Zikr-e-Habib

Zikr-e-Habib

ذکر حبیب

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی یہ قابل قدرتصنیف جو ان کی  ڈائریوں اور یادداشتوں کا مجموعہ ہے پہلی دفعہ دسمبر 1936ء میں  سامنے آئی ، تب اسے مینیجر بک ڈپو تالیف و اشاعت قادیان نے 438 صفحات پر طبع کرواکر پیش کیا تھا۔ چونکہ حضرت مفتی صاحب ابتدائی صحابی تھے ، قادیان دارالامان کے عاشق اور رہائشی بنے، اخبار بدر کی ادارت سے لیکر مختلف خدمات کی توفیق پائی۔ سفر و حضر میں معیت کا شرف پایا، یوں مفتی صاحب کی یہ کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح اور سیرت کے بنیادی ماخذ کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔ الغرض اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت کے ساتھ ساتھ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ کے  بہت سے نایاب تاریخی واقعات اور متفرق قیمتی روایات  موجود ہیں۔


Book Content

Page 1

خلافت ان در حال جوانی میں خدا کی ایک مجسم قدرت اول اور میرے ہے باور وجود اور اگے جودوسری قدرت کا مظہر ہو گئے.حضرت مفتی محمد صادق

Page 2

پیشکش بحضور حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم زاد الله شرفها مجدها و سلّمها الله تعالى جن کو سب سے زیادہ حضرت مسیح موعود مہدی معہود کے حالات کو سفر وحضر میں ملاحظہ کرنے اور ہر حال میں حضور کی رفاقت ، نصرت اور تائید کا حق ادا کرنے کا موقع حاصل ہوتا رہا.آپ کا غلام محمد صادق عفا الله عنه

Page 3

دعاء اللهم رب السموات ورب الارض ورب كل هي فالق الحب والنوى - منزل التورات والانجيل وصحف الانبياء والقرآن- یا علیم - یا خبیر - یا قدیر- یا رحمن- یا رحیم یا کریم - یا قدیم - یا غفور - یاستار - اے میرے پاک پرو در گار تو مجھے ایسے کلام اور ایسی تحریر کی توفیق اور قوت عطاء فرما جس میں ریب نہ ہو.جو حق اور اس میں کچھ باطل نہ ہو اور جو مخلوق کے واسطے موجب ہدایت ہو اور سب زبانوں اور قوموں میں اس کی صحیح اشاعت اور اس پر پاک عملدرآمد ہو.جو میرے لئے اور پڑھنے والوں کے لئے اور سننے والوں کے لئے اور چھاپنے اور چھپوانے والوں کے لئے اور شائع کرنے والوں اور خریدنے والوں کے لئے تیری پاک رضا مندیوں کے حصول اور تیرے ساتھ اتحاد کا موجب ہو.ہاں اے میرے بخشنہار.میرے پاک پروردگار میرے مجیب.میرے نجیب *.تو میرے گنا ہوں کو بخش اور میری پردہ پوشی فرما - یار بی - یار بی - یار بی.تو میرے خیال میں.میری زبان میں.اور میرے قلم میں رحمت ، برکت ، قوت ، راحت عطا فر ماء اور وہ سب جن کے ساتھ میری محبت کا تعلق ہوا اُن کی بخشش کر.اور اُنہیں ایمان، صحت، تقویٰ اور اقبال مرحمت فرما.اے میرے رب.اے میرے ہادی.اے میرے مالک.اے میرے آقا - تو اپنے پاک الہام سے میرے کلام کو مستحکم فرما اور ایسے الفاظ مجھے عطاء فرماء جو تیری مخلوق کی ترقی.بہبودی ، بھلائی ،حقیقی راحت اور خوشحالی کا ذریعہ ہوں - اللهم ايـد نـابـروح القدس - اللهم ايّدنا بروح القدس - ا - اللهم ايد نابروح القدس - سُبحان ربّى الاعلى وما توفيقى الا بالله العلى العظيم- واخر دعونا ان الحمد لله ربّ العالمين محمد صادق نوٹ :- اللہ تعالیٰ کی یہ صفات مجھے الہا ما بتلائی گئی تھی.صادق

Page 4

i فہرست مضامین نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر شمار عنوان صفحه باب اوّل طلب ضمانت کا خطرہ ۱۲ ۱۲ ۱۳ ۱۳ ۱۴ آه آه آه 0 1 1 ۲۵ ۲۵ ۲۶ ۲۶ ۲۶ Σ ۲۶ ۲۶ N ۲۷ ۲۷ کئے گئے لے لے ۲۸ ۲۹ پہلا سفر ریل ریل میں الہام مولوی احمد اللہ دعوی نبوت و محدثیت خلیه مُبارک باب دوم شملہ سے مُنہ ڈھکنا تبدیل لباس خوشبو لگانا رات کالباس چلتے ہوئے لکھنا الہام رات کے وقت لکھنا مہمانوں سے گفتگو مہندی کا لگانا خلوت نظم سنتے ضرورات شعری عیسوی سنه انجمن ماتحت چھوٹی خبریں اپنے مکان میں جگہ دی ۴ ۴ ۴ ۶ ۶ Δ Λ ۹ ۹ 1.11 ابتدائی حالات خواہش ملاقات نبی پہلاؤ کر: صحبت نور الدین پہلا رویا پہلا سفر قادیان پہلی سیر گنا ہوں سے بچنے کا علاج مغرب سے طلوع آفتاب واپسی قادیان دعوی مسیحیت میں قادیان میں کہاں ٹھہرتا تھا بیعت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مسجد چینیاں میں نماز جمعہ رجسٹر بیعت پہلی رات کے چاند کی مثال مولوی محمد حسین کا تکبر اللہ ہی لکھواتا ہے اظہار خاص سفر لدھیانہ گنوار کا ارادہ قتل

Page 5

نمبر شمار تنازع سے بچاؤ بال سفید انہوں کجھ دیدا ہے استعمال خطاب تو غراره عنوان ما تم میں چیخنے چلانے سے منع فرمایا حضور کا دایاں ہاتھ گالیوں کے اشتہارات کا بستہ احتیاطی ترجمه قرآن شریف باب سوم ایک لفافہ میں پانچ سوروپیہ دو۲ شامی عالم رخصت برائے نماز جمعہ انگریزی پڑھنے کا خیال عبرانی پڑھنے کا خیال حبس سے تپش بہتر حضرت کے عمامہ کا کپڑا حضرت صاحب کا جوتا حضرت کی جیب گھڑی قادیان آنے میں دیر عبداللہ عرب قبول دعوت عر بی لکھنے کا امتحان تر کی سفیر حسین کا می ii صفحہ نمبر شمار ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۱ ] ] ] ۳۱ عنوان اخبار چودھویں صدی کے واسطے مضمون حضرت صاحب مجھے پہچانتے ہیں سید غلام حسین صاحب مسٹر براؤن کی شہادت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑیا نوی کی خدمات عظیم الشان خوشخبری ایک ناول میں عیسیٰ تحریر محمد افضل خان مرحوم اپریل ۱۸۹۵ء راقم کے دوخواب ہنرش نیز بگو سفارش قبول مضامین لکھوانا كتاب أمهات المومنين ۳۳ ۳۳ ۳۴ ۳۴ ۳۵ ۳۵ ۳۵ EEEEEEP P @ [ [ [ INN{ جلس تصيبين جماعت لاہور کو نصیحت جلسه انسداد طاعون قتل لیکھرام احاطہ کچہری میں نماز نماز جمع میں سنتیں معاف طاعون سے بچنے کی تسبیح گورنمنٹ اور ہم ایک ہی راہ اپنے آپ کو منوانے کی ضرورت مقدمتہ گوڑ گانواں حضرت سید امیرعلی شاہ صاحب ملہم سیالکوٹی صفحہ ۳۹ ۳۹ ۴۰ ۴۰ ۴۰ 33 أما أه أه أه 3 3 ار ار ال دو ه ۴۲ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۲ ۵۴ ۵۸ ۵۹ ۶۱ ۶۱

Page 6

iii نمبر شمار رسالہ واقعات صحیحہ غیروں سے مشارکت وٹھی مسیح عنوان غیر متقی کی خواب قابلِ اعتبار نہیں دوسری جماعت غیر مسلم کو قر بانی کا گوشت لامک نبی کی قبر جماعت کے لئے ایک خاص دُعاء قرآن شریف ذوالمعارف ہے میاں غلام حسین صاحب پر ابتلاء مهمان نوازی حضرت صاحب کو اخبار سُنایا رات بھر میں ایک مکان تیار کیا گیا رات بھر میں ایک کمرہ طیار کیا گیا ذی الحج کی پہلی رات ۲۱ / مارچ ۱۹۰۱ء ۲۲ مارچ ۱۹۰۱ ء ذی الحج کا پہلا دن نمونه تبلیغ امریکہ سے پھول ایک یہودی عالم کی شہادت وفات مسیح پر پطرس کی شہادت مسیح کی دُعاء پطرس اور مسیح کی عمر اخبار الحکم کا شکریہ فری میسن طاعونی جرموں کا ہلاک کرنا صفحہ = ۶۱ ۶۲ ۶۲ ۶۳ 3 44 ۶۶ 13 ۶۶ 44 ۶۸ ۶۹ ۶۹ ۶۹ نمبر شمار عنوان پادری پکٹ مدعی مسیحیت کو تبلیغ دعا سے کامیابی خلوت میں گفتگو عاجز نے جماعت کرائی برآمدہ کچہری میں نماز گنے سے کھانسی کا علاج گل محمد عیسائی مسئلہ شفاعت بہت صفائی سے حل ہو گیا کشش چکڑالوی ڈاکٹر عبدالحکیم وڈاکٹر رشید الدین کثرت ازدواج کی اجازت پہلی بیوی کے حقوق سچی توبه درازی عمر کا نسخہ اے تاکید نماز ۷۳ ZA ZA ZA ۷۹ ۷۹ ۸۰ Al ۸۲ دعاء نہ کرنے میں ہلاکت ہے حضرت مسیح موعود نے عاجز راقم کو خواب میں دیکھا دعانہ کرنے کا نتیجہ گول مول مصالحت نا پسند اخلاقی تناسخ حقیقت دعاء نماز کے اندر کوئی ضروری کام پیشگوئی متعلق کو ریا صفحه ۸۳ ۸۷ ۸۷ ۸۷ ۸۷ ۸۸ ۸۸ ¾ W ۸۹ ۸۹ ۸۹ ۹۱ ۹۱ ۹۲ ۹۲ ۹۲ ۹۳ ۹۴ ۹۴ ۹۴ ۹۴ ۹۴ ۹۵ ۹۶

Page 7

صفحه ۱۰۵ 1+2 لا لا ۱۰۸ 1+9 ۱۱۲ ۱۱۲ ۱۱۳ ۱۱۳ iv نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر شمار عنوان بُخار فوراً اُتر گیا حلفی اقرار پادری اسکاٹ سے ملاقات جنازہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب حالات زلزلہ جاپانی پر و فیسر کو تبلیغ اخبار بد ر کی ایڈیٹری سعیده مرحومه زلازل سے قیامت کی دلیل جماعت کی اصلاح ۹۶ ۹۷ ۹۹ ۹۹ مقصد بعثت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ச ۹۹ ::: عظمت مدرسہ تعلیم الاسلام ارواح سے کلام مسیح موعود کے خاص روزے کیسے لوگوں کی ضرورت ہماری مخالفت کیوں ہے صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم مخالفین کا وجو دموجب رونق 1+1 1+1 1+1 ۱۰۲ غیر مذاہب سے مخالفت کیوں مدارس قادیان میں تعلیم پانے کی برکت باغ والا خواب ۱۱۴ ۱۱۵ ۱۱۵ ۱۱۶ ۱۱۸ ≥ ≥ لا ۱۱۸ 119 119 ۱۲۰ ۱۲۰ جماعت کو مر تذ کرنے کی سعی کرنے والے نا کام ہلاک ہوں گے عورتوں کو نصیحت کلام پڑھ کر پھونکنا مُرده اسلام سال ۱۹۰۷ء زندگی وقف کرنے والے اصحاب الواح الهدی سید احمد مثیل یوحنا تھے چکڑالوی خیال کی تردید أرزل مخلوق سے وفاداری کا سبق لو واعظین سلسلہ کیسے ہوں روسی سیاح ڈکسن نام تیرہ سوسال کے بعد ایک نبی ۱۰۲ 4 4 4 4 1 ۱۰۳ ۱۰۳ ١٠٣ ۱۰۴ ۱۰۴ ۱۰۴ ۱۰۵ ۱۰۵ ۱۰۵ ایک لڑکے کی خواب تدریجی تربیت انبیاء انتخاب و اقتباس از اخبار بدر کلام الہی قواعد صرف ونحو کے ماتحت نہیں زلزلہ کے وقت مسیح موعود کی حالت امام مقتدیوں کا خیال رکھے عاجز راقم کا ایک خواب صلوٰۃ اور دُعا میں فرق خواہش اولاد عدم ضر ورت تناسخ عورتوں کو نصیحت ترک دنیا نزول روح القدس بچی تہذیب

Page 8

صفحہ ۱۲۹ ۱۲۹ E ۱۳۱ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۲ ۱۳۳ ۱۳۳ ۱۳۳ ۱۳۴ ۱۳۴ ۱۳۵ 오오 ۱۳۵ ۱۳۵ V نمبر شمار تاریخ تعمیر مکان سعد اللہ لدھیانوی تعلیم نسواں عنوان باب چهارم میری عادت رپورٹ نزول نقشہ اعتراضات نقشہ پیشگوئیاں صفحہ ۱۲۱ ۱۲۲ ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۵ ۱۲۵ نمبر شمار ایک دُعاء کی قبولیت عنوان وجہ تصنیف رسالہ قادیان کے آریہ ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب حدیث کو لاک مولوی حکیم سردار محمد صاحب کا اخلاص مسوده کتاب نورالدین جاگنے کا ذریعہ جلدی نہیں کرنی چاہیئے ایک نان پز کی حالت ایڈورڈ بادشاہ احمدیہ مجاہدات عربی مختصر زبان ہے احترام حضرت اُم المومنین جان محمد کا خواب عاجز کو دودھ پلایا بچے کے دل بہلاؤ کے لئے چڑیا بچوں کو مارنا نہیں چاہیئے چاند کے واسطے عینک مبارک احمد مرحوم کی خاطر نماز جمعہ میں نہیں گئے بال بڑھانے کی دوائی پانچویں روز مہندی بارش کے واسطے نماز تمرک سیٹھ عبد الرحمن مد راسی کا اخلاص وادب میر مهدی حسین صاحب کا اخلاص وادب ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۶ ۱۳۶ { { ۱۳۶ ۱۲۶ ۱۲۶ ۱۲۷ ۱۲۷ ۱۲۷ ۱۲۷ مولوی محمد احسن صاحب امروہی کی ناراضگی شکایت نہ سُنا کرتے عورتوں کا ایمان بچاؤ پنکھا نہ لگوایا ۱۲۸ ۱۲۸ ۱۲۸ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۲۹ ۱۲۹ گرمی میں بھی کام جاری رکھتے پہاڑ پر جانا سب کا جنازہ پڑھ دیا بنیادی اینٹ غم دُور کرنے کا ذریعہ پر کتے مار لمبی عمریں ام أم قریه مهمان نواز بھیرہ سے نصرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مرحوم تعریف تقویٰ مولوی محمد علی صاحب پر ناراضگی

Page 9

نمبر شمار عنوان نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا رات بارش میں گذاری سید احمد صاحب بریلوی کا ساتھی سینه پردم سفید گھوڑا مولوی عبداللہ غزنوی سے ملاقات مولوی محمد حسین بٹالوی سوال کا پورا کرنا باب پنجم و ششم مولوی کہلانے سے نفرت آسمانی کام نئی جماعت کیسی ہو؟ شرطیہ ایمان بدظنی سے بچو دعاء میں بڑی قوت بچے مذہب کی علامت دو بڑے اصول رحم غالب جہتم دائمی نہیں غربت بھی فضل ہے صحبت میں رہنے کی تاکید ایمان کا مل چاہئیے ؟ شخصی تبلیغ نزول انوار صادِق کا انجام vi صفحہ نمبر شمار ۱۳۶ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۳۷ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۳۸ ۱۳۹ ۱۳۹ ۱۴۰ ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۲ ۱۴۲ ۱۴۴ ۱۴۴ ۱۴۵ ۱۴۵ ۱۴۵ ۱۴۵ عنوان صفحہ عذاب کا وعدہ مل جاتا ہے ظاہر پرستی درست نہیں خدا میں محویت خواب میں دانت کا ٹوٹنا چار قسم کے نشانات میت سے کلام اقسام تقدیر ایمان بالغیب محبت و شفقت حکومت بر طانیہ تازہ معجزات کی ضرورت رو فلمیں مرشد و مرید شان محمد علمی معجزه مُسلمانوں کی ترقی کا راز فراست مومن نیکی کے دو پہلو ہر امر آسمان پر مقدر ہوتا ہے تکرار الہامات حضرت مسیح موعود کے دو بازو موت تبدیلی مکان ہے اصحاب رسُول دُعا کرنا موت اختیار کرنے کے برابر دُعاء علیحدگی میں ۱۴۵ ۱۴۵ ۱۴۷ ۱۴۷ ۱۴۷ ۱۴۸ ۱۴۸ کم کم کم کم ۱۴۸ ۱۴۸ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۴۹ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۱ ۱۵۱ 흐흐흐 ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۲ ۱۵۲

Page 10

vii نمبر شمار عنوان صفحہ نمبر شمار عنوان صفحه معجزہ نمائی مومنوں کے اقسام اُسوہ شہادت مہمانوں کی تواضع اپنے الہامات پر ناز نہ کرو؟ تین قسم کے ثبوت ۱۵۳ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۴ ۱۵۵ دُنیا کی بے ثباتی ۱۶۶ مقولے باب هفتم و هشتم پورانی نوٹ ہگوں سے ۱۷۰ خُدا کو کسی کی پرواہ نہیں مسیح کہاں اُترا ! J J 121 جو نفس ܬܙ پورانی کا پی ۱۹۰۴ء ۱۷۲ ضرورت مسجد اصلاح مسوده میں خوش کیوں ہوں لفظ نزول ۱۷۲ الیاس ثانی نظم سننے کا فائدہ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۵۸ ۱۵۸ مخالفین پر سختی صبر کی تعلیم ۱۷۲ 주주 ۱۷۲ لفظ مولوی جوش نہ دکھاؤ حقیقت عرش ترک دنیا اپنی زبان میں دُعا انبیاء کی خلوت پسندی آسمانی کام ۱۷۳ ۱۷۳ ۱۷۸ ۱۵۸ جوش نفس گا گیا ۱۷۸ زوجہ اول کے حقوق سونا بنانے والے کیمیاگر صفات کارکن وجی کی عارضی بندش حنفی مذہب پر عمل اصلی فقیر ۱۵۹ ۱۵۹ 17.۱۶۲ ۱۶۳ ۱۶۴ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۵ وقت اور محنت درکار IZA مُقدمه انکم ٹیکس محاسبه نفس ง ง ง ۱۷۹ ۱۷۹ دو جهنم نصیحت سب سے مانو مومنانہ زندگی عبد الله الهام غشم ۱۷۹ 129 ۱۸۰ ۱۸۰ ۱۸۰ بعض الہامات ۱۸۰ بیعت کے بعد نصیحت ܬܪܙ جوانی میں نیکی ۱۶۶ قادیان آنے کی ضرورت لفظ گالو کی تعبیر ۱۸۰ į į į ۱۸۱

Page 11

نمبر شمار عنوان صفحہ اسلامی نام سے بلاؤ استخاره بیعتیں موقعه شناسی مجدد زمانہ جماعت میں کمزوری نرمی ضروری الہامات میری ایک رؤیا مُریدین ایوب بیگ الي مدد انہماک نہ ہو نوکری برکت قرآن جوش میں نہ آؤ تعبیر ایک ہی خواہش تزکیه نفس پورانی نوٹ بک ۱۹۰۰ء پیدائش مسیح موعود ۶ / مارچ ۱۹۰۶ء الہام درست جہاد مناره ۱۸۲ ۱۸۲ ۱۸۴ ۱۸۴ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۵ ۱۸۶ ۱۸۶ ۱۸۶ ۱۸۶ ۱۸۶ ۱۸۷ ۱۸۷ ۱۸۷ ۱۸۷ ۱۸۸ ۱۸۹ ۱۹۰ 190 190 190 19° viii نمبر شمار عنوان صفحہ ایک قسم الہام ١٩٠ حقیقت دُعاء ایس دُعائے شیخ الهام پختہ قبر بیعت کی ضرورت شخصی تدبیر خارق عادت زندگی سچی طلب ضروری روزه جماعت کی ترقی مسیح موعود کا کام کیا تھا ساری اُمت عیسی بن جائے تکرار زیارت قبور اگست ستمبر ۱۹۰۵ء مضمون خط سے خبر سب اللہ کے ہاتھ میں حلم ۱۹۱ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۳ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۴ ۱۹۴ ۱۹۵ ۱۹۶ ۱۹۶ ١٩٦ ۱۹۶ ۱۹۷ ۱۹۷ تحریک فرشتگان ۱۹۷ احمدی بادشاہ حق پھیلانے کا ایک حیلہ ۱۹۷ ۱۹۷ اصلاح خُون ۱۹۷ لطيف جسم بطور نمونه ي لا لا لا ۱۹۸

Page 12

نمبر شمار عنوان صفحه ترک دُنیا ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۱۱ ۲۱۲ EE ۲۱۳ ۲۱۳ ۲۱۴ ۲۱۵ ۲۱۶ ۲۱۶ ۲۱۷ ۲۱۷ ۲۱۷ ۲۱۷ ۲۱۸ ۲۱۹ ۲۱۹ ۲۱۹ صادق و کاذب میں پہچان تقویٰ کی باریک راہیں مسیح ناصری کی پیدائش شخصی تبلیغ کنداں مفید نہیں تمہید.قادیان آنے کی ضرورت ڈائری حافظ محمد یوسف یر امین احمدیہ کی پیشگوئیوں پر غور افراط و تفریط کا بدلہ وظیفه استغفار تقویٰ سے مُراد کیا ہے دل کی مثال غیروں سے علیحدگی کی ضرورت معراج کی حقیقت طوفانِ نوح کی حقیقت جہاد مدافعت کے لئے تھا بندش دیوار کی خبر احادیث میں آسمان سے مراد قرآن کافی ہے قرآن شریف میں آئندہ کی ضروریات موجود ہیں ۲۱۹ 금금금금금금 نظر نیچی رکھو تقلید کی ضرورت ایک الہام اچھی زندگی شرائط قبولیت دعاء ix نمبر شمار عنوان صفحہ الہام کے درجات ۱۹۸ الہامی مضامین ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۱ ۲۰۳ ۲۰۴ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۵ ۲۰۶ ۲۰۶ ۲۰۷ ۲۰۸ ۲۰۸ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۰۹ ۲۰۹ تازہ الہامات تفسیر کون لکھے محرم میں رسومات سے بچو حالت بیعت دخل شیطان سے پاک الہام بیعت امرالہی سے گناہ دُور کرنے کا ذریعہ آنحضرت کا سلام بنام مسیح موعود سچی لذت دنیا میں جنت اپنی زبان میں دُعاء حاکم کو بُرا نہ کہو اوروں کو چندہ دینا تمثیل عطر القاديان تکبر کو توڑو رسُول اللہ صلعم سے سلام کا مطلب رعب عدالت ایک حج کے متعلق رویاء حاکم کیسا ہو احکم الحاکمین کے سامنے کھڑا ہونا مصلوب بموجب توریت

Page 13

نمبر شمار عنوان صاف وقت، لیلۃ القدر کے معنے مخالفین کے اقسام دُعاء میں رقت آمیز الفاظ حقہ نوشی رویائے گئے جھوٹی کرامتیں خدائی تلوار و الا الهام فلسفی اور نبی میں فرق فتحیابی کی چابی ان مسلمانوں پر افسوس خُدا نے مسیح موعود کے حق میں کیا کہا پانچ ہزار دعا قبول شیطان کی ہلاکت کا وقت مسلمانوں میں دو غیرتیں شیطان کا وجود حشر اجساد مصفا کنوئیں کی تمثیل رحمانیت کا کام دینی امتحان غیروں کے پیچھے نماز منع اب اسلام کی ترقی دُعاء سے حل مشکلات ایک شاعر اور بزاز مخفی ایمان پچاس ہزار معجزہ صفحہ ۲۲۱ ۲۲۲ ۲۲۴ ۲۲۴ ۲۲۴ ۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۵ ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۷ ۲۲۷ ۲۲۷ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۲۹ ✗ نمبر شمار عنوان صفحه پہلے عوام پکڑے جاتے پھر خواص جامع کمالات صرف نبی کریم ہیں ہندو اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے شان امت محمدیه قرآن شریف نے یہود کا رد کیا آنحضرت کے جسمانی برکات اس زمانہ کا فرعون اور ابوجہل اہل حدیث و یهود اذان کے وقت پڑھنا جائز طاعون زدہ جگہ میں جانا گناہ ہے الهام بالفاظ قرآن ۲۳۰ ۲۳۱ ۲۳۲ ۲۳۳ ۲۲۳ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۳۴ ۲۳۵ طاعون کے متعلق قرآن شریف میں پیشگوئی ۲۳۵ الہام.خُدا کا روزہ وافطار اشتہار متعلق طاعون دشمنوں سے گفتگو طاعون کے متعلق خوابوں کا جمع کرنا رسول کریم کی تقدیس ضروری ہے مفتری کو لمبی مہلت نہیں ملتی خدا کے وعدے آخر پورے ہو جاتے ہیں زیور پر زکوة غیر احمدی امام کا اقتداء نا جائز ۲۳۵ ۲۳۶ ۲۳۶ ۲۳۶ ۲۳۶ ۲۳۶ ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۳۷ موجودہ عیسائی دین دراصل پولوسی مذہب ہے ۲۳۷ دار کی حفاظت بڑوں پر عذاب بعد میں آنا بڑی لذت ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۳۷

Page 14

نمبر شمار عنوان باب نہم و دہم آج سے چھتیس سال قبل کے حالات اکمل صاحب کا نوٹ جُدائی کی گھڑیاں انگریزی پڑھنے کا ثواب آریہ تریمورتی شعبده بازی معجزانہ فصاحت آج کل کے صوفیاء کلمہ کا اثر فراست کتاب تعلیم کرامات اولیاء مجلس امام نظم حامد ڈاکٹر لوقا کشف قبور گدی نشینان آئندہ ملنے والے ضرورت مبلغین خُدا کے لئے جو شیلے بنو ایک مصلح کا وقت وحدت شہود منقول از کتاب سیرة المهدی حضرت مسیح موعود سفر میں صفحہ ۲۳۷ ۲۳۷ ۲۳۹ ۲۴۱ ۲۴۲ ۲۴۲ ۲۴۳ ۲۴۴ ۲۴۴ ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۴۵ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۶ ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۴۷ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۱ xi نمبر شمار عنوان حضرت مسیح موعود کی سیر ملکہ کا راج حضرت مسیح موعود کا حلم اور کرم صفحه ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۳ قلم جس سے حضرت صاحب لکھا کرتے تھے ۲۵۵ نماز استسقاء رقت اللہ دین فلاسفر باب گیارہ سے اٹھارہ تک عاجز را قم پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر شفقت خطبہ الہامیہ کو یاد کرنا وضوء کے واسطے پانی لا دیا آموں کی دعوت مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا عاجز کے مکان پر تشریف لے گئے ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۵ ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۸ ۲۵۹ ۲۵۹ ۲۵۹ راقم کے متعلق حضرت صاحب کی ایک تحریر ۲۶۰ الحکم نمبر ۲۳ جلد سے مورخہ ۲۴ جون ۱۹۰۳ء ۲۶۲ عا جز راقم کی تبدیلی مدرسہ سے ایڈیٹری البدر کی طرف ۲۶۳ لاہور سے ہمارے حصہ میں مفتی صاحب آئے ۲۶۴ خطوط امام بنام غلام فوٹو کب لئے گئے اور کہاں کہاں ! فوٹو احمد صادق ضرورت شادی کے واسطے فوٹو فوٹو کے فوائد ۲۹۹ ۲۹۹ ۲۹۹ ۲۹۹ ۲۹۹

Page 15

نمبر شمار بڑ ا فکر کرنے والا ایک اسرائیلی پیغمبر عنوان امریکہ میں ہندوستانی بزرگ ایک انگریز نجومی ایک قابل قدر شہادت، امریکن نومسلم مسٹر ویب کے حالات اور پیر صاحب سندھ کا کشف رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہوگئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ اور عاجز راقم کا خواب قرب الہی کے مراتب ثلاثہ روسی کونٹ ٹالسٹائی کو تبلیغ پادری ڈاکٹر ڈوئی کے بعض حالات امریکن اخباروں میں سلسلہ کا ذکر انگریزی عربی دعا کا مقابلہ باب انیس سے تئیس پر و فیسر ریگ کو تبلیغ اور اس کا قبول اسلام xii صفحہ نمبر شمار عنوان صفحه ۲۹۹ ۲۹۹ ۲۹۹ ۲۹۹ بعدالموت ۳۳۵ رُوحوں سے ملاقات ۳۳۵ پروفیسر ریگ کا دوبارہ حضرت کی ملاقات کے واسطے آنا اور مشکل مسائل کا حل ہونا ذات وصفات اللہ تعالیٰ کیا خُد الحب ہے؟ ۳۳۵ ۳۳۵ ۳۱۵ ۳۱۸ ۳۱۸ ۳۲۱ ۳۲۴ ۳۲۵ ۳۲۵ ۳۲۷ انسان کب سے ہے؟ ڈارون تھیوری اسلام سائنس کے مطابق تا ثیر اجرام سماوی روح کے اقسام انسان قابل عفو یورپ کے فری تھنکر وں کو تبلیغ سلسلہ تحقیق الادیان و تبلیغ الاسلام اجازت برائے چندہ وتبلیغ تحقیق الادیان و تبلیغ اسلام میرا خط بنام ڈاکٹر بیکر صاحب ایک انگریز کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ مکالمہ ۳۲۸ ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جواب ابتداء خدا کسی خاص قوم کا نہیں؟ دنیا کب سے ہے حقیقت گناه باعث وجود گناه نجات عیسوی ترقی ہے یا تنزل ۳۲۹ ۳۲۹ ۳۳۰ ۳۳۱ ۳۳۲ ۳۳۳ ۳۳۴ پادری ہال کو تبلیغ ۱۹۰۳ء خط بیعت کے بعد کی نصائح ۳۸۸ ۳۳۸ ۳۳۹ ۳۳۹ ۳۳۹ ۳۳۹ ۳۴۱ ۳۴۴ ۳۴۴ ۳۴۴ ۳۴۷ ۳۴۸ ۳۵۰ ۳۵۰ ۳۵۳

Page 16

1 باب اوّل بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ احمد صادق عليه الصلاة والسلام ابتدائی حالات میرے والدین رحمہما اللہ اللہ تعالیٰ رحم کرے میری ماں پر اور اُسے جنت میں بلند مقامات عطا کرے کہ اُسے ہمیشہ ایسے بزرگوں کی خدمت کا شوق رہتا جو اپنی عبادت ، ریاضت اور خدا رسیدہ ہونے کے سبب مشہور ہوں.اور مرحومہ سے یہ بات مجھے بھی وراثتاً حاصل ہوئی.خواہش ملاقات نبی میری عمر دس بارہ سال کی ہوگی جبکہ ایک دن میں نے اپنے ساتھی لڑکوں کو کہا کہ ہم عجیب زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں کہ نہ کوئی اس زمانہ میں نبی ہے ، نہ کوئی بادشاہ ہے سب کچھ قصوں میں پڑھتے ہیں.دیکھنے میں کچھ نہیں آتا.میرا خیال ہے، چونکہ میں نے اور میرے زمانہ پیدائش کے بچوں نے اپنی آئندہ زندگی میں ایک نبی اور بادشاہ کو پانا تھا.اس واسطے اُس کی تڑپ پہلے سے ہماری فطرت میں موجود تھی.پہلا ذکر شہر بھیرہ جو پنجاب کا ایک بہت ہی قدیمی شہر دریائے جہلم پر واقعہ ہے اور قادیان سے بذریعہ ریل براستہ لاہور لالہ موسیٰ ملکوال ۲۱۳ میل کے فاصلہ پر ہے اور میری جائے پیدائش اور بچپن کا وطن ہے.حضرت والد مرحوم مغفور نے وہیں عمر گزاری.اس شہر بھیرہ میں ایک نیک شخص حکیم احمد دین نام تھے (اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت کرے ) جن سے میں نے بچپن میں سب سے اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام سُنا.میری عمر اُس وقت قریباً تیر کا سال ہو گی جب میں اپنے چند ہمجولیوں کے ساتھ حکیم صاحب مرحوم سے ملا.اور انہوں نے اثنائے گفتگو میں فرمایا کہ

Page 17

2 قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جن کو الہام ہوتے ہیں.اُن کی شکل بالکل سادہ گنواروں کی طرح ہے.میں نے تعجب سے کہا کہ کیا اس زمانہ میں بھی کسی کو الہام ہوتا ہے.غرض پہلا شخص جس کی زبانی میں نے حضرت احمد کا نام سُنا اس کا نام بھی احمد دین تھا.صحبت نورالدین اُس کے بعد جب حضرت والد مرحوم ( مفتی عنایت اللہ قریشی عثمانی ) مجھے حضرت مولینا مولوی حکیم نور الدین صاحب ( خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ ) کے پاس قرآن شریف کا ترجمہ پڑھنے کے واسطے جموں چھوڑ آئے اور میں قریب چھ ماہ حضرت مولینا صاحب کی خدمت بابرکت میں جموں اور کشمیر میں رہا.تو ان کی مجلس میں گاہے بگا ہے حضرت مرزا صاحب کا کچھ ذکر سُنتا رہا.مگر چونکہ اُس وقت حضرت اقدس نہ بیعت لیتے تھے اور نہ ہنوز آپ نے طوفانِ زمانہ سے لوگوں کو بچانے کے واسطے اپنی کشتی نوح طیار کی تھی.نہ آپ نے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کو پبلک میں واضح کیا تھا.اس واسطے کچھ آپ کا زیادہ چر چا نہ تھا.لیکن حضرت مولینا صاحب مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کا شاگرد ہونے کے سبب میرے دل میں حضرت صاحب کے متعلق ایک حسن ظن پیدا ہو گیا تھا.پہلا رویا غالباً ۱۸۸۹ء تھا جبکہ میں ہائی سکول بھیرہ میں تعلیم پاتا تھا.موسم گرما تھا اور میں اپنے مکان کی چھت پر سویا ہوا تھا.پچھلی رات کا وقت تھا کہ مجھے ایک رؤیا ہوا جس نے میرے قلب پر ایک گہرا اثر کیا.میں دیکھتا ہوں کہ ایک ستارہ مشرق سے نکلا.میرے دیکھتے دیکھتے وہ اُوپر کو چلا.جتنا وہ آگے بڑھتا ہے اُس کا قد اور روشنی بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ٹھیک آسمان کی چوٹی پر پہنچا.اُس وقت وہ چاند کے برابر بڑا اور بہت روشن ہو گیا.وہاں پر پہنچ کر اُس نے چکر لگانا شروع کیا.اُس کے چکر کا ہر ایک دائرہ پہلے سے بڑا اور زیادہ تیز رفتار تھا یہاں تک کہ اُس کا چکر اُفق تک پہنچا جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے نظر آتے ہیں.یہاں تک کہ اُس کے چکر ایسے روشن اور تیزی کے ساتھ ہوئے کہ اُس کی ہیبت نے مجھے بیدار کر دیا اور میں معاً اُٹھ کر بیٹھ گیا.صبح میں نے یہ رؤیا حضرت استاذی المعظم جناب مولینا مولوی نورالدین صاحب کو جموں اور حضرت صاحب کو قادیان لکھا.اور ہر دو بزرگوں سے اس کی تعبیر طلب کی.حضرت مولینا صاحب نے جواب میں لکھا کہ ایسار دیا اُس وقت دکھایا جاتا ہے، جب کوئی عظیم الشان مصلح ظاہر ہونے والا ہو.حضرت صاحب نے جواب دیا کہ آپ کا خط ملا جس میں آپ نے ایک رؤیا کی تعبیر دریافت کی ہے.میری طبیعت

Page 18

3 ان دنوں علیل ہے.اس واسطے میں توجہ نہیں کر سکتا.بشرط یاددہانی میں پھر آپ کو مفصل جواب لکھوں گا.میں نے سوچا کہ جیسا کہ حضرت مولینا صاحب نے کہا ہے.تعبیر تو صاف تھی.اور مرزا صاحب چاہتے تو اپنے پر چسپاں کر لیتے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا.اس سے مجھے حضرت کے متعلق اور بھی حسن ظن پیدا ہوا.اُس وقت حضرت مسیح موعود بیعت کا اشتہار دے چکے تھے اور سلسلہ بیعت جاری ہو چکا تھا.پہلا سفر قادیان ۱۸۹۰ء میں یہ عاجز امتحان انٹرنس پاس کر کے جموں گیا.اور وہاں مدرسہ میں ملازم ہو گیا.ایک اور مدرس جو میرے ہم نام تھے ( مولوی فاضل محمد صادق صاحب مرحوم ) میرے ساتھ اکٹھے رہتے تھے.اُس وقت حضرت مسیح موعود کی کتاب فتح اسلام جموں میں پہنچی (غالبا وہ پروف کے اوراق تھے جو قبل اشاعت حضرت مولوی نورالدین صاحب کو بھیج دیئے گئے تھے ) اس کتاب میں حضرت صاحب نے پہلی دفعہ بالوضاحت عیسی ناصری کی وفات اور اپنے دعویٰ مسیحیت کا ذکر کیا.وہ کتاب میں نے اور مولوی محمد صادق صاحب نے مل کر پڑھی.اور میں نے اُس پر چند سوالات لکھ کر حضرت مسیح موعود کو بھیجے.جن کے جواب کے متعلق حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے جو اُن دنوں جموں تھے مجھے زبانی فرمایا کہ عنقریب ایک کتاب شائع ہو گی.اس میں ان سب سوالوں کے جواب آجائیں گے.اس کے بعد سکول میں کسی رخصت کی تقریب پر میں قادیان چلا آیا - غالبا دسمبر ۱۸۹۰ء تھا.سردی کا موسم تھا.بٹالہ سے میں اکیلا ہی یکہ میں سوار ہو کر آیا اور بارہ آنہ کرایہ دیا.حضرت مولینا صاحب مولوی نور الدین رضی اللہ عنہ نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا.حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اُسی وقت اندر بھیجا.حضرت صاحب فوراً باہر تشریف لائے.فرمایا ! مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے.مجھ سے پوچھا کیا آپ کھانا کھا چکے ہیں.تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے.اس وقت مجھ سے پہلے صرف ایک اور مہمان تھا ( سید فضل شاہ صاحب مرحوم ) اور حافظ شیخ حامد علی صاحب مہمانوں کی خدمت کرتے تھے اور گول کمرہ مہمان خانہ تھا.اس کے آگے جو تین دیواری بنی ہوئی ہے، اُس وقت نہ تھی.رات کے وقت اُس گول کمرہ میں عاجز را قم اور سید فضل شاہ

Page 19

4 صاحب سوئے.نمازوں کے وقت حضرت صاحب مسجد مبارک میں جس کو عموماً چھوٹی مسجد کہا جاتا ہے تشریف لائے.آپ کی ریش مبارک مہندی سے رنگی ہوئی تھی.چہرہ بھی سُرخ اور چمکیلا.سر پر سفید بھاری عمامہ ، ہاتھ میں عصا ء تھا.دوسری صبح حضرت صاحب زنانہ سے باہر آئے.پہلی سیر باہر آ کر فرمایا کہ سیر کو چلیں.سید فضل شاہ صاحب (مرحوم ) حافظ حامد علی صاحب ( مرحوم ) اور عاجز راقم ہمراہ ہوئے.کھیتوں میں سے اور بیرونی راستوں میں سے سیر کرتے ہوئے گاؤں کے شرقی جانب چلے گئے.اس پہلی سیر کے دوران میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ گنا ہوں میں گرفتاری سے بچنے کا کیا علاج ہے.گنا ہوں سے بچنے کا علاج فرمایا : - موت کو یا درکھنا.جب آدمی اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس نے آخر ایک دن مر جانا ہے تو اس میں طول امل پیدا ہوتا ہے.لمبی لمبی اُمیدیں کرتا ہے کہ میں یہ کرلوں گا اور وہ کرلوں گا اور گنا ہوں میں دلیری اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے.مغرب سے طلوع آفتاب سید فضل شاہ صاحب مرحوم نے سوال کیا کہ یہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود اُس وقت آئے گا.جبکہ سُورج مغرب سے نکلے گا.اس کا کیا مطلب ہے.فرمایا یہ تو ایک طبعی طریق ہے، کہ سُورج مشرق سے نکلتا ہے.مغرب میں غروب ہوتا ہے.اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.مراد اس سے یہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ اس زمانہ میں دین اسلام کو قبول کرنے لگ جائیں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ اور پول میں چند ایک انگریز مسلمان ہو گئے ہیں.جو کچھ باتیں اُس سفر میں ہوئیں ، اُن میں سے یہی دو باتیں مجھے یاد ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی.سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ چھوٹا ہو.ا جب عاجز رائم نے امریکہ میں اشاعت اسلام کے واسطے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا تھا.تو اسی حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے اس رسالہ کا نام مسلم سن رائیز یعنی طلوع شمس الاسلام رکھا تھا.اور اس کے سر ورق پر امریکہ کا نقشہ بنا کر اس پر سورج چڑھتا ہوا دکھایا تھا.صادق

Page 20

5 بیعت دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضرت صاحب مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے.جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خاں صاحب کا شہر والا مکان ہے اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریری رہ چکی ہے جس کے بالا خانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں ) آجکل اگست ۱۹۳۵ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے ) اس زمین پر اُن دنوں حضرت صاحب کا مویشی خانہ تھا.گائے، بیل اُس میں باندھے جاتے تھے.اس کا راستہ کو چہ بندی میں سے تھا.حضرت صاحب کے اندرونی دروازے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا.یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی ، جہاں آج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے.اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحب مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا.ان ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لی جاتی تھی.ایک چارپائی بچھی تھی.اُس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا.حضرت صاحب بھی اُس پر بیٹھے.میں بھی بیٹھ گیا.میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ میں لیا اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی.دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دُہرائیں بلکہ صرف لفظ دس شرائط کہہ دیا.- واپسی قادیان قادیان سے بیعت کر کے میں اپنی ملازمت پر جموں واپس گیا.جہاں میں ہائی سکول میں انگلش ٹیچر تھا.راستہ میں ایک دن لاہور رہا اور مولوی محمد صادق صاحب ( مرحوم ) کے دوستوں میرے ایک نہایت ہی عزیز دوست مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم ( برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب صاحب لاہوری ) کلانوری تھے جن کی ایک ہمشیرہ مکرمی ناصر شاہ صاحب ناظم عمارت ہائے صدر انجمن احمدیہ قادیان کے گھر میں ہے.یہ مرزا ایوب بیگ صاحب ایک ہی ایسے خوش نصیب آدمی ہیں جنکی وفات مقبرہ بہشتی کے قیام سے کئی سال پہلے ہو چکی تھی.مگر حضرت صاحب نے اجازت دی کہ انکی ہڈیاں فاضل کا ضلع فیروز پور سے صندوق میں لا کر مقبرہ بہشتی میں دفن کی جائیں.اللہ تعالے انہیں جنت میں بلند درجات نصیب کرے.انہوں نے حضرت مسیح موعود کی بیعت لاہور میں غالبا ۱۸۹۲ ء میں کی تھی.وہ فرمایا کرتے تھے کہ جب میں حضرت صاحب کی بیعت کرنے کے واسطے علیحدہ کمرہ میں داخل ہوا تو حضرت نے بیعت لینے کے وقت فرمایا.کہ کہو میں دس شرائط پر عمل کرونگا.میں نے عرض کی کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ دس شرائط کیا ہیں.تب آپ نے ایک ایک شرط مجھ سے کہلوائی.صادق

Page 21

6 ( مولوی اصغر علی - وحی صاحب وغیرہ) سے اور شیخ عبداللہ صاحب سے ملا جو اُس وقت لا ہور انٹرنس کلاس میں تعلیم پاتے تھے.( اور آج کل علیگڑھ میں وکیل اور مسلم یونیورسٹی کے ایک رُکن ہیں ) شیخ صاحب موصوف کو حضرت مولوی نور الدین صاحب نے ہی مسلمان کیا اور اپنے خرچ سے لاھور و علیگڑھ میں تعلیم دلائی.اس واسطے ان کے ساتھ رُوحانی برادری کا تعلق تھا.اس کے بعد عاجز جب تک جموں میں رہا ہر سال موسم گرما کی رخصتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا.ایک دفعہ ان رخصتوں کے علاوہ بھی آیا جب کہ مولوی فاضل محمد صادق صاحب ( مرحوم ) اور خان بہادر غلام محمد آف گلگت اینڈ لداخ میرے ساتھ تھے اور ان ہر دو اصحاب نے بیعت کی.یہ واقعہ غالباً ۲ ۱۸۹ء کا ہے اور ہم قادیان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ لاہور گئے تھے اور لاہور سے پھر قادیان چلے گئے.دعوی مسیحیت اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ میں اس امر کے الہامی اشارات صاف پائے جاتے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مسیح اور مہدی بنایا ہے لیکن وضاحت کے ساتھ حضوڑ نے اپنا دعویٰ مسیح ہونے کا سب سے پہلے کتاب فتح اسلام میں شائع کیا جو ۱۸۹۱ء میں شائع ہوئی.میں قادیان میں کہاں ٹھہرتا تھا جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا جو کہ غالباً دسمبر ۱۸۹۰ء کے آخر میں تھا.اُس وقت میں اُس کمرے میں ٹھیرایا گیا جسے گول کمرہ کہتے ہیں.اس کے آگے وہ تین دیواری نہ تھی جو اب ہے.اُس وقت یہی مہمان خانہ تھا اور حضرت مسیح موعود یہیں بیٹھ کر مہمانوں سے ملتے تھے.یا اس کے دروازے پر میدان میں چار پائیوں پر بیٹھا کرتے تھے.اس کے بعد بھی دو تین سال تک وہی مہمان خانہ رہا.اس کے بعد شہر کی فصیل جب فروخت ہوئی تو اُس کو صاف کر کے اس پر مکانات بنے کا سلسلہ جاری ہوا اور وہ جگہ بنائی گئی جہاں حضرت خلیفہ اول کا مطب اور موٹر خانہ ہے اور اس کے بعد وہ مکان بنایا گیا جہاں اب مہمان خانہ ہے.پہلے اس میں حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ رہا کرتے تھے.جب حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے دوسری طرف مکان بنا لئے تو یہ مکان مہمانوں کے استعمال میں آنے لگا.اس مہمان خانہ میں بھی میں مقیم ہوتا رہا.پھر جب

Page 22

7 مولوی محمد علی صاحب کے واسطے مسجد مبارک کے متصل اپنے مکان کی تیسری منزل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کمرہ بنوایا تو جب تک کہ مولوی محمد علی صاحب کی شادی نہیں ہوئی مجھے بھی اُسی کمرے میں حضرت صاحب ٹھیرایا کرتے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے مجھے اُس کمرے میں ٹھیرایا جو مسجد مبارک اور حضور کے قیام گاہ کے درمیان شمالی جانب ہے اور جس میں سے مسجد مبارک کی طرف ایک کھڑ کی کھلتی ہے.یہی بیت الفکر ہے.اُس وقت میں بی اے کے امتحان کی طیاری کے واسطے چند روز کی رُخصت لے کر قادیان آیا ہوا تھا.بیعت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ۱۸۸۹ء.لدھیانہ میں جب پہلی بیعت ہوئی اور حضرت مولینا مولوی حکیم نور الدین صاحب نے سب سے اوّل بیعت کی تو اُس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کے خیالات نیچریوں کے سے تھے اور وہ بیعت کی قدر نہ جانتے تھے.مگر حضرت مولینا حکیم نور الدین صاحب کی نصیحت پر عمل کر کے جو اُن کے اُستاد تھے بیعت کے واسطے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کے ہاتھ میں مولوی عبدالکریم صاحب کا ہاتھ رکھا اور ان ہر دو کو اپنے ہاتھ میں لیا اور تب اُن سے (مولوی عبد الکریم صاحب سے ) بیعت کے الفاظ کہلوائے ( یہ واقعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ خودسُنایا کرتے تھے ).جو بیعت پہلے دن ہوئی اور اُس میں چالیس افراد کی بیعت لی گئی تھی ، اُس میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب شامل نہ تھے مگر انہی ایام میں اُنہوں نے بھی بیعت کر لی تھی.ابتداء میں جب مہمان کم ہوتے تھے اور گول کمرے میں یا مسجد میں مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا تھا.اُس وقت عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی باہر مہمانوں میں بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے.آپ ایک روٹی ہاتھ میں لیتے اور اُس کے دوٹکڑے کرتے.ایک ٹکڑا دستر خوان پر رکھ دیتے ، دوسرے کے پھر دوٹکڑے کرتے.پھر ایک ٹکڑا دستر خوان پر رکھتے.جو ہاتھ میں رہ جاتا اُس میں سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا کاٹتے جو لمبائی چوڑائی میں ایک انچ سے کم ہوتا اور اُسے سالن کے کٹورے میں ڈالتے.اس طرح بہت تھوڑا سالن اس ٹکڑے کو ایک کنارے پر لگتا.پھر اُسے مُنہ میں ڈالتے اور دیر تک اسی کو چباتے رہتے اور مہمانوں کے ساتھ باتیں کرتے رہتے اور کبھی کبھی اپنے آگے سے کوئی کھانے کی چیز اُٹھا کر کسی مہمان کو دیتے یا اچار یا مُرتبہ یا کوئی اور خاص چیز

Page 23

8 دستر خوان پر ہوتی اس میں سے کچھ ایک روٹی پر رکھ کر کسی مہمان کو دیتے - میری عادت تھی کہ میں یہ سبب محبت دستر خوان پر حضرت کے قریب بیٹھنے کی کوشش کرتا.میں دیکھتا تھا کہ حضور کے کھانے کی مقدار بہت کم ہوتی اور چند نوالوں سے زیادہ نہ ہوتی.ایک دفعہ ایک نو مسلم ( خا کی شاہ نام ) جو پہلے اسلام سے عیسائی ہوا تھا اور عیسائیوں میں مناد رہا.اُس نے قادیان سے واپسی پر کہیں شکایت کی کہ مجھے کھانا اچھا نہیں ملتا رہا.جب یہ بات حضرت کی خدمت میں عرض ہوئی تو فرمایا کہ میں تو اُسے اپنے آگے سے بھی اُٹھا کر دے دیا کرتا تھا.مسجد چینیاں میں نماز جمعہ غالباً ۱۸۹۳ء کا واقعہ ہے کہ میں لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمرکاب تھا.نماز جمعہ کے لئے آپ مسجد چینیاں میں تشریف لے گئے اور نماز پڑھنے کے بعد فوراً تشریف لے آئے.میں بھی حضور کے ساتھ تھا.رجسٹر بیعت اُن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بیعت کرنے والوں کا ایک رجسٹر رہا کرتا تھا جس میں کہ بیعت کرنے والوں کے نام، ولدیت ، سکونت وغیرہ اپنے ہاتھ سے درج کیا کرتے تھے.بعد میں وہ رجسٹر پیر سراج الحق صاحب کے سپر د ہوا تھا.مگر افسوس ہے کہ پیر صاحب سے وہ رجسر گم ہو گیا.تپہلی رات کے چاند کی مثال ابتدائی دنوں میں ایک دفعہ حضرت مولوی نور الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام سے عرض کیا کہ لوگ دریافت کرتے ہیں کہ مہدی موعود اور مسیح کی آمد پر اسلام کی فتح کی پیشگوئیاں جو درج ہیں، وہ مرزا صاحب کے وقت پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بہتیرے لوگ آنکھیں ملتے رہتے ہیں مگر انہیں پہلی تاریخ کا چاند دکھائی نہیں دیتا.مولوی محمد حسین کا تکبیر میں اس وقت جموں میں حضرت مولوی نور الدین صاحب کی خدمت میں موجود تھا جب مولوی محمد حسین بٹالوی کا خط حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں پہنچا.جس میں بٹالوی صاحب نے

Page 24

9 حضرت مولوی صاحب کو لکھا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو بڑھایا تھا.آب میں ہی ان کو گرا دوں گا.اللہ ہی لکھواتا ہے پنڈ دادنخان میں ایک پادری صاحب ہوا کرتے تھے.بنام ٹامس ہاول.انہی کے سوالات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب مقدمہ اہل الکتاب حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے تحریر فرمائی تھی.بعد میں وہ لاہور تبدیل ہو گئے تھے.پادری عبد اللہ آتھم کے ساتھ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مباحثہ ۱۸۹۳ء میں ہوا اور آتھم کے متعلق پیشگوئی کی گئی.تو ان ایام میں میں نے پادری ٹامس ہاول کو ایک خط اس پیشگوئی کے متعلق لکھا.جس میں یہ ذکر تھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان مباحثات تو بہت ہوئے مگر یہ مباحثہ ایک خاص فضیلت اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس میں آتھم کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے.اس خط کے لکھنے کے وقت میں بھیرہ میں تھا.میں نے اُس وقت خط کی نقل حضرت اُستاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب ( خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) کو بھیجی جو اُس وقت قادیان میں تھے.حضرت مولوی صاحب نے میرا خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے اُس خط کے مضمون کی بہت تعریف کی اور فرمایا کہ اللہ ہی لکھواتا ہے.“ اظہارِ خاص جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مباحثہ عبداللہ آتھم پادری کے ساتھ امرت سر میں ہوا اور پیشگوئی کی گئی کہ جو فریق حق کی مخالفت کرتا ہے وہ پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرے گا.مگر عبد اللہ آتھم خوفزدہ ہونے اور اندر ہی اندر تو بہ کرنے کے سبب مہلت دیا گیا اور بعد میں پھر بے باک ہونے کے سبب ہلاک ہوا.تو جب ہنوز پندرہ ماہ گذرے نہ تھے اور عام طور پر خیال تھا کہ وہ اس میعاد کے اندر ضرور مرجائے گا اور یہی پیشگوئی کا مطلب ہے.تو اُن پندرہ ماہ کے گذرنے سے قبل عاجز نے حضرت صاحب کی خدمت میں ایک خط لکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ پیشگوئی ظاہر الفاظ میں پوری ہو یا نہ ہو میرے ایمان میں اس سے کوئی کمی نہیں آ سکتی.میں تو ایسے نشانات کے دیکھنے سے قبل ہی ایمان لا چکا ہوں.اتفاقاً ایک پُرانی کاپی میں اس خط کی نقل مل گئی ہے جو درج ذیل کی جاتی ہے.خط بخدمت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ۳۱ - اگست ۱۸۹۳ء.ایسے وقت میں حضور کو کسی مجھ جیسے نالائق اور نابکار کے خط پڑھنے کی فرصت کہاں ہو گی.مگر میری طبیعت

Page 25

10 لکھتا ہوں.نے مجھے مجبور کیا ہے.لہذا نہایت ادب کے ساتھ معافی مانگتا ہوا چند ایک سطریں کا میں قریباً چار سال سے آپ کے قدم پکڑے ہوئے ہوں اور آپ کی صداقت پر دل سے ایمان لایا ہوں.پیشتر اس کے کہ کوئی پیشگوئی پوری ہوتی ہوئی یا کوئی نشان ظاہر ہوتا ہوا دیکھوں، اب ایک بے نظیر نشان کے ظاہر ہونے کا وقت آ پہنچا ہے.میں اپنی تمام دُعاؤں اور خواہشوں کو ترک کر کے رات دن خداوند کے حضور میں یہی دُعا کر رہا ہوں کہ اے رحمن رب تیرے بندے ضعیف اور کوتاہ اندیش ہیں.ایسے وعدے کو تو کھلے کھلے طور سے پو را کرتا کہ لوگ اپنی نادانی سے تیرے فرستادہ کا انکار کر کے اپنے گلوں میں لعنت کا طوق نہ ڈال لیں.مگر ظاہر ہے کہ ایسے موقعوں پر کئی ایک طرح کے ابتلاء پیش آ جایا کرتے ہیں.اس واسطے میں نہایت عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ایمان حضور کی صداقت پر پختہ ہے اور اسے ہرگز کوئی جنبش بفضلہ تعالیٰ نہیں.پیشگوئی کے پورا ہونے کی خبر سننے کی خواہش مجھے محض اس لئے ہے کہ دوسروں کو سُنایا جائے اور اُن پر حجت قائم کی جائے.ورنہ میں تو اُسی وقت سے اُسے پورا ہو گیا ہوا سمجھتا ہوں جس وقت کہ آپ نے سُنائی تھی.الغرض کچھ ہی ہوحضور مجھے اپنا غلام اور اپنی جو نتیوں کا خادم سمجھیں اور دُعا سے یا درکھیں.( محمد صادق مفتی مدرس انگریزی جموں کا لج ) سفر لدھیانہ - غالباً ۱۸۹۱ ء کا ذکر ہے.میں اُس وقت ریاست جموں کے ہائی سکول میں مدرس تھا.مدرسہ میں موسم گرما کی رخصتیں ہوئیں تو میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کے واسطے جموں سے چلا.راستہ میں مجھے معلوم ہوا کہ حضرت اقدس قادیان میں نہیں ہیں.لدھیانہ میں ہیں.پس میں بھی لدھیا نہ پہنچا.اُس وقت حضرت صاحب کے ساتھ دو خادم تھے.ایک حافظ حامد علی صاحب مرحوم اور ایک گنوا ر سا شخص پیراں دتہ نام تھا.یہ ہر دو آپ کے نج کے خادم تھے جن کو حضور تنخواہ اور کھانا دیتے تھے.لدھیانہ میں اُس وقت حضور کے خلاف بہت شور تھا جس کی وجہ زیادہ تر مولوی محمد حسین بٹالوی کی مخالفت تھی.علماء کی طرف سے کفر کے فتوے تا زہ بتازہ لگ رہے تھے.باوجود اس مخالفت کے کئی لوگ آتے تھے اور بیعت کرتے تھے.پیر سراج الحق صاحب بھی لدھیانہ میں موجو د تھے اور حضرت صاحب کی بیعت میں داخل ہو چکے تھے.پیر افتخاراحمد صاحب اور اُن کے خاندان کے سب لوگ بھی وہیں پر تھے اور حضرت صاحب کی خدمت میں مصروف رہتے

Page 26

11 تھے.شیخ اللہ دیا صاحب جلد ساز جو عیسائیوں کے ساتھ مباحثات کرنے میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور میر عباس علی صاحب جو بعد میں مُرتد ہو گئے تھے وہ بھی اُن دنوں حضرت صاحب کی خدمت میں جوش سے مصروف تھے.اُن دنوں حضرت صاحب کی ایک لڑکی عصمت نام چار پانچ سال کی عمر کی ہوگی، زندہ تھی.حضرت صاحب عموماً باہر دیوان خانہ میں آکر بیٹھتے تھے اور اپنے عقائد کے متعلق یا عام اسلامی مسائل پر لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے تھے اور وعظ فرماتے تھے.گنوار کا ارادہ قتل یہ بھی لدھیانہ کا واقعہ ہے جو اُنہی ایام میں ہوا کہ ایک مولوی صاحب بازار میں کھڑے ہو کر بڑے جوش کے ساتھ وعظ کر رہے تھے کہ مرزا ( مسیح موعود ) کا فر ہے اور اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے.پس جو کوئی اس کو قتل کر ڈالے گا وہ بہت بڑا ثواب حاصل کرے گا اور سیدھا بہشت کو جائے گا.بہت جوش کے ساتھ اُس نے اس وعظ کو بار بار ڈ ہرایا.ایک گنوار ایک لٹھ ہاتھ میں لئے ہوئے کھڑا اُس کی تقریر سن رہا تھا.اس گنوار پر مولوی صاحب کے اس وعظ کا بہت اثر ہوا اور وہ چپکے سے وہاں سے چل کر حضرت صاحب کا مکان پوچھتا ہوا وہاں پہنچ گیا.وہاں کوئی دربان نہ ہوتا تھا.ہر ایک شخص جس کا جی چاہتا اندر چلا آتا.کسی قسم کی کوئی رکاوٹ اور بندش نہ تھی.اتفاق سے اُس وقت حضرت صاحب دیوان خانہ میں بیٹھے ہوئے کچھ تقریر کر رہے تھے اور چند آدمی جن میں کچھ مریدین تھے ، کچھ غیر مریدین ارد گرد بیٹھے ہوئے حضور کی باتیں سُن رہے تھے.وہ گنوار بھی اپنا لٹھ کا ندھے پر رکھے ہوئے کمرہ کے اندر داخل ہوا اور دیوار کے ساتھ کھڑا ہو کر اپنے عمل کا موقع تاڑنے لگا.حضرت صاحب نے اُس کی طرف کچھ توجہ نہیں کی اور اپنی تقریر کو جاری رکھا.وہ بھی سننے لگا.چند منٹ کے بعد اُس تقریر کا کچھ اثر اُس کے دل پر ہوا اور وہ لٹھ اُس کے کندھے سے اُتر کر اُس کے ہاتھ میں زمین پر آ گیا اور مزید تقریر کو سننے کے لئے وہ بیٹھ گیا اور سُنتا رہا.یہاں تک کہ حضرت صاحب نے اُس سلسلہ گفتگو کو جو جاری تھا.بند کیا اور مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضور مجھے آپ کے دعوے کی سمجھ آگئی ہے اور میں حضور کو سچا سمجھتا ہوں اور آپ کے مُریدین میں داخل ہونا چاہتا ہوں.اس پر وہ گنوار آگے بڑھ کر بولا کہ میں ایک مولوی صاحب کے وعظ سے اثر پا کر اس ارادہ سے یہاں اس وقت آیا تھا کہ اس لٹھ کے ساتھ آپ کو قتل کر ڈالوں اور جیسا کہ مولوی صاحب نے وعدہ فرمایا ہے سیدھا بہشت کو پہنچ جاؤں.مگر آپ کی تقریر کے فقرات مجھ کو پسند آئے اور میں زیادہ سننے کے واسطے ٹھہر گیا اور آپ کی ان تمام باتوں کے سُننے کے بعد مجھے یہ یقین ہو گیا ہے کہ مولوی صاحب کا وعظ بالکل بے جا دشمنی سے بھرا ہوا تھا.آپ بے شک

Page 27

12 بچے ہیں اور آپ کی باتیں سب سچی ہیں.میں بھی آپ کے مُریدوں میں داخل ہونا چاہتا ہوں.حضرت اقدس نے اُس کی بیعت کو قبول فرمایا.اُس وقت بیعت ایک علیحدہ کمرہ میں ہر ایک کی الگ الگ ہوتی تھی.طلب ضمانت کا خطرہ ابھی میں لدھیانہ میں ہی تھا کہ کسی خیر خواہ نے آن کر حضرت صاحب کو اطلاع دی کہ مولوی محمد حسین نے مقامی حکام کو ڈرایا ہے کہ مرزا صاحب کے یہاں رہنے سے شہر کے اندر مخالفت کا بہت جوش پھیل گیا ہے اور نقض امن کا سخت اندیشہ ہے.ایسے شخص سے حفظ امن کی ضمانت لینی چاہئیے.ہنوز سلسلہ عالیہ کی ابتداء تھی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت نہ تھی کہ حکام سے ملنے جایا کریں اور حمایت کے اندر کچھ ایسے ذی اثر لوگ بھی نہ تھے جو حکام سے ملتے رہیں اور اُنہیں سب حالات سے آگاہ کرتے رہیں.اس واسطے دُشمنوں کو ایسی شرارتیں کرنے کا موقع مل جاتا ہے.حضرت صاحب کا وہاں قیام مستقل تو تھا ہی نہیں.آپ نے سوچا کہ اندفاع پیش کرنے کی تجویز میں کرنے اور حکام تک رسائی حاصل کرنے کے جھگڑے سے یہی بہتر ہے کہ ہم واپس چلے جاویں.عصر کے قریب جب میں کہیں باہر سے مکان پر آیا تو حضرت صاحب چند خُدام کے ساتھ جن میں غالباً قاضی خواجہ علی صاحب مرحوم بھی تھے، ایک چارپائی پر بیٹھے تھے.اُس چار پائی پر حضور کے لئے کوئی خاص کپڑا یا بچھونا نہیں بچھایا گیا تھا.دو تین چار پائیاں اور بھی تھیں.میں بھی ایک چارپائی پر جا کر بیٹھ گیا.حضرت صاحب نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا.مفتی صاحب امرتسر جانے کا اچانک ارادہ ہو گیا ہے.آپ بھی تیار ہو جائیں.آپ کو یہ دوست بتلا دیں گے کہ ایسی جلدی میں اِرادہ کیوں ہوا ہے.یہ ریل کا پہلا سفر تھا جس میں مجھے حضرت صاحب کی رفاقت کا موقع ملا.پہلا سفر ریل ٹکٹ ڈیوڑھے درجہ کے لئے گئے.لیکن ڈیوڑھے میں کچھ جگہ نہ تھی اور بیٹھنے کے وقت تھرڈ کے کمرہ میں سب بیٹھے.زنانہ ساتھ تھا اور عورتیں بھی تھرڈ کے کمرہ میں تھیں.راستہ میں جہاں گاڑی ٹھیرتی میں اپنے کمرہ سے اُتر کر زنانہ ڈبہ سے جا کر خبر دریافت کرتا اور پھر دوڑ کر حضرت صاحب کے پاس آ جاتا.اس سے حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمایا - آپ سفر میں بہت ہوشیار ہیں.گو ہوشیار تو میں نے کیا ہونا تھا اور اُس وقت ابھی بہت سفر بھی میں نے نہیں کئے تھے مگر کسی نہ کسی رنگ میں

Page 28

13 حضرت مسیح موعود کی خدمت ادا کرنے کا شوق دل میں تھا اور اس محبت کا بیج حضرت مولوی نورالدین صاحب مرحوم نے میرے قلب میں ڈالا تھا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضرت مسیح موعود کا اُس وقت کا فرمانا دُعائیہ رنگ میں میری بعد کی زندگی کے سفروں کی طرف اشارہ کرتا تھا کیونکہ اس سلسلہ میں داخل ہونے کے بعد بالخصوص حضرت مسیح موعود کے وصال کے زمانہ کے بعد تبلیغی ضرورتوں کے واسطے مجھے ہندوستان کے بہت سے سفر کرنے پڑے اور پھر یورپ اور امریکہ جانا پڑا اور امریکہ سے واپسی پر بھی میرے سپرد ایسی خدمات ہوتی رہیں جن کی وجہ سے مجھے سال میں قریباً نو ماہ قادیان سے باہر رہنا پڑا اور کئی بار بمبئی ، کلکتہ، سیلون، کشمیر، پشاور تک جانا پڑا.ریل میں الہام گاڑی میں بیٹھے ہوئے ایک دفعہ حضرت صاحب نے فرمایا کہ مجھے ابھی یہ الہام ہوا ہے.یا د نہیں رہا کہ وہ کیا الفاظ تھے.اس کی ظاہری کیفیت جو ہمارے دیکھنے میں آئی سوائے اس کے اور کچھ نہ تھی کہ حضرت صاحب کی آنکھیں بند تھیں اور ہم سمجھتے تھے کہ آپ غنودگی میں ہیں.صبح کے وقت گاڑی امرتسر کے اسٹیشن پر پہنچی.شیخ نور احمد صاحب مرحوم ما لک مطبع ریاض ہند اسٹیشن پر موجود تھے.اُنہوں نے فوراً ایک مکان کا انتظام کیا جو ہال بازار کے قریب غربی جانب کے راستوں میں سے ایک راستہ پر تھا اور کنھیا لعل کے تھیڑ کے قریب ایک گلی میں تھا.چھوٹا سا مکان تھا.اُوپر کے کمرہ میں حضرت صاحب بمع اہل بیت رہتے تھے اور نیچے ہم تین چار آدمی جو حضرت صاحب کے ساتھ تھے رہتے تھے.شہر میں ایک شور پڑ گیا اور کثرت سے لوگ حضرت اقدس سے ملنے اور موافقت یا مخالفت میں باتیں کرنے کے واسطے آتے تھے.مولوی احمد اللہ اُن دنوں فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی بنام غالباً احمد اللہ صاحب جو غز نویوں کی مسجد کے جمعہ کے دن کے امام تھے.غزنویوں کے ساتھ بعض معاملات میں کچھ اختلاف رکھتے تھے اور آپس میں اُن کا جھگڑا چلا ہوا تھا.اُن کے پہلے جھگڑوں پر ایک مزید جھگڑا یہ پیدا ہوا کہ غزنوی صاحبان یہ چاہتے تھے کہ مولوی صاحب اپنے خطبہ اور وعظ میں حضرت صاحب پر کفر کا فتویٰ پیش کریں مگر وہ اس سے پر ہیز کرتے تھے.جمعہ کے دن حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ نماز جمعہ غزنویوں کی مسجد میں جا کر پڑھیں اور وہاں سے خبر لائیں کہ ان لوگوں کی آپس میں کیا گزرتی ہے.اُس وقت ابھی تک سلسلہ کی تبلیغ اور ترقی اس منزل تک نہیں پہنچی تھی کہ غیر احمد یوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا حکم ہوتا بلکہ

Page 29

14 ابھی تک احمدیت کا امتیازی نام بھی ہمارے لئے تجویز نہیں ہوا تھا.امرتسر کے کسی معزز نے حضرت مسیح موعود اور آپ کے خدام کی دعوت کی اور اُس میں مولوی احمد اللہ کی بھی دعوت کی.دعوی نبوت و محد ثیت دعوت کے موقع پر سلسلہ گفتگو میں مولوی صاحب نے حضرت صاحب کے سامنے یہی مسئلہ پیش کیا کہ آپ کی بعض تحریروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں.اس لئے لوگوں کو ٹھو کر لگتی ہے.حضرت صاحب نے اس کی تشریح فرمائی کہ میری مراد اس سے کیا ہے.جس پر ان مولوی صاحب نے کہا کہ اچھا آپ تحریر کر دیں کہ آپ کی تحریرات میں جہاں کہیں نبوت کا لفظ ہے وہ ایسا نہیں کہ جو ختم نبوت کے منافی ہو اور اس سے مراد محد محیت ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ بیشک میں لکھ دیتا ہوں.چنانچہ اُسی وقت حضور نے ایک تحریر لکھ کر مولوی صاحب کو دے دی جو کہ اُنہوں نے اپنے پاس رکھ لی تا کہ ان لوگوں کو دکھائے جو اس وجہ سے حضرت صاحب پر کفر کا فتویٰ لگاتے تھے.انہی دنوں میں ایک دن بعض شریر لوگ مخالف مولویوں کے بہکانے سے اُس مکان پر حملہ کرنے آگئے جہاں پر ہم ٹھیرے ہوئے تھے اور مکان کے اوپر زنانہ میں گھسنا چاہتے تھے.مگر چند احمد یوں نے جو ساتھ تھے بڑی ہمت سے سیڑھیوں میں کھڑے ہو کر اُن لوگوں کو روکا اور بعد میں پولیس کے پہنچ جانے سے وہ لوگ منتشر ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے امرتسر جانے کی خبر سے بعض اور احباب بھی مختلف شہروں سے وہاں آ گئے.چنانچہ کپورتھلہ سے محمد خاں صاحب مرحوم اور منشی ظفر احمد صاحب بہت دنوں وہاں ٹھیرے رہے.گرمی کا موسم تھا اور منشی صاحب اور میں ہر دو نحیف البدن اور چھوٹے قد کے آدمی ہونے کے سبب ایک ہی چار پائی پر دونوں لیٹ جاتے تھے.ایک شب دس بجے کے قریب میں تھیئٹر میں چلا گیا جو مکان کے قریب ہی تھا اور تماشہ ختم ہونے پر دو بجے رات کو واپس آیا.صبح منشی ظفر احمد صاحب نے میری عدم موجودگی میں حضرت صاحب کے پاس میری شکایت کی کہ مفتی صاحب رات تھیڑ چلے گئے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے تا کہ معلوم ہو کہ وہاں کیا ہوتا ہے.اس کے سوا اور کچھ نہیں.فرمایا منشی ظفر احمد صاحب نے خود ہی مجھ سے ذکر کیا کہ میں تو حضرت صاحب کے پاس آپ کی شکایت لے کر گیا تھا اور میرا خیال تھا کہ حضرت صاحب آپ کو بلا کر تنبیہ کریں گے.مگر حضور نے تو صرف یہی فرمایا کہ ایک دفعہ ہم بھی گئے تھے اور اس سے معلومات حاصل ہوتے ہیں.میں نے کہا کہ حضرت صاحب کا کچھ نہ فرمانا یہ بھی ایک

Page 30

15 تنبیہ ہے.وہ جانتے ہیں کہ آپ مجھ سے ذکر کریں گے.چند دن اور امرتسر میں رہ کر میں تو چلا آیا مگر حضرت صاحب کچھ دن اور وہاں ٹھیرے اور پھر لدھیانہ سے صاحب ڈپٹی کمشنر کی چھٹی آنے پر کہ آپ بھی دوسری رعیت کی طرح لدھیانہ میں رہ سکتے ہیں اور آپ پر کوئی الزام نہیں.حضرت صاحب پھر لدھیانہ چلے گئے.کیونکہ امرتسر پہنچ کر ڈپٹی کمشنر لدھیانہ سے خط و کتابت کی گئی تھی اِس واسطے یہ جواب وہاں سے آیا اور معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دیگر مخالفین کو اُن کے منصوبوں میں کچھ کامیابی نہیں ہوئی.غالبا ۱۸۹ء کے دسمبر کا مہینہ تھا کہ میں اپنے ایک عزیز ہمنام دوست مولوی محمد صادق صاحب مرحوم اور خان بہادر غلام محمد صاحب جو اُس وقت جموں کے ہائی سکول میں طالب علم تھے، ہر دو کے ہمراہ قادیان گیا.کیونکہ یہ ہر دو اصحاب حضرت مسیح موعود کی بیعت کرنا چاہتے تھے.ہر دو اصحاب نے قادیان میں بیعت کی اور ہم حضرت مسیح موعود کے ساتھ ہی قادیان سے لاہور آئے.یہ سفر بھی انٹر کلاس میں ہوا اور لاہور کے اسٹیشن سے مکان تک یگوں میں سوار ہو کر آئے.اُن دنوں لا ہور میں یکوں کا بہت رواج تھا اور پہلے میراں بخش صاحب کی کوٹھی پر حضرت صاحب اُترے اور اُس کے بعد ایک اور مکان کرایہ پر لیا گیا.حضرت صاحب کی تشریف آوری پر شہر میں ایک بڑا شور مچا.ایک بڑی جماعت ہر وقت مکان پر موجود رہتی.زنانہ بھی حضرت صاحب کے ساتھ تھا.جب حضرت صاحب باہر مجلس میں آ کر بیٹھتے تو کچھ تقریر فرماتے اور لوگوں کے سوالات کے جواب دیتے.اُنہی دنوں میں لاہور میں ایک شخص مہدی ہونے کے مدعی تھے مگر لوگ ان کو دیوانہ سمجھتے تھے.وہ صاحب عالم آدمی نہ تھے.وہ بازار میں حضرت صاحب کو اچانک آکر لپٹ گئے اور شور مچانے لگے کہ مہدی تو میں ہوں تم نے کیوں دعوی کیا ہے.شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم نے اُن کو پکڑ کر پیچھے ہٹایا.حضرت مسیح موعود نے شیخ صاحب کو کہا کہ ان کو چھوڑ دو اور ان پر کوئی سختی نہ کرو.چونکہ مجھے اور مولوی محمد صادق صاحب کو اپنی ملازمت پر جلد واپس جانا تھا اس واسطے ہم صرف ایک یا دو دن وہاں رہ کر چلے گئے اور حضرت صاحب بہت دن لا ہور ٹھیرے.مجھے یاد ہے کہ میاں خیر الدین صاحب ساکن سیکھواں بھی اس سفر میں حضرت صاحب کے ہمرکاب تھے.جب میں پہلی دفعہ ۱۸۹۰ء کے آخر میں قادیان آیا تو اس وقت دودھ دہی بیچنے والے کی صرف ایک دکان ہندو کی تھی جو صبح ایک کڑاہی دُودھ کی لے کر بیٹھتا تھا اور اُس میں سے شام تک جو

Page 31

16 بچ جاتا اس کی دہی بنایا کرتا تھا.جس رمضان میں کسوف اور خسوف کی پیشگوئی پوری ہوئی.میں اُسوقت ہنوز ریاست جموں میں مدرس تھا اور کسی رخصت کی تقریب پر قادیان آیا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بارے میں ایک مضمون لکھا تھا جو چھپ کر قادیان آ گیا تھا.مگر حضور نے اُسے اشاعت سے روک رکھا.فرمایا سورج کو گہن لگ لے بعد میں شائع کیا جائے.یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں ہم کیا کہہ سکتے ہیں.ممکن ہے کوئی ایسا آسمانی تغیر واقعہ ہو کہ سُورج کو گہن ہی نہ لگے.جس سال سُورج کو پورا گہن لگا اور سارا سورج چھپ گیا اور اذا الشـمـس کـورت کی پیشگوئی پوری ہوئی.اُس دن مسجد اقصیٰ میں سُورج گہن کی نماز با جماعت پڑھی گئی.مولوی محمد احسن صاحب امروہی مرحوم پیش امام نماز تھے.نمازیوں کی رقت اور رونے اور دُعا کرنے کی آوازوں سے مسجد کے گنبد میں گونج سی پیدا ہو گئی تھی.جبکہ میں ہنوز جموں میں ملازم تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک خط میرے نام قادیان سے آیا کہ مرزا افضل احمد جموں میں محکمہ پولیس میں ملازم ہے بہت دنوں سے گھر میں اُس کا کوئی خط نہیں آیا اور اُس کی والدہ بہت گھبرا رہی ہے.آپ اُس کا حال اور خیر خیریت دریافت کر کے بواپسی ڈاک ہمیں اطلاع دیں.پھر دوسری دفعہ بھی ایسا ہی ایک خط آیا تھا اور ہر دو دفعہ حال دریافت کر کے لکھا گیا.یہ غالبا ۹۴-۱۹۹۳ء کا واقعہ ہے.مرز افضل احمد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کا پہلی بیوی سے دوسرا بیٹا تھا.وہ شکل و شباہت میں حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب سے بہت ملتا تھا اور بے اولا د فوت ہو گیا تھا.جب مرز افضل احمد فوت ہوئے اور اُن کے فوت ہونے کی خبر قادیان میں پہنچی تو دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چہرے پر اداسی تھی.گھر میں بچے پٹانے چھوڑ رہے تھے اور حضرت اُم المومنین نے اُنہیں منع کیا کہ تمہارے بھائی کی فوتیدگی کی خبر آئی ہے پٹاخے نہ چھوڑو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیوی صاحب کو فرمایا.یہ بچے ہیں ان کو کیا خبر ! انہیں اپنی کھیلیں کھیلنے دو اور پٹاخوں سے نہ روکو.ایک دفعہ کا ذکر ہے موسم گرما کی رخصتوں میں میں جموں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان آیا ہوا تھا.یہ وہ ایام تھے جبکہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ ایح

Page 32

17 الا ول بھی ہجرت کر کے قادیان آچکے تھے اور وہ مکان بن چکا تھا جہاں آپ مطب کرتے تھے اور قریباً سارا دن وہیں بیٹھے رہا کرتے تھے.اُس مطب میں ایک دفعہ میں حضرت خلیفہ اول کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک حضرت حضرت مسیح موعود بھی وہاں اکیلے ہی تشریف لائے.چند ایک کتابیں آپ کے ہاتھ میں تھیں اور بے تکلفی سے اُسی چٹائی پر بیٹھ گئے، جہاں ہم دونوں بیٹھے تھے.اور حضرت مولوی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا یہ چند نسخے سرمہ چشم آریہ کے میرے پاس پڑے ہوئے تھے میں لایا ہوں کہ حسب ضرورت آپ تقسیم کر دیں.میں نے عرض کی کہ حضور ایک مجھے چاہیے.حضور نے فوراً ایک نسخہ مجھے عطا فر مایا.یہ وہی نسخہ ہے.جواب تک صادق لائبریری میں محفوظ ہے.ایک دن صبح کے وقت اچانک ایک انگریز پولیس سپرنٹنڈنٹ کی وردی پہنے ہوئے قادیان پہنچا اور کہا کہ میں گورداسپور کا سپرنٹنڈنٹ پولیس ہوں اور مرزا صاحب سے ملنے کے لئے آیا ہوں.اُس وقت مطب اور پریس کی عمارت بن چکی تھی اور جہاں اب مہمان خانہ ہے.یہاں بھی عمارت بنی ہوئی تھی.لیکن ان دونوں مکانوں کے درمیان کوئی عمارت نہ تھی صرف ایک چبوترہ سا شہر کی پرانی فصیل کی جگہ پر درست کر دیا گیا ہوا تھا.اسی چبوترہ پر اُسے کرسی پر بیٹھایا گیا اور ایک دوسری گرسی حضرت صاحب کے واسطے رکھی گئی.اطلاع ہونے پر حضوڑ باہر تشریف لائے.جیسا کہ حضور کی ہمیشہ عادت تھی کہ عصا حضور کے ہاتھ میں تھا اور اُس کرسی پر آ کر بیٹھے.اُس انگریز نے کہا کہ میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں.آپ نے فرمایا.پوچھئے.تب اُس نے ایک پاکٹ بک اپنی جیب سے نکالی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا.نہایت احتیاط کے ساتھ اُس کا ایک ایک ورق وہ اُلٹتا تھا.گویا وہ اُن سوالات کو تلاش کرتا تھا جو اُس نے پوچھنے تھے اور اُس پاکٹ بک میں لکھے ہوئے تھے.وہ ساری نوٹ بک اُس نے دیکھی اور پھر دوسری طرف سے شروع کر کے اول تک دیکھی.پھر اُس کو بند کر کے بغیر کسی سوال کرنے کے جیب میں ڈال لیا اور کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اس وقت تو وہ سوال نہیں ملتے.اچھا سلام.میں پھر کبھی آؤں گا اور واپس چلا گیا اور پھر کبھی نہیں آیا.جب ابتداء میں میں قادیان گیا اور مسجد مبارک میں صرف تین چار نمازی ہوا کرتے تھے اور حافظ معین الدین صاحب مرحوم نماز پڑھایا کرتے تھے.جب حضرت مولوی نورالدین صاحب ( رضی اللہ عنہ ) ہجرت کر کے غالباً ۱۹۰۲ء میں قادیان آگئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اُنہیں اپنی مساجد میں امام پیش بنایا اور وہی نمازیں پڑھاتے رہے.لیکن اُس کے بعد غالبا سہو کتابت ہے حضرت مولانا حکیم نور الدین رضی اللہ عنہ تو مارچ ۱۸۹۳ء میں ہجرت کر کے قادیان تشریف لے آئے تھے.(ناشر)

Page 33

18 جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کر کے قادیان آگئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے انہیں نماز کے واسطے آگے کر دیا اور پھر جب تک وہ زندہ رہے وہی پیش امام رہے.لیکن گا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طبیعت کی کمزوری کے سبب مسجد مبارک میں ہی جمعہ بھی پڑھ لیتے تھے اور چونکہ مسجد مبارک میں سب لوگ سما نہ سکتے تھے اس واسطے جمعہ مسجد اقصٰی میں بھی بدستور ہوتا اور مسجد اقصٰی میں حضرت مولوی ٹو رالدین صاحب رضی اللہ عنہ جمعہ پڑھاتے تھے اور مسجد مبارک میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ جمعہ پڑھاتے تھے اور گا ہے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب باہر گئے ہوئے ہوتے اور حضرت مولوی محمد احسن صاحب قادیان میں موجود ہوتے تو مسجد مبارک میں وہ جمعہ پڑھاتے.جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم ہجرت کر کے قادیان چلے آئے تو وہی پیش امام نماز کے ہوتے رہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اپنی قرآت میں ہمیشہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ سے پہلے بالجبر پڑھتے تھے اور فجر اور مغرب اور عشاء کی آخری رکعت میں بعد رکوع عموماً بلند آواز سے بعض دُعائیں مثلا رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ اور رَبَّنَا هَبُ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا....الخ اور اَللَّهُمَّ انْصُرُ مَنْ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ....الخ اور اللهُمَّ اَيْدِ الْإِسْلامَ وَالْمُسْلِمِينَ بِالْاِمَامَ الْحَكِيمِ الْعَادِلِ وغیرہ پڑھا کرتے تھے اور حضرت مولوی صاحب کی عدم موجودگی میں جب کہ وہ سفر پر ہوں یا نماز میں کسی وجہ سے نہ آ سکیں مولوی حکیم فضل الدین صاحب مرحوم اور گا ہے عاجز راقم کو یا کسی اور صاحب کو امامت کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حکم فرماتے تھے.حضور خود کبھی پیش امام نہ بنتے تھے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ہمیشہ پیش امام رہے.حکیم فضل الدین صاحب مرحوم جو میرے ہموطن اور محسن تھے، اللہ تعالیٰ انہیں بہشت میں بلند درجات عطا فرما دے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب سابقین میں سے تھے.آپ قرآن شریف کے حافظ اور علوم دینیہ کے عالم تھے.گا ہے وہ بھی نماز میں پیش امام ہوا کرتے تھے.حکیم صاحب موصوف کو آخری عمر میں بواسیر کے سبب ریح کا مرض ہو گیا تھا اور وضو قائم نہیں رہتا تھا.اس لئے وہ ایک دفعہ وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے اور پھر درمیان میں باوجود ریح کے بار بار خارج ہونے کے نماز پڑھتے رہتے تھے اور ہر نماز کے لئے تازہ وضو کر لیتے تھے.اُن کی اس بیماری کے ایام میں ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن کو فرمایا کہ حکیم صاحب آپ -

Page 34

19 ہی نماز پڑھا دیں.انہوں نے عرض کی کہ حضور کو معلوم ہے کہ میرا تو وضو نہیں ٹھیرتا.حضور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کی نماز تو ہو جاتی ہے یا نہیں ہوتی.اُنہوں نے عرض کیا کہ نما ز تو ہو جاتی ہے.مسئلہ ایسا ہی ہے.فرمایا آپ کی نماز ہو جاتی ہے تو ہماری بھی ہو جائے گی.آپ پڑھا دیں.شروع میں جب قادیان میں نماز کے وقت تین چار آدمی سے زیادہ نہ ہوا کرتے تھے مسجد مبارک میں حافظ معین الدین صاحب مرحوم اور مسجد اقصٰی میں میاں جان محمد صاحب کشمیری نماز کے پیش امام ہوا کرتے تھے.سنا گیا ہے کہ کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود بھی نماز میں پیش امام ہوتے تھے مگر یہ میرے یہاں آ جانے سے قبل ہوا.زندگی کے آخری سالوں میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموماً باہر تشریف نہ لا سکتے تھے.اُس وقت اندر عورتوں میں نماز مغرب اور عشاء جمع کر کے پڑھایا کرتے تھے.حضور امامت کے وقت بسم اللہ بالجبر نہ پڑھا کرتے تھے اور رفع یدین بھی نہ کرتے تھے مگر ہاتھ سینہ پر باندھتے تھے اور تشہد میں سبابہ کی انگلی اٹھاتے تھے.باقی نماز ظاہری طریق میں حنفیوں کے طرز پر ہوتی تھی.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ہمیشہ نماز میں بسم اللہ بالجبر پڑھتے تھے اور آخری رکعت میں بعد رکوع کھڑے ہو کر بآواز بلند دُعائیں ( قنوت) کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دیگر بزرگانِ دین نے سالہا سال حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں اور یہی وجہ ہے کہ اُس وقت کے بعض اصحاب جیسا کہ صوفی غلام محمد صاحب واعظ ماریشس اب تک یہی رویہ رکھتے ہیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بہت جو شیلے آدمی تھے اور عموماً لوگوں کو بُرے کاموں سے سختی کے ساتھ روکتے اور نیکیوں کی طرف متوجہ کرتے رہتے تھے.ایک دن مطب میں بیٹھے ہوئے آپ نے میاں الہ دین فلاسفر کو کسی بات سے روکا.مگر فلاسفر صاحب نے مقابلہ کیا.جس پر ایک حاضر الوقت پہلوان نے اسے پکڑا اور مارا.مولوی صاحب مرحوم نے بھی اسے مارا.وہ بلند آواز سے شور مچا تا ہوا چیختا پکارتا با ہر صحن میں سے گزرتا ہوا اُس گلی میں سے گزرا جہاں سے حضرت صاحب کو اُس کی آواز جا سکتی تھی.اس کی چیخ و پکار سُن کر حضرت صاحب نے آدمی بھیجا اور دریافت کیا اور اُسے کچھ نقدی اور کھانے کے واسطے بھیجا اور تشفی دی کہ اس کو اذیت دینے والوں سے باز پرس کی جاوے گی.مولوی صاحب کی طرف بھی پیغام آیا اور کیفیت طلب کی گئی.نماز مغرب کے واسطے جب حضرت صاحب تشریف لائے تو چونکہ گرمی کا موسم تھا.مسجد مبارک کی دوسری چھت پر جو اس

Page 35

20 وقت ہنوز وسیع نہیں ہوئی تھی حضرت صاحب ٹہل رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک سُرخ تھا.آپ مولوی عبد الکریم صاحب پر خفا ہوئے.فرمایا خدا کا رسول جب تمہارے درمیان ہے تو تمہارے لئے کس طرح مناسب تھا کہ ایسی حجرات کرتے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بہت شرمندہ ہوئے اور رو پڑے اور معافی مانگی.تب حضرت صاحب شاہ نشین پر بیٹھ گئے اور دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور ساری جماعت نے دُعا کی اور کئی ایک سے رونے کی آواز آ رہی تھی.سب پر رقت طاری ہوئی اور مولوی عبد الکریم صاحب نے فلاسفر صاحب کو بلا کر ان سے معافی مانگی اور انہیں کچھ دے کر خوش کیا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جسم کے بھاری، چھوٹا قد اور ایک پاؤں سے معذور تھے.اس لئے عصاء کے سہارے چلتے تھے اور ایک آنکھ سے بھی معذور تھے.ہمیشہ چشمہ لگاتے تھے.آپ کے منہ پر ماتا کے داغ تھے مگر ہیئت وجھ تھی اور آپ جہیر الصوت آدمی تھے.آواز بہت اونچی اور خوش الحان تھی.جب آپ فجر کی نماز میں قرآن شریف پڑھتے تھے تو سارے قادیان میں سُنائی دیتی تھی.سب سننے والے لطف اُٹھاتے تھے.۱۸۹۰ء کے آخر میں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں داخل ہوا تھا.اور اس کے بعد جب تک میں جموں میں ملازم رہا قریباً ہر سال موسم گرما میں اور بعض دفعہ سال میں دو دفعہ حضرت صاحب کی خدمت میں قادیان میں حاضر ہوتا رہا.۱۸۹۵ء میں ایف-اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد جو کہ میں نے پرائیویٹ طور پر جموں سے پاس کیا تھا ، ماہ اگست ستمبر میں میں جموں ریاست کی ملازمت کو ترک کر کے لاہوراسلامیہ سکول میں ملا زم ہو گیا.جہاں چھ ماہ ملازم رہنے کے بعد میں اکو نٹنٹ جنرل پنجاب لاہور کے دفتر میں کلرک ہو گیا اور ہجرت تک جو جنوری ۱۹۰۱ء میں ہوئی ، میں وہیں رہا.لاہور آنے پر قادیان جانے کا موقع زیادہ ملنے گا.جب میں نے جموں کی ملازمت چھوڑنے اور لاہور میں ملازمت اختیار کرنے کا ارادہ کیا اور اس امر کے متعلق بزرگوں سے مشورہ کیا تو سب نے اس امر کو پسند فرمایا اور پسندیدگی کی زیادہ تر وجہ یہ فرمائی کہ لاہور میں تعلیمی ترقی اور دیگر ترقیوں کا موقع اچھا ہے.مگر جب میں نے یہ امر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تو حضور نے اس کو پسند کرتے ہوئے پسندیدگی کی وجہ صرف یہ فرمائی کہ جموں کی نسبت لاہور قادیان سے زیادہ قریب ہے.جب کبھی میں قادیان میں آتا خواہ ایک دن کے لئے خواہ تین چار دن کے لئے کوئی نہ کوئی موقع کسی دینی خدمت کا حاصل ہوتا اور عبادات اور دُعاؤں میں خاص لطف پیدا ہوتا.جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ میری طبیعت دُنیا

Page 36

21 داری کے کاموں اور سرکاری ملازمت کے مشاغل سے اُکھڑ گئی اور مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ملا زمت کو ترک کر کے قادیان میں ہی آ رہوں اور کسی دینی خدمت کو سرانجام دیا کروں.غالباً ۱۸۹۸ء میں جبکہ میں لاہور کے محلہ مزنگ نام میں رہتا تھا کیونکہ وہ جگہ دفتر کو ٹمٹ جنرل کے قریب تھی، میں نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کی خدمت میں یہ درخواست تحریری بھیجی کہ مجھے اجازت دی جاوے کہ میں اپنی موجودہ ملازمت کو ترک کر کے اور ہجرت کر کے قادیان آ جاؤں.اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے مجھے لکھا کہ مومن کے واسطے قیام فیما اقام اللہ ضروری ہے.یعنی جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کھڑا کیا ہے اور اس کے لئے روزی کا سبب بنایا ہے، و ہیں صبر کے ساتھ کھڑا ر ہے.یہاں تک کہ کوئی سبب آپ کے لئے ایسا بنے کہ آپ کو کسی کام کے واسطے قادیان بُلا لیا جائے.لیکن چونکہ آپ نے ہجرت کا ارادہ کر لیا ہے اس واسطے آپ کو اس کا ثواب ہر حال ملتا رہے گا.اس کے بعد ۱۹۰۰ء کے آخر میں جبکہ قادیان کا مڈل سکول ہائی سکول بن گیا اور ایک سیکنڈ ماسٹر کی ضرورت ہوئی تو چونکہ یہ عاجز مدرسی کے کام میں تجربہ رکھتا تھا، اس واسطے سکول کے ناظموں کو میری طرف توجہ ہوئی کہ مجھے قادیان بلا لیا جاوے اور مولوی محمد علی صاحب اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کر کے میرے قادیان آ جانے کے متعلق اجازت حاصل کی.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ فی الحال دفتر سے تین ماہ کی رخصت لے کر آ جائیں.چنانچہ میں نے واپس لاہور آ کر تین ماہ کی رخصت کے لئے درخواست دی.مگر اس میں یہ الفاظ بھی لکھ دیئے کہ اگر مجھے رخصت نہیں مل سکتی تو میرا استعفا منظور کیا جاوے.اس کے بعد خواجہ کمال الدین صاحب کو جب یہ معلوم ہوا تو انہوں نے قادیان میں اس امر کی مخالفت کی اور حضرت صاحب سے عرض کیا.کہ جس دفتر میں مفتی صاحب اس وقت ملا زم ہیں وہاں آئندہ ترقیوں کی بہت سی امیدیں اور مواقع ہیں.اس دفتر میں ملازمت کر نے والے بعض کلرک ای - اے.سی بن جاتے ہیں اور بعض اور معزز عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں.مفتی صاحب کو وہاں سے ہٹا نا ٹھیک نہیں.اُن کے وہاں رہنے میں نہ صرف اُن کو ذاتی فوائد ہوں گے بلکہ بہت سے قومی فوائد بھی اُن سے حاصل ہوں گے.اس پر حضرت صاحب نے مجھے ایک حکم بھیجا کہ آپ استعفے نہ دیں.ہاں آسانی سے رخصت مل جائے تو رخصت لے کر یہاں چلے آئیں.یہ رقعہ لے کر شیخ عبدالعزیز صاحب مرحوم جو قادیان سے اس غرض کے واسطے لاہور بھیجے گئے تھے سحری کے وقت میرے پاس پہنچے.اُس وقت میں اور ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جو میڈیکل کالج کے پہلے سال میں

Page 37

22 تعلیم حاصل کرتے تھے.ہم دونوں اکٹھے ہی ایک مکان میں رہتے تھے.اُس وقت میری درخواست نیچے سے سفارش ہو کر ڈپٹی اکو نٹنٹ جنرل کی میز پر پہنچ چکی تھی.میں نے وہاں پہنچ کر اس میں سے استعفے کا لفظ کاٹ دیا.مگر چونکہ نیچے سفارش ہو چکی تھی.اس واسطے وہ رخصت منظور ہو گئی اور میں قادیان آ گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور سیکنڈ ماسٹر کام کرنے لگ گیا.جب تین ماہ گزر گئے تو حضرت صاحب نے مجھے فرمایا کہ آپ چھ ماہ کے لئے اور رُخصت کی درخواست دیں.چنانچہ میں نے چھ ماہ کے لئے رخصت کی درخواست لاہور میں بھیج دی.جس میں سے تین ماہ کی رخصت منظور ہوئی.جب وہ تین ماہ بھی گذر گئے تو حضور نے مجھے فرمایا کہ آپ استخارہ کریں.جب میں نے سات دفعہ استخارہ کیا اور سات استخاروں کے بعد میں نے دیکھا کہ مجھے اس امر کے واسطے پورا انشراح تھا میں اس ملازمت کو ترک کر کے قادیان میں مستقل سکونت اختیار کروں کہ میں نے اس قلبی کیفیت کا اظہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا.تب حضور نے مجھے فرمایا آپ استعفی بھیج دیں.اس خبر کے لاہور پہنچنے پر میرے دفتر کے مسلمان کلرکوں کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور منشی نظام الدین صاحب جو اس غرض کے واسطے ڈیپوٹ (Depute) کئے گئے تھے ، حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اُنہوں نے مسلمانوں کی اس خواہش کو حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا کہ مفتی صاحب کو لا ہورا کونٹنٹ جنرل کے دفتر میں ہی رہنے دیا جاوے.جس میں ان کو ذاتی مفاد حاصل ہونے کے علاوہ دوسرے مسلمانوں کو بھی ان سے بہت فائدہ پہنچے گا.کیونکہ میں وہاں مسلمان کلرکوں کو دفتری کاروبار اور تحریر کے کاموں میں امداد دینے کے علاوہ ان کو دینی فوائد بھی پہنچاتا تھا.انہیں نمازیں پڑھاتا تھا.جمعہ کا خطبہ پڑھتا تھا اور دینی امور میں بھی اُن کی رہنمائی کرتا تھا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اس ڈیپوٹیشن کی درخواست کو منظور نہیں کیا اور میرا قادیان رہنا زیادہ ضروری اور مفید سمجھا اور مجھے استعفے بھیج دینے کے واسطے فرمایا.چنانچہ میں نے استعفے بھیج دیا اور وہ منظور ہو گیا.اس جگہ اس امر کا ذکر بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ اس دفتر میں میری ملازمت کے وقت بھی منشی نظام الدین صاحب اور چودھری سردار خان صاحب کی خاص کوشش تھی.یہ ہر دو اصحاب اس وقت انجمن حمایت اسلام کے رکن تھے جس کے سکول میں میں ملازم تھا، اور دفتر اکو ٹمٹ جنرل میں ملازم تھے.چودھری صاحب تو ای.اے سی ہو کر چلے گئے لیکن منشی نظام الدین صاحب نے اسی دفتر سے پنشن لی اور بعد میں کئی ایک ریاستوں میں اکو نٹنٹ جنرل کے عہدے پر ممتاز رہ چکے

Page 38

23 ہیں.میرے ایام ملا زمت دفتر اکو نٹنٹ جنرل میں ہر دو اصحاب میرے ساتھ بہت ہمدردی اور خیر خواہی کرتے رہے.اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے.ایک دفعہ حضرت صاحب کو بہت سخت درد گردہ ہوا جو کئی دن تک رہا.اس کی وجہ سے آپ کو بہت تکلیف رہتی اور رات دن خدام باہر کے کمرہ میں جمع رہتے.حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ کا علاج تھا.ایک دوائی جو مجھے یاد ہے اس مرض کے واسطے حضرت مولوی - صاحب نے دی ، وہ یہ تھی کہ خالص شہد تھوڑے سے پانی میں گھول کر حضرت صاحب کو پلایا.ابھی مجھے ہجرت کئے ہوئے تھوڑے ہی دن ہوئے تھے کہ ایک صبح ایک روسی سیاح جو جسیم اور قد آور آدمی تھا اور تاجر پیشہ تھا ، قادیان آیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کے مطب میں آن کر بیٹھا.بہت سے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے.حضرت مسیح موعود کو جب اطلاع ہوئی تو حضور بھی وہیں تشریف لائے.جب میں وہاں پہنچا تو حضور نے مجھے فرمایا کہ یہ صاحب روس سے آئے ہیں اور اُردو زبان بالکل نہیں جانتے.پس انگریزی میں اُس کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی.جو کچھ وہ کہتا ، ترجمہ کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا جاتا اور جو کچھ حضرت صاحب فرماتے ، ترجمہ کر کے اُسے سُنایا جاتا.بہت دیر تک حضرت صاحب اس کو تبلیغ کرتے رہے.پھر اُس نے درخواست کی کہ میں حضور کا فوٹو لینا چاہتا ہوں.اُس کا اپنا کیمرہ اُس کے پاس تھا.حضرت صاحب نے اجازت دی اور مسجد اقصٰی میں ایسی صورت میں جبکہ حضرت صاحب کھڑے ہوئے تھے اُس نے فوٹو لیا.وہ چاہتا تھا اُسی دن واپس چلا جائے مگر باصرار اُسے ایک شب ٹھیرایا گیا.دوسری صبح جبکہ وہ رخصت ہونے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اُس کی مشایعت کے واسطے گاؤں سے باہر اُس کے ساتھ ساتھ نکلے اور اُس کو تبلیغ کرتے رہے.جو کچھ حضرت مسیح موعود فرماتے ، مولوی محمد علی صاحب ترجمہ کر کے اُس کو سُناتے.چلتے چلتے یہ تبلیغ ہوتی رہی.جماعت کا ایک بڑا گر وہ ساتھ ہو گیا.یکہ جس پر اُس نے سوار ہو کر بٹالہ جانا تھا آہستہ آہستہ پیچھے آ رہا تھا.یہاں تک کہ ہم سب موڑ سے گزر کر نہر تک پہنچ گئے.گویا قادیان سے قریباً ہم میل کا فاصلہ چلے گئے.تب حضرت صاحب نے اُس کو رخصت کیا اور وہ یکے پر سوار ہو کر بٹالہ گیا اور ہم سب واپس قادیان آئے.جب کتاب ازالہ اوہام شائع ہوئی اُس وقت حضرت مولوی نور الدین صاحب ریاست جموں میں ملازم تھے اور عاجز راقم بھی وہیں پر ملازم تھا.ازالہ اوہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مریدین کے نام بھی لکھتے تھے اور اُس میں میرا نام بھی نمبر ۶۶ پر تھا.

Page 39

24 تب حضرت مولوی صاحب نے جو ہمیں ہر رنگ میں ترقی کرنے کی تحریص دلایا کرتے تھے مجھے مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ مفتی صاحب آپ کا نام تو نمبر ۶۶ پر ہے.کیا اتنے نمبر پر بھی کوئی پاس ہو سکتا ہے.تب میرے عزیز دوست مولوی فاضل محمد صادق صاحب مرحوم نے عرض کی ، فیل ہونے والوں کے تو نام نہیں شائع ہوتے.صرف پاس ہونے والوں کے نام شائع ہوا کرتے ہیں.جس پر حضرت مولوی صاحب تنقسم کر کے خاموش ہور ہے.

Page 40

25 باب دوم بعض عام حالات و افکار و عادات حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام حلیہ مبارک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قد درمیانہ سے ذرا اونچا، بدن کسی قدر بھاری ، پیشانی اونچی ، آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر ہمیشہ غض بصر کی صورت میں رہنے کے سبب باریک سی معلوم ہوتی تھیں.چہرہ چمکدار ، چھاتی کشادہ، کمر سیدھی ، جسم کا گوشت مضبوط تھا.جسم اور چہرے پر جھریاں نہ تھیں.رنگ سفید و سرخ گندمی تھا.جب آپ ہنستے تھے تو چہرہ بہت سُرخ ہو جاتا تھا.سر کے بال سید ھے کانوں تک لٹکتے ہوئے ملائم اور چمکدار تھے.ریش مبارک گھنی ایک مشت سے کچھ زیادہ لمبی رہتی تھی.اس سے زیادہ حصہ آپ قینچی سے کٹوا دیتے تھے.شملہ سے منہ ڈھکنا بعض دفعہ حضور مجلس میں بیٹھے ہوئے اپنی پگڑی کے شملہ کو ہاتھ میں لے کر منہ پر رکھ لیتے تھے.میرا خیال ہے کہ آپ کچھ تسبیح کے کلمات پڑھتے رہتے تھے اور اس واسطے مُنہ کو ڈھانک لیتے تھے کہ ہونٹوں کی حرکت لوگوں پر ظاہر نہ ہو.تتبدیل لباس ایک دفعہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے کیسی کے اخراجات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ اُنہیں چاہیئے روزانہ ایک دھویا ہو اگر تہ پاجامہ بدل لیا کریں.اس سے زیادہ اپنے اخراجات کو نہ بڑھائیں.حضرت صاحب نے اس پر فرمایا کہ ہم تو ہفتہ میں ایک بار کپڑے بدلتے ہیں.خُوشبو لگانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑوں اور بدن میں سے ہمیشہ مشک کی سی بھینی بھینی خوشبو آتی تھی.کبھی پسینہ اور میل وغیرہ کی خراب ہو نہ محسوس ہوتی تھی.

Page 41

26 رات کالباس حضور علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی عادت تھی کہ سونے سے قبل رات کے وقت پاجامہ اُتار کر ستے بند باندھا کرتے تھے اور اُسی میں سوتے تھے.ایک دفعہ فرمایا کہ ایسی ہی عادت ہے.چلتے ہوئے لکھنا بعض دفعہ حضور کمرے کی چھت پر ٹہلتے ہوئے ، چلتے چلتے مضمون لکھا کرتے تھے.ایک دوات ایک طرف دیوار میں رکھ لیتے تھے اور ایک دوات دوسری طرف.دائیں ہاتھ میں قلم ہوتا ، اور بائیں میں کاغذ- چلتے ہوئے لکھتے اور جو عبارت لکھتے اُسے عموماً گنگناتے ہوئے ساتھ ساتھ پڑھتے بھی جاتے.الہام رات کے وقت لکھنا رات کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام اپنے بسترے کے قریب ایک کاپی اور قلم و دوات یا پنسل ضرور رکھ لیتے اور رات کے وقت کچھ الہام ہوتا تو اُس کا پی پر لکھ لیتے اور ایک الہام کو اُسی صفحہ پر کئی بار لکھتے تا کہ صبح کے وقت اُس کے صحیح پڑھنے میں دقت نہ ہو.کیونکہ یہ رات کے اندھیرے میں لکھا جاتا تھا.مہمانوں سے گفتگو باہر سے جب دوست آیا کرتے تو بعض دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ باتیں اُن سے پوچھا کرتے : ا.کیا آپ کے شہر میں کچھ ہمارے سلسلہ کی مخالفت ہے اور اگر وہ دوست جواب دیتے کہ نہیں ہے تو آپ افسوس کرتے اور فرمایا کرتے کہ مخالفت نہیں ہے تو پھر ترقی کیسے ہوگی.ایک دفعہ تو مخالفت کا ہونا ضروری ہے.۲ - دوسرا سوال عموماً آپ یہ کرتے کہ کیا احمدیوں کی کوئی مسجد ہے اور فرمایا کرتے خدا کی عبادت کے واسطے جگہ ضرور بنوانی چاہئیے خواہ ایک تھڑا ہی ہو اور یہ بھی پوچھا کرتے کہ آپ کو کتنی فرصت ہے اور کتنے دن یہاں ٹھیریں گے.مہندی کا لگانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ ہر پانچویں روز لبوں کے بال

Page 42

27 کٹواتے اور سر اور ڈاڑھی پر حجام سے مہندی لگواتے.مہندی کے سبب سے آپ کے بال سُرخ رہتے تھے لیکن آخری سالوں میں حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک نسخہ تیار کیا تھا کہ اس کو مہندی میں ملا لیا جائے تو نزلہ اور زکام کا خوف نہیں رہتا تھا.لیکن اس نسخہ میں ساتھ ہی یہ خاصیت بھی تھی کہ اس سے بالوں میں سیا ہی آجاتی تھی.اس واسطے آخری سالوں میں حضور کے بال سیاہ ہی نظر آتے تھے.حضور کی عادت تھی کہ ہمیشہ گھر سے باہر عصاء اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے اور جب کبھی سفر میں یا سیر پر یا نماز جمعہ کے لئے جامعہ مسجد کو تشریف لے جاتے تو عصاء ضرور آپ کے ہاتھ میں ہوتا.خلوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عادت تھی کہ دن میں کسی ایک وقت ایک یا دو گھنٹہ کے واسطے سب سے بالکل علیحدہ ہو جاتے تھے.گورداسپور میں جس مکان میں ہم سب منزل کئے ہوئے تھے اُس کی زمین کی منزل پر دروازہ سے داخل ہوتے ہوئے بائیں طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جو پاخانہ کے لئے استعمال ہوتا تھا مگر پاخانہ کے واسطے کو ٹھے کے اوپر اور جگہیں بھی تھیں.پس اس نیچے والے کمرے کو حضور نے صاف کرایا.اُسے خوب دھویا گیا اور اُس پر فرش کیا گیا اور دو پہر کے وقت دو یا تین گھنٹے کے قریب حضور بالکل علیحدہ اندر سے کنڈی لگا کر اس میں بیٹھے رہتے تھے.نظم سُنتے اگر کوئی دوست اپنی کوئی نظم یا تصنیف سُنانا چاہتے تو مجلس میں سُن لیتے تھے.نظم میں اگر کچھ خامیاں یا غلطیاں ہوتیں تو کچھ گرفت نہ کرتے تھے.ایک دفعہ ایک احمدی عبد الرحمن نام فرید آبادی نے اپنی نظم سُنائی جس سے مجلس میں سب لوگ بہت ہنسے اور حضرت صاحب بھی ہنستے رہے.ضرورات شعری ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب جو بعد میں مُرتد ہو گئے تھے اُنہوں نے ایک دفعہ اپنی ایک نظم سنائی جو غلط تھی اور اس میں بیجا طور پر وزن پورا کرنے کے لئے بعض حروف پر تشدید کی گئی تھی.اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے نفرت کا اظہار کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تبسم کرتے ہوئے فرما یا مولوی صاحب کیا آپ نے یہ کبھی نہیں سُنا ضروراتِ شعری چو ضر ور شد تشدید حروف چرا نباشد

Page 43

28 عیسوی سنه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تحریروں میں عموماً عیسوی سنہ اور تاریخ لکھا کرتے تھے.ہجری تاریخ اور سنہ کا بہت کم استعمال کرتے تھے.جس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ عام طور پر اس ملک میں عیسوی سنہ کا رواج اس کثرت سے ہو گیا ہے کہ اسی سند اور تاریخ کو سب لوگ یا د رکھتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اور اس کے علاوہ دوسری تاریخوں کے استعمال سے پڑھنے والوں کو جلدی سے صحیح طور پر پتہ نہیں لگتا کہ یہ تاریخ کب اور کس دن تھی.انجمن ما تحت غائبات ۱۹۰ء کے آخر میں اخبارات بدر و الحکم میں کسی طبیب کا ایک اشتہار شائع ہوا جس میں مونچھوں کے بڑہانے کی کسی دوائی کا ذکر تھا.اس پر انجمن کے بعض ممبروں نے مجلس میں ریز ولیوشن پاس کرایا کہ اڈیٹر کو ایسے اشتہار شائع نہیں کرنے چاہئیں.مجھے اس سے بہت رنج ہوا کہ یہ ایک معمولی بات تھی.بدر میں اشتہار شائع ہوا تھا مجھے توجہ دلائی جاتی تو میں بدر ہی میں ایک نوٹ شائع کر دیتا کہ یہ غلطی ہے.اس کے واسطے مجلس میں معاملہ پیش کرانے اور ریز ولیوشن کرانے کی کیا ضرورت تھی.اپنی اس ناراضگی کا اظہار میں نے ایک علیحدگی کا موقع پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھی کیا.حضور نے فرمایا ” یہ لوگ ہمارے ماتحت ہیں آپ اس کا کچھ خیال نہ کریں.آپ کا کچھ نقصان نہیں.جھوٹی خبریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں مخالفین و معاندین سلسلہ جو جو شرارتیں کیا کرتے تھے اُن میں سے ایک شرارت یہ بھی تھی کہ وہ مشہور کر دیا کرتے تھے کہ ” مرزا کو طاعون ہو گیا ہے “ یا ” مرزا کو جذام ہو گیا ہے اور ایسے مخالفانہ پراپیگنڈا کرنے والے پبلک کو یقین دلانے کے واسطے ساتھ ہی یہ جُھوٹ بھی بنایا کرتے تھے کہ ”ہم خود قادیان گئے تھے اور اپنی آنکھ سے دیکھ آئے ہیں کہ مرزا نے جذام کی مرض کے سبب ہاتھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں اور قادیان آنے والوں کو راستہ میں ریل میں اور سڑک پر رو کا کرتے تھے کہ قادیان مت جاؤ ، وہاں کیا رکھا ہے.بعض کمزور آدمی اُن کے دھوکے میں آ جاتے اور واپس چلے جاتے.لیکن اکثر اپنے عزم پر قائم رہتے اور قادیان پہنچتے اور جب اُن پر مخالفین کا چُھوٹ گھلتا تو بہت تعجب کرتے کہ ایک انسان ایسا افترا بھی کر سکتا ہے اور ان واقعات کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں

Page 44

29 کیا کرتے اور حضور کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے کہ دشمنوں نے ان مقدس ہاتھوں کے متعلق کیا کیا بدخبرمیں اُڑائی ہیں جو سب جھوٹ نکلیں.اپنے مکان میں جگہ دی ایام طاعون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض دوستوں کو اپنے مکان کے اندر رہنے کے لئے جگہ دی تھی.چنانچہ عاجز راقم اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو حضوڑ کے مکان کے نیچے کے صحن اور کوٹھریوں میں جگہ دی گئی.غیر مسلم سے امداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے دوست لالہ بھیم سین وکیل تھے.جب حضرت صاحب ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو اُن سے ملنے کے واسطے اُن کے مکان پر بھی گئے تھے.عاجز بھی حضوڑ کے ساتھ گیا تھا.مقدمہ کرم دین کے وقت لالہ بھیم سین صاحب نے از راہ ہمدردی اور خیر خواہی حضرت صاحب کو لکھا کہ میرا بیٹا ولایت سے بیرسٹر ہو کر آیا ہے اور میری خواہش ہے کہ میں اُسے آپ کے مقدمہ کی پیروی کے واسطے بھیجوں.مگر حضوڑ نے شکریہ کے ساتھ انہیں ایسا کرنے سے روکا.ایک مجلس میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں ڈرتا ہوں کہ اِس بیرسٹر سے امداد لینا ہمارے لئے ایسا نہ ہو جائے جیسا کہ حضرت یوسٹ نے اپنے ساتھی قیدی سے اپنی رہائی کے واسطے امداد چاہی تھی تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی رہائی دو سال اور پیچھے پڑگئی عمارت کے کام میں مشورہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں حضور کے مکانات میں کچھ نہ کچھ وسعت کے سلسلہ میں تعمیر کا کام عموماً جاری رہتا تھا اور اس کا انتظام ہمیشہ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم کے سپر د رہتا تھا.ایک دفعہ حضرت میر صاحب ایک دروازہ چھوٹا سا ایک جگہ لگوانا چاہتے تھے.حضرت صاحب نے فرمایا یہاں بڑا دروازہ لگاؤ - میر صاحب نے عرض کی کہ قواعد عمارت کے مطابق تو یہاں چھوٹا دروازہ چاہیئے.حضرت صاحب نے فرمایا قواعد کو آپ رہنے دیں ، اور جو ہم کہتے ہیں ویسا بنوا دیں.چنانچہ بڑا دروازہ بنوایا گیا.تنازع سے بچاؤ حضرت نواب محمد علی خان صاحب جب قادیان ہجرت کر کے آ گئے تو انہوں نے ڈہاب

Page 45

30 کے اُس حصہ میں جو پُرانے پل کے جنوبی جانب ہے اور جہاں اب قاری محمد یسین صاحب اور مولوی قطب الدین صاحب اور میاں احمد نور افغان وغیرہ کے مکانات ہیں یہاں ایک مکان بنانا چاہا.لیکن اس تجویز شدہ مکان کا جو نقشہ اُنہوں نے بنایا اور بتیاں لگا ئیں تو معلوم ہوا کہ نواب صاحب نے کچھ حصہ اس زمین کا بھی اپنے نقشہ میں شامل کر لیا تھا جو اُس کھیت کے غربی جانب تھا جس کھیت کو بہت سی بھرتی ڈلوا کر حضرت اُم المومنین نے تیار کر وایا تھا.(اُس وقت نواب صاحب کی بیگم جو وہ مالیر کوٹلہ سے ساتھ لائے تھے ، زندہ تھیں) یہ بات حضرت اُم المومنین کی ناراضگی کا موجب ہوئی اور حضرت اُم المومنین نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے اِس ناراضگی کا اظہار کیا.حضور نے نواب صاحب کو لکھا.جس پر نواب صاحب نے اُس زمین پر مکان بنانے کے ارادہ کو ترک کیا کہ اس میں ابتداء ہی میں تنازع ہوا ہے یہ جگہ مبارک نہیں ہو سکتی اور بعد میں دوسرے اصحاب نے بھرتی ڈلوا کر وہاں مکانات بنوا لئے اور نواب صاحب نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے پاس زمین خرید کر کے کوٹھی بنوائی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تعلقات محبت کے بڑہانے میں اُنہیں بڑی برکات حاصل ہوئیں.بال سفید فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بال تمیں سال کی عمر میں سفید ہونے شروع ہوئے تھے اور پھر جلد جلد سب سفید ہو گئے.اُنہوں تُجھ دیدا ہے.حضرت مسیح موعود کے اندرون خانہ ایک نیم دیوانی سی عورت بطور خادمہ کے رہا کرتی تھی.ایک دفعہ اُس نے کیا حرکت کی کہ جس کمرے میں حضرت صاحب بیٹھ کر لکھنے پڑھنے کا کام کرتے تھے وہاں ایک کونے میں گھرا تھا جس کے پاس پانی کے گھڑے رکھتے تھے.وہاں اپنے کپڑے اُتار کر ینگی بیٹھ کر نہانے لگ گئی.حضرت صاحب اپنے کام تحریر میں مصروف رہے اور کچھ خیال نہ کیا کہ وہ کیا کرتی ہے.جب وہ نہا چکی تو ایک اور خادمہ اتفاقاً آ نکلی.اُس نے اس نیم دیوانی کو ملامت کی کہ حضرت صاحب کے کمرے میں اور موجودگی کے وقت تو نے یہ کیا حرکت کی تو اُس نے ہنس کر جواب دیا ، اُنہوں کچھ دیدا ہے.یعنی اُسے کیا دکھائی دیتا ہے.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت غض بصر کی جو وہ ہر وقت مشاہدہ کرتی تھی اس کا اثر اُس دیوانی عورت پر بھی ایسا تھا کہ وہ خیال کرتی تھی کہ حضور کو کچھ دکھائی نہیں دیتا.اس واسطے حضور سے کسی پر وہ کی ضرورت ہی نہیں.

Page 46

31 استعمال خطاب «تو» میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی نہیں سنا کہ آپ نے کبھی کسی کو تو ، کے لفظ سے مخاطب کیا ہو سوائے ایک دفعہ کے جبکہ ایک شخص جو مولوی ثناء اللہ کا وکیل ہو کر آپ کے سامنے آیا اور بہت گستاخی سے اور چالاکی سے جلدی جلدی باتیں کرتا تھا.حضور نے ایک دفعہ اُسے 66899 تو " کے لفظ سے مخاطب کیا تھا.غراره آخری ایام میں حضور ہمیشہ ایسے پاجامے پہنا کرتے تھے جو نیچے سے تنگ اُوپر سے گھلے گا ؤ دُم طرز کے اور شرعی کہلاتے ہیں.لیکن شروع میں ۹۵-۱۸۹۰ء میں میں نے حضور کو بعض دفعہ غرارہ پہنے ہوئے بھی دیکھا ہے.ما تم میں چیخنے چلانے سے منع فرمایا جب صاحبزادہ حضرت مبارک احمد کی وفات ہوئی اور نعش مبارک اُوپر کے صحن میں پڑی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت بیوی صاحبہ کو الگ دوسری چھت پر لے گئے تا کہ نعش کے پاس بیٹھ کر رونے چلانے کی تحریک نہ ہو اور دوسری عورتوں کو بھی چیخنے چلانے سے منع فرمایا.حضور کا دایاں ہاتھ حضور کی دائیں کلائی (ہاتھ اور کہنی کے درمیان کا حصہ ) کمزور تھی.فرمایا کرتے تھے کہ میں بچپن میں ایک دفعہ گر گیا تھا اور اس بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی.تب سے اس میں کمزوری ہے اور چیز پکڑ کر اوپر کو زیادہ نہیں اُٹھایا جا سکتا.اس واسطے چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے اُٹھا کر پیا کرتے تھے لیکن کھانا دائیں ہاتھ سے ہمیشہ کھایا کرتے تھے اور تحریر بھی دائیں ہاتھ سے کرتے تھے اور بظاہر کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ اس ہاتھ میں کچھ کمزوری ہے یا ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے.گالیوں کے اشتہارات کا بستہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں جو گندے اشتہارات گالیوں کے شائع ہوا کرتے تھے ، اُن کو حضوڑ ایک الگ بستے میں رکھتے رہتے تھے.چنانچہ ایسے اشتہاروں کا ایک بڑا بستہ بن گیا تھا جو ہمیشہ آپ کے کمرے میں کسی طاق میں یا صندوق میں محفوظ رہتا تھا.

Page 47

32 باب سوم بعض احوال واقوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جن کو عاجز کی بیعت کے بعد سے ترتیب تاریخی سال وار دی گئی ہے احتیاطی شروع زمانہ میں جبکہ احمدیوں کی تعداد بہت کم تھی ۱۸۹۳ ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے.ایک غریب احمدی کسی گاؤں کی مسجد میں بطور درویش کے رہا کرتا تھا اور کبھی کبھی قادیان آتا تھا.اُس نے عرض کی کہ جمعہ کے دن لوگ دورکعت نماز جمعہ پڑھتے ہیں اور اس کے علاوہ چار رکعت نماز ظہر بھی پڑھتے ہیں اس کا نام احتیاطی رکھتے ہیں.اِس کا کیا حکم ہے.فرمایا نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں.جو لوگ شبہ میں ہیں اُن کا جمعہ اور ظہر ہر دوشبہ میں گئے.نہ یہ ہوا ، نہ وہ ہوا.احتیاطی ایک فضول بات ہے.مگر تم غریب اور کمزور آدمی ہو تم اس نیت کی احتیاطی پڑھ لیا کرو کہ کوئی شخص ناحق ناراض ہو کر تمہیں مارنے نہ لگ جائے.ترجمه قرآن شریف ایک احمدی کسی قصبہ کی مسجد میں قرآن شریف کا ترجمہ پڑھایا کرتے تھے.اُنہوں نے عرض کی کہ حضور میں کونسا اُردو ترجمہ پڑھایا کروں.فرمایا جہاں مسیح ناصری کا ذکر ہے وہاں وفات کے معنی موت کے پڑہا دیا کرو.اس کا خیال خاص رکھو اور ترجمہ جیسا تمہاری سمجھ میں آتا ہے پڑھاتے رہو.

Page 48

33 ایک لفافہ میں پانچ سور و پیہ قریب ۱۸۹۳ء) ایک دفعہ حضرت صاحب نے اُن تین چار خُدّام کو جو اُس وقت قادیان میں حاضر تھے فرمایا تھا کہ ہم بہت دن بیمار رہے.اِن ایام میں خطوط جو ڈاک میں آئے ہیں ، پڑھنے کی فرصت نہیں ہوئی اور بہت سی ڈاک جمع ہو گئی ہے.آپ لوگ اس کو کھول کر پڑھ لیں اور جن کے جواب لکھنے ضروری ہوں مجھ سے پوچھ کر لکھ دیں.چنانچہ خُدام اِس کام میں مصروف ہو گئے.اسی کے درمیان ایک لفافہ جو کھولا گیا تو اُس میں سے مبلغ پانچ سو روپے کے نوٹ نکلے جو کسی خادم نے حضور کے لئے ایک سادہ لفافے میں ڈال کر بھیج دیے تھے.۱۸۹۴ د گوشامی عالم غالباً ۱۸۹۴ء کے قریب دو عرب شامی جو علوم عربیہ کے ماہر اور فاضل تھے.قادیان آئے اور ایک عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی خدمت میں رہ کر داخل بیعت ہوئے.ہر دو کا نام محمد سعید تھا اور طرابلس علاقہ شام کے رہنے والے تھے.اُن میں سے ایک صاحب شاعر بھی تھے.مالیر کوٹلہ میں ایک ہندوستانی لڑکی کے ساتھ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ان کی شادی کرادی تھی.انہوں نے کئی ایک مضامین عربی زبان میں حضرت صاحب کی تائید میں شائع کئے.بسبب خود شاعر ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کے اشعار کے اعلیٰ پیمانہ پر ہونے کے وہ بہت مداح تھے.وہ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کا یہ شعر ( متعلق مولوی محمد حسین بٹالوی) د عجبت لشيخ في البطالة مفسد أَضَلَّ كَثِيرًا بِالشُّرُورِ وَ بَعْدَا جب میں پڑھتا ہوں تو مجھے خواہش ہوتی ہے کاش کہ میرے سارے شعر حضرت صاحب کے ہوتے مگر یہ ایک شعر میرا ہوتا.یہ عرب صاحب اپنی بیوی کو ساتھ لے کر اپنے وطن چلے گئے تھے اور اس طرح سلسلہ حقہ احمدیہ کی تبلیغ کرتے رہے اور وہاں سے واپس آ کر اپنی بیوی کو مالیر کوٹلہ میں چھوڑ کر کشمیر کے راستہ سے رُوس کی سرحد میں داخل ہو گئے تھے.پھر پتہ نہیں لگا کہ ان کا کیا حال ہے.بعض سیاحوں سے جو خبر میں ملتی ہیں کہ روس کے بعض علاقوں میں احمدیت کے سلسلہ کی اشاعت ہو رہی ہے.ممکن ہے کہ یہ امرا نہی کی کوشش سے ہو دوسرے محمد سعید صاحب نے ایک رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں تصنیف کیا تھا اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر جو بصورت رسالہ چھپی تھی ساتھ لے کر اپنے

Page 49

34 وطن ملک شام کو سلسلہ حلقہ کی تبلیغ کے واسطے چلے گئے تھے.لیکن وہاں کے لوگوں نے اُن کے اشتہار تبلیغ پر ان کو سخت تکلیف پہنچائی اور رسالے جلا دیئے.کئی سالوں کے بعد وہ پھر ہندوستان آئے اور کچھ عرصہ رہ کر اور اپنے حالات سُنا کر واپس چلے گئے.رُخصت برائے نما ز جمعہ ۱۸ ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی تھی کہ سرکاری دفاتر کے مسلمانوں کو نماز جمعہ کے ادا کرنے کے واسطے جمعہ کے دن دو گھنٹہ کے لئے رخصت ہوا کرے.اس کے لئے حضرت صاحب نے ایک میموریل لکھا جس پر مسلمانوں کے دستخط ہونے شروع ہوئے.مگر مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ یہ کام تو اچھا ہے لیکن مرزا صاحب کو یہ کام نہیں کرنا چاہئیے ہم خود اس کام کو سرانجام دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بذریعہ اعلان مشتہر کر دیا کہ ہماری غرض نام سے نہیں بلکہ کام سے ہے.اگر مولوی صاحب اس کام کو سرانجام دیتے ہیں تو ہم اس کے متعلق اپنی کارروائی کو بند کر دیتے ہیں.چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی کارروائی بند کر دی.مگر افسوس ہے مولوی محمد حسین صاحب یا کسی دوسرے مسلمان عالم نے اس کے متعلق کچھ کا رروائی نہ کی اور یہ کام اسی طرح درمیان میں رہ گیا.انگریزی پڑھنے کا خیال.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خیال ہوا کہ آپ انگریزی زبان کو سیکھیں.انگریزی حروف کو آپ پہچانتے تھے.مزید تعلیم کے واسطے آپ نے یہ تجویز کی کہ انجیل متی کی عبارت انگریزی کو اُردو حروف میں لکھا جائے اور ہر ایک لفظ کے نیچے اس کے معنے دیئے جائیں.چنانچہ اس غرض کے واسطے انجیل متی کے دو چار باب کئی ایک انگریزی خوانوں میں تقسیم کئے گئے کہ وہ لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کریں.جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے مفصلہ ذیل احباب کے سپرد یہ کام ہوا.خواجہ جمال الدین صاحب مرحوم، انسپکٹر مدارس مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم ، حافظ محمد اسحاق صاحب انجینئر اور عاجز راقم.اس حکم کی تعمیل میں عاجز نے لاہور جا کر ایک موٹے حروف کی انگریزی انجیل خرید کی اور اس کے الفاظ کاٹ کر ایک کاپی پر چسپاں کئے اور ان کے نیچے خوشخط حروف میں ان کا تلفظ اور معنے لکھا.جب میں یہ دو باب لکھ کر حضرت صاحب کی خدمت میں قادیان لے آیا تو حضور نے اُسے بہت ہی پسند کیا اور فرمایا کہ بس

Page 50

35 اب اور کوئی شخص نہ لکھے.اسی طرح پر ساری انجیل مفتی صاحب لکھ کر مجھے دیں.اس انجیل کو کبھی کبھی رات کے وقت فرصت پا کر دیکھا کرتے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایک دن سیر میں فرمایا کہ میں نے خود انگریزی پڑھنے کے ارادہ کو ترک کر دیا ہے تا کہ یہ ثواب ہمارے انگریزی خوان دوستوں کے واسطے مخصوص رہے.عبرانی پڑھنے کا خیال ایسا ہی ایک دفعہ حضرت صاحب نے عبرانی زبان کے سیکھنے کا بھی ارادہ کیا اور حضوڑ کے فرمانے پر میں نے ایک عبرانی قاعدہ اُردو میں تالیف کر کے پیش نظر کیا جس کو حضرت صاحب گا ہے گا ہے فرصت کے وقت دیکھا کرتے تھے مگر بعد میں جلدی اس خیال کو بھی چھوڑ دیا.۱۸۹۶ حبس سے تپش بہتر غالباً ۹۷-۸۹۶ و بیسویں صدی عیسوی کے ابتدائی دس سالوں تک لاہور، امرتسر اور ہندوستان کے بعض دوسرے شہروں میں ایک دو گھوڑے والی بند گاڑی کرایہ پر چلا کرتی تھی جو اس وقت سیکنڈ کلاس کی گاڑی کہلاتی تھی اور اُس کے چاروں طرف سے بند ہو سکنے کے سبب عموماً پردہ دار عورتوں کی سواری کے واسطے اس کا استعمال کیا جاتا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ اُس میں سوار ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ لاہور میں حضرت ام المومنین کے ہمراہ آپ اُس میں سوار ہونے لگے تو ایک دوست نے پردے کے خیال سے اُس کی شیشے دار کھڑکیاں سب پہلے سے بند کر رکھی تھیں.جب حضوڑ اندر بیٹھ گئے اور دروازے سب بند ہونے سے اندر تاریکی اور گرمی ہو گئی تو حضور نے زور سے اُس کے دروازوں کو اندر سے لکڑی کے ساتھ مارا اور کھلوا دیا تا کہ روشنی اور ہوا کھلی رہے.اگر چہ گرمی کا موسم تھا اور ہوا بھی گرم تھی مگر فر مایا و کھسٹر نالو ہمسٹر چنگا یہ ایک پنجابی زبان کی ضرب المثل ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ تپش میں رہنا اس سے بہتر ہے کہ انسان جبس اور تنگی میں گرفتار ہو.حضرت کے عمامہ کا کپڑا غالباً ٨٩ ا ء یا ۱۸۹۷ء کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا اور میری والدہ مرحومہ بھی میرے ساتھ تھیں جو بھیرے سے حضرت صاحب کی بیعت کے لئے تشریف لائی تھیں اور اُسی سال انہوں نے حضرت صاحب کی بیعت کی تھی.جب ہم واپس ہونے لگے تو حضرت صاحب

Page 51

36 ہمارے یکہ پر سوار ہونے کی جگہ تک ساتھ تشریف لائے اور ہمارے لئے کھانا منگوایا کہ ہم ساتھ لے جائیں.وہ کھانا لنگر والوں نے کسی کپڑے میں باندھ کر نہ بھیجا تھا.تب حضرت صاحب نے اپنے عمامہ میں سے قریب ایک گز لمبا کپڑا پھاڑ کر اُس میں روٹی کو باندھ دیا.حضرت صاحب کا جوتا ایک دفعہ ایسا ہی میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا کہ مسجد میں سے میرا جوتا گم ہو گیا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو معلوم ہوا تو حضور نے اپنا پورا نہ جوتا مجھے پہننے کے واسطے بھیج دیا.حضرت کی جیب گھڑی ایک دفعہ میں نے اپنی ایک جیسی گھڑی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں بطور نذرانے کے پیش کی.اس کے پہنچنے پر حضور نے مجھ کو اندر بلایا اور فرمایا کہ ہمارے پاس دو گھڑیاں ہیں جو بیکار پڑی ہیں.یہ آپ لے جائیں اور وہ دونوں گھڑیاں مجھے عنایت فرمائیں.جن میں سے ایک میاں عبدالعزیز صاحب مغل پسر میاں چراغ دین صاحب مرحوم کو میں نے دی تھی.قادیان آنے میں دیر ایک دفعہ مجھے قادیان آئے ہوئے بہت دن گذر گئے.غالباً تین ماہ کا عرصہ ہو گیا.اُس وقت میں لاہور تھا اور مولوی شیر علی صاحب ان دنوں قادیان میں آئے ہوئے تھے.واپسی پر انہوں نے لاہور میں مجھ سے ذکر کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے تھے کہ مفتی صاحب کو قادیان آئے ہوئے بہت عرصہ گذرا ہے.عبد اللہ عرب ۹۷ - ۱۸۹۶ء میں ایک عرب صاحب عبداللہ نام قادیان تشریف لائے اور کچھ عرصہ یہاں رہنے کے سبب انہیں ایک خاص اُنس اور ایمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے قادیان ہی میں رہنے لگے اور حضرت مولوی نور الدین صاحب سے علم طب حاصل کیا اور بہت عرصہ یہاں رہنے کے بعد وہ اپنے وطن کو واپس چلے گئے اور بغداد میں جا کر ایک مطب کھولا.اس کے کچھ عرصہ بعد افواہا معلوم ہوا کہ عبد اللہ کو وہاں کی ترکی گورنمنٹ نے کسی معاملہ میں گرفتار کیا ہے اور اُس نے اپنا بیان یہ لکھوایا ہے کہ میں ٹر کی رعیت نہیں ہوں بلکہ ہندوستانی ہوں.پنجاب کے شہر قادیان میں میرا گھر ہے.وہاں میرا باپ نور الدین اور میرا بھائی محمد صادق رہتے ہیں اور وہاں میرا ایک باغ بھی ہے.میں نے مسجد مبارک میں ہنستے

Page 52

37 ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ عبداللہ نے بڑی غلطی کی جو ایسا ایسا بیان دیا اور یہ سارا واقعہ سُنایا.اس بات کو سُن کر میں نے دیکھا کہ حضور کا چہرہ غمناک سا ہوا اور آپ نے فرمایا.مفتی صاحب معلوم نہیں وہ بیچارہ کس مصیبت میں ہے اور وہاں کی حکومت اور پولیس وغیرہ اس کو کس تکلیف میں گرفتار کر رہی ہے.آپ کے ساتھ اس کی محبت ایسی ہی تھی جیسی بھائیوں سے ہوتی ہے اور مولوی صاحب بھی اس کی ایسی ہی پرورش کرتے تھے جیسے بیٹوں کی کی جاتی ہے.اور ہمارا باغ تو مریدوں ہی کا ہے اگر وہ اس طرح مصیبت سے بچ سکتا ہے تو ہم اس کو ہی دیدیں گے.اگر آپ سے کوئی پولیس والا دریافت کرنے آوے تو آپ اس کے بیان کی تردید نہ کریں.بلکہ تصدیق کر دیں.تا کہ وہ مصیبت سے بچ جائے.قبول دعوت لاہور میں ایک احمدی بھائی صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف ایک غریب ان پڑھ مخلص احمدی تھے.۱۸۹۷ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود چند اور خدام کے ساتھ ایک شہادت کے واسطے ملتان تشریف لے گئے تو راستہ میں لاہور میں ایک دور وز ٹھیرے.صوفی احمد دین صاحب نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ اُن کے گھر میں جا کر کھانا کھائیں اور محبت کے جوش میں جلدی سے یہ بھی کہہ دیا کہ میں بڑے اخلاص اور محبت کے ساتھ دعوت کرتا ہوں.اگر حضوڑ مجھے غریب جان کر نا منظور کریں گے تو مجھے خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا.حضرت نے تبسم فرمایا اور دعوت قبول کی اور ان کے مکان پر تشریف لے گئے جو ایک بہت غریبا نہ تنگ سا مکان تھا اور اُس کی دیواروں پر ہر طرف پا تھیاں تھی ہوئی تھیں.عر بی لکھنے کا امتحان نجف کے ایک فاضل عبد الحي نام اپنے رشتہ دار عبد اللہ عرب کی تلاش میں غالباً ۱۸۹۷ء میں پہلی دفعہ قادیان آئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے ساتھ مباحثات کرتے رہے.اُن کو یہ شبہ تھا کہ عربی کتا ہیں جو حضرت صاحب نے لکھی ہیں وہ حضرت صاحب کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی نہیں ہیں.چنانچہ ایک دفعہ اُنہوں نے مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے حضرت صاحب سے عرض کی نوٹ : - ایسی بات خاص حالتوں میں خاص اصحاب کو کہی جاسکتی ہے.ان باتوں سے کوئی عام قاعدہ یا قانون نہیں بنایا جا سکتا.

Page 53

38 کہ یہ قلم دوات اور کاغذ ہے.آپ میرے ساتھ عربی لکھیں.حضرت نے فرمایا کہ میں بغیر اذن الہی کے اس طرح لکھنا شروع کرنے کی جرات نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ کی ذات بے نیاز ہے میرا ہاتھ یہیں شل ہو جائے یا مجھے سب علم ہی بھول جائیں.اس کے چند روز بعد عرب صاحب ایک سوال عربی زبان میں لکھ کر مسجد میں لے کر گئے اور بعد نما ز حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا اور قلم دوات بھی جواب لکھنے کے واسطے حاضر کی.حضرت صاحب نے اسی وقت اس کا جواب نہایت فصیح اور بلیغ عربی میں تحریر کر دیا.ایسا ہی چند روز کے بعد عرب صاحب پھر ایک سوال لکھ کر لے گئے اور حضرت صاحب نے اس کا جواب بھی وہیں بیٹھے ہوئے نہایت فصاحت کے ساتھ مفضل لکھ دیا.تھوڑے تھوڑے دنوں کے وقفوں کے بعد اس طرح کے کئی ایک سوالات کے جوابات عربی زبان میں اپنے سامنے تحریر کرا کر عرب صاحب نے تشقی پائی کہ بے شک حضرت صاحب کو خدا تعالیٰ نے فصیح اور بلیغ عربی لکھنے کی طاقت عطا فرمائی ہے اور اس کے بعد بیعت کر کے وہ داخل سلسلہ حقہ ہوئے اور سلسلہ کی تائید میں کئی کتا بیں اور رسالے تصنیف کئے.اُن کی ایک قابل قدر تالیف لغات القرآن بھی ہے.تر کی سفیر حسین کا می غالباً ۱۸۹۷ء کا واقعہ ہے کہ لاہور میں تر کی سفیر جو کراچی میں ان دنوں متعین تھے اور جن کا نام حسین کا می تھا، سیر کے طور پر آئے.احمدی احباب تبلیغ کے شوق سے اُن کے پاس پہنچے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حالات ان کو سُنائے اور مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار ڈر شین اُن کی مجلس میں پڑھے جن کا اُن پر بہت اچھا اثر ہوا اور انہوں نے قادیان آنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہونے کی خواہش ظاہر کی.احباب لاہور نے اس خبر کو بطور اپنے کارناموں کے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کی خدمت میں عرض کیا.حضور نے ہماری اس کا رروائی کو کچھ اچھی نگاہ سے نہ دیکھا کیونکہ اس میں ہم ایک دنیا دار کو خوش کرنے اور اپنی طرف کھینچنے کے خواہشمند ہورہے تھے.لیکن چونکہ ہم سفیر کے ساتھ یہ طے کر چکے تھے کہ وہ قادیان آوے اِس واسطے حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا آنے دو.لاہور سے وہ امرتسر آیا اور امرتسر میں بھی ہم اس سے ملتے رہے اور امرتسر سے وہ قادیان آیا اور علیحدگی میں حضرت صاحب سے عرض کی کہ سلطان روم اور اس کی حکومت کے واسطے دُعا کریں.مگر حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں اپنے کشف میں ان لوگوں کی دینی اور اخلاقی حالت اچھی نہیں دیکھتا.جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کریں

Page 54

39 اُن لوگوں کے لئے دُعا کی توجہ نہیں ہو سکتی.اس پر وہ بہت بگڑا اور لاہور واپس جا کر ہمارے مخالفوں کے ساتھ مل کر مخالفت میں اشتہار شائع کیا.جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ تمام حالات شائع کر دئیے جو اس کے ساتھ دُعا کی درخواست کے وقت پیش آئے تھے.عام مسلمانوں میں اس وجہ سے بہت ناراضگی پھیلی اور اخبار چودھویں صدی میں ایک معزز مسلمان نے حضرت مسیح موعود کے حق میں گستاخی کی جس پر اس معزز شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا ملنے کی پیشگوئی شائع کی گئی.مگر چند ماہ کے بعد اس نے توبہ کی اور بیعت کی جس سے وہ عذاب اس پر سے ٹل گیا.اس کے بعد ٹر کی سے خبر آئی کہ وہی حسین کا می سفیر جو ہندوستان کے مسلمانوں سے حجاز ریلوے کے واسطے روپیہ لے گیا تھا خیانت کے جرم میں گرفتار ہو کر قید ہو گیا.اس طرح یہ واقعہ کئی ایک نشانوں کے ظاہر ہونے کا موجب ہوا.اخبار چودھویں صدی کے واسطے مضمون اسی حسین کامی اور چودھویں صدی کے بزرگ کے سلسلہ میں میں نے چودھویں صدی کے ایڈیٹر کو جو میرے ہموطن اور واقف تھے ، ایک دفعہ ایک لمبا مضمون لکھا کہ اخبار میں شائع کر دے اور اس کو سمجھایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت میں اپنی عاقبت کو خراب نہ کرے.میں نے اس مضمون کی نقل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھیجی.حضور نے اس کو بہت پسند فرمایا مگر فرمایا کہ یہ لوگ متعصب ہیں ایسے مضمون کو شائع نہیں کریں گے اس واسطے صبر کرنا چاہئیے.چودھویں صدی والے نے وہ مضمون تو شائع نہ کیا مگر اس کا ذکر کر دیا کہ ایسا ایک مضمون بھیجا ہے اور مجھے کچھ گالیاں سُنا دیں.اُس وقت ہمارا اپنا کوئی اخبار نہ تھا جو ہمارے مضامین شائع کر دے.حضرت صاحب مجھے پہچانتے ہیں ابتدائی ایام میں جب کہ احباب کی تعداد بہت کم تھی مخلصین میں سے ہر ایک کو یہ خواہش رہتی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُس کو اچھی طرح سے پہچانتے ہوں اور اس کے نام سے آگاہ ہوں.ان دنوں کا ذکر ہے کہ حضور کے ایک خادم حافظ حامد علی صاحب نے آن کر عرض کی کہ مجھے آٹا پسوانے کے واسطے کسی آدمی کو ساتھ لے جانا ضروری ہے، کس کو لے جاؤں.مولوی شیر علی صاحب اتفاق سے قریب کھڑے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی صاحب کا بازو پکڑ کر حافظ حامد علی صاحب کو کہا ” میاں شیر علی کو لے جاؤ.“ اس پر مولوی شیر علی صاحب بہت خوش ہوئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے پہچانتے ہیں اور میرے نام سے بھی واقف ہیں.ان دنوں قادیان -

Page 55

40 میں آٹا پینے کی کوئی مشین نہ ہوتی تھی اور عموماً نہر کے کنارے کسی پن چکی پر آٹا اکٹھا پسوا لیا جا تا تھا تا کہ لنگر خانہ کے کام آوے.سید غلام حسین صاحب میرے عزیز مکرم سید غلام حسین صاحب جو آج کل ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ میں سپر نٹنڈنٹ ہیں ، ۱۸۹۷ء کے قریب ویٹرنری سکول لاہور میں تعلیم پاتے تھے.ایک دفعہ سردیوں کے موسم میں غالباً سالانہ جلسہ کے موقع پر جبکہ ہم سب لاہور سے قادیان آئے ہوئے تھے ، رخصت کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے رخصت کے واسطے اندرونِ خانہ حاضر ہوئے.اُس دن حضرت صاحب کی طبیعت کچھ اچھی نہ تھی اور آپ نیچے کے ایک کمرے میں لحاف لیٹے ہوئے بسترے میں بیٹھے ہوئے تھے.ایک ایک آدمی مصافحہ کرتا تھا اور باہر چلا آتا تھا.سید غلام حسین صاحب نے مخلصانہ محبت میں مصافحہ کے وقت حضرت صاحب سے پوچھا.حضرت جی کیا آپ مجھ کو جانتے ہیں کہ میں کون ہوں.حضور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا ہاں میں جانتا ہوں آپ کا نام غلام حسین ہے اور آپ قاضی امیر حسین کے بھائی ہیں سید صاحب اس پر بہت خوش ہوئے اور فخریہ طور پر ہم سب سے اُنہوں نے ذکر کیا.مسٹر براؤن کی شہادت جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ساتھ مقدمہ چل رہا تھا اُن ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنے بعض اشتہارات میں یہ شائع کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس مقدمہ میں بھی کامیاب اور سرخرور کھے گا.ان تحریروں کو ہمارے انگریز وکیل مسٹر براؤن صاحب نے بھی پڑھا تھا.پس جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا تو یہ براؤن صاحب حضرت صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ آپ کو مبارک ہو کہ اس مقدمہ کے بارہ میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی.ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب گوڑیا نوی کی خدمات اسی مقدمہ کے ایام میں ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب مرحوم ساکن گوڑیانی نے ایک خاص خدمت سرانجام دی اور وہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب ایک استفتاء لے کر مختلف علماء کے پاس گئے.یہ استفتاء دراصل مولوی محمد حسین کے بارہ میں تھا کیونکہ مولوی محمد حسین نے گورنمنٹ کو خوش کرنے اور زمینیں حاصل کرنے کے لئے جو ایک رسالہ انگریزی میں شائع کیا تھا، اس میں مولوی محمد حسین

Page 56

41 صاجب نے صاف لکھ دیا تھا کہ مسلمانوں میں جو مہدی کے آنے کا عقیدہ ہے اس کے لئے کوئی صحیح سند نہیں ہے اور اسی طرح مہدی کے آنے کے عقیدہ کا انکار کیا تھا.ڈاکٹر صاحب موصوف یہ استفتاء غیر احمدی علماء کے پاس لے کر گئے.دہلی اور امرتسر کے جتنے بڑے بڑے علماء ہیں ان سب نے یہ سمجھ کر کہ یہ استفتاء مرزا صاحب کے متعلق ہے بڑی خوشی سے یہ فتویٰ لکھ دیا کہ مہدی کے آنے کے عقیدہ کا منکر کا فر ہے.جب یہ فتویٰ شائع ہوا اور مولوی محمد حسین صاحب کی تحریروں پر اس کو چسپاں کیا گیا اور مولوی محمد حسین ان علماء کے پاس جا کر رو یا پیٹا کہ مرزا کے مرید چالاکی کے ساتھ تم سے میرے خلاف فتویٰ لکھا لے گئے ہیں.تب اُن میں سے بعض وہابی علماء نے یہ شائع کیا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ڈاکٹر اسمعیل جو استفتاء لے کر آیا تھا ، مرزا صاحب کا مرید تھا اور ہم نے جو فتوے دیا تھا وہ مرزا صاحب کے خلاف دیا تھا مولوی محمد حسین صاحب کے خلاف نہیں دیا تھا.علمائے اہلحدیث کی اس حرکت پر لوگ بہت متعجب ہوئے.لیکن حنفی علماء نے شائع کیا کہ ہم لوگ اپنے فتوے اپر قائم ہیں خواہ وہ مولوی محمد حسین پر پڑے یا کسی دوسرے پر.۱۸۹۸ء عظیم الشان خوشخبری غالبا ۹۸ - ۱۸۹۷ء کا ذکر ہے.ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حضور کے اندر کے کمرے میں بیٹھا تھا کہ باہر سے ایک لڑکا پیغام لایا کہ قاضی آل محمد صاحب آئے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک نہایت ضروری پیغام لایا ہوں ، حضور خودسُن لیں.حضور نے مجھے بھیجا کہ اُن سے دریافت کرو کیا بات ہے.قاضی صاحب سیٹرھیوں میں کھڑے تھے.میں نے جا کر دریافت کیا.انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت مولوی محمد احسن صاحب نے بھیجا ہے.ایک نہایت ہی عظیم الشان خوشخبری ہے اور خود حضرت صاحب کو ہی سُنانی ہے.میں نے پھر جا کر عرض کیا کہ وہ ایک عظیم الشان خوشخبری لائے ہیں اور صرف حضور کو ہی سُنانا چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا آپ پھر جائیں اور انہیں سمجھا ئیں کہ اس وقت مجھے فرصت نہیں.وہ آپ کو ہی سُنا دیں اور آپ آ کر مجھے سُنا دیں.میں نے حکم کی تعمیل کی اور قاضی آلِ محمد صاحب کو سمجھایا کہ وہ خوشخبری مجھے سنا دیں میں حضرت صاحب کو سنا دیتا ہوں.تب قاضی صاحب نے ذکر کیا کہ ایک مولوی کا مباحثہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب کے ساتھ تھا اور اُس مولوی کو خوب پچھاڑا اور لتاڑا

Page 57

42 گیا اور شکست فاش دی گئی.میں نے آ کر یہ خبر حضرت صاحب کے حضور عرض کی.حضور نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا ”میں نے سمجھا کہ یہ خبر لائے ہیں کہ یورپ مسلمان ہو گیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ حضور کے نزدیک سب سے بڑی خوشخبری اس میں تھی کہ بلا دکفر میں اسلام پھیل جائے.ایک ناول میں عیسی قریباً ۱۸۹۸ء کا ذکر ہے.ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں خط لکھا کہ میں نے ایک کتاب پڑھی ہے جس میں کسی عیسی کا پہلے زمانہ میں مثبت میں جانا اور سیاحت کرنا لکھا ہے.میں نے وہ کتاب لے کر پڑھی تو معلوم ہوا کہ وہ صرف ایک ناول تھا جو زمانہ حال میں کسی انگریز نے لکھا تھا.میں نے اُس انگریز کو خط لکھا اور دریافت کیا کہ یہ عیسی کون ہے جس کا ذکر تم نے اپنے ناول میں کیا ہے اور کیا اس کی تہ میں کوئی حقیقت ہے یا محض ایک فرضی قصہ ہے.اس کا جواب آیا کہ جب میں نے یہ ناول لکھا تھا اُس وقت ممکن ہے کہ یہ کیریکٹر میں نے کسی تاریخی بناء پر لیا ہو، مگر اب مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ اس ناول کے خیالات میں نے کہاں کہاں سے جمع کئے تھے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے مناسب نہ سمجھا کہ اُس پر کچھ توجہ کی جائے.تحریر محمد افضل خان مرحوم اپریل ۱۸۹۸ء (۱) آج کا دن بھی ایک مبارک دن تھا کہ جو ہمیں مشکل سے بھولے گا.اس دن کی شام خصوصیت کے ساتھ بہت سی برکتوں سے بھری ہوئی تھی کہ جس نے ہمارے مکان کو بھی کچھ عرصہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت اور نور سے بھرے ہوئے دو چہروں سے روشن اور منور کر دیا تھا.جو شخص اس حال کو ایک ذرہ سی عمیق نظر سے بھی غور کرے گا تو امید ہے کہ اُس پر صادقوں کا صدق ضرور کھل جائے گا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ آج لاہور میں دن بھر بوند میں پڑتی رہیں کہ جس کی وجہ سے ہر ایک گلی کو چہ اور سڑک ایک دلدل بنا ہوا تھا اور عین مغرب کی نماز کے وقت جبکہ بندہ شہر سے اپنے سفر کے لئے ضروریات خرید کر کے لا رہا تھا مکان سے چند قدموں کے فاصلہ پر ہمارے رُوحانی بھائی مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی فضل الہی صاحب قصبہ مزنگ سے واپس ہوتے ہوئے ملے.ملاقات کے بعد معلوم ہوا کہ چونکہ بندہ کی تاریخ روانگی ۱۲ / فروری مشہور ہو چکی تھی اس لئے الوداعی ملاقات کے لئے یہ دونوں اصحاب عاجز کے مکان پر تشریف لائے تھے اور بہت سے انتظار کے بعد

Page 58

43 آخر مایوس ہو کر اب پھر واپس چلے تھے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے سچے مومنوں اور راستی کے قبول کرنے والوں اور صدق پر مثل پروانہ بر شمع کے گر کر جل مرنے والوں کی خاطر منظور ہوتی ہے اور ادنے سے ادنے تکلیف بھی وہ اپنے مخلص بندہ کی گوارہ نہیں کر سکتے.اس لئے یہ عاجز کہ جس کی ملاقات ان دو صاحبوں کی مطلوب چیز تھی ان کی ٹمٹاتی ہوئی امید دن کے وقت آ حاضر ہوا اور پھر ہم ہر سٹہ اشخاص مل کر مکان پر آئے.چونکہ مغرب کی نماز کا وقت تھا اور یوم المطر بھی تھا اس لئے سب سے اول وضو وغیرہ کر کے نماز مغرب و عشاء ادا کی گئی اور بعد ازاں سب نے مل کر ما حضر تناول کیا اور باوجود یکہ سخت اندھیری رات تھی اور پانی کی بوند میں گرنی بھی ابھی پورے طور سے بند نہ ہوئی تھیں کہ ان ہر دو بزرگوں نے رخصت طلب کی.اگر چہ میں نے اس اندھیری رات اور دلدل بھرے راستہ میں ان کا جانا گوارا نہ کیا مگر تا ہم بنی نوع انسان کی سچی خدمت گزاری اور ہمدردی اور محل شناسی اور موقع بینی کی جو روح ان کے دلوں میں پھونکی گئی تھی اس نے ان کو رات کو عاجز کے مکان پر قیام نہ کرنے دیا اور آخر یہ کہہ کر کہ چونکہ آپ کی آخری رات اپنے اہل وعیال میں ہے ہم اہالیان خانہ کو تکلیف دینا گوارا نہیں کرتے.وہ دونوں صاحب قریب ۹ بجے رات کے شہر لاہور کو روانہ ہوئے.بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی کی نظیر ان ہمارے دوستوں نے دکھائی جس کی اس زمانہ کو بہت ضرورت ہے اور خصوصاً اہل اسلام کو، کیونکہ اس سخت اندھیری رات اور پانی برسنے اور ناہموار زمین پر دلدل کی کثرت ان تمام تکلیفوں کو ہمارے دوستوں نے برداشت کیا.مگر ان کے سبب سے جو تکلیف تھوڑی یا بہت کہ دراصل جس کی مقدار ان کی تکالیف کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ تھی اہالیان خانه عالم مستورات کو پہنچ سکتی تھی ، اس کو ان کے رحم سے بھرے اور دوسرے کو آرام وامن دینے والے دل نے قبول نہ کیا.اللہ تعالیٰ ان کو اس ایثار کی جزائے خیر دے.آج مغرب اور عشاء کی نماز ہمارے بھائی محمد صادق صاحب نے پڑھائی اور جو دعائیں اُن میں آخری رکوع کے بعد انہوں نے اپنے مولی و کریم سے طلب کیں وہ مجھے بہت ہی پیاری لگیں اور ان کی اس اخلاص بھری نماز نے عاجز کے دل کو بہت سی آلودگیوں سے دھویا اور جس ادب اور تضرع کی آواز سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالی میں التجا کرنی چاہئیے وہ آداب بحق مجھے ان کی نماز سے زیادہ تر توضیح کے ساتھ معلوم ہوئے.دراصل یہ وہ لوگ ہیں کہ کوئی مہینہ ایسا نہیں چھوڑتے جس میں دو تین دفعہ اس نور کے چشمہ سے پانی نہ پی آویں جسے فارسی نسل کا ایک شخص آسمان سے زمین پر لا یا صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم وہ ہیں کہ اس چشمہ نور سے ہزاروں کوس دُور پڑے ہیں اور صرف اپنے

Page 59

44 ہادی اور دینی بھائیوں اور بہنوں کی دُعاؤں سے زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں.(۲) جہاں پر لگی محبت مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی فضل الہی صاحب موجود تھے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد مرزا ایوب بیگ و مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی آن پہنچے.اس وقت میں نے ان صاحبوں کے آگے اپنا وعدہ سفر کے حالات نویسی کا برادرم یعقوب علی صاحب ایڈیٹر الحکم کے ساتھ جو تھا اس کا ذکر کیا.جس کو سُن کر مفتی محمد صادق صاحب نے جہاں بہت خوشی کا اظہار کیا وہاں آب زر سے لکھنے کے قابل ایک امر معروف بھی بندہ کو کیا کہ جو ان حالات نویسی کی روح تھا.آپ نے فرمایا کہ ان تمام تحریروں میں اخلاص کا خیال ضروری ہے.کیونکہ انسان بہت سی تقریر میں کر سکتا ہے اور لکھ سکتا ہے مگر اس امر کی دُعا ضرور چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے قول و فعل کو ایک جیسا کر دے.اللہ تعالیٰ ہمارے محسن مفتی صاحب کو جزائے خیر دے اور ان کے ارادوں میں ان کو کامیاب کرے.گاڑی کے چلنے میں شاید ایک دو منٹ رہے ہوں گے کہ دوڑتے دوڑتے بھائی شیخ عبداللہ اور حکیم فضل الہی صاحب، بھائی معراج الدین صاحب اور شاید اور بھی کوئی صاحب ان کے ہمراہ ہوں گے مگر بندہ کو یاد نہیں آ پہنچے اور مصافحہ کر ہی رہے تھے کہ گاڑی روانہ ہوئی.اس اسٹیشن کی ملاقات پر ہمارے محسن بھائی مفتی محمد صادق صاحب نے ایک اور بھی ایسا کام کیا جو کہ دراصل قابلِ تقلید ہے.آپ نے اس حدیث کے موافق کہ مُسافر کی دُعا مقبول بارگاہ عالی ہوتی ہے میری نوٹ بک پر اپنی لاہور کی جماعت کے ممبروں کے نام جس قدر ان کو اس وقت یاد آ سکے اس غرض سے نوٹ کر دیئے کہ میں ان تمام اصحاب کے لئے سفر میں دُعا کرتا جاؤں اور اس طرح سے ایک غائبانہ مددان تمام اشخاص کی مفتی صاحب نے فرمائی کہ جن کے نام انہوں نے تحریر کر دیئے اور وہ نام یہ ہیں مرزا ایوب بیگ صاحب ، مرزا یعقوب بیگ صاحب، جماعت لاہور خلیفہ صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب، قاضی غلام حسین صاحب، منشی ظفر احمد صاحب.فی الواقع جس قدر حسنات کے بنوانے میں ہمارے یہ بھائی مفتی محمد صادق صاحب بڑھے ہوئے ہیں اس پر ہمیں بھی رشک آتا ہے اور ہم انہی سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے بھی دُعا فرمائیں کہ جس قد رسوز و گداز اور بنی نوع اور خصوصاً اپنی جماعت کی سچی ہمدردی ان کے قلب میں بھری گئی ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو بھی عنایت کرے.

Page 60

45 راقم کے دو خواب ۱۳ اگست ۱۸۹۸ء کے اخبار الحکم میں شائع ہوا تھا کہ کل گذشتہ سے منشی تاج الدین مع اہل بیت اور مفتی محمد صادق و منشی غلام حسین صاحب ڈنگوی ومیاں محمد حیات لاہور سے تشریف لائے ہوئے ہیں.صبح کی نماز کے بعد حضرت اقدس نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک داڑھ کا حصہ جو بوسیدہ ہو گئی ہے، اُس کو میں نے منہ سے نکالا اور وہ بہت صاف تھا اور اُسے ہاتھ میں رکھا، پھر فرمایا کہ خواب میں دانت اگر ہاتھ سے گرایا جائے تو وہ منذر ہوتا ہے ، ورنہ مبشر.زاں بعد محمد صادق نے اپنے دو خواب سنائے.جن میں سے ایک میں نور کے کپڑوں کا ملنا اور دوسرے میں حضرت اقدس کے دیئے ہوئے مضمون کا خوشخط نقل کرنا تھا.جس کی تعبیر حضرت اقدس نے کامیابی مقاصد فرمائی.ہنرش نیز بگو قریباً ۱۸۹۸ء کا ذکر ہے جب مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان ابتدائی حالت میں تھا اور غالباً ہنوز پرائمری تک جماعتیں تھیں.منجملہ مدرسین کے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور مفتی فضل الرحمن حکیم صاحب بھی تھے اور حضرت مولوی حکیم فضل دین صاحب مرحوم و مغفور مدرسہ کے مینجر تھے اور سکول کے انتظام کے واسطے ایک مختصر سی انجمن بنی ہوئی تھی جس کا ایک ممبر عاجز بھی تھا.عاجز اس وقت ابھی دفتر اکو نٹنٹ جنرل پنجاب لاہور میں کلرک تھا اور وہاں سے قادیان آتا رہتا تھا اور انجمن کے اجلاسوں میں شامل ہوتا رہتا تھا.ایک دفعہ بعض اراکین مدرسہ نے مجلس میں جبکہ عاجز بھی حاضر تھا ، شیخ یعقوب علی صاحب کی کچھ شکایت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور میں کی.حضور نے سُن کر فرمایا عیش ہمہ گفتی ہنرش نیز بگو.پھر حضور نے خود شیخ صاحب موصوف کی کوئی خوبی بیان کی کہ اُن میں وہ عیب ہے تو یہ خوبی بھی ہے.سفارش قبول حکیم مفتی فضل الرحمن صاحب جب مدرسہ تعلیم الاسلام میں مدرس تھے تو ایک دفعہ رخصت لے کر اپنے پرانے وطن بھیرہ تشریف لے گئے اور وہاں رخصت سے کچھ دن او پر لگا دیئے جس پر انجمن نے انہیں نوٹس دیا مگر نوٹس پر بھی وہ نہ آ سکے.تب انجمن نے انہیں موقوف کر دیا.جب وہ واپس آئے تو اُن کی ساس و پھوپھی ( زوجہ اول حضرت خلیفہ اول مولوی حکیم نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ جس کا نام فاطمہ بی بی تھا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس گئیں اور

Page 61

46 شکایت کی کہ انجمن نے میرے داماد کو ملازمت سے علیحدہ کر دیا ہے.حضرت نے اُسی وقت انجمن کے سیکرٹری کو حکم لکھ کر مفتی فضل الرحمن صاحب کو اُن کی ملازمت پر بحال کر دیا.مفتی فضل الرحمن صاحب عاجز راقم کے قریبی رشتہ دار ہیں.ان کے دادا اور میرے نانا سگے بھائی تھے اور اس کے علاوہ اور بھی کئی رشتہ داریاں آپس میں ہیں.وہ میرے قریباً ہم عمر ہیں اور ہم دونوں چھوٹی عمر میں اکٹھے ہی کھیلتے اور ایک ہی مدرسہ میں تعلیم پاتے تھے.مضامین لکھوانا ہنوز یہ عاجز لاہور میں ملازم تھا.غالباً ۱۸۹۸ء کا یہ واقعہ ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے خدام کو حکم دیا کہ ضرورت امام ومصلح کے عنوان پر سب لوگ الگ الگ مضمون لکھیں.یہ تمام مضامین برادرم مکرم منشی ظفر احمد صاحب ساکن کپورتھلہ نے جو اس وقت قادیان میں موجود تھے حضرت صاحب کو پڑھ کر سنائے.اس حکم کی تعمیل پر عاجز نے بھی مضمون لکھا تھا جس کے متعلق منشی ظفر احمد صاحب نے مجھ کو اطلاع کی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو بہت پسند کیا ہے.یہ تمام مضامین شیخ یعقوب علی صاحب ایڈیٹر اخبار الحکم کی تحویل میں رکھے گئے تھے.کتاب امہات المومنين جب ایک عیسائی (احمد شاہ نام) نے اسلام کے خلاف ایک کتاب بنام امہات المومنین شائع کی تو مسلمانوں میں اس کے متعلق شور پڑا اور انجمن حمایت اسلام لاہور نے گورنمنٹ پنجاب کی خدمت میں ایک میموریل پیش کرنا چاہا کہ اس کتاب کو ضبط کیا جائے اور اس کی اشاعت کو بند کیا جائے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تجویز کی مخالفت کی اور فرمایا کہ گورنمنٹ کو لکھنے سے کیا فائدہ ، اس کتاب کا جواب شائع کرنا چاہیئے.اس پر حمایت اسلام کے اراکین حضرت مسیح موعود علیہ السّلام پر بہت ناراض ہوئے اور حضور کی مخالفت میں اشتہار شائع کیا اور ہر طرح سے مخالفت کی.مگر انجمن کا میموریل گورنمنٹ نے نامنظور کیا اور انہیں بہت شرمندگی اُٹھانی پڑی.نصيين جلسه غالباً ۱۸۹۸ء میں حضرت صاحب نے ایک جلسہ چند ا حباب کو نصیبین بھیجنے کے واسطے کیا.اس میں مرزا خدا بخش صاحب اور میاں خیر الدین صاحب سیکھوانی کو اس غرض کے واسطے نصیبین بھیجنے کی تجویز کی گئی کہ وہاں پہنچ کر اس امر کے متعلق تحقیقات کریں کہ مسیح ناصری جو بعض اپنے خوش

Page 62

47 عقیدہ لوگوں کے کہنے پر نصیبین گئے تھے اس کے متعلق حالات دریافت کریں.مرزا خدا بخش صاحب کا نام حضرت صاحب نے خود تجویز کیا تھا اور میاں خیر الدین صاحب کا نام قرعہ اندازی کے ساتھ شامل وفد ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح اول نے اس جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے جب ان سفر کرنے والے احباب کی تکالیف سفر کا ذکر کیا جو ان کو پیش آسکتی تھیں تو آپ کے آنسو نکل آئے.اس ڈیپوٹیشن کی روانگی کے واسطے جلسہ ہو کر تیاری ہو گئی تھی مگر بعد میں اس کی روانگی میں التوا ہوتے ہوتے آخر یہ تجویز رہ گئی.جماعت لا ہور کو نصیحت ایک دفعہ جب کہ میں لاہور سے رخصت پر قادیان آیا ہوا تھا تو واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے جماعت لاہور کے واسطے مفصلہ ذیل پیغام دیا.فرمایا.لاہور کی جماعت کو ہماری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں اور ان کو سمجھا دیں کہ دن بہت ہی نازک ہیں.اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہئیے.اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہرل اور تمسخر سے مطلقا کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دُور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں واپس آ جاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس کے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گنا ہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اُس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے اور اپنے کھیت کو خوشنما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا اور ان کی حفاظت کرتا اور ہر ایک ضررا اور نقصان سے اُن کو بچاتا ہے.مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لا دیں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں اُن کی مالک پر واہ نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آ کر اُن کو کھا جاوے.یا کوئی لکڑ ہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے.سو ایسا ہی تم بھی یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھیرو گے تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالی سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو تو پھر

Page 63

48 اللہ تعالیٰ کوکسی کی پرواہ نہیں.ہزاروں بھیڑ اور بکریاں روز ذبح ہوتی ہیں پر ان پر کوئی رحم نہیں کرتا ، لیکن اگر ایک آدمی مارا جاوے تو بڑی باز پرس ہوتی ہے.سو اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکاراور لاپر واہ بناؤ گے تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہوگا.چاہیئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی و با کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اُٹھا دو کہ اب وہ وقت ہے کہ تم اد نے باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.لوگ تمہاری مخالفت کریں گے اور انجمن کے ممبر تم پر ناراض ہوں گے پر تم اُن کونرمی سے سمجھاؤ اور جوش کو ہرگز کام میں نہ لاؤ.یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یا درکھو کہ ہرگز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ اور انجمن کے ممبروں کے ذہن نشین کراؤ کہ ایسا میموریل فی الحقیقت دین کو نقصان دینے والا امر ہے اور اسی واسطے ہم نے اس کی مخالفت کی کہ دین کو صدمہ پہنچتا ہے.“ اس کے بعد میں نے اپنی جماعت لاہور کی کمزوری کا اعتراف کرتے ہوئے اس کے واسطے خاص دُعا کے لئے درخواست کی اور اس مضمون کو اخبار میں دے کر چھپوایا.ہر ایک کو جو اس کو پڑھے پاٹنے اُس کے آگے ہماری درخواست ہے کہ وہ ہمارے لئے خاص طور پر دُعا کرے کہ ہم پنجاب کے صدر مقام میں ہیں.جلسه انسداد طاعون جب ۱۸۹۸ء میں پنجاب میں طاعون پھیلا اور گورنمنٹ نے طاعون سے بچنے کے واسطے بعض ہدایات مثلاً کھلی ہوا میں رہنا ، ٹیکہ کرانا وغیرہ شائع کیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عید الضحی کی تقریب پر ۲ رمئی ۱۸۹۸ء بعد نماز عید ایک جلسہ کیا اور لوگوں کو اُن ہدایات پر عمل کرنے کی تاکید کی جو گورنمنٹ پنجاب نے شائع کی تھیں.یہ عید اور جلسہ اُس بڑ کے نیچے کیا گیا جو قادیان کے شرقی جانب پل کے پاس تکیہ حسیناں میں واقع ہے.اس جلسہ میں حاضرین کے ناموں کی فہرست تیار کرنے کا کام میرے سپرد ہوا تھا.قتل لیکھرام جس دن لیکھرام لاہور میں قتل کیا گیا ہے اُس دن میں لاہور میں تھا اور حضرت مولوی

Page 64

49 نورالدین صاحب بھی کسی تقریب پر لاہور تشریف لے گئے ہوئے تھے اور اُس رات اُن کا ایک وعظ مسجد گئی والی میں قرار پا چکا تھا.لیکن لیکھرام کے قتل کے واقعہ کے سبب خلیفہ رجب دین صاحب مرحوم اور بعض دیگر دوستوں کے مشورہ سے وعظ نہ کیا گیا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب جو اس وقت میڈیکل کالج میں تعلیم پاتے تھے ، اس رات ڈیوٹی پر تھے اور انہوں نے صبح آ کر ہمیں بتلایا کہ کس طرح لیکھر ام زخم کھانے کے بعد ہسپتال میں لایا گیا اور جب ڈاکٹر کے آنے میں دیر ہوئی تو وہ بار بار یہ کہتا تھا.( ہائے میری قسمت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں بوہڑا) کہ ہائے میری قسمت کوئی ڈاکٹر بھی نہیں آیا اور جب دوسرے کام کرنے والے مجھے ( ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو ) مخاطب کرتے اور مرزا صاحب کہ کر بلاتے تو لیکھرام چونک اٹھتا اور آنکھیں کھول دیتا اور پھر ہائے ہائے کرتا.اُس وقت وہاں ایک انگریز پولیس آفیسر بھی پہنچ گیا تھا اور اُس نے بیان لینے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ اُوپر سے انگریز ڈاکٹر آ گیا اور اس نے پولیس آفیسر کو روک دیا اور کہا کہ مجھے اپنا کام پہلے کرنے دو.چنانچہ وہ مرہم پٹی کر کے چلا گیا.مگر اس کے بعد لیکھرام کو ہوش نہیں آئی یہاں تک کہ وہ اُسی رات مر گیا.لیکھرام کے مرنے کی خبر سب سے پہلے چوہدری عبداللہ خان صاحب نے جو کہ اُن دنوں لاہور میں مقیم تھے دوسری صبح قادیان پہنچ کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی.چنانچہ اس کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی کسی عربی کتاب میں بھی کیا ہے کہ عبداللہ یہ خبر میرے پاس لایا.واضح ہو کہ عبداللہ خان صاحب رئیس ہر یا نہ ضلع ہوشیار پور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام کے نہایت مخلص خادم اور عاجز کے دوست تھے مگر قیام خلافت ثانیہ کے وقت جو بعض حساد کی وجہ سے افتراق ہوا اس کے سیلاب میں وہ بھی بہ گئے.اللہ تعالیٰ انہیں پھر ہدایت دے اور شعائر اللہ کی تعظیم کی توفیق بخشے.۱۸۹۹ احاطہ کچہری میں نماز ۱۸۹۹ء.غالباً ٹیکس کا مقدمہ تھا جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز ظہر گورداسپور کے احاطہ کچہری میں بعض لوگوں کی درخواست پر خود پیش امام ہو کر پڑھائی اور بہت سے لوگ دوڑ دوڑ کر اُس نماز میں شامل ہوئے.

Page 65

50 نماز جمع میں سنتیں معاف غالبا یہ واقعہ مارچ ۱۸۹۹ء کا ہے جبکہ میں لاہور سے چند روز کے واسطے قادیان آیا ہوا تھا.چونکہ میں اُس کمرے میں ٹھیرایا گیا تھا جو مسجد مبارک اور حضرت مسیح موعود کے کمرے کے درمیان ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نمازوں کے واسطے اُسی کمرے میں سے گذر کر آتے تھے اور اس کے علاوہ بھی کئی دفعہ دروازہ کھولتے اور مجھے کوئی شے کھانے کی دے جاتے ، مثلاً آم یا کوئی اور شے.عاجز کے حال پر حضور کی نہایت مہربانی اور شفقت تھی.انہیں ایام میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ آج نماز ظہر وعصر ہر دو جمع کر کے پڑھی جائیں گی.(عموماً ایسی جمع کے دن ظہر کی نماز اپنے وقت سے ذرا پیچھے اور عصر اپنے وقت سے قبل پڑھی جاتی تھی.یا عصر کو ظہر کے وقت ساتھ ملا لیا جا تا تھا یا ظہر میں دیر کر کے ہر دو نمازیں عصر کے وقت پڑھ لی جاتی تھیں) میں چار رکعت سنت پڑھنے کے واسطے اُسی کمرے میں کھڑا ہوا.جیسا کہ ظہر کی نماز کے چار رکعت فرض سے قبل سنتیں پڑھی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ہمیشہ اپنے کمرے میں ہی وضو کر کے اور پہلی سنتیں پڑھ کر مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے مگر پچھلی دو رکعت سنت عموماً مسجد ہی میں پڑھا کرتے تھے اور اس کے بعد تھوڑی دیر کے واسطے و ہیں مسجد میں خدام کی ملاقات اور بات چیت کے واسطے بیٹھ جایا کرتے تھے.غرض میں چار رکعت سُنت کی نیت کر کے ابھی کھڑا ہی ہوا تھا اور چند احباب اور بھی کمرے میں تھے کیونکہ مسجد مبارک میں کمی گنجائش کے سبب بعض احباب ساتھ کے کمروں میں نماز میں شامل ہو جاتے تھے.حضرت صاحب نے مسجد جانے کے واسطے دروازہ کھولا.جب میرے پاس سے گذرنے لگے اور مجھے سنتیں پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا نماز جمع ہوگی سنتوں کی ضرورت نہیں.یہ فرما کر آگے کو بڑھے اور پھر پیچھے پھر کر دیکھا کہ میں نماز میں مشغول تھا تو پھر فرمایا کہ نماز جمع ہوگی سنتیں پڑھنے کی ضرورت نہیں.یہ فرما کر مسجد کے اندر داخل ہو گئے اور میں نے کھڑے کھڑے سلام پھیر دیا اور سنتیں نہیں پڑہیں.جتنے آدمی کمرے میں موجود تھے اُن سب پر اس بات کا خاص اثر ہوا کہ حضرت صاحب نے نماز کے جمع ہونے کے وقت سنتوں کا پڑھا جانا پسند نہیں فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں تک میں نے دیکھا ہے سفر میں ہمیشہ نماز جمع کرتے تھے.ظہر کو عصر کے ساتھ ، یا ظہر کے ساتھ عصر کو جمع کرتے ، یا ہر دو کے درمیان کے وقت میں دونوں کو اکٹھا پڑھتے اور ایسا ہی مغرب اور عشاء کو جمع کرتے.جب کبھی حضرت صاحب کو تصنیف کا کام بہت ہوتا یا

Page 66

51 قادیان میں کسی جلسہ کے سبب آدمیوں کا بہت اثر دھام ہوتا تب بھی نمازیں جمع کی جاتیں.بعض دفعہ کئی کئی ماہ تک نمازیں جمع ہوتی رہیں ، یہاں تک کہ بعض دوستوں کا خیال ہو گیا کہ احمدی سلسلہ میں جمع نماز کا مسئلہ مستقل طور پر جاری رہے گا.ایسی جمع کے وقت فرمایا کرتے تھے کہ یہ وہ حدیث پوری ہو رہی ہے جس میں پہلے سے پیشگوئی ہے کہ مسیح موعود کی خاطر نمازیں جمع کی جائیں گی (تجمع له الصلوة ).میرا ( راقم الحروف کا خیال ہے کہ اس پیشگوئی میں یہ اشارہ ہے کہ مسیح موعودؓ کی جہادی ضروریات ایسی بڑھی ہوئی ہوں گی کہ نمازیں بھی جمع کرنی پڑیں گی.جیسا کہ حضرت خاتم النبین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ غزوہ خندق میں چار نمازوں کو جمع کر کے پڑھا کیونکہ خندق کے کھودنے کی مصروفیات اور جلدی کے سبب نمازوں کے پڑھنے کے تمام اوقات گذر گئے اور نمازیں مقررہ وقت پر پڑھی نہ جاسکیں.باہر مردوں میں نمازیں باجماعت ہونے کے علاوہ آخری سالوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بہت بڑے عرصہ تک اندر عورتوں میں خود پیش امام ہو کر مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک لمبے عرصہ تک جمع کراتے رہے.اپریل ۱۸۹۹ء میں نماز جمعہ کے بعد واپس گھر کو آتے ہوئے مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک شخص کو والدین کی عزت کرنے کے متعلق نصیحت کر رہے تھے.اس میں آپ نے فرمایا کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ سوائے دینی معاملات کی مخالفت کے باقی معاملات میں خواہ کتنا بھی نقصان ہوتا ہو انسان برداشت کرے اور والدین کے حکم کی نافرمانی نہ کرے.یہاں تک کہ والدین کہیں کہ تم کنوئیں میں گر جاؤ تو بھی اُن کی بات مان لینی چاہیئے..☆ - حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی پیدائش سے چند روز قبل میں اتفاقاً قادیان آیا ہوا تھا.ایک شب میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم ایک چھوٹے سے نوزائدہ بچہ کو اُٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے ہیں.حضرت صاحب کی خدمت میں میں نے یہ خواب عرض کیا تو حضور نے فرمایا کہ اس میں ہمارے ہاں لڑکا پیدا ہونے کی ایک بشارت ہے.چند روز کے بعد جب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب پیدا ہوئے تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب کو اطلاع کرو کہ اُن کی خواب پوری ہو گئی.یہ واقعہ جون ۱۸۹۹ ء کا ہے.ا اس سے مرادا شد تا کید فرمانبرداری ہے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ انسان خود کشی کر لے جو شرعاً حرام ہے.صادق

Page 67

52 طاعون سے بچنے کی تسبیح ایام طاعون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے کلمہ سبحان الله و بحمده سبحان الله العظيم ، بہت پڑھنے کی تاکید فرمائی تھی اور تمام احمدی مردوں اور بچوں کے منہ میں اُن ایام میں یہ کلمہ جاری رہتا تھا.انہی ایام میں اڈیٹر صاحب الحکم نے اس کلمہ پر ایک لطیف مضمون بھی لکھا تھا.اس کا اقتباس درج ذیل کیا جاتا ہے : سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ مندرجہ بالا دو باتیں میزان عمل میں بہت وزن رکھتی ہیں اور ان ہر دو کلمات کے اجزاء گویا ثابت شدہ صداقتیں ہیں اور ان پر کسی بحث کی ضرورت نہیں پڑتی.دُنیا کی ہر ایک چیز خواہ وہ زمین میں ہے یا اوپر آسمان میں اللہ تعالیٰ کی تنزیہیہ اور تحمید کر رہی ہیں.خود لفظ اللہ جواللہ تعالیٰ کا اسم اعظم اور ذاتی نام ہے تمام محامد کو اپنے اندر رکھتا ہے اور تمام نقائص سے اپنے تئیں ممبر اٹھہراتا ہے.کسی نے سچ کہا ہے کہ ہر گیا ہے کہ ازز میں روید وحدہ لا شریک لہ گوید ان جڑی بوٹیوں کو دیکھو جو خاک کی ڈھیری سے پیدا ہوتی ہیں بلکہ بعض اوقات بر از کی کھاد کے اندر سے نکلتی ہیں لیکن کیسی مصفا اور خوش رنگ ہوتی ہیں.جن کو دیکھ کر آنکھوں میں طراوت اور دل میں قوت آتی ہے.یہ کس کی تسبیح ہو رہی ہے؟ اُسی ذات پاک کی.انسان کے اندر غور کرو کیسا تنزیہ کا سلسلہ جاری ہے.خون الگ ہو رہا ہے.بول الگ ہو رہا ہے.براز کے لئے الگ راہ ہے.پسینہ الگ نکل جاتا ہے.پھر وہی خون کسی حصہ میں پہنچ کر انسان کی پرورش کا ذریعہ بنتا ہے اور ماں کی چھاتیوں میں سے مصفا دودھ کی نہروں پر مشتمل ہوتا ہے.لیکن کیا مجال کہ اس دودھ میں وہ خون کی سی حدت وسُرخی ہو جو بالطبع انسان کو نفرت دلاتی ہے.کسی حصہ میں پہنچ کر انسان کی اصل یعنی نطفہ ہوتا ہے جس سے عالی خیال، پر غور طبیعت کا انسان بن جاتا ہے.کیا یہ ہر چیز خدا کی تسبیح اور تنزیہ نہیں کرتی ؟ بے شک کرتی ہے اور ہر آن کرتی ہے.مویشیوں کو دیکھو کہ وہ گھاس پھوس کھاتے ہیں لیکن اُن کی اندرونی مشین اس گھاس سے گوبر الگ اور دودھ الگ نکال کے رکھ دیتی ہے.بتلاؤ تو سہی یہ تنزیہ الہی نہیں تو کیا ہے؟ پھر دودھ کو دیکھو کہ اس کا خلاصہ یا عطر کبھی بالائی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور کبھی مکھن بن کر جلوہ گر ہوتا ہے.غرض جدھر دیکھو اُدھر ہی سے سُبحان الله و بحمدہ کی آواز کان میں آئے گی مگر کان سننے والے ہوں.درختوں پر نظر کرو کیسے کیسے خوشنما پھل پھول کس ترتیب اور انداز سے نکلتے ہیں کہ انسان

Page 68

53 حیران رہ جاتا ہے.ایک پھول کی بناوٹ پر غور کریں تو بے اختیار سُبحان اللہ کہنا پڑتا ہے.المختصر سُبحان الله و بحمدہ کا مضمون جیسا ہم نے کہا ایک ثابت شدہ صداقت ہے.اس کا مفہوم اور مطلب کیا ہے، پس یہ کہ ہر عیب و نقص سے منزہ اور متبرا اور تعریف اور ستائیش کے قابل صرف ایک ہی ذات ہے جس کا نام اللہ ہے.پھر دوسرا جز و سبحان الله العظيم ہے کہ تمام عظمت وعزت اُسی کو شایاں ہے جو مندرجہ بالا صفات سے موصوف ہے.وہ خدا جو تمام خوبیاں اپنے اندر نہیں رکھ سکتا یا نہیں رکھتا وہ ناقص ہے اور تسبیح، تحمید اور تعظیم کے مراتب اُس کی شان کے لائق نہیں ہو سکتے.مثلاً اگر کوئی خدا ایسا ہو کہ وہ ایک ذرہ بھی دُنیا میں پیدا نہ کر سکے، یا کسی اپنے اعلیٰ درجہ کے ہمہ تن محو پر کمی اور بھگت کو بھی ہمیشہ کے لئے نجات کا وارث اور نور کا فرزند نہ بنا سکے تو وہ سُبحان الله و بـحـمـدہ کا مصداق کہاں ہوا.اس کے لئے وہ عظمت تامہ کا درجہ کہاں نصیب تو پھر بتلاؤ کہ کیا ایک آریہ یہ اعتقاد رکھ کر سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم خُدا کا قائل ہو سکتا ہے؟ کبھی نہیں.یا مثلاً بر ہمو کہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان پر اپنی مرضی اپنے کلام کے ذریعہ ظاہر نہیں فرمائی تو وہ کیونکر تی الہی کا مدعی ہو سکتا ہے؟ اور اپنے دل کو عظمت الہی کے تخت کے سامنے جھکا سکتا ہے.نادان عیسائی جبکہ مانتا ہے کہ خدا عادل ہے، پر اوروں کے بدلے اپنے اکلوتے بیٹے (معاذ اللہ ) کو پھانسی دلاتا ہے تو ایسے عدل اور رحم کا محتاج خدا کیا خُدا ہوسکتا ہے ہرگز نہیں.پھر رافضی جو خدا کو ایسا خدا مانتا ہے کہ وہ اپنے پاک اور مقدس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امداد سے قاصر رہا اور اس کے گردا گرد ( نقل کفر کفر نباشد ) منافقوں کا گروہ جمع رہا، کب سبحان ن الله و بحمده سبحان الله العظیم کا لطف اُٹھا سکتا ہے؟ ممکن نہیں.ہے.پس سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم کہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدوسیت کے سامنے سجدہ کرو.اُسے وحدہ لا شریک مانو - کسی کو خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو اس کی سی عظمت اور قدرت نہ دو.وہ خالق کل شے ہے.پھر کوئی دوسر اخلق اللہ کب خلق کر سکتا احیاء موتے خدا کے ہاں اس خدا کی جو سبحان الله و بحمده سبحان الله العظیم کا مصداق ہے، صفت ہے.پھر عاجز مسیح مُردے کیونکر زندہ کر سکتا ہے اور پھر اسی طرح جیسے خدا کرتا ہے.غرض خدا کی حکومت کا جوا گردن پر رکھو.اس کی عظمت کے ماتحت چلو راحت اسی میں ہے.اللہ تعالیٰ ہم کو اور ہمارے پڑھنے والے احباب کو توفیق دے کہ ہم سبحان اللہ و بحمدہ اور سبحان اللہ

Page 69

54 العظیم نہ صرف زبان سے کہتے ہوئے بلکہ رُوح کے ساتھ بولتے ہوئے اللہ کریم کے تخت جلال کے سامنے سجدے کریں اور اُس نبی کریم پر درود پڑھیں جس نے اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا مسئلہ پاک اور سچی صورت میں ہم کو سمجھایا.آمین گورنمنٹ اور ہم ۱۸۹۹ء میں ایک دفعہ عاجز راقم لاہور سے کسی رخصت کی تقریب پر قادیان آیا ہوا تھا کہ ایک معز ز سرکاری افسر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہوئے.اُس وقت حضرت صاحب نے جو تقریر کی وہ عاجز نے لکھ کر تر تیب دی تھی جو درج ذیل کی جاتی ہے.ایک معزز افسر جو کسی تقریب پر اگلے دن قادیان تشریف لائے حضرت اقدس امامنا مرزا غلام احمد صاحب رئیس قادیان نے بھی ان کی دعوت کی.جبکہ سب مہمان کھانے کے واسطے جمع ہوئے تو دسترخوان کے بچھائے جانے سے پہلے حضرت اقدس امام نے اس مہمان کو اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے جو گفتگو کی وہ ایسی مفید اور کارآمد باتوں پر مشتمل تھی کہ میں نے اکثر فقروں کو اپنی عادت کے موافق اسی وقت اپنی نوٹ بک میں جمع کیا اور بعد میں مجھے خیال آیا کہ دوسرے احباب کو بھی اس پُر لطف تقریر کے مضمون سے حظ اُٹھانے کا موقع دُوں تا کہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کے شکریہ میں کہ مجھے چند دن مسیح کے قدموں میں رہ کر ایمان میں ترقی کرنے کا موقع ملا ہے خلقت کی خدمت ہو جائے.لہذا ان فقرات کی مدد سے اور اپنی یادداشت کے ذریعہ میں نے مفصلہ ذیل عبارت ترتیب دی ہے : حضرت صاحب نے اُس معزز مہمان کو مخاطب کر کے فرمایا کہ جب کبھی آپ اس جگہ قادیان میں تشریف لاویں، بے تکلف ہمارے گھر میں تشریف لایا کریں.ہمارے ہاں مطلقاً تکلف نہیں ہے.ہمارا سب کا روبار دینی ہے اور دُنیا اور اُس کے تعلقات اور تکلفات سے ہم بالکل جُدا ہیں.گویا کہ ہم دنیا داری کے لحاظ سے مثل مُردہ کے ہیں.ہم محض دین کے ہیں اور ہما را سب کارخانہ دینی ہے جیسا کہ اسلام میں ہمیشہ بزرگوں اور اماموں کا ہوتا آیا ہے اور ہمارا کوئی نیا طریق نہیں، بلکہ لوگوں کے اُس اعتقادی طریق کو جو کہ ہر طرح سے ان کے لئے خطرناک ہے، دور کرنا اور ان کے دلوں سے نکالنا ہمارا اصل منشاء اور مقصود ہے.مثلاً بعض نادان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ غیر قوموں کے لوگوں کی چیزیں چُرا لینا جائز ہے اور کافروں کا مال ہمارے لئے حلال ہے اور پھر اپنی

Page 70

55 ان نفسانی خواہشوں کی خاطر اس کے مطابق حدیثیں بھی گھڑ رکھی ہیں.پھر وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسے دوبارہ دُنیا میں آنے والے ہیں اور ان کا کام لاٹھی مارنا اور خونریزیاں کرنا ہے، حالانکہ جبر سے کوئی دین دین نہیں ہو سکتا.غرض اس قسم کے خوفناک عقیدے اور غلط خیالات ان لوگوں کے دلوں میں پڑے ہوئے ہیں جن کو دور کرنے کے واسطے اور پُر امن عقاید ان کی جگہ قائم کرنے کے واسطے ہمارا سلسلہ ہے.جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے کہ مصلحوں کی اور اولیاء اللہ کی اور نیک باتیں سکھانے والوں کی دُنیا دار مخالفت کرتے ہیں ایسا ہی ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے اور مخالفوں نے غلط خبریں محض افترا اور جھوٹ کے ساتھ ہمارے برخلاف مشہور کیں.یہاں تک کہ ہم کو ضرر پہنچانے کے واسطے گورنمنٹ تک غلط رپورٹیں کیں کہ یہ مفسد آدمی ہیں اور بغاوت کے ارادے رکھتے ہیں اور ضرور تھا کہ یہ لوگ ایسا کرتے کیونکہ نادانوں نے اپنے خیر خواہوں یعنی انبیاء اور اُن کے وارثین کے ساتھ ہمیشہ اور ہر زمانہ میں ایسا ہی سلوک کیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے انسان میں ایک زیر کی رکھی ہے اور گورنمنٹ کے کارکن ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں.چنانچہ کپتان ڈگلس صاحب کی دانائی کی طرف خیال کرنا چاہئیے کہ جب مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے میری نسبت کہا کہ یہ بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اشتہار اس کے سامنے پڑھا گیا تو اس نے بڑی زیر کی سے پہچانا کہ یہ سب ان لوگوں کا افترا ہے اور ہمارے مخالف کی کسی بات پر توجہ نہ کی.کیونکہ اس میں شک نہیں کہ ازالہ اوہام وغیرہ کتب میں ہمارا لقب سلطان لکھا ہے.مگر یہ آسمانی سلطنت کی طرف اشارہ ہے اور دنیوی بادشاہوں سے ہمارا کچھ سروکار نہیں.ایسا ہی ہمارا نام حکم عام بھی ہے.جس کا ترجمہ اگر انگریزی میں کیا جائے تو گورنر جنرل ہوتا ہے اور شروع سے یہ سب باتیں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں موجود ہیں کہ آنے والے مسیح کے یہ نام ہیں.یہ سب ہمارے خطاب کتابوں میں موجود ہیں اور ساتھ ان کی تشریح بھی موجود ہے کہ یہ آسمانی سلطنتوں کی اصطلاحیں ہیں اور زمینی بادشاہوں سے اس کا تعلق نہیں ہے.اگر ہم شر کو چاہنے والے ہوتے تو ہم جہا د وغیرہ سے لوگوں کو کیوں روکتے اور درندگی سے ہم مخلوقات کو کیوں منع کرتے.غرض کپتان ڈگلس صاحب عقل سے ان باتوں کو پا گیا اور پورے پورے انصاف سے کام لیا اور دونوں فریق میں سے ذرہ بھی دوسرے فریق کی طرف نہیں جھکا اور ایسا نمونہ انصاف پروری اور دادرسی کا دکھلایا کہ ہم بدل خواہشمند ہیں کہ ہماری گورنمنٹ کے تمام معزز حکام ہمیشہ اسی اعلیٰ درجہ کے نمونہ انصاف کو دکھلاتے رہیں جو نو شیروانی انصاف کو بھی اپنے کامل انصاف کی وجہ سے ادنیٰ درجہ کا ٹھیرا تا ہے اور یہ کس طرح سے ہو سکتا ہے کہ کوئی اس گورنمنٹ کے پُر امن زمانہ کو بُرا خیال کرے اور اس کے

Page 71

56 بر خلاف منصو بہ بازی کی طرف اپنا ذہن لے جاوے.حالانکہ یہ ہمارے دیکھنے کی باتیں ہیں کہ سکھوں کے زمانہ میں مسلمانوں کو کس قدر تکلیف ہوتی تھی ، صرف ایک گائے کے اتفاقاً ذبح کئے جانے پر سکھوں نے چھ سات ہزار آدمیوں کو تہ تیغ کر دیا تھا اور نیکی کی راہ اس طرح پر مسدود تھی کہ ایک شخص مسمی کتنے شاہ اس آرزو میں ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر دُعائیں مانگتا تھا کہ ایک دفعہ صحیح بخاری کی زیارت ہو جائے اور دُعا کرتا کرتا رو پڑتا تھا اور زمانہ کے حالات کی وجہ سے نا امید ہو جاتا تھا.آج گورنمنٹ کے قدم کی برکت سے وہی صحیح بخاری چار پانچ روپے میں مل جاتی ہے اور اُس زمانہ میں لوگ اس قدر دُور جا پڑے تھے کہ ایک مسلمان نے جس کا نام خدا بخش تھا ، اپنا نام خدا سنگھ رکھ لیا تھا.بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو نہ ہمارا مکہ میں گذارا ہو سکتا ہے نہ قسطنطنیہ میں تو پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں.اگر ہماری قوم کو خیال ہے کہ ہم گورنمنٹ کے برخلاف ہیں یا ہمارا مذہب غلط ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ مجلس قائم کریں اور اس میں ہماری باتوں کو ٹھنڈے دل سے سنیں.تا کہ ان کی تسلی ہو اور ان کی غلط فہمیاں دور ہوں.جھوٹے کے منہ سے بدبو آتی ہے اور فراست والا اس کو پہچان جاتا ہے.صادق کے کام سادگی اور یک رنگی سے ہوتے ہیں اور زمانہ کے حالات اس کے مؤید ہوتے ہیں.آج کل دیکھنا چاہیے کہ لوگ کس طرح عقائد حقہ سے پھر گئے ہیں.بیس کروڑ کتا ہیں اسلام کے برخلاف شائع ہوئی ہیں اور کئی لاکھ آدمی عیسائی ہو گئے ہیں.ہر ایک بات کے لئے ایک حد ہوتی ہے.اور خشک سالی کے بعد جنگل کے حیوان بھی بارش کی اُمید میں آسمان کی طرف منہ اُٹھاتے ہیں.آج تیرہ سو برس کی دھوپ اور امساک باراں کے بعد آسمان سے بارش اُتری ہے.اب اس کو کوئی روک نہیں سکتا.برسات کا جب وقت آ گیا ہے تو کون ہے جو اس کو بند کرے.یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں کے دل حق سے بہت ہی دور جا پڑے ہیں ، ایسا کہ خود خدا پر بھی شک ہو گیا ہے.حالانکہ تمام اعمال کی طرف حرکت صرف ایمان سے ہوتی ہے.مثلاً سم الفار کو اگر کوئی شخص طبا شیر سمجھ لے تو بلاخوف وخطر ماشوں تک کھا جاوے گا.اگر یقین رکھتا ہو کہ یہ زہر قاتل ہے تو ہرگز اس کو منہ کے قریب بھی نہ لائے گا.حقیقی نیکی کے واسطے یہ ضروری ہے کہ خدا کے وجود پر ایمان ہو.کیونکہ مجازی حکام کو یہ معلوم نہیں کہ کوئی گھر کے اندر کیا کرتا ہے اور پس پردہ کسی کا کیا فعل ہے اور اگر چہ کوئی زبان سے نیکی کا اقرار کرے مگر اپنے دل کے اندر وہ جو کچھ رکھتا ہے اس کے لئے اُس کو ہمارے مواخذہ کا خوف نہیں اور دُنیا کی حکومتوں میں سے کوئی ایسی نہیں جس کا خوف انسان کو رات

Page 72

57 میں اور دن میں ، اندھیرے میں اور اجالے میں، خلوت میں اور جلوت میں ، ویرانے میں اور آبادی میں ، گھر میں اور بازار میں ، ہر حالت میں یکساں ہو.پس درستی اخلاق کے واسطے ایسی ہستی پر ایمان کا لانا ضروری ہے جو ہر حال اور ہر وقت میں اس کا نگران اور اس کے اعمال اور افعال اور اُس کے سینے کے بھیدوں کا شاہد ہے.کیونکہ دراصل نیک وہی ہے جس کا دل اور باہر ایک ہے.وہ زمین پر فرشتہ کی طرح چلتا ہے.دہر یہ ایسی گورنمنٹ کے نیچے نہیں کہ وہ حسن اخلاق کو پا سکے.تمام نتائج ایمان سے پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ سانپ کے سوراخ کو پہچان کر کوئی انگلی اس میں نہیں ڈالتا.جب ہم جانتے ہیں کہ ایک مقدارا اسٹرکنیا کی قاتل ہے، تو ہمارا اس کے قاتل ہونے پر ایمان ہے اور اُس ایمان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم اس کو منہ نہیں لگائیں گے اور مرنے سے بچ جائیں گے اور تقدیر یعنی دنیا کے اندر تمام اشیاء کا ایک انداز اور قانون کے ساتھ چلنا اور ٹھیرنا اس بات پر دلالت ہے کہ اس کا کوئی مقد ریعنی اندازہ باندھنے والا ضرور ہے.گھڑی کو اگر کسی نے بالا رادہ نہیں بنایا تو وہ کیوں اس قد را یک با قاعدہ نظام کے ساتھ اپنی حرکت کو قائم رکھ کر ہمارے واسطے فائدہ مند ہوتی ہے.ایسا ہی آسمان کی گھڑی کہ اس کی ترتیب اور باقاعدہ اور با ضابطہ انتظام یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالا رادہ خاص مقصد اور مطلب اور فائدہ کے واسطے بنائی گئی ہے.اس طرح انسان مصنوع سے صانع کو اور تقدیر سے مقد رکو پہچان سکتا ہے.لیکن اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت کا ایک اور ذریعہ قائم کیا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ قبل از وقت اپنے برگزیدوں کو کسی تقدیر سے اطلاع دے دیتا ہے اور ان کو بتلا دیتا ہے کہ فلاں وقت اور فلاں دن میں نے فلاں امر کو مقد رکر دیا ہے.چنانچہ وہ شخص جس کو خدا نے اس کام کے واسطے چُنا ہوا ہوتا ہے پہلے سے لوگوں کو اطلاع دے دیتا ہے کہ ایسا ہوگا اور پھر وہ ایسا ہی ہو جاتا ہے.جیسا کہ اُس نے کہا تھا.اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے واسطے یہ ایسی دلیل ہے کہ ہر ایک دہر یہ اس موقع پر شرمندہ اور لاجواب ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہزاروں ایسے نشانات عطا کئے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی پر لذیذ ایمان پیدا ہوتا ہے.ہماری جماعت کے اس قدر لوگ اس جگہ موجود ہیں.کون ہے جس نے کم از کم دو چار نشان نہیں دیکھے اور اگر آپ چاہیں تو کئی سو آدمی کو باہر سے بلوائیں اور اُن سے پوچھیں.اس قدر احبار اور اخیار اور متقی اور صالح لوگ جو کہ ہر طرح سے عقل اور فراست رکھتے ہیں اور دُنیوی طور پر اپنے معقول روز گاروں پر قائم ہیں کیا ان کو تسلی نہیں ہوئی.کیا اُنہوں نے ایسی باتیں نہیں دیکھیں جن پر انسان کبھی قادر نہیں ہے.اگر اُن سے سوال کیا جائے تو ہر ایک اپنے آپ کو اوّل درجہ کا گواہ قرار دے گا.کیا ممکن ہے کہ ایسے ہر طبقہ کے انسان جن میں عاقل اور فاضل اور طبیب اور ڈاکٹر اور سوداگر اور مشائخ اور

Page 73

58 سجادہ نشین اور وکیل اور معزز عہدہ دار ہیں بغیر پوری تسلی پانے کے یہ اقرار کر سکتے ہیں کہ ہم نے اس قدر آسمانی نشان بچشم خود دیکھے اور جبکہ وہ لوگ واقعی طور پر ایسا اقرار کرتے ہیں.جس کی تصدیق کے لئے ہر وقت شخص مکذب کو اختیار ہے تو پھر سوچنا چاہئیے کہ ان مجموعہ اقرارات کا طالب حق کے لئے اگر وہ فی الحقیقت طالب حق ہے کیا نتیجہ ہونا چاہئے.کم از کم ایک ناواقف اتنا تو ضرور سوچ سکتا ہے کہ اگر اس گروہ میں جولوگ ہر طرح سے تعلیم یافتہ اور دانا اور فرسودہ روزگار اور بفضل الہی مالی حالتوں میں دوسروں کے محتاج نہیں ہیں.اگر اُنہوں نے پورے طور پر میرے دعوے پر یقین حاصل نہیں کیا اور پوری تسلی نہیں ہوئی تو کیوں وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر اور عزیزوں سے علیحدہ ہو کر غربت اور مسافری میں اس جگہ میرے پاس بسر کرتے ہیں اور اپنی اپنی مقدرت کے موافق مالی امداد میں میرے سلسلہ کے لئے فدا اور دلدادہ ہیں.ہر ایک بات کا وقت ہے.بہار کا بھی وقت ہے اور برسات کا بھی وقت ہے اور کوئی نہیں جو خدا کے ارادے ٹال دے.ایک ہی راہ ۲۳ اکتوبر ۱۸۹۹ء کے اخبار الحکم میں میرے ایک خط کا اقتباس درج ہے جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں لکھا تھا.اس کی نقل درج ذیل ہے.آج چودھویں صدی کے سر پر اللہ تعالیٰ کا رسول اس کی طرف سے خلقت کے لئے رحمت اور برکت ہے.خُدا کی رحمت وسیع ہے اور اس کے ہاں بخل نہیں اور نہ اس کا * جو ہمارے درمیان موجود ہے، بخیل ہے، پر کسی کے اپنے ہی عمل خراب ہوں تو وہ اپنے آپ کے سوا اور کسی پر ناراض نہ ہو.میرے آقا میں جانتا ہوں کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا اور کوئی اللہ (معبود، محبوب، مطلوب ، مطاع ) نہیں.اس کو راضی کرنے کا دروازہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اس کے سوا کوئی راہ نہیں.جو خدا تک لے جاوے.اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے واسطے آج کل سوائے آپ کے کوئی ذریعہ نہیں ہے.ہاں جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کو نہ مانے گا ، وہ جہنم میں اوندھا گرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس کے سوا اور کوئی اللہ نہیں.* یہاں ایک لفظ چھپنے سے رہ گیا ہے.غالبا رسُول کا لفظ تھا.(صادق)

Page 74

59 اپنے آپ کو منوانے کی ضرورت ۱۸۹۹ء.جب مولوی محمد علی صاحب قادیان میں تھے اور عاجز راقم ہنوز لاہور دفتر اکو نٹنٹ جنرل میں ملازم تھا.ان ایام میں مولوی محمد علی صاحب نے مجھے قادیان سے ایک خط لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کچھ کلام درج کیا.اُس خط کا ایک حصہ مضمون اس عنوان پر ہے.اس واسطے درج ذیل کیا جاتا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم برا در صادق - اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مولوی صاحب تو چند روز کے لئے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور پیر سراج الحق صاحب خط و کتابت کا کام کرتے ہیں.لیکن میرے جی میں آیا کہ حضرت اقدس کی ایک دو باتیں جن سے میرے دل کو خوشی اور میری رُوح کو تازہ ایمان نصیب ہوا، مفتی صاحب کو سُنا دوں.شاید اگر ان کو بھی خوشی ہو تو فتویٰ دے دیں کہ یہ شخص دعا کے لائق ہے اس لئے دعا کی جائے.پرسوں شام کے وقت ایک صاحب بٹالہ سے آئے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ آج کل لوگ حضور پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ سب کچھ جو کر رہے ہیں ، اپنے لئے کر رہے ہیں.یعنی کتابوں میں اپنے ہی دعوی کا ذکر ہے اور اسی کی تائید ہوتی ہے.اسلام کے لئے کچھ نہیں کرتے.اس پر حضرت اقدس نے ایک بڑی لمبی تقریر جو طرح طرح کے معارف سے پر تھی فرمائی.ایسے حافظے پر افسوس آتا ہے کہ سوائے ایک دو باتوں کے کچھ یاد نہ رہا.فرمایا یہ اعتراض تو صرف ہم پر نہیں آتا سارے سلسلہ نبوت پر آتا ہے.ہر نبی جو آیا پہلے اپنے آپ کو ہی منواتا رہا.سب نے یہی کہا کہ اطِیعُون.میری پیروی کرو تو کیا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے.کہ وہ تمام نبی بھی اپنے لئے یہ سب مصیبتیں اُٹھاتے تھے بلکہ یہ کم نہی ہے.دیکھنا چاہئیے کہ اس اپنے آپ کو منوانے میں ان کا مقصد اور مدعا کیا تھا.سوائے اس کے کچھ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف بلائیں.اسی طرح پر ہم جو اپنی تائید میں باتیں پیش کرتے ہیں تو اس سے کیا ہمارا یہ مدعا ہوتا ہے کہ اپنی پرستش کرائیں یا کوئی اپنا قبلہ قائم کریں یا اپنی نماز پڑھوائیں یا ہماری ساری کارروائیوں کا آخری مدعا اسلام کی طرف بلانا ہوتا ہے.کیا ہم اپنی ذات کے لئے کچھ کر رہے ہیں یا جو کچھ ہم کرتے ہیں اسلام کے لئے کرتے ہیں جو نشان ہم دکھلانے کا دعویٰ کرتے ہیں اس سے بھی مدعا اسلام کی ہی تائید ہوتی ہے.لیکن اگر اس ہمارے اپنے دعوے کی آپ تائید کرنے

Page 75

60 کو وہ ہماری خود پسندی خیال کرتے ہیں اور قابلِ اعتراض ٹھیراتے ہیں تو پہلے سورج اور چاند پر بھی وہی اعتراض کرنا چاہئیے.خدا تعالیٰ نے یہی چاہا ہے کہ روشنی زمین پر ان کے ذریعہ پہنچائی جائے تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو خود نمائی کرتے ہیں اور اپنا فخر دکھاتے ہیں کہ ہم میں یہ روشنی ہے.اس لئے آؤ کوٹھڑی کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھ جائیں تا خدا تعالیٰ روشنی ہمیں سید ھے طور پر پہنچائے ، نہ ایسی اشیاء کی وساطت سے جو خود اپنی بڑائی کو بھی ظاہر کرتے ہیں.یہ کس قد رحماقت ہے کہ جن ذریعوں سے خدا تعالیٰ نے روشنی کو پہنچانا پسند کیا ہے ان کو داخل شرک خیال کیا جائے.اسی طرح سے خدا تعالے کی سنت یہی ہے کہ جب وہ اپنی خلقت کو بلانا چاہتا ہے تو اپنے ہی ایک بندے کے ذریعہ سے کرتا ہے اور پھر جو کچھ وہ بندہ کرتا ہے اس میں ہو کر کرتا ہے اور اس کا ہر فعل خدا تعالیٰ کے لئے ہوتا ہے وَمَا يَنْطِقُ عِنْ الْهَوَى إِنْ هُوَ الَّا وَحْيٌ يُوحَى وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمی.برہموں نے بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ لا الہ الا اللہ تو ہوا مگر یہ ساتھ محمد رسول اللہ کیا لگا دیا ہے.فرمایا ہم خود کیا ہیں ہم زمین پر حجتہ اللہ ہیں.ہم خدا تعالیٰ کے مجسم نشان ہیں.مگر کس کام کے لئے صرف اسلام کے لئے اور پیغمبر اسلام کی خدمت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے نیچے دین کی تائید کے لئے.ہماری سب کا رروائیاں اسلام کی خاطر ہیں نہ اپنی ذات کے لئے.پھر فرمایا کہ اس کے علاوہ ان لوگوں کو یہ بھی دیکھنا چاہئیے کہ ہم دن رات جو دوسرے ادیان کی بطلان کی فکر میں ہیں تو اس کا کیا مطلب ہے.کیا ہم نصیبین یا کشمیر آدمی اسی لئے بھیجتے ہیں کہ ہماری بڑائی ہو، یا دینِ اسلام کی حقانیت روشن ہو.مقد مہ گوڑگانواں ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسّلام نے عیسائیوں کو چیلنج کرتے ہوئے ایک ہزار روپیہ انعام کا ایک اشتہار دیا تھا.اس کے مقابل میں کوئی عیسائی تو نہ آیا لیکن ایک مسلمان نے جس کا نام اصغر حسین تھا گوڑ گانواں میں لالہ جوتی پر شاد مجسٹریٹ کی عدالت میں نالش کی کہ میں مرزا صاحب کے اس چیلنج کو قبول کرتا ہوں کیونکہ میں بھی حضرت عیسی کو مانتا ہوں ، اس واسطے میں بھی عیسائی ہی ہوں اور مجھے مرزا غلام احمد قادیانی سے ان کا مشتہرہ ایک ہزار روپیہ دلایا جائے.اس مقدمہ کا سمن جب قادیان پہنچا تو یہاں سے مرزا افضل بیگ صاحب مرحوم مختار اور مولوی محمد علی صاحب کو اس مقدمہ کی پیروی کے واسطے بھیجا گیا اور غالبا حکیم فضل دین صاحب مرحوم بھی ان کے

Page 76

61 ساتھ بھیجے گئے تھے.مجسٹریٹ نے معمولی کارروائی کے ساتھ اصغر حسین کے دعوی کو خارج کر دیا اور زبانی کہا کہ دراصل یہ مقدمہ تو سماعت کے قابل نہ تھا مگر ہم نے اس خیال سے رکھ لیا تھا کہ اس بہانہ سے حضرت مرزا صاحب کی زیارت ہو جائے گی مگر وہ تو تشریف نہیں لائے.اس واسطے ہم اس کو یہاں ہی بند کر تے ہیں.جب یہ من آیا تو اتفاق سے میں حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھا اور بھی بہت سے لوگ گول کمرہ میں جمع تھے.میں نے ہی حضرت صاحب کی خدمت میں پڑھ کر سنایا.مجسٹریٹ کے نام کو میں نے جیم کی پیش کے ساتھ جوتی پر شاد کر کے پڑھا.کیونکہ یہ نام پنجاب میں نہیں ہوتا اور میرے لئے ایک نیا لفظ تھا.اس پر تمام حاضرین بے اختیار ہنس پڑے اور کسی صاحب نے بتلایا کہ صحیح نام اس طرح سے ہے.حضرت سید امیر علی شاہ صاحب ملہم سیالکوٹی ضلع سیالکوٹ میں ایک بزرگ سید امیر علی شاہ صاحب مرحوم تھے جن پر کشف اور الہام کا دروازہ کھلا ہوا تھا.وہ ایک دفعہ قادیان تشریف لائے اور مدت تک یہاں رہے اور روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں اپنے ایسے کشوف اور الہامات سناتے تھے.جس میں ان کا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہونا بیان کیا جاتا تھا.ان کے بعض کشف اور الہامات ایک اشتہار کی صورت میں بھی شائع کئے گئے تھے.غالبا یہ ۱۸۹۹ ء کا واقعہ ہے.ان بزرگ صاحب کے صاحبزادے ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب اب فوج میں ملازم ہیں اور سلسلہ کے مخلص خادموں میں سے ہیں.رسالہ واقعات صحیحہ ۱۸۹۹ ء یا اس کے قریب کا واقعہ ہے جب پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت شروع کی اور حضور علیہ السلام نے پیر صاحب کو یہ چیلنج دیا کہ وہ قرآن شریف کی تفسیر لکھنے کے معاملہ میں مقابلہ کریں.اس وقت پیر صاحب نے یہ چالا کی کی کہ اپنے بہت سے مریدین کو ساتھ لے کر لاہور چلے آئے کہ ہم کو چیلنج منظور ہے اور تفسیری مقابلہ سے پہلے ہم ایک زبانی تقریر کھڑے ہو کر کریں گے.جس سے اُن کی غرض یہ تھی کہ عوام کو حضرت صاحب اور آنحضور کی جماعت کے خلاف ایک جوش پھیلا کر شور برپا کر دیں گے.حضرت صاحب نے ایسی حالت میں لا ہور جانا مناسب نہ سمجھا اور احمد یہ جماعت لاہور نے پیر صاحب کے مقابلہ میں اشتہارات شائع

Page 77

62 ،، کئے جو میرے لکھے ہوئے ہوتے تھے اور میاں معراج الدین صاحب اور دوسرے احمدی احباب کے نام سے شائع کئے جاتے تھے.ان تمام حالات کو میں نے ایک رسالہ کی صورت میں شائع کیا تھا.اُس رسالہ کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واقعات صحیحہ تجویز فرمایا تھا.اس رسالہ کی اشاعت میں بہت بڑی کوشش تھی اخویم حکیم محمد حسین صاحب قریشی مرحوم موجد مفرح عنبری کی تھی.اللہ تعالیٰ قریشی صاحب کو جنت میں بلند مقامات عطا کرے.سال ۱۹۰۰ء » غیروں سے مشارکت اء کا واقعہ ہے.ایک دفعہ علیگڑھ میں مولوی شبلی صاحب اور سرسید نے یہ تجویز کی کہ تفسیر القرآن اور صداقت اسلام پر خاص خاص عنوانوں پر قابل آدمیوں سے مضامین لکھوائے جائیں اور جس کا مضمون سب سے عمدہ ہو وہ درج رسالہ ہوا کرے اور مضمون نولیس کو انعام دیا جائے.حضرت مولوی نور الدین صاحب ( رضی اللہ عنہ ) اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اس پر بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی اس میں شامل ہوں گے اور ہمارے ہی مضمون غالب رہیں گے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بڑی خوشی سے یہ معاملہ حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پیش کیا مگر حضور نے اس کو نا پسند کیا اور ایک لمبی تقریر کی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایسے لوگوں سے ہماری مشارکت نہیں ہو سکتی.یہ لوگ اندھے ہیں.اُن میں معرفت نہیں اور نہ وہ حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں.چٹھی مسیح مولوی محمد اسماعیل صاحب ساکن ترگڑی ضلع گوجرانوالہ نے جب چٹھی مسیح پنجابی نظم میں تصنیف کی ( پنجابی زبان میں خط یا نا مہ کو چٹھی کہتے ہیں ) تو انہوں نے اپنا مسودہ مسجد مبارک میں بعد نماز مغرب مجلس میں کھڑے ہو کر پنجابی نظموں کے خوش الحانی سے پڑھنے کے طریقے میں سنایا.نظم پڑھتے ہوئے مولوی صاحب ایک خاص انداز سے اپنے شانوں کو بھی حرکت دیتے تھے.مضمون نظم کا یہ تھا کہ اس زمانہ کے مولویوں نے مسیح ناصری کو ایک خط لکھا ہے کہ تم مزے سے آسمان پر بیٹھ رہے ہو اور ہم اس عذاب میں گرفتار ہیں کہ زمین پر ایک شخص نے مسیح موعود کا دعویٰ کر دیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مسیح ناصری فوت ہو گیا ہے وہ آسمان پر زندہ جسم عصری نہیں ہے اور جو آنے والا تھا.وہ میں ہی ہوں.امتِ محمدیہ کے ایک فرد کو اللہ تعالیٰ نے مسیح بنا دیا اس پر ایمان لاؤ.ہم تیری طرف

Page 78

63 سے بہتیرا جھگڑتے ہیں کہ تو جسم کے ساتھ آسمان پر بیٹھا ہے اور اسی جسم کے ساتھ زمین پر نازل ہوگا مگر وہ نہیں مانتا اور قرآن وحدیث اور عقلی دلائل اور تاریخی واقعات سے ہمیں جھوٹا ثابت کرتا ہے.اب ہمارا بچاؤ صرف اسی میں ہے کہ تو جلدی آسمان سے نازل ہوتا کہ ہماری سچائی ثابت ہو.اس نظم کو سن کر تمام حاضرین جلسہ نہایت محظوظ ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت خوش ہوئے اور یہ نظم چھاپی گئی اور شائع ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں.بعد میں مولوی صاحب موصوف نے مسیح ناصری کی طرف سے ایک جواب بھی مولویوں کے نام نظم میں شائع کیا تھا.غیر متقی کی خواب قابل اعتبار نہیں انہی مولوی محمد اسمعیل صاحب کا ذکر ہے کہ ان کے علاقہ میں ایک برائے نام صوفی نے انہیں کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تم ہندوؤں کے طرف دار ہو کر ان کی طرف سے جھگڑتے ہو اور آپ کے پاس پٹانے ہیں اُن پر لفظ گناہ لکھا ہے اور آپ کے متعلق یہ الفاظ مجھے دکھائے گئے.”من الاسلام برطرفها مولوی صاحب اُس صوفی کے بیان کو سن کر گھبر ائے اور حضرت مسیح موعود کو خط لکھا کہ میں اس کو سُن کر حیران ہوں اور بہت استغفار کر رہا ہوں.عاجز راقم اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم ڈاک تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کاغذ پر عاجز راقم کو لکھا ” جواب لکھ دیں کہ تو بہ استغفار عمدہ چیز ہے مگر ان لوگوں کی خوابوں کا ہرگز اعتماد نہ کریں کیونکہ یہ لوگ تقویٰ سے بعید ہیں اور شیطان کے مس سے خالی نہیں.ابھی تک تو میں تمہارے درمیان زندہ ہوں اور صد ہانشان ابھی ظاہر ہور ہے ہیں.چاہئیے کہ ایک ماہ کے بعد میری کتاب حقیقۃ الوحی منگوا کر دیکھو کہ اُس وقت تک وہ انشاء اللہ چھپ جائے گی.جس شخص کو تز کیہ نفس حاصل نہیں وہ جس قدر شیطان کے قریب ہے، اس قدر خدا کے قریب نہیں.والسلام عاجز راقم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ تحریر اصل مولوی محمد اسمعیل صاحب کو بھیج دی اور اُس کے ساتھ اپنی طرف سے بھی ایک خط لکھ کر بھیجا جو درج ذیل ہے.: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مخدومی اخویم محمد اسمعیل صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط جو حضرت صاحب کے نام تھا میرے پڑھنے میں آیا.حضرت نے اُس کا

Page 79

64 جواب خود لکھا ہے جو ارسال خدمت کیا گیا ہے.مجھے تعجب ہے کہ آپ نے ایک غیر احمدی کی بات پر اتنا یقین کیا کہ اُس کے خواب کو سچا سمجھا اور ایک فکر اپنے دامنگیر کیا اور فکر بھی ایسا کہ حضرت کو خط لکھا.میں نے دیکھا کہ ایک شخص جو غیر مسلم تھا خواب بیان کرتا تھا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں جلتے ہیں.جو شخص خدا کے فرستادہ کو نہیں مانتا وہ منکر ہے، کافر ہے، نافرمان ہے.ایسے شخص کے خواب کا کیا اعتبار ہے.قسم بخدا اگر ایک شخص حاجی ہو اور اُس نے ستر حج کئے ہوں اور پانچ نمازیں پڑھتا ہو اور ہمیشہ روزہ رکھتا ہو مگر مسیح موعود کو نہیں مانتا اور میرے متعلق یہ خواب سنائے کہ میں حق پر نہیں ہوں تو قسم بخدا اُس کی خواب کا مجھ پر ذرا اثر نہ ہو.تعبیر میں لکھا ہے کہ بسا اوقات خواب دیکھنے والا اپنی ہی گندی حالت کو خواب میں دیکھتا ہے، مگر شکل دوسرے کی دکھائی جاتی ہے.لیکن اگر بہر حال تب بھی میں ان خوابوں کے درمیان کوئی متوحش امر میں نہیں دیکھتا.پٹانے آپ کے جسم کے اندر نہیں باہر ہیں.ان پر لفظ گناہ لکھا ہے گویا آپ کے گناہ آپ سے نکل گئے.پٹانے اُڑ جانے والی شے ہے.اس طرح آپ کے گناہ اُڑ جائیں گے صرف آگ لگانے کی کسر باقی ہے.وہ آگ عشق اور محبت کی ہے جو ابھی آپ میں پیدا نہیں ہوئی کیونکہ آپ مخالفوں کی خوابوں سے ڈرتے ہیں.تمام مخالفین سے قطع تعلق کر کے جب آپ خالصا مسیح کے ہو جائیں تو دو محبتوں کی رگڑ سے ایک آگ پیدا ہوگی جو آپ کے گناہوں کو اُڑا دے گی اور بھسم کر - دے گی.من الاسلام بر طرفها - اول تو یہ فقرہ ہی غلط اور مہمل ہے.پر اگر صحیح سمجھ لیا جائے تو اس کے معنے صاف ہیں کہ آپ اسلام میں سے ہیں اور اس کی طرفداری پر ہیں.من شمولیت کے لئے آتا ہے نہ کہ علیحدگی کے لئے مثلاً سيقول السفهاء من الناس - سفهاء الناس میں شامل ہیں.نہ کہ وہ غیر انسان ہیں.ایسا ہی آپ من الاسلام ہیں یعنی اسلامیوں میں شامل ہیں.ہر معنے اُوپر - طرف معنے طرفداری-ها معنے اُس کی.آپ اسلام کی طرفداری میں ہیں.اگر طرف کے معنے ایک طرف یعنی کنارہ لیا جائے جو ضروری نہیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ ہنوز مرکز میں داخل نہیں ہوئے.آپ کنارہ پر ہیں اس واسطے مخالفین کے خوابوں کا آپ کے دل پر اثر پڑ جاتا ہے.آپ اندر چلے جائیں تو کسی کا اثر آپ پر نہ پڑے.آپ ہندوؤں کی طرف سے جھگڑتے ہیں.اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں ہو سکتی.ہمارا

Page 80

65 امام ہندی ہے.اس کے مخلص مرید سب ہندی ہیں.عرب میں تمام ہندوستان کے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں.ہندو کے معنے ہیں ہندوستان کا رہنے والا.امریکہ کے ایک اخبار میں حضرت کے متعلق ایک مضمون لکھا تھا.اُس کی سرخی تھی ہند و مسیح یعنی ہندوستانی مسیح.پھر آپ کرشن اور رامچند رکو رسول مانتے ہیں وہ ہندو تھے.یہ عقیدہ عام مسلمانوں کے عقائد کے خلاف ہے.اس لحاظ سے آپ ہندوؤں کی طرف سے جھگڑتے ہیں.غرض...کوئی امر متوحش نہیں.ہاں آپ کو استغفار بہت کرنا چاہئیے.محمد صادق عفا عنه افسوس ہے کہ اس خط پر کوئی تاریخ نہیں.مگر غالبا یہ ۱۹۰۲ء کا لکھا ہوا ہے.یہ میرا خط اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل تحریر ہر دو مولوی محمد اسمعیل صاحب کے صاحبزادہ مرز امحمد حسین صاحب کے پاس محفوظ ہیں.اسی خط میں دو اور سوالوں کا بھی جواب لکھا گیا ہے.ہے.دوسری جماعت فرمایا کہ مسجد میں جب ایک جماعت ہو چکے تو حسب ضرورت دوسری جماعت بھی جائز غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دوئم.یہ کہ قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.غالباً یہ سوال بھی مولوی محمد اسمعیل صاحب کی طرف سے تھے اور ان کے جواب عاجز راقم نے حسب فرمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اپنے قلم سے تحریر کئے.لامک نبی کی قبر جن دنوں حضرت صاحب کتاب ” مسیح ہندوستان میں ( غالباً ۱۸۹۹ء) لکھ رہے تھے.اُن ایام میں ایک دوست نے جن کا نام میاں محمد سلطان تھا اور لاہور میں درزی کا کام کرتے تھے یہ ذکر کیا کہ ایک دفعہ میں افغانستان گیا تھا اور وہاں مجھے قبر دکھائی گئی تھی جو لا مک نبی کی قبر کہلاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ بعض دفعہ کسی بزرگ یا نبی کے بیٹھنے کی جگہ کو بھی قبر کے طور پر لوگ بنا کر اس سے تبرک حاصل کرتے ہیں.ممکن ہے کہ حضرت مسیح ناصری فلسطین سے کشمیر آتے ہوئے افغانستان میں سے گذرے ہوں اور وہاں کسی جگہ چند روز قیام کیا ہو اور کسی تغیر کے

Page 81

66 ساتھ اس جگہ اُن کا نام لامک مشہور ہو گیا ہو.تب حضور نے مجھے فرمایا کہ لغت عبرانی سے دیکھنا چاہیئے کہ لفظ لا مک کے کیا معنے ہیں.تب میں اپنی لغت کی کتاب لے کر حضرت صاحب کی خدمت میں اندرون خانہ حاضر ہوا اور لفظ لا مک کے معنے اس میں سے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کئے کہ لائک کے معنے ہیں جمع کرنے والا.چونکہ جمع کرنے والا مسیح ناصری کا نام ہے اور اس کا یہ نام موجودہ انا جیل میں درج ہے جہاں اس نے کہا ہے کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے واسطے آیا ہوں.اس بات کو سُن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت خوشی ہوئی.آپ نے سجدہ کیا اور میں نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ کر سجدہ کیا.حضور ایک تخت پر بیٹھے ہوئے تھے اور تخت پر ہی حضور نے سجدہ کیا.میں نے فرش پر سجدہ کیا.سال ۱۹۰۱ء جماعت کے لئے ایک خاص دُعا ۲۵ فروری ۱۹۰۱ء.فرمایا میں اس بات کے پیچھے لگا ہوا ہوں کہ اپنی جماعت کے واسطے ایک خاص دُعا کروں.دُعا تو ہمیشہ کی جاتی ہے مگر ایک نہایت جوش کی دُعا کرنا چاہتا ہوں جب اس کا موقع مل جائے.قرآن شریف ذو المعارف ہے فرمایا - قرآن شریف کو پڑھنے والا جب ایک سال سے دوسرے سال میں ترقی کرتا ہے تو اپنے گذشتہ سال کو ایسا معلوم کرتا ہے کہ گویا وہ اس وقت طفل مکتب تھا کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں ترقی بھی ایسی ہی ہے.جن لوگوں نے قرآن شریف کو صرف ذوالو جو ہ کہا ہے انہوں نے قرآن شریف کی عزت نہیں کی.قرآن شریف کو ذو المعارف کہنا چاہئیے.ہر مقام میں سے کئی معارف نکلتے ہیں اور ایک نکتہ دوسرے نکتہ کا نقیض نہیں ہوتا.میاں غلام حسین صاحب پر ابتلاء ایک دفعہ حضور کے مکان میں چند لڑکے آپس میں کھیلتے ہوئے کسی بات پر جھگڑ پڑے.میاں غلام حسین صاحب نانپز کے لڑکے نے شیخ رحمت اللہ صاحب کے لڑکے کو گالی دی - شیخ صاحب کے لڑکے نے حضرت صاحب کے پاس شکایت کی.حضرت صاحب نے میاں غلام حسین صاحب کے لڑکے کو چند تھپڑ مارے.یہ بات میاں غلام حسین کی بیوی کو بہت ناگوار گذری اور وہ میاں غلام

Page 82

67 حسین صاحب سے شاکی ہو ئیں اور حضرت صاحب کے اس فعل پر نا مناسب الفاظ میں ناراضگی کا اظہار کیا.جس پر میاں غلام حسین صاحب اور ان کے اہل کو دو سال کے واسطے قادیان سے چلے جانے کا حکم دیا.اس کی انہوں نے تعمیل کی مگر اپنے ایمان اور اخلاص کے سبب میاں غلام حسین صاحب نے توبہ کی اور پھر ہجرت کر کے قادیان آگئے اور اب یہیں رہتے ہیں.مهمان نوازی جب میں 1901 ء میں ہجرت کر کے قادیان چلا آیا اور اپنی بیوی اور بچوں کو ساتھ لایا.اس وقت میرے دو بچے محمد منظور عمر ۵ سال عبد السلام عمر ایک سال تھے.پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے وہ کمرہ رہنے کے واسطے دیا جو حضور کے اوپر والے مکان میں حضور کے رہائشی صحن اور کو چہ بندی کے اوپر والے صحن کے درمیان تھا.اُس میں صرف دو چھوٹی چار پائیاں بچھ سکتی تھیں.چند ماہ ہم وہاں رہے اور چونکہ ساتھ ہی کے برآمدہ اور صحن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مع اہل بیت رہتے تھے.اس واسطے حضرت مسیح موعود کے بولنے کی آواز سنائی دیتی تھی.ایک شب کا ذکر ہے کہ کچھ مہمان آئے جن کے واسطے جگہ کے انتظام کے لئے حضرت ام المومنین حیران ہو رہی تھیں.کہ سارا مکان تو پہلے ہی کشتی کی طرح پر ہے.اب ان کو کہاں ٹھیرایا جائے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے اکرام ضیف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت بیوی صاحبہ کو پرندوں کا ایک قصہ سُنایا.چونکہ میں بالکل ملحقہ کمرے میں تھا اور کواڑوں کی ساخت پرانے طرز کی تھی جن کے اندر سے آواز بآسانی دوسری طرف پہنچتی رہتی ہے، اس واسطے میں نے اس سارے قصہ کو سُنا.فرمایا: دیکھو ایک دفعہ جنگل میں ایک مسافر کو شام ہو گئی.رات اندھیری تھی.قریب کوئی بستی اُسے دکھائی نہ دی اور وہ ناچار ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کے واسطے بیٹھ رہا.اُس درخت کے اوپر ایک پرندے کا آشیانہ تھا.پرندہ اپنی مادہ کے ساتھ باتیں کرنے لگا کہ دیکھو مسافر جو ہمارے آشیانہ کے نیچے زمین پر آ بیٹھا ہے یہ آج رات ہمارا مہمان ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس کی مہمان نوازی کریں.مادہ نے اس کے ساتھ اتفاق کیا اور ہر دو نے مشورہ کر کے یہ قرار دیا کہ ٹھنڈی رات ہے اور اس ہمارے مہمان کو آگ تاپنے کی ضرورت ہے.اور تو کچھ ہمارے پاس نہیں ہم اپنا آشیانہ ہی تو ڑ کر نیچے پھینک دیں تا کہ وہ ان لکڑیوں کو جلا کر آگ تاپ لے.چنانچہ

Page 83

68 انہوں نے ایسا ہی کیا اور سارا آشیانہ تنکا تنکا کر کے نیچے پھینک دیا.اس کو مسافر نے غنیمت جانا اور اُن سب لکڑیوں کو ، تنکوں کو جمع کر کے آگ جلائی اور تا پنے لگا.تب درخت پر اس پرندوں کے جوڑے نے پھر مشورہ کیا کہ آگ تو ہم نے اپنے مہمان کو بہم پہنچائی اور اُس کے واسطے سیکھنے کا سامان مہیا کیا اب ہمیں چاہئیے کہ اُسے کچھ کھانے کو بھی دیں اور تو ہمارے پاس کچھ نہیں ہم خود ہی اس آگ میں جاگریں اور مسافر ہمیں بھون کر ہما را گوشت کھا لے.چنانچہ اُن پرندوں نے ایسا ہی کیا اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا.حضرت صاحب کو اخبار سُنا یا انہیں ایام میں ایک دن میں قرآن شریف لے کر حضرت مولوی نور الدین صاحب کا درس سننے کے واسطے اپنے کمرے کے دروازے سے نکل رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے بلایا اور فرمایا میری آنکھوں کو تکلیف ہے، آپ مجھے آج اخبار سُنا دیں.حضور اخبار عام روزانه، با قاعدہ روزانہ منگوایا کرتے تھے اور پڑھتے تھے.اوپر کے صحن میں عاجز راقم حضرت کے حضور میں بیٹھ گیا اور میرالڑ کا عبد السلام سلمہ اللہ تعالیٰ اُس وقت قریباً دو سال کا تھا ، یہ بھی میرے پاس بیٹھا تھا اور جیسا کہ بچوں کی عادت ہے بیٹھا ہوا ہلنے لگا اور ہوں ہوں کرنے لگا جیسا کچھ پڑھتا ہے.میں نے اُسے روکا کہ چپ بیٹھو.حضور نے فرمایا اسے مت روکو جو کرتا ہے کرنے دیں.رات بھر میں ایک مکان تیار کیا گیا غالبا ۱۹ ء میں جب حضرت مولوی شیر علی صاحب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہیڈ ماسٹر تھے اور احمد یہ چوک میں جہاں اب بابو فخر دین صاحب کتب فروش اور کرم الہی صاحب بزاز کی دوکانیں ہیں ، یہاں سفید زمین تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مملوکہ تھی.اُس وقت احباب میں تجویز ہوئی کہ یہاں ایک مختصر سا کچا مکان مولوی شیر علی صاحب کی رہائش کے واسطے بنایا جا سکتا ہے.لیکن خوف تھا کہ مرزا امام دین و مرزا نظام الدین صاحب اس میں خواہ مخواہ مزاحمت کریں گے اور جھگڑا فساد ہو گا.لہذا ان کے جھگڑے سے بچنے کے واسطے ایک دن جبکہ وہ ہر دو قادیان سے باہر کسی کام پر گئے ہوئے تھے ، وہاں مکان بنایا گیا اور مدرسہ کے لڑکوں اور اُستادوں نے بھی مزدوروں میں جوش سے کام کیا اور تمام دن اور پھر رات لگا کر صبح تک مکان کی لپائی وغیرہ کر کے سب کچھ مکمل کر دیا گیا اور مولوی شیر علی صاحب کو رہائش کے واسطے دیا گیا.دوسرے دن جب مرزا امام دین ، نظام الدین صاحبان سفر سے واپس آئے تو مکان بنا ہوا دیکھ کر

Page 84

69 بہت غصہ ہوئے اور اس کے بعد اُنہوں نے راستہ میں دیوار کھینچ دی جس کا مقدمہ مدت تک چلتا رہا اور ہمیں مسجد مبارک یا اقصیٰ کو یا بازار کو جانے کے واسطے پتھروں والی گلی میں سے ایک لمبا چکر کاٹ کر جانا پڑتا.رات بھر میں ایک کمرہ طیار کیا گیا چونکہ ڈھاب کے کنارے مکانات کے بنانے میں مرزا نظام دین صاحب و دیگر اہل قادیان بہت مزاحم ہوا کرتے تھے اور احمدیوں کو تکلیف پہنچاتے تھے اور بعض دفعہ کہیاں اور ٹوکریاں بھی چھین لے جاتے تھے.اس واسطے بورڈنگ مدرسہ تعلیم الاسلام کا ایک کمرہ جو کہ اب مدرسہ احمدیہ کے بورڈنگ ہاؤس کا کمرہ ہے راتوں رات طالب علموں کی امداد سے بنایا گیا تھا.نقل خط مکتو به حضرت مولوی شیر علی صاحب ذی الحج کی پہلی رات ۲۱ / مارچ ۱۹۰۱ء (۱) بعض انسان دیکھو گے کہ کافیاں اور شعرسُن کر وجد وطرب میں آ جاتے ہیں مگر جب مثلاً اُن کو کسی شہادت کے لئے بلایا جائے تو عذر کریں گے کہ ہمیں معاف رکھو.ہمیں فریقین سے تعلق ہے ہمیں اس معاملہ میں داخل نہ کرو.سچائی کا اظہار نہیں کریں گے.ایسے لوگوں کے سرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہئیے.جب کسی ابتلاء میں آ جاتے ہیں تو اپنی صداقت کا ثبوت نہیں دے سکتے.اُن کا سرور قابل تعریف نہیں.سرور ایک عارضی چیز اور طبعی امر ہے.بعض منکرین اسلام جن کو تمام پاکبازوں سے دلی عداوت ہے وہ بھی اس سرور سے حصہ لیتے ہیں.ایک متعصب ہند و مثنوی مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ پڑھ کر سرور حاصل کرتا تھا حالانکہ وہ دشمن اسلام تھا.کیا تم سانپ کو پاکباز انسان مانو گے جو بانسری سُن کر سرور میں آ جاتا ہے.یا اُونٹ کو خدا رسیدہ قرار دو گے جو خوش الحانی سے نشہ میں آ جاتا ہے.سچا کمال جس سے خدا خوش ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنی وفاداری دکھائے.ایسے انسان کا تھوڑا عمل بھی دوسرے کے بہت عمل سے بہتر ہے.مثلاً ایک شخص کے دونو کر ہیں.ایک دن میں کئی دفعہ اپنے مالک کی خدمت میں آ کر سلام کرتا ہے اور ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتا ہے.دوسرا اُس کے پاس بہت کم آتا ہے مگر مالک پہلے کو بہت قلیل تنخواہ دیتا ہے اور دوسرے کو بہت زیادہ.اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ دوسرا ضرورت کے وقت اُس پر جان بھی دینے کے لئے تیار ہے اور وفادار ہے اور پہلا کسی کے بہکانے سے مجھے قتل کرنے پر بھی آمادہ ہو جائے گا یا کم از کم مجھے چھوڑ کر کسی دوسرے مالک کی ملازمت اختیار کر لے گا.اسی طرح اگر کوئی

Page 85

70 شخص خدا تعالیٰ سے وفاداری کا تعلق نہیں رکھتا مگر پنجوقت نماز ادا کرتا ہے اور اشراق تک بھی پڑھتا ہے بلکہ کئی اور اور اد بھی تجویز کئے ہوئے ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں ایک وفادار انسان سے کوئی نسبت نہیں رکھتا.کیونکہ خدا جانتا ہے کہ ابتلا کے وقت وہ وفاداری نہیں دکھلائے گا جب انسان وفاداری اختیار کرے گا تو سرور لازمی طور پر اُس کو حاصل ہو جائے گا.جیسا کہ جب کھانا آتا ہے تو دستر خوان بھی ساتھ آ جاتا ہے.مگر یا درکھنا چاہئیے کہ کاملوں پر بھی بعض وقت قبض کے آ جاتے ہیں.کیونکہ قبض کی وجہ سے انسان کو سرور کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور اس کو زیادہ لذت حاصل ہوتی ہے.(۲) عشق مجازی.خُدا تعالیٰ نے انسان کو ایک محبت کی قوت عطا کی ہوئی ہے مگر اپنے لئے نہ غیر کے لئے.جو شخص اس خدا داد محبت کو غیر سے لگاتا ہے وہ اس محبت کے انعام کو ضائع کرتا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے تو اُس کی محبت فی الفور خدا تعالیٰ کی محبت کو اپنی طرف جذب کرتی ہے جس سے ایک نئی بعثت اور تولد حاصل ہوتا ہے.مگر جو غیر سے محبت کرتا ہے اُس کا نتیجہ ناکامی ہوتا ہے.ایک حکیم کی ایک خادمہ پر ایک شخص عاشق ہو گیا.حکیم نے اُس عورت کو خوب جلاب دیا اور فصد کھلوائی، یہاں تک کہ وہ بالکل ایک مسلول کی طرح ہوگئی.پھر اُسے اشارہ کیا کہ کچھ طعام اُس شخص عاشق کے پاس لے جائے.جب طعام لے کر گئی تو اُس نے اُس سے نفرت اور کراہت کی.حکیم نے اُسے کہا کہ دراصل تو اُس پر عاشق نہیں تھا بلکہ اس گندے خون اور نجاست پر عاشق تھا جو یہ دیکھ ایک گھڑے میں جمع ہے.یہ حقیقت عشق مجازی کی ہے.مگر جو شخص خدا سے سچی محبت کرتا ہے.وہ یقیناً جان لے کہ اُسی وقت آسمان سے اُس کے دل پر ایک نور نازل ہوتا ہے.(۳) صبر - سالک کے لئے صبر شرط ہے.گر نباشد دوست ره بردن شرط عشق است در طلب مردن نقل خط مکتو به حضرت مولوی شیر علی صاحب ۲۲ / مارچ ۱۹۰۱ ء ذی الحج کا پہلا دن فرمایا کہ منشی نبی بخش صاحب کا ایک اشتہار پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کو قرآن شریف سے مناسبت ہے.وہ مختلف آیات کو ادھر اُدھر سے ملا کر ایک نتیجہ نکال لیتے ہیں جو مناسبت کی

Page 86

71 علامت ہے.قرآن شریف معجزہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اس لئے مسلمان کو چاہیے کہ قرآن شریف میں ہمیشہ تدبر کیا کرے تا خود اُس کے معجزہ ہونے کو سمجھے.قرآن شریف صرف فصاحت بلاغت میں معجزہ نہیں بلکہ جن جن ناموں سے خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کا ذکر کیا ہے اُن سب میں بے نظیر ہے اور اُن امور میں کوئی اس کی مثال نہیں لاسکتا.قرآن شریف کی نسبت خدا تعالیٰ نے صرف یتر نا القرآن ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کو نور ، حق ، حکمت، تفصیل لکل شی ، ہدایت فرمایا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيراً.دوسرے لوگوں کی تصنیفوں میں ایک مخفی تعارض ضرور پاؤ گے.مگر قرآن شریف نے ہر ایک مسئلہ کو شروع سے آخیر تک ایک ہی طرح نبھایا ہے مثلاً توحید کا مسئلہ عدم رجوع، موتی ، وفات عیسیٰ علیہ السلام ، بڑا فساد نصاریٰ کا ہو گا جو تثلیث کی منادی کرتے ہیں اور وہی دجال ہوں گے.خلفاء اُمت محمدیہ کا سلسلہ موسوی سلسلہ کے مشابہ ہو گا اور جس طرح کہ موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تھے ایسا ہی سلسلہ محمدیہ کا خاتم الخلفاء بھی ایک مسیح ہو گا.قرآن شریف کا ایک اور معجزہ اخبار امور غیبیہ ہے.ہر ایک آیت ایک پیشگوئی اپنے اندر رکھتی ہے.قصے بھی پیشگوئیوں کے رنگ میں بیان کئے گئے ہیں.اس زمانے کے لوگ قرآن شریف کی پیشگوئیوں کو خوب سمجھتے تھے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مفسر کامل موجود تھے.وہ اپنے خطبوں اور وعظوں میں (جو اب محفوظ نہیں ) دشمن و دوست کو قرآن شریف کی پیشگوئیاں کھول کر سُناتے تھے.خدا تعالیٰ اپنی وحی کے سمجھانے کے لئے مناسب طبیعتیں پیدا کرتا ہے اور مخالف خوب سمجھتے تھے کہ قرآن شریف ہمارے ادبار اور اسلام کے اقبال کی پیشگوئیاں کرتا ہے.خدا تعالیٰ نے اُن کی طبیعتوں میں قرآن شریف کی پیشگوئیاں سمجھنے کی مناسبت رکھی تھی.چنانچہ ایک شخص کی نسبت فرماتا ہے فکر وقدر عبودیت کی طاقت سے اخبارا مور غیبیہ برتر ہیں اور کوئی کتاب اس امر میں قرآن شریف کا مقابلہ نہیں کرسکتی.ہیئت دان بھی جو نظارہ دیکھتا ہے خواہ وہ اُس کے مخالف مرضی ہو یا موافق مرضی ہو ، اُسی کے مطابق بیان کرنے پر مجبور ہوتا ہے.قرآن شریف کی طرح اپنے اقبال اور دشمن کے ادبار کے متعلق دعوئی کے ساتھ پیشگوئیاں کرنا کسی انسان کی طاقت میں نہیں.دوسرے معجزوں کی نسبت پیشگوئی کا معجزہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ، نبوت سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے.عصا کا سانپ ہو جانا نبوت کی تصدیق سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا.قرآن شریف کے معجزات ایسے ہیں ، کہ وہ خدائی طاقت اپنے نبی کو دیتے ہیں اور اُن پیشگوئیوں کے مطابق اپنا اقبال

Page 87

72 اور دشمن کا ادبار اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ یہ امور خدا تعالیٰ کی طاقت اور قدرت سے ظہور میں آئے اور اس طرح تصدیق نبوت کے لئے نہایت ہی احسن ذریعہ پیشگوئی ہے جس میں اپنی فتح اور دشمن کی شکست کا بیان ہو.خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھی یہی معجزہ عطا کیا ہے.ہر ایک چیز کے لئے ایک وقت مقرر ہے.سُورج صبح کے وقت نکلتا ہے.اگر شام سے انسان سورج کی تلاش شروع کر دے تو اُسے صبر سے صبح تک انتظار کرنا چاہئیے.اگر وہ بے صبری کرے اور تھوڑی دیر انتظار کر کے تھک جائے اور کہے کہ میں نے بہت تلاش کی کوئی سورج موجود نہیں ہے تو وہ غلطی کرتا ہے.اسی طرح لڑکے کے پیدا ہونے کے لئے 9 مہینہ کی مہلت چاہئیے.اگر کوئی چاہے کہ دو تین دن کے اندر ہی بچہ تیار ہو کر پیدا ہو جاوے تو وہ غلطی کرتا ہے اور نا مراد رہتا ہے.اسی طرح اس راہ میں بھی جلد بازی نہیں کرنی چاہئیے.جو حد بندی کرتا ہے وہ محروم رہتا ہے.طلبگار باید صبور وحلول مہوس کیمیا کی تلاش میں جو بالکل ایک وہمی اور بے حقیقت چیز ہے ملول نہیں ہوتا ہے.کہتے ہیں کہ ارادت کے ساتھ جانا آسان ہے مگر ارادت کے ساتھ واپس آنا مشکل ہے.اگر کوئی شخص صرف تھوڑی دیر کے لئے کسی ولی کی صحبت میں بیٹھے تو ممکن ہے کہ اس سے ایسے امور سرزد ہوتے ہوئے دیکھے جو اُس کی نظر میں بُرے اور مکروہ ہوں اور اس طرح بدظنی لے کر واپس آ جائے.اگر کوئی آجکل کا درویش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایسی حالت میں دیکھتا ، جب آپ سب سے بڑھ بڑھ کر تلوار چلا رہے ہوتے تو وہ بد اعتقاد ہو جاتا اور یہی سمجھتا کہ ایسے شخص کو روحانیت سے کیا نسبت ہو سکتی ہے.اس لئے ایک مدت تک راستبازوں کی صحبت میں بیٹھنا چاہئیے یہاں تک کہ کوئی ایسی تقریب اور موقع - اس کو حاصل ہو جس سے اس کو شرح صدر حاصل ہو جاوے اور ایک نور اُس کے دل پر گرے.(۴) بدظنی - انسان دوسرے شخص کے دل کی ماہیت معلوم نہیں کر سکتا اور اس کے قلب کے مخفی گوشوں تک اُس کی نظر نہیں پہنچ سکتی.اس لئے دوسرے شخص کی نسبت جلدی سے کوئی رائے نہ لگائے بلکہ صبر سے انتظار کرے.ایک شخص کا ذکر ہے کہ اُس نے خدا تعالیٰ سے عہد کیا کہ میں سب کو اپنے سے بہتر سمجھوں گا اور کسی کو اپنے سے کمتر خیال نہیں کروں گا.( اپنے محبوب کے راضی کرنے کے لئے انسان ایسی تجویز میں سوچتے رہتے ہیں).ایک دن اُس نے ایک دریا کے پل کے پاس جہاں پر بہت آدمی گزر رہے تھے ایک شخص بیٹھا ہوا دیکھا اور اس کے پہلو میں ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی.ایک بوتل اس شخص کے ہاتھ میں تھی.آپ پیتا تھا اور اس عورت کو پلاتا تھا.اس نے اس پر بدظنی کی اور خیال کیا کہ میں اس بے حیا سے تو ضرور بہتر ہوں.ایک کشتی آئی اور سواریوں کے ساتھ وسط

Page 88

73 دریا میں ڈوب گئی.وہ شخص جا کر سوائے ایک کے سب کو نکال لایا اور اُس فقیر کو کہا کہ تو میرے پر بدظنی کرتا تھا.پانچ آدمی میں نکال لایا ہوں ایک کو اب تو نکال.خدا نے مجھے تیرے امتحان کے لئے یہاں بھیجا تھا اور تیرے دل کے ارادے سے مجھے اطلاع دی.یہ عورت میری والدہ ہے اور بوتل میں شراب نہیں بلکہ دریا کا پانی ہے.نصیحت - انسان دوسرے شخص کی نسبت جلدی رائے نہ لگائے.سال ۱۹۰۲ء نمونه تبلیغ ولایت جانے سے قبل جو تبلیغی خطوط عاجز امریکہ اور دیگر ممالک غیر کو بھیجا کرتا تھا ، اُن میں سے ایک بطور نمونہ درج ذیل کیا جاتا ہے.یہ خط امریکہ کے ایک نو مسلم کے نام لکھا گیا جس کا پتہ مجھے محمد رسل ویب صاحب نے بھیجا تھا.یہ خط ۱۹۰۲ء میں لکھا گیا تھا.اس خط کا ترجمہ نیچے درج کیا جاتا ہے.اُس نو مسلم کا نام جے ایل راجرز ساکن شہر سینٹا کرز ریاست نیو کیلی فورنیا تھا.اس کا اسلامی نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے عبد الرحمن تجویز کیا تھا.ہے.ترجمه تبلیغی خط بنام مسٹر جیمز ایل را جرز بسم الله الرحمن الرحيم اللہ کے نام کے ساتھ جس کے فیوض عام ہیں اور جو ہمیں ہماری محنت کے پھل عطا فرما تا میرے پیارے راجر..السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ پر سلامتی ہو اور خدا کی برکتیں آپ کے شامل حال رہیں ) آپ کا خط مورخہ ۱۶ / اپریل ۱۹۰۲ء پہنچا اور خوشی کا موجب ہوا.یہ خوشی کا لفظ میں نے صرف رسماً نہیں لکھا جیسا کہ اس زمانہ کی منافقانہ تہذیب کا دستور ہے بلکہ ایک سچے مسلم کی طرح میرے دل نے آپ کے خط میں ایک سچے خدا کے عابد کی پیاری آواز کو پہچانا ہے اور خوشی حاصل کی ہے.ہاں خدائے واحد کا عابد جواند ھے تثلیث پرستوں اور جاہل یونیٹیرین اور بدقسمت دہر یہ فلاسفروں کے درمیان میں سے نکل کھڑا ہوا ہے.ہمارے پیارے بھائی محمد ویب صاحب نے بھی مجھے آپ کے متعلق لکھا ہے اور مجھ سے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں آپ کے ساتھ خط وکتابت کروں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ آپ اس ملک میں اشاعت اسلام کا کام کرنے کی قابلیت اپنے اندر رکھتے ہیں.مسٹر

Page 89

74 ویب نے مجھے یہ بھی لکھا ہے کہ آپ بہت سے ممالک کی سیاحت کر چکے ہیں اور بہت سے مذاہب کی کتب مطالعہ کر چکے ہیں.بعض مسلمانوں سے آپ کی ملاقات ہوئی اور بعض کے ساتھ دوستی کا تعلق پیدا ہوا اور کہ آپ ہمیشہ عیسائیت سے متنفر اور اسلام کے قریب ہوتے گئے یہاں تک کہ آپ اسلام کے دروازے میں داخل ہو گئے اور دُنیا کے سامنے اعلان کر دیا کہ سوائے ایک اللہ کے کوئی قابل پرستش نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور صرف اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے.یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ خدائے رحمان و رحیم کا فضل آپ کے شامل حال ہے.آپ کے ملک میں جو کروڑوں انسان ہیں انمیں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا ہے تا کہ حق کی روشنی کو آپ پائیں اور اس ملک میں پھیلائیں.مجھے یہ سن کر افسوس ہوا کہ اہل امریکہ نہ صرف اسلامی حقیقت سے بے خبر ہیں بلکہ اسلام کے متعلق مفتریا نہ جھوٹی باتیں ان کو بتلائی گئی ہیں.بعض اور دوستوں سے بھی مجھے یہ حالات معلوم ہوئے تھے اور اب آپ سے اُن کی باتوں کی تصدیق ہوئی ہے لیکن بڑا افسوس تو یہ ہے کہ خوداسلامی ممالک کی حالت بھی کچھ بہتر نہیں ہے.اللہ کے مقدس انسان حضرت محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاک ایام کو تیرہ سو سال گذر گئے اور لوگوں نے حق کو اس کی سچی اور اصلی حالت میں رکھنا چھوڑ دیا اور مقدس مسائل فیج اعوج میں سے گذرتے ہوئے خاک آلودہ اور خستہ ہو کر اپنے صحیح مفہوم سے الگ ہو گئے.اب اسلام لوگوں میں برائے نام رہ گیا ہے.وہ قرآن شریف پڑھتے ہیں مگر اس کا کلام ان کے گلے سے نیچے نہیں اترتا.پس اندرونی مشکلات بھی ہیں اور بیرونی بھی ہیں.مگر خدائے کریم جس نے قرآن شریف کو حکمت اور شریعت کے ساتھ نازل کیا اُسی نے سنت قدیمہ کے مطابق اس زمانہ میں بھی ایک مجدد حضرت اقدس مرزا غلام احمد صاحب کے وجود میں بھیجا ہے جو مرسل من اللہ اور اس زمانہ کے مجد داعظم ہیں جن کی تبلیغ پر مشتمل ایک مختصر سا رسالہ میں آپ کو روانہ کرتا ہوں.یہ رسالہ دراصل ایک میگزین کا پر اس پیکٹس ہے اور اگر آپ ملک امریکہ میں اس رسالہ کا ایجنٹ بننا منظور فرماویں تو اس کا منیجر بخوشی آپ کو کمیشن دے گا.آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو ایک مرشد کی ضرورت ہے جو آپ کو کامل مسلمان بناوے.سو میں آپ کو اطلاع کرتا ہوں کہ ایسا مرشد وہ اللہ کا رسول ہی ہے جو قوت کشش لے کر آیا ہے تا کہ انسانوں کو خدا سے ملا دے اور راقم اس کے ادنے غلاموں میں سے ایک ہے.میں نے حضرت اقدس سے آپ کا ذکر کیا ہے اور انہیں آپ کے قبولِ اسلام کی خبر سے خوشی حاصل ہوئی ہے.میں نے اوپر اندرونی اور بیرونی غلط فہمیوں کا تذکرہ کیا ہے.مگر بیرونی غلط فہمیاں اس واسطے زیادہ تر قابل افسوس ہیں کہ غیر ممالک کے لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے سبب خود تو قرآن شریف اور حدیث کا ترجمہ

Page 90

75 نہیں کر سکتے اور جو تراجم عام طور پر ملتے ہیں وہ سب کم و بیش غلط ہیں.یہ عام مقولہ ہے کہ تراجم اصل کے پورے مفہوم کو ادا نہیں کر سکتے.لیکن عربی زبان اور بالخصوص قرآن شریف کے معاملہ میں یہ بات بالکل درست ہے کیونکہ اس پاک کتاب میں اللہ تعالیٰ نے اُن تمام ضروری امور کو جو انسان کے جسم و جان کے واسطے مفید ہیں تھوڑے سے الفاظ کے اندر جمع کر دیا ہے.اس مقدس کتاب کے الفاظ اور فقرات جن حقائق اور معانی سے پُر ہیں ان کو بالتفصیل لکھنے کے واسطے کئی معنیم جلد میں درکار ہیں.مثلاً آپ اپنے قرآن شریف کو کھولیں اور اس کے ابتدائی فقرات کو ہی ملا حظہ کریں.قرآن شریف کی سب سے پہلی آیت ہے.بِسمِ الله الرَّحْمنِ الرَّحِيم (ضمناً عرض ہے کیا آپ عربی جانتے ہیں.اگر جانتے ہیں تو کس قدر اگر آپ عربی نہیں جانتے ہیں تو اس کے سیکھنے کی طرف فوری توجہ کریں عربی زبان کے کسی قدر علم کے بغیر اسلام کی کامل حقیقت کو سمجھنا بہت مشکل ہے.اگر آپ چاہیں تو میں چندا سباق طیار کر کے آپ کو یہاں سے بھیج دوں گا ).اب پہلی آیت اس طرح ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم بشم کے معنے نام کے ساتھ یا نام میں.اللہ - خدا کسی دوسری زبان کا کوئی لفظ اللہ کے لفظ کے صحیح مفہوم کو ظاہر نہیں کرتا.رحمن.جس کی رحمتیں ہمیں مفت حاصل ہوئیں.رحمان خدا تعالیٰ کی وجہ صفت ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ایسے انعامات حاصل ہوئے جن کے واسطے ہم نے کوئی سعی.نہیں کی.رحیم.اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کے ذریعہ سے ہماری محنتوں کو پھل لگتا ہے.یہ قرآن شریف کی پہلی آیت ہے اور سوائے ایک کے ہر سورۃ کی ابتداء میں دہرائی جاتی ہے.عموماً اس کا ترجمہ یوں کیا جاتا ہے.خدائے بخشنہارا اور مہربان کے نام پر میں شروع کرتا ہوں.یہ ترجمہ غلط تو نہیں مگر الفاظ کے معانی کو محدود کر دیتا ہے.اس کا تشریحی ترجمہ مفصلہ ذیل الفاظ میں قریب بہ صحت ہوگا.”میں اللہ کے نام پر شروع کرتا ہوں جس کی برکات دو قسم کی ہیں.ایک وہ جو بالکل مفت ہیں.مثلاً ہمارا خود وجود اور ہمارے تمام اعضاء آنکھ منہ ناک جس وغیرہ دیگر بے شمار عطیات.دوم وہ عطیات جو ہماری کسی قدر محنت کرنے پر مرحمت ہوتے ہیں.کیونکہ یہ خدا کا فضل ہی ہے جو ہماری کوششوں کو بار آور کرتا ہے.لفظ رحیم پچھلے عطیات کا اظہار کرتا ہے اور لفظ رحمن اول الذکر انعامات کو ظاہر کرتا ہے.اب میں ہر ایک فقرے کو جُد احد ابیان کرتا ہوں.بسم الله بنامِ خدا - یہ قرآن شریف کے سب سے پہلے لفظ ہیں.اگر اسی طرح تمام مقدس کتابوں کے ابتدائی الفاظ کو ایک جگہ جمع کیا جائے تو ایک دلچسپ مضمون تیار ہو سکتا ہے.حرف با.ساتھ ، میں.اسم.نام - الله - خدا تعالیٰ کا اسم ذات ہے.قرآن اور حدیث

Page 91

76 میں اللہ تعالیٰ کے ایک سو سے زائد صفاتی نام ہیں مگر اللہ اس کا خاص نام ہے.عبرانی میں الو ہا.ایک خدا جو آدم، نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسی محمد علیہم الصلوۃ والسلام کا ایک لگا نہ خدا ہے.ایک بے طاقت خدا نہیں جو اپنی عاجز مخلوق کے گناہوں کو سوائے اس کے بخش نہیں سکتا کہ پہلے اپنے آپ کو پھانسی دے اور منہ پر تھو کا جائے.نہ ہندوؤں کا خدا جو انسان کے ہاتھوں سے گھڑا اور کریدا جاتا ہے.نہ فلسفی کا خدا جو صرف اُس کے خیال کا نتیجہ ہوتا ہے.بلکہ ایک طاقتور خدا جو قادر مطلق عالم الغیب ہر جگہ موجود حکمتوں کا منبع ہے جو ہر زمانے میں اپنے نبی اور پاک بندے مبعوث کرتا رہتا ہے.لفظ اللہ کے پورے مفہوم کے اظہار سے میں قاصر ہوں.تمام قرآن شریف بسم اللہ سے لے کر الناس تک خدا تعالیٰ کی تعریف اور صفات سے بھرا ہوا ہے.پس بسم اللہ کے معنے ہیں بنامِ خدا - اللہ تعالیٰ کی خاطر اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے نہ کہ کسی اور غرض کے واسطے.بسم الله ہمیشہ مومن کے منہ میں اور اس کے دل میں ہونی چاہئیے.بسم اللہ مومن کی زندگی کی غرض و غایت ہے.وہ دُنیا میں کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جس کے متعلق اُسے یہ یقین نہ ہو کہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا مندی ہے.قرآن شریف میں لکھا ہے ، لوگوں کو سنا دے کہ میری نماز ، میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے.” میرے تمام خیالات ، اقوال، حرکات اور سکنات سب تیرے لئے ہیں اے میرے اللہ یہی اکثر میری دُعا ہے.مسلم اپنی خوراک کا پہلا لقمہ لینے سے قبل بسم اللہ کہتا ہے.اپنے گھر سے باہر نکلنے کے وقت بسم اللہ کہتا ہے.گھر میں داخل ہونے کے وقت بسم اللہ کہتا ہے.پانی پینے سے قبل بسم اللہ کہتا ہے.غرض اس کا ہر ایک کام بسم اللہ کے ساتھ ہوتا ہے تا کہ اُس میں اور اُس کے متعلقات میں شیطان کا کچھ حصہ باقی نہ ہو.چاہئیے کہ بسم اللہ تمہارا مقولہ ہواوراسی سے تمہارا اظہار مقصد ہو.میں نے قرآن شریف کی پہلی آیت کی ایک مختصری کیفیت آپ کے سامنے بیان کی ہے.اس کو آپ بغور پڑھیں اور اس مضمون کو اپنے مطالعہ میں رکھیں اور اس کے مطابق عمل کریں تو آپ کو حق اور پاکیزگی کے حاصل کرنے میں بہت راہنمائی اور امداد حاصل ہوگی.ہر مناسب موقع اور مقام پر لفظ بسم اللہ کے استعمال کی عادت کر لیں.آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو ایک استاد کی ضرورت ہے جس کا تعلق آپ کو سچا اور کامل مسلمان بنادے.سومیں نے آپ کو ایسے اُستاد کی خبر دے دی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا عالمگیر استاد مقرر کر کے بھیجا ہے.یورپ اور امریکہ کے

Page 92

77 کروڑوں انسانوں میں سے خدا تعالیٰ نے آپ کو چن لیا ہے تا کہ آپ ابتدائی نومسلموں میں سے ایک ہوں.یہ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ظہور اور فضل ہے اور اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے آپ کا اسلامی نام عبد الرحمن رکھا ہے جس کے معنے ہیں رحمن کا بندہ.تمام نو مسلموں کے واسطے ضروری ہے کہ وہ ایک اسلامی نام اختیار کریں تا کہ غیر مسلموں سے انہیں ایک امتیاز حاصل رہے.اپنا یہ نام اپنے دوستوں اور واقفوں کے درمیان شائع کر دیں.چاہیے کہ سب آپ کو اسی نام سے بلائیں.بجائے خود یہ نام ایک برکت ہے.میں نے آپ کے واسطے دُعا کی ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی کروں گا.میرے پیارے بھائی میں ہوں آپ کا مخلص مفتی محمد صادق - امریکہ سے پھول (قریباً ۱۹۰۲ء ) امریکہ میں ایک لیڈی مس روز نام تھی جس کے مضامین اُس ملک کے بعض اخباروں میں اکثر چھپا کرتے تھے.میں نے اس کے ساتھ تبلیغی خط و کتابت شروع کی اور اُس کے خط جب آتے تھے میں عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ترجمہ کر کے سُنایا کرتا تھا اور ہماری مجلسوں میں اُسے مس گلا ہو کہا جاتا تھا.ایک دفعہ مس گلا بو نے اپنے خط کے اندر پھولوں کی پتیاں رکھ دیں.حضرت صاحب نے انہیں دیکھ کر فرمایا یہ پھول محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی يَأْتِيكَ مِنْ كُلّ فَجٍّ عَمِيقٍ کی پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں.یہ پھول اب تک میرے پاس محفوظ ہیں.ایک یہودی عالم کی شہادت ستمبر ۱۹۰۲ء میں ایک یہودی عالم عابد نام عاجز کی تحریک و تبلیغ سے قادیان آیا.اُسے حضرت مسیح ناصری کی قبر کشمیر کا نقشہ دکھایا گیا تو اُس کی طرز بناوٹ پر غور کرتے ہوئے اس سے یہ رائے ظاہر کی کہ یہ انبیاء بنی اسرائیل کی قبروں کے نمونہ پر ہے.یہ ایک شہادت ہے جو بنی اسرائیل کے ایک عالم نے دی.حضرت حجتہ اللہ مسیح موعود نے فرمایا کہ اس کو کشتی نوح کے ساتھ منظم کیا جائے.یہ شہادت بہت مؤثر ہوگی اور انشاء اللہ اس سے مفید نتائج پیدا ہوں گے.ایک عام تحریک ہوگی.چنانچہ وہ عبارت کشتی نوح میں درج ہے.اس کا حصہ عبرانی عاجز راقم نے کاپی پر لکھا تھا.وفات مسیح پر پطرس کی شہادت.ستمبر ۱۹۰۲ ء.مولوی محمد علی صاحب ایم اے نے سٹریٹ سیٹلمنٹ سے آئے ہوئے ایک خط

Page 93

78 کا کچھ حصہ حضرت صاحب کی خدمت میں سنایا.اُس میں راقم خط بحوالہ ایک اٹلی اخبار کے ناقل تھا کہ یروشلم میں تیرہ جولائی ۱۸۷۹ء کو کور نامی ایک راہب کے مر جانے پر اُس کے ترکہ میں سے بعض کا غذات برآمد ہوئے ہیں جو عبرانی زبان میں ہیں.جب وہ کاغذات اور ترکہ اُس کے وارثوں کو دیا گیا اور اُن کا غذات کے پڑھنے کی کوشش کی گئی تو وہ پڑھے نہ گئے کیونکہ وہ پرانی عبرانی میں تھے.بہر حال بڑی کوشش اور محنت کے بعد جب وہ کاغذ پڑھا گیا تو وہ پطرس حواری کی ایک تحریر تھی جس میں پطرس ظاہر کرتا ہے کہ یہ کا غذ میں نے مسیح کی وفات کے تین سال بعد لکھا ہے اور اب میری عمر ۹۰ برس کی ہے اور اسی کاغذ میں پطرس مسیح کو مسیح ابن مریم ہی کہتا ہے.خدایا خدا کا بیٹا قرار نہیں دیتا بلکہ الفاظ اس کو نبی کے ہی درجہ تک پہنچاتے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ پطرس مسیح کی موت کا معترف ہے.ورنہ موجودہ نصرانیت کے محاورہ کے موافق اگر پطرس جی اُٹھنے یا آسمان پر زندہ چلے جانے کا قائل ہوتا تو اسے کہنا چاہیئے تھا کہ مسیح کے جی اٹھنے یا آسمان پر چلے جانے کے تین برس بعد میں یہ لکھتا ہوں.پطرس کا یہ لکھنا کہ مسیح ابن مریم کی وفات کے تین سال بعد اس کو لکھتا ہوں اور واقعہ صلیب کا ذکر نہ کرنا اس امر کی صاف دلیل ہے کہ وہ مسیح کی اُس موت کا ذکر کرتا ہے جو کشمیر میں واقع ہوئی کہا جاتا ہے کہ چار لاکھ روپیہ دے کر ان کا غذات کو وارثان سے حاصل کرنے کی تجویز کی گئی ہے.حضرت اقدس اس خبر کو سن کر از بس محظوظ ہوئے کیونکہ آپ کی تائید میں ایک زبر دست شہادت ہے اور عیسائیت کی شکست فاش کے لئے خود عیسائیوں کے معتبر حواری پطرس کا ہی تیار کردہ حربہ ہے.ایک عرصہ ہوا حضرت اقدس حجۃ اللہ علی الارض جبری اللہ فی حلل الا نبیاء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو با علام الہی معلوم کرایا گیا تھا.کہ کسر صلیب کے دواسباب پیدا ہو گئے ہیں.اس قسم کے اندرونی اسباب ہیں اور یہ اندرونی اسباب کسر صلیب کے لئے مفید ثابت ہورہے ہیں.مسیح کی دُعا ان کا غذات میں ایک کاغذ مسیح کی دعا کا بھی نکلا ہے جس میں وہ نہایت عجز کے ساتھ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہے.اس دُعا سے عیسائی دنیا کو معلوم ہو گا کہ مسیح اپنا مقام کیا ٹھہراتا ہے.اس میں مسیح اعتراف کرتا ہے کہ میرے گناہ بخش اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ مجھ پر ایسے لوگوں کو مسلط نہ کر جو رحم نہ کر سکیں اور یہ بھی دعا کرتا ہے کہ پر ہیز گاری کی مشکلات میں مجھے نہ ڈال اور یہ بھی دُعا مانگتا ہے کہ اپنے دوستوں میں مجھے حقیر نہ کر اور یہ بھی اعتراف کرتا ہے کہ میں اس کمال تک نہیں پہنچا جس کی مجھے خواہش تھی.غرض یہ ساری دُعا مسیح کی عبودیت بندگی ، بیچارگی کی پوری مظہر ہے.اور اس کی شان نبوت کے موافق ہے.

Page 94

79 رسول پطرس اور مسیح کی عمر اکتوبر ۱۹۰۲ ء - قبل نماز مغرب جب حضرت جری اللہ فی حلل انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تو روڑ کی سے آئے ہوئے احباب ملے جو برات میں گئے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب ( جو حضرت اقدس کے سلسلہ میں ایک درخشندہ گوہر ہیں اور جو عیسائیوں کی کتابوں کو پڑھ کر اُن میں سے سلسلہ عالیہ کے مفید مطلب مضامین کے اقتباس کرنے کا بیحد شوق اور جوش رکھتے ہیں ) پطرس کے متعلق سنایا کہ روڈ کی میں پادریوں سے مل کر میں نے اس سوال کو حل کیا ہے.معلوم ہوا ہے کہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر ۳۰ یا ۴۰ کے درمیان تھی.ناظرین کو اس سوال عمر پطرس کی ضرورت کے لئے ہم اُن کا غذات کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو حال میں کسی پرانے راہب خانہ سے ملے ہیں اور جن کا ذکر اٹلی اور ہانگ کانگ کے اخباروں میں چھپا ہے اور جن کے مطابق پطرس لکھتا ہے کہ میں نے مسیح کی وفات سے تین سال بعد ان کو لکھا ہے اور اب میری عمر ۹۰ سال کی ہے.گویا مسیح نے جب وفات پائی تو پطرس کی عمر ۸۷ سال کی ہوئی اور واقعہ صلیب کے وقت پطرس کی عمر میں اور چالیس کے درمیان بتائی جاتی ہے تو اب اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ مسیح واقعات صلیب کے بعد کم از کم ۴۷ سال تک بموجب اس تحریر کے زندہ رہا اور پطرس اُن کے ساتھ رہا اور یہ ثابت ہو گیا کہ صلیب پر مسیح نہیں مرا بلکہ طبعی موت سے مرا ہے اور نہ آسمان پر اس جسم کے ساتھ اُٹھایا گیا کیونکہ رأس الحوار بین پطرس اس کی موت کا اعتراف کرتا ہے اور موت کا وقت دیتا ہے.مفتی صاحب نے یہ عظیم الشان خوشخبری حضرت صاحب کو سنائی.پھر نماز مغرب ادا ہوئی.اخبار الحکم کا شکریہ کا (ایڈیٹر الحکم ) پہلی دفعہ جب میں ۱۸۹۰ء کے آخیر میں قادیان آیا اور بیعت کر کے واپس اپنی ملازمت پر جموں پہنچا تو حضرت استاذی المکرم مولوی حکیم نور الدین صاحب نے مجھ سے قادیان کے تمام حالات دریافت کئے.حضرت صاحب کیا کرتے تھے ؟ کتنی دفعہ سیر کو گئے.راستہ میں کیا فرمایا ؟ وغیرہ.حضرت مولانا صاحب کی اس دلچسپی کے سبب مجھے شوق ہوا کہ جب کبھی میں قادیان آتا.تمام حالات لکھ کر حضرت مولوی صاحب کو اور دوسرے دوستوں کو بھیجتا رہتا.اس طرح مجھے ایسے حالات کے لکھتے رہنے کی عادت ہو گئی اور بہت سی پرانی نوٹ بکیں اب تک میرے پاس موجود

Page 95

80 ہیں میں اس قسم کے حالات درج ہیں.اُس وقت سلسلہ کا کوئی اخبار نہ تھا.۱۸۹۷ء میں پہلا اخبار نام جاری ہوا.اس خبر رسانی کے متعلق میں نے ایک مضمون ستمبر ۱۹۰۲ء میں لکھا تھا جو درج ذیل کیا جاتا ہے : اللہ تعالیٰ کا رسول ان دنوں ایک کتاب کی تصنیف میں مصروف ہے جس کا نام ” نزول المسیح ، رکھا گیا ہے.ابتداء میں یہ ایک چھوٹا سا اشتہار شروع ہوا تھا کہ مخلوق الہی کو آنے والے اور آئے ہوئے عذاب سے ڈرائے.پھر پیر گولڑی کے اس راز کے افشا پر جو اس نے ایک مُردہ کے مسودوں کو اپنے نام پر شائع کیا ہے یہ رسالہ کچھ اور بڑھا لیکن بعد میں ان رات دن گالیاں دینے والوں اور کافر کہنے والوں کی ہمدردی کے جوش میں خدا کے صادق نبی نے ارادہ فرمایا کہ اس کتاب کو ہر طرح کے دلائل اور بیانات سے کامل کر کے لوگوں کی راہنمائی کے لئے پیش کیا جائے.چنانچہ اس کتاب کی تکمیل کے واسطے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ ان نشانات میں سے بعض کی ایک فہرست اس میں درج کی جانچو حضرت حجتہ اللہ کے ہاتھ پر ظاہر ہو چکے ہیں.اس امر کے واسطے اس عاجز کو بھی حکم ہوا کہ بعض نشانات کو متفرق کتابوں وغیرہ سے جمع کر کے ان کی ایک یادداشت بنا کر امام برحق کی خدمت میں پیش کروں تا کہ اس جہاد دینی میں میرے لئے کچھ ثواب کا حصہ ہو.اس امر کے واسطے مجھے ضرورت ہوئی کہ میں اخبار الحکم کے گذشتہ پر چوں سے کچھ مددلوں.چنانچہ میں نے دفتر الحکم سے سارے فائل منگوائے اور ان کو دیکھنا شروع کیا.مطلب تو اپنے مطلب سے ہی تھا لیکن ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی اس سُرخی اور کبھی اُس سُرخی پر نظر پڑ کر میرے دل پر اس با قاعدہ ریکارڈ کا ایک عجیب اثر ہوا اور اخبار کے کالموں میں اُن سالوں کے لئے اس پاک سلسلہ کی ایک محفوظ تاریخ دیکھ کر بے اختیار قلب میں ایڈیٹر الحکم کا شکر یہ اور اس کے واسطے دُعائے خیر نکلی.۱۸۹۰ء کا آخیر یا ۱ ۱۸۹ء کا ابتداء تھا جب سے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود کے دست بیعت ہونے اور آپ کی غلامی میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہوا ہے.تب سے ہمیشہ میری یہ عادت رہی ہے کہ آپ کے مقدس کلمات کو نوٹ کرتا اور لکھ لیتا اور اپنی پاکٹ بکوں میں جمع کرتا اور اپنے مہربانوں اور دوستوں کو کشمیر، کپورتھلہ، انبالہ، لاہور، سیالکوٹ ، افریقہ، لندن روانہ کرتا جس سے احباب کے ایمان میں تازگی آتی اور میرے لئے موجب حصول ثواب ہوتا.مدتوں لاہور میں یہ حالت رہی کہ جب احباب سُن پاتے کہ یہ عاجز دارالامان سے ہو کر آیا تو بڑے شوق اور التزام کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور میرے گرد جمع ہو جاتے.جیسا کہ شمع کے گرد پر وانے تب میں انہیں

Page 96

81 وہ رُوحانی غذا دیتا جو کہ میں اپنے امام کے پاس سے جمع کر کے لے جاتا اور اُن کی پیاسی رُوحوں کو اس آپ زلال کے ساتھ ایسا سیر کر دیتا کہ اُن کی تشنگی اور بھی بڑھ جاتی اور اُن کی عاشقانہ رُوحیں اپنے محبوب کی محبت میں اُچھلنے لگتیں.یہی حال ہر جگہ کے محتان کا تھا.جبکہ ایک مردِ خُدا شیخ یعقوب علی صاحب کو یہ توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوئی کہ وہ اس سلسلہ کی تائید میں ایک ہفتہ وار اخبار نکال کر قوم کی اس اشد ضرورت کو پورا کرے.سو یہ اخبار پہلے امرتسر میں جاری ہوالیکن ایک سہ ماہی کے اندر جلد اپنے مرکز اصلی یعنی قادیان میں آ گیا.ضرور تھا کہ قوم کی مالی مشکلات میں یہ آرگن حصہ لیتا.اور اس نے جو کچھ حصہ لیا اُس کے ذکر کی مجھے ضرورت نہیں کیونکہ میں دراصل اس جگہ اُس کی تاریخ لکھنے نہیں بیٹھا بلکہ صرف اپنی شکر گزاری کا اظہار کر رہا ہوں.قوم احمدی کی تمام تازہ خبروں کے ذریعہ سے یہ اخبا را بتک جماعت کو بہت ہی مفید اور کارآمد خدمت دے رہا ہے.حضرت اقدس کے الہامات کی پیش از وقت اشاعت کر کے دُنیا کو معجزات و خوارق کا دکھلانا تمام احمدی انسٹی ٹیوشنس مثلاً میگزین مدرسہ کے متعلق جماعت کو باخبر رکھنا ، حضرت صاحب کے کلمات طیبات دور اوفتا دوں تک پہنچانا ، سلسلہ کے حالات کا ایک باقاعدہ ریکارڈ رکھنا ، دُشمنانِ دین کے حملوں کا دندان شکن جواب دینا ، حضرت مولوی نورالدین صاحب کے رُوحانی نسخہ جات کو قوم میں تقسیم کرنا ، حضرت امام کے خطوط قدیم کو محفوظ کر دینا ، شہر قادیان کولوکل ضروریات سے گورنمنٹ کو وقتاً فوقتاً اطلاع دینا ، جماعت احمدیہ کی تصانیف کا اشتہار دینا ، حضرت مولوی نورالدین صاحب و مولوی عبد الکریم صاحب کے پر زور خطبات جماعت کو سُنا دینا.غرض دشمنوں پر رعب ڈالنے اور دوستوں کو خوش کرنے کے بہت سے عمدہ کام اس مفید پر چہ سے حاصل ہو رہے ہیں.با وجود ان خوبیوں کے ہنوز یہ اخبار تمام نقصوں سے نکل کر اپنے کمال کو نہیں پہنچا اور ہر امر دنیا میں تدریجا ہوتا ہے لیکن میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح قوم نے اپنی وسعت کے مطابق اس کی قدر کی ہے.اور شیخ صاحب ایڈیٹر نے وقتاً فوقتاً اس کی اطلاع کی ہے ایسا ہی آئندہ ترقی کرتے کرتے رفتہ رفتہ یہ ایک بڑا ز بر دست آرگن اس قوم کا ہو جائے گا.اور میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس حسن نیت کے ساتھ لگائے ہوئے بر وقت درخت کو اپنی بارانِ رحمت کے ساتھ پرورش کرتا ہوا ایسا بنائے ، اتنا پھیلائے کہ روزانہ اس کے پتوں کے بار داور کریم سایہ کے نیچے لاکھوں گناہ کی دُھوپ کے ستائے ہوئے مسافرانِ دُنیا آرام اور راحت پاویں.آمین.ستمبر ۱۹۰۲ء محمد صادق

Page 97

82 فری میسن امریکن ڈاکٹر ڈوئی مدعی نبوت نے ( جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں مطابق پیشگوئی ہلاک ہوا تھا) ایک کتاب فری میسنوں کے متعلق لکھی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمانے سے عاجز نے وہ کتاب امریکہ سے منگوائی.ہنوز وہ کتاب قادیان نہ پہنچی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ ” فریمین مسلط نہیں کئے جائیں گے کہ اس کو ہلاک کریں.“ ( الحکم مورخہ ۱۰ / اکتوبر ۱۹۰۱ء) اور اُسی شب ۳۰ رستمبر ۱۹۰۱ء حضرت اُم المومنین کو رویا ہوا تھا کہ عیسے کا مسئلہ حل ہو گیا.خدا کہتا ہے میں جب عیسی کو اُتارتا ہوں تو پوڑی کھینچ لیتا ہوں اور اس کے معنے حضرت اُم المومنین کے دل میں یہ ڈالے گئے کہ عیسی کی حیات و ممات میں انسان کا دخل نہیں.“ اس کے بعد جب ڈاکٹر ڈوئی کی کتاب آئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ کتاب ہر روز آپ تھوڑی تھوڑی ترجمہ کر کے سُنایا کریں.چنانچہ بعد نماز مغرب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام و دیگر احباب مسجد مبارک میں بیٹھ جاتے اور میں وہ کتاب ترجمہ کر کے سُنا تا.یہاں تک کہ اُس کتاب میں یہ مضمون پڑھا گیا کہ فری میسنوں میں بہت سی جماعتیں ہوتی ہیں جیسا کہ مدرسہ میں طلباء کی جماعتیں.نو وارد پہلی جماعت میں داخل کیا جاتا ہے اور ابتدائی جماعتوں میں صرف باہمی اخوت اور ہمدردی اور اخفائے مقاصد و تعلیم کے سبق دیئے جاتے ہیں.اد نے جماعت والوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ اعلیٰ جماعت والوں کے سپرد کیا کام ہیں.مگر انتہائی جماعت کے ممبروں کا کام زیادہ تر ایسے لوگوں کا کشت و خون ہوتا ہے جو گورنمنٹ یا سوسائٹی کے واسطے ضرر رساں یقیں کئے جائیں اور جس شخص کو کوئی ایسا خوفناک کام سپرد کیا جاتا ہے اُسے تمثیلی طور پر سمجھانے کے واسطے ایک پوری ( زینہ) سے ایک چھت پر چڑھایا جاتا ہے اور پھر زینہ بھینچ لیا جاتا ہے.مراد اس سے یہ ہوتی ہے کہ اب تمہارے لئے واپسی کی کوئی راہ نہیں.قدم پیچھے نہ ہٹاؤ اور آگے بڑھو اور جو کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اس کو بہر حال پورا کرو.جب کتاب میں سے یہ الفاظ پڑھے گئے تو حاضرین کے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے چند روز ہی قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت ام المومنین کو یہ خبر دے دی تھی کہ فری میسنوں اور خفیہ سوسائیٹیوں کا یہ کام ہے کہ وہ مخالفوں کو قتل کریں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قتل کرنے پر کوئی قادر نہ ہوگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فالحمد للہ

Page 98

83 طاعونی جرموں کا ہلاک کرنا جب قادیان میں طاعون ہوئی (۱۹۰۲ ء اور اس کے قریب ) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مکان کے صحن میں ایک بڑا ڈھیر لکڑیوں کا روزانہ جلایا کرتے تھے.فرماتے تھے کہ اس سے طاعونی جرم ہلاک ہو جاتے ہیں اور خود ہمیشہ اوپر کی منزل میں مقیم رہتے تھے اور احباب کو بھی فرمایا کرتے تھے کہ حتی الوسع اُوپر کی منزلوں میں رہا کریں.پادری پکٹ مدعی مسیحیت کو تبلیغ ۱۹۰۲ء میں ایک صاحب پادری پکٹ نام نے اپنے گرجا میں وعظ کرتے ہوئے اچا نک کہا کہ میں ہی آنے والا مسیح ہوں.کئی ایک نمازی جو گر جا میں موجود تھے روتے ہوئے آگے بڑھے اور اس کے آگے سجدہ کیا.جب اس کے متعلق اخباروں میں خبر آئی تو میں نے اُسے ایک خط لکھا اور مزید حالات دریافت کئے.جب اُس کا خط اور اشتہارات میرے پاس پہنچے تو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کئے اور حضور نے فوراً ایک مختصر سا اشتہار لکھا اور مولوی محمد علی صاحب کو بھیجا کہ اس کو ترجمہ کر کے ولایت بھیج دو.اتفاقا میں اُس وقت مولوی محمد علی صاحب کے پاس ان کے دفتر میں موجود تھا جو مسجد مبارک کے ساتھ کا چھوٹا کمرہ جانب مشرق ہے اور ہم دونوں نے اُس اشتہار کو پڑھ کر دو باتوں کو خصوصیت کے ساتھ نوٹ کیا.ایک تو یہ کہ حضرت صاحب عموماً لمبے اشتہار لکھا کرتے تھے مگر یہ اشتہار صرف چند سطروں کا تھا جو ایک چھوٹے سے صفحہ پر آ گیا.دوم یہ کہ اس کے آخر میں حضور نے اپنا نام اس طرح لکھا تھا: النبي مرزا غلام احمد وہ اشتہار انگلستان کے اخباروں میں کثرت سے شائع ہوا مگر پکٹ صاحب نے اس کا کچھ جواب نہ دیا بلکہ بالکل خاموش ہو گئے اور پھر کبھی اپنے دعوی کا ذکر نہ کیا اور خاموشی سے اپنی بقیہ زندگی بسر کی.انہی ایام میں عاجز راقم نے ایک تبلیغی خط پگٹ کو لکھا تھا جو درج ذیل ہے.آج قریباً سولہ سو سال کا عرصہ گذرتا ہے کہ عیسائیوں کی قوم ایک سچے خدا خالق ارض و سموات کی عبادت چھوڑ کر اُس دل پر زلزلہ ڈالنے والی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں کہ ایک فانی انسان یعنی مریم کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے یسوع ناصری کو خدا مانتے ہیں اور اس کی پرستش کرتے ہیں.وہ یسوع جو اپنی گنہگاری سے ایسا واقف تھا کہ اُس نے اپنے زمانہ کے ایک کا فر کو بھی اس بات کی

Page 99

84 اجازت نہ دی کہ اس کو نیک کے لفظ سے خطاب کرے.وہ یسوع جو ہمیشہ اپنے تئیں ابن آدم کے نام سے نامزد کرتا اور اپنے اقوال اور افعال سے ہمیشہ اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتا رہتا تھا.وہ یسوع جس نے اپنی کمزور روح اور کمزور جسم کا لحاظ رکھ کر ساری رات نہایت الحاح سے جناب باری میں صلیب کی لعنتی موت سے بچنے کی دُعائیں مانگیں.ہاں اُس یسوع کو خدا مانا جاتا ہے.خدائے قادر علیم وخبیر کے حضور میں یہ کتنے کفر کی بات ہے.(1) كبرت كلمةً تخرج من افواههم ان يقولون الأكذبًا - بڑے دلیرانہ کفر کی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلی.یہ جھوٹ ہے اور بالکل جھوٹ ہے.لَا إِله إِلَّا اللہ - اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں - قال الله تعالى فاما الذين كفروا فاعذبهم عذابًا شديدًا في الدنيا و الآخرة و مالهم من ناصرين - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ انکار کرتے ہیں اُن کے لئے سخت عذاب ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور کوئی ہرگز اُن کی مدد کر نے والا نہ ہوگا.هو الذى ارسل رسوله بالهدى و دين الحق ليظهرة على الدين كله ولو كره المشركون - وہی ہے اللہ جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے تا کہ اس بچے دین کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر کے دکھلاوے اور یہ بات ہو کر رہے گی خواہ مشرک لوگ اس حق سے کراہت کر کے کیسی ہی مخالفت کریں.انسانوں کی جنس کی ذلت اور بے عزتی کے واسطے یہ عیسوی عقیدہ ایک انسان کو خدا بنانے کا کچھ کم نہ تھا لیکن اب ہم سنتے ہیں کہ تم اتنے پر راضی نہیں ہو بلکہ تم نے ایک قدم اور آگے بڑھا کر دعویٰ کیا ہے کہ میں بھی مسیح اور خدا ہوں.ہمیشہ سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں مباحثات ہوتے چلے آئے ہیں اور مسلمان عیسائیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کہ یسوع صرف ایک انسان تھا اور وہ اس میں تھوڑے بہت کامیاب بھی ہوتے رہے ہیں لیکن تثلیث کی تاریکی رُوئے زمین پر اس طرح سے پھیلتی ہوئی چلی گئی جیسے مبروص کے بدن پر برص کا داغ لیکن اب خدائے غیور و قادر کی غیرت اس جوش میں ہے کہ اُس کے نام کی بے عزتی دُنیا میں نہ ہو اور اسی لئے اس حکیم خدا نے رسولوں کے سردار نبیوں کے خاتم اور ولیوں کے بادشاہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے اپنا ایک نبی اور رسول مبعوث کیا ہے اور اس کو ایسے منجزات اور خوارق عطا کئے ہیں جن کے سامنے انجیلی معجزات بیچ نظر آتے ہیں.پس بلحاظ ہمدردی میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے تئیں یا کسی دوسرے انسان کو

Page 100

85 خدا کہنے کے بڑے اور قابل شرم گناہ سے تو بہ کرو.یہ تو ایسا نا پاک جرم ہے کہ کوئی دنیوی گورنمنٹ بھی اس بات کو گوارہ نہیں کر سکتی کہ کوئی اور ان کی سلطنت میں جھوٹا حاکم بن بیٹھے چہ جائیکہ اللہ تعالیٰ کی ابدی سلطنت میں کسی کو ایسا کرنے کی جرات ہو.اگر تم عاجزی اختیار کرو اور انسانوں کا شیوہ اختیار کر کے خاکساری کے ساتھ زمین پر چلو اور خدا کے اس مسیح موعوڈ کو ما نو جو ان دنوں کا مقدس رسول ہے اور جس کا نام حضرت میرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام ہے تو یقیناً خدا تمہیں بہت ہی برکتیں عطا فرما دے گا.پر اگر تم اپنی ضد سے باز نہیں آتے اور ایک سچے خدا پر ایمان نہیں لاتے اور اس مقدس رسول محمد واحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے اور اپنے تئیں مسیح اور خدا کہنے پر اصرار کرتے ہو تو پھر فیصلہ کا ایک ہی طریق ہے اور تمام شکوک کے رفع کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم بحیثیت خدا ہونے کے اپنا حکم صادر کرو کہ یہ نبی تمہارے اِس دنیا میں ٹھیرنے کے زمانے کے اندر تمہارے یہاں ہوتے ہوئے مر جائے اور اپنے اس حکم سے ایک چھپی ہوئی چٹھی کے ذریعہ سے اس نبی کو مطلع کر کے اس سے درخواست کرو کہ وہ بھی تمہارے حق میں ایسی ہی دعا کرے کہ تم اس کی زندگی میں مرجاؤ کیونکہ بائیل میں ایسا ہی لکھا ہے کہ جھوٹا نبی مر جائے گا.ہاں میں یہ نہیں کہتا کہ تم اس مسیح کے حق میں دُعا کرو کیونکہ تم تو خدا ہونے کا دعویٰ کرتے ہو.اس واسطے تمہیں کسی سے دُعا کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک حکم جاری کرنے کی ضرورت ہے.پر یہ مسیح موعود تمہارے حق میں اپنے خدا سے دُعا مانگے گا کیونکہ وہ صرف انسان اور خدا کا رسول ہونے کا مدعی ہے لیکن تم کو اختیار ہے کہ اگر تم خدا ہو تو اس کی دُعا کو قبول نہ کرو اور اس طرح یہ مقابلہ بہر حال تمہارے حق میں مفید ہے.اگر تم اس بات کو اختیار کرو گے تو جھوٹے کی موت تمام مشکل مسائل حل کر دے گی.مباحثات اور مناظرات مذہبی تنازعات کا کبھی فیصلہ نہیں کر سکتے لیکن یہ ایک ایسا طریق ہے کہ اس سے تمام دنیا پر روشن ہو جائے گا کہ سچا مذہب کونسا ہے اور آسمان پر پہنچنے کا اور آسمانی برکات کے حصول کا راستہ کیا ہے.میں ہوں مسیح موعود احمد کا ایک غلام - محمد صادق نوٹ : مسٹر پیٹ نے اس خط کا کچھ جواب نہ دیا لیکن پھر کبھی اُس نے اپنی مسیحیت کا بھی ذکر نہ کیا اور بقیہ عمر خاموشی اور گمنامی میں گذاری.منہ

Page 101

86 سال ۱۹۰۳ء کو دعا سے کامیابی ۲۵ مارچ ۱۹۰۳ء.فرمایا ہم نے سوچا کہ عمر کا اعتبار نہیں ہے.ستر ۷۰ سال کے قریب عمر سے گذر چکے ہیں.موت کا وقت مقرر نہیں خدا جانے کس وقت آ جاوے اور کام ہمارا ابھی بہت باقی پڑا ہے.ادھر قلم کی طاقت کمزور ثابت ہوئی ہے.رہی سیف اس کے واسطے خُدا تعالیٰ کا اذن اور منشاء نہیں ہے.لہذا ہم نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھائے اور اُسی سے قوت پانے کے واسطے ایک الگ حجرہ بنایا اور خدا سے دُعا کی کہ اس مسجد البیت اور بیت الدعا کو امن اور سلامتی اور اعدا پر بذریعہ دلائل نیزہ اور براہین ساطعہ کے فتح کا گھر بنا.خلوت میں گفتگو ۱۹۰۳ء.مقدمہ کرم دین کے ایام میں ایک دن گورداسپور میں بالا خانے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب وکیل اور چند دیگر اصحاب نیچے دری پر بیٹھے تھے.عاجز راقم حضرت صاحب کے پاؤں دبا رہا تھا.سردی کا موسم تھا.خواجہ صاحب نے عرض کی کہ چند قانونی امور پر حضوڑ سے گفتگو کرنی ہے.دوسرے دوست اُٹھ جائیں تا کہ خلوت ہو جائے.میں بھی اُٹھنے لگا تو حضور نے مجھے فرمایا ”آپ بیٹھے رہیں آپ کے ہاتھ گرم ہو چکے ہیں.پس میں بیٹھا رہا اور قانونی باتیں پیش ہوتی رہیں اور اُن پر گفتگو ہوتی رہی.عاجز نے جماعت کرائی ( غالبا ۱۹۰۳ء) ایک سفر میں جبکہ ہم چند خدام حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ قادیان سے گورداسپور جا رہے تھے اور قادیان سے بہت سویرے ہم سوار ہوئے تھے نماز فجر کے وقت نہر پر پہنچے اور وہاں نماز فجر ادا کی گئی اور حضور کے فرمانے سے عاجز راقم پیش امام ہوا.پانچ سات آدمی ساتھ تھے.برآمدہ کچہری میں نماز ( غالباً ۱۹۰۳ء) ایک دفعہ مقدمہ کرم دین میں جبکہ حضرت صاحب کمرہ عدالت میں به سبب سماعت مقدمه تشریف فرما تھے اور نماز ظہر کا وقت گذر گیا اور نماز عصر کا وقت بھی تنگ ہو گیا.تب حضور نے عدالت سے نماز پڑھنے کی اجازت چاہی اور باہر آ کر برآمدے میں ہی اکیلے ہر دو نمازیں جمع کر کے پڑھیں.

Page 102

87 گنے سے کھانسی کا علاج سفر گورداسپور میں ۱۹۰۳ء میں ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی کی شکایت تھی.میں نے عرض کی کہ میرے والد مرحوم اس کا علاج گرم کیا ہوا گنا بتلا یا کرتے تھے.تب حضور کے فرمانے ا سے ایک گنا چند پوریاں لے کر آگ پر گرم کیا گیا اور اس کی گنڈیریاں بنا کر حضور کو دی گئیں اور حضور نے چوسیں.گل محمد عیسائی اگست ۱۹۰۳ء میں بنوں کا ایک عیسائی گل محمد نام قادیان آیا.بہت گستاخی سے جھگڑتا اور بحث کرتا رہا اور اسی حالت میں چلا گیا.اُس کے چلا جانے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رؤیا دیکھا کہ گل محمد آنکھوں میں سرمہ لگا رہا ہے.فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ اُسے ہدایت ہو جائے گی.چنانچہ بہت سالوں کے بعد سُنا گیا تھا کہ اُس نے پھر اسلام قبول کیا تھا.بنوں کے مشہور ڈاکٹر پینل کی بیوہ نے بھی مجھے اپنے کارڈ میں لکھا ہے کہ گل محمد نے عیسائیت کو ترک کر دیا تھا اور اپنے پہلے مذہب میں داخل ہو گیا تھا.جب گل محمد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے ایک تحریر ہونے لگی جس میں غالباً اس قسم کا کچھ اقرار تھا کہ گل محمد دوبارہ کب آوے اور اس کے ساتھ کس طرح گفتگو ہو تو گل محمد نے اصرار کیا کہ اُس کے نام کے ساتھ مولوی کا لفظ لکھا جائے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے فرمایا مولوی ایک عزت کا لفظ ہے جو مسلمانوں کے لئے خاص ہے.آپ کے نام کے ساتھ ہم یہ لفظ نہیں لکھ سکتے.تھوڑی بحث کے بعد یہ طے پایا کہ اس کے نام کے ساتھ مسٹر کا لفظ لکھا جائے.ہوتے مسئلہ شفاعت بہت صفائی سے حل ہو گیا اکتوبر ۱۹۰۳ ء - ہمارے مکرم خان صاحب محمد علی خان صاحب کا چھوٹا لڑکا عبدالرحیم سخت بیمار ہو گیا.چودہ روز ایک ہی تپ لازم حال رہا اور اس پر حواس میں فتور اور سخت بے ہوشی رہی.آخر نوبت احتراق تک پہنچ گئی.میرے مخدوم مکرم مولوی نورالدین صاحب فرماتے تھے کہ عبدالرحیم کے علاج میں غیر معمولی توجہ انہیں پیدا ہوئی اور اُن کے علم نے اپنی پوری اور وسیع طاقت سے کام لیا مگر ضعف اور بجز کا اعتراف کر کے بجز سپر انداز ہو جانے کے کوئی راہ نظر نہ آتی تھی.حضرت خلیفتہ اللہ علیہ السلام کو ہر روز دُعا کے لئے توجہ دلائی جاتی تھی اور وہ کرتے تھے.

Page 103

88 ۲۵ / اکتوبر کو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بڑی بیتابی سے عرض کی گئی کہ عبدالرحیم کی زندگی کے آثار اچھے نظر نہیں آتے.حضرت رؤف رحیم اس کے لئے تہجد میں دُعا کر رہے تھے کہ اتنے میں خدا کی وحی سے آپ پر کھلا کہ ” تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقد ر“ میرے آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے بالمواجہ مجھے فرمایا کہ جب خدا تعالیٰ کی یہ قہری وحی نازل ہوئی تو مجھ پر حد سے زیادہ حزن طاری ہوا.اس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ یا الہی ! اگر یہ دُعا کا موقع نہیں تو میں شفاعت کرتا ہوں.اِس کا موقع تو ہے.اس پر معاوحی نازل ہوئی - يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ في السموات ومن في الارض مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ - اس جلالی وحی سے میرا بدن کانپ گیا اور مجھ پر سخت خوف اور ہیبت وارد ہوئی کہ میں نے بلا اذن شفاعت کی ہے...ایک دو منٹ کے بعد پھر وحی ہوئی.اِنَّكَ اَنْتَ الْمَجَازُ یعنی تجھے اجازت ہے.اس کے بعد حالاً بعد حال عبدالرحیم کی صحت ترقی کرنے لگی اور اب ہر ایک جو دیکھتا اور پہچانتا تھا، اسے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے شکر سے بھر جاتا اور اعتراف کرتا ہے کہ لاریب مردہ زندہ ہوا ہے.اس سے زیادہ مسئلہ شفاعت کا حل اور کیا ہوسکتا ہے اور یہی خدا تعالیٰ کا قانون قدرت ہے.افسوس احمق نصرانی پر کہ ایک نا توان انسان کی پھانسی ملنے کو شفاعت کی غایت سمجھتا ہے.خدا کرے کہ دُنیا کی آنکھیں کھلیں اور اس سچے شفیع نور کو پہچانیں جو وقت پر اُن کے لئے آسمان سے نازل ہوا ہے اور کفارہ وغیرہ بے بنیاد افسانوں کو چھوڑ دیں جسکا نتیجہ اب تک بجز روح کی موت اور جسم کی ہلاکت کے اور کچھ نظر نہیں آیا.اے احمد یو ! تمہیں مبارک ہو کہ یہ دولت خدا تعالیٰ نے تمہارے حصہ میں رکھی تھی.خدا کا شکر اور اُس کی قدر کرو.والسلام ( عبد الکریم) کشش ستمبر ۱۹۰۳ ء - فرمایا وہی مذہب ترقی کر سکتا ہے جس میں رُوحانیت ہو.انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ ایک کشش عطا کرتا ہے جو پاکیزہ دلوں کو محسوس ہوتی ہے اور وہ اس سے بھیجے ہوئے چلے آتے ہیں.اس کشش سے مؤثر ہونے والے لوگ ایک فوق العادۃ زندگی کا نمونہ دکھلاتے ہیں.ہیروں کے ٹکڑوں کی طرح اُس کشش کی چمک اُن میں نظر آتی ہے جس شخص کو وہ کشش ہوتی ہے وہ الہی طاقتوں کا سرچشمہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی نادر اور مخفی قدرتیں جو عام طور پر ظاہر نہیں ہوتیں، ایسے شخص کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہیں اور اسی کشش سے ان کو کامیابی ہوتی ہے.سچی تقوی اور

Page 104

89 استقامت بغیر ایسے صاحب کشش کی موجودگی کے پیدا نہیں ہو سکتی اور نہ اس کے سوائے قوم بنتی ہے.یہی کشش ہے جو کہ دلوں میں قبولیت ڈالتی ہے.اس کے بغیر ایک غلام اور نوکر بھی اپنے آقا کی خاطر خواہ فرمانبرداری نہیں کر سکتا اور اسی کے نہ ہونے کی وجہ سے نوکر اور غلام جن پر بڑے انعام و اکرام بھی کئے گئے ہوں آخر کا ر نمک حرام نکل جاتے ہیں.بادشاہوں کی ایک کثیر تعداد ایسے غلاموں کے ہاتھ سے قتل ہوتی رہی لیکن کیا کوئی ایسی نظیر انبیاء میں دکھا سکتا ہے کہ کوئی نبی اپنے کسی غلام یا مرید کے ہاتھوں سے قتل ہوا ہے.مال اور زر اور کوئی اور ذریعہ دل کو اس طرح سے قابو نہیں کر سکتا جس طرح سے یہ کشش قابو کرتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس وہ کیا بات تھی کہ جس کے ہونے سے صحابہ نے اِس قدر صدق دکھایا اور اُنہوں نے نہ صرف بُت پرستی اور مخلوق پرستی سے ہی منہ موڑا بلکہ در حقیقت اُن کے اندر سے دُنیا کی طلب ہی مسلوب ہو گئی اور وہ خدا کو دیکھنے لگ گئے.وہ نہایت سرگرمی سے خُدا کی راہ میں ایسے فدا تھے کہ گویا ہر ایک اُن میں سے ابراہیم تھا.اُنہوں نے کامل اخلاص سے خُدا کا جلال ظاہر کرنے کے لئے وہ کام کئے جس کی نظیر بعد اس کے کبھی پیدا نہیں ہوئی اور خوشی سے دین کی راہ میں ذبح ہونا قبول کیا.دُنیا اور مافیہا پر دین کو مقدم کر لینا بغیر کشش الہی کے پیدا نہیں ہو سکتا جن لوگوں میں یہ کشش نہیں ہوتی وہ ذرا سے ابتلاء سے تبدیل مذہب کر لیتے ہیں.چکڑالوی لاہور میں ایک بزرگ بابا محمد چٹو نام ہوا کرتے تھے جو پہلے ایک جو شیلے وہابی ہونے کے سبب اور بعد میں چکڑالوی ہو جانے کے سبب مشہور آدمی تھے.وہ اپنے زمانہ عقائد چکڑالویہ کے درمیان اپنے عقیدہ کے ایک عالم کو ساتھ لے کر بحث کرنے کے لئے قادیان آئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں ایک ہی بات کہی کہ آپ میری صداقت کے تو قائل نہیں لیکن دُنیا میں کسی نہ کسی کی صداقت کے تو آپ قائل ہوں گے.مثلاً حضرت ابرا ہیم یا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم یا اور کوئی نبی یا رسول جس کسی کے بھی آپ قائل ہوں جن دلائل سے آپ نے ان کو سچا مانا ہے وہ دلائل آپ میرے سامنے بیان کریں.اُنہی کے ذریعہ سے میں آپ کو اپنی سچائی کا ثبوت دوں گا اور اس طرح بات مختصر ہو جائے گی.بابا چٹو اور اس کے ساتھی مولوی اس امر کا کچھ جواب نہ دے سکے اور ٹال مٹول کرنے لگے.اس واسطے گفتگو کا سلسلہ آگے نہ چل سکا.

Page 105

90 ڈاکٹر عبدالحکیم وڈاکٹر رشید الدین صاحب مرحوم غالبا ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں ڈاکٹر عبد الحکیم کا ذکر آیا کہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی تصنیف کے کرنے میں مصروف رہتے ہیں.ڈاکٹر صاحب اس وقت ابھی مُرتد نہیں ہوئے تھے.حضرت مولوی نور الدین صاحب رضی اللہ عنہ نے عرض کی ڈاکٹر عبدالحکیم تو اپنا وقت کسی تصنیف کے کام میں لگائے رکھتے ہیں لیکن مجھے ڈاکٹر رشید الدین صاحب سے یہ سُن کر تعجب ہوا کہ اُنہوں نے کہا کہ مجھے کسولی کے پہاڑ پر لگایا گیا ہے جہاں کام بہت کم ہونے کی وجہ سے میں حیران تھا کہ وقت کس طرح سے گزاروں اور آخر بہت سوچ کر روزانہ اخبار سول ملٹری منگوانا شروع کیا.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب ڈاکٹر عبدالحکیم ایک دُنیا دار آدمی ہے اُسے کتابوں کے بیچنے اور روپیہ کمانے کی فکر رہتی ہے لیکن خلیفہ رشید الدین صاحب ایک درویش آدمی ہیں جو دُنیا جمع کرنے کی فکر نہیں رکھتے.سال ۱۹۰۴ء ١٩٠٤ء کثرت ازدواج کی اجازت جنوری ۱۹۰۴ء.فرمایا ” بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ انسان کو حقیقی طور پر معلوم ہو جائے کہ خدا ہے جس قدر جرائم ، معاصی اور غفلت وغیرہ ہوتی ہے، ان سب کی جڑ خدا شناسی میں نقص ہے.اسی نقص کی وجہ سے گناہ میں دلیری ہوتی ہے.بدی کی طرف رجوع ہوتا ہے اور آخر کار بد چلنی کی وجہ سے مثلاً آ تشک کی نوبت آتی ہے پھر اس سے جزام ہوتا ہے جس سے نوبت موت تک پہنچتی ہے.حالانکہ بد کار آدمی اگر بد کاری میں لذت حاصل نہ کرے تو خدا اُسے کسی اور طریق سے لذت دے دے گا اور اس کے جائز وسائل بہم پہنچا دے گا.مثلاً اگر چور چوری کرنا ترک کر دے تو خدا اُسے مقدار رزق ایسے طریق سے دے گا جو حلال ہو اور حرامکار حرامکاری نہ کرے تو خدا نے اس پر حلال عورتوں کا دروازہ بند نہیں کر دیا.اس لئے بدکاری اور بد نظری سے بچنے کے لئے ہم نے اپنی جماعت کو کثرت ازدواج کی بھی نصیحت کی ہے کہ تقویٰ کے لحاظ سے اگر وہ ایک سے زیادہ بیویاں کرنی چاہیں تو کر لیں مگر خدا کی معصیت کے مرتکب نہ ہوں.پہلی بیوی کے حقوق فرمایا.” میرا تو یہی جی چاہتا ہے کہ میری جماعت کے لوگ کثرت ازدواج کریں اور

Page 106

91 کثرت اولا د سے جماعت کو بڑھا دیں.مگر شرط یہ ہے کہ پہلی بیوی کے ساتھ دوسری بیوی کی نسبت زیادہ اچھا سلوک کریں تا کہ اُسے تکلیف نہ ہو.دوسری بیوی پہلی بیوی کو اسی لئے ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ وہ خیال کرتی ہے کہ میری غور و پرداخت اور حقوق میں کمی کی جائے گی مگر میری جماعت کو اِس طرح نہ کرنا چاہئیے.اگر چہ عورتیں اس بات سے ناراض ہوتی ہیں مگر میں تو یہی تعلیم دوں گا.ہاں یہ شرط ساتھ رہے گی کہ پہلی بیوی کی غور و پرداخت اور اس کے حقوق دوسری کی نسبت زیادہ توجہ اور غور سے ادا ہوں اور دوسری کی نسبت پہلی کو زیادہ خوش رکھنے کی کوشش کی جائے.“ کچی تو به ۱۹ء.فرمایا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بچی تو بہ کرنے سے انسان بالکل معصوم ہو جاتا ہے گویا اُس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ تھا.سچی توبہ کے بعد چاہیے کہ انسان اپنا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صاف رکھے تا کہ کوئی حزن اور غم اُس کے نزدیک نہ پھٹکے کیونکہ اس سے انسان ولی بن جاتا ہے.إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوفَ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونُ - خدا تعالیٰ جب کسی کو اپنا ولی بناتا ہے تو ہزاروں گناہ اور امراض سے اُسے بچاتا ہے.نہ صرف اُسے بلکہ اُس کے اہل وعیال کا بھی کفیل ہو جاتا ہے اور یہی نہیں بلکہ جن مکانوں میں اور زمینوں میں وہ رہتے ہیں اُن میں ایک برکت دی جاتی ہے اور ان کے کپڑوں میں برکت دی جاتی ہے.ممکن ہے کہ سابقہ زندگی میں کسی سے صغائر یا کبائر سرزد ہوئے ہوں لیکن بچے تعلق اور صاف معاملہ پر اللہ تعالی گل گناہ بخش دیتا ہے حتی کہ اُسے یاد تک نہیں دلاتا کہ تجھ سے یہ گناہ سرزد ہوئے ہیں، نہ اُس کو کہیں شرمندہ ہونے دیتا ہے.یہ اُس کا فضل اور احسان ہے.درازی عمر کا نسخہ ۱۹۰۴ ء ایک دفعہ فرمایا اگر انسان چاہتا ہے کہ لمبی عمر پائے تو اپنا کچھ وقت اخلاص کے ساتھ دین کے لئے وقف کرے.خدا کے ساتھ معاملہ صاف ہونا چاہئیے.وہ دلوں کی نیت کو جانتا ہے.درازی عمر کے واسطے یہ مفید ہے کہ انسان دین کا ایک وفادار خادم بن کر کوئی نمایاں کام کرے.آج دین کو اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی اُس کا بنے اور اس کی خدمت کرے.“ تاکید نماز ۱۹۰۴ء - فرمایا : نماز خدا کا حق ہے اسے خوب ادا کرو اور خدا کے دشمن سے مداہنہ کی

Page 107

92 زندگی نہ برتو.وفا اور صدق کا خیال رکھو.اگر سارا گھر غارت ہوتا ہے تو ہونے دونگر نماز کو ترک مت کرو.وہ کافر اور منافق ہیں جو نماز کو منحوس کہتے ہیں.اُن کے اندر خود زہر ہے.جیسے بیمار کو شیرینی کڑوی لگتی ہے ویسے ہی ان کو نماز کا مزہ نہیں آتا.نماز دین کو درست کرتی ہے.نماز کا مزاد نیا کے ہر ایک مزے پر غالب ہے.لذاتِ جسمانی کے لئے ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں اور اس قد رخرچ ہو کر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان بیماریوں میں گرفتار ہوتا ہے.مگر نماز ایک مفت کا بہشت بیجو انسان کو حاصل ہوتا ہے.قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے.ایک ان میں سے دُنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق پرکشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے ایک لڑکے اور لڑکی کی باہمی شادی ہوتی ہے تو اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کر کے دُعا کرنی چاہئیے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو جو تعلق عبودیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا تعلق ہے اور انوار سے پُر ہے جس کی تفصیل نہیں ہو سکتی.جب تک یہ لذت حاصل نہیں ہوتی تب تک انسان بہائم سے ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن جسے یہ لذت دو چار دفعہ بھی نہ ملے وہ اندھا ہے-مـــن كـان فـي هـذه اعمى فهو في الأخرة اعمى - دُعا نہ کرنے میں ہلاکت ہے ۴ جون ۱۹۰۴ء.فرمایا : نماز اصل میں دُعا ہے.اگر انسان کا نماز میں دل نہ لگے تو پھر ہلاکت کے لئے طیار ہو جائے، کیونکہ جو شخص دُعا نہیں کرتا وہ گویا خود ہلاکت کے نزدیک جاتا ہے.دیکھو ایک طاقتور حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دُکھ اُٹھاتا ہوں.مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں.میں بہت رحم کرتا ہوں.بیکسوں کی امداد کرتا ہوں لیکن ایک شخص جو مشکل میں مبتلا ہے اُس کے پاس سے گذرتا ہے اور اس کی ندا کی پرواہ نہیں کرتا ، نہ اپنی مشکل کا اُس کے آگے بیان کر کے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہو گا.خدا تعالیٰ ہر وقت انسان کو آرام دینے کے واسطے طیار ہے بشرطیکہ کوئی اُس سے درخواست کرے.قبولیت دُعا کے واسطے ضروری ہے کہ انسان نافرمانی سے باز رہے اور بڑے زور سے دُعا کرے کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے.

Page 108

93 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عاجز راقم کو خواب میں دیکھا ۱۶ اپریل ۱۹۰۴ء - فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی درخت ہے اور ایک مقام دارہ کی طرح ہے.میں وہاں پہنچا ہوں.مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے.دو چار اور دوست بھی ہمراہ تھے لیکن اُن کے نام اور وہ حصہ خواب کا بھول گیا ہوں.“ دُعا نہ کرنے کا نتیجہ ۱۹ار اپریل ۱۹۰۴ ء.فرمایا : " دُعا عمدہ شے ہے.اگر توفیق دعا ہو تو یہی ذریعہ مغفرت ہو جاتی ہے اور اسی کے ذریعہ سے رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ مہربان ہو جاتا ہے.دُعا کے نہ کرنے سے سب سے اول دل پر زنگ چڑھتا ہے ، پھر قساوت پیدا ہوتی ہے، پھر خدا سے اجنبیت ، پھر عداوت ، پھر نتیجه سلب ایمان ہوتا ہے.گول مول مصالحت نا پسند جون ۱۹۰۴ء میں ایام مقدمہ کرم دین میں بعض معزز مسلمانوں نے یہ کوشش کی کہ حضرت صاحب اور کرم دین کے درمیان مصالحت ہو جائے اور ہر دو فریق اپنے اپنے مقدمات کو واپس لے لیں.حضرت صاحب نے فرمایا کہ میں نے تو کرم دین پر کوئی مقدمہ نہیں کیا، حکیم فضل دین صاحب نے کیا ہے.مگر میں اُن کو حکم دے کر مقدمہ واپس کرا دیتا ہوں بشرطیکہ کرم دین اقرار کرے کہ خطوط محولہ مقدمہ اور مضمون سراج الاخبار اُسی کے ہیں.یا وہ خدا کی قسم کھا کر لکھ دے کہ وہ مضمون میرے نہیں ہیں.مگر کرم دین کے دل میں چور تھا وہ اپنے جھوٹ سے واقف تھا اس واسطے قسم کی جرات نہ کر سکا اور مقدمہ جاری رہا اور آخر خدا تعالیٰ نے عدالت اپیل سے حضرت صاحب کی صداقت اور کرم دین کے جھوٹ کو ثابت اور شائع کرا دیا.حضرت صاحب نے مقدمات کی تکالیف کو برداشت کرنا پسند کیا مگر گول مول مصالحت کو پسند نہ کیا.اخلاقی تناسخ جولائی ۱۹۰۴ء - فرمایا : انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف ترقی کرنے لگتا ہے تو پہلے اُس کی حالت بہت ادنے ہوتی ہے جس طرح ایک بچہ آج پیدا ہوا ہے تو اُس میں صرف دُودھ چوسنے کی ہی طاقت ہوتی ہے.اور کچھ نہیں.پھر جب غذا کھانے لگتا ہے تو آہستہ آہستہ غصہ ، کینہ، خود پسندی، نخوت علی ہذا القیاس سب باتیں اُس میں ترقی کرتی جاتی ہیں اور دن بدن جوں جوں اس کی

Page 109

94 غذائیت بڑھتی جاتی ہے شہوات اور طرح طرح کے اخلاق ردیۃ اور اخلاق فاسدہ زور پکڑتے جاتے ہیں اور اسی طرح ایک وقت پر اپنے پورے کمال انسانی پر پہنچتا ہے.اور بھی اُس کے جسمانی جنم ہوتے ہیں یعنی کبھی گئے، کبھی سورہ کبھی بندر، کبھی گائے، کبھی شیر وغیرہ جانوروں کے اخلاق اور صفات اپنے اندر پیدا کرتا جاتا ہے.گویا کل مخلوقات الارض کی خاصیت اُس کے اندر ہوتی جاتی ہے.اسی طرح جب انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ سلوک کا رستہ چاہے گا تو یہ ساری خاصیتیں اس کو طے کرنی پڑیں گی اور یہی تناسخ اصفیاء نے مانا ہے.غالباً یہی تناسخ ہنود میں بھی تھا مگر بے علمی سے دھوکا لگ گیا اور سمجھ الٹی ہو گئی.اسی کے مطابق صاحب مثنوی نے کہا ہے.ہچو سبزه با رہا روئیده ام ہفت صد و هفتاد قالب دیده ام حقیقت دعا اکتوبر ۱۹۰۴ء.فرمایا: یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ دُعا ہی ہے.یہی دُعا اس کے لئے پناہ ہے اگر وہ ہر وقت اس میں لگا ر ہے.یہ بھی یقینا سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں.آر یہ لوگ بھلا کیوں دُعا کریں گے جبکہ انکا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نکل ہی نہیں سکتے اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی اُمید ہی نہیں ہے.ان کو دُعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دُعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دُعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دو بار کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا.پس یہ خاص اکرام اسلام کے لئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہو جائیں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے؟ جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور آدمی ہر وقت اس سے پانی پی سکتا ہے پھر بھی اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خود طالب موت اور نشانہ ہلاکت ہے.اس صورت میں تو چاہئیے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے.یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں.قرآن شریف کے تین پارے ہیں اور سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جائیں اور اس پر پورا عملدرآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل

Page 110

95 جاتی ہے.مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دُعا ء ہے.دُعا کو مضبوطی سے پکڑ لو.میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دُعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ دُعا کیا چیز ہے؟ دُعا یہی نہیں کہ چند لفظ منہ سے بڑ بڑائے.یہ تو کچھ بھی نہیں.دُعا اور دعوت کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارنا.اور اس کا کمال مؤثر ہونا اُس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال دردِ دل اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اُس کو پکارے.ایسا کہ اُس کی رُوح پانی کی طرح گداز ہو کر آستانہ الوہیت کی طرف بہ نکلے.یا جس طرح کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اُس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے.اُس کی آواز ہی میں وہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے.اسی طرح وہ دُعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جاوے.اس کی آواز اس کا لب، لہجہ اور ہی ہوتا ہے.اس میں وہ رقت اور درد ہوتا ہے جو الوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے.اس دُعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضا اس سے متاثر ہو جاویں اور زبان میں خشوع و خضوع ہو.دل میں درد اور رقت ہو.اعضا میں انکسار اور رجوع الی اللہ ہو اور پھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری اُمید ہو.اُس کی قدرتوں پر ایمان ہو.ایسی حالت میں جب آستانہ الوہیت پر گرے گا نامراد واپس نہ ہوگا.چاہئیے کہ اس حالت میں بار بار حضور الہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار ہوں اور کمزور ہوں.تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا تو آپ رحم فرما اور مجھے گنا ہوں سے پاک کر کیونکہ تیرے فضل وکرم کے سوا کوئی اور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے.جب اس قسم کی دُعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نامعلوم وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور سکینت اُس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی کو دور کرے گی اور غیب سے ایک طاقت عطاء ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ اُن سے بچے گا.اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُ سے کھینچ کر گناہ کی طرف لے جاتے تھے.ایک دفعہ وہ سب زنجیر ٹوٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جیسے پہلی حالت میں گناہ کی طرف ایک رغبت اور رجوع تھا اس حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اللہ

Page 111

96 تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہوگی.نماز کے اندر کوئی ضروری کام نومبر ۱۹۰۴ ء - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا جو بمع جواب درج ذیل ہے: کہ اگر ایک احمدی بھائی نماز پڑھ رہا ہو اور باہر سے اس کا افسر آ جاوے اور دروازہ کو ہلا ہلا کر اور ٹھونک ٹھونک کر پکارے اور دفتر یا دوائی خانہ کی چابی مانگے تو ایسے وقت میں اُسے کیا کرنا چاہئیے.جواب.حضرت اقدس نے فرمایا : کہ ایسی صورت میں ضروری تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چابی افسر کو دے دیتا.( یہ ہسپتال کا واقعہ ہے اس لئے فرمایا ) کیونکہ اگر اس کے التوا سے کسی آدمی کی جان چلی جاوے.تو یہ سخت معصیت ہو گی.احادیث میں آیا ہے کہ نماز میں چل کر دروازہ کھول دیا جاوے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی.ایسے ہی اگر بچے کو کسی خطرہ کا اندیشہ ہو یا کسی موذی جانور سے جو نظر پڑتا ہو ضرر پہنچتا ہو.تو بچے کو بچانا اور جانور کو مار دینا اس حال میں کہ نماز پڑھ رہا ہے گناہ نہیں ہے اور نماز فاسد نہیں ہوتی.بلکہ بعضوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ گھوڑ اکھل گیا ہو.تو اُسے باندھ دینا بھی مفسد نماز نہیں ہے کیونکہ وقت کے اندر نماز تو پھر بھی پڑھ سکتا ہے.پیشگوئی متعلق کو ریا جب ۱۹۰۴ء میں روس اور جاپان کے درمیان جنگ چھڑی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو الہام ہوا ' ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی نازک حالت اور اسی الہام کے مطابق بالآخر جاپان کو فتح حاصل ہوئی اور کوریا میں سے روس کو نکلنا پڑا.بخار فوراً اُتر گیا مئی ۱۹۰۴ ء کا واقعہ ہے کہ قادیان میں طاعون تھا اور کئی ایک ہندو اور غیر احمدی گھمار وغیرہ اس کا شکار ہوتے تھے کہ ایک دن مولوی محمد علی صاحب کو بخار ہو گیا.رفتہ رفتہ بخار کی شدت ایسی سخت ہوئی کہ مولوی صاحب نے گھبرا کر یہ سمجھا کہ اُنہیں طاعون ہو گیا ہے.اس واسطے اُنہوں نے مجھے بلایا تا کہ کچھ وصیت کی باتیں کریں.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب اس کمرے میں رہتے تھے جو مسجد مبارک کے اوپر کی چھت کے ہموار حضرت صاحب کے مکان کے ایک کمرے کے اوپر نیا کمرہ بنا ہوا تھا.یہ کمرہ ابتدا مولوی محمد علی صاحب کی خاطر ہی بنوایا گیا تھا جبکہ وہ لا ہور سے قادیان چلے آئے تھے.اس کمرے کی ایک کھڑ کی گول کمرے کی اُوپر کی چھت جانب جنوب پر کھلتی تھی جو مسجد

Page 112

97 مُبارک کی چھت کے ہم سطح اُس وقت بنائی گئی تھی مگر بعد میں اُکھاڑ دی گئی.میں اُس کھڑکی کے پاس آکر بیٹھا.اندر مولوی صاحب پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے.ان کے بدن سے سخت تپش آ رہی تھی.میں نے کھڑکی میں سے ہاتھ اندر کر کے ان کے بدن پر لگایا.تو بخار بہت شدید معلوم ہوا.وہ وصیت کی باتیں کرنے لگے کہ انجمن کے رجسٹر کہاں ہیں اور روپیہ کہاں ہے مگر میں انہیں تشفی دیتا تھا کہ آپ گھبرائیں نہیں انشاء اللہ آرام ہو جائے گا.اسی اثناء میں اندر کے راستے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے.آپ کے چہرہ پر تبسم تھا.اور آپ نے ایک جذبے کے ساتھ اپنا ہاتھ مولوی محمد علی صاحب کے بازو پر مارا اور ہاتھ کو اُٹھا کر نبض پر ہاتھ رکھا.اور فرمایا آپ گھبراتے کیوں ہیں.آپ کو تو بخار نہیں ہے.اگر آپ کو طاعون ہو جائے تو میرا سلسلہ ہی جھوٹا سمجھا جائے.چونکہ حضرت صاحب ایسا الہام شائع کر چکے تھے کہ اس گھر میں رہنے والے سب طاعون سے محفوظ رہیں گے سوائے اُن کے جو متکبر ہوں.اور مولوی محمد علی صاحب اُس وقت گھر کے اندر رہتے تھے اس واسطے ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ اُنہیں طاعون سے محفوظ رکھے.حضرت صاحب کے ایسا فرمانے پر میں نے تعجب کے ساتھ پھر کھڑ کی میں سے ہاتھ بڑھایا تو دیکھا کہ فی الواقع بخار اترا ہوا تھا اور اس کے بعد مولوی صاحب کی طبیعت اچھی ہونے لگ گئی اور جلد تندرست ہو گئے.حلفی اقرار جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۱۹۰۴ء میں چند روز کے واسطے لاہور تشریف لے گئے تھے ایک سبز پوش فقیر نے اصرار کیا کہ آپ مجھے لکھ دیں.کہ جو کچھ آپ نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے سب سچ ہے.حضور نے فرمایا : ایک ہفتہ بعد آؤ ہم لکھ دیں گے جب ایک ہفتہ کے بعد وہ آیا تو حضور نے یہ الفاظ لکھ کر اور اپنی مہر لگا کر اُسے دیئے.میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر جو جھوٹوں پر لعنت کرتا ہے یہ گواہی دیتا ہوں کہ جو کچھ میں نے دعوی کیا ہے یا جو کچھ اپنے دعویٰ کی تائید میں لکھا ہے یا جو میں نے الہام الہی اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں وہ سب صحیح ہے سچ ہے اور درست ہے.والسلام علی من اتبع البدنی الراقم خاکسار مرزا غلام احمد مہر

Page 113

98 پادری اسکاٹ سے ملاقات ۱۹۰۴ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بمع خدام سیالکوٹ سے واپس قادیان کو آ رہے تھے اور آپ کی سیکنڈ کلاس گاڑی وزیر آباد سٹیشن پر دوسری گاڑی کے ساتھ لگانے کے واسطے ایک سائڈ لائن پر کھڑی تھی تو سیالکوٹ کے مشہور پادری سکاٹ صاحب وہاں آئے اور موٹی پنجابی زبان میں بیچ قوموں کے لہجہ میں کہنے لگے : ”مرزا جی تساں میرامنڈ اکھولیا.“ یعنی مرزا صاحب آپ نے میرا لڑکا چھین لیا.اس سے اُن کی مُراد شیخ عبدالحق صاحب بی.ا.سے تھی جو پہلے اسلام سے عیسائی ہوئے تھے اور مشن کالج میں پڑھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خط و کتابت کر کے قادیان آئے تھے اور یہاں مسلمان ہو گئے تھے اور کئی ایک رسانے اسلام کی تائید اور عیسائیت کی تردید میں شائع کئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پادری صاحب کو مخاطب کر کے کہا : یہ زبان جو آپ بول رہے ہیں یہ شرفا کی زبان نہیں.اُس کے بعد وفات مسیح اور قبر مسیح کے متعلق کچھ باتیں ہوتی رہیں لیکن جب پادری صاحب کی نگاہ شیخ یعقوب علی صاحب پر پڑی کہ وہ اس گفتگو کو تحریر کر رہے ہیں تو پادری صاحب بہت ہی گھبرائے اور شیخ صاحب کی منتیں کرنے لگے کہ یہ کوئی مباحثہ کی باتیں نہیں ہیں.معمولی طور پر دوستانہ گفتگو ہے.آپ اس کو ہر گز شائع نہ کریں.سال ۱۹۰۵ء جنازہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی لاش نماز جنازہ کے واسطے میدان میں رکھی گئی اور آپ کا منہ کھولا گیا تا کہ لوگ دیکھ لیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جنازہ پڑھانے کے واسطے تشریف لائے تو حضور نے فرمایا : منہ ڈہانک دو دیکھا نہیں جاتا.چنانچہ منہ ڈہانکا گیا اور حضور نے جنازہ پڑھایا.حالات زلزلہ ۱۴ اپریل 1903ء کی صبح کو جب کہ پنجاب میں تخت زلزلہ آیا اور کا گڑہ کے پہاڑ میں کئی ایک بستیاں بالکل تباہ ہو گئیں اور ہندوؤں کی دیوی جوالامکھی کی لاٹ بجھ گئی اور عمارت مسمار ہوگئی ،

Page 114

99 اس وقت صبح 4 بجے کے قریب قادیان میں بھی سخت زلزلہ محسوس ہوا مگر یہ خدا کا فضل رہا کہ جیسا کہ لاہور ، امرتسر میں کئی ایک مکانات گر گئے اور آدمی مر گئے اور بہتوں کو چوٹیں آئیں ایسا کوئی حادثہ قادیان میں نہیں ہوا.میں ان دنوں کچھ بیمار تھا اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میرا علاج کرتے تھے.روزانہ تازہ ادویہ منگوا کر اور ایک گولی اپنے ہاتھ سے بنا کر مجھے بھیجا کرتے تھے.میں اس وقت اپنے اہل بیت کے ساتھ حضرت مسیح موعود کے مکان میں اس کمرہ میں مقیم تھا جو گول کمرے کے نام سے مشہور ہے اور جس میں میں قادیان میں سب سے پہلی دفعہ ۱۸۹ء کے ابتدا میں آنکر مقیم ہوا تھا.چونکہ زلزلے کے اس بڑے دھکے آنے کے بعد بھی چند گھنٹوں کے وقفے پر بار بار زمین ہلتی تھی اس واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ تجویز کی کہ مکانات کو چھوڑ کر باہر باغ میں ڈیرہ لگایا جائے.اکثر دوست بمع قبائل باہر چلے گئے اور چھوٹی چھوٹی جھونپڑیاں بنالی گئیں اور بعض نے خیمے کھڑے کر لئے اور کئی ماہ تک اسی باغ میں قیام رہا.انہی ایام میں جاپان کا ایک پروفیسر اموری جو علم زلازل کے محقق اور مبصر تھے ان زلازل کی تحقیقات کے واسطے ہندوستان آیا تھا اور بعد تحقیقات اُس نے فیصلہ کیا تھا کہ یہاں اب کئی سال تک اور کوئی زلزلہ نہیں آئے گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی الہامی پیشگوئی شائع کی تھی کہ موسم بہار میں پھر زلزلہ آئے گا.چنانچہ دوسرے سال ایسا ہی ایک شدید زلزلہ پھر آیا.جاپانی پر و فیسر کو تبلیغ میں نے اس وقت ڈاکٹر اموری کو جبکہ وہ ہندوستان میں تھا ایک تبلیغی خط لکھا تھا جس کا اُس نے شکریہ ادا کیا اور پھر جب اُس کے کہنے کے خلاف فروری ۱۹۰۶ء میں پھر زلزلہ آیا تو پھر اُس کو تبلیغی خط جاپان بھیجا گیا مگر اس وقت اس کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا.اخبار بدر کی ایڈیٹری ۲۱ مارچ ۱۹۰۵ء کو محمد افضل خان صاحب مرحوم جو اخبار البدر کے مالک اور ایڈیٹر تھے قادیان میں فوت ہوئے.اس وقت احباب کے مشورے سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی اجازت سے اخبار البدر کی مینجری اور ایڈیٹری کا کام میرے سپرد ہوا اور اخبار البدر کا نام تبدیل ہو کر نفا و لا بد ر رکھا گیا.سعیده مرحومه زلزلہ کے سبب جب ہم سب لوگ باغ میں مقیم تھے تو میری ایک لڑکی جس کا نام سعیدہ تھا

Page 115

100 مرض ام الصبیان میں بیمار ہو کر فوت ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کا جنازہ پڑھایا اور قادیان کے شرقی جانب جو قبرستان ہے اُس میں اُسے دفن کیا گیا.اُس کی عمر تین سال کی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے تشفی دیتے ہوئے فرمایا کہ لڑکیوں کا معاملہ مشکلات کا ہوتا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی حکمت ہوگی جو چھوٹی عمر میں اس کی وفات ہوگئی.زلازل سے قیامت کی دلیل زلزله ۱۹۰۵ء کا ذکر تھا.حضرت نے فرمایا کہ یہ ایک قیامت ہے جو لوگ قیامت کے منکر ہیں وہ اب دیکھ لیں کہ کس طرح ایک ہی سیکنڈ میں ساری دنیا فنا ہوسکتی ہے.جب لوگوں کو بہت امن اور آسودگی حاصل ہو جاتی ہے تو وہ خدا سے اعراض کرتے ہیں یہاں تک کہ خدا کا انکار کر دیتے ہیں.اس قسم کا امن ایک خباثت کا پھوڑا ہے.یہ قیامت لوگوں کے واسطے عذاب ہے مگر ہمارے واسطے مفید ہے.“ جماعت کی اصلاح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ ہر موقع پر جماعت کو اصلاح اور پاکیزگی کی طرف متوجہ فرمایا کرتے تھے.چنانچہ اس زلزلہ کے وقت فرمایا ” یہ ایک ہلاکت کا نشان ہے.جماعت کے سب لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالتوں کو درست کریں.تو بہ واستغفار کریں اور تمام شکوک و شبہات کو دور کر کے اور اپنے دلوں کو پاک وصاف کر کے دُعاوں میں لگ جائیں اور ایسی دُعا کریں کہ گویا مر ہی جائیں تاکہ خدا ان کو اپنے غضب کی ہلاکت کی موت سے بچائے.بنی اسرائیل جب گناہ کرتے تھے تو حکم ہوتا تھا کہ اپنے تئیں قتل کرو.اب اس امت مرحومہ سے وہ حکم تو اُٹھایا گیا ہے مگر یہ اس کی بجائے ہے کہ ایسی دُعا کرو کہ گویا اپنے آپ کو قتل ہی کر دو.“ مخالفین کا وجود موجب رونق اہل حدیث وغیرہ مخالفین کا ذکر تھا کہ بیجا حملے کرتے ہیں اور ناحق دل دکھاتے ہیں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا یہ ہمارے سلسلہ کی رونق ہیں.اگر اس قسم کے شور انے والے نہ ہوں تو رونق کم ہو جاتی ہے کیونکہ جس نے مان لیا وہ تو اپنے آپ کو فروخت کر چکا اور مثل مردہ کے ہے، وہ کیا بولے گا.وہ تو زبان کھول ہی نہیں سکتا.اگر سارے ابو بکر ہی بن جاتے تو پھر ایسی بڑی بڑی نصرتوں کی کیا ضرورت پڑتی جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہوئی تھیں.دیکھو سنت اللہ یہی ہے کہ پہلے سخت گرمی پڑے پھر برسات ہو.پس تم خوش ہو کہ ایسے آدمی

Page 116

101 دُنیا میں موجود ہیں جو اس نصرت اور فتح کو جو کروڑوں کوس دُور ہوتی ہے ایک دوکوس کے قریب کھینچ لاتی ہیں.اب ان معاملات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.آج کے الہامات پر غور کرو.اب بحث مباحثہ کی کوئی ضرورت نہیں.ہماری طرف سے خدا جواب دینے لگا ہے تو خلاف ادب ہے کہ ہم دخل دیں اور سبقت کریں جس کام کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ اس کو ناقص نہ چھوڑے گا کیونکہ اب اگر امن ہو جائے اور کوئی نشان نہ دکھایا جائے تو قریب ہے کہ ساری ڈنیاد ہر یہ بن جائے اور کوئی نہ جانے کہ خدا ہے لیکن خدا اب اپنا چہرہ دکھائے گا.ایک لڑکے کی خواب میرے لڑکے مفتی محمد منظور نے جو اُس وقت قریباً 9 سال کی عمر کا تھا ایک منذ رخواب دیکھا تھا کہ کوئی بلا آنے والی ہے.اس کے ٹالنے کے واسطے قربانی کرنی چاہئیے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ” مومن کبھی رویا دیکھتا ہے اور کبھی اس کی خاطر کسی اور کو خدا دکھاتا ہے.ہم نے اس کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے.سب جماعت کو کہہ دو کہ جس جس کو استطاعت ہے قربانی کر دے.مورخہ ۱۳ / اپریل ۱۹۰۵ء کو اس پر مفصلہ ذیل اعلان اسی اخبار میں شائع کیا گیا.وو راقم عاجز کے ایک معصوم لڑکے محمد منظور نے خواب میں دیکھا ہے کہ سخت زلزلہ آیا ہے.پھر وہ زلزلہ ایک گتے کی شکل میں نمودار ہوا اور بولا کہ تمہاری جماعت کے لوگ قربانی دیں.ان کو میں کچھ نہیں کہوں گا.حضرت اقدس نے اس پر فرمایا ہے کہ تمام احباب جو استطاعت رکھتے ہوں قربانی دے دیں اور اس اصل قربانی کو بھی ادا کریں جو تو بہ اور استغفار ودُعا کے ذریعہ سے نفس کی قربانی ہے.والسلام ایڈیٹر تدریجی تربیت انبیاء فرمایا: تربیت انبیاء کی اسی طرح آہستہ آہستہ ہوتی چلی آئی ہے.ابتدا میں جب مخالف دُکھ دیتے ہیں تو صبر کا حکم ہوتا ہے اور نبی صبر کرتا ہے یہاں تک کہ دُکھ حد سے بڑھ جاتا ہے.تب خدا کہتا ہے کہ اب میں خود تیرے دُشمنوں کا مقابلہ کروں گا.اب یقیناً جانو کہ وقت بہت قریب ہے.اس وقت ہمیں وہی وحی الہی یاد آتی ہے جو عرصہ ہوا کہ ہم پر نازل ہوئی تھی کہ قرب اجلک المقدر ولا نبقى لك من المخزيات ذكرًا ان مخالفوں کی مخالف باتوں کا کوئی نشان اور ذکر باقی نہ رہے گا.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس جماعت کو اپنی قدرتوں پر ایمان دلاوے.یمین و یسار میں

Page 117

102 نشانات ہیں.( دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جماعت کو حفاظت میں رکھے.) انتخاب و اقتباس از اخبار بدر مرحوم و مغفور محمد افضل خان صاحب ایڈیٹر اخبار البدر کی وفات پر جب اس اخبار کی ایڈیٹری کا کام عاجز راقم کے سپر د ہوا اور ہائی اسکول کی مدرسی سے فراغت حاصل کر کے عاجز صرف اسی کام پر لگ گیا تو مجھے وقت کا زیادہ حصہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں بیٹھنے اور حضور کے کلام کو لکھنے کے واسطے ملنے لگا اور ان حالات کو میں اپنے اخبار میں ڈائری اور القول الطیب کے عنوان کے ماتحت درج کرتا رہا.اُن سب ڈائریوں کا اندراج اس کتاب میں نہیں ہوسکتا کیونکہ ان کا حجم بہت ہے.تاہم اس میں کچھ انتخاب واقتباس درج کیا جاتا ہے.کلام الہی قواعد صرف ونحو کے ماتحت نہیں یکم اپریل ۱۹۰۵ء کی قبل کی رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا مَحَوْنَانَا رَجَهَتم - ترجمہ.ہم نے جہنم کی آگ کو محو کیا.اس الہامی عبارت کا ذکر مجلس میں ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ لوگوں کے محاورات اور صرف ونحو کے قواعد کے ماتحت نہیں ہے.اس کی مثالیں کتب الہا میہ اور انبیاء اور اولیاء کے الہامات میں بہت ہیں کہ ایجاد کردہ قواعد زبان کے برخلاف کئی عبارتیں اور فقرات نازل ہوتے رہے ہیں.زلزلہ کے وقت مسیح موعود کی حالت ۱۴اپریل ۱۹۰۵ ء صبح سوا چھ بجے ایک دفعہ نہایت زور آور حملہ زلزلہ کا ہوا.تمام مکانات اور اشیاء ہلنے اور ڈولنے لگ پڑیں.لوگ حیران اور سراسیمہ ہو کر گھبرانے لگے.ایسے وقت میں خدا کے مسیح کا حال دیکھنے کے لائق تھا کیونکہ احادیث میں تو ہم پڑہا ہی کرتے تھے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آسمانی اور زمینی واقعات پر خشیت اللہ کا بڑا اثر اپنے چہرے پر ظاہر فرماتے تھے.ذرا سے بادل کے نمودار ہونے پر آپ بے آرام سے ہو جاتے.کبھی باہر نکلتے اور کبھی اندر جاتے.غرض اس وقت بھی نبی اللہ نے ہر کہ عارف تر است ترساں تر والے مقولہ کو عملی رنگ میں بالکل سچا کر کے دکھایا.زلزلہ کے شروع ہوتے ہی آپ بمع اہل بیت اور بال بچہ کے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعا کرنے میں شروع ہو گئے اور اپنے رب کے آگے سر بسجو د ہوئے.بہت دیر تک قیام رکوع اور سجدہ میں سارا کنبہ کا کنبہ بمع خدام کے گرا رہا اور خدا تعالیٰ کی بے نیازی سے لرزاں وتر ساں رہا.

Page 118

103 امام مقتدیوں کا خیال رکھے ۱۶ / اپریل ۱۹۰۵ء کسی شخص نے ذکر کیا کہ فلاں دوست نماز پڑھانے کے وقت بہت لمبی سورتیں پڑھتے ہیں.فرمایا امام کو چاہئیے کہ نماز میں ضعفا کی رعایت رکھے.نوٹ : مرحوم مولوی عبد اللہ صاحب سنوری کی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل اتفاقاً ایک دفعہ مسجد مبارک میں عاجز راقم کو امامت نماز کا موقع ہوا.جب نماز ختم ہوئی تو مولوی عبد اللہ صاحب ہنتے ہوئے آگے بڑھے اور فرمانے لگے.حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) بھی نماز ایسی ہی مختصر پڑھاتے تھے.جیسی آپ نے پڑھائی.یہ ذکر نماز میں امامت کا تھا ورنہ جو نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بطور خود علیحدگی میں پڑھتے تھے انہیں بہت لمبا کرتے تھے.چونکہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعویٰ سے بہت قبل وقت سے حضرت کی خدمت میں آنے والے تھے اور اُن ایام میں کثرت سے قادیان میں رہتے تھے ، انہیں حضرت صاحب کی اقتداء میں بہت نمازیں پڑھنے کا موقع ملتا رہا.عاجز راقم کا ایک خواب ۵رمئی ۱۹۰۵ء.عاجز راقم نے اپنا گذشتہ شب کا رؤیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے خدمت میں عرض کیا.” میں نے ایسا دیکھا ہے کہ شاید ہم لاہور میں ہیں.ایک اونچی مسجد میں نماز پڑھی.پھر ہم ایک رتھ میں سوار ہو کر چلے.رتھ میں تین آدمی تھے.حضرت میاں محمود ( احمد صاحب) اور یہ عاجز - آگے چل کر وہی رتھ ہاتھی بن گئی اور ہم ہودہ پر سوار ہیں.صلوٰۃ اور دُعا میں فرق فرمایا: ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ میں اور نماز میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے الصلوة هي الدعاء - صلوۃ ہی دُعا ہے.الصلوة مع العبادة- نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دُعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوٰۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مدنظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوٰۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دُعا کی وہ ہے جس کے ذریعہ سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.صلوٰۃ کا لفظ پرسوز معنے پر دلالت کرتا ہے.جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دُعا میں پیدا ہونی چاہئیے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اُس کا نام صلوۃ ہوتا

Page 119

ہے.104 خواہش اولاد جون ۱۹۰۵ء.فرمایا: اولاد کی خواہش صرف اس نیت سے درست ہوسکتی ہے کہ کوئی ولد صالح پیدا ہو جو بندگان خدا میں سے ہو.انسان کو چاہیے کہ خدا سے فضل مانگتا رہے تو اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے.نیت صحیح پیدا کرنی چاہیے ورنہ اولا دہی عبث ہے.دُنیا میں ایک بے معنی رسم چلی آتی ہے کہ لوگ اولا د مانگتے ہیں اور پھر اولا د سے دُکھ اُٹھاتے ہیں.عدم ضرورت تناسخ جولائی ۱۹۰۵ء.ایک آریہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”میں یہ نہیں قبول کر سکتا کہ انسان بار بار گتے ، بلے اور سور بنتا رہتا ہے.نہ میں یہ قبول کر سکتا ہوں کہ کوئی انسان ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہے گا.خدا رحیم و کریم ہے.میں اس خدا کو جانتا ہوں کہ جب انسان اس کے سامنے پاک دل کے ساتھ کچی صلح کے واسطے آتا ہے تو وہ اُس کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور اس پر رحم کرتا ہے جو پوری قربانی دیتا ہے اور اپنی زندگی خدا کے ہاتھ میں دیتا ہے خدا ضرور اُسے قبول کر لیتا ہے.بندر اور سور بننے کا عقیدہ تو انسان کی کمر توڑ دیتا ہے.مسلمان ہونے کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی تمام عملی اور اعتقادی غلطیوں سے دست بردار ہو جائے.عورتوں کو نصیحت فرمایا : عورتوں پر یہ بھی لازم ہے کہ بدکار اور بد وضع عورتوں کو اپنے گھروں میں نہ آنے دیں اور نہ ان کو اپنی خدمت میں رکھیں کیونکہ یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ بد کا رعورت نیک عورت کی ہم صحبت ہو.فرمایا: عورتوں کو یہ بھی ایک بد عادت ہوتی ہے کہ جب کسی عورت کا خاوند کسی اپنی مصلحت کے لئے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ عورت اور اُس کے اقارب سخت ناراض ہوتے ہیں اور گالیاں دیتے اور شور مچاتے ہیں اور اُس بندہ خدا کو ناحق ستاتے ہیں.ایسی عورتیں اور ان کے اقارب نابکار اور خراب ہیں کیونکہ اللہ جلشانہ نے اپنی حکمتِ کاملہ سے جس میں صد ہا مصالحہ ہیں مردوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ اپنی کسی ضرورت یا مصلحت کے وقت چار تک بیویاں کر لیں.پھر جو شخص اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق کوئی نکاح کرتا ہے تو اس کو کیوں بُرا کہا جائے.ایسی عورتیں اور ایسے ہی اس عادت والے اقارب جو خدا اور اس کے رسول کے حکموں کا مقابلہ کرتے

Page 120

105 ہیں ، نہایت مردود اور شیطان کے بہن بھائی ہیں کیونکہ وہ خدا اور رسول کے فرمودہ سے منہ پھیر کر اپنے رب کریم سے لڑائی کرنا چاہتے ہیں اور اگر کسی نیک دل مسلمان کے گھر میں ایسی بدذات بیوی ہو تو اُسے مناسب ہے کہ اس کو سزا دینے کے لئے دوسرا نکاح ضرور کرے.بعض جاہل مسلمان اپنے ناطہ رشتہ کے وقت یہ دیکھ لیتے ہیں کہ جس کے ساتھ اپنی لڑکی کا نکاح کرنا منظور ہے اس کی پہلی بیوی بھی ہے یا نہیں.پس اگر پہلی بیوی موجود ہو تو ایسے شخص سے ہرگز نکاح کرنا نہیں چاہتے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ ایسے لوگ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں اور ایک طور سے وہ اُن عورتوں کے مددگار ہیں جو اپنے خاوندوں کے دوسرے نکاح سے ناراض ہوتی ہیں.سوان کو بھی خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئیے.ترک دنیا فرمایا : جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ دُنیا کو ترک کرتے ہیں.اس سے یہ مُراد ہے کہ وہ دُنیا کو اپنا مقصود اور غایت نہیں ٹھیراتے اور دُنیا اُن کی خادم اور غلام ہو جاتی ہے جو لوگ بر خلاف اس کے دُنیا کو اپنا اصل مقصو د ٹھیراتے ہیں خواہ وہ دُنیا کو کسی قدر بھی حاصل کر لیں مگر آخر کار ذلیل ہوتے ہیں.نزول روح القدس اگست ۱۹۰۵ء.فرمایا: اللہ تعالیٰ کی طرف سے رُوح الامین کا نزول انسان پر اُس وقت ہوتا ہے جبکہ انسان خود تقدس اور تطہیر کے درجہ کو حاصل کر کے اپنے اندر بھی ایک حالت پیدا کرتا ہے جونزول رُوح الامین کے قابل ہوتی ہے.اُس وقت گویا ایک رُوح الامین اِدھر ہوتا ہے تب ایک اُدھر سے آتا ہے.یہ بات ہم اپنے حال اور اپنے تجربہ سے کہتے ہیں نہ کہ صرف قال ہی قال ہے.اس کی بجلی کے ساتھ خوب مثال مطابق آ سکتی ہے.جب کسی جسم میں خود بھی بجلی ہوتی ہے تو آسمانی بجلی اس پر اثر کرتی ہے.تدبر سے دیکھا جائے تو قرآن شریف سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے.سچی تہذیب ا ۱۰ / اگست ۱۹۰۵ء.فرمایا ” آج کل لوگوں کے خیال میں تہذیب یہ ہے کہ انسان دُنیا کا کیڑا بن جائے.خدا کو بھول جائے اور ظاہری اسباب کی پرستش میں لگ جائے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک تہذیب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ حاصل ہو جائے اور اس کی عظمت اور ہیبت دل میں بیٹھ جائے اور دل کو سچی پاکیزگی حاصل ہو جائے.

Page 121

106 مقصد بعثت ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۵ء.فرمایا : اصل بات جس کے واسطے ہم مبعوث ہوئے ہیں یہ ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے درمیان بہت سی غلطیاں اعتقادی اور عملی رنگ میں پڑ گئی ہیں اور اُن میں اسلامی رُوحانیت نہیں رہی صرف ایک چھلکا رہ گیا ہے.پس ضروری ہے کہ اسلامی روحانیت پھر قائم کی جائے اور سچے اسلامی عقائد پھر لوگوں کے دلوں میں بیٹھائے جائیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم ایام جلسه دسمبر ۱۹۰۵ء.باہر بہشتی مقبرہ میں بیٹھے ہوئے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ذکر تھا.فرمایا وہ اس سلسلہ کی محبت میں بالکل محو تھے.جب اوائل میں میرے پاس آئے تھے تو سید احمد کے معتقد تھے.کبھی کبھی ایسے مسائل پر میری ان کی گفتگو ہوتی جو سید احمد کے غلط عقائد میں تھے اور بعض دفعہ بحث کے رنگ تک نوبت پہنچ جاتی مگر تھوڑی ہی مدت کے بعد ایک دن اعلامیہ کہا کہ آپ گواہ رہیں کہ آج میں نے سب باتیں چھوڑ دیں.اس کے بعد وہ ہماری محبت میں ایسے محو ہو گئے تھے کہ اگر ہم دن کو کہتے کہ ستارے ہیں اور رات کو کہتے کہ سورج ہے تو وہ کبھی مخالفت کرنے والے نہ تھے.ان کو ہمارے ساتھ ایک پورا اتحاد اور پوری موافقت حاصل تھی.کسی امر میں ہمارے ساتھ خلاف رائے کرنا وہ کفر سمجھتے تھے.ان کو میرے ساتھ نہایت درجہ کی محبت تھی اور وہ اصحب الصفہ میں سے ہو گئے تھے جن کی تعریف خدا تعالیٰ نے پہلے سے اپنی وحی میں کی تھی.ان کی عمر ایک معصومیت کے رنگ میں گزری تھی اور دُنیا کی عیش کا کوئی حصہ انہوں نے نہیں لیا تھا.نوکری بھی اُنہوں نے اسی واسطے چھوڑی تھی کہ اس میں دین کی ہتک ہوتی ہے.پچھلے دنوں میں ان کو ایک نوکری دوسو روپے ماہوار کی ملتی تھی مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا.خاکساری کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی گزاری.صرف عربی کتابوں کے دیکھنے کا شوق رکھتے تھے.اسلام پر جو اندرونی بیرونی حملے پڑتے تھے اُن کے اندفاع میں اپنی عمر بسر کر دی.باوجود اس قدر بیماری اور ضعف کے ان کی قلم چلتی رہتی تھی.ان کے متعلق ایک خاص الہام بھی تھا.مسلمانوں کا لیڈر غرض میں جانتا ہوں کہ ان کا خاتمہ قابل رشک ہوا کیونکہ ان کے ساتھ دُنیا کی ملونی نہ تھی.جس کے ساتھ دُنیا کی ملونی ہوتی ہے اس کا خاتمہ اچھا نہیں ہوتا.انجام نیک اُن کا ہوتا ہے جو فیصلہ کر لیتے ہیں کہ خدا کو راضی کرنے میں خاک ہو جائیں گے.عظمت مدرسہ تعلیم الاسلام مدرسہ تعلیم الاسلام کے بانی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.اس مدرسہ کی

Page 122

107 عظمت ایک خط سے ظاہر ہے جو حضور نے ایک مدرس کو لکھا تھا جو اس مدرسہ سے استعفا دینا چاہتا تھا.وہ یہ ہے: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے نزدیک یہ ارادہ ہرگز مناسب نہیں.اس سے خود غرضی اور دُنیا طلبی سمجھی جاتی ہے.آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ مدرسہ محض دینی اغراض کی وجہ سے ہے اور صبر سے اس میں کام کرنے والے خدا تعالیٰ کی رحمت سے نزدیک ہوتے جاتے ہیں.چونکہ یہ مدرسہ نیک نیتی سے محض دینی تخم ریزی کرنے کے لئے قائم کیا گیا ہے اس لئے میرے خیال میں استعفا دینے والوں کے استعفا سے اس کا کچھ بھی حرج نہ ہوگا.خدا تعالیٰ اس کے لئے اور خدمت کرنے والا پیدا کر دے گا.لیکن اگر کوئی اس مدرسہ سے الگ ہو کر اپنی دُنیا طلبی میں اِدھر اُدھر خراب ہوگا تو رفتہ رفتہ دین سے دُور ہو جائے گا.چاہیئے کہ صبر کے ساتھ گزارہ کریں.اگر خدا تعالیٰ اس قدر لیاقت نہ دیتا تب بھی تو پانچ سات روپے میں گزارہ کرنا ہوتا بلکہ میں نے آپ کے امتحان کی نا کامیابی کے وقت سوچا تھا کہ اس میں کیا حکمت ہے تو میرے دل میں یہی حکمت خیال آئی تھی کہ تا دنیوی طمع کا دامن کم کر کے دین پیش کیا جاوے.پس امتحان میں پاس نہ ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ خضر نے کشتی کا تختہ توڑ دیا تھا تا عمدہ حالت میں ہو کر غیروں کے ہاتھ میں نہ جا پڑیں.اس میں کچھ شک نہیں کہ اگر آپ اس جگہ سے استعفا دو گے تو عیالداری کے لحاظ سے قادیان کو چھوڑنا ہی پڑے گا اور یہی صورت دینی تعلقات سے دُور ہونے کے لئے ممد ہو جائے گی.صحابہ رضی اللہ عنہم کی حالت سب خدا تعالیٰ کے لئے ہو گئی تھی مگر اس زمانہ میں اس قدر غنیمت ہے کہ اس جماعت کی ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دُنیا کے لئے ہوں....والسلام.خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ارواح سے کلام " جب ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اہل بیعت اور چند خدام کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے تو یہ خادم بھی بلحاظ ایڈیٹر اخبار بدر حضوڑ کے ہمرکاب تھا.محلہ چتلی قبر میں الف خان سیاہی والے کے مکان پر قیام ہوا.ایک دن حضرت صاحب فرمانے لگے کہ دہلی کے زندوں سے تو بہت امید نہیں چلو یہاں کے مُردوں سے ملاقات کریں کیونکہ اس سرزمین میں کئی ایک بزرگ اولیاء اللہ مدفون ہیں.چنانچہ اس کے مطابق کئی دنوں میں خواجہ میر درد، قطب الدین اولیاء، قطب صاحب اور دیگر بزرگوں کی قبروں میں جاتے رہے.ان قبروں پر تھوڑی دیر کھڑے ہو کر

Page 123

108 ہاتھ اُٹھا کر آپ دُعا کرتے اور دیگر احباب بھی آپ کے ساتھ دُعا کرتے.حضرت نظام الدین اولیاء کی قبر پر فرمایا ارواح کا تعلق قبور کے ساتھ ضرور ہوتا ہے اور اہل کشف تو جہ سے میت کے ساتھ کلام بھی کر سکتے ہیں.مسیح موعود کے خاص روزے تمام انبیا ء اپنی خاص عبادتوں کے وقت میں روزے رکھتے رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے روزوں کا ذکر اپنی سواخ میں کیا ہے.اس عبادت کو اصل الفاظ میں درج ,, کیا جاتا ہے.حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اُس نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنتِ خاندانِ نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اِس سنتِ اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سومیں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا مگر ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ اس امر کو مخفی طور پر بجالا نا بہتر ہے.پس میں نے یہ طریق اختیار کیا کہ گھر سے مردانہ نشست گاہ میں اپنا کھانا منگوا تا اور پھر وہ کھانا پوشیدہ طور پر بعض یتیم بچوں کو جن کو میں نے پہلے سے تجویز کر کے وقت پر حاضری کی تاکید کر دی تھی دے دیتا تھا اور اس طرح تمام دن روزہ میں گزارتا اور بجز خدا تعالیٰ کے ان روزوں کی کسی کو خبر نہ تھی.پھر دو تین ہفتہ کے بعد مجھے معلوم ہوا ایسے روزوں سے جو ایک وقت میں پیٹ بھر کر روٹی کھا لیتا ہوں مجھے کچھ بھی تکلیف نہیں بہتر ہے کہ کسی قدر کھانے کو کم کروں.سومیں اُس روز سے کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ میں تمام رات دن میں صرف ایک روٹی پر کفایت کرتا تھا اور اسی طرح میں کھانے کو کم کرتا گیا یہاں تک کہ شاید صرف چند تو لہ روٹی میں سے آٹھ پہر کے بعد میری غذا تھی.غالباً آٹھ یا نو ماہ تک میں نے ایسا ہی کیا اور باوجود اس قدر قلتِ غذا کے کہ دو تین ماہ کا بچہ بھی اس پر صبر نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ نے مجھے ہر ایک بلا اور آفت سے محفوظ رکھا اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.چنانچہ بعض گذشتہ نبیوں کی ملاقاتیں ہوئیں اور جو اعلیٰ طبقہ کے اولیاء اس امت میں گذر چکے ہیں اُن سے ملاقات ہوئی.ایک دفعہ عین بیداری کی حالت میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مع حسنین وعلی رضی اللہ عنہ و فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دیکھا اور یہ خواب نہ تھی بلکہ ایک بیداری کی قسم تھی.غرض اسی طرح

Page 124

109 کئی مقدس لوگوں کی ملاقاتیں ہوئیں جن کا ذکر کرنا موجب تطویل ہے اور علاوہ اس کے انوار روحانی تمثیلی طور پر برنگ ستون سبز و سرخ ایسے دلکش و دلستان طور پر نظر آتے تھے جن کا بیان کرنا بالکل طاقت تحریر سے باہر ہے.وہ نورانی ستون جو سید ھے آسمان کی طرف گئے ہوئے تھے جن میں سے بعض چمکدار اور سفید اور بعض سبز اور بعض سُرخ تھے اُن کو دل سے ایسا تعلق تھا کہ ان کو دیکھ کر دل کو نہایت سرور پہنچتا تھا اور دنیا میں کوئی بھی ایسی لذت نہیں ہوگی جیسا کہ ان کو دیکھ کر دل اور روح کو لذت آتی تھی.میرے خیال میں ہے کہ وہ ستون خدا اور بندہ کی محبت کی ترکیب سے ایک تمثیلی صورت میں ظاہر کئے گئے تھے یعنی وہ ایک نور تھا جو دل سے نکلا اور دوسرا وہ نو ر تھا جو اوپر سے نازل ہوا اور دونوں کے ملنے سے ایک ستون کی صورت پیدا ہو گئی.یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی.کیونکہ وہ دنیا کی آنکھوں سے بہت دُور ہیں لیکن دنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو اِن امور سے خبر ملاتی ہے.غرض اس مدت تک روزہ رکھنے سے جو میرے پر عجائبات ظاہر ہوئے وہ انواع واقسام کے مکاشفات تھے.ایک اور فائدہ مجھے یہ حاصل ہوا کہ میں نے ان مجاہدات کے بعد اپنے نفس کو ایسا پایا کہ میں وقت ضرورت فاقہ کشی پر زیادہ سے زیادہ صبر کر سکتا ہوں.میں نے کئی دفعہ خیال کیا کہ اگر ایک موٹا آدمی جو علاوہ فربہی کے پہلوان بھی ہو میرے ساتھ فاقہ کشی کے لئے مجبور کیا جائے تو قبل اس کے کہ مجھے کھانے کے لئے کچھ اضطرار ہو وہ فوت ہو جائے.اس سے مجھے یہ بھی ثبوت ملا کہ انسان کسی حد تک فاقہ کشی میں ترقی کر سکتا ہے اور جب تک کسی کا جسم ایسا سختی کش نہ ہو جائے میرا یقین ہے کہ ایسا تنعم پسند روحانی منازل کے لائق نہیں ہو سکتا لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی سے ایسا کیا.میں نے کئی جاہل درویش ایسے بھی دیکھے ہیں جنہوں نے شدید ریاضتیں اختیار کیں اور آخر یبوست دماغ سے وہ مجنون ہو گئے اور بقیہ عمران کی دیوانہ پن میں گذری یا دوسرے امراض سل اور دق وغیرہ میں مبتلا ہو گئے.انسانوں کے دماغی قومی ایک طرز کے نہیں ہیں پس ایسے اشخاص جن کے فطرتا قومی ضعیف ہیں اُن کو کسی قسم کا مجاہدہ موافق نہیں پڑ سکتا اور جلد تر کسی خطرناک بیماری میں پڑ جاتے ہیں.سو بہتر ہے کہ انسان اپنی تجویز سے اپنے تئیں مجاہدہ شدیدہ میں نہ ڈالے اور دین العجائز اختیار رکھے.ہاں اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی الہام ہو اور شریعت غراء اسلام سے منافی نہ ہو تو اس کو بجالانا ضروری ہے لیکن آجکل کے اکثر نادان فقیر جو مجاہدات سکھلاتے ہیں اُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا.پس ان سے پر ہیز کرنا چاہئے.

Page 125

110 کیسے لوگوں کی ضرورت ۲۶ دسمبر ۱۹۰۵ ء وقت صبح.مدرسہ کے متعلق اصلاح کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے واسطے ایسے لوگ طیار ہونے چاہئیں جن کو واقعی دین کی خبر ہوا اور اس لائق ہوں کہ بیرونی حملات کو دور کر سکیں اور اندرونی بدعات اور جہالت کا انسداد کر سکیں.ہماری مخالفت کیوں ہے دسمبر ۱۹۰۵ء.فرمایا یہ ایک بڑے ابتلاء کا وقت ہے.ہر طرف سے ہم کا فرٹھیرائے گئے ہیں اور سب کے درمیان ہم کراہت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں.حال کے مخالف علماء کا یہ فتوے ہے کہ ہم ان کے قبرستان میں داخل ہونے کے لائق بھی نہیں ہیں اور اندرونی قوم کا یہ حال ہے اور رونی قومیں اور مذاہب سب کے سب ہماری جماعت کو خصوصیت کے ساتھ بُرا جانتے ہیں اور ایک قسم کی ذاتی عداوت ہمارے ساتھ رکھتے ہیں جو اسلام کے دیگر فرقوں کے ساتھ اُن کو نہیں ہے.پادریوں کے سینے پر ہماری جماعت ایک بھاری پتھر کی طرح ہے اور آریوں کو بھی سخت دشمن ہم ہی معلوم ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں کو بخوبی معلوم ہو گیا ہے کہ کمر بستہ ہو کر وساوس اور اعتراضات اور کفر کے طریقوں کو دور کرنا صرف اس جماعت کا کام ہے اور دوسرے کا نہیں.اس کا سبب یہ ہے کہ ہم میں نفاق نہیں.جو لوگ خاص خدا کے واسطے کام کرتے ہیں اُن کا کام منافقانہ نہیں ہوتا اور وہ ہر ایک کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتے.یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم کس طرح اخلاص کے ساتھ کام کرنے والے ہیں.اس واسطے ہم انہیں طبعاً بُرے لگتے ہیں.فطر تا دلوں کا عکس ایک دوسرے پر پڑتا ہے.ایک بکری کے بچے کو اگر شیر کے پاس باندھ دیا جاوے تو خواہ اُس بچے نے ساری عمر بھی شیر کو پہلے نہ دیکھا ہو تو پھر بھی فطرتا وہ اُس سے خوف زدہ ہو جائے گا.ہمارے مخالفین کی فطرت یہ گواہی دیتی ہے کہ اگر کسی روز ان کے مذہب کا استیصال ہوگا تو اسی جماعت کے ہاتھوں ہوگا اور در حقیقت سچ یہی ہے.جو بات آسمان سے نازل ہوتی ہے وہ در پردہ نہیں رہتی بلکہ اس کا اثر تمام دُنیا پر پڑتا ہے.کافر کا دل محسوس کر لیتا ہے کہ کفر توڑنے والا کون ہے.جب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو جس قدر دشمنی آپ کے ساتھ کی گئی.اور آپ کو دُکھ اور تکالیف پہنچائی گئیں اس قدر مخالفت مسیلمہ کذاب کی نہیں ہوئی.اس کا سبب یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام کفر بدعات اور شرک کا استیصال کرتے تھے اور مسلمہ تو خود ہی کا فر تھا.حق کی بات منجانب اللہ ہوتی ہے.اس وقت ہم غریب ہیں اور بے کس ہیں اور خدا کے سوائے اور کوئی ہمارا ساتھی نہیں.ہمیشہ یہ کوشش کی جاتی ہے کہ یہ قوم نابود کر دی جائے.بیرونی لوگ مقدمات بناتے اور اندرونی

Page 126

111 لوگ ان کے ساتھ سازش میں شریک ہوتے ہیں.سب ایک ہی رنگ میں مخالف ہیں اور سب ہمارا استیصال چاہتے ہیں لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو براہین احمدیہ میں آج ۲۵ برس پہلے سے شائع ہو چکا ہے کہ خدا اس جماعت کو قیامت تک کفار پر غلبہ دے گا.کفار سے مراد اس سلسلہ حقہ کے انکار کرنے والوں سے ہے خواہ وہ اندرونی ہوں، خواہ بیرونی ہوں.ہم مطمئن ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وعدے نیچے ہیں اور وہ ایک دن ضرور پورے ہوں گے ان کو کوئی روک نہیں سکتا لیکن دُنیا جائے اسباب ہے.جیسا کہ جسمانی دُنیا میں دیکھا جاتا ہے کہ لوگ اپنے مقاصد کے حصول کے واسطے سعی کرتے ہیں.اگر چہ فصل آسمانی بارش سے پکتا ہے کیونکہ قلبہ رانی تخمریزی وغیرہ اسباب کا مہیا کرنا ضروری ہوتا ہے جس طرح اوائل اسلام میں آنحضرت کی قوت قدسیہ نے ہزاروں با اخلاص اعلیٰ درجہ کے بنائے تھے ایسے مخلصین سے کام بنتا ہے.صاحبزادہ مبارک احمد صاحب مرحوم صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی وفات پر بہت سے خطوط ماتم پرسی کے حضرت صاحب کی خدمت میں آئے جواب تک میرے پاس محفوظ ہیں ( تعداد۸۳ ).ان خطوط میں اکثر دوستوں نے اظہار غم اور ہمدردی کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ جیسے صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کی پیدائش پیشگوئیوں کے مطابق ایک نشان تھی ایسا ہی مرحوم کی وفات بھی ایک نشان ہے اور جتنا عرصہ وہ زندہ رہے اس میں بہت سے نشانات ظاہر ہوئے.ان کی پیدائش زندگی اور موت سب ہمارے لئے موجب از دیا دایمان ہیں.بعض احباب نے حضرت صاحب کے اس الہام کا جو پہلے سے شائع ہو چکا تھا اپنے خطوں میں حوالہ دیا.”اے اہل بیت ہے تو بھاری مگر خدا کے امتحان کو قبول کر سال ۱۹۰۶ء غیر مذاہب سے مخالفت کیوں فرمایا : ہمیں کسی کے ساتھ بغض و عداوت نہیں.ہمارا مسلک سب کی خیر خواہی ہے.اگر ہم آریوں یا عیسائیوں کے برخلاف کچھ لکھتے ہیں تو وہ کسی دلی عناد یا کینہ کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اُس وقت ہماری حالت اس جرآح کی طرح ہوتی ہے جو پھوڑے کو چیر کر اس پر مرہم لگاتا ہے.نادان بچہ سمجھتا ہے کہ یہ شخص میرا دشمن ہے اور اس کو گالیاں نکالتا ہے مگر جراح کے دل میں نہ غصہ ہے نہ رنج، نہ اُس کو گالیوں پر کوئی غضب آتا ہے.وہ ٹھنڈے دل سے خیر خواہی کا کام کرتا چلا جاتا ہے.

Page 127

112 مدارس قادیان میں تعلیم پانے کی برکت مدرسہ کا ذکر تھا.فرمایا اس جگہ طلبا کا آ کر پڑھنا بہت ضروری ہے جو شخص ایک ہفتہ ہماری صحبت میں آکر رہے وہ مشرق و مغرب کے مولویوں سے بڑھ جائے گا.جماعت کے بہت سے لوگ ہمارے روبرو ایسے طیار ہونے چاہئیں جو آئندہ نسلوں کے واسطے واعظ اور معلم ہوں اور لوگوں کو راہ راست پر لا دیں.باغ والا خواب جماعت کو مر تذکرنے کی سعی کرنے والے نا کام ہلاک ہوں گے ۳۰ رمئی ۱۹۰۶ء.فرمایا : اللہ تعالیٰ جب ایک باغ لگاتا ہے اور کوئی اس کو کاٹنا چاہتا ہے تو خدا اُس شخص پر کبھی راضی نہیں ہو سکتا.مدت کی بات ہے میں نے ایک خواب دیکھا تھا کہ میں ایک گھوڑے پر سوار ہوں اور باغ کی طرف جاتا ہوں اور میں اکیلا ہوں.سامنے سے ایک لشکر نکلا جس کا میہ ارادہ ہے کہ ہمارے باغ کو کاٹ دیں.مجھ پر ان کا کوئی خوف طاری نہیں ہوا اور میرے دل میں یہ یقین ہے کہ میں اکیلا ان سب کے واسطے کافی ہوں.وہ لوگ اندر باغ کے چلے گئے اور ان کے پیچھے میں بھی چلا گیا.جب میں اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ سب کے سب مرے پڑے ہیں اور اُن کے سر اور ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوئے ہیں اور اُن کی کھالیں اُتری ہوئی ہیں.تب خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا نظارہ دیکھ کر مجھ پر رقت طاری ہوئی اور میں رو پڑا کہ کس کا مقدور ہے کہ ایسا کر سکے.فرمایا: اس لشکر سے ایسے ہی آدمی مُراد ہیں جو جماعت کو مُر تذ کرنا چاہتے ہیں اور ان کے عقیدوں کو بگاڑنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری جماعت کے باغ کے درختوں کو کاٹ ڈالیں.خدا تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کے ساتھ ان کو نا کام کرے گا اور ان کی تمام کوششوں کو نیست و نابود کر دے گا.فرمایا: یہ جو دیکھا گیا کہ اس کا سر کٹا ہوا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ ان کا تمام گھمنڈ ٹوٹ جائے گا اور ان کے تکبر اور نخوت کو پامال کیا جاوے گا اور ہاتھ ایک ہتھیار ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان دشمن کا مقابلہ کرتا ہے.ہاتھ کے کاٹے جانے سے مُراد یہ ہے کہ اُن کے پاس مقابلہ کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا اور پاؤں سے انسان شکست پانے کے وقت بھاگنے کا کام لے سکتا ہے لیکن اُن کے پاؤں بھی کٹے ہوئے ہیں جس سے یہ مراد ہے کہ اُن کے واسطے کوئی جائے فرار نہ ہوگی اور

Page 128

113 یہ جو دیکھا گیا ہے کہ ان کی کھال بھی اُتری ہوئی ہے.اس سے یہ مُراد ہے کہ اُن کے تمام پردے فاش ہو جائیں گے اور اُن کے عیوب ظاہر ہو جاویں گے.فرمایا : اگر ہم افترا کرتے ہیں تو خدا خود ہمارا دشمن ہے اور ہمارے لئے بچاؤ کی کوئی صورت ہو ہی نہیں سکتی لیکن اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے ہے اور مصائب اسلامی کے واسطے اللہ تعالیٰ نے خود ایک سامان بنایا ہے تو اس کا مقابلہ خدا تعالیٰ کو کس طرح پسند آ سکتا ہے.بڑا بد قسمت ہے جو اس کو توڑنا چاہتا ہے.یہ نصیحت کی : عورتوں کو نصیحت جون ۱۹۰۶ء.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اندرون خانہ عورتوں کو غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے.آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اُٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں لیکن اس سے بچنا چاہیئے.عورتوں کی خاص سورت قرآن شریف میں ہے.حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے بہشت میں دیکھا کہ فقیر زیادہ تھے اور دوزخ میں دیکھا کہ عورتیں بہت تھیں.فرمایا کہ عورتوں میں چند عیب بہت سخت ہیں اور کثرت سے ہیں.ایک شیخی کرنا کہ ہم ایسے اور ایسے ہیں.پھر یہ کہ قوم پر فخر کرنا کہ فلاں تو کمینی ذات کی عورت ہے یا فلاں ہم سے نیچی ذات کی ہے.پھر یہ کہ اگر کوئی غریب عورت اُن میں بیٹھی ہوتی ہے تو اس سے نفرت کرتی ہیں اور اس کی طرف اشارہ شروع کر دیتی ہیں کہ کیسے غلیظ کپڑے پہنے ہیں.زیور اس کے پاس کچھ بھی نہیں.فرمایا کہ عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے.نبی کریم نے فرمایا ہے کہ اگر عورت کو اس کا خاوند کہے کہ یہ ڈھیر اینٹوں کا اُٹھا کر وہاں رکھ دے اور جب وہ عورت اُس بڑے اینٹوں کے انبار کو دوسری جگہ پر رکھ دے تو پھر اُس کا خاوند اُس کو کہے کہ پھر اس کو اصل جگہ پر رکھ دے تو اس عورت کو چاہئیے کہ چون و چرا نہ کرے بلکہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے.فرمایا کہ عورتیں یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کسی قسم کا ظلم کیا گیا ہے کیونکہ مرد پر بھی ان کے بہت سے حقوق رکھے گئے ہیں بلکہ عورتوں کو گو یا بالکل کرسی پر بٹھا دیا ہے اور مرد کو کہا کہ اُن کی خبر گیری کر.اس کا تمام کپڑا کھانا اور تمام ضروریات مرد کے ذمہ ہیں.فرمایا کہ دیکھو موچی ایک جوتی میں

Page 129

114 بد دیانتی سے کچھ کا کچھ بھر دیتا ہے.صرف اس لئے کہ اس سے کچھ بیچ رہے تو جو رو بچوں کے پیٹ پالوں سپاہی لڑائی میں جا کر سر کٹاتے ہیں.صرف اس لئے کہ کسی طرح جور و بچوں کا گزارہ ہو.فرمایا کہ بڑے بڑے عہدہ دار رشوت کے الزام میں پکڑے ہوئے دیکھے جاتے ہیں.وہ کیا ہوتا ہے عورتوں کے لئے ہوتا ہے.عورت کہتی ہے کہ مجھ کو زیور چاہیے.کپڑا چاہیئے مجبوراً بیچارے کو کرنا پڑتا ہے لیکن خدا نے ایسی طرزوں سے رزق کمانا منع فرمایا ہے یہاں تک عورتوں کے حقوق ہیں کہ مر دکو کہا گیا ہے کہ ان کو طلاق دو تو مہر کے علاوہ ان کو کچھ اور بھی دو کیونکہ اُس وقت تمہاری ہمیشہ کے لئے اس سے جُدائی لازم ہوتی ہے.پس لازم ہے کہ اُن کے ساتھ نیک سلوک کرو.کلام پڑھ کر پھونکنا ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سوال کیا کہ مجھے قرآن شریف کی کوئی آیت بتلائی جائے کہ میں پڑھ کر اپنے بیمار کو دم کروں تا کہ اُس کو شفا ہو.حضرت نے فرمایا: بے شک قرآن شریف میں شفا ہے.رُوحانی اور جسمانی بیماریوں کا وہ علاج ہے مگر اس طرح کا کلام پڑھنے میں لوگوں کو ابتلا ہے.قرآن شریف کو تم اس امتحان میں نہ ڈالو.خدا تعالیٰ سے اپنے بیمار کے واسطے دُعا کرو.تمہارے واسطے یہی کافی ہے.مردہ اسلام غالباً ۱۹۰۶ء میں خواجہ کمال الدین صاحب کی تحریک سے اخبار وطن کے ایڈیٹر کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب نے ایک سمجھوتہ کیا کہ ریویو آف ریلیجز میں سلسلہ کے متعلق کوئی مضمون نہ ہو صرف عام اسلامی مضامین ہوں اور وطن کے ایڈیٹر رسالہ ریویو کی امداد کا پراپیگنڈا اپنے اخبار میں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تجویز کو نا پسند فرمایا اور جماعت میں بھی ام طور پر اس کی بہت مخالفت کی گئی.حضرت صاحب نے فرمایا کہ کیا مجھے چھوڑ کر تم مُردہ اسلام دُنیا کے سامنے پیش کرو گے؟.۱۹ سال عناء زندگی وقف کرنے والے اصحاب 196ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: اب سلسلہ کا کام بڑھ رہا ہے.اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دُور ونزدیک تبلیغ کا کام کرنے کے واسطے

Page 130

115 اپنی زندگیاں وقف کریں.اگر چہ اُس وقت قادیان میں مقیم اکثر مہاجرین ایسے تھے جو اسی نیت سے قادیان میں آ بیٹھے ہوئے تھے کہ دینی خدمات کے سرانجام میں اپنی بقیہ زندگی بسر کر دیں تا ہم نو جوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی زندگی وقف کرنے کے عہد کی درخواستیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں پیش کیں اور چونکہ حضوڑ کی ڈاک کی خدمت اُن ایام میں میرے سُپر دتھی اس واسطے اُن درخواستوں پر چند الفاظ لکھ کر حضوڑ میرے پاس بھیج دیتے.میں نے ایک رجسٹر بنا لیا اور اُن میں اُن کو درج کر دیتا.چنانچہ وہ رجسٹر اب تک میرے پاس محفوظ ہے.(۱) شیخ تیمور صاحب طالب علم علیگڑھ کالج.ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے لکھا بعد پورا کر نے تعلیم بی.اے اس کام پر لگیں.(۲) چوہدری فتح محمد صاحب ( سیال ایم.اے حال ناظر اعلیٰ جماعت احمد یہ قادیان) ان کی درخواست پر حضور نے تحریر فرمایا ” منظور (۳) (مولینا سید محمد سرور شاہ صاحب ( حال پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان ) ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ”آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں.“ (۴) میاں محمد حسن صاحب دفتری رساله ریویو آف ریجنز (حال پنشنز محصل جن کے صاحبزادے مولوی فاضل رحمت علی صاحب آج کل جاوا میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں ) انہوں نے اپنی درخواست میں لکھا ”میں زندگی وقف کرتا ہوں.کم علم ہوں.جہاں حضور چاہیں لگا دیں.“ ان کی درخواست پر حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ” قبول ہے“ ال (۵) عاجز راقم پہلے ہی اِسی ارادے سے سرکاری ملازمت کو استعفے دے کر ۱۹۰۷ ء میں قادیان آ گیا ہوا تھا تا ہم حضور کے اس فرمان پر میں نے بھی ایک تحریری درخواست دی اور اُس میں یہ الفاظ لکھے.اگر اس لائق سمجھا جاؤں تو دنیا کے کسی حصہ میں بھیجا جاؤں.“‘ اس پر حضوڑ نے تحریر فرمایا منظور.(1) غلام محمد طالب علم بی اے کلاس علیگڑھ کالج ( حافظ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے ماریشس حال معلم تعلیم الاسلام ہائی سکول ) انہوں نے اپنی درخواست میں لکھا ” میری تمام زندگی خدمات دین کے لئے وقف ہے.ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے لکھا ” بی.اے کا نتیجہ نکلنے کے بعد اس کام کے واسطے تیار ہو جائیں.“

Page 131

116 (۷) محمد دین صاحب طالب علم علیگڑھ کالج (مولوی محمد دین صاحب مبلغ امریکہ و حال ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان) ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ” نتیجہ کے بعد اس خدمت پر لگ جائیں.(۸) شیخ عبد الرحمن صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ قادیان - ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے تحریر فرمایا ”سلسلہ کی پوری واقفیت پیدا کر لیں“ (۹) اکبر شاہ خان صاحب- نائب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول.ان کی درخواست پر حضرت صاحب نے لکھا ” وقت پر آپ کو یا د کیا جائے گا.“ (۱۰) مولوی عظیم اللہ صاحب ساکن نا بہہ (جن کے صاحبزادے مولوی فاضل بشیر احمد صاحب آج کل لودھیا نہ گورنمنٹ اسکول میں مدرس ہیں ) ان کی درخواست پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا ” وقت پر آپ کو یاد کیا جائے گا.“ مجھے خیال پڑتا ہے کہ ان کے علاوہ اُس وقت کے بعض اور نوجوان طلباء نے بھی ایسی درخواستیں دی تھیں اور زندگیاں وقف کی تھیں مگر وہ درج رجسٹر ہونے سے رہ گئیں اور اب عاجز کے پاس محفوظ نہیں.الواح الهدی جون حواء - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کی کوئی تصنیف ایسی نہیں جس میں تزکیہ نفس کے ذرائع بیان نہ کئے گئے ہوں اور اخلاق حسنہ کے حصولِ وسائل کا ذکر نہ کیا گیا ہو.ہر ایک کتاب میں ان باتوں کا لحاظ رکھا جاتا رہا ہے.صرف مخالفوں کے مباہلات اور بداندیش دشمنانِ دین کی ہلاکت کے نشان ہی نہیں ہوتے تھے بلکہ قوم کو صالح اور متقی بنانے کے واسطے ہی یہ کتابیں لکھی جاتی تھیں لیکن چونکہ لمبی کتابوں کا پڑھنا سب کے واسطے آسان نہیں ہوتا.لوگ اپنے مشاغل میں عموماً ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ لمبی کتابوں کو نہیں پڑھ سکتے اور ایک ضخیم کتاب کے تمام مضامین ہر وقت مد نظر نہیں رہ سکتے اس واسطے حضرت صاحب نے ایک دفعہ یہ تجویز بھی کی تھی کہ تقویٰ وطہارت کے ضروری اصول کو ایک مختصر عبارت میں لکھا جائے اور اس تحریر کو موٹے الفاظ کے ساتھ لکھ کر ایک لکڑی کی سختی پر لگایا جائے اور ایسی تختیاں سب دوست اپنے دروازوں کے اوپر اور اپنے کمروں کی دیواروں پر لٹکا دیویں تا کہ ہر وقت اُن پر نظر پڑے اور اس طرح دل نیکی کی طرف کھینچے جاویں.اس تجویز کا ذکر چند روز تک رہا مگر دیگر ضروری کاموں کے سبب پھر اس طرف توجہ نہ

Page 132

ہوئی.117 ( نوٹ :.قومی کتب فروشوں کو چاہئیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں سے ایسی نصائح کے الفاظ لے کر اس قسم کی الواح طیار کریں.میاں محمد یا مین صاحب تاجر یہ کام ایک حد تک کرتے رہے ہیں مگر اسے زیادہ عمدگی اور وسعت کے ساتھ سرانجام دینا چاہئیے.(صادق) سید احمد مثیل یوحنا تھے نومبر ۹اء- فرمایا : جس طرح کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے یوحنا نبی خدا تعالیٰ کی تبلیغ کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے اسی طرح ہم سے پہلے اسی ملک پنجاب میں سید احمد صاحب توحید کا وعظ کرتے ہوئے سکھوں کے زمانہ میں شہید ہو گئے.یہ بھی ایک مماثلت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری کردی.چکڑالوی خیال کی تردید حذاء.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں ایک فقہی مسئلہ پیش کر کے درخواست کی کہ اس کا جواب صرف قرآن شریف سے دیا جائے.حدیث سے نہ دیا جائے.حضرت نے فرمایا "متقی کے واسطے مناسب ہے کہ اس قسم کا خیال دل میں نہ لائے کہ حدیث کوئی چیز نہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو عمل تھا وہ گویا قرآن کے مطابق نہ تھا.آج کل کے زمانہ میں مرتد ہونے کے قریب جو خیالات پھیلے ہوئے ہیں ان میں سے ایک خیال حدیث شریف کی تحقیر کا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاروبار قرآن شریف کے ماتحت تھے.اگر قرآن شریف کے واسطے معلم کی ضرورت نہ ہوتی تو قرآن رسول پر کیوں اترتا.یہ لوگ بہت بے ادب ہیں کہ ہر ایک اپنے آپ کو رسول کا درجہ دیتا ہے اور ہر ایک اپنے آپ کو ایسا سمجھتا ہے کہ قرآن شریف اسی پر نازل ہوا ہے.یہ بڑی گستاخی ہے کہ ایک چکڑالوی مولوی جو معنے قرآن کے کرے اُس کو مانا جاتا ہے اور قبول کیا جاتا ہے اور خدا کے رسول پر جو معنے نازل ہوئے اُن کو نہیں دیکھا جاتا.خدا تعالیٰ نے تو انسانوں کو اِس امر کا محتاج پیدا کیا ہے کہ ان کے درمیان کوئی رسول، مامور، مجد د ہو مگر یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ہر ایک شخص رسول ہے.اپنے آپ کو غنی اور غیر محتاج قرار دیتے ہیں.یہ سخت گناہ ہے.ایک بچہ محتاج ہے کہ وہ اپنے والدین وغیرہ سے تکلم سیکھے اور بولنے لگے.پھر اُستاد کے پاس بیٹھ کر سبق پڑھے ہے.جائے اُستاد خالی است.چکڑالوی لوگ دھوکہ دیتے ہیں کیا قرآن محتاج ہے.اے نادانو کیا تم بھی محتاج نہیں اور خدا کی ذات کی طرح بے احتیاج ہو.قرآن

Page 133

118 تمہارا محتاج نہیں پر تم محتاج ہو کہ قرآن کو پڑھو سمجھو اور سیکھو جبکہ دُنیا کے معمولی کاموں کے واسطے تم اُستاد پکڑتے ہو تو قرآن شریف کے واسطے اُستاد کی ضرورت کیوں نہیں.کیا بچہ ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی قرآن پڑھنے لگے گا.بہر حال معلم کی ضرورت ہے.جب مسجد کا ملاں ہمارا معلم ہوسکتا ہے تو کیا وہ نہیں ہو سکتا جس پر خود قرآن شریف نازل ہوا ہے.دیکھو قانون سرکاری ہے.اس کے سمجھنے اور سمجھانے کے واسطے بھی آدمی مقرر ہیں حالانکہ اس میں کوئی ایسے معارف اور حقائق نہیں.جیسے کہ خدا کی پاک کتاب میں ہیں.یا درکھو کہ سارے انوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں ہیں جو لوگ آنحضرت کا اتباع نہیں کرتے ان کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.بجز نو را تباع رسول خدا کو بھی پہچاننا مشکل ہے.شیطان اسی واسطے ہے کہ اس کو نور اتباع حاصل نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۲۳ سال دُنیا میں رہے.متقی کا فرض ہونا چاہئیے کہ وہ اس بات کو محبت کی نگاہ سے دیکھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا طریق عمل تھا..ارزل مخلوق سے وفاداری کا سبق لو اکتوبر نداء - حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا لکھا ہے کہ ایک مسلمان پر کچھ مصیبت کے دن آئے.بھوک لگی تو ایک یہودی کے مکان پر کچھ مانگنے کے لئے گیا.یہودی نے اُس کو چار روٹیاں دیں.جب وہ روٹیاں لے کر نکلا تو اُس گھر کا کتا بھی اُس کے پیچھے ہو لیا.اُس شخص نے یہ خیال کر کے کہ شاید ان روٹیوں میں سے گتے کا بھی کچھ حصہ ہے ایک روٹی گتے کے آگے پھینک دی اور آگے چل دیا.گتا اس روٹی کو جلدی جلدی کھا کر پھر پیچھے پیچھے ہو لیا.تب اُس نے خیال کیا کہ شائد اس کتے کا خیال ہے کہ میں جو اس گھر کا رہنے والا ہوں میرا حصہ ان روٹیوں میں نصف ہے.اس نے دوسری روٹی بھی کتے کو دے دی مگر کتا اس کو بھی کھا کر اس کے پیچھے پیچھے ہو لیا.پھر اس نے جب معلوم کیا کہ کتا پیچھا نہیں چھوڑتا تو اُسے خیال گذرا کہ شائد تین حصے اِس کے ہوں اور ایک حصہ میرا ہو.اس لئے اس نے ایک روٹی اور ڈال دی مگر کتا وہ روٹی کھا کر بھی واپس نہ گیا.تب اُسے لگتے پر غصہ آیا اور کہا تو بڑا بد ذات ہے مانگ کر میں چار روٹیاں لا یا تھا مگر ان میں سے تین کھا کر بھی پیچھا نہیں چھوڑتا.خدا تعالیٰ نے اُس وقت کتے کو بولنے کے لئے زبان دے دی.تب کتے نے جواب دیا کہ میں بدذات نہیں ہوں.میں خواہ کتنے فاقے اُٹھاؤں مگر مالک کے سوائے دوسرے گھر پر نہیں جاتا.بدذات تو تو ہے جو دو فاقے ہی اُٹھا کر کافر کے گھر مانگنے کے لئے آ گیا.تب وہ مسلمان یہ جواب سن کر اپنی حالت پر بہت پشیمان ہوا.ایسے ہی گورداسپور میں ایک بلی تھی.خواہ کچھ ہی اُس کے پاس پڑار ہے مگر وہ بغیر اجازت کچھ نہ کھاتی تھی.

Page 134

119 ایک دفعہ بعض دوستوں نے اس بلی کے مالک کو کہا ہم بھی تجربہ کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ اُنہوں نے حلوہ دودھ، پیپھڑے وغیرہ بلی کے پاس رکھ کر باہر سے قفل لگا دیا.تین دن کے بعد جو دیکھا تو بلی مری پڑی تھی اور وہ کھانا اُسی طرح صحیح و سالم موجود تھا.یہ حیوانوں کی وفا اور استقامت کا حال ہے.اگر ارزل مخلوقات کے صفات حسنہ بھی انسان میں نہ پائی جائیں تو پھر وہ کس خوبی کے لائق ہے.واعظین سلسلہ کیسے ہوں اکتوبر 1966ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک تقریر کی اور خواہش ظاہر کی کہ جماعت کے بعض احباب خدمت تبلیغ کے واسطے اپنی زندگی وقف کریں.وہ تقریر اور اُس وقت زندگی وقف کرنے والے احباب کے اسمائے گرامی صفحہ ۱۴۷ پر درج ہو چکے ہیں.فرمایا ” حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا نمونہ دیکھنا چاہئیے.وہ ایسے نہ تھے کہ کچھ دین کے ہوں اور کچھ دُنیا کے بلکہ وہ خاص دین کے بن گئے تھے اور اپنا جان و مال سب اسلام پر قربان کر چکے تھے.ایسے ہی آدمی ہونے چاہئیں جو سلسلہ کے واسطے مبلغین اور واعظین مقرر کئے جائیں.وہ قانع ہونے چاہئیں اور دولت و مال کا ان کو فکر نہ ہو.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو تبلیغ کے واسطے بھیجتے تھے تو وہ حکم پاتے ہی چل پڑتا تھا.نہ سفر خرچ مانگتا تھا اور نہ گھر والوں کے افلاس کا عذر پیش کرتا تھا.یہ کام اُس سے ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کو اس کے لئے وقف کر دے.متقی کو خدا تعالیٰ آپ مدد دیتا ہے.وہ خدا کے واسطے تلخ زندگی کو اپنے لئے گوارا کرتا ہے.اگر چہ بہت سے لوگ اس جگہ آتے ہیں مگر جب کچھ بھی ملونی دُنیا کی ساتھ ہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ پانی میں تھوڑا سا پیشاب مل گیا ہو.خدا اس کو پیار کرتا ہے جو خالص دین کے واسطے ہو جائے ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں.ہر قسم کے مصائب اُٹھا ئیں اور ہر جگہ پر پھر نکلیں اور خدا کی بات پہنچا ئیں.صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں.ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو مگر ہر ایک کی سخت کلامی اور گالی کوسن کر آگے نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں جہاں دیکھیں کہ شرارت کا خوف ہے وہاں سے چلے جائیں اور فتنہ و فساد کے درمیان اپنے آپ کو نہ ڈالیں اور جہاں دیکھیں ، کہ کوئی سعید آدمی ان کی بات کو سنتا ہے.اُس کو نرمی سے سمجھا ئیں.جلسوں اور مباحثوں کے اکھاڑوں سے پر ہیز کریں کیونکہ اس طرح فتنہ کا خوف ہوتا ہے.آہستگی اور خوش خلقی سے اپنا کام کرتے ہوئے چلے جائیں.

Page 135

120 حضرت کے اس فرمان کو سن کر بعض دوستوں نے اپنی خدمات کو اس کام کے واسطے وقف کیا.یہ وہ دوست ہیں ، جو اس وقت قادیان میں رہتے تھے اور ان کی تعداد اس وقت تک بارہ تک پہنچی تھی.حضرت نے عاجز راقم ( محمد صادق) کو حکم دیا کہ ایسے بزرگ اصحاب کی فہرست بناتا جاؤں.چنانچہ ایک جگہ رجسٹر اس فہرست کے واسطے کھولا گیا تھا جو اب تک میرے پاس موجود ہے اور تمام درخواستیں ایک اکٹھی محفوظ رکھی جاتی تھیں.سب سے پہلی درخواست شیخ تیمور صاحب طالب علم گورنمنٹ کالج لاہور کی تھی اور ان کے علاوہ چوہدری فتح محمد صاحب، مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب، میاں محمد حسن صاحب، عاجز راقم ، مولوی غلام محمد صاحب، ماسٹر محمد دین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب ،اکبر شاہ خان صاحب، مولوی عظیم اللہ صاحب، مولوی فضل دین صاحب، خواجہ عبد الرحمن صاحب اور قاضی عبداللہ صاحب نے بھی حضرت کے حضور درخواستیں دی تھیں.ان سب درخواستوں پر حضور علیہ السلام نے خوشنودی کا اظہار فرمایا تھا مگر سر دست کسی کو مقرر نہیں فرمایا تھا.ان میں سے جو صاحب تعلیم پاتے تھے، یا امتحان دے چکے تھے ، ان کو تعلیم کے پورا کرنے یا امتحان کے نتائج کا انتظار کرنے کی ہدایت فرمائی تھی.روسی سیاح ڈکسن نام ۲۸ رنومبر ۱۹۷ء کو ایک روسی سیاح ڈکسن نام قادیان پہنچے.صبح کا وقت تھا.حضرت حکیم الامت رضی اللہ عنہ کے شفاء خانہ میں وہ فرش پر بیٹھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی ان کی ملاقات کے واسطے وہیں تشریف لائے.ڈکسن صاحب اُردو نہیں جانتے تھے.مولوی محمد علی صاحب تر جمان ہوئے اور دو دن حضرت صاحب انہیں تبلیغ کرتے رہے.صرف ایک شب وہ ٹھیرے.گول کمرے میں اُنہیں ٹھیرایا گیا.دوسری صبح ان کو تبلیغ کرتے ہوئے حضرت صاحب نہر کے پل تک چلتے ہوئے ان کے ساتھ چلے گئے.جماعت کے بہت سے خدام ساتھ تھے.نہر پر پہنچ کر انہیں یکہ پر سوار کرایا گیا اور حضرت صاحب بمعہ جماعت واپس آئے.ڈکسن صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فوٹو بھی لیا تھا.تیرہ سوسال کے بعد ایک نبی ۲۶.دسمبر ۱۹۰۷ ء کی صبح کو حضرت اقدس باہر سیر کے واسطے تشریف لے چلے.احباب جوق در جوق ساتھ ہوئے.عاشق پروانہ کی طرح زیارت کے واسطے آگے بڑھتے تھے.اس قدر

Page 136

121 ہجوم تھا کہ سیر کو جانا مشکل ہو گیا تا کہ نو واردین مصافحہ کر لیں.قریباً دو گھنٹہ تک آپ کھڑے رہے اور عشاق آگے بڑھ بڑھ کر آپ کا ہاتھ چومتے رہے.اس وقت کا نظارہ قابلِ دید تھا.ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ سب سے پہلے میں آگے بڑھوں اور زیارت کروں.ایک دیہاتی دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ اس بھیڑ میں سے زور کے ساتھ اندر جا، اور زیارت کر اور ایسے موقع پر بدن کی بوٹیاں بھی اُڑ جاویں ، تو پر واہ نہ کر.ایک صاحب بولے کہ لوگوں کو بہت تکلیف ہے اور خود حضرت ایسے گردوغبار میں اتنے عرصہ سے تکلیف کے ساتھ کھڑے ہیں.میں (مفتی محمد صادق ) نے کہا.لوگ بیچارے سچے ہیں.کیا کریں تیرہ سو سال کے بعد ایک نبی کا چہرہ دُنیا میں نظر آیا ہے.پروانے نہ بنیں تو کیا کریں.اُس وقت خدا تعالیٰ کی وہ وحی یاد آ کر غالب اور نیچے خدا کے آگے سر جھک جاتا تھا جس میں آج سے پچیس سال پہلے کہا گیا تھا کہ لوگ دُور دُور سے تیرے پاس آویں گے.یہی بازار یہی میدان تھے جن میں سے حضرت اکیلے گزر جاتے تھے اور کوئی خیال نہ کرتا تھا کہ کون گیا ہے اور یہی میدان ان ہزاروں آدمیوں سے بھر گئے ہیں جو صرف اس کی پیاری صورت دیکھنے کے عاشق ہیں.کاش! کہ اب بھی مخالفین سوچیں ، اور غور کریں کیا یہ انسان کا کام ہیوہ ایسی بات اپنے پاس سے بنائے اور پھر وہ ایسے زور سے با وجود مخالفت کے پوری بھی ہو جائے.( نوٹ :.یہ رپورٹ انہی دنوں اخبار بدر ۱۹.جنوری ۱۹۷ء میں چھپی تھی.) تاریخ تعمیر مکان جب عاجز نے 1906ء میں اپنا ر ہائشی مکان دار الصدق قادیان میں بنوایا تو ہمارے مکرم دوست مولوی حکیم محمد حسین صاحب احمدی احمد آبادی نے عاجز کے مکان کے واسطے ایک تاریخ از روئے محبت لکھ کر ارسال فرمائی جو درج ذیل کی جاتی ہے.محمد صادق ما مفتی و صدق که باشد بدر او انوار خورشید بنا یک منزل اندر قادیاں کرد ضياء او بود آثار خورشید حسین از وی نویسد سال تعمیر ۱۳۲۵ بنام او که باشد دار خورشید الہی باد روشن تا قیامت

Page 137

122 مکان چون رونق بازار خورشید سعد اللہ لدھیانوی لدھیانے میں سلسلہ کے ایک مخالف سعد اللہ نام تھے.ان کے متعلق حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا وہ ابتر ہو گا.یعنی اس کی اولاد آگے نہ چلے گی.اس الہام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک کتاب میں جو 190 ء میں زیر طبع تھی درج کیا.خواجہ کمال الدین صاحب کو جب یہ معلوم ہوا کہ تو لاہور سے بھاگے ہوئے آئے اور حضرت صاحب کو اس الہام کے شائع کرنے سے روکا کیونکہ اس پر مقدمہ بن سکتا تھا مگر حضرت صاحب نے ان کی بات کی پرواہ نہ کی اور الہام کو کتاب کے اندر درج رہنے دیا.اور فرمایا اچھا مقدمہ ہونے دو.خدا فتح دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.سال ۱۹۰۸ء تعلیم نسواں ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ ء ایک صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کہ تعلیم نسواں کے متعلق آپ کے خیالات کیا ہیں.حضرت نے فرمایا.حدیث میں آیا ہے.طلب العلم فريضة علے کلّ مُسلمة.میں پہلے مر دوں کا ذکر کرتا ہوں کہ قبل اس کے جو اسلام کی حقیقت معلوم ہو اور اس کی خوبیاں معلوم ہوں.پہلے ان ( دنیوی ) علوم کی طرف مشغول ہو جانا سخت خطرناک ہے.چھوٹے بچوں کو جب دین سے آگاہ نہ کیا جائے اور صرف مدرسہ کی تعلیم دی جائے تو وہی باتیں ان کے بدن میں شیر مادر کی طرح رچ جائیں گی.پھر سوا اس کے اور کیا ہے کہ وہ اسلام سے پھر جائیں.اور دہریہ ہو جائیں.پس ضرور ہے کہ پہلے روز سے ساتھ ساتھ رُوحانی فلسفہ پڑھایا جائے.جب آجکل کی تعلیم نے مردوں پر مذہب کے لحاظ سے اچھا اثر نہیں کیا ، تو پھر عورتوں پر کیا توقع ہے.ہم تعلیم نسواں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہم نے تو ( لڑکیوں کے لئے ) ایک سکول بھی کھول رکھا ہے مگر یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ پہلے دین کا قلعہ محفوظ کیا جائے.تا بیرونی باطل اثرات سے محفوظ رہیں.......باب چهارم

Page 138

123 ایسی باتیں جن کی تاریخ ہائے وقوع کو یقین نہیں کیا جاسکا اس واسطے سال وار ابواب میں ان کو درج نہیں کیا جاسکا میری عادت رپورٹ جب لدھیانہ میں پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حاضر ہوا.غالباً او۱۸ ء کا واقعہ ہے تو اس وقت حضرت استاد نا حضرت مولوی نور الدین صاحب ریاست کشمیر میں شاہی طبیب ہونے کی حیثیت سے ملازم تھے اور ان دنوں کشمیر گئے ہوئے تھے.میری عادت تھی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس کی باتیں لکھ کر آپ کو بھیجا کرتا تھا جس پر حضرت استاد نا بہت ہی خوش ہوئے اور خوشنودی کے اظہار میں مجھے لکھا آپ نے ایسا خط لکھا ہے کہ گویا مجھے حضرت صاحب کی مجلس میں بٹھا دیا.نژ ول ایک دفعہ یہ تذکرہ تھا کہ انبیاء کے واسطے نزول کا لفظ کیوں استعمال ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ نزول کے معنے نیچے اُترنے کے ہیں.مخلوق کی اصلاح اور تعلیم کا کام بھی نبی اور مصلح کو اپنے کشوف اور لذت رُوحانی حالات سے نیچے اُتار کر مخلوق میں شامل کرتا ہے.جیسا کہ ایک مدرسہ کا اُستاد بہت سے علوم اور کمال حاصل کرنے کے باوجو دایک بچے کی خاطر نزول کرتا ہوا الف، با ، تا ، کہتا ہے.ایسا ہی نبی کو بھی اپنے علمی مدارج سے نزول کر کے مبتدیوں کی روحانی تعلیم کی طرف متوجہ ہونا پڑتا ہے.نقشہ اعتراضات

Page 139

124 جب حضرت صاحب کتاب نزول المسیح پر مسودہ لکھ رہے تھے تو حضور نے ارادہ فرمایا کہ اس کتاب کے اندر ان اعتراضات کی ایک فہرست شائع کی جائے جو عام طور پر عیسائی مذہب پر کئے جاتے ہیں.اس فہرست کا تیار کرنا عاجز کے سپر د ہوا.چنانچہ وہ فہرست تیار کر کے میں نے حضرت صاحب کے حضور پیش کی اور وہی کتاب کے اندر درج ہوئی.نقشہ پیشگوئیاں کتاب نزول المسیح میں جو نقشہ پیشگوئیوں کا دیا گیا ہے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانے سے عاجز راقم نے ہی تیار کیا تھا اور ہر ایک پیشگوئی کے حاشیہ میں جو گواہوں کی ایک فہرست ہے.اوس کے تیار کرنے میں خلیفہ نورالدین صاحب ساکن جموں نے عاجز کی خاص امداد فرمائی تھی.نقشہ طیار کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضرت صاحب نے مناسب اصلاح کر کے اُسے درج کیا.مولوی محمد احسن صاحب امروہی کی ناراضگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر کے آخری سالوں کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب نے جو صدر انجمن کے سیکرٹری تھے.یہ تجویز پیش کی کہ مولوی سید محمد احسن صاحب کو مقبرہ بہشتی کی افسری سے علیحدہ کیا جائے.ان کی وہی تنخواہ بلحاظ واعظ ہونے کے مقرر ہو کر ملتی رہے.عاجز بھی مجلس ناظم کا ممبر ہونے کی حیثیت سے حاضر تھا.خود مولوی سید محمد احسن صاحب بھی اجلاس میں موجود تھے.ریزولیوشن پیش ہوا.بغیر کسی بحث کے چُپ چاپ پاس ہو گیا اور دوسرے ریز و لیوشن شروع ہو گئے.چند منٹوں کے بعد مولوی محمد احسن صاحب نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور اُٹھ کر چلے گئے اور دوسرے دن جب انہیں پاس شدہ ریزولیوشن کی نقل پہنچی تو چارج دینے سے انکار کیا اور میدان میں شور مچایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جا کر شکایت کی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد علی صاحب کو رقعہ لکھا کہ مولوی سید محمد احسن صاحب کو ان کے کام پر بہر حال رکھا جائے.اس پر مولوی محمد علی صاحب بہت ناراض ہوئے.مجھے وہ رقعہ دکھایا اور کہا کہ میں تو اب اس کام سے رُخصت لے لوں گا.جب ہمارے پاس کردہ ریز ولیوشنوں سے یہ سلوک ہوتا ہے، تو پھر اس کام پر رہنے سے کیا فائدہ.شکایت نہ سُنا کرتے

Page 140

125 ایک دفعہ مولوی محمد علی صاحب کو معلوم ہوا کہ کسی شخص نے حضرت صاحب کے پاس اُن کی کوئی شکایت کی ہے.اس پر وہ بہت برہم ہوئے اور حضرت صاحب سے عرض کیا کہ لوگ خواہ مخواہ ہماری شکائتیں آپ کے پاس لے جاتے ہیں اور ہمیں بہت تکلیف ہوتی ہے.آپ نے تبسم کرتے ہوئے فرمایا.آپ گھبرائیں نہیں.لوگ اگر ایسی شکائتیں کرتے بھی ہیں تو میری ایسی حالت ہوتی ہے کہ گویا میں نے سُنا ہی نہیں کہ کسی نے کیا کہا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے تھوڑا ہی پہلے کا واقعہ ہے کہ میں اتفاق سے مولوی محمد علی صاحب کے کمرہ میں بیٹھا ہوا تھا جو مسجد مبارک سے ملحق ہے اور وہاں حضرت مولوی نور الدین صاحب بھی تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لائے.مولوی محمد علی صاحب نے ناراضگی کا چہرہ بنائے ہوئے لرزتے ہوئی آواز سے کہا کہ میر صاحب نے حضوڑ کے پاس میری شکایت کی ہے اور حضور بھی آخر انسان ہیں.حضور پر اثر ہوتا ہوگا.اس پر حضوڑ نے فرمایا.مجھ پر کوئی اثر نہیں مگر جس طرف میں آپ لوگوں کو لے جانا چاہتا ہوں.ادھر تو ہٹو ز آپ کے منہ بھی نہیں.حضرت مولوی نورالدین صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو ڈانٹا کہ ایسا کلمہ آپ کو نہیں بولنا چاہیے تھا کہ آپ بھی انسان ہیں اور ہم شرمندہ ہیں کہ حضور نے ایسے الفاظ فرمائے.عورتوں کا ایمان بچاؤ پیر منظور محمد صاحب قادیان کے جس کو چہ میں رہتے ہیں.اُس کوچہ کی چوڑائی کے متعلق ایک دفعہ پیر صاحب اور ان کے ہمسائیوں کے درمیان کچھ اختلاف ہو گیا جس کے تصفیہ کے واسطے مولوی محمد علی صاحب اور ایک دو اور اصحاب مقرر ہوئے.جنہوں نے موقع دیکھ کر اور پیمائش وغیرہ کر کے کچھ فیصلہ کیا.وہ فیصلہ پیر صاحب کی اہلیہ مرحومہ کو نا پسند ہوا کیونکہ اس فیصلہ سے اُن کی زمین کا کچھ حصہ کم ہو جاتا تھا.وہ روتی ہوئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس حاضر ہوئیں اور شکایت کی کہ میرے ساتھ بے انصافی ہوئی اور میری زمین چھینی جاتی ہے.حضرت صاحب نے مولوی محمد علی صاحب کو رقعہ لکھ کر ان کا فیصلہ منسوخ کر دیا لیکن چونکہ وہ تنازع رفع نہ ہوا تھا.اس لئے پھر چند اصحاب اُس کے طے کرنے کے واسطے مقرر ہوئے.اس پر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام کو خط لکھا کہ ہم محنت کر کے ایک معاملہ میں تحقیقات کر کے فیصلہ کرتے ہیں.اور حضور ایک عورت کے کہنے پر اسے منسوخ کر دیتے ہیں پھر تحقیقات کرنے اور فیصلہ کرنے کا کیا فائدہ.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مولوی محمد علی

Page 141

126 صاحب کو لکھا کہ میں نے آپ کے فیصلہ کو نا جائز نہیں قرار دیا بلکہ عورتیں عموماً کمزور ایمان کی ہوتی ہیں اور ان کے پھسلنے کا خطرہ ہوتا ہے.اُس کے ایمان کو بچانے کے واسطے میں نے اُس کارروائی کو منسوخ کیا تھا.آپ پھر کارروائی کریں.چنانچہ دوبارہ گفتگو اور تحقیقات ہو کر فیصلہ کیا گیا جس پر سب نے رضامندی ظاہر کی اور تنازع رفع ہو گیا.پنکھا نہ لگوایا.ایک دفعہ سخت گرمی کے موسم میں چند ایک خدام اندرون خانہ حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر تھے.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے عرض کی کہ گرمی بہت ہے.یہاں ایک پنکھا لگا لینا چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.پنکھا تو لگ سکتا ہے اور پنکھا ہلانے والے کا بھی انتظام کیا جا سکتا ہے لیکن جب ٹھنڈی ہوا چلے گی تو بے اختیار نیند آنے لگے گی اور ہم سو جائیں گے تو یہ مضمون کیسے ختم ہو گا.اس وقت حضرت صاحب ایک رسالے کا مضمون لکھ رہے تھے.) گرمی میں بھی کام جاری رکھتے ایک دفعہ جب سخت گرمی پڑی تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک مضمون لکھا جس میں گرمی کا اظہار کرتے ہوئے اور گرمی کے سبب کام نہ کر سکنے کی معذرت کرتے ہوئے یہ الفاظ بھی لکھ دیئے کہ گر می ایسی سخت ہے کہ اس کے سبب سے خدا کی مشین بھی بند ہوگئی ہے.اس میں مولوی صاحب مرحوم نے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی شدت گرمی کے سبب کام چھوڑ دیا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ مضمون سُنا تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو غلط ہے ہم نے تو کام نہیں چھوڑا.پہاڑ پر جانا ا یک دفعہ کسی دوست نے عرض کی کہ گرمی بہت ہے.حضور کسی پہاڑ پر تشریف لے چلیں.فرمایا.ہمارا پہاڑ تو قادیان ہی ہے.یہاں چند روز دھوپ تیز ہوتی ہے تو پھر بارش بھی آجاتی ہے.سب کا جنازہ پڑھ دیا قاضی سید امیرحسین صاحب کا ایک چھوٹا بچہ فوت ہونے پر جنازے کے ساتھ حضرت مسیح موعود ليه الصلوة والسلام بھی تشریف لے گئے اور خود ہی جنازہ پڑھایا.عموماً جنازے کی نماز میں

Page 142

127 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر موجود ہوتے ، تو خود ہی امامت کرتے.اس وقت نماز جنازہ میں شامل ہونے والے دس پندرہ آدمی ہی تھے.بعد سلام کسی نے عرض کی کہ حضور میرے لئے بھی دُعا کریں.فرمایا.میں نے تو سب کا ہی جنازہ پڑھ دیا ہے.مراد یہ تھی کہ جتنے لوگ نماز جنازہ میں شامل ہوئے تھے ، اُن سب کے لئے نماز جنازہ کے اندر حضرت صاحب نے دُعائیں کر دی تھیں.بنیادی اینٹ بعض نئی عمارتوں کے بننے کے وقت جب حضرت صاحب سے درخواست کی جاتی کہ حضور تبر کا بنیادی اینٹ رکھ دیں تو حضرت صاحب فرمایا کرتے کہ ایک اینٹ لے آؤ.میں اُس پر دُعا کر دوں گا.چنانچہ ایک اینٹ لائی جاتی اور حضور اس اینٹ کو اپنی گودی میں رکھ کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے اور پھر اُس پر دم کر کے دیے دیتے کہ جاؤ لگاؤ.عم دُور کرنے کا ذریعہ عاجز راقم کا اور اکثر احباب کا یہ تجربہ تھا کہ جب کبھی طبیعت میں کسی وجہ سے کوئی غم پیدا ہو تو ہم حضرت مسیح موعود کی مجلس میں جا بیٹھتے تو غم دور ہو جا تا اور طبیعت میں بشاشت اور فرحت پیدا ہو جاتی.پیر گتے مار ایک دفعہ قادیان میں آوارہ کتے بہت ہو گئے اور ان کی وجہ سے شور وغل رہتا تھا.پیر سراج الحق صاحب نے بہت سے گتوں کو زہر دے کر مار ڈالا.اس پر بعض لڑکوں نے پیر صاحب کو چڑانے کے واسطے اُن کا نام پیر گتے مار رکھ دیا.پیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شا کی ہوئیلوگ مجھے گتے مار کہتے ہیں.حضرت صاحب نے تبسم کے ساتھ فرمایا کہ اس میں کیا حرج ہے.دیکھئے حدیث شریف میں میرا سور مار“ لکھا ہے کیونکہ مسیح کی تعریف میں آیا ہے کہ یقتل الخنزير.پیر صاحب اس پر بہت خوش ہو کر چلے آئے.لمبی عمریں فرمایا.میں تو بڑی آرزو رکھتا ہوں اور دُعائیں کرتا ہوں کہ میرے دوستوں کی عمر میں لمبی ہوں تا کہ اس حدیث کی خبر پوری ہو جائے جس میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں چالیس برس تک موت دنیا سے اُٹھ جائے گی.فرمایا اس کا مطلب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تمام جانداروں سے اس

Page 143

128 عرصہ میں موت کا پیالہ ٹل جائے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ان میں جو نافع الناس اور کام کے آدمی ہوں گے.اللہ تعالیٰ ان کی زندگی میں برکت بخشے گا.أم أم آم کے لفظ کے متعلق گا ہے فرمایا کرتے تھے کہ لفظ آم لفظ ام سے نکلا ہے.عربی زبان میں اُم ماں کو کہتے ہیں.جیسا کہ بچہ ماں کے پستان چوستا ہے.ایسا ہی آم کو بھی منہ میں ڈال کر چوستا ہے.اس مشابہت کی وجہ سے اس کا نام آم ہوا.قریه مهمان نواز ایک دفعہ سیر پر جاتے ہوئے ایک گاؤں کی طرف نگاہ کرتے ہوئے فرمایا کہ عربی زبان میں گاؤں کو قریہ کہتے ہیں.یہ لفظ قر می سے نکلا ہے جس کے معنے مہمان نوازی کے ہیں.چونکہ گاؤں کے لوگ شہریوں کی نسبت زیادہ مہمان نواز ہوتے ہیں.اس واسطے گا ؤں کو قریہ کہتے ہیں.بھیرہ سے نصرت ایک دفعہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شہر بھیرہ میں منڈی میں سے جا رہے ہیں جس کو وہاں گنج کہتے ہیں.جب یہ خواب میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ بھیرہ کو قادیان سے ایسی مناسبت ہے.جیسے کہ مدینہ کو ملکہ سے کیونکہ بھیرہ سے ہم کو نصرت پہنچی ہے ہے.سیٹھ عبد الرحمن صاحب مرحوم سیٹھ عبد الرحمان صاحب ایک دفعہ اپنی کسی مالی مشکل کے وقت قادیان آئے اور کچھ دن یہاں رہے تا کہ حضرت صاحب سے دُعا کرائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے متعلق فرمایا سیٹھ صاحب کیا خوب آدمی ہیں کہ جب ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دنیوی کوششوں میں ہاتھ پاؤں مارنے کی بجائے سیدھے قادیان چلے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہماری دُعا سے ان کی مشکلات کو حل کر دیتا ہے.تعریف تقوی ایک دفعہ بھیرہ کے ایک بڑھئی بنام محمد اسلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں مسجد مبارک میں حاضر تھے.انہوں نے حضور سے عرض کی کہ میں اب وطن واپس جاتا

Page 144

129 ہوں.مجھے حضور نصیحت فرمائیں.حضرت نے فرمایا تقویٰ اختیار کرو.اوس نے نہایت سادگی سے عرض کی کہ حضور میں نہیں جانتا تقویٰ کیا ہوتا ہے.حضور نے فرمایا تقویٰ یہ ہے کہ ”جس چیز میں 66 دسواں حصہ بھی شبہ کا ہو ا وس کو چھوڑ دو.“ مولوی محمد علی صاحب پر نا راضگی اپنے آخری سفر میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لاہور تشریف لے گئے تو لنگر خانہ کا انتظام مولوی محمد علی صاحب کے سپر د ہوا حضرت نور الدین صاحب کو اور عاجز راقم کو اور بعض دیگر اصحاب کو بھی حضرت صاحب نے لاہور بلالیا تھا لیکن مولوی محمد علی صاحب قادیان ہی میں مقیم رہے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اعتراضاً لکھا کہ لنگر خانہ کا خرچ تو بہت ہی تھوڑا ہے.معلوم نہیں کیوں ایسا کہا جاتا ہے کہ لنگر میں اس قدر خرچ ہوتا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت ناراض ہوئے اور فرمایا اسے اتنا خیال نہیں آتا کہ ہمارے لاہور چلے آنے کے سبب مہمان تو سب لاہور آ رہے ہیں.اب قادیان جا تا ہی کون ہے جو لنگر خانہ کا پہلے کی طرح خرچ ہو.“ اس کے بعد چند دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا اور مولوی محمد علی صاحب کو حضور کی زندگی میں ایسا موقع نہیں ملا کہ وہ معذرت کرتے اور معافی مانگتے.ایک دُعاء کی قبولیت ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.جمعہ کا دن تھا.قبل نماز جمعہ میں حضرت صاحب کی خدمت میں اندرون خانہ حاضر ہوا.فرمایا.مفتی صاحب مجھے سخت سردرد ہو رہا ہے.اس واسطے میں نماز جمعہ کے لئے مسجد کو نہیں جا سکتا.آپ تشریف لے جائیں.حضرت کے اس فرمانے سے مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے جامعہ مسجد میں جا کر نماز کے اندر نہایت رقت سے حضرت صاحب کی صحت کے واسطے دُعا کی.ہنوز میں دُعا میں مصروف ہی تھا کہ حضرت صاحب مسجد میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ مجھے سر درد سے آرام ہو گیا.اس واسطے میں چلا آیا کہ جمعہ پڑھ لینا چاہیئے.وجہ تصنیف رسالہ قادیان کے آریہ ایک جلسہ کے موقع پر جبکہ احباب قادیان میں کثرت سے جمع تھے اور مسجد کے اندر نمازیوں کے واسطے جگہ نہ رہی تو بعض لوگ مسجد کے جنوب مغربی کونے کے ساتھ جو ایک ہندو کا

Page 145

130 مکان تھا.اس کے کوٹھے پر کھڑے ہو گئے.اُن میں منجملہ اور دوستوں کے خواجہ کمال الدین صاحب بھی تھے.اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی موسم سرما کی سردی کے سبب باہر کے صحن میں قبر کے شرقی جانب دھوپ میں نماز کے لئے بیٹھ گئے.جب نماز کھڑی ہوئی تو کو ٹھے کے مالک ہندو نے نیچے سے بہت گندی گالیاں دیں جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بہت ہی رنج ہوا اور یہ واقعہ اور قادیان کے آریاؤں کی تازہ مخالفانہ تحریریں ”رسالہ قادیان کے آریہ اور ہم کے تصنیف کرنے کا محرک ہوئے..ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب ہنوز کالج میں تعلیم پاتے تھے کہ ان کی شادی کی تجویز ہوئی جس کو انہوں نے نامنظور کیا.اس پر ان کے والد مرحوم حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک خط ان کے نام لکھوایا.تب ڈاکٹر صاحب نے مان لیا.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت خوش ہوئے اور فرمایا.مجھے پہلے سے یقین تھا کہ محمد اسمعیل میری تحریرہ پر اس بات کو قبول کر لے گا.حد یث کو لاک ایک دفعہ حضرت مسیح موعوڈ سے سوال ہوا کہ کیا حدیث لولاک لما خلقت الافلاک درست ہے.فرمایا.یہ حدیث بلحاظ قواعد صحت روایت صحاح میں نہیں ہے لیکن مطلب اور مفہوم کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح ہے.مولوی حکیم سردار محمد صاحب کا اخلاص ایک دفعہ مولوی حکیم سردار محمد صاحب ساکن میانی ضلع شاہپور جو حضرت خلیفہ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے برادر زادہ تھے.انہوں نے اپنے ایک خط میں اظہا را خلاص کرتے ہوئے یہ لفظ لکھے کہ میں قادیان پر قربان جاؤں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ بہت بڑے اخلاص کی علامت ہے.جب انسان کسی کے ساتھ سچا اخلاص رکھتا ہے تو محبوب کے قرب و جوار بھی پیارے لگتے ہیں.مسوده کتاب نور الدین

Page 146

131 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے جب حضرت مولوی نور الدین صاحب نے دھرمپال کی کتاب ترک اسلام کا جواب بنام نورالدین لکھا تو اس کا مسودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عاجز را تم تھوڑا تھوڑا کر کے ہر روز بعد نما ز مغرب سُنا یا کرتا تھا.جاگنے کا ذریعہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں یہ تذکرہ تھا کہ پچھلی رات نماز تہجد کے جاگنے کے لئے کیا تجویز کرنی چاہئیے.تب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے فرمایا کہ اگر آپ سوتے وقت اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ کہا کریں.”اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا تو ضرور تین بجے آپ کی آنکھ کھل جائے گی.“ جلدی نہیں کرنی چاہئیے ایک دفعہ میں لاہور سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اندرون خانہ حضرت صاحب کی نشست گاہ میں میں اکیلا ہی حضرت صاحب کی خدمت میں موجود تھا.حضور کے پاس ایک کپڑے میں بندھی ہوئی تھوڑی سی کستوری ( مشک ) تھی.جس کو استعمال کے واسطے حضوڑ نے جلدی جلدی کھولا تو وہ اس جلدی میں تھوڑی سی مشک (کستوری ) گر گئی.تب آپ نے فرمایا.التعجيل من عمل الشيطان - ایک نان پز کی حالت حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے ایک دفعہ ایک باورچی کی حضرت صاحب کی خدمت میں شکایت کی کہ وہ روٹیاں چراتا ہے.حضور اس شکایت کوسُن کر خاموش ہور ہے.گویا حضور نے سُنا ہی نہیں.چند روز کے بعد حضرت میر صاحب مرحوم نے دوبارہ شکایت کی.تب بھی حضرت صاحب خاموش ہو ر ہے گویا کہ سُنا ہی نہیں.حضرت میر صاحب نے تیسری دفعہ پھر شکایت کی.تب حضرت صاحب نے فرمایا میر صاحب یہ شکایت پہلے بھی آپ نے دودفعہ کی تھی اور میں نے اس کو سُنا ہے.آپ کوئی ایسا باور چی تلاش کریں جس پر آپ کو پورا یقین ہو کہ وہ چوری نہ کرے گا.تب اس کو نکال کر اُس کو رکھ لیا جائے گا.پھر فرمایا.دیکھو میر صاحب آج کل خود گرمی کا موسم ہے.ایسے میں تنور پر بیٹھنا، اور ہر ایک روٹی کے واسطے دو دفعہ اس جہنم میں غوطہ لگانا نان پز کے واسطے ضروری ہوتا ہے.اگر وہ ایسا ہی متقی ہوتا جیسا آپ کا خیال ہے کہ وہ ہو تو خدا تعالیٰ اس کو ایسی جگہ کیوں بٹھاتا.حضرت میر صاحب خاموش ہو گئے اور باہر آ کر فرمانے لگے کہ میں نے تو بہ کی ہے.میں پھر کبھی ایسی شکایت نہ کروں گا.

Page 147

132 ایسا نہ ہو کہ خدا کی غیرت کہیں مجھے ایسے ابتلاء میں گرفتار کر دے.ایڈورڈ بادشاہ ایک دفعہ ایڈورڈ بادشاہ کا کچھ ذکر ہوا اور مجلس میں کسی نے بادشاہ کی ذات کے خلاف کچھ اشارہ کیا.فرمایا جب آدمی بڑی عمر کو پہنچتا ہے تو خواہ مخواہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.بادشاہ کی موجودہ حالت وہ نہیں ہو سکتی جو آپ خیال کرتے ہیں.ایسا ہی نواب صاحب مرحوم را مپور کے خلاف کسی نے کچھ کہا.نواب صاحب کے متعلق بھی اسی قسم کے الفاظ فرمائے.جیسا کہ بادشاہ ایڈورڈ ہشتم کے متعلق.احمد یہ مجاہدات حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) سے پوچھا کہ مجھے کوئی مجاہدہ فرمانو میں، جو میں کروں تو فرمایا.مجاہدہ یہ ہے کہ عیسائیوں کے رد میں ایک کتاب لکھو.تب میں نے کتاب فصل الخطاب لکھی.اس کے بعد میں نے پھر عرض کی ، مجھے کوئی مجاہدہ کرنے کے واسطے بتلایا لکھی.جائے.تب فرمایا کہ آریوں کے رد میں کتاب لکھو.تب میں نے کتاب تصدیق براہین احمدیہ کہ اس کے بعد پھر میں نے ایک دفعہ عرض کی کہ مجھے کوئی مجاہدہ بتلایا جائے.تب آپ نے فرمایا کہ کسی کوڑھی کو اپنے مکان پر رکھ کر اُس کا علاج کرو.عمر بی مختصر زبان ہے ایک دفعہ ایک صاحب جو انگریزی زبان کے مداح تھے.اس مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گفتگو کر رہے تھے.اثنائے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ انگریزی زبان میں ایک یہ خوبی ہے کہ اُس کے تھوڑے الفاظ میں بہت مطالب ظاہر ہو سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ خوبی تو عربی میں ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انگریزی نہ جانتے تھے مگر بے ساختہ آپ کی زبان سے نکلا.اچھا اس کی انگریزی کیا ہے.”میرا پانی اُس صاحب نے جواب دیا.”مائی واٹر حضرت نے فرمایا.دیکھو عربی زبان میں صرف لفظ مائی سے وہ مطلب حاصل ہو جاتا ہے جو انگریزی میں واٹر کا لفظ زائد کرنے سے ہوتا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ عربی مختصر ہے.فبهت الذی کفر.پس انکار کرنے والا حیران سا رہ گیا.

Page 148

133 احترام حضرت اُم المومنین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جس دالان میں عموماً سکونت رکھتے تھے.جس کی ایک کھڑکی کو چہ بندی کی طرف کھلتی ہے اور جس میں سے ہو کر بیت الدعا کو جاتے ہیں.اُس کمرے کی لمبائی کے برابر اُس کے آگے جنوبی جانب میں ایک فراخ صحن تھا.( یہ وہی صحن ہے جس میں ایک شب ۱۸۹۷ء میں عاجز نے حضرت مسیح موعود کے حضور میں ایک مضمون کے نقل کرنے میں گزاری تھی.یہ مضمون حضرت صاحب ڈاکٹر کلا رک والے مقدمہ میں بطور جواب دعویٰ کے لکھ رہے تھے.حضرت صاحب مضمون لکھتے تھے اور میں اُس کی صاف نقل کرنے پر مامور تھا.برادرم مرحوم مرزا ایوب بیگ صاحب اُس مسودہ کو پڑھتے تھے.اور میں لکھتا تھا.اس طرح حضرت کے حضور عشاء سے اذانِ فجر تک ہم اس صحن میں حاضر رہے.گرمی کی راتیں تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کا اہل وعیال سب اسی صحن میں سوتے تھے لیکن موسم برسات میں یہ دقت ہوتی تھی کہ اگر رات کو بارش آجائے تو چار پائیاں یا تو دالان کے اندر لے جانی پڑتی تھیں.یا نیچے کے کمروں میں.اس واسطے حضرت ام المومنین نے یہ تجویز کی کہ اس صحن کے جنوبی حصہ پر چھت ڈال دی جائے تا کہ برسات کے واسطے چار پائیاں اُس کے اندر کر لی جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تبدیلی کے واسطے حکم دیا اور راج مزدور کام کے واسطے آگئے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ کو جب اس تبدیلی کا حال معلوم ہوا تو وہ اس تجویز کی مخالفت کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.چند اور خدام بھی ساتھ تھے.حضرت مولوی صاحب نے عرض کی کہ ایسا کرنے سے صحن تنگ ہو جائے گا.ہوا نہ آئے گی.صحن کی خوبصورتی جاتی رہے گی وغیرہ وغیرہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کی باتوں کا جواب دیا مگر آخری بات جو حضور نے فرمائی اور جس پر سب خاموش ہوئے.وہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وعدوں کے فرزند اس بی بی سے عطاء کئے ہیں جو شعائر اللہ میں سے ہیں.اس واسطے اس کی خاطر داری ضروری ہے اور ایسے امور میں اس کا کہنا ماننا لازمی ہے.جان محمد کا خواب قادیان میں ایک کشمیری جان محمد تھا جومسجد اقصی میں اذان دیتا اور نماز پڑہایا کرتا تھا.اس کا ایک خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کیا کرتے هچن ایام میں ہمارے اور ہمارے شرکاء (مرزا امام دین مرزا نظام دین وغیرہ ) میں کچھ مقدمات چل رہے تھے.اُن ایام میں

Page 149

134 میاں جان محمد نے خواب میں دیکھا کہ شاہ روم و روس میں جنگ ہوئی ہے اور شاہ روم کو فتح ہو گئی ہے.ہم نے اس کی تعبیر کی.تمہارے شاہ روم ہم ہی ہیں اور تعبیر اس خواب کی یہ ہے کہ ان مقدمات میں ہماری فتح ہو گی اور ہمارے شرکاء کو شکست ہوگی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.فرمایا اگر یہی خواب وزیر سلطنت روم یا روس دیکھتا تو اس کی تعبیر اور ہوتی.خواب کی تعبیر دیکھنے والے کی حالت اور حیثیت کے مطابق ہوتی ہے.عاجز کو دُودھ پلایا جب عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا کرتا تو حضور مجھے عموماً صبح ہر روز پینے کے واسطے دُودھ بھیجا کرتے تھے.ایک دفعہ مجھے اندر بلایا.ایک لوٹا دُودھ کا بھرا ہوا حضوڑ کے ہاتھ میں تھا.اُس میں سے ایک بڑے گلاس میں حضور نے دُودھ ڈالا اور مجھے دیا اور محبت سے فرمایا.آپ یہ پی لیں.پھر میں اور دیتا ہوں.میں تو اُس گلاس کو بھی ختم نہ کر سکا.ابھی اُس میں دودھ باقی تھا جو بس کر دی اور واپس کیا.تبسم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا.بس آپ تو بہت تھوڑا پیتے ہیں.بچے کے دِل بہلاؤ کے لئے چڑیا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کے دل بہلانے کے واسطے ایک دفعہ چھوٹی چھوٹی چڑیاں کہیں سے لائی گئیں.صاحبزادہ صاحب اُن چڑیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑے رکھنا پسند کرتے تھے اور بعض دفعہ بچپن کی نا واقعی سے ایسی طرح پکڑتے ، اور دبائے رکھتے کہ چڑیا کی جان پر بن جاتی.اس پر گھر کی کسی خادمہ نے صاحبزادہ صاحب کو چڑیا ہاتھ میں پکڑنے سے روکا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن خادمہ کو منع کیا.فرمایا کہ یہ چڑیا اس کے دل بہلانے کے واسطے ہیں جس طرح چاہے پکڑے تم نہ روکو.بچوں کو مارنا نہیں چاہیئے مدرسہ تعلیم الاسلام کے اساتذہ کو ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حکم بھیجا کہ آئندہ جو استاد کسی لڑکے کو مارے گا.اسے فوراً موقوف کر دیا جائے گا.حضور اس امر کے بہت مخالف تھے کہ استاد بچوں کو ماریں اور جھڑ کا کریں.چاند کے واسطے عینک پہلی شب کے چاند دیکھنے کے واسطے عموماً حضرت صاحب میری عینک لیا کرتے تھے.اگر

Page 150

135 میں اس وقت مسجد میں موجود نہ ہوتا تو میرے گھر آدمی بھیج کر منگوایا کرتے تھے لیکن ایک دفعہ جب عینک سے دیکھ لیتے تھے کہ چاند کہاں ہے تو پھر بغیر عینک کے بھی آپ کو چاند نظر آتا تھا.مبارک احمد مرحوم کی خاطر نماز جمعہ میں نہیں گئے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی مرض الموت کے ایام میں ایک جمعہ کے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حسب معمول کپڑے بدل کر عصاء ہاتھ میں لے کر جامعہ مسجد کو جانے کے واسطے طیار ہوئے.جب صاحبزادہ کی چار پائی کے پاس سے گذرتے ہوئے ذرا کھڑے ہو گئے تو صاحبزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دامن پکڑ لیا اور اپنی چار پائی پر بٹھا دیا اور اُٹھنے نہ دیا.صاحبزادہ صاحب کی خاطر حضور بیٹھے رہے اور جب دیکھا کہ بچہ اُٹھنے نہیں دیتا ، اور نماز جمعہ کے وقت میں دیر ہوتی ہے تو حضور نے کہلا بھیجا کہ جمعہ پڑھ لیں.حضور کا انتظارنہ بال بڑھانے کی دوائی آخری عمر میں حضور کے سر کے بال بہت پتلے اور ہلکے ہو گئے تھے چونکہ یہ عاجز ولایت سے ادویہ وغیرہ کے نمونے منگوایا کرتا تھا.غالباً اس واسطے مجھے ایک دفعہ فرمایا.مفتی صاحب سر کے بالوں کے اُگانے اور بڑہانے کے واسطے کوئی دوائی منگوا ئیں.پانچویں روز مہندی عموماً حضرت صاحب ہر پانچویں روز سر اور ریش مبارک پر مہندی لگواتے تھے.بارش کے واسطے نماز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے ایام میں قادیان میں عمو ما موسم گرما میں متواتر گرمی ایک ہفتہ سے زائد نہ ہوا کرتی تھی.پانچ سات روز کے بعد کچھ بادل آ کر ترشح کر دیتے تھے جس سے ہوا میں کچھ خنکی آ جاتی تھی لیکن ایک سال بارش بہت کم ہوئی اور ڈھا میں خشک ہو گئیں اور نماز استسقاء پڑھی گئی اور اُس کے بعد جلد بارش ہوگئی.تمرک میری ہیہ ( امام بی بی مرحومہ ) نے اپنے لڑکے عبد السلام سلمہ الرحمن کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے حضور کا ایک کر نہ تبر کا مانگ کر لیا اور اس کڑ نہ سے

Page 151

136 چھوٹے چھوٹے گرتے بنا کر محفوظ رکھے اور ہر بچہ کو پیدا ہونے کے وقت سب سے پہلے وہی کرتہ پہنایا کرتی.سیٹھ عبد الرحمن مدراسی کا اخلاص و ادب فرمایا.ایک دفعہ میں کسی کو دینے کے لئے اندر سے مبلغ یکصد روپیہ ایک رومال میں لایا اور اس شخص کو دیا کہ گن لو یہ ایک سو روپیہ ہے.جب اُس نے گنا تو وہ پچانویں روپے تھے.اُسی مجلس میں سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی بھی تھے.اُنہوں نے از روئے اخلاص کہا کہ جب حضرت نے فرمایا کہ سو ہے ، تو ضرور سو ہوگا اور آگے بڑھ کر انہوں نے خود گنا مگر وہ پچانوے ہی نکلے.دوبارہ سہ بارہ گئے اور پچانوے ہی نکلے مگر سیٹھ صاحب ہر دفعہ یہی کہتے رہے کہ ہمارے گننے میں کچھ غلطی ہے.دراصل یہ پورا سو ہی ہے.آخر وہ روپیہ اس شخص نے اُٹھایا تو رومال کے نیچے سے پانچ اور نکل آئے.میر مهدی حسین صاحب کا اخلاص و ادب ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ کاپی میں یا پروف میں بعض دفعہ کوئی غلطی رہ جاتی ہے جو میرے خیال میں نہیں آتی ، اور میر مہدی حسین کی نظر چڑھ جاتی ہے تو وہ میرے پاس لے آتے ہیں اور دکھاتے ہیں اور ساتھ ہی بطریق ادب یہ بھی کہتے ہیں کہ شاید مجھے ہی غلطی لگ گئی ہے مگر حضور ملا حظہ فرمالیں.اگر مناسب ہو ، تو اسے درست کر دیں.نماز میں قرآن شریف کھول کر پڑھنا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کیا کہ قرآن شریف کی لمبی سورتیں یاد نہیں ہوتیں اور نماز میں پڑھنے کی خواہش ہوتی ہے.کیا ایسا کر سکتے ہیں کہ قرآن شریف کو کھول کر سامنے کسی رحل یا میز پر رکھ لیں یا ہاتھ میں لے لیں اور پڑھنے کے بعد الگ رکھ کر رکوع سجود کر لیں اور دوسری رکعت میں پھر ہاتھ میں اٹھا لیں.حضرت صاحب نے فرمایا.اس کی کیا ضرورت ہے آپ چند سورتیں یاد کر لیں اور وہی پڑھ لیا کریں.رات بارش میں گذاری فرمایا.ایک دفعہ ہم ڈلہوزی پہاڑ سے ایک دو اور آدمیوں کے ساتھ واپس آ رہے تھے کہ

Page 152

137 راستہ میں سخت بارش شروع ہو گئی اور رات قریب آ گئی.کوئی گاؤں نظر نہ آتا تھا کہ وہاں جا کر بارش سے بچاؤ کریں.ایک شخص ملا.اس سے پوچھا کہ یہاں کوئی گاؤں ہے.اس نے کہا.ہاں ہے.آؤ میں دکھاتا ہوں مگر میرا ذکر کسی سے نہ کرنا کہ میں نے دکھایا ہے.وہ ہمیں ایک طرف پہاڑ میں لے گیا اور دُور سے ایک مکان دکھا کر پچھلے پاؤں بھاگ گیا.جب ہم وہاں پہنچے تو ایک ہی مکان اور ایک ہی کمرہ تھا.مالک مکان ایک بوڑھا آدمی تھا اور ایک اس کی لڑکی تھی.وہ گالیاں دینے لگا کہ تم کو کس نے یہ جگہ دکھا دی اور باوجود بہت سمجھانے اور اصرار کرنے کے اُس نے ہمیں کمرے کے اندر گھنے کی اجازت نہ دی اور رات بھر ہم بارش میں درخت کے نیچے بیٹھے رہے اور بعد میں معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کے ساتھ بعض لوگ ظلم کرتے ہیں اور ان کی لڑکیوں کو زبردستی لے لیتے ہیں.اس واسطے وہ کسی کو اپنے مکان کے اندر جانے نہ دیتا تھا.سید احمد صاحب بریلوی کا ساتھی سید احمد صاحب بریلوی کا ایک مرید جو بہت بوڑھا تھا اور ایک سو سال کی عمر اپنی بتلاتا تھا اور سید صاحب کے زمانہ جہاد وغیرہ کی باتیں کرتا تھا.ایک دفعہ قادیان آیا اور حضرت صاحب کی بیعت میں داخل ہوا اور غالباً ایک سال بعد دوبارہ بھی آیا.اس کے بعد جلد اس کی وفات کی خبر آ گئی.اس کے بال مہندی سے رنگے ہوئے سُرخ تھے.سینه پردم ایک دفعہ عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا اور جماعت لاہور کے چند اور اصحاب بھی ساتھ تھے.صوفی احمد دین صاحب مرحوم نے مجھ سے خواہش کی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سفارش کر کے صوفی صاحب کے سینہ پر دم کرا دوں.چنانچہ حضرت صاحب کو چہ بندی میں سے اندرونِ خانہ جا رہے تھے جبکہ میں نے آگے بڑھ کر صوفی صاحب کو پیش کیا اور ان کی درخواست عرض کی.حضور نے کچھ پڑھ کر صوفی صاحب کے سینے پر دم کر دیا.پھونک مارا ) اور پھر اندر تشریف لے گئے.سفید گھوڑا ایک دفعہ فرمایا.سفید گھوڑا اچھا نہیں ہوتا.اس میں سرکشی اور ضد کا مادہ ہوتا ہے اور ایک سفید گھوڑے کا اپنا چشم دید واقعہ بیان فرمایا کہ وہ سوار کے قابو سے باہر ہو کر سیدھا زور سے بھاگتا ہوا ایک دیوار کے ساتھ جا ٹکرایا جس سے اُس کا سر پھٹ گیا.

Page 153

138 مولوی عبداللہ غزنوی سے ملاقات فرمایا: ایک دفعہ میں مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی ثم امرتسری سے ملنے گیا تو ایک شخص نے جو اُن کا مرید تھا.مجھے ایک روپیہ دیا کہ میری طرف سے یہ روپیہ اُن کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کر دینا.جب میں اُن سے ملا تو اُس شخص کی طرف سے وہ روپیہ دے دیا لیکن جب دوبارہ اُنہیں دنوں میں میں مولوی صاحب سے ملنے گیا تو انہوں نے خفگی سے کہا کہ تم ہم کو کھوٹا روپیہ دے گئے اور اظہار ناراضگی کا کرنے لگے.تب میں نے جلدی سے اپنے پاس سے ایک روپیہ نکال کر اُن کے آگے رکھ دیا.مولوی محمد حسین بٹالوی فرمایا کہ میں ایک دفعہ امرتسر میں تھا کہ مولوی عبداللہ غزنوی کے ایک مُرید نے مجھے سنایا کہ مولوی عبد اللہ صاحب کو ایک کشف میں مولوی محمد حسین بٹالوی دکھایا گیا ہے کہ اُس کے (مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی) کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں.یہ کشف اس شخص کے پاس لکھا ہوا تھا اور میں نے امرتسر کے ایک باغ میں بیٹھے ہوئے اُس کی نقل کی.سوال کا پورا کرنا فرمایا.میرے پاس ایک چھوٹی سی جمائل ہوا کرتی تھی جس کا خط بھی بہت واضح تھا اور وہ مجھے پسند تھی مگر ایک شخص نے سوال کیا تو میں نے اُسے دے دی تا کہ سوال رڈ نہ ہو.

Page 154

139 باب پنجم فرمایا کرتے تھے" ایسی باتیں جو عام نصیحت یا قاعدہ کے طور پر آپ نے کئی دفعہ فرمائیں ، اور وہ کسی خاص سال کے متعلق نہیں بعض ایسی باتیں ہیں جن کو حضور نے کئی دفعہ فرمایا.گو تفصیل اور الفاظ میں کچھ فرق ہو مگر مطلب ہر دفعہ ایک ہوتا تھا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسی باتوں کو فرمایا کرتے تھے کی سُرخی کے نیچے ایک ہی دفعہ لکھا جائے.(۱) مولوی کہلانے سے نفرت فرمایا کرتے تھے.میں نے کبھی اپنے آپ کو مولوی نہیں لکھا.نہ کہا، نہ عموماً لوگ مجھے مولوی کہتے ہیں لیکن اگر کسی نے اتفاقیہ ایسا کہا تو مجھے ایسا رنج ہوتا.جیسا کہ کسی نے گالی دی.(۲) آسمانی کام اپنے سلسلہ کے متعلق فرمایا کرتے تھے.” یہ آسمانی کام ہے اور آسمانی کام رک نہیں سکتا.اس معاملہ میں ہمارا قدم ایک ذرہ بھر بھی درمیان میں نہیں.“ (۳) نئی جماعت کیسی ہو؟ فرمایا کرتے تھے صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ نہ دُنیا اُن سے پیار کرتی تھی اور نہ وہ دُنیا سے پیار کرتے تھے.اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت میں ایک نئی زندگی حاصل کی تھی.اب دیکھنا چاہئیے کہ کیا ان لوگوں (آج کل کے مسلمانوں ) کا قدم صحابہ کے قدموں پر ہے؟ ہر گز نہیں.پس خدا تعالیٰ کا منشاء اس سلسلہ کے قیام سے یہ ہے کہ لوگ پھر اس راہ پر چلنے لگیں.“ (۴) شرطیہ ایمان جب کبھی کوئی شخص اس قسم کی شرط لگا تا کہ مثلاً میرے گھر لڑکا پیدا ہو جائے تو میں احمدی ہو جاؤں گا ایسے شرط لگانے والوں کے متعلق فرمایا کرتے ” خدا تعالیٰ کو ان باتوں سے آزمانا نہیں

Page 155

140 چاہئیے.میں تعجب کرتا ہوں ، اُن لوگوں کی حالت پر جو اس قسم کے سوال کرتے ہیں.خدا کو کسی کی کیا پر واہ ہے.کیا یہ لوگ خدا پر اپنے ایمان لانے کا احسان رکھتے ہیں جو شخص سچائی پر ایمان لاتا ہے.وہ خود گنا ہوں سے پاک ہونے کا ایک ذریعہ تلاش کرتا ہے.ورنہ خدا کو اُس کی کیا حاجت ہے.خدا فرماتا ہے کہ اگر تم سب کے سب مُرتد ہو جاؤ تو وہ ایک اور نئی قوم پیدا کرے گا جو اُس سے پیار کرے گی جو شخص گناہ کرتا اور کافر بنتا ہے.وہ خدا کا کچھ نقصان نہیں کرتا اور جو ایمان لاتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کا کچھ بڑھا نہیں دیتا.ہر ایک شخص اپنا ہی فائدہ یا نقصان کرتا ہے جولوگ خدا پر احسان رکھ کر شرطیں لگا کر ایمان لانا چاہتے ہیں.اُن کی وہ حالت ہے کہ ایک شخص جو سخت پیاس میں مبتلا ہے.پانی کے چشمے پر جاتا ہے مگر وہ کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اے چشمہ میں تیرا پانی تب پیوں گا جبکہ تو مجھے ایک ہزار روپیہ نکال کر دیوے.بتاؤ اُس کو چشمہ سے کیا جواب ملے گا جا تو پیاس سے مر مجھے تیری حاجت نہیں تو خدا تعالیٰ غنی بے نیاز ہے.(۵) بدطنی سے بچو آپس میں ایک دوسرے پر بدظنی کرنے سے روکا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ حدیث میں ہے کہ دوزخ میں دو تہائی آدمی بدظنی کی وجہ سے داخل ہوں گے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے میں قیامت میں لوگوں سے پوچھوں گا کہ اگر تم مجھ پر بدظنی نہ کرتے تو یہ کیوں ہوتا حقیقت میں اگر لوگ خدا پر بدظنی نہ کرتے تو اُس کے احکام پر کیوں نہ چلتے.انہوں نے خدا پر باطنی کی اور کفر اختیار کیا اور بعض تو خدا تعالیٰ کے وجو د تک کے منکر ہو گئے.تمام فسادوں اور لڑائیوں کی وجہ یہی بدظنی ہے.“ (۶) دُعا میں بڑی قوت فرمایا کرتے تھے دُعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھتی ہیں.خدا نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دُعا ہی کے ذریعہ سے ہوگا.ہمارا ہتھیار تو دُعا ہی ہے اور اس کے سوائے کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں جو کچھ ہم پوشیدہ مانگتے ہیں.خدا اس کو ظاہر کر کے.دعا سے بڑھ کر اور کوئی ہتھیار ہی نہیں“.دکھا دیتا ہے.(۷) سچے مذہب کی علامت فرمایا کرتے تھے سچا مذہب وہ ہے ، جو خدا کے خوف سے شروع ہوتا ہے اور خوف اور محبت کی جڑھ معرفت ہے.پس مذہب وہ اختیار کرنا چاہئے جس سے خدا تعالیٰ کی معرفت اور رگیان بڑھ جائے اور خدا تعالیٰ کی تعظیم دلوں میں بیٹھ جائے جس مذہب میں صرف پورا نے قصے ہوں.وہ

Page 156

141 ایک مُردہ مذہب ہے.دیکھو خدا وہی ہے جو پہلے تھا.اس کی عبادت سے جو پھل پہلے لوگ پا سکتے تھے.وہی پھل اب بھی پاسکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے اخلاق بدل نہیں ڈالے.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ صرف ایک خشک لکڑی کی طرح ہیں جس کے ساتھ کوئی پھل نہیں.وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے خدا کو پہچانا ہی نہیں.اگر پہچانتے، تو ان پر ضرور برکات نازل ہوتے مگر اس راہ میں بہت مشکلات ہیں اور یہ بڑی قوت والوں کا کام ہے اور خدا کے اختیار میں ہے جس کو چاہے قوت عطاء فرمائے.اگر انسان تلاش میں لگا رہے تو ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اس کو قوت عطاء فرمائے.استقامت شرط ہے.ہمت کے ساتھ خدا کو تلاش کرو تو اُسے پالو گے جس مذہب میں سب سے زیادہ تعظیم الہی اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کا سامان ہو.وہی سب سے اعلیٰ مذہب ہے (۸) دو بڑے اصول فرمایا کرتے تھے ”ہمارے بڑے اصول دو ہیں.خدا کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اُس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا (۹) رحم غالب فرمایا کرتے تھے خدا تعالیٰ کے کام بے نیازی کے بھی ہیں اور وہ رحم بھی کرنے والا ہے لیکن میرا عقیدہ یہی ہے کہ اُس کی رحمت غالب ہے.اِنسان کو چاہئیے کہ دُعا میں مصروف رہے.آخر کار اس کی رحمت دستگیری کرتی ہے.“ (10) جتم داگی نہیں فرمایا کرتے تھے ” بہشت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ عطاء غیر مجذوذ.یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کا انقطاع نہیں لیکن بر خلاف اس کے دوزخ کے متعلق ایسا نہیں فرمایا بلکہ حدیث سے ثابت ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ سب لوگ دوزخ سے نکل چکے ہوں گے اور ٹھنڈی ہوا اُس کے دروازوں کو ہلاتی ہوگی.خدا تعالیٰ کی رحمت کا تقاضا بھی یہی ہے.آخر انسان خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے.خدا تعالیٰ اس کی کمزوریوں کو دُور کر دے گا اور اس کو رفتہ رفتہ دوزخ کے عذاب سے نجات بخشے گا.فرمایا کرتے تھے کہ جب انسان سچے دل سے تو بہ کرتا ہے تو اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں.تو بہ کی حقیقت یہ ہے کہ گناہ سے کلی طور پر بیزار ہو کر خدا کی طرف رجوع کرے اور نیچے طور سے یہ عہد ہو کہ موت تک پھر گناہ نہ کروں گا.ایسی تو بہ پر خدا کا وعدہ ہے کہ میں

Page 157

142 بخش دوں گا.اگر چہ یہ تو بہ دوسرے دن ہی ٹوٹ جائے مگر بات یہ ہے کہ کرنے والے کا اُس وقت عزم مصمم ہو اور اس کے دل میں ٹوٹی ہوئی تو بہ نہ ہو فرمایا کرتے تھے مجاہدات کی انتہافتا ہے، اس کے آگے جو لقا ہے.وہ کسی نہیں بلکہ وھی ہے.“ فرمایا کرتے تھے اُمت محمدیہ میں جو مامورین اور مجددیں اور اولیاء اور علماء ظاہر ہوئے وہ اگر چہ علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل کے مصداق تھے مگر ان کا نام نبی نہ رکھا گیا.نہ انہوں نے نبوت کا دعوی کیا.اس میں یہ حکمت تھی کہ آن حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان ختم نبوۃ اچھی طرح سے ثابت ہو جائے.سو تیرہ سو سال تک ایسا ہی ہوتا رہا لیکن اس سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ کی طفیل کوئی شخص نبوت کا مقام پا ہی نہیں سکتا اور آپ کو جو مما ثلت موسٹی کے ساتھ تھی.اس میں فرق آتا تھا.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے اس صدی کے مجد دکو کئی ایک انبیاء کے نام دیے.اور اسے جَرِی اللہ فی حلل انبیاء کہا اور اسے نبوت عطاء کی.اس طرح سب اعتراض رفع ہو گئے کیونکہ آپ کی اُمت میں ایک آخری خلیفہ ایسا آیا جو موسی کے تمام خلفاء کا جامع ہے.فرمایا ” بندہ بولتا رہتا ہے ، اور خدا سنتا رہتا ہے.آخر کار یہ نوبت پہنچتی ہے کہ خدا بولنے لگتا ہے اور بندہ سُنتا ہے.فرمایا ”میں نے انتظام کیا ہوا تھا کہ میں بھی مہمانوں کے ساتھ کھاتا تھا مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پر ہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا.ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئیجگہ کافی نہ ہوتی تھی.اس لئے بمجبوری علیحدگی ہوئی.فرمایا کرتے تھے ”جو لوگ بیعت کر کے چلے جاتے ہیں اور پھر کبھی نہیں آتے.نہ کوئی تعلق قائم رکھتے ہیں.حتی کہ ان کی شکل بھی ہم کو یاد نہیں رہتی تو اُن کے لئے دُعا کیا ہو.بار بار مل کر تعلق محبت بڑھاؤ جو شخص تعلق بڑھاتا ہے اور بار بار آتا ہے.اُس کی ذراسی مصیبت پر بھی دُعا کا خیال آ جاتا ہے مگر جو شخص دُنیا میں اس قدر غرق ہے کہ گویا اس نے بیعت ہی نہیں کی اور اُسے ملنے کی فرصت ہی نہیں.کیا وہ ان لوگوں کے برابر ہوسکتا ہے جو بار بار آ کر ملتے رہتے ہیں.(۱۱) غربت بھی فضل.فرمایا.کبیر نے کیا سچ کہا ہے ھے ہے بھلا ہوا ہم پیچ کھئے ہر کا کیا سلام جے ہوتے گہر اوچ کے ملتا کہاں بھگوان

Page 158

143 فرمایا کرتے تھے دین کا بڑا حصہ غرباء نے لیا ہوا ہے.دیکھا جاتا ہیمو ما فسق و فجور اور ظلم وغیرہ اکثر امراء کے حصہ میں ہے اور صلاحیت اور تقویٰ اور عجز و نیاز غرباء کے ذمہ پس گروہِ غرباء کو بد قسمت نہ خیال کرنا چاہیئے.خدا کے ان پر بڑے فضل اور اکرام ہیں.بہت سی دینی خوبیاں غرباء میں ہیں کہ امراء کو وہ حاصل نہیں ہوتیں.حضرت صاحب عورتوں میں بھی وعظ کیا کرتے تھے.۱۹۰۳ ء میں ایک دفعہ یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا.فرمایا کرتے تھے ” خدا تعالیٰ وفادار دوست ہے جو شخص بچے طور پر خدا کا ساتھ دیوے خدا اس کا ساتھ دیتا ہے.چاہئیے کہ انسان دوستی کا حق وفاداری کے ساتھ پوری طرح سے ادا کرے.ومن يتوكل على اللہ جو خدا کی طرف پورے طور سے آ گیا اور کسی دشمنی اور نقصان کی اُس نے پر واہ نہ کی اور وفاداری سے آگے بڑھا تو پھر خدا اُس کے لئے کافی ہے اور وہ اُس کے ساتھ پوری وفا کرے گا.“ فرمایا کرتے رقت کے وقت دُعا قبولیت کے بہت قریب ہوتی ہے“ فرمایا کرتے تھے..نہ تنہا عشق از دیدار خیزد بسا کیس دولت از گفتار خیزد فرمایا کرتے تھے ” میری کوئی نماز ایسی نہیں جس میں میں اپنے دوستوں ، اولاد اور بیوی کے لئے دُعا نہیں کرتا.“ (۱۲) صحبت میں رہنے کی تاکید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدام کو بار بار قادیان آنے اور اپنی صحبت میں بہت بہت دیر تک رہنے کی بہت تاکید کیا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے ”ہماری جماعت کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وقت نکال کر بار بار قادیان آیا کریں اور یہاں صحبت میں رہ کر اُس غفلت کی تلافی کریں جو غیبو بت کے زمانہ میں ہوئی ہے.اور اُن شبہات کو دور کریں جو اس غفلت کا سبب ہوئے ہیں.انسان کمزور بچہ کی طرح ہے.مامور من اللہ کی صحبت اس کے لئے ضروری ہے کہ اگر وہ اس سے الگ ہو جائے تو اس کے لئے ہلاکت کا اندیشہ ہے.اگر خدا تعالیٰ کسی کو توفیق دے اور وہ اس کو سمجھ لے تو بہتر ہے پس یہ ایک بہت ہی ضروری امر ہبار بار آئیں.اس سے معرفت اور

Page 159

144 بصیرت پیدا ہو گی.ان زہروں کو دُور کرنے کے واسطے جو رُوح کو تباہ کرتی ہیں.کسی تریاقی صحبت کی ضرورت ہوتی ہے تا کہ انسان مہلکات کا علم حاصل کرے اور نجات دینے والی چیزوں کی معرفت حاصل کر لے.انسان کامل مومن اُس وقت تک نہیں ہوتا.جب تک کہ کفار کی باتوں سے متاثر نہ ہونے والی فطرت حاصل نہ کر لے اور یہ فطرت نہیں ملتی جب تک اس شخص کی صحبت میں نہ رہے جو گم شدہ متاع کو واپس دلانے کے واسطے آیا ہے.پس جب تک کہ وہ اس متاع کو نہ لے لے اور اس قابل نہ ہو جائے کہ مخالف باتوں کا اس پر کچھ بھی اثر نہ ہو.اس وقت تک اس پر حرام ہے کہ اس صحبت سے الگ ہو کیونکہ وہ اُس بچہ کی مانند ہے، جو ابھی ماں کی گود میں ہے اور صرف دُودھ ہی پر اس کی پرورش کا انحصار ہے.پس اگر وہ بچہ ماں سے الگ ہو جاوے تو فی الفور اس کی ہلاکت کا اندیشہ ہے.اسی طرح اگر وہ صحبت سے علیحدہ ہوتا ہے تو خطرناک حالت میں جا پڑتا ہے.پس بجائے اس کے کہ دوسروں کو درست کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہو.خود اُلٹا متاثر ہو جاتا ہے اور اوروں کے لئے ٹھوکر کا باعث بنتا ہے.اس لئے ہم کو دن رات جلن اور خواہش یہی ہیلوگ بار بار یہاں آئیں اور دیر تک صحبت میں رہیں.انسان کامل ہونے کی حالت میں اگر ملاقات کم کر دے، اور تجربہ سے دیکھ لے کہ قوی ہو گیا ہوں تو اُس وقت اُسے جائز ہو سکتا ہے کہ ملاقات کم کر دے کیونکہ وہ بعید ہو کر بھی قریب ہوتا ہے لیکن جب تک کمزوری ہے.وہ خطرناک حالت میں ہے.(۱۳) ایمان کامل چاہئیے ؟ فرمایا کرتے تھے گناہوں میں گرنا کمزوری ایمان کا نتیجہ ہے.جب خدا تعالیٰ پر پورا پورا ایمان ہو، تو پھر انسان ایسا کام کر ہی نہیں سکتا جو اللہ تعالیٰ کی نارضامندی کا موجب ہے جیسا کہ کوئی شخص سانپ کے سوراخ میں اپنی انگلی نہیں ڈالتا کیونکہ اُسے پورا یقین اور ایمان ہے کہ اس سے مجھے دُکھ اور درد پہنچے گا.ایسا ہی کسی شخص کو کوئی زہر کھانے کے واسطے دیا جائے اور اسے معلوم ہو کہ یہ زہر ہے تو ہر گز نہیں کھائے گا خواہ ہزاروں روپے کا ساتھ لالچ دیا جائے کیونکہ وہ جانتا ہے، اور ایمان رکھتا ہے کہ اس سے وہ ہلاک ہو جائے گا.ایسا ہی جب خدا تعالیٰ پر کامل ایمان حاصل ہو تو ایک گناہ سوز فطرت پیدا ہو جاتی ہے.خدا پر پورا ایمان لانے سے انسان فرشتہ بن جاتا ہے بلکہ ملائکہ کا مسجود ہو جاتا ہے اور نورانی ہو جاتا ہے.(۱۴) شخصی تبلیغ فرمایا کرتے ' انبیاء کا یہ قاعدہ ہے کہ شخصی تدبیر نہیں کرتے.نوع کے پیچھے پڑتے ہیں.

Page 160

145 جہاں شخصی تدبیر آئی وہاں چنداں کا میابی نہیں ہوتی.کسی ایک شخص کے پیچھے لگ جانا کہ یہی ہدایت پاوے ، تب جماعت بنتی ہے ٹھیک نہیں.تبلیغ کو عام کرنا چاہئیے.پھر ان میں سے اللہ تعالیٰ جس کو توفیق دے ، وہ قبول کرے اور داخل ہو جائے.“ (۱۵) نزول انوار فرمایا کرتے ”ہم نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.متعدد مرتبہ آزمایا ہے بلکہ ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب انکسار اور تذلل کی حالت انتہاء کو پہنچتی ہے اور ہماری رُوح اس عبودیت اور فروتنی میں یہ نکلتی ہے اور آستانہ الوہیت حضرت واہب العایا پر پہنچ جاتی ہے.تو ایک روشنی اور ٹور اوپر سے اُترتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے.جیسے ایک نالی کے ذریعہ سے مصفا پانی دوسری نالی میں پہنچتا ہے.(۱۶) صادِق کا انجام فرمایا کرتے تھے خدا تعالیٰ کے صادق بندے آزمائیشوں میں ڈالے جاتے ہیں اور مصائب میں کچلے جاتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ وہ تباہ ہو جائیں بلکہ اس لئے کہ تا اُن کا جو ہر قابل جلا پکڑے اور ان کی اندرونی خوبیاں ظاہر ہوں.انجام اُن کا بخیر ہوتا ہے اور آخری فتح اور کامیابی اُن ہی کے لئے ہوتی ہے.وہ بڑھتے ہیں اور پھلتے ہیں اور اُن میں برکت پیدا ہوتی ہے.(۱۷) عذاب کا وعدہ ٹل جاتا ہے فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ کے حضور میں خشوع و خضوع کے ساتھ دُعائیں کرنے اور گریہ و زاری کرنے اور صدقہ و خیرات سے آنے والی بلائل جاتی ہے.اگر چہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور وعید کے پیشگوئی بھی ہو کوئی فرد یا قوم ہلاک ہو جائے گی مگر جب وہ قوم وقت پر تو بہ میں لگ جاتی ہے تو وعیدٹل جاتا ہے.خدا تعالیٰ رحیم کریم ہے.“ (۱۸) ظاہر پرستی درست نہیں فرمایا کرتے تھے الہامی پیشگوئیوں میں استعارات ہوتے ہیں جس طرح سے وہ پیشگوئیاں اپنے وقت پر پوری ہوں.قرائن اور نشانات کے ساتھ ان کو قبول کرنا چاہئیے.الفاظ کے ظاہری معنوں کے پیچھے پڑا رہنا اچھا نہیں.اس سے پہلی قو میں ہلاک ہوئیں.جیسا کہ یہود نے حضرت عیسی کا اس واسطے انکار کیا کہ حضرت عیسی پیشگوئیوں کے ظاہر الفاظ کے مطابق دنیوی بادشاہت لے کر نہ آئے جس سے یہو د ملک فلسطین پر حکمران ہو جاتے.

Page 161

146 (۱۹) خدا میں محویت فرمایا کرتے تھے ” مومن کو چاہئیے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفسانی اغراض کو بالکل مٹا دے.اس کی عبادت جنت کی خواہش میں یا دوزخ کے خوف سے نہ ہو بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو.انسان کو چاہئیے.اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کی عظمت میں محو کر دے.(۲۰) خواب میں دانت کا ٹوٹنا فرمایا کرتے تھے اگر انسان خواب میں دیکھے کہ اُس کا دانت مُنہ سے نکل کر زمین پر گر گیا ہے تو یہ خواب منذر ہے اور بعض دفعہ کسی قریبی کے مرنے کی خبر دیتا ہے لیکن اگر دانت گر کر یا ٹوٹ کر ہاتھ میں رہ جائے تو یہ منذ رنہیں بلکہ مبشیر ہے.(۲۱) چار قسم کے نشانات فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے چار قسم کے نشانات دیے ہیں.اول عربی دانی کا نشان جس کے واسطے کئی کتابیں لکھ کر تحدی کی گئی ہے اور انعامات رکھے گئے ہیں ایسی فصیح بلیغ کتاب کوئی شخص مقابلہ میں لکھے.دوم.قبولیت دعا کا نشان سوم.پیشگوئیوں کا نشان.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.لَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ چہارم.قرآن شریف کے دقائق اور معارف کا نشان.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ.(۲۲) میت سے کلام فرمایا کرتے تھے کہ ارواح کا قبور سے تعلق ہے اور ہم اپنے ذاتی تجربہ سے کہتے ہیں مُردوں سے کلام ہو سکتا ہے مگر اس کے لئے کشفی قوت اور حس کی ضرورت ہے.ہر شخص کو یہ بات حاصل نہیں.رُوح کا تعلق قبر کے ساتھ بھی ہوتا ہے اور رُوح کا تعلق آسمان سے بھی ہوتا ہے.جہاں اُسے ایک مقام ملتا ہے.(۲۳) اقسام تقدیر فرمایا کرتے تھے ” تقدیر دو قسم کی ہے.ایک معلق جو دُعا اور صدقات سے مل جاتی ہے.

Page 162

147 دوسری مُبرم جو قطعی ہوتی ہے اور ٹلنے والی نہیں ہوتی مگر دُعا اور صدقہ اس میں بھی فائدہ دیتا ہے.بعض دفعہ تو وقف اور تاخیر ڈالی جاتی ہے، یا اُسے نرم کر دیا جاتا ہے، یا کسی اور پیرا یہ میں اللہ تعالیٰ فائدہ پہنچا دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کا کل چیزوں پر قادر نہ تصرف ہے اور اس کے تصرف مخفی ہیں.وہ جو چاہتا ہے محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے، اثبات کر دیتا ہے.“ ایمان بالغیب فرمایا کرتے تھے ایمان کا ثواب تب ہی مترتب ہوتا ہے جبکہ غیب کی باتوں کو غیب ہی کی صورت میں قبول کیا جائے اور کھلی کھلی شہادتیں طلب نہ کی جائیں.جب کوئی نیک بندہ ایمان پر محکم قدم مارتا ہے اور پھر دُعا اور فکر اور نظر سے ترقی چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اُس کی دستگیری کرتا اور اُسے درجہ عین الیقین عطاء کرتا ہے.ایمان اُسی حد تک ایمان ہے.جب تک وہ امور جن کو مانا گیا ہے.کسی قدر پر دہ غیب میں ہیں.(۲۵) محبت و شفقت فرمایا کرتے تھے کہ ”محبت صرف صلحاء اور نیکوں کے ساتھ کی جاسکتی ہے جن کے قول اور فعل کو ہم بنظر استحسان دیکھتے ہیں اور ہم رغبت رکھتے ہیں کہ اُن کے سے حالات ہم میں بھی پیدا ہو جائیں لیکن شریروں اور بدکاروں کے ساتھ محبت نہیں کی جاسکتی کیونکہ ان کے ساتھ محبت کرنے کے یہ معنے ہوں کیہم بھی اُن کی طرح بد کا رہنا چاہتے ہیں.ہاں اُن پر شفقت کی جاسکتی ہے تا کہ نرمی سے ہم اُن کی اصلاح کریں اور اُن کی خیر خواہی کریں اور اُن کو بدی سے بچائیں.محبت کی حقیقت یہ ہے کہ انسان محبوب کے رنگ میں رنگین ہو جائے.(۲۶) حکومت بر طانیہ پنجاب میں سکھوں کے راج میں جو مسلمانوں پر سکھ حکام کی طرف سے مظالم تھے اور اذان دینے کی رکاوٹ تھی اور مساجد پر بیجا قبضے کر لیتے تھے اور جان ومال ہر وقت خطرہ میں تھا.اس کے مقابل حکومت برطانیہ کی مذہبی آزادی اور امن اور تار ، ڈاک، ریل وغیرہ کی آسودگیوں کا ذکر کرتے ہوئے.حکومت برطانیہ کا مشکور ہونے اور اس کی امداد کرنے کی تاکید فرمایا کرتے تھے.(۲۷) تازہ معجزات کی ضرورت فرمایا کرتے تھے پہلے انبیاء کے نشانات اور معجزات مشکوک ہو کر بطور قصے کہانیوں کے

Page 163

148 رہ گئے ہیں کیونکہ اُن کو بہت لمبا عرصہ گذر گیا ہے اور اُن پر تاریخی شہادتیں اب پوری طرح ثابت نہیں ہو سکتیں اور ان کی کتابوں میں بھی کمی بیشی ہو چکی ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ اب نئے سرے سے اسلام کی تائید میں بلکہ تمام انبیاء کی صداقت کے ثبوت میں نشانات اور خوارق دکھا رہا ہے کیونکہ خبر معائنہ کے برابر نہیں ہوتی.سُنی ہوئی بات کسی واقعہ صحیحہ کی برابری نہیں کرسکتی.اللہ تعالی تازہ نشانات دکھلا رہا ہے تا کہ لوگوں میں تضرع اور ابتہال پیدا ہو اور اُن کے ایمان کو ایک نئی زندگی حاصل ہو.(۲۸) دو ضلعیں فرمایا کرتے.میں دو مصالحتیں لے کر آیا ہوں.ایک اندرونی دوسری بیرونی.بیرونی مصالحت اس طرح کہ اب دین کے واسطے غیر قوموں کے ساتھ جنگ و جہاد کی ضرورت نہیں رہی.دلائل عقلیہ اور نشانات سماوی کے ساتھ صداقت اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے.اندرونی مصالحت کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو ایک جگہ جمع کیا جائے.اسی کے متعلق مجھے الہام ہوا.يـضـع الـحـرب و يصالح الناس.یعنی ایک طرف تو جنگ و جدال اور حرب کو اُٹھا دے گا اور دوسری طرف اندرونی طور پر مصالحت کر دے گا.اسی واسطے میرا نام سلمان رکھا گیا ہے جس کے معنے ہیں دو محیں اور لکھا ہے کہ مسیح موعود حسن المشرب ہوگا کیونکہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ میں بھی دو صحیں تھیں.ایک صلح تو انہوں نے حضرت معاویہ کے ساتھ کر لی اور دوسری صحابہ کی باہم صلح کرادی." (۲۹) مرشد و مرید فرمایا کرتے تھے مرشد کے ساتھ مرید کا تعلق ایسا ہونا چاہیے.جیسا کہ مرد کے ساتھ عورت کا تعلق ہوتا ہے کہ مرید مرشد کے کسی حکم کا انکار نہ کرے اور اس کی دلیل نہ پوچھے.دل کی پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک کہ انسان منہاج نبوت پر آئے ہوئے کسی پاک انسان کی صحبت میں نہ بیٹھے.پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں.پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہے جو پیغمبروں کا مظہر ہے.“ (۳۰) شانِ محمد فرمایا کرتے تھے میرا مذہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الگ کر دیا

Page 164

149 جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے.سب کے سب اکٹھے ہو کر وہ کام اور اصلاح کرنا چاہتے ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کی تو ہر گز نہ کر سکتے.اُن میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملی تھی.میں تمام نبیوں کی عزت وحرمت کرنا اپنے ایمان کا جزو سمجھتا ہوں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضلیت کل انبیاء علیہم السلام پر میرے ایمان کا جز و اعظم اور میرے رگ وریشہ میں ملی ہوئی بات ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ قوت اور وہ زندگی عطاء ہوئی جس سے لاکھوں، کروڑوں مُردے زندہ ہوئے.اسی واسطے آپ کا نام حاشر الناس بھی ہے اور اب تک آپ کی قوت قدسی سے کروڑوں مُردے زندہ ہو رہے ہیں اور قیامت تک ہوتے رہیں گے.(۳۱) علمی معجزه فرمایا کرتے تھے کہ بعض لوگ نادانی سے قرآن شریف کے مقابلہ میں حریری وغیرہ کتب کو پیش کر دیتے ہیں کہ وہ بھی فصیح بلیغ ہیں اور ایسی کتاب کو ئی نہیں لکھ سکتا مگر یہ اُن کی غلطی ہے.اول تو ان کتابوں کے مصنفین کو کبھی یہ دعویٰ نہیں ہوا اُن کا کلام بے مثل ہے بلکہ وہ خود اپنی کم مائیگی کا ہمیشہ اقرار کرتے رہے ہیں.دوسرا اُن لوگوں کی کتابوں میں معنی الفاظ کے تابع ہو کر چلتے ہیں.صرف الفاظ جوڑے ہوئے ہوتے ہیں.قافیہ کے واسطے ایک لفظ کے مقابل دوسرا لفظ تلاش کیا جاتا ہے اور کلام میں حکمت اور معارف کا لحاظ نہیں ہوتا اور قرآن شریف میں حق اور حکمت کا التزام ہے.اس بات کا پورے طور پر نباہنا حق اور حکمت کے کلمات کے ساتھ قافیہ بھی درست ہو، یہ بات تائید الہی سے حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو بھی اپنے فضل سے یہ علمی معجزہ عطاء کیا ہے جس کا مقابلہ کوئی عالم نہیں کر سکا.حالانکہ انعامات بھی رکھے گئیا نیں فصیح بلیغ عربی کتب پر معانی و معارف کوئی مخالف مولوی بالمقابل لکھ کر دیکھائے تو انعام بھی پائے مگر کسی کو جرات نہیں ہوئی کہ مقابلہ کر سکے.(۳۲) مسلمانوں کی ترقی کا راز فرمایا کرتے تھے آج کل مسلمان جس گری ہوئی حالت میں ہیں اس سے انہیں نکالنے کے واسطے انجمنیں بنتی ہیں اور جلسے اور کا نفرنسیں ہوتی ہیں مگر وہ سب یہی کہتے ہیں کہ مغربی قوموں کا نمونہ اختیار کرو.کالج بناؤ.بیرسٹر بنو.اس سے مسلمانوں کو ترقی حاصل ہو گی مگر وہ نہیں جانتے کہ

Page 165

150 اللہ تعالیٰ کے حضور میں ان قوموں کا معاملہ اور ہے اور مسلمانوں کا اور ہے.مسلمانوں کو کتاب دی گئی ہے.ان کی ترقی اسی میں ہے کہ قرآن شریف کو اپنا امام بنا ئیں ، اور اس پر عمل کریں.بے شک کالج بنائیں اور دنیوی تعلیمات اور تجارت وغیرہ کو حاصل کریں.ہم اس سے نہیں روکتے لیکن اول یہ ضروری ہے کہ لا الہ الا اللہ.اُن کے دل و جگر میں سرایت کرے اور اُن کے وجود کے ذرہ ذرہ پر اسلام کی روشنی اور حکومت ہوا اور ہر حال میں وہ دین کو دُنیا پر مقدم کرنے والا ہو.جب تک یہ نہ ہو گا.مسلمان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے جبکہ خدا ہے، اور ضرور ہے تو اُسے چھوڑ کر مسلمان کبھی ترقی نہیں کر سکتے.مسلمان چاہتے ہیں کہ خدا کی بے عزتی کر کے ، اور اُس کی کتاب کی بے ادبی کر کے کامیاب ہوں اور قوم بنالیں.وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے.کفار کا معاملہ الگ ہے اور ان کے لئے مواخذہ کا دن مقرر ہے اور مسلمانوں کا معاملہ الگ ہے.(۳۳) فراست مومن فرمایا کرتے تھے 'بار ہا تجربہ کیا گیا کہ جب کسی بات کی تحریک میرے دل میں ہوتی ہے تو وہ منجانب اللہ ہوتی ہے اور اُس کام کے کرنے میں اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہوتی ہے اور میرا دل اللہ تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ ناجائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور اُس کام کے کرنے سے دل منتظر ہوتا ہے اور میری فراست ہر شخص کے متعلق صحیح حالات کا پتہ لگا لیتی ہے.(۳۴) نیکی کے دو پہلو فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے لئے دونوں باتیں ضروری ہیں.بدی سے بچے اور نیکی کرنے کی طرف دوڑے.یہی دو پہلو ہیں.ایک ترک شر دوسرا افاضہ خیر.اپنی بھی اصلاح کرے اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائے.(۳۵) بر امر آسمان پر مقدر ہوتا ہے فرمایا کرتے تھے ” پہلے ایک امر آسمان پر طے ہو جاتا ہے بعد میں زمین پر اس کا ظہور ہوتا ہے اسی واسطے اکثر پیشگوئیاں صیغہ ماضی میں ہوتی ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں پیشگوئی کی گئی.تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهُبٍ وَّتَبُ.ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے ، اور وہ خود بھی ہلاک ہو گیا.جب یہ وحی الہی قرآن شریف میں بطور پیشگوئی کے نازل ہوئی اُس وقت ابولہب زندہ اور سلامت تھا لیکن آسمان پر اس کے لئے ہلاکت کا کام ہو چکا تھا.اس واسطے یہ بات ایسے طور پر بیان کی گئی کہ گویا یہ

Page 166

151 کام ہو چکا ہے.اُس کی ہلاکت ایسی یقینی تھیاس پیشگوئی کو ایسے الفاظ میں پیش کیا گیا کہ گویا ایک واقعہ شدہ امر ہے.تمام سماوی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی امر کے ضرور آئندہ پورا ہو جانے کے متعلق کسی پیشگوئی کے ظاہر فرماتے وقت ماضی کا استعمال کرتا ہے.ایسا ہی ہمارا الہام عفت الدیار والا تھا جو ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کانگڑہ سے پورا ہوا.اس کے معنی ہیں مٹ گئے گھر.اگر چہ یہ زلزلہ کی پیشگوئی گیارہ ماہ قبل کی گئی.تاہم چونکہ آسمان پر فیصلہ ہو چکا تھازلزلہ ضرور آئے گا.اس واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا عارضی اور مستقل مکان سب گر گئے اور نشانِ مِٹ گئے.(۳۶) تکرار الہامات بعض الہامات ایسے ہیں جو انہی الفاظ میں کئی کئی بار آپ پر نازل ہوئے.ان کے متعلق فرمایا کرتے تھے جو الہام بار بار کئی دفعہ ہوتے ہیں.ہر دفعہ وہ جُد اشان رکھتے ہیں.مثلا انِی مُهِينٌ مَّنْ اَرَادَا إِهَانَتَكَ والا الہام بہت دفعہ ہوا ہے اور ہر دفعہ اس کا ظہور کسی نئے رنگ میں ہوا ہے.ہر دفعہ اہانت کنندہ اور اہانت یافتہ کوئی نیا وجود ہوتا رہا ہے.ایسا ہی الہام إِنِّی مَعَ الْأَفْوَاجِ اتِيكَ بَغْتَةً بہت کثرت سے ہوا ہے اور ہمیشہ خدائی فوجوں کی نصرت سے ایک نیا معجزہ پیدا ہوا ہے.اسی طرح اکثر الہامات بار بار ہوتے ہیں اور ہر دفعہ کوئی نیا رنگ رکھتے ہیں.اسی طرح قرآن شریف میں بہت سی آیات ہیں جو اپنے اپنے موقع پر جُدا مطابقت رکھتی ہیں.اگر چہ ظاہر الفاظ ایک ہی ہیں.اللہ تعالیٰ کی صفت ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَان.(۳۷) حضرت مسیح موعود کے دو بازو فرمایا کرتے تھے یہ اخبار الحکم و بدر ہمارے دو بازو ہیں.الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں.“ (۳۸) موت تبدیلی مکان ہے فرمایا کرتے "مر نا کوئی حرج یا دُکھ کی بات نہیں جس کو ہم کہتے ہیں مر گیا ہے وہ دوسرے جہاں میں چلا جاتا ہے اور وہ جہان نیک آدمیوں کے لئے بہت عمدہ ہے.خدا کے ہاتھ میں سب کچھ ہے.اس نے دو گھر بنائے ہیں.ادھر سے اُٹھا کر اُدھر آباد کر دیتا ہے.“ (۳۹) اصحاب رسول فرمایا کرتے تھے ”جو لوگ بذریعہ کشف صحیح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآ )

Page 167

152 حاصل کرتے ہیں.وہ اصحاب رسول میں سے ہیں.“ " (۴۰) دُعا کرنا موت اختیار کرنے کے برابر فرمایا کرتے تھے اکثر لوگ دُعا کی اصل فلاسفی سے ناواقف ہیں اور نہیں جانتے کہ دُعا کے ٹھیک ٹھکانہ پر پہنچنے کے واسطے کس قدر توجہ اور محنت درکار ہے.دراصل دُعا کرنا ایک قسم کی موت کا اختیار کرنا ہوتا ہے.(۴۱) دُعا علیحدگی میں فرمایا کرتے تھے جب خوف الہی اور محبت غالب آتی ہے تو باقی تمام خوف اور محبتیں زائل ہو جاتی ہیں.ایسی دُعا کے واسطے علیحدگی بھی ضروری ہے.اسی پورے تعلق کے ساتھ انوار ظاہر ہوتے ہیں اور ہر ایک تعلق ایک ستر کو چاہتا ہے.“ (۴۲) معجزہ نمائی فرمایا کرتے تھے ”ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے دعوی کرتے ہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں مبعوث کیا بیقرآن کریم میں جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء کے مذکور ہوئے ہیں.ان کو خود دکھا کر قرآن شریف کی حقانیت کا ثبوت دیں.ہم دعوی کرتے ہیں کہ اگر دُنیا کی کوئی قوم اپنی کوششوں سے ہمیں آگ میں ڈالے یا کسی اور خطرناک عذاب اور مصیبت میں مبتلاء کرنا چا ہے.تو خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق ضرور ہمیں محفوظ رکھے گا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ہم خود آگ میں کو دتے پھریں.یہ طریق انبیاء کا نہیں.“ قرآن شریف میں جس قدر معجزات مذکور ہیں.ہم ان کے دکھانے کو زندہ موجود ہیں.خواہ قبولیت دعا کے متعلق ہوں خواہ اور رنگ کے معجزہ کے منکر کا یہی جواب ہے کہ اُس کو معجزہ دکھایا جائے.اس سے بڑھ کر اور کوئی جواب نہیں ہو سکتا.“ (۴۳) مومنوں کے اقسام فرمایا کرتے تھے ایمان لانے والے تین قسم کے آدمی ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو چہرہ دیکھ کر ایمان لاتے ہیں.دوسرے وہ جو نشان دیکھ کر مانتے ہیں.تیسرا ایک ارزل گروہ ہے کہ جب ہر طرح سے غلبہ حاصل ہو جاتا ہے اور کوئی وجہ ایمان بالغیب کی باقی نہیں رہتی تو اس وقت ایمان لاتے ہیں.جیسے کہ فرعون جب غرق ہونے لگا تو اُس نے اقرار کیا.“ (۴۴) اُسوہ شہادت فرمایا کرتے تھے عبد اللطیف صاحب نے ایک اُسوہ حسنہ چھوڑا ہے جس کی اتباع

Page 168

153 جماعت کو چاہیے.صاحبزادہ صاحب نے نہایت استقلال کے ساتھ سلسلہ حقہ کی خاطر اپنی جان دی اور شہادت قبول کی.اُن کی زندگی ایک تنعم کی زندگی تھی.مال دولت ، جاہ و ثروت سب کچھ موجود تھا اور اگر وہ امیر کا کہنا مان لیتے تو اُن کی عزت اور بڑھ جاتی مگر انہوں نے ان سب پر لات مارکر اور دیدہ و دانستہ بال بچوں کو کچل کر موت کو قبول کیا.انہوں نے بڑا تعجب انگیز نمونہ دکھایا ہے اور اس قسم کے ایمان کو حاصل کرنے کی کوشش ہر ایک کو کرنی چاہئیے.جماعت کو چاہیے کہ کتاب تذکرة الشہادتین کو بار بار پڑھیں اور فکر کریں اور دُعا کریں کہ ایسا ہی ایمان حاصل ہو.“ (۴۵) مہمانوں کی تواضع حضرت صاحب مہمانوں کی خاطر داری کا بہت اہتمام رکھا کرتے تھے.جب تک تھوڑے مہمان ہوتے تھے.آپ خود ان کے کھانے اور رہائیش وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے.جب مہمان زیادہ ہونے لگے تو خدام حافظ حامد علی صاحب، میاں نجم الدین صاحب وغیرہ کو تاکید فرماتے رہتے تھید یکھو مہمانوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.اُن کی تمام ضروریات خورد و نوش د ر ہائش کا خیال رکھا کرو.بعض مہمانوں کو تم شناخت کرتے ہو بعض کو نہیں کرتے.اس لئے مناسب ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر اُن کی تواضع کرو.سردی کے ایام میں فرمایا کرتے.مہمانوں کو چائے پلاؤ.ان سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی کو علیحدہ کمرے یا مکان کی ضرورت ہو تو اس کا انتظام کر دو.اگر کسی کو سردی کا خوف ہو تو لکڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو.“ (۴۶) اپنے الہامات پر ناز نہ کرو؟ جب کبھی کوئی دوست اپنی خوابوں اور الہامات کا ذکر کرتا تو عموماً فرمایا کرتے تھے کہ آپ ان خوابوں اور الہامات کو اپنے لئے کسی خوبی کا باعث نہ جانیں.یہ تو خدا کا فضل ہے.مومن کی نیکی اس میں ہے کہ وہ اعمال صالحہ میں کوشاں رہے.مومن کا اصل مقصد اور غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور بے ریاء تعلق اخلاص اور وفاداری کا پیدا کرے.جہاں تک ہو سکے صدق وا خلاص و ترک ریا و ترک امنیات میں ترقی کرتے جاؤ اور مطالعہ کرتے رہو کہ ان باتوں پر تم کس حد تک قائم ہو.صوفیاء نے لکھا ہے کہ اوائل سلوک میں جو ر ڈ یا یا وحی ہو.اس پر توجہ ہی نہیں کرنی چاہئیے ر.ا کیونکہ وہ اس راہ میں اکثر اوقات روک ہو جاتی ہے.اپنے رویا اور الہام پر مدار صلاحیت نہیں رکھنا چاہئیے.کئی آدمی دیکھے گئے ہیں کہ ان کو رؤیا اور الہامات ہوتے رہے لیکن ان کا انجام اچھا نہ ہوا.

Page 169

154 انجام کا اچھا ہونا اعمال صالحہ کی صلاحیت پر موقوف ہے.اگر اللہ تعالیٰ صبح سے شام تک کسی سے مکالمہ کرتا رہے تو یہ اس کی کوئی خوبی کی بات نہ ہوگی کیونکہ یہ تو خدا کی عطاء ہوگی.دھیان اس بات پر لگانا چاہیئے کہ خود ہم نے خدا تعالیٰ کے لئے کیا گیا.(۴۷) تین قسم کے ثبوت فرمایا کرتے ” ایک مامور کی شناخت کے تین طریق ہیں.نقل ، عقل ، تائیدات سماوی یہ تینوں امور ہمارے دعوی کے مؤید ہیں.“ ( ۴۸ ) جو دنفس اپنی جماعت کو نصیحتا فرمایا کرتید نیاوی تنازعات کے وقت مالی نقصان برداشت کر لو اور جو د نفس سے کام لو تا کہ تنازع رفع ہو.انسان کو ایسا موقع ہمیشہ ہاتھ نہیں آتا کہ وہ فطرت کے یہ جو ہر دکھا سکے اور اپنے بھائی کی خاطر نقصان اُٹھا لے اور سچا ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرے.جب کبھی ایسا موقع ہاتھ آ جائے.اُسے غنیمت خیال کرنا چاہیے.“ (۴۹) ضرورت مسجد فرمایا کرتے کہ جہاں کہیں ہماری جماعت ہو.وہاں عبادت الہی کے واسطے مسجد ضرور بنا لینی چاہیئے.مسجد خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد بن گئی ، وہاں سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی.اگر کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہو.جہاں مسلمان کم ہوں ، یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو، تو وہاں ایک مسجد بنادینی چاہیے پھر خدا خود مسلمانوں کو کھینچ لائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد میں نیت خالص ہو.یہ ضروری نہیں ہے کہ مسجد مرضع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہئیے اور مسجد کی حد بندی کر دینی چاہیے اور بانس وغیرہ کا کوئی چھپر ڈال دو تا کہ بارش اور دھوپ سے بچاؤ ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد چند کھجوروں کی شاخوں سے بنائی گئی تھی اور مدت تک ویسی ہی رہی.جماعت کے لوگوں کو چاہیے کہ ہر جگہ اپنی مسجد میں اکٹھے ہو کر باجماعت نماز پڑھیں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے.پرا گندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے.“ ہندوستان میں عموماً مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ نماز کے اندر تکبیر اولیٰ کے بعد اور سلام پھیرنے سے قبل سوائے مسنوں دُعاوں کے جو عربی زبان میں پڑھی جاتی ہیں اور کوئی دُعا اپنی زبان

Page 170

155 اُردو یا فارسی یا انگریزی وغیرہ میں کرنا جائز نہیں ہے اور عموماً لوگوں کی عادت ہے کہ سلام پھیر نے کے بعد پھر ہاتھ اُٹھا کر اپنی زبان میں دُعائیں کرتے ہیں اور اپنے دلی جذبات اور خواہشات کا اظہار کرتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا فرمایا کہ ” نماز کے اندر سجدہ میں یا رکوع کے بعد کھڑے ہو کر یا کسی دوسرے موقع پر مسنون دُعا کہنے کے بعد اپنی زبان میں دُعا مانگنا جائز ہے کیونکہ اپنی زبان میں ہی انسان اچھی طرح اپنے جذبات اور دلی جوش کا اظہار کر سکتا ہے.“ کسی نے عرض کی کہ مولوی لوگ تو کہتے ہیں نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا کرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.فرمایا ” اُن کی نماز تو پہلے ہی ٹوٹی ہوئی ہے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں کہ کیا کہ رہے ہیں.دُعا خواہ کسی زبان میں کی جائے اس سے نماز نہیں ٹوٹتی ،، فرمایا ” جو لوگ نماز عربی میں جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں.اس کے مطلب کو نہیں سمجھتے اور نہ انہیں کچھ ذوق اور شوق پیدا ہوتا ہے اور سلام پھیرنے کے بعد لمبی دُعائیں کرتے ہیں.اُن کی مثال اُس شخص کی ہے جو بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور تخت کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی عرضی پیش کی جو کسی سے لکھوائی تھی اور بغیر سمجھنے کے طوطے کی طرح اُسے پڑھ کر سلام کر کے چلا آیا اور دربار سے باہر آ کر شاہی محل کے باہر کھڑے ہو کر پھر کہنے لگا کہ میری یہ عرض بھی ہے اور وہ عرض بھی ہے.اُسے چاہئیے تھا کہ عین حضوری کے وقت اپنی تمام عرضیں پیش کرتا “ فرمایا ” ایسے لوگوں کی مثال جو نماز میں دُعا نہیں کرتے اور نماز کے خاتمہ کے بعد لمبی دُعائیں کرتے ہیں.اُس شخص کی طرح ہے جس نے اگے کی چوٹی کو الٹا کر زمین پر رکھا اور پیتے اوپر کی طرف ہو گئے اور پھر گھوڑے کو چلایا کہ اس اکے جلد کو کھینچے.“ (۵۰) اصلاح مسودہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب کوئی مسودہ کسی کتاب یا اشتہار کے واسطے لکھتے تھے تو اُسے دوبارہ اور بعض دفعہ کئی بار پڑھتے اور اصلاح کرتے تھے اور کاتب کو بھی مسودہ دینے سے قبل عموماً اُن خدام کو جو قادیان میں موجود ہوتے ، مسودہ خود پڑھ کر سُنایا کرتے اور جب کا تب کا پی لکھ لیتا تو خود کا پی پڑھتے اور بعض جگہ پھر کچھ اصلاح کرتے اور عبارت زیادہ کرتے.جب کا پی پتھر پر لگ جاتی تو پروف خود پڑھتے اور بعض جگہ تشریح کے طور پر کچھ عبارت بڑہاتے ، جو پتھر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی تک قادیان بٹالہ کے درمیان آمد و رفت کے واسطے اگتے ہی چلتے تھے.حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ٹمٹموں کا رواج ہوا اور حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ کے زمانہ میں ۱۹۲۶ء میں پہلے موٹروں کا رواج ہوا اور ۱۹۲۸ء میں ریل جاری ہوئی.

Page 171

156 لکھی جاتی.یا کم کرتے.حضور کی عادت تھی کہ ہر ایک مضمون کو ایسا واضح اور آسان کر دیتے تھے کہ پڑھنے والا اُسے اچھی طرح سے سمجھ جائے اور اسی خیال سے بعض مضامین کی تشریح میں حاشیہ اور حاشیہ در حاشیہ لکھا کرتے.قرآن شریف سے فال لینے سے حضرت صاحب عموماً منع فرمایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ بہتر ہے کہ جو امر پیش آوے.اس کے متعلق استخارہ کر لیا جاوے.“ کسی شخص کے سوال پر کہ قرآن شریف پڑھتے ہوئے درمیان میں وضو ساقط ہو جائے تو کیا پھر وضو کیا جائے.فرمایا کہ " قرآن شریف کی تلاوت سے قبل جب پہلی دفعہ وضو کر لیا ہو، اور اثنائے تلاوت میں اگر وضو قائم نہ رہے تو پھر تیم کیا جا سکتا ہے“ فرمایا کرتے تھے کہ مردوں کو ثواب پہنچانے کے واسطے صدقہ و خیرات دینا چاہیئے اور اُن کے حق میں دُعائے مغفرت کرنی چاہئیے.قرآن شریف پڑھ کر مُردوں کو بخشا ثابت نہیں.“ (۵۱) میں خوش کیوں ہوں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پرانی تحریر ایک دفعہ ملی جس میں ذیل کی عبارت مندرج ہے: ” میرے دل میں تین خوشیاں ہیں جو میرے لئے دُنیا اور آخرت میں بس ہیں.(۱) ایک یہ کہ میں نے اُس نیچے خدا کو پالیا ہے جس کی طرف سجدہ کرتے ہوئے ہر ایک ذرہ ایسا ہی جھکتا ہے جیسا کہ ایک عارف جھکتا ہے.(۲) یہ کہ اس کی رضا مندی میں نے اپنے شامل حال دیکھی ہے اور اس کی رحمت سے بھری ہوئی محبت کا میں نے مشاہدہ کیا ہے (۳) تیسرے یہ کہ میں نے دیکھا ہے اور تجربہ کیا ہے کہ وہ عالم الغیب ہے اور ایسا کامل رحیم ہے ، کہ ایک رحم اس کا تو عام ہے اور خاص رحم اس کا اُن لوگوں سے تعلق رکھتا ہے ، جو اس میں کھوئے جاتے ہیں اور وہ قدیر ہے جس کی تکلیف کو راحت سے بدلنا چاہے، ایک دم میں بدل سکتا ہے.یہ تین صفتیں اُس کے پرستاروں کے لئے بڑی خوشی کا مقام ہے.“ فرمایا کرتے تھے ایک آدمی جس کے دل میں یہ بات ہو، کہ خدا کے واسطے کام کرے.وہ کروڑوں آدمیوں سے بہتر ہے.فرمایا کرتے تھے ” ہمارا سب سے بڑا کام کسر صلیب ہے“

Page 172

157 (۵۲) الیاس ثانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام فرمایا کرتے تھے کہ سید احمد صاحب کا وجو دہم سے قبل ایسا ہی تھا جیسا کہ عیسی ابن مریم سے قبل حضرت یحی نبی کا وجود.انہوں نے سکھوں سے جہاد کیا اور مسلمانوں کو ان کے مظالم بچانے کی کوشش کی مگر انگریزوں کے خلاف انہوں نے کوئی جنگ نہیں کی.(۵۳) نظم سننے کا فائدہ فرمایا کرتے تھے کہ کسی عمدہ نظم یا اشعار کے سُنے سے بھی بعض دفعہ کسی کے دل سے غفلت کے جندرے ( قفل ) کھل جاتے ہیں اور بیداری پیدا ہو جاتی ہے.حضور کی مجلس میں بعض دفعہ خوش الحانی سے حضور کی اپنی نظمیں یا اور کوئی صوفیانہ کلام سنایا جاتا تھا.فرمایا کرتے تھے ” ہماری جماعت اگر جماعت بننا چاہتی ہے تو اسے چاہئیے کہ ایک موت اختیار کرے.نفسانی امور اور نفسانی اغراض سے بچے اور اللہ تعالیٰ کو سب سے پر مقدم رکھے.(۵۴) حقیقت عرش عرش کے متعلق فرمایا کرتے تھے عرش کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے مخلوق کہہ سکیں.خدا تعالیٰ کے تقدس وتنزہ کا وراء الوراء جو مقام ہے.اُس کا نام عرش ہے.یہ مطلب نہیں کہ ایک تخت بچھا ہے اور اس پر اللہ بیٹھا ہے.جاہل نہیں سمجھتے اگر قرآن میں ایک طرف الرحمن علی العرش استویٰ ہے تو دوسری طرف یہ بھی ہے کہ کوئی تین نہیں جس میں چوتھا وہ نہیں.اور کوئی پانچ نہیں جس میں چھٹا وہ نہیں اور فرمایا کہ جہاں کہیں تم ہو.میں تمہارے ساتھ ہوں.پھر یہ کہ خدا ہر شے پر محیط ہے.پس اللہ کا یہ منشاء نہیں کہ واقعی وہ ایک تخت پر بیٹھا ہے.اس سے یہ مُراد ہے کہ وہ وراء الوراء مقام جہاں مخلوقات کی انتہاء ہے.یعنی وہ نقطہ جہاں جہاں ختم ہوتا ہے.ایک تنز یہ ہوتی ہے.ایک تشبیہ.جب کہا میں تمہارے ساتھ ہوں اور ہر چیز پر محیط تو یہ تشبیہ ہے.اب چونکہ تشبیہ کے مقام پر دھو کہ لگتا تھا کہ خدا محدود اور مخلوقات میں ہے.اس لئے فرما دیا.ذو العرش العظیم.یعنی سمجھایا کہ یہ اس کے تقدس وننز ہ کا مقام ہے، نہ یہ کہ کوئی چاندی یا سونے کا تخت ہے.قرآن میں استعارے بہت ہیں.(۵۵) ترک دنیا فرمایا کرتے ترک دُنیا کے یہ معنے نہیں ہیں کہ انسان سب کام کاج چھوڑ کر گوشہ نشینی

Page 173

158 اختیار کر لے.ہم اس بات سے منع نہیں کرتے کہ ملازم اپنی ملازمت کرے تاجر اپنی تجارت میں مصروف رہے اور زمیندار اپنی کاشت کا انتظام کرے لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایسا ہونا چاہئیے که دست در کار و دل بایار.اِنسان خدا تعالیٰ کی رضامندی پر چلے.کسی معاملہ میں شریعت کے بر خلاف کوئی کام نہ کرے.جب خدا مقدم ہو تو اسی میں انسان کی نجات ہے.دُنیا داروں میں مداہنہ کی عادت بہت بڑھ گئی ہے جس مذہب والے سے ملے.اُسی کی تعریف کر دی.خدا تعالیٰ اِس سے راضی نہیں.صحابہ میں بعض بڑے دولت مند تھے اور دُنیا کے تمام کا روبار کرتے تھے اور اسلام میں بہت سے بادشاہ گذرے ہیں جو درویش سیرت تھے.تخت شاہی پر بیٹھے ہوئے تھے لیکن دل ہر وقت خدا کے ساتھ رہتا تھا مگر آج کل تو لوگوں کا یہ حال ہے کہ جب دُنیا کی طرف جھکتے ہیں ، تو ایسے دُنیا کے ہو جاتے ہیں دین پر ہنسی کرتے ہیں.نماز پر اعتراض کرتے ہیں اور وضو پر جنسی اُڑاتے ہیں.یہ لوگ ساری عمر تو دنیوی علوم کے پڑھنے میں گزار دیتے ہیں اور پھر دین کے معاملات میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں حالانکہ انسان کسی مضمون میں عمیق اسرار تب ہی نکال سکتا ہے.جب اُس کو اس امر کی طرف زیادہ توجہ ہو.ان لوگوں کو دین کے متعلق مصالح معارف اور حقائق سے بالکل بے خبری ہے.دُنیا کی زہریلی ہوا کا ان لوگوں کے دلوں پر زہر ناک اثر ہے.(۵۶) اپنی زبان میں دُعا فرمایا کرتے ”نماز کے اندر اپنی زبان میں دُعا مانگنی چاہئیے کیونکہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے پورا جوش پیدا ہوتا ہے.سورہ فاتحہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے.وہ اسی طرح عربی زبان میں پڑھنا چاہیے اور قرآن شریف کا حصہ جو اس کے بعد پڑھا جاتا ہے.وہ بھی عربی زبان میں ہی پڑھنا چاہیئے اور اس کے بعد مقررہ دُعائیں اور تسبیح بھی اسی طرح عربی زبان میں پڑھنی چاہئیں لیکن ان سب کا ترجمہ سیکھ لینا چاہئیے اور ان کے علاوہ پھر اپنی زبان میں دُعائیں مانگنی چاہئیں تا کہ حضور دل پیدا ہو جائے کیونکہ جس نماز میں حضور دل نہیں وہ نماز نہیں آج کل لوگوں کی عادت ہے کہ نماز تو ٹھونگیدار پڑھ لیتے ہیں جلدی جلدی نماز کو ادا کر لیتے ہیں.جیسا کہ کوئی بیگار ہوتی ہے.پھر پیچھے سے لمبی لمبی دُعائیں مانگنا شروع کرتے ہیں.یہ بدعت ہے.حدیث شریف میں کسی جگہ اس کا ذکر نہیں آیا کہ نماز سے سلام پھیر نے کے بعد پھر دُعا کی جائے.نادان لوگ نماز کو تو ٹیکس جانتے ہیں اور دُعا کو اس سے علیحدہ کرتے ہیں.نماز خود دُعا ہے.دین و دنیا کی تمام مشکلات کے واسطے اور ہر ایک مصیبت کے وقت انسان کو نماز کے اندر دُعائیں مانگنی چاہئیں.نماز کے اندر ہر موقع پر دُعا کی جاسکتی ہے.رکوع

Page 174

159 میں بعد تسبیح ، سجدہ میں بعد تسبیح ، التحیات کے بعد کھڑے ہو کر ، رکوع کے بعد بہت دُعائیں کرو تا کہ مالا مال ہو جاؤ.چاہئیے کہ دُعا کے وقت آستانہ الوہیت پر رُوح پانی کی طرح بہہ جائے.ایسی دُعا دل کو پاک وصاف کر دیتی ہے.یہ دُعا میسر آوے، تو پھر خواہ انسان چار پہر دُعا میں کھڑا ر ہے.گنا ہوں کی گرفتاری سے بچنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں دُعائیں مانگنی چاہئیں.دُعا ایک علاج ہے جس سے گناہ کی زہر دور ہو جاتی ہے.بعض نادان لوگ خیال کرتے ہیں کہ اپنی زبان میں دعا مانگنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے.یہ غلط خیال ہے.ایسے لوگوں کی نماز تو خود ہی ٹوٹی ہوئی ہے.(۵۷) انبیاء کی خلوت پسندی فرمایا کرتے ” مجھے تو اللہ تعالیٰ کی محبت نے ایسی محویت دی تھی کہ تمام دنیا سے الگ ہو بیٹھا تھا.تمام چیزیں سوائے اُس کے مجھے ہرگز نہ بھاتی تھیں.میں ہرگز ہرگز حجرہ سے باہر قدم رکھنا نہیں اہتا تھا.میں نے ایک لمحہ بھی شہرت کو پسند نہیں کیا.میں بالکل تنہائی میں تھا اور تنہائی ہی مجھ کو بھاتی تھی.ٹھہرت اور جماعت کو جس نفرت سے میں دیکھتا تھا.اس کو خدا ہی جانتا ہے.میں تو طبعا گمنامی کو چا ہتا تھا اور یہی میری آرزو تھی.خدا نے مجھ پر جبر کر کے اس سے مجھے باہر نکا لا.میری ہرگز مرضی نہ تھی مگر اُس نے میری خلاف مرضی کیا کیونکہ وہ ایک کام لینا چاہتا تھا.اُس کام کے لئے اُس نے مجھے پسند کیا اور اپنے فضل سے مجھ کو اس عہدہ جلیلہ پر مامور فرمایا.یہ اسی کا اپنا انتخاب اور کام ہے.میرا اس میں کچھ دخل نہیں.میں تو دیکھتا ہوں کہ میری طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہیشہرت اور جماعت سے کوسوں بھاگتی ہے اور مجھے سمجھ نہیں آتا کہ لوگ کس طرح شہرت کی آرزو رکھتے ہیں.میری طبیعت اور طرف جاتی تھی لیکن خدا مجھے اور طرف لے جاتا تھا.میں نے بار بار دعائیں کیں مجھے گوشہ میں ہی رہنے دیا جائے.مجھے میرے خلوت کے حجرے میں چھوڑ دیا جائے لیکن بار بار یہی حکم ہوا کہ اس سے نکلو اور دین کا کام جو اس وقت سخت مصیبت کی حالت میں تھا ، اس کو سنوار و.انبیاء کی طبیعت اس طرح واقع ہوئی ہیوہ شہرت کی خواہش نہیں کیا کرتے.کسی نبی نے کبھی شہرت کی خواہش نہیں کی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خلوت اور تنہائی کو ہی پسند کرتے تھے.آپ عبادت کے لئے لوگوں سے دُور تنہائی کی غار میں جو غار حرا تھی چلے جاتے تھے.یہ غار اس قدر خوفناک تھی کہ کوئی انسان وہاں جانے کی جرات نہ کر سکتا تھا لیکن آپ نے اس کو اس لئے پسند کیا ہوا تھا کہ وہاں کوئی ڈر کے مارے بھی نہ پہنچے گا.آپ بالکل تنہائی چاہتے تھے شہرت کو ہرگز پسند نہیں کرتے تھے مگر خدا کا حکم ہوا.يَأَيُّهَا المُدَّثِرُ قُم فَانُذِر.اس حکم میں ایک جبر معلوم ہوتا ہے اور

Page 175

160 اسی لئے جبر سے حکم دیا گیا آپ تنہائی کو جو آپ کو بہت پسند تھی.اب چھوڑ دیں.بعض لوگ بیوقوفی اور حماقت سے یہی خیال کرتے ہیں کہ گویا میں شہرت پسند ہوں میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ میں ہرگز شہرت پسند نہیں ہوں میں تو دنیا سے ہزاروں کوس بھاگتا تھا.حاسد لوگوں کی نظر چونکہ زمین اور اُس کی اشیاء تک ہی محدود ہوتی ہے اور وہ دُنیا کے کپڑے ہیں ، اور شہرت پسند ہوتے ہیں.ان کو اس خلوت گزینی اور بے تعلقی کی کیفیت ہی معلوم نہیں ہو سکتی.ہم تو دنیا کو نہیں چاہتے.اگر وہ چاہیں اور اس پر قدرت رکھتے ہیں تو سب دُنیا لے جائیں.ہمیں ان پر کوئی گلہ نہیں.ہمارا ایمان تو ہمارے دل میں ہے.نہ دنیا کے ساتھ.ہماری خلوت کی ایک ساعۃ ایسی قیمتی ہے کہ ساری دُنیا اُس ساعت پر قربان کرنا چاہئیے.اس طبیعت اور کیفیت کو سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا مگر ہم نے خدا کے امر پر جان و مال و آبرو کو قربان کر دیا ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں تجلی کرتا ہے تو پھر وہ پوشیدہ نہیں رہتا.عاشق اپنے عشق کو خواہ کتنا ہی پوشیدہ کرے مگر بھید پانے والے اور تاڑنے والے قرائن اور آثار اور حالات سے پہچان ہی جاتے ہیں.عاشق پر وحشت کی حالت نازل ہو جاتی ہے.اور اسی اُس کے سارے وجود پر چھا جاتی ہے.خاص قسم کے خیالات اور حالات اُس کے ظاہر ہو جاتے ہیں اور اگر ہزاروں پر دوں میں چھپے اور اپنے آپ کو چھپا لے مگر چھپا نہیں رہتا.سچ کہا ہے.؎ عشق و مشک را نتواں نهفتن جن لوگوں کو محبت الہی ہوتی ہے.وہ اس محبت کو چھپاتے ہیں جس سے ان کے دل لبریز ہوتے ہیں بلکہ اس کے افشاء پر وہ شرمندہ ہوتے ہیں کیونکہ محبت اور عشق ایک راز ہے جو خدا اور اس کے بندہ کے درمیان ہوتا ہے اور ہمیشہ راز کا فاش ہو جانا شرمندگی کا موجب ہوتا ہے.کوئی رسول نہیں آیا جس کا را از خدا سے نہیں ہوتا.اسی راز کو چھپانے کی خواہش اس کے اندر ہوتی ہے مگر معشوق خود اس کو فاش کرنے پر مجبور کرتا ہے اور جس بات کو وہ نہیں چاہتے وہی اس کو ملتی ہے جو چاہتے ہیں ان کو ملتا نہیں اور جو نہیں چاہتے ، ان کو جبر املتا ہے.(۵۸) زوجہ اول کے حقوق فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنی جماعت کو کثرت ازدواج کی تاکید کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیا ہیکثرت ازدواج سے اولاد بڑ ہاؤ تا کہ اُمت زیادہ ہو.نیز بعض اشخاص کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ وہ بدکاری اور بدنظری سے بچنے کے واسطے ایک سے زیادہ شادی کریں.یا کوئی اور شرعی ضرورت مدنظر ہوتی ہے لیکن یا درکھنا چاہئیے کہ کثرت ازدواج کی اجازت بطور علاج اور دوا کے ہے.یہ اجازت عیش وعشرت کی غرض سے نہیں ہے.انما الاعمال بالنیات.انسان کے ہر

Page 176

161 امر کا مدار اُس کی نیت پر ہے.اگر کسی کی نیت لذات کی نہیں بلکہ نیت یہ ہے کہ اس طرح خدام دین پیدا ہوں ، تو کوئی حرج نہیں.محبت کو قطع نظر کر کے اور بالائے طاق رکھ کر یہ اختیاری امر نہیں.باقی امور میں سب بیویوں کو برابر رکھنا چاہئیے مثلاً پار چات، خرچ خوراک، مکان معاشرت حتی کہ مباشرت میں مساوات ہونی ضروری ہے.اگر کوئی شخص ان حقوق کو پورے طور پر ادا کر نہیں سکتا تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ کثرت ازدواج کرے بلکہ عورتوں کے حقوق ادا کرنا ایسا تا کیدی فرض ہیا گر کوئی شخص ان کو ادا نہیں کر سکتا تو اس کے واسطے بہتر ہے کہ وہ مجرد ہی رہے.ایسے لذات میں پڑنے کی نسبت جن سے خدا تعالیٰ کا تازیانہ ہمیشہ سر پر رہے.یہ بہتر ہے کہ انسان تلخ زندگی بسر کرے اور معصیت میں پڑنے سے بچار ہے.اگر انسان اپنے نفس کا میلان اور غلبہ شہوت کی طرف دیکھے کہ اس کی نظر بار بار خراب ہوتی ہے تو اس معصیت سے بچنے کے واسطے بھی جائز ہے کہ انسان دوسری شادی کر لے لیکن اس صورت میں پہلی بیوی کے حقوق کو ہرگز تلف نہ کرے بلکہ چاہیے کہ پہلی بیوی کی دلداری پہلے سے زیادہ کرے کیونکہ جوانی کا بہت سا حصہ انسان نے اس کے ساتھ گذارا ہوا ہوتا ہے اور ایک گہرا تعلق اس کے ساتھ قائم ہو چکا ہوا ہوتا ہے.پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک ضروری بیا گر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اُس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اُس کی دل شکنی ہوتی ہے.تو اگر وہ صبر کر سکے اور معصیت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو اور کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر انسان اپنی ضرورتوں کی قربانی اپنی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفاء کرے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اُسے مناسب ہے کہ اس صورت میں دوسری شادی نہ کرے.قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو تقویٰ پر قائم رکھے اور دوسرے اغراض مثل اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش واقارب کی نگاہ داشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہو.انہی اغراض کے لحاظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو لیکن اگر اُن میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہوگا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گیا یک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے.دل دُکھانا بڑا گناہ ہے اور لڑکیوں کے تعلقات بہت نازک ہوتے ہیں.جب والدین اُن کو اپنے سے جدا اور دوسرے کے حوالے کرتے ہیں تو خیال کرو کہ کیا اُمید میں ان کے دلوں میں ہوتی ہیں.“

Page 177

162 عموماً حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ جب آدمی سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اُس وقت تو خدا تعالیٰ اُس کے پچھلے سب گناہ بخش دیتا ہے خواہ وہ دوبارہ پھر گناہ میں مبتلا کیوں نہ ہو جائے.کشمیر سے ایک احمدی لمبے قد کا غریب آدمی نہایت اخلاص کے ساتھ اپنے گاؤں سے قادیان تک سارا راستہ پیدل چلتا ہوا آیا کرتا تھا.اس کا نام غالباً اکل جو تھا.وہ ایک دفعہ قادیان میں آیا ہوا تھا.جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک صبح سیر پر جانے کے واسطے باہر تشریف لائے.چوک میں وہ کشمیری بھی کھڑا تھا.جب اُس نے حضرت صاحب کو دیکھا تو فرط محبت میں روتا ہوا آپ کے پاؤں پر سر رکھ دیا.آپ نے جھک کر اُسے اُٹھایا اور فرمایا.یہ نا جائز ہے.انسان کو سجدہ نہیں کرنا چاہیے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات اخبارات بدر و الحکم میں چھپا کرتے تھے تو حضرت نے بارہا فرمایا کہ یہ ہر دو اخبار ہمارے دو بازؤں کی طرح ہیں جو ہمارے الہامات اور تعلیم کو فو ر اسب ملکوں میں پھیلا دیتے ہیں.جب کبھی کسی جگہ کے متعلق ذکر ہوتا وہاں احمدیوں کی تعداد بہت کم ہے یا ایک ہی احمدی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں عرض کی جاتی کہ وہاں وہ احمدی فوت ہو گیا تو اُس کا تو کوئی جنازہ بھی نہ پڑھے گا.وہاں سب غیر احمدی ہیں اور سخت مخالف ہیں.تب حضرت فرمایا کرتے ” مومن کا جنازہ فرشتے پڑھا کرتے ہیں.ایسے لوگ جنازہ پڑھ بھی لیں تو کیا فائدہ.اُن کا پڑھنا نہ پڑھنا برابر ہے“ (۵۹) سونا بنانے والے کیمیاگر فرمایا کرتے تھے ” میرے نزدیک سب سے بڑے مشرک کیمیا گر ہیں یہ رزق کی تلاش میں یوں مارے مارے پھرتے ہیں اور ان اسباب سے کام نہیں لیتے جو اللہ تعالیٰ نے جائز طور سے رزق کے حصول کے لئے مقرر کئے ہیں اور نہ پھر تو کل کرتے ہیں.حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وفـــی السماء رزقكم وما توعدون.کہ آسمان میں ہے تمہارا رزق اور جو کچھ تم وعدہ دیئے جاتے ہو ) ہم ایسے مہو سوں کو ایک کیمیا کا نسخہ بتلاتے ہیں.بشرطیکہ وہ اس پر عمل کریں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ومن يتق الله يجعل له مخرجا ويرزقه من حيث لا يحتسب.پس تقویٰ ایک ایسی چیز ہے کہ جسے یہ حاصل ہو ، اُسے گویا تمام جہان کی نعمتیں حاصل ہو گئیں.یا درکھو متقی کبھی کسی کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ وہ اس مقام پر ہوتا ہے کہ جو چاہتا ہے خدا اس کے لئے اس کے مانگنے سے پہلے مہیا کر دیتا

Page 178

163 ہے.میں نے ایک کشف میں اللہ تعالیٰ کو تمثل کے طور پر دیکھا کہ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو بس یہ وہ نسخہ ہے جو تمام انبیاء و اولیاء وصلحاء کا آزمایا ہوا ہے.نادان لوگ اِس بات کو چھوڑ کر یو ٹیوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں.اتنی محنت اگر وہ ان بُوٹیوں کے پیدا کرنے والے کے لئے کرتے تو سب من مانی مرادیں پالیتے.“ (۶۰) صفات کارکن فرمایا کرتے تھے ” جب تک کہ کسی شخص میں تین صفتیں نہ ہوں.وہ اس لائق نہیں ہوتا کہ اُس کے سُپر دکوئی کام کیا جائے اور وہ صفات یہ ہیں.دیانت ، محنت ،علم.جب تک کہ کسی میں یہ ہر سہ صفات موجود نہ ہوں.تب تک انسان کسی لائق نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص دیانتدار اور محنتی بھی ہو لیکن جس کام میں اس کو لگایا گیا ہے.اس فن کے مطابق علم اور ہنر نہیں رکھتا تو وہ اپنے کام کوکس طرح پورا کر سکے گا اور اگر علم رکھتا ہے ، محنت کرتا ہے ، دیانتدار نہیں تو ایسا آدمی بھی رکھنے کے لائق نہیں ، اور اگر علم و ہنر بھی رکھتا ہے.اپنے کام میں خوب لائق ہے اور دیانتدار بھی ہے مگر محنت نہیں کرتا ، تو اس کا کام بھی ہمیشہ خراب رہے گا.غرض کا رکن میں ہرسہ صفات کا ہونا ضروری ہے.“ ( ۶۱ ) وحی کی عارضی بندش فرمایا کرتے تھے کہ وحی کا یہ قاعدہ ہے کہ بعض دنوں میں تو بڑے زور سے بار بار الہام پر الہام ہوتے ہیں اور الہاموں کا ایک سلسلہ بندھ جاتا ہے اور بعض دنوں میں ایسی خاموشی ہوتی ہے کہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس قدر خا موشی کیوں ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی ایک زمانہ ایسا آیا تھا کہ لوگوں نے سمجھا کہ آب وحی بند ہو گئی ہے.چنانچہ کافروں نے ہنسی شروع کی کہ اب خدا محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ناراض ہو گیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس کا جواب قرآن شریف میں اِ س طرح دیا ہیوالضحى والليل إذا سجى ما ودعك رَبُّكَ و ماقلی.یعنی قسم ہے دھوپ چڑھنے کے وقت کی اور رات کی.نہ تو تیرے رب نے تجھ کو چھوڑ دیا اور نہ تجھ پر ناراض ہوا.اس کا یہ مطلب ہے کہ جیسے دن چڑھتا ہے اور اُس کے بعد رات خود بخود آ جاتی ہے اور پھر اس کے بعد دن کی روشنی نمودار ہوتی ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کی خوشی یا ناراضگی کی کوئی بات نہیں.یعنی دن چڑھنے سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ خدا تعالیٰ اس وقت اپنے بندوں پر خوش ہے اور نہ رات پڑنے سے

Page 179

164 یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر ناراض ہے بلکہ اس اختلاف کو دیکھ کر ہر ایک عقلمند خوب سمجھ سکتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہو رہا ہے اور یہ اُس کی سُنت ہید ن کے بعد رات اور رات کے بعد دن ہوتا ہے.“ (۶۲) حنفی مذہب پر عمل فرمایا کرتے تھے " شریعت کے عملی حصہ میں سب سے اوّل قرآن مجید ہے.پھر احادیث صحیحہ جن کی سنت تائید کرتی ہے اور اگر کوئی مسئلہ اِن دونوں میں نہ ملے تو پھر میرا مذ ہب تو یہی ہے کہ حنفی مذہب پر عمل کیا جائے کیونکہ اس کی کثرت اس بات کی دلیل ہے کہ خدا کی مرضی یہی ہے مگر ہم کثرت کو قرآن مجید و احادیث کے مقابلہ میں بیج سمجھتے ہیں.اس کے بعض مسائل ایسے ہیں کہ قیاس صحیح کے بھی خلاف ہیں.ایسی حالت میں احمدی علماء کا اجتہادا ولی بالعمل ہے.(۶۳) اصلی فقیر فرمایا کرتے.آج کل بہت لوگ فقیر اور پیر بنے پھرتے ہیں مگر حالت اُن کی یہ ہے کہ جس دنیا کے پیچھے عوام لگے ہوئے ہیں.اس کے پیچھے وہ بھی خراب ہور ہے ہیں.توجہ اور دم کشی اور منتر جنتر اور دیگر ایسے امور کو اپنی عبادت میں شامل کئے ہوئے ہیں.حالانکہ ایسی توجہ کے کام ہندو، عیسائی اور دہر یہ بھی کر سکتا ہے.ایسے لوگوں نے خود تراشیدہ عبادتیں بنائی ہوئی ہیں.جیسا کہ ذکر ارہ وغیرہ.ایسی ریاضتوں سے بعض کے پھیپھڑے خراب ہو جاتے ہیں.بعض کے دل کمزور ہو جاتے ہیں.بعض دیوانے ہو جاتے ہیں اور اُن کو جاہل لوگ ولی سمجھنے لگتے ہیں.اصلی فقیر تو وہ ہے جو دُنیا کی اغراض فاسدہ سے بالکل الگ ہو جائے اور اپنے واسطے ایک تلخ زندگی قبول کرے.تب اُس کو حالتِ عرفان حاصل ہوتی ہے اور وہ ایک قوت ایمانی کو پاتا ہے.خدا تعالیٰ ان باتوں سے راضی ہوتا ہے کہ انسان عفت اور پر ہیز گاری اختیار کرے.صدق وصفا کے ساتھ اپنے خدا کی طرف جھکے.دُنیوی کدورتوں سے الگ ہو کر تبتل الی اللہ اختیار کرے.خدا تعالیٰ کو سب چیزوں پر مقدم رکھے.خشوع کے ساتھ نماز ادا کرے.نماز کے علاوہ اُٹھتے بیٹھتے دھیان خدا کی طرف رکھے.خدا تعالیٰ کا ذکر کرے اور اُس کی قدرتوں میں فکر کر.66 (۶۴) بیعت کے بعد نصیحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی عادت تھی کہ عموماً بیعت کے بعد بیعت کنندوں کو

Page 180

165 کچھ نصیحت کیا کرتے تھے.ایسی نصائح کے بعض کلمات بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں : یہ بیعت جو ہے، اس کے معنے اصل میں اپنے تئیں بیچ دینا ہے.بیعت کرنے والا اپنے آپ کو فروخت کر دیتا ہے.اُس کا کچھ اپنا باقی نہیں رہتا.بیعت کی برکات اور تاثیرات اسی شرط کے ساتھ وابستہ ہیں.جیسے ایک تخم زمین میں بویا جاتا ہے تو اس کی ابتدائی حالت یہی ہوتی ہیگو یا وہ کسان کے ہاتھ سے بویا گیا اور اُس کا کچھ پتہ نہیں کہ آب وہ کیا ہو گا لیکن اگر وہ تخم عمدہ ہوتا ہے اور اس میں نشو ونما کی قوت موجود ہوتی ہے، تو خدا کے فضل سے اور اُس کسان کی سعی سے وہ اوپر آتا ہے اور ایک دانہ کا ہزار دانہ بنتا ہے.اسی طرح سے بیعت کنندہ انسان کو اول انکساری اور عجز اختیار کرنا ہوتا ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ رہنا پڑتا ہے.تب وہ نشو و نما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو شخص بیعت کرنے کے ساتھ اپنی نفسانیت بھی قائم رکھتا ہے.اُسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا.صوفیوں نے بعض جگہ لکھا ہے کہ اگر مُرید کو اپنے مُرشد کے بعض مقامات پر بظاہر غلطی نظر آئے.تب بھی اُسے چاہیے کہ اُس کا اظہار نہ کرے.اگر اظہار کرے گا تو حط عمل ہو جائے گا.اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دستور تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے تھے جیسا کہ کسی کے سر پر پرندہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ سر او پر نہیں اُٹھا سکتا.یہ تمام ان کا ادب تھا.حتی الوسع خود کبھی کوئی سوال نہ کرتے تھے.اس بات کا انتظار کرتے تھے کہ باہر سے آ کر کوئی شخص سوال کرے اور وہ بھی جواب سُن لیں.صحابہ بڑے متاذب تھے.اس واسطے لکھا ہے الطَّرِيقَةُ كُلُّها اَدَب جو شخص ادب کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے.اس پر شیطان دخل پاتا ہے.اور رفتہ رفتہ اس کی نوبت ارتداد کی آجاتی ہے.اس ادب کو مد نظر رکھنے کے بعد انسان کے واسطے لازم ہے کہ وہ فارغ نشین نہ ہوا اور ہمیشہ تو بہ استغفار کرتا رہے اور جو جو مقامات اِسے حاصل ہوتے جائیں اُن پر یہی خیال کرے کہ میں ابھی قابل اصلاح ہوں اور یہ سمجھ کر کہ میرا تزکیۂ نفس ہو گیا.وہیں نہ اڑ بیٹھے.فرمایا کرتے.نفسانی امور ، نفسانی اغراض، ریا کاری ، حرام خوری اس قسم کی تمام باتوں کا چھوڑنا ایک موت ہے اور جو شخص بیعت کر کے اس موت کو اختیار نہیں کرتا وہ پھر یہ شکایت نہ کرے، کہ مجھے بیعت سے فائدہ نہیں ہوا.جب ایک انسان ایک طبیب کے پاس جاتا ہے، تو جو پر ہیز وہ بتلاتا ہے.اگر اُسے نہیں کرتا ، تو کب شفاء پاسکتا ہے لیکن اگر وہ پر ہیز کرے گا تو یو مافیو ماترقی کرے گا.یہی اُصول پہناں بھی ہے.(۶۵) جوانی میں نیکی فرمایا کرتے تھے جو لوگ جوانی میں دینی زندگی گزارتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 181

166 متوجہ رہتے ہیں.اُن کا بڑہا یا اچھا ہوتا ہے.ورنہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ بڑہاپے میں عقلیں ماری جاتی ہیں اور انسان مخبوط الحواس سا ہو جاتا ہے.(۶۶) دنیا کی بے ثباتی پہلے ایام میں اندرونِ خانہ سے مسجد مبارک کی چھت پر آنے کے واسطے ایک لکڑی کی سیڑھی لگی ہوتی تھی.اُس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کرتے تھے : میں سیڑھی پر ایک قدم رکھتا ہوں تو اعتبار نہیں ہوتا کہ دوسری پر بھی رکھوں گا.“

Page 182

باب ششم 167 مقولے بعض ایسے مختصر سے کلمات جو بہت سے مفید مطالب تھوڑے الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں.حضرت صاحب اپنی تقریروں میں لایا کرتے تھے.اُن میں سے بعض اقوال پہلے بزرگوں کے ہیں اور بعض حضوڑ کے اپنے الہام الہی.ایسے کلمات کو بطور نمونہ یہاں درج کیا جاتا ہے: (1) انبیاء تلامیذ الرحمن ہوتے ہیں (۲) نماز مشکلات سے بچنے کی چابی ہے.“ (۳)’صرف زبان سے کلمات کے تکرار کرنے میں برکت نہیں ہوتی ، جب تک دل بھی اُس کے ساتھ نہ ہو (۴)’ جو منگے سومر ر ہے.مرے سومنگن جا“ (۵) د فلسفی گومنکر حنانه است از حواس اولیاء بیگانه است (1) آں دُعائے شیخ نے چوں ہر دعا است و فانی است و گفت او گفت خدا است (۷) یا توں لوڑ مقد میں یا اللہ نوں لوڑ ترجمہ : یا مقدمہ بازی کرد یا خدا پرستی کرو.دونوں باتیں اکٹھی نہیں ہوسکتیں.(۸) سخن کز دل برون آید نشیند لاجرم بر دل (۹) مر د باید که گیر داندر گوش در نوشتست پند بر دیوار (۱۰) ''گوئیند سنگ لعل شود در مقام صبر آرے شود ولیک بخونِ جگر شود (۱۱) '' غنیمت جان لو مل بیٹھنے کو.جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے.“ (۱۲) ” مومن کے دل میں ایک جذب ہوتا ہے.اُس قوتِ جاذبہ کے ذریعہ سے وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.“ (۱۳) آنکس که بقرآن و خبر زو نہ دہی اینست جوابش کہ جوابش نہ رہی (۱۴) دگر نباشد بدوست راه بردن به شرط عشق است در طلب مُردن (۱۵) '' جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو (۱۶) سرمد گلہ اختیار می کرد یک کا راز میں دو کار می باید کرد یا تن برضائے دوست باید داد و یا قطع نظر زیاد می باید کرد

Page 183

168 (۱۷) گوش زده اثری دارد (۱۸) کار دُنیا کسے تمام نہ کرو (۱۹) گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی (۲۰) شب تنور گذشت و شپ سمور گذشت (۲۱) '' سب کرامتوں کی اصل جڑھ دُعا ہے.“ (۲۲) خداداری چه غم داری (۲۳) مردآخر میں مبارک بنده ایست (۲۴) اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی بات زمین پر نہیں ہوسکتی، (۲۵) خدا بیند و پوشد و همسایه نه ببیند وخر وشد (۲۶) استغفار کلید ترقیات رُوحانی ہے.“ (۲۷) آے خواجہ درد نیست وگرنه طبیب ہست“ (۲۸) خاک شو پیش از اں کہ خاک شوی (۲۹) حبث نفس نہ گردد بسا لها معلوم (۳۰) الاستقامة فوق الكرامة (۳۱) یک درگیر د محکم گیر (۳۲) یار غالب شوکه تا غالب شوی

Page 184

باب بیفتم 169 عاجز راقم کی پرانی نوٹ بکوں سے اقتباسات جب سے مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوں اور میری پہلی حاضری ۱۸۹۰ء کے موسم سرما میں تھی اور اُسی وقت عاجز داخلِ بیعت ہوا تھا.تب سے میری دعا رہی ہے کہ حضرت کے اقوال کو یا درکھتا اور دوسرے احباب کو جا کر سُنا تا اور اکثر اپنی نوٹ بک میں لکھ لیتا.ان پرانی نوٹ بکوں میں سے کچھ اقتباسات اس کتاب میں درج کئے جاتے ہیں.نوٹ بک میں عموماً مختصر نوٹ ہوتے ہیں.جن سے اصل بات سمجھ میں آجائے.لیکن بعض جگہ پورے الفاظ بھی محفوظ ہوتے ہیں.ان اقتباسات کو ایک حد تک تاریخی ترتیب دے دی گئی ہے.جب عاجز 1901 ء میں ہجرت کر کے قادیان آ گیا.تب بھی میری یہ عادت رہی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور میں حاضری کے وقت اپنی نوٹ بک اور پنسل ساتھ رکھتا تھا.اور جو باتیں حضور فرماتے تھے.ان کو نوٹ کرتا رہتا تھا.اکثر ایسے نوٹ پنسل کے ہیں.اور بعض ان میں سے صاف کر کے اخبار بدر میں درج ہوتے رہے ہیں.یہ نوٹ بکیں اب تک محفوظ ہیں.پرانی نوٹ بکوں سے لیکھرام آریہ کے متعلق پیشگوئی قتل ہو جانے پر جب آریوں نے شور مچایا کہ مرزا صاحب نے اپنی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے لیکھرام کو تل کر وا دیا ہے.تو حضرت صاحب کی طرف سے متواتر اشتہارات اس کے خلاف شائع ہوئے.اور آریوں کو یہ بھی چیلنج دیا گیا.کہ وہ کسی دوسرے آریہ کو حضوڑ کے مقابلہ میں کھڑا کر دیں.اور قبولیت دُعا اور مباہلہ کا ایک اور نشان دیکھ لیں.اُس وقت ایک اشتہار کے کسی مضمون پر شیخ مولا بخش صاحب مرحوم معترض ہوئے کہ حضرت صاحب کو ایسا نہیں لکھنا چاہیئے تھا اور ایسا ہی شیخ یعقوب علی صاحب کے متعلق بھی رپورٹ آئی کہ وہ معترض ہوئے ہیں.شیخ یعقوب علی صاحب اس وقت امرتسر میں رہتے تھے.جب یہ رپورٹ حضرت صاحب کے حضور پہنچی ، تو حضور ناراض ہوئے اور فرمایا ”ہم اس وقت بطور خدا کے خزانچی کے ہیں اور ہم کوئی

Page 185

170 کام نہیں کرتے ، جب تک کہ اپنی مرضی کو اللہ تعالیٰ کی مرضی سے ایک نہ کر لیں.مُریدین کو احتیاط چاہئیے اور ادب کا لحاظ رکھنا چاہئیے حضور نے ایک تازہ اشتہار میں جو بر طبع تھا.شیخ مولا بخش صاحب اور ان کے برادر زاده شیخ یعقوب علی صاحب پر ناراضگی کا اظہار فرمایا.جس کی خبر پا کر شیخ مولا بخش صاحب لاہور سے قادیان آئے.میں بھی اُن کے ساتھ تھا.رات ہم بٹالہ میں رہے.اور میں بہت دُعاء کرتا رہا کہ شیخ صاحب سے یہ ابتلاء دُور ہو.اور حضرت صاحب پھر اُن پر راضی ہو جائیں.قادیان پہنچ کر شیخ صاحب نے حضور کی خدمت میں معذرت کی اور اپنے لئے اور شیخ ک، یعقوب علی صاحب کے واسطے معافی چاہی.حضور نے از راہ کرم معافی دی.اور اشتہار کی کاپی منگوا کر ہر دو نام اور ان کافر کر کاٹ دیا.خدا کو کسی کی پرواہ نہیں فرمایا : ”ہم تو خود اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہتے ہیں.کیونکہ اُس کو کسی کی پر واہ نہیں، مسیح کہاں اُترا فرمایا : ” شروع شروع میں لوگ ہمیں اپنی خوابیں آ کر سُنایا کرتے تھے اور کہتے تھے.ہم نے خواب دیکھا ہے.کہ مسیح آیا ہے.اور آسمان سے اترا ہے اور اس آپ کے کمرے میں اُترا ہے.یرانی نوٹ بک ۱۸۹۸ء الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو حضرت میر ناصر نواب نے مجھے سُنایا.۱۱ اگست ۱۸۹۸ء هو الذي اخرج مرغمیک فخضر دعویک.اگست ۱۸۹۸ء.چوہدری رستم علی صاحب ( مرحوم کورٹ انسپکٹر ) اور عبدالعزیز صاحب پٹواری سیکھوان (ساکن او جلہ ) کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک علو عطاء کیا ہے کہ ایسی ملازمتوں میں خدا تعالیٰ نے انہیں صاف رکھا اور صالح بنایا.“ پرانی نوٹ بک ۳ ۱۹۰۲ء ۱۵ / اگست ۱۹۰۲ء صبح.الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام تخرج الصدور الى القبور - پرانی کاپی ۱۹۰۴ء میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے درد کمر سے تکلیف ہے.حضور نے

Page 186

171 فرمایا کہ پیپر منٹ کھاؤ.کیونکہ درد کمر خرابی معدہ سے ہوتا ہے.ایک دفعہ حضرت صاحب کو کھانسی تھی.حضور نے خرفہ ۲ ماشہ.السی اماشہ کا جوشاندہ بنا کر پیا.فرمایا پورا نا یونانی نسخہ یہی ہے.“ لفظ نزول ۱۸۹۶ء فرمایا حضرت مسیح کی آمد کے واسطے جو لفظ آیا ہے.وہ نڑ ول ہے اور رجوع نہیں ہے.اوّل تو واپس آنے والے کی نسبت جو لفظ آیا ہے، وہ رجوع ہے اور رجوع کا لفظ حضرت عیسی کی نسبت کہیں نہیں بولا گیا ؟ دوم.نزول کے معنے آسمان سے آنے کے نہیں ہیں.نزیل مسافر کو کہتے ہیں.“ مخالفین پرسختی فرمایا ”ہم نے جو بعض جگہ پر مخالفین پرسختی کی ہے.وہ اُن کے تکبر کو دور کرنے کے واسطے کی ہے.وہ سخت باتوں کا جواب نہیں ہے.بلکہ علاج کے طور پر کڑوی دوائی ہے.الْحَقُّ مُرٌّ لیکن ہر شخص کے واسطے جائز نہیں کہ وہ ایسی تحریر کو استعمال کرے.جماعت کو احتیاط چاہئیے.ہر شخص پہلے اپنے دل کو ٹول کر دیکھ لے کہ صرف ضد اور دشمنی کے طور پر ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے یا کسی نیک نیت پر یہ کا معنی ہے.فرمایا ” مخالفین کے ساتھ دشمنی سے پیش نہیں آنا چاہئیے بلکہ زیادہ تر دُعا سے کام لینا چاہئیے 66 اور دیگر وسائل سے کوشش کرنی چاہئیے“ صبر کی تعلیم ۱۸۷ء فرمایا.لوگ تمہیں دُکھ دیں گے اور ہر طرح سے تکلیف پہنچائیں گے.مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھا ئیں.جوش نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو.اللہ تعالٰی کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نمونہ بنانا چاہتا ہے.“ لفظ مولوی ۱۸۹۷ء کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ”میں ہرگز اپنے آپ کو مولوی نہیں کہتا.اور نہ میں راضی ہوں کہ کبھی کوئی مجھے مولوی کہے.بلکہ مجھے تو اس لفظ سے ایسا

Page 187

172 رنج ہوتا ہے جیسا کہ کسی نے گالی دے دی.جوش نہ دکھاؤ فرمایا ”لوگ تمہیں دُکھ دیں گے.اور ہر طرح سے تکلیف دیں گے.مگر ہماری جماعت کے لوگ جوش نہ دکھا ئیں.جوش نفس سے دل دُکھانے والے الفاظ استعمال نہ کرو.اللہ تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند نہیں ہوتے.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ ایک نمونہ بنانا چاہتا ہے.“ نوٹ بک ۱۸۹۷ء 66 فرمایا : ” پہلی اُمتوں میں اتنی استعداد میں نہ تھیں کہ اُنہیں سُورۃ فاتحہ جیسی دُعا سکھائی جاتی.“ قرآن شریف کے نزول کے وقت انسان کی تمام استعداد میں مکمل ہو چکی تھیں.اللہ تعالیٰ اس وقت ایک جماعت بنانا چاہتا ہے جو غفلت اور شرک سے پاک ہو.گویا اللہ تعالیٰ اس زمین کو مٹا کر ایک نئی زمین بنانا چاہتا ہے.اس کام کے لئے منتخب لوگوں کو بڑی بڑی تکالیف اُٹھانی پڑیں گی.چاہیئے کہ تم ہر ایک قوت سے کام لو.اور اپنی کسی قوت کو بھی بیکا ر نہ چھوڑو.اللہ تعالیٰ سے مدد لینے کا ایک یہ طریق ہے کہ جو کچھ پہلے تمہیں دیا جا چکا ہے.اس سے کام لو.اسباب کو تو ڑ کر تو کل کرنا.گو یا خد ا کو آزمانا ہے.زمین کی محنت آسمان کی بارش سے فیض حاصل کرتی ہے.کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوتی.جب تک کہ اُوپر سے جذب نہ ہو.چاہئیے کہ سب کام محنت اور کوشش سے کرو.ہر ایک کام کے شروع کرنے میں اللہ تعالیٰ سے دُعاء (1) مانگ لو.دعا پر کبھی تو اللہ تعالیٰ اپنی مرضی منوانا چاہتا ہے اور کبھی دُعا مانگنے والے کی مرضی کو مان لیتا ہے.تقویٰ کا انتہاء یہ ہے کہ خُدا سامنے آجائے.گویا انسان خدا کو دیکھ رہا ہے.تب سارے گناہ بھسم ہو جاتے ہیں.غافلانہ خوشی اختیار نہ کرو.سچا مومن جو اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کا قائل ہے.وہ بیباک ہو کر تفریح اور خوشی میں نہیں پڑتا.(1) ہر ایک کام بسم اللہ کہہ کر شروع کرنا بھی اُس کام میں اللہ تعالیٰ کی مدد مانگنا ہے.(صادق)

Page 188

173 خوش مزاجی جائز ہے مگر چاہیے کہ تمہارے اشغال نا پاک نہ ہوں.اس دُنیا میں عارف اس طرح زندگی بسر کرتا ہے جس طرح کسی پر خون کا مقدمہ چل رہا ہوا اور وہ ہر وقت اس فکر میں ہے کہ اُسے کیا حکم سنایا جاتا ہے.جب وہ تفریح بھی کرتا ہے تو اُس کی تفریح میں غفلت نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ کے احکام دو قسم کے ہیں : (۱) ایک متعلق حق اللہ.مثلاً اللہ تعالیٰ کو واحد لاشریک سمجھنا.اصل مُرادزندگی کی خدا ہی ہو.(۲) دوسرے متعلق حق العباد.مُسلمان بھائیوں سے.تمام بنی نوع انسان سے.بلکہ پرند و چرند سب مخلوق کے ساتھ نیکی کرنا.دی ہے.میں ہے.دیتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کے ساتھ مناسبت ہماری جماعت ہمارے لئے بطور اعضاء کے ہے.یا جیسا کہ درخت کی شاخیں ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کی طرح تبلیغ کے کام میں لگ جاؤ.دُنیا کا پہلا گناہ تکبر ہے.تکبر سے بچو.مومن اپنے نیک اعمال میں ترقی کرتا رہتا ہے.جس کے دو دن برابر گذر گئے وہ نقصان اگر انسان افتان و خیزان کچھ تھوڑی سی نیکی بھی کر لے.تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال کفار کے ساتھ عادت اللہ الگ ہے.اور مسلمانوں کے ساتھ الگ.کا فراپنی عادات شرک وغیرہ کے سبب فوری سزا نہیں پاتا.لیکن مسلمان کو ذراسی غلطی پر بھی تنبیہ کی جاتی ہے.تا کہ وہ آگاہ ہو کر اپنی اصلاح کر لے.لیکن جب کا فرمومن کو ضرر پہنچائے تو کرلے.لیکن اُسے فوراً تنبیہ کی جاتی ہے.یہ خدا کا پیار ہے کہ مسلمانوں پر ابتلاء آتا ہے.بعض کو ذرا سے گناہ پر بھی تنبیہ کی جاتی ہے تا کہ وہ آگے نہ بڑھیں.استغفار تقویٰ کی کمی کو پورا کرتا ہے.اطمینان ویقین کے حصول کی تین راہیں ہیں.

Page 189

174 (۱) منقول (۲) معقول (۳) آیات سماوی جب انسان پہلے ہر دو سے عاجز آتا ہے.تب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت دکھاتا ہے اور سارے علوم صرف کشف اور الہام سے کھلتے ہیں.جو تم سے بھلا کرے.اُس کا شکریہ کرو.اور اس کے واسطے دُعا کرو.غالباً میں سفر گورداسپور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھا.جبکہ مفصلہ ذیل الہامات ہوئے.۲۱ / اگست ۱۸۹۷ء (۱) پاتیک نصرتی (۲) إبراء ( بے قصور ) (1) (۳)ماهذا الاتهديد الحكام (۴) صادق آن باشد که ایام بلا 3 می گذارد با محبت با وفا (۵) انى مع الله العزيز الاكبر (۶) انت منی و انامنک © ۲۲ / اگست ۱۸۹۷ء (۱) الم تر كيف فعل ربك باصحاب الفيل ® (۲) فيه شي خواب میں دکھائے گئے.(۱) تین اُسترے (۲) عطر کی شیشی الہام : تین میں سے ایک پر عذاب نازل ہوگا.“ حضرت صاحب کو الہام ہوا.تو پڑ یا طو پر فرمایا عبرانی لغت میں تلاش کرو.شاید کہ یہ عبرانی لفظ ہو.میں نے عرض کی کہ عبرانی میں حرف پ نہیں ہوتا.اس واسطے یہ لفظ عبرانی نہیں ہوسکتا.(۲۸/ جولائی ۱۸۹۷ء) فرمایا ” دعاء ایسے امر کے واسطے نہیں چاہئیے.جو اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے وعدوں کے خلاف ہو.“ تجھے میری مدد آئے گی.مقدمہ کے ایام میں یہ الہام ہوا.اور اس کے مطابق مقدمہ میں فتح ہوئی.یہ صرف حاکموں کی طرف سے تنبیہ ہے.® صادق وہ ہوتا ہے جو مصیبت کے دن محبت اور وفا میں گزارتا ہے.میں اللہ کے ساتھ ہوں جو غالب اور سب سے بڑا ہے.® تو مجھ سے ہے، ہمیں تجھ سے ہوں.کیا تو نے نہیں دیکھا.تیرے رب نے ہاتھیوں والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا.اس میں کچھ بات ہے (صادق)

Page 190

175 فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کے واسطے اپنی حکمت سے بھی وقت رکھا ہوا تھا.مگر وقت نازک ہے.مثل ہے کہ ہر خزانہ پر سانپ ہوتا ہے.کوئی نعمت بجز تکالیف کے نہیں ملتی.جب تک زلازل نہ آئیں کامیابی نہیں ہوتی.احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا امنا وهم لا يفتنون - ہمارى جماعت نے ہنوز ابتدائی منازل طے کرنے ہیں.بجز تقویٰ کے یہ دریا پار نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کی خاص نصرتوں کی ضرورت ہے.جو متقیوں کے ساتھ ہوتی ہیں.ان الله مع الذين اتقوا.فرمایا.چاہیے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں کسل ، نفاق ، اور دنیا پرستی کی کو ئی آمیزش نہ ہو.جب تک کہ انسان پاک نہ ہو.خدا کو اُس کے لئے غیرت نہ آتی.جماعت کے آدمیوں کو چاہیے کہ ایک دوسرے سے محبت کریں.کسی سے استہزاء نہ کریں.شیطان جو بھائیوں کے درمیان تفرقہ کروا دیتا ہے اور وہ جس قدر کامیابی استہزاء کرانے سے حاصل کرتا ہے.اور طریقوں سے نہیں کر سکتا.چاہیے کہ مومن میں ستاری کا فعل ہو.وہ کسی کی نکتہ چینی نہ کرے.دلوں کی حفاظت بڑے مر دوں کا کام ہے.تواضع سے کام لینا چاہئیے.جو تکبر کرتا ہے.وہ دُکھ سے مرتا ہے.آپس میں محبت بھی ایک عبادت ہے.ہر امر جو اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے لئے کیا جاتا ہے.وہ عبادت میں داخل ہے.مصلحت کے ماتحت انتقام بھی جائز ہے.مگر نفسانی جذبات کے نیچے آ کر اور بے بس ہو کر بدلہ لینا جائز نہیں.عفو اور اصلاح بڑی خوبی کی باتیں ہیں مگر محل اور موقعہ کا شناخت کرنا ضروری ہے.بعض لوگ انتقام لینے کے وقت دوسرے کو اتنا دکھ دیتے ہیں ، کہ حد سے گذر کر خود بھی مجرمانہ حرکات میں ماخوذ ہو جاتے ہیں.جو شخص نا جائز جوشوں کی بلا سے نجات پاتا ہے.وہ ابدال میں گنا جاتا ہے.وَقَضَى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ - غیر اللہ کی پو جاصرف بتوں کے ذریعہ سے نہیں ہوتی.بلکہ اللہ کے حکم کو چھوڑ کر اپنے نفس کے پیچھے لگنا بھی نفس کی پوجا کرنا ہے اور یہ بھی ایک قسم شرک ہے.آیت قرآن شریف.کیا لوگ گمان کرتے ہیں.کہ اتنے پر ہی چھوڑ دئیے جائیں گے کہ منہ سے کہ دیں ہم ایمان لائے اور کوئی آزمائش اُن پر نہ آئے.تحقیق اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں.( صادق ) اور اللہ تعالیٰ نے یہی حکم دیا ہے کہ اس کے سوئے اور کسی کی پو جانہ کرو.

Page 191

176 ہماری جماعت کو نئی تو بہ کے ساتھ نئی زندگی حاصل ہے.سب قو میں ہمارے ساتھ دشمنی رکھتی ہیں.ہمارا ہمدردصرف ایک ہی رہ گیا ہے.یعنی ہما را خدا.ایک شخص کے سوال کے جواب میں فرمایا.اللہ تعالیٰ کی کتاب سے یہ ثابت نہیں کہ آدمی قبروں پر بیٹھ کر اُن سے فیض لے.انسان کو چاہیے کہ امن کا راستہ اختیار کرے.اولیاء اللہ ایک طرح زندہ ہیں.مگر زندگی کے یہ معنے نہیں کہ دیوار کے پیچھے سے دیکھ سکتے ہیں.مرنے کے بعد توسیع مدارج ہو جاتا ہے.مگر کوئی انسان خدا نہیں بن جا تا.حضرت یعقوب کے متعلق لکھا ہے.کے پرسیدزاں گم کردہ فرزند کہ آے روشن گہر پیر خرد مند ز مصرش بُوئے پیراہن شمیدی چرا در چاه کنعانش نه دیدی بگفت احوالِ ما بَرق جهان است گہے بر طارم اعلیٰ نشینم گہے بر پشتِ پائے خود نہ بینم فرمایا : ہم نے خُدا کے قول نحن اقرب اليه من حبل الورید کو خود آزمایا.ہم بات کرتے ہیں وہ جواب دیتا ہے.ہماری جماعت کے کئی آدمی بھی اس میں شامل ہیں.خدا پر غیر ممکن نہیں کہ وہ اُن پر الہام کا دروازہ کھول دے.انسان کو چاہیے کہ کسی انسان پر توقع نہ رکھے.سب بھروسہ اللہ پر رکھنا چاہئیے.جب ہمارے والد کی وفات کے ایام قریب آئے.تو ہم لاہور چیف کورٹ کے کسی مقدمہ میں گئے ہوئے تھے.وہیں خواب میں دیکھا کہ اُن کی وفات کے ایام قریب ہیں.بعد میں اُن کی بیماری کی خبر ملی.ہفتہ کا دن اور دو پہر کا وقت تھا.ڈیوڑھی میں میں لیٹا ہوا تھا.اور جمال کشمیری میرے پاؤں دبا رہا تھا.الہام ہوا.والسماء والطارق.جس کے معنے ہیں قسم ہے آسمان کی ، اور قسم ہے اُس حادثہ کی جو غروب آفتاب کے بعد پڑے گا.ہم انسان کے رگ جان سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں.

Page 192

177 پھر الہام ہوا.أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ اسی کا مفہوم فارسی ہے.خدا داری ہمہ چیز داری آسمانی کام فرمایا.یہ آسمانی کام ہے.اور آسمانی کام رُک نہیں سکتا.اس معاملہ میں ہمارا قدم ایک ذرہ بھی درمیان میں نہیں.جوش نفس فرمایا: ”لوگوں کی گالیوں سے ہمارا نفس جوش میں نہیں آتا.فرمایا.دولت مندوں میں نخوت ہے.مگر آج کل کے علماء میں اس سے بڑھ کر ہے.ان کا تکبر ایک دیوار کی طرح ان کی راہ میں رکاوٹ ہے.میں اس دیوار کو تو ڑ نا چاہتا ہوں.جب یہ دیوار ٹوٹ جائے گی تو وہ انکسار کے ساتھ آویں گے.فرمایا.اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب شرمسار ہوں.اور یا درکھو! کہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو.نہ تیزی کر و.نہ کسی کو حقارت سے دیکھو.جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے، تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرح تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے.یہ مقام بہت نازک ہے.نوٹ بک ۱۸۹۸ء وقت اور محنت درکار لاہور میں ایک پنشنز ڈاکٹر محمد حسین نام بہت مشہور تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گا ہے اُس سے طبی مشورہ لیا کرتے تھے.ایک دفعہ ڈاکٹر محمد حسین نے ہنستے ہوئے حضرت صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب مجھے بھی الہام ہونا سکھا دو.حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ ہمیں ڈاکٹری سکھا دیں.اُس نے کہا کہ ڈاکٹری سیکھنے کے واسطے تو بڑا وقت اور محنت چاہیئے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ ایسا ہی معاملہ الہامات کا ہے.مُقد مہ انکم ٹیکس اسی سال میں آپ پر انکم ٹیکس لگایا گیا.مگر کمشنر صاحب کے پاس اپیل کیا گیا کہ حضور کی کیا اللہ اپنے بندہ کے واسطے کافی نہیں.بالفاظ دیگر خد اداری چه غم داری

Page 193

178 آمدنی ایک مذہبی سلسلہ کے واسطے ہے.اسی میں صرف ہوتی ہے.کمشنر صاحب نے اپیل منظور کیا اور حکم انکم ٹیکس منسوخ کیا.محاسبه نفس ۲۲ جنوری ۱۸۹۸ء فرمایا.اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو.کہ افراط وتفریط میں نہ پڑے.تمہارا ہر ایک کام قال اللہ اور قال الرسول کے مطابق ہو.دیکھو! جس کھیت کے گر دباڑھ نہ ہو.اُسے چوروں کا خطرہ رہتا ہے.شیطان بھی چور کی مانند طرح طرح کے لباسوں میں آتا ہے.اور انسان کو دھوکے میں ڈالتا ہے.دُعا بھی ایک مجاہدہ اور ایک سعی ہے.انسان بھی اپنے مختلف اعضاء کے ذریعہ سے اپنے اندر ایک جماعت کا حکم رکھتا ہے.آنکھ، ناک، کان، منہ، اعضائے خاص ان سب کے درست رہنے سے انسان درست رہتا ہے.اگر ایک فردان میں سے گمراہی پر چلے تو سب کو جہنم میں لے ڈوبتا ہے.زبان بہت ہی بدیوں کی جڑھ بن جاتی.اس کی حفاظت ضروری ہے تقویٰ کی بنیاد زبان سے ہی شروع ہوتی ہے.زبان پر قابو پانے والا بہادر ہوتا ہے.زبان سارے بدن کی وکیل ہے.دل سارے اعضاء کا رئیس ہے.اس کو درست رکھنا ضروری ہے.جہاں تک ہو سکے، اپنی طاقتوں سے بھی کام لو اور دُعا کی طرف بھی متوجہ رہو.دُعا فطرتِ انسانی کا تقاضا ہے.فرمایا.شیعہ لوگوں کی غلطی ہے.جو خیال کرتے ہیں کہ امامت بارہ اماموں تک ختم ہوگئی.ہمیں دُعا سکھائی گئی ہے کہ ہم نبیوں اور رسولوں کے رنگ میں رنگین کئے جائیں.اللہ تعالیٰ انبیاء میں تمام اخلاق فاضلہ رکھتا ہے.اور خلقت کے سامنے بطور نمونہ انہیں پیش کرتا ہے.تا کہ وہ بھی ایسے ہی بن جائیں.اسلام میں ہزار ہا ولی ہوئے اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہر مومن کا نام ولی رکھا ہے.اس بات کا انکار کہ اسلام میں ولی نہیں ہوتے ہیں ، کفر ہے.فرمایا ! جہنم کہیں باہر سے نہیں آتی.بلکہ انسان کے بد اعمال اندر سے ہی اُس کے واسطے جہنم طیار کر دیتے ہیں.جیسا کہ کمرے کے اندر سے ہوا خارج کر دی جائے.تو کمرے میں رہنے والوں پر معاموت طاری ہو جاتی ہے اور جیسا کہ مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی.ایسا ہی انسان خدا تعالیٰ کے بغیر حیات نہیں پا سکتا.جو خدا سے الگ ہوا.وہ بڑا بد قسمت ہے.وہ مُردہ ہے.د و جهنم فرمایا : '' جب تک انسان خدا کے لئے نہیں ہو جاتا تب تک اس کی یہ زندگی بھی جہنم ہی میں

Page 194

179 گذرتی ہے.پس اس کے لئے دو جہتم ہیں.ایک اس زندگی میں اور دوسرا اگلے جہان میں.“ نصیحت سب سے مانو فرمایا: ” واعظ کے قول کی طرف دیکھو.اس بات کا خیال نہ کرو کہ کہنے والا کون یا کیسا ہے.نکتہ چینی کرنے والے عموماً نا کام رہ جاتے ہیں.“ مومنانہ زندگی فرمایا: ”خدا تعالیٰ مومنانہ زندگی کا ذمہ وار ہو جاتا ہے.لیکن جب انسان خدا سے بے پرواہ ہو کر بہائم کی طرح زندگی بسر کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اُس کی زندگی کا متکفل نہیں ہوتا.دیکھو ہزاروں گائے اور بکریاں کرتی ہیں.اور ذبح کی جاتی ہیں.کون اُن پر روتا ہے.یا اُن کی کچھ پرواہ کرتا ہے.“ فرمایا : ” انسان دنیا کے لئے تکلیف اُٹھاتا ہے.تو پھر خدا کے لئے تکالیف کیوں نہ اُٹھائے.جو آدمی صدق کے ساتھ لگا ر ہے.اُسے آخر کامیابی ہو جاتی ہے.اوپرے دل اور غفلت سے دُعا نہ کرو، بلکہ دل لگا کر دُعاء کرو.اور اس کے مطابق اپنا عمل در آمد بناؤ.خدا رحیم کریم ہے.وہ انسان کو بہت ابتلاء میں نہیں ڈالتا.جلد فضل کر دیتا ہے.دیکھو دنیوی مقدمات والے اپنی دنیوی غرض کے واسطے کس قدر زحمت اُٹھاتے ہیں.اور لمبی لمبی تاریخوں کا انتظار کرتے ہیں.تمہارا مقصد تو خدا ہے.تمہیں تھکنا نہیں چاہئیے.مانگتے جاؤ.آخر ایک وقت تحات اللہ کا آجائے گا.جو قبولیت دُعاء کا وقت ہوگا.اور معاً ایک ٹھنڈا پانی پڑے گا.جو شخص صادق ہو، استقامت والا ہو.اور صبر کے ساتھ انتظار کرے.اُس کے لئے آخر ایک روشنی آئے گی جو اُسے روشن کر دے گی.“ عبد الله فرمایا : ” مومنوں کے کئی نام ہیں.مگر سب سے بڑا نام عبد اللہ ہے.اسی لئے رسُول اللہ کا نام ہے.عَبدُهُ وَرَسُولُهُ - عبد ہونا قطب اور ولایت ہونے سے بھی بڑھ کر ہے.فادخلی فی عبادی.یہ اسی زندگی کے لئے ہے.نہ کہ صرف مرنے کے بعد پورانی نوٹ بک ۱۸۹۸ء الهام عم نقل خط حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم.مورخہ ۳.ستمبر ۱۸۹۸ء از قادیان -

Page 195

180 آج صبح حضرت اقدس نے ایک الہام سُنایا.اور اُس پر اس قدر خوشی ظاہر کی جو میں بیان نہیں کر سکتا.اور فرمایا.اسے کوئی شخص بجز حسن ظن قبول نہیں کر سکتا.اور میں جانتا ہوں کہ کبھی عمر بھر یہ لفظ میرے دیکھنے پڑھنے میں نہیں آیا.اور حکم دیا کہ سب جو یہاں ہیں اُسے لکھ رکھو.کہ یہ کوئی عظیم الشان نشان ہے.اور فرمایا کہ جلی قلم سے لکھ کر مسجد میں چسپان کر دو.چنانچہ مسجد مبارک میں چسپان کیا گیا ہے اور وہ الہام یہ ہے.غَثَمَ - غَثَمَ - غَلَمَ - لَهُ - رَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ دفعةً ـ یہ اگلی تشریح اُس مشکل لفظ کی ہے.حضرت نے اس کا بہت اہتمام فرمایا ہے.“ بعض الہامات - میری فروری ۱۸۹۸ء کی نوٹ بک کے ایک صفحہ پر ذیل کا نوٹ لکھا ہے.اُس وقت میں لاہور میں تھا.الہامات حضرت ( مرزا) صاحب ( منقول از ) خط مولوی عبد الکریم صاحب ( مرحوم) یکم فروری ۱۸۹۸ء ( ا ) إِنَّ الله لا يغير ما بقوم حتَّى يُغَيِّرُوا ما بانفُسِهِمْ.(۲) إِنَّه أوى القرية.(۳) إِنَّى مع الرّحمنِ اليْكَ بغتةً.(۴) إِنَّ الله موهن كيد الكافرين.قادیان آنے کی ضرورت فرمایا لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہہ جاتے ہیں.کہ دین کو دُنیا پر ترجیح دوں گا.لیکن یہاں سے جا کر اس بات کو بُھول جاتے ہیں.وہ کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اگر وہ یہاں نہ آویں گے.دُنیا نے اُن کو پکڑ رکھا ہے.اگر دین کو دُنیا پر ترجیح ہوتی تو وہ دنیا سے فرصت پا کر یہاں آتے.“ ( منقول از خط خواجه کمال الدین صاحب یکم فروری ۱۸۹۸ء) لفظ گا ٹو کی تعبیر جب میں لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل میں ملازم تھا.اور مزنگ میں رہا کرتا تھا.اُن ایام میں میں نے ایک خواب دیکھا.کہ ایک شخص جس کا کا لو نام ہے.ہمارے زنانخانہ میں بے تکلف اندر آ گیا ہے اور میری بیوی نے اُس سے پردہ نہیں کیا.ظاہر ہے کہ ایسی حالت ایک غیور مر د کے واسطے کہاں

Page 196

181 تک قابل برداشت ہے.جس کے گھر میں خاندانی عادت سخت پر وہ قائم رکھنے کی ہو.اس واسطے اِس نظارہ سے مجھے ایسا غصہ آیا کہ بہ سبب رنج کے میں کانپ اٹھا.اور بیدار ہو گیا.اس خواب کے نظارہ نے مجھے ایسا متوحش کر دیا کہ مجھے اُس مکان سے بھی نفرت ہو گئی.جس میں وہ خواب دیکھا تھا.اور میں نے ارادہ کیا کہ اس مکان کو چھوڑ دوں.کیونکہ وہ کرایہ پر لیا ہوا تھا.جب میں نے اپنی بیوی سے اس کا ذکر کیا.تو اُس نے مجھے مشورہ دیا کہ خوابوں کی تعبیر یں ہوتی ہیں.ظاہر پر حمل نہیں ہوسکتا.چونکہ مکان بظاہر ہر طرح سے آرام دہ ہے.اس واسطے اتنی بات پر چھوڑ دینا مناسب نہیں.آپ پہلے اپنا خواب بخدمت حضرت مسیح موعود قادیان لکھ بھیجیں.اور اس کی تعبیر دریافت کریں.پھر جو وہ ارشاد فرما دیں گے، اُس کی تعمیل ضروری ہوگی.مجھے یہ مشورہ پسند آیا.اور میں نے حضرت کی خدمت میں اُسی روز ڈاک میں خط بھیجا.خواب کی ساری کیفیت عرض کی.اور اپنا ارادہ تبدیل مکان بھی لکھ دیا.جس پر حضرت علیہ السلام کا جواب آیا کہ اس خواب کی وجہ سے مکان تبدیل نہ کریں.اگر آپ کے گھر میں حمل ہے.تب اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے گھر لڑکا پیدا ہوگا.کالو.کالا در اصل عربی الفاظ ہیں.اس کے معنے ہیں نگاہ رکھنے والا.یہ خُد اتعالیٰ کا نام ہے.کالو کے گھر میں آنے کی یہ تعبیر ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلہ حمل میں آپ کی بیوی کا نگہبان ہوگا.اور فرزند نرینہ عطا کرے گا.حسن اتفاق سے ان دنوں ہمارے گھر میں حمل تھا.جس کی حضرت صاحب کو کوئی خبر نہ دی گئی تھی.چنانچہ اس تعبیر کے مطابق ایام حمل کے پورا ہونے پر میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.رؤیاء کی تعبیر کرنا بھی ہر کسی کا کام نہیں.خدا کے خاص بندوں کو یہ علم بخشا جاتا ہے.پورانی نوٹ بک ۱۸۹۹ء اسلامی نام سے بُلاؤ سردار سند رسنگھ صاحب جب قادیان میں آکر مسلمان ہو گئے.اور اُن کا اسلامی نام فضل حق رکھا گیا.تو اُن دنوں پہلی عادت کے مطابق اُنہیں کسی نے ایک دفعہ سُند رسنگھ کے نام سے بلایا.اس پر حضرت صاحب نے فرمایا.یہ جائز نہیں ہے یہ گناہ ہے، کہ اُنہیں سُند رسنگھ کر کے پکارا جائے.اب اُنہیں فضل حق کے نام سے ہی بلا نا چاہیے.لیکن شیخ عبداللہ صاحب کمپونڈر جن کا پہلا نام دیوانچند تھا.جب کبھی حضرت صاحب اُنہیں خط لکھا کرتے تھے.تو شناخت کے واسطے عبداللہ دیوانچند دونوں نام لفافے پر لکھ دیتے تھے.تاکہ پوسٹ مین کو خط کے پہنچانے میں غلطی نہ لگے.

Page 197

182 فرمایا "خُدا اُن سے محبت کرتا ہے جو اُس کی عظمت و عزت کے واسطے جوش رکھتے ہوں.ایسے لوگ ایک باریک راہ سے جاتے ہیں اور ہر کس و ناکس اُن کے ساتھ نہیں چل سکتا.جب تک خُدا کے لئے جوش نہ ہو.کوئی لذت اِنسان کو حاصل نہیں ہو سکتی.جب تک انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لئے ذاتی جوش نہ ہو.اور نفس کی ملونی اور اپنے دُنیوی فوائد ومنافع کے خیال سے انسان خالی نہ ہو جائے.تب تک اُس کی کوئی عبادت وصدقہ قابل قبول نہیں ہوتا.جو شخص خدا کے لئے جوش رکھتا ہے.وہ اپنے ابنائے جنس سے بڑھ جاتا ہے.ایسے لوگ خُدا سے برکتیں پاتے ہیں.“ استخاره ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو استخارہ کا یہ طریق بھی بتلایا کہ پہلی رکعت میں سوره قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَفِرُونَ پڑھیں.دوسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللهُ اور التَّحِيَّات میں اپنے مطلب کے واسطے دُعا کریں.پورانی نوٹ بک ۱۸۹۹ء فرمایا : ” ہر مومن کی قبر کو اُس کے درجہ ایمان کے مطابق رسُول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے ساتھ قرب عطاء کیا جاتا ہے.چونکہ مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کامل یگانگت اور اتحاد رکھتا ہے.اس واسطے اس کے متعلق کہا گیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر میں دفن کیا جائے گا.“ فرمایا ” لفظ انسان دراصل انسان ہے.یعنی دو اُنس.انسان میں دو انس یعنی دو محرکات ہیں.ایک خُدا کی طرف، ایک شیطان کی طرف کبھی انسان نیچے جاتا ہے.کبھی او پر جاتا ہے.“ فرمایا ”آسمانی علوم تقویٰ کے ساتھ کھلتے ہیں.جو شخص واقعی اپنے میں تبدیلی کرے.اُسے نئی حیات ملے گی.تب وہ خدا کے معارف پائے گا.ایسے ہی انسان اس قابل ہوں گے کہ وہ اس سلسلہ کو آگے چلا ئیں.فرمایا ” انبیاء سب شہید ہوتے ہیں.گو تلوار سے قتل نہ کئے جائیں.شہید کی شہد کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے.اُس کی موت میں مرارت نہیں ہوتی.“ فرمایا ” صدیق کمال درجہ پر پہنچ کر خلال نبوت میں آجاتا ہے.“ فرمایا’داؤد نبی کا قول ہے.کہ میں بچہ تھا.بوڑھا ہو گیا.اتنی عمر میں میں نے کبھی نہیں دیکھا.کہ کوئی صالح خدا کو پہچاننے والا محتاج ہو، یا اُس کی اولا د ٹکڑے مانگے.جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے

Page 198

183 ہیں.اُن کے گھر کے کتنے بھی بُھو کے نہیں مرتے.قرآن شریف میں ذکر ہے.کہ ایک دیوار تھی جس کے مالک ایسے بچے تھے کہ اُن کا باپ صالح تھا.اس واسطے اُس دیوار کو گر نے سے بچانے کے واسطے خضر و موسیٰ نے مزدوروں کی طرح کام کیا.كَانَ اَبُوهُمَا صَالِحاً.یہ نہیں فرمایا کہ وہ بچے خود کیسے چال چلن کے تھے.یہ اللہ تعالیٰ کی پردہ پوشی ہے.“ فرمایا کاش کہ کوئی مصور اُس زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصویر کھینچ لیتا.اگر چہ وہ گنہ گار ہوتا.مگر ہم تو دیکھ لیتے.“ بیعتیں ایک شخص نے عرض کی کہ اگر ایک شخص کسی پیر کا پہلے سے مُرید ہے.تو کیا جائز ہے کہ وہ بعد اس کے کسی اور پیر کی بیعت کرے.فرمایا ”اگر پہلی بیعت کسی اچھے آدمی کی نہ تھی.تو وہ خود ہی قابل فسخ تھی.اور اگر اچھے آدمی کی تھی.تو دوسری بیعت نور علی نور ہے.ایک چراغ کے ساتھ دوسرا چراغ جلانے سے روشنی بڑھتی ہے.سید عبدالقادر جیلانی نے کئی متفرق جگہ بیعتیں کی تھیں.پورانی نوٹ بک ۱۸۹۹ء ( قریب جولائی ، اگست واکتوبر ) موقعه شناسی ۲۱ اگست ۱۸۹۹ء صبح.فرمایا "نرمی کے ساتھ لوگوں کو سمجھانا چاہئیے کہ یہ سلسلہ حق پر ہے.کبھی وعظ کے ساتھ ، خُلق کے ساتھ ، کبھی کتاب دکھانے سے، حکمت کے ساتھ اور فساد سے بچ کر جیسا موقعہ ہو، مخالفوں کو سمجھاتے رہنا چاہیئے.“ ، مجدد زمانہ فرمایا ” احادیث سے ثابت ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجد د آیا کریں گے.یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم اُن مجد دوں کا شمار کر کے دکھا ئیں جو آچکے.مسلمانوں میں یہ ایک تسلیم شدہ امر ہے.اور عیسائیوں کے بھاری فتنہ کے سبب جو اس زمانہ میں پھیلا ہوا ہے.اگر اس وقت کے مجد دکا نام سیح نہ ہوگا ، تو پھر اور کیا ہوگا.کیا یہ لوگ ہماری عداوت کے سبب حدیث اور واقعات کے بھی منکر ہو جائیں گے.“

Page 199

184 جماعت میں کمزوری فرمایا’ جماعت میں جو لوگوں میں باہمی تنازعات ہو جاتے ہیں ، یہ اُن کے اخلاق کی کمی ہے.اور جو وصیت ہم کرتے ہیں.اُس پر عمل نہ کرنے کے سبب سے ہے نرمی ضروری عاجز راقم ( مفتی محمد صادق ) کو مخاطب کر کے فرمایا " لاہور کی جماعت کو کہہ دیں کہ مخالفوں کے ساتھ سختی نہ کریں ، ہم خدمت گار ہیں.ہمارا کام سختی نہیں.نرمی کے ساتھ سمجھانا چاہیئے.مخالف بھی جانتے ہیں کہ فتح ہماری ہے.اس وقت بہادر وہی ہے جو فتح پائے ، یا جان بچا کر نکل جائے.“ الہامات الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام : ۲۷ / اگست ۱۸۹۹ء (۱) ''خُدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑہا وے.اور آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھا دے.“ (۲) ''آسمان سے کئی تخت اُترے.مگر تیرا تخت سب سے اُونچا بچھایا گیا“ ۲۸ را گست ۱۸۹۹ء دشمنوں سے ملاقات کرتے وقت ملائکہ نے تیری مدد کی میری ایک رویا ایک دفعہ میں نے اپنی ایک کمزوری کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں شکایت کی.کہ مجھ میں یہ کمزوری ہے.اور میں اس میں بار بار گرتا ہوں.اور اس سے نکلنے کی توفیق نہیں پاتا.حضور نے دُعاء کا وعدہ فرمایا.۳۱ / اگست ۱۸۹۹ء کی رات مجھے رویا ہوا کہ میں قادیان میں ہوں.ایک چار پائی پر بیٹھا ہوں.ایک اور چار پائی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بیٹھے ہیں.اور دونوں چار پائیوں کے درمیان قریباً تین چار پائیوں کی چوڑائی کا فاصلہ ہے.ایک رہتی ہے جس کا ایک سرا میرے پاؤں سے باندھا ہوا ہے.اور دوسرا سرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے پاؤں سے ایسی طرح بندھا ہوا ہے کہ میں قدم اُٹھا نہیں سکتا.جب تک کہ حضرت صاحب پہلے قدم نہ اُٹھا ئیں.گویا میرا قدم حضرت صاحب کے قدم کے ماتحت کر دیا گیا ہے.( فقط ) اُس وقت سے وہ کمزوری مُجھ سے دُور ہوگئی.اور پھر اُس نے مجھے نہ ستا یا.

Page 200

185 مُریدین مولوی عبد اللہ صاحب غزنوی ( ثم امرتسری ) کا ذکر ہوا.جو صاحب کشف والہامات تھے.فرمایا.اُن جیسے کئی ایک اصحاب میرے مریدین میں ہیں“ ایوب بیگ مرزا ایوب بیگ صاحب مرحوم برادر ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ) جو کہ آج کل بیمار ہیں.ان کے متعلق فرمایا نیک اور غریب مزاج آدمی ہے.“ الی مدد فرمایا ” جب میں قرآن شریف کی تفسیر لکھتا ہوں ، تو مضمون ٹھنڈی ہوا کی طرح میرے آگے آگے چلتا ہے“ انہماک نہ ہو فرمایا ” مومن کو چاہیئے.دنیوی اسباب کے مہیا کرنے میں حد سے نہ بڑھے.بلکہ کچھ خدا کا خانہ بھی خالی رہنے دے.تا کہ اُس کی مد د نازل ہو.مسلمان میں برکت اس واسطے ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کرتا ہے.اس کے بہت سے کام فرشتے کر دیتے ہیں.جب اولیس قرنی عبادت میں لگ جاتے.تو ان کے اونٹ فرشتے چرایا کرتے تھے.“ نوکری ۱۸۹۸ء فرمایا " نو کر بھی آدھا مشرک ہوتا ہے“ برکت قرآن 66 فرمایا ” قرآن شریف نے لوگوں کو انسان اور مذہب کو ایک علم اور فلسفہ بنایا ہے.“ جوش میں نہ آؤ فرمایا ” جب لوگ سخت کلامی سے تمہارا دل دکھانا چاہیں.اور جوش دلانا چاہیں تو چاہئیے کہ اُن کی باتوں کا اثر تم اپنے پر نہ ہونے دو.اور سکون اور متانت پر قائم رہو.“

Page 201

186 تعبیر فرمایا.ایک دفعہ ہارون رشید نے خواب میں دیکھا کہ اُس کا منہ کالا ہے.وہ بہت گھبرایا.علماء سے تعبیر دریافت کی.کوئی خوش کن تعبیر نہ کر سکا.آخر ایک عالم نے قرآن شریف سے اس کی تعبیر کی کہ بادشاہ کے ہاں لڑکی پیدا ہوگی.(آیت وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهَهُ مُسْوَدًا وَهُوَ كَظِيمٌ (انحل) ۱۷ مارچ ۱۹۳۱ء.صبح دس بجے کے قریب ایک کھیت میں لکھتے لکھتے میں تھک کر لیٹ گیا.رویا ہوئی جیسے ریل کی گاڑی میں ایک سیٹ پر ایک بابو لیٹا ہوا ہے.ایک سیٹ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیٹھے ہیں.ایک طرف ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کھڑے ہیں.حضرت صاحب اس بابو کی طرف جھکے گویا با بو کچھ کہتا ہے.جسے حضرت صاحب توجہ سے سُننا چاہتے ہیں.تب اُس بابو نے ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کے متعلق کہا ” میں کہیا اہ بھی پورانے آدمیاں وچوں ہین، ترجمہ ” میں نے کہا.یہ بھی سابقین اولین میں سے ہیں پورانی نوٹ بک دسمبر ۱۸۹۶ء و ۱۸۹۷ء و ۱۸۹۸ء ایک ہی خواہش جنوری ۱۸۹۷ء.مسجد مبارک میں بیٹھے ہوئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنی تمام خواہشوں کے عوض میں رسُول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کروں گا.میرے واسطے دعا کی جائے.حضور نے ہاتھ اُٹھا کر تمام حاضرین کے ساتھ دُعاء کی.اس درخواست کی تحریک مجھے ذیل کی حدیث کے پڑھنے سے ہوئی تھی.عَنْ أُبَيِّ ابْنِ كَعْبٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهُ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُنَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ يَايُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللهَ اذْكُرُوا اللَّهَ جَائَتِ الرَّجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيْهِ.جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ.قَالَ أُبَى فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُكْثِرُ الصَّلوةَ عَلَيْكَ فَكَمْ اَجْعَلُ لَّكَ مِنْ صَلوتِى قَالَ مَا شِئْتَ.قُلْتُ الرُّبُعَ؟ قَالَ مَاشِئْتَ.فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْريّه.قُلْتُ النِّصْف؟ قَالَ مَاشِتُتَ.وَإِن زَدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ قُلْتُ فَالقُلْتَيْنِ؟ قَالَ

Page 202

187 مَا شِئْتَ.فَإِنْ زِدْتَ فَهُوَ خَيْرٌ.قُلْتُ اَجْعَلُ لَكَ صَلوتِي.كُلَّهَا قَالَ إِذَا تُكْفَى هَمَّكَ وَيُغْفَرَ لَكَ ذَنْبُكَ.هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.(جامع ترمذی) ترجمہ : حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رات کا دو تہائی حصہ گذر چکنے کے وقت اٹھ کر اپنے گھر والوں اور اردگرد کے لوگوں کو نماز تہجد کے لئے جگا کر انہیں فرمایا کرتے تھے کہ اے لوگو اللہ کو یاد کرو.اللہ کو یاد کر لو.وہ ہولناک زلزلہ آور ) گھڑی سر پر آ پہنچی ہے.جس کے بعد ساتھ ہی سردی ( اور بھی زیادہ ہولناک) گھڑی آ جائے گی.موت مع اُن آفات کے جو اس کے آنے کے ساتھ آ جاتی ہیں.سر پر آ پہنچی ہے.ہاں وہ موت مع اپنے ساتھ کی آفات کے بس آہی پہنچی ہے.(اس حدیث کے راوی) ابی کہتے ہیں.میں نے (ایک رات حضور کے جگانے پر اٹھ کر ) عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی دعا کا ایک بہت بڑا حصہ حضور کے لئے مخصوص کر دیا کرتا ہوں.( مگر بہتر ہو کہ حضور ارشادفرماویں کہ ) میں ا اپنی دعا کا کتنا حصہ حضور کے لئے مخصوص کیا کروں.فرمایا جتنا چاہو.میں نے عرض کیا ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی زیادہ (حصہ میرے لئے مخصوص کیا کرو.تو زیادہ بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا.نصف حصہ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی بڑھا دو تو اور بھی بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا.دو تہائی؟ فرمایا جتنا چاہو.اور اگر اس سے بھی زیادہ کر دو.تو اور بھی بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا کہ میں آئندہ اپنی تمام دعا کو حضور کے لئے ہی مخصوص رکھا کروں گا.فرمایا.اس میں تمہاری سب ضرورتیں اور حاجتیں آ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کر دے گا.اور تمہاری مرادیں پوری کر دے گا اور کو تا ہیاں معاف کر دے گا.تزکیه نفس ۱۸۹۹ ء کا ذکر ہے.عاجز ان دنوں لاہور میں ملازم تھا.کسی رخصت کی تقریب پر حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.فرمایا قرآن شریف میں آیا ہے.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.اُس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے.جُھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دُور کرنے چاہئیں اور جو راہ پر چل رہا ہے.اُس سے راستہ پوچھنا چاہئیے.اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہیے.جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املاء درست نہیں ہوتا.ویسا ہی غلطیاں نکالنے کے بغیر اخلاق بھی درست نہیں ہوتے.آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ ساتھ ہوتا رہے.تو سیدھی راہ پر چلتا ہے.ورنہ بہک جاتا ہے.66

Page 203

188 پورانی نوٹ بک ۱۹۰۰ء فرمایا’ یہ ہیکل بدنی خدا کے واسطے بنائی گئی ہے.اس کو خراب نہ کرو.اس کو پاک صاف کرو.انسان کا دل ملائکہ کے نزول کی جگہ ہے.“ فرمایا ” انسان کا دل بیت اللہ ہے.“ فرمایا ” جو چیز مرکب ہوتی ہے.وہ عالم خلق سے ہے.اور جو غیر مرکب ہو وہ عالم امر سے ہے.عرش عالم امر سے ہے.روح ( کلام الہی ) بھی عالم امر سے ہے.“ فرمایا ” کوئی شخص دُنیا سے نہیں جاتا مگر حسرت کے ساتھ.مر د کامل کو یہ حسرت ہوتی ہے 66 کہ کاش ایک اور دینی خدمت ہو جاتی.“ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کا ایک دستی خط جو اسی نوٹ بک پر انہوں نے غالبا لا ہور کے احمدی احباب کے نام پنسل سے لکھا تھا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میں کئی روز بہت بیمار رہا.صحت خراب ہوگئی ہے.تین روز ہوئے بشیر محمود کو سخت بخار ہوا.فرمایا.میں نے دُعا کرنے کا ارادہ کیا.تو میرے دل میں آیا کہ آپ ( مجھے مخاطب کر کے فرمایا ) بیمار ہیں.اور مولوی نورالدین صاحب بھی بیمار ہیں.پھر تینوں کے لئے دُعا کی.الہام ہوا.لِلاتباع والاولاد - یعنی تیری اولا داور تیرے پیروؤں کے حق میں تیری دعائنی گئی.شیخ نور احمد صاحب ڈاکٹر کا بیٹا سخت بیمار ہو گیا.ام الصبیان کا دورہ ہو گیا.حالت یاس کی پیدا ہوگئی.حضرت نے دُعاء کی.الہام ہوا.انا اللہ ذوالمنن لڑکا اچھا ہو گیا.شیخ صاحب کو مبارک باد دے دیں.برادران ایسا رحیم دعاء گو اور شفیع دُنیا میں کوئی اور بھی ہے؟ مبارک ہے.وہ جو اُس کے فتراک سے وابستہ ہو.سلام برادران کو.عبدالکریم ۶ نومبر.فرمایا ”مسلمانوں میں بھی اب لوگ ذات اور قومیت کا تکبر کرتے ہیں.میں اس قومیت کی ہیکل کو بھی توڑ نا چاہتا ہوں.مجھے اس سے دشمنی ہے.فرید الدین عطار نے لکھا ہے کہ سادات میں سے اولیاء کم ہوئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں رعونت اور تکبر چھپے ہوئے ہوتے ہیں.ہماری قوم مغل ہے.اور لوگ اس کا بھی تکبر کرتے ہیں.مگر خدا نے ہمارے لئے اس لفظ کی ہی تکذیب کر دی ہے کیونکہ بذریعہ وحی الہی ہمیں ابناء فارس کہا گیا ہے.رد عليه رجلٌ مِن اهل فارس - الفارس من اهل بيتي.سلمان رجلٌ من اهل بيت.

Page 204

189 پورانی نوٹ بک ۱۹۰۰ء پیدائش مسیح موعود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ میری پیدائش کا مہینہ پھا گن تھا.چاند کی چودھویں تاریخ تھی.جمعہ کا دن تھا.اور پچھلی رات کا وقت تھا.نوٹ.سال آپ کو یاد نہ تھا.پچھلے سالوں کی جنتریاں اب طیار ہوئی ہیں.ان سے معلوم ہوسکتا ہے کہ کون سا سال تھا.۶ / مارچ ۱۹۰۶ء صبح کی سیر کے واسطے حضوڑ باہر تشریف لے گئے.حسب معمول کئی ایک احباب ساتھ ہو گئے.گاؤں کے قریب کھیتوں میں ایک صاحب حضرت صاحب کے واسطے دودھ لائے.حضور نے وہیں کھیت میں زمین پر بیٹھ کر دودھ پیا.فرمایا.دُنیا کے واسطے ایک کوڑھی بھی صرف کی جائے ، تو اسراف میں داخل ہے.دین کے واسطے لاکھوں بھی خرچ ہو جائیں تو کوئی اسراف نہیں.الہام ۱۹۰۰ ء فرمایا.تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا إِنَّا لِلهِ ہمارا بھائی اس دُنیا سے چل دیا مصداق ذہن میں نہیں آیا.اللہ تعالیٰ عزا پرسی کرتا ہے.اور اظہار ہمدردی کرتا ہے“ الہام جون ۱۹۰۰ ء - عند ذلک اوشك الردى ترجمہ (ایسے وقت موت نزدیک ہو جاتی ہے.) إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير قادیان میں کچھ ہیضہ سے بیمار ہوئے.اور موتیں ہوئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.تمہیں سال قبل بھی ایک دفعہ ایسے ہیضہ کے واقعات ہوئے تھے.الہام ۷ جون ۱۹۰۰ ء - انا كذلک نجزی المحسنین

Page 205

190 جو ہماری طرف آتے ہیں ہم اُن کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں.سخت گرمی کے ایام تھے.حضرت صاحب کی طبیعت علیل تھی.اور گھبراہٹ ہو رہی تھی.کہ چراغ خادم لڑکا جو امرتسر یا لاہور سے آیا تھا.عین سخت ضرورت کے وقت برف لایا.حضرت صاحب نے اس پر شکر کا سجدہ اسی وقت کیا.درست جہاد جون ۱۹۰۰ ء فرمایا.سید احمد صاحب بریلوی نے اور اسمعیل شہید نے جو سکھوں کے خلاف جہاد کیا.وہ بالکل جائز اور درست تھا.کیونکہ سکھ بہت ظلم کرتے تھے.ظالم کے واسطے تبلیغ کی ضرورت نہیں، مناره جون ۱۹۰۰ء فرمایا ” منارہ کا بنانا کوئی معمولی بات نہیں.یہ ایک عظیم الشان کام ہے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشگوئی اِس سے پوری ہوتی ہے.جیسا کہ حضرت عمر نے پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنائے تھے.ہم نے دُعا کی ہے.جو ارا شخص منارۃ المسیح کے واسطے روپیہ دے گا.خدا اُس کو کسی نہ کسی ذریعہ سے واپس دے گا‘ (عاجز راقم کو کئی گنا اس سے زیادہ وصول ہوا.صادق ) پورانی نوٹ بک را ۱۹۰ء ایک قسم البام فرمایا ” جب تصنیف و تحریر کے وقت بے تکلف مضامین اور الفاظ آتے جائیں بلکہ بعض الفاظ پہلے لکھ لئے جاتے ہیں.ان کے معنے بعد میں لغت میں دیکھنے سے معلوم ہوتے ہیں.تو یہ بھی ایک سلسلہ الہام کا معلوم ہوتا ہے.“ حقیقت دُعاء فرمایا’ ” جب دُعا اپنے کمال کو پہنچتی ہے تو اس کی حقیقت کی مثال ظلی طور پر اس طرح ہے کہ گویا دُعاء کرنے والا خدا بن جاتا ہے.اور اُس کی زبان گویا خدا کی زبان ہوتی ہے.

Page 206

191 ایس دُعائے شیخ مگر یہ حالت خدا کی طرف سے آتی ہے.انسان کے اختیار میں کچھ نہیں.دُعا ء حق ہے.اس میں انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی چادر کے نیچے مخفی ہو جاتا ہے.عبودیت کو ربوبیت کے ساتھ قدیم سے ایک رشتہ ہے.جس کا نام خلافت ہے الہام الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام - ۱۸/ اپریل ۱۹۰۱ء سال دیگر را که می داند حساب تا کجا رفت آنکه با ما بود یار پختہ قبر " سوال ہوا.کیا قبر کا پختہ کرنا جائز ہے.فرمایا ”نیت پر منحصر ہے.مثلاً بعض جگہ سیلاب آنے سے قبریں بہ جاتی ہیں.بعض جگہ بجو اور گئے قبروں سے مُردے نکال لیتے ہیں.اگر ایسے وجوہ پیش آجائیں.تو پختہ کر دینا مناسب ہے.کیونکہ میت کے لئے بھی ایک عزت ہے.نمود کے واسطے گنبد بنانا جائز نہیں.مگر حفاظت ضروری ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے گرد پختہ عمارت ہے.ایسا ہی بعض اولیاء اور صلحاء کی قبریں بھی پختہ ہیں.الہی مصلحت نے ان کے لئے یہی چاہا اور ایسے ہی اسباب مہیا ہو گئے.بیعت کی ضرورت فرمایا ”ہما را بیعت لینا عام صوفیاء کی طرح نہیں.بلکہ ہم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہ سلسلہ قائم کیا ہے.ہم امرالہی سے بیعت لیتے ہیں شخصی تدبیر فرمایا انبیاء کا قاعدہ ہے کہ وہ شخصی تدبیر نہیں کرتے.بلکہ نوع کے پیچھے پڑتے ہیں.تا کہ جماعتوں کی جماعتیں ہدایت پائیں.اور سلسلہ حقہ میں داخل ہوں.شخصی تدبیر چنداں کا میاب نہیں ہوتی.جس میں مبلغ کسی خاص آدمی کے پیچھے پڑا ر ہے کہ اسی کو ضرور ہدایت ہو جائے.“

Page 207

192 خارق عادت زندگی فرمایا ” جو شخص چاہتا ہے کہ خدا کو راضی کرلے.اور معجزات دیکھے.اُسے چاہئیے کہ وہ اپنی زندگی کو خارق عادت بنالے.جب وہ خدا کی خاطر خارق عادت کام کرے گا.تو خدا تعالیٰ اس کی خاطر خارق عادت نشانات دکھلائے گا.“ فرمایا ” حاکم اگر تم پر ظلم کرتا ہے.تو حاکم کو بُرا نہ کہو.بلکہ اپنی حالت کی اصلاح کرو.اپنی اصلاح کرنے سے حاکم کی خود ہی اصلاح ہو جائے گی.یا اللہ تعالیٰ اُس کے شر سے بچانے کے لئے کوئی راہ نکال دے گا.انسان در اصل اپنی ہی بد عملیوں کی سزا پاتا ہے.ورنہ دوسرا کوئی اُسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا.مومن کے ساتھ خدا تعالیٰ کا ستارہ ہوتا ہے اور اُس کی حفاظت کی جاتی ہے.تم نہ خدا کے حقوق تلف کرو.اور نہ بندوں کے حقوق تلف کرو.اسی میں امن ہے.جس بات کو خدا قائم کرنا چاہتا ہے.وہ خود اس کی جڑھ لگا دیتا ہے.اور اس کے قیام کے واسطے سامان مہیا کر دیتا ہے.مومن کے واسطے دُنیا بجن ہے.کیونکہ وہ شریعت کی قید کے اندر رہتا ہے.اپنی ہوا و ہوس کی پیروی کے واسطے آزاد نہیں پھرتا.سچی خوشحالی خدا کی طرف رجوع کرنے سے ہی حاصل ہوتی ہے.پورانی نوٹ بک ۱۹۰۲ء سچی طلب ضروری 66 فرمایا ” جولوگ یہاں آکر رہتے ہیں.ان میں بھی اگر کچی طلب اور کچی متابعت نہ ہو.تو دیر تک رہنا بھی بے فائدہ ہے.آدمی کو چاہیے کہ حق کو قبول کرے.اور خدا تعالیٰ کو سب باتوں پر مقدم کر لے.جب تک انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے آپ کو بالکل وقف نہیں کر دیتا.اُس کی ایک ذرہ بھر بھی عزت نہیں.چاہئیے کہ آدمی افتان و خیزان جا کہ چشمہ پر لب رکھ دے.تب اللہ تعالیٰ اُسے سیراب کر دے گا.صدق وصفاء کے ساتھ عہد کرو.کہ عزت جائے ، وجاہت جائے.جان جائے جو کچھ بھی ہو.خدا کو نہ چھوڑوں گا.حضرت ابراہیم کی طرح ہر وقت قربانی کے لئے مومن کو طیار رہنا چاہئیے.خدا ہزاروں ابراہیم بنانا چاہتا ہے.اُس کے حضور میں بخل نہیں.ایک بھاری پنڈ (کٹھری ) اُٹھائے ہوئے تم تنگ دروازے سے داخل نہیں ہو سکتے.پہلے اس پنڈ کو پھینکو.پھر اندر داخل ہو جاؤ.ہماری جماعت کو چاہئیے.سچی تو بہ کرے.خدا کے کلام کو سامنے رکھو.پاک چشمے سے پانی پیو.رزق کے واسطے بے فائدہ کریں نہ مارو.رِزْقُكُم في السماء

Page 208

193 66 فرمایا تکمیل نفس کی ضرورت ہے.ہمت کر کے انسان سب کچھ کر لیتا ہے.“ روزه فرمایا ”میں بچپن سے روزے رکھنے کا عادی ہوں.ایک دفعہ بچپن میں روزہ رکھا.بیمار ہو گیا.مگر اس کے بعد ۲۹ روزے پورے رکھے.تکلیف نہیں ہوئی.تب میرے لئے خوشی کی عید تھی.روزے کے خاص برکات ہوتے ہیں.جیسا کہ ہر میوے میں جُدا ذائقہ ہے.ایسا ہی ہر عبادت میں جد الذت ہے.ان عبادات میں روحانیت ہے.جس کو انسان بیان نہیں کر سکتا.اگر شوق ہو، تو آلام اور تکلیف کم ہو جاتی ہے.چاہیے کہ عبادت میں انسان کی روح نہایت درجہ رقیق ہو کر پانی کی طرح بہ کر خدا سے جاملے“ جماعت کی ترقی فرمایا ” ہماری جماعت کو چاہیے کہ نیکی میں فرشتوں کی طرح ہو جائے.خدا نے اُن کے لئے ترقی کے بہت سے سامان رکھے ہیں.اور وعدہ کیا ہے کہ جاعل الذین اتبعوك فوق الذين كفروا الى يوم القيامة - سب سے بہتر یہ جماعت ہے، جس نے ہم کو دیکھا.اور ہماری باتوں کوسُنا.خدا کی طرف رجوع کر کے کوئی شخص ذلیل نہیں ہوتا.بدکاروں کی گالیاں تمہارے لئے کسی ذلت کا موجب نہیں.جو شخص سچے دل سے خدا کی طرف آتا ہے.وہی حقیقی عزت حاصل کرتا ہے.“ مسیح موعود کا کام کیا تھا ۱۸ / جنوری ۱۹۰۵ء کو جبکہ میں قادیان کے ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹر تھا.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں ایک رقعہ لکھا تھا.جس کا اصل بمعہ جواب درج کرنا مناسب ہے.امید ہے کہ ناظرین کی دلچسپی کا موجب ہوگا.رقعہ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مُرشد نا و مهدینا مسیح موعود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ صاحبزادہ میاں محمود احمد کا نام برائے امتحان (مڈل ) آج ارسال کیا جائے گا.جس فارم کی خانہ پری کرنی ہے.اس میں ایک خانہ ہے.کہ اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے.میں نے وہاں لفظ نبوت لکھا ہے.

Page 209

194 کان میں طنین ہوتا ہے.گولیوں کا کھانا اگر مناسب ہو، تو ارسال فرمائیں حضوڑا کو بار بار تکلیف دیتے بھی شرم آتی ہے.اگر مناسب ہو، تو اس کا نسخہ تحریر فرما ئیں.میں خود بنالوں.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام.محمد صادق عفا اللہ عنہ ۱۸.جنوری ۱۹۰۵ء جواب السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ نبوت کوئی کام نہیں.یہ لکھ دیں کہ فرقہ احمد یہ جو تین لاکھ کے قریب ہے.اس کے پیشوا اور امام ہیں.اصلاح قوم کام ہے.غلام احمد عفی عنہ پس میں نے اُس فارم پر حضرت کا نام یوں لکھا.National Reformation and leadership of Ahmadiyya (300,000 members.) پورانی نوٹ بک ۱۹۰۵ء فرمایا ”آج کل کے مسلمان عیسی کو امتی بنانا چاہتے ہیں.اور ہم ساری اُمت کو عیسی بنانا ساری اُمت عیسی بن جائے چاہتے ہیں.یہی فرق ہم میں اور اُن میں ہے پورائی نوٹ بک ستمبر، اکتوبر ۱۹۰۵ء تکرار فرمایا ” بعض لوگ طعن کرتے ہیں.کہ میری تحریر میں تکرار ہوتا ہے.جو بات میں ایک دفعہ لکھ چکا ہوتا ہوں وہی پھر لکھ دیتا ہوں.اور لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید میں بھول گیا ہوں.اس واسطے دوبارہ لکھ دیتا ہوں.مگر اصل بات یہ ہے کہ میں تو نہیں بھولتا ، مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ پڑھنے والا نوٹ : ایک دفعہ میں بیمار ہو گیا تھا.معدہ میں کچھ خرابی تھی.بخار ہو جاتا تھا.حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) ایک نسخہ کے تازہ اجزاء ہر روز منگوا کر ایک گولی اپنے دست مبارک سے بنا کر مجھے بھتیجے تھے.اس سے اللہ تعالیٰ نے مجھے شفاء دی.اس کے اجزاء مجھے اس وقت معلوم نہ تھے.بعد میں حضرت صاحب نے مجھے بتلا دیے تھے.(صادق)

Page 210

195 بُھول گیا ہو گا.اس واسطے پھر لکھ دیتا ہوں.“ فرمایا کرتے تھے استخارہ جائز ہے.استخارہ کے معنے خدا سے خبر طلب کرنا.اور استخارہ کے معنے کسی کام میں برکت اور خیر طلب کرنا.“ پورانی نوٹ بک ۱۹۰۵ء زیارت قبور فرمایا ” زیارت قبور میں بھی ثواب ہے.اس سے انسان کو اپنا آخری مقام یاد آ جاتا ہے.چاہئیے کہ انسان اپنے لئے بھی خدا سے دُعا کرے.اور اہل قبر کے واسطے بھی خدا سے دعا کرے.انسان زندہ ہو، یا مر وہ ہر حال میں دُعاء کا محتاج ہے.درود شریف جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر پڑھا جاتا ہے.یہ بھی ایک قسم کی دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی برکات نازل کرے اور اپنی رحمتیں بھیجے.قبور کے دیکھنے سے انسان کا دل نرم ہوتا.اور اپنا انجام یاد آ جاتا ہے.“ پورانی نوٹ بک اگست ستمبر ۱۹۰۵ء مضمون خط سے خبر " ۳۰ ستمبر ۱۹۰۵ ء فرمایا "کل اچانک میری زبان پر جاری ہوا.سینتالیس برس کی عمر " إِنَّا لله وانا اليه راجعون.مجھے مولوی عبد الکریم صاحب کا خیال ہوا.اور ان کے متعلق ہوا.مگر آج ہی ایک شخص کا خط آیا ہے.وہ لکھتا ہے کہ ” میری بُری عادتیں اب تک دُور نہیں ہوئیں.۴۷ برس کی عمر ہے.انا لله و انا اليه راجعون فرمایا ” میرا تجربہ ہے.بعض دفعہ کسی آنے والے کے خط کے مضمون سے پہلے ہی بذریعہ الہام اطلاع ہو جاتی ہے.“ "❝ سب اللہ کے ہاتھ میں ۱۸ ستمبر ۱۹۰۵ء.فرمایا.اللہ تعالیٰ کے کارخانہ میں کسی کا دخل نہیں.چاہے تو لکھ سے فائدہ پہنچا دے.چاہے تو لاکھ سے بھی کچھ حاصل نہ ہو.“ تنکا

Page 211

196 فرمایا ” بعض دفعہ کسی اڑے ہوئے کام کے متعلق دُعاء کی جاتی ہے، تو ہمیں ہمارے بھائی غلام قادر صاحب خواب میں دکھائی دیتے ہیں.اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے.اپنے غلاموں اور بندوں پر فضل کرتا.اور ان کی مشکلات کو دُور کرتا ہے.نام پر بعض دفعہ تعبیر ہوتی ہے.اور جو خواب میں دکھائی دیتا ہے.وہ دراصل فرشتہ ہی ہوتا ہے.ظنی طور پر دوسرے کی صورت دکھائی دیتی ہے.“ فرمایا جو شخص حلم اختیار کرتا ہے.اور جھگڑے سے بچتا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا حق باقی رہتا ہے.اور خدا تعالیٰ اُس کی نصرت کرتا ہے.“ تحریک فرشتگان فرمایا ” دُور دُور سے بیعت کے خطوط آ رہے ہیں.ہماری طرف سے کوئی واعظ نہیں جو اُن لوگوں کو سمجھائے.خود بخو دلوگوں کو تحریک ہو رہی ہے.خدا تعالیٰ کے فرشتے کام کرتے ہیں.“ احمدی با دشاہ فرمایا ” ہمیں ایک دفعہ وہ بادشاہ بھی دکھائے گئے جو اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.وہ دس گیارہ سال کی عمر کے لڑکے تھے.نابالغوں کی سی شکل وصورت.تعداد میں چھ سات تھے.یہ کشف تاویل طلب ہے.حق پھیلانے کا ایک حیلہ فرمایا ”لوگوں کو کسی حیلے سے کتابیں پڑھائی جائیں.مثلاً کتا بیں اس شرط پر مفت تقسیم کی جائیں.کہ کتاب لینے والا امتحان دے.شائد اسی طرح کوئی پڑھے اور حق کو سمجھے.پھر سوالات کے درمیان ایسے سوال کئے جائیں.کہ وفات عیسی کا قطعی ثبوت کیا ہے؟“ اصلاح خون فرمایا ”یونانی میں منڈی بوٹی اور کا ہو کی تعریف کی گئی ہے.یہ اشیاء مصفی خون میں کلورا فارم کے ساتھ ان کا مزہ درست کر لینا چاہئیے“

Page 212

197 لطیف جسم فرمایا ” بعد الموت انسان کو ایک اور جسم عطاء ہوتا ہے.جو اس جسم کے علاوہ ہے.وہ ایک نورانی ، جلالی ، لطیف جسم ہوتا ہے.شہداء کے متعلق بھی لکھا ہے.وہ فوراً داخل جنت ہو جاتے ہیں ، دوسرے مومن بھی.خدا کی راہ میں جو لوگ کسی قسم کی قربانی کرتے ہیں.اور فوت ہو جاتے ہیں.وہ داخل جنت ہو جاتے ہیں.مگر ایک دن تحتی عظیم کا بھی ہے.جس میں حشر اجساد ہوگا.لطیف روحانی جسم کے متعلق ہمارا اپنا ذاتی تجربہ ہے کہ عین بیداری کی حالت میں انسان ہزاروں کوس پر اُس کے ساتھ پہنچ سکتا ہے.اور تمام اعضاء کام کرتے ہیں.اور مر دوں کے ساتھ گفتگو ہوتی ہے.اُسی طرح جیسا کہ زندوں کے ساتھ.ایسا ہی رسُول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج بھی ایک لطیف رُوحانی جسم کے ساتھ عین حالت بیداری میں ہوا تھا.

Page 213

198 باب ہشتم سولہ ڈائریاں مشتمل بر حالات و تقریرات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام تحریر کردہ عاجز راقم جو اخبارات میں چھپتی رہیں بطور نمونہ ڈائر کی حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام جب عاجز راقم 1901ء میں ہجرت کر کے قادیان چلا آیا.تو میری عادت تھی کہ کاغذ پنسل اپنے پاس رکھتا تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی صحبت میں جو باتیں ہوتیں ، انہیں نوٹ کر لیتا.اور بعد میں ترتیب دے کر اخبار میں زیر عنوان ”ڈائری، چھپوا دیتا.اُس وقت سلسلہ حقہ کا ایک ہی اخبار تھا.یعنی الحکم.اُن میں سے سولہ ڈائریاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک صحبتوں اور مقدس کلام کا نمونہ ہیں.درج ذیل کی جاتی ہیں.الہام کے درجات اپریل ۱۹۰۱ء.منشی الہی بخش صاحب وغیرہ لوگوں کی اپنی بعض حالتوں سے دھوکا کھا جانے کی نسبت گفتگو تھی.اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ عام طور پر رؤیاء اور کشف اور الہام ابتدائی حالت میں ہر ایک کو ہوتے ہیں.مگر اس سے انسان کو یہ دھوکا نہ کھانا چاہئیے کہ وہ منزل مقصود کو پہنچ گیا ہے.اصل میں بات یہ ہے کہ فطرت انسانی میں یہ قوت رکھی گئی ہے کہ ہر ایک شخص کو کوئی خواب یا کشف یا الہام ہو سکے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ بعض دفعہ کفار ہنود اور بعض فاسق فاجر لوگوں کو بھی خوا میں آتی ہیں.اور بعض دفعہ سچی بھی ہو جاتی ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود ان لوگوں کے درمیان اس حالت کا کچھ نمونہ رکھ دیا ہے جو کہ اولیاء اللہ اور انبیاء میں کامل طور پر ہوتا ہے.تا کہ یہ لوگ انبیاء کا صاف انکار نہ کر بیٹھیں کہ ہم اس علم سے بے خبر ہیں.اتمام محبت کے طور پر یہ بات ان لوگوں کو دی گئی ہے.تا کہ انبیاء کے دعاوی کوسن کر حریف اقرار کر لے کہ ایسا ہوتا ہے اور ہوسکتا ہے کیونکہ جس بات سے انسان بالکل نا آشنا ہوتا ہے.اس کا وہ جلدی

Page 214

199 سے انکار کر دیتا ہے.مثنوی رومی میں ایک اندھے کا ذکر ہے کہ اُس نے یہ کہنا شروع کیا کہ آفتاب دراصل کوئی شے نہیں.لوگ جھوٹ بولتے ہیں.اگر آفتاب ہوتا تو کبھی میں بھی دیکھتا.آفتاب بولا کہ اے اند ھے.تو میرے وجود کا ثبوت مانگتا ہے.تو پہلے خُدا سے دُعا کر کہ وہ تجھے آنکھیں بخشے.تو اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے.اگر وہ انسان کی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتا ، تو نبوۃ کا مسئلہ لوگوں کی سمجھ میں کیونکر آتا.ابتدائی رؤیا یا الہام کے ذریعہ سے خدا بندہ کو بلا نا چاہتا ہے.مگر وہ اس کے واسطے کوئی حالت قابل تشفی نہیں ہوتی.چنانچہ بلغم کو الہام ہوتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے کہ لَوْ شِئْنَا لرفعناہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کا رفع نہیں ہوا تھا.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور میں وہ کوئی برگزیدہ اور پسندیدہ بندہ ابھی تک نہیں بنا تھا.یہاں تک کہ وہ گر گیا.ان الہامات وغیرہ سے انسان کچھ نہیں بن سکتا.انسان خدا کا بن نہیں سکتا ، جب تک کہ ہزاروں موتیں اس پر نہ آدیں.اور بیضہ بشریت سے وہ نکل نہ آوے.اس راہ میں قدم مارنے والے انسان تین قسم کے ہیں.ایک وہ جو دین العجائز رکھتے ہیں.یعنی بڑھیا عورتوں کا سامذہب.نماز پڑھتے ہیں.روزہ رکھتے ہیں.قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہیں اور توبہ واستغفار کر لیتے ہیں.اُنہوں نے تقلیدی امر کو مضبوط پکڑا ہے وراس پر قائم ہیں.دوسرے وہ لوگ ہیں.جو اس سے آگے بڑھ کر معرفت کو چاہتے ہیں.اور ہر طرح کوشش کرتے ہیں.اور وفاداری اور ثابت قدمی دکھاتے ہیں اور اپنی معرفت میں انتہائی درجہ کو پہنچ جاتے ہیں.اور کامیاب اور بامراد ہو جاتے ہیں.تیسرے وہ لوگ ہیں ، جنہوں نے دین العجائز کی حالت میں رہنا پسند نہ کیا.اور اس سے آگے بڑھے.اور معرفت میں قدم رکھا.مگر اس منزل کو نباہ نہ سکے.اور راہ ہی میں ٹھوکر کھا کر گر گئے.یہ وہ لوگ ہیں ، جو نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے.ان لوگوں کی مثال اُس آدمی کی طرح ہے.جس کو پیاس لگی ہوئی تھی اور اُس کے پاس کچھ پانی تھا.پر وہ پانی گدلا تھا.تاہم اگر وہ پی لیتا تو مرنے سے بچ جاتا.کسی نے اُس کو خبر دی.کہ پانچ سات کوس کے فاصلہ پر ایک چشمہ صاف ہے.پس اُس نے وہ پانی جو اُس کے پاس تھا.پھینک دیا.اور وہ صاف چشمہ کے واسطے آگے بڑھا.پر اپنی بے صبری اور بدبختی اور ضلالت کے سبب وہاں نہ پہنچ سکا.دیکھو اس کا کیا حال ہوا.وہ ہلاک ہو گیا.اور اس کی ہلاکت نہایت ہولناک ہوئی.یا ان حالتوں کی مثال اس طرح ہے کہ ایک کنواں کھودا جا رہا ہے.پہلے تو وہ صرف ایک گڑہا ہے.جس سے کچھ فائدہ نہیں.بلکہ آنے جانے والوں کے واسطے اُس میں گر کر تکلیف اُٹھانے کا خطرہ ہے.پھر وہ اور کھودا گیا.یہاں تک کہ کیچڑ اور خراب پانی تک وہ پہنچا.پر وہ کچھ فائدہ مند نہیں.پھر جب وہ کامل ہوا اور اس کا پانی صاف ہو گیا.تو

Page 215

200 وہ ہزاروں کے واسطے زندگی کا موجب ہو گیا.یہ جو فقیر اور گدی نشین بنے بیٹھے ہیں.یہ سب لوگ ناقص حالت میں ہیں.انبیاء مصفا پانی کے مالک ہو کر آتے ہیں.جب تک خدا کی طرف سے کوئی کچھ لے کر نہ آوے.تب تک بے سود ہے.الہی بخش صاحب اگر موسی بنتے ہیں.تو اُن سے پوچھنا چاہیے کہ اُن کے موسیٰ بننے کی علت غائی کیا ہے.جو لوگ خدا کی طرف سے آتے ہیں وہ مزدور کی طرح ہوتے ہیں.اور لوگوں کو نفع پہنچانے کے لئے قدم آگے بڑھاتے ہیں اور علوم پھیلاتے ہیں.اور کبھی تنگی نہیں کرتے.اور سُست اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھتے.“ (۲) ڈائری امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام الہامی مضامین خطبہ الہامیہ اور تفسیر سورۃ الحمد جو اُن دنوں حضور اقدس علیہ الصلوۃ والسلام لکھ رہے تھے.اس کے متعلق فرمایا.اب ہم اس طرح قلم برداشتہ لکھتے جاتے ہیں.کہ گویا ہمیں معلوم بھی نہیں ہوتا.کہ کیا لکھ رہے ہیں.یہ بھی ایک سلسلہ الہام کا معلوم ہوتا ہے کہ بے تکلف مضامین اور الفاظ آتے جاتے ہیں." تازہ الہامات ۱۸ اپریل 1901ء کو آپ نے ایک الہام سُنایا تھا.سال دیگر را که می داند حساب تا کجا رفت آنکه با ما بو دیار ور مئی ۱۹۰۱ ء کو آپ نے یہ الہام سُنایا: ”آج سے یہ شرف دکھائیں گے ہم تفسیر کون لکھے اس بات کا ذکر آیا کہ آج کل لوگ بغیر بچے علم اور واقفیت کے تفسیریں لکھنے بیٹھ جاتے ہیں.اس پر فر مایا: تفسیر قرآن میں دخل دینا بہت نازک امر ہے.مبارک اور سچا دخل اس کا ہے جو خدا کے رُوح القدس سے مدد لے کر دخل دے.ورنہ علوم مروجہ کی شیخی پر لکھنا دُنیا داروں کی چالاکیاں ہیں.“ پختہ قبر ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ میرا بھائی فوت ہو گیا ہے.میں اس کی قبر یکی بناؤں ، یا نہ بناؤں.فرمایا اگر نمود اور دکھلاؤ کے واسطے پکی قبریں اور نقش و نگار اور گنبد بنائے جاویں.تو یہ حرام

Page 216

201 ہیں.لیکن اگر خشک ملا کی طرح یہ کہا جاوے کہ ہر حالت اور ہر مقام میں کچی ہی اینٹ لگائی جاوے.تو یہ بھی حرام ہے.انما الاعمال بالنيات عمل نیت پر موقوف ہیں.ہمارے نزدیک بعض حالات میں پکی کرنا درست ہے.بعض جگہ سیلاب آتا ہے.بعض جگہ قبر میں سے میت کو گتے اور بجھ وغیرہ نکال لے جاتے ہیں.مُردے کے لئے بھی ایک عزت ہوتی ہے.اگر ایسے وجوہ پیش آجا دیں تو اس حد تک کہ نمود اور شان نہ ہو.بلکہ صدمے سے بچانے کے واسطے قبر کا پختہ کرنا جائز ہے.اللہ اور رسول نے مومن کی لاش کے واسطے بھی عزت رکھی ہے.ورنہ اگر عزت ضروری نہیں.تو غسل دینے کفن دینے خوشبو لگانے کی کیا ضرورت ہے.مجوسیوں کی طرح جانوروں کے آگے پھینک دو.مومن اپنے لئے ذلت نہیں چاہتا.حفاظت ضروری ہے.جہاں تک نیت صحیح ہے.خُدا تعالی مواخذہ نہیں کرتا.دیکھو مصلحت الہی نے یہی چاہا.کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر کے پختہ گنبد ہوں.اور کئی بزرگوں کے مقبرے پختہ ہیں.مثلاً نظام الدین ، فرید الدین ، قطب الدین معین الدین رحمۃ اللہ علیہم.یہ سب صلحاء تھے.“ محرم میں رسومات سے بچو ایک شخص کا تحریری سوال پیش ہوا کہ محرم کے دنوں میں امامین کی رُوح کو ثواب دینے کے واسطے روٹیاں وغیرہ دینا جائز ہے یا نہیں ؟ فرمایا ” عام طور پر یہ بات ہے کہ طعام کا ثواب میت کو پہنچتا ہے.لیکن اس کے ساتھ شرک کی رسومات نہیں چاہئیں.رافضیوں کی طرح رسومات کا کرنا جائز نہیں ہے.“ حالت بیعت ایک شخص کا سوال پیش ہوا.کہ اگر آپ کو ہر طرح سے بزرگ مانا جاوے.اور آپ کے ساتھ صدق اور اخلاص ہو.مگر آپ کی بیعت میں انسان شامل نہ ہو وے.تو اس میں کیا حرج ہے.فرمایا.وو بیعت کے معنے ہیں اپنے تئیں بیچ دینا.اور یہ ایک کیفیت ہے، جس کو قلب محسوس کرتا ہے.جبکہ انسان اپنے صدق اور اخلاص میں ترقی کرتا کرتا اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ اس میں یہ کیفیت پیدا ہو جا وے، تو وہ بیعت کے لئے خود بخود مجبور ہو جاتا ہے.اور جب تک یہ کیفیت پیدا نہ ہو جاوے، تو انسان سمجھ لے.کہ ابھی اس کے صدق اور اخلاص میں کمی ہے.“

Page 217

202 دخل شیطان سے پاک الہام اس بات کا ذکر آیا.کہ لاہوری علماء نے الہی بخش ملہم سے یہ سوال کیا ہے کہ آیا تمہارا الہام تلبیس ابلیس سے معصوم ہے یا نہیں.جس کے جواب میں الہی بخش نے کہا کہ میرا الہام دخلِ شیطان سے پاک نہیں.اس پر حضرت اقدس امام معصوم نے فرمایا: ,, یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس میں کیا سر ہے اور کسی کا الہام یا کشف شیطان کے دخل سے کہاں تک پاک ہوتا ہے.انسان کے اندر دو قسم کے گناہ ہوتے ہیں.ایک وہ جس سے خدا کی نافرمانی دیدہ دانستہ کرتا ہے اور بے باکی سے گناہ کرتا ہے.ایسے لوگ مجرم کہلاتے ہیں.یعنی خدا سے اُن کا بالکل قطع تعلق ہو جاتا ہے.اور شیطان کے ہو جاتے ہیں.اور دوسرے وہ لوگ جو ہر چند بدی سے بچتے ہیں.مگر بعض دفعہ بسبب کمزوری کے کوئی غلطی کر بیٹھتے ہیں.سو جس قدر انسان گنا ہوں کو چھوڑتا.اور خدا کی طرف آتا ہے.اُسی قدر اُس کے خواب اور کشف دخل شیطانی سے پاک ہوتے ہیں.یہاں تک کہ جب وہ اُن تمام دروازوں کو بند کر دیتا ہے جو شیطان کے اندر آنے کے ہیں.تب اس میں سوائے خدا کے اور کچھ نہیں آتا.جب تم سنو کہ کسی کو الہام ہوتا ہے.تو پہلے اُس کے الہامات کی طرف مت جاؤ.الہام کچھ شے نہیں ، جب تک انسان اپنے تئیں شیطان کے دخل سے پاک نہ کرلے اور بیجا تعصبوں اور کینوں اور حسدوں سے اور ہر ایک خدا کو ناراض کرنے والی بات سے اپنے آپ کو صاف نہ کر لے.دیکھو اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک حوض ہے.اور اس میں بہت سی نالیاں پانی کی گرتی ہیں.پھر اُن نالیوں میں سے ایک کا پانی گندہ ہے.تو کیا وہ سب پانی کو گندہ نہ کر دے گا.یہی راز ہے جو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کہا گیا ہے کہ ما ینطق عن الهوى ان هو الا وحي يوحى - ہاں انسان کو ان کمزوریوں کے دُور کرنے کے واسطے استغفار بہت پڑھنا چاہیے.گناہ کے عذاب سے بچنے کے واسطے استغفار ایسا ہے.جیسا کہ ایک قیدی جرمانہ دے کر اپنے تئیں قید سے آزاد کرالیتا ہے.(۳) ڈائری امام علیہ السلام بیعت امرالہی سے ۷ امتی ۱۹۰۱ء.سوال ہوا.کیا آپ دوسرے صوفیا اور مشائخ کی طرح عام طور پر بیعت لیتے ہیں ، یا بیعت لینے کے لئے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہے.فرمایا ” ہم تو امرالہی.کرتے ہیں.جیسا کہ ہم اشتہار میں بھی یہ الہام لکھ چکے ہیں.کہ ان الــذيــن يبايعونك انما

Page 218

203 يبايعون الله.الخ گناہ دُور کرنے کا ذریعہ فرمایا جذبات اور گناہ سے چُھوٹ جانے کے لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرنا چاہئیے.جب سب سے زیادہ خدا کی عظمت اور جبروت دل میں بیٹھ جاوے.تو گناہ دُور ہو جاتے ہیں.ایک ڈاکٹر کے خوف دلانے سے بسا اوقات لوگوں کے دل پر ایسا اثر ہوتا ہے.کہ وہ مر جاتے ہیں.تو پھر خوف الہی کا اثر کیونکر نہ ہو.چاہئیے کہ اپنی عمر کا حساب کرتے رہیں.ان دوستوں کو اور رشتہ داروں کو یاد کریں، جو انہیں میں سے نکل کر چلے گئے.لوگوں کی صحت کے ایام یو نہی غفلت میں گزر جاتے ہیں.ایسی کوشش کرنی چاہئیے.کہ خوف الہی دل پر غالب رہے.جب تک انسان طول امل کو چھوڑ کر اپنے پر موت وارد نہ کر لے.تب تک اس سے غفلت دُور نہیں ہوتی.یہاں تک کہ خدا اپنے فضل سے ٹورنازل کر دے.جوئیدہ یا بندہ.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام بنام مسیح موعود فرمایا ” حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسیح آوے تو اُس کو میرا سلام کہنا.اس حدیث کے مطلب میں غور کرنا چاہئیے.اگر مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود تھے.تو خود حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی ملاقات معراج میں کی تھی.اور نیز حضرت جبریل ہر روز وہاں سے آتے تھے.کیوں نہ اُن کے ذریعہ سے اپنا سلام پہنچایا.اور پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بعد از وفات آسمان پر ہی گئے.اور وہیں پر حضرت مسیح بھی تھے.اور حضرت مسیح کو تو خود رسول کریم کے پاس سے ہو کر زمین پر اترنا تھا.تو پھر اس کے کیا معنے ہوئے ، کہ زمین والے ان کو آنحضرت کا سلام پہنچا ئیں.کیا اس صورت میں حضرت عیسی ان کو یہ جواب نہ دیں گے.کہ میں تو خود ان کے پاس سے آتا ہوں.اور تم یہ سلام کیسا دیتے ہو.یہ تو وہی مثال ہوئی.کہ گھر سے میں آؤں اور خبریں تم دو.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم اور آپ کے اصحاب کا یہی عقیدہ اور مذہب تھا کہ حضرت مسیح فوت ہو گئے اور دنیا میں واپس نہیں آسکتے اور آنے والا مسیح اسی اُمت میں سے بروزی رنگ میں ہوگا.اللهم ايده و انصره واخذل اعداء هـ آمین

Page 219

204 کچی لذت سوال ہوا کہ خواہشات کی طرف لوگ جلد جھک جاتے ہیں.اور ان سے لذت اُٹھاتے ہیں.جن سے خیال ہوسکتا ہے کہ ان میں بھی ایک تاثیر ہے.فرمایا : د بعض اشیاء میں نہاں در نہاں ایک ظل اصلی شے کا آجاتا ہے.وہ ھے طفیلی طور پر کچھ حاصل کر لیتی ہے.مثلاً راگ اور خوش الحانی.لیکن دراصل سچی لذت اللہ تعالیٰ کی محبت کے سوا اور کسی شے میں نہیں ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ دوسری چیزوں سے محبت کرنے والے آخر اپنی حالت سے تو بہ کرتے اور گھبراتے اور اضطراب دکھاتے ہیں.مثلاً ایک فاسق اور بد کار سزا کے وقت اور پھانسی کے وقت اپنے فضل سے پشیمانی ظاہر کرتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والوں کوایسی استقامت عطاء ہوتی ہے کہ وہ ہزار ایذائیں دیئے جائیں ، مارے جائیں قتل کئے جائیں ، وہ ذرا جنبش نہیں کھاتے.اگر وہ ھے جو اُنہوں نے حاصل کی ہے، اصل نہ ہوتی ، اور فطرت انسانی کے مناسب نہ ہوتی ، تو کروڑوں موتوں کے سامنے ایسے استقلال کے ساتھ وہ اپنی بات پر قائم نہ رہ سکتے.یہ اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ فطرت انسانی کے نہایت ہی قریب یہی بات ہے.جو ان لوگوں نے اختیار کی ہے.اور کم از کم قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار آدمیوں نے اپنے سوانح سے اس بات کی صداقت پر مہر لگا دی ہے.“ دنیا میں جنت فرمایا: ”آئندہ زندگی میں مومن کے واسطے بڑی تجلی کے ساتھ ایک بہشت ہے.لیکن اس دنیا میں بھی اس کو ایک مخفی بخت ملتی ہے.یہ جو کہا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لئے بجن یعنی قید خانہ ہے ، اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ابتدائی حالت میں جبکہ ایک انسان اپنے آپ کو شریعت کی حدود کے اندر ڈال دیتا ہے.اور وہ اچھی طرح اس کا عادی نہیں ہوتا.تو وہ وقت اس کے لئے تکلیف کا ہوتا ہے.کیونکہ وہ لا مذہبی کی بے قیدی سے نکل کر نفس کے مخالف اپنے آپ کو احکام الہی کی قید میں ڈال دیتا ہے.مگر رفتہ رفتہ وہ اس سے ایسا انس پکڑتا ہے.کہ وہی مقام اس کے لئے بہشت ہو جاتا ہے.اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو قید خانہ میں کسی پر عاشق ہو گیا ہو.پس کیا تم خیال کرتے ہو.کہ وہ قید خانہ سے نکلنا پسند کرے گا.“

Page 220

205 اپنی زبان میں دُعا سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دُعاء مانگنا جائز ہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں.انسان اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.نماز کے اندر دُعائیں مانگے.کیونکہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے.تا کہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو.کلام الہی کو ضرور عربی میں پڑھو.اور اس کے معنے یاد رکھو، اور دُعاء بے شک اپنی زبان میں مانگو.جولوگ نماز کو جلدی جلدی پڑھتے ہیں.اور پیچھے لمبی دُعائیں کرتے ہیں.وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں.دُعاء کا وقت نماز ہے.نماز میں بہت دُعائیں مانگو.“ حاکم کو بُرا نہ کہو ۱۸ مئی ۱۹۰۱ء فرمایا: ''اگر حاکم ظالم ہو.تو اس کو بُرا نہ کہتے پھرو.بلکہ اپنی حالت میں اصلاح کرو.خدا اس کو بدل دے گا.یا اُسی کو نیک کر دے گا.جو تکلیف آتی ہے.وہ اپنی ہی بد عملیوں کے سبب آتی ہے.ورنہ مومن کے ساتھ خدا کا ستارہ ہوتا ہے.مومن کے لئے خدا تعالیٰ آپ سامان مہیا کر دیتا ہے.میری نصیحت یہی ہے ، کہ ہر طرح سے تم نیکی کا نمونہ بنو.خدا کے حقوق بھی تلف نہ کرو.اور بندوں کے حقوق بھی تلف نہ کرو.“ اوروں کو چندہ دینا ۲۰ مئی ۱۹۰۱ء کہیں سے خط آیا.کہ ہم ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور تبر کا آپ سے بھی چندہ چاہتے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ”ہم تو دے سکتے ہیں اور یہ کچھ بڑی بات نہیں.مگر جبکہ خود ہمارے ہاں بڑے بڑے اہم اور ضروری سلسلے خرچ کے موجود ہیں، جن کے مقابل میں اس قسم کے خرچوں میں شامل ہونا اسراف معلوم ہوتا ہے تو ہم کس طرح سے شامل ہوں.یہاں جو مسجد خدا بنارہا ہے اور وہی مسجد اقصیٰ ہے.وہ سب سے مقدم ہے.اب لوگوں کو چاہیے کہ اس کے واسطے روپیہ بھیج کر ثواب میں شامل ہوں.ہمارا دوست وہ ہے، جو ہماری بات کو مانے نہ وہ کہ جو اپنی بات کو مقدم رکھے.حضرت ابو حنیفہ کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہیں.آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں.اُنہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ نہیں دے سکتا.حالانکہ وہ چاہتے.تو بہت کچھ دے دیتے.اس شخص نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے صرف تبر کا کچھ دے دیجئے.آخر انہوں نے ایک دونی کے قریب سکہ دیا.شام کے وقت وہ شخص دونی لے کر واپس آیا.اور کہنے لگا

Page 221

206 کہ یہ تو کھوٹی نکلی ہے.وہ بہت ہی خوش ہوئے.اور فرمایا.خوب ہوا.دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں.مسجدمیں بہت ہیں.اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے.(۴) ڈائری امام علیہ الصلوۃ والسلام تمثیل عطر جون ۱۹۰۱ ء.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دین کی تائید میں عجیب در عجیب پُر زور مضامین کے لکھے جانے پر گفتگو تھی.فرمایا ” مہوتسو کے جلسہ اعظم مذاہب کے واسطے جب ہم نے مضمون لکھا.تو طبیعت بہت علیل تھی.اور وقت بہت تنگ تھا.اور ہم نے مضمون بہت جلدی کے ساتھ اسی تکلیف کی حالت میں لیٹے ہوئے لکھایا.اس پر خواجہ کمال الدین صاحب نے کچھ نا پسندیدگی کا منہ بنایا.اور پسند نہ کیا کہ مذاہب کے اتنے بڑے عظیم الشان جلسہ میں وہ مضمون پڑھا جاوے.لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مضمون کے غالب رہنے کی خبر دی گئی.اور بالآخر جب وہ مضمون پڑھا گیا.تو مخالفین نے بھی اس جلسہ میں اقرار کیا کہ اسلام کی فتح ہو گئی.شروع میں اس مضمون پر راضی نہ ہونے والے دوست کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کو ایک دفعہ دہلی جانے کا اتفاق ہوا.تو اُسے کہا گیا کہ واپس ہوتے ہوئے ہمارے واسطے فلاں عطار کی دوکان سے عطر کی ایک شیشی لیتے آنا.جب وہ شخص دہلی میں اس عطار کی دوکان پر پہنچا.تو اُس نے دیکھا کہ قسم قسم کے عطر نہایت خوبصورت شیشیوں میں بھرے پڑے ہیں.اور دوکان خوشبو سے مہک رہی ہے.اور لوگ اپنی اپنی ضرورت کے موافق عطر خرید رہے ہیں.پس اُس نے بھی فرمائیش کے مطابق ایک شیشی عطر کی خریدی.پر اس قدر خوشبو دار عطروں کے پاس ہونے کے سبب اس کو اپنی خریدی ہوئی شیشی چنداں خوشبو دار معلوم نہ ہوئی.یہاں تک کہ اُس نے جرات کر کے عطار کو شکایت کے طور پر کہا.کہ یہ شیشی عطر کی تو مجھ کو بہت دور لے جانی ہے.اور لوگ شوق سے آ کر اس کو دیکھیں گے کہ یہ مشہور دوکان سے آئی ہے.پر افسوس کہ تو نے اپنے نام کی عزت کے لائق مجھے عطر نہیں دیا.جو بہت خوشبو دار اور لطیف ہوتا.عطار نے جواب دیا کہ تو اس کو لے جا.اور ایسا نہ سمجھے کہ یہ ادنی عطر ہے.باہر جا کر تو اس کی قدرو قیمت کو معلوم کرے گا.پس وہ وہاں سے چل پڑا.اور اپنے وطن کی راہ لی اور اس شیشی کو اپنے ساتھ رکھا.وہ جس راہ سے گزرتا تھا.اُس راہ پر پیچھے سے آنے والے اس عطر کی خوشبو کو پاتے.اور آپس میں کہتے.کہ یہاں سے کوئی شخص نہایت خوشبو دار عطر لے کر گزرا ہے.

Page 222

207 القادیان یہ بات پیش ہوئی.کہ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضور کے اس الہام (وحی) میں که انا انزلنه قريباً من القاديان لفظ قادیان پرال کیوں آیا ہے.حضرت اقدس امام علیہ السلام نے فرمایا.اول تو اور بھی کئی ایک گاؤں کا نام قادیان ہے.اس واسطے ال آیا ہے.اور دوم یہ کہ یہ لفظ اصل میں قاضیان تھا.یعنی اس گاؤں کا پہلا نام قاضیان تھا.اور اس نام میں خدا تعالیٰ نے ایک پیشگوئی رکھی ہوئی تھی.کہ اس جگہ وہ شخص پیدا ہو گا.جو حکما عد لا ہوگا.اس لئے ایک وضعی مادہ کے محفوظ رکھنے کے واسطے اس لفظ پر ال لایا گیا ہے.تکبر کو توڑو ۳ / جون ۱۹۰۱ء.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کی تعریف میں جو فرمایا ہے: لَو انزلنا هذا القرآن على جبل لرأيته خاشعا متصدعا من خشية الله.اِس آیت کی تفسیر میں حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایک تو اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن شریف کی ایسی تاثیر ہے.کہ اگر پہاڑ پر وہ اُتر تا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا.اور زمین کے ساتھ مل جاتا.جب جمادات پر اس کی ایسی تاثیر ہے.تو بڑے ہی بیوقوف وہ لوگ ہیں.جو اس کی تاثیر سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.اور دوسرے اس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی شخص محبت الہی اور رضائے الہی کو حاصل نہیں کر سکتا.کہ جب تک دو صفتیں اس میں پیدا نہ ہو جائیں.اوّل تکبر کو توڑنا.جس طرح کہ کھڑا ہوا پہاڑ جس نے سر اُونچا کیا ہوا ہوتا ہے.گر کر زمین سے ہموار ہو جائے.اسی طرح انسان کو چاہیئے کہ تمام تکبر اور بڑائی کے خیالات کو دور کرے.عاجزی اور خاکساری کو اختیار کرے.اور دوسرے یہ ہے کہ پہلے تمام تعلقات اس کے ٹوٹ جاویں.جیسا کہ پہاڑ ٹوٹ کر متصد عاً ہو جاتا ہے.اینٹ سے اینٹ جُدا ہو جاتی ہے.ایسا ہی اس کے تعلقات جو موجب گندگی اور الہی نارضامندی کے تھے.وہ سب تعلقات ٹوٹ جائیں.اور اب اس کی ملاقاتیں اور دوستیاں اور محبتیں اور عادتیں صرف اللہ تعالیٰ کے لئے رہ جائیں.“ 66 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام کا مطلب فرمایا ” حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مسیح موعود کو السلام علیکم کہا ہے.اس میں ایک عظیم الشان پیش گوئی تھی.کہ باوجود لوگوں کی سخت مخالفتوں کے اور ان کے طرح طرح کے بد اور

Page 223

208 جانستان منصوبوں کے وہ سلامتی میں رہے گا اور کامیاب ہو گا.ہم کبھی اس بات پر یقین اور اعتقاد نہیں کر سکتے.کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی طور سے سلام فرمایا.آنحضرت کے لفظ لفظ میں معارف اور اسرار ہیں.“ (۵) ڈائری حضرت امام صادق علیہ السلام رُعب عدالت جون ۱۹۰۱ء.عدالتوں کا ذکر اور عدالتوں میں گواہوں کا وکلاء اور حاکموں کے رعب میں آ جانے کا کچھ ذکر ہو رہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ”عدالتوں میں اکثر گواہوں پر حاکموں اور وکیلوں کا ایسا رعب پڑ جاتا ہے کہ وہ انسانوں کے حقوق کو محفوظ نہیں رکھ سکتے.اور کچھ نہ کچھ بیجا اور غلط بات منہ سے نکال دیتے ہیں.جس سے ظلم پیدا ہوتا ہے.عدالتوں کا رعب بھی ایک شرک ہے.اِنَّ الشَّرُكَ لظُلْمٌ عَظِيمٌ " 66 ایک حج کے متعلق رویا فرمایا.بعض انگریز مقدمات کے فیصلہ کرنے میں بہت چھان بین کرتے اور غور سے سوچ سوچ کر فیصلہ کرتے ہیں.قدرت کی بات ہے کہ میں مرزا صاحب ( والد صاحب) کے وقت میں زمینداروں کے ساتھ ایک مقدمہ پر امرتسر میں کمشنر کی عدالت میں تھا.فیصلہ سے ایک دن پہلے کمشنر زمینداروں کی رعایت کرتا ہوا ، اور اُن کی شرارتوں کی پرواہ نہ کر کے عدالت میں کہتا تھا.کہ یہ غریب لوگ ہیں.تم ان پر ظلم کرتے ہو.اس رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ وہ انگریز ایک چھوٹے سے بچہ کی شکل میں میرے پاس کھڑا ہے.اور میں اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہا ہوں.صبح کو جب ہم عدالت میں گئے.تو اس کی حالت ایسی بدلی ہوئی تھی کہ گویا وہ پہلا انگریز ہی نہ تھا.اُس نے زمینداروں کو بہت ہی ڈانٹا.اور مقدمہ کا ہمارے حق میں فیصلہ کیا.اور ہمارا سارا خرچہ بھی اُن سے دلایا.“ وو حاکم کیسا ہو فرمایا.” حاکم کے لئے دین کا ایک حصہ یہ ہے کہ وہ مقدمات میں اچھی طرح غور کرے.تا کہ کسی کا حق تلف نہ ہو جائے.“ احکم الحاکمین کے سامنے کھڑا ہونا فرمایا : ” دیکھو جب تک انسان مستقل مزاج اور ٹھنڈی طبیعت کا نہ ہو.تو ان زمینی حاکموں

Page 224

209 کے سامنے کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے تو کیا حال ہو گا.اُس وقت جبکہ احکم الحاکمین کے سامنے لوگ کھڑے کئے جاویں گے.“ مصلوب بموجب توریت فرمایا تو رات کی رُو سے جو زنا کا نطفہ ہو ، وہ ملعون ہوتا ہے.اور جو صلیب دیا جائے وہ بھی ملعون ہوتا ہے.تعجب ہے، کہ عیسائیوں نے اپنی نجات کے واسطے کفارہ کا مسئلہ گھڑ لیا.اور یہ تسلیم کر لیا کہ یسوع صلیب پر جا کر ملعون ہو گیا.جب ایک لعنت کو اُنہوں نے یسوع کے واسطے روا رکھا ہے.تو پھر دوسری لعنت کو بھی کیوں روا نہیں رکھ لیتے.تا کہ کفارہ زیادہ پختہ ہو جائے.جب لعنت کا لفظ آ گیا.تو پھر کیا ایک اور کیا دو.مگر قرآن شریف نے ان دونوں لعنتوں کا رڈ کیا ہے.اور دونوں کا جواب دیا ہے کہ اُن کی پیدائش بھی پاک تھی.اور اُن کا مرنا عام لوگوں کی طرح تھا.صلیب پر نہ تھا.“ ترک دنیاز فرمایا منتفی خدا تعالیٰ کی طرف جاتا ہے.اور دنیا اس کے پیچھے خود بخود آتی ہے.پر دنیا دار کی خاطر رنج اور تکلیف اُٹھاتا ہے.پھر بھی اُسے دنیا میں آرام نہیں ملتا.دیکھو صحابہ نے دُنیا کو ترک کیا.اور وہ دُنیا میں بھی بڑے مالدار ہوئے.اور عاقبت کا بھی پھل کھایا.“ صادق و کاذب میں پہچان سوال ہوا کہ بعض مخالفین بھی الہامات کا دعوی کرتے ہیں.تو صادق اور کاذب میں کیا شناخت ہوئی.فرمایا.یہ بہت آسان ہے.وہ ہمارے مقابل میں آ کر یہ دعوئی شائع کریں.کہ اگر ہم نیچے ہیں تو ہمارا مخالف ہم سے پہلے مر جائے.تو ہمیں پختہ یقین خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے.کہ اگر ایک دس برس کا بچہ جس کے واسطے زندگی کے تمام سامان موجود ہوں.اور کثیر حصہ اس کی عمر کا باقی ہو دے، یہ دعوی کر کے ہمارے برخلاف کھڑا ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ اُسے ہم سے پہلے موت دے گا.“ (۶) ڈائری امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام تقویٰ کی باریک راہیں جون ۱۹۰۱ء.فرمایا ” تقوی والے پر خُدا کی ایک تجتبی ہوتی ہے.وہ خدا کے سایہ میں

Page 225

210 ہوتا ہے.مگر چاہئیے کہ تقویٰ خالص ہو، اور اس میں شیطان کا کچھ حصہ نہ ہو.ورنہ شرک خُدا کو پسند نہیں.اور اگر کچھ حصہ شیطان کا ہو.تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ سب شیطان کا ہے.خدا کے پیاروں کو جو دکھ آتا ہے.وہ مصلحت الہی سے آتا ہے.ورنہ ساری دُنیا اکٹھی ہو جائے.تو ان کو ایک ذرہ بھر تکلیف نہیں دے سکتی.چونکہ وہ دُنیا میں نمونہ قائم کرنے کے واسطے ہیں.اس واسطے ضروری ہوتا ہے کہ خدا کی راہ میں تکالیف اُٹھانے کا نمونہ بھی لوگوں کو وہ دکھا ئیں.ورنہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے کسی بات میں اس سے بڑھ کر تر در نہیں ہوتا.کہ اپنے ولی کی قبض روح کروں.خدا تعالیٰ نہیں چاہتا کہ اس کے ولی کو کوئی تکلیف آوے.مگر ضرورت اور مصالح کے واسطے وہ دُکھ دیئے جاتے ہیں.اور اس میں خود ان کے لئے نیکی ہے.کیونکہ ان کے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں.اور انبیاء اور اولیاء کے لئے تکلیف اس قسم کی نہیں ہوتی.جیسی کہ یہو د کولعنت اور ذلت ہورہی ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کا اظہار ہوتا ہے.بلکہ انبیاء شجاعت کا ایک نمونہ قائم کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کو اسلام کے ساتھ کوئی دشمنی تھی.مگر دیکھو جنگ حنین میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے.اس میں یہی بھید تھا کہ آنحضرت کی شجاعت ظاہر ہو.جبکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہو گئے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں.ایسا نمونہ دکھانے کا کسی نبی کو موقعہ نہیں ملا.ہم اپنی جماعت کو کہتے ہیں کہ صرف اتنے پر وہ مغرور نہ ہو جاویں.کہ ہم نماز و روزہ کے پابند ہیں.یا موٹے موٹے جرائم مثلاً زنا.چوری وغیرہ نہیں کرتے.ان خوبیوں میں تو اکثر غیر فرقہ کے لوگ مشرک وغیرہ تمہارے ساتھ شامل ہیں.تقویٰ کا مضمون باریک ہے.اس کو حاصل کرو.خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ.جس کے اعمال میں کچھ بھی ریا کاری ہو.خدا اس کے عمل کو واپس الٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے.متقی ہونا مشکل ہے.مثلا اگر کوئی شخص تجھے کہے، کہ تو نے قلم چرایا ہے.تو تو کیوں غصہ کرتا ہے.تیرا پر ہیز تو محض خدا کے لئے ہے.یہ پیش اس واسطے ہوا کہ رو بجق نہ تھا.جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں.وہ متقی نہیں بنتا.معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی طرح ہیں مگر اصل تقویٰ ہے.اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو.بلکہ حصول تقویٰ کے پیچھے لگو.جو متقی ہے، اُسی کے الہامات بھی صحیح ہیں.اور اگر تقو کی نہیں تو الہامات بھی قابلِ اعتبار نہیں.اُن میں شیطان کاحصہ ہوتا ہے.کسی کے تقولی کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو.بلکہ اُس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو.اور اندازہ کرو.سب طرح سے آنکھیں بند کر کے پہلے تقویٰ کے منازل کو

Page 226

211 طے کرو.انبیاء کے نمونہ کو قائم رکھو.جتنے نبی آئے.سب کا مدعا یہی ہے.کہ تقویٰ کی راہ سکھلائیں.ان اولیاءه الا المتقون - مگر قرآن شریف نے تقویٰ کی باریک راہوں کو سکھلایا ہے.کمال نبی کا کمال امت کو چاہتا ہے.چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین تھے.صلی اللہ علیہ وسلم.اس لئے آنحضرت پر کمالات نبوت ختم ہوئے.کمالات نبوت ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم نبوت ہوا.جو خدا تعالیٰ کو راضی کرنا چاہے.اور معجزات دیکھنا چاہے.اور خارق عادت دیکھنا منظور ہو.تو اس کو چاہئیے کہ وہ اپنی زندگی بھی خارق عادت بنالے.دیکھو امتحان دینے والے منتیں کرتے کرتے مدقوق کی طرح بیمار اور کمزور ہو جاتے ہیں.پس تقویٰ کے امتحان میں پاس ہونے کے لئے ہر ایک تکلیف اُٹھانے کے لئے تیار ہو جاؤ.جب انسان اِس راہ پر قدم اُٹھاتا ہے.تو شیطان اس پر بڑے بڑے حملے کرتا ہے.لیکن ایک حد پر پہنچ کر آخر شیطان ٹھہر جاتا ہے.یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کی سفلی زندگی پر موت آ کر وہ خدا کے زیر سایہ ہو جاتا ہے.وہ مظاہر الہی اور خلیفتہ اللہ ہوتا ہے.مختصر خلاصہ ہماری تعلیم کا یہی ہے.کہ انسان اپنی تمام طاقتوں کو خدا کی طرف لگا دے.مسیح ناصری کی پیدائش مسیح کے بن باپ پیدا ہونے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا ” ہمارا ایمان اور اعتقاد یہی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام بن باپ تھے.اور اللہ تعالیٰ کو سب طاقتیں ہیں.نیچری جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اُن کا باپ تھا وہ بڑی غلطی پر ہیں.ایسے لوگوں کا خدا مر دہ خدا ہے.اور ایسے لوگوں کی دُعاء قبول نہیں ہوتی ، جو یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کو بن باپ نہیں پیدا کر سکتا.ہم ایسے آدمیوں کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تمہاری حالتیں ایسی رڈی ہو گئی ہیں کہ اب تم میں کوئی اس قابل نہیں جو نبی ہو سکے.اس واسطے آخری خلیفہ موسوی کو اللہ تعالیٰ نے بن باپ پیدا کیا.اور ان کو سمجھایا کہ اب شریعت تمہارے خاندان سے گئی.اسی کی مثل آج یہ سلسلہ قائم کیا ہے کہ آخری خلیفہ محمدی یعنی مهدی و مسیح کو سیدوں میں سے نہیں بنایا.بلکہ فارسی الاصل لوگوں میں سے ایک کو خلیفہ بنایا.تا کہ یہ نشان ہو کہ نبوت محمدی کی گدی کے دعویداروں کی حالت تقویٰ اب کیسی ہے.“ شخصی تبلیغ پند اں مفید نہیں فرمایا: ” انبیاء کا قاعدہ ہے کہ شخصی تدبیر نہیں کرتے.نوع کے پیچھے پڑتے ہیں.جہاں شخصی

Page 227

212 تدبیر آئی وہاں چنداں کامیابی نہ ہوئی.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ یہ حال ہوا.“ (۷) ڈائری حضرت اقدس امام علیہ السلام تمہید.قادیان آنے کی ضرورت ۱۷ جولائی ۱۹۰۱ء کی رات کو حضرت اقدس مقدمہ دیوار پر گورداسپور گئے ہوئے تھے.اس رات کو گرمی کی مدت تھی.اکثر لوگ بے خوابی سے پریشان ہورہے تھے.آدھی رات کا وقت تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جو جماعت انبیاء کی طرح فطرتا آگ سے پناہ چاہنے والے اور بُر د میں سلامتی چاہنے والے تھے.اپنے بالاخانہ پر ٹہل رہے تھے کہ آپ کو ٹھنڈے پانی کی خواہش ہوئی.کوچہ میں چند نو جوان احتیاطاً حفاظت کے لئے پہرہ دے رہے تھے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.مولوی صاحب نے اُن کو فرمایا.کہ کوئی ایسا با ہمت تم میں ہے.جو تازہ ٹھنڈا پانی کنوئیں سے لائے.ایک جوان حصولِ ثواب کا خواہشمند دوڑا ہوا گیا.اور پانی لے آیا.مگر مولوی صاحب تیسری چھت پر اور دروازے بند.ناچار مولوی صاحب نے اوپر سے کپڑا لٹکا یا.اور پانی اوپر کھینچا.اور مولوی صاحب نے پانی پیا.اور فرمایا کہ اتنی دیر میں پانی کی آب جاتی رہتی ہے.یہ سارا قصہ صرف اس آخری فقرہ کی خاطر میں نے بیان کیا ہے جو حضرت مولوی صاحب کے منہ سے نکلا ہے.اللہ اللہ اگر تم چشمہ کے سر پر بیٹھ کر چشمہ کا پانی پیو.تو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے.اور اگر اس پانی کو دُور لے جاؤ.اور اس پر بہت زمانہ گذر جائے.تو پھر رفتہ رفتہ اس کی کیا حالت ہو جاتی ہے.شریعت کی مثال عالم کشف میں پانی کے ساتھ ہے.دیکھو یہود کا حضرت عیسی کے زمانہ تک کیا حال ہوا.اور پھر نصاری و یہود نے آنحضرت کے وقت کیا کیا.کیا کر تو تیں دکھا ئیں.دُور کیوں جاؤ.اس زمانہ میں مسلمانوں نے حضرت امام مہدی کے ساتھ کیا سلوک کیا.یہ لوگ چشمہ ہدایت سے ایسی نفرت کرنے والے اور دُور بھاگنے والے ہوئے.کہ قرآن کے ہوتے ہوئے ان کے پاس کوئی قرآن نہیں.اور ٹور کے ہوتے ہوئے ان کے درمیان کوئی نو ر نہیں.یہ سب اس وجہ سے ہے کہ یہ لوگ اس چشمہ سے دُور جا پڑے ہیں.ورنہ شریعت کا پانی اب تک ویسا ہی صاف اور پاک ہے.جیسا کہ پہلے تھا.جس کا جی چاہے مسیح موعود کے قدموں میں رہ کر اس بات کو آزما لے.صدق اور اخلاص کے ساتھ اس پاک امام کی صحبت انسان کو کیا کچھ انعام کا مستحق کرتی ہے.اس پاک اور خدا نما مجلس کی گفتگو ایک ادنی سانمونہ تم اس ڈائری میں دیکھتے ہو اور اس کی مثال بھی اسی پانی کی سی ہے.جو چشمہ سے دُور کسی کے

Page 228

213 واسطے بھیجا جاوے.اول تو سب باتوں ، کیفیتوں اور حالات کو انسان لکھ ہی کب سکتا ہے.پھر اگر لکھا بھی جاتا ہے.تو اصل لفظ سارے کے سارے بعینہ کہاں محفوظ رہتے ہیں.بعض دفعہ حضرت اقدس کی بات کا صرف مطلب ہی یا د رہتا.جس کو میں اپنے لفظوں میں لکھ لیتا تھا.اور بعض دفعہ حضرت کے الفاظ بعینہ یاد بھی رہتے تھے.یا اکثر ساتھ ساتھ لکھ لئے جاتے تھے.مگر بہر حال وہ بات کہاں جو موجود میں حاصل ہوتی ہے.حاضر و غائب کیونکر یکساں ہو سکتے ہیں.اپنا حرج کر کے امام کی خدمت میں اکثر آنے والے اور اپنے دنیوی فوائد کو مقدم رکھ کر گھر میں بیٹھ رہنے والے کیونکر برا بر ہو سکتے ہیں.میرے دوستو! اُٹھو کمر ہمت چُست کرو.دُنیا کے خیالات کو لات مارو.دُعا مانگو کہ امام کی خدمت میں اکثر رہنے کی تمہیں توفیق حاصل ہو.اب میں ڈائری شروع کرتا ہوں.ڈائری حافظ محمد یوسف ۱۹ جولائی ۱۹۰۱ ء.حافظ محمد یوسف صاحب کا ذکر آیا کہ بعض باتوں پر اعتراض کرتے تھے.فرمایا ”ان کو تو سرے سے سب باتوں سے انکار ہے.جبکہ قرآن شریف نے صداقت نبوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں لو تقول والی دلیل پیش کی ہے.حافظ صاحب اس سے انکار کرتے ہیں تو پھر کیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ( صلے اللہ علیہ وسلم ) اگر تو اپنی طرف سے کوئی بات بنا کر لوگوں کو سنائے.اور اس کو میری طرف منسوب کرے اور کہے کہ یہ خدا کا کلام ہے.حالانکہ وہ خدا کا کلام نہ ہو تو تو ہلاک ہو جائے گا.یہی دلیل صداقت نبوت محمدیہ مولوی آل حسن صاحب اور مولوی رحمت اللہ صاحب نے نصاری کے سامنے پیش کی تھی، تو وہ اس کا جواب نہ دے سکے.اور اب یہی دلیل قرآنی ہم اپنے دعوی کی صداقت میں پیش کرتے ہیں.حافظ صاحب اور ان کے ساتھی اکبر بادشاہ کا نام لیتے ہیں.مگر یہ ان کی سراسر غلطی ہے.تقول کے معنے ہیں.کہ جھوٹا کلام پیش کرنا.اگر اکبر بادشاہ نے ایسا دعویٰ کیا تھا.تو اس کا کلام پیش کریں جس میں اُس نے کہا ہو.کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ یہ الہام ہوئے ہیں.ایسا ہی روشن دین جالندھری اور دوسرے لوگوں کا نام لیتے ہیں.مگر کسی کے متعلق یہ نہیں پیش کر سکتے.کہ اُس نے کون سے جُھوٹے الہامات شائع کئے ہیں.اگر کسی کے متعلق ثابت شدہ معتبر شہادت کے ساتھ حافظ صاحب یا ان کے ساتھ یہ ثابت کر دیں کہ اُس نے جھوٹا کلام خدا پر لگایا.حالانکہ خدا کی طرف سے وہ کلام نہ ہو.اور پھر ایسا کرنے پر اس نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 229

214 برابر عمر پائی ہو.یعنی ایسے دعوے پر وہ ۲۳ سال زندہ رہا ہو.تو ہم اپنی ساری کتا بیں جلا دیں گے.ہمارے ساتھ کینہ کرنے میں ان لوگوں نے ایسا غلو کیا ہے کہ اسلام پر جنسی کرتے ہیں.اور خدا کے کلام کے مخالف بات کرتے ہیں.گوان کی ایسی بات کرنے سے قرآن جھوٹا نہیں ہوتا.پھر بھی ہم کو جھٹلاتے ہیں.مگر تعصب بُرا ہے.ایسی بات بولتے ہیں.جس سے قرآن شریف پر ز د ہو.ہمارا تو کلیجہ کا نپتا ہے، کہ مسلمان ہو کر ایسا کرتے ہیں.ایک تو وہ مسلمان تھے.کہ بظاہر ضعیف حدیث میں بھی اگر کوئی سچائی پاتے تو اس کو قبول کرتے ، اور مخالفوں پر حجت میں پیش کرتے اور ایک یہ ہیں کہ قرآن کی دلیل کو نہیں مانتے ہم تو حافظ صاحب کو بلاتے ہیں.کہ شائستگی سے خلق و محبت سے چند دن یہاں آ کر رہیں.ہم ان کا حرجانہ دینے کو تیار ہیں.نرمی سے ہمارے دلائل کو نہیں.اور پھر اپنا اعتراض کریں.مولوی احمد اللہ صاحب کو بھی بے شک اپنے ساتھ لائیں.“ براہین احمدیہ کی پیشگوئیوں پر غور بابو محمد صاحب نے عرض کی.کہ حافظ محمد یوسف صاحب اعتراض کرتے تھے کہ مولوی عبدالکریم صاحب نے الحکم میں یہ کفر لکھا ہے کہ یہ وہ احمد عربی ہے.فرمایا ” حافظ صاحب سے پوچھو.کہ براہین احمدیہ میں جو میرا نام محمد لکھا ہے.اور مسیح بھی لکھا ہے.اور تم لوگ اس کو پڑھتے رہے.اور اس کتاب کی تعریف کرتے رہے اور اس کے ریویو میں لمبی چوڑی تحریر میں لکھتے رہے.تو اس کے بعد کونسی نئی بات ہوئی ہے.مولوی نذیر حسین دہلوی نے اس کتاب کے متعلق خود میرے سامنے کہا تھا.کہ اسلام کی تائید میں جیسی عمدہ یہ کتاب لکھی گئی ہے.ایسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی.اس وقت منشی عبد الحق صاحب بھی موجود تھے.اور بابو محمد صاحب بھی موجود تھے.یہ وہ زمانہ براہین کا تھا جبکہ تم خود تسلیم کرتے تھے کہ اس میں کوئی بناوٹ وغیرہ نہیں.اگر یہ خدا کا کلام نہ ہوتا تو کیا انسان کے لئے ممکن تھا کہ اتنی مدت پہلے سے اپنی پڑی جمائے.اور ایسا لمبا منصو بہ سوچے.اب چاہئیے ، کہ یہ لوگ اس نفاق کا جواب دیں.کہ اُس وقت کیوں ان لوگوں کو یہی باتیں اچھی معلوم ہوتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہے.کہ مہدی جو آنے والا ہے.اس کے باپ کا نام میرے باپ کا نام ، اور اس کی ماں کا نام میری ماں کا نام ہوگا.اور وہ میرے خلق پر ہوگا.اس سے آنحضرت کا یہی مطلب تھا کہ وہ میرا مظہر ہو گا.جیسا کہ ایلیاء نبی کا مظہر یو حتا نبی تھا.اس کو صوفی بروز کہتے ہیں.کہ فلاں شخص موسی کا مظہر اور فلاں عیسی کا مظہر ہے.نواب صدیق حسن خان صاحب نے بھی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اخرينَ مِنْهُمُ سے وہ لوگ مراد ہیں.جو مہدی کے ساتھ ہوں گے.اور وہ قائم مقام صحابہ کے ہوں گے

Page 230

215 اور ان کا امام یعنی مہدی قائم مقام حضرت رسُول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوگا.فقط (۸) ڈائری حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام افراط و تفریط کا بدلہ کسی مقام پر ایسی کثرت بارش کا ذکر تھا جس سے بہت نقصان کا اندیشہ ہوا.حضرت نے فرمایا ” جیسا کہ لوگ احکام الہی کے معاملہ میں افراط و تفریط کرتے ہیں.اس کے جواب میں اللہ "❝ تعالیٰ بھی ان کے ساتھ افراط و تفریط کا معاملہ کرتا ہے.وظیفه استغفار ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں.فرمایا ”استغفار بہت پڑھا کرو.اِنسان کی دو ہی حالتیں ہیں.یا تو وہ گناہ ہی نہ کرے.اور یا اللہ تعالیٰ اس کو گناہ کے بد انجام سے بچالے.سواستغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہئیے.ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گذشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہے.اور دوسرا یہ کہ خدا سے تو فیق چاہے کہ آئندہ گنا ہوں سے بچالے.مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا.بلکہ دل سے چاہیے.نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو یہ ضروری ہے.“ تقویٰ سے مُراد کیا ہے فرمایا ” تقویٰ اختیار کرو.تقویٰ ہر چیز کی جڑھ ہے.تقویٰ کے معنی ہیں.ہر ایک بار یک در بار یک گناہ سے بچنا.تقویٰ اس کو کہتے ہیں کہ جس امر میں بدی کا شبہ بھی ہو.اس سے بھی کنارہ کرے.“ دل کی مثال فرمایا ” دل کی مثال ایک بڑی نہر کی سی ہے.جس میں سے اور چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں.جن کو سوا کہتے ہیں.یا راجباہا کہتے ہیں.دل کی نہر میں سے بھی چھوٹی چھوٹی نہریں نکلتی ہیں.مثلاً زبان وغیرہ.اگر چھوٹی نہر یعنی سُوئے کا پانی خراب اور گندہ اور میلا ہو.تو قیاس کیا جاتا ہے.کہ بڑی نہر کا پانی خراب ہے.پس اگر کسی کو دیکھو کہ اس کی زبان یا دست و پا.وغیرہ میں سے کوئی عضو نا پاک ہے تو سمجھو کہ اس کا دل بھی ایسا ہی ہے.غیروں سے علیحدگی کی ضرورت اپنی جماعت کا غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے متعلق ذکر تھا.فرمایا ” صبر کرو اور اپنی

Page 231

216 جماعت کے غیر کے پیچھے نمازمت پڑھو.بہتری اور نیکی اسی میں ہے اور اسی میں تمہاری نصرت اور فتح عظیم ہے.اور یہی اس جماعت کی ترقی کا موجب ہے.دیکھوڑ نیا میں رُوٹھے ہوئے ، اور ایک دوسرے سے ناراض ہونے والے بھی اپنے دشمن کو چار دن منہ نہیں لگاتے.تمہاری ناراضگی اور روٹھنا تو خدا کے لئے ہے.تم اگر ان میں ملے جلے رہے.تو خدا تعالیٰ جو خاص نظر تم پر رکھتا ہے ، وہ نہیں رکھے گا.پاک جماعت جب الگ ہو ، تو اس میں ترقی ہوتی ہے.“ معراج کی حقیقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج کی بابت کسی نے سوال کیا.فرمایا.”سب حق ہے معراج ہوئی تھی.مگر یہ فانی بیداری اور فانی اشیاء کے ساتھ نہ تھی.بلکہ وہ اور رنگ تھا.جبرئیل بھی تو رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تھا.اور نیچے اترتا تھا.جس رنگ میں اُس کا انتر نا تھا.اُسی رنگ میں آنحضرت کا چڑھنا ہوا تھا.نہ اُترنے والا کسی کو اُتر تا نظر آتا تھا نہ چڑھنے والا کوئی چڑھتا ہوا دیکھ سکتا تھا.حدیث شریف میں جو بخاری میں ہے آیا ہے.ثم استیقظ.یعنی پھر جاگ اُٹھے.“ طوفان نوح کی حقیقت حضرت نوح کی کشتی کا ذکر تھا.فرمایا ”بائیبل اور سائنس کی آپس میں ایسی عداوت ہے.جیسی کہ دوسو کنیں ہوتی ہیں.بائیبل میں لکھا ہے کہ وہ طوفان ساری دنیا میں آیا.اور کشتی تین سو ہاتھ لمبی اور پچاس ہاتھ چوڑی تھی اور اس میں حضرت نوح نے ہر قسم کے پاک جانوروں میں سے سات جوڑے اور ناپاک میں سے دو جوڑے ہر قسم کے کشتی میں چڑھائے.حالانکہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اوّل تو اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کیا.جب تک رسول کے ذریعہ سے اس کی تبلیغ نہ کی ہو.اور حضرت نوح کی تبلیغ ساری دُنیا کی قوموں تک کہاں پہنچی تھی.جو سب غرق ہو جاتے.دوم اتنی چھوٹی سی کشتی میں جو صرف تین سو ہاتھ لمبی اور ۵۰ ہاتھ چوڑی ہو.ساری دُنیا کے جانور بہائم چرند پرند سات سات جوڑے یا دو دو جوڑے کیونکر سما سکتے ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کتاب میں تحریف ہے اور اس میں بہت سی غلطیاں داخل ہو گئی ہیں.تعجب ہے کہ بعض سادہ لوح علماء اسلام نے بھی ان باتوں کو اپنی کتابوں میں درج کر لیا ہے.مگر قرآن شریف ہی ان بے معنی باتوں سے پاک ہے.اس پر ایسے اعتراض وارد نہیں ہو سکتے.اس میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے.اور نہ

Page 232

217.ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے.بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی.صرف اس کا ذکر ہے.لفظ اراراٹ جس پر کشتی ٹھیری اصل ارایت ہے.جس کے معنے ہیں.پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں.ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے لفظ جودی رکھا ہے.جس کے معنے ہیں.میرا جو دو کرم.یعنی وہ کشتی میرے جو دو کرم پر ٹھیری.“ جہاد مدافعت کے لئے تھا 66 فرمایا ” نادان مولوی ذرا ذرا بات پر جہاد کا فتویٰ دیتے ہیں.حالانکہ جہاد تو آخر الحیل تھا.یہ اس کو اول الکیل بناتے ہیں.کوئی بدذات کسی طرح بھی باز نہ آوے.تب حکم تھا کہ تلوار چلاؤ.اور یہ بات صاف ہے.جب تمام مسائل سُنائے جائیں.روشن دلائل دئے جاویں.جس پر خدا کا نمک حرام خدا کے نشانات کا منکر باز نہ آوے.اور دین میں سدِ راہ بنے.تو ایسے کے لئے خس کم جہاں پاک کہنا بجا نہیں.پیغمبر خُد اصلی اللہ علیہ وسلم نے خود تلوار نہیں اُٹھائی.صرف مدافعت کے لئے ایسا کیا گیا.اور بیچ یہ ہے کہ پہلے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انہوں نے تلوار اُٹھائی.اور آخر وہ تلوار انہیں کی اُن پر پڑی.“ ایک شخص نے کہلا بھیجا کہ میں ہندوستان سے کوئی مولوی اپنے ساتھ لاؤں گا.جو آپ کے ساتھ گفتگو کرے.مگر مولوی لوگ قادیان آنا پسند نہیں کرتے.آپ بٹالہ میں آجاو یں.فرمایا.قادیان سے وہ لوگ اسی واسطے نفرت رکھتے ہیں کہ میں قادیان میں ہوں.پھر اگر میں بٹالہ میں ہوا، تو بٹالہ اُن کے لئے نفرت کا مقام بن جائے گا قادیان وہ ہمارے پاس نہ ٹھہر میں کسی اور کے پاس جہاں چاہیں ، قیام کریں.یہاں دہرئیے موجود ہیں اُن کے پاس ٹھہریں.ہم بحث کرنا نہیں چاہتے.ہمارا مطلب صرف سمجھا دینا ہے.اگر ایک دفعہ اُن کو تسلی نہ ہو وے.پھر نہیں ، پھر سُنیں.پھرسنیں فرمایا.اس دُنیا سے اُس جہان میں جانے کے لئے مُردوں کے واسطے تو ایک راہ بنا ہوا ہے.اور مُردے ہمیشہ جایا کرتے ہیں.مگر اس کے سوا اور کوئی دوسری سڑک نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح بھی اسی مُردوں والی سڑک کی راہ سے گئے.جو مُردوں میں جا بیٹھے.ورنہ حضرت بیٹی کے پاس کیونکر جا بیٹھے.“ فرمایا.تقویٰ کا اثر اسی دُنیا میں متقی پر شروع ہو جاتا ہے.یہ صرف اُد ہار نہیں نقد ہے.بلکہ جس طرح زہر کا اثر اور تریاق کا اثر فور ابدن پر ہوتا ہے.اسی طرح تقویٰ کا اثر بھی ہوتا ہے.

Page 233

218 (۹) ڈائری حضرت امام علیہ السلام بندش دیوار کی خبر احادیث میں دیوار کے مقدمہ کی فتحیابی پر فرمایا اس دیوار کی وجہ سے قریباً ڈیڑھ سال راستہ بند رہ کر ایک محاصرہ ہم پر رہا ہے.اس کی خبر بھی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.جو حدیث میں موجود ہے.“ آسمان سے مُراد اس بات پر کہ حدیث میں آیا ہے کہ مسیح کا نزول ہوگا.فرمایا ” جو شے اُوپر سے یعنی آسمان سے نازل ہوتی ہے.سب کی نظریں اُس کی طرف پھر جاتی ہیں اور سب آسانی سے اُس کو دیکھ سکتے ہیں.اور وہ چیز جلد مشہور ہو جاتی ہے.پس اس لفظ میں ایک استعارہ ہے کہ مسیح کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر دے گا.کہ بہت جلد اس کی شہرت ہو گی.چنانچہ یہ امر اس زمانہ کے اسباب ریل، ڈاک، مطبع وغیرہ سے ظاہر ہے.“ قرآن کا فی بیچ فرمایا ”گل چیزیں قرآن شریف میں موجود ہیں.اگر انسان عقلمند ہو.تو اس کے لئے وہ کافی ہے.“ قرآن شریف میں آئندہ کی ضروریات موجود ہیں فرمایا یوروپین لوگ جب معاہدہ کرتے ہیں تو اس کی ترکیب عبارت ایسی رکھ دیتے ہیں کہ دراز عرصہ کے بعد بھی نئی ضرورتوں اور واقعات کے پیش آنے پر بھی اس میں استدلال اور استنباط کا سامان موجود 66 ہوتا ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں آئندہ کی ضرورتوں کے مواد اور سامان موجود ہیں.“ نظر نیچی رکھو فرمایا ” مومن کو نہیں چاہئیے کہ دریدہ دہن بنے ، یا بے محابا اپنی آنکھ کو اُٹھائے پھرے.66 بلك يغضوا من ابصار هم پر عمل کر کے نظر نیچی رکھنی چاہئیے اور بدی کے اسباب سے بچنا چاہئیے.“ تقلید کی ضرورت ایک دفعہ ایک واعظ ایسے طرز پر حضرت کے سامنے گفتگو کرتا تھا کہ گویا اس کے نزدیک

Page 234

219 حضرت بھی فرقہ وہابیہ کے طرفدار ہیں.اور اپنے تئیں بار بارحنفی اور وہابیوں کا دشمن ظاہر کرتا تھا، اور کہتا تھا کہ حق کا طالب ہوں.اس پر حضرت نے فرمایا اگر کوئی محبت اور آہستگی سے ہماری باتیں سنے.تو ہم بڑی محبت کرنے والے ہیں.اور قرآن اور حدیث کے مطابق ہم فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی اس طرح فیصلہ کرنا چاہے کہ جو امر قرآن شریف اور احادیث صحیحہ کے مطابق ہو.اُسے قبول کر لے گا اور جو ان کے برخلاف ہو.اُسے رد کر دے گا.تو یہ امر عین سرور عین مدعا ہے.اور عین آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.ہمارا مذہب وہابیوں کے برخلاف ہے.ہمارے نز دیک تقلید کو چھوڑ نا ایک اباحت ہے.کیونکہ ہر ایک شخص مجتہد نہیں ہے.ذرا سا علم ہونے سے کوئی متابعت کے لائق نہیں ہو جاتا.کیا وہ اس لائق ہے کہ سارے متقی اور تزکیہ کرنے والوں کی تابعداری سے آزاد ہو جاوے.قرآن شریف کے اسرار سوائے مطہر اور پاک لوگوں کے اور کسی پر نہیں کھولے جاتے.ہمارے ہاں جو آتا ہے.اُسے پہلے ایک حنیفیت کا رنگ چڑھانا پڑتا ہے.میرے خیال میں یہ چاروں مذہب اللہ تعالیٰ کا فضل ہیں.اور اسلام کے واسطے ایک چار دیوار.اللہ تعالیٰ نے اسلام کی حمایت کے واسطے ایسے اعلیٰ لوگ پیدا کئے.جو نہایت متقی اور صاحب تزکیہ تھے.آج کل کے لوگ جو بگڑتے ہیں.اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ اماموں کی متابعت چھوڑ دی گئی ہے.خدا تعالیٰ کو دو قسم کے لوگ پیارے ہیں.اول وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے خود پاک کیا اور علم دیا.دوم وہ جو ان کی تابعداری کرتے ہیں.ہمارے نزدیک ان لوگوں کی تابعداری کرنے والے بہت اچھے ہیں.کیونکہ ان کو تز کیہ نفس عطاء کیا گیا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے قریب کے ہیں.میں نے خود سُنا ہے کہ بعض لوگ امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے حق میں سخت کلامی کرتے ہیں.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے.“ ایک الہام ازنوٹ بک مولوی شیر علی صاحب ) ۱۵ اگست ۱۹۰۱ء کی صبح کو الہام ہوا: وانی ارای بعض المصائب تنزل.(۱۰) ڈائری حضرت امام آخر الزمان علیہ السلام ۲۶ / اگست ۱۹۰۱ء.صبح بوقت سیر.فرمایا اچھی زندگی وہ ہے.جوعدہ ہو.اگر چہ تھوڑی ہو.

Page 235

220 حضرت نوح کے مقابلہ میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر بہت تھوڑی تھی.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نہایت مفید تھی.تھوڑے سے عرصہ میں آپ نے بڑے بڑے مفید کام کئے.انبیاء کے اقوال میں ایک اثر ہوتا ہے.وہ اپنے ساتھ قوت قدسیہ رکھتے ہیں.یہ قوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے زیادہ تھی.دیکھو.ایک آدمی کو راہ پر لانا اور سمجھانا کیسا مشکل ہوتا ہے.مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل کروڑوں آدمی راہ پر آ گئے.اس وقت دنیا میں تمام مذاہب کے مقابلہ پر سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے.بعض جغرافیہ دانوں نے مسلمانوں کی تعداد کم لکھی ہے.مگر محققین نے بڑے بڑے ثبوت دے کر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے.کسی بات کا اثر دوطرح پر ہوتا ہے.اعتقاداً و عملاً.اعتقادی طور پر سارے مسلمان کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ پر قائم ہیں.اور عملی طور پر مثلا سو رکا نہ کھانا تمام مسلمانوں میں خواہ وہ کسی فرقہ یا ملک کے ہوں.سب میں نہایت شدت کے ساتھ اس پر عمل ہوتا ہے.بدی کے ارتکاب میں سے جھوٹ بولنا سب سے زیادہ آسان اور جلدی ہو سکنے والا ہے.کیونکہ زناء چوری وغیرہ کے واسطے قوت ، مال، ہمت ، دلیری چاہئیے.مگر جھوٹ کے واسطے کسی چیز کی ضرورت نہیں.صرف زبان ہلا دینی پڑتی ہے.باوجود اس کے صحابہ میں جھوٹ ثابت نہیں.آنحضرت کے صحابہ میں سے کسی نے بھی جھوٹ نہیں بولا.دیکھو کتنا بڑا اثر ہے.لیکن اس کے مقابل حضرت عیسی کے حواریوں کو دیکھو.اپنے نبی کا عین اُس کی گرفتاری کے وقت انکار کر دیا.ایک نے تمیں روپے لے کر اس کو پکڑوا دیا.ایک حواری کہتا ہے کہ مسیح نے اتنے نشان دکھائے، کہ اگر لکھے جاویں.تو دنیا میں نہ سمائیں.دیکھو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے.جو باتیں اس دُنیا میں ہوئیں، اور دکھاتے وقت سما گئیں.وہ بعد میں کیونکر نہ سماسکتیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں سب سے زیادہ قبول ہوئیں.“ شرائط قبولیت دعا فرمایا ” قبولیت کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے.تب کسی کے واسطے دُعا قبول ہوتی ہے.شرط اول یہ ہے کہ اتقا ہو.یعنی جس سے دُعا کرائی جائے وہ دُعا کرنے والا متقی ہو.تقویٰ احسن و اکمل طور پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا.آپ میں کمال تقویٰ تھا.اصل تقویٰ کا یہ ہے کہ انسانیت عبودیت کو چھوڑ کر الوہیت کے ساتھ ایسا مل جاوے.جیسا کہ لکڑی کے تختے دیوار کے ساتھ مل کر ایک ہو جاتے ہیں.اُس کے اور خُدا کے درمیان کوئی شے حائل نہ رہے.امور تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک یقینی بدیہی یعنی ظاہر دیکھنے میں ایک بات بُڑی یا بھلی ہے.دوم یقینی نظری، یعنی ایسا یقین تو نہیں.مگر پھر بھی نظری طور پر دیکھنے میں وہ امرا اچھا یا بُرا ہو.سوم وہ امور جو مشتبہ ہوں.یعنی ان

Page 236

221 میں شبہ ہو کہ شاید یہ بُرے ہوں.پس متقی وہ ہے کہ اس احتمال اور شبہ سے بھی بچے.اور تینوں مراتب کو طے کرے.حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ شبہ اور احتمال سے بچنے کے لئے ہم دس باتوں میں سے نو باتیں چھوڑ دیتے ہیں.چاہئیے کہ احتمالات کا سدِ باب کیا جاوے.دیکھو ہمارے مخالفوں نے اس قدر تائیدات اور نشانات دیکھے ہیں کہ اگر اُن میں تقویٰ ہوتا.تو کبھی رُوگردانی نہ کرتے.ایک کریم بخش کی گواہی ہی دیکھو.جس نے رورو کر اپنے بڑھاپے کی عمر میں جبکہ اُس کی موت بہت قریب تھی.یہ گواہی دی کہ ایک مجذوب گلاب شاہ نے پہلے سے مجھے کہا تھا کہ عیسی قادیان میں پیدا ہو گیا ہے اور وہ لدھیانہ میں آوے گا ، اور تو دیکھے گا کہ مولوی اس کی کیسی مخالفت کریں گے.اس کا نام غلام احمد ہو گا.دیکھو یہ کیسی صاف پیشگوئی ہے جو اس مجذوب نے کی.کریم بخش کے پابند صوم وصلوٰۃ ہونے اور ہمیشہ سچ بولنے پر سینکڑوں آدمیوں نے گواہی دی.جیسا کہ ازالہ اوہام میں مفصل درج ہے.اب کیا تقویٰ کا یہ کام ہے کہ اس گواہی کو جھٹلایا جاوے.تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعرلکھ رہے تھے.اس میں ایک مصرع الہامی درج ہوا.وہ یہ ہے: ” ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے الہامی مصرعہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے“ اس میں دوسرا مصرع الہامی ہے.جہاں تقویٰ نہیں ، وہاں حسنہ حسنہ نہیں.اور کوئی نیکی نیکی نہیں.اللہ تعالی قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے.هُدًى لِلْمُتَّقِینَ.قرآن بھی انہی لوگوں کی ہدایت کا موجب ہوتا ہے، جو تقویٰ اختیار کریں.ابتداء میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسد اور بخل سے قرآن شریف کو نہ دیکھیں، بلکہ ٹو ر قلب کا تقوی ساتھ لے کر صدق نیت سے قرآن شریف کو پڑھیں.دوسری شرط قبولیت دُعاء کے واسطے یہ ہے کہ جس کے واسطے انسان دُعاء کرتا ہو.اُس کے لئے قلب میں اضطرار پیدا ہو.من يجيب المضطر اذا دعاہ.صاف وقت ، لیلۃ القدر کے معنے تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفی میسر آوے.ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو.قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے.یہاں لیلۃ القدر کے تین معنے ہیں.اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر کی ہوتی ہے.دوم یہ کہ

Page 237

222 رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا.یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے بعد وہ زمانہ آیا.جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا.کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا.بلکہ اُس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں.اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں.سوم لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفی ہے.تمام وقت یکساں نہیں ہوتے.بعض وقت رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کو کہتے.کہ ارحنا یا عائشہ.یعنی اے عائشہ مجھ کو راحت و خوشی پہنچا.اور بعض وقت آپ بالکل دُعاء میں مصروف ہوتے.جیسا کہ سعدیؒ نے کہا ہے.وقت چنیں بودے کہ بجبرئیل و میکائیل پر داختے و دیگر وقت با حفصہ وزینب در ساختے.جتنا جتنا وقت اِنسان خدا کے قریب آتا ہے.یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے.چوتھی شرط یہ ہے کہ پوری مدت دعا کی حاصل ہو.یہاں تک خواب یا وحی سے اللہ تعالیٰ خبر دے.محبت وا خلاص والے کو جلدی نہیں چاہئیے.بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیئے.(۱۱) ڈائری حضرت امام آخرالزمان علیہ السلام مخالفین کے اقسام ۲۸ / اگست ۱۹۰۱ء کی صبح کو حضرت نے فرمایا کہ ہمارے مخالف دو قسم کے لوگ ہیں.ایک تو مسلمان مملا مولوی وغیرہ.دوسرے عیسائی انگریز.دونوں اس مخالفت میں اور اسلام پر نا جائز حملے کرنے میں زیادتی کرتے ہیں.آج ہمیں ان دونوں قوموں کے متعلق ایک نظارہ دکھایا گیا اور الہام کی صورت پیدا ہوئی.مگر اچھی طرح یاد نہیں رہا.انگریزوں وغیرہ کے متعلق اس طرح سے تھا کہ اُن میں بہت لوگ ہیں ، جو سچائی کی قدر کریں گے.اور ملا مولویوں وغیرہ کے متعلق یہ تھا کہ اُن میں سے اکثر کی قوت مسلوب ہو گئی ہے.“ دُعاء میں رقت آمیز الفاظ دُعاء کے متعلق ذکر تھا.فرمایا.دُعاء کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں.یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دُعاؤں کے ایسے پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے.اور حقیقت کو نہ پہچانے.اتباع سنت ضروری ہے مگر تلاش رقت بھی اتباع سنت ہے.اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو ، دعا کرو.تا کہ دعا میں جوش پیدا ہو.الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے.حقیقت پرست بننا چاہیے.مسنوں دُعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہئیے.مگر حقیقت کو پاؤ.ہاں جس کو زبان عربی

Page 238

223 سے واقفیت اور فہم ہو ، وہ عربی میں پڑھے.“ حقہ نوشی کہ نوشی کے متعلق ذکر تھا.فرمایا اس کا ترک اچھا ہے.ایک بدعت ہے منہ سے بو آتی ہے.ہمارے والد صاحب مرحوم اس کے متعلق ایک شعر اپنا بنایا ہوا پڑھا کرتے تھے.جس سے اس کی بُرائی ظاہر ہوتی ہے.رویائے قے ۲۶ یا ۲۷ / اگست یا اس کے قریب ایک دن حضرت نے فرمایا ”ہم نے رویا میں دیکھا ہے کہ ایک شخص نے مئے کی ہے اور اس پر کپڑا دے کر اس کو چھپاتا ہے.“ جُھوٹی کرامتیں ایک صاحب جن کے خاندان میں پیری مریدی کا سلسلہ مدت سے چلا آتا ہے.اور ہزاروں ان کے مُرید ہیں.اور وہ خود بھی پیر تھے.مگر ان سلسلوں کو ترک کر کے اس سلسلہ ا میں شامل ہیں.اُنہوں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ زمانہ پیری میں ہم لوگوں کی اکثر جھوٹی کرامتیں مشہور تھیں.اور بہت لوگ ہمارے مُرید اور معتقد تھے.میں نے ایک دفعہ اپنے بھائی سے ذکر کیا.اور دل میں کئی بار خطرہ گذرا کہ ہمارے والد صاحب کی جو کرامتیں مشہور ہیں ، وہ بھی اسی طرح کی ہوں گی.جس طرح کہ ہماری ہیں.پھر ہم نے سوچا، کہ شیخ عبد القادر جیلانی اور دوسرے بزرگوں کا بھی یہی حال ہو گا.غرض میں اسی خیال میں ترقی کرتا ہوا قریب تھا کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی بدگمان ہو جاتا.اور معاذ اللہ خدا تعالیٰ کا بھی انکار کر دیتا کہ خوش قسمتی سے آپ کی زیارت نصیب ہوئی.اور حق مل گیا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ ” بے شک ان گدی نشینوں اور اس قسم کے پیروں کے ایمان خطرہ میں ہیں.لیکن اس قسم کی جھوٹی کرامتیں دکھانے والے اور جھوٹی کرامتوں کے مشہور ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیئے کہ سب جھوٹے ہی ہیں.اور تمام سلسلہ اولیاء کا اور بزرگانِ دین کا سب مکاری اور فریب پر مبنی تھا.بلکہ ان جھوٹے ولیوں کا وجود اس بات کا ثبوت ہے کہ دُنیا میں بچے ولی بھی ضرور ہیں.کیونکہ جب تک کوئی سچی بات نہ ہو.تب تک جھوٹی بات نہیں بنائی جاتی.مثلاً اگر دنیا میں سچا اور اصل سونا نہ ہوتا.تو کیمیا گر کبھی

Page 239

224 جُھوٹا سونا نہ بنا تا.اگر بچے ہیرے اور موتی کانوں سے نہ نکلتے.تو جھوٹے ہیرے اور موتی بنانے کا خیال کسی کو نہ پیدا ہوتا.ان جھوٹوں کا ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ بچے ضرور ہیں.خدائی تلوار و الا الهام ۲ ستمبر ۱۹۰۱ء.فرمایا.آج ہم نے رویاء میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کا دربار ہے اور ایک مجمع ہے.اور اس میں تلواروں کا ذکر ہو رہا ہے.تو میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے کہا کہ سب سے بہتر اور تیز تلوار وہ تلوار ہے.جو تیری تلوار میرے پاس ہے.اس کے بعد ہماری آنکھ کھل گئی.اور پھر ہم نہیں سوئے.کیونکہ لکھا ہے کہ جب مبشر خواب دیکھو ، تو اس کے بعد جہاں تک ہو سکے نہیں سونا چاہئیے 66 اور تلوار سے مراد یہی حربہ ہے جو کہ ہم اس وقت اپنے مخالفوں پر چلا رہے ہیں جو آسمانی حربہ ہے.“ فلسفی اور نبی میں فرق فرمایا : ” فلسفی میں اور نبی میں یہ فرق ہے.کہ فلسفی کہتا ہے، کہ خدا ہونا چاہیئے.نبی کہتا ہے، 66 خُدا ہے، فلسفی کہتا ہے، کہ دلائل ایسے موجود ہیں کہ خدا کا وجو دضرور ہونا چاہئیے.نبی کہتا ہے کہ میں نے خود خُدا سے کلام کیا ہے اور مجھے اُس نے بھیجا ہے اور میں اس کی طرف سے اس کو دیکھ کر آیا ہوں.“ (۱۲) ڈائری حضرت امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام فتحیابی کی چابی ستمبر ۱۹۰۱ء.نبی بخش بٹالوی کا ذکر آیا کہ اُس نے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا.اور ایک اخبار نکالنے کا ارادہ کیا ہے.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا ” بعض لوگ انبیاء اور مرسلین من اللہ کی کامیابیوں کو دیکھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید ان لوگوں کی کامیابی بسبب اُن کی لفاظیوں اور قوت بیانیوں اور فصاحتوں اور بلاغتوں کے ہے آؤ ہم بھی ایسا ہی کریں.اور اپنا سلسلہ جما لیں.مگر وہ لوگ غلطی کھاتے ہیں.انبیاء کی کامیابی بسبب اس تعلق کے ہوتی ہے.جو ان کو خدا کے ساتھ ہوتا ہے.آدم سے لے کر آج تک کسی کو تقویٰ کے سوا فتح نہیں ہوئی.فتح کی کنجی خدا کے ہاتھ میں ہے.فتح صرف اسی کو ہو سکتی ہے جس کا قدم تقویٰ میں سب سے بڑھ کر ہے.تقویٰ کا پو دا قائم ہو جائے.تو اس کے ساتھ زمین و آسمان الٹ سکتے ہیں.

Page 240

225 ان مسلمانوں پر افسوس فرمایا.مسلمانوں پر افسوس ہے کہ انہوں نے یہ تو مان لیا کہ آخری زمانہ کے یہود یہی مسلمان ہوں گے.پھر یہ نہ مانا کہ آخری زمانہ کا مسیح بھی ان میں سے ہوگا.گویا ان کے نزدیک امت محمد یہ میں صرف شر ہی رہ گیا ہے اور خیر کچھ بھی نہیں.“ خُدا نے مسیح موعود کے حق میں کیا کہا کسی نے ذکر کیا کہ نبی بخش بٹالوی کہتا ہے.کہ مولوی عبد الکریم صاحب اپنے خطبوں میں مرزا صاحب کے متعلق بڑا غلو کرتے ہیں.اور اسی پر مرزا صاحب نے یہ سمجھ لیا کہ ہما را درجہ بڑا ہے.فرمایا ” براہین احمدیہ کے زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب کہاں تھے.اس میں جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے.قل ان کنتم تحبون الله فاتبعوني يحببكم الله.اور انت منی بمنزلۃ توحیدی و تفریدی اور تیرا مخالف جہنم میں گرے گا وغیرہ.مولوی عبد الکریم صاحب اس کے مقابلہ میں کیا کر سکتے ہیں ، جو خُدا نے کہا ہے.“ فرمایا.انبیاء کے کلام میں الفاظ کم ہوتے ہیں ، اور معانی بہت.“ پانچ ہزار دعا قبول فرمایا ”جس قدر دعا ئیں ہماری قبول ہو چکی ہیں.وہ پانچ ہزار سے کسی صورت میں کم نہیں.“ شیطان کی ہلاکت کا وقت فرمایا ” شیطان نے آدم کو مارنے کا منصوبہ کیا تھا.اور اس کا استیصال چاہا تھا.پھر شیطان نے خدا سے مہلت چاہی.اور اس کو مہلت دی گئی.الی وقت المعلوم.بہ سبب اس مہلت کے کسی نبی نے اس کو قتل نہ کیا.اس کے قتل کا وقت ایک ہی مقررتھا.کہ وہ مسیح موعود کے ہاتھ سے قتل ہو.اب تک وہ ڈاکوؤں کی طرح پھرتا رہا.لیکن اب اس کی ہلاکت کا وقت آ گیا ہے.اب تک اخیار کی قلت اور اشرار کی کثرت تھی.لیکن شیطان ہلاک ہو گا اور اخیار کی کثرت ہوگی.اور اشرار چوہڑ ھے چماروں کی طرح ذلیل بطور نمونہ کے رہ جائیں گے.“ مسلمانوں میں دو غیرتیں فرمایا : ” اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو بہشت و دوزخ کی امید وہیم سے ہوتے ہیں.دو باتیں مسلمانوں میں طبعی جوش کے طور پر اب تک موجود ہیں.ایک سور کے گوشت کی حرمت

Page 241

226 خواہ مسلمان کیسا ہی فاسق ہو.سور کے گوشت پر ضرور غیرت دکھائے گا.اور دوسرے حرمین شریفین کی عزت.یہی وجہ ہے کہ کسی قوم کو یہ جرات نہیں ہو سکتی.کہ حرمین پر ہاتھ ڈالنے کی دلیری کرے.“ شیطان کا وجود اس بات کا ذکر ہوا کہ نیچری لوگ شیطان کے ہونے کے منکر ہیں.حضرت نے فرمایا انسان کو اپنی حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئیے.احق بالامن وہ لوگ ہیں.جو خدا کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں.اور اس کی ماہیت و حقیقت کو حوالہ بخدا کرتے ہیں.اب دیکھو، چار چیزیں غیر مرئی بیان ہوئی ہیں.خدا ، ملائک ، ارواح شیطان یہ چاروں چیزیں لا یدرک ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ان میں سے خدا اور رُوح کو تو مان لیا جاوے.اور ملائک اور شیطان کا انکار کیا جاوے.اِس اِنکار کا نتیجہ تو رفتہ رفتہ حشر اجساد کا انکار.اور الہام کا انکار، اور خدا کا انکار ہوگا.اور ہوتا ہے.بسا مر تبہ انسان نیکی کا ارادہ کرتا ہے.مگر اُسے جذبات کہاں سے کہاں لے جاتے ہیں.اور باوجود عقل اور سمجھ کے بے اختیار سا ہو کر فسق و فجور میں گرتا ہے.یہ کشاکش کیا ہے.خدا نے انسان کو اِس مسافر خانہ میں بڑے بڑے قومی کے ساتھ بھیجا ہے.چاہئیے کہ یہ ان سب سے کام لے.“ حشر اجساد فرمایا : ” حشر اجساد پر جو لوگ تعجب کرتے ہیں.اُن سے سوال کرنا چاہئیے کہ پہلی پیدائش میں جبکہ اُس نے نطفہ سے انسان بنایا.کون سی آسانی تھی ، کہ وہ تو ہو گیا اور دوسری پیدائش میں اس کے مقابل کونسی مشکل ہوگی ، جو خدا نہ کر سکے گا.“ مصفا کنوئیں کی تمثیل فرمایا.”انسان کو چاہئیے کہ تمام دنیا کو کالعدم جانے.نہ کسی تعریف سے خوش ہو.اور نہ کسی ہجو سے غمگین ہو.نور کا طالب ہو.اور اس کنوئیں کی طرح ہو جاوے.جس میں مصفا پانی بھرا ہو.ایک ایسا نکتہ اس کے دل میں آجاوے.کہ سوائے خدا کے اور کوئی اُس کا نہیں ہے.اس وقت یہ جانے کہ آج میری زندگی کا پہلا دن ہے.“ رحمانیت کا کام فرمایا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جس کا ذکر دُعائے سورۃ فاتحہ میں ہے کہ الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحیم.رحمن سے مُراد ہے وہ خدا جو ایسے لوگوں کو مطلب پر پہنچا دیتا ہے.جن کے لئے کوئی سبب نہ ہو.وہ شخص جو چاروں طرف سے بالکل نا امید ہو گیا ہے.وہ جو اپنی

Page 242

227 ذمہ داریوں میں بالکل نکما نکلا ہے.وہ جو بالکل یاس میں ہے.اس کا کام بنانے والا رحمن ہے.وہ جس کی کشتی ٹوٹ گئی ہے اور وسط دریا میں گرا پڑا ہے اور اس کا کوئی ساتھی نہیں جو اُ سے بچاوے اور اس کے ہاتھ اور پاؤں نہیں کہ وہ دُوسرا قدم آگے کو مارے.کون ہے جو اُ سے بچاوے.وہ خدا کی صرف رحمانیت کے رحم سے بچ سکتا ہے.“ دینی امتحان فرمایا ” دسمبر کے آخر میں جو احباب کے واسطے امتحان تجویز ہوا ہے.اس کو لوگ معمولی بات خیال نہ کریں.اور کوئی اسے معمولی عذر سے نہ ٹال دے.یہ ایک بڑی عظیم الشان بات ہے اور چاہئیے کہ لوگ اس کے واسطے خاص طور پر اس کی تیاری میں لگ جاویں.(۱۳) ڈائری حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام غیروں کے پیچھے نماز منع ۱۰ر دسمبر ۱۹۷ء.سید عبداللہ صاحب عرب نے سوال کیا کہ میں اپنے ملک عرب میں جاتا ہوں.وہاں میں ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں.فرمایا.” مصدقین کے سوا کسی کے پیچھے نماز نہ پڑھو.“ عرب صاحب نے عرض کیا.وہ 66 لوگ حضور کے حالات سے واقف نہیں ہیں اور ان کو تبلیغ نہیں ہوئی.فرمایا.ان کو پہلے تبلیغ کر دینا.پھر وہ مصدق ہو جائیں گے یا مکذب‘ عرب صاحب نے عرض کیا کہ ہمارے ملک کے لوگ بہت سخت ہیں.اور ہماری قوم شیعہ ہے.فرمایا ” تم خدا کے بنو.اللہ تعالیٰ کے ساتھ جس کا معاملہ صاف ہو جاوے.اللہ تعالیٰ آپ اس کا متولی اور متکفل ہو جاتا ہے.“ اب اسلام کی ترقی فرمایا ”آج کل تمام مذاہب کے لوگ جوش میں ہیں.عیسائی کہتے ہیں کہ اب ساری دنیا میں مذہب عیسوی پھیل جاوے گا.بر ہمو کہتے ہیں کہ ساری دنیا میں بر ہموؤں کا مذہب کھیل جائے گا.اور آریہ کہتے ہیں کہ ہمارا مذہب سب پر غالب آ جاوے گا مگر یہ سب جھوٹ کہتے ہیں.خدا تعالیٰ اُن میں سے کسی کے ساتھ نہیں.اب دنیا میں اسلام کا مذہب پھیلے گا.اور باقی سب مذاہب اس کے آگے

Page 243

228 ذلیل اور حقیر ہو جائیں گے.“ دُعاء سے حل مشکلات فرمایا.جو بات ہماری سمجھ میں نہ آوے.یا کوئی مشکل پیش آوے.تو ہمارا طریق یہ ہے کہ ہم تمام فکر کو چھوڑ کر صرف دُعاء میں اور تضرع میں مصروف ہو جاتے ہیں.تب وہ بات حل ہو جاتی ہے.“ ایک شاعر اور بزاز فرمایا.افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے.جیسا کہ دنیا دار اپنی دُنیا داری پر یا ایک شاعر اپنے اشعار پر غور کرتا ہے.ویسا غور قرآن شریف پر نہیں کیا جاتا.بٹالہ میں ایک شاعر تھا اُس کا ایک دیوان ہے.اُس نے ایک دفعہ ایک مصرع کہا ھے صبا شرمنده می گردد به رُوئے گل نگه کردن مگر دوسرا مصرع اُس کو نہ آیا اور دوسرے مصرع کی تلاش میں برابر چھ مہینے سرگردان و حیران پھرتا رہا.بالآخر ایک دن ایک ہزار کی دوکان پر کپڑا خرید نے گیا.بزاز نے کئی تھان کپڑوں کے نکالے، پر اُس کو کوئی پسند نہ آیا.آخر بغیر کچھ خریدنے کے جب اُٹھ کھڑا ہوا.تو بزاز ناراض ہوا اور کہا کہ تم نے اتنے تھان کھلوائے.اور بے فائدہ تکلیف دی.اس پر اس کو دوسرا مصرع سُوجھ گیا.اور اپنا شعر اس طرح سے پورا کیا.شعر صبا شرمنده می گردد بہ رُوئے گل نگه کردن که رخت غنچه را وا کرد و نتوانست ته کردن جس قدر محنت اُس نے ایک مصرع کے لئے اُٹھائی.اتنی محنت اب لوگ ایک آیت قرآنی کے سمجھنے کے لئے نہیں اُٹھاتے.قرآن جواہرات کی تھیلی ہے.اور لوگ اس سے بیخبر ہیں.“ (۱۴) دار الامان کی ایک شام مخفی ایمان 66 ۱۴ نومبر ۱۹۰۱ ء - حضرت اقدس بعد از نماز مغرب حسب معمول بیٹھے تھے.ایک شخص پیش ہوا.جو دل سے مسلمان ہو چکا تھا.مگر بعض وجوہات کے سبب سے بظا ہر حالت کفر میں رہتا تھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا.دنیا چند روزہ ہے.شہادت کو چُھپا نا اچھا نہیں.دیکھو بادشاہ کے پاس

Page 244

229 جب کوئی تحفہ لے جاوے.مثلاً سیب ہی ہو.اور سیب ایک طرف سے داغی ہو تو وہ اس تحفہ پر کیا حاصل کر سکے گا.مخفی ہونے میں بہت سے حقوق تلف ہو جاتے ہیں.مثلاً نماز باجماعت، بیمار کی عیادت، جنازہ کی نماز ، عیدین کی نماز وغیرہ.یہ سب حقوق مخفی رہ کر کیونکر ادا کئے جا سکتے ہیں مخفی رہنے میں ایمان کی کمزوری ہے.انسان اپنے ظاہری فوائد کو دیکھتا ہے.مگر وہ بڑی غلطی کرتا ہے.کیا تم ڈرتے ہو.کہ کچی شہادت کے ادا کرنے سے تمہاری روزی جاتی رہے گی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.في السماء رزقكم وما توعدون فورب السماء والارض انه لحق کہ تمہارا رزق آسمان میں ہے.ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے.یہ سچ ہے.زمین پر خُدا کے سوا کون ہے.جو اس رزق کو بند کر سکے ، یا کھول سکے.اور فرماتا ہے.وهو يتولى الصالحین.نیکوں کا وہ آپ والی بن جاتا ہے.پس کون ہے جو مرد صالح کو ضرر دے سکے.اور اگر کوئی تکلیف یا مصیبت انسان پر آ پڑے.من يتق الله يجعل له مخرجا.جو خدا کے آگے تقویٰ اختیار کرتا ہے.خدا اس کے لئے ہر ایک تنگی اور تکلیف سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے.اور فرمایا.ویرزقه من حيث لا يحتسب ـ وه متقی کو ایسی راہ سے رزق دیتا ہے.جہاں سے رزق آنے کا خیال و گمان بھی نہیں ہوتا.یہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں.وعدوں کے سچا کرنے میں خدا سے بڑھ کر کون ہے.پس خدا پر ایمان لاؤ.خدا سے ڈرنے والے ہرگز ضائع نہیں ہوتے.یجعل له مخرجا.یہ ایک وسیع بشارت ہے.تم تقویٰ اختیار کرو.خدا تمہارا کفیل ہو گا.اُس کا جو وعدہ ہے، وہ سب پورا کر دے گا مخفی رہنا ایمان میں ایک نقص ہے.جو مصیبت آتی ہے.اپنی کمزوری سے آتی ہے.دیکھو آگ دُوسروں کو کھا جاتی ہے.پر ابراہیم کو نہ کھا سکی.مگر خدا کی راہ بغیر تقویٰ کے نہیں کھلتی.معجزات دیکھنے ہوں ، تو تقویٰ اختیار کرو.ایک وہ لوگ ہیں.جو ہر وقت معجزات دیکھتے ہیں.دیکھو آج کل میں عمر بی کتاب اور اشتہا رلکھ رہا ہوں.اس کے لکھنے میں میں سطر سطر میں معجزہ دیکھتا ہوں.جبکہ میں لکھتا لکھتا اٹک جاتا ہوں ، تو مناسب موقع فصیح و بلیغ پر معانی و معارف ، فقرات والفاظ الہام ہوتے ہیں.اور اسی طرح عبارتیں کی عبارتیں لکھی جاتی ہیں.اگر چہ میں اس کو لوگوں کی تسلی کے لئے پیش نہیں کر سکتا.مگر میرے لئے یہ ایک کافی معجزہ ہے.پچاس ہزار معجزہ اگر میں اس بات پر قسم بھی کھا کر کہوں.کہ مجھ سے پچاس ہزار معجزہ خدا نے ظاہر کرایا.تب بھی جُھوٹ ہرگز نہ ہو گا.ہر ایک پہلو میں ہم پر خدا کی تائیدات کی بارش ہو رہی ہے.عجیب تر اُن لوگوں

Page 245

230 کے دل ہیں.جو ہم کو مُفتری کہتے ہیں.مگر وہ کیا کریں.ولی را ولی می شناسد.کوئی تقوی کے بغیر ہمیں کیونکر پہچانے.رات کو چور چوری کے لئے نکلتا ہے.اگر راہ میں گوشہ کے اندر کسی ولی کو دیکھے.جو عبادت کر رہا ہو.وہ یہی سمجھے گا.کہ یہ بھی میری طرح کوئی چور ہے.خدا عمیق در عمیق چُھپا ہوا ہے.اور ایسا ہی وہ ظاہر در ظاہر ہے.اس کا ظہور اتنا ہوا کہ وہ مخفی ہو گیا.جیسا سورج کہ اس کی طرف کوئی نہیں دیکھ سکتا.خدا کا پتہ حق الیقین کے طور پر نہیں پا سکتے.جب تک کہ تقویٰ کی راہ سے قدم نہ ماریں.دلائل کے ساتھ ایمان نہیں قوی ہو سکتا.بغیر خدا کی آیات دیکھنے کے ایمان پورا نہیں ہوسکتا.یہ اچھا نہیں کہ کچھ خدا کا ہو اور کچھ شیطان کا ہو.صحابہ کو دیکھو.کس طرح اپنی جانیں شارکیں.ابو بکر جب ایمان لایا ، تو اس نے دُنیا کا کونسا فائدہ دیکھا تھا.جان کا خطرہ تھا.اور ابتلاء بڑھتا جاتا تھا.مگر صحابہ نے صدق خوب دکھایا.ایک صحابی کا ذکر ہے ، وہ کمبل اوڑھے بیٹھا تھا.کسی نے اس کو کچھ کہا حضرت عمر پاس سے دیکھتے تھے.انہوں نے فرمایا.اس شخص کی عزت کرو.میں نے اس کو دیکھا.کہ یہ گھوڑے پر سوار ہوتا تھا.اور اس کے آگے پیچھے کئی کئی نو کر چلتے تھے.صرف دین کی خاطر اس نے سب سے ہجرت کی.دراصل یہ آنحضرت کی رُوحانیت کا زور تھا.جو صحابہ میں داخل ہوا.اُن کا کوئی جھوٹ ثابت نہیں.ہرامر میں ایک کشش ہوتی ہے دیکھو د یوار کی اینٹوں میں ایک کشش ہے ورنہ اینٹ سے اینٹ الگ ہو جائے ایسی ہی ہر جماعت میں ایک کشش ہوتی ہے.یہ ہوتا آیا ہے کہ ہر نبی کی جماعت میں سے کچھ لوگ مُرتد بھی ہو جایا کرتے ہیں.ایسا ہی موسی اور عیسی.اور آنحضرت کی جماعت کے ساتھ ہوا.ان لوگوں کا مادہ خبیث ہوتا ہے.اور ان کا حصہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے.مگر جو لوگ اس صداقت کے وارث ہوتے ہیں، وہ اس پر قائم رہتے ہیں.غرض خدا کی راہ میں شجاع بنو.انسان کو چاہئیے.کبھی بھروسہ نہ کرے کہ کل رات میں زندہ رہوں گا.بھروسہ کرنے والا ایک شیطان ہوتا ہے.انسان بہادر بنے.یہ بات زور بازو سے نہیں ملتی.دُعا کرے اور دُعاء کراوے.صادقوں کی صحبت اختیار کرے.سارے کے سارے خدا کے ہو جاؤ.دیکھو کوئی کسی کی دعوت کرے، اور نجس ٹھیکرے میں روٹی لیجاوے تو اُسے کون کھائے گا.وہ تو اُلٹا مار کھائے گا.باطن بھی سنوار دو اور ظاہر بھی درست کرو.انسان اعمال سے ترقی نہیں کر سکتا.آنحضرت کا رتبہ سمجھنے سے انسان ترقی کر سکتا ہے." (۱۵) ڈائری حضرت امام ہمام علیہ السلام پہلے عوام پکڑے جاتے پھر خواص ۱۷.اپریل ۱۹۰۲ ء بعد نماز مغرب فرمایا ” طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں

Page 246

231 کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور امراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں.لیکن سنت اللہ یہی ہے کہ آئمۃ الکفر آخر میں پکڑے جایا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت موسیٰ" کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوا.ان سب میں فرعون بیچارہا.قرآن شریف میں بھی آیا ہے.انــا نــاتـی الارض ننقصها من اطرافها.یعنی ابتداء عوام سے ہوتی ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں.اور بعض کے بچانے میں اللہ تعالیٰ کی یہ حکمت ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں تو بہ کرنی ہوتی ہے.یا اُن کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے.“ جامع کمالات صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرمایا جو کمالات ( متفرقہ تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے.وہ سب حضرت رسول کریم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے.اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم سے فلمی طور پر ہم کو عطاء کئے گئے.اور اسی لئے ہمارا نام آدم، ابراہیم ، موسی ، نوح، داؤد ، یوسف ، سلیمان بھی ہیسی وغیرہ ہے.چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بُت پرست تھے اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیالی اور وہی بتوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور واحدانیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں.پہلے انبیاء ظل تھے نبی کریم کی خاص خاص صفات کے، اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظلل ہیں.مولانا روم نے خوب فرمایا ہے.نام احمد نام جمله انبیاء است چوں بیامد صد نو دہم پیش ما است و نبی کریم نے گویا سب لوگوں سے چندہ وصول کیا اور وہ لوگ تو اپنے اپنے مقامات اور 66 حالات پر رہے.پر نبی کریم کے پاس کروڑوں روپے ہو گئے.“ ہندو اسلام کی طرف متوجہ ہوں گے فرمایا ” معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمگیر طوفان وباء میں یہ ہندوؤں کی قوم بھی اسلام کی طرف توجہ کرے گی.چنانچہ جب ہم نے باہر مکان بنانے کی تجویز کی تھی.تو ایک ہندو نے آ کر ہم کو کہا تھا کہ ہم تو قوم سے علیحدہ ہو کر آپ ہی کے پاس رہا کریں گے.اور نیز دو دفعہ ہم نے رویا میں دیکھا.کہ بہت

Page 247

232 سے ہند و ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.اور ایک دفعہ الہام ہوا ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما ہو.تیری استنی گیتا میں موجود ہے.رودر کے معنے نذیر اور گوپال کے معنے بشیر کے ہیں.“ شانِ امت محمدیہ فرمایا ” عیسائیوں نے جو شور مچایا تھا کہ عیسی مُردوں کو زندہ کرتا تھا.اور وہ خدا تھا.اس واسطے غیرت الہی نے جوش مارا.کہ دنیا میں طاعون پھیلائے اور ہمارے مقام کو بچائے تا کہ لوگوں پر ثابت ہو جائے کہ اُمت محمدی کی کیا شان ہے.کہ احمد کے ایک غلام کی اس قدر عزت ہے.اگر عیسی مُردوں کو زندہ کرتا تھا.تو اب عیسائیوں کے مقامات اس بلا سے بچائے.اس وقت غیرتِ الہی جوش میں ہے.تا کہ عیسی کی کسرشان ہو.جس کو خدا بنایا گیا ہے.چه خوش ترانه زد این مطرب مقام شناس که درمیان غزل قول آشنا آورد قرآن شریف نے یہود کا رد کیا قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسی کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے.اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں.بلکہ قرآن شریف اور حدیث نے ضرور تا یہود کے منہ کو بند کرنے کے لئے یہ فقرے بولے ہیں.کہ یہو دنعوذ باللہ مریم کو زنا کا رعورت ، اور حضرت عیسی کو ولدالزنا کہتے تھے.اس لئے قرآن شریف نے ان کا ذب کیا کہ وہ اس کہنے سے باز آویں.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمانی برکات فرمایا ” حضرت رسول کریم کے ہزاروں جسمانی برکات بھی تھے.آپ کے جُبہ سے بعد وفات آپ کے لوگ برکات چاہتے تھے.بیماریوں میں لوگوں کو شفا دیتے تھے.اور بارش نہ ہوتی تو دُعاء کرتے تھے.اور بارش ہو جاتی تھی.ایک لاکھ سے زیادہ آپ کے اصحابی تھے.بہتوں کی جسمانی تکالیف آپ کی دُعاؤں سے دُور ہو جاتی تھیں.عیسی کو نبی کریم کے ساتھ کیا نسبت ہو سکتی ہے جس کے ساتھ چند آدمی تھے.ان کا حال بھی انجیلوں سے ظاہر ہے.کہ وہ کس مرتبہ رُوحانیت کے تھے.“ اس زمانہ کا فرعون اور ابو جہل فرمایا ” ابوجہل اُس اُمت کا فرعون تھا کیونکہ اُس نے بھی نبی کریم کی چند دن پرورش کی تھی.

Page 248

233 جیسا کہ فرعون موسی نے حضرت موسیٰ کی پرورش کی تھی، اور ایسا ہی مولوی محمد حسین صاحب نے ابتداء میں براہین پر ریو یولکھ کر ہمارے سلسلہ کی چند یوم پرورش کی.اہل حدیث و یهود حضرت اقدس نے اپنا ایک پرانا الہام سُنایا.یا یحییٰ خذالكتب بالقوة والخير كله فی القرآن اور فرمایا کہ اس میں ہم کو بیٹی سے نسبت دی گئی ہے.کیونکہ حضرت یحیی کو یہود کی اُن اقوام سے مقابلہ کرنا پڑا تھا.جو کتاب اللہ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے.اور حدیثوں پر بہت گرویدہ ہوئے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے.ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہلحدیث کے ساتھ ہوا.کہ ہم قرآن پیش کرتے ، اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں.“ اذان کے وقت پڑھنا جائز ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سنا رہا تھا.اذان ہونے لگی تو وہ چُپ ہو گیا.فرمایا ” پڑھتے جاؤ ، اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے طاعون زدہ جگہ میں جانا گناہ ہے ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے.میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں.فرمایا ” مت جاؤ.لا تــلــقــوا بايديكم الى التهلكة پچھلی رات کو اُٹھ کر اُن کے لئے دعا کرو.یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جاؤ.ایسے مقام پر جانا گناہ ہے.“ الہام بالفاظ قرآن حضرت اقدس کو الہام ہوا.انت معى و انی معک ، انـی بـایـعـتـک با یعنی ربی.فرمایا اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ قرآن شریف کو حل کیا جاوے.اس واسطے اکثر الہامات جو قرآن شریف کے الفاظ میں ہوتے ہیں.اُن کی ایک عملی تفسیر ہو جاتی ہے.“ اس سے خدا تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہی زندہ اور بابرکت زبان ہے اور تا کہ ثابت ہو جائے کہ تیرہ سو سال اس سے قبل بھی اسی طرح یہ خدا کا کلام نازل ہوا.طاعون کے متعلق قرآن شریف میں پیشگوئی فرمایا ” اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے.

Page 249

234 والــمـرسـلـت عــرفـاً.فالعصفت عصفًا.والنشرات نشرا.فالفرقات فَرقًا.فـالـمـلـقـيـت ذكرًا.عذراً.اونذرًا - نشر کے معنی چر ڈالنا.منشا راسی سے نکلا ہے.یعنی پھر وہ پوری تباہی لا ئیں.قسم ہے ان ہواؤں کی جو آہستہ چلتی ہیں.یعنی پہلا وقت ایسا ہوگا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے.پھر وہ زور پکڑے، اور تیز ہو جاوے.پھر وہ ایسی ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے اور پریشان خاطر کر دے.پھر ایسے واقعات ہوں.کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کر دیں.اُس وقت لوگوں کو سمجھ آ جائے گی.کہ حق کس امر میں ہے.آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں.یہ سمجھ میں آنا بعض کے لئے صرف حجت کا موجب ہوگا.(عذرا) یعنی مرتے مرتے ان کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے لئے ( نذرا) یعنی ڈرانے کا موجب ہوگا کہ وہ تو بہ کر کے بدیوں سے باز آویں.“ (۱۶) ڈائری الہام.خُدا کا روزہ وافطار ۱۸ / اپریل ۱۹۰۲ ء فرمایا کہ آج رات کو یہ الہام ہوا.انى مع الرسول اقوم الوم من يلوم - افطر و اصوم.یعنی میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہوں گا.اس کی مددکروں گا اور جو اس کو ملامت کرے گا.اس کو ملامت کروں گا.روزہ افطار کروں گا.روزہ رکھوں گا.یعنی کبھی طاعون بند ہو جائے گی اور کبھی زور کرے گی.“ اشتہار متعلق طاعون نماز جمعہ کے بعد انجمن حمایت اسلام کا اشتہار دربارہ دُعا برائے دفعیہ طاعون آپ کو دکھایا گیا جس کی تحریک پر آپ نے طاعون کا مختصر اردواشتہار لکھا.دشمنوں سے گفتگو قادیان میں ایک بدگو، بد باطن مخالف آیا ہوا تھا.اس نے احباب میں سے ایک کو بلایا.وہ اس کے ساتھ بات کرنے کو گیا.حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ ایسے خبیث مفسد کو اتنی عزت نہیں دینی چاہئیے کہ اُس کے ساتھ تم میں سے کوئی بات کرے.“ طاعون کے متعلق خوابوں کا جمع کرنا فرمایا ” مختلف لوگوں کو جو رویاء ہوئے ہیں کہ قادیان میں طاعون نہیں ہوگی.ان خوابوں کو جمع

Page 250

235 کر کے شائع کر دینا چاہیئے“ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس ضروری ہے مولوی محمد احسن صاحب ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کرتے تھے.اُن کو فرمایا کہ اصل میں ہمارا منشاء یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تقدیس ہو.اور آپ کی تعریف ہو.اور ہماری تعریف اگر ہو.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں ہو.فرمایا ” وفات مسیح یا ایسے مسائل کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ کہہ گئے.ان کے متعلق ہم حضرت موسیٰ کی طرح یہی کہتے ہیں کہ علمها عند رہی.یعنی گذشتہ لوگوں کے حالات سے اللہ تعالیٰ بہتر واقف ہے.ہاں حال کے لوگوں کو ہم نے کافی طور پر سمجھا دیا ہے.اور حجت قائم کر دی ہے.“ مفتری کولمبی مہلت نہیں ملتی فرمایا ” خدا تو چور کا بھی دشمن ہے.اگر میں مفتری ہوتا.تو وہ مجھے اتنی مہلت کیوں دیتا.ہاں اللہ تعالیٰ کی عادت میں ہے کہ موافق مخالف ہر طرح کے لوگ دُنیا میں ہوں ، تا کہ ایک نظارہ قدرت ہو.جن دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی.اور لوگوں نے غلط فہمی پیدا کرنے کے لئے شور مچایا کہ پیشگوئی غلط نکلی.ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا.دشمن کا بھی خوب وار نکلا تسپر بھی وہ وار پار نکلا یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی.مگر جلد فہیم لوگ سمجھ جائیں گے اور نا واقف شرمندہ ہوں گے.“ خدا کے وعدے آخر پورے ہو جاتے ہیں.فرمایا ” مکہ والوں کو فتح کا وعدہ دیا گیا.تو ان کو تیرہ سال اس کے انتظار میں گذر گئے.مگر آخر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا دن آ گیا.اور دشمن ہلاک ہو گئے.ورنہ وہ کہا کرتے تھے.متــــی هــذا الفتح - فرمایا : ”اللہ تعالیٰ تمحیص کرنا چاہتا ہے.تا کہ جیسے دوسرے پیروں کا حال ہے.ہمارے پاس بھی ہر طرح کے گندے اور نا پاک لوگ نہ شامل ہو جائیں.اس واسطے اس قسم کے ابتلاء بھی درمیان میں آجاتے ہیں.“

Page 251

236 زیور پر زکوة ۲۶ اپریل.ایک شخص نے عرض کیا کہ زیور پر زکوۃ ہے یا نہیں.فرمایا ”جوز یور استعمال میں آتا ہے اور کوئی بیاہ شادی پر مانگ کر لے جاتا ہے.تو دے دیا جاوے.وہ زکوۃ سے مستثنیٰ.غیر احمدی امام کا اقتداء ناجائز سوال ہوا کہ اگر کسی جگہ امام نماز حضور کے حالات سے واقف نہیں ، تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں.فرمایا ” پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو.پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ، ور نہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو.اور اگر خاموش رہے ، نہ تصدیق کرے، اور نہ تکذیب.تو وہ بھی منافق ہے.اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو.“ موجو دہ عیسائی دین دراصل پولوسی مذہب ہے ۲۷ / اپریل ۱۹۰۲ء.فرمایا ” جیسا کہ یہودی فاضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے.یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ مذہب نصاری جس میں شریعت کا کوئی پاس نہیں.اور سؤ رکھانا اور غیر مختون رہنا وغیرہ تمام باتیں شریعت موسوی کے مخالف ہیں.یہ باتیں اصل میں پولوس کی ایجاد ہیں.اور اس واسطے ہم اس مذہب کو عیسوی مذہب نہیں کہہ سکتے.بلکہ دراصل یہ پولوی مذہب ہے.اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ حواریوں کو چھوڑ کر ، اور ان کی رائے کے بر خلاف کیوں ایسے شخص کی باتوں پر اعتماد کر لیا گیا.کہ جس کی ساری عمر یسوع کی مخالفت میں گذری تھی.مذہب عیسوی میں پولوس کا ایسا ہی حال ہے.جیسا کہ باوا نا تک صاحب کی اصل باتوں کو چھوڑ کر قوم سکھ گورو گوبند سنگھ کی باتوں کو پکڑ بیٹھی ہے.کوئی سند ایسی نہیں مل سکتی جس کے مطابق عمل کر کے پولوس جیسے آدمی کے خطوط انا جیل اربعہ کے ساتھ شامل کئے جاسکتے.مگر پولوس خواہ مخواہ معتبر بن بیٹھا تھا.ہم اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا آدمی نہیں پاتے جو خواہ مخواہ صحابی بن بیٹھا ہو.“ دار کی حفاظت ۱/۲۸ پریل.حضرت اقدس کو الہام ہوا.اِنّی أَحَافِظ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ.فرمایا.دار کے معنے نہیں کھلے.کہ اس سے مُراد صرف یہ گھر ہے.یا قادیان میں جتنے ہمارے سلسلہ کے متعلق گھر ہیں.مثلاً مدرسہ اور مولوی صاحب کا گھر وغیرہ.بڑوں پر عذاب بعد میں آنا ۳۰ /۱ اپریل ۱۹۰۲ ء آج رات کو الہام ہوا.لولا الامر لهلك النمر.یعنی اگر

Page 252

237 سنت اللہ اور امر الہی اِس طرح پر نہ ہوتا کہ آئمۃ الکفر اخیر میں ہلاک ہوا کریں.تو اب بھی بڑے بڑے لوگ جلد تباہ ہو جاتے.لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں.اُن میں ایک خوبی عزم اور ہمت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے.اس واسطے ان کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے.کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر تو بہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لا دیں.بڑی لذت فرمایا اس بات میں بڑی لذت ہے.کہ انسان خدا کے وجود کو سمجھے.کہ وہ ہے.اور رسول کو برحق جانے.انسان کو چاہیے کہ اپنے گزارے کے مطابق اپنی معیشت کو حاصل کرے اور دنیا کی بہت مرا دیا بیوں کی خواہش کے پیچھے نہ پڑے.

Page 253

238 باب نہم آج سے چھتیس سال قبل کے حالات ۱۸۹۹ء میں میں نے ایک خط ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم کو افریقہ بھیجا تھا.جس میں اُن ایام کی صحبت مسیح موعود کا ذکر تھا.وہ خط حسن اتفاق سے محفوظ رہا.اور حضرت اکمل نے کہیں سے حاصل کر کے اپنے ایڈیٹوریل نوٹ کے ساتھ درج کیا.اب اسے اس کتاب میں شامل کیا جاتا ہے.کیونکہ اس میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت کی بہت سی مفید باتیں درج ہیں : اکمل صاحب کا نوٹ معزز ناظرین! یہ وہ وقت ہے.جب ہمارا صادق عثمانی دوست (ایڈیٹر بدر ) اپنے محبوب کے عشق میں سرگردان تھا.وہ اُس پروانہ کی مانند تھا.جو شمع کے گرد بڑی بیتابی سے ادھر ادھر پھرتا.اور آخر پھر اس میں آکر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے.اور وہ اس بچہ کی مانند تھا.جو بدر کامل کو دیکھ کر ہمک ہمک کر او پر اُٹھتا.اور اُس تک پہنچنے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے.یہ ابتدائی زمانہ بھی کیا ہی پر لذت زمانہ تھا.جب ہمارا دوست جب کوئی موقعہ پاتا، تو دیوانہ وار اُٹھ دوڑتا.نہ رات دیکھتا نہ دن.آخر عشق صادق نے اپنا رنگ دکھایا.اور وہ قطرہ سمندر میں آکر مل گیا.یا یوں کہیئے کہ جس لڑی کا موتی تھا اس میں پرو دیا گیا.اُس پچھلے زمانے کی باتیں بہت پیاری لگتی ہیں.اور پھر اس پر نظر کرنے سے خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.پیر برکت علی صاحب کی عنایت سے مجھے ایک پرانا مسودہ مل گیا ہے.جو آج پیش کیا جاتا ہے.ناظرین مطلع رہیں کہ سب سے پہلے ڈائری لکھنے والا میرا صادق بھائی ہے.یہ مبارک رسم انہیں کے پر صدق ہاتھوں سے پڑی ہے.(اکمل) خدائی کی گھڑیاں مکرمی و مخدومی اخویم ڈاکٹر رحمت علی صاحب السلام عليكم ورحمۃ اللہ و برکاتہ.اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہمیشہ آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت افریقہ کے ساتھ ہو.مثل مشہور ہے کہ جس کو لگتی ہے ، وہی جانتا ہے اور دُوسرا کیا جانے.امام پاک کے قدموں سے دُوری کے سبب جو کچھ آپ کے دل کا حال ہے.اس کو میں خوب سمجھ سکتا ہوں.کیونکہ ایسی اشیاء کے اندازہ کے واسطے میرا دل بھی ایک پیمانہ ہے.میں مانتا ہوں.

Page 254

239 کہ کوئی مضبوط ہو.اور وہ ایسے صدموں کو کم فیل کرے.اور کوئی میرے جیسا کمزور ہو، اور وہ ذرا سی بات پر سرگردان ہو جائے مگر شارٹ سائیٹ کے چشموں کی طرح ہر ایک شارٹ سائیڈ دوسرے شارٹ سائیڈ کے چشموں کو دیکھتے ہی فوراً تا ڑ جاتا ہے.کہ یہ بھی اس مرض میں میرا ہی ساتھی ہے.سو کیا ہوا کہ ہم آپ سے بہت دُور ہیں.اور ہمیں آپ کی ملاقات اور زیارت سے کوئی وافر حصہ نہیں ملا.بہر حال دل را بدل رہیست.اور میں خوب سمجھتا ہوں کہ احباب افریقہ کے مخلصین کے قلوب کس جوش میں بھرے ہوئے ہیں.دراصل ملک افریقہ نے ہمارے بہت سے عزیزوں کو ہم سے جُدا کیا ہے.اور آئے دن ہمارے جگر کا کوئی نہ کوئی ٹکڑا اور ایسا ٹکڑا وہاں کھینچا جاتا ہے کہ ہماری آنکھیں بھی اُس کے پیچھے پیچھے کچھی ہوئی افریقہ کو چلی جاتی ہیں.ابھی کل کی بات ہے.ہماری جماعت کی رونق اور میرا مخلص دوست میاں نبی بخش صاحب ہم سے افریقہ کی خاطر جُدا ہوا.اور اب پھر ایک صدمہ کے اُٹھانے کے واسطے ہمیں تیاری کر لینے کی صدا دی گئی ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہما را جرنیل عبدالرحمن خدا اس کو اس کے نام کی طرح عبد الرحمن بنائے.ہم سے جدا ہونے والا ہے.بارہا دل اس مکرم دوست کے واسطے دردمند ہوتا ہے.اور نیچے دل سے اس کے واسطے دُعا نکلتی ہے کہ خدا اس کے ساتھ ہو.اور اس معاملہ میں دین و دنیا کے حسنات اُسے عطاء فرما دے.آمین.اور ابھی معلوم نہیں کہ اس افریقہ کی خاطر ہمیں اور کس کس سے جدا ہونا پڑے گا.شاید کہ اسی واسطے اس کا نام شروع سے افریقہ رکھا گیا تھا کہ یہ ہمارے لئے فراق کا موجب ہوا.بارے فرق اور تفریق اور فراق اس کے نام اور اس کی نیچر میں پایا جا تا ہوا معلوم ہوتا ہے.میں حیران ہوں کہ میں کیا لکھنے بیٹھا تھا، اور کدھر نکل گیا.مگر جب یہ بات درمیان میں آگئی ہے.تو میں اس بات کے کہے بغیر رک نہیں سکتا.کہ ہماری جانیں قربان ہو جا ئیں اُس پیارے کے نام پر جو احمد کا غلام، پر ہمارا لیڈ ر آ تا ہے.کہ اس کی جوتیوں کی غلامی کے طفیل ہمارے سارے دُکھ مبدل بہ راحت ہو گئے.اور ہمارے سارے غم مبدل بہ خوشی ہو گئے.ہمارا ملنا اور جُدا ہونا.سب خدا کے لئے ہو گیا.اور ہمارا سفر اور حضر سب دین کے لئے بن گیا.اور ہم خدا کی محبت کے قلعہ میں ایسے آگئے کہ شیطان کا کوئی تیر ہم تک نہیں پہنچ سکتا کہ ہم کو ہم و غم میں ڈالے.خیر تو گذشتہ دو دنوں کے واسطے مجھے توفیق عطاء ہوئی تھی کہ میں تھوڑی دیر کے واسطے اس پاک سرزمین کی آب و ہوا کے ذریعہ سے اپنی بیماریوں کی مدافعت کے لئے سعی کروں.تو آج واپس آ کر میں نے سوچا کہ جو میوے بہار کے میں لایا ہوں.ان کے ساتھ اپنے پیارے رحمت علی کی دعوت کروں.تا کہ کسی کی دلی دُعاء میرے واسطے بھی رحمت کا موجب ہو جائے.لیکن انہی دنوں مکرمی مخدومی سید حامد شاہ صاحب حامد کا ایک عنایت نامہ جو میرے نام آیا تھا.اس میں انہوں نے فرمایا

Page 255

240 تھا کہ دارالامن کے تازہ حالات سے کچھ ہمیں اطلاع دو.اس واسطے میں چاہتا ہوں کہ راستہ میں ان کی ملاقات کرتا ہوا، آپ کے پاس پہنچوں اور مجھے امید ہے کہ وہ اس عریضہ کو دیکھ کر بہت ہی جلد آپ کی خدمت میں ارسال فرما دیں گے.“ انگریزی پڑھنے کا ثواب تین سال کے اندر طلب نشان والی پیشگوئی کے اشتہار کا انگریزی میں ترجمہ ہو کر لاہور میں طبع ہونے کے واسطے آیا ہوا تھا.اس کو لے کر ہفتہ کی شام کو میں یہاں سے روانہ ہوا.اور چھین کے اسٹیشن پر اُتر کر دار الامان کو روانہ ہوا.راستہ میں سے شیخ چراغ علی صاحب جو کہ شیخ حامد علی صاحب کے چچا ہیں ، نہایت مہربانی سے میرے ساتھ ہوئے.اور میرا بوجھ اٹھایا.اور مجھے راستہ دکھایا.اور ہم دارالامان میں پہنچے.فالحمد للہ علی ذالک.نماز فجر کے وقت حضور اقدس کی زیارت مسجد میں ہوئی جس سے قلب کو نور حاصل ہوا.اور بعد نماز فجر آپ نے وہ انگریزی اشتہا راول سے آخر تک سُنا.عبارت انگریزی پڑھ کر اور ہر ایک فقرہ کے ساتھ ترجمہ کر کے میں نے سُنایا.اور اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے.اور پھر ۹ بجے کے قریب سیر کے واسطے تشریف لائے.ملتے ہی فرمایا ”آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی فرمایا کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے.کہ ہم نے انگریزی نہیں پڑھی کہ وہ آپ لوگوں کو ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہے.انگریزی اگر ہم پڑھے ہوئے ہوتے تو اُردو کی طرح اس کے بھی دو چار صفحے ہر روز ہم لکھ دیا کرتے.مگر خدا نے چاہا کہ جیسے آپ ہیں اور مولوی محمد علی صاحب ہیں.آپ لوگوں کو بھی یہ ثواب دیا جائے.“ میں نے عرض کی ، کہ یہ ہمت اور ثواب تو مولوی محمد علی صاحب کا ہی ہے.فرمایا کہ عالمگیر کے زمانہ میں مسجد شاہی کو آگ لگ گئی.تو لوگ دوڑے دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ مسجد کو تو آگ لگ گئی.اِس خبر کو سُن کر وہ فوراً سجدہ میں گرا اور شکر کیا.حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت یہ کونسا وقت شکر گذاری کا ہے.کہ خانہ خدا کو آگ لگ گئی ہے.اور مسلمانوں کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے.تو بادشاہ نے کہا کہ میں مدت سے سوچتا تھا اور آہ سر د بھرتا تھا کہ اتنی بڑی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے اور اس عمارت کے ذریعہ سے ہزار ہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے.کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ اس کارِ خیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا.لیکن چاروں طرف سے میں اس کو ایسا مکمل اور بے نقص دیکھتا تھا کہ مجھے سُوجھ نہ سکتا کہ اس میں میرا ثواب کس طرح ہو جاوے.سو آج خدا نے میرے واسطے حصول ثواب کی ایک راہ نکال دی.والله السميع العليم "

Page 256

241 آریہ تر یمورتی پھر لیکھرام کے متعلق دیر تک باتیں ہوتی رہیں.فرمایا ”اسلام پر حملہ کرنے میں اور مسلمانوں کا بیجا دل دکھانے میں آریوں کے درمیان ایک طرح کی تریمورتی تھی.جن میں سے سب سے بڑھ کر لیکھر ام تھا.اور اس کے بعد اندرمن اور الکھ دھاری تھے.“ فرمایا’دیا نند بھی تھا.مگر اس کو ایسا موقع نہیں تھا اور نہ وہ اس طرح سے کتا میں لکھتا تھا.“ فرمایا ” ان تینوں نے اور خصوصاً لیکھرام نے بڑی بے ادبیاں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کی تھیں.اللہ تعالیٰ کا طریق ہے کہ جس راہ سے کوئی بدی کرے.اُسی راہ سے گرفتار کیا جاتا ہے.چونکہ لیکھرام نے زبان کی چھری کو اسلام اور اس کے برخلاف حد سے بڑھ کر چلایا.اس واسطے خدا نے اس کو چھری سے سزادی.فرمایا لیکھرام کے معاملہ میں غیب کا ہاتھ کام کرتا ہوا صاف دکھائی دیتا ہے.“ ایک شخص کا مھدھ ہونے کے لئے اس کے پاس آنا.اُس کا اُس پر بھروسہ کرنا.یہاں تک کہ اپنے گھر میں بلا تکلف اُس کو لے جانا.شام کے وقت دیگر ملاقاتیوں کا چلے جانا ان کا اکیلا رہ جانا پھر عین عید کے دوسرے دن اُس کا اس کام کے لئے عازم ہونا.لیکھرام کا لکھتے لکھتے کھڑے ہو کر انگڑائی لینا.اور اپنے پیٹ کو سامنے نکالنا.اور چھری کا وار کاری پڑنا.مرتے وقت آخیر دم تک اُس کی زبان کو خدا نے ایسا بند کرنا کہ باوجود ہوش کے اور اس علم کے کہ ہم نے اُس کے برخلاف پیشگوئی کی ہوئی ہے.ایک سیکنڈ کے لئے اس شبہ کا اظہار بھی نہ کرنا کہ مجھے مرزا صاحب پر شک ہے.پھر آج تک اُس کے قاتل کا پتہ نہ چلنا.یہ سب خدا کے فضل ہیں.جو ہیبت ناک طور پر اس کی قدرت اور طاقت کا جلوہ دکھا رہے ہیں.“ شعبده بازی فرمایا دلیکھرام بڑا ہی زبان دراز تھا.اور اس کے بعد ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا.کیونکہ اذاهلک کسری فلاکسری بعدۀ.اب اللہ تعالیٰ زمین کو ایسے وجود سے پاک رکھے گا.“ فرمایا کہ دنیا کے اندر جو نشانات حضرت موسی یا دیگر انبیاء نے اس طرح کے دکھائے جیسا کہ سونٹے سے رہتی کا بنانا.یہ سب شبہ میں ڈالنے والی باتیں ہیں.خصوصاً اس زمانہ کے درمیان جبکہ ہر طرح کی شعبدہ بازیاں مداری لوگ دکھاتے ہیں کہ انسان کی سمجھ میں ہرگز نہیں آتا کہ یہ امر کس طرح سے ہو گیا.اور انگریز لوگ ایسے ایسے کرتب شعبدہ بازی کے دکھاتے ہیں.کہ مرا ہوا آدمی واپس آ جاتا ہے.اور ٹوٹی ہوئی چیزیں ثابت دکھائی دیتی ہیں.جیسا کہ آئین اکبری میں بھی ابوالفضل نے

Page 257

242 ایک قصہ بیان کیا ہے.کہ ایک شعبدہ باز آسمان پر لوگوں کے سامنے چڑھ گیا.اور اوپر سے اُس کے اعضاء ایک ایک ہو کر گرے.اور اس کی بیوی ستی ہو گئی.لیکن وہ آسمان سے پھر اُتر آیا ، اور اُس نے اپنی بیوی کے لئے مطالبہ کیا اور ایک وزیر پر شبہ کیا.کہ اس نے چھپا رکھی ہے.اور یہ اس پر عاشق ہے.اور پھر اُس کی تلاشی کی اجازت بادشاہ سے لے کر اُسی کی بغل سے نکالی.“ فرمایا ” ایسی صورتوں میں پھر سوائے اس کے اور کچھ بات باقی نہیں رہتی ہے کہ انسان ایمان سے کام لے اور انبیاء کے کاموں کو خدا کی طرف سے سمجھے اور شعبدہ بازوں کے کاموں کو دھوکا اور فریب خیال کرے.اور اس طرح سے یہ معاملہ بہت نازک ہو جاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کو جو معجزہ عطاء فرمایا ہے، وہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم اور اصول تمدن کا ہے.اور اُس کی بلاغت اور فصاحت کا ہے.جس کا مقابلہ کوئی انسان کر نہیں سکتا.اور ایسا ہی معجزہ غیب کی خبروں اور پیشگوئیوں کا ہے.اس زمانہ کا کوئی شعبدہ بازی کا استاد ہرگز ایسا کرنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا.اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمارے نشانات کو ایک تمیز صاف عطا فرمائی تا کہ کسی شخص کو حیلہ تجبت بازی کا نہ رہے.اور اس طرح خدا نے اپنے نشانات کھول کھول کر دکھائے ہیں.جن میں کوئی شک وشبہ اپنا دخل نہیں پیدا کر سکتا.ایک شخص نے کہا کہ کوئی اعتراض کرتا تھا کہ میرزا صاحب نے لیکھرام کو آپ مروا ڈالا.فرمایا یہ ایک بیہودہ اور جھوٹ بات ہے.مگر ان لوگوں کو یہ تو خیال کرنا چاہیئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع اور کعب کو کیوں قتل کرا دیا تھا.“ فرمایا.” ہماری پیشگوئیاں سب اقتداری پیشگوئیاں ہیں.اور یہ نشان ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں.“ معجزانہ فصاحت فرمایا لوگوں کی فصاحت و بلاغت الفاظ کے ماتحت ہوتی ہے.اور اس میں سوائے قافیہ بندی کے اور کچھ نہیں ہوتا.جیسے ایک عرب نے لکھا ہے کہ سافرت الى روم و انا على جمل ماتوم.میں رُوم کو روانہ ہوا.اور میں ایک ایسے اونٹ پر سوار ہوا.جس کا پیشاب بند تھا.یہ الفاظ صرف قافیہ بندی کے واسطے لائے گئے ہیں یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے.کہ اس میں سارے الفاظ ایسے موتی کی طرح پرو دئے گئے ہیں.اور اپنے اپنے مقام پر رکھے گئے ہیں کہ کوئی ایک جگہ سے اُٹھا کر دُوسری جگہ نہیں رکھا جا سکتا.اور کسی کو دوسرے لفظ سے بدلا نہیں جا سکتا.لیکن با وجود اس کے قافیہ بندی اور فصاحت و بلاغت کے تمام لوازم موجود ہیں.“

Page 258

243 آج کل کے صوفیاء ایک شخص نے کسی صوفی گدی نشین کی تعریف کی.کہ وہ آدمی بظاہر نیک معلوم ہوتا ہے اور اگر اس کو سمجھایا جاوے، تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ حق بات کو پا جاوے.اور عرض کی کہ میرا اُس کے ساتھ ایک ایسا تعلق ہے کہ اگر حضور مجھے ایک خط اُن کے نام لکھ دیں تو میں لے جاؤں.اور امید ہے کہ ان کو فائدہ ہو.فرمایا ”آپ دو چار دن اور یہاں ٹھہریں میں انتظار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ خود بخو دا ستقامت کے ساتھ کوئی بات دل میں ڈال دے.تو میں آپ کو لکھ دوں.“ 66 پھر فرمایا کہ ” جب تک ان لوگوں کو استقامت حسن نیت کے ساتھ چند دن کی صحبت نہ حاصل ہو جاوے.تب تک مشکل ہے چاہیے کہ نیکی کے واسطے دل جوش مارے اور خدا کی رضاء کے حصول کے لئے دل تر ساں ہو.اس شخص نے عرض کی کہ ان لوگوں کو اکثر یہ حجاب بھی ہوتا ہے کہ شائد کسی کو یہ معلوم ہو جاوے.تو لوگ ہمارے پیچھے پڑ جاویں.فرمایا ” اس کا سبب یہ ہے کہ ایسے لوگ لا الہ الا اللہ کے قائل نہیں ہوتے.اور سچے دل سے اس کلمہ کو زبان سے نکالنے والے نہیں ہوتے.“ فرمایا ” جب تک زید و بکر کا خوف درمیان میں ہے تب تک لا الہ الا اللہ کا نقش دل میں نہیں جم سکتا.کلمہ کا اثر فرمایا’ یہ جو رات دن مسلمانوں کو کلمہ طیبہ کہنے کے واسطے تائید اور تاکید ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بغیر اس کے کسی شخص میں شجاعت پیدا نہیں ہو سکتی.جب آدمی لا الہ الا اللہ کہتا ہے.تو تمام انسانوں اور چیزوں، اور حاکموں اور افسروں اور دشمنوں اور دوستوں کی قوت اور طاقت بیچ ہو کر انسان صرف اللہ کو دیکھتا ہے اور اس کے سوائے سب اس کی نظروں میں بیچ ہو جاتے ہیں.پس وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ کام کرتا ہے.اور کوئی ڈرانے والا.اُس کو ڈرا نہیں سکتا.فراست فرمایا ” فراست بھی ایک چیز ہے.جیسا کہ ایک یہودی نے دیکھتے ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہہ دیا.کہ میں ان میں نبوت کے نشان پاتا ہوں.اور ایسا ہی مباہلہ کے وقت عیسائی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ آئے.کیونکہ اُن کے مشیر نے ان کو کہہ دیا تھا کہ میں ایسے منہ دیکھتا ہوں کہ اگر وہ پہاڑ کو کہیں گے.کہ یہاں سے ٹل جا، تو وہ ٹل جائے گا.“

Page 259

244 فرمایا ”اگر کسی کے باطن میں کوئی حصہ رُوحانیت کا ہے، تو وہ مجھ کو قبول کرے گا.“ کتاب تعلیم فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ ایک کتاب تعلیم کی لکھوں ، اور مولوی محمد علی صاحب اس کا ترجمہ کریں.اس کتاب کے تین حصے ہوں گے.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمارے کیا فرائض ہیں.اور دوسرے یہ کہ ہمارے نفس کے کیا کیا حقوق ہم پر ہیں.اور تیسرے یہ کہ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں.“ کرامات اولیاء فرمایا ” زمانہ نبوت تو نور علی نور تھا.اور ایک آفتاب تھا.لیکن اس کے بعد کے اولیاؤں کے جو خوارق و کرامات بتلائے جاتے ہیں.وہ اپنے ساتھ انکشاف نہیں رکھتے اور ان کی تاریخ کا صحیح پتہ نہیں لگ سکتا.چنانچہ شیخ عبد القادر جیلانی کے کرامات اُن کے دوسوسال بعد لکھے گئے.اور علاوہ اس کے ان لوگوں کو یہ موقع مقابلہ دشمن کا نہیں ملا اور نہ اُن کو ایسا فتنہ پیش آیا ، جیسا کہ ہم کو ایسی ہی باتوں پر سیر کا وقت ختم ہوا.اوروح کو ایک تازگی حاصل ہوئی.مجلس امام حضرت اقدس پھر روٹی کے وقت تشریف لائے.مگر وہی حضرت رسول کریم کی مجلس کا نمونہ کہ جس طرح کی باتیں شروع ہو گئیں ، ہوتی رہیں.ملانوں کی نفس پرستیوں اور طلاق اور حلالہ کی منحوس رسم کے متعلق گفتگو ہوتی رہی.اور علمائے زمانہ پر افسوس ہوتا رہا.اور مولوی برہان الدین صاحب نے ان بدیوں کے دُور کرنے میں اپنے کارناموں کا تذکرہ کیا.جن کو جماعت شوق سے سنتی رہی.اس کے بعد حضور اقدس ظہر اور عصر کی نماز میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے.اور مغرب سے عشاء کے پڑھ چکنے تک باہر تشریف فرما ر ہے.اور مغرب کے بعد آپ نے ایک مخلص کا ایک خط سُنا.اور دو اخبار میں سنیں ایک تو سیالکوٹ کی جن میں مرہم عیسی کا ذکر ہے.اور اس کو سن کر بہت محظوظ ہوئے.میں اُمید کرتا ہوں کہ لکھنے والے کا اجر قائم ہو گیا.خصوصاً ڈاکٹر لوقا کے لفظ پر بہت خوش ہوئے اور اس کے ڈاکٹر ہونے کے متعلق زیادہ تحقیقات کرنے کے واسطے اس عاجز کو ارشا د صادر فرمایا.اور دوم اخبار عام آریوں کی بد زبانی پر ایک ایڈیٹوریل ہند واڈیٹر کا لکھا ہوا تھا.غالبا دونوں مضمون الحکم میں بھی نکل جائیں گے.اور آپ ان کو ملا حظہ فرمائیں گے.دونوں قابل پڑھنے کے ہیں.

Page 260

245 نظم حامد اسی وقت حامد شاہ صاحب سیالکوٹی کی ایک نظم حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھی.جو کہ انہوں نے اپنے خط میں لکھی تھی.اور اس کے ساتھ ایک عزیز کے واسطے دُعاء کے لئے التجاء تھی.نظم کو سن کر حضرت اقدس بمعہ جماعت بہت خوش ہوئے اور حضرت نے فرمایا کہ اس کو کہیں چھپوا دینا چاہیے.لہذا وہ الحکم میں چھپنے کے لئے دی گئی.امید ہے کہ آپ اسے پڑھ کر بہت خوش ہوں گے.اس کے دو تین شعر میں بھی آپ کو سُنا تا ہوں.ڈنکا بجا جہاں میں مسیحا کے نام کا خادم ہے دینِ پاک رسولِ انام کا بٹتا ہے قادیاں میں زر و مال احمدی لنگر لگا ہوا ہے وہاں فیض عام کا نورمحمدی سے چمکتا ہے وہ مکاں کچھ رنگ ہی جُدا ہے وہاں صبح و شام کا ڈاکٹر لوقا عشاء کی نماز کے بعد حضور اقدس اندر تشریف لے گئے.اور میں نے مولوی محمد علی صاحب کی امداد میں تھوڑی دیر اشتہاروں کا کام کر کے اُنہیں کے زیر سایہ بیت السلام میں رات کاٹی.نماز فجر کے وقت حضرت اقدس تشریف لائے.اور نماز کے بعد اندر چلے گئے اور اس کے بعد 9 بجے کے قریب سیر کے واسطے تشریف لائے.اور احباب ہمہ گوش ہو کر ساتھ ہو لئے.وہی رات والے مضمون ، ڈاکٹر لوقا کا ذکر درمیان آیا.میاں اللہ دیا صاحب لدھیانوی بھی اتفاقاً ساتھ تھے.انہوں نے بھی تصدیق کی کہ لوقا ڈاکٹر تھا.مگر یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ حضرت مسیح کے زمانہ میں تھا.اس واسطے زیادہ تحقیقات کے لئے میاں الہ دیا صاحب کو بھی ارشاد ہوا.اسی پر بہت دیر تک گفتگو ہوتی چلی گئی.حضرت نے فرمایا.عربی میں لق چٹنی کو بھی کہتے ہیں.میں نے عرض کی کہ انگریزی میں راق چاٹنے کو کہتے ہیں.فرمایا.چٹنی تک تو بات پہنچ گئی ہے.امید ہے کہ مرہم پٹی تک بھی بات نکل آئے.فرمایا کہ انگریزی کتابوں اور تاریخ کلیسا سے اُس کے حالات کے متعلق تحقیقات کرنی چاہئیے.یہ ایک نئی بات نکلی ہے.

Page 261

246 کشف قبور پھر فرمایا.کہ کچھ مشکل امر نہیں ہے، اگر ہم چاہیں تو لوقا پر توجہ کریں.اور اس سے سب حال دریافت کریں.مگر ہماری طبیعت اس امر سے کراہت کرتی ہے کہ ہم اللہ کے سوائے کسی اور کی طرف توجہ کریں.خدا تعالیٰ آپ ہمارے سب کام بناتا ہے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ جو کشف قبور لئے پھرتے ہیں.یہ سب جھوٹ اور لغو اور بیہودہ بات ہے.اور شرک ہے.ہم نے سُنا ہے کہ اس طرف ایک شخص پھرتا ہے اور اس کو بڑا دعویٰ کشف قبور کا ہے.اگر اس کا علم سچا ہے.تو چاہئیے کہ وہ ہمارے پاس آئے.اور ہم اس کو ایسی قبروں پر لیجائیں گے.جن سے ہم خوب واقف ہیں.مگر یہ سب بیہودہ باتیں ہیں.اور اُن کے پیچھے پڑنا وقت کو ضائع کرنا ہے.سعید آدمی کو چاہیے کہ ایسے خیالات میں اپنے اوقات کو خراب نہ کرے.اور اس طریق کو اختیار کرے.جو اللہ اور اس کے رسول اور اُس کے صحابہ نے اختیار کیا.گدی نشینان اس کے بعد صاحبزادہ سراج الحق صاحب نے ایک اشتہار پڑھا.جو کہ اُن کے بھائی صاحب نے اپنے سلسلہ کے عرس کے واسطے مریدین کو دیا ہے.اس میں ہر قسم کے کھانوں اور ہر قسم کے کھیل تماشوں اور ناچ رنگوں اور آتش بازیوں کا نقشہ بڑی مصفا عبارت اور رنگین فقروں میں کھچا ہوا تھا.اس پر گدی نشینوں کے حالات پر افسوس ہوتا رہا.اور مولوی بُرہان الدین صاحب نے اپنے مشاہدہ کی چند گدیوں اور ان کی مجلسوں کا نقشہ کھینچ کر احباب کو خوش کیا.چونکہ اس میں سرود سے حظ اُٹھانے اور سرور لینے کا ذکر تھا.اس پر حضرت اقدس نے فرمایا کہ انسان میں ایک ملکہ احظاظ کا ہوتا ہے کہ وہ سرور سے حفظ اُٹھاتا ہے.اور اُس کے نفس کو دھو کہ لگتا ہے.کہ میں اس مضمون سے سرور پا رہا ہوں.مگر دراصل نفس کو صرف حظ درکار ہوتا ہے.خواہ اس میں شیطان کی تعریف ہو یا خدا کی.جب یہ لوگ اس میں گرفتار ہو کر فنا ہو جاتے ہیں تو ان کے واسطے شیطان کی تعریف یا خدا کی.سب برابر ہو جاتی ہے.آئندہ ملنے والے اس پر آج کا سیر ختم ہوا.لیکن کل کے سیر میں سے ایک بات رہ گئی تھی.جس کو اب عرض کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ابھی ہمارے مخالفوں میں سے پہلے سے ایسے آدمی بھی ہیں.جن کا ہماری جماعت میں شامل ہونا مقدر ہے.وہ مخالفت کرتے ہیں.پر فرشتے ان کو دیکھ کر ہنستے ہیں.کہ تم بالآخر انہی لوگوں میں شامل ہو جاؤ گے.وہ ہماری مخفی جماعت ہے.جو کہ ہمارے ساتھ ایک

Page 262

247 دن مل جائے گی.پھر کھانے کے وقت حضور بھی تشریف لائے.اور روٹی کھانے کے بعد حضور اقدس نے ایک تقریر فرمائی.جو دلوں کے واسطے نور اور ہدایت حاصل کرنے کا موجب ہوئی.جو کچھ اس میں سے میں ضبط رکھ سکا وہ آپ کو سُنا تا ہوں.آپ توجہ سے سنیں.اس زمانہ کے فتنہ وفساد کا ذکر تھا: ضرورت مبلغین فرمایا.” ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ اس زمانہ کے درمیان جو فتنہ اسلام پر پڑا ہوا ہے.اس کے دُور کرنے میں کچھ حصہ لے.بڑی عبادت یہی ہے کہ اس فتنہ کے دُور کرنے میں ہر ایک حصہ لے.اس وقت جو بدیاں اور گستاخیاں پھیلی ہوئی ہیں.چاہئیے کہ اپنی تقریر اور علم کے ساتھ اور ہر ایک قوت کے ساتھ جو اس کو دی گئی ہے.مخلصانہ کوشش کر کے ان باتوں کو دُنیا سے اُٹھا دے.اگر اسی دنیا میں کسی کو آرام اور لذت مل گئی ، تو کیا فائدہ.اگر دنیا میں بھی اجر پالیا تو حاصل کیا ؟ عقبی کا ثواب لو.جس کا انتہا نہیں.ہر ایک کو خدا کی تو حید و تفرید کے لئے ایسا جوش ہونا چاہئیے ، جیسا خود خدا کو اپنی توحید کا جوش ہے.غور کرو، کہ دنیا میں اس طرح کا مظلوم کہاں ملے گا.جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.کوئی گند اور گالی اور دشنام نہیں.جو آپ کی طرف نہ پھینکی گئی ہو.کیا یہ وقت ہے کہ مسلمان خاموش ہو کر بیٹھ رہیں.اگر اس وقت میں کوئی کھڑا نہیں ہوتا اور حق کی گواہی دے کر جُھوٹے کے منہ کو بند نہیں کرتا.اور جائز رکھتا ہے کہ کا فر بے حیائی سے ہمارے نبی پر اتہام لگائے جائیں.اور لوگوں کو گمراہ کرتے جائیں تو یا درکھو.وہ بے شک بڑی باز پرس کے نیچے ہے.چاہئیے کہ جو کچھ علم اور واقفیت تم کو حاصل ہے.وہ اس راہ میں خرچ کرو.اور لوگوں کو اس مصیبت سے بچاؤ.حدیث سے ثابت ہے کہ اگر تم دجال کو نہ مارو.تب بھی وہ مر تو جائے گا.مثل مشہور ہے.ہر کمالے راز والے.تیرھویں صدی سے یہ آفتیں شروع ہوئیں.اور اب وقت قریب ہے کہ اس کا خاتمہ ہو جائے.ہر ایک کا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے.پوری کوشش کرے اور ٹور اور روشنی لوگوں کو دکھائے.خُدا کے لئے جو شیلے بنو خدا کے نزدیک ولی اللہ اور صاحب برکات وہی ہے جس کو یہ جوش حاصل ہو جائے.خدا

Page 263

248 چاہتا ہے کہ اُس کا جلال ظاہر ہو.نماز میں جو سُبْحَانَ رَبِّي العَظیم اور سُبْحَانَ رَبِّي الأَعْلَى کہا جاتا ہے.وہ بھی خدا کے جلال کے ظاہر ہونے کی تمنا ہے.خدا کی ایسی عظمت ہو کہ اس کی نظیر نہ ہو.نماز میں تسبیح و تقدیس کرتے ہوئے یہی حالت ظاہر ہوتی ہے کہ خدا نے ترغیب دی ہے.کہ طبعا جوش کے ساتھ اپنے کاموں سے اور اپنی کوششوں سے دکھاوے کہ اس کی عظمت کے برخلاف کوئی شے مجھ پر غالب نہیں آسکتی.یہ بڑی عبادت ہے جو اس کی مرضی کے مطابق جوش رکھتے ہیں.وہی مرید کہلاتے ہیں اور وہی برکتیں پاتے ہیں.جو خدا کی عظمت اور جلال اور نقدیس کے واسطے جوش نہیں رکھتے.ان کی نمازیں جھوٹی ہیں.اور ان کے سجدے بیکار ہیں جب تک خدا کے لئے جوش نہ ہو.یہ سجدے صرف منتر جنتر ٹھہریں گے جن کے ذریعہ سے یہ بہشت کو لینا چاہتا ہے.یاد رکھو.کوئی جسمانی بات جس کے ساتھ کیفیت نہ ہو.فائدہ مند نہیں ہو سکتی.جیسا کہ خدا کو قر بانی کے گوشت نہیں پہنچتے.ایسے ہی تمہارے رکوع اور سجو د بھی نہیں پہنچتے.جب تک ان کے ساتھ کیفیت نہ ہو.خدا کیفیت کو چاہتا ہے.خدا اُن سے محبت کرتا ہے.جو اس کی عزت اور عظمت کے لئے جوش رکھتے ہیں.جو لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ ایک باریک راہ سے جاتے ہیں.اور کوئی دوسرا ان کے ساتھ نہیں جاسکتا.جب تک کیفیت نہ ہو.انسان ترقی نہیں کر سکتا.گویا خدا نے قسم کھائی ہے کہ جب تک اُس کے لئے جوش نہ ہو کوئی لذت نہیں دے گا.ہر ایک آدمی کے ساتھ ایک تمنا ہوتی ہے.پر مومن نہیں بن سکتا جب تک ساری تمناؤں پر خدا کی عظمت کو مقدم نہ کر لے.ولی قریب اور دوست کو کہتے ہیں.جو دوست چاہتا ہے.وہی یہ چاہتا ہے.تب یہ ولی کہلاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا - و ما خلقت الجن والانس الاليعبدون چاہیے کہ یہ خدا کے لئے جوش رکھے.پھر یہ اپنے ابنائے جنس سے بڑھ جائے گا.خدا کے مقرب لوگوں میں سے بن جائے گا.مُردوں کی طرح نہیں ہونا چاہئیے کہ مُردہ کے منہ میں ایک ھے ایک طرف سے ڈالی جاتی ہے تو دوسری طرف سے نکل جاتی ہے.اسی طرح شقاوت کے وقت کوئی چیز ا چھی ہو ، اندر نہیں جاتی.ایک مصلح کا وقت یا درکھو! کوئی عبادت اور صدقہ قبول نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے لئے جوش نہ ہو، ذاتی جوش نہ ہو.جس کے ساتھ کوئی ملونی ذاتی فوائد اور منافع کی ہو بلکہ ایسا ہو کہ خود بھی نہ جانے ، کہ یہ جوش میرے اندر کیوں ہے.بہت ضرورت ہے.کہ ایسے لوگ بکثرت پیدا ہوں.مگر سوائے خدا کے ارادہ

Page 264

249 کے کچھ نہیں ہوسکتا اور جو لوگ اس طرح دینی خدمات میں مصروف ہوئے ہیں.وہ یا درکھیں کہ وہ خدا پر کوئی احسان نہیں کرتے.جیسا کہ ہر ایک فصل کے کاٹنے کا وقت آ جاتا ہے.ایسا ہی مفاسد کے دُور کرنے کا اب وقت آ گیا ہے.تثلیث پرستی حد کو پہنچ گئی ہے.صادق کی تو ہین و گستاخی انتہاء تک کی گئی ہے.رسول اللہ کی قدر مکھی اور زنبور جتنی بھی نہیں کی گئی.زنبور سے بھی آدمی ڈرتا ہے اور چیونٹی سے بھی اندیشہ کرتا ہے.مگر حضرت نبی کریم کو بُرا کہنے میں کوئی نہیں جھجکا.کذبوا بایاتنا کے مصداق ہو رہے ہیں.جتنا منہ اُن کا کھل سکتا ہے.اُنہوں نے کھولا.اور منہ پھاڑ پھاڑ کر سب وشتم کیا.اب وہ وقت واقعی آگیا ہے.کہ خدا ان کا تدارک کرے.ایسے وقت میں وہ ہمیشہ ایک آدمی کو پیدا کرتا ہے.ولن تجد لسنت اللہ تبد یلا.وہ ایسے آدمی کو پیدا کرتا ہے جو اس کی عظمت وجلال کے لئے بہت ہی جوش رکھتا ہو.باطنی مدد کا اُس آدمی کو سہارا ہوتا ہے.دراصل سب کچھ خدا تعالیٰ آپ کرتا ہے.مگر اُس کا پیدا کرنا صرف ایک سنت کا پورا کرنا ہوتا ہے.اب وقت آ گیا ہے.خدا نے عیسائیوں کو قرآن کریم میں نصیحت کی تھی.کہ اپنے دین میں غلو نہ کریں.پر اُنہوں نے اس نصیحت پر عمل نہ کیا.اور پہلے وہ صرف ضالین تھے.اب مضلین بھی بن گئے.خدا کے صحف قدرت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بات حد سے گذر جاتی ہے تو آسمان پر تیاری کی جاتی ہے.یہی اس کا نشان ہے کہ یہ تیاری کا وقت آ گیا ہے.بچے نبی ، رسول، مجدد کی بڑی نشانی یہی ہے کہ وہ وقت پر آوے.ضرورت کے وقت آوے.لوگ قسم کھا کر کہیں کیا یہ وقت نہیں کہ آسمان پر کوئی تیاری ہو.مگر یا درکھو کہ خدا سب کچھ آپ کرتا ہے.ہم اور ہماری جماعت اگر سب کے سب حجروں میں بیٹھ جاویں.تب بھی کام ہو جاوے گا.اور دجال کو زوال آ جاوے گا.تلک الايام نداولھا.اس کا کمال بتا تا ہے کہ اب اس کے زوال کا وقت ہے.اس کا ارتفاع ظاہر کرتا ہے.کہ اب وہ نیچا دیکھے گا.اُس کی آبادی اُس کی بربادی کا نشان ہے.ہاں ٹھنڈی ہوا چل پڑی ہے.خدا کے کام آہستگی کے ساتھ ہوتے ہیں.اگر ہمارے پاس کوئی دلیل بھی نہ ہوتی.تو پھر بھی مسلمانوں کو چاہئیے تھا کہ دیوانہ وار پھرتے اور تلاش کرتے.کہ مسیح اب تک کیوں نہیں آیا.یہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے.ان کو چاہئیے نہیں تھا کہ یہ اس کو اپنے جھگڑوں کے لئے بلاتے.اُس کا کام کسر صلیب ہے.اور اسی کی زمانہ کو ضرورت ہے.اور اسی واسطے اس کا نام مسیح موعود ہے.اگر ملانوں کو نوع انسان کی بہبودی مدنظر ہوتی.تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے.ان کو سوچنا چاہیے تھا کہ ہم نے فتویٰ لکھ کر کیا بنا لیا ہے.جس کو خدا نے کہا کہ ہو جاوے اس کو کون کہہ سکتا ہے کہ نہ ہو دے.یہ ہمارے مخالف بھی ہمارے نوکر چاکر ہیں.کہ مشرق ومغرب میں ہماری بات کو پہنچا دیتے ہیں.ابھی ہم نے سُنا ہے کہ گولڑے والا پیر ایک کتاب ہمارے برخلاف

Page 265

250 لکھنے والا ہے.سو ہم خوش ہیں کہ اس کے مُریدوں میں سے جس کو خبر نہ تھی اس کو بھی خبر ہو جاوے گی.ان کو ہماری کتابوں کے دیکھنے کے لئے ایک تحریک پیدا ہوگی.اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے.اور ہمارے دلوں پر ایک اثر چھوڑ گئے کہ میں لاہور میں جا کر بھی اپنے تئیں اس کے سبب وجد میں پاتا تھا.ایک اور وقت میں فرمایا کہ یہ جو حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں ذلیل لوگ عزت پا جائیں گے.سو یہ بات چوہڑوں اور چماروں کے عیسائی ہونے سے پوری ہوئی کہ اُن کو انگریزی کی تعلیم دے کر اور انگریزی نام رکھ کر دفتروں میں افسر کیا جاتا ہے اور بڑے بڑے خاندانی اُن کے سامنے خادم ذلیل کی طرح کھڑے ہوتے ہیں.وحدت شهود صاحبزادہ سراج الحق نے ایک لطیفہ سنایا کہ میں وحدت وجود کے مسئلہ کا قائل تھا اور شہودیوں کا سخت مخالف.جب میں پہلے پہل حضرت اقدس مرزا صاحب کی خدمت میں پہنچا.تو میں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا.تو آپ نے فرمایا کہ ایک سمندر ہے جس میں سے سب شاخیں نکلتی ہیں.مگر ہمیں شہود یوں والی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف کے شروع ہی میں جو کہا گیا ہے.الحمد لله ربّ العالمین.علمین کا رب.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رب اور ہے، اور عالم اور ہے.ورنہ اگر وحدت وجود والی بات صحیح ہوتی تو رب العین کہا جاتا.ظہر اور عصر کے وقت حضور اقدس پھر تشریف لائے اور عصر کے بعد جُدائی کا کڑوا گھونٹ میں نے پیا.بعدہ پھر وہی لاہور کی گلیاں اور وہی میں.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَ كَفَرْعَنَّا سَيِّئَاتِنا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْوَار - محمد صادق - دسمبر ۱۸۹۹ء ایک سے

Page 266

251 باب دہم عاجز راقم کی چند روایات منقول از کتاب سیرة المهدی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تالیف کردہ کتاب سیرۃ المہدی میں چند روایات عاجز کی بیان کردہ درج کی ہیں.ان کو بھی یہاں نقل کر دیا جاتا ہے: حضرت مسیح موعود سفر میں بسم الله الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام جب کسی سفر پر تشریف لے جانے لگتے تھے.تو عموماً مجھے فرما دیتے تھے کہ ساتھ جانے والوں کی فہرست بنا لی جائے.اور ان دنوں میں جو مہمان قادیان آئے ہوئے ہوتے.ان میں سے بعض کے متعلق فرما دیتے تھے کہ ان کا نام لکھ لیں اور اوائل میں حضرت صاحب انٹر کلاس میں سفر کیا کرتے تھے اور اگر حضرت بیوی صاحبہ ساتھ ہوتی تھیں تو ان کو اور دیگر مستورات کو زنانہ تھرڈ کلاس میں بٹھا دیا کرتے تھے.اور حضرت صاحب کا یہ طریق تھا کہ زنانہ سواریوں کو خود ساتھ جا کر اپنے سامنے زنانہ گاڑی میں بٹھاتے تھے اور پھر اس کے بعد خود اپنی گاڑی میں خدام کے ساتھ بیٹھ جاتے تھے.اور جس اسٹیشن پر اُترنا ہوتا تھا.اس پر بھی خود زنانہ گاڑی کے پاس جا کر اپنے سامنے حضرت بیوی صاحبہ کو اُتارتے تھے مگر دورانِ سفر میں سٹیشنوں پر عموماً خود اتر کر زنا نہ گاڑی کے پاس دریافت حالات کے لئے نہیں جاتے تھے بلکہ کسی خادم کو بھیج دیا کرتے تھے اور سفر میں حضرت صاحب اپنے خدام کے آرام کا بہت خیال رکھا کرتے تھے.اور آخری سالوں میں حضور عموماً ایک سالم سیکنڈ کلاس کمرہ اپنے لئے ریزرو کروا لیا کرتے تھے اور اس میں حضرت بیوی صاحبہ اور بچوں کے ساتھ سفر فرماتے تھے اور حضوڑ کے اصحاب دوسری گاڑی میں بیٹھتے تھے.مگر مختلف سٹیشنوں پر اُتر اُتر کر وہ حضور سے ملتے رہتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضور الگ کمرے کو اس خیال سے ریز رو کر وا لیتے تھے.کہ تا کہ حضرت والدہ صاحبہ کو علیحدہ کمرہ میں تکلیف نہ ہو.اور حضوڑ اپنے اہل وعیال کے ساتھ اطمینان کے

Page 267

252 ساتھ سفر کر سکیں.نیز آخری ایام میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفر کے وقت عموماً ہرسٹیشن پرسینکڑوں ہزاروں زائرین کا مجمع ہو جاتا تھا.اور ہر مذہب و ملت کے لوگ بڑی کثرت کے ساتھ حضور کو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے تھے.اور مخالف و موافق ہر قسم کے لوگوں کا مجمع ہوتا تھا.اس لئے بھی کمرہ کا ریز رو کروانا ضروری ہوتا تھا.تا کہ حضور اور حضرت والدہ صاحبہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ اپنے کمرے کے اندر تشریف رکھ سکیں.اور بعض اوقات حضور ملاقات کرنے کے لئے گاڑی سے باہر نکل کر سٹیشن پر تشریف لے آیا کرتے تھے.مگر عموماً گاڑی ہی میں بیٹھے ہوئے کھڑکی میں سے ملاقات فرما لیتے تھے اور ملنے والے لوگ باہر اسٹیشن پر کھڑے رہتے تھے.نیز مفتی صاحب نے فرمایا کہ جس سفر میں حضرت ام المومنین حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں.اُس میں میں حضور کے قیام گاہ میں حضوڑ کے کمرے کے اندر ہی ایک چھوٹی سی چار پائی لے کر سور ہتا تھا تا کہ اگر حضوڑ کو رات کے وقت کوئی صورت پیش آئے.تو میں خدمت کر سکوں چنانچہ اس زمانہ میں چونکہ مجھے ہوشیار اور فکرمند ہوکر سونا پڑتا تھا.تا کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت صاحب مجھے کوئی آواز دیں، اور میں جاگنے میں دیر کروں.اس لئے اس وقت سے میری نیند بہت ہلکی ہو گئی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کبھی مجھے آواز دیتے تھے اور میری آنکھ نہ کھلی تھی.تو حضور آہستہ سے اُٹھ کر میری چارپائی پر بیٹھ جاتے تھے.اور میرے بدن پر اپنا دست مبارک رکھ دیتے تھے.جس سے میں جاگ پڑتا تھا.اور سب سے پہلے حضور وقت دریافت فرماتے تھے.اور حضور کو جب الہام ہوتا تھا.حضور مجھے جگا کر نوٹ کروا دیتے تھے.چنانچہ ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت نے مجھے الہام لکھنے کے لئے جگایا مگر اُس وقت اتفاق سے میرے پاس کوئی قلم نہیں تھا.چنانچہ میں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لے کر اس سے الہام لکھا.لیکن اس وقت کے بعد سے میں ہمیشہ با قاعدہ پینسل یا فونٹین پین اپنے پاس رکھنے لگا.“ حضرت مسیح موعود کی سیر بسم اللہ الرحمن الرحیم.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عموماً صبح کے وقت سیر کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے اور عموماً بہت سے اصحاب حضور کے ساتھ ہو جاتے تھے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے بعض طالب علم بھی حضور کے ساتھ جانے کے شوق میں.کسی بہانہ و حیلے سے اپنے کلاس روم سے نکل کر حضوڑ کے ساتھ ہو لیتے تھے.اساتذہ کو پتہ لگتا تھا تو تعلیم کے حرج کا خیال کر کے بعض اوقات ایسے طلباء کو بلا اجازت چلا جانے پر سزا وغیرہ بھی دیتے تھے.مگر بچوں کو کچھ ایسا شوق تھا کہ وہ عمو ماً موقع پا کر نکل ہی جاتے تھے.

Page 268

253 ملکہ کا راج بسم الله الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں میں کسی وجہ سے اپنی بیوی مرحومہ پر کچھ خفا ہوا.جس پر میری بیوی نے حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی بڑی بیوی کے پاس جا کر میری ناراضگی کا ذکر کیا.اور حضرت مولوی صاحب کی بیوی نے مولوی صاحب سے ذکر کر دیا.اس کے بعد میں جب مولوی عبدالکریم صاحب سے ملا تو اُنہوں نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ کو یا درکھنا چاہئیے.کہ یہاں ملکہ کا راج ہے.بس اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا مگر میں اُن کا مطلب سمجھ گیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے یہ الفاظ عجیب معنی خیز ہیں.کیونکہ ایک طرف تو ان دنوں میں برطانیہ کے تخت پر ملکہ وکٹوریہ متمکن تھیں اور دوسری طرف حضرت مولوی صاحب کا اس طرف اشارہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خانگی معاملات میں حضرت ام المومنین کی بات بہت مانتے ہیں.اور گویا گھر میں حضرت ام المومنین کی حکومت ہے.اور اس اشارہ سے مولوی صاحب کا مقصد یہ تھا.کہ مفتی صاحب کو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہئیے.حضرت مسیح موعود کا حلم اور کرم بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے خدام کے ساتھ بہت بے تکلف رہتے تھے.جس کے نتیجہ میں خدام بھی حضور کے ساتھ ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے بے تکلفی سے بات کر لیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ میں لاہور سے حضور کی ملاقات کے لئے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کے لئے رضائی وغیرہ نہیں تھی.میں نے حضرت کی خدمت میں کہلا بھیجا کہ حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے.حضوڑا مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں.حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک ڈھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے، اور ڈھسا میرا.آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں.اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں.میں نے رضائی رکھ لی اور ڈھسا واپس بھیج دیا.نیز مفتی صاحب نے بیان کیا کہ جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا.تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا.جو خادم کھانا لا یا.وہ یو نہی گھلا کھانا لے آیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح

Page 269

254 ساتھ لے جائیں گے.کوئی رُومال بھی تو ساتھ لانا تھا.جس میں کھا نا باندھ دیا جاتا.اچھا میں کچھ انتظام کرتا ہوں.اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارہ کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا.ایک دفعہ سفر جہلم کے دوران میں جبکہ حضور کو کثرت پیشاب کی شکایت تھی.حضور نے مجھ سے فرمایا کہ مفتی صاحب! مجھے پیشاب کثرت کے ساتھ آتا ہے.کوئی برتن لائیں.جس میں میں رات کو پیشاب کر لیا کروں.میں نے تلاش کر کے ایک مٹی کا لوٹا لا دیا.جب صبح ہوئی تو میں لوٹا اُٹھانے لگا.تا کہ پیشاب گرا دوں.مگر حضرت صاحب نے مجھے روکا اور کہا کہ نہیں آپ نہ اُٹھا ئیں میں خود گرادوں گا.اور باوجو د میرے اصرار کے ساتھ عرض کرنے کے آپ نے نہ مانا.اور خود ہی لوٹا اٹھا کر مناسب جگہ پیشاب کو گرا دیا.لیکن اس کے بعد جب پھر یہ موقعہ آیا تو میں نے بڑے اصرار کے ساتھ عرض کیا کہ میں گراؤں گا جس پر حضرت صاحب نے میری عرض کو قبول کر لیا.نیز مفتی صاحب نے بیان فرمایا کہ حضرت صاحب نے ایک دفعہ دو گھڑیاں عنایت فرما ئیں.اور کہا کہ یہ عرصے سے ہمارے پاس رکھی ہوئی ہیں.اور کچھ بگڑی ہوئی ہیں.آپ انہیں ٹھیک کرا لیں اور خود ہی رکھیں.قلم جس سے حضرت صاحب لکھا کرتے تھے بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے.اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے.تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے.تو دوسری کے لئے انتظار نہ کرنا پڑے.کیونکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے.لیکن ایک دفعہ جبکہ عید کا موقع تھا.میں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نہیں پیش کیں.اس وقت تو حضرت صاحب نے خاموشی کے ساتھ رکھ لیں.لیکن جب میں لاہور واپس گیا.تو دو تین دن کے بعد حضرت کا خط آیا کہ آپ کی وہ نہیں بہت اچھی ہیں.اور اب میں اُن ہی سے لکھا کروں گا.آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھیج دیں.چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوادی.اور اس کے بعد اس قسم کی نہیں حضور کی خدمت میں پیش کرتا رہا.لیکن جیسا کہ ولائیتی چیزوں کا قاعدہ ہوتا ہے.کچھ عرصے کے بعد مال میں کچھ نقص پیدا ہو گیا.اور حضرت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اب یہ تب اچھا نہیں لکھتا جس پر مجھے آئندہ کے لئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر دامنگیر ہوا اور میں نے کارخانے کے مالک کو ولائیت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نہیں پیش کیا کرتا تھا.لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے.او رمجھ کو اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے.اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں

Page 270

255 اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا.کہ تم جانتے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں؟ اور پھر میں نے حضور کے دعوے وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی.کچھ عرصے کے بعد اس کا جواب آیا.جس میں اُس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلی قسم کی ڈبیہ مفت ارسال کی.جو میں نے حضرت کے حضور پیش کر دیں اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا.حضور یہ ذکر سُن کر مسکرائے.مگر مولوی عبد الکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے.ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ جس طرح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دُوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے.اسی طرح آپ نے بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نیوں کے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے دعاوی کا ذکر شروع کر دیا.لیکن یہ کوئی گریز نہیں.زبر دستی ہے.نماز استسقاء بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ نماز استقاء ہوئی تھی جس میں حضرت صاحب بھی شامل ہوئے تھے.اور شاید مولوی محمد احسن صاحب مرحوم امام ہوئے تھے.لوگ اس نماز میں بہت روئے تھے.مگر حضرت صاحب میں ضبط کمال کا تھا.اس لئے آپ کو میں نے روتے نہیں دیکھا.اور مجھ کو یاد ہے کہ اس کے بعد جلد بادل آ کر بارش ہوگئی تھی.بلکہ شاید اُسی دن بارش ہوگئی تھی.رقت بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح.کہ ایک دفعہ آپ اپنے خدام کے ساتھ سیر کے لئے تشریف لے جارہے تھے.اور ان دنوں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے داماد قا دیان آئے ہوئے تھے.کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں.حضرت صاحب وہیں راستے کے ایک طرف بیٹھ گئے.اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سُنا ئیں.چنانچہ اُنہوں نے قرآن شریف پڑھ کر سُنایا.تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا.مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا.حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا.

Page 271

256 خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا.اور جب کبھی آپ روتے بھی تھے.تو صرف ایک حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں.اس سے زیادہ آپ کو روتے نہیں دیکھا گیا.اللہ دین فلاسفر بسم اللہ الرحمن الرحیم.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ اللہ دین عرف فلاسفر نے جن کی زبان کچھ آزا د واقع ہوئی ہے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی.جس پر حضرت مولوی صاحب کو غصہ آ گیا.اور انہوں نے فلاسفر صاحب کو ایک تھپڑ مار دیا.اس پر فلاسفر صاحب اور تیز ہو گئے.اور بہت برا بھلا کہنے لگے.جس پر بعض لوگوں نے فلاسفر کو خوب اچھی طرح زدو کوب کیا.اس پر فلاسفر نے چوک میں کھڑے ہو کر بڑے زور سے رونا چلانا شروع کیا.اور آہ و پکار کے نعرے بلند کئے.یہ آواز اندرون خانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کانوں تک جا پہنچی اور آپ بہت ناراض ہوئے.چنانچہ جب آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے.تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے.اُس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت نا پسندیدہ فعل ہے.اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے.مولوی عبد الکریم صاحب نے فلاسفر کے گستاخانہ رویہ اور اپنی بریت کے متعلق کچھ عرض کیا.مگر حضرت صاحب نے غصے سے فرمایا کہ نہیں یہ بہت نا واجب بات ہوتی ہے.جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے.تو آپ کو خود بخو دا پنی رائے سے کو ئی فعل نہیں کرنا چاہیئے تھا.بلکہ مجھ سے دریافت کرنا چاہیے تھا.وغیر ذالک.حضرت صاحب کی اس تقریر پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا فرمائیں اور اس کے بعد مارنے والوں نے فلاسفر سے معافی مانگ کر اُسے راضی کیا.اور اُسے دودھ وغیرہ پلایا.

Page 272

257 گیارھواں باب عاجز راقم پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نظرِ شفقت مجھے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق الہام ہوا.اِمَامًا وَنِعْمَةً - غالباً ۱۹۰۵ء میں ( حضور میرے امام تھے.اور میرے لئے بڑی نعمت تھے.روحانی اور جسمانی انعامات مجھے حضور سے حاصل ہوتے رہتے.ایک دفعہ جبکہ میں بہت بیمار ہو گیا.19ء کا واقعہ ہے.اور میری والدہ مرحومہ بھی یہاں تشریف لائی ہوئی تھیں.انہوں نے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر میری صحت کے لئے دُعا کے واسطے تحریک کی.حضور نے فرمایا کہ ہم تو ان کے لئے دُعاء کرتے ہی رہتے ہیں.آپ کو خیال ہوگا کہ صادق آپ کا بیٹا ہے.اور آپ کو بہت پیارا ہے.لیکن میرا دعوی ہے کہ وہ مجھے آپ سے زیادہ پیارا ہے.خطبہ الہامیہ کو یاد کرنا جب حضرت صاحب نے خطبہ الہامیہ پڑھا تو حضور نے فرمایا کہ بعض نو جوان اس کو یا دکر لیں.چنانچہ حافظ غلام محمد صاحب ( مبلغ ماریشس ) نے اس کا بہت سا حصہ یاد کیا.عاجز نے بھی چند سطریں یا د کیں.اور ایک شام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں حضور کے فرمانے سے کھڑے ہوکر سُنا ئیں.ایک دفعہ جب میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.پچھلی رات کو تھوڑی سر دی ہو جایا کرتی تھی.حضرت صاحب نے مجھے خادم لڑکے کے ہاتھ دو کپڑے بھیجے.ایک گرم پشمینہ کی چادر اور ایک روئی دار ڈلائی ( جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تھی ) اور کہلا بھیجا.ان میں سے جو ایک پسند ہو رکھ لیں ، یا دونوں رکھ لیں.میں نے ڈلائی رکھ لی اور چادر واپس کی.اس خیال سے کہ چادر بہت قیمتی تھی اور نیز اس خیال سے کہ دلائی صاحبزادہ صاحب کی مستعملہ تھی.وضو کے واسطے پانی لا دیا ایک دفعہ میں وضوء کے واسطے پانی کی تلاش میں لوٹا ہاتھ میں لئے اُس دروازے کے اندر

Page 273

258 گیا جو مسجد مبارک میں سے حضرت صاحب کے اندرونی مکانات کو جاتا ہے.تا کہ وہاں حضرت صاحب کے کسی خادم کو لوٹا دے کر پانی اندر سے منگواؤں.اتفاقاً اندر سے حضرت صاحب تشریف لائے.مجھے کھڑا دیکھ کر فرمایا.آپ کو پانی چاہئیے.میں نے عرض کی ہاں حضور.حضور نے لوٹا میرے ہاتھ سے لے لیا.اور فرمایا.میں لا دیتا ہوں اور خود اندر سے پانی ڈال کر لے آئے اور مجھے عطاء فرمایا.آموں کی دعوت گا ہے حضور اپنے باغ سے آم منگوا کر خذ ام کو کھلاتے.ایک دفعہ عاجز راقم لا ہور سے چند یوم کی رخصت پر قادیان آیا ہوا تھا.کہ حضور نے عاجز راقم کی خاطر ایک ٹوکرا آموں کا منگوایا.اور مجھے اپنے کمرہ ( نشست گاہ) میں بلا کر فرمایا.کہ مفتی صاحب! یہ میں نے آپ کے واسطے منگوایا ہے.کھا لیں.میں کتنے کھا سکتا تھا.چند ایک میں نے کھا لئے.اس پر تعجب سے فرمایا کہ آپ نے بہت تھوڑے کھائے ہیں.“ مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.غالباً ۱۸۹۷ء یا ۱۸۹۸ء کا واقعہ ہو گا.مجھے حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اُس وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی.فرمایا کہ آپ بیٹھنے میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں.یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے.مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھڑ کی کھلی ، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اُٹھائے ہوئے میرے لئے کھانا لائے ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.بے اختیا ر رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتداء ، پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں.تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی رکس قدرخدمت عاجز کے مکان پر تشریف لے گئے کرنی چاہئیے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بمعہ خدام ایک مقدمہ میں شہادت کے واسطے ملتان تشریف لے گئے.اور واپسی پر لاہور میں ایک دو روز ٹھیرے.تو عاجز راقم بیمار تھا.حضور کی خدمت میں حاضر نہ ہو سکا.حضور نے دریافت کیا کہ مفتی صاحب ملنے نہیں آئے.کیا سبب ہے.کسی نے عرض کی کہ وہ بیمار ہیں.چل نہیں سکتے.اس پر حضور خود میرے مکان پر محلہ ستہاں میں تشریف لائے.دیر تک میرے پاس بیٹھے رہے.پانی منگوا کر کچھ پڑھ کر اُس میں دم کیا اور مجھے پلایا اور اُٹھتے ہوئے

Page 274

259 فرمایا.آپ بیمار ہیں.بیمار کی دعاء بھی قبول ہوتی ہے.آپ ہماری کامیابی کے واسطے دُعاء کریں.راقم کے متعلق حضرت صاحب کی ایک تحریر ایک دفعہ اخباری اور اشتہاری مناظرہ میں شیخ محمد چٹو صاحب لاہوری نے عاجز کے متعلق سخت الفاظ استعمال کئے.جس پر حضرت صاحب نے شیخ صاحب کو ایک نوٹس دیا جو درج ذیل کیا جاتا ہے: بعد دُعاء کے واضح ہو کہ بدر کے اخبار ۲ / جنوری ۱۹۰۷ء نمبرے میں جو میری طرف سے آپ کی طرف ایک مضمون چھپا تھا.اس کے جواب میں کسی شخص نے اخبار ۲۴ / جنوری کو ایک مضمون طبع کرا کر اور رجسٹری کرا کر میری طرف بھیجا ہے.اور آخیر پر آپ کا نام لکھ دیا ہے.گویا اس تحریر کے آپ ہی راقم ہیں.اور اس میں مجھے مخاطب کر کے یہ اعتراض کیا ہے کہ کس طرح سمجھا جائے کہ یہ آپ کی طرف سے مضمون ہے.اس پر آپ کے دستخط نہیں.اور قرآن شریف میں ہے کہ اگر کوئی فاسق یعنی بد کارخبر د یوے.تو تحقیق کر لینا چاہیے کہ وہ خبر صحیح ہے یا نہیں.اور اس فقرہ سے کا تب مضمون نے میرے دوست عزیز القدر مفتی محمد صادق ایڈیٹر اخبار کو جو ایک صالح اور متقی آدمی ہیں.فاسق اور بد کار آدمی قرار دیا ہے.میں باور نہیں کر سکتا کہ ایسی ناپاک تہمت کا لفظ جس کے رُو سے خود ایسا انسان فاسق ٹھہرتا ہے.آپ کے منہ سے نکلا ہو.اور ہر ایک اہل علم کو معلوم ہے کہ شریعت اسلام کا یہ فتوی ہے.اگر کوئی شخص کسی کو کا فریا فاسق کہے اور وہ اس لفظ کا مستحق نہ ہو.تو وہ کفر اور فسق اسی شخص کی طرف لوٹ آتا ہے.اور گورنمنٹ انگریزی کے قانون کی رُو سے بھی کسی کو فاسق یا بد کار کہنا ایسے صاف طور پر ازالہ حیثیت عرفی میں داخل ہے.کہ ایسا شریر انسان ایک ہی پیشی میں جیل خانہ دیکھ لیتا ہے.پس کچھ شک نہیں.کہ اگر مفتی صاحب عدالت میں ازالہ حیثیت عرفی کی نسبت نالش کریں، تو ایسا بد قسمت اور جاہل انسان جس نے ان کی نسبت یہ نا پاک لفظ بولا ہے.فوجداری جرم میں بے چون و چرا سزا پا سکتا ہے.مگر آپ پر میں نیک فن کرتا ہوں.مجھے اُمید نہیں اور ہرگز امید نہیں کہ ایسا لفظ آپ کے منہ سے نکلا ہو.چونکہ آپ محض ناخواندہ ہیں.اور بوجہ نا خواندہ ہونے کے اخباروں اور رسالوں کو پڑھ نہیں سکتے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ آپ اس نالائق حرکت سے بری ہیں.بلکہ کسی خبیث اور نا پاک طبع اور نہایت درجہ کے بدفطرت کا یہ کام ہے کہ بغیر تفتیش کے نیکوں اور راستبازوں کا نام بد کار اور فاسق لکھتا ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے براہ مہربانی اطلاع دیں گے کہ کس پلید طبع اور بدفطرت کے منہ سے یہ کلمہ نکلا ہے.حالانکہ مفتی صاحب چاہیں.تو عدالت میں چارہ جوئی کریں.

Page 275

260 کیونکہ بد کار اور فاسق ہونے کی حالت میں ان کے اخبار کی بدنامی ہے.اور علاوہ سزا دلانے کے دیوانی ناریش سے اپنا خرچہ بھی لے سکتے ہیں.اور ایسی تحریر جس میں ایسے گندے اور نا پاک الفاظ ہیں.میں کسی طرح آپ کی طرف منسوب کر ہی نہیں سکتا.آپ کی بڑی مہربانی ہو گی.اگر آپ ایسے نا پاک طبع کے نام سے اطلاع دیں گے.آئندہ اگر آپ کچھ لکھنا چاہیں ، تو اس حالت میں اعتبار کیا جاوے گا.جب کہ اس تحریر پر آپ کے دستخط ہوں گے.مجھے خیال آتا ہے کہ شاید آپ کے کسی نا پاک طبع پوشیدہ دشمن نے آپ کی طرف سے ظاہر کرنے کے لئے خود یہ لفظ بد کار اور فاسق کا لکھ دیا ہے.اور محض چالاکی سے آپ کی طرف اس ناپاک اور گندے لفظ کو منسوب کر دیا ہے.تا آپ کو اس پیرانہ سالی کی عمر میں کسی سخت سزا میں پھنسا دے.براہ مہربانی جلد اس کا جواب دیں.“ میں ہوں آپ کا دلی خیر خواہ مرزا غلام احمد مسیح موعود یا در ہے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے یہ چند سطر میں لکھ کر اخبار میں چھپوائی ہیں اور اسی غرض سے یہ تحریر و تخطی اپنی آپ کی خدمت میں بھیجتا ہوں.آپ بھی جو کچھ میرے جواب میں چھپوا ئیں.اصل پر چہ د تخطی اپنا جس پر دو گواہوں کی شہادت ہو.اور آپ کے دستخط ہوں ، ساتھ بھیج دیں.“ مرزا غلام احمد مسیح موعود شیخ محمد چٹو صاحب نے اس کے جواب میں معذرت کی.وہ لکھنا اور پڑھنا نہ جانتے تھے ) ایک مقدمہ کے دوران میں اپنی جماعت میں سے چند آدمیوں کی شہادت کی ضرورت تھی.اس میں گواہوں کی فہرست میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود میرا نام وکلا کے سامنے پیش کیا اور یہ فرمایا " مفتی صاحب تو گداز ہیں.ان کو اس شہادت میں ضرور شامل کرنا چاہئیے.“ اس کا ذکر بعد میں مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے کیا.غالبًا ۱۹۳ ء یا ت ا ء کا واقعہ ہے کہ اخباروں میں یہ خبر مشہور ہوئی.کہ شاہ جاپان کو ایک نئے مذہب کی تلاش ہے اور اس غرض کے لئے جاپان میں ایک کانفرنس ہونے والی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں جب اس کا ذکر ہوا.تو حضور نے فرمایا کہ ”ہم ایک مضمون لکھ کر مفتی محمد صادق صاحب کو وہاں بھیج دیں گے.تا کہ یہ اُس کا نفرنس میں ہمارا مضمون پڑھ دیں.“ پھر فرمایا.مفتی صاحب ایک بہادر آدمی ہیں.اس کے بعد اس کانفرنس کی زیادہ وقعت کا چرچا ہوا.اور تجویز ہوئی کہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور مولوی محمد علی صاحب بھی وہاں بھیجے جائیں.لیکن

Page 276

261 اُن دنوں قاری سرفراز حسین صاحب جاپان پہنچے.اور انہوں نے وہاں سے ہندوستان کے اخباروں کو خط لکھے.کہ یہ خبر بالکل غلط ہے.یہاں کوئی کانفرنس ہونے والی نہیں.اس واسطے یہ بات درمیان ہی میں رہ گئی.جب میں پہلے پہل ہجرت کر کے قادیان آیا تو برابر ایک سال تک میرا اور میرے اہل و عیال کا کھانا دونوں وقت لنگر سے آتا رہا.میں نے کئی بار حضرت کی خدمت میں عرض کی.کہ چونکہ اب میں یہاں ملازم ہوں.اور صورت مہمانی کی نہیں ہے.اس لئے میرے واسطے مناسب ہے کہ میں اپنے کھانے کا خود انتظام کروں.مگر حضرت صاحب نے اجازت نہ دی.ایک سال کے بعد جب میں نے ایسا رقعہ لکھا.اور اس میں میں نے یہ اصرار کیا کہ میں اس واسطے اپنا انتظام علیحدہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرا بوجھ جولنگر پر ہے.وہ خفیف ہو کر مجھے ثواب حاصل ہو.اس کے جواب میں حضرت صاحب نے مجھے لکھا کہ چونکہ آپ بار بار لکھتے ہیں، اس واسطے میں آپ کو اجازت دیتا ہوں.اگر چہ آپ کے لئے لنگر سے کھانا لینے کی صورت میں بھی آپ کے ثواب میں کوئی کمی نہ تھی.“ جن ایام میں میں دفتر کونٹنٹ جنرل لاہور میں ملازم تھا.اور بعض دینی خدمات کے خیال سے یا صرف حضرت صاحب کی ملاقات کے شوق میں بار بار قادیان آتا تھا.بلکہ بعض مہینوں میں ایسا ہوتا کہ ہرا تو ار میں قادیان آ جاتا.ان ایام میں عموماً حضرت صاحب مجھے واپسی کے وقت دو روپے مرحمت فرمایا کرتے تھے.اور فرماتے تھے کہ آپ کی اس دینی خدمت میں ہم بھی ثواب لینا چاہتے ہیں.اُن ایام میں دوروپے میں لاہور قادیان کی آمد و رفت ہو جاتی تھی.الحکم نمبر ۲۳ جلد۷ مورخه ۲۴ / جون ۱۹۰۳ء 66 مفتی محمد صادق صاحب کو فرمایا : جبکہ انہوں نے مسٹروب کا ایک خط سُنایا کہ ان کو لکھ دو کہ عمر گذر جاتی ہے.جو کرنا ہے ، اب کر لو.دن بدن قومی کمزور ہوتے جاتے ہیں.دس برس پہلے جو قوی تھے ، وہ آج کہاں ہیں.گذشتہ کا حساب کچھ نہیں.آئندہ کا اعتبار نہیں.جو کچھ کرنا ہو آ دمی کو موجودہ وقت کو غنیمت سمجھ کر کرنا چاہئیے اب اسلام کی خدمت کر لو.اول واقفیت پیدا کرو، کہ ٹھیک اسلام کیا ہے.اسلام کی خدمت جو شخص درویشی اور قناعت سے کرتا ہے.وہ ایک معجزہ اور نشان ہو جاتا ہے.جو جمعیت کے ساتھ کرتا ہے.اس کا مزا نہیں آتا.کیونکہ تو کل علی اللہ کا پورا لطف نہیں رہتا.اور جب تو کل پر کام کیا جائے.اللہ مدد کرتا ہے اور یہ باتیں رُوحانیت سے پیدا ہوتی ہیں.جب روحانیت انسان کے اندر پیدا ہو، تو وہ وضع بدل دیتا ہے.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح صحابہ کی وضع بدل دی.یہ

Page 277

262 سارا کام اس کشش نے کیا جو صادق کے اندر ہوتی ہے.یہ خیالات باطل ہیں.کہ کئی لاکھ روپیہ ہو تو کام چلے.خدا پر توکل کر کے جب ایک کام شروع کیا جائے.اور اصل غرض اُس سے دین کی خدمت ہو.تو وہ خود مددگار ہو جاتا ہے.اور سارے سامان اور اسباب بہم پہنچا دیتا ہے.۳/۹/۱۹۰۲ عا جز راقم کی تبدیلی مدرسہ سے ایڈیٹری البدر کی طرف جب مارچ ۱۹۰۲ء میں برادرم محمد افضل خاں صاحب مرحوم کی وفات ہوئی اور عاجز راقم کی خدمات تعلیم الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری سے اخبار البدر کی ایڈیٹری کی طرف منتقل کی گئیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت مولوی نورالدین صاحب کی طرف سے مفصلہ ذیل اعلانات شائع ہوئے.جو اخبار البدر جلد نمبر ا ، مورخہ ۶ را پریل ۱۹۰۵ء سے نقل کئے جاتے ہیں : بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم اطلاع میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ منشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے اُن کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آ گیا ہے.یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن ، جوان ، صالح اور ہر یک طور سے لایق ، جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی ، قائم مقام منشی محمد افضل مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اُٹھی ہے کہ اس کا ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام ان کے لئے مبارک کرے.اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین.خاکسار مرزا غلام احمد ۲۳ محرم الحرام ۱۳۲۳ھ علی صاحبا التحيه والسلام - ۳۰ / مارچ ۱۹۰۵ء میرا دل گوارا نہیں کر سکتا تھا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رُک جائے.البدر کے چند روزہ وقفہ کا رنج تھا.سردست اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے تدبیر نکالی ہے.کہ میاں معراج الدین عمر جن کو دینی امور میں اللہ تعالیٰ نے خاص جوش بخشا ہے.اس طرف متوجہ ہوئے.اور نصرت اللہ یوں جلوہ گر ہوئی کہ اس کی ایڈیٹری کیلئے میرے نہایت عزیز مفتی محمد صادق صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان کو منتخب کیا گیا.اور اس تجویز کو حضرت امام نے بھی پسند فرمایا.میں یقین کرتا ہوں کہ

Page 278

263 ہمارے احباب اس نعم البدل پر بہت خوش ہوں گے.نورالدین لاہور سے ہمارے حصہ میں مفتی صاحب آئے ذیل کی عبارت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی ایک مراسلت سے اقتباسالی گئی ہے.جو الحکم جلد نمبر ۲ مورخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۰ء میں شائع ہوئی تھی.حضرت کبھی پسند نہیں کرتے کہ خدام ان کے پاس سے جا ئیں.آنے پر بڑے خوش ہوتے ہیں.اور جانے پر اکراہ سے رخصت دیتے ہیں.اور کثرت سے آنے جانے والوں کو بہت ہی پسند فرماتے ہیں.اب کی دفعہ دسمبر میں بہت کم لوگ آئے.اس پر بہت اظہار افسوس کیا.اور فرمایا.” ہنوز لوگ ہمارے اغراض سے واقف نہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں کہ وہ بن جائیں.وہ غرض جو ہم چاہتے ہیں.اور جس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے.وہ پوری نہیں ہو سکتی جب تک لوگ یہاں بار بار نہ آئیں.اور آنے سے ذرا بھی نہ اُکتائیں.اور فرمایا ”جو شخص ایسا خیال کرتا ہے کہ آنے میں اُس پر بوجھ پڑتا ہے یا ایسا سمجھتا ہے.کہ یہاں ٹھیر نے میں ہم پر بوجھ پڑتا ہوگا.اُسے ڈرنا چاہئیے کہ وہ شرک میں مبتلا ہے.ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ سارا جہان ہمارا عیال ہو جائے.تو ہماری مہمات کا متکفل خُدا تعالیٰ ہے.ہم پر ذرا بھی بوجھ نہیں.ہمیں تو دوستوں کے وجود سے بڑی راحت پہنچتی ہے.یہ وسوسہ ہے جسے دلوں سے دور پھینکنا چاہئیے.میں نے بعض کو یہ کہتے سُنا ہے کہ ہم یہاں بیٹھ کر کیوں حضرت صاحب کو تکلیف دیں.ہم تو سکتے ہیں، یونہی روٹی بیٹھ کر کیوں تو ڑا کریں.وہ یا درکھیں یہ شیطانی وسوسہ ہے.جو شیطان نے ان کے دلوں میں ڈالا ہے.کہ ان کے پیر یہاں جمنے نہ پائیں.ایک روز حکیم فضل الدین صاحب نے عرض کیا کہ حضور میں یہاں نکما بیٹھا کیا کرتا ہوں.مجھے حکم ہو تو بھیرہ چلا جاؤں.وہاں درس قرآن کریم ہی کروں گا.یہاں مجھے بڑی شرم آتی ہے کہ میں حضور کے کسی کام نہیں آتا.اور شاید بیکار بیٹھنے میں کوئی معصیت نہ ہو.فرمایا ” آپ کا یہاں بیٹھنا ہی جہاد ہے.اور یہ بیکاری ہی بڑا کام ہے.غرض بڑے دَ در ناک اور افسوس بھرے لفظوں میں نہ آنے والوں کی شکایت کی.اور فرمایا " یہ عذر کرنے والے وہی ہیں جنہوں نے حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے عذر کیا تھا.ان بيوتنالعورة.اور خدا تعالیٰ نے ان کی تکذیب کر دی کہ ان یریدون الافرارا.برادران میں بھی بہت کڑھتا ہوں اپنے ان بھائیوں کے حال پر جو آنے میں کوتا ہی کرتے ہیں.اور میں بارہا سوچتا ہوں.کہ کہاں سے ایسے الفاظ لاؤں.جو اُن کو یقین دلا سکوں.کہ

Page 279

264 یہاں رہنے میں کیا فائدے ہوتے ہیں.علم صحیح اور عقائد صحیح بجز یہاں رہنے کے میتر آ ہی نہیں سکتے.ایک مفتی صادق صاحب کو دیکھتا ہوں (سلمہ اللہ وبارک و علیہ وفیہ ) کہ کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود.مفتی صاحب تو عقاب کی طرح اسی تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کوئی فرصت غصب کریں اور محبوب اور مولیٰ کی زیارت کا شرف حاصل کریں.اے عزیز برادر خدا تیری ہمت میں استقامت اور تیری کوششوں میں برکت رکھے.اور تجھے ہماری جماعت میں قابل اقتدار اور قابل فخر کارنامہ بنائے.حضرت نے بھی فرمایا.لاہور سے ہمارے حصہ میں تو مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں.میں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کو کوئی بڑی آمدنی ہے اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہاتھ نہیں پڑتا.اور مفتی صاحب تو ہنوز نو عمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا امنگیں نہیں ہوا کرتیں.پھر مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشق کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے.کہ وہ ساری زنجیروں کو تو ڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اُتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن.نہ سردی نہ گرمی.نہ بارش نہ اندھیری ، آدھی آدھی رات کو یہاں پیادہ پہنچتے ہیں.جماعت کو اس نو جوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہئیے.۲۲ / اکتوبر ۱۸۹۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں حضور نے اپنی الہامی پیشگوئی ایک عزت کا خطاب‘ کے پورا ہونے کے متعلق تشریح فرمائی.کہ پیشگوئیاں کس طرح پوری ہوتی ہیں.اس میں حضور نے اپنا ایک خواب بھی بیان کیا ہے.وو جس میں میرا نام آتا ہے اور کچھ میرا ذکر بھی ہے.اس واسطے اُسے درج ذیل کیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا ہے.یہ میرا ہی خیال ہے.ابھی کوئی الہامی تشریح نہیں ہے.میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طرف سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے.اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑ دیتا ہے.مگر یہ تشریح جو ابھی میں نے کی ہے.اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے.جو ابھی ۱/۲۱ اکتوبر ۱۸۹۹ ء کو میں نے دیکھی ہے.اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں تھی مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے اور قبل اس کے جو میں اس خواب کی تفصیل بیان کروں.اس قدرلکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہو گا.کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں.جن کا گھر بھیرہ شاہ پور میں ہے.مگر ان دنوں میں اُن کی ملازمت لاہور میں ہے.یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اشتہا ر ۶ /اکتوبر ۱۸۹۹ء میں سہواً ان کا تذکرہ کرنا بھول گیا.وہ ہمیشہ میری دینی خدمات میں نہایت جوش سے

Page 280

265 مصروف ہیں.خدا اُن کو جزائے خیر دے.اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا.کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا چہرہ ہے.اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے.پہنے ہوئے ہیں.اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں.اور وہ لیٹے ہوئے ہیں.اور اُن کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے.یہ ہے کہ صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں.ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا.اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا ہے.کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے.اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں صادق سمجھا جاؤں گا.اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.۱۹۰۴ء میں جبکہ عاجز تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کا ہیڈ ماسٹر تھا.اور مقد مہ کرم دین کے سبب سفر گورداسپور میں اکثر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر رہتا تھا.اُن ایام میں گورداسپور میں مجھے ہلکا ہلکا بخار ہونے لگا.جو قریباً ہر وقت رہتا.اور مقدمہ کے بعد قادیان میں جب اس بخار کا سلسلہ زیادہ شروع ہو گیا.تو میں مدرسہ کے کام کی طرف بہت کم توجہ کر سکتا تھا.اور اکثر مکان پر رہتا.اور حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ( خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ) کے زیر علاج تھا.مگر جب اُن کے علاج سے فائدہ نہ ہوا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے خود بھی دوائیں دینی شروع کیں.اور بالآخر جس دوائی سے فائدہ ہوا.وہ ایک گولی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود اپنے ہاتھ سے روزانہ بنا کر مجھے بھیجا کرتے تھے.اور باوجود میرے اصرار کے کہ مجھے نسخہ بتا دیا جائے.نسخہ نہ بتاتے تھے.بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ میں خود ہی بنا کر بھیج دیا کروں گا.اور میں لینے کے واسطے اصرار اس واسطے کرتا تھا کہ روزانہ حضرت صاحب کو گولی کے تیار کرنے کی تکلیف نہ ہو.اور آپ کا قیمتی وقت میرے لئے خرچ نہ ہو.بلکہ اہم دینی کاموں میں صرف ہو.لیکن حضور از راہِ عنایت روزانہ خود ہی گولی بنا کر بھیجتے.بعد میں معلوم ہوا کہ اس میں بھنگ، دھتورا، کونین ، کافور اور اس قسم کی دیگر ادویہ تھیں.جواب حبّ جدید کے نام سے مشہور گولیاں قادیان کے دوائی فروشوں کے پاس ملتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی عادت ذرہ نوازی سے عاجز راقم پر جو نظر شفقت رکھتے تھے.اس کا ذکر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنی تالیف سیرت المہدی کے پیرا گراف نمبر ۲۹۸ میں کیا ہے.اُس کو میں درج ذیل کرتا ہوں :

Page 281

266 خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس مجموعہ کی کاپیاں لکھی جا رہی تھیں کہ مفتی صاحب امریکہ سے واپس تشریف لے آئے.اور اپنی بعض تقریروں میں انہوں نے یہ باتیں بیان کیں.خاکسار نے اس خیال سے کہ مفتی صاحب کا اِس کتاب میں حصہ ہو جاوے.انہیں درج کر دیا ہے: نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی بہت محبت رکھتے تھے.لیکن میں یہ محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے.جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے.تو فرماتے ” ہمارے مفتی صاحب“ اور جب مفتی صاحب لاہور سے قادیان آیا کرتے تھے.تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میرے نزدیک محبت اور اس کے اظہار کے اقسام ہیں.جنہیں نہ سمجھنے کی وجہ سے بعض وقت لوگ غلط خیالات قائم کر لیتے ہیں.انسان کی محبت اپنی بیوی سے اور رنگ کی ہوتی ہے.اور والدین سے اور رنگ کی ، رشتہ داروں سے اور رنگ کی ہوتی ہے اور دوسروں سے اور رنگ کی.رشتہ داروں میں سے عمر کے لحاظ سے چھوٹوں سے اور رنگ کی محبت ہوتی ہے.اور بڑوں سے اور رنگ کی.خادموں کے ساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے.اور دوسروں کے ساتھ اور رنگ کی.دوستوں میں سے بڑی عمر کے لوگوں کے ساتھ محبت اور رنگ کی ہوتی ہے.چھوٹوں کے ساتھ اور رنگ کی.اپنے جذبات محبت پر قابورکھنے والوں کے ساتھ اور رنگ کی ہوتی ہے.اور وہ جن کی بات بات سے محبت ٹیکے اور وہ اس جذ بہ کو قابو میں نہ رکھ سکیں اُن کے ساتھ اور نگ کی وغیرہ وغیرہ.غرض محبت اور محبت کے اظہار کے بہت سے شعبے اور بہت سی صورتیں ہیں.جن کے نظر انداز کرنے سے غلط نتائج پیدا ہو جاتے ہیں.ان باتوں کو نہ سمجھنے والے لوگوں نے فضیلت صحابہ کے متعلق بھی بعض غلط خیال قائم کئے ہیں.مثلاً حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید اور حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ کی مقابلہ فضیلت کے متعلق مسلمانوں میں بہت کچھ کہا اور لکھا گیا ہے.مگر خاکسار کے نزدیک اگر جہات اور نوعیت محبت کے اصول کو مد نظر رکھا جاوے.اور اس علم کی روشنی میں آنحضرت صلعم کے اُس طریق اور ان اقوال پر غور کیا جاوے.جن سے لوگ عموماً استدلال پکڑتے ہیں.تو بات جلد فیصلہ ہو جاوے.حضرت علی آنحضرت صلعم کے عزیز تھے.اور بالکل آپ کے بچوں کی طرح آپ کے ساتھ رہتے تھے.اس لئے ان کے متعلق آپ کا طریق اور آپ کے الفاظ اور قسم کی محبت کے حامل تھے.مگر حضرت ابو بکر آپ کے ہم عمر اور غیر خاندان سے تھے.اور سنجیدہ مزاج بزرگ آدمی تھے.اِس لئے اُن کے ساتھ آپ کا طریق اور آپ

Page 282

267 کے الفاظ اور قسم کے ہوتے تھے.ہر دو کو اپنے اپنے رنگ کے معیاروں سے ناپا جاوے.تو پھر موازنہ ہو سکتا ہے.مفتی محمد صادق صاحب سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی ہی محبت تھی.جیسے اپنے چھوٹے عزیزوں سے ہوتی ہے.اور اسی کے مطابق آپ کا ان کے ساتھ رویہ تھا.لہذا مولوی شیر علی صاحب کی روایت سے یہ مطلب نہ سمجھنا چاہئیے.اور نہ غالباً مولوی صاحب کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مفتی صاحب کے ساتھ مثلاً حضرت مولوی نورالدین صاحب یا مولوی عبد الکریم صاحب جیسے بزرگوں کی نسبت بھی زیادہ محبت تھی.

Page 283

268 باب بارھواں خطوط امام بنام غلام اللہ تعالیٰ کا فضل ہو حکیم محمد حسین صاحب قریشی ( موجد مفرح عنبرین ) پر اور ان کی اولاد پر.حکیم صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے خدام میں سے ہیں اور حضرت صاحب کو جو ادویہ وغیرہ لاہور سے منگوانی ہوتی تھیں.وہ بعض دفعہ حکیم صاحب کے ذریعہ سے منگواتے تھے اور بعض دفعہ منشی تاج الدین صاحب مرحوم کے ذریعہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر حکیم صاحب مرحوم کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر حکیم صاحب موصوف نے اُن تمام خطوط کو جو اُنہیں وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھے تھے جمع کر کے ایک رسالہ کی صورت میں چھاپ کر شائع کیا تھا.اور اس رسالہ کا نام خطوط امام بنام غلام رکھا تھا.اُن کی طرح میں بھی اس باب کا یہ نام رکھتا ہوں.مجھے حضرت صاحب کے دستی خطوط سب سے پہلے جموں میں ملے تھے.جہاں میں ۱۸۹۰ء سے ۱۸۹۵ء تک مدرس رہا.مگر وہ خطوط محفوظ نہیں رہے.ان دنوں حضرت صاحب کے ایک صاحبزادے مرزا فضل احمد صاحب مرحوم بھی جموں پولیس میں ملازم تھے.اور وہ خطوط زیادہ تر انہیں کے حالات کے استفسار پر تھے.۱۸۹۸ء سے ۱۹۰۰ ء تک عاجز لاہور میں پہلے قریب چھ ماہ مدرسہ انجمن حمایت اسلام شیرانوالہ دروازہ میں مدرس رہا.اور اس کے بعد ہجرت کر کے قادیان جانے تک دفتر اکو نٹنٹ جنرل پنجاب میں بطور کلرک ملازم رہا.اس عرصہ میں اکثر قادیان آتا رہتا تھا.اس واسطے خط و کتابت کی چنداں ضرورت نہ رہتی تھی.تاہم ان ایام میں جو خطوط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ سے لکھے ہوئے عاجز کو پہنچے.اُن میں سے بعض اب تک محفوظ ہیں.درج ذیل کئے جاتے ہیں اور تین خطوط کا بطور نمونہ عکس بھی چھاپا جاتا ہے.بعض خطوط کے مضامین کی وضاحت کے واسطے میں ساتھ ہی اپنا خط بھی چھاپ دیتا ہوں منشی صاحب مرحوم کے فرزند شیخ مظفر الدین صاحب آج کل پشاور میں سامان بجلی کا کا روبار کرتے ہیں اور مخلص احمدی ہیں.(مؤلف)

Page 284

269 جس کے جواب میں وہ خط ہے.تا کہ مطلب اچھی طرح سے سمجھ میں آئے : خط نمبر ا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محتمی عزیزی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمه اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عنایت نامہ پہنچا.میں آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور مجھے نہایت قوی یقین ہے کہ آپ تزکیہ نفس میں ترقی کریں گے.اور آخر خدا تعالیٰ سے ایک قوت ملے گی.جو گناہ کی زہریلی ہوا، اور اُس کے اُبال سے بچائیگی اور آج مجھے بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا ہے کہ کسی قد رعبرانی کو بھی سیکھ لوں.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو زبان کا سیکھنا بہت سہل ہو جاتا ہے.آپ نے مجھے انگریزی میں تو بہت مدددی ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ وقت ملنے پر میں جلد تر بہت کچھ انگریزی میں دخل پیدا کر سکتا ہوں.اب اس میں بالفعل آپ سے یہ مدد چاہتا ہوں کہ آپ عبرانی کے جُد اجد احروف سے مجھے ایک نمونہ کاملہ بھیج کر اطلاع دیں اور اس کے ساتھ ایک حصہ ترکیب کا بھی ہو.اس نمونہ پر صورت حرف در فارسی صورت حرف در عبرانی.ایسا کریں جس سے مجھے تین حرف کے جوڑنے میں قدرت ہو جائے.باقی خیریت ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ ایک اور ضرورت ہے کہ مجھے انگریزی کے شکستہ حروف کی شناخت کرنے میں دقت ہوتی ہے.میں چاہتا ہوں کہ اگر ایسی کوئی چھپی ہوئی کاپی مل سکے تو بہتر ہے یعنی ایسی کا پی جس میں انگریزی مفر د حرف شکستہ میں لکھے ہوئے ہوں.جو کتابی حروف کے مقابل پر لکھے گئے ہوں.مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ باقی خیریت والسلام ( لفافه) از قادیان مقام لاہور.دفتر اکونٹنٹ جنرل آفس بخدمت تختمی عزیزی اخویم مفتی محمد صادق صاحب Lahore نقل مطابق اصل

Page 285

270 خط نمبر ۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آج رات عاجز نے خواب میں دیکھا کہ ایک مکان میں بیٹھا ہوں.اور کہتا ہوں.مجھے کیا پڑھنا چاہیئے.اتنے میں ابو سعید عرب کو ٹھے پر سے نمودار ہوئے کہنے لگے : طب.طب.طب.طب.طب.روحانی اور جسمانی فقط.اس خواب کی تعبیر کیا ہے.اور اس کو کس طرح سے پورا کرنا چاہئیے.مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ ایک کتاب حدیث اور ایک کتاب طب شروع کر دو.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ مولوی صاحب نے صحیح فرمایا ہے.اس میں دونوں طب آ گئی ہیں.بیشک.خدا مبارک کرے.ایک روپیہ پہنچا.والسلام مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ خط نمبر ۳ ۲۰ / مارچ ۱۹۰۶ ء - اخبار بدر جب قادیان میں چھپتا تھا.تو اس کے مالک میاں معراج الدین صاحب عمر جو لاہور میں رہتے ہیں.اور ایڈیٹری پر عاجز مامور تھا.اور مجھے ۵۰ روپے تنخواہ ملتی تھی.رفتہ رفتہ بدر کا کام بڑھ گیا.اس واسطے میں نے حضرت صاحب کولکھا کہ اخبار پہلے آٹھ صفحہ کا تھا.اب بارہ صفحہ کا ہے.خریداروں میں بھی تین سو کا اضافہ ہو گیا ہے.اور میری محنت بڑھ گئی ہے.میں چاہتا ہوں کہ میاں صاحب کو لاکھوں اور مجبور کروں کہ میری تنخواہ میں ترقی کریں.اس کے جواب میں حضور نے مجھے تحریر فرمایا : السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے دِل میں یہ آتا ہے کہ ہر ایک کام صبر اور آہستگی سے عمدہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ اس میں مدد دیتا ہے.اس لئے بہتر ہے کہ جس طرح ہو سکے دوماہ اور صبر کریں.اور طرح طرح کے پیرایہ میں اپنی محنت اور کارگزاری اور اخبار کی ترقی کا اخبار میں ہی ان مہینوں میں حال لکھتے

Page 286

271 رہیں.اس طریق سے امید ہے کہ وہ خود ملزم ہو جائیں گے اور آپ کے وسیع اخلاق اور صبر کا آپ کو اجر ملے گا.اور بعد انقضاء دوماہ کے اُن پر ظاہر کر دیں.کہ اب تک میں نے ان تمام تکالیف کی برداشت کی ہے.مگر اب یہ تکلیف فوق الطاقت ہے.اور دو ماہ کچھ زیادہ نہیں.یونہی گذر جائیں گے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۴ ۲۱ مارچ ۱۹۰۶ ء - جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کتاب چشمہ مسیحی تصنیف فرمائی.تو عاجز نے اجازت چاہی کہ ساری کتاب اخبار بدر کے ایک ہی نمبر میں شائع کر دی جائے.تا یک دفعہ لوگوں کو پہنچ جائے.اس کے جواب میں حضور نے لکھا : السلام علیکم.بہتر ہے چھاپ دیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۵ قریباً ۱۹۰ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدین مسیح موعود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - میاں معراج الدین صاحب (پروپرائٹر اخبار بدر ) نے ایک شخص داروغہ چراغ دین نام بدر کا خزانچی مقرر کر کے بھیجا ہے.عملہ اُس کی تنخواہ مقرر کی ہے.اور ساتھ ہی اس کو تحریری اجازت دی ہے.کہ عملہ سے زیادہ بھی چاہے تو لے لے.اور زبانی اُس کو اختیار دیا ہے کہ بدر کے واسطے تم قادیان میں میرے قائم مقام ہو.اول تو بدر میں نہ اتنا روپیہ ہے اور نہ اتنا کام ہے کہ دس روپیہ ماہوار کا بوجھ اور ڈالا جائے.لیکن وہ اپنے روپیہ کے مالک ہیں.میں نے ان کو کچھ کہنا مناسب نہ جانا.کیونکہ یہ روپیہ کا معاملہ ہے اور شک وشبہ کا مقام ہے.لیکن اب مشکل یہ پڑی ہے کہ وہ شخص مجنون ہوتا جاتا ہے اور ساعت بساعت اس کا جوش بھڑکتا جاتا ہے.یہ حالت دراصل پہلے بھی اُس کی تھی.مگر اب بڑھتی جاتی ہے.دفتر کے لوگوں کو مارتا ہے.اور موقوف کرتا ہے.اخبار کے کام میں بہت حرج ہو رہا ہے.باہر بھی لوگوں سے لڑتا ہے.صبح سے میاں نجم دین.احمد نور افغان.عرب صاحب محمد نصیب کے ساتھ لڑائی کر چکا ہے.فحش گالیاں دیتا ہے.سب لوگ حیران ہیں.میرے نزدیک تو مناسب ہوگا کہ اس کو کسی طرح سے رخصت کیا جائے.آئندہ جو حکم ہو محمد صادق عفاء اللہ عنہ

Page 287

جواب: 272 یہی مناسب ہے کہ اس کو رخصت کر دیں.اور بلا توقف اس کی حالت کی اطلاع دے دیں.خط نمبر ۶ مرزا غلام احمد عفی عنہ جب میں قادیان کے ہائی اسکول کا ہیڈ ماسٹر تھا.اُنہی ایام میں مقدمہ کرم دین پیش آیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس مقدمہ کے دوران میں جب گورداسپور وغیرہ کو جانا ہوتا.تو ہمیشہ عاجز کو اپنے ہمرکاب رکھتے.اور عاجز حسب استطاعت ضروریات مقدمہ میں خدمات انجام دیتا رہتا.ان مقدمات کے خاتمہ پر حسب درخواست جماعت سیالکوٹ حضوڑ اکتوبر ، نومبر ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے تو عاجز کو بھی بمعہ اہلبیت خود سیالکوٹ ساتھ جانے کا حکم ہوا.اس پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ نے جو اس وقت سیالکوٹ میں تھے.مجھے خط لکھا کہ ” میرے نزدیک آپ کی غیوبیت مدرسہ سے سخت مضرت پیدا کرے گی.دُنیا کے انتظام دُنیا کے اصول کی پیروی سے چلتے ہیں.آخر مقدمات میں آپ نے کیا عمل دکھایا ہے.جس طرح وہاں قانون مسلم دنیا کی پیروی کی ہے.یہاں بھی کرنی چاہئیے.حضرت صاحب کو آپ صاف کہیں کہ مدرسہ کا انتظام تباہ ہو گیا ہے.مدرسہ کا اعتبار اُٹھ جائے گا اور کم ہو رہا ہے.میں نے یہ خط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھیج دیا.تا کہ حضور چاہیں.تو مجھے سیالکوٹ ساتھ نہ لے جائیں.اس پر حضور نے مجھے لکھا.( ۲۴ /اکتوبر ۱۹۰۴ء ) اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - جو کچھ مقدمہ کا نتیجہ ہوا ہے.وہ تو ایک آسمانی امر ہے.اور ہم بہر حال انجام بخیر کی توقع رکھتے ہیں.سیالکوٹ کے سفر کے لئے میں نے خود سوچ لیا ہے.اس ہفتہ عشرہ کے سفر میں آپ کو ساتھ لے جاؤں.آئندہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو خاتمہ سفر کا ہے.میری طبیعت بہت علیل ہے.سفر کے قابل نہیں.اگر سیالکوٹ والے اِس سفر سے معذور رکھتے تو بہتر تھا.چونکہ مصلحت وقت سے عیال اطفال ہمراہ ہوں گے.اس وجہ سے اسباب بھی زیادہ ہوگا.اس لئے میں نے تجویز کی ہے.کہ آپ اس سفر میں جو دس دن سے زیادہ نہیں ہوگا.میرے ہمراہ چلیں.ان دس دنوں کو اُنہیں گورداسپور کے دنوں میں شمار کریں.ہر ایک کی رائے اور مصلحت خدا تعالیٰ نے جد اجد ابنائی ہے.اس لئے میں نے اپنی رائے کے مناسب حال لکھا ہے.بیشک دُنیا کے تدابیر کی الگ ہے.اور میں اقرار کرتا ہوں کہ وہ مجھ

Page 288

273 میں نہیں ہے.میرے لئے کافی ہے کہ خدا پر بھروسہ رکھوں.والسلام خط نمبر ۷ (۱۹۰۵ء ۱۹۰۴ء) مرزا غلام احمد عفی عنہ جبکہ عاجزا کثر ہلکے بخار میں گرفتار رہنے میں مبتلا تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر خود میرے علاج کی طرف توجہ فرماتے تھے.ایک دفعہ میں نے ایک گولی کے متعلق جو حضوڑ نے مجھے کھانے کے واسطے دی کچھ لکھا اور دوبارہ وہی گولی طلب کی.تو حضور نے یہ جواب لکھا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - معلوم نہیں کہ آپ نے کس وقت گولی کھائی تھی اور گولی کھانے کے بعد کیا اثر اس کا رہا.طبیعت میں کیا حالت محسوس ہوئی.اور پہلے کی نسبت اُس گولی کے بعد کیا معلوم ہوا اور گولی کس وقت کھائی.اور بخار کس وقت ہوا.خط نمبر ۸ مئی ۱۹۰۸ ء لاہور مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مُرشدنا و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمُ.اسٹیشن ریل کے قریب ایک انگریز سیاح سے ملنے کا مجھے اتفاق ہوا.جس کو میں نے حضور کے دعوئی اور دلائل سے اطلاع دی تو اُس نے حضور کی ملاقات کا بہت شوق ظاہر کیا.وہ اُسی وقت ساتھ آنا تھا مگر میں نے کہا کہ میں پہلے حضور سے اجازت حاصل کرلوں.اگر مناسب ہو تو بعد نماز ظہر میں اُن کو لے آؤں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - مجھے معلوم نہیں کہ کیسا اور کس خیال کا انگریز ہے.بعض جاسوسی کے عہدے پر ہوتے ہیں اور بعد ملاقات خلاف واقع باتیں لکھ کر شائع کرتے ہیں.صرف یہ اندیشہ ہے.جیسا کہ فضل رومی کا انجام ہوا.والسلام مرزا غلام احمد

Page 289

274 یہ انگریز پروفیسر ریگ تھا.اس کو میرے دوبارہ عرض کرنے پر حضرت صاحب نے اجازت دے دی تھی.ملاقات کے مفصل حالات کے واسطے ملاحظہ ہو باب نمبر ۱۹ خط نمبر ۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مُرشد نا و مهدین مسیح موعود و مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کل میں پروفیسر سیاح کو ملا تھا.جو حضور کو ملنے کے واسطے آیا.اُس نے بعض اور انگریزوں سے حضور کا ذکر کیا ہوا تھا.ان میں سے ایک مجھے ملنے آیا.دیر تک گفتگو ہوتی رہی.انہوں نے بہت خواہش ظاہر کی کہ اگر حضور کی اجازت ہو تو ہفتہ کے سہ پہر کو یعنی کل حضور کی زیارت کے واسطے آویں.جیسا حکم ہو.ان کو اطلاع دی جاوے.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ ۱۵ رمئی ۱۹۰۸ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - کل میں نے مہندی لگانا ہے.انشاء اللہ.اور مہندی لگانے کے دن دو بجے تک فراغت نہیں ہوتی.پھر بعض اوقات کوفت کے سبب بھی طبیعت قائم نہیں رہتی.اس لئے آپ نہ پختہ طور پر بلکہ انشاء اللہ کے ساتھ پیر کا دن مقرر کریں.نماز ظہر کے بعد.والسلام خط نمبر ۱۰ ، ۱۰ جنوری ۱۹۰۸ء مرزا غلام احمد میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا جو حضرت صاحب کے جواب کے ساتھ درج ذیل کیا جاتا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - چونکہ حضور سیٹھ صاحب ( عبدالرحمن مدراسی ) کو خود خط لکھا کرتے ہیں.اس واسطے چند لفافے جن پر ٹکٹ لگا ہے.اور سیٹھ صاحب کا پتہ انگریزی میں لکھا ہے.ارسال خدمت ہیں.ان لفافوں کے اندر کاغذ بھی ہیں.عاجز پرسوں سے بیمار ہے.ریزش.بخار.سر درد.حضور دعا فرمائیں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ

Page 290

جواب: 275 شفاء بخش السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ نے لفافے بھیج کر بہت آسانی کے لئے مجھے مدد دی.جزاکم اللہ خیراً.خدا تعالیٰ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۱۱.مئی ۱۹۰۸ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.اگر اجازت ہو تو عاجز ایک روز کے واسطے قادیان ہو آوے.اور دفتر وغیرہ کا حساب دیکھ آوے.صرف ایک دن لگے گا.جیسا حکم ہو.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ بے شک آپ ہو آویں.اختیار ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۱۲ وَيَنْصُرُكَ اللَّهُ نَصْراً عَزِيزاً حضرت اقدس مرشد و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - مولوی کرم دین بھین کو اکثر اخباروں میں مضامین دینے کی عادت ہوتی ہے.زیادہ تر سراج الاخبار میں.ممکن ہے اُس کی کوئی تصنیف یا تالیف بھی ہو.اگر اُس کے مضامین پڑھے جائیں تو اللہ تعالیٰ چاہے تو اُس کے لئے اپنے استعمال شدہ الفاظ ،لیم ، بہتان، افتراء وغیر ہل جائیں جن سے مقدمہ میں بہت مددل سکے.اگر حضور مناسب خیال فرما دیں تو کسی شخص کو اس کام پر متعین فرما دیں کہ لاہور یا جہلم سے سراج الاخبار کے پرانے فائل دیکھ کر یہ کام پورا کرے.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ ۱۶ دسمبر ۱۹۰۳ء

Page 291

276 متی عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ اب تاریخ مقدمہ بہت نزدیک آ گئی ہے.اب کوئی وقت نہیں ہے.ہاں دوسری تاریخ میں ایسا ہوسکتا ہے.بالفعل یہ کوشش کرنی چاہیے کہ میری کتابوں میں سے یہ لفظ نکل آوے خاص کر مواہب الرحمن میں.لغت کی کتا ہیں تو موجود ہیں.انشاء اللہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۱۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم محتمی عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُه - آپ براہ مہربانی اس وقت جہاں تک جلد ممکن ہو.تین باتوں کی نقل کر کے بھیج دیں.اوّل وہ انجیل جس کا رات کو ذکر ہوا تھا.اس کا نام اور باب ، اور ایک وہ جس کا یہ مضمون ہے کہ مسیح صلیب سے نہیں مرا گلیل میں موجود ہے.یہ قول ہے.دوسرے پطرس کی تحریر معہ حوالہ.تیسرے.جرمن کے پچاس پادریوں کا قول کہ مسیح صلیب سے نہیں مرا.شاید انسائیکلو پیڈیا میں اس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں.اگر جلد یہ تحریریں آجائیں تو بہتر ہوگا.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۱۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مر شد نا و مهدینا مسیح موعود اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ الله دتا نان پز کالڑ کا بھٹہ پر فوت ہو گیا ہے.اس کو کہلا بھیجا گیا ہے.کہ خود ہی غسل دے کر باہر باہر دفن کر دے.اور خود بھی دس روز تک شہر میں نہ آوے.حضور کی جوتیوں کا غلام اطلاعاً گذارش ہے.محمد صادق ۱۰ر اپریل ۱۹۰۴ء محتمی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - معلوم ہوتا ہے کہ اس طاعون کا مادہ بہت تیز ہے.ہر گز اُسے شہر میں نہ آنا چاہئیے.اور وہ لڑکا

Page 292

277 با ہر کا با ہر دفن کیا جائے.اور غالباً یہ نان پز بھی متاثر ہو گا.شاید بعد اس کے وہ بھی طاعون میں گرفتار ہو جائے.بہتر ہے کہ اس کو بالکل رخصت کر دیا جائے.سُنا ہے کہ شیخ عبدالرحیم کے گھر میں اس کی لڑکی خدمت کرتی ہے.اگر چاہے تو وہ بھی ساتھ چلی جائے.اگر لڑ کی رہنا چاہے تو اس کو نہ ملے.مدرسہ کی صفائی کا بندو بست چاہیئے.انگیٹھی سے تپایا جائے.گندک کی دھونی دی جائے.فینائل چھڑ کی جائے.خُد اتعالیٰ فتنہ سے بچائے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ مکرر یہ کہ نان پز کا رخصت کر دینا بہتر ہے تا اس کا اثر نہ پھیلے.خط نمبر ۱۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ مرشد نا ومهہد بنا نا ئب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - گذشتہ ہفتہ میں میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں.اور میں ذرا ہٹ کر خادموں کی طرح پاس کھڑا ہوں.اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑوں کی ایک بستنی کھولی ، اور اس میں سے آنحضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بُوٹ نکالا.چونکہ بادامی رنگ کا مضبوط بنا ہوا دکھائی دیتا تھا.اور اس پر بادامی ہی رنگ کے گول گول بٹن بھی لگے ہوئے تھے.جو کہ صرف زیبائیش کے لئے لگائے جاتے ہیں.میرے دل میں یہ خیال ہے کہ یہ میں نے ہی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا.سو وہ بوٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ بارک وسلم نے ہاتھ میں لیا.اور میری طرف دیکھ کر کچھ ناراضگی کے طور سے ارشاد فرمایا.کہ ” کیوں جی یہ کیا.“ اس فقرہ سے میں اپنے دل میں خواب کے اندر یہ سمجھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ اس سے عمدہ قسم کے بوٹ ہمیں تم سے آنے کی امید تھی.مگر میں شرمندگی سے خاموش ہوں.اور اتنے میں میری آنکھ کھل گئی.اس وقت سے میرے دل کو ایک تشویش ہے اور اس خواب کی ایک تعبیر میں نے یہ مجھی ہے کہ اس سے مُراد اُس خدمت میں کمی اور نقص ہے.جو کہ میں حضور اقدس کی کرتا ہوں کیونکہ میں خطوط میں لکھا کرتا ہوں کہ میں حضور اقدس نائب رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کا غلام ہوں.اور خواب میں بھی مجھے یہ دکھلایا گیا ہے کہ گویا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جوتی بھیجی ہے سوئیں نے ایک تو یہ ارادہ کیا ہے کہ بجائے تین روپے کے جو میں ماہوار ارسال خدمت کیا کرتا ہوں آئندہ دس روپیہ ماہوار ارسال کیا کروں.وما توفیقی الا بالله العلی العظیم.میں ڈرتا ہوں کہ اس الوالعزم نبی حبیب خدا محمد مصطفے

Page 293

278 صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے سبب ہلاک نہ ہو جاؤں.میں یہ نہیں کہتا کہ صرف دس روپیہ ماہوار ہی ارسال کروں بلکہ اس سے بھی زیادہ جو حضور حکم فرماویں.انشراح صدر کے ساتھ حاضر خدمت کرنے کو طیار ہوں.اور تھوڑی رقم پر غریبی کے ساتھ اپنا گزارہ کرنے کو راضی ہوں.اس رحمن رحیم اللہ کے واسطے جس نے آپ کو اس زمانہ میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب بنادیا.حضور میرے لئے دُعا ء اور شفاعت کریں تا کہ میں ہلاک نہ ہو جاؤں.اللہ تعالیٰ آپ کی ہر ایک دُعاء کو قبول کرتا ہے.اور آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک ہیں.پس آپ میرے لئے سفارش کریں.اور مجھے وہ طریق سکھلائیں اور اُن پر چلا ئیں جن سے میں اللہ اور اُس کے رسول کو راضی کرلوں.بسمه آپ کی جوتیوں کا غلام محمد صادق ۱۸ / مارچ ۱۸۹۸ء محتمی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ اللہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبر کاتہ.میں نے آپ کا خط پڑھا.میں انشاء اللہ الکریم آپ کے لئے دُعاء کروں گا.تا یہ حالت بدل جائے.اور انشاء اللہ دعا قبول ہوگی.مگر میں آپ کو ابھی صلاح نہیں دیتا کہ اس تنخواہ پر آپ دس روپیہ بھیجا کریں.کیونکہ تنخواہ قلیل ہے.اور اہل وعیال کا حق ہے بلکہ میں آپ کو تاکیدی طور پر اور حکماً لکھتا ہوں.کہ آپ اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کوئی با گنجائش اور کافی ترقی بخشے یہی تین روپیہ بھیج دیا کریں.اگر میرا کانشنس اس کے خلاف کہتا تو میں ایسا ہی لکھتا.مگر میرا نور قلب یہی مجھے اجازت دیتا ہے کہ آپ اُسی مقررہ چندہ پر قائم رہیں.ہاں بجائے زیادت کے درود شریف بہت پڑھا کریں کہ وہی ہدیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتا ہے.ممکن ہے کہ اس ہدیہ کے ارسال میں آپ سے سستی ہوئی ہو.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۱۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدین مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کل حضور نے فرمایا تھا کہ ضعف کے واسطے کوئی تجویز کی جائے گی.اس واسطے یا دو لاتا ہوں.حالت یہ ہے (۱) دل دھڑکتا ہے اور گھٹتا ہے (۲) پیشاب بار بار آتا ہے.(۳) دودھ ریح کرتا ہے اور ریح کبک بو دار ہوتی ہے.(۴) رات کو نیند نہیں آتی.پاؤں کے تلوؤں پر گھی ملوانے سے آرام ہوتا ہے.(۵) ہاتھ پاؤں سر درہتے ہیں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ قادیان - ۲/ دسمبر ۱۹۰۴ء

Page 294

279 میرے نزدیک بالفعل مناسب ہے.کونین نریسی جائفل زنجبیل عرق کیوڑہ ایک رتی دورتی ایک رتی ایک رتی دو تولہ توله ۲ تولہ تولہ توله (۵ رتی خوراک) (۹۶) گولیاں.(۴۸) یوم کے لئے) دونو وقت استعمال کریں.آپ جلد مجھے اس بات سے اطلاع دیں کہ یورپ یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے کوئی ایسا آدمی یا چند آدمی ہیں.جو ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے اور صاف لفظوں میں اس کا اظہار کیا.ان کا نام پو را معہ سکونت خوشخط اردو میں ابھی بھیج دیں.ضرورت ہے.والسلام خط نمبر ۱۷ مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم متی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - چونکہ گھر میں میرے ایام امیدواری ہیں اور اب نواں مہینہ ہے.اور اُن کو گرمی کی وجہ سے بہت گھبراہٹ ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم سے اب طاعون دور ہو گئی ہے.اور گرمی سخت ہوگئی ہے اور اس لئے یہ تجویز ہوئی کہ آپ آج پہلے مکان مدرسہ میں چلے جائیں.کیونکہ اب کچھ بھی خطرہ نہیں ہے اور میرے گھر کے لوگ اُس کمرہ میں آجائیں گے.جہاں آپ رہتے ہیں.چونکہ کل آپ میرے ساتھ جائیں گے.اس لئے ابھی یہ تجویز ہونی چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۷ رمئی ۱۹۰۴ء خط نمبر ۱۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہوڈ نائب رسول کریم الصلوة والسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - اما بعد گذارش ہے کہ اس عاجز نے گذشتہ تین.چار دنوں میں کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتے ہوئے استخارہ کیا ہے اور

Page 295

280 اُس کے بعد اپنے دینی اور دنیوی فوائد کو یہ عاجز اسی میں دیکھتا ہے کہ حضور کی جوتیوں میں حاضر رہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس امر کے لئے اس عاجز کو انشراح صد رعطا فرمایا ہے.پھر جیسا حضور اقدس حکم فرما دیں.کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.اور آپ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ کی رضاء ہے.میرے قلب کا میلان بعد دعائے استخارہ کے بالکل اس طرف ہو گیا ہے.اے خدا میرے گنا ہوں کو بخش دے.میری کمزوریوں کو دور فرما.اور مجھے صراط مستقیم پر چلا.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو.اور آپ کے دشمنوں کو رو سیاہ کرے.آمین ثم آمین.آج سے تاریخ ہے اس واسطے اب لا ہور خط لکھ دینا چاہیئے.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق قادیان.۷ جولائی ۱۹۰۱ء بَارَكَ اللهُ فِی ارَادَتِكَ وَ يَغْفِرُ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مَنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ.ہماری طرف سے بہت بہت مبارک ہو.والسلام خط نمبر ۱۹ فضل دین ( بھیروی) نورالدین ( بھیروی ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - عاجز کو ہمیشہ کرایہ کے مکانات میں ادھر ادھر بہت سرگردانی رہتی ہے.اور وہ بھی کوئی قریب نہیں ملتا.مدت کی بات ہے.ایک دفعہ حضور نے ارشاد فرمایا تھا کہ غلام جیلانی والا مکان ملے گا تو تم کو دیا جائے گا.مگر چونکہ اس جگہ مہمان خانہ کی تجویز ہے.اس واسطے میں نے مناسب نہ جانا کہ یاد دلاؤں.اب اس وقت دو جگہیں خالی ہیں.ایک تو سفید زمین جومرزا سلطان احمد سے حضور نے لی.جہاں خیمہ لگا ہے.اگر وہ حضور مجھے مرحمت فرماویں.تو میں اپنے خرچ سے وہاں مکان بنوالوں.دوم.باورچی خانہ خالی ہو گیا ہے.اگر اُن میں سے کوئی جگہ مجھے عطا فرمانا مناسب خیال فرماویں.تو ہر دو قریب ہیں.اور تکلیف بھی دور ہو.یہ عاجز کا خیال ہے.پھر جو حضور مناسب خیال فرما دیں.اُسی میں خوشی ہے.خطا کار عاجز محمد صادق

Page 296

281 اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - افسوس ہے کہ اس وقت ایسی صورت ہے کہ ان باتوں میں مجبوری ہے.جو حصہ زمین سلطان احمد کی زمین کا ملا ہے.بجز اس کے ملحق کرنے کے مہمانخانہ بالکل نا تمام ہے.جو ہرگز کافی نہیں ہے اور دوسری زمین، جہاں سے لنگر خانہ اٹھایا ہے.میر صاحب نے اپنی ضروریات کے لئے لے لی ہے.مگر مجھے آپ کی حیرانی اور پریشانی کا بہت فکر ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ کوئی صورت پیدا ہو جائے گی.آپ مطمئن رہیں.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۲۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - باعث حمل کچھ عرصہ سے میرے گھر میں ایسی تکلیف ہے.کہ گھر میں کھانا تیار ہونہیں سکتا.روٹی تو تنور پر پکوالی جاتی ہے.مگر ہانڈی کے واسطے دقت ہے.اس واسطے عرض پرداز ہوں.کہ کچھ عرصہ لنگر سے سالن مرحمت فرمایا جایا کرے.والسلام میاں نجم الدین صاحب حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق ۹ فروری ۱۹۰۴ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - مفتی صاحب کو دو وقت لنگر سے سالن عمدہ دے دیا کریں.تاکید ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۲۱ سمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے لڑکے محمد منظور نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک چیل ہمارے مکان کے صحن میں بیٹھی ہے اور ایک اُس کے ساتھ اور ہے اور مجھے گیت سناتی ہے.پھر وہ ایک کیڑا بن کر زمین میں گھس گئی.پھر باہر کی اور مجھے پنجہ مارنا چاہا.میں نے کہا میں تم کو روٹی دوں گا.تب اُس نے پنجہ نہ مارا اور

Page 297

282 میں نے روٹی دے دی.تب ہم نے اُس کے خوف سے مکان بدل لیا‘ تو وہ چیل وہاں بھی آگئی.اور کہنے لگی.میں سب شہروں اور گلیوں سے واقف ہوں.مگر تم مجھ سے نہ ڈرو تم کو کچھ نہ کہوں گی.مجھے روٹی دے دیا کرو.‘“ ی لڑکے کا بیان ہے.اس کی تعبیر سے مطلع فرما دیں.اگر غلام جیلانی والے مکان کے متعلق کچھ فیصلہ نہیں ہوا.تو فی الحال میں وہی لے لوں.کیونکہ اس کی ہوا اُس کی نسبت جس میں ہم رہتے ہیں بہتر معلوم ہوتی ہے.وہ کرایہ کے متعلق تو اب تنگ نہیں کرتے.مگر اس میں ہوا اور روشنی نہیں ہے.جیسا حضور فرما دیں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق ۲۸ / مارچ ۱۹۰۳ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - چیل سے مُراد تو طاعون ہی معلوم ہوتی ہے.معتبرین نے چیل سے مراد فرشتہ ملک الموت لکھا ہے.کہ جو شکار کر کے آسمان کی طرف اُڑ جاتا ہے.خدا تعالیٰ خیر رکھے ایسا نہ ہو کہ قادیان میں پھر طاعون پھیل جائے.مکان کا بدلا لینا ضروری ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۲۲ ( کارڈ ) سمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم محتمی عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.ہدیہ مرسلہ آپ کا پہنچ گیا.جزاکم اللہ خیر الجزاء فی الدنیا والعظمی..اگر خواجہ کمال الدین صاحب ملیں.تو آپ تا کید فرماویں کہ طہرانی صاحب کے رد میں جو اشتہار بھیجا گیا ہے.اس کو موافقین اور مخالفین میں خوب مشہور کر دیں.لاہور میں خوب اس کی شہرت ہو جانی چاہئیے.طہرانی صاحب کو بطور ہد یہ سرالخلافہ بھی دے دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 298

مهر قادیان 283 ۵ فروری ۱۸۹۷ء بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل مہر لاہور ۶ فروری ۱۸۹۷ء بخدمت تھی اخویم مفتی محمد صاحب کے پہنچے.خط نمبر ۲۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ متی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.آپ کا چندہ جو محض محبت اللہ سے آپ نے اپنے ذمہ مقرر کیا ہوا ہے.مجھ کو پہنچ گیا.جزاکم اللہ خیر الجزاء تر در پیش آمدہ کے رفع سے ضرور مجھے مطلع فرما دیں کہ ڈاکٹر نے عمر کی نسبت جرح کیا تھا اُس کا تصفیہ ہو گیا ہے.باقی خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۵/ جولائی ۱۸۹۶ء بمقام لا ہور دفتر اکونٹنٹ جنرل بخدمت محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک خط نمبر ۲۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ محبت نامہ آپ کا پہنچا.خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور مکروہات دین ودنیا سے بچائے.آمین ثم آمین.فیصلہ عمر سے خوشی ہوئی.الحمد للہ.آپ کے اخلاص اور محبت سے نہایت دل خوش ہے.خدا تعالیٰ ربانی طاقت سے آپ کو بے نظیر استقامت بخشے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 299

284 بمقام لاہور دفتر اکونٹنٹ جنرل بخدمت محبی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک خط نمبر ۲۵ ( لفافه ) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ متی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - چونکہ قیمت کم تھی آج احتیاطاً مبلغ پچاس روپیہ اور بھیج دئے گئے ہیں.آپ شیخ عبداللہ صاحب کو بہت تاکید کر دیں کہ نہایت احتیاط سے شربت کلورا فارم طیار کریں.اور کلکتہ سے جو دوائی منگوانی ہے.وہ ضرور کلکتہ سے منگوائی جاوے.تا عمدہ اور سنتی آئے.زیادہ خیریت ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی از قادیان ۱۸ رمئی ۱۸۹۸ء کلکتہ سے دوالا ہور میں بنام شیخ صاحب آنی چاہئیے اور پھر کسی کے ہاتھ قادیان میں بھیج دی جائے.لفافہ بمقام لاہور بخدمت تھی اخویم مفتی محمد صادق صاحب کلرک دفتر راقم خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان ۱۸ رمئی ۱۸۹۸ء خط نمبر ۲۶ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی مسعود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - اگر حضور اجازت دیں.تو میں بڑی بڑی انگریزی اخباروں میں مضمون دیا کروں.کہ زباندانی میں ترقی ہو کر دینی خدمات میں ترقی کا موجب ہو.اور نیز آمدنی کا ایک ذریعہ ہے.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق لا ہورا / جنوری ۱۸۹۸ء مجی اخویم مفتی صاحب سلمہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے نزدیک یہ تجویز بہت مناسب ہے.اس طرح انشاء اللہ زبان جلد صاف ہو جائے گی.اور محاورات کا علم بخوبی ہو جائے گا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد ایده

Page 300

285 خط نمبر ۲۷ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مہدین مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - (۱) جود وائی حضور نے عنایت فرمائی ہے اس کے ساتھ کسی پر ہیز کی ضرورت ہو تو ارشاد فرما ئیں.(۲) جونب انگلینڈ سے منگوائے تھے.ان سے میں دو مرحمت فرماویں.اگر وہ قریب الاختتام ہوں تو اور منگوائے جائیں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق ارجولائی ۱۹۰۲ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - پرہیز صرف ترشی اور بادی چیزوں سے ہے.اور نب ابھی بہت ہیں.شائد تین ماہ تک کافی ہوں گے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۲۸ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - گذشتہ رات کو جو حضور نے حکم فرمایا تھا کہ جرمن زبان کو اور آزماؤ.اِس امر کے واسطے آج رات میں نے استخارہ کیا.میں نے رویا دیکھے جو عرض کرتا ہوں.(۱) حضرت مولوی نورالدین صاحب قرآن شریف پڑھ رہے ہیں.اور اس میں فرماتے ہیں کہ نوح نے ارادہ کیا تھا کہ ایک ملک میں ایک عورت سے شادی کرے.مگر جب وہاں پہنچا تو سب عورتوں کو نہایت خوبصورت دیکھ کر وہ ڈرا کہ میں ابتلاء میں پڑوں گا.تب وہاں سے چلا آیا اور اسے معلوم ہوا کہ ہر شے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے.بہت استغفار کرو.(۲) میں نے کچھ آپ کے سامنے بیان کیا ہے یاد نہیں رہا ) آپ نے فرمایا تب تو نہیں چاہئیے.(۳) میں نے آپ حضور کی خدمت میں ایک رقعہ لکھا ہے (غالباً جرمن زبان پڑھنے کے متعلق) آپ نے جواب میں عبدالمجید کے ہاتھ مجھے ایک سنہری لونگ بھیجا ہے جو عورتیں ناک میں لگاتی ہیں اور اس پر

Page 301

286 سفید موتی جڑے ہوئے ہیں.میری بیوی نے بھی میرے واسطے استخارہ کیا تھا.اُس نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ اپنا گوشت کاٹ کاٹ کر ہمارے آدمیوں کو دے رہے ہیں.چند روز ہوئے میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ میں حضور کے ساتھ کہیں جارہا ہوں.حضور کالباس سفید ہے اور حضور کا نام الیگزنڈر (سکندر) بلے ٹیور ہے.اور تفہیم یہ ہے کہ یہ جرمن لفظ ہے.اور اس کے معنے ہیں صادق.پھر رویا میں معلوم ہوا کہ اس کے معنے ہیں شفاد ہندہ.پس اگر حضور کا حکم ہو.تو میں آج جرمن زبان کا پڑھنا شروع کر دوں.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق ۱۹ مارچ ۱۹۰۳ء عزیزی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ـ ان خوابوں سے تو کچھ بھی اجازت محسوس نہیں ہوتی.بہتر ہے.ذرا صبر کریں.جب تک جرمن کی حقیقت اچھی طرح گھل جائے.معلوم نہیں کہ جرمن سے کوئی عربی اخبار بھی نکلتا ہے جیسا کہ عربی اخبار امریکہ سے نکلتا ہے.کوئی اور سبیل اشاعت ڈھونڈ نا چاہیئے.خط نمبر ۲۹ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.ایک شخص بسنت سنگھ نام ذیلدار ڈلہ ایک پروانہ سرکاری لے کر سب لوگوں سے لکھاتا پھرتا ہے کہ وہ کہاں کے باشندے ہیں.یہاں کوئی سکونت اختیار کی ہے.کیا کام کرتے ہیں.ایک فہرست تیار کر رہے ہیں.احباب نے لکھ دیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں رہنے کے واسطے یہاں سکونت پذیر ہیں اور فلاں فلاں کام کرتے ہیں.غالبا یہ ضلع کی ایک معمولی فہرست ہے.اطلاعا گذارش ہے.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق ۳ رمئی ۱۹۰۳ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - یہ دریافت کرنا چاہئیے کہ وہ تحصیلدار بٹالہ کا پروانہ ہے یا ڈ پٹی کمشنر کا.تا اصل حال معلوم ہو سکے اور دوسرے یہ ضرور لکھنا چاہئیے کہ ہماری جماعت میں دو قسم کے

Page 302

287 آدمی ہیں.بعض تو وہ ہیں کہ مُرید ہو کر اپنے وطن چلے جاتے ہیں.اور بعض نے اسی جگہ قادیان میں سکونت مستقل کر لی ہے.اور جو لوگ چلے جاتے ہیں اسی طرح آمد رفت اُن لوگوں کی جاری رہتی ہے.کوئی آتا ہے اور کوئی چلا جاتا ہے.اور ایسے لوگ جو مُرید ہوتے ہیں.اُن کے ناموں کو یا درکھنے کے لئے یہاں ایک رجسٹر رکھا رہتا ہے اور ایک شخص ان کے لکھنے پر مقرر ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۳۰ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ گلے کہ رُوئے خزاں را گہے نخواہد دید ببارغ ثست اگر قسمتم رسا باشد پناہ بیضہ اسلام.پہلوان رب جلیل.پنہ ملت الہدی.خلیفہ شاہ ارض و سموات - مسیح خدائے قدیر.بعد از صد صلوۃ و سلام ایس نابکار و شر مسار برائے یک نظر رحمت بر در تو امیدوار عرضگذار است که در اخبارے کہ از ملک امریکہ رسیده بو دخوانده بودم کہ دوائے جدید برائے دَرد گرده و امراض مثانه و کثرت پیشاب ٹو ایجاد شده است یک شیعہ خورد کہ برائے تجر بہ مفت مے فریسند طلب کردم ہماں ارسال خدمت اقدس است - والسلام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ گدا گر صاحب بیت الدعاء.عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ ۱۴ / جون ۱۹۰۳ء جزاکم اللہ خیراً کثیرا فی الدنیا والآخرة - دوا پہنچ گئی.ایک اشتہار بالوں کی کثرت کا شاید لندن میں کسی نے دیا ہے.اور مفت دوا بھیجتا ہے.آپ وہ دوا بھی منگوا لیں کہ تا آزمائی جائے.لکھتا ہے کہ اس سے گنجے بھی شفا پاتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 303

288 خط نمبر ۳۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - حسب الحکم تحقیقات کی گئی کرم داد اور ایک طالب علم عمر پندرہ سال شہادت دیتے ہیں کہ ہم نے بدھ کی شام کو چاند دیکھا تھا.پہلے کرم داد نے دیکھا.اور کرم داد کے دکھانے سے اس طالب علم نے دیکھا.کہتے ہیں کہ چاند بار یک دُھندلا اور شفق کے قریب تھا.اور بھی کئی لوگ مسجد میں موجود تھے.مگر باوجود ان کے بتانے کے اور کسی کو نظر نہ آیا.اور جلد غائب ہو گیا.یہ اُن کے بیانات ہیں.اُن کا تحریری صفی بیان شامل ہذا ہے.جنتریوں میں بالاتفاق پہلی تاریخ جمع لکھی ہے.لاہور، امرتسر، بٹالہ، گورداسپور بھی میں نے خطوط لکھے ہیں.آئندہ جو حضور فیصلہ فرماویں.ایک اور عرض سیالکوٹ سے مولوی مبارک علی صاحب کا خط تاکیدی آیا ہے.کہ میری گواہی کی اُن کو سخت ضروری ہے.اور تاریخ ۲۵ فروری مقرر ہے.جس کے واسطے مجھے ۲۳ کو یہاں سے چلنا چاہئیے.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی زبانی معلوم ہوا ہے کہ حضرت اقدس نے بھی ارشاد فرمایا ہے کہ میں چلا جاؤں.سو میں طیار ہوں.سُنا گیا ہے کہ سیالکوٹ میں تاحال کچھ کچھ طاعون بھی ہے لیکن چھاؤنی سیالکوٹ میں نہیں ہے اور مولوی مبارک علی صاحب کا مکان بھی چھاؤنی میں ہے.پس اس صورت میں مجھے کہاں رہنا مناسب ہوگا.والسلام اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنه ۲۰ فروری ۱۹۰۴ء آپ مناسب ہے کہ ایک دن کے لئے ہو آویں.دل تو نہیں چاہتا کہ آپ جاویں.خیر ہو آ دیں.مگر شہر میں ہرگز نہیں جانا چاہئیے.کرم داد کی شہادت میں ابھی شک ہے.امرتسر ، لاہور سے شہادت آجائے تو بہتر ہے.بسا اوقات بادل کا ٹکڑہ خیال کے غلبہ سے ہلال معلوم ہوتا ہے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 304

289 خط نمبر ۳۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمَ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - قادیان کے اکثر حصوں سے مدرسہ میں طالب علم جمع ہوتے ہیں.اور دن بھر خلط ملط رہتا ہے.چونکہ گاؤں کے بعض حصوں میں بیماری کا زور ہے.اس واسطے اگر حضور مناسب خیال فرماویں.تو میرا خیال ہے کہ مدرسہ ایک ہفتہ کے لئے بند کر دیا جاوے.والسلام حضور کی جونیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ ۲۹ / مارچ ۱۹۰۴ء اَلسَّلامُ عَلَيْكُمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے نزدیک تو مناسب ہے کہ دس روز تک ان کو رخصت دی جاوے.امید کہ دس اپریل ۱۹۰۴ء تک تغیر موسم ہو جاوے گا.اور اس عرصہ تک انشاء اللہ طاعون نائو دہو جائے گی.واللہ اعلم.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۳۳ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - گذشتہ تجویز کے مطابق مدرسہ یکم مئی کو گھلنا چاہیئے.مگر تاحال شہر کی صورت ایسی نظر نہیں آتی کہ لڑکوں کو واپس بلا نا مناسب ہو.اس واسطے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ کچھ دن کے لئے اور بند کیا جائے.اور ابھی سے اس امر کی اطلاع طلباء کو بذریعہ ڈاک کر دی جائے.ورنہ دو تین روز تک طلباء واپس آنے شروع ہو جائیں گے.بعد اس کے کہ شہر میں بالکل امن ہو جائے.تین چار روز مدرسہ کی صفائی وغیرہ کے واسطے بھی مطلوب ہوں گے.لہذا مناسب معلوم ہوا کہ مدرسہ ۱۵ رمئی تک اور بند کیا جائے.اور طلباء کو اطلاع کر دی جائے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی محمد علی صاحب سے بھی میں نے مشورہ کر لیا ہے.ان کی بھی یہی رائے ہے.پھر جو حکم حضور کا ہو.والسلام حضور کی جو نیوں کا غلام عا جز محمد صادق عفی عنه ۲۴ را پریل ۱۹۰۴ء

Page 305

290 السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.میرے نزدیک یہ تجویز بہت مناسب ہے.۱۵ رمئی ۱۹۰۴ء تک ضرور مدرسہ بند رہنا چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۳۴ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مرشد نا و اما منا مهدینا و مسیحنا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - پہلے دودن بخار نہیں ہوا.پھر تین دن ہوا.آج صبح سے نہیں ہے مگر مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ نبض صاف نہیں.ہاتھ پاؤں سر درہتے ہیں.عرق بید و چرائتہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں.قبض اکثر رہتی ہے.دُودھ سے قبض نہیں کھلتی بلکہ دودھ ریح کرتا ہے.اگر قبض کشا دوائی کھائی جائے.تو ایک دن آرام رہ کر پھر وہی حال ہو جاتا ہے.دُعاء کے واسطے عاجزانہ التماس ہے.مضمون لکھنے کے لئے بہت عمدہ کاغذ لاہور سے آئے ہیں.تھوڑے سے ارسال خدمت کرتا ہوں.امید ہے کہ جناب کو پسند آئیں گے.سنسکرت کی لغات جو بڑی ہیں وہ ہیں پچیس روپیہ کومل سکتی ہیں.لیکن ایک لغت مبلغ چار روپیہ آٹھ آنے (للعہ) کو آتی ہے.اور امید ہے کہ اُس سے ہمارا کام نکل جائے گا.ترجمہ الفاظ انگریزی میں ہے.اگر حکم ہوتو منگوائی جائے.حضور کی جونیوں کا غلام السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ ۲۹ نومبر ۱۹۰۴ء انشاء اللہ تعالیٰ شفاء ہو جائے گی.برابر دُعاء کی جاتی ہے.() کی ڈکشنری بذریعہ وی پی بل منگوالیں.آنے پر قیمت دی جائے گی.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۳۵ محتمی اخویم مفتی صاحب اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.چونکہ ہمیں لنگر خانہ اور زنانہ باورچی خانہ کے لئے مرز ا نظام الدین والے حصہ مکان کی ضرورت ہے.مناسب ہے کہ اپنی طرف سے اس کے مکان کی قیمت

Page 306

291 دریافت کریں.یا شیخ یعقوب علی کی معرفت دریافت کریں.اور آج ہی اطلاع دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ (۶ /جنوری ۱۹۰۵ء بخط مفتی صاحب ) خط نمبر ۳۶ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محتمی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - آپ کو معلوم ہے کہ محموداحمد پڑھائی میں بہت کمزور ہے.اس لئے میرے نزدیک یہ تجویز مناسب ہے کہ آپ تجویز کر دیں کہ ایک ہشیار طالب علم ایک وقت مقرر کر کے پڑھایا کرے.جو کچھ آپ مقرر کریں.اس کو ماہ بماہ دیا جائے گا.ضرور تجویز آج ہی کر دیں اور مجھ کو اطلاع دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۳۷ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - مجھے افسوس ہے کہ میں نے پہلے اخویم مولوی عبد الکریم صاحب کو تاکید کی تھی کہ اس جگہ سے کوئی ہماری جماعت میں سے نہیں جانا چاہئیے.اب ایک طرف میری طبیعت بیمار ہے.کھانسی سے دم اُلٹ جاتا ہے اور طلب کرانے والے کو اختیار ہوتا ہے کہ طلب کرا نا ملتوی کرا دے.ان کو لکھ دیں کہ یہ بہت بے موقع ہے اور میری نسبت لکھ دیں کہ اُن کی طبیعت سخت بیمار ہے.غرض مولوی مبارک علی اس کا رروائی کو ملتوی کر سکتا ہے اگر نیت نیک ہو.اور ان گواہوں کی جگہ ہماری جماعت کے سیالکوٹ میں بہت واقف موجود ہیں.سوان کو تاکیداً لکھا جائے کہ یہ تینوں سمن ملتوی کرا دیں.وہ عدالت میں کہہ دیں کہ میں ان کو طلب کرانا نہیں چاہتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 307

292 خط نمبر ۳۸ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مرشد نا و مهدینا امامنا و مسیحنا السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - حسب الحکم چرائتہ کا پانی ہمراہ سفوف ست گلو وغیرہ اور عرق بید کا استعمال کرتا ہوں.آج تین روز سے بخار نہیں ہے.مگر موجودہ حالت: ضعف بہت ہے.دل دھڑکتا ہے.دل گھٹتا ہے.پیشاب جلد جلد آتا ہے.آج رات ۱۲ بجے سے ۵ بجے تک نہیں آئی.ریح فاسد بہت ہوتی ہے.موجودہ خوراک پھل کا شوربا ، دودھ نصف سیر صبح ، نصف رات کو.دُودھ ریح بد بودار پیدا کرتا ہے.پاخانہ کھل کر نہیں آتا.ہاتھ پاؤں سرد رہتے ہیں.دل بہت کمزور اور دھڑکتا ہے.اس کے واسطے جو دوائی حکم کریں.دُعا کے واسطے عاجزانہ التماس ہے.حضور کے خادم اور میرے دوست مولوی فضل الہی احمد آبادی نے بڑے الحاح کے ساتھ واسطے دُعاء کے لکھا ہے.علیحدہ کاغذ پر بھی اُن کا نام ارسال ہے.حسب الحكم اذاتنا جيتم الرسول مبلغ ایک روپیہ ارسال ہے اور امید ہے کہ قبول فرما دیں گے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - عم واپس ہے.دعاء ہر روز بلا ناغہ آپ کے لئے کی جاتی ہے.تسلی رکھیں.ضعف کے لئے کوئی تجویز کی جائے گی.خط نمبر ۳۹ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - مبلغ ایک روپیہ پہنچ گیا.جزاکم اللہ.سورنجان شیریں کے ساتھ مصری ملاویں.سورنجان ایک تولہ ، مصری چھ ماشہ صبح و شام دودو ماشہ کھالیا کریں.والسلام سورنجان مصری خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ ۹ خوراک توله + + توله = ا توله ۱۸ ماشه ۴ دن ۱۸ خوراک ۲ تولہ + ایک تولہ = ۳ تولہ و دن

Page 308

293 خط نمبر ۴۰ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - گولی کے کھانے کے بعد پہلے دن تو بالکل بخار نہیں ہوا.دوسرے دن خفیف سے ذرہ زیادہ اور تیسرے دن خفیف.جس دن سے گولی کھاتا ہوں صبح کو بخار بالکل نہیں ہوتا پہلے ہوتا تھا.پاخانہ بھی ٹھیک آجاتا ہے.بدن میں طاقت بھی محسوس ہوتی ہے.پھر جیسا حضور مناسب خیال فرماویں.مکان کے متعلق حضور نے کیا حکم فرمایا ہے.حضور کی جونیوں کا غلام عاجز محمد صادق السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - گولی بھجواتا ہوں.کھا لیں.خط نمبر ۴۱ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمُ وعلى من لديكم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ (1) کل گولی ایک بجے کھائی تھی.کوئی ایک گھنٹہ کے بعد خفیف سا بخار ہوا.شام کے قریب ذرا زیادہ ہوا اور رات کو تھوڑا تھوڑا رہا.مناسب ہو تو گولی پھر مرحمت فرما دیں.(۲) دوسری گذارش یہ ہے کہ میں نے سُنا ہے کہ پیر سراج الحق چند ماہ کے واسطے اپنے وطن کو جاتے ہیں.حضور کو معلوم ہے.جو تکلیف مکان کی مجھے ہے.اگر حکم ہو اُن کی واپسی تک یہ عاجز اس مکان میں رہے.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ ۲۱ / دسمبر ۱۹۰۴ء اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - اگر صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب جاتے ہیں تو کچھ مضایقہ نہیں آپ اس مکان میں آجائیں اور سُنا ہے کہ سری ناتھ مکان خرید کردہ کو بیچتا ہے.آپ بطور خود

Page 309

294 دریافت کریں کہ کیا یہ سچ ہے کہ کس قدر قیمت پر بیچتا ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - آپ کی اس تحریر سے کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ بہ نسبت سابق بخار میں کچھ تخفیف ہے یا زیادہ ہے.یا بدستور ہے.کیونکہ اگر بہ نسبت سابق ایک ذرہ بھی تخفیف ہو تو آپ گولی کھا لیں اور اگر بہ نسبت سابق گولی کھانے سے زیادہ ہو.تو گولی نہیں کھانی چاہئیے اور اگر حالت بدستور ہو تو گولی کھالیں.اول اطلاع دیں.تا اگر مناسب ہو تو گولی بھیج دوں.والسلام خط نمبر ۴۲ مرزا غلام احمد عفی عنہ مِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مرشد نا و مهدین مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ - حسب الحکم میاں محمود احمد.سب کے واسطے اُستاد کی تجویز کی گئی ہے.رات کو بخار رہا.مولوی صاحب کے فرمانے پر کونین اور حضور والی گولی کھائی ہے.دعا.دعا.دعا.آج رات میں نے خواب میں دیکھا.کہ ایک دیوانہ آدمی میرے پیچھے دوڑا.میں بھا گا مگر اُس نے مجھے پکڑ لیا.میرے ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی ہے.جس کے ساتھ میں اُسے مارتا ہوں پر وہ نہیں چھوڑتا.پھر میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی دیوانہ مرغی بن گیا.اور میری چھڑی چاقو بن گئی ہے.میں نے چاقو اس مرغی کے گلے پر مارا.تو وہ مرگئی اور میں چلا آیا.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفا اللہ عنہ ۱۲ ؍ جنوری ۱۹۰۵ء السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتَهُ.دعا بر ابر کرتا ہوں.انشاء اللہ خدا تعالیٰ شفا دے گا اور خواب نہایت عمدہ ہے.یہ صریح شفا پر دلالت کرتی ہے.بہت خوب ہے.والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ

Page 310

295 خط نمبر ۴۳ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتَهُ - قاضی صاحب کے لڑکے کی وفات کی تحریک پر حضور نے جمعہ کے دن جو ہمدردی کا وعظ کیا تھا.اس کو میں نے اس طرح درج اخبار کرنے کا ارادہ کیا تھا کہ موجودہ واقعہ کا ذکر نہ ہو.اور عام طور پر جماعت احمدیہ کو ایک نصیحت ہو.کہ ہماری جماعت کا کوئی فرد شہید طاعون سے ہو.تو کس طرح ہمدردی کرنی چاہیئے.مگر افسوس ہے کہ یہ سبب نہ ہونے پریس کے ہمارا اخبار اب تک نکل نہیں سکا اور شیخ یعقوب علی صاحب نے اس واقعہ کو اور جماعت کی غلطی کو صاف اور گھلے لفظوں میں شائع کر دیا ہے.اب کیا حضور پسند کرتے ہیں کہ میں بھی اسی طرح لکھ دوں.اس میں شماتت کا اندیشہ ہے اور دشمن نکتہ چینی کریں گے.لیکن الحکم شائع ہو چکا ہے.یا میں اپنی پہلی تجویز کے مطابق اس کو عام نصیحت کے پیرایہ میں لکھوں.والسلام حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ.میرے نزدیک بہتر ہے کہ کوئی ذکر نہ کیا جائے.صرف نصیحت کی تقریر لکھ دی جائے.والسلام خط نمبر ۴۴ مرزا غلام احمد عفی عنہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محتمی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ - آپ کے خط میں لکھا تھا کہ گویا میں نے آپ کو کچھ پینے کے لئے بتلایا ہے.حالانکہ میں نے کچھ نہیں بتلایا.نسخہ مناسب یہ ہے.گلوتازہ ۲ تولہ، چرائتہ ۲ تولہ، پانچ سیر پانی میں جوش دیں.جب آدھا سیر رہ جائے تو کسی گلی برتن میں جو نیا ہو رکھ چھوڑیں.اور ہر روز پانچ تولہ ہمراہ عرق بیدا ماشہ اور ست گلو۲ ماشہ پی لیا کریں.

Page 311

296 خط نمبر ۴۵ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم محتمی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ ـ جو شخص روٹی پکانے والا آیا ہے.سُنا ہے کہ وہ ایک سخت طاعون کی جگہ سے آیا ہے اور کئی عزیز اُس کے مرگئے ہیں.اُس سے کم از کم دس روز تک پر ہیز ضروری ہے.سُنا ہے.ایک لڑکا بھی ساتھ ہے.اور وہ بیمار ہے.شاید طاعون ہے.جلد نکال دیا جائے اور جو بھانجا مولوی یارمحمد صاحب کا مر گیا ہے.جلد اُس کو دفن کر دیا جائے.مولوی یار محمد صاحب جنازہ پڑھ لیں بہت مجمع جمع نہ ہو.بلاشبہ وہ طاعون سے مرا ہے.پوری احتیاط درکار ہے.والسلام بِسْمِ خط نمبر ۴۶ خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتَهُ - آپ کا خط بطور یادداشت میں نے رکھ لیا ہے.چند ضروری مضمون جو لکھ رہا ہوں.اُن کے انشاء اللہ اس کو لکھوں گا کیونکہ یہ مضمون غور کرنے کے لایق ہے.جلدی نہیں لکھ سکتا.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۴۷ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ کل کا واقعہ حضوراقدس نے سُنا ہی ہوگا.ابتدا اس کی یوں تھی کہ گاؤں کے بعض خبیث ہمارے طلباء کو گلی میں سے گذرتے ہوئے کھڑ کی میں سے چھیڑا کرتے تھے.ایسا ہی.کل جو ایک نے چھیڑا جس کا نام مہدا بتایا جاتا ہے.تو ایک لڑکا اس کو کھڑکی سے ہٹانے کے واسطے باہر گلی میں نکلا.انہوں نے اس کو مارنا چاہا.وہ بھاگتا ہوا واپس آیا..عاجز محمد صادق

Page 312

297 - السلام علیکم.اس میں کچھ مضائقہ نہیں.مگر اول یہ تدبیر سوچ لینا چاہئیے کہ اس جگہ سخت بد معاش لوگوں کا فرقہ ہے.اگر تھانہ سے کوئی شخص تفتیش حال کے لئے آیا.تو ہندو اور مسلمان دونو مل کر خلاف واقعہ بیانات کریں گے اور پھر انہیں کے مطابق تھانہ دار رپورٹ کرے گا.اول ان باتوں کو خوب سوچ لینا چاہئیے.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۴۸ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ آنا نکه خاک را بنظر کیمیا کنند آما بود که گوشته چشم بما کنند حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود اَلسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ.ایک ڈبیا قلموں کی ارسال خدمت ہے.یہ اس نمونہ کے مطابق ہے جو کلکتہ کے ایک سوداگر کے ذریعہ انگلینڈ سے منگوائی گئی تھی.ان کا رنگ ویسا ہے.مگر مضبوط ضرور ہیں.حضور ان کا تجربہ کرکے مطلع فرما دیں.نیز پرانی قلموں میں سے ایک مرحمت فرما دیں.حضور کی جونیوں کا غلام عاجز محمد صادق عفی عنہ ارسال ہے.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتَهُ - ڈبیا پہنچی.جزاکم اللہ خیر.اور ایک قلم پورانی والسلام خاکسار غلام احمد عفی عنہ خط نمبر ۴۹ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ * نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حضرت اقدس مرشد نا و مهدینا مسیح موعود مہدی معہود السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَانَهُ - اپنی زندگی تو انشاء اللہ حضور کے قدموں میں گذر ہی رہی ہے.اور آئندہ بھی خُدا سے دعاء ہے.کہ دین پر خاتمہ ہو.لیکن آئندہ اولاد کے واسطے بھی یہ حیلہ ہے کہ ان کے لئے ایک مکان بنا دیا جائے.تو ان کے ذہن نشین ہو جاوے کہ ہمارا وطن اور گھر اسی جگہ حضرت خلیفہ اللہ کے قدموں میں ہے اور جس مکان کو حضور کی اجازت کا خواہاں ہوں.

Page 313

298 حضور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ اس مکان کو میرے اور میرے آل واہل کے واسطے موجب برکت اور اپنی رضا مندیوں کا ذریعہ بناوے.حضور کی سنت کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ اس مکان کا کچھ نام رکھوں اور میرے خیال میں وہ نام بیت الصدق ہے.اگر حضور کی اجازت ہو.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق لاہور ۴ را گست ۱۹۰۷ء اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتَهُ - مکان خدا مبارک کرے.آمین.نام بہت موزون ہے.ایک روپیہ آپ کا پہنچ گیا ہے.والسلام مرز اغلام احمد عفی عنہ

Page 314

299 باب تیرھواں فوٹو کب لئے گئے اور کہاں کہاں! پہلا فوٹو سب سے پہلا فوٹو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیا گیا.وہ غالب 19 ء 0 میں اِس 1 ضرورت کے لئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یورپ میں اشاعت کے واسطے ایک کتاب تصنیف کرنے کا ارادہ کیا تھا.جس کا ترجمہ مولوی محمد علی صاحب نے انگریزی میں کرنا تھا.اور تجویز ہوئی کہ چونکہ یورپ میں ایسا قیافہ شناس اور مصوران تصاویر بھی ہیں.جو صرف تصویر کو دیکھ کر کسی شخص کی اخلاقی حالت کا اندازہ کرتے ہیں.اس واسطے ضروری ہوگا کہ اس کتاب کے ساتھ مصنف اور مترجم کی تصاویر بھی لگا دی جائیں.اس غرض کے لئے لاہور سے ایک فوٹوگرافر منگوایا گیا.جس نے جو مطلوبہ تصویر میں تھیں الگ الگ لیں.مگر بعد میں دوسرے احباب کی درخواست پر ایک گروپ فوٹو بھی لیا گیا.فوٹو احمد صادق اس کے بعد گویا کہ تصاویر کے لینے کی اجازت پا کر کئی ایک فوٹو لئے جاتے رہے.جن میں سے ایک گروپ فوٹو ایسا تھا جن میں (عاجز) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا.اور بعد میں فوٹو گرافر کو کہہ کر یہ دوفوٹو میں نے پلیٹ پر سے الگ کرائے اور احمد صادق کا نام او پر لکھ کر چھپوائے گئے.ضرورت شادی کے واسطے فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ فوٹو کی تصویر سے کئی ایک جائز فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں.ان میں سے مثلاً یہ بھی ہے کہ شادی کے موقعہ پر اگر ایسے اسباب مہیا نہ ہو سکتے ہوں کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو دیکھ لیں تو دیکھنے کے لئے ان کے فوٹو بھیجے جاسکتے ہیں.فوٹو کے فوائد تصاویر کے ذکر میں چند ایک باتوں کا تذکرہ فائدہ سے خالی نہ ہوگا.اس بارے میں حضرت مفتی صاحب کو غلط نہی معلوم ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوگروپ فوٹو اور ایک پورے قد کا علیحدہ فوٹو کے بارے میں الحکم ۱۰ اگست ۱۸۹۹ء میں اعلان شائع ہوا تھا ( ناشر )

Page 315

300 بڑ ا فکر کرنے والا (۱) مکرمی شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ جب ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر یورپ کے بعض بڑے آدمیوں کو دکھائی.تو انہوں نے کہا He is a great thinker یعنی بہت سوچنے والا آدمی ہے.ایک اسرائیلی پیغمبر (۲) ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب مرحوم جن کی پانچ پشتیں جو سو سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہو چکی ہیں.فرمایا کرتے تھے کہ جب وہ لاہور کے پاگل خانہ کے ڈاکٹر تھے، اُن ایام میں ایک انگریز وہاں آیا.جو تصویر دیکھ کر قیافہ شناسی کا مدعی تھا.کئی ایک لوگ بطور تماشہ بعض تصاویر اس کے پاس لے گئے.وہ بتلاتا رہا کہ یہ کیسا آدمی ہے.میں نے بھی حضرت مسیح موعود کی تصویر اُس کے آگے رکھی.اور اُس سے پو چھا کہ اس شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے.وہ بہت دیر تک اس تصویر کو دیکھتارہا.اور آخر اُس نے کہا کہ کسی اسرائیلی پیغمبر کی تصویر ہے میرا خیال ہے کہ اسرائیلی کا لفظ اُس نے اس خیال سے بڑھایا کہ عام طور پر یہو دی اور عیسائی اس بات کا معتقد نہیں کہ اسرائیلیوں کے بعد بھی کسی کو نبوت ملی ہو.امریکہ میں ہندوستانی بزرگ (۳) جب میں امریکہ میں تھا تو ایک لیڈی کا ایک دُوسرے شہر سے مجھے خط آیا کہ مجھے کشف میں ایک ہندوستانی بزرگ ملا کرتے تھے اور میری مشکلات میں میری رہنمائی کیا کرتے تھے.کیا آپ مجھے یہ بتلا سکتے ہیں کہ وہ کون صاحب ہو سکتے ہیں.میں نے اُسے چند ایک فوٹو بھیجے جن میں ایک فوٹو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی تھا.اُسی پرنشان کر کے اُس لیڈی نے مجھے لکھ بھیجا کہ یہ وہ بزرگ ہیں.ایک انگریز نجومی (۴) نداء میں جبکہ عاجز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہمرکاب شملہ میں تھا تو سہو کتابت معلوم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شملہ تشریف لے جانا تو ثابت نہیں ہوتا.البتہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب مصلح موعودؓ وسط ح ۱۹ ء میں شملہ تشریف لے گئے تھے.(رساله رتشحیذ الاذهان جلد 2 نمبر 6 بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 5 صفحہ 78)

Page 316

301 ایک دن مہا راجہ صاحب الور کی ملاقات کے واسطے میں ان کی کوٹھی پر گیا اور ان کو تبلیغ کے لئے چند کتابیں بھی ساتھ لے گیا.اُن کے ویٹنگ روم میں میں بیٹھا ہوا تھا کہ وہاں دیوان عبد الحمید صاحب وزیر اعظم ریاست کپورتھلہ اور چند دیگر معززین بھی آگئے اور ایک انگریز بھی وہاں پہنچے.جنہوں نے بیان کیا کہ میں مہاراجہ کا منجم ہوں.اس بات کو سُن کر دیوان صاحب اور دوسرے لوگ اُس انگریز منجم سے باتیں دریافت کرتے رہے.میں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر ایک کتاب میں سے نکال کر اُس کے آگے رکھی.جس کو بہت غور سے دیکھ کر اس نے کہا.یہ خدا کے کسی نبی کی تصویر ہے.

Page 317

302 باب چودھواں ایک قابل قدر شہادت، امریکن نومسلم مسٹر ویب کے حالات اور پیر صاحب سندھ کا کشف امریکہ میں ایک صاحب محمد الیگزنڈ ررسل ویب نام تھے.جو کسی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خط و کتابت کرنے سے مسلمان ہو گئے تھے.اُن کے اسلام کا جب بہت چھ چا پھیلا.تو بعض متمول اہل ہند نے انہیں روپیہ بھیج کر ہند وستان بلوایا.اور مختلف شہروں میں اُن کے لیکچر کرائے.اور یہ تجویز ہوئی کہ وہ واپس امریکہ جا کر تبلیغ اسلام کا کام کریں اور ایک ہفتہ وار اخبار شائع کریں.جب وہ ہندوستان پہنچے تو انہوں نے ارادہ ظاہر کیا کہ وہ قادیان جائیں اور حضرت مرزا صاحب سے ملیں.لیکن دوسرے مسلمانوں نے انہیں روکا کہ ایسا کرنے سے عام لوگ آپ کو چندہ نہ دیں گے.اس واسطے وہ قادیان نہ آئے.ان کے حالات کو مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے جو ویب صاحب کے سفر ہندوستان میں شریک تھے.اپنی کتاب تائید حق میں شائع کیا ہے جو کہ ہم اُن کے اپنے الفاظ میں درج کرتے ہیں : ملک امریکہ میں اسلام کیونکر پھیل رہا ہے.اس قصہ سے بہت حضرات پورے واقف نہیں ہوں گے.ملک امریکہ کے شہر ہڈسن علاقہ نیویارک میں ۱۸۴۶ء میں ایک شخص پیدا ہوا جس کا نام الیگزنڈر رسل ویب رکھا گیا.اس شخص کا باپ ایک نامی و مشہور اخبار کا ایڈیٹر و مالک تھا.ویب صاحب نے کالج میں پوری تعلیم پائی اور اپنے باپ کے نقش قدم پر چل کر ایک ہفتہ واری اخبار جاری کیا.ویب صاحب کی لیاقت علمی طرز و تحریر کا شہرہ دُور دُور ہوا.ایک روزانہ اخبار سینٹ جوزف مسوری ڈیلی گزٹ کی اڈیٹری کے معزز عہدہ پر ویب صاحب کی دعوت کی گئی.پھر اس کے بعد اور کئی اخباروں کی اڈیٹری کا کام ویب صاحب کے سپرد ہوتا رہا.کوئی صاحب لفظ اخبار کے

Page 318

303 کہنے سے کہیں رفیق ہند علی گڑھ انسٹیوٹ گزٹ اور اخبار عام کی اڈیٹری نہ سمجھ لیں.ہندوستان کے دیسی اخباروں کو امریکہ کے اخباروں سے وہی نسبت ہے.جو ایک تین چار برس کے لڑکے کو ایک چالیس پچاس برس کے ذی علم و تجر بہ کار شخص کے ساتھ ہو سکتی ہے.امریکہ کے اخباروں کی تعداد کا حساب ہزار سے نہیں ہوتا.بلکہ لاکھ سے.پھر اڈیٹر بھی اسی لیاقت و دماغ کا آدمی ہوتا ہے.جو اگر ضرورت ہو تو وزارت کے کام کو بھی انجام دے سکے.جس اخبار کے ویب صاحب اڈیٹر تھے.وہ امریکہ میں دوسرے نمبر کا اخبار گنا جاتا تھا.یعنی ایک ہی اخبار ساری قلمرو میں ایسا تھا.جو ویب صاحب کے اخبار سے زیادہ درجہ اور رتبہ کا تھا.ویب صاحب کی قابلیت اور لیاقت کا ایسا شہرہ ہوا کہ پریذیڈنٹ سلطنت امریکہ نے ان کو سفارت کے معزز عہدہ پر مقرر کر کے جزیرہ فلپائین کے پایہ تخت منیلا کو روانہ کیا.سفیر سلطنت گورنر کا ہمر تبہ ہوتا ہے.۱۸۷۳ء میں مسٹر ویب نے دین عیسوی کو ترک کر دیا.انہوں نے دیکھا کہ عیسائی مذہب سراسر خلاف عقل و عدل ہے.کئی برس تک ویب صاحب کا کوئی دین نہ تھا.لیکن ان کو ایک قسم کی بے چینی تھی.دل میں خیال کیا کہ اس جہان کے سارے ادیان پر غور کروں.شائد ان میں سے کوئی سچا مذہب ہو.پہلے پہل بدھ مذہب کی تحقیقات شروع کی.تحقیقات کامل کے بعد اُس مذہب کو تشفی بخش نہ پایا.اسی زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مجد دزمان کے انگریزی اشتہارات کی یورپ و امریکہ میں خوب اشاعت ہو رہی تھی.ویب صاحب نے اس اشتہار کو دیکھا اور مرزا صاحب سے خط و کتابت شروع کی.جس کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ ویب صاحب نے دین اسلام قبول کر لیا.حاجی عبد اللہ عرب ایک میمن تاجر ہیں.جو کلکتہ میں تجارت کرتے تھے.جب اللہ تعالیٰ نے لاکھ دولاکھ کی پونجی کا اُن کو سامان کر دیا.تو ہجرت کر کے مدینہ میں جابسے.وہاں باغوں کے بنانے میں بہت کچھ صرف کیا.بہت عمدہ عمدہ باغ تیار تو ہو گئے.لیکن عرب کے بدوؤں کے ہاتھوں پھل ملنا مشکل ہو ا.آخر بیچارے پریشانی میں مبتلاء ہو گئے.جدہ میں آکر ایک مختصر پونجی سے تجارت شروع کر دی.بمبئی سے تجارتی تعلق ہونے کی وجہ سے ہندوستان میں بھی کبھی کبھی آ جاتے ہیں.یہ بزرگ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا مومن ہے.اللہ نے اس شخص کو مادر زاد ولی بنایا ہے.اس کمال و خوبی کا مسلمان میری نظروں سے بہت ہی کم گذرا ہے.مثل بچوں کے دل گناہوں سے پاک وصاف ،خدا پر بہت ہی بڑا تو گل ، ہمت نہایت بلند ، مسلمانوں کی خیر خواہی کا وہ جوش کہ صحابہ یاد آ جائیں.اے خُدا اگر عبداللہ عرب کے ایسے پانچ سو مسلمانوں کی جماعت بھی تو قائم کر دے.تو ابھی مسلمانوں کی

Page 319

304 دُنیا بھی بدل جائے.خدا نے اپنے فضل و کرم سے مجھ کو بھی کچھ تھوڑا سا جوش اہل اسلام کی خیر خواہی کا عنایت فرمایا ہے.لیکن جب میں عبداللہ عرب کے جوش پر غور کرتا ہوں.تو سر نیچا کر لیتا ہوں مجھ کو عبد اللہ عرب کے ساتھ بڑا نیک ظن ہے اور وہ بھی مجھے محبت سے ملتے ہیں.مجھ کو عبداللہ عرب کے ساتھ رہنے کا عرصہ تک موقع ملا ہے.اگر میں اُن کی رُوحانی خوبیوں کو لکھوں تو بہت طول ہو جائے گا.اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے.کہ اس آخری زمانہ میں بھی اس قسم کے مسلمان موجود ہیں.اور مکہ معظمہ میں نہر زبیدہ کی اصلاح کے لئے قریب چار لاکھ روپیہ کے چندہ ایک عبداللہ عرب صاحب کی کوشش سے جمع ہوا تھا.بمبئی میں عبداللہ عرب صاحب نے الگزنڈر رسل ویب سفیر امریکہ کے مسلمان ہونے کا حال سُنا تو فوراً انگریزی میں خط لکھوا کر ویب صاحب کے پاس روانہ کیا.ویب صاحب نے بھی ویسے ہی گرمجوشی کے ساتھ جواب دیا.اور خواہش ظاہر کی کہ اگر آپ کسی طرح منیلہ آ سکتے تو امریکہ میں اشاعت اسلام کے کام میں کچھ اصلاح و مشورہ کیا جاتا.حاجی عبد اللہ عرب صاحب کو حضرت پیر سید اشہد الدین جھنڈ یو الے سے بیعت ہے.شاہ صاحب کی بڑی عظمت عبد اللہ عرب کے دل میں ہے.مجھ سے اس قدر تعریف ان کی بیان کی ہے کہ مجھ کو بھی مشتاق بنا دیا ہے کہ ایک بار حضرت پیر سید اشہد الدین صاحب کی ملاقات ضرور کروں.جب کوئی اہم کام پیش ہوتا ہے تو حاجی عبداللہ عرب صاحب اپنے پیر ومرشد سے صلاح ضرور ہی لے لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنے مرشد سے منیلہ جانے کے بارے میں استفسار کیا.استخارہ کیا گیا.شاہ صاحب نے کہا کہ ضرور جاؤ.اس سفر میں کچھ خیر ہے.عبد اللہ عرب صاحب نے مجھ کو خط لکھا کہ تو بھی منیلہ چل میں انگریزی نہیں جانتا.اور ویب صاحب اُردو نہیں جانتے.ایک مترجم ضروری ہے.اور ایک نومسلم سے ملنا ہے.نہ معلوم اس بیچارے کو دین اسلام کے بارہ میں کیا کچھ پوچھنے کی حاجت ہو.میں اس زمانہ میں کٹک میں تھا.کلکتہ میں حاجی صاحب میرا بہت انتظار کرتے رہے.مسلمانان کٹک نے مجھ کو جلد رخصت نہ دی.آخر وہ ایک یوریشین نو مسلم کو لے کر منیلا چلے گئے.اس سفر میں حاجی صاحب کا ہزار روپیہ سے بالا صرف ہوا.ویب صاحب سے ملاقات ہوئی تو یہ بات طے پائی کہ ویب صاحب سفارت کے عہدہ سے استعفیٰ داخل کریں.اور اشاعت اسلام کے لئے حاجی عبد اللہ صاحب چندہ جمع کریں.حاجی صاحب نے ہندوستان واپس آ کر مُجھ سے ملاقات کی اور میرے ذریعہ سے ایک جلسہ حیدر آباد یہ پیر صاحب ضلع حیدر آباد دسندھ تحصیل ہالہ میں رہتے ہیں.ان کے لاکھوں لاکھ مرید ہیں.اور علاقہ سندھ میں لوگ اِن کی بڑی قدر کرتے ہیں.ان کی کرامات و بزرگی کے سب قائل ہیں.

Page 320

305 میں قائم ہوا.جس میں چھ ہزار روپیہ چندہ بھی جمع ہوا.لیکن میں نے حاجی صاحب سے کہہ دیا کہ ابھی ویب صاحب کو عہدہ سے علیحدہ ہونے کو نہ لکھو.جب تک چندہ پو را جمع نہ ہو لے.حاجی صاحب نے اپنے جوش میں میری نہ سنی.اور بمبئی سے تار دیا کہ سب ٹھیک ہے.تم نوکری سے استعفیٰ داخل کر دو.چنانچہ ویب صاحب نے ویسا ہی کیا.اور ہندوستان آئے میں بمبئی سے ساتھ ہوا.بمبئی ، پونہ، حیدر آباد، مدراس میں ساتھ رہا.حیدر آباد میں ویب صاحب نے مجھ سے کہا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب کا مجھ پر بڑا احسان ہے.انہیں کی وجہ سے میں مشرف بہ اسلام ہوا.میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں.مرزا صاحب کی بدنامی وغیرہ کا جو قصہ میں نے سُنا تھا.اُن کو سُنایا - ویب صاحب نے حضرت صاحب کو ایک خط لکھوایا.جس کا جواب آٹھ صفحہ کا حضرت نے لکھ کر بھیجا.اور مجھ کو لکھا کہ لفظ بلفظ ترجمہ کر کے ویب صاحب کو سُنا دیا.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.ویب صاحب نہایت شوق وادب کے ساتھ حضرت اقدس کا خط سُنتے رہے.خط میں حضرت نے اپنے اس دعویٰ کو معہ دلیل کے لکھا تھا.پنجاب کے علماء کی مخالفت اور عوام میں شورش کا تذکرہ تھا.حضرت نے یہ بھی لکھا تھا کہ مجھ کو بھی تم سے ( یعنی ویب صاحب سے ) ملنے کی بڑی خواہش ہے.ویب صاحب حاجی عبد اللہ عرب کی اور میری ایک کمیٹی ہوئی کہ کیا کرنا چاہیئے.رائے یہی ہوئی کہ مصلحت نہیں ہے کہ ایسے وقت میں کہ ہندوستان میں چندہ جمع کرنا ہے.ایک ایسے بدنام شخص سے ملاقات کر کے اشاعت اسلام کے کاموں میں نقصان پہنچایا جائے.اب اس بد فیصلہ پر افسوس آتا ہے.ویب صاحب لاہور گئے.تو اسی خیال سے قادیان نہ گئے لیکن بہت بڑے افسوس کی بات یہ ہوئی کہ ایک شخص نے ویب صاحب سے پو چھا کہ آپ قادیان حضرت مرزا صاحب کے پاس کیوں نہیں جاتے.تو انہوں نے یہ گستاخانہ جواب دیا کہ قادیان میں کیا رکھا ہوا ہے.لوگوں نے ویب صاحب کے اس نا معقول جواب کو حضرت اقدس تک پہنچا بھی دیا.غرض ہندوستان کے مشہور شہروں کی سیر کر کے ویب صاحب تو امریکہ جا کر اشاعت اسلام کے کام میں سرگرم ہو گئے.دو ماہ تک میں ویب صاحب کے ساتھ رہا.ویب صاحب حقیقت میں آدمی معقول ہے اور اسلام کی سچی محبت اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے.مجھ سے جہاں تک ہو سکا اُن کے معلومات بڑھانے ، خیالات کج کو درست کرنے اور مسائل ضروری کی تعلیم میں کوشش کی.اور شیخ محمد میرا ہی رکھا ہوا نام ہے.جیسا میں نے کہا تھا ویسا ہوا.ہندوستان کے مسلمانوں نے چندہ کا وعدہ تو کیا لیکن ادا ہوتا ہوا کہیں سے نظر نہیں آتا تھا.حاجی عبداللہ عرب صاحب نے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے.لیکن نرود

Page 321

306 شیخ آہنی در سنگ، لاکھوں روپیہ خلاف شرع شریف خرچ کرنے میں مسلمان مستعد و سر گرم ہی رہے اور اُس بہت بڑے کام میں کچھ بھی نہ دیا.صرف رنگون اور حیدر آباد دکن سے تو کچھ کیا گیا کل روپے جو میرے خیال میں بھیجے گئے.وہ تمیں ہزار ہوں گے.جس میں حاجی عبداللہ صاحب عرب کا سولہ ہزار روپیہ ہو گا.بیچارہ غریب حاجی اس نیک کام میں پس گیا.جب حاجی عبداللہ عرب صاحب چندہ کے فراہم نہ ہونے سے سخت بے چینی میں مبتلا ہوئے.تو اپنے پیر صاحب کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت سید اشہد الدین صاحب کی خدمت میں جا کر عرض کیا.حضرت پیر صاحب نے استخارہ کیا.معلوم ہوا کہ انگلستان اور امریکہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی تصرفات کی وجہ سے اشاعت ہو رہی ہے.اُن سے دعا منگوانے سے کام ٹھیک ہوگا.دوسرے دن حاجی صاحب کو پیر صاحب نے خبر دی.اس پر حاجی صاحب نے بیان کیا کہ جناب مرزا غلام احمد صاحب کی علمائے پنجاب و ہند نے تکفیر کی ہے.ان سے کیونکر اس بارہ میں کہا جائے.اس بات کو سُن کر شاہ صاحب نے بہت تعجب کیا اور دوبارہ اللہ کی طرف متوجہ ہوئے.اور استخارہ کیا.خواب میں جناب حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا.اور حضور نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد اس زمانہ میں میرا نا ئب ہے.وہ جو کہے وہ کرو.صبح کو اُٹھ کر شاہ صاحب نے کہا کہ اب میری حالت یہ ہے کہ میں خود مرزا صاحب کے پاس چلوں گا اور اگر وہ مجھ کو امریکہ جانے کو کہیں تو میں جاؤں گا.جب کہ حاجی عبداللہ عرب صاحب نے اور دوسرے صاحبوں نے خواب کا حال سُنا.اور پیر صاحب کے ارادہ سے واقف ہوئے.تو مناسب نہ سمجھا کہ پیر صاحب خود قادیان جائیں.سب نے عرض کیا کہ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں.آپ کی طرف سے کوئی دوسرے صاحب حضرت مرزا صاحب کے پاس جا سکتے ہیں.چنانچہ پیر صاحب کے خلیفہ عبد اللطیف صاحب اور حاجی عبداللہ عرب صاحب قادیان آئے اور سارا قصہ بیان کر کے خواستگار ہوئے کہ حضرت اقدس اس طرف متوجہ ہوئے.تا کہ اشاعت اسلام کا کام امریکہ میں عمدگی سے چلنے لگے بیان مذکورہ بالامیں نے خود حاجی عبداللہ عرب صاحب سے سُنا ہے.اور جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں.حاجی صاحب کو میں ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا با خدا آدمی سمجھتا ہوں.اس لئے اس خبر کو جھوٹ سمجھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے.جس حالت میں مرزا صاحب ایک بد نام شخص ہور ہے ہیں.اور جھنڈے والے پیر صاحب ایک نامی آدمی ہیں.عبداللہ عرب صاحب کو کوئی وجہ نہیں ہے.کہ اپنے مُرشد کے بارے میں ایک ایسا قصہ تصنیف کریں.جس سے ظاہراً اُن کا نقصان ہی نقصان ہے.

Page 322

307 حاجی عبداللہ عرب صاحب سے مجھ کو ایک اور عجیب بات معلوم ہوئی.کہ قسطنطنیہ میں سید فضل صاحب ایک باکمال بزرگ رہتے ہیں.جن کو سلطان رُوم بہت پیار کرتے ہیں.سید فضل صاحب کے بزرگوں میں ایک شیخ گزرے ہیں.(میں اُن کا نام وغیرہ آئندہ دریافت کر کے کسی دوسرے رسالہ میں درج کروں گا.) جو صاحب کشف و کرامات تھے.وہ اپنے ملفوظات میں لکھ گئے ہیں.کہ آخری زمانہ میں مہدی علیہ السلام تشریف لاویں گے.تو مغربی ملکوں میں ایک بہت بڑی قوم گورے رنگ والی حضرت مہدی علیہ السلام کی بڑی معین و مددگار ہوگی اور وہ سب داخلِ اسلام ہوگی.واللہ اعلم بالصواب.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمانے پر میں نے ویب صاحب سے خط و کتابت کی جن میں سے دو خط بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں : میرے پیارے بھائی.السلام علیکم.آپ کا خط مورخہ ۱۳ /جنوری ۱۹۰۲ء مجھے یہاں - ۱۸ / فروری ۱۹۰۲ ء کو ملا.جس میں مسٹر براؤن کا ایک خط ہے.مسٹر براؤن کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی پاکیزگی نے اس کے سوچنے والے دل پر اثر کیا ہے.آپ اس کو اسلام کے اصول سکھاتے رہیں.اور اُمید ہے کہ وہ کسی دن سچا پُر جوش مسلمان ہو جائے گا.بے شک ملک امریکہ میں اسلام پھیلانے کے لئے آپ کی راہ میں بہت مشکلات ہیں.لیکن آپ یقین رکھیں کہ اگر آپ کی سعی خالصہ اللہ ہے.تو ایک دن آپ کو کامیابی ہو کر رہے گی.تا ہم آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اسلام کے متعلق بعض غلط عقائد جو عام مسلمان لوگوں میں آج کل شائع ہو رہے ہیں.ان کی اشاعت آپ ہرگز نہ کریں.کیونکہ ان عقائد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ لوگوں پر ناراض ہے اور اسی لئے اس نے اپنا مرسل حضرت مرزا غلام احمد بھیجا ہے تا کہ ایسے عقائد کی اصلاح کرے.اب خدا تعالیٰ اسے برکت دے گا.اور ان لوگوں کو بھی برکت دے گا.جو اس کے پاک اور نیچے اصولوں کی پیروی کریں گے.دوسروں سے اس نے اپنا منہ پھیر لیا ہے.اور وہ ان لوگوں کی دُعائیں نہ سُنے گا جو اُس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے کھڑے ہوں گے.پس آپ لوگوں کو ان پاک اصولوں کے مطابق تعلیم دیں جو کہ آپ ان رسائل اور کتب سے اخذ کر سکتے ہیں جو کہ میں آپ کو وقتاً فوقتاً بھیجتا ہوں.تب آپ کو اللہ تعالیٰ کامیاب کرے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کی مرضی اسی طرح ہے اور اُسی کی مرضی بہر کیف پوری ہوگی اگر آپ اس کام کو اختیار کریں گے تو مقدس انسان حضرت مرزا غلام احمد صاحب کی دعائیں آپ کے کے شامل حال ہوں گی.

Page 323

308 عیسائیوں نے جو غلط فہمیاں اسلام کے متعلق ان ممالک میں شائع کر رکھی ہیں.ان کا دفعیہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ نیچے اور پاک اصول اسلام پر کتابیں اور رسالے لکھ کر ان ممالک میں شائع کئے جائیں.جیسا کہ آپ کا خیال ہے.بہتر طریق یہی ہے کہ ایک اخبار امریکہ میں جاری رہنا.مجھے افسوس ہے کہ اس ملک کے مسلمان اپنی بات پر نیچے نہ نکلے اور انہوں نے اپنے وعدے کو پورا نہ کیا اور آپ کو مجبوراً اپنا اخبار بند کرنا پڑا.لیکن میرے پیارے دوست یہی تمہاری ٹھیک جز تھی.آپ نے برگزیدہ خدا کے متعلق ان لوگوں کی جھوٹی باتوں پر یقین کر لیا.اور ان کے قابل شرم جھوٹ پر اعتبار کرنے سے آپ نے ہند میں آکر اس شخص کی ملاقات سے اعراض کیا.حالانکہ صرف وہی ایک شخص قابل زیارت سارے ہند میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں تھا.پس خدا نے آپ کو یہ سبق سکھایا.خدا نے آپ کو جتلا دیا کہ ایسے لوگوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئیے.شاید میرے الفاظ آپ کو نا گوار ہوں.مگر الْحَقُّ مُو صحیح ہے میں مثال دے کر آپ کو سمجھا تا ہوں.فرض کرو ایک شخص امریکہ کو جاتا ہے.اس کا یہ سفر صرف مذہب کی خاطر ہے.وہ اس پاک نیت سے سیر کرتا ہے کہ بزرگ مسلمانوں سے ملاقات کرے اور اپنے ملک میں اسلام پھیلانے کے لئے ان سے مدد لے.وہ سارے امریکہ میں پھرتا ہے مگر وہ محمد ویب کو ملنا نہیں پسند کرتا.وہ کہتا ہے کہ محمد ویب کو اس کے ہموطن اچھا نہیں سمجھتے.اس کے ہم مذہب اس کے حق میں اچھا کلمہ نہیں بولتے.وہ تمہارے شہر کے پاس سے گذرتا ہے.لیکن یہ شہر اس کے لئے کسی دلچسپی کا موجب نہیں ہے آپ ایسے شخص کے حق میں کیا کہتے ہیں.کیا اس نے بر اعظم امریکہ کے اکلوتے مسلمان کی ملاقات کا موقعہ ضائع نہیں کر دیا.مگر یہ مثال ابھی نامکمل ہے.کیونکہ آپ ابھی اسلام کی دہلیز پر ہیں.حالانکہ مرزا صاحب کو خدا تعالیٰ نے رُوحانی دنیا کا حاکم بنایا ہے.رُوحانی برکات کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اس بندے کو اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تخت پر بٹھایا ہے.لیکن میرے پیارے دوست اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.وہ تو بہ کرنے والوں کی طرف توجہ کرتا ہے.استقامت کے ساتھ استغفار کریں.تو اس کے بے حد رحم جوش میں آوے گا.اُس کے رحم کے ذریعہ سے تمام مشکلات دُور ہو سکتے ہیں.اُس کو سب طاقتیں ہیں.کوئی پتہ اُس کی اجازت کے بغیر ہل نہیں سکتا.اگر وہ چاہے، تو امریکہ میں کئی اخبار جاری ہو سکتے ہیں.آپ اسلام کے پھیلانے کے لئے انتھک کوشش کریں.تب مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری سب خواہشوں کو پورا کر دے گا.جب حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.تب ان کے مُرید بہت تھوڑے تھے اور

Page 324

309 دشمن ہزاروں.تمام موٹے مولویوں نے انہیں کافر اور غیر مسلم کا فتویٰ دیا.لیکن خدا ہمیشہ ان کے ساتھ ہے.اب ان کے مُریدوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے.دو مطبع قادیان کے گاؤں میں چل رہے ہیں.ایک اُردو اخبار بنام الحکم ہفتہ وار نکلتا ہے.انگریزی میگزین بھی نکلنا شروع ہوا ہے.جس کا پہلا نمبر آپ کو آگے روانہ کیا گیا تھا اور دوسرا نمبر اب روانہ کیا جاتا ہے.آپ اس کو غور سے مطالعہ کریں.اور اپنے دوستوں کے درمیان اس کی اشاعت کریں.اس کا پڑھنا آپ کے ا لئے بہت سے مسائل پر روشنی ڈالے گا.ایک بڑے فاضل مولوی صاحب یہاں ہر روز درس قرآن دیتے ہیں.کوئی سو طالب علم ہر روز ان کے لیکچر میں حاضر ہوتا ہے.دوسال سے ایک ہائی سکول جاری ہے.جس میں دینی اور دنیوی تعلیم دی جاتی ہے.پس آپ دیکھ لیں کہ جس کو خدا رکھنا چاہے، اس کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا.آپ نے عربی زبان کے سیکھنے میں کہاں تک ترقی کر لی ہے.عربی کا سیکھنا ایک مسلمان کے لئے لا بد ہے.اپنے دوستوں کو ہمیشہ عربی پڑھنے کے لئے ہدایت کیا کریں.اس سے ان کو بہت فائدہ ہوگا.مسٹر ڈوئی کے متعلق آپ کا یہ خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ وہ روپیہ جمع کرنے کے واسطے یہ سب کچھ کرتا ہے.میں نے آپ کا ذکر حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا تھا اور آپ کا السلام علیکم پہنچایا تھا.وہ آپ کی خبر سن کر خوش ہیں اور آپ کو السلام علیکم کہتے ہیں.اور آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ آپ دین اسلام پر پکے رہیں.اور میگزین کوغور سے پڑھیں ، اور دوستوں کے درمیان اس کی اشاعت کریں.ہمارے سب دوست آپ کے خطوط سُن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور آپ کی ترقی اسلام میں کامیابی کے خواہشمند ہیں.آپ مولوی حسن علی صاحب کو جانتے ہیں.ہندوستان کے سفر میں وہ آپ کے ساتھی تھے اُنہوں نے بھی آپ کو اس بات کی ترغیب دی تھی کہ آپ حضرت مرزا صاحب کی ملاقات نہ کریں.لیکن آپ کے امریکہ چلے جانے کے جلد بعد وہ قادیان آئے اور حضرت کے مُریدوں میں شامل ہوئے.انہوں نے اپنی اس غلطی کا اقرار کیا اور توبہ کی اور ایک کتاب تصنیف کی جس میں انہوں نے مفضل لکھا کہ ویب صاحب کو مرزا صاحب کی ملاقات سے روکنے میں بڑا ز ورمیں نے ہی دیا تھا.جس کی وجہ سے میں بہت پشیمان ہوں.ان کی کتاب شائع ہو چکی ہے جس میں انہوں نے ثابت کیا ہے کہ اسلام کا سچا فرقہ وہی ایک ہے.جس کے بانی حضرت مرزا صاحب ہیں.وہ بیچارے فوت ہو

Page 325

310 گئے ہیں.آپ نے ان کی وفات کی خبر سُن لی ہوگی.اب میں ایک نہایت ہی ضروری امر کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.میرے پیارے بھائی آپ کو اس امر کا تجربہ ہو چکا ہے کہ ہند کے مسلمان اور اُن کے مولوی حضرت مرزا صاحب کے عقائد کے ساتھ کیسی مخالفت رکھتے ہیں.اگر یہ خیالات ایران یا روم کے مسلمانوں کے آگے ظاہر کئے جائیں.تو ایک دفعہ تو وہ بھی ضرور ان کی مخالفت کریں گے.اگر چہ ہمیں امید ہے اور یقین ہے کہ انجام میں کامیابی ہمارے لئے ہوگی.تا ہم ممکن ہے کہ ابتداء مشکلات سے تاریک نظر آوے پس آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ہاتھ ملا کر آپ فی الحال کوئی خوشی کا منہ بظا ہر نہیں دیکھ سکتے.اگر آپ حضرت مرسل من اللہ کے عقائد کی اشاعت اپنے ذمہ لیں تو ضرور ہوگا کہ آپ ایشیاء اور یورپ کے برائے نام مسلمانوں کی نفرت و کینہ کا نشانہ بننے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.کیونکہ وہ سب ہمیں مجنون کہتے ہیں.اور یہی نام آپ کا بھی رکھا جاوے گا.پس آپ تازہ مشکلات اور تکالیف اس راہ میں دیکھیں گے.اگر آپ اللہ کے رسول مرزا صاحب کے دعاوی کی صداقت پر ایمان لاتے ہیں.اور اپنے تئیں ایسے اعتقاد کی اشاعت کی جرات رکھتے ہیں ، تو آپ کو مبارک ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو برکت دے گا.تب آپ کی عاقبت درست ہو جائے گی اور دنیا میں اس سے بڑھ کر کوئی امر قابل رشک نہیں کہ کسی کی عاقبت درست ہو جائے.اس پر خوب غور کریں.اور احتیاط سے قدم آگے بڑھائیں.نبیوں کی پیروی اُن کی زندگی کے ایام میں جبکہ لوگ سُنت اللہ کے مطابق ان کی مخالفت میں تلے ہوئے ہوں.ایک بڑی قربانی چاہتی ہے.ان باتوں پر غور کر کے مجھے اطلاع دیں.آپ کا سچا خیر خواہ مفتی محمد صادق محمد ویب کا خط بنام مفتی محمد صادق از مقام رور فورڈ ملک امریکہ مورخہ ۹ / مارچ ۱۹۰۲ء مائی ڈئیر برادر السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته : آپ کا عنایت نامہ مورخہ ۲۲ / فروری ۱۹۰۲ء مجھے ابھی ملا ہے اور اسے پڑھ کر مجھے بہت فرحت حاصل ہوئی ہے.مجھے اس بات کا سننا تسکین بخش ہوا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب میری ان کوششوں میں دلچسپی لیتے ہیں.جو کہ میں اسلام کی شاندار صداقتوں کو یہاں پھیلانے میں کر

Page 326

311 ہے.رہا ہوں.چونکہ میرا کام مشکل اور بعض دفعہ نا امید کرنے والا ہے.اس واسطے یہ خبر پا کر مجھے فرحت حاصل ہوئی کہ حضرت مرزا صاحب اور آپ میرے واسطے دُعاء مانگتے ہیں.جب میں ہندوستان گیا.تو مجھے یقین تھا کہ ہمارے مسلمان بھائی میری حتی الوسع مدد کریں گے.میرے خیال میں یہ بات نہ آ سکتی تھی کہ مسلمان کہلا کر کوئی شخص میری مخالفت کرے گا.اور میری کوششوں میں روک ڈالے گا.میں نے ان کو صاف کہہ دیا تھا کہ بہت سے عیسائی میری مخالفت کریں گے.اور مجھے نا کام کرنے کے لئے الزام لگائیں گے.اور ہر قسم کی مخالفت کریں گے.میں نے انہیں سمجھا دیا تھا کہ ان عیسائیوں کی باتوں کو نہ سننا.اور یہ سوچنا کہ اُن کا مدعا کیا ہے.لیکن جونہی یہاں کے عیسائیوں کی مخالفت کی خبر ہند میں پہنچی.وہاں کے بے ایمان مسلمان میرے مخالف ہو گئے اور ہر طرح مجھے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی.میرے ساتھ جو وعدے اُنہوں نے کئے تھے.اُن سب کو بھلا دیا.اور اپنے اقراروں کو توڑنے کے لئے صرف بہانے کے طلب گار ہوئے.لیکن اب مجھے سمجھ آئی کہ اُن لوگوں نے ایسا کیوں کیا ہے.دراصل بات یہ ہے کہ اُن کا مذہبی علم صرف سطحی ہے.سچائی کی روشنی اُن میں نہیں پائی جاتی.اور مقدس نبی صلعم کی وفاداری اُن کے دلوں میں نہیں خدائے مطلق جانتا تھا کہ میرے لئے کس امر میں بہتری ہے.اور اُس نے وہی کیا جو میرے لئے بہتر تھا.غالباً میرے لئے یہ امر مفید نہ تھا کہ وہ لوگ میرے ساتھ وفاداری کا تعلق قائم رکھتے.تو با وجود میری کوششوں کے یہاں بھی اسلام کی ایک ایسی ہی بگڑی ہوئی شکل قائم ہو جاتی جیسی کہ ان لوگوں میں ہے.مجھے ابھی ایک نو مسلم کا خط ملا ہے جس کی بابت میں خیال کرتا ہوں.کہ وہ اسلام کے کارآمد ہوگا.اس کا نام جیمز ایل راجرز ہے.وہ مدت تک پادری کا کام کرتا رہا ہے.لیکن اُسے عیسائیت پرشک آنے لگے.اور پھر اس مذہب کو چھوڑنے کا ارادہ کیا.اس نے میری ایک تقریر پڑھی تھی جس سے اس کا شوق اور بھی بڑھا.بعض اسلامی کتابیں اس نے پڑھیں اور سچائی کا نو ر اُس کے دل میں بیٹھ گیا.اب اُس نے اپنے آپ کو مسلمان مشہور کر دیا ہے.اور وہ زیادہ علم حاصل کرنے کا شوق رکھتا ہے.اس میں کچھ شک نہیں.کہ اس کے پہلے دوست اس کے مخالف ہو جائیں گے.لیکن اُسے اس بات کی کچھ پروانہیں وہ بڑا سرگرم معلوم ہوتا ہے.اور مجھے یقین ہے کہ وہ ہمارے لئے بہت کام کرے گا.مجھے یہ بات اچھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ اُسے خط لکھیں اور کچھ کتابیں بھیج کر اسے فائدہ پہنچائیں اور میگزین کے پرچے جو آپ نے مجھے ارسال کئے تھے.وہ سب میں تقسیم کر چکا ہوں.اور میرے پاس سوائے اپنی کتابوں کے اور کچھ نہیں کہ میں بھیجوں.وہ اس ملک میں مجھ سے بہت دور رہتا ہے.دو دفعہ میں اُسے خط لکھ چکا ہوں اور

Page 327

312 جہاں تک مجھ سے ہو سکے گا.میں اس کی مدد کروں گا.مسٹر برون بھی ایک مسلمان ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر آپ اس کو بھی خط لکھیں.تو آپ کے خطوط نتیجہ آور ہوں گے.اس ملک کے مسلمانوں کو اس بات میں بڑی خوشی ہوتی ہے.کہ ہند کے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خط و کتابت کریں کیونکہ اس سے دو ملکوں کے بھائیوں کے درمیان برادری کا تعلق پختہ ہوتا ہے.میں نے پہلے بھی کوشش کی تھی.ہند کے مسلمان اس امر کی طرف توجہ کریں.مگر انہوں نے کچھ پروا نہ کی.امریکہ کے لوگ قدرتاً بجائے عرب و روم کے اسلام کا منبع ہندوستان کو سمجھتے ہیں.اہل امریکہ بھی سمجھتے ہیں کہ اسلام عرب میں پیدا ہوا تھا.مگر اسلام کی تعلیم کے لئے ان کی نظریں ہندوستان کی طرف اٹھ رہی ہیں.علاوہ ازیں یہ بھی بات ہے کہ دوسرے مشرقی ممالک کی نسبت ہندوستان میں انگریزی خواں مسلمان زیادہ ہیں.اس واسطے انہیں یہ بات خوش پہنچاتی ہے کہ کسی ہندوستانی بھائی کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ قائم رکھیں.اگر آپ پسند کریں.تو بعض اہل امریکہ کے پتے آپ کو لکھ بھیجوں گا.مجھے اپنا پیارا بھائی حسن علی خوب یاد ہے.اور وہ وقت مجھے یاد ہے جو کہ میں نے اس کی پسندیدہ صحبت میں گزارا.اس نے اپنی سمجھ کے مطابق نیکی کی سعی کی.لیکن میری طرح اس نے بھی غلطی کھائی.مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ وہ مرنے سے پہلے حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو چکا تھا.جب میں ہند میں تھا تو اس نے میری مدد کی.اور میں پچھتاتا ہوں کہ وہ اور میں دونوں مل کر اُسی وقت قادیان کیوں نہ گئے.خدا نے مجھ پر اور میرے کنبے پر بڑی مہربانی کی اور میں اس کا شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے اسلام کی سچی روشنی عطا فرمائی.میں امید کرتا ہوں کہ آپ جلد جلد مجھے خط لکھا کریں گے.اور خوشی سے ہر طرح آپ کی خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.حضرت مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ میرا سلام عرض کریں اور ان سے التجاء کریں کہ میری کامیابی کے لئے دُعا فرماویں.میں آپ کے لئے سلامتی اور امن کی دُعاء کرتا ہوں.آپ کا بھائی محمد ایلکس و یب بنوں میں ایک بہت جوشیلے پادری ڈاکٹر پینل نام ہوا کرتے تھے جن کو اشاعت عیسویت کا

Page 328

313 بڑا جوش تھا.اور انہوں نے اپنے کام کے واسطے بنوں کو اپنا مرکز بنایا تھا.۱۹۰۴ء میں جب کہ عاجز راقم قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا.ایک صبح پادری پینل صاحب بائیسکل پر سوار قادیان پہنچے.ایک اور نو جوان بھی اُن کے ساتھ دوسرے بائیسکل پر سوار تھا.جس کو وہ اپنا بیٹا کہتے تھے.اور بظاہر وہ مسلمان تھا.پادری صاحب نے گیروی رنگ کے کپڑے دیسی طرز کے پہنے ہوئے تھے.سر پر پگڑی تھی.پاؤں میں جزا ہیں نہ تھیں.اور سرحدی طرز کی ایک چپلی پہنے ہوئے تھے.میں ان کی شکل دیکھتے ہی پہچان گیا.کہ یہ کوئی انگریز ہے.جو دیسی لباس پہنے ہوئے ہے.اور میں نے انگریزی میں اُس سے بات شروع کی.لیکن انہوں نے جواب اردو میں دیا.اور معلوم ہوا کہ انہوں نے ارادہ کیا ہے.کہ چند ماہ پنجاب کے مختلف شہروں میں دورہ کر کے مسلمانوں کے صوفیاء اور فقراء سے ملاقاتیں کریں.میں نے جلدی سے اُن کے ٹھہرانے کے لئے مدرسہ کے ایک کمرہ میں انتظام کر دیا.لنگر خانہ سے کھانا منگوایا گیا جو انہوں نے بے تکلفی سے ہندوستانیوں کی طرح ہاتھ سے کھایا.اور پھر حضرت مولوی نور الدین صاحب کے درس حدیث میں اور لوگوں کے درمیان چٹائی پر بیٹھ کر درس سنتے رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی طبیعت علیل ہونے کے سبب پادری صاحب کی ملاقات اُن سے نہ ہوسکی.اُن کا پروگرام قادیان میں صرف ایک ہی دن ٹھہر نے کا تھا.لیکن میں نے اُن کو نہایت مفصل احمدیت کی تبلیغ کی.اس تقریر کا ایک حصہ اخبار الحکم جنوری ۱۹۰۴ء میں شائع ہوا تھا.ڈاکٹر پینل نے اپنا ایک سفر نامہ بھی لکھا تھا.جس میں قادیان کا بھی ذکر تھا.بنوں کے مشہور مشنری ڈاکٹر پینل کے ذریعہ سے وہاں کے ایک مسلمان گل محمد نام عیسائی ہو گئے تھے.یہ گل محمد صاحب ۱۹۰۲ء یا ۱۹۰۳ ء میں ایک دفعہ قادیان بھی آئے.ان کا طرز گفتگو گستاخانہ اور بے باکا نہ تھا.وہ چاہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مباحثہ کے رنگ میں کچھ لمبی گفتگو کریں.مگر حضرت صاحب نے اس کی طرف متوجہ ہونا اور اس کو مُنہ لگانا پسند نہیں کیا.اور اس کے ساتھ گفتگو کے وقت اس کو صرف گل محمد سے مخاطب کرتے تھے.جس پر وہ ناراض ہوا اور کہا کہ سب مجھے مولوی گل محمد کہا کرتے ہیں.آپ بھی مجھے ایسا ہی کہیں.حضرت صاحب نے فرمایا.مولوی ایک عزت کا لفظ علماء اسلام کے واسطے مخصوص ہے.میں آپ کو مولوی نہیں کہہ سکتا.عاجز راقم اس کے ساتھ بہت دیر تک مذہبی گفتگو کرتا رہا.اور حضرت مولوی نورالدین صاحب سے بھی اس کی گفتگو ہوئی.جب وہ قادیان سے چلا گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رویا میں

Page 329

314 دیکھا کہ وہی گل محمد اپنی آنکھوں میں سرمہ ڈال رہا ہے.اس کے بہت عرصہ بعد سنا گیا تھا.کہ ڈاکٹر پینل کے مرنے کے بعد دوسرے پادریوں نے اس گل محمد کو مشن ہاؤس سے اس الزام میں نکال دیا تھا کہ وہ با وجود عیسائی ہونے کے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کا نبی مانتا تھا.۱۹۰۶ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام معہ خدام سیالکوٹ تشریف لے گئے.اور جماعت سیالکوٹ نے تمام اخراجات ہر قسم کے برداشت کئے.اس سفر میں عاجز معہ اہل بیت خود حضرت کے ہمر کاب تھا.اور سٹیشن پر ٹکٹ وغیرہ لینے کا انتظام عاجز کے سپر د تھا.اس وقت سیالکوٹ میں مقبولیت عام تھی.اور ہزار ہا لوگ باہر سے حضرت صاحب کی زیارت کے لئے تشریف لائے تھے.وہاں حضرت صاحب نے ایک لیکچر بھی دیا.جس میں خصوصیت سے اپنا کرشن ہونا بھی بیان فرمایا.پیر جماعت علی شاہ اور بعض دوسرے علماء نے بہت مخالفت کی.اور لوگوں کو روکا کہ آپ کے لیکچر میں نہ جائیں.لیکن پبلک نے کچھ پرواہ نہ کی اور جلسہ میں سب لوگ شامل ہوئے.انہیں ایام میں ایک دفعہ جبکہ حضرت صاحب اپنے قیام گاہ پر جو سید حامد شاہ صاحب کے مکان میں تھا.لیکچر کے واسطے مضمون لکھ رہے تھے.زائرین کا ایک بڑا گر وہ اشتیاق زیارت میں نیچے گلی میں جمع ہو رہا تھا.سید حامد شاہ صاحب کے عرض کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُوپر ایک کھڑکی میں چند منٹ کے لئے کھڑے ہوئے.اور نیچے سے لوگوں نے زیارت کر لی.چونکہ انبوہ کثیر تھا.اور خطرہ تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر گر کر کسی کو چوٹ نہ آ جائے.اس واسطے چند منٹ سے زیادہ حضور وہاں نہ ٹھیرے.امریکہ کے نو مسلم اینڈرسن جنہوں نے مسٹر ویب کے ذریعہ سے میرے ساتھ خط وکتابت کی تھی.اپنے خط ۲۶ ستمبر ۱۹۰۴ء کے ذریعہ سے مسلمان ہو کر داخل سلسلہ احمد یہ ہوئے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کا اسلامی نام احمد تجویز فرمایا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ڈاک کا کام میرے سپر د ہوا.تو ڈاک میں جو اس قسم کے خطوط ہوتے تھے.جن میں لوگ اپنے نوزائیدہ بچوں کا نام تبر کا حضرت صاحب سے رکھوانے کی درخواست کیا کرتے تھے.اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے مجھے حکم فرمایا تھا کہ میں خود ہی حضور کی طرف سے کوئی نام تجویز کر کے لکھ دیا کروں.چنانچہ ایسا ہی ہوتا رہا.گورداسپور میں ایک دفعہ مغرب کے بعد ایک خادم ایک چار پائی ایسے طرز پر بچھانے لگا

Page 330

315 جس سے پانکتی قبلہ کی طرف ہوتی تھی.حضرت صاحب نے اس کو سختی سے منع فرمایا.حضوڑا خود کبھی قبلے کی طرف پاؤں نہیں کرتے تھے اور دُوسروں کو بھی اس سے روکتے تھے.گورداسپور کا واقعہ ہے.غالباً ۱۹۰۲ ء یا اس کے قریب ہو گا.کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کاغذ پر قرآن شریف کی چند آیات بطور حوالہ کے لکھی گئیں.تھوڑی دیر کے بعد کسی دوائی کی پڑیا بنانے کے لئے جو کاغذ کی ضرورت ہوئی.تو حاضرین میں سے کسی نے وہی کا غذ اٹھایا.اس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے اور فرمایا کہ قرآن شریف کی آیات کو پڑیاں بنانے میں استعمال نہ کرو.یہ بے ادبی ہے.

Page 331

316 باب پندرھواں رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہوگئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فتویٰ اور عاجز راقم کا خواب اس بات کا ذکر آیا ہے کہ جو شخص جماعت کے اندر رکوع میں آ کر شامل ہوا ، اس کی رکعت ہوتی ہے یا نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرے مولویوں کی رائے دریافت کی.مختلف اسلامی فرقوں کے مذاہب اس امر کے متعلق بیان کئے گئے.آخر حضرت نے فیصلہ دیا اور فرمایا ہمارا مذ ہب تو یہی ہے کہ لا صلوۃ الا بفاتحة الکتاب.آدمی امام کے پیچھے ہو یا منفرد ہو.ہر حالت میں اس کو چاہیے کہ سُورۃ فاتحہ پڑھے.مگر ٹھہر ٹھہر کر پڑھے.تا کہ مقتدی سن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے یا ہر آیت کے بعد امام اتنا ٹھہر جائے کہ مقتدی بھی اس آیت کو پڑھ لے.بہر حال مقتدی کو یہ موقعہ دینا چاہیے کہ وہ سُن بھی لے اور اپنا پڑھ بھی لے.سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے کیونکہ وہ اُمّ الکتاب ہے.لیکن جو شخص با وجود اپنی کوشش کے جو وہ نماز میں ملنے کے لئے کرتا ہے.آخر رکوع میں آکر ملا ہے اور اس سے پہلے نہیں مل سکا تو اس کی رکعت ہوگئی.اگر چہ اُس نے سورۃ فاتحہ اس میں نہیں پڑھی.کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس نے رکوع کو پا لیا.اُس کی رکعت ہوگئی.مسائل دو طبقات کے ہوتے ہیں.ایک جگہ تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور تاکید کی نماز میں سورۃ فاتحہ ضرور پڑھیں.وہ اُمّ الکتاب ہے.اور اصل نماز وہی ہے مگر جو شخص با وجودا پنی کوشش کے اور اپنی طرف سے جلدی کرنے کے رکوع میں ہی آکر ملا ہے.تو چونکہ دین کی بنا آسانی اور نرمی پر ہے.اس واسطے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی رکعت ہوگئی.وہ سورۃ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے بلکہ دیر میں پہنچنے کے سبب رخصت پر عمل کرتا ہے.میرا دل خدا نے ایسا بنایا ہے کہ نا جائز کام میں مجھے قبض ہو جاتی ہے اور میرا جی نہیں چاہتا کہ میں اُسے کروں

Page 332

317 اور یہ صاف ہے کہ جب نماز میں ایک آدمی نے تین حصوں کو پورا پا لیا.اور ایک حصہ میں بہ سبب کسی مجبوری کے دیر میں مل سکا ہے.تو کیا حرج ہے.انسان کو چاہیے کہ رخصت پر عمل کرے.ہاں جو شخص عمد اسستی کرتا ہے اور جماعت میں شامل ہونے میں دیر کرتا ہے تو اُس کی نما ز ہی فاسد ہے.سبحان اللہ اس امام حکم عدل کا فیصلہ ہرامر میں کیسا ناطق اور صاف اور صحیح ہے.اور دلوں میں گھر کرنے والا اور تمام شبہات کو مٹا دینے والا ہوتا ہے.خُدا تعالیٰ نے اس امام کو اس واسطے بھیجا ہے کہ تمام اخلاقی مسائل میں فیصلہ کر دے.اور ہر ایک اختلاف کو مٹا دے.اور تیرہ سو برس کے جھگڑوں کا خاتمہ کر دے.مبارک ہیں وہ جو اس کی فرمانبرداری کے جوئے کو اپنی گردن پر رکھ کر متفرق اماموں کے اختلافی مسائل کے شکوک اور شبہات سے نجات پاتے ہیں.اس جگہ مجھے اپنی ایک رؤیا یاد آئی ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصہ گذرا ہے کہ میں نے دیکھی تھی اور اس طرح سے ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک میز لگی ہوئی ہے اور اس پر بڑی بڑی کتابیں پڑی ہیں اور ایک شخص نہایت مصروفیت کے ساتھ ان کتابوں کو دیکھ رہا ہے.کبھی اس کتاب کو کھولتا ہے اور کبھی اُس کتاب کو.میں نے اس سے پوچھا کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ پہلے ہوئے ہیں یا امام بخاری پہلے ہوئے ہیں.اس نے کہا بخاری پہلے ہوئے ہیں.سُن کر میں حیران ہوا اور میں نے دل میں خیال کیا کہ شاید اس بزرگ نے میرا سوال نہیں سمجھا.پس میں نے اپنے سوال کو دہرایا.اور ادب سے پھر عرض کیا کہ امام بخاری پہلے ہوئے ہیں یا امام ابو حنیفہ.اس بزرگ نے پھر بھی یہی جواب دیا کہ امام بخاری پہلے ہوئے ہیں.پھر تو میں بہت ہی حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے.ہم تو سنا کرتے تھے کہ امام ابوحنیفہ پہلے ہوئے ہیں.اور اگر بالفرض امام بخاری پہلے ہوئے ہیں.جیسا کہ یہ بزرگ فرما رہے ہیں.تو کتاب صحیح بخاری جس میں حدیث شریف لا صلوة الا بفاتحة الكتاب درج ہے.امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ کی نظر سے ضرور گذری ہوگی.اور باوجود اس حدیث کے دیکھنے کے کبھی ممکن نہیں کہ امام ابو حنیفہ جیسے بزرگ نے اُس کے برخلاف یہ فتویٰ دیا ہو کہ امام کے پیچھے مقتدی سورۃ فاتحہ نہ پڑھے.چونکہ ابو حنیفہ جیسے بزرگ متقی امام پر بدظنی کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا.اس واسطے میں نے جرات کر کے تیسری دفعہ بڑے ادب کے اپنا سوال اُس بزرگ کے آگے پھر دو ہرایا.کہ میں چھتا ہوں کہ امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ جو ہوئے ہیں وہ پہلے ہوئے ہیں یا امام بخاری پہلے ہوئے ہیں.تیسری دفعہ سوال کرنے پر اس بزرگ نے سر اُوپر اٹھایا اور میری طرف گھور کر دیکھا اور جلدی کے ساتھ درشتی سے کہا کہ میں جو کہتا ہوں کہ بخاری پہلے ہوا ہے.یہ جواب سُن کر میں چپ سا ہو گیا.پھر پوچھ

Page 333

318 میرے دل کو تشفی کہاں.میں نے سوچا کہ اب ان سے اُن ہر دو اماموں کی تاریخ وفات دریافت کروں.پس میں نے پوچھا کہ امام ابو حنیفہ قوت کب ہوئے.اس بزرگ نے جواب دیا.تیرہویں صدی میں.یہ جواب سن کر میں حیران ہوا کہ امام ابو حنیفہ کہاں اور تیر ہو یں صدی کہاں.پھر میں نے یہی سوال کہ امام ابو حنیفہ فوت کب ہوئے ہیں اور دوبارہ ، سہ بارہ اس کے سامنے پیش کیا.مگر اُس نے ہر دفعہ یہی جواب دیا کہ تیرہویں صدی میں فوت ہوئے.اور تیسری دفعہ ذرہ درشتی سے کہا.کہ میں جو کہتا ہوں.تیرہویں صدی میں.تب میں نے سوال کیا کہ اچھا پھر امام بخاری کب فوت ہوئے.تو اس بزرگ نے جواب دیا کہ وہ تو قیامت تک فوت نہیں ہو گا.اور میری آنکھ کھل گئی.اس رویا میں جو علم مجھے عطا کیا گیا.وہ صاف معلوم ہو رہا ہے چونکہ امام آخر الزمان ان تمام جھگڑوں پر حکم ہو کر آیا ہے.جو کہ مختلف فرقوں نے آپس میں ڈال رکھے ہیں.اور خدا نے یہی پسند کیا ہے کہ ہر ایک جو مومن کہلاتا ہے.اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھتا ہے وہ اس رسول کے نائب مسیح موعود کی بیعت میں داخل ہو.احمدی کہلائے.اس واسطے ان تمام گذشتہ اماموں کے اجتہادات پر عمل کرنے کا زمانہ اب چودہویں صدی میں گذر گیا اور آج کے بعد کوئی اللہ کا پیارا یہ پسند نہ کرے گا.کہ احمدی کے سوا کوئی فرقہ ( مثلا حنفی، شافعی ، مالکی ، حنبلی یا چشتی ، قادری، سہروردی، نقشبندی یا مثلاً خانوادوں کی شاخیں ، قلندری یا شکاری و غیره یاسنی یا شیعه یا بیاضیہ یا اہل حدیث وغیرہ وغیرہ) اپنے لئے پسند کرے.اور دن بدن ایسا ہوگا کہ تمام لوگ کثرت کے ساتھ اس پاک سلسلہ میں داخل ہوتے جائیں گے اور صرف برائے نام بطور نمونہ مغضوبیت اور مغلوبیت ، جہاں میں بہت تھوڑے ایسے لوگ رہ جائیں گے جو کہ اس امام کو نہ مانتے ہوں.اس واسطے پہلے تمام امام گویا اب اپنی عمروں کو پورا کر چکے اور فوت ہو گئے.مگر بخاری میں چونکہ حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام ہے.اس واسطے وہ قیامت تک کبھی فوت نہیں ہوسکتا.

Page 334

319 باب سولھواں قرب الہی کے مراتب ثلاثہ یہ ایک بیش قیمت مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پرانی تحریروں میں سے یہاں درج کیا جاتا ہے: قرب الہی کے مراتب ثلاثہ کی تفصیل معلوم کرنے کے واسطے تین قسم کی تشبیہ سے کام لینا پڑتا ہے.اول قسم قرب کی خادم اور مخدوم کی تشبیہ سے مناسبت رکھتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.والذین امنوا اشد حبا اللہ یعنی مومن جن کو دوسرے لفظوں میں بندہ فرمانبردار کہہ سکتے ہیں.سب چیز سے زیادہ اپنے مولیٰ سے محبت رکھتے ہیں.اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسے ایک نوکر با اخلاص و با صفا و با وفا بوجہ مشاہدہ احسانات متواترہ و انعامات متکاثره و کمالات ذاتیہ اپنے آقا کی اس قدر محبت واخلاص و یک رنگی میں ترقی کر جاتا ہے.جو بوجہ ذاتی محبت کے جو اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اپنے آقا سے ہم طبیعت اور ہم طریق ہو جاتا ہے اور اس کی مرادات کا ایسا ہی طالب اور خواہاں ہوتا ہے.جیسے آقا خود اپنی مرادات کا خواہاں ہوتا ہے.اسی طرح بندہ وفادار کی حالت اپنے مولیٰ کریم کے ساتھ ہوتی ہے یعنی وہ بھی اپنے خلوص اور صدق وصفا میں ترقی کرتا کرتا اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ اپنے وجود سے بلکلی فنا ہو کر اپنے مولا کریم کے رنگ میں مل جاتا ہے.آنجا کہ مجھے نمک میریزد ہر پرده که بود از میان برخیزد ایس نفس دنی که صد ہزارش دہن است خاموش شود چو عشق شود انگیزد چوں رنگ خودی رود کے را از عشق یارش ز کرم برنگ خویش آمیزد سوالیسا خادم جو ہمرنگ اور ہم طبیعت مخدوم ہو رہا ہے.طبعی طور پر ان سب باتوں سے متنفر ہو جا تا ہے جو اس کے مخدوم کو بُری معلوم ہوتی ہے.وہ نافرمانی کو اس جہت سے نہیں چھوڑتا.کہ اس پر سزا لا زم ہوگی.اور تعمیل حکم اس وجہ سے نہیں کرتا کہ اس سے انعام ملے گا اور کوئی قول یا فعل اس کا اپنا اخلاق کا ملہ کے تقاضا سے صادر نہیں ہوتا.بلکہ محض اپنے مخدوم حقیقی کی اطاعت کی وجہ سے جو اس کی طبیعت میں رچ گئی ہے، صادر ہوتا ہے اور بے اختیار اسی کی طرف اور اس کی مرضیات کی طرف کھینچا جاتا ہے.وہ ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری گال کا پھیر نا خواہ نخواہ واجب نہیں جانتا.اور نہ طمانچہ کی جگہ طمانچہ مارنا اُس کو کوئی ضروری ہوتا ہے.بلکہ وہ اپنے یک رنگی دل سے فتویٰ پوچھتا ہے کہ اس

Page 335

320 وقت خاص میں اُس کے محبوب حقیقی کی مرضی کیا ہے.اور اس بات کے لئے کوئی معقول وجہ تلاش کرتا ہے.کہ کس طریق کے اختیار کرنے میں زیادہ تر خیر ہے.جو موجب خوشنودی حضرت باری تعالیٰ جلشانہ ہے.یا عفو میں یا انتقام میں.سو جو عمل موجودہ حالت کے لحاظ سے قریب بصواب ہو.اُسی کو بروئے کار لاتا ہے.اسی طرح اس کی بخشش اور عطاء بھی سخاوت جمیلہ کے تقاضے سے نہیں ہوتی.بلکہ اطاعت کامل کی وجہ سے ہوتی ہے.اور اسی اطاعت کے جوش سے وقت موجودہ میں خوب سوچ لیتا ہے.کیا اس وقت اس کی سخاوت یا ایسے شخص پر احسان و مروت مقرون بمرضی مولیٰ ہو سکتی ہے.اور اگر نا مناسب دیکھتا ہے کہ ایک جبہ خرچ نہیں کرتا.اور کسی ملامت کنندہ کی ملامت سے ہر گز نہیں ڈرتا.غرض احمقانہ تقلید سے وہ کوئی کام نہیں کرتا.بلکہ سچی اور کامل محبت کی وجہ سے اپنے آقا کا مزاجدان ہو جاتا ہے.اور یک رنگی اور اتحاد کی روشنی جو اس کے دل میں ہے.وہ ایک تازہ طور پر اس کو سمجھا دیتی ہے کہ اس خاص وقت میں کیونکر اور کس طرز سے کوئی کام کرنا چاہئیے.جو مخدوم حقیقی کے منشاء کے موافق ہو.اور چونکہ اس کو اپنے منعم حقیقی سے عشق ذاتی پیدا ہوتا ہے.اس لئے اطاعت اور فرمانبرداری اس کے سر پر کوئی آزار رساں بوجھ نہیں ہوتا.بلکہ وہ فرمانبرداری اس کیے لئے ایک امر طبعی کے حکم میں ہو جاتی ہے.جو بالطبع مرغوب اور بلا تکلف و تصنع اس سے صادر ہوتی رہتی ہے.اور جیسے اللہ جلشانہ کو اپنی خوبی اور عظمت محبوب بالطبع ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کرنا اس کے لئے محبوب بالطبع ہو جاتا ہے.اور اپنے مخدوم حقیقی کی ہر ایک عادت و سیرت اس کی نظر میں ایسی پیاری ہو جاتی ہے کہ جیسے خود اس کو پیاری ہے.سو یہ مقام ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے.جن کے سینے محبت غیر سے بالکل خالی وصاف ہو جاتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی رضا مندی کو ڈھونڈنے کے لئے ہر وقت جان قربان کرنے کو طیا ررہتے ہیں.سیلنہ مے باید تهی از غیر یار دل ہمی باید پر از یاد نگار جاں ہمی باید براه او فدا سر بھی باید بپائے او شار بیچ میدانی چیست دین عاشقاں گوئمت گر بشنوی عشاق وار عالم فروبستن نظر لوح دل شستن ز غیر دوستدار قرب کی دوسری قسم ولد اور والد کی تشبہ سے مناسبت رکھتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے از ہمہ فرمایا ہے فاذكروا الله كذكركم آباء كم او اشد ذکر ا یعنی اپنے اللہ جل شانہ کو ایسے دلی جوش اور محبت سے یاد کرو.جیسا کہ باپوں کو یاد کیا جاتا ہے.یا درکھنا چاہئیے کہ مخدوم اس وقت باپ سے مشابہ ہو جاتا ہے جب محبت میں غایت درجہ کی شدت واقعہ ہو جاتی ہے اور محبت جو ہر یک کدورت

Page 336

321 اور غرض سے مصفا ہوتی ہے.دل کے تمام پر دے چیر کر دل کی جڑھ میں اس طرح سے بیٹھ جاتی ہے کہ گویا اس کی جو ہے.تب جس قدر جوشِ محبت اور پیوند شدید اپنے محبوب سے ہے.وہ سب حقیقت میں مادر زاد معلوم ہوتا ہے اور ایسا طبیعت سے ہمرنگ اور اس کی جز ہو جاتا ہے کہ تسلی اور کوشش کا ذریعہ ہرگز یاد نہیں رہتا.اور جیسے بیٹے کو اپنے باپ کا وجود تصو ر کر نے سے ایک رُوحانی نسبت ہوتی ہے.ایسا ہی اس کو بھی ہر وقت باطنی طور پر اس نسبت کا احساس ہوتا ہے.اور جیسے بیٹا باپ کا حلیہ اور نقوش نمایاں طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر رکھتا ہے اور اس کی رفتار اور کردار اور خو اور بو بصفائی تام اُس میں پائی جاتی ہے.علی ہذا القیاس یہی حال اس میں ہوتا ہے.اور اس درجہ اور قرب اول کے درجہ میں فرق یہ ہے کہ قرب اوّل کا درجہ جو خادم اور مخدوم سے تشبہ رکھتا ہے.وہ بھی اگر چہ اپنے کمال کے رُو سے اس درجہ ثانیہ سے نہایت مشابہت رکھتا ہے.لیکن یہ درجہ اپنی صفائی کی وجہ سے تعلق مادر زاد کے قائم مقام ہو گیا ہے.اور جیسا باعتبار نفس انسانیت کے دوانسان مساوی ہوتے ہیں.لیکن بلحاظ شدّت وضعف خاص انسانی کے ظہور آثار میں متفاوت واقعہ ہوتے ہیں.ایسا ہی ان دونوں درجوں میں تفاوت درمیانی ہے.غرض اس درجہ میں محبت کمال لطافت تک پہنچ جاتی ہے.اور مناسبت اور مشابہت بال بال میں ظاہر ہو جاتی ہے.خیال کرنا چاہئیے کہ اگر چہ ایک شخص کمال عشق کی حالت میں اپنے معشوق سے ہمرنگ ہو جاتا ہے مگر جو شخص اپنے باپ سے جس سے وہ نکلا ہے مشابہت رکھتا ہے.اس کی مشابہت اور ہی آب و تاب رکھتی ہے.تیسری قسم کا قرب ایک شخص کی صورت اور اس کے عکس سے مشابہت رکھتا ہے یعنی جیسے ایک شخص آئینہ صاف و وسیع میں اپنی شکل دیکھتا ہے.تو تمام شکل اُس کی مع اپنے تمام نقوش کے جو شنا اس میں موجود ہیں.عکسی طور پر آئینہ میں دکھائی دیتی ہے.ایسا ہی اس قسم ثالث قرب میں تمام صفات اللہ صاحب قرب کے وجود میں بتما متر صفائی منعکس ہو جاتی ہے.اور یہ انعکاس ہر قسم کے تشبہ سے جو پہلے اس سے بیان کیا گیا ہے.اتم و اکمل ہے.کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ جیسے ایک شخص آئینہ صاف میں اپنا منہ دیکھ کر اس شکل کو اپنی شکل کے مطابق پاتا ہے کہ مطابقت و مشابہت اس کی شکل سے نہ کسی غیر کو کسی تکلف یا حیلہ سے حاصل ہو سکتی ہے اور نہ کسی فرزند میں ایسی ہو بہو مطابقت پائی جاتی ہے.اور یہ مرتبہ کس کے لئے میٹر ہے.اور کون اس کامل درجہ قرب سے موسوم ہے؟ اس کا جواب ہم انشاء الله العزیز الحکم کی اگلی اشاعت میں دیں گے.

Page 337

322 باب سترھواں روسی کونٹ ٹالسٹائی کو تبلیغ روسی ریفارمرکونٹ ٹالسٹائی کو تبلیغ عاجز راقم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں کی اور آپ کے وصال کے بعد اپنے ولایت جانے سے قبل یورپ امریکہ کے جن بڑے بڑے لوگوں کو تبلیغ کی.ان میں سے ایک مشہور روسی ریفارمرکونٹ ٹالسٹائی بھی تھے.ان کو جو خط لکھا گیا تھا.وہ بطور نمونہ کے درج ذیل.ہے: جناب.میں نے آپ کے مذہبی خیالات کتاب برٹش انسکلو پیڈیا کی جلد۳۳ میں پڑھے ہیں.جو کہ انہیں دنوں میں انگلستان میں طبع ہوئی ہے.اور اس بات کے معلوم کرنے سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ یورپ اور امریکہ کے ممالک پر جو تاریکی تثلیث نے ڈال رکھی ہے.اس کے درمیان کہیں کہیں خالص موتی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ خدائے قادر ازلی ابدی ایک سچے معبود کے جلال کے اظہار کے لئے جھک رہے ہیں.سچی خوش حالی اور دُعا کے متعلق آپ کے خیالات بالکل ایسے ہیں جیسے کہ ایک مومن مسلمان کے ہونے چاہئیں.میں آپ کے ساتھ ان باتوں میں بالکل متفق ہوں.کہ عیسی مسیح ایک روحانی معلم تھے.اور کہ اس کو خدا سمجھنا یا خدا سمجھ کر پرستش کرنا سب سے بڑا کفر ہے.علاوہ ازیں میں آپ کو اس امر سے بھی بخوشی اطلاع دیتا ہوں کہ حضرت عیسی کی قبر کے مل جانے سے کافی طور پر ثابت ہو گیا ہے کہ وہ مر گیا یہ قبر کشمیر میں ملی ہے.اور اس تحقیقات کا اشتہار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے کیا ہے.جو کہ توحید الہی کے سب سے بڑھ کر محافظ ہیں اور جن کو خدائے قادر کی طرف سے مسیح موعود ہونے کا خطاب عطاء کیا گیا ہے کیونکہ ایک سچے خدا کی کچی محبت میں وہ کامل پائے گئے ہیں.وہ اس زمانہ میں منجانب اللہ ہم مصلح اور خدا کے نیچے رسول ہیں.وہ سب جو اس مسیح پر ایمان لائیں گے.خدا کی طرف سے برکتیں پائیں گے.پر جو کوئی انکار کرے گا.اس پر غیور خدا کا غضب بھڑ کے گا.میں آپ کو ایک علیحدہ پیکٹ میں خدا کے اس مقدس بندے کی

Page 338

323 تصویر بمعہ یسوع کی قبر کی تصویر کے روانہ کرتا ہوں.آپ کا جواب آنے پر میں بخوشی اور کتا ہیں آپ کو ارسال کروں گا.میں ہوں آپ کا خیر خواہ مفتی محمد صادق از قادیان ۲۸ / اپریل ۱۹۰۳ء اس خط کے جواب میں ۲۹ جون کو مفصلہ ذیل خط کونٹ ٹالسٹائی کی طرف سے آیا : بخدمت مفتی محمد صادق صاحب پیارے صاحب.آپ کا خط معہ مرزا غلام احمد صاحب کی تصویر اور میگزین ریویو آف ریلیچز کے ایک نمونے کے پرچے کے ملا.وفات عیسے کے ثبوت اور اُس کی قبر کی تحقیقات میں مشغول ہونا بالکل بے فائدہ کوشش ہے کیونکہ عقلمند انسان حیات عیسی" کا قائل کبھی ہو ہی نہیں سکتا.ہمیں معقول مذہبی تعلیم کی ضرورت ہے.اور اگر مرزا احمد صاحب کوئی نیا معقول مسئلہ پیش کریں گے.تو میں بڑی خوشی سے اس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تیار ہوں.میگزین کے نمونے کے پرچے میں مجھے دو مضمون بہت ہی پسند آئے.یعنی گناہ سے کس طرح آزادی ہوسکتی ہے.اور آئندہ زندگی کے مضامین خصوصاً دوسرا مضمون مجھے بہت پسند آیا.نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں.میں آپ کا نہایت ہی شکر گذار ہوں.کہ آپ نے مجھے یہ پر چہ بھیجا.اور آپ کی چھٹی کے سبب بھی میں آپ کا بہت ہی شکر گزار ہوں.میں ہوں آپ کا مخلص ٹالسٹائی.از ملک روس ۵/ جون ۱۹۰۳ء اس کا جواب میں نے پھر اُسے لکھا کہ مسیح کی کیا ضرورت ہے.اور قبر مسیح ناصری کا مشتہر کرنا کس واسطے ضروری ہے.میرے بیان کے ساتھ اُس نے اتفاق کیا اور اس کے بعد بہاء اللہ اور بابی مذہب کے متعلق اس نے مجھ سے دریافت کیا کہ اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے.جس کا جواب مفصل اُسے لکھا گیا.

Page 339

324 باب اٹھارھواں پادری ڈاکٹر ڈوئی کے بعض حالات غالباً ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے.جب میرے پاس ایک دفعہ کلکتہ کا عیسائی ہفتہ وار پر چہ اپنی فینی نام جو آیا.اس میں یہ ذکر تھا کہ امریکہ میں ایک شخص ڈوئی نام ہے جو نبوت کا مدعی ہے.اس پر میں نے ڈوئی کو خط لکھا اور حالات دریافت کئے.اُس نے اپنا لٹریچر بھیجا.جو میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا.حضور نے فرمایا کہ اس کا اخبار منگوانا چاہئیے.اور آپ مجھے ترجمہ کر کے سنایا کریں حضرت نے مجھے غالباً عہ دیئے.جو میں نے امریکہ بھیج کر اس کا ہفتہ وار انگریزی اخبار بنام لیوز آف بیلنگ (اوراق شفاء ) منگوا نا شروع کیا.یہ شخص پادری تھا پہلے آسٹریلیا میں رہتا تھا.پھر امریکہ چلا گیا.اور شکاگو میں اپنا ایک نیا مذہبی فرقہ بنایا.اور دعا اور توجہ کے ذریعہ سے بیماروں کو شفا دینے کا مدعی تھا.پھر اس نے دعویٰ کیا کہ میں الیاس نبی ہوں.میں سہ بارہ دُنیا میں آیا.تا کہ پھر مسیح کی آمد ثانی کے واسطے لوگوں کو تیار کروں.اُس نے اپنے فرقے میں شراب کا پینا اور تمباکو کا پینا حرام کیا ہوا تھا.اور اپنے مریدوں کی آمدنی پر وہ یکی وصول کرتا تھا.اپنے واسطے یہودی کا ہنوں کی طرح ایک وردی بنائی تھی.بجائے گڈ مارننگ کے اس کے مرید آپس میں السلام علیکم کا انگریزی ترجمہ کہتے تھے مگر اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ دلی بغض رکھتا تھا.اس کا اخبار جو ہفتہ وار آتا تھا.اس کے بعض حصے ترجمہ کر کے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنایا کرتا تھا.اُس کی عبارتوں میں انبیاء کے متعلق بہت گستاخی اور بے باکی کے الفاظ ہوتے تھے.یسوع کی بے گناہی کے اظہار میں سب کو گناہ گار کہا کرتا تھا.جیسا کہ عموماً سب پادریوں کی عادت ہوتی ہے.ایک دفعہ حضرت موسیٰ" کے متعلق لکھا.موسی نے بڑی غلطی کی.جو فرعون کو ناراض کر کے وہاں سے بھاگ گیا.وہ فرعون کو راضی رکھتا اور وہیں رہتا.تو کسی دن خود فرعون بن جا تا.ایسا ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات کے متعلق ہتک آمیز الفاظ لکھا کرتا تھا.کئی مہینوں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کا اخبار مسجد مبارک میں نماز ہائے مغرب اور عشاء کے درمیان سُنتے رہے.ایک دفعہ اس نے مسلمانوں کے متعلق بہت سخت لفظ لکھے کہ میں

Page 340

325 تمام مسلمانوں کو کچل ڈالوں گا.اور ہلاک کر دوں گا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت جوش آیا.تب آپ نے ایک اشتہا رلکھا.جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے.کہ اگر تم سچے ہو.تو میرے مقابلہ میں آؤ.خدا تمہیں ہلاک کرے گا.کیونکہ تم سچائی پر نہیں ہو.اور مسیح ناصری فوت ہو چکا.اور اس کی قبر کشمیر میں ہے.وہ پھر نہیں آئے گا.جس کا تم انتظار کر رہے ہو.اور جس نے آنا تھا وہ آ گیا.یہ اشتہا را نگریزی میں ترجمہ کر کے یورپ امریکہ بھیجا گیا.اور امریکہ کے اکثر اخباروں نے اُسے نقل کیا.اور شائع کیا.اور بعض اخباروں نے ڈوئی کی اور حضرت مسیح کی تصویر میں بھی شائع کیں.اور کہا کہ مسیحی اور احمدی پہلوان میں روحانی کشتی ہے دیکھیں کون جیتتا ہے.ڈوئی نے اس اشتہار کا کچھ جواب نہ دیا ہاں اپنے ایک لیکچر میں صرف اتنا ذ کر کیا.جو اس کے اخبار میں شائع ہوا.کہ ہندوستان میں ایک محمدی مسیح ہے.وہ مجھے چیلنج دیتا ہے.مگر مجھے اس کی کیا پر واہ ہے.میں ایسی مکھیوں اور مچھروں کو پاؤں کے نیچے کچل کر مار دوں گا.جب اس نے ایسا کہا.تو اس کے ٹھیک ایک سال بعد اس کے پیر واس سے باغی ہو گئے.مقدمہ کر کے اس کا تمام کاروبار اس سے چھین لیا.اور اس غم میں اس پر فالج گرا.اور وہ یکہ و تنہا رہ کر جب کہ اس کی بیوی اور لڑکا بھی اس کے پاس نہ تھے.بہت حسرت اور نا کامی کی حالت میں مر گیا.اس کا مفصل حال کتاب حقیقۃ الوحی میں درج ہے.امریکن اخباروں میں سلسلہ کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا چیلنج جو ڈوئی کے نام تھا...امریکہ میں پہنچا اور وہاں کے اخبارات نے کثرت کے ساتھ اس پر ریویو کیا.اور مضامین لکھے.ان مضامین میں سے ایک بطور نمونہ اس جگہ درج کیا جاتا ہے.انگریزی عربی دعا کا مقابلہ مفتی محمد صادق صاحب قادیان ضلع گورداسپور واقع ملک ہندوستان نے ارگنٹ اخبار کے پاس ایک رسالہ مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی ( جو کہ ہماری سمجھ میں قادیان کے رئیس اعظم ہیں.) ریویو کے لئے بھیجا ہے.یہ رسالہ انگریزی زبان میں ہے.اور انگریزی بھی بہت عمدہ انگریزی ہے.اس کا نام ہے ڈاکٹر ڈوئی کی تمام مسلمانوں کی تباہی کی پیشگوئی کا جواب.یہ رسالہ ایک ریویو کرنے والے ڈکس ( میز ) پر بنگس کے معمولی مضامین امریکہ کے لائق فائق عورتوں کے تاریخی ناولوں اور خشک نو جوانوں پروفیسروں اکانومکس یعنی انتظام مملکت کی

Page 341

326 کتابوں کے ساتھ ملا جلا ہوا جادو کی طرح اپنا اثر کرتا ہے.اور عجیب طور سے پرانے زمانے کی یاد دلاتا ہے.لیکن جب اس کی ورق گردانی کی جائے.تو اس کا یہ دلکش اثر اور بھی مستحکم ہو جاتا ہے.کیونکہ مرزا غلام احمد کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اور وہ لکھتے ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے ایک لاکھ آدمی کے قریب بدی کے راستے کو خیر باد کہہ چکے ہیں.اور خدا تعالی ڈیڑھ سو سے زیادہ آسمانی نشانی اور خوارق عادت امور ہمارے ہاتھوں سے دکھا چکا ہے.جن کی خبر اُن کے وقوعہ سے پیشتر شایع کی گئی تھی.اور میں وہی مسیح ہوں.جس کا وعدہ دیا گیا تھا.ہمارا ہند وستانی دوست (مرزا غلام احمد صاحب) ایک لائق اور باعمل مسلمان کی حیثیت سے عیسوی مذہب کے بانی کی الوہیت پر غور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو ایک لحظہ کے لئے بھی عقل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا.اور دراصل وہ اس سے بھی زیادہ کہتا ہے کیونکہ اس نے قطعی طور پر ایک رسالہ کے دو صفحوں پر دکھایا ہے کہ مسیح صلیب پر بالکل نہیں مرا تھا.کیونکہ جوزف آرمیتھ اسے ہوش میں لے آیا تھا.اس وقت مسیح نے یہی مصلحت خیال کی کہ اپنے وطن کو خیر باد کہ کر مشرقی بلاد میں چلا جائے.اور اپنی زندگی کے بقیہ دن وادی کشمیر میں گذارے.پھر قادیان کا احمدی مسیح اپنے دلائل کو مضبوط کرنے کے واسطے ناظرین کی حیرت زدہ نظر کے سامنے ایک عجیب اثر انداز نظارہ پیش کرتا ہے.اور جس کی مجمل تشریح ان الفاظ میں کرتا ہے.یسوع مسیح کی قبر کوچہ خانیار سرینگر کشمیر میں (اس سے اس کی مراد وہ تصویر ہے جو کہ اس رسالہ میں مسیح کی قبر کی دی گئی ہے.اس مسئلہ سے فراغت پا کر میرزا غلام احمد صاحب نے زمین پر ایک دور بین نظر دوڑائی ہے.جس میں اُن کو ایک خطرناک دشمن حقیقی دجال کی بدنصیب اور مہیب شکل جان الیگزنڈر ڈوئی کے لباس میں نظر آئی ہے اور وہ ہوا ئیں جو کہ آسمان سے چلتی ہیں ،مسٹر ڈوئی کی اس پیشگوئی کی خبر مرزا صاحب کو پہنچا چکی ہیں ، جو اس نے کل مسلمانوں کی تباہی کے لئے جو اس کے صیہون میں داخل ہونے سے منکر ہیں کی ہے.احمد اس پیشگوئی کا مختصراً یہ جواب دیتا ہے کہ مسلمان کیوں تباہ ہوں.اور کس لئے ہزاروں کا خون کیا جائے.ادھر میں ایک بڑی بھاری جماعت کا سردار ہوں.ادھر تم بہت سے پیرور کھتے ہو.اس لئے یہ سوال کہ زمین میں خدا کا خلیفہ کون ہے.ہم دونوں میں ہی طے پا جانا چاہئیے کہ ہم اپنے اپنے خدا کو پکاریں.پھر جس کو جواب ملے.وہی مستحق خلافت کا قرار دیا جائے.“ احمد کے ان فقروں میں اُنس سے بھری ہوئی ایک عجیب آواز ہے.تا ہم اس موجودہ دُعاء اور قدیم مقابلہ میں جو بعل کے پجاریوں اور الیاس پیغمبر کے درمیان ہوا تھا.چند باتوں کا فرق ہے

Page 342

327 کیونکہ یہ دُعاء آسمان سے آگ برسنے کے لئے نہ ہوگی بلکہ بقول احمد خدا سے یہ دُعا کی جاوے گی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ اوّل مرے، حقیقت میں یہ درخواست بہت ہی انصاف اور دلیری پر مبنی ہے.اور اس کے ساتھ دیگر تفصیلات بھی اسی طرح راست اور واجب ہیں احمد کی یہ رائے ہے کہ اگر مسٹر ڈوئی مدعی الیاس اس مقابلہ کو قبول کرے.تو کم از کم ہزار آدمیوں کے دستخط کے ساتھ اسے شائع کر دے.پھر اسی طرح سے احمد بھی شائع کر دے گا.اس کے بعد اسلام کا پہلوان نبی ( یعنی مرزا صاحب ) یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ موجودہ حالت کے واقعات تمام کے تمام مسٹر ڈوئی ہی کے لئے مفید پڑے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ڈوئی اس سے دس برس چھوٹا ہے.ہاں احمد صرف ایک ہی شرط لگاتے ہیں کہ یہ منہ مانگی موت انسانی ہاتھ سے واقع نہ ہو، بلکہ کسی بیماری کے ذریعہ یا بجلی سے مر جائے یا سانپ کے ڈسنے وغیرہ سے ہو.مگر ہماری رائے میں اس شرط کی ضرورت نہ تھی.اس سے بدگمانی پیدا ہوتی ہے.اب ہم اس بات پر خاتمہ کرتے ہیں کہ تقویٰ کو مدنظر رکھ کر جان الیگزنڈرڈوئی مرزا غلام احمد صاحب کی اس دُعا کو قبول کرے.الاسکا کی سرحد پر جو بعض مال کے نرخنامہ کا جھگڑا ہے اور اتضمین نہر کے جو مشکلات در پیش ہیں.کیا ان کے ساتھ یہ مقابلہ دُعاء جس میں ایک طرف تو مدعی الیاس کے ساتھ انگریزی درخواست پر جانزون ، جانسون ، اور اسمتھون اور براونون کے دستخط ہوں گے.اور دوسری طرف قادیانی رئیس کے ساتھ عربی دستاویز میں ہند با دون سندھ بادون اور علی بابون کے دستخط ہوں گے.کچھ کم مسرت بخش ہر گز نہیں ہو گا.در حقیقت ملک کنیڈا کے صلیب بردار ڈ و کبروز اور جزائر فلپائن کی درجن میری کی مستقل مزاجی اور اشیاء گورنمنٹ کو مشکلات میں ڈالنے والے فرامر جونس وغیرہ ان نامور انسانوں کے ساتھ جنہوں نے آج کل اپنے کارنامے سے دُنیا کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا ہے.یہ انگریزی اور عربی دُعاء کا مقابلہ ۳ - ۱۹۰۲ ء کی سردیوں میں اس زمانہ کا ایک لطیف اور دلکش منظر صفحہ عالم کے لئے ہوگا.

Page 343

328 باب انیسواں پر و فیسر ریگ کو تبلیغ اور اس کا قبول اسلام عاجز راقم کے ولایت جانے سے قبل جو اصحاب عاجز کے ذریعہ سے داخل اسلام ہوئے.ان میں ایک صاحب پروفیسر ریگ بھی تھے.جن کو میں نے لاہور میں تبلیغ کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں انہیں پیش کیا تھا.یہ صاحب بعد میں نیوزی لینڈ چلے گئے تھے.اور وہیں انہوں نے وفات پائی.ان کے متعلق ایک ڈائری میں اڈیٹر صاحب الحکم نے مفصلہ ذیل مضمون لکھا تھا.جو اخبار الحکم مورخہ ۶ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ جلد ۱۲ نمبر ۳۷ سے نقل کیا جاتا ہے: مسٹر ریگ جس کے نام نامی سے الحکم کے ناظرین کو میں قبل از میں بذریعہ دو مضامین بطور سوال و جواب انٹر ڈیوس کرا چکا ہوں.ان کے متعلق حضرت اقدس نے فرمایا کہ دیکھو وہ ہمارے پاس آیا تو آخر کچھ نہ کچھ تو تبادلہ خیالات کر ہی گیا.اس پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب جن کو تبلیغ سلسلہ احمدیہ کی ایک قسم کی لو اور دھت لگی ہوئی ہے.اور بہت کم ایسے مقام ولایت میں ہوں گے جہاں کے محقق انگریزوں اور اخبارات کے ایڈیٹر ان وغیرہ کی اطلاع پا کر انہوں نے ان معاملات میں خط و کتابت نہ کی ہو.اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کی تبلیغ ان کو نہ کی ہو.امریکہ کے ڈوئی کی حسرت ناک تباہی اور لنڈن کے پکٹ کی مایوسانہ نامرادی بھی حضرت مفتی صاحب ممدوح ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں.انہوں نے جس طرح ڈوئی اور پکٹ کا بیڑا غرق کر دیا.اسی طرح کئی سعید روحوں کے واسطے باعث ہدایت بھی آپ ہی ہوئے.آپ ہی کی ستچی مخلصانہ کوششوں اور جوش تبلیغ حق کا یہ نتیجہ ہوا کہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریزوں اور لیڈیوں نے حضرت اقدس کی صداقت کو مان لیا اور اپنے خیالات فاسدہ سے تو بہ کی.غرض مفتی صاحب موصوف کسی تعریف کے محتاج نہیں.ساری احمدی دنیا ان کے نام نامی سے واقف اور ان کے اخلاص صدق و وفا سے آگاہ ہے.یہ شخص جو پروفیسر ریگ کے نام نامی سے مشہور ہے.یہ بھی آپ ہی کی سعی اور جوش کا نتیجہ ہے.آپ نے آج کے تذکرہ پر حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کی کہ

Page 344

329 حضور اس کے خیالات میں حضور کی ملاقات کے بعد عظیم الشان انقلاب پیدا ہو گیا ہے.چنانچہ : پہلے وہ ہمیشہ اپنے لیکچروں میں اجرام سماوی وغیرہ کی تصاویر دکھاتا اور کبھی مسیح کی مصلوب تصویر پیش کیا کرتا تھا تو یہ کہا کرتا تھا کہ یہ مسیح کی تصویر ہے.جس نے دنیا پر رحم کر کے تمام دُنیا کے گناہوں کے بدلے میں ایک اپنی اکلوتی جان خدا کے حضور پیش کی اور تمام دنیا کے گناہوں کا کفارہ ہو کر دنیا پر اپنی کامل محبت اور رحم کا ثبوت دیا مگر اب جبکہ اس نے حضور سے ملاقات کی اور لیکچر دیا تو مسیح کی مصلوب تصویر دکھاتے ہوئے صرف یہ الفاظ کہے کہ یہ تصویر صرف عیسائیوں کے واسطے موجب خوشی ہو سکتی ہے.سچی تعریف اور ستائیش کے لائق وہی سب سے بڑا خدا ہے.اپنے لیکچر میں بیان کیا کرتا تھا کہ نسل انسانی آہستہ آہستہ ترقی کر کے اد نے حالت سے بندر اور پھر بندر سے ترقی پاکر انسان بنا.مگر اس دفعہ کے لیکچر میں اس نے صاف انکار کیا کہ یہ ڈارون کا قول ہے.اگر چہ اس قابل نہیں کہ اس سے اتفاق کیا جاوے.بلکہ انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے غرضیکہ اس پر بہت بڑا اثر ہوا ہے.اور وہ حضور کی ملاقات کے بعد ایک نئے خیالات کا انسان بن گیا ہے اور ان خیالات کو جرات سے بیان کرتا ہے.“ ایک انگریز کا حضرت مسیح موعود کے ساتھ مکالمہ پروفیسر کلیمنٹ ریگ ایک مشہور سیاح، ہیئت دان اور لیکچرار ہے...اس کا اصلی وطن انگلستان میں ہے.آسٹریلیا میں بہت مدت تک وہ گورنمنٹ کا ملازم افسر صیغہ علم ہیئت رہا.سائنس کے ساتھ پروفیسر مذکور کو خاص دلچسپی ہے اور چند کتابیں تصنیف کی ہیں جبکہ حضرت لاہور تشریف لائے.تو پر و فیسر اس وقت یہیں تھا.اور اُس نے علم ہیئت پر ایک لیکچر ریلوے اسٹیشن کے قریب دیا تھا اور ساتھ ایک لینٹرن کی روشنی سے اجرام فلکی کی تصویر میں دکھائی تھیں.یہ لیکچر میں نے بھی سُنا تھا.دوران لیکچر میں پروفیسر کی گفتگو سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ شخص اندھا دھند عیسائیت کی پیروی کرنے والا نہیں.بلکہ غیر متعصب اور انصاف پسند ہے.اس واسطے میں اُسے ملا.اور میں نے اُسے کہا.پر وفیسر تم دنیا میں گھومے.کیا تم نے کبھی کوئی خدا کا نبی بھی دیکھا.اور حضرت اقدس کے دعوی مسیحیت و مہدویت اور اس کے دلائل سے اس کو خبر کی.ان باتوں کوسُن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ میں ساری دنیا کے گردگھوما ہوں.مگر خدا کا نبی کوئی نہیں دیکھا.اور میں تو ایسے ہی آدمی کی تلاش میں ہوں.اور حضرت کی ملاقات کا از حد شوق ظاہر کیا.میں نے (مفتی محمد صادق نے ) مکان پر آ کر حضرت صاحب سے اس کا ذکر کیا.حضرت صاحب ہنسے اور فرمایا کہ مفتی صاحب تو انگریزوں کو ہی شکار

Page 345

330 کرتے رہتے ہیں.اور اجازت دی کہ وہ آ کر ملاقات کرے.چنانچہ وہ اور اس کی بیوی دو دفعہ حضرت کی ملاقات کے واسطے احمد یہ بلڈنگ میں آئے.اور علمی سوالات کئے ان میں سے پہلی گفتگو درج ذیل کی جاتی ہے.ایڈیٹر ) ابتداء انگریز : میں اور میری بیوی آپ کی ملاقات کو موجب فخر سمجھتے ہیں.مسیح موعود : میں آپ کی ملاقات سے بہت خوش ہوں.انگریز : میں ایک سیاح ہوں اور علمی مذاق کا آدمی ہوں.کائنات عالم پر نظر کرتے ہوئے جب میں دیکھتا ہوں کہ زمین و آسمان میں طرح طرح کے عجائبات بھرے پڑے ہیں.اور نظام شمسی کا احاطہ اس قدر وسیع ہے کہ عقل چکر کھا جاتی ہے.تو میں یقین نہیں رکھتا کہ ان کا بنانے والا خدا کسی خاص فرقے یا کسی خاص کتاب میں محدود ہو.مسلمانوں کا مذہب بھی ہے.عیسائیوں کا بھی.یہودیوں کا بھی.میں کسی کی خصوصیت نہیں کرتا.میں صداقت کو چاہتا ہوں.خدا کسی خاص قوم کا نہیں ؟ مسیح موعود : واقعی یہ بات صحیح نہیں کہ ایک خاص فرقے ایک خاص قوم میں خدا اپنا مقام رکھتا ہو.صحیح بات یہی ہے کہ خدا تمام دنیا کا خدا ہے.جیسا کہ ظاہری اجسام کے لئے سب کی پرورش کرتا ہے.اور اُس نے انسان کے جسمانی آرام کے لئے اجسام سماوی ہوا.اناج، پانی وغیرہ اشیاء پیدا کیں.ایسا ہی وہ رُوحانی زندگی کے لئے بھی سامان مہیا کرتا رہتا ہے.یہی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی قرآن میں لکھا ہے کہ خدا رب العالمین ہے.وہ ہر زمانہ میں ہر قوم کی اصلاح کے لئے اپنے پاک بندے بھیجتا رہا اور بھیجتا رہے گا.وہ وقتاً فوقتاً اصلاح کرتا رہا.اور کرتا رہے گا.وان من امة الاخلافيها نذیر یعنی کوئی بستی اور قوم نہیں جس میں خدا کی طرف سے نذیر نہیں آیا.کتابوں میں جو اختلاف ہے، وہ درحقیقت اختلاف نہیں.بلکہ ہر زمانہ میں قابل اصلاح اُمور کی اصلاح ہوتی رہی ہے.اس کی مثال طبیب کے نسخے سے دی جاتی ہے.جوں جوں بیماری کی حالت بدلتی جاتی ہے، نسخہ بھی بدلتا رہتا ہے.لوگوں میں جب اعمال کا فساد بڑھ جاوے.اور لوگوں کی زندگی بالکل خراب ہو جائے اور اعتقادات میں بھی فساد ہو جائے.لوگ خدا کو چھوڑ کر بت پرستی کی طرف مشغول ہو جا ئیں تو اس کی غیرت تقاضا کرتی ہے کہ کسی مصلح کو پیدا کرے.اصلاح خدا کے قانون قدرت سے باہر نہیں.جیسے

Page 346

331 ہم لوگوں کے لئے وہ ہوا ، وہ برسات ، وہ اناج مفید نہیں جو آ دم کے وقت تھا بلکہ تازہ ہوا، تازہ برسات ، تازہ اناج کی ضرورت ہے.اور ضرور ہے کہ ہمارے لئے الگ موسمی برسات ہو.اسی طرح خدا کی عادت ہے کہ آسمانی سلسلہ کی گذشتہ پر ورش ہمارے لئے کافی نہیں ہوسکتی.اگر کوئی خدا کا منکر ہے تو اس کے لئے بحث کا الگ طرز ہے.اگر کوئی خدا کے وجود کا قائل ہے تو ان دو سلسلوں کو مقابل رکھ کر فائدہ حاصل کرے.یعنی ایک جسمانی سلسلہ اور ایک روحانی سلسلہ.جیسے وہ خدا موسمی برسات و ہوا سے جسمانی سلسلے کو تازہ کرتا رہتا ہے.اسی طرح روحانی سلسلہ کو روحانی بارش سے تازہ کرتا ہے اگر جسمانی سلسلہ کی پرورش کرنے والی اشیاء اب ناپید ہو جاویں ، تو وہ سلسلہ نہیں رہتا.اسی طرح اگر کہا جائے کہ رُوحانی سلسلے کے لئے جو کچھ تھا ( از قسم وحی و الہام ونشانات ) وہ پیچھے رہ گیا.تو روحانی سلسلہ ہی موقوف سمجھو اور یہ ناممکن ہے.پس کیا یہ ضروری نہیں کہ ہر زمانہ میں مصلحین پیدا ہوں.انبیاء کا جو سلسلہ چلا آتا ہے.اس کو ایک ہی نظر سے رد کر نا ٹھیک نہیں.جو لوگ اپنے پاس ثبوت رکھتے ہیں.ان کو صرف اتنا کہنے سے کہ میں معمولی آدمی ہوں رد کیا نہیں جاسکتا.ہاں اگر کسی کا حق ہے تو یہ کہ وہ ثبوت طلب کرے.سو ہم بتاتے ہیں کہ ہمارا ثبوت قصے کہانیوں پر موقوف نہیں بلکہ سامنے موجود ہے.اس وقت موجودہ میں بڑے سے بڑا ہیئت دان نظام شمسی پر نظر ڈالنے سے اگر منصف مزاج ہوگا.تو یہ کہے گا کہ اس کا کوئی صانع ہونا چاہئیے مگر نبی یہ بتا تا ہے کہ واقعی خدا‘ ہے.دنیا کب سے ہے انگریز : یہ ایک چھوٹی سی زمین ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اور بھی کئی زمینیں ہیں.اور اور بھی کئی سلسلے ہیں.مجھے یہ عقیدہ غلط معلوم ہوتا ہے کہ صرف چند ہزار برس سے دنیا کی پیدائش شروع ہوئی.اور خدا نے آدم و حوا کو پیدا کیا.پھر ایک پھل کھانے سے ان کی سب اولا د گنہگار ہو گئی.مسیح موعود : ہم کب کہتے ہیں کہ صرف یہی زمین ہے جس میں خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے.عدم علم سے عدم شے لازم نہیں آتا.اگر کسی اور ستارے وغیرہ میں آبادی ہے اور ایسی مخلوق اس میں ہے ، جو نبوت کی محتاج ہو.تو خدا نے وہاں بھی ضرور نبی پیدا کئے ہوں گے.دوسرا عقیدہ بھی غلط ہے.قرآن مجید میں ہے.وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى کہ کوئی کسی کے لئے گنہ گار نہیں ہو سکتا.ہمارا ہر گز یہ مذہب نہیں کہ اس چھوٹی سی زمین میں جو کچھ ہے بس یہی کچھ ہے.اور اسی کے لئے سب سلسلہ ہے.

Page 347

332.حقیقت گناه انگریز : دو باتیں پوچھنی چاہتا ہوں.گناہ کس چیز کو کہتے ہیں.ایک ملک کا آدمی ایک چیز کو گناہ قرار دیتا ہے.دوسرا اس کو عین ثواب ، علمی طور سے یہ مانا جاتا ہے کہ انسان ترقی کرتا کرتا اس حد تک پہنچا ہے اور اخیر میں اس کے لئے یہ امتیاز پیدا ہو گیا.اس امتیاز کے ذریعے سے ایک کو اچھا اور ایک کو بُرا کہتا ہے.دوم.شیطان کیا چیز ہے اور خدا ایسا وسیع علم والا و قادر ہو کر کیوں اجازت دیتا ہے کہ شیطان اپنی بدی پھیلائے.مسیح موعود : جو لوگ خدا کی ہستی کو مانتے ہیں.ان کے مذاق پر ہم گفتگو کرتے ہیں.انسان کی زندگی اسی دنیا تک محدود نہیں.بلکہ وہ ایک قسم کی دائمی زندگی رکھتا ہے.تمام قسم کی راحت و خوشحالی کا سر چشمہ خدا ہے.جو شخص اس کو چھوڑتا ہے.خواہ وہ کسی پہلو سے چھوڑتا ہے.اس حالت میں اُسے کہا جاتا ہے کہ اُس نے گناہ کیا.پھر خدا نے محض انسانوں کی فطرت پر نظر کر کے جو اعمال ان کے حق میں مصر پڑتے ہیں.ان کا نام گناہ رکھ دیا.ان میں سے بعض منا ہی ایسے ہوتے ہیں.جن کی نہی کی حکمت تک انسان نہ پہنچ سکے.جو شخص چوری کرتا ہے.بے شک وہ دوسرے کا نقصان کرتا ہے.مگر اس کے ساتھ اپنی پاک زندگانی کا بھی نقصان کرتا ہے.اسی طرح جو زناء کرتا ہے.وہ بھی دوسرے کے حق میں دست اندازی کرنے کے علاوہ اپنا نقصان بھی کر لیتا ہے.پس جس قدر باتیں انسانی پاکیزگی کے خلاف ہیں.جن سے انسان خدا سے دور ہو جاوے وہ گناہ ہے.بعض باتیں ایسی ہی ہیں جو عام سمجھ میں نہ آ سکیں.مگر یقین رکھو کہ خدا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ علم والا ہے.وہ انسان کے لئے وہی بات تجویز کرتا ہے جو اس کی فطرت کے لئے بہت ضروری ہو.جیسے ڈاکٹر بیمار کے لئے دوا تجویز کرتا ہے.اب بیمار اس پر اعتراض کرے تو یہ اس کی غلطی ہے.بیمار کو تو ڈاکٹر کا مشکور ہونا چاہئیے.اگر اللہ تعالیٰ دُکھ میں ڈالنے والی اشیاء کی نسبت نہ بتا تا تو یہ بھی اس کا اختیار تھا.مگر وہ رب العالمین ہے.اس لئے اُس نے بتا دیا.جیسے بیماروں کے لئے پر ہیز ہے اور اس کو تو ڑ نا گناہ ہے.اسی طرح رُوحانی سلسلہ میں بعض پر ہیزیں ہیں جن پر کار بند رہنا خود اسی کے لئے مفید ہے.خوب یا درکھو کہ انسان کی کچی پاکیزگی اور سچی راحت اور آرام کا موجب خدا کی محبت اور اس کا وصال ہے.جن باتوں کو خدا اپنے تقدس کی وجہ سے نہیں چاہتا.ان کا نہ چھوڑ نا گناہ ہے.پھر یہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ گناہ والی چیزوں کو تقریبا تمام تو میں گناہ مانتی ہیں.مثلاً سب مذاہب میں چوری ، جھوٹ ، زناء گناہ ہے.اور سب کو تسلیم ہے کہ یہ اللہ کے تقدس کے خلاف اور انسانی فطرت کے لئے مضر ہیں.پھر ہر ایک شخص اپنے گناہ کو

Page 348

333 محسوس کر لیتا ہے.ایک شخص کسی کے بچہ کو مارے.وہ خود محسوس کر لیتا ہے.کہ میں نے بُرا کیا.ٹھو کے کو روٹی دے تو سمجھتا ہے کہ نیکی کی.پس گناہ کی پہچان مشکل نہیں اور نہ اس کی نسبت قوموں میں کوئی ایسا اختلاف ہے.شیطان کے بارے میں جیسا کہ میں نے کئی مرتبہ بیان کیا ہے.انسان کی سرشت میں دو قو تیں رکھی گئی ہیں.ایک قوت نیکی کی طرف کھینچتی ہے اور دوسری بدی کی تحریک کرتی رہتی ہے.یہ اس لئے تا اس آزمائش میں پڑ کر پاس ہو اور بدی سے رکنے کا ثواب پائے.اور الہی اطاعت کا انعام حاصل کرے.دوسرے لفظوں میں اس بدی کے محرک کو شیطان کہہ لو.ہم اکیلے شیطان کے قائل نہیں.بلکہ ہم تو شیطان کے ساتھ فرشتہ کے بھی قائل ہیں.ہم ان باتوں کے قائل نہیں.جیسے عیسائی کہتے ہیں.بلکہ ہم داعی خیر کو فرشتہ اور داعی شر کو شیطان سے تعبیر کرتے ہیں.باعث وجود گناه انگریز : گناہ کا وجود ہی کیوں ہے؟ مسیح موعود : خدا کسی بدی کا ارادہ نہیں کرتا.نہ وہ بدی پر راضی ہے.مگر اُس نے انسان کو نیکی بدی کا اختیار دیا.تا نیکی پر ثواب کا مستحق ہو.کیونکہ اگر دنیا میں گناہ کا وجود نہ ہوتا تو خیر کا بھی نہ ہوتا.اس بات کو خوب سمجھ لو کہ اگر کوئی گناہ نہ ہو تو خیر ہی نہ ہو.نیکی کیا ہے یہی کہ اگر چوری کا موقعہ ہو، تو چوری نہ کرے.زناء کا موقعہ ہو تو زناء نہ کرے.اب دیکھو چوری و زناء کا وجود تھا.جبھی تو اس سے رکنے کا نام نیکی ہوا.پس بدی کے پیدا کرنے میں یہ حکمت تھی.دراصل یہ بدی بھی نیکی کی خدمت میں لگی ہوئی ہے.دوسرا جواب یہ بھی ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کو مانتا.اور اسے علیم و حکیم جانتا ہے.اُسے اس کے فعلوں پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں.مثلاً کوئی شخص پوچھے سورج اُس طرف کیوں جاتا ہے.اس طرف کیوں نہیں جاتا.تو یہ غلط ہے.اس کے بعد پھر زیادہ تشریح کے طور پر فرمایا: ایک شخص چینے کے سوا نہیں بول سکتا جو کسی کو پسند نہیں ہے.اور دوسرا وہ ہے جس کی آواز ہی نرم ہے.تو اب نرم آواز کا ثواب تو پہلے ہی کو ملے گا.اگر ایک ہی حالت رکھتا بدل ہی نہیں سکتا.تو اس کے لئے کوئی کام نیکی کا ہو ہی نہ سکتا.اصل میں افراط و تفریط کی حالت ہی نیکی بتاتی ہے.پھر چونکہ اسے اختیار دیا گیا ہے کہ ہر طرف ہر پہلو میں ترقی کر سکتا ہے اس لئے دراصل بدی نیکی بنانے میں مدد دے رہی ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر بدی کی طاقت انسان میں نہ ہوتی تو نیکی کا وجود ہی نہ ہوتا.مثلاً پرندے ہیں.وہ ایک ہی طرز پر ہیں.اب ان کا کوئی کام نیکی کا نہیں سمجھا جاتا جیسا کہ بدی کا نہیں سمجھتے.اگر اخلاق ذمیمہ نہ ہوتے تو کس طرح ان کے خلاف کو اخلاق حمیدہ کہتے.جب ہم کہتے ہیں

Page 349

334 کہ فلاں نیک ہے تو بدی کا تصور اس کے ساتھ ضروری ہے.یعنی فلاں بدی کے خلاف اس میں اخلاق ہیں.اگر ایک ہی پہلو پر انسان کو پیدا کیا جاتا.تو دوسرے پہلو پر ثواب یا عقاب نہ ہوتا.اللہ نے ہر انسان کو دونوں پہلوؤں پر قادر کیا ہے.جب ہی تو نیکی کی طرف جانے سے انعام ملتا ہے.اگر کسی شخص نے باوجود انتقام لے سکنے کے معاف کر دیا تو اس کو ثواب ملتا ہے کیونکہ اُسے نیکی کی.مگر اس نیکی کا وجود جب ہی ہوا کہ پہلے اس میں انتقام کی قوت تھی.اگر کسی کے ہاتھ نہیں اور وہ کہے کہ میں نے فلاں بے گناہ کو مکا نہیں مارا تو یہ نیکی نہیں.ہم نہیں سمجھتے کہ اس سے کوئی انکار کرے کیونکہ بدیہات محسوسہ مشہودہ کا انکار نہیں ہو سکتا.ہر ایک قوت جو انسان کو دی گئی ہے.وہ بذاتہ بُری نہیں بلکہ اس کا بد استعمال ( خلاف موقعہ محل ) اس سے بدی پیدا کرتا ہے.اتنائن چکنے کے بعد انگریز کے دل میں ایک سائنس کا مسئلہ پیدا ہوا کہ دنیا میں دو طاقتیں ہیں.مثبت اور منفی.مثبت کو استعمال کرتے جائیں تو منفی بڑھتی جائے گی اسی طرح اگر ہم نیکی کو استعمال کریں گے تو بدی بڑھ کر دنیا کو تباہ کر دے گی.اس پر اسے سمجھا دیا گیا کہ اللہ اور انسان کے درمیان ایک خاص تعلق ہے.انسان اللہ کو ملنا چاہتا ہے.اس میں جدائی ڈالنے والی چیز گناہ ہے.جوں جوں تعلق بڑھتا جاتا ہے.قریب ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ ایک خاص نقطہ پر پہنچ کر جھٹ ایک دوسرے سے مل جاتا ہے.نجات عیسوی انگریز : میرے دوسوال ہیں.(۱) عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ شیطان سے دُنیا گمراہ ہوگئی.خدا نے پھر دوبارہ آکر اسے خریدا.مسیح موعود : ہم تو اس کو لغو سمجھتے ہیں.جو اس کے قائل ہیں.اُن سے پوچھا جائے.ترقی ہے یا تنزل انگریز : دُنیا کے عام نظارہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان ادنے حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف ترقی کر رہا ہے.مگر عیسائی کہتے ہیں کہ انسان اعلیٰ سے ادنے حالت کو پہنچا.پہلے اس نے آدم کو پیدا کیا اور وہ گناہ سے ادنے حالت کو پہنچا.مسیح موعود : ہمارا عیسائیوں سا عقیدہ نہیں بلکہ ہم آپ کے قول کی تصدیق کرتے ہیں.( آدم کو جنت سے اُتارا گیا تو یہ اس کے کمالات کے اظہار اور ان کو بڑہانے کے لئے تھا.بدر )

Page 350

335 بعد الموت انگریز : میں آئندہ زندگی کے متعلق آپ کے خیالات دریافت کرنا چاہتا ہوں.مسیح موعود : جب اس زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے تو ایک نئی زندگی نئے لوازم کے ساتھ شروع ہوتی ہے.اگلی زندگی اسی زندگی کا ظل واثر ہے.جنہوں نے اچھی تخم ریزی کی وہ وہاں اپنے لئے اچھے پھل پائیں گے.جنہوں نے بُری تخم ریزی کی.وہ پھل بھی بُرا پائیں گے.یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس زندگی کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے.اس کی مثال عالم خواب سی ہے.جس وقت انسان سو جاتا ہے.معاً اس کی زندگی میں ایک انقلاب آ جاتا ہے.پہلی زندگی کا نام نہیں رہتا.ہم اس مختصر وقت میں زیادہ تفصیل نہیں دے سکتے.روحوں سے ملاقات اس کے بعد میں نے کچھ پوچھنا چاہا.اجازت پر اُس نے عرض کیا کہ آیا یہ ممکن ہے کہ جو لوگ اس دنیا سے گذر چکے ہیں.اُن سے ہم صحیح پیام اطلاع حاصل کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کشفی طور سے گذشتہ روحوں سے مل سکتا ہے مگر اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ رُوحانی مجاہدات کئے جاویں.بے شک ان سے مفید مطلب باتیں دریافت کر سکتا ہے مگر اس کے لئے بہت سے مجاہدات کی ضرورت ہے.جو اس زمانہ کے لوگوں سے نہیں ہو سکتے.جبھی وہ ایسی باتوں سے انکار کرتے ہیں.میرا مذہب ہے کہ انسان خواب میں نہیں ، بلکہ بیداری میں مردوں سے مل سکتا ہے چنانچہ حضرت مسیح سے میری ملاقات ہو چکی ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی اور اہل قبور سے میں نے ملاقات کی.یہ بات تو سچ ہے مگر ہر ایک کے لئے میٹر نہیں.انسان کے قلب کی حالت کچھ ایسی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے بہت سے عجائبات ڈال رکھے ہیں جیسے کنوئیں کو کھودا جائے تو آخر بہت سی محنت کے بعد مصفا پانی نکل آتا ہے.اسی طرح سے جب تک مجاہدہ پورے طور سے انتہا ء تک نہ پہنچے صحیح وصاف خبر حاصل نہیں ہو سکتی.پروفیسر ریگ کا دوبارہ حضرت کی ملاقات کے واسطے آنا اور مشکل مسائل کا حل ہونا پہلی ملاقات سے پروفیسر کی اس قدر تشفی ہوئی.اور اس کے سوالات پر جو جوابات حضرت

Page 351

336 نے دئیے.ان سے وہ اس قدر خوش ہوا کہ اس نے بہت الحاح کے ساتھ درخواست کی کہ اُسے ایک دفعہ پھر حضرت کی ملاقات کا موقع دیا جائے.چنانچہ حضرت کے حکم سے اس کو اجازت دی گئی کہ پیر کے دن تین بجے وہ آئے.ٹھیک وقت پر پروفیسر صاحب اور ان کی بیوی حضرت کی ملاقات کے واسطے آئے.اُن کے ساتھ ان کا چھوٹا لڑکا بھی تھا.اس مکالمہ کی رپورٹ درج ذیل ہے.معمولی مزاج پرسی کے بعد سلسلہ کلام یوں شروع ہوا.ذات وصفات اللہ تعالیٰ پروفیسر : آیا آپ خدا کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی شخصیت رکھتا ہے اور اس میں جذبات ہیں یا ایسا خدا ہے.جو ہر جگہ موجود ہے.مسیح موعود : ہم اللہ تعالیٰ کو لامحدود سمجھتے ہیں.خدا ہر جگہ موجود ہے.ہم اس کی نسبت یہی سمجھتے ہیں کہ جیسا وہ آسمان پر ہے ویسا ہی وہ زمین پر بھی ہے اور اس کے دو قسم کے تعلق پائے جاتے ہیں.ایک اس کا عام تعلق جوکل مخلوقات سے ہے.دوسرا وہ تعلق اس کا جو خاص بندوں کے ساتھ ہوتا ہے.جب وہ بندے اپنے نفس کو پاک کر کے اس کی محبت میں ترقی کرتے ہیں.تب وہ اُن سے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ جیسا کہ وہ ان کے اندر ہی سے بولتا ہے.یہ اس میں ایک عجیب بات ہے کہ باوجود دُور ہونے کے نزدیک ہے اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دُور ہے.وہ بہت ہی قریب ہے.مگر پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتے.جس طرح ایک جسم دوسرے سے قریب ہوتا ہے اور وہ سب سے اوپر ہے.مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے اور بھی ہے.وہ سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے.مگر پھر بھی وہ عمیق در عمیق ہے.جس قدر انسان کچی پاکیزگی حاصل کرتا ہے.اسی قدر اس وجود پر اطلاع ہو جاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ جو نہایت درجہ قدوس ہے اپنے تقدس کی وجہ سے ناپا کی کو پسند نہیں کرتا.چونکہ وہ رحیم کریم ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ انسان ایسی راہوں پر چلیں جن راہوں پر ان کی ہلاکت ہے.پس یہ صفات (جس کے لئے جذبات کا لفظ بولا گیا ہے ) ہیں جن کی بناء پر یہ مذہب کا سلسلہ جاری ہے.کیا حد انجب ہے؟ پروفیسر : اگر خدا بالکل محبت اور انصاف ہی ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ ایک مخلوق کا گذارہ دوسرے کی ہلاکت پر ہے.ایک چڑیا کو باز کھا لیتا ہے.پس کیوں باز میں یہ کیفیت پائی جاتی ہے کہ وہ دوسر.رے کو کھا وے جو اس کی محبت وانصاف کا تقاضا نہیں ہوسکتا.

Page 352

337 مسیح موعود : جب محبت کا لفظ بولا جاتا ہے کہ خدا محبت ہے تو وہ لوگ غلطی کرتے ہیں ، جو خدا میں بھی محبت کا وہی مفہوم سمجھتے ہیں.جو انسان میں سمجھتے ہیں.یاد رکھو کہ انسان میں جو کچھ محبت یا غضب ہے.اسی طرح کی محبت یا غضب خدا کی طرف منسوب نہیں کر سکتے.انسان جو کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کے فراق سے اُسے صدمہ پہنچتا ہے.ماں بچے سے محبت کرتی ہے.اگر بچہ مرجائے تو اُسے سخت تکلیف ہوتی ہے.کسی کا محبوب جدا ہو جائے تو اس کے فراق میں تڑپتا ہے.پس کیا خدا کو بھی تکلیف پہنچتی ہے؟ ہرگز نہیں.پس خدا پر اس لفظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا.اسی طرح جسے کسی پر غضب آتا ہے.وہ خود بھی ایک قسم کی سزا پا لیتا ہے.اس کے اندر سوزش سی پیدا ہو جاتی ہے.راحت و آرام جس میں تھا اس وقت جاتا رہتا ہے.اس لئے ہم ان لفظوں کو ان معنوں کے ساتھ پسند نہیں کرتے.یہ ان لوگوں کا کلام ہے جو انسان کی حالت پر قیاس کرتے ہیں.ہم تو خدا کی ایسی صفات کو ایسا ہی بیشل قرار دیتے ہیں.جیسا کہ وہ اپنی ذات میں بیشل ہے.پس ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ جو اس کی رضا کے مطابق چلتا ہے اس پر وہ خوش ہے اور یہ لفظ جو ہیں کہ خدا محبت ہے، ہم نہیں استعمال کرتے نہ یہ استعمال کے لائق ہیں کیونکہ محبت کا لفظ سوز و گداز رکھتا ہے.غضب کرنے پر بھی وہ تکلیف میں آتا ہے.استعمال دکھ پہنچاتا ہے پس ایسے ناقص لفظ ایسے ناقص معنوں کے ساتھ استعمال نہیں کرتے.( یہاں یہ نکتہ حکیم الامت کا فرمودہ قابل یاد رکھنے کے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں کہیں محبت اور غاضب کا لفظ نہیں یعنی بطور اسم فاعل وصفت مشتبہ نہیں.ہاں فعلی رنگ میں ہے.واللہ يحب المتقين.ایڈیٹر بدر ) پروفیسر نے اس پر زیادہ تشریح چاہی کہ اعلیٰ طبقے کا جانو را د نے کو کیوں کھاتا ہے؟ مسیح موعود : میں نے اسی بنا پر کہہ دیا ہے کہ جو اس کا رحم ہے یا غضب.ہم اس کی ایسی تشریح نہیں کر سکتے.جیسا انسانوں کے متعلق کرتے ہیں.اس کا وسیع نظام پر از حکمت ہے.اس کے نظام میں اپنی حد سے زیادہ دست اندازی نہیں کر سکتے.انسان اس کے دقیق مصالح میں دخل دے تو یہ بات اچھا نتیجہ لانے والی نہیں.ہم یہ کہتے ہیں کہ اد نے طبقے کے جانوروں کے لئے اگر تکالیف کا حصہ ہے تو اعلیٰ کے لئے بھی ہے.یہ عالم مختصر اور فانی ہے.بعد اس کے وسیع عالم ہے.جس میں اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ ہر ایک قسم کی خوشحالی دی جاوے.پس جو یہاں دُکھ اٹھائے گا.وہ اگلے جہان میں اس کا عوض پائے گا.پھر یہ بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے.کہ اعلیٰ درجے والوں کو بھی تکلیف

Page 353

338 ہوتی ہے تکلیف سے وہ بھی خالی نہیں.انسان اشرف المخلوقات ہے.مگر شیر اور قسم کے درندے اس کو کھا جاتے ہیں.پس کوئی دُکھ سے خالی نہیں.کسی کو کسی رنگ میں تکلیف ہے.کسی کو کسی میں.پس یہ کہنا غلط ہے.کہ کیوں ایک خاص گروہ کو تکلیف میں رکھا گیا.کیونکہ تمام مخلوقات کسی نہ کسی طرح دکھ اٹھا رہی ہے.چڑیا کو کھانے کے لئے باز ہے تو باز کے لئے کوئی اور قسم کی تکلیف ہے.انسان اگر حیوان کو ذبح کرتا ہے.تو اس کے لئے اور قسم کی تکلیف ہوگی.پس ان دُکھوں کے تدارک و تلافی کے لئے دوسرا جہان ہے.اس عالم کے بعد دوسرا عالم آئے گا.تو سب کی تلافی ہوگی.یہ دُنیا دار امتحان ہے.اگر کوئی کہے کہ ایسا کیوں کیا ؟ تو جواب یہی کافی ہے.کہ وہ مالک ہے اور مالک کوسب اختیار ہے.تکلیفیں دو قسم کی ہوتی ہیں.انسان کو کئی تکلیفوں سے متکلف کیا گیا ہے خدا کی راہ میں مجاہدہ - مشقت سفر - جان دینا.اب حیوانوں کو یہ تکلیفیں کہاں ہیں.انسان تو دُہری تکلیفیں اُٹھاتا ہے.ایک قضاء وقدر کی تکلیفیں.اور دوسری شرعی تکالیف.پھر دیکھو! کہ انسان کے حواس میں تیزی بہت ہے.وہ دُکھ کو جلدی محسوس کرتا ہے.حیوانات میں یہ احساس کم ہے.جیسے حیوانات کو عقل نہیں دی.ویسا ہی انہیں مستی کی حالت میں رکھا ہوا ہے.وہ جو ذبح کے وقت تڑپتا ہے.تو یہ جسمانی خواص کا تقاضا ہے.احساس مصائب تو دراصل صرف انسان کے لئے ہے جس کے دماغی قوی بہت زیادہ تیز ہوتے ہیں.پس یہ نہ سمجھو کہ صرف ایک خاص طبقہ کے لئے ہے.بلکہ سب کے لئے ہے.اس لئے خدا کے انصاف پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.پروفیسر جس طرح آپ نے فرمایا ہے.ان تکالیف کا عوض ملے گا.کیا ادنی جانوروں کو بھی ملے گا ؟ مسیح موعود : ہاں ہم یقین کرتے ہیں.کہ اُن کو ملے گا.پروفیسر: اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا.کہ حیوانوں کی روح بھی مرنے کے بعد باقی رہیں.مسیح موعود : ہاں کیوں نہ رہیں ؟ انسان کب سے ہے؟ پروفیسر: آدم - حوا جیحوں وسیحیوں کے درمیان پیدا ہوئے تھے.کیا امریکہ والے بھی اس آدم کی اولاد ہیں.جیسا کہ مشہور ہے.اور عیسائی کہتے ہیں.کہ ایک آدم کی سب اولاد ہیں ؟ مسیح موعود : ہم اس بات کے قائل نہیں.کہ ایک ہی آدم تھا.کئی آدم تھے.اِنّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً سے بھی یہی ظاہر ہے.کہ آدم کسی کا جانشین تھا.ہم اس بات کی پیروی نہیں

Page 354

339 کرتے.کہ اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور جو کچھ ہے.اسی آدم سے ہے.اور نہ ہم اس بات کے قائل ہو سکتے ہیں.کہ یہ زمانہ چند ہزار برس سے ہے.بلکہ پہلے سے یہ سلسلہ چلا آتا ہے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے.کہ امریکہ والے اسی آدم کی اولاد ہیں.محی الدین عربی لکھتے ہیں.میں حج کو گیا کشف میں دریافت کیا کہ یہ آدم ہے جواب ملا.تو کس آدم کی تلاش کرتا ہے؟ ہزاروں آدم گزر چکے ہیں.ڈارون تھیوری پروفیسر : آیا حضور مسئلہ ارتقاء کے قائل ہیں.اور اگر یہ مانتے ہیں تو پھر روح کب پیدا ہوئی.مسیح موعود : ہمارا مذ ہب یہ نہیں.کہ انسان کسی وقت بند ر تھا.ہم قائل ہو سکتے ہیں اگر کوئی ایسا بندر پیش کیا جائے جو رفتہ رفتہ انسان بن گیا ہو.ہم ایسے قصوں پر اپنے ایمان کی بنیاد نہیں رکھ سکتے.موجودہ زمانہ کا عام نظارہ جو ہے ، وہ یہی ہے کہ بندر سے بندر پیدا ہوتا ہے.اور انسان سے انسان.پس جو اس کے خلاف ہے.وہ قصہ ہے.واقعی بات یہی معلوم ہوتی ہے.انسان ہی سے انسان پیدا ہوتا ہے.پہلے دن آدم ہی بنا تھا.ہر ایک جنس کا ارتقاء اس کی اپنی جنس میں ہو رہا ہے.روح کے متعلق ہمارا یہ مذہب ہے کہ وہ ایک مخلوق چیز ہے جو اسی عصری مادہ سے پیدا ہوتی ہے.اس کے نظائر ہم نے چشمہ معرفت میں دیئے ہیں.یہی قرآن شریف کی تعلیم ہے اور یہی ڈاکٹری تشریحوں سے معلوم ہوتا ہے.وہی نطفہ جو ہوتا ہے.اس میں رُوح ہوتی ہے.وہ نشو ونما ترقی پاتی پاتی بڑی ہو جاتی ہے.جبھی تو فرمایا تمَّ انْشَانَهُ خَلْقًا أَخَرَ.یہ بات بالکل صحیح نہیں کہ رُوح ابتداء سے چلی آتی ہے.اس طرح خدا تعالیٰ کی حکمت پر بہت سے اعتراض ہوتے ہیں.پس ہم کسی ثابت شدہ سچائی سے انکار نہیں کر سکتے.اسلام سائنس کے مطابق پروفیسر: مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ کا مذہب سائنس کے مطابق ہے.مسیح موعود : اسی لئے تو خدا نے ہمیں بھیجا.تاہم دنیا پر ظاہر کریں کہ مذہب کی کوئی بات کچی اور ثابت شدہ حقیقت سائنس کے خلاف نہیں.تا ثیر اجرام سماوی پروفیسر: امریکہ میں بعض لوگ ہیں.ان کی رائے ہے کہ جو زندگی ہے وہ چاند سے اُتری

Page 355

340 ہے.چاند جو پیدا ہوا ہے زمین سے.زمین میں زندگی کی کیفیت تھی.آپ کی کیا رائے ہے؟ اور وہ کہتے ہیں.عقل مشتری نے دی.مسیح موعود : زندگی اور قومی کا سرچشمہ باری تعالیٰ ہے.اُس نے سُورج، چاند و دیگر اجرام سماوی کو انسان کی خدمت میں لگا دیا ہے.وہ جب پیٹ میں تیار ہوتا ہے.تو اجرام سماوی کی تا خیرات سے فائدہ اٹھاتا ہے.سبعہ سیارہ کا اثر بھی ہے.یہ تاثیرات ہماری شریعت کے مخالف نہیں لیکن ہم ایسی بات کو جو ثبوت شدہ نہ ہو.ماننے کے لئے تیار نہیں.ہاں یہ ٹھیک ہے کہ انسان کی تربیت میں اجرام سماوی کا بھی حصہ ہے.جیسے کہ چاند کی روشنی سے پھل پکتے ہیں اور انار کے پکنے اور پھوٹنے کی آواز بھی نکلتی ہے.رُوح کے اقسام پروفیسر: کیا جو کچھ کھیوں میں اور دوسرے پرندوں میں ہے.اس کا نام بھی روح ہے؟ مسیح موعود : روح تین قسم کی ہے.روح نباتی ، حیوانی ، انسانی حقیقی کمالات کی جامع اور حقیقی زندگی کی وارث انسان کی روح ہے.حیوانات کی روح اس سے کم درجے پر.نباتات کی اس سے کم.نباتات میں ایک قسم کا احساس ہوتا ہے.ایک بوٹا ہے جب کسی گھر میں لگایا جائے.جب چھت کے قریب آ جاتا ہے تو وہ اپنا رُخ کسی اور طرف پھیر لیتا ہے.چھوٹی موٹی ایک بُوٹی ہے.اس میں بھی شعور ہے.اب اس سے زیادہ ان معاملات میں پڑنا اور کنبہ حقیقت میں پہنچنے کی کوشش کرنا فضول ہے.تو کارز میں کے نکو ساختی کہ با آسماں نیز پرداختی.انسان قابل عفو پروفیسر: جب ہم ایمان رکھتے ہیں کہ انسان خدا کی طرف سے ہے اور وہ نیکی کی طرف جا تا ہے تو کیا اس کی غلطیاں قابل معافی نہیں؟ کیا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ انسان بغیر اس کے نجات نہ پائے گا.جب تک اس کے لئے ایک خدا کفارہ نہ ہو؟ مسیح موعود : یہ عقیدہ بالکل لغو ہے.انسان اپنے عمل صالحہ سے خدا کے فضل کو جذب کرتا ہے اور اس فضل پر اس کی نجات ہے.دُنیا میں دیکھ لو.کہ انسان تخمریزی کرتا ہے.پھر اس پر محنت کرتا ہے.آخر اس کا نتیجہ پاتا ہے.کسی کفارہ کی ضرورت نہیں پڑتی.اسی طرح الدنيــا مزرعة الآخرة جیسا کروگے ویسا پاؤ گے.اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے.اس کی رحمت سب پر عام ہے؟

Page 356

341 پروفیسر: واقعی یہ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انسان لاکھ نیکی کرے پھر بھی اس کی نیکی رائیگان جائے.جب تک کفارہ پر ایمان نہ لاوے.اس کے بعد اس نے مع اپنی میم کے کھڑے ہو کر شکریہ ادا کیا.اور اس امر کا اظہار کیا کہ مجھے اپنے سوالات کا جواب کافی اور تسلی بخش ملنے سے بہت خوشی ہوئی.اور مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان ہو گیا.(نوٹ : پروفیسر بعد میں احمدی مسلمان ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہا اور اس کے خطوط میرے پاس آتے رہے.محمد صادق )

Page 357

342 باب بیسواں یورپ کے فری تھنکر وں کو تبلیغ ( نوٹ : ایک کانگریس ۱۹۰۴ ء میں ملک اٹلی میں ہوئی تھی.میں وہ مضمون یہاں درج کرتا ہوں.تا کہ قارئین کو معلوم ہو کہ اس زمانہ میں بھی پیام حق ہر طرف پہنچانے کی کس طرح کوشش کی جاتی تھی.یہ مضمون اخبار الحکم نمبر ۴۱ و ۴۲ جلد ۸ مورخہ ۳۰ نومبر ۱۹۰۴ ء میں شائع ہوا تھا.یورپ کے آزاد خیال لوگوں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی.اس میں ہمارے مکرم بھائی مفتی محمد صادق صاحب نے مندرجہ ذیل چٹھی کے ذریعے اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی.(ایڈیٹر ) غلامی موجودہ زمانہ کی مہذب دنیا میں مفقود ہے.اور ہم کوئی غلام نہیں پاتے ہیں.بجز ان قیدیوں کے جو جنگی یا ملکی جیل خانوں میں رکھے جاتے ہیں.اس طرح پر گویا تمام لوگ آزاد ہیں.با این آزادی ایک نسبتی یا اضافی امر ہے.ایک دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ لطف آزادی اٹھاتا ہے.اور فی الحقیقت اس پشت زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو کلیہ آزاد ہو کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی قانون و ضابطہ کی پابندی سے زندگی بسر کرنا ضروری ہے.خواہ وہ قانون ملکی ہو یا جنگی اخلاقی ہو یا تمدنی.قومی ہو یا انسانی.پھر آزادی تین امور میں ہو سکتی ہے یا نہیں ہو سکتی یعنی اعمال ، اقوال اور خیالات میں.اوّل الذکر تو بہت ہی مشکل بلکہ قریب به محال ہے.اور آخر الذکر ایسی آزادی ہے.جو ہر شخص کے لئے سہل الحصول ہے.آزادی اعمال کوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا اور آزادی خیال گویا انسانی میراث ہے.ہر شخص اسے پا سکتا ہے.اور اس سے لطف اٹھا سکتا ہے.کوئی آدمی آپ کو مجبور نہیں کر سکتا کہ یوں خیال کردیا یوں.مذہب کے متعلق بھی ایسی ہی حالت ہے.چنانچہ قرآن مجید میں صاف طور پر فرمایا.لا اکراہ فی الدین.پس بلحاظ خیالات کے سب کے سب آزاد ہیں.مگر اعمال یا اقوال کے لحاظ سے کوئی آدمی بھی غالباً آزاد مطلق نہیں ہوسکتا.دوسری طرف ہر ایک شخص (خواہ کے باشد ) کچھ نہ کچھ کرنے کا پابند ہے اور ہر شخص کو کسی نہ کسی قانون کی پابندی لازمی ہے.اور نجات اطاعت سے وابستہ ہے.ان تمام امور پر یکجائی نظر کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص بلا استثنائے احدے بلحاظ خیالات یا من حیث الاقوال یا من حیث الا فعال آزاد خیال نہیں ہے.بلکہ سب کے سب متبع ہیں.

Page 358

343 لہذا انسانی بناوٹ اور فطرت کے حسب حال فرمانبردار کا نام موزوں ہے.جو عربی لفظ مسلم کا ٹھیک ترجمہ ہے.پس ہمیں بجائے کسی اور نام اور لقب کے اپنے تئیں مسلم کہنا اور کہلانا چاہئیے.قرآن شریف نے سچ فرمایا.سمکم المسلمین اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے.اس قدر بحث تو نام کے متعلق تھی.اب میں آزاد خیال لوگوں کے آغا ز نشو و نما اور انجام پر نظر کرنا چاہتا ہوں.آزاد خیال لوگوں کا مبداء اور باعث ہی بائیل ہے.جو عیسائی پاسٹروں کے ہاتھ میں ہے نہ کچھ اور.قطع نظر اس امر کے کہ آیا اس کے تراجم غلط ہیں یا صحیح ؟ اور موجودہ کتا ہیں نا پاک ہیں یا خلاف اخلاق؟ اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کا اتباع انسان کو آزاد خیال بناتا ہے.اگر آزاد خیالی کوئی خطا ہے.تو اس کی ذمہ وار عیسائیت ہے.یعنی وہ عیسائیت کا جرم ہے.یہ ایک گناہ ہے.لیکن اس کے ذمہ دار اور موجب یورپین ماسٹر اور پادری ہیں.دلیل اور بُرہان کے اس زمانہ میں کون ایسا بیوقوف ہے جو کسی انسان خدا کا یقین رکھ سکتا ہے؟ یا اس بات کا معتقد ہو سکتا ہے کہ انسان خدا جو سہ گوشہ ہے.ایسا خدا جو مصلوب ہوا علیٰ ہذا القیاس.لیکن میں افسوس سے دیکھتا ہوں کہ اس قسم کے عقائد سے دُور باشی کے ساتھ ہی آزاد خیال لوگوں نے تمام گراں بہا اور قیمتی موتی بھی پھینک دئے ہیں.بہت سی باتیں ایسی معمول اور فطرت کے موافق موجود ہیں.جو کسی صورت میں بھی صاحب دل اور اہل بصیرت کی نظر میں حقیر نہیں ہونی چاہئیں.مثلاً انبیاء علیہم السلام کا وجود اور وحی اور الہام.خدا تعالیٰ کے مامور معلم جن کو دُوسروں کے پاک اور صاف کرنے کے لئے مقناطیسی قوت دی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ رسولوں کو بھیجتا ہے.گذشتہ کا تو کیا ذکر ہے.خود انہی دنوں میں خدا نے ایک رسول بھیجا ہے اور ہزاروں ہزار نشانات اور علامات اُنہیں اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے عطاء فرمائی ہیں.اس وقت بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مامورئین ضرورت کے وقت آیا ہے.تا کہ وہ انبیاء سابقین کے اوضاع واطوار سے دنیا کو آگاہ کرے.اس کا کلام مدلل اور معقول ہے.اس کا نطق وہی ہوتا ہے.جو ا سے رب العظیم سے الہام ہوتا ہے.اور جو ہر وقت سچائی کے ثبوت کے لئے آمادہ رہتا ہے.اس کا نام مرزا غلام احمد ( ایدہ اللہ الاحد ) ہے.وہ قادیان ضلع گورداسپور ( پنجاب انڈیا ) میں رہتا ہے.وہ اس لئے آیا ہے.تا لوگوں کو یہ سمجھا دے کہ ایک ہی قادر مطلق خدا

Page 359

344 ہے.آزاد خیال لوگوں کو اس کے پاس آنا چاہئیے.تا وہ معلوم کریں کہ انبیاء کیا ہوتے ہیں اور نیچے حقیقی قوانین قدرت کیا ہیں؟ میں اس چٹھی کو اس پر ختم کرتا ہوں کہ کانگریس کے تمام ممبروں پر سلامتی ہو.مجھے خوشی ہوگی.اگر ان میں سے کوئی ارادت مند مجھ سے سلسلہ خط و کتابت جاری کرے گا.محمد صادق

Page 360

345 باب اکیسواں سلسل تحقیق الادیان وتبلیغ الاسلام اجازت برائے چندہ و تبلیغ اس امر کے اظہار کے واسطے کہ غیر ممالک کو تبلیغ کرنے کا کس طرح سے مجھے ہمیشہ سے جوش تھا.اور اس کام کے واسطے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت تھی.میں اپنا ایک مضمون جو اخبار البدر مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۴ء میں چھپا تھا.درج ذیل کرتا ہوں.تحقیق الادیان و تبلیغ اسلام (از محمد صادق ) سب حمد اور شکر اللہ کے لئے ہے.جس نے انسان کو اپنے مخاطبات سے شرف بخشا اور راہ مستقیم پر اس کو بلا کر ظلمات کی ٹھوکروں اور ہلاکتوں سے بچایا.دنیا میں جو تاریکی انسان نے اپنی غفلت اور بد کاری سے پھیلا رکھی تھی.اس سے بچنا کسی کی طاقت میں نہ تھا.اگر خود خدا وند اپنے رحم کے تقاضا سے انسان کو آواز دے کر اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو سیدھی سڑک پر نہ ڈال دیتا.پھر صلوۃ اور سلام ہوا اور رحمتیں ہوں اور برکتیں ہزاروں ہزاران پاک اور معصوم وجودوں پر جن کو خدا نے اس قابل بنایا کہ وہ اس کی آواز سنیں.اور خلقت کو سمجھائیں اور سید ھے راہ پر لائیں.اُدھر خُدا کے آگے روئیں اور گڑ گڑا ئیں.بالخصوص اس پاک مطہر مقدس مزگی شفیع پر ہزاروں ہزار صلوۃ اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں ہوں کہ جو مخلوق الہی کی غمخواری میں اور اپنے خالق کی محبت میں ایسا گداختہ ہوا کہ بجز قرآن شریف کی وحی کے کوئی ھے اس کے لئے موجب تسکین نہ ہوئی.اے خدا کے پیارے قربان ہوں ہم اور ہماری جانیں تجھ پر اور تیری راہ پر اور اس پر جو تیری راہ کے مسافروں کو بھیٹروں اور کتوں اور قزاقوں سے بچانے کے واسطے آج سپاہیوں کی طرح کمر باندھ کر کھڑا ہوا ہے.اور ایسا کھڑا ہوا ہے کہ نہا سے رات کو آرام کی نیند ہے اور نہ دن کو عیش کی زندگی ہے.وہ تیری محبت میں ایسا محو ہوا کہ نہ اُسے اپنے سر کی خبر رہی اور نہ پاؤں کی.ہاں یہی اس کی دو نشانیاں تھیں جو تو نے پہلے سے بیان کی تھیں.

Page 361

346 پھر مبارک ہیں وہ جو اس بہادر سپاہی ، ہاں بہادروں کے سردار کی حمایت اور نصرت میں کھڑے ہوئے.اللهم اجعلنا منھم.وہ خدا کے ساتھ ہیں.اور خدا اُن کے ساتھ ہے.وہ ستارے ہیں جو سورج سے روشنی لیتے ہیں.اور اندھیری رات کے چراغ ہیں.اللهم اجعلنا منهم - آمین ثم آمین.اے رب العالمین اس تاریکی کے زمانے میں جب یہ خدا کے پیارے مخلوق الہی کو سیدھی راہ پر بلا رہے ہیں.تو میرے دل میں جوش اٹھا کہ میں بھی امداد کروں.جو خود ہی کمزور ہو وہ کسی کی مدد کیا کرے گا مگر ایسے پُر جوش اور پُر طاقت.باہمت.عالی حوصلہ.عالی دماغ اصحاب کارناموں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ کر نہ رہ سکا کہ نچلا بیٹھا ر ہوں.میں بھی لگا کچھ ہاتھ ہلانے اور کچھ آوازیں دینے.بھلا اس چھوٹے سے ہاتھ اور بار یک سی آواز نے کیا کرنا تھا.مگر خدا نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ سے جو دنیا بھر کو تبلیغ پہنچانی تھی.تو اس کے واسطے سامان بھی ایسے ہی مہیا کر دیئے.پس میرے ہاتھ اور آواز کو ڈاک نے ایسی مدد دی کہ میں گھر بیٹھے بیٹھے انگلستان، امریکہ اور جاپان تک جانے لگا.اور تو کیا کر سکتا تھا.پر رفتہ رفتہ دو باتوں کی عادت سمجھو.قوت سمجھو.نشہ سمجھو.کچھ سمجھو.وہ کام آہستہ آہستہ کرنے لگا.ایک تو یہ کہ جہاں کہیں کوئی نیا فرقہ دیکھا.گمراہی کا کوئی عجیب گڑھا دیکھا.ضلالت کا کوئی ہولناک کنواں دیکھا ان کی خبر خدا کے مسیح کو لا کر دی.تا کہ وہ اس کی دستگیری کے لئے توجہ کرے اور دوسرا یہ کہ جو ملا کسی نہ کسی بہانے اس کے کان میں کچھ اسلام اور اسلام کے بانی علیہ السلام اور اسلام کے موجودہ امام کی خبر ڈال ہی دی.کسی نے گالی دی کسی نے بُرا منایا.کوئی نہیں.جو خاموش ہور ہا.کسی نے خشک شکریہ میں ٹالا.کوئی تھوڑی دور ساتھ ہو لیا.اور پر ساں حال رہا.پر میں اپنے کام کئے گیا.یہاں تک کہ بعض رشید اور سعید ایسے نکلے جنہوں نے اس آواز کو قبول ہی کر لیا.اس کام کی ابتداء کوئی تین سال سے ہے.اور اس کے واسطے مجھے خرید اخبارات ، خرید کتب ، ڈاک، سٹیشنری وغیرہ کا خرچ درکار ہوا.جس میں مجھے یہاں کے بعض دفاتر مثلاً میگزین اور خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بعض دوستوں سے مددملتی رہی.مثلاً کوئی عمدہ کتاب اس کام کے مفید ولایت میں چھپی.تو دفتر میگزین نے خرید کر دی.یا حضرت نے خود ہی فرمایا کہ یہ کتاب منگوالواس کی قیمت ہم دیں گے.یا شیخ رحمت اللہ صاحب جیسے کسی دوست نے ولایتی کاغذ اور لفافے بھیج دیے.غرض اسی طرح سے کام چلتا رہا اور چل رہا ہے.مگر کوئی نو ماہ کا عرصہ گذرا ہے.کہ ایک دوست با بومحمد الہی صاحب سب پلیٹر کو ہاٹ نے مجھے خط لکھا کہ میں ہمہ چند اور احباب کے آپ کو اس 0 ه اصل میں یہ عہدہ Assisstant Way Inspector کہلاتا ہے.ریلوے کا نچلا عملہ جو عموماً نا خواندہ ہوتا تھا اس عہدہ کو سب پلیٹر کہتے تھے.

Page 362

347 کام کے واسطے کچھ ماہوار چندہ دینا چاہتا ہوں.میں ڈرا کہ میرے واسطے ایسا چندہ (اگر چہ وہ خفیف رقم ہی ہو ) کا لینا نا جائز ہوگا.اس واسطے میں نے بابوصاحب کو خط لکھا کہ سر دست میں کوئی ماہوار چندہ نہیں لے سکتا.ہاں آپ کی تحریک پر میں اس امر کے متعلق استخارہ کروں گا.پھر جو نتیجہ ہوگا.دیکھا جائے گا.اور حضرت سے حکم بھی طلب کروں گا.اس کے بعد کوئی چھ ماہ تک مجھے کوئی ایسا موقعہ نہ ملا کہ میں اس امر کے متعلق توجہ اور استخارہ کرتا.چھ ماہ کے بعد مجھے ایک وقت میسر آیا کہ میں نے دُعا کی اور استخارہ کیا اور پھر حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں یہ سب باتیں عرض کیں اور یہ بھی دریافت کیا کہ آیا اس کام کو جاری رکھوں یا نہ رکھوں؟ حضرت امام علیہ السلام نے جواب میں لکھا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میرے نزدیک جہاں تک کچھ دقت اور حرج واقعہ نہ ہو.اس کام میں کچھ مضائقہ نہیں ہے.موجب تبلیغ ہے.اور جو صاحب اس کام میں مدد دینا چاہیں وہ بے شک دیں.خاکسار مرزا غلام احمد اس پر میں نے بابو محمد الہی صاحب کو اطلاع دی جو رقم اس امر کے متعلق میرے پاس وقتاً فوقتاً آئے گی.اس کی رسید میں اسی اخبار میں دے دیا کروں گا اور ساتھ ہی میں نے ارادہ کیا ہے.کہ آئندہ ہر ہفتہ میں بذریعہ اخبار کے ایک رپورٹ اس کارروائی کی چھاپ دیا کروں.تا کہ احباب کے واسطے موجب ازدیاد ایمان اور وسعت ہو.چونکہ اس کام کے دو حصے ہیں.یعنی مذہب کی تحقیق اور اسلام کی تبلیغ.اس واسطے یہ مضامین اخبار میں تحقیق الادیان وتبلیغ الاسلام کی سرخی کے ذیل میں نکلا کریں گے.انشاء الله و ماتوفیقی الا بالله العلى العظيم - چنانچہ اس ہفتہ میں امریکہ سے ایک نو مسلم انگریز کا خط آیا ہے.جس کی پہلے ہم کو خبر نہ تھی.یعنی اس کا نام اور پتہ اور اس کے مشرقی علوم سے واقف ہونے کی خبر ایک کتاب فروش کے اشتہار میں پڑھی تھی.کیونکہ صاحب موصوف نے ایک کتاب پر اپنی رائے لکھی تھی.پس میں نے اس کو ایک خط لکھا.میں اپنے خط کے ترجمہ کو بمعہ جواب کے ترجمہ کے نیچے درج کرتا ہوں.محمد صادق عفی عنہ

Page 363

348 میرا خط بنام ڈاکٹر بیکر صاحب از قادیان ضلع گورداسپور.ملک ہند.مورخہ ۲۵ /ستمبر ۱۹۰۴ء ڈئیر ڈاکٹر.اگر اتفاق کوئی شے ہے تو میں کہہ سکتا ہوں.کہ صرف اتفاق سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ آپ علوم مشرقیہ کے فاضل ہیں.اور دُنیا کی قریباً ایک درجن زبانوں سے واقف ہیں.دراصل میں تو اتفاق کا قائل نہیں.کیونکہ میں تو یہ ایمان رکھتا ہوں کہ سب کچھ خدائے قادر کی مرضی سے دُنیا میں ہوتا ہے.آپ مشرقی علوم کے فاضل ہیں.اور میں ایک مشرقی آدمی ہوں اور اسی واسطے میں آپ کو یہ خط لکھتا ہوں.مشرق کی کئی زبانوں سے میں بھی واقف ہوں.جو بات میں آپ کو کہنا چاہتا ہوں وہ مشرقی الہام اور حُبّ اور صلاحیت ہے.لیکن پیشتر اس کے کہ میں کچھ کہوں.میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کے عقائد کیا ہیں ؟ ہمارا مذہب یہ ہے کہ یسوع مسیح ایک انسان تھا.اور خدا کا نبی تھا.خدا واحد ہے.تثلیث کوئی شے نہیں.خدا کا کوئی بیٹا نہیں سب کو نیک و بد اعمال کا بدلہ ملنا ہے.کفارہ باطل ہے.خدا اپنے نبیوں ، رسولوں اور مسیحوں کو ہمیشہ مبعوث کرتا رہتا ہے.جو خدا سے الہام پا کر دنیا کی اصلاح کرتے ہیں.اس زمانہ کے مصلح کا نام احمد ہے.جہنم ابدی نہیں بلکہ جیل خانوں کی طرح ایک اصلاح خانہ ہے.خدا قادر مطلق خدا ہے.یسوع نے اور انسانوں کی طرح وفات پائی.اس کی قبر کشمیر میں ہے.ہمیں چاہئیے کہ خدا کا خوف اور محبت ہر دو دل میں رکھیں.خدا کو ایسا یاد کریں.جیسا کہ باپ کو بلکہ اس سے بھی زیادہ.یہ ہمارے عقائد کا خلاصہ ہے.جس میں کوئی امر مخالف عقل نہیں.کہاں تک آپ ان امور میں ہمارے ساتھ متفق ہیں.کیا آپ تصانیف کیا کرتے ہیں؟ اگر کرتے ہیں اور ممکن ہو.تو کوئی کتاب ارسال فرما دیں.آپ کا جواب آنے پر میں بھی آپ کو کچھ کتابیں ارسال کروں گا.شائد ایسا خط لکھنے میں میں نے بہت جرات سے کام لیا ہو.لیکن میں امید کرتا ہوں کہ آپ کی طرف سے مجھے فرحت دہ یا کم از کم دوستانہ جواب ملے گا.ہمارا ملک طاعون سے تباہ ہو رہا ہے.کیونکہ لوگ نیک نہیں ہیں.اُنہوں نے خدا کے فرستادہ کی عزت نہیں کی.خدائے رحمن ہمیشہ اپنے نبی مبعوث کیا کرتا ہے.اور ایسا ہی اس نے اس زمانہ میں بھی ایک رسول بھیجا ہے.اس نبی کا نام احمد ہے خدا کی طرف سے اس کو مسیح موعود کا خطاب بھی ملا ہے.اس کا سلسلہ جلد دنیا میں پھیلے گا اور مشرق و مغرب پر حاوی ہوگا کیونکہ خدائے قادر نے ایسا ہی ارادہ فرمایا ہے.یہ نبی صلح اور محبت کا پیغام لایا ہے.اس نے جنگوں کو بند کر دیا ہے.اس کے متبع تین لاکھ کے قریب ہیں.جن کو خدا پر ہیز گاری، راستی، محبت اور خوف خدا عطا کیا ہے.مجھے آپ

Page 364

349 کا جواب آنے سے خوشی ہوگی اور پھر میں آپ کو زیادہ باتیں لکھوں گا.ڈاکٹر صاحب کی طرف سے جواب محمد صادق از جانب ڈاکٹر اے جارج بیکر...فلاڈلفیا ملک امریکہ مورخه ۲۸/اکتوبر ۱۹۰۴ء بخدمت مسٹر محمد صادق صاحب پیارے جناب اور بھائی.آپ کا خط مجھے ۲۴ / تاریخ کو ملا تھا.مگر میں انفلوئنز اسے علیل تھا.اس واسطے تین دن جواب نہ لکھ سکا.جہاں تک ممکن ہو.چند ایک لفظ میں اپنا مذ ہب ظاہر کرتا ہوں.باقی آپ خود سمجھ لیں.میں مسلمان ہوں.اور میرے عقائد وہی ہیں جو آپ کے ہیں.میں اپنے ملک اور زمانہ کے مناسب حال اسلام پر عامل ہوں.نبی عیسی کے متعلق میرا عقیدہ وہی ہے جو آپ کا ہے.لا اله الا الله قل هو الله احد الله الصمد لم يلد و لم يولد ولم يكن له كفوا احد.ایک ہی خدا ہے.جو ازلی خدا ہے.وہ نہ جنتا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا.اور نہ کوئی اس کی مانند ہے.میں خوب جانتا ہوں کہ تمام عمیق مذہبی خیالات مشرق سے نکلے ہیں.اور تمام بڑے بڑے مذہبی علماء مشرق میں ہی ہوئے ہیں.عیسوی مذہب بھی مشرق ہی سے نکلا تھا.لیکن آج کل جو عیسوی مذہب دنیا میں پھیل رہا ہے.یہ حضرت عیسیٰ کی تعلیم سے ایسا ہی دُور ہے.جیسا کہ سیاہ سفید سے دُور ہے.بہت سالوں کی بات ہے.جبکہ میں نے مشرقی علوم کو سیکھنا شروع کیا.اس وقت میں نے معلوم کیا کہ مذہب کا سچا اصول یعنی حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ“ ، حضرت داؤڈ ، حضرت سلیمان ، حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم الصلوۃ والسلام نے سکھایا.عیسوی تعلیم نے جس بات کو محسوس کیا تھا.اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے آخر دُنیا میں بھیج دیا.میں تب سے آنحضرت کی تعلیم کا متبع ہوں اور آپ کی تمام تعلیم پر پختہ ایمان رکھتا ہوں.لیکن اسلامی مسائل کو اگر لفظی معنوں میں لیا جائے.تو پوری سختی اور پابندی کے ساتھ ان الفاظ کی اطاعت ہر معنوں میں امریکہ میں مشکل ہے.ہمارے لوگ ایشیائی دل نہیں رکھتے.اس واسطے ہمیں اپنے ملک اور زمانہ کے ساتھ چلنا پڑتا ہے.ان میں سے بڑے شہر جیسا کہ فلاڈلفیا ہے.یہ امر میرے واسطے آسان ہوگا کہ جب بازار میں جا رہا ہوں تو راہ میں اپنا بُوٹ اور موزے اتار کر پاؤں دھونے کے واسطے ادھر اُدھر پانی تلاش کرتا پھروں.تاہم میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا مانگ سکتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں کہ میری دعاء اس کے حضور میں قبول ہوئی.اور وہ سنتا ہے اور جواب دیتا ہے اور یہ سب کچھ ایسا ہی ہوتا ہے.

Page 365

350 جیسا کہ وضو کرنے کی حالت میں نماز ایک چیز ہے جو انسان کے دل اور خدا کے درمیان ایک تعلق ہے اور جب میں گھر میں رہتا ہوں.تو میں تمام قواعد نماز کو پابندی کے ساتھ ادا کرتا ہوں.ہاں باہر اس کے واسطے دقت ہے.مجھے اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ مشرق سے کسی نے مجھے مخاطب کر کے اپنا وقت خرچ کیا ہے اور کہ مجھے ہندوستان میں بھی کوئی جانتا ہے.میں کئی دفعہ پبلک میں لکچر دیا کرتا ہوں اور جب کبھی نا واقف لوگ مشرقیوں کے متعلق غلط خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو میں اُن کا دفعیہ کیا کرتا ہوں.آپ کا پھر مجھے خط آئے گا.تو مجھے بڑی خوشی ہوگی اور میں خوش ہوں گا کہ آپ مجھے کتابیں ارسال فرما ئیں.جن سے میرے علم میں ترقی ہو.مجھے الجیریا کے ایک نوجوان مسلمان دوست سے بھی ابھی ایک خط ملا ہے.یہ نوجوان پہلے ڈلفیا میں رہ چکا ہے.اس وقت ہر روز میرے گھر آیا کرتا تھا اور ہم بالکل بھائیوں کی طرح تھے اور اس کی چٹھی سے بھی مجھے اتنی بڑی خوشی ہوئی ہے.جتنی کہ آپ کی چٹھی.آپ بہت جلد مجھے خط لکھیں اور ہم آئندہ اس خط و کتابت کو جاری رکھیں گے.حضرت مجدد کے حضور میں دعا و سلام اور آپ کی خدمت میں پر محبت آداب کے ساتھ.میں ہوں آپ کا نہایت اخلاص مند سے.ڈاکٹر اے.جی.بیکر.ایم ڈی اس کے بعد اخبار بدر میں بہت سے مضامین اسی سرخی تحقیق الادیان و تبلیغ الاسلام کے ماتحت چھپتے رہے.

Page 366

351 بائیسواں باب پادری ہال کو تبلیغ ۱۹۰۳ء کچھ عرصہ ہوا ہے کہ ایک ڈاکٹر چارلس نام عیسائی مذہب کے عالم امریکہ سے عیسویت پر لیکچر دینے کے لئے لاہور تشریف لائے تھے اور لاہور میں انہوں نے کچھ لیکچر دیئے.ہمارے مکرم بھائی مفتی محمد صادق صاحب ( جو ہمیشہ اس ٹوہ میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی موقع ان کو ملے تو وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تبلیغ کریں اور اسی وجہ سے دُور دراز تک ان کی خط و کتابت کا سلسلہ جاری ہے ) نے ان کو ایک دعوتی خط لکھا چونکہ خط دلچسپی سے خالی نہیں اس لئے ہم اپنے ناظرین کی واقفیت بڑھانے کے لئے ذیل میں درج کرنا مناسب سمجھتے ہیں.(عرفانی) خط بخدمت ڈاکٹر چارلس کہتبر ئے ہال صاحب ڈی.ڈی.بیر ولیکچرر.ریورنڈ صاحب.میں نے ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ آپ امریکہ سے خاص اس مطلب کے لئے تشریف لائے ہیں کہ اس ملک کے باشندوں کو تجر بہ مذہب عیسویت پر چند وعظ کریں.میں اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سا تجربہ مذہب عیسویت ہو سکتا ہے جس کو آپ مذہب عیسوی کی صداقت کے ثبوت میں بطور دلیل کے پیش کر سکتے ہیں.اگر اس تجربہ سے آپ کی مراد علمی تحقیقات اور ایجاد اور ملکی قوت کی ترقی ہے تو یونان کے بُت پرست اور روما کے ہزاروں دیوتاؤں کے پجاری ان علمی اور ملکی ترقیوں کے باعث اپنے زمانے کے یہو دا ور نصاریٰ کے مقابلہ میں زیادہ تر سچے مذہب کے ہیر و معلوم ہوتے ہیں.اور اگر تجربہ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ یورپ کے عیسائیوں نے تجارت اور دوسرے ذرائع سے بہت روپیہ جمع کر لیا ہے اور یہ ان کے مذہب کی صداقت کا ایک نشان ہے تو پھر عیسائیت کے معتقدین سید ھے جہنم کو جاتے ہوئے نظر آتے ہیں.اگر موجودہ تہذیب مذہب عیسوی کی صداقت کا ثبوت ہے.تو پھر پہلے حواری اور خود آپ کا خُداوند یسوع مذہب مذہب عیسوی کا ایک بڑا دشمن نظر آتا ہے.اگر عیسائی تجربہ سے آپ کا یہ منشاء ہے کہ عیسائیوں میں اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور تمدنی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور یہ ان کے مذہب کی صداقت کا ایک نشان ہے تو یورپ کے

Page 367

352 موجودہ اخلاق کے متعلق جو سینکڑوں شہادتیں خود اہل یورپ سے ہمیں ملی ہیں.اُن میں سے صرف دو تین کو میں یہاں نقل کر کے دکھاتا ہوں.کہ عیسائی تجربہ کیا شہادت دیتا ہے: (۱) ایسی مفلسی ، ایسی تباہی، ایسی مصیبت ، ایسی جہالت اس جگہ پائی جاتی ہے کہ یہ مقام مجھے ایک آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر نظر آ رہا ہے.(۲) تمام عیسائی دنیا قدیم الایام سے آج تک مفلسی ، تباہی ، بدی اور پرلے درجے کی گنہ گاری میں پڑی ہوئی ہے.(۳) لکھوکھا آدمی جو بپتسمہ لے چکے ہیں.نہایت ہی خراب قسم کی بدکاری میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں.(۴) تمام مختلف گرجوں کے افسر ہم کو اطلاع دیتے ہیں کہ قوم مذہب سے بالکل بے پرواہ ہے اور انجیل ان پر اپنا کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.میں تعجب کرتا ہوں کہ اپنے اس امر کے واسطے اتنے اتنے وسیع سمندر چیرنے کی تکلیف اُٹھائی.کہ ہمیں عیسائی تجربہ سے آگاہ کریں.جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں.انجیل میں یسوع کا کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو کسی عاقل اور دور اندیش کے لئے قابل عمل ہو.مثال کے طور پر یسوع کے چار پانچ احکام کو لیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی دانا ان پر عمل کر سکتا ہے؟ اول.یسوع کہتا ہے کہ الزام نہ لگاؤ" کیا تم کو عدالتیں فوراً بند کر دینی چاہئیں.حج فورا موقوف کر دینے چاہئیں؟ دوم.یسوع کہتا ہے کہ کل کا فکر نہ کرو.کیا گورنمنٹ کے سارے دفتر جو سالہا سال پہلے امور کا فکر کرتے ہیں.سب کے سب بند کر دینے چاہئیں؟ سوم.یسوع کہتا ہے کہ اپنا خزانہ زمین پر نہ رکھ.کیا تمام سرکاری خزانوں کو آگ لگا دینی چاہئیے ؟ چہارم.یسوع کہتا ہے کہ صدقہ پوشیدگی میں دو.کیا مشنریوں کی تمام خیرات کی فہرستیں جو اخباروں میں چھپتی ہیں.کفر سے بھری ہوئی ہیں؟ پنجم.یسوع کہتا ہے کہ اگر تیرا کوئی کوٹ لے تو اُسے چوغہ بھی دے دے.کیا جب بوئروں نے ہماری دانا گورنمنٹ سے ٹرنس دال پر جھگڑا کیا تو ان کو ساتھ ہی کیپ کالونی بھی دے دینی چاہئیے تھی.مثال کے لئے یہ باتیں کافی ہوں گی.یسوع کے تمام اصول اسی قسم کے ہیں.اور اصل

Page 368

353 بات یہ ہے کہ یہ اصول ایک غریب چھوٹے سے گروہ کے واسطے تھے.جو غریب یسوع کے پیچھے ہولیا تھا.یسوع کا کبھی یہ منشاء نہ تھا کہ ایک عالمگیر مذہب دُنیا میں قائم کرے.لیکن عالمگیر مذہب اور شریعت اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب قرآن شریف میں نازل کی ہے.جو نبیوں کے خاتم رسولوں کے سرتاج حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا.میں اس پاک کتاب کی چند آیتوں کا ترجمہ اس جگہ نقل کرتا ہوں.جس سے آپ کو اس عالمگیر شریعت کی عظمت اور شان نظر آ جاوے گی.اول.ان کو سزا دینا ضروری ہے جو مخلوق کو تکلیف دیں اور زمین میں فساد کریں.دوم.تم اپنا صدقہ پوشیدہ بھی دو، اور ظاہر بھی دو.سوم.جو کچھ خُدا نے تمہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرو.چہارم.کہہ دو کہ ایک ہی اللہ ہے.وہ بے احتیاج ہے.نہ اُس کو کسی نے جنا نہ وہ جنتا ہے اور کوئی اس کی مانند نہیں ہے.اِن دنوں میں بھی خُدائے قادر مطلق نے پہلے نبیوں کی مانند ایک نبی مبعوث کیا ہے جس کے ہاتھ پر سینکڑوں معجزات دُنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں.وہ ان سب کو رُوحانی زندگی عطاء کرتا ہے.جو حق جوئی کی نیت سے اس کے پاس آتے ہیں.میں آپ کو میگزین ریویو آف ریچز کے چند نمبر ایک علیحدہ پیکٹ میں ارسال کرتا ہوں.جن کا مطالعہ آپ کے اور امریکہ میں آپ کے دوستوں کے لئے موجب برکت ہوگا.میں ہوں آپ کا خیر خواہ.محمد صادق قادیان - ۲ جنوری ۱۹۰۳ء

Page 369

354 باب تیئیسواں بیعت کے بعد کی نصائح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عموماً بیعت لینے کے بعد بیعت کنندوں کو کچھ نصیحت کرتے تھے.وہ چند بعض اوقات کی نصائح بطور نمونہ درج کی جاتی ہیں : اس جماعت میں داخل ہو کر اول زندگی میں تغیر کرنا چاہئیے کہ خُدا پر ایمان سچا ہو اور وہ ہر مصیبت میں کام آئے.پھر اس کے احکام کو نظر خفت سے نہ دیکھا جائے.بلکہ ایک ایک حکم کی تعظیم کی جائے اور عملاً اس تعظیم کا ثبوت دیا جائے.“ ہمہ وجوہ اسباب پر سرنگوں ہونا اور اسی پر بھروسہ کرنا اور خُدا پر تو کل چھوڑ دینا.یہ شرک ہے.اور گویا خدا کی ہستی سے انکار.رعایت اس حد تک کرنی چاہیے کہ شرک لازم نہ آئے.ہمارا مذہب یہ ہے کہ ہم رعایت اسباب سے منع نہیں کرتے مگر اس پر بھروسہ کرنے سے منع کرتے ہیں.دست در کار دل بایار والی بات ہونی چاہئیے.(البدر ۸/ دسمبر ۱۹۰۳ء) اگر کوئی شخص بیعت کر کے یہ خیال کرتا ہے کہ وہ ہم پر احسان کرتا ہے تو یا در ہے کہ ہم پر کوئی احسان نہیں.بلکہ یہ خُدا کا اس پر احسان ہے کہ اس نے یہ موقعہ اُسے نصیب کیا.سب لوگ ایک ہلاکت کے کنارہ پر پہنچے ہوئے تھے.دین کا نام ونشان نہ تھا اور تباہ ہو رہے تھے.خُدا نے ان کی دستگیری کی کہ یہ سلسلہ قائم کیا.اب جو اس فائدہ سے محروم رہتا ہے وہ بے نصیب ہے لیکن جو اس کی طرف آوے اسے چاہیے کہ اپنی پوری کوشش کے بعد دُعا سے کام لیوے.جو شخص اس خیال سے آتا ہے کہ آزمائش کرے.کہ فلاں سچا ہے یا جھوٹا.وہ ہمیشہ محروم رہتا ہے.آدم سے لے کر اس وقت تک کوئی ایسی نظیر نہ پیش کر سکو گے کہ فلاں شخص فلاں نبی کے پاس آزمائش کے لئے آیا.اور پھر اُسے ایمان نصیب ہوا ہو.پس چاہیے کہ انسان خُدا کے آگے روئے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر گریہ وزاری کرے کہ خُدا اسے حق دکھاوے.وقت خود ایک نشان ہے اور وہ بتلا رہا ہے کہ اس وقت ایک مصلح کی ضرورت ہے.نرا بیعت کا اقرار کوئی شے نہیں.دُعا کرو اور ستی ہرگز نہ کرو.جو تعلیم تم کو دی جاتی ہے.(البدر )

Page 370

355 اس کے موافق اپنے آپ کو بناؤ.پھر یہ چند روزہ زندگی ہے ایک دن آتا ہے کہ نہ ہم ہوں گے اور نہ تم ؟ فرمایا اللہ تعالیٰ تزکیۂ نفس چاہتا ہے.جو شخص رعونت ، تکبر ، ریا کاری ، سریع العضمی کی عادت رکھتا ہے اور بیعت کرتا ہے.مگر ان عادات کو نہیں چھوڑتا اور اپنی حالت میں تبدیلی نہیں کرتا.اُسے بیعت سے کیا حاصل چاہئیے.کہ اپنے نفسوں میں تبدیلی کرو اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ حاصل کرو.بُردباری اختیار کرو.بیویوں سے عمدہ معاشرت کرو.ہمسائیوں سے نیک سلوک کرو.ان باتوں سے خُدا راضی ہوتا ہے.“ فرمایا’ دیکھو تم لوگوں نے جو بیعت کی ہے اور اس وقت اقرار کیا ہے.اس کا زبان سے کہہ دینا تو آسان ہے.لیکن نبھانا مشکل ہے.کیونکہ شیطان اسی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ انسان کو دین سے لاپر واہ کر دے.دُنیا اور اس کے فوائد کو تو وہ آسان دکھاتا ہے اور دین کو بہت دُور.اس طرح سے دل سخت ہو جاتا ہے اور پچھلا حال پہلے سے بدتر ہو جاتا ہے.اگر خُدا کو راضی کرنا ہے تو اس گناہ سے بچنے کے اقرار کو نبھانے کے لئے ہمت اور کوشش سے تیار رہو.“ فرمایا ” فتنہ کی کوئی بات نہ کرو.شر نہ پھیلاؤ.گالی پر صبر کرو.کسی کا مقابلہ نہ کرو.جو مقابلہ کرے اس سے بھی سلوک اور نیکی کے ساتھ پیش آؤ.شیریں بیانی کا عمدہ نمونہ دکھلاؤ.نیچے دل سے ہر ایک حکم کی اطاعت کرو کہ خُدا راضی ہو جائے اور دشمن بھی جان لے کہ اب بیعت کر کے یہ شخص وہ نہیں رہا.جو پہلے تھا.مقدمات میں کچی گواہی دو.اس سلسلہ میں داخل ہونے والے کو چاہئیے کہ پورے دل ، پوری ہمت اور ساری جان سے راستی کا پابند ہو جائے.“ ۲۹ مارچ ۱۹۰۷ ء فرمایا : ” استقامت کے یہ معنے ہیں کہ جو عہد انسان نے کیا ہے اُسے پورے طور پر نبھائے.یا درکھو کہ عہد کرنا آسان ہے مگر اس کا نبھانا مشکل ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ باغ میں تخم ڈالنا آسان ہے مگر اس کی نشو ونما کے لئے ہر ایک ضروری بات کو ملحوظ رکھنا اور آبپاشی کے اوقات پر اس کی خبر گیری کرنی مشکل ہے.ایمان بھی ایک پودا ہے جسے اخلاص کی زمین میں بویا جاتا ہے.اور نیک اعمال سے اس کی آبپاشی کی جاتی ہے.اگر اس کی ہر وقت اور موسم کے لحاظ سے پوری خبر گیری نہ کی جائے تو آخر کا ر تباہ اور برباد ہو جاتا ہے.دیکھو باغ میں کیسے ہی عمدہ پودے تم لگاؤ.اگر لگا کر بھول جاؤ اور اسے وقت پر پانی نہ دو.یا اس کے گر د باڑ نہ لگاؤ تو آخر کار نتیجہ یہی ہوگا کہ یا تو وہ خشک ہو جائیں گے یا ان کو چور لے جائیں گے.ایمان کا پودا اپنے نشو ونما کے لئے اعمال صالحہ کو چاہتا ہے.اور قرآن شریف نے جہاں ایمان کا ذکر کیا ہے، وہاں اعمال صالح کی

Page 371

356 شرط لگا دی ہے کیونکہ جب ایمان میں فساد ہوتا ہے تو وہ ہرگز عند اللہ قبولیت کے قابل نہیں ہوتا.جیسے غذا جب باسی ہو یا سر جائے.تو اسے کوئی پسند نہیں کرتا.اسی طرح ریاء ، عجب ، تکبر ایسی باتیں ہیں کہ اعمال کو قبولیت کے قابل نہیں رہنے دیتیں.بیعت تو بہ اور بیعت تسلیم جو تم نے آج کی ہے.اور اس میں جو اقرار کیا ہے اسے نیچے دل سے بہت مضبوط پکڑو اور پختہ عہد کرو کہ مرتے دم تک تم اس پر قائم رہو گے سمجھ لو کہ آج ہم نفس کی خود رویوں سے باہر آ گئے ہیں اور جو جو ہدایت ہوگی.اس پر عمل کرتے رہیں گے.“ فرمایا : ” خدا تعالیٰ یا اس کے رسول پر صرف زبانی ایمان لے آنا یا ایک ظاہری رسم کے طور پر بیعت کر لینا بالکل بے سود ہے.جب تک کہ انسان پوری طاقت سے خدا تعالیٰ کی راہ میں نہ لگ جائے.میں نصیحت کرتا ہوں کہ آپ نے جو تعلق مجھ سے پیدا کیا ہے اس کو بڑھانے اور مضبوط کرنے کی فکر میں ہر وقت لگے رہیں جس شاخ کا تعلق درخت سے قائم نہیں رہتا.وہ گر کر خشک اور بیکار ہو جاتی ہے اور یادر ہے کہ صرف اقرار ہی کافی نہیں.جب تک کہ عملی رنگ سے اپنے آپ کو نکمین نہ کیا جائے.بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے کہ آج ہم نے اپنی جان خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی.یہ بالکل غلط ہے کہ خُدا تعالیٰ کی راہ میں چل کر انجام کار کو ئی شخص نقصان اُٹھائے.جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدق سے قدم اُٹھاتا ہے، اس کو عظیم الشان طاقت اور خارق عادت قوت دی جاتی ہے.مومن کے دل میں جذب ہوتا ہے.اس جذب کے ذریعہ سے وہ دوسروں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.“ اس جگہ ذکرِ حبیب کی جلد اوّل کا اختتام ہوتا ہے.

Page 372

آخرين منهم (1) (1) احسب الناس ان يتركوا ان يقولوا ۲۱۴ اشاریہ کتاب مرتبہ.عبدالممالک آیات قرآنیہ تلك الايام نداولها ثُمَّ أَنشَانَهُ خَلْقًا (ث) ،، ۳۳۸ في السماء رزقكم وماتو عدُونَ قورب السماء والأرض انه لحق ۲۲۹ فادخلی فی عبادی فاذكرو الله لذكر كم آباء كم او IAI (ج) امنا وهم لا يفتنون 120 جاعل الذين اتبعوك فَوْقَ الَّذِينَ ۱۹٤ اشد ذكرا اذا الشمس كورت (c) (ق) الى وقت معلوم ۲۲۵ ربنا افتح بيننا وبين قومنا بِالْحَقِّ وَ قد افلح من زكها IAL الحمد لله رب العالمين ۲۵۰،۲۲۶ انتَ خَيْرَ الْفَالِحِينَ IA قل ان كنتم تحبون الله ۲۲۵ الرحمن على العرش استوى (طه: 1) رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِن أَزْوَاجِنَا IA قل هو الله أحد ۳۴۹ اني جاعل في الأرض خليفه ۳۳۷ رزقكم في السماء ۱۹۴ (ک) ان الله مع الذين اتقوا 120 ربنا اغفر لنا ذنوبنا و كفر عنا ان الشرك لظلم عظيم +9 ميناتنا وتوفنا مع الابرار (س) ۲۵۰ كان ابوهما صالحاً TAM كبرت كلمة تخرج من الفواههم ۸۴ اناناتي الارض تنقضها سمكم المسلمين ان بيوتنا عورة ۲۶۳ سيقول السفهاء من الناس ស ان يريدون الاقرارا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوفِ عَلِيْهِم ولاهم يخزنون (ع) عطاء غیر مجذوز ۱۴۱ ११ علمها عند ربي ۲۳۵ ان اولياؤه الا المتقون إِلَّا مَنِ ارتضى مِنْ رسول تبت يدا أبي لهب وتب ۲۱۱ (ف) ۱۴۶ (ت) فَامَّا الَّذِينَ كفروا فاعذبهم.۱۵۰ من ناصرين AM كذبوا باياتنا م كل يوم هو في شان (ل) لا يظهر على غيبه احدا لا يمسه إلا المطهرون لا تلقوا بايديكم الى التهلكة لو تقول لو انزلنا هذا القرآن على جبل ۲۴۹ 101 M ۲۳۳ ۲۱۳

Page 373

لو شيئنا لرفعناه 199 وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وهو يتولى الصالحين ۲۲۹ لَو كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهُ لَوَجَدُوا فِيهِ وَجْهُهُ مَسْوَدًا وَهُوَ كَظِيمٌ اختلافا كثيرا لا اكراه في الدين (م) ما ينطق عن الهوى ان هو إلا وحي يوحى من كان في هذه اعمى فهو في الاخرة اعمى (الاسراء: (۸۳) من يتق الله يجعل له مخرجا من يجيب المضطر إذا دعاة متصدعا من خشية الله متى هذا الفتح (ن) <+ ۳۴۲ ۲۰۲ ۹۳ وإن من امة الاخلافيها نذير والضحى واليل اذا اسجي.ماودعك ربك و ما قلی JAY ۳۲۹ ۱۶۳ ويرزقه من حيث لا يحسب ٢٢٩،١٦٣ ولن تجد لسنت الله تبديلا ۲۴۹ والذين أمنوا اشد حبا الله ۳۱۹ (₁) والمرسلت عرفاً.فالملقيت ذكرًا هو الذي ارسل رسوله.....ولو كره ۲۳۴ عذراً اوندرا والله يحب المتقين و في السماء رزقكم وما تُوعَدُون ۱۲۲ المشركون ( التوبة : ۳۴) هدى للمتقين (15) ۲۲۹ وقضى رَبُّكَ الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۱۷۵ يايها المُدَّثِرُ ثُم فَانذَر ۲۲۱ ۲۰۷ ۲۳۵ ولا تزر وازرةٌ وَ زَرَ أُخرى ۳۳۱ يجعل له مخرجا وَمَا يَنْطِقُ عَنَ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يعْضُوا مِن أَبْصَارِهِمْ يُوحى (النجم : ۴-۵) ۶۰ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ مَيْتَ وَلَكِنَ اللَّهَ رَمَى ١٨ نحن اقرب اليه من حبل الوريد ١٧٦ ومن يتوكل على الله ۱۴۴ AM ۲۲۱ ۲۲۹ PIA () والذين امنوا اشد حبا لله TIA ومَنْ يَتَّقِ الله يجعل له مخرجاً وما خلقت الجن و الانس الاليعيدون ٢٤٨

Page 374

()) احادیث (ث) ارحنا يا عائشة ۲۲۲ اذا ملک کسری فلاكسرى بعده ۲۳۱ اللهُمَّ اجْعَلْنَا مِنْهُم اللهم انصر من نصر دين محمد اللهم ايد الاسلام الصلوة مع الدعاء < IA IA ثُم استيقظ ٢١٦ (س) مان الله و بحمده وسبحان الله العظيم ۵۳۰۵۲ (b) طلب العلم فريضه على الصلواة هي الدعاء ١٠٣ كل مسلمة ۱۲۲ الدنيا مزرعة الآخرة ۳۴۰ (ع) انما الاعمال بالنيات عن ابي ابن الكعب قال كان (ت) رسول الله اذا ذهب ثلثا الليل قام تجمع له الصلوة فقال يا ايها الناس اذكروا الله جاءَت الراجفة تَبْبَعُهَا الرَّارِقَةُ جاء الموت بِمَا فِيهِ.جاء الموت بما فيه IAT علماء امتى كانبیاء بنی اسرائیل ۱۴۲ (ل) لاصلوة إلا بفاتحة الكتاب ٣١٦،٣١٧ لولاک لما خلقت الافلاک ١٣ يقتل الخنزير (15) ۱۲۷

Page 375

يَاتِهُكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی الہامات بَانِيْكَ نُصْرَتِي يُسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي ابراء الْأَرْضِ مَنْ ذَالَّذِي يَشْفَعُ عِندَهُ مَا هَذَا إِلَّا تَهْدِيدُ الْحَكَّامِ Iz إِلَّا بِإِذْلِهِ إِنَّكَ أَنْتَ الْمَجَاز قَرُبَ أَجُلُكَ الْمُقَدَّرُ.وَلَا تُبْقِى ^^ MA لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا مَحَوْنَا نَارَ جَهَنَّمَ جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ (تذکره صفحه ۶۳) ^^ ۱۴۲ يضع الحرب ويصالح الناس ۱۳۸ عَفَتِ الذِيَارُ إِنِّي مُهِينٌ مِّنْ أَرَادَ إِهَانَتَكَ إِنِّي مَعَ الْأَفْوَاجِ الْيْكَ بَغْتَةً هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ مُرْغِمِيْكَ فَخَضْرَ دَعُوكَ تُخْرِجُ الصَّدُورُ إِلَى الْقَبُورِ 101 101 12+ 12+ ان الذین یبایعونک انما يبايعون الله ۳۰۲۲۰۳ إِنَّا أَنزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِّنَ الْقَادِيَانِ ۲۰۷ وَإِنِّي أَرَى بَعْضَ الْمَصَالِبِ تَنزِلْ ۲۱۹ إِنِّي مَعَ اللَّهِ عَزِيزِ الْأَكْبَرِ أَنتَ مِنِّي وَأَنَا مِنكَ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللهُ الَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ الْفِيلِ وَفِيْهِ شَيْءٌ أَنتَ مَنِّي بِمَنزِلَةِ تَوْحِيدِى وَتَفْرِيدِي وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ غَلَمَ غَلَمَ لَهُ دَفَعَ إِلَيْهِ مِنْ مَالِهِ دَفْعَةٌ ۱۷۴ 141 122 يَابَحُيِي خدا الْكِتَبَ بِقُوَّةٍ وَ الْخَيْرُ كُلَّهُ فِي الْقُرْآنِ أَنْتَ مَعِي وَ أَنَا مَعَكَ إِنِّي بَايَعْتُكَ بَايَعْنِي رَبِّي {A+ اني مَعَ الرَّسُولِ القَوْمِ وَمَنْ يَلُوْمُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغْيِّرُوا مَا الْوْمُ افْطِرُ وَاصُومُ بِأَنفُسِهِمْ إِنَّهُ اوَى الْقَرْيَةَ إلَى مَعَ الرَّحْمَنِ اتِيْكَ بَغْتَةً ۱۸۰ إِنَّ اللَّهَ مُؤْمِنٌ كَيْدِ الْكَافِرِينَ [A+ IA- (A.إِنِّي أَحَافِظُ كُلِّ مَنْ فِي الدَّارِ لولَا الْأَمْرُ لَهَلَكَ النَّمْرُ ۲۲۵ ۲۲۵ ۲۳۳ ۲۳۳ ۲۳۴ ۲۳۶ PFY تقدیر مبرم ہے اور ہلاکت مقدر AZ اردو، فارسی الہامات آفاق میں تیرے نام کی خوب چمک دکھا دے.اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ایک مشرقی طاقت اور کوریا کی حالت نازک ۹۶ آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب سے اونچا ایک شخص نے کئے کی ہے اور اس پر کپڑا اے اہلِ بیت ہے تو بھاری مگر خدا کے امتحان کو قبول کر خواب میں دکھائے گئے (۱) تین استرے (۲) عطر کی شیشی 11! تیرا تخت بچھایا گیا.دشمنوں سے ملاقات کرتے دے کر اسے چھپاتا ہے ملائکہ نے تیری مدد کی Ar آج ہم نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالی کا rrr ۲۳۴ انا لله - ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا ۱۸۹ در ہار ہے سنتالیس سال کی عمر.انا للہ وانا الیہ راجعون ۱۸۹ ہے کرشن روڈر گوپال تیری مہماہو.تیری گیتا میں تین میں سے ایک پر عذاب نازل ہوگا.۱۷۴ آج سے یہ شرف دکھا ئیں گے ہم تو په یاهو په ما سالی دگر مرا که می داند حساب خدا نے ارادہ کیا ہے کہ تیرا نام بڑھاوے اور تا کجا رفت آنکه با ما بود یار ۲۰۰ موجود ہے ۲۳۲ دشمن کا بھی خوب دار نکلا سپر بھی وہ وار پار نکال ۲۳۵ ایک عزت کا خطاب ۲۳۵

Page 376

۳۲۷ PAY IAA لا MAON ۳۲۴ Ppp ۲۹ پر اونون بنت سنگھ بشیر محمود بشیر احمد مولوی فاضل بشیر احمد: صاحبزادہ مرزا منگن بهاء الله ( بانی مذہب) بهیم مین بلاله پیکر ، ڈاکٹر چارلس (پ) پطرس یک پادری (مسیح ہونے کا ترقی کرنا) ۳۲۷۰۸۵۰۸۳ ۲۳۸،۲۳۶ PIGEIGEN ۲۶۸۰۳۵ ۱۳۰۰ ۱۱۵ ۳۲۳,۳۲۲ M ۳۳۷ ANGIENIA ۲۲۲۲۰۳ EE ۳۴ ٣١٣ ۶۰ ۳۵۱ HY: P PPA 1+ E 11 پولوس ایرانی وند چینل پادری ڈاکٹر (ت) تاج الدین بخشی تیمور ا شیخ (ث) ٹالسٹائی ، گوشت پاس باول (ش) شاء اللہ امرتسری مولوی (ج) چانزون چانتون ΠΟ ۲۵۷ 19 اکبر شاہ خان اسماء ۳۲۷،۳۲۶ ۱۵۸ جان محمد کشمیری جبرائیل جمال الدین خواجه جماعت علی شاه پیر جوتی پر شاد لالہ جوزف آرمیته چارلس کہتر ہال : ڈاکٹر (چ) ۱۳۵ INTZA 得 ۱۳۹۴ YI اگل جو اکسل ( قاضی محمد ظہور الدین اکمل ) الف خان سیاسی والے الکو دھاری الله وته (نان پز ) اللہ دیا شیخ الله و یا میاں اللہ دین افلا سفر الله دین الله و یا صاحب لدھیانوی الہی بخش بنشی الیاس علیہ السلام الیاس ثانی امام بی بی امام دین صرفها اموری؛ پروفیسر امیر حسین سید قاضی ۱۳۲ ก TAY ۳۰۵،۳۰۳,۳۰٣٣٠٢ PIGPIKPA¿P+L ۳۱۴۳۱۲ ۱۸۵،۱۳۳۴۴۰۳۴,۵ ۳۱۸۰۳۱۷ mrr.c.m.امیر علی شاہ سید + اا prerr..10.20 ٣٣٩٠٣٣٨:٣٣٧ ۲۱۳ 3 PIGEPLAN EE ۲۴۱ اندرمن ایڈورڈ ہشتم پادشاه المياوني الیگزنڈر الیگزیڈ رسل ویب (ب) اینڈ رکنا ایوب بیگ مرزا MA.MIZ.M9.1+A ۲۴۲ بخاری (امام) باوانا تک براؤن (انگریز وکیل ) برهان الدین تمامی 10+ ۱۸۷ Mr ۱۳ MF 1 ۱۳۷ ۲۷۱,۳۰ ۹۸،۹۷ 191 ۳۰۶۳۰۴ = |+ ۲۱۳ 11+ آنتیم به عید الله آدم آل حسن مولوی آل محمد قاضی ابراہیم ابو الفضل ابوبكر ابو جهل ابو حنيفة ابورافع ابو سعید گر ہوا الواهب ابی ابن کعب احمد الله احمد اللہ ، مولوی احمد دین حکیم احمد دین بصوفی احمد سید بریلوی احمد شاہ میراں احمد نور افغان اسکاٹ؛ پاورکی اتهمون اسماعیل شہید اشہد اللرین ؛ جھنڈے والے ہیں اصغر حسین اصغر علی مولوی انوار احمد اور اکبر بادشاہ افضل بیگ مرزا

Page 377

۲۲۵۰۲۱۴۱۲۱۸۸۱۸۰۱۷۹٠١٣٣١٢٦ ۰۲۶۳۲۶۰۲۵۶۰۲۵۵۰۲۵۳٬۲۴۵ PIMPALPA.PAMPERTY عبد اللطیف خلیفہ عبداللطیف شهید بصاجزادہ عبداللہ خان چوہدری عبد الله شیخ عبداللہ کمپوٹو ر ا شیخ عبد الله عرب عبد اللہ غزنوی عبد الله مسیر عبد اللہ مولوی سنوری عبدالمجيد عبدالمجيد ؛ دیوان عظیم اللہ ، مولوی على (امیر المومنین) علی بادولنا عمر ( امیر المومنین) عنایت اللہ قریشی مفتی منیانی ۳۰۶ ۳۰۵۰۱۵۳ ۴۹ TAMERY IAI ۳۰۷۱۳۰۶۰۳۰۵:۳۰۴ JABATA PPA ۲۸۵ ۱۲۰۱۶ ۲۶۶ ۳۲۷ 777.7.19+ r «AKA16+MKMEN آپ کا تھیٹر دیکھنا آپ کو درد گردہ ہوتا آپ کا حلیہ مبارک و عادات واطوار آپ کا انگریزی سیکھنا کھسرا ٹالوں ہسٹر پینگا جماعت لاہور کو آپ کی نصیحت نمازیں جمع ہونے کی صورت میں سنتوں کی ضرورت نہیں آپ سفر میں ہمیشہ نماز جمع کرتے تھے والدین کی فرمانبرداری غیر متقی کی خواب قابل اعتبار نہیں آپ کی مہمان نوازی ۱۴ ۲۳ ro ۳۴ ۳۵ R غیر از جماعت کے پیچھے نماز نہ پڑھو.MY دعا کے لئے رقت آمیز الفاظ تلاش کرنے چاہئیں ۲۲۲ بطور ایڈیٹر مفتی محمد صادق صاحب کی تعریف ۲۶۲ مفتی صاحب کے نام مخطوط مغربی اقوام آپ کی مددگار ہوں گی ۲۶۹ ۳۰۷ استعمال میں آنے والا زیورزکوۃ سے مستقلی ہے ۲۳۶ ٥٠ مفتی صاحب کے متعلق خواب rya ۵۰ عربی کا سیکھنا ایک مسلمان کیلئے لاہئے ہے ۳۰۸ ان رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ۶۳ غلام جیلانی FALIA - ม 16 Ar Aч ۹۰ غلام حسین ( نان پز ) ۶۶ غلام حسین ڈنگری ۴۵ غلام حسین ؛ سید غلام حسین قاضی غلام محمد بی.اے ۱۵ غلام محمد : حافظ ۲۵۷ طاغوتی جرموں کا ہلاک کرنا کھانسی کا گنے سے علاج کرنا ڈاکٹر عبد الحکیم ( مرد ) کو دنیا وار کہتا پہلی بیوی کے ساتھ اچھے سلوک اور کثرت ازدواج دین کی خدمت دراز کی عمر کا نسخہ 41 نماز خدا کا حق دعا کی اہمیت ۱۴۰,۹۵۰۹۴۹۳۹۲ اپنی صداقت کا علفی اقرار 14 فاطمیه خدا اس جماعت کو قیامت تک غلبہ دے گا 11 H غلام محمد خان بهادر غلام محمد صوفی (ف) + ٣٣٩٠٣٢٣٣٢٢٢٣٢ (غ) غلام احمد مرزا ( حضرت اقدس مسیح موجود علیه السلام) ۱۰۱ آپ کی صحبت کی برکت +49171+2:46/AMLMT+0 ALFAGIAN PARHARTZA 24 ¿ramramrakFULTI-FALAL ،۳۰۶۰۳۰۵،۳۰۴،۳۰۳۲۹۶۲۹۵ ۳۲۷٠٣٢٦،٣٢٣٣١٠،٣٠۹۳٠ ۳۴۵۰۳۳۱ فاطمہ بیگم ( زوجه اول حضرت خلیفہ اول) فتح محمد سال عورت پر اپنے خاوند کی فرمانبرداری فرض ہے ۱۱۳ فرید الدین کلام پڑھ کر پھونکنے میں لوگوں کو ابتلا ء ہے ۱۱۴ فرید الدین (کتب فروش) جس چیز میں دسواں حصہ بھی شبہ کا ہو اسکو چھوڑ دو ۱۲۹ سفید گھوڑے میں ضد کا مادہ ہوتا ہے در دو کمر خرابی معدہ سے ہوتا ہے مومنوں کا سب سے بڑا نام عبد اللہ ہے ۱۳۷ فرعون فضل احمد ، مرزا فضل الهی ، مولوی فضل الہی احمد آبادی ، مولوی ۳۵ 11110 ۲۰۱ 14 ۳۳۲۳۲۲۳۳ ۴۴:۴۲ rar آپ کا کھانا کھانے کا طریق آپ کا قیام الدھیانہ آپ کے قتل کو آنے والے کا آپ کی بیعت کرنا ریل گاڑی میں آپ کو الہام ہونا امرتسر سے آپ کی لعہ میانہ روانگی کے استخارہ کا طریق حاکم کو برا نہ کہو ۱۷۹ lAr ۲۰۵ فضل الدین حکیم ۲۸۰،۲۷۳،۱۲۰،۹۳،۲۰۱۸ IF نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے فضل الرحمن ، مفتی فضل حق ۱۳ صحیح موجود کو آنحضرت کے سلام کہنے میں پیشگوئی ۲۰۷ فضل شاه سید IM ۳۳ ۱۵ حاکم کو چاہیے کہ مقدمات میں غور کرے ۲۰۸ مغربی گورے رنگ والی قوم مہدی کی مددگار جوگی ۳۰۷

Page 378

محمد صادق : ڈاکٹر مفتی ۱۸۴۱۳۱۱۲۱۱۲۰۱۷۱۰۶۸۵ء A +F+4+P+GF+NI+R{{$A+1¢¥\ ۲۲۲۱۲۲۰۲۱۹۰۲١٦٠٢٦٣٠٢١٢٢١١ دگی کا بند ہوتا جنگ حنین میں آپ کی شجاعت ۲۱۰ رکوع میں ملنے والے کی رکعت ہو گئی ۰۲۵۵۰۲۵۳ ۲۵۳ ۲۵۱۰۲۳۸۰۱۹۴۱۹۱ ۱۲۷۸۰۲۶۷۰۲۶۳۲۵۰،۲۳۵۰۲۴۳ ۴۶۲۳۶۱,۳۶۰۰۲۵۹۰۲۵۸ ،۲۵۷ ۲۵۶ <1%1%21=12+¥¥4.79%«P\\ JANTAN TARTANZA.ZO.12 ۲۹۵۰۲۹۳۲۹۳۳۹۱۰۲۹۰۳۸۹-۲۸۵ ۳۲۷ ،۳۳۳۳۳۳۳۱۰۲۹۹،۲۹۶ ۳۴۵۳۳۳۳۴۰۳۳۹,۳۲۹,۳۳۸ ۳۱۷ ،۳۱۵۰۳۱۴۰۳۰۷۰۳۰۵۰۲۷۹ ۳۵۲۳۳۹ ۱۶۳ محمد احسن مولوی ام ۲۵۵:۲۳۵۰۱۲۳۰ محمد اسحاق انجینئر مجھے اسلام محمد اسماعیل ؛ ڈاکٹر ۳۳ ITA ۱۳۰۲۱ کے ۳۵۱۰۳۴۹۰۳۴ آپ کے رویا والہام ART ۲۹۴۲۸۶۰۲۸۵ حضرت اقدم کی خدمت میں مکتوب محمد اسماعیل گوڑگانوی، ڈاکٹر دم حضرت اقدس کے ساتھ لند میانہ سے امرتسر کو روانگی IF محمد حسین بٹالوی کے خلاف فتوی کفر ۴۱ آپ کی بیعت ۳۰ = ΜΑ ۵۰ YA lot ۱۲۹ 14A ۲۵۳ تعلیم الاسلام سکول میں مدرسی محمد اسماعیل ؛ موادی (چشمی بسیج دال) ۶۲ ۶۳ ۶۴ آپ کی والدہ کی بیعت آپ پر حضور کی شفقت قادیان پارت حضرت مسیح موعود کو اخبار سنانا بسم اللہ کے معنے البدر کی ایڈیٹری حضرت اقدس کا آپ کو لاہور بلوانا آپ کی قادیان ہجرت ملکہ کا راج آپ کے متعلق حضرت اقدس کا خواب آپ کے نام حضرت اقدس کے مخطوط ۲۶۹ ۲۳۱۵۰۸۰۵۰ ΓΡΑ ١٠٣ ۱۲۰ Agerrer 4.0 محمد صادق: مولوی فاضل محمد ظہور الدین اکمل محمد عبد الله ستوری محمد عبد الله ؛ قاضی محمد علی خان نواب محمد علی مولوی ۱۲۹۰۱۳۹،۱۳۵،۱۲۳۱۲۰۰ ۹۷-۹۶ ٢٩٩٠٢٨٩،٢٦٠ ۲۳۵ ،۲۴۴ ۲۴۰ ۳۳۲ ۲۶۸ مریم علیہ السلام منظفر الدین شیخ ٢٦٢١٠٢٩٩ ۲۱۴۴ ۳۴۷ ،۳۴۶ +109/A4 Irla ۱۳۱ - 166 11 ۶۵ ۳۲۶ فرامر جونسن فضل دین مولوی حکیم ۱۱،۴۵،۱۸ ۲۶۴۹۴۰ PAI ۳۵۶ ۲۰۱۱۰۷ JALIA+ ٣١٣ YA فضل دین بھیروی) فضل حسین ملک (ق) قطب الدین اولیام قطب الدین مولوی (ک) کالو PAA A محمد افضل خان ( ایڈیٹر البدر ) ۲۲۴ ۱۳۳ PIA محمد یا بو محمد الہی ، بابو محمد چٹو ، بابا محمد حسن ؛ میاں ۱۳ محمد حسین حکیم نے سے محمد حسین، ڈاکٹر (پنشنر ) محمد حسین شاہ ! ڈاکٹر کرشن کرم الهی (بزاز) کرم الہی، ڈاکٹر قاضی گرم داد کرم دین گرشن علیه السلام کریم بخش کلارک : ڈاکٹر کلیمنٹ پروفیسر کمال الدین خواجه ۱۸۰،۱۳۰،۱۳۲۱۱۴/۸۶/۲۱، کیا لال کور ( راہب) گلابوه امس (گ) گل محمد (اسلام قبول کرنا ) ง ۳۱۳۳۱۳۸۷ کے کے محمد حسین قریشی ، حکیم محمد حسین مرزا محمد حسین، میاں محمد حسین بٹالوی مولوی ۳۴۳۳۱۵،۱۱۰۱۰۰۸ ۱۳۸۰۲۳۳۳۰ محمد خان بنشی محمد دین مولوی محمد رشادیب محمد سر در شاه اسید محمد سلطان: میانی محمد سعید باطر السی ٠٣٠٣٠٣٠٢٠٣٠١٠٣۶۱۰۷۳ ۳۱۳۰۳۱۱۰۳۰۸۰۳۰۷:۳۰۶۰۳۰۴ ۱۲۰ ۱۱۵۰۲۹ ۶۵ ۳۳ ۲۴۹۰۲۴۵۰۲۴۴ ۲۴۲۲۴۱۰۴۹۰۴۸ گوبند سنگھ گورو (ل) لوی، ڈاکٹر لیکھرام پنڈت (م).مبارک احمد صاحبزاده ۱۳۴۱۱۵۱۰۳۱ ۱۳۵ مبارک علی سیالکوٹی : مولوی MALIAA محمد ( آنحضرت صلی الله علیه وسلم) ۶۴۶۱,۵۹۰۵۵۰۵۱ <lll«}+QAY«ADILO.LMEREr ۱۲۶۱۵۵،۱۵۳,۱۵۰ ۱۱۹۰۱۸:۱۱۴۱۲ ۱۹۲۱۹۱ ۱۸۸۰۱۸۷ ۱۸۴۱۸۳۱۷۴

Page 379

نورالدین جمونی؛ خلیفہ ۱۳۴ نورالدین حکیم ( حضرت خلیفہ امسیح الاول ) ۳۲ ، ۴۹۰۴۵،۳۶۰۲۳۰۱۸،۱۹،۱۳۹۸۷ ،۱۳۲۱۳۱۱۲۵،۱۲۳۰۸۹۰۸۱،۷۹۰۶۷۶۲ ۳۱۲۲۸۵،۲۸۰۰۲۶۷۰۲۹۵،۱۸A 12 آپ کی قادیان ہجرت حضرت اقدس کا آپ کولاہور بلوانا ۲۵۳ LAT.() (0) (15) ۲۹۶ ٢٣٣٢٣٢:٢٣١۰۱۵۷ ۳۵۱۰۳۵۰ ۱۸۵۷۱۳۶۴۹،۴۲,۵ 1912 19 HA Pri.ra و کشورید ملکه ہارون الرشید ہلسن ہند پادوان یار محمد مولوی یحیی علیه السلام يوع یعقوب بیگ مرزا یعقوب علی عرفانی ۱۵ 1-2 ۲۲۲ ۱۷۰۰۱۳۱۰۱۳۰۰۵۱۰۲۹ rry ۲۳۹ ۲۲۵ ۲۲۳ Ml.12.or FIF AN Al FINA 1+1+1 ۱۳۳ مہر علی شاہ گولڑوی؛ پیر میران بخش میر درد خواجه میکائیل (ن) ناصر شاه ناصر نواب میر ناستیک بادا ني بخش نبی بخش بٹالوی نی بخش بنشی حجم الدین ، میاں نذیر حسین مولوی بریلوی نصرت جہاں (حضرت ام المومنین) آپ کی رؤیا نظام الدین مرزا نظام الدین اولیاء نظام الدین بخشی TAMILN 521 112 TIMMP محمد منظور ( ملتی صاحب کے بیٹے ) محمد نصیب محمد یسین قاری محمد یا مدن تا بر کتب محمد یوسف؛ حافظ محمود احمد ، حضرت مرزا ( حضرت خلیقه ای الثانی) ۱۰۳ ۳۰۰۲۹۴۲۹۱۰۲۵۷۰۱۹۳۱۸۸ ۲۱۳۳۱۲ Frk ۴۵ Pr Fyr Alf 22+ T+1 19:16 ۱۲۵ محمد احسن، قاضی محمد امیکس ویب محمد حسین میاں محمد حیات میاں ڈنگوی محی الدین عربی مشروب مسیلمہ معراج الدین ، میاں معین الدین چشتی معین الدین حافظ منظور محمد : موسی ۱۸,۳ ۲۰۰۰ ۳۲۴۰۲۲۱۲۳۵،۲۳۲،۲۳۱ نواب صاحب رامپور نوح mo.rtl.rri.rpurlz.fly يوحا (ني) نور احمد شیخ (مالک مطبع ریاض هند ) ۱۸۸۰۱۳ یوسف علیہ السلام 12+119 ۱۳۶ ۲۹۶ مولا بخش شیخ مهدی حسین میر دا

Page 380

„IMANALA+01.59 ۱۵ ۱۳ ۳۳ ٢٦٤١٣٠ ۳۲۳ سیالکوٹ سیکھوائی سیلون سیفا کرز شمام (ش) (ص) ۳۳ (b) 0 ۳۴۹ ۳۲۷،۳۰۳ ۶۵ ۵ فکا کو شمله میمون طرابلس (ع) علی گڑھ فاضل کا (ن) فلاڈیلفیا فلپائن فلسطين فیروز پور (ق) قادیان ۳۲۲۹،۲۸،۲۳۲۲۰۲۱،۲۰۰۱۹۰۱۸،۱۷ MMM.PA....P ۶۶۰۶۱ ۶۰ ۵۲ ۵۱ ۵۰ ۴۹ ۴۸ ۴۷ <A¶¢AG<A¥‹ARAKA+£%££«A ۱۱۶ ۱۱۵ ۱۱۲۰۱۰٤٠١٠٣,٩٩,٩٨٠٩۷،۹۶ ،۱۳۴،۱۳۳۱۳۰۱۲۹۰۱۲۸ ،۱۳۷ ،۱۲۲۰۱۲۵ ،۱۳۰ ۱۸۱۸۰۱۷۹۰۱۷۰۰۱۵۵ ۱۳۳۱۳۳۷ ،۱۳۵ ۰۲۵۳ ۲۵۲۲۵۱۰۲۲۵ ۲۲۶۰۲۳۳۲۲۱ ،۲۶۶ ۲۶۵ ۲۶۲ ۲۶۱۰۲۵۸۰۲۵۶۰۲۵۵ ۲۲۸۰۰۲۷۸۰۲۷۵۰۲۷۲۲۷۱۰۲۹۹۰۲۶۸ ¡F+QP+KAPAG PAMPANGAL ۳۴۹۰۳۳۳۳۲۵۰۳۱۳۳۱۲۰۳۰۸۳۰۶ ٢٠ قاضیاں ۴۲ ۶۳ ١١٥ مقامات (ت) بہت ترکی ترگڑی (ج) +99.9% MYMO ۷۹،۲۳،۲۰۱۲۱۵،۱۰۰۸۰۵۰۳۲ ۳۲۷ ۲۷۵۰۲۵۴۰۳۱۰۱ ٣٢٨ الله MA ۳۹ جاپان چاوا جده جرمن قموں ۳۲۹:۳۲۴ ((( PAY or ۶۵ ٢٣٩,٢٣٨٨٠ 2 £ 2 z آسٹریلیا اٹلی اروله امٹر کیتا افغانستان افریقہ الاسكا الوين امرتسر ۱۳۹، ۱۳۸۰۹۸۰۳۱۰۳۸۰۳۵۱۵۱۴۱۳ ۲۸۸۲۰۸،۱۹۰۲۹ جزائر فلپائن امریکہ ۲۰۱۳۰۴ ۳۰۷ کے کے کے ۳۹۶۰۱۱۹۰۸۱۰ •P+GF+I«F¯***TA ¥¿TZA ۳۰۹،۳۰۸:۳۰۶۰۳۰۵,۳۰۴۰۳۰۳ جہلم چیخوں (چھ) چھینہ (ح) ۳۰۶۰۳۰۵،۳۰۴۰۳۰۳ () (}) ۲۵۰ () ۱۳۲ ZA 4.rar ۳۲۲۳۱۲۲۳۲۱۳۴ ٣٠٢٠٣٠٢ PPA (س) ۳۲۸۰۳۲۵،۳۳۳۲۲۱۴۳۲۱۰ ۳۵۳۳۵۱۰۳۴۷٠٣٣٦٣٣٩ Al انبالہ انگلستان (انگلینڈ - لندن - برطانیہ ) ۸۱۰۸۰، ۲۸۳۱۴۷، ۰۲۸۵ کے ۲۸ ۳۰۶۰۲۹ حاجی پوره حجاز حیدر آباد ولی ڈلہوزی ولقيا رامپور رور نورڈ روڑ کی روکی روم ریگون مشهد سجون murrrrq.fta.pr ۱۷۰ ۳۱۰ ۳۰۹ TAA TAYTIG.100.09.٢٥٣١٣٩ P+or+Kir FIRME ۲۶۵۰۲۶۴۲۶۳۴۵۰۳۵۰۹۰۲۱ الية MMP 2.4.A.1.7.او جله ایران ایشیاء پتال برطانیہ یمیشن بنوں بھیرہ قادیان سے نسبت ۳۳۳۳۱۳,۳۰۶۰۳۰۵۰۳۶۸ 4 ۳۰۵ شاور پنجاب پنڈ دادنخان

Page 381

MTA ۳۰۲ NE ۳۷ سیانی نا بھ نجف تمین نیوزی لینڈ نیویارک (ن) (1) 21 (i) ۳۰۲ ۲۹ وزیر آباد ہانگ کانگ ہالہ بدین ہریانہ ہندوستان (انڈیا) ۳۳۱۰۳۳۵،۳۱۲۳۱۱,۳۱۰,۳۰۹,۳۰۶ ۴۹ (15) ۲۵۲۳۳۲۳۲۸۰۳۲۵۰۳۲۱،۳۰۹ ہوشیار پور ید علم یورپ 1 4+ کھڑگانواں (ل) لالہ موسیٰ ۳۰۷:۵۶ ۱۵۱۹۸ ۳۰۱,۸۰۴۹,۱۳ لاہور ۳۶۰۳۵۰۳۳۲۲۰۲۱،۲۰۱۵۰۸۹۰۵، ۰۸۰۰ ۶۵،۵۸۰۵۴۰۵۰۰ ۴۹ ۴۸ ۴۷ ۳۸ [¥Z<IM ۲۵۷۰۲۵۴۰۲۵۳ ۲۵٠٠٣٤٠،١٩٠١٨٨ ITDA TARTA=FZQfZK1Z+¥9.MA.711 +0.44.59+TAA¿TAMIAT Pol:PMA.MP4.PTA ۲۲۲ M ۲۵۷ ،۱۱۵ ۳۳ PARITA JARPETI ۳۰۴۲۳۵،۱۲۸ $ TOA الداخ لدھیانه لندن (م) ماریشس مالیر کو علامہ عراس دينه مزنگ ا معظم لموال مان فیلا (ک) کانگڑہ کپورتھلہ کٹک کراچی وگیا کشمیر ۳۲۶۳۲۵،۳۲۲۱۶۳۱۲۳ FP+MAMIT 14 Pay ۳۲۷ T کوریا کو ہات کیلی فورنیا کینیڈا (گ) ت گوجرانوالہ گورداسپور ۰۳۵۸۰۳۱۳۰۱۸۰۸۶۴۹۰۲۷۰۱۷ ۳۲۵،۳۱۵۰۳۱۴۲۸۸۲۷۲۰۲۶۵ ۳۴۸۰۳۴۳ ۶۲ ۶۲ گوڑیان گوجرانوالہ سرویه

Page 381