھی طرح مدد کی ہے میں دل کی گہرائیوں سے اُن کی قدر کرتی ہوں اور دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود اُن کی جزا بن جائے.آمین.13
زنده درخت.1 حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے) کے اعزازات....تذکرہ ( مطبوعہ 2004 ء ضیاء الاسلام پریس ربوہ پاکستان) کے صفحہ 686 پر آپ کی بیان فرمودہ ایک روایت درج ہے جس پر الحکم جلد 3 نمبر 2 مورخہ 21 جنوری 1935 صفحہ 5 کا حوالہ ہے.2 اخبار الحکم 31 اگست 1902ء میں بیعت کا کالم کے تحت انیسویں نمبر پر میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ درج ہے..3....اخبار بدر 23 تا 30 جنوری 1903ء کے صفحہ 8 پر سفر جہلم میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے سفر میں آپ کا اسم گرامی بھی شامل ہے.میاں فضل محمد صاحب از ہر سیاں ضلع گورداسپور......جسٹر روایات میں رجسٹر نمبر 8 نمبر شمار 22 اور رجسٹر نمبر 14 نمبر شمار 20 پر آپ کی بیان فرمودہ روایات درج ہیں.5...قادیان کے رفقاء کی فہرست میں صفحہ 41 پر نمبر شمار 114 پر درج ہے میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں ولد سندھی خاں صاحب ہرسیاں ضلع گورداسپور حال دارالفضل قادیان سن بیعت 1896 ء سن زیارت 1897ء.(تاریخ احمدیت جلد ہشتم)......حضرت اقدس مسیح موعود نے 24 فروری 1898ء کو 20×6 کے 16 صفحات ر مشتمل ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں اپنے 316 منتخب اصحاب کے نام درج فرمائے ان میں نمبر 299 پر مولوی فضل محمد صاحب موضع ہرسیاں گورداسپور تحریر ہے.وجہ انتخاب 14
زنده درخت ایک امتیازی سند کی حیثیت رکھتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ایک نیا فرقہ جس کا امام اور پیر یہ راقم ہے پنجاب اور ہندوستان کے اکثر شہروں میں زور سے پھیلتا جاتا ہے اور بڑے بڑے تعلیم یافتہ مہذب عہدے دار اور نیک نام رئیس اور تاجر پنجاب اور ہندوستان کے اس فرقہ میں داخل ہوتے جاتے ہیں اور عموماً پنجاب کے شریف مسلمانوں کے نو تعلیم یاب جیسے بی اے، ایم اے اس فرقہ میں داخل ہیں اور داخل ہو رہے ہیں اور یہ ایک گروہ کثیر ہو گیا ہے جو اس ملک میں روز روز ترقی کر رہا ہے....جس قدر لوگ میری جماعت میں داخل ہو رہے ہیں اکثر ان میں سے سرکار انگریزی کے معزز عہدوں پر ممتاز اور یا اس ملک کے نیک نام رئیس اور اُن کے خدام اور احباب اور یا تاجر یا وکلاء اور یائو تعلیم یافتہ انگریزی خوان اور یا ایسے نیک نام علماء اور فضلاء اور دیگر شرفاء ہیں جو کسی وقت سرکار انگریزی کی نوکری کر چکے ہیں اور یا اب نوکری پر ہیں یا اُن کے اقارب اور رشتہ دار اور دوست ہیں جو اپنے بزرگ مخدوموں سے اثر پذیر اور یا سجادہ نشینان غریب طبع..اور یا وہ لوگ جو میرے اقارب یا خدام میں سے ہیں ان کے علاوہ ایک بڑی تعداد علماء کی ہے.میں مناسب دیکھتا ہوں کہ اُن میں سے اپنے چند مریدوں کے نام بطور نمونہ آپ کے ملاحظہ کے لئے ذیل میں لکھوں.66 رام میرزاعلام احمد از مفت ادیان ضلع گورداسپور 24 فروری1898ء ( مجموعہ اشتہارات جلد-3 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 356) نظام وصیت میں شامل ہونے والے اولین میں شامل تھے آپ کا..7 وصیت کا اعلان الحکم 24 مارچ 1907ء میں شائع ہوا جس میں تحریر ہے: 21 مئی 1906 ء میں اقرار کرتا ہوں کہ کہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب سلمہ مسیح 15
زنده درخت موعود رئیس قادیان ضلع گورداسپور کے دعاوی پر صدق دل سے ایمان رکھتا ہوں اور اُن کا مرید اور پیرو ہوں......میں نے رسالہ الوصیت جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے بتاریخ 24 ماہ دسمبر 1904ء کو شائع ہوا ہے تمام و کمال پڑھ لیا ہے میں ان ہدایات کو جو اُس میں درج ہیں پابند ہوں.......میں اس وقت دکان پنساری اور بزازی وغیرہ کی کرتا ہوں اور جو مال اس وقت اُس میں یعنی دکان میں موجود ہے اُس کی قیمت قریباً مبلغ تین سو روپے ہے اور اس مال میں میرا کوئی شریک نہیں ہے میں آج کی تاریخ سے اُس مال کی نسبت جس کی قیمت مبلغ تین سور و پیہ ہے میں اُس کے دسویں حصہ کے متعلق یہ وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد صدر انجمن احمدیہ قادیان یا اُس انجمن کے کسی مقرر کردہ ماتحت مجلس قادیان کے سپر د کر دیا جائے.....میں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرا جنازہ احمدی جماعت قادیان شریف میں پہنچانے اور مقبرہ بہشتی میں دفن کرنے کی کوشش کی 66 جاوے........میں نے یہ وصیت صرف ابتغاء لوجہ اللہ کی ہے.دستخط فضل محمد احمدی سکنہ موضع ہر سیاں وصیت کننده بقلم خود گواہ شد نور محمد ولد کریم بخش قوم آرائیں ساکن موضع ہر سیاں گواه شد - جمال الدین ولد محمد صدیق ساکن سیکھواں احمدی گواہ شد - امام الدین احمدی ولد محمد صدیق قوم آرائیں ساکن سیکھواں.-102 آپ کا وصیت نمبر 102 ہے...8 تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کا نمبر 526 ہے اس طرح آپ حضرت مصلح موعود کی ان دعاؤں کے وارث بنے جن میں آپ فرماتے ہیں: ”مبارک ہیں وہ جو اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کا نام ادب و احترام سے اسلام کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہے گا.اور خدا تعالیٰ کے 16
زنده درخت دربار میں یہ خاص عزت کا مقام پائیں گے کیونکہ انہوں نے خود تکلیف اُٹھا کر دین کی مضبوطی کے لئے کوشش کی اور ان کی اولادوں کا خدا خود متکفل ہوگا اور آسمانی نور ان کے سینوں سے ابل کر نکلتا ر ہے گا اور دنیا کو روشن کرتا رہے گا“ کتاب تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین صفحہ 14,15).2 حضرت میاں فضل صاحب ہر سیاں والے تحریر: محترم مولنا دوست محمد صاحب شاہد ( مؤرخ احمدیت ) ولادت بیعت وفات : $1866 1895ء (بمطابق روایت حضرت مصلح موعود ) نومبر 1956ء آپ کا اصل وطن قادیان کے ماحول میں واقع ہر سیاں کا گاؤں ہے.جو سیکھواں.قریب ہے.آپ کے گاؤں میں بعض اور بزرگ بھی مثل منشی نور محمد صاحب ومیاں محمد غوث صاحب وغیرہ داخل احمدیت ہوئے.مگر اکثریت بیگانوں کی تھی.جو مخالف علماء کے زیر اثر تھے.اللہ تعالیٰ کی قدرت نمائی دیکھئے کہ اس نے علماء کے عنا داور دشمنی کو کئی سعید روحوں کے لئے شناخت حق کا موجب بنا دیا چنانچہ حضرت میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی ( والد ماجد مولوی قمر الدین صاحب) کی روایت ہے کہ: ایک دفعہ حضور نے مباحثات و مناظرات حکماً بند کر دیے.اُن دنوں مولوی اللہ دسته و علی محمد سوہلوی و عبدالسبحان ساکن مسانیاں وغیرہ یکا یک ہرسیاں میں آگئے.اُس وقت بھائی فضل محمد صاحب والد مولوی عبد الغفور صاحب مبلغ و منشی نورمحمد صاحب وغیرہ 17
زنده درخت ہرسیاں والے احمدی برادران نے مولوی فتح الدین صاحب کو دھرم کوٹ سے بلا لیا اور سیکھواں میں ہماری طرف بھی بلانے کے لئے آدمی آ گیا چونکہ حضور نے مناظرات وغیرہ بند کر دیے تھے.اس لئے میں اور میرے بھائی امام الدین صاحب ہرسیاں روانہ ہو گئے.اور اپنے بڑے بھائی جمال الدین صاحب مرحوم کو حضور کی خدمت مبارک میں روانہ کر دیا.برائے حصولِ اجازت مناظرہ اور وہاں پر ہم جا کر مع احمدی دوستوں کے حضور کی اجازت کا انتظار کرنے لگے اُدھر فریق مخالف نے آسمان سر پر اُٹھایا ہوا تھا.اور بہت سے پیغام بھیج رہے تھے.کہ جلدی ہمارے ساتھ مناظرہ کر لیں.لیکن ہم نے جواب دیا کہ جب تک قادیان سے اجازت نہ آئے ہم قطعاً مناظرہ نہیں کریں گے.اس پر مخالفین نے خوشی کے ترانے گانے شروع کر دیئے اور وہاں کا نمبر دار اُن مخالفوں کی طرف سے آیا اور مجھے الگ لے جا کر کہنے لگا کہ اگر آپ میں طاقت نہیں ہے مباحثہ کی تو آپ مجھے کہہ دیں.میں ان کو یہاں سے روانہ کر دیتا ہوں میں نے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم میں مباحثہ کرنے کی طاقت ہے اور فریق مخالف ہماری طاقت کو جانتا ہے.لیکن ہم اپنے پیشوا کے حکم کے تابع ہیں قادیان ہمارا آدمی حصول اجازت مباحثہ کے لئے گیا ہوا ہے.ہم منتظر ہیں اگر اجازت آگئی تو مناظرہ کر لیں گے ورنہ نہیں پھر جو دل چاہے قیاس کر لینا تھوڑی دیر کے بعد میرے بھائی جمال الدین صاحب آگئے.اور کہا کہ حضور نے اجازت نہیں دی.جب مخالفین کو علم ہو گیا کہ مباحثہ نہیں ہو گا تب اُن میں طوفان بے تمیزی برپا ہوا اور جو کچھ اُن سے ہوسکتا تھا بکو اس کیا تمسخر اڑایا کہ کوئی حد نہ رہی.چھوٹے چھوٹے بچے بھی خوشی کے شادیانے گاتے تھے اور ہم خاموش تھے فریق مخالف بظاہر فتح و کامیابی کی حالت میں اور ہم ناکامی اور شکست کی حالت میں ہرسیاں سے نکلے لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب نظارہ دیکھیں کہ جمعہ کے روز ہرسیاں سے ایک جماعت قادیان پہنچ گئی کہ ہم بیعت کرنے کے لئے آئے ہیں.ہم حیران ہوئے اور ہم نے پوچھا بظاہر تو ہماری 18
زنده درخت شکست ہوئی تھی.آپ کو کون سی دلیل مل گئی.انہوں نے جواباً کہا کہ آپ لوگوں کے چہروں پر ہمیں صداقت نظر آگئی اور اُن مخالفوں کے چہروں سے کذب اور بے ہودہ پن نظر آیا یہی بات ہم کو قادیان کھینچ لائی.حضرت میاں فضل محمد صاحب خلافت ثانیہ کے عہد میں ہجرت کر کے قادیان آ گئے تھے.اور محلہ دار الفضل میں رہائش اختیار کر لی تھی.تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان تشریف لے آئے اور ربوہ میں مقیم ہوئے.آپ موصی تھے.اور تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں بھی شامل تھے.آپ کا جنازہ حضرت مصلح موعود نے پڑھایا اور پھر اگلے روز 9 رنومبر 1956ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ : ”میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے فوت ہوئے ہیں.انہوں نے 1895ء میں حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی جس پر اب 61 سال گزر چکے ہیں.گویا 1895ء کے بعد انہوں نے 61 جلسے دیکھے.ان کے ایک لڑکے نے بتایا کہ والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میں نے جس وقت بیعت کی اس کے قریب زمانہ میں ہی میں نے ایک خواب دیکھا جس میں مجھے اپنی عمر 45 سال بتائی گئی.میں حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوا اور رو پڑا اور میں نے کہا حضور بیعت کے بعد تو میرا خیال تھا کہ حضور کے الہاموں اور پیش گوئیوں کے مطابق احمدیت کو جو ترقیات نصیب ہونے والی ہیں انہیں دیکھوں گا.مگر مجھے تو خواب آئی ہے کہ میری عمر صرف 45 سال ہے.اس پر حضرت مسیح موعود نے فرما یا گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے طریق نرالے ہوتے ہیں شاید وہ 45 کو 90 کر دے.چنانچہ کل جو وہ فوت ہوئے تو ان کی عمر پورے 90 سال کی تھی.اس طرح احمدیت کو جو ترقیات ملیں وہ بھی انہوں نے دیکھیں اور 61 جلسے بھی دیکھے.ان کے چار بچے ہیں.جو دین کی 19
زنده درخت خدمت کر رہے ہیں.ایک قادیان میں درویش ہو کر بیٹھا ہے.ایک افریقہ میں مبلغ ہے.ایک یہاں مبلغ کا کام کرتا ہے.اور چوتھا لڑ کا مبلغ تو نہیں ،مگر وہ اب ربوہ آگیا ہے.اور یہیں کام کرتا ہے.پہلے قادیان میں کام کرتا تھا.لیکن اگر کوئی شخص مرکز میں رہے.اور اس کی ترقی کا موجب ہو تو وہ بھی ایک رنگ میں خدمت دین ہی کرتا ہے.پھر ان کی ایک بیٹی بھی ایک واقف زندگی سے بیاہی ہوئی ہے باقی بیٹیوں کا مجھے علم نہیں بہر حال انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک خدا تعالیٰ کا نشان دیکھا.جب 45 سال کے بعد 46 واں سال گزرا ہوگا تو وہ کہتے ہوں گے.میں نے خدا تعالیٰ کا ایک نشان دیکھ لیا ہے.میں نے تو پینتالیس (45) سال کی عمر میں مر جانا تھا.اب ایک سال جو بڑھا ہے حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی کے مطابق بڑھا ہے جب چھالیسویں (46) کے بعد سنتالیسواں (47) سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے کہ میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے پینتالیس (45) سال کی عمر میں مرجانا تھا.مگر اب دو سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی کے مطابق بڑھے ہیں.جب سنتالیسویں (47) سال کے بعد اُڑتالیسواں (48) سال گزرا ہو گا تو وہ کہتے ہوں گے میں نے خدا تعالیٰ کا ایک اور نشان دیکھ لیا ہے.میں نے پینتالیس (45) سال کی عمر میں مر جانا تھا.مگر اب تین سال جو بڑھے ہیں تو حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی کے مطابق بڑھے گویا وہ پینتالیس (45) سال تک برابر ہر سال یہ کہتے ہوں گے ہیں.کہ میں نے خدا تعالیٰ کا نشان دیکھ لیا اور ہر سال جلسہ سالانہ پر ہزاروں ہزار احمدیوں کو آتا دیکھ کر اُن کا ایمان بڑھتا ہو گا.“ 20 20
اولاد زنده درخت پہلی بیوی محترمه برکت بی بی صاحبہ کے بطن سے) 1- رحیم بی بی صاحبہ (اہلیہ حضرت ماسٹر عطا محمد صاحب والدہ مولا نانسیم سیفی صاحب) 2- کریم بی بی صاحبہ 3- عبدالرحمن صاحب 4- ابوالبشارت مولانا عبدالغفور صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ 5 - احمد بی بی صاحبہ -6- عبدالرحیم صاحب مالک دیانت سوڈا واٹر فیکٹری درویش قادیان 7 - مولوی صالح محمد صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ 8- صالحہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ ماسٹر غلام محمد صاحب 9 - محمد عبد اللہ صاحب -10 حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد حسن صاحب لنڈن (دوسری بیوی محترمہ صوباں بیگم صاحبہ کے بطن سے) -11 -12 صادقہ بیگم صاحبہ (اہلیہ الحاج مولوی محمد شریف واقف زندگی) عبدالحمید صاحب ( نیویارک) الفضل 25 نومبر 1959ء ص 4,3 آپ کا نام الحکم 31 اگست 1902ء کےص 16 کی فہرست مبائعین میں شائع شدہ ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بیعت کی تقریب میں موجود تھے اور ڈائری نویس بزرگ نے آپ کا نام بھی شامل کر لیا.تاریخ احمدیت جلد دوم ص 299 پر آپ کے بیان (مندرجہ رجسٹر جلد نمبر 14 ص 276,275 کی روشنی میں آپ کا سال بیعت 1896ء لکھا گیا ہے.مگر تحقیق سے یہ امر ثابت نہیں ہوا.وجہ یہ کہ حضرت میاں فضل محمد صاحب کے بیان میں جلسہ 1896ء پر بیعت کا ذکر 21
زنده درخت ہے حالانکہ اس سال جلسہ اعظم مذاہب لاہور کے باعث قادیان میں کوئی جلسہ سالانہ نہیں ہوا تھا.اس بیان میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ نے جلسہ 1896ء کے معاً بعد جب دوبارہ بیعت کی تو حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی ایک دن قبل قادیان میں پہنچ چکے تھے.اور حضرت مولانا حسن علی صاحب کی کتاب ” تائید حق ص 76 سے ثابت ہے کہ یہ واقعہ 3 جنوری 1894ء کا ہے اس اعتبار سے آپ کی بیعت کا دن 3 جنوری 1894ء قرار پاتا.مگر اس میں ایک الجھن پیدا ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ آپ نے 1893ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی بیعت کا شرف حاصل کیا مگر یہ غلط ہے، 1893ء کا جلسہ بھی نہیں ہوا.( تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 316 تا319) -3- روایات بیان فرمودہ حضرت چودھری فضل محمد صاحب دکاندار ہر سیاں والے مہاجر قادیان از رجسٹر روایات نمبر 14 صفحہ 275 تا 286 پہلے میری سکونت موضع ہر سیاں تحصیل بٹالہ (ضلع گورداسپور ) کی تھی اور بعض دوست میرے پاس آکر حضرت مسیح موعود کی کچھ باتیں کیا کرتے تھے.اور میں کچھ کچھ سوال جواب کیا کرتا تھا.اتفاقاً جلسہ 1896ء کے موقعہ پر جب کہ میں ایک دوست کو جو سری گو بند پور میں رہتا تھا گھوڑے پر سوار ہو کر اس کے ملنے کے واسطے براستہ قادیان جا رہا تھا اور میں جب بیت اقصیٰ کے دروازہ کے سامنے پہنچا تو میرے ایک دوست محمد اکبر صاحب مرحوم ( بٹالوی) بیت کے اندر سے باہر نکلے اور مجھ سے ملے اور انہوں نے میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور مجھے گھوڑے سے اتار دیا اور فرمایا کہ آج جلسہ ہے میں 22
زنده درخت ہر گز آپ کو نہیں جانے دوں گا.چنانچہ انہوں نے میرا گھوڑ اکسی رشتہ دار کے ہاں باندھ دیا اور مجھے ساتھ لے کر بیت کے اندر چلے گئے.جب میں اندر گیا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود بیٹھے ہیں اور مولوی عبد الکریم صاحب تقریر فرمارہے تھے.میں وہاں بیٹھا رہا اور تقریر سنتا رہا.چنانچہ میں دو دن قادیان شریف میں رہا.اور میں نے چندہ بھی دیا.ایک دوست جو چندہ لے رہا تھا اُس نے میرا نام پوچھا مگر میں نے اس کو نام نہ بتلا یا اور چندہ دے دیا.آخری دن جب بیعت شروع ہوئی تو محمد اکبر صاحب نے میرا ہاتھ پکڑ کر اوپر رکھ دیا.میں نے دل میں کہا کہ جب تک میرا ارادہ نہ ہو بیعت کیا ہوگی؟ خیر میں نے ہاتھ نہ اُٹھایا اور دعا میں شامل ہو گیا.جب میں واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال گزرتا کہ قادیان میں سوائے قرآن شریف کے اور نیک دینی باتوں کے اور کچھ نہیں سنا.لوگ صرف یاد الہی میں مشغول ہیں.اس خیال کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے نمازوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعا کرنی شروع کی کہ اے میرے پیدا کرنے والے میرے محسن میں تیرا بندہ ہوں گنہگار ہوں، بے علم ہوں، میں نہیں جانتا کہ تیری رضا کے مطابق کون چلتا ہے.اس وقت تو مجھے اس رستہ پر چلا کہ جس پر تو راضی ہوتا کہ قیامت کے دن مجھے شرمندگی نہ اُٹھانی پڑے.اے میرے مولیٰ جب تو مجھ سے قیامت کو پوچھے گا تو اس وقت میں یہی عرض کروں گا کہ میرے پیارے اللہ میں بے علم تھا اور میں نے اپنا آپ تیرے حضور رکھ دیا تھا.اور بار بارعرض کرتا تھا کہ اے میرے پیارے مجھے صحیح رستہ بتا اور اس پر مجھے چلنے کی توفیق بخش.کئی دن کے بعد میں بٹالہ میں سودا بزازی خریدنے کے لئے گیا تو میں پہلے اسی دوست محمد اکبر کے پاس چلا گیا.وہاں بھی یہی باتیں شروع ہو گئیں اور انہوں نے ذکر کیا کہ کل سیٹھ صاحب مدر اس سے تشریف لائے ہیں اور قادیان شریف گئے ہیں.چنانچہ ایسی باتوں سے میرے دل میں جوش پیدا ہوا اور میں نے اس دوست کو یعنی محمد اکبر کو کہا کہ اُس 23
زنده درخت روز آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میں شامل ہونے کے لئے حضرت صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا مگر میرا دل نہیں چاہتا تھا.مگر اب مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوش پیدا ہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان شریف جاتا ہوں اور سچے دل سے تو بہ کر کے بیعت میں داخل ہوتا ہوں.اس پر میرے اس دوست نے نہایت خوشی کا اظہار کیا اور اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر میرے ہمراہ قادیان پہنچے.جب میں بیعت کر کے اپنے گھر پہنچا تو میری بیوی نے پوچھا کہ آپ سودا لینے گئے تھے اور آپ خالی ہاتھ آ رہے ہیں.اس پر مجھے خیال گزرا کہ حقیقت حال ظاہر کرنے سے یہ ناراض نہ ہو جا ئیں مگر میں نے ان کو سچ سچ کہہ دیا کہ میں قادیان شریف جا کر حضرت مسیح موعود کی بیعت کر آیا ہوں.اس پر انہوں نے کچھ نہ کہا.اور کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے اپنا ایک خواب سنایا کہ میں خواب میں حج کو جا رہی ہوں اور بہت سے لوگ حج کو جارہے ہیں اور وہ ہمارے گاؤں سے مشرق کی طرف ہے جدھر لوگ حج کو جا رہے ہیں.جب میں حج کی جگہ پہنچی ہوں تو میں اکیلی ہوں.وہاں سیڑھیاں چڑھ کر ایک مکان کی چھت پر جا بیٹھی ہوں.وہاں دیکھتی ہوں کہ ایک چھوٹی عمر کا بچہ وہاں بیٹھا ہے اور اس کے اردگرد بہت سی مٹھائی پڑی ہے.مجھے اس بچہ کو دیکھ کر اپنا وہ بچہ یاد آ گیا جو کچھ عرصہ ہوا فوت ہو چکا ہے.اس پر اس بچہ نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ فکر نہ کرو اللہ تعالیٰ تمہیں بچہ دے گا وہ احیا ہو گا، نیک ہو گا.میرے خیال میں وہ ( جگہ ) قادیان شریف ہے مجھے قادیان لے چلو.چنانچہ میں ان کو قادیان لے آیا اور بیعت میں داخل کروادیا الحمد للہ.بیعت کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں آپ سے کوئی چیز نہیں مانگتی صرف یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھے قادیان جانے سے نہ روکیں.ہمارے گاؤں کا قاضی فوت ہو گیا ، اس کے دو چھوٹے چھوٹے بچے اور ایک لڑکی رہ گئی.میں ان کے لئے قضاء کا کام کرتارہا.اور جو آمدنی گاؤں سے ملانوں کو ہوتی تھی ان کو دلاتا رہا.میں نے اور میری بیوی نے ان کی ایک لڑکی کو قرآن شریف اور کچھ دینی کتابیں بھی پڑھائی تھیں.جب وہ لڑکے بڑے ہوئے تو ایک دفعہ عید کے دن جب ہم عید کے 24
زنده درخت واسطے ( بیت ) گئے اور میں نماز پڑھانے کے واسطے کھڑا ہوا تو اُس لڑکے نے کہا کہ میں اب عید کی نماز پڑھاؤں گا.میں نے اسے کہا کہ ہماری نماز تمہارے پیچھے نہیں ہوتی.اور تو ہمیشہ میرے پیچھے پڑھتا رہا ہے اب تو کس لئے پڑھائے گا.معلوم ہوتا تھا کہ اس کے ساتھیوں نے اسے کہا تھا کہ یہ تمہاری قضاء لے لے گا جس کی بنا پر اس نے زور دیا کہ نماز میں خود پڑھاؤں گا.اس پر ہماری جماعت کے ایک لڑکے نے جس کا نام شیر محمد تھا زور سے مکا مارا.جس پر میں نے اسے منع کیا اور سب کو ساتھ لے کر اپنی حویلی میں نماز ادا کی اور حسب عادت جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان شریف آیا اور دیکھا کہ عبدالرحیم حجام (بیت ) مبارک میں کھڑا ہے.میں نے پوچھا کیوں کھڑے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ حضور کو مہندی لگانی ہے.اور اندر اجازت کے لئے کہلا بھیجا ہے.میں موقعہ دیکھ کر وہاں کھڑا ہو گیا.جب اجازت ہوئی تو اندر چلا گیا.حضور سے ملاقات کی اور پاس بیٹھ گیا اور میں نے وہ سارا قصہ عید والا سنایا.حضور نے فرمایا کہ صبر کرو یہ سب مسجدیں تمہاری ہی ہیں.اس کے بعد اور بہت سی باتیں ہوئیں جو یاد نہیں رہیں.چنانچہ اب وہ ( بیت ) احمدیوں کے پاس ہے.(جہاں سے ہمیں الگ کیا گیا تھا) ایک دفعہ حضور سیر کے واسطے باہر گئے اور میں بھی ساتھ تھا.جب واپس تشریف لائے اور اندر گھر میں داخل ہونے لگے تو میں نے جھٹ آگے ہو کر عرض کی کہ حضور میں نے سنا ہے کہ پہلے زمانہ میں بزرگ اگر کسی کو کچھ تکلیف ہوتی تھی تو اس پر وہ اپنے منہ کی لعاب لگا دیا کرتے تھے تو اس کو شفا ہو جاتی تھی.میری آنکھوں پر ہمیشہ پھنسیاں نکلتی رہتی ہیں.اس پر حضور مسکرا پڑے اور کچھ پڑھ کر آنکھوں پر دم کیا.اس روز سے آج تک تقریباً پینتیس برس گزر گئے ہیں میری آنکھ پر کبھی پھنی نہیں ہوئی بلکہ میری آنکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی دکھنے ہی نہیں آئیں.الحمد للہ یہ ایک معجزہ ہے.ایک دفعہ حضور حسب عادت باہر سیر کے لئے تشریف لائے اور باغ کی طرف تشریف لے گئے جب باغ میں پہنچے تو وہاں شہتوت کے درختوں کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور 25
زنده درخت مالی باغبان نے کپڑا بچھا دیا اور حضور مع خدام سب بیٹھ گئے.تھوڑی دیر کے بعد مالی دوتین ٹوکریوں میں بیدا نہ ڈال کر لایا اور ایک حضور کے آگے رکھ دی اور دیگر دوستوں کے آگے بھی ایک دوٹو کریاں رکھ دیں چنانچہ سب دوست کھانے لگے.جو ٹوکری حضور کے آگے رکھی تھی اس پر میں اور ایک دو دوست اور بھی تھے.میں حضور کے بالکل قریب دائیں جانب بیٹھا تھا اور کچھ حجاب کے سبب سے خاموش رہا اور اس میں سے نہ کھا تا تھا.حضور نے جب یہ دیکھا کہ میں نہیں کھا رہا تو مجھے مخاطب ہو کر فرمانے لگے فضل محمد تم کھاتے کیوں نہیں.اُس وقت مجھے اور تو کوئی بات نہ سوجھی جھٹ منہ سے نکلا کہ حضور یہ گرم ہیں اس واسطے میری طبیعت کے موافق نہیں.جس پر حضور نے فرمایا نہیں میاں یہ گرم نہیں ہیں یہ تو قبض کشا ہیں.جب میں نے دیکھا کہ حضور میری طرف متوجہ ہیں تو میں نے موقعہ پا کر عرض کی کہ حضور میری بائیں ران پر ایک گلٹی ہے اور وہ بہت مدت سے ہے مجھے ڈر ہے کہ یہ کسی وقت تکلیف نہ دے.اُس وقت حضور کی زبان مبارک سے نکلا تکلیف نہیں دے گی آرام آ جائے گا اس پر ایک دوائی کا نام لیا جو مجھے یاد نہ رہا.اس کے کچھ دن بعد اُس گلٹی میں درد ہونی شروع ہوئی.مجھے خیال آیا کہ حضور نے جو دوائی بتلائی تھی اس کا نام میں بھول گیا ہوں.حیران تھا کہ کیا کروں اتنے میں دو تین دن کے بعد وہ گلٹی اوپر سے کھل گئی اور پھٹ کر باہر نکل آئی اور دو تین دن کے بعد زخم صاف ہو گیا.یہ بھی ایک معجزہ ہے ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ میں نے دیکھا ہے کہ کچھ لوگ سیاہ رنگ کے پودے لگا رہے ہیں میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیسے پودے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ طاعون کے پودے ہیں تو پھر میں نے پوچھا کہ کب؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جاڑے کے موسم میں.تب حضور نے جماعت کو بلا کر ایک بڑ کے نیچے جس جگہ قادیان کے مشرق کی جانب ایک نئی آبادی ہے کھڑے ہو کر فرمایا کہ میں نے رویا دیکھا ہے.اب دنیا میں طاعون کا عذاب آنے والا ہے.بہت بہت تو بہ کر وصدقہ کرو اور اپنی اصلاح کرو.الغرض ہر طرح کی نصیحت فرمائی.26
زنده درخت ایک دفعہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے ساتھ مقدمہ تھا اور اس کی ایک پیشی کے لئے موضع دھار یوال میں جانا پڑا گرمی کا موسم تھا اور رمضان کا مہینہ تھا بہت سے دوست اردگرد سے وہاں دھار یوال میں گئے.بہتوں نے روزے رکھے ہوئے تھے.وہاں ایک سردار نی نے ، جو موضع کھنڈے کے سرداروں میں سے ہے ، دعوت کا پیغام بھیجا.حضور نے دعوت منظور فرمائی.سردارنی نے میٹھے چاول وغیرہ کی دعوت کی.بعض دوستوں نے حضور سے روزہ کے متعلق عرض کی.حضور نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے.چنانچہ اس وقت دوستوں نے روزے توڑ دیئے.ایک دفعہ میں نے اور میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی نے باہم مل کر ارادہ کیا کہ قادیان شریف میں دکان کھولیں چنانچہ اس کے متعلق یہ صلاح ہوئی کہ پہلے حضور سے اجازت لی جائے.چنانچہ جب حضور نماز سے فارغ ہو کر گھر کو تشریف لے چلے تو ہم نے عرض کی کہ حضور ایک بات کرنی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ہم دونوں نے ارادہ کیا ہے کہ قادیان میں مل کر دکان کھولیں.حضور وہاں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ پہلے استخارہ کرلو.میں نے عرض کی کہ حضور استخارہ تو ایک ہفتہ تک کرنا پڑے گا.تب حضور نے فرمایا کہ استخارہ دعا ہی ہوتی ہے.ہر نماز میں دعا کرو.ایک دن میں بھی استخارہ ہو سکتا ہے.اُس وقت مولوی نورالدین صاحب بھی گھر کو تشریف لے جارہے تھے.حضور نے مولوی صاحب کو بھی بلالیا اور فرمایا یہ دونوں مل کر قادیان میں دکان کرنا چاہتے ہیں.بھائی خیر الدین صاحب فرماتے ہیں کہ حضور نے اس وقت یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر دکان میں گھانا پڑا تو چھوڑ دیں.اس کے بعد ہمارا خیال دکان کرنے کا بالکل جاتا رہا.ایک دن کا ذکر ہے کہ حضورا اپنی عادت کے طور پر سیر کے واسطے گھر سے باہر تشریف لائے.بہت سے دوست باہر دروازہ پر حضور کا انتظار کر رہے تھے.اُس روز حضور موضع بھینی کی طرف تشریف لے گئے.راستہ میں جو بڑ کا درخت تھا حضور اس کے نیچے کھڑے ہو گئے اور وہاں ( ڈھاب تھی اس کی طرف اشارہ کر کے ) فرمایا کہ اس جو ہر کا پانی 27
زنده درخت اچھا نہیں ہے.اس سے وضو کر کے نماز نہیں پڑھنی چاہیے.میں نے اس سے قبل کئی بار دوستوں کو اس میں نہانے اور وضو کرنے سے روکا تھا مگر وہ دوست مجھے محول کرتے تھے.اس وقت وہ دوست بھی وہاں موجود تھے.ایک دفعہ دعا کے متعلق سوال ہوا.حضرت اقدس نے فرمایا دعا ہی مومن کا ہتھیار ہے.دعا کو چھوڑنا نہیں چاہیے.دعا سے تھکنا نہیں چاہیے.لوگوں کی یہ عادت ہے کہ کچھ دن دعا کرتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں.دعا کی مثال حضور نے کنوئیں سے دی کہ انسان کنواں کھودتا ہے جب پانی کے قریب پہنچتا ہے تھک کر چھوڑ دیتا ہے اور نا اُمید ہو جاتا ہے.اگر ایک دو بالشت اور کھودتا تو نیچے سے پانی نکل آتا اور اس کا مقصد حاصل ہو جاتا اور کامیاب ہو جاتا اسی طرح دعا کا کام ہے کہ انسان کچھ دن دعا کرتا ہے اور پھر چھوڑ دیتا ہے اور ناکام رہتا ہے.میرا بیٹا عبدالغفور ابھی چھوٹا ہی تھا کہ اس کی نانی اپنی پوتی کا رشتہ اسکے لئے مجھے زور دینے لگی.مگر میں منظور نہیں کرتا تھا.چنانچہ ایک دن موقع پا کر وہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ حضور میں اپنی پوتی کا رشتہ اپنے نواسہ کو دیتی ہوں اور یہ میرا بچہ پسند نہیں کرتا.حضور نے مجھے بلا کر پوچھا کہ یہ رشتہ تم کیوں نہیں لیتے.میں نے عرض کی کہ حضور یہ لوگ مخالف ہیں اور سخت گوئی کرتے ہیں اس لئے میں انکار کرتا ہوں.حضور نے فرما یا مخالفوں کی لڑکی لے لو اور مخالفوں کو دونہ.ایک دفعہ جب کرم دین کے ساتھ مقدمہ تھا.جب گورداسپور کی کچہری سے آواز پڑی تو سب دوست کچہری میں چلے گئے صرف میں اور حضرت اقدس دونوں ہی ایک شیشم کے درخت کے نیچے بیٹھے رہے.چنانچہ حضور لیٹ گئے اور میں دبا تارہا اور بہت باتیں حضور کے ساتھ ہوئیں جن میں سے صرف دو تین یا در ہیں ایک یہ کہ میں نے حضور سے عرض کیا کہ حضور مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بچہ عطا فرمایا ہے حضور اس کا نام رکھ دیں.حضور نے فرمایا کہ پہلے بچہ کا نام کیا ہے میں نے عرض کیا کہ اس کا نام عبدالغفور ہے.28
زنده درخت حضور نے فرمایا کہ اس کا نام عبد الرحیم رکھ دو..دوسری بات یہ عرض کی کہ حضور عشاء کی نماز کے بعد اگر وتر نہ پڑھے جائیں اور پچھلے پہر بھی کسی وجہ سے نہ پڑھ سکیں تو پھر ان کو کس وقت پڑھا جائے.حضور نے فرمایا کہ بہتر یہ ہے کہ پہلے ہی پہر پڑھ لئے جائیں.یعنی نماز عشاء کے بعد ہی.پہلی دفعہ جب طاعون پڑی تو ہمارے گاؤں میں بھی چوہے مرنے شروع ہوئے.میں ہر ہفتہ قادیان شریف میں آکر جمعہ پڑھا کرتا تھا اور اکثر حضور سے مل کر واپس جاتا تھا.اس روز ملتے وقت میں نے عرض کی حضور ہمارے گاؤں میں چوہے مرنے شروع ہو گئے ہیں.حضور نے فرمایا فوراً باہر کھلی ہوا میں چلے جاؤ.ایسے خطرہ کے وقت اس جگہ کو چھوڑ نا ہی سنت ہے.ضرور گھر کو چھوڑ کر کھلی جگہ چلے جاؤ.چنانچہ میں حضور کے حکم کے ماتحت باہر چلا گیا اور سب لوگ میرے سبب سے گھروں کو چھوڑ کر باہر چلے گئے.مگر ایک چچا زاد بھائی نہ گیا اور چند دن کے بعد وہ طاعون سے مر گیا.حافظ حامد علی صاحب جو حضوڑ کے پاس ابتدا ہی سے رہتے تھے انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے ایک ضروری کام کے واسطے ملک افریقہ یا امریکہ (جو مجھے اب یاد نہیں رہا کہ کس جگہ کا نام لیا ) بھیجا جب میں جہاز میں سوار ہوا تو وہ آگے چل کر خطرہ میں پڑ گیا.یہاں تک کہ لوگ چیخ و پکار کرنے لگے حتی کہ میرے دل میں بھی کچھ خیال پیدا ہوا.مگر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کے نبی کا بھیجا ہوا ہوں اور میں نے اس کا کام کرنا ہے اس لئے یہ جہاز کس طرح ڈوب سکتا ہے.میں نے بلند آواز سے پکارا کہ اے لوگو! گھبراؤ مت یہ جہاز ہرگز نہیں ڈوبے گا.کیونکہ میں ایک نبی کا بھیجا ہوا اس جہاز میں سوار ہوں اس واسطے یہ جہاز ہر گز نہیں ڈوبے گا.چنانچہ میں نے ان لوگوں کو تسلی دی.آخر کا ر ہم ساحل پر جاپہنچے کہ جس جگہ میں نے اتر نا تھا.چنانچہ میں وہاں سے اُتر کر آگے جس طرف جانا تھا چلا گیا.مگر وہ جہاز اس جگہ سے روانہ ہوکر کچھ فاصلہ پر جا کر ڈوب گیا.جب اس جہاز کے ڈوبنے کی خبر ملکوں میں پھیلی تو میرے گھر 29
زنده درخت والوں نے بھی سنا کہ فلاں جہاز فلاں تاریخ کو ڈوب گیا ہے.میرے گھر کے لوگ روتے پیٹتے ہوئے حضرت صاحب کے پاس پہنچے اور روروکر کہنے لگے کہ حضور سنا ہے کہ فلاں جہاز جس پر حامد علی صاحب سوار تھے ڈوب گیا ہے.حضرت صاحب نے ان کی چیخ پکار سن کر فرمایا ہاں میں نے بھی سنا ہے کہ فلاں جہاز ڈوب گیا ہے اور اس میں حامد علی بھی تھے.مگر پھر تھوڑی دیر خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا.چند منٹوں کے بعد بلند آواز سے فرمایا کہ صبر کر و حامد علی صاحب اللہ کے فضل سے زندہ ہے.وہ ہمارا کام جس کے واسطے گیا ہے کر رہا ہے.( یہ واقعہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی زندگی کے آخری خطبہ میں حضرت دادا جان کے حوالے سے بیان فرمایا تھا.) ایک دفعہ میں عید کی نماز ادا کرنے کے لئے قادیان شریف آیا.جب نماز ادا کر چکے تو مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ( اللہ تعالیٰ کی ان پر ہزاروں رحمتیں ہوں) نے حضرت کے حضور حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور نے فرمایا تھا کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کوئی نشان ظاہر کرے گا اور آج عید کا دن ہے.حضور نے فرمایا بیٹھ جاؤ تب سب لوگ ( بیت ) میں زمین پر بیٹھ گئے.اور حضور نے کرسی پر بیٹھ کر عربی زبان میں خطبہ شروع کر دیا.بہت سے دوستوں نے قلم دوات کاغذ لے کر لکھنا شروع کیا اور جو کچھ حضور فرماتے لکھنے والے لکھتے جاتے.جب کوئی لفظ کسی کی سمجھ میں نہ آتا تھا تو حضور سے پوچھنے پر لفظ مع تلفظ بتلا دیتے.اس وقت حضور اس طرح زبان مبارک سے الفاظ نکالتے تھے کہ گویا کتاب آگے رکھی ہوئی ہے جس سے دیکھ دیکھ کر پڑھتے ہیں.کتاب سے پڑھنے والے بھی کبھی رک ہی جاتے ہیں مگر حضور بالکل نہیں رکھتے تھے.میں حضور کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور حضور کی طرف میری آنکھیں لگی ہوئی تھیں حضور کا رنگ اُس وقت سرسوں کے پھول کی مانند تھا.آنکھیں بند رکھے ہوئے تھے اور کبھی کبھی کھول لیتے تھے.ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے گاؤں میں ایک جگہ مکانوں کے درمیان سفید پڑی ہے.وہاں حضرت اقدس " مجھ کو بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف 30
زنده درخت لے جار ہے ہیں اور مجھے فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر تین بیٹے ہوں گے پہلے کا نام عبدالغنی دوسرے کا نام ملک غنی تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا.آپ کی عمر 45 سال کی ہوگی.اس کے بعد میں بیدار ہو گیا.جب میں جمعہ کے دن قادیان شریف آیا اور رات اس جگہ ہی رہا.شام کے بعد حضور ( بیت) کے اوپر گرمیوں میں جیسا کہ ہمیشہ بیٹھا کرتے تھے بیٹھے تو چند اور اصحاب بھی وہاں بیٹھے تھے.حضور کے پاس مولوی نورالدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بھی بیٹھے تھے.(اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمتیں ہوں ) حضور کے ساتھ کچھ باتیں ہور ہیں تھیں اور میں حضور کے قدموں میں بیٹھا تھا.چنانچہ میں نے حضور سے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ حضور بغل گیر کر کے مشرق سے مغرب کی طرف جا رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ آپ کے گھر میں تین بیٹے ہوں گے.پہلے کا نام عبد الغنی دوسرے کا نام ملک غنی اور تیسرے کا نام پتال غنی رکھنا اور آپ کی عمر 45 سال کی ہوگی.اس پر مولوی عبد الکریم صاحب ہنس کر بولے کہ پھر بتلاؤ کہ پہلے کا نام کیا اور دوسرے کا نام کیا ہے.میں نے جب دوبارہ بتلایا تو مولوی صاحب پھر بولے کہ پھر بتلاؤ تو میں نے عرض کی کہ حضور مولوی صاحب تمسخر کرتے ہیں اور مجھے بڑائم لگا ہوا ہے.حضور مسکرا کر بولے کہ آپ کو کیا غم ہے.تو میں نے عرض کی کہ حضور میری عمر اس وقت تقریباً 28 یا 30 سال کی ہے اور تھوڑی باقی رہ گئی، ابھی میں نے حضور کا زمانہ دیکھنا ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے وہ دوگنی کر دیا کرتا ہے.ایک دفعہ میں اپنی بیوی کو ساتھ لے کر آیا جب میری بیوی گھر میں داخل ہونے لگی تو شادی خان دربان نے روک دیا.ہر چند کہا گیا مگر اس نے اندر جانے کی اجازت نہ دی کیونکہ اکثر قادیان میں پلیگ تھی اس واسطے اندر جانے سے روکا ہوا تھا.تھوڑی دیر کے بعد حضور باہر تشریف لے کر آئے.السلام علیکم کے بعد مصافحہ بھی ہوا.حضور نے پوچھا کھڑے کیوں ہو.میں نے عرض کی کہ شادی خان اندر جانے نہیں دیتے.حضور نے فرمایا کہ آؤ میرے ساتھ چلو.31
زنده درخت ایک دفعہ بیوی نے خواب دیکھا کہ میں بالکل چھوٹی ہوں اور مسیح موعود کی گود میں ہوں.اور حضور سے اس وقت ایسی محبت ہے جیسے چھوٹے بچوں کو اپنے والدین سے ہوتی ہے.اُس وقت حضورا اپنی زبان مبارک سے بڑی محبت کے ساتھ فرماتے ہیں برکت بی بی میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ آئندہ تم تیم کر کے نماز پڑھا کرو.بیماری کی حالت میں غسل جائز نہیں ہے.اور میں تجھے خوشخبری دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکا دے گا جو صالح ہو گا.چنانچہ میں نے یہ خواب حضرت مسیح موعود کی خدمت اقدس میں لکھ کر مع نذرانہ کے بدست شیخ حامد علی صاحب اندر گھر میں بھیج دی کیونکہ حضرت اقدس بیمار تھے اور گھر میں ہی رہتے تھے.چنانچہ حضور نے جب وہ لڑکا پیدا ہوا تو اس کا نام صالح محمد رکھا.(رجسٹر روایات نمبر 14 صفحہ نمبر 275 تا286) 4- سیرت المہدی کا ایک ورق مولوی فضل محمد صاحب ساکن محلہ دار الفضل کی روایات (نوٹ :- حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے الحکم 21 جنوری 1935 ء کی اشاعت میں مندرجہ بالا عنوان کے ساتھ موصوف کا مختصر تعارف اور چند روایات درج فرمائی ہیں.مختصر تعارف میں واقعہ بیعت شامل ہے اسی طرح روایات میں سے بھی اکثر معمولی لفظی فرق کے ساتھ نقل کی جاچکی ہیں.تعارف میں سے چند سطر میں اور نئی روایات درج ذیل ہیں : مدیر الحکم تحریر فرماتے ہیں :- مولوی فضل محمد صاحب جو عرصہ دراز سے قادیان میں ہجرت کر کے آئے ہوئے ہیں پرانے لوگوں میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان پر بڑے بڑے فضل کئے ہیں منجملہ اور فضلوں کے ایک فضل یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کو ایک ایسا 32
زنده درخت بیٹا دیا ہے جس نے اپنا وقت خدمت دین کے لئے وقف کر رکھا ہے میری مراد اس سے مولوی عبد الغفور صاحب مولوی فاضل و مبلغ احمدیت ہے.مولوی فضل محمد صاحب کے سلسلہ میں داخل ہونے کا واقعہ عجیب ہے.......اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے آج تک وہ اپنے عہد پر قائم ہیں.محلہ دارالفضل میں سب سے پہلے انہوں نے اپنا مکان بنایا اور اس کے بعد پھر یہ آبادی بڑھی وہ اپنے مقدور بھر سلسلہ کی خدمت کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت دے اور ان پر ہر طرح کے افضال نازل فرمائے.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق چند روایات اخبار الحکم کے خاص نامہ نگار کولکھوائی ہیں جن کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں.حضور کے اخلاق حضور کے اخلاق کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کر سکتا وہ اس قدر اعلیٰ اور پاکیزہ تھے میں تو کیا کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ مقرر اور فصیح و بلیغ شخص بھی حضور کے اخلاق کی صحیح تعریف الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا.حضور کا ہر ایک شخص سے ایسا طریق تھا کہ ہر شخص خیال کرنے لگتا تھا کہ میں ہی حضور کا ایک خاص خادم ہوں.اور جیسی محبت مجھ سے ہے اور کسی سے نہیں ہے.حضور کبھی کسی خادم سے گفتگو کرتے وقت اپنے چہرہ مبارک پر کسی قسم کی کوئی ایسی علامت ظاہر ہونے نہیں دیتے تھے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ حضور اس گفتگو یا اس بات کو سننا پسند نہیں کرتے.یا حضور کی توجہ کسی اور طرف لگی ہوئی ہے.باوجود اس کے کہ حضور کے اوقات بہت گرامی اور عزیز تھے.مگر حضور کے اخلاق کریمہ چھوٹے سے چھوٹے آدمی کو بھی اپنا یکساں ممنون بنائے رکھتے تھے.ایک دفعہ حضور ( بیت ) مبارک میں نماز پڑھ کر مکان کے اندر تشریف لے جانے لگے.جب حضور کھڑکی سے گزر گئے تو میں نے بھی جرات کی اور حضور کے پیچھے اندر داخل ہو گیا میں نے عرض کی کہ حضور میں نے کچھ عرض کرنی 33
زنده درخت ہے.حضور وہاں ایک چارپائی پر بیٹھ گئے اور میں بھی حضور کے پاس بیٹھ گیا.میں نے وہاں بیٹھ کر حضور سے باتیں کرنی شروع کر دیں.میری وہ گفتگو بعض دنیاوی امور کے متعلق تھی جن سے حضور کو کوئی دلچسپی نہیں تھی.مگر حضور پوری توجہ سے سنتے رہے.میں نے کچھ خوا ہیں بھی سنائیں اس گفتگو میں کافی عرصہ لگ گیا.میرا دل یہی چاہتا تھا کہ میں حضور کے پاس بیٹھا ہوں.مگر حضور نے اس عرصہ میں کوئی بات نا پسندیدگی کی نہ فرمائی اور نہ ہی یہ فرمایا کہ میاں چھوڑو بہت دیر ہوگئی.مجھے خود ہی خیال آیا کہ حضور کا وقت بہت قیمتی ہے.میں اسے کیوں ضائع کر رہا ہوں.اس خیال کے آتے ہی میں نے حضور سے اجازت لے لی.آج مجھے جب اس کا تصور آتا ہے گھبرا اُٹھتا ہوں اور ساتھ ہی حضور کے اخلاق عالیہ کی بلندی پر غور کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں.حضور کی مہمان نوازی حضور کا اپنے مہمانوں سے بالکل ایسا تعلق تھا جو ایک شفیق باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے بلکہ اگر پورے طور پر دیکھا جائے تو ایک شفیق باپ سے شفیق باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کر سکتا.حضور ابتدا میں کبھی اپنے مہمانوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے اور اس میں بھی حضور “ کا طریق یہ ہوتا کہ مہمان کی دلداری اور خاطر ملحوظ رکھتے.اور کبھی کبھی حضور پاس رہتے اور مہمان اکیلے کھانا کھالیتے.ایک دفعہ ( بیت ) مبارک میں کچھ دوست کھانا کھانے بیٹھے.حضور اندر سے تشریف لائے.اور حضور بھی مہمانوں کے ساتھ بیٹھ گئے میں نے حضور کو کھانا کھاتے دیکھا حضور چھوٹا سا ٹکڑا لیتے تھے اور اس سے ذرا سا سالن لگاتے تھے اور اسے کھاتے تھے.اپنے سامنے سے بوٹیاں اُٹھا اُٹھا کر دوسروں کے برتنوں میں رکھتے جاتے تھے مجھے اس 34
زنده درخت وقت خیال گزرا کہ کون باپ ہوگا جو اس قسم کی شفقت اپنے بچوں سے کرتا ہوگا.سفر میں روزہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے مقدمہ میں ایک تاریخ دھار یوال پڑی تھی.گرمی کا موسم تھا حضور دھار یوال تشریف لے گئے.حضور کے ساتھ بہت سے خدام گئے دوستوں نے روزے بھی رکھے ہوئے تھے.وہاں ایک سردار نی تھی اس نے حضور کو دعوت کے لئے عرض کیا.حضور نے اس دعوت کو منظور فرما لیا تھا.اس وقت کسی نے عرض کیا کہ حضور بہت سے دوستوں نے روزے رکھے ہوئے ہیں.حضور نے اس وقت فرمایا تھا کہ سفر میں روزہ جائز نہیں ہے.تب سب دوستوں نے روزہ توڑ دیا.حضور کو بھی مایوسی نہ ہوتی تھی حضور کی سیرت کا ایک واقعہ یہ ہے کہ حضور کبھی اور کسی مرحلہ پر مایوس نہیں ہوتے تھے.میاں محمد اکبر صاحب مرحوم ایک دفعہ سخت بیمار ہو گئے.حضرت خلیفہ اوّل علاج فرماتے تھے.بہت علاج کیا مگر کوئی کامیابی نہ ہوئی.آخر مولوی صاحب نے علاج بند کر دیا کسی نے حضرت اقدس کو بھی اطلاع کر دی آپ حضرت مولوی صاحب سے فرمانے لگے: ” کیا آپ مایوس ہو گئے ہیں.“ انہوں نے فرمایا کہ حضور ان کے بچنے کی کوئی امید نہیں.اس لئے علاج بند کر دیا ہے.حضور یہ سن کر فرمانے لگے : اچھا اب آپ علاج نہ کریں ہم علاج کریں گے.“ چنانچہ حضور نے علاج شروع کر دیا.اور میاں محمد اکبر صاحب اس مرض سے اچھے ہو گئے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جس مریض کا علاج ایک ماہر طبیب مایوس ہو کر چھوڑ دیتا تھا.حضور اس کے متعلق بھی اپنے مولیٰ سے یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ اس شفادے سکتا ہے اور ایسا ہی ہوتا تھا.35
کمال تقویٰ زنده درخت ایک دفعہ حضور سیر کو جا رہے تھے.راستہ میں ایک کیکر کا درخت گرا ہوا تھا لوگ اس سے مسواکیں بنانے لگے.جب حضور واپس تشریف لائے.اُس وقت حضور نے دیکھا کہ بعض دوست مسواک بنانے میں مشغول تھے.حضور نے فرمایا آپ لوگ کس کی اجازت سے مسواکیں بنا رہے ہیں.سب نے اسی وقت مسواکیں پھینک دیں.یہ حالت تھی تقویٰ کی.اور یہ وہ رنگ تھا جو حضور جماعت میں پیدا کرنا چاہتے تھے.ایک گرے ہوئے درخت کی مسواک اس کے مالک کی اجازت کے بغیر لینا بھی حضور جائز نہیں سمجھتے تھے.سختی کے معتابلہ میں نرمی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق تھا کہ وہ اپنے دشمنوں سے بھی حسن سلوک کرتے تھے اور سختی کی جگہ ان سے نرمی کرتے تھے.ان کی سینکڑوں مثالیں ہمارے مشاہدے میں آئیں.ایک دفعہ مرزا نظام الدین صاحب جو سخت طبیعت کے آدمی تھے.انہوں نے دیکھا کہ ( بیت ) مبارک کے سامنے (جہاں اب دکانیں بنی ہوئی ہیں ان دنوں وہاں ایک چبوترا تھا) چبوترے پر اونٹ بیٹھے ہیں جو انگر خانے کے لئے گھراٹوں ( پن چکیوں ) سے آٹا لے کر آئے تھے.اور آٹے کی بوریاں وہیں پڑی ہوئی تھیں.مرزا صاحب نے اپنے چوکیداروں کو بلا کر کہا کہ ان اونٹوں کو مار کر ہٹا دو.چوکیداروں نے بڑی سختی کی جس سے بعض دوستوں کو رنج پہنچا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا طریق تھا کہ وہ اپنے دشمنوں سے بھی حسن سلوک کرتے تھے اور سختی کی جگہ ان سے نرمی کرتے تھے.ان کی سینکڑوں مثالیں ہمارے مشاہدے میں آئیں.36
زنده درخت حضرت اقدس اور حضور کے بہت سے خدام ( بیت ) مبارک کی چھت پر بیٹھے تھے.ان خدام نے حضور سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا کہ:- ان کو کچھ نہ کہو.اور یہاں سے سامان اُٹھا لو.اس پر دوست خاموش ہو گئے.اور سامان اُٹھا لیا.یہ حضور کی نرمی کا ایک واقعہ ہے.حضرت میاں فضل محمد صاحب کی حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے محبت کا انداز دیکھئے خطبہ الہامیہ کے وقت سامعین میں موجود ہونے کا واقعہ ہم پڑھ چکے ہیں اُس کے آخر میں آپ بیان کرتے ہیں :- حضور کارنگ اس وقت سرسوں کے پھول کی طرح زرد رنگ کا ہورہا تھا آنکھیں بند تھیں ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حضرت اقدس خود نہیں بول رہے بلکہ آسمان سے کوئی مشین لگی ہوئی ہے اور وہ بول رہی ہے.میں نے حضور کو اس دن پہلی دفعہ الہام کی حالت میں دیکھا پھر وہ نظارہ آنکھوں نے نہ دیکھا.حضرت میاں صاحب اپنے خواب والے واقعہ کے بعد بیان فرماتے ہیں:.مجھے یقین ہے کہ حضور نے یہ تعبیر کرتے ہوئے میرے لئے ضرور دعا فرمائی ہوگی.جو خدا تعالیٰ نے قبول فرمائی.حضور کے الفاظ پورے ہوئے.الحمد للہ.خدا تعالیٰ نے مجھے اس قدر عمر عطا فرمائی کی میں نے حضور کے زمانہ کے بعد خلافت اولیٰ کا زمانہ دیکھا اور پھر خلافت ثانیہ کا وقت دیکھ رہا ہوں.اور ان برکات اور افضال الہی کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو اس خلافت ثانیہ کے ساتھ جماعت پر نازل ہو رہی ہیں.اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ امسیح کو لمبی عمر عطا فرمائے.اور حضور کی برکات اور فیوض بڑھائے.(آمین) فعلی ثبوت ہے جو حضور کے منہ سے نکلے ہوئے لفظوں کو خدا تعالیٰ نے پورا کر دیا.اسی طرح ایک پھوڑا تھا.جو مجھے سخت تکلیف دے رہا تھا.میں نے اس کی شکایت حضور سے کی.حضور نے فرمایا کہ اچھا ہو جائیگا.چنانچہ وہ خود بخود بغیر علاج کے اچھا ہو گیا.37
زنده درخت -5-اک زماں کے بعد پھر آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آدیں یہ دن اور یہ بہار تحریر محترم مولوی سالح محمد صاحب مربی سلسله انبیاء علیہم السلام کا زمانہ کبھی کبھی آتا ہے.اور زمانے کے جس دور میں اُن کا نزول ہوتا ہے.وہ دور بھی بڑا ہی مبارک اور خیر و برکت والا ہوتا ہے.اس دور کے لوگ بھی بہت خوش نصیب ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنا مبارک چہرہ دکھلانے کے لئے اپنا برگزیدہ بندہ نازل فرماتا ہے اور نشانات و معجزات سے اُس کی تائید و نصرت فرماتا ہے.اگر تھوڑے سے تذبر سے کام لیں اور اس مقدس پر ایمان لے آئیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو بھی اپنے پیار کی چادر میں سمیٹ لیتا ہے.ان کے دلوں سے دنیاوی کدورتیں دھو کر ایسا جلا ء اور نور پیدا فرما دیتا ہے کہ وہ بھی اپنے نور ایمانی تقوی، طہارت اور پاکیزگی کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں سعید روحوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کا باعث بن جاتے ہیں.زمانے کے اس دور کے لئے بھی ازل سے مقدر تھا کہ ایک اولوالعزم جری اللہ پیدا ہو جس کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ ایک ایسے درخت کی تخم ریزی فرمائے جو ہزاروں مخالف طوفانوں کے باوجود بڑھتا ہی چلا جائے.جس کی پھول دار پھل دار شاخیں اکناف عالم میں پھیلتی چلی جائیں.اس دنیا اور اس کے رہنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.کہ وہ برگزیدہ قادیان کی مقدس مگر گمنام سی بستی میں پیدا ہوا اور اُس نے اللہ تعالیٰ کے ارشاد سے اس شجرہ طیبہ کی تخم ریزی فرمائی.وہ درخت دشمنوں کی ناپاک تدبیروں کے باوجود بڑھا، پھولا ، پھیلا ، پھلا اور روحانی خوشبو سے دنیا کو معطر کر دیا.ان بے شمار پھولوں میں سے ایک پھول اور ان حد درجہ شیریں اور لذیذ پھلوں میں 38
زنده درخت سے ایک پھل میرے پیارے ابا جان بھی تھے جن کا اسم گرامی تھا حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے.( آپ کے والد صاحب کا نام سندھی بخش اور دادا کا نام دیدار بخش تھا.آپ چار بھائی تھے غلام محمد محمد عبد اللہ، غلام قادر اور فضل محمد ) ایک متوسط سے گھرانے سے تعلق تھا.بہت مال و دولت والے نہ تھے.معمولی سے گاؤں میں رہتے تھے.دیال گڑھ کے سکول سے پرائمری پاس کی اس کے بعد بٹالہ کے ہائی سکول میں دو سال تعلیم حاصل کی اُس وقت عام چر چا تھا کہ چودھویں صدی میں امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے.ہر مسجد میں خطبات میں یہی ذکر ہوتا.خیال آیا کہ مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے تو قرآن حدیث پڑھائیں گے انگریزی پڑھنے کی کیا ضروت ہے دنیاوی تعلیم چھوڑ دی تاہم دل پاکیزہ تھا جس سے مسیح وقت کی شناخت کی سعادت حاصل ہوئی آپ کے صفائے قلب کو اللہ تعالیٰ نے عرش معلی سے دیکھا اور لا کر اپنے مسیح زماں کے مقدس و مبارک قدموں میں ڈال دیا.پھر خدا داد فراست اور ذہانت سے اردو اور فارسی میں کافی مقام پیدا کر لیا.فنِ طبابت سے ذہنی رجحان کی وجہ سے مہارت حاصل کی اور دستِ شفاء کی وجہ سے دور ونزدیک شہرت حاصل کی جو نہ صرف عزت اور ہر دلعزیزی کا موجب ہوئی بلکہ احمدیت کے لئے بھی کافی کارآمد ثابت ہوئی.حصول تعلیم کے بعد آپ نے ذریعہ معاش تجارت کو بنا یا تجارت میں امانت دیانت کا پہلو غالب رہا.آپ کی شادی ہر سیاں کے پاس ہی ایک گاؤں دیال گڑھ میں ہوئی ہماری والدہ محترمہ کا نام محترمہ برکت بی بی تھا.اللہ تعالیٰ بھی عجیب در عجیب حکمتوں کا مالک ہے.ابا جان کے نام میں فضل اور اماں کے نام میں برکت دونوں کو جمع کر دیا.فضل اور برکت لازم و ملزوم ہیں دونوں کو جمع کر کے احمدیت میں لے آیا اور ان وجودوں کے توسط سے نسلوں میں فضل و برکت کی نہریں جاری کر دیں.سبحان اللہ.39
ترام کا انداز : زنده درخت 1954ء کی بات ہے میں چھٹی پر وطن آیا ہوا تھا ابا جان میرے ہاں ہی قیام فرما تھے.گرمیوں کے دن کچا کوارٹر گھاس پھونس کے چھپر کے نیچے آرام فرمارہے تھے کہ کسی نے باہر کا دروازہ کھٹکھٹایا میں گیا دروازہ کھولا تو دیکھا حضرت مسیح پاک کے جانثار جناب بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور ایک بزرگ جناب بابا فضل دین صاحب تشریف لائے ہیں فرمایا ہم میاں جی کو ملنے آئے ہیں.اللہ اکبر.کون سا احمدی ہے جو بھائی جی کے نام اور مقام سے واقف نہیں.شمع احمدیت کے اس پروانے کو اللہ تعالیٰ نے بہت بلند مقام سلسلہ عالیہ احمدیہ میں عطا فرمایا ہے.رفیق مسیح موعود کے دیدار کو آنے والے دونوں احباب گھر سے باہر ہی جو تے اُتار دیتے ہیں.یہ محض اس لئے کہ میچ پاک کے ایک حواری کو اللہ تعالیٰ کا ایک شعار قرار دے کر تکریم مقصود تھی ربوہ کی مٹی دھول کی پرواہ کئے بغیر باہر سے ننگے پاؤں چل کر آئے اور خوشی کا یہ عالم کہ آنکھوں میں آنسو تھے جتنی دیر بیٹھے ایمان افروز واقعات درد بھرے انداز میں سناتے رہے.میں اس خوش نصیبی پر جس قدر فخر کروں کم ہے کہ مجھے بھائی جی جیسے جلیل القدر رفیق مسیح موعود کے جوتے اٹھانے کا فخر حاصل ہوا.رت مصلح موعود کے دیدار کی خاطر : آخری عمر میں والد صاحب بہت کمزور ہو گئے چلنا پھرنا مشکل ہو گیا نظر پر بھی اثر ہوا تو حضرت مصلح موعود کی خدمت میں حاضر ہو کر روح کی پیاس بجھانا مشکل ہو گیا.آپ وفور شوق میں اس طرح کرتے کہ کسی ایسے راستے پر جا کر بیٹھ جاتے جہاں سے حضرت مصلح موعود کا گزرنا متوقع ہوتا تاکہ زیارت ہو جائے.اگر کوئی عزیز حضور کو بتا دیتا کہ میاں جی زیارت کے لئے آئے ہیں تو دل کے حلیم حضور از راہ غلام نوازی خود ابا جان کے پاس آ جاتے اور دیدار کی پیاسی روح کو سیراب کرتے.40
زنده درخت سفر آخرت ابا جان اس لحاظ سے بے حد خوش نصیب تھے کہ اپنی سب اولا د کو خدمت دین میں مصروف دیکھا.سب نے سعادت مندی سے اپنے عظیم والد کی قدر و منزلت پہچانی اور حسب مقدور خدمت کی.آخری وقت میرے گھر رہے اور میری بیوی فاطمہ اور بچوں نے خدمت کی سعادت حاصل کی.فالحمد للہ علی ذالک آخری دنوں میں بھائی عبدالرحیم صاحب درویش قادیان کا بہت ذکر کرتے.ایک دفعه محترم ملک صلاح الدین صاحب ناظر امور عامه قادیان سے ربوہ آئے تو ان سے ملنے کے لئے آئے.ابا جی نے اُن سے دو باتیں پوچھیں : قادیاں کا کیا حال ہے؟ میرا بچہ عبدالرحیم وہاں رہتا ہے اُس کا کیا حال ہے؟ آپ نے بتایا اچھا ہے اور قادیان میں خیریت سے رہتا ہے ابا جان نے فرمایا میرے بیٹے کو کہ دینا کہ آکر مل جاوے.ملک صاحب نے قادیان آ کر بھائی کو بتایا کہ آپ کے ابا جان نے یہ پیغام دیا ہے.بھائی عبدالرحیم نے بتایا کہ میں تو ایک مہینہ ربوہ رہ کر تیمار داری کر کے دو دن ہوئے آیا ہوں مگر ابا جان کو اولاد سے پیار عشق کی حد تک تھا اور اپنا وقت آخر بھی نظر آ رہا تھا.اس لئے ملک صاحب کو بیٹے کو بلانے کا پیغام دے دیا.چنانچہ بھائی عبدالرحیم واپس ربوہ آگئے.اس دوران ابا جان پر فالج کا حملہ ہو چکا تھا مصافحہ کے لئے ہاتھ نہ اُٹھا سکے دوسرے ہاتھ کی مدد سے ہاتھ اُٹھا کر مصافحہ کیا.میں ملک میں نہیں تھا اپنے کند اور ٹوٹے پھوٹے اسلحہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دین متین کی فوج کے ہمراہ میدان جنگ یعنی غانا میں بطور سپاہی کام کر رہا تھا.وہ مجھ خاکسار کو بھی بے حد یاد کرتے ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے اُنہیں احساس رہتا کہ میرا آنا بہت مشکل ہے فرماتے اگر میں اُسے دیکھ لیتا تو اچھا تھا اگر میرے پاس دو چار سو روپیہ ہوتا تو میں دفتر والوں کو دے کر کہتا کہ میرے بچے کو بلا دو تا کہ میں اُسے دیکھ 41
زنده درخت لوں مگر جس بیٹے کا نام خواب میں ملک غنی دیکھا تھا وہ ملک میں نہیں تھا آخری دیدار سے محروم رہا.یارحمن یا رحیم: وفات سے پہلے آپ زیر لب دعائیں پڑھ رہے تھے میرے بڑے بھائی جان ( مرحوم مغفور ) مولوی عبدالغفور صاحب نے عرض کی اباجان یا حی یا قیوم پڑھیں فرمایا یا رحمن یا رحیم اور یہی صفات الہی لبوں پر سجائے خدا کے حضور حاضر ہو گئے.جیسے جانتے ہوں کہ..........مالک یوم الدین کے حضور حاضر ہونے کا وقت ہے رحمانیت اور رحیمیت کی ضرورت ہے.تاریخ وفات 7 نومبر 1956 تھی.اپنے والد صاحب کی وفات کو کوئی مبارک موقع نہیں کہتا مگر میں کہہ رہا ہوں اور اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ کی وفات سے ایک نشان پورا ہو رہا تھا.آپ کی وفات سے مسیح موعود کی صداقت کا ایک ثبوت مل رہا تھا وہ خواب پورا ہورہا تھا جس کی تعبیر مسیح پاک نے کی تھی.سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم.میرے ابا جان کا چہرہ مبارک بڑا ہی خوبصورت تھا.دل کی پاکیزگی تقوی ، طہارت، عشق الہی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق.اپنے خاندان سے والہانہ پیار مخلوق خدا تعالیٰ سے ہمدردی.دوستوں سے حسنِ سلوک سب صفات حسنہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دل کھول کر عطا کی تھیں.دینِ حق کے نور سے منور دل کی کرنیں چہرہ کو نورانی بنا دیتی تھیں.دیانت، امانت، شرافت، نجابت سنجیدگی ، متانت حلم ، بردباری وہ کون سی صفت تھی جو ایک باوقار انسان میں ہونی چاہیے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس صفت سے حصہ وافر نہ عطا کیا ہو.نورانی چہرہ خوبصورت داڑھی مناسب جسم اچھی صحت سادہ ستھرا لباس سفید پگڑی غرض یہ کہ آپ مرد مومن کی حسین تصویر تھے.42
زنده درخت - حضرت والد صاحب مولائے حقیقی سے جاملے تحریر محترم عبدالرحیم صاحب درویش مجھے قادیان میں مکرم جناب ملک صلاح الدین صاحب نے پیغام دیا کہ وہ والد صاحب سے ربوہ میں ملے تھے آپ نے قادیان کا حال دریافت فرمایا اور دوسری بات یہ کہی کہ میرا ایک بچہ عبدالرحیم قادیان میں درویش ہے اُسے کہیں کہ آکر مل جائے.اس پیغام میں کچھ عجیب درد تھا میں 3 نومبر 1956ء کو قادیان سے چل کر 4 نومبر ربوہ پہنچا آپ نے مجھے دیکھ کر بہت تسکین اور آرام محسوس کیا 7 نومبر کو دن کے ایک بجے اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.اللہ تعالیٰ اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے آمین.اُس وقت حضرت خلیفتہ امسیح الثانی جابہ میں مقیم تھے.میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سے ملا اور اپنی یہ درخواست پیش کی کہ جنازہ حضور پڑھائیں میں نے میاں صاحب کو بصد ادب ایک حوالہ بھی دیا کہ راجپوت سائیکل والے ایک رفیق مسیح موعود فوت ہوئے تو اُن کے عزیز لا ہور سے جنازہ لے کر آئے حضور کو اطلاع دینے میں کچھ تاخیر ہوئی جب اطلاع دی گئی.علم ہوا کہ حضور تو تھوڑی دیر پہلے ہی سفر پر روانہ ہو چکے ہیں.حضور کو بروقت اطلاع نہ دے سکنے کا افسوس ہوا اُدھر جب واپسی پر حضور کوعلم ہوا تو آپ نے اظہار افسوس و ناراضگی فرمایا.ایسا نہ ہو ہم اطلاع نہ دیں تو حضور ناراض ہوں کہ میاں فضل محمد صاحب کے انتقال کی خبر کیوں نہ دی.آپ نے فرمایا کہ بہت سوچا ہے مگر کوئی صورت نظر نہیں آرہی تار ٹیلیفون کوئی بھی سہولت وہاں میسر نہیں.کرنا خدا کا کیا ہوا کہ میری ہمشیرہ عزیزہ صالحہ بی بی اپنے بیٹے عزیز سمیع اللہ صاحب شفا میڈیکوز لاہور والے کے ساتھ کار میں تشریف لائیں تب میں حضرت میاں صاحب کے پاس گیا کہ حضور کار میسر آ گئی ہے 43
زنده درخت آپ مشورہ دیں کہ میں والد صاحب کا جنازہ وہاں لے جاؤں یا صرف اطلاع دے آؤں آپ نے فرمایا جنازہ کہاں پہاڑوں میں لئے پھرو گے میں چٹھی لکھ دیتا ہوں آپ اطلاع دے آئیں.میں آپ کا خط لے کر اپنے داماد عزیزم خورشید احمد صاحب کے ساتھ جا بہ گیا آپ نے تحریر فرمایا تھا:.بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم سیدنا و على عبده المسيح الموعود السلام علیکم ورحمۃ اللہ امید ہے حضور بخیریت ہوں گے آج تقریباً پونے دو بجے میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں فوت ہو گئے.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن مرحوم بہت پرانے صحابی تھے اور بہت مخلص بھی ان کی وصیت کا نمبر 102 تھا.گویا وصیت میں بھی بہت پرانے تھے.ان کے تین لڑکے سلسلہ کی خدمت میں ہیں.ایک مولوی عبد الغفور صاحب دوسرے صالح محمد صاحب جو مغربی افریقہ میں ہیں.اور تیسرے میاں عبدالرحیم صاحب جو قادیان میں درویش ہیں.مرحوم کی اولاد کی دلی خواہش ہے کہ اگر حضور نے کل تشریف لے آنا ہو تو حضور ان کا جنازہ پڑھا کر ممنون فرماویں.لہذا اگر واپسی کا پروگرام طے نہ ہو تو اس سے مطلع فرمایا جائے ان کی حالت ایسی ہے کہ غالباً کل سہ پہر یا عصر تک ان کا جنازہ رکھا جا سکتا ہے ہاں یاد آیا مرحوم کے ایک بچہ کا داماد خورشید احمد بھی الفضل میں کام کرتے ہیں اور سلسلہ کے مخلص کارکن ہیں.فقط والسلام خاکسار مرزا بشیر احمد از ربوه بوقت شام بتاریخ 1956-11-7 44
زنده درخت جابہ تک کا کل سفر اسی میل کا تھا جو رات کا وقت اور راستوں سے ناواقفیت کی وجہ سے کافی طویل لگا رات دو بجے کوٹھی پہنچے تو کار دیکھ کر تین آدمی باہر آئے ان میں سب سے آگے میرے دیرینہ دوست شیر ولی صاحب تھے.مجھے وہاں دیکھا تو حیران رہ گئے خوب گرمجوشی سے گلے لگایا اور اپنے مخصوص انداز میں پوچھا: ” بھائی آپ کہاں؟“ انہیں سارا واقعہ سنایا اتنے میں وہ گرما گرم ناشتہ لے آئے.اور کہا کہ صبح کی نماز حضور یا ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پڑھائیں گے انہیں چٹھی دے دی جائے گی.یہی ہوا صبح ڈاکٹر صاحب نے نماز پڑھائی تو چٹھی دے دی.آپ نے اُسی وقت پیغام بھجوایا کہ میاں عبدالرحیم سے کہہ دیں کہ آپ واپس چلے جائیں میں چار بجے کے قریب ربوہ آ کر نماز جنازہ پڑھاؤں گا.ابھی ہم وہاں سے روانہ نہیں ہوئے تھے کہ اندر سے ایک بچی بھاگتی ہوئی آئی اور کہا کہ حضور فرماتے ہیں کہ میاں عبدالرحیم سے کہہ دیں ناشتہ کر کے جاویں میں نے عرض کیا کہ ناشته تو با با شیر ولی نے رات ہی کروا دیا تھا.اس طرح بابا شیر ولی صاحب اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر سے نوازے میرے والد صاحب کی وفات کے وقت انتہائی دل گرفتگی کے عالم میں سکینت کا باعث بنے.حضرت مصلح موعود حسب وعدہ تشریف لائے.8 رنومبر 1956ء کو جنازہ پڑھایا مغرب کے بعد بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کو سپردخاک کر دیا گیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے انجام بخیر ہوا.45 15
زنده درخت 7- حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے ) وفات پاگئے الفضل ربوہ 9 نومبر 1956ء حضرت مسیح موعود کے قدیم اور مخلص رفیق حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے مورخہ 17 نومبر 1956ء بروز بدھ ڈیڑھ بجے بعد دو پہر وفات پا گئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ مراجعون.وفات کے وقت آپ کی عمر نوے سال تھی.سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 8 نومبر کو 5 بجے شام جابہ سے ربوہ تشریف لا کر جنازہ پڑھایا جس میں اہلِ ربوہ کثیر تعداد میں شریک ہوئے حضور نے نماز جنازہ غیر معمولی طور پر لمبی پڑھی نیز حضور نے آپ کے بیٹوں سے تعزیت فرمائی.اور ان کے حالات دریافت فرماتے رہے.بعد میں آپ کو بہشتی مقبرہ میں رفقاء کے قطعہ خاص میں سپردخاک کیا گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مدظلہ العالی نے بھی جنازہ کو کندھا دیا.قبر تیار ہونے پرسید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے دعا کرائی.مرحوم بہت پرانے (رفیق) تھے اور بہت مخلص بھی.آپ 1896ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آپ نے انہیں دنوں خواب میں دیکھا کہ عمر 45 برس ہوئی حضرت اقدس سے ذکر کیا تو حضور نے فرمایا خدا تعالیٰ اسے دو گنا کرنے پر قادر ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور آپ نے نوے سال کی عمر میں وفات پائی.اس طرح آپ کی زندگی بھی ایک نشان تھی اور موت بھی ایک نشان ثابت ہوئی.یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے.آپ کے تین صاحبزادے خدمتِ دین کر رہے ہیں.ایک مکرم مولوی عبدالغفور صاحب فاضل مربی سلسلہ ہیں.دوسرے مکرم مولوی صالح محمد صاحب مغربی 46
زنده درخت افریقہ میں خدمات سلسلہ بجا لا رہے ہیں.تیسرے میاں عبدالرحیم صاحب قادیان میں درویش ہیں.ادارہ الفضل آپ کی وفات پر دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتے ہوئے اعلیٰ علیین میں جگہ دے.اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا کرتے ہوئے ان کا ہر طرح حامی و ناصر ہو آمین.8 ایم ٹی اے اُردو کلاس میں حضرت مولوی فضل محمد صاحب کا ذکر مديرا 邀 یر الحکم حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب کے مضمون کے اقتباسات الفضل ربوہ 29 مئی 1999ء کے کالم عالم روحانی کے لعل و جواہر از محترم مولنا دوست محمد صاحب شاہد شائع ہوئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع نے الفصل پر نوٹ تحریر فرمایا: صفحہ 2 پر عمر دوگنی کئے جانے کا واقعہ اردو کلاس کے لئے پھر اردو کلاس منعقدہ 9 جون 1999 ء میں بڑے دلنشین انداز میں یہ واقعہ سنایا.خاص طور پر برکت کے حوالے سے خاندان کے پھیلاؤ کا ذکر فرمایا.نیز فرمایا کہ آپ کے خاندان کی تفصیلات الفضل میں شائع کر دی جائیں، چنانچہ آپ کے نواسے مکرم محمد اسلم خالد صاحب نے اس سلسلے میں درج ذیل معلومات مہیا کیں جو الفضل انٹر نیشنل 17 پریل 2000 ء میں شائع ہوئیں.47
زنده درخت - عمر دُگنی کئے جانے اور اولاد میں برکت کا نشان تحریر مکرم محمد اسلم خالد صاحب حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے نے دوشادیاں کیں جن سے بارہ بچے پیدا ہوئے یعنی چھ بیٹے اور چھ بیٹیاں ان میں سے اب خدا کے فضل سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں زندہ ہیں.دونوں بیویوں سے ہونے والی اولاد کی الگ الگ تفصیل حسب ذیل ہے:.پہلی بیوی مکرمہ محترمہ حضرت برکت بی بی صاحبہ ہیں جن کے بطن سے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہوئیں.(1) مکرمہ رحیم بی بی صاحبہ اہلیہ ماسٹر عطا محمد صاحب سابق استاد جامعہ احمد یہ ربوہ.ان کے ہاں دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں.جن میں سے ایک مکرم نسیم سیفی صاحب مربی سلسلہ وایڈیٹر الفضل ہوئے.مکرم سیم سیفی صاحب کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہیں ظفر اقبال صاحب اور محمد اقبال صاحب پاکستان میں بینکوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اسی طرح انور اقبال صاحب اور اظہر اقبال صاحب انگلستان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں.بیٹی بشری اہلیہ سلیمان طاہر صاحب کراچی میں ہیں.دوسرے بیٹے مکرم فیض محمد صاحب لندن میں مقیم ہیں آپ لاہور ہائیکورٹ سے سپرنٹنڈٹ کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر وکالت کرتے رہے تقریباً چار سال تک حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے دفتر پرائیویٹ سیکرٹری قادیان میں کارکن کی حیثیت سے خدمات کی توفیق پائی.آپ کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں ایک کے سوا باقی لندن میں مقیم ہیں.مکرمه رحیم بی بی صاحبہ کی دو بیٹیوں میں ایک مکرمہ امتہ الرحمان مرحومہ کے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہوئیں.بیٹا جمیل احمد صاحب لندن میں مقیم ہیں.دوسری بیٹی امتہ الحفیظ شوکت 48
زنده درخت صاحبہ مرحومہ اہلیہ سلطان احمد صاحب طاہر مرحوم کراچی ہیں.ان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.(2) مکرمہ کریم بی بی صاحبہ اپنی شادی کے تھوڑے ہی عرصہ بعد وفات پاگئیں اولاد ہوئی مگر وہ بھی وفات پاگئی.(3) مکرم عبد الرحمن صاحب نے بچپن ہی کی عمر میں وفات پائی.(4) حضرت مولانا ابوالبشارت عبد الغفور صاحب مربی سلسلہ ان کے ہاں چار لڑ کے اور آٹھ لڑکیاں ہوئیں جو خدا کے فضل سے سب زندہ موجود ہیں.بیٹے مکرم بشارت احمد صاحب سعادت احمد صاحب ہدایت احمد صاحب، سعادت احمد صاحب اور عبدالسمیع صاحب امریکہ میں مقیم ہیں.سب ہی کے بچے امریکہ میں زیر تعلیم ہیں.بیٹیوں میں رحمت بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد عبد اللہ صاحب جن کے چھ بیٹے اور ایک بیٹی کراچی میں مقیم ہیں.نصرت بیگم صاحبہ اہلیہ مولا نا امام الدین صاحبہ مرحوم سابق رئیس المربیان انڈونیشیا ہیں ان کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں بیٹا ڈاکٹر صلاح الدین صاحب امریکہ میں سیکرٹری ضیافت اور ناظم لنگر خانہ ہیں.امتہ الہادی صاحبہ اہلیہ چوہدری رشید الدین صاحب سابق نگران قیادت نمبر 3 کراچی ہیں ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں ایک بیٹا ڈاکٹر نصیر الدین صاحب آسٹریلیا میں ڈاکٹر ہیں قبل ازیں نصرت جہاں کے تحت افریقہ میں خدمات بجا لاتے رہے.ممتاز عطاء اللہ صاحبہ اہلیہ عطاء اللہ صاحب بنگوی مرحوم کراچی میں مختلف جماعتی عہدوں پر خدمات کی توفیق پاتی رہی ہیں.ان کی دو بیٹیاں ہیں ایک بیٹی آسٹریلیا میں مقیم ہیں.امتہ السمیع شہناز صاحبہ اہلیہ نصیر احمد صاحب طارق مرحوم ہیں لجنہ اماءاللہ کی عہدہ دار ہیں ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں.مبارکه آفتاب صاحبہ اہلیہ ابرار احمد صاحب کے چار بیٹے ہیں ان کے ایک بیٹے شیراز ہارون صاحب نے کراچی یونیورسٹی سے ایم ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کی.امتہ الکریم 49
زنده درخت صاحبہ اور ان کے شوہر ملک محمد اکرم صاحب مربی سلسلہ مانچسٹر یو کے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں.کشور احسان صاحبہ اہلیہ احسان الہی انجم صاحب آف امریکہ جن کی تین بیٹیاں ہیں.(5) مکرم عبدالرحیم صاحب درویش قادیان ان کی اولاد میں تین لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں جو خدا کے فضل سے سب زندہ ہیں بیٹے مکرم عبدالمجید نیاز صاحب کے دو بیٹے تین بیٹیاں ہیں ایک بیٹا بشارت احمد صاحب حافظ قرآن ہیں.مکرم عبدالباسط شاہد صاحب مربی سلسلہ ہیں.ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.رشید احمد جرمنی میں سیکرٹری دعوت الی اللہ ہیں آصف محمود باسط صاحب ایک ابھرتے ہوئے شاعر ہیں جن کا کلام جماعتی رسائل میں چھپتا رہتا ہے.مبشرہ صاحبہ کو ونٹری انگلستان میں صدر لجنہ اور مدثر عباسی وانڈ زور تھ جماعت میں سیکرٹری تعلیم ہیں نیز ایم ٹی اے میں خدمت کی توفیق پا رہی ہیں.بیٹی نیزہ عباسی جرمنی میں مقیم ہیں.تیسرے بیٹے عبد السلام طاہر صاحب حیدرآباد سندھ پاکستان میں مقیم ہیں جن کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ان کا بیٹا عطاء القدوس اپنے حلقہ میں قائد خدام الاحمدیہ ہے.مکرم عبدالرحیم صاحب کی بیٹیوں میں مکرمہ امته اللطیف خورشید صاحبہ اہلیہ مکرم خورشید احمد صاحب کینیڈا سابق مدیرہ مصباح و سیکرٹری اشاعت مرکز یہ رہیں آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں جن میں لئیق احمد صاحب اور زاہد صاحب کینیڈا میں مقیم ہیں.بیٹیوں میں نصرت ظفر صاحبہ پاکستان آرمی میڈیکل کور میں کرنل ہیں.مکرمہ امتۃ الرشید صاحبہ اہلیہ صادق محمد صاحب کے دو بیٹے پانچ بیٹیاں ہیں ایک بیٹا آرمی میں ڈاکٹر اور دو بیٹیاں مربیان سے بیاہی گئیں.مکرمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ عبدالسلام صاحب ظافر واقف زندگی آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.نفیس احمد حامد نیوروسرجن برمنگھم اور خالد رشید امریکہ میں جماعتی خدمات میں پیش پیش ہیں.مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ اہلیہ قریشی ناصر احمد صاحب کراچی جماعت میں شعبہ اشاعت سے منسلک ہیں.جماعتی رسائل میں آپ کا کلام چھپتا رہتا ہے.50
زنده درخت ان کے دو بیٹے تین بیٹیاں ہیں.بیٹا منصور احمد امریکہ میں ڈاکٹر ہے.ایک بیٹی امتہ المصور اہلیہ زاہد خورشید صاحب کینیڈا میں ڈاکٹر ہیں.امۃ الصبور اہلیہ عمر احمد صاحب لندن میں مقیم ہیں.مکرمہ امۃ الشکور صاحبہ اہلیہ محمد ارشد صاحب لجنہ اماءاللہ مرکزیہ کی سابقہ عاملہ ممبر ہیں.آج کل کینیڈا میں مقیم ہیں.ان کے چار بیٹے تین بیٹیاں ہیں.اکبر احمد اور مبارک احمد صاحب حافظ قرآن ہیں.ایک بیٹا مظفر احمد صاحب (مربی سلسلہ ) ہے.ان کے مضامین اخبار و رسائل میں چھپتے رہتے ہیں.(6) مکرم احمد بی بی صاحبہ چھوٹی عمر میں شادی سے قبل وفات پاگئیں جو موصیہ تھیں.(7) مکرم مولوی صالح محمد صاحب مرحوم ان کو اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا.دو کے سوا باقی سب بفضل تعالیٰ زندہ ہیں.بیٹے مکرم صادق محمد صاحب کئی سال نصرت جہاں کے تحت سیرالیون میں پڑھاتے رہے.ان کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں ایک بیٹا ڈاکٹر ساجد پاکستان آرمی میں ہے دو بیٹیاں مربیان سے بیاہی گئیں.ایک بیٹی امتہ النصیر صاحبہ اہلیہ طارق اسلام صاحب مربی کینیڈا کی بیگم ہیں.دوسری امتہ الودود صا حبہ اہلیہ ظہیر احمد صاحب مربی سلسلہ ہیں.مکرم مبارک احمد صاحب کا نارتھ لنڈن جماعت سے تعلق ہے.جلسہ سالانہ برطانیہ پر کئی سال شعبہ ٹرانسپورٹ میں بڑی تندہی سے ڈیوٹی دینے کی توفیق پاتے رہے.13 راگست 1999ءکو کینسر کے عارضہ سے وفات ہوئی.ان کے دو بیٹے لندن میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی جرمنی میں مقیم ہیں.مکرم شریف احمد صاحب اسلام آباد پاکستان میں مقیم ہیں جو مختلف جماعتی خدمات سرانجام دیتے ہیں.مکرم لطیف احمد صاحب اسلام آباد پاکستان میں محکمہ CDA میں اعلیٰ عہدہ پر فائز رہے.ان کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے.مکرم سعید احمد صاحب اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز رہے.ان کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے.مکرم سعید احمد صاحب اعلیٰ سرکاری عہدہ سے حال ہی میں ریٹائرڈ کرنل راولپنڈی میں مقیم ہیں آپ کا ایک بیٹا ہے جو پاکستان آرمی میں کیپٹن ہے.مکرم رفیق احمد صالح صاحب اسلام آباد میں اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہیں ان 51
زنده درخت کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اسلام آباد میں مقیم ہیں.مکرم مولوی صالح محمد صاحب کی بیٹیوں میں مکرمہ طیبہ مسعود صاحبہ اہلیہ مسعود احمد صاحب اسلام آباد میں مقیم ہیں ان کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں ایک بیٹا مشہود احمد امریکن آئل کمپنی میں اعلیٰ عہدہ پر ملازم ہے.مکرمہ ڈاکٹر نفیسہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر نصراللہ چیمہ صاحب برمنگھم انگلستان میں مقیم ہیں.دوسری مکرمہ شاہدہ محمود صاحبہ اہلیہ قریشی محمود احمد صاحب مرحوم ان کے دو بیٹے ہیں ایک بیٹا منظور اقبال قریشی صاحب امریکہ میں زیر تعلیم ہیں.اور خدمت دین کی تو فیق پارہے ہیں.ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے.(8) مکرمہ صالحہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ ماسٹر غلام محمد صاحب مرحوم.ان کی اولا د دولڑکوں اور ایک لڑکی پر مشتمل ہے.چودھری سمیع اللہ صاحب شفاء میڈیکو لاہور.ان کی ایک بیٹی ہے..فاروق احمد صاحب لاہور ان کے پانچ بیٹے ہیں.امریکہ اور پاکستان میں مقیم ہیں ایک بیٹی عمرانہ صاحبہ اہلیہ شمیم احمد صاحب کینیڈا میں مقیم ہیں.مکرمہ صالحہ فاطمہ صاحب کی بیٹی قانتہ سلمی اہلیہ ریٹائرڈ میجر اختر صاحب لاہور میں مقیم ہیں.(9) مکرم محمد عبد اللہ صاحب خدا کے فضل سے ربوہ میں رہائش پذیر ہیں ان کی اولاد میں پانچ لڑکے اور پانچ لڑکیاں ہیں.مکرم محمد اشرف صاحب کراچی میں کاروبار کرتے ہیں ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے.بیٹیوں میں مکرمہ امۃ الحفیظ صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب مکرمہ عابدہ بیگم صاحبہ امتہ القیوم صاحبه رفیق احمد صاحب مکرمہ بشری بیگم صاحب اہلیہ مجاہد صاحب پاکستان میں آباد ہیں.بچوں کی تفصیل کا علم نہیں ہوسکا.(10) مکرمہ حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ محمد حسن صاحب ( جولمبا عرصہ سے لنگر خانہ یو کے اور الفضل انٹر نیشنل کی ٹیم میں رضا کارانہ خدمات کی توفیق پارہے ہیں ) لندن میں مقیم ہیں ان کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں.ان کے بیٹے محمد اسلم خالد دفتر پرائیوٹ سیکرٹری لندن میں اعزازی خدمت کی توفیق پارہے ہیں.52
زنده درخت مکرم حلیمہ بیگم صاحبہ کی بیٹیوں میں مکرم سیدہ شمیم صاحبہ اہلیہ شیخ عبدالمجید صاحب جرمنی میں مقیم ہیں.ان کے دو بیٹے عبدالوحید اور سلیم احمد صاحب جرمنی میں مختلف جماعتی عہدوں پر کام کی توفیق پاتے رہے.دو بیٹیاں پاکستان میں ہیں.مکرمہ صفیہ بشیر صاحبہ اہلیہ بشیر الدین صاحب سامی لنڈن ان کے تین بیٹے دو بیٹیاں ہیں سبھی لندن میں مقیم ہیں.ایک بیٹی لبنی مقصود اہلیہ گوہر مقصود صاحب نائب سیکرٹری تربیت یو کے خدمات کی تو فیق پا رہی ہیں.بلال احمد صاحب سٹن جماعت میں سیکرٹری مال اور عکاشہ بدر صاحب نائب قائد نیو مالڈن جماعت ہیں.امتہ العزیز منظور صاحبہ ان کا ایک بیٹا لاہور میں زیر تعلیم ہے اور ایک بیٹی شارجہ میں بیاہی گئیں.بشری رفیق صاحبہ مرحومہ اہلیہ رفیق احمد صاحب صالح ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے اسلام آباد میں مقیم ہیں.حضرت میاں فضل محمد صاحب کی دوسری اہلیہ صوباں بی بی صاحبہ کے بطن سے جو اولا د ہوئی وہ ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہیں.(1) مکرم صادقہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مولوی محمد شریف صاحب سابق اکا ؤنٹنٹ جامعہ احمد یہ ربوہ حال نیو یارک امریکہ ہیں.ان کی اولا د پانچ لڑکوں اور تین لڑکیوں پر مشتمل ہے.ظریف احمد کے ایک بیٹا اور پانچ بیٹیاں ہیں سب ہی امریکہ میں زیر تعلیم ہیں.لطیف احمد صاحب طاہر کے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں.مکرم نعیم احمد صاحب سیکر یٹری ضیافت ہیں.ان کے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے مکرم وسیم احمد صاحب ظفر مربی سلسلہ برازیل ہیں.ان کے دو بیٹے ایک بیٹی ہیں.ڈاکٹر کریم احمد شریف ان کی دو بیٹیاں ہیں.مکرمہ صادقہ بیگم صاحبہ کی دو بیٹیاں ہیں ایک صفیہ بیگم صاحبہ مرحومہ اہلیہ بشیر احمد صاحب ربوہ ان کے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں.دوسری بیٹی مکرمہ عائشہ صدیقہ حمید صاحبہ اہلیہ عبد السلام حمید صاحب نیو یارک ہیں.اپنے حلقہ میں سیکرٹری صنعت و تجارت ہیں.ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے.ساری اولا دہی بفضل تعالیٰ دینی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال ہے.53
زنده درخت (2) مکرم عبدالحمید صاحب ( شاہین سویٹس ) نیو یارک امریکہ میں آباد ہیں اور ان کے اولاد چارلڑکوں اور ایک لڑکی پر مشتمل ہے سب ہی امریکہ میں آباد ہیں.بیٹے عبد السلام حمید صاحب کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے سب ہی جماعتی کاموں میں پیش پیش ہیں.عبد المومن صاحب کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں.طاہر احمد صاحب سابق قائد نیو یارک ہیں.طارق احمد صاحب جماعتی کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں مکرم حمید صاحب کی بیٹی ناہید خالد صاحبہ اہلیہ خالد احمد صاحب کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے جو زیر تعلیم ہیں.الغرض حضرت میاں فضل محمد صاحب کا خاندان دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور کئی صد افراد پر مشتمل ہے.یہاں خاندان کے پورے افراد کا ذکر توممکن نہیں البتہ جو معلوم ہو سکے تحریر کر دئے ہیں.یہ حضرت اقدس مسیح موعود کی دعا و توجہ کی برکت ہے کہ ع اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا الفضل انٹر نیشنل 7 را پریل 2000ء) 54
زنده درخت 10- حضرت میاں فضل محمد صاحب کے متعلق چند تاثرات سیکرٹری جماعت احمدیہ ہریاں تحریر : حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب فروری 1909 ء مختلف شہروں میں جماعتی دورے کے سلسلے میں سفر کرتے ہوئے ہر سیاں پہنچے.آپ نے تحریر فرمایا: تلونڈی میں ہی ہر سیاں کے دوست میاں فضل محمد صاحب پہنچ کر اقرار لے چکے تھے کہ میں ایک شب ہرسیاں میں ٹھہروں چنانچہ 28 فروری کی شام کو میں وہاں پہنچا رات کو وعظ ہوا.اس جگہ بھی انجمن بنائی گئی جس کے سیکرٹری میاں فضل محمد صاحب اور پریذیڈنٹ منشی نور محمد صاحب مقرر ہوئے یہاں کی جماعت تھوڑی ہے مگر گاؤں چونکہ سکھوں کا ہے اس لحاظ سے کافی ہے.امید ہے کہ منشی نور محمد صاحب و منشی فضل محمد صاحب کی کوشش سے جماعت بہت ترقی کرے گی.انشاء الله......( بدر 18 مارچ 1909ء) حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے) تحریر محترم نذر حسین ص یہ 1932ء کی بات ہے جب مکرم میاں فضل محمد صاحب سے جان پہچان ہوئی میں ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور بورڈنگ ہاؤس کا رہائشی.ہوٹل ایونیو کے بالکل سامنے میاں فضل محمد صاحب کی دکان تھی.55
زنده درخت مکرم میاں فضل محمد صاحب اس زمانہ میں اپنی جوانی گزار چکے تھے اور ادھیڑ پن میں زندگی بسر کر رہے تھے سر اور داڑھی کے بالوں کی سفیدی منت پذیر حنا تھی اور ان کا حنائی رنگ ہر جمعہ کو تازہ کرنا میاں صاحب کا معمول تھا.میاں صاحب کی دکان میں دودھ دہی.گرمیوں میں سوڈا واٹر.رس، بسکٹ، باقر خوانی اور چھوٹے بچوں کو بہلانے کے لئے کھانڈ کی مختلف رنگوں کی گولیاں شیشے کی کھلی بوتلوں میں موجود ہوتی تھیں.دوکان کے سامنے ایک بڑے چولہے پر دودھ ایک بڑے کڑاہ میں کڑھتا رہتا تھا اور اس کو کاڑھنے کا کام میاں صاحب کے سپر د تھا.آپ کے ہونٹ حمد باری تعالیٰ میں ہلتے رہتے تھے اور ہاتھوں سے دودھ کو متواتر ہلانے کا کام ہوتا تھا اور یوں میاں صاحب دست بکار اور دل با یار کا عملی نمونہ پیش کرتے تھے.میاں صاحب خاموش طبع انسان تھے چہرہ پر ہمیشہ ایک اطمینان اور طمانیت کے آثار موجود ہوتے.متوسط قدوقامت ضعف پیری کی شکایت کے زمانہ سے ابھی کچھ فاصلہ پر تھے.بڑا پر وقار چہرہ جس سے متانت اور قناعت کا اظہار ہوتا تھا.یہی آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو تھا.اسکول اور خصوصاً بورڈنگ ہاؤس میں رہائشی طلباء آپ کے فیض عام سے خصوصیت کے ساتھ فیض یاب ہوتے تھے.یوں تو میاں صاحب ایک دل گداز اور نرم دل رکھتے تھے لیکن انتظامی امور اور عام ڈسلپن کے معاملات میں ان سے رعایت کی توقع مشکل ہوتی.آپ کے کاروبای معاون آپ کے چھوٹے بیٹے میاں عبد اللہ صاحب تھے اور جن ایام کا میں ذکر کر رہا ہوں یہ ان کی عین جوانی و شباب کے دن تھے چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی ہنستا اور مسکراتا ہوا چہرہ.نہایت درجہ مخلص اور فرمانبردار بیٹے میاں عبداللہ صاحب تھے.اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت ڈالے آپ کے بڑے تینوں بھائی تو جنت کے مکیں ہیں اور آپ ابھی تک حیات ہیں گو عمر کے اس حصہ میں بعض عوارض کا شکار ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو کامل صحت اور راحت دل نصیب فرمائے.مکرم میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں سے نقل مکانی کر کے اپنے اہل وعیال کو لے کر قادیان میں آبسے.اور محلہ دار الفضل میں حضرت امام جماعت الثانی (اللہ تعالیٰ کے 56
زنده درخت ہزاروں انعامات آپ پر ہوں ) کے مبارک عہد میں ایک رہائشی مکان بنوایا اور روایت ہے کہ آپ ہی کے نام نامی سے اس محلہ کا نام دار الفضل رکھا گیا.اس ہرسیاں کے یہ بزرگ انقلاب زمانہ اور وقت کی قلابازیوں سے کبھی ہراساں وترساں نہ ہوئے اور نہایت درجہ خلوص اور صبر ورضا کے ساتھ زندگی بسر کی.آپ کے کاروبار کو اگر دیکھا جائے تو یہ ماننے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ آپ کا وہ کاروبار آپ کے جملہ اخراجات حیات کو پورا کرنے کا باعث تھا لیکن آپ نے جس قناعت اور توکل کا نمونہ دکھایا اس کی مثال انسانی زندگی میں بہت کم ملتی ہے.آپ کی دوکان کے طاقچہ پر ایک لوہے کی شیخ کے ساتھ ایک کاپی اور ایک پنسل بندھی ہوتی تھی جس پر ادھار لینے والوں کا حساب درج ہوا کرتا تھا.لیکن مکرم میاں صاحب کا یہ حال تھا کہ آپ نے کبھی حساب لکھنے والے کی جانچ پڑتال نہ کی جو کچھ کوئی لکھ جاتا اس کو ہی صحیح سمجھ لیا جاتا اس سے آپ کی دلی فراخی کا ثبوت ملتا ہے اور کئی ناعاقبت اندیش طلبا آپ کی اس سادہ دلی سے ناجائز فائدہ اٹھاتے مگر میاں صاحب کے ماتھے پر ان تمام غفلتوں اور چھوٹی چھوٹی لغزشوں کے باوجود شکن تک نہ پڑتی.ہاں آپ اصولوں پر قائم رہتے.بورڈنگ ہاؤس میں مقیم طلبا اگر کبھی سر سے ننگے آپ کی دوکان سے سودا لینے جاتے تو ان کو آپ واپس لوٹا دیتے اور یہی فرماتے کہ سر پر ٹوپی رکھ کر آؤ تب یہاں سے سودا پاؤ.عبادت عصر اور مغرب کے درمیانی وقفہ میں میرا بھی ہر روز کا معمول ہوتا کہ میاں صاحب موصوف سے ملاقات کروں اور کچھ خور و نوش کا بندوبست بھی کرلوں کئی دنوں کی حاضری کے بعد ایک دن میاں صاحب نے از راہ شفقت مجھ سے یہ دریافت فرمایا کہ خاکسار کہاں سے آیا تھا یہ سوال پنجابی زبان میں آپ نے پوچھا میں نے جواباً عرض کیا کہ خاکسار ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہے اور حضرت امام جماعت اول ( اللہ تعالیٰ کی بے شمار برکتیں آپ پر ہوں) کے گاؤں بھیرہ سے 9 میل مشرق میں میرا گاؤں ہے.اور پڑھنے کی غرض سے یہاں بورڈنگ ہاؤس میں رہ کر دسویں جماعت میں پڑھتا ہوں.میرا یہ 57
زنده درخت جواب سن کر آپ نے فرمایا کہ تم تو (یعنی خاکسار ) بڑی دور سے آئے ہو.اور اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا کہ اس کا خاص خیال رکھا کریں.یہ بہت دور سے تعلیم کی غرض سے قادیان آیا ہے.اس کے بعد ہر روز ہی تو آپ کی دوکان پر حاضری ہوتی تھی اور ہر روز آپ کی دعاؤں کے لئے عرض کرنامیرے پروگرام میں شامل ہوتا تھا.اپریل 1933ء میں سالانہ امتحان ہوئے اور امتحانوں کے بعد میں نے اپنے وطن واپس لوٹنا تھا.آنے سے پہلے میاں صاحب سے خاص طور پر دعاؤں کی درخواست لے کر ملاقات کی اور آپ نے اپنی درد بھری مخلصانہ دعاؤں کے ساتھ عاجز راقم کو الوداع کہا.میاں فضل محمد صاحب کی دعائیں جماعت کے لئے اور آپ کی اپنی اولاد کے لئے اللہ تعالیٰ نے خوب قبول فرمائی ہیں.اور آپ کی اولاد در اولاد نیاوی عہدوں پر بھی فائز ہے اور دین میں بھی آپ یکتا ہیں اور یہ سب فیض اللہ تعالیٰ کے فضل اور میاں فضل محمد صاحب کی دعاؤں کے طفیل ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میاں فضل محمد صاحب کے مزید درجات بلند فرمائے اور ہم آپ کے نقش قدم پر چلنے کے قابل ہوں.آمین.میاں فضل محمد بہت نیک آدمی تھے حضرت مولانا عبدالمالک خان صاحب مرحوم سابق ناظر اصلاح وارشاد دار الفضل میں ہم رہتے تھے ہمارے مکان کے سامنے دوسری طرف تھوڑے فاصلے سے تعلیم الاسلام سکول کا خوبصورت بورڈنگ ہاؤس تھا.ہمارے مکان کے قریب صرف ایک ہی دکان میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والوں کی ہوتی تھی یا میر عزیز الرحمان صاحب نے ایک دودھ چائے کا ہوٹل کھول رکھا تھا.میاں فضل محمد صاحب بہت نیک آدمی تھے.مولوی عبدالغفور صاحب کے والد محترم تھے اور ہمیشہ نماز کے وقت دکان بند کر کے بیت الذکر میں نماز ادا کرتے تھے مجھے 58
زنده درخت اکثر دعا دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ (خدا میرے لڑکے نوں وی اور تینوں وی مربی بناوے) مولوی عبد الغفور صاحب مدرسہ احمدیہ کی بڑی جماعت میں پڑھا کرتے تھے اور بہت اچھا بولتے تھے ہمارے ارد گرد جس قدر پڑوسی تھے سب کے سب نمازی پرہیز گار لوگ تھے.“ (الفضل 29 جون 2005ء) ضرت نانا جان کی چند خوبصورت یادیں تحریر : چوہدری فاروق احمد صاحب لاہور نانا جان کی دوکان ایک بڑی سڑک پر واقع تھی یہ سڑک ریتی چھلہ ( قادیان کا وسطی حصہ جو کہ ایک بہت بڑی گراؤنڈ ہے اور جس کے اردگرد چار دیواری تھی ) سے شروع ہو کر اسکول اور کالج کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن کو کراس کر کے آگے چلی جاتی تھی.دوکان کے عقب میں ایک کمرہ تھا.جہاں ہم رہتے تھے اور آگے بڑا صحن تھا.دوکان کو ہمارے کمرہ سے بذریعہ ایک چھوٹے دروازہ کے راستہ تھا.نانا جان اس راستے سے روز دوکان کھولتے اور اندر سے ہی بند کرتے.اس طرح نانا جان ہمارے ہاں ہر روز دو دفعہ تشریف لاتے.1 - ہم میں سے اگر کوئی بیمار ہو جاتا تو جب نانا جان تشریف لاتے تو اماں جان مرحومہ اُن کو بتا تیں کہ مثلاً فاروق کو فلاں تکلیف ہے.تو آپ فرماتے صالحہ گڑ لاؤ.آپ گڑ کی گولی بناتے.اس پر کچھ پڑھتے اور میں وہ گولی کھا لیتا.یہ میرا حیران کن تجربہ ہے کہ ہر قسم کی بیماری اُن کی اس گڑ کی گولی سے ٹھیک ہو جاتی.- 2- باہر کے علاقوں سے (سردار صاحبان ) بڑے بڑے گڑوں ( بیل گاڑی) پر بہت زیادہ سامان لاد کر لاتے اور نانا جان کی دوکان کے سامنے سے شہر جانے کے لئے گزرتے.ایک تو گڑوں پر بہت زیادہ سامان لدا ہوتا تھا دوسرے یہ لوگ جانوروں کو بڑی 59
زنده درخت بے دردی سے مارتے تھے.عام طور پر ہر گڈے کے ساتھ پانچ چھ آدمی ہوتے تھے.نانا جان فوراً اُن کو پکڑتے اور گڑوں کو کھڑا کر لیتے اور اُن سے وعدہ لیتے کہ وہ آئندہ جانوروں پر ظلم نہیں کریں گے.اس بات کا ان لوگوں میں اتنا چرچا ہوا کہ وہ نانا جی کی دوکان سے ایک فرلانگ قبل جانوروں کو مارنا بند کر دیتے اور اسی طرح جب دوکان سے بہت آگے نکل جاتے تب تک جانوروں کو کچھ نہ کہتے.اور آپس میں سرگوشیاں کرتے کہ جب تک ہم دوکان سے بہت آگے نہ نکل جائیں جانوروں کو نہیں مارنا ورنہ ”بابا مغر پے گیا تے اپنے مغروں نہیں کیا بابا پیچھے پڑ گیا تو پیچھا نہیں چھوڑے گا).- جب بھی کوئی جنازہ دوکان کے سامنے سے گزرتا تو نانا جان سب کام چھوڑ کر ساتھ جاتے.نماز جنازہ پڑھتے اور دفتا کر واپس آتے.چاہے مرحوم کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں.-4- میری نانی جان محترمہ صوباں بی بی صاحبہ نہایت پیار کرنے والی اور نیک خاتون تھیں.ماموں عبدالرحیم صاحب مرحوم کا مکان ریتی چھلہ کے سامنے واقع تھا.یہ دومنزلہ مکان تھا.گراؤنڈ فلور ایک بڑا ہال تھا اور اوپر رہائش تھی.گراؤنڈ فلور ہال میں محترمہ نانی صاحبہ کا انتقال ہوا.چار پائی کے چاروں طرف تمام خاندان کے لوگ جمع تھے.میں بھی نانی مرحومہ کے سرہانے کے پاس بیٹھا تھا.میرے بائیں طرف نانا جان مرحوم بیٹھے تھے نانی جان نے آخری سانس لے لیا تو نا نا جان مرحوم نے گڑ گڑا کر کہا ” صوباں بی بی اِک ساہ (سانس) میرے کہن تے ہور لے لئے حیرانگی کی حد نہ رہی جب نانی اماں نے تقریباً ایک منٹ کے بعد ایک اور سانس لیا اور اپنے خالق حقیقی سے جاملیں.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے آمین.الھم آمین.60 160
زنده درخت -11- حضرت محترمه برکت بی بی صاحبہ لیہ حضرت میاں فضل محمد صاحب برکت بی بی صاحبہ کا تعلق دیال گڑھ کے ایک متعصب گھرانے سے تھا.شادی کے بعد ہرسیاں آئیں 1895 میں میاں صاحب کے قبول احمدیت کے ساتھ ہی بیعت کی سعادت حاصل ہوئی.رجسٹر روایات نمبر 14 سے جو واقعات اس کتاب میں درج کئے جا چکے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ قادیان آئیں اور بیعت کر لی.مختصر اواقعہ اس طرح ہے کہ میاں صاحب گھر سے دکان کے لئے سودا سلف خرید نے نکلے اور کسی دوست کی تحریک پر قادیان کا رُخ کیا اور جا کر بیعت کی سعادت حاصل کر لی.گھر سے جانے اور واپس آنے تک کائنات بدل چکی تھی آپ دنیاوی سامان کی جگہ اُخروی حیات کا سامان خرید لائے تھے.دل میں یہ خدشہ محسوس ہوا کہ گھر میں مخالفت نہ ہو.گھر میں داخل ہوئے تو اہلیہ نے پوچھا.خیریت تو ہے آپ خالی ہاتھ ؟ دکان کا سودا کیا ہوا؟ آپ نے اپنے نئے سودے کا احوال کہہ سنایا.کہ دکان کے لئے کوئی سامان نہیں لایا میں تو خود کو بھی بیچ آیا ہوں.اللہ کے فرستادہ مامور زمانہ مسیح و مہدی معہود کی بیعت کر آیا ہوں.اُس سعید فطرت پاک باز خاتون نے آہستہ سے کہا.مجھے کیوں نہ لے گئے میں بھی بیعت کر لیتی.عجیب ایمان افروز نظارہ تھا.معلوم ہوتا ہے گھر میں مہدی معہود کی آمد کا تذکرہ رہتا ہوگا.نیک دل شوہر کے زیر اثر خاتون پر بھی سعادت کا رنگ آ گیا تھا.اپنے شوہر سے ایسی ہم آہنگی تھی کہ بیعت کی خبر سے مخالفت کا طوفان اُٹھایا نہ صداقت کے دلائل مانگے.ایک 61
زنده درخت منادی کی پکار کو نا اور سر تسلیم کم کر دیا.قدرت نے حق کی طرف رہنمائی کے لئے خوابوں کے ذریعے سامان کیا تھا.اور اپنے پیارے مسیح کی طرف آنے کے راستے خود سمجھائے تھے.پہلی دفعہ جب آپ قادیان پہنچیں تو میاں صاحب سے کہا کہ اب آپ مجھے راستہ نہ بتائیں بلکہ میرے ساتھ ساتھ آئیں اب میں اس راستے سے جاؤں گی جو خوابوں میں دیکھا کرتی ہوں.چنانچہ آپ خود چلتی ہوئی دار اسیح تک پہنچ گئیں.جب پہلی مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے رخ انور پر نگاہ پڑی تو پہچان گئیں کہ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو خواب میں دیکھا تھا اور فوراً بیعت کر لی.اور اُن مؤیدین میں شامل ہو گئیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ دیا تھا.يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِمُ مِّنَ السَّمَاءِ بیعت کے ساتھ ہی قادیان اور اہلِ قادیان کی محبت دل میں گھر گئی اپنے شوہر سے فرمائش کی کہ میں آپ سے کچھ نہیں مانگتی صرف یہ وعدہ کریں کہ مجھے قادیان جانے سے نہیں روکیں گے.ہرسیاں سے قادیان کے چکر لگنے لگے عموماً نماز جمعہ کے لئے قادیان جاتے.آپ کی ایک سہیلی محترمہ برکت بی بی جس کا تعلق تلونڈی جھنگلاں سے تھا، بھی آپ کے ساتھ اکثر قادیان آتیں.ہرسیاں سے قادیان جمعہ پڑھنے جانے کا ذکر حضرت منشی سر بلند خان صاحب کے بیعت کے واقعے میں بھی ملتا ہے آپ لکھتے ہیں : میں نے اپنی رہائش موضع شیر پور میں اختیار کر لی ہر سیاں گاؤں ساتھ تھا وہاں مولوی عبد الغفور صاحب فاضل مرحوم کے والد میاں فضل محمد صاحب رہتے تھے.اُن کی صحبت حاصل ہوگئی اور میں نے ان کے ساتھ ہر جمعہ کو قادیان جانا شروع کیا.لاہور تاریخ احمدیت صفحہ 341) حضرت برکت بی بی صاحبہ قادیان آتیں تو حضرت اماں جان کے پاس ہی قیام ہوتا آپ آتے ہی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگتیں.کھانے پکانے میں کافی مہارت تھی 62
زنده درخت آپ نے کھانا پکا یا تو حضرت اقدس مسیح موعود نے پسند فرمایا اور پوچھا.نصرت آج کھانا کس نے پکایا ہے؟ آپ نے بتایا کہ آپ کی نئی مریدنی نے حضرت اقدس نے از راہ شفقت ارشاد فرمایا:- کہ اب یہ جب بھی آئیں کھانا یہی پکایا کریں.حضرت اماں جان نے بھی خوب اطاعت کی.جب قادیان آتیں آپ فرماتیں برکت بی بی اب باورچی خانہ سنبھالو.اس طرح حضرت دادی جان کو ایک نہایت با برکت خدمت کی توفیق ملی.آپ قادیان آتیں تو کئی کئی دن ٹھہر جاتیں.یہ گھر ہی ایسا با برکت تھا کہ واپس جانے کو دل نہ چاہتا.اُدھر حضرت اماں جان اس قدر محبت کرنے والی شفیق خاتون تھیں کہ آپ کا دل بھی نہ چاہتا کہ وہ واپس چلی جائیں کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ جب میاں صاحب آپ کو لینے کے لئے آتے تو حضرت اماں جان فرماتیں.فضل محمد برکت بی بی کو چند دن اور رہنے دو پھر آکر لے جانا.اور وہ ان دونوں کا پیار دیکھ کر تنہا واپس لوٹ جاتے.حضرت اقدس کی بچوں پر شفقت کی ایک حسین مثال آپ جب حضرت اقدس کے یہاں تشریف لاتیں تو بڑی بچی رحیم بی بی کو بھی ساتھ لے آتیں.ایک بے حد دلچسپ واقعہ اس بچی کی ایک بھولپن کی فرمائش کا محترمہ اہلیہ حضرت مولوی غلام نبی مصری صاحب نے سنایا.واقعہ یوں ہوا کہ حضرت مسیح موعود کسی تصنیف میں مصروف تھے.بچی حضرت صاحب کو پنکھا کر رہی تھی خدا جانے اس بچی کے دل میں کیا آیا کہ وہ ایک کھڑکی پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور کہنے لگی.66 حضرت جی آپ یہاں آجائیں تو میں آپ کو پنکھا کروں.“ اور حضرت اقدس اپنا کام چھوڑ کر بچی کی دلجوئی کی خاطر اٹھ کر کھڑکی کے پاس تشریف 63
لے آئے.زنده درخت اس دلچسپ واقعہ کا ذکر lan Adamson نے اپنی کتاب Mirza Ghulam Ahmed of Qadian کے صفحہ 144 پر کیا ہے: One of his wife's friend often stayed with them for a month.Her little daughter occasionally amused herself by coming into his room and fanning him as he worked.One day she found it more interesting to sit by the window.She told him, "Come and sit over here.It is easier for me." Ahmad duely got up and sat where she had directed.برکت بی بی صاحب تعلیم یافت تھیں : رجسٹر روایات میں درج روایات کے مطابق آپ اپنے شوہر کے ساتھ گاؤں کے مرحوم قاضی کے بچوں کو قرآن شریف اور کتابیں پڑھاتی تھیں.جلہ کے مہمانوں کی خدمت: کتنا دلکش و دلفریب وہ زمانہ تھا جب شمع احمدیت کے پروانے جلسہ سالانہ کے لئے قافلوں کی صورت میں دیوانہ وار پیدل چل کر قادیان جاتے تھے.کبھی ان قافلوں کا پڑاؤ سیکھواں میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس کے ہاں ہوتا کبھی ہرسیاں میں ٹھہرتے.یہ قافلے دن اور رات میں کسی وقت بھی آجاتے.آپ بڑی مستعدی سے مبارک قافلے کے قیام و طعام کا انتظام فرماتیں بلکہ اظہار تشکر فرماتیں کہ سب اللہ تعالیٰ کا کرم اور مسیح پاک کی برکت ہے کہ اُس کے عاشقوں کی خدمت کا موقع ملا.قادیان ہجرت کا باعث حضرت برکت بی بی صاحبہ نہیں : قادیان کے قریب آنے کی خواہش میں قادیان کے جنوب میں آدھ میل کے فاصلہ پر 64
زنده درخت ایک گاؤں منگل باغباناں میں ایک مکان لیا اور بچوں کے ساتھ اُس میں منتقل ہو گئیں.قادیان قریب تر ہو گیا مگر اتنی دوری بھی گوارا نہ ہوئی اور بالآخر قادیان ہجرت کرنے کا فیصلہ کرلیا 1917 1916ء میں جس علاقے میں مکان بنوا یاوہ بعد میں دار الفضل کہلایا.قادیان ہجرت کرنے کا فیصلہ برکت بی بی صاحبہ کا تھا جس نے آئندہ آنے والی نسلوں کی قسمتوں کے رُخ موڑ دئے.آپ کس قدر مضبوط ایمانی قوت کی مالکہ ہوں گی اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر گھر بار چھوڑ کر اپنے محبوب کی بستی میں دھونی رمائی.آپ نے ایک دفعہ خواب دیکھا : میں قادیان گئی ہوں.چھوٹا سا بچہ میری گود میں ہے.لنگر خانہ گئی ہوں اور لنگر خانے والوں سے کہا ہے کہ مجھے کچھ کھانا دیں.انہوں نے پوچھا آپ کہاں سے آئی ہیں.میں نے کہا دیاں گڑھ سے.انہوں نے کہا دیال گڑھ والوں کے لئے یہاں کھانا نہیں ہے.میں نے کہا کھانا دیں نہ دیں میں تو یہاں سے نہیں جاؤں گی.میں نے لنگر خانے میں ایک طرف چار پائی بچھائی اور بچے کو ساتھ لے کر وہاں لیٹ گئی.“ عجیب رنگ میں یہ خواب پورا ہوا.جب ہر سیاں کو چھوڑ کر یہ خاندان قادیان کی مقدس بستی میں منتقل ہو گیا تو آپ 1917ء میں ایک بچے کی پیدائش کے بعد بیمار ہو گئیں.اسی بیماری میں آپ کا وصال ہوا بچہ پہلے ہی فوت ہو گیا تھا.کھانے سے مراد زندگی ہوتی ہے.قادیان رہائش کے ساتھ دنیا سے دانہ پانی اُٹھ گیا مگر دائمی لنگر خانے میں دوسری زندگی کا آغاز ہوا.ماں بچہ دونوں ہی قبر میں لیٹ گئے.آپ کی بڑی بیٹی رحیم بی بی صاحبہ روایت کرتی ہیں کہ جب اماں جان کو آپ کی وفات کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا: دفضل محمد چراغ لے کر ڈھونڈ میں اب برکت بی بی اُن کو نہیں مل سکے گی.“ 65
زنده درخت حضرت اماں جان کا برکت بی بی صاحبہ کے بچوں سے پیار اور شفقت : برکت بی بی صاحبہ حضرت سیدہ کی خدمت میں رہتی تھیں.ماں کے ساتھ بچے لگے رہتے ہوں گے اور آپ کے سایہ عاطفت میں پہلے ہوں گے.چند واقعات سے باہمی محبت کا اندازہ ہوتا ہے.ہم نے وہ زمانے آنکھوں سے نہیں دیکھے مگر اندازہ کر سکتے ہیں.حضرت سیدہ نے ایک مرتبہ آپ کی بیٹی صالحہ بی بی کو بلا یا تیل کی شیشی لائیں اور فرمایا صالحہ آؤ میں تمہارے سر میں تیل لگا دوں خواب میں دیکھا تھا کہ تمہارے سر میں تیل لگا رہی ہوں سوچا اس خواب کو عملی طور پر پورا کر لیں.سبحان اللہ کیا نصیبے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود کی دعا کی برکت سے عطا ہونے والی اولاد کو الدار میں حضرت اماں جان کی شفقتوں کی نعماء میسر آئیں.حضرت اماں جان کی وسیع القلبی اور مرحومہ سے تعلقات محبت نباہنے کا عجیب روح پرور انداز تھا.سوچا جائے تو کوئی نسبت ہی نہ تھی کہاں ایک غریب دیہاتی عورت اور کہاں مسیح و مہدی دوراں کی رفیقہ حیات مگر میل ومحبت نے سب فاصلے مٹادئے.برکت بی بی صاحبہ کی بیٹی صالحہ جوانی میں بیوہ ہو گئیں.یہ خبر حضرت اماں جان کو ملی اُس وقت آپ کی طبیعت علیل تھی.آپ بے چین ہو گئیں اور فوراً اظہار افسوس کے لئے جانے کا ارادہ فرما یا کسی نے عرض کی کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے بعد میں تشریف لے جائے مگر آپ نے فرمایا.برکت جو میری عاشق تھی اُس کی بچی بیوہ ہوگئی ہے اس لئے میں ضرور جاؤں گی.“ دوسری بیٹی احمد بی بی صاحبہ ایک دفعہ بیمار ہو گئیں ماں نے حضرت اماں جان کی محبت اس قدر راسخ کر رکھی تھی کہ بیماری میں ایک ہی اصرار تھا کہ اماں جان کو ایک نظر دیکھنا چاہتی ہوں.اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ آپ قریب ہی کسی تعزیت کے لئے تشریف لائیں.اُن کی خدمت میں احمد بی بی صاحبہ کی شدید خواہش کا ذکر کیا گیا آپ از راہ شفقت گھر تشریف لے آئیں.برکت بی بی مرحومہ کی بیٹی کی خواہش پوری کر دی اُن کی یہ خواہش آخری ثابت ہوئی کیونکہ جلد بعد وہ وفات پاگئیں.66
زنده درخت خاکسار راقمہ کے اباجان نے اپنی پیاری ماں کی یاد کے حوالے سے دو باتیں بتائیں پہلی بات اپنی شادی کے وقت اُن کی فراست اور توکل علی اللہ کی جو ایک مثال ہے.ان کا یہ اندازہ کہ جس بچی کو وہ دیکھ کر آئی تھیں جنت کی حور ہے زندگی بھر کے ساتھ نے ثابت کیا که حقیقتاً درست تھا.دوسری یا د قادیان ہجرت کرنے کے بعد کی ہے قادیان جس محلے میں آپ نے مکان بنایا اُس کا نام حضور انور نے دارالفضل“ اور مکان کا نام فضل منزل رکھا.حضرت اماں جان ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند کرے) تشریف لائیں تو فرمایا: برکت بی بی آپ کو مبارک ہو.آپ کو زمین بھی مل گئی اور نام بھی آپ کے میاں کے نام پر دار الفضل رکھا گیا.محتر مہ صادقہ صاحبہ اہلیہ مولوی محمد شریف صاحب جو خاکسار کی پھوپھی ہیں تحریر کرتی ہیں :.”ایک دفعہ والدہ برکت بی بی صاحبہ نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود اپنے گھر میں ٹہل رہے ہیں اور ان کے ہاتھ میں ایک کتاب ہے اور بغل میں سبز رنگ کے کپڑے کا تھان ہے.اتنے میں حضرت مولانا نورالدین صاحب تشریف لے آئے تو حضرت اقدس نے وہ کتاب اور سبز رنگ کے کپڑے کا تھان مولانا نورالدین صاحب کو دے دیا اور تشریف لے گئے.پھر وہیں مولانا نور الدین صاحب ٹہلنے لگ گئے کہ اتنے میں میاں محمود تشریف لے آئے تو مولانا نورالدین صاحب نے وہ کتاب اور سبز رنگ کے کپڑے کا تھان میاں محمود کو دے دیا.اور چلے گئے.اب مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ یہ خواب والدہ صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود کو سنائی یا نہیں.ہاں یہ یاد ہے کہ والدہ نے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو یہ خواب سنائی تھی تو حضور نے فرمایا تھا کہ یہ خواب چھپواد ہیں.مجھے یاد نہیں کہ انہوں نے یہ خواب چھپوائی یا نہیں.“ (الفضل 25 /اگست 2001ء) بزرگوں کے تذکرہ کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے دُعا نکلتی ہے کہ مولا کریم ہمیں بھی ان کی قربانیوں کے صدقے اپنے فضل واحسان سے اپنے چنیدہ بندوں میں شامل کرے.آمين اللهم آمين 67
زنده درخت -12 محترمہ صوباں بی بی صاحبہ بی اہلیہ ثانی حضرت میاں فضل محمد صاحب.ہر سیاں والے اکتوبر 1917ء میں محترمہ برکت بی بی صاحبہ کی وفات کے بعد خاندان پر ایسا وقت آیا کہ کوئی بھی خاتون گھر میں کھانے پکانے اور بچوں کی نگہداشت کے لئے نہ رہی.کریم بی بی صاحبہ اور احمد بی بی صاحبہ کی وفات ہوگئی ، رحیم بی بی صاحبہ کی شادی ہو گئی.صالحہ بی بی صاحبہ اور حلیمہ بی بی صاحبہ بہت چھوٹی تھیں.اس خلا کو دیکھتے ہوئے حضرت خلیفۃ امسیح الثانی نے میاں صاحب کو دوسری شادی کا مشورہ دیا اور خود ہی قادیان کے ایک تاجر احمد دین صاحب کی بیوہ صوباں بی بی صاحبہ سے رشتہ تجویز فرمایا.ان کے تین بچے تھے.دو بیٹیاں سردار بیگم صاحبہ اور فاطمہ بیگم صاحبہ اور ایک بیٹا محمدعبداللہ صاحب.آپ شوہر کی وفات کے بعد بچوں کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے گھر میں رہنے لگی تھیں.میاں فضل محمد صاحب سے شادی کے بعد آپ کے دو بچے ہوئے صادقہ شریف صاحبہ اور عبدالحمید صاحب آف نیو یارک.خاکسار کی درخواست پر پھوپھی صادقہ صاحبہ نے محترمہ صوباں بیگم صاحبہ کے حالات بیان کئے : میری والدہ محترمہ صوباں بی بی صاحبہ بہت نیک فطرت، خدا ترس ،غریبوں کی ہمدرداور ہر ایک سے حسن سلوک کرنے والی تھیں، اُن کی خواہش ہوتی کہ ہر کسی کے کام آئیں.خاموشی سے خدمت کرتیں اگر کوئی کچھ کہ بی دیتا و برداشت کر لیتیں.ان میں صبر بہت تھا.خاندان مسیح موعود علیہ السلام خاص طور پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے بہت محبت کرتیں.اکثر روزانہ یا کبھی ایک دو ناغہ ڈال کر حضور کے گھر جاتیں حضور بھی بہت شفقت 68
زنده درخت سے پیش آتے.ہماری صوباں ، ہماری گورنر کہہ کر بلاتے.ایک دن اماں حضور کے گھر گئیں تو پتہ چلا کہ حضرت امی جان ام ناصر صاحبہ نے ایک تیرہ چودہ سال کے لڑکے کوکسی کام سے بازار بھیجا تھا اس نے واپس آکر بتایا کہ کسی نے ایک پڑیا دی کہ حضور کے آگے کھانا پیش ہو تو کسی طرح اُس میں ڈال دینا.جب ڈال دو گے تو بہت روپے دیں گے.اماں واپس گھر گئیں تو ابا جان کو یہ بات بتائی.آپ کو بے حد فکر ہوا اور کہا کہ صوباں اب تم جا کر حضرت صاحب کا کھانا پکایا کرو.اور خاص حفاظت سے پیش کیا کرو.اماں نے جا کر حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح میاں صاحب نے کہا ہے.آپ نے فرمایا: صوباں میری تو ہر روز کھانے کی باری ہوتی ہے تم کدھر کدھر جا کر پکاؤ گی.میرا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دو وہ خود میری حفاظت فرماتا ہے.“ ایک دفعہ میرے بھائی صالح محمد صاحب نے اماں کو ایک خط دیا کہ حضور کی خدمت میں پیش کریں.ان دنوں حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی حضور کی باری اُن کی طرف تھی.اماں گئیں تو حضرت چھوٹی آپا نے بتایا کہ حضور کی آنکھ لگ گئی ہے اماں نے خط حضرت چھوٹی آپا کو دے دیا اتنے میں حضور کی آنکھ کھل گئی پوچھا مریم کون ہے؟ چھوٹی آپا نے بتایا کہ ایک عورت آئی ہے خط دے گئی ہے.آپ نے فرمایا اُس کو ملا لو.جب اماں پر نظر پڑی تو حضرت چھوٹی آپا کو سمجھانے کے لئے فرما یا.دیکھو یہ کوئی عورت نہیں ہے یہ تو صوباں ہے.تین دفعہ اسی طرح فرمایا.اور سمجھانے کے انداز میں فرمایا یہ صوباں تو ہماری گورنر ہے اسے کوئی عورت نہیں کہنا.دار الفضل میں ہمارے گھر سے آگے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا باغ تھا.حضرت اماں جان اپنے خاندان مبارکہ کی بہو بیٹیوں کے ساتھ باغ میں آتیں تو ذرا دیر کو ہمارے گھر بھی تشریف لاتیں.فرماتیں میں تو صرف یہ دیکھنے آئی ہوں.صوباں کیسی ہے اور کیا کر رہی ہے.اماں کو قرآن شریف سے بہت پیار تھا.پڑھ نہ سکتی تھیں.کسی سے لفظ لفظ سبق لے کر 69
زنده درخت زبانی دہراتی رہتیں.اس طرح بہت سی سورتیں یاد کر لی تھیں.ایک دفعہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے فرمایا کہ ہر عورت قرآن مجید پڑھنا جانتی ہو.جو نہیں جانتی وہ قاعدہ پڑھے.جن کو آتا ہے آگے دس دس عورتوں کو پڑھائیں.میری اماں میرے حصے میں آئی تھیں.بڑے شوق سے قاعدہ پڑھتیں مگر مکمل نہ کر سکیں زندگی مکمل ہو گئی تھی.اماں ہمیں ہمیشہ بڑی اماں سے جو بہن بھائی تھے اُن سے عزت، ادب اور پیار سے پیش آنے کی تاکید کرتیں.آپ کے مزاج میں جو پیار محبت تھا اُس نے گھر میں پیار محبت کی فضا بنائی ہوئی تھی.آپ کو اس فضا کی مثال دیتی ہوں میرے بھائی محترم عبدالرحیم صاحب دیانت درویش ( اللہ تعالیٰ اُن کو اُونچی جنت نصیب کرے) پہلے ہمارے ساتھ ہی دار الفضل والے مکان میں رہتے تھے جب الگ دکان شروع کی تو روز آنا جانا مشکل لگتا آپ نے والدین کے مشورے اور اجازت سے دارالفتوح میں اپنا مکان بنایا اور اُس میں منتقل ہو گئے.مگر روزانہ ہم سے ملنے آتے شاذ ہی کبھی ناغہ ہوتا.اماں اُن کے آنے سے بہت خوش ہوتیں.ہماری بھابی آمنہ بیگم ، اللہ بخشے، بہت نیک مزاج، ملنسار اور سب کا دل خوش کرنے والی بھائی تھیں.ایک دن اماں اُن کے گھر گئیں تو بھابی سے پوچھا عبدالرحیم صبح اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے؟ بھابی نے کہا نہیں تو اماں نے کہا پہلے آواز دے کر جگانا پھر منہ پر پانی کا ہلکا چھینٹا دے کر جگانا.تاکہ صبح کی نماز قضا نہ ہو.بھائی جوانی میں بہت غصے والے تھے جب بھابی نے جگانے کے لئے پانی کا چھینٹا مارا تو گرم ہو گئے.آمنہ یہ کیا؟ بھابی نے کہا آپ کی اماں نے کہا تھا.ایک دم خاموش ہو گئے اور اماں کے احترام کی وجہ سے کچھ نہ کہا.مگر صبح کی نماز کے لئے اُٹھنے لگے.اماں جب بھی ان کے گھر جاتیں محبت سے بچھے جاتے ، بچے بھی آکر لپٹ جاتے ہمارے لئے وہ دن بہت خوشی کا ہوتا جب عید الفطر سے ایک دن پہلے بھائی بھائی بچوں کے ساتھ ہمارے گھر آتے اور سویاں بنتیں اُس زمانے میں بازار سے سویاں لینے کا رواج نہ تھا گھروں میں مشینوں پر بنائی جاتیں.بھائی پہلے بتا جاتے کہ ہم فلاں دن آئیں گے.پھر سارا دن کوئی میدہ گوندھتا کوئی مشین چلاتا کوئی 70
زنده درخت ڈوریوں پر سویاں سوکھنے کے لئے ڈالتا ہم بچے کھیلتے رہتے.اگلے دن اماں ساری سویاں بھون کر بھائی کے گھر دے آتیں بھابی کی خواہش ہوتی کہ عیدالفطر کی سویاں اور عیدی وغیرہ اور عیدالاضحی کی قربانی کا گوشت اماں ہی بانٹیں اکثر اماں کو لے جایا کرتے کبھی بھابی یا کوئی بچہ بیمار ہوا اماں کچھ دن وہیں رہتیں بھائی اماں کے بہت فرماں بردار اور خدمت گزار تھے.اس بات کا اماں کو بھی احساس تھا سارا دکھ دردان سے ہی کرتی تھیں.جب اماں کی آخری بیماری تھی.بھائی کو دفتر کی طرف سے وقفِ عارضی پر کشمیر جانے کا حکم ملا وقت کم تھا تیاری بھی کرنی تھی.ملنے کے لئے نہ آسکے بھائی کو پیغام دیا کہ اماں کو میرا دعا سلام کہہ دینا اور معذرت کر دینا.بھائی بھی کسی وجہ سے نہ آسکیں فاصلے بھی کافی تھے پیدل آنا ہوتا تھا.جب بھائی آئیں تو اماں نے چھٹتے ہی کہا کیا بات ہے آمنہ عبدالرحیم چار دن سے نہیں آیا.بھابی نے سارا پیغام دیا تو اماں نے بڑی حسرت سے کہا عبدالرحیم تم مجھے ملے بغیر ہی چلے گئے اب پتہ نہیں نصیب میں ملاقات ہے بھی یا نہیں.میری فرض شناس بھابی نے یہ سب خط میں لکھ کر بھیج دیا کہ آپ کی اتاں نے آپ کے پیغام کے جواب میں یہ کہا ہے.بھائی نے خط ملتے ہی ایک خط دفتر والوں کو لکھا کہ میں واپس آنا چاہتا ہوں.خدمت دین کے مواقع اللہ تعالیٰ پھر بھی دے دے گا مگر ماں کی خدمت کا موقع پھر شائد نہ ملے.بھائی واپس آئے اماں کو بہت محبت سے ملے اور اپنے مکان کے نیچے کرایے پر دی ہوئی دکانوں میں سے ایک دکان دو دن کے نوٹس پر خالی کروا کے اماں کو اپنے پاس لے آئے.وہاں علاج معالجے کی سہولتیں بھی زیادہ تھیں.اماں کا ہر لحاظ سے خیال رکھا ، غذا، علاج تیمارداری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی.بھائی کے گھر آنے کے چودھویں دن اماں کا انتقال ہو گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو علم ہوا تو فرمایا جنازہ تیار ہو تو اطلاع دیں میں خود جنازہ پڑھاؤں گا.اللہ کے فضل واحسان سے حضور نے جنازہ پڑھایا.اماں قادیان میں مدفون ہیں.بھائی کی خدمت گزاری اور فرماں برداری کا نقش ابھی تک قائم ہے.اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے.بھابی نے بھی بہت خدمت کی، بعد میں بھی بہت 71
زنده درخت یاد کرتی تھیں کہ ہم ساس بہو سہیلیوں کی طرح رہتے تھے.ہر دکھ سکھ کر لیا کرتے تھے آج کل سگی اولا داتا نہیں کرتی مگر اماں کے حسنِ سلوک نے اپنا عزت قدر کا مقام بنالیا تھا.اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آمین.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں آپ کا نمبر 527 ہے.آپ کا وصیت نمبر 2469 تھا.آپ کو لوائے احمدیت کے لئے سوت کاتنے کی سعادت حاصل ہوئی.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد اول کے صفحہ پر 452 پر چھیالیسویں نمبر پر آپ کا نام اس طرح لکھا ہے: صوباں بی بی صاحبہ اہلیہ بابا فضل محمد صاحب آف ہرسیاں محترمہ صوباں بی بی صاحبہ کی پہلی اولاد کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح ثانی کے سائے اور خدمت میں الدار میں رہنے کی توفیق ملی.پھر ایک ایسے خاندان میں مل جل کے پیار محبت سے رہنے کا موقع ملا جس کو مسیحائے زماں سے خیر و برکت کی نوید ملی تھی مختصر تعارف درج ذیل ہے.1- محترمہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم محمد جیون صاحب (1908-1986) بہت ملنسار نفاست پسند اور مہمان نواز خاتون تھیں خاندان حضرت اقدس مسیح موعود سے والہانہ لگاؤ تھا.ان کی بڑی بیٹی محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ (اہلیہ محترم نسیم سیفی صاحب مرحوم ایڈیٹر الفضل) کو نائجیر یا اور ربوہ میں نمایاں خدمت دین کی توفیق ملی دوسری بیٹی محترمہ سلیمہ بیگم صاحبہ نصرت گرلز ہائی سکول میں ٹیچر تھیں.دو بیٹے محمد رشید صاحب ( ربوہ ) اور عبدالسمیع صاحب ( کینیڈا) بھی مختلف عہدوں پر جماعتی خدمات کی توفیق پارہے ہیں 2- محترم محمد عبد اللہ صاحب سادہ دل، شریف النفس انسان تھے 17 جون 1960ء کو ربوہ میں وفات پائی.پہلی بیوی سردار بیگم صاحبہ سے ایک بیٹے حمید اللہ صاحب ہیں دوسری بیوی محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ سے چھ بچے ہیں : -- محتر مہ امة الحئی صاحبہ اہلیہ محترم محمد رفیق صاحب، کراچی 72
زنده درخت i- محترمہ امتہ المتین صاحبہ اہلیہ محترم ظریف احمد صاحب، فلاڈلفیا امریکہ) iii محترمہ امۃ الجمیل صاحبہ اہلیہ محترم محمد شفیق احمد صاحب، ربوه ۱۷- محترمہ مبشره طیبه صاحبہ اہلیہ محترم عبدالحفیظ صاحب، کراچی محترم ضیاء اللہ مبشر صاحب مربی سلسلہ، جاپان vi- محترم وفاء اللہ مبارک صاحب، ربوہ 3 - محترمہ سردار بیگم صاحبہ (اہلیہ محترم احمد دین صاحب جمیل ) سکول میں حضرت صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کی کلاس فیلو اور بچپن کی سہیلی تھیں.1959ء میں شوہر کی وفات کے بعد محلہ دار البرکات ربوہ میں رہائش اختیار کی تو حضرت صاحبزادی صاحبہ کی مرکزی صدارت میں آپ کو بحیثیت صدر محلہ خدمات کا موقع ملا.بے حد سادہ کفایت شعار سلیقہ مند متقی با وقار دعا گو خدا ترس، غریبوں کی ہمدرد نافع الناس خاتون تھیں قرآن مجید اور سلسلہ کی کتب خصوصاً منظوم کلام پڑھنے اور پڑھانے میں لطف محسوس کرتیں 1994ء میں امریکہ منتقل ہو گئیں وہاں بھی یہ شوق جاری رہا.بچوں کی تعلیم و تربیت کی دوہری ذمہ داری حسن و خوبی سے ادا کی.20 جنوری 2011ء کو ہیوسٹن ٹیکساس امریکہ میں وفات پاگئیں.آپ کا وصیت نمبر 7108 تھا.اولاد - محترم عبدالہادی ناصر صاحب ( نیو یارک امریکہ ) ایم اے عربی ایم اے اسلامیات، ایم اوایل، لیکچر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ قریباً تیس سال سے نیو یارک میں طاہر کلاس کے ذریعہ جماعت کے بچوں کی دینی تعلیم و تربیت کی توفیق پارہے ہیں.ii- محترمہ رضیہ اختر صاحبہ مرحومہ اہلیہ ڈاکٹر رشید احمد اختر مرحوم ( آف فیصل آباد پاکستان ) ہیوسٹن امریکہ میں وفات پاگئیں.iii- محترم مبارک احمد ناصر جمیل صاحب.( نیو یارک امریکہ ) شاہد جامعہ احمدیہ 73
زنده درخت ربوہ ایم اے عربی ایم اے اسلامیات، مولوی فاضل ایم او ایل لاہور میں لمبا عرصہ بحیثیت مربی سلسلہ خدمات ادا کیں اب امریکہ میں مقیم ہیں ۱۷- محترم ڈاکٹر بشارت احمد ناصر جمیل صاحب مرحوم.ایم اے ریاضی پنجاب.پی ایچ ڈی نیو یارک.لمبا عرصہ امریکہ میں بطور ریاضی دان سروس کی.کئی اہم جماعتی خدمات خاص طور حضرت خلیفۃ اسیح الرابع کے مفوضہ امور سر انجام دئے.ہیں.۷- محترمہ ناصرہ دین صاحبہ ( نیوجرسی امریکہ ) بچوں کی تدریس کے شعبہ سے منسلک vi- محترم عبدالسلام جمیل صاحب ( ہیوسٹن ٹیکساس امریکہ ) ایم اے اکنامکس پنجاب ایم بی اے نیویارک پہلے نیو یارک اور اب ہیوسٹن میں جماعت کی خدمات ادا کر رہے ہیں.vii - محترم ناصر احمد جمیل صاحب (بیل ایئر میری لینڈ امریکہ ) ایم ایس کمپیوٹر سائنس جان ہاپکنز یونیورسٹی ایم بی اے لویولا یو نیورسٹی بالٹی مور آپ بطور کمپیوٹر سائنٹسٹ اعلی عہدے پر فائز ہیں.23 سال سے جماعتی خدمات کی توفیق مل رہی ہے آجکل جماعت بالٹی مور کے نائب صدر ہیں.74
زنده درخت 13- حضرت میاں فضل محمد صاحب کی اولاد -1- محتر مہ رحیم بیا بی صاحبہ اہلیہ محترم ماسٹر عطا محمد صاحب حضرت میاں فضل محمد صاحب کی پہلی بیٹی تھیں ہرسیاں میں پیدا ہوئیں قبول احمدیت کے بعد جب قادیان آنا جانا شروع ہوا تو اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ الدار میں بچپن کے دن گزرے.حضرت اقدس کی شفقت اور بچی کی بھولی بھالی فرمائش کا واقعہ بے حد پر لطف ہے کہ حضرت اقدس کو پنکھا جھلتے جھلتے کھڑکی پر چڑھ کر بیٹھ گئیں اور کہا کہ اگر آپ یہاں آجائیں تو میں پنکھا جھلوں گی اور آپ تشریف لے آئے بچی کی فرمائش اپنی تصنیف کا کام چھوڑ کر پوری کر دی.اس طرح آپ بھی رفقائے مسیح موعود میں شامل ہو گئیں.ان کا رشتہ مکیریاں کے حضرت ماسٹر عطا محمد صاحب سے ہوا.رشتے کے لئے خط میں ماسٹر صاحب نے لکھا کہ نوجوان ہوں ملازم ہوں، چھوٹی سی ملازمت ہے ، رقم مل جائے تو ٹھیک ورنہ ٹھوٹھا اوندھا ( برتن اُلٹا ) ہو جاتا ہے، اس صاف گوئی پر توکل علی اللہ کرتے ہوئے میاں صاحب نے رشتہ قبول کر لیا.اللہ کے فضل سے دین کا ایسا خدمت گزار داماد ملا جس نے حکومت کی سروس سے ریٹائر ہو کر تیس سال تک جامعہ احمدیہ میں درس و تدریس کا کام کیا.آپ کے بیٹے نسیم سیفی صاحب واقف زندگی، مربی ، ایڈیٹر الفضل اپنی والدہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انہوں نے بچپن میں اپنی والدہ کو قادیان میں قیام کے دوران ہر روز صبح جاگنے کے بعد مکان کے ایک حصے میں تھڑے جیسے جائے عبادت پر بیٹھے.نماز پڑھتے اور دعائیں کرتے دیکھا اس کے بعد دعاؤں بھرے ہاتھوں سے ناشتہ دیتیں.بچوں کو پڑھانے کا بے حد شوق تھا.قادیان میں مکان بنانے کے شوق میں اپنا زیور اخراجات کے لئے دے دیا.14 اکتوبر 1928ء کو فوت ہوئیں.75
زنده درخت 2 - محترم ابوالبشارت حضرت مولانا عبدالغفور فاضل صاحب حضرت مولانا عبدالغفور صاحب 25/26 دسمبر 1898ء کی درمیانی شب ہر سیاں ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے.آپ کو بھی رفیق حضرت اقدس ہونے کا شرف حاصل ہے.آپ ابھی بچے ہی تھے کہ آپ کے والد محترم نے آپ کو حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش کر کے دین کے لئے وقف کر دیا.چنانچہ آپ نے مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائی.آپ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی زیر نگرانی وزیر تربیت تیار ہونے والے مربیان سلسلہ کے اولین گروپ میں شامل تھے.بحیثیت مربی و مبلغ سلسلہ آپ کو تقریباً 32 سال شاندار خدمات بجالانے کی توفیق ملی.ساٹھ سال کی عمر میں آپ صدر انجمن احمدیہ سے ریٹائر ہوئے تو آپ نے اپنے آپ کو تحریک جدید میں خدمت کے لئے پیش کر دیا مگر ابھی ایک سال ہی کام کیا تھا کہ 4 جنوری 1961ء کو 63 سال کی عمر میں آپ نے ربوہ میں داعی اجل کو لبیک کہا.موصی تھے بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.حضرت مولانا صاحب کو راولپنڈی میں سب سے پہلے مربی سلسلہ متعین ہونے کا اعزاز حاصل ہے اس کے علاوہ سرگودھا اور لاہور میں بھی طویل عرصہ بطور مربی انچارج خدمات بجالانے کی توفیق ملی.قیام پاکستان کے بعد آپ کی تقرری سرگودھا میں ہوئی جہاں سے آپ کا تبادلہ لاہور کے لئے ہوا.جہاں آپ نے پانچ چھ سال انتہائی محنت اور تندہی سے جماعت کی تعلیم و تربیت کا فریضہ باحسن انجام دیا آپ کے لاہور میں قیام کے ایام میں ہی 1953ء کے اینٹی احمد یہ فسادات ہوئے جن میں پاکستان کی دیگر جماعتوں کی طرح لاہور میں بھی چند احمدی شہید ہوئے ان انتہائی خطرناک اور نازک حالات میں حضرت مولانا عبد الغفور صاحب نے بیت احمد یہ بیرون دہلی دروازہ کی حفاظت کا فرض انتہائی بہادری اور خوش اسلوبی سے ادا کیا.( ملخص از لاہور تاریخ احمدیت صفحات 415-546-588) 76
زنده درخت جنوری 1953ء میں حضرت مصلح موعود نے ربوہ میں پاکستان بھر کے احمدی مبلغین کو شرف باریابی بخشا اور انہیں نہایت قیمتی نصائح سے نوازا یہ ملاقات دس سے بارہ بجے تک جاری رہی.اس زمانہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ تھے.حضور سے شرف باریابی حاصل کرنے والے مربیان میں حضرت مولانا غلام رسول را جیکی صاحب،حضرت مولا نا عبدالغفور صاحب، مولانا احمد خان صاحب نیم ، حضرت مولا نا رحمت علی صاحب کے علاوہ مولانا چراغ دین صاحب مربی راولپنڈی بھی شامل تھے.تاریخ احمدیت جلد 17 صفحہ 192 ضلع روالپنڈی تاریخ احمدیت صفحہ 372،371) آپ کی وفات پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے الفضل میں ایک نوٹ تحریر فرمایا جس میں سے ایک اقتباس حاضر ہے: مولانا مرحوم دو سال پیشتر قواعد صدرانجمن احمدیہ کے ماتحت ریٹائر ہو چکے تھے.مگر وہ ولولہ اور جوش ، جو ابتدا سے آپ کو اپنے نیک باپ سے ورثہ میں ملا تھا اور جسے بہترین اساتذہ نے جلا بخشا تھا، آپ کو آرام سے بیٹھنے نہیں دیتا تھا.چنانچہ مجالس انصار اللہ میں آپ زعیم اعلیٰ تھے اور جہاں موقعہ ملتا آپ شوق سے تقریر وغیرہ کے لئے تشریف لے جاتے.ابھی نومبر کے آخری عشرہ میں ہم چک 42 سرگودھا گئے تھے.مولوی صاحب موصوف نے وہاں ایک پر جوش تقریر فرمائی تھی.میں نے طالب علمی اور خدمات سلسلہ کے طویل عرصہ میں اخویم محترم مولانا ابوالبشارت صاحب کو نہایت متقی اور سلسلہ کا غیور سپاہی ہی پایا ہے.آپ نے تقریر اور مباحثہ کے میدان میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دی ہیں.تقسیم ملک سے پہلے اڑیسہ، شکر گڑھ کے علاقہ میں عرصہ دراز تک متعین رہے اور ہندوستان پھر پاکستان کے اکثر علاقوں کا تبلیغی دورہ کیا.ملک کے طول وعرض میں......احمدیت کی صداقت کا اعلان فرماتے رہے.آپ کی طبیعت تکلف اور ریا کاری سے بہت دور تھی.سفر میں ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے تھے اور ایک زندہ دل ساتھی 77
زنده درخت ثابت ہوتے.اگر کبھی کوئی غلط فہمی پیدا ہوتی تو فوراً اس کی اصلاح ہو جاتی تھی.ایک جفاکش اور نڈر خادم سلسلہ تھے.آپ کی خاص خاص تقریریں بہت گہرے معارف اور عشق نبی پر مشتمل ہوتی تھیں اور بہت پسند کی جاتی تھیں.“ -3- محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان اب دوم میں ملاحظ حظہ کیجئے ) -4- محترم مولوی صالح محمد صاحب مربی سلسلہ بزرگ والدین کی مبشر خوابوں کے مطابق 12 فروری 1906ء کو ایک بیٹا پیدا ہوا حسب معمول حضرت مسیح موعود سے نام رکھنے کی درخواست کی گئی.تو آپ نے فرمایا بچے کا نام غلام محمد رکھ لیں.عرض کیا گیا یہ تو اس کے تایا کا نام ہے تو آپ نے صالح محمد نام عطا فرمایا.خدا تعالیٰ کی قدرت کہ یہ وہی نام تھا جو آپ کی والدہ صاحبہ نے خواب میں دیکھا تھا.حضرت اقدس سے اس خواب کا ذکر نہیں کیا گیا تھا.آپ بہت متقی، پرہیز گار اور عبادت گزار تھے.خدا تعالیٰ کے احکامات کی انتہا تک بجا آوری کرتے اور ایسا ہی سب سے چاہتے.سچی اور کھری بات کہنے کے عادی تھے.جامعہ میں تعلیم پائی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہم جماعت تھے.آپ کی اہلیہ کا نام فاطمہ بیگم صاحبہ بنت محترم غلام رسول صاحب ٹھیکیدار تھا آپ مع فیملی 12 سال 1933 تا 1945 ء امراؤ تی C.P برار میں رہے.جہاں آپ کی اہلیہ سکول ٹیچر تھیں یہ شہر قادیان سے بہت دور تھا.احمدیت کی مخالفت بھی تھی آپ ہمیشہ اپنے نام کے ساتھ احمدی لکھتے اس لئے بھی بدخواہوں کی نظروں میں آ جاتے.1945ء میں ایک افسوسناک حادثہ کا سامنا کرنا پڑا.چھوٹی بچی جس کی عمر 5 سال کی تھی مختصر علالت کے بعد 78
زنده درخت وفات پاگئی.گھر پر نماز جنازہ پڑھائی اب تدفین کا مرحلہ آیا تو لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے.ایک گروہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانے کے حق میں تھا دوسرا مخالف تھا.جھگڑے کی صورت پیدا ہوگئی وہاں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کے کچھ واقعات ہو چکے تھے یہ سخت آزمائش کا وقت تھا.پولیس کی مدد سے فساد سے بچاؤ ہو گیا.آپ اس واقعہ کے بعد قادیان واپس آگئے اور 1946ء میں زندگی وقف کر دی جنوری 1948ء میں آ.کی تقرری غانا مغربی افریقہ میں بطور تاجر مبلغ ہوئی.آپ کے والد صاحب کے خواب میں اللہ تعالیٰ نے آپکا نام ملک غنی بتایا تھا.عجیب قدرت خداوندی ہے کہ سب اولاد میں سے صرف آپ کو سمندر پارسفر اور قیام کے مواقع میسر آئے اور وہ بھی طویل عرصہ تک، آپ نے 30 سال کا عرصہ وطن سے دور گزارا.1963 میں واپس آئے.غانا سے واپسی کے بعد فیکٹری ایریا میں سکونت اختیار کی.اس حلقہ کی بیت میں کئی سال با قاعدگی سے درس قرآن دیتے رہے، مختلف جماعتی عہدے بھی آپ کے پاس رہے.واقف زندگی ، خادم سلسلہ کے تمام حالات اور معاملات کا نگہبان اور کفیل اللہ تعالیٰ خود ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے بچوں کی اچھی تربیت و تعلیم کی توفیق دی.آخری بیماری میں آپ کے بیٹے لیفٹینٹ کرنل (ر) نیم سیفی صاحب اور ان کی بیگم امتہ الرافع صاحبہ نے خدمت کا موقع پایا.اللہ تعالیٰ اجرعظیم سے نوازے.مولوی صاحب موصوف کی یاداشتوں میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہوا ملا ہے: 1955ء کی بات ہے حضرت مصلح موعود لندن تشریف لائے میں بھی اُن دنوں لندن میں تھا.ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو دیکھا کہ پان کھا رہے ہیں میں نے حیران ہو کر پوچھا ڈاکٹر صاحب یہ پان کہاں سے؟ فرما یا والدہ صاحبہ ناصر احمد کو ٹیکہ لگانے گیا تھا انہوں نے عنایت فرمایا ہے پھر مجھ سے پوچھا کہ آپ بھی کھایا کرتے ہیں میں نے عرض کی کھایا ہی کرتا ہوں مگر اب یہاں نہیں ملتے.79
زنده درخت فرما یا کل جب میں ٹیکہ لگانے جاؤں گا تو آپ کے لئے بھی لگوالا ؤں گا.اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے آپ کے لئے پان کی درخواست کی تو حضرت اُم ناصر نے فرما یا صالح محمد تو ہمارا اپنا بچہ ہے اور ہمارے گھر اور خاندان کا ایک فرد ہے میں خود اپنے ہاتھ سے پان لگا کر دیتی ہوں.آپ بہت خوش نصیب ہیں آپ کو امی جان نے پان لگا کر عنایت کیا ہے.میں ہزار جان سے صدقے اپنے مولا کے جس کی عنایت سے مجھ پر اور ہمارے خاندان پر از راہ غلام نوازی خاندان مسیح پاک کی شفقتیں رحمت کی بارش کی طرح برستی رہیں.“ 5- محترمہ صالحہ فاطمہ صاحبہ اہلیہ محترم غلام محمد صاحب 10اکتوبر 1908ء کو ہرسیاں میں پیدا ہوئیں.محترم غلام محمد صاحب سے شادی ہوئی جو دو بیٹے اور اکیس دن کی ایک بیٹی یادگار چھوڑ کر 1938ء میں انتقال کر گئے.جوانی میں بیوگی کا صدمہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور صبر و حوصلہ سے برداشت کیا.وقار اور سادگی سے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں دن رات ایک کر دیا.محنت کی عادی تھیں، صبح تہجد کے بعد چکی پیتیں.بچوں کو دین سے وابستہ رکھنے کے لئے غیر معمولی کوشش کرتیں.تقسیم برصغیر کے وقت بڑے بیٹے عبدالسمیع صاحب قادیان رہ گئے تو وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ بے سروسامانی کی حالت میں لاہور آگئیں.بعد میں بڑے بیٹے نے شفا میڈیکوڑ کے نام سے لاہور میں کاروبار کیا جو خوب ترقی کر گیا.قرآن کریم پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا بیک وقت کئی بچے اور کئی بڑی عورتیں قرآن پاک پڑھتیں.حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کی شفقت کے دو واقعات سنایا کرتیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان کے گھر گئیں تو وہ تیل کی شیشی اٹھالا ئیں اور فرمایا میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ تمہارے سر میں تیل لگارہی ہوں اب میں اس خواب کو ظاہراً بھی پورا 80
زنده درخت کر لیتی ہوں.اس طرح اس شفیق ہستی نے آپ کے سر میں تیل لگایا.دوسرے جب آپ کے شوہر کا انتقال ہوا تو حضرت اماں جان باوجود ناسازی طبع کے تعزیت کے لئے تشریف لائیں.کسی نے کہا کہ آپ بعد میں آجاتیں اس قدر تکلیف کیوں کی تو فرمایا کہ اس کی ماں برکت بی بی میری عاشق تھیں میں کیسے اس کے دکھ درد میں شریک نہ ہوتی.محترمہ صالحہ صاحبہ نے یکم اپریل 1993ء کو وفات پائی.12اپریل کو بیت اقصیٰ ربوہ میں نماز جنازہ ہوئی جس میں مشاورت کی وجہ سے آنے والے معزز مہمانوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی.مرحومہ موصیب تھیں ، بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.6 - محترم محمد عبد اللہ صاحب 19 اپریل 1911 ء کو ہرسیاں میں پیدا ہوئے.1917ء میں خاندان کے ساتھ قادیان ہجرت کی محلہ دارالفضل میں پرائمری تک تعلیم حاصل کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے روح پرور خطابات نے طبیعت کی شوخی کو دینی جوش میں بدل دیا.ہر حکم پر عمل کرنا شعار بنالیا.ایک دفعہ حضور نے فرمایا کہ مجھے ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو سلسلہ کی ضرورت کے لئے اپنی سب جائداد پیش کر سکیں.آپ نے بھی نام لکھوا دیا بلکہ کچھ دن بعد عرض کی کہ جائداد طلب فرمائیں.حضور نے مسکرا کر جواب دیا کہ میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ابھی طلب کروں گا.آپ نے نیت کی ہے تو ایک فیصد ادا کر دیں.آپ نے ایک فی صد ادا کر کے خلیفہ وقت کے فرمان پر عمل کرنے کی سعادت حاصل کر لی.ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ باہر کی آبادی والے کوئی ایک نماز (بیت) مبارک میں آکر پڑھا کریں.آپ نے فجر یا عشاء کی نماز میں شامل ہونا شروع کر دیا ( بیت ) مبارک میں حضرت صاحب نماز پڑھایا کرتے تھے.ایک دفعہ علالت طبع کی وجہ سے نماز پڑھانے تشریف نہ لا سکے تو عبداللہ صاحب نے سوچا جب تک حضور نماز پڑھانے نہیں آتے قریبی ( بیت ) میں ہی نماز پڑھ لیا کروں گا.جب جمعہ پڑھنے ( بیت ) مبارک گئے تو سامنے ہی جگہ ملی حضور نے 81
زنده درخت خطبہ کے شروع میں فرمایا کہ آج رات اللہ تعالیٰ نے ایک نوجوان کو میرے سامنے لا کھڑا کیا اور فرمایا کہ یہ کہتا ہے کہ حضور تو نمازیں پڑھانے نہیں آتے میں اپنے ہی محلہ میں نماز پڑھ لیا کروں گا.میں اس نوجوان سے پوچھتا ہوں کہ تم محمود کی نمازیں پڑھنے آتے تھے یا اللہ تعالی کی.آپ کو محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی حالت خلیفہ وقت کو بتادی ہے شرم سے پانی پانی ہو گئے اور عہد کیا کہ اب زیادہ با قاعدگی سے ( بیت ) مبارک میں نماز پڑھا کریں گے.اس کے ساتھ کثرت سے درود شریف کا ورد شروع کر دیا.خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی دیکھا کہ حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد کی کوٹھی کی طرف سے کچھ احباب اس انداز میں تشریف لا رہے ہیں جیسے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے چلو میں آتے ہیں.بھائی عبدالرحمن قادیانی صاحب نے ہاتھ سے پکڑ کر کہا دیکھو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں بڑے شوق اور غور سے دیکھتے رہے وہ قافلہ حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد کے گھر میں داخل ہوا.جب وہ احباب واپس آئے تو پھر آپ انے دیکھا کہ اُسی طرح احباب تشریف لا رہے ہیں جن میں سب سے آگے حضرت خلیفہ امسیح الثانی ہیں.آپ نے بھائی عبد الرحمن صاحب سے پوچھا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں آپ نے حضرت صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرما یا اب یہی آپ کی جگہ ہیں.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مسیح موعود کو بھی خواب میں دیکھا.والد صاحب کی ایک نصیحت آپ نے خوب پلے باندھ لی تھی کہ جس قدر زیادہ ممکن ہو سکے حضرت صاحب کی صحبت سے فائدہ اُٹھاؤ یہ موسم بہار ہے.وقت ضائع نہیں کرنا.حضور کسی سفر کے لئے تشریف لے جاتے تو آپ سائیکل پر کئی میل تک گاڑی کے ساتھ جاتے چھوٹی سے چھوٹی خدمت کے موقع پر خوش ہو جاتے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد تعلیم حاصل کر کے لندن سے واپس آ رہے تھے تو حضور مع اہل خاندان استقبال کے لئے لاہور تشریف لے گئے.ہیں لڑکے سائیکلوں پر ساتھ تھے بٹالہ میں حضور نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پانچ روپے دئے کہ لڑکوں کو کھانا کھلا دو اُس وقت میں لڑکوں نے اڑھائی روپے میں 82
زنده درخت کھانا کھا لیا.باقی دود و آنے تقسیم کر لئے اس عنایت کی یاد زندگی کا یادگار واقعہ بن گئی.تحریک جدید کے دوسرے سال کا آغاز ہوا تو آپ نے اپنی جمع پونجی کا زیادہ حصہ چندہ میں دے دیا.ساڑھے تین روپے باقی بچے.حضور کو خط لکھ دیا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ برکت ڈالے.اور اپنا کوئی خواب بھی لکھا.دعا کی درخواست والے رفعے پر ہی لکھا ہوا جواب موصول ہوا کہ دعا کروں گا اور خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالی کان پکڑ کر دین کی خدمت لے گا.اور واقعی کاروبار میں برکت نصیب ہوئی اور دین کی خدمت کے مواقع بھی ملتے رہے.جب حضرت صاحب نے دہلی میں مصلح موعود ہونے کا دعوی فرما یا تو آپ اس جلسے میں موجود تھے بلکہ سٹیج پر تصویر میں نظر آتے ہیں.حضور نے اس سفر میں حفاظتی اقدامات کے متعلق آپ کے مشورے کو سراہا اور عمل بھی کرایا تقسیم برصغیر کے دنوں میں آپ کی ڈیوٹی امور عامہ میں تھی جسے تندہی سے نبھایا اور کئی دفعہ تعریف و انعام بھی ملا.تقسیم کے بعد گجرات میں رہائش اختیار کی کچھ عرصہ اپنے والد صاحب کو بھی گجرات لے گئے پھر ربوہ منتقل ہو گئے.رہائش ربوہ میں اور کارو بار فیصل آباد میں شروع کیا.ایک دن حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا فیصل آباد میں اچھی آمد ہو جاتی ہے جب پانچ سوروپے ہو جائیں گے تو ربوہ آجاؤں گا.آپ نے پانچ سوروپے دے کر فرمایا اب آپ ربوہ ہی آجائیں.اس طرح مستقل ربوہ رہنے لگے اور آخری عمر تک ربوہ میں ہی رہے.تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین کی کتاب میں آپ کا نمبر 528 -7 مکرم حلیمہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ محمد حسن صاحب اپریل 1913ء میں پیدا ہوئیں 1935ء میں لدھیانہ کے محترم شیخ محمد حسن صاحب سے شادی ہوئی.شادی کے وقت وہ احرار کے پر جوش مہرے تھے.اپنے تایا زاد احمدی بھائی کے ساتھ قادیان آئے اور دیندار ماحول دیکھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ احمدیت قبول کر ہے.83
زنده درخت لی.مولانا احمد خاں نسیم صاحب نے حضرت میاں فضل محمد صاحب کی بیٹی حلیمہ صاحبہ سے رشتے کی تحریک کی.ان کا گھرانا تعلیم یافتہ تھا.خود حلیمہ صاحبہ نے پرائمری تک تعلیم حاصل کی تھی جبکہ محمد حسن صاحب تعلیم یافتہ تھے نہ کوئی کاروبار تھا مگر اخلاص اور صداقت دیکھ کر آپ کے والد صاحب نے رشتہ طے کر دیا جو بہت بابرکت ثابت ہوا.محترمہ حلیمہ صاحبہ نے محنت ، اطاعت گزاری اور خدمت سے سسرال والوں کا دل موہ لیا.ہمت والی بہادر خاتون تھیں ایسا بھی ہوتا کہ شوہر کاروبار یا جماعتی کاموں کے سلسلے میں شہر سے باہر ہوتے اور آپ کمال ذمہ داری سے مردانہ وار حالات کا مقابلہ کرتیں بلکہ پگڑی باندھ کر ہاتھ میں ڈنڈا لے کر چھت پر مردوں کی طرح چوکیداری کرتیں تا کہ گھر کی طرف کوئی بد نیتی سے نہ دیکھے.قیام پاکستان کے معابعد کچھ عرصہ فیصل آباد میں رہائش رہی.ایک دفعہ بچے کی پیدائش متوقع تھی مگر جماعت کی طرف سے فرقان فورس میں رضا کار کے طور پر محمد حسن صاحب کا نام آگیا چار نو عمر بچیوں کی حاملہ ماں نے اس غریب الوطنی میں خدا پر توکل کی عجیب مثال قائم کی.شوہر سے کہا آپ کو محاذ پر جانے کے لئے کہا جا رہا تو آپ کو ضرور جانا چاہئے ، آپ میری فکر نہ کریں میرا اللہ مالک ہے اس پر بھروسہ رکھیں اور ضرور جہاد پر جائیں محمد حسن صاحب کی غیر موجودگی میں اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں کے بعد بیٹے سے نوازا.تین ماہ بعد واپس آکر بیٹے کو دیکھا.جلدی ہی ایسٹ افریقہ جانے کا پروگرام بن گیا.ان کو پھر بچوں کے ساتھ اکیلا رہنا پڑا ہمت سے کام لیا مکان بنوایا، بچوں کو تعلیم دلوائی.بے حد ہمدرد طبیعت کی مالک تھیں کسی کی ضرورت کا علم ہو جاتا تو ہر ممکن مدد کرتیں.رمضان المبارک کا خاص اہتمام کرتیں.بچوں کو ساتھ لے کر بیت کی طرف دوڑ بھاگ لگی رہتی سحری و افطاری میں دوسرے روزہ داروں کو شامل کرتیں.اچھا کھانا پکانے اور کھلانے کا بہت شوق تھا.محترم حسن محمد صاحب افریقہ سے لندن منتقل ہوئے تو خاندان کو بھی بلوالیا.یہاں کئی طرح خدمت دین کی توفیق ملی.اخبار احمد یہ برطانیہ احمد یہ بلیٹن کے ایڈیٹر ان کے داماد 84
زنده درخت محترم بشیر الدین صاحب سامی تھے.بیٹے محترم محمد اسلم خالد صاحب مینجر اور مکرم محمد حسن صاحب اور محترمہ حلیمہ صاحبہ اس کو پیک کر کے پوسٹ آفس بھجواتے اور یہ طوعی کام وہ سال ہا سال تک کرتے رہے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع ان سے خاص شفقت فرماتے.مکرم حسن محمد صاحب کی لنگر خانہ کے لئے طویل خدمات کو بے حد سراہتے.آپ کا حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب سے بھی قریبی تعلق تھا اُن کی عنایت کردہ ایک کرسی وہ سب کو خوشی سے دکھاتے.مولا کریم انہیں اپنا قرب عطا فرمائے.آمین.8 - محترمہ صادقہ شریف صاحبہ اہلیہ محترم مولنا الحاج محمد شریف صاحب مرحوم 4 ستمبر 1924ء قادیان میں پیدا ہوئیں.اپنی والدہ صاحبہ کے زیر اثر خاندان حضرت مسیح موعود سے بے حد پیار تھا.حضرت صاحبزادہ میاں منور احمد صاحب ، حضرت صاحبزادی امتہ العزیز صاحبہ اور حضرت صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ بے حد شفقت سے پیش آتے.واقف زندگی سے شادی ہونے سے صبر و قناعت اور سادگی سے زندگی بسر کی.بعض دفعہ صبر آزما حالات سے دو چار ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسے سے دعاؤں میں لگی رہتیں.پہلی بچی پیدا ہوئی تو حضرت مصلح موعود سے نام رکھوانے گئیں.آپ نے فرمایا یہ تو صوباں کی ہم شکل ہے اُس کی نواسی ہے.ص سے صوباں ص سے صادقہ اور اب ص سے صفیہ نام رکھ لیں.مولوی محمد شریف صاحب ایک طویل عرصہ جامعہ احمدیہ کے اکا ؤنٹنٹ رہے.معاملات میں دیانتداری، نماز با جماعت میں با قاعدگی ،سادگی اور خلوص آپ کی شخصیت کا حصہ تھے.حج کی سعادت نصیب ہوئی.اس دوران یہ تاریخی واقعہ بھی پیش آیا کہ کسی بدنصیب کی مخبری پر مکہ میں قید کر لئے گئے.آپ کی والدہ صاحبہ بھی ساتھ تھیں.تلاوت و عبادت اور ذکر الہی سے مشکل دن گزارے.ایسا لگتا تھا کہ کبھی شنوائی نہ ہوگی.مگر مولا کریم کے احسان سے جب کورٹ میں بلا کر عقائد پوچھے گئے تو آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عربی قصیدہ سنا دیا.اس طرح معجزانہ طور پر رہائی کے 85
زنده درخت سامان ہوئے.وہ اس واقعہ کا ذکر بہت شوق سے کرتے تھے.بہت قربانی کر کے بچوں کو تعلیم دلائی اور اعلیٰ تربیت کی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب بچے دنیاوی و دینی تعلیم سے آراستہ دین کے خدمت گزار ہیں ایک بیٹا مربی سلسلہ ہیں.کچھ عرصہ قبل یہ خاندان امریکہ منتقل ہو گیا.وہاں بھی بچوں کو قرآن مجید پڑھانا اور کئی رنگ میں خدمت کا سلسلہ جاری ہے.اللہ تعالیٰ صحت والی زندگی سے نوازے.آمین 9- محترم عبدالحمید صاحب ( شاہین سویٹس نیو یارک) امریکہ اپریل 1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.بہن بھائیوں میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اپنے والد کی خدمت کی بہت توفیق پائی.قادیان سے ہجرت کے بعد گجرات اور لاہور میں مختلف کاروبار کرنے کے بعد نیو یارک منتقل ہو گئے.وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کاروبار خوب چکا.ابتدا میں جب جماعت چھوٹی تھی اور تنظیم کی موجودہ صورت ابھی نہیں بنی تھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے ایک طرح مرکزی حیثیت دی.کئی رشتہ داروں اور غیروں کو امریکہ بلانے اور وہاں کا روبار و ر ہائش وغیرہ کی سہولتیں دلانے میں مدد کی.جماعت کے مہمانوں کی تواضع کا بے حد شوق ہے.کئی اعلیٰ شخصیات آپ کی مہمان رہیں.خلفائے کرام سے مثالی اخلاص و محبت رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و تندرستی والی عمر اور اپنے فضلوں سے نوازتار ہے.آمین.86
زنده درخت حصه دوم -14 در ویش قادیان محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت ولد حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے ) مبارک ہو تمہیں اس منزل محبوب میں رہنا وہی ہے تخت گاہ احمد مرسل جہاں تم ہو تمہاری شان درویشی پہ قرباں تاج داری ہے کہ محبوب خدا کے آستاں کے پاسباں تم ہو قادیان میں رہنا تو ایک قسم کا آستانہ ایزدی پر رہنا ہے اس حوض کوثر سے وہ آب حیات ملتا ہے کہ جس کے پینے سے حیات جاودانی نصیب ہوتی ہے جس پر ابد الآباد تک موت ہر گز نہیں آسکتی " ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 463) تیرہ چودہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ قادیان ہجرت کرنے والے عبدالرحیم کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل واحسان سے نہ صرف زندگی بھر اس دارالامان سے وابستہ رکھا بلکہ وہیں آسودہ خاک ہونے کی لازوال نعمت بھی عطا فرمائی.خوش نصیبی کے دروازے تو پیدائش کے ساتھ ہی کھل گئے تھے جب رفقائے حضرت اقدس مسیح موعود والدین ملے اور در دو سوز میں ڈوبی دعاؤں میں پرورش پائی.دیار مسیح کی طرف ہجرت کا ثواب بھی والدین کی قسمت میں تھا جس سے قادیان کی روح پرور فضا ئیں آپ کو میسر آئیں.یہ سب رب 87
زنده درخت رحمان و رحیم کی عنایات تھیں.قادیان میں رہائش کی شروعات اس طرح ہوئیں کہ 1917ء میں آپ کے والد ماجد صاحب نے محلہ دار الفضل میں مکان اور دکان تعمیر کرائی.اسی مکان میں بڑے بیٹوں کی شادیوں کے ساتھ ایک ایک کمرے کا اضافہ ہوتا گیا.عبدالرحیم صاحب کے لئے بھی پلاٹ کے جنوب مشرقی کونے میں ایک پختہ کمرہ بنا.شادی ہوئی اس گھر میں پانچ بچے ہوئے پھر دار الفتوح میں اپنا گھر بنالیا دو بچے وہاں ہوئے اور ایک بیٹا تقسیم برصغیر کے بعد لاہور میں پیدا ہوا.تقسیم برصغیر کے وقت قادیان میں رہنا پسند کیا اور حقیقی معنوں میں آویزندہ در ہو گئے اور قادیان سے چمٹ کر بیٹھ گئے.عهد درویشی کا سارا عرصہ بیت مبارک کے سائے میں ایک چھوٹے سے کمرے میں گزار دیا.اس کمرے کے درو دیوار بول سکتے تو بڑی ایمان افروز اور دل گداز کہانی کہتے وہ تو خاموش ہیں لیکن اُس حجرے کی تنہائیوں میں آپ نے اپنے بچوں کو جو خطوط لکھے اور کچھ اپنی یادداشتیں قلم بند کیں وہ آپ کی خود نوشت آپ بیتی کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے.خاکسار نے اسے ذیلی عناوین کے تحت مرتب کیا ہے.اس آپ بیتی کی انوکھی بات یہ ہے کہ باپ نے لکھی اور بیٹی نے مرتب کی.اور ایک خاص بات یہ ہے کہ لکھی بھی خاکسار کی درخواست پر جس کا اظہار آپ نے اپنے ایک مکتوب میں کیا.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے میں نے باری باری اور خاص کر باری کا نام لے کر دعا کر دی میری بچی باری کا تقاضا کافی اثر پذیر رہا میں نے اس تحریک کو غیبی محرک خیال کر کے اپنے کچھ حالات تحریر کرنے شروع کر دیئے ہیں ایک صد صفح ہو چکے ہیں دیکھیں آپ تک کیسے پہنچیں گے.خیر لکھا ہوگا تو کسی وقت کام آجاے گا.ابا جان کا خیال درست نکلا لکھا ہوا بہت کام آیا کیونکہ باپ بیٹی تمام عمر فاصلوں پر ہی رہے ساتھ ساتھ رہنے کا عرصہ بہت ہی کم ہے.انہیں تحریروں سے آپ کو جان پہچان سکی.آپ نے کئی جگہ لکھا ہے.اختصار سے کام لیا ہے صاحب دل ان سے مضامین بلکہ کتابیں بنا (8-8-1971) 88
زنده درخت سکتے ہیں، میں نے یہ صاحبانِ دل پر ہی چھوڑ دیا ہے اگر اپنے احساسات شامل کرنے لگتی تو سمیٹے نہ جاسکتے تھے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ درویشان کرام کے حق میں بزرگوں کی دعائیں قبول فرمائے اور انہیں اپنے قرب خاص میں جگہ عطا فرمائے اور یہ دعا ئیں نسلاً بعد نسل ہمارے حق میں بھی قبول ہوں.آمین.زمانہ درویشی کے پہلے جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے فرمایاتھا: تم لوگ جن کو اس موقع پر قادیان میں رہنے کا موقع ملا ہے اگر نیکی اور تقوی اختیار کرو گے تو تاریخ احمدیت میں عزت کے ساتھ یاد کئے جاؤ گے اور آنے والی نسلیں تمہارا نام ادب و احترام سے لیں گی اور تمہارے لئے دعائیں کریں گی اور تم وہ کچھ پاؤ گے جو دوسروں نے نہیں پایا.اپنی آنکھیں نیچی رکھو لیکن اپنی نگاہ آسمان کی طرف بلند کرو فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَهَا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے امیر جماعت احمدیہ قادیان مولوی عبدالرحمن جٹ صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: آپ جیسے جان نثار درویشوں کا وجود اُس شمع کا حکم رکھتا ہے جو ایک وسیع اور تاریک میدان میں اکیلی اور تن تنہا روشن ہو کر دیکھنے والوں کے لئے نور ہدایت کا کام دیتی ہے.آپ خلوص نیت اور سچی محبت اور ایک جذبہ خدمت کے ساتھ قادیان میں ٹھہرے رہیں گے اور اپنے آپ کو احمدیت کا اعلیٰ نمونہ بنا ئیں گے تو نہ صرف خدا کے حضور میں یہ آپ کی خدمت خاص قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی بلکہ آنے والی نسلیں بھی آپ کے نمونہ کو خر کی نظر سے دیکھیں گی“ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ یہ سعادت ہمارے خاندان میں آئی.اس رحمانی عطیے کا جس قدر بھی شکر کریں کم ہے.درویش کی کہانی کو زندہ کرنا بھی ایک طرح اظہار تشکر ہے.89
زنده درخت 15- کیا محترم میاں عبد الرحیم صاحب دیانت درویش رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے؟ اس سوال کا جواب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے قلم سے پڑھئے جو الفضل 5 فروری 1949 کے صفحہ نمبر دو پر شائع ہوا.(الفضل کی تاریخ لکھنے میں سہو ہے کیونکہ مضمون پر 1950ء اور ا 1 ء اور الفضل کے اندرونی صفحات پر بھی 1950 لکھا ہوا ہے) وو.اس ضمن میں ایک اور بات بھی قابل نوٹ ہے.اس وقت قادیان میں ایک صاحب میاں عبدالرحیم صاحب برادر مولوی عبدالغفور صاحب مبلغ جماعت احمد یہ ہیں.میاں عبدالرحیم صاحب کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی ان کا نام رکھا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو دیکھا بھی تھا لیکن خود میاں عبدالرحیم صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دیکھنا یاد نہیں.گوان حالات میں میری تعریف کے مطابق وہ ( رفیق) نہیں بنتے لیکن بعض گزشتہ علماء کی تعریف کے مطابق وہ ( رفیق ) بن جاتے ہیں.ان علماء کی تعریف یہ ہے کہ (رفیق) وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو.لیکن میرے نزدیک " ( رفیق ) وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا یا اس کا کلام سنا ہو.“ بہر حال یہ ایک قدیم اختلافی مسئلہ ہے اور حقیقت یہ ہے ( اور یہ ایک حد تک طبعی امر ہے ) کہ جوں جوں نبی کے زمانہ سے دوری ہوتی جاتی ہے لوگ فطرتا ( رفیق) کی تعریف میں نرمی کا طریق اختیار کرتے جاتے ہیں.تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس پاک گروہ 90
زنده درخت میں شامل کر کے اپنے لیے برکت اور رحمت کا موجب بنا ئیں.چنانچہ زمانہ نبوت اور قرب زمانہ نبوت میں (رفیق) کی تعریف عموماًیہ کی جاتی رہی ہے کہ ” ( رفیق ) وہ ہے کہ جس نے نبی کا زمانہ پایا.اس کی بیعت سے مشرف ہوا اسے دیکھا (یا اس کا کلام سنا ) اور اس کی صحبت سے مستفیض ہوا.اس کے بعد وہ درمیانی تعریف آتی ہے جو میں کرتا ہوں یعنی " ( رفیق) وہ ہے جس نے اپنے مومن ہونے کی حالت میں نبی کو دیکھا یا اس کا کلام سننا یاد ہو.“ اور تیسرے درجہ پر ( جو دراصل زمانہ نبوت کے بعد سے تعلق رکھتا ہے ) یہ تعریف آتی ہے کہ ” ( رفیق ) وہ ہے جسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں نبی نے دیکھا ہو خواہ اسے خود نبی کو دیکھنا یا نہ ہو.اس کے علاوہ بعض اور تعریفیں بھی کی گئیں ہیں اور شاید اپنے اپنے وقت کے لحاظ سے اکثر تعریفیں درست سمجھی جاسکتی ہیں.لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں میرا ذاتی رجحان اوپر کی تین تعریفوں میں سے درمیانی تعریف کی طرف زیادہ ہے.کیونکہ ایک طرف تو اس میں پہلی تعریف والی تنگی نہیں ہے اور دوسری طرف اس میں تیسری تعریف والی حد سے زیادہ وسعت بھی نہیں جس میں گویا صحبت والا مفہوم جو اصل مرکزی چیز ہے خارج ہوجاتا ہے.واللہ اعلم.خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور 4 فروری 1950ء 91
زنده درخت 16 - خودنوشت ابتدائی حالات تحریر: میاں عبد الرحیم صاحب دیانت میر انام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا: اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش میری پیدائش سے پہلے شروع ہو چکی تھی.میرا نام حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے رکھا.میں یکم رمضان 1320ھ بروز یکشنبہ 21 نومبر 1903ء بوقت دس گیارہ بجے رات پیدا ہوا.میرے والد حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہرسیاں والے ) مجھے حضرت اقدس کی خدمت میں لے گئے آپ گورداسپور میں کچہری میں ایک شیشم کے درخت کے نیچے تشریف فرما تھے.میرے بڑے بھائی کا نام دریافت فرمایا.ابا جان نے عرض کیا عبدالغفور.حضرت اقدس علیہ السلام نے میرا نام عبدالرحیم تجویز فرمایا.اس طرح اللہ تعالیٰ کی دوصفات غفور، رحیم کو دو بھائیوں کے ناموں میں یکجا کر دیا.میرے دادا کی نماز جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پڑھائی: میرے والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے قادیان سے واپس ہرسیاں آئے تو اپنے والد صاحب کو بیعت کی خبر دینے میں جھجک محسوس ہوئی.میرے دادا جان کا نام سندھی خان تھا.ایک دن ڈرتے ڈرتے بات کی تمہید کے طور پر کہا.سنا ہے قادیان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.دادا جان نے فوراً جواب دیا: اگر ایسا ہوا ہے تو بالکل صحیح ہے دنیا کی ہوا کہہ رہی ہے کہ مہدی کا آنا ضروری ہے.ابا جان نے پوچھا کہ آپ کو کیسے اندازہ ہوا؟ جواب دیا ” چیونٹیوں کو بارش کا اندازہ ہوا سے ہو جاتا ہے اور وہ اپنے انڈے سنبھالنے لگتی ہیں.پورب کی ہوا چلتی 92
زنده درخت ہے تو میں اپنا سامان سمیٹنے لگتا ہوں.مجھے موسم کا اندازہ ہو جاتا ہے.کہ اب بارش ہوگی.تو کیا میں اتنا نہیں سمجھ سکتا کہ زمانے کی ہوا گندی ہوگئی ہے مسلمان صرف نام کے رہ گئے ہیں نماز تک کی ہوش نہیں.مجھے نماز پڑھنے کے لئے گاؤں سے نصف میل دور ایک جو ہڑ کے کنارے اینٹوں کی چھوٹی سی بیت میں جانا پڑتا ہے.جو خود میں نے بنائی ہے.اُس میں اکیلا ہی نماز پڑھتا ہوں.اس حالت کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہی وقت مہدی کی آمد کا ہے.“ میں دل میں خوش ہوا کہ اب مناسب موقع پر بتا دوں گا مگر اس بات کے جلدی بعد اُن کا انتقال ہو گیا.حضرت ابا جان نے حضرت اقدس مسیح موعود کو اپنے والد صاحب کے انتقال کی خبر دی.حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ میاں فضل محمد کیا انہوں نے ہمارا پیغام سنا تھا؟ ایمان لائے تھے؟ ابا جان نے ساری تفصیل بتا دی.حضرت اقدس نے فرمایا: وہ احمدی تھے انہوں نے ہمیں مانا تھا.آؤ ہم اُن کی نماز جنازہ پڑھیں.“ حضرت اقدس کی امامت میں اُس وقت موجود اصحاب کرام نے میرے دادا کی نماز جنازہ پڑھی.بغیر بیعت کے ایمان لانے والوں میں شمار ہونے کی تصدیق خود حضرت مسیح موعود نے فرمائی.فالحمد للہ علی ذالک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کے بعد آپ کا چہرہ دیکھنا یاد ہے: لگتا تھا بہت بڑا واقعہ ہوا ہے.بہت لوگ جمع تھے قطار در قطار لوگ کھڑے تھے.میرے والد صاحب نے مجھے گود میں لے کر سر سے اونچا کر کے فرمایا تھا کہ یہ مقدس چہرہ دیکھ لو مجھے یاد ہے کہ میں نے آپ کو دیکھا تھا.93
زنده درخت -17 میرا بچپن اور تعلیم میں نے دوسری تیسری اور چوتھی کلاس تلونڈی جھنگلاں کے ایک اسکول سے پاس کی.یہ اسکول جماعت احمدیہ نے کھولا تھا اس میں غیر از جماعت بچے بھی پڑھتے تھے.ہمارے اسکول ماسٹر محترم منشی عطا محمد صاحب تھے.( جواب جامعہ احمدیہ میں پروفیسر ہیں غیر ملکی طلباء کو اردو پڑھاتے ہیں.میرے بہنوئی ہیں) ماسٹر صاحب کو بھینس رکھنے کا شوق تھا میرے ذمہ اس کو چرانا اور گھاس وغیرہ ڈالنا تھا.اس طرح کھیل کو د اور ورزش کا موقع مل جاتا مجھے جمناسٹک سے بہت دلچسپی تھی بھینس کی دیکھ بھال کا وقت میں ورزشی کھیلوں میں گزارتا اور اتنا ماہر ہو گیا تھا کہ تعلیم الاسلام اسکول میں ورزش کے ماسٹر کی ملازمت کی پیش کش ہوئی جو میں نے اس وجہ سے قبول نہ کی کہ والد صاحب نے تجارت کا شوق پیدا کر دیا تھا.میرا بھی ادھر ہی رحجان تھا.ملازمت کرنا پسند نہ تھا.میں چوتھی پانچویں میں تھا جب مجھے وظیفے کے امتحان کے قابل سمجھا گیا.اس امتحان کے لئے بٹالہ جانا تھا.محترم ماسٹر منشی عطا محمد صاحب خاکسار سمیت دولڑکوں کو بٹالہ لے گئے.ہم اپنے ایک رشتہ دار محترم محمد اکبر صاحب کے گھر ٹھہرے.ہمارے ایک ممتحن بھی جو ہمارے میزبان کے دوست تھے وہیں ٹھہرے.رات کو انہوں نے ہم دونوں لڑکوں کی تیاری کروائی اور بہت سے سوال پوچھے وہ مجھ سے اتنے خوش ہوئے کہ کہا کہ ”اگر یہ لڑکا عبد الرحیم کسی وجہ سے امتحان نہ دے سکا تو میں ذمے دار ہوں اپنی تنخواہ سے چار روپے ماہوار اس کو وظیفہ دیا کروں گا.“ ہمارے ماسٹر صاحب کو حقہ پینے کی عادت تھی.ہمیں تمباکو خرید کر لانے کو کہا.ہم دیہات کے رہنے والے بٹالہ شہر کے راستوں سے واقف نہ تھے.واپسی پر رستہ بھول گئے اور بالکل دوسرے حصے کی طرف نکل گئے.چھوٹی عمر اجنبی شہر اور ماسٹر صاحب کی مار کے 94
زنده درخت خوف سے شدید گھبراہٹ طاری ہو گئی.اب بچوں کو اُستاد کی مار کا تجربہ کم ہو گیا ہو گا مگر ہمارے وقتوں میں ماسٹر صاحبان اس قدر مارتے تھے کہ لڑکوں کا ڈر کے مارے دم نکل جاتا تھا.ہمیں خوفزدہ دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کہ تم کو کہاں جانا ہے کچھ اتہ پتہ معلوم ہے؟ مکان کہاں ہے؟ تب ہم نے بتایا ٹھیکیدار جلال الدین صاحب کے مکان پر جانا ہے.وہ رحمدل شخص ہمیں لے کر پوچھتا پوچھا تارات گئے ہمیں گھر پہنچا کر گیا.رات دیر سے آئے صبح ناشتہ دیر سے ہوا.جب امتحان دینے گئے تو اس قدر دیر ہو چکی تھی کہ کمرہ امتحان میں داخل نہ ہو سکے.اس طرح میں وظیفے کے امتحان میں بیٹھنے سے رہ گیا.مگر اسکول کے ماسٹر صاحبان کو میری قابلیت کا اندازہ ہو گیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ ایک سال مزید میں اُس اسکول میں رہوں تا کہ آئندہ سال امتحان دے کر وظیفہ حاصل کروں اس طرح اسکول کو نیک نامی ملتی تھی مگر والد صاحب اسکول میں مزید ایک سال لگانے پر آمادہ نہ تھے اسی میں بہتری ہوگی ہم نے اسکول کو خیر بادکہا.ایک رات مصیبت کی رات سات آٹھ سال کی عمر میں ایک خوفناک رات گزارنی پڑی.اُن دنوں میں اور میرے بڑے بھائی عبدالغفور صاحب جن کی عمر اُس وقت گیارہ بارہ سال ہوگی.تلونڈی جھنگلاں میں پڑھا کرتے تھے.ہمارے اُستاد محترم نور محمد صاحب اور محترم مولوی سکندر علی صاحب شام کو اسکول سے رخصت ہوئے تو ہم دونوں بھائی بھی تلونڈی سے ہرسیاں کی طرف روانہ ہوئے.ابھی ہم گاؤں سے باہر نکلے تھے کہ مغرب سے کالا بادل اُٹھا ساتھ ہی تیز ہوا چلنے لگی.بادل کچھ اس قدر خوفناک تھا کہ طوفان کے خیال سے سب کے دل دہل گئے.تلونڈی جھنگلاں کے نمبر دار مکرم رحیم بخش صاحب اور ان کی بیگم صاحبہ کے ہمارے گھر سے قریبی دوستانہ مراسم تھے.جب اُن کے بچے گھر پہنچے تو اُن کی والدہ صاحبہ کو خیال آیا کہ ہم تو ابھی راستے میں ہوں گے اپنے بچوں سے پوچھا محمد شریف فیض محمد آپ تو آ گئے.عبدالغفور اور 95
زنده درخت عبدالرحیم کہاں ہیں ؟ بچوں نے بتایا کہ وہ تو ہر سیاں روانہ ہو گئے.موسم کی سختی دیکھ کر اُن کی والدہ صاحبہ نے یہ حکم دے کر انہیں بھگا دیا کہ اُن کے پیچھے جاؤ اور ہر قیمت پر اُن کو واپس لے آؤ اگر عذر کریں تو کہہ دینا کہ ہماری امی غصے ہوں گی.ہمیں جب یہ پیغام ملا تو دہشت زدہ ہم تھے ہی زیادہ اصرار نہ کیا اور اُن کے ساتھ واپس آگئے.سبحان اللہ دنیا میں کس قدر رحم دل لوگ ہیں ہمیں دیکھ کر جیسے اُن کی جان میں جان آئی.موسم خراب تھا اُن کے بچوں کو بھی خطرہ تھا مگر ہماری جان بچانے کے لئے اپنے بچوں کو ایک طرح سے قربان کر دیا اور پھر جس طرح وہ خوش ہوئے ہمیں دیکھ کر وہ بھی حد بیان سے باہر ہے.اُدھر گھر والوں کا حال سنیں جب ہمیں دیر ہوگئی تو وہ ایک طرح نا اُمید ہو گئے طوفانی رات دو چھوٹے بچے کہاں محفوظ رہے ہوں گے.امی جان تو رات کو ہی والد صاحب کو تلاش کے لئے بھیجنے پر بضد تھیں مگر انہوں نے ہوش کا فیصلہ کیا کہ اللہ پر توکل رکھو نیک اُمید رکھو ایسے میں گھر سے نکلا تو دو وہ گئے تیسرا میں اللہ رحم کرے صبح ہوتے ہی تلاش میں نکلوں گا.ساری طوفانی رات ہمارے والدین نے آنکھوں میں کائی اور ہماری زندگی کی دعا مانگتے رہے.ان کا جو حال ہوا ہوگا سب اولا دوالے تصور کر سکتے ہیں.خدا خدا کر کے صبح ہوئی والد صاحب تلاش میں نکلے.ہر طرف پانی ہی پانی جہاں کہیں کچھ جھاڑ جھنکار اکٹھا نظر آتا لپکتے کہ شاید یہ عبدالغفور ہو گا عبدالرحیم ہوگا.یونہی چلتے چلتے تلونڈی پہنچ گئے.آپ پر نظر پڑتے ہی اُس مہربان خاتون نے آواز دی میاں جی ! بچے زندہ ہیں.محفوظ ہیں میں نے انہیں روک لیا تھا.حمد وشکر میں ڈوبی جو طمانیت والد صاحب نے محسوس کی ہوگی اور بچوں کو لپٹا کر اُس محترم خاتون کو دعائیں دی ہوں گی اُس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے.اس احسان کے نتیجے میں تشکر کا جذبہ ساری عمر ہمارے گھرانے میں موجود رہا میرے والد اور والدہ صاحبہ نے نیک سلوک رکھا پھر میری اہلیہ محترمہ نے محبت کا تعلق رکھا مکرم محمد شریف صاحب کی اہلیہ کی زندگی کی آخری گھڑیاں میری اہلیہ صاحبہ کے ہاتھ میں گزریں.رتن باغ میں قیام کے دوران 96
زنده درخت میری بچی عزیزہ امۃ اللطیف کو بھی ان کی خدمت کا موقع ملا.فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر ان اسرار کا: میں تیسری جماعت میں تھا.میرا کلاس فیلو عبداللہ پسر حضرت ذوالفقار علی خان صاحب ایک دفعہ شدید بیمار ہو گیا ( حالت درویشی میں ہم اسے منیجر کہتے ہیں دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا) حالت اتنی مایوس کن ہو گئی کہ کفن منگوالیا گیا.مگر پھر حالت سدھرنی شروع ہوئی عجیب خدا تعالیٰ کی حکمت کہ ایک دوسرا کلاس فیلوحسن بھاگلپوری جو بہت خوبصورت اور خوب سیرت تھا بیمار ہو گیا.عبداللہ کی حالت بہتر ہوتی گئی اور حسن کی بگڑتی گئی حتیٰ کے حسن فوت ہو گیا وہ کفن جو عبداللہ کے لئے آیا تھا اُسے پہنایا گیا.عبداللہ کہتا تھا کہ حسن تو ہمارا کفن دوست تھا.ایک دلچسپ واقعہ- عوض معاون گله ندارد : میری عمر میں بائیس سال ہو گی ہم نے صدر انجمن احمد یہ کے باغ جس کو ہم کمیٹی والا باغ کہا کرتے تھے.( جو کالج کے مغرب اور جنوب مغرب میں واقع ہے) میں پھالہ خرید لیا.اُس زمانے میں حضرت نواب محمد علی صاحب نے ہرن کا ایک بچہ پال رکھا تھا.کبھی اُس کو باندھ دیتے کبھی کھلا رکھتے وہ سارے شہر میں گھومتا پھرتا بڑا خوبصورت لگتا سب اُس سے کھیلتے شام کو واپس گھر آ جاتا جب بڑا ہو گیا تو رنگین کپڑوں کی طرف لپکتا.جس سے یہ بھی مشہور ہوا کہ وہ عورتوں کے پیچھے پڑتا ہے.یہ تو ہرن کا تعارف تھا واقعہ یہ ہوا کہ ہمارا گھوڑا حضرت موصوف کے باغ میں چلا گیا اور کچھ نقصان بھی کیا.مالی نے ناراض ہو کر گھوڑے کو پکڑ کر باندھ لیا.خدا تعالیٰ نے ہماری مدد کی ورنہ آخر ندامت ہوتی گووہ کچھ نہ کہتے مگر شرم تو آتی.ہوا ایسا کہ ہرن ہمارے پھالہ میں آکر چرنے لگا کچھ نقصان بھی کیا مجھے شرارت سوجھی رنگ دار کپڑا اوڑھ کر پھالے میں جا کر بیٹھ گیا ہرن نے دیکھا تو سر ہلانا شروع کیا جیسے بھنگڑا ڈالتے ہیں اور میری طرف بڑھنا شروع کیا جو نہی وہ میرے قریب آیا میں نے اُس کے 97
زنده درخت دونوں سینگ پکڑ لئے اُس نے اٹھا کر مجھے پیچھے پھینکا خود بھی گرا میں نے پھرتی سے اٹھ کر اس کے سینگ پکڑ لئے.بہت نو کیلے سینگ تھے مگر میں نے پکڑ کر زمین میں گاڑے رکھے اور دیکھنے والوں سے رسہ لانے کو کہا.پھر اُس کے گلے میں رسہ ڈال کر درخت سے باندھ دیا جب نواب صاحب کے مالی کو خبر ہوئی کہ ہرن پھالہ خراب کرتا ہوا پکڑا گیا تو اُس نے گھوڑے کو چھوڑ دیا.ہم نے ہرن کو چھوڑ دیا.18 - میری شادی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ سے جو جماعت تخلیق فرمائی ہے اُس کی ادائیں بھی نرالی ہی ہیں.میری شادی کے قصے میں ابتدائی احمدیوں کے خلوص و سادگی کی دلچسپ جھلک دکھائی دیتی ہے.ہتے ہالی نامی گاؤں میں حضرت اقدس سے عقیدت رکھنے والے ایک دوست حکیم اللہ بخش صاحب رہائش پذیر تھے.مشہور علم دوست شخصیت تھے.پنجابی شاعر کی حیثیت سے معروف اور مقبول تھے.آپ کے ہاں بچی پیدا ہوئی.تو خیال آیا کہ اس بچی کا احمدیوں میں رشتہ کریں گے اس خیال سے اُن کا دھیان ایک احمدی دوست میاں فضل محمد صاحب کی طرف گیا جن کے ہاں نوعمر بیٹا تھا.اُن کی نوزائیدہ بیٹی کو مناسب رشتہ مل گیا.مکرم منشی جھنڈے خان صاحب کو قادیان بھیجا کہ جا کر فضل محمد صاحب کو ہمارا سلام کہیں اور یہ پیغام دیں کہ آپ کا جو بیٹا عبدالرحیم ہے وہ آج سے ہمارا ہوا.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.میرے والد صاحب نے یہ پیغام سن کر کہا: جزاکم اللہ احسن الجزاء.میں لڑکے کی والدہ کو آپ کے گاؤں بھیجوں گا.کچھ عرصے بعد میری والدہ صاحبہ اپنی ایک قریبی عزیزہ کے ساتھ ہتے ہالی گئیں.بچی 98
زنده درخت کو حسن صورت اور حسن سیرت سے مزین دیکھ کر خوش ہوئیں اور اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہاں کر کے آگئیں.غالباً کوئی رسم ادانہ کی ہوگی کیونکہ بعد میں کبھی ذکر نہیں ہوا.والدہ صاحبہ نے گھر آ کر مجھے پاس بلایا، گود میں لے کر بڑے پیار سے منہ چوما اور ہلکی سی پیار بھری تھپکی لگاتے ہوئے کہا.بچے تیری بیوی دیکھ کر آئی ہوں.لڑکی کیا ہے! جنت کی حور ہے.پھر ہم ہرسیاں سے قادیان منتقل ہو گئے.جب میں اکیس بائیس سال کا ہوا تو چھپیں جنوری 1925ء کو شادی ہوئی ہم بارات ایک بس میں لے کر گئے اُس زمانے میں شاذ ہی بارات کے لئے بسیں استعمال ہوتی تھیں خاص طور پر گاؤں والوں کے لئے بڑی بات ہوتی.میں کبھی کبھی آمنہ سے ترنگ میں کہتا کہ میں تو تمہیں بس میں بیاہ کر لایا تھا.یعنی بہت شان سے.گاؤں گئے تو معلوم ہوا کہ کھانا غیروں کے ہاتھ کا پکا ہوا ہے.طبیعت نہ مانی سارا کھانا وہاں کے لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا.نئے سرے سے کھانا مسلمانوں سے پکوایا گیا.میری بیوی واقعی طور تھی والدہ صاحبہ نے ٹھیک ہی کہا تھا.ہمیں شادی کے جلد بعد بہت بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا.دعوت ولیمہ ہو رہی تھی حضرت اقدس خلیفتہ اسیح الثانی تشریف لائے ہوئے تھے میں نے اس کو دکھایا کہ دیکھو حضور تشریف لائے مگر اُس کو بخار چڑھ رہا تھا.اچھی طرح دیکھ نہ پارہی تھی پھر بخار بہت تیز ہو گیا اور خطرناک صورت اختیار کر گیا.کسی طرح آرام نہ آرہا تھا میں حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کے لئے درخواست کرنے گیا.میری پریشانی دیکھ کر حضور نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو معائنہ کی ہدایت فرمائی آپ اُس وقت قادیان کے نواحی علاقے میں ٹینس کھیل رہے تھے حضور کا ارشادسن کر میرے ساتھ تشریف لائے ڈاکٹر رشید الدین صاحب بھی تشریف لائے اور مشورہ سے نسخہ تجویز کیا.مکرم حکیم صاحب کو بھی آمنہ بیگم کی بیماری کی اطلاع دی گئی آپ نے سفر کے لئے ایک گھوڑا رکھا ہوا تھا گھوڑے پر قادیان آئے بچی کی حالت دیکھی خود حکیم تھے بیماری کی شدت کا اندازہ تھا افسردگی سے فرمایا.”اچھا اللہ تعالیٰ کو ایسا ہی منظور تھا میری بچی تو زندگی میں ہی جنت میں آگئی تھی.چند دن ٹھہر کر آپ واپس تشریف لے گئے آمنہ کی حالت دن 99
زنده درخت بدن خراب ہوتی گئی.جس طرح میری والدہ صاحبہ کو وہ ایک نظر میں بھا گئی تھی میرے بھی دل میں اتر گئی تھی.ایک سچا عاشق جس طرح اپنے معشوق کی علالت میں تیمارداری کر سکتا ہے میں نے اس سے بڑھ کر کی.کوئی کسر نہ چھوڑی.آخر سب نا اُمید ہو کر تھک ہار کر بیٹھ گئے.تیمارداری، علاج معالجہ دیکھ پرداخت پر توجہ کم ہوگئی.مگر ایک میں تھا کہ راتوں کو جاگتا اور دن بھر پٹی سے لگا رہتا.بس نہ چلتا کہ خود کو قربان کر کے اُس کو بچالوں.ایک رات ایسی آئی کہ والد صاحب آئے نبض دیکھی اور مایوس ہو کر لیٹ گئے.سب گھر والے سو گئے.میں جاگ رہا تھا اور حسب معمول اللہ تعالیٰ سے اُس کی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا.اُس کی بیماری نے مجھے دعا مانگنے کا سلیقہ بھی سکھا دیا تھا.بیماری کو ایک ماہ چودہ دن ہو گئے تھے.اتنے لمبے عرصے کے بعد اُس نے آنکھیں کھولیں اور گردن گھما کر میری طرف دیکھا اور کہا آپ ابھی تک بیٹھے ہیں سو کیوں نہیں جاتے؟ میں نے بے ساختہ کہا تم کو اس حالت میں چھوڑ کر نیند کیسے آسکتی ہے؟ اس نے کہا اچھا جزاک اللہ.مجھے بھوک لگی ہے.پاس ہی یخنی پڑی تھی چند پیچ دیئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے جا کر والد صاحب کو بتایا وہ بھی بے حد خوش ہوئے اور سجدہ شکر ادا کیا.اُس وقت میری بیوی نے مجھ سے پہلی فرمائش کی جس سے اُس کی قادیان سے محبت پھوٹی پڑتی ہے بے حد نحیف آواز میں کہا: آپ مجھے بیت اقصیٰ کے کنوئیں کا پانی پلا سکتے ہیں؟ کنوئیں سے پانی لا کر اُسے پلایا.پھر وہ دن بدن بہتر ہوتی گئی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے ہم میاں بیوی کو آپس کی گہری محبت سے نوازا کچھ مدت کے بعد اُس کے بھائی میاں احمد دین صاحب ( درویش قادیان ) اُسے گاؤں لے جانے کے لئے آئے تو بھیجنا مشکل ہو رہا تھا.گھوڑے پر سوار اُس کو روانہ تو کر دیا مگر واپسی پر گھر کا فاصلہ اس قدر دراز اور بوجھل لگا کہ طبیعت قابو میں نہ رہی.حضرت نواب صاحب کے کنوئیں پر بیٹھ کر دل ہلکا کرنے کی کوشش کی پھر آنکھیں صاف کیں اور افسردگی سے گھر آکر کام میں مصروف ہو کر غم غلط کیا.100
زنده درخت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میری بیوی سکینت وراحت کا بے مثل نمونہ ہے.اس کی دینداری کے ان گنت واقعات میں سے ایک تحریر کرتا ہوں.باسط چھوٹا تھا.آموں کا موسم تھا.پٹھان کوٹ کے اچھے آم سرکنڈوں کی چوکور ٹوکریوں میں پکا کرتے تھے اُسے کھاری کہتے تھے سستے زمانے تھے ایک کھاری سے بیس سے پینتیس سیر تک آم نکلتے تھے قیمت صرف دو اڑھائی روپے ہوتی.کھاری منڈی والوں کو واپس کر دیتے.ایک دفعہ کھاری خرید کر لایا تو آم بہت مزے دار تھے.باسط چھوٹا تھا.کھاری پر بیٹھ گیا اور آم کھانے لگا.اچھے لگے تو کچھ زیادہ ہی کھا گیا.پیٹ خراب ہو گیا، پیچش لگ گئی.بے حد تکلیف تھی.اُس کے لمبا کر کے ہائے اللہ کہنے سے دل دہل جاتا.بہت علاج ہوا مگر فائدہ نہ ہو رہا تھا اُدھر میرے وقف برائے دعوت الی اللہ کے دن قریب آرہے تھے.میں نے ایک ماہ وقف کیا ہوا تھا اور مکیریاں جانا تھا.بچہ بہت بیمار تھا اس لئے میرے جانے میں تاخیر ہونے لگی.ایک دن اس کی والدہ نے بڑے صبر اور توکل سے کام لیتے ہوئے کہا: لطیف کے ابا جب تک آپ گھر سے باہر نہ جائیں گے بچہ تندرست نہ ہوگا.آپ نے خدا کے راستے پر جانا ہے اس کو خدا کے حوالے کر دیں انشاء اللہ بچے کو اللہ تعالیٰ صحت دے گا.یہ بات دل پر تیر کی طرح لگی رات کا وقت تھا تیز بارش تھی.دھوبی سے کپڑے لینے تھے گھر پتا معلوم نہ تھا.نکل تو کھڑا ہوا مگر کوئی آدم نہ آدم زاد.دعائیں پڑھتا ہوا چلا جارہا تھا.جب کہیں کوئی صورت نظر نہ آئی تو ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ پوچھ ہی لوں دھوبی کہاں رہتا ہے.اندر سے آواز آئی.اندر آجائیں.میں بارش میں بھیگا ہوالت پت کھڑا تھا اندر کیسے جاتا ذرا تاخیر ہوئی تو گھر کے مالک نے دروازے پر آ کر پوچھا اندر کیوں نہیں آ جاتے...میں نے کہا کہ بھائی مجھے دین محمد دھوبی کے گھر جانا ہے اُس نے کہا بھائی جی اندرآ جائیں یہی دین محمد دھوبی کا گھر ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر کیا اندر کپڑے دھونے والی بھٹی چل رہی تھی گھر گرم تھا.اس نے میرے سامنے کپڑے تیار کر دیئے بارش رک گئی تھی مگر گھٹنے گھٹنے پانی لہریں لے رہا تھا میں اسی طرح واپس گھر جانے کے لئے نکلا ایک جان پہچان والا 101
زنده درخت تانگہ والامل گیا.خیریت سے گھر آیا اور صبح ہوتے ہی مکیریاں اپنے وقف کے لئے روانہ ہو گیا.چار دن کے بعد خط ملا کے بچہ آپ کے گھر سے جانے کے بعد ٹھیک ہونا شروع ہو گیا تھا.اب بالکل ٹھیک ہے.اُس حکیم مطلق نے میری اہلیہ کے توکل کی لاج رکھ لی.اللہ تعالیٰ کے پیار کے ایسے پیارے سلوک سے میری زندگی بھری پڑی ہے.الحمد للہ.-19 کام کا آغاز اور حضرت مصلح موعود کی دعا سے برکت - 1917ء یا 1918ء میں محلہ دارالفضل میں دکان کھولی مگر زیادہ کامیابی کی امید نہ تھی اس لئے پھر قادیان کے عین مرکز میں حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب کے مکان میں، احمد یہ چوک کے جنوبی طرف بازار میں ، سامنے والی دکان کرایہ پر لے کر کام شروع کیا.ہر کام سیکھنے اور آگے بڑھنے کا بہت شوق تھا.مٹھائی بنانے کا کام سیکھا.گرمیوں میں سوڈا واٹر اور سردیوں میں مٹھائی فروخت کرتا.پھر آئس کریم بنانے کا خیال آیا ایک بڑی مشین خرید لی.آئس کریم بنانے کا خیال آنے کی وجہ یہ تھی کہ ایک دن نماز ظہر کے بعد حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے فرمایا کہ ملائی برف بیچنے والے زور زور سے آواز میں لگاتے ہیں جس سے نماز میں خلل ہوتا ہے.پھر حضور نے ملائی برف خریدنے سے منع فرمایا تا کہ بیچنے والے اُدھر کا رُخ کرنا چھوڑ دیں میں نے دل میں ارادہ کیا کہ میں یہ کام کروں گا اور نماز کے وقت کا خیال رکھوں گا.لاہور سے آئس کریم بنانے والی مشین خرید لایا اور دارالفضل میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول اور بیت نور کے سامنے دکان لی.دکان کا افتتاح اس طرح کیا کہ حضور کی دعوت کی خوب اچھی لذیذ آئس کریم بنا کر پیش کی حضور نے فرمایا: پنجاب میں سب سے پہلے اس کام کو کرنے والے احمدی...آپ ہیں“ آپ نے کام میں برکت کے لئے دعا بھی کروائی.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس 102
زنده درخت قدر برکت ہوئی کہ حد بیان سے باہر ہے.جس قدر شکر کروں کم ہے.ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر سولہ سال کام کیا پھر اس کے بالکل سامنے بیت مبارک چوک میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی دکان کرایہ پر لے کر کام کیا.( تا وفات یہ دکان آپ کے پاس رہی قریباً 46 سال.) جس کام میں بھی ہاتھ ڈالا برکت ہی برکت دیکھی.اعلیٰ ترین سرکاری ملازمین سے زیادہ کمایا.اس پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی ذاتی شفقت سونے پر سہا گہ تھی صرف آپ ہی نہیں خاندان مسیح موعود کے سب ہی افراد محبت سے پیش آتے کوئی سفر ہوتا، تقریب ہوتی ، ٹرپ ہوتا مجھے سوڈا واٹر اور آئس کریم کا آرڈر ملتا.اس طرح رفاقت نصیب ہوتی اور مالی فائدہ بھی ملتا.ان نایاب رفاقتوں میں چھوٹے چھوٹے دلچسپ واقعات روز کا معمول بن گئے.جو ہماری خوشی کا سامان ہوتے.103
زنده درخت 20- بزرگان سلسلہ کی پیاری یاد میں - حضرت مصلح موعود کی انمول یادیں !- ایک بارکھیل میں حضور کے مد مقابل ٹیم میں شامل تھا.حضور سے بال چھیننے میں جھجک گیا تو حضور نے فرمایا: ”میاں اگر لحاظ کرو گے تو کھیل نہ سکو گے.“ ایک دفعہ گرمیوں میں آپ کا بلاوا ملا.میں کام کر رہا تھا.اُسی طرح اُٹھا اور چل د یا خیال تھا کہ دروازے پر کوئی ملازم آئے گا ، حضور کا پیغام دے جائے گا.وہاں پہنچا تو حضور خود دروازے پر تشریف لے آئے.اپنی حالت کا خیال کر کے گھبرا گیا منہ سے بات نہ نکل رہی تھی.حضور نے بھی اندازہ لگالیا بڑی شفقت سے فرمایا : میاں ! آپ نے چھ بوتلیں بھیجیں اور میری خوشنودی کی خاطر زیادہ ایسنس ڈال دیا.اب چھ کم ایسنس کے ساتھ بناکر بھیجیں.حضور ہمیشہ مجھے میاں یا میاں عبدالرحیم کہہ کر بلاتے تھے.حضرت مصلح موعود کا اپنے خدام سے حسن سلوک یہ واقعہ اُن دنوں کا ہے جب مستریوں کا فتنہ شروع ہوا تھا عبدالکریم اور مستری فضل کریم نے سلسلے سے بگاڑ پیدا کر لیا تھا.قادیان میں ایک تھانیدار متعین تھا، چوکی ہوزری میں ہوتی تھی.ہوزری دار الفتوح میں شیخ نور احمد صاحب کے مکان میں ہوا کرتی تھی.ایک دن صبح ہی ایک سپاہی مجھے ملا اور کہا کہ : بھائی جی آپ کو تھانیدار صاحب بُلاتے ہیں.میں نے پوچھا کیا کام ہے تو اس نے کہا مجھے معلوم نہیں.تھانیدار صاحب کے پاس پہنچا تو اُس نے کہا ”میاں عبدالرحیم آپ 104
زنده درخت مستریوں کا سامان اٹھا کر لے گئے ہیں میں نے جواب دیا ابھی تو میں یہاں آپ کے پاس ہوں.آپ میرے گھر چلے جاویں اور تلاشی لے لیں ،اگر سامان برآمد ہو تو بات کریں.وہ سوچ میں پڑ گیا قلم منہ میں ڈال کر بیٹھ گیا.پھر کہا اچھا آپ جائیں اگر ضرورت ہوئی تو پھر بلا لیں گے.اس اثناء میں کسی نے حضور کو بتا دیا کہ میاں عبدالرحیم کو تھانیدار نے بلایا ہے.آپ نے اُسی وقت اپنے پرائیوٹ سیکریٹری جناب عبدالرحیم صاحب درد کو بھیجا کہ جا کر معلوم کریں کیا بات ہوئی ہے.روزانہ نت نئے واقعات ہوا کرتے تھے مگر جماعت کے ایک عاجز فرد کے لئے آپ کا اس طرح فکر کرنا اچھا لگا اور میں نے ایک روحانی سرور کے ساتھ دل سے حضور کو دعائیں دیں.حضور کی ذرہ نوازی کا ایک واقعہ ذہن میں آ رہا ہے.میری عادت تھی کہ حضور جب کہیں باہر سے قادیان تشریف لاتے ضرور استقبال کے لئے حاضر ہوتا.ایک دفعہ میں شدید بیمار تھا حضور دھرم شالہ یا غالباً منالی سے واپس تشریف لا رہے تھے.استقبال کے لئے نہ جا سکنے کا ملال مجھے بستر پر کھا رہا تھا.میری اس حالت پر خدا تعالیٰ نے رحم کھایا اور شفا دی مگر بے حد نقاہت تھی.خان صاحب کی کوٹھی تک پہنچا.جماعت کے کافی احباب وہاں جمع تھے.امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی وہاں کھڑے تھے.میرے پاس سائیکل تھا.(اس وقت قادیان میں میں تیسرا تھا جس کے پاس سائیکل تھا غربت اور سادگی کے اُس زمانے میں سائیکل بھی قابل ذکر نمایاں چیز تھی ) امیر صاحب نے فرمایا میاں دیر ہو رہی ہے جا کر پتہ کر و حضور کب تک تشریف لائیں گے.امیر صاحب کو میری بیماری کا غالباً علم نہیں تھا.مگر اُن کے اس طرح فرمانے سے جسم میں توانائی محسوس ہوئی.سائیکل پر بیٹھا نہر سے آگے سٹھیالی کے پل سے کوئی دو میل دور تھا کہ کار نظر آگئی.حضور کے ڈرائیور مکرم قریشی نذیر احمد صاحب پسر مکرم قریشی محمد عامل صاحب کی رومی ٹوپی سے پہچان لیا کہ کار حضور کی ہی ہے.اطلاع دینے کی خاطر سائیکل موڑا اور تیزی سے چلانے لگا.مگر کار کی رفتار کا مقابلہ کرنا مشکل تھا.نذیر احمد صاحب نے 105
زنده درخت بتایا کہ حضور نے اس طرح سائیکل موڑ کر تیز چلانے والے کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہے.قریشی صاحب ہمارے پڑوس میں رہتے تھے اچھی طرح پہچانتے تھے.انہوں نے بتایا کہ عبدالرحیم ہے.حضور نے فرمایا.کار کی رفتار کم کر لیں.قریشی صاحب نے بتایا کہ مجھ پر اس ذرہ نوازی کا بہت اثر ہوا.ایک چھوٹا سا لطیفہ بھی ہو گیا.جب میں واپس آیا تو امیر صاحب نے پوچھا کیا خبر ہے؟ تو جلدی سے میرے منہ سے نکلا: حضور ٹھیکری والے کی جماعت سے مباحثہ کر رہے ہیں.دراصل مجھے مصافحہ کہنا تھا.میری بدحواسی پر سب ہنس دیے.ii- حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاح بورڈ کی تحریر پر داد اور اصلاح: میرا طریق تھا کہ جب دکان پر کوئی مشہور خاص چیز تیار ہوتی تو گاہکوں کی آگاہی کے لئے بورڈ پر چاک سے اشتہار لکھ دیتا.اشتہار کے لئے اللہ تعالیٰ مجھے دلچسپ اچھوتے جملے سمجھاتا.اس طرح نہ صرف میری تیار کی ہوئی چیزیں مشہور ہوئیں.میرے بورڈ پر اشتہار بھی گاہکوں کو روک لیتے ،کئی یادگار واقعات ہوئے.ایک دن دکان کے بورڈ پر میں نے چاک سے لکھا ”ہمارا دعویٰ ہے کہ فالودہ ہم سے بہتر کوئی نہیں بنا سکتا ، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد وہاں سے گزرے.حسب معمول میرے بورڈ کو پڑھا اور اپنے دفتر چلے گئے.پھر مجھے دفتر میں بلایا.اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا: ”میاں ! بعض الفاظ مخصوص ہوتے ہیں.“ میں سمجھ گیا کیونکہ میرے دل میں بھی کھٹک ہوئی تھی واپس آ کر اوپر کے الفاظ ہمارا دعویٰ ہے مٹا دیئے.سبحان اللہ ادب اور احترام سکھانے کا کیسا پر حکمت طریقہ تھا.( ابا جان کی 66 106
زنده درخت لکھائی بہت خوبصورت تھی.چاک سے موٹا لکھنے کی مہارت رکھتے تھے.صرف اپنی دکان پر ہی نہیں جماعتی اطلاعات کے بورڈ پر بھی کوئی اطلاع لکھنا بھی آپ کے سپر د تھا.) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد قمر الانبیاء ( اللہ آپ سے راضی ہو ) میری نو جوانی کی عمر سے مجھے اچھی طرح جانتے اور بہت شفقت فرماتے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ بلا کر فرمایا: ”میاں آپ صاحب اولاد ہیں.اولاد کے لیے جائیداد بنانے کی طرف توجہ دیں“ ( سبحان اللہ! اللہ والوں کی باتوں کے خلوص میں بھی قبولیت کا رنگ ہوتا ہے اولا د کیلئے جائیداد بنانے کی طرف توجہ دلانیوالے کو اس وقت خواب و خیال بھی نہ ہو گا کہ دراصل یہ جائیداد اولاد کے کام نہیں آئے گی.بلکہ خود وہ روحانی باپ کی طرح اس اولاد کی سر پرستی فرمائیں گے.دنیا وی جائیداد تو کام نہ آئی روحانی جائیداد سے حصہ وافر ملا.) چنانچہ میں نے آپ کے فرمان سے پس انداز کرنا شروع کیا اور کافی جائیداد بنا لی.میں جس دکان میں کام کرتا تھا وہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی ملکیت تھی.مختار حضرت مرزا بشیر احمد صاحب مرحوم مغفور تھے.ایک دفعہ دُکان کے کرایہ پر بات ہورہی تھی جو مجھے زیادہ لگ رہا تھا، پہلے کم تھا پھر چھ روپے ہو گیا تھا.آپ نے مجھے سمجھایا کہ کرایہ مناسب ہے.آپ کے سمجھانے کا انداز بہت اچھا تھا.فرمایا اگر آپ کو کرایہ زیادہ لگ رہا ہے تو نیلام کر دیتے ہیں جو زیادہ کرایہ دے اُس کو دے دیں گے، اب اڈا بن جانے کی وجہ سے بہت زیادہ کر ا ی ل سکتا ہے اور میاں میں جانتا ہوں آپ کو خدا نے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ اگر ایک بورڈ تحریر کریں (بطور اشتہار ) تو شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کے پر لطف و جذب بورڈ پڑھنے لوگ آ جاتے ہیں.جس سے بکری میں ماشا اللہ اضافہ ہوتا ہے.اس طرح مجھے بورڈ لکھنے پر داد بھی مل گئی.ایک اور ایمان افروز واقعہ میری اہلیہ صاحبہ نے بیان کیا کہ ربوہ کے ابتدائی زمانے کی بات ہے ایک رات دیر 107
زنده درخت بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایک خادم کے ہمراہ ہمارے گھر تشریف لائے اور ایک لحاف دے کر فرمایا کہ مجھے فرصت نہیں ملی ، اب خیال آیا کہ بچے سردی میں نہ سوئے ہوں.سبحان اللہ کس قدر اپنی ذمہ داری کا احساس تھا کہ ایک غریب آدمی کی ذمہ داری خدا نے مجھ پر ڈالی ہے کو تا ہی نہ ہو.اس چھوٹے سے واقعہ کے کئی پہلو ہیں.ابھی ربوہ پوری طرح آباد نہ ہوا تھا.راستے خراب تھے ، اندھیرا تھا.ہاتھ میں لیمپ لے کر مخلوق خدا کی عملی ہمدردی کے لئے نکلے.میرے بیوی بچوں کا اس قدرخیال رکھنے پر دل سے دُعا نکلتی ہے.آپ کے طفیل جس قدر ہم نے آرام پایا اللہ تعالیٰ وہاں اُن کو آرام پہنچائے اور ہمیں بھی ان مبارک ہستیوں کے طفیل اپنی ذرہ نوازی سے معاف فرما کرستاری کی چادر میں چھپالے اور مقام قرب عطافرمائے، آمین.میں اپنے خطوط آپ ہی کی معرفت بھیجا کرتا تھا.ایک دفعہ آپ نے میری اہلیہ سے فرمایا: میں تو آپ کا ڈاکیہ ہوں“.بچوں کی شادیوں میں آپ سے مشورہ کیا جاتا.آپ دلچسپی لیتے.شادیوں کے انتظامات کی نگرانی فرماتے اور سب سے بڑی بات شرکت فرماتے اور باپ کی طرح دُعاؤں سے رخصت فرماتے.دیکھئے اس زمانے کا ایک خط کس قدر اپنائیت ہے :- مکرم میاں عبد الرحیم صاحب درویش سوڈا واٹر فیکٹری السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته کل اچانک آپ کا خط موصول ہوا جس میں عزیز میاں ناصر احمد کے بچہ کی پیدائش پر مبارکباد لکھی تھی.جزاکم اللہ خیراً.میں نے عزیز میاں ناصر احمد والا خط انہیں بھجوا دیا ہے اور حضرت اماں جان والا اُن کی خدمت میں بھجوا دیا ہے.عجیب اتفاق ہے کہ جس دن آپ کا یہ خط آیا اسی دن میں یہ خیال کر رہا تھا کہ ایک عرصہ سے آپ کا خط نہیں آیا.والسلام 23-3-1950 مرزا بشیر احمد 108
زنده درخت تبرک میں مقدار کا سوال نہیں ہوتا: ابتدائی درویشی کے زمانے میں مکرم جناب حفیظ خان صاحب ویرووال والے قادیان تشریف لائے تو میں نے اُن کے ہاتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے لئے لنگر خانہ کی روٹیاں اور دار الحمد کی لوکاٹ تحفت بھیجوائی.ساتھ رقعہ لکھا کہ تبرک قبول فرما کر دُعاؤں سے نوازیں اور کچھ میرے گھر میں اپنے ہاتھ سے بھجوادیں، اُن کے لئے دُہرا تبرک ہو گا.حضرت میاں صاحب کا بہت اچھا جواب ملا.آپ نے لکھا چند روٹیاں اور تھوڑی لوکاٹ آپ کے گھر بھجوا دی ہیں، کچھ لوکاٹ راستہ میں خراب ہو ئیں کچھ بارڈر والوں نے تبرک سمجھ کر رکھ لیں.جو کچھ حصے میں آیا بھجوا دیا.تبرک میں مقدار کا سوال نہیں ہوتا.سبحان اللہ کیا علم و معرفت کا نکتہ ہے.آپ نے میرے اہلِ خانہ کو تبرک بھجواتے وقت جو مکتوب تحریر فرمایا وہ بھی ہمارے پاس محفوظ ہے.عزیزه مکرمه امته اللطیف صاحبه السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے آپ کی والدہ صاحبہ خیریت کے ساتھ ربوہ واپس پہنچ چکی ہوں گی.کل شام کو عبدالحفیظ خاں صاحب جو دو دن کے پرمٹ پر قادیان گئے تھے واپس پہنچے ہیں ان کے ہاتھ آپ کے والد صاحب نے تین روٹیاں لنگر خانہ کی اور کچھ لوکاٹ اور ایک دیچی اور کچھ کپڑے بھجوائے ہیں.روٹیاں میں نے احتیاطاً خشک کرالی ہیں تا کہ بس نہ جائیں اور زیادہ دیر تک رہ سکیں.میں حامل ہذا کے ہاتھ آپ کو لوکاٹ اور روٹیاں بھجوا رہا ہوں.باقی چیزیں عبد الحفیظ صاحب چند دن تک خود اپنے ساتھ لائیں گے شاید ایک دو کپڑے غلام قادر صاحب و عطاء اللہ صاحب ولد سراج الدین صاحب مؤذن کے بھی ہیں بہر حال یہ سب چیزیں عبدالحفیظ خاں صاحب کے پاس ہی ہیں وہی آپ کو پہنچائیں گے میں صرف تین عد دروٹیاں اور کچھ لوکاٹ بھجوا رہا ہوں.لوکاٹ کچھ زیادہ تھے.مگر بارڈر پر اکثر روک 109
زنده درخت لیا گیا.تفصیل غالباً آپ کے والد صاحب نے بھی آپ کو لکھ دی ہو گی آپ کے کپڑوں میں شاید ایک تھان بھی ہے.والسلام مرزا بشیر احمد 3-5-1950 رنجیت کے معنی فاتح: 1952ء میں میں نے ایک خواب دیکھا کہ ہم سب درویش ہرسیاں اور دیال گڑھ کے درمیان ایک مستطیل کمرے کے اردگرد خالی میدان میں جمع ہیں.وہاں شور ہورہا ہے، اچانک لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ مہاراجہ آ رہے ہیں اور بڑے ذوق وشوق سے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہیں.میں کمرہ کے مشرق کی طرف یعنی ہرسیاں کی طرف کھڑا ہوں، اتنے میں کمرہ کے جنوبی حصہ سے ( جو کمرہ کی پشت ہے) مشرقی دیوار کے ساتھ جو بالکل میرے سامنے ہے مہاراجہ آگئے.زرق برق شاہانہ لباس پر ہیرے جواہر لگے ہوئے.سلمہ ستارہ سے اٹا ہوالباس پہنے ہوئے میرے سامنے آگئے.میں کہتا ہوں.حضرت میاں صاحب ہم تو درویش ہیں میرے ایک ہاتھ میں مٹی کا پیالہ ہے جس میں لنگر کی دال ہے اور دوسرے میں لنگر کی روٹی تب میں نے دیکھا کہ وہ شاہانہ لباس میں ملبوس حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہیں اور میرے ساتھ لنگر خانے کا کھانا کھانے کو بیٹھ گئے ہیں.میں نے یہ خواب اپنے محسن حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو تحریر کیا اور آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حضور پیش کر دیا.حضور نے اپنے دستِ مبارک سے اُس پر نوٹ فرمایا:- رنجیت کے معنی فاتح کے ہوتے ہیں.“ حضرت قمر الانبیاء نے اپنے دست مبارک سے مجھے یہ سب نقل کر کے بھیج دیا جواب 110
زنده درخت تک میرے پاس محفوظ ہے اور میری ساری جائیداد سے قیمتی ہے مکرم میاں عبد الرحیم صاحب درویش السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا پوسٹ کارڈ...جس میں آپ نے اپنی ایک خواب لکھی تھی سید نا حضرت...ایدہ کی خدمت میں بغرض ملاحظہ بھجوایا گیا.اس پر حضور ایدہ نے مندرجہ ذیل ارشادنوٹ کر کے ارسال فرمایا ہے کہ :- رنجیت کے معنی فاتح کے ہیں“ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر ہو.11-2-1951 ایک درویش کا اعزاز : والسلام مرزا بشیر احمد حضرت صاحبزادہ صاحب کی غریب پروری اور شفقت کا ایک عجیب واقعہ لکھ رہا ہوں.قادیان میں شیرا پونچھی بیمار ہوا یہ ایک درویش تھا.بغرض علاج لاہور بھجوادیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکا.مکرم حافظ محمد اعظم صاحب کی معرفت لاہور کی جماعت نے تجہیز وتکفین کے لئے ربوہ بھیجا.اُن دنوں میں ربوہ میں تھا.آپ نے مجھے گلے لگا کر اتنی اپنائیت سے افسوس کیا کہ الفاظ سے بیان نہیں ہوسکتا.آپ نے اس سے پہلے علاج اور خبر گیری پر اس طرح توجہ مرکوز رکھی تھی جیسے آپ کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے.پھر جنازہ آیا تو آپ نے کندھا دیا اور ہم سے اس طرح سلوک کیا جیسے اُس کے عزیز رشتہ دار ہوں.اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے.اعلی علیین میں جگہ دے.شیرا پونچھی بڑا خوش نصیب نکلا.حضرت قمر الانبیاء کے کندھوں پر سفر آخرت کیا.مولا کریم مغفرت کا سلوک فرمائے.آمین.111
زنده درخت ایک دفعہ میں ربوہ گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کے لئے گیا.آپ خدمت درویشاں کے ناظر تھے مگر باپ سے بڑھ کر شفیق حقیقی محبت کرنے والے تھے.مجھے پاس بٹھا کر درویشوں کے حالات پوچھے.پھر پوچھا کہ آج کل کس قدر درویش ربوہ آئے ہوئے ہیں.میں نے نام بہ نام بتایا آپ نے فرمایا میں نے کوشش کی تھی کہ درویش اپنے رشتہ داروں سے مل لیا کریں مگر اُن کو تو بھڑ کی ہی لگ گئی ہے، کثرت سے یہاں رہنے لگ گئے ہیں.“ 66 iii- حضرت صاحبزادہ مرزاشریف احمد کے ہاں ذکر خیر : خاکسار کے بورڈ کی تحریر کا ذکر حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے گھر میں بھی ہوتا تھا.یہ بات سید فضل شاہ صاحب (سکنہ نواں پنڈ ) نے بتائی.آپ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے خاص خدمت گزار تھے.کھانا بہت مہارت سے پکاتے تھے.بہت پر خلوص، دیانتدار اور نرم طبیعت کے مالک تھے.آپ نے ایک دفعہ مجھے بتایا کہ بھائی ایک عجیب بات ہے جب بھی کسی دعوت پر احباب اکٹھے ہوتے ہیں میاں صاحب یہ بات ضرور دہراتے ہیں کہ ہمارے میاں عبدالرحیم صاحب کو خدا نے عجیب ملکہ بخشا ہے.جب بھی کوئی چیز بناتے ہیں اُس کی اس انداز میں تعریف بورڈ پر تحریر کرتے ہیں کہ لطف آ جاتا ہے، ہر بار نئے سے نیا فقرہ دلکش الفاظ ہوتے ہیں.یاد آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کھانے پر کوئی نہ کوئی چیز آپ کی بھجوائی ہوئی ضرور ہوتی ہے.آئس کریم تو قریباً روزانہ ایک سیر بچوں کے لئے منگوائی جاتی ہے.سید فضل شاہ صاحب کی ایک اور بات یاد آئی.ایک دفعہ حضرت نواب محمد علی صاحب کو اپنے باغ کے آم کو ٹلے بھجوانے تھے میں پندرہ سولہ سال کا تھا.میری والدہ صاحبہ سے آپ نے فرمایا میاں عبدالرحیم کو بھجوا دیں.گھوڑے پر بٹالہ جا کر آم پلٹی کر آئے.فضل شاہ صاحب کو ساتھ بھیجا.ہم راتوں رات بٹالہ گئے.علی اصبح بلٹی کر کے واپس قادیان دس بجے 112
زنده درخت کے قریب پہنچ گئے.ہماری زندگی کو خدا تعالیٰ نے کیسے کیسے بزرگوں سے جوڑ دیا.یہ سب اُس کا احسان ہے، اُس کا جتنا بھی شکر کریں کم ہے.یہ میری خوش نصیبی ہے کہ معمولی سے ہنر کی کہاں کہاں قدر ہوئی.الحمد للہ.iv- حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کا حسن سلوک: حضرت میر صاحب خاکسار سے دوستانہ بلکہ برادرانہ سلوک رکھتے تھے.باوجود ہر لحاظ سے بلند مرتبہ ہونے کے آپ کے مزاج میں خاکساری اور دوست نوازی تھی.مجھے جب کوئی فیصلہ کرنا ہوتا آپ سے مشورہ کرتا.آپ کئی طرح میرے شریک حال رہے.جب بھی آپ کی یاد آتی ہے اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ مولیٰ کریم میرے محسن سے احسان کا سلوک کرنا.ان گنت واقعات ہیں.مثال کے طور پر میرے بورڈ پڑھ کر کئی پہلو سے خوش ہونا.ایک دفعہ عید کا دن تھا.میں نے بورڈ پر لکھا:- لو بیٹا ایک روپیہ، آج عید ہے عبدالرحیم سے گلاب جامن لے آؤ حضرت میر صاحب پڑھ کر بہت ہنسے.داد تحسین عطا کی پھر فرمایا آپ کے پاس ایک روپیہ ہے؟ میں نے روپیہ نکال کر پیش کر دیا.آپ نے روپے کا نوٹ فریم کی کیل پر ٹانگ کر فرمایا:- میاں عبد الرحیم اب آپ کا بورڈ ہر جہت سے مکمل اور مؤثر ہو گیا ہے“ اب سوچتا ہوں کہاں میں اور کہاں یہ عالم فاضل ہستیاں، زندگی کیسی پر لطف گزری ہے.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی غریب نوازی اور مجزا نہ مسیحائی کا ایک واقعہ ہے.میری اہلیہ آمنہ بیگم کی بہن مہر بی بی صاحبہ ڈیر یا نوالہ ضلع سیالکوٹ میں رہتی تھیں اُن کا جبڑا اپنی جگہ سے ہل گیا.زیادہ ہنسنے یا اباسی لینے میں منہ جو کھلا تو کھلا رہ گیا.بے حد تکلیف تھی.وہ لوگ اُنہیں سیالکوٹ، نارووال وغیرہ میں دکھاتے رہے مگر فائدہ نہ ہوا.میں نے حضرت میر 113
زنده درخت صاحب سے ذکر کیا تو فرمایا کہ 48 گھنٹے میں ٹھیک ہو جائے تو اچھا ہوتا ہے بعد میں تو خطرہ ہوتا ہے کہ درست ہو یا نہ.پھر فرمایا اچھا اُس کو اپنی دکان (واقعہ احمدیہ چوک) میں لے آئیں.میں حضرت اماں جان سے ملنے جا رہا ہوں اُن کو بھی دیکھ لوں گا.میں نے یہی کیا.وہ اندر بیٹھی تھیں نماز کا وقت ہوا میں نے مسجد کا رخ کیا.اتنے میں حضرت میر صاحب تشریف لے آئے مجھے آوازیں دیں.میں موجود نہ تھا اور مریضہ بول نہ سکتی تھی.اس لئے جواب نہ ملا.آپ واپس چلے گئے.میں نے آپ سے صورت حال عرض کی تو فرمایا میرے مکان ”الصفہ لے آئیں آپ نے اپنے شمالی صحن میں باغ میں بٹھایا.اب دیکھئے اُن کا طریقہ علاج ایک دو پٹہ لے کر دونوں ہاتھوں پر لپیٹ کر جبڑے کو اچانک ایک جھٹکا دیا.جبڑا اپنی جگہ پر فٹ ہو گیا.آپ نے پوچھا اب ٹھیک ہے بول سکتی ہو.اُس نے بول کر جواب دیا جی.آپ نے بولنے سے منع فرمایا اور وہی دو پٹہ ٹھوڑی کے نیچے سے چکر دے کر سر پر باندھ دیا اور فرمایا دو دن تک یہ بالکل بات نہ کریں.ایک کٹورے میں چھیچ رکھ دیں جب ضرورت ہو بجا کر کسی کو بلا لیں.اللہ کا کرم دیکھئے کہ مریضہ بالکل ٹھیک ہوگئیں.اسی طرح میرا بچہ عزیزم عبد الباسط آٹھ سال کا ہوا تو شدید بیمار ہو گیا.ٹائیفائیڈ بخار اور نمونیہ ہو گیا.ڈاکٹر بھائی محمود صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کا علاج کروایا مگر شامت اعمال بیماری طول پکڑتی گئی.میں از حد پریشان تھا.میرا بچہ بہت خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھتا تھا میں یہی واسطہ دے کر اُس کی زندگی مانگتا.حضور کو بار بار دُعا کے لئے لکھتا کبھی بیت میں روزے داروں کو دُعا کی درخواست کرتا کبھی دکان کے بورڈ پر دردمندانہ دُعا کی اپیل لکھتا.میں اپنے محسن اور دلی دوست حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے پاس گیا.آپ گھروں پہ آ کر مریض نہ دیکھتے تھے.فرمایا بچے کو ہسپتال لے جائیں میں و ہیں آکر دیکھتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا اور دوا میں شفا رکھی تھی.بفضل الہی بچہ صحت یاب ہوا اور مربی سلسلہ بن کر ساری زندگی خدمت دین میں گزاری.اللہ تعالیٰ اس طرح بھی دُعائیں سنتا ہے.114
زنده درخت ناظر امور عامہ کی سند : ایک دفعہ یوں ہوا کہ حضرت امِ طاہر صاحبہ نے حضرت ولی اللہ شاہ صاحب کے ساتھ میری دکان پر سوڈا واٹر پیا.حضرت سیدہ نے فرمایا ”سوڈا واٹر تو اس کا اچھا ہے“.شاہ صاحب نے قدرے تیزی سے کہا: خود بھی اچھے ہیں ان کا سوڈا واٹر بھی اچھا ہے.اور یہ بات میں آپ کا بھائی ہونے کے ناتے سے نہیں بلکہ بحیثیت ناظر امور عامہ کہتا ہوں.“ سبحان اللہ کیسی کیسی مقتدر ہستیاں مہربان رہی ہیں.115
زنده درخت 21 - دعوت الی اللہ کا جنون اور اس میں پیش آنے والے چند واقعات i-نُصِرْتُ بِالرُّعْب: ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے علاقہ بیٹ Bait ( قادیان کا نواحی علاقہ ) کو دعوت الی اللہ کے لئے منتخب کیا.کئی احباب کو ایک ایک مہینہ اپنے خرچ پر وقف کر کے باری باری اس علاقے کے کسی گاؤں میں جانے کی توفیق ملی.خاکسار کو بھی دعوت الی اللہ کا شوق تھا اور ہر تحریک میں حصہ لیتا تھا.دو دوست مکرم محمد حسین جہلمی ٹیلر ماسٹر اور مکرم مرزا عبداللطیف ( جواب میرے ساتھ درویش قادیان ہیں ) بھی ساتھ ہو لئے ہم سے پہلے اس گاؤں میں جو گروپ دعوت الی اللہ کے لئے آیا تھا اُس میں میرے والد صاحب میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے اور ایک فوجی دوست تھے.گاؤں والوں نے شدید تعصب کی ، بناء پر اُن کی بات نہ سنی تھی اور انہیں گاؤں سے نکال دیا تھا.جب ہم پہنچے تو انہوں نے ہمیں بھی اپنی دشمنی کا نشانہ بنانا چاہا.ہم بڑی تیاری سے گئے ہوئے تھے رہائش کے لئے کمرہ کرایہ پر لے لیا تھا.کھانا پکانے کے لئے اسٹو اور روشنی کے لئے گیس لیمپ تھا گیس کی روشنی گاؤں والوں کو بہت متوجہ کرتی کافی لوگ جمع ہو جاتے ہم انہیں کھانا کھلاتے اور پیغام حق دیتے.پورا علاقہ رام ہونے لگا.غیر احمد یوں کو عجیب بات سو جبھی ہمیں کبڈی کا چیلنج دے دیا.اور کہا کہ جو جیت جائے گا اُسے سچا سمجھا جائے گا.ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور لنگوٹ کس کر آگئے.مگر اُن پر ایسا رعب پڑا کہ خود ہی کھیلنے سے دستبردار ہو گئے کہ قادیان والے کبڈی میں بڑے ماہر ہیں.اس کے بعد ہم مہینہ بھر ٹھہرے بحث مباحثہ ہوتا 116
رہا مگر ہمارا رعب قائم رہا.زنده درخت ii اینٹ پتھر کھانے کی سعادت: اسی طرح کا ایک ٹرپ ویرووال کے قریب سکنہ نو گاؤں میں ہوا.اس میں بھی تین آدمی تھے ایک مرزا عبداللطیف صاحب دوسرے علم الدین سائیکل والے اور تیسرا خاکسار.گاؤں میں ہر طرف دعوت الی اللہ کی ظہر کا وقت ہوا تو بیت کی طرف چلے کہ کچھ لوگ وہاں مل جائیں گے.بات چیت کا موقع ملے گا.وہاں پہنچ کر وضو کر نے لگے.ابھی آدھا وضو ہی کیا تھا کہ اُنہوں نے شدید گالی گلوچ اور زدوکوب شروع کیا حتی کہ مسجد سے نکال دیا اور بچوں کو پیچھے لگا دیا کہ اینٹ پتھر مارتے جائیں اور گاؤں سے باہر نکال کر آئیں.ہم بہت خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مار کھانے کی سعادت ملی.اب اللہ تعالیٰ کی مدد دیکھئے.راستے میں ویرووال کے احمدی دوست مہر اللہ دتہ صاحب ملے.اکھٹے چلتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تھانیدار نے بلایا تھا ذرا پوچھتے جاتے ہیں کیا کام ہے.جب ہم وہاں پہنچے تو تھانیدار صاحب ،جو ہندو تھے ، پوچھنے لگے بھائیو! کہاں سے آئے ہو کس کام سے آئے ہو.ہم نے بتایا کہ قادیان سے آئے ہیں تبلیغ کرتے ہیں ( وہاں ایک مشہور معاند مولوی عبداللہ صاحب بھی بیٹھے تھے ).تھانے دار صاحب نے پوچھا: کیا تبلیغ کرتے ہو؟ ہم نے بتایا کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں اور جس مسیح کو اس زمانے میں آنا تھا وہ آچکے ہیں اور وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہیں.تھانیدار نے مولوی عبداللہ صاحب کی طرف دیکھ کر پوچھا مولوی صاحب یہ کیا کہہ رہے ہیں.مولوی صاحب کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا.کوئی جواب ہی نہ بن پڑا.ہمیں خوب موقع ملا اور تفصیل سے اپنے عقائد بتائے.مولوی صاحب خاموش رہے اور تھانیدار صاحب ہنستے رہے.117
زنده درخت iii.بظاہر حقیر چیز حمد و شکر کا سامان بن گئی: ایک اور تبلیغی ٹرپ کا دلچسپ واقعہ یوں ہے کہ علاقہ مکیریاں کے قول پور چھنیاں میں ایک ماہ کے لئے وقف کیا.ایک احمدی بھائی نے ایک کمرہ ہمیں دے دیا.ہم دن بھر پھرتے پھراتے رہتے ، دعوت الی اللہ کرتے ، رات کو کھانا پکا لیتے.آرام کرتے اور پھر صبح وہی معمول رہتا.ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ دور نکل گئے واپسی میں دیر ہوگئی اور بارش بھی ہوگئی کھانا پکانے کے لئے جو لکڑی اور اُپلے ( پاتھیاں ) تھے وہ بھی کوئی اُٹھا کر لے گیا.پانی بھرنے گئے تو گاؤں کے واحد کنوئیں سے سب پانی بھرنے کے بعد تج ( رسی معہ ڈول ) اُتار کر لے جاچکے تھے ہم اپنا سا منہ لے کر واپس آگئے.آخر ایک لوٹا پانی جو کمرے میں تھا اُس سے دال چاول دھو کر اور ایک اپلہ جو باقی رہا تھا جلا کر کھچڑی چڑھا دی اور دل میں دعا کی کہ بغیر مادے کے سب کچھ پیدا کرنے والے میرے رب ! ہماری مدد کو آ.ابھی اپنے رب سے بات کر ہی رہا تھا کہ دروازے پر ماشکی (سقہ ) آیا.گاؤں والوں کو برا بھلا کہا اور کہا کہ جب تک آپ ادھر ہیں میں خود پانی پہنچاؤں گا.لطف کی بات یہ تھی کہ یہی ماشکی پہلے ہمیں پانی دینے سے انکار کر چکا تھا.اب سنیئے آگ کی ضرورت رب کریم نے کیسے پوری کی.ایک بچی ایک ڈھکنے پر بڑا سا اُپلا رکھ کر لائی اور کہا میری ماں کہتی ہے تھوڑی سی آگ دے دیں.میں حیران ہوا کہ یہ تو پہلا مادہ ہی مانگنے آ گئی.اتنے میں اُس کے باپ نے دور سے آواز دی.مولوی صاحب اس کو آگ نہ دینا.دیا سلائی دے دینا ورنہ راستے میں کپڑے جلالے گی.اپلا بھی وہیں رکھ لیں.میں نے سجدہ شکر ادا کیا ، اپلا چولہے میں رکھا.تھوڑی دیر میں کھچڑی تیار ہو گئی.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے کھائی.کبھی بظاہر حقیر چیز بھی حقیقی حمد وشکر کا سامان بن جاتی ہے.iv.ہمارے دلائل کا سامنا نہ کر سکا : اسی دورے میں ایک دن دا تا پور پہاڑ پر دعوت الی اللہ کے لئے نکل گئے.تقریباً دس 118
زنده درخت میل کا فاصلہ تھا.رات ہوئی تو تھک اس قدر گئے تھے کہ واپس آنا محال تھا.غیر مسلم آبادی زیادہ تھی.نہ کسی نے رہنے کو جگہ دی نہ کھانا پکانے کو برتن ملے.ایک مسلمان کا گھر ملا اُس نے بھی سختی سے بات کی اور شہر سے دور ایک امام باڑے کا پتہ بتایا جہاں کوئی انتظام نہ تھا گندا فرش تھا.کیڑے مکوڑے خصوصاً بچھو بہت زیادہ تھے.ہم واپس شہر آگئے تو خدا کی شان ایک لڑکا کنوئیں پر کھڑ املا.ہم نے کہا بھائی کوئی برتن دو ہم کھانا پکا کر کھا لیں.اُس نے پوچھا کہاں سے آئے ہو.ہم نے بتا یا قادیان سے اُس کی قادیان میں دور کی رشتہ داری تھی ہم نے سب کے نام بتائے تو وہ خوش ہوا اور ایک برتن لا کر دیا.ہم سرائے میں ٹھہرے نمکین چاول پکائے خود کھائے اور وہاں کچھ پٹھان قیچی چھری تیز کرنے والے بیٹھے تھے انہیں کھلائے.سرائے میں دو ہی چار پائیاں تھیں اُن پر چادریں بچھا کر قبضہ کیا.پٹھان نیچے سوئے انہیں بچھو کاٹ گیا.ہم نے دم کیا جس سے اچھا اثر ہوا وہ ہم سے گھل مل گئے ساری نمازیں باجماعت پڑھیں صبح وہاں ایک اہلحدیث مولوی آ گیا جو اُس شہر میں آٹا پینے کی مشین کا کام کرتا تھا.اُس سے دلچسپ بحث ہوئی.اُس نے ڈینگ ماری کہ ہمارے دس سال کے بچے کے سامنے احمدی کی چیں بول جاتی ہے ہم نے اُسے للکارا کہ تم تو چالیس سال کے ہو آؤ ہم سے مباحثہ کر لو ہمارے دلائل کے آگے ٹھیک سے جواب نہ دے سکنے پر سرائے کے مالک اور دوسروں نے اُسے خوب شرمندہ کیا.ہم نے دعوت الی اللہ کا موقع ملنے پر اللہ تعالیٰ کا بہت شکر کیا.۷.گھر میں کاکنواں کھودا: مکیریاں کے قیام کی ایک اور بات یاد آ گئی.مخالفت زوروں پر تھی مگر ہم ڈٹے ہوئے تھے.آخر مخالفوں نے ایک تدبیر سوچی کہ ان کا پانی بند کر دیا جائے خود ہی بھاگ جائیں گے تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی مدد بھی ہوئی.ایک ہندو دوست نے اپنے گھر سے پانی لینے کی اجازت دے دی.ہم مٹی کی منکی لے کر جاتے اور ضرورت کا پانی بھر لاتے.اُن کو ہمارا 119
زنده درخت آرام سے پانی حاصل کر لینا گوارا نہ ہوا جب ہم ملکی لے کر جا رہے ہوتے تو کوئی پتھر یا ڈنڈا مار کے مٹکی پھوڑ دیتے پانی بہہ جاتا اور کپڑے ستیا ناس ہو جاتے.پانی کے بغیر تو چارہ نہ تھا ہم نے گھر میں بڑی محنت سے کنواں کھودا.کچا سا کنواں تھا اس میں سے پانی نکال کر سنبھال لیتے.یہ کنواں ایک دیوار کے ساتھ تھا مخالفین نے اب یہ طریقہ اختیار کیا کہ دیوار پر سے گندی سڑی چیزیں کنوئیں میں پھینک دیتے جس سے بہت تکلیف ہوتی.آخر اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کے دل میں ہماری ہمدردی ڈالی اُس نے ایک ماشکی کو کہا کہ وہ ہمیں پانی دے دیا کرے.اس طرح یہ مسئلہ حل ہوا.vi- مکرم چوہدری محمد اعظ مکیریاں ہی کی بات ہے مکرم چوہدری محمد اعظم صاحب حج بھی عارضی وقف کے لئے تشریف لائے.ایک دن سڑک پر ہی ایک مسلمان کو روک کر اپنے انداز میں دعوت الی اللہ شروع کر دی.بات کرتے کرتے یہ کہا کہ اس زمانے کے علماء کو اچھا نہیں کہا گیا یہاں تک کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کھانے والے بھیڑیئے نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ اگر میں نے یوسف علیہ السلام کو کھایا ہو تو چودھویں صدی کے علماء میں اُٹھوں.مخاطب نے اس روایت کا حوالہ طلب کر لیا.چودھری صاحب اُسے گھر لے آئے آکر کتاب دیکھی تو حوالہ غائب.چوہدری صاحب کو علم نہ تھا کہ علماء سوء یہ حرکت بھی کرتے ہیں کہ کتابوں سے حوالے نکال دیں یعنی کتاب میں تحریف کر کے حوالہ نکال دیا گیا تھا.چوہدری صاحب بڑے سادہ بہت مخلص انسان تھے میں نے خود ان کے پاؤں میں چھالے دیکھے ہیں جو بہت کثرت سے چلنے کی وجہ سے پڑتے تھے مگر تبلیغ میں ناغہ نہ کرتے آپ کی ذاتی وجاہت اور نیکی کا ہمیں بہت فائدہ ہوتا.لوگ اُن سے مشورے لینے آتے.مجھے کھانا پکانے میں مہارت ہو گئی تھی.اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ افسران بالا اور بارسوخ آدمیوں کی دعوت کرتے اس طرح کافی مواقع بات چیت کے میسر آجاتے.اور علاقے میں سہولت سے رہنے کی صورت 120
زنده درخت بھی بن جاتی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے خوب کام لیتا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.vii- مولوی عبد الغفار غزنوی صاحب کو دعوت الی اللہ : مکیریاں قیام کے دوران قادیان سے ناظر صاحب دعوت الی اللہ کی تار ملی کہ آپ کی والدہ صاحبہ بیمار ہیں جلدی قادیان پہنچ جائیں.تیزی سے اسٹیشن پہنچا مگر جالندھر کے اسٹیشن پر رش کی وجہ سے سوار نہ ہو سکا کسی دوسری ٹرین میں دو گھنٹے کا وقفہ تھا.میں نے سوچا نہ جانے پھر کب آنا ہو.چلو کسی کو دعوت الی اللہ کے لئے تلاش کریں.اس نیت سے نظر اُٹھائی تو ایک لمبا اونچا خوبصورت وجیہ خوش پوش ہاتھ میں نفیس چھڑی سر پر رومی ٹوپی شہزادوں کی سی آن بان لئے ایک شخص نظر آیا.پہلے تو میں اپنی رو میں اُس کی طرف بڑھا.پھر سوچا ایسا نہ ہو کوئی نواب شواب ہو براہی مان جائے.اندر سے نفس نے دھکا دیا ظاہری رعب داب سے ڈر گئے دعوت الی اللہ میں خوف کیسا؟ آگے بڑھ کے دعا سلام کے بعد قادیان والے مرزا صاحب کا تعارف کروایا.کہ ایک شخص امامِ جہاں بنایا گیا ہے.اُس نے بے ساختہ کہا: آپ کی مراد مرزا غلام احمد قادیانی سے ہے.جی ہاں آپ ہی کا ذکر ہے.اوہ میں تو اُنہیں دائرہ دین حق سے خارج سمجھتا ہوں اُس نے بہت رعونت سے کہا.میں نے دلیری سے کہا یہ دائرہ آپ نے کھینچا تھا یا آپ کے والد صاحب نے.اسٹیشن تھا، سواریاں فارغ تھیں، سب جمع ہو گئے.گفتگو دلچسپ ہورہی تھی ہندو، سکھ مسلم دلچسپی سے ئن رہے تھے.اُس نے یہ اعتراض کیا کہ مرزا صاحب نے پچاس کتابیں لکھنے کا وعدہ کیا قیمت بھی لے لی اور صرف پانچ لکھ کر کہہ دیا یہ پچاس کے برابر ہیں میں نے عرض کیا کہ جب فرض نماز پچاس سے پانچ رہ گئیں تو اعتراض نہ ہوا.مجمع دیکھ رہا تھا کہ ایک دبلا پتلا غریب کمزور لڑکا ایک زبر دست امیر آدمی پر بھاری پڑ رہا تھا.اس لئے اُس نے بات 121
زنده درخت بدلتے ہوئے کہا: آپ جانتے ہیں میں کون ہوں؟ میں نے کہا: آج پہلی ملاقات ہے.بڑی تمکنت اور رعونت سے کہا میں عبدالغفار غزنوی ہوں.میں نے کہا میں نے یہ نام سنا تو ہوا ہے مگر آپ پر صادق نہیں آتا.کیوں؟ اتنا بڑا لیڈر تو حوصلہ والا ہوتا ہے.مگر آپ کے منہ سے جھاگ جاری ہے.شخصیت کا رعب ڈال رہے ہیں.اُس کے تیور ایسے بگڑے کہ دھکے دینے لگا.پھر میر احشر یہ ہوا کہ کبھی کوئی دھکا دے رہا ہے تو کبھی کوئی.وہاں جو سکھ دوست کھڑے تھے اُن میں سے کسی نے کہا جب اس کی بات کا جواب نہیں دے سکتے تو دھکے کیوں دیتے ہو.پانچ سکھ دوست مجھے اپنے ساتھ لے کر وہاں سے ہٹ گئے.میں نے اُن کو بھی دعوت الی اللہ کی.الحمد للہ.viii - گالیاں سُن کر دعــادو : دورہ کرتے کرتے تر متارن چلے گئے.وہاں ایک گوردوارہ کے سامنے ایک تعلیم یافتہ مذہبی مزاج کے ڈاکٹر کو دعوت الی اللہ کی.اُس نے کہا کہ بھائی میرے گھر کے پاس ایک درزی رہتا ہے.اُس کو بھی آپ کے عقائد سننے کا شوق ہے اگر آپ اجازت دیں تو اُس کو بلا لاؤں.میں نے کہا ہم تو آئے ہی اسی غرض سے ہیں ضرور بلا لیں.درزی آیا تو بے چارہ معذور تھا اُس کی دونوں ٹانگیں پیدائشی طور پر بہت کمز ور تھیں.وہ ہاتھوں کے بل چلتا ٹانگیں ساتھ گھسٹتی رہتیں اوپر کا دھڑ ٹھیک تھا.اُس سے طویل بات چیت ہوئی.بازار تھا ، راہ چلتے لوگ بھی جمع ہو گئے.وفات مسیح پر بات ہو رہی تھی.میں نے اُس سے کہا اچھا فرض کر لو مسیح آبھی جائیں اور آکر مر جائیں تو پھر لوگوں کو جن آیات سے آپ اُن کی وفات ثابت کریں 122
زنده درخت گے وہ ہمیں قرآن کریم سے نکال کر دکھا دیں.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ آ کر فوت ہوں اور دوسرے لوگ زندگی کی آیات ہی پیش کرتے رہیں.اس بات کا اُس پر عجیب اثر ہوا کچھ دیوانہ سا ہو گیا.مجھے موڑھے سمیت بازار میں پھینک دیا.فحش گالیاں بکیں.لاجواب ہونے کے اقرار کا عجیب انداز تھا.خدا کی شان سُننے والوں میں کچھ سکھ یاتری بھی تھے، اُس کی خفت ، ماردھاڑ اور دھکم دھکے دیکھ کر بولے: میاں جی آپ کہاں سے آئے ہیں.آپ کا کمال حوصلہ ہے وہ گالیاں دے رہا ہے اور آپ ٹھنڈے دل سے اُسے سمجھاتے جا رہے ہیں.ایک سکھ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم چل پڑے.اگر چہ اُس کی گالیاں سُن کر طبیعت منقض ہو رہی تھی تا ہم جو سکھ احباب ہاتھ لگے انہیں خوب دعوت الی اللہ کی اور بتایا کہ مزاج میں یہ نرمی ہمارے مسیحا کی تعلیم ہے.ع گالیاں سُن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو ix- یہی کوئی دوکوس : کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار دعوت الی اللہ کے دوران کا ایک اور دلچسپ واقعہ ہے.ہم دو آدمی بھائی شیر محمد صاحب برادر اصغر بھائی نورالدین صاحب تاجر قادیان اور خاکسار دعوت الی اللہ کے لئے نکلے.کھانے کے لئے روٹی پکالی ، پانی کی گڑوی لے کر چل دئے.راستے میں کسی سے پوچھا کہ سورج پور یہاں سے کتنی دور ہے جواب ملا بس یہی کوئی دوکوس ہے.چلتے چلتے بارہ بجنے لگے.تو پھر کسی سے پوچھا بھائی سورج پور یہاں سے کتنی دور ہے جواب ملا بس یہی کوئی دو کوس ہو گا.ہم نے کہا یہ کوس کتنا لمبا ہوتا ہے.جواب ملا پتہ درخت سے توڑ کر چلنے لگیں جب پتہ خشک ہو جائے تو سمجھو ایک کوس ہو گیا.سادے زمانے تھے عجیب انداز تھے ہم چلتے چلتے عصر کے وقت منزل پر پہنچے.بھائی جی کا پتہ پوچھا جو ایک ضعیف مسلمان عورت کے گھر رہائش پذیر تھے.کھیت میں ملاقات ہوئی، چنے اور گڑ سے ہماری تواضع کی.اب 123
زنده درخت ہمیں واپسی کی فکر ہوئی کیونکہ ہمیں حکم تھا کہ رات واپس آجائیں.واپسی پر راستے میں بھی مزے کا واقعہ ہوا.جب بہت پیاس لگی کوئی کنواں نہ ملا سوچا کسی کے گھر سے پانی لے لیتے ہیں.مگر یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی ہر گھر پر تالا پڑا ہوا تھا.صرف ایک گھر کھلا تھا جس میں ایک نو بیاہتا خاتون عروسی جوڑا پہنے بیٹھی تھی.اُس نے پانی پلایا اور بتایا کہ سب گاؤں والے کھیتوں پر کام کرنے گئے ہیں.ہم نے پانی پیا اور دو کوس ، چل کر واپس پہنچے.-X - ایک مزیدار بات : فتنہ ارتداد کے زمانے میں عارضی وقف کی تحریک پر آٹھ آدمیوں پر مشتمل قافلہ بیاور گیا ، جوا جمیر شریف سے آگے ہے.ہمارے انچارج محمد حسین صاحب تھے رات گاڑی سے اُترے تو زمین عجیب خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی.جیسے ستاروں کا قافلہ زمین پر اُتر آیا ہو پتہ چلا کہ وہ ابرک کے ٹکڑے تھے جو چاندنی میں چمک رہے تھے وہاں ابرک کی دکان تھی.صبح سودا وغیرہ لینے بازار گیا تو دیکھا کہ بازار میں ایک شخص کو چند آدمیوں نے گھیر رکھا ہے.وہ اعتراض کر رہے ہیں اور اکیلا شخص جواب دے رہا ہے میں قریب گیا تو معلوم ہوا کہ وفات وحیات مسیح ناصری پر بات ہورہی ہے میں نے سوچا یا الہی یہ تنہا شخص احمدی معلوم ہوتا ہے مگر یہاں احمدی کیسے؟ تھا بھی نا آشنا صورت.......دیکھتے ہی دیکھتے معترض لوگ اُسے دھکے دینے لگے.میری غیرت نے خاموش نہ رہنے دیا آگے بڑھ کر کہا.اس کی باتوں کا جواب دودھکے کیوں دیتے ہو جو یہ کہہ رہا ہے بالکل حقیقت ہے لوگ یہ دیکھ کر کہ اُس کا ایک حمایتی آگیا ہے ادھر اُدھر ہو گئے.وہ احمدی شخص جناب عبدالواحد پٹھان خادم حضرت اقدس مصلح موعود سے مشابہ تھا مجھے اپنا ہم نوا دیکھ کر پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں میں نے کہا قادیان سے دوبارہ علیک سلیک کی معانقہ کیا گر مجوشی کا یہ عالم تھا گو یا لیلی مجنوں ملے ہوں مکرم ماسٹر محمد شفیع اسلم صاحب نے کیا خوب کہا ہے.ع مجنوں کو لیلی مل گئی جب احمدی دو مل گئے 124
زنده درخت پھر اُس نے ہمارے پاس آنا جانا شروع کر دیا ایک رات ایک غیر احمدی کی تقریر کے نوٹ لینے پر مامور تھے باتوں باتوں میں میں نے پوچھا آپ کبھی قادیان گئے ہیں کہنے لگے نہیں.پھر آپ احمدی کس طرح ہوئے ؟ اُس نے بتایا کہ کسی احمدی کی تبلیغ سے حق ملا تھا چندہ بھی دیا تھا مزے دار بات یہ بتائی کہ اگر احمد آباد والے مجھے نکال دیتے ہیں تو بیادر والے بلا لیتے ہیں اور اگر بیا در والے نکال دیتے ہیں تو احمد آباد والے بلا لیتے ہیں میں اپنے فن کا ماہر ہوں اور سارا علاقہ مجھ سے کام لیتا ہے خدا تعالیٰ نے یہ کسب مجھے اپنے فضل اور احمدیت کی برکت سے عطا فرمایا ہے.الحمد للہ.xi- میلے میں مار : قول پور چھنیاں سے آٹھ میل کے فاصلے پر ایک پہاڑی پر ایک گاؤں گگن ناتھ کاٹلہ ہے وہاں سال میں ایک دفعہ میلہ لگتا تھا.ہر مذہب ملت کے لوگ آتے تھے میں نے اور مرزا عبداللطیف صاحب نے میلہ میں تبلیغ اور ٹریکٹ تقسیم کرنے کا پروگرام بنایا.ہم نے دیکھا کہ چار پٹھان اپنے کام سے تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں.ہم بھی بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے کہ قادیان میں حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو نشانیاں بتائی تھیں سب پوری ہو گئی ہیں.اپنے طور پر ہم انہیں سمجھا رہے تھے مگر یکدم ایک پٹھان نے میری گردن دبوچ لی اور کہا خو تم ایک اور نبی کو مانتا میں نے اُسے بمشکل سمجھایا کہ انگریز کا راج ہے میلے میں پولیس بھی آئی ہوئی ہے آپ کو زیادتی کا بدلہ ملے گا.تب بہت جلدی وہ کہنے لگے بھائی صاحب معاف کر دیں اور باتیں سنائیں پھر ہم نے جی بھر کے باتیں سنائیں.مگر اُن کو دست درازی کی جرات نہ ہوئی.xii- قصہ عربی پیر کا مکیریاں میں دعوت الی اللہ کے لئے قیام کے دوران ہماری قیام گاہ کے بالکل پڑوس 125
زنده درخت میں ایک عرب آیا.وہ شخص عرب نہ تھا بلکہ لباس عربوں جیسا پہنتا تھا.سارا محلہ اُس کا مرید تھا وہ ہر سال آتا لوگوں سے نذر نیاز وصول کرتا.جب اُسے ہمارے بارے میں علم ہوا تو اُن کے سامنے ڈینگیں مارنے لگا کہ یہ لوگ تو جاہل ہیں.جھوٹے ہیں.تنخواہ لیتے ہیں اس کام کی وغیرہ وغیرہ.ایک شخص نے جو ہمارے پاس آیا تھا یہ سارا قصہ سنایا میں نے اُسے کہا کہ شام کو آپ اُس کے پاس آکر بیٹھنا میں بھی آؤں گا مگر اُسے علم نہ ہو کہ مجھے آپ وہاں لے کر آئے ہیں.وہاں سارا محلہ ہمارا واقف تھا ہم اگر چہ ایک ماہ تبلیغ کے لئے وقف کرتے تھے مگر کئی سال آنے جانے سے بہت لوگ شنا سا ہو گئے تھے شام ہوئی تو میں اُن کے گھر گیا اور کہا ئنا ہے پیر صاحب آئے ہوئے ہیں ہم بھی نیاز حاصل کرنے آئے ہیں.پیر صاحب نے ہمیں جگہ دی اور تپاک سے ملے.اب گفتگو شروع ہوئی ہم نے عرب سے علمی افاضہ کے لئے چند باتیں کیں تو وہ گھبرائے اُن کو علم سے کیا واسطہ تھا وہ تو کاہلواں کے قریب کے گاؤں کوٹلی راول کے راول تھے اور مانگنے والے تھے.پندرہ بیس منٹ کی گفتگو سے اس قدر برافروختہ ہوئے کہ اُن کے میزبان بھی گھبرا گئے کچھ پیر صاحب کی حالت سے حیران ہو کر وہ مجھے چلے جانے کو کہنے لگے میں نے کہا پیر صاحب آپ تو عرب ہیں عربوں کے حوصلے بہت بلند ہوتے ہیں مگر اب تو عربی پیر کی قلعی کھل چکی تھی.میں نے جاتے جاتے اُسے کہا کہ تم نے یہ کیا منافقانہ صورت بنا رکھی ہے.دھوکہ دہی سے رزق کماتے ہو صبح ہوئی تو پیر صاحب غائب تھے.میرے ساتھی نے بڑا لطف لیا اس کے بعد ہم جب بھی گئے پیر صاحب کو کبھی نہیں دیکھا.xili- ویر ووال میں دعوت الی اللہ کے دوران رام لیلا دیکھنے کا واقعہ: ویر و وال کے لئے ایک ماہ وقف میں ہمارے امیر المجاہدین مکرم خان عبدالمجید خان صاحب تھے ( والد محترم آپا طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ ) ان کے چھوٹے بھائی مکرم حفیظ خان صاحب کی لالہ سرن داس بھنڈاری سے دوستی تھی.ایک دن وہ آئے اور کہنے لگے بھائی جی! 126
زنده درخت چلیں آپ کو رام لیلا دکھا لائیں.میں نے انکار کیا کہ اب اصل قصہ تو پیش نہیں کرتے لغو کہانی دیکھنے سے کیا فائدہ مگر اُنہوں نے بہت اصرار کیا.اور کہا کہ آپ وہاں اس سے زیادہ ذکر الہی کر لیں گے جتنا آپ نے یہاں کرنا ہے میں اُن دونوں کے ہمراہ گیا جلدی سے مجلس میں بیٹھ گیا تا کہ کوئی مجھے وہاں دیکھ نہ لے.میں نے دیکھا کہ لوگ عجیب عجیب مذاق کے وہاں جمع تھے حیران ہوا کہ دیکھنے تو ایک خدا کے بزرگ مقرب کی زندگی اور پاکیزہ سیرت آئے ہیں مگر او باش صورت لوگ ہیں.اچھے اچھے امیر وضع سفید ریش لوگ ارد گرد کے مکانوں کی چھتوں سے عورتوں کو تاڑ رہے ہیں.مخش گانے گا ر ہے ہیں.میری تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور دل ایسا دکھا کہ روتے روتے ہچکی بندھ گئی.ارد گرد کے لوگ مجھے قدرے حیرانی سے گھور گھور کر دیکھنے لگے.تماشا شروع ہوا.رام چندر جی جب بن باس میں ہیں تو ایک ندی پار کرنے کے لئے کشتی میں بیٹھتے ہیں اور اجرت میں ملاح کو اپنی پیاری بیوی کی بے حد قیمتی انگوٹھی اُتار کر دیتے ہیں میں حیران ہوا کہ ایک تو بادشاہ ہے بادشاہ کا بیٹا ہے دوسرے قوم کا رشی بھی ہے مگر پاس پیسہ دھیلہ نہیں ورنہ بیوی کی انگوٹھی اُتروا کر نہ دیتا.جس بات نے بہت متاثر کیا وہ ملاح کی ذہانت اور نیک نفسی تھی.اُس نے انگوٹھی جیسی قیمتی چیز نہ لی اور کہا میں اجرت نہیں لوں گا ہاں آج ایک ندی میں نے آپ کو پار کروائی ہے جس دن مجھے ایک ندی پار کرنے کے لئے آپ کی ضرورت ہوگی تو آپ میری مدد کیجئے.میری تو چیچنیں نکل گئیں.لوگوں نے میری طرف دیکھنا شروع کر دیا.بعد میں بہت عرصے تک میری طبیعت پر اس کا اثر رہا.پھر جب بھنڈاری صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا بھنڈاری جی! آپ نے کیا دیکھا جواب دیا کھیل تماشا، روپ بہروپ، رنگ روپ پھر میں نے اُس کو اصل حقیقت سمجھائی کہ کس طرح کسمپرسی کے زمانے میں رام چندر جی صابر شاکر رہے.دوسرا اصلاح کی زیر کی دنیاوی دولت ترک کر کے اصلاح احوال اور اُخروی زندگی کا فکر کیا.میرے بیان میں ایسا درد اور اثر تھا کہ بھنڈاری صاحب بھی رونے لگے.127
زنده درخت xiv-ویرووال کے شدید معاند کو دعوت الی اللہ کا موقع : ایک دن مکرم عبدالمجید خان صاحب مجھے اپنے ساتھ باغ لے گئے وہاں دو آدمی بیٹھے باتیں کر رہے تھے.میں نے پوچھا خان صاحب یہ کون ہیں.آپ نے بتایا مہرابراہیم صاحب ہیں جو احمدیت کے شدید مخالف ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ان کے بیٹے مہر اللہ دتہ صاحب کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی ہے.مگر انہوں نے اُس پر وہ ظلم تو ڑے کہ الا ماں گھر سے نکال دیا.بیوی چھین لی.جائیداد سے بے دخل کر دیا اور اب وہ ”میاں ونڈ میں رہتا ہے.میں نے خان صاحب سے پوچھا میں ان سے احمدیت کے بارے میں کچھ باتیں کروں آپ نے فرمایا: نہ ایسا نہ کرنا بڑا منہ پھٹ ہے اس نے ایک مبلغ کی زبان باہر نکال کر مار دینے کی دھمکی دی تھی.( وہ مبلغ مولوی روشن الدین صاحب تھے جن سے سارا دن کام لیا مگر کنوئیں سے پانی تک نہ پینے دیا) میں نے خدا سے دُعا کی خان صاحب سے بصد اصرار اجازت لی اور اُن کے پاس جا بیٹھا.پہلے تو ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر دینی باتیں شروع کر دیں اور جب دیکھا کہ وہ میرے ساتھ بہنے لگے ہیں اور میری باتیں اُن پر اثر انداز ہو رہی ہیں تو میں نے صداقتِ مسیح موعود پر قرآن وحدیث کی رُو سے باتیں شروع کر دیں.خدا تعالیٰ نے اُن کی ہدایت کا وقت بھی قریب رکھا ہوا تھا.غروب آفتاب تک وہ اتنے متاثر ہو چکے تھے کہ کہنے لگے کہ بھائی مبلغ تو یہاں بہت آئے مگر آپ کا طرز استدال نرالا ہی ہے.اب شام ہو گئی ہے آپ صبح آٹھ بجے ہی تشریف لے آئیں پھر باتیں کریں گے کیونکہ میری کافی حد تک تسلی ہو گئی ہے.شکر ہے بعد میں اُنہوں نے احمدیت قبول کر لی.ان کے دوسرے بھائی بھی غالباً چراغ الدین نام تھا بے حد مخالف تھے ان پڑھ تھے کان سے اونچا سنتے تھے مگر اپنے بھائی کے ساتھ مل کر احمدی بھائی کو بہت دُکھ دیتے تھے.ایک دفعہ دریائے بیاس میں کشتی پر سوار اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کر رہے تھے کہ اچانک 128
زنده درخت طوفان آ گیا کشتی ڈانواڈول ہوگئی.موت سامنے نظر آئی تو کہنے لگے دعا کرو ہم بچ جائیں اگر بچ گئے تو مرزا صاحب کو سچا مان لیں گے.کشتی کنارے لگی تو مکر گئے کہ کشتی تو لگتی ہی تھی کنارے پر.اگر تمہارا مرزا صاحب مشکل میں کام آ سکتے ہیں تو جاؤ اُن سے کہو میری ٹانگ توڑ دیں.خدا کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ اُن کی ٹانگ خراب ہو گئی.بے حد تکلیف میں بار بار کہتے یا اللہ اب ٹھیک کر دے مرزا صاحب کو ضرور مان لوں گا.اللہ تعالیٰ قادر ہے.اُس کی ٹانگ ٹھیک ہو گئی.پھر ہر مجلس میں جہاں کہیں حضرت مسیح موعود کے خلاف بات ہوتی وہ برادشت نہ کرتے ٹانگ کی خرابی کے دوران لٹھ لے کر چلنے کی عادت پڑی اس لٹھ کو وہ مخالف کے سر پر بھی مار دیتے بعد میں سنا تھا احمدیت قبول کر لی تھی.- اُردو میں جواب دیا اُردو نہیں جانتا: ایک دفعہ راستے میں ایک کشمیری مولوی صاحب کو آتے دیکھا سوچا انہیں تبلیغ کرنی چاہیے پاس جا کر سلام عرض کیا اور خیریت پوچھی.مولوی صاحب نے وعلیکم السلام کہا اور کہا کہ بالکل خیریت سے ہیں میں نے عرض کی آپ اردو بول سکتے ہیں؟ بڑی رواں اردو میں جواب دیا کہ میں تو اردو بالکل نہیں بول سکتا.مجھے بہت ہنسی آئی کہ اردو میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے اُردو نہیں بول سکتا.مولوی صاحب نے کہا کہ میں دراصل آپ سے جان بچانے کے لئے ایسا کہہ رہا تھا.میں نے دل میں کہا اب تو آپ کی جان نہیں بچ سکتی.فوراً سوال کیا کہئے آپ کو مرزا صاحب کی صداقت پر کیا اعتراض ہے؟ اُس نے کہا حضرت امام مہدی علیہ السلام کو بادشاہت کرنی ہے، جزیہ لینا ہے، اُن کے ساتھ فوج ہوگی.میں نے کہا بادشاہ تو اپنی رعایا سے جزیہ لیتا ہے مگر مرزا صاحب کو ساری دنیا سے احمدی احباب شوق سے خود بخود چندہ دیتے ہیں.رہا سپاہی کا سوال تو ایک سپاہی مرزا صاحب کی 129
زنده درخت فوج کا میں خود آپ کے سامنے کھڑا ہوں آپ نے خود بیان کیا ہے کہ آپ مجھ سے جھوٹ بول کر جان بچا رہے تھے اور بادشاہ کیا ہوتا ہے.مرزا صاحب کو تو شاہ کو نین نے سلام فرمایا ہے.کہ جب آئے تو میرا اسلام دینا.ہم آپ علیہ السلام کی دل سے اطاعت کرتے ہیں.اور اپنا دینی و دنیاوی بادشاہ مانتے ہیں.اُس پر کافی اثر ہوا.xvi- کشمیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر پر : جب میں پہلی دفعہ کشمیر گیا تو سستے زمانے تھے تھی آٹھ آنے سیر مل جاتا تھا.انڈے ایک آنے کے چار اور مرغی ڈھائی آنے میں مل جاتی تھی.سیب ایک آنے سیر.اچھے چاول ایک آنے کے ڈیڑھ پاؤ چینی بارہ چودہ آنے سیر.سواری کے لئے گھوڑا آٹھ آنے روز اور سامان اُٹھانے کے لئے مزدور اس سے بھی سستا مل جاتا تھا.ٹانگے کی نسبت کشتی میں سفر ستا تھا.کھانے کے لئے آلو کی بیسن لگی روٹی اور چھوٹی چھوٹی مچھلی مل جاتی.ناشپاتی بہت لذیز ہوتی اور وہ بھی ایک آنے سیر کبھی ایک روپے کی سومل جاتیں.ایک جگہ بھاؤ پوچھا تو جواب ملا آپ درخت سے جتنی ضرورت ہے اُتار لیں.عناب قیمتی ہوتے ہیں مگر وہاں خود رو بیریوں کی طرح وافر اُگے ہوئے تھے.سبزیاں تر و تازہ خوش رنگ خوش ذائقہ حسن و تازگی کی مثال ہوتی تھیں.مگر وہاں پستو اور کھٹمل بہت تھے میں نے تکیے کے غلاف کی طرح ایک بڑا تھیلاسی لیا اُس کو اپنے اوپر چڑھا کر خوب کس کے منہ باندھ لیتا.کچھ بچ بچاؤ ہو جاتا لیکن اگر لباس میں گھس جاتے تو بہت بے چینی ہوتی.کشمیر میں حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر دیکھنے گیا تو مجاور سے پوچھا یہاں ایک نبی کی قبر ہے آپ بتا سکتے ہیں کہاں ہے؟ اُس نے میری طرف انگلی کر کے باقی لوگوں کو مخاطب کر کے کہا یہ پکا مرز کی ہے.ہم اُس مسجد میں گئے جس کے ساتھ مزار ہے.متولی نے بتایا کہ اس قبر پر سنگ مرمر کا کتبہ تھا جس کو کوئی مرزائی یا عیسائی لے گیا ہے.کیونکہ اُن دونوں کا اُس سے مطلب حل ہوتا ہے.عیسائی کہتے ہیں خدا تھے اگر کتبہ موجودرہتا تو خدائی اور عیسائیت 130
زنده درخت دونوں ختم.مرزائی کہتے ہیں نبی تھے فوت ہو چکے.کتبے سے وہ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں.xvii- ایک رات میں سارے تاشقند میں دعوت الی اللہ : میں ایک عارضی وقف کے دوران سری نگر میں تھا.وہاں سرکاری طور پر ایک نمائش کا اہتمام تھا اتنی بڑی نمائش پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.بہت بڑے رقبے پر اسٹال لگے تھے خوب روشنیوں کا انتظام تھا.وہاں تین مسلمان ملے جو مختلف لباس میں تھے میں نے سلام دعا کر کے بات شروع کر دی.میری باتوں پر نو عمر لڑکے نے توجہ دی سن رسیدہ سنی ان سنی کر کے آگے چل دیئے.میں نے اُس لڑکے سے سوال کیا: بھائی صاحب آپ کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق کیا عقیدہ ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ : وہ سب نبیوں سے افضل ہیں خاتم النبین ہیں اور اُن کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.میں نے پوچھا: اور حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق کیا خیال ہے؟ اُس نے جواب دیا: حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں آسمان پر ہیں اور آخری زمانے میں آئیں گے میں نے کہا پھر آخری کس کو کہیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یا حضرت عیسی علیہ السلام کو.وہ لڑکا گھبرا گیا چلا چلا کے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور اجنبی زبان میں تفصیل سنا دی وہ اردو سمجھتے تھے مگر آپس میں اجنبی زبان میں بات کرتے تھے.اُنہوں نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا.آپ نے بات ایسی طرز سے پیش کی ہے جو ہماری سمجھ سے بالا ہے.آپ کل ہماری سرائے میں آئیں.اُنہوں نے ایک خوبصورت کارڈ جس پر سری نگر کا پتہ لکھا ہوا تھا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا.آپ کل ضرور تشریف لائیں ہم آپ کا شدت سے انتظار کریں گے.اگلے دن میں نے کشتی کرائے پر لی.کشتی اس لئے لی کہ ایک تو ٹانگے کی نسبت سستی 131
زنده درخت تھی دوسرے مجھے پانی میں سفر کرنا دلچسپ لگتا تھا.کشتی والے نے مجھے کارڈ پر درج پتے کے مطابق سرائے تاشقندی پر اُتار دیاوہ ایک وسیع سرائے تھی جس میں سارا تاشقند کا مال آتا تھا.پھر وہاں سے محصول ادا کر کے باہر آتا تھا.سارا سٹاک وہاں ہونے کی وجہ سے کثرت سے تاجر آجارہے تھے بھیڑ سی لگی تھی.کوئی لانے والا کوئی خرید کر جانے والا میں نے گیٹ پر ٹکٹ دکھایا تو گیٹ کیپر نے ایک آدمی کو بلا کر مجھے ساتھ لے جانے کو کہا.خفیف سے تلاشی بھی ہوئی میرے پاس صرف ٹریکٹ تھا.وہ خوش پوش شخص مجھے ساتھ لے کر دوسری منزل پر جارہا تھا راستے میں ایک خوش شکل وجیہہ باوقار شخص ملے جو غالباً سرائے کے انچارج تھے.مجھ سے پوچھا : آپ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ابھی تو فلاں محلے سے آیا ہوں لیکن رہنے والا قادیان کا ہوں.اُس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور کہا کہ قادیان میں ایک شخص سے میرے دوستانہ تعلقات ہیں.میں نے نام پوچھا تو بتایا بشیر الدین محمود احمد مجھے بہت خوشی ہوئی اُس نے میرے امام کا نام عزت سے لیا تھا.جب میں اوپر والی منزل پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا کمرہ ہے جو تاشقندی نمدوں اور قالینوں سے خوب سجا ہوا ہے.کمرے میں تقریباً پندرہ آدمی موجود تھے جو میرے داخل ہونے پر تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے اور میرا تعارف ایک معمر شخص سے کروایا.نمائش والا سارا قصہ دہرایا.گفتگو شروع ہوئی جو تقریباً دو گھنٹے جاری رہی.بہت سنجیدہ لوگ تھے.نماز با قاعدگی سے ادا کرتے.ایک صفت اُن میں عجیب دیکھی اگر اُن میں سے کسی کو باہر جانا ہوتا تو کسی دوسرے کو بلا کر اپنی جگہ پر بٹھاتا اور پھر جاتا.اطمینان سے میری باتیں سنیں اور بڑے ادب سے کہا کہ ہم آپ کے دلائل کا کما حقہ جواب نہیں دے سکتے البتہ ہم تاشقند جا کر اپنے شہر کے علماء سے بات کریں گے.آپ کے استدلال سے ہم 132
زنده درخت بہت خوش ہوئے ہیں.میں نے واپس آکر جب یہ رپورٹ دار التبلیغ میں ارسال کی تو ناظر صاحب دعوۃ تبلیغ محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب نے حضور کی خدمت میں پیش کر دی.آپ بے حد خوش ہوئے.فرمایا دیکھو اس نے بعض تنخواہ دار مبلغوں سے بڑھ کر کام کیا ہے.میاں عبد الرحیم صاحب سے خدا تعالیٰ نے زبر دست دعوت الی اللہ کا کام لیا ہے اور اس کو خدا تعالیٰ نے ساری تاشقند میں احمدیت کی تبلیغ کا موقع بہم پہنچا دیا.الحمد للہ ثم الحمد للہ.سید صاحب نے مجھے گلے سے لگایا بہت مبارک باد دی اور حضور کی خوشنودی کا مژدہ سنایا.میں مسیح موعود کا ایک غلام اس خبر سے جس قدر خوش ہوا اس کا اندازہ قارئین کرام پر چھوڑ دیتا ہوں.ثم الحمدللہ.xviii- عدالت خاں صاحب کی قبر سے روشنی : حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ایک خطبے میں فرمایا کہ جماعت کے نوجوانوں کو دعوت الی اللہ کے لئے نکل جانا چاہیے.صحابہ رضوان اللہ......میں کون سے تنخواہ دار مبلغ تھے وہ ہمہ وقت دعوت الی اللہ کرتے اور کامیابیاں حاصل کرتے.آپ کا انداز بیان اتنا جوش دلانے والا تھا کہ دو نو جوانوں نے بغیر وسائل کے روس جانے کا ارادہ کر لیا.ان میں سے ایک مجھے کشمیر میں ملے.میں دعوت الی اللہ کے لئے آسنور میں تھا میں نے احوال پوچھا تو بتایا کہ میرا نام عدالت خان ہے حضور کے خطبہ سے متاثر ہو کر پا پیادہ اللہ توکل نکل کھڑے ہوئے روس کی سرحد پر اسمعیل صاحب تو نکل گئے میری بات نہ بنی دو دفعہ انکار ہو چکا ہے اب چند دن بعد تیسری دفعہ کوشش کروں گا..جب دوسال بعد دوبارہ جموں گیا تو نظر نہ آئے میں سمجھا روس جانے میں کامیاب ہو گئے ہوں گے.میں نے تبلیغی دورے کے بعد واپسی کا سفر جموں کی طرف سے کرنے کی بجائے حویلیاں ، مظفر آباد کی طرف سے کیا.دوستوں نے تنبیہہ بھی کی یہ راستہ پر خطر ہے.مگر مجھے دعوت الی اللہ، سیر اور دشوار گزار راستوں کا شوق تھا.سوپور، کپ درزہ.مقدر دن بچہ مرگ.دیو والی وغیرہ کی طرف سے 133
زنده درخت سفر کیا.ہر جگہ اور راستے میں ان گنت دلچسپ واقعات پیش آئے.بچہ مرگ میں مجھے ایک مخلص احمدی دوست ملے جو سری نگر میں آشنا ہوئے تھے.میں نے عدالت خان صاحب کا پوچھا آپ نے بتایا کہ عدالت خان روس جانے کے لئے میرے پاس ٹھہرے تھے اتفاق سے بیمار ہو گئے ع مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوائی بخار ٹائیفائڈ اور پھر نمونیہ ہو گیا جب دیکھ بھال اور علاج میری طاقت سے باہر ہو گیا تو میں نے انہیں مقدر دن جماعت میں لے جانے کی تیاری کی وہاں بھی افاقہ نہ ہوا.ایک دن حالت یاس میں اُس مخلص نوجوان نے کہا کہ ایک طریقہ ہو سکتا ہے جس سے میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ کسی غیر احمدی کو میرے پاس لائیں وہ مجھ سے حضرت مسیح موعود کی صداقت پر مباہلہ کرے پھر خدا کی قسم میں ایک سال اور زندہ رہ سکتا ہوں.مگر ایسے غیر احمدی کا کیسے انتظام ہوتا ؟ آخر ان کا وقتِ شہادت آ گیا.غریب الوطنی میں موت کو گلے لگا یا اور یہیں اُن کو دفن کر دیا گیا.وہاں پر میں ایک دن حجام سے بال کٹوا رہا تھا تو اُس نے ایک بات سنائی وہ غیر احمدی تھا کہنے لگا عدالت خان کا کیا کہنا میں گواہ ہوں کہ وہ شہید ہوا دیکھو وہ سامنے قبرستان ہے اور وہ میرا گھر ہے.میں ایک دفعہ رات کو جاگا تو دیکھا قبرستان میں روشنی ہے میں نے خیال کیا کہ کوئی میت آئی ہو گی.دوسرے دن بھی قبرستان میں خاص طرح کی روشنی دیکھی پھر بھی میں نے یہی خیال کیا کہ تدفین ہو رہی ہوگی.تیسری رات بھی روشنی دیکھی تو میں ہمت کر کے اُٹھا قبرستان آیا تو دیکھا یہ روشنی عدالت خان کی قبر سے پھوٹ رہی تھی شعائیں بلند ہو رہی تھیں.میں وہاں سے اٹھا تو عدالت خان کی قبر پر دعا کی سبحان اللہ اللہ تبارک تعالیٰ اپنی راہ میں مرنے والوں کو کیسے کیسے نور عطا فرماتا ہے.خدا درجات بلند فرمائے آمین.134
زنده درخت xix- مسلمان بھینسا 1922ء یا1923ء کا واقعہ ہے فتنہ ارتداد کا زمانہ تھا ہمارا آٹھ آدمیوں کا ایک گروپ بیادر گیا.وہاں ایک گاؤں سورج پور میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا جس میں ایک بھینسے کو خوب نہلا دھلا کر تیل وغیرہ لگا کر چھوڑا کرتے تھے کہ یہ مسلمان ہے اس کا شکار کا ر ثواب ہے.لوگ اُس پر ٹوٹ پڑتے حتی کہ وہ جانور زخموں کی تاب نہ لا کر مر جاتا.غرض بڑا تعصب تھا ہم سارا ہفتہ دعوت الی اللہ کرتے اور جمعہ کو ہیڈ کوارٹر بیا در پہنچ کر رپورٹ دیتے اور نماز جمعہ پڑھ لیتے.ایک دفعہ عجیب واقعہ ہوا ایک نو وارد آدمی نے ایک دوکاندار کور قعہ دیا کہ فلاں گاؤں میں آپ کی باتیں سنے کو آپ کو بلایا ہے.رقعہ پر کوئی نام درج نہیں تھا.ہم نے دکاندار سے پوچھا رقعہ کس نے دیا ہے؟ تو جواب ملا اجنبی آدمی تھا پر چہ دے کر کہا تھا کہ آپ کو دے دوں.ہم نے اصرار سے پوچھا کہ یا تو خط دینے والے کا نام پتہ بتاؤ یا تھانے چلو اگر کوئی سازش ہو اور ہماری جان کو خطرہ ہو تو کون ذمہ دار ہو گا لوگ اکھٹے ہو گئے.اپنی اپنی بولیاں بولنے لگے.اُن دنوں مخالفت شدھی تحریک کی وجہ سے زوروں پر تھی.یہ رقعہ ایک مسلمان دکاندار کو دینے کا مقصد یہ تھا کہ ایک تیر سے دو شکار ہوں آپس میں فساد ہو.الزام بھی مسلمانوں پر آئے جسے طشت از بام کرنے سے سارے بازار میں ہماری عقلمندی کی شہرت ہو گئی.ہم تو بے نام رقعہ دیکھ کر پھاڑ کر پھینک دیتے ہمارے ساتھی خواجہ عبد الرحمن ولد حضرت شادی خان صاحب کی فراست کام آئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں سازش سے محفوظ رکھا.XX- ایک دعا: میں ویرووال میں تھا وہاں مکرم مولوی روشن الدین صاحب مبلغ مسقط کی کتاب بخاری شریف اردو میں زیر مطالعہ تھی.اس میں ایک جگہ پڑھا کہ حضرت عمر فاروق نے دعا کی تھی کہ خدایا میں مدینہ میں بھی رہوں اور شہادت بھی نصیب ہو.میں نے اُس وقت 135
زنده درخت دعا کی خدایا میں قادیان میں بھی رہوں اور شہادت بھی نصیب ہو اللہ تعالیٰ نے میری آدھی دعا تو قبول کر لی ہے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود قادیان میں رکھا اُمید ہے دعا کا دوسرا حصہ بھی اللہ تعالیٰ قبول کرے گا.(ابا جان کی وفات تو ربوہ میں ہوئی تھی مگر پھر اُن کی تدفین قادیان میں ہوئی.اس طرح درویش کی جملہ دعائیں قبول ہوئیں.) -22- اکرام ضعیف اور خدمت خلق کی تمنا 2-ا اور 1937 ء کا واقعہ ہے.جلسہ سالانہ کی آمد آمد تھی کسیر لا د لاد کر لائی جا رہی تھی گاڑی والوں کو کرایہ وغیرہ تو ملتاہی تھا لنگر خانہ کھلا ہوتا تو کھانا وغیرہ بھی مل جاتا ایک روز ایسا ہوا کہ ان کو دیر ہوگئی انگر خانہ بند ہو گیا.سارا دن سفر کی صعوبت اور مزدوری کے کام کاج نے اُن میں اتنی سکت نہ چھوڑی تھی کہ خود کہیں سے انتظام کرتے.میں بھی جلسہ سالانہ کی تیاری میں دیر تک دکان پر کام کرتا تھا.میں نے انہیں واپس جاتے ہوئے کھانا نہ ملنے کے متعلق باتیں کرتے سنا تو ٹھہرا لیا.اور کہا کہ آپ کے لئے کوئی انتظام کرتا ہوں آدھی رات کے وقت کھانے کا کیا ہو سکتا تھا؟ جلدی سے ایک آدمی کو آٹا لینے بھیجا.ایک کڑاہی کو الٹا کر کے توا بنالیا آگ تو جل ہی رہی تھی فٹافٹ روٹیاں پکتی گئیں گرم گرم روٹیاں تھکے ماندے لوگوں نے کھا ئیں تو بہت خوش ہوئے مجھے اس کام سے ایسی لذت حاصل ہوئی کہ لنگر خانے کے منتظم مکرم محمد یسین صاحب سے کہا کہ اگر کسی آڑے وقت کوئی مہمان آجا ئیں خواہ کتنے بھی ہوں تو بلاتر د میرے پاس بھیج دیا کریں.اسی طرح مکرم محمد الدین صاحب اور مکرم چراغ الدین صاحب ( تنور ہوٹل والے) سے بھی کہہ رکھا تھا کہ اگر کسی وقت بے وقت آنے والے کو کھانا نہ کھلا سکیں تو میرے پاس بھیج دیا کریں.میرے ذوق ضیافت میں میری اہلیہ 136
زنده درخت برابر کی شریک تھی.وہ بھی اس کام میں راحت محسوس کرتی.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ شوق دیا تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے شیدائیوں کی دعوت کر کے خوشی اور سکون محسوس کرتے.میں جلسہ سالانہ پر کشمیر اور پونچھ سے آنے والے مہمانوں کو گھر پر مدعو کرتا.اسی طرح کبھی حفاظ قرآن کو بلا لیتا بھی کسی طرح سے معذور افراد کی دعوت کر دیتا.خاص طور پر نئے احمدی ہونے والے جب قادیان آتے تو کھانے پر بلا کر حالات بیعت سنتا بیوی بچے بھی اس ضیافت میں ہر طرح حصہ لیتے.گھر میں سارا دن تیاری ہوتی برتن دھونا کھانا پکانا صفائی کرنا بہت کام ہوتا.دعوت کے بعد میری اہلیہ نے کئی بار کہا کہ لطیف کے ابا ! جب دعوت کا کام سر پر ہوتا ہے تو لگتا ہے پہاڑ ہے کام کا جو کرنا ہے مگر کام کے بعد جسم تو تھکن سے چور چور ہوتا ہے مگر دل میں خوشی ہوتی ہے کمر ہلکی ہو جاتی ہے کہ ایک نیک بندہ خدا کی خدمت کی توفیق ملی.میری یہ عادت بھی تھی کہ دس مہمان کہہ کر جاتا اور پندرہ لے کر آجاتا میری اہلیہ محترمہ کو بھی یہ پتہ تھا وہ گھلا کھانا بناتی.اور میرے اس شوق کو مجھ سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر پورا کرتی.پھر حالات میں بہت کچھ تبدیلیاں آئیں.وہ کشائش نہ رہی پھر بھی عادت کہاں بدلتی ہے 1970 ء کی بات ہے میں ربوہ میں تھا جلسہ سالانہ کی رات کی شفٹ میں کئی ملکوں کے گورے کالے فدائین احمدیت صداقتِ حضرت مسیح موعود پر تقریریں کر رہے تھے میرے خوشی کے آنسو جاری تھے میں نے اُن کو گھر پر دعوت پر بلا لیا میری بیوی نے بے ساختہ کہا.لطیف کے ابا! گردشِ ایام نے آپ کے سارے کس بل نکال دئے مگر دعوتوں کا چسکا نہ گیا.جہاں موقع دیکھا چنگاری سلگی.خدا کا شکر ہے کہ اب ان کی شریک حال میری بہو محمودہ نے اُن کا رنگ اپنے اوپر چڑھالیا ہے.کار خیر کا موقع : ایک دفعہ اپنی دکان واقع احمد یہ چوک میں کام ختم کر چکا تھا دس بج گئے تھے.دکان بند کر رہا تھا.کہ ایک کار آکر رکی دو آدمی اُترے ڈرائیور کا رہی میں بیٹھا رہا انہوں نے سوڈا 137
زنده درخت واٹر پینے کی خواہش ظاہر کی میں نے برف ڈال کر پیش کیا.اُن کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ محترم سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کسی کام کے سلسلے میں ملنے آئے تھے مگر تاخیر ہو جانے کی وجہ سے اُس وقت جا کر ملنا نا مناسب خیال کر رہے تھے.میں نے سوچا کارِ خیر کا موقع مل سکتا ہے.میں نے اندر جا کر اپنی اہلیہ سے پوچھا دو تین مہمان ہیں کچھ کھانے کو مل سکتا ہے بتایا کہ سالن روٹی ہے آپ دو تین منٹ مہمانوں سے باتیں کریں میں سویاں پکا لیتی ہوں آپ ان کو شوق سے دعوت دے دیں.اور رات ٹھہرانے کا بھی انتظام کر دیتی ہوں.میں نے ان اجنبی مہمانوں کو طعام و قیام کی دعوت دی.وہ وجیہہ اور صاحب فہم و فر است معلوم ہوتے تھے.دعوت قبول کی جتنی دیر کھانا کھانے میں لگی اہلیہ نے صاف ستھرے بستر جائے نماز وغیرہ سب رکھ دیے صبح ناشتہ کرا کے رخصت کیا.میں نے پوچھا نہیں کہ کون ہیں.محترم شاہ صاحب سے مل کر واپسی پر آئے اپنا ایڈریس دیا اور شناخت کروائی.لاہور کے ڈپٹی کمشنر تھے.اللہ تعالیٰ نے اکرام ضیف کا موقع دیا.الحمدللہ ii- دار الشیوخ کے بچوں کی پکنک : حضرت میر محمد اسحق صاحب نے مدرسہ احمدیہ کے غریب طلباء اور جماعت کے بے سہارا بوڑھوں کے لئے ایک ادارہ قائم کیا تھا جن کو لنگر خانہ سے کھانا مہیا کیا جاتا تھا.اس کو دار الشیوخ کہا جاتا تھا.ایک مرتبہ دل میں یہ خیال آیا کہ سکولوں میں چھٹیوں کے دنوں میں سب بچے خوشی خوشی اپنے والدین کے ساتھ چھٹیاں مناتے ہیں مگر دار الشیوخ کے بچے دل مسوس کر رہ جاتے ہوں گے.میرا دل درد سے بھر گیا.میں نے فطری طور پر ان کا کرب محسوس کیا اور میں نے سوچا ان کی خوشی کا بھی سامان کرنا چاہیے.چنانچہ ان کے نگران حکیم محمد الدین صاحب سے مشورہ کیا اُنہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور ان بچوں سے باپ کی طرح پیار کرنے والے حضرت میر محمد اسحق صاحب کی اجازت سے پروگرام بنایا وہاں تیس پینتیس بچے تھے.اُن 138
زنده درخت سے ہی پوچھا کہ کہاں جانا پسند کرو گے جوگندر نگر جہاں سے بجلی پیدا ہوتی ہے یا دریائے بیاس پر.فیصلہ یہ ہوا کہ دریائے بیاس کے کنارے پکنک کی جائے.جمعہ کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے گھر سے پراٹھے وغیرہ پکوالئے ہمارے پاس صرف دوسائیکل تھے ان پر کھانا رکھ لیا.کوئی بچہ تھک جاتا تو اُسے سائیکل پر بیٹھا لیتے.مغرب سے قبل ایک جگہ رک کر کھانا کھایا پھر عشاء کے بعد ایک مکان میں رک کر پلاؤ پکا کر کھا یا.ایک بدمزگی ہوئی ایک بچے کو بچھو کاٹ گیا.بہر حال باجماعت نماز پڑھی اور بچے آپس میں خوشی خوشی کھیلتے کھیلتے سو گئے.صبح ہوئی دریا ایک میل کے فاصلے پر نظر آ رہا تھا تین دن وہاں ہنسی خوشی بچوں کے ساتھ گزارے مل جل کر کھانے پکائے باجماعت نمازیں پڑھیں خیر سے گھر آئے الحمدللہ اب جب درویشی میں خود اپنے بچوں سے جدا ہوں یہ بات یاد کر کے زیادہ خوشی ہوتی ہے.ہنستے مسکراتے بچوں کے چہرے آنکھوں کے آگے آجاتے ہیں ایک دفعہ بچوں کو نہر کے کنارے خربوزوں کی دعوت دی.اکثر گڑ والے چاولوں کی دیگ پکوا کر دے آتا تھا.ایک دفعہ ایک لطیفہ بھی ہوا گھر میں ایک عزیزہ کی شادی پر کھانا پکوا یا دعوت میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی مدعو تھے.کھانا وقت پر نہ پہنچا.حضور کو میرے انتظام کے متعلق حُسنِ ظن بھی تھا آپ نے پوچھا عبدالرحیم کہاں ہے میں نے عرض کیا کہ حضور لنگر خانے سے کھانا پکوایا تھا پتہ کرتا ہوں دیر کیوں ہو گئی.لنگر خانے گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سمجھے تھے کہ حسب سابق دار الشیوخ کے لڑکوں کے لئے کھانا پکوایا ہے وہاں بھجوادیا گیا تھا.iii- ارشاد سے پہلے تعمیل ارشاد: ایک دفعہ مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کے رفقاء کرام ایک ایک کر کے ہم سے جدا ہورہے ہیں کیوں نہ ایسا پروگرام بناؤں کہ ہفتے دس دن بعد کسی ایک رفیق کو گھر پہ دعوت دوں تا کہ بیوی بچے پاکیزہ کلام، سیرت و سوانح ، ذکر حبیب سُن کر اپنے ایمان کو تازہ کریں.چنانچہ اس پر عمل شروع ہوا گھر کے افراد اُن کے اردگرد بیٹھ جاتے مل کر کھانا کھاتے اور باتیں سن کر 139
زنده درخت لطف اندوز ہوتے.ایک دن ہم دونوں میاں بیوی نماز جمعہ کے لئے بیت میں موجود تھے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ارشاد فرمایا کہ ایک زمانہ آئے گا اصحاب مسیح دیکھنے کو بھی نہ ملیں گے ایک ایک کر کے جدا ہوتے جارہے ہیں.ان کی صحبت سے فائدہ اُٹھانا چاہیے.میں نے اس ارشاد سے بہت لطف لیا.جمعہ کے بعد میں دکان پر چلا گیا جب شام کو گھر واپس آیا تو میری بیوی بڑے اہتمام سے میرا انتظار کر رہی تھی جیسے کوئی مرتی ایک عرصہ تک دعوت الی اللہ کر کے واپس آرہا ہو اُس کی ایک ادا یہ تھی کہ موتیے کے پھولوں کے ہار خرید لیتی اور میری چار پائی کے پائیوں پر لٹکا دیتی اُس کے چہرے پر حیا اور مسرت کی ملی جلی کیفیت تھی.میں نے پوچھا کیا بات ہے کس بات کی خوشی ہے؟ کہنے لگی آپ کے گھر آنے کی کم خوشی ہونی چاہیے؟ میں نے کہا کہ کیا میں امریکہ سے جماعتی فرائض سے واپس آیا ہوں؟ کہنے لگی ایسا ہی لگتا ہے.پھر کھانا پیش کیا اور ساتھ ساتھ اپنی خوشی کا راز بھی بتایا کہ آج کے خطبہ سے میں بے حد خوش ہوئی کہ آپ نے ہمارے لئے پہلے سے رفقائے حضرت مسیح موعود سے ملنے کا انتظام کر رکھا ہے.میں نے بتایا کہ میں بھی خطبہ سن کر بہت خوش ہور ہا تھا.یہ تھیں ہماری خوشیاں ! کہ خلیفہ اسیح کے ارشاد سے پہلے تعمیل ارشاد کی تو فیق مل رہی تھی.iv.حضرت ٹھیکیدار اللہ یار صاحب: ایک دفعہ ہم نے حضرت ٹھیکیدار اللہ یار صاحب کی دعوت کی.وہ ہمارے رشتہ دار بھی تھے آپ پہلے مکیریاں میں ٹھیکیداری کیا کرتے تھے.لکڑی کا ٹال بھی میں نے دیکھا تھا.پھر قادیان آگئے ابتدائی زندگی اپنے والدین کے ساتھ ایک گاؤں میں گزاری.پھر بٹالہ میں کام کیا کرتے تھے.آپ تین بھائی تھے حضرت محمد اکبر جو حضرت مسیح موعود کے دوست اور مخلص مرید تھے ان سے چھوٹے حضرت محمد بخش صاحب (والد مکرم محمد حسین صاحب مربی سلسلہ احمدیہ ) اور تیسرے حضرت ٹھیکیدار اللہ یار صاحب.حضرت محمد بخش صاحب میرے محسن تھے ابتدائی تعلیم قادیان میں ایک عرصہ تک آپ 140
زنده درخت کے گھر پر رہ کر حاصل کی.آپ اچھی اچھی اسلامی کہانیاں سنایا کرتے اور دلنشیں نصیحتیں فرماتے.تربیت کے لئے چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتے کھانے کو بایاں ہاتھ بالکل نہ لگاتے.نماز باجماعت ادا کرتے اور کرواتے میرے بڑے بھائی حضرت مولوی عبدالغفور صاحب بھی ان کے گھر برائے تعلیم رہا کرتے تھے.کہانی کہانی میں بات سمجھانے کی ایک مثال دیتا ہوں.یہ اُن کی سنائی ہوئی ایک کہانی ہے.ایک بادشاہ کی سات لڑکیاں تھیں.بادشاہ نے سب لڑکیوں سے پوچھا کہ آپ کی ہر قسم کی پرورش کا کون ذمہ دار ہے؟ چھ لڑکیوں نے کہا آپ ہماری پرورش کے ذمہ دار ہیں مگر ساتویں نے کہا اللہ کارساز ہے.بادشاہ ناراض ہوا اور اُسے جنگل بیابان میں پھینکواد یا اُدھر سے کسی فقیر کا گزر ہوا تو تنہا بچی کو دیکھ کر اُس کے پاس آیا بچی کی داستان سُن کر اُس کو اپنی بیٹی بنالیا.اب اُسے فکر ہوئی کہ یہاں بچی سوئے گی کہاں؟ یہ تو جنگل ہے ایسا کرتا ہوں کہ ایک نہ خانہ بناتا ہوں اور اُس میں بچی کا کمرہ بناتا ہوں.مگر گھدائی کا سامان کہاں تھا ؟ بچی نے سر پر ہاتھ پھیرا تو بال بال پروئے ہوئے موتیوں میں سے ایک باقی رہ گیا تھا اُس نے وہ موتی فقیر کو دیا کہ بیچ کر کھدائی کا سامان اور کھانے پینے کو کچھ لے آئے.فقیر نے زمین کھودنی شروع کی تو اُس میں سے بہت بڑا خزانہ نکلا.بادشاہ کی بیٹی نے بہت بڑا منصوبہ بنایا بہت سے مکان بنوائے گویا کہ نیا شہر بنوالیا.پھر اس میں اپنے والد ، بہنوں، وزیروں اور سب شہزادوں کو دعوت دی.ایک ہفتے تک سب کو خوب سونے چاندی کی پلیٹوں میں کھانا کھلایا اور کہا کہ بے شک جاتے ہوئے ساتھ لے جائیں ساتویں دن وہ اپنے اُسی لباس میں بادشاہ کے سامنے آئی جس میں اُسے جنگل میں پھنکوا دیا گیا تھا.بادشاہ حیران اور نادم ہوا.وہ سمجھا تھا جنگلی درندے کھا گئے ہوں گے.مگر بیٹی نے سمجھایا کہ دیکھیں میں نے کہا تھا کہ رب میرا رزق ہے اُس نے مجھے یہ سارا کچھ غیب سے دے دیا.اب یہ سلطنت بھی آپ سنبھالیں اور خدا کو اپنا پروردگار مانیں.141
زنده درخت اس کہانی سے یہ سبق دینا مقصود تھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود کو ساری دنیا چھوڑ دے مگر جو رب آپ کی پرورش کرتا ہے ساری دنیا کو آپ کے قدموں میں جھکا دے گا اور اپنا قادر ہونا سمجھا دے گا.جن کا ذکر کر رہا ہوں یہ وہ ہی محترم رفیق ہیں جنہوں نے محمد حسین بٹالوی صاحب کے نیچے سے چادر کھینچ کر کہا تھا اُٹھ پلید گواہی عیسائی کے حق میں مسلمان کے خلاف دینے آیا ہے میری چادر کو پلید نہ کر.ان کی باتیں تو بہت ہیں مگر میں نے بات شروع کی تھی ان کے چھوٹے بھائی کی یعنی ٹھیکیدار اللہ یار صاحب کی.وہ ہمارے گھر مدعو تھے اور ہم نے اُن سے کوئی روایت سنانے کی فرمائش کی.انہوں نے کہا کھانے پر بیٹھے ہیں کھانے کی ہی بات بتا دیتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود کے والد محترم جناب مرز اغلام مرتضی صاحب کے قادیان کے مغربی جانب شہر سے لے کر عید گاہ تک جو تقریباً ایک میل کا فاصلہ ہے ڈھاک کے درخت تھے جن کو کاٹنے کا ٹھیکہ میں نے لیا.ہم تینوں بھائی اُن دنوں اس کام کو سرانجام دینے کے لئے قادیان میں ہی رہتے تھے.ایک دن مرزا صاحب نے اپنے دوست کے طفیل ہماری بھی دعوت کی اور فرمایا رات کا کھانا ہمارے ہاں سے آئے گا.اتفاق کی بات یہ کہ جب خادم کھانا لے کر آیا موصوف محمد بخش صاحب جو اچھے جسم اور بہت طاقتور تھے.کھانے کو دیکھ کر اپنے انداز میں یوں گویا ہوئے کہ یہ تم تین آدمی کا کھانا لائے ہو.ایک ٹرے میں کچھ زردہ اور پلاؤ تھا.خادم نے کہا میں تو خادم ہوں جو آپ نے دیا میں نے لا کر آپ کو دیدیا.محمد بخش صاحب نے اپنے پنجابی انداز میں محاورہ بولا اس کو کون کھائے گا کون بگن جائے گا.( یعنی اس قدر کم ہے کہ کوئی کیا کھائے گا اور کیا حاجت میں نکلے گا ).بہر حال تینوں بھائی کھانے کے لئے بیٹھ گئے.اور خوب سیر ہو کر کھایا اگر چہ بھائی نے کہہ دیا تھا کہ کم ہے مگر ہم نے خوب پیٹ بھر کے کھایا کچھ زیادہ ہی کھایا مگر سبحان اللہ کھانے میں ایسی برکت تھی کہ ختم نہ ہوا، آنے والے مسیح موعود کے گھر سے آمدہ کھانا، نہ 142
زنده درخت معلوم تقدیر نے کب سے اس گھر کو برکتوں سے بھر پور کرنا شروع کر رکھا تھا.قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ سارے ہی جتن کیے مگر کھانا بیچ رہا.اس کی لذت اللہ تعالیٰ شاہد ہے اب تک محسوس کرتا ہوں.اس کی خوشبو سے آج بھی لطف لیتا ہوں.پھر صبح ہوئی تو ہم بھائیوں نے سیر ہو کر ناشتہ اسی کھانے سے کیا.فالحمد للہ علی ذالک“ آپ ان واقعات کو بیان کرتے وقت ایک خاص قسم کے جذب و شوق سے بھر پور ہوتے کبھی مسحور بت بنے بیٹھے رہتے ہمارے ان سے ایک طرح گھر یلو تعلقات تھے میرے والد صاحب سے بہت تعلق تھا اسی نسبت سے ہم سے بھی محبت تھی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور مقام خاص عطا فرمائے آمین.ان کی اہلیہ محترمہ میری والدہ صاحبہ کی ہم نام تھیں یعنی برکت بی بی نام تھا تعلیم یافتہ تھیں.آخری عمر میں میرے ایک بچے کو ان سے قرآن پاک پڑھنے کا شرف حاصل ہوا.میں جب قادیان سے ربوہ جا تا خاص شوق اور اصرار سے قادیان کا تبرک لیتیں اور شکر گزار ہوتیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.آمین.بدرالدین صاحب کی دعوت : رفقاء کو گھر پر بلوا کر روایات سننے کے سلسلے کی ایک اور بات یاد آگئی ایک دفعہ حضرت بدرالدین صاحب مدعو تھے حسب معمول ہم سب ارد گرد جمع تھے ہماری درخواست پر یہ روایت سنائی.میں ابھی بچہ تھا میرے والد صاحب حضرت اقدس مسیح موعود کے گھر اندرونِ خانہ پانی بھرنے پر مقرر تھے.ایک روز حضرت اقدس نے فرمایا ” چلو میرے ساتھ ہمیں ساتھ لے کر مہمان خانہ کے راستہ کے سب کوارٹر ، مکان، رہائش گاہوں پر پوچھتے گئے کہ کھانا کس کو کھانا ہے؟ غالباً آپ کو کوئی الہام ہوا تھا سب جگہ پوچھ لیا واپس آ رہے تھے تو ایک شکستہ مکان سے کراہنے کی آواز آئی.( یہ مکان بھائی بشیر محمد صاحب کی دکان والی جگہ پر تھا) آپ نے اُن صاحب کو فر ما یا دیکھنا یہاں کون ہے؟ دیکھ کر بتایا کہ ایک بیمار شخص 143
زنده درخت ہے.آپ نے فرما یا پوچھ کر آئیں کہ روٹی کھائیں گے والد صاحب نے پوچھا.اور آکر بتایا کہ وہ کہتا ہے روٹی نہیں کھاؤں گا ؟ آپ نے فرمایا کہ پوچھیں پھر کیا کھائے گا ؟ اُس نے کہا کہ دودھ بکرم (Rusk) کھانا ہے.بدرالدین صاحب کے والد صاحب نے آ کر کہا حضور دودھ بکرم کھانے کو کہتا ہے.آپ کے ہاتھ پر تولیہ تھا اُسے ہٹایا تو ہاتھ پر ایک چینی کا پیالہ تھا جس میں دودھ اور بکرم پڑے تھے.آپ نے فرمایا: ”لے جائیں اور اُس کو کھانے کو دیں“ بدرالدین صاحب نے فرمایا: کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ وہ مائدہ تھا جو خدا نے اُس بیمار حواری کے لئے بھجوایا تھا وہ قادر ہے.سبحان اللہ.محت بدرالدین صاحب کی روایت : محترمہ اہلیہ بدرالدین صاحب بھی رفیقہ تھیں.ہم نے انہیں بھی دعوت دی وہ سن رسیدہ نہیں.چادر اوڑھتی تھیں.اُن کی باتیں بھی بہت دلنشین تھیں فرمایا جب میری شادی ہوئی حضرت ام ناصر کی گود میں میاں نصیر احمد تھے جو حضرت اقدس مسیح موعود کے سب سے پہلے پوتے تھے.حضرت اُمم ناصر کسی تکلیف کی وجہ سے بچے کو دودھ نہ پلا سکتی تھیں.بچے کو دودھ پلانے کے لئے جس بھی خاتون سے کہا گیا بچے نے منہ نہ لگایا.میرے خسر مرحوم نے مجھ سے پوچھا کہ تم دودھ پلا سکو گی ؟ میری گود میں بچی تھی میں نہا دھو کر بخوشی تیار ہو گئی.حضرت اقدس مسیح موعود کے پوتے کو دودھ پلایا.بچے نے پیٹ بھر کے دودھ پیا اور سو گیا.بچہ گہری نیند کافی دیر تک سویا رہا تو سب کو فکر ہوا کہ دودھ میں کوئی ناموافق بات نہ ہو ڈاکٹر صاحب کو دکھایا گیا.ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ کوئی فکر کی بات نہیں پیٹ بھرا تو خوب نیند آئی ہے بچہ کچھ دیر کے بعد اُٹھا اور کھیلنے لگا.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ بھی لکھ دوں حضرت اقدس مسیح 144
زنده درخت موعود نے حضرت مولوی عبد الکریم سے فرمایا کہ بچہ رات کو روتا ہے میں اس کی تکلیف سے سو نہیں سکتا ہے.یہ ذکر شیخ محمد نصیب صاحب نے سنا تو بیتاب ہو کر حضرت مولوی عبد الکریم سے عرض کی میں چاہتا ہوں میری بیوی بچے کو دودھ پلا دے.مولوی صاحب نے فرما یا شیخ صاحب جس نے دودھ پلانا ہے اُس سے پوچھ کر فیصلہ کریں.اُسی وقت حضرت حکیم نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاول) سے بھی ذکر ہوا آپ نے بھی یہی فرمایا کہ جس نے دودھ پلانا ہے اُس سے پوچھ لیں.مکرم شیخ صاحب نے اپنی اہلیہ سے پوچھا وہ تیار ہوگئیں.حضرت اقدس کی خدمت میں درخواست پیش کی گئی تو آپ نے فرمایا اُن کو ابھی بلا لیں آپ کے آنے تک ایک کمرہ اُن کی رہائش کے لئے تیار کیا گیا.اُس کمرے میں کئی برتن دودھ کے رکھے تھے.شیخ صاحب نے عرض کیا حضور اس قدر دودھ؟ آپ نے فرمایا جس عورت نے دو بچوں کو دودھ پلانا ہوا گر وہ خود نہ پئے گی تو اُن کو کہاں سے پلائے گی.یہ کمرہ بیت کے راستے میں پڑتا ہے.ایک دن حضور نے جاتے ہوئے تیس روپے چار پائی پر رکھ دئے.شیخ صاحب نے جب تیس روپے دیکھے تو جا کر حضور کی خدمت میں عرض کی کہ تھیں روپے کمرے سے ملے ہیں آپ نے فرمایا شیخ صاحب میں نے خود رکھے ہیں اس لئے کہ آپ کی تنخواہ کم ہے اور آج کل خرچ زیادہ ہو رہا ہے.شیخ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اس روپے کا زیور بنالیا تا کہ دیر تک تبرک محفوظ رہے.حضرت اُم ناصر زیادہ علیل ہوئیں تو لاہور لے جانے کا فیصلہ ہوا.شیخ صاحب اور اُن کی اہلیہ کوبھی ساتھ لاہور لے گئے بعد میں شیخ صاحب تو لاہور سے واپس آگئے مگر اہلیہ ساتھ ہی رہیں.اللہ تعالیٰ نے اُن کی بچی کو واپس اپنے پاس بلا لیا اہلیہ شیخ صاحب بہت غمزدہ ہوئیں اور روتی تھیں.آخر حضرت اقدس سے اجازت مانگی کہ ان کو کچھ عرصہ اپنی والدہ صاحبہ کے پاس بھیج دیا جائے تا کہ کچھ طبیعت بہل جائے آپ نے بہت خوشکن جواب دیا.شیخ صاحب بعض اوقات کسی تکلیف کو زیادہ محسوس کرنے سے آنے والی نعمت خدا روک لیا کرتا ہے میں دعا کروں گا اللہ تعالیٰ آپ کو ایک لڑکی کی بجائے دولڑ کے عطا فر مادے 145
زنده درخت گا.یادرکھیں دنیا میں خاوند سے زیادہ بیوی کا کوئی غم خوار نہیں ہوسکتا ویسے چند دن کے لئے آپ کی بیوی والدہ کے پاس چلی جاویں.آپ نے ایک نسخہ بھی عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کی دعا قبول فرما کر محترم شیخ محمد نصیب صاحب کو دو لڑکے عطا فرمائے.سبحان اللہ.23- متفرق واقعات اطر تواضع کا عجیب انداز : ایک دوست (جن کا نام غالباً عبدالرحیم صاحب تھا) نے ربوہ میں مجھے کہا کہ مکند پور ضلع جالندھر جا کر اُن کے مکان کے متعلق کچھ معلومات لے کر انہیں بھیجوں.وہاں کسی سکھ دوست کے گھر کا اتہ پتہ وغیرہ جو بتایا تھا اُس پر خط و کتابت کر کے ملاقات کا وقت طے کیا.اُن کا جواب ملا کہ فلاں تاریخ تک آجائیں گے تو ملاقات ہو سکتی ہے.اتفاق کی بات کہ میں کسی وجہ سے ایک دن تاخیر سے پہنچا.شام کا وقت تھا میں نے ایک صاحب سے پتہ وچھا، بہت تلخ لہجے میں بات کی اور کہا آگے جا کرکسی سے پوچھ لینا تھے میں گیا تو اک معمر خص بڑے تپاک سے ملا اور مجھے اُس سکھ دوست کے گھر کے پاس پہنچادیا وہ خود میلے پر جا چکے تھے اُن کے والد اور والدہ وہاں تھے.انہوں نے مجھے کھانا کھلایا اور پھر چائے لائے تقریباً چار کلو ہوگی میں نے صرف ایک کپ لی.جس سے انہیں مایوسی ہوئی.اُن کے گھر سے زور زور سے بولنے کی آوازیں آرہی تھیں میں نے کسی سے پوچھا کیا کوئی مسئلہ ہوا ہے؟ جواب ملا کہ ابا نے گھوڑا پانی پی رکھا ہے.میں نے یہ لفظ بھی نہیں سنا تھا پوچھنے پر معلوم ہوا کہ شراب کو کوڑا پانی کہتے ہیں.رات کو سونے سے پہلے وہ مہمان نواز خاتون دودھ لے آئیں میں نے بہتیرا کہا کہ دودھ مجھے ہضم نہیں ہوتا مگر اُن کا اصرار تھا کہ دودھ تو ضرور پینا 146
زنده درخت پڑے گا.آپ کون سا روز روز ہمارے گھر آئیں گے اب جو اس نے دودھ کا گلاس بھرا تو خدا جھوٹ نہ بلوائے تو تین پاؤ تو ضرور ہوگا میں نے بہت عاجزی سے کہا کہ کچھ کم کر دیں وہ کم کر کے جولائیں تو ابھی آدھ سیر تو ہو گا منت سماجت کر کے مزید کم کرایا تو سادگی سے بولیں اس سے کم پینا ہے تو خاک پینا ہے بہت خاطر تواضع کی اور صبح اپنے آدمی کے ساتھ گاؤں کے پہنچ کے پاس بھیج دیا.اُس نے میرے منشاء کے مطابق مکان نمبر ، حدود اربعہ وغیرہ صحیح طریق پر لکھ کر دے دیا.دوپہر کے کھانے کا وقت آیا تو اُسی مہربان خاتون نے اصرار کر کے کھانا کھلایا.گاؤں کے دستور کے مطابق کچھ بھٹے وغیرہ ساتھ باندھ دئے.مجھے اس آؤ بھگت کا بڑا لطف آیا.میں جو ایک دوست کا کام کرنے نکلا تھا کام بھی ہو گیا اور آرام کے سامان بھی خدا تعالیٰ نے کر دیئے.-|| میں احتیاط: 11- سفر ایک سفر میں میری ہمشیرہ عزیزہ صالحہ بی بی میرے ساتھ تھی اُس کو امرتسر سے کچھ سودا سلف لا نا تھا.ایک دفعہ امرتسر کے اسٹیشن پر مجھے خیال آیا کہ ہمشیرہ کو بٹھا کر جلدی سے ایک پنکھا خرید لاؤں اُسے اچھی طرح سمجھایا کہ کوئی مانگنے والی عورت کتنا بھی اصرار کرے ، واسطے ڈالے ، پیسوں والا رومال نہ کھولنا.یہ بہت خطرناک ہوتی ہیں.میں جلدی ہی واپس آگیا مگر اتنے میں وہ مانگنے والیوں کی باتوں میں آکر انہیں پیسے دے رہی تھی.میں نے جلدی سے اُن عورتوں کو ہٹایا، اتنے میں گاڑی آگئی.میں نے جلدی سے اپنی ہمشیرہ اور سامان کو گاڑی پر چڑھایا.وہ عورتیں بھی سوار ہوگئیں.ڈبہ میں بیٹھ کر عزیزہ نے پوچھا میرا پیسوں والا رو مال آپ کے پاس ہے؟ میں نے کہا مجھے تو آپ نے نہیں دیا.میں نے بھاگ کر اُس جگہ جا کر دیکھا جہاں عزیزہ بیٹھی ہوئی تھی.اُن عورتوں کو میں نے سیڑھیوں کے نیچے بیٹھے دیکھا.مگر جلدی میں دھیان نہ گیا.سیدھا وہیں گیا مگر وہاں کچھ نہ تھا.گاڑی لیٹ ہوئی.سامان اتار کر چوکی پولیس میں بھی گئے مگر کچھ نہ بنا.یہ سبق ملا کہ سفر وغیرہ میں 147
زنده درخت کسی کو علم نہیں ہونا چاہیے کہ روپیہ پاس ہے ورنہ چوری کا ڈر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.آمین.||| معجزانہ سلوک ایک دفعہ ربوہ سے تار ملا کہ آپ جلدی آجائیں کچھ کام ہے.میں نے فوراسفر کی تیاری کر لی اُن دنوں بی ویز املا کرتا تھا.جس کو لگوانے کے بعد آٹھ دفعہ سفر کر سکتے تھے ہر دفعہ بارڈر عبور کرنے کے بعد جس جگہ رہنا ہوتا اُس شہر کے ضلعی دفتر میں اور پولیس تھانہ میں چوبیس گھنٹے کے اندراندراندراج کروانا ہوتا.میں جب بارڈر پر پہنچا تو پاسپورٹ پر تاریخ درج کرنے والے صاحب نے کہا کہ میں دو دن بعد کی تاریخ ڈال دیتا ہوں کبھی کوئی کام پڑ جاتا ہے.میں نے کہا کہ میں تو آج ہی ربوہ پہنچ جاؤں گا.مگر اُس نے دو دن بعد کی تاریخ ڈال دی.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا اور اس کا مجھے فائدہ ہوا.چار پانچ بجے راحت منزل اپنے گھر پہنچا تو تار دے کر بلانے والی باری بیٹی کہیں نظر نہ آئی البتہ کمرے سے سسکیاں لے کر رونے کی آواز آرہی تھی میں نے اندر جا کر گلے سے لگایا اور رونے کا سبب پوچھا.تو بچوں کی طرح مچل گئی ( حالانکہ اسی سال اچھے نمبروں سے بی اے پاس کر چکی تھی ) اور موٹے موٹے آنسوؤں کے ساتھ بھرائی ہوئی آواز میں کہا: ابا جان میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں مگر سب راضی نہیں ہو رہے.حالانکہ میں نے اپنے مضمون میں فرسٹ پوزیشن لی ہے اور وظیفہ ملنے کا امکان ہے.“ مجھے اس خبر سے بہت خوشی ہوئی.میری بیٹی کا دعا کی تحریک کرنے کا اپنا انداز تھا جب بی اے کا امتحان دیا تو ایک دن میرے جائے نماز کے پاس مٹی پر بڑا بڑا فرسٹ ڈویژن لکھا اور کہا ابا جان دعا کریں میں فرسٹ ڈویژن میں پاس ہو جاؤں.میں نے وہیں مٹی پر فرسٹ ڈویژن مٹا کر فرسٹ پوزیشن لکھا اور بچی کو سمجھایا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگو تو کھل کر مانگو.اللہ تعالیٰ کو درویش باپ بیٹی کی یہ ادا پسند آئی پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کے امتحان میں 148
زنده درخت فرسٹ ڈویژن بھی ملی اور اردو میں فرسٹ پوزیشن بھی.بچی کا ذوق و شوق دیکھ کر میں نے دل میں سوچا میں درویش آدمی ہوں بچی کو جہیز وغیرہ کی دولت کیا دے سکوں گا تعلیم کی دولت سے کیوں محروم رکھوں؟ بچی کو کہا تیار ہو جاؤ صبح لا ہور چلیں گے داخلے کے لئے لاہور پہنچے تو یہ جان کر تکلیف ہوئی کہ داخلے مکمل ہو چکے تھے.پھر بھی ہم صبح پر نسپل ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کے کمرے میں گئے تو یہی جواب ملا کہ داخلے ہو چکے ہیں اب کوئی سیٹ نہیں.اتنے میں ہیڈ کلرک صاحب نے آکر بتایا کہ یہ محترم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کا خط لائے ہیں کہ اس بچی نے یو نیورسٹی میں اپنے مضمون میں سب سے زیادہ نمبر لئے ہیں.پرنسپل صاحب نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ اس بچی کو داخلہ ضرور ملے گا جس نے اتنے اچھے نمبر حاصل کئے ہیں.پرنسپل صاحب نے کلرک کو بلوایا اور کہا کا غذات داخلے کے دکھائیں.کلرک نے اُن کو بتایا کہ لیٹ فیس جمع کروانی ہوگی.میں چونکہ انہیں پاسپورٹ اور اندراج ضلعی دفتر کی بات بتا چکا تھا.اُنہوں نے اپنی نگرانی میں سب کام کروایا اور دستخط کئے تو وہ تاریخ ڈال دی جو داخلے کی آخری تاریخ تھی اس طرح لیٹ فیس کا قضیہ بھی چک گیا.داخلہ کروا کے سیدھا جھنگ گیا.بارڈر کے کلرک نے چونکہ آگے کی تاریخ ڈالی ہوئی تھی کوئی مسئلہ نہ ہوا.دل حمد وشکر کے ترانے گانے لگا.کس طرح ایک ایک قدم پر اللہ تعالیٰ کی خاص مدد شامل رہی.اگر ہر بال ہو جائے سخنور تو پھر بھی شکر ہے امکاں سے باہر ایک دفعہ ربوہ پہنچا تو عزیز باسط جو جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا شدید بیمار تھا.سب گھرانے والے سراسیمگی کے عالم میں تھے.میں ہسپتال گیا.حضرت مرزا منور احمد صاحب نے جو دو لکھ کر دی تھی وہ مہنگی تھی.میری سادہ حالت دیکھ کر ڈیوٹی پر موجود صاحب پرے پرے کرنے لگے میں بے بسی سے ایک طرف کھڑا ہو گیا.سخت فکرمندی کی حالت تھی اتنے میں میاں لال دین صاحب سنار کہیں سے آنکلے اور آ کر گر مجوشی سے ملے اور پوچھنے لگے آپ 149
زنده درخت قادیان سے کب آئے.تب وہی......صاحب سر اٹھا کر مجھے دیکھنے لگے اور پھر سر جھکا لیا یوں معلوم ہوتا تھا کہ قادیان کے ایک درویش سے بے اعتنائی پر اُن کو اس قدر پشیمانی ہوئی ہے گویا کسی نے اُن کا سارا خون نچوڑ لیا ہو.میرے ہاتھ سے پر چی لی اور کہا بارہ بجنے والے ہیں میں آپ کے ساتھ آپ کے بچے کو دیکھنے آپ کے گھر جاؤں گا.اللہ تعالیٰ نے میری پریشانی ، مسافرت اور ذرائع آمد مفقود ہونے پر رحم کھایا.ڈاکٹر صاحب نے توجہ سے دیکھا اور ایک خون ٹیسٹ لکھ کر دیا اور کہا جب صبح ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب آئیں گے تو مشورہ کر کے علاج شروع کیا جائے گا.میں نے عاجزی سے عرض کی کہ بچے کی حالت خراب ہے آپ دیر نہ کریں نسخہ تحریر کر دیں.ڈاکٹر صاحب نے کہا بیماری شدید ہے اس کی دوا خرید نہ سکیں گے.معلوم ہوتا ہے کہ ٹائیفائڈ ہے اس کی دوا بہت مہنگی ہوتی ہے.آپ میں طاقت نہیں.میں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ آپ دوا تحریر تو کریں.کل کس نے دیکھا ہے بچے کی حالت ٹھیک نہیں.دوا لکھ کر دی اور بتایا کہ یہ پندرہ روپے کی آئے گی وہ بھی چنیوٹ سے.ہاں ہو سکتا ہے ہسپتال کے ایک کارکن کے پاس ہو آپ.....صاحب سے پتہ کر لیں.اُس مہربان نے دو خوراکیں دے دیں میں نے وعدہ کیا کہ ان کی قیمت یا چار کیپسول میں کل تک آپ کو واپس کر دوں گا.اللہ کے حضور بے بسی سے دعا کر کے دوا شروع کروائی گھر میں صرف دس روپے تھے وہ لئے ، ایک بچی نے لرزتی ہوئی آواز سے کہا ابا جی دوروپے میرے پاس ہیں وہ بھی لے لیس کل بارہ روپے لے کر چنیوٹ گیا.دوا دکان میں تھی مگر چودہ روپے کی تھی.میں نے عرض کیا کہ دوروپے کل دے دوں گا مگر کیمسٹ ایک اجنبی کی بات پر اعتبار کرنے کو تیار نہ تھا.اب دیکھئے اس مایوسی میں خدا تعالیٰ کیسے مدد کرتا ہے.محترم صوفی غلام محمد صاحب ( ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب کے بڑے بھائی) ادھر سے گزر رہے تھے مجھے دیکھا تو پوچھا بھائی جی آپ یہاں کہاں؟ محترم صوفی صاحب بہت ملنسار، نیک بخت اور دیندار انسان ہیں بے تکلفی سے باتیں کرنے لگے میں نے اپنا مسئلہ بتایا کہ دوروپے کی ضمانت کی ضرورت ہے.کیمسٹ ہمیں دیکھ رہا تھا فوراً کہنے لگا.نہیں اب آپ دوالے جائیں 150
زنده درخت سارا راستہ بے قراری سے درود شریف اور دعائیں پڑھتا ہوا گھر داخل ہوا تو اللہ کی رحمت پر شار ہو گیا.بیمار اور تیمارداروں کی حالت بہت بہتر تھی.صبح ڈاکٹر صاحب کو بتایا تو کہا یہ درویش کا معجزہ ہے ورنہ جو حالت تھی وہ نہ میرے بس کی تھی نہ آپ کے.اب یہ بھی بتا دوں کہ اگلے دن روپے کا انتظام کیسے ہو گیا.باسط کے ایک ساتھی طالب علم آئے اور میرے بیٹے سے کہا میرے پاس دس روپے میں اپنے پاس رکھ لیں میں بعد میں لے لوں گا.اس طرح خدا تعالیٰ نے بچے کو شفا عطا فرمائی اور عزت نفس بھی مجروح نہ ہوئی.یہ واقعہ میں نے مختصر کر کے لکھا ہے.اُس وقت جو حالت ہوئی تھی بیان سے باہر ہے.کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا ۱۷- شامت اعمال : میں 1962ء میں ربوہ سے ہو کر آیا.تو اتفاق یوں ہوا کہ بھارت کے وزیر صحت طیب علی صاحب کو ہمارے ناظر صاحب بیت المال ( مکرم عبدالحمید عاجز صاحب) نے قادیان آنے کی دعوت دی ہوئی تھی.میں اُس روز ایک شدید سخت اور تھکا دینے والے کام سے فارغ ہو کر گھر آیا ہی تھا کہ علم ہوا کہ آج کسی بڑے مہمان کی آمد آمد ہے خوب تیاریاں ہو رہی ہیں میں بھی اپنی تھکن کو پس پشت ڈال کر منتظم جلسہ سے ملا.انہوں نے میری سامان وغیرہ لانے پر ڈیوٹی لگا دی.یہ جلسہ مکرم چوہدری خدا بخش صاحب مرحوم کے مکان کے ساتھ ڈی بی اسکول قادیان کے ملحقہ میدان میں تھا.مہمان کا استقبال مہمان خانہ کے صحن میں تھا.لوگ قطار میں باندھے دورویہ کھڑے تھے.میں بھی قطار میں کھڑا ہو گیا.کسی نے کہا نعرہ کون لگائے گا ( میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا نعرے لگانے پر مقرر ہونے لگا تھا جوش سے مناسب وقت پر نعرے لگانے کے لئے مشہور تھا.جماعتی اطلاعات کے سائن بورڈ لکھنا اور نعرہ لگانا گویا میری ملکیت تھے ) مکرم امیر صاحب نے میری طرف دیکھ کر کہا 151
زنده درخت کہ یہ نعروں کے لئے پیٹنٹ ہے.اتنے میں مہمان خصوصی آگئے.میں نے زور سے پکارا طیب علی سب نے کہا زندہ باد اس کے بعد مجھے ہندوستان کا نعرہ لگانا تھا مگر سہواً، شومئی تقدیر سے منہ سے کچھ اور نکلا اور سب نے جو زندہ باد کہنے کے لئے تیار بیٹھے تھے جوا بازندہ باد کہا.جب سب نے قہر آلود نظروں سے دیکھا تو احساس ہوا کہ کوئی غلطی ہوگئی ہے.اور وہ بھی بہت بڑی.اپنے پرائے سب پریشان ہو گئے.میرا دل کہتا تھا کہ غلطی نادانستہ ہوئی ہے مگر ہوئی تو تھی.لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے کہ آدمی ایسا نہیں ہے یہ کیا ہو گیا انجمن والوں نے اجلاس بلایا.اور تجویز کیا کہ قادیان سے باہر بھیج دیا جائے تاکہ کوئی انکوائری ہو تو کہا جاسکے کہ ہم نے خود کارروائی کر لی ہے.مجھے قادیان سے باہر جانے کی شدید تکلیف تھی.مگر دباؤ بہت تھا میں نے ایک خط گھر والوں کو لکھا کہ میرے پتے پر ابھی خط نہ لکھنا جب تک دوسرا پتہ نہ دوں.مجھے خبر بھی نہ تھی کہ یہ خبر نعرہ لگانے والی کس قدر پھیل چکی ہے.اب تو یہ بھی ڈر تھا کہ مجھے کبھی بھی پاکستان جانے کی اجازت نہ ملے گی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے خط لکھ کر سارے حالات دریافت فرمائے.مگر کسی وجہ سے دفتر سے جواب دینے میں تاخیر ہوگئی.میری اہلیہ کو میرا خط ملا تو فکرمند ہوئی اور قادیان آنے کے ارادہ سے میاں صاحب کے پاس اجازت کے لئے گئی.میاں صاحب نے فرمایا میں نے خط لکھا ہوا ہے حالات سے آگا ہی ہو تو پھر جانا چند دن کے بعد وہ پھر اجازت کے لئے گئی تو میاں صاحب نے فرمایا اب تو آپ کو جانا ہی چاہیے.نیز فرمایا اُن سے کہ دیں کہ میں میاں عبدالرحیم کو جانتا ہوں.وہ بہت مخلص ہے.سہو منہ سے غلط نعرہ نکلا ہے.یہ بھی کہیں کہ اُن کے کیس کے لئے یہاں لڑیں وہاں لڑیں او پر لڑیں مگر اس کو قادیان ہ سے باہر نہ بھیجیں اور اگر باہر بھیجنا ہے تو میرا بندہ مجھے واپس بھیج دیں.میری اہلیہ نے آکر یہ پیغام دیا تب ہم سے یہ بلا ٹلی.جب باز پرس ہوئی تو میں نے جو حقیقت تھی کہہ دی کہ بالارادہ نہیں سہو غلط نعرہ لگا دیا.ایک لمبی کہانی ہے ابتلاؤں اور پریشانیوں کی.جائیداد کسٹوڈین والوں نے پہلے ہی ضبط کر لی تھی.1962ء سے ضبط شدہ پاسپورٹ بھی 152
زنده درخت 1968ء میں دیا وہ بھی ایک ماہ کے لئے آخر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اور حالات درست ہوئے.حیرت ہے کہ ایک کمزور سے آدمی کے سہو نعرہ لگانے سے اس قدر کھلبلی مچی اس سلسلہ میں یہ لطیفہ بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ اسیح الرابع ( خلافت سے قبل) قادیان تشریف لائے جب ان کو یہ سارا واقعہ سنایا تو وہ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ اس پر مجھے پہلوان والا لطیفہ یاد آ رہا ہے کہتے ہیں کہ کوئی اونچالمباشہ زور پہلوان اپنی ٹنڈ پر مکھن ملے پورے روایتی انداز میں چلتا جارہا تھا اتفاق سے پیچھے کوئی بونا جارہا تھا پہلوان کی ٹنڈ دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ اس پر زور سے ٹھونگا لگا دے مگر ڈر بھی لگتا تھا.دو تین دفعہ پہلو ان کے پاس جا کر واپس آجاتا مگر آخر آنکھیں بند کر کے پورا زور لگا کر چھلانگ لگائی اور پہلوان کے سر پر زور کا ٹھونگالگا دیا پہلوان نے مڑ کر دیکھا تو اسے بہت غصہ آیا.بونے کو زمین پر گرا کر اوپر پاؤں رکھ کر مارنے لگا تو بونے نے کہا کہ اب اگر تم مجھے مار بھی دور تو تمہیں وہ مزا نہیں آئے گا جو مجھے سر پر ٹھونگا مارنے کا آیا ہے.اعزہ واقرباء کی خدمت: اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے عزیز رشتے داروں کی خدمت کی بھی توفیق عطا فرمائی.میری بیوی کے رشتے دار بھی مجھے بہت عزیز تھے قادیان بلانے اور یہاں رہائش اور کاروبار شروع کرنے میں جو ہو سکا خدمت کی.میں خود کیا ذکر کروں سب عزیز جانتے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو شاد آبادرکھے.153
زنده درخت 24- درویشی کے زمانے کے ابتدائی حالات 1947ء میں میں نے اللہ تعالیٰ سے ایک سودا کیا.خود کو مرکز کی حفاظت کے لئے پیش کر دیا.بیوی اور اولادکو خدا کے حوالے کر دیا.ہر طرف قیامت کبری کا سماں تھا.ہوش ربا مناظر تھے.ہولناک حقائق تھے.ہر طرف موت نے منہ کھولا ہوا تھا.متاع دُنیا کی بے ثباتی واضح حقیقت کی طرح سامنے تھی.یہ فیصلہ جن حالات میں ہوا اُس کی الگ کہانی ہے.قادیان کے اردگرد کے گاؤں دیہات سے ہزاروں افراد قادیان کو نسبتا محفوظ سمجھتے ہوئے قادیان آگئے.کچھ خاندانوں نے بالکل ہمارے گھر کے سامنے ڈیرہ ڈال لیا.بالکل بے سروسامانی اور کسمپرسی کی حالت دیکھ کر میں نے انہیں اجازت دے دی کہ ہمارے گھر آکر روٹی پکا لیا کریں.گھر سے مربہ اچار سالن وغیرہ مہیا کر دیا جاتا.ایک دن اُن خواتین کو آنے میں کچھ دیر ہوگئی استفسار پر علم ہوا کہ اُن کی دو جوان لڑکیاں بدمعاش اُٹھا کر لے گئے ہیں.اس خبر کے بعد جان و آبرو بچانے کے لئے بیوی بچوں کو قادیان سے رُخصت کرنا ضروری ہو گیا.ایک خواب میں بھی اللہ تعالیٰ نے میری رہنمائی فرمائی تھی.اللہ تعالیٰ کا احسان دیکھئے کہ قادیان پر حملے سے ایک دن پہلے مکرم کیپٹن عمر حیات صاحب اور مکرم اشرف نسیم صاحب کے تعاون سے سفر ہجرت ممکن ہوا.اللہ تعالیٰ اجر عظیم سے نوازے.بیوی بچوں کو بھیج کر گھر واپس آئے تو عجیب وحشت پھیلی ہوئی تھی.میرا بڑا بیٹا عبدالمجید نیاز میرے ساتھ تھا.خالی گھر میں سامان بکھرا پڑا تھا.چاہت سے خریدا ہوالکڑی کا فرنیچر جس میں اخروٹ کی لکڑی کی چیزیں بھی شامل تھیں تو ڑ تو ڑ کر پناہ گزینوں کو چولہا جلانے کے لئے دے رہے تھے.باہر کر فیوں گا ہوا تھا.دارالفتوح کے جس مکان میں ہم رہتے تھے.اُس کے نیچے کی دوکا نہیں باٹا شو اسٹور والوں نے کرایہ پر لے رکھی تھیں.شام کے وقت ملٹری کے سپاہی آئے گھر کے ارد گرد پہرہ لگا دیا.دو آدمی باٹا شوز اسٹور کھول کر اندر آگئے اور اندر سے چٹنی لگا کر اپنی پسند 154
زنده درخت کے جوتے بوریوں میں بھرنے لگے.مجید کو میں نے اندر سے دروازہ بند کرنے کو کہا اور خود چھت کے اوپر مٹی پر جا کر جائزہ لیا کہ کیا ہوسکتا ہے.میں نے دیکھا کہ ایک کیپٹن اور تھانیدار قریباً چالیس ملٹری کے آدمیوں کے ساتھ کالج کی طرف جارہے ہیں میں نے اُن کو آواز دی کہ یہ کیسی ہماری حفاظت ہے کہ باہر آپ نے کرفیو لگایا ہوا ہے اندر اپنے آدمی نقب زنی اور لوٹ مار پر لگا رکھے ہیں.کیپٹن انگریز تھا اُس نے پوچھا کہ یہ آدمی کیا کہتا ہے جب اُسے بتایا گیا تو اس نے مجھے نیچے بلایا اور ساری بات پوچھی وہ ایمان دار تھا اُس نے زبر دستی باٹا شوز اسٹور کا دروازہ کھلوایا.اپنے سارے آدمیوں کو قطار میں کھڑا کر کے پوچھا کہ ان میں سے پہچانیں آپ کی چوری کس نے کی تھی.دو آدمی پہچانے گئے.اُس نے تھانیدار کو کہا کہ ان سے رائفلیں لے لیں اور پیٹیاں اُتار لیں اور مجھے کہا کہ آپ کے کسی ذمہ دار آدمی کے سامنے ہم ان کو سزا سنا دیں گے.چنانچہ سرمحمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی پر محترم مرزا عبد الحق صاحب کو بلوا کر ان چوروں کے خلاف فرد جرم لگائی اور پندرہ پندرہ دن کی سزا سنائی.اس بات سے اُس علاقے کے ملٹری والے میرے خون کے پیاسے ہو گئے جو گزرتا چوبارے کی طرف ضرور فائر کرتا.اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حفاظت سے مجھے ان کے حملوں سے محفوظ رکھا.الحمد للہ ثم الحمدللہ یہ واقعہ بہت مشہور ہوا بہت احباب میری خیریت پوچھتے اور دعا کرتے حتی کے حضرت اماں جان بھی میرے لئے دعا کرتیں اور گھر والوں سے خیریت پوچھتیں.رات کو ملٹری نے چھاپہ مارا کل بارہ سپاہی تھے.دو سپاہی دروازہ توڑ کر اوپر آئے اور میری چھاتی پر سنگین رکھ کر پوچھا تم شور کیوں کر رہے تھے.میں نے کہا کہ میں نے صرف یہی پوچھا تھا کہ کون ہے؟ بات کرتے کرتے ایک سپاہی نے سنگر سلائی مشین اُٹھالی اور مجھے کہا کہ نیچے چلو میں نے پوچھا کیوں نیچے لے جارہے ہو کر فیول گا ہوا ہے.نیچے گیا تو کر فیو کی خلاف ورزی کا الزام دھر کے آپ مجھے گولی ماردیں گے.ایک سپاہی نے اپنا رینک دکھایا اور کہا میں ذمہ دار ہوں آپ کی حفاظت کریں گے.155
زنده درخت میں نے کہا حفاظت کے بجائے آپ تو لوٹ رہے میں کرفیو بھی لگا رکھا ہے تا کہ کوئی مدد کو نہ آسکے.آپ پر کیسے بھروسہ ہو سکتا ہے.باتوں کے دوران اس نے گھر کی خوب تلاشی لی حتیٰ کہ میری بیٹی کی گڑیوں کو پھاڑ کر دیکھا کہ اُن میں کچھ چھپایا ہوا تو نہیں پھر چھابے میں پڑے دس بارہ روپے کے کھلے پیسوں کو اٹھایا تیس روپے کپڑے میں بندھے تھے بے کار چیز سمجھ کر چھوڑ دیا.اور مجھے زبردستی نیچے لے گئے اور باز پرس شروع کر دی کہ آپ نے شور کیوں کیا تھا.میں نے وضاحت دی کہ میرے گھر کے نیچے باٹا کا اسٹور ہے.جو میری دکانیں کرایہ پر لے کر بنایا گیا ہے مجھے دروازہ توڑنے کی آواز میں آئیں تو میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ اوپر سے مجھے لے کر آنے والے سپاہیوں کے لوٹ کے مال سے بھاری جھولے کو دیکھ کر انہیں گمان ہوا کہ بہت مال لے آئے ہیں فوراً جیپیں اسٹارٹ کیں اور مجھے وہیں چھوڑ کر چلے گئے.حملے کے انداز سے لگتا تھا کہ شاید اب زندہ واپس اوپر نہ آؤں.انسانی جان تو ان کے سامنے مکھی سے بھی زیادہ حیثیت نہ رکھتی تھی.بڑی بے دردی سے پیش آتے.اُن کا ایک لفظ بہت ہی جان لیوا تھا.اگر کسی کو کہتے کہ بنگلے چلو“ اس کا مطلب تھا وہ شخص زندہ واپس نہ آئے گا.مجھے محترم مرزا عبد الحق اور دوسرے افسروں نے سمجھایا تھا کہ بنگلے جانے کو کہیں اور زور بھی دیں تو مت جانا.مجھے تین دفعہ زبر دستی بنگلے لے جانے کی کوشش کی گئی.ت ادیان پر منظم حملہ اور خدا تعالیٰ کی مدد: قادیان پر حملے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی.مسلح حملہ آوروں کو عید گاہ شمشان بھومی میں رات ہی چھپا دیا گیا تھا صبح ہوتے ہی ایک گروہ نے دارالصحت کی طرف سے اور دوسرے گروہ نے دار الفتوح کی طرف سے اور کچھ حملہ آور کھارے اور ٹھیکری والے کی طرف سے بھی آئے.حملہ بہت اچانک کیا گیا تھا.کھلے عام قتل و غارت ،لوٹ مار دہشت گردی ہوئی شہر کے لوگ احمد یہ چوک اور باہر کے اسکول کالج وغیرہ میں جمع ہو گئے.حملہ آوروں نے جو چاہا جس طرح چاہا لوٹ لیا.سوٹی لاٹھی تک چھین کر لے گئے.سائیکل 156
زنده درخت گھوڑے سب لے گئے.میں نے بھی ضرورت کے وقت کے لئے ایک گھوڑی خرید رکھی تھی مگر ایک جاننے والے غیر مسلم خاندان کے لڑکے نے چھین لی.لٹے پٹے لوگ ایک طرح محاصرے میں گھرے ہوئے تھے اب اللہ تعالیٰ کی شان دیکھئے کہ جو درویش وہاں رہ گئے تھے اُن میں ہرفن اور پیشے کا فرد موجود تھا.ہم ہر ضرورت آپس میں کام کر کے پوری کر لیتے.شہر بھر کو ہماری ضرورت پڑتی مگر ہمیں کسی کی محتاجی نہ ہوئی.ضرورت کا سامان بھی انہیں محصور علاقوں سے مل جاتا جو افراتفری میں لوگ لا لا کر ڈال گئے تھے.میاں عبدالمنان صاحب نے میری ڈیوٹی کھانے کا انتظام کرنے پر لگا دی لنگر خانے کا آٹا ختم ہو گیا تو ہم نے گندم کے دانے بھون کر اور ابال کر کھائے کھچڑی کی دیگیں پکائیں دال موجود تھی وہی تل تل کر دینے لگے.خوب خدمت کا موقع ملا.کچھ دنوں کے بعد ملٹری کے آدمی اور دس بارہ دوسرے آدمیوں کو ساتھ لے کر میں نے کوشش کی کہ گھر کا قیمتی سامان لے آؤں دراصل ہمارے گھر میں دوسروں کی بھی امانتیں تھیں مگر ہوا یہ کہ لوٹنے والوں کی تالا توڑنے کی اتنی ناکام کوششیں ہو چکی تھیں کہ اصلی چابی سے بھی نہ کھلا.مگر اُن کو یہ اندازہ ہو گیا کہ اس مکان سے کچھ ملے گا ضرور.پہلے تو حکومت کے آدمیوں نے حفاظت کا کہہ کر پہرہ بٹھا دیا پھر با قاعدہ قبضہ کر لیا.سارا سامان لوٹ لیا اور ایک مقامی باشندے کو اُس پر قبضہ کرنے کا موقع ملا جس نے بھاری فرنیچر ، جو توڑ نہ جاسکا تھا ، باہر کی دیوار توڑ کر نکالا اور بٹالہ لے گیا.یہ سب میرے سامنے ہوا.مگر صبر کرنا پڑا.ایک دن میں نے اپنے گھر کے قبضہ کنندہ سے کہا کہ باباجی گھر میں کچھ قیمتی دوائیں اور جڑی بوٹیاں میں اگر آپ کو بتا دوں تو کم از کم آپ کے کام آجائیں میں آپ کو اوپر جا کر سمجھا دیتا ہوں.پہلے تو اس نے او پر جانے سے منع کر دیا پھر قیمتی کے لفظ سے یہ سوچ کر کہ شاید کوئی مالی فائدہ ہو او پر بلا لیا میں نے سب کچھ سمجھا کر اس کی اجازت سے صرف پیپل کے پیڑ کی داڑھی اُٹھالی.وہ بضد ہوا کہ اس کا فائدہ بھی سمجھاؤ.مگر میں نے کہا کہ جب میں یہ ساتھ لے جارہا ہوں تو آپ کو کیا فائدہ ہوگا.اس کے خواص سمجھ کر اس نے ہاتھ جوڑ کر ایک چھٹانک مانگی جو میں نے دے دی.157
زنده درخت -25.درویش سے چند سوالا.یہ تحریر عزیزم مکرم حبیب احمد طارق صاحب کے توسط سے حاصل ہوئی ہے جو آپ نے دفتر کے ریکارڈ سے حاصل کی.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء) i-ت ادیان ٹھہر کر کیا کیا: مئی جون 1947ء سے اپنے محلہ کے انتظام کے ماتحت مختلف ڈیوٹیوں پر کام کرتا رہا.22 گھنٹے بیت میں رہنا شروع کر دیا تا کہ ضرورت کے وقت غیر حاضر نہ ہوں.پھر اس اثنا میں بجلی بند ہوگئی تو گیس لیمپ جلانے کا کام کرتا.فسادز دہ علاقوں سے پناہ گزین آتے اُن کو منزل پر پہنچا تا.کھانے اور رہائش کا خیال رکھا.خاص گروپ کو اپنے چارج میں جہاں بھیجتے لے کر جاتا رہا.کرفیو کے دوران بعض ظلم و تشد دکو اپنے سر لے کر روکنے کی کوشش کرتا رہا.جو اچانک گھر جاتے انہیں پرائیویٹ راستوں سے منزل مقصود پر جانے میں مدد کرتا.پھر باہر سے آنے والے بے حساب لوگوں سے حسن سلوک کرتا.کسی کو روٹی پکا کر دیتا.کسی کو دوائی وغیرہ کا بندوبست کر دیتا.دن رات خدمت خلق اور نظام سلسلہ کی پابندی کرتا رہا.اس دوران میں میری اپنی جان خطرے اور موت کے منہ سے خدا نے بچائی.پھر حملے کے دن ہر قسم کے اسلحے اور حکومت کے آدمیوں کا سامنا کرتے ہوئے بیت مبارک میں آ گیا.حملے کے بعد دو تین دن بیت مبارک میں سو یا پھر دکان پر بندوبست کیا.حضرت میاں ناصر احمد کے کہنے پر کئی من مٹھائی تیار کی اور نمکین دال بنائی.اس اثناء میں اپنے گزارے کی صورت یہ کی کہ گندم بھگو دیتا اور نشاستہ بنا کر گڑ ملا کر مٹھائی بناتا.پھر مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ قادیان ٹھہریں گے یا پاکستان جائیں گے.158
زنده درخت ii.میں نے قادیان ٹھہرنے کا فیصلہ کیا: خدا کا شکر ہے کہ میرا نام قادیان رہنے والوں میں آ گیا.پھر لوگوں کے تالوں کی چابیاں بنادیتا.کتابوں کی جلدیں بناتا.پھر ہندوؤں کے محلوں سے کتابیں خرید کر فروخت کرتا.ایک وقت سب کام بند ہو گئے.تو سودا ڈالنے کے لفافے بنائے نگران درویشاں محترم مرزا محمد حیات صاحب کے فرمان کے مطابق پہرے کی ڈیوٹی دیتا.دیوار بناتا.مکان تعمیر کرتا، ٹیپ کرتا، کوئی دروازہ لگاتا.بازار اور پرائیویٹ احاطوں کی صفائی کرتا.پودوں کو بالٹیوں سے لا کر پانی ڈالتا.لنگر کے چولہے اور تنور بھی لگائے.شکستہ مکانوں کی مرمت چھت وغیرہ ٹھیک کرتا لوگوں کے گھروں سے سامان لا کرسٹور میں جمع کرواتا.صدر انجمن کے سٹور میں صابن برائے فروخت دکان صدر انجمن بنایا.غرض جہاں حکم ہوا اور جس کام کا حکم ہوا اس کے علاوہ خود نیک نیتی سے سوچ کر کام کرتا.زائرین کو دعوت الی اللہ کرتا.ii-ت ادیان میں کیوں ٹھہرے؟ رضائے الہی اور مقامات مقدسہ سے افادہ کرنا، خدا تعالیٰ سے دعا کرنا کہ قادیان کو پھر ویسے ہی آباد کر دے اور پھر یہاں سے ساری دنیا میں دعوت الی اللہ ہو.اور شعائر اللہ سے برکت حاصل کرنا اور ان کو آباد رکھنے کی ہرممکن قربانی سے کوشش کرنا.اور اپنی ہر حقیر قربانی پیش کر کے اس کی رحمت اور عنایت کو قریب سے قریب ترلانے کی امید پر جینے کے لئے ٹھہرا.iv-ت ادیان میں ٹھہر کر کیا پایا؟ خدا کے فضل سے درجہ رفقاء کرام پالیا.ہاں ہم نے وہ زندگی حاصل کی جس پر اب بڑے بڑے بزرگ ہاں ہاں ہمارے واجب الادب و احترام خلیفہ رشک کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.مگر ذاتی طاقت ،حوصلے اور وسائل سے نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل رحم کرم ے مُوتُوا قبل ان تموتُوا کے مصداق بن گئے مگر اُسی کی ذرہ نوازی سے فالحمد للہ علیٰ 159
زنده درخت ذالک.اطاعت امیر کا احساس، بھائی بندی کا سلوک، ایک دوسرے کے غم میں حقیقی شرکت، وقت کی پابندی، نمازوں میں لطف و سرور، دعاؤں کے مواقع ، تیمارداری کا پاک جذبہ پیدا ہوا.رضائے الہی کی خاطر اپنے پیاروں سے جدائی کی گھڑیاں صبر اور دعا سے برداشت کیں.اپنی مشکلات کو اپنے تک ہی محدود رکھتا اور صرف خدا تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتا.اخوت، ہمدردی اور رواداری کا سلوک سیکھا.گرمی ترشی برداشت کرنی سیکھی.غرض قادیان میں ٹھہر کر جو ملا اس کو میری طاقت بیان نہیں کر سکتی.اور خدا سے دعا ہے جو بھی وہ اپنے بندے کو دینا چاہتا ہے.اپنے فضل سے عنایت کر دے.جو ہم لینا چاہتے وہ بھی عنایت فرما دے.آمین ثم آمین.عبدالرحیم درویش نمبر 72 مالک احمدیہ دیانت سوڈا واٹر فیکٹری قادیان 160
زنده درخت 26- زمان درویشی کے چند واقعات i- دیانت لوشن : درویشی کے دور میں ایک ساتھی چوہدری محمد طفیل صاحب کو آنکھوں میں تکلیف تھی ڈاکٹر صاحب نے جو ٹیوب لگانے کے لئے دی مہنگی تھی میں نے ایک سستا سانسخہ بتا یا کہ سفید پیاز کے پانی میں برابر کا شہد ملا کر صبح و شام دو دو قطرے ڈالیں.آپ کو بہت فائدہ ہوا.اس دوا کا نام دیانت لوشن رکھ لیا اور بہت لوگوں کو بتایا.پھر ان کو اکسیر جگر کا نسخہ بھی بتایا.نوشادر قلمی شوره، ریوند چینی، الائچی ، سفید باریک پیس کر دو دو رتی خوراک لے لیں.انہیں بفضل خدا اس قدر فائدہ ہوا کہ اکثر لوگوں کو کہا کرتے تھے کہ بھائی جی اتنے کام کے آدمی ہیں کہ فوت ہو جا ئیں تو مسالہ لگا کر محفوظ کر لینا چاہئے.ii- غیب سے رزق کے سامان : درویشی کے زمانہ میں فقر و فاقہ اور سادگی سے گزارا ہوتا.درویشوں کو جو وظیفہ ملتا تھا.لینا گوارا نہ کیا البتہ ایک مدت دراز کے بعد لنگر خانہ سے کچھ عرصہ کھانا لیا مگر پھر چھوڑ کر خود پکانا شروع کر دیا.ایک ٹین کا ڈبہ تھا اُس میں کچھ پکا لیتا.میری بڑی بیٹی عزیزہ امتہ اللطیف قادیان آئی تو اس پرانے ڈبے کو اس طرح مانجھا کہ استعمال کے قابل نہ رہا یعنی سوراخ ہو گئے.میں کبھی سوال کر کے کسی سے کوئی چیز نہ لیتا اُن دنوں پیسے بالکل ختم تھے.بچی آئی تھی اور میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا.میری عادت تھی کہ کہیں سے آمد ہوتی تو کتا ہیں اور جلد سازی کا سامان خرید لیتا.اس آڑے وقت میں اللہ تعالیٰ نے غیب سے مدد فرمائی سامنے صحن میں کالی سی ڈھیری نظر آئی قریب جا کر دیکھا کہ تو دواڑھائی سیر کلونجی تھی غالباً کسی کے کام کی نہ ہوگی باہر پھینک دی میں نے اُٹھا کر صاف کی اور دکان پر جا کر فروخت کر دی.161
زنده درخت ضرورت کی کچھ رقم مل گئی سبحان اللہ.اسی طرح کی ایک شدید ضرورت میں ایک بوری مہندی کے خشک پتوں کی ملی جو پسوا کر فروخت کر دی.ایک دفعہ چائے پینے کے لئے بھی پیسے نہیں تھے.راستے میں ایک کلاہ نظر آیا جس پر پگڑی پہنی جاتی ہے.نظر تو سب کو آیا مگر مجھ کو رقم کی سب سے زیادہ ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھا یا کہ اس کو اٹھا لو.لا کر آگ لگادی چاندی الگ ہوگئی کافی رقم مل گئی.سبحان اللہ رب العلمین.iii-شان ربوبیت: اللہ تعالی کی مددکا ایک واقعہ یاد آیا بظاہر معمولی ہے مگر میرے لئے بہت بڑا شکر کا مقام تھا.اسی لئے یا درہا.ایک دفعہ ایک عزیز مہمان آئے.میرے پاس اس قدر بھی پیسے نہ تھے کہ چائے بھی پلاسکوں.لنگر خانے سے اُن کو ناشتہ کروایا اور کنڈی لے کر ڈھاب کے کنارے جا بیٹھا اور دعا کی الہی اکرام ضیف کی خاطر مچھلی بھیج دے.خدا کی شان اچھی خاصی سات مچھلیاں آگئیں.ایک ہوٹل والے کو دے کر کہا کہ یہ تم رکھ لو میرے مہمان کو پر تکلف کھانا کھلا دینا.اس طرح مہمان داری کی باوقار صورت بن گئی.پھر ایک کشمیری بھائی بڑے سائز کا قرآن پاک تلاش کرتے ہوئے آئے اور ہدیہ دے کر لے لیا.اپنے مولا کے ایسے سلوک پر اُس پر فدا کیوں نہ ہو جاؤں.وَهُوَ عَلى كل شئ قدير - ۱۷- موت سامنے نظر آنے لگی : ایک مرتبہ عملے کے احباب کے اصرار پر، درویشی کے زمانے میں 3 ، بھامبڑی نہر پر پکنک کے لئے گیا.سیر و تفریح کھانے پکانے میں میرا ساتھ اُن کو مفید رہتا.مگر میں پانی میں نہانے سے گریز کرتا.سب کے مجبور کرنے پر میں نے بھی نہر میں نہانے کے لئے چھلانگ لگادی پل سادہ ہی تھا ٹھو کر والا نہ تھا.مگر پانی کا بہاؤپل کے پاس تیز ہو جاتا تھا.سب پل کے نیچے سے گزر رہے تھے میں نے بھی ارادہ کیا مگرگھبرا گیا کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے.بہاؤ تیز تھا میرے واپسی کے ارادے سے کیا ہونا تھا.موت سامنے نظر آنے لگی.ایک دوست 162
زنده درخت میری بدحواسیوں سے اندازہ لگا کر میری مدد کو آئے اس طرح جان بچ گئی اور میں نے دوبارہ پانی میں جانے کا خیال چھوڑ دیا.۷- محض اللہی تعاون : ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کیلئے چائے کے لوازمات خریدنے کے لئے امرتسر گیا.بیکری کی چیزوں سے بھرے ہوئے ڈبوں کے ساتھ اسٹیشن پر آیا تو جلسہ کے مہمانوں سے ٹرین کے سب ڈبے بھرے ہوئے تھے آخر ایک ڈبے میں جگہ ملی ٹوکریاں رکھ لیں تو میری نظر فرش پر پڑی جہاں ایک شخص کیچڑ میں لت پت اس حالت میں پڑا تھا کہ گو یا دم توڑ رہا ہو مجھے صورت کچھ شناسا معلوم ہوئی.غور کیا تو وہ صوفی فضل الہی صاحب تھے میں ان کی دعوت کر چکا تھا صاحب الہام مستجاب الدعوات نیک آدمی تھے گاڑی میں ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی گود میں شیر خوار بچہ لئے ہوئے ان کی تیمارداری کر رہی تھی.میرے پوچھنے پر بتایا کہ صوفی صاحب کی بیوی ہے میں نے انہیں سنبھالا.انہوں نے آنکھیں کھول کر دیکھا کچھ حوصلہ ہوا.میں نے اسٹیشن ماسٹر بٹالہ سے کہا کہ قادیان بذریعہ تار اطلاع کر دیں کہ بمبئی والے صوفی صاحب آرہے ہیں دمہ کا شدید حملہ ہے.کوئی ڈاکٹر صاحب اور چار پائی اسٹیشن پر پہنچا دیں قادیان پہنچے تو سب سامان موجود تھا ان کو بحفاظت استقبالیہ تک پہنچا دیا.اب اپنے سامان کا خیال آیا تو معلوم ہوا کہ سب سامان احتیاط سے اُتار لیا گیا ہے.جماعت کے افراد کا اخلاص و محبت قابل تشکر ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے صوفی صاحب کی اور احباب جماعت کو میری مدد کی توفیق دی.الحمد للہ.vi-ت ادیان کی برکت : ایک دفعہ قادیان سے ربوہ جانے کے لئے خاکسار اور مکرم مرزا عبداللطیف صاحب مالک احمد یہ درزی خانہ، درویشی کی سعادت بھی ملی ) گاڑی پر سوار ہو کر امرتسر جا رہے تھے.گاڑی میں ایک عمر رسیدہ عورت بھی سوار ہوئی اس کے ساتھ ایک آٹھ سال کی لڑکی اور 163
زنده درخت ایک دودھ پیتا بچہ تھا.اس عورت نے مسلسل قادیان کی برائی کی کہتی رہی برسات کا پانی اندر آگیا.مکان کی دیوار گر گئی چھت نے بڑا دکھ دیا یہ شہر بڑا منحوس ہے.جب سے آئے ہیں کوئی نہ کوئی مشکل ہی مشکل ہے.تھوڑی دیر کے بعد میں نے اُس عورت سے کہا مائی اس بچے کو ماں کے بغیر کہاں لے جا رہی ہو؟ اُس نے کہا یہ میرا اپنا بچہ ہے اور تین اس سے بڑے ہیں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑھاپے میں اولاد دی یہ بچے کہاں پیدا ہوئے؟ وہ عورت تو ایک دم پلٹ گئی اور کہنے لگی بھائی میری ساری عمر گزرگئی اولاد نہ ہوئی یہ قادیان کی برکت ہے جو مجھے اولاد کی نعمت ملی اگر قادیان نہ آتی تو شاید ساری عمر بے اولاد ہی رہتی.میں نے کہا ابھی تو آپ قادیان کی برائی کر رہی تھیں اور اب اس کو مقدس بابرکت اور نعمتوں سے بھر پور بتا رہی ہو.کچھ دیر رک کر کہنے لگی ”ہاں واقعی جو نعمتیں مجھے یہاں ملی ہیں اُس کے مقابلے میں یہ تکلیف تو کچھ بھی نہیں“.سبحان اللہ ! اللہ تعالیٰ نے اس مقام کو ہر کس و ناکس کے لئے بابرکت کر دیا.اولاد کی نعمت سے شاہ جہان یو پی کے حکمت اللہ صاحب یاد آ گئے.اُن کو بھی قادیان سے باہر جب تک رہے کوئی بچہ نہیں ہوا.قادیان آ کر دعاؤں میں لگ گئے اس دارالامان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لڑ کے بھی ہوئے لڑکیاں بھی.الحمد للہ.vii- ایک اتفاقی حادثہ کی دیر پا تکلیف : میں الیکشن کا ووٹ ڈالنے کے لئے اپنے نام کی پر چی لینے جارہا تھا سامنے سے احمد یہ اسکول کا ایک لڑکا بھاگتا ہوا آرہا تھا.میں ٹکر سے بچنے کے لئے ایک طرف جھکا جس سے پاؤں مڑ گیا اور سارا جسم بے سہارا ہو کر بیت مبارک کی مغربی دیوار اور نالی کے درمیان فرش پرسپاٹ گر گیا.بائیں کندھے پر شدید چوٹ لگی کہ سارا ہاتھ سن ہوکر رہ گیا.ووٹ کی پرچی پتہ نہیں کدھر گئی اُٹھا تو مگر چوٹ کا اتنا اثر تھا کہ ووٹ دئے بغیر کسی نہ کسی طرح گھر آ گیا.دو گھنٹے تک سکائی وغیرہ کر کے ووٹ ڈالنے گیا.اور پھر ٹکور وغیرہ کرتا رہا.164
زنده درخت چلنے پھرنے کی بزور کوشش کرتا رہا کہ اگر ایک دفعہ بیٹھ گیا تو ہوسکتا ہے عمر بھر نہ چل پھر سکوں تادم تحریر کندھا ٹھیک نہیں ہوا کوئی چیز اٹھانے لگوں تو سارا ہاتھ ہی چند منٹ کے لئے بیکار سا ہو جاتا ہے چند دن قبل بیت الدعا سے علی الصبح نفل پڑھ کر باہر آنے لگا تو پھر وہی تکلیف ہوگئی مالش سینک کرتا رہا صدقہ بھی دیا.اللہ تعالیٰ صحت کے ساتھ زندگی دے.viii - پرے ہی پہرے: پہرے کا سلسلہ بہت طویل ہے قادیان میں قدم کا میلہ ہوتا تھا.اُن دنوں پہرا لگتا.مخالف غیر احمدی جلسے کرتے تو پہرا دینا پڑتا احراریوں ، مستریوں، اور مصریوں کے فتنوں کے وقت پہرے لگتے.گو خدا تعالیٰ نے سب کو خائب و خاسر کیا مگر وقتی طور پر بڑا دکھ اور اضطراب ہوتا تھا.پھر تقسیم کے دنوں کے پہرے جنہوں نے سب کو مات کر دیا.جانے والے تو چلے گئے باقی جو محمد ود علاقہ احمدیوں کے پاس رہ گیا اُس کے خالی مکانوں کی لوٹ مار کا دور چلا.ذرا غفلت ہوتی مکان پر ہی قبضہ ہو جاتا حتی کہ ضرورت کا کہ کر ٹھہرنے کی اجازت لے کر قبضہ کر لیتے.ہم حفاظتی دیوار میں اور گیٹ بناتے راتوں کو پہرا دیتے.کوئی ہم پر ترس کھاتا کوئی مذاق کرتا.کوئی جان لینے کی دھمکی دیتا غرض کوئی دکھ ایسا نہیں جو ان دنوں میں نہ دیکھا ہو مگر یہ سراسر خدائی فضل واحسان ہے کہ اس نے ہم نہتوں کے پہروں پر اپنے فرشتے شامل کئے اور ہمیشہ محفوظ و مامون رکھا.165
زنده درخت -27 - درویش کی روداد حیات درویش کے خطوط سے اباجان کے خطوط کا خزانہ پوری طرح محفوظ نہیں کیا جا سکا.آپ کے خطوط جن میں پیار محبت ، خلوص ، فدائیت، جماعت سے تعلق و عقیدت کا مضمون تھا یہ خطوط سب بچوں کے نام برابر آتے تھے.بڑی بہن کے نام ایسے خطوط کی تعدا دسب سے زیادہ تھی کیونکہ گھر میلوا امور کے متعلق مشورہ ور رہنمائی اکثر ان کے نام خطوط میں ہی تھی.خط جذبات سے اس طرح سے گندھا ہوتا کہ کچھ باتیں ربوہ میں کسی بچے کے متعلق ہوتیں اور کچھ باتیں سیرالیون یا تنزانیہ میں کسی بچے سے متعلق ہوتیں گویا لکھتے وقت عالم تصور میں سب بچے بلکہ اعزہ بھی قطار باندھے سامنے کھڑے ہوں اور آپ ان سے بے ساختہ و بے تکلف باتیں کر رہے ہوں بعض جگہ الفاظ آگے پیچھے ہوتے یا بعض الفاظ درج ہی نہ ہوتے تھے جسے ہم بآسانی سمجھ لیا کرتے تھے کہ دماغ جس تیزی اور سرعت سے کام کرتا تھا ہا تھ نے اس کا پوری طرح ساتھ نہ دیا تاہم لفظ و معنی کے حسن و خوبی کو دلی جذبات کی آمیزش نے ایسا رنگ دیا ہے گو یا خطوط نہ ہوں آنکھ سے ٹپکے ہوئے آنسو ہوں.نہاں خانہ دل کی انمول تصویروں کو خاکسار نے چند عنوانات کے تحت ترتیب دیا ہے.-1 علم اور کتابوں کا عشق -i کتاب پڑھنا شروع کے خالی صفحات یا حاشیہ میں ضروری حوالے لکھنا) ، خریدنا، پڑھانا، سنانا، تحفے میں دینا الماریوں میں ترتیب سے رکھنا ابا جان کا محبوب مشغلہ تھا.آپ کے حلقہ احباب میں صاحبانِ علم اور صاحبان قلم شامل تھے.گھر کے معمولات میں صبح نماز با جماعت سے واپس آکر تلاوت قرآن مجید کے بعد درس حدیث اور رات کو سونے سے 166
زنده درخت پہلے حضرت اقدس مسیح موعود کی کتب یا کوئی نئی چھپنے والی کتاب پڑھ کر سنانا شامل تھا.لطف لے لے کر پڑھتے ، بعض حصوں کو بار بار پڑھتے مفہوم سمجھاتے.پڑھنے کا انداز بہت پراثر تھا.آپ سے کتاب سننے کے شوقین اور سننے کے ضرورت مندوں میں خاص طور پر حافظ محمد رمضان صاحب کا ذکر ضروری ہے.آپ نابینا تھا.مگر تعلیم و تدریس کا شوق رکھنے کی وجہ سے مولوی فاضل کیا.حافظ قرآن بھی تھے.ابا جان ان کو کتب پڑھ کر سناتے.اسی طرح ہمارے نانا جان محترم حکیم اللہ بخش صاحب رات کو باوجود ضعیفی کے جاگتے رہتے اور انتظار کرتے کہ کب دُکان سے گھر آ کر کچھ پڑھ کر سنا ئیں.گھر میں بے شمار کتابیں تھیں.نئی طبع شدہ کتب کے پہلے خریدار ہوتے ، کتاب خریدنے میں جلدی کرتے تا کہ ختم نہ ہو جائے.تفسیر کبیر پہلی جلد شائع ہوئی تو بڑی رغبت اور شوق سے حاصل کر کے اس پر ایک نوٹ تحریر کیا کہ یہ بہت بڑا خزانہ مل گیا ہے.میری اولا د ہمیشہ اس سے فائدہ اُٹھاتی رہے.قادیان سے باہر بھی کسی مفید کتاب کا علم ہوتا تو خرید لاتے.مثلاً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا سیٹ مکمل رکھنے کی کوشش میں تلاش جاری رہی.کچھ کتب قادیان میں موجود نہیں تھیں.معلوم ہوا کہ اہل پیغام نے طبع کی ہیں جماعت سے اجازت لے کر نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے دوستوں کے لئے بھی خرید لائے.حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ترجمہ والا قرآن مجید شائع ہوا تو بچوں کے لئے کئی نسخے لے آئے.جماعت کی طرف سے جب کسی کتاب کا امتحان لیا جاتا آپ خود بھی شامل ہوتے اور بچوں سے بھی امتحان دلواتے.حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی شہادت سے متعلق پنجابی اور اردو نظم کی کتابیں بہت عزیز تھیں.اکثر بڑے درد سے سناتے خود بھی روتے اور دوسرے بھی آبدیدہ ہو جاتے.تقسیم برصغیر کے قیامت خیز ہنگاموں کے بعد جب درویشانِ کرام نے قادیان کے گلی کوچوں میں قرآن مجید اور دیگر قیمتی کتب کے اوراق بکھرے دیکھے تو ایک اور قیامت گزر گئی.مسجد نور میں تین من کے قریب قرآن شریف کے اوراق منتشر پائے گئے اناللہ وانا 167
الیہ راجعون“.زنده درخت تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 263) شرپسندوں کے لئے ان کی کوئی اہمیت نہ تھی.انہیں مسلمانوں کو اذیت دینے کا سامان مل گیا.حکیم وخبیر خدا تعالیٰ نے اپنے بندے کو کتابوں کا عشق قلمی وعلمی خزائن کی حفاظت کے محاذ پر لڑنے کے لئے عطا فرما رکھا تھا.گلی گلی سے ، رڈی فروشوں سے ، گھروں گھروں سے اوراق جمع کئے.حالات اتنے نامساعد تھے کہ گھر سے نکلنا جان کو خطرے میں ڈالنا تھا.درویشوں نے ان ابتدائی ایام میں دن رات کام کیا مثلاً درویش لنگر خانہ میں سامان پہنچاتے مہاجر احمدیوں کے گھر سے اسباب بحفاظت جمع کرتے.بہشتی مقبرہ میں معماری کا کام کرتے.بیرونی محلوں سے جمع شدہ کتابوں کو مرتب اور مجلد کرتے اور اپنے حلقہ درویشی کے ہراہم مقام پر نہایت با قاعدگی اور ذمہ داری کے ساتھ پہرہ دیتے.( تاریخ احمدیت جلد 12 صفحہ 254) جز و بندی اور جلد بندی کا فن آپ نے شوقیہ سیکھا ہوا تھا.اوراق جمع ہوئے تو جلد سازی کے سامان کی ضرورت تھی.مسبب الاسباب قادر خدا نے اُس کا بھی سامان فرما دیا.ابا جان تحریر فرماتے ہیں:.ایک واقعہ بالکل ابتدائی دنوں کا ہے جس سے رازق خدا کی رزاقیت کا لطف آتا ہے ایک غیر مسلم میرے پاس آیا کہ میرے پاس موم کا ایک ٹین (Tin) ہے.آپ اُس کو خرید لیں.میں نے کہا اچھا اُن دنوں کسی کے گھر اعتبار کر کے جانا، جان کا خطرہ مول لینا تھا.مگر اس سے کچھ شناسائی ہو گئی تھی ایک دو کتابیں خرید چکا تھا.وہ مکرم عبداللہ صاحب جلد ساز کے مکان پر قابض تھا اُس نے کتا ہیں تو با قاعدہ دکانوں پر رکھ کر فروخت کیں.لوہے کی مشینیں وغیرہ بھی فروخت کر دیں.ایک کٹنگ کی مشین اور ایک ٹن باقی تھا.میں موم ٹیسٹ کرنے کے لئے ماچس لے کر گیا تھا.جب میں ٹیسٹ کرنے لگا تو دیکھا کہ وہ موم نہیں چر بی تھی.میں نے اُسے بتایا کہ اس گھر کے مالک کو قربانی کا شوق تھا اُس نے کسی مقصد سے چربی جمع کر رکھی ہے.وہ تو رام رام کرنے لگا اور ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا اس کو جلد 168
زنده درخت لے جائیں، اُٹھا ئیں میرے گھر سے.میں نے اُسے ٹن کے آٹھ آنے دیئے اور اُٹھا لایا.جلد سازی کے باقی ماندہ سامان کا بھی بہت سستا سودا ہو گیا.میں ایک لمبے عرصے تک اسی سامان کی مدد سے جلد سازی کا کام کرتا رہا اس طرح روزی کا سامان خدا تعالیٰ نے مہیا کر دیا.چربی کے کنستر کا میں نے یہ کیا کہ اس میں کاسٹک وغیرہ ملا کر صابن بنا دیا.اُن دنوں قادیان کے مکینوں کو صابن کی بے حدضرورت تھی.احباب شکر گزار ہو کر خرید تے میرے پاس کافی روپے جمع ہو گئے.یہ الہی عطیہ تھا دراصل میں نے درویشی کے زمانے میں وظیفہ لینے سے انکار کیا تھا اللہ تعالی نے میری غیرت کی لاج رکھی اور ہر اُس کام میں برکت ڈالی جسے میں نے کرنا چاہا.حتی کہ لوگ کہنے لگے بھائی جی مٹی میں ہاتھ ڈال کر سونا کر دیتے ہیں.میں نہیں کرتا تھا.میرا خدا میرا سامان کرتا تھا.ابھی صابن ختم نہ ہوا تھا کہ وہی صاحب آئے کہ بھائی ایک ویسا ہی کنستر اور ہے ہم پر احسان کریں وہ اٹھا لیں.میں نے دام پوچھے تو بولا بس لے جائیں.معاوضے میں ایک پیتل کی دیچی دے دیں.اس چربی میں السی کا تیل ڈال کر صابن بنایا جو پہلے سے بہت بہتر بنا.من سوامن صابن بن گیا اور فوراً بک گیا.ہر خاص و عام کو ضرورت تھی یہ سب الہی سامان تھے جس چیز کی ضرورت تھی آسانی سے سستے داموں دلوا دی اس طرح اللہ تعالیٰ نے میری اور میرے بے وطن بلکہ جلا وطن بچوں کی مدد کی.لمبی کہانی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تادم تحریر 30/7/71 مجھے خدا تعالیٰ نے قناعت ، کشائش اور فراوانی سے نوازا ہے الحمد للہ الحمد للہ.ایک دلچسپ واقعہ یوں ہوا کہ ہم تین آدمی بازار میں جارہے تھے.ایک شخص ملا اور مجھے مخاطب کر کے کہا بھائی جی ! ذرا الگ ہو کر میری بات سن لیں.میں نے ساتھیوں کو وہیں رکنے کا اشارہ کر کے کہا ٹھہریں میں دیکھتا ہوں یہ کیا کہتا ہے.وہ گلی میں لے گیا اور اُس نے کپڑے سے کھول کر دو کتابیں دکھا ئیں کہ یہ آپ خرید لیں ایک تذکرہ تھا اور دوسری پانچ پارے والی تفسیر مجھے ان کی ضرورت بھی تھی.بہت کم پیسے اُس نے لئے اور یہ قیمتی کتب میرے حوالے کیں میرے ساتھی بھی حیران ہو گئے کہنے لگے خد تعالیٰ نے اُسے آپ ہی 169
زنده درخت کے لئے نعمت بنا کر بھیجا تھا آپ کو الگ لے جا کر کتب دیں.سبحان اللہ اس کی دین ہے.میں جالندھر گیا.وہاں سے کافی کام کی کتابیں خرید کر لایا.ایک ہندودوست سے رامائن اردو مل گئی.ایک اور جگہ سے بھی رامائن کی ایک جلد مل گئی.قادیان میں ایک غیر مسلم رام را کھامل کے پاس ایک تفسیر تھی.میں ہر قیمت پر وہ حاصل کرنا چاہتا تھا.مگر وہ کسی قیمت پر دینے پر آمادہ نہ تھا.میں نے اُس سے ملنا جلنا رکھا.ایک دن کسی کام کے لئے اُس کے گھر گیا اُن دنوں دسہرہ تھا وہ اور ان کے بچے رام لیلا سنتے تھے.میں نے کہا کہ میرے پاس پوری رام لیلا ہے.بلکہ دو ہیں کہنے لگے بھائی جی وہ دونوں ہمیں دے دیں.میں تو اسی انتظار میں تھا فوراً تفسیر طلب کی اس نے دونوں کتابیں لے کر تفسیر مجھے دے دی اس طرح پاک کلام محفوظ مقام پر پہنچ گیا.بیوی کافترآن مجید 1948ء ہی کی بات ہے ایک شخص بھگت سنگھ نامی میرے پاس آیا کہ بھائی جی آپ قرآن خریدیں گے؟ میں نے اُس سے سینکڑوں روپے کی کتابیں خریدی تھیں.کہا لا کر دکھاؤ.وہ قرآن کریم لے کر آیا تو حضرت پیر منظور محمد صاحب والا قرآن کریم تھا.جب میں نے ہاتھ میں لیا تو شدت جذبات سے میرے اوپر لرزہ طاری ہو گیا.یہ قرآن میری پیاری بیوی آمنہ کا تھا.جس پر وہ ہر روز میرے سامنے بیٹھ کر تلاوت کیا کرتی تھی.میری حالت اُس سے چھپی نہ رہی وہ بڑا گھاک کا روباری آدمی تھا امرتسر میں کتابوں کی بڑی دکان تھی اس نے بہت زیادہ قیمت بتائی میں نے اس کی منہ مانگی رقم ادا کر کے قرآن پاک لے لیا اور پھر اُسے بذریعہ ڈاک ملے جلے جذبات کے ساتھ روانہ کر دیا.یہ سوچتا رہا کہ اپنا قرآن پاک اور میرے بھجوانے کے جذبہ سے متاثر ہو کر وہ نہ معلوم کتنی دفعہ سربسجود ہو کر مجھے گنہ گار کے حق میں بخشش کی دعائیں کرے گی.170
زنده درخت احبزادی ناصرہ بیگم صاحب کا تحفہ: 1948ء کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ایک صاحب نے بتایا کہ ایک غیر مسلم کے پاس سلسلہ کی کچھ کتابیں ہیں جو وہ فروخت کرنا چاہتا ہے مگر اُس کا پتہ جو بتایا وہاں جانا بہت خطر ناک تھا.میں نے معذرت کی اور کہا کہ کتب یہاں لے آئیں میں خرید لوں گا.مگر وہ آدمی ( جو آج کل حضرت میاں بشیر احمد کے فارم (Farm) پر بطور منیجر حکومت کی طرف سے مقرر ہے ) نہ مانا.کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچا تو کتا بیں دیکھ دیکھ کر عجیب ملے جلے جذبات کی کوئی حد نہ رہی وہ کتابیں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوٹھی سے لائی ہوئی معلوم ہوتی تھیں.میں نے سوچا ان کو ہر قیمت پر خریدنا ہے وہ آدمی بڑا ہشیار تھا بھانپ گیا اور مروجہ قیمت سے دس گنا زیادہ قیمت بتائی.میں نے بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے اُس کو منہ مانگی قیمت ساٹھ روپے ادا کر کے خرید لیں.اُن میں ایک بخاری شریف تھی.خوبصورت مجلد ،سنہری نام لکھا ہوا تھا جو لجنہ اماءاللہ قادیان نے محترمہ بی بی ناصرہ بیگم ( بنت حضرت مصلح موعود ) کی شادی خانہ آبادی کی تقریب سعید کے موقع پر تحفہ دیا تھا.کیا یہ کتابیں رڈی میں جانے کے قابل تھیں؟ میں کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ اُن سے ہاتھ کھینچ لوں کہ قیمت زیادہ ہے اور وہ رڈی میں بیچ دیتا.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ توفیق بھی دی کہ یہ کتب مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب کے ہاتھ عزیزہ محترمہ کو بھجوا دیں.تسلی بھی کر لی تھی کہ حفاظت سے کتب اُن تک پہنچ گئی ہیں جو میری طمانیت کا باعث ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستخط والی کتا ہیں : کتب خریدنے کے شوق میں مجھے ایک ایسی کتاب ملی جس پر حضرت اقدس مسیح موعود کے دستخط ثبت تھے.اپنے قلم سے اپنا نام لکھا ہوا تھا.بس پھر کیا تھا ایسی کتب کی تلاش 171
زنده درخت شروع کر دی بلکہ ایسی کتب کا عشق سر پر سوار ہو گیا.قادیان کے سارے بک ڈپو اور درویشوں کی کتابیں دیکھ ڈالیں.جہاں دستخطوں والی کتاب ملی منہ مانگی قیمت دے کر خرید لی.اس سے مجھے بہت سکون ملتا کافی سرگرمی سے آخر مجھے آٹھ کتب ایسی مل گئیں جن پر حضرت اقدس کے دست مبارک سے دستخط موجود تھے.میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو دکھا ئیں وہ بھی بہت خوش ہوئے.یہ ایک قیمتی دولت تھی جو میں نے اپنے آٹھ بچوں کو ایک ایک تقسیم کر دی.اللہ تعالیٰ اس کی برکتیں نسلاً بعد نسل میرے خاندان کو عطا فرماتا رہے.1826ء کی شائع شدہ انجیل : میں ایک دفعہ لدھیانہ گیا.لدھیانہ میں ایک لائبریری تھی جس میں میونسپل کمشنر پادری ویری کی کتب تھیں وہ دین حق اور احمدیت کا شدید دشمن تھا.غیروں نے کتب کو تلف کرنے کے لئے فروخت کر دیا جو سینکڑوں من وزنی تھیں میں نے قریباً دو بوری کتابیں چھانٹ لیں.ان میں سے دو کتب کا ذکر کرتا ہوں ایک تو انجیل تھی جو 1826ء کی شائع شدہ تھی ایک اہل حدیث کا وہ پر چہ تھا اصل والا جو علماء اکثر ہمارے خلاف پیش کیا کرتے ہیں.میں نے قادیان آکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے نام تحریر کیا کہ جماعت کے کام آنے والا لٹریچر لدھیانہ میں فروخت ہو رہا ہے.مثال کے طور پر اسی انجیل کا حوالہ دیا.آپ کا جواب آیا کہ اگر اتنی پرانی انجیل ہے تو میرے لئے بھی خرید لیں.میں نے اس خط کو نعمت غیر مترقبہ خیال کیا اور بذریعہ رجسٹرڈ پارسل کتاب بھجوا دی.آپ کا دعاؤں اور شکریہ کا خط ملاجس پر اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر کیا.172
مکرمی محترمی! زنده درخت بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ کا خط ملا.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.اگر کوئی پرانی انجیل اردو میں ملے تو میرے لئے بھی خرید لیں.مکرمی محترمی! فقط والسلام مرزا بشیر احمد السلام علیکم ورحمۃ اللہ آپ کا خط ملا.آپ فی الحال میرے لئے 1860 ء کی اکیلی انجیل تلاش کریں اور قیمت سے مطلع فرما دیں.اللہ تعالیٰ آپ سب کا حافظ و ناصر ہو.فقط والسلام مرزا بشیر احمد دوسری کتاب فتویٰ اور پر چہ اہل حدیث والا مولوی محمد سلیم صاحب کو دکھایا آپ نے قیمت پوچھی میں نے انداز آبائیس روپے بتادی.فوراً بائیس روپے نکال کر دیے کتاب لی اور دس بارہ قدم جا کر واپس آئے اور کہا بھائی جی! اب یہ کتب میں نے قیمت دے کر خرید لیں شرعی لحاظ سے خرید و فروخت مکمل ہو گئی مگر ایک بات بتادوں کہ کتاب اس قدر نایاب اور مطلوب تھی کہ اگر آپ ایک صد بھی مانگتے تو بلا عذر دے دیتا.الحمدللہ میرا مقصد کتب کی خرید و فروخت کا بھی یہی تھا.بعد میں جب علم ہوا کہ فسادات پنجاب کی تحقیقاتی عدالت میں پیش کی گئی تو زیادہ خوشی ہوئی.سبحان اللہ.میری کتا ہیں اور صوفی صاحب کے امرود: اٹاوہ کے ایک مخلص احمدی نے اپنی لائبریری صدر انجمن احمد یہ کو وقف کر دی تھی.درویشی کے ابتدائی زمانے میں اس کی زائد کتابوں کی نیلامی ہوئی نیلام کرنے والے مولوی محمد ابراہیم صاحب قادیانی تھے.ایک ایک کتاب اُٹھاتے اُس کی خوبیاں بیان کرتے لوگ اچھی حالت کی کتب پر بڑھا کر بولی دیتے اور خرید لیتے جبکہ میں نے وہ کتب لیں جن کی 173
زنده درخت حالت خراب ،جلد خستہ، اوراق بکھرے ہوئے ہوتے قریباً تین سوروپے کی کتب میں نے لے لیں اس ڈھیر کو دیکھ کر کسی نے کہا بھائی جی نے چورا خریدا ہے.آخر میں نے مکرم چوہدری فیض احمد صاحب سے بات کی کہ لوگ کہتے ہیں رقم بر باد کر دی آپ کا کیا خیال ہے یہ کتب بک جائیں گی.آپ نے بھی دیکھ کر کہ دیا کہ اگر صوفی علی محمد صاحب درویش کے امر دو بک جاتے ہیں تو یہ بھی ضرور بکیں گی.صوفی صاحب معمولی سی چیز لا کر فروخت کیا کرتے تھے بعض دفعہ بہت دن لگ جاتے.مگر میرے ساتھ یہ نہیں ہوا اس چورے سے جوڑ جوڑ کر جلد کر کے میں نے نادر ونایاب کتب محفوظ کیں.سب سے قابل ذکر پرانی کتب سے علمائے سوء کے فتووں پر 42 کتب ملیں جو مولوی محمد صدیق صاحب کو پیش کیں جو خلافت لائبریری ربوہ کی زینت بنیں.اس بات کی مجھے بہت خوشی ہے.بہت فائدہ ہوا ان پرانی کتابوں سے.الحمد للہ عجیب واقعہ کتابوں کے ذخیرہ میں دو کتابیں دیمک زدہ سی تھیں اس خیال سے کہ دوسری کتابیں متاثر نہ ہوں نکال کر باہر دھوپ میں رکھ دیں جالندھر کے ایک صاحب آئے اور سوال کیا کہ کوئی پرانی فوٹو یا قلمی کتاب ہو تو دکھا ئیں.میں نے کہا آپ دیکھ لیں ساری کتابیں دیکھ کر دھوپ میں رکھی ہوئی دیمک خوردہ کتابیں پسند کیں مجھ سے قیمت پوچھی میں نے کہا چار روپے دے دیں.وہ چار روپے دے کر چلے گئے.دو تین دن کے بعد پرتاب اخبار میں خبر دیکھی کہ حکومت نے ایک پرانی قلمی کتاب آثار قدیمہ کے لئے خریدی ہے.جو ایک مشہور ادیب کے قلمی خطوط ہیں.اخبار میں لکھا تھا کہ بارہ سو میں خریدی ہے.یہ اُس خریدار کی پہچان کا کرشمہ تھا.جو کتاب میں نے لاعلمی میں چار روپے کی نیچی اُس نے اپنے علم سے فائدہ اُٹھا کر 1200 روپے میں دی ہوگی.جو اب کسی عجائب گھر کی زینت ہوگی.روی بیچنے والا لڑکا: تقسیم برصغیر سے پہلے کی بات ہے کہ ایک تیرہ چودہ سال کا صاف ستھرالڑ کار ڈی والے کو 174
زنده درخت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب فروخت کر رہا تھا.ذرا فاصلے سے کھڑے ہو کر دیکھتار ہا سامنے نہ آیا کہ وہ شرمندہ نہ ہومگر بہت تکلیف ہوئی کہ کیا مجبوری ہوگی جو یہلڑ کا اس طرح قیمتی کتب بیچ رہا ہے.بعد میں لڑکے کو ایک طرف لے جا کر پیار سے پوچھا کہ آپ یہ کتب رڈی والے کو کیوں پیچ رہے ہیں لڑکے نے بتایا کہ میرے نانا جان بیمار ہیں وہ خود ڈاکٹر تھے.مگر علاج پر بہت خرچ ہو گیا ہے.اب دوا کے پیسے نہیں تھے.میں نے اس کی عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے کچھ مدد کی.اور کہا کہ اگر کتب بیچنے کی ضرورت ہو تو سیدھے میرے پاس لے آنا.“ درولیش کے اپنے بیوی بچوں کے نام ذاتی خطوط میں کتب کا ذکر رہتا.جس شخص کا اوڑھنا بچھونا کتا بیں ہوں.اُس کے خطوط میں بے ساختگی سے دلی جذبات نوک قلم تک آ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خزائن کے بکھرے ہوئے ہیرے موتی سمیٹنے والا اُن کی قدر و قیمت خوب پہچانتا تھا.کتابوں کو محفوظ کرتے ہوئے اپنے جگر گوشوں کے لئے دعائیں کرتے ہوئے کبھی یہ بھی خیال آتا کہ ناز و نعم میں پہلے لاڈلے بچوں پر نہ جانے کیسا وقت ہوگا.ایسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کتابیں ہی سہارا بنیں.سب سے پہلا خط جو محفوظ ہے اُس میں تحریر ہے کہ ضرورت ہو تو کتا بیں بیچ دینا مگر اس میں احتیاط کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے کتابیں اُسی حد تک بیچنا جس سے ضرورت پوری ہو جائے.یہ خطوط کیا ہیں حالات اور جذبات کی ایک سچی حقیقی تصویر ہیں.کچھ اقتباس ملاحظہ ہوں :- کچھ کتابیں بھیج رہا ہوں ضرورت پوری کرنے کے لئے فروخت کر دینا.وقار عزت، آن کسی صورت سے کمزور نہ کرنا.بھوک اور موت بھی عزت وقار سے ہو تو کامیابی ہے.ور نہ کچھ بھی نہیں.دنیا نے کبھی وفا کی ہے نہ کرنی ہے.خرچ کم ہو تو کوئی بھی سامان خواہ کیسا ہی پیارا ہوفروخت کر دینا بچوں کو تنگی نہ رہے.خدا تعالیٰ ہم سب کا حافظ و ناصر ہو.ربوہ کی آبادی میں اضافہ مبارک ہو.اللہ تعالیٰ اس آبادی کا حافظ و ناصر رہے.روح القدس کے ذریعے حامی و ناصر ہو.مولوی عبدالحمید بھینی والوں کے گھر والوں کی خیریت لکھیں وہ پریشان ہیں میں نے 175
زنده درخت آپ کو تذکرہ ، سلسلہ احمدیہ، براہین احمدیہ اور آئینہ کمالات..بھیجی ہیں.اطمینان ہو جاتا ہے کہ ضرورت کے وقت فروخت کر سکتے ہیں.آپ اپنا برقع بنوالیں اور بچوں کی دلجوئی کریں.فکر نہ کریں اب یہاں کپڑا بغیر پرمٹ اچھا اور ستا مل جاتا ہے.ہمارے متعلق عجیب عجیب افواہیں پھیل جاتی ہیں پھر واقف حال پوچھنے آتے ہیں 66 ہمدردی کرتے ہیں.1948-2-22 نصرت خدا تو دیکھو گھر پر حملہ ہوا روپیہ بچ گیا جان بچ گئی پھر روزی کا آنافانا انتظام ہوتا گیا.جب یہ ختم ہونے کو آیا مشین بک گئی.اس وقت میرے پاس اچھی حالت میں چھ من کتب ہوں گی.اللهم انا نجعلك في نحور هم و نعوذبك من شر ور هم یہ دُعا بطور کوڈ تھی مطلب یہ تھا کہ حالات بہت خراب اور خطرہ زیادہ ہے اس مطلب کے لئے اذا بطشتم بطشتم جبارین بھی استعمال کیا کرتے تھے.) آپ کی فرمائش پر سر توڑ کوشش کر کے ابھی کامیاب ہوا ہوں تذکرہ مل گیا اب تذ کرہ اور تفسیر کبیر نہیں ملتی جن غیر مسلموں کے گھروں میں ہے کہتے ہیں سوسوروپے میں بک گئی ہیں.اب یہاں ایک بھی قرآن کریمہ نہیں ملتا چودھری محمدظفر اللہ خان صاحب نے تفہیمات ما نگ رکھی ہے مگر اچھی حالت میں نہیں مل رہی.تجرید بخاری عربی اردو مل گئی ہے ارسال کر رہا ہوں.عزیز باسط ! مقامات حریری کا فرہنگ دستیاب ہوا ہے اگر ضرورت ہو تو تحریر کریں.ارسال کر دوں اگر کسی اور کتاب کی ضرورت ہو تو لکھنا.9-10-1948 محترمہ اُم داؤ دصاحبہ کو میرا اسلام اور دعا کی درخواست کر دیں وہ پہلے ہی مجھے بچوں سمیت یا درہتی ہیں.مگر آپ نے کچھ اس انداز سے اُن کا فرمان مجھے پہنچایا ہے کہ ہر وقت نقشہ آنکھوں میں رہ کر دعا کی تحریک ہوتی ہے میں نہیں بھولوں گا یا درکھوں گا اللہ تعالی داؤد کو داؤد علیہ السلام جیسی برکتیں عطا فرمائے.میری اولاد سے جو وہ الطاف وکرم 176
زنده درخت فرماتی ہیں کیسے بھول سکتا ہوں تادم زیست بھولنے والے نہیں مبارک ہو مبارک ہو مبارک ہو لڑکی کے لئے بھی دعا کی تھی ایک بہت خوشنما بستر دکھائی دیا.میری لاڈلی اگر تذکرہ آپ کے پاس ہے تو محترمہ اہلیہ چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی خدمت میں پیش کر دیں.میں آپ کو اور بھیج دوں گا.اُستانی جی کی کتب جمع کرادی ہیں سامان باندھ لیا ہے گندم کا کیا کرنا ہے لنگر میں جمع کرا دوں؟ مشین کا خالی ڈبہ ہے مشین نہیں ہے.ایک سوسات روپے میں ایک چیز بیچی ہے اُن کو ادا کرنے ہیں.ان کا گھر محفوظ نہیں ہے مگر میں نے جو کچھ ہو سکا کیا ہے حضرت حافظ صاحب مرحوم کی کتابیں خریدی ہیں.اور بھی خریدی ہیں خود جلد کرتا ہوں.میں نے سکھوں ہندؤں کی دکان پر قرآن کریم دیکھ کر بورڈ پر اعلان لکھ دیا ہے کہ پورا، ادھورا ، کوئی حصہ قرآن کریم کا کسی کے پاس ہو تو جلایا نہ جائے میرے پاس پہنچا دیں بعض شریف ہندو سکھ بھائیوں نے تعاون کیا.جو اوراق جمع ہوئے اُن سے قرآن کریم مکمل کر کے جلد کر لئے تقریباً بیس مساجد میں اور ان سے بہت زیادہ لوگوں کو دئے ہیں کم و بیش ایک سو میں نے ٹھیک کرلئے ہیں.اس طرح علاوہ اپنے فائدہ کے قوم کا بھی فائدہ ہے.حضرت پیر جی کے قرآن کریم پہلے ٹھیک کئے ہیں.“ مثالی خدمت کتب خرید کر رتن باغ بھجوانا آسان کام نہیں تھا.اکا دُکا کتاب تو آنے جانے والوں کے ہاتھ آسکتی تھی.مگر جب بہت کتب محفوظ مقام پر پہنچانا ضروری ہوا تو بذریعہ ڈاک پارسل بھجوانے لگے جس پر بہت خرچ ہوتا.پہلی کوشش تو یہی ہوتی کہ اگر مالک کا علم ہو جائے تو کتاب اُس تک پہنچادی جائے بصورت دیگر محفوظ کر لی جائے.قادیان سے سب ڈاک دفتر خدمت درویشاں میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی معرفت موصول ہوتی.جب پارسلوں سے کتب بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تو حضرت میاں صاحب نے اس کو مثالی بنا کر توجہ 177
زنده درخت دلائی کہ کتب بذریعہ پارسل بھیجی جاسکتی ہیں.حضرت میاں صاحب نے تحریر فرمایا:- رتن باغ لاہور 5:9 بسم اللہ الرحمن الرحیم مکرمی میاں عبدالرحیم صاحب سوڈا واٹر فیکٹری السلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاته آپ کا خط موصول ہوا.میں نے تو ہمدردی کے خیال سے لکھا تھا آگے آپ اپنے حالات کو بہتر سمجھتے ہیں.اللہ تعالیٰ سب کا حافظ و ناصر رہے اور دنیا کی نعمتوں کا دروازہ کھولے.آپ کی کتابوں کے پارسل اس کثرت کے ساتھ آئے کہ مجھے طبعاً یہ خیال پیدا ہوا کہ آج کل تنگی کے زمانہ میں اتنے پارسلوں کا خرچ یقینا بوجھ کا موجب ہوگا.گو دوسری طرف میں نے اس مثال کو دیکھتے ہوئے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ ملک صلاح الدین صاحب کو خط لکھا کہ اگر اس طرح پارسل آسکتے ہیں تو آپ کو بھی سلسلہ کی ضروری کتابیں بھجوانے میں اس طریق سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.بہر حال انما الاعمال بالنیات.لاہور میں الحمدللہ خیریت ہے آپ کے بچے کبھی کبھی ملتے رہتے ہیں اور خیریت سے ہیں.رمضان میں جو تعلیم القرآن کلاس لجنہ کی زیر نگرانی جاری ہوئی تھی.اس میں آپ کی دونوں لڑکیاں شامل ہوئی تھیں.اور خدا کے فضل سے دونوں پاس ہوگئی ہیں.آپ کے والد صاحب اب کافی ضعیف ہو چکے ہیں اور قادیان کے کانوائے کے انتظار میں بیٹھے ہیں.میں خیال کرتا ہوں کہ اُن کے لئے یہی بابرکت ہے کہ اپنے بقیہ ایام زندگی قادیان میں گزاریں اور دعاؤں اور نوافل کے پروگرام میں حصہ لیں.میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچادیں.فقط والسلام مرزا بشیر احمد 178
زنده درخت میرے کتابوں کے شوق سے ایک دفعہ بہت فائدہ اس طرح ہوا کہ ہندوستان میں مہدی علیہ السلام کے متعلق ایک فارسی قصیدہ کی دھوم مچی ہوئی تھی اور اصل قصیدہ دستیاب نہ تھا.میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو بتایا کہ اصل کتاب شاہ نعمت اللہ ولی کا قصیدہ ہے جو فارسی میں ہے.123 سال پہلے کلکتہ سے شائع ہوا تھا.نام اربعین فی احوال المحمد مین تھا رسالہ پر 25 محرم الحرام 1825 ھجری لکھا ہے مجھے یہ اطلاع دے کر خوشی ہوئی دنیا کی دولت تو دنیا کے اجارہ داروں نے لوٹ لی.ہمارے حصے میں علم کی دولت آئی.نادر ونایاب تحفے : آپ نایاب کتب ایسے احباب کو تحفے میں دیتے جن کے متعلق آپ کو حسنِ ظن ہوتا کہ کتاب کی قدر کریں گے اور استفادہ کریں گے اپنے داماد محترم شیخ خورشید احمد صاحب کو اسی جذبے کے تحت خطبہ الہامیہ کا پہلا ایڈیشن ، اخبار الحکم کی پہلی جلد ، حضرت اقدس مسیح موعود کے دستخط والی مبارک کتاب کشف الغطاء اور بعض نادر کتب کے علاوہ خاندان کی یادداشتوں والی ڈائریاں اور خود نوشت حالات بھی عنایت کئے.بھائی جان باسط صاحب کو دینی کتب، لغات اور عربی میں حدیث کی کتب بھیجتے.خاکسار جب یو نیورسٹی اور یئنٹل کالج میں زیر تعلیم تھی شعر و ادب کے موضوع پر ملنے والی کتب مجھے بھیجتے رہے انہیں میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی ادب پر تنقید کی ایک کتاب بھی مجھے ملی.ناصر صاحب کو ایک ایسی کتاب تحفہ میں دی جو کئی لحاظ سے تاریخی اور یادگار بن گئی ہے.یہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا ابتدائی ایڈیشن ہے.جس پر ناصر صاحب کے والد صاحب کی تحریر ہے.This book belongs to Molvi Muhammad Shamsud-din Ahmadi Sindh Club Karachi 8-12-18 179
زنده درخت اس پر ایک بیضوی مہر بھی لگی ہوئی ہے جس پر کندہ ہے.MD.Shamsuddin Ahmadi Ahmadia Library Barahpura Bhagalpur اباجان نے اس پر نوٹ لکھا ہے.یہ کتاب ایک خاص نظریہ سے خریدی ہے.امید ہے عزیز ( ناصر احمد ) کو اس سے بہت خوشی ہو گی.کم از کم میں تو اس سے بہت خوش ہوا.“ والسلام عبدالرحیم 66-12-7 اس طرح یہ کتاب ہم دونوں کے لئے قیمتی یادگار ہوگئی.iiحفاظت مرکز کے لیے تعمیراتی کاموں کی سعادت وہ جانباز دار الاماں کے محافظ دیار مسیح زمان کے محافظ صداقت کے روشن نشاں کے محافظ یہی ہیں وہ خوش بخت سرکار بندے ہیں درویش حق کے وفادار بندے درویش مرحوم نے درویشی اختیار کرنے سے پہلے کبھی معماری کا کام نہیں کیا تھا.اپنے مکانات و دو کا نات بنوانے کے سلسلے میں کام کی نگرانی بذات خود کرتے جس کی وجہ سے تجربہ کافی ہو گیا تھا.بتایا کرتے تھے کہ شدید بارشوں کی وجہ سے بعض پرانی عمارتوں کو نقصان پہنچا اور حفاظتی نکتہ نظر سے بعض ضروری کام در پیش تھے.ہمارے نگران نے سب کو جمع کر کے اور سلسلہ کی ضرورت بتا کر معماروں کو آگے بڑھ کر کام سنبھالنے کی تحریک کی مگر کوئی بھی سامنے نہ آیا تو میں نے آگے ہو کر کہا کہ مجھے ایسا تجربہ تو نہیں ہے البتہ اگر تیسی کا نڈی مہیا کر دی جائے تو امید ہے کہ یہ ضرورت بخوبی پوری کر سکوں گا.اس طرح آپ مستری صاحب بن گئے.حفاظت مرکز کے سلسلے میں نومبر 1947ء کو بہشتی مقبرہ کی کچی چار دیواری بنانے 180
زنده درخت کے کام میں حصہ لینے کی توفیق ملی.ایک حفاظتی دیوار بنائی گئی جو بہشتی مقبرہ کے جنوبی جانب سے شروع کی گئی وہ پانچ فٹ موٹی اور بہشتی مقبرہ کے اندر کی طرف سے چھ فٹ جبکہ باہر کی طرف سے ساڑھے آٹھ فٹ اونچی تھی پھر مشرقی جانب والی دیوار کے لئے چونکہ دور سے مٹی لا نا پڑتی تھی اس لئے موٹائی صرف دوفٹ رکھی گئی اونچائی پہلی دیوار جتنی ہی تھی.اس کام میں بالعموم سب درویشوں نے حصہ لیا.اس کے بعد 1955ء میں قادیان میں سیلاب کی وجہ سے جب یہ دیوار گر گئی تو پختہ دیوار تعمیر کی گئی.آپ مقبرہ کی تزئین ، آرائش، یادگاری کتبے مرمت و دیکھ بھال کا کام بھی کرتے رہے.اس کے علاوہ دار مسیح اور دیگر مکانات میں تعمیر ومرمت کی سعادت بھی حاصل ہوئی.اینٹ روڑے مٹی گارے میں آئے وہ ہاتھ جو قادیان میں مصروف عمل تھے اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوں گے.ہمیں یہ تو علم نہیں کہ ابا جان کو کس کس کام کی توفیق ملی مگر خطوط میں جس جوش وجذبہ سے ذکر کیا ہے اُسے نمونہ ٹھہرا کر خدمات کی عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے.حفاظت مرکز کے فریضہ کی ادائیگی کا احساس اور جسمانی مشقت : 16-8-1949 رات دو بجے میری طبیعت آناً فاناً خراب ہو گئی سوا تین بجے نماز تہجد میں شریک تو ہوا مگر کمزوری اور گھبراہٹ تھی (بیت) مبارک کی ڈیوڑھی میں سوتا ہوں.قصر خلافت کے صحن کا فرش جو مغربی جانب سے دب گیا تھا لگا رہا ہوں.یہ بہت ضروری تھا.اسی حالت میں کام کرتا رہا.دفتر امانت پر مٹی ڈال دی ہے.”اماں جان کی عائشہ کے مکان کا ایک حصہ گر گیا تھا آج کل مرمت کا کام زوروں پر ہے.23-8-1949 ( دفتر ) محاسب کی چھت ڈالی ہے اور اب حضرت اماں جان کی عائشہ کی 181
زنده درخت دیوار کچی مغربی گراج کی طرف گر گئی تھی بنا رہا ہوں.پختہ کر رہا ہوں.اینٹ تلاش کر کے لاتے ہیں عجیب نظارہ ہوتا ہے جب دو اڑھائی سو درویش کبھی اینٹ اور کبھی لکڑیاں اُٹھا کر قطار وار لا رہے ہوتے ہیں.حکم ہوتا ہے سب نے ایک جگہ جانا ہے وہاں پر لکڑیاں یا جو کام ہوتا ہے تیار ہوتا ہے کام عجیب شوق اور جذبہ سے کیا جاتا ہے.فجز اہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.9-9-1949 خدا خیر کرے برسات اس قدر ہوئی ہے کہ کام سے فرصت نہیں اُستانی برکت بی بی صاحبہ زوجہ ٹھیکیدار اللہ یار مرحوم کو میرا سلام کہ دیں ( بیت) فضل کی طرف کے سب کچے مکان ہموار ہو گئے ہیں اب اپنی جگہ کو محفوظ کرنے کے لئے بیت فضل سے لے کر منشی فضل کریم صاحب کے مکان تک پختہ دیوار بنانے کی تیاری کر رہے ہیں ( بیوت ) میں اب گورنمنٹ کی گندم ہے (بیت) نور، دار الفضل، دار الفتوح میں اور غالباً دار الرحمت میں بھی.جماعت کے لئے خون پانی قرار دینے کی تلقین اور عمل : 18-12-1949 ( بیت ) مبارک میں سینکڑوں درویش اپنی آہ و بکا سے آسمان کو بلا بلا کر روئے عالم کے مسلمانوں کی بہبود مانگتے ہیں.سجدہ گاہ میں تر بتر آپ سب کے لئے دعا کرتا ہوں فکر منہ کر یں چند روز کا ابتلا ہے.جیو تو اللہ کے لئے مروتو اللہ کے لئے.جو حالات گزرے ہیں.سینکڑوں لوگ تڑپ کر مرے اور جانوروں کی خوراک بن گئے ہمیں احمدیت کے سہارے اس موت سے بچایا اس زندگی کو جماعت کے کام میں لگا دوے جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی حق تو ہے کہ حق ادا نہ ہوا 182
زنده درخت آپ سب نے محنت قربانی اور خدا کے راستہ میں جان دینا ہے اور ہنستے ہنستے دینا ہے یہی آپ کا نصب العین ہواب دینِ حق کا احیاء اسی میں ہے.کہ خون پانی قرار دیا جائے.جسم ہلکا ہوجا تا ہے: 15-2-50 ابھی ابھی مہر آپا صاحبہ یا اُم طاہر مرحومہ کا باورچی خانہ اور اس کے ساتھ والے دونوں کمرے بنا کر آیا ہوں ایک کا شہتیر ٹوٹ گیا تھا دو کی چھت بہت خراب تھی چھتیں بدل دی ہیں پہلے بانس تھے اب بالے شہتیر وغیرہ ڈال کر بنادی ہے جب میں خاندان حضرت مسیح موعود اور مقامات مقدسہ کا کام کرتا ہوں تو جسم ہلکا ہو جاتا ہے.29-9-1950 ہماری کیا عید ہوگی.ہماری عید تو جب ہوگی جب حضور کے آنے کی گھڑی سعید ہوگی.آج عید کا تیسرا دن ہے پہلے روز تین بکرے دوسرے روز پانچ بکرے اور تیسرے روز ایک بکرا ہوا.دن کو دال ماش اور رات کو گوشت پکا.بارشوں کی کثرت ، کام کمر توڑ ، مکانات کے گرنے پھٹنے کا رنج ، نقصانات بہت ہوئے ہیں.ریل ابھی بند ہے.عید پر آپ کے کباب بنانے کے شوق کا تصور اب بیتاب کر رہا ہے.عبد السلام اس شدت سے یاد آتا ہے کہ دعاؤں میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے مغرب کی اذان ہو رہی ہے.23-8-1950 ( بیت ) مبارک کی چھت میں جو دڑاڑ آ گئی تھی اُسے زیادہ کر کے سیمنٹ سے بھر کر آیا ہی تھا کہ آپ کا خط ملا.میں میاں صاحب کو یہ بتانے گیا تھا کہ آپ 183
زنده درخت کے فارم کے کروندے کا اچار تیار ہے منگوا کر تیل ڈال لیں وہ تو نہ ملے البتہ آپ کا خط مل گیا.ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں : میں ایک دفعہ دہلی اپنے مقدمہ کے سلسلے میں ٹھہرا ہوا تھا.احمد یہ بیت گیا تو دیکھا کہ بارش سے ایک دیوار گرنے سے حالت خستہ ہو رہی ہے میں نے مربی سلسلہ مولانا بشیر احمد صاحب سے کہا کہ مقدمہ کے سلسلہ میں مجھے دہلی ٹھہر نا ہی ہے اگر سامان تعمیر منگوادیں تو میں از راه ثواب اس دیوار کو ٹھیک کر دوں گا.اُنہوں نے سیمنٹ ریت اینٹ مہیا کر دیں.میں نے دو تین روز میں اُس کو مرمت کر کے چھت کو کھڑا کر دیا ایک جگہ تھوڑا فرش بھی بنایا پھر جب بھی بیت جاتا اُسے دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کہ مولا کریم نے خدمت کا موقع دیا.الحمد للہ مکانات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری: "1953ء میں قادیان میں شدید بارشیں ہوئیں.طوفانی رُخ اختیار کر لیا جیسے خدائی قہر ہو مکان گرنے لگے.ٹپکنے لگے.دیوار میں منہدم ہوئیں کوئی مکان ایسا نہ تھا جہاں کوئی ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی ہو لوگ سراسیمہ ہو کر گھر بار چھوڑ کر مسجدوں اور اسکولوں میں پناہ لینے لگے.قیامت کا نظارہ تھا کپڑے بھیگے ہوئے سر پر تھوڑا سا سامان بچوں کو سنبھالے ہوئے قطار در قطار پناہ لینے کی خاطر آرہے تھے.مجھے 1947 ء سے ہی مکانات کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سونپی گئی تھی.اس طوفان نوح میں ایک آتا بھائی جی ہماری چھت ٹپک رہی ہے دوسرا کہتا د یوار گر گئی ہے تیسرا کہتا شہتیر ٹوٹ گیا ہے.میں تعمیر کا سامان اور دو آدمی ساتھ لے کر کبھی کسی طرف مدد کو دوڑتا بھی کسی طرف.ہم نے حضرت صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کا پیغام بھیجا.راستے مسدود، سواری مشکل ، تار ٹیلیفون پر رابطہ منقطع آخر ایک جوان مرزا محمود احمد کو بھجوایا کہ کسی طرح جا کر دعا کے لئے عرض کرے کچھ عرصہ کو میرا مکان محفوظ رہا مگر جب وہ بھی ٹپکنے لگا تو سب کچھ چھوڑ کر بیت چلا گیا.1947ء جیسی بے کسی بے 184
زنده درخت بساطی پھر دیکھ لی.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور خوب خدمت کا موقع ملا.“ ili- دفتر زائرین میں خدمات اور سیکرٹری دعوت الی اللہ کے فرائض: تقسیم ملک کے بعد قادیان میں آکر بسنے والے، ہندوستان بھر سے مختلف مذاہب والے اور دیگر ممالک سے لوگ قادیان کے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے آنے لگے.ان کے لئے ایک علیحدہ دفتر زائرین 24 نومبر 1948ء کو قصر خلافت کے قریب دفتر تحریک جدید کی پرانی عمارت میں بنایا گیا.بعض اوقات زائرین کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جاتی ان کولٹریچر بھی دیا جاتا.درویش محترم کو اس دفتر میں لمبا عرصہ کام کرنے کا موقع ملا.جماعت کی تاریخ سے شناسائی تھی چشم دید واقعات بڑی روانی سے پراثر انداز میں بیان کرتے مینارة امسیح کی سیڑھیاں چڑھنا اتر نا ایک ایک تفصیل بیان کرنا آنے والوں کو بے حد متاثر کرتا.جماعت کا تعارف بھی دلنشین انداز میں کرواتے.اردو، پنجابی ، ہندی تینوں زبانوں میں اپنے مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق بات سے بات نکال کر مطلب کی بات کرتے.فن گفتگو اللہ تعالیٰ نے ودیعت فرمایا ہوا تھا.ایک ایک مقدس جگہ عقیدت و محبت کے رنگ بھر کے دکھاتے.آپ کے خطوط میں ان مصروفیات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں :- 31-10-1970 ”رمضان مبارک ہو.جالندھر پھر چندی گڑھ اور پھر وہاں سے رُڑ کی ضلع سہارنپور شام پانچ بجے پہنچ گئے یہاں سالانہ یوپی کا نفرنس تھی خدا تعالیٰ نے زبر دست مخالف حالات کے باوجود بہت تائیدات ربی اور اعلیٰ انتظام حکومت اور نیک سرشت لوگوں کو دعوت الی اللہ کرنے کی توفیق دی مسلم غیر مسلم سب نے مدد کی اور بہت اعلیٰ جلوے خدا نے دکھائے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ابتدا ہی میں فرما دیا تھا رڑکی میں خدا قدرت کا جلوہ دکھائے گا.مخالفت کا ایک طوفان تھا مگر ہر قسم کی مخالفت کی موجودگی میں ہر ذریعہ سے اعلان کیا گیا وہاں صرف 185
زنده درخت ایک احمدی ہے وہ بھی نوجوان لڑکا مگر بہت بہادر ہے.اس لئے مختلف جگہ کے احمدی لوگ آئے سارے شہر میں زیادتی اور اخلاص کی جنگ ہے.ہندو سکھ اور حکومت اخلاص سے پیش آتے ہیں.“ 24-8-1971 جلسہ سری نگر کشمیر میں گیا تبلیغ کا بے حد موقع ملا چار روز دن رات گفتگو سے دماغ تھک گیا.جلسہ صوبائی تھا.بارونق ہوا خدا نے کام کی توفیق دی.واپسی قافلہ رات کو ہوئی.بس سے پٹھان کوٹ وہاں سے بذریعہ ٹرک دو بجے قادیان پہنچے.“ بیماری میں دعوت الی اللہ کی توفیق : مئی 1971ء میں مقدمے کے سلسلے میں وکیل صاحب کے گھر ہی قیام تھا اچانک درد گردہ کی شدید شکایت ہوئی.تکلیف برداشت سے باہر ہوگئی.دعا اور نماز کی بھی ہمت نہ رہی.مجھے مجبور ہو کر وکیل صاحب کو جگانا پڑا میں نے اُن کو قادیان کا فون نمبر بتا یا اور جور قم جیب میں تھی اُن کو دے دی کہ کسی طرح مجھے قادیان پہنچا دینا.تکلیف بے حد تھی قادیان سے دوری نے الگ پریشان کیا ہوا تھا.دراصل مجھے درد گردہ کا اندازہ نہ تھا پہلے کبھی یہ تکلیف نہ ہوئی تھی اچانک پیشاب بند ہو گیا اور ایک اُلٹی بھی ہوگئی.وکیل صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا ایک مریض لا رہا ہوں.کار نکالی اور مجھے سہارا دے کر سوار کرایا اور بہت پیار محبت سے تسلی دیتے رہے.کہ آپ تو خود حکیم ہیں مایوس نہ ہوں.ڈاکٹر بھی بہت خلیق تھا.میری ہمت بالکل جواب دے چکی تھی حال سنانا مشکل تھا تا ہم اُس نے ایک ٹیکہ لگایا.اللہ کی شان دومنٹ کے بعد ہی میری حالت سنبھلنا شروع ہوگئی.واپسی پر کار میں خود بیٹھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے خاص مدد فرمائی وکیل صاحب کو اللہ تعالیٰ جزا دے ہر طرح دوا اور غذا کا خیال رکھا.کاغذات بھی مکمل کروائے 13 تاریخ کو ٹکٹ خرید کر بس میں بیٹھ کر 186
زنده درخت قادیان کے لئے روانہ ہوا.راستے میں مسافروں نے باتیں شروع کیں مگر نقاہت کے باعث بول نہ سکا معذرت کر لی.تھوڑی دیر کے بعد اُس نے ہستی باری تعالیٰ پر کوئی اعتراض کر دیا.ہمت عود کر آئی میں نے دو گھنٹے اُس سے باتیں کیں.مجھے تو اُسی حی و قیوم نے نئی زندگی دی تھی.گھر آکر پہلے دودھ پھر کھڑی بنا کر کھائی اور گھر بیوی بچوں کو خط لکھا کہ اس وکیل صاحب کو شکریہ کے خط لکھیں.اللہ تعالیٰ نے بالکل غیر لوگوں کے دل میں اپنے بندے کی خدمت کا جذبہ پیدا کر دیا.“ 5-9-74 اس وقت روزے سے ہوں رات کو باجماعت تہجد کا اعلان ہوا تھا جو ہو رہی ہے البتہ فجر اور مغرب کے بعد کی دعا مرکز نے اس خیال سے منع کر دی ہے کہ نئی بات نہ شروع ہو جائے.اب ہم باجماعت نماز تہجد ادا کرتے ہیں.کچھ کھایا پیا نہیں جاتا تھا.ناگپور کا سنگترہ جو بڑا مشہور تھا اب نہ مٹھاس ہے نہ لطافت دیکھیں تو منہ میں پانی آتا ہے مگر خوبصورتی ظاہری ہے.کاٹ کر کھائیں تو بے حد کھنا.بس اس کے جوس میں پانی ملا کر قطرہ قطرہ گلے سے اُتارا بے حد نقاہت ہو گئی.کمرے میں لگا کلاک میرے ساتھ باتیں کرتا ہے ابھی کہا ہے ساڑھے پانچ ہو گئے سجناں کے دیس کی خبریں سن لو یہ کلاک ہر آدھے گھنٹے کے بعد میری خیریت پوچھتا ہے اور نماز کے لئے بیدار کرتا ہے.کام اس حال میں بھی کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت سے ہمت طاقت دی ہے.چار گھنٹے تک تبلیغ کر لیتا ہوں.یو پی سی پی بہار اور کلکتہ سے آریہ اور عیسائی بٹالہ میں اپنے کام سے آتے ہیں پھر قادیان آ جاتے ہیں.خوب گفتگو ہوتی ہے پچھلے ہفتے خدا کے فضل سے دو آدمیوں نے احمدیت قبول کی.تھکن ہوتی ہے اعصاب پر اثر پڑتا ہے مگر اُس کی راہ میں جان کی کیا پرواہ مُوتُوا قبل ان تموتوا مینار پر اذانِ مغرب شروع ہو گئی ہے اللہ اکبر ہو چکا ہے.سبحان اللہ کیا پر ذوق وشوق صاف اور مسکن ماحول ہے.الحمدللہ ،، 187
زنده درخت لاؤڈ اسپیکر مینار کے اوپر ہے مؤذن نیچے اذان دیتا ہے.کل جمعہ ہوگا.“ عید کا سماں : ”جو بھی لندن افریقہ ربوہ امریکہ یا دوسرے ممالک سے قادیان کی زیارت کو آتے ہیں وہ تقریباً سب ہی میرے جاننے والے ہوتے ہیں.الحمد للہ اس طرح میری عید ہو جاتی ہے اور آنے والوں کی عید اس طرح کہ اُن کا پرانا واقف ملتا ہے یا ان پر کسی قسم کا حق ہوتا ہے بعض تو یوں بصد منت خوشامد ہاتھ پکڑ کر گلے مل کر بڑی لجاجت سے کہتے ہیں کہ کچھ پیسے لے لیں ہم نے آپ کا جائز ناجائز بہت کھایا ہوا ہے مگر خدا کا ہے اُس نے قناعت سے لبریز دل دیا ہے سب کو معاف کر چکا ہوں.“ 6-6-1975 کس کو محتاج دیکھ کر بے تاب ہوجاتا ہوں ہمیں ہر مہینے یاکبھی دو مہینے کے بعد انجمن کی طرف سے ایک پاؤ گوشت ملتا ہے.جمعے کے دن آپ کا خط ملا میں نے دوغیر از جماعت مہمانوں کو بلایا ہوا تھا جو کسی تجارت کی غرض سے آئے تھے اور ہمارے محلے میں ٹھہرے ہوئے تھے.چائے ٹھنڈا کے ساتھ دو گھنٹے ( دعوت الی اللہ ) کی.جب جانے لگے تو خیال آیا ان کو آدھا گوشت کیوں نہ دے دوں.دو آدمی تھوڑ اسا گوشت مگر ایسے جذبے سے قبول کیا گویا بکری دے رہا ہوں.دل میں دعا کر رہا تھا.سوقبول ہوئی.“ 1-5-1977 " آج میں تیسری دفعہ بھی بھاری اکثریت سے سیکرٹری ( دعوت الی اللہ ) چنا گیا الحمد للہ خدا مجھے توفیق دے اچھا اور صحت مند کام کر سکوں.وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم iv.عہد درویشی کی عیدیں اور معمولات روز وشہ 29-7-1949 عید آٹھ بجے بیت اقصیٰ میں پڑھی کبھی مسجدوں کے مقفل اور بند دروازے دیکھ 188
زنده درخت کر اور کبھی بازار دیکھ کر جس میں سے کبھی کبھی کوئی اکا ؤنگا درویش لنگر سے روٹی لینے آتا جاتا دکھائی دیتا ہے طبیعت میں رقت آتی ہے مگر روکتا ہوں پھر روکتا ہوں اور پھر روکتا ہوں آخر دل ہی تو ہے.پورا نقشہ کھینچ دوں تو آپ بھی مضطرب ہوں.خطبہ صبر ضبط متحمل پر تھا.خطبے کے بعد محترم میاں وسیم احمد صاحب اور امیر صاحب کھڑے ہو گئے.اور ہر در ولیش ان سے مصافحہ کر کے بیت کی دیوار کے ساتھ کھڑا ہو جاتا غرض تین سو تیرہ نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا بغل گیر ہوئے باہر آئے تو معمولاً مانگنے والوں سے واسطہ پڑا وہ بھی حیران تھے تیرہ چودہ ہزار لوگوں سے خوب ملتا تھا ہم تین سو تیرہ درویش.اپنے رومال کھولے اور خوب دیا آج عید کا دوسرا دن ہے درویشوں کی تھالیوں میں دال نظر آ رہی ہے.گویا عید گزرگئی.سب خاندان والوں کو عید مبارک کہہ دیں.اپنی والدہ صاحبہ کو کہ دیں میں ان سے بہت خوش ہوں رمضان میں ان کی عبادت میں گرم جوشی اور التزام سے توجہ دلانے، تربیت کرنے کا دل پر اثر ہے بہت دعا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.“ 17-7-1950 پیارے جگر گوشو! آج عید ہے خدا کا شکر ہے.کہ اُس نے سارے رمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دی.وطن میں بے وطنوں کی عید ( بیت) اقصیٰ میں ہوئی اگر ہماری عید آپ دیکھ لیں یا صحیح تصور ہی کر لیں یا خدا کرے خواب ہی آجائے تو آج کی بارش سے زیادہ آنسو بہائیں.ہوسکتا ہے بہا ہی دیئے ہوں.“ صبر، ضبط اور شکر الہی: 24-9-1950 عید بیت اقصیٰ میں ہوئی.سارا ہفتہ ضروری وقار عمل کرتارہا.عصر کے بعد 189
زنده درخت بازار سے ضروری سامان خرید کر لا رہا تھا کہ نماز مغرب سے قبل سنا کہ لاہور سے فون آیا ہے کہ عید صبح ہوگئی مٹھائی بنالی.ڈھاب میں اس دفعہ بہت مچھلی آئی ہے.(اب لائسنس لگ گیا ہے ) پکوڑے بنائے ، گلاب جامن پر بچے بہت یاد آئے بچوں کا تقاضا بے چین کرتا رہا.آپ کی والدہ کو دہی میں بوندیاں ڈال کر بہت پسندیدہ تھیں دن بھر رُلاتی رہیں.جذبات لا انتہا، رات مشاعرہ ہوا.عصر کے بعد کھیلیں.غم غلط کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں.مگر عید کیا ہو؟ دیکھو میرے بچو سلسلہ اس وقت جن حالات سے گزر رہا ہے اس کو خدا ہی جانتا ہے.اس وقت سلسلہ سے عشق و محبت یہ تقاضا کرتا ہے کہ مرنے سے پہلے مر جاؤ.کسی چیز سے محبت نہ کرو.صرف الہی سلسلہ سے کسی شخص کو ترجیح نہ دو بس خدا کے ہو جاؤ.مختصر یہ کہ عید حضور نے نہ پڑھائی اپنے نظر نہ آئے غم ہی غم تھا اس کا ضبط کرنا ایک اور پہاڑ غم.الحمد للہ دار الامان نصیب تھا.“ 23-11-1950 مجید ” میری لاڈلی میری محبوب بچی! میرا دن اور میری رات ملاحظہ ہو ساڑھے چار بجے صبح بیت مبارک میں باجماعت آٹھ رکعت نفل پھر تسبیح تحمید تلاوت قرآن تلاوت کے دوران دکان سے گزر کر بیت جانے والوں سے السلام علیکم وعلیکم السلام ہوتا رہا پھر بیت مبارک میں صف اول میں جا کر بیٹھ گئے.کوئی نماز ایسی نہیں ہوتی جس میں آپ کے لئے دعا نہ ہو.کئی ماہ سے بیت الدعا میں با قاعدہ آپ کے لئے دعا کرتا ہوں نماز کے بعد دکان پر آکر بآواز بلند تلاوت کرتا ہوں تا کہ تخت گاہ رسول کی فضا تلاوت قرآن پاک کی نقدیس سے مقدس اور معطر ہو.190
زنده درخت درزی خانے میں مولوی عبدالحمید صاحب بھینی والے اور چوہدری محمد طفیل صاحب نے چائے کی دکان کھولی ہے ان کی بھٹی پر چائے بنائی کچا دودھ آٹھ آنے سیر ملتا ہے.زیادہ سردی ہو تو دو بار چائے پی لیتا ہوں.ایک ہفتہ ہوا ایک احمدی کشمیری سے 23 روپے میں کالی شال خرید لی ہے اوڑھ کر ڈھاب پر مچھلی کی تاک میں بیٹھ جاتا ہوں..وہاں سے نو بجے آئے وقار عمل شروع ہوا چار آٹھ آدمی مل جاتے ہیں کسی کو گارا بنانے پر کسی کو گارالانے پر کسی کو اینٹیں لانے پر کسی کو پکڑانے پر لگا دیتا ہوں خوب کام لیتا ہوں.کوئی کہتا ہے بھائی جی بس کریں ، تھک گئے ، پونے بارہ ہو گئے.کسی کو رعب سے کسی کو محبت سے وعظ و نصیحت کر کے کام پر لگائے رکھتا ہوں کبھی ذکر حبیب شروع کر دیا قصہ کہانی سنائی تذکرۃ الاولیاء اور صحابہ کرام کی روایات سنائیں ٹھیک بارہ بجے چھٹی ہوتی ہے.آج کل مدرسہ احمدیہ جس کی صحن کی شمالی دیوار بارش میں گر گئی تھی بنارہے ہیں.جلسہ سالانہ آرہا ہے.بے حد کام باقی ہے.عبدالحمید صاحب کھا نالا رکھتے ہیں آ کر کھا لیتا ہوں.نماز ظہر پڑھ کر کبھی ڈھاب پر گئے.مچھلی ملی تو مل کر کچھ کھائی پر کچھ بیچ دی.چینی کنٹرولر نے نہیں دی کہا کہ ”لو ہار تم ، ترکھان تم ، سوڈا واٹر اور دیوار تم بناتے ہو بچے خوش ہوں کہ کسی کام میں عار نہیں ہے.کسی کی خوشامد نہیں کرتا خدا تعالیٰ نے ڈھاب میں مچھلی بھیج دی چائے پانی چل رہا ہے.عصر کی نماز کے بعد بخاری شریف کا درس ہوتا ہے.شام کو بہشتی مقبرہ کی صفائی کا کام بھی ہوتا ہے.نماز مغرب نماز عشاء دن ختم ہو گیا.“ شکر گزاری پروگرام تو آپ کی امی ہی مرتب کیا کرتی تھیں.اُن کی ہمت تھی اپنے کام بھی کرتی اور مجھے بھی چوکس بیدار رکھتی.میں تو اُن کے بغیر مٹی کا ایک ڈھیلا بھی 191
زنده درخت نہیں اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل و کرم سے اپنی ستاری سے عمل کی ہمت دے.یاد آتی ہیں.دعا کرتا ہوں.دعا کرتا ہوں دعا کرتا ہوں.یہ درحقیقت میری محسنہ ہیں.میرے ساتھ جس حسنِ سلوک سے زندگی گزاری اس کا اجر اللہ تعالیٰ ہی دے مجھ سے تو قدر نہ ہوسکی.......عشاء کی نماز پڑھ کر آیا چائے بنائی تھی.واپس آیا تو بلی پی گئی تھی اس کے بعد ہم خبریں سن کر او پر اُستانی جی کے کمرے میں جس میں لڑکیاں پڑھا کرتی تھیں سو جاتے ہیں.بقیہ حصہ میں ایک اور درویش رہتا ہے سردی ہوگئی ہے.میاں حفیظ احمد کے ہاں بچی پیدا ہوئی ہے مکرمہ امی جان ، اماں جان اور حضور کو مبارکباد عرض کرنا اللہ لبی عمر دے، صاحب اقبال کرے، نیز والدین کے لئے ٹھنڈک ہو.آمین.سنا ہے اکثر درویشوں کے گھر والوں کو میاں صاحب کی طرف سے فارم پر کرنے کو ملے ہیں قادیان جانے کے لئے کیا آپ کو بھی ملا ہے؟ اگر آپ کی والدہ صاحبہ آنا چاہیں تو آجائیں.قادیان میں چھوٹے چھوٹے غیر مسلم لڑکے آلو چھولے کرارے کی آوازیں لگاتے ہیں.ان کا تمدن بھی عجیب ہے.کھیل کود، کھانا کمانا، عیش کرنا، پر دہ جو حیا کا منبع ہے ان میں ہے ہی نہیں.چھوٹے بچے سینما سے گیت سن آتے ہیں اور گاتے پھرتے ہیں.ایک چھ سال کا بچہ گلی میں کہ رہا تھا پی پی نہ بول ویری پیا گھر آ جا.ہمارے شہر والے مکان کے مغربی حصہ میں جس میں علی محمد بکریاں باندھا کرتا تھا.عارضی سینما بنا ہے اور خوب چل رہا ہے وہاں ایک جلسہ ہوا تھا جسے ہم ریتی چھلہ بولتے تھے ، اب نہرو پارک ہے اسی میں جلسہ ہونا تھا جو پانی کی وجہ سے نہ ہو سکا.کمیٹی گھر میں مغرب کی جانب مہاتما گاندھی کا سنگ مرمر کا نصف بت نصب کیا ہوا ہے وہاں بھی جلسہ پر گئے تھے.بازاروں محلوں کے نام اب بدل دئے ہیں صرف بیت مبارک کے محلہ کا نام احمد یہ محلہ ہے.192
زنده درخت اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ سب خیریت سے تندرست اور اس کی رضا پر چلنے والے ہوں زندگی بھر کوئی دکھ نہ دیکھو.خدمتِ دین آپ کا شعار ہوں.کسی امتحان میں خدا نہ ڈالے.جلسہ سالانہ پر تقریر کے لئے اچھا موضوع سمجھائے اور روح القدس کی مدد سے بیان کی قوت دے.آمین.“ ۷- حالات اور تاریخ کے اشارے: درویش اپنے حجرے میں بیوی بچوں کے نام خطوط میں اپنے گردو پیش کی تاریخ رقم کر رہا تھا.بالعموم تو درویشوں کے حالات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں.لیکن ان ذاتی محسوسات سے دلچپسی رکھنے والوں کے لئے کئی گوشے کھلیں گے.بطور نمونہ چند خطوط ملاحظہ ہوں :- 2-12-1948 وو میاں صاحب اچھے ہیں عنقریب ٹورنامنٹ ہونے والا ہے.ہماری ٹیم بھی شاید والی بال کھیلنے کا لج جائے گی جو امریکہ سے کم دور نہیں معلوم ہوتا ہے کبڈی بھی درویشوں سے کھیلنا چاہتے ہیں.سر دست دعا کریں اور کرائیں خدا تعالیٰ فتح دیتا ہے.امرتسر، بٹالہ، دھاری وال اور جالندھر کی ٹیمیں ہار گئی ہیں اب خدا کے فضل سے دہلی کی باری ہے سکھ ہندو مل کر آتے ہیں خوب دھوم ہے.دعا کی بے حد ضرورت ہے.’میاں صاحب اچھے ہیں، آپ کو علم تھا کہ ساری جماعت کو ان پیارے وجودوں کی خیریت کا فکر ہے.اس لئے میاں وسیم احمد صاحب کا ذکر ہے.ان دنوں آزادانہ ادھر ادھر جانے پر پابندی تھی.کھیل میں دلچسپی نے باہر جانے کی راہیں کھولیں.خط میں اسی لئے کالج کو امریکہ سے کم دور نہیں لکھا.ابا جان کا جسم پھر تیلا ورزشی تھا کئی قسم کی کھیلیں کھیلنا پسند کرتے.اسی طرح ریڈیوٹی وی پر کھیلوں کے پروگرام دیکھنا پسند تھا.کھیل دیکھتے ہوئے بے ساختہ کھلاڑیوں کو مشورے بھی دیتے خاص طور پر کبڈی کھیلنا اور دیکھنا اچھا لگتا تھا.193
زنده درخت 12-11-1948 آج جمعہ ہے عید گذر چکی ہے آج درویش‘ ماہانہ اخبار کا اجراء ہوا سب سے قبل میں نے خرید کر آپ کو رجسٹرڈ پوسٹ کیا اس کے ہمراہ اہلِ حدیث کا ایک اصل پرچہ جس میں حضرت اقدس کے لئے اچھے الفاظ نہیں.ارسال کیا ہے.یہ قیمتی ہے.یہ چیزیں تاریخ احمدیت میں کام آنے والی ہیں مر گئے لکھنے والے لکھ لکھ کر اور مٹ گئے اُن کے دفتر مگر اللہ تعالیٰ کے وعدے پورے ہوئے.“ 1949ء کے جلسہ سالانہ کا آنکھوں دیکھا حال اور اس کے تاثرات کا خط میں ذکر ہے.27-12-1949 الحمد للہ آج بھی جلسہ سالانہ کا دن خیریت سے گزرا.جلسہ گاہ بھر پور تھا.سکھ ہند واکثر آئے تھے.ملٹری پولیس کا خاطر خواہ انتظام تھا.مولوی سلیم صاحب نے اقتصادی نظام، واحد حسین صاحب نے مسلمان سکھ ملاپ ، بشیر احمد صاحب مبلغ دہلی نے مسیح موعود کی آمد ہندؤں سکھوں کی کتب کے حوالوں سے ثابت کی.سبحان اللہ عجیب سماں تھا بہت اچھے لیکچر ہوئے.حاضرین وجد میں تھے.“ آپ ایسے متعدد واقعات سنایا کرتے تھے.جن میں تقسیم برصغیر کے بعد کئی وجوہات کی بناء پر بچھڑے ہوؤں کو ملانے کے لئے عملی کوششوں کا ذکر ہوتا.دراصل قادیان میں جو احمدی ایک جماعت کے طور پر رہتے تھے.وہ ایک طرح اکثر مسلمانوں کے لئے توجہ کا مرکز بن گئے آس ہوتی تھی کہ یہاں سے مددمل سکتی ہے.خط میں تحریر فرماتے ہیں :.ایک لڑکی نے بارہ مولا سے لکھا ہے کہ مکیریاں کے رہنے والے بابو دین محمد صاحب ولد غلام حسن صاحب قریشی 1947 ء سے لاپتہ ہیں.ان کا پتہ کریں.لاؤڈ سپیکر سے اعلان کروائیں.“ ربوہ سے دُعا کی تحریک پر درویشوں کے دُعا کرنے کا انداز اور سماں اس خط سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے:- 194
زنده درخت 13-7-1950 در صبح چھوٹی بیگم صاحبہ کا خط سنا کچھ عجیب درد سے لکھا تھا ہر آنکھ اشک بارتھی ہچکیوں نے شور بپا کر رکھا تھا شاید ہی کوئی ہو جوموم نہ بناہورات بھر تقریباً جاگنے کے بعد پانچ سے ساڑے چھ بجے تک سویا کرتا تھا حرام ہے جو نیند آئی ہوکروٹ بدلتا رہا.آپ کی امی میرا رقیق القلب ہونا جانتی ہیں.پھر ایسے ماحول میں میرا حال سوچو ( بیت) سے آکر چار پائی پر لیٹا مگر آنسوؤں کی روانی میں کمی نہ آئی اب مینار گیارہ بجارہا ہے میاں خودا اپنی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے اس قابل ہیں کہ ہر وقت یادر ہیں پھر اب کیسے ایک دم کو بھی بھولیں گے محترمہ بیگم صاحبہ سے میرا سلام کہنا اور عرض کرنا ہم سب درویش آپ سے زیادہ نہیں تو کم درد سے دعا نہ کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کی ہر مشکل آسان فرمائے آمین سارے روزے خدا کے فضل سے رکھے ہیں خدا کرے آپ کی عید اچھی ہو.ہماری بھی جگر پاروں اور خاندان والوں سے دور اچھی عید ہو.جب کبھی موقع ملے تم کو دعائے خاص کا یاد کر لینا ہمیں اہلِ وفائے قادیاں جون 1955ء کے ایک خط میں تحریر ہے: ویزا اور پاسپورٹ مل چکا ہے ایک تو گرمی اس قدر ہے کہ الاماں دوسرے ایک الیکشن کے سلسلے میں نظارت امور عامہ نے 55-6-19 تک قادیان میں رہنے کی تاکید فرمائی ہے.سارے شہر میں اس قسم کے 18 ووٹ ہیں جن میں ایک میرا ہے.ایک کم ہونے سے ،، نقصان کا احتمال بلکہ یقین ہے.“ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سانحہ پیش آیا میرے ایک چچازاد بھائی عزیزم نیم احمد سیفی صاحب ( کرنل ریٹائرڈ ) جنگی قیدی بنالئے گئے.ابا جان نے نہایت تندہی اور بیدار مغزی سے ہر وسیلہ اختیار کیا تا کہ اُن کی خیریت سے ہمیں مطلع کر سکیں.195
زنده درخت عبدالباسط صاحب و دیگر دوست احباب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا محبت بھرا خط ملا خوشی ہوئی میں آپ کو جلدی جلدی خط لکھنے پر مجبور ہوں اس لئے کہ میرے جگر گوشے اور عزیز واقارب تسلی تشفی اور مسرت حاصل کر سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی خاص حفظ وامان میں رکھے.میں انشاء اللہ درجات الادب تلاش کر کے آپ کو ارسال کرنے کی کوشش کروں گا سر دست میری دلسوز دعائیں ان کو اور ان کے خاندان کو پہنچا دیں غالباً یہ نور الحق فیض اللہ چک والے ہیں بہر حال ان کا جذ بہ علم قابل قدر ہے اور میں اس جذبہ کی قدر کر کے دعا بھی کروں گا اور کتب بھی ارسال کروں گا.حالات اب قدرے ٹھیک ہیں قیامت صغری تھی جو خدا کے فضل سے مل گئی ہے ست نام سنگھ جو ملک بابا غلام فرید صاحب کی کوٹھی میں رہتے ہیں بڑی مدد کرتے ہیں.اللہ جزائے خیر دے میاں ظفر احمد صاحب میاں مودود احمد صاحب اور دو دوسرے شخص مغربی پاکستان خیریت سے پہنچ گئے ہیں البتہ نسیم احمد کا تاحال کچھ پتہ نہیں چلا بے بسی ہے دعائیں کرتا ہوں رات کا اکثر حصہ عزیز کے لئے دعاؤں میں گزرتا ہے.ان حالات میں آمنہ کی بھی کسی طرح کوئی مدد نہیں کرسکتا.ان کی قربانی، نیکی ، بردباری، صبر حلم معاملہ نہی کی ہمیشہ ہی دل سے قدر کی اس قدر دانی میں حد سے بھی تجاوز کر جاتا مگر قدرت نے ہمیشہ ایسے ماحول کو نا پسند کر کے روک کھڑی کر کے اپنی ذات ہی کو منوانے کا سامان کر دیا.“ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں 1974ء ابتلاء و امتحان کے دور کا آغاز بن کر آیا.اس خط میں آپ کے احساسات ملاحظہ ہوں :- 5-9-1974 ” خدا تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ عزیزوں کی خیر برمل رہی ہے مکمل خبروں 196
زنده درخت پر یزیدیوں نے پابندی لگا دی ہے تاریخ نے ایک بار پھر ان درندوں کو اُکسا کر دین حق کو صحیح رنگ میں پھیلانے کا سامان کیا ہے ایک طرف ان کی تدبیر ہے دوسری طرف مولا کی تقدیر ہے.ضرورت ہے کہ تحریک جدید اب پوری آب و تاب سے منایا جائے دھیلہ دھیلہ پائی پائی بچا کر غریب احمدیوں کی مدد کی جائے اور ابھی کیا خبر دورا بتلا کب تک اور کس رنگ میں چلے ہم ایسی حالت میں ہیں کہ واقعتا خون کے آنسو رو رہے ہیں مگر بے بس ہیں ع حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے“ درویش بھائی کی لاش قادیان آنے پر اظہار اطمینان : 24-9-1976 "17-10-1976 کو مکرم عبدالحمید صاحب کی لاش لندن سے قادیان آ گئی خدا نے اُن پر رحم کرم فرمایا.یہ دوسری مثال ہے کہ درویش ملک سے باہر فوت ہو کر قادیان آکر بہشتی مقبرہ میں دفن ہوئے.الحمدللہ.اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے اور فردوس بریں میں جگہ دے.یہ بڑے خوش قسمت تھے میں نے بورڈ پر ان کا اعلان وفات لکھتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ ان کی خوش بختی قابل رشک ہے ان کے گھر جا کر بڑوں بچوں سب سے میری طرف سے اظہار ہمدردی کریں اور کہیں کہ جس قدر خوش ہوں اور خدا کا شکر کریں کم ہے.مرحوم کو خدا نے بڑا نوازا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے الطاف و اکرام نازل فرمائے.آمین 29-4-1974 وو آپ نے حالات کا لکھا ہے.یقین رکھو کہ کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں جن سکتی جو خدا تعالیٰ کے فیض کو روک سکے وہ بڑا ہی بدقسمت ہوگا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیض پر پابندی لگا سکے.اگر ایسا ممکن ہے تو قریباً نصف 197
زنده درخت قرآن کریم ترک کرنے والا ہوگا.کیونکہ اس میں تو آئندہ کے لئے پیشگوئیاں ہیں وہ فیض خداوندی کے منکرین کو مٹی میں ملا دیتا ہے.اُن کی چھتیں اُن پر الٹا دیتا ہے.زمین سے چمٹا کے رکھ دیتا.منہ کے بل گرا دیتا.پانی میں غرق کر دیتا.نام و نشان مٹا کے رکھ دیتا.اُن کا نام لینے والے نہ رہے.دنیا ایک لاکھ چوبیس ہزار بار اس امر کا مشاہدہ کر چکی ہے.جبکہ موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے نشان کے طور پر راستہ دیا.سو آپ دیکھیں گے تفسیر کبیر میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی دریائے نیل پر کھڑے حضرت موسی علیہ السلام والا فقرہ دہرار ہے ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے وہاں لکھا ہے کہ آئندہ یہ واقعہ ہونے والا ہے کوئی خلیفہ ضرور دریائے نیل پر یا کسی دوسرے دریا کے کنارے یہ الفاظ دہرائے گا.غالباً وہاں دس محرم بھی لکھا ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اپنی خاص پناہ میں رکھے.اور اگر اپنی خاص منشاء اور تقدیر کے لئے آپ کو موقع دے تو سب سے آگے آپ ہوں.خدا تعالیٰ کا فیض جیسے پہلے جاری تھا اب بھی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس روشنی کو اپنے فیض سے باقی چھوڑا اُس کو کوئی گزند نہ ہو.میں نے بار ہا آپ کو قربان کیا.ہم اپنی درویشی کی تعریف سنتے تھے مگر اب شرمندہ ہیں.اے ہم صفیر بے گل کس کو دماغ نالہ مدت ہوئی ہماری منقار زیر پر ہے کاش کہ ہم کو بھی کسی اس راہ میں تڑپنے اور کسمپرسی سے بے گھر ہونے والے کسی مہمان کی جوتی سیدھی کر کے اجر پانا نصیب ہوتا.میں اگر چہ کم حوصلہ اور بزدل تھا.ہر تحریک میں خود کو دھکا دے کر آگے کیا.دعوت الی اللہ کے میدان میں، جہاد کے میدان میں ، لڑائی کے موقع پر، مباہلہ میں آپ سب 198
زنده درخت سمیت شریک ہونے کو تیار ہو گیا.مگر وقت آیا تو میں تڑپتا ہی رہ گیا پاکستان والے بازی لے گئے.کئی دن متوحش خواہیں دیکھ کر دعا اور صدقہ زیادہ کر دیا تھا.مگر رمضان المبارک کے آخری عشرے میں معتکف حالت میں انتیسویں کی رات اچھا خواب دیکھا.دیکھا کہ حد نظر تک خوبصورت پکے ہوئے نفیس آم ہیں ڈھیر مکانوں سے بھی اونچے ہیں.ٹوکروں میں بھی ہیں ایک ٹوکری میرے سامنے بھی ہے اُس میں سے ایک لذیذ میٹھا رس سے بھر پور نرالا ہی چسکا ہے میں نے بھی کھایا.مجھے خیال آتا ہے کہ ڈھیر اتنے بڑے ہیں نیچے والے خراب ہی نہ ہو جائیں.سوچ رہا ہوں کہ ہر ایک کی ٹوپی سی بنادوں.ایک پہلوان کی سی شکل والا آدمی مجھے کہتا ہے.بھائی جی یہاں بیٹھیں ابھی ادھر سے ایک بے پناہ ہجوم گزرنے والا ہے.آپ کو اس سے مالی فائدہ ہوگا اور تبلیغ کا شوق بھی پورا ہوگا.یہ خواب ایک طرح اُسی روز پورا بھی ہو گیا ایک خلیل محمود صاحب جو نائیجیریا اور امریکہ سے تعلق رکھتے ہیں بیوی اور چارلڑکوں کے ساتھ قادیان آئے.تلاوت کرتے نماز پڑھتے روزہ رکھتے.اعتکاف بیٹھے، درس سنتے ، عید پڑھی عجیب رنگ تھا.ابدال تھے غوث تھے اللہ تعالیٰ ان کے ایمان اور عمل میں شرف دے آمین.ان کے سر پر بہت بھدی سی کالی ٹوپی تھی.مجھے آج کل ٹوپیاں بنانے کا شوق چڑھا ہوا ہے.سوچا کہ ان کے لئے ٹوپی بناؤں یا اسی کو صاف کر دوں، انگلش جانتا نہیں ہوں.ایک مدراسی پادری جو مع فیملی احمدی ہو کر قادیان آئے ہیں.اُن سے ترجمانی کروا کے خلیل محمود صاحب سے کہا کہ اپنی ٹوپی مجھے دے دیں میں نئی کر دوں گا.وہ گھر آئے بہت دیر باتیں ہوئیں.جب میں نے انہیں ٹوپی بنا سنوار صاف کر کے دی تو اس قدر خوش ہوئے کہ حد بیان سے باہر ہے.پھر اپنے لڑکوں اور بیوی کے لئے خاص وضع کی ٹوپیاں سلوائیں.میں نے 199
زنده درخت مهمان نوازی کے خیال سے بے حد رعایت سے قیمت بتائی.پھر بھی جو قیمت اُنہوں نے دی مالی فائدہ تھا.ایک رنگ میں خواب پورا ہو گیا.اور نو احمدی کی خدمت کا پھل بھی مل گیا.پروفیسر سلام صاحب کا انٹرویو نشر ہوا.ساری قوم کی عزت رکھ لی.یہاں پر بھی اب سارے ہندوستان میں ایک ہلچل مچ گئی اور دانشور اب سوچ میں پڑ گئے ہیں حضرت میاں صاحب کو ایک خط آیا ہے کہ میں نہ احمدی ہوں نہ کبھی کسی احمدی سے ملا ہوں.اہل سنت ہوں اور پیشہ ڈاکٹر ہے.آپ کا انٹرویو پڑھ کر ایک نئی زندگی نصیب ہوئی ہے.کئی شبہات دور ہو گئے ہیں اب میری طبیعت آپ سے ملنے کے لئے بے چین ہے اندر سے ایک تحریک مجھے بے قرار کر رہی ہے.آپ ملاقات کا وقت دیں.غرضیکہ ادیب، دانشور، ایڈیٹر، ہندو مسلم سب ہمارے مؤقف کو صحیح قرار دیتے ہیں کہ صدیوں کی انتظار یک لخت کیسے غلط ہو سکتی ہے.ہندو بھی لکھتے ہیں کہ ہماری کتب میں اس دور میں کسی رشی کی آمد کا ذکر ہے.فکری انقلاب اپنے اندر زبر دست بشارت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنے ارادے ضرور پورے کرتا ہے.صداقت خود کو منوا کر رہتی ہے.اب وقت آگیا ہے.حالات بآواز بلند بتارہے ہیں.ع اب یقیں جانو کہ آئے کفر کے کھانے کے دن علمائے ظاہر کی دھمکیاں اور احمد یوں کو کلیدی آسامیوں سے ہٹا نا چیخ و پکار بے کار ہے.یہ اگر انساں کا ہوتا کاروبار اے ناقصاں ایسے کاذب کے لئے کافی تھا وہ پروردگار میں تو خدا کی قسم خوش ہوں کہ منزل روشن سے روشن تر نظر آ رہی ہے.“ 200
زنده درخت مکرم عبدالحمید صاحب ایک ساتھی درویش کی وفات کا ذکر : 11-10-1976 مکرم عبدالحمید صاحب درویش فوت ہو گئے.ان کے گھر والوں کو بتا دیں کہ وہ بڑے خوش نصیب تھے اس لحاظ سے بھی کہ اُن کے بیٹوں نے لاش لندن سے قادیان لا کر سپر د خاک کی ہم نے جنازہ پڑھا.آخری بار شکل دیکھی ان کا مزار مستری عبد الغفور صاحب درویش والے قطعہ میں اُن کی قبر سے جنوب میں تیسری شمال میں مستری مذکور اور درمیان میں ابھی کتبہ نہیں لگا اس سے آگے جنوب میں ان کی آرام گاہ بالکل سیدھ میں ہے.یہ ہمارے ساتھی تھے ہم گھر کے افراد کی طرح رہتے تھے.اگر چہ یہ درویش کی ایک الگ دنیا ہے اور وہ اپنی دنیا میں دین دنیا کی راحت محسوس کرتا ہے اور قادیان کے سوا اس کی جان کو چین آتا ہی نہیں اور یہ نقد انعام ہے کہ خدا دل میں محبت ڈالتا ہے.“ مولوی محمد شریف (بہنوئی) کے حج کا ذکر : عزیزہ صادقہ یہ حالات بظاہر مشکل نظر آتے ہیں مگر دراصل مشکل نہیں ہیں شریف کو اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کے لئے چن لیا وہ انشاء اللہ حج کا راستہ کھولنے والا بنے گا.خدا کے خاص راستے میں قید ہے اس قید پر ہزار آزادی قربان آپ کو مبارک ہو.آپ کی قسمت میں تاریخ احمدیت میں نشان بننا لکھا ہے.دیکھنا اس میں کس کس طرح برکتیں ہوں گی میرے خیال میں حج صرف ان دو کا قبول ہوا جنہوں نے قید و بند اور ہتھکڑی کی مشکل اُٹھائی سبحان اللہ اُس کی خاص دین ہے.ع گرچہ بھا گئیں جبر سے دیتا ہے قسمت کے ثمار 201
زنده درخت حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب امیر جماعت قادیان کی وفات کا ذکر : ”حضرت امیر صاحب بھی وفات پاگئے اناللہ وانا الیہ راجعون صرف ایک دن ورات علیل رہے رات کو ہارٹ اٹیک ہوا اور پھر ہر ممکن علاج معالجہ اور دوڑ دھوپ کے باوجود جانبر نہ ہو سکے.خدا تعالیٰ ان کو ان کی قربانی سے بڑھ چڑھ کر ثواب اور درجہ عنایت فرمائے آمین میرے اُستاد تھے اور آپ کے بھی، میں نے حضور کی طرف سے، آپ کی طرف سے اور عزیزہ لطیف کی طرف سے تین تین مٹھیاں مٹی ڈال کر نام بنام دعا کی.آخری غسل تلفین تجہیز کی آخری خدمت میں شرکت کا موقع ملا.اللہ تعالیٰ آپ کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین.“ 22-1-1977 مکرمہ امۃ السلام صاحبہ، نواب مسعود احمد خان صاحب اور صاحبزادی مبارکہ بیگم صاحبہ کے لئے دعا کا خوب موقع مل رہا ہے اللہ تعالیٰ کامل شفا عنایت فرمائے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم سب درویش خیریت سے ہیں.جمعہ کو مکرم احمد خان نسیم صاحب کی وفات کی خبر ملی دل دھک سے رہ گیا.جنازہ غائب پڑھا باقی تو اکثر ان سے واقف نہیں مگر ہم جو واقف ہیں اُن کو شاک سا لگا.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.میری طرف سے ان الفاظ میں مکرمہ اُستانی جی سے تعزیت کریں کہ کس قدر خوش قسمت خاندان ہے جن کی زندگی اور موت بھی خدمت دین میں ہوئی.vi- حلقہ احباب ابا جان تبلیغی جلسوں اور مناظروں میں ذوق وشوق سے شامل ہوتے.اس وجہ سے سلسلے کے خدام اور علمائے کرام سے گہرے روابط تھے.حضرت میر محمد الحق صاحب : جو بالعموم ایسے جلسوں اور مناظروں 202
زنده درخت کے مہتم و منتظم ہوتے تھے جلسہ کے اعلان سے بھی قبل آپ کو اس کے متعلق بتا دیا کرتے تھے.موٹر ، بس وغیرہ میں سفر کرنے سے آپ کی طبیعت پر اثر ہوتا ابا جان کی بھی، اس ہم مزاجی کی وجہ سے ابا جان کو فرماتے کہ ہم ٹانگے میں جائیں گے اسی تعلق سے آپ ابا جان کو رفیق سفر کے نام سے یاد فرماتے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب: ابا جان کے کلاس فیلو بلکہ سیٹ فیلو تھے.دونوں بزرگ اس بات کو ہمیشہ یادر کھتے اور لطف لے کر دہرایا کرتے تھے.مولوی محمد حفیظ بقا پوری صاحب : ایک جید عالم دین، خاموش طبع بزرگ تھے.مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھے.اخبار بدر کے لمبا عرصہ ایڈیٹر رہے دیگر اہم جماعتی خدمات کی بھی توفیق پائی.درویشی کی سعادت ملی.صبر اور قربانی کا بہترین نمونہ پیش کیا.ابا جان ان کی صحبت سے اپنی علمی طبیعت و رجحان کی وجہ سے بہت حظ اٹھاتے تھے.مکرم مولوی صاحب بھی ابا جان کی وسعتِ معلومات کے مداح تھے.دونوں صبح کی سیر کے دوران حالات حاضرہ پر سیر حاصل گفتگو کرتے.یہ تعلق ہمیشہ ترقی پذیر رہا.محترم عبدالمجید حنان صاحب : ان کا تعلق ویرووال افغاناں سے تھا.پہلے پہل وقف عارضی پر ان کے ہاں جانے سے واقفیت ہوئی.جو ذاتی دوستی میں بدل گئی قادیان اور پھر ربوہ تک روابط قائم رہے (حسن اتفاق سے خان صاحب کی ایک بیٹی حضرت آپا طاہرہ صدیقہ صاحبہ آپا امتہ اللطیف صاحبہ کی بیٹی عزیزہ نصرت خورشید میڈیکل کالج میں ہم جماعت اور سہیلیاں رہیں ).ان کے بھائی محترم عبدالحفیظ خان صاحب سے بھی دوستی تھی.خان صاحب تقسیم کے بعد بھی کثرت سے قادیان کی زیارت کے لئے جاتے رہے اس طرح ان تعلقات میں مزید اضافہ ہوتا رہا.ابا جان کے حلقہ احباب میں کچھ معذور اور غریب افراد بھی تھے جن کی دلجوئی کرنا آپ اپنا فرض سمجھتے تھے.قادیان میں ایک معمار ابراہیم صاحب تھے.وہ قوت سماعت سے 203
زنده درخت محروم تھے البتہ کسی قدر بات کر سکتے تھے.ابا جان انہیں امرتسر اسپتال لے گئے اور کوشش کی کہ ان کا علاج ہو جائے.تاہم مختلف ٹیسٹوں اور کوششوں کے بعد یہی پتہ چلا کہ ان کا علاج نہیں ہوسکتا.یہی صاحب قادیان میں کسی مکان کی تعمیر کا کام کر رہے تھے.اُس مکان کے سلسلہ میں کوئی مقدمہ چل رہا تھا.دوران تعمیر دوسرے فریق نے پولیس کو بلا کر تعمیر رکوا دی اور کام کرنے والوں کو گرفتار کر لیا ابراہیم صاحب تھانے جاتے ہوئے جب ہمارے مکان کے سامنے سے گزر رہے تو بآواز بلند اپنے طریق پر ابا جان کا نام لے کر اپنا ہتھکڑی والا ہاتھ اونچا کر کے دکھایا یہ ایک طرح کی پکار تھی کہ آپ کی مدد کی ضرورت ہے.ابا جان فورا تھانے جا کر ان کی رہائی کا بندوبست کر کے اپنے ہمراہ واپس لے کر آئے.محترم حافظ محمد رمضان صاحب : ان سے بھی گہرے مراسم تھے.محترم حافظ غلام محی الدین صاحب: آپ بوچھال کلاں ضلع جہلم کے رہنے والے تھے.وہ بھی دوستوں میں شامل تھے.آپ کے احباب میں بعض غیر مسلم بھی شامل تھے.درویشوں کے خاندان کے اکثر افراد پاکستان منتقل ہو گئے تو درویشوں نے آپس میں ایک خاندان کی طرح رہنے کا طریق اپنا کر دلوں کی تسلی کا کچھ سامان کر لیا.سب کے بچے سانجھے ہو گئے.ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہو کر خاندان کی کمی کو پورا کیا.اسی طرح مل بانٹ کر غم بھی ہلکے کرتے.پاکستان سے کسی کے بچے کی کامیابی کی خبر یا شادی بیاہ کی خوشخبری میں سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے.ابا جان کی ڈیوٹی بورڈ پر جماعتی اطلاعات تحریر کرنے کی تھی.نئی خبریں بورڈ پر خوش خط لکھ دیتے سب کے علم میں ہوتا کہ کس کے گھر والے کس حال میں ہیں؟ اس نئے انوکھے مؤاخات میں سب ابا جان کو بھائی جی کہتے چھوٹے بڑوں کے بھائی جی صرف احمد یہ محلہ میں ہی نہیں اردگرد کے ہندو سکھوں کے بھی بھائی جی ہو گئے.عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ کسی قسم کا کام ہو کسی مشورے کی ضرورت ہو بھائی جی کام آئیں گے.ہم میں سے کوئی قادیان جا تا تو ابا جان ایسے بہت سے لوگوں سے 204
زنده درخت ملواتے جن کے گھروں میں آپ کے لئے خاندانی بزرگ جیسے جذبات محبت ہوتے.بعض ہندو سکھ خواتین جن سے ہمارے لئے کپڑے خریدے یا سلوائے ہوتے ہم سے واقف ہوتیں.راستوں میں چلتے ہوئے قدم قدم پر واقف کار ملتے.تحفے تحائف کا سلسلہ بھی اپنوں کی طرح چلتا.خاص طور پر جب کسی درویش کی گھر والی، سالن بناتی تو بچے کے ہاتھ چند درویشوں کو بھجواتی.قادیان میں موجود بچوں نے ہماری نسبت ابا جان کا زیادہ قرب پایا.ابا جان کے خطوط میں اکثر اپنے دوستوں کا ذکر بھی ہوتا تھا.شیر ولی صاحب کے متعلق فرماتے ہیں: شیر ولی صاحب: شیر ولی صاحب کا ذکر خیر کئی حوالے سے باعث مسرت ہے.درویشی کے ابتدائی زمانے کے ساتھی تھے.ہم بہت ذوق و شوق سے کام کیا کرتے تھے.شیر ولی صاحب انچارج ہوتے تھے ایک وقت ایسا آیا کہ وہ قادیان سے چلے گئے اور فرقان فورس میں چلے گئے.وہاں میرا بیٹا عزیز عبدالباسط بھی وقف کر کے گیا.ایک دن کوئی معزز مہمان شیر ولی صاحب کے پاس آنے والے تھے کھانا اہتمام سے پک رہا تھا.باسط نے اس دعوت کو پر تکلف بنانے کے لئے دو قسم کی مٹھائی تیار کر دی وہ دراصل مجھے کام کرتے ہوئے دیکھا کرتا تھا.جب مہمان کھانے پر بیٹھے تو کیپٹن صاحب نے باورچی سے پوچھا یہ مٹھائی تم نے بنائی ہے؟ اُس نے کہا ایک سپاہی نے بنائی ہے.کیپٹن صاحب نے کہا جب کل سب فال ان ہوں تو مجھے اُس سے ملوانا.اگلے دن جب سب سپاہی قطار در قطار کھڑے ہوئے تو اُس نے بتایا کہ یہ لڑکا ہے جس نے مٹھائی بنائی.اُس نے قطار سے باہر بلوا کر پوچھا بیٹے تمہارا نام کیا ہے؟ عبد الباسط کس کے بیٹے ہو؟ عبدالرحیم صاحب کا بیٹا ہوں ربوہ سے آیا ہوں 205
پوچھاوہ کیا کام کرتے ہیں؟ زنده درخت درویش ہیں.قادیان میں رہتے ہیں.شیر ولی صاحب نے کہا دیانت صاحب کے بیٹے ہو! پھر گلے لگا کر کہا بیٹے آپ کے باپ نے کافی کام گلے ڈالا ہوا ہے اور بڑی تن دہی سے کام کرتے ہیں.اب آپ نے کوئی کام نہیں کرنا باورچی کو بلا کر کہا جب تک یہ یہاں رہے ہر قسم کی چیز پر اس کو اختیار ہے جو چیز اس کو چاہیے ہو جب چاہیے ہو اس کو مہیا کرو.ہر قسم کا کام از قتسم بیٹھک پیشی وغیرہ سب معاف ہے.سبحان اللہ.شیر ولی صاحب کے اخلاق و محبت کا ذکر نہ کرنا ناشکری اور کوتاہی ہوگی.آپ کو میں نے سلسلے کے کام میں بے حد سر گرم پا یا مضبوط جسم قد آور طاقتور انسان تھے.جب کام کر کے تھک کے بیٹھتے تو کہتے دیکھو میرے سر پر پسینہ آیا یا نہیں جب پسینہ پسینہ ہو جاؤں گا سر پر بھی پسینہ ہوگا تو سمجھوں گا کہ کام کیا ہے.میں نے اکثر دیکھا کہ وہ اتنی محنت کرتے کہ واقعی سر پر پسینے کے قطرے نظر آتے اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے آمین.vii- طبابت سے دلچسپی : خطوط میں مختلف بیماریوں کے متعدد نسخے کئی جگہ لکھے ہوئے ہیں.اسی طرح ذاتی ڈائری میں بھی آزمودہ نسخے اور ٹوٹکے تحریر ہیں.جن میں زیادہ تر دانتوں اور معدہ کے لئے ہیں نیز صفائی ستھرائی پر زور ہے بچوں کو نصیحت ہے کہ اوس میں نہیں سونا چاہئے.مچھر مکھی سے بچنے کے نسخے ہیں.نیند نہ آتی ہو تو سوئے کا ساگ سرہانے رکھ لیں.بچھونے کا ٹا ہو تو لاہوری نمک تھوڑے سے پانی میں ملا کر جس طرف بچھونے کاٹا ہو اُس کے مخالف کان میں دو چار قطرے ڈال لیں.بعض دلچسپ واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ درج ہیں.تحریر فرماتے ہیں:.میرے والد حضرت فضل محمد صاحب اعلیٰ درجے کے نباض اور حکیم مشہور تھے.میرے خسر حضرت حکیم اللہ بخش صاحب بھی اعلیٰ درجہ کے حکیم تھے اس لئے مجھے بھی طب کا شوق 206
زنده درخت ہو گیا ( مجھے یہ گمان نہ تھا کہ یہ بزرگ اتنی جلدی ساتھ چھوڑ جائیں گے ورنہ میں زیادہ فائدہ اُٹھا لیتا ) پھر سونے پر سہاگا یہ ہوا کہ مفتی فضل الرحمان صاحب شاگر د حضرت خلیفہ اسیح الاول ہمارے پڑوسی تھے.اس علم سے دلچسپی کچھ اس پڑوسی سے ہوئی پھر یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ محترمہ نے طب کی سب کتابیں میرے ہاتھ فروخت کر دیں.ان کے مطالعہ سے علم میں اضافہ ہوا.تقسیم ملک کے بعد یہ علم بھی بفضل خدا روزی کا سامان بنا بہت لوگوں کا علاج کیا بعض لا علاج مریض بھی شفا یاب ہوئے عام طور پر کہا جاتا بھائی جی کے ہاتھ میں شفاء ہے.ایک ڈیڑھ دو سال کی بچی گرم پانی کی دیکھی او پر گر نے سے جھلس گئی.اُس کی حالت کافی خراب ہو گئی بہت علاج معالجے سے شفاء نہ ہوئی بالآخر وہ میرے پاس لے کر آئے میں نے اللہ کا نام لے کر مرہم بنا کر دی کچھ دن لگے بچی اللہ کے فضل سے صحت یاب ہو گئی.اُس کے والدین بچی کو نہلا کر اچھے اچھے کپڑے پہنا کر میرے پاس لائے کہ یہ آپ کی بچی ہے ہم آپ کا احسان عمر بھر نہ بھولیں گے.میرا کیا تھا شافی تو خدا تعالیٰ ہے میں کسی کی تکلیف سن کر نسخہ بتا دیتا ہوں مجھے ثواب مل جاتا ہے.پھر ایسے ٹوٹکے بھی جن سے فائدہ کا تجربہ ہو جاتا ہے بتا دیتا ہوں.بہت مثالیں ہیں اللہ شافی نے عجیب طریقے شفا کے رکھے ہیں.یرا اور اسنگھ کا واقعہ اور طوطا چشمی ایک شخص ہیرا سنگھ صاحب نے جو مکرم حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی کے مکان میں 1947ء سے رہ رہا تھا میرے ساتھ اچھے مراسم پیدا کر لئے دوستی کی شکل ہو گئی آتے جاتے تپاک سے سلام کرتا.ایک دن وہ اور اُس کی بہو افسردہ خاطر کہیں جارہے تھے میں نے حال احوال پوچھا.بہو تو رونے لگ گئی.ہیراسنگھ صاحب نے بتایا کہ اس کی ٹانگ میں شدید درد رہتا ہے.رات بھر نہ خود سوتی ہے نہ سونے دیتی ہے ہسپتال لے جا رہا ہوں.ہمارے ہسپتال کی اچھی شہرت ہے.خدا تعالیٰ نے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفاء رکھی ہے اور 207
زنده درخت علاج ستا کبھی مفت ہی ہو جاتا ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے ہسپتال لے جاؤ ایک نسخہ میرے پاس بھی ہے وہ تو بضد ہو گیا کہ ہسپتال سے تو بہت علاج کروا چکے آپ ہی کوئی دوا بتائیں اتوار کا دن تھا بازار بند تھا ایک شریف دکاندار سے دکان کھلوا کر نسخہ منگوایا اور میں نے اپنے ہاتھ سے دوا بنا کر دی اس میں ہر مصبر اور سورنجاں شامل تھی.چند دن کے بعد میں نے ہیرا سنگھ صاحب سے بہو کی طبیعت معلوم کی تو کہنے لگا آرام نہیں آیا.میں حیران ہوا کہ دوا تو آزمودہ تھی خیر ایک دن میں ان کے گھر کے سامنے کالج کی طرف جارہا تھا مجھے پکڑ لیا کہ بھائی جی دودھ پی کے جانا.میں نے منع کر دیا مجھے اس طرح کھانے پینے سے حجاب آتا ہے مگر اُس نے بے حد اصرار کیا اور بتایا کہ لڑکی کو اب آرام ہے.جب آپ نے پوچھا تھا ہم نے دوا استعمال ہی نہ کی تھی کسی نے مشورہ دیا تھا کہ کاہلواں جا کے جھاڑ کر وائیں ہم وہاں چلے گئے.مگر فائدہ نہ ہوا اب چار دن سے آپ کی دوا کھا رہی ہے شکر ہے آرام ہے.بعد میں ایک لطیفہ بھی ہوا.اُن کے گھر میں املتاس کا درخت تھا.مجھے اس کی پھلیوں کی کسی دوا کے لئے ضرورت تھی.اس درخت میں بے شمار پھلیاں لگتی ہیں جو گر گر کر ضائع ہو جاتی ہیں.میں نے اُس لڑکی سے کہا کہ مجھے سیر بھر پھلیاں اکھٹی کر دو تو جواب ملا چار آنے سیر ملیں گی.اُس کی اس طوطا چشمی پر ایک دوسری لڑکی نے اُسے برا بھلا کہا اور خود پھلیاں جمع کر کے دیں.باوجود اصرار کے قیمت نہ لی تو میں نے پھلیاں نہ لیں املتاس کا ایک درخت بورڈنگ کے پاس تھا ایک راجہ علی محمد صاحب کے گھر میں تھا انہوں نے خود ہی تو ڑ کر مجھے بھجوا دیں.اللہ تعالیٰ نے میرا کام کر دیا.viii.جائیداد چھن جانے پر صبر و رضا: حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کے مشورہ پر قادیان میں جائیداد بنائی.آپ نے فرمایا تھا کہ میاں آپ صاحب اولاد ہیں جائیداد بنانے کی طرف توجہ دیں اللہ تعالیٰ نے آپ کے کام میں خاص برکت رکھی تھی.محنتی بہت زیادہ تھے.نیک نیتی کو اللہ تعالیٰ خوب نواز تا 208
زنده درخت ہے.آپ کی ڈائری میں جائیداد کی تفصیل اس طرح درج ہے:- مکان نمبر 263 ریتی چھلے والا مکان بالا خانہ نمبر 264 وارڈ نمبر 1 مکان دارالفضل نمبر 79 وارڈ نمبر 6 نمبر 422 نقشہ خدا بخش صاحب برائے ثبوت زمین بھینی 33 مرلے نقشہ نمبر 1947،16ء میں تیار ہوا.باقی زمین کی ملکیت کا ثبوت اس نقشہ سے دیا جانا آسان ہے.توسیع نمبر 104 مکان ریلوے روڈ پر 13 مرلے زمین والا.وارڈ نمبر 2 دکان 243 ریتی چھلہ وارڈ نمبر 2 دکان 244 ریلوے روڈ وارڈ نمبر 2 مکان 245 ریلوے روڈ خلاصہ 4 دکانیں 4 مکان.پلاٹ بھینی 33 مرلے یادر ہے کہ یہ ساری جائیداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی محنت مزدوری کی کمائی سے بنائی گئی تھی اور پھر خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جب ساری جائیداد سے دستبردار ہونا پڑا تو اپنی آنکھوں کے سامنے غیر مسلموں کو اسے استعمال کرتے دیکھا مگر صبر و استقلال اور راضی برضا رہنے کی توفیق ملی.جس کرائے کے کمرے میں ابا جان نے زمانہ درویشی گزارا وہ جن احباب نے آنکھ سے دیکھا ہے وہی سادگی کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں.شب سمور گزشت و شب تنورگزشت ( نوٹ نمبر 264 بالا خانہ تھا.تقسیم کے وقت اس میں رہائش تھی.اس کے نیچے دو بہت ہی اچھی دکا نہیں تھیں کچھ عرصہ یہاں بھی کام کیا تھا اس دکان کا نام حضرت مصلح موعود نے راحت سوڈا واٹر فیکٹری رکھا تھا یہ بہت با موقعہ کا نہیں تھیں ان میں سے ایک دکان 209
زنده درخت باٹا شوز والوں نے 100 روپے ماہوار کرایہ پر لی تھی جو اس زمانہ میں بھی غیر معمولی بات تھی کیونکہ دکانوں کے کرائے عام طور پر پندرہ بیس روپے سے زیادہ نہیں ہوتے تھے.) ایک سعی لاحاصل : جائداد کی بازیابی کی ایک کوشش کی تفصیل اباجان نے اس طرح تحریر کی ہے:.1947ء میں میری ساری جائیداد پر کسٹوڈین کا قبضہ ہو گیا.1954ء میں حکومت نے اعلان کیا کہ مالکان درخواستیں دے سکتے ہیں تیس (30) پینتیس (35) احمدیوں نے قادیان اور اُس کے مضافات میں اپنی جائیدادوں کے کاغذ مع ثبوت پیش کر دیئے.خاکسار کو کہا گیا کہ آپ کیس کی پیروی کریں آپ کا کیس ایک طرح ٹیسٹ کیس ہو گا امیر صاحب محترم نے ابتدائی فیس بھی دی 1964ء سے 1971ء تک کیس چلتا رہا جس پر خرچ بھی ہوا محنت بلکہ خواری بھی ہوئی مگر واضح علی الاعلان نا انصافی کا سامنا کرنا پڑا.وکیلوں نے بتایا بھی کہ آپ کے کیس میں ناکامی کی کوئی وجہ نہیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی ایک وکیل کے مشورے پر چندی گڑھ میں ہائی کورٹ میں رٹ داخل کی فیسوں پر فیس، سفر خرچ اور بہت کوفت برداشت کی مگر لا حاصل.اندھیر پڑا ہوا ہے: 4 مئی 1972ء کو امیر صاحب کے ارشاد پر ایک جھگڑے میں شہادت کے لئے عدالت میں گیا.اوم پرکاش اور اُس کے رشتہ دار میں کسی دکان کے کرایہ پر جھگڑا تھا گواہی میں مجھے یہ بتانا تھا کہ 1947ء سے پہلے میری دکانوں کا کرایہ کیا تھا میرے پاس سب کے سرکاری کرائے نامے موجود تھے.وکیل مخالف نے مجھ پر جرح کی کہ اب یہ دکانیں کس کے پاس ہیں میں نے کہا کسٹوڈین یونین کے قبضہ میں ہیں.کرایہ کیا ہے؟ میں نے کہا ئنا ہے کہ پانچ چھ روپیہ ہے.اس پر جج نے سوال کیا آپ نے اپنی جائیداد حاصل کرنے کی کوشش کی؟ میں نے جواب دیا کہ جناب اس سلسلہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.پھر کیا ہوا؟ 210
زنده درخت جج نے پوچھا میں نے جواب دیا کہ سب نے سنی ان سنی کر دی اس پر جج نے بھری عدالت میں کہا کہ بڑا اندھیرا پڑا ہوا ہے اور یہی اس سارے درد ناک قصے کا عنوان ہے.آپ کی ڈائری میں ایک جگہ پسندیدہ اشعار میں یہ قطعہ بھی لکھا ہے.ما یا جوڑیاں مجڑ دی نائیں ناں جوڑو تاں مجڑ دی مجھ دی جڑ دی مدتاں لاوے پلک نہ لاوے مُڑ دی ما یا والے انج سریندے جیویں سڑے پت گڑ دی بلہے شاہ ہونی ہو کے رہندی لکھی قلم نہ مُڑ دی x حيرُكُمْ خَيْرُ كُم لأهله خاکسار اپنے والدین کے آٹھ بچوں میں چھٹے نمبر پر پیدا ہوئی.جب ہوش سنبھالی ابا جان کو قادیان میں درویش پایا اور سادہ سی باوقار امی جان کو بچوں کی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مصروف دیکھا.دونوں کو ایک ساتھ رہتے سہتے دیکھنے کا بہت کم موقع ملا.پہلی دفعہ 1954ء میں ابا جان ربوہ آئے پھر 1980ء میں وفات تک کبھی کبھی مختصر سی چھٹی لے کر آیا کرتے تھے.اگر یہ سارا عرصہ شمار کریں تو کتنا بن جائے گا.اڑھائی تین سال.بس ہمیں اسی قدر ساتھ میسر آسکا.اب جب خطوط پر نظر ڈالتی ہوں تو لگتا ہے کئی زندگیاں اپنے والدین کے ساتھ گزاری ہیں.سچے کھرے، حقیقی ، بے لاگ جذبات کا ایک جہان ہے جو محسوسات میں تموّج پیدا کئے رکھتا ہے.12-11-1948 میری پاک دامن مقدس بیوی! میری عفیفہ رفیق حیات ! میں مانتا ہوں کہ آپ کو مجھ سے محبت ہے اور میری تحریر اور خیر خیریت آپ کے لئے باعث صد مسرت ہے.میں پوچھتا ہوں کہ اگر کسی وقت کسی مجبوری کی بناء پر میں آپ کو نہ لکھ سکوں تو میری معذوری خیال کر کے درگزر 211
زنده درخت ہی بہتر ہے.ہوسکتا ہے کسی وقت جیب ہی خالی ہو.ڈاکخانہ جانا ہی محال ہو.طبیعت ہی گری ہو.آپ کا تصور ہی پریشان کر رہا ہو.فرصت نہ ہو.یا کوئی دوسرا اہم کام آ پڑا ہو.دوسرے اب ہم کو آپ سے کیا نسبت؟ اگر مولا کو منظور ہوا تو ملاقات نصیب ہو جائے گی.جس کے بھروسے سے یہ قربانی کی ہے اُسی سے راہ وربط رکھیں گے.اُم سلام آپ پر سلام ، ہزا ر سلام.آپ نے میری غمگساری کی.میری دینی و دنیاوی حالت کو چار چاند لگا دیئے.مجھے آپ سے ہمیشہ راحت و آرام ملا.آپ نے مجھے ہر لغزش کے وقت تھام لیا.تیمارداری کی تو جان پر کھیل گئیں میرے لواحقین اور دوستوں سے جو حسنِ سلوک کیا تا زیست نہ بھولے گا آپ کے لطف وکرم اور پاک دامنی کی چادر نے میری پردہ پوشی کی.کیا فائدہ اب ایسی باتوں سے کچھ آپ پریشان ہوں گی کچھ میں آنسوؤں سے لاچار ہوں گا.میرا قرض اُتر گیا ہے.عزیز عبدالباسط کی فرمائش پر عمدة الاحکام خرید کر رات ہی رات جلد کر کے ارسال کر دی ہے.ایک دن چار آنے کی کنڈیاں لیں.ڈھاب پر گیا ایک درویش کو دعوت بھی دیتا گیا.چار مچھلیاں پکڑیں کھانے میں آپ کے ماں جائے احمد دین کو بھی شامل کر لیا.ایک کھدر کی قمیض چھ آنے سلائی دے کر سلوائی ہے ایک ملیشیا سفید ٹاٹا کا جو مضبوط اور موٹا ہوتا ہے سلنے کو دے رکھا ہے.سردی لگتی تھی.کافی سردی ہے.آج صبح دم دار ستارا نکلا تھا حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی خدمت میں میرا سلام اور درخواست دعا پہنچادیں.212
زنده درخت 14-1-1949 میری خوش اسلوب پاک دامن رفیقه!.آپ نے وعدہ کیا تھا کہ محسر ٹیسر میں میرا ساتھ دیں گی.اب نبھانے کا وقت آگیا ہے.میں اپنے بعض فرائض دوری کی وجہ سے ادا نہیں کر سکتا وہ بھی آپ ہی کو کرنے ہیں.میرا قطعاً انتظار نہ کریں.آپ اہل بصیرت ہیں قوت فیصلہ بھی ہے.ہر کام میں حضور اور حضرت میاں صاحب سے مشورہ لیں.اللہ تعالی رہنمائی فرمائے.آپ کے اُداس ہونے کی کیا وجہ ہے اگر میری جدائی حیران کرتی ہے تو حضرت خنساء کی مثال سامنے رکھیں اگر عورتیں لڑتی جھگڑتی ہیں تو ان سے کنارہ کش رہا کریں.اگر کوئی وجہ تسکین نہ ملے تو میری مثال اپنے وجود پر اثر انداز کریں.کہ میں نے آپ کا کبھی ایک رات بھی کسی جگہ ٹھہر نا پسند نہیں کیا تھا.مگر اب خدا کی خاطر اپنی بھلائی کی خاطر خیال بھی نہیں آنے دیتا.بچوں کو اور اُن کے والدین کو جب پیار کرتے دیکھتا ہوں تو اگر فضل خدا نہ ہو تو صبر کیسے آئے ایک دن ایک ماں اپنی بچی کو پوچھ رہی تھی کس کی بیٹی ہو.ماں کی یا نانی کی.مجھے معا شکور یاد آ گئی آبدیدہ ،سینہ پر ہاتھ رکھ کر گھر آ گیا.آج جمعہ ہے صبح نماز بیت الدعا آپ سب کے لئے نام بنام دعائیں کیں.صبح اجتماعی دعا کے بعد واپس آیا ہوں.اعلان دعا کا بورڈ پر لکھا فرداً فرداً بھی بہت عاجزی سے دعا کے لئے کہا.چائے تو نماز سے قبل ہی بنالی تھی وقار عمل سے پہلے پی لیتا ہوں ایک روٹی چھ بجے ناشتہ کے لئے ملتی ہے.چائے کے گھونٹ سے کاٹ کاٹ کر کھا لیتا ہوں.213
زنده درخت 27-6-1949 عزیزه لطیف ! آپ کی والدہ نے خربوزہ میٹھا نکلنے پر مجھے یاد کیا میں نے یہاں خربوزے لے کر کھا لئے.......میں خدا کے احسان سے بخیریت تمام ہوں اور کوئی گھبراہٹ نہیں ہے.میں گوتم بدھ کو بھی خدا کا مامور مانتا ہوں.اُس نے راج پاٹ اولاد بیوی سب چھوڑ چھاڑ کر محض عبادت ہی عین مقصود بالذات کر لیا تھا.اللہ تعالیٰ رحم کرے اور اس عرصہ امتحان کو کم سے کم کر دے مگر میرے لعل ! اگر یہ عرصہ اُس کی منشاء سے لمبے سے لمبا بھی ہو جائے تو آپ کے ابا کے پاؤں انشاء اللہ لغزش نہ کھائیں گے.اب وہ آپ سے ملا دے اور حضور کا دیدار کرا دے اُس کی مہربانی ہے.ورنہ حالات تو بد سے بدتر ہی خیال کئے جاسکتے ہیں.13-2-1955 تمہاری امی نے میرا وہ ساتھ دیا.وہ احسان کئے.وہ وفا کی وہ دلجوئی کی ایسی غمگساری دکھائی کہ میں ساری عمران کے سامنے شرمندہ رہا اور احسان مند رہا اور اب بھی تازیست دعا گو ہی رہوں گا میرا گھر ان کی آمد سے برکتوں سے بھر گیا میری ساری اُمیدیں ان کی دعاؤں سے پوری ہو ئیں میرے غم میں دل سے شریک ہو کر بے مثال غمگساری کرتیں میں ان کی یاد میں آنسو ہی نہیں خون کے آنسو بہاتا ہوں.عید، بقرعید پر ہماری اور اپنی محبوب ترین ہستی کی یادشدید ہو جاتی.امی جان کا اس قدر احترام اور پیار سے ذکر قابل تحسین و رشک ہے:.8-9-1963 یہ خط میں بیت مبارک کے شمالی حصہ میں چار چادروں میں گھرا ہوا خدا کی گود سے تحریر کر رہا ہوں اعتکاف کا پہلا دن ہے اور دعا کی یہ حالت ہے کہ سرخالی 214
زنده درخت خالی سا معلوم ہوتا ہے.آپ کی اور میری محبوب ترین ہستی بھی اعتکاف پر جا چکی ہوگی اللہ تعالیٰ اس کی سعی کو قبول فرمائے جس عورت نے خاوند کی جان اور اپنی جان کو ایک کر دیا میں نے آنکھ بند کر کے اُس کی پیروی کی.جنت پالی.ہماری عید پر کیا پروگرام ہے؟ روٹی لنگر سے چائے خود..رات عید ہونے کا فیصلہ ساڑھے دس بجے ہوا.اعتکاف بیٹھا تھا.بستر وغیرہ بیت سے لانے میں تقریباً بارہ بج گئے سونے کے لئے لیٹا تو بیت سے ساتھ آنے والے کھٹملوں نے سونے نہ دیا کہنے لگے اتنی راتیں جاگتے رہے ہو آج کیوں سوتے ہو.تیز روشنی کا بلب جلا کر ان کا صفایا کیا قرآن پاک کا ایک پارہ باقی تھا مکمل کیا.جلدی سے جا کر صبح کی نماز باجماعت مشکل سے لی.اللہ تعالیٰ کی شان ، یوں معلوم ہوتا تھا فرشتے میرے لئے رات بھر عید کی خوشیاں جمع کرتے رہے ہیں عید سے قبل عید کرنے والا میں ہی تھا.اللہ تعالیٰ عید کو میرے لئے میری قوم اور خاندان اور ملک کے لئے سارے جہاں کے لئے بابرکت فرمائے شکر ہے اعتکاف خیریت سے گزرا میرے خیمہ میں سارے معتکف جمع ہو کر کھانا کھاتے تھے مجھے بھی خدا نے اُن کی خدمت کا موقع دیا.ایسے مواقع کا ثواب نعمت کا خورشید بن کر میرے چاندوں پر چمکے گا انشاء اللہ.عید پر اہتمام کرتا ہوں اور تکبیرات سے آپ کو اللہ تعالیٰ سے قریب تر کرنے کا چارہ سوخدا تعالیٰ آپ کو اپنی رضا کی چادر میں ایسا چھپالے کہ کوئی ذرہ فنافی اللہ اور فنافی الرسول سے باہر نہ رہے آمین یہ حج کا دن ہے اور ایسی دعائیں آج قبولیت حاصل کرتی ہیں.امی جان کی وفات 13 / مارچ 1976ء کو اچانک ہارٹ فیل ہو جانے سے ہوئی ہجر میں زندگی کے ساتھی کی رحلت کی خبر پہاڑ ٹوٹ پڑنے کے مترادف ہوسکتی ہے مگر درویش کا صبر و حوصلہ اور توکل علی اللہ دیکھئے، تہتر سال عمر ، صحت کمزور، بچوں سے دور تنہا، مگر راضی برضا ہونے کا مثالی رد عمل یہ بھی درویش مرحوم سے اللہ تعالیٰ کا خاص سلوک تھا کہ اطلاع ایسے 215
زنده درخت وقت میں ملی جب آپ اللہ تعالیٰ ہی کے گھر میں تھے اور نیک ساتھی غمگساری کو موجود تھے.وفات کی اطلاع چار دن بعد لی تھی.تحریر فرمایا :- عزیزان آج مورخہ 1976-3-17 بیت مبارک میں نماز کے بعد حضرت امیر صاحب نے محراب میں سے مجھے آواز دی میں گیا تو آپ نے حضرت میاں وسیم احمد صاحب کا خط سب کو بٹھا کر سنایا جس میں عزیزہ مکرمہ کی شادی کی خبر تھی اور پھر ویزا کے بڑھنے کا مژدہ تھا اور اس کے بعد آپ کی والدہ صاحبہ کی وفات حسرت آیات کا ذکر تھا سب سے بڑی خوشی یہ ہوئی یہ خبر میں نے بیت مبارک میں سنی جس کے متعلق خدا کا الہام ہے.کہ سب کام جو اس میں ہوں گے مبارک ہوں گے سبحان اللہ مرنا کس نے نہیں لیکن ایسی مبارک ساعت اور موت قابل صدر شک ہے میں تو ایک عرصہ سے منذر خواہیں دیکھ رہا تھا 1976-3-9 کو جو حضرت اقدس کا میرے خط کا جواب ملا اس کا ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ خوابوں کے منذر پہلو سے محفوظ رکھے میں خود بھی علیل رہا اور اچانک میرا دایاں ہاتھ ہی علیل ہوا.میرے ہاتھ کو اب آرام ہے اور خدا کے فضل سے صحت بھی اچھی ہے.آپ سب کے خط بھی ملے.عزیز مجید کا مرسلہ جائے نماز ملا بڑی اچھی فال اور دوراندیشی کی سوجھی مسجد سے آکر فجر کے بعد سجدہ اُس پر کیا دعائے مغفرت کی اور اُس خلا اور انقلاب کو اچھے رنگ میں بدلنے کی دعا کی..اللہ تعالیٰ اُس کو غریق رحمت کرے اور آپ سب کو صبر اور استقلال کی توفیق دے آمین.کتبہ اُن کی امانت سے پیسے نکلوا کر اعلی درجہ کا جس پر کم از کم چار پانچ صد روپیہ لگے لگوا دینا.دعا میری طرف سے بھی کر دینا میں خدا کے فضل سے صابر ہوں.احمدی ہوں.میری تو تبلیغ کا نکتہ یہ ہے کہ خدا کے فیض کو بند کرنے والا ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا اور اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 216
زنده درخت فیض کو بند کرنے والا کون ہے یہی تو خدائی ہے.موت آگے پیچھے آ کر ہی رہتی ہے پھر واویلا کیوں.اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو.“ اللہ تعالیٰ نے ابا جان کو جس بے مثال صبر کی توفیق دی اُس کا اجر تو خود خدائے عظیم و برتر ہے اُس نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ صابرین کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے بندے حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنے مکتوب میں آپ کے صبر کو سراہا.فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے اس شدید صدمہ کو بڑی پامردی اور مومنانہ ثبات قدم سے برداشت کیا اور خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کا عمدہ نمونہ پیش کیا فالحمد للہ خدا تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور اُن کی سب اولا د اور آپ کو اُن کے لئے ایسے کام کرنے کی توفیق دے جو مرحومہ کے لئے صدقہ جاریہ ہوں وہاں میر اسلام سب کو پہنچادیں.“ مرز ا وسیم احمد 1976-4-3 ابا جان کا آنکھ اور دل پرفت بو 5-4-1976 میں نے اس وقت کے لئے 1947 ء سے صلاحیت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی خدا نے میری مدد کی اور مجھے اس طرح صبر و قرار کی دولت سے نوازا جس طرح یہ عظیم الشان انعام دیا تھا.یہ تو مولا کریم کا بے پایاں احسان ہے کہ اُس نے مجھے اس انعام کی رفاقت عطا کی.اگر چہ میں قادیان اور وہ ربوہ میں تھی مگر احسان الہی سے فیض یاب رہا.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو اس عظیم مہربانی کے قابل نہیں سمجھتا تھا.میری قلم قاصر ہے میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں خدا کے اس فعلی انعام پر شکر گزاری کا حق ادا کرسکوں.سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ.یہ انعام جاری رہے گا.اس باغ کی قلمیں قیامت 217
زنده درخت تک پھل پھول لائیں گی میرا سینہ پرسکون ہے اللہ تعالیٰ نے باری ، باسط اور دیگر پھل سیرت صورت سے بے انتہا خوبصورت عطا کر کے دین و دنیا سنوار دی.اللہ تعالیٰ نے اُس کو بغیر کسی تکلیف کے بلالیا یہ کوئی کم احسان ہے میں کس طرح ، کن الفاظ کس دل، کس دماغ سے آپ کو رونے کی اجازت دوں اور اس احسان کو بھلا دوں بے صبری سے آنے والے انعامات کو ضائع نہ کرنا.شکر کریں الحمد للہ کریں صدقہ خیرات سے اُس کے درجات کی بلندی کا سامان کریں.کوئی لفظ قلم یا زبان سے ایسا نہ نکلے جو پون صدی کی اس عنایت پر دمِ واپسیں نا شکری والا ہو آنکھ اور دل قابو میں رکھنا مشکل ہے میں نے اُس کا بھی حل نکالا ہے خط کسی کے حوالے کر دئے کہ دوبارہ ویسی حالت نہ ہو.13-4-1976 ، عزیزی عبدالمجید نیاز مرحومہ کی جن خوبیوں کا آپ نے سب بچوں نے سب لوگوں نے اور سب تعزیت کرنے والوں نے ذکر کیا ہے وہ اصل کا عشر عشیر بھی نہیں.مگر کیا ہم ناشکر گزار نہ ہوں گے اور آنے والی نعمتوں اور افضال کا دروازہ اپنے ہاتھ سے بند کرنے والے نہ ہوں گے اگر بے صبری کا کوئی لفظ ادا ہو گیا.کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بھی اپنے آقا حضرت مسیح موعود کا شعر سامنے رکھیں بلانے والا ہے سب سے پیارا اُسی پر اے دل تو جاں فدا کر میرے بچے آپ کو خاص طور پر ہدایت ہے.بڑے ہونے کی وجہ سے اس کا زیادہ پاس کریں.صبر والا نسخہ آزما کر دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود نے بٹالے میں صبر کا نمونہ دکھایا تو خدا تعالیٰ نے کیسی عزت بخشی فر ما یا بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے سبحان اللہ ہم کب اس قابل تھے کہ آمنہ جیسی نعمت ملتی پھر بچوں کی صورت میں جو احسانِ عظیم ہوا وہ زبان اور قلم وہ 218
زنده درخت دماغ اور دل کہاں سے لاؤں جس سے شکر کا حق ادا کر سکوں.بس الحمد للہ ثم الحمد للہ یہی ورد کچھ حق ادا کر سکتا ہے.13-5-1976 عزیزم مکرم عبدالمجید نیاز حیدر آباد السلام علیکم خط لمبے لمبے نہ لکھا کریں مبادا منتشر جذبات میں بہہ کر ایسا لفظ سپر قلم ہو جائے جس سے شرک کا پہلو نکلتا ہو.جب کسی کے سامنے بیان دینے کا وقت آئے تو جس قدر کم بولا جائے اچھا رہتا ہے.کس کو انکار ہے کہ یہ وقت بڑا صبر آزما ہوتا ہے اور پھر آپ کے لئے تو اور بھی زیادہ المیہ رکھتا تھا کئی وجوہات کی بناء پر مگر جب زیادہ دُکھ والا..واقعہ سامنے آ جائے تو صبر بھی اُسی کے مطابق دکھانا موجب انعام ہوا کرتا ہے کہتے ہیں کوئی اور ہا تھا ایک بزرگ نے پوچھا کیوں رو ر ہے ہو فر مایا میرا دوست فوت ہو گیا ہے.جواب دیا پھر آپ نے فوت ہونے والے کو دوست بنایا کیوں تھا.سو جس قدر، جتنا عرصہ، جب تک خدا نے اور جس مطلب کے لئے خلق کیا تھا پورا کر لیا.تو ہر شے اس کے بعد جب وہ کام کر لیتی ہے سنبھال لی جاتی ہے.بعض لوگ جن پر میں حیران ہوں لکھتے ہیں صحت اچھی تھی.پھر لکھتے ہیں جلدی فوت ہو گئی.نہیں میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں جس نے اتنا بڑا انعام شدید ترین ماحول میں بھی اتنا عرصہ دئے رکھا میں عرصہ دراز سے اُن کی اور صفات کے ساتھ صابرہ بھی لکھا کرتا تھا سو خدا نے اس کو اس کی رضا پر صبر کرنے کے نتیجے میں بہت زندگی دی.الحمد للہ.میں نے آپ سے کئی بار اور دوسروں کو بھی تحریر کیا ہے کہ میں تو پہلے سے ایسے حادثہ کی خبر سننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتا رہتا تھا.اکتوبر ہمارے خاندان کے لئے اور باقی سال سے ذرا تکلیف دہ ہوا کرتا ہے جب ہی 219
زنده درخت ہم سب یعنی ہماری والدہ مقدسہ بھی اور والد صاحب بزرگوار بھی اس ماہ میں صدقہ خیرات اور حفظانِ صحت کا زیادہ خیال رکھتے.اور رکھنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے میں بھی دسمبر میں علیل ہوا پھر جنوری میں زیادہ ہی علیل ہو گیا پھر میں نے جلدی جلدی اپنی خوابوں کی بناء پر روز دوسرے چوتھے باخذ رسید اور خاموش صدقہ دینا بھی شروع کر دیا مگر اس طرف خیال جاتا ہی نہ تھا کہ ہونا یہ ہے.میں نے ان کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی 1976-3-4 کولکھا گرم سرد کپڑے میرے پاس کافی ہیں ہاں ایک اچھی سی خوبصورت گرم چادر کی کمی ہے میں نے سب سے قیمتی جو اُس وقت اُس دکان میں تھی خرید کر بھیج دی ( مجھے یاد ہے دکان پر اُس کو لے جاتا اور کپڑا پسند کرنے کو کہتا پھر یہ پسند کر کے ہاتھ لگا کے واپس آ جاتی میں خرید کر لے آتا.دوسری طرف یہ بھی اگر میں نے کسی وقت خود اُن کے لئے کوئی لباس خریدا تو اُنہوں نے بھی اس کو خوشی سے اور خوش کرنے کے لئے پہن لیا ).سُنا ہے اس چادر کو ایک دفعہ یا دو دفعہ اپنے پاؤں پر لپیٹا تھا اور مجھے لکھا کہ زندگی اور صحت رہی تو اگلے سال اوڑھ لوں گی.مگر تقدیروں پر ہمارا ایمان اور یہی ڈیوٹی ہے.آپ کی خوش بختی ہے کہ آپ کو اُس نے سب سے زیادہ خیال رکھنے کا کہہ کر آپ کو ہی نہیں آپ کی نسل کو فخر کرنے کا موقع مہیا کر دیا.دو چار روز سے کام میں بڑا مصروف ہوں اور صحت اچھی ہے لطیف نے لکھا کہ اب آپ کی ڈیوٹی ہے کہ ایک جوڑا روز بدلا کریں.بھلا اتنا بے کار رہ کر میں صحت مند رہ سکتا ہوں میں نے تو عرصہ سے اپنا ایک اصول بنایا ہوا ہے کہ مصروف ، مصروف ، مصروف کہ دھیان بس عبادت ریاضت میں رہے اور آپ سب کی یاد میں نہ اُلمجھوں.آپ سب کی خوشی کے لئے وہ سب کچھ انشاء اللہ کروں گا جو مرحومہ کرتی 220
زنده درخت تھیں گو میں اُس کی گرد کو بھی نہ پاسکوں گا مگر جذ بہ ضرور رکھتا ہوں.6-6-1976 عزیزه باری پیاری ! میں نے سلسلہ احمدیہ میں پڑھا تھا کہ حضرت مسیح موعود ساری عمر جب بھی اپنی والدہ صاحبہ کا ذکر فرماتے یا سنتے تو جذبات کو یوں دباتے کہ صاف دکھائی دیتا کہ اندر ایک تلاطم ہے اور آب دیدہ ہو جاتے ماں، ماں، ماں اور پھر آمنہ ماں آپ کے دل کا حال سمجھتا ہوں.ایک دفعہ عزیزہ شکور کے رخصتانہ کے موقع پر میں نے کہا مشہور ہے کہ : ماواں دھیاں ملن لگیاں چارے کنداں چہارے دیاں ہلیاں بیٹی کی رخصتی پر جب ماں نے بیٹی کو رخصت کرنے کے لئے گلے سے لگایا تو گھر کی چاروں دیوار میں ملنے لگیں.) تم نے پانچ بیٹیاں رخصت کی ہیں تمہارا کیا حال ہوا ہوگا.واقعی دل گردہ تھا، برداشت تھی ، حوصلہ تھا، فضل تھا خدا کی دین تھی ، فراخ دلی تھی، نیکی تھی ، تقویٰ تھا، بھروسہ تھا ، دور اندیشی تھی ، معاملہ نہیں تھی ، محبت و شفقت تھی ، صلہ رحمی کا بے مثال نمونہ تھی.اپنوں سے دوسروں سے گھر پڑوس محلہ شہر مضافات اور دوسرے ملکوں تک اس کے حُسنِ سلوک کی کئی کئی مثالیں دے سکتا ہوں اس کا وجود با برکت تھا.اُسے میری حلیمہ ماں برکت بی بی بیاہ کر لائی تھیں جو صبر تحمل صورت وسیرت میں ممیز تھیں پھر میرے والد صاحب خدا کے فضل سے فضل محمد جن کی اُس نے بہت خدمت کی تھی.7-6-1976 باری پیاری کا خط بہت ہی خوب مضامین پر ملا.خوشی ہوئی اس میں عزیزہ 221
زنده درخت نے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہماری امی اور ہمارا حق ہے کہ اُن کے اوصاف بیان کئے جائیں جب کہ آپ نے کڑا بند باندھ رکھا ہے.نہیں لعل ! شوق سے سنو میرا ہر خط اُس کے اوصاف حمیدہ سے بھرا پڑا ہے.دیکھ تو لو زندگی میں جب میں صادقہ، صابرہ شاکرہ، قانتہ اور نہ معلوم کیا کیا لکھا کرتا تو بعض لوگ برا مناتے مرحومہ بھی کہتی ایسے نہ لکھا کریں.مگر میں تو لکھ ہی دیا کرتا تھا.اگر آپ نے وہ خط سنبھال کر رکھے ہیں تو سارا مضمون کھل جائے گا.کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے جیسے جملے ودیعت ہوتے ہیں جب میں بورڈ پر اعلان لکھا کرتا تھا باسط مجید گرد ہو جاتے کہ آج ابا کیا لکھنے لگے ہیں جماعت کے اکابرین نے کئی مرتبہ میرے سامنے کہا بھائی جی ان اعلانوں کونوٹ کرلیا کریں آپ کی اولاد کے لئے یادگار ہوں گے.حضرت خلیفۃ اسیج حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان تک بھی تعریف فرماتے اور میرے اعلانات کو شہر کا عجوبہ قرار دیتے.آپ کی امی کی ذات میں بہت برکت تھی بعض دفعہ اُس کی سرسری باتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کی جاذب ہو جاتیں اُس کے مشوروں پر عمل میں برکت ہی برکت تھی.طبیعت میں خاکساری تھی.کبھی کمزوری میں بھاری چیز صحن سے کمرے میں یا کمرے سے صحن میں لانی ہوتی تو مجھے ہی کہتی مگر تھکی ہوئی آواز میں منت شامل ہوتی.چاول نفیس پرانے منگواتی اب تک چاول کے ذکر کے ساتھ آپ کی امی کی چاولوں کی پر کچھ یاد آ جاتی ہے.24-9-1976 عزیزه لطیف آج اٹھائیسواں روزہ ہے میں بیت مبارک میں اعتکاف بیٹھا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.امید ہے آج عید کا چاند نکل آئے گا.خط لکھنا آسان نہیں ہے.کوئی نہ کوئی یاد تازہ ہو جاتی ہے جس سے سارا مضمون معطل ہو کے رہ جاتا 222
زنده درخت ہے.میں آپ کی امی کو رابعہ ایک خواب کی بنا پر کہتا تھا.میں نے خواب دیکھا تھا کہ چینی کا ایک بے مثال سفید پیالہ ہے اُس میں خوبصورت لمبے لمبے سفید چاول پکے ہوئے ہیں چیچ بھی چمکتا ہوا سفید ہے میرے سامنے خلیل احمد ( جہلمی ) ہے کہتا ہوں اس کو کھا لیں یہ رابعہ بصری کا پس خوردہ ہے.اور میری مراد آمنہ مرحومہ سے ہے.سو بچے میں اُس کی سیرت کی وجہ سے اُسے رابعہ ہی سمجھتا ہوں میں ایک کمز ور اور گرا ہوا انسان ہوں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ کے الطاف واکرام دیکھو کہ ہر خط کوئی نہ کوئی خوشخبری لے کر آتا ہے.12-7-1976 كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٌ عزیزه باری...! آپ کا ملے جلے جذبات سے لبریز خط ملا.میں نے بھی اُسے ملے جلے جذبات سے پڑھا.بہر حال شکر گزاری نعمت عظمی ہے.میں بستر تو بارش سے بچا کر اندر لے آیا مگر خط میری آنکھوں کی بارش سے نہ بچ سکا.شکر گزاری کے میٹھے پانی سے گندھا ہوا خط پڑھ کر سجدۂ شکر ادا کیا.اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت اُسی کی عطا ہوتی ہے اپنی کوشش کا رُخ اُس کی طرف کر دیں صحت ، رجحان، طاقت سب صفت رحمانیت کے تحت آجاتی ہے.یہ سب اُس کی دین ہے.درود شریف سے طاقت حاصل کریں.میرا تجربہ ہے اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے بھی بیان فرمایا ہے کہ دعا کے آگے پیچھے درود شریف لگا دیں کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ درودشریف سن لے اور دعارڈ کر دے.آپ نے لکھا ہے بچے یاد کرتے ہیں تو میں آپ کو اپنا دل کیسے دکھاؤں جو خانہ زنبور بن گیا ہے مگر اُس کی رحمت کے حصار میں رہا ہے.کسی نے حضرت اقدس مسیح موعود سے پوچھا کہ آپ کے سر میں سکری نہیں ہے.حالانکہ آپ کو 223
زنده درخت اتنے ہم وغم ہیں آپ نے جواب دیا جب فکر میرے پاس آتے ہیں میں منہ دوسری طرف کر لیتا ہوں.میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں.خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ عجیب سلوک ہے.ساری زندگی ایسا ایسا کرم دیکھا ہے کہ بیان کرنے لگوں تو کتابیں لکھ دوں.اکر موا اولادکم عشق پر زور نہیں اور وہ بھی بچوں سے عشق.قادیان کی کوٹھڑی میں تنہا کس کس طرح بچوں کو یاد کرتے ہوں گے.کوئی صاحب دل اندازہ کر سکتا ہے.اس کی حقیقی جھلک آپ کی تحریروں میں ملتی ہے.ہر لفظ کے پیچھے ایک جہانِ در داور پھر صبر ہے.4-4-1950 بچے کیا بتاؤں میں نے اپنی بچیوں کو کس قدر عزیز رکھا جس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں.دل چاہتا ہے بچوں کو وصیت کروں کہ اولاد سے اس قدر محبت نہ کرنا کہ آنکھوں پر ہی بٹھا لو.مگر دوسری جانب اخلاق ، رحم ، شفقت، متقاضی ہے کہ خوب پیار کیا جائے.1950ء میں یہ انتظام ہوا کہ پاکستان اور ہندوستان کے بارڈر پر ایک مقررہ جگہ ( Man Land) پر بچھڑے ہوئے خاندان کچھ گھنٹوں کے لئے مل سکتے ہیں.جماعتی نظام کے تحت ہم سب کو بارڈر پر لے جایا گیا.وہاں ابا جان نے اپنے تیسرے بیٹے کو پہلی دفعہ دیکھا.اشتیاق ملاحظہ کیجئے :- 9-6-1950 میں انشاء اللہ چار بجے قادیان سے روانہ ہو کر امرتسر رات ٹھہروں گا اور نو بجے دن آپ بارڈر پر تشریف لے آئیں.والد صاحب محترم کو ضر ور لا وہیں.اگر ہو سکے تو سب میرے قریبی رشتہ داروں کو میرے آنے کا پروگرام بتا دیں کہ پھر 224
زنده درخت خدا جانے کب ملاقات نصیب ہو.انشاء اللہ رشید اور حمیدہ سے ملاقات ہوگی.شکور بھی ابا کو دیکھے گی.سلام ہمیں سلام کرے گا.باسط میاں والدہ کے بغیر نہ آئیں.اُن سے بھی ملاقات ہو جائے گی.ایک معجزانہ ملاتات اس با قاعدہ ملاقات سے پہلے اتفاقاً آپا امتہ اللطیف اور بھائی جان باسط کی اللہ تعالیٰ کی خصوصی عنایت سے ملاقات ہوگئی تھی جس کی تفصیل بھائی جان نے اس طرح لکھی: ”ہوا یوں کہ بعض درویشوں کے اہل وعیال قادیان واپس جارہے تھے.آپا جان انتظامی امور کے سلسلے میں ان کے ہمراہ لاہور گئیں اور میں بھی ان کے ساتھ تھا.ہم نے کوشش کی کہ ابا جان کو پتہ چل جائے.کہ ہم بھی بارڈر تک جا رہے ہیں اور اس طرح ہماری ملاقات بھی ہو جائے.ہم بارڈر پر چلے گئے.قادیان سے آنے والے درویشوں کو پوچھا کہ ابا جان کو ہمارے یہاں آنے کی اطلاع ہے یا نہیں.کوئی درویش اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا.مجھے اچھی طرح یاد ہے.فضل الہی خان صاحب نے میرے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ جب میں قادیان سے آیا ہوں تو تمہارے ابا کام میں مصروف تھے.اور لگتا ہے کہ انہیں آپ کے آنے کی کوئی خبر نہیں ملی.لیکن میں آپ کو یہی مشورہ دوں گا کہ یہاں ان کا انتظار کریں کیونکہ وہ تو غیر معمولی تگ و دو اور دعا کر کے بظاہر غیر ممکن کو ممکن کر ہی لیا کرتے ہیں میں بار بار اٹھ کر اٹاری سڑک پر نظر ہیں.دوڑاتا مگر آخر لمبے انتظار کے بعد دیکھا کہ دور سے سر پر دھوپ کی وجہ سے چھتری لگائے ہاتھ میں کوئی چیز پکڑے کوئی تیز تیز آ رہا ہے فاصلہ کی وجہ سے میں ابا جان کو پہچان تو نہ سکا مگر ان کی مخصوص چال، مستعدی اور تیزی دیکھ کر مجھے یقین ہو گیا کہ ابا جان آرہے ہیں.میرے اس اندازے کی تصدیق ہونے میں 225
زنده درخت زیادہ دیر نہ لگی.چند منٹوں کے بعد ہم انتظار، پیار، بیتابی، شفقت کے سمندر میں غوطے لگا رہے تھے.ابا جان کے ہاتھ میں آم تھے جو نہر کے پانی میں ٹھنڈے کر کے کھائے اور خوب خوب باتیں کیں.خوب خوب مزے لئے.پہلوٹھی کی بیٹی امتہ اللطیف کی شادی : بچے کتنے ارمان اور چاؤ سے پالے جاتے ہیں جب رشتہ طے کرنے کا وقت آتا ہے تو میاں بیوی مل کر لاکھ صلاح مشورے کرتے ہیں.یہاں درویش کی بیٹی کا رشتہ طے ہو رہا تھا.مشورے تو ہو رہے تھے مگر روحانی باپ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد سے.نکاح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی پڑھا رہے تھے اور رُخصت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد فرما رہے تھے.حمد وشکر سے لبریز ابا جان فرماتے ہیں.:- آج بروز بدھ عزیزہ کے نکاح کی خبر محترم امیر صاحب کی زبانی مع مبارکباد ملی.اللہ اس رشتہ کو فریقین کے لئے بہت مبارک کرے دیکھو آمنہ خدا کی شان کہ یہ مبارک تقریب حضرت صاحب کے ہاتھوں خدا تعالیٰ نے انجام دی.الحمد للہ امیر صاحب کے کمرہ میں الفضل پڑھا وہیں دونوں نے دعا کی وہاں سے سوا بارہ بجے بیت مبارک جا کر دو نفل ادا کئے خوب رقت سے دعا کی پھر بیت الدعا میں جا کر دعا کی.پھر تینوں مساجد میں دعا کے اعلان کا بندو بست کرنے میں لگ گیا.نماز ظہر بیت اقصیٰ میں پڑھ کر خوشی کے آنسو بہائے امیر صاحب کا نام عبدالرحمن ہے اور نماز کے بعد سب سے پہلے مبارکباد دینے والے بھائی عبدالرحمن قادیانی تھے.بیت مبارک میں نفل ادا کئے سب درویشوں نے گلے مل کر دعائیں اور مبارکباد دی.بیت مبارک کی دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے.ایک درویش کی اپنی لاڈلی بیٹی کی شادی پر سادگی قائم رکھنے کی نصیحت عزیزہ کے نکاح کی مبارکباد کے خط آ رہے ہیں تیاری کے لئے کسی قسم کے 226
زنده درخت تکلف کی ضرورت نہیں.زیادہ سے زیادہ کوئی طعن دے گا کہ غریب ہیں تو میرے لعل غریب ہم ہیں برا کیا ماننا ملے تو کھا لو نجڑے تو پہن لو.قرض نہ لینا.سلسلے سے نہ مانگنا اگر کوئی میری بچی کو طعن دے گا تو خدا کی خاطر، میری خاطر برداشت کر لے گی سردی کا وقت ہے روزہ رکھ کر قرآن کریم پڑھ لیا ہے اب آذان ہونے والی ہے نماز کو جاؤں گا.میری بچی میری لاڈلی طیفو ! ایک خط سے معلوم ہوا کہ 1951-10-15 آپ کے رخصتانہ کی تقریب ہے سواحل میں دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ اس رشتہ کو بہت بہت بابرکت کرے آمین ہو سکتا ہے آپ کو خیال آئے کہ ابا نہیں بھائی موجود نہیں.میں آپ کی طرف سے پُر اُمید ہوں کہ کمال حوصلہ برداشت اور ہمت و استقلال سے خدا تعالیٰ کی مدد طلب کرتے ہوئے اس کی رضا کی خاطر اچھا نمونہ پیش کرو گی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کو میں نے درخواست لکھی ہے کہ آپ کو رخصت کریں.سو اگر ایسا ہو تو آپ کی خوش قسمتی میں کیا شک ہے.خاندان حضرت مسیح موعود کے افراد کی شرکت موجب صد رحمت ہے.سولعل ! فی امان اللہ دکھ سکھ میں اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنا.میں آپ سے بہت بہت خوش ہوں خدا آپ سے خوش ہو.آمین.15-10-1951 کا دن اباجان نے کیسے گزارا تحریر فرماتے ہیں :- 15-10-1951 کو دن بھر جب دل بھرا دروازہ بند کر لیا.آنسوؤں سے ہلکا کیا.خوشی بھی تھی.خاندان کے افراد کی شمولیت باعث رحمت ہے.آپ خود خاص طور پر حضرت اقدس کے حضور حاضر ہو کر میری طرف سے سلام کے بعد اُن کی شفقت ، مدد اور پیار کا شکریہ ادا کریں.227
12-1951 میری لاڈلی طیفو ! زنده درخت مجھے آپ سے آج اُلفت نہیں ہوئی آپ کی پیدائش پر اگر چہ بیٹی تھی بیٹیوں سے بڑھ کر خوشی کی سجدہ شکر ، خیرات، رشتہ داروں کو تحائف ، دو بکرے عقیقہ پر تکلف دعوت کی.تمہاری والدہ سے ضد کر کے لیتا اور اپنے دوستوں کو دکھاتا.قدم قدم چلنا شروع کیا تو سب سے اعلیٰ کپڑےسنہری تاج پہنایا آپ کو خوش کر کے جنت محسوس کرتا.آپ نے بھی اس کا بدلہ جس ادب، خدمت اور عفت سے دیا تا دم آخر نہ بھولے گا.دعا کرتا رہوں گا.آپا لطیف کے خسر محترم با بوسلامت علی صاحب کے نام مکتوب :- 16-10-1951 آج ڈھائی بجے اپنی بیٹی کو دعوۃ الا میر رجسٹر ڈ ڈاک سے بھیجنے گیا تو آپ کا تار ملا.اللہ عزیزہ لطیف کی شادی کو سلسلہ عالیہ احمدیہ اور جانبین کے لئے بے نہایت برکتوں کا موجب بنائے اے میرے اللہ قادر وکریم ایسا ہی کر.15/14 کی درمیانی شب بیت الدعا میں دعا کرتے ہوئے اذان کے انتظار میں سو گیا تو ایک خوشکن نظارہ دیکھا آمنہ،لطیف اور باسط کو دیکھا گویا امن ، کشاکش ، لطف قلبی اطمینان حاصل ہوا.میری بچی کو رخصتانہ کے وقت میرا دست شفقت میسر نہیں آیا اُمید ہے آپ اُس کے سر پر میری طرف سے ہاتھ رکھیں گے میں نے بچوں کو نا ز نعمت لا ڈاکرام سے پالا ہے خدا کرے جس طرح اس نے میری اطاعت وفرمانبرداری کی ہے آپ کے گھر کو بھی محبت اتفاق اور برکتوں سے بھر پور کرنے کا باعث ہو آمین.228
داماد کی مقدرشناسی : 20-12-1957 زنده درخت میری درویشی کے صلے عزیزی خورشید احمد آپ مجھے اپنے تینوں بیٹوں سے زیادہ عزیز ہیں.دل سے کہتا ہوں آپ کے خصائل ، نیکی ، فروتنی اور ٹھنڈی طبیعت پر میں بہت خوش ہوں.جلسہ سالانہ کی تیاری زوروں پر ہے.حتی المقدور خدمت کرتا ہوں.ابھی اسٹیج بنا کر آیا ہوں.“ ایک حیرت انگیز حکیمانہ رد عمل : بھائی جان عبدالمجید نیاز اور عبد الباسط صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھتے تھے جو احمد نگر میں تھا.کسی وجہ سے بھائی جان باسط کا وظیفہ روک لیا گیا.ابا جان کا طبعی رد عمل تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ میں درویش ہو گیا ہوں بیوی بچے اللہ تعالیٰ کے سپرد کئے ہیں جماعت نے یہ کیسا فیصلہ کیا ہے کہ میرے بچے کا وظیفہ روک لیا.وغیرہ وغیرہ.مگر ایک فنا فی اللہ متوکل انسان کا رد عمل دیکھئے.ذہن میں یہ بھی رہے کہ اُن دنوں امی جان کو پورے خاندان کے لئے صرف پندرہ روپے ماہوار وظیفہ ملتا تھا.13-8-1950 عزیز باسط کے وظیفہ کی فکر کیسی.احمدی ہے یار کی رضا میں راضی رہے.یہ تو ہے بھی اللہ والا.اگر وظیفہ بند ہوا اس پر بھی خوش ہونا چاہیے.یہ وقت تو انشاء اللہ گزر جائے گا.سلسلہ سے زیادہ قابلِ امداد اس وقت کون ہے؟ بد حالی اور بے بسی پر گھبراہٹ ایک احمدی کو تو ہو ہی نہیں سکتی.جب تک مٹی کا برتن آگ میں نہ جلے پانی لے کر دوسرے کو فیض نہیں پہنچا سکتا اسی طرح انسان مشکلات سے نہ گزرے تو نہ خود کھڑا رہ سکتا ہے نہ زندہ اور باقی رہ سکتا ہے اور نہ دوسروں کو فیض پہنچا سکتا ہے سو وہ اگر معرفت اور قرب اور عرفان 229
زنده درخت چاہتا ہے تو اس راستہ پر متبسم ہو کر چلے.کہ شکل بھی مشتبہ دیکھ کر وہ راستہ سے الگ نہ کر دے.آج میں وقار عمل پر نہیں گیا سنا ہے مولوی اللہ دتہ صاحب اور اُن کے ساتھ کوئی دوست آج آرہے ہیں الحمد للہ.جس باسط کے وظیفہ بند ہونے پر یہ مثالی نصیحت آموز خط لکھا.وہ ناز کا پالا آپ کوکس قدر عزیز تھا.اور اُس کی یاد کتنا تڑ پاتی تھی درج ذیل خط میں دیکھئے :- 22-8-1950 کل ڈھاب پر گیا تو ایک بچہ دس بارہ سال کا کھڑا دیکھا بالکل باسط معلوم ہوا سفید کرتا کالی نیکر رنگ سفید دبلا پتلا.میں دل پکڑ کر بیٹھ گیا ہماری بھی عجیب زندگی ہے.نو مسلم بچے ہمارے جذبات سے کھیل جاتے ہیں.خود نوشت حالات درویشی میں تحریر ہے:.باسط کے بچپن کا ایک واق سے عشق کی حد سے بڑھ کر پیار کیا.شاید عشق اور وصل کا روایتی بعد میرے بھی شامل حال رہا اور بچوں سے زیادہ تر دور ہی رہا.اپنے کمرے میں تنہائی میں گزرے دنوں کا کبھی کوئی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا کبھی کوئی.ایک دفعہ ایک عجیب مشاہدہ ہوا.میرے بیٹے عزیز عبدالباسط شاہد ( جواب افریقہ میں تبلیغ کا فریضہ ادا کر رہا ہے ) کے بچپن کا واقعہ ہے.میرے ایک دوست شاہ محمد صاحب کسی سفر سے واپس آرہے تھے اُن کے پاس ایک گراموفون با جا اور ریکارڈ تھے بارش ہو گئی وہ ان چیزوں کے ساتھ سفر جاری نہ رکھ سکتے تھے میرے گھر رکھوا کر آگے چلے گئے.اُن کے جانے کے بعد بچے باسط نے ضد کی کہ باجا سننا ہے.میں نے بچے کو بہلانے کے لئے ریکارڈ لگا دیا اُس نے بہت دلچسپی لی دسیوں سوال کئے کہ کون بولتا ہے؟ کہاں سے آواز آتی ہے دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھے حیرت اور خوشی کا 230
زنده درخت اظہار کرے.ابا بڑا مزا آیا.ابا بڑا مزا آیا.جب میں نے بند کرنا چاہا تو اس نے کہا نہیں نہیں اسی طرح رات کے دس بج گئے نیند نے غلبہ کیا.مگر باجے سے الگ ہونا گوارا نہ تھا اُسی پر سر رکھ کر سو گیا.صبح آنکھ کھلتے ہی پھر ضد کی باجا لگائیں.ایک کے بعد دوسرا ریکارڈ لگوائے.میں نے یہ کہہ کر بھی سمجھایا کہ یہ امانت ہے ہماری چیز نہیں وہ نہیں مانا پھر جب شاہ محمد صاحب اپنا با جا واپس لینے آئے تو ضد کی واپس نہیں کرنا.میں بازار سے دوسرا با جا اور ریکارڈلایا تو اس نے واپس کرنے دیا بہت چھوٹا تھا ا-ب-ت کی پہچان نہ تھی مگر ریکارڈوں کی پہچان ہو گئی.جو کہتے وہ نکال لاتا.یہ سب کیا تھا آواز کا جادو تھا یا محض کھلونا، بولنے والا کھلونا ، آہستہ آہستہ دلچسپی ختم ہوگئی.بھول بھال گیا.باسط بہت دلچسپ باتیں کرتا ایک دفعہ گھر میں ایک ٹوکری میں بیکری کا کچھ سامان پڑا تھا.جی للچا گیا امی کے پاس گیا اور کہا امی بھوک لگی ہے امی جو چیز بھی دیتیں کہہ دیتا کہ یہ نہیں چاہئے بھوک لگی ہے آخر اس نے پوچھ ہی لیا کہ کس چیز کی بھوک لگی ہے تو دل کی بات زبان پر آگئی امی ٹوکری کی بھوک لگی ہے.یعنی بیکری کا سامان چاہئے.1951ء کا ایک خط ملاحظہ کیجئے بچوں کی یاد ، امی کا تصور اور بچوں سے محبت کا انداز نمایاں ہے.امتہ الشکور جب قادیان سے آئی صرف ڈھائی تین سال کی تھی.شکور سیڑھیوں میں کھڑی ہو کر اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے میرا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی تھی ابا جان کہاں سے جاؤ گے؟ دل ہمارا بھی نہ کرتا مگر بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے محنت کرنا ہوتی ہے.آپ کی امی بھی میرے کنڈی کھٹکھٹانے کے انداز سے خوش ہو کر پر مسرت استقبال کرتی تھی.آج جان ہتھیلی پر رکھ کر کاہنواں سائیکل پر گیا تھا.کل جمعہ تھا ایک ہنگامی کام سلسلہ کا کیا، اس کے بدلے آج رخصت تھی.چار سال بعد سائیکل چلایا تھک کر چور ہو گیا.سلسلہ کی کتب تقریباً بیس سیر خریدیں.اُمید ہے رشیدہ کے مخمل کے جوڑے کی رقم نکل آئے گی.“ رشیدہ کے مخمل کے جوڑے کا کیا ذکر ہے.یہ بھی ایک دلگداز یاد ہے:.231
زنده درخت باجی رشیدہ بتاتی ہیں کہ ابا جان کو قرآن کریم حفظ کروانے کا بے حد و حساب شوق تھا ہم بچوں کو کوئی سورت یاد کرنے کو کہتے اور شام کو کام سے آ کر سُنتے صحیح حفظ پر آپ کا چہرہ خوشی سے د سکنے لگتا.تلفظ ادا ئیگی، حفظ ہر پہلو سے توجہ دیتے اور خوش ہوتے.انعام بھی دیتے.ایک دفعہ مجھے آخری سپارہ حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی بہت بڑے انعام کا وعدہ کیا اور وہ انعام تھا مخمل کا جوڑا محمل کے جوڑے کا تصور جنت کے حصول سے کم خوشگوار نہیں تھا اور ابا جان بھی شاید یہی چاہتے تھے.سورتیں یاد کرتی رہی اور ابا جان کو سناتی رہی پھر جدائی کا زمانہ شروع ہو گیا حالات ایک دم پلٹ گئے.فقر وفاقہ و درویشی میں محمل کے جوڑے کا وعدہ تو یاد رہا استطاعت نہ رہی.کبھی اتنی رقم نہ ہوئی کہ وعدہ پورا کر سکتے ہر محنت کے کام کے ساتھ یہ تصور ابھرتا اور ڈوبتا رہا.پھر ایک کھدر کی قمیض بھیجی ساتھ خط لکھا کہ غریب کے لعل فی الحال اسی کو مخمل سمجھ لو اور ساتھ آنسوؤں میں ڈوبی ہوئی دعا ئیں تھیں.جو ساری عمر ساتھ رہیں.ابا جان کا توکل، قناعت، سادگی ایسا درس تھا جس نے اسی دنیا کو جنت بنا دیا جو ہزار مخمل کے جوڑوں سے زیادہ قیمتی ہے اللہ تعالیٰ میرے ابا جان کو غریق رحمت فرمائے آمین.سات سال بعد ربوہ میں 54-2-22 کو :- قادیان اپنے کمرے میں تنہا رہتے ہوئے گھر والوں میں سے کبھی کسی کی یاد کبھی کسی کی کوئی بات کبھی کوئی منظر آنکھوں میں گھوم جاتا ہے.کبھی کسی معمولی سے واقعے کا گہرا تاثر لے لیتا.میں صبح کی آذان کے ساتھ پہلی بار ربوہ گیا اُس وقت میری اہلیہ اور بچے دارالخواتین میں رہتے تھے میرا ایک بچہ جو جدائی کے تین ماہ بعد 1947ء میں لاہور میں میری غیر موجودگی میں پیدا ہوا تھا میرے پاس لایا گیا اور اُس سے پوچھا گیا یہ کون ہیں؟ بچے نے کہا پھوپھا جی تب اس کو میری وہ تصویر دکھائی گئی جسے دکھا کر ابا جان کے پاس جانے کی ضد میں بہلایا کرتے تھے تب میرے ذہین بچے نے فوراز در دار آواز میں ابا جی کہہ کر میرے گلے میں باہیں ڈال دیں پھر باپ نے بیٹے کو کیسے چمٹایا اور پیار کیا ہوگا.چشم تصور سے دیکھ ، 232
لیں محسوسات کا اندازہ کر لیں.زنده درخت میرے بچوں میں صبر وشکر، ہسیر چشمی اور قناعت شامل ہونے کی وجہ اُن کی والدہ محترمہ کی تربیت تھی.درویشانہ فقیرانہ کسمپرسی میں عزت نفس کا احساس زندہ رکھا.واقعہ تو ایک بچے کی معصومیت کا ہے مگر میں اس کو کئی زاویوں سے دیکھتا ہوں.میری اہلیہ نے بتایا کہ ایک دن ایک بچہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ امی گلی میں یہ کپڑے والے قلفی والے اور دوسری چیزیں بیچنے والے کیوں آتے ہیں جب کہ ان سے کوئی لیتا ہی نہیں ہے اور یونہی چکر لگا کر چلے جاتے ہیں.میں خوش بھی ہوئی افسردہ بھی کہ دیکھو اس بچے نے یہ خیال کیا کہ ہم ان سے کوئی چیز نہیں خرید تے تو کوئی بھی نہیں خریدتا ہوگا.اللہ کا شکر کیا کہ اگر ان حالات میں دوسرے بچوں کی طرح یہ مجھ سے بار بار پیسے مانگتے ضد کرتے تو میرے لئے کس قدر مشکل ہوتی.میں نے بھی یہ واقعہ سن کر بہت شکر کیا اور اپنی اولاد میں سیر چشمی صبر اور قناعت میں اضافے کی دعا کی.“ 26-6-1978 میرا بصری (باسط ) آیا دیرینہ خواہش خدا نے پوری کی باپ بیٹا کس قدر خوشی کے عالم میں ہوں گے.دن اور پھر رات برسات کے باعث کبھی کمرے میں نلکے کے پاس دونوں چار پائیاں صاف ستھرا بسترانگر کا تبرک اور پھر قادیان دارالامان کہاں تک لکھتا جاؤں اس کی وضاحت اور نقشہ تو الفاظ میں پیش کرنا میرے بس کی بات نہیں میری تعلیم بھی واجبی اور قولی بھی کمزور.رات اچانک ہمارے ایک درویش محمد شفیع صاحب فوت ہو گئے اناللہ آپ پرانے درویش تھے تین لڑکے ہیں آٹھ سے بارہ سال عمر کے.اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے اور بچوں کا خود کفیل ہو.233
xi - بچوں کو نصائح زنده درخت مجید نے لکھا ہے کہ دانت خراب ہورہے ہیں.منہ کو سب طرح سے پاک رکھنا دانت کا واحد علاج ہے کسی کی غیبت نہ کریں.کسی کو ناجائز برا بھلا نہ کہیں جائز اور طیب خوراک کھائیں کھانے کے بعد الحمد للہ ساری دعا پڑھ کر رب العالمین کو کہیں کہ اللہ اس کیڑے کا (اگر کوئی ہے تو ) تو ہی رب ہے.اُس کو کسی اور جگہ سے خوراک دے.منجن کا نسخہ تحریر ہے.پھٹکری ایک چھٹانک.سہا گہ سفید نصف چھٹانک ( دونوں چیزیں صاف برتن میں پھول بنالیں) ایک تولہ سنگ جراحت سب ملا کر گھر میں رکھیں تجربہ تو کریں یہ اپنی زندگی بھر کا نچوڑ تحریر کر رہا ہوں.اس کے علاوہ بنفشہ چار تولے نیلوفر چار تولے رات کو بھگو کر رکھیں صبح خوب مل کر نچوڑ لیں اور تین پاؤ چینی ڈال کر پکالیں صبح شام یہ شربت پئیں بہت سی بیماریوں سے بفضل خدا بچائے گا.معدے کے لئے نسخہ: نمک لاہوری ایک تولہ، کالا نمک ایک تولہ، اجوائن دو ماشہ، ست لیموں دو ماشہ، دار چینی ایک ماشہ، ہینگ دو ماشہ ( بھون کر گھی میں ) چینی چار تولے پیس کر سب کچھ ملالیں.بسم اللہ پڑھ کر ایک دو ماشہ کھالیا کریں.دعا کی طرف توجہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریک دعائے خاص میں شمولیت کا اہتمام کریں دینِ حق احمدیت کی برتری سے ہماری بہبودی اور بھلائی ہے.ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 234
زنده درخت تقویٰ اپنا فوری اثر دکھاتا ہے ادھر نہا دھو صاف ستھرے ہو کر دل کی کدورت سے پاک ہو کر ذکر الہی شروع کیا ادھر زمین آسمان نے آپ کی ہم نوائی شروع کی.ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں اور بے شمار خدا کے بندوں نے آزمایا ہے.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے حصہ وافر عطا کر دیا ہے پس اسی کو حرز جان بناؤ.بچوں سے محبت کی تو مثالی.تربیت کا حق ادا کیا تو مثالی.حوصلہ افزائی کے ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ قادر و توانا خدا تعالیٰ سے تعلق بنا رہے اور عاجزانہ راہیں اختیار کی جائیں پر حکمت نصیحت فرمائی:.عزیزه باری! آپ نے لکھا ہے کہ تقریر میں فرسٹ آئی ہیں خدا تعالیٰ مبارک کرے آمین میری لاڈلی اللہ تعالیٰ نے آپ پر وہ فضل اور کرم کرنے ہیں کہ دنیا حیران ہوگی مگر شرط وہی ہے کہ اُس کے بندے بن کر رہیں اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة اگر یہ نہ رہا تو پھر کچھ بھی نہیں.آپ ان دونوں نسخوں کا اہتمام کریں.کبھی غرور، تکبر اور اپنی طاقت وقدرت کا دخل خیال نہ کرنا.نوٹ کر لیں اپنے کمرے میں لکھ کر لڑکا لیں یہ نسخہ دنیا کے لاکھوں انبیاء رشیوں ولیوں کا آزمایا ہوا ہے ہرگز غلط نہیں ہے.ماں کی خدمت سے دعائیں لو.میں بھی دعا کرتا ہوں آپ کوئی نہ کوئی تحریک دعا کی صورت نکال ہی لیتی ہیں.ابا جان کبھی استعینوا بالصبر والصلوۃ کی طرف توجہ دلاتے تو کبھی الْفَقْرُ فخرِمی کا مضمون سوچنے کی راہیں کھول دیتے :- 13-12-1959 عزیزہ امتہ الباری آج میں صبح بعد نماز فجر درس میں بیٹھا تھا کہ آپ کا خیال آیا دعا کی.رقت طاری ہوئی اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ اس بچی کو اپنی امان میں رکھنا ترقیاں دینا.آنکھ سے آنسو کے قطرہ گرنے کے ساتھ درس دینے والے 235
زنده درخت کی آواز آئی ”الفقر فخری اچھا پھر خدا تعالیٰ موقع دے گا تو باپ بیٹی اکھٹے بیٹھ کر روٹی کھائیں گے.ابا جان کے خطوط میں خاکسار کا ذکر دعاؤں اور گلاب کے پھول کے ساتھ ہے:- 7-3-1949 میری لخت جگر میری پیاری باری خدا کا شکر ہے.اُس نے آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائی.جب لطیف کا خط ملا عصر کی اذان ہو رہی تھی میں نے سر بسجود ہو کر آنسوؤں سے خدا کا شکر ادا کیا میں نے آپ کے لئے گلاب کا پھول بھیجا ہے.یہ مبارک بستی ، مبارک جگہ، مبارک ہستی کی مبارک فضا میں پلا ہوا مبارک پھول ہے جس دن روانہ کیا اُسی دن اللہ تعالیٰ نے آپ کو صحت عطا فرمائی.خودداری ہاتھ سے دی تو میری جان یہ بن جائے گی: آپا لطیف صاحبہ نے اپنی شادی کے بعد لاہور میں اپنے کسی بہن بھائی کو بلانے کی بات لکھی ہوگی.ابا جان نے جواب دیا.کیسا مکمل ہر پہلو کو واضح کرتا ہوا جواب ہے :- باری ذرا زیادہ حساس ہے باپ ماں اور بہن بھائیوں کی جدائی برداشت نہ کر سکے گی.اگر شکور کی پڑھائی میں حرج واقع نہ ہو تو ضرور اپنے پاس منگوالیں اور سلام کو بھی ہفتہ میں ایک دو دن کے لئے منگوالیا کریں مگر دیکھنا اگر عزیز خورشید یا اُن کے کسی رشتہ دار کی آنکھ میلی ہو اور بوجھ سمجھیں تو اس کو ہرگز برداشت نہ کرنا خودداری ہاتھ سے دی تو میری جان پر بن جائے گی.یہی ایک بڑی روک ہے ورنہ ہر لحاظ سے میری طبیعت مطمئن ہے...ہاں دوسری جگہ بچہ لالچی حریص اور ندیدہ ہو جاتا ہے ذرا خیال رکھنا بچوں کو ہفتہ عشرہ بعد ماں سے ملا لیا کرنا صحت کا خیال رکھنا..66 236
زنده درخت 1963ء میں خاکسار کی شادی پر ابا جان تشریف نہ لا سکے اس کمی کے احساس کو دور کرنے کے لئے بھائیوں کو تاکید فرمائی کہ بالضرور شامل ہوں.میرا ویزا پاسپورٹ نہ بن سکا اس لئے آپ دونوں بھائیوں کو تاکید ہے کہ عزیزہ امتہ الباری کی شادی 1963-12-24 شرح صدر اور دلی اطمینان کے ساتھ شامل ہوں تا کہ اُس کی والدہ کی دلجوئی ہو اور مصروفیت میں ساتھ ہوں.یہ رشتہ بعض خدائی بشارتوں کے مطابق تسلیم کیا گیا ہے اس کو آپ دلی مسرت اور خوشکن حالات میں سرانجام دیں اللہ تعالیٰ کارساز ہے.دنیا کے کام کہاں رکتے ہیں میں جانتا ہوں وہ میرا خدا میرے ہر کام میں نہاں در نہاں انعام رکھ دیا کرتا ہے.“ 1969ء میں خاکسار کی زندگی میں ایک بڑا حادثہ ہوا چند ماہ کی بچی امتہ ا لصبور بیمار ہوئی.فضل عمر ہسپتال ربوہ میں زیر علاج رہی.بچی ٹھیک تو ہو گئی مگر سماعت اور اُس کے نتیجے میں گویائی سے محروم ہو گئی.میرے درد کو ابا جان نے اپنے دل میں اُتار لیا اور دعاؤں سے حوصلہ بڑھاتے رہے.دفکر مند ہونا اچھا ہوتا ہے مگر شرک کی حد تک گناہ ہے تو کل کا مقام چھن کر موہوم تگ و دو باقی رہ جاتی ہے جو قشر ہے.مغز کو تلاش کرنا ہے تو غم فکر کو پاس نہ آنے دیں عزیزہ صبور نے تو دعا اپنے لئے وقف کرالی ہے اب یہ خدا ہی جانتا ہے.کہ دعائیں کس رنگ میں اپنی پوری آب و تاب سے اس کے حق میں پوری ہوں کہ ہم تو اس کے ہر فعل سے خوش ہیں.23-9-1970 حصبور کے لئے دعا گو ہوں میں یہ خط آپ کو ایک معزز جگہ سے تحریر کر رہا ہوں یعنی بیت مبارک اور آخری عشرہ اور اعتکاف کی حالت میں دعاؤں کے پلوں پر بیٹھ کر آپ کی ساری خواہشیں یوں پوری ہوں گی جس طرح قبولیت دعا کی حالت وہ خود دے دیا کرتا ہے سو آپ کو مبارک ہو کہ اللہ تعالیٰ اس کی اور آپ 237
زنده درخت کی سب خواہشات پوری کر دے گا اگر کوئی مشیت ایزدی وقتی طور پر عائد کر دی جائے تو صبر کا پورا مظاہرہ کرنا چاہیے.9-4-1972 دمیں بچی کے لئے دعا کرتا ہوں فکر نہ کریں خدا خود سامان کر دے گا اور اگر مشیت ایزوی یہی ہوئی تو اس کے پاس ایسی باتوں کے وہ توڑ ہیں کہ ہزار بار قربان وہ خالق اور ہم اس کی احمدی مخلوق.پھر احمد کے ساتھ مسیح بھی ہیں.اُس کا بھروسہ شرط ہے اور استعينوا بالصبر والصلوةـــه ہے سر رہ پر کھڑا نیکیوں کی وہ مولا کریم نیک کو کچھ غم نہیں ہے گو بڑا گرداب ہے قریشی صاحب ،مصور، منصور، صبور کو بھیگا بھیگا پیار، سلام اور مخصوص دعا ئیں.میری ہر دلی دعا ان میں اثر پذیر ہوگی انشاء اللہ صبور کے کان محروم نہ رہیں گے.یہ خط ، ہاں یہ خط ، ہاں یہ خط ، دارلامان سے پوسٹ کیا جارہا ہے.یرا سمیع خدا ضرور سنے گا: 6-6-1975 عزیزه صبور! آپ کے لئے بہت دعا کرتا ہوں.اس یقین کے ساتھ کہ وہ ضروری پوری ہوں گی اصل رنگ میں یا جس رنگ میں وہ چاہے میرا سمیع خدا ضرور سنے گا اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ کون سی خوبی ودیعت کرنے والا ہے یا یہ ساری کمی کس رنگ میں بڑھا چڑھا کر نمایاں کرنے والا ہے؟ میں تو تقدیر کے مسئلے پر گھنٹوں بولتا ہوں اور جب تک زندہ رہوں گا سمجھا تا رہوں گا.میری ساری عمر خدا نے تقدیر کے ایسے ایسے کرشمے دکھائے ہیں کہ تحریر کرنا مشکل ہے.مینار سے اذانِ عصر کی آواز آرہی ہے مؤذن نے حی علی الفلاح کہا ہے اچھی 238
فال ہے.دعا.دعا.دعا.16-4-1978 زنده درخت عزیزه باری ! ابا کی پرنم آنکھیں دیکھو.بچوں سے اس قدر محبت کی ہے کہ بعض دفعہ شرک کا ڈرلگا.اس حد تک پہنچ کر محض رضائے الہی کی خاطر ہاں ہاں محض خوشنودی رب کے لئے انسانی کمزوری کے باوجود کوشش کرے تو وہ بے حد ذرہ نواز ، طاقت وروں کا طاقت ور، دل جوئی کا سامان کرتا ہے ابا بیٹی کے لئے اور بیٹی ابا کے لئے کرب و اضطراب کی حد سے پھاند جائیں تو رب کائنات فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ بشارت دیں کہ کوئی غم فکر نہ کرو.راستہ ایک ہی ہے.دعا پر زور ہو.کسر نفسی ہو، مُوتُوا قبل ان تمو تو اشعار ہو.31-8-1978 عزيز ناصر............! میرے لاڈلے اور پیارے بچے خوب یاد رکھیں کہ خدا کے نظام کی خوب تاثیریں ہوتی ہیں جو ٹھیک وقت پر ایک منٹ پہلے اور نہ ایک منٹ بعد اپنا خوبصورت رنگ دکھاتی ہیں.استعینوا بالصبر والصلوۃ میں صبر کو پہلے رکھا ہے.دعا تو خدا تعالیٰ قبول کرتا ہی ہے ہماری ڈیوٹی صبر کی لگا دی ہے اللہ تعالیٰ سے زیادہ رحیم کریم اور محبت کرنے والا اور کون ہے جس نے پیدا کیا پرورش کی.ہر ضرورت کو جانتا ہے.دعا کرتا ہوں حالات سازگار رہیں.اور جب بھی تبادلہ ہو خدا تعالیٰ بے حد با برکت کر دے آمین.31-8-1978 عزیزه باری آپ کا مصروف رہنا بھی ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اُس نے جس قدر صحت دی اُس کو خوب ٹھکانے پر استعمال کی بھی طاقت دی اھم زدفرد مصروف رہنا تو آپ کو ورثہ میں ملا ہے سو الحمد للہ آپ کے ماں باپ نے آپ کی گھٹی میں کام، کام اور کام ڈالا ہے آپ نے لکھا ہے جون کو 35 سال کی ہو 239
زنده درخت جاؤں گی بفضل تعالیٰ ہم احمدی سال گنا نہیں کرتے ہمارا خدا بے انت ہے الحمد للہ کہہ دوں گا اور کہتا ہوں مینار پر عصر کی اذان ہو رہی ہے اللہ اس ہوا کو صبوری کے کان تک بھیج کر شفاء کا پیغام بنادے.آمین رمضان شریف میں آپ کے لئے جس قدر دعا کر رہا ہوں میں پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ کبھی ایسا موقع نصیب نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.عزیزہ غفورہ صاحبہ کے لئے دعا کر رہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے میری زبان پر یہ لفظ جاری فرما دئے دعا قبول ہوگئی ، اسی حالت وجد میں آپ کو بھی یاد کیا آنسو کا قطرہ انگوٹھے کے ناخن سے صاف کیا تو قطرے پر رحم، فضل، کرم لکھا دیکھا سو میں اُس خدا رحیم کریم سے پر امید ہوں کہ خدا آپ کو ساری برکتوں سمیت عطائے خاص سے نوازے.آمین.xi - اگلی نسل سے ذاتی رابطہ، رہنمائی اور دعائیں پہلے تو اسے لئیق احمد کی پیدائش کی اطلاع: ” جب بھی میں خواب میں بارش اور بیت نور دیکھوں تو خدا تعالیٰ خوشی عطا فرماتا ہے.کئی دن سے متواتر بارش اور آمنہ کو خواب میں دیکھ رہا تھا اور بھی مبشر خواہیں دیکھیں.آج بیت نور کے پاس والی بال کا میچ دیکھنے گیا ہوا تھا وہیں تار ملی.مرزا عبداللطیف نے پڑھی وہ دعا بھی کر رہے تھے.لڑکے کی پیدائش پر مبارکباد یاں ملیں اسکول کے نلکے سے وضو کر کے مسجد نور کی چھت پر جا کر تصور میں بچے کے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں تکبیر کہی دو نفل ادا کئے اور دعا کی.ہر لحاظ سے بابرکت ہو.“ ایک دفعہ جب عزیزم لیق نے دبئی سے اپنے جاب کے سلسلے میں دعا کی درخواست کی تو آپ نے پر حکمت نصائح سے نوازا: 240
زنده درخت عزيز ليق.خدا رحیم و بزرگ و برتر نے اپنی خاص مشیت سے میرے جسم کو محبت، اُلفت، رحم شفقت ، کے خمیرے سے گوندھا ہے.اس سے جو بھی رونکلتی ہے.وہ خود محبت سے گزر کر دوسرے عناصر پر بھی اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی جہاں خدا نے مجھے یہ لازوال دولت تا زیست بخش کر احسان فرمایا.وہاں صبر سکون اور قوت تو کل سے بھی خوب نہال کیا اور حقیقت تو یہ ہے کہ محض بطفیل حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت احمد، کسی عمل وعلم کی بناء پر نہیں محض اپنی صفتِ کریمانہ سے کیا کچھ نہ دیا.نصرت لئیق ، باسط ، باری کس کس نعمت کا ذکر کروں اتنا بھی نظر بد سے ڈرتے ڈرتے تحریر کر دیا ہے.اُس نے تو دولت و نعمت انعام و اکرام کا خزانہ نصیب فرما دیا ہے الحمد للہ ثم الحمد للہ آپ نے تحریر کیا کہ اُداس ہو جاتا ہوں.سنو میں بھی ہو جاتا ہوں مگر میں دعاؤں کا ورد کرنے لگتا ہوں بہت خاموشی سے.اللہ تعالیٰ ریا سے بچائے کہ یہ صرف اعمال کو ہی نہیں بلکہ انسان کو بھی جلا کر راکھ کر دیتی ہے.میں نے دیکھا ہے تجربہ کیا ہے کہ وساوس اور اُداسی کی حالت میں ذکر اذکار تقویت قلب اور صحت تندرستی کا باعث بن جاتا ہے آپ بھی اُداسی اور دوری سے بے نیاز ہوکر کسی کو زیر تبلیغ بنالو.عالمانہ باتیں کرو.محبت سے محبت پیدا ہو کر انسان انسان کا خیر خواہ اور ساتھی بن جاتا ہے.پھر احمدی کو تو خدا تعالیٰ کے مسیح نے علم و عمل کے میدان کا پہلوان بنا دیا ہے.آپ کے پاس دلائل کا خزانہ، دعا کا ہتھیار ہے.دعا کے ساتھ ہر میدان میں جالوت کو پکارتے پھرو میری تخت گاہِ رسول سے یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ روح القدس سے آپ کی مدد کرے.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بارش کے لئے دعا کرتے اور ساتھ ہی گھبراہٹ میں اندر باہر جاتے کہ بارش رحمت کی ہو خوف ورجا کے درمیان ایمان ہے.اور ایمان دعا سے پیدا ہوتا ہے.241
زنده درخت آپ بھی اللہ تبارک تعالیٰ کی ہستی کی پوری آن بان کا نقشہ کھینچ کر اُس سے مدد مانگیں کہ ماں کی چھاتیوں میں دودھ اچھلنے سے پہلے اُس کا دودھ جوش مارتا ہے.اُس کا وعدہ ہے میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا.وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَلَى فَانّي قَرِيب.جب انسان خدا سے محبت کرتا ہے تو مجسم محبت ہو جاتا ہے پھر دنیا کی ہر چیز اس سے محبت کرتی ہے.پس آپ دفع شر اور اضافہ خیر کی تصویری زبان بن جائیں.پھر اپنے پرائے دوست دشمن اُس کے حکم سے زیر پاکئے جاتے ہیں.آنکھ ہاتھ پاؤں سب کچھ خدا کے بن جاتے ہیں.مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو زور دعا دیکھو تو اپنے بڑے ہوتے عزیز حافظ بشارت احمد غنی کے نام محط : آپ کا مرسلہ خط ملا.حد بیان سے باہر خوشی ہوئی جس فقرے نے سب سے زیادہ متاثر کیا.وہ آپ کی میرے لئے دعا تھی اللہ تعالیٰ اس کی جزا دے اور اس دعا کو ہزار درجہ بڑھا کر خود آپ کے حق میں پورا فرمائے آمین اللہ تعالیٰ آپ کو ہر غریب واقف ناواقف کے درد میں شریک ہونے کا جذبہ عطا فرمائے اور یہی راستہ دین و دنیا میں خوش رہنے کا ہے ایسی نیکی ہر مصیبت و دکھ میں دوست بن جاتی ہے اور خدا کی مدد کو جذب کر لیتی ہے.اللہ تعالیٰ مزید توفیق عطا فرمائے.آمین اپنے پوتے فخر احمد کے نام خط 25-3-1975 : آپ کے لئے دعا کرتا ہوں آپ بھی اسی وقت ہاتھ اُٹھا کر میرے لئے بھی 242
زنده درخت سب کے ساتھ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انجام بخیر کرے.حضور اور آپ سے ملاقات نصیب ہو اور اپنی رضا جوئی کی راہ پر چلائے.آپ کا خاموش بلاوا آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے مگر میں وقف کی ہوئی زندگی پر اُس کی عنایت سے پابند نہ ہوتا تو ضرور آپ سب کی خواہش پوری کرتا.مگر میری دعا ہے کہ خدا اس کو قبول فرمائے اور مجھے اور آپ کو اس کے اعلیٰ درجہ کے انعام سے نوازتا رہے.آمین یہ میرا خط جس طرح بھی ممکن ہو با حفاظت سنبھال لیں اور ضائع ہونے سے محفوظ کرلیں اور ہمیشہ اپنے پاس رکھیں.پوتی حسنی کے نام خط میں آپ کو دیکھنے کا مشتاق ضرور ہوں مگر روایت ہے کہ ایک شخص دریا میں گر گیا کسی نے پوچھا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کو نکال لوں ؟ جواب دیا نہیں.پوچھا ڈو بنا چاہتے ہیں؟ جواب دیا نہیں پوچھا تو پھر کیا چاہتے ہیں اُس نے جواب دیا جو خدا چاہتا ہے.ہم بھی اُس کی رضا پر راضی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اسم با مسمی بنائے اور آپ کے علم و عمل کوحسین بنادے اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو جہاں بھی تم رہو اس کی عنایت شاملِ حال رہے.آمین.چوتھی نسل کے پہلے بچے کی پیدائش کی خوشی : 600 3-9-1979 میرا خیال دن رات وہاں رہتا تھا.اچھا کیا جلد سے جلد خبر دی.شکرانہ کے نفل ادا کئے خدا کی دی ہوئی طاقت و صحت سے دعائیں کیں آنسو بتاتے تھے کہ در حبیب چوم کر ہی رہی ہوں گی.عزیزہ بدر کی صحت کا خیال رکھیں.بالوشاہی کھائی اور کھلائی ہے.سب کو مبارکباددیں.عزیز مجید اور سلام کے سہارے سے 243
زنده درخت چل سکتا ہوں آج چھڑی لے کر باہر چلا گیا دیکھ بھال اُمید سے بڑھ کر ہو رہی ہے.( یہ خط حیدر آبادسندھ سے تحریر فرمایا.جہاں ابا جان محترم علاج کی غرض سے قادیان سے عارضی طور پر تشریف لائے ہوئے تھے.) xii- پودوں اور پھولوں سے محبت : خاکسار کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں :- 22-4-1974 آپ نے اپنے گھر کے پودوں کا ذکر کیا ہے میرے گملے میں بھی موتیے کو ڈوڈیاں لگی ہوئی ہیں.پچھلے سال پودینہ بہت لگا تھا محلے والے حتی کہ بی بی قدوس صاحبہ بھی منگوالیتی تھیں.ایک گملے میں رات کی رانی لگائی ہے جو ساڑھے چارفٹ اونچی ہوگئی ہے.پتے پتے کے ساتھ پھولوں کے گچھے ہیں.مجھے اس کی خوشبو سے بہت محبت ہے.پھول دیکھ کر تفکر، دعا،شکریہ محو صنعت صانع پرنم آنکھوں سے رہتا ہوں اس کی خوشبو مچھر دانی میں خاطر داری کرتی ہے.جب بھی ہوش حاشیہ پر آئی معطر ہو جاتی ہے.میں نے فروری 1971ء میں شہتوت کی ایک قلم لگائی تھی جس پر آج تک بڑے دکھ، الم ، نشیب و فراز گزرے مگر جب خدائی فیصلہ ہوا کہ درویش کی یادگار دار امسیح میں لگ جائے تو پھر اس نے گویا کھا د پانی مانگنا شروع کیا.مہنگی لاڈلی بیٹی کی طرح اس کی پرورش کی.ماں باپ کا پیار د یا.دوسال بعد 1973 ء میں پانچ سات بور لگے جو جھڑ گئے مگر اپریل میں اس کے پتوں میں چھپا ہوا ایک موٹا تازہ شہتوت میٹھے کالے پانی سے لبالب ایک پڑوسی کو نظر آیا.بے حد خوشی ہوئی.یہ شہتوت اُسی کو تحفہ دے دیا.پھر 1974ء فروری مارچ میں خوب شگوفے آئے 244
زنده درخت سرسبز ہو گیا.لمبے لمبے بہت شہتوت لگے چڑیوں بلبلوں نے اپنا حصہ خود لے لیا.باقی تقریباً سب درویشوں کو دیتا رہا.شہتوت بے حد مفید ہوتا ہے اس کا شربت کئی بیماریوں کی دوا ہے.اُس درخت کا ذکر ابا جان کے خطوط میں بڑی کثرت سے ہوتا رہا.پہلے کسی کے ہاتھ اور پھر خود ربوہ آتے ہوئے بڑے اہتمام سے اس کی قلمیں لے کر آتے تا کہ اس درخت کے بچے یہاں بھی پھل دیتے رہیں.قلمیں بھجواتے وقت بڑی تفصیل اور تاکید سے پوری احتیاط سے ان کو مٹی میں دبانے اور ان کی نگہداشت کرنے کی تلقین بھی فرماتے رہے.245
زنده درخت -28-شام زندگی تحریر محترم امة اللطيف اوائل اپریل 1979 میں قادیان سے خالہ زاد بہن عزیزہ ناصرہ بیگم کا خط آیا جس سے ابا جان کی شدید علالت کا علم ہو اسفر کے سب کام اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر تیزی سے کروا دئے.آٹھ اپریل کو ابا جان کے پاس پہنچ گئی.آپ بے حد کمزور تھے اور تکلیف میں تنہا، آنکھیں بند کئے لیٹے تھے.میں نے آواز دی : ابا جان! آپ نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا اور بے ساختہ فرمایا.بچی تمہیں خدا لایا ہے، بہت دیر گلے لگا یا آبدیدہ ہو کر دعائیں دیں.ابا جان کا ہاتھ کا زخم کافی بڑھ گیا تھا.آپ نے خود ہی یہ سوچ کر کہ ناموافق نہ ہو گوشت کھانا چھوڑ دیا ہوا تھا اس طرح بیماری اور خوراک کی کمی سے کمزوری بہت ہوگئی تھی.میں نے سوپ وغیرہ دیا تو صحت بحال ہوئی آپ اُٹھ کر دوست احباب سے ملنے جاتے تو سب کہتے بھائی جی کی بیٹی آ گئی ہے بھائی جی ٹھیک ہو گئے ہیں.ایک دن جب حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ابا جان سے ملنے تشریف لائے تو میں نے اُن سے آپ کو علاج کے لئے پاکستان لے جانے کی اجازت لے لی.ابا جان قادیان چھوڑ نا نہیں چاہتے تھے لیکن میرے اصرار اور بتوفیق الہی قادیان پہنچانے کے وعدہ سے آپ مان گئے انہی دنوں ابا جان کے دانت میں تکلیف ہوئی جس کے علاج کے لئے امرتسر جانا پڑا مگر یہ تکلیف مالا طاق تھی بہت کمزور ہو گئے.بچوں کو بہت یاد کرتے خاص طور پر عزیزم مجید کو.اللہ تعالیٰ اُسے بھی لے آیا دس مئی کو مجید ، رشیدہ اور پھوپھی جان حلیمہ آپ کے پاس آ گئے اور میں بوجھل دل سے واپس آگئی.حضرت میاں وسیم احمد صاحب شفقت سے خبر گیری فرماتے اور دعاؤں سے مدد فرماتے.ایک مکتوب میں عزیز مجید کو تحریر فرمایا: 246
برادر عبدالمجید نیاز صاحب زنده درخت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کا قادیان آنا ، یہاں کے شعائر اللہ کی زیارت اور وہاں دعائیں کرنا خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرے.اسی طرح آپ کے لئے یہ امر بھی موجب سعادت ہے خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے کہ آپ نے کچھ عرصہ قادیان میں قیام کر کے اپنے بزرگ والد محترم ، ہمارے درویش بھائی محترم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت کی خدمت کی توفیق پائی اور ان کی دعائیں لیں.اللہ تعالیٰ ان کی دعائیں آپ کے حق میں پوری فرمائے.آپ کی بڑی ہمشیرہ اس معاملہ میں آپ سب پر سبقت لے گئی ہیں خدا کرے آپ کے دوسرے بھائی بہن بھی اپنے والد محترم کی خدمت کی توفیق پائیں.ہمارا سلام سب کو پہنچا ئیں.خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے فضل سے آپ سب کو احمدیت کا سچا خادم اور وفادار بندہ بننے کی توفیق دے.، والسلام خاکسار مرز ا وسیم احمد واپس آئی تو عزیزم عبدالباسط اشاعت دین کے لئے زیمبیا روانہ ہونے والے تھے.حضرت خلیفہ اسیح سے خصوصی اجازت حاصل کر کے پہلے قادیان بھیجا تا کہ ابا جان سے ملاقات ہو جائے.باسط کی بیوی محمودہ اور چھوٹا بھائی بھی قادیان پہنچ گئے.ان سب نے خاص طور پر عزیزم مجید نے ابا جان کی بہت خدمت کی.سب کو صحت کی اطلاع بھی دیتا رہا.پردیس میں جہاں وسائل محدود ہوں اجنبیت ہو کئی طرح کی مشکلات پیش آتی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجید سے اس وقت خدمت لی.پھر ا با جان کا ویزہ لگ گیا اور بھائی بہت خیال اور محنت سے ابا جان کو حیدرآباد پاکستان لے آئے.سلام اور اس کی بیوی مبارکہ اور بچوں نے خوب خدمت کی کراچی میں عزیزم ناصر اور باری کے پاس رہے.دسمبر میں ربوہ آئے جلسہ کے مہمانوں سے مل کر خوش ہوئے.مجید کی بیٹی عزیزہ راشدہ کی شادی میں شمولیت کی.راحت منزل میں قیام تھا جہاں امی جان رہتی تھیں بلکہ 247
زنده درخت وہی کمرہ تھا ابا جان کہتے حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور تمہاری امی کی روح مجھے یہاں لے آئی ہے.اسی کمرے میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد ( خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ) آپ سے ملنے تشریف لائے اور محبت بھرے انداز میں ایک درویش قادیان کو پیار کیا.چچا جان صالح محمد صاحب اور چاجان عبد اللہ صاحب بھی دیکھنے آئے.بھائی بہنوں کے سب موجود بچوں نے خدمت کی اور دعائیں لیں.بھابی منصورہ کو بھی خدمت کا موقع ملا.ابا جان کی عام صحت تو ٹھیک تھی مگر کمزوری بہت بڑھ گئی تھی.چھ فروری کی رات ہم ابا جان کے قریب بیٹھے تھے بجلی کی رو بہت کم تھی اچانک روشنی تیز ہوئی تو میرے منہ سے نکلا شکر ہے ابا جی نے پوچھا کس بات کا شکر ہے؟ میں نے کہا روشنی بہتر ہو گئی ہے فرمایا مجھے تو سب نیلا دکھائی دے رہا ہے.آپ اچھی آواز میں اردو میں بات کر رہے تھے.مجھے کئی بار پکارا طیفو، میں نے آمدہ خطرے سے دُکھی ہو کر کئی بار کہا ابا جی آپ کی طیفو آپ کے سامنے ہے پھر آہستہ آہستہ سانس ہلکا ہونے لگا اور پھر یہ ڈوری بھی ٹوٹ گئی.ہمارے ابا جی ہم سے ہمیشہ کے لئے رُخصت ہو گئے اور اُس خالق حقیقی سے جاملے جو سب سے پیارا ٹلانے والا ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.جیسے آپ کی زندگی میں ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے بے شمار نظارے نظر آتے ہیں اسی طرح اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت بارش کی طرح نازل ہوتی دکھائی دیتی ہے.نہ جانے کب سے بچھڑے ہوئے عزیز جن کی راہوں میں کئی قسم کی مجبوریاں حائل تھیں، پاکستان آنے کی وجہ سے آپ سے مل سکے اور آپ کی آنکھیں اُن کو دیکھ کر ٹھنڈی ہو ئیں.زندگی میں پہلی دفعہ حیدر آباد، اسلام آباد اور کراچی کا سفر کیا اور سلام، باری ، ناصر صاحب سے جا کر ملے.چچا جان حمید صاحب بیٹے کی شادی کے سلسلے میں آئے ہوئے تھے.اس طرح عزیزوں سے ملنے کے غیر معمولی سامان ہوئے.نہ جانے آپ نے کس درد سے دعائیں کی ہوں گی جو اس طرح پوری ہوئیں.پھر خلفائے کرام سے جدائی کی تڑپ اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت خلیفہ اُسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حاضر جنازہ 248
زنده درخت پڑھا اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد جو بعد میں خلیفہ بنے آپ کی عیادت کے لئے گھر تشریف لائے.اللہ تعالیٰ نے انتہائی نامساعد حالات کے باوجود خاکسار کو اباجی کی قادیان میں دفن ہونے کی خواہش کے مطابق انہیں قادیان لے جانے کے فیصلے کی توفیق عطا فرمائی.سب عزیز لاہور جنازہ لے کر پہنچے دارالذکر میں نماز جنازہ پڑھائی گئی جسد خاکی کو بارڈر کر اس کر کے لے جانا بھی کئی مشکل مراحل سے گزرنا جو بخیر و خوبی انجام پائے.اس کام میں پھوپھی زاد بھائی عزیزم فاروق احمد (لاہور) نے بہت تعاون کیا قادیان تک ساتھ گئے فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزا.اسی طرح عزیزان عبدالمجید ، عبد السلام اور اکبر احمد کو بھی ساتھ جانے کا موقع ملا.بارڈر پر قادیان سے احباب جنازہ لینے کے لئے آئے ہوئے تھے.12 فروری کو حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد نے اپنے اس درویش بھائی کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ دارلامان کی مقدس مٹی میں حضرت اقدس مسیح موعود کے قدموں میں آسودہ خاک ہو گئے.آپ کا وصیت نمبر 3061 تھا.آپ 1/3 کے موصی تھے.قطعہ نمبر الف میں مدفون ہیں.تمہیں سلام و دعا ہے نصیب صبح و مسا جوار مرقد شاہ زماں میں رہتے ہو خدا کا بہت فضل اور احسان ہے کہ اس نے عاجزہ کو امی اور ابا جان کی آخر دم تک خدمت کی توفیق عطا فرمائی.امی جان کی وفات میرے گھر میں ہوئی تھی).اسی طرح محض خدا کے فضل سے اباجی کی غیر موجودگی میں اماں جی اور بہن بھائیوں کی اپنی استطاعت کے مطابق خدمت کی توفیق ملی جس کا اظہارانہوں نے اماں جی کی وفات کے بعد ایک خط میں اس طرح کیا کہ بہن بھائیوں کے لیے ہر قسم کی قربانی اور دیکھ بھال میں لطیف کا بہت بڑا حصہ ہے.الحمد للہ.آخر میں تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کرنا چاہتی ہوں کہ محترم ابا جی نے بہت محنت سے دادا جان ، نانا جان اور اپنے مفصل حالات خود لکھ کر ہمارے لیے ایک قیمتی خزانہ محفوظ کیا 249
زنده درخت اور اپنی وفات سے قبل خاکسار کو دیا تھا.مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے اس کو ترتیب نہ دے سکی.عزیزہ امتہ الباری کو خدا جزائے خیر دے جس نے بہت شوق اور جانفشانی سے یہ سارا کام کیا.فجزاها للہ تعالی.29 - افسوس ! مکرم بھائی عبد الرحیم صاحب دیانت در ویش وفات پاگئے قادیان 80 تبلیغ ( فروری...آج ہی لاہور سے بذریعہ ٹیلی گرام یہ انتہائی افسوسناک اطلاع موصول ہوئی کہ مکرم بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد کل 7/2/80 بروز جمعرات بعمر تقریباً 76 سال وفات پا کر اپنے مولائے حقیقی سے جا ملے.اناللہ وانا الیہ راجعون.لاہور سے مرحوم کا جنازہ 11-2-80 کو براستہ واہگہ بارڈر قادیان لایا جا رہا ہے.مکرم عبد الرحیم دیانت مرحوم حضرت اقدس مسیح موعود کے رفیق محترم حضرت میاں فضل محمد صاحب متوطن ہر سیاں ضلع گورداسپور بعدہ مہاجر قادیان کے فرزند تھے ملکی تقسیم سے بہت عرصہ قبل مکرم بھائی جی مرحوم نے قادیان میں مٹھائی ،سوڈا واٹر، اور برف وغیرہ کی دکان کھولی اور پھر اپنی انتھک محنت لگن اور تندہی کے باعث اس چھوٹے پیمانے کے کاروبار سے انہوں نے قادیان میں ایک معقول جائیداد بنائی جو تقسیم ملک کے بعد قادیان میں بحیثیت درویش قیام رکھنے کے باوجود محکمہ کسٹوڈین نے اپنے قبضہ میں لے لی اور ہر ممکن قانونی چارہ جوئی کے باوجود واگزار نہیں کی.آپ نے اس نقصان کو نہایت صبر و تحمل اور خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا اور حسب معمول اپنی ذمہ داریوں اور عہد درویشی کو انتہائی صدق وصفا اور اخلاص کے ساتھ نبھاتے رہے.مرحوم نہایت درجہ نیک متقی ، پابند صوم وصلوۃ عبادت گزار اور دعا گو بزرگ ہونے کے 250
زنده درخت ساتھ ساتھ بہت سی دوسری خوبیوں کے بھی مالک تھے.طبیعت نہایت درجہ سادگی پسند اور نرم خُو واقع ہوئی تھی.ہر فن مولا ہوتے ہوئے بھی محنت و مشقت سے کبھی عار محسوس نہ کی حضرت اقدس مسیح پاک سے متعلق بہت سی ایمان افروز روایات جو انہوں نے اپنے والد محترم اور سلسلہ کے دوسرے بزرگان کی زبانی سن رکھی تھیں اپنے حلقہ احباب میں بڑے دلچسپ اور روح پرورانداز میں بیان کرتے بیشتر مذہبی اور متنازع مسائل پر عبور رکھنے کے باعث طبیعت میں تبلیغی جذ بہ وشوق بھی کارفرما تھا جس کی بنا پر بارہا تحر یک وقف عارضی کے تحت دور دراز علاقوں کے تبلیغی سفر بھی اختیار کئے اور زمانہ درویشی میں عرصہ قریباً آٹھ نو ماہ جہاں تک لوکل انجمن احمد یہ میں بطور سیکریٹری تبلیغ و تربیت خدمات بھی بجالاتے رہے.قبریبا9-8 ماہ قبل بیماری کا شدید حملہ ہونے پر بغرض علاج اسپتال امرتسر میں داخل کیا گیا ماں تشخیص سے معلوم ہوا کہ ملٹی پل میلوما ہو چکا ہے.کافی عرصہ امرتسر میں علاج ہوتا رہا.ازاں بعد ان کے عزیزان انہیں بغرض علاج و خدمت گزاری اپنے ہمراہ پاکستان لے گئے جہاں ہر ممکن علاج اور خبر گیری کی جاتی رہی مگر افسوس کہ کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی بالآخر تقدیر الہی غالب آئی اور مرحوم بھائی جی ہمیشہ کے لئے اس دار فانی کو چھوڑ کر دار قرار میں جا مکین ہوئے.مرحوم نے اپنے پیچھے نہایت ہو نہار تعلیم یافتہ اور سلسلہ کے ساتھ اخلاص ومحبت رکھنے والی جو اولاد بطور یادگار چھوڑی ہے ان میں مرحوم کے تین فرزند مکرم عبدالمجید صاحب، مکرم مولوی عبد الباسط صاحب مربی سلسلہ اور مکرم عبدالسلام صاحب نیز مرحوم کی پانچ بیٹیاں، محترمہ امة اللطیف صاحبہ ایڈیٹر ماہنامہ مصباح، محترمہ امۃ الرشید صاحبہ محترمہ امتہ الحمید صاحبه، محترمہ امۃ الباری صاحبہ اور محترمہ امتہ الشکور صاحبہ شامل ہیں.اللہ تعالیٰ مرحوم کے جذ بہ اخلاص اور قربانیوں کو شرف قبولیت سے نوازتے ہوئے انہیں اپنے قرب خاص میں بلند درجات سے نوازے اور تمام پسماندگان کو اس گہرے صدمے کو پورے صبر وتحمل کے ساتھ برداشت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.(ایڈیٹر بدر ) 251
زنده درخت 30- حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی تصویر کی شناخت 邀 خاکسار مارچ 2005 میں بعض حوالوں کی تلاش میں حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت سے ملنے کے لئے حاضر ہوئی تو آپ نے ابا جان کا بے حد محبت سے ذکر فرما یا خاص طور پر اُن کی دعوتوں میں شامل ہونے کا لطف تازہ کیا اور اپنی تصنیف سے ”حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی تصویر کی شناخت کے سلسلے میں اباجان کے خط کی فوٹواسٹیٹ کاپی بھی عنایت فرمائی.مرحوم کے لئے یہ ایک اعزاز ہے اس لئے مولانا موصوف کی کتاب سے ایک اقتباس بھی شامل کیا جا رہا ہے.تحریر فرماتے ہیں." کچھ عرصہ بعد قادیان سے مجھے درویش قادیان جناب میاں عبدالرحیم صاحب دیانت سوڈا واٹر ( والد ماجد مولانا عبد الباسط صاحب مبلغ افریقہ) کا حسب ذیل مکتوب موصول ہوا جو دراصل انہوں نے 17 فروری 1973ء کو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان کے نام لکھا تھا اور محترم مرزا وسیم احمد صاحب کی ہدایت پر دفتر خدمت درویشاں کے توسط سے خاکسار کو 12 / مارچ 1973 کو ملا.موصوف نے اس میں تحریر فرمایا تھا کہ :- میں اکثر اوقات اپنے والد صاحب مرحوم حضرت میاں فضل محمد صاحب ( ہر سیاں والے) سے پوچھتا رہتا تھا کہ ابا جی سید مرحوم کی شکل کیسی تھی ؟ کس سے ملتی تھی ؟ اس شکل کا کوئی انسان آپ کی نظر سے گزرا ہے؟ تو آپ نے ایک مرتبہ فرمایا ہاں ان کی شکل کچھ کچھ حضرت میاں غلام محمد صاحب سفیر گلگت سے ملتی تھی.مگر وہ ان سے بھاری اور گورے رنگ کے تھے اس کے بعد میں میاں غلام محمد صاحب مرحوم سے ایک خاص عقیدت سے ملتا تھا.وہ بھی مجھ سے محبت کرتے اور بسا اوقات اپنے کاموں میں مجھ سے مشورہ بھی لیتے.ایک دن 1973-6-7 کو میں اپنے دفتر زائرین قادیان میں بیٹھا تھا.کہ حضرت مولوی 252
زنده درخت عبدالواحد صاحب فاضل کشمیری اپنے ہاتھ میں تاریخ احمدیت کی تیسری جلد لے کر آئے اور وہاں موجود دوستوں کو (جو کہ خواجہ عبدالستار صاحب بھائی الہ دین صاحب اور مرزا محمد اسحق صاحب تھے ) دکھائی اور بتایا کہ اس میں لاہور میں رفقاء کا ایک گروپ فوٹو ہے.میں چونکا کیونکہ میں نے اپنی تحقیق کے دوران یہ بھی سنا ہوا تھا شہید مرحوم کے صاحبزادگان سے کہ ابا جی کا فوٹولا ہور میں کھینچا گیا تھا جواب ملتا نہیں.اور یہ بات میرے والد صاحب نے بھی بتائی تھی اور میں نے دفتر میں موجود دوستوں سے کہا کہ اس میں تو پھر مولوی صاحب شہید کا بھی فوٹو ہوگا.میں نے اٹھ کر دیکھا تو فوری طور پر بے ساختہ میں نے ذہنی شنیدہ فوٹو پر اپنی انگلی رکھ دی کہ یہ حضرت مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم شہید کا ہے.پھر جب نیچے لکھی ہوئی لسٹ پڑھی تو میرا کہنا درست ہوا.گو یا اب میں یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ مندرج فوٹو مرحوم کا ہی ہے اور آپ کی بہو کی شناخت کی روایت جو فوٹو مندرجہ کے متعلق ہے صحیح ہے.جن دوستوں نے مکرم غلام محمد صاحب کو دیکھا ہے.وہ میری اس بات کی تائید کریں گے.والسلام عبدالرحیم درویش نمبر 72 قادیان“ یادر ہے کہ حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے قدیم رفقاء میں سے تھے جنہوں نے 20 جنوری 1892 کو شرف بیعت حاصل کیا تھا (رجسٹر بیعت اولی) اسی طرح حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے کی بیعت دسمبر 1896ء کی ہے.جنوری 1903ء کے مشہور سفر جہلم میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور حضرت شہید مرحوم کے ہمرکاب جو مخلصین تھے ان میں حضرت میاں فضل محمد صاحب بھی تھے.اور اخبار البدر 23 تا 30 جنوری 1903ء میں ان کا نام موجود ہے.اس اعتبار سے مندرجہ بالا بیان کی اہمیت اور ثقاہت بہت بڑھ جاتی ہے.“ عجیب لطف کی بات ہے کہ محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی زبان سے تصویر کی 253
زنده درخت شناخت کی تفصیل سننے کے بعد بہشتی مقبرہ دعا کے لئے گئی تو حضرت دادا جان میاں فضل محمد صاحب کی قبر کے بالکل پیچھے حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب ملکتی کی قبر نظر آئی.دونوں کے لیے دعا کا موقع ملا.31- ایک درویش کی کہانی تحریر مکرم مولاناعبدالباسط صاحب درویش کی کہانی شروع کرتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ یہ کہانی کہاں سے شروع کروں کیونکه در ویشی تو ایک جذب وسرور کا نام ہے.کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر سب کچھ چھوڑ دینے کا نام ہے جس طرح ہر زمانے میں سچائی کی خاطر جان قربان کر دینے والے گم نام سپاہی اور قوم کے خادم ہوتے ہیں کہ وہ کسی غرض ، نام و نمود، اجر و ثواب کے لئے نہیں بلکہ محض رضاء الہی کے لئے اپنے حال میں مست مخلوق خدا تعالیٰ کے عیال کی خدمت میں مصروف و مستغرق رہتے ہیں.میں جس درویش کی کہانی لکھ رہا ہوں یہ ایک طرح سے ایک دور یا ایک ادارہ کی کہانی ہے.جب نہایت مخدوش اور خطرناک حالات میں تقسیم ملک کے خون آشام فسادات میں ایک جماعت نے دین کو دنیا پر مقدم کرتے ہوئے یا یوں کہہ لیں کہ موت کو زندگی پر ترجیح دیتے ہوئے بہت نزدیک سے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خوب سوچ سمجھ کر اور شرح صدر سے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے بلند مقصد کی خاطرموت قبول کرنے کے لئے تیار ہیں.درویش کی زندگی کی ابتدا بظاہر درویشانہ تو نہ تھی لیکن گہری نظر سے دیکھا جائے تو درویشی کی جھلک وہاں بھی ضرور نظر آئے گی.ابتدائی تعلیم میں بہت اچھے شاگرد سمجھے گئے.جماعت چہارم میں وظیفہ کے امتحان کے لئے منتخب ہوئے.امتحان کی خوب تیاری تھی.ایک بزرگ 254
زنده درخت استاد نے جائزہ لیا تو اس بات پر حیران ہو گیا کہ بچہ بڑے بڑے سوال آسانی سے زبانی ہی حل کرتا جارہا ہے.استاد صاحب نے شاگرد کو اپنی خوشنودی سے نوازتے ہوئے بازار سے تمبا کو خرید کر لانے کی خدمت تفویض کر دی.اس خدمت کے دوران امتحان کا وقت نکل گیا یا یوں کہہ لیں کہ قدرت نے لائن تبدیل کر دی.مدرسہ احمدیہ میں داخلہ لیا.حضرت مولانا ابوالعطاء کے ساتھ جگہ ملی.ایک بزرگ استاد کلاس میں داخل ہوتے ہی پیار و محبت کے اظہار کے طور پر پچھلے پیج پر بیٹھے طالب علموں کو ایک ایک ہاتھ رسید کرتے ہوئے آگے نکل جاتے.یہ حسنِ سلوک عجیب لگا.والد صاحب سے ذکر کیا.انہیں اپنے کاروبار میں ایک مددگار کی ضرورت تھی.بڑے بھائی بھی تو مدرسہ احمدیہ میں ہی پڑھ رہے تھے.”بیٹا تم کاروبار میں میری مدد کیا کرو.چھوٹی عمر میں ہی ذمہ داریاں سنبھال لیں.ابھی کاروباری زندگی کا آغاز تھا.کچھ کر گزرنے کا عزم تھا کہ جماعت کے عظیم رہنما نے تحریک فرمائی کہ چھوت چھات کی زنجیروں میں بندھے ہوئے لوگ ہماری اقتصادی حالت کو خراب و ابتر کرتے چلے جارہے ہیں.اس لئے ہمیں چاہیے کہ ہم بھی وہ چیز ہیں جو وہ ہمارے ہاں سے نہیں لیتے ان کے ہاں سے لینا بند کر دیں.اس قوم کی تجارتی اجارہ داری اور اقتصادی برتری کو دیکھتے ہوئے یہ اعلان ایسا انقلابی اور جرات مندانہ تھا کہ ایک دنیا حیران رہ گئی.اس نوجوان نے یہ چیلنج اس طرح قبول کیا کہ اپنے پیارے رہنما کی تجویز کو قابل عمل بنانے اور زیادہ مفید و مؤثر کرنے کے لئے ملائی برف ،سوڈا واٹر اور مٹھائی بنانے کا کام نہ صرف شروع کر دیا بلکہ کئی نوجوانوں کو یہ کام سکھا کر انہیں بھی اس انتہائی مفید سکیم میں شامل کر دیا اور غیروں کی اقتصادی بالا دستی کے مقابل پر ایک نہایت مفید اور دور رس نتائج کی حامل تجویز کا ڈول ڈال دیا گیا.اپنی محنت ذہانت اور استقلال سے کام لیتے ہوئے کاروبار کو اس انداز سے وسعت دی کہ لوگ یہ دیکھ دیکھ کر حیران ہونے لگے کہ چھوٹے اور معمولی کاموں میں بھی اتنا منافع ہوسکتا ہے.ایک مصدقہ دستاویز کے مطابق تقسیم ہند کے وقت درویش کی قادیان میں جائیداد کی قیمت ایک لاکھ روپے سے زیادہ تھی.( یہ اسوقت کی بات ہے جب گندم 5 روپے من اور دیسی گھی ایک 255
زنده درخت روپے سیر ملتا تھا) درویشی کی جھلک یہاں بھی نمایاں طور پر نظر آتی ہے.جب حضور نے وقف جائیداد کا مطالبہ فرمایا تو وہ جائیداد جو موروثی یا پشتنی نہیں تھی بلکہ واقعی طور پر گاڑھے پینے کی کمائی تھی پوری بشاشت کے ساتھ وقف کے لئے پیش کر دی.اس وقت تو یہ جائیداد عملاً اپنے مالکوں کے پاس ہی رہی تاہم اس درویش کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ قادیان میں مستقل رہائش رکھنے کے باوجود جائیداد پر غیروں کا قبضہ ہو گیا اور آپ نے اس جائیداد سے غیروں کو استفادہ کرتے ہوئے دیکھا مگر درویشی کی دولت کو اس جائیداد سے بڑھ کر ہی دیکھا اور سمجھا.یہاں یہ ذکر بھی بے محل نہ ہو گا کہ کاروبار کے عروج کے زمانہ میں بھی کبھی کوئی سال ایسا نہ گزرا جب سال میں ایک ماہ وقف عارضی کی سعادت حاصل نہ کی ہو.(اس قربانی کا اندازہ دکاندار اور کاروباری لوگ ہی پوری طرح کر سکتے ہیں) شاید اسی وقف عارضی کی برکت تھی کہ تقسیم ملک کے وقت جب قادیان میں دھونی رمانے والے خوش قسمت افراد، درویش کے قابل فخر لقب سے پکارے گئے تو شرح صدر سے اس قربانی کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا.بیوی بچے پاکستان اس حال میں آئے کہ نہ تو ان کے پاس کوئی سامان تھا اور نہ کوئی قریبی رشتہ دارتا ہم بڑے پُر وقار طریق پر نا مساعد و نا موافق حالات میں ساری ذمہ داریاں ادا کیں.ہمارا درویش جو ایک وفاشعار خاوند اور جان نثار باپ تھا اس کے متعلق اس مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کی جاوے تو یہ ایک مضمون نہیں کتاب بن جاوے گی.لہذا صرف ایک ایک بات اختصار سے بیان کرتا ہوں.درویش کی شادی کے چند دنوں بعد ہی اس کی دلہن شدید بیمار ہوگئی.علاج معالجہ سے بہتری کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی.خاوند نے دوا ، دار و اور تیمارداری کا حق اس طرح ادا کیا کہ بعض قریبیوں کو خود اس کی اپنی صحت اور جان کے متعلق فکر ہونے لگا.اخلاص اور نیکی کی گود میں پرورش پانے والی خاتون نے شدید بیماری اور مایوسی کے عالم میں جب بھی آنکھ کھولی اپنے خاوند کو خدمت کے لئے مستعد اور ہشیار پایا.ایسے ہی ایک موقع پر مریضہ نے فرمائش کی کہ اسے بیت اقصیٰ کے اس کنوئیں کا پانی پلایا جائے جو حضرت مسیح موعود استعمال 256
زنده درخت کیا کرتے تھے.عقیدت و محبت کے عالم میں یہ پانی آب شفا بن گیا اور اللہ تعالیٰ نے نئی زندگی عطا فرمائی اور پھر ۵۰ سال سے زیادہ قابل رشک رفاقت رہی جس میں آدھے سے زیادہ وقت درویشی کی وجہ سے بظاہر الگ الگ گزرا مگر باہم افہام و تفہیم اور عقیدت واحترام کا یہ عالم تھا کہ جدائی جدائی نہیں بلکہ قرب و وصال کے لئے باعث رشک بن گئی.بچوں سے محبت کی بے شمار مثالوں میں سے صرف یہی مثال کافی ہوگی کہ جب ایک بچہ ٹائیفائڈ بخار سے بیمار ہو گیا اور بیماری کی شدت کی وجہ سے بچے کو ہسپتال میں داخل کروانا پڑا تو اس کی تیمار داری اور علاج معالجہ میں انہماک کی وجہ سے سارا کاروبار بند ہو گیا.ہر دوسرے دن ایک بکرا صدقہ دیا جاتا رہا.دعائیں ہوتی رہیں اور شافی مطلق نے بچے کو شفا عطا فرمائی اور درویش کی زندگی معمول پر آئی.اتنے پیار کرنے والے خاوند و باپ کو درویشی کی سعادت نظر آئی تو ایسی کوئی محبت اس کا راستہ نہ روک سکی.زمانہ درویشی میں ایک عرصہ تک جماعت کی طرف سے کوئی مدد حاصل نہ کی.کاروبار کے معاملہ میں ذہن بہت رسا تھا.جو کام کیا اس میں انہماک اور محنت کی وجہ سے کمال حاصل کیا اور یہ بھی کہ جس کام کی طرف توجہ کی اسے بغیر کسی باقاعدہ استاد کے خود ہی سیکھا اور پھر اس میں نئی نئی راہیں نکالیں.یہ ذکر ہو چکا ہے کہ آپ کو باقاعدہ تحصیل علم کا موقع تو نہ مل سکا تھا مگر طبیعت میں علمی رجحان و ذوق بدرجہ اتم تھا.جلسوں ، مباحثوں میں بڑی رغبت سے شامل ہوتے.کچھ نہ کچھ پڑھتے بھی رہتے اور اس طرح معلومات کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع کر لیا تھا اور قدرت نے اسے استعمال کرنے کا خوب ملکہ عطا فر مایا تھا.گفتگو مؤثر دلچسپ، برجستہ ہوتی جو برمحل مثالوں واقعات اور حوالوں سے مزین ہوتی.قادیان کی پرانی باتیں، احمدی بزرگوں کے حالات و واقعات بیان کرتے اور سماں باندھ دیتے.علمی ذوق و شوق کی وجہ سے دور دور جا کر قیمتی نایاب کتابیں خرید کر جمع کرتے گئے.اس شوق میں جلد بندی بھی خود ہی کرنے لگے.ایک دفعہ ان کا ایک بیٹا جو مولوی فاضل ہونے کی وجہ سے پڑھا لکھا سمجھا جاسکتا تھا ان سے ملنے قادیان گیا ہوا تھا اس نے دیکھا کہ 257
زنده درخت رہائش گاہ میں شیلف بنا کر ہزاروں کتابیں چن رکھی ہیں.ہر کتاب کی حسب ضرورت سلائی ، جزو بندی یا جلد وغیرہ بھی اپنے ہاتھ سے کی ہوئی ہے.اس نے کہا کہ ابا جان ، آپ نے یہ بہت بڑی ذمہ داری از خود اپنے اوپر ڈال رکھی ہے.اس کا آپ کی صحت پر برا اثر پڑتا ہو گا اور پھر یہ کوئی منتخب کتابیں بھی نہیں ہیں آخری بات کا پہلے جواب دیتے ہوئے بڑے اعتماد اور وثوق سے کہنے لگے کہ بیٹا ایک ہزار سے زیادہ کتا بیں یہاں رکھی ہیں.آپ ان میں کسی ایک کتاب کی نشان دہی کریں جو ہمارے علم کلام میں مفید نہ ہو یا جس میں کوئی غیر معمولی علمی اور دلچپسی کی بات نہ ہو اور حقیقت بھی یہی تھی کہ آپ نے قریباً ہر کتاب پر نشان لگائے ہوئے تھے.یا شروع میں نوٹ دئے ہوئے تھے جن سے ان سب کی افادیت ، خصوصیت پہلی نظر میں سامنے آجاتی تھی.علم کے شوق کی بات چل رہی ہے تو یہاں یہ بات بھی بے محل نہ ہوگی کہ آپ ہمیشہ ہی کسی بزرگ کی یہ بات کیا کرتے تھے کہ وہ کسی لمبے سفر پر جاتے ہوئے اپنی بیوی کے پاس اشرفیوں کی ایک تھیلی چھوڑ گئے.برس ہا برس کے بعد واپسی ہوئی.اپنی بیوی سے اور باتوں کے علاوہ اپنی اس رقم کے متعلق بھی پوچھا.اس نے کہا کہ جلدی کیا ہے.میں سب کچھ آپ کو بتادوں گی.وہ بزرگ نماز پڑھنے گئے تو دیکھا کہ نماز کے بعد ایک نوجوان نے درس دینا شروع کیا اور بہت بڑی تعداد میں لوگ بڑی توجہ اور عقیدت سے اس سے استفادہ کر رہے ہیں.گھر واپس آکر اپنی بیوی سے ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ درس دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا بیٹا ہے جسے میں نے دینی علوم سے آراستہ کرنے کی ہر کوشش کی ہے اور خدا کا فضل ہے کہ وہ نو عمری میں پختہ کار عالم بن چکا ہے.اب آپ یہ بتائیں کہ آپ اپنے لئے یہ بات زیادہ پسند کرتے ہیں یا وہ رقم زیادہ پسند کرتے ہیں جو میرے پاس چھوڑ گئے تھے.یہ بات سنا کر بڑے کیف کے عالم میں کہا کرتے تھے کہ اس شخص نے تو اپنی بیوی کو سرمایہ دیا ہوا تھا مگر میں نے اپنی بیوی کو خالی ہاتھ بچوں کے ہمراہ پاکستان بھجوا دیا تھا اور اس نے میرے سب بچوں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا.258
زنده درخت ایک اور بات یاد آ رہی ہے جور بوہ کے ایک بزرگ نے کئی دفعہ سنائی کہ ایک دفعہ بھائی جی اپنے ایک بچے کو ہمراہ لے کر میری دکان پر آئے اور اسے ایک جو تا خرید کر دیا.میں نے ان سے کہا کہ بھائی جی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت کچھ دے رکھا ہے مگر آپ نے یہ ستا جوتا خرید کیا ہے.کہنے لگے کہ یہ ٹھیک ہے کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے مگر میں نے اس بچے کی زندگی وقف کی ہے اسے سادگی کی عادت ہونی چاہیے.ان کی نیک نیت کی برکت سے اس بیٹے کو کئی ممالک میں خدمت دین کی توفیق ملی.زمانہ درویشی میں آپ کی اہلیہ پانچ بچیاں اور تین بیٹے ( تیسرا بیٹا تقسیم ملک کے بعد پاکستان میں پیدا ہوا.درویش نے اس بچے کو درویشی کا انعام سمجھا اور ہمیشہ اس کے ساتھ انعام لکھتے اور اسی نام سے پکارتے ) تو یہ نو افراد تھے.باقاعدہ ذریعہ آمدن نہ ہونے کے برابر تھا.آپ کی بیوی کےایک بہت پرانے خط کے مطابق ایک وقت ان نو افراد کی با قاعدہ آمدنی وہ پندرہ روپے ماہوار تھی جو ان کے ایک لڑکے کو جماعت کی طرف سے ملتے تھے.اس ضمن میں بے شمار واقعات بیان ہو سکتے ہیں لیکن خدائے ستار نے جس طرح اپنے فضلِ بے پایاں سے نوازا اور عزت و وقار عطا فرمایا اس کے پیش نظر ان واقعات کی تفصیل مناسب معلوم نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب بچے معاشرہ میں وقار کی نظروں سے دیکھے گئے.بچوں کی شادیاں اپنے وقت پر بڑی سادگی مگر پر وقار طریق پر ہوتی گئیں اور خدا تعالیٰ نے بیٹیوں کو بھی ہر نعمت و برکت سے نوازا.259
زنده درخت 32 میرے دعا کرنے والے ابا جان تحریر: امتہ الحميد ظافر صاحب 邀 میرے پیارے ابا جان کا نام اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے پہلے ایک خواب میں عبد الغنی رکھا تھا.آپ واقعی اس نام کے مصداق نکلے اور اللہ تعالیٰ کے احسان سے ساری عمر غناء کا پہلو بہت نمایاں رہا.کبھی بھی مالی تنگی نہ دیکھی.آپ نے ہر ہنر اور مال کو دوسروں کی مدد کے لئے کھلے دل سے استعمال کیا.ان کے غناء کے حوالے سے میرے شوہر محترم عبدالسلام ظافر صاحب نے بتایا کہ ایک دفعه مکرم مستری اللہ دتہ صاحب درویش قادیان آئے ہوئے تھے ان سے اوکاڑہ میں ملاقات ہوئی.ان سے ابا جان کی خیریت کے بارے میں پوچھا تو بے ساختہ کہا آپ بھائی عبدالرحیم صاحب دیانت کے بارے میں کبھی بھی فکر مند نہ ہوا کریں.ماشاء اللہ خوش وخرم چاق و چوبند ہر کام کے لئے تیار اور کمر بستہ رہتے ہیں.ہرفن مولا ہیں.مخلوق خدا کا بہت بھلا چاہتے تھے.کئی لوگوں کو قادیان لا کر کچھ عرصہ اپنے پاس رکھتے اور چھوٹا موٹا ہنر سکھا کر کچھ سامان دے کر جگہ وغیرہ کا انتظام بھی کر دیتے تا کہ وہ اپنا کاروبار شروع کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں.ان دنوں کے جامعہ احمدیہ کے طلباء آج ابا جان مرحوم کا ذکر بہت اچھے رنگ میں کرتے ہیں اور یاد بھی کرتے ہیں کہ آپ فلاں وقت میں کام آئے تھے.کئی بچیوں کی شادیاں رشتے طے کرنے کے بعد اپنے خرچ پر کروائیں.کئی نادار مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی مددفرماتے تھے.غرباء یتامی و مساکین کی دلجوئی اور خبر گیری بھی کرتے تھے.دار الشیوخ میں مقیم طلبہ کی فرمائش پر ان کی من پسند کے کھانے گاہے گاہے پکوا کر بھجوایا کرتے تھے.260
زنده درخت ما شاء اللہ آپ بہت علم دوست تھے.دینی مجالس میں شامل ہوتے بچوں کو بھی اکثر ہمراہ لے کے جاتے.مشاعرے بھی باقاعدہ دلچسپی سے سنتے.اشعار کی گہرائی تک پہنچتے اور دل کھول کر داد دیتے.علماء سلسلہ کی دل سے قدر کرتے.حصول تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھتے تھے.طالب علم کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے تھے اپنے دو بیٹوں عبدالمجید نیاز اور عبدالباسط شاہد کو خدمت دین کے لئے وقف کیا ہوا تھا.خود بھی ہر سال خدمت دین کے لئے کچھ ایام وقف کر کے کاروبار بند کر کے باہر جایا کرتے تھے.آپ کا وقف کر کے کشمیر دعوت الی اللہ کے لئے جانا مجھے خوب یاد ہے کیونکہ وہاں سے اکثر ہمارے لئے اعلیٰ قسم کے پھل و دیگر تحائف، ہاتھی دانت کے بنے ہوئے زیورات اور عطریات وغیرہ لے کر آیا کرتے تھے.ہمیں بہت نغم و ناز سے پالا.اعلیٰ سے اعلیٰ چیز میتر تھی.مرکز احمدیت قادیان میں ہم سب کے لئے پلاٹ خریدے ہوئے تھے تا کہ بچے مرکز میں رہ کر دینی ماحول میں زندگی گزاریں اپنی ساری اولا دکو دینی و دنیاوی نعماء سے مالا مال رکھنے کی خواہش تھی.سب سے قیمتی تحفہ جو ہماری نسلوں میں بھی عزت کی نگاہوں سے دیکھا جائے گا اور اس سے برکت حاصل کی جائے گی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے سیٹ اور ان کے تبرکات اور ان کے دستخطوں والی کتب ہیں.اللہ تعالیٰ میرے والدین کو غریق رحمت فرمائے.آمین.261
زنده درخت -33- میرا بچپن جہاں گزرا...تحریر محترم امتة الشكورات متة الشكور ارشد صا تقسیم برصغیر کے وقت خاکسار صرف تین سال کی تھی محترمہ آپا لطیف صاحبہ کا2 نومبر 1947 کا لکھا ہوا ایک خط تاریخ احمدیت جلد گیارہ صفحہ 142 پر محفوظ ہے لکھتی ہیں :- ” جب کنوائے قادیان سے آتے ہیں تو نہایت مضطر بانہ حالت ہو جاتی ہے جب تک ہم کو قادیان نہ ملے ہمارے لئے دنیا اندھیر ہے باوجود فراخ ہونے کے تنگ ہے.جلد اللہ تعالیٰ کسی قربانی کو نواز دے اور ہماری مشکلات حل ہوں امتہ الشکور کو یہ گھر اپنا معلوم نہیں ہوتا ہر وقت روتی رہتی ہے.آپ کو اتنا یاد نہیں کرتی جتنا قادیان کو.“ امی جان بتاتی تھیں کہ جب بارڈر پر ملاقات ہوئی تو تم ابا جان سے کہتی تھیں کہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں میں تنگ نہیں کروں گی آپ کا ہر کہنا مانوں گی.اب خیال آتا ہے کہ پیارے ابا جان میری اس طرح کی باتوں سے کس قدر تڑپے ہوں گے.ہم احاطہ مستورات میں رہتے تھے دروازہ کھٹکتا تو میں اور میرا منا بھائی سلام بھاگ کر جاتے.ایک دن بھائی نے پوچھا سب کے ابا جان آتے ہیں ہمارے کیوں نہیں آتے تو میں نے سمجھایا کہ ہمارے اباجان درویش ہیں.درویش کسے کہتے ہیں.ننھے بھائی نے پوچھا اس وقت تک جو میں سمجھ سکی تھی اُس کے مطابق اس کو جواب دیا درویش اپنے بچوں کو پاکستان بھیج دیتے ہیں خود قادیان کی حفاظت کرتے ہیں.مجھے ابا جان کا پہلی دفعہ پاکستان آکر ہمیں مانا بھی یاد ہے.لگتا تھا کہ ساری دعائیں قبول ہوگئیں اللہ تعالیٰ سے کچھ اور مانگنے کو باقی نہیں بچا پھر ابا جان کبھی کبھی ربوہ آنے لگے یہ دن 262
زنده درخت ہمارے لئے بے حد خوشگوار ہوتے ہم سب بہن بھائی ابا جان کے ارد گرد ہوتے آپ مختلف دلچسپ واقعات تاریخ احمدیت سے اور اپنے تجربات سے سناتے.ہمارے سبق سنتے ساتھ ساتھ الفاظ درست کرواتے جاتے.محاورے اور مشکل الفاظ کی وضاحت کرتے.میرے قادیان کے چھوٹے سے واقعہ کا بہت لطف لے کر ذکر فرماتے.کہ جب میں دکان کے لئے گھر سے نکلنے لگتا تو تم دونوں ہاتھ پاؤں پھیلا کر دروازے میں راستہ روک کر کھڑی ہو جاتیں کہ میں آپ کو راستہ نہیں دوں گی.یہ بات قادیان میں ابا جان کو بہت دفعہ یاد آتی تھی.ابا جان کو ہماری تربیت کا از حد خیال رہتا مجھے سمجھایا کہ ماں کی آنکھ سے کبھی اوجھل نہ ہونا.چند منٹ کا بھی ضروری کام ہو تو بتا کر سلام کر کے جانا ہے.آپ کی امی کو علم ہونا چاہئے کہ آپ کہاں ہیں اس طرح سلام کرنے کی اس قدر تاکید تھی کہ ہمیں کمرے سے صحن میں جاتے ہوئے بھی سلام کی عادت ہو گئی تھی.پردے کے متعلق بتایا کہ گھر کے اندر سے نقاب ڈال کر نکلنا ہے اور اسکول و کالج کے دروازے کے اندر جا کر اُٹھانا ہے.ایک دفعہ نادانی میں ابا جان سے پوچھ بیٹھی کہ جب میں پیدا ہوئی تو آپ کی چار بیٹیاں پہلے سے تھیں آپ کو یہ خیال آیا تھا کہ لڑکا ہوتا تو اچھا ہوتا.اباجان نے مجھے غور سے دیکھا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ غلطی ہو گئی ہے پھر اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا آپ کو یہ خیال کیسے آیا ہمارے رویہ سے یا کسی نے کچھ کہا ہے؟ ہم تو مٹھائی بانٹتے تھے جیسے بیٹا پیدا ہونے پر اور عقیقہ بھی دو بکروں کا کرتے تھے.میرا نام بھی ایک تاریخی یادگار ہے.جس خواب کی بنیاد پر حضرت مصلح موعود نے دعوی کیا تھا اس میں عبدالشکور کا ذکر تھا ان دنوں ایک جرمن نے احمدیت قبول کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے عبدالشکور نام رکھا کنزے ان کا پہلا نام تھا.اس وقت خاکسار کا نام رکھایا گیا جو حضور نے امتہ الشکور رکھا.1975ء میں افریقہ سے پاکستان آئی تو امی جان میری بہن امتہ الباری ناصر کے ہاں مقیم تھیں کراچی سے فیصل آباد کا سفر امی جان کو ساتھ لے کر By Air کیا.یہ امی جان کا پہلا اور آخری ہوائی سفر تھا کہنے لگیں اپنے ابا جان کو لکھنا وہ بہت خوش ہوں گے کیونکہ وہ کہا 263
زنده درخت کرتے تھے کہ ہوائی سفر کرواؤں گا اُن کی خواہش چھوٹی بیٹی نے پوری کر دی.بعد میں باجی باری نے بتایا کہ امی کہ رہی تھیں جی چاہتا ہے اُڑ کر ربوہ پہنچ جاؤں سو تم نے اُڑ کر ربوہ پہنچنے کے سامان کر دیئے.شادی کے بعد افریقہ میں سیرالیون اور نائیجریا رہنے کا موقع ملا.1978ء میں مجھے نائیجریا سے ربوہ واپس آنا پڑا ان دنوں مجھے بلڈ پریشر کی تکلیف تھی.ڈاکٹر صاحب کا خیال تھا کہ اب مجھے ایک گولی روزانہ کھانی پڑے گی.ابا جان بغرض علاج ربوہ آئے ہوئے تھے میں ابا جان سے ملنے گئی ہوئی تھی.بڑے بھائی عبدالمجید نیاز بھی وہاں موجود تھے.بھائی جان نے میری شکایت ابا جان کو لگائی کہ دیکھیں ابا جان ہماری چھوٹی بہن ہے اور بیماری کیسی لگائی ہے؟ ابا جان نے پوچھا کیا ہے اسے؟ ابا جان کا چہرہ دیوار کی طرف تھا ہم دوسری طرف چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے.بھائی جان نے جواب دیا بلڈ پریشر، ابا جان نے آہستہ سے کروٹ بدلی.میری طرف دیکھا اور کہا تو کل کی کمی ہے.پھر توقف کے بعد کہا یہ بیماری ہوتی ہی ایسے لوگوں میں ہے جن میں تو کل کی کمی ہو.یہ چاہتی ہے کہ ساس سسر میری مرضی کے تابع ہوں.نند بھاوج میری مرضی کی بات کریں بچے میرے اشاروں پر چلیں.یہ بات غلط ہے سب کچھ اس کی مرضی اور پسند سے کیسے ہو سکتا ہے؟ سب کو اللہ تعالیٰ نے علیحدہ علیحدہ دماغ دیئے ہیں.ہر ایک کی سوچ اور دماغ مختلف ہوتا ہے.پھر تھوڑ اسانس لے کر میری طرف دیکھ کر کہا.تم اپنے آپ کو بدلو، اور عہد کرو کہ کوئی کچھ بھی کرے مجھے سب کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ سے جزالینی ہے.میری آنکھیں جھک گئیں اور شرمندہ ہی ہو کر ابا جان سے وعدہ کیا کہ میں انشاء اللہ سب کی خدمت کر کے اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی کوشش کروں گی.یہ فقرہ کہنے کو تو میں نے کہہ دیا.لیکن جب اس پر عمل کرنے کا وقت آیا تو بہت مشکل لگا.روزانہ رات کو سونے سے قبل میں اپنا محاسبہ کرتی.دل و دماغ کو صاف کرتی اور اگلے روز کے لئے لائحہ عمل تیار کر کے اپنا قبلہ درست کر کے سوتی اور سارا دن کوشش کرتی کہ مجھے 264
زنده درخت غصہ نہ آئے.لیکن اصلاح اتنی جلدی تو نہیں ہوتی مجھے اپنا محاسبہ اور دعائیں کرنے کا خاص موقع ملا.یوں تقریبا چھ سات ماہ بعد مجھے خود میں تبدیلی محسوس ہوئی الحمد للہ.ڈاکٹر کی طرف سے جو دوائی تجویز کی گئی تھی وہ بھی چھوڑ دی تھی.اپنی خوراک اور مزاج کا خیال رکھتی.اپنی زندگی خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دی اور عہد کیا کہ مجھے جماعت کی طرف سے جو بھی کام ملے گا تہہ دل سے کروں گی اور جز اصرف اور صرف خدا تعالیٰ سے طلب کروں گی.تربیت کا ی انداز ابا جان کا ایسا تحفہ ہے جو زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا اور میں ہر آن اُن کو دعاؤں کے تحفے بھیجتی رہوں گی.انشاء اللہ العزیز.34- وہ پھول جو مرجھا گئے محترم بدرالدین عامل صاحب اپنی کتاب وہ پھول جو مرجھا گئے، حصہ دوم میں لکھتے ہیں کہ 1942ء میں پہلی دفعہ وہ میاں عبدالرحیم صاحب کے ساتھ تبلیغی ٹرپ پر گورداسپور کے پاس ایک گاؤں میں گئے تھے اور اُن کی پر لطف گفتگو سے اس قدر محظوظ ہوئے تھے کہ اگلے سال بھی آپ کی معیت میں یوم ( دعوت الی اللہ ) منا نے گھوڑے واہ گئے.” لہرائے سے ہوتے ہوئے طغلوالہ پہنچے وہاں پر ایک غیر احمدی مولوی مسجد میں امامت کے فرائض کے ساتھ ساتھ فارغ وقت میں کفش دوزی کا شغل فرماتے تھے.رستہ میں بڑے درخت کے نیچےمل گئے.انہوں نے ہمیں دیکھ کر کہا کہ آ گیا لوگوں کو گمراہ کرنے کا دن (یوم دعوت الی اللہ پر اس قسم کے آوازے احمدیوں پر غیر احمدی افراد کی طرف سے کسے جاتے تھے.) وہیں پر ان سے صداقت حضرت مسیح موعود پر گفتگو کا آغاز ہوا.اور جیسا 265
زنده درخت کہ معمول تھابات گھوم پھر کر حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات پر آکر ٹھہرتی یہ بیچارہ مولوی جس نے محض طنز کے طور پر آوازہ کسا تھا وہ بھلا کس طرح اس نبرد آزمائی میں ثابت قدم رہتا تھوڑی دیر بعد نماز ظہر کا وقت ہو گیا تو وہ نماز پڑھانے چلا گیا.فارغ ہو کر گھر میں جا گھسا.وہاں یہ گفتگو سنے طغلوالہ کے سکھ دوست بھی جمع تھے.وہ بھی انتظار میں تھے کہ مولوی نماز پڑھ کر آئے تو آگے بات چلے.جب غیر معمولی دیر ہوئی تو ان میں سے چند ایک اس کو گھر سے بلا کر لائے وہ آیا تو اس حال میں کہ ایک سکھ دوست نے اس کو بازو سے تھام رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں آر ہوئی اور وہ جوتی جو اس کے پاس زیر تیاری تھی پکڑی ہوئی تھی.وہ عذر کرتا کہ میں نے کام دینا ہے میں نے وعدہ کیا ہوا ہے.مجھے فرصت نہیں ہے وغیرہ.مگر وہ دوست مانتے نہیں تھے.اور اس کو ہماری باتوں کا جواب دینے پر اُکساتے تھے.مگر اس کے پاس جواب ہو تو وہ ٹھہرے وہ پھر غذر کرتا اُٹھنا چاہتا مگر وہ پکڑ کر بٹھا لیتے.ایک سکھ معمر دوست نے اس کو کہا کہ تم جو جو تا بنارہے ہو.اگر اس کو آج مکمل بھی کر لو تو پھر بھی مشکل سے تم اس کی فروخت سے سات آٹھ آنے کما پاؤ گے.لو میں تمہیں ایک روپیہ دیتا ہوں.اب تمہیں عذر نہیں ہونا چاہئے.ایک روپیہ پا کر بھی وہ بحث جاری رکھنے پر آمادہ نہ ہوا.بھائی عبدالرحیم صاحب ) بڑے طباع اور ذہین تھے.دکان کے سامنے دلچسپ اور جاذب نظر بورڈ لکھ کر آویزاں رکھا کرتے اپنی بنائی ہوئی مٹھائیوں کی تعریف میں بورڈ لکھتے جس میں آپ کو ایک خاص ملکہ حاصل تھا.اس جدت طرازی سے کام اچھا چل نکلا.تلاش و جستجو آپ کی طبیعت کا خاصہ تھا.کئی کام کئے اور ہر کام کو کرتے ہوئے ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں ع مد نظر رہا.بظاہر معمولی کئی اہم کام کئے مگر ان کی تہہ میں جا کر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ روپیہ اُن پر عاشق تھا.اس قدر معمولی کاموں سے تقسیم ملک کے وقت وہ کم و بیش دو لاکھ روپے کی جائیداد کے مالک تھے.“ (صفحه 100 تا 102) 266
زنده درخت 35- ہمارے پیارے خالو عبد الرحیم دیانت صاحب تحریر: حبیب احمد طارق- ادیان اپنے والدین سے خالو جان کے سارے خاندان سے حسن سلوک کا بہت ذکر سنا ہوا ہے.تقسیم کے بعد ہمارے خاندان میں سے جن افراد کو قادیان دارالامان میں رہنے کی سعادت ملی اُن میں میرے خالو جان.میرے والد صاحب محترم بشیر احمد صاحب بانگروی اور میرے والدین کے ماموں محترم میاں احمد دین صاحب تھے.میرے والدین نے ہمیں بزرگوں کی عزت کا درس دیا.خالو جان ( جو دراصل میرے والدین کے خالو جان تھے جن سے سن کر ہم بھی خالو جان ہی کہا کرتے تھے ) گھر کے ایک فرد کی حیثیت سے گھر میں آتے جاتے تھے.ہر بیماری ، دکھ، خوشی غمی کے موقع پر آپ سے مشورہ کیا جاتا.بہن بھائیوں کے رشتے بھی آپ کے مشورہ سے ہوتے.میں اور میری چھوٹی بہن جب بھی آپ کے پاس جاتے تو پیار بھری نصیحتیں فرماتے.کچھ نہ کچھ کھانے کو دیتے.آپ نے ایک شہتوت کا درخت لگایا ہوا تھا.اُس کا پھل ہمارے لئے سنبھال کر رکھتے ایک دفعہ مجھ سے کوئی دعاسنی جو مجھے اچھی طرح یاد نہ تھی پیار سے وہ دعا مجھے یاد کروائی.میں چھوٹا تھا امی جان کے ساتھ اکثر اُن کے پاس چلا جا تا.آپ دیر تک امی جان سے اپنے بچوں کی باتیں کرتے رہتے.میری امی جان کو آپ کی خدمت کا خوب موقع ملا.آپ پاکستان میں فوت ہوئے جب جنازہ قادیان لایا گیا تو میرے ابا جان واہگہ بارڈر پر گاڑی لے کر گئے.ایک فیض رساں محبت کرنے والی شفیق ہستی ہم سے بچھڑ گئی.جن کی تربیت سے ہم نے بزرگوں کا ادب کرنا سیکھا اور اس سے فیض پایا.267
زنده درخت 36- ایک قیمتی تحفہ تحریر محترم شیخ ناصر احمد خالد آج سے تقریباً 45 سال قبل جب میں قادیان گیا بیت الفکر جانے کے لئے حضرت صاحب کے گھر ” الدار‘ میں داخل ہوا تو محترمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ آف کراچی کے والد محترم عبدالرحیم دیانت در ویش فرش کی اینٹیں تبدیل کر رہے تھے مجھے کہنے لگے کہ واپسی پر ایک تبرک لیتے جانا انہوں نے مجھے الدار کے فرش کی اینٹ کا آدھا ٹکڑا دیا.جو ہمارے گھر خالد منزل، ربوہ میں لگا ہوا ہے واپسی پر اٹاری واہگہ بارڈر پر کسٹم انسپکٹر نے میرے بیگ میں کاغذ میں لیٹے ہوئے اس اینٹ کے ٹکڑے کو دیکھا تو طنز یہ کہا.کیا یہ سونے کی اینٹ ہے؟ میں نے جواب دیا: اس سے بھی قیمتی.اس پر اس کی حیرانگی اور بھی بڑھ گئی پھر میں نے اس متبرک اینٹ کی اہمیت سے اسے آگاہ کیا تو حضرت بابا گورو نانک کے اس پیروکار کی آنکھوں میں عقیدت کی ایک خاص چمک اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا ہوئی.268 (الفضل ربوه 2 ستمبر 2004 )
زنده درخت -37 محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اسط شاہد بدالباسط ہماری والدہ کی ابتدائی تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی.ان کی والدہ بہت کم سنی کے عالم میں وفات پاگئی تھیں.اس لئے باوجود علم دوست باپ کی بیٹی ہونے کے ظاہری تعلیم سے محروم ہی رہ گئیں.قادیان کے مقدس ماحول اور علمی ذوق کی برکت سے اماں جی نے کلام اللہ پڑھنا سیکھ لیا.خطبات، درس، لجنہ کے اجلاسوں میں کمال اہتمام و باقاعدگی سے شمولیت کی وجہ سے علم وسیع ہوتا چلا گیا.حرف شناسی اور لگن کی وجہ سے درثمین اور الفضل ہمیشہ ہی زیر مطالعہ رہتا.در ثمین اور کلام محمود کے اشعار کثرت سے زبانی یاد تھے.ہم بہن بھائیوں نے ہی نہیں محلہ کے متعدد بچوں نے اس ان پڑھ خاتون سے علم کا ذوق حاصل کیا.اللہ تعالی کے فضل سے خاکسار کو کچھ عرصہ تنزانیہ ( مشرقی افریقہ ) میں خدمت دین کی سعادت حاصل ہوئی.وہاں ایک پرانی طرز کے معمر ہند و دوست تھے علمی طبیعت رکھنے اور غیر متعصب ہونے کی وجہ سے ہمارے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم تھے ایک دفعہ وہ خاکسار سے پوچھنے لگے کہ آپ کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے دادا جان ایک دکاندار تھے.آپ کے والد صاحب نے اس کاروبار کو مزید وسعت دی اس صورت میں جبکہ آپ کا خاندان دنیا کمانا جانتا اور دنیاوی کشش سے بخوبی واقف تھا آپ اس طریق کو چھوڑ کر خدمت دین کی طرف کس طرح آگئے ؟ خاکسار نے انہیں اس سعادت کے حصول کو فضل الہی کا نتیجہ بتایا اور یہ بھی بتایا کی ظاہری طور پر تو اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی سوائے اس کے کہ میرے بچپن کی سب سے پرانی بلکہ پہلی یاد یہ ہے کہ اماں جی مجھے بہلاتے ،کھلاتے ہوئے کہا کرتی تھیں کہ میرا بچہ دین کی خدمت کرے گا.لوگوں کو راہ حق کی طرف بلائیگا.اس.269
زنده درخت طرح میں کہہ سکتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کا جذ بہ مجھے میری ماں نے اپنے دودھ کے ساتھ پلایا تھا جو میرے رگ و پے میں جاری ہے.اماں جی کی زندگی کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.قادیان کی رہائش کے زمانہ میں خدا تعالی کے فضل سے ہر طرح فراخی تھی.ہر ضرورت اور جذبے کا پوری طرح خیال رکھنے والا شوہر موجود تھا.ایسی فراخی کے زمانہ میں دینی احکام کی کماحقہ تعمیل کرتیں.پردہ اور حیا اگر ایک احمدی عورت کا زیور اور خوبصورتی ہے.تو آپ میں یہ بدرجہ کمال موجود تھا.حقوق العباد کی ادائیگی میں کمال احتیاط و التزام ہوتا.قادیان سلسلہ احمدیہ کا مرکز تو تھا ہی اماں جی کے حسن سلوک کی وجہ سے ہمارے سب رشتہ داروں کا مرکز ہمارا گھر بنا رہتا تھا غریب رشتہ داروں کی مدد کر کے خوش ہوتیں.ابا جان کی طبیعت کو اس طرح سمجھتی تھیں کہ بسا اوقات بات کے لئے بات کہنے یا اشارہ کرنے کی بھی نوبت نہ آتی اور ایک دوسرے کے منشاء کے مطابق عمل ہو جاتا.خدا تعالی کے فضل سے ہم نے ایسے ماحول میں پرورش پائی جس میں میاں بیوی کی باہم ناراضگی، ناخوشی اور جھوٹ وغیرہ کا بالکل کوئی دخل نہیں تھا.قادیان کے زمانہ کی صرف ایک بات اور تحریر کرتا ہوں.ابا جان کو اپنے کاروبار کے سلسلہ میں بٹالہ، امرتسر اکثر جانا پڑتا تھا تحر یک جدید کے اجراء سے پہلے کا زمانہ تھا جب کبھی موقع ملتا سینما بھی چلے جاتے اور اس طرح واپسی میں دیر ہوتی مگر کوئی حل نظر نہیں آتا تھا.ایک جمعہ کے دن یہ پروگرام بنا کہ جمعہ سے واپسی کے بعد امرتسر جانا ہے اور وہاں سے شوق سینما بینی پورا کر کے واپسی ہوگی.اماں جی نے کہا کہ خدا کرے حضور آج کے خطبہ میں سینما جانے پر پابندی لگا دیں.خدا کی قدرت حضور کے خطبہ کا موضوع سادہ زندگی تھا اور سینما بینی کی ناپسندیدگی کا اظہار تھا.اماں جی تو خوش خوش واپس آئیں اور ابا جان کی نظر میں اماں جی کا مقام اور زیادہ بڑھ گیا اور اس کے بعد اس لغویت سے مکمل اجتناب اختیار کیا.اماں جی کی زندگی کا دوسرا دور پاکستان کے قیام کے بعد شروع ہوا.تقسیم ملک کے 270
زنده درخت وقت تو غالب خیال امید اور خواہش یہی تھی کہ جماعتی مسلک و کوشش کے مطابق قادیان پاکستان میں شامل ہو.ابتدائی اعلان تو یہی ہوا مگر بعد میں کسی وجہ سے قادیان ہندوستان میں شامل ہو گیا اور ہمیں بادل نخواستہ قادیان چھوڑنا پڑا.ابا جان کو اللہ تعالیٰ نے درویشی کی سعادت سے نوازا.ہم سات بہن بھائی اماں جی کے ساتھ اس حال میں پاکستان آئے کہ نہ تو ہمارا نھیال ادھر تھا اور نہ ہی ددھیال.ظاہری طور پر کوئی ذریعہ اور سہارا نہیں تھا.یہ ایک لمبی اور پر درد داستان ہے جسے ایک طرف چھوڑتے ہوئے صرف یہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ امی جان کی عمر اس وقت صرف 35 سال تھی.سات بچے ہمراہ تھے، آٹھواں بچہ ہمارا چھوٹا بھائی عبدالسلام طاہر پاکستان آنے کے بعد پیدا ہوا.یہ صورتحال اماں جی کے لئے اتنا بڑا چیلنج تھا کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا، کوئی صاحب دل ہی اس کا احساس کر سکتا ہے.ان حالات میں جب بڑے بھائی جان عبدالمجید نیاز نے پڑھائی چھوڑ کر کوئی کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اماں جی نے بلا تامل اس تجویز کو سختی سے رڈ کر دیا.تو کل اور عزم کی یہ عجیب مثال ہے، بغیر کسی معین و معقول آمدنی کے آپ نے ہر حال میں پڑھائی جاری رکھنے کو ضروری سمجھا ، جماعت کی طرف سے کچھ عرصہ پندرہ روپے ماہوار کی مددضرور لی مگر وہ بھی بوجہ مالی تنگی جاری نہ رہ سکی.مگر تینوں لڑکوں کو ہی نہیں پانچوں لڑکیوں کو بھی پڑھائی کی طرف راغب رکھا.اس جذبہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت ملی.ہم سب بھائی بہنوں کو تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ اپنے اپنے رنگ میں سلسلہ کی خدمت کی توفیق بھی ملی.اماں جی کی قبولیت دعا کے بے شمار واقعات ہیں، بطور مثال عرض ہے کہ ایک دفعہ ہماری ایک بہن نے امتحان کے بعد بتایا کہ میرا ایک پرچہ توقع کے مطابق نہیں ہوا اور اس کے متعلق فکر ہو رہا ہے اماں جی جو معمولاً ہر بچے کے لئے دعا کرتی تھیں زیادہ توجہ سے دعا کرنے لگیں خواب میں انہیں نمبر بتائے گئے مگر انگریزی ہندسوں میں لکھے ہونے کی وجہ سے وہ سمجھ نہ سکیں اور اپنی سجدہ گاہ کے قریب زمین پر انگلی سے ایک ہندسہ کا نشان بنالیا صبح اٹھ کر بتایا کہ شروع کا ہندسہ 3 اس طرح کا تھا، میری بہن کے لئے تو یہ بڑی خوشخبری تھی کہ 271
زنده درخت تین سو سے زائد نمبر حاصل ہوں گے اور خدا تعالی کے فضل سے نتیجہ نکلنے پر پتہ چلا کہ ان کہ نمبر تین سو سے زائد ہی ہیں.جماعت کی طرف سے ملنے والی مدد 15 روپے ایک چھوٹی بہن دفتر سے لے کر آ رہی تھیں، پیسے دوپٹے کے کونے میں باندھے ہوئے تھے، گھر پہنچ کر رقم اماں جی کو دینے لگیں تو چاروں کونے خالی تھے معلوم ہوا کہ بے احتیاطی سے دی گئی گرہ رستہ میں کھل گئی اور رقم ضائع ہو گئی.ظاہر ہے کہ ان حالات میں پندرہ روپے کی قیمت پندرہ سو یا پندرہ ہزار کے برابر تھی.اماں جی کو اس کی ضرور تکلیف ہوئی ہوگی.دعا بھی ضرور کی ہوگی خدا کی قدرت گھر میں رکھے ہوئے چوزوں میں سے ایک وبائی مرض کا شکار ہو کر مر گیا.وہی بہن اسے دبانے کے لئے باہر لے کر گئیں.ایک جگہ ریت کا ڈھیر دیکھ کر چوزہ دبانے کے لئے اسے کھودا تو وہاں پندرہ روپے کی وہی رقم پڑی ہوئی تھی.کسی بچے نے وہاں محفوظ کی تھی یا کیا صورت ہوئی مگر خدا نے اپنی ایک عاجز بندی کی دعا اس طرح منظور فرمائی اور اس کی تکلیف دور کرنے کا غیب سے سامان فرمایا.مذکورہ حالات میں پانچ بیٹیوں کی شادی ایک بہت ہی کٹھن اور مشکل مرحلہ تھا.خدا تعالی کے فضل سے دعاؤں کی برکت سے بڑے وقار اور عمدگی سے اپنے اپنے وقت میں سب کی شادیاں ہو ئیں اور خدا تعالی کے فضل سے اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم زندگی گزار رہی ہیں.سب سے چھوٹی بہن کی شادی کے سلسلہ میں ایک بات یاد آ رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ سب شادیاں کس طرح خدا تعالی کے فضل سے کامیاب ہوئیں.چھوٹے بھائی میٹرک پاس کرنے کے بعد کام کی تلاش میں حیدر آباد چلے گئے.اب گھر میں اماں جی اور سب سے چھوٹی بہن ہی تھیں، اس حالت میں انہیں اس کے جلد رشتہ کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی بتایا کرتی تھیں کہ ایک دن عصر کی نماز میں دعا کر رہی تھیں کہ اے خدا تو نے ہر چیز کا جوڑا بنایا ہے.میری اس بیٹی کا جوڑا بھی تو نے ضرور بنایا ہو گا مگر مجھے تو اس کا کوئی علم نہیں ہے.اے خدا تو اپنے فضل سے اسے میرے گھر بھجوا دے بھی عبادت ختم نہیں 272
زنده درخت ہوئی تھی کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا چھوٹی بہن نے دروازہ کھول کر مہمانوں کو بٹھایا.امی جان عبادت سے فارغ ہو کر مہمانوں کے پاس گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ رشتہ کی تلاش میں آئی ہیں اور یہ کہ انہیں کسی مرکزی عہدیدار نے غالباً استانی میمونہ صوفیہ محترمہ نے مشورہ پوچھنے پر بتایا کہ فلاں گھر میں چلی جاؤ، درویش کی بیوی نے بچیوں کو گلے سے لگا کر ان کی کمائی کا لالچ نہیں کیا اور صحیح عمر میں بچیوں کے رشتے کر دیئے ہیں.امی جان نے سمجھا کہ یہ خدا تعالی کا فضل اور میری دعا کا جواب ہے تاہم آنے والی خاتون کے اصرار پر اگلے روز ان کے ہاں گئیں.واپس آئیں تو دروازہ میں نے کھولا.میری طرف دیکھ کر خوش تو وہ طبعی طور پر ہوئیں.مگر ان کا رد عمل عام خوشی سے کچھ زیادہ تھا میں نے کہا کہ آپ کو میری ربوہ آمد کی خوشی نہیں ہوئی ( ان دنوں خاکسار ملتان میں بطور مربی خدمت بجالا رہا تھا) کہنے لگیں کہ خوشی جیسی خوشی میں ان کے ہاں سے ہو کر آ رہی ہوں.واپسی پر میں سوچ رہی تھی کہ بچی کے ابا جان قادیان ہیں میں گھر میں اکیلی ہوں اس سلسلہ میں کس سے مشورہ کروں گی اور پھر میں نے آتے آتے دعا کی کہ خدا کرے میرے گھر پہنچنے پر دروازہ میرا بیٹا کھولے اور خدا کی شان ہے کہ دروازہ کسی اور نے نہیں بلکہ تم نے ہی کھولا.ایک دفعہ ایک چھوٹی بہن امتہ الباری ناصر نے جولاہور میں زیر تعلیم تھیں لکھا کہ ہوٹل میں کھانا تو برابر ملتا ہے مگر کبھی کبھی پڑھتے ہوئے کچھ کھانے کو جی چاہتا ہے اگر کوئی پنجیری بنا کر بھجوا دیں تو مجھے بڑی سہولت ہو سکتی ہے.یہاں پنجیری کی عیاشی‘ کا بھی سامان نہیں تھا درویش کی بیوی خدا کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی ابھی عبادت سے فارغ نہیں ہوئی تھیں کہ آواز آئی کہ یہ گھی چھوڑے جا رہی ہوں عبادت کے بعد اسے سنبھال لیں“ سلام پھیر کر دیکھا تو گھی کا بھرا ہوا ایک کٹورا تھا اس سے پنجیری تیار کر کے لاہور بھجوا دی.بعد میں پتہ چلا کہ ایک پڑوسن کو دیسی گھی کا تحفہ ملا تھا خدا نے اس کے دل میں ڈالا کہ اس میں سے آدھا اپنی درویش بہن کو دے آؤں.خدائی تائید کے ایسے متعدد واقعات ہمیں بتایا کرتی تھیں مثلاً یہ کہ ایک دفعہ میں اپنے 273
زنده درخت چھوٹے بیٹے کے پاس حیدر آباد گئی.شام کو مجھے یہ خیال آیا کہ ان کے پاس کوئی زائد چار پائی تو نہیں ہے اور سوتے وقت مشکل پیش آئے گی اور بچے میرے آرام کی خاطر خود تکلیف اٹھا ئیں گے کیا ہی اچھا ہو کہ اللہ تعالی غیب سے چار پائی مہیا فرما دے.میں ابھی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ کسی نے باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپکے ہاں مہمان آئے ہیں آپ کو چار پائی کی ضرورت ہوگی یہ چار پائی لے لیں.اس غیبی تائید کا ذریعہ بننے والے فرشتہ سیرت بزرگ مکرم مرزا محمد ادریس صاحب سابق مربی انڈونیشیا اور مرزا محمد اکرم صاحب کے والد محترم مرزا محمد اسماعیل صاحب تھے.جیسا کہ ذکر آچکا ہے 35 سال کی عمر میں اماں جی پاکستان آگئیں میرے والدین جو ایک دوسرے کو دیکھ کر جیتے تھے مسابقت فی الخیرات کے جذبہ سے زندگی حاصل کرنے لگے اگر اماں جی میں ایمان و توکل اور سادگی و صبر کی عادت نہ ہوتی تو ابا جی درویشی کی سعادت ہرگز نباہ نہ پاتے اماں جی نے نہ صرف اکیلے رہنے اور بچوں کی ساری ذمہ داریوں کی با احسن ادائیگی کا چیلنج قبول کیا بلکہ ابا جان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں اور کبھی پریشانی طعن و تشنیع اور کم حوصلگی کا مظاہرہ نہ کیا.قادیان میں قیام کے ایام میں ابا جان ہر سال ایک مہینہ وقف عارضی پر جماعتی انتظام کے تحت جاتے تھے ابا جان کے لئے یہ نیکی بھی اماں جان کے تعاون کے بغیر ممکن نہ ہوتی اور اسی جذبہ نے درویشی کی زیادہ بڑی نیکی کی توفیق عطا فرمائی.خدا تعالی کے فضل سے باہم افہام و تفہیم زندگی کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہی مگر درویشی کی وجہ سے باہم تعلق میں دونوں طرف نقدس و عقیدت کا رنگ آ گیا.ابا جان اکثر یہ بات دہرایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ کسی لمبے سفر پر جاتے ہوئے اشرفیوں کی تحصیلی اپنی بیوی کو امانتاً دے گئے.کئی سالوں کے بعد واپس آ کے ادھر ادھر کی باتوں میں اشرفیوں کا ذکر بھی آیا اس خاتون نے کہا کہ جلدی کیا ہے آپ کو سب کچھ بتاؤں گی پہلے نماز پڑھ آئیں وہ بزرگ بیت میں نماز پڑھنے گئے وہاں ایک نوجوان کو درس دیتے ہوئے دیکھا اور یہ بھی کہ 274
زنده درخت بڑے بڑے لوگ عقیدت و احترام سے اس کے حلقہ درس میں شامل ہیں گھر آ کر اس نوجوان کی تعریف کی اس خاتون نے کہا کہ آپ کی اشرفیاں اس نوجوان کی جو آپ کا بیٹا ہے تعلیم و تربیت پر خرچ ہوئی ہیں.اباجان یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اس خاتون نے ایک بچے کی تعلیم و تربیت کی جبکہ اشرفیوں کی تحصیلی بھی اس کے پاس موجود تھی مگر میری بیوی نے میرے آٹھ بچوں کی تعلیم و تربیت کی جبکہ میں تو اسے کوئی تھیلی بھی نہ دے سکا تھا.اماں جی نے بڑے سخت وقت دیکھے مگر بڑے وقار کے ساتھ ان سے عہدہ برآ ہوئیں، ایک وقت ایسا بھی آیا کہ میری ایک بہن کی بیماری شدت اختیار کر گئی جب ان سے پوچھا گیا کہ اسے دوائی کیوں نہیں دی، ہسپتال سے دوائی دلانے میں صرف دو پیسے کی پرچی بنوانی پڑتی ہے تو پتہ چلا کہ بچی کے علاج کے لئے مامتا دو پیسے بھی مہیا نہیں کر پائی.ایسے اور اس جیسے اور واقعات میں ہم نے ہی نہیں ہمارے سب جاننے والوں نے دیکھا کہ آپ نے بڑی خندہ پیشانی سے یہ وقت گزارا.وقار اور سفید پوشی پر کبھی کوئی داغ نہ لگنے دیا، مگر ایک وقت ایسا آیا کہ ہم سب نے انہیں سخت متفکر و پریشان دیکھا اور ایسا اس وقت ہوا جب انہیں ابا جان کی شدید بیماری کی اطلاع ملی.سب بچوں کو تاکید کی کہ ابا جان کو زیادہ با قاعدگی سے خط لکھیں بزرگوں کے پاس جا کر دعا کی درخواست کرتیں قادیان سے مسلسل رابطہ رکھا خود وہاں جا کر تیمار داری کا فرض ادا کرنے کی کوشش کی غرضیکہ ہر انسانی کوشش کی میرا یقین ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے ہی اتنی پریشان و بے قرار نہ تھیں کیونکہ اسے وہ عملاً جوانی کی عمر میں ہی خدا تعالی کی خاطر چھوڑ آئی تھیں یہ پریشانی وفکر ایک درویش خاوند کو ایک درویش بیوی کا نذرانہ محبت وعقیدت تھا.1976ء میں اپنی شادی شدہ زندگی کا نصف سے زیادہ عرصہ اپنے خاوند سے الگ بہت بڑی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے بڑے ہی سیلقہ ، وقار، متانت و عزت سے گزار کر بڑی مختصر بیماری کے بعد با مرا دو کامیاب خوش خوش خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئیں.275
زنده درخت اے خدا بر تربت او ابر رحمت ہا ببار خاکسار اس وقت کینیا میں تھا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ اور بزرگان جماعت نے تعزیت فرمائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق مرحمت فرمادے اور ان سے بخشش و فضل کا سلوک فرمادے.(اے خدا تو ایسا ہی کر ).تحریک جدید کے پانچ ہزاری مجاہدین میں میاں عبدالرحیم صاحب درویش کا نمبر 787 ہے (ص61).آمنہ بیگم صاحبہ کا نمبر 72 ہے.(ص37) -38- محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کا تاریخ میں ذکر خیر ہجرت کے بعد جب لاہور سے دارالہجرت ربوہ منتقل ہوئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے درویشوں کے خاندانوں کو اپنی نگرانی میں دارالخواتین میں ٹھہرایا یہ 24 کمروں اور وسیع صحن پر مشتمل تھا اس کا انتظام آپا امتۃ اللطیف صاحبہ کے سپر د تھا جس میں آپ کی والدہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ کا تعاون حاصل تھا ایک موقع پر خود حضرت صاحب نے آپ کو دارالخواتین کا نگران مقر فر مایا “ 29 برس کا طویل عرصہ ( تاریخ تلجنہ جلد 2ص108) آپ خواتین اور بچیوں کی تعلیم قرآن ، تربیت اور پابندی نماز کے لئے خاص طور پر سرگرم رہتیں.حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ نے کئی دفعہ اس امر کا اظہار فرمایا کہ لطیف کو کام کا موقع ملنے میں اس کی امی کا تعاون شامل ہے.276
زنده درخت درویش کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے آپ کو مختلف قسم کے چیلنج درپیش رہے جس سے کمال حسن و خوبی سے عہدہ برآ ہوئیں.تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم ص 21 پر چند احمدی خواتین کے پر از ایمان خطوط قادیان میں مقیم بہادر نوجوانوں کے نام، کے تحت آپ کا خط بھی شامل ہے.جو آپ نے اپنے محترم شوہر کو لکھا.” استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہیں.اور ( قادیان) کو فتح کرنا آپ کا فرض ہے بہر حال جب تک حضور کا حکم نہ ہو آپ قادیان چھوڑ کر یہاں بالکل نہ آئیں.ہجرت کے ابتدائی ایام میں تین سال تک مہاجر خواتین پہلے ہزاروں کی تعداد میں اور پھر سینکڑوں کی تعداد میں آتی رہیں ان ایام میں لجنہ مرکزیہ کی زیر نگرانی مرحومہ، حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر لنگر خانہ حضرت مسیح موعود کا کھانا تقسیم کرتی رہیں.تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی آپ کے خاوند بطور درویش قادیان میں مقیم رہے.مرحومہ نے 29 برس کا طویل عرصہ بڑے صبر وشکر کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر ان کی جدائی میں گزارا.اپنے آٹھوں بچوں کی تربیت و تعلیم اور شادیاں بہت اچھی طرح سرانجام دیں.اپنے بچوں کو خدمت سلسلہ میں وقف دیکھنے کی تڑپ تھی خود بھی لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں اپنی پانچوں بیٹیوں کو بچپن سے ہی لجنہ کے کاموں میں لگا دیا اور ہمیشہ کام کرتے رہنے کی تاکید کی.“ 66 ( تاریخ لجنہ جلد چہارم صفحہ 488) 277
زنده درخت محترمہ آمنہ بیگم صاحب اہلیہ محترم عبدالرحیم صاحب دیانت درویش مت ادیان وفات پاگئیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن الفضل ربوہ 17 مارچ 1976 افسوس کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش قادیان دل کے عارضہ سے نہایت مختصر علالت کے بعد 13 / مارچ 1976ء بروز ہفتہ صبح ساڑھے سات بجے بعمر 67 سال ربوہ میں وفات پا کر محبوب حقیقی سے جا ملیں _ انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون مرحومہ نہایت نیک، عابدہ زاہدہ اور دعا گو خاتون تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت حکیم اللہ بخش صاحب آف ہے بالی ضلع گورداسپور کی بیٹی تھیں.مرحومہ کے خاوند محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت در ویش تقسیم برصغیر کے وقت سے ہی قادیان میں بطور درویش مقیم ہیں.مرحومہ نے گزشتہ 29 برس کا یہ طویل عرصہ بڑے صبر و شکر کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اپنے شوہر کی جدائی میں گزارا.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے خاص فضلوں سے نوازا.اس عرصہ میں آٹھ بچوں کی شادیاں ہوئیں وہ سب پھلے پھولے.اللہ تعالیٰ نے انہیں اولاد سے اور دیگر دینی و دنیوی نعمتوں سے نوازا اور آپ نے اپنے وسیع خاندان کے درمیان ایک مرکزی شخصیت کی حیثیت سے زندگی گزاری.تین بیٹیوں میں سے ایک مکرم مولوی عبد الباسط صاحب شاہد بطور مبلغ دین حق کینیا ( مشرقی افریقہ ) میں دینی خدمات بجالا رہے ہیں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز علالت طبع کی وجہ سے نماز جنازہ نہ پڑھا سکے اس لئے.278
زنده درخت محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے 14 مارچ کی صبح ساڑھے دس بجے گول بازار ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں کثیر تعداد میں احباب شامل ہوئے.مرحومہ موصیبہ تھیں اس لئے مقبرہ بہشتی ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.تدفین مکمل ہونے پر محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کرائی.احباب جماعت دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور مرحومہ کے شوہر محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش کو اور دیگر تمام لواحقین کو صبر جمیل کی توفیق بخشے اور ان کا خود حافظ و ناصر ہو.آمین.امی جان کی یاد جو قیامت مجھ گزری الفضل ربوہ 17 مارچ 1976 صفحہ 6) بتا سکتی ہے کھول کر میں دل کے زخموں کو دکھا لفظ نہیں سکتی نہیں اور احساس میں رشتہ بنا سکتی نہیں بے بسی میں بہتے آنسو بھی چھپا سکتی نہیں یاد جب امی کی آتی ہے تو رو لیتی ہوں میں مغفرت اور اونچے درجوں کی دعا دیتی ہوں میں لہجہ چال دهیمی با نصیحت گفتگو پاک ظاہر پاک باطن پاک دل اور پاک خُو وہ قناعت تھیں سراپا اور حیا کی آبرو ہر طرح سے منفرد تھیں خوب سیرت خوبرو یاد جب امی کی آتی ہے تو رو لیتی ہوں میں ان کے نقش پا پہ چلنے کی دعا کرتی ہوں میں 279
زنده درخت پال لینا آٹھ بچوں کا نہیں گر معجزہ رنگ دینا احمدیت کا تو اک اعجاز تھا اہلیہ درویش کی ہونا نہیں گر معجزہ باوفا با حوصلہ رہنا تو اک اک اعجاز تھا یاد جب امی کی آتی تو لیتی ہوں میں ہے رو سے اپنے تکیے کو بھگو لیتی ہوں میں آنسوؤں سے (ابن) 39- صاحبزادی امۃ الرشید صاحبہ کا بیان فرمودہ ایک یادگار واقعہ 邀 نوٹ :- حضرت مصلح موعود کی صاحبزادی محترمہ بی بی امتۃ الرشید صاحبہ کی زبان سے اپنے والدین کا ذکر خیر سن کر بے حد خوشی ہوتی ہے.جب بھی آپ سے ملاقات ہو یا فون پر بات ہو آپ انتہائی گرمجوشی اور محبت سے بات کرتی ہیں.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ خاصہ ہے کہ ہر ایک اُن سے مل کر یہ سمجھتا ہے کہ یہ ہم سے خاص محبت کرتے ہیں.بی بی کے انداز میں محبت بھری اور دل موہ لینے والی مسکراہٹ میں اپنائیت کا انداز خوش کر دیتا ہے.آپ جب بھی ملتی ہیں میرے والدین خاص طور پر امی جان کا ذکر خیر کرتی ہیں اور یہ احساس دلاتی ہیں کہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے لئے دعا کیا کرو انہوں نے جن قربانیوں اور پُر وقار صبر سے تم لوگوں کو پالا ہے وہ ہم نے دیکھا ہے.آپ فرماتی ہیں باری ! میں تمہیں دعا میں کبھی نہیں بھولتی مجھے تم سے تین وجہ سے پیار ہے.ایک تو تمہاری امی کی قربانیاں اور دعائیں یاد آتی ہیں دوسرے تم 280
زنده درخت بہاروالوں میں بیاہی گئی ہو اور تیسرے لکھتی لکھاتی رہتی ہو.امی جان کے ذکر میں ایک واقعہ خاص طور پر یاد کرتی ہیں جو میرے بھتیجے عزیزم آصف محمود باسط صاحب کی درخواست پر آپ نے ہمارے لئے تحریر فرمایا.خاکساراپنے سارے خاندان کی طرف سے صاحبزادی صاحبہ کے شکریہ کے ساتھ یہ تحریر کتاب کی زینت بنارہی ہے.بھائی عبدالرحیم صاحب درویش مرحوم کی بیگم صاحبہ نہایت ہی دین دار نیک اور پر خلوص خاتون تھیں.بہت ہی محبت کرنے والی ، بہت ہی کم گو تھیں لیکن جب مالتیں مسکراتے ہوئے چہرے سے ملتیں.عجیب سی معصومیت تھی اُن کے چہرے پر جو میں کبھی نہیں بھول سکتی مجھے تو زیادہ تر قادیان میں ہی اُن سے ملنے کا موقع ملا کیونکہ جمعہ کی نماز کا مستورات کا انتظام ہمارے گھر کی نچلی منزل میں ہوتا تھا اور پھر ہفتہ کے دن صبح قرآن کریم کا درس بھی حضرت فضل عمر وہیں پر دیتے تھے.وہ ہمیشہ بغیر ناغہ کے جمعہ کی نماز اور درس میں شریک ہونے کے لئے آتیں ویسے وہ گھر سے شاید بہت ہی کم نکلتی تھیں.ان کی زندگی کا مقصدا اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت ہی تھا اُنہوں نے اپنے بچوں کی تربیت نہایت ہی اعلیٰ رنگ میں کی.تقسیم ملک کے بعد اُن کے شو ہر محترم تو قادیان میں درویش ہو گئے اور وہ بچوں کو لے کر ربوہ آگئیں.یہ وقت اُن کے لئے ہر طرح سے صبر آزما تھا چھوٹے چھوٹے بچے لے کر ایک عورت کے لئے اکیلے رہ کر تعلیم و تربیت کرنا کس قدر مشکل تھا یہ وہی جانتے ہیں جن کو ان حالات سے گزرنا پڑے.اتنا بڑا بوجھ ایک عورت کے کمزور کندھوں پر پڑ سیالیکن یہ وقت بھی اُنہوں نے نہایت صبر اور حیرت انگیز دانش مندی سے گزارا.لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی اور ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی پھر خدمت دین کا جذبہ اور دینی غیرت بھی ان کے اندر پیدا کی.اس پر بس نہیں کی بلکہ اپنی بچیوں کو گھر کا سلیقہ بھی خوب سکھایا.پھر شادی بیاہ کا بوجھ اُن پر ہی تھا ہر بچی کی شادی دین کو دُنیا پر مقدم رکھنے کے اصول پر کی.ماشاء اللہ اُن کی 281
زنده درخت سب بچیاں اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں دین بھی ہے اور دنیا بھی.بہت خوش ہوتی ہوں ان کی بچیوں سے مل کر.ماشاء اللہ وہ بھی اپنی والدہ کی تربیت کے نتیجہ میں اپنے بچوں کی ویسی ہی تعلیم و تربیت کر رہی ہیں اور خود بھی دینی کاموں میں پیش پیش ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کو اور اُن کی قیامت تک کی نسلوں کو خادم دین اور سلسلہ عالیہ احمدیہ سے وابستہ رکھے.اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اصل واقعہ کی طرف آتی ہوں یہ واقعہ میرے بہت ہی بچپن سے تعلق رکھتا ہے میں بہت چھوٹی تھی اور نیا نیا سکول جانا شروع ہوئی تھی.ایک دن آدھی چھٹی کے وقت ہم سب لڑکیاں باہر کھڑی تھیں وہ بہت ہی سستا زمانہ تھا.بہت سی بچیوں کے والدین اپنی بچیوں کو ہر روز خرچ کے لئے ایک پیسہ دو پیسے دیتے تھے.کئی لڑکیاں صبح ناشتہ کے بغیر ہی جلدی میں سکول آجاتیں.اس طرح ایک لڑکی صبح ناشتہ کے بغیر ہی گھر سے سکول آ گئی اور پیسے لانا بھی شاید بھول گئی اُس کے ساتھ ایک لڑکی کھڑی تھی جو ایک پیسے کے چنے خرید کر کھا رہی تھی اُس لڑکی کو ساتھ کی لڑکی نے کہا جو پیسے نہیں لائی تھی کہ تمہارے پاس دو پیسے تھے ایک پیسے کے تم نے چنے لے لئے ایک پیسہ جو تمہارے پاس ہے مجھے دے دو میں پیسے لانا بھول گئی ہوں.وہ انکار کر رہی تھی کہ میں نہیں دے سکتی وہ لڑکی منت کرنے لگی کہ میں ناشتہ بھی نہیں کر کے آئی مجھے بھوک لگ رہی ہے میں کل تمہیں یہ پیسہ لا کر دے دوں گی جب وہ کسی طرح بھی رضامند نہ ہوئی تو اُس نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ آپ سفارش کر دیں مجھے بھوک لگی ہے میں کل لا دوں گی مجھے اُس لڑکی پر ترس آ گیا میں نے کہا دے دو یہ کل لا دے گی.میرے کہنے پر اُس لڑکی نے اُسے پیسہ دے دیا.وہ لڑکی ہر روز ہی جب دوسری لڑکی سے اپنا پیسہ مانگتی تو وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دیتی اس طرح ہفتوں گزر گئے.وہ لڑکی ہر روز مجھے بھی کہتی کہ آپ نے اس کی سفارش کی تھی.اُن دنوں ہم بچوں کو اتنی چھوٹی عمر میں ہاتھ میں سوائے عید وغیرہ کے پیسے نہیں ملتے تھے.جس چیز کی ہم خواہش کرتے وہ منگوا دی جاتی تھی.آخر ایک دن اُس لڑکی نے مجھے کہا کہ اگر فلاں دن تک پیسہ نہ دیا تو میں حضور کو تمہاری شکایت کر دوں گی.میں سخت گھبرائی اور بے حد پریشان ہوئی 282
زنده درخت کہ سید نا ابا جان کو معلوم ہو گیا تو آپ کو اس بات کی سخت تکلیف ہوگی کیونکہ میں جانتی تھی کہ سید نا ابا جان کو قرض لینا برداشت ہی نہیں اور قرض لینے سے سخت نفرت تھی.تو میں نے رورو کرنماز میں دعائیں شروع کر دیں اور بہت پریشان رہنے لگی.آپا جان سیدہ ام طاہر صاحبہ مجھے پریشان دیکھتیں اور نماز میں رو رو کر دعائیں کرتے دیکھ کر پریشان ہو جاتیں اور مجھ سے پوچھتیں کہ کیا تکلیف ہے مجھے بتاؤ لیکن مجھ پر اتنا خوف طاری تھا کہ میں اُن کو کبھی نہ بتاتی صرف اس لئے کہ اُن کو بھی بہت تکلیف ہوگی اس بات سے کہ اس نے اس لڑکی کو قرض کیوں دلوایا اور یہ ذمہ داری کیوں لی.اور پھر وہ لڑکی جس نے بطور قرض کے پیسہ دیا تھا وہ مجھ سے کہنے لگی کہ اب تو میں ایک پیسہ نہیں لوں گی بلکہ چار آنے لوں گی اگر چار آنے نہیں دو گی تو میں حضور کو شکایت کر دوں گی.پھر تو کچھ نہ پوچھئے کہ میں نے کس طرح رو رو کر بلک بلک کر دعائیں کیں کہ یا اللہ تو میری مدد کر ایک دن میں سکول جانے کے لئے اپنے کمرہ میں تیار ہو رہی تھی کہ بھائی عبدالرحیم صاحب درویش کی بیگم صاحبہ میرے کمرہ میں آئیں اور مجھے ایک چوٹی دینے لگیں میں نے انکار کیا کہ سیدنا ابا جان نے ہمیں کسی سے بھی کوئی بھی چیز لینے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے.اس پر وہ کہنے لگیں یہ میں نہیں دے رہی آپ کی امی نے آپ کو بھیجی ہے میں نے حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھا اور کہا میری امّی نے؟ یہ کیا کہہ رہی ہیں؟؟ اس پر انہوں نے مجھے بتایا کہ آج رات میں نے خواب دیکھا کہ آپ کی امی بی بی امتہ الحئی میرے پاس آئیں اور مجھے ایک چونی دے کر کہنے لگیں کہ یہ میری بیٹی امتہ الرشید کو دے دینا وہ بہت پریشان ہے.میں نے وہ چونی لے کر اپنے سرہانے کے نیچے رکھ لی اور میری آنکھ کھل گئی مجھے یقین تھا سچ سچ وہ چونی مجھے دے گئی ہیں.میں نے تکیہ دیکھا اپنا بستر جھاڑ لیکن وہاں پر کچھ بھی نہیں تھا نماز وغیرہ سے فارغ ہو کر ہر روز کے معمول کے مطابق میں اپنے کمرہ میں جھاڑو دینے لگی اور دروازے کی دہلیز پر پہنچی تو وہاں پر ایک چوٹی پڑی تھی اور میں وہ لے کر اُسی وقت آپ کے پاس آگئی ہوں کیونکہ یہ میری نہیں یقینا یہ وہی چونی 283
زنده درخت ہے جو آپ کی امی آپ کے لئے دے گئی تھیں.میں نے وہ چوٹی لے لی اور اُس لڑکی کو جا کر دے دی اور اس طرح اپنی جان چھڑوائی.میرا ایمان ہے کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مجھ میں دعاؤں کا ذوق پیدا ہو اور قبولیت دعا پر میرا ایمان اور یقین ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے اور یہ کہ جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگو وہ ناممکن کو ممکن میں بدل دینے والا ہے.اس واقعہ کے چند دن بعد ہی ہمیں بھی روز کے دو پیسے اور جمعے کے دن ایک آنہ ملنے لگ گیا.بہت دن کے بعد یہ واقعہ میں نے آپا جان سیدہ اُئِم طاہر اور سید نا ابا جان کو بھی بتا دیا.وہ بھی اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ تم نے بہت اچھا کیا جو اپنے مولا سے مانگا اور بندوں کی طرف رجوع نہیں کیا.امۃ الرشید بنت سید نا حضرت مصلح موعود) 284
زنده درخت 40- برگ و بار محترم امة اللطيف بلی محترم شیخ خورشید احمد صاحب ( کینیڈا) 邀 16اکتوبر 1927ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں.محترمہ امتہ الرحمن صاحبہ ہمشیرہ محترم قاضی محمد عبداللہ صاحب سے قرآن مجید اور ترجمہ پڑھا.مڈل تک نصرت گرلز ہائی سکول میں اور اس کے بعد جامعہ نصرت میں تعلیم حاصل کی.1946ء میں ادیب فاضل کا امتحان پاس کیا.اُن دنوں الیکشن کے کاموں کا بہت زور تھا حضرت مولانا شیر علی صاحب نے فرمایا تم کام کرو میں تمہاری کامیابی کی دعا کروں گا.اس طرح اس کامیابی میں اُن کی دعائیں بھی شامل ہوئیں.اُس زمانے میں لڑکیوں کی تعلیم کا اس قدر رواج نہ تھا.مگر ہمارے ابا جان کو بے حد شوق تھا کہ بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور جماعت کی خدمت کریں.نوعمری سے ہی لجنہ کے کاموں میں دلچسپی لینے لگیں سب سے پہلے اپنے محلہ دار الفتوح کی سیکریٹری مقرر کی گئیں.ہجرت سے پہلے کے مخدوش حالات میں مرکز کی ہدایات کے مطابق خواتین کو نامساعد حالات سے باحوصلہ گزرنے اور اپنا دفاع کرنے کی تربیت دینے والوں میں شامل تھیں.9 ستمبر 1947 کو ہجرت کی.ہجرت کے بعد رتن باغ لاہور میں قیام کے دوران خدمت کی توفیق ملی جس کا ذکر تاریخ لجنہ اماءاللہ جلد دوم میں صفحات 32 تا 34 محفوظ ہے.اس میں حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کا ایک مکتوب بطور تبرک شامل ہے.قادیان ،لاہور اور پھر ربوہ منتقل ہونے پر آپ کے کاموں کی نوعیت ایسی رہی کہ براہ راست حضرت مصلح موعود اور خواتین مبارکہ حضرت ام ناصر صاحبہ ، حضرت مریم صدیقہ صاحبہ ، حضرت ام متین صاحبہ، حضرت اُم داؤد صاحبہ ، حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ ( اللہ تعالیٰ سب کے درجات بلند فرمائے) کی رہنمائی ، نگرانی ، تربیت دعا ئیں اور 285
زنده درخت شفقت میسر آئی.ربوہ کا قیام عمل میں آیا تو اولوالعزم حضرت مصلح موعود نے درویشان قادیان اور خدام دین کے خاندانوں اور ضعیف و بے سہارا خواتین کے لئے ایک دارالخواتین بنوا یا یہ چوبیس کمروں پر مشتمل ایک احاطہ تھا جس میں آپ نے اپنی نگرانی میں خواتین کو رہائش کے لئے جگہ الاٹ کی اور خواتین کو ہی ان کی منتظمات مقرر فر مایا.اس موقع پر آپ نے امیر مقامی حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا :- ”یہاں (ربوہ میں ) امۃ اللطیف دارالخواتین کی منتظم ہوگی.یہ اب میرے ساتھ لاہور جا رہی ہے وہاں مستورات کی رہائش کا نقشہ تیار کرے گی اور چرنے لائے گی تا کہ فارغ وقت میں چرنے کا تہیں.اس کی عدم موجودگی میں اس کی والدہ (اہلیہ عبد الرحیم صاحب درویش قادیان ) نگران ہوں گی.“ تاریخ لجنہ اماء الله جد دوم ص 108 ) 1951 میں آپ کی شادی محترم شیخ خورشید احمد صاحب (اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل) ابن محترم با بوسلامت علی صاحب آف بھائی گیٹ لاہور سے ہوئی جو حضرت خان فرزند علی خان صاحب کے نواسے ہیں.اس شادی میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور خواتین مبارکہ نے از راہ شفقت شرکت فرمائی.محترم شیخ صاحب کی والدہ محترمہ حبیب النساء صاحبہ صرف 24 سال کی عمر میں وفات پاگئی تھیں.اس چھوٹی سی عمر میں اپنی دینی خدمات اور دار اسیح میں قائم مدرسہ خواتین سے وابستگی کی وجہ سے حضرت مصلح موعود اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے وفات کے بعد ذکر خیر فرمایا.تاریخ نجنہ اماءاللہ جلد اول میں آپ کا ذکر موجود ہے.) شادی کے بعد بچوں کے ساتھ بھی آیا لطیف صاحبہ نے خدمت دین میں زندگی گزاری.آپ کو ایک سہولت یہ حاصل رہی کہ آپ کا گھر امی جان کے گھر کے ساتھ 286
زنده درخت تھا جس کی وجہ سے بچوں کو اماں جی کا پیار ملا اور ان کی دیکھ بھال اور تربیت میں ان کا ساتھ میسر رہا.جب امی جان کی وفات ہوئی آپا لطیف 50 سال کی تھیں اس عرصہ میں بمشکل دو سال ہی الگ رہی ہوں گی.اس طرح امی جان کی ہر معاملے میں دست راست رہنے کی سعادت حاصل رہی اور امی جان اور اباجی کی خوشنودی اور دعائیں حاصل رہیں.لجنہ اماءاللہ کی طویل خدمات میں شعبہ تصنیف و اشاعت میں حضرت سیدہ ام متین کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی میں نمایاں کام کرنے کا موقع ملا.تاریخ لجنہ اماءاللہ کی رپورٹس، الا ز ہار لذوات الخمار المصابیح ، یاد محمود قواعد وضوابط، تربیتی نصاب، راه ایمان، جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ اور جوئے شیریں آپ کے عہد میں شائع ہوئیں.8 سال مصباح کی ادارت کی.ادارت کے ساتھ منیجر کے کام بھی آپ کے سپر د تھے.مصباح کے انتظامی معاملات میں کئی اصلاحات کیں خاص مواقع پر خصوصی نمبر ز نکالے.کینیڈا میں بھی آپ کی خدمات دین کے لئے وقف ہیں.اپنی ذات میں ایک پورا ادارہ ہیں.تاریخی لجنہ کینیڈا مرتب کروا رہی ہیں اور مرکزی مجلس عاملہ کینیڈا کی اعزازی رکن ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو عمرہ کی سعادت بھی عطا فرمائی.آپ کی تربیتی تقریریں خاصی مقبول ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق آپ کے ایک مضمون سے کچھ حصہ پیش خدمت ہے جس سے حضرت صاحبزادہ کے ہمارے خاندان سے حسن سلوک پر روشنی پڑتی ہے آپ ہمارے ہر کام پر، ضرورت پر اور مشکل پر نگاہ رکھتے خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا.جس وقت بھی ضرورت پڑتی آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جب لوٹتے تو نہ صرف کام اور ضرورت پوری ہو جاتی بلکہ آپ کی ملاقات سے ایسا اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی جو کبھی کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی ، ہم چار بہنوں کے رشتے آپ کے بہترین اور قیمتی مشوروں سے طے پائے.میرے لئے کئی ایک رشتوں میں سے آپ کو یہی رشتہ پسند آیا.میرا نکاح ہو گیا لیکن رخصتانہ ایک سال بعد ہوا.جب رخصتانہ ہوا تو ابھی قادیان کے درویش پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان نہیں آسکتے تھے.آپ کو اس بات کا 287
زنده درخت بہت احساس تھا کہ اس کو اپنے باپ کی عدم موجودگی کا صدمہ ہوگا.اس لئے آپ نے غیر معمولی طور پر ہمارا بہت خیال رکھا اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش فرمائی.اور خود تشریف لا کر دعا کروائی اور بعد میں بھی ہمیشہ ہر طرح خیال رکھا.کچھ عرصہ بعد میری صحت کمزور ہوگئی تو آپ نے فرمایا کہ تم بہت کمزور ہوگئی ہو میں نے عرض کی کہ سسرال والے تو کہتے ہیں کہ تم اسی طرح کی تھی.آپ مسکرائے اور فرمایا.بعد میں اسی طرح کہا کرتے ہیں دراصل لڑکیاں وزن کر کے دینی چاہئیں.ایک دفعہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ میاں صاحب مجھے تو اپنے بچوں کی تربیت کے متعلق بہت فکر رہتا ہے.آپ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ فکر نہیں کرنا چاہیے.دعا کرنی چاہیے اور میری کتاب اچھی مائیں بار بار پڑھا کرو اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیا کرو.میں آپ کی خدمت میں اپنی بہن کے رخصتانہ کی دعا میں شمولیت کی درخواست کرنے کے لئے حاضر ہوئی آپ نے فرمایا کہ میں آؤں گا.میں نے پھر واپسی پر کہا کہ حضرت میاں صاحب آپ ضرور تشریف لائیں.آپ نے نہایت شفقت سے فرمایا: تم کیسی باتیں کرتی ہو میں انشاء اللہ ضرور آؤں گا میں تو تمہارا ڈا کیہ بھی رہ چکا ہوں تو کیا آج تمہاری بہن کی شادی پر نہ آؤں گا.“ ڈاکیہ کے لفظ میں آپ کا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ 1947ء کے بعد قادیان سے میرے ابا جان کے خط دو سال تک آپ کی معرفت آتے رہے جس وقت خط آتا آپ فوراً بھجوا دیتے اور اکثر ایسا ہوا کہ اگر کوئی پاس نہیں ہے تو خود تشریف لاتے ہمارا درواز کھٹکھٹاتے اور کون ہے پوچھنے پر فرماتے.بشیر احمد اور ہاتھ میں خط ہوتا کہ لو اپنا خط میں نے سوچا کہ جلدی پہنچا دوں تمہیں باپ کے خط کی انتظار ہو گی.ایک بار اپنی کمزوری صحت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب بات کرنے اور ملنے کو دل نہیں چاہتا ایک دہ دن تھا کہ تمہاری ڈاک خود پہنچا آیا کرتا تھا.اللہ الہ کس قدر عظیم ہستی تھی آپ کو دوسروں کے احساسات کا کس قدرخیال تھا.1950 کا واقعہ ہے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکا دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت 288
زنده درخت میاں صاحب ہیں فرمانے لگے کہ میں ایک کام سے آیا ہوں.ہماری بڑی ہمشیرہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو خواب آیا ہے کہ حضرت نواب صاحب مرحوم تشریف لائے ہیں اور کچھ کھانے کی خواہش کی ہے اس لئے انہوں نے آج پلاؤ اور زردہ کی دیگیں پکوائی ہیں وہ تم کو بھجوا دی جائیں.مستحقین میں تقسیم کروا دینا.لیکن اس طرح نہیں کہ لوگ ہاتھوں میں تھالیاں پکڑے ہوئے آئیں بلکہ ہر ایک کوٹرے Tray میں لگا کر بھیجوانا.تقسیم ملک کے بعد پہلی بار جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان جانے کی اجازت ملی تو ( میرا نکاح ہو چکا تھا اور رخصتانہ نہیں ہوا تھا ) حضرت میاں صاحب نے ہم بہن بھائیوں اور محترمہ والدہ صاحبہ میں سے کسی ایک کو بھجوانے کی بجائے میرے خاوند شیخ خورشید احمد صاحب کو بھجوایا اور ابا جان کو خط لکھا کہ میں شیخ صاحب کو بھجوا رہا ہوں میرا خیال ہے آپ کو ان سے مل کر زیادہ خوشی اور اطمینان حاصل ہوگا یہ بعض لحاظ سے آپ کے لئے بیٹوں سے بھی بڑھ کر ہیں.(مصباح قمر الانبیاء نمبر ص 73 حیات بشیر مرتبہ عبد القادر 199 تا 201) محترم شیخ خورشید احمد صاحب 18 اکتوبر 2010ء کو بعمر 92 سال کینیڈا میں وفات پاگئے.آپ بہت حلیم طبیعت کے مالک تھے اور ابا جان کی غیر موجودگی میں ہم سب کو ان کا پیار ، راہنمائی اور بزرگانہ شفقت میسر رہی.اللہ تبارک تعالی اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے.آمین اللہم آمین.اولاد 1 - لئیق احمد خورشید ( کینیڈا) - بیگم بدر النساء صاحبہ.بچے نفیس احمد ، نزہت، نازیہ، ندا 2 ) کرنل ڈاکٹر نصرت ظفر اہلیہ میجر ظفر احمد صاحب (کینیڈا) بچے.ڈاکٹر انصر احمد، ڈاکٹر آمنہ، اطہر احمد 3- شاہد خورشید.بیگم طاہرہ شاہد صاحبہ(کینیڈا)، بچے.اُسامہ نثمن 4- عفت خورشید الیه محترم ارشد ملک صاحب(کینیڈا) بچے صوفیہ،سعدیہ، ناعمہ.5 - زاہد خورشید بیگم ڈاکٹر امۃ المصور صاحبہ (کینیڈا)، بچے.وقاص احمد ، ولی متیم 289
زنده درخت محترم عبد المجید نیاز صاحه 26 نومبر 1930 کو قادیان میں پیدا ہوئے.علم پرور ماحول میں آنکھ کھولی.والد صاحب نماز با جماعت ، جلسوں اور تبلیغی دوروں میں ساتھ لے جاتے.آپ کو مصلح موعود کے اعلان والے جلسوں میں ہوشیار پور، دہلی اور لاہور جانا یاد ہے.تقسیم برصغیر کے وقت انتہائی پر آشوب حالات میں کچھ دن قادیان ٹھہرے پھر لاہور آگئے مگر دل قادیان میں اٹکا ر ہا.تاریخ احمدیت جلد 11 ص 140 پر آپ کا ایک مکتوب درج ہے.پیارے اور محترم والد صاحب! آپ ہمارا کسی قسم کا فکر نہ فرما ئیں ہمیں کوئی تکلیف نہیں ہاں قسم ہے مجھے ذات پاک کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ کسی طرح قادیان پہنچوں.“ 24 اخاء/ اکتوبر 1947/1326 ہجرت کے وقت آپ جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھے.بعد ازاں جامعہ چنیوٹ اور پھر احمد نگر میں جاری ہوا.اس دوران آپ کو فرقان فورس میں خدمات کا موقع ملا.آپ اس کے پہلے گروپ میں 23 جون 1948 کو بھرتی ہوئے.نمبر 5047 تھا.آپ کشمیر میں تھے جب مولوی فاضل کے امتحان کے لئے واپس بلائے گئے.22.9.48 کو واپس آئے.ایسے حالات میں جبکہ ہجرت کے بعد بے سروسامانی تھی کتب بھی میسر نہ تھیں پڑھنے کا وقت بھی نہ ملا تھا.امتحان میں شامل ہوئے اور اعلیٰ کامیابی حاصل کی الفضل (لاہور) ستمبر 1950 میں نتیجہ کا اعلان شائع ہوا.آپ کو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب، محترم میر محمود احمد ناصر صاحب، محترم میرمسعود احمد صاحب اور محترم شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی جیسے صاحبانِ علم کے ہم جماعت ہونے کا شرف حاصل ہے.نتیجہ اتنا خوشکن تھا کہ اس پر ایک تبصرہ الفضل میں حضرت اقدس مسیح موعود کا علمی کارنامہ کے عنوان 290
سے نوٹ کے ساتھ شائع ہوا.زنده درخت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا علمی کارنامہ.جامعہ احمدیہ اس زمانہ میں موعود عالم حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جب ماموریت کا دعویٰ دنیا کے سامنے پیش کیا تو خشک از علم ملا ؤں نے جو اپنے آپ کو عالم اجل خیال کرتے تھے.منبروں پر کھڑے ہوکر ھل من مبارز کا نعرہ لگایا.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عربی اور اردو میں علمی کتب تصنیف کر کے مقابلہ پر بلایا کہ کوئی ہے کہ جو ان جیسی پر از معارف کتب لکھ سکے.تو سب کی زبانوں پر سکتہ طاری ہو گیا.قلم ٹوٹ گئے.ہاتھوں میں جنبش نہ رہی.بھلا اس مرد خدا کا جو علیم وخبیر کی درسگاہ کا متعلم ہو.کون مقابلہ کر سکتا ہے بہت سے مخالفین احمدیت مولوی فاضل کی ڈگری پر نازاں ہو کر یہ کہا کرتے تھے.کوئی ہے احمدی مولوی فاضل جو ہمارا مقابلہ کرے؟ لیکن آج خدا کے فضل سے سینکڑوں جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل مولوی فاضل اکناف عالم میں چشمہ ہدایت سے سیراب ہو کر ( دین حق) کے علم کے نیچے خدا سے برگشتہ لوگوں کو محبت الہی کا جام پلا کر اکٹھا کر رہے ہیں اور روحانی قحط زدہ علاقوں کو غذائے طیبہ دے کرا بدی زندگی کا جام بخش رہے ہیں.امسال جامعہ احمدیہ کی طرف سے چھبیس (۲۶) طالب علم امتحان مولوی فاضل میں شامل تھے.اتنی تعداد میں سے صرف دو طالب علم فیل ہوئے ہیں.اس کے علاوہ چودہ پرائیویٹ طالب علم امتحان میں شریک ہوئے.کیا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیضان علم نہیں ہے کہ حضور کی قائم کردہ دینی درسگاہ سے ہر سال اتنی تعداد میں مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کرتے ہیں.اے حق کے طالبو! ذرا تعصب کی پٹی آنکھوں سے اتار کر غور تو کرو.کبھی وہ بھی زمانہ تھا 291
زنده درخت کہ جب معاندین سلسلہ کی طرف سے مولوی فاضل کا مطالبہ کیا جاتا تھا.آج یہ زمانہ ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام کے فیضانِ علم سے مخالفین کے ایک مولوی فاضل کے مقابلہ پر بیسیوں مولوی فاضل اترنے کو تیار ہیں.صرف عمر رسیدہ ہی نہیں.بلکہ پندرہ سالہ بچے مولوی فاضل بھی.(روز نامہ الفضل لاہور 21 ستمبر 1939ء جلد نمبر 3 شمارہ 217ص6) آپ نے تلاش معاش کے سلسلے میں حیدر آباد کا رخ کیا اور وہیں کے ہورہے وہاں 1953 میں مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کی توفیق پائی.چند سال قائد خدام الاحمد یہ رہے.1955 میں محترمہ منصورہ فردوس صاحبہ (مرحومہ) بنت محترم منشی سبحان علی صاحب سے شادی ہوئی موصوفہ بہت سادہ مزاج دعا گو خاتون تھیں.آپ کا قبولیت دعا کا ایک واقعہ حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطاب میں سنایا جو الفضل 19 مئی 2007 ص 3 سے درج ذیل ہے.( شادی سے پہلے آپ کا نام شریفہ بی بی صاحبہ تھا ) نیب سے امداد شریفہ بی بی صاحبہ اہلیہ عبدالمجید نیاز صاحب ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر کرتی ہیں کہتی ہیں کہ جب کہ آپ کی مالی حالت بہت کمزور تھی اور سب بچے پڑھ رہے تھے.جب نیا تعلیمی سال شروع ہوا تو کتابوں اور کاپیوں کے لئے پیسے نہیں تھے.بچے اصرار کر رہے تھے.آپ بہت پریشان تھیں کئی بار قرض کا خیال آیا مگر اس خیال سے نہ لیا کہ واپس کیسے کروں گی.یہ بہت اہم بات ہے وہ لوگ جو قرض لیتے ہیں ان کو حقیقت میں علم ہوتا کہ وہ قرض واپس کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں کہ نہیں پس اگر ایسی حالت میں قرض لیں کہ واپس کرنے کی اہلیت نہ ہو تو وہ دھو کہ بھی ہے اور توکل کے بھی خلاف ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو رزق نہیں دیا وہ زبردستی چوری کر رہی ہیں اور اس چوری کا نام قرض رکھ لیتی ہیں یا رکھ لیتے ہیں.ایسے لوگوں کے اموال میں کبھی برکت نہیں پڑتی.ہمیشہ وہ لوگ قرضوں میں دبتے چلے جاتے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد لکھتے 292
زنده درخت ہیں کہ دعا کریں قرضہ بڑھ گیا ہے، خرچ پورے نہیں ہو رہے.امر واقعہ یہ ہے کہ قناعت انتہائی ضروری صفت ہے جسے احمدی مردوں اور عورتوں کو اپنانا چاہیے.میں نے بہت سے ایسے غریب دیکھے ہیں جو قناعت پر قائم رہتے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی سفید پوشی کا بھرم رکھتا ہے.ان کو کبھی کسی سے مانگنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر قرض لیتے ہیں تو اتنا لیتے ہیں جسے واپس کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے اموال میں برکت ڈال ڈالتا ہے ان کے لئے غیب سے امداد کے سامان فرماتا ہے.پس محض یہ کہنا کہ قرض کی ضرورت تھی میں نے نہیں لیا اور خدا تعالیٰ نے میری دعا نہیں سنی یہ کافی نہیں ہے.دعا کی قبولیت کی کچھ کیفیات ہوتی ہیں ان میں نفس کی پاکیزگی اور خدا پر توکل شامل ہے.پس یہ خاتون جو واقعہ بیان کر رہی ہیں اس میں یہ حکمت ہے کہ قرض لینے گئیں پھر نفس نے ملامت کی کہ دیکھو تم یہ قرض واپس نہیں کر سکو گی اس وجہ سے واپس آئیں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کیا.تو کہتی ہیں میں نے پھر تہجد میں دعا کی کہ اے میرے اللہ میں تو بے بس ہوں میں نے صداقت کی خاطر اس قرض سے اجتناب کیا اور اب تیرے سوا میرا کوئی سہارا نہیں ہے.کہتی ہیں مجھے آواز آئی کہ پیسے آئیں گے.دوسرے بچوں نے اصرار کیا تو انہوں نے بڑی مزیدار بات کہی انہوں نے کہا رات مجھے اللہ میاں کا فون آگیا ہے کہ پیسے آئیں گے کیونکہ کان میں آواز آئی تھی جیسے فون سے آواز آ رہی ہو.کہتی ہیں دوسرے دن ایک شخص آپ کے گھر آکر رقم دے گیا کہ کینیڈا سے ایک عورت نے اپنے خاوند کے کاروبار میں برکت کے لئے آپ سے دعا کروائی تھی.کاروبار بہت اچھا ہو گیا ہے اسی خوشی میں یہ رقم آپ کو بھجوا رہی ہوں.اب دیکھیں کاروبار میں دعا کب ہوئی کب اس میں برکت پڑی.کب وہ پیسے وہاں سے چلے ہوں گے کب خدا نے دل میں ڈالا اور ٹائمنگ اس کے وقت کی مطابقت ایسی عظیم الشان ہے کہ ادھر تو کل کر کے وہ قرضے سے اجتناب کرتی ہوئی رات دعائیں کرتی ہیں رات الہاما اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ پیسے آئیں گے اور دوسری صبح وہ پیسے اس طرح ایسے 293
زنده درخت ذریعے سے آتے ہیں جس کے متعلق کوئی وہم و گمان بھی ان کو نہیں تھا.“ بڑے بھائی جان جہاں بھی رہے اپنے انداز میں دعوت الی اللہ کرتے رہے.آپ کے حصے میں یہ خصوصی سعادت بھی آئی کہ والد صاحب کی زندگی کے آخری سال قادیان جا کر خدمت کی توفیق پائی.اور خوب دعائیں لیں.پھر وفات کے بعد کچھ عرصہ قادیان ٹھہرے اور درویش کے اثاثہ کو لائبریری اور قدر کرنے والوں تک پہنچانے کا کام کیا.آج کل آسٹن امریکہ میں مقیم ہیں.اولاد :- 1- حافظ بشارت احمد غنی سابق قائد خدام الاحمد بہ حال زعیم انصار الله و صدر جماعت کوٹ لکھ پت لاہور.بیگم امتہ النصیر خالدہ.بچے.اسد احمد غنی ، عائشہ فنی، انصر احمد غنی ، احسن احمد غنی.2- راشدہ مومن حمید صاحبہ نیو یارک اہلیہ محترم عبد المومن حمید صاحب ، بچے عمر حمید ، احسان حارث حمید ، ہما حمید، شانزے حمید 3 - لبنی ساجد صاحبہ اہلیہ ونگ کمانڈر ڈاکٹر ساجد احمد.بچے روحی احمد ، عائشہ احمد ، بجیل احمد شہیمی احمد 4- فخر احد فنی (سیکریٹری تحریک جدید و وقف جدید جماعت آسٹن امریکہ ) بیگم نگہت صاحبہ بچے.یہ غنی ، افشاں ما ہم غنی ، عازش احمد غنی.-5- حسنی مقبول ( ریجنل نائب صدر لجنہ اماءاللہ آسٹن امریکہ و معاون مدیره رساله النور ) اہلیہ مقبول احمد صاحب.بچے مظہر احمد ، شازل احمد ، صارم احمد 294
زنده درخت محترم عبد الباسط صاحب شاہد (مربی سلسلہ ) جہاد دین ایک نو پیدائش وقف زندگی -: 1944 16 اگست 1933 بمقام قادیان جامعة المبشرین سے فارغ التحصیل 1956 نائب معتمد خدام الاحمد یہ ربوہ معتمد خدام الاحمدیہ ربوہ نائب قائد خدام الاحمد یہ ربوہ 1955 1956 مہتمم اصلاح وارشاد مرکزیہ 1956 1956-1957 مدیر رساله خالد جنوری 1973 تا اکتوبر 1973 درس ملفوظات درس قرآن بیت مبارک ربوہ 1958 مر بی کراچی مربی ملتان مربی جہلم مربی تنزانیہ مربی کینیا مربی حیدر آباد مربی زیمبیا ، زمبابوے، ملاوی ممبر قضا بور ڈر بوہ وقف عارضی لیسٹریو کے 19621958 1965 1962 1968 1967 1972 1969 1974 1973 1975 1974 1987-1979 1999 1995 2001 1999 295
زنده درخت ناظم قضا بورڈیو کے نائب مدير افضل انار نیشنل 2001 سے تا حال 2004 سے تا حال درس حدیث بیت فضل لندن 2004 سے تا حال (1) سوانح فضل عمر جلد سوم (2) سوانح فضل عمر جلد چہارم (3) سوانح فضل عمر جلد پنجم (4) دعائے مستجاب (5) نہج الطالبین نصاب حدیث (6) دلچسپ سبق آموز واقعات (7) قدرت ثانیہ کا دور اول ( زیر اشاعت) ميري درخواست پر بھائی جان نے اختصار سے درج ذیل حالات تحریر کئے :.خاکسار کو 1944 میں زندگی وقف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.اس کے حصول میں حضرت مصلح موعود کے مؤثر خطبات اور دل نشین تحریکات نے ضرور اثر کیا ہو گا مگر میری والدہ مرحومہ کی لوری 'میرا بچہ اذانیں دے گا لوگوں کو کلمہ پڑھائے گا اور بزرگ والدین کی یہ خواہش کہ ان کے بچے دین کے خادم بنیں کا بھی ضرور دخل ہوگا.قادیان میں مدرسہ احمدیہ میں داخلہ ہوا مگر اسی سال برصغیر کی تقسیم کا حادثہ پیش آگیا میری پہلی کلاس میں ساٹھ سے زیادہ طالب علم تھے مگر تقسیم وطن اور مہاجرت سے پیدا ہونے والے اثرات و مشکلات سے قادیان کے منتشر پرندے جمع ہونے لگے تو یہ تعداد پندرہ سولہ سے زیادہ نہ تھی (اگر ان طالب علموں اور وقف زندگی کرنے کے بعد حالات کی 296
زنده درخت مجبوری سے دوبارہ تعلیم کا سلسلہ شروع نہ کر سکنے والوں کے حالات جمع ہوسکیں تو یقینا اس میں بھی قربانیوں کے ایمان افروز واقعات ملیں گے ).لاہور میں رتن باغ اور جو دھامل بلڈنگ ( میوہسپتال کے نزدیک ) حضور کی رہائش اور صدرانجمن کے دفاتر کے قیام سے ایک مرکز کی صورت بن گئی مگر بہت ہی کسمپرسی کی صورت تھی دفاتر کی عمارات ، فرنیچر ، کارکن کوئی چیز بھی تو عام حالات کے مطابق معیاری اور مکمل نہ تھی.حضرت مصلح موعود کا عزم اور کارکنوں کا اخلاص کام کو چلانے اور آگے بڑھانے کا باعث بنا.حضور کے ارشاد کے مطابق ایک مترو کہ عمارت میں جامعہ احمدیہ شروع کیا گیا.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب ابھی قادیان میں تھے.مکرم حافظ مبارک احمد صاحب مرحوم نے کام شروع کیا.مختلف کلاسوں کے طالب علم ایک ہی دستیاب چٹائی پر بیٹھے ہوئے محترم حافظ صاحب کے تجربات اور علمی نکات سے استفادہ کر رہے ہوتے.یادر ہے کہ ایک چٹائی کے علاوہ جامعہ احمدیہ کے فرنیچر میں ایک شکستہ کرسی بھی شامل تھی.تھوڑے عرصے کے بعد ہی جامعہ احمد یہ چنیوٹ اور پھر احمد نگر منتقل ہو گیا.احمد نگر میں جامعہ احمدیہ کا ہوٹل جس نیم پختہ عمارت میں شروع ہوا وہ اصطبل کے نام سے جانی جاتی تھی.اس کے نیم تاریک کمروں کی صفائی میں وقار عمل ہی کام آتا رہا.جامعہ کے اکثر بزرگ اساتذہ جذبہ خدمت سے سرشار تعلیم دینے میں منہمک ہو گئے.طالب علم اپنی اپنی استعداد اور شوق کے مطابق استفادہ کرنے لگے.اس جگہ بھی اکثر کلاسیں چٹائیوں پر ہی ہوتی تھیں.اساتذہ کرام کی رہائش کی سہولت نا گفتہ بہ تھی.ہماری خوراک بھی ابتدائی زمانے اور تنگی کی وجہ سے بہت عجیب تھی ایک وقت ایسا بھی آیا کہ گندم کے بعد موٹے چاول کی سپلائی بھی ممکن نہ رہی تو گاجروں میں گڑ ڈال کر گجریلا پکایا جاتا تھا جو عام طور پر انسانوں کی خوراک نہیں لگتی تھی نو جوانی کے زمانے میں ان عیاشیوں سے کئی لطائف جنم لیتے تھے اور اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے زندہ دلی اور شگفتہ مزاجی قائم رہتی تھی.یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جس زمانہ کا ذکر ہو رہا ہے وہ بہت ہی ستا زمانہ تھا.297
زنده درخت بعض طالب علم جو جیب خرچ کے معاملہ میں قدرے بہتر حالت میں تھے وہ ایک روپے کا آٹھ چھٹانک (قریباً 500 گرام) تازہ مکھن حاصل کر سکتے تھے.ایک سال تو گندم اتنی ستی ہوگئی کہ سات روپے میں ایک من ( قریباً 35 کلو) مل جاتی تھی.کئی سال کے بعد جامعہ احمد نگر سے ربو منتقل ہوا مگر ربوہ سے جو تصور اب ذہن میں اُبھرتا ہے.اس وقت کار بوہ اس سے بہت مختلف تھا.گرمیوں میں شدید گرمی اور کو کے ساتھ ساتھ قریباً ہر روز ہی شدید آندھی آجاتی تھی اس آندھی سے گردو غبار کمروں میں ہی نہیں صندوقوں اور الماریوں میں بھی چلا جاتا اور صفائی کا مسئلہ منتقل توجہ طلب رہتا.پینے کا پانی بھی بہت کم ملتا تھا اور وہ بھی دور سے لانا پڑتا تھا.یہ تو عام مسائل تھے جن کا ذکر ہمارے لٹریچر میں آچکا ہے.جامعہ احمدیہ کا اپنا ماحول اور مخصوص مسائل تھے مثلاً جامعہ کی عمارت ایک لنگر خانہ کی عمارت تھی جو جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے کھانا پکانے اور تقسیم کرنے کی جگہ تھی ظاہر ہے کہ پر عارضی اور کچی عمارت تھی محن میں ہر طرف روٹی پکانے کے تنور تھے بارش میں قریبا ہر چھت شیکتی اور ہر تئور پانی سے بھر جاتا تھا.ایسے میں کیچڑ اور پانی سے کپڑوں اور کتابوں کو محفوظ کرنے کے لئے بعض اوقات ان ٹینکیوں سے مدد لی جاتی تھی.جو جلسہ کے دنوں میں پانی ذخیرہ کرنے کے کام آتی تھیں اور باقی دنوں میں بیکار پڑی رہتی تھیں.ان حالات اور مشکلات کے بیان کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری معلوم ہوتی ہے.کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مصلح موعود تعلیم کی ترقی اور واقفین کی بہتری کے لئے ہدایات جاری فرماتے رہتے تھے ہمیں بہترین اساتذہ سے صرف علم ہی نہیں تقویٰ ، خدا ترسی اور لگن سے کام کرنے کی تربیت بھی حاصل ہوتی تھی.خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر ماحول کم ہی کسی کو میسر ہو گا.حضرت مصلح موعود کا کامیاب سنہری دور اس طرح دیکھنے کا موقع ملا کہ ہر روز ہی نئی کامیابیوں اور فتوحات کے نظارے ہوتے تھے.تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ کے آغاز کا بھر پور زمانہ دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی.اساتذہ کرام کا مس.تفصیلی ذکر تو ممکن نہیں تاہم یہ امر کتنا خوشکن اور قابل تشکر ہے کہ ہمارے بعض اساتذہ حضرت مسیح موعود 298
زنده درخت کے رفقاء تھے اس طرح جماعت کے بہترین مبلغ مصنف ، مقرر جیسے حضرت ابوالعطاء صاحب حضرت قاضی محمد نذیر صاحب سے استفادہ کا موقع ملا.جامعہ احمدیہ اور جامعۃ المبشر بین سے تعلیم مکمل ہونے پر ربوہ میں جن بزرگوں سے کسب فیض کے مواقع حاصل تھے ان میں حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہجہانپوری اور حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی جیسے آسمان احمدیت کے روشن ستارے بھی تھے.یہاں اس امر کا بیان بھی موجب دلچسپی ہو سکتا ہے کہ اس زمانے میں جامعہ احمدیہ کے طلباء دو حصوں میں تقسیم ہو جاتے تھے.یعنی کچھ طالب علم خدمت کے میدان میں صدر انجمن احمد یہ یا اصلاح و ارشاد کے میدان میں بطور مربی کام کرنے کے لئے مختص ہو جاتے تھے.اور کچھ انجمن احمدیہ تحریک جدید میں بیرونی ممالک میں تبلیغ و تربیت کی خدمات بجا لانے کے لئے مختص ہوتے تھے.ہماری کلاس جامعہ احمدیہ احمد نگر میں جاری تھی.ایک دن ہم نے دیکھا کہ ربوہ سے بعض بزرگ ہماری کلاس میں آئے.اور انہوں نے ایک ایک طالب علم کی طرف اشارہ کر کے جس طرح کھلاڑیوں کی ٹیمیں چینی جاتی ہیں اس طرح ہمیں دوحصوں میں تقسیم کر دیا بعد میں یہ پتہ چلا کہ یہ تحریک جدید اور انجمن کے نمائندگان تھے اور اپنے اپنے حصے کے طلباء کا انتخاب کر رہے تھے.ہم طالب علموں کو یہ بات عجیب سی لگی مگر وقف زندگی کی روح کے پیش نظر کسی نے کوئی اعتراض نہ کیا.کئی سالوں تک جماعت میں ی تقسیم چلتی رہی مگر بعض مشکلات اور قباحتوں کے پیش نظر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اس طریق کو ختم کر کے حدیقہ المبلغین یا Pool کا طرز رائج فرمایا جس کے مطابق تمام مربی حسب ضرورت تحریک یا انجمن میں کام کرتے تھے.اور پہلے سے کوئی تقسیم یا تفریق نہیں کی جاتی تھی.خاکسار اس تقسیم کے تحت صدر انجمن کا مربی تھا جسے پاکستان میں ہی خدمت کا موقع مل سکتا تھا.جامعة المبشرین کے آخری سال 1956 کی بات ہے ہماری کلاس ہورہی تھی ہمارے پرنسپل حضرت مولانا ابو العطاء صاحب اور مکرم شیخ خورشید احمد صاحب اُستاد حدیث کلاس 299
زنده درخت میں تشریف لائے.حضرت مولوی صاحب نے حضرت امام احمد بن حنبل کے متعلق ایک نوٹ ہمیں املا کر وایا یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ اس طرح لکھوانے کا کیا مقصد تھا بعد میں پتہ چلا کہ اس طرح ہماری ہینڈ رائٹنگ دیکھنا مد نظر تھا.ہمارے لکھے ہوئے کاغذوں کو ایک نظر دیکھنے کے بعد حضرت مولوی صاحب نے پانچ طالب علموں کو جن میں سے ایک یہ خاکسار بھی تھا.مولنا خورشید احمد صاحب کے ساتھ جانے کا ارشاد فرمایا.جامعہ سے تحریک جدید کے کوارٹرز کی طرف آتے ہوئے پتہ چلا کہ ہم مسند احمد بن حنبل کی تبویب کا کام شروع کرنے کے لئے جارہے ہیں.گول بازار سے کچھ سٹیشنری خریدی گئی.لائبریری سے کتب حاصل کیں.اساتذہ میں سے مولانا غلام باری سیف صاحب اور مکرم مولا نا محمد احمد ثاقب صاحب کی خدمات بھی اس کام کے لئے حاصل کر لی گئیں.بعض اور طالب علم اور اساتذہ بھی وقتا فوقتا شامل ہوتے رہے.ہر بزرگ اُستاد کے ساتھ تین طالب علم ان کی رہنمائی میں تجویز کئے ہوئے عنوان یا باب کے تحت حدیث نقل کرنے کا کام کرتے خاکسار شیخ خورشید احمد شاد صاحب کے ساتھ تھا وہ اپنی صحت کی کمزوری کی وجہ سے بسا اوقات خاکسار کو ابواب تجویز کرنے کا کام بھی دے دیا کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں اس کام کی خوب مشق ہوگئی اور خاکسار نقل احادیث کے ساتھ ساتھ اپنی ٹیم کے لئے ابواب کی تعیین کی خدمت بھی سرانجام دیتا رہا یہ کام ہنگامی بنیادوں پر شروع ہوا تھا مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے آگے چلتا رہا تجربہ کے ساتھ ساتھ کام کا طریق بھی بدلتا رہا.کام کرنے والے بھی بدلتے رہے اسی دوران خاکسار کا تقرر بطور مربی کراچی ہو گیا.کراچی گئے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے کہ مرکز سے بذریعہ تار ( اس زمانہ میں تارہی جلدی رابطے کا بہترین ذریعہ تھا اب ای میل اور فیکس کے سامنے یہ زمانہ قدیم کی بات لگتی ہے ) ربوہ واپس آنے کی ہدایت ملی واپسی پر پتہ چلا کہ حضرت مصلح موعود نے تبویب کے کام کی رپورٹ پیش ہونے پر اس کی پیش رفت کے متعلق عدم اطمینان کا اظہار فرمایا تو کسی بزرگ نے کام کی سستی یا تاخیر کی وجہ یہ بھی بیان کی کہ عبدالباسط جو ایک اچھے کام کرنے 300
زنده درخت والے تھے انہیں کراچی بھجوادیا گیا ہے....حضور کے ارشاد پر خاکسار واپس آکر پھر اسی خدمت کی انجام دہی میں مصروف ہو گیا.اسی دوران ایک اور عجیب واقعہ ہوا.خاکسارا اپنے ساتھیوں کے ساتھ احادیث کی نقل وغیرہ کا کام کر رہا تھا کہ اچانک ہمارے استاد مولانا ابوالمنیر نورالحق تشریف لائے.باہر کھڑے کھڑے انہوں نے خاکسار کا نام لے کر پوچھا کہ وہ موجود ہے.خاکسار لبیک کہتے ہوئے ان کے پاس گیا تو وہ فرمانے لگے کہ آپ کو حضرت صاحب نے یاد فرمایا ہے.الفاظ سنتے ہی خاکسار کا نپ اُٹھا اور پسینہ آ گیا.اس بات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرے جیسا نالائق سا گمنام سا ایک طالب علم اور حضرت مصلح موعود جیسے عظیم وجود کا بلاوا آیا ہو.مولوی صاحب سے عرض کیا کیا اس خاکسار کو ہی بلایا ہے؟ کس لئے بلایا ہے؟ وغیرہ مگر مولوی صاحب کا ایک ہی جواب تھا کہ حضور خود بتائیں گے.میں اپنی اس وقت کی حالت پوری طرح بیان نہیں کر سکتا انتہائی گھبراہٹ کی حالت میں دفتر پرائیویٹ سیکریٹری پہنچے.محترم مولوی صاحب نے کاغذ پر عبد الباسط حاضر ہے لکھ کر دفتر کے کارکن کو دیا جیسے ہی وہ کارکن او پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.خاکسار کو حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کا اشارہ ہوا.مولوی صاحب میرے ساتھ تھے اگر میں غلطی نہیں کرتا تو حضور اُسی وقت اندر سے تشریف لائے تھے اور اپنی کرسی کی پشت پر ہاتھ رکھے کھڑے تھے.حضور نے لمبا فرغل پہنا ہوا تھا.خاکسار نے دست بوسی کا شرف حاصل کیا.حضور نے خاکسار کی تعلیم کی متعلق بعض باتیں دریافت فرما ئیں اور بہت ہی حوصلہ افزائی فرمائی.فرمایا کہ آدمی محنتی اور سمجھدار ہو تو کم تعلیم کے باوجود بڑے بڑے کام کر سکتا ہے.اس حوصلہ افزائی کے بعد حضور نے بڑے اعتماد اور بڑے پیار سے تبویب اور اس سے متعلقہ سارے کاموں اور نصرت آرٹ پریس وغیرہ کے متعلق سارے کام کی نگرانی کا ارشاد فرمایا.حضرت مولانا ابوالمنیر صاحب نے حضور کی ہدایات متعلقہ دفاتر کو بھجوائیں.تبویب کی جو ایک جلد شائع ہوئی وہ خاکسار کی نگرانی میں نصرت آٹ پریس میں ہی شائع ہوئی.301
زنده درخت خاکسار کا پہلا میدان عمل جماعت کراچی تھی اور یہ جماعت کئی لحاظ سے دنیا بھر کی جماعتوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے.اس جماعت کو حضرت چوہدری عبداللہ خان جیسے امیر اور حضرت مولانا عبد المالک خان جیسے مربی کی خدمات حاصل تھیں اور حضرت مصلح موعود کی خوشنودی اور بار باعلم انعامی کا حصول بھی اس جماعت کا ایک امتیاز تھا.خاکسار کو آٹھ سال تک کراچی کی خدمت کا موقع ملا.اس کے بعد ملتان اور جہلم میں بھی خدمات کا موقع ملا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید کے ذمہ دار افسران نے تجربہ کے طور پر بعض مربیوں کو بیرون ملک بھجوانے کے لئے منتخب کیا جن تین مربیان کو اس مقصد کے لئے چنا گیا اُن میں اس خاکسار کے علاوہ مکرم قریشی محمد اسلم صاحب کا تقررگی آنا میں ہوا اور وہ وہاں مقام شہادت پر فائز ہوئے.ہمارے تیسرے ساتھی مکرم عبدالحکیم جوزا صاحب تھے جو غانا مغربی افریقہ میں جامعہ احمدیہ کے پرنسپل کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.خاکسار تنزانیہ کینیا، زیمبیا زمبابوے اور ملاوی میں کم و بیش پندرہ سال خدمت کے بعد ر بوہ میں تصنیف کے کام پر مقرر ہوا فضل عمر فاؤنڈیشن میں کام کرتے ہوئے خاکسار کو سوانح فضل عمر کی تالیف کی سعادت حاصل ہوئی سوانح فضل عمر کی تالیف کے لئے سب سے پہلے حضرت ملک سیف الرحمان صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں.حضرت ملک صاحب نے بڑی محنت سے یہ کام شروع کیا.تاہم پہلی دو جلدوں کی تالیف حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد (حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمائی.آپ کے منصب خلافت پر فائز ہو جانے کے بعد آپ کی غیر معمولی مصروفیات کی وجہ سے یہ ممکن نہ رہا کہ وہ اس کام کو تکمیل تک پہنچاتے.آپ نے مولانا محمد شفیع اشرف صاحب مرحوم کو اس کام کے لئے مقرر فرمایا.اشرف صاحب اس زمانہ میں ناظر امور عامہ کی حیثیت سے خدمات بجالا رہے تھے.اس اہم ذمہ داری اور کثرت کار کی وجہ سے وہ اس کام کے لئے زیادہ وقت نہ نکال سکے.اس طرح یہ بہت بڑی ذمہ داری خاکسار جیسے کم علم اور نا تجربہ کار شخص کو ملی.سوانح فضل عمر پانچ جلدوں میں مکمل ہوئی.جن میں سے تین کی تالیف کی سعادت بفضل الہی نصیب ہوئی.302
زنده درخت پچھلے پچاس سال پر نظر دوڑاتا ہوں تو کسی قدر خوشی مگر زیادہ ندامت کا احساس ہوتا ہے.خدمت کے جو مواقع حاصل ہوئے ، خدا تعالیٰ کی ستاری کے جو جلوے دیکھے اس میں بہت زیادہ خدمت کرنا چاہیے تھی.حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ نے خاکسار کے ایک عریضہ کے جواب میں بطور حوصلہ افزائی از راه شفقت تحریر فرمایا :- " آپ کا ارسال کردہ خط موصول ہوا.بفضل خدا تعالیٰ آپ کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے آپ کام کر رہے ہیں کئے جائیں اللہ تعالیٰ قبول فرمائے.دین دنیا کی بہترین حسنات سے نوازے آپ کی نیک خواہشات پوری فرمائے.آپ کا حامی و ناصر ہو.“ اللہ تعالیٰ خاتمہ بالخیر فرمائے.دنیا میں ستاری سے ڈھانپنے والا عقبیٰ میں غفاری سے ڈھانپ لے.اللھم لالی ولاعلی.تحدیث نعمت کے طور پر یہاں اپنی اہلیہ محترمه محموده بنت چراغ دین صاحب آف سانگلہ ہل کا ذکر خیر ضروری سمجھتا ہوں.ایک زندگی وقف کی روح کے ساتھ کمال وفاداری ،صبر اور قناعت سے ساتھ دیا.گھر کی ذمہ داریاں اُٹھا کر مجھے سبکدوش رکھا.میرے والدین اور بہن بھائیوں سے حسنِ سلوک کر کے دعائیں لیں.اولاد کی تربیت ایسے رنگ میں کی کہ بفضل خدا سب خدمت دین میں حتی المقدور مصروف ہیں.فجز اھا اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اولاد : - قدسیه 1 - مبشرہ اہلیہ محترم عبد الشکور صاحب مرحوم ( یو کے ) بچے.کاشف صبیحہ ، آصف، 2 - مدثر عباسی (ایم ٹی اے ) اہلیہ محترم محی الدین عباسی صاحب.بچے.عطاء الاول 303
، عطیه، منزه، آمنه زنده درخت 3- رشید احمد.بیگم ناصرہ رشید صاحبہ (یوکے) بچے.نبیل احمد ( متعلم جامعہ احمدیہ یو کے ) ماریہ، حانیہ 4- نیز اہلیہ محترم اعجاز کریم الدین صاحب (یوکے) بچے.صدف ، رخشندہ غزالہ 5- وسیمہ اہلیہ محترم محمد ادریس صاحب ( ریجنل امیر فرنیکفرٹ جرمنی) بچے.مائدہ، عامر احمد، ارسلان احمد 6- آصف محمود باسط راه هدی M.T.A) بیگم نصرت جہاں صاحبہ (یوکے) بچے.رومان ، بارعہ، ریحانہ.محتر مدامۃ الرشید صاحبہ اہلیہ محترم صادق محمد صاحب 21 جون 1936 قادیان میں پیدا ہوئیں.بچپن کی یادوں میں ابا جان کا قرآن پاک سنا، تلفظ درست کرانا اور حفظ کروانا یاد ہے.اس ضمن میں ایک دلچسپ دردانگیز واقعہ ہوا کہ ابا جان نے آخری سیپارہ حفظ کرنے پر مخمل کا سوٹ انعام رکھا.کشائش کا زمانہ تھا اجمل کا سوٹ بڑی بات نہ تھی مگر پھر تقسیم برصغیر کے بعد حالت کی کروٹ سے ابا جان درویش ہو گئے.بیٹی نے آخری سیپارہ مکمل حفظ کر لیا تو بڑی دعاؤں اور معذرت کے ساتھ اپنا وعدہ اس طرح پورا کیا کہ مل کے بجائے کھدر کی قمیض بھیجی.یہ تحفہ بیٹی نے بہت خوشی سے وصول کیا کیونکہ اُس میں ابا جان کی دلی دعائیں شامل تھیں اور وقت ایسا تھا کہ کھد ربھی غنیمت تھا.رتن باغ میں 1948 میں پہلی تعلیم القرآن کلاس میں شامل ہو ئیں اس کلاس کی تاریخی اہمیت ی تھی کہ 1948 کی مجلس مشاورت میں قرآن کلاسز کھولنے کی تجویز پیش ہوئی جو حضرت مصلح موعود نے منظور کر لی.اور اس طرح اظہار خوشنودی بھی فرمایا.اس کلاس کی طالبات میں 16 نمبر پر امتہ اللطیف اور 17 نمبر پر امتہ الرشید تھیں.( بحوالہ تاریخ لجنہ دوم ص 85,86) 304
زنده درخت اس کلاس میں ان دو بچیوں کی کامیابی کی اطلاع حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے ابا جان کو دی تا کہ ایک درویش کی خوشی کا کوئی سامان ہو جائے.حضرت میاں صاحب کی ہمارے خاندان کی دلجوئی کے بہت واقعات ہیں.کمال ذرہ نوازی تھی.باجی رشید ایک نو عمر بچی تھیں کسی کام سے آپ کے گھر گئیں.فرمایا: کھانا کھالو جی میں کھانا کھا کر آئی ہوں.باجی نے بصد ادب جواب دیا.آپ نے دریافت فرمایا: کیا کھایا تھا؟ کھمبیاں آپ نے فرمایا ابھی جاؤ اور میرے لیے بھی لاؤ مجھے بہت پسند ہیں.حضرت اماں جان برسات میں ضرور پکوایا کرتی تھیں.اس ذراسی بات میں حضرت میاں صاحب کی فراست کے کئی پہلو دیکھے جا سکتے ہیں.باجی رشید کو کئی لحاظ سے اولیت کا موقع ملا.آپ جامعہ نصرت کے اجراء کے وقت پہلے پیج (Badge) میں شامل تھیں.محترمہ فرخندہ نے شاه صاح به پرنسپل جامعه نصرت نے امی جان کو بلا کر تحریک کی تھی کہ بچی کو کالج میں داخل کریں.جامعہ نصرت میں تعلیم کے دوران ایک بظاہر معمولی سے واقعہ نے حضرت سیده مهر آپا نور الله مرتدھا کو اس قدر متاثر کیا کہ ایک مضمون لکھ ڈالا.یہ مضمون ہمارے لئے اعزاز ہے اور اس سے جامع نصرت کے درس و تدریس پر بھی روشنی پڑتی ہے اس لئے پیش خدمت ہے:.305
زنده درخت ت سیده مهر آپا صاحبه ان الله مَعَنَا میں ماضی کے دھندلکوں میں گھوم رہی تھی.ان دھندلکوں میں مجھے ایک چوکھٹ پر إِنَّ الله معنا سنہری اور رو پہلی حروف میں چمکتا ہوا نظر آیا.میں ٹھٹکی میں نے غور کیا.یہ حسین الفاظ اپنی آب و تاب کے ساتھ نمایاں ہوتے گئے.میں نے دماغ پر زور ڈالا....کہ یہ حسین اور روح پرور کلمات میں نے کسی مومن کی زبان سے سنے تھے.یہ کس قدر حسین لمحات تھے؟ بظاہر محدود.اگر معنی کے لحاظ سے کس قدر وسیع اور کس قدر قوی تھے......مجھے یاد آیا مجھے یاد آیا اور اس یاد کے آتے ہی میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب آٹڈ پڑا کیونکہ اس سہانی یاد کے ساتھ ایک ایمان افروز واقعہ وابستہ تھا.غالباً 53ء میں ہم لوگ فورتھ ائیر میں تھے.یہ ہمارے کالج کا پہلا میچ تھا جس نے بی.اے کا فائینل امتحان دینا تھا.چونکہ اس کالج کا ابتدائی دور تھا...حالات زیادہ سازگار اور تعلیمی ترقی کے لئے مد و معاون نہ تھے جیسا کہ ابتداء میں ہوا کرتا ہے.پورا اسٹاف میسر نہ تھا.کبھی انگلش مضمون کا وقت تو کبھی اردو مضمون کا...کبھی عربی کا اور کبھی فارسی کا......دو چار دن اس مہربان سے درس و تدریس ہوا تو دو چار دن کے لئے اُس مہربان سے غرض اس راہ میں ہمارے لئے کوئی باقاعدگی نہ تھی مگر یہ پہلا پیچ یہ کلاس اپنے اندر کمال اعتماد رکھنے والی اور علمی ذوق رکھنے والی تھی.باوجود اس کے کہ اسے صحیح راہنمائی حاصل نہ تھی اپنے طور پر بہت محنتی تھی پڑھائی میں کھیلوں میں اور کالج کے دیگر کاموں میں یہ کلاس بہت دلچسپی لیا کرتی.یہ کلاس اس معاملہ میں تشنہ کام رہی کہ کاش 306
زنده درخت انہیں بر وقت ایسے راہنما ملیں جو باقاعدگی کے ساتھ انہیں منزل مقصود کی طرف چلائیں مگر ایک لمبے عرصے تک یہی ہوتا رہا.سو ان حالات کا جو نتیجہ عموماً ہوا کرتا ہے ظاہر ہے.چند سٹوڈنٹس کسی نہ کسی مضمون میں کچھ کمزور رہ گئیں....جن میں سے ایک سٹوڈنٹ امتہ الرشید سلمہا اللہ بھی تھیں ان کا انگلش مضمون نسبتا کچھ کمز ور تھا.جوں جوں وقت گزرتا گیا.اور ہم لوگ امتحان کے قریب آتے گئے...ہمارے رہنماؤں کی طرف سے ہمیں تلقین ہوتی ہمیں توجہ دلائی جاتی..ہم لوگ جو کمزور تھے بجائے اس کے کہ زیادہ سے زیادہ محنت کریں اور اس شکایت کو دور کریں.سوچ بچار میں لگ جاتے کہ پھر کیا کیا جائے یا زیادہ سے زیادہ دل ہی دل میں یہ طے کر بیٹھتے کہ فائینل میں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے.اس بُری حالت سے....اور اس برتے پر بڑی مشکل تھی کہ ہم امتحان میں کو دیں.خصوصاً میری تو بری حالت تھی...مگر ایک لڑکی جو کہ میرے لئے بہترین مثال تھی.با وجود بار بار توجہ دلانے کے بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی انہیں اتنی دفعہ اور اس قدر زور دار الفاظ میں توجہ دلائی جاتی کہ اگر ان کی جگہ میں ہوتی تو کب کا معاملہ ختم کر چکی ہوتی.کئی دفعہ تو صاف طور پر اسا تذہ کی طرف سے کلاس میں کہا گیا کہ انگلش میں پاس ہونا ان کے لئے ناممکن ہے اور اس کلاس میں سب سے زیادہ اسی مضمون کی دقت ہوا کرتی ہے.وہ یہ وارنگ سن کر بڑے اطمینان اور کامل توکل کے ساتھ کہ دیتیں " إِنَّ اللهَ مَعَنا میں نے اکثر و بیشتر بار بار ان کی زبان سے یہ کلمات سنئے.میں اُن کے اس قدر پختہ ایمان سے متاثر ہوئے بغیر نہ ره سکی...ایک دن تو میری حالت ایسی تھی کہ آنکھوں میں آنسو تھے....اور میں نے امتہ الرشید کا ہاتھ پکڑ کر کہا عزیزہ ! آپ ضرور کامیاب ہو جائیں گی...میرا دل گواہی دیتا ہے کہ جس ایمان اور توکل کے ساتھ اِنَّ اللهَ مَعَنا“ کا کلمہ اپنی زبان سے ادا کرتی ہیں وہ ایمان آپ کو انشاء اللہ اس منزل پر کھڑا کر دے گا جس منزل کے لئے آپ جد و جہد کر رہی ہیں.وہ آپ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا.آپ کی ثابت قدمی قابل رشک ہے.307
زنده درخت ساعتیں.دنوں میں دن ہفتوں اور مہینوں میں گزرتے چلے گئے....امتحان کے صبر آزما لمحات آئے اور گزر گئے.نتیجہ کا اعلان ہوا...بفضلہ تعالیٰ تمام کلاس پاس تھی اور امتہ الرشید سلمہا اللہ نے کلاس میں سیکنڈ پوزیشن حاصل کی...کلاس حیران تھی.یہ تھا خو بصورت اور شیریں پھل اسی کامل ایمان اور تقویٰ کا جو اس مخلوق نے اپنے خالق پر کیا.وہ اس خالق کے فضلوں اور وسیع حمتوں سے بدگمان نہ تھیں.انہیں اعتراف تھا کہ وہ ضرور کمزور ہیں مگر اس سے کسی عنوان انکار نہ تھا کہ وہ ایسے خالق کی مخلوق ہیں جو بڑا غالب...بڑا قوی اور بڑا مہربان ہے سو جب اس خالق نے اپنے بندے کا ایمان اس قدر بڑھا ہوا اور بے مثال دیکھا تو پھر توفیق خداوندی نے بڑھ کر ہاتھ تھام لیا اور نہ صرف ان کو کامیابی کا منہ دکھایا بلکہ کلاس میں سیکنڈ پوزیشن بھی دے دی.آؤ! ہم اس چھوٹی سی لڑکی سے ایمان و توکل کا درس حاصل کریں....آؤ ہم اس رنگ میں رنگین ہو جائیں تا ہمارا ہاتھ بھی توفیق خداوندی بڑھ کر تھام لے...تاہم بھی اس کے بے حساب انعامات سے نوازے جائیں...اور اس طرح پر اپنی منزل مقصود کو حاصل کریں اور اس محبوب پر بد گمانی نہ کریں.....یه عزیزه...محترمی عبدالرحیم صاحب درویش قادیان کی صاحبزادی تھیں.جن کے اس پر یقین رویے نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ اپنے جذبات حوالہ قلم کرنے پر مجبور ہوئی.اللہ کرے ہم میں وہی ایمان وہی تو گل پیدا ہو جائے جس کا مظاہرہ انہوں نے کیا.آج وہی لڑکی یعنی امتہ الرشید بی.اے بی.ٹی ہیں.اور نصرت گرلز سکول میں ٹیچر لگی ہوئی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں دین ودنیا کی ترقی کے انتہائی مقامات پر پہنچائے.اور ان کا گفتار و کردار آنے والی نسلوں کے لئے مشعل ہدایت بنے.آمین...(مصباح ربوہ جولائی 1987) جامعہ نصرت کے ماحول میں اتنی اپنائیت تھی کہ بزرگ حضرات طالبات کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے ایک دفعہ کسی فنکشن کے سلسلے میں طالبات کو لائلپور (فیصل آباد ) جانا تھا.باجی 308
زنده درخت رشیدہ کو گھر سے اجازت نہ ملی.حضرت چھوٹی آپا صاحبہ نے کہلایا کہ بچی کو میں خود ساتھ لے کر جاؤں گی چنانچہ اپنی کار میں جس میں پرنسپل صاحبہ بھی تھیں باجی کو ساتھ لے کر گئیں.باجی کو اس لحاظ سے بھی اولیت کا موقع ملا کہ جامعہ نصرت سے فارغ التحصیل ہو کر لاہور ٹیچر ٹریننگ کالج میں تعلیم دلانے کے لئے ان کو منتخب کیا گیا اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواتین میں پہلی بی.ٹی (بی ایڈ ) کرنے والیوں میں شامل ہوئیں.نصرت گرلز سکول کو ایک تربیت یافتہ استانی مل گئی.آپ نے 1956 سے 1960 تک اس سکول میں پڑھایا.1957 میں عم زاد محترم صادق محمد صاحب ابن محترم صالح محمد صاحب سے شادی ہوئی.زیادہ تر فیکٹری ایریار بوہ میں رہائش پزیر رہیں.جہاں صدر حلقہ اور دیگر خدمات کے علاوہ قرآن مجید ناظرہ و ترجمہ پڑھانے کی سعادت حاصل رہی.1971 سے 1882 تک بھائی صادق صاحب تحریک جدید کے تحت احمد یہ سیکنڈری سکول بو سیرالیون میں ٹیچر رہے اس دوران دس سال سے زائد عرصہ باجی نے تنہا بچوں کی ذمہ داریاں اُٹھا ئیں پھر واپس آکر 1991 سے 2002 تک نصرت جہاں اکیڈمی ربوہ میں ٹیچر رہے.باجی نے بے حد سادہ، بے نفس، متقی غمگسار، تحمل اور صابرہ شاکرہ طبیعت پائی ہے.کچھ عرصہ کینیڈا رہنے کے بعد اب ربوہ واپس آچکی ہیں.اللہ تعالیٰ صحت تندرستی والی فعال زندگی عطا فرمائے.آمین.اولاد 1 - امۃ النصیر (بی اے ) اہلیہ محمد طارق اسلام صاحب مرحوم مربی سلسلہ آٹواہ کینیڈا.بچے نجمہ ،صبیحہ عظمی، بشری ، مریم 2- ونگ کمانڈر ڈاکٹر ساجد احمد بیگم لبنی احمد.بچے.روحی ، عائشہ جھیل احمد شیمی 3- امتہ الحفیظ (ایم اے) اہلیہ عبدالسمیع طاہر صاحب،.بچے ماہم ، رافع ، سعدیہ 4- عارف احمد (ایم ایس سی ) بچے.دانش احمد ، حارث احمد ، آمنہ 309
زنده درخت 5- امتہ الٹی (ایم اے) اہلیہ انور اقبال سیفی صاحب، بچے عظیم سیفی ، عدیل سیفی 6- امتہ الود و د اہلیہ ظہیر احمد صاحب مربی سلسلہ جنوبی افریقہ، بچے سائرہ احمد ، سفیر احمد 7 - امۃ القدوس (ایم اے) اہلیہ میاں بشیر الدین اور میں صاحب بچے.ریان، زارا، زویا نور،روحان.محترمہ امتہ الحمید صاحبہ اہلیہ محترم عبد السلام ظافر صاحب قادیان دارالامان میں 14.2.39 کو پیدا ہوئیں.قادیان میں بچپن اور ابا جان کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں :.’با جان مجھے ساتھ لے کر کپڑے اور جوتوں کی دوکان پر جاتے اور دکان دار سے کہتے کہ جس چیز پر یہ انگلی رکھے وہی اسے دے دینا.ایک مرتبہ مجھے خسرہ ہو گیا.ٹھیک ہونے پر تجویز ہوا کہ مجھے دہی کا ادھ رڑکا پلانا چاہیے.سامنے دودھ دہی کی دوکان تھی.جاتے ہوئے اسے کہہ گئے کہ اتنے دن میری بچی کو اتنا ادھ رڑ کا روزانہ پلانا ہے.مبادا گھر میں سستی ہو جائے اور اس کی صحت پر برا اثر پڑے.اتنے لاڈ سے پالا تھا.ہر دن اپنی شان میں نرالا ہوتا تھا.کیا کچھ یاد کروں؟ امی جان کو تاکید تھی کہ بچوں کی دیکھ بھال سے زیادہ اہم اور کوئی کام نہیں.بچوں کی پرورش میں کوتاہی یا بچوں کی آنکھ سے نکلا ہوا آنسوتو واپس نہیں ڈال سکو گی.گھر کا کام تو ہر طرح کروایا جاسکتا ہے.زندگی یوں رواں دواں تھی کہ 1947 میں پارٹیشن کا وقت آ گیا.غیر یقینی حالات تھے.ایک ٹرک میں جگہ ملنے پر ہمیں بٹھانے کے لئے آئے بٹھا کر واپس مڑے میں ابا جان ابا جان پکارتی رہی مگر آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح مڑ کر نہ دیکھ سکے کہ اُن 310
زنده درخت کی آنکھوں میں آنسود یکھ کر پریشان نہ ہو جاؤں.خدا تعالیٰ پر توکل کر کے اپنی رابعہ بصری اور بچوں کو سوار کر دیا اور خود شعائر اللہ کی حفاظت کے لئے درویشی کو قبول کر لیا اور عبد الرحیم نمبر 72 کے طور پر 313 درویشان میں شامل ہونے کی سعادت پاگئے.ع بادشاہوں سے بھی افضل ہیں گدائے قادیاں ابا جان کو جب کبھی ویزا مل جاتا ہمیں دیکھنے آجاتے.ایک مرتبہ ربوہ آئے ہوئے تھے.میرے بی اے کے امتحان تھے.بجلی نہ تھی لائین کی روشنی میں پڑھتی تھی.اگلے دن جغرافیہ اور عربی کے دو پرچے تھے.میں نے بتایا عربی کے پرچے کا ایک سوال پوراحل نہیں کر سکی.تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دی اور کہا میں نے تمہارے لئے دعا کی ہے.سامنے والی دیوار ایک دم چمک دار نورانی سی ہوگئی اور اوپر فضل“ لکھا ہوا دیکھا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو جاؤ گی.ان کی دعاؤں کے طفیل میں نے عربی میں گولڈ میڈل لیا.بیٹی کتنی بھی لاڈلی ہو گھر سے رخصت کرنا ہوتا ہے.بہت دعاؤں کے بعد دینداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے رشتہ طے کیا.قادیان واپس چلے گئے.شادی کی تیاری وغیرہ کے کچھ نہ کچھ چیزیں وہاں سے بھجواتے رہے.ایک مرتبہ صحن میں بیٹھے ہوئے تھے مجھے بلا کر کہا میں نے تمہارے لئے اتنی دعا کی ہے کہ زمیں و آسمان کی درمیانی فضا اس سے بھر گئی ہے.یہ دعا ئیں زندگی بھر ساتھ رہیں.ظافر صاحب کو افریقہ میں بطور پرنسپل خدمت کا موقع ملا.میں بھی سکول میں پڑھاتی رہی اور اب جب کہ ظافر صاحب جامعہ احمدیہ یوکے کے پرنسپل ہیں.ہم جامعہ کے احاطے میں رہتے ہیں.مجھے سب طلباء اپنے بچوں کی طرح لگتے ہیں.ہمارے بیٹے عزیز ڈاکٹر نفیس احمد حامد نے نیوروسرجری کے FRCS امتحان میں بفضلہ تعالیٰ یو.کے بھر میں اول پوزیشن حاصل کی اور Norman Dott گولڈ میڈل کا حقدار قرار سلسلے کے لئے.پایا.ماشاء اللہ فیس یہ گراں قدر اعزاز پانے والا پہلا پاکستانی ہے.فالحمدللہ علی ذلک.جب اس نمایاں کامیابی کا اعلان ایم.ٹی.اے پر نشر کیا گیا سن کی دلی مسرت ہوئی 311
زنده درخت اور دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے بھر گیا.اس عظیم الشان کامیابی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم، عزیزم نفیس کی محنت شاقہ اور ابا جان مرحوم کی دعائیں بھی یقینا شامل ہیں.آخری بیماری میں سب بہن بھائیوں نے ابا جان کی تیمار داری اور خدمت کی سعادت حاصل کی.اس سے وہ بہت خوش تھے.انہیں پاکستان لے آئے تھے.ہم سیرالیون مغربی افریقہ سے آئے ہمارے چاروں بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں.ہمارے ماں باپ نے ہمارے لئے بہت قربانیاں دیں.29 سال کی جدائی برداشت کی مگر بچوں کو خلافت کے سایہ تلے رکھا اور اعلی تعلیم دلوائی.اولاد ربِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا.1- ڈاکٹر رشید احمد خالد 2- ڈاکٹر نفیس احمد حامد ( پریذیڈنٹ سنٹرل برمنگھم یو کے ).بیگم مبارکہ.بچے اسامہ محمود حامد، جلیس احمد حامد اور نبیل احمد حامد 3 محمودہ روحی.اہلیہ اظہر احمد سیفی صاحب.بچے ملیحہ سیفی ، سکینہ سیفی محمودہ سیفی 4 منصورہ سبوحی.اہلیہ ناصر سعود صاحب.بچے حارث احمد ، آمنہ بردا.312
زنده درخت امتہ الباری ناصر اہلیہ محترم ناصر احمد صاحب قریشی خاکسار 1941 قادیان میں پیدا ہوئی.دادا جان نے کانے سے قلم تراشنا، فقط لگانا اور پکڑنا سکھایا.جامعہ نصرت ربوہ اور پنجاب یونیورسٹی او مینٹل کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی.بعد جامعہ نصرت میں بطور لیکچرار تعینات رہی.شادی کے بعد لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں رہائش رہی.کراچی میں 1980 سے لجنہ کی خدمات بحیثیت سیکرٹری قیادت نمبر ایک شروع کیں.1989 سے شعبہ اشاعت کا کام مل گیا.صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں کم از کم سو کتب کی اشاعت کے منصوبے پر کام کی توفیق مل رہی ہے.کتب کی تحریر ، ترتیب، تہذب اور اشاعت کے ساتھ ساتھ جماعتی رسائل واخبارات میں گاہے گاہے نظم نثر لکھنے کا موقع ملتا ہے.یہ سب خلفائے کرام اور بزرگوں کی دعاؤں کا فیض ہے.مولا کریم کے فضل و احسانات کا شمار ممکن نہیں.اُس نے ایسی ایسی نعمتیں عطا فرمائیں کہ شکر کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت، توجہ اور دعاؤں نے مالا مال کر دیا.آپ نے دعاؤں سے گھر بھر دیا فرمایا.اللہ تعالی آپ کو خدمات دینیہ کے مقام محمود عطا فرمائے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا دی اللہ ساتھ ہو اور سلطان القلم کے فیضان سے آپ کا قلم برکت پزیر رہے آمین.خاکسار عاجزانہ درخواست دعا کرتی ہے کہ مولا کریم پردہ پوشی فرما کر مغفرت فرمائے ہمیشہ اپنے پیار کی نگاہوں میں رکھے.نسلاً بعد نسل اپنے فضل و احسان سے اپنی رضا کی راہوں پر چلاتا رہے.آمین.اولاد 1 - ڈاکٹر امتہ المصور اہلیہ زاہد خورشید صاحب ( کینیڈا).بچے ، وقاص احمد ، ولیہ متین 2- ڈاکٹر منصور احمد قریشی کارڈیالوجسٹ، پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ڈیٹرائٹ(یو 313
زنده درخت ایس اے) بیگم فوزیہ محمود صاحبہ، بچے حانیہ منصور، حسن مصور ، مونس احمد 3- امۃ ا لصبور اہلیہ عمر نصر اللہ خان صاحب ( یو کے ).بچے ثمر نصر اللہ خان، نصر نصر اللہ خان السلام 4 محمود احمد قریشی (انجنئیر ) بیگم امتہ المتین مونا صاحبہ.بچے سعود احمد ،سرمد احمد ،عطاء 5- امۃ الشافی (M.SC) اہلیہ طارق رشید الدین صاحب (کینیڈا) بچے.مائرہ طارق نور الدین طارق - صباحہ طارق محتر مدامة الشکور صاحبہ اہلیہ محترم چوہدری محمد ارشد صاحب 8 مارچ 1944 قادیان میں پیدا ہوئیں جامعہ نصرت ربوہ میں تعلیم حاصل کی 1964 میں چوہدری محمد ارشد صاحب پروفیسر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ سے شادی ہوئی.دارالعلوم غربی میں رہائش تھی.حضرت سیدہ آپا نا صرہ بیگم صاحبہ نے اس حلقے کی جنرل سیکر یٹری مقررفرمایا.پھر افریقہ چلے گئے وہاں خدمت دین کے مواقع ملے 1978 میں واپس ربوہ آنے پر پہلے اپنے حلقہ کی سیکر یٹری تعلیم اور پھر صدر کا کام کیا.سالانہ تربیتی کلاس میں صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ کی جگہ کام کیا.( جو اپنی والدہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے علاج کی غرض سے کراچی میں مقیم تھیں ) اس کے بعد کئی سال تربیتی کلاس میں انتظامات کرتی رہیں.اصلاحی کمیٹی کی ٹیم میں شامل ہو کر دار العلوم اور دار النصر میں کام کیا.بطور سیکر بیٹری اشاعت لجنہ ربوہ میں پانچ سال کام کیا.عید ین پر منتظمہ بیت 3 سال کام کرنے کا موقع ملا.نومبر 1999 میں کینیڈ منتقل ہو گئیں وہاں اردو اور قرآن مجید پڑھانے کا موقع ملا.314
زنده درخت نیشنل سیکرٹیری صنعت و حرفت لجنہ کینیڈا رہیں.ایم ٹی اے کے لئے خدمت کی توفیق پائی.لجنہ کینیڈا کی تاریخ لکھ رہی ہیں.دیگر کئی اصلاح معاشرہ کے کاموں کی سعادت حاصل ہورہی ہے.سوشل خدمات پر بے شمار ایوارڈ ملے جن میں سے چند درج ذیل ہیں: (1) منتظم ریکسڈل ایتھنو کلچرل سینئر ز ( اردو بولنے والی خواتین ) Rexdale Ethno Cultural Seniors Orgainzer(2003) (2) وان خدمت خلق ایوارڈ City of Vaughan 2003 Volunteer Recognition Award from Mayor Michael Di Biase (3) ریکسیڈیل خدمت خلق ایوارڈ Recognition services community by Roy Cullen M.P 2004 (4) کمیونٹی حوصہ افزائی ایوارڈ ، پاکستانی خواتین کا گروہ، ایٹوبیکوک Appreciation of CommunityParticipation and leadership of Ethon-Cultural Seniors's Project(Pakistani Women's Group, Etobicoke, ON).(5) ٹورنٹوسینئر ز خدمت خلق ایوارڈ The city of Toronto's 2005 community Services Volunteer Award for the Organizations Volunteer work in seniors services from Mayor David Miller.دعا ہے اللہ تعالیٰ مقبول خدمت کی توفیق عطا فرما تار ہے.آمین.اولاد 1- اکبر احمد 2- امۃ القیوم اہلیہ محترم محمود دانیال صاحب ( نیو یارک) بچے.کاشف احمد ، حماد احمد، انصر احمد 315
زنده درخت 3- مظفر احمد چود ہری مربی سلسلہ ( آرکیالوجسٹ ).بیگم ندرت طاہر صاحبہ.بچے فیضان ناصر زمان، نادر زمان 4- مظہر احمد چودھری ( آٹواہ کینیڈا ).بیگم نادیہ صاحبہ.بچے.جمال احمد ، نور 5-امتہ الحی اہلیہ ذکی الدین صاحب 6- حافظ مبارک احمد.بیگم آفرین.بچے طاہر ،طیب 7 - طاہرہ احمد چودھری محترم عبد السلام طاہر صاحب ، یکم دسمبر 1947 کو رتن باغ لاہور میں کسمپرسی کی حالت میں پیدا ہوئے.اس بچے کو باپ کی درویشی کا انعام سمجھا گیا.سات سال کے بعد باپ بیٹے کی ملاقات ہوئی.ربوہ میں تعلیم کے بعد حیدر آباد سندھ میں ملازمت اور رہائش ہے.پہلی بیوی عزیزہ مبارکہ صاحبہ سے اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے اور دو بیٹیاں عطا فرمائیں.پانچویں بچے کی پیدائش میں پیچیدگی سے ماں بیٹا دونوں اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.مبارکہ قطعہ شہداء میں مدفون ہے.بہت سادہ اور محبت کرنے والی تھیں.اپنے بحسر محترم کی خدمت کا موقع ملا.جواں عمری میں اُس کی وفات سے سلام کو بہت صدمہ پہنچا.بچے بہت چھوٹے ابھی سکول جانے والے تھے.مرحومہ کے والد محترم اللہ بخش صاحب آف پنڈی بھٹیاں نے عمدہ مثال قائم کی اور اپنی نواسی عزیزہ امتہ المتین راحت کو سلام کے عقد میں دے دیا.جس نے عمدگی سے گھر اور بچے سنبھال لئے.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے.دوسری بیوی سے مولا کریم نے دو بیٹے عطا فرمائے.سب سے چھوٹا عزیزم عطاء الغنی زندگی وقف ہے اور جامعہ احمد یہ ربوہ میں زیر تعلیم ہے.316
زنده درخت حضرت دادا جان کی روایت کے مطابق اُن کے والد سندھی خان کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں میں شمار کیا تھا اور نماز جنازہ پڑھائی تھی.اس طرح عزیزم عطاء الغنی پانچویں نسل کا بچہ ہے.جس نے بتوفیق الہی خدمت دین کے سلسلے کو برقرار رکھا ہے.اسی طرح بھائیجان عبد الباسط شاہد صاحب کا پوتا عزیزم نبیل احمد بھی جامعہ احمدیہ احمد یہ یو کے میں زیر تعلیم ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے خاندان میں خلافتِ حقہ سے نسلاً بعد نسل وابستگی کو بڑھاتا چلا جائے آمین الھم آمین.اولاد 1- طلعت طاہر ( کراچی ) اہلیہ مرزا اقبال محمود صاحب.بچے نائلہ محمود ، مدیحہ محمود، فریحه محمود 2- ندرت مظفر اہلیہ مظفر احمد چودہری صاحب مربی سلسلہ (ربوہ).بچے.ناصر زمان، نادر زمان 3- عطاء القدوس ( کینیڈا).بیگم عقیلہ طاہر صاحبہ.بچے.علینہ ، عائشہ.4- لطف الرحیم (حیدرآباد ).بیگم صائمہ صاحبہ.بچے معارج احمد ، مشر از احمد 5.اسد محمود طاہر 6- عطاء الغنی متعلم جامعہ احمد یہ ربوہ 317
زنده درخت باب سوم -41 حضرت حکیم اللہ بخش مدرس (پنے ہالی) ولد شاہ دین صاحب سکنہ نے ہالی متصل گورداسپور دربان ڈیوڑھی حضرت اماں جان حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کی وفات قادیان میں 1943ء میں بعمر 85 سال ہوئی.رجسٹر روایات رفقاء نمبر 4 میں آپ کی بیان فرمودہ روایات پر تاریخ 20دسمبر 1938ء درج ہے.مذکورہ روایات میں آپ نے اپنی عمراتی (80) سال بتائی ہے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ انداز 1858ء میں پیدا ہوئے.قادیان کے رفقاء کی فہرست جو تاریخ احمدیت جلد ششم کے آخر میں درج ہے صفحہ 42 پر 141 نمبر پر تحریر ہے.مولوی اللہ بخش صاحب در بان ولد میاں شاہ دین صاحب ہے ہالی ضلع و تحصیل گورداسپور سن بیعت 1905 ءسن زیارت 1880ء.آپ کا خاندان علم و فضل اور دینداری کی وجہ سے دور و نزدیک مشہور تھا.آپ اپنے والد صاحب کی دینی و دنیاوی لیاقت کے تذکرے میں ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ جب انگریز ہمارے علاقے میں آئے تو ضلع کے کمشنر نے پوچھا کہ یہاں لائق کون ہے لوگوں نے والد صاحب کا نام لیا.کمشنر صاحب نے اُن کو بلوا کر کچھ مقولے اور امثال وغیرہ سُنیں اور پھر اتنا راہ و رسم پیدا ہو گیا کہ حکم ہوا روزانہ آیا کریں اور ملا کر یں.خاندانی وجاہت، تنازعات کو سلجھانے کی قابلیت بیاہ شادی کے معاملات میں صاحب الرائے ہونے کی وجہ سے ان کو غیر معمولی شہرت حاصل تھی.آپ دو بھائی تھے بھائی کا نام حسین بخش تھا.وہ قبول 318
زنده درخت احمدیت سے محروم رہے تاہم بھائی کی پارسائی کی وجہ سے اس حد تک متاثر تھے کہ مخالفت نہ کرتے تھے.اللہ بخش صاحب نے فارسی اور عربی زبانیں سیکھیں.علم طب میں مہارت حاصل کی پنجابی کے مقبول شاعر بھی تھے ان اوصاف کے حامل کو احتراما خلیفہ صاحب“ کہا جانے لگا بعد میں آپ اسی عرف سے پہچانے جاتے.ابتدا میں آپ نے محکمہ انہار میں ملازمت کی نہر میں پانی چھوڑنے اور پل پر مشین میں تیل لگانے کا کام کیا جس کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے تھے کہ ایک دفعہ ایک انگریز افسر آیا اُس نے ملازمین سے مشینوں کے لئے دیئے گئے تیل کا حساب مانگا.ہند و ملازم نے جواب دیا، میں دھرم سے سارا تیل مشینوں میں لگاتا ہوں.پھر مسلمان سے پوچھا تو جواب دیا ، ایمان سے سارا تیل لگا دیتا ہوں.پھر حکیم صاحب سے پوچھا تو آپ نے جواب دیا ، ہاتھ سے سارا تیل لگاتا ہوں اس جواب سے افسر بہت محظوظ ہوا.اور اکثر اس بات کا ذکر کرتا.یہ ابتدائی ملازمتیں تھیں بعد میں آپ بطور مدرس ( ٹیچر ) کام کرتے رہے.اور اپنے علم حکمت وطب سے بھی لوگوں کو فیض پہنچاتے رہے.علم کی پیاس نے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے دعوی سے بھی قبل متعارف کروادیا تھا.آپ کا شمار ہے بالی ضلع گورداسپور کے ابتدائی احمد یوں میں ہوتا ہے.بیعت کی سعادت حاصل ہوئی تو مخالفت کا شدید طوفان اُٹھا وہی گاؤں جہاں آپ کو خلیفہ صاحب پکارا جاتا تھا اور ہر قسم کے دینی و دنیاوی معاملات میں آپ سے رجوع کرتے تھے دشمنِ جان ہو گیا.شدید سوشل بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا.سختیاں برداشت کیں.مگر گاؤں والوں کا بھلا ہی چاہتے رہے.گالیاں سُن کر دعا ئیں اور دکھ پاکے آرام دیتے رہے اللہ تعالیٰ نے مدد کی اور اشد مخالف مولوی صاحب کے دو بیٹے محترم منشی سبحان علی صاحب اور محترم منشی رمضان علی صاحب احمدی ہو گئے.اس طرح گاؤں میں احمدیت کا پودا بڑھنا شروع ہوا.آپ کو اپنے گاؤں والوں کی حالت دیکھ کر بے حد صدمہ ہوتا اور کوشش کرتے 319
زنده درخت کہ کسی طرح حق قبول کرنے کے لئے اُن کے دل کھلیں ایسے انداز اختیار کرتے جو گاؤں والوں کی سمجھ میں آجائیں.آپ چھت پر چڑھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ، پنجابی شعر پڑھتے.یہ طریق بہت مقبول ہوا.آپ کا پنجابی کلام احمدیوں میں بھی بے حد مقبول ہوا.جلسہ ہائے سالانہ قادیان کے موقع پر قیام گاہوں ، بازاروں اور بارونق محفلوں میں کلام سناتے.صداقت مسیح موعود کے دلائل سیدھے سادے انداز میں دلوں میں اُتر جاتے.بحرت قادیان اور قادیان والوں کی محبت میں اپنے گاؤں کو خیر باد کہا اور ہجرت کر کے اپنے محبوب کے در پر حقیقتا دھونی رمادی.آپ کو الہار میں حضرت اماں جان ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) کی ڈیوڑھی کی دربانی نصیب ہوئی.باقی زندگی اسی در کی دربانی میں اور دعوت الی اللہ کے سلسلے میں دوروں میں گزری.قادیان کے محلہ دارالبرکات میں مکان بنانے کی بھی توفیق ملی جس کا ایک دلچسپ واقعہ ہے.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں مکان کی بنیاد رکھنے کی درخواست کی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں بوجہ خرابی صحت وہاں تک شاید نہ جاسکوں آپ ایک اینٹ لے آئیں میں اس پر دعا کر دوں گا.حسن اتفاق سے جس دن مکان کی بنیا درکھنے کا پروگرام بنا حضرت صاحب کسی اور جگہ تشریف لائے ہوئے تھے موقعہ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے محترم حکیم صاحب نے وہاں حاضر ہو کر تشریف لانے اور اپنے دست مبارک سے بنیا د ر کھنے کی درخواست کی.حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ میں وہاں اس شرط پر آؤں گا کہ آپ مجھے وہ کہانی سنائیں جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سنائی تھی.حضرت صاحب مکان کی بنیاد رکھنے کے لئے تشریف لائے وہاں عمارتی سامان اور اینٹیں وغیرہ بکھری پڑی تھیں.حضرت صاحب ان اینٹوں پر بیٹھ گئے اور حکیم صاحب نے فرمائش کے مطابق کہانی سنائی.(الفضل/ 11مارچ1998ء) 320
زنده درخت آخری عمر کا زیادہ حصہ اپنی چھوٹی بیٹی آمنہ بیگم اور داماد میاں عبدالرحیم صاحب دیانت ( درویش قادیان) کے پاس ہی گزرا.وہیں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں تدفین ہوئی.آپ کے حالات جاننے کا اہم ترین ذریعہ رجسٹر روایات میں مذکورہ روایات ہیں.دوسرے آپ کا پنجابی کلام ہے ( موتی بازار نام کی کتاب میں آپ نے اپنی سوانح نظم کی ہے.تیسرے آپ کے داماد کا لکھا ہوا مضمون ہے جو بہت دلچسپ واقعات پر ت.اس طرح اس فنافی اللہ بزرگ کی سیرت کے کافی پہلو سامنے آجاتے ہیں.مشتمل ہے -1- روایات بیان فرمودہ حضرت حکیم اللہ بخش صاحب رجر روایات صحابہ نمبر 4 صفحات 60 تا 67 حکیم صاحب نے مجھ سے بیان فرمایا کہ:- ایک شخص خواجہ عبداللہ ساکن سوہل ضلع گورداسپور نے مجھے کہا کہ آپ کو مولویوں سے ملنے کا بہت شوق ہے مگر اس وقت مولوی صاحبان کا حال چال اور ہی ہے.ان لوگوں کو در حقیقت دین کا کچھ شوق نہیں اپنے دنیاوی معاملات کے متعلق خود غرض اور پیسے حاصل کرنے کا شوق ہے.اس لئے اگر آپ حق پرست مولوی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو قادیان میں مرز اغلام مرتضیٰ صاحب کا نوجوان لڑکا ہے.اس کو دیکھیں.نماز میں گداز اور دین کے ہر ایک کام میں مستعد اور تمام مذاہب کی کتابیں آپ کے پاس موجود ہیں.کبھی تو ریت وانجیل کبھی کسی اور ہی غیر مذہب کی کتابیں دیکھتے رہتے ہیں.اور قرآن شریف سے زیادہ محفوظ ہوتے ہیں.چنانچہ میں قادیان میں حاضر ہو گیا اور حضرت صاحب کو بیت اقصیٰ میں ملا.ساتھ جان محمد صاحب کشمیری بھی بیٹھے تھے.جو بیت اقصیٰ کے امام تھے.میں نے حضرت صاحب سے باتیں کیں اور براہین احمدیہ کی چوتھی جلد ساتھ لے گیا.پھر کبھی کبھی آتا 321
زنده درخت رہا.جب ہمارے ملک میں دوسری دفعہ طاعون پڑا تو اُس وقت میں نے بیعت کی.مجھے یاد آیا کہ میں نے پہلی دفعہ ملاقات کی تو میرے ہاتھ میں ایک کتاب تھی جس کا نام نظام الاسلام تھا.اس کے حاشیے پر تو قیر الحق درج تھی.اس کتاب میں تین سو ساٹھ علمائے حنفی کی مُہریں لگی تھیں.حضرت اقدس علیہ السلام وہ کتاب لے کر پڑھتے رہے.میں تو سو گیا وہ پتہ نہیں کس وقت سوئے.صبح نماز کے لئے مجھے جگایا.نماز پڑھ کر میں چلا گیا.(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ فرمایا کہ اللہ بخش تو دیکھتا ہے کہ اس وقت قادیان گمنامی کے ایک گوشے میں ہے.غیر ممالک کے لوگ اس کے نام سے بالکل بے خبر ہیں اور یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ غام احمد بھی کسی شخص کا نام ہے مگر تو اپنی زندگی میں دیکھے گا کہ قادیان میں کہاں کہاں سے لوگ آتے ہیں اور قادیان کی شہرت کیسے چار دانگ عالم میں پھیلتی ہے.اس وقت میری عمر 80 سال ہے اور میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے یہ تمام واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کوئی ملک نہیں جہاں حضرت اقدس کی تبلیغ نہیں پہنچتی اور دور دراز کے ممالک سے لوگ برکت حاصل کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں.(2) یہ بات میں نے کئی آدمیوں سے بار ہاسنی کہ حضرت صاحب نے فرمایا قادیان دریائے بیاس تک پھیلے گا میں تو اپنے ذوق کے مطابق اب تک اس کے یہی معنی سمجھتا ہوں کہ قادیان' بے آس، تک پہنچے گی یعنی وہاں تک پہنچے گی جہاں تک پہنچنے کی کسی کو آس و امید ہی نہیں ہوگی.(3) حضرت صاحب کے والد صاحب ایک ماہر طبیب تھے.ایک دفعہ بیاس کے پار سے ایک نوجوان قادر بخش نام، ان کا نام سن کر قادیان آیا.مگر اسے معلوم ہوا کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں.اس پر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.حضرت صاحب نے رہنے کو مکان دیا.دوا اور غذا اسب اپنے پاس سے مہیا فرماتے رہے.خدا کے فضل سے وہ جلد صحت یاب ہو گیا اور بعد میں کئی دن یہاں رہا.ایک روز اس نے بانگ کہی چونکہ اُس کی آواز بہت اعلی تھی اس لئے حضرت صاحب نے حکم دیا کہ میاں قادر بخش پانچ وقت تم ہی 322
زنده درخت با نگ کہا کرو.چونکہ اس کی آواز بہت ہی بلند تھی.مسلمان تو بہت ہی خوش ہوتے تھے.مگر غیروں کو تکلیف ہوتی تھی.وہ دل میں برا مناتے تھے.ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہنے لگے.مرزا جی اس قادر بخش کی آواز بہت دور جاتی ہے.فرمایا آپ کو اس سے کوئی تکلیف تو نہیں پہنچتی ؟ کہنے لگے واہ گرو واہ گرو گئو دی سوں تکلیف نہیں اسیں سگوں راجی ہوندے آں.پر ایس نوں کسی کہو ایڈی اُچی نہ آکھے ذرا نیویں آکھ لیا کرے.( وا ہے گرو ، وا ہے گرو، گائے کی قسم تکلیف نہیں ہم تو بلکہ خوش ہوتے ہیں پر آپ اس کو کہیں اتنی اونچی نہ دیا کرے ذرا ہلکی آواز میں دیا کرے.ناقل ) حضور نے فرمایا جب آپ کو تکلیف نہیں دیتی تو اس سے بھی اونچی کہا کرے گا نیویں کی کیا ضرورت ہے.ایک روز میاں قادر بخش کو فرمایا کہ اب تو تو خوب تندرست ہے.عرض کی.حضور دیکھنے میں ایسا نظر آتا ہوں میرے بیچ میں کچھ نہیں.حضور نے ہنس کر فرمایا ( مجھے مخاطب کر کے ) دیکھو اللہ بخش ! قادر بخش سچ کہتا ہے.واقعی لہو اور چربی کے سوا اس کے بیچ میں کچھ نہیں.(4) میں نے ایک روز عرض کیا کہ آپ مثیل مسیح ہیں وہ تو گھاٹ پر جا کر دھوبیوں کو کہتے تھے.کپڑے کیا دھوتے ہو.آؤ میں تم کو دل دھو نے سکھاتا ہوں.میں بہت دفعہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوا مجھے تو آپ نے دل دھونے نہیں سکھائے.فرمایا مسیح نے جن کو دل دھونے سکھائے تھے ایک نے ان میں سے تیس روپے لے کر پکڑا دیا ، دوسرے نے منہ پر تھوکا، تیسرے نے لعنت بھیجی پس ایسی باتوں سے بچتے رہنا چاہیے.اللہ چاہے گا تو خود بخود دل دھو نے سکھا دے گا.(5) بیت اقصیٰ کا پہلا نام بیت مغلیہ تھا.بیت مبارک ان دنوں نہیں بنی تھی.حضور شام کے وقت اپنا کھانا بیت اقصیٰ میں لے جاتے جو تین چار نمازی ہوتے ان میں تقسیم کر دیتے.وہ نمازی بڑے خوش خوش گھروں کو واپس جاتے اور اوروں کو بھی سناتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بعض اوقات تیس چالیس نمازی جمع ہو جانے لگے.جب حضرت صاحب کھانا ملتوی کر دیتے تو پھر نمازیوں کی تعداد کم ہو جاتی.حضرت صاحب بڑی دعا فرمایا کرتے 323
زنده درخت تھے کہ اللہ ایسے لوگوں کو حقیقی نمازی بنادے.تھی.(6) بیت مبارک جب پہلے پہل بنی تھی تو اپنے سکونتی محل پر بجانب جنوب بنائی میں نے عشاء کے وقت قطب ستارہ دیکھ کر عرض کیا کہ حضور بیت کا رُخ عین سیدھا نہیں معلوم ہوتا.فرمایا اسلام کھلا ہے تنگ نہیں اس لئے چھوٹی چھوٹی نکتہ چینی منع ہے.(7) ایک دفعہ فرمایا دین عموماً غریبوں کا حصہ ہے.امیر عموماً اس سے بے نصیب رہ جاتا ہیں.چنانچہ پہلے نبیوں کو بھی غریبوں نے ہی ابتدا میں مانا تھا.اب دیکھ لو غریب آدمی سفر میں ہو تو ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے مگر امیر ایسا نہیں کر سکتا.اگر رستے میں کوئی جو ہر آ جائے تو وہ وہاں وضو نہیں کرے گا اور اگر صاف پانی مل بھی جائے تو کپڑوں کے خراب ہونے کے ڈر سے زمین پر نہیں پڑھے گا.(8) ایک دفعہ آپ کے والد صاحب آپ کو گورداسپور لے گئے اور فرمایا کہ جا کر ڈپٹی ہدایت علی صاحب سے فلاں کتاب لے آؤ.چنانچہ آپ تشریف لے گئے.السلام علیکم کہہ کر کتاب کا نام پشتے پر دیکھ کر اُسے اُٹھا لیا.باوجود اس بات کے کہ ڈپٹی صاحب حضور کے والد صاحب کے بڑے دوست تھے اور بہت دیندار مشہور تھے مگر سخت لہجے میں کہنے لگے کہ تو بڑا عیارلڑکا ہے.حضرت صاحب اس واقعہ کو بیان فرما کر فرمایا کرتے تھے کہ امیروں میں دین کم ہوتا ہے اور بعض امیر تو دنیاوی عزت کے حصول کی خاطر ہی دین کا جبہ پہنتے ہیں.(9) ایک دفعہ حضور نے فرمایا.آؤ اللہ بخش ہم آپ کو الف لیلہ کی ایک حکایت سناتے ہیں چنانچہ حضور نے فرمایا کہ ایک مرد صالح جو بڑا متقی اور پر ہیز گار تھادینی اور دنیوی علوم کا ماہر تھا.دولت مند بھی بڑا تھا اُس کے ہمسایہ میں دو میاں بیوی رہتے تھے.جو بڑے حاسد تھے.وہ اُن کی حسد کی آگ کو بجھانے کی بہت کوشش کرتا.کبھی انہیں کچھ دیتا کبھی کچھ.مگر وہ آگ بجھنے میں نہ آتی تھی.آخر تنگ آکر اُس نے اپنا شہر چھوڑ دیا اور ایک دوسرے شہر میں جا کر آباد ہو گیا.وہاں کے لوگ یہ دعا کیا کرتے کہ اللہ ان میں ایک نیک، بزرگ اور دینی 324
زنده درخت اور دنیوی علوم کا ماہر انسان بھیج دے.جو انہیں دین بھی سکھائے اور بیماروں کا علاج بھی کرے.انہوں نے اُس کی بڑی آؤ بھگت کی اس پر خدا کا فضل آگے سے بھی بڑھ کر ہونے لگا.اور وہ اور زیادہ مال دار ہو گیا.حاسدوں کو بھی پتہ لگ گیا.وہ اور زیادہ جل گئے.حاسد کی بیوی نے اسے کہا کہ میاں جاؤ اگر موقع ملے تو اُسے مار کر واپس آؤ.حاسداس صالح مرد کے پاس گیا.صالح بہت خوش ہوا.بڑے تپاک سے ملا.خیر خیریت پوچھی اور دریافت کیا کہ کیسے تشریف آوری ہوئی.حاسد نے کہا حضور کا پتہ لگا.زیارت کو بہت دل چاہتا تھا ملنے کے لئے آیا ہوں.اب زیارت ہوگئی.اجازت چاہتا ہوں.صالح نے فرمایا کہ سنتِ نبوی کے مطابق تین دن بعد اجازت ہوگی.تین روز کے بعد چند صد دے کر رخصت کیا.حاسد جب مال لے کر گھر پہنچا تو بیوی بہت خوش ہوئی.مگر صالح کے زیادہ مالدار ہونے کا حال سُن کر بہت ہی شکستہ حال ہوئی اور کہنے لگی ہم تو سمجھے تھے وہ مرکھپ گیا ہو گیا ہوگا.مگر اُسے کوئی زوال بھی نہیں پہنچا.جاؤ میاں جس طرح بھی مرے مار کر آؤ.حاسد پھر گیا.صالح نے آنے کا مقصد پوچھا.کہنے لگا.حضور کی محبت پھر کھینچ لائی ہے.پہلے حضور کے مکان اور باغات کا اچھی طرح سیر نہ کیا تھا.اب سیر کرنا چاہتا ہوں.چنانچہ صالح نے تین طرفیں باغ کی دکھا ئیں.اور چوتھی طرف جانے سے منع کیا اور کہا کہ اس گوشے میں ایک کنواں ہے.جسے اندھا کنواں کہتے ہیں اُس میں جن رہتے ہیں.خوف ہے کہ جان سے ماردیں گے.حاسد نے یہ سن کر زیادہ اصرار کیا.چنانچہ دونوں کنوئیں کے پاس گئے حاسد کنوئیں کی دیوار پر جا بیٹھا اور نیچی نظر کر کے کہا کہ اس میں کوئی جن نہیں آئیے آپ بھی دیکھیں.صالح نے بھی کنارے پر جا کر دیکھنا شروع کیا.نظر بچا کر حاسد نیچے اُترا اور اُس کو دھکا دے کر کنوئیں میں گراد یا اور خوشی خوشی گھر آیا عورت کو حال سنایا وہ بڑی خوش ہوئی.اب صالح کا حال سنو جس کنوئیں میں وہ گرا تھا واقعی اس میں جن تھے.نیچے جانے نہ پایا تھا کہ جن نے پکڑ کر محفوظ جگہ میں رکھ دیا.باقی جن مخالف ہوئے اور کہنے لگے کہ اس کو ضرور مار دینا چاہئے.مگر اس نے کہا کہ یہ ایک جید عالم اور اعلیٰ درجے کا طبیب بھی ہے.اسے مارنے 325
زنده درخت سے امراء، غرباء سب کا نقصان ہو گا.چنانچہ فلاں ملک کا بادشاہ اپنی لڑکی کو علاج کے لئے اس کے پاس لا رہا ہے.اگر اسے یہاں مار ڈالا تو خدا کا عرش کانپ اُٹھے گا.دوسرے جنوں نے سوال کیا کہ اسے کیا بیماری ہے.وہ جن بولا اُسے فلاں بیماری ہے.علاج پوچھا تو کہا کہ اس کے گھر میں سفید بلّی رہتی ہے.اُس کی پیٹھ سے چند بال اُکھاڑ کر آگ پر رکھ کر اس لڑکی کے قریب کرے وہ جن چیختا ہوا بھاگ جائے گا.اور پھر کبھی پاس نہ آئے گا.چنانچہ انہوں نے اس بزرگ کو چھوڑ دیا اور صحیح سلامت او پر پہنچادیا.گھر میں پہنچا ہی تھا کہ بادشاہ اپنی بیمارلڑکی کو لے کر آن پہنچا.اس نے علاج کیا.لڑ کی تندرست ہو گئی.اور خوب توانا ہو گئی.بادشاہ نے نکاح کی فکر کی بہت سوچا مگر اس صالح مرد سے بڑھ کر نکاح کے قابل اور کسی کو نہ پایا.چنانچہ اس کے ساتھ نکاح کر دیا.چند دن بعد خود مر گیا اور تاج و تخت اس بزرگ کو سونپ گیا.حضرت صاحب نے یہ حکایت سنا کر فرمایا.میاں اللہ بخش خدا تعالیٰ ہمیں اقبال عطا کرے گا اور حاسد کا قدم دن بہ دن زوال کی طرف جائے گا.حاسد پھونکوں سے اسے بجھانا چاہیں گے.مگر میرا خدا مجھے اور زیادہ ترقی دے گا.ایک روز فرمایا کہ بعض بد خصلت انسان اگر کسی کا نقصان کرنا چاہتے ہیں مگر نہ کر سکیں تو اپنا احسان جتاتے ہیں.ایک فیض رساں انسان کا ذکر ہے کہ اُس نے ایک نادان امیر کی خیانت کی.یہ معلوم کر کے کہ یہ امیر بڑا عیب جو اور نکتہ چین ہے اگر اُس کی طرف کھانا کھلانے والوں میں سے کسی کی پیٹھ ہوگئی تو ناراض ہو جائے گا.اس لئے تمام ضروری سامان پہلے ہی قرینے سے سجاد یا اور عرض کی کہ حضور کھانا تیار ہے تشریف لائیے اور تناول فرمائیے.خیر کھانا کھا کر جب باہر آئے اور میز بان کے دروازے میں کھڑے ہوکر اس کا شکریہ ادا کیا تو بجائے اس کے کہ ان کو عزت اور تکریم سے پیش آتا.کہنے لگا کہ میرا تم پر بڑا احسان ہے.کیونکہ جس مکان میں کھانا ہم نے کھایا ہے.اُس میں ہزاروں روپے کا (10) 326
زنده درخت سامان پڑا تھا.دل چاہتا تھا کہ آگ لگا دیں مگر رحم کر دیا ہے.حضرت صاحب نے فرمایا :- اللہ بخش دیکھو میں لوگوں کی خاطر و مدارت کرتا ہوں کھانا کھلاتا ہوں.ایمان سکھاتا ہوں اور لوگ اُلٹا مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ پہنچا سکنے کی صورت میں احسان جتلانے ہیں.نوٹ :- یہ روایات بابا حکیم اللہ بخش صاحب 1938-12-20 کو مجھ سے زبانی کہیں اور میں نے رجسٹر پر ہی نوٹ کر لیں.الگ فارم پر نہیں لکھا.خاکسار عبد القادر موتی بازار منظوم سوانح عمری 20-12-38 مندرجہ بالا روایات حضرت حکیم صاحب نے 80 سال کی عمر میں لکھوائیں جبکہ اپنی آپ بیتی پر مشتمل نظم موتی بازار 45 سال کی عمر میں کہی.حافظہ قوی اور ذہن مستحضر تھا.جزئیات کی منظر کشی بہت دلفریب ، سادہ ، اخلاص و فدائیت سے معطر اور سچائی سے منور ہے.مکمل نظم درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوتا مگر اب پنجابی پڑھنے اور سمجھنے والے کم ہیں.اس لئے میں نے اس کا سادہ اردو تر جمہ کیا ہے.مجھے بھی بعض جگہ دقت پیش آئی.مگر مفہوم بہر حال واضح ہو گیا ہے.پنجابی محاورے کا لطف قائم رکھنے کے لئے کہیں کہیں اشعار بھی لکھے ہیں ملاحظہ فرمائیے :- احمدیت سے تعارف اور قبولیت کا سفر میں یوسف کی طرح اپنے بھائیوں کا خیر خواہ ہوں.اچھی باتیں سنانے کے لئے پوری کوشش کروں گا.کوئی کان نہ دھرے گا تو چھت پر چڑھ کر با آواز بلند اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سناؤں گا.قرآن پاک سناؤں گا.اگر میرا کوئی قصور دیکھو تو مجھے بتاؤ.میں قہار جبار خدا سے ڈرتا ہوں.استغفار کروں گا.مجھے خدا تعالیٰ نے یہ سمجھ دی ہے کہ دنیا میں پھیلے مذہبوں کی بد اعتقادیاں تمہیں بتا سکوں.مسلمانوں میں رائج کمزوریاں بیان کرسکوں.327
زنده درخت امت واحدہ فرقوں میں کیوں بٹ گئی ہے؟ یہ سب خدا تعالیٰ کی خاص حکمت سے ہوا ہے.تھیں ایسا ایہہ ایم ہو یا حکمت نام رہے اسلام دا ڈور گیا اسلام خالی حرف قرآن دے رہ گئے وچ جہان علم عمل اُٹھ گیا جا چڑھیا آسمان اللہ بخش ہے تڑپدا اندر ایس پیاس جس دے نال پیاس دے نگل چکے سانس اللہ بخش غریب دی کریں دعا قبول وچ اساندے اپنا بھیجیں کوئی رسول اللہ بخش کی دعا اللہ تعالیٰ نے سن لی.سوہل کے ایک شخص عبداللہ نے بنایا اللہ بخش تم ٹھیک کہا کرتے تھے.مولویوں کے پاس صداقت نہیں ہے ہم نے انہیں خوب آزما لیا ہے.قول و فعل میں تضاد ہے.مجھے ایک مولوی کا پتہ چلا ہے وہ ابھی نو عمر ہے مگر اپنے رب کا پکا عاشق ہے.اپنے دن معارف قرآن وحدیث سوچنے میں گزارتا ہے.اپنی راتیں جاگ کر اللہ تبارک تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے.جب دیکھو اپنے رب کے حضور قیام و سجو در کوع وقعود میں مگن ہے.اسے دینِ حق کے علاوہ بھی سب مذاہب کا علم ہے.وہ کہتا ہے سارے مذہب مردہ ہو چکے ہیں قرآن زندہ ہے دین حق زندہ ہے.میں نے عبد اللہ کی بات سنی مجھے تو پہلے ہی کھوج تھی.مجھے ایک کام سے دینا نگر جانا تھا سو چا وہاں ایک بڑا مشہور عالم دین عبد العزیز ہے اس سے مشورہ کروں گا.مولوی عبدالعزیز سے میں نے ایک سوال پوچھا کہ نماز کے سلام کے بعد ہاتھ اُٹھا کر دعا کرنے کی کوئی سند ہے وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا میں نے دل میں فیصلہ کیا.اب نئے مولوی کو دیکھنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے.328
زنده درخت کم جو کرنا آج ہے نہ رکھ اوپر کل مرزا سنیا قادیاں اللہ بخش ہن چل ہتے ہالی سے دس کوس پیدل سفر کر کے قادیان پہنچا.ایک معمولی سا گاؤں تھا.کوئی مانگنے والا سارے گاؤں سے مانگتا تو اس کا برتن نہ بھرتا لوگ بھی معمولی سے تھے.ادھر ادھر سے پوچھ کر مسجد پہنچا.مسجد میں اللہ والے دو بندے بیٹھے تھے.آنکھوں میں خدا کی محبت سے نمی تھی چہروں پر طمانیت گویا حسن یوسف کی چمک تھی دونوں نے کلاہ و دستار پہنی ہوئی تھی ایک کی سفید اور دوسرے کی نیلی.میں نے بصد ادب السلام علیکم عرض کیا.وعلیکم السلام جواب ملا تو میں نے عرض مدعا کیا کہ مجھے مرزا غلام احمد صاحب سے ملنا ہے.نیلی پگڑی والے نے جن کا نام جان محمد تھا اشارے سے بتایا کہ حضرت یہ ہیں.میں نے مصافحہ کیا اور اپنا حال بیان کیا.میری کیفیت عجیب تھی اُن کی محفل میں بیٹھے بیٹھے ظہر کا وقت ہو گیا اذان ہوئی سنتیں ادا کیں.تکبیر کہی گئی جان محمد صاحب نے امامت کی.پھر کہی تکبیر پھر لگے گرن قیام جان محمد ہو گیا آگے کھڑا امام ایہہ تماشا عجب ہے وچ خیال عوام امام تمام جہان دا پیچھے کرے قیام عاماں نوں اس بات دی ہرگز قدر نہ سار کی نج درجہ رکھ دے جو نبیاں دے یار میرے پاس ایک کتاب تھی جس کا نام تو قیر الحق تھا اس پر تین سو کے قریب علماء کی مہریں تھیں حنفی عقیدے پر مستند کتاب تھی.حضرت نے اس کتاب کے متعلق فرمایا مولوی عجیب طرح سے بات نکال کر اپنے مطلب کی بات نکال لیتے ہیں.میں رات وہیں رہ گیا تھا.کچھ دیر تو باتیں سنتا رہا پھر مجھے بہت نیند آگئی میں زیادہ جاگ نہیں سکتا بے خود سو گیا.329
زنده درخت صبح مجھے حضرت نے پیار سے جگایا کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.لائین کی روشنی میں تہجد پھر نماز فجر ادا کی.مجھے نہیں علم حضور رات کو سوئے یا نہیں.میرا عقیدہ حنفی تھا مجھے وہابیوں کے بہت سے مسائل یاد تھے ان میں بہت جگہ گہرے اختلاف تھے میں نے حضور سے دریافت کیا سب ” قال رسول کریم سے بات کرتے ہیں اور آپس میں لڑتے ہیں ایک دوسرے کو کافر اور مردود کہتے ہیں.پیارے مسیح پر میری جان قربان ہو.میری بات سن کر فرمایا: جب دو فریق آپس میں بات کریں تو پہلے یہ دیکھیں کہ مخالف کس بات پر دار و مدار رکھتا ہے.کون قال رسول پر رہتا ہے.کون قال رسول سے گریز اور فرار اختیار کرتا ہے.مجھے کامل رہنما سے یہ عجیب مفید گر ہاتھ لگا اور میرا سینہ علم سے بھر گیا.حضرت پاک زبان تھوں کیتا اے اظہار دفتر قال رسول دا ایہہ ہے کل عیان پڑھ کے دیکھو فیصلہ حکمت رب رحمان قال رسول جو نبی نے کہا نال زبان لیکن دو فریق دے سُن پہلے اظہار اوپر کیڑی بات دے رکھن دار و مدار کیہڑا قال رسول تے کرے قرار اقرار کیبڑا قال رسول تھوں کرے گریز فرار بس اے مینوں مل گیا ست گر تھیں ست گر ایسے گر تھوں ہو گیا سینہ علموں پر اس سے میں نے بہت فائدہ اُٹھایا.جب بھی بحث مباحثہ ہوا اسی سے حل کیا حضرت اقدس نے رخصت کرتے ہوئے ایک چھوٹی سی کتاب بھی عنایت فرمائی جس کا نام ستارہ 330
زنده درخت محمدی تھا اس میں حنفیوں کے غلط عقائد کا بیان تھا.اس ملاقات کے بعد میں عاشور کے روز گورداسپور گیا ایک مولوی سے آریہ بحث کر رہے تھے.مجمع دیکھ کر میں آگے بڑھا دیکھا کہ مولوی لا جواب ہو رہا ہے مجھے دیکھا تو فرار کا بہانہ مل گیا.آریہ اُسے پکڑ پکڑ کر کھڑا کرتے مگر وہ میری طرف اشارہ کر کے یہ کہہ کر بھاگ گیا کہ اب مولوی صاحب آگئے ہیں مجھے گھر میں کچھ کام ہے.میری اس سے پہلے آریوں سے کبھی بات نہیں ہوئی تھی.مذہب عقیدے کا علم نہیں تھا میں نے کہا آپ اپنا مذہب خود بیان کریں.انہوں نے دین حق کو بہت بُرا بھلا کہا میں مغلوب ہو گیا.اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی کہ مولا اسلام کی تائید میں دلائل سکھا دے.میرے دوستوں نے مجھے بتایا کہ قادیاں والے مرزا صاحب نے ایک کتاب تیار کی ہے جس میں دین حق اور قرآن کی ایسی صفات بیان فرمائی ہیں کہ مخالف منہ کے بل گر جائیں.پس شائق دے شوق نے پکڑی ترت مہار جو سُنیا جا دیکھیا چمکار ہی چمکار کتاب براہین احمدی جلداں بنی چار تے پنجم دے واسطے ہو رہا اقرار چوتھی جلد لیا کے ڈٹھی پر اسرار عیسائیاں تے آریاں جس وچ دار مدار کتاب کیا تھی اس طرح لگا آسمان کی گردش بدل گئی ہے بہار آ گئی ہے.میں نے اپنے یار دوستوں سے کہا گورداسپور چلو اور رونق بازار دیکھو.دسہرہ کے تہوار میں آریوں سے بات ہوئی دلائل میرے پاس تھے جلدی لاچار ہو کر رخصت ہوئے جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی تائید میرے شریک حال ہوئی اس کا کچھ احوال لکھتا ہوں : جس دی برکت ہوگئی یہ نصرت ابرار لازم ہے سج اُس دا حال کراں اظہار 331
زنده درخت اللہ دا محبوب ہے آخر دا سردار میری طرفوں اُس نوں سدا سلام پیار جس مسجد میں آج اللہ تعالیٰ کے انوار چمک رہے ہیں ایک وقت ایسا تھا کہ صرف چارنمازی تھے.مرزا صاحب کھانا تیار کرواتے اور کہتے نماز یو! آؤ کھانے میں شرکت کرو نمازی خوش ہو کر آتے کافی لوگ آجاتے شام کو پھر اسی طرح آپ نماز اور کھانے کے لئے بلاتے.نمازی آتے تھے اور حق کو پہچانتے تھے.صرف ملانوں کے لئے تسلیم کی خومشکل ہے اُن کو جمعرات کی روٹی اور باپ دادا کا سہل دین پسند ہے.مذہب پرانے چھڈ کے منن نیا سبیل کم نہیں آسان ایہہ مشکل سخت ثقیل بعد تیرہ سوسال دے پھر مسیح موعود لے آیا تشریف ہے ایہہ مہدی معہود زمین آسمان نشان ہیں اس دی شان موجود سورج چند شہادتاں ہویاں آن ورود وانگوں پاک پیغمبراں بشر انسان وجود عالی درجہ پیغمبراں دیکھ کے سر بل گئے حسود حضرت اقدس مسیح موعود کی سنائی ہوئی نصیحت آموز تمثیلات نظم میں حاسد کی کہانی اور بد خصلت آدمی کی کہانی کے بعد لکھا کہ حضرت اقدس نے صالح عابد کی کہانی سنا کر فرمایا اللہ بخش تمہارا میرے پاس کچھ عرصہ سے آنا جانا ہے.تم دیکھ رہے ہو کہ آج کل میرے پاس کون آتا ہے.میں نہ واقف کسی دا تے نہ میرا کو انشاء اللہ دیکھنا آئندہ کی ہو 332
زنده درخت مجھے اللہ تعالیٰ بے حساب نعمتیں دے گا.حاسد جل جائیں گے.جیسے جیسے دشمنی بڑھے کی نعمتوں میں اضافہ ہوگا.خدا کی قسم جب مرزا صاحب نے یہ بات کی تھی مرزا صاحب اور قادیان کسی شمار میں نہیں تھے.آپ نے تنہائی میں یہ بات کی تھی مگر رب الارباب نے کس طرح پوری کی اور مجھے غریب کو گواہ بنایا خدا تعالیٰ نے سارے جہاں میں سے مرزا صاحب کو چن لیا.مجھے خدا نے توفیق دی کہ اندھیرے میں آفتاب نظر آگیا.بہت بد نصیب اس موتی کو تلاش کرتے کرتے ڈوب گئے.بعض کو بے حساب خزانے مل گئے.لوگ معجزے طلب کرتے ہیں جبکہ میں اس گنگا جل میں خوب نہایا ہوں.دولہا کی تلاش.ایک تمثیل ایک لڑکی کے نکاح کے لئے بارات آئی اور نکاح کی رسوم ادا کرنے کے لئے ایجاب و قبول کا وقت آیا تو دولہا موجود نہ تھا ڈھنڈیا پڑی دولہا تلاش کیا جا رہا ہے مگر اُس کا کچھ پتہ نہیں شادی کی تاریخ طے ہے مہمانوں میں مسلمان عیسائی سب شامل ہیں کوئی آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے کوئی دمشق کے مینار پر سیڑھی لگا کر تلاش کر رہا ہے.آنے والا ایک ہے اور کئی جگہ کی نشانیاں ہیں کوئی کہ رہا ہے آنا تو اسی وقت تھا پتہ نہیں کیوں نہیں آیا کوئی کہتا ہے آیا تو تھا مگر صلیب سے ڈر کر چوتھے آسمان پر چڑھ گیا.کوئی کہتا ہے بیت المقدس میں تلاش کرو.اگر سب حدیثوں کو لفظی طور پر پورا کرنا ہے تو دولہا کے کئی حصے کرنے پڑیں گے.برات میں ایک قسم کا ماتم پڑا ہے.اُمت کا حال خراب ہے.سب لوگ آسمان، بیت المقدس اور دمشق کی طرف دیکھتے رہے اور دلہن کو پریم نگر یعنی قادیان سے آکر ایک دولہا بیاہ کرلے گیا.سب لوگ حیران رہ گئے.اُمت کے شریف آدمیوں نے اس دولہا یعنی مرزا صاحب کا دامن پکڑ لیا باقی مسلمان اور عیسائی ابھی تک دولہا کا انتظار کر رہے ہیں.سید نا محمود کے شکار کا واقعہ: یک دفعہ ہم نے سنا کہ صاحبزادہ صاحب بیٹ میں شکار کو آرہے ہیں.ہم بھی وہاں پہنچ 333
زنده درخت گئے.کھانے کا وقت ہوا تو آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے جو کھانا ساتھ لائے ہوئے تھے کھایا.جب شکار شروع کیا تو ایک نیل گائے کے پیچھے بہت دوڑ لگائی مگر قریب پہنچ کر رُک گئے نہ جانے کیا خیال آیا ہو گا.وہ بچ گئی.بہت گرمی تھی بارش کے لئے دعا کی.نماز ظہر کا وقت ہوا تو مقامی امام کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمایا.اسی طرح عصر کا وقت بھی ہوا.وہاں لوگوں نے درخواست کی کہ ایک رات ہمارے پاس ٹھہریں مگر آپ نے جواب دیا کہ میں حضرت خلیفہ اسیح سے ایک ہی دن کی اجازت لے کر آیا ہوں.پھر بھی آؤں گا تو رات ٹھہرنے کی اجازت لے کر آؤں گا.لہذا پھر جب آئے تو اپنا وعدہ پورا کیا.اس بات سے ہم نے خلیفہ کی اطاعت کا سبق سیکھا.سفر میں روزہ سخت گرمیوں میں رمضان کا موسم آیا تھا مجھے صوبہ سنگھ دے کو ٹلئے جانا تھا.گھر سے چھ سات بجے روانہ ہوا.میرے ساتھ کچھ عزیز خواتین مرد تھے.راستے میں روزے کے متعلق مشورہ کیا.ساتھ والوں نے کہا کہ دو پہر کو کچھ دیر ڈھپئی ٹھہر جائیں گے.میں نے اُن سے کہا کہ میں تو قادیان جاؤں گا دو پہر کو وہاں آرام کر کے واپس تمہارے پاس آجاؤں گا.قادیان میں دو پہر کے وقت پہنچ گیا.مسجد میں جان محمد صاحب نظر آئے میں نے السلام علیکم کہا.انہوں نے ایک دم اٹھ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور بے اندازہ خوش ہوئے.مجھے مسجد میں بیٹھا کر جلدی جلدی جا کر حضرت اقدس کو اطلاع کی.حضرت اقدس کو جا کر کہا کہ آپ کا غلام اللہ بخش مسجد میں آیا ہے.اس عاجز کے آنے کی خبر سن کر اسی وقت حضور اپنے مبارک قدموں پر تشریف لے آئے سلام دعا کے بعد دریافت فرمایا کہ روزہ رکھا ہوا ہے یا کھانا چاہئے.میں نے عاجزانہ عرض کی میرا تو روزہ ہے.فرمایا سفر میں روزہ بھلا ٹھیک نہیں پھر فرمایا کہ عوام کو یہ غلط خیال ہے کہ ایک روزہ توڑنے سے ساٹھ رکھنے پڑتے ہیں اگر کوئی سفر ، علاج 334
زنده درخت یا بھوک پیاس سے بے دم ہو کر روزہ قائم نہ رکھ سکے تو بعد میں ایک ہی روزہ رکھنے کا حکم ہے.ایک کے بدلے ساٹھ 60 روزے رکھنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے نہ رسول اللہ نے.اس پاک زبان سے یہ ارشاد مجھے آج تک پورا پورا یاد ہے.پھر آپ اندر تشریف لے گئے.میں نڈھال سا ہو کر پڑ کے سو گیا.تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لائے نماز ظہر ادا کی.میں نماز سے فارغ ہو کے سفر کے لئے تیار ہوا.حضرت نے فرمایا میں آپ کو ہرگز نہ جانے دوں گا.میں نے اپنی جہالت میں رکنے سے انکار کیا تو آپ نے شفقت سے اصرار فرمایا کہ ابھی نہ جائیں.میں نے عرض کی کہ مجھے اس لئے بھی جانا لازم ہے کہ میں نے اپنے ساتھیوں سے جو ڈھپئی میں ہیں وعدہ کیا تھا.پھر حضرت نے مجھے پکڑ کر ٹھہرالیا اور فرمایا تھوڑا ساڑکیں میں گھر سے ہو کر آتا ہوں.اندر سے واپس تشریف لائے تو ہاتھ میں اخبار تھا.جس میں لکھا تھا کہ ایک ہفتے میں تین افراد لقمہ اجل بنے.تین جگہ سے مختلف روزے دار اُجاڑ جگہ پیاس کی شدت سے مر گئے.اگر سفر سے باز نہیں آؤ گے تو اسی طرح آخر کار کسی اُجاڑ میں مرجاؤ گے.میری بات یاد رکھو میں نے کہا میں تندرست جوان آدمی ہوں تیز تیز چلتا ہوں، ابھی بھوک پیاس بھی نہیں ہے.تین چار میل کا سفر ہے اب تو دھوپ بھی ڈھل گئی ہے جانے کی اجازت دیجئے.حضرت نے فرمایا تم چاہو یا نہ چاہو یہیں رُکنا پڑے گا.اب تکرار نہیں کرنا.عصر کے وقت نماز سے فارغ ہو کر حضرت اقدس نے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس کے اوپر کنوئیں سے بو کے نکال کر مسلسل پانی ڈالو.دھار نہ ٹوٹے.میں اس پیار بھرے حکم سے بہت حیران ہوا.مجھے دوستوں نے کہا کہ آپ کنوئیں کے کنارے بیٹھیں ہم نے آپ پر پانی ڈالنا ہے.میں نے کہا مجھے تو پیاس کی کوئی خاص تکلیف نہیں.پانی ڈالنے کی ضرورت نہیں سمجھتا.دوستوں نے کہا اگر آپ کو ضرورت سمجھ نہیں بھی آرہی تو نہانے میں کیا حرج ہے.میں کنوئیں کے پاس جا کر بیٹھ گیا انہوں نے مجھ پر پانی ڈالنا شروع کر دیا.کوری بو کا کنوئیں سے باری 335
زنده درخت باری نکال کر دھار کی شکل میں پانی ڈالتے گئے.یکدم ایسالگا کہ میرے بدن سے آگ نکل رہی ہے.میں بے سدھ ہو گیا ایسا لگا تھا کہ جوں جوں مجھ پر پانی پڑ تا آگ کے شعلے باہر نکلتے.میں نیم بے ہوشی میں حال بے حال ، غروب آفتاب کا وقت ہو گیا.اگر میں حضرت کی بات نہ مانتا اور سفر کے لئے روانہ ہو جا تا تو راستے میں مرجاتا میں اُس ذات پر قربان کیوں نہ ہو جاؤں جو مسافروں کو روک کر فیضیاب کرتے ہیں.آپ نے ٹھنڈے شربت اور پر تکلف کھانے سے افطاری کروائی.اور عشاء کے وقت پوچھا: صبح آپ روزہ رکھیں گے؟ میں نے کہا کہ میں تو روزہ نہیں چھوڑوں گا.سحری کے وقت کھانے کا ایک تھال میرے لئے آیا جس میں سے میں نے رغبت سے کھایا.فجر کی نماز پڑھ کے میں روانہ ہو گیا.دو پہر ہوئی تو ایسا لگا کہ پیاس سے جان نکل جائے گی.مسئلہ تو کل سن ہی لیا تھا اُس پر عمل کیا اور آج کے پانی پیا.میں نے اپنی آنکھ سے حضرت کے معجزے دیکھے ہیں، اغیار کہتے رہیں.کو لا انزل عليه آية.حضرت امتدن پرٹور کی بارش میں نے حضرت اقدس کے جو حالات دیکھے وہ یوں تھے کہ نہ کوئی آپ کی بات سنتا تھا نہ پوچھتا تھا.حضرت مرزا صاحب اپنے گھر میں اس طرح رہتے تھے کہ ہر دم اللہ تعالیٰ سے معاملہ رہتا جب اللہ تعالیٰ سے الہامات کا سلسلہ شروع ہوا آسمان سے رحمتوں کی بارش کا نزول ہوا میں اللہ عالی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے عجیب تماشا دیکھا.رات کے وقت برسات کی تیز بارش کی طرح اوپر سے ستارے برستے تھے جس سے سات جہاں روشن ہو جائیں ساری مخلوق اس نظارے کو دیکھ کر حیران ہوتی اگر چہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی وجہ کیا ہے.جس ہستی کی خاطر آسمان سے نور برستا تھا.اُس نے کل جہاں کی ظلمت دُور کی.336
زنده درخت ت ادیان میں آریوں کا جلہ : ایک دن کسی نے ذکر کیا کہ آج قادیان میں آریوں کا جلسہ ہے.ہم نے سوچا چل کر دیکھتے ہیں میرے ساتھ منشی جھنڈے خان صاحب اور دین محمد حکیم صاحب تھے ابھی قادیان پہنچنے میں ایک میل رستہ باقی تھا کہ سامنے سے کچھ لوگ آتے ہوئے دیکھے وہ آپس میں حضرت مرزا صاحب کے خلاف باتیں کر رہے تھے.اتنی دلخراش کہ سُنی نہ جائیں وہ آریہ تھے اونچی اونچی کہہ رہے تھے کہ مرزا کے پاس سچ ہوتا تو مقابل آتا آج آریوں نے مرزا کا چراغ گل کر دیا ہے.وہ میدان سے بھاگ گیا.ہم انہیں خوشی سے باغ باغ دیکھ کر سخت افسردہ ہو گئے.اس قدر بُرا حال ہوا کہ آگے چلنے کی سکت نہ رہی.ہم نہایت غمگین حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ خوش باش تھے ہم نے دل میں سوچا کہ حضرت تو ٹھیک ٹھاک ہیں پھر آریوں کا مقابلہ کیوں نہ کیا، حضرت کے آگے آریوں کی حیثیت ہی کیا ہے.ہر بات میں لاجواب ہو جاتے ہیں.آریہ سوال کرتے ہیں تو اُن کے سوال ہی سے جواب کے آسان انداز نکال لیتے ہیں.جس کے ہاتھ میں تیغ بُڑان ہو، دلائل قاطع ہوں ، ماہر شکاری اللہ کا پہلوان ہو وہ کیسے اور کیوں ڈر گیا؟ میرا دل بہت پریشان تھا.یہ بات مرسلین الہی کے شایان نہیں دوسرے احمدی بھی کہہ رہے تھے اب ہم آریوں کو کیا منہ دکھا ئیں گے.شام کو مسجد مبارک میں نماز کے بعد حضرت اپنے اصحاب میں تشریف فرما ہوئے آپ نے فرمایا آج میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام نسیم دعوت ہے.یہاں مولوی عبد الکریم بھی ہیں.یہ بتائیں گے کہ اس کتاب میں جو مضمون میں نے بیان کیا ہے وہ آپ نے کبھی نہ پڑھا ہوگا بلکہ خیال وخواب میں بھی نہ ہوگا.پھر فرمایا یہاں مولوی نورالدین صاحب بھی ہیں.انہوں نے بھی اس کتاب کا مضمون کبھی پڑھا، لکھا، سوچا نہ ہو گا.پھر فرمایا یہاں نواب محمد علی صاحب بھی ہیں آپ بھی سمجھ لیں کہ اس کتاب میں سارا مسئلہ واضح کر دیا ہے.ایک چوتھے شخص کا نام میں بھول گیا ہوں.337
زنده درخت نماز عشاء کے بعد چند آریہ اجازت لے کر اندر آئے.اور سامنے بیٹھ کر کہا کہ ہماری عرض غور سے سنیں ہم بہت سفر کر کے پیسے خرچ کر کے قادیان آئے ہیں.ہمیں جلسہ کا شوق نہیں نہ ہمیں کوئی مباحثہ کرنا ہے نہ کوئی سوالوں کے جواب کی ضرورت ہے.ہم تو صرف یہ درخواست لے کر آئے ہیں کہ آپ ایک دفعہ ہمارے مکان میں تشریف لے آئیں.چند منٹ کرسی پر بیٹھ کے اپنا دیدار کروا دیں بس یہی مہربانی ہوگی.حضرت اقدس صاحب فراست تھے دھو کے بازی کی بات کو فورا سمجھ گئے.آپ نے صاف انکار کر دیا کہ میں آپ کی مجلس میں نہیں جاسکتا.اس میں فساد کا ڈر ہے.انہوں نے کہا ہم تو شریف لوگ ہیں کسی کو تکلیف نہیں دیتے.جاہل لوگ فساد کرتے ہیں.جاہل فسادی سکھ ہیں یا مسلمان ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا اب تم خود اپنی بات کو سوچو.ہمارے سامنے مسلمانوں کو جاہل اور فسادی کہہ رہے ہو.یہی تمہاری شرافت کا ثبوت ہے جو ظاہر ہو گیا ہے.دیکھو یہ سینکڑوں (احمدی) بیٹھے ہیں.میرے فرمان کو ماننے والے ہیں اگر ہم آپ کی بات سن کر خاموش رہیں تو جاہل فسادی ہیں.اگر کسی کو جوش آجائے تو جھگڑا ہو.نام ہمارا لگے بہتر ہے اپنے اپنے گھر میں رہیں.آریہ یہ معقول باتیں سن کر حیران رہ گئے.جس پر رب مہربان ہو اس کا نقصان کون کر سکتا ہے.پھر آپ نے یعقوب علی صاحب کو بلا کر کتاب رات رات چھپوانے کا ارشاد فرمایا.آپ نے حسب حکم کتاب چھپوا کر صبح چند نسخے آپ کی خدمت میں پیش کر دیئے.صبح فجر کی نماز کے بعد آپ حسب معمول بسر اواں کی طرف سیر کو تشریف لے گئے.سینکڑوں خادم ساتھ تھے لگتا تھا اللہ تعالیٰ کا نور برس رہا ہے.ابھی ہم زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ حکمت رب غفور سے آپ نے واپسی کا رُخ کیا رستے میں ذرا ہٹ کر ایک خشک ڈھاب تھی اُس میں سینکڑوں آریہ چھپے بیٹھے تھے.جب حضرت اقدس قریب پہنچے تو انہوں نے دوڑ کر باہر آ کر آپ کو گھیر لیا ہاتھ باندھ کے عاجزی سے درخواست کی کہ یہاں کچھ ٹھہر جائیں ہم دل بھر کے آپ کا دیدار کرلیں.338
زنده درخت حضرت اقدس نے فرمایا ٹھہرنے کی کیا ضرورت ہے، دیدار ہی چاہیے تھا سو ہو گیا.پھر شیخ یعقوب علی صاحب کو فرمایا کہ جونئی کتاب چھپی ہے ان کو دکھا ئیں تم لوگ کہتے ہو کہ مرزا صاحب اپنی کتابوں میں گالیاں دیتے ہیں.باقی کتابیں تو سامنے نہیں اس وقت یہ کتاب حاضر ہے اس میں دکھاؤ کہاں گالیاں ہیں.یہ باتیں حضور نے چلتے چلتے کیں.آریہ بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے اور ایک دفعہ پھر اصرار کیا کہ ہمارے مکان میں چلیں کرسی کے اوپر بیٹھ کے دیدار کا موقع دیں.حضرت اقدس نے فرمایا ابھی آپ کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی.میں فساد والی جگہ پر کیوں جاؤں اُن کے مزید اصرار پر آپ نے ایک مثال دی.کہ اگر عیسائیوں سے کہا جائے کہ بشری تقاضوں سے بول براز کرنے والا خدا کیسے ہوسکتا ہے.وہ اس بات پر جوش میں آجاتے ہیں.بہتر ہے ہم خموش ہی رہیں.آپ لوگوں کی سب باتوں کا جواب ”سیم دعوت میں ہے.یہ سب باتیں چلتے چلتے ہوئیں.مجھے بھی اس کتاب کو دیکھنے کا بے حد شوق ہوا.عشاء کی نماز میں آپ نے بے حد تعریف فرمائی تھی.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ حضرت اقدس نے خود مجھے کتاب عنایت فرمائی.جو میں نے رستے میں ہی پڑھ لی اس میں ملکہ بلقیس کا ذکر تھا جو سورج کی پوجا کرتی تھی.حضرت سلیمان نے پانی پر شیشہ لگا کر جواب دیا.دوسرے مفسروں نے اس نکتے کو نہیں پایا.جو تفسیر مرزا صاحب نے کی وہ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی.ایک عجیب بات: گجو غازی میں مجھے کچھ کام تھا میرے عزیز رشتے دار بھی تھے وہاں گیا تو گاؤں میں کوئی بیت نہیں تھی.گاؤں کے باہر ایک تکیہ دار کا نام روڑے شاہ تھا میں وہاں نماز ظہر پڑھ کر فارغ ہوا تو روڑے شاہ نے گفتگو شروع کر دی.موضوع حضرت مرزا صاحب تھے.اتنے میں دو سکھ بھی وہاں آگئے.روڑے شاہ انہیں دیکھ کر خاموش ہو گیا.مجھے وہ سکھ قابل اور خوش لباس 339
زنده درخت نظر آئے.میں نے روڑے شاہ سے کہا ان کے سامنے گفتگو میں کوئی حرج نہیں.سکھوں نے بھی یہی کہا کہ ہم تو دینِ حق کی باتیں پیار سے سنتے ہیں.میں نے مرزا صاحب کے بعض واقعات سنائے جس پر وہ بہت خوش ہوئے.وہ کہنے لگے کہ ہم پر میشر کر تار کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ مرزا جانی جان بہت دانشمند ہے اور عالم غیبی سے خاصہ پیوند رکھتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اُسے غیب کی خبریں نہ بتا تا تو وہ آریوں کی دعوت مان لیتا وہاں آریہ ا نہیں نقصان پہنچاتے بلکہ جان سے مار دیتے.انہوں نے قسمیں کھا کھا کر یہ بات بتائی کہ جس دن آریہ جلسے کے لئے قادیان گئے تھے.آریہ یکوں میں بیٹھ کر آتے اور ایک جگہ اکھٹے ہو جاتے.وہاں ایک کنواں تھا اُسی کے پاس اکٹھے ہو گئے اور مشورے کئے.وہ سمجھے کہ یہاں کوئی غیر نہیں ہے.پھر مشورہ کیا کہ مرزا کو کسی نہ کسی طرح جان سے مارنا ہے.جلسہ میں شور شرابہ کیا جائے.مرزا کو جھوٹا جھوٹا کہا جائے.وہ جواب دینے جلسے میں آجائے تو پنڈت لیکھرام کا بدلہ لینا ہے.اس کا کام تمام کرنا ہے.کسی پر الزام نہ لگے گا ، بلوہ ثابت ہوگا.وہ لوگ قسمیں کھا کھا کر مرزا کو مارنے کا پروگرام بنارہے تھے.ہم اندر سے کانپ رہے تھے.وہ تو قادیان جا کر شاید آرام کر رہے ہوں مگر ہمارا آرام حرام ہو گیا.کان قادیان کی طرف لگے ہوئے تھے کیا خبر آتی ہے.مخالفین نے اپنا پورا زور لگا لیا مگر مرزا نے اُن کی کوئی بات نہ سنی اس بات سے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا جانی جان سچا امام ہے.سکھ دوستوں سے یہ ساری بات سُن کر مجھے سمجھ آئی کہ حضرت اقدس جلسے میں کیوں نہیں آئے.سُن سکھاں تو قلب نوں ہویا اطمینان کی کر سکدا جے اللہ مہربان 340
زنده درخت 11- حضرت حکیم اللہ بخش صاحب کے کچھ حالات |||- جو محترم میاں عبدالرحیم صاحب دیانت درویش نے قلم بند کئے تھے.درج ذیل ہیں.بیٹی کی شادی احمدیت اور قادیان سے محبت کی بے نظیر مثال: حضرت حکیم صاحب کے ہاں بچی پیدا ہوئی احمدیت کی نعماء کا مزہ چکھ چکے تھے.خیال آیا کہ بچی کی شادی احمدیوں میں کریں گے.سن رکھا تھا کہ قادیان میں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے کے نوعمر بیٹا ہے.حضرت منشی جھنڈے خان صاحب قادیان جا رہے تھے انہیں پیغام دیا کہ فضل محمد صاحب سے کہ دیں کہ آپ کا بیٹا عبدالرحیم ہمارا ہوا.اس طرح اس رشتے کی بنیاد صرف احمدیت اور قادیان کی محبت پر رکھی گئی.جس کے نتیجے میں غیر معمولی برکات حاصل ہوئیں.حکیم صاحب کی بیٹی آمنہ بیگم کا نکاح 1924ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے خاکسار عبدالرحیم سے پڑھایا.26 جنوری کو شادی ہوئی.حضرت حکیم صاحب کے بیٹے احمد دین کی ایک سعادت منشی جھنڈے خان صاحب اپنے گاؤں بیتے ہالی میں فوت ہوئے.تو ان کے بعض غیر از جماعت رشتہ داروں نے ان کو اپنے گاؤں میں دفن کرنے کا منصوبہ بنایا.احمد دین صاحب کو خدا تعالیٰ نے ہمت دی.ایک احمدی کے جنازے کی حفاظت اور قادیان پہنچانے کی لگن میں ایک شخص کی مدد سے جنازہ گڈے پر رکھ کر راتوں رات قادیان پہنچے.منشی صاحب موصی تھے.بہشتی مقبرہ قادیان میں تدفین ہوئی.یہ واقعہ آپ کے خاندان کی شدید مخالفت کا باعث بنا.اس بنا پر قادیان ہجرت کرنی پڑی.ایک حج کی نظمندی اور انصاف پسندی (خلاصہ.بدر 18 اکتوبر 1963) یہ واقعہ حضرت حکیم صاحب سنایا کرتے تھے.گورداسپور کی عدالت میں ایک ملزم کو 341
زنده درخت حاضر کیا گیا اُس نے اپنا کیس یوں بیان کیا کہ حضور! ایک دن پہاڑ کی طرف سے گورداسپور آرہا تھا کہ سڑک پر پڑی ہوئی ایک تفصیلی ملی میں نے اسے اٹھا لیا ابھی کھول کر دیکھا بھی نہیں تھا کہ اس میں کیا ہے.اتنے میں مدعی اپنا گھوڑا دوڑا تا ہوا پریشان حال آیا جیسے کچھ تلاش کر رہا ہو.میں نے تھیلی اُس کے حوالے کی وہ بے حد خوش ہوا.اور بہت شکریہ ادا کر نے لگا.گورداسپور سے واپسی پر اس سے ملاقات ہو گئی اس نے بے حد اصرار کیا کہ ایک رات اُس کے گھر ٹھہروں اور کچھ آرام کر کے آگے روانہ ہو جاؤں.اصرار اتنا بڑھا کہ مجھے رکنا پڑا.بے حد خاطر مدارت کی قیام و طعام کا ہر طرح خیال رکھا.راتوں رات پتہ نہیں کیا اس کو کسی نے سکھا پڑھا دیا کہ اس نے مجھ پر دعوی کر دیا.ہوا یوں تھا کہ کسی شخص نے اُس سے کہا تھا کہ بظاہر یہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے غریب سا آدمی دکھائی دیتا ہے مگر بہت امیر کبیر ہوگا جو یوں پانچ سو اشرفی کی تھیلی واپس پکڑا دی ایک ہزار کا مطالبہ کر دو چنانچہ وہ کہنے لگا کہ بھائی میں شکر گزار ہوں تم نے میری تھیلی سے پانچ سو اشرفی لوٹا دی باقی پانچ سو بھی لوٹا دو تو اچھا ورنہ پولیس کو بلوا نا پڑے گا.اور پھر مجھے پکڑ لیا گیا میری کہانی بس اس قدر ہے کہ سڑک سے جو تھیلی اُٹھائی اس کو تلاش کرتے دیکھ کر اُس کو دے دی.مدعی نے کہا کہ اس تھیلی میں ہزار اشرفی تھی.اس نے پانچ سو دے دی باقی اس سے دلائی جائے.حج معاملہ کی تہہ کو پا گیا.اور مجھے کہا کہ پانچ سو اشرفیاں گن کر ایک تھیلی میں ڈالو اس کو اُٹھاؤ اور گھر جاؤ.دو سپاہی ساتھ حفاظت کے لئے گئے اور کہا اب اس کو گھر چھوڑ آؤ پھر مندگی سے کہا.بھائی تمہاری تو ہزار اشرفی کھوئی ہے یہ تمہاری تھیلی نہیں ہوگی تم اپنی تھیلی تلاش کرتے پھر یہی سزا ہے.س کفر سے باز آیا: حضرت حکیم صاحب نے سنایا کہ ایک بہت امیر ہندو کو دین حق کے متعلق تحقیق کی جستجو ہوئی اپنے ارد گرد علما جمع کر لئے اور اُن سے دینِ حق کی خوبیاں اور مسائل سننے لگا.ان علماء 342
زنده درخت میں ایک اہل حدیث تھا دوسرا حنفی.آپس میں عقائد پر تکرار کرنے لگے اور ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے لگے حوالوں اور تقریروں کی مار سے تنگ آکر ہندو نے دونوں کو سلام کیا اور کہا بس بس اگر میں حنفی ہوتا ہوں تو اہل حدیث کا فر کہیں گے اور اگر اہل حدیث ہوتا ہوں تو حنفی کافر کہیں گے اس کفر سے باز آیا میں ہندو اچھا ہوں.ایک مجذوب کی بات : حضرت حکیم صاحب نے سنایا کہ ہمارے گاؤں میں ایک فقیر لکھے شاہ رہتا تھا.جو سارے گاؤں اور اردگرد کے علاقے میں نمازی، نیک اور مجذوب مشہور تھا لوگ اُس کو اہمیت دیتے اور اُس کی آواز کو غیبی آواز سمجھتے تھے.اس میں کوئی بات تھی ضرور کیونکہ مجذوب تھا وہ بلند آواز سے کہتا.چڑھے شنہشاہ بولے نقیب نصر من الله فتح قریب چڑھے امام مہدمی بولے نقیب آئی ہیٹھلے جہان دی فوج دیہ تلوار قتل دی، دیه تلوار قتل دی، دیه تلوار قتل دی لوگو امام مہدی آ گیا اُس دے نال لشکر نہیں فوج نہیں اس دے نال بیٹھلے جہان دی فوج ہے خدا کی شان اس کے بعد طاعون پڑی ہیٹھ کی فوج یعنی نیچے کی فوج نے خدا تعالیٰ کا قہری نشان دکھایا اور دشمنوں کا قتل عام کیا.عمر کے آخری حصے میں: عمر کے آخرے حصے میں آپ جسمانی لحاظ سے کمزور ہو گئے تو جب تک خاکسار عبدالرحیم اپنی دوکان واقع احمد یہ چوک سے گھر دارالفتوح واپس نہ آتا آپ جاگتے رہتے.بستر پر نہ جاتے کہ نیند نہ آ جائے پھر جب میں گھر آ کر کھانا کھا چکتا تو کچھ بات چیت کرتے حضرت اقدس مسیح موعود کی کوئی کتاب سنتے جب تھک جاتے تو سو جاتے.کوئی 343
زنده درخت تحریر خط یا درخواست وغیرہ لکھوانا ہوتی تو مجھ سے ہی لکھواتے کہتے بیٹے تو ذرا اچھا مضمون بنالیتا ہے.کھانے کی عادات نہایت سادہ تھیں.جومل جاتا کھا لیتے.ایک دفعہ کہنے لگے یار روز گوشت روز گوشت کبھی سبزی دال بھی ہونی چاہئے.مجھے گوشت مرغوب تھا اس لئے زیادہ تر گوشت ہی پکتا تھا.آپ کی بات رکھنے کے لئے میں نے گھر میں گوشت لانا چھوڑ دیا.خود باہر ہوٹل وغیرہ سے کھا لیتا.ایک دن خود ہی کہا.بچے کیا گوشت نہ لانے کی قسم کھالی ہے؟ پھر گوشت آنا شروع ہوا.مگر ہم اس بات کا خیال رکھتے کہ جو آپ کو پسند ہو وہی پکایا جائے.آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ باور چیخانے میں پیڑھی پر بیٹھ کر کھانا کھا لیتے.روٹی پر ساگ ،سالن ، دال وغیرہ ڈال لیتے کہ اس طرح روٹی نرم ہو جاتی ہے.کھانا کھانے اور پانی پینے میں اسلامی آداب کا خاص خیال رکھتے.پیدل چلنے کا شوق پورا کرنے کے لئے دس ہمیں دن کے وقفے سے گھر سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے.کئی کئی دن باہر لگا آتے.تلاوت قرآن کا بہت التزام کرتے روزانہ ایک پارہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے سوائے مرض الموت کے یہی طریق رہا.ہم کو تاریخ معلوم کرنی ہوتی تو قرآن پاک میں آپ کی نشانی دیکھ لیتے.اُن کا طریق تھا کہ اپنی جمع پونجی بھی قرآن پاک ہی میں رکھتے.آپ نے بتایا حضرت خلیفہ اسیح اول کے زمانے میں جب آپ مدرس تھے ایک دفعہ صاحبزادہ محمود، شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب اور مفتی فضل الرحمن صاحب شکار کے لئے آئے.صاحبزادہ صاحب نے مجھے امامت کے لئے ارشاد فرمایا اور فر ما یا چار رکعت کا ثواب کیوں چھوڑوں یعنی مقامی امام ہوگا تو صر کے بجائے پوری نماز ہوگی.حکیم صاحب کا حقہ اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا فیصلہ : ایک روز ہم اپنے گھر میں بیٹھے تھے.اُس وقت حکیم صاحب میرے پاس ہی مقیم 344
زنده درخت تھے.1940ء کے لگ بھگ کا واقعہ ہو گا.صبح کا وقت تھا میری اہلیہ آمنہ بیگم صاحبہ اور بچے حکیم صاحب کے ارد گرد بیٹھے تھے.سردی کی وجہ سے پتھر کے کوئلوں کی انگیٹھی دہکائی ہوئی تھی.حکیم صاحب کو حقہ پینے کی عادت تھی.ناپسند کرنے کے باوجود عادت چھوڑی نہ جا رہی تھی.میں ثواب کی خاطر آپ کا حقہ گرم کرتارہتا اگر چہ ہمیں شروع سے ہی ہمارے ابا جان ، میاں فضل محمد صاحب نے حقہ ، سگریٹ سے نفرت دلائی ہوئی تھی.اس حد تک کہ پینا تو در کنار دیکھنا بھی اچھانہ لگتا تھا.اُس دن بھی جب حکیم صاحب نے چلم میں کو نکلے ڈالنے کو کہا تو میں نے اپنا مطالبہ دہرایا کہ کیوں اپنی صحت خراب کرتے ہیں.حقہ نا پسندیدہ ہے.مثیل مسیح حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حقہ پینا منع کیا ہے.آپ اُن کی بات مان کر حقہ چھوڑ دیں.انہوں نے کہا.چل توں کم کر اپنے کام سے کام رکھو میں حضرت صاحب کے فرمان کا مطلب زیادہ سمجھتا ہوں.میں نے کہا اچھا میاں جی ! اگر حضور آپ سے براہ راست کہہ دیں کہ حقہ چھوڑ دیں پھر تو آپ چھوڑ دیں گے نا! آپ نے کہا وہ مجھے کیسے منع کریں گے انہیں علم ہے کہ مجھے عادت ہے.میں نے کہا میں اُن سے تحریر درخواست کروں گا کہ وہ میری درخواست پر لکھ دیں کہ حکیم صاحب حقہ چھوڑ دیں تو بہتر ہے.اگر ایسا ہو تو پھر تو آپ کو چھوڑنا پڑے گا.آپ نے کہا کہ بیٹے روٹی بعد میں کھانا پہلے یہ کام کر لو.میں بھی خاص موڈ میں تھا.رقعہ لکھا اور اپنی اہلیہ سے کہا.کھانا پکانا بعد میں کرنا پہلے یہ رقعہ لے جاؤ کیا خبر آج یہ معاملہ طے ہو جائے.میں نے اُس میں لکھا :- حضور آپ کے دم سے مردے زندہ ہورہے ہیں اگر آپ ایک لفظ تحریر کر دیں تو کام بن سکتا ہے حکیم صاحب کو حقہ کی عادت ہے اگر آپ ممانعت 66 میں کچھ تحریر فرما دیں تو یہ حقہ چھوڑ دیں گے.“ مجھے اُمید واثق تھی کہ رقعہ کا جواب میرے حق میں ہوگا.تھوڑی دیر میں جواب آ گیا حضور نے لکھا تھا:- 345
زنده درخت میں اس بڑھاپے کی حالت میں انہیں کیوں فتنہ میں ڈالوں البتہ کسی 66 ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کرلیں.“ یہ جواب پا کر ہم سب ہنس رہے تھے، میری ہنسی میں خفت تھی جبکہ حکیم صاحب کی ہنسی کا انداز یہ تھا کہ تم کیا سمجھتے تھے، مجھے حضرت صاحب کی فراست اور دوراندیشی کا تم سے زیادہ اندازہ تھا وہ فیصلہ کرتے وقت ہر پہلو پر نظر رکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، بڑھاپے میں عادت ایک دم ترک نہیں ہوسکتی.ظاہر ہے اس کے بعد حکیم صاحب کے حقے سے سمجھوتا کرنا پڑا.محترمہ امۃ اللطیف صاحبہ نے اپنے نانا جان سے سنی ہوئی دو باتیں بتا ئیں.ایک یہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود کے والد صاحب کی ایک سرائے تھی جہاں مسافر ٹھہر تے اور خوب مہمان نوازی سے لطف اُٹھاتے.نانا جان کو بھی اس سرائے میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوتا تھا.اس میں ایک چکی تھی جس پر جھولا لینے کی میاں محمود ضد کرتے.نانا جان چکی چلاتے رہتے اور صاحبزادہ صاحب لطف لیتے.دوسری بات یہ کہ ایک دفعہ ماموں محمد منیر بعمر اندازاً دس گیارہ سال قرآن پاک پڑھ رہے تھے کہ اچانک قرآن پاک بند کر دیا اور کہا کہ کچھ نظر نہیں آرہا اچا نک نظر بند ہوگئی.ڈاکٹروں حکیموں کے علاج سے فائدہ نہ ہوا.نانا جان بیٹے کو لے کر حضرت حکیم مولانا نورالدین خلیفتہ اسی الاول کی خدمت میں حاضر ہوئے جس وقت آپ پہنچے آپ چوٹوں کی وجہ سے صاحب فراش تھے.سر پر چادر اوڑھی ہوئی تھی جو آنکھوں تک آئی ہوئی تھی.آپ نے چادر ہٹا کر موجود احباب کو دیکھا اور فرمایا احباب کو جانے کی اجازت ہے.نانا جان نے رخصتی کا سلام عرض کرتے ہوئے عرض کیا بیٹے کی نظر جاتی رہی ہے ہم دعا اور دوا کے لئے حاضر ہوئے تھے.آپ نے ایک نظر دونوں کی طرف دیکھا.نانا جان واپس روانہ ہوئے راستے میں ہی منیر نے بتایا کہ مجھے نظر آ رہا ہے.رفتہ رفتہ نظر بحال ہو گئی.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل اُس وقت علاج تو نہ کر سکتے تھے دعا ضرور کی ہوگی جو مقبول بہ درگاہ الہی ہوئی اور نظر بحال ہو گئی.346
−1 -2 -3 زنده درخت ۱۷.حکیم صاحب کی اولاد: آپ کے پانی بچے ہوئے.محترم منیر احمد عین شباب میں ایک لڑکی امتہ الرحمان صاحبہ یادگار چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہو گئے.جو محترم منشی محمد الدین صاحب بھٹے والے سرگودھا سے بیاہی ہیں.محترم احمد دین صاحب نے پتے ہالی سے قادیان اپنے والد صاحب کے ساتھ ہجرت کی.دار البرکات میں رہائش تھی.تقسیم ملک کے بعد درویشی کی سعادت حاصل ہوئی.محترمہ زینب بی بی صاحبہ (رفیقہ حضرت مسیح موعود ) محمد اسمعیل صاحب سے شادی ہوئی ( جو احمدی نہیں تھے ) ان کے لڑکوں کے نام محمد الحق صاحب، شریف احمد صاحب، خلیل احمد صاحب، نذیر احمد صاحب اور بشیر احمد صاحب ہیں.مؤخر الذکر سلسلہ احمدیہ کے مربی تھے 59-7-16 کو مختصر علالت کے بعد وفات پاگئے.بہشتی مقبرہ کے قطعہ نمبر 8 میں مدفون ہیں.تقسیم ملک کے بعد درویشی اختیار کر لی بہت عرصہ صوبہ بہار میں خدمت دین کی.بیٹیوں کے نام بشیراں بی بی صاحبہ اور رشیدہ بی بی صاحبہ ہیں.محترمہ مہر بی بی صاحبہ ان کی شادی خدا بخش صاحب سے ہوئی دولر کے عبد الکریم صاحب اور عبدالحکیم صاحب ہوئے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی محمد عبداللہ صاحب آف ڈیریانوالہ سے ہوئی.اولاد : عبداللطیف صاحب، ناصرہ صاحبہ، ہاجرہ صاحبہ، بشری حکمت صاحبہ، نذیرہ صاحبہ اور عبدالمجید صاحب.5- محترمہ آمنہ بیگم صاحبہ حضرت حکیم صاحب کی سب سے چھوٹی بیٹی جن کی شادی عبدالرحیم صاحب دیانت درویش سے ہوئی.-4 347
زنده درخت ۷- دعوت الی اللہ کا شوق اور فن شعر و شاعری : حضرت حکیم صاحب کو دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا.اس شوق کی خاطر وہ ازخود دیہاتوں کا دورہ کرتے اور لوگوں کو نیکی کی طرف بلاتے اور بُری باتوں سے روکتے.اپنی خدا داد صلاحیت شعر و شاعری کو بھی دعوت الی اللہ کے لئے استعمال کرتے.آپ کے منظوم پنجابی کلام کے رسالے دیہات کے علاقوں میں بہت مقبول تھے.جلسہ سالانہ قادیان کے دنوں میں آپ مہمانوں کی قیام گاہوں میں جا کر اپنے پنجابی لحن میں تبلیغی اشعار پڑھتے.حضرت مصلح موعود نے بھی اس امر کا ذکر فرمایا تھا کہ پہلے جلسہ کے پروگرام تو مختصر ہوتے تھے مگر ایسے لوگ قیام گاہوں میں جا جا کر بہت مفید کام کیا کرتے تھے.احمد یہ چوک میں دعوت الی اللہ کے بعض عشاق حضرت حکیم صاحب کے اشعار گا گا کر سناتے اور اس طرح جلسے کے دنوں میں عشاق احمدیت کی تسکین و خوشی کا سامان بہم پہنچاتے.آپ کے مجموعہ ہائے کلام کے نام ہیں :- 1- موتی بازار -2- سچا موتی 3- حلوے کی رکابی اور ملاں کی کامیابی 4- اخبار مهدی 5- خالص موتی 6 مروارید ناسفتہ یعنی ان ودھ موتی اور اس کا ضمیمہ -7 -8 شہادت حضرت امام حسین حلوہ اور کھیر ، ملاں اور فقیر ، رانجھا اور ہیر سب مجموعہ ہائے کلام 1921 ء تا 1924 ء امرتسر کے ریاض ہند پر لیس اور قادیان کے اللہ بخش سٹیم پریس سے باہتمام شیخ نور احمد اور چودھری اللہ بخش مینیجرو پرنٹر شائع 348
زنده درخت ہوئے.موتی بازار با ہتمام حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی شائع ہوئی.سچا موتی :- اس نظم میں تیجا ساتواں چالیسواں بد رسوم سے منع کرنے کا پر حکمت انداز ملاحظہ ہو.: مارو پس اک سوال کریندا واقف کرو جوابوں ختم پڑھن دا مسئلہ ہرگز وچ کتاباں ناہیں حکم کیتا اے شخص وہابی تگے مارو کڑو کٹو نے سٹو زندہ مول نہ چھڈو ماریا کیا لٹیا پٹیا گل گھٹیا فیر سٹیا سوال کرن دا مزا چکھایا نال مصیبت چھٹیا رات ستاتے نیند نہ آوے دل وچ مارے آہیں ختم پڑھن دا مسئلہ ہرگز وچ کتاباں ناہیں باجوں ختم گزارا ناہیں جائے ملا نامرادا اللہ بخش دے آگے فجریں منت خوشامد کردا کیندا باج ختم دے میری مول نہ پیندی پوری ایسا ختم جو کہتے نہ ہووے کرو تیار ضروری اللہ بخش اُس ملا کارن ایسا ختم بنایا سنن دیکھن تے لیکھن پڑھن وچ جیڑا کدی نہ آیا تیجا ستواں چالیاں جھتے ہووے کدی کدائیں وچ بروحاں روحاں تائیں پڑھ کے ختم پنچائیں 349
زنده درخت جے کوئی میرے اس ختم پر کردا ہے ناراضی تاں اوہ مینوں اپنے والا سچ سنائے قاضی پاک محمد اصحاباں دی کھانا کھاون جاندے ختم شتم نہ کچھ وی پڑھدے کر بسم اللہ کھاندے اصحاباں تے پاک اماماں ہوئے فوت پیارے ختم ستم رسم سقم توں سارے رہے کنارے تیجے ساتے چالئے بابت ثابت سند نہ کوئی نبی اصحاباں جو نہ کیتی بدعت ہوئی سوئی ٹھگ یتیماں مول نہ کھاؤ بلکہ فیض پوچاؤ ایسا ہے حکم خداوند والا اسپر عمل کماؤ حلوے کی رکابی اور ملاں کی کامیابی 16 صفحات پر مشتمل ایک طویل مزاحیہ نظم ہے.ہلکے پھلکے انداز میں ساس بہو کی لڑائی پیش کی ہے جو پنجابی ثقافت کی ایک بھر پور تصویر ہے.دلہن بیاہ کر گھر لاتے ہیں تو کیسا اشتیاق ہوتا ہے.محلے کی خواتین کس نظر سے دیکھتی ہیں.جہیز ، بری دونوں طرف کا زیور سب کی تفصیل ہے پھر دلہن کا اپنی مائکے سے آئی ہوئی چیزوں پر اتراہٹ اور سسرالی تحفے تحائف کو تخفیف کی نظر سے دیکھنا اور ہر چیز میں سوسو عیب دکھانا بیان کیا ہے.ابتدائی اشعار حمدیہ ہیں اور اسی سے موضوع کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے.سب تعریف خداوند تائیں جید یاں صفتاں عالی جس احسن تقویم بنائی شان انساناں والی خالق نے مخلوق بنائی خلقت رنگی برنگی کاریگر نے قدرت کتی سب چنگی توں چنگی 350
زنده درخت مرد عورت دا کاری گر نے جوڑا خوب بنایا اک جوڑی دا حال حوالہ چاہاں لکھ دکھلایا ایک منظر کشی اسی طرح کی ہے کہ دلہن کے عیب نظر آگئے تو محلے کی خواتین اس طرح اُٹھیں گویا جس مقصد کے لئے آئی تھیں وہ حاصل ہو گیا ہے.سُننے والیاں نے اے گلاں جد سمجھے سُن لیاں راضی ہوئیاں اُٹھ کھلوئیاں ہس ہس گھر نوں گئیاں گھروں گھروں جااے گل آکھن واہ واہ نیک نصیبی بھلے مانس خوش قسمت نہیں ہتھ لگی اے بی بی اُس کے بعد بد مزاج بہو کی نافرمانیوں ، گستاخیوں اور بدزبانیوں کا تذکرہ ہے یہاں تک کہ مار کٹائی تک نوبت آ گئی.ضد کا عالم یہ تھا کہ ہر بات الٹ کرتی.دریا پار کرنے کے لئے کشتی پر بیٹھنے کے مشورے کو رد کر کے تیرنا چاہا اور تیرتے ہوئے بھی ضد یہ کہ ہاتھ نہیں ނ پکڑنا.پانی کے رُخ سے اُلٹ تیرنا ہے.بالکل ڈوبتی ہوئی کو مشورہ دیا گیا کہ سر پانی.باہر رکھنا تو اُس نے فور اسر اندر کر کے ٹانگیں باہر نکال دیں.پھر نہ خواجہ خضر مدد کو آئے نہ اُس کے من کا رہنما شیطان کسی کام آیا انکار کی ضد راہ راست سے دور لے گئی.دس صفحات پر پھیلی ہوئی جھوٹی ضد انا اور انکار کی عادت کے نقصانات کے دلچسپ بیان سے قارئین اور سامعین کی توجہ پر مکمل گرفت کے بعد گریز کیا.اور صداقت مسیح موعود کا محبوب موضوع شروع کیا.اپنے مالک نال جنیاں نے کیتیاں ضداں اڑیاں اوڑک انت اُنہاندے سر پر ہو یاں بڑیاں بڑیاں لڑا کا کپتی بہو کی تمثیل میں نہ ماننے کی عادت ہر نبی کے کفار کے ضدی رویے کا بیان ہے اور اچھی باتیں صبر سے سمجھائے جانے کا طریق انبیاء علیھم السلام کا ہے.نظم میں قدرے تفصیل سے اس دستور کو بیان فرما کے نتیجہ پر آتے ہیں.351
زنده درخت اے لوگو جو باز نہ آؤ میں اک نقل سناواں ایم تصویر دیکھو ہن اتھے لکھ کے جو دکھلاواں وقت جوانی حسن عشق نے آن چڑہایاں فوجاں جو دل چاہیا سب کج لیتا بہت لیاں اس موجاں گئی جوانی آیا بڑھیا تے سیمر کنین لگا گھر والا کل اکو بابا اوہ وی سر منہ بگا سردوہاں دے کنبدے ریندے اندر ہر ہر ویلے چونکے دے وچ آمن سامن ایہہ چھیکڑے میلے میں نہیں دس دا آپے سوچو کی کہندی کی کہندا سوچن والے پاسوں مطلب لگیا کدی نہ رہندا اوڑک گئے جہانوں دوویں اوہ مائی ایہہ بابا روز حشر دے کم دے وے گا نیک عملدں دا چھابا لا تقنطوا من رحمت رب سچے فرمایا ان الله يغفر الذنوب جميعاً لکھ دکھلایا ئے نی ہیرے مندرانوالا ایہو تیرا رانجھا تو کہندی سی میرا رانجھا ایہہ سبناں دا سانجھا دیکھ سستی وچ باغ ترے دے کوئی بلوچ بیوپاری دیکھیں شیر میں بیٹھ محل ترے دے ندی کیا ایک جاری کیوں زلیخا توں نت روندی صبر نہیں دل کردا چل بازار وکیندا دیکھیں نام یوسف ایک مردا لے صاحبان بهمن مرزا تیرا جگ وچ ملی دو ہائی خنزیراں نوں مار دکھایا سولی توڑ گرائی 352
زنده درخت لے بلبل ہن گل گل ہو یا پھل پھل بیٹھ ودھیرے گئی خزاں بہاراں آئیاں بھاگ چنگیرے تیرے بس گڑے نے رو کیتی بھلا مانس ایک آیا شفیع المذنبیں محمد ہے اُس نے نام رکھایا وچ حضور غفور ضروری ادب بجا لیا یا جو منگے سو دیواں تینوں شاہنشاہ فرمایا عرض کیتی مرحومہ میری ڈوبی وچ بیاسا او بے آس تے رحم فضل دا میں بن تیک پیاسا اے حبیبا نیک نصیبا خود کوثر توں پایا آساں کر کے کا سا پھڑ کے آج پیاسا آیا لے پیارے کھول دے ہن بخشش دے دروازے خالی کرو جہنم سارا کیتے گئے دروازے مرحومہ نوں سونا چاندی زیور خوب پہنایا تاج تخت دی مالک ہوئی ایسا فضل کمایا العالمین خدا نے اپنا نام سنایا رحمت اللعالمین ہے نام محمد آیا جد ایہہ گل نوں پالن والے رحمت کرنے والے فیر کی وجہ جہنم وچوں کل نہ جاہن نکالے خالدون جو اہل جنت حدود نہ کائی حد آخیر ٹھہرائی خالدون جو دوز خیاندا اللہ بخش تو اللہ بخش نوں کر کے فضل غفاری رنج گزند نه پہنچے کوئی کریں ہمیشہ یاری 353
زنده درخت اللہ بخش دی دو ہیں جہانی کریں خدایا یاری میریاں کل گناہاں نالوں تیری بخشش بھاری اللہ بخش توں طاقت برکت وچ حیاتی ساری پچھوں نیکاں ساتھ رلاویں کر کے فضل غفاری گورداسپورے توں دو کوہ دکھن اندر پیتے ہالی اللہ بخش دے سچے موتی تین سو اکتالی ( 1 4 3) اخبار مهدی " اس کا موضوع حضرت اقدس مسیح موعود کی صداقت اور محبت ہے.چند اشعار ملاحظہ ہوں :- شکر اللہ دا قسمت میری ہن بھی بھلی بھلیری آخرين منهم وچول نعمت ملی بہتیری ایہہ پر کرے اراده دل دا ایس طرف دل پھیری اللہ بخش کج کر دکھلائیں جیسی دانش تیری اہل علم پڑھو علم ربانا ہر دم پڑھن پڑھاون قرآن حدیث ہمیشہ لوکاں نوں سکھلاون بعضے کچھ تصنیفاں کر کے دین رسول پڑھاون علم بعضی راگ سرود ہمیشہ نال خوشی دے گاون سوہنا وقت آیا ہتھ مینوں لگا ساز وجاؤن یارب سننے والیاں تائیں پوریاں سمجھاں آون راگ میرے دے ساز آوازے رب میرے نوں بھاون يارب پڑھنے سننے والے جنت ڈیرے لاون 354
زنده درخت حضرت مسیح موعود سے محبت و فدائیت کا بے ساختہ اظہار ایہہ اونوشہ جس دیاں خبراں پاک رسول ”سنائیاں ایهه او نوشہ جس دیاں گنڈھاں پاک محمد پائیاں اس نوشہ دیاں موسی عیسی دیندے گئے دہائیاں اس نوشہ دیاں نال میرا تال آج میرا تاں آئیاں اس نوشہ دیاں پاک دلاں نے خوشیاں لکھ منائیاں اس نوشہ دیاں چند سورج نے جگ وچ دھماں پائیاں اس نوشہ دیاں تیراں صدیاں اساں اڈیکاں لائیاں دھن دھن بھاگ مبارکباداں آج مُراداں پائیاں دشمن گیت اونے گاون گلیاں ہونج گوائیاں نوشه نال نه آتش بازی نہ گڈ ہلاں آئیاں خسوف کسوف دیاں اُس نوشہ چھڈیاں آن ہوائیاں إِذَا الشَّمْسُ كَوَرَتْ“ ول کیوں نہ نظراں پائیاں اپنے سامعین کو دلائل سے سمجھانے کے بعد نصیحت فرماتے ہیں:.اے دل کھیل تماشے اندر عمر گئی پنجتالی ( 45 ) کھیل تماشے اندر ہر دم طبع رہے خوش حالی خاطر خواہ تماشا ہرگز ملے ہتے ہالی قادیاں اندر عجب تماشا حکمت جل جلالی لوک تماشا دیکھن چلے میں کیوں بیٹھا آں خالی کھیل نرالی یارو چلو تماشا دیکھو ہے ایہہ 355
زنده درخت غلام احمد نے سانگ بنایا نقل محمد والی نقل مطابق اصل اُتاری شکل محبوب وکھالی پاک رسول محمد صاحب سب صفتاں دا والی اوسمجھ صفتاں مرزا اندر عکس بروزاں ڈالی خالص موتی فروری 1924 میں شائع شدہ اس 12 صفحات کی کتاب میں دو نظمیں ہیں.حضرت مسیح موعود سے عشق اور پیغام احمدیت کی اشاعت کا جنون ان میں بھی نمایاں ہے.پہلی نظم کے منتخب اشعار :- حمد خدا دی کدی دلوں نہ بھلا دیو صلوة مصطفی سے آل دے پوہنچا دیو مطالب والی بات خاص عام نوں بتا دیو جاگن ویلے ستیاں نوں پکڑ کے جگا دیو دے جو نہیں آچی بول کے عنا دیو منکراں دے کول ڈھول زور دا وجا دیو دیکھ اے آیا اندر قادیاں غلام احمد نام مرسل مهدی عیسی سارے جگ دا امام اے جس نوں اُڈیکدے امام مہدی آ گیا (دین حق) والا غلبہ سارے مذہباں اُتے پاگیا 356
دوسری نظم زبان زد عام تھی :- زنده درخت بخشنهار اول حمد الہی.جی دی شاہنشاہی.ہر دو عالم آہی.اوہ ہے میرے پیارے اللہ سانوں مہدی درکار سانوں چاہئے مہدی، مهدی باج نہ ریندی میں تے مُڑ مُڑ کہندی مهدی سانوں درکار بجایا مهدی قادیاں آیا اساں شکر میرے خدایا تیرا ہزار میرے اللہ سائیں ہردم ایہہ دُعائیں بخشیں عاصی تائیں اپنا پاک دیدار شافعی پاک محمد دامن مهدی شہادت حضرت امام حسین اور شیعہ بیچاری کے دین: درکار یہ طویل نظم 36 صفحات پر مشتمل ہے جس میں قرآن پاک کی متعدد آیات کے حوالوں سے عقائد پر بحث کی گئی ہے.پہلا شعر ہے:- اوّل حمد ربّے نوں آکھاں سب خلقت نوں پالے درود محمد احمد اُچیاں شاناں والے بعد آخری شعر ہے:.میں تیری آں دلبر تیری آں توں وی آکھ مونہوں نی تو میری آں آویں پاویں ساڈے ول پھیریاں اللہ بخش توکون چنگیریاں مروارید ناسفته یعنی آن ودھ موتی : یہ اُردو نثر کی کتاب ہے.آغاز اس طرح ہوتا ہے :- ”ہزار ہزار شکر اُس پروردگار کا کہ جس نے کان سننے اور آنکھیں دیکھنے 357
زنده درخت اور زبان بولنے اور دل سوچنے کے لئے عنایت فرمائے اور ہماری سکونت اور رہائش کے لئے زمین اور مکان اور رونق و زیبائش کے لئے ستارے اور آسمان اور آرائش و آسائش کے لئے طرح طرح کی چیزیں اور سامان بنائے اور فہمائش اور آزمائش کے لئے امتحان ٹھہرائے“ اُس کے بعد غیر مسلموں کے راج کی مشکلات اور انگریزوں کے راج کی آسانیاں بیان کی ہیں.ایک عنوان ہے " پہلے زمانہ کے لوگوں کے پوشش و خورش‘اس کے تحت لباسوں کا تفصیلی ذکر ہے اور پرانے مشکل، مہنگے ، بھاری لباسوں کے مقابلے میں انگریزوں کے زمانے کی آسانیاں بیان کی ہیں اور پھر بات کا رُخ اس طرف موڑا ہے کہ جس طرح دُنیا ان سہولتوں اور عدل وانصاف سے ناواقف ہے اسی طرح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کی صداقت سے غافل ہے.پھر سوال جواب کی شکل میں صداقت مسیح موعود قرآن وحدیث سے ثابت کی ہے.حرف آخر ہے: پس اگر تم کو قرآن کی آیت یا بزرگوں کی حکایت سے ہدایت نہیں ہوتی تو بھی شکایت چھوڑ کر نہایت نتیجہ کی طرف غور کرو میرا یہ کہنا کسی کی دل آزاری کے لئے نہیں بلکہ نہایت درددل سے نصیحت ہے کہ تم سانپ کے منہ میں انگشت یا تیز شمشیر پرشست یا شیر دلیر کے ساتھ درشت یا جلتی آگ میں چست ہو کر جست نہ کرو حلوہ اور کھیر ، ملاں اور فقیر، رانجھا اور ہیر: اس کتاب پر کاتب چودہری عبدالرحمن گجراتی 25 جون 1939ء تحریر ہے.کتاب کا دلچسپ نام ہی لوگوں کو متوجہ کرتا ہے.اس کتاب میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمعیل کا ذکر خیر ہے.مجددین کی پوری فہرست ہے.حضرت کرشن کی کہانی ہے.ہیر رانجھا کا دلچسپ قصہ ہے اور پھر صداقت مسیح موعود کے نشانات ہیں.سادہ پنجابی 358
زنده درخت زبان میں مؤثر انداز میں معلومات کا دریا بہہ رہا ہے.منتخب اشعار: اندر قادیاں کہے غلام احمد میرا نام مثال مسیح میاں محمد نبی رسول دا پڑھاں کلمہ قرآن نوں کہاں صحیح میاں حکم رب رسول دا ظاہر کرنا اچھی طرح فصیح توضیح میاں جناں مسئلیاں کسے نوں خبر نہیں اوہ بھی دس دا ہاں تشریح میاں جیہڑے حق پرست انسان خاکی دامن آن رسول دا پھڑن لگے جیہڑے آگ جہنموں ہوئے پیدا اُنہاں آگ لگی آپے سڑن لگے اگ حسددی بال کے لال کیتی بلدی آگ اندر آ پی پڑن لگے جیہڑے اونہاندے تابعدار ہوئے نال اپنے اناں نوں وی کھڑن لگے غیر احمدی بیٹھ صلاح کردے چھڈ و اناں دے نال کلام میاں حقہ رہے لگا پانی بند جانی روٹی نئیں کھانی ترک طعام میاں ساڈے مرشد نے اپنے خادماں دا آپ احمدی رکھیا نام میاں بھائی اساں دے اساں مرزائی کہندے، دندے ہور بھی سخت دشنام میاں کسے وچ جے کج وی جان ہندی کشتی اپنی نوں لیندا تار بیلی چیدا یار ستار غفار ہووے کون سکدا ہے اُس نوں مار بیلی مجدد والی حدیث نوں کین چوٹھی سچی ہے تو کرو اظہار بیلی سارا حال مجدداں پہلیاں دا پورے طور دستو نمبردار بیلی 359
غلام ا زنده درخت بیلی غلام احمد پھر چودھویں چن چڑھیا جیہدی روشنی باہجہ شمار بیلی اے جو حال احوال مجدداں دا لکھیا گیا سارا نمبر وار بیلی نواب صدیق حسن خان لکھیا حج الکرامہ نوں پڑھو وچار احمد حضرت اندر قادیاں دے اُچی شان تے نیک تبار بیلی مرزا نئیں تے اپنا ہور دشو صدی چودھویں دا دعوے دار بیلی کہندے سنت جماعت ہے مذہب ساڈا، رڈی ہور، تے اسیں ابرار بیلی اسیں کہندے آں سنت جماعت والے کیڑے تہاڈے وچ آثار بیلی جماعت او جو اک امام ہووے باقی اُس دے تابعدار بیلی تی ☆.سارا حال احوال بلال والا اوہ دے نال کی چال کفار میاں ریت تے سٹناں بنھ مشکاں پتھر گرم سینے اُتے بھار میاں کلمہ پڑھی جاوے باز نہ آوے اُچی نال پکار پکار میاں اُناں سٹر دیاں سٹردیاں سٹردیاں نوں ساڑ ساڑ کے لئے گلزار میاں بڑا مرد قابل کابل رہن والا کامل عبداللطیف سردار میاں زنهار انکار نہ یار ولوں کیتا مار کفار سنگسار میاں جیہڑا حال احوال پیغمبراں دا اک لکھ تے کئی ہزار میاں نال ساریاں دے ایہو حال کیتا ایہو چال کفار مردار میاں 360 ☆
زنده درخت محمد صاحب پیغمبراں ساریاں تھوں عالی شان اُتے بزرگوار ہویا جو کج نال زبان فرمان کیتا آج عین بعین اظہار ہویا ہزاراں سال ہوئے فرعون مو یا اوہدا حال بیان قرآن ہویا غرق ہون لگا تدوں رون لگا رب منیاں قول زبان ہویا دیکھو صاف بیان قرآن اندر فرمان رحمن ال آن ہویا تیرا بدن سلامتی رکھنا ہے گویا رب دا عہد و پیمان ہویا امام مهدی دے وقت دریا و چوں فرعون تابوت عیان ہویا فرعون دا بدن تابوت اندر صحیح سالم نہ سج نقصان ہویا فرمان رحمان قرآن والا پورا دسیا خوب نشان ہویا اُس روز توں لئے کے آج توڑی ثابت بدن ہے امن امان ہو یا چڑیا گھر جو قاہرہ شہر اندر اجے لاش دا نہیں زیان ہویا جنوں شوق ہووے دیکھ سکدا ہے جیہڑا قدرتی ساز سامان ہویا محمد نبی تے پاک قرآن اُتے جیدا اجے وی نہیں ایمان ہویا کلمہ پڑھے تے نہیں یقین پختہ دسو کس طرح دا مسلمان ہویا جو کج پیشگوئیاں ثابت آج ہویاں زمیں شاہد،گواہ آسمان ہویا مرزا صاحب دے جو نشان دسے اک اک کر کے پورا آن ہویا تیراں چند اٹھائی سورج اُتے ماہ دا نام رمضان ہویا ہوندا زمین لوکاں جادو آکھنا سی اے تے رب دافضل آسمان ہو یا ہندو آریہ دیکھ حیران ہوئے اُتے مولوی جی پشیمان ہویا مرزا صاحب تائیں سچا کرن والا حضرت مصطفی دا فرمان ہو یا 361
زنده درخت ہماری نانی اماں میری امی جان بتاتی تھیں کے ان کو اپنی والدہ کے قبول احمدیت کا علم نہیں جب ان کی وفات ہوئی وہ بہت چھوٹی تھیں بڑی بہنوں کی شادی ہو گئی تھی وہ روٹی نہیں پکا سکتی تھیں آٹے کے گولے سے بنا کر آگ میں ڈال دیتیں جو باپ بیٹی راکھ اور جلا ہوا حصہ جھاڑ کر کھا لیتے تھے.گاؤں والوں کی مخالفت کی وجہ سے سکول نہیں جاسکتے تھے.ایک دفعہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعا کی کہ میرے والد صاحب کا انجام تو بخیر ہو گیا مولا کریم تو بتا دے کہ میری والدہ کس حال میں ہیں.دعا کے بعد خواب میں دیکھا کہ والد صاحب تشریف لا رہے ہیں والدہ صاحبہ کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے دونوں بہت اچھی حالت میں ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا.بیٹا فکر نہ کرو تمہاری امی میرے ساتھ ہیں.اللہ کرے ایسا ہی ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے بزرگوں کو غریق رحمت فرمائے اعلی علیین میں جگہ عطا فرمائے.ہمیں نسلاً بعد نسل اُن کی دعاؤں کا وارث بناۓ.آمین اللهم آمین.و آخر دعوانا عن الحمد لله رب العلمین.آمین 362
زنده درخت فهرست مطبوعات لجنہ اماءاللہ کراچی نام کتاب 1 - اخلاق حسنہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا خطبہ 25 مارچ 1988ء بمقام لندن 2 - مقدس ورثہ بچوں کی لئے سیرت نبوی کے سلسلے کی پہلی کتاب -3" سبز اشتہار او لیکچر سیالکوٹ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 4 کو نیل پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب 5- چشمہ زمزم بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی دوسری کتاب 28 20 22 32 16 20 6 غنچہ سات سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب اس میں تصویروں کے 76 ساتھ وضو کر نے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ درج ہے.7 ضرورۃ الامام اور لیکچر لدھیانہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 40 CHRIST"8 THE NAZARENE KASHMIRI‘ دنیا پور کی مجلس عرفان 40 40 88 88 104 64 216 24 9 - قوار یرقوامون اصلاح معاشرہ پر کتاب 10 گل دس سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب مکمل نماز با ترجمہ 11 - ایک با برکت انسان کی سرگزشت حضرت عیسی کی زندگی کے حالات 12 - افاضات ملفوظات حضرت مسیح موعود کے ملفوظات سے اقتباسات 13 - اصحاب فیل بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی تیسری کتاب 14 - بیت بازی درثمین، کلم محمود، کلام طاہر، در عدن اور بخار دل سے منتخب اشعار 15 - پانچ بنیادی اخلاق حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کا خطبہ 24 نومبر 1989ء 16 - " تذکرۃ الشہادتین اور پیغام صلح حضرت بانی سلسلہ کی کتب سوال و جواب کی شکل میں 58 17.”حضرت رسول کریم صلی لا الہ سلم اور بچے“ 18 - صد سالہ تاریخ احمدیت بطر ز سوال و جواب 200 48 24 92 480 363
زنده درخت 19 - فتوحات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی انذاری پیشگوئیاں 72 20 ” بے پردگی کے خلاف جہاد" جلسہ سالانہ 1982ء خواتین سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح 28 الرابع کا خطاب.21 - آداب حیات قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی روشنی میں 22 - مجالس عرفان حضرت خلیفہ اسیح کی مجالس سوال و جواب کراچی لجنہ میں 23 - واقفین نو کے والدین کی راہنمائی کے لئے“ 224 144 224 24 24 بركات االدعاء اور مسیح ہندوستان میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی کتاب سوال و جواب کی شکل میں 48 25 - بدرگاہِ ذیشان منتخب نعتوں کا مجموعہ 26 - المحراب‘صد سالہ جشنِ تشکر نمبر 1989 27 - المحراب سوواں جلسہ سالانہ نمبر 1991 28 - پیاری مخلوق بچوں کے لئے سیرت نبوی کے سلسلہ کی چوتھی کتاب 29 - دعوت الی اللہ 144 204 252 60 28 30-SAYYEDNA BILAL“ بچوں کے لئے انگریزی میں حضرت سیدنا بلال کی زندگی کے حالات 30 31 - خطبہ لقاء سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الرابع کا خطاب 23 مارچ 1990ء 32 - حوا کی بیٹیاں اور جنت نظیر معاشرہ خطاب حضرت خلیفتہ امسیح الرابع 33 - ” میرے بچپن کے دن حضرت مولوی شیر علی کے حالات زندگی 34 - ری الانبیاء انبیاء کرام کے مستند حالات زندگی 48 160 28 152 35 عہدیدار ان کے لئے نصائح سیدناحضرت خلیفہ المسح الرابع کا 31 اگست 1991 کا خطاب 20 36 - گلدستہ تیرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی و تربیتی نصاب 37 - سیرۃ وسوانح حضرت محمدمالی ایلام ( بطر ز سوال و جواب) 38.دعائے مستجاب دعا کا طریق اور حضرت مصلح موعود کے قبولیت دعا کے واقعات 128 290 162 364
زنده درخت 3 - ” ہماری کہانی محترم حاجی عبدالستار آف کلکتہ کے حالات 40 - کلام طاہر سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کا شیریں کلام معہ فرہنگ 41 - انبیاء کا موعود سیرت النبی پر بچوں کے لئے سلسلہ کی پانچویں کتاب 120 160 72 42- حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسح الثالث حضرت طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی مرتب کردہ کتاب زندگی 172 43 " ترکیبیں آسان کم خرچ خالص اشیاء بنانے کی ترکیبیں 44 - قندیلیں سبق آموز واقعات 45 - ” جماعت احمدیہ کا تعارف دعوت الی اللہ کے لئے ضروری معلومات 54 = 192 252 46 - ”سیرت حضرت محم مالی ایام ولادت سے نبوت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب 88 47- نماز با ترجمه با تصویر 48 - گلشنِ احمد پندرہ سال تک کے بچوں کا تعلیمی وتربیتی نصاب 49 - عاجزانہ راہیں حضرت اقدس بانی سلسلہ کے ارشادات کی روشنی میں 50 اچھی کہانیاں ، بچوں کے لئے سبق آموز کہانیاں 51 - قوار پر قوامون حصّہ اوّل 52- دلچسپ سبق آموز واقعات از تقاریر حضرت مصلح موعود 64 168 280 32 28 100 53 - "سیرت حضرت محمدملی یا ایتم نبوت سے ہجرت تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب 80 54 - سچے احمدی کی ماں زندہ باد 55 کتاب تعلیم 56 - تجلیات الہیہ کا مظہر محمد للا سلام 57 - احمدیت کا فضائی دور“ 58 - امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ سیرت النبی پر بچوں کے لئے چھٹی کتاب 20 20 160 496 160 32 358 365 59 - بیعت عقبی اولی تا عالمی بیعت
زنده درخت 60 - سیرت حضرت محمد مصطفی سال یہ ہجرت سے وصال تک بچوں کے لئے سیرۃ النبی کی کتاب 144 61 - انسانی جواہرات کا خزانہ سیرت النبی پر بچوں کے لئے ساتویں کتاب 62 - " حضرت محمد مصطفی صلی الہ و سلم کا بچپن سیرت النبی پر بچوں کے لئے آٹھویں کتاب 63 - مشاغل تجارت و حضرت خدیجہ سے شادی سیرت النبی پر بچوں کے لئے نویں کتاب 64 - ” جنت کا دروازہ والدین کی خدمت اور اطاعت، پاکیزہ تعلیم اور دلکش نمونے 65 - سیرت سوانح حضرت محمدمان آغاز رسالت سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیارہو میں کتاب 66 - کونپل (سندھی)‘ پانچ سال تک کی عمر کے بچوں کا تعلیمی اور تربیتی نصاب 64 32 28 144 24 له الله 170 67 - ”ربوہ“ منظوم کلام 68 - "سیرت و سوانح حضرت محمدمصطفی سی این دو الی اللہ اور ہجرت حبثہ سیرت النبی پر بچوں کیلئے گیارہویں کتاب 40 69.” جوئے شیریں منتخب نظموں کا مجموعہ 104 70 سیرت و سوانح حضرت محمد مصطفی سالم شعب ابی طالب و سفر طائف مسیرت النبی پر بچوں کیلئے بارہویں کتاب 40 71 - سفر آخرت“ آداب و مسائل وو 72 - در تخمین مع فرہنگ 73 - ہجرت " 74 - ہجرت مدینہ ومدینے میں آمد سیرت النبی پر بچوں کیلئے تیرہویں کتاب 75 - مرزا غلام قادر احمد خاندان حضرت مسیح موعود کا پہلا شہید مع تصاویر 76 - یروشلم 77 - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب (جلد اول) 78 - حضرت میر محمد اسمعیل صاحب ( جلد دوئم) 79 - ” جماعت احمدیہ کی مختصر تاریخ“ ( احمدی بچوں کے لئے 80 - غیبت ایک بدترین گناہ 80 326 216 80 88 530 32 720 560 144 96 96 366
288 176 304 548 16 220 78 148 360 12 36 272 32 64 164 164 288 400 زنده درخت 81 - محسنات‘ ( احمدی خواتین کی سنہری خدمات ) 82 - حمد و مناجات 83 - بخار دل 84 - کلام محمود مع فرہنگ 85 - ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ ( نہ صرف شریعت کا حکم بلکہ سراسر انصاف ورحمت ہے ) 86 - ” آپ بیتی از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب 87 - گر نہ کر از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب 88 - تواریخ بیت فضل لندن از حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب 89 - رفقائے احمد کی قبولیت دعا کے واقعات“ 90 - بیٹی کو نصائح ( شادی بیاہ کے موقع پر ) 91 - علم و عمل 92 - الصَّلوةُ مَخُ الْعِبَادَة ( نماز عبادت کا مغز ہے) 93 - اچھی مائیں ( تربیت اولاد کے دس سنہری گر ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد 94 - انبیاء علیھم السلام کی دعائیں 95 - حسن اخلاق 96 - قدرت ثانیہ کا دور اوّل 97 - حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ عنہ 98- زنده درخت 367