Zauq-eIbadat

Zauq-eIbadat

ذوق عبادت اور آداب دُعا

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
عبادات

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمدی احباب میں عبادت الٰہی کا ذوق بڑھانے، ان کے عبادات کے معیار کو ترقی دینے اور دعا کے وسیع ترین مضامین کی تفصیلات سمجھانے کے لئے پر معارف  خطبات جمعہ کا ایک سلسلہ شروع فرمایا تھا۔ ان 24 خطبات جمعہ کو کتابی شکل میں پیش کیاگیا ہے جس میں متن میں سہولت پیدا کرنے کے لئے عناوین بھی شامل کئے گئے ہیں اور آخر پر انڈیکس بھی موجود ہے۔


Book Content

Page 1

دوق عبادت اور آداب دعا حضرت مرزا تيح الرابع ايه الله تعالى کے پر معارف خطبات العزيز

Page 2

لدا ۵۷ ง ۹۳ ۱۳۵ ۱۵۳ 77) ۲۰۵ ۲۳۱ ۲۵۷ ۲۸۱ ۳۰۷ ۳۲۹ فهرست خطبه جمعه فرموده ۱۳۰ نومبر ۱۹۹۰ء ۲.خطبه جمعه فرموده کار دسمبر 1990ء ٣.خطبہ جمعہ فرموده ۱۴۰۰ دسمبر ۱۹۹۰ء اندار و نمبر ۱۹۹۰ء ۲۸ دسمبر ۱۹۹۰ء دار مارچ ۱۹۹۱ء ۲۲ ۱ مارچ ۶۱۹۹۱ ۲۹ ر پارچ ۶۱۹۹۱ ۵ر اپریل ۱۹۹۱ء ۱۳ اپریل 1991ء ر............4 9 7- _ A.خطبه جمعه فرموده خطبہ جمعہ فرموده خطبه جمعه فرموده خطبه جمعه فرموده خطبہ جمعہ فرموده خطبہ جمعہ فرموده خطبہ جمعہ فرموده..خطبه جمعه فرموده ۹ از اپریل 1941ء خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ از اپریل ۱۹۹۱ء خطبه جمعه فرموده ر متی ١٩٩ء خطبہ جمعہ فرموده هار متی ۱۹۹۱ء...کابر متی EHAAI ۲۴ ر مبتنی ۱۹۹۱ء ۱۲۴ B...خطبہ جمعہ فرموده خطبه جمعه فرموده -" الله

Page 3

۱۷.خطبہ جمعہ فرموده →IA -19 خطبه جمعه فرموده الله -.....۳۱ار متنی ۱۹۹۱ء.....۱۴ جون 1941ء.....خطبه جمعه فرموده ۲۱ بر جون ۱۹۹۱ء خطبہ جمعہ فرموده ۲۸ جون ۶۱۹۹۱ خطبه جمعه فرموده ۵ر جولائی ۱۹۹۱ء خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۹۱ء خطبه جمعه فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء خطبه جمعه فرموده ۲۰ اگست ۱۹۹۱ء ۳۴۹ ٣٦٩ ۳۸۹ ۴۱۵.....لد لد7 ۴۶۹ ۴۸۹ ۵۰۵

Page 4

بیت الفضل - لندن ۳۰ ار تو مہر 1990 ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ عبادت میں مزا پیدا کرنے کا سوال تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : بہت سے دوست مختلف ممالک سے جو خطوط لکھتے ہیں ان میں بارہا اس سوال کا اعادہ کیا جاتا ہے یعنی تکرار سے بار بار مختلف دوستوں کی طرف سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ عبادت میں مزا پیدا کرنے کی کیا ترکیب ہے؟ بعض لوگ علمی پیاس بجھانے کی خاطر بغیر کسی بیجان کے لکھتے ہیں اور بعض معلوم ہوتا ہے شدید اعصابی دباؤ کا شکار ہیں ، بہت کوشش کرتے ہیں ، بہت زور مارتے ہیں لیکن عبادت میں مزا نہیں آتا.بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جو عبادت کے بیرونی دروازے تک پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور عبادت کو چھوڑ کر جانے کا قصد کر چکے ہوتے ہیں اور وہ گویا مجھے آخری تنبیہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ابھی بھی ہمیں سمجھا لو اور بچا لو ورنہ پھر اگر ہم نے عبادت سے منہ موڑ لیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے.مختلف دوستوں کو میں مختصراً مختلف جواب دیتا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ باوجود اس کے کہ اس سے پہلے بھی اس پر روشنی ڈال چکا ہوں مگر میں سمجھتا ہوں کہ مختلف پہلوؤں سے مختلف زاویوں سے بار بار اس مضمون کو جماعت کے سامنے کھولنا - آج کے خطبے میں میں سورۃ فاتحہ کے نقطہ نگاہ سے اس پر روشنی ڈالوں گا.سورۃ فاتحہ میں در حقیقت تمام سوالات کا حل ہے اور کوئی بھی ایسی مشکل نہیں جسے یہ کشا نہ کر دے اس لئے اس کا نام فاتحہ رکھا گیا یعنی ہر چیز کو کھولنے والی چابی.اگر آپ اس

Page 5

2 سورۃ پر غور کریں تو کوئی دنیا کا ایسا مسئلہ نہیں ہے جس کی کنجی آپ اس میں نہیں پائیں گے.مختصر تعارف اس کا یہ ہے کہ اسے ام الکتاب بھی کہا گیا ہے یعنی قرآن کریم کی ماں ہے اور بھی بہت سے اس کے نام ہیں.اس کی سات آیات ہیں اور سات ہی مضامین میں اس پر بحث کی گئی ہے اور ہر انسان اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں اس کو ادا کرتا ہے.یہ وہ سورۃ ہے جو ہر مسئلے کا حل اپنے اندر رکھتی ہے خود اس کے متعلق بھی سوال اٹھتے ہیں اور اٹھائے جاتے ہیں کہ ایک ہی سورۃ ہم مسلسل پڑھتے چلے جائیں تو آپ خود ہی کہیں کہ کیا بوریت نہیں ہوگی.ایک ہی جیسے الفاظ.عیسائی تو ہفتے میں ایک دفعہ یعنی اتوار کے دن جا کر کچھ سنتے یا کوئی باتیں دہراتے ہیں لیکن مسلمان ہر روز ہر نماز میں جو پانچ دفعہ پڑھی جاتی ہے اور اس کی ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا اعادہ ضرور کرتا ہے اور اس کو تکرار سے پڑھتا چلا جاتا ہے.ایک ہی کھانا اگر روز کھایا جائے تو انسان تنگ آ جاتا ہے.دیکھئے یہود اسی وجہ سے کتنی بڑی ٹھو کر کھا گئے تھے کہ کھلم کھلا خدا کی نعمت کے خلاف بغاوت کی کہ ہم ایک نعمت پر ہمیشہ کے لئے راضی نہیں رہ سکتے.ہمیں تو مختلف قسم کے کھانے دیئے جائیں.کون انسان روزانہ ایک کھانا کھائے.اس مصیبت سے تو مذہب سے دور ہٹنا ہی بہتر ہے.جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تو احمدیوں کے لئے بھی کچھ اسی قسم کا ابتلاء آیا تھا.غرباء تو ایک کھانے پر راضی ہوتے ہی ہیں لیکن تحریک جدید نے جب ایک کھانا کہا تو امراء کو بھی اس کا پابند کر دیا لیکن اس میں اور یہود کے ابتلاء میں ایک بہت بڑا فرق تھا.یہود کا ابتلاء یہ تھا کہ ایک کھانا اور روزانہ ایک ہی کھانا.قسم میں بھی تبدیلی نہیں ہوگی لیکن تحریک جدید کے پروگرام میں تو روزانہ آپ صبح سے شام ، شام سے صبح قسمیں تبدیل کر سکتے تھے.تو بہت بڑے ابتلاء میں وہ ڈالے گئے تھے اور آخر ایک بڑا حصہ اس میں ناکام رہا مگر بعید نہیں کہ اس میں بھی وہی مضمون ہو جو سورہ فاتحہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی ظاہری طور پر ایک کھانا ہی ان کو دیا گیا ہو گا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ روحانی غذا کا ذکر زیادہ ہے.کوئی ایسی روحانی غذا ان پر لازم کی گئی جسے انہیں ہمیشہ با قاعدہ تکرار کے ساتھ دہراتے چلے جانا تھا اور جس سے چھٹے رہتا تھا.پیس ظاہری طور پر بھی ایک کھانا اور روحانی لحاظ سے بھی ایک کھانا یہ تو و ہرے ابتلاء میں جتلا

Page 6

❤ ہو گئے.قرآن کریم نے جب سورۂ فاتحہ کو ام الکتاب قرار دیا اور بار بار دہرائی جانے والی آیات قرار دیا تو یہی وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہر نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھنا فرض قرار دے دیا اور بار بار دہرائی جانے لگی یعنی نمازوں میں یہ ام الکتاب یا سورۂ فاتحہ بار بار دہرائی جانے لگی.سورۂ فاتحہ میں سارے سوالوں کا جواب مضمون اب میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ یہ ایک ایسی بار بار پڑھی جانے والی سورۃ ہے جس کے اندر اس کے متعلق اٹھائے جانے والے سارے سوالات کا جواب ہے.سورۂ فاتحہ کی اس مناسبت کے ساتھ تغییر کرنا جو میں ذکر چلا رہا ہوں بہت ہی زیادہ وقت چاہتا ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ مختصر وقت میں اس مضمون کا تعارف آپ سے کروا دوں تاکہ بعد میں آپ سوچتے رہیں اور اس سے استفادہ کریں.جو سات مضامین اس میں بیان ہوئے ہیں ان میں سے چار صفات باری تعالی ہیں.اور ایک عبادت کا عہد ہے اور ایک استعانت ہے یعنی مدد مانگنا اور ایک ہدایت کا ذکر ہے یعنی ہدایت طلب کرنا.یہ سات باتیں اس میں بیان ہوئی ہیں.ان حمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ملك يوم الدين - یہاں جو لفظ "الحمد" ہے اس کا اس سارے منہ تعلق ہے.صفات باری تعالی چار ہیں لیکن حمدان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک دائی لازمی ہمیشہ کا تعلق رکھتی ہے اور بعد میں بھی جتنے مضامین بیان ہوئے ہیں ان سب کا حمد سے تعلق ہے.پس حمد سورۂ فاتحہ کا ایک رنگ ہے.اسی لئے اسے الحمد بھی کہا جاتا ہے.جہاں تک حمد کا تعلق ہے یہ چونکہ ہر مقام شکر پر ادا کی جاتی ہے اس لئے جب بھی ہم نے خدا کا شکر ادا کرنا ہو تو الحمد کو شکر کے معنوں میں بھی ادا کرتے ہیں یعنی جب بھی کہتا ہو.اے خدا! ہم تیرے بے حد ممنون ہیں، تو نے بہت احسان کیا.خیرا شکریہ تو الحمد للہ منہ سے نکلتا ہے گویا حمد اور شکر دونوں ہم معنی ہو گئے اور کثرت استعمال نے یہ معنی محمد کو عطا کر دیئے ہیں تو سب سے پہلی بات جو سورہ فاتحہ ہمیں بتاتی ہے جس کا سورۂ فاتحہ کے سارے مضمون سے تعلق ہے وہ حمد ہے اگر حمد کا لفظ بغیر سوچے ادا کر

Page 7

دیا جائے تو باقی سارے مضامین خالی رہیں گے کیونکہ حمد کا دروازہ وہ دروازہ ہے جس سے داخل ہو کر سورۂ فاتحہ کے باقی مضامین سمجھ آتے ہیں اور ان میں رس بھرتا ہے تو پہلی نصیحت یہ ہے کہ سورۂ فاتحہ جب پڑھتے ہیں تو لفظ الحمد پر ٹھہر کر غور تو کیا کریں کہ کیا کہہ رہے ہیں.سب تعریف ہر قسم کی تعریف، مکمل تعریف خدا ہی کے لئے ہے.ایسا شخص جس کو نماز میں مزا نہیں آتا اس کے قبلے جدا ہوتے ہیں.اس کی لذت یابی کی را ہیں الگ ہوتی ہیں.اس کے سامنے کوئی دوست ہوتا ہے.کوئی مطلوبہ چیز ہوتی ہے.کوئی اور ایسی طلب ہوتی ہے جس کے ساتھ اس نے اپنی حمد کو وابستہ کیا ہوتا ہے.اپنی لذات کا قبلہ خدا کو بنائیں پس لذت تو وہاں آتی ہے جہاں لذت کا قبلہ ہو.اگر قبلہ اور طرف ہو اور آپ کا منہ اور طرف ہو تو آپ کو بے چینی پیدا ہوگئی، لذت نہیں آئے گی.پس لفظ حمد پر غور کرنا بہت ضروری ہے اور اس کا ایک آسان طریق یہ ہے کہ اپنی ذات کا تجزیہ کیا جائے اور انصاف کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ انسان پہلے یہ تو معلوم کرے کہ مجھے کون کون کی چیزیں اچھی لگتی ہیں.کون کون سے چیزیں ایسی ہیں جن سے مجھے پیار ہے.ان چیزوں کو اگر نماز کے ساتھ باندھ دیا جائے تو نماز بھی پیاری لگنے لگے گی.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے حقیقت میں انسان کو بڑی وسیع نظر سے اپنی ساری زندگی اور اس کے مقاصد کا جائزہ لینا پڑے گا اور وسیع نظر سے ہی نہیں بلکہ گہری نظر سے بھی.اور جب انسان اپنے حمد کے مقامات کا تعین کر لے کہ میرے نزدیک یہ چیز باعث حمد ہے یہ چیز قابل حمد ہے.یہ چیز تعریف کے لائق ہے تو اس وقت الحمد للہ کا ایک اور مضمون اس کے سامنے ابھرے گا.وہ جب غور کرے گا تو جو چیز بھی اس کو اچھی لگتی ہے اس کو اچھا نبٹانے میں خدا کی تقدیر نے کام کیا ہے.اور خدا چاہے تو اسے اچھا رکھے گا.جب چاہے گا وہ اچھی نہیں رہے گی.اور اس کی اچھائی ذاتی نہیں اور دائمی نہیں.بعض دفعہ ایک چیز ایک خاص حالت میں اچھی لگتی ہے.اچھا نیا بنا ہوا گھر ہے.بہت ہی خوبصورت لگتا ہے.اس کے ساتھ انسان کی طبیعی حمد وابستہ ہو جاتی ہے لیکن پچاس، ساٹھ ستر سال کے بعد جب اس کی چولیں ڈھیلی ہو جائیں، جب وہ جراثیم سے بھر جائے.ہر طرف S

Page 8

5 اسکا رنگ اجڑ جائے.اس کا نقشہ بدلنے لگے.چیزیں ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگیں تو اسی گھر سے وحشت ہوگی.محمد رفتہ رفتہ اس کو چھوڑ دیگی.ایک خوبصورت چیز سے محبت ہے.جب تک اس کی خوبصورتی قائم ہے اس وقت تک طبعا اس کی طرف رغبت ہوگی اور جب خوبصورتی مٹ جائے تو پھر یا تو انسان اس سے متنفر ہو کر دور بھاگنے لگتا ہے یا اگر وہ صاحب وفا ہے تو ایک اور صفت اس کے کام آتی ہے اور وفا اس کو اس کے ساتھ تعلق قائم رکھنے پر مجبور کرتی چلی جاتی ہے لیکن وہ طبعی بے اختیار محبت جو حسن کے ساتھ وابستہ ہے وہ ویسی نہیں رہ سکتی.اسی لئے وفا اور جفا میں میں فرق ہے.حسن اگر ہو گا تو نہ وفا کی ضرورت ہے نہ جفا کا سوال.جب حسن مٹ جائے یا پیچھے ہٹنے لگے تب یہ دو مضامین آگے بڑھتے ہیں اور صاحب وفا کا تعلق اس چیز سے قائم رہتا ہے جو حسن چھوڑ بیٹھی ہے اور صاحب جفا اس سے آنکھیں بدل لیتا ہے تو امر واقعہ یہ ہے کہ الحمد للہ کی ایک تفسیر ان چیزوں پر غور کرنے سے بھی آپ کے سامنے ابھرے گی.جو چیز بھی آپ کو پیاری ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھ لیں، اس کا حسن دائمی نہیں.اس کی لذت دائمی نہیں ہے.بلکہ اگر اس میں لذت موجود بھی ہو تو سیری کے بعد آپ کی نظر میں اس کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے.جو چاہیں مزیدار کھانا آپ کھائیں، آپ کو میسر ہو کثرت کے ساتھ مین آپ کی خواہشات کے مطابق تیار ہوا ہو.جب پیٹ بھر جائے گا تو اس کی حمد ختم ہو جائے گی.دوبارہ جب آپ کو کوئی دے گا تو آپ پہلے تو تکلف سے مسکرا کر کہیں گے کہ نہیں نہیں کوئی ضرورت نہیں.اگر وہ زیر دستی کھلائے گا تو آپ کا دل چاہے گا کہ اس کو جوتیاں ماریں کہ اس نے کیا مصیبت ڈالی ہوئی ہے.بچے چونکہ بے تکلف ہوتے ہیں وہ صاف ماؤس کے منہ پر بات مارتے ہیں کہ بس نہیں کھانا.جو مرضی کر لیں تو حمد حسن کے ہوتے ہوئے بھی ختم ہو جایا کرتی ہے لیکن ایک ذات ہے جس نے وہ حمد ان چیزوں میں رکھی ہے.اس کی حمد دائمی ہے.وہ ذاتی حمد ہے اور اسی نے پیدا کی ہے.جب چاہے وہ حمد چھین لے.جب ان باتوں پر آپ غور کرتے ہیں تو آپ کا ہر قبلہ خدا کی طرف اشارہ کرنے لگتا ہے اور قبلہ اپنی ذات میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا.چنانچہ غالب نے اسی مضمون کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے یعنی ان معنوں

Page 9

6 میں تو نہیں کہ سورہ فاتحہ سے تعلق میں لیکن چونکہ وہ صوفیانہ مزاج بھی رکھتا تھا اس لئے بعض دفعہ اچھی اچھی حکمت کی باتیں بیان کر دیا کرتا تھا.کہتا ہے.ہے پرے سرحد اور اک اپنا مسجود سے اپنا قبیلے کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں کہ ہم بظاہر قبلے کی طرف منہ کرتے ہیں لیکن ہمارا مسجود قبلے سے پرے ہے.قبلہ فی ذاتہ مسجود نہیں ہے.جو نظر رکھنے والے لوگ ہیں، صاحب نظر لوگ وہ قبلے کو قبلہ نما کہتے ہیں.قبلہ دکھانے والا.تو اس نگاہ سے اگر آپ کائنات کی کسی چیز کو بھی دیکھیں تو ہر چیز کے ساتھ حمد کا ایک تصور وابستہ ہے اور ہر چیز قبلہ نما بن جاتی ہے.پس صرف وہی چیزیں نہیں جو آپ کے لئے محمود ہیں اور آپ کو محبوب ہیں بلکہ کسی چیز پر بھی آپ نظر ڈالیں.کوئی چیز بھی حمد سے خالی نہیں اور اس کے ساتھ ہی فرمایا لِلهِ رَبِّ الْمُلَمِينَ اور ربوبیت کا حد سے ایک بہت گہرا تعلق ہے.میرے لئے یہ تو ممکن نہیں ہو گا کہ حمد کے مضمون کو ان سات مضامین سے باندھ کر تفصیل سے یہاں بیان کروں لیکن یہ نمونہ آپ کو دے رہا ہوں تاکہ ان باتوں پر غور کر کے اپنی نمازوں کے ان سات برتنوں کو ایسے رس سے بھر دیں کہ ہر برتن میں آپ کے لئے ایک تسکین بخش شربت موجود ہو جسے پی کر آپ لذت حاصل کریں.کائنات کی ہر چیز حمد کا باعث ہے اب ربوبیت کے مضمون کے ساتھ حمد کا جو تعلق ہے وہ بہت ہی گہرا اور بہت ہی وسیع ہے.میں نے آپ کے سامنے کھانے کی مثال پیش کی.کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کھانا جب فضلے میں تبدیل ہو جاتا ہے گندگی اور بدبو میں تبدیل ہو جاتا ہے تو پھر کہاں حمد اس میں باقی رہ سکتی ہے.اور حمد کے مضمون کو میں اس کے ساتھ کیسے باندھوں گا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نظر گہری کر کے دیکھو.ربوبیت کا اس کے ساتھ بھی ایک گہرا تعلق ہے کیونکہ جو چیز تمہارا گند ہے وہ خدا کی کائنات میں بعض اور مخلوقات کے لئے ایک نعمت ہے اور وہ نعمت مختلف شکلوں میں اس کی دوسری مخلوق کو پہنچ رہی ہے.ایسی بدبودار کھاو جس کے پاس سے گزرا بھی نہیں جاتا وہ پودوں کے لئے ایک

Page 10

نعمت ہے.اس سے رنگ برنگ کے پھول نکلتے ہیں اور خوشبو میں پیدا ہوتی ہیں اور وہ رزق پیدا ہوتا ہے جو آپ کے لئے حمد بن جاتا ہے تو کیسا عظیم مضمون ہے رب العالمین کی حمد کا کہ کوئی ایک پہلو بھی کائنات کا ایسا نہیں جو استعمال ہونے کے بعد بھی حمد کے مضمون سے خالی ہو.ہاں ایک طرف سے خالی ہوتا ہے دوسری طرف سے بھر جاتا ہے ایک کی ربوبیت کرتا ہے جب اس کی پیاس بجھا دیتا ہے تو خدا کی ایک اور مخلوق کی ربوبیت کے لئے تیاری کرتا ہے.پس اس پہلو سے جب آپ کائنات پر نظر ڈالیں تو کوئی ایک زندگی کا ذرہ بھی نہیں ہے جو کسی نہ کسی حالت میں کسی چیز کے لئے باعث حمد نہ ہو.عالمین نے اس بات کو کھول دیا کہ تم خدا کو اپنی طرح ایک چھوٹی ذات نہ سمجھا کرو.جب اس کی طرف حمد منسوب کرو اور اسکی ذات میں حمد تلاش کرو تو رب العالمین کے طور پر وہ حمد تلاش کرو.اور ساری کائنات کی ربوبیت کے لئے اس نے جو نظام جاری فرمایا ہے اس پر غور کرو تو تمہاری نظر چندھیا جائے گی.تم ساری زندگی لمحہ لمحہ بھی غور کرتے چلے جاؤ گے تو یہ مضمون ختم نہیں ہو گا.نا ممکن ہے اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں اس زمین میں اور زمین کی ایک فضا میں جو اس زمین کا حصہ ہی ہے، جتنی بھی مختلف قسم کی کیمیاء موجود ہیں، مختلف قسم کے ذرات موجود ہیں یہ تمام کے مختلف شکلوں میں ڈھلتے چلے جاتے ہیں اور ایک پہلو سے استعمال ہوتے ہیں تو پھر ایک دوسرے پہلو کے لئے تیار ہو کر نکل جاتے ہیں اور کوئی WASTE نہیں.ضیاع کا کوئی تصور نہیں ہے.نا ممکن ہے کہ ہم خدا کی اس زمین اور اس کے جو میں سے ایک ذرہ بھی ضائع کر سکیں کیونکہ وہ دوبارہ ری سائیکل (RECYCLE) ہوتا ہے اور یہ توازن اتنا عظیم الشان ہے کہ اتنی بڑی زمین اتنی بڑی اس کی جو اور ان گنت ذروں پر مشتمل لیکن ایک ذرہ بھی بلا مبالغہ اس میں سے ضائع نہیں ہو رہا.جس طرح چاہیں آپ اس کو استعمال کر کے اس کا حسن چاٹ جائیں، اس کو ختم کر دیں.وہ جو بھی نئی شکل اختیار کرے گا کسی اور پہلو سے وہ جلوہ دکھانے لگے گا.کسی اور کے لئے حسین بن کے ابھرے گا.ایک کا زہر ہے تو دوسرے کا تریاقی بن جائے گا.ایک کا تریاق ہے تو وہ کچھ دیر کے بعد اس کے لئے زہر بنتا ہے اور ایک اور کے لئے تریاق بن جاتا ہے تو الحَمدُ تمام من

Page 11

لله رب العلمین پڑھتے وقت اگر انسان ٹھہر کے سوچے اور خدا تعالیٰ کی ذات کی وسعت اور عظمت کا تصور کرے اور جس طرف نظر ڈالے وہاں حمد ہی کا مضمون دکھائی دے تو کیا یہ ممکن ہے کہ ایک انسان ساری عمر سورۂ فاتحہ پڑھتے وقت صرف الحمدُ لله رب العلمین کا حق ادا کر سکے بالکل ناممکن ہے.پس کون کہتا ہے کہ یہ بار بار دھرائی جانے والی ام الکتاب انسان کے لئے بوریت اور اکتاہٹ کا مضمون پیدا کرتی ہے اکتاہٹ کے مواقع پیدا کرتی ہے.ہرگز نہیں.ہر انسان کی اکتاہٹ اس کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.اگر اسے محبت کا سلیقہ نہیں تو ہر چیز سے وہ اکتا جائے گا.اچھی سے اچھی چیز بھی اس کو بھلی معلوم نہیں ہوگی.پس اگر اکتاہٹ سے پناہ مانگتی ہے تو اپنے اندر محبت کا سلیقہ پیدا کریں.آپ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ کسی بات سے بھی خوش نہیں ہوتے.ان کے ماتھے پر تیوری چڑھی ہوئی مجھ چیز مرضی دیں کہ نہیں جی! فضول بکواس ہر چیز پر تنقید کرتے.ہر چیز ان کو بری لگتی ہے.قنوطی جیسے جہاں جاتے ہیں لوگوں کو مصیبت پڑ جاتی ہے.اس لئے نہیں کہ ان کے سامنے خدا کی کائنات حمد سے خالی ہوتی ہے.اس لئے نہیں کہ دنیا میں اچھے لوگوں کا فقدان ہوتا ہے یا خوبیاں ہی دنیا سے غائب ہو چکی ہوتی ہیں.پس ان کے اندر ایک پیوست پائی جاتی ہے.ایک ایسی خشکی ہوتی ہے جو ان کو محبت سے عاری کر دیتی ہے.پس اگر محبت کی نظر پیدا کریں یعنی حسن دیکھنے اور اس سے استفادے کی نظر پیدا کریں تو خدا تعالیٰ کی حمد آپ کو ساری کائنات میں عظیم تر وسعتوں کے ساتھ اس طرح بکھری ہوئی اور پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ایک ذرے کے دل میں بھی آپ اتر جائیں تو اس میں بھی حمد کا ایک نیا جہان آپ کو دکھائی دینے لگے گا.پھر خدا رحمان بھی ہے اور رحیم بھی ہے اور ملک یوم الدین بھی ہے ان صفات باری تعالٰی کے ساتھ آپ حمد کو باند ھیں تو پھر آپ دیکھیں کہ کتنے کتنے نئے حسین نقشے کائنات کے آپ کے سامنے ابھرتے ہیں اور ہر نقشے کے ساتھ خدا کی ہستی کا تصور وابستہ ہوتا ہے.ہر حسین چیز کو خدا تعالیٰ حسن عطا کر رہا ہوتا ہے تو وہ نماز لذت سے کیسے خالی ہو جاتی ہے جس نماز میں سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہو اور بے پناہ حسن کے جہان وہ ایک نظر کے سامنے کھولتی چلی

Page 12

جاتی ہے یہاں تک کہ آپ وقت نہ ہونے کی وجہ سے یا غور کی زیادہ قوت نہ پانے کی وجہ سے استطاعت نہ رکھنے کی وجہ سے آگے گزر جائیں تو آپ کی مرضی ہے ورنہ سورۃ فاتحہ کے ہر لفظ پر ٹھہر جائیں تو ساری زندگی اس ایک لفظ میں گزر سکتی ہے اور بغیر اکتاہٹ کے گزر سکتی ہے.ایک عجیب مضمون ہے ہر ہر لفظ میں جو آگے ایک پورا جہان بناتا چلا جاتا ہے.پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُو اِيَّاكَ نَستعین کا مضمون ہے.عبادت کا حمد سے بہت گہرا تعلق ہے اگر حمد نہیں ہوگی تو عبادت بھی نہیں ہوگی اور یہ دعوی کہ إيَّاكَ نَعْبُدُ صرف تیری عبادت کرتے ہیں، ایک بہت بڑا دعوی ہے جو حمد کے مضمون سے گزرے بغیر بالکل جھوٹا بن جاتا ہے.جب تک انسان یہ اقرار نہ کرے اور پورے صدق دل سے اس اقرار کو سمجھ کر اس کا قائل نہ ہو کہ تمام حمد خدا کے لئے ہے اس وقت تک تمام عبادت خدا کے لئے ہو ہی نہیں سکتی.اگر حمد کا کوئی پہلو کسی اور کے لئے ہے تو عبادت کا ہر پہلو خدا کے لئے نہیں ہو سکتا.یہ ایک ایسی حسابی بات ہے جس کے اندر کوئی تبدیلی ممکن ہی نہیں ہے.یہ EQUATION ہے ایک MATHEMATICS کی.اور ایسی قطعی ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس EQUATION کو بدل نہیں سکتی.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کو جو اتنا عظیم مقام عطا ہوا کہ کائنات کی ہر چیز تو درکنار ہر نبی سے آگے بڑھ گئے تو اس مسئلے کو سمجھنے کا آخری نقطہ یہ ہے کہ آپکی ساری حمد بلا استثناء خدا کے لئے ہو گئی تھی.اس لئے ایک وہ شخص تھا جو جب یہ کہتا تھا کہ ایاک نخب تو کامل طور پر اس اقرار میں سچا تھا صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کیونکہ واقعتہ " آپ کی ساری حمد خدا کے لئے تھی.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کا ايَّاكَ نَعْبُدُ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.ہم جب خدا سے مدد مانگتے ہیں تو اس سے پہلے یہ اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ اے خدا! ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور صرف تیری عبادت کرتے ہیں.ہر شخص کی نیت نہیں ہوگی اس سے تو کوئی انکار نہیں ہو سکتا یعنی انکار کرنے کا کسی کو حق نہیں.لیکن یہ قطعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ کلیتہ اس مضمون کا حق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ادا فرمایا اور پھر وہی ادا کر سکتا ہے جو آپ کا کامل غلام ہو.

Page 13

عبادت کو حمد سے خالی نہ ہونے دیں اب جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا یعنی دعا کرنے والا قطعی طور پر خدا ہی کی عبادت کرتا ہے اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ مدد اسی سے مانگے گا اور کوئی مدد کے لئے رہا ہی نہیں کیونکہ جب معبود اٹھ گئے تو معبود تو ہوتے ہی وہ ہیں جن کے سامنے انسان اپنی ساری ہستی جھکا دیتا ہے اور اس سے بڑا اور کسی کو نہیں دیکھتا.اس کے بعد اور کون سا دروازہ رہ جاتا ہے جس کو کھٹکھٹانے کے لئے وہ اپنی ضروریات کی خاطر جائے گا.پس اتات نستعين کا مضمون ايّاكَ نَعْبُدُ سے از خود پیدا ہوتا ہے اور اتنا ہی پیدا ہوتا ہے جتنا کہ ایاک نعبد کے اندر سچائی پائی جاتی ہے، اس سے زیادہ نہیں.پس اگر کسی کی عبادتیں حمد سے خالی ہوں اور حمد غیروں کے لئے ہو خواہ بظا ہر اس کی عبادت کرنے یا نہ کرے تو اس کی حمد سکڑ کر چھوٹی سی رہ جاتی ہے.کہتا تو یہ ہے کہ اے خدا میں صرف تیری عبادت کرتا ہوں مگر جو موحد ہو اسکی مراد یہ ہوتی ہے کہ اے خدا ! میری نیت یہی ہے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں لیکن اس کی حمد چونکہ دنیا میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے اور لوگ خود قبلہ بن چکے ہیں، بجائے اس کے کہ وہ قبلہ نما ہوں.اس پہلو سے اس کی عبادت جتنا حمد سے خالی ہوتی ہے اتنا ہی سکڑ کر اس طرح بن جاتی ہے جیسے کوئی فالج زدہ جسم ہو.ہاتھ سکڑ کر پہلو کے ساتھ بغیر طاقت کے لٹک جاتا ہے، ہاتھ تو رہتا ہے.اسی طرح عبادت کی ظاہری شکل تو رہے گی لیکن چونکہ حمد سے خالی ہو گی اس لئے وہ جان سے خالی ہوگی.وہ زندگی سے خالی ہوگی.وہ روح سے خالی ہوگی.وہ طاقت سے خالی ہوگی.وہ اثر سے خالی ہوگی اور اسی نسبت سے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں کمزوری آجائے گی.خدا کی تقدیر اندھی تو نہیں ہے.خدا کی تقدیر تو اتنی صاحب بصیرت ہے کہ ان باریک ترین چیزوں کو بھی دیکھتی ہے جن پر انسان کی نظر پڑ ہی نہیں سکتی.اللہ کی تقدیر از خودرايّاكَ نَسْتَعِین کا جواب بنتی ہے لیکن یہ دیکھ کر کہ اِيَّاكَ نَسْتَوتين میں کتنی استطاعت ہے.مانگنے کی استطاعت دیکھی جاتی ہے ظرف کے مطابق دیا جاتا ہے ہیں ایسا شخص جس کی عبادت چھوٹی سی رہ گئی ہو اس کی استعانت کا جواب بھی اتنا

Page 14

11 ہی ملے گا اور اس میں کوئی ظلم نہیں.یہ اس بات کا ایک طبیعی منطقی نتیجہ ہے.آپ جب خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں تو جواب یہ مل سکتا ہے کہ تو فلاں کا بھی دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، فلاں کا بھی کھٹکھٹاتا ہے.تیرے نزدیک فلاں مخص اتنی عظمت رکھتا ہے کہ جب سچ اور جھوٹ کا سوال ہو تو اس کی عظمت کے سامنے تو سچ کو قربان کرتے ہوئے بھی جھک جاتا ہے.تیرے ذہن میں فلاں چیز کی اتنی طاقت ہے کہ اس سے مدد مانگنے کی خاطر تو ہر اس فعل پر آمادہ ہو جاتا ہے جس کو خدا نے منع کیا ہے.غرضیکہ ایک بہت ہی تفصیلی مضمون ہے اور روز مرہ کی زندگی میں جب ہم اپنی ذات پر اور اپنے گردو پیش پر چسپاں کرتے ہیں تو آدمی اگر صاحب ہوش ہو تو اس کے ہوش اڑ جائیں.ساری عمر کی عبادتوں میں اگر وہ مغز ڈھونڈنے گئے تو اتنا تھوڑا ملے گا جیسے جلے ہوئے گھر سے راکھ مٹول کر انسان اپنی کوئی چھوٹی سی چیز تلاش کر رہا ہو.پس جو عبادتیں خالی ہوں گی وہ کیا مانگیں گی؟ کیونکہ ہر مانگنے کے جواب میں، ہر سوال کے جواب میں خدا کی تقدیر اسے یہ کہہ رہی ہوگی کہ نہ نہ تم ایسی باتیں نہ کرو.تکلف نہ کرو.تم دوسروں کی عبادت کیا کرتے تھے خواہ ظاہری طور پر نہ سہی لیکن جب مدد مانگنے کا وقت آتا تھا تو کسی اور کو طاقت ور سمجھتے تھے اور اس کا دروازہ کھٹکھٹایا کرتے تھے.اس لئے بے تکلفی سے صاف حق کا اقرار کر لو.بات یہ ہے کہ تم میرے دروازے کھٹکھٹانے کا تکلف کرنے کے اہل نہیں ہو.جس کی حمدہ تمہارے دل میں ہے.جس کی حقیقی عبادت کرتے ہو اس سے مانگو اگر وہ تمہیں کچھ دے سکتا ہے.دعا وہی قبول ہوتی ہے جو قبول ہونے کا حق رکھتی ہے پس یہ جو فرق ہے کہ بعض دعائیں قبول ہوتی ہیں اور بعض نہیں.آنسو فرق نہیں پیدا کرتے.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں عبادت میں کس طرح مزا آئے.ہم تو روتے روتے سجدہ گاہوں کو تر کر دیتے ہیں مگر ہماری مطلوبہ چیز نہیں مل رہی.ان کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ جس چیز کو وہ خدا بنا بیٹھے ہوں پھر اس سے اسی کا وجود ما نگیں کیونکہ جب وہ اتنی زیادہ پیاری لگنے لگ گئی ہو کہ وہی قبلہ بن چکی ہو اور خدا کی طرف حمد صرف لفظوں سے منسوب کی جارہی ہو اور فی الحقیقت خدا کی کائنات میں دوسری مختلف

Page 15

: 12 چیزیں انسان کی نظر میں محمود بن گئی ہوں، قابل حمد بن گئی ہوں تو جب وہ خدا کے حضور روتا ہے تو حمہ کی وجہ سے نہیں روتا.وہ اس وجہ سے روتا ہے کہ اس کی طلب نہیں پوری ہو رہی.بیمار جب چھینیں مارتا ہے تو کسی تکلیف کی وجہ سے چھینیں مارتا ہے.ضروری تو نہیں کہ اس کی چیخوں سے اس کا علاج ہو جائے.علاج تو علاج کے علم کے ساتھ ہوتا ہے.پس عبادات میں بھی ایک سائنس ہے.دعاؤں کی بھی ایک سائنس ہے جو دعائیں مستجاب ہونے کا حق رکھتی ہیں وہی مستجاب ہوتی ہیں.بعض دفعہ وہ آنسوؤں سے خالی بھی ہوں.ابھی دعا نہ بھی بنی ہوں تب بھی وہ مقبول ہو جایا کرتی ہیں اور اس کا راز اسی میں ہے کہ سورۂ فاتحہ کو آپ سمجھیں اور حمد کے مضمون کو خدا تعالیٰ کی چار صفات پر اطلاق کرتے چلے جائیں پھر جب ایاک نعبد کہیں تو اپنے نفس کا جائزہ لیں اور غور کریں کہ کہاں کہاں آپ کی عبادت واقعہ حمد سے لبریز ہے اور کہاں کہاں خالی ہے.اپنی روزمرہ کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو ايَّاكَ نَعْبُدُ کا مضمون ہی ایک ایسا مضمون ہے جو آپ کے قدم روک لے گا اور آپ کبھی بھی اس مضمون سے نئے نکات حاصل کئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے.سورۂ فاتحہ کا ایک مضمون بھی ایسا نہیں جسے انسان ساری زندگی کے غور و خوض کے بعد ختم کر سکے تو بتائیے کون کیا اکتاہٹ کا مقام ہے.اکتاہٹ پیدا کیسے ہو سکتی ہے.اکتاہٹ تو ہوتی ہے جب ایک چیز بار بار اسی شکل میں سامنے آئے.خدا تعالیٰ کا قرآن کریم میں یہ تعارف ملتا ہے کہ كل يوم مُونِي شَأْنٍ - فَياتي الآءِ رَبِّكُمَا تُكذبن (سورة الرحمن ۳۴۳۰) خدا کی ہستی ایسی ہے کہ ہر لحظہ اس کی شان بدل رہی ہے اس سے انسان کیسے بور ہو سکتا ہے.اگر بدلتی ہوئی شان دیکھنے کی استطاعت کسی میں پیدا ہو جائے اسے ایسی آنکھیں نصیب ہو جائیں جو بدلتی ہوئی شان کو دیکھ سکیں تو اس کے لئے تو خدا تعالیٰ کبھی پرانا ہو ہی نہیں سکتا اور سورۂ فاتحہ کے شیشوں سے آپ خدا کی بدلتی ہوئی شان دیکھ سکتے ہیں.یہ سورۂ فاتحہ وہ آلہ ہے.جیسے دور بین یا خوردبین.بعض چیزوں کو خاص نیج سے قریب سے اسے دور سے دیکھنے کے لئے اسی قسم کے آلے یا کیمرے استعمال کئے جاتے ہیں.اسی طرح سورۃ فاتحہ کو بھی ایک صاحب بصیرت انسان خدا تعالیٰ کی صفات دیکھنے اور اس کی نئی نئی

Page 16

13 شانیں دیکھنے میں استعمال کر سکتا ہے.اور اگر چہ صرف چار صفات کا ذکر ہے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ ان چار صفات میں خدا تعالٰی کی تمام صفات موجود ہیں.اب آپ دیکھیں کہ اس چھوٹی سی سورۃ کو اتم الکتاب کہا گیا ہے اور قرآن کریم میں خدا تعالٰی کی تمام صفات کی بحث ہے.پس کیسے اسے ام الکتاب کہہ سکتے ہیں اگر اس میں خدا تعالیٰ کی صفات میں سے صرف چار بیان ہوں.سوائے اس کے کہ وہ چاروں صفات اتم الصفات ہوں اور یہی امر واقعہ ہے.ان چار صفات کے ایک دوسرے کے عمل کے ساتھ اور ان کی جلوہ گری میں آپ کو خدا تعالیٰ کی تمام صفات دکھائی دے سکتی ہیں.انسانی زندگی کا ہر عمل عبادت میں بدل سکتا ہے پس ام الکتاب کا صرف یہ مطلب نہیں کہ سورۂ فاتحہ میں مضامین ہیں.ان میں ہر لفظ جو بیان ہوا ہے وہ ماں کا درجہ رکھتا ہے.خدا تعالٰی کی چار صفات اتم الصفات ہیں.عبادت کا مضمون خدا سے تعلق کے لحاظ سے ہر مضمون کی ماں ہے.یہ وہ رستہ ہے جس کے ذریعے خدا سے تعلق قائم ہوتا ہے اور اس کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا تو زندگی کے کسی دائرے میں بھی خدا سے تعلق ہو خواہ بظا ہر آپ نماز پڑھ رہے ہوں یا نہ پڑھ رہے ہوں وہ حقیقت میں عبادت ہی ہے جس کے ذریعے یہ تعلق قائم ہو سکتا ہے اور اس مضمون کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمارے سامنے اس طرح کھول کر بیان فرما دیا جب فرمایا کہ اگر تم بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتے وقت یہ سوچتے ہوئے لقمہ ڈالو کہ خدا راضی ہو گا اور خدا چاہتا ہے کہ تم اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو اور اس سے حسن سلوک کرو تو تمہارا یہ فعل بھی عبادت بن جائے گا.تو اب دیکھ لیں اس چھوٹی سی مثال میں ہر انسانی زندگی کے ہر عمل کو عبادت میں تبدیل کرنے کا کتنا عظیم الشان نسخہ بیان فرما دیا گیا.اور تعلق صرف نماز کے ذریعہ قائم نہیں ہو تا بلکہ ہر آن انسان کے گردو پیش ہونے والے واقعات اور اس کے تجارب کے ساتھ خدا تعالٰی کی عبادت کا ایک تعلق ہے.انسان اپنے گردو پیش میں ہونے والے واقعات سے متاثر ہو کر جو بھی رد عمل دکھاتا ہے وہ رد عمل عبادت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے اور عبادت سے دور بھی ہٹ سکتا ہے.

Page 17

14 پس ایاک نعبد میں تعلق باللہ کی ماں بیان ہو گئی ہے یعنی اس ایک لفظ کے اندر اس ایک محمد میں کہ اے خدا تیرے سوا ہم کسی کی عبادت نہیں کریں گے.تیری کریں گے اور صرف تیری کریں گے.تیری ہی عبادت کرتے ہیں.کسی اور کی عبادت نہیں کرتے.غیر کی عبادت کا انکار کرتے ہیں.اس اقرار میں ہر تعلق باللہ کی جان ہے اور اس کو آپ جتنا وسیع کرتے چلے جائیں گے اتنا ہی زیادہ آپ اس کے مطالب سے استفادہ کرتے چلے جائیں گے.اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بھی بظاہر آپ فیروں سے سوال بھی کرتے ہیں.بچہ ماں سے سوال کرتا ہے.باپ سے چیز مانگ لیتا ہے.دوست دوست سے چیز مانگ لیتا ہے.اس میں اور اتياكَ نَسْتَعِین میں فرق کیا ہے.اس فرق پر جب آپ غور کریں گے تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ دوست کی حیثیت ماں کی حیثیت باپ کی حیثیت بچے کی حیثیت جب تک یہ حیثیتیں اصل مقام پر قائم نہ ہوں اور خدا کے مقابل پر ان کے مقام انسان کے پیش نظر نہ ہوں اگر ان کے ضائع ہونے کے باوجود خدا باقی رہتا ہو اور ان کا حسن اور ان کی خوبیاں یوں دکھائی دیتی ہوں جیسے خدا کا حسن اور خدا کی خوبیاں ان میں منعکس ہو رہی ہوں تو پھر ان سے مانگنا خدا ہی سے مانگتا بن جائے گا اور غیر اللہ سے مانگنا نہیں رہے گا لیکن اگر ان کے مقام بگڑے ہوئے ہیں اور ان کے مقامات خدا تعالیٰ کے مقام سے الگ ہوں اور اس راہ پر نہ ہوں تو پھر یہ شرک کے آلات بن جائیں گے.عرفان بڑھنے سے نماز میں لذت پیدا ہوتی ہے پس قبلے کو قبلہ نما کہنا اس مضمون کی وضاحت کر رہا ہے.جب ایک عبادت کرنے والا قبلے کی طرف منہ کرتا ہے تو اس لئے وہ مشرک نہیں ہے کہ قبلہ جس طرف بنا ہوا ہے وہاں موجود عمارت اس کے تصور میں ہی نہیں آتی گویا وہ ہے ہی نہیں صرف منہ اس طرف کیا جاتا ہے لیکن نشانہ بالاخر خدا کے قدم ہیں جن کی عبادت کے سامنے انسان اپنا سر جھکاتا ہے.پس اس پہلو سے جب انسان حمد کے مضمون پر نگاہ ڈالتا ہے اور گردو پیش سب پیاری چیزوں کو اس طرح سمجھنے لگتا ہے کہ ان کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ، میرے خدا ہی کا حسن ہے تو اس کے بعد جب ان سے استعانت کرتا ہے تو اس

Page 18

15 استعانت کے بھی کوئی خاص معنی نہیں ہوا کرتے.نہ بھی ملے تو اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس کے مانگنے میں ایک استغناء پایا جاتا ہے ایک عظمت پائی جاتی ہے.وہ جھک کر نہیں مانگتا.وہ جانتا ہے کہ خدا نے ہی اس کو دیا ہے.اگر یہ نہیں دے گا اور خدا نے مجھے دینا ہو گا تو ہزار رستے اس کے دیئے کے ہیں.ان گنت راہیں ہیں جن سے وہ مجھے عطاء کر سکتا ہے تو عرفان جتنا جتنا بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا اتنا نماز میں لذت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور عرفان بڑھانے کے لئے بہت غیر معمولی علم کی ضرورت نہیں ہے.ہر انسان کا اپنا علم عرفان پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.اب کائنات پر غور کرنے کے لئے ایک سائنس دان کا غور بہت وسیع ہو گا.اگر اسے خدا تعالٰی عرفان کی آنکھیں ہی نہ دے تو بڑے سے بڑے علم کے باوجود اس کو حمد کا مضمون سمجھ نہیں آئے گا لیکن ایک معمولی انسان ایک چرواہا ، ایک گڈریا ایک زمیندار کاشتکار یا ایک مزدور اگر بصیرت کی نظر رکھتا ہو تو وہ اپنے روز مرہ کے کاموں میں بھی خدا کی حمد دیکھ سکتا ہے اور حمد کے ترانے گا سکتا ہے.خوف اور صدمے کی حالت ہی حمد کا اصل وقت ہے پس علم سے حمد ضرور بڑھتی ہے ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن علم کے بغیر بھی عرفان نصیب ہو سکتا ہے اگر انسان خدا تعالیٰ کی جستجو کرے اور اس کے حسن کی تلاش کرے تو کوئی ایک جگہ ایک مقام بھی ایسا نہیں جہاں سے جستجو کرنے والا خدا تعالی کا حسن نہ دیکھ سکے.اور وہی حسن ہے جو دراصل حمد میں تبدیل ہوتا ہے جس کے بعد انسان بے اختیار کہتا ہے الحمد لله رب العلمين ، پھر روزہ مرہ کے انسان کے تجارب ہیں ، خوشیاں ہیں، غم ہیں ، خوف ہیں ان کے نتیجے میں روزانہ نماز کے یہ سات لفظ جو میں نے بیان کئے ہیں یہ نئے نئے مضامین سے بھرے جا سکتے ہیں.ایک شخص کا ایک بچہ فوت ہو جاتا ہے، اس کو اور کوئی صدمہ پہنچتا ہے، اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب ہم کس طرح بچے دل سے حمد کریں.یہ کہنے والے صرف اس لئے یہ کہتے ہیں کہ ان کے دماغ میں حمد اور شکر ایک ہی مضمون کے دو نام بن چکے ہوتے ہیں اور اکثر لوگ

Page 19

16 حمد صرف شکر کے معنوں میں کہتے ہیں، ان کو پتہ نہیں ہوتا کہ حمد ہے کیا ؟ تو کہتے ہیں کہ اب تو ہمارا نقصان ہو گیا.اب تو ہم صدمے کی حالت میں ہیں یا خوف کی حالت میں ہیں، ہم کیسے حمد کہیں لیکن وہی وقت حمد کہنے کا ہوتا ہے کیونکہ ایک محمود چیز ان کے ہاتھوں سے چلی گئی ہوتی ہے.ایک ایسی چیز ان کی روح سے کھوئی جاتی ہے جس کے ساتھ ان کی کوئی حمد وابستہ ہے اور وہ وقت ہوتا ہے یہ یاد کرنے کا کہ الْحَمْدُ يتو رب العلمین : حمد تو اصل میں خدا کی ہے.خدا نے یہ حمد اس کو تھوڑی سی بخشی تھی عارضی طور پر تو وہ قابل ستائش تھا لیکن جس نے حمد عطا کی تھی وہ میرا ہے اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہنے والا ہے.وہ کبھی مجھے چھوڑنے والا نہیں.پس نقصان سے کچھ صدمہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن اگر اس صدمے کو انسان عارضی سمجھ لے یعنی حقیقت میں عرفان کی رو سے تو وہ صدمہ عارضی بن جاتا ہے اور اگر اس کی حمد ہمیشہ کے لئے اس سے وابستہ ہو چکی ہو اور خدا کے علاوہ ایک باطل بت کے طور پر ایک شخص سے پیار کرنے لگے تو اس کا نقصان بھی ہمیشہ رہے گا اور اس سے پتہ چلے گا کہ اس نے خدا کے علاوہ کسی اور شخص سے دائمی حمد منسوب کر دی تھی.پس دیکھیں ایسے صدمے کے بعد اس کی پہلی نماز کی پہلی رکعت بے اختیار اس کی توجہ اس طرف مبذول کرا دیتی ہے کہ الْحَمدُ لله رب العلمین روز تمہیں یہ سبق دیا گیا.روز تم نے غور سے پڑھا.جانتے ہو اچھا بھلا کہ خدا کے سوا کوئی حمد نہیں تو اگر یہ چیز ضائع ہوئی تو خدا نے حمد عطا کی تھی.اس لئے اگر کوئی حمد عطا کرنے والا اپنی چیز واپس لیتا ہے تو واپس دیتے وقت بھی تو شکریہ ادا کیا جاتا ہے.شکوے کا وقت تو نہیں ہوا کرتا.آپ نے کسی کو کوئی چیز استعمال کے لئے دی ہو اور جب آپ واپس لیں تو وہ آگے سے گالیاں دینے لگ جائے کہ یہ چیز ابھی تم نے دی تھی، اب واپس لے کے جا رہے ہو تو آپ کا اس کے متعلق کیا تاثر ہوگا.لیکن اگر وہ شریف النفس ہے تو واپس دیتے وقت شکریہ ادا کرے گا لیکن یہ شکریہ تبھی ادا ہو سکتا ہے اگر ملت توی الدین پر نظر ہو.جس کو انسان مالک کل سمجھتا ہے اس کا شکریہ ادا کیا کرتا ہے اور اس کے واپس لینے پر کوئی ناراضگی پیدا نہیں ہو سکتی.جتنی دیر اس نے موقع دیا غنیمت ہے، اس کا احسان ہے تو ملت

Page 20

17 يزه الدين نے اس حمد کا خدا تعالٰی کی صفات کے ساتھ تعلق خوب کھول کر بیان کر دیا اور یہ مطلع کر دیا کہ اگر خدا کو ملک یوم الدین سمجھو گے تو اس کے ساتھ وابستہ ہر حمد ہمیشہ حمد ہی کی حالت میں دکھائی دے گی.اگر اس کو مالک یوم الدین نہیں سمجھو گے تو بعض موقعوں پر حمد کے اہل نہیں رہو گے.جب کسی پہلو سے تمہیں ابتلاء پیش آئے گا کوئی چیز تم سے واپس لی جائے گی تو تم آپ جو مالک بن بیٹھے ہو گے ہمیشہ کے لئے اپنا بنا چکے ہو گے ہمیشہ کے لئے اس کے ہو چکے ہو گے تو مالک یوم الدین پھر کہاں رہا.خدا تو اس کی ملکیت سے پھر الگ ہو گیا.پس سورۂ فاتحہ میں انسانی سوچوں کے جنتے بھی پہلو ہیں ان تمام پہلوؤں کی سیرابی کی گئی ہے.انسان کی ہر تختگی کو دور فرمایا گیا ہے.ممکن نہیں ہے کہ کوئی انسان سورۂ فاتحہ پر سے غور کرتے ہوئے گزرے اور کسی قسم کی تشنگی باقی رہے یا اکتاہٹ محسوس ہو.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ جب یہ کہو کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِين مو بھی تجھ سے ہی مانگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا اور آہستہ آہستہ تمہاری عبادت صحیح مقام پر کھڑی اور قائم ہو جائے گی.پس یہ مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بہت وسیع ہے اور ایک خطبے میں ناممکن ہے کہ اس کا پورا حق ادا کیا جاسکے.میں نے کوشش کی ہے کہ مختصراً آپ کو سمجھاؤں کہ عرفان سے نماز میں لذت پیدا ہوتی ہے اور اس کے لئے محنت کرنی پڑے گی.بات سمجھنے کے باوجود اچانک آپ کی نماز زندہ نہیں ہو سکتی.جن دانوں میں رس نہ رہا ہو اگر وہ ابھی زندہ اور درخت سے تعلق رکھتے ہیں تو معا علاج کے بعد ان میں رس تو نہیں بھر جایا کرتا، وقت لگتا ہے اور محنت کرنی پڑتی ہے.پس اللہ تعالی نے انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ بايُّهَا الإِنسَانُ إِنَّكَ كَادِ إِلَى رَيْكَ كَدْحًا فَمُلَقِيهِ (سورة الانشقاق : آیت) کہ اے انسان! تو خدا کی طرف محنت کر رہا ہے یعنی وہ انسان مخاطب ہے جو خدا کو پانے کے لئے محنت کرتا ہے.کا د پرانی رنک گوگا تجھے بہت محنت کرنی پڑے گی اور بہت محنت کر رہا ہے.ہم تجھے یہ یقین دلاتے ہیں کہ تیری یہ محنتیں ضائع نہیں جائیں گی.فعلقته تو ضرور اس رب کو پالے گا جس کی خاطر تو محنت اور جدوجہد کرتا ہے.تو عبادت کے باہر کے دروازے پر

Page 21

18 پہنچنے کی بجائے واپس عبادت کے مرکز کی طرف لوٹیں اور اپنی محنتوں کو جاری رکھیں اور خدا سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالٰی محنتوں کی بھی توفیق عطا فرمائے اور محنتوں کو پھل بھی لگا دے یہاں تک کہ نماز آپ کے لئے لذتوں کا ذریعہ بن جائے.بوریت اور اکتاہٹ کا باعث نہ رہے.j...

Page 22

19 بیت الفضل - لندن کار دسمبر 1990ء يشو الله الرّحمنِ الرَّحِيم تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی.تستح له السموتُ الشَّيْمُ والأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ، وَ إِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسْبَحُ محمد ولكن لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ، إِنه كَانَ حَلِيْمًا فَفُورًا وَإِذَا قَرَات القرات جعلنا بينك وبين الذين لا يُؤْمِنُونَ بِالآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْئُورًا وجَعَلْنَا عَلى قُلُوبِهِمْ آكِتَةً أن يَفْقَهُوهُ وَفي أَذَانِهِمْ وَقَرًا ، وَإِذَا ذَكَرْتَ رَبِّكَ في الْقُرْآنِ وَحْدَهُ وَلَّوْا عَلَى آدَبَارِهِمْ نُفُورا - (بنی اسرائیل : ۴۷۴۵) اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالی نے فرمایا :- یہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ اسراء جس کا دوسرا نام بنی اسرائیل بھی ہے اس سے لی گئی ہیں.آیات نمبر ۴۲۵ ۴۶ ۴۷ اگر بسم اللہ شامل کرلی جائے جیسا کہ ہمارے ہاں رواج ہے اور قرآن کریم میں بسم اللہ کا نمبر شامل کیا جاتا ہے تو پھر یہی ہے.بسم اللہ کے بغیر ۴۴-۴۵ اور ہم نمبر ہو گا.ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں سات آسمان اور زمین اور جو کچھ بھی ان میں ہے اور فی الحقیقت کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کی تسبیح نہ کر رہی ہو لیکن تم لوگ ان تسبیحوں کو سمجھتے نہیں یعنی زندہ چیزیں بھی اور بظا ہر مردہ نظر آنے والی چیزیں بھی جو کچھ بھی کائنات میں آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے لیکن تم اسے سمجھ نہیں سکتے.إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا.یقیناً وہ یعنی اللہ تعالٰی بہت ہی برد بار اور بہت ہی مغفرت کا سلوک فرمانے والا ہے.واذا قرات الفرات اے محمد! نام تو نہیں لیا گیا لیکن مخاطب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ہی فرمایا گیا ہے کہ اے محمد ! تو جب قرآن کی خلافت کرتا ہے تو تیرے درمیان اور ان لوگوں کے

Page 23

20 درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ایک ایسا پردہ وارد کر دیتے ہیں جو دکھائی نہیں دیتا یعنی مخفی پردہ ہے.دیکھنے میں کوئی پردہ نہیں لیکن فی الحقیقت وہ پردہ ہے جو تیرے اور آخرت پر ایمان نہ لانے والوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے.وَجَعَلْنَا على قُلُوبِهِمْآاعنة أن يَفْقَمُوهُ اور ہم ان کے دلوں پر طرح طرح کے پردے ڈال دیتے ہیں.چنانچہ وہ ان پردوں کی وجہ سے سمجھ نہیں سکتے یا اس غرض سے پردے ڈال دیتے ہیں کہ وہ کچھ سمجھ نہ سکیں اور ان کے کانوں میں بوجھ ہے یعنی اول تو آواز ہی دلوں تک نہیں پہنچتی کیونکہ کان ہی اس آواز کو رد کر دیتے ہیں اور جو آواز دلوں تک پہنچتی ہے.دل پردوں میں ملفوف ہیں، لیٹے ہوئے ہیں اور ایک نہیں کئی قسم کے پر دے ایسے ہیں جنہوں نے دلوں کو حق کی بات سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے اور جب بھی تو قرآن کریم میں اپنے رب کو اس کی توحید کے ساتھ ایک خدا کے طور پر پیش کرتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے تو یہ لوگ پیٹھ پھیر کر نفرت کے ساتھ منہ موڑ کے چلے جاتے ہیں.حمد کو سمجھنے اور اپنانے کے بعض اور پہلو گزشتہ خطبے میں میں نے نماز میں لذت پیدا کرنے کا ایک طریق یہ بیان کیا تھا کہ سورۂ فاتحہ کے مضمون کو خوب غور سے پڑھیں اور حمد لفظ میں ساری لذتوں کی کنجی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی حمد اس طرح کی جائے کہ انسان کا دماغ ان لفظوں کے ساتھ مل جائے وابستہ ہو جائے جو سورۂ فاتحہ میں ادا کیے جاتے ہیں اور سوچ سوچ کر حمد کو مختلف پہلوؤں سے خدا تعالیٰ کی ذات پر اطلاق کرتا چلا جائے اور اس کی صفات کو حمد کی روشنی میں سمجھے تو مضامین کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو انسان پر روشن ہوتا چلا جاتا ہے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ حمد کرنے میں کائنات کی ہر چیز شامل ہے.صرف جانداروں کا ہی ذکر نہیں فرمایا گیا بلکہ ہر وہ چیز جو آسمانوں میں یا زمین میں ظاہر یا مخفی طور پر موجود ہے وہ سب خدا تعالٰی کی حمد کر رہی ہوتی ہے.فرمایا : لیکن تم اس کو سمجھتے نہیں ہو..اس ضمن میں میں چند اور پہلوؤں سے احباب جماعت پر حمد کو سمجھنے اور اس کو اپنانے کا طریق پیش کرنا چاہتا ہوں.پہلا تو یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے

Page 24

21 آفاق پر غور کرنے سے انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی سے شناسائی ہوتی ہے اور دوسرا طریق یہ ہے کہ اپنے نفس پر غور کرنے سے انسان کو خدا تعالی کی ہستی کی شناسائی ہوتی ہے.آفاق میں بھی خدا کے نشان ملتے ہیں اور اپنے وجود میں بھی خدا تعالیٰ کے نشان ملتے ہیں.آفاقی لحاظ سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنے کا طریق قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کے زمین و آسمان کی اور جو کچھ ان دونوں میں ہے ان کی تخلیق پر غور کریں جیسا کہ فرمايا : الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ يَا مَا وَقُعُودًا وَ عَلى جُنُوبِهِمْ - اولوا الألياب وه لوگ ہیں ، صاحب عقل وہ لوگ ہیں جو خدا تعالٰی کو یاد کرتے ہیں اپنے پہلوؤں پر ہم کھڑے ہوئے بیٹھے ہوئے ہر حالت میں.وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.اور ان کی یاد محض ایک خیالی اور فرضی یاد نہیں ہوتی بلکہ خدا تعالی کی تخلیق پر غور کرنے کے نتیجے میں اس سے مدد حاصل کر کے ان کی یاد میں بہت گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور غیر معمولی لذت پیدا ہو جاتی ہے.پس زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرنا اور دن اور رات کے بدلنے پر غور کرنا ذکر الہی کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر صاحب عقل ہو ، تم صاحب ہوش ہو تو ہم تمہیں یہ طریق بتاتے ہیں کہ ہمیں یاد کرنے کے لئے ہماری تخلیق پر غور کیا کرو.اور جب تم ہماری تخلیق پر غور کرو گے تو ہم سے اس طرح تمہاری شناسائی ہو جائے گی، ایسا گہرا تعلق پیدا ہو جائے گا کہ عاشق کی طرح تم خود بخود ہمیں یاد کرنے لگو گے اور پھر دن رات یاد کرو گے.لیٹے ہوئے اپنے پہلوؤں پر اس وقت بھی ہمیں یاد کرو گے اور اٹھتے چلتے پھرتے بیٹھتے گویا کہ ہر حالت میں ہم تمہیں یاد رہیں گے.یہ طریق ہمیں سمجھایا گیا اور جہاں غور کرنے کے لئے نصیحت فرمائی وہاں یہ بھی ساتھ بتا دیا کہ تم حمد میں اکیلے نہیں ہو.جن چیزوں پر غور کر کے تم ان سے مدد لیتے ہوئے ہمیں یاد کرتے ہو، ہر وہ چیز جس پر تم غور کرو گے وہ خود ہماری یاد میں مصروف ہے اور ہماری یاد میں محو ہے اور ہماری تسبیح کر رہی ہے.یاد کرنے والوں کا یہ مضمون اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول اور محمود کھائی دیتا ہے لیکن اس کے باوجود انسان جسے سب سے زیادہ عقل دی گئی ہے سب سے زیادہ نا سمجھ ہے.لا تفقفون تم ان کی تسبیح کو

Page 25

22 سمجھتے ہی نہیں.کیسا تم غور کر رہے ہو کہ نہ خدا تعالیٰ کی کائنات پر غور کر کے خدا کی یاد تمہارے دل میں پیدا ہوتی ہے نہ یہ سمجھ سکتے ہو کہ جن چیزوں پر غور کرتے ہو وہ کیوں ان باتوں میں مصروف ہیں جو تمہیں دکھائی تو دیتی ہیں مگر سمجھ نہیں آتیں.اس کے بعد انگلی آیت کا تعلق بظاہر اس مضمون سے نہیں لیکن فی الحقیقت اسی سے ہے اور اس کی اگلی کڑی ہے لیکن وہ میں بعد میں بیان کروں گا.اب میں اس مضمون کے پہلے حصے کو ذرا زیادہ کھول کر بیان کرتا ہوں.جانورں کے ذریعہ خدا کی حمد انگلستان میں آج کل بدھ کے روز رات کو زندگی کی جو مختلف شکلیں ہیں ان سے متعلق DAVID ATTENBOROUGH کی فلمیں دکھائی جارہی ہیں DAVID ATTENBOROUGH ایک بیالوجسٹ ہے جو اس فن میں آج غالبا " تمام دنیا کے زندہ لوگوں میں سب سے زیادہ ماہر ہے کہ مختلف جانوروں کی زندگی کے حالات کو فلمائے یعنی ویڈیو کے ذریعے اور پھر ان کی ایسی حالتوں میں ان کو پکڑ لے کہ جو عام طور پر نظر سے اوجھل رہتی ہیں اور پھر اس طریق پر پیش کرے کہ جس کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز منتظم زندگی کا نقشہ ہمارے سامنے ابھرتا ہے.اور مختلف پہلوؤں کو وہ لیتا ہے اور ان پہلوؤں سے تعلق رکھنے والے مختلف جانوروں کی فلمیں پھر اکٹھی کر دیتا ہے اور ایک وسیع نظر میں آپ کو کسی زندگی کے ایک پہلو پر مختلف جانوروں کی قدر اشتراک دکھائی دینے لگتی ہے.اس کی مثال میں آپ کو دوں گا تو پھر آپ کو بات سمجھ میں آجائے گی.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خدا تعالٰی کی تخلیق پر غور کیا ہے اور بہت سے گہرے رازوں سے پردے اٹھائے ہیں مگر ان میں سے وہ خوش نصیب کم ہیں جو اس کے نتیجے میں ذکر الہی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، وہ ان چیزوں کو دیکھ تو رہے ہیں لیکن ان پر یہ آیت صادق آتی ہے کہ تم ان کی تسبیح کو سمجھتے ہی نہیں کیونکہ تمہارا اپنا مزاج تسبیح کا نہیں ہے.نہ تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ کیا حرکتیں کر رہے ہیں اور کیوں خدا کی تصیح کرتے ہیں اور کیسے تسبیح کرتے ہیں.نہ تمہارا اپنا ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ یہ تو خدا تعالٰی کی حیرت انگیز تخلیق کے کرشمے ہیں جس طرح ایک مصور کے شاہکار کو دیکھ کر ذہن

Page 26

23 دہیں نہیں اٹکا رہتا بلکہ مصور کی طرف منتقل ہوتا ہے اور اس کی تعریف کی طرف دل مائل ہوتا ہے.بعینہ یہی نتیجہ کائنات پر غور کرنے کا نکلنا چاہئیے تھا اور جب بھی خدا تعالی کی نئی نئی صنعتیں اور حیرت انگیز تخلیق کے کارنامے ہمارے سامنے آتے تو اسی حد تک اسی شناسائی کے معیار کے مطابق ہمیں اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف ہو جانا چاہیئے تھا مگر قرآن کریم فرماتا ہے تم دیکھتے تو ہو لیکن تم سمجھتے نہیں ہو.یہ تو بڑا دلچسپ مضمون ہے، اگرچہ مجھے اتنا وقت نہیں ملتا کہ میں اس قسم کی سب فلمیں دیکھ سکوں بعض دیکھ لیتا ہوں اور بعض کے متعلق ہمارے عبدالباقی ارشد صاحب کا بیٹا نبیل ہے اس کو میں کہہ دیتا ہوں وہ میرے لئے تیار کر لیتا ہے اور ریکارڈ کر کے پھر بعد میں مجھے بھجوا دیتا ہے اور میں نے بہت سی اس غرض سے بھی ربوہ بھیجوائیں کہ وہاں کی نئی نسلوں میں فلمی گانوں کے جو شوق اور بیہودہ فلمیں دیکھنے کے شوق پیدا ہو رہے ہیں وہ یہ کچھ دیکھیں جن کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.جن کے متعلق توجہ دلائی گئی ہے کہ ان چیزوں کو دیکھو ان پر غور کرو اور پھر تمہیں خدا تعالٰی سے محبت پیدا کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کرنی پڑے گی.از خود تمہارے دل میں خدا کی محبت موجیں مارنے لگے گی.اور بے اختیار ذکر میں محو ہو جاؤ گے اور تسبیح از خود، خودرو چشموں کی طرح تمہارے دل سے پھوٹنے لگے گی مگر چند بھجوائی ہوں گی.بہت سی ایسی ہیں تو میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ اور بھی اکٹھی کر کے وہاں بھی بھیجوائی جائیں اور افریقہ وغیرہ کے ممالک میں بھی ایسی فلمیں بھجوائی جانی چاہیں اور بچپن ہی سے بچوں کو دکھا کر ان کے مضامین سے ان کو شناسائی کروانی چاہیئے.اب میں آپ کے سامنے مثالیں رکھتا ہوں کہ کس طرح یہ شخص خدا تعالٰی کی طرف سے غیر معمولی طور پر صلاحیتیں عطا کیا گیا ہے اور نہایت ہی اعلیٰ طریق پر یہ ان مضامین کو ہم سے روشناس کراتا ہے جبکہ کسی اور سائنس دان کو میں نے اس حکمت اور عقل اور گہرائی کے ساتھ ایسی فلمیں بناتے ہوئے نہیں دیکھا.ایک مضمون ہے آپس میں جانور ایک دوسرے سے کس طرح اپنے مطالب بیان کرتے ہیں.کس طرح ایک دوسرے سے رابطے پیدا کرتے ہیں.اس ضمن میں اس نے مختلف ذرائع کو

Page 27

24 خصوصیت سے اختیار کیا اور پھر ایک ایک ذریعے سے تعلق رکھنے والے مختلف جانوروں کی مثالیں پیش کر کے یہ مضمون کھول کر سامنے رکھا.اس وقت صاف دکھائی دینے لگتا ہے کہ ایک حیرت انگیز خلاق عظیم ہے جس نے با قاعدہ ایک نظام کے تابع یہ حیرت انگیز کائنات پیدا فرمائی ہے.یہ اتفاقات کا حادثہ نہیں ہے.چنانچہ مثال کے طور پر روشنی کے ذریعے جانور ایک دوسرے سے رابطے پیدا کرتے ہیں.وہ دکھاتا ہے کہ کس طرح جگنو جو چمکتے ہیں، ہم لوگ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں بچے بھی اس سے کھیلتے ہیں اور دلچسپی لیتے ہیں کہ اتفاقاً " اس کے اندر روشنی کا کوئی مادہ پیدا ہو گیا ہے جو خود بخود جلتا پچھتا رہتا ہے اور یہی اس کا مقصد ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب وہ غور کرتے ہیں تو بے اختیار ان کے دل سے یہ بات نکلتی ہے کہ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً اے خدا! تو نے یہ چیزیں باطل اور بے مقصد پیدا نہیں فرمائیں.تو یہی بات کہ باطل نہیں پیدا فرمائی" یہاں تک تو دنیا کے سائنس دان پہنچنے لگے ہیں.خدا کرے اس سے اگلا قدم بھی اٹھالیں اور فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تک بھی پہنچ جائیں اور ذکر الہی میں بھی مشغول ہو جائیں.ہو سکتا ہے کہ کچھ ہوں بھی لیکن اکثریت بد نصیبی سے اس سے محروم ہے.تو روشنیوں سے جو پیغام رسانی کی جاتی ہے اس کے متعلق اس نے مختلف ملکوں میں مختلف موسموں میں جگنوؤں کا پیچھا کیا اور ان کی فلمیں بنائیں اور پھر ان کے پیغامات پر غور کر کے ان کو سمجھا اس حد تک ان کو سمجھا کہ سائنسی لحاظ سے پھر وہ ثابت بھی کر سکتا ہے کہ جو نتیجہ میں نکال رہا ہوں یہ درست ہے.جہاں تک پیغامات کا تعلق ہے ان سائنس دانوں کی نظر صرف یہاں تک پہنچتی ہے کہ نر کا پیغام مادہ کو کس طرح پہنچتا ہے.مادہ کا پیغام تر کو کس طرح پہنچتا ہے لیکن DAVID ATTENBOROUGH کچھ آگے بھی قدم بڑھا چکا ہے اور یہ باتیں کہنے کے بعد جو عام طور پر سائنس دان کہتے ہیں کچھ مثالیں ایسی بھی پیش کرتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اتنی سی بات نہیں ہے اور بھی بہت سی باتیں ہیں اور بھی بہت کچھ یہ ایک دوسرے سے کہہ رہے ہیں اور ان کی روشنیوں کی باقاعدہ ایک زبان ہے.چنانچہ جگنوؤں کی پیروی میں وہ ملائشیا بھی گیا اور وہاں اس نے ایسے ایسے عظیم مناظر

Page 28

25 دیکھے کہ جن کو دیکھ کر انسان کا دل اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو جاتا ہے.ایک بہت بڑے درخت پر لکھو کھا جگنو بھی ہو سکتے ہیں.اتنے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پتے پتے پر ایک جگنو ہے اور وہ سارے کے سارے ایک ہم آہنگی کے ساتھ جس طرح قال پر سر چلتے ہیں اس طرح ایک نغمگی کے ساتھ اکٹھے بجھتے ہیں اور اکٹھے جلتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں جیسے ایک دل دھڑک رہا ہو، جیسے نبض چلتی ہو اس طرح وہ سارے ایک دم جلتے ہیں اور ایک دم بجھتے ہیں.وہ کہتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ ہم نے امریکہ میں بھی دیکھے، وہاں اکیلے اکیلے جگنو چمکتے بجھتے دیکھے لیکن یہ خدا کی عجیب کائنات ہے کہ ان سب نے ایک دوسرے سے ہم آہنگی سیکھ لی ہے اور پھر اس نے مزید جب ان پر غور کیا تو اس نے یہ بات معلوم کی کہ ترجب چمکنے کے ذریعہ مادہ کو پیغام بھیجتا ہے اگر مادہ اس کا جواب دینا چاہیے اور اپنی طرف بلانا چاہے تو یونہی اتفاقا" ایک طبیعی رد عمل کے طور پر وہ نہیں چمکے گی بلکہ بعینہ 2 سیکنڈ انتظار کے بعد آدھے سیکنڈ کے لئے چمکے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہاں میں تیار ہوں تم سے تعلق قائم کرنے کے لئے میری طرف آجاؤ.چنانچہ اس نے روشنی سے یعنی ٹارچ کے ذریعے یہ کر کے دکھایا.جب جگنو چمکے تو اس کے پورے دو سیکنڈ کے بعد اس نے ہاتھ پر تھوڑی سے ٹارچ روشن کی اور آدھا سیکنڈ صرف روشن کی اور اڑتے ہوئے جگنو وہاں پہنچ گیا لیکن یہ جو اتنی سی بات اس نے حاصل کی ہے اس کے لئے سالہا سال کی محنت اس کو کرنا پڑی ہو گی، غور کرنا پڑا ہو گا اور ایک چھوٹا سا علم اس کو حاصل ہوا جس کو اس نے سائنسی طور پر ثابت بھی کر دیا.مجھے یاد ہے جب میں ایک دفعہ بنگلہ دیش گیا تو خیال تھا، سندربن میں کئی نئی جماعتیں قائم ہو رہی تھیں کہ سند رین بھی جانا چاہیے.یہی نظارہ میں نے پہلی مرتبہ سند رہن میں دیکھا تھا اور مجھے علم نہیں تھا کہ ملائیشیا میں بھی ایسا ہوتا ہو گا اور آج تک مجھے اس کی کیفیت یاد تو ہے لیکن نا قابل بیان ہے.جب آپ خود یہ نظارہ دیکھیں کہ دور تک میل ہا میل تک سارے درخت جگنوؤں سے بھرے ہوئے ہیں اور سارے بیک لخت بجھتے اور بیک لخت جلتے ہیں اور انسانی روشنیوں کا کوئی کھیل اس سے زیادہ دل کو متاثر نہیں کر سکتا لیکن ملائیشیا کاتو مجھے علم نہیں مگر بنگلہ دیش میں سندربن میں ایک مزید

Page 29

26 ہات اور بھی تھی کہ وہ انکا نام مجھے یاد نہیں.جمعی تر قسم کی چیزیں ہیں.جو درختوں کے اوپر آوازیں نکالتے ہیں، خاص قسم کی کرچ کرچ کی سی آواز میں بھی نکلا کرتی ہیں لیکن جو بنگلہ دیش میں آوازیں تھیں وہ گھنٹیوں سے مشابہ تھیں اور بعد میں مجھے علم ہوا کہ ایک ایسا INSECT' حشرات الارض میں سے ایک قسم ایسی ہے جس کا نام ہی انہوں نے گھٹی والا رکھا ہوا ہے.تو یوں لگتا تھا گھنٹی بچی ہے.ادھر روشنیاں یک دفعہ جلتی اور یک دفعہ بجھتی تھیں اور ادھر یہ گھنٹیاں ایک دفعہ چلتی اور یک وفعہ ختم ہو جاتی تھیں اور ان کی ٹن ٹن ٹن ٹن کی آواز اس رات کے وقت ایک حیرت انگیز اثر پیدا کرنے والا تجربہ تھا جس پر میں غور کرتا رہا اور حیران تھا کہ کس طرح خدا تعالٰی نے مختلف جگہوں میں کیا کیا حسن پھیلا رکھا ہے اور اپنے کیسے کیسے جلوے دکھاتا ہے اور اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ باہر سے دنیا آتی ہے، دیکھتی ہے نہیں دیکھتی ، ان لوگوں کو بھی کچھ سمجھ آتی ہے کہ نہیں آتی مگر وہ سارے جگنو ایک دم کیوں جلتے تھے اور ایک دم کیوں بجھتے تھے.اگر مادہ کی تلاش تھی تو عام طور پر جانورں میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ مادہ کے لئے الگ ہو کر باقیوں سے بچ کر ایسے اشارے دیتے ہیں تاکہ ان کے دوسرے رقیب نہ پہنچ جائیں مگر وہاں یہ نظارہ نہیں تھا.پس DAVID ATTENOROUGH کی فلم میں جب میں نے دیکھا تو مجھے وہ یاد آگیا.یہ تسبیح کا ایک طریق ہے.دنیا میں ہر چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے.کچھ آوازوں کے ذریعے کچھ روشنی کے ذریعے کچھ سجدہ ریز ہو کر کچھ سیکھتے ہوئے ہزار ہا مخلوقات کی قسمیں یا ان گنت کہنا چاہیے اور ہزار یا تسبیح کی قسمیں یا ان گنت کہنا کا ہیے دنیا میں موجود ہیں لیکن ہم فاضل آنکھوں سے ان کو دیکھ کر گزر جاتے ہیں اور معلوم نہیں ہو تا کہ ہمارے خالق نے کیسی کیسی حسین چیزیں تخلیق فرما ر کھی ہیں.سمندر کی تہہ میں روشنیوں کا دلکش نظارہ روشنیوں کے سلسلے میں مجھے یاد ہے وہاں ہی رات کے وقت کشتی میں سفر کا موقعہ ملا تو ایسی مچھلیاں ہمارے ساتھ ساتھ دوڑتی تھیں جو چاندی کی طرح چمک رہی تھیں اور پہلی مرتبہ مجھے یہ اتفاق ہوا تھا کہ ایسی مچھلی دیکھوں جو چاندی کی طرح چہکتی ہے.یوں

Page 30

27 لگتا تھا کہ با قاعدہ چاندی کی بنی ہوئی مچھلیاں ہیں جو ساتھ ساتھ کوندے مار رہی ہیں اور سطح کے قریب اگر کشتی کی پیروی کرتی تھیں DAVID ATTENBOROUGH نے قلم میں نہ صرف فضا میں چمکنے والے حشرات الارض کی تصویریں کھینچی ہیں، صرف جگنوؤں کی نہیں مختلف قسم کی، بلکہ زمین پر چلنے والوں کی بھی کھینچی ہیں اور سمندر میں ڈوبے ہوؤں کی بھی کھینچی ہیں اور وہ بتاتا ہے کہ نہ جو اس حیرت انگیز جلوہ آرائی سے خالی ہے نہ خشکی پر چلنے والے جانور اس سے خالی ہیں نہ سمندر کے اندر بسنے والے اس سے خالی ہیں.چنانچہ سمندر میں جب رہ جا کر دکھاتا ہے تو سطح پر یعنی سطح کے قریب رہنے والی مچھلیاں اور مختلف قسم کے جانور رات کے وقت ایک دوسرے سے روشنیوں کے ذریعے باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور بہت ہی خوبصورت نظارے پیدا ہوتے ہیں لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز چیز جو DAVID ATTENROROUGH نے بھی محسوس کی اور ہر دیکھنے والا محسوس کرتا ہے وہ یہ ہے کہ سمندر کی تہہ میں اتنی گہرائی پر جہاں سمندر کے پانی کا بوجھ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ فضا کے اندر جو بوجھ ہے جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں اس سے 50 گنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے یعنی اتنا بوجھ ہے کہ اگر ایک انسان بغیر کسی مشینی سہارے کے بغیر خاص قسم کے خود پہنے ہوئے نیچے چلا جائے تو اس بوجھ سے پیچک کر اس طرح چپٹ کے وہ پھیل جائے اور بکھر جائے جس طرح اس کے اوپر کئی شن وزن ڈال دیا جائے ، شاید اس سے بھی زیادہ وزن ہو کیونکہ نیچے جاکر 50 گنا فضائی وزن سے زیادہ وزن ہو جاتا ہے.وہاں DAVID ATTENBOROUGH یہ تمہید قائم کرتا ہے کہ میں جب خاص قسم کی کشتی میں بیٹھ کر کیمرے وغیرہ لے کر نیچے گیا تو اول تو انسان یہ بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ اتنے حیرت انگیز دباؤ کے نیچے کوئی زندگی پل سکتی ہے لیکن مزید حیرت اس بات پر ہے کہ وہاں روشنی کا کوئی اشارہ بھی نہیں پہنچتا.کوئی نور کی ایک اچٹتی ہوئی کرن بھی وہاں داخل نہیں ہو سکتی کیونکہ اوپر کی سطح کا پانی اس کو جذب کر لیتا ہے اور مکمل تاریکی کا اگر کہیں کوئی تصور ہے تو وہ نیچے ہے.کلیتہ بالکل ایک تاریک دنیا کہتا ہے اور وہ فلم دکھاتا ہے کہ جب ہم وہاں نیچے پہنچے تو وہاں ہمیں ایسی حیرت انگیز مچھلیاں دکھائی دیں، ہر قسم کے مختلف جانور چلتے پھرتے دکھائی دیئے جن کا آپس

Page 31

28 میں گفتگو کا ذریعہ روشنی تھا.پس اس انتہائی اندھیرے میں بھی خدا نے مخلوق کو روشنی کے ذریعے ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کا سلیقہ سکھایا ہوا ہے اور ملکہ عطا کر رکھا ہے اور وہ اعضاء عطا کر دیئے ہیں جن کا بنانا آج کے سائنس دان کے اختیار میں بھی نہیں کہ اس طرح اس کو بیٹا کر جانوروں کے اندر وہ رکھ دے اور وہ ایسے حیرت انگیز طریق پر کار فرما ہوں کہ اس کو سمجھنا بھی انسان کے لئے ایک امر محال ہے یعنی اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتا.وہ جو ٹار ہیں خدا نے نیچے بنا رکھی ہوئی ہیں مختلف قسم کی مچھلیوں کے لئے وہ ہمارے بلب جس طرح بٹنوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.مرضی سے جلائے بجھائے جا سکتے ہیں اسی طرح وہ روشنیاں جانوروں کی مرضی پر ہیں.از خود طبعی طور پر نہیں جلتیں بلکہ جانوروں کی مرضی ہے جب چاہیں روشن کرلیں جب چاہیں بجھا دیں اور اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ بعض مچھلیاں جب اپنے سارے رنگ اکٹھے ظاہر کرتی ہیں تو کوئی آگ کا کھیل جو آپ نے دنیا میں دیکھا ہو گا اس کا مقابلہ نہیں کرتا.حد سے زیادہ خوبصورت مناظر پیدا ہوتے ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ اتنا مکمل اختیار ان کو دے دیا گیا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو اپنے ایک طرف کے آدھے جسم کو روشن کریں ، اگر چاہیں تو دو سری طرف کے آدھے جسم کو روشن کریں.چنانچہ دوستوں کا وہ جو ڑا جو یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگوں کو " چلے کہ ہم دوستی کر کے اکٹھے پھر رہے ہیں ان کی تصویر اس نے اسطرح کی ہوتی ہے کہ انکا وہ پہلو جو ایک دوسرے کی طرف ہے وہ خوبصورت اور چمک رہا ہے اور دوسرا پہلو بالکل تاریک ہے اور اگر ان کا رخ بدل دیں تو جو ایک دوسرے کے سامنے پہلو آئے گا وہ روشن ہو جائے گا اور جو دوسری طرف چلا جائے گا وہ مجھے جائے گا اور ان کے اندر مختلف شکلوں میں چھوٹے سے قمقمے سے بھی لگے ہوئے ہیں جب چاہیں وہ ان کو روشن کرلیں تو روشنیوں کے ذریعے گفت و شنید کا ایک نظام خدا تعالٰی نے قائم کر رکھا ہے اور وہ صرف مذکر اور مؤنث یا زر اور مادہ کے درمیان گفت و شنید کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کو مختلف حالتوں میں مختلف کیفیات بتانے کے لئے روشنیوں کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں لیکن ابھی پوری طرح ان کے حالات کو انسان سمجھ نہیں سکا.اول تو یہ کہ بہت مشکل کام ہے دوسرا یہ کہ سائنس دانوں کا دماغ جب

Page 32

29 ایک طرف چل پڑے تو عادت پڑ جاتی ہے کہ ہر بات کا وہی نتیجہ نکالتے ہیں.اتنی سے بات سمجھ آگئی کہ مرد اور عورت میں آپس میں تعلق ہوتا ہے تو ہر اشارے کا یہ مطلب نکالنے لگ جاتے ہیں حالانکہ خدا تعالٰی کی کائنات وسیع ہے وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ علية الا بما شاء وہ تو خدا کی کسی چیز کے ایک چھوٹے سے پہلو کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے.الا بما شاہ مگر جس کی خدا توفیق بخشے جتنا چاہے ان کو علم عطا فرما دیتا ہے تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو ہمیں یہ بتایا کہ اگر اولوا الالباب ہو تو تم کائنات میں خدا تعالی کی تخلیق پر غور کیا کرو.فرمایا : اولوا الالباب یہی کرتے ہیں.صاحب علم و عقل غور کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے کائنات کیسے بنائی ہے.کیا کیا نظام اس میں رکھے ہوئے ہیں.کس طرح خدا تعالیٰ کی صفات اس کا ئنات میں جلوہ گری کرتی ہیں اور جب وہ یہ دیکھتے ہیں تو اس سے ذکر الہی پیدا ہوتا ہے اور یہی عقل کی تعریف ہے نہ اکیلا ذکر الہی کوئی معنی رکھتا ہے جس میں عقل شامل نہ ہو.آنکھیں بند کر کے آپ کسی کی تعریف کرتے رہیں آپ کو پتہ ہی نہ ہو کہ تعریف کس چیز کی کر رہے ہیں تو اس کو ذکر کہنا ہی حماقت ہے اور چیز دیکھ رہے ہیں مگر تعریف پیدا نہیں ہو رہی، صاحب حمد کی طرف ذہن نہیں جا رہا یہ بھی ایک اندھا پن ہے تو عقل کی نشانی یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں میں امتزاج ہو جائے.یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو جائیں اور پھر خدا تعالیٰ کی عجیب شان آپ کو دنیا میں ہر جگہ پھیلی ہوئی دکھائی دے گی جیسا کہ اس آیت میں بیان فرمایا ہے : تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ، وَ إِنْ من شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ، کہ دیکھو سارے آسمان یعنی سات آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اسی کی تعریف کر رہے ہیں اور کوئی بھی ایسی چیز نہیں جو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی حمد اور تشریح میں مصروف نہ ہو مگر تم سمجھتے نہیں ہو.پرندوں کی آوازوں کی اقسام پھر آوازوں کے ذریعے جانور ایک دوسرے سے جو باتیں کرتے ہیں ان کے متعلق ہمیں اتنا تو علم ہے کہ ہم یعنی انسان ایک دوسرے سے اس طرح باتیں کرتے ہیں لیکن

Page 33

30 اور جانوروں کے متعلق ہم یہی سمجھتے ہیں کہ صرف ایک دو ایسے اشارے ہیں خوف کے یا حرص کے جو وہ اپنی چیخوں کے ذریعے یا بے منکم آوازوں کے ذریعے ایک دوسرے کو سمجھانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں مگر امر واقعہ یہ ہے کہ جب جانوروں کی زندگیوں پر تحقیق کی جائے اور ان کی آوازوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو بہت کچھ اور بھی معلوم ہونے لگتا ہے.آجکل کے زمانے میں سائنس دانوں نے اس علم کی طرف توجہ کی ہے معلوم کرنا شروع کیا ہے کہ پرندے جب آوازیں نکالتے ہیں تو کیا صرف خوف کی آواز ہی ہے یا کچھ اور بھی باتیں ہیں چنانچہ ان کو پتہ چلا کہ صرف خوف کی یا امید کی باتیں نہیں بلکہ اور بھی اشارے وہ اپنی آوازوں میں کرتے ہیں چونکہ ہمارے سننے کی جو WAVE LENGTHS ہیں یعنی آواز کی ارتعاش میں کتنی مرتبہ اور نچ نچ پیدا ہوتا ہے اس کو WAVE LENGTH کہتے ہیں یعنی ایک ارتعاش اور دوسرے ارتعاش کی پیک (PEAK) کے درمیان آپس میں کیا فاصلہ ہے.بہرحال یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کی مجھے اردو نہیں آرہی تو میں WAVE LENGHT کے طور پر آپ کے سامنے یہ بیان کر رہا ہوں.آواز کا ہمارے سننے کا خدا تعالیٰ نے ایک دائرہ مقرر فرما دیا ہے اس دائرے سے کم WAVE LENGTH کی آوازوں کو ہم نہیں سن سکتے اس دائرے سے آگے بڑھی ہوئی WAVELENGTH کی آوازوں کو ہم نہیں سن سکتے اور جانور اس سے بہت زیادہ سنتے ہیں اور بہت کم بھی سنتے ہیں.اس لئے اول تو جو آوازیں ہمیں ان کی آتی ہیں ان سے کچھ زیادہ باتیں وہ کر رہے ہوتے ہیں جن کا ہمیں پتہ ہی نہیں.اور مختلف جانوروں کے لئے مختلف سمت میں خدا تعالیٰ نے انسان پر برتری عطا کی ہوتی ہے.بعض کم WAVELENGTH کی آوازیں سنتے ہیں بعض زیادہ کی آوازیں سنتے ہیں مگر جو کچھ آوازیں وہ نکالتے ہیں ان میں بہت کچھ مضامین بھی بیان ہو رہے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں جب بچپن میں ہم نے پہلی مرتبہ یہ پڑھا کہ حضرت سلیمان کو پرندوں کی اور جانوروں کی زبان سکھائی گئی تھی تو حیرت بھی ہوتی تھی اور ذہن زیادہ جنوں پریوں کی ان کہانیوں کی طرف منتقل ہو جایا کرتا تھا جن سے یہ معلوم ہو تا تھا کہ انسانوں کی طرح با قاعدہ باتیں کر کے یہ ایک دوسرے کو اپنا مضمون سمجھاتے ہیں لیکن بعد میں جب سائنس کی مدد

Page 34

31 سے ان باتوں پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالٰی نے بہت ہی غیر معمولی حکمت عطا کی تھی اور وہ ان جانوروں کی آوازوں کو محض لغو نہیں سمجھا کرتے تھے، معمل نہیں سمجھا کرتے تھے بلکہ ان پر غور فرمایا کرتے تھے اور غور فرمانے کے نتیجے میں ان پر بہت سے ایسے مضامین روشن ہو جاتے تھے.جو عام آدمی پر روشن نہیں ہوتے.طیور کے اور بھی معافی ہیں جو تفاسیر میں ملتے ہیں لیکن ظاہری طور پر اگر معنی کئے جائیں تو یہی معنی بنتے ہیں کہ حضرت سلیمان ایک بہت ہی غیر معمولی حکمت رکھنے والے نبی تھے جن کو خدا تعالٰی نے عام نبوت کی باتوں کے علاوہ بھی بہت سے حکمت کی باتیں بتائی تھیں اور ان میں ان کا ایک یہ شوق بھی تھا کہ جانوروں کے اشاروں سے ان کی حرکتوں سے ان کی آوازوں سے معلوم کریں کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں اس مضمون پر بھی DAVID ATTENBOROUGH نے ایک بہت ہی دلچسپ فلم بنائی ہے یا ایک سے زائد بتائی ہوں گی.مجھے ایک دفعہ ایک دیکھنے کا موقعہ ملا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ پرندوں کی جو آوازیں ہیں وہ صرف آپس میں ایک ہی جنس کے پرندے نہیں سمجھتے بلکہ دوسری جنس کے پرندے بھی سمجھتے ہیں اور جب یہ خاص وقتوں میں خاص پیغام دینا چاہتے ہیں تو سارا جنگل ان آوازوں سے گونج رہا ہوتا ہے.انسان سمجھتا ہے کہ اس نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سمجھے گا اور کون سنے گا لیکن اس نے بڑے گہرے غور سے یہ معلوم کیا کہ وہ جانور جو اپنی آواز دور تک اپنے دوسرے ہم جنسوں کو پہنچانا چاہتے ہیں وہ اس آواز کے ہنگامے میں ان وقفوں کی تلاش کرتے ہیں جب دوسروں کی آوازیں اس وقت بند ہوئی ہوتی ہیں.چنانچہ عین اس وقت جبکہ دوسری بڑی آوازیں جو ان کی آواز کو ڈ ہوتی ہیں وہ رکتی ہیں تو ایک دم پھر یہ اپنی چیخ چلاتے ہیں اور اس سلسلے میں اور بھی بہت سی دلچسپ باتیں اس نے دریافت کیں تو پتہ چلا کہ با قاعدہ روم ہیں، جس طرح با قاعدہ ریڈیو سٹیشنز نے آپس میں WAVELENGTH الاٹ کی ہوئی ہوتی ہیں کہ اس WAVELENGTH پر ہم پیغام بھیجیں گے اس پر تم بھیجو تاکہ مل جل نہ جائیں اسی طرح جانوروں کی آوازوں کی WAVE LENGTH' ان کی پیچیں،

Page 35

32 (PITCH) ان کی بہت سی اور چیزیں ان کو ایک دوسرے سے مختلف بھی کر دیتی ہیں اور آوازوں کے ایک شور میں جہاں بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر آواز ایک دوسرے سے مل گئی ہے وہاں ان کی آواز میں اپنی خاص ادا کے ساتھ اپنی خاص خصوصیت کے ساتھ ان کے ہم جنسوں کو پہنچ رہی ہوتی ہیں.پس بعض دفعہ وقفوں سے فائدہ اٹھا کر ، بعض دفعہ آواز کی قسموں کی صلاحیت کی بناء پر یہ بے انتہاء شور میں بھی ایک دوسرے سے گفت و شنید کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ پھر بعض پرندے بعض دوسری آوازوں کو ساتھ شامل بھی کر لیتے ہیں چنانچہ غالبا" ساؤتھ امریکہ کا ایک خاص قسم کا طوطا ہے وہ جب ایک درخت پر قبضہ جماتا ہے اور یہ اعلان کرنا چاہتا ہے کہ یہ درخت میرا ہو گیا ہے اور کوئی طوطا اب ادھر نہ آئے تو نہ صرف یہ کہ وہ خاص قسم کی آواز میں نکالتا ہے بلکہ ایک لکڑی توڑ کر ڈھول کی طرح درخت کے ساتھ بجاتا بھی ہے اور اس میں ایک روم ہے اس میں ایک نعمگی پائی جاتی ہے.یوں ہی بے ہنگم طریق پر نہیں مارتا بلکہ اپنی آواز کے ساتھ ملا کر گویا ڈھول بھی بج رہا ہے اور ساتھ ساتھ اعلان بھی ہو رہا ہے کہ یہ درخت میں نے قبضہ کر لیا ہے اب کوئی ادھر نہیں آئے گا.پھر سمندر کے اندر جو مختلف آواز میں پیدا ہو رہی ہیں وہ اگر باہر اسی قوت کے ساتھ سنائی دینے لگیں تو انسان کی زندگی حرام ہو جائے.ایک دفعہ سان فرانسسکو میں بعض لوگوں نے جو بہت بڑے بڑے امیر تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم HOUSE BOAT میں رہا کریں زیادہ مزا آئے گا یعنی جس طرح کشمیر میں رواج ہے ڈل جھیل میں کشتیوں کے گھر بنے ہوئے ہوتے ہیں اس کو HOUSE BOAT کہتے ہیں تو انہوں نے بہت ہی عظیم الشان اور عیاشی کے تمام سامانوں سے مرصع کر کے ایسے کشتیوں کے گھر بنائے اور ان میں رہنے لگے لیکن ان کو چین نصیب نہ ہوا کیونکہ ساری رات اتنی خوفناک آوازیں آتی تھیں کہ دل دھل جاتے تھے اور آوازوں کی قسمیں ایسی تھیں جس سے وہ سمجھتے تھے کہ شاید بجلی والوں نے جو CARLES بچھائی ہیں ان سے کوئی مقناطیسی لہریں اٹھتی ہیں جو بعض دوسروں سے یں سے ٹکرا کر یہ آواز پیدا کرتی ہیں.بعضوں کا خیال تھا کہ سیوریج والوں نے اس طریق پر گندا پانی قریب سے گزارا ہے کہ اس سے یہ گونج پیدا ہو رہی ہے.چنانچہ

Page 36

33 مختلف مقدمے بن گئے.کوئی بجلی کی کمپنی پر بن گیا.کوئی کمیٹی پر بن گیا کہ تم نے سیوریج غلط طریقے سے گزارا ہے اس سے ہماری نیند حرام ہو گئی ہے.یہ مقدمے ابھی چل ہی رہے تھے کہ ایک سائنس دان نے تحقیق کی اور اس نے اس کی وجہ معلوم کرلی اس علاقے میں ایک خاص قسم کی مچھلی پائی جاتی ہے جو سارا دن خاموش رہتی ہے اور ساری رات آوازیں نکالتی ہے اور ان آوازں کے ذریعہ مچھلیاں رات کو ایک دوسرے کو پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ ہم یہاں ہیں یہاں آجاؤ.چنانچہ اس نے اسی قسم کی ایک آواز ریکارڈ کی یعنی خود بنا کر اور سمندر کے اندر ایک لاؤڈ سپیکر جس پر پانی اثر نہیں کرتا وہ لٹکایا اور کیمرے مقرر کئے جو اس کی تصویریں کھینچیں تو جب وہ وہی آواز نکالتا تھا تو اس لاؤڈ سپیکر کے گرد بڑی تیزی کے ساتھ وہ مچھلیاں حملہ کر کے آئی تھیں اور اس وقت پتہ چلا کہ یہ ہیں آواز نکالنے والی مچھلیاں.سمندر کے اندر وہ آواز بہت ہی زیادہ شدت سے محسوس ہوتی ہے لیکن وہ اتنی قوی آواز تھی کہ سمندر کے باہر بھی سنائی دیتی تھی.یہ عام طور پر نہیں ہوتا لیکن سمندر کے اندر تو بعض مچھلیوں کی آوازیں اتنی طاقت کے ساتھ حرکت کرتی ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے تین تین سو میل دور باتیں کر لیتی ہیں چنانچہ سائنس دانوں نے اب باقاعدہ تحقیق کر کے عملاً " تین تین سو میل بلکہ بعض صورتوں میں اس سے بھی زیادہ دور ان مچھلیوں کی آوازیں پکڑی ہیں اور ان کو حل کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ یہ اس طرح پیغام دیتی ہیں تو سمندر کے نیچے بھی پھر وہ DAVID ATTENBOROUGH چلا جاتا ہے آوازوں کے آلوں کے ساتھ اور وہاں ایک عجیب کائنات خدا کی دکھائی دیتی ہے.اس قدر شور بپا ہے.اس قدر ہنگامہ ہے کہ بظاہر ہمارے کان کچھ بھی نہیں سن رہے.کوئی آواز نہیں آرہی لیکن سمندر کی دنیا اس طرح بول رہی ہے اس طرح باتیں کر رہی ہے کہ جس طرح ہمارے ہاں کہتے ہیں نا چھی ھٹے میں چلے جاؤ تو شور و غل بپا ہوا ہوتا ہے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے.اگر ان سب کی آوازیں انسان سمجھنے لگے اور انسان سنے لگ جائے تو سمجھنا تو درکنار اس کے کان کے پردے پھٹ جائیں کیونکہ اتنی طاقت در آوازیں ہیں کہ انسان انکا متحمل ہی نہیں ہو سکتا.پس اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے کہ ہم نے کانوں پر پردے ڈالے ہیں جن

Page 37

34 کو تم دیکھتے نہیں ہو اور دیکھ سکتے نہیں ہو تو امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے پردے بنا رکھے ہیں یعنی ظاہری دنیا میں بھی وہ پر دے بنے ہوئے ہیں جن کو ہم دیکھ نہیں سکتے.WAVELENGTHS بدلنے کے نتیجے میں ایک پردہ بن گیا.آپ خاص قسم کی آوازیں سنتے ہیں بعض دوسری قسم کی آوازیں سن ہی نہیں سکتے ورنہ اگر سنتے تو اپنی آوازیں سننے کے بھی اہل نہ رہتے.اس قدر طاقت ور آوازیں ہیں.اتنا زبردست شور ہے کہ پردوں کے پر خچے اڑ جائیں.پس خدا تعالٰی نے پردے رکھے ہوئے ہیں حفاظت کی خاطر لیکن بد نصیب لوگ وہ ہیں جو ان پردوں کے نتیجے میں حق سے محروم رہ جاتے ہیں.روحانی دنیا میں پردے بنانے کے مقاصد خدا تعالیٰ نے جو پردے بنائے ہیں وہ خاص مقاصد کے لئے بنائے ہیں.اب روحانی دنیا میں بھی جب ہم پردوں کی بات کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے قائم کئے ہوئے پر دے کچھ مصالح رکھتے ہیں لیکن بد نصیب لوگ ان پردوں کے نتیجے میں حق بات سے محروم رہ جاتے ہیں.پردے خدا تعالیٰ نے اس لئے انسان کو عطا کئے تاکہ گندی باتوں سے بچے ، لغو باتوں سے بچے ان چیزوں سے بچے جو خدا سے دور لے جاتی ہیں.یہ پر دے بنانے کی حکمت تھی، اس لئے بنایا تو خدا ہی نے ہے مگر انسان جب چیزوں کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے تو وہ چیز جو فائدے کی خاطر بنائی جاتی ہے وہ نقصان کا موجب بن جاتی ہے.پس جہاں بھی آپ یہ پڑھتے ہیں کہ ہم نے ایسا کیا.ہم نے پردے بنائے.ہم نے فاصلے حائل کئے روکیں پیدا کیں تو نعوذ باللہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی نے شر پہنچانے کے لئے ایسا کیا.مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قانون نے بعض مصلحتوں کی وجہ سے بعض چیزیں بنا رکھی ہیں.بعض روکیں پیدا کرنے کی صلاحیت انسان کو بخشی ہے.آنکھیں بند کر سکتا ہے یہ بھی اس کی ایک نعمت ہے اگر انسان آنکھیں بند نہ کر سکتا تو اس کا نظام عصبی تباہ و برباد ہو جاتا.اس کو نیند نہیں آسکتی تھی اور ہر وقت کی آنکھیں کھلی ہوئی تو ایک عذاب ہے.اب دیکھیں آنکھیں بند کرنا ایک نعمت کے طور پر دیا گیا تھا مگر آپ اگر روشنیوں سے آنکھیں بند کرلیں اور جگہ جگہ ٹھوکریں کھاتے پھریں اور ایک مصیبت میں مبتلا رہیں تو معمولی روز مرہ کی زندگی آپ

Page 38

35 کے لئے عذاب بن سکتی ہے.ایک دفعہ ہم نے سیر کرتے ہوئے یہ مقابلہ کیا کہ آنکھیں بند کر کے کون سیدھا چل سکتا ہے تو آنکھیں بند کر کے چلتا ہی اول تو بڑا مشکل ہے بہت بڑی مصیبت ہے.آدمی کا بیلنس بگڑ جاتا ہے.دوسرے رخ کا پتہ ہی نہیں چلتا.چنانچہ میں اور میری بچیاں ساتھ تھیں ہم نے کہا کہ ہم آنکھیں بند کر کے سیدھے چلنے کی کوشش کرتے ہیں، میں نے کہا جب آواز دوں گا ”ہاں تو اس وقت آنکھیں کھولنا.تو جب میں نے آواز دی تو کوئی کسی طرف نکلا ہوا تھا کوئی کسی طرف نکلا ہوا تھا اور کوئی اس سے پہلے ہی کسی جگہ ٹھو کر کھا کے سفر بند کر چکا تھا تو اب آنکھیں بند کرنا ایک نعمت ہے مگر غلط جگہ آنکھیں بند کرنا تو نعمت نہیں.وہ تو ایک مصیبت بن جاتی ہے.روز مرہ زندگی انسان نہیں گزار سکتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے پر دے بنا رکھے ہیں جو خاص مقاصد کے لئے بنائے گئے ہیں مگر یہ بد نصیب ایسے ہیں کہ پردے غلط جگہوں پر استعمال کرتے ہیں.بعض پہلوؤں سے وہ تیز نظر رکھتے ہیں.بعض پہلوؤں سے کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے.بد نصیبی سے ایسے پردے مسلمان علماء کی آنکھوں پر بھی ہیں.وہ بعض چیزیں نہیں دیکھ سکتے اور عجیب حالت ہے کہ جس قرآن کریم نے یہ عظیم راز ہمیں سمجھائے ایسے عظیم راز جو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتے وہ مسلمان خدا کی کائنات کی تخلیق پر غور کرنے سے عاری رہے.ایک دور تھا چند سو سال کا یعنی بغداد میں جب اسلامی مملکت کا مرکز تھا جس میں سائنس دانوں نے بڑی ترقی کی ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر وہ ماضی کی بات بن چکی ہے.اب ان چیزوں پر غور کے لئے مسلمانوں کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور غیر کھولتے ہیں لیکن مسلمان ذکر کی طرف تو بہر حال مائل ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ ذکر کی طرف مائل نہیں ہوتے.کسی نے آنکھ پر ایک پردہ گرا رکھا ہے.کسی نے دو سرا پردہ گرا رکھا ہے اور جہاں تک دلوں کی کیفیت کا تعلق ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دلوں پر تو ہم نے کئی قسم کے پردے بنا رکھے ہیں.ایک نہیں بہت سے پردے ہیں جو حائل ہو جاتے ہیں.یہ جو مضمون ہے اس سے متعلق میں پھر انشاء اللہ کسی وقت بیان کروں گا.اب وقت زیادہ ہو رہا ہے.میں اب دوسری آیت کی طرف آگر آپ کو مختصرا اس کا پہلی آیت سے تعلق بنا کر دکھاتا ہوں.یعنی تعلق تو ہے لیکن دکھانا

Page 39

36 چاہیئے کہ کیا تعلق ہے؟ اس مضمون کو بظا ہر چھوڑ کر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ واذا قرات القران جَعَلَنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالاخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورا اے مجھے صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ! اسی طرح ہم نے تیرے اور ان لوگوں کے درمیان بھی جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے نہ دکھائی دینے والے پردے بنا رکھتے ہیں.جب تو قرآن پڑھتا ہے تو ان کے پلے کچھ نہیں پڑتا.قرآن ذکر ہے.مراد یہ ہے کہ جب تو ذکر الہی کرتا ہے اس قرآن کے ذریعے جو خدا نے تجھے عطا کیا ہے تو تو لذتوں کی دنیا میں کھویا جاتا ہے.کلیتہ " خود فراموش ہو جاتا ہے لیکن یہ لوگ جو سن رہے ہیں ان کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی.ہم نے ایسے پردے بنا رکھے ہیں گویا ان کی سننے کی WAVELENGTH اور ہے اور عملاً روحانی دنیا میں مختلف WAVELENGTHS ہیں.مختلف قسموں کی آوازیں ہیں جو صاحب عرفان سمجھ سکتے ہیں اور جن کو عرفان نصیب نہ ہو وہ نہیں سمجھ سکتے تو دیکھئے قرآن کریم نے ان دو انتہاؤں کو کس طرح دو چھوٹی سی آیات میں بیان فرما دیا.ایک طرف انسان کی یہ بد نصیبی اس کو دکھائی کہ ہر چیز تسبیح کر رہی ہے تم سے نیچے جتنی مخلوقات ہیں وہ سب تسبیح اور حمد میں مصروف ہیں مگر تمہیں دیکھنے کے باوجود ان کی تسبیح سنائی نہیں دیتی اور سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور کس طرح کر رہے ہیں اور خود تم اپنی ذات میں بھی تسبیح اور حمد سے ایسے غافل ہو گئے ہو کہ جب خدا تعالیٰ کی حمد بیان کرنے والا ایسا آیا جو سب دنیا میں حمد بیان کرنے والوں سے آگے بڑھ گیا.جب خدا تعالیٰ کی تسبیح کرنے والا ایسا وجود ظاہر ہوا کہ اس جیسا کبھی نہ پہلے پیدا ہوا تھا نہ آئندہ پیدا ہو سکتا ہے یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جس کے متعلق فرمایا کہ ذكرًا رَسُولاً (سورة الطلاق : (۱۲) وہ مجسم ذکر الہی ہے.تم اس کی باتوں سے کھلا کھلا ذکر الہی سنتے ہو اور تب بھی تمہارے اور اس کے درمیان پردے پڑے ہوئے ہیں.کائنات میں سب سے اندھا جانور پس کائنات میں سب سے زیادہ اندھا جانور اس صورت میں انسان بن جاتا ہے نہ خود تسبیح اور حمد کا سلیقہ نہ دوسروں کو دیکھ کر وہ کچھ سیکھتا ہے اور ان کی سمجھ بھی نہیں

Page 40

37 آتی.ساری کائنات خدا کی حمد اور تسبیح کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے.ان کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں ان کی روشنیاں جل رہی ہیں اور عجیب مناظر ہیں جو تمام دنیا میں کائنات میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں.ہواؤں میں بھی ہیں.خشکی کے اوپر بھی زمین پر چلنے والوں میں بھی اور سمندر کی گہرائیوں تک بھی اور دن رات وہ جلوہ افروزیاں ہو رہی ہیں.خدا تعالیٰ کے جلوے مختلف شکلوں میں ظاہر ہو رہے ہیں مگر دیکھنے والوں کو بھی دکھائی نہیں دے رہا، سننے والوں کو بھی سنائی نہیں دے رہا اور پھر ایسے اندھے اور غافل ہو جاتے ہیں کہ جب حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم ان پر ذکر الہی پڑھتے ہیں تو ان کے اور ان کے درمیان ایک پردہ آجاتا ہے.اور کچھ سمجھ نہیں آتی.خدا کے ذکر کا وسیع تر مضمون پس اگر نماز میں لذت پیدا کرنی ہے تو نماز سے باہر ذکر الہی کا سلیقہ سیکھیں.ولد عز الله اكبر (سورۃ العنکبوت : آیت (۴۰) کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ نماز میں تو تم تھوڑی دیر ٹھرتے ہو لیکن خدا کے ذکر کا مضمون بہت وسیع تر ہے.ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور ذکر کو سمجھو تو پھر جب تم نمازوں کی طرف لوٹو گے تو ہر دفعہ آنے میں تمہیں ایک نئے خدا سے شناسائی ہوگی.خدا تو وہی ہو گا لیکن اس کے نئے جلوے دیکھ کر تم آرب ہوگے.اس مضمون کو اگر اس مضمون کے ساتھ ملالیں جو دل کے اندر اپنے وجود پر اپنے حالات پر غور کرنے کے ذریعے خدا دکھائی دیتا ہے تو اس کو کہتے ہیں اندر اور باہر دونوں کا روشن ہو جاتا.صوفیاء جو باتیں کرتے ہیں لوگ سمجھتے ہیں پتہ نہیں کس قسم کی روشنی ہے آنا فانا مل گئی.کہتے ہیں جی! ہمارے تو چودہ طبق روشن ہو گئے.ہمارا تو باہر بھی روشن ہو گیا.ہمارا تو اندر بھی روشن ہو گیا.وہ کوئی ایسی روشنی نہیں ہے جو اچانک بلب جلا کر ان کو نصیب ہو جاتی ہے.وہ عمر بھر کے ذکر الہی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی روشنیاں ہیں جو باہر سے بھی دکھائی دیتی ہیں اور اندر سے بھی دکھائی دیتی ہیں اور وہ بڑھتی رہتی ہیں.اور ان کے اندر ایک نئی چمک پیدا ہو جاتی ہے.نئے نئے رنگ ظاہر ہونے لگتے ہیں.پس وہ سمندر کی گہرائیاں بھی جو بعض لوگوں کے لئے تاریک تر

Page 41

38 ہیں جب بصیرت نصیب ہو تو وہاں بھی روشنیاں جلتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.پس ذکر الہی کے مضمون کو سمجھیں اور یہی حمد ہے.غور کے بعد جب حمد کے ذریعے آپ خدا تعالیٰ سے محبت اور تعلق پیدا کریں گے تو پھر جب نمازوں میں حمد کا لفظ آئے گا اور حمد کے ساتھ وابستہ صفات الہی نظر آئیں گی تو ان میں آپکو نئے نئے نور دکھائی دئے جائیں گے.نئی نئی روشنیاں نظر آنے لگیں گی.نئے حمد کے ترانے گاتے ہوئے لفظ دکھائی دیں گے اور آپ کی روح بے شمار لذتوں میں ڈوب جائے گی لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر نماز میں کلیتہ " تمام تر نظارے ایک ہی دفعہ آپ کو دکھائی دیں گے.رفتہ رفتہ تھوڑی تھوڑی حسب توفیق عادت ڈالنی پڑے گی.ہر دفعہ جب نماز پڑھیں تو کچھ تو سوچیں خدا کی حمد کی بات جو آپ کے دل پر اس کیفیت کے وقت زیادہ اثر انداز ہو رہی ہو اور چاہے آدھا منٹ ٹھہریں.چاہے ایک منٹ ٹھریں.اس مضمون کو حمد کے ایسے حقیقی مضمون سے باندھ کر آگے چلیں جو آپ نے محسوس کیا ہو.محض زبان سے ادا نہ کیا جا رہا ہو.میں جب الْحَمْدُ یا رَب العلمین کہتے ہیں تو جتنے نظارے میں نے آپ کو بتائے ہیں یہ ربوبیت ہی کے تو نظارے ہیں.تمام جہانوں کا رب ہے اور کیسی کیسی صنعتیں اس نے قائم کر رکھی ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی ابھی ہمیں پتہ نہیں چلا بلکہ ہزارواں لاکھوں کروڑواں حصہ بھی ہم پر ابھی روشن نہیں ہوا لیکن جو کچھ بھی ہم نے دیکھا وہ حیرت انگیز پایا.اس طرح آپ کا علم بڑھتا ہے تو خدا کی حمد بڑھتی چلتی جاتی ہے اس کا شعور بڑھتا چلا جاتا ہے پھر اپنے نفس پر اپنے دل پر غور کریں، اپنی زندگی پر غور کریں روز مرہ کے تجارب پر غور کریں، خدا تعالیٰ کے احسانات پر غور کریں تو جتنا جتنا آپ غور کریں گے اتنا اتنا آپ کی نمازیں لذتوں سے بھرنی شروع ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں لیکن ایسے عجیب مضامین ہیں کہ جن کا سمجھانا بھی مشکل ہے لیکن یہ میں یقین دلاتا ہوں کہ ایک ہی علاج ہے اور صرف ایک ہی کہ ريات بعيدة ياك نستعين کا دروازہ کھول کر ذکر الہی میں داخل ہوں.اِيَّاكَ تعدد ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کریں گے مگر کس طرح؟

Page 42

39 إياكَ نَسْتَعِين مجھ سے ہی مدد مانگتے ہوئے.اگر تیری مدد نصیب نہ ہو تو ہم نہیں کر سکتے.میں نے آپ کو بتایا کہ یہاں عبادت میں حمد کا مضمور ، داخل ہے.کچی حمد کے بغیر عبادت کا حق ادا ہو ہی نہیں سکتا اور بچی حمد عبادت کے ساتھ نہ ہو تو اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا قبول نہیں ہو سکتی.کیونکہ حمد کا قبولیت دعا سے گہرا تعلق ہے چنانچہ اسی مضمون کو ہم رکوع سے اٹھتے وقت جو کلمہ کہتے ہیں وہ کھول دیتا ہے.وہ کلمہ یہ ہے : سمع اللهُ لِمَنْ حَمِدَ اللہ اس کی سنتا ہے جو اس کی حمد کرتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُو إيَّاكَ نَسْتَعِيْن میں ہمیں میں تو بتایا گیا تھا کہ خدا سے یہ عرض کرد کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اس لئے تجھے ہی سناتے ہیں کہ اے خدا ! ہماری مدد کو آ.ہماری دعا قبول کر لیکن عبادت حمد سے خالی نہیں ہونی چاہیے.ورنہ یہ دعا نا مقبول ہو جائے گی.مضمون کو سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَ ا نے کھول دیا کہ اللہ سنتا ضرور ہے مگر انکی سنتا ہے جو اسکی حمد کرتے ہیں.حمد کے ذریعے تعلق قائم ہوتا ہے.پس خدا سے حمد کا تعلق قائم کریں.اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ تعلق بڑھائیں.پھر عبادت میں جب اس کے حضور حاضر ہوں گے تو آپ کو ہر عبادت کے وقت ایک قریب تر آیا ہوا خدا دکھائی دے گا جس کے بہت سے تعلقات آپ سے قائم ہو جائیں گے.جتنی حمدہ آپ سوچیں گے اتنے ہی محبت کے رابطے خدا تعالیٰ سے بڑھنے شروع ہو جائیں گے.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اس

Page 43

Page 44

41 بيت الفضل - لندن ارد تمبر ۱۹۹۰ء پشم اللو الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نمازوں میں کیفیت پیدا کریں تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : بچوں کو تصویر کشی کی تربیت دینے کے لئے بعض ایسی تصویروں کی کتب بھی دستیاب ہیں جن میں خاکوں کی صورت میں نقوش بنائے جاتے ہیں لیکن رنگ نہیں ہوتے اور بیچے پھر اپنی مرضی اور مزاج کے مطابق اپنی طبعی صلاحیتوں کے مطابق، اپنے ذوق کے مطابق ان میں رنگ بھرتے ہیں.اگر ایسی لاکھوں کتابیں بھی شائع کر دی جائیں اور لکھوکھا بچوں کو تقسیم کر دی جائیں تو بظا ہر تصویر ایک ہی ہوگی لیکن ہر بچہ جب اس میں رنگ بھرے گا تو نتیجہ مختلف نکلے گا.خواہ رنگ بھی ایک ہی قسم کے مہیا کئے جائیں، لیکن ہر ایک اپنے ذوق اپنے مزاج اپنی صلاحیتوں کے مطابق رنگ بھرتا ہے اور تصویر مختلف روپ لے کر ظاہر ہوتی ہے.سورہ فاتحہ کا جو میں پیچھے دو خطبوں میں ذکر کر چکا ہوں، اس کی اور نماز کی باقی تمام ان عبادتوں کا یہی حال ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں وہ سارے کلمات جو نماز میں ادا کیے جاتے ہیں ان میں رنگ انسان کو خود بھرنے پڑتے ہیں اور جہاں تک سورۂ فاتحہ کا تعلق ہے وہ تو خود بھی اپنی کیفیتیں اس طرح بدلتی رہتی ہے کہ زاویہ بدلنے سے اس کا اور رنگ دکھائی دیتا ہے اور ہر زاویے پر پھر بے شمار ایسے امکانات ابھرتے ہیں جن کی روشنی میں انسان سورۂ فاتحہ کی مدد سے مضامین تک رسائی پاتا ہے اور مضامین کو جذبات میں ڈھال کر پھر سورۂ فاتحہ میں ایسی کیفیت کے رنگ بھرتا ہے جس سے سورۂ فاتحہ کوئی اجنبی چیز کوئی بیرونی چیز نہیں رہتی بلکہ اس کے دل کی واردات بن جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة

Page 45

42 والسلام نے اس مضمون کو نماز کے متعلق یوں بیان فرمایا کہ دیکھو نمازیں جو تم پڑھتے ہو ان میں الفاظ وہی ہیں جو سب پڑھتے ہیں لیکن کیفیتیں الگ الگ ہوتی ہیں اور کوئی نماز فائدہ نہیں دے سکتی جب تک تم اس کو اپنی کیفیت سے نہ بھرو - کیفیت سے بہتر اور کوئی لفظ اس منظر کی تصویر کشی نہیں کر سکتا، اس صورت حال کو بیان نہیں کر سکتا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لفظ کیفیت رکھ کر تمام مضامین کو یہاں مجتمع کر دیا.کیفیت اس آخری احساس کا نام ہے جو مختلف چیزوں سے پیدا ہوتا ہے اور اس کا خلاصہ کیفیت ہے اگر سائنسی زبان میں ہم اس کی بات کریں تو اگرچہ ہم مختلف تصویریں دیکھ رہے ہوتے ہیں یا مناظر دیکھ رہے ہوتے ہیں.خوشبو میں سونگھ رہے ہوتے ہیں س سے لذت پا رہے ہوتے ہیں اور اسی طرح حواس خمسہ ہمارے لئے مختلف قسم کے دل کشیوں کے سامان لاتے ہیں لیکن آخری صورت میں وہ الیکٹریکل PULSES ہیں جن میں تبدیل ہوتے ہیں.اور بجلی کی وہ لہریں ہی ہیں جو ہمارے دماغ تک پہنچتی ہیں وہاں نہ رنگ پہنچتا ہے نہ خوشبو پہنچتی ہے نہ اس سے کچھ حصہ وہاں پہنچتا ہے نہ نمک کا احساس نہ میٹھے کا احساس.جو کچھ پہنچتا ہے وہ بجلی کی لہروں کی صورت میں پہنچتا ہے.اس کا نام کیفیت ہے جو انسان محسوس کرتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نماز میں لذت پیدا کرنے اور افادیت پیدا کرنے کے لئے ہمیں یہ نسخہ عطا فرما دیا کہ وہ نمازیں جن میں کچھ کیفیت شامل ہوگی وہ کار آمد نمازیں ہیں.وہ نمازیں جو کیفیت سے خالی ہوں گی ان سے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا اور وہ ایسے برتنوں کی طرح ہیں جن میں کچھ بھی بھرا نہیں ہوا.پس نمازوں میں کیفیت پیدا کرنے کی خاطر میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ کون سی چیزیں کیفیت پیدا کرنے کے لئے میں ہوتی ہیں.کیفیت از خود پیدا نہیں ہو جاتی کیفیت کے لئے حواس خمسہ سے مدد لینا ضروری ہے اور حواس خمسہ جو پیغامات پہنچاتے ہیں وہ پیغامات دماغ کے مختلف حصوں پر اثر انداز ہو کر کیفیت پیدا کرتے ہیں.پس علم بڑھانا اور گہری نظر سے کائنات کا مطالعہ کرنا.خدا تعالیٰ سے شناسائی حاصل کرنا اور حواس خمسہ جو خدا نے عطا فرمائے ہیں ان کے ذریعے خدا کی حمد تک

Page 46

43 پہنچنا یہ وہ مضمون ہے جس کا زندگی کے ہر لمحے سے تعلق ہے اور ہمارے گردو پیش یہ مضمون بنتا چلا جاتا ہے.اگر ہم ہوش مندی کے ساتھ محسوس کریں کہ ہم کیسے رہ رہے ہیں.اور اپنے ماحول کے اثرات کو خدا تعالٰی کی حمد کے ساتھ باندھنا سیکھ لیں.پھر جب آپ نماز میں داخل ہوں گے تو وہ نماز کیفیتوں سے بھری ہوئی ہوگی.اگر نماز سے باہر کچھ نہیں ہے تو نماز کے اندر بھی کچھ پیدا نہیں ہو گا.اس لئے بعض لوگ جو یہ حیران ہوتے ہیں کہ ہم تو نماز میں داخل ہوئے تھے از تیں حاصل کرنے کے لئے ہمیں تو وہاں کوئی لذت نہیں ملی.باہر کی دنیا میں لوٹے اور پھر لذتوں میں دوبارہ کھوئے گئے وہ بالکل ست کہتے ہیں کیونکہ باہر کی لذتوں کا خدا سے تعلق نہیں تھا اور اندر نماز خالی پڑی تھی.اس لئے خالی ویرانے سے گھبرا کر وہ ان لذتوں کی طرف لوٹتے ہیں جن کا خدا کی ذات سے تعلق نہیں یعنی تعلق ہے تو سہی مگر وہ سمجھتے نہیں.رشتے تھے تو سہی مگر وہ باندھے نہیں گئے.اس لئے وہ اس مادی دنیا سے لذت پانے کی اہمیت رکھتے ہیں لیکن روحانی دنیا سے لذت پانے کی اہمیت نہیں رکھتے.پس اپنی سوچ کو ا نکیحت کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سوچ کے بغیر دل میں جذبات پیدا نہیں ہوا کرتے.بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ قلبی کیفیت اور چیز ہے اور دماغ اور چیز ہے.حقیقت میں ایک دوسرے سے الگ ان کا وجود نہیں ہے.قرآن کریم نے سوچوں کے آخری مرکز کے طور پر فواد کا یعنی دل کا ذکر فرمایا ہے اور دلوں کو ہی اندھا قرار دیا اور دلوں ہی کو دیکھنے والا بیان کیا جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی آخری حقیقت بھی دل پر منتج ہوتی ہے.اور آخری صورت میں چونکہ سیمیتیں بن جاتی ہیں اور کیفیتوں کا مرکز دل ہے اس لئے قرآن کریم بھی دماغ کی بجائے دل کا ذکر کرتا ہے.پس اپنی سوچ کو بیدار کریں تو آپ کے دل میں عرفان کی لہریں دوڑنے لگیں گی.اور عرفان کی بریں ہی ہیں جو وہ کیفیت پیدا کرتی ہیں جس سے نماز میں لذت پیدا ہوتی اور اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار بڑھتے رہتے ہیں.سورۂ فاتحہ میں اپنی توفیق کے رنگ بھریں اب حواس خمسہ کا میں نے ذکر کیا ہے اس سے پہلے میں پچھلے خطبے میں ڈیوڈ ایٹن

Page 47

44 برو (DAVD ATTENBOROUGH) کی ایک دو ریڈیو کیسٹس کا ذکر کر چکا ہوں.مجھے بعد میں کسی نے بتایا کہ جو کچھ انہوں نے ویڈیو کی صورت میں پیدا کیا ہے اس کو انہوں نے کتابی شکل میں بھی ڈھالا ہوا ہے اور ان کی تصنیف بھی ملتی ہے مگر بہرحال یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہر کس و ناکس کی پہنچ میں نہیں اور نماز ہر شخص نے پڑھنی ہے تو بعض لوگوں کی رسائی ایسے مواد تک ہوتی ہے جن سے خدا تعالٰی کے فضل کے ساتھ ان کا علم پڑھتا ہے اور اگر ان کے اندر بصیرت ہو تو وہ اس علم کے بڑھنے کے ساتھ خدا تعالیٰ کی یاد میں بھی ترقی کرنے لگتے ہیں.لیکن اگر دیکھنے کی طاقت ہی کچھ نہ ہو تو وہ علم الگ پڑا رہتا ہے اور خدا کا تصور الگ پڑا رہتا ہے اور ان دنوں کے درمیان رشتہ قائم نہیں ہوتا.مگر سوال یہ ہے کہ ساری دنیا تو اس قسم کے علم تک رسائی نہیں رکھتی اور وہ دنیا جو پہلے گزر چکی ہے جن میں ایسے زمانے شامل ہیں جن میں خدا کے عظیم انبیاء گزرنے جو خدا کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے تھے اور وہ زمانہ بھی شامل ہے جس میں حضرت یس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پیدا ہوئے جن سے زیادہ ذکر کرنے والا نہ پہلے پیدا ہوا نہ آئندہ کبھی ہو سکتا ہے تو اس زمانے میں تو ڈیوڈ ایٹن برو کا وجود ہی کوئی نہیں تھا.اس سائنس کا وجود نہیں تھا جس نے ڈیوڈ مٹن برو پیدا کئے.ان ایجادات کا کوئی تصور نہیں تھا جن کے ذریعے سے انسان کی خدا تعالیٰ کی ان صنعتوں تک رسائی ہوئی جن میں اس نے حیرت انگیز تخلیق کے کرشمے دیکھے.پس نماز تو ہر زمانے کے لئے ہے اور ذکر الہی ان ظاہری علوم کا محتاج نہیں مگر ذکر التی اس اندرونی توجہ کا ضرور محتاج ہے جس کے نتیجے میں ہر جگہ انسان کو خد النا شروع ہو جاتا ہے اور نظر میں گہرائی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور اپنے گردو پہیں جہاں دیکھتا ہے وہ خدا کے وجود کو وہاں جلوہ گر دیکھتا ہے اور جتنی بصیرت تیز ہو اور جتنی محبت بڑھے اتنا ہی خدا کا وہ جلوہ زیادہ خوبصورت، دلکش اور دار یا دکھائی دینے لگتا ہے.پس عام دنیا کے دستور کے لحاظ سے بھی نماز میں اور خصوصاً سورۃ فاتحہ میں ہر انسان اپنی اپنی توفیق کے مطابق رنگ بھر سکتا ہے.حواس خمسہ کی میں نے بات کی ہے اب یہ بھی ایک بڑی دلچسپ غور طلب بات ہے کہ سورۂ فاتحہ میں رب العالمین کے بعد رحمان کا ذکر فرمایا گیا

Page 48

45 اور رحمان پر غور کرنے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایسی ذات ہے (بے شمار اور بھی معافی ہیں لیکن ایک بڑا نمایاں معنی یہ ہے کہ) جس نے محض ضرورت سے بہت بڑھ کر دیا.محض ضرورت تو یہ ہے مثلاً کہ ایک انسان کی بھوک مٹ جائے اور اس کی غذاء اس لحاظ سے مکمل ہو کہ اس کو زندگی کے قیام کے لئے اور زندگی کی نشوونما کے لئے جن کیمیائی اجزاء کی ضرورت ہے وہ اسے مناسب شکل میں مہیا ہو جائیں.یہ زندگی کی محض ضرورت ہے اور یہ ضرورت بعض دفعہ ڈریس کی صورت میں بھی جس کے ذریعے مریضوں کو خوراک پہنچائی جاتی ہے انسان کو مہیا ہو جاتی ہے ایسے کنٹریس کی صورت میں یعنی ایسی غذاؤں کے خلاصے کی شکل میں بھی انسان کو مہیا ہو جاتی ہے جس میں مزا کوئی نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو معمولی سا ہوتا ہے اور ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو اگر خدا تعالیٰ نے کائنات کو بعض ضرورتوں کی خاطر پیدا کرنا تھا تو محض اس طرح بھی پیدا فرما سکتا تھا کہ ہر چیز کی ضرورت پوری ہو جائے اور خدا نے تخلیق کا گویا حق ادا کر دیا لیکن ہر جگہ آپ کو رحمانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے.حواس خمسہ پر آپ غور کر کے دیکھیں یہ تو ہر انسان کے بس میں ہے اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں.ہر انسان سے مراد وہ ہے جسے حواس خمسہ عطا ہوں.اور اگر حواس خمسہ عطا نہ ہوں تو چار حواس تقطا ہوں تو ان کے ذریعہ بھی انسان اس قسم کی معرفت تک رسائی حاصل کر تین ہوں تو ان کے ذریعے بھی انسان اپنی توفیق کے مطابق خدا تک پہنچ سکتا ہے مگر حواس خمسہ ہوں یا چار حواس ہوں یا تین ہوں یا دو ہوں یا ایک زندگی میں کوئی ایسا زندگی کا حصہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا جو جو اس سے عاری ہو اور اگر حواس سے عاری ہے اورہ موت ہے.پس انسان ہی نہیں اس کی اونی حالتیں بھی جو اس کے ذریعے خدا تک پہنچتی ہیں اور جہاں تک انسان کا تعلق ہے اگر وہ محض اس پہلو سے غور کرے کہ میری ہر جس میں اللہ تعالیٰ نے محض ضرورت پوری نہیں فرمائی بلکہ اس سے بہت بڑھ کر رکھا ہے.ناک کی خوشبو کی یا بو کے احساس کی ضرورت ہے وہ اس لئے ہے کہ بعض زہریلی اور گندی چیزوں سے انسان بیچ سکے لیکن اس میں لذت کیوں رکھ دی..بعض چیزوں میں لذت کیوں رکھ دی گئی ؟ سوال تو یہ ہے.اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے.

Page 49

46 ہوں تھا.بعض جانور اس حد تک وہ قوت رکھتے ہیں جو شامہ کہلاتی ہے.یعنی سو لکھنے کی قوت کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز کو پہچان لیں اور جو چیز ان کے لئے مضر ہو سکتی ہے اس کو پہچان کر اس سے دور ہٹ سکیں.یہ ہے بنیادی ضرورت جسے میں محض ضرورت کہتا لیکن ہر جانور کو خدا تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ لذت بھی عطا کر دی ہے جو انسان تک پہنچتے پہنچتے درجہ کمال تک پہنچ جاتی ہے.نظر کی محض ضرورت یہ ہے کہ آپ رستہ دیکھ سکیں.چیزوں کو نہ صرف دیکھ سکیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو اس کے فاصلے دیکھ سکیں.چیزوں کو اس حد تک پہچان سکیں کہ کون سی آپ کے لئے مفید ہیں اور کون سی مضر ہیں.کہاں ٹھو کر ہے کہاں صاف رستہ ہے.غرضیکہ محض ضرورت کی زندگی کی بہت کی روز مرہ کی ایسی حالتیں ہیں جنہیں نظر پورا کرتی ہے لیکن نظر کے ساتھ لذت رکھ دی اور اس لذت کو ایسی طاقت بخشی ہے کہ انسان حسن کی تلاش میں زندگی بسر کر دیتا ہے.شعراء نظر سے تعلق رکھنے والی لذت کا اپنے کلام میں ذکر کرتے ہیں.ساری زندگی اس بات پر صرف کر دیتے ہیں کہ ہم نے حسن کو اس طرح جلوہ گر دیکھا، اس طرح جلوہ گر دیکھا.کھانے کی لذت سے ہر انسان آشنا ہے اور اگر محض ایسا کھانا ملے جو اس کی ضروریات پوری کرتا ہو لیکن لذتیں زیادہ مہیا نہ کر سکے تو انسان بیزار ہو جاتا ہے.بعض گھروں میں اس وجہ سے میاں بیوی کی لڑائیاں طلاق تک پہنچ جاتی ہیں کہ بیوی کو کھانا نہیں اچھا پکانا آتا.ہر روز کی بک جھک بک جھک ہوتے ہوتے بالاخر نفرتیں پیدا ہو جاتی ہے اور خاوند کہتا رہتا ہے کہ تو تو ہے ہی بے سلیقہ تیرے ہاتھ میں تو مزا ہی کوئی نہیں حالانکہ جہاں تک جسم کی ضرورت کا تعلق ہے وہ تو اسے کیا ہو رہی تھی.اسی طرح آپ اپنے دیگر حواس پر غور کریں تو کم سے کم ضرورت بہت تھوڑی تھی.اس سے بہت زیادہ عطا کیا گیا ہے اور اس عطا کرنے کی صفت کا نام جو ضرورت حقہ سے زیادہ ہو رحمانیت ہے.رحمانیت اور رحیمیت کے جلوؤں پر غور کریں پس جب آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعلمین کہتے ہیں اور ربوبیت کے نظارے اپنے ذہن میں تصویر کی طرح گھماتے ہیں تو اپنے گردو پیش اپنی ذات میں اپنی

Page 50

47 اولاد کی صورت میں اپنے ماں باپ کی صورت میں اپنے دوستوں کی صورت میں اپنے معلمین کی صورت میں ہر طرف سے آپ کو ربوبیت کے نظارے مختلف شکلوں میں دکھائی دینے لگیں گے اور جس دن کی جو نماز ہے اس دن جو خاص ربوبیت کا اثر ول پر پڑنے والی بات ہے وہ نمایاں طور پر اپنے ذہن میں آپ حاضر کر سکتے ہیں اور روز مرہ کے بدلتے ہوئے تجارب کے ساتھ ساتھ ربوبیت کے مختلف تھے آپ کے ذہن میں ابھر سکتے ہیں اور جب آپ رحمانیت میں داخل ہوں تو آپ کے حواس خمسہ نے اس دن آپ کو جو بھی لذت پہنچائی ہے وہ لذت حمد میں تبدیل ہو جائے گی.آپ اس وقت نماز پڑھتے ہوئے یہ سوچ سکتے ہیں کہ الحمد للهِ رَتِ الْعَلَمِينَ.الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ایسا عجیب ہے میرا رب کہ ساری کائنات کا نظام اس نے سنبھالا ہوا ہے.تمام کائنات کی ربوبیت فرما رہا ہے اور کسی کے حال سے کسی کی ضرورتوں سے غافل نہیں ہے لیکن ضرور تھیں ایسی پوری کرتا ہے کہ ضرورت پورا کرتے وقت ضرورت سے زیادہ یعنی کم سے کم ضرورت سے زیادہ لذتیں عطا کر دیتا ہے.پس اگرچہ رحمانیت کا مضمون یہیں ختم نہیں ہو تا بلکہ اسے آغازہ کہنا بھی درست نہیں ہو گا کیونکہ رحمانیت کے ذکر میں یہ بات ایک بہت ہی معمولی حیثیت رکھتی ہے.لیکن سوچ کا ایک طریقہ ہے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس طرح آپ سورۂ فاتحہ پر غور کرنا شروع کریں اور پھر رحمانیت پر غور کر کے رحیمیت پر آئیں اور وہاں جا کر دیکھیں کہ اور باتوں کے علاوہ رحیمیت میں بار بار دینے کا مفہوم ہے اور اس رنگ میں بار بار دینے کا مفہوم ہے کہ محنت ضائع نہ جائے بلکہ زیادہ ہو کر واپس ملے تو ساری کائنات میں رحیمیت پھیلی ہوئی دکھائی دینے لگے گی.ایک پہلو سے جب آپ خدا کو دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ ساری باقی صفات غائب ہو گئی ہیں وہی اصل صفت تھی لیکن ربوبیت سے جب رحمانیت میں داخل ہوتے ہیں تو ہر طرف رحمان خدا کا نظارہ دکھائی دینے لگتا ہے.رحمانیت سے جب رحیمیت میں جاتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جہاں رحیمیت کار فرما نہ ہو.انسانی جسم کے تمام اجزاء میں اور انسان کے تمام ارکان میں اس کے اعضاء میں ہر چیز جس سے انسان بنا ہوا ہے انسان رحیمیت کے سبق پڑھ

Page 51

48 سکتا ہے.گردو پیش پر دیکھیں، ایک زمین دار کو بڑے علم کی ضرورت نہیں.وہ جانتا ہے کہ میں موسموں سے فائدہ اٹھاتا ہوں.اور موسم آتے جاتے رہتے ہیں.ایک موسم میں کھو دیتا ہوں تو اگلا موسم دوبارہ وہی مواقع لے کر میرے حضور حاضر ہو جاتا ہے.اس موسم سے میں فائدہ اٹھاتا ہوں اور پھر وہ موسم نکل جاتا ہے تو میں سوچتا ہوں کہ یہ کمی رہ گئی ، وہ کمی رہ گئی لیکن پھر وہ دوبارہ چکر لگاتا ہوا میرے پاس پہنچ جاتا ہے اور کہتا ہے اچھا اب کہاں پوری کر لو.موسم کے بار بار آنے میں کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن اس سے فائدہ اٹھانے میں کمی رہ جاتی ہے.مس بعض لوگ ایسے ہیں جن کا رحیمیت سے تعلق اس طالب علم کی طرح ہوتا ہے جو ہر امتحان کے وقت سوچتا ہے کہ جو ہو چکا وہ ہو چکا اگلے امتحان کی دفعہ میں یہ سب تیاریاں کروں گا تا کہ یہ نقص بھی نہ رہے، یہ نقص بھی نہ رہے یہ نقص بھی نہ رہے اور اگلا امتحان پھر بھی آتا ہے لیکن وہ پھر تیاریوں سے محروم رہ جاتا ہے تو استفادہ کرنے کا کام ہمارا ہے لیکن جہاں تک افادہ کا تعلق ہے، فائدہ پہنچانے کا تعلق ہے ، رحیمیت ہر یار اپنے سب جلوے لے کر آتی ہے اور بار بار آتی ہے، رحیمیت کا مضمون بھی اتنا سیع ہے کہ ایک خطبہ چھوڑ بیسیوں خطبات میں بھی مضمون کی نشان دھی بھی پوری نہیں کی جاسکتی لیکن یہ مثال میں نے آپ کو اس لئے دی ہے کہ اس مثال پر غور کرتے ہوئے اپنے علم کو بڑھائیں.اپنے عرفان کو بڑھائیں، کسی بیرونی علم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کے حواس خمسہ یہ اہمیت رکھتے ہیں کہ آپ کو خدا تک پہنچا دیں.لیکن ایک شرط کے ساتھ کہ آپ کے اندر خدا تک پہنچنے کی طلب پیدا ہو.اگر طلب پیدا ہو جائے تو پھر آپ کو اس بات کا عرفان حاصل ہو گا کہ دراصل آپ خدا تک نہیں پہنچتے خدا آپ تک پہنچتا ہے.حواس خمسہ کے ذریعے آپ ہر چیز تک پہنچ جاتے ہیں لیکن خدا کی توفیق کے بغیر خدا کو پا نہیں سکتے.پس ثابت ہوا کہ حواس خمسہ بذات خود خداتعالی تک پہنچانے کی اہمیت نہیں رکھتے.امکانات پیدا کرتے ہیں.اب ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی تھی بڑے بڑے علماء دنیا میں موجود ہیں جو سائنس کے ایسے ماہرین ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تخلیق کی باریک در بار یک چیزوں تک ان کی نگاہ

Page 52

49 پہنچتی ہے اور جہاں پہنچ کر ٹھرتی ہے وہاں ان کو یہ پیغام دیتی ہے کہ ابھی تم نے کچھ بھی حاصل نہیں کیا.اس سے پرے علم کے اور بھی جہان ہیں.پس نہ صرف یہ کہ وہ نظر رکھتے ہیں بلکہ نظر کے اندر عمق رکھتے ہیں گہرائی رکھتے ہیں اور پھر بھی خدا تک نہیں پہنچتے لا تدركهُ الْأَبْصَارُ، وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارُ (الانعام : ۱۰۴) قرآن کریم فرماتا ہے کہ تمہاری آنکھیں، تمہاری بصارت خدا تک نہیں پہنچ سکتی وَهُوَ يُدَرِكَ الأبصار ہاں وہ ہے جو تمہاری قوت اور اک تک پہنچتا ہے.کتنا عظیم الشان نکتہ اس میں بیان فرما دیا گیا اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی عظمت و لطافت اور اس کا اعلیٰ ہونا اور اس کا عظیم ہونا اور اس کا اکبر ہوتا یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو انسانی حواس خمسہ کو نا کام کر دیتی ہیں کہ انسان محض ان کے زور سے خدا کی عظمت کو پائے اس کے علو کو پالے اس کی کبریائی کو پالے اور اس کی ذات کی گہرائی تک اتر سکے.پس سطحوں تک جا کر ہمارے جو اس ٹھہر جاتے ہیں، اس کے بعد پھر اِيَّاكَ نَسْتَعِین کا دور شروع ہوتا ہے.ایاک نعبد ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ چیز جو ہمیں بظاہر دکھائی دے رہی ہے یہ بڑی پیاری ہے لیکن اس کے پیچھے کوئی اور ذات چھپی ہوئی ہے، پس ہم اس کی عبادت کریں.جب اس کی عبادت کرتے ہیں اور حمد کو اس کے ساتھ ملاتے ہیں تو پھر وہ ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ حمد کی توفیق بھی اسی سے ملتی ہے.پس ايَّاكَ نَستَعین پر یہ مضمون مکمل ہو جاتا ہے.پس جو اس خمسہ کے ذریعے آپ کو شش کریں لیکن ساتھ یہ دعا کرتے رہیں کہ اے اللہ تعالی ! اے خدا !! تو ہمارے حواس خمسہ پر نازل ہو.ان پر جلوہ فرما کیونکہ جب تک تو اپنی صفات کا جلوہ ہم پر نہیں فرماتا اس وقت تک ہم دیکھتے ہوئے بھی دیکھنے سے محروم رہیں گے.ہم سنتے ہوئے بھی سننے سے محروم رہیں گے.ہم چکھتے ہوئے بھی چکھنے سے محروم رہیں گے اور اپنی کسی جس کے ذریعے بھی تجھ تک نہیں پہنچ سکیں گے.عجز کی طاقت مومن جب اس عجز کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو پھر اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا میں ایک طاقت پیدا ہو جاتی ہے.عجز میں ایک طاقت اور کبر میں ناطاقتی پائی جاتی ہے..جب

Page 53

50 بھی انسان خدا سے تعلق باندھتا ہے تو یاد رکھے کہ وہاں طاقت کا نام عجز ہے یعنی اپنی کمزوریوں کا احساس.اور اپنی بڑائی کا احساس کمزوری ہے جس کے بعد انسان خدا سے تعلق کاٹ لیتا ہے.پس حواس خمسہ کی نا اہلی کو دیکھنے کے لئے آپ کو کہیں بہت دور کے سفر کی ضرورت نہیں اہمیت رکھتے ہوئے بھی ان میں ایک نا اہلیت پائی جاتی ہے.پس دنیا کی عظیم قوموں کو آپ دیکھیں جو خدا تعالیٰ کی تخلیق پر غور کرتے ہوئے اس تخلیق میں چھپے ہوئے رازوں سے استفادہ کرتے ہوئے عظیم الشان ایجادات کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں اور وہ قومیں آج تمام دنیا پر غالب ہیں لیکن ان کا بھاری حصہ ایسا ہے اور بہت بھاری حصہ ایسا ہے جو خدا کے تصور سے نا آشنا ہے اور ذاتی طور پر خدا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، خدا کے تصور کا ایک مبہم سا سایہ ان کے ذہنوں پر پڑا ہوتا ہے جو تعلق قائم کرنے کے لئے کافی نہیں.ایک فرضی ساخیال ہے اور ایک کثیر تعداد ان میں سے ایسی ہے جو باشعور طور پر اعلان کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ خدا نہیں ہے.ایسے بھی بڑے بڑے سائنس دان ہیں جنہوں نے بے انتہا تشخص کیا اور قدرت کے بہت بڑے بڑے عظیم را ز پالئے اور سب کچھ پانے کے بعد یہ کہہ کر سب کچھ گنوا بیٹھے کہ ہم نے تو ہر طرف دیکھا ہمیں تو خدا کہیں دکھائی نہیں دیتا.پس جب میں حواس خمسہ کی بات کرتا ہوں تو وہ کھڑکیاں ہیں دروازے ہیں جہاں تک روشنی پہنچ سکتی ہے مگر دروازے اور کھڑکیاں اچھل اچھل کر روشنیوں تک نہیں پہنچ سکتے.روشنی ان تک پہنچتی ہے.اللَّهُ نُورُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ (النور : ۳۶) خدا زمین و آسمان کا نور ہے اور معانی کے علاوہ ایک یہ معنی ہیں کہ تم آنکھیں کھولو نور خود تم تک پہنچے گا اگر تم نور کی طلب کرنے والے ہوگے اور نور کی خواہش رکھنے والے ہوگے.اگر تم نور کی خواہش رکھو گے تو آنکھیں کھولو گے اور کھولو گے تو ہر طرف سے خدا کے جلوے تم تک پہنچنے لگیں گے اور اگر آنکھیں رکھتے ہوئے آنکھیں بند رکھو گے تو اندرونی طور پر تم میں بظاہر صلاحیت ہوگی لیکن نور تم تک نہیں پہنچ سکے گا.پس حواس خمسہ تو ہر شخص کو عطاء ہوئے ہیں اور حواس خمسہ کے مضامین پر اگر انسان غور کرتا رہے تو سورۂ فاتحہ میں اس کو بہت ہی خوبصورت رنگ بھرتے ہوئے

Page 54

51 دکھائی دیں گے اور خدا کی حمد اس کے اندر اس غورو خوض کے بعد کیفیت پیدا کرے گی یا کیفیتیں پیدا کرے گی اور انہی کیفیتوں کا نام نماز ہے.انہی کیفیتوں کا نام عبادت ہے.اس عبادت کے بعد جب آپ ایاک نستعین کہتے ہیں تو بلا ترد یقین کے ساتھ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا سے پھر ضرو ر ددملے گی لیکن دوسرے دروازے بند کرنے پڑتے ہیں.ان معنوں میں بند کرنے پڑتے ہیں کہ آخری یقین بلا شرکت غیرے نہی رہتا ہے کہ صرف ایک ذات ہے اس کے سوا کوئی نہیں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب آپ واپس خدا تعالی کی ان چار صفات کی طرف جاتے ہیں جن کا سورۂ فاتحہ میں ذکر ہے تو تعجب پیدا ہوتا ہے کہ نہیں تو یہ بتایا گیا که ایاک نعبد کہو اور میں چار صفات ہیں جو بنیادی طور پر خدا کا تعارف کروانے کے لئے کافی ہیں لیکن ان میں بہت سی صفات موجود ہی نہیں ہیں.ہم جب کہہ دیتے ہیں کہ ہم صرف تیری عبادت کریں گے اور صرف تجھ سے ہی مانگیں گے تو اگر ہماری ضرورتیں اور ہوں اور زائد ہوں تو یہ عہد تو ہمارے لئے موت کا پیغام بن جائے گا.آپ ایک محدود طاقت والے انسان سے یہ رشتہ باندھ بیٹھیں جس کی طاقتیں بھی محدود ہیں جس کی پہنچ محدود ہے جو ہمیشہ رہ بھی نہیں سکتا اس سے یہ عہد کر بیٹھیں کہ میں جو کچھ مانگوں گا تجھ سے ہی مانگوں گا جب اس کی ضرورت دینے والے کی طاقت سے باہر ہوگی وہیں وہ مارا گیا.ایک دفعہ ایک عباسی وزیر نے جو عباسی خلیفہ کے وزیر تھے کسی کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تو اس نے احسان کا شکریہ اس رنگ میں ادا کیا کہ اس سے تحریری معاہدہ کیا کہ اے وزیر! میں خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ آئندہ میں تیرے دروازے کے سوا کسی دروازے کی طرف نہیں دیکھوں گا اور تیرے سوا کسی سے نہیں مانگوں گا لیکن کچھ عرصے کے بعد نہ وہ وزیر رہا نہ وہ دور رہا اور یہ وعدہ از خودہی جھوٹا ثابت ہو گیا.پس جب ہم ایاک نعبد و ایاک نستعین کہتے ہیں تو غور طلب بات یہ ہے کہ آیا یہ حکمت کی بات تھی بھی کہ نہیں.کہیں ہم ایسا عہد تو نہیں کر بیٹھے جس کے نتیجے میں بعض ہماری ضرورتیں خدا کی ذات سے باہر رہ جائیں گی اور جب ذات کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو وہاں صرف چار صفات ہیں.ربوبیت رحمانیت رحمیت اور مالکیت اب کیا ان چاروں صفات سے انسان کا گزارہ ہو سکتا

Page 55

52 ہے.علم کا یہاں کوئی ذکر نہیں کہ خدا عالم الغیب بھی ہے.اس بات پر غور کرتے ہوئے ہ مضمون ذہن میں ابھرتا ہے جس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ در حقیقت یہ چاروں صفات ام الصفات ہیں.اور کوئی ایک صفت بھی ایسی نہیں جو ان کے اثر سے باہر ہو.بعض دفعہ ایک صفت سے کئی دوسری صفات پیدا ہوتی ہیں.بعض دفعہ مختلف صفات سے مل کر بعض صفات پیدا کرتی ہیں اور آپس میں ان کے تعلقات کے اولنے بدلنے سے نئے مضامین ابھرتے ہیں اور بعض دفعہ ہماری نظر نہیں ہوتی کہ ہم ایک صفت میں دوسری صفات موجود دیکھ سکیں لیکن موجود ہوتی ہیں اور قرآن کریم کا مطالعہ ہماری توجہ ان کی طرف مبذول کرواتا ہے اور بتاتا ہے کہ دیکھو اس کھڑکی کے رستے یہ روشنی بھی دکھائی دینی چاہیے تھی مگر دکھائی نہیں دی مگر قرآن کریم مددگار بنتا ہے اور سارے قرآن کریم کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت ایک یقین کے طور پر دل میں ہمیشہ کے لئے جاگزین ہو جاتی ہے کہ سورۂ فاتحہ کو اُم الصفات کہنا محض ایک جذباتیت کی بات نہیں تھی ، ایک جذباتی تعلق کے نتیجے میں نہیں تھا بلکہ گہرے ٹھوس علم کے نتیجے میں ہے اور یہی حقیقت ہے.مثلاً میں نے علم کا ذکر کیا کہ خدا کو ہم سورۂ فاتحہ کے علاوہ جانتے ہیں کہ عالم الغیب ہے، عالم الشہادۃ ہے اور حاضر کو جانتا ہے، غائب کو جانتا ہے.ماضی کو جانتا ہے.مستقبل کو بھی جانتا ہے لیکن سورۂ فاتحہ میں تو کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا.پھر انسان قرآن کریم کے مطالعہ میں یہ بات پڑھ کر اچانک حیران رہ جاتا ہے کہ الرَّحْمٰنُ عَلم الْقُرْآنَ - خَلَقَ الإِنْسَانَ عَلَمَهُ الْبَيَان.(سورہ رحمان : ۲-۵) کہ یہ رحمان ہے جس نے قرآن سکھایا.اب رحمانیت کا علم سے کوئی تعلق ہے ورنہ رحمان کو قرآن سکھانے والا کیوں قرار دیا گیا.یہ کہنا چاہیے تھا کہ وہ علام الغیوب ہے، عالم ہے، علیم ہے جس نے قرآن سکھایا.کیونکہ علم سکھانے والے کو تو عالم کہا جاتا ہے یا علیم کہا جاتا یا علامہ کہا جاتا ہے.رحمان تو نہیں کہا جاتا تو رحمانیت میں علم کا کون سا جزو پایا جاتا ہے یا کون سی مشابہت ان صفات میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم جو تمام علوم میں سب سے زیادہ جامع ہے اور سب سے اونچا مقام رکھتا ہے اور سب سے زیادہ گہرائی رکھتا ہے اس کو علیم کی طرف منسوب کرنے کی بجائے رحمان کی طرف منسوب کر دیا.

Page 56

53 این رحمانیت کی صفت کے بے پناہ جلوے مضمون پر غور کرتے ہوئے جب آپ رحمانیت میں سفر شروع کرتے ہیں تو آپ یہ سوچ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ربوبیت بہت وسیع طور پر اثر انداز دکھائی دیتی ہے اور قانون قدرت اور تخلیق میں کار فرما نظر آتی ہے لیکن جب کچھ بھی نہ ہو تو رحمانیت کے سوا کسی چیز کا آغاز ہوہی نہیں سکتا.کیونکہ رحمان کے اندر بن مانگے دینے والے کا معنی پایا جاتا ہے یعنی ابھی مسائل کا وجود ہی پیدا نہیں ہوا.کوئی کچھ مانگنے کے لئے دربار میں حاضر نہیں ہوا لیکن اس کے لئے عطا کی تیاریاں ہو رہی ہیں.پس حقیقت میں تخلیق کا بھی رحمانیت کے ساتھ تعلق ہے اور علم کا بھی رحمانیت کے ساتھ تعلق ہے اور تخلیق کا تعلق تو آپ کو فوراً سمجھ آگیا جب آپ دوبارہ اس آیت پر غور کریں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ رحمان کے ساتھ تخلیق کو کیوں باندھا تھا الرَّحْمَنِ : عَلَّمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ - عَلَّمَهُ الْبَيَانَ - کہ رحمان نے انسان کی تخلیق کی ہے اور رحمان ہی تھا جس نے قرآن عطا کیا.تخلیق کے لئے رحمانیت کا جوڑ سمجھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے بہترین مثال پیش فرما دی انسان کی.انسان تخلیق کی وہ آخری شکل ہے جس میں سب سے زیادہ رحمانیت جلوہ گر ہے.کیوں کہ انسان کو سب سے زیادہ وہ چیزیں عطا ہوئی ہیں جو بن مانگے عطا ہوئیں اور جو درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہیں.کوئی اور مخلوق اس میں انسان کا مقابلہ نہیں کرتی بلکہ تمام کائنات کا خلاصہ انسان ہے تو خلق الانسان کا فاعل رحمان قرار دے دینا اور یہ فرمانا کہ رحمان نے انسان کی تخلیق کی ہے نہ صرف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ تخلیق کا آغاز رحمانیت کے نتیجے میں ہوا ہے بلکہ تخلیق پر غور کرنے سے سمجھ آجاتی ہے کہ کیوں رحمان کو خالق کہا گیا کیونکہ وہی مضمون دوبارہ ابھرتا ہے جو میں نے آپ سے پہلے بیان کیا ہے کہ ہر تخلیق میں ضرورت واجبی کے علاوہ چیزیں عطا کی گئی ہیں.ضرورت حقہ کا لفظ میں نے پہلے استعمال کیا تھا غالبا ضرورت واجبی کہنا زیادہ درست ہے یعنی وہ ضرورت جو کم سے کم ہے جس کے پورا ہو جانے کے بعد چیز کو بقاء نصیب ہو جاتی ہے اور پیاس بجھ جاتی ہے وہ ضرورت پورا کرنے کے بعد اگر مزید کچھ عطا کیا جائے تو وہ واجبی ضرورت سے زیادہ ہے

Page 57

54 اور اس کے لئے رحمان کا ہونا ضروری ہے ورنہ آپ روزمرہ کی زندگی میں تو رحمان نہیں بنتے.مزدور نے جب آپ کا کوئی کام کیا ہو تو بالعموم انسان کم سے کم دے کر پیچھا چھڑانے کی کوشش کرتا ہے.اکثر مالکوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ نوکروں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ تمہاری ضرورت پوری ہو گئی.بس کافی ہے.تم اس میں رہ سکتے ہو.سردی سے بچ سکتے ہو، گرمی سے کسی حد تک بیچ سکتے ہو بلکہ واجبی ضرورت بھی پوری نہیں کی جاتی کسی حد تک پوری ہو جائے تو سمجھتے ہیں کہ ذمہ داری ادا ہو گئی.وہ تو رحمان نہیں کہلا سکتے.پس تخلیق میں کوئی بھی زندگی کا ایسا ذرہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا خواہ وہ زندگی کی کسی نوع سے تعلق رکھنے والا ذرہ ہو جس ذرے کے اندر بھی رحمانیت کا جلوہ نہ دکھائی دیتا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.بتا سکتا نہیں اک پاؤں کپڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نور حق کا اس پہ آسماں ہے سه اب کیڑے کا پاؤں بنانے پر انسان قادر نہیں.یہ بات آج کے زمانے میں عجیب لگتی ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ ہوائی جہاز ایجاد ہو گئے.ٹیلی ویژنز ایجاد ہو گئیں ، حیرت انگیز بار یک دربار یک صفات کائنات پر غور کرنے کے نتیجے میں انسان بار یک دربار یک چیزیں بنانے پر قادر ہوتا چلا جا رہا ہے تو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مصرعہ اب پرانے زمانے کی بات بن گیا کہ بنا سکتا نہیں اک پاؤں کپڑے کا بشر ہرگز لیکن جب آپ گری نظر سے دیکھتے ہیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ بڑی بڑی تخلیق اور عظیم تخلیق اور باریک دربار یک تخلیق کا دعوی کرنے والا انسان بھی آج تک کیڑے کا ایک پاؤں بنانے سے عاجز ہے کیونکہ کیڑے کے ایک پاؤں میں عجیب در عجیب چیزیں بنی ہوتی ہیں.کپڑے کا ایک پاؤں جس مسالحے سے بنا ہوا ہے جس طرح اس کے اندر انرجی (ENERGY) پہنچانے کا انتظام ہے، جس طرح وہ اپنے ظاہری حجم کے مقابل پر بیسیوں گنا زیادہ وزن اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے.جس طرح ان کے اندر باریک در بار یک اعصاب ہیں.جس طرح وہ اس بات کا اہل بنایا گیا ہے کہ

Page 58

55 سیدھی عمودی چیزوں پر بھی وہ چڑھ جائے اور عام سطح پر بھی اسی طرح دوڑنے لگے.جس طرح بعض ان میں سے پانی کی سطح پر بھی دوڑنے کی استطاعت رکھتے ہیں اس کیڑے کے پاؤں پر آپ غور کریں تو عقل دنگ رہ جائے گی.اور بغیر کسی ملک کے ایک انسان جو علم ہو اور فراست و در دوبارہ یہ گا اور ہزار بار یہ جو صاحب علم ہو اور صاحب فراست ہو وہ دوبارہ یہ اعلان کرے گا اور ہزار بار یہ اعلان کرے گا کہ سة بتا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو خدا تعالٰی کی صفتوں میں تو ہر جگہ رحمانیت جلوہ گر دکھائی دیتی ہے اور رحمانیت کو تخلیق میں ڈھالنے کے لئے علم کی ضرورت ہے کیونکہ تخلیق میں سائنس بھی ہے اور ٹیکنالوجی بھی ہے.یہ وہ دو چیزیں اکٹھی ہو کر تخلیق میں ڈھلتی ہیں.علم کے بغیر تخلیق ممکن ہی نہیں ہے.پس علم جب درجہ کمال کو پہنچا ہو تب تخلیق خوبصورت ہوتی ہے اس کے باوجود تخلیق کوئی عملی جامہ نہیں اوڑھ سکتی یا عمل کی صورت میں ڈھل نہیں سکتی جب تک ساتھ ٹیکنالوجی بھی نہ ہو تو اللہ تعالٰی کو رحمان خدا کو علم کے بغیر رحمانیت کو تخلیق میں ڈھالنے کی استطاعت ہی نہیں ہو سکتی تھی اور سب سے زیادہ عالم وہ ہوتا ہے جو چیز کو خود بنانے والا ہے.دوسرے بھی سمجھتے ہیں اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.کسی کے بنائے ہوئے ماڈل پر غور کرتے ہیں اور گہرائی میں اترنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن جو بنانے والا ہے اس سے بڑھ کر عالم دنیا میں کوئی نہیں ہو سکتا.پس رحمان میں ہی علم بھی شامل ہے اور رحمان میں ہی تخلیق بھی شامل ہے.پس جب ہم کہتے ہیں اياك نعبد وإياكَ نَسْتَعِينُ تو بلا شبہ کوئی ناقص سودا نہیں کر رہے ہوتے.کوئی خوف والا سودا نہیں کر رہے ہوتے.کامل یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس سے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ صرف تیری عبادت کریں گے اور کسی اور کو عبادت کے لائق نہیں سمجھیں گے.ہم پورے یقین اور عرفان کے ساتھ یہ عہد کر رہے ہیں.ان کا یہ مطالبہ ایک طبعی آواز ہے جو اس کے پیچھے آنی چاہیے کہ اے ہمارے معبود! پھر ہماری ضرورتیں بھی تو ہی پوری کرنا کیونکہ تو تمام ضرورتیں پوری کرنے کی اہمیت رکھتا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مضامین ہیں مگر اب چونکہ وقت ختم ہو رہا ہے میں انشاء

Page 59

56 اللہ اگر وقت ملا تو اسی مضمون پر مزید گفتگو اگلے خطبے میں کروں گا اور اگر بیچ میں ایسا کوئی امر زیادہ فوری توجہ کے لائق آیا تو ایک خطبے کا ناغہ کر کے پھر انشاء اللہ آئندہ خطبے میں اس مضمون کی طرف آؤں گا تا کہ وہ لوگ جو ہر وقت ہمیشہ پوچھتے رہتے ہیں کہ آپ نے کچھ بتایا تھا لیکن ابھی پیاس نہیں بجھی.کچھ اور بتائیں.نمازوں کو ہم کس طرح زند کریں تو جہاں تک خدا مجھے توفیق عطا فرمائے میں چاہتا ہوں کہ اس ذمہ داری کو ادا کردوں اور آپ کو نمازوں کو زندہ کرنے کے کچھ راز سمجھا سکوں.اگر ہماری نمازیں زندہ ہو جائیں تو ہم زندہ ہوں گے اور ساری انسانیت زندہ ہوگی کیونکہ عبادت کی زندگی کے سوا انسان کو زندگی نصیب نہیں ہو سکتی.وہ دیکھتے ہوئے بھی اندھا رہے گا.وہ سنے ہوئے بھی بہرہ رہے گا وہ بظا ہر بولنے کی طاقت رکھے گا مگر بیان سے خالی ہو گا کیونکہ اس کے بیان کا رحمانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.پس یہ بہت ہی اہم بات ہے زندگی کا تمام اہم چیزوں میں سب سے زیادہ اہم عبادت ہے مگر وہ عبادت جسے سمجھ کر ادا کر جائے جو کیفیتوں میں ڈھلنی شروع ہو جائے اور کیفیتوں سے بھر جائے اس سے زندگی پیدا ہوتی ہے اور وہ زندگی پھر تمام کائنات کو زندہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہے.اللہ تعال ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 60

57 بیت الفضل - لندن ۲۱ رو نمبر ۶۱۹۹۰ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نماز کا عرفان خدا کی ہستی سے تعلق بڑھانے کا ذریعہ ہے تشہد تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : آج کا خطبہ بھی گزشتہ خطبات کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں میں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا چلا آیا ہوں کہ کس طرح نماز کے ساتھ ایک ذاتی تعلق پیدا کیا جائے اور کس طرح نماز کے مطالب میں ڈوب کر نماز سے لذت حاصل کی جائے اور وہ مقصد پالیا جائے جو نماز کی ادائیگی کا حقیقی مقصد ہے یعنی ایک ذریعہ ہے بندے کو خدا سے ملانے کا.پس جب تک ذریعے کا صحیح استعمال نہ ہو اس وقت تک ذریعہ اپنے مقصود کو پا نہیں سکتا.پس خدا تعالیٰ کا وصل خدا تعالیٰ سے تعلق مقصود بالذات ہے اور نماز سے جتنا تعلق بڑھے گا ، نماز کا جتنا عرفان بڑھے گا اتنا ہی زیادہ خدا تعالی کی ہستی سے تعلق بڑھے گا اور خدا تعالیٰ کا عرفان بڑھے گا اور نماز کے ذریعے آپ اپنی زندگی کے اپنی پیدائش کے مقصد کو پاسکتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم نماز سے بے سوچے ھے گزرتے چلے جائیں تو تمام عمر کی نماز میں بھی اس عارف باللہ کی ایک نماز کے برابر نہیں ہو سکتیں جو ایک نماز سے گزرتا ہے مگر اس میں ڈوب کر اس کو اپنا کر اس کا ہو کر اس میں سے نکلتا ہے.اسی لئے بعض دفعہ بعض کم فہم لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ ایک ہی نماز ہوا کرتی ہے جو خدا سے ملا دیتی ہے اور صرف ایک ہی نماز کافی ہے.یہ ایک بالکل غلط اور جاہلانہ تصور ہے.بعض جو زیادہ عارف بننے کی کوشش کرتے ہیں اور صوفیانہ مزاج رکھتے ہیں یا نہیں مگر لوگوں کو دکھاتے ضرور ہیں.وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ بس زندگی کا ایک لمحہ کافی ہے وہ لمحہ جو خدا سے ملا دے.اور مفہوم یہ ہوتا ہے کہ بس $

Page 61

58 ایک لمحے کی ملاقات کے بعد پھر ہمیشہ کے لئے چھٹی.حالانکہ ملانے والا لمحہ وہ لمحہ ہوا کرتا ہے جو ہمیشہ کے لئے وابستہ کر دے.جس کے بعد علیحدگی کا کوئی تصور نہ رہے.پس ایک نماز کا سوال نہیں ہے.سوال ایک ایسی نماز کا ہے جو آپ کا نماز کے ساتھ ایسا گہرا اور دائمی رشتہ باندھ دے، ایسا تعلق پیدا کردے کہ جو پھر کبھی نہ ٹوٹے.محبت کے متعلق شعراء کہتے ہیں کہ ایک ہی نظر میں ہو جایا کرتی ہے مگر وہ ایک ہی نظر ایسی تو نہیں ہوا کرتی کہ دوبارہ محبوب کی طرف اٹھنے کی تمنا سے ہی محروم رہے.ایک نظر سے مراد یہ ہے کہ محبت جب ہو جائے تو پھر ہر نظر اپنے محبوب کو تلاش کرتی ہے اور یہی عرفان الی اور وصل الہی کی حقیقت ہے.ایک دفعہ جب اللہ تعالٰی سے سچا تعلق پیدا ہو جائے جس کا نماز سب سے بڑا ذریعہ ہے تو پھر یہ تعلق دائمی ہو جایا کرتا ہے اور اس تعلق کی سچائی کا نشان ہی اس کا دوام ہے.اس لئے میں آپ کو مختلف پہلوؤں سے نماز کے مضمون پر غور کرنے کے طریق بتانے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ ہر شخص اپنے اپنے مزاج کے مطابق وہ طریق اختیار کرے اور عبادت کا صرف فریضہ ادا نہ کرے بلکہ عبادت کی لذت حاصل کرے اور عبادت کے پھل کھائے.صفت رب العالمین پر غور کریں جب ہم صفات باری تعالیٰ کا ذکر سورۂ فاتحہ کے الفاظ میں کرتے ہیں تو اس کے بعد إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا ہے.اس کا ایک مفہوم میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اب ایک اور امر کی طرف توجہ دلائی چاہتا ہوں کہ چار بنیادی صفات بیان ہوئی ہیں.رَبِّ الْعَلَمِنَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ پس جب ہم إياك نعبد کہتے ہیں تو اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں.تیرے سامنے سرجھکاتے ہیں اور اپنے وجود کو تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں.گویا آج کے بعد یہ وجود ہمارا نہیں تیرا ہو گیا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم قدم بقدم تیرے پیچھے چلتے ہیں.جس طرح ایک غلام آقا کی پیروی کرتا ہے اور اپنی مرضی کا مالک خود نہیں رہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ مالک کی تصویر بن جائے.جیسا مالک کرتا ہے ویسا ہی وہ کرے تو اس کا نام بھی عہدیت ہے.پس عبدیت اور عبودیت دو مفہوم عبد کے اندر پائے جاتے

Page 62

59 ہیں.جہاں تک دوسرے مفہوم کا تعلق ہے اس کو پیش نظر رکھیں تو نماز آپ کو روزانہ ایک پیغام بھی دے گی اور ایک محاسبہ بھی کرے گی.جب آپ کہتے ہیں : ایاک نعبد توسب سے پہلے رب العالمین کی صفت آپ کے سامنے آکھڑی ہوگی اور آپ اپنے دل میں یہ سوچیں گے اگر نوچنے کی اہلیت رکھتے ہوں کہ کیا میں بھی رب بننے کی کوشش کرتا ہوں؟ کیا میری ربوبیت کا فیض بھی تمام جہانوں پر ممتد ہے یا ممتد ہونے کی کوشش کرتا ہے؟ یہ ایک سوال اتنا گہرا اور اتنا وسیع سوال ہے کہ اس کے حقیقی جواب تلاش کرنے میں بھی مدتیں درکار ہیں اور اس کو مختلف جگہوں پر باری باری اطلاق کرتے ہوئے پھر اس کا الگ جواب حاصل کرنا ایک بڑی محنت کا کام ہے مگر ایک بہت ہی دلچسپ سیر ضرور ہے.اپنے اعمال کو ربوبیت کی کسوٹی پر پرکھیں جب انسان کسی ذات کو رب العالمین تسلیم کرتا ہے اور ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ یہ ایک قابل تعریف بات ہے.الحمد يثورات العلمين رب العالمین ہونا کوئی برائی کی بات نہیں بلکہ ہر پہلو سے قابل تعریف ہے بلکہ تمام حقیقی تعریفوں کا مستحق رب العالمین ہے تو اگر آپ رب العالمین بنے کی کوشش نہیں کرتے تو آپ جھوٹے ہیں.یہ منہ کی تعریف محض ہونٹوں سے نکلی ہوئی تعریف ہے اور دل سے اسکا کوئی تعلق نہیں کیونکہ جو چیز آپ کو پسند آئے آپ ویسا ہونے کی کوشش کرتے ہیں.پس رب العالمین کہہ کر رب العالمین کا تعلق حمد باری تعالٰی سے باندھ کر ہر بچے عبادت کرنے والے پر فرض ہی نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل کی آرزو بن جاتا ہے کہ وہ دیسا بنے کی کوشش کرے.اب رب العالمین کا مضمون تو بہت ہی وسیع ہے لیکن اپنے گردو پیش سے اگر آپ شروع کریں تو اس کا اطلاق نسبتاً آسان ہو جاتا ہے.بعض لوگ اپنے بچوں کے لئے رب ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے لئے نہ صرف یہ کہ رب نہیں ہوتے بلکہ ربوبیت کے بر عکس اثر دکھاتے ہیں.ماں اگر بچوں سے پیار کرتی ہے تو وہ بھی ایک ربوبیت کا مظہر ہے لیکن دو ربوبیت خدا کی نظر میں قابل تعریف نہیں ٹھرتی یا قبولیت کی مستحق قرار نہیں پاتی جب وہی ماں اپنے سوتیلے بچوں سے ظلم کر رہی ہوتی ہے.جب

Page 63

60 دوسرے بچوں سے اس کا منفی سلوک ہوتا ہے تو وہیں رب العالمین کا مضمون منقطع ہو جاتا ہے.ایسی ربوبیت جو محدود دائرے سے تعلق رکھتی ہو اس وقت تک قابل قبول ہے جب دائرہ وسیع ہو تو تب بھی ربوبیت جاری رہے اور منقطع نہ ہو جائے.لیکن ماں کی اپنے بچوں سے محبت اسی وقت ربوبیت کی تعریف سے باہر قدم نکال دیتی ہے جبکہ ماں کے تعلقات دوسرے بچوں سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے منفی صورت اختیار کر لیتے ہیں.یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے مگر اس کو آپ انسانی دائروں پر پھیلائیں تو آپ کے لئے اپنا جائزہ لیتا بہت ہی آسان ہو جاتا ہے.جب بھی آپ کسی سے تعلقات قائم کرتے ہیں تو وہ ایک لمحہ اپنے نفس کی اندرونی حالت کو جانچنے کا ہوتا ہے.تعلقات کسی قسم کے قائم ہو رہے ہیں کیوں ہو رہے ہیں؟ کیا ان تعلقات میں ربوبیت کا کوئی عصر ہے بھی کہ نہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو آپ کے تعلقات کو وضاحت سے کھول کے آپ کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے اور جب بھی تعلقات کروٹیں بدلتے ہیں اور لاشعوری حالت سے شعور میں ابھرتے ہیں تو وہ وقت بھی ایسے ہوتے ہیں جب آپ اپنا جائزہ لے سکتے ہیں کہ آپ واقعہ " رب العالمین بننے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں.بعض تعلقات جاری و ساری ہیں اور وہ ایک قسم کے لاشعور میں رہتے ہیں.مثلاً اپنے ماحول سے گردو پیش سے جانوروں سے تعلقات، یہ اگر چہ دبے ہوئے تعلقات ہیں لیکن ہیں سہی.کیونکہ جس کائنات میں ہم سانس لے رہے ہیں یہاں لازما " ہمارے اس سے تعلقات ہیں.ایک بچہ چھوٹی سی بندوق لے کر شکار پر نکلتا ہے اور جب وہ شکار کرتا ہے تو اس کا جانور سے ایک قسم کا تعلق قائم ہوتا ہے.یہ لاشعور سے شعور میں ابھر آتا ہے.اس وقت اگر وہ شکار کرتا ہے اور ربوبیت پر نظر رکھتے ہوئے ان معنوں میں خدا کی حمد کرتا ہے کہ مالک وہی ہے اور رب بھی وہی ہے اس نے ہر شخص کے رزق کے انتظام فرمائے ہوئے ہیں اور میرا جو اس جانور سے تعلق ہے بظاہر میں شکاری ہوں لیکن یہاں خدا کی ربوبیت میرے لئے جلوہ دکھا رہی ہے جس طرح اس پرندے کے لئے اس نے اس وقت جلوے دکھائے جب یہ چھوٹے چھوٹے جانوروں کا شکار کر کے خدا کی ربوبیت کے مزے چکھتا تھا تو ربوبیت کا مضمون بظاہر اس صورت سے متصادم ہونے کے باوجود

Page 64

61 ایک نئی شکل میں آپ کے سامنے ظاہر ہوتا ہے یعنی خدا تعالی ایک پہلو سے رب بنتاً ہے اور دوسرے پہلو سے بظا ہر ربوبیت کی نفی ہو رہی ہوتی ہے.ایسی صورت میں ایک بنیادی قانون ہے جو ہمیشہ کار فرما ہے اور وہ یہ ہے کہ بہتر کے لئے اونی کو قربان کیا جائے گا.یہاں ربوبیت ایک اور رنگ میں آپ کے سامنے ابھرتی ہے مگروہی بچہ جب آگے بڑھتا ہے اور ایک ایسے جانور کو جو خدا نے خوبصورتی کے لئے پیدا کیا ہے جو اس کے کھانے کے کام نہیں آسکتا یا ایسے جانور کو جو خدا تعالیٰ نے صفائی کے لئے مقرر فرمائے ہوئے ہیں یا اور مقاصد کے لئے پیدا کئے ہیں، ان کو محض مارنے کی نیت سے مارتا ہے تو یہاں ربوبیت سے وہ اپنا تعلق توڑ لیتا ہے اور واضح طور پر ربوبیت کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے تو بظاہر ایک ہی فعل ہے یعنی جانور سے تعلقات کے دوران کسی جانور کو ذریح کرنا یا شکار کرنا اور کسی جانور کی جان بخشی کرنا.لیکن یہ ایک فعل نہیں رہتے جب آپ ان افعال کو مختلف حالات میں ربوبیت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھتے ہیں.پھر جانور جو ضرورتمند ہیں، جو مصیبت میں مبتلا ہیں ان کے لئے آپ نے مغربی قوموں میں خاص طور پر ربوبیت کے جذبے دیکھے ہوں گے جو بد قسمتی سے مسلمانوں میں نسبتا کم پائے جاتے ہیں تو ایک ہی چھوٹی سی مثال سے جو رستہ کھلتا ہے وہ ایک لامتناہی سفر بن جاتا ہے.انسان کے گردو پیش سے تعلقات میں بے شمار قسم کے تعلقات ممکن ہیں اور ہر تعلق میں جب آپ آگے قدم بڑھاتے ہیں یا نئے تجارب حاصل کرتے ہیں، جب لاشعوری تعلقات اچانک شعور میں ابھرتے ہیں تو وہ اوقات ہوتے ہیں جب آپ اپنا جائزہ لے سکتے ہیں اور رب العالمین سے اپنے تعلق کو یا قائم کر سکتے ہیں یا منقطع کر سکتے ہیں.پھر ربوبیت کے دائرے میں بالعموم جیسا کہ آپ سب جانتے ہی ہیں غرباء سے تعلق ہے.خدا کے مصیبت زدہ بندگان کی مصیبتوں کا حل ہے اور اس کے بر عکس ایسے افعال ہیں جو منفی اثر پیدا کرنے والے ہیں.ایک آدمی اگر ایک غریب سے ہمدردی نہیں کر سکتا تو اس کی ربوبیت کے متعلق ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ افسانوی ربوبیت ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں رب سے محبت کرتا ہوں لیکن حقیقت میں نہیں کیونکہ ویسا بنا نہیں چاہتا لیکن ایک شخص جب ربوبیت سے برعکس تعلقات کسی سے قائم کرتا ہے.کسی غریب کا حق مارتا

Page 65

62 ہے.کسی یتیم کے اموال ہضم کرنے لگ جاتا ہے.کسی کمزور پر ظلم اور زیادتی کرتا ہے تو یہ راوبیت کی منفی علامات ہیں.اب ایسا شخص جب نماز میں الْحَمْدُ للهِ رَبِّ العلمين کہتا ہے تو حقیقت میں آسمان سے یہ آواز کیا بن کر اس پر پٹی ہے، یہ سوال ہے.کیا وہ رحمت کے پھول بن کر اس پر برسے گی جیسا کہ آگے رحمان کا ذکر چلا ہے یا بر عکس شکل اختیار کرے گی.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر انسان کا اپنا عمل ربوبیت سے منفی ہو گا تو یہ آواز کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ہمیشہ اس پر لعنت بن کر گرے گی اور از خود یہ آواز اس پر رحمت کے پھول برسانے کا موجب نہیں بنے گی.ربوبیت کے بعد اپنے اندر رحمانیت کی شان پیدا کریں پس یہ مضمون بہت ہی وسیع اور گہرا ہے اور اس مضمون کو آپ آگے بڑھائیں اور رحمانیت سے تعلق جوڑیں تو ارشات تعمد دوبارہ کہیں اور پھر سوچیں کہ رحمان خدا نے آپ کے لئے کیا کیا کچھ پیدا کیا ہے.رحمان کا تصور قائم ہی نہیں ہو سکتا جب تک عدل کا تصور نہ ہو کیونکہ رحمان عدل سے بالا ہے اور اوپر ہے.بالا ان معنوں میں نہیں کہ بے نیاز بلکہ عدل کے قیام کے بعد رحمانیت کا مضمون شروع ہوتا ہے.پس جو مختص عدل پر ہی قائم نہیں وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ : الرَّحْمنِ الرَّحِيم رحمان تو ضرورت سے بڑھ کر دینے والا حق سے بڑھ کر دینے والا بن مانگے دینے والا.پس یہاں تعلقات کے دائرے ربوبیت کی بالا شان دکھانے لگتے ہیں.ربوبیت کا مضمون زیادہ ارتقائی صورت میں انسانی ذہن پر ابھرتا ہے اور اس کے اعمال پر جلوہ گر ہوتا ہے.پس جب ایاک نعبد کہتے ہیں تو یہاں "ک" سے مراد اللہ تو ہے ہی کہ اے خدا تجھ سے ، مگر خدا کی کس شان سے تعلق باندھا جا رہا ہے.ربوبیت کا مضمون ایک تعلق پیدا کرے گا تو رحمانیت کا مضمون ایک دوسرا تعلق پیدا کرے گا.پھر رحیمیت کا مضمون ہے جس میں محنت کا پورا پورا جبر بلکہ محنت سے کچھ پڑھ کر اجر دینے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.ایک انسان اپنے تعلقات کے دائرے میں بڑی آسانی کے ساتھ اپنے آپ کو پرکھ سکتا ہے کہ کیا میں جب کہتا ہوں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - الرَّحْمن الرحيم.تو رحیم تک میری حمد کی آواز.

Page 66

پہنچتی بھی ہے کہ نہیں یا رحیمیت کو میں واقعی قابل تعریف سمجھتا ہوں اور اگر سمجھتا ہوں تو پھر میں خود کیوں رحیم بننے کی کوشش نہیں کرتا.پس جہاں جہاں اس کے اس سوال کے جواب میں ایک منفی تصویر ابھرتی ہے یا بے رنگ تصویر ابھرتی ہے وہیں وہیں اس كا ايات لنڈ کہتا اثر سے خالی ہوتا چلا جاتا ہے.جہاں منفی تصویر ابھرتی ہے اس کا مضمون بعد میں بیان ہوگا کہ پھر اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے.مالک کا صحیح مفہوم آگے بڑھیں تو ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ تک آپ پہنچ جاتے ہیں.مالک میں خدا تعالیٰ کی نہ صرف ملکیت کی صفت بیان ہے بلکہ ملوکیت کی صفت بھی بیان ہے یعنی مالک کے اندر سب چیزیں داخل ہو جاتی ہیں لیکن جب یوم الدین کے ساتھ ملت کی اضافت ہو تو ملک یوم الدین کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مالک جس کے قبضہ قدرت میں تمام انجام ہیں.کوئی چیز اس سے بھاگ کر باہر نکل ہی نہیں سکتی.ساری عمر کوئی شخص محنت کرے اور وہ سمجھے کہ میری اس کوشش میں کسی اور نے کوئی دخل نہیں دیا اور میں کامیاب ہو گیا لیکن اس محنت کا پھل گھر پہنچتے تک بھی اگر مالک یہ فیصلہ کر لے کہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا تو وہ فائدہ نہیں اٹھا سکے گا.اگر گھر میں پہنچ بھی جائے اور وہ بظاہر سمجھے کہ میں اپنے محنت کے پھل پر قابو پا چکا ہوں یہ میرا ہو چکا ہے اگر مالک یہ سمجھے کہ اس سے اس محنت کرنے والے کو فائدہ نہیں پہنچنا چاہئیے تو وہ محنت کرنے والا خود دنیا سے اٹھ سکتا ہے یا اور کوئی ایسی بلا اس پر نازل ہو سکتی ہے کہ گھر میں پھل موجود ہے لیکن محنت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا تو مالک ایک ایسے کامل صاحب اختیار وجود کا تصور پیدا کرتا ہے جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے جو سیاست کا بھی بادشاہ ہے جو ملکیت کا بھی بادشاہ ہے اور ملوکیت کا بھی یعنی وہ تمام اختیارات بھی رکھتا ہے جو ایک مالک اپنی کسی چیز پر رکھتا ہے خواہ وہ بادشاہ ہو یا نہ ہو.ایک چھوٹے سے چھوٹا غریب آدمی بھی کچھ نہ کچھ اختیار رکھتا ہے.ایک روٹی کا ٹکڑا بھی اگر اس کو بھیک کے طور پر ملا

Page 67

64 ہو تو وہ اس ٹکڑے پر تھوڑا سا اختیار رکھتا ہے تو مالک کے اندر یہ تمام اختیارات آجاتے ہیں جن میں بادشاہ کو دخل دینے کا کوئی حق ہی نہیں پہنچتا اور اگر وہ چاہے بھی تو ہر ایک کے اختیار چھین نہیں سکتا تو مالک ایسے عظیم وجود کو کہتے ہیں جو ہر چیز کا حقیقی مالک ہے چھوٹی ہو یا بڑی ہو اور مالک کے اندر بعض ایسی باتیں ہیں یعنی بادشاہ کے اختیارات میں جو مالکیت کے دوسرے اختیارات میں نہیں ہوا کرتیں.بادشاہ قانون بنا دیتا ہے.بادشاہ جب چاہے کسی کو DISPOSSESS کر دیتا ہے اس کے اختیارات وقتی طور پر چھین لیتا ہے، سوائے اس کے کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن پر انسان کا اختیار رہتا ہی ہے وہ چھین نہیں سکتا وہ اس کو اس کی ہر چیز سے POSSESSION سے محروم کر سکتا ہے لیکن اس کے خیالات کے قبضے سے محروم نہیں کر سکتا.پس خدا جب مالک بنتا ہے تو ہر چیز کا مالک بن جاتا ہے وہ بندے کے خیالات کا بھی مالک بن جاتا ہے اور جب چاہے ان کو بھی تبدیل فرما سکتا ہے.وہ ہر ذی شعور کے شعور کا مالک بن جاتا ہے اور جب وہ بادشاہ بنتا ہے تو جس سے چاہے جس کو چاہے محروم کردے.یہ مضمون قرآن کریم نے مختلف سورتوں میں مختلف آیات میں بیان فرمائے ہیں.جیسا کہ فرمایا : اللهم مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاء وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ (سورۂ آل عمران : آیت ۲۷) یہاں مالک کا معنی صرف کسی چیز پر قبضہ کرنے والا نہیں بلکہ یہاں ملوکیت کے معنی اور بادشاہت کے معنی بھی اس میں داخل فرما دئے جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں.اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ اے خدا تو ملک کا بھی مالک ہے.یعنی صرف چیزوں کا مالک نہیں، بادشاہتوں کا اور مضامین کا بھی مالک ہے.کوئی مضمون ایسا نہیں جس کا تو مالک نہ ہو اور بادشاہت بھی ایک مضمون ہے جو تیرے قبضہ قدرت میں ہے تُونِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنْزِمُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ تو جس کو چاہتا ہے ملک عطاء فرما دیتا ہے جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے.تو ہر چیز پر قادر ہے.یہ مالک کی تعریف ہے.تُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ مِنَا وَتُخْرِجُ الْمَيْتَ مِنَ الْحَي و

Page 68

65 توزق من تشاء بغير حساب سوره آل عمران : آیت (۲۸) کہ اے خدا! تو رات کو دن میں تبدیل فرما دیتا ہے دن کو رات میں تبدیل فرما دیتا ہے.موت سے زندگی نکالتا ہے اور زندگی سے موت نکالتا ہے.مردوں سے زندہ پیدا کرتا ہے اور زندوں سے مردہ پیدا کر دیتا ہے.وترزق من تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.اور جس کو چاہے بے حساب رزق عطا فرما دیتا ہے.تو اس آیت نے اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ مالک سے مراد محض کسی چیز کا مالک ان معنوں میں نہیں ہے جن معنوں میں ہم مالک بنتے ہیں یا مالکیت کا مضمون سمجھتے ہیں بلکہ بہت ہی وسیع اور گہرا مضمون ہے.اس میں سیاست اور بادشاہت بھی داخل ہو جاتی ہے اور رزق بھی داخل ہو جاتا ہے اور قانون سازی بھی داخل ہو جاتی ہے اور قانون پر پورا قبضہ ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے اور قانون کا نفاذ بھی داخل ہو جاتا ہے اور زندگی بھی اس کے ماتحت آتی ہے اور موت بھی اس کے ماتحت آتی ہے.گویا مالکیت کا تصور اتنا وسیع ہے کہ رحمانیت نے جس تخلیق کا آغاز کیا تھا اور ربوبیت نے اس تخلیق کو جن جن منازل سے گزارا تھا اور رحمانیت اور رحیمیت نے ان کے اوپر جو جو جو ہر دکھائے ان سب کے بعد جو آخری صورت وجود کی ابھرتی ہے اس تمام صورت پر ہر پہلو سے خدا کا مکمل قبضہ ہے.پس مالک کا تصور ایک بہت ہی عظیم تصور ہے اور مالک بننے کی کوشش کرنا یہ مضمون ایک مشکل لیکن اس کا تعلق پہلے مضامین سے ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مالک ظالم بھی ہو سکتا ہے سفاک بھی ہو سکتا ہے، کسی سے ناجائز چھین کر بھی وقتی طور پر مالک بن سکتا ہے اور لوکیت کے اور ملکیت کے نہایت خوفناک مظاہر ہم دیکھتے ہیں تو پھر ہم دیسا بننے کی کس طرح کوشش کر سکتے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ ربوبیت کے دائرے سے داخل ہو رہے ہیں اور رب بننے کی کوشش مخلصانہ طور پر کر چکے اور کسی حد تک ربوبیت سے حصہ پا لیا جب رحمانیت کے دروازے میں داخل ہوئے اور رحمان بننے کی کوشش کی.اور کسی حد تک رحمانیت سے حصہ پالیا.جب رحیمیت کے دروازے میں داخل ہوئے اور رحیم بننے کی کوشش کی اور رحیمیت سے کسی حد تک حصہ پالیا تو در حقیقت آپ ہی ہیں جو مالک بننے کی صلاحیت پیدا کر چکے ہیں.آپ ہیں جن کا یہ حق مضمون ہے

Page 69

66 بنتا ہے کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ اے خدا! کچھ چیزوں میں تو ہم نے واقعہ " کوشش کی اور تیرے جیسے بننے کی کوشش کرتے رہے اور کسی حد تک بن گئے مگر ملوکیت کا مضمون ایسا ہے جس میں ہمارا دخل نہیں ہے اور ہم مالک بن نہیں سکتے کیونکہ یہاں کامل طور پر تیرا قبضہ ہے.اس لئے اب تو ہمیں مالک بنا بھی دے اور یہ توفیق عطا فرما کہ ہم ملوکیت کے وقت رب بھی ہوں اور رحمان بھی ہوں اور رحیم بھی ہوں اور تیری تمام صفات کے مظہر ہوں اور تیرے مالک ہونے میں جو یہ ایک خاص شان پائی جاتی ہے کہ مالک ہوتے ہوئے بھی تو دوسروں کو ملکیت عطاء کر دیتا ہے، یہ شان بھی ہمیں بخش.مالک بننے کی کوشش کرنا اب یہاں خدا کی صفات کے مطابق مالک ہونا اور بندے کی صفات کے مطابق مالک ہوتا دو الگ الگ چیزیں بن جاتی ہیں.ان شرائط کے ساتھ جو شرائط سورہ فاتحہ ہمارے سامنے رکھتی ہے جب ہم مالکیت کے مضمون پر غور کرتے ہیں اور اس کا موازنہ اس مالکیت سے کرتے ہیں جو اس مضمون سے عاری ہے.ان شرائط سے عاری ہے تو زمین و آسمان کا فرق پڑتا ہے یا آسمان اور زمین کا فرق ظاہر ہوتا ہے.ایسا مالک جو اس جذبے سے پاگل ہو کر کہ میری جائیداد بڑھے میرا قبضہ قدرت بڑھے.ایسا بادشاہ جو اس ہوس سے پاگل ہو کر خدا کے بندوں پر حملے کرتا ہے اور اس کی مخلوقات کے لئے ایک عذاب بن جاتا ہے کہ کسی طرح میری ملک گیری کی ہوس پوری ہو اور میری مملکت وسیع ہو وہ نہ رب بن سکتا ہے، نہ رحمان بن سکتا ہے نہ رحیم بن سکتا ہے.مالکیت کسی کو دیتا نہیں بلکہ چھینتا چلا جاتا ہے حالانکہ قرآن کریم نے مالکیت کی یہ تعریف فرمائی کہ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ اصل حقیقی مالک وہ ہے جو عطا بھی کرتا ہے، صرف لیتا ہی نہیں لیکن جب لیتا ہے تو وہ حق لیتا ہے جو اس کا ہے اور کسی اور کا حق نہیں لیتا اور جب عطاء کرتا ہے تو کسی کو حق نہیں دے رہا ہوتا بلکہ اپنی طرف سے عطاء کر رہا ہوتا ہے کیونکہ کلیتہ مالک وہی ہے.دنیا کا بادشاہ جو ملک گیری کی ہوس کے ساتھ حملے کرتا ہے وہ ایسے حق چھین رہا ہے جو اس کے نہیں ہیں.وہ دوسرے بندگان خدا کے حقوق میں دخل اندازی کرتا ہے اور غاصب کی

Page 70

67 چھینی ہوئی چیزیں اس کو مالک نہیں بنا دیا کرتیں.ان میں سے وہ کچھ کسی کو دے بھی دے اور کوئی والی مقرر کر دے اور بظاہر ملوکیت کسی کے سپرد کرے تو جیسا اس کا قبضہ ناجائز دیسے اس کی عطاء ناجائز اور بے معنی اور بے حقیقت.لیکن جب یوم الدین کی شرط ساتھ لگا دیں تو یہ فرق بالکل ہی نمایاں اور اتنا زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی مشابہت کی شکل بھی باقی نہیں رہتی.یوم الدین کا مطلب ہے : جزاء سزا کے دن آخری دن کا مالک ہر چیز اس کی طرف لوٹ جائے گی اور ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئی دوسرا شخص ملکیت میں یا ملوکیت میں ایک ذرہ بھر بھی اس کا شریک نہیں رہے گا.قرآن کریم فرماتا ہے.وما ادريك ما يومُ الدِّين - ثُمَّ مَا ادْرُكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسُ لِنَفْسٍ شَيْئًا، وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ يله سورة المطففين : آیات ۱۹-۲۰) کہ تمہیں کس طرح سمجھائیں کہ یوم الدین کیا چیز ہے.یوم الدین اس دور کا اس زمانے کا نام ہے لا تقلك نَفْسُ لِنفس شيئا - کوئی شخص اپنے لئے یا اپنے کسی عزیز یا تعلق والے کے لئے کسی چیز کا بھی مالک نہیں رہے گا.لَا تَمْلِكُ نَفْسُ لنفس شَيْئًا، وَالامْرُ يَوْمَئِذٍ لِلهِ.اور ملکیت کا امر کلیتہ " سو فیصد خدا کی طرف لوٹ چکا ہو گا.پس یہ دنیا کے بادشاہ اور دنیا کے مالک عارضی طور پر آپ کو بظا ہر مالک دکھائی بھی دیں اور خدا کی صفت ملوکیت میں شریک بھی دکھائی دیتے ہوں مگر اس طرح دنیا سے خالی ہاتھ واپس جاتے ہیں اور اس طرح ان کی ملوکیتیں اور ملکیتیں یا ان سے چھینی جاتی ہیں یا یہ خود ان سے جدا کئے جاتے ہیں کہ بالآخر خدا کی مالکیت کا مضمون اپنی پوری شان سے بلا شرکت غیرے ابھرتا ہے اور ہر امر اس کی طرف لوٹ جاتا ہے.پس خدا کے بندے کے طور پر اس کی ملوکیت میں حصہ لینا اس مضمون کو بہت وسیع کر دیتا ہے اور جو خدا سے مالکیت مانگتا ہے اور خدا جیسا بن کر مالک بننے کی کوشش کرتا ہے اسے موت اس کی ملکیت سے محروم نہیں کیا کرتی.وہ ایک عالم بقاء میں رہنا سیکھ لیتا ہے.یہاں جو کچھ پاتا ہے وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے اور ساتھ ساتھ اسے انگلی دنیا میں منتقل بھی کرتا چلا جاتا ہے.یہاں جو بادشاہتیں خدا کی خاطر

Page 71

68 عاجزی اور انکساری سے کرتا ہے اور رب اور رحمان اور رحیم بکر خدا کے بندوں سے اپنے تعلقات قائم کرتا ہے.بڑا ہو کر چھوٹا بنتا ہے، اس کی ملوکیت بھی قیامت کے دن کے بعد خدا تعالٰی کی رحمت کے جلوے کی صورت میں اسے واپس کی جائے گی اور بہت بڑھا چڑھا کر واپس کی جائے گی.پس اس دنیا میں ہم کس حد تک مالک ہوں گے اور کس حد تک ملک ہونگے اس کا تعلق اس دنیا میں خدا کے مالک اور ملک ہونے سے ہے اور اس بات سے ہے کہ ہم نے اس مالک اور ملک سے کس حد تک تعلق جوڑلیا ہے.پس تعبد کا ایک یہ مضمون ہے.ایک یہ مفہوم ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تو جانتا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ جو چیز میری ہمیں پسند آرہی ہے ہم ویسا بنے کی کوشش کر رہے ہیں.اس لئے ہمارے اخلاص میں تو کوئی شک نہیں رہا.اگر ہم جھوٹے ہوتے تو منہ کی تعریف کرتے اور عملاً " ہم اور رخ اختیار کرتے، کسی اور سمت میں روانہ ہو جاتے مگر جس کو ہم اچھا سمجھ رہے ہیں اس کے قدم بقدم اس کے پیچھے چلے آرہے ہیں.پس إياكَ نَعْبُدُ اے خدا ہم پورے خلوص کے ساتھ اور صمیم قلب کے ساتھ اور دل کی گہرائیوں کے ساتھ اور اپنے اعمال کی تصدیق کے ساتھ بار بار یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور کسی اور کی عبادت نہیں کرتے.خدا تعالی کے احکام اور صفات کی پیروی کی ضرورت دوسرے معنوں میں ایات تفت میں خدا تعالٰی کے احکام کی پیروی ہے.ایک اس کی صفات کی پیروی ہے اس طرح جو دنیا میں ہر جگہ جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں اور اس کے لئے کسی مذہبی احکام کی ضرورت نہیں.انسان کا ربوبیت کا تصور رحمانیت کا تصور رحیمیت کا تصور اور مالکیت کا تصور خدا کے تعلق میں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے اور اپنے اپنے تصور کے مطابق جس حد تک انسان عبدیت کی راہیں اختیار کرتا ہے وہ انال تغیر کہنے کا حق رکھتا ہے لیکن جب خدا تعالی کی طرف سے شریعت نازل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ صرف اپنی صفات کے جلووں سے ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اوامر اور نواہی کے جلووں سے ظاہر ہوتا ہے.احکام دیتا ہے اور بعض چیزوں سے منع کرتا ہے.کہیں شجرہ طیبہ ہے اور کہیں شجرہ خبیثہ ہے.فرماتا ہے کہ شجرہ طیبہ سے جتنے پھل چاہو کھاؤ

Page 72

69 اور جس طرح چاہو کھاؤ اور حکم دیتا ہے کہ شجرہ ممنوعہ کی طرف نہ جاؤ.وہ خبیث شجر ہے تو یہاں انسان روزانہ دو ٹوک فیصلے کرنے کا اہل ہو جاتا ہے یہاں اس کی سوچوں اور فکروں کا سوال نہیں رہتا بلکہ کھلم کھلا خدا کی عبودیت یا عدم عبودیت کے مراحل اس کے سامنے آتے ہیں اور ہر مرحلے پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے عبودیت کرنی ہے یا عبودیت سے منہ پھیرتا ہے.پس ان معنوں میں جب وہ ان شرائط کو پورا کرتا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ پورا کرتا ہے یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی حد تک پورا کرتا ہے تو وہی چار صفات کے جلوے دوبارہ ایک کے بعد دوسرے ہمارے سامنے رقص کرتے ہوئے آجاتے ہیں، ایک حسین نظارے کی صورت میں آجاتے ہیں.ربوبیت کے معاملے میں ہم نے کس حد تک خدا کے احکامات کی پیروی کی اور اس کی متاہی سے بچے.رحمانیت کے پہلو سے ہم نے خدا تعالٰی کے کس کس حکم کی پیروی کی اور کس کس حکم کا انکار کیا اور رحیمیت کے پہلو سے ہم نے کس حد تک خدا تعالٰی کے احکامات کی پیروی کی یا ان کا انکار کیا اور اسی طرح مالکیت کے پہلو سے ہم کس حد تک واقعہ " خدا کے بچے بندے ثابت ہوئے.یہ عبودیت کے مضمون کو مکمل کر دیتا ہے اور اسی مضمون میں یہ نماز بھی شامل ہے جس میں ڈوب کر آپ خدا سے یہ تعلقات قائم کر رہے ہیں.خدا نے تعلق کا یہ ذریعہ بیان فرمایا اور سب سے زیادہ اس کو اہمیت دی تو اس ساری دنیا کی سیر کے بعد جب ایک نمازی واپس اپنے حال میں لوٹتا ہے تو یہ بھی پھر پہچانتا ہے اور دیکھنے کی کوشش کرتا ہے کہ میں کس حد تک نماز کے تقاضے پورے کر رہا ہوں اور کس حد تک عدل کے ساتھ نماز کے تقاضے پورے کر رہا ہوں اور کس حد تک عدل سے بالا اور اونچا ہو کر خدا کے حضور ایسی عبادت کر رہا ہوں کہ اگر نہ بھی کروں تو مجھے پر حرف نہیں لیکن بہت بڑھ کر سلوک کرتا ہوں اور جب یہ مضمون شروع ہوتا ہے تو وہاں احسان کا مضمون داخل ہو جاتا ہے یعنی نماز عدل سے احسان میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر حسین ہونے لگ جاتی ہے.اب آپ رات نستعین میں داخل ہوتے ہیں.اب دیکھیں کہ ہر شخص کا اياكَ نَسْتَعِير ہر دوسرے شخص سے کتنا مختلف ہو چکا ہے.بظاہر ایک ہی آواز ہے کہ اے خدا! ہم تیری مدد چاہتے ہیں اور

Page 73

70 صرف تیری مدد چاہتے ہیں.تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور صرف تجھ سے مدد مانگتے ہیں لیکن کس کی مدد کی اہلیت کے ساتھ جب بھی سوالی حکومتوں میں پیش ہوا کرتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے BTODATAS ہوتے ہیں، ان کے اعمال نامے ہوتے ہیں.جو چیز انہوں نے حاصل کی جو حاصل نہ کر سکے ان سب کا خلاصہ بعض صفحات پر درج ہو کر پیش ہوا کرتا ہے.اگر کسی نے چپڑاسی بھی بننا ہو تو اس کے لئے بھی کچھ صلاحیتیں درکار ہیں.پس وہ بادشاہ جو چپڑاسی بھی بنا سکتا ہے اور وزیر اعظم بھی بنا سکتا ہے وہ بظاہر مالک تو ہے اور قدرت تو رکھتا ہے کہ جسے چاہے چپڑاسی بنا دے.جسے چاہے وزیر اعظم بنا دے گھر آنکھیں بند کر کے ایسا نہیں کرتا.وہ دیکھتا ہے کہ درخواست کنندہ کے پاس کونسی دوسری صلاحیتیں ہیں، کون سے اس کے مددگار کوائف ہیں جن کی روشنی میں مجھے اس کے ساتھ اپنے تعلقات میں معین فیصلہ کرنا ہے کہ کس مرتبے پر میں اس کو نافذ کروں گا.کس مقام تک اس کو بلند کروں گا.اس کا رفع کہاں تک ہوتا ہے.پس اياك نستعین میں ادنیٰ سے ادنیٰ حالت سے لیکر اعلیٰ سے اعلیٰ حالت تک کی دعا مانگ لی گئی مگر اس بات کا فیصلہ کہ یہ دعا کس حد تک قابل قبول ہوگی یہ فیصلہ اتات تعبُد نے پہلے ہی کر دیا ہے اور ایاک نعبد کے مضمون کی تفصیل خدا کی نظر میں ہے اور فرشتے اس تفصیل کو لکھتے چلے جاتے ہیں اور ایک ایسا اعمال نامہ تیار کرتے چلے جاتے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب قیامت کے دن دوسری زندگی میں یہ اعمال نامہ انسان کے سامنے پیش ہوگا تو حیرت سے کہے گا کہ مالِ هذا الكتب لا يُخَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً (سورة الكهف : آیت (۵۰) کہ کیسی کتاب ہے کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی نہیں چھوڑ رہی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی نہیں چھوڑ رہی.ہر چیز کا اس نے احاطہ کیا ہوا ہے.پس وہ احاطہ جو قیامت کے دن ہو گا وہی احاطہ اس دنیا میں تاک نستعین کے وقت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعاؤں کی قبولیت میں ہر بندے سے الگ الگ سلوک ہو رہے ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ایک دعا تھی لیکن وہ ایک ایسے شخص کی دعا تھی جو تمام انسانوں کے رفع کے وقت خواہ وہ عام انسان تھے یا انبیاء تھے سب کو پیچھے چھوڑ گیا

Page 74

71 اور اس کا مقام قرب ہر دوسرے نبی سے ہی بالا نہیں بلکہ تمام فرشتوں ، تمام ملائک تمام کائنات میں ہر وجود سے آگے تھا.پس اس مقام قرب پر جو سفارش ہوتی ہے یا دعا ہوتی ہے اس کا ایک اور مرتبہ ہے اور دنیا میں بھی ہم میں کچھ دیکھتے ہیں.اس لئے خدا کے مضمون کو سمجھنے کے لئے کوئی غیر معمولی صلاحیتیں درکار نہیں.آپ روز مرہ کی دنیا میں اتر کر اپنے گردوپیش میں اپنی فطرت اور فطرت کے نتیجے میں اپنے تعلقات پر غور کریں جو طبیعی تعلقات ہیں اور سچائی پر مبنی ہیں تو آپ کے لئے خدا تعالیٰ سے تعلقات قائم کرنا کچھ بھی مشکل نہیں رہتا.اب ایک بادشاہ کے حضور اس کا وزیر اعظم جو اس کا چہیتا بھی ہو وہ ایک درخواست پیش کرتا ہے.اگر چہ وہ درخواست ایسے غریبوں کی طرف سے ہے یا ایسے مجرموں کی طرف سے ہے جن سے بادشاہ کو یا تعلق نہیں ہے یا ان سے ناراض ہے لیکن جب وزیر اعظم وہ درخواست پیش کرتا ہے تو اس کی حیثیت بالکل بدل جاتی ہے اور قبولیت کا ایک بڑا مرتبہ اس درخواست کو حاصل ہو جاتا ہے ورنہ ہر کس و نا کس کو کہاں یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ بادشاہ کی بعض دفعہ زنجیر بھی کھٹکھٹا سکے کجا یہ کہ اس کی آواز وہاں تک پہنچے تو وسیلے کا مضمون بھی اس سے شروع ہو جاتا ہے.خدا سے ہر چھوٹی اور بڑی چیز مانگو اس مضمون کے معا بعد اخدنا الصراط المستقیم کی دعا اسی مضمون کو آگے بڑھا رہی ہے اور نئے نئے جہان علم و معرفت کے ہمارے سامنے کھولتی ہے.إيَّاكَ نَسْتَمين دوما نگیں تو کیا ؟ یہاں نستعین کا عبوریت سے صرف ان معنوں میں تعلق نہیں جو میں بیان کر چکا ہوں بلکہ نشستینین ایک خالی برتن ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں کیا مانگا گیا ہے.نشتمین کا ایک تعلق رب سے ہے، رحمان سے ہے.رحیم سے ہے.مالک یوم الدین سے ہے اور عبادتوں سے ہے اور اس کی روشنی میں ہر چیز انسان مانگ سکتا ہے ایک تسمہ بھی خدا سے مانگتا ہے اور مانگنا چاہیے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہی فرمایا ہے کہ خدا سے صرف بڑی چیزیں نہیں چھوٹی چیزیں بھی مانگو اور صرف چھوٹی نہیں بلکہ بڑی چیزیں بھی مانگو تو نسختين کا ایک بہت ہی بڑا وسیع اور کھلا بر تن ہے جس کو آپ نے کچھ نہ کچھ مانگ کر بھرتا ہے

Page 75

72 لیکن جب آپ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِية کہتے ہیں تو یہاں آپ دنیاوی چیزوں سے ہٹ کر کچھ اور مانگنے لگے ہیں.اب یہاں نعمتیں نہیں مانگ رہے بلکہ مراتب مانگ رہے ہیں اور ان دو باتوں میں بڑا فرق ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ فرمایا.یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا! ہمیں اس رستے کی طرف ہدایت دے جس پر نعمتیں ملتی ہوں.نعمتیں تو جتنی مانگنی تھیں پہلے ہی مانگ چکا ہے یعنی دنیا کی نعمتیں اور دوسری ایسی چیزیں جو نعمت کہلاتی ہیں.یہاں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا ہمیں اس رستے کی ہدایت دے جہاں نعمتیں ملتی ہوں.فرمایا : انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اس رستے کی طرف ہدایت دے جہاں تیرے پیار حاصل کرنے والے مجھ سے انعام پانے والے چلتے ہیں.اب یہاں اس دعا میں نَعْبُدُ اور نَسْتَعِین کے دونوں مضامین اکٹھے ہو گئے ہیں.یہ بتایا گیا ہے کہ روحانی مرتبے اور قرب الہی کے لئے اگر تم دعا مانگو گے تو یہ ایک ایسا مضمون ہے جو عام حالات میں نعمتیں عطاء کرنے سے مختلف مضمون ہے.ایک کا فرجو خدا تعالیٰ کے احکامات سے کھلم کھلا بغاوت کرتا ہے وہ بھی خدا کی نعمتوں میں حصہ پاتا ہے کیونکہ دنیا میں ہر جگہ اس کی نعتیں پھیلی پڑی ہیں.کوئی ایسا انسان نہیں جو خدا کی نعمت سے حصہ نہ پاتا ہو لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ا نعمت عَلَيْهِم اے خدا! ہمیں ان لوگوں کا رستہ دے جو منعم علیہ ہیں تو نعمتیں نہیں مانگی بلکہ خدا سے انعام یافتہ لوگ بننے کی دعا مانگی ہے اور یہاں سہارے کا فر تمام خدا سے رو گردان اور دنیا دار الگ ہو جاتے ہیں اور ان کا رستہ یہاں ختم ہو جاتا ہے.خدا سے اس کا قرب مانگو اب ایک اور رستہ شروع ہوتا ہے جو قرب الہی کا رستہ ہے.خدا سے پیا ر مانگنے کا رستہ ہے.اس سے مراتب حاصل کرنے کا رستہ ہے اور اس کے متعلق ہمیں فرمایا کہ یہ رستہ تمہیں تب عطاء ہو گا جب تمہاری عبادت واقعہ " ان رستوں سے گزرے گی جن رستوں سے انعام پانے والوں کی عبادتیں گزر چکی ہیں.جہاں تم نعمت کی دعا نہیں مانگ رہے ہو گے بلکہ نعمت پانے والوں جیسا بننے کی دعا مانگ رہے ہو گے اور یہ دعا پہلی دعا سے بہت زیادہ مشکل دعا ہے.لوگ عمونا سمجھتے ہیں امدنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِية

Page 76

73 کہنا پڑا آسان کام ہے کہ اے خدا ہمیں سیدھے رستے پر چلا.بس بات ختم ہو گئی.وہ یہ نہیں سوچتے کہ جن لوگوں پر خدا نے انعام کیا تھا وہ تھے کون کون اور اس دنیا میں کن کن مصیبتوں سے گزرے ہوئے ہیں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم تمام انعام پانے والوں کے سردار تھے اور اس سے پہلے موسیٰ نے بھی انعام پائے اور عیسی نے بھی پائے اور ابراہیم نے بھی پائے اور نوح نے بھی پائے اور تمام گذشتہ انبیاء جن کی تاریخ قرآن کریم میں محفوظ ہے وہ لوگ ہیں جو منعم علیھم کے گروہ میں داخل ہیں.اس رستے پر چلتے رہے جس پر خدا نے انعام پانے والے انسان پیدا کئے تھے.انعام نہیں رکھے، انعام حاصل کرنے والے انسان پیدا کئے تھے.اب ان پر آپ نظر ڈالیں تو ہر ایک کی زندگی ایک مصیبت یعنی دنیا کی نظر میں.ایسے خطر ناک مراحل سے گزرے ہیں.ایسے تکلیف وہ حالات کا ساری عمر سامنا رہا.ایسی ایسی آزمائشوں میں مبتلا ہوئے.ایسے ایسے دکھ ان پر لادے گئے کہ جو عام انسان کی کمر توڑ دیتے ہیں تو کیا آپ یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا ہمیں وہ بنا دے.اچانک ایک جھٹکا انسان کو لگتا ہے اور انسان حیران رہ جاتا ہے کہ میں کہاں پہنچ گیا.اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہتے کہتے آرام سے میں ہر چیز مانگتا ہی چلا جا رہا تھا اور اچانک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہوں جہاں ڈر لگتا ہے اور دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا مانگ رہا ہوں.اور اگر یہ دیانتداری سے مانگتا ہے تو پھر ہر بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار ہونے کی کوشش کرتا ہے اور ارنا مناسحنا (سورة البقرة : آیت (۲۹) کی دعا مانگ رہا ہوتا ہے.یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ اے خدا! اب مجھے میری قربان گاہیں دیکھا.مجھے بتا کہ کہاں کہاں میرے خون کے قطرے تیری راہوں میں بنے چاہیں.کس کس مقام پر میرے سر قلم ہونے چاہیں اور میری جان تجھ پر فدا ہونی چاہیے.کتنی عظیم لیکن ایک کتنی صہیب دعا بن جاتی ہے ان معنوں میں کہ انسان مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ کے گروہ پر جب غور کرتا ہے تو ایک اور ہی تصویر ابھرتی ہے اور اس تصویر کے ساتھ خوف جو پیدا ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالٰی نے اس کا علاج قرآن کریم میں ہی رکھ دیا ہے.فرمایا : منعم علیہ وہ نہیں ہیں جو صرف انبیاء سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ان کے مختلف مراتب ہیں.وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ

Page 77

74 الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِي و الصديقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ (سورة النساء : آیت ۷۰) تو اے بندد! أوليك رفيقا.خوف نہ کھاؤ لیکن سچائی سے دعا ضرور مانگو.اگر تمہیں ابھی یہ حوصلہ نہیں کہ منعم علیهم لوگوں کے سرتا جوں جیسا بننے کی کوشش کرو اور خدا سے یہ دعا مانگو کہ جس طرح ان کی زندگیاں گزریں ویسی ہی ہماری زندگیاں بھی گزریں تو پھر ذرا نیچے اتر جاؤ.مچھلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر دعا مانگ لو.وہاں نہیں ہمت پڑتی تو اس سے مچھلی سیڑھی پر کھڑے ہو کر دعا مانگ لو.سب سے آخری چوکھٹ پر کھڑے ہو جاؤ.صالحین کے اندر ہر قسم کے لوگ شامل ہیں.ایسے بھی ہیں جن سے کمزوریاں بھی سرزد ہوئیں.جن کے اندر زیادہ بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں تھی اللہ ان سے در گزر فرماتا رہا مگر کسی میں تو ضرور شامل ہو اور کچھ نہ کچھ ویسے نمونے ضرور دکھاؤ جیسے انعام پانے والوں نے اس سے پہلے دکھائے ہیں تو دیکھئے یہ سورہ فاتحہ کی دعا ہمیں کن کن راہوں سے گزارتی رہی ہے.کن کن نئے مطالب اور معارف کے جہان ہمارے سامنے کھولتی چلی جارہی ہے اور کھولتی رہی ہے اور کس طرح ہمیں رفتہ رفتہ سلیقہ سکھاتی ہے، تربیت دیتی ہے کہ خدا تعالی کی عبادت کس طرح ادا کرو اس سے کیا فائدہ اٹھاؤ.کس طرح اس سے دلی تعلق قائم کرو لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ مضمون تو شاید اور ایک دو خطبوں کا محتاج ہے.ابھی وقت ختم ہو رہا ہے.ایک گھنٹہ کے قریب وقت گزر چکا ہے تو اللہ تعالی توفیق عطاء فرمائے تو آئندہ یا اس سے آئندہ خطبے میں انشاء اللہ اس مضمون کو جاری رکھیں گے.

Page 78

75 بيت الفضل - لندن ۲۸ دسمبر ۶۱۹۹۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : آج کا جمعہ امسال آخری جمعہ ہے جو ہمیں اکٹھے پڑھنے کی توفیق عطا ہو رہی ہے.عام طور پر اس جمعہ میں موضوع وقف جدید ہوا کرتا ہے لیکن روایت یہ چلی آرہی ہے کہ ضروری نہیں کہ سال کے آخری جمعہ کو وقف جدید کے لئے وقف رکھا جائے بلکہ اگلے سال یعنی آئندہ آنے والے سال کے پہلے جمعہ میں بھی بعض دفعہ وقف جدید کے موضوع پر خطبہ دیا جاتا ہے.چونکہ میں نے نماز سے متعلق مضمون شروع کر رکھا ہے.اس لئے میرا خیال ہے کہ آج کے خطبے میں نماز ہی کے مضمون کو جاری رکھا جائے.اگر خدا کے فضل کے ساتھ ختم ہو گیا تو پھر آئندہ جمعہ وقف جدید کے موضوع پر خطبہ دیا جائے گا اور پھر دوبارہ انشاء اللہ اسی موضوع کی طرف واپس آسکتے ہیں.اگر ختم ہو گیا تو پھر واپس آنے کی ضرورت نہیں.اگر نہ ختم ہو سکا تو پھر انشاء اللہ دوبارہ اسی موضوع کی طرف واپس آجائیں گے.اللہ تعالٰی کی صفت مالکیت کی وسعت ملات یزد الدین سے متعلق میں نے بتایا تھا کہ لفظ مالک میں خدا تعالٰی کا ہر چیز پر قادر ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے.ہر چیز کا مالک ہونا بھی داخل ہو جاتا ہے اور ہر چیز پر اسکی بادشاہت کا مضمون بھی صادق آتا ہے.اس سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ پہلی تینوں صفات یعنی رب رحمان اور رحیم مالکیت کے ساتھ مل کر اور زیادہ وسعت اختیار کر جاتی ہیں.اگر مالکیت سے الگ ان کا تصور کیا جائے تو خدا تعالیٰ کی ذات میں ایک نقص واقعہ ہوتا دکھائی دیتا ہے.اس مضمون کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام اور عیسائیت کے موازنے کی گفتگو

Page 79

76° میں بیان فرمایا.عیسائیت کے نزدیک خدا تعالی رب بھی ہے، رحمان بھی ہے، رحیم لیکن اس کے باوجود معاف نہیں کر سکتا کیونکہ مالک کا کوئی تصور بائیل نے اس رنگ میں پیش نہیں فرمایا جیسے قرآن کریم نے خدا تعالی کی مالکیت کا تصور پیش فرمایا.پس اس مضمون کو آپ انسانی معاملات اور تجارب پر چسپاں کر کے دیکھیں تو بات بالکل واضح ہو جائے گی.ایک حج کرسی انصاف پر بیٹھتا ہے اس میں ربوبیت کی صفات بھی ہیں، رحمانیت کی صفات بھی ہیں، رحیمیت کی صفات بھی ہیں مگر چونکہ نہ وہ قانون کا مالک ہے نہ دوسری سب چیزوں کا مالک ہے اس لئے جہاں معاملات کا فیصلہ انصاف کی رو سے کرنا ہو گا اس کی قوت فیصلہ انصاف کے دائرے میں ہی محدود رہے گی.ایک ذرہ بھی وہ انصاف سے باہر نکل کر ان معنوں میں فیصلہ نہیں دے سکتا کہ قانون کو اپنا لے یعنی نیا قانون جاری کر دے.ایسی تقدیر بنالے جس کے نتیجے میں جس سے وہ رحمانیت کا سلوک کرنا چا ہے اس کے حق میں فیصلہ دے سکے اور اسی طرح کسی کی چھینی ہوئی چیز کسی کو بخش نہیں سکتا کیونکہ وہ مالک نہیں ہے اور اپنی طرف سے کچھ دینے کا اس کو اختیار نہیں تو یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے اس موضوع کو بہت ہی اہمیت دی اور بڑی تفصیل سے اس موضوع پر بخشیں فرمائیں.آپ نے بتایا کہ اس خدا کو جو مالک نہ ہو یقیناً اسی طرح BEHAVE کرنا چاہیے یا اس طرح اس سے معاملات کرنے چاہیں جس طرح عیسائیت کے خدا کا تصور ہے کہ اگر انسان گناہ کرے تو اس لیئے معاف نہیں کر سکتا کہ اس کی عدل کی صفت کے خلاف ہے اور عدل سے باہر وہ جانہیں سکتا.اس لئے اس مسئلے کا حل یہ نکالا کہ اپنے یعنی مزعومہ بیٹے کو جس کے متعلق عیسائیت کا عقیدہ ہے کہ وہ خدا کا بیٹا تھا، اسے قربان کر دیا اور اس کے بدلے باقی بنی نوع انسان کے گناہ بخش دیئے.یہ ایک الجھا ہوا اور بڑا لمبا مضمون ہے جس کی تفاصیل میں جانے کا یہاں موقعہ نہیں مگر اصل روک جو ان کے ذہنوں میں ہے وہ یہی ہے یعنی عیسائیوں کے ذہنوں میں کہ کیوں خدا معاف نہیں کر سکتا اس لئے کہ وہ محض عادل ہے اور مالک نہیں ہے.اسی طرح ملک نہیں ہے اور قانون سازی کے اختیار نہیں

Page 80

77 رکھتا.پس رب رحمان اور رحیم یہ تین صفات بہت ہی حسین اور دلکش ہیں لیکن اگر مالک سے الگ رہیں تو محدود ہو جاتی ہیں لیکن مالک کے ساتھ جب مل جاتی ہیں تو پھر ایک عظیم الشان جلوہ دکھاتی ہیں جس کا کوئی کنارہ دکھائی نہیں دیتا.ان معنوں میں انسان تو مالک نہیں بن سکتا لیکن انسان خدا کی مالکیت کے کچھ نہ کچھ مزے چکھ سکتا ہے اگر وہ اپنی ملکیت میں لوگوں کو شریک کرے اور لوگوں کو معاف کرنے کی عادت ڈالے جیسا کہ مالک ہونے کی وجہ سے ہمارا رب ہمیں معاف کر دیتا ہے.پس یہ نہیں کہ حاکیت کی صفت سے ہم کچھ بھی حصہ نہیں لے سکتے.اپنے اپنے دائرے میں جس حد تک ہمیں خدا تعالٰی نے کسی چیز کا مالک بنا رکھا ہے اس کا استعمال اس رنگ میں کریں جیسے خدا مالک ہے اور اپنی ملکیت کا استعمال فرماتا ہے اور اس میں بخشش کا مضمون سب سے زیادہ نمایاں ہو کر ابھرتا ہے اور اپنی چیزیں دوسروں کو دینے کا مضمون بڑا نمایاں ہو کر نکلتا ہے.اس کے علاوہ ایک اور رنگ بھی ہے جس میں ہم مالک بننے کی کوشش کر سکتے ہیں اور وہ مضمون ایک بہت ہی لطیف اور اعلیٰ درجے کا مضمون ہے جس کی طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہمیں متوجہ فرمایا.مالک خدا کا تصور ہمیں بتاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ کلیتہ " ہر چیز کا مالک اور ہر چیز پر پورا اقتدار رکھتا ہے اس کے باوجود بندوں کو اور دوسری چیزوں کو جو اس نے پیدا کی ہیں بعض دفعہ اس رنگ میں مالک بنا دیتا ہے کہ وہ اپنے زعم میں واقعہ " مالک بن بیٹھتے ہیں اور ملک دیگر خود پیچھے ہٹ جاتا ہے اور روز مرہ اصل مالک دکھائی نہیں دیتا اور کھیتہ ” انسان کو یا جانوروں کو زندگی کی ہر قسم کو کہنا چاہیے اپنے اپنے چھوٹے سے دائرے میں بعض دفعہ اس طرح ملکیت عطا ہو جاتی ہے کہ زندگی کی وہ قسم جو بھی ہے وہ یہ سمجھتی ہے کہ میں ہی مالک ہوں اور کوئی نہیں اور بیچ میں دخل اندازی نہیں رہتی.یہ اس قسم کا مضمون ہے کہ عارضی طور پر معطلی نے جس کو عطا کیا اس کو اس رنگ میں عطا کیا کہ گویا وہی مالک ہے اور اپنی مرضی اس سے اٹھالی اور دوسرے کی مرضی کے تابع کر دیا.ان معنوں میں انسان اپنے رب سے ایک خاص سلوک کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو

Page 81

78' کچھ ہمیں دیا ہو اپنی جان مال عزت ہر چیز جس کا اقتدار خدا نے ہمیں دیا، جس کی ملکیت خدا نے ہمیں عطاء فرمائی ہم اپنے رب کو اس طرح لوٹا دیں کہ اے خدا!! تو نے جس چیز کا ہمیں مالک بنایا تھا ہم اس راز کو پاگئے ہیں کہ اصل مالک تو ہے.پس پیشتر اس سے کہ تو ہم سے واپس لے لے ہم طوعی طور پر محبت کے اظہار کے طور پر یہ تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں.آج کے بعد جیسے بعد میں تو نے مالک بنتا ہے ایسے آج بھی تو ہماری ان سب چیزوں کا مالک بن گیا ہے.اس مضمون کو حضرت اقدس سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان بیان کرنے کے لئے استعمال فرمایا.آپ نے فرمایا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو تمام دوسرے انبیاء پر جو ایک عظیم فضیلت ہے وہ خصوصیت سے اس بات میں ہے کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنا سب کچھ کلیتہ " اصل مالک کو اسی دنیا میں لوٹا دیا اس طرح کسی اور انسان نے ایسا نہیں کیا یعنی باریک ترین جذبات کو بھی خدا کے سپرد کئے رکھا، اپنی ملکیت کے ہر حصے کو کلیته " خدا کے سپرد کر دیا.اپنی رضا کو کلیتہ خدا کے سپرد کر دیا.اپنی محبت کو اپنی نفرت کو ہر چیز کو جس پر انسان کوئی قدرت رکھتا ہے اپنے رب کو واپس کر دیا کہ تو ہی حقیقی مالک ہے اس لئے آج میں یہ سب کچھ تیرے سپرد کرتا ہوں اور تیری رضا کے تاریخ میں ان چیزوں کو استعمال کروں گا.قلدان صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمينَ (سورة الانعام : آیت (۱۹۳) خدا نے اس راز کو خود کھولا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم شاید اس تفصیل سے بنی نوع انسان پر اپنا یہ مقام روشن نہ فرماتے مگر قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا کہ اے محمد اپنی نوع انسان کے سامنے اعلان کر کہ میں وہ ہوں جس نے اپنا سب کچھ خدا کے سپرد کر دیا ہے اور میرا ایک ذرہ بھی باقی نہیں رہا.إن صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي عبادتیں کیا میری قربانیاں کیا میری زندگی کا ہر حصہ میری موت یعنی خدا کی راہ میں جو میں لمحہ لمحہ مرتا ہوں سب کچھ خدا کے لئے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ میری

Page 82

79 والسلام نے فرمایا کہ جب تم وہ سب کچھ خدا کے سپرد کردو جس کا مالک تمہیں بتایا گیا تھا تو پھر اللہ تعالٰی اپنی ملکیت میں تمہیں شریک کر لیتا ہے اور ایک نئی شان کے ساتھ ایک نئی تخلیق کے ساتھ تم ابھرتے ہو اور ان معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گویا اس تمام کائنات کی ملکیت میں خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ذریعے شریک کر لیا اپنی عطاء کے ذریعے شریک کر لیا جو خدا تعالی کا تھا یعنی جو سب کچھ بندے کا تھا وہ اس نے خدا کے سپرد کر دیا اور خدا چونکہ احسان کرنے والوں کے احسان کی سب سے زیادہ شکر گزاری کرتا ہے اور احسان کو تسلیم فرماتا ہے.کوئی بندہ اس رنگ میں کسی کے احسان کو قبول نہیں کرتا جیسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو ایک رنگ میں بندے نے احسان کا سلوک کیا اس سے بڑھ کر اللہ تعالٰی نے احسان کا سلوک فرمایا اور کہا تو نے جو کچھ تیرا تھا مجھے دے دیا اب میرا جو کچھ ہے وہ تیرا ہو گیا.انہیں معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے کہ جے توں میرا ہو رویں سب جگ تیرا ہو کہ اے بندے اگر تو میرا ہو جائے یعنی اپنی مالکیت کو ختم کر کے سب کچھ مجھے واپس لوٹا دے تو اس کے بدلے جو سب کچھ میرا ہے وہ تیرا ہو جائے گا تو مالک کا لفظ ایک بہت ہی عظیم الشان صفت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ان معنوں میں ہر دوسری چیز پر حاوی ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت مالک کے ساتھ مل کر ایک نئی شان کے ساتھ دوبارہ ابھرتی ہے اور نئی شان کے ساتھ جلوہ دکھاتی ہے.پس جب ہم کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِينُ تو اس میں صفت مالکیت خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رہنی چاہیے اور ربوبیت ، رحمانیت رحیمیت ان سب کو مالکیت کی ذات میں اکٹھا کر کے پھر خدا کو مخاطب کرنا چاہیے کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نستعین ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.مغضوب اور ضالین کا خدائی صفات سے تعلق اس مضمون کے بعد میں نے انعام کا مضمون مختصرا" بیان کیا تھا، اب آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مغضوب اور ضالین کا خدا تعالیٰ کی ان صفات سے کیا تعلق ہے جو

Page 83

80 سورہ فاتحہ کے آغاز میں بیان ہوئی ہیں یعنی رب کے تصور کے ساتھ کہیں غضب گراہی کا تصور ذہن میں نہیں آتا.رحمان کے تصور کے ساتھ کہیں غضب اور گمراہی کا تصور ذہن میں نہیں آتا.اسی طرح نہ رحیمیت کے ساتھ تعلق دکھائی دیتا ہے نہ مالکیت کے ساتھ تو پھر ہم کیوں کہتے ہیں کہ خدا تعالٰی کی تمام صفات کا تعلق ان چار صفات سے ہے جو بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جو سورہ فاتحہ کے آغاز میں بیان ہوتی ہیں اس مضمون پر غور کرتے ہوئے ایک نکتہ جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کے بندے بننے کے لئے خدا تعالیٰ کی تمام صفات کے ساتھ تعلق ہونا ضروری ہے.جن صفت کے ساتھ تعلق کٹتا ہے اس حصے میں انسان اس صفت کا بر عکس ہو کر دنیا میں ابھرتا ہے پس اگر کوئی انسان رب بننے کی کوشش نہیں کرتا تو ربوبیت کے برعکس جلوہ دکھاتا ہے اور دراصل خدا غضب ناک نہیں ہوتا بلکہ خدا کے وہ بندے لوگوں کے لئے غضب کا موجب بن جاتے ہیں جو اپنے رب کی صفات حسنہ سے تعلق توڑ بیٹھتے ہیں.پس دنیا میں جتنے بھی دیکھ آپ دیکھتے ہیں جن میں کوئی شخص غضب کا نشانہ بنتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو ان معنوں میں وہ غضب کا نشانہ بنتا ہے کہ وہ خدا کی صفات ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور مالکیت سے تعلق توڑتا ہے اور ان کے بر عکس جلوے دنیا کو دکھاتا ہے.ان کی برعکس شکل میں دنیا پر ظاہر ہوتا ہے اور خدا کے بندوں سے بدسلوکی کرنے میں انسان پہل کرتا ہے اس کے بعد خدا کا اس سے سلوک شروع ہوتا ہے جو پھر اسے خدا کا مغضوب بنا دیتا ہے اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ماں بچے سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے اور اس کی اس انتہائی محبت میں بظاہر غضب کا پہلو دکھائی نہیں دیتا مگر اس کے بچے کو جو تکلیف دے اس کے لئے وہی مہربان ماں بہت زیادہ غضب ناک ہو جاتی ہے اور اتنی غضب ناک ہوتی ہے کہ کسی اور رشتے میں ایسا غضب دکھائی نہیں دیتا.کہتے ہیں.شیر کے بچوں کو اگر کوئی اٹھانے کی کوشش کرے تو شیر سے بہت زیادہ شیرنی اس پر غضب ناک ہوتی ہے.شیر کے غضب سے تو وہ بچ جائے لیکن شیرنی کے غضب سے نہیں بچ سکتا.اسی طرح ہتھنی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اگر ہتھنی کے بچے کو

Page 84

81 کوئی تکلیف پہنچائے تو ہاتھی سے بہت زیادہ بڑھ کر ہتھنی اپنا انتقام لیتی ہے اور پھر جس نے ظلم کیا ہو اس کو مار کر اپنے پاؤں تلے اس طرح مسلتی ہے کہ اس کا نشان تک مٹ جائے.خاک میں اس کو ملا کر پھر بھی اس کا غصہ ختم نہیں ہوتا اور اس کی بناء محبت ہے، اس کی بناء رحمت ہے رحم کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ہمیں مطلع فرمایا کہ لفظ رحم یعنی ماں کا وہ عضو جس میں بچہ پاتا ہے اسکا نام رحم اس لئے رکھا گیا کہ خدا تعالی کے رحم کے ساتھ اس کا تعلق ہے جس طرح خدا تعالی رحمان ہے اور رحمانیت کا تخلیق سے ایک تعلق ہے اسی طرح بچے کی تخلیق کا ماں کے رحم سے تعلق ہے اور چونکہ عربی در حقیقت الہامی زبان ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے دونوں کے لئے ایک ہی لفظ منتخب فرمایا.ایک ہی مادے سے دونوں چیزیں بنیں یعنی رحم اور رحمان.پس حقیقت یہ ہے کہ ماں کی محبت کو بیچے کے لئے جب آپ سمجھ لیں تو تب آپ پر یہ بات روشن ہوگی کہ بچوں سے دشمنی کرنے والے پر دنیا میں سب سے زیادہ غضب ناک کوئی چیز ہو سکتی ہے تو وہ ماں ہے.پس رحمان خدا کے بندوں سے جو لوگ دشمنی کرتے ہیں ان پر خدا غضب ناک ہوتا ہے اپنی رحمانیت کی وجہ سے.پس دو معنوں میں ایسے لوگ مغضوب بن جاتے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ لوگ جو نہ رب بنا سیکھتے ہیں نہ رحمان بننا نہ رحیم، نہ مالک ان سے دنیا فیض نہیں اٹھاتی.ان کا فیض کسی کو نہیں پہنچتا.وہ خدا کی اس رحمت اور بندوں کے درمیان یا خدا کی صفات حسنہ اور بندوں کے درمیان ایک روک بن جاتے ہیں اور محض یہ روک بنتا ہی ان کو خدا کے عتاب کا مورد بنا دیتی ہے لیکن جب یہ روک سے بڑھ کر اگلا قدم اٹھاتے ہیں اور منفی صورت میں، بندوں سے سلوک کرتے ہیں یعنی جہاں رحم کرتا ہے وہاں سفاکی سے پیش آئیں جہاں حق سے پڑھ کر عطار کرتا ہے وہاں حق تلفی شروع کر دیں.جہاں پرورش دیگر یعنی تربیت کر کے اعلیٰ مقامات تک پہنچانا ہے وہاں منفی رویہ اختیار کریں اور خدا کے اچھے بھلے لوگوں کے اخلاق خراب کرنا شروع کر دیں.ان کے اندر گندگی پھیلانا شروع کر دیں جیسا کہ آج کل کے زمانے میں بہت سی گندگیاں ہیں جو امریکہ سے نکل نکل کر

Page 85

82 دنیا میں پھیل رہی ہیں تو امریکہ میں وہ لوگ جو نہایت گندی قسم کی فحش فلمیں بناتے اور ایسی نئی نئی لذتیں ایجاد کرتے ہیں جس سے بنی نوع انسان کے اخلاق خراب ہوں وہ نہ صرف یہ کہ رب سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ رب کے برعکس تعلقات بنی نوع انسان سے قائم کرتے ہیں یا رب سے بر عکس رویے کے ساتھ بنی نوع کے ساتھ پیش آتے ہیں تو یہ جو ان کا منفی رویہ ہے اگر واقعہ " خدا رب ہے تو اس کی ربوبیت کو کاٹنے والے سے خدا کا ایک منفی رویہ ظاہر ہوتا ہے.اگر وہ رحمان ہے تو اس کی رحمانیت سے بر عکس طریق پر بنی نوع انسان سے سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ کا ایک بر عکس رویہ ظاہر ہوتا ہے اور یہی مضمون ہے جس کے نتیجے میں اللہ تعالی کی تمام منفی صفات ظہور میں آتی ہیں.پس جب خدا تعالیٰ نے فرمایا انساك نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِین تو اس کے بعد وہ لوگ جواِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی صف میں داخل نہیں ہوئے اور ان کے حق میں یہ دعا قبول نہیں ہوئی کہ اخدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو وہ وہ بچا کھچا گند ہے جو مغضوب اور ضالین کی شکل میں ہم پر ظاہر کیا گیا ہے.ان معنوں میں وہ ظاہر ہوئے کہ خدا کی صفات کے منفی عکس بن کر وہ دنیا پر ابھرے.کشف کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی راہنمائی مضمون اس ضمن میں میں ایک دفعہ غور کر رہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ اللہ تعالٰی اس مضمون کو زیادہ واضح طور پر مجھے سمجھائے تو کشفی حالت میں خدا تعالیٰ نے ایک اور رنگ میں مجھے دکھایا اور وہ یہ تھا کہ جیسے ایک کارخانے میں آپ ایک طرف سے کوئی چیز RAW MATERIAL یعنی خام مال ڈالتے ہیں تو وہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور اعلیٰ تحمیل کی شکل میں ایک طرف سے نکل رہا ہوتا ہے لیکن اس کے ایک طرف وہ گند بھی نکل رہا ہوتا ہے جو اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کارخانے میں داخل ہونے کے بعد وہ اپنے اندر ایسی تبدیلی کر سکے کہ اسے ایک مکمل صنعت کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جا سکے، اس کو وہ WASTE PRODUCT کہتے ہیں.پس ایک چیز ہے END PRODUCT اور

Page 86

83 ایک ہے END PRODUCT-WASTE PRODUCT تو ہر صنعت کا وہ مال ہے جس کی خاطر صنعت کاری کی جاتی ہے اور کار خانے بنائے جاتے ہیں اور اپنی آخری شکل میں بہت خوبصورت تبدیلیاں پیدا ہونے کے بعد وہ ایک نئے وجود کی صورت میں خام مال دنیا کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اب اس وقت آپ کے پاس جتنی بھی چیزیں ہیں وہ سب اسی طرح کسی نہ کسی کارخانے سے نکل کر ایک نئی شکل میں آپ کے سامنے ظاہر ہوئی ہیں.کسی نے کپڑے کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، کسی نے اون کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، کسی نے قراقلی پہنی ہوئی ہے.اب تصور کریں کہ یہ کیا چیزیں تھیں.اسی طرح آپ کے لباس آپ کے بوٹ آپ کے قلم یہ سب خام مال تھے جو مختلف مراحل سے گزر کر بالاخر اس شکل میں آپ تک پہنچے جس میں آپ نے ان کو قبول کیا اور استعمال کیا لیکن آپ کا ذہن اس گندگی کی طرف کبھی نہیں گیا جو اس دوران پیدا ہوتی رہی اور ان چیزوں سے الگ کی جاتی رہی اور اسے ضائع شدہ مال کے طور پر ایک طرف پھینک دیا گیا.چنانچہ اس زمانے میں صنعتوں نے جہاں بہت ترقی کی ہے، یہ ایک بہت ہی بڑا مسئلہ بن کر دنیا کے سامنے ابھرا ہے کہ اس WASTE MATERIAL کا کیا کریں.یہ تو دنیا کے لئے عذاب بنتا جا رہا ہے.جب یہ کم ہوا کرتا تھا اس زمانے میں انسان کی توجہ کبھی اس طرف نہیں گئی.آج سے ۱۰۰ سال پہلے بھی صنعت کاری تھی بڑے بڑے کارخانے جاری تھے لیکن کبھی بھی اس زمانے کی اخباروں میں آپ کو یہ بخشیں دکھائی نہیں دیں گی کہ یہ جو اچھی چیزیں بنانے کی ہم کوشش کرتے ہیں اس کوشش کے دوران جو چیزیں ضائع ہو رہی ہیں ان کا ہم کیا کریں.وہ سمندروں میں پھینک دیتے تھے یا عام کھلی جگہ پر پھینک دیتے تھے یا جھیلوں میں ڈال دیتے تھے اور کبھی ان کے نقصان کی طرف کسی کی توجہ نہ گئی.اب چونکہ زیادہ چیزیں بن رہی ہیں، اسی طرح WASTE MATERIAL بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور وہ WASTE MATERIAL ایسی خطرناک چیز بن کر دنیا کے سامنے ابھرا ہے کہ اس کے غضب سے دنیا ڈرنے لگی ہے اور یہ بڑا بھاری مسئلہ ہے.دنیا کی تمام بڑی قوموں میں اب بہت ہی زیادہ ٹکر کے ساتھ ان مسائل پر غور ہو رہا ہے

Page 87

84 کس طرح ان مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کریں جو صنعت کے دوران BY PRODUCT کے طور پر یا WASTE PRODUCT کے طور پر ہمارے ہاتھوں میں پڑی ہوئی ہیں اور ہم نہیں سمجھتے کہ کس طرح اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کریں.مذہبی دنیا کا ضائع شدہ مواد مذہبی دنیا میں یہ WASTE PRODUCT ہے جو بنی نوع انسان کے لئے تباہی کے سامان کرتی ہے اور بعض دفعہ جس طرح دنیا میں بھی بعض چیزوں میں WASTE زیادہ ہو جاتا ہے اور جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ بہت تھوڑی ہوتی ہے.اسی طرح بد قسمتی سے بعض دفعہ انسانوں پر ایسے دور آتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے اصلاحی نظام سے گزرتے ہوئے بہت کم ہیں ان میں جو فائدہ اٹھا ئیں اور ایک بھاری تعداد ہے جو WASTE MATERIAL کے طور پر ایک طرف پھینک دی جاتی ہے.چنانچہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں آپ دیکھیں اسی طرح کا ایک روحانی کارخانه جاری ہوا تھا جیسے ہر نبی کے زمانے میں جاری ہو تا رہا لیکن بنی نوع انسان کی ایک بھاری تعداد ایسی تھی جو WASTE MATERIAL تھا اور بہت تھوڑے تھے جو کارخانے سے اپنی آخری مکمل صورت میں نکھر کر دنیا کے سامنے ظاہر ہوئے.پس خدا تعالیٰ نے ان نکھرے ہوئے وجودوں کو تو بچا لیا اور WASTE MATERIAL کو ضائع کر دیا.بنی نوع انسان کے پاس ایسا کوئی طریق نہیں ہے کہ وہ WASTE MATERIAL سے کلتہ " نجات حاصل کر سکیں.اس لئے مذاہب کے WASTE جمع ہوتے ہوئے بالا خر یعنی وہ WASTE مین کو عبرت کا نشان بنا کریا اور صورتوں میں یا بعض بعد کے فوائد کے لئے باقی رکھا جاتا ہے.بعض دفعہ RECYCLE کرنے کے لئے بھی WASTE کو باقی رکھا جاتا ہے، وہ WASTE + مغضوب بن کر اور ضالین بن کربنی نوع انسان کو مصیبت ڈال دیتے ہیں.

Page 88

85 خدا کے غضب کا مورد انسان خود بنتا ہے یہاں خدا تعالیٰ نے لفظ مغضوب علیم رکھا ہے.یہ نہیں فرمایا کہ خدا ان پر غضب ناک ہوا.مغضوب کا مطلب ہے وہ لوگ جن پر غضب کیا گیا یا غضب کا مورد بنائے گئے یا بنائے جا رہے ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ اے خدا! ہمیں انکا رستہ نہ دکھانا جن پر تو غضب ناک ہوا.اس لئے کہ غضب دراصل ان بندوں سے شروع ہوتا ہے اور خدا سے نہیں ہوتا.غضب کا آغاز بندے سے ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ محض رد عمل کی صورت میں غضب ناک ہوتا ہے جیسا کہ میں نے تفصیل سے آپ کو سمجھایا ہے کہ ایک ماں اپنے رحم کی وجہ سے غضب ناک ہوتی ہے.پس خدا کی یہ شان ہے کہ یہاں غضب کے مضمون میں یہ اشارہ فرما دیا کہ اگرچہ بعد میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ خدا تعالی غضب ناک ہوا لیکن سورہ فاتحہ نے یہ اشارہ کر دیا اور یہ مضمون کھول دیا کہ در اصل عضب کا آغا ز بندے کی طرف سے ہوتا ہے اور اپنے غضب کے نتیجے میں وہ مخضوب بنایا جاتا ہے پھر ایسا شخص بندوں کا بھی مغضوب ہو جاتا ہے اور خدا کا بھی مغضوب ہو جاتا ہے.پس ضمیر کو واضح نہ کرنے کے نتیجے میں مضمون میں اور کشادگی پیدا کردی اور وسعت پیدا فرما دی کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر نہ ڈال دینا جو WASTE PRODUCT ہیں.جو سورۂ فاتحہ کے روحانی نظام سے گزرتے ہیں یعنی سورہ فاتحہ کا روحانی نظام تو وہی ہے جو ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے پھیلا پڑا ہے.کیونکہ اگر قرآن کی ماں ہے تو ساری کائنات کی ماں بھی سورہ فاتحہ بن جاتی ہے.پس اے خدا ! جو تیرے روحانی نظام سے جس کا ذکر تو نے سورہ فاتحہ میں فرمایا ہے استفادہ نہیں کر سکتے ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو کلیتہ " محروم ہو جاتے ہیں اور وہ مغضوب ہیں.ان پر بندے بھی غضب ناک ہوتے ہیں کیونکہ ان کے بندوں پر غضب ناک ہونے کے نتیجے میں تو نے ان کو غضب کا نشانہ بنایا ہے.پس چونکہ وہ بندوں سے ظلم اور سفاکی کا سلوک کرتے ہیں رفتہ رفتہ ان کے خلاف نفرتیں پڑھنی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر آخر وہ یہاں بھی بار بار بندوں کے غضب کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اور چونکہ وہ خدا کے بندوں سے غضب کا سلوک کرتے ہیں اس لئے آسمان سے وہ خدا کے نان

Page 89

86 کا نشانہ بھی بتائے جاتے ہیں.اس طرح دوہری لعنتوں کا شکار ہو جاتے ہیں.ان لوگوں میں ہمیں نہ داخل فرمانا.ہمیں ان بدنصیبوں میں نہ لکھ دینا.ہمیں ان خوش نصیبوں میں لکھتا جو تیرے روحانی نظام سے گزر کر اس سے فیض پا کر ایک نئی خلقت کے طور پر دنیا میں ابھریں اور نئی عظیم الشان بنی نوع انسان کو فائدہ دینے والی صورت میں ایک نیا وجود پائیں.یہ ہے اهدنا الصراط المُسْتَقِيمَ کی دعا جو غَيْرِ الْمَغْضُوبِ علَيْهِ وَلا الضَّاينين كکی صورت میں جاکر پھر مکمل ہوتی ہے.ضالین اور مغضوب علیم کا فرق ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو مغضوب کی حد تک تو خدا کی ربوبیت اور رحمانیت سے نہیں کاٹے گئے مگر کچھ نہ کچھ تعلق انہوں نے ضرور توڑا ہے اس لئے ان کو گمراہوں میں لکھا ہے اور خصوصیت کے ساتھ وہ لوگ ضالین ہیں جن کا خدا کے بعد میں آنے والی صفات سے زیادہ تعلق کا نا گیا ہے یعنی اگرچہ ریوبیت سے بھی یہ کچھ تعلق کاٹ دیتے ہیں اور رحمانیت سے بھی لیکن رحیمیت اور مالکیت ہے یہ بہت زیادہ قطع تعلقی کرتے ہیں اور جن کا تعلق یا کمیت سے کٹ جائے وہ ضالین ہو جاتے ہیں.اس مضمون کی تفصیل میں بھی جانے کا یہاں وقت نہیں مگر میں نے پہلے چونکہ ذکر کر دیا تھا اس لئے میں اس تعلق کو اس ذکر سے جوڑتا ہوں اور وہ ذکر میں نے یہ کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے معرفت کا یہ عظیم الشان نکتہ ہمیں سمجھایا کہ عیسائیوں پر جو وہال ٹوٹا ہے وہ خدا کی صفت ما کیت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اور اس پر ایمان نہ لانے کی وجہ سے ٹوٹا ہے.وہ خدا کو محض عادل سمجھتے ہیں اور مالک نہیں سمجھتے اور قانون دان نہیں سمجھتے اور قانون کا مالک نہیں سمجھتے، اس لئے یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ عدل کے تقاضوں سے بالا ہو کر بندوں سے مغفرت کا سلوک نہیں کر سکتا.جس نے مالک سے تعلق توڑا وہ ضالین میں شامل ہو گیا اور ضالین کے متعلق ہمیں علم ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور بعض دوسرے مفسرین نے آنحضور کی ہدایات کی روشنی میں جو تفاسیر لکھی ہیں ان میں یہ بات بہت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ اگر مغضوب یہودی ہیں تو ضالین

Page 90

87 عیسائی ہیں.پس ضال ہونے کا یعنی گمراہ ہونے کا خصوصیت کے ساتھ مالیت کے انکار سے تعلق ہے.اس لئے میں نے آپ کے سامنے یہ اشارہ رکھا ہے کہ غضوبیت زیادہ تر ربوبیت اور رحمانیت سے منقطع ہونے کے نتیجے میں ظاہر ہوتی ہے اور ضالین ہونا زیادہ تر رحیمیت اور مالک سے قطع تعلق ہونے کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے یعنی ضال بنا.بہر حال اس مضمون کو چھوڑتے ہوئے اب میں آگے بڑھتا ہوں.سورۃ فاتحہ کی بے مثال وسعت ایک اور بہت اہم بات سورۂ فاتحہ کے متعلق آپ کو یاد رکھنی چاہیے کیونکہ آپ بار بار اس کو نماز میں پڑھتے ہیں اور پڑھتے رہیں گے تو اس کا مضمون بہت وسیع ہو کر آپ کے پیش نظر رہنا چاہیے.اس لئے کہ ہر وقت انسان ایک حال میں نہیں ہوتا اور سورۂ فاتحہ ایک ایسی عظیم الشان سورت ہے جو انسان کے ہر حال سے تعلق رکھنے کے لئے مزاج رکھتی ہے اور وسعت رکھتی ہے.اس لئے آپ جتنا زیادہ سورۂ فاتحہ کے مزاج سے شناسا ہوں گے اتنا ہی زیادہ آپ کے کسی نہ کسی حال میں آپ کے کام آسکے گی ورنہ بعض حالتوں میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو سورۂ فاتحہ آپ کو ایک بے تعلق سی چیز دکھائی دے گی.لیکن اگر اس کی وسعتوں کو سمجھیں گے تو یاد رکھیں یہ آپ کی وسعتوں پر ہمیشہ حادی رہے گی اور کبھی بھی یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کی کوئی حالت سورۂ فاتحہ کی وسعت سے باہر نکل جائے.یہ جو پہلو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اس کا تعلق ضمائر سے ہے.آپ نے دیکھا ہے کہ سورۂ فاتحہ جب اللہ کا تعارف کرواتی ہے تو اس میں سوائے غائب کے کوئی ضمیر نظر نہیں آتی.الحمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم - ملات يوم الدين میں کوئی ظاہر ضمیر نہیں ہے.وہ رب یا یہ رب یا تو یا میں یا ہم یا آپ کسی قسم کی کوئی ضمیر نہیں مگر غائب کا مضمون ہے.پس خدا تعالٰی کی تمام صفات کو غائب میں اور جمع کی صورت میں اکٹھا کر کے دکھایا گیا.اس کے بعد مضمون نے ایک پلٹا کھایا اور پہلی دفعہ کھلم کھلا ضمائر کا استعمال اس طرح ہوا کہ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی

Page 91

88 دعا میں ہم نے اپنی طرف جمع متکلم کا صیغہ لگالیا اور خدا کی طرف واحد مخاطب کا.یعنی خدا کو تو کہا اور اکیلا کر دیا.اپنی تمام صفات کے باوجود خدا تعالیٰ کی ایک ایسی ہستی کا تصور ہمارے سامنے ابھرا جو غیر منقسم ہے، جو جمع تفریق نہیں ہو سکتی اور واحد ہے.اس دعا مانگی تو اس وہم میں مبتلا ہو کر نہیں کہ چونکہ صفات زیادہ ہیں اس لئے ہو سکتا ہے خدا تعالٰی بھی کئی قسم کے مختلف وجود رکھتا ہو اور اپنے آپ کو جمع کردیا گویا تمام کائنات کی نمائندگی اختیار کرلی.رب العالمین کا تصور ایک نئے رنگ میں ہمارے سامنے ابھرا اور ہم نے یہ سوچا کہ جب وہ سب جہانوں کا رب ہے تو اس سے تعلق رکھنے کے لئے ہم سب کی نمائندگی میں کیوں نہ اس سے مانگیں کیونکہ وہ سب کا ہے.اگر سب کی طرف سے ہم مانگیں گے تو ہماری دعا میں زیادہ اثر پیدا ہو گا اور ہم بھی اس کی رب العالمین ہونے کی صفت میں حصہ پالیں گے.پس ایالت تعبد کی دعا نے یہ دونوں باتیں ہمیں سمجھا دیں کہ رب اپنی تمام صفات کے باوجود اکیلا بنی ہے اور کائنات پھیلی پڑی ہے اور بے شمار ہے.انسان اپنی ذات میں اس ساری کائنات کو مجتمع کر سکتا ہے اور اس ساری کائنات کی نمائندگی میں خدا سے دعا کر سکتا ہے اور یہ دعا وا قعتہ " تمام کائنات کی نمائندگی میں ہو سکتی ہے کیونکہ جب ہم کہتے ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو در حقیقت ہم عبادت کا حق ادا کریں یا نہ کریں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ ساری کائنات واقعہ " عبادت کر رہی ہے.تو یہ محض ایک مبالغہ آمیزی نہیں ہے یا محض ایک ذوتی نکتہ نہیں ہے بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتے ہیں کہ اے خدا صرف تیری ہم سب عبادت کرتے ہیں یعنی کل عالمین، تو بالکل سچ بات کر رہے ہوتے ہیں اور چونکہ تمام کائنات کا نماینده انسان واقعہ " ہے.اس میں تمام کائنات کا شعور خلاصے کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اور سب سے اعلیٰ شعور انسان کو عطاء کیا گیا ہے اس لئے بحیثیت مخلوقات میں سے افضل ہونے کے وہ نمائندگی کا حق بھی رکھتا ہے.تمام کائنات کا خدا کے حضور جھکنا پس جو تخلیق میں سب سے افضل ہے وہ جب عبادت کا اقرار کرلے اور خدا

Page 92

89 کے حضور جھک جائے تو گویا تمام کائنات خدا کے حضور جھک رہی ہے.میں ایسا انسان جو عبادت کے وقت اپنا یہ مقام پیش نظر رکھے اس کے رکوع اور سجود میں ایک اور شان پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خدا کے حضور اکیلا نہیں چھک رہا ہوتا بلکہ تعبد کے ساتھ جھک رہا ہوتا ہے.تمام کائنات کا خلاصہ بن کے جھک رہا ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جب تعبد کی دعا عرض کرتے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم صرف ساری کائنات کا نہیں بلکہ تمام عبادت کرنے والوں کے سردار کے طور پر عرض کیا کرتے تھے کہ اے خدا! اے رب العالمين !! ہم سب جو بھی عبادت کرنے والے ہیں، وہ سب تیرے حضور جھکتے ہیں اور میں ان کا سردار ہونے کی حیثیت سے یہ اقرار کرتا ہوں کہ تو ہی عبادت کے لائق ہے اور تیرے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں.ہماری سب سرداریاں تیرے حضور سجدہ ریز ہیں.ہمارے ماتھے تیرے حضور عاجزانہ طور پر اپنے آپ کو مٹی میں رگڑتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں اور عاجزی کا اقرار کرتے ہیں تو جب تمام کائنات کا سردار جس کو خدا نے پیدا کیا خدا کے حضور رکوع کرتا تھا اور سجدے کرتا تھا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی دعا پڑھا کرتا تھا تو حقیقت میں تمام کائنات اور اس تمام کائنات کا خلاصہ خدا کی عبادت کیا کرتے تھے.پس اس شان کی عبادت تو آج کسی کے لئے ممکن نہیں ہے.کیونکہ اگر ممکن ہے بھی تو اس کو استطاعت نہیں ہے یعنی بشری طور پر اس کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عبادت کے برابر پہنچ سکے.اپنی عبادات میں وسعت دیں اس لئے حسب توفیق اپنی عبادت کو ایسی وسعت دینا ضروری ہے اور اس وسعت کا آغاز اپنے خاندان سے کریں.ایاک نعبد میں اگر آپ باشعور طور پر باقی چیزوں کو شامل نہیں کر سکتے تو اپنی ہوئی اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں کو تو شامل کرلیں.اگر آپ خدا کی جماعت کی طرف سے کسی عہدے پر مامور ہیں تو ان سب کو شامل کر لیں.اگر آپ قائد خدام الاحمدیہ ہیں تو خدام کو شامل کر لیں.اگر لجنہ

Page 93

90 کی صدر ہیں تو لجنات کو شامل کر لیں.غرضیکہ جس جس دائرے پر بھی آپ کو کسی کام پر مامور فرمایا گیا ہے ان کو اپنے ساتھ شامل کرلیں.ایسی صورت میں جب إيَّاكَ نَعْبُدُ کہیں گے تو اس کے ساتھ ہی اپنے نفس کا ایک محاسبہ بھی شروع ہو جائے گا اور انسان یہ سوچے گا کہ کس حد تک میں ان کی نمائندگی کا حق رکھتا ہوں.کیا میں نے ان کو عبادت کرنے میں اپنے ساتھ شریک کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ نہیں.کیا میں نے واقعہ " چاہا ہے کہ یہ سارے میرے ساتھ خدا کی عبادت کرنے والے نہیں.پس اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ايَّاكَ نَعْبُدُ کے مضمون میں سے کچھ ہوا نکل جائے گی کچھ جان نکل جائے گی.وہ طاقت اس میں نہیں پیدا ہو سکتی.پس دیکھیں وہی دعا ہے ایاک کعبہ کی لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ اس کے معنی بدلنے شروع ہو جاتے ہیں.بعض صورتوں میں یہ بہت قوی دعا بن کے ابھرتی ہے.بعض صورتوں میں اس میں ناطاقتی پیدا ہو جاتی ہے.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ کی دعا کا مضمون بہت ہی وسیع اور گہرا ہے.اس کا ایک طرف رب رحمان رحیم اور مالک سے تعلق ہے اور دوسری طرف کل عالمین سے اس کا تعلق بن جاتا ہے اور آپ رب اور اس کی مخلوقات کے درمیان واسطہ بن جاتے ہیں.ضمائر کا یہی مضمون آگے بڑھتا ہے اور اب ہم رکوع میں داخل ہوتے ہیں.آپ نے کبھی سوچا یا نہیں سوچا لیکن یہ تعجب کی بات ضرور ہے کہ رکوع میں جاتے ہیں تو ہم بھی اکیلے اور خدا بھی اکیلا.سُبحَانَ دَرِي الْعَظِيْمِ - سُبْحَانَ رَتي العظيم - اور یہی سجدے میں حال ہے.رب العالمین میرا رب بن گیا اور اور یہ بہت دلچسپ بات ہے اور بہت لطف کی بات ہے اور بے انتہا شکر کی بات ہے کہ وہ جو نماز کو سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ ادا کرتے ہوئے رکوع تک پہنچتا ہے اس کو گویا نماز یہ پیغام دے رہی ہے کہ تو نے خدا کی ربوبیت کو عالمین کے اوپر قبول کیا اور سمجھا اور خدا کی ربوبیت کا نمائندہ بننے کی کوشش کی.تو نے خدا کی رحمانیت کو کل عالمین پر جاری ہوتے دیکھا اور سمجھا اور پھر خود خدا کی نمائندگی میں اپنی رحمانیت کو اسی طرح پھیلانے کی کوشش کی غرضیکہ مالک تک آپ پہنچیں تو ان

Page 94

91 سب باتوں کا جواب پھر خدا کی طرف سے یہ آتا ہے کہ تو نے مجھے اِيَّاكَ نَعْبُدُ کیا کہ اے خدا! میں تمام بنی نوع انسان کی یا ان سب کی نمائندگی میں جن کو تو نے میرے تابع فرمایا ہے تیری عبادت کرتا ہوں.اس لئے اب میں تجھ پر تیرا خدا بن کر ابھروں گا اور تجھے یہ حق عطاء کرتا ہوں کہ تو کہہ : سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پاک ہے میرا رب جو عظیم ہے.اب یہاں جو غائب تھا وہ غائب نہ رہا.جو سب کا تھا وہ سب کا ہو گا بھی لیکن یہاں اپنا بن کے ابھرا ہے اور میرا رب بن کے ابھرا ہے.پس جس کا رب عظیم ہو اس کو بھی عظمتوں سے حصہ ملے گا.اس میں یہ خوشخبری بھی عطا کر دی گئی کہ اب تو عام انسان نہیں رہا.تو نے ایک ایسی ذات سے تعلق جوڑ لیا اور اس کو اپنا بنا لیا ہے اور وہ تیرا ہو چکا ہے کہ اب اس کی عظمتوں سے تجھے کو حصہ دیا جائے گا اور جب وہ سجدے میں جاتا ہے اور دنیا کی نظر میں بظاہر بالکل ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے یعنی اس سے زیادہ دنیا کی نظر میں انسان کے لئے کیا رسوائی ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا ماتھا کسی کے حضور خاک پر رگڑنے لگے، وہاں اس کے دل سے یہ آواز اٹھتی ہے سُبحان ربی الاعلیٰ.وہ رب جسے میں نے اپنا بنا لیا ہے، جس نے مجھے اپنا بنا لیا ہے وہ ہر دوسری چیز سے بلند تر اور اعلیٰ ہے اور اس کے مقابل پر کسی اور چیز کی کوئی نہیں تو خدا کے علم میں سے خدا کا بلند مرتبہ ہونے میں سے ان عاجز بندوں کو بھی حصہ عطا کیا جاتا ہے اور اس طرح ضمائر کا مضمون دیکھیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں تک پہنچتا اور بظاہر سجدے کی انتہائی جھکی ہوئی حالت میں ہے لیکن اس جھکی ہوئی حالت میں یہ مضمون اپنے معراج کو پہنچ جاتا ہے اور انسان کو یہ سبق دے جاتا ہے کہ اس کی ہر ترقی کا راز اس کے عجز میں ہے.جتنا زیادہ وہ خدا کے حضور گرے گا اور جھکے گا اتنا ہی زیادہ اسے سربلندی عطاء کی جائے گی.پس ضمائر کے لحاظ سے بھی آپ دیکھیں تو نماز ایک عظیم الشان پیغام رکھتی ہے اور گہرے سبق رکھتی ہے.اس کے علاوہ نماز میں زمانوں کو بھی اس رنگ میں استعمال فرمایا گیا ہے کہ ایک بہت ہی دلکش مضمون ہمارے سامنے ابھرتا ہے اور ہمارے دماغوں کو روشن کرتا چلا جاتا

Page 95

92 ہے لیکن میں گھڑی کو دیکھ رہا ہوں.اب چونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے.چند اور باتیں بھی نماز سے متعلق کمنی باقی ہیں.اس لئے انشاء اللہ آئندہ جمعہ پری اگر وقف جدید کی باتیں کرنے کے بعد وقت بچا ورنہ پھر اس سے آئندہ جمعہ پر اس مضمون کو جاری رکھیں گے.

Page 96

93 بيت الفضل - لندن ۱۵ مارچ ۱۹۹۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ رمضان گناہوں کو جلا دینے والی بھٹی تشہد و تعوز اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : ابھی دو روز تک رمضان مبارک کا مہینہ شروع ہونے والا ہے.جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے مدینے کو بھٹی کی طرح قرار دیا جس میں زنگ آلود لوہا جب لوٹایا جاتا ہے تو اس کا زنگ اس کی آلودگیاں جل کر خاک ہو جاتی ہیں اور وہ صاف شفاف ہو کر دوبارہ باہر نکلتا ہے، اسی طرح وقت کے لحاظ سے رمضان کا ظرف بھی بھٹی کا حکم رکھتا ہے اور رمضان کے لفظ میں بھی گرمی اور شعلوں کی تیزی اور بھسم کر دینے والے معنی پائے جاتے ہیں.پس ان معنوں میں رمضان کا مہینہ ہمارے گناہوں، ہماری آلودگیوں ، ہماری گزشتہ غفلتوں کو جلانے کا کام دے گا اگر ہم اپنے آپ کو اس مہینے کے حضور پیش کر دیں.اور مہینے کے حضور پیش کرنے میں ایک یہ بھی مضمون شامل ہے کہ اپنے مختلف پہلوؤں کو بدل بدل کر اس مہینے کے سامنے رکھیں.جس طرح ایک انسان جب آگ پر کوئی چیز بھونتا ہے تو اس کے پہلو بدلتا رہتا ہے ورنہ ایک پہلو جو آگ کے دوسری طرف ہو وہ ٹھنڈا رہ جاتا ہے.پس رمضان مبارک میں بھی انسان کو اپنی بدیاں تلاش کر کے مختلف پہلوؤں سے رمضان کے حضور پیش کرنی چاہئیں اور اس پہلو سے آپ غور کریں تو آپ کو یوں لگے گا کہ جیسے انسان اس مہینے میں ہمیشہ کروٹیں بدلتا ہوا، مختلف پہلوؤں سے خدا سے التجائیں کرتا ہوا، مختلف زاویہ ہائے نظر سے اپنی کمزوریوں کا مطالعہ کرتا ہوا مسلسل ایک نئی کیفیت کے ساتھ گزرتا چلا جائے گا یعنی رمضان مبارک میں یہ ممکن نہیں کہ

Page 97

94 ایک ہی کیفیت سے داخل ہوں اور اسی کیفیت سے باہر آئیں بلکہ ہر روز ایک نیا مضمون آپ پر ظاہر ہوتا چلا جائے گا.ہر روز رمضان مبارک کی نئی برکتیں آپ کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتی رہیں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر اس طرح آپ جستجو اور محنت سے اس مہینے سے گزریں گے تو ایک نیا وجود پاکر نکلیں گے.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.جب نکل جاتے ہیں تو پھر واپسی کا دور بھی شروع ہو جایا کرتا ہے اور اسی رمضان مبارک میں یہ بھی دعا کرنی چاہئیے کہ جس مقام سے چلے تھے اگلے رمضان مبارک میں داخل ہوتے وقت اس مقام پر نہ پہنچ چکے ہوں اور بلکہ خطرہ ہے کہ اس سے نیچے نہ گر چکے ہوں.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان رمضان مبارک میں سے نیک نیت کے ساتھ گزرتا ہے.جدوجہد کے ارادے لے کر داخل ہوتا ہے.پھر اسے اپنے ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی توفیق بھی ملتی ہے اور وہ رمضان سے بہت کچھ پاتا ہے اور بہت پریاں کھو کر اس مہینے سے باہر آتا ہے لیکن جب وہ باہر آتا ہے تو پھر از سرنو وہی غفلتوں کا دور شروع ہو جاتا ہے اور وہی مستیاں جن کے نتیجے میں جگہ جگہ گندگی جمع ہونی شروع ہو جاتی ہے، عود کر آتی ہیں.ایسی صورت میں بعض دفعہ یہ خطرہ ہوتا ہے که آئندہ رمضان کے وقت انسان اپنے آپ کو اس بد تر حالت میں پائے جس حالت میں گزشتہ رمضان میں داخل ہوا تھا.پس رمضان کے یہ جو دو کنارے ہیں ان کے مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.داخل ہونے والا جو کنارہ ہے اس میں ہم گناہوں اور بد اعمالیوں سے بو جھل ہو کر داخل ہوتے ہیں.بہت سے داغ ہمارے چہرے پر لگے ہوئے ہوتے ہیں.بہت سے کٹا نہیں ہمارے جسم کو گندا کئے ہوئے ہوتی ہیں.ہم صفائی کی نیت سے اور پاک نیت سے رمضان مبارک میں داخل ہوتے ہیں، نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر باہر نکلتے ہیں اور پھر اچانک یہ محسوس ہوتا ہے کہ اب محنتوں کا دور ختم ہوا.عید کے ساتھ ہی یہ دھو کہ لگ جاتا ہے کہ یہ عید نیکیوں کی عید نہیں بلکہ گناہوں کی زندگی کی طرف لوٹنے کی عید ہے.اور باشعور طور پر انسان یہ نہیں کرتا لیکن لاشعوری طور پر دنیا کے اکثر انسانوں کے ساتھ یہی کچھ ہوتا ہے اور وہ معلوم بھی نہیں کر

Page 98

95 سکتے کہ ہم کیوں خوش ہیں اور یہ خوشی کہیں خیر کے پردے میں چھپا ہوا شر تو نہیں.پس جو باتیں میں آپ کے سامنے کھول کر رکھ رہا ہوں، انکے مضمون پر جب آپ غور کریں گے تو زیادہ محتاط ہو جائیں گے.پھر دوسری شکل یہ ہے کہ جو شخص ہر سال اپنے آپ کو پہلے سے بد تر حالت میں پائے یا ویسی ہی حالت میں پائے وہ خطرے سے باہر نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے متعلق حضرت احدیت جل شانہ نے جو بیہ فرمایا کہ وَالآخِرَةُ خَيْرُ لكَ مِنَ الأولى (سورة الضحى : آیت (۵) کہ تیری آخرت پہلے سے بہتر ہے تو یہ بہت وسیع مضمون ہے، اس کا میں بارہا ذکر کر چکا ہوں لیکن یہ ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.ہر اچھی صورتحال پر اس کا اطلاق ہوتا ہے پس اس نظر سے اپنا مطالعہ کرنا چاہیے کہ ہمار ا بعد کا آنے والا رمضان گزرے ہوئے رمضان سے بہتر رہا کہ نہیں اور ہمیں اس سے بہتر حالت میں پانے والا بنا کہ نہیں اور اس سے بہتر حالت میں چھوڑنے والا بنا کہ نہیں.یہ تین نقطہ ہائے نگاہ ہیں جن سے اپنے حالات پر غور کرنا چاہیے اور رمضان سے اپنے تعلقات کو سمجھنا چاہیے.آئندہ چند ماہ خوفناک فیصلوں کا وقت اس رمضان میں خصوصیت سے عالم اسلام کے لئے دعا کی ضرورت ہے.بہت سے امور میں گزشتہ خطبات میں آپ کے سامنے کھول کر رکھ چکا ہوں.بہت سے ایسے خطرات ہیں جو مجھے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں تھا بلکہ بعض کا تو میں ذکر بھی نہیں کر سکا لیکن بعض اشاروں میں ان کے متعلق باتیں ہو چکی ہیں.چونکہ میں اب اس مضمون کو ختم کر چکا ہوں اس لئے دوبارہ اس مضمون کو چھیڑنا نہیں چاہتا لیکن یہ میں آپ کو مختصرا" بتا دیتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ کے اندر مسلمانوں کے متعلق ہی نہیں بلکہ دنیا کی تقدیر کے متعلق بعض ایسے خوفناک فیصلے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کے نتیجے میں ساری صدی دکھوں سے چور ہو جائے گی اور نہایت ہی درد ناک زمانے کا منہ انسان دیکھے گا اور کچھ ایسے فیصلے بھی ہو سکتے ہیں جن کے نتیجے میں

Page 99

96 شیطان کی اجتماعی قوت کے ساتھ جو آخری بھر پور حملہ ہونے والا ہے اس کا دفاع کرنے کی انسان کو اور خصوصیت سے مسلمانوں کو توفیق مل جائے کیونکہ اگر مسلمانوں نے اس کا دفاع کر لیا تو تمام بنی نوع انسان مسلمانوں کے دفاع کے پیچھے حفاظت میں آجائیں گے اور مسلمانوں کے دفاع کی سب سے بڑی ذمہ داری احمدیوں پر عائد ہوتی ہے اور یہ بات جو میں کہہ رہا ہوں اس کی بناء حضرت اقدس محمد مصطفیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و کی ایک حدیث پر ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دور میں جب بلائیں اپنی انتہا کو پانچ جائیں گی تو اس وقت مسیح موعود کی دعائیں ہی ہیں جو اسلام کے دشمنوں سے اسلام کو اور دنیا کو بچائیں گی.اس رمضان کو مسلمانوں کے دفاع کا رمضان بنا دیں پس اس پہلو سے یہ رمضان عین وقت پر آیا ہے یعنی جب بلائیں کھل کر سامنے آچکی ہیں اور کچھ ان کے پس پردہ مخفی ارادے ہیں جو ظاہر ارادوں سے بھی بدتر ہیں لیکن ہمیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اس بلا کے پیچھے پیچھے اور بھی بہت سے بلائیں آنے والی ہیں تو اس وقت ہم رمضان مبارک میں داخل ہو رہے ہیں اور دعاؤں کا خاص موقعہ ہمیں میسر ہو گا.پس اس رمضان مبارک کو خصوصیت کے ساتھ بنی نوع انسان کے دفاع کا رمضان بنا دیں.مسلمانوں کے دفاع کا رمضان بنا دیں.انسانیت کے دفاع کار مضان بنا دیں اور اسلام کے دفاع کا رمضان بنا دیں اور دعا یہ کریں کہ اے خدا! ہم اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اتنی بڑی بڑی طاقتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو خود تو نے.پیدا کی ہیں اور جن کی خبر تو نے اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ذریعے نہیں 1400 سال پہلے عطا فرما دی تھی.پس ہم کمزور ہیں.نہتے ہیں.بے طاقت ہیں اور ہمارے مقابل پر جو طاقتیں ہیں ان کو تو نے ہی اتنی دنیاوی عظمت بخش دی ہے کہ ہم ان کے سامنے بالکل بے بس ہیں ، پس تیرے ہی طرف ہم جھکتے ہیں.تجھ سے ہی رجوع کرتے ہیں تجھ سے ہی عاجزانہ دعائیں کرتے ہیں کہ ان پیشگوئیوں کے دوسرے حصوں کو بھی سچا کر دکھا، یعنی دنیا کی یہ عظیم طاقتیں اپنے ایسے دنیاوی خزائن کے ذریعے جن کے مقابل پر ہمیں ایک دمڑی کی بھی حیثیت

Page 100

97 حاصل نہیں دنیا کے ایمان خرید رہی ہیں تو تو ہی ہے جو اس دنیا وی دولت کے شر سے لوگوں کو مسیح موعود اور آپ کی جماعت کی دعاؤں کی برکت سے بچائے.یہ اپنے ایسے عظیم ہتھیاروں کے ذریعے جو پہاڑوں کی طرح بلند ہیں اور جن کی ڈھیریاں پہاڑوں کے برابر ہیں اور جن کے اندر ہلاکت کی ایسی طاقتیں ہیں کہ صرف اگر ایٹم بم کو ہی استعمال کیا جائے یعنی ایٹم بم کے ان ذخائر کو استعمال کیا جائے جو امریکہ اور روس میں ہیں تو سائنس دان بتاتے ہیں کہ یہ ساری دنیا بیسیوں مرتبہ ہلاک کی جاسکتی ہے اور ان میں اتنی ہلاکت کی طاقت ہے کہ صرف دنیا میں بسنے والے انسان ہلاک نہیں ہوں گے بلکہ اس دنیا سے زندگی کا نشان تک مٹ سکتا ہے.پس یہ دعا کرنی چاہئیے کہ اے خدا ! تو نے ان بدبختوں کو دولتیں بھی اتنی دے دیں کہ ان کے مقابل پر سارے عالم اسلام کی مجموعی دولت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی اور پھر ہتھیار بھی ان کو ایسے عطا فرما دیئے کہ جن میں سے صرف ایک ہتھیار کے ایک حصے کو استعمال کر کے یہ دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں اور مقابل پر ہمیں احمدیوں کو کھڑا کر دیا ہے جن کے پاس کچھ بھی نہیں جو ایک بہت ہی غریب جماعت ہیں.لیکن ساتھ ہی ہمیں خوش خبری بھی دی اور یہ خوش خبری دی کہ تمہاری دعاؤں کو میں سنوں گا اور ان دعاؤں کی برکت سے میں بالآخر ان عظیم قوموں کو پارہ پارہ کردوں گا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے نقشہ یہ کھینچا ہے کہ جس طرح نمک سے برف کھلتی ہے اس طرح تمام وجائی طاقتیں جو انسانیت اور حق کی دشمن ہیں وہ برف کی طرح پگھل کر غائب ہو جائیں گی جیسے ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا دعاؤں کی طاقت آپ کے پاس ہے.اس عظمت کو پہچانیں اور یاد رکھیں کہ یہ عظمت انکساری میں ہے.اس بات کو کبھی نہ بھولیں.دنیا کی طاقتوں اور مذہبی طاقتوں میں یہ بنیادی فرق ہے.دنیا کی طاقتیں تکبر پر منحصر ہوتی ہیں اور مذہبی طاقتیں بجز پر منحصر ہوتی ہیں.پس دعا میں اتنی زیادہ رفعت پیدا ہوگی جتنا آپ خدا کے حضور جھکیں گے.دعا میں اتنی ہی زیادہ طاقت پیدا ہو گی جتنا آپ بے طاقتی محسوس کریں گے.آپ کی بے بسی کے نتیجے میں دعاؤں کو قوتیں عطا ہوں گی.پس اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوئے اس رمضان سے حتی المقدور فائدہ

Page 101

98 اٹھائیں اور عاجزی اور انکساری کے ساتھ بے بسی کے عالم میں خدا کے حضور بچھ جائیں کہ اے خدا! ان بڑی بڑی طاقتوں کے شر کے ارادوں کو باطل کردے اور جوان کی خیر ہے وہ باقی رکھ.اپنی دعاؤں کو عصبیتوں کے شر سے محفوظ کریں ہمیں کسی قوم سے من حیث القوم نفرت کی اجازت نہیں ہے.نہ نفرت ہمارے خمیر میں داخل فرمائی گئی ہے اس لئے ہم دنیا کی جاہل قوموں کی طرح مغربی طاقتوں کے خلاف نہ دعائیں کر سکتے ہیں نہ نفرت کے جذبے رکھ سکتے ہیں.ہم شر سے متنفر ہیں اور اپنی دعاؤں کو خصوصیت کے ساتھ شر کے خلاف رکھیں.قومی اور عصبی رنگ میں بعض قوموں کی ہلاکت کی دعائیں نہ کریں.یہ دعا کریں کہ اے خدا! جو مشرق میں تیرے عاجز بندے ہیں ان کے ساتھ بھی کچھ شر وابستہ ہیں ان کے شہر کو بھی مٹادے اور جو مغرب کی عظیم طاقتیں ہیں جو ساری دنیا پر غالب ہیں ان کے شر کو بھی مٹا دے.ان کا شراس لئے زیادہ خطرناک ہے کہ طاقتور کا شہر ہمیشہ زیادہ خطرناک ہوا کرتا ہے.طاقت ور کا شر زیادہ پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے.طاقت ور کا شرونیا کی خیر کو مٹا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے پس ہم یہ نہیں کہتے کہ تیسری دنیا کی قوموں میں شر نہیں ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ مشرق معزز ہے اور مغرب ذلیل ہے.ہم یہ کہتے ہیں کہ اس وقت مغرب میں جو شر پھیلانے کی طاقت ہے ویسی طاقت تاریخ میں کسی قوم کو کبھی عطا نہیں ہوئی اور یہ بات حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ آخری زمانے میں جب دجال ظاہر ہو گا تو اس کا اتنا شردنیا میں پھیلے گا اور اسے شر پھیلانے کی اتنی طاقت نصیب ہوگی کہ جب سے دنیا بنی ہے خدا کے تمام انبیاء کو دجال کے شر سے ڈرایا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ آئندہ زمانے میں ایک شہر پھیلانے والی اتنی بڑی قوم بھی دنیا میں ظاہر ہوگی.پس کسی عصبیت کے جذبے کی بناء پر نہیں کسی قومی یا نسلی تفریق کی بناء پر نہیں بلکہ خالصتہ ” ان پیشگوئیوں کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے صحیح نشانے کی دعا کریں ورنہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعاؤں میں آپ کی نیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو.قومی عصبیتوں کا شر شامل ہو چکا ہو.نسلی تفاوت کا شر

Page 102

99 شامل ہو چکا ہو اور کئی قسم کے ایسے شر ہیں جو مخفی طور پر انسان کی دعاؤں میں لگ جاتے ہیں اور ان کے اندر زہر گھول دیتے ہیں.وہ مقبول دعائیں نہیں رہتیں.پس اس تفصیل سے آپ کو سمجھانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ محض رونے اور گریہ و زاری سے دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں.دعاؤں کو اپنی مقبولیت کے لئے ایک خاص پاکیزگی اور صحت چاہئیے.اور جس رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دعائیں مانگیں اور دعائیں سکھائیں اگر وہی رنگ اختیار کریں اور اپنے نفس کو اپنے شر سے بھی صاف رکھیں اور ہر قسم کے دوسرے شرور سے بھی پاک کریں اور خالصتہ اللہ دعا کریں نہ کہ قومی نفرتوں کی بناء پر تو پھر میں یقین رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالٰی ہماری دعائیں ضرور قبول ہوں گی اور یہ عظیم تاریخی دور جس میں ہم داخل ہوئے ہیں اس کا پلہ بالآخر انشاء اللہ اسلام کے حق میں ہو گا.اسلام کے غالب آنے کی تقدیر تو بہر حال مقدر ہے یعنی نہ ملنے والی اٹل تقدیر ہے مگر ہماری دعا اور کوشش یہی ہونی چاہئیے کہ اس تقدیر کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھ لیں.اس کے بعد اب میں واپس اسی مضمون کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے ذکر کیا تھا یعنی سورۂ فاتحہ کے ذریعے نماز میں لذت حاصل کرنا اور سورۃ فاتحہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی صفات کی سیر کرنا اور خدا تعالٰی سے ایک ذاتی تعلق پیدا کرنا.یہ مضمون تو لامتناہی مضمون ہے لیکن ایک دو اور خطبات اس مضمون پر اس لئے دوں گا تاکہ ہر انسان اپنے اپنے ذوق کے مطابق استفادہ کرتے ہوئے پہلے سے بہتر صحت مند نمازیں پڑھ سکے.پہلے سے بہتر لذت والی نمازیں پڑھ سکے اور اپنی نمازوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے.میں نے یہ بیان تھا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین کے ساتھ جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ چار بنیادی صفات ہیں اور تمام صفات باری تعالیٰ کے لئے یہ ماں کا حکم رکھتی ہیں اور ہر صفت ان میں سے کسی نہ کسی سے پھوٹی ہے یا خاص تعلق رکھتی ہے.تمام صفات باری تعالیٰ کے تعلق کی کلید مضمون پر غور کرتے ہوئے ایک مرتبہ میں نے دعا کے ذریعے مدد چاہی کہ اللہ تعالی اس کو مجھے پر اور کھول دے تاکہ کوئی ایسا نکتہ میں جماعت کو سمجھا سکوں جس سے ہم اس ہے

Page 103

100 شخص بڑی آسانی کے ساتھ فائدہ اٹھا سکے، ورنہ رحمانیت، رحیمیت، مالکیت وغیرہ کے انفرادی طور پر غور کر کے دیگر صفات باری تعالٰی سے ان کا تعلق تلاش کرنا ایک مشکل اور دقیق مضمون ہے جس پر ہر کسی کو دسترس نہیں، ہر شخص جس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بات سمجھا دی کہ جو آج میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ تمام صفات باری تعالٰی کا تعلق صرف ربوبیت سے نہیں.صرف رحیمیت سے نہیں، رحمانیت سے نہیں، مالکیت سے نہیں بلکہ سورہ فاتحہ کے اس پہلے بیان سے ہے کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.یعنی ربوبیت سے نہیں بلکہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رب العلمین سے ہے اور الحمد اللہ رب العلمين الرحمان کے ساتھ ہے اور رحیم کے ساتھ اور مالک کے ساتھ ہے.گویا اسی حمد کے جوڑ کے ساتھ.چنانچہ جب میں نے اس پر غور کیا تو میں حیران رہ گیا کہ صرف الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کے مضمون میں وہ تمام صفات بھی بیان ہو گئیں جو ہمیں معلوم ہیں اور وہ تمام صفات بھی اس کے اندر شامل ہو گئیں جو ہمیں معلوم نہیں مگر ہم سے زیادہ عالم لوگوں کو معلوم ہیں یا اس زمانے کو معلوم نہیں آئندہ زمانے کو معلوم ہوں گی.اس مضمون کو میں مزید کچھ کھول کر بیان کرتا ہوں تاکہ پھر آپ غور کے ذریعے اس سے مزید استفادہ کر سکیں.رب کے بہت سے معانی ہیں.اگر پیدا کرنے والا اور پرورش کرنے والا اور ترقی دینے والا اور محبت سے خیال رکھنے والا اور روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور کمزوریوں کو دور کرنے والا اور غیروں کے شرسے بچانے والا اور حفاظت کرنے والا یہ معنی سامنے رکھیں تو انسانوں میں سے بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں اور بہت سے ایسے وجود جانوروں میں سے بھی ہیں جو اپنے اپنے دائرے میں رب کہلا سکتے ہیں.مائیں ہیں جو اپنے بچوں کے لئے رب بن جاتی ہیں خواہ وہ انسانی مائیں ہوں یا جانوروں کی دنیا کی مائیں ہوں.خواہ وہ اونی زندگی سے تعلق رکھنے والی مائیں ہوں یا اعلیٰ زندگی سے تعلق رکھنے والی مائیں ہوں ان سب میں ربوبیت کا مضمون پایا جاتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ تمام صفات کی حامل ہیں پس محض ربوبیت کے نتیجے میں تمام صفات پر حاوی ہونے کا مضمون پیدا نہیں ہوتا اور زبردستی کر کے کوئی انسان کہنا چاہے

Page 104

101 کہ رب کا معنی ہے : ہر صفت کی ماں ہر صفت سے ماں والا تعلق رکھنے والا.تو یہ درست نہیں ہو گا.لیکن جب آپ یہ کہتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تو یہ تمام جہانوں کا ایسا رب ہے جس کی ربوبیت میں تمام حمد " شامل ہیں اور "حمد" کے سوا کچھ بھی نہیں.یعنی ربوبیت کے جتنے بھی جلوے ظاہر ہوئے ہیں ہر جلوے پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس جلوہ افروز ہونے والے رب میں تمام صفات حسنہ پائی جاتی ہیں اور حمد پائی جاتی ہے.ہر تخلیق بے شمار علوم کا تقاضا کرتی ہے پی ایسی ربوبیت جس میں کوئی نقص نہ رہا ہو اور ایسی ربوبیت جو اپنی حمد کی وجہ سے بعض اور صفات کی متقاضی ہو جائے، اس کی بے شمار مثالیں ہیں ، ایک مثال دیتا ہوں.آپ ایک ٹیلی ویژن کا سیٹ دیکھ لیں.اس ٹیلی ویژن کے سیٹ میں آپ مختلف ممالک سے آنے والی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں اور ایک ملک میں دکھائی دینے والی تصویر میں بھی دیکھ سکتے ہیں، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ سیٹ کس طاقت کا ہے اور کس قسم کا ہے.پھر اچھی تصویریں بھی دیکھ سکتے ہیں، بری بھی شور والی بھی کم شور والی بھی شور کے ساتھ بھی اور رنگ بھی مختلف دیکھ سکتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے جب چاہیں اس ٹیلی ویژن کا تعلق جس ملک سے چاہیں فورا کرلیں.اور پھر بعض دفعہ یہ کہ گھر میں بیٹھے بیٹھے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے جو چاہیں اس سے کروالیں تو ٹیلی ویژن کا ایک سیٹ ہے جس کی یہ عام صفات آپ کو معلوم ہیں کہ بڑی اچھی صفات ہیں لیکن بہت کم لوگ یہ غور کرتے ہیں کہ ٹیلی ویژن بنانے کے لئے کتنے علم کی ضرورت ہے اور کتنے مختلف قسم کے علوم کی ضرورت ہے اور صنعت و حرفت میں کس کس چیز پر کمال کی ضرورت ہے اور اس کے ہر پرزے کے لئے انسانی علم کے کتنے وسیع ذخیرے کی ضرورت ہے.یعنی انسانی علم تو وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا چلا جاتا ہے لیکن محض ایک وقت کا علم کافی نہیں ہوا کرتا.ترقی کرنے کے بعد اس علم کی ساری تاریخ کا علم ہونا ضروری ہے اور اس کا جو مجموعہ ہے وہ وہ ہے جو باقی گزشتہ علوم کے مراحل پر فضیلت رکھتا ہے.پس ایک ٹیلی ویژن میں اگر کوئی سیلیکان چپ (SILICON CHIP)

Page 105

102 استعمال ہوا ہے جس کے اندر بہت سے پیغامات بھر دیئے گئے ہیں تاکہ ٹیلی ویژن اس کے ذریعہ سے زیادہ اچھا کام کرے تو سیلیکان چپ کو پیدا کرنے کے لئے جتنی صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور جتنے علوم کی ضرورت ہے وہ سینکڑوں سال کے علوم کا مجموعہ ہے اور صنعت و حرفت کے لحاظ سے جتنی مہارت کی ضرورت ہے وہ بھی ایک لمبے دور کے مجموعے کا نام ہے اور پھر ایک وقت میں ایک انسان کے بس کی بات نہیں.ایک وقت کے مختلف انسانوں اور مختلف قوموں کے انسانوں کی اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے.پس ایک ٹیلی ویزمن بنانے والا ایک شخص تو ہو نہیں سکتا لیکن انسانوں کا وہ مجموعہ جس نے ٹیلی ویژن بنایا اس کے پیچھے اور بہت سے انسانوں کے مجموعے قطار در قطار آپ کو دکھائی دیں گے اور ان سب کے علوم کا اور ان سب کی مہارتوں کا آخری خلاصہ اس ٹیلی ویژن کی شکل میں آپ دیکھ رہے ہیں جس کے متعلق آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اس وقت موجود ٹیلی ویژنز میں سے دنیا کا بہترین ٹیلی ویژن ہے.جتنا اچھا ٹیلی ویڑن ہو گا اتنا ہی زیادہ صاحب علم لوگوں کی ضرورت ہوگی.اتنا ہی زیادہ صاحب فن لوگوں کی ضرورت ہوگی.اتنا ہی زیادہ وسائل پر اختیار رکھنے کی ضرورت ہوگی.اتنا ہی زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوگی.غرضیکہ ایک ٹیلی ویڑن کے ساتھ متعلق انسانوں کا ایک ہجوم دکھائی دے گا بلکہ لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جنہوں نے مختلف وقتوں میں کچھ نہ کچھ اس کی تعمیر میں حصہ لیا خواہ وہ مرچکے ہیں.اور اتنے علوم اس کے لئے درکار ہیں کہ عام انسان ان کی فہرست بھی پیش نہیں کر سکتا.اگر فہرست اس کے سامنے پڑھی جائے تو وہ سمجھے نہیں سکتا کہ یہ کیا باتیں ہو رہی ہیں.اب شرط یہ ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کامل ہو اور اس کو دیکھ کر حمد کا یہ مضمون انسان کے ذہن میں ابھرے.پس اس ٹیلی ویژن کے اوپر آپ جتنا زیادہ یہ کہہ سکتے ہوں کہ کیا کہتے ہیں اس ٹیلی ویژن کے ؟ تمام حمد اس کے لئے ہے تو اتنا ہی زیادہ اس کے خالق کے لئے یا وہ تمام وجود جنہوں نے اس کی خلق میں حصہ لیا ہے ان سب کے لئے حمد کا مضمون ثابت آئے گا لیکن ٹیلی ویژن میں جو حمد جمع ہوئی ہے وہ کسی ایک شخص کے لئے نہیں ہو سکتی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مختلف زمانوں میں پھیلے ہوئے علوم میں محنتیں کرنے والے بے شمار

Page 106

103 انسان ہیں جنہوں نے اس کو بنانے میں حصہ لیا ہے اور اس وقت اس دنیا میں بھی جس کارخانے میں وہ بنا ، ٹیلی ویژن کی ساری ضرورتیں اس کارخانے میں پوری نہیں ہوئیں بلکہ دنیا کے مختلف کارخانوں سے کچھ پرزے حاصل کئے گئے ، کچھ ٹیکنالوجی عاریتہ گلی گئی کوئی اور مدد حاصل کی گئی تو اس کی تعریف ٹیلی ویژن میں تو مجتمع ہوئی لیکن بنانے والوں کے لحاظ سے منتشر ہو گئی اور بے شمار انسانوں کے حصے میں آئی اور مختلف زمانوں کے حصے میں آئی.رب العالمین کی حمد خدا تعالٰی کے متعلق جب ہم الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں تو اس کی تخلیق کی ہر صنعت کی ہر خوبی بہت سے علوم کا تقاضا کر رہی ہے.بہت سی صفات کا تقاضا کر رہی ہے اور خدا کی صنعت پر واقعہ " ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.واقعہ " ہر تعریف کے لائق وہ ذات ہے جس نے یہ سب کچھ بنایا ہے.پس صرف اس وقت کی تعریف نہیں بلکہ ان تمام زمانوں کی تعریف ہے جن زمانوں کی طرف المین کا لفظ اشارہ کر رہا ہے اور اس تمام کائنات کے ہر ذرے میں موجود صفات کی تعریف جن کی طرف لفظ العلمین اشارے کر رہا ہے، یہ مجتمع ہو کر پھر بکھرتی نہیں بلکہ ایک ذات میں اکٹھی ہو جاتی ہیں اور وہ ذات اللہ ہے تو اگر آپ صرف ایک جانور کو اپنے پیش نظر رکھ لیں اور اس کی تخلیق کے مختلف مراحل میں مختلف قسم کے جتنے علوم کی ضرورت پیش آسکتی ہے اور جتنی مختلف صفات کی ضرورت پیش آسکتی ہے کہ جن صفات کے بغیر وہ چیز بن نہیں سکتی.اور اسی طرح ہر وہ چیز جس پر آپ نظر ڈالیں اور گہری نظر ڈالیں وہ قابل تعریف دکھائی دے تو اس کے بنانے والے کی ہر صفت قابل تعریف ہو جائے گی کیونکہ وہ وجود ان تمام صفات کی جلوہ گری کا ایک آخری مظہر ہے یعنی آخری صورت میں ظاہر ہونے والا منظر ہے جو آپ کو دکھائی دے رہا ہے.پس خدا تعالٰی کے لئے جب ہم الْحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کہتے ہیں تو دنیا کے ہر مشاہدے میں آپ کو خدا تعالیٰ کی ایک صفت کی بجائے بیسیوں بلکہ سینکڑوں بلکہ جتنا آپ کا علم بڑھتا چلا جائے گا اتنی ہی زیادہ صفات دکھائی دینے لگیں گی اور ہر صفت

Page 107

104 كا مع الحمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ - نظر آئے گا.اس مضمون پر جب میں نے غور کیا تو یوں کہنا چاہئیے کہ عقل بالکل حیران و ششدر رہ گئی.یوں لگتا تھا کہ انسان عالم حیرت میں غرق ہو گیا ہے.کائنات کے کسی ذرے میں آپ ڈوب کر دیکھیں تو پہلے ایک خداد کھائی دے گا، پھر اس ایک خدا کے مختلف جلوے دکھائی دیں گے اور اس کی صفات بڑھتی رہیں گی مگر مرکز ہمیشہ وہی ایک ذات رہے گی.انتشار صفات کا ہے ذات کا نہیں اور اس ذات سے تعلق رکھنے والی ساری صفات ہیں.اس مضمون کو سمجھنے والی چابی الْحَمْدُ للورات العلمین میں ہے یعنی اس رب کو ہر صفت لائق اور زیب ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا کیا اور تمام جہانوں کی پرورش کی.پس العلمین کا ہر وہ ذرہ خدا کی طرف اشارے کر رہا ہے اور ایک ذات کی طرف اشارہ کرنے کے باوجود اس کی تمام صفات کی طرف بھی اشارے کر رہا ہے.یہ وہ پہلو ہے جس پہلو سے خدا تعالٰی کا الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا جمله یا بیان واقعہ " بغیر کسی تردد کے بغیر کسی تصنع کے خدا تعالی کی تمام صفات کی طرف انگلیاں اٹھا رہا ہے لیکن اس ضمن میں ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں جس رنگ میں حمد کا مضمون بیان ہوا ہے اس کا مطالعہ کریں اور غور سے یہ بات دیکھیں کہ جہاں جہاں بھی قرآن کریم نے حمد کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں خدا کی صفات کو سمجھنے کی کھڑکیاں کھولی گئی ہیں اور ہر کھڑکی ذات کے الگ جلوے دکھا رہی ہے اور اس مضمون کو کھولتی چلی جاتی ہے.پس بجائے اس کے کہ اپنے ذوقی نکتوں کے ذر لیتے آپ اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کریں قرآن کریم نے خود جو کھڑکیاں کھولی ا جو روزن ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں ان سے خدا تعالیٰ کی صفات کا معائنہ کریں تو کسی قسم کی غلطی نہیں کریں گے.میں نے کہا تھا کہ خدا ظالم نہیں ہے اس کے باوجود سزا کا مضمون ملتا ہے.رب العالمین رحمان رحیم مالک کا ذکر ہے.غضب ناک خدا کا کوئی ذکر نہیں، اس کے باوجود سورہ فاتحہ ختم ہونے سے پیشتر ہی ہمیں منصوب عليھ کا مضمون نظر آجاتا ہے تو پھر ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ ان سب کا تعلق الْحَمْدُ لله رت العلمین سے ہے اور یہ مضمون آپ کو قرآن کریم کی مدد سے ہیں

Page 108

105 سمجھ آئے گا.اس لئے جب قرآن کریم کا مطالعہ کریں اور خصوصیت کے ساتھ جہاں شیح کا مضمون ہو اور حمد کا مضمون بیان ہو وہاں غور کریں اور ٹھہریں اور پھر آپ دیکھیں کہ اس کھڑکی سے آپ کو اور کیا کچھ دکھائی دیتا ہے تو وہاں آپ کو بہت سی صفات باری تعالی دکھائی دینے لگیں گی.اس کی ایک دو مثالیں میں نے مضمون کھولنے کی خاطر چنی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَقُطِعَ دَابِرُ القَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُوا، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (سورۃ الانعام آیت : ۴۶) فَقُطِعَ دَابِرُ القَوْمِ الذِينَ ظَلَمُوا، وہ قومیں جنہوں نے ظلم کیسے ان کو جڑوں سے اکھٹر پھینک دیا گیا.وَالْحَمْدُ بلُورَتِ الْعُلمنين رب العالمین خدا کو ہر محمد زیبا ہے.ہر خود اس کی ہے.اس کا حق ہے کہ اس کی تعریف کی جائے.اگر ظالم کی جڑ نہ کائی جائے تو حسن نا پید ہو جائے اگر ظلم کرنے والے کی جڑیں نہ کاٹ دی جائیں تو خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کے ہر جلوے کی جڑیں کائی جائیں اور دنیا سے حسن ناپید ہو جائے تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین اس کے ساتھ بیان کر کے یہ فرما دیا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ آیت العلمین کو ہر حمد واجب ہے.ہر محمد اسی کا حق ہے اس کو زیبا ہے اسی کی شان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی چیزوں کا نگران بھی ہے.اور ایسی چیزوں کو جو بعض خوبیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، ایسی چیزوں کو جو حسن کو ناپید کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، جو بدی کو پھیلانے کی طاقت رکھتی ہیں ان کو نا پید کرنے کا کام بھی رب العالمین کا ہے.اور اسی کو زیبا ہے اور اس کے لئے واجب ہے کہ ایسا کرے.پس صفات باری تعالیٰ خواہ وہ غضب کی صفات ہوں یا نا راضگی کی صفات ہوں یا ظاہرا" بھی رحم و شفقت کی صفات ہوں وہ در حقیقت رحمت اور شفقت کی تھی صفات ہیں اور ربوبیت کی ہی صفات ہیں.اس کی ایک اور مثال یہ ہے : وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَيْكَة مِن خِيفَتِه (سورة الرعدة آيت (۱۳) کہ "وعد" اس کی حمد کر رہی ہے یعنی بجلی کے کڑ کے جو آپ بادلوں میں دیکھتے ہیں یہ

Page 109

106 خدا تعالیٰ کی حمد بیان کر رہے ہیں.والمليكة من خيفتہ اور ملا کہ بھی حمد کر رہے ہیں مگر اس کے خوف سے اس کے ڈر سے.اب اگر آپ بجلی کو دیکھیں تو ایک ساده انسان جس کو دنیا کا کوئی بھی علم نہیں ہے وہ بھی اس سے مرعوب ضرور ہو جاتا ہے.بعض دفعہ بجلی کے کڑکے کا ایک ایسا ہیبت ناک جلوہ ہوتا ہے کہ بڑے سے بڑے انسان کا پتہ پانی ہو جاتا اور دل لرزنے لگتا ہے.اگر انسان واقعی ایسے طوفان میں گھر جائے جس کے سائنسی اصطلاح میں بعض خاص نام رکھے گئے ہیں مگر اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں.بعض طوفان ایسی خوف ناک برقی طاقتوں پر مشتمل ہوتے ہیں کہ آنا " فانا وہ بڑے بڑے شہروں کو بھسم کر سکتے ہیں اور ایک ایٹم بم کی طاقت سے بھی کئی گنا زیادہ طاقتیں ان کے اندر ہوتی ہیں.اس لئے اس کا تعلق خوف سے بھی ہے.چنانچہ جب آپ پہلی سادہ نظر میں ایک طوفان کو پھیلی کو اور خصوصا بجلی کے کڑکوں کو دیکھتے ہیں تو آپ کا دل خائف ہو جاتا ہے اور آپ خوف کی وجہ سے خدا کی حمد شروع کر دیتے ہیں.یہ مضمون تو سمجھ آگیا.خوف اس بات کا کہ محملی خیر چھوڑ جائے اور اس کے شر سے ہم محفوظ رہیں جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے نیک وجود ہیں ان کو بھی ملا نکہ کے نام سے موسوم فرمایا گیا اور ملائکہ کے طور پر ان کا بھی ذکر کیا گیا وہ بجلی کو دیکھ کر اس بات کی حمد کرتے ہیں کہ اے خدا ! سب طاقتیں تجھ کو ہیں.بدی سے شر بھی نکال سکتا ہے ، شر سے بدی بھی پیدا کر سکتا ہے.بادل جو رحمت کا پانی لیکر آئے ہیں اور ان کے ساتھ بجلی کے کڑکے بھی لگے ہوئے ہیں لیکن ان بجلی کے لڑکوں سے بھی تو خیر پیدا کر سکتا ہے.پس ہم تیرے حضور عاجزی اختیار کرتے ہوئے تیرے حضور تذلل اختیار کرتے ہوئے تیری حمد کے گیت گاتے ہیں.ہمیں ہر چیز میں تیرا حسن دکھائی دے رہا ہے.یہاں "خيفته " کے ساتھ حسن کے مضمون کو باندھ دیا گیا یعنی صرف بجلی کا خوف نہیں ہے.بجلی کے خوف پر جب خور ہوا تو پتہ لگا کہ اس کے اندبہ بہت سے حسن چھپے ہوئے ہیں.بہت سی خوبیاں چھپی ہوئی ہیں.یہ مضمون غور کرنے کے بعد اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ خدا کی تخلیق میں، ہر چیز میں حمد ہی حمد ہے تو

Page 110

107 بجلی سے پہلے خوف پیدا ہوا اور انسان ڈر گیا اور لرزنے لگا.پھر مزید غور کیا تو اس کو پتہ چلا کہ خدا محض ڈرانے والی باتیں تو نہیں کیا کرتا.محض ہلاکت پیدا کرنے والی چیزیں تو نہیں پیدا کیا کرتا.اگر کوئی ایسی چیز ہمیں دکھائی دیتی ہے تو اس کے اندر ضرور کوئی چھپی ہوئی خیر ہے اور اس کی خیر اس کے ظاہری شریر یقیناً غالب ہے.اس مضمون کو وہ تفصیل سے خواہ نہ بھی سمجھ رہا ہو لیکن اگر الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کے مضمون کو سمجھتا ہے تو لازما " اس کے دل میں بجلی کے لڑکوں کو دیکھ کر بھی خوف کے بعد حمد کا مضمون پیدا ہو گا اور وہ من جملہ اس حقیقت کا اعتراف کرے گا کہ خدا کے ہر جلوے میں حسن ہے خواہ وہ جلوہ بظاہر ایک نہایت ہی خوف ناک منظر پیدا کر رہا ہو.ایک دل ڈرانے والا اور ہول پیدا کرنے والا جلوہ دکھائی دیتا ہو اس کے اندر حمد ضرور بجلی کے کڑکے میں حمد کے بے شمار پہلو اب آپ مزید غور کریں کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے علم عطا فرمایا ہے وہ بجلی کے مضمون پر غور کریں تو ان کی حمد نسبتا زیادہ حمد کی مستحق حمد ہوگی.یہ مضمون بیان کرنا ذرا مشکل تھا.اس لئے مجھے سمجھانے میں وقت لگا.حمد تو ہر حالت میں خدا ہی کو واجب ہے اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن کس حد تک ہمیں علم ہے کہ وہ حمد کا مستحق ہے.یہ مضمون اس کی حمد میں مزید وسعت پیدا کر دیتا ہے پس مکملی کو دیکھنے والا ایک سادہ لوح زمین دار یا ایک بچہ بھی کچھ نہ کچھ اس سے مرعوب ہو کر خدا کی حمد کے گیت گا سکتا ہے اور انہیں معنوں میں گا سکتا ہے کہ اچھا اور کچھ نہیں تو اے خدا! تو ہی اس بیلٹی کا مالک ہے مجھے بچالے اور یہی میری حمد ہے.لیکن جتنا زیادہ علم بڑھے گا اتنا زیادہ بجلی سے تعلق رکھنے والا حمد کا مضمون بھی پھیلتا چلا جائے گا.اب دنیا کے سائنس دانوں نے بجلی پر جو غور کیا ہے تو ایک بات اس میں بڑی قطعی ہے جو عام لوگوں کو معلوم نہیں کہ بجلی کے بغیر پانی برس ہی نہیں سکتا.پس ایک سادہ لوح بے علم آدمی کی حمد بھی اپنی توفیق کے مطابق چونکہ حمد کے جذبے سے بیان کی گئی ہے اس لئے خدا کو مقبول ہوگی لیکن اس کی حمد میں وہ لذت نہیں پیدا ہو سکتی جو لذت اس مضمون کا علم رکھنے والے کی حمد میں ہوگی

Page 111

108 اگر اس کو خدا سے تعلق ہو.یہ پانی جو بخارات بن کر آسمان پر چلا جاتا ہے، اگر بجلی نہ ہوتی تو یہ کبھی پانی بن کر دوبارہ زمین پر واپس نہ آتا.یہ عملی کے کڑکے ہیں جو پانی کے باریک ذرات کو مجتمع کر دیتے ہیں اور بھاری بنا دیتے ہیں اور پھر وہ پانی ودق" کی طرح نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے.یہ ویسا ہی ہے جیسے بجلی سے انسان مرجاتے ہیں.اس لئے وہ مرتے ہیں کہ ان کے خون میں جو لٹکے ہوئے ذرات ہیں وہ بجلی کے گزرنے سے مجتمع ہو کر CLOTS بن جاتے ہیں اور تبھی بھلی لگے ہوئے انسان کا رنگ کالا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ خون جم کر سیاہ ہو جاتا ہے تو پانی جمانے کے لئے بھی بھلی چاہیئے.اور وہ باریک ذرے جو ہمیشہ ہوا میں معلق رہ جاتے ہیں یہ بجلی کے کڑکے ہی ہیں جو انہیں اکٹھا کرتے ہیں اور پھر وہ بھاری ہو کر زمین پر گرنا شروع ہو جاتے ہیں تو "رعد" کی پھر یہ تعریف ہے.فرشتوں نے تو اپنے طور پر تعریف کی لیکن مضمون کی گہرائی میں نہیں اتر سکے."رعد" خود جانتی ہے کہ میں کیا چیز ہوں.فرمایا : ويسبح بحمدہ عمل کا ہر کڑ کا اپنے رب کی حمد کر رہا ہے.کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ بھی فرشتوں کی طرح اچھے کاموں پر مامور ہے.اور اس کے نتیجے میں بہت سے بنی نوع انسان کو فوائد حاصل ہو رہے ہیں.پھر اس مضمون پر آپ مزید غور کریں تو یہ معلوم کر کے آپ حیران ہوں گے کہ دنیا کی زرخیزی کا براہ راست بجلی سے تعلق ہے.پس ایک سادہ لوح انسان کم علم انسان تعریف تو کرتا ہے لیکن اس تعریف میں ڈر زیادہ شامل ہوتا ہے.بجلی کا رعب زیادہ شامل ہوتا ہے.حقیقت کا علم اس کو نہیں ہوتا لیکن بجلی خود اپنی حقیقت کو ان معنوں میں جانتی ہے کہ جس طرح انسان خود اپنے نفس کو جانتا ہے، اسی طرح کا رخانہ قدرت بھی خود اپنے آپ کو جانتا ہے لیکن اس میں ایک اور بات داخل ہے کہ ہوا میں جو نائیٹروجن پائی جاتی ہے، یہ نائیٹروجن روئیدگی کے لئے بڑی ضروری ہے اور جتنے بھی کھیتوں میں ختلف قسم کے کیمیاء زرخیزی بڑھانے کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں.ARTIFICIAL FERTILIZERE ہوں یا مختلف قسم کی گلنے سڑنے کے نتیجے میں پیدا

Page 112

109 ہونے والی کھادیں ہوں ان سب میں جزو اعظم نائیٹروجن ہوتی ہے.اب فضا میں جو ائیٹروجن تحلیل ہو کر ہمارے ہاتھوں سے یا نباتات کے ہاتھوں سے نکل چکی ہوتی ہے سے دوبارہ زمین میں لانے کے لئے بجلی کے کڑکے ضروری ہیں چنانچہ وہ پانی جو آسمان سے بڑاتا ہے.بجلی صرف اس پانی کو بنانے کا کام نہیں دے رہی ہوتی بلکہ اس میں نائیٹروجن تحلیل کرنے کا کام بھی دے رہی ہوتی ہے.آسمان پر یہ کارخانہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے کہ اگر غذا ساتھ نہ ہو تو خالی پانی کا کیا فائدہ؟ تو آسمان سے جو پانی برستا ہے وہ اپنی غذا بھی ساتھ لے کے آتا ہے، سبھی آپ نے دیکھا ہو گا کہ دس پانی کنویں کے دیں مگر آسمان سے برسنے والا ایک پانی کھیت کی جو حالتیں بدلتا ہے اور اس میں جو ایک نئی تازگی پیدا کر دیتا ہے اس پر دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہو سکتا.یعنی زمینی پانی اس میں کوئی شک نہیں کہ فائدہ ضرور دیتا ہے.بعض جگہوں کے پانی ذرخیز بھی ہوتے ہیں لیکن بارش کے ذریعے اگر نائیٹروجن دوبارہ زمین کو نہ ملتی تو یہ زمین اب تک ویرانہ ہو چکی ہوتی.بجلی کے لڑکوں کے ذریعہ اتنی زیادہ نائیٹروجن بنتی ہے کہ بعض سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ساری دنیا میں جو کارخانے نائیٹروجن بنا رہے ہوتے ہیں ان سے کہیں زیادہ نائیٹروجن بجلی کے لڑکوں کے ذریعے ایک دن میں بنتی ہے اور پھر پانی میں تحلیل ہو کر دوبارہ مٹی کو ملتی ہے، تو اب دیکھ لیں يُسبحُ الرَّعْدُ يَعْمرہ میں کیسا عجیب ایک اور مضمون داخل ہو گیا.عام آدمی سمجھتا ہے کہ یہ جلانے کے لئے یا ہلاک کرنے کے لئے ہے.غور کیا تو پتہ چلا کہ یہ جلانے اور ہلاک کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ روئیدگی پیدا کرنے کے لئے اور بڑھانے کے لئے اور نشو و نما کی خاطر ہے.پس اس کی ہلاکت بھی معنی رکھتی ہے اور وہ بھی فائدے ہی کے لئے ہے مگر یہ ایک ECOSYSTEM کا مضمون ہے جس کو تفصیل سے یہاں بیان کرنا ممکن نہیں.لطف کی بات یہ ہے کہ اس کا جو حصہ چلانے کے کام آتا ہے وہ بھی عظیم بر فوائد کی خاطر ہے.زندگی کا آغاز بجلی کے کڑکے سے ہوا یہ تو زندگی کو سہارا دینے کا مضمون ہے یعنی ربوبیت کا وہ مضمون جو زندگی پیدا ہونے کے بعد جاری ہوتا ہے.پس يُصبح الرعد میں دیکھیں خدا تعالٰی نے کیا

Page 113

110 کیا باتیں ہمیں دکھائیں لیکن اس کا تعلق زندگی کے آغاز سے بھی ہے.وہ تمام سائنس دان جنہوں نے زندگی کی پیدائش پر غور کیا ہے اور دنیا میں لاکھوں سائنس دان ہیں جن کے دن برات اس بات پر وقف ہیں وہ یہ معمہ حل کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب بھی کر رہے ہیں کہ زندگی کا آغاز کیسے ہوا تھا.اس بات پر وہ سب بہر حال متفق ہو چکے ہیں کہ اگر غیر معمولی طور پر طاقت در آسمانی بجلیاں سمندری پانیوں پر نہ گر تھیں تو زندگی کا وہ مادہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا تھا جس سے آگے زندگی نے وجود پکڑنا تھا.وہ اینٹیں نہیں بن سکتی تھیں جن سے زندگی نے تعمیر ہوتا تھا.میں يُسَبِّحُ الرعد بحمده کا مضمون صرف موجودہ زمانے سے نہیں آئندہ زمانوں سے نہیں بلکہ ابتدائے آفرینش سے بھی ہے یعنی ابھی زندگی وجود میں ہی نہیں آئی تھی تو بجلی گویا ہم پر ہنس رہی تھی کہ بے وقوفو! تم مجھے سمجھا کرو گے کہ میں تو جلانے اور ہلاک کرنے والی چیز ہوں حالانکہ میری وجہ سے زندگی کا آغاز ہوا ہے.مجھے ندا نے تمہیں پیدا کرنے کے لئے اور کائنات میں ہر قسم کی زندگی کی صورتیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا ہے تو دیکھیں اللہ تعالیٰ کی کیا شان ہے.صرف ایک آیت کے ایک حصے پر کچھ غور کریں تو آپ کو خدا تعالی کی کتنی صفات دکھائی دیں گی اور پھر انسان بعض دفعہ یہ سوچتا ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ سورۂ فاتحہ میں خدا تعالٰی کی نثار کے صفات کا ذکر ہو حالانکہ يُسيح الرعد عمر میں جن علوم کی طرف اشارہ ہے جن صفات حسنہ کی طرف اشارہ ہے، جن کے بغیر يُسب الزَّعْدُ بِحمدِ کا مضمون پیدا ہی نہیں ہوتا وہی ننانوے سے زیادہ ہیں بلکہ اگر آپ غور کریں تو نتانوے ہزار (۹۹۰۰۰) سے بھی زیادہ دکھائی دیں گی.سورہ فاتحہ ایک عظیم نعمت ہے پس یہ سورۃ فاتحہ ہے جس کو آپ غور سے سمجھنے کی کوشش کریں اور اس مضمون کو اپنے دل پر جاری کریں.اس میں ڈوبنے کی کوشش کریں.اسے کشتی بنائیں اور اس میں ذات باری تعالیٰ کی سیر کریں تو یہ وہ سفینہ ہے جو ایک بے کنار سمندر میں ہمیشہ ہمیش کے لئے سفر کرتا رہے گا اور کبھی آپ کو کوئی کنارہ دکھائی نہیں دے گا.پس اللہ تعالٰی نے سورۂ فاتحہ جیسی نعمت جس قوم کو عطا فرما دی ہو وہ بہر حال یہ نہیں کہہ سکتی کہ اے

Page 114

111 خدا! عبارت تو تو نے فرض کر دی اور کم سے کم پانچ وقت روزانہ کے لئے فرض کردی لیکن ہمیں یہ نہ بتایا کہ اس عبادت کو کس طرح لذت سے بھریں کیونکہ سورۂ فاتحہ نے ب کچھ سکھایا ہوا ہے اور یہ تو بہت محدود ساذکر ہے.بے شمار ایسے راز ہیں جو سورۂ فاتحہ میں خزانوں کی طرح دفن ہیں.آپ ان کو پاتے چلے جائیں، ان پر غور کرتے چلے جائیں خدا ان کو ظاہر فرماتا چلا جائے گا.ہم اپنے غور سے نہیں پاسکتے مگر دل کو جتنا پاک کرتے چلے جائیں گے اللہ تعالٰی خود آپ پر یہ مضامین ظاہر فرماتا چلا جائے گا.لا يمسه إلا المُطَهَّرُونَ (سورة الواقعه : آیت (۸۰) کے مضمون کو پیش نظر رکھیں کہ سوائے ان لوگوں کے جن کو خدا پاک کر دیتا ہے کوئی قرآن کریم کے مضامین کو چھو نہیں سکتا.پس کسی چالا کی کی ضرورت نہیں ہے.انسانی ذہن مختلف قسم کے ہیں.کوئی زیادہ قابل کوئی کم قابل کوئی زیادہ عالم کوئی کم عالم لیکن سورہ فاتحہ کے مضمون کو سمجھنے کے لئے دل کے پاک ہونے کی ضرورت ہے اور دل کلیتہ " پاک ہو نہیں سکتا سوائے اس کے کہ اللہ تعالی پاک کرے اور جتنا پاک کرے وہی کرے.تو قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ لا يَمَسُّة إِلَّا الْمُطَهَرُونَ کہ صرف پاک لوگ اس کتاب کے مضمون کو چھو سکتے ہیں بلکہ فرمایا : لا يَمَةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ وہی لوگ اس کے مضمون کو چھو سکتے ہیں جنہیں پاک کیا جاتا ہے اور پاک کرنے والا خود خدا ہے.پس جتنا آپ سورہ فاتحہ کے مضمون پر غور کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے ، تان اس بات پر ٹوٹے گی کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا! ہم نے خوب سیر کی خوب لطف اٹھائے لیکن بہت کچھ دیکھنا باقی ہے اور جو کچھ دیکھا اس سے فائدہ اٹھانا باقی ہے.اسے مستقلاً اپنے وجود کا حصہ بنالیتا باقی ہے.پس اناكَ نَعْبُدُ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں.دَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں.پھر مختلف نظاروں کے ساتھ ہی نہیں، مختلف اوقات کے ساتھ بھی سورۂ فاتحہ کا مضمون بدلتا چلا جاتا ہے اور خدا کی حمد مختلف سورتوں میں ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہے.فرمایا : سَيْحَ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا (سورۃ ڈرا : آیت (۱۳۱) کہ اللہ کی حمد اس کی پاکیزگی بیان کرتے ہوئے کیا کرو.

Page 115

112 قبل طلوءِ الشمیں سورج نکلنے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے.یہ دو مختلف بدلتی ہوئی حالتیں ہیں ان سب کا تعلق ربوبیت کے ساتھ ہے کہ سبح بحمدِ ريك فرمایا.اس مضمون کو بھی سائنس دانوں نے جتنا کھنگالا ہے اتنا ہی اس کے پیچھے ان کو عظیم معرفتوں کے خزانے دکھائی دیتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورج کا نکلنا اور سورج کا غروب ہونا اور وہ نظام جس کے ساتھ سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کا تعلق ہے، یہ زندگی کی سپورٹ (SUPPORT) کے لئے اور زندگی کو یہاں قائم رکھنے کے لئے انتہائی ضروری ہے.اگر سورج کا یہ نکلتا اور غروب ہونا نہ ہوتا تو اس کرہ ارض پر زندگی پیدا ہو ہی نہیں سکتی تھی.زندگی پیدا ہو بھی جاتی تو مرجاتی اور اس کے باقی رہنے کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا.اب یہ جو فرمایا که سیخ بحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا تو اس میں غور کرنے کی کھڑکیاں ہمارے سامنے کھول دیں.فرمایا کہ موسموں کے بدلنے پر غور کرو.دن اور رات کے بدلنے پر غور کرو.انکی بدلتی ہوئی نسبتوں پر غور کرو اور یہ معلوم کرو کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے وہ کیا تغیرات برپا ہو رہے ہوتے ہیں جو ربوبیت کے جلوے تم تک پہنچانے میں مددگار ہوتے ہیں یا جن کے ذریعے ربوبیت اس دنیا میں جلوہ گر ہوتی ہے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کون سے تغیرات لازم ہوتے ہیں جو سورج کو غروب کرنے پر مجبور کرتے ہیں ورنہ زندگی اس دنیا میں باقی نہ رہ سکتی اور ربوبیت کا نظام درہم برہم ہو جاتا.پس سورج کے طلوع سے بھی ربوبیت کا ہے اور سورج کے غروب سے بھی ربوبیت کا تعلق ہے اور وقت کے بدلنے کے ساتھ ربوبیت مختلف رنگ میں جلوہ گر ہے.اب جیسا کہ میں نے اشارہ آپ کو بتا دیا ہے کہ سائنس دانوں نے اس مسئلے پر بھی غور کیا ہے اور تمام دنیا کے سائنس دان جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں اس بات پر متفق ہیں کہ موسموں کے ادلنے بدلنے اور دن کے اولنے بدلنے کا زندگی کے ساتھ اتنا گہرا رابطہ ہے اور زندگی کے قائم رہنے اور اس کی ترقی کے ساتھ اتنا گہرا رابطہ ہے کہ اس میں اگر آپ تھوڑ سا تغیر و تبدل بھی کر دیں تو یہ رابطے ٹوٹ جائیں اور یہ کرہ ارض جس پر ہم بستے ہیں یہ زندگی کے بہانے کے

Page 116

113 لائق نہ رہے.میں الحمد لله رب العلمین میں ان تمام صفات حسنہ کا بھی ذکر آگیا جن کا موسموں کے تغیر و تبدل سے تعلق ہے اور موسموں کے تغیر و تبدل کے ساتھ بہت گہرے مضامین وابستہ ہیں.بے شمار صفات کا اس سے تعلق ہے تو اپنے علم کے مطابق ہم ربوبیت کے نئے مضامین پر اطلاع پا سکتے ہیں اور جتنا ہم علم بڑھائیں گے اتنا ہی زیادہ ہم دنیا میں خدا تعالی کی سیر کریں گے.دنیا کی سیر کر کے خدا کے مزے اٹھائیں سیر فی اللہ جو صوفیوں کی اصطلاح ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ کی ذات میں سیر کرو.باہر کی سیر تو ایک سیر ہوتی ہی ہے لیکن اس سیر کا فائدہ کوئی نہیں.سیروا في الارض کا کوئی فائدہ نہیں اگر انسان ”سیر فی اللہ کے لائق نہ بن سکے.پس دنیا کی سیر کریں لیکن مزے خدا کے اٹھائیں.اگر دنیا کی سیر کر کے دنیا ہی کے مزے اٹھا کر رہ جائیں گے تو آپ کی ساری زندگی بیکار جائے گی.یہ وہ مضمون ہے جو سورۂ فاتحہ ہمیں سکھاتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنی نماز میں آپ سورہ فاتحہ کے اس پہلے جزو پر ہی غور کرنا شروع کریں تو ساری زندگی کی نمازیں لذت سے بھر سکتی ہیں اور آپ اس مضمون پر عبور نہیں حاصل کر سکتے.یہ مضمون ہمیشہ آپ پر غالب رہے گا.

Page 117

Page 118

115 بیت الفضل - لندن ۲۲ مارچ ۱۹۹۱ء پشمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ سب سے سچا آئینہ تشہیر و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- سورۂ فاتحہ سے متعلق گزشتہ چند خطبوں میں ذکر چلتا رہا ہے کہ کس طرح یہ نماز کا سلیقہ سکھاتی ہے.عبادت کے گر بتاتی ہے.اللہ تعالٰی سے تعلق کا ذریعہ بنتی ہے اور پھر بنی نوع انسان سے تعلق کا بھی ذریعہ بنتی ہے.اس لئے اس سورۃ پر محض سرسری نظر نہیں ڈالنی چاہیے بلکہ ہر نماز میں پڑھتے وقت بڑے غور سے اس کے مضامین سے گذرتا چاہیے اور انہیں اپنے نفس پر ساتھ ساتھ اطلاق کرتے چلے جانا چاہیے اور سورۂ فاتحہ کے آئینے میں اگر انسان اپنی تصویر دیکھنے کی عادت ڈال لے تو اس سے بہتر آرائش کا اور کوئی ذریعہ سوچا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ سب سے سچا آئینہ ہے.اس سے بہتر حق کے ساتھ آپ کو آپ کی تصویر دکھانے والا اور کوئی آئینہ نہیں.اس ضمن میں الحمد کا جو مضمون پہلے بیان ہو تا رہا ہے اس میں میں نے بڑی وضاحت کے ساتھ جماعت کو یہ سمجھایا تھا کہ ہم کہتے تو یہ ہیں کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ یعنی تمام ترجمہ کلیتہ " ہر قسم کی کامل محمد صرف اللہ ہی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں اور جو حمد کسی کو نصیب ہوتی ہے وہ اللہ ہی کی طرف سے ملتی ہے.اس ضمن میں میں نے دنیا کے روز مرہ کے مشاہدات آپ کے سامنے رکھے اور سمجھایا کہ کہتے تو ہم یہی ہیں لیکن بالعموم روز مرہ کی زندگی میں خدا کی تخلیق کی حمہ میں تو ڈوب جاتے ہیں لیکن خالق کی حمد کا ہمیں خیال نہیں رہتا.پھول سے محبت کریں گے.گلشن سے محبت کریں گے.اچھے مکانوں سے محبت کریں گے حسن سے محبت کریں گے خواہ وہ

Page 119

116 بے جان حسن ہو یا جاندار حسن ہو - رعب اور طاقت سے محبت کریں گے مگر ان کے پیچھے جو ذات جلوہ فرما ہے اس کا دھیان روز مرہ کی زندگی میں انسان کو نہیں آتا تو ایسا انسان جب پانچ وقت یا اس سے بہت زیادہ مرتبہ ہر نماز میں کئی رکھتوں میں الحمد يا رب العلمین کا اقرار کرتا ہے اور اثبات کرتا ہے تو اس اثبات اور اقرار میں کوئی خاص حقیقت نہیں ہوتی.باوجود اس کے کہ وہ یہ کہنے میں جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا لیکن یہ آواز اس کی روز مرہ کی زندگی کا مظہر نہیں.اس کی روز مرہ کی زندگی کی تصویر نہیں کھینچ رہی.حمد کی راہ میں سب سے بڑی روک اس ضمن میں آج خصوصیت کے ساتھ اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں مجھے یاد نہیں کہ پہلے اس مضمون پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی کہ نہیں) کہ خدا تعالیٰ کی حمد کی راہ میں سب سے بڑی روک نفس انسانی کی طرف سے پیدا ہوتی ہے اور سب سے بڑا بت ہر انسان کے اندر موجود ہے کیونکہ باہر کی دنیا کی حمد میں انسان غفلت کے نتیجے میں بسا اوقات خالق کی حمد سے غافل ہو جاتا ہے لیکن نفس کا بت ایسا ہے جو باقاعدہ شرک کے خیالات پیدا کرنے والا ہے اور اس سے بڑا اور کوئی بت نہیں جو خدا کے مقابل پر الوہیت کا دعوی کرے اور اگر آپ روز مرہ کی زندگی میں اپنے نفوس کا اپنی نیتوں کا تجزیہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ موحد ہوتے ہوئے بھی بسا اوقات جب آپ الحمد للہ رب العلمین کہتے ہیں کہ تمام ترحم صرف اللہ ہی کے لئے ہے تو دل کے گوشے سے ایک آواز اٹھتی ہے.الْحَمْدُن - الْحَمْدَى - سب حمد تو میرے لئے ہے اور میرے لئے ہے.چنانچہ یہ آواز اگر چہ ہر انسان کو اس طرح سنائی نہیں دیتی کہ وہ اسے محسوس کرے اور اس لئے وہ اس آواز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا لیکن فی الحقیقت یہ آواز ہے جو روز مرہ کے تجارب میں انسان اگر توجہ سے کوشش کرے تو سن سکتا ہے.مثلاً ایک اچھی آواز والا گویا ہے.جب وہ مجمع کے سامنے بہت خوبصورت آواز میں خوش الحانی کے ساتھ نظم پڑتا ہے تو وہ واد جو اس کو ہر طرف سے ملتی ہے اس کو اپنے نفس میں اس قدر مطمئن کر رہی ہوتی ہے، اس قدر اسکو لذت عطا کر

Page 120

117 رہی ہوتی ہے کہ اس وقت اس کا خدا خود اس کا نفس بن چکا ہوتا ہے اس کا ذہن کبھی اس طرف نہیں جاتا یا یہ کہنا چاہئیے کہ اکثر نہیں جاتا کہ یہ آواز کیسے پیدا ہوئی؟ کس نے اس کو عطاء کی؟ اس کی ذاتی کوشش کا اس میں کتنا دخل ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عطاء کا کتنا دخل ہے؟ اگر اس مضمون کی طرف توجہ مبذول ہو تو ہر گوتیے کی خود اپنی نظر میں کوئی بھی حیثیت باقی نہ رہے.ایک ایسے خاندان میں پیدا ہونا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اچھا گلا عطا کیا گیا ہو.ایسے ماحول میں پیدا ہونا جہاں آواز کو مزید مانجھ کر اور صیقل کر کے زیادہ خوبصورت اور دلکش بنایا جا سکتا ہو یعنی ایسے ذرائع مہیا ہونا.ان بیماریوں سے پاک رہنا جو گلے کو خراب کرتی ہیں اور آواز کو تباہ کر دیتی ہیں.یہ ساری باتیں بھی قابل غور ہیں مگر سطحی ہیں.ان سے اور نیچے اتر کر جب آپ صوتی نظام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ کس طرح ہر انسان کے گلے میں خدا تعالیٰ نے ایک صوتی نظام قائم فرمایا ہوا ہے جو اربوں سال کے عرصے میں ترقی کر کے یہاں تک پہنچا ہے اسے مانجھنے اور میٹل کرنے اور اسے چپکانے اور اس کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے میں ہزار ہا زندگی کی نسلیں اس سے پہلے اپنے اپنے دور طے کرنے کے بعد ماضی کا حصہ بن گئیں اور کسی کو علم نہیں کہ ان تجارب میں جو قدرت نے ان کے ساتھ کئے کیا کیا کاروائیاں آواز کے نظام کو مکمل کرنے کے لئے کی گئیں.جو جاندار ہمیں آج دکھائی دیتے ہیں ان کی زندگی کا آغاز سے لے کر اب تک کا مطالعہ بھی ہمیں بہت کچھ سبق دیتا ہے اور انسان یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح آواز کا آغاز ہوا حالا نکہ اس سے پہلے یہ کائنات بالکل خاموش تھی.زندگی موجود تھی لیکن زندگی کا ایک جزو زندگی کے دوسرے جزو تک آواز کے ذریعہ نہیں پہنچ سکتا تھا.یہ مضمون پہلے بھی میں نے اس حد تک بیان کیا ہے لیکن اب میں اس تعلق میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہر وہ شخص جس کو خدا تعالیٰ نے اچھی آواز عطا کی ہے، اگر اس کا ذہن ان چیزوں کی طرف کبھی منتقل نہ ہو اور ہمیشہ اپنی ہی تعریف میں ڈوب جایا کرے تو اس کے دل سے ایک بت پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جو مزید طاقت ور ہوتا چلا جائے گا اور اس کے باقی وجود پر بھی قابض ہو جائے گا کیونکہ شرک کا بت اپنے دائرے تک

Page 121

118 محدود نہیں رہا کرتا بلکہ پھیلتا ہے اور بڑھتا ہے اور زیادہ طاقت ور ہوتا چلا جاتا ہے.اسی طرح ایک اچھا مقرر ہے جب وہ بہت اچھی تقریر کرتا ہے اور داد پاتا ہے یا ایک اچھا شاعر ہے جسے خدا توفیق دیتا ہے کہ اپنے خیالات کو نہایت لطافت کے ساتھ شعروں کو خوبصورت کوزوں میں بند کر کے دنیا کے سامنے پیش کرے تو عموماً یہی مضمون دو ہرایا جاتا ہے جس کا میں پہلے آواز کے سلسلے میں ذکر کر چکا ہوں.ہر صلاحیت اللہ کی عطا کردہ ہے ایک اچھا مصور ہے.ایک اچھا معلم ہے.ایک اچھا مناع ہے غرضیکہ انسان کے اندر خدا تعالٰی نے جتنی صلاحیتیں پیدا فرمائی ہیں خواہ وہ جسمانی ہوں ، علمی عقلی ہوں یا قلب سے تعلق رکھنے والی ہوں ان سب پر میمی مضمون صادق آتا ہے کہ ہر انسان بالاخر اپنی مدح میں ڈوب جاتا ہے اور ایسا شخص جب بار بار خدا کے حضور یہ اقرار کرتا ہے کہ الْحَمْدُ لله رب العلمین.تو اس کی روز مرہ کی زندگی کا اس اقرار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس جب نماز پڑھتے ہوئے آپ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعُلَمِينَ کہتے ہیں تو اس آئینے میں اپنی صورت دیکھا کریں اور غور کیا کریں کہ آپ کے روز مرہ کے زندگی کے تجارب میں کتنی مرتبہ عملاً آپ نے واقعی حمد خدا ہی کے حضور پیش کردی.جو حمد بنی نوع انسان نے آپ کے حضور پیش کی آپ نے اسے اپنا نہیں سمجھا بلکہ کامل عاجزی اور انکسار کے ساتھ التَّحِيَاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتِ کہتے ہوئے اس حمد کو خدا ہی کے حضور پیش کر دیا کیونکہ سب تھے اس کے حضور پیش کرنے کے لائق ہیں اور خود اس حمد سے خالی ہو گئے.اگر آپ ایسا کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرلیں تو آپ کا دل حمد سے خالی نہیں رہے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس حمدہ کو ہمیشہ پڑھا کر واپس کرتا ہے جو اس کے حضور پیش کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں انسان واقعی لائق حمد بننا شروع ہو جاتا ہے.پھر جو اس کی حمد کی جاتی ہے وہ خدا کی آواز کے ساتھ حمد کی جاتی ہے.خدا کی آواز دلوں میں حرکت پیدا کرتی ہے.خدا کی آواز ذہنوں پر قابض ہوتی ہے اور بنی نوع انسان سے ایسے شخص کی حمد کے جو گیت اٹھتے ہیں وہ اسے محمود اور محمد بنا دیتے ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا نام

Page 122

119 محمد رکھنے میں یہ ایک بہت بڑی حکمت تھی کہ آپ نے اپنی تمام حمد ساری زندگی ہمیشہ کلیه " خدا کے حضور پیش کی اور آپ ہمیشہ حمد سے خالی ہوتے چلے گئے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالٰی نے آپ کو محمد بنا دیا.پس احمد محمد میں تبدیل ہوتے ہیں اگر وہ خالص ہوں اور بچے ہوں اور مخلص ہوں اور احمد کے طور پر خدا کی حمد کریں اور اپنا بت پیچ میں حائل نہ ہونے دیں.اس نقطہ نگاہ سے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعلمین کا مضمون انسانی تربیت کا ایک بہت ہی لمبا سلسلہ ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور یہ سلسلہ ساری زندگی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ مضمون ایسا باریک ہے اس کے بعض پہلو انسانی نظر سے ایسے مخفی رہتے ہیں کہ ساری زندگی کی محنت اپنے آپ کو اپنی حمد سے پاک کرنے کے لئے درکار ہے اور اس کے باوجود بھی انسان اس مقام محمود کو حاصل نہیں کر سکتا جو خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے.اس لئے دعا کے ساتھ مدد مانگتے ہوئے انسان کو نفس کا یہ جہاد ہمیشہ جاری رکھنا چا ہیے.جو انسان اپنی محمد کا عادی ہو وہ اکثر اوقات فرح منٹور بھی ہو جایا کرتا ہے.اس کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر بے حد خوش ہونے کی عادت پڑ جاتی ہے اور تعلی کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے فرح کے مضمون کو حمد کے ساتھ یعنی انسان کی جھوٹی محمد کے ساتھ باندھ کر پیش فرمایا ہے.اس کا میں آگے جاکر ذکر کروں گا، لیکن اس کے نظارے آپ نے بسا اوقات کھیلیوں کے میدانوں میں بھی دیکھے ہونگے کہ کبڈی کا ایک کھلاڑی ہے وہ کسی اچھے مضبوط کھلاڑی کو پنجابی میں جس کو دھول" کہتے ہیں ارد میں پتہ نہیں.دھول دھپا تو خیر اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے) ایک دھول لگا کر گراتا ہے اس کے شکنجے سے نکل کر واپس بھاگتا ہے تو عجیب و غریب حرکتیں کر رہا ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ ہاتھ اونچے کر کے دونوں انگلیاں کھڑی کر دیتا ہے.بعض دفعہ منہ سے آوازیں نکالتا ہے کہ میں نے کمال کر دیا ہے.بعض دفعہ وہ چھاتی پر ہاتھ مارتا ہے.اس طرح فٹ بال کے میدان میں بھی جب بھی کوئی شخص گول کرتا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کس طرح عجیب و غریب حرکتیں کرتا اور اچھلتا کودتا اور فخر و مباہات کے اردو

Page 123

120 اظہار کے لئے اپنے جسم کو مختلف شکلیں دیتا ہے.بعض آوازیں نکالتے ہیں.بعض خاموش اظہار کرتے ہیں.یہ جو مناظر ہیں یہ نمایاں طور پر آپ کی نظر کے سامنے رہتے ہیں اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کسی حد تک حمد کا پیاسا ہے اور یہ پیاس اس کو مجبور کر دیتی ہے کہ جہاں حمد کے چند قطرے میں انکو نہ صرف پیسے بلکہ فخر سے اظہار کرے کہ ہاں آج میری پیاس بجھ گئی.یہ واقعات روز مرہ کی زندگی میں ہم سے ہو رہے ہوتے ہیں جب ہم دوسروں کو دیکھتے ہیں تو دکھائی دیتے ہیں.جب اپنے اوپر نظر ڈالتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے.پس اس لئے اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ اپنے اندر حمدہ چاہنے کا جذبہ اس طرح دکھائی نہیں دے گا جیسے دوسرے کا حمد چاہنے کا جذبہ آپ کو دکھائی دیتی ہے.دوسرے کی تعلی پر آپ کو بعض دفعہ ہنسی بھی آجاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تھی آپ کا نفس روزانہ کرتا ہے اور کرتا چلا جاتا ہے اور کوئی آنکھ اس کو دیکھتی نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جذبہ جب آگے بڑھتا ہے تو پھر ایسی حمد کا بھی انسان طالب ہو جاتا ہے جو ظاہری طور پر بھی اس کو نہیں ملنی چاہئیے.یعنی حمد کے بعض قصے تو یہ ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس میں انسان نے ایک اچھا کام ضرور کیا ہے لیکن وہ اچھا کام خود اس کی ذاتی توفیق سے ایسا متعلق نہیں تھا جتنا اللہ تعالیٰ کی بے انتہاء عنایات سے تعلق رکھتا تھا.اس کا اس موقعہ پر اس بات کو بھلا دینا یا یہ اہمیت نہ رکھنا کہ اپنے اچھے فعل کے پیچھے خدا کے ہاتھ دیکھے اور خدا کی تخلیق کے ان گنت کرشموں کا نظارہ کرے تو یہ چیز جو ہے یہ ایک حد تک سمجھنے کے لائق ہے اور سمجھانے کے لائق ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسان صرف اسی بات پر راضی نہیں ہوتا ہمیں ٹھر نہیں جاتا.فرمایا : لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا آتَوا وَيُحِبُّونَ أَن يُعْمَدُوا بِمَا لَمْ يفعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم (سورة آل عمران (۱۸۹) کہ تو ہر گز یہ گمان نہ کر کہ وہ لوگ جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر اتراتے ہیں.جو کچھ گل وہ

Page 124

121 کھلاتے ہیں ان پر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں.جو کوئی اچھا کام کیا یا کسی قسم کا بھی ایسا کام کیا جو کم سے کم اس کی نظر میں قابل تعریف ہو تو اس پر وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اترانے لگ جاتے ہیں.وَيُحِبُّونَ أَن يُعْمَدُوا بِما لم يفعلوا اس کے ساتھ وہ اس بیماری میں ضرور مبتلا ہوتے ہیں کہ جو کام وہ نہیں کرتے ان کے لئے بھی تعریف کے خواہاں ہو جاتے ہیں.اور جب یہ بیماری بڑھکر اس مقام تک پہنچ جاتی ہے تو فلا تحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ پھر یقین رکھ کہ یہ لوگ عذاب سے محفوظ نہیں ہیں.وَلَهُمْ عَذَاب آینہ اور ان کو درد ناک عذاب میں مبتلا کیا جائے اس جھوٹی تعریف کی تمنا بالآخر شرک بن جاتی ہے مضمون کا تعلق یقیناً آخرت سے ہے لیکن یہ غلط ہے کہ اس دنیا سے نہیں کیونکہ تعریف کی پیاس جب اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ انسان ان چیزوں پر بھی تعریف کی تمنا ر کھنے لگ جاتا ہے، تعریف کروانے کے لئے اس کے دل میں پیاس لگ جاتی ہے جن چیزوں میں اس کا کوئی بھی حصہ نہیں ہو تا یعنی کام کسی اور نے کیا اور تعریف اس نے اپنی کرنی شروع کروادی.یہ بات بھی آپ روزمرہ کی زندگی میں ہر گھر میں مشاہدہ کرسکتے ہیں.ہر انتظام میں مشاہدہ کر سکتے ہیں اور انسانی تعلقات میں اور قوموں کے تعلقات میں بھی یہ بات اگر آپ باریک نظر سے دیکھیں تو آپ کو دکھائی دے گی.اگر کسی نے کوئی اچھا کام کیا ہو اور تایا نہ جائے مثلاً گھر میں بچوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہ ہمیں علم ہے کہ کس نے اچھا کام کیا ہے اور آپ اچانک پوچھیں کہ کس نے کیا ہے تو بے اختیار کئی بچے ہاتھ اونچا کریں گے کہ ہاں ! ہم نے کیا ہے.اگر ان کو یہ یقین ہو جائے کہ پتہ نہیں لگے گا کہ کس نے کیا تھا تو پھر اکثر بچوں کے اندر یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ وہ اس بات میں اپنی تعریف کروائیں جو بات انہوں نے نہیں کی.ان کے بھائی یا کسی بہن نے کی تھی لیکن چونکہ تعریف ہو رہی ہے اس لئے وہ کہتے ہیں ہم نے کیا ہے.اور اگر کوئی یہ نہ کر سکے تو تعریف میں حصہ ڈالنے کی عادت تو اتنی پختہ ہے کہ اس سے تو شاید ہی کوئی انسان بری ہو.اگر آپ کسی سے پوچھیں کہ بہت اچھا

Page 125

122 کھانا پکا ہے، کس نے پکایا ہے؟ تو اگر گھر کی مالکہ نے پکایا ہو گا تو وہ کہے گی میں نے پکایا ہے، کوئی دوسرا ساتھ بولے گا مصالحہ تو میں نے بتایا تھا، ایک تیسرا جائے گا کہ ترکیب میری تھی ، ایک چوتھا کہے گا کہ ڈوئی میں پھیرتا رہا ہوں غرضیکہ ہر شخص بیچ میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے.یہ روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا مشاہدہ ہے لیکن یہ آگے جا کر بہت گہری بیماری میں تبدیل ہو جاتا ہے اور ایسے اشخاص کو بعد ازاں احتمال ہے کہ گہری روحانی بیماریاں نہ لاحق ہو جائیں.اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں.ہر انسان اپنی زندگی کے واقعات پر غور کر کے یہ جائزہ لے سکتا ہے کہ کس حد تک اس نے اس معاملے میں ٹھو کر کھائی یعنی تعریف کی ایک خواہش تو طبیعی ہے اسے اپنے مقام پر رکھنا اور لگام ڈال کر رکھنا یہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر جو واقعہ ہوا ہی نہیں ضمن میں جھوٹی تعریف کی تمنا یہ بہت بڑی بیماری ہے اور یہ شرک کی بدترین قسم بن جاتی ہے اور ایسے لوگ پھر سب سے زیادہ خدا کی تعریف اس سے چھینتے ہیں اور عمدا " ہر چیز میں بات اپنے ذمے لگاتے ہیں کہ ہماری وجہ سے یہ ہوا ہے.اور یہ بیماری جب زیادہ باریک ہو جاتی ہے تو عجیب و غریب شکلیں اختیار کرتی ہے.میں اس کا نمونہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس سے آپ کو معلوم ہو گا کہ نیک انسان بھی اس قسم کی بعض بیماریوں سے محفوظ نہیں رہتے.عام طور پر موحد ہیں لیکن بہت سی باتوں میں غلطی کر جاتے ہیں.اس ہر فضل و احسان اللہ ہی کی طرف سے آتا ہے یہ بھی رجحان پایا جاتا ہے کہ اگر خدا کا کوئی فضل ہو تو انسان اپنے اندر وہ نیکی تلاش کرتا ہے کہ کس وجہ سے فضل ہوا ہے.خدا نے کوئی خاص احسان کیا تو انسان کہتا ہے اس لئے ہے کہ میں نے غریبوں کی ہمدردی کی تھی.خدا نے بہت احسان کیا اور شفاء بخشی تو انسان سوچتا ہے کہ یہ اس لئے ہے کہ میں نے فلاں انسان کے ساتھ نیکی کا سلوک کیا تھا اور یہاں تک کہ جب کسی شخص پر خدا کا خاص فضل نازل ہو تو لوگ بھی کا جو تبصرے کرتے ہیں ان میں اس شخص کی خوبیاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو اس پر یہ فضل کیا ہے تو اس کی یہ بات سنی گئی، اس کی یہ نیکی کام آئی اور ہمارے

Page 126

123 ہاں روز مرہ کے محاورے میں یہ بات اکثر سننے میں آتی ہے کہ اس کی تو فلاں نیکی کام آگئی حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ انسان کی نیکیاں کیا؟ ان کی حیثیت کیا؟ خدا تعالٰی اگر انسان کی نیکیوں کے مقابل پر اس کی بد اعمالیوں کا حساب کرے تو کسی کے پہلے کوئی نیکی باقی نہ رہے.اپنی نیکی کی طرف خیال آجاتا ہے اور بدیاں انسان بھول جاتا ہے اور خدا کے وہ احسانات جو خالفتہ " فضل کے نتیجے میں ہیں ان احسانات کو اپنی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے کہ میری کسی خوبی کے نتیجے میں ایسا ہوا.لیکن ایک عارف باللہ اس معاملے میں کبھی دھوکہ نہیں کھاتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مناجات میں عرض کرتے ہیں کہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے کیسا سادہ لیکن کتنا عظیم اور قومی اظہار ہے.کتنی گہری اور دائمی حکمت اس میں بیان فرما دی گئی ہے سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے بس الحمدللہ کہتے ہوئے جب تک یہ رجحان پیدا نہ ہو کہ سب کچھ تیری عطا ہے.گھر سے ہم کچھ نہیں لائے تو اس وقت تک الحمد کا مضمون کامل نہیں ہو سکتا اور اس وقت تک اِيَّاكَ نَعْبُدُ کی دعاء میں طاقت پیدا نہیں ہو سکتی.پس جب آپ سے اپنے آپکو خالی کر لیتے ہیں.اللہ کے جتنے احسانات ہیں ان کو خدا کے احسانات کے طور پر گنتے ہیں اور ان پر حمد کے گیت گاتے ہیں تو پھر جب إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإياك نستعين کہتے ہیں تو دل پوری سچائی کے ساتھ یہ عرض کرتا ہے، خدا کے حضور یہ اقرار کرتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ ہم نے تو اپنی حمد کبھی کچھ نہیں ، اس لئے ہم اپنی عبادت نہیں کرتے.ہم نے تو کسی غیر کی کوئی حمد سمجھی ہی نہیں اس لئے ہم کسی غیر کی عبادت نہیں کرتے اور تو جانتا ہے اور تو دیکھ رہا ہے کہ جب تمام ترجمہ ہم تیرے حضور پیش کر بیٹھے تو اب سوائے تیری عبادت کے ہمارے پاس کچھ نہیں رہا.ایسی صورت میں عید عابد بن جاتا ہے اور ایک عام انسان نہیں رہتا.یوں تو ہر انسان خدا کا بندہ ہے لیکن سورہ فاتحہ ایک عبد کو عابد میں تبدیل کرتی ہے.تب اس کا یہ حق ہے کہ وہ

Page 127

124 یہ عرض کرے : اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کہ سب کچھ تیرے خزانے میں جمع ہو گیا ہمارے پاس تو رہاہی کچھ نہیں اس لئے ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور تیری مدد کے بغیر ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے.اس نستعین میں بہت کچھ شامل ہے.اس نشتوین کی دعا میں ہر دعا مانگی جاسکتی ہے اور اس دعا میں از خود حمد کی طلب بھی شامل ہو جاتی ہے.چنانچہ جب انسان ان تمام مراحل سے گزرتا ہے اور پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہوئے گزرتا ہے، احتیاط کے ساتھ گزرتا ہے، شرک سے اپنے آپ کو کلیتہ "پاک کرلیتا ہے اور حقیقت میں خدا.کے حضور اپنا مقام سمجھنے لگ جاتا ہے تو اس وقت جب اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتا ہے تو اس کی کسی اور ان کی ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اس کے بعد پھر جب اهدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتا ہے تو پھر دعائیں ایک نئے مضمون میں داخل ہو جاتی ہیں.انعام والے مضامین ہیں جن کی کوئی انتہاء نہیں.جن کی کوئی حد نہیں ہے اور ایک جاری سلسلہ ہے.انعامات کے سب دروازے کھلے ہیں اس ضمن میں یہ یاد رکھیں کہ انعمتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون میں ایک پوری تاریخ ہمارے سامنے رکھ دی گئی ہے.چونکہ اس سے پہلے میں اس بات پر گفتگو کرچکا ہوں اس لئے مزید اسے نہیں چھیڑتا لیکن انگنت کے چار مراتب ہیں اور سورۂ فاتحہ کی ابتداء میں خدا کی چار صفات پیش فرمائی گئی ہیں.ان چاروں صفات سے جس انسان کا تعلق کامل ہو جائے گا وہ اننت میں آخری مقام تک پہنچے گا اور جس حد تک اس کا صفات باری تعالٰی سے تعلق کمزور ہو گا اسی حد تک انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے گروہ میں اسے نسبتاً ادنی مقام نصیب ہو گا.پس یہ کہنا غلط ہے کہ کوئی مقام ہمیشہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے.ہر مقام جاری ہے لیکن سورۂ فاتحہ میں صفات باری تعالٰی کو جس رنگ میں پیش فرمایا گیا ہے ان صفات کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.جس کامل عبودیت کے ساتھ ، جس کامل انکسار کے ساتھ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے نفس کو حد سے خالی کر کے ربوبیت سے

Page 128

125 تعلق جوڑا رحمانیت سے تعلق جوڑا رحیمیت سے تعلق جوڑا مالکیت سے تعلق جوڑا اس کے بعد یہ تعلقات کا معیار بہت بلند ہو چکا ہے.اس لئے آئندہ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ فرض کر دیا کہ و من يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ انْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ (سورة النساء :20) اب ربوبیت رحمانیت رحیمیت اور مالکیت سے عام تعلق کام نہیں دے گا جو اللہ اور اس رسول کی اطاعت کرے گا اور ان اداؤں کے ساتھ خدا سے تعلق باندھے گا جن اداؤں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے رب سے تعلق جوڑا ہے اس کے لئے انعامات کے سب دروازے کھلے ہیں اور چونکہ یہ مضمون مشکل ہو گیا اور بلند تر ہو گیا ہے اور ویمانسسٹر پٹر (DEMONSTRATOR) نے جس نے اس مضمون کو اپنی زندگی پر جاری کر کے دکھایا تھا اس مضمون کو درجہ کمال تک پہنچا دیا ہے اس لئے آخری مقام تک پہنچنا مشکل تر ہو گیا ہے لیکن اس اطاعت کے ادنیٰ مقام بھی ایسے ہیں جو گذشتہ زمانے کے اعلیٰ مقامات کے برابر درجہ پانے والے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس مضمون کو اس طرح کھول کر بیان فرما دیا کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَانَبِيَاء بني استرايد ليل علماء تو نبی نہیں ہیں اور میری امت کے معیار کے لحاظ سے نبی نہیں ہیں لیکن جہاں تک گذشتہ امتوں کا تعلق ہے ان کے نبیوں کے برابر تو میری امت میں تمہیں بہت سے علماء اور ولی اور بزرگ ملیں گے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کے پیش نظر انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ نے ایک ایسا وسیع دروازہ کھولا ہے اور ہمیں ایک ایسے راستے پر قدم بڑھانے کی دعوت دی ہے جو لامتناہی ہے اور تمام انبیاء کی گذشتہ تاریخ ہمارے سامنے اکٹھی صورت میں پیش کر دیتا ہے کہ گویا اس راستے پر دور تک مختلف جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور سب سے آخر پر مقام محمدیت کا جھنڈا ہے اور مسلسل یہ صلائے عام دے رہا ہے کہ آتا ہے تو یہاں تک آؤ اور اس سے پہلے رکنے کی کوشش نہ کرو.اس سے پہلے کی ممکن تمہیں مغلوب نہ کردے.پس اس سفر میں جس مقام پر بھی انسان دم دے وہی مقام انعمت علیکم کا مقام ہے اور بہت ہی بڑا خوش نصیب ہے

Page 129

126 جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قدموں تک پہنچنے کی سعادت نصیب ہو جائے.اس کے بعد مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الایت کا مضمون شروع ہوتا ہے اور وہاں بھی یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مغضوب علیم کی تشریح میں اگر چہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہود مراد ہیں اور ضالین کی تشریح میں اگرچہ ہم کہتے ہیں کہ عیسائی مراد ہیں مگر اللہ کی یہ شان ہے اور سورۂ فاتحہ کی فصاحت و بلاغت ہے کہ کسی قوم کسی مذہب کا نام نہیں لیا.مضمون صرف یہ بیان فرمایا گیا کہ خدا کی مذکورہ چار بنیادی صفات سے جو شخص کلیتہ " تعلق کاٹ لے گا یا اس حد تک کاٹ لے گا کہ خدا کی رحمت سے وہ کاٹا جائے تو اسے منصوب علي شمار کیا جائے گا اور جو شخص کچھ تعلق برقرار رکھے گا لیکن ٹیڑھے رنگ میں اور کبھی کے ساتھ، اس کو ضالین کے زمرے میں شمار کیا جائے گا.اس مضمون پر آپ غور کریں تو بہت ہی وسیع تاریخی مطالعہ ہے جو آپ کے سامنے کھلتا ہے وہ قومیں جو مغضوب ہوئیں.قرآن کریم نے خود بیان فرمایا ہے کہ کیوں مغضوب ہوئیں.کس کس طرح کس کس جگہ انہوں نے خدا کی بنیادی صفات سے اپنا تعلق توڑا اور ایک دفعہ نہیں بار بار تو ڑا اور کتنے لمبے عضو کے بعد کتنے لمبے علم کے بعد بالآخر اللہ تعالٰی نے انہیں مغضوب قرار دیا تو اس کے مطالعہ سے آپ کو معلوم ہو گا کہ کن چیزوں سے بچنا ہے اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کوشش فرض ہے.اگر ایک ٹھوکر کھاتے ہیں تو تب بھی، اگرچہ خطرے کا مقام ہے لیکن آخری طور پر آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیشہ کے لئے مردود نہیں قرار دے دیا گیا.خدا تعالٰی نے قوموں کو ایک لمبے عرصے کے بعد جو ہزار سال سے زائدہ عرصے پر پھیلا پڑا ہے ان کو ان کی بار بار غلطیوں کے نتیجے میں اور غلطیوں پر اصرار کے نتیجے میں مغضوب قرار دیا.پس اس سے جو تصویر ابھرتی ہے وہ یہ ہے کہ آخری سانس تک جینے کی امید تو ہے لیکن اگر غلطیاں کرتے ہوئے ہم مارے گئے تو ہم مغضوب کی حالت میں مارے جائیں

Page 130

127 گے.پس ایک طرف تو یہ امید کا پیغام بھی ہے اور دوسری طرف ایک عبرت کا پیغام بھی ہے اور یاد رکھنے کے لائق بات یہ ہے کہ یہود کا نام سورہ فاتحہ میں کیوں نہیں لیا گیا.اس لئے کہ قرآن کریم یہ اعلان کرتا ہے کہ من حیث القوم مغضوب ہونے کے باوجود ان کے اندر آج بھی نیک لوگ موجود ہیں.آج بھی حق پرست لوگ موجود ہیں.آج بھی موجد موجود ہیں.آج بھی خدا سے محبت کرنے والے موجود ہیں.اگر انہیں اسلام کا صحیح پیغام پہنچتا یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے حسن سے ان کی شناسائی ہوتی تو وہ ضرور اسلام قبول کر لیتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے غلاموں میں شامل ہو جاتے.مگر اپنے اپنے ماحول میں کئے ہوئے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں.اس پر یقین رکھتے ہیں.اس کے لئے قربانیاں دیتے ہیں.پس دیکھئے سورۂ فاتحہ نے کس حد تک عدل کا حق ادا فرمایا ہے.مغضوب کی تاریخ بھی ہمارے سامنے کھول کر رکھ دی لیکن ساتھ یہ بھی متفقہ کر دیا کہ کسی ایک قوم کو ان معنوں میں مغضوب سمجھنا کہ ان میں پھر کوئی نیک آدمی پیدا نہیں ہو سکتا یہ غلط ہے اس لئے جہاں قومی طور پر مغضوب فرمایا وہاں نام کسی کا نہیں لیا اور جہاں قرآن کریم نے نام لیکر یہود کو مغضوب قرار دیا وہاں ساتھ ساتھ استثناء کرتا چلا گیا اور بار بار ہمیں متنبہ کیا کہ خبردار! من حیث القوم یہود کو مغضوب" قرار دیگر تمام کے تمام کو رونہ کر دینا اور تمام کے تمام کو جہنمی قرار نہ دے دینا.اسی طرح من حیث القوم عیسائیوں کو ضال" قرار دیتے ہوئے یعنی گمراہ قرار دیتے ہوئے پوری طرح رو کر کے نعوذ بالله من ذلك یہ دعویٰ نہ کر بیٹھنا کہ یہ سارے کے سارے جہنمی گندے اور خدا سے دور لوگ ہیں.بار بار قرآن کریم نے اس بات کا اظہار فرمایا کہ ان میں بھی بہت اچھے لوگ ہیں.ان میں بھی نیک ہیں.اخلاص سے ایمان لانے والے ہیں اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ جب تک یہ اپنے سچائی کے تصور کے مطابق اپنی تعلیمات پر عمل کرتے رہیں گے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور ان کے اجر خدا کے ذمہ ہیں.پس سورۂ فاتحہ نے جہاں مغضوب اور ضالین کا ذکر قوموں کا نام لئے بغیر فرمایا وہاں ہماری توجہ اس طرف بھی مبذول فرما دی اور اس میں بھی ہمارے لئے ایک امید کا پیغام ہے کہ اگر ایسی

Page 131

128 قومیں جو ہزار سال دو ہزار سال چار ہزار سال تک بار بار خدا تعالٰی کی ناشکری کرتی رہیں اور اس کی نافرمانی کرتی رہیں اور اس کے بندوں پر ظلم بھی کرتی رہیں، ان میں بھی نیکوں کی گنجائش موجود ہے اور نیکی کی گنجائش موجود ہے تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا لایا ہوا دین جو آخری اور کامل دین ہے اس سے وابستہ لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ نعوذ باللہ وہ سارے جہنمی ہو گئے، سارے کا فربے دین ہو گئے یہ بہت ہی بڑا ظلم ہوگا.پس جماعت احمدیہ کے لئے خصوصیت سے اس میں سبق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں ایسے لوگوں پر سختی فرمائی ہے جنہوں نے ظلم اور تعدی اور عناد میں ہر حد پھلانگ دی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت ہی ناپاک اور ظالمانہ رویہ اختیار کیا وہ زبان اس گروہ کے محض چند لوگوں سے تعلق رکھتی ہے جو فساد اور فتنے اور ظلم میں حد سے زیادہ بڑھے ہوئے لوگ تھے.عامتہ المسلمین سے اس کا تعلق نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو دوسری جگہ خود کھول کر بیان فرمایا ہے اور فرمایا ، جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے ان سے بے حد محبت رکھتا ہوں.ان میں صلحاء بھی ہیں.ان میں خدا کے بزرگ بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کی عطا کردہ خبر کے مطابق ان میں بڑے بڑے مرتبہ رکھنے والے لوگ ہیں.صلحاء عرب بھی ہیں اور ابدال الشام بھی ہیں.سورۂ فاتحہ سے انکسار کا سبق سیکھیں یں جماعت احمدیہ کو سورۂ فاتحہ سے یہ انکسار بھی سیکھنا چاہئے.یاد رکھنا چاہئے کہ ہم میں سے ہر شخص کی نجات کی کوئی ضمانت نہیں کیونکہ ہر قوم میں ایسے استثناء ہوتے ہیں کہ اچھوں سے بُرے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور بہروں سے اچھے لوگ بھی پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے نہ انعمت کے مضمون میں کسی قوم کا ذکر فرمایا، نہ مغضوب اور ضالین کے مضمون میں کسی قوم کا ذکر فرمایا اور اس مضمون کو کھلا رہنے دیا.بنیاد یہی ہے اور فیصلے کی کسوٹی میں ہے کہ ہر وہ شخص اور ہر وہ قوم جو خدا تعالی کی ان چار صفات سے گہرا تعلق جوڑتی ہے اور اپنے آپ کو دوئی کی ملونی سے پاک کرتی ہے، جن صفات کو

Page 132

129 سورۂ فاتحہ میں تعارف فرمایا گیا ہے تو وہ اگر خدا تعالی کا فضل شامل ہو اور واقعتہ " وہ اپنے تعلق میں مخلص ہو تو انعمت علیھم میں شمار ہوگی.لیکن ان کے اندر بھی استثناء ہو سکتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.اس لئے ہمیشہ ہمیں مگر ان رہنا چاہیے اور اپنے نفس پر بھی نگران رہنا چاہیے اور بحیثیت جماعت اپنے بھائیوں، اپنی بہنوں ، اپنے بچوں اپنے مردوں، عورتوں اور بوڑھوں سب پر نگران رہنا چاہئیے تو رمضان مبارک میں آپ جہاں دوسری دعائیں کریں گے وہاں سورہ فاتحہ کو پڑھتے ہوئے ان مضامین کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی اصلاح کی بھی کوشش کریں.اپنے اندر ایک شعور پیدا کرنے کی کوشش کریں.اپنے شعور کو ہمیشہ بیدار رکھنے کی کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کے لئے کمزوروں کے لئے اور غافلوں کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کے اندر سے ایک باشعور انسان پیدا فرما دے جو خلق آخر کا آغاز ہو گا.قرآن کریم نے جہاں خلق آخر کا ذکر فرمایا ہے وہ خلق آخر انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے اور اس کا آغاز اسی طرح ہوتا ہے کہ ایک غافل انسان سے ایک باشعور انسان جنم لینے لگتا ہے.وہ رفتہ رفتہ آنکھیں کھولتا ہے، کروٹ بدلتا ہے اپنے اندرونی ماحول کو دیکھنے لگ جاتا ہے، اس کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں.آنکھیں ملتا ہے تو اور زیادہ روشنی دکھائی دیتی ہے.اور وہ اپنے نفس کا شعور ہے جو رفتہ رفتہ عرفان باللہ میں منتقل ہو جاتا ہے اور انسان کے اندر سے ایک خلق آخر ظاہر ہوتی ہے.پس اس رمضان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے لئے یہ دعائیں کریں اور بنی نوع انسان کے لئے بھی یہ دعائیں کریں کہ وہ دعوے تو بہت کرتے ہیں اللہ ان کو بھی کوئی شعور تو عطا کرے.دعا کریں اللہ امریکہ کو ظلم کی توفیق نہ دے میں نے گلف سے متعلق جو پچھلے خطبات تھے ان میں بڑے درد کے ساتھ بعض آنے والے خطرات کی نشان دہی کی تھی.ان میں ایک یہ تھا کہ شرق اوسط سے امن ہمیشہ کے لئے اٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور جن خطرات کا اظہار کیا تھا وہ ابھی جیسے کہتے ہیں ناں کہ سیاہی ابھی گیلی ہی جو سوکھی بھی نہ ہو تو بات ظاہر ہونے لگ جائے ویسی ہی کیفیت ہوتی ہے.شام کے اوپر اسرائیل نے جنگ ختم ہوتے ہی یہ الزام لگانا شروع

Page 133

130 کر دیا کہ اب عراق سے خطرہ تو نہیں رہا مگر ہمیں شام سے خطرہ شروع ہو گیا ہے اور وہی باتیں جو پہلے عراق کے متعلق کسی جاتی تھیں اب شام کے متعلق کسی جانے لگیں.پھر وہ خطرے جو میں نے پیش کئے تھے.یہ تو نہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک میں نے کوئی غیب کی خبریں بتائی تھیں مگر ہر انسان حالات کا جائزہ لیکر اندازے لگاتا ہے.پس میں نے بھی جہاں تک ان قوموں کے مزاج کو سمجھا کچھ اندازے لگائے اور میرا اندازہ یہ تھا کہ عراق کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے گا اور بعض دوسری قوموں سے اندر کھاتے، مخفی طور پر ہو سکتا ہے ، سمجھوتے ہو گئے ہیں کہ تم فلاں حصے پر قبضہ کر لیتا تم فلاں حصے پر قبضہ کر لینا.پس عراق میں جو بغاوت ہو رہی ہے، یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوسری قوموں سے کوئی تعلق نہیں مگر جو لوگ بھی اس صدی کی تاریخ سے واقف ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جہاں جہاں بغاوتیں ہوئی ہیں وہاں ضرور دوسری قوموں کا تعلق ہوتا ہے.آج کے زمانے میں طاقت ور منتظم فوجوں سے لڑنے کی عوام الناس میں طاقت ہی نہیں ہے جب تک باہر سے امداد نہ ہو جب تک باہر سے شہ نہ ملے یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی ملک میں واقعیہ منظم بغاوت ہو جائے.چنانچہ افغانستان میں جو کچھ ہوا آپ جانتے ہیں.اگر امریکہ مجاہدین کی مدد سے اپنے ہاتھ کھینچ لیتا تو وہاں جو کچھ آپ نے دیکھا ہے ہو ہی نہیں سکتا تھا، ممکن ہی نہیں تھا.اگر ویتنام میں روس ویتنامیوں کی امداد سے ہاتھ کھینچ لیتا تو امریکہ کو جو بالآخر عبرتناک شکست ہوئی وہ ممکن نہیں تھی.غالباً ساڑھے آٹھ سال کا عرصہ ہے انہوں نے وہاں بہت ہی درد ناک جنگ کی حالت میں گزارا ہے.وہ جنگ چند مہینوں کے اندر ختم ہو سکتی تھی اگر امریکہ کے مقابل پر روس انکا مددگار نہ ہو رہا ہوتا تو اس لئے بیرونی خطرات پہلے بھی تھے، آج بھی ہیں اور کل بھی ہوں گے لیکن پہلے دو سمتوں سے ہوتے تھے اب ایک ہی سمت سے ہیں.اس لئے اس رمضان میں خاص طور پر یہ دعائیں کریں کہ اب جبکہ ایک ہی طاقت ہے جو دنیا پر غالب آچکی ہے اور وہ امریکہ اور روس کے ساتھیوں کی طاقت ہے تو اللہ تعالی اس عظیم طاقت کو جیسی طاقت آج تک کبھی دنیا کی تاریخ میں پہلے نہیں ابھری وہ ساری دنیا پر اس طرح غالب آچکی ہو کہ مقابل کی ہر طاقت اس کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے، یہ توفیق نہ دے کہ خدا کے

Page 134

131 بندوں سے ظلم کا سلوک کرے.اس دعا کی بڑی شدید ضرورت ہے.دعا کی یہ ضرورت ہے کہ اللہ تعالٰی امریکہ کو یہ ہوش دے یہ عقل دے کہ وہ خدا بننے کی بجائے خدا کا نمائندہ بننے کی کوشش کرے اور اگر واقعی امریکہ اس طاقت سے بچے دل کے ساتھ استفادہ کرنا چاہتا ہے اور دنیا میں امن پیدا کرنا چاہتا ہے تو سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں کہ امریکہ انصاف پر قائم ہو جائے کیونکہ عدل کے بغیر دنیا میں کوئی امن قائم نہیں ہو سکتا.اور جو شخص عدل پر قائم ہو وہ خدا کا نمائندہ ہو سکتا ہے خدا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایک گہرا راز ہے کہ عدل کے فقدان سے شرک پیدا ہوتا ہے.خدا کے عادل بندے خدائی کے دعوے بھی نہیں کر سکتے.پس امریکہ کے لئے یہ دعا کرنی چاہئیے کہ تاریخ میں کبھی کسی قوم کو ایسا موقعہ نصیب نہیں ہوا جیسا کہ امریکہ کو نصیب ہوا ہے کہ تمام دنیا کو اپنی طاقت کے زور سے عدل سے بھر دئے.اور عدل کے نتیجے میں دنیا کو انصاف عطا کرے اور خدا اس کو یہ توفیق نہ دے کہ اس کے بر عکس خود خدائی کا دعوے دار بن جائے اور زور اور طاقت کے ساتھ اور جنبہ داریوں کے نتیجے میں اور سیاسی چالبازیوں کے نتیجے میں دنیا سے اپنی طاقت کا لوہا منوانے کی کوشش کرے.اگر امریکہ نے ایسا کیا تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ ایسی قوموں کو کچھ مہلت تو دیتا ہے لیکن نبی مہلت نہیں دیا کرتا اور پھر خدا کی تقدیر ان کو پکڑا کرتی ہے.تیسری دنیا کیلئے آنے والے ہولناک دن اس کے مقابل پر تیسری دنیا کی قوموں کے لئے بہت بڑے ہولناک دن آنے والے ہیں.وہ ننتے ہو چکے ہیں.ان کے سروں کی چھت اڑ گئی ہے.کوئی انکا اس دنیا کا مہارا نہیں رہا.اس لئے ان کے لئے دعا کریں کہ وہ نیلی چھت والے سے تعلق پیدا کریں.اس خدا سے تعلق پیدا کریں جس کی چھت ساری کائنات پر محیط ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انہیں ابتلاؤں سے بچائے گا اور یہ بھی ممکن نہیں جب تک وہ خود عدل پر قائم نہ ہوں کیونکہ غیر عادل کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوا کرتا.یہ خیال غلط ہے کہ صرف امیر اور طاقت ور ظالم ہوا کرتا ہے.یہ راز سمجھنے والا راز ہے اور اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئیے کہ غریب اور کمزور بھی ظالم ہو جایا کرتا ہے.

Page 135

132 صرف فرق یہ ہے کہ اسے اپنے ظلم کی توفیق نہیں ملتی یا کم ملتی ہے.پس ظالم ہوتا یا نہ ظالم ہونا انسان کے اندرونی رجحانات سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.میں نے تو جہاں تک نظر ڈالی ہے تیسری دنیا میں بھی اکثر ممالک ایسے ہیں جب بھی انہیں توفیق ملی ہے انہوں نے ظلم سے کام لیا ہے وہی صدام حسین جن کے عراق پر یک طرفہ ظالمانہ بمباری کے نتیجے میں تمام مسلمانوں کے دل خون ہو رہے تھے اور سخت اذیت میں مبتلا تھے اب اندرونی طور پر ان کو چھٹی ملی ہے کہ جبر کے ساتھ بغاوتوں کو نا کام کردیں اور ملیا میٹ کردیں تو اس جبر سے آگے بڑھ رہے ہیں جس جبر کی انسان کو خدا تعالیٰ کا خوف اجازت دیتا ہے.ایک جبر کے مقابل پر جبر ہے جس کی قرآن کریم نے اجازت دی ہے اور خدا کے خوف کی راہ میں یہ بات مانع نہیں ہے لیکن وَلا تَعْتَدُوا کی شرط کے ساتھ کہ ہر گز تم نے مقابل پر زیادتی نہیں کرنی.انتقام اس رنگ میں نہیں لینا کہ جتنا تم پر ظلم ہو رہا ہے اس سے زیادہ ظلم کردیا انسانی قدروں کو پامال کرتے ہوئے قلم شروع کردو.پس کردوں کے مقابل پر یہ ظلم ہو رہا ہو یا شیعوں کے مقابل پر ظلم ہو رہا ہو.جو بھی مشکل ہے، ہر قوم کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ باغیوں کے سر کچلے لیکن یہ حق نہیں کہ ان کو آگ کا عذاب دے کر مارے جیسا کہ امریکہ نے نیپام بم کے ذریعے عراقی فوجیوں پر ظلم کئے تھے یا گیس سے مارے یا تیزاب برسا کے مارے.اگر یہ باتیں جو بیان کی جارہی ہیں کچی ہیں تو پتہ یہ لگا کہ ادھر بھی ظلم تھا اور ادھر بھی ظلم ہے.پھر ہماری یہ دعا جس کی میں نے تلقین کی تھی کہ اے اللہ ! حق کو فتح دے یہ کس کھاتے میں جائے گی.حق تو پھر صرف اتنا سا باقی رہ گیا تھا کہ کویت پر ان کا حملہ نا جائز تھا اور ان کو کویت خالی کر دینا چاہئیے تو کویت سے انخلاء کی جد تو ہماری حق والی دعا قبول ہو گئی.اس کے بعد اگر حق ایک طرف ہو ہی نہ اور دونوں طرف ظلم شامل ہو جائے تو یہ دعا کسی کے بھی حق میں مقبول نہیں ہو سکتی.پس یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو حق نصیب کرے.اس وقت تو یہ زمانہ آگیا ہے کہ انسان کنگال ہوا بیٹھا ہے.اخلاق سے عاری ہو گیا ہے.حق سے عاری ہو گیا ہے.غریب قومیں اگر دوسری ہمسایہ قوموں پر ظلم نہیں کرتیں تو اپنے ملک کے غریب

Page 136

133 باشندوں پر ظلم کرتی ہیں ہر طاقت اور کمزور پر ظلم کر رہا ہے.ایسی افرا تفری کے زمانے میں جبکہ طاقت کو گویا کہ یہ اختیار ہے کہ ہر قسم کے ظلم و ستم بجالائے اور کوئی اس کو روکنے والا نہ ہو.ایسے دور میں قوموں کے تعلقات اس ظلم کے رشتے پر ہی قائم ہوتے ہیں.آج امریکہ کا دنیا میں کوئی رقیب نہیں آج امریکہ کو خدا نے جہاں یہ توفیق بخشی ہے کہ اس کے مقابل پر اس کا کوئی رقیب نہیں رہا.پہلے اگر مجبوریاں بھی تھیں تو اب مجبوریاں نہیں رہیں.اس وجہ سے خدا نے اسے توفیق بخشی ہے کہ وہ بے دھڑک ہو کر دنیا میں انصاف قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ موقعہ پھر شاید کبھی ہاتھ نہ آئے.آج اگر پہلے قدم غلط اٹھ گئے تو پھر دوبارہ ان غلط فیصلوں کی درستی ممکن نہیں رہے گی.اس لئے میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ اس دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو امریکہ کی قوم کو اس عظیم تاریخی سعادت حاصل کرنے کے بعد کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت ور قوم بن کے ابھری ہے، یہ سعادت عطا کرے کہ اس طاقت کو بنی نوع انسان اور خود اپنی عاقبت کے خلاف استعمال نہ کرے بلکہ انصاف قائم کرنے کی کوشش کرے اللہ تعالیٰ اس کے نتیجے میں اس طاقت کے زمانے) کو لمبا کر دیگا اور سینکڑوں سال تک دنیا کو امن نصیب رہے گا لیکن آثار ایسے ظاہر ہو رہے ہیں جن سے مجھے خطرہ ہے کہ شاید یہ نہ ہو سکے تو دوسری صورت میں تیسری دنیا کے لئے دعا کریں.کمزور ملکوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے دل میں انصاف پیدا کرے.ان کے دل میں رحم پیدا کرے.ان کو اپنی اخلاقی تعمیر نو کی توفیق بخشے کیونکہ طاقتور قوم کا طاقت سے مقابلہ نہیں ہو سکتا لیکن طاقت ور قوموں کا اخلاق کے ساتھ ضرور مقابلہ ہو سکتا ہے.یہ راز ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا ہے.پس اگر کوئی قوم اخلاقی لحاظ سے مضبوط ہو جائے اور اپنی نوک پلک درست کرنے اور اپنے اندر توازن پیدا کر لے اور حرص و ہوا سے باز آجائے اور قناعت کی زندگی بسر کرنا سیکھ جائے اور غربت میں ہی اپنی غریبانہ جنت بنانے کی اہلیت پیدا کر لے تو ایسی قوم پر دنیا کی کوئی طاقت حکومت نہیں کر سکتی.اعلیٰ اخلاق سے بڑھ کر

Page 137

134 انسان کا کوئی دفاع نہیں ہے.پس تیسری دنیا کے ملکوں کو میں بار بار نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی اندرونی اصلاح کریں.اپنے اخلاق درست کریں.اپنے اندرونی تعلقات کو درست کریں.انکسار پیدا کریں اور فی الحال غیر قوموں پر انحصار کو اگر فوری طور پر ترک نہیں کر سکتے تو کم سے کم یہ منصوبہ بنا ئیں کہ جتنی جلد ہو سکے گا آپ غیر قوموں پر انحصار سے توبہ کریں گے اور خود داری کی زندگی بسر کریں گے خواہ فریبا نہ ہو.اگر یہ نصیحت تیسری دنیا نے مان لی اور جماعت نے دعائیں کی اور وہ مقبول ہوئیں اور اگر سب نے نہیں تو آہستہ آہستہ بعض ملکوں نے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا تو پھر ہم یہ یقین کر سکیں گے کہ اگر طاقت وروں نے غلطی کی تو پھر بھی اس کا اتنا بڑا نقصان بنی نوع انسان کو نہیں پہنچے گا کیونکہ کمزور اپنی اصلاح کے ذریعے ان غلطیوں کی زد سے بچتے چلے جائیں گے اور اپنا دفاع وہ خود تیار کر لیں گے.اگر یہ نہ ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ جگہ جگہ جنگیں ہوں گی.غریب قومیں غریب قوموں سے لڑیں گی.امیر قوموں سے ہتھیار خریدیں گی اور اپنے غرباء کا خون چوس کر اپنے ساتھی غرباء کا خون بہانے کے انتظامات کریں گی.یہ اس دنیا کا خلاصہ ہے.بڑا مکروہ خلاصہ ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب اخلاق ست ناری ہو کر سیاست پر نظر کی جاتی ہے تو اس کے سوا اور کوئی خلاصہ نہیں نکل سکتا.لیس اپنے اس رمضان میں خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو عقل اور تقویٰ اور انصاف عطا کرے اور جماعت احمدیہ کو یہ توفیق بخشے کہ انتہائی کمزور ہونے کے باوجود اپنی دعاؤں کے ذریعے اس دور میں سب سے زیادہ اہم تاریخی کردار ادا

Page 138

135 بيت الفضل لندن ۳۹ ر مارچ ۴۱۹۹۱ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : غیر اللہ کی حمد کی کامل نفی ضروری ہے گزشتہ خطبے میں میں نے یہ متوجہ کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کی حمد کے وقت اپنی ذات سے حمد کی نفی ضروری ہے ورنہ حقیقت میں خدا کی حمد کا اثبات نہیں ہو سکتا.اس مضمون کا تعلق دراصل لا إله إلا الله سے ہے.ملالہ میں جس اللہ کی نفی ہے اور الا اللہ میں جس وجود کا بطور معبود اثبات ہے اس کے دونوں تقاضے ہیں کہ پہلے غیر اللہ سے ہر قسم کی تعریف اور ذاتی تعلق کی نفی ہو جائے تو پھر خد اتعالیٰ کا وجود اُبھرتا ہے اور اگر کسی کپڑے پر ذاتی محبتوں کے رنگ بھی چڑھے ہوں اور خدا کے مقابل پر وہ رنگ قائم رہیں تو پھر خدا کا رنگ اس کپڑے پر نہیں پڑھتا لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان اپنی تعریف سے بالکل مستغنی ہو جائے کیونکہ اپنی تعریف چاہتا انسانی فطرت کا حصہ ہے بلکہ اسے شعلہ حیات کہنا چا ہئیے کیونکہ دنیا میں انسان جو بھی کام کرتا ہے اس میں بڑے محرکوں میں سے ایک اپنی تعریف چاہنا اور ایک اپنے متعلق بدگوئی سے بچنا ہیں اور یہ زندگی کے بہت ہی بڑے محرکات ہیں جیسے موٹروں میں پڑول جلتا ہے اسی طرح یہ دو طاقتیں ہیں جو انسانی زندگی کے عمل کو آگے بڑھاتی ہیں.اس لئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ اپنی تعریف چاہتا یا کسی دوسرے دوست کی تعریف کرنا جو اپنے محدود دائرے میں تعریف کا مستحق ہو یہ شرک ہے.یہ ہرگز شرک نہیں لیکن شرک وہ بات ہے کہ انسان اپنی یا اپنے دوستوں یا عزیزوں کی تعریف پر جاکر ٹھہر جائے

Page 139

136 اور پردے پر راضی ہوئے نقاب پر راضی ہو جائے اور اس کی نگاہیں نقاب سے پار سرایت کر کے پیچھے اصل حسن کی تلاش نہ کریں.اگر یہ کیفیت ہو تو یہ بھی شرک نہیں بنے گی لیکن غفلت ہوگی اور دنیا میں اکثر لوگ غفلت کی زندگی بسر کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے عظیم علم کلام میں ایسے دنیا داروں کو غافل کے طور پر بیان فرمایا ہے اور بڑی باریکی سے ان کی غفلتوں کا تجزیہ فرمایا ہے.پس غفلت یہ ہے کہ انسان اپنی تعریف کو اپنا کر اس پر اس طرح راضی ہو جائے گویا واقعی وہ اس کا مستحق تھا اور اس سے پرے کوئی اور قابل تعریف ذات نہیں رہی اور وہیں تعریف کا گویا رستہ بند کر کے اسے اپنے برتن میں ہی سمیٹنے لگ جائے.یہ چیز غفلت کی کیفیت ہے جو بالآخر شرک پر منتج ہو جاتی ہے اور کئی قسم کی اور بھی برائیاں پیدا کرتی ہے.پس جب خدا کی ذات کے تعلق میں اپنی ذات کا سوچا جائے اور اپنی تعریف ہوتے دیکھ کر خدا کی طرف دھیان نہ جائے تو یہ خطرناک بات ہے جس سے جماعت کو بچنا چاہیے.خصوصا” عبادت کے وقت یہ ایک بہت اچھی ذہنی اور روحانی ورزش ہے کہ انسان جب الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا عاشقانہ نعرہ بلند کرتا ہے تو تلاش کر کر کے اپنی حمد سے اپنے وجود کو خالی کرے اور یہ کوئی مصنوعی کوشش نہیں ہے، یہ حقیقی کوشش ہے کیونکہ جب آپ زیادہ گہری نظر سے ہر تعریف کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس سے پہلے بھی جیسا کہ میں تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈال چکا ہوں، انسان کو ہر تعریف خواہ وہ غیر کی کرتا ہو یا اپنی سطحی دکھائی دینے لگتی ہے اور اس تعریف کے پیچھے عوامل کا بے انتہاء لمبا دور ہے جو بالآخر اس تعریف پر منتج ہوئے جن کے نتیجے میں وہ تعریف پیدا ہوئی جس پر انسان کا کوئی بھی بس نہیں.کوئی بھی اختیار نہیں اور وہ خالصتہ " اللہ کے فضل سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں.حسن خواہ جسمانی ہو یا روحانی یا اخلاقی ہو.بد صورتی خواہ ذاتی جسمانی ہو یا اخلاقی یا روحانی ہو.ہر چیز کے پیچھے کچھ عوامل کار فرما ہیں اور ان عوامل میں جہاں تک تعریف کا تعلق ہے محض اللہ کا فضل ہے جس کے نتیجے میں دنیا میں ہم قابل تعریف بنتے ہیں یا ہمارا کوئی دوست یا کوئی منظر قابل تعریف دکھائی دیتا ہے.اس پہلو سے اس مضمون پر

Page 140

137 غور ہونا چاہیے اور اس ضمن میں ایک مزید بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ اس حمد کا تعلق جب ہم خدا کے پیاروں سے جوڑتے ہیں اور انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کے مضمون سے باندھتے ہیں تو اس وقت ایک اور رستہ ہمارے سامنے کھلتا ہے اور ہم یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اصل تعریف وہی ہے جو خدا کی طرف سے لوٹ کر آتی ہے.اس مضمون پر بھی میں نے کسی حد تک روشنی ڈالی تھی لیکن اب انتمْتُ عَلَيْهِمْ کے مضمون سے اس تعلق کو جوڑ کر کچھ مزید روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.نعمتوں کا نیا مفہوم خدا تعالی کی حمد کے بیان کے بعد باقی آیات سے گزرتے ہوئے جب ہم یہاں پہنچتے ہیں کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِم که اے خدا! ہمیں ان لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام فرمایا تو انعام جن لوگوں پر فرمایا گیا ہے ان کے ذکر کی تفصیل کا ہمیں علم ہونا چاہئیے.وہ کیا کیا باتیں کیا کرتے تھے.کون کون سی نعمتیں اور کون کون سے فضل اللہ تعالٰی نے ان پر نازل فرمائے تھے جن کے نتیجے میں ان میں ایک ایسا حسن پیدا ہوا کہ جو خدا کو پسند آنے لگا اور خدا کی آنکھ سے وہ لوگ محمود ہو گئے اور قابل تعریف کہلائے.اس پہلو سے آپ کو گہری نظر سے قرآن کریم کا مطالعہ کرنا ہو گا اور خدا کے پیاروں انعام یافتہ لوگوں کا جہاں جہاں ذکر ملتا ہے خواہ وہ نبی ہوں یا اس سے ادنی درجے کے انعام یافتہ لوگ ہوں ان کی تاریخ کا گہری نظر سے مطالعہ کرنا ہو گا کہ کن کن آزمائشوں سے وہ گزرے اور کن کن ٹھوکروں سے بچے کون سے ایسے دو راہوں پر وہ کھڑے ہوئے جہاں ایک طرف انعمت علَيْهِمْ کا راستہ تھا اور دوسری طرف مغضوب علی کا راستہ تھا.ایک قدم کی لغزش ان کو یا اس راہ پر چلا سکتی تھی جو خدا تعالٰی کے فضلوں کی راہ ہے اور ایک ہی قدم کی لغزش ان کو اس راہ پر بھی ڈال سکتی تھی جو خداتعالی کی طرف سے غضب کی راہ اور ناراضگی کی راہ ہے.وہاں انہوں نے کچھ فیصلے کئے اور ان فیصلوں کے نتیجے میں ان پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوئیں.بعض دفعہ بڑی تیلی کی زندگیاں انہوں نے گزاریں.پس ان مواقع پر ان راہوں پر جہاں خدا کی خاطر تلخی برداشت کرنی پڑی وہ تمام تلخیاں

Page 141

138 نعمتیں ہیں.اس کو آزمائش کہا جاتا ہے اور اگر وہ نعوذ بالله من ذيك غلط راہ پر قدم اٹھاتے تو مغضوب علیم میں داخل ہوتے لیکن بظا ہر وہ راہ آسان دکھائی دیتی اور نعمتوں والی راہ دکھائی دیتی لیکن اس راہ کی سب نعمتیں قرآنی بیان کے مطابق خدا کے غضب کا مظہر ہیں اور ان کی ضلالت اور گمراہی کا مظہر ہیں تو اس مضمون پر غور کرنے سے نعمتوں اور فضلوں کا نیا مفہوم ذہن میں ابھرتا ہے اور انسان خدا کے ان بندوں پر جو آزمائش کے دور سے گزارے جاتے ہیں، رحم نہیں کرتا بلکہ ان پر رشک کرنے لگتا ہے.یہ عرفان کا وہ مقام ہے جس کے بغیر مومن صحیح معنوں میں ترقی نہیں کر سکتا.عرفان کا صحیح مفہوم اب پاکستان میں ہمارے مظلوم احمدی ہیں جن پر کئی قسم کے مظالم توڑے جارہے ہیں ان کے لئے ہمدردی پیدا ہو نا غلط نہیں.یہ ایک طبیعی اور فطری بات ہے لیکن ان کو اپنے سے ادنیٰ سمجھنا اور یہ سمجھنا کہ وہ بے چارے تو مارے گئے یہ جہالت ہے اور یہ عرفان کی کمی ہے.ایک وقت ایسا آئے گا جبکہ ہم سب خدا کے حضور پیش ہوں گے، اس وقت آج جو نسبتاً آسانی میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور خدا کی راہ میں آزمائشوں میں نہیں ڈالے گئے وہ ایک اور زاویے سے ان حالات کا جائزہ لیں گے اور وہ حسرت سے یہ کہیں گے کاش ہم ان کی جگہ ہوتے کیونکہ وہ نہیں مارے گئے ہم مارے گئے جو ان مشکل کی راہوں پر نہیں ڈالے گئے جن مشکل کی راہوں پر خدا کے فضل نے انہیں - ثبات قدم عطا فرمایا.پس یہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی ایک میر ہے جس کو حمد کے مضمون کے ساتھ جب آپ جوڑ کر اس دنیا کی سیر کرتے ہیں تو عجیب عجیب حسین نظارے دکھائی دیتے ہیں اور ایسے عجیب مناظر دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ایک زوایے سے مکروہ دکھائی دیتے ہیں، دوسرے زاویے سے حسین دکھائی دینے لگتے ہیں.اگر آپ کو وہ مکروہ دکھائی دیتے ہیں یعنی وہ واقعات : انْعَمْتَ عَلَيْهِم کی راہ پر گزر رہے ہیں وہ واردات جو وہاں ہو رہی ہے اگر وہ باتیں آپ کو مکروہ دکھائی دیتی ہیں تو پھر آپ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی

Page 142

139 راہ پر چلنے کے لائق نہیں ہیں.یہ سبق ہے جو آپ کو اس جائزے سے ملتا ہے.آپ کو لازما " اپنے زاویہ نظر کی اصلاح کرنی پڑے گی.اس حد تک اپنے نفس کی اصلاح کرنی پڑے گی کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم اور آپ کے غلاموں پر جو مصیبتیں ٹوٹیں ان کے ذکر کے ساتھ آپ کا دل خون بھی ہو رہا ہو تو ان پر رشک کر رہا ہو اور دل یقین کرتا ہو کہ یہ تکلیفیں تو خدا کے محبوب بندوں کی تکلیفیں ہیں اور یہ وہ ایسی تکلیفیں ہیں جو ہزار زندگیاں دیکر بھی میسر آجائیں تو خلط سودا نہ ہو گا.یہ بظا ہر تضاد کی بات ہے لیکن حقیقت میں یہ عرفان ہے جو سچا عرفان ہے.پس جب آپ اس پہلو سے انعمت عَلَيْهِمْ کا ایک نیا تصور دل میں باندھیں گے تو خدا کی راہ میں مشکل کی زندگی بسر کرنا مشکل دکھائی نہیں دے گا.مشکل ہو گی بھی تو اللہ کا فضل اس کو آسان کرتا چلا جائے گا کیونکہ وہ چیز مکروہ دکھائی دیتے ہوئے بھی آپ کو اپنے پس منظر میں حسین دکھائی دے گی.آپ یہ سمجھیں گے کہ کراہت کا ایک ظاہری پردہ ہے جو سامنے ہے، یہ دھوکہ ہے.اس کے پیچھے جنت ہے اور اس جنت کی خاطر اس تکلیف کے پردے سے آپ اپنے لئے گزرنا گوارا کرلیں گے.پس حمد کا مضمون جب سورۂ فاتحہ کے باقی مضامین سے باندھ کا مطالعہ کیا جاتا ہے تو نئے نئے مطالب انسان کے سامنے ابھرتے رہتے ہیں اور کھلتے رہتے ہیں اور نئی نئی راہیں عرفان کے سفر کی انسان کے سامنے دراز ہوتی رہتی ہیں جن پر قدم مارنے کی توفیق محض اللہ تعالٰی کے فضل سے عطا ہوتی ہے.ان کی زبان میں دعائیں کریں جن پر خدا نے انعام کئے اس ضمن میں میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رمضان مبارک ہے اور خاص طور پر دعاؤں کے دن اور دعاؤں کی راتیں ہیں اس لئے جن لوگوں پر خدا نے انعام فرمائے ان کی زبان میں دعائیں یاد کریں اور قرآن کریم نے وہ دعائیں سب تو نہیں مگر ان میں سے اہم ترین دعائیں ہمارے لئے محفوظ فرما دی ہیں.پس مختلف انبیاء کی جو دعائیں آپ کو قرآن کریم میں ملتی ہیں ان کے علاوہ احادیث نبویہ میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی وہ دعائیں بھی ملتی ہیں جو قرآن میں گزشتہ انبیاء

Page 143

140 تعلق میں نظر نہیں آتیں مگر حضرت محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے گزشتہ انبیاء کی دعاؤں کی فہرست میں عظیم الشان اضافے فرمائے ہیں.بعض دفعہ دوسروں کو نصیحت کی شکل میں اور بعض دفعہ خود دعائیں کرتے ہوئے ایسی دعائیں کیں جو قرآن کریم میں موجود نہیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے خود کیں اور آپ کے صحابہ نے انہیں ہمارے لئے محفوظ کر لیا اور اس طرح ہمارے لئے ایک خزانہ پیچھے چھوڑ دیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو زبان میں ایسی دعائیں کی ہیں جو مختلف مشکلوں اور مصیبتوں کے وقت دعا کرنے والے دل کو اتنا گداز کر دیتی ہیں کہ اس گداز دل کی کیفیت کے ساتھ انسان یہ یقین ہی نہیں کر سکتا کہ یہ دعا مقبول نہیں ہوگی.دعا کی قبولیت کے لئے دل کی زمین کا نرم ہونا ضروری ہے اور اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے زمیندار بیج بونے سے پہلے زمین میں ہل چلاتا اور اس پر گوڈی کرتا اور اس پر اور محنتیں کرتا کبھی سوہاگے پھیرتا اور پھر ہل چلاتا ، یہاں تک کہ اس کو ایسا نرم اور مزیدار بنا دیتا ہے کہ جانوروں کا دل چاہتا ہے کہ وہ زمین پر لیٹیں اور لوٹیں اور بچوں کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس پر خوب دوڑیں اور کھیلیں خواہ ان کے جسم مٹی سے بھر جائیں مگر اس زمین پر دوڑنے کا ایک عجب اور الگ لطف ہوتا ہے.وہ زمین ہے جو بتا رہی ہوتی ہے کہ یہاں بیچ ڈالو تو بیچ اگے گا.میری چھاتی تمہارے بیجوں کے لئے نرم ہو چکی ہے اور وہاں وہ پیج ضرور اگتا ہے.پس دعا کا بیج بھی اپنے اگنے کے لئے دل کی ایسی ہی زمین چاہتا ہے جسے نرم اور گداز کر دیا گیا ہو جو ایسی کیفیت میں ہو کہ اگر کوئی دوسرا اس کو دیکھے تو اس پر پیار آئے اور اس دل پر لوٹنے کو دل چاہئے.ایسی کیفیت میں جو دعائیں دل سے اٹھتی ہیں وہ ضرور ہی مقبول ہوتی ہیں اور بسا اوقات ایسے دل سے اٹھنے والی دعا اٹھتے وقت انسان کو یہ خبر دے جاتی ہے کہ میں عرش الہی پر پہنچنے سے پہلے نہیں رکوں گی اور لازما " بارگاہ الہی میں مقبول ہوں گی.وہ ایک عجیب کیفیت ہے جو صاحب تجربہ کو معلوم ہوتی ہے جس کی کیفیت کو دوسرے تک جسے تجربہ نہ ہو بیان کے ذریعہ پہنچایا نہیں جا سکتا لیکن میں جانتا ہوں کہ اکثر احمدی کسی نہ کسی وقت ضرور ان تجارب سے گزرتے ہیں.پس انبیاء کے

Page 144

141 الفاظ میں دعائیں کرنا دل کے اندروہ نرمی اور گداز کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے کہ جس میں پھر دعا کا بیج بویا جاتا ہے اور ایک شجرہ طیبہ بن کر اگتا ہے، جس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں اور ان شاخوں کو قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ ضرور پھل لگتا ہے اور ہر موسم میں پھل لگتا ہے.یہ دعا کا شجر ایسا ہے جو کلمہ طیبہ کی صورت میں دل میں پیوست ہوا اور پھر آسمان تک اس کی شاخیں بلند ہوں تو اسے کسی بہار کی انتظار نہیں ہوتی وہ خود اپنی ذات میں بہار کا منظر پیش کرنے والا ایک دائم ایک سدا بہار ایسا درخت بن جاتا ہے جسے پھل لگتے ہی رہتے ہیں.پس قرآن کریم نے ایسے درخت کا نقشہ کھینچتے ہوئے یہی فرمایا کہ خُلحين ہر حالت ہر موقعہ پر ہر کیفیت میں اس کو خدا تعالٰی کے فضل سے پھل عطا ہوتے رہتے ہیں اور وہ کبھی بھی پھولوں سے محروم نہیں رہتا.پس یہ انبیاء کی وہ دعائیں ہیں جو ایسے دلوں سے نکلی تھیں جو دل دعاؤں کو قبول کرنے کے لئے انتہائی درجے پر تیار ہو چکے تھے اور جس کیفیت میں وہ دعائیں دل سے اٹھی تھیں ان کیفیتوں کا ایک اثر پیچھے چھوڑ گئی ہیں اور وہ الفاظ ایسے ہیں جو زمانے کے ساتھ کبھی مر نہیں سکتے.وہ کیفیتیں ایسی ہیں جو ان الفاظ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو چکی ہیں.پس اگر آپ غور کر کے انبیاء کے الفاظ میں دعائیں کریں اور خصوصا" حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے الفاظ میں دعائیں کریں تو آپکی دعاؤں کو بہت بڑی عظمت ملے گی اور پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کون لوگ تھے ؟ تو اگرچہ آپ خدا کے حضور اپنے وجود کو کلیتہ ” خالی کر چکے ہوں گے لیکن ایک اور حمد آپ کو عطا ہوگی جو آسمان سے عطا ہوگی اور ان آسمانی وجودوں کی معرفت آپ کو عطا ہوگی.نیکیوں کے حوالہ سے دعائیں نہ کریں اس ضمن میں ایک اور غلط فھی بھی دور ہونی چاہیے.میں نے گزشتہ خطبے میں یہ کیا تھا کہ دعا کرتے وقت اپنی کسی تعریف کے حوالے سے دعا نہیں کرنی چاہئیے.اپنی کسی نیکی کے حوالے سے دعا نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے آپ کو خالی کر کے ایسا فقیر بنا کے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، جس کو دیکھ کر سخت دل کو بھی رحم آجائے ایسی کیفیت

Page 145

142 کے ساتھ دعا کرنی چاہئیے.بعد میں مجھے خیال آیا کہ بعض لوگوں کو ایک حدیث کے نتیجے میں غلط فہمی نہ پیدا ہو کہ گویا یہ مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ارشاد کے نعوذ بالله من ذلك مخالف ہے.وہ حدیث ہمیں تین ایسے آدمیوں کا پتہ بتاتی ہے جو ایک غار میں کسی کام کے غرض سے گئے.پیچھے زلزلے کے نتیجے میں ایک بہت بھاری چٹان لڑھک کر اس غار کے منہ پر آپڑی اور غار کا منہ بند ہو گیا اور ان کے لئے اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں تھی اور بالکل بے طاقت تھے کہ وہ اس پتھر کو سرکا سکیں.تب ان میں سے ایک نے یہ سوچا کہ میں نے اپنی زندگی میں کونسا ایسا کام نیکی کا کیا ہے کہ جس کے حوالے سے میں دعا مانگوں تو اللہ تعالٰی کو رحم آجائے گا اور اس نے بہت سوچ بچار کے بعد اپنی ایک ایسی نیکی ڈھونڈی اور پھر اس نیکی کے حوالے سے دعا کی تو وہ پھر کچھ سرک گیا.پھر دوسرے شخص نے بھی اس کی مثال پکڑی اور اپنی نیکیوں پر نظر ڈال کر اپنی زندگی پر نظر ڈال کر ایک نیکی ایسی تلاش کی جس کے متعلق وہ سمجھتا تھا کہ خاص مقام رکھتی ہے اور اللہ تعالٰی کو پسند آئے گی.چنانچہ اس نے اپنی عرضداشت پیش کی وہ مقبول ہوئی اور وہ پھر کچھ اور سرک گیا لیکن ابھی ان کے نکلنے کی راہ کافی نہیں تھی.پھر تیسرے کو بھی یہی خیال آیا اور اس نے بھی اپنی ایک نیکی تلاش کی اور بالآخر وہ پتھر مزید ہٹ گیا اور ان تینوں کی نجات کی راہ نکل آئی.یہ مضمون تو جاتا ہے کہ اپنی نیکیوں کے حوالے سے دعا کرنا نہ صرف جائز بلکہ ایک اعلیٰ درجے کی گویا خوبی ہے لیکن جو لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں وہ اس حدیث کے مفہوم کو نہیں سمجھتے کیونکہ اگر اس حدیث کا یہ مفہوم ہوتا تو انبیاء کی دعاؤں میں ہمیں کہیں تو ایک جگہ ایسی دعا ملتی جس میں خدا کے کسی نبی نے اپنی نیکی کے حوالے سے دعا کی ہو.میں نے تو گہری نظر سے قرآن کریم کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے، احادیث کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا مطالعہ کیا ہے.مجھے کہیں اشارہ بھی کوئی ایسی دعا دکھائی نہیں دی جس میں کسی نبی نے بھی یہ عرض کیا ہو کہ اے خدا! میں یہ ہوں اور میری اس نیکی پر نگاہ ڈال.اور میری خاطر یہ کام کر دے.کہیں کوئی ذکر نہیں.اپنے آپ کو بالکل تہی دامن کر دیا ہے.خالی ہاتھ

Page 146

143 دکھایا ہے.ایسا کشکول ہے جس میں کچھ دکھائی نہیں دیتا.روحانی لباس میں وہ لوگ اس طرح خدا کے حضور ظاہر ہوئے ہیں کہ تقویٰ کے لباس سے مزین ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو اس طرح پیش کر رہے تھے جیسے بھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس کوئی فقیر ہو اور فقیر بن کر اس کی راہ میں بیٹھے تھے اور فقیر بن کر دعائیں کرتے تھے.حضرت موسیٰ الصلوۃ والسلام کی وہ دعا دیکھیں.رت الي لِمَا انْزَلَتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ اے میرے رب! لِمَا انْزَلَتْ إِلَيَّ مِن خَيْرٍ فَقِير جو بھی خیرات تو میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا فقیر بنا بیٹھا ہوں.میرے پاس کچھ بھی نہیں.پس انبیاء کی دعاوں پر غور کرنے سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کبھی دعا کی مقبولیت کی خاطر اپنی خوبی یا نیکی کا حوالہ نہیں دیا.پھر یہ حدیث اگر ان معنوں میں لی جائے جو میں نے بیان کئے ہیں تو اس تمام تاریخ انبیاء سے ٹکرا جائے گی.جو درست نہیں ہے.اس حدیث کا اور معنی ہے.اس حدیث کو میں اس نظر سے دیکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ان بندوں کی خوبی یا ان کی چالا کی نہیں بتا رہے بلکہ اللہ تعالی کی رحمت اور عظمت کا بیان فرما رہے ہیں.یہ تما رہے ہیں کہ ایسے تہی دامن لوگ جن کو ساری زندگی پر نظر ڈالنے کے بعد وہ نیکی دکھائی دی جو عام معیار سے کوئی خاص نیکی بھی نہیں.کسی معصوم عورت کی عزت نہ لوٹنا بھلا کونسی نیکی ہے اور فاقہ کشی کے وقت میں ایسے وقت میں جب کہ انسان کا دل نرم ہو چکا ہوتا ہے اور نرم ہونے کے بعد بجائے کسی اجرت کی طلب کے ویسے ہی انسان جو کچھ گھر میں ہے وہ غریبوں کے لئے خرچ کرنا چاہتا ہے.ایسے سخت تکلیف کے دور میں کسی کی عزت کا سودا نہ کرنا یہ کون سی نیکی ہے.اللہ کی رحمت اور بخشش کی وسعت پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایسے تہی دام گنگار لوگ جن کی ساری زندگی میں کوئی نیکی نہیں تھی اور ایک بدی سے بچو کی نیکی تھی.جب اس کا حوالہ دیا گیا تو اللہ اتنا رحمان ہے اور انتخا رجہ کرنے والا ہے کہ اس نے کہا : ہاں میرے بندے! اگر یہ نیکم

Page 147

144 ہے گویا وہ مضمون یہ ہے کہ خدا تو کھوٹے پیسوں سے بھی بعض دفعہ آنکھیں بند کر لیتا ہے.اتنا بخشش کرنے والا اتنا التجاؤں کو قبول کرنے والا ہے کہ اس سے اگر تم ہمیشہ دعا کے تعلق سے اپنے محبت کے رشتے مضبوط نہ کرتے رہو تو تمہاری محرومی ہے.وہ تو ہر وقت قریب ہے.ہر وقت سننے کے لئے تیار بیٹھا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو بعض لوگ غلط سمجھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں بھی اپنی نیکیوں کے حوالے سے خدا تعالٰی سے دعائیں کرنی چاہئیں.وہ پتھر تو ان کی زندگی میں ایک دفعہ گرا لیکن میں جانتا ہوں کہ ہماری زندگی میں مصیبتوں کے پتھر روز گرتے رہتے ہیں.کون انسان ہے جو اس تجربے سے نہیں گزرتا.کوئی دن ایسا نہیں آتا جو کسی نہ کسی پہلو سے تلخیاں لیکر نہیں آتا.کبھی اپنا غم کبھی کسی دوست کا غم ، کبھی رشتے دار کی تکلیف کبھی دشمن کی طرف سے ڈراوے اور کئی قسم کے خوف کبھی عالمی خوف کبھی علاقائی خوف انسان کی ساری زندگی تو مصیبت کے پتھروں میں گری پڑی ہے اپنی کتنی نیکیاں آپ ڈھونڈ نکالیں گے کہ وہ پتھر سرکنے شروع کریں.ایک ہی علاج ہے اور وہ علاج وہ ہے جو انبیاء نے ہمیں سکھایا ہے کہ خدا کے حضور کامل بجز اور انکسار کے ساتھ حاضر ہوں.اپنی نیکیوں پر انحصار کر کے دعائیں نہ مانگو.خدا کے فضلوں پر انحصار کر کے دعائیں مانگو اور اللہ تعالٰی سے کہو کہ ہم تہی دامن ہیں.سب تعریف تیرے لئے ہے.جو کچھ ہمیں اچھا دکھائی دیتا ہے وہ بھی تیری وجہ سے ہے اور تو نے بنایا ہے تو اچھا ہے.جو کچھ ہم نے کمایا اس کمانے کی توفیق بھی تو نے ہی دی اور اس پہلو سے انسان جب اپنی ساری زندگی پر نظر ڈالتا ہے تو اس کو اتنے مواقع دکھائی دیں گے کہ جب وہ ہلاک ہو سکتا تھا اور اپنی کمزوریوں اور بدیوں کی وجہ سے ہلاک ہو سکتا تھا.اگر خدا اس کی پردہ پوشی نہ کرتا تو اپنے مواقع بھی ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں کہ ایک دفعہ پر دے کا چاک ہونا اس کی ہلاکت کا سامان پیدا کر سکتا تھا، کچھ بھی اس کا باقی نہ رہتا.کوئی بیوقوف ہی ہو گا جو اپنی نیکیوں کے حوالے دیکر خدا سے مانگے پس جہاں یہ کیفیت ہو وہاں کوئی فرح مخور بیوقوف ہی ہو گا جو اپنی نیکی کے حوالے دے دے کر خدا سے مانگنے کا عادی بنے.کہاں سے اتنی نیکیاں لائے گا جبکہ بدیوں کا پلہ

Page 148

145 اتنا بھاری ہے اور کہاں سے ایسی نیکیاں لائے گا جن کی جزاء خدا نے نہیں دی.کیونکہ خدا کا تو سارا زندگی کا تعلق ان باتوں کی جزاء دکھائی دیتا ہے جو ہم نے کبھی کی نہیں.یک طرفہ رحم کا سلوک ہے.یک طرفہ احسان کا سلوک ہے اور لامتناہی ہے.ہر ہر سانس خدا کے احسان کا ممنون ہے تو ایسی کیفیت میں حکمت کا تقاضا یہی ہے کہ آدمی کلیتہ " ہتھیار ڈال دے.خالی ہاتھ اور نہتا ہو جائے اور خدا کے حضور عجز اور انکسار سے دعائیں مانگے.پس یہ وہ مفہوم تھا جو میں کھولنا چاہتا تھا.یہ مراد نہیں نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ کہ حدیث نبوی کے کسی مضمون کے کوئی مخالف بات سمجھا رہا تھا بلکہ حدیث نبوی کے مضمون کے عین مطابق بات سمجھا رہا تھا اور یہی میں اب بھی سمجھاتا ہوں کہ جب دعائیں کریں تو اس کا آغاز حمد سے ہونا چاہیے اور حمد وہ جو آپ کے دامن کو بالکل خالی کردے.جو کچھ ہے وہ خدا کے حضور پیش کر دیں.لیکن دنیا کے کاروبار میں ہمیں بالعموم اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بعض انسان غفلت میں، بلکہ میں سمجھتا ہوں بہت بڑی تعداد ہے جو خدا کی تعریف بھی کر رہے ہوتے ہیں تو ایسے برتن میں ڈالتے ہیں گویا چھلتی ہے.نیچے ان کا اپنا برتن ہوتا ہے.خدا کی تعریف چھلنی میں سے نکل نکل کر ان کے برتن کو بھرتی رہتی ہے اور خدا کی جو چھلنی ہے وہ خالی رہتی ہے.اس کے بر عکس خدا کے بعض مومن بندے ایسے ہیں جن کی تعریف کی جائے تو یوں لگتا ہے کہ وہ تعریف چھلنی پر گری ہے اور اس کے نیچے خدا کی حمد کا برتن پڑا ہے.جو تعریف ان کی ہو خواہ ان کا اپنا نفس کسی وقت کرے یا غیر اس کی تعریف کرے وہ ان کے دل کی چھلنی سے نکل کر خدا کے دائمی برتن کی طرف منتقل ہوتی رہتی ہے.یہ تعریف کا وہ تعلق ہے جسے سمجھنا چاہیے.اگر ایک انسان صحیح معنوں میں خدا تعالی کا عرفان حاصل کر چکا ہو.(عرفان تو کوئی انسان صحیح معنوں میں مکمل طور پر کر ہی نہیں سکتا).میری مراد یہ ہے کہ عرفان کے حصول کا نکتہ سمجھے جائے تو وہ ہمیشہ محسوس کرے گا کہ جب وہ کسی کی تعریف کرے یا جب کوئی اس کی تعریف کرے تو وہ آخری مقام نہیں ہے بلکہ اس سے پرے ایک مقام ہے اور جو بھی تعریف کا مستحق نظر آتا ہے اس کے پیچھے ایک سمندر ہے جس کا وہ ایک معمولی حصہ ہے.ویسا ہی ہے جیسا کہ غالب نے

Page 149

146 اپنے ایک شعر میں کہا کہ قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل کھیل بچوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا کہ اگر تمہیں قطرے میں سمندر دکھائی نہیں دیتا یعنی کسی قابل تعریف بات میں تمہیں خدا تعالیٰ کی قابل حمد ذات دکھائی نہیں دے رہی اور یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ قطرہ خدا کے سمندر کا ایک حصہ ہے تو یہ پھر دیدہ بینا نہیں ہے.یہ تو بچوں کا ایک کھیل ہے.میں امید کرتا ہوں کہ غالب نے انہی معنوں میں یہ شعر کہا ہوگا لیکن مجھے تو صرف انہیں معنوں میں یہ شعر اچھا لگتا ہے اور انہی معنوں میں تعریف کے لائق بھی ہے کیونکہ یہ شعر خدا کی تعریف سے منسلک ہو جاتا ہے.پس یہ وہ معنی ہیں جس کو ملحوظ رکھتے ہوئے حمد کرنی چاہیے اور خوبصورت چیزوں پر نگاہ کرنی چاہئیے اور خوبصورت چیزوں سے محبت کرنی چاہیے یعنی وہ محبت ان تک ٹھر نہ جائے بلکہ ان کے وجود سے پار نکل جائے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظم ہے کس قدر ظاہر ہے اور اس مہدی الانوار کا بن رہا ہے سارا عالم آپکینہ انصار کا کہ دیکھو عالم میں کیسا خوبصورت نور پھیلا پڑا ہے.جیسے چاندنی راتوں میں ہمیں مشرق میں تجربہ ہے ویسی چاندنی راتیں مغرب میں نہیں دیکھی جاتیں.وہ منظر ہی اور ہوتا ہے جو مشرق میں چاند ابھرتا ہے یا کسی ٹھنڈے دن خوبصورت دھوپ مغرب میں نکلتی ہے تو اس وقت دن کی روشنی کا جو لطف آتا ہے وہ مشرق میں کم دکھائی دیتا ہے.کسی کو خدا نے راتیں خوبصورت دی ہیں.کسی کو دن خوبصورت دے دیتے ہیں.اگر نظر وہیں ٹھہر جائے اور ایک روز مرہ کے انگریز کی طرح آپ یہ کہیں کہ What a beautiful morning اور وہیں بات کھڑی ہو جائے تو یہ غفلت ہے لیکن اگر آپ اس دل سے پیچھے جائیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ سے اس نور کا لطف اٹھا رہے ہوں تو بے اختیار دل سے یہی کلام جاری ہوگا.کس قدر ظاہر ہے اور اس مبدا الانوار کا -

Page 150

147 تمام نوروں کا جو سرچشمہ ہے اس کے نور کا ایک معمولی حصہ اس خوبصورت دن یا اس حسین رات کی شکل میں ظاہر ہوا ہے.بن رہا ہے سارا عالم آئینہ ابصار کا تمام جہان ساری کائنات یوں لگتا ہے ایک آئینہ بن گئی ہے جس میں ہمیں خدا کا حسن دکھائی دینے لگا ہے.پس حمہ کی نفی اور حمد کا اثبات یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود رہتی ہیں.غیر اللہ میں محمد ہوتی ہے کیونکہ اسی نے پیدا کی ہے لیکن اگر اس کی پیدا کردہ چیزوں تک محمد ٹھہر جائے تو وہ غفلت کی زندگی ہے جو بعض دفعہ شرک میں تبدیل ہو جاتی ہے.ایسی غفلت کی زندگی ہے جو بعض دفعہ نہیں بلکہ بسا اوقات شرک میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگر خالق کے حسن کی طرف نگاہ آگے چل پڑے اور انسانی محبتوں کا جلوس آگے قدم بڑھائے اور خدا کی طرف حرکت کرنے لگے تو پھر یہ ایک عارفانہ زندگی ہے.انبیاء کی راہوں کو تلاش کریں پس سورۂ فاتحہ پڑھتے وقت جب آپ ان راہوں پر چلیں تو میں جیسا کہ بیان کر چکا ہوں انبیاء کی راہوں کو تلاش کریں اور انبیا کی دعائیں خود بھی سیکھیں اور ان پر غور ریں اور اپنے بچوں کو بھی سکھائیں.پھر اسی طرح شیر منصوب کنیم کی آیت ہے.جن لوگوں کی راہ آپ نہیں دیکھنا چاہتے ان کی تاریخ قرآن کریم میں لکھی ہوئی ہے.کن کن راہوں سے وہ گزرتے تھے.بظاہر کتنے عظیم الشان فتح یاب دکھائی دیتے تھے.جن کے بڑے بڑے قلعے تھے اور بڑی بڑی حکومتیں تھیں اور ان کے بڑے بڑے دبدبے تھے جن سے انسان دور دور تک لرزے کھانا تھا اور انہوں نے بڑی جنتیں بنا رکھی تھیں لیکن وہ ساری رفتہ رفتہ مٹ گئیں.تہہ خاک ہو گئیں اور سوائے تاریخ کے ان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا.ان کی قبروں سے پھر کچھ اور نادان قومیں اسی طرح اُٹھیں اور پھر انہوں نے دنیا کی بڑی بڑی نعمتیں حاصل کیں مگر خدا سے تعلق نہیں جوڑا.پھر وہ بھی صفحہ ہستی سے مٹادی گئیں اور عجیب بات ہے کہ گو نیک لوگ بھی بظاہر صفحہ ہستی سے غائب ہوئے لیکن تاریخ میں نیکوں کا ذکر پیار اور محبت اور دعاؤں کے ساتھ جاری رہا اور آخر تک ان پر سلام بھیجے گئے لیکن یہ جو پہلی قسم کی قومیں تھیں

Page 151

148 جن کی بڑائی اور عظمت وقتی طور پر تھی اور خدا سے تعلق کے نتیجے میں نہیں بلکہ دنیا سے محبت کے نتیجے میں ان کے مٹنے کے ساتھ ان کی حمد بھی مٹ گئی اور ان کی برائیاں باقی رہ گئیں اور مورخین نے پھر ان پر لعنتیں ڈالنی شروع کیں کہ وہ ایسے ظالم ایسے سفاک تھے.ان کی عظمتوں میں ہمیشہ کوئی بدی دکھائی دے گی.پس خدا تعالٰی نے اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی راہ بھی خوب کھول دی ہے اور مَغْضُوب علی کی راہ بھی خوب کھول دی ہے اور قرآن کریم میں اس کا وضاحت سے ذکر موجود ہے.پس آج کل رمضان میں خصوصیت کے ساتھ اپنے گھروں میں اس مضمون کو جاری کرنا چاہئیے اور اس دلچسپ مضمون کے ذریعے اپنے بچوں کی علمی اور اخلاقی اور عملی تربیت کرنی چاہیے.قرآن کریم ایک موقعہ پر فرماتا ہے.ويَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلى يَدَيْهِ يَقُولُ لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلا يو يلى ليتني لمُ اتَّخِذْ فَلَانًا خَلِيلًا لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَاء جاءني ، وكَانَ الشَّيْطَنُ لِلإنْسَانِ خَذَ وَلا - وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ اِن قومى اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (سورة الفرقان : آیات ۲۸ تا ۳۱) اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا دن آئے گا کہ جب ظالم اپنے انگلیوں کے پورے تکلیف اور بے چینی اور بے قراری اور حسرت کے ساتھ چہائے گا.يَقُولُ يليتَنِي اتَّخَذَتُ مع الرسول سبيلاً کہے گا کہ اے کاش میں اپنے رسول کے ساتھ راہ اختیار کرتا.اس راہ پر پڑتا جس راہ پر رسول چلا تھا اس لئے یہ جو ذکر میں کر رہا ہوں یہ صرف تاریخی ذکر نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جس راہ پر چلے ہیں وہ راہ آج ہمارے لئے محفوظ کر دی گئی ہے اور اس کو ہم صراط مستقیم کہتے ہیں پس صرف دعاؤں کی حد تک نہیں بلکہ روز مرہ کی عملی زندگی میں آج بھی ہمیں اس رسول کے ساتھ سفر اختیار کرنے کی شدید ضرورت ہے.اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو قرآن کریم فرماتا يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کاٹے گا.اور کہے گا کہ کاش مجھے رسول کی معیت حاصل ہوتی اور میں اس پر چلتا جس راہ پر رسول ہے

Page 152

149 نے مجھے ڈال دیا تھا پھر فرمایا وہ کہے گا کہ يُوَيدَى لِيَتَنِي لَمْ اتَّخِذَ فُلانا خليلا صرف انعمت علیہم کا مضمون نہیں ہے بلکہ غَيْرِ المَغضُوبِ عَلَيْهِمْ کا مضمون بھی بیان ہوا ہے وہ کہے گا وائے حسرت اے کاش میں فلاں شخص کو اپنا دوست نہ بناتا اور اس کے طریق اختیار نہ کرتا.لَقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكَرِ بَعْدَاء جارتی.اس نے مجھے ذکر ملنے کے بعد پھر مجھے اس ذکر سے گمراہ کر دیا.دکان الشَّيْطَنُ الانْسَانِ خَذولا اور شیطان کی تو یہ فطرت ہے کہ وہ موقعے پر ساتھ چھوڑ دیتا ہے اور گمراہ کرنے کے بعد پھر آپ غائب ہو جاتا ہے.اور انسان کو مصیبتوں - میں مبتلا چھوڑ کر اس سے دغا بازی کر جاتا ہے وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوڑا اور رسول خدا کے حضور یہ شکایت عرض کرے گا کہ اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو مہجور کی طرح چھوڑ دیا ہے، پس ذکر سے مزاد قرآن کریم ہے گویا یہ مضمون ہمیں صرف ماضی میں نہیں بلکہ حال کی دنیا اور ہمیشہ مستقبل کی دنیا میں لے جاتا ہے.آنے والی نسلوں کو مستقبل کی دنیا میں لے جاتا ہے اور موجودہ نسلوں کو حال کی دنیا میں.اور یہ بتاتا ہے کہ وہ راہیں ماضی سے تعلق نہیں رکھتیں جن کو تم انعمت علیم کی راہیں کہتے ہو اور وہ راہیں بھی صرف ماضی سے تعلق نہیں رکھیں جن کو تم مغضوب علیہم کی راہیں کہتے ہو بلکہ قرآن کریم اور سنت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شکل میں آج تمہارے سامنے پڑی ہیں.پس تم کیسی دعائیں مانگتے ہو کہ اِهْدِنَا النفط المُستَقِية اے خدا ہمیں صراط مستیقم دکھا اور ان راہوں پر چلا جو ان لوگوں کی راہیں تھیں جن پر تو نے انعام فرمایا اور وہ راہیں تمہارے سامنے کشادہ اور کھلی پڑی ہیں اور تم ایک قدم آگے نہیں بڑھاتے اور پھر یہ دعا مانگتے ہو کہ مغضوب علیہم جو لوگ ہیں ان کی اور ضالین کے گروہ کی راہوں سے ہمیں بچا.ان راہوں پر ہم قدم نہ ماریں جن پر مغضوب چلتے رہے اور جن پر گمراہ لوگ چلتے رہے اور جب ان دو راہوں میں سے ایک اختیار کرنے کا وقت آتا ہے تو روز مرہ میں تم مغضوب اور ضالین کی راہ پر چل پڑتے ہو لیکن قیامت کے دن تم حسرت سے یاد کروگے اور یہ کہو گے اے کاش ایسا نہ ہوتا.کاش !! ہم اس سے پہلے مرچکے ہوتے کہ

Page 153

150 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی راہ کو چھوڑ کر ایک ایسے بدبخت کی راہ اختیار کرلی جس نے ہمیں ذکر سے یعنی قرآن کریم سے پرے ہٹا دیا.پس ہر ایسا دوست جو خدا تعالٰی کی راہ میں قدم بڑھانے سے مانع ہو.ہر ایسا تعلق جس کے نتیجے میں انسان رفته رفتہ نیکیوں سے محروم ہوتا چلا جائے اور پیچھے ہٹتا چلا جائے اور بدیوں کی طرف پڑھنا شروع کر دے تو وہی خلیل ہے ، وہی مغضوب علیہم کی راہ دکھانے والا ہے.وہی ضائین کی راہ دکھانے والا ہے.روح کی غذا کی طرف بچوں کو متوجہ کریں پس ایسے تعلقات سے پر ہیز کریں اور صحبت صالحین اختیار کریں یعنی ایسے لوگوں سے تعلق بڑھا ئیں جن کے نتیجے میں آپ کو قرآن کے ساتھ محبت بڑھتی ہو اور رسول کے ساتھ محبت بڑھتی ہو.اس ذکر کو اپنے گھروں میں عام کریں.آج کل بہت ہی اچھا موقعہ ہے.نمازوں کی طرف توجہ ہے.بچے بھی اٹھتے ہیں.اگر وہ روزے نہیں رکھ سکتے تو سحری کھانے کے لئے اٹھ جاتے ہیں.اگر ایک روزہ نہیں رکھ سکتے تو بعض بچے ایک دن میں دو دو تین تین روزے رکھتے ہیں، ایک بچے سے میں نے ایک دفعہ پوچھا کہ کتنے روزے رکھے تو اس نے کہا : آج میں نے پانچ روزے رکھے تو بہوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن روزے کا احترام ہے.مجھے یہ جواب سن کے بڑی خوشی ہوئی.اس کے دل میں روزے کا پیار ہے.وہ اسے قابل فخر سمجھتا ہے اس لئے اس نے دن میں پانچ دفعہ کھانا کھایا تو اس نے کہا : میں نے پانچ روزے رکھتے ہیں تو ان پانچ روزے رکھنے والوں کو پانچ نمازوں کی بھی عادت ڈالیں.ان کو بتائیں کہ یہ نمازیں تو تم پڑھ سکتے ہو اور نماز کے طریق سمجھائیں.حمد کی جو باتیں آپ سنتے ہیں وہ آگے ان کو ذہن نشین کروائیں اور گھر میں پیار کی مجلسیں لگائیں ، عورتوں بچوں کی مجالس اور ان کو سمجھائیں کہ اس طرح عبادت کی جاتی ہے.یہ یہ مقاصد ہیں.پھر جن بچوں کو یہ توفیق ملتی ہے کہ وہ روزہ رکھ سکیں ان کو ساتھ ساتھ یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ روزہ محض صبح کچھ کھانے سے نہیں رکھا جاتا کیونکہ محض کھانے سے تو جسم کو غذا ملتی ہے اور یہ مہینہ روح کی غذا کا ہے.اس لئے تم صبح نفلی عبادت بھی کیا کرو.پس یہ سمجھانے کی ضرورت

Page 154

151 ہے کہ جسم کی غذا کو خدا نے کم کیا ہے اور روح کی غذا کو بڑھایا ہے.اس لئے روزے کا ایک تعلق جسم سے ہے جس میں اس کی غذا کو کم کیا گیا ہے.ایک تعلق روح سے ہے جس میں اس کی غذا کو بڑھایا گیا ہے.پس اگر تم روح کی غذا بڑھاؤ گے نہیں اور محض جسم کی غذا گھٹاتے چلے جاؤ گے تو یہ فاقہ کشی ہے، روزہ نہیں، اس مضمون کو آرام سے نرم لفظوں میں بچوں کی زبان میں ان کو سمجھائیں اور ان کو نوافل پڑھوانا شروع کریں.اور چھوٹی عمر میں اگر نفلوں کی عادت پڑ جائے اور احساس ہو کہ میں نے وقت کے اوپر اٹھتا ہے اور نفل پڑھنے ہیں تو وہ عادت بعض دفعہ ہمیشہ کے لئے دل پر نقش ہو جاتی ہے اور انسانی فطرت کا حصہ بن جاتی ہے.میں نے جو تجد پڑھنے والے اکثر لوگ دیکھتے ہیں رہ وہی ہیں جن کو بچپن میں عادت پڑی ہے یا جن کے گھروں میں بعض بزرگ تجد پڑھا کرتے تھے اور بچپن میں انہوں نے دیکھا.دل پر اس کی عظمت بیٹھ گئی.خواہ وقتی طور پردہ نہ بھی پڑھ سکے ہوں بعد میں ان کو عادت پڑ گئی مگر جو گھر ذکر سے خالی ہوں وہ تو ليتني والی بات ہے کہ کاش ان کی دوستی ہمیں نصیب نہ ہوتی.جہاں تجد تو درکنار نمازوں کا بھی اہتمام نہ ہو وہ زندگی سے خالی گھر ہیں.وہاں جو بچے پلتے ہیں ان کی حالت سخت قابل رحم ہے لیکن بہت سے ایسے گھر ہیں جو رمضان کے مہینے میں جاگ اٹھتے ہیں.رمضان کے مہینے میں ان میں زندگی کی چہل پہل دکھائی دیتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہئیے اور ان گھروں کو خود بھی عبادت پر ہمیشہ قائم رہنے کے عزم کرنے چاہئیں اور رمضان المبارک میں بچوں کو عبادت کی عادت ڈالنی چاہئے.بعض دفعہ جو عادت بچے اختیار کرتے ہیں اس پر وہ قائم رہتے ہیں اور بڑے پیچھے ہٹ جاتے ہیں.پھر بچے ان کو یاد کراتے ہیں اور کہتے ہیں.بھئی! آپ تو ہمیں کل کہہ رہے تھے کہ نماز پڑھا کرو اور تجد پڑھا کرو.آپ تو اب مزے سے رات کو دیر تک باتیں کرتے ہیں اور صبح دیر سے اٹھتے ہیں تو یہ کیا بات ہوئی؟ بچہ بعض دفعہ بے تکلفی سے اپنے ماں باپ کو ایسی باتیں سنا دیتا ہے کہ اگر کوئی باہر سے سنائے تو اس سے لڑائی ہو جائے تو یہ دن ہیں.ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں.اللہ ہم سب کو ذکر کی توفیق عطا فرمائے اور ایسے رنگ میں عبادت کی توفیق بخشے کہ ہمیں عبادت میں گرمی لذت آنی شروع ہو جائے اور سب..

Page 155

152 زیادہ لذت ہمیں عبادت کے ذریعے خدا سے تعلق میں پیدا ہو جیسا کہ حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کوئی اور لذت ایسی نہیں جیسی خدا کی محبت میں ملتی ہو.اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 156

153 بيت الفضل - لندن ۵ اپریل ۱۹۹۱ء پيشو الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ رمضان المبارک کا آخری عشرہ تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- رمضان المبارک اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے اور آج رات سے وہ عشرہ شروع ہو گا جس عشرے میں ایسی مبارک گھڑیاں بھی آتی ہیں جب خدا تعالیٰ کے فضل سے قبولیت خود آسمان سے نیچے اترتی ہے اور دعاؤں کو دلوں سے اٹھاتی ہے اور ایک ایسی رات بھی آنے والی ہے جسے لَيْلَةُ القدر کہا جاتا ہے، جس کے متعلق فرمایا کہ وہ ساری عمر کی تمام راتوں سے بہتر رات ہے.اگر اس کی برکتیں نصیب ہو جائیں تو انسان کی زندگی بن جائے.پس یہ وہ دن ہیں جو خاص دعاؤں کے دن ہیں.خاص محنت کے دن ہیں.یہ وہ راتیں ہیں جن راتوں کو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ ہ وسلم اس طرح زندہ کر دیا کرتے تھے، اس طرح روشن کر دیا کرتے تھے کہ دنوں کی روشنی سے ان کی روشنی بڑھ جاتی تھی.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا بتاتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو ہمیشہ عبادت پر مستعد رہتے تھے ان راتوں میں تو یوں لگتا تھا کہ کمر کس لی ہے اور ایسے مستعد ہو گئے گویا آرام کو بھول گئے.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ بعض مواقع پر اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو سہولت کی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ اتنی محنت نہ کر اسے کچھ کم کر دے.پس یہ وہ عشرہ ہے جو بہت سی برکتیں لیکر آنے والا ہے.ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالٰی ہم میں سے زیادہ سے زیادہ بندوں کو اس عشرے کی برکتوں سے نوازے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس کی نظر میں ان برکتوں کے مستحق ٹھہریں.آله و

Page 157

154 بہت سے کمزور ہیں جو اس عشرے میں جاگ اٹھتے ہیں جو سارا سال غفلت میں سوئے پڑے رہتے ہیں ان کے لئے بھی ہمیں دعا کرنی چاہئیے کہ ان کی آنکھ ایسی روشنی میں کھلے کہ پھر انہیں ہمیشہ کے لئے روشنی سے محبت ہو جائے اور سوائے مجبوری کے پھر وہ آنکھیں بند کرنے والے نہ ہوں.ایسے بھی لوگ ہیں جو اس عشرے سے ڈرتے ہیں اور خوف کھاتے ہیں کہ شاید ہم اس کا حق نہ ادا کر سکے ہوں.ایسے بھی ہیں جو روزے نہیں رکھ سکتے اپنی کمزوریوں کی وجہ سے اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا کی سب خلقت اس کی رحمتیں لوٹ رہی ہے اور ہم محروم ہوئے بیٹھے ہیں.اگر چہ قرآن کریم میں ان کے لئے یہ خوش خبری ہے کہ تم پر کوئی حرج نہیں.تمہارا کوئی جرم نہیں اور خدا تعالی تم سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا مگر دلوں کا کیا علاج کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھتے اور اس محرومی میں جلتے ہیں، ان کے لئے بھی ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالٰی ان کی سکینت کے سامان فرمائے اور ان کی محرومیوں کو عنایات میں تبدیل فرما دے اور ان کی دعاؤں کو جس حال میں بھی وہ ہیں اس حال میں سنے.ایسے بھی ہوں گے جو اٹھ نہیں سکتے جو کھڑے ہو کر عبادت ادا نہیں کر سکتے.ایسے بھی ہیں اور ہونگے جو بیٹھ بھی نہیں سکتے اور مجبورا بستروں پر پڑے رہتے ہیں.ایسے بھی ہوں گے جو کروٹ تک نہیں بدل سکتے.ایسے بھی ہوں گے جو اب تک نہیں ہلا سکتے.پس ان سب مجبوروں کو بھی ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی ان کی مجبوریوں اور بے بسوں پر رحمت کی نظر فرمائے اور ان کے دلوں سے وہ دعائیں اٹھائے جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ بسا اوقات اس عشرے میں خدا کی قبولیت آسمان سے زمین پر اترتی ہے اور دلوں سے دعاؤں کو اُٹھا کر عرش تک پہنچا دیتی ہے.سورۂ فاتحہ کا مضمون آخری مراحل میں اس خاص عشرے کے دوران یہ حسن اتفاق ہے یا اللہ تعالیٰ کا تصرف ہے کہ وہ مضمون بھی اپنے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے جو میں گزشتہ کچھ عرصے سے سورۂ فاتحہ سے متعلق بیان کر رہا ہوں.اور ان دونوں باتوں کا انطباق ہو چکا ہے.پس آج کے مضمون میں میں اس حصے کی طرف احباب جماعت کو متوجہ کروں گا.پہلے بھی میں

Page 158

155 مختصرا" ذکر کر چکا ہوں لیکن اب زیادہ تفصیل سے متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں تو ہم کیا دعا مانگتے ہیں اور ہمیں کیا دعا مانگنی چاہئیے.یہ ہے تو ایک دعا لیکن ایک ایسے برتن کی طرح ہے جسے ہم نے اپنے جذبات اور اپنی امنگوں سے بھرتا ہے اور اپنے خیالات اس میں ڈال کر ان خیالات کو دعاؤں میں تبدیل کرنا ہے.اس ضمن میں یاد رکھنا چاہیے کہ جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ و إيَّاكَ نَسْتَعِین تو اس دعا کے دو رخ ہیں.ایک پہلے کی طرف اور ایک بعد کی طرف پہلے رخ کے لحاظ سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے وہ خدا جس کا حسن سورۂ فاتحہ نے ہم پر ظاہر فرمایا ہے.جس نے ہم کو چکا چوند کر دیا ہے ، ہماری نظروں کو چکا چوند کر دیا ہے اور ہمارے دل میں عشق کا شعلہ بھڑکا دیا ہے، ہم تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں اور صرف تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں لیکن تیری مدد کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے.پس إيَّاكَ نَسْتَمِنین ہم تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں کہ عبادت کا حق ادا کریں اور عبادت کے سب فیض پانے کے لئے بھی تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.یہ رخ تو پہلے کی طرف ہے.یہ سورۂ فاتحہ کا اعجاز ہے کہ اس نے اس دعا کو ایسے مرکز میں رکھا کہ دونوں طرف برابر چسپاں ہوتی ہے.آئندہ کے لئے اس دعا کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے خدا! اہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اس معاملے میں تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں کہ اهْدِنَا الضراط الْمُسْتَقِية.ہمیں سیدھے راستے پر چلا کیونکہ اس راستے پر چلنا تیری مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے.نعمتیں پانے والوں کا راستہ پانے کی دعا اس پہلو سے جب ہم اس مضمون کا مزید مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت ہم پر اور زیادہ واضح ہو جائے گی کہ اس دعا کی مدد کے بغیر صراط مستقیم پر چلنا ہر گز انسان کے بس کی بات نہیں.پس ہم کیا دعا کرتے ہیں.اس پہلو سے میں آپ کو کچھ مزید باتیں قرآن کریم کے مطالعہ کی روشنی میں سمجھانا چاہتا ہوں.یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اھدنا

Page 159

156 الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم نعمتیں مانگی جارہی ہیں اور اس میں کون سے مشکل بات ہے لیکن جو مشکل بات ہے وہ یہ ہے کہ نعمتیں نہیں مانگی جارہیں بلکہ نعمتیں حاصل کرنے والوں کا راستہ مانگا جا رہا ہے.اس لئے یہ غلط فہمی دل سے نکال دیں کہ گویا یہ دعا ہے کہ اے اللہ ! ہماری جھولی میں ساری نعمتیں ڈال دے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی دعا کرے کہ اے خدا! میں تو ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہوں گا تو میری جھولی میں ہر قسم کے پھل ڈال دے.یہ تو بہت آسان دعا ہے مگر جو دعا سکھائی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا ! میں پھل چاہتا ہوں لیکن اس طرح جس طرح تیرے محنت کرنے والے بندوں نے پھل حاصل کئے.اس طرح پھیل چاہتا ہوں جس طرح باغبان نے لمبے عرصے تک محنتیں کیں.گٹھلیاں زمین میں گاڑیں ان کے ارد گرد زمین کی تلائی کی اسے نرم کیا اور ہر قسم کی ضرورت پوری کی.جب راتوں کو اٹھنا پڑا تو راتوں کو اٹھا.جب چلچلاتی دھوپ میں پودوں کی حفاظت کے لئے جانا پڑا تو چلچلاتی دھوپ میں ان کی حفاظت کے لئے گیا.جب پانی کی ضرورت پڑی تو پانی سے ان کو سیراب کیا.غرضیکہ لمبا عرصہ محنت کرتا چلا گیا.ہر قسم کے جانوروں سے حفاظت کی.ہر قسم کے چوروں اچکوں سے ان کی حفاظت کی.اپنے بچوں کی طرح انہیں پالا پوسا یہاں تک کہ وہ درخت تیری رحمت کے سائے تلے بڑے ہوئے اور پھر اس تمام عرصہ میں وہ تجھ سے دعائیں کرتا رہا کہ اے خدا! اس درخت کو آسمانی آفات سے بھی بچا.محنت تو میں نے کی لیکن پھل لانا تیرا کام ہے، تو اب ان درختوں کو شمر دار فرما دے.پھر اس کی دعائیں مقبول ہوئیں اور پھر کثرت سے ان درختوں کو پھل گئے.اے خدا! مجھے ان زمینداروں کا رستہ دکھا اور ان زمینداروں کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما.انعام پانے والوں کا رستہ پانے کی دعا کا مطلب اب اس دعا کو آپ سارے زمیندارے کے مضمون پر پھیلا کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ بہت ہی مشقتوں کی دعا مانگ رہے ہیں.آپ یہ سوچ کر حیران ہو.گے کہ آپ نرم سے منہ سے کیا مانگ بیٹھے ہیں.اس صورت حال پر تو فارسی کا وہی شعر صادق آتا ہے کہ.

Page 160

157 الَا يَا أَيُّهَا السَّائِي اَور كَأْسًا وَنَاوِلُهَا که عشق آسان نمود اول ولے افتاد مشکل کا کہ اے ساقی ! پیالے کو چکر میں لا.پیالے کا دور چلا اور مے گساروں کے ہاتھوں تک پہنچا دے.کیوں اس کی ضرورت پیش آئی؟ اس لئے کہ ہم شروع شروع میں یہ سمجھتے تھے کہ عشق آسان ہے.ہم عشق کو عیش سمجھتے تھے.ہم سمجھتے تھے کہ عشق لڑا ئیں گے اور مزے اڑائیں گے.ولے افتاد مشکل ہا اب عشق آن پڑا ہے تو مصیبت آپڑی ہے.اب سمجھ آئی ہے کہ عشق ہوتا کیا ہے اور اس کے لوازمات کیا ہیں.پس یہ دعا مانگنا تو آسان ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ لیکن جب ان رستوں پر چلنے کی کوشش کریں گے اور اس دعا کے مفہوم کو پوری طرح سمجھیں گے تب سمجھ آئے گی کہ خدا سے کیا مانگ بیٹھے ہیں لیکن دنیا کے معشوقوں کی طرح کا یہ معشوق نہیں.یہ حقیقی معشوق مجازی معشوقوں سے بالکل مختلف ہے.وہ تو اپنے عشاق کی مدد نہیں کرتے لیکن یہ معشوق ہر آن اپنے عشاق کی مدد کے لئے مستعد کھڑا رہتا ہے.وہ انکے دل کی پکار پر کان دھرتا ہے اور ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کب میرا عاشق مجھے درد کے لئے پکارے تو میں دوڑتا ہوا اس کی طرف بڑھوں.جب وہ سوال کرتا ہے تو اس کو جو اسب دیتا ہے کہ اتي قريب اے میرے بے قرار بے چین بندے اے میرے متلاشی ! میں تو تیرے پاس ہی ہوں.یہ ایسا معشوق ہے جو ماں سے بہت بڑھ کر اپنے طلب گار بچے سے حسن و احسان کا سلوک کرتا ہے.پس جہاں یہ راہ مشکل ہے وہاں آسان بھی ہو جاتی ہے اگر دعاؤں کی مدد سے اس کو آسان کیا جائے اور خدا سے وہ تعلق باندھا جائے جو محبت اور پیار اور عشق کا تعلق ہے.خدا کی نظر میں مغضوب سبھی جانے والی اقوام سے بچنے کی دعا اس وضاحت کے بعد میں چند نمونے آپ کے سامنے قرآن کریم کے بیان کے پیش نظر رکھتا ہوں.قرآن کریم میں مختلف جگہ منعم عليهم کا ذکر بھی فرمایا گیا اور ان لوگوں کا ذکر بھی فرمایا گیا جو مغضوب ہیں یا ضالین ہیں.عام طور پر معاملے کو آسانی سے سمجھانے کی خاطر یہ کہا جاتا ہے کہ مغضوب علیحم کے متعلق جب آپ

Page 161

158 سوچیں تو یہ سوچیں کہ گویا یہود کا ذکر چل رہا ہے اور ضالین کی بات کریں تو ذہن میں عیسائیوں کی تاریخ کو لے آئیں لیکن یہ بات اتنی سادہ اور ایسی آسان نہیں اور اس طرح یکلخت اور یکدفعہ کسی ساری کی ساری قوم کو مغضوب قرار دینا درست نہیں اور کسی ساری کی ساری قوم کو ضالین قرار دینا بھی درست نہیں ورنہ یہ بات قرآن کریم کے بعض بیانات سے متصادم ہو جائے گی، ان بیانات سے ٹکرا جائے گی.کیونکہ یہی وہ کتاب ہے جس میں بہت سے یہود کی بہت بڑی بڑی تعریفیں فرمائی گئی ہیں اور ان کو خدا کے نیک بندے قرار دیا گیا ہے.یہی وہ کتاب ہے جس نے بہت سے عیسائیوں کی بہت تعریفیں فرمائیں اور انہیں خدا کا عابد زاہد بندہ قرار دیا.ایسے بندے جو خدا کی خاطر دنیا تیج کے ایک طرف چلے گئے اور عمر بھر عبادات میں صرف کر دی.پس ایسی کتاب کے مضمون کو اس رنگ میں سمجھنا کہ اس کتاب کے دوسرے مضمون سے ٹکرانے لگے درست نہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ مغضوب علیھم کے رستوں سے ہمیں بچا تو یہود کی بات ان معنوں میں سوچتے ہیں کہ یہود قوم میں بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے شروع تاریخ سے ہی ایسی غلطیاں کیں جو خدا کے غضب کا نشانہ بنانے والی بھی تھیں اور دنیا کے غضب کا نشانہ بنانے والی بھی تھیں.پس یہود سے نہیں بلکہ ان بار بار ٹھو کر کھانے والوں اور غلطیاں کرنے والوں کی راہ سے بچانے کی دعا ہے جو خدا کے غضب کا اور بنی نوع انسان کے غضب کا نشانہ بنے ہیں.پس ان مکروھات سے بچنے کی دعا ہے جو مکروهات خدا کے غضب پر فتح ہو جاتی ہیں اور اسی طرح ان غلطیوں اور ٹھوکروں سے بچنے کی دعا ہے جن میں عیسائی قوم بحیثیت قوم مبتلا ہوئی اور خدا کے ایک عاجز بندے کو خدا کا بیٹا بنا بیٹھی لیکن خودان میں بہت سے نیک لوگ بھی ہیں.قرآن کریم کے بیان کے مطابق ایسے نیک لوگ بھی ہیں جب وہ خدا کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں.ان کے دل نرم پڑ جاتے ہیں.وہ خدا کے حضور اٹھ کر گریہ وزاری میں جھک کر اس کے حضور عبادت کرتے ہوئے راتیں گزارتے ہیں.ایسے گروہ یہود میں سے بھی ہیں اور نصاریٰ میں سے بھی ہیں.

Page 162

159 پس کسی قوم سے نفرت کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ بعض برائیوں سے نفرت کی تعلیم دی گئی اور ان کی مثالیں آپ کے سامنے معاملے کو آسان بنانے کے لئے رکھی گئیں.ایک اور وجہ اس دعا کو زیادہ وسیع معنوں میں لینے کی یہ ہے کہ قرآن کریم سے تو پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں ہر جگہ خدا تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اپنے پیغام بھیجے.رسول مبعوث فرمائے.خوش خبریاں دینے والے بھیجے.ڈرانے والے بھیجے اور ان کی قوموں نے بھی ان سے ایسے سلوک کئے کہ بعض انعام پانے والی بن گئیں اور بعض مغضوب ہو گئیں اور بعض ضالین ٹھہریں.تو اگر اس دعا کو یہود اور عیسائیوں کے ذکر پر ہی محدود کر دیں گے تو ان مشرکین کا کیا بنے گا جنہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ مخالفت کی اور جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ شرک نجس ہے اور وہ ہر دوسری چیز کو معاف فرمادے گا مگر شرک کو معاف نہیں فرمائے گا اور ان قوموں کا کیا بنے گا جو ہندوستان یا چین یا جاپان یا دوسری دنیا میں شرک میں مبتلا ہیں اور مبتلا رہی ہیں یا دوسرے کئی قسم کے ایسے گناہوں میں ملوث ہوئیں جو خدا کے اور بنی نوع انسان کے غضب کا نشانہ بنانے والے گناہ تھے اور پھر ان قوموں کا کیا بنے گا جو دنیا کے مختلف خطوں میں، نئی دنیا میں یا پرانی دنیا میں پیدا ہوئیں اور خدا کے حضور ضالین ٹھریں.پس اس مضمون کو اتنے محدود تصور کے ساتھ اپنے ذہن میں نہ جائیں بلکہ اس وسیع تصور کے ساتھ ذہن میں جمائیں اور ساری دنیا میں ہر وہ قوم جو بعض غلطیوں کی وجہ سے خدا کی نظر میں مغضوب ٹھری اس سے بچنے کی دعا کریں.اور ہر وہ قوم جو گمراہ ہو گئی اور اپنی بعض نیکیاں بھی قائم رکھیں لیکن بعض بدیوں میں بھی مبتلا ہوئی.اچھے برے کو ملا دیا.اور اس طرح خدا نے انہیں گمراہ قرار دیا خواہ وہ مشرق کی قوم ہو یا مغرب کی قوم ہو.خواہ وہ اسلام سے باہر ہو یا مسلمانوں کے اندر ہو، ہر ایسی قوم سے بچنے کی دعا سکھائی گئی ہے.پس مسلمانوں میں بھی اگر کچھ ایسے لوگ ہوں جو وہ عمل کریں جو مغضوب بتانے والے ہوں تو غیر المغضوب علی کی دعا ان پر بھی صادق آتی ہے اور ان

Page 163

160 کو بھی اپنے دائرے میں لیتی ہے اور ان سے بچنے کے لئے بھی ہمیں متوجہ کرتی ہے.ای طرح أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا دائرہ بھی بہت ہی وسیع ہے.پس جیسا کہ میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ قرآن کریم کے مطالعہ سے انعمت کی تعریف معلوم کریں کہ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ والے لوگ ہیں کیا؟ اور ان کا مزید مطالعہ کریں.پھر جب آپ دعا مانگیں گے تو پتہ ہو گا کہ کیا مانگ رہے ہیں.آنکھیں بند کر کے نہیں مانگیں گے بلکہ ہوش سے مانگیں گے اور اس کی ذمہ داریوں کو سمجھ کر دعا مانگیں گے اور پھر ان کا دل ان کو بتائے گا کہ وہ اپنی دعا میں بچے ہیں یا جھوٹے ہیں.واقعی صمیم قلب سے دل کی گہرائیوں سے دعا کر رہے ہیں یا پوپلے منہ کی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں.یہ دعا آسان دعا نہیں اب بتائیے کہ یہ دعا کوئی آسان دعا ہے کہ اے خد! ہمیں ان رستوں پر چلا جن رستوں پر پتھر پڑتے ہوں.اے خدا! ہمیں ان رستوں پر چلا جہاں گندی گالیاں دی جاتی ہیں.اے خدا!! ہمیں ان رستوں پر چلا جہاں بغیر قصور کے لوگ گھروں سے نکالے جاتے ہوں اور قتل کئے جاتے ہوں.ایسے رستوں پر چلا جہاں چلنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے ذبح کئے جاتے ہوں، ان کی مائیں ذریج کی جاتی ہوں، انکی عزتیں لوٹی جاتی ہوں.انہیں ہر قسم کے الزامات کا نشانہ اور طعنہ و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہو.جہاں زندگی عذاب بنادی جاتی ہو.اب بھلا یہ دعا کوئی ہوش مند آنکھیں کھول کر کر سکتا ہے مگر جب انعمت عَلَيْهِمْ کی تاریخ پر غور کرتے ہیں تو اس راہ سے گذرنے والے، جو راہ ہم مانگ رہے ہیں، اسی قسم کی مصیبتوں میں مبتلا کئے گئے.اپنے گھروں سے نکالے گئے.بغیر کسی قصور کے ان کو قتل کیا گیا.ان کو گھروں سے نکالا گیا.ان کے اموال لوٹے گئے.انہیں طرح طرح کے سب رشتم کا نشانہ بنایا گیا.ساری زندگی ان سے نفرتیں کی گئیں.ان کو حقیر قرار دیا گیا.ان کو گمراہ قرار دیا گیا.ذلیل اونی اونی لوگ جب ان راہوں سے گزرتے تھے جہاں سے خدا کے یہ نیک انعام پانے والے بندے گزر رہے ہوتے تو بڑی بڑی باتیں ان پر بناتے تھے اور ان کو حقارت سے دیکھتے تھے.ایک

Page 164

161 دوسرے کو آنکھیں مارتے تھے اور ہنتے ہوئے کہتے تھے کہ یہ گمراہ جس نے دیکھتے ہیں دیکھ لو.یہ بد بخت لوگ ہیں جن کے پاس کوئی ہدایت نہیں.ایسے ایسے مظالم کا ان کو نشانہ بنایا گیا اور جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس مطالعہ میں ساتھ ہی خدا یہ بتاتا ہے کہ میرے یہ پیارے بندے ہیں.میرے یہ انعام یافتہ لوگ ہیں.پس جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کے راستے پر چلا تو یہ سب دعائیں اس میں شامل ہیں.یہ سب مرادیں ہیں جو ہم مانگ رہے ہیں.اسی طرح اس راستے پر چلنے کے نتیجے میں ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں.ہم خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ آرنا منا سحنا ہمیں ہماری قربان گاہیں دیکھا.وہ جگہیں دکھا جہاں ہم تیرے حضور اپنی قربانیاں پیش کریں گے.ہم خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا! ہم سے ہمارے سارے اموال لے لے اور ہماری جانیں لے لے اور ہم سے یہ سودا کرنے کہ ہمارا کچھ بھی نہیں رہا، سب تیرا ہو گیا ہے اور اس کے بدلے ہمیں ایک آئندہ آنے والی جنت کی خوش خبری دے دے.یہ وعدہ کر لے کہ جب ہم اس دنیا کو چھوڑ دیں گے تو تیری دائی جنت میں داخل کئے جائیں گے.پس جو ہاتھ میں ہے اسے چھوڑنے کی دعا مانگ رہے ہیں اور جو ہاتھ میں نہیں اور عام دنیا کی نگاہ میں ایک موہوم وعدہ ہے اسے حاصل کرنے کی دعا مانگ رہے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو پھر لوگ بے وقوف کہتے ہیں.کہتے ہیں کہ پاگل ہیں.ان کو پتہ ہی نہیں کہ یہ دنیا ہے جو آج کی زندگی ہے بس یہی سب کچھ ہے.آنکھیں بند تو سب کچھ ختم اور وہ بنتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ پاگل لوگ خدا کے بندے بنتے ہیں، ہوش والے بنتے ہیں یہ تو بے وقوف ہیں.مضاء ہیں ، لیکن خدا کے ان بندوں کے کانوں میں خدا کی یہ آواز پڑتی ہے.الا انَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ ولكن لا يَعْلَمُونَ.خبردار! ان کے طعنوں سے تم منتحل نہ ہو جانا.ان کے طعنوں سے تم کہیں امیدیں نہ چھوڑ بیٹھنا.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ الا لا نهُمْ هُمُ السُّفَها خبر دارایی وه لوگ ہیں جو بے وقوف ہیں.تم بے وقوف نہیں ہو.تم عقل والے ہو.تم نے صحیح سودے کئے ہیں تو یہ دعائیں ہیں جو ہم مانتے ہیں.اور پھر زنجیریں مانگتے ہیں.قید کی دعا مانگتے

Page 165

162 ہیں.یہ دعا مانگتے ہیں کہ ہماری ساری عمر پابندیوں میں صرف ہو جائے یہ دعا مانگتے ہیں کہ اس قید خانے میں ہمیں ڈال جس کا ذکر تیرے بچے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان الفاظ میں فرمایا کہ الدُّنْیا سِجْنُ لِلْمُؤْ مِن وَجَنَّةَ لِلْكَافِرِ که دنیا تو مومن کے لئے ایک قید خانہ ہے.مصیبت خانہ ہے جس میں وہ پڑ جاتا ہے.کسی چیز کی آزادی نہیں رہتی.یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا.سونے لگتا ہے تو پابندیوں کے ساتھ سوتا ہے.اٹھتا ہے تو پابندیوں میں آنکھیں کھولتا ہے جو قدم اٹھاتا ہے یہ سوچتا ہے کہ یہ خدا کی ناراضگی کا قدم تو نہیں اور کونسا ایسا قدم اٹھاؤں کہ خدا کی پابندی کی زنجیروں میں جکڑا رہتے ہوئے دھیرے دھیرے آہستہ آہستہ انہیں راہوں پر قدم اٹھاؤں جن راہوں پر جانے کی یہ زنجیریں مجھے اجازت دیتی ہیں.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے تو قصے کو مختصر فرما دیا اور کہا کہ ہاں! اب دعا مانگو کہ اے خدا! ہمیں عمر بھر کا قیدی بنا دے.ایسا قیدی بنا دے جس کی گویا ساری آزادیاں چھین لی گئیں.پس یہ دعا ہے جو آپ مانگ رہے ہیں اور پانچ وقت بھولے پن سے اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں مانگتے ہیں اور پھر خدا کے جو اور بھی زیادہ سادہ لوح اس سے محبت کرنے والے پیار کرنے والے بندے ہیں وہ نفلوں کے اضافے کرتے ہیں.راتوں کو اٹھتے ہیں.دنوں کی دعا سے مطمئن نہیں ہوتے کہتے ہیں ابھی ہم نے پوری مصیبتیں نہیں مانگیں اے خدا! اب باقی وقت ہم مزید مصیبتیں مانگتے ہیں.جو کچھ رہ گیا ہے وہ ہم پر نازل فرما.یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں میں شامل نہ فرما جو قرآن کے بیان کے مطابق یہ سمجھتے ہیں کہ ایمان لانا کافی ہے اور اس کے بعد کوئی ابتلاء نہیں آئیں گے.ہمیں ان لوگوں میں داخل فرما جو ایمان لائے یہ جانتے ہوئے کہ یہ ابتلاؤں کا رستہ ہے اور یہ دعا کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ اے خدا! اب وہ ابتلا ہم پر ڈال لیکن یہ رحم فرما کہ ان ابتلاؤں میں ثابت قدم فرما.ان ابتلاؤں سے زندہ سلامت گزار دے اور پھر ہم تیرے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے ان ابتلاؤں کے دور سے نکلیں.

Page 166

163 اللہ کی مدد کے بغیر دعا بھی ممکن نہیں پس إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی دیکھیں کتنی ضرورت تھی.شروع میں ہی خدا سے یہ التجا کرنے کی ضرورت تھی کہ عبادت تو تیری ہی کرتے ہیں اور کسی اور کی نہیں کرتے.تیری کرنا چاہتے ہیں کسی اور کی نہیں کرنا چاہتے مگر اے خدا بہت مشکل رستہ ہے.تیری مدد کے بغیر ہم وہ دعا بھی نہیں کر سکتے جو دعا تو ہمیں سکھا رہا ہے اور ابھی آنے والی ہے.ہر دَايَّاكَ نَسْتَعِین کا یہ پہلو اخدنا الخراط المستقلة کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اس کا مطلب یہ بنے گا کہ اے خدا! ہمیں اس سچی دعا کی توفیق عطا فرمادے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ اس سارے مضمون کو قرآن کے بیان کی روشنی میں پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں تو یہ دعا بہت مشکل اور مشکل سے مشکل تر ہوتی چلی جاتی ہے.بہت سے ایسے مقام آتے ہیں کہ جب انسان کا دل کانپ جاتا ہے، ڈر جاتا ہے اور اسے اس دعا کی تفصیل کے ساتھ ہمت نہیں پڑتی.ان دعا کرنے والوں کی وہ تفصیل جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے ایک تاریخ کی صورت میں کھول کر رکھ دی ہے اس تفصیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ دعا مانگنے کی ہمت نہیں پڑتی.پس إِيَّاكَ نَسْتَعین کی شدید ضرورت ہے کہ مدد مانگی جائے کہ اتنی اتنی ہمیں دعا سکھا اتنی اتنی دعا مانگنے کی توفیق عطا فرما جو تیری مدد سے آسان ہوتی چلی جائے اور طبعا " سچائی کے ساتھ دل سے اٹھے نہ کہ بناوٹ کے ساتھ ہونٹوں سے نکلے.اس ضمن میں میں نے قرآن کریم کے آغاز سے لیکر آخر تک چند قرآنی بیانات کو اس دعا کے ساتھ منسلک کر کے آپ کے سامنے پیش کرنے کا اراد کیا لیکن جب میں نے سورہ بقرہ سے بات شروع کی تو یہ مضمون اتنا بڑھ گیا کہ نا ممکن تھا کہ ایک دو تین چار پانچ دس جمعوں میں بھی اس کا حق ادا کیا جائے.پس میں نے کچھ نمونے سورہ بقرہ سے آپ کو سمجھانے کے لئے کہ جب آپ قرآن کریم کا مطالعہ کریں گے تو اس دعا کے ساتھ منسلک کر کے مطالعہ کریں اور پھر ہر دفعہ یہ سوچیں کہ میں یہ دعا مانگا کرتا ہوں اور آئندہ بھی یہ دعا مانگا کروں گا اور پھر میں نے کچھ ٹکڑے کہیں سے کچھ ٹکڑے کہیں سے غرضیکہ چند نمونے قرآن کریم کی مختلف جگہوں سے اکٹھے کئے تاکہ آپ کو اس دعا کا

Page 167

164 مطلب سمجھاؤں جو ہم سب روزانہ بار بار مانگتے ہیں اور اکثر ہم میں سے جانتے ہی نہیں کہ ہم کیا مانگ رہے ہیں.پس جو کچھ آپ مانگیں ہوش سے مانگیں.سمجھ کر مانگیں کہ کیا مانگا جا رہا ہے.پھر اللہ تعالیٰ سے فضل کی امید رکھیں اور اس سے رحم کے طلب گار ہوں کہ وہ ان مشکلوں کو ہمارے لئے آسان کر دے جو ہم ہوش مندی کے ساتھ خود خدا سے طلب کر رہے ہیں.دیکھیں! ایک چھوٹے سے معاہدے کے لئے جو دنیا کے سودوں میں کیا جاتا ہے آپ ایک قابل وکیل سے مدد چاہتے ہیں.اس سے مدد چاہتے ہیں کہ کہیں دھوکے میں مبتلا نہ ہو جائیں.کوئی ایسی بات معاہدے میں نہ لکھی جائے جس کو ہم نبھا نہ سکیں تو وہ معاہدہ جو قرآن کریم کا معاہدہ ہے جسے خدا میثاق قرار دیتا ہے اس پر عمل کرنے سے پہلے اس پر دستخط کرنے سے پہلے معلوم تو ہونا چاہیے کہ کس بات پر دستخط کیے جا رہے ہیں لیکن چونکہ دنیا والے غلطیوں کو معاف نہیں کیا کرتے اور ایک ایک قطرہ خون کا حساب مانگتے ہیں اس لئے دنیا کے معاہدوں میں تو انسان غلطی کرے تو ساری عمر اس کا خمیازہ بھگتا رہتا ہے لیکن یہ معاہدہ ایک ایسی ذات سے کیا جا رہا ہے جو بے حد غفور و رحیم ہے جو قدم قدم پر بخشش کے وعدے بھی کرتی ہے.وہ عجیب طرح سے حساب کرتی ہے.اچھا! یہ بھی میں معاف کر دیتا ہوں.یہ بھی میں معاف کر دیتا ہوں.یہ بھی معاف کر دیتا ہوں اور یہ بھی معاف کر دیتا ہوں یہاں تک کہ اسکی معافیوں کا سلسلہ اس کے حساب طلب کرنے والے سلسلے پر غالب آجاتا ہے اور اس کی رحمت ہر انسان کی لغزش کو ڈھانپ لیتی ہے پس اگر اور نہیں تو یہ مضمون ہی انسان کے دل کے لئے تسلی کا موجب بن جاتا ہے کہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے جو اگر چاہے تو ان کو بھی معاف فرما دیتا ہے جن کے اعمال تمام تر اچھے نہیں تھے.انہوں نے بدیاں بھی کیں اور اچھے اعمال بھی کئے.اچھوں اور بروں کو ساری عمر ملائے رکھا اور کبھی ان کو تو بہ کی یہ توفیق نہیں ملی کہ زندگی کے کسی موقعہ پر وہ یہ کہہ سکیں کہ اب ہم اپنی بدیاں جھاڑ کر نیکیوں میں داخل ہو چکے ہیں.عمر بھر وہ نیکیوں اور بدیوں کے ساتھ ملے جلے رہے اور اسی طرح گھٹتے گھٹتے خدا کے قرب کی راہوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے.فرمایا : میں چاہوں

Page 168

165 تو انہیں پکڑلوں اور ان کی بدیوں کی سزا دوں اور اگر چاہوں تو ان کو معاف کردوں اور بہت ایسے ہیں جن کو میں معاف بھی کر دیتا ہوں تو پھر انسان اس بات سے سہار ا لیتا ہے کہ میثاق پر ہم دستخط تو کر بیٹھے ہیں لیکن اب اس میثاق کی شرائط پر پورا اترنے کے لئے خدا ہی سے مدد طلب کریں گے اور اگر ہم اس میثاق پر پورا اترنے والے جو اولین لوگ ہیں جو سابقون کا گروہ ہے ان جیسے نہ بھی بن سکتے ہوں تو ہم یہ التجائیں کریں گے کہ اے خدا! ان اونی لوگوں میں ہی شامل فرما دے جنہوں نے عمر بھر دیانت داری سے میثاق پر عمل نہیں کیا تو میثاق پر عمل کرنے کی تمنا تو رکھتے تھے.کوئی خواہش تو ان کے دل میں تھی.بے چینی تو ہوا کرتی تھی.جب وہ گناہ کرتے تھے تو بے قرار ضرور ہو جایا کرتے تھے.گناہوں کے بعد مطمئن نہیں رہتے تھے بلکہ تڑپ کر زندگی گزارتے تھے.پس اے خدا! ہمیں ان لوگوں میں ہی شامل فرما دے اور اگر قافلے کے سر پر چلنے والوں میں شامل نہیں تو اس قافلے کے آخر پر اس کی دم میں گھٹتے ہوئے لوگوں میں ہی شامل فرما دے لیکن رستہ وہ ہو انعمت علوم کہ جن پر تو نے انعام کیا.مغضوب کے رستے پر ہمیں نہ ڈالتا.قرآنی بیان کے مطابق انعام پانے والوں کا راستہ پس اب میں آپ کو لکھے ہوئے مضمون میں قرآن کریم کے واقعات کو دعاؤں کی شکل میں ڈھال کر پیش کرتا ہوں.قرآنی آیات میں یہ مضمون دعاؤں کی صورت میں ظاہر نہیں فرمایا گیا مگر قرآن سے واقعات لیکر اور قرآن کی نصیحتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اوامر اور نواہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ جب ہم اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں تو وہ کون سے انعام یافتہ لوگ ہیں جن کے رستہ پر چلنے کی ہم دعا کرتے ہیں.گویا ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلا جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی تو نے ان کو عطا کیا ہے اسے تیری راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اتاری ہوئی تعلیم پر اور سب گزشتہ تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں اور آئندہ ہونے

Page 169

.166 والی موعود خبروں پر بھی یقین رکھتے ہیں.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جو اپنی مرادوں کو پالیتے ہیں.اور اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستوں پر چلا جنہوں نے تجھے اپنا بھی رب تعلیم کیا اور ان کا رب بھی تسلیم کیا جو پہلے گزر چکے تھے اور تقویٰ کی راہوں پر چلے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جن کو تو نے سدا بہار جنتوں کی بشارت دی ہے جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.اور اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جو ہر اس درخت کے پھل سے احتراز کرتے ہیں جس کا کھانا تو نے منع فرما دیا ہے.اور اس پھل کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتے جیسے تو نے ممنوع قرار دیا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کا رستہ دکھا جو ہمیشہ تیری نعمتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور جو عہد تجھ سے باندھا ہے اس پر پختگی سے قائم رہتے ہیں.ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جو ہر اس تعلیم پر ایمان لاتے ہیں جو اس تعلیم کی تصدیق کرتی ہے جو قرآن میں اتاری گئی اور تیری آیات کو ادنی اغراض کی خاطر بیچ نہیں ڈالتے اور صرف تیرا ہی تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور وہ جھوٹ کی ملونی سے پاک اور خالص دل رکھتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوۃ کو ادا کرتے ہیں اور تیرے حضور جھکنے والوں کے ساتھ ہر مقام اطاعت پر جھک جاتے ہیں.ان لوگوں کا رستہ دکھا جو صبر اور دعاؤں کے ذریعہ سے تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تیرے حضور عاجزی اور تذلل اختیار کرتے ہیں اور خیرے حضور عاجزی اور تذلل اختیار کرنا ان پر بھار نہیں ہوتا، ان پر گراں نہیں گزرتا وہ جو یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ضرور ملاقات کریں گے اور بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.اے خدا! ہمیں وہ نعمتیں بھی عطا کر جو پہلی امتوں کو عطا کی گئیں اور اپنے ان فضلوں سے بھی نواز جن کے ذریعے تو نے پہلی امتوں کو تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی تھی اور ان خوش نصیبوں میں سے بنا جو ان کی مثالیں زندہ کرنے والے ہیں جنہوں نے

Page 170

167 تیری نعمتوں کے گیت گائے اور تیرے ذکر کو بلند کیا.ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کے رستے پر چلا جو مواخذہ کے اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جبکہ کوئی جان کسی دوسری جان کے کام نہیں آئے گی اور اس کی کوئی شفاعت کسی کے حق میں قبول نہ کی جائے گی.اور کسی جرم کے بدلے اسے کوئی مدد میسر نہ آئے گی.ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کی لغزشوں کو تو نے معاف فرما دیا اور تیرے عفو کے نیچے وہ تیرے بے انتہا شکر گزار بندے بن گئے اور ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کو جب کتاب اور فرقان عطا کئے گئے تو ان کی ہدایت سے انہوں نے خوب استفادہ کیا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جن کی خطاؤں کو تو نے معاف فرما دیا اور ان محسنوں کی راہ پر چلا جنہیں تو نے احسان کی توفیق بخشی اور ان کے حسن و احسان کو اور بڑھا دیا.اور ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جو تجھ پر اور جزاء سزا کے دن پر حقیقی ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اور جن کو تو نے محفوظ اجر کی ضمانت دی اور سلامتی کا یہ پیغام دیا کہ کوئی خوف تم پر غلبہ نہ پاسکے گا اور لیے غموں میں مبتلا نہیں کئے جاؤ گے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے تجھ سے یہ عہد باندھا کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور والدین سے اور اقرباء سے اور قیموں سے اور مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آئیں گے اور تیرے بندوں سے نرم گفتاری سے کام لیں گے اور انہیں اچھی باتیں کہیں گے اور اسی طرح انہوں نے تیری عبادت کو قائم کرنے اور تیری راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا اور پھر وفا کے ساتھ ان عہدوں پر قائم رہے.دعا کرتے ہوئے اپنے عمل کے بارے میں سوچیں اب دیکھیں! بہت سی ان صفات میں سے یہ چند صفات ہیں جو خدا کے ان بندوں کی بیان فرمائی گئی ہیں جو خدا سے باندھے ہوئے عہدوں کو پورا کرتے ہیں اور صراط مستقیم پر چلتے ہیں اور انعام یافتہ میں شمار ہوتے ہیں اور روز مرہ کی زندگی کی عام باتیں ہیں جن میں ہم میں سے اکثر ٹھو کر کھاتے اور ان معمولی معمولی عام معروف باتوں پر بھی عمل

Page 171

168 کرنے کی اہمیت نہیں پاتے.پس اگر ہم ہر نماز میں دعا کرتے ہوئے یہ سوچا کریں کہ دعا ہم یہ کر رہے ہیں اور کام کون سے کر رہے ہیں؟ دعاؤں کا رستہ اور ہے اور ہمارا چلنے کا رستہ اور ہے؟ تو اسی وقت انسان کے دل پر لرزہ طاری ہو جائے گا.عام انسان سے اگر کچھ مانگے اور دل میں کوئی اور بات ہو تو یہ بھی منافقت ہے اور ایک مکروہ بات ہے مگر خدا سے کچھ اور مانگے اور کچھ اور کرنے کے ارادے ہوں تو یہ ایک بہت ہی بڑا خوف کا مقام ہے.ہم میں سے کتنے ہیں جو عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور والدین سے اور اقرباء سے اور یتیموں اور مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آتے ہیں.بہت سی ایسی شکائیتیں روز مرہ مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض مرد ہیں جو اپنے گھر میں بھی اپنے بیوی بچوں سے حسن سلوک سے پیش نہیں آتے ان سے کرخت رویہ ہے.ان سے ظلم و ستم کا سلوک ہے ان سے کنجوسیاں کرتے ہیں ان کو مصیبت میں مبتلا رکھتے ہیں.ایسی بیویاں ہیں جو بے چاری روتی پیٹتی مجھے خط لکھتی ہیں کہ ہمیں تو پیسے کا منہ نہیں دکھاتے.گھر میں کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا اور وہ بھی ایسا کہ ایک ایک چیز کا حساب رکھتے ہیں.زندگی اجیرن ہے.بچوں سے حسن سلوک نہیں ہے.بچوں کو اس طرح پھینکا ہوا ہے جس طرح وہ بے جان چیزیں ہیں.ان کو حس ہی کوئی نہیں.ان باتوں میں مبالغہ بھی ہو گا لیکن جو لوگ دنیا کے معاشروں سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر معاشرے میں اس قسم کے ظلم موجود ہیں.ہو سکتا ہے وہ لکھنے والی غلط لکھ رہی ہو لیکن اور بہت سی ایسی ہیں جو نہ لکھنے والیاں ہیں لیکن ان پر یہ حالات گزرتے ہیں.پس کئی قسم کی مصیبتیں ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں ہماری بد اخلاقیوں کے نتیجے میں انسانوں پر ڈالی جاتی ہیں اور انسانوں کی زندگی کو اجیرن کر دیتی ہیں.مردوں کی طرف سے بھی عورتوں کی طرف سے بھی بہووس کی طرف سے بھی ، ساسوں کی طرف سے بھی باپوں کی طرف سے بھی اور بچوں کی طرف سے بھی تو دیکھیں یہ دعا جو ہمیں خدا نے سکھائی.ان معنوں میں یہ دعا سکھائی کہ اپنے بندوں کا ذکر فرمایا اور کہا کہ انعام یافتہ راہ پر چلنے والے لوگ اس اس قسم کے ہوتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ رستوں پر چلنے والوں میں سے بنادے تو دراصل یہ دعا مانگ رہے ہیں کہ اے خدا!!

Page 172

169 ہمیں ایسا بنا دے کہ والدین کے حقوق ادا کرنے والے ہوں ان کی دعائیں لینے والے ہوں.اور سب اقرباء سے حسن سلوک کرنے والے ہوں اور تیموں کا خیال رکھنے والے ہوں.مسکینوں سے حسن سلوک سے پیش آنے والے ہوں اور تیرے سب بندوں سے نرمی کی گفتگو کرنے والے ہوں.ہماری گفتگو میں حسن ہو.کراہت کی بات نہ ہو.وہ لوگ جو گھر میں ایک دوسرے سے نرمی کی بات نہیں کرتے ان سے عام دنیا میں کم توقع کی جاتی ہے کہ وہ نرمی کی گفتگو برتے ہوں گے لیکن بعض ایسے ظالم بھی ہیں کہ دوستوں سے نرم اور اپنے گھر والوں سے سخت حالانکہ مضمون، والدین اور اقرباء اور نزدیک کے رشتے داروں کے ذکر سے شروع ہوتا ہے.پس ایسی نرمی جو دوستوں کے لئے ہو اور گھر والوں کے لئے نہ ہو اس نرمی کا ان لوگوں کے ذکر میں کہیں شمار نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے مراتب کے لحاظ سے نیکیوں کا ذکر فرمایا.پس جب ہم کہتے ہیں إهدنا القيرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی تو نگاہ رکھیں.اگر ان پر نگاہ نہیں رکھیں گے تو بڑی باتوں کا نہ حق ادا کر سکتے ہیں نہ بڑی باتیں مانگنے کی جرات کر سکتے ہیں اور جب بھی آپ بڑے بڑے مضامین کو سوچ کر اپنے دل کو ٹولیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ کی دعا میں طاقت نہیں ہے کہ ان مضامین کی متحمل ہو سکے.وہ کانپ جاتی ہے جیسے کوئی بڑا بھاری وزن کوئی کمزور انسان اٹھانے کی کوشش کرے تو یہ دعا ہی بہت بھاری ہے لیکن اگر ہم غور کرنے والے ہوں اور اگر یہ دعا اٹھا لیں تو اس دعا کے نتیجے میں جتنی ذمہ داریاں ہیں اگر بچے دل سے اس دعا کو اٹھا لیں تو وہ خدا خود اٹھا لیتا ہے.یہ یقین ہے جو ایک مومن کے دل میں ہونا چاہیے اور اس یقین کے بغیر اس دعا کی ہمت بھی نصیب نہیں ہو سکتی.چنانچہ ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ اسی طرح جن لوگوں نے تیری عبادت کو قائم کرنے اور تیری راہ میں خرچ کرنے کا عہد کیا اور پھر وفا کے ساتھ ان عہدوں کو نبھایا ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جو اس بات سے بے خبر نہیں کہ تو ہی زمین و آسمان کا مالک ہے اور تیرے سوا کوئی دوست اور مددگار ان کے کام نہیں آسکتا.

Page 173

170 ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جن کا قبلہ ہمیشہ تو رہا ہے.تیری حضوری سے وہ اپنے وجود کو ہمیشہ نیا حسن عطا کرتے رہے یعنی وہ لوگ جن کا اجر تیرے پاس ہے اور تیرے تعلق کے فیض سے وہ ہر دوسرے خوف اور غم سے آزاد ہو گئے.ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جو جس راہ پر بھی چلے ہمیشہ تجھے پیش نظر رکھا.اے خدا جو تمام وسعتوں کا مالک خدا ہے.ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے.جو کچھ زمین و آسمان میں ہے اس کا ہے اور ہر چیز اسی کی اطاعت کا دم بھرتی ہے.وہ جو زمین و آسمان کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے اور جب کسی تخلیق کا ارادہ باندھتا ہے تو فرماتا ہے کہ ہو جا اور لازما وہ ہو کر رہتی ہے.پس اے خدا! ہمیں اس یقین کے ساتھ ان راہوں پر چلا کہ ہم ایسی قدرتوں کے مالک خدا سے مدد مانگنے والے ہیں.پھر ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو تیری کتاب کی متلاوت کرتے ہیں اور اس کا حق ادا کرتے ہیں یعنی دن رات تلاوت کے لئے وقت نکالتے پھر غور اور سمجھ کے ساتھ تیری کتاب کی تلاوت کرتے ہوئے اس کے مضامین کو اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس کے مضامین میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں، سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہر وقت اپنے آپ کو اس کتاب کی کسوٹی پر پر کھتے رہتے ہیں.یہ مضمون ہے جو حق تلاوت کا مضمون ہے ہم اس کی بھی دعا مانگتے ہیں.اور پھر یہ دعا مانگتے ہیں کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا.ہمیں آزمائشوں میں ڈال لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان آزمائشوں پر پورا اترنے کی بھی توفیق عطا فرما.اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرما جو مرتے دم تک تیرے حضور سپردگی کے عالم میں رہتے ہیں.تسلیم و رضا کی حالت میں رہتے ہیں.اپنے آپ کو تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں اور پھر اپنے وجود کو تجھ سے واپس نہیں لیتے اور مرتے وقت اپنی اولاد کو بھی یمی نصیحت کرتے ہیں کہ توحید پر قائم رہنا اور خدا سے تعلق باندھے رکھنا اور کبھی اس تعلق کو نہ تو ڑنا کیونکہ اس تعلق کے توڑنے پر تم ہمیشہ کے لئے ہلاک کر دیئے جاؤ گے.پس وفا کے ساتھ توحید پر قائم رہتا اور ایک خدا سے اپنے تعلق کی حفاظت کرنا.

Page 174

171 ایسے لوگوں کی راہ پر چلا جو تیرے حضور یہ اقرار کرتے ہیں کہ تو نے جتنے بھی دنیا میں رسول بھیجے ہم ان سب پر ایمان لے آئے ہیں.ہمیں توفیق بخش کہ ہم ایک رسول اور دوسرے رسول کے درمیان ایسی تفریق نہ کریں کہ جس کے نتیجے میں کسی کی وحی کو واجب العمل سمجھیں اور کسی کی وحی کو اس طرح واجب المحمل نہ سمجھیں بلکہ یقین کریں کہ تیرا کلام خواہ اعلیٰ پر نازل ہو خواہ ادنی پر نازل ہو وہ کلام تیرا کلام ہے اور اس حیثیت سے ہر کلام خواہ دنیا کے کسی بندے پر نازل ہوا ہو وہ عزت اور احترام کے لائق ہے.پھر ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اُمَّةً ومطا بنا دے یعنی وہ امت بنا دے جس کی تو نے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم کو خوش خبری دی تھی کہ وہ میانہ روی کرنے والی امت ہے.افراط اور تفریط سے پاک ہے.وہ درمیانی راہوں پر چلنے والی امت ہے اور ہمیں تمام دنیا پر نگران بنا دے.ہم تمام دنیا کے اخلاق کی نگرانی اور حفاظت کرنے والے ہوں اور اپنے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ وسلم کو ہم پر نگران بنائے رکھ تاکہ گویا ہم اس کی آنکھوں کے سامنے ان فرائض کو ادا کرنے والے ہوں جو تو نے عائد فرماتے ہیں اور اس سلسلہ کے ساتھ کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مدرسے سے ہم نے تعلیم حاصل کی اور سند پائی.ہم باقی دنیا کے اعمال کی بھی نگرانی کرنے والے ہوں اور انہیں علم سکھانے والے بہنیں اور نیک اعمال سکھانے والے بنیں.آله و استباق فی الخیرات کی دعا اے خدا ہمیں استباق فی الخیرات کی توفیق عطا فرما.صرف نیکیوں کی توفیق نہ عطا فرما، نیکیوں میں ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھتے رہنے کی توفیق عطا فرما.ہر وقت جدوجہد میں مبتلا رہنے والے ہوں.ہمیں ان لوگوں کی راہوں پر چلا جو ہمیشہ آگے بڑھنے کی نیت سے ورزشیں کرتے رہتے ہیں اور محنتیں کرتے رہتے ہیں.آپ میں سے کسی کو اگر صبح کی سیر کی عادت ہو یا توفیق ملی ہو تو دیکھا ہو گا کہ بہت سے ایسے اتھلیٹ یعنی کھلاڑی اور جو مختلف جسمانی مقابلوں میں حصہ لینے والے ہوں، صبح صبح اٹھ کر دوڑ رہے ہوتے ہیں اور ایسے وقت میں بھی جبکہ شدید سردی ہو یا پاکستان وغیرہ میں شدید

Page 175

172 گرمی ہو تو وہ ان باتوں سے بے نیاز بڑی محنت کر رہے ہوتے ہیں.پہلوان ہیں جو اکھاڑوں میں محنت کر رہے ہیں غرضیکہ ایسے لوگ کسی امید پر کہ شاید کبھی ہم اپنے ملک میں نام پیدا کرنے والے بنیں اور اس امید پر کہ شاید کبھی ہم بین الا قوامی مقابلوں میں نام پیدا کرنے والے نہیں ، ساری زندگی محنت میں صرف کرتے ہیں.پس جب ہم استباق فی الخیرات کی دعا مانگتے ہیں تو یہ بات ہے جس کی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا!! ہمیں محنت کی توفیق عطا فرما، جس کے نتیجے میں ہم اپنے بھائیوں سے نیکیوں میں آگے بڑھنے والے بنیں.اگر یہ محنت نہیں کریں گے تو یہ توفیق مانگنے کی دعا کا کیا مطلب ہے؟ پس جب استباق فی الخیرات کی دعا مانگیں تو ان سارے نظاروں کو پیش نظر رکھ لیا کریں جہاں مقابلوں میں حصہ لینے والے مختلف رنگ میں مختلف مقامات پر دن اور رات یا کسی اور حصے میں محنتیں کر رہے ہوتے ہیں اور زندگیاں ان محنتوں میں صرف کر دیتے ہیں اور اکثریں جن کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں.بہت ہی کم ہیں جن کی امیدیں پوری ہوتی ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ شاید ہی ہزاروں میں سے ایک ہم بن سکیں جو اپنی آرزوؤں کو پورا ہوتے دیکھ سکیں گے.پھر بھی وہ محنت کرتے ہیں تو یہ دعا سکھائی کہ اے خدا ! ہمیں ایسی محنتیں کرنے کی بھی توفیق عطا فرما جن کا پھل ہر شخص کو نصیب ہو ہی نہیں سکتا مگر ان نعمتوں کا کچھ نہ کچھ فیض ہر شخص پاری لیتا ہے.عام دنیا کے انسانوں کے مقابل پر وہ بہتر ہوتا چلا جاتا ہے.پس استباق فی الخیرات کرنے والوں کی راہ پر ہمیں ڈال دے.مبر و صلوۃ اور شہادت پر تسلیم و رضا کا رد عمل دکھانے والوں کی راہ پر ڈال.ایسے لوگوں کی راہ پر ڈال جو ابتلاؤں اور نقصانات پر صبر سے کام لیتے ہیں اور تیرے حضور ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ انا لله وانا إِلَيْهِ رَجِعُونَ کہ سب کچھ گیا لیکن ہم بھی تو خدا ہی کے ہیں ہم بھی چلے جائیں تو کچھ ہاتھ سے دیئے والے نہیں ہوں گے.انا للہ ہم خدا کے تھے اور خدا کے ہیں اور ہم نے بھی تو آخر اسی کے پاس جاتا ہے جہاں ہمارا سب کچھ جا رہا ہے.پھر ہمیں ایسے لوگوں کی راہ پر چلا جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں.لیل و نہار کے اولنے بدلنے کو دیکھتے ہیں.کشتیوں کا سمندروں میں چلنا دیکھتے ہیں.آسمان

Page 176

173 سے پانی کے نزول کا نظارہ کرتے ہیں.زمین پر جانوروں کے وجود کو چلتے پھرتے اور نرم نرم گھاس کھاتے یا ویسے رزق کی تلاش میں اڑتے یا دوڑتے پھرتے ہوئے یا سمندر میں تیرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر زمین و آسمان کے درمیان مسخر بادلوں پر غور کرتے ہیں اور ان سب باتوں پر غور کے نتیجے میں وہ ہر چیز کو تیری طرف اشارہ کرتے ہوئے پاتے ہیں.اور ہر چیز سے یہ پیغام لیتے ہیں کہ ان کا ایک خالق ہے.ان کا ایک مالک ہے اور وہی راہ ہے جس کی طرف ہر چیز انگلی اٹھا رہی ہے.پس ان سب نظاروں سے اپنے قرب کی راہیں دیکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرما.ہمیں آله حبا لله بنا دے.ہماری ہر دوسری محبت پر تیری محبت غالب آجائے.نہ ماں کی ایسی محبت رہے نہ باپ کی ایسی محبت رہے نہ اولاد کی ایسی محبت رہے نہ بیوی کی نہ عزیزوں اور رشتے داروں کی نہ کسی حسین انسان کی نہ کسی حسین نظارے کی نہ کسی دنیا کی نعمت کی نہ کسی علمی فضیلت کی.ہر دوسری محبت سے تیری محبت بڑھ جائے.اے خدا ہمیں حلال طیب رزق عطا فرما اور ان لوگوں کے رستوں پر چلا جو غیر حلال رزق حاصل کر سکتے ہیں لیکن نہیں کیا اور تجھ سے دعا مانگتے ہوئے حلال رزق کی وسعت کی دعا مانگی اور حلال رزق پر ہی قانع رہے اور ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے شیطان کی پیروی سے انکار کر دیا اور پھر ان لوگوں کے رستے پر چلا جنہوں نے جب تجھے آواز دی کہ اے خدا تو کہاں ہے تو تو نے ہر آواز کے مقابل پر یہ جواب دیا اني قريب ان قریب اے میرے پکارنے والے بندے میں تیرے قریب ہوں.میں تیرے قریب ہوں.اے خدا!! ہمیں مناسک حج اور عمرہ ادا کرنے والوں کی راہ پر چلا.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا جنہوں نے اپنی زندگی کا زاد راہ تقویٰ بنا لیا اور خواہ ان کے پاس کچھ اور نہیں تھا انہوں نے ہمیشہ اس یقین کے ساتھ تیری راہ میں قدم آگے بڑھائے کہ سب سے زیادہ جس زاد راہ کی ضرورت پیش آسکتی تھی وہ تقویٰ ہے.چنانچہ تقویٰ سے انہوں نے دامن بھر لیا اور خالی ہاتھ تیری راہ میں سفر اختیار نہیں کیا.

Page 177

174 اے خدا! ہمیں ان لوگوں کی راہ پر چلا کہ جب وہ تیری راہ میں لوگوں کو جانیں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کو مردہ نہیں کہتے بلکہ وہ یقین کرتے ہیں کہ وہ زندہ جاوید ہو گئے.اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جنہیں تیری خاطر دکھ دیئے جاتے ہیں، ان کے اموال چھینے جاتے ہیں.ان کی جانیں تلف کی جاتی ہیں.خوف اور بھوک ان پر مسلط کی جاتی ہے لیکن وہ تیری راہوں کے مسافر میر کے ساتھ انا للہ وانا الیہ جِعُون کہتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتے ہیں.تو ان پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے انہیں ہی بچے اور ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے.اے خدا!! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جنہوں نے زخم پر زخم کھائے لیکن اس کے باوجود تیری اور تیرے رسول کی ہر آواز پر لبیک کہا.زخموں سے چور ہونے کے با وجود جب ان کے کانوں میں تیری یا تیرے رسول کی آواز پڑی تو لبیک کہتے ہوئے وہ اس کی طرف لپکے اور ان میں سے وہ خوش نصیب جنہوں نے اپنے اعمال کو کئی طرح سے زینت دی اور تیرا تقویٰ اختیار کیا اور تیری بارگاہ میں عظیم اجر کے لائق ٹھہرے.انعام پانے والوں کی راہیں یہ واقعات ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.یہ کوئی افسانے اور قصے نہیں ہیں.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں ان لوگوں کے رستے پر چلا جن پر تو نے انعام کیا تو یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح ہمارے ذہن میں گھومنے چاہیں اور وہ شخص جو قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے اس کے ذہن میں گھومتے ہیں.یہ نہیں کہ ہر دفعہ جب ہم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کہتے ہیں تو تمارے واقعات اچانک گھوم جاتے ہیں لیکن مختلف کیفیات میں، مختلف حالتوں میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ ضرور ہے جو ان حالتوں سے تعلق رکھتا ہے اور ان پر چسپاں ہوتا ہے اس وقت کی دعا کے وقت وہ واقعہ نظر کے سامنے ابھرنا چاہیے اور ہر چیز کے پیچھے ایک تاریخ ہے.پس جب یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ زخمی ہونے کے باوجود تیری آواز پر لبیک کہتے ہیں تو ایک ایسا ہی واقعہ جنگ احد کے وقت گزرا ہے.وہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کی تاریخ میں شاید کوئی مثال دکھائی نہ دے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے

Page 178

175 ایک عاشق صحابی (حضرت سعد بن ریخ) جب ایک عرصے تک آپ کو دکھائی نہیں دیتے اور آپ ان کے دل کی کیفیت سے باخبر تھے تو آپ نے کسی سے کہا کہ تلاش کرو اور دیکھو کہ وہ کہاں ہے.اس نے آوازیں دیں.اس نے تلاش کیا لیکن کوئی جواب نہیں پایا.آخر جب اس نے یہ آواز دی کہ خدا کا رسول تجھے بلا رہا ہے تو زخمیوں اور لاشوں کے ڈھیر کے نیچے سے ایک کراہتی ہوئی آواز اٹھی.میں حاضر ہوں.میں یہاں ہوں.وہ جو پہلے اتنی طاقت نہیں رکھتا تھا کہ جواب دے سکتا.جب اس کے کان میں یہ آواز پڑی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تجھے تلاش کر رہے ہیں اور ان کے کہنے پر میں آیا ہوں تو خدا جانے کہاں سے اس نے وہ طاقت اکٹھی کرلی اور لبیک لبیک کی آواز اٹھی.تب اس نے یہ عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آخری سانس آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قدموں میں لوں.مجھے وہاں تک پہنچا دو.پس اس حالت میں اس نے جان دی کہ اس کا سر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے مقدس قدموں میں پڑا ہوا تھا.پس قرآن کریم جن راہوں کو انعام پانے والوں کی راہیں قرار دیتا ہے.یہ کوئی افسانوی راہیں نہیں ہیں.یہ تاریخی حقیقوں سے تعلق رکھنے والی راہیں ہیں.ان راہوں پر خدا کے پاک بندے چلے ہیں اور ان کے ذکر سے قرآن کریم منور ہے.پس جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں تو ذہن میں ایسے وجودوں اور ایسی قربانی کرنے والوں کے تصورات بھی زندہ ہونے چاہیں.یہ قربانی کرنے والوں کے تصورات ہیں جو ہماری دعاؤں کو زندہ کریں گے ان سے خالی دعائیں خالی رہیں گی.ذکر کے ساتھ ذکر میں جان پڑتی ہے.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کے ساتھ ان تمام پاک بندوں کا ذکر ہمارے ذہن میں گردش کرنا چاہیئے.ہمارے قلوب میں اس ذکر کے ساتھ ایک تازگی پیدا ہونی چاہیئے.ایک جان پڑنی چاہئیے.پہلچل برپا ہو جانی چاہیے اور ان تصورات کے ساتھ اپنی دعاوں کو باندھ کر ہم خدا کے حضور پیش کریں گے تو یہ دعائیں قبولیت کا مقام حاصل کریں گی اور بعض ایسی کیفیات ان میں شامل ہو جائیں گی جن کو خدا کبھی رد نہیں کر سکتا.اس کی رحمت سے بعید ہے کہ ان کیفیات والی دعاؤں کو وہ رد

Page 179

176 فرما دے.یہ مضمون تو بہت وسیع ہے اور اگرچہ میں نے چند آیات پر بناء کرتے ہوئے اس مضمون کو اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا سے باندھ کر نمونہ ” آپ کے سامنے پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن ابھی چند صفحے ہی گزرے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں که وقت بہت آگے گزر چکا ہے.اس لئے انشاء اللہ اب آئندہ خطبے میں بعض ایسی دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا جو ان راہوں پر چلنے والوں نے مانگیں اور مشکل کے وقت میں مانگیں یا خاص کیفیات کے ساتھ مانگیں اور وہ چونکہ جمعتہ الوداع ہوگا اس لئے اس وقت ان دعاؤں کا اس جمعہ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہو گا تو انشاء اللہ تعالٰی آئندہ جمعہ میں بھی یہی مضمون جاری رہے گا کہ جب ہم کہتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام پانے والے لوگوں کی راہ پر چلا تو خدا سے کیا مانگتے ہیں اور یہ مانگتے ہوئے ہمیں کس کیفیت سے مانگنا چاہئیے؟ اللہ تعالی ہمیں اس رمضان سے بھر پور استفادے کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے کمزوروں کو بھی اور ہمارے طاقت وروں کو بھی ہم میں سے ہر ایک شخص کو اس مقام سے آگے بڑھا دے جس مقام پر وہ اس رمضان سے پہلے تھا.خدا کرے ایسا ہی ہو....

Page 180

177 الفضل- لندن ر اپریل 1941ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عبادت کرنے والوں کو الوادع کہنے والے تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : مسافر گاڑیاں جب مختلف سٹیشنوں پر رکتے رکتے اپنا لمبا سفر طے کرتی ہیں تو ہر سٹیشن پر الگ الگ نظارہ ہوتا ہے.کہیں تھوڑے مسافر چڑھتے ہیں.کہیں زیادہ مسافر چڑھتے ہیں.کہیں تھوڑے لوگ چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے ہوتے ہیں کہیں زیادہ لوگ جو بڑے بڑے سٹیشن ہیں ان پر بہت رونق ہوتی ہے اور جب تک گاڑی چلتی نہیں سارا سٹیشن مختلف لوگوں کی گہما گہمی سے پر رونق ہوا ہوتا ہے.چہل پہل ہوتی ہے.باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.پھر گاڑی چلی جاتی ہے تو سٹیشن سونا سا رہ جاتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہیں جو مسافر نہیں ہوتے صرف مسافروں سے ملنے کے لئے آئے ہوتے ہیں.جمعتہ الوداع کی بھی کچھ ایسی ہی صورت ہے.عبادت کرنے والوں کی گاڑی جو جمعہ یہ جمعہ ٹھرتی آخر رمضان مبارک کے جمعوں میں داخل ہوتی ہے تو اچانک جمعوں پر رونق بڑھنے لگتی ہے اور پھر ایک ایسا جمعہ بھی آتا ہے جیسا آج ہے جسے جمعتہ الوداع کہا جاتا ہے، اس جمعہ پر تو اتنی رونق ہوتی ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارے مسافر ہیں جو اس گاڑی پر چڑھنے کے لئے آئے ہیں لیکن جب یہ گاڑی یہاں سے گزر کر اگلے جمعہ پر پہنچتی ہے جو رمضان مبارک کے بعد آتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مسافر تو وہی چند ایک ہی تھے جو سارا سال سفر کرتے رہے باقی تو چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے تھے.پس بہت سے ایسے بھی ایمان لانے والے ہیں اور مسلمان ہیں جو آج عبادت کرنے والوں کو چھوڑنے کے لئے آئے ہوئے ہیں، الوداع کہنے کے لئے آئے ہوئے ہیں.خود بھی

Page 181

178 عبادت میں شریک ہیں لیکن یہ وقتی شرکت ہے، چند لمحوں کی شرکت ہے.جب تک اس جمعہ پر یہ گاڑی ٹھری رہے گی وہ بھی شریک رہیں گے جب یہ گزر جائے گی تو پھر وہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوں گے.خدا کی راہ کے مسافروہی ہیں جو عبادت کی گاڑی پر سوار ہو کر پھر اس کو چھوڑتے نہیں.سٹیشنوں پر اترتے ہیں تو عارضی طور پر لیکن دائم کے سوار ہیں، ہمیشہ ہمیش کے مسافر ہیں اور کبھی بھی وہ عبادت سے تعلق قائم کر کے پھر تعلق توڑا نہیں کرتے.ایسے لوگوں کے مختلف احوال ہیں جو وقتی طور پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جنہیں پھر خدا یہ توفیق بخشتا ہے کہ ان کے دل میں بھی سفر کا شوق پیدا ہو جاتا ہے.وہ وداع کرنے آتے ہیں، پھر آتے ہیں، پھر خیال آتا ہے کہ کیوں نہ ہم بھی اس گاڑی کے مسافر بن جائیں تو وہ لوگ جو بچے ایمان لانے والے ہیں ان میں کمزور بھی ہیں لیکن رفتہ رفتہ کمزور طاقت ور ہوتے چلے جاتے ہیں اور ان کی بدیاں جھڑتی چلی جاتی ہیں اور بدیوں کی بجائے نیکیاں عطا ہوتی چلی جاتی ہیں.پس بچے مومنوں کی گاڑی ہمیشہ پہلے سے زیادہ بھرتی رہتی ہے.وہ لوگ جو پیچھے رہ جانے کے عادی ہیں اور ہمیشہ پیچھے رہ جانے کے عادی ہیں ان کے متعلق بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالٰی ضرور ان کو عذاب دے گا یا ان سے ناراضگی کا اظہار فرمائے گا.بعض خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی موت کی گھڑی سعادت کی گھڑی ہوتی ہے.ایسی حالت میں اللہ ان کو بلاتا ہے کہ وہ نیکی کی حالت میں ہوتے ہیں، ایسے خوش نصیب وہ ہیں جو توقع رکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ ہم کبھی کبھی آئے لیکن خدا نے اس وقت بلایا جبکہ ہم نیکوں میں شمار ہو رہے تھے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں یہ دعا خصوصیت سے سکھائی کہ اے خدا! ہمیں اس وقت بلانا اس وقت ہمیں مارنا جب ہم تیرے حضور نیکوں میں شمار ہو رہے ہوں تو ہمیں چاہئیے کہ ان چھوڑنے کے لئے آنے والوں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور خصوصیت سے یہ دعا کریں کہ ان سب کے انجام نیک ہوں اور رفتہ رفتہ ان کو بھی عبادت کے دائمی سفر کی توفیق عطا ہو.انعام پانے والوں کے رستہ پر چلنے کی توفیق میں نے گزشتہ چند خطبات میں سورہ فاتحہ کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح سورۂ فاتحہ

Page 182

179 عبادت کے راز سکھاتی ہے اور عبادت میں لذت پیدا کرتی ہے اور اس مضمون کے آخری حصے میں ہم داخل ہو چکے تھے.جس میں ہم اس دعا پر غور کر رہے تھے کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عليهم ولا الضالین اور میں نے آپ کو بتایا کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں جن لوگوں کا ذکر ہے اگر چہ وہ سب انعام یافتہ ہیں لیکن ان کی زندگیاں بڑی مشقتوں اور تلخیوں میں گزریں اور خدا کی راہ میں انہوں نے بڑے بڑے ابتلاء دیکھنے اور ایسے بھی تھے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، جنہوں نے خود ابتلاؤں کے تقاضے کیسے کہ اے خدا ہمیں ہماری قربان گاہیں دیکھا.ہمیں ان رستوں پر چلا جن رستوں پر چل کر ہم تیری راہ میں دکھ اٹھا ئیں اور پھر ثابت قدم ٹھہریں اور تجھ سے نئے اعزاز پائیں لیکن ان تمام باتوں کا ذکر کرنے کے بعد جن میں سے ایک حصہ میں پچھلے جمعہ میں بیان کر چکا ہوں اور ایک وہ حصہ تھا جسے بیان نہیں کر سکا لیکن ان کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے ان سب تاریخی واقعات پر نظر ڈالتے ہوئے جب غور کرتے ہوئے ایک مومن آگے بڑھتا ہے تو دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ میں کیا دعا کر رہا ہوں.ایسی مشکل اور ایسی مصیبت کی دعا جس پر ہو سکتا ہے میں ثابت قدم نہ ٹھہر سکوں.مشکلات کو اپنے منہ سے دعوت دینا اور امتحان کو بلانا بڑے حو صلے کا کام ہے لیکن اس کے باوجود ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرنے پر مجبور ہے کہ مجھے انعام پانے والوں کا رستہ دکھا اور اس کی تفصیل قرآن کریم نے جو بیان کی ہے وہ بہت ہی دل ہلا دینے والی تفصیل ہے ایسی تفصیل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑی مشکل کا جان جوکھوں کا رستہ ہے.سوال یہ ہے کہ پہلے لوگوں نے یہ رستہ کیسے طے کیا تھا.وہ رستہ انہوں نے ایسے طے کیا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خود سکھایا کہ کیا کرو؟ کس طرح یہ مشکلیں تم پر آسان ہو جائیں گی؟ اور یہ آگ تمہارے لئے گلزار بنادی جائے گی.فرمایا : واسْتَعِينُوا بِالصَّبرِ والصَّلوة اے میرے بندو ! صبر کے ساتھ اور عبادتوں کے ساتھ اور دعا مانگتے ہوئے مجھے سے ہی مدد چاہو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں جس استعانت کی دعا ہمیں سکھائی

Page 183

180 گئی اس کا تفصیل کے ساتھ اعادہ کیا گیا اور پھر خدا نے وہ دعائیں بھی اکثر خود سکھائیں.پس اب میں ان دعاؤں کے اس مضمون میں داخل ہوتا ہوں جس سے پتہ چلے گا کہ کس طرح خدا تعالٰی نے خود مومنوں کی یہ راہ آسان فرما دی.انہیں دعاؤں کے طریق سکھائے یا ان کے بے ساختہ دل کی گہرائیوں سے اٹھی ہوئی دعاؤں کو قبول فرمایا اور ان کے ذکر کو بڑے پیار کے ساتھ قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا.دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں اور میں پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس نے تمام انبیاء کی دعاؤں کا خلاصہ اس شان کے ساتھ اس حفاظت کے ساتھ پیش کیا ہو جس طرح قرآن کریم نے پیش کیا ہے.ہر قسم کی ضرورت کی دعا کے بہترین نمونے محفوظ کر دیے.پس وہ لوگ جو یہ دعا مانگتے ہیں : اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أنعمت عليهم ان کے لئے ضروری ہے کہ اس دعا کی اگلی شاخوں سے بھی واقف ہوں.یہ دعا جو آگے دعائیں پیدا کرتی ہے اور جن کے بغیر یہ سفر طے ہونا ممکن نہیں ہے ان دعاؤں پر نظر رکھیں ، ان کے پس منظر سے واقف ہوں.ان کیفیتوں سے آشنا ہوں جن کیفیتوں میں وہ دعائیں مانگی گئی تھیں.جوں جوں ہم اس مضمون میں آگے بڑھیں گے یہ مضمون جو بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے آسان ہوتا چلا جائے گا اور ان مشکلات میں سے لذت پھوٹنے لگے گی.پس اس لحاظ سے میں قرآن کریم کی دعائیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اسی ترتیب سے ہیں جس ترتیب سے قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.میں نے ان کو مضمون وار الگ الگ نہیں کیا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتادوں کہ ان دعاؤں کے متعلق خدا کا جو وعدہ ہے کہ میں قبول کرتا ہوں وہ وعدہ در حقیقت ایسی ہی دعاؤں کے متعلق ہے جن کا ذکر آنے والا ہے ورنہ بسا اوقات انسان اس مخمصے میں پھنس جاتا ہے کہ خدا نے تو وعدہ کیا ہے کہ میں دعائیں قبول کرتا ہوں اور میں بڑی دیر سے دعا کر رہا ہوں کہ یہ کر دے وہ کر دے یہ دے دے وہ دے دے اور مجھے کوئی جواب نہیں ملتا تو اس آیت کو جو میں آپ کے سامنے پڑھتا ہوں ان دعاؤں کے مضمون کے ساتھ ملا کر سمجھیں تو پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ کون سی دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور کون سی مقبول نہیں ہوتیں.فرمایا : وإذا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَانّي قَرِيبُ

Page 184

181 أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوالي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۷) کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ! جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو اني قريب میں قریب ہوں.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّامِ اِذا دَعَانِ ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جب وہ مجھے بلاتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ.فَلْيَسْتَجِيبُوالي میری باتوں کا بھی تو جواب دیا کریں.میری باتوں پر بھی تو کان دھرا کریں.یہ نہ ہو کہ یک طرف مجھے بلاوے بھیجتے رہیں اور جب میں ان کو بلاؤں تو وہ پیچھے ہٹ جائیں.وَلْيُؤْ مِنو اني اور وہ مجھ پر سچا ایمان رکھیں.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تاکہ وہ ہدایت پائیں اور کامیاب ہوں.یه رشد کا رستہ قبولیت دعا کا رستہ ہے جو خدا تعالٰی نے ہمیں تفصیل سے سمجھایا کہ وہ کونسا رستہ ہے اور کیسے لوگ ہیں جو اس رستے پر چلتے ہیں تو انکی دعائیں قبول ہوتی ہیں.قرآن کریم کی سورتیں اگرچہ اس ترتیب سے نہیں ہیں جس ترتیب سے یہ نازل ہوئیں لیکن جو تریب وحی الہی کے مطابق مقرر ہوئی اور جس ترتیب کے ساتھ ہم قرآن کریم کو آج پاتے ہیں اس ترتیب میں گری حکمتیں ہیں اور مضمون کا تسلسل ہے.میں دعاؤں کے تسلسل میں بھی خدا تعالٰی نے بعض گمری حکمتوں کو پیش نظر رکھا ہے، اس لئے میں ترتیب کو مضامین کے لحاظ سے بدلنے کی بجائے بعینہ اسی طرح آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس طرح قرآن کریم نے پیش فرمائی ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائیں سب سے پہلی دعا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیان ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کی کیا اہمیت ہے.آپ ابو الانبیاء کہلاتے ہیں یعنی وہ عظیم الشان نمیوں کا سلسلہ جس پر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم پیدا ہوئے اس کے جد امجد حضرت ابراہیم عليه الصلوة والسلام تھے.فرمایا : وإذ قالَ ابْرُ جِمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنَّا وارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَوتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، قَالَ وَمَن كَفَرَ

Page 185

182 فَأُمَتَّعُه قَلِيلا ثم اضْطَرة إلى عَذَابِ النَّارِ، وَبِئْسَ الْمَصِيرُ.وَإِذْ يَرْفَعُ إبْرجِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ البَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ، رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أنتَ السَّمِيمُ العَلِيمُ - رَبِّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِن ذُرِّيَّتِنَا امَّةٌ مُسْلِمَةٌ لكَ.وَارِنَا مَنَا سِنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة ويزكيهم، إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة البقره : ۱۲۷-۱۳۰) واذ قال إبرهمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أمنا یہ اس وقت کی دعا ہے جبکہ خانہ کعبہ کے کھنڈرات تو موجود تھے یعنی بعض بہت پرانے اور تقریباً معدوم مٹے ہوئے آثار موجود تھے لیکن خانہ کعبہ کی کوئی عمارت نہیں تھی.وحی الہی کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام اس جگہ پہنچے ، اسے تلاش کیا اور وہیں آپ نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو چھوڑا اور بعد میں جب حضرت اسماعیل بڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ مدد کرنے کے قابل ہوئے تب اس کی تعمیر نو شروع کی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسماعیل کا حصہ اس میں ڈالنا ضروری تھا اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے حضرت اسماعیل کی نسل سے پیدا ہونا تھا اس لئے آپ نے انتظار کیا کہ یہ بچہ جو دنیا کے عظیم ترین نبی کا جد امجد بننے والا ہے جس کی خاطر خانہ کعبہ کی تعمیر کا آغاز ہوا تھا، جس نے خدا کے اس گھر کی تعمیر کے مقاصد کو اپنی انتہاء تک پہنچانا تھا اس کا ہاتھ بھی اس تعمیر میں ساتھ لگ جائے اور شامل ہو جائے.نہیں قرآن کریم میں جہاں بھی تعمیر نو کا ذکر ہے وہاں حضرت ابراہیم کے ساتھ حضرت اسماعیل کو ضرور شامل فرمایا گیا اور دعاؤں میں بھی دونوں مل کر دعائیں کرتے ہیں.اس وقت تک صرف دو ہیں لیکن آگے جا کر جو دعائیں آئیں گی ان میں تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.فرمایا : هذا يلدا أمنا اس جگہ کو امن کی جگہ بنا وارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اور جو بھی یہاں رہیں ان کے لئے ہر قسم کے پھل ميا فرما - مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الأخر وہ لوگ جو اللہ پر اور یوم آخر پر ایمان لانے والے ہوں.خدا نے فرمایا : وَمَن كَفَرَ نَا مَتِّعَهُ قَلِيلًا - جو انکار بھی کر دے گا اسے بھی ان دنیاوی فوائد

Page 186

183 میں سے کچھ نہ کچھ میں ضرور پہنچاؤں گا.یہ نہیں کہ ادھر کسی نے انکار کیا وہیں میں نے نعمت کا ہاتھ کھینچ لیا تو جہاں تک ثمرات دنیا کا تعلق ہے وہ میں انکار کرنے والوں کو بھی دیتا رہوں گا لیکن کچھ عرصے تک ہمیشہ کے لئے نہیں، حد اضطرة إلى عَذَاب النَّارِ، وَبِئْسَ الْمَصِيرُ کچھ عرصے سے مراد دنیا کی زندگی ہے یعنی دنیا کی زندگی میں میں پھلوں سے محروم نہیں کروں گا لیکن جب وہ مرکز میرے حضور پیش ہو گا تو اس لئے میں اس کو عذاب سے میرا قرار نہیں دوں گا کہ اس کو میں نے دنیا میں نعمتیں دی تھیں.پس خانہ کعبہ کی نعمتوں سے وہ فائدہ اٹھانے والا تو ہو گا لیکن اپنے کفر یا ناشکری یا انکار کی وجہ سے مرنے کے بعد پھر اسے عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور یہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے جس کی طرف وہ لوٹ کے جانے والا ہے.واذ يَرْفَعُ ارْجِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَ اسْمعِيل.اس وقت کو یاد کرو جب ابراہیم نے قواعد بیت کو اللہ کے گھر کی بنیادوں کو استوار کرنا شروع کیا و اسمعیل اور اسماعیل اس کے ساتھ ساتھ تھا تو (اس وقت) پہلی دعا ان کی یہ تھی.ربنا تقبل منا کہ اے خدا! ہم سے اس کو قبول فرما لے.حضرت ابراہیم کی جو یہ دعا ہے اور حضرت اسماعیل کی یہ دعا ہے، اس دعا میں بہت گرمی سمتیں ہیں.پہلی بات تو یہ سمجھائی گئی ہے کہ خدا کی خاطر اتنی مشقت اٹھا کر اتنی مصیبتیں برداشت کر کے ایک ویرانے میں ابراہیم اپنی بیوی اور بچے کو لے کر آیا.پھر لمبی مصیبتوں میں انتظار کیا.بھوک دیکھی، پیاس دیکھی، ہر قسم کی تکلیفیں اٹھا ئیں.بار بار آتا رہا یہاں تک کہ وہ بچہ بڑا ہو گیا اور خدا کی خاطر، محض خدا کی خاطر گھر تعمیر کیا جا رہا ہے لیکن انکسار کا یہ عالم ہے کہ ربنا تقبل منا سے دعا شروع کی.اے اللہ ! قبول فرمالیتا.گھر تو تیری خاطر بنا رہے ہیں.خالفتہ نیکی کی خاطر لیکن انسان خود اپنی نیتوں کی کنہوں سے واقف نہیں ہوتا انسان اپنے اندرون حال سے خود واقف نہیں ہوتا ، اس لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہم تیرے حضور پیش کر رہے ہیں اسے اپنی رحمت سے قبول فرما لیتا.اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ تو نے والا بھی ہے اور جاننے والا بھی ہے.صرف دعائیں سنتا ہی نہیں ان کے احوال سے

Page 187

184 واقف ہے.ان کے رازوں سے واقف ہے.ان نیتوں سے واقف ہے جو دعاؤں سے پہلے ہوتی ہیں اور جن کے نتیجے میں دعائیں اٹھتی ہیں.دَتَنَاوَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لك اے خدا! اس عبادت کے گھر کا کیا فائدہ؟ اگر ہم بنانے والے خود تیرے حضور مسلمان نہ ٹھہریں.پس ہم دونوں کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا.مُسلِمَيْنِ لك ہمیشہ کے لئے اپنا فرمانبردار بنائے رکھنا.وارثا منا سخنا اور فرمانبرداری کی حالت میں ہمیں عبادت کے راز بھی سکھانا اور قربان گاہیں بھی دکھانا.منسک سے دونوں مراد ہو سکتے ہیں.عبادت کا طریق بھی اور قربانی کا طریق اور وہ جگہیں جہاں انسان قربانی پیش کرتا ہے.وَتُبْ عَلَيْنَا لیکن پھر ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم سے بخشش کا سلوک فرمانا ہماری توبہ کو قبول کرنا.إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرحيم تو تو بے انتہاء توبہ قبول کرنے والا ہے اور بے حد رحم کرنے والا ہے.پس نیکی کی دعاوں کے ساتھ یہ عاجزی اور انکساری کی گریہ وزاری بھی جاری ہے اور اعتراف ہے کہ ہم کچھ بھی نہیں ہم گنہ گار ہیں.ہم نیکی کے جو کام بھی کرتے ہیں ان پر بھی ہمیں پورا یقین نہیں ہو سکتا جب تک تیری طرف سے رضامندی حاصل نہ ہو جائے کہ یہ نیکیاں قبول بھی ہوں گی کہ نہیں.ربَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا يَدُهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ اے خدا! ان لوگوں میں سے جو یہاں پیدا ہوں گے وہ عظیم الشان رسول برپا فرما - يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ جو تیری آیات ان پر تلاوت کرے گا.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ اور انہیں کتاب بھی پڑھائے گا اور اس کی حکمت بھی.ویزگی اور ان کو پاک فرمائے گا.انكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يقينا تو غالب قدرتوں والا اور بڑی حکمتوں والا ہے.غیر معمولی تقوی اور انکسار کے ساتھ کی جانے والی دعا یہ دعا کی وہ تان ہے جہاں جا کر یہ دعائوئی ہے، جہاں جا کر یہ دعا اپنے عروج تک پہنچی ہے اور اب سمجھ آئی کہ پہلی دعاؤں میں اس قدر تقویٰ کی باریک راہوں کی پیروی کیوں ہو رہی تھی؟ اتنا انکسار کیوں تھا؟ اتنی بار بار کی احتیاط کیوں تھی کہ اے خدا ہماری

Page 188

185 دعاؤں کو قبول فرمانا.ہمیں پاک و صاف رکھنا.ہم میں ذرا بھی غیر کا کوئی شائبہ تک باقی نہ رہے.خالص تیرے لئے ہم یہ کام کر رہے ہوں اور تو ان کاموں کو قبول کر رہا ہو کیونکہ یہ دعا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سلسلے کی بنیاد ڈالنے والی دعا تھی.اور اس عظیم الشان رسول کے برپا کرنے کی دعا تھی جس کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا گیا تھا.اس لئے غیر معمولی تقویٰ کی ضرورت تھی اور غیر معمولی انکسار کی ضرورت تھی.یہ وہ مقام تھا جہاں نمبر داخل ہو سکتا تھا.بعض تکبر نیکی میں بھی داخل ہو جاتے ہیں اور شیطان بسکا سکتا تھا کہ تم دونوں ؟ تم تو اتنے عظیم الشان وجود ہو کہ وہ عظیم وجود جس کی خاطر ساری کائنات کو پیدا کیا گیا تھا وہ تمہاری نسل سے پیدا ہونے والا ہے تو جتنا بڑا مقام عطا ہونے والا تھا اتنی ہی عاجزی بھی سکھائی گئی اور اس طرح انہوں نے عاجزانہ طور پر خدا کے حضور یہ دعائیں مانگیں جو بعینہ اسی طرح قبول ہوئیں.حیرت انگیز طریق پر انہیں لفظوں میں یہ دعا قبول ہوئی ہے جن لفظوں میں ابراہیم علیہ السلام نے خدا سے مانگی تھی لیکن ترتیب انسانی سوچ کی تھی اگر چہ نبی تھا مگر بہر حال انسان تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے ترتیب بدل دی چنانچہ فرمایا : هُوَ الَّذِي بَحَتْ فِي الأمين رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ (سورة الجمعه : ) ابراہیم علیہ السلام نے تو یہ عرض کیا تھا کہ جب وہ تلاوت آیات کر دے، پھر ان کی تعلیم دے دے ، پھر ان کی حکمت سکھا دے تو اس کے نتیجے میں اس کے اندرپاک کرنے کی صفات پیدا ہو جائیں گی پاک کرنے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی.پھر وہ ان کو پاک کرے کیونکہ جب آیات پڑھی جائیں گی، ان کی تعلیم دی جائے گی، ان کی حکمت سکھائی جائے گی تو یہ سارا پاک کرنے والا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کے نتیجے میں جو بھی لوگ اس کارخانے سے گزریں گے آخر تک پہنچتے پہنچتے پاک ہونے کے لئے تیار ہوں ويزكية پھر وہ ان کو پاک بھی کرے گا.خدا تعالٰی نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا اصل مقام قبولیت دعا کے وقت ظاہر فرمایا اور فرمایا کہ ابراہیم کی سوچ تو یہ تھی کہ وہ کتاب اور حکمت سکھانے کے

Page 189

186 بعد پھر ان کو پاک کرے گا.مگر میں یہ کہتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم میں دو ایسی خوبیاں ہیں جن میں وہ سب دوسرے انبیاء سے ممتاز ہیں اور پہلے نہیں ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.ایک ہیم کہ وہ ذاتی طور پر ایسی قوت قدسیہ رکھتا ہے کہ کتاب سکھانے سے پہلے اور اس کی حکمتیں بتانے سے پہلے محض اپنے وجود کی برکتوں سے لوگوں کو پاک کرنے کی اہلیت رکھتا ہے.پس تلاوت آیات تو بہر حال اول ہے کیونکہ خدا کے پیغام کو سنائے بغیر کوئی طاقت بھی حاصل نہیں ہوتی لیکن ساتھ ہی فرمایا : ويزكيهم وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة وہ پہلے پاک کرتا ہے اور پاک کرنے کے لئے کسی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا وجود خود پاک کرنے والا ہے اور دوسرا امتیاز یہ ہے کہ پہلے لوگ تو ایسے مدرسوں میں داخل ہوتے تھے کہ داخل ہونے سے پہلے پاک نہیں ہوتے تھے داخل ہونے کے بعد پاک کیے جاتے تھے اور گویا پاک ہو جاتا ان مدارس کا منتہی اور مقصود تھا.فرمایا یہ اتنا اونچا مدرسہ بنایا گیا ہے کہ یہاں داخل ہونے کے لئے پاک ہونے کی ضرورت ہے.جب تک پاک دل لے کر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے قدموں میں حاضر نہیں ہو گے تم اس درسگاہ سے کچھ حاصل نہیں کر سکو گے.پس یہ دونوں مفاہیم بیک وقت صادق آتے ہیں اور اس دعا کی اہمیت بھی ہمارے سامنے ظاہر ہوتی ہے کہ کس طرح بعینہ ان چار صفات کا ذکر فرماتے ہوئے جن کو بڑی عاجزی کے ساتھ حضرت ابراہیم نے خدا سے مانگا تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی بعثت کا ذکر فرما دیا کہ وہ بعینہ وہی صفات لے کر پیدا ہوا ہے جو ابراہیم نے اس آنے والے کے لئے مانگی میں اب دیکھیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس دعا نے کتنا عظیم الشان کام کیا ہے.وہ لوگ جو اپنے لئے دعائیں کرتے کرتے مر جاتے ہیں وہ اپنے بچوں کے لئے دعائیں کرتے کرتے جان دے دیتے ہیں قائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن تھوڑے ماحول میں چند دن کے فائدے پہنچتے ہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا دیکھیں کتنی نافع الناس تھی، کتنی عظیم الشان تھی، تمام دنیا نے قیامت تک اس سے فائدے اٹھانے تھے اسی

Page 190

187 لئے اس دعا کو بھی عظمت ہوئی اس دعا مانگنے والے کو بھی ایسی عظمت نصیب ہوئی جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوئی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا ارشاد ایک اہم دعا کے متعلق دوسری دعا قرآن کریم ہمیں البقرۃ آیت ۲۰۲ میں یہ سکھاتا ہے : ربنا ايكا في الدُّنْيَا حَسَنَةُ وَ فِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ یہ دعا در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ان بندوں کے متعلق بیان فرمائی گئی ہے جو مناسک حج ادا کرنے کے بعد خدا سے خیر مانگتے ہوئے واپس لوٹتے ہیں.وہ کیا کہتے ہوئے واپس آتے ہیں : ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ اے خدا! ہمیں دنیا کی حسنات بھی عطا فرما اور آخرت کی حسنات بھی عطا فرما اور عذاب نار سے بچانا.یہاں حسنہ اور فضل میں ایک فرق ہے جو آپ کو یا د رکھنا چاہیے ورنہ آپ کی دعا مکمل نہیں ہوگی.فضل عموما دنیاوی فوائد کے لئے استعمال ہوتا ہے اگر چہ دوسرے فوائد کے لئے بھی لیکن حسنہ کا زیادہ تر تعلق نیکیوں سے ہے اور کوئی ایسی خیر حسنہ میں داخل نہیں ہوتی جو نیکی سے خالی ہو.اس لئے حسنہ میں جو حسن ہے وہ دوسری دعاؤں میں ویسا پیدا نہیں ہوتا کیونکہ مراد یہ ہے کہ ہمیں ہر اچھی چیز دے.دنیا میں سے بھی اچھی چیزیں دیں یعنی دنیاوی لحاظ سے بھی اچھی ہوں اور تیرے حضور بھی وہ اچھی اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھنے کے لائق ہوں اور پھر آخرت میں سے بھی بہترین چیزیں عطا فرما اور دین میں سے بھی اس حصے پر عمل کرنے کی توفیق بخش جو سب سے زیادہ حسین ہے یعنی تعلیم کا وہ حصہ جو چوٹی کا تعلیم کا حصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دعا کے متعلق فرمایا : ”ہماری جماعت ہر نماز کی آخری رکعت میں بعد رکوع مندرجہ ذیل دعا بکثرت پڑھے.رَبَّنَا تِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَ قِنَا عَذَابٌ النَّارِ " er (الملفوظات جلدا ص۹)

Page 191

188 اے ہمارے رب ہمیں دنیا کی بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت کی بھی حسنہ عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پس وہ احمدی جو اس فرمان سے واقف نہیں ہیں وہ شاید دعا سے تو واقف ہوں گے لیکن یہ علم نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر میں یہ دعا کتنی اہمیت رکھتی تھی.ایک موقعہ پر حضرت انس کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ایک مریض کی عیادت کے لئے گئے جو بیماری سے اس طرح کھو کھلا ہو چکا تھا جیسے کسی چوزے کے پر نوچ لئے گئے ہوں اور وہ بالکل نڈھال ہو چکا ہو، آپ نے اس سے پوچھا کیا تم خدا سے کوئی خاص دعا کرتے ہو، اس نے عرض کی : ہاں! میں دعا کرتا ہوں کہ یا اللہ ! تو نے جو عذاب مجھے قیامت کے روز دیتا ہے وہ مجھے اس دنیا میں ہی دے دے.آپ نے فرمایا سبحان اللہ ! تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے.کیا پیارا کلام ہے.کیسا دل کی گہرائیوں تک اتر جانے والا ( کلام ہے) سبحان اللہ ! تم اس کی طاقت نہیں رکھتے.خدا سے ایسی دعا نہ مانگا کرو کہ جس کی تم میں طاقت نہ ہو.تم برداشت نہ کر سکو.فرمایا : یہ دعا کیوں نہ کی : رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ساری باتیں اس میں آگئیں.جس عذاب آخرت سے ڈرتے ہوئے تم دعا مانگ رہے تھے اس کا تو اس دعا میں ذکر موجود ہے.یہ دعا مقبول ہو جائے تو عذاب آخرت کہاں؟ لیکن اس کے ساتھ یہ دنیا کی حسنات بھی دیتی ہے اور آخرت کی حسنات بھی دیتی ہے.پس یہ دعائیں ہیں.ان کا ایک پس منظر ہے.کس طرح خدا کے پاک بندوں نے ان کی حکمتوں کو سمجھا.کس طرح ان کے متعلق تلقین فرمائی.جب بھی آپ اياك لعبد وإياك نستعين کہنے کے بعد یہ مشکل دعا مانگتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَیوم تو پھر ان لوگوں کی دعائیں بھی تو ساتھ مانگا کریں اور بعینہ سورۂ فاتحہ کے بعد ان دعاؤں کے لئے قرآن کریم کی آیات پڑھنے کا وقت آجاتا ہے تو ایسی آیات کا انتخاب کریں جن آیات میں ایسی دعائیں ہوں اور دعاؤں کے مضمون کو اگر آپ سمجھ جائیں تو ہر ضرورت کے لئے ہر

Page 192

189 مشکل کے لئے ہر خواہش جو نیک خواہش ہے اس کو پورا کرنے کے لئے آپ کو قرآن کریم میں کوئی نہ کوئی مناسب حال دعا مل جائے گی.اگر اس کے پس منظر کو سمجھ جائیں تو پھر دل میں درد پیدا ہو گا.سوز پیدا ہو گا اور آپ کی دعاؤں میں ایک نئی زندگی پیدا ہو جائے گی.وہ ایسے چوزے کی طرح کی دعائیں نہیں ہوں گی جس کے پر نوچے جاچکے نہوں ایسے پرندے کی طرح دعائیں ہو گی جو اڑنے کی سکت رکھتا اور بلند پروازی جانتا ہو اور بلند پروازی کی طاقت رکھتا ہو.حضرت طالوت کی دعا اور اسکی قبولیت پھر ایک دعا ہے جو حضرت طالوت جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ جدعون تھے ان کی دعا قرآن کریم نے محفوظ قربانی ہے وہ جب جالوت کی فوجوں کے ساتھ مقابلے کے لئے نکلے تو جالوت کی فوجیں بہت زیادہ تھیں اور بہت طاقت ور تھیں اس کے مقابل پر حضرت طالوت کی فوج بہت مختصر تھی اور اس میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جو ابتلاء پر پورا نہیں اتر سکے اور آخر وقت تک ساتھ نہ دے سکے.اس لئے جو باقی بچے وہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے، اس وقت انہوں نے ایک دعا کی : ربنا افرغ علينا صبرا وتيْتُ أَقْدَا مَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة : ۲۵۱) کہ اے خدا! ہم پر میر نازل فرما، ہمیں صبر عطا فرما.وثبت اقدامنا اور ہمارے قدموں کو مستحکم اور مضبوط کردے.والصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور ہمیں انکار کرنے والوں کی قوم پر فتح نصیب فرما.چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ یہ دعا ایسی تھی جسے میں نے فورا قبول کر لیا.فَقَدَمُوهُم بِاِذْنِ الله پس وہ جو عظیم شکست انہوں نے دشمن کو دی وہ محض اللہ کے اذن سے تھی ورنہ ان میں یہ طاقت نہیں تھی کہ اتنے بھاری دشمن پر فتح یاب ہو سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں پھر قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دعاؤں کا بھی نقشہ کھینچا ہے.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم میں باقی انبیاء کی دعائیں ہیں محمد رسول اللہ

Page 193

190 صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی دعائیں نہیں حالانکہ بہت سی دعائیں جن میں نام نہیں لیا گیا اور بعض ایمان والوں کی دعائیں بتائی گئی ہیں وہ دعائیں وہ ہیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی دعائیں تھیں اور بہت سی ایسی دعائیں ہیں جو خداتعالی نے خود آپ کو مخاطب کر کے سمجھائیں کہ یہ دعا مجھ سے کیا کرو.یہ ساری دعائیں قرآن میں محفوظ ہیں.ان کے علاوہ اور بھی دعائیں ہیں جن کا قرآن میں تفصیل سے ذکر نہیں ملتا لیکن مضمون موجود ہے ان دعاؤں کا انشاء اللہ بعد میں ذکر کروں گا.ایک دعا یہ بتائی : آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ، كُلَّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَيْكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ (البقرة : ۲۸۷) دیکھو ! محمد رسول الله خداتعالی کی ہر اس چیز پر ایمان لے آئے، ہر اس بات پر ایمان لے آئے ہر اس حکم پر ایمان لے آئے جو ان کی طرف نازل کی گئی اور ان کے ساتھ ہی ان پر ایمان لانے والے بھی خدا کی کامل دتی پر ہر طرح سے ایمان لے آئے.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے چل چل کر جن جن باتوں پر وہ ایمان لاتے گئے آپ کے صحابہ آپ کے غلام بھی ان باتوں پر ایمان لاتے چلے گئے.كُلٌّ آمَنَ يا لو وَ مَلَيْكَتِهِ وكتبه ورسلیم یہ سب کے سب وہ ہیں جو اللہ پر بھی ایمان لائے ملائکہ پر بھی ایمان لائے اور کتابوں پر بھی ایمان لائے اور خدا تعالیٰ کے رسولوں پر بھی ایمان لائے اور یہ اقرار کیا.لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُسُلِیہے کہ جہاں تک وحی کی عظمت کا تعلق ہے، جہاں تک تیرے فرمان کے احترام کا تعلق ہے ہم کسی بڑے چھوٹے رسول کی وحی میں فرق نہیں کریں گے.جو حکم تیری طرف سے آئے گا وہ کسی طرح ہم تک پہنچے ، خواہ بڑے رسول کے ذریعہ پہنچے یا چھوٹے رسول کے ذریعہ پہنچے ہم تو تیرے حکم پر نگاہ کرنے والے ہیں اس لئے جہاں تک وحی کے احترام کا تعلق ہے اس میں ہم کوئی فرق نہیں کریں گے.کوئی رسول زیادہ قابل احترام ہے اور کوئی رسول کم قابل احترام ہے اس بحث میں نہیں پڑیں گے اور پھر وقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وإليك المصير اے خدا! ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کر دی یعنی جو کچھ ہم نے سنا اس سب پر ہم ایمان بھی لائے اور ہم اطاعت کے لئے حاضر ہو گئے اور عمل کرنا

Page 194

191 شروع کر دیا.غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ اس لئے اب ہم تجھ سے بخشش کا حق مانگتے ہیں، بخشش کی توقع رکھتے ہیں تو ہم سے بخشش کا سلوک فرمانا.دیکھئے اس میں بھی کتنا انکسار ہے.محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی جس کیفیت کے ساتھ خدا کی وحی پر ایمان لائے کبھی دنیا میں کوئی قوم ایسی پیدا نہیں ہوئی جس نے اس شان کے ساتھ اس خلوص کے ساتھ اس طرح مضمون کی باریکیوں کو سمجھتے ہوئے خدا کے کسی نبی کی وحی پر ایمان لایا ہو مگر یہ لوگ محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی اس وحی پر اس کامل شان کے ساتھ ایمان لے آئے اور پھر خدا کے سب رسولوں پر فرشتوں پر کتابوں پر سب پر ایمان لانے کے بعد پھر اپنا یہ دستور بنا لیا کہ سنا اور اطاعت شروع کر دی اور مقابل پر خدا سے کیا مانگا.غُفْرَانَكَ رَبنا اس کے باوجود ہم کسی چیز کے مستحق نہیں ، ہم جانتے ہیں کہ یہ سب توفیق تیری دی ہوئی ہے، ہاں بخشش کی توقع رکھتے ہیں کہ ہم سے جو کمزوریاں ہو جائیں غفلتیں ہوں تو ہم سے بخشش کا سلوک فرما واليْكَ الْمَصِيرُ اور ہم نے آخر تیرے پاس پہنچنا ہے.کوئی مفر نہیں ہے.لازما" ہم سب آخر تیرے حضور پہنچیں گے.لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا فرمایا : ہاں میں جانتا ہوں کہ تم میں سے مختلف لوگوں کو میں نے مختلف توفیق عطا فرمائی ہے.کسی کو زیادہ طاقتیں دی ہیں، کسی کو کم طاقتیں دی ہیں.چونکہ میں نے طاقتیں دی ہیں میں تم سے تمہاری طاقتوں کے مطابق سلوک کروں گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے ان کی طاقتوں کے مطابق اور ان کے غلاموں سے درجہ بدرجہ صدیقوں سے صدیقوں کے مطابق شہداء سے شہداء کے مطابق اور صالحین سے صالحین کے مطابق لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ قانون یہ ہے کہ جو کچھ بھی نیکی تم سے سرزد ہو جائے گی ؟ یا ان لوگوں سے اس نیکی کی میں جزاء ضرور دوں گا مگر یدی کے متعلق احتیاط کرلوں گا کہ نیت اور پختہ نیت کا دخل ہو.جان بوجھ کر عمرا کی گئی ہو.احتسبت میں واضح نیت اور ارادے کا معنی پایا جاتا ہے تو دیکھئے یہ بھی کتنا احسان اور مغفرت کا سلوک ہے، دراصل غفرانك کا جواب ہے.فرمایا.ہاں غفران کا سلوک کروں گا اس طرح کہ نیکی تم سے راہ چلتے اتفاقاً بھی ہو جائے

Page 195

192 تو میں کہوں گا کہ تمہارے حساب میں لکھ لی جائے.اور فرشتے تمہارے حساب میں لکھ لیا کریں گے لیکن بدی کے متعلق احتیاط کا حکم دوں گا کہ دیکھنا اس کی نیت تھی کہ نہیں.ارادہ تھا کہ نہیں.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا.ولم نجد له عزما (له : (۱۲) ہم نے جو اس سے مغفرت کا سلوک فرمایا تو تم تجد له علما ہم نے خوب ٹول کے دیکھا، اس کی نیت میں عزم نہیں پایا جاتا تھا.ٹھو کر کھائی تھی.غفلت ہو گئی تھی.پس غفرانك كا جواب بھی ہمیں مل گیا.ایک دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ گریہ وزاری سے کرتے تھے پھر وہ دعا بتائی اور تفصیل کے ساتھ اس دعا کا ذکر فرمایا جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے شاگرڈ آپ کے کلام آپ کے صحابہ ہمیشہ خدا کے حضور گریہ وزاری سے کیا کرتے تھے.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ الخطانا اے خدا! لا تواخذنا ہرگز ہمارا مواخذہ نہ فرمانا.إن نسينا أو أخطأنا اگر ہم سے بھول چوک ہو جائے اور غلطی کر دیں تو اس کا تو کوئی کھاتا ہی نہ رکھنا.اسے تو شروع سے ہی صاف کر دینا کہ ٹھیک ہے، یہ کسی شمار میں نہیں ہوگی.پھر رَبِّنَا وَلا تَعْمِلَ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا اور اے خدا! جہاں تک اس اخر کا تعلق ہے جو تو نے پہلے لوگوں پر ڈالا تھا وہ ہم پر ڈالتا ہی نہ.اصر" اور "حمل " دو مضمون ہیں جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.اصر“ سے متعلق لغوی تحقیق یہ ہے.اَمَرَ الشَّشی کسی چیز کو توڑا مروڑا روکا.کوئی چیز اتنا بڑھ گئی مثلاً درخت کی شاخیں کہ آپس میں منجلیں پڑگئیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کو خراب کرنے لگ گئیں.انتَصَرَ الْقَوم لوگ زیادہ ہو گئے.اصر اس رسی کو بھی کہتے ہیں جو سڑک پر ٹول وصول کرنے کے لئے لگائی جاتی تھی.آجکل بھی گیٹ (Gate) لگتے ہیں.یعنی وہ رسی جو گاڑیوں کو موٹروں کو گدھے گاڑیوں

Page 196

193 کو اس زمانے میں تو گھوڑے اور خچر وغیرہ ہوا کرتے تھے تو ان کو روکنے کے لئے ہوتی تھی کہ اپنا ٹیکس دیگر جاؤ تو یہ سارے مفاہیم ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دعا کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پر کوئی ایسی شریعت نہ نازل فرمانا.بوجھ سے مراد بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ خدا کی طرف سے پابندیاں ہیں، ہر گز یہ مراد نہیں مراد یہ ہے کہ ہم پر ایسی پابندیاں نہ لگانا جن پابندیوں کو برداشت نہ کر کے پرانے لوگوں کی کمریں ٹوٹ گئیں اور وہ منہدم ہو گئے اور ایسی پابندیاں نہ لگانا جو تو نے تو کم لگائی تھیں لیکن رفتہ رفتہ لوگوں نے بڑھانی شروع کر دیں اور سیدھے سادے دین کو کنجلک بنا دیا.چنانچہ وہ جو قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم لوگوں سے ان کے امر دور فرماتا ہے.جن بوجھوں میں وہ مبتلا ہوئے ہیں، جو زائد رسم و رواج ان کے گلوں کے طوق بن گئے ہیں وہ ان سے ان کو رہائی دلاتا ہے تو یہ وہ مضمون ہے کہ ہمیں ایسے لوگوں کے رستے پر نہ چلانا جن کی تعلیمات ان کے لئے رفتہ رفتہ اصربن گئیں.اس میں اضافے ہونے شروع ہو گئے، رسم و رواج پیدا ہو گئے.ایسی مشکل بنا دی گئیں کہ پھر ان پر عمل نہیں ہو سکتا تھا اور پھر ایسے بھی لوگ تھے جن کی تعلیمات رفتہ رفتہ ٹیکس کی وصولی کی طرح بو جھل اور قابل نفرت بن گئیں.جب ان سے ان تعلیمات پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا تھا تو سننے والے یہ سمجھتے تھے کہ یہ کیا مصیبت ہے.یہ ویسی ہی کیفیت ہے جیسے گزشتہ کچھ عرصہ پہلے ضیاء الحق صاحب نے نماز فرض کر دی تھی.ایک تو خدا نے فرض کر رکھی تھی ۱۴۰۰۰ سال پہلے سے ایک ضیاء صاحب نے اس کے اوپر پھر فرض فرما دی اور اس وقت کی جو کیفیت لوگ مجھے لکھا کرتے تھے وہ بالکل وہی تھی جو میں بیان کر رہا ہوں کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تو ٹیکس پڑ گیا ہے.اس کی ادائیگی سے جس طرح ہو سکے بھا گو.جو خدا کی فرض کردہ نمازیں پہلے پڑھتے تھے وہ تو اسی طرح پڑھتے رہے ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑا لیکن ایک بڑی تعداد وہ تھی جو صر" سمجھ کر نمازوں کو پڑھتے تھے اور ان کا رجحان یہ تھا کہ گویا ان پر ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے تو دیکھیں کتنی اچھی دعا سکھا دی.فرمایا : اے خدا تیری تعلیم کو تو ہم قبول کریں گے لیکن ہم تجھ سے کچھ گزار شمات کرتے ہیں.ہم ہر چیز پر ایمان لے آئے.یہ عہد کر بیٹھے ہیں جو سنیں گے

Page 197

194 ہے : وقف اس کی اطاعت کریں گے لیکن اب ہمارے ساتھ ذرا ایک Code of Contact ملے ہو جائے.ایک ایسا طریق کار واضح ہو جائے جس پر ہم سے تیرا معاملہ ہوگا.ایک یہ کہ خطا تو شمار میں ہی نہیں آئے گی.بھول چوک معاف.پرانے لوگوں کی غلطیاں دوہرانے کی تو ہمیں توفیق ہی نہیں بخشے گا.ہم تیری تعلیم کو ہر گز اپنے لئے بوجھ نہیں بننے دیں گے اور نہ تیری تعلیم کو بوجھ شمار کریں گے اور ٹیکس شمار کریں گے.پھر اس کے بعد کیا ربنا ولا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَابم اس کے باوجود ہمیں پتہ نہیں کہ پھر بھی کیا کیا ہونے والا ہے.جہاں تک گزشتہ تاریخ کے سبق ہیں وہ تو ہم نے حاصل کئے لیکن اپنی کمزوریوں سے ہم پھر بھی واقف نہیں ہیں.وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لا طاقة لنا به تو نے وعدہ فرمایا ہے.لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا لا وُسْعَهَا پس اس وعدے کو یاد دلاتے ہیں اور پھر یہ تاکیدا " عرض ہے کہ ہم میں جتنی طاقت ہے اس سے زیادہ ہم پر بوجھ نہیں ڈالنا.طاقت دیکھ کر بوجھ ڈالنا اور اس کے بعد پھر بعد میں کیا سلوک ہو.وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرُ لَنَا دو ارحمنا اے خدا! عفو کا سلوک فرمانا.پھر بھی گناہ ہوں گے تو دیکھنا ہی نہ گویا گناہ ایک طرف ہو رہے ہیں اور تیری نظریں دوسری طرف ہیں.واغفر لنا اور جو گناہ تیری نظر کے سامنے آجائیں ویسے تو ہر چیز پر خدا کی نظر ہے لیکن ایک اسلوب بیان ہے.جس طرح بعض لوگ ظلم کا سلوک کرنے والے مغفرت کا سلوک کرنے والے عفو سے آغاز کرتے ہیں اور کوشش کرتے رہتے ہیں کہ کوئی برائی نظر کے سامنے ہی نہ آئے.برائی کو اس وقت دیکھتے ہیں جب پکڑنے کا ارادہ کرتے ہیں.حضرت مصلح موعود کا بھی یہی طریق تھا.مجھے یاد ہے بچپن میں آپ جب گھروں میں آیا کرتے تھے تو ہم بچپن کی کئی قسم کی بے ہودہ حرکتیں کیا کرتے تھے تو آپ اس طرح غفلت کی نظر سے دیکھتے ہوئے گزرتے تھے جیسے پتہ ہی نہیں لگا اور اس وقت دیکھتے تھے جب پکڑنے کا ارادہ ہو.جب سمجھیں کہ اب معاملہ کچھ ہاتھ سے بڑھتا چلا گیا ہے.لیکن خدا سے یہ دعا نہیں ہے کہ ہمیں اس وقت گناہوں میں دیکھنا جب پکڑنے کا ارادہ ہو.فرمایا جب دیکھنا تو بخشش کے ارادے سے دیکھنا.جب پکڑے جائیں، بات کھل جائے تو وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اور رحم

Page 198

195 فرمانا.استحقاق کوئی نہیں.بار بار کی غلطیاں ہوں گی.تیرے حضور حاضر ہوں گے کچھ لیکر نہیں حاضر ہوں گے.ایسے اقرار بار بار توڑ چکے ہوں گے جو تیرے حضور مضبوطی سے باندھے ہوئے ہوں گے.کئی دفعہ توبہ کی ہوگی.ایسی صورت میں رحم کا سلوک فرمانا.کہنا.بڑے کمزور عاجز انسان ہیں ان کا کام ہی یہی ہے ، غلطیاں کرنا.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا ایک فارسی کا الہام بھی بیان کیا جاتا ہے کہ این مشت خاک را گر نه بخشم چه کنم کہ اس خاک کی مٹھی کو میں بخشوں نہ تو کروں کیا.اس انسان کی حیثیت کیا ہے؟ اتنا کمزور اتنا ناقص ، بار بار گناہوں میں مبتلا ہونے والا.چلو دفع کرو اس کو بخش ہی دو.خاک کی مٹھی ہی تو ہے تو یہ معنی وارحمنا کے ہیں کہ اے خدا! پھر یہ کہہ دینا کہ چلو رحم ہی کر لیتے ہیں.اور کچھ نہیں.دعا کی قبولیت کا راز انت مؤلمنا یہ بات یاد رکھنا کہ ہمارا مولا تو ہے.اس لفظ میں ساری دعا کے درد کو سمو دیا گیا ہے اور دعا کی قبولیت کا راز بیان فرما دیا گیا ہے.فرمایا : ان سب حالتوں کے باوجود سوائے تیرے ہم نے کسی اور طرف نہیں دیکھا.اپنی تمام کمزوریوں اور گناہوں کے باوجود تجھ سے اس معنوں میں وفا کی ہے کہ اپنا مولا صرف تجھے سمجھا ہے اور کسی اور کو نہیں سمجھا.پس جب مولا تو ہے تو جائیں کہاں؟ دیکھئے ! وہی دعا ہے ناکہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہ اے خدا جب تیری عبادت کرتے ہیں کسی اور کی کرتے ہی نہیں تو مدد کس سے مانگیں؟ اور ہے کون ہم تیرا در چھوڑ کے جائیں کہاں چین دل آرام جان پائیں کہاں اور کچھ بھی نہیں ہے.پس مولینگ نے وہ راز کھول دیا کہ کیوں ایسی عجیب و غریب سی دعائیں مانگو جن میں کوئی منطق نظر نہیں آتی.کیوں خدا تم سے یہ سلوک کرتا چلا جائے.یہ عرض کرنا کہ اے خدا ! ہمارا مولا تو ہے.اگر ہم نے کسی اور کو مولا بنا لیا تو پھر

Page 199

196 ان دعاؤں کا ہمیں استحقاق نہیں رہے گا.پس یہ دعا مقبول تب ہوگی اگر آپ کا مولا خدا ہی ہو.اگر ضرورت اور مصیبت کے وقت دوسروں کی طرف نہ بھاگیں ، اگر شرک میں بتلا نہ ہوں، اگر مولا دنیا والے بتاتے ہوئے ہوں اور دعا محمد رسول اللہ والی کریں جن کا مولا خدا کے سوا کوئی بھی نہیں تھا تو ایک بے محل دعا ہو گی.اس کا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا.فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ پس انکار کرنے والوں اور ناشکری کرنے والوں پر تو ہمیں نصرت عطا فرما کیونکہ ہمارا مولا تو ہے اور تیرے سوا اور رحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ کوئی مولا نہیں.پھر یہ دعا سکھائی : رَبَّنَا لا تزغ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ (آل عمران : (۹) یہ دعا الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ کی دعا کے طور پر سکھائی گئی ہے جو محکمات اور متشابہات دونوں پر ایمان لاتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں محل من عِندِ اللہ یہ سب کچھ خدا ہی کی طرف سے ہے.اس لئے یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ بغیر اس مضمون کو سمجھے اگر یہ دعا کرتے رہیں کہ ربنا لا تزغ قلوبنا جیسا کہ بعض کتب میں قرآنی دعائیں لکھی ہوئی ہیں اور پس منظر بیان نہیں ہوا تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی دعا کا تیر خالی چلا جائے اور آپ کو علم نہ ہو کہ کیوں خطا ہوا کیوں نشانے پر نہیں بیٹھا.فرمایا یہ دعا ان لوگوں کی طرف سے مقبول ہوتی ہے جو متشابہات پر بھی ایمان لاتے ہیں اور محکمات پر بھی ایمان لاتے ہیں.قرآن کریم کی آیات ہوں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا کلام ہو یا دوسرے اولوا الامر کی اطاعت کا مسئلہ ہو یہ سلوک نہ کرنے والے ہوں کہ جو بات کھلی کھلی دلیل کے ساتھ سمجھ آجائے اس پر تو شرح صدر کے ساتھ ایمان لے آئیں اور جہاں ذرا بھی شک کا کوئی پہلو دیکھیں وہاں، شکوں میں مبتلا ہو جائیں تو ہمات میں مبتلا ہو جائیں.شاید یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.شاید یہ بات پوری نہیں ہوئی.یہاں زیادہ سختی ہو گئی ہے.یہاں ہمارے مزاج کے خلاف بات ہو گئی ہے.یہ متشابہات ہیں.تو فرمایا اگر تم متشابہات پر ایمان نہیں لاتے اور متشابہات کو شرح صدر کے ساتھ قبول نہیں کرتے.اگر میٹھا میٹھا کھانے کی عادت ہے اور ہلکا سا مزا بدلے تو تھوک دینے کے عادی ہو تو پھر یہ

Page 200

197 دعا کرتے ہوئے ہمارے حضور حاضر نہ ہوتا.ہم تو یہ دعا تمہیں ایسے لوگوں کی دعا کے طور پر بتا رہے ہیں جو راسخون فی العلم تھے.جو محکمات پر بھی کامل ایمان لاتے تھے اور متشابہات پر بھی کامل ایمان لاتے تھے.پھر وہ کیا کہتے تھے.ربنا لا تُرم قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا اب دیکھیں کتنی موزوں اور بر محل دعا ہے اور اس کا پس منظر جاننا کتنا ضروری ہے.دعا یہ ہے کہ اے خدا! ہمارے دلوں کو ایک دفعہ ہدایت دینے کے بعد ٹیڑھا نہ کرنا یا ٹیڑھا نہ ہونے دیتا.وَهَبْ لَنَا مِن له تك رَحْمَةً اپنے حضور سے ہمیں رحمت عطا فرمانا.ہم سے رحمت کا سلوک کرنا.إنك أنت الوهاب یقینا تو بہت ہی زیادہ رحمت کا اور موہت کا، بخشش اور پیار کا سلوک کرنے والا ہے اب یہ دعا ان لوگوں کے حق میں قبول نہیں ہو سکتی جو ہر اس مقام پر جہاں دل ٹیڑھے ہونے کے احتمالات پیدا ہوتے ہیں ٹھو کر کھا جاتے ہیں اور خود اپنے دلوں کو ٹیڑھا ہونے دیتے ہیں.فرمایا جو راسِخُونَ فِي الْعِلْمِ ہیں وہ ایسا نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود جانتے ہیں کہ خدا سے طاقت پائے بغیر وہ ان ابتلاؤں سے صحیح سالم گزر نہیں سکتے.ان کو دعاؤں کی پھر بھی ضرورت ہے.پس متشابہات سے ٹھوکر نہیں کھاتے لیکن جانتے ہیں کہ دعا کے سہارے کے بغیر ہر وقت خطرے میں ہیں.پس اگر تم متشابہات سے ثابت قدمی سے گزرنے کی اہلیت رکھتے ہو اور بار بار شکوں کے ذریعہ اپنے ایمان کو ضائع نہیں کرتے تو پھر یہ دعا کرو، پھر تمہارے ایمان کو نئی طاقت نصیب ہوگی.پھر تمہیں مشکل مقامات پر لڑکھڑانے کی جگہوں پر خدا کی طرف سے سہارے دیئے جائیں گے اور نئی طاقتیں عطا کی جائیں گی.پھر تمہیں ہر خطرے کے مقام سے گرنے سے بچالیا جائے گا.رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لا ريب فيهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران : (۱۰) اے خدا! تو ایک ایسے دن کے وقت ہم سب کو اکٹھا کرنے والا ہے، جس میں کوئی شک نہیں.اب دیکھیں کتنی پر حکمت بات ہے.اس مضمون سے اس فقرے کا کتنا گہرا تعلق ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے.فرمایا : ریب کی بات چل رہی تھی کہ اے خدا! وہ لوگ جو متشابہات کے وقت شک نہیں کرتے ان کے ساتھ شامل ہو کر یہ دعا کیا کرو کیونکہ بالآخر ایک ایسا

Page 201

198 دن آنے والا ہے جس میں کوئی شک باقی نہیں رہے گا.جن باتوں کو تم آج نہیں سمجھ سکے.وہ کل تمہارے سامنے کھول دی جائیں گی اور جب وہ کھول دی جائیں گی تو پھر تمہیں معلوم ہو گا کہ تم کتنی غلطی پر تھے.اس لئے استغفار سے کام لیتے ہوئے دعاؤں کے ذریعہ ان ٹھوکروں سے بچنے کی کوشش کرو جن کا حال ایک ایسے دن پر کھول دیا جائے گا جس کے متعلق دعا کرنے والے خود عرض کرتے ہیں کہ ليوم لا ريب فيو اس دن ہمارے ساتھ ربوبیت کا سلوک فرمانا جس دن سب دنیا اکٹھی ہوگی اور اس دن میں کوئی شک والی بات نہیں ہوگی.یہاں دو معنی ہیں.وہ دن شک سے بالا ہے یعنی لازماً ایسا ایک دور آنے والا ہے جس میں یہ باتیں ہونگی اور اس دن کوئی شک والی بات نہیں ہوگی سب پردے اٹھا دیے جائیں گے.پھر سورہ آل عمران آیت نے ا میں متقیوں کی دعا کے طور پر یہ دعا سکھائی ربنا رئنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے خدا ! ہم ایمان لے آئے.پس ہمارے گناہ بخش دے.وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.خدا کا دیدار پانے اور فراخی رزق کی دعا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے خود یہ دعا سکھائی : قُلِ اللهُم مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلُكَ مِمَّنْ تَشَاءُ رَوَ تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ، إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ تُولِجُ الَّيْلَ في النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِى اليْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الميت من الحي وَ تَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران : ۲۷-۲۸) اے محمد (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) ! تو مجھ سے یوں مخاطب ہوا کر مجھ سے یہ دعا کیا کر کہ اے ہمارے اللہ ! تو ملک کا مالک ہے یعنی ہر قسم کی ملکیت جس کا تصور کیا جا سکتا ہے وہ تیرے قبضہ قدرت میں ہے.تُؤْتِي الْمُلْكُ مَنْ تَشَاءُ اور دنیا کی بادشاہتیں بھی اور آخرت کی بادشاہتیں بھی تیری طرف سے عطا ہوتی ہیں.جس کو جو چاہے تو عطا فرما دے خواہ وہ اس دنیا کا ملک ہو یا آخرت کا ملک ہو.و تنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَهَا: لیکن تو چھینے کی بھی طاقت رکھتا ہے، جب

Page 202

199 چاہیے کسی کو نا اہل قرار دیکر اس سے اپنا عطاء کردہ ملک واپس لے لے.وَتُعِزُّ مَنْ تشاء وتذل من تشاء تو جس کو چاہتا ہے عزت بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اسے ذلیل ہونے دیتا ہے لیکن بِيَدِكَ الْخَيرُ تیرے ہاتھ میں خیر ہے.بھلائی ہے.تیری طرف سے کسی کو ذلت نہیں پہنچتی.تو ذلیل ہونے دیتا ہے.یعنی اگر وہ خود ذلیل ہونا چاہتا ہے تو بعض دفعہ تو فیصلہ فرما لیتا ہے کہ اچھا پھر ہم تجھے ذلیل ہونے دیں گے اور پھر وہ ذلیل اور رسوا ہو جاتا ہے لیکن جہاں تک تیرے ہاتھ کا تعلق ہے یہ ہاتھ خیر کا ہاتھ ہے یہ برائی کا ہاتھ نہیں ہے.اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اور تو ہر اس چیز پر قادر ہے جو تو چاہتا ہے اور چونکہ تو بھلائی چاہتا ہے اس لئے ہم تجھ سے بھلائی ہی کی توقع رکھتے ہیں تُولِجُ الهَل فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ادلتے بدلتے رہتے ہیں.راتیں دنوں میں داخل ہو جاتی ہیں اور دنوں کو تو راتوں میں داخل فرما دیتا ہے.جب چاہے راتوں کو دنوں میں داخل فرماتا ہے دنوں کو راتوں میں زمانے داخل فرما دیتا ہے وَتُخْرِجُ الحي من امتِ وَتُخْرِجُ الْمَيْتُ مِنَ الْحَيِّ اور اسی طرح تو زندوں کو مردوں میں داخل کر دیتا ہے اور مردوں کو زندوں میں داخل فرما دیتا ہے.پس ہر آن تیرا فضل ہی ہے جو ہمیں ہمیشہ صحیح رستے پر قائم رکھے اور مردوں سے زندوں میں داخل ہونے والے ہوں نہ کہ زندوں سے مردوں میں داخل ہونے والے ہوں.اسی طرح ہمارے زمانے راتوں سے روشنیوں میں تبدیل ہونے والے ہوں، روشنیوں سے راتوں میں تبدیل ہونے والے نہ ہوں.وَتَرْزُقُ مَن تشاء بغير حساب اور تو جسے چاہتا ہے بغیر حساب کے اسے رزق عطا فرماتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے اس دعا کے متعلق فرمایا کہ جو شخص سورۂ فاتحہ کی تلاوت کرتا ہے، پھر آیت الکرسی کی تلاوت کرتا ہے، پھر آل عمران کی اس آیت کی تلاوت کرتا ہے جس میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے : شهد الله انه لا اله الا هو والمليكة وأولوا العلم قائِمَّا بِالْقِسْطِ، لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (آل عمران : ١٩) شَهِدَ اللہ اللہ تعالٰی اس بات کا گواہ ہے

Page 203

200 اور انه لا اله الا هو کہ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں.والمليكة فرشتے بھی اس بات کے گواہ ہیں اور اُولُوا العلم اور جتنے صاحب علم لوگ ہیں وہ بھی اس بات کے گواہ ہیں.کانٹا یا توسط خدا تعالٰی اور خدا تعالٰی کے اطاعت کرنے والے سارے ہمیشہ انصاف پر قائم رہتے ہیں اور وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں اور پھر یہ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ہے.دعا پڑھتے ہیں جو ابھی میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے فرمایا : جو شخص بھی ہر فرض نماز کے بعد یہ دعائیں کرے گا اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنت بطور مادی مقدر کر دی ہے اسے جنت الفردوس میں سکونت عطا کروں گا اور ہر روز ۷۰ مرتبہ اسے اپنے دیدار سے مشرف کروں گا.یہاں لفظ ہے جو ہے اس کے متعلق بتانا ضروری ہے کہ عربوں میں یہ ایک عدد ہے جو کثرت کی علامت ہے یعنی بکثرت میں اسے دیدار نصیب کروں گا.تو عرب اسے یوں بھی بیان کرتے ہیں کہ ۷۰ مرتبہ.تو اس سے مراد ظاہری طور پر ۷۰ نہیں ہے.بعض تو ان جنتوں میں ایسے بھی ہوں گے جیسے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم جو ہمیشہ دیدار کی حالت میں ہی رہیں گے.اور ساتھ ہی یہ جو نسخہ آپ کے سامنے پیش کیا گیا ہے اس کو آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فراخی رزق کا نسخہ بھی بیان فرمایا ہے.پس وہ لوگ جو مختلف قسم کی تنگیوں میں جتلا ہوتے ہیں ان کو اسی ترتیب سے یہ دعا کرنی چاہئیے جس کا آخری ٹکڑا یہ ہے.وَتَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ - تو ان سب دعاؤں سے گزرنے کے بعد جب آپ وَ تَرْزُقُ مَن تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.تک پہنچیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس دعا کو باقی سب دعاؤں کی برکت سے بھی قبول فرمالے گا.اور آپ کے رزق میں فراخی عطا فرمائے گا.اب چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے ایک دو دعاؤں کے بعد میں پھر اس مضمون کو سردست ختم کرتا ہوں لیکن یہ ایسا مضمون ہے جسے بہر حال قسطوں میں جاری رکھنا پڑے گا کیونکہ جب اِهْدِنَا الشراط الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کی گفتگو چل پڑی ہے اور صرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کی باتیں شروع ہو گئیں تو جماعت کو

Page 204

201 جب تک یہ نہ پتہ چلے کہ وہ رستہ کیا تھا؟ کس طرح اس رستے پر چلنے کی ان کو توفیق ملی؟ کس طرح اس رستے پر چل کر وہ صاحب انعام لوگ بنے ؟ اس وقت تک خالی منہ سے یہ باتیں کہہ دینا بے معنی بات ہے.بے معنی نہ سہی، برکتیں کچھ نہ کچھ تو ملتی ہوں گی لیکن جتنی برکتوں کی توقع کی جاسکتی ہے وہ برکتیں اس طرح نصیب نہیں ہو سکتیں جب تک اس دعا کی ذیل میں وہ دعائیں ہی معلوم نہ ہوں جو دعائیں کرتے ہوئے خدا کی راہ میں چلنے والے قافلے عمر بھر اپنا سفر طے کرتے رہے اور ہمیشہ کامیابی کے ساتھ سفر طے کیا.ان دعاؤں کے سہارے ان کو ہر ٹھوکر سے بچایا گیا.ہر ابتلا ء سے وہ سرخرو ہو کر نکلے اور خدا کے حضور مکرم اور محترم ٹھرے.خدا نے خود ان کی حمد بیان فرمائی اور خدا کے فرشتوں نے بھی ان پر درود بھیجے.یہ وہ رستہ ہے جس کا تفصیل سے جماعت کو علم ہونا چاہیے.واقفین نو پانے کی تمنا کرنے والوں کے لئے حضرت ذکریا کی دعا آخر پر میں حضرت زکریا علیہ السلام کی یہ دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں کیونکہ آجکل خاص طور پر مجھے بہت سی خواتین کے اور بعض مردوں کے بھی خط مل رہے ہیں کہ اس رمضان میں خاص طور پر ہمارے لئے بیٹے کی دعا کرنا.ان خطوں کا حضرت ذکریا" کی دعا سے ایک گہرا تعلق اس لئے بھی ہے کہ یہ وقف نو میں شمولیت کے شوق رکھنے کے نتیجے میں دعاؤں کے خط لکھ رہے ہیں.اکثر خط یہ ہیں کہ ہماری شدید تمنا ہے کہ ہم بھی وقت نو کی تحریک میں شامل ہو جائیں اگرچہ وقت گزر چکا ہے لیکن خدا کے لئے ہمیں شامل کریں اور دعائیں کر کر کے شامل کروائیں.ایک صرف شامل کرنے کی درخواست نہیں بلکہ اونٹ بھی دیں ، سامان بھی دیں اور پھر اس کو لاد بھی دیں تو یہ اکیلے میرے بس کی بات نہیں ہے ساری جماعت اس دعا میں ساتھ شامل ہو مدد کرے تو اللہ تعالٰی جس پر رحم فرمائے اس پر رحم ہو گا اور خدا ان مخلصین کی جھولیاں پھر اپنی رحمتوں سے بھرے گا اور پھر وہ ان جھولیوں کو بھر بھر کر دوبارہ خدا کے حضور پیش کریں گے.حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا آغاز اس طرح ہوا کہ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ وہ جب بھی حضرت مریم کے حجرے میں آپ کا حال پوچھنے جایا کرتے تھے.(حضرت

Page 205

.202 مریم نے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی، ان کے والدہ نے ان کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کو وقف کر دیا تھا اور بعد میں حضرت ذکریا کی تحویل میں ان کی تربیت کے لئے دیا گیا تھا) تو حضرت ذکریا وقتاً فوقتاً حجرے میں ان کا حال پوچھنے جایا کرتے تھے اور وہاں مختلف قسم کے رزق دیکھتے تھے.عام طور پر مفسرین یہ کہتے ہیں کہ غیب سے بغیر کسی اطور انسانی واسطے کے وہاں کئی قسم کے تھے پہنچے ہوتے تھے لیکن حضرت زکریا کی دعا سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات نہیں تھی کچھ اور بات تھی.حضرت مریم کو نیکی کی وجہ سے کچھ لوگ تو جیسا کہ دنیا میں رواج ہے دعائیں لینے کے لئے محبت کے اظہار کے لئے تحائف پیش کیا کرتے تھے اور چونکہ حضرت مریم اسے اپنی ذاتی خوبی نہیں سمجھا کرتی تھیں ہمیشہ پوچھنے پر یہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالی کی طرف سے رزق ہے میرا تو اس میں کچھ نہیں ہے.نہ میں نے مانگا نہ توقع کی.لوگوں کے دلوں میں خدا نے خود محبت پیدا فرما دی اور پھر وہ مجھے جو پیش کرتے رہتے ہیں تم دیکھ رہے ہو اور دوسری مراد یہ تھی اس رزق سے کہ روحانی رزق پاتے تھے.خدا ان سے رحمت اور مغفرت کا بھی سلوک فرماتا تھا اور پر کشوف کے ذریعے یا الہامات کے ذریعے یا کچی رویا کے ذریعے رجوع برحمت ہوتا تھا اپنی رحمت کا بار بار اظہار فرماتا تھا تو جس طرح عام طور پر بعض نیک گھروں میں مشاہدے میں بات آتی ہے کہ بعض بچوں سے پوچھا جاتا ہے کہ بتاؤ کیا خواب دیکھی؟ کیا خدا کی طرف سے رحمت کا نشان ملا؟ تو وہ نئی نئی باتیں بتاتے ہیں تو حضرت مریم بھی اپنی معصومیت اور بھول پن میں اس وقت جو بھی گزشتہ رات کے واقعات ہوا کرتے تھے وہ بتایا کرتی تھیں کہ خدا نے مجھ سے یہ فرمایا.مجھ سے یہ فرمایا.اس طرح رحمت کا سلوک فرمایا.اس طرح پیار کا اظہار فرمایا تو حضرت ذکریا جو خود نبی تھے وہ رشک کرتے تھے.رشک اس بات پر نہیں کرتے تھے کہ مجھے مریم کی طرح کچھ عطا نہیں ہوا.رشک اس بات پر کرتے تھے کہ مریم ایک ماں کی دعا کا نتیجہ ہے اور اس دعا کے نتیجے میں پاک اولاد ہے.میں پاک اولاد سے محروم ہوں.کاش! میں بھی یہ فخر کر سکوں کہ میری اولاد بھی اس طرح نیک ہو اور اس طرح خدا سے رزق پانے والی ہو.اگر یہ مضمون درست نہ ہو تو اگلی دعا کا اس سے تعلق ہی کچھ نہیں بنتا تو در حقیقت یہی وہ بات تھی جس نے حضرت اني

Page 206

203 زکریا کو خدا سے یہ دعا کرنے کی طرف متوجہ کیا.هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِ يَا رَبَّهُ ، قَالَ رت حشري من لدنك ذرية طيبة ، إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعاء (آل عمران : ۳۹) اس وقت جب حضرت زکریا نے یہ کیفیت دیکھی تو دل سے ایک ہوک اتھی اور اپنے رب سے اس نے عرض کیا رَبِّ هَبْنِ مِن لَّدُنْكَ ذُريَّةً طَيِّبَة اے خدا! مجھے بھی خالص اپنی جناب سے پاک ذریت عطا فرما.اِنك سميم الدعاء یقینا تو بہت دعا سننے والا ہے.اس کے بعد پھر اس دعا کی مختلف الفاظ میں تکرار ہوگی جو ایک عجیب پر درد مضمون رکھتی ہے.چونکہ میں نمبر کے لحاظ سے چل رہا ہوں اس لئے یہاں بیان کرنے کی بجائے جب وہ موقعہ آئے گا تو پھر میں آپ کے سامنے بیان کروں گا.پہلے تو میرا خیال تھا کہ یہ مضمون ایک ہی خطبہ میں ختم ہو جائے گا مگر یہ جاری رہے گا.پس وہ عبادت کرنے والے جو مسافر گاڑی میں مستقل سوار ہیں، ان کے لئے تو کوئی مشکل نہیں.وہ تو ساتھ چلتے رہیں گے اور یہ باتیں سنتے رہیں گے اور ان سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اور عبادت کے نئے نئے گر سیکھتے رہیں گے اور ان کی مشکل کشائی ہوتی چلی جائے گی لیکن جو لوگ اتر گئے ہیں یا اتر جائیں گے جہاں تک آپ کو توفیق ہے اگر آپ ان کے واقف ہیں، کبھی ان سے ملتے ہوں تو ان کو بھی بتاتے رہیں ہو سکتا ہے یہ باتیں سن سن کر جس طرح حضرت ذکریا کے دل میں نیک بات دیکھ کر خدا کے خاص فضل کو دیکھ کر ویسا ہی فضل طلب کرنے کی تمنا پیدا ہوئی تھی، میری دعا ہے اور میری تمنا ہے کہ اسی طرح جب آپ ان لوگوں تک یہ باتیں پہنچائیں جو آج کے سٹیشن سے آپ کو رخصت کر کے واپس ہونے والے ہیں تو ان کے دل میں یہ تحریک ا ہو کہ وہ مستقل آپ کے سفر کے ساتھی بن جائیں اور اس طرح یہ جمعہ ایک ایسی خیر پیچھے چھوڑ جائے جو وداع ہونے والی خیر نہ ہو جو رخصت ہونے والی خیر نہ ہو بلکہ ہمیشہ زندگی کا جزو بن جانے والی خیر زندگی کے ساتھ وفا کرنے والی خیر ایسی خبر بن جائے جس سے کبھی پھر وداع نہیں ہوا کرتا وہ ہمیشہ ساتھ رہا کرتی ہے.

Page 207

Page 208

205 بت الفضل - لندن وار اپریل ۱۹۹۱ در بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ انعام پانے والوں کی دعاؤں کا سہارا تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- گزشتہ خطبے میں یہ مضمون چل رہا تھا کہ سورۂ فاتحہ کی آخری دعا یعنی اهدنا الضراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِم ایک بہت ہی مشکل دعا ہے کیونکہ وہ لوگ جن پر خدا نے انعام فرمایا ان کی راہیں بہت مشکل راہیں تھیں اور ان پر چلنے کی دعا مانگنا بھی بڑے حوصلے کا تقاضا کرتا ہے.ساتھ ہی میں نے یہ بیان کیا کہ جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان انعام یافتہ لوگوں کی زندگی کے حالات کو قرآن کریم کے شیشے میں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی راہوں کو دعاؤں کے زور سے آسان کیا اور دعاؤں کے سہارے ان کا یہ سفر جو بہت ہی مشکل تھا آسانی سے طے ہوا یہاں تک کہ وہ اپنے نیک انجام کو پہنچے.پس نتیجہ یہ نکلا کہ ہمیں بھی جب ہم سورہ فاتحہ میں مذکور دعا کرتے ہیں تو ان دعاؤں کا سہارا چاہیے جن دعاؤں کا سہارا ہم سے پہلے انعام یافتہ لوگوں نے لیا تھا ورنہ اس راہ پر سفر کرنا تو درکنار یہ دعا مانگنے کی بھی ہمت نہیں پیدا ہو سکتی.کچھ دعائیں جو قرآن میں مذکور ہیں ان کا بیان گزر چکا.اب میں جہاں سے مضمون ختم ہوا تھا وہاں سے دوبارہ شروع کرتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کی دعائیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ جب اللہ تعالی نے آپ کو مامور فرمایا اور بہت ہی مشکل کام تھا جو آپ کے سپرد ہوا یہاں تک کہ آپ نے محسوس کیا کہ ساری قوم انکار کر بیٹھے گی اور آپ کو رد کر دیا جائے گا تو

Page 209

206 اس وقت کیا ہوا.فرمایا: فلما احس عيسى مِنْهُمُ الكفر کہ جب عیسی علیہ السلام نے اپنی قوم سے کفر کو محسوس کر لیا تب کہا: قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّه تو انہوں نے یہ درد ناک صدا بلند کی من أَنْصَارِي إلى الله کون ہے جو خدا کی راہ میں میری مدد کے لئے آگے آئے.اس وقت وہ چند حواری جو آپ پر ایمان لائے تھے انہوں نے کہا: قَالَ الْحَوَارِ تُونَ نَحْنُ انصار الله کہ ہم تیری مد کے لئے خدا کی خاطر تیار ہیں.امنا بالله ہم اللہ پر ایمان لے آئے.وَاشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ اور اے عینی اتو گواہ بن جا کہ ہم اسلام لانے والوں میں سے ہیں.تب انہوں نے یہ دعا کی رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتُ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاعْتُبْنَا مَعَ اللهِدِينَ (آل عمران : (۵۴) کہ اے ہمارے رب! ہم جو تو نے اتارا ہے اس پر ایمان لے آئے ہیں.واتَّبَعْنَا الرَّسُول اور ہم نے اس رسول کی پیروی شروع کر دی ہے جس رسول کو تو نے بھیجا تھا.فَاعْتُبْنَا مَعَ اللهِدِينَ تو ہمیں بھی شاہدوں میں لکھ لے.نیک اعمال اور اخلاص کی دعا اس دعا کی حکمت کو سمجھنا چاہئے.اس کے دو حصے ہیں.پہلے حضرت عیسی علیہ الصلوة والسلام سے مومن مخاطب ہوتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ آپ ہم پر گواہ بن جائیں اور اس کے بعد خدا سے مخاطب ہوتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ تو ہمیں گواہوں میں شمار کرلے.یہ نہیں کہا کہ تو ہمارا گواہ بن جا.عرض کیا : فاعتُبنَا مع الهدين ہمیں بھی شاہدوں میں لکھ لے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح انبیا ء پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں اور خدا پر ایمان لانے والوں کی نگرانی کریں اور ان کے اعمال کا ہمیشہ باریک نظر سے جائزہ لیتے رہیں کیونکہ قیامت کے دن ان کو ان لوگوں پر گواہ بنایا جائے گا اور گواہ بننے کے لئے جو شرائط ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں.یعنی اس معاملے میں گواہ بننے کے لئے ضروری شرط یہ ہے کہ جس نیکی کی وہ تعلیم دیتے ہیں اس نیکی پر عمل بھی کرتے ہیں.اگر انبیاء میں یہ بنیادی شرط نہ پائی جاتی تو وہ ہرگز قوموں پر گواہ نہیں بنائے جاسکتے تھے.پس نیکی کا گواہ بننے کے لئے

Page 210

207 ضروری ہے کہ انسان خود نیک ہو.پس حواریوں نے دیکھئے کیسی پر حکمت دعا کی ہے.پہلے حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا کہ تو ہمارا گواہ بن جا کیونکہ تو ہی یہ اہمیت رکھتا ہے کہ جو بات کہتا ہے وہی کرتا ہے.جس نیکی کی تعلیم دیتا ہے اس پر عمل پیرا ہے ہمارا گواہ بن جا کہ ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں.اور پھر خدا سے عرض کی کہ اے خدا! ہمیں بھی گواہوں میں لکھ لے.ہم تیرے حضور اس قابل بنیں کہ لوگوں کو نہ صرف نیکی کی تعلیم دیں بلکہ اس تعلیم پر خود عمل کرنے والے ہوں یہاں تک کہ تیرے نزدیک ہم شاہدین میں لکھے جائیں.بہت بڑا مرتبہ ہے جو طلب کیا گیا ہے یعنی تیرے حضور انبیاء کے ان ساتھیوں میں لکھے جائیں جن کو قوموں کی نگرانی پر مامور کیا جاتا ہے.پس نیک اعمال کی اور اخلاص کی دعا اس دعا کے اندر شامل ہو گئی اور بہت ہی جامع و مانع دعا ہے.پھر بہت سے انبیاء کی دعا قرآن کریم نے یوں بیان فرمائی کہ مختلف انبیاء مختلف مصائب میں مبتلا ہو کر یہ دعا کیا کرتے تھے جن کا ذکر یوں فرمایا: وَحاتِن مِّن نَّبِي قتل ، مَعَهُ يَتُونَ كَثير، فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ مَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا، وَ اللهُ يُحِبُّ الصَّبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ الا ان قَالُوا آگے دعا شروع ہوگی.دحان من نبي کتنے ہی خدا کے نبی DELETON ECCCESS ایسے ہیں.قتل معه إينونَ كَثِير.جن کے ساتھ بہت سے خدا والوں نے مل کر جہاد کیا.فَقادَ مَنوا وہ کمزور نہیں پڑے.لمَّا أَصَابَهُة في سَبِيلِ الله اس وجہ سے کہ ان کو اس راہ میں یعنی اللہ کی راہ میں صیبتیں پڑیں - وَمَا ضَعُفُوا اور یہ بھی کمزوری کے اظہار کا ایک مزید لفظ ہے.ضَعُفُوا کمزور پڑ جاتا.بوڑھے ہو جاتا.تھک جاتا.........وما استعانوا اور ایسے حال میں نہیں پہنچے کہ وہ ذلیل اور رسوا ہو چکے ہوں اور ہمت ہار بیٹھے ہوں تو باوجود شدید مشکلات کے علمبی مشکلوں کی راہ پر چلنے کے ان میں کوئی کمزوری نہیں آئی، کوئی بیزاری پیدا نہیں ہوئی کوئی تھکن پیدا نہیں ہوئی اور مشکلات نے ان کے اعصاب کو مضمحل نہیں کر دیا اور دنیا کی نظر میں ان لوگوں میں وہ شمار

Page 211

208 نہیں ہوئے جو تھک ہار کر ذلیل ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.یہ کیسے ہوا؟ اس لئے ہوا کہ وہ ایک دعا کیا کرتے تھے.ومَا كَانَ قَوْلَهُمْ إلا أن قالوا : اس کے سوا ان کی دعا اور کچھ نہ تھی کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے ہمارے رب ! ہمارے گناہ بخش دے.وإشرافنان آمرنا اور اپنے نفس پر ہم جو زیا دتیاں کرتے رہتے ہیں ان سے صرف نظر فرما.وثبت اقدامنا اور ہمارے اقدام میں استحکام بخش اور ہمیں متزلزل نہ ہونے دے.وانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفرين (آل عمران : ۱۳۸۴۷) اور ہمیں کافروں کی قوم پر نصرت عطا فرما.ہیں یہ جو دعائیں بتائی گئیں کہ یہ دعائیں کیا کرتے تھے ان دعاؤں کو اس مضمون پر جہاں کر کے دیکھیں جو پہلے گزر گیا کہ ان میں یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی.یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی.یہ بات بھی پیدا نہیں ہوئی تو در حقیقت ان سب باتوں کا جواب اس دعا میں ہے.اس دعا کے جتنے ٹکڑے ہیں ان کا ان باتوں سے تعلق ہے جن باتوں سے وہ بچے رہے اور جن سے اللہ تعالٰی نے ان کو نجات بخشی اور وہ اس دعا ہی کا نتیجہ تھا.پس اگر آج بھی مومن اس راہ کو طلب کر رہے ہیں تو اس راہ کی صفات کو اختیار کرنا پڑے گا اور دعاؤں کے ذریعہ اللہ تعالٰی سے ثبات قدم کی التجائیں کرنی ہوں گی.أولوا الألباب کی دعا پھر قرآن کریم میں ایک دعا اولوا الا کباب کی دعا بتائی گئی ہے یعنی عقل والوں کی دعا جن کا دماغ روشن ہوتا ہے.جن کا نور بصیرت تیز ہوتا ہے.فرمایا : إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لا يت لأولى الالباب (آل عمران) دیکھو! آسمان اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے اولنے بدلنے میں یقیناًا اولوالالباب کے لئے صاحب عقل لوگوں کے لئے نشانات ہیں.صاحب عقل لوگ کیا کرتے ہیں؟ صاحب عقل وہ لوگ ہیں.الَّذِينَ يَذْكُرُوت الله قيا ما وَقُعُودًا جو اللہ کو کھڑے ہو کر بھی بیٹھ کر بھی یاد کرتے وَعَلَى جُنُوبِهِمْ اور رات کو لیٹے ہوئے یا دن کو لیٹے ہوئے بھی.ويَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ اور ہمیشہ زمین و آسمان کی پیدائش ہیں.

Page 212

209 رتے رہتے ہیں اور غور کرتے رہتے ہیں کہ خدا تعالٰی نے یہ کیا پیدا کیا ؟ اس میں کیا حکمتیں ہیں؟ اس کی تخلیق میں کیا لطائف پوشیدہ ہیں؟ یہ غور کرنے کے بعد ان کے دل سے بے ساختہ یہ دعا نکلتی.ربِّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ نينا عذاب النار (آل عمران : (Y) کہ اے ہمارے رب !جو کچھ بھی تو نے پیدا کیا ہے حکمتوں سے بھرا ہوا ہے.باطل نہیں ہے.بے مقصد نہیں ہے.کیونکہ اتنا اعلیٰ نظام جو ایسا مربوط ہو اور ایسا گہری حکمتوں پر مبنی ہو وہ عبث نہیں ہو سکتا بے کار نہیں بنایا جا سکتا.ضرور اس کا کوئی مقصد ہے اور اگر ہم اس مقصد کو پورا کرنے والے نہ بنیں تو جس طرح بے کار چیزیں آگ میں پھینک دی جاتی ہیں ہمیں ڈر ہے کہ ہم بھی آگ کا ایندھن نہ بن جائیں تو ان سب باتوں پر مشتمل یہ دعا ہے اگر چہ الفاظ تھوڑے ہیں.عرض کرتے ہیں.ربَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ تیری شان بلند ہے تو سبحان ہے، تو پاک ہے ہمیں آگ کے عذاب سے آگ سے بچانے کی دعا کا مطلب پس سوال یہ ہے کہ اچانک زمین و آسمان پر غور کرنے کے بعد آگ کے عذاب کا کیا تو کر چل پڑا.وہ میں آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ وہ ذکر اس مضمون میں مخفی ہے.اس کے اندر یہ ذکر موجود ہے اگرچہ ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا.مراد یہی ہے کہ جب مضمون پا جاتے ہیں کہ اتنی عظیم الشان کائنات جو اتنی لطافتوں اور حکمتوں کے ساتھ بنائی گئی ہے اور ارب ہا ارب سال جس کی تخلیق کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں لگے یہ بے معنی اور بیکار نہیں ہو سکتی.ایک انسان ایک گلی ڈنڈا بھی بنائے تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے.بچے کوئی معمولی سا کھلونا بھی گھڑ لیں یا مٹی سے بنالیں تو اس کا بھی ایک مقصد ہوا کرتا ہے.جب وہ مقصد پورا نہ ہو تو پھر ا سے یا ردی میں پھینک دیا جاتا ہے یا آگ میں جلا دیا جاتا ہے.ہر پرزہ جس مقصد کے لئے بنایا جاتا ہے اس مقصد کو جب وہ پورا کرنا چھوڑ دے تو جنگ (JUK) میں چلا جاتا ہے.پرانی کاریں آپ نے دیکھی ہونگی کہ وہ ایسی جگہوں پر بھجوا دی جاتی ہیں جہاں بڑی بڑی مشینیں ان کو پڑ مٹر

Page 213

210 کر کے محض لوہے کا ڈھیر بنا دینے پر لگی رہتی ہیں اور آنا فانا ان کاروں کے لیے مگر جاتے ہیں اور وہ محض لوہے کے ٹکڑے باقی رہ جاتے ہیں.مقصد کیا ہے؟ مقصد یہ ہے کہ ہر وہ چیز باقی رہے جو مفید ہے.جو ان مقاصد کے مطابق ہے جن مقاصد کے لئے اسے پیدا کیا گیا اور ہر وہ چیز رد کر دی جائے اور اسے کالعدم کر دیا جائے جو مقاصد کو ادا کرنے سے عاری ہو گئی ہو کیونکہ اس کے رہنے کا اب کوئی جواز نہیں رہا.ان کے لئے آگ بنائی گئی ہے.آگ ان لوگوں کو ختم کرنے کے لئے بنائی گئی جو مقصد کو پورا نہیں کر سکے.اس لئے یہ بڑی پر حکمت دعا ہے.دیکھئے ان لوگوں کو اولوالالباب کہتا یہاں کیسا سجتا ہے کہ غور و فکر کے بعد لمبی باتوں کی بجائے سیدھی نکتے کی بات کسی آخری مقصد کی بات بیان کر گئے کہ اے خدا! ہم نے بہت غور کر لیا ہے.اب ہمیں یہ یقین ہو گیا ہے کہ اگر ہم نے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہ کیا تو ہم آگ کا ایندھن بنائے جانے کے لائق ہوں گے.پس ہم تجھ سے یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا ربَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ خَزَيْته اے خدا! جسے تو آگ میں داخل کر دے یا داخل کرے گا تو اسے تو ذلیل و رسوا کر دے گا.وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ انصاری (آل عمران : ۱۹۳) اور ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں.یہ بھی کیسی پر حکمت دعا ہے اور دیکھیں ان کے لئے اولوالالباب کہلانا کیسا زیب دیتا ہے.کیونکہ یہ کہنے کے بعد کہ جسے تو آگ میں داخل کرے ، یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ گویا نعوذ باللہ لوگوں کو زبر دستی آگ میں داخل کرتا پھرتا ہے.اس شبہ کا ازالہ اس دعا کے آخری ٹکڑے نے کر دیا کہ وما للظلمین مِن أنصار اے خدا ! جن کو تو آگ میں داخل کرے گاوہ ظالم ہوں گے.خود اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والے ہوں گے اور جو ظلم کرنے والے ہیں ان کی مدد نہیں کی جاتی.اس لئے تو ان کی مدد نہیں کرے گا.وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ انْصار پھر یہ دعا آئی : ربنا اتنا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي للايمان کہ اے خدا! ہم نے اس منادی کی آواز کو سنا جو یہ پکار رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ.اس کی یہ ندا تھی کہ اے لوگو! تم اپنے رب پر ایمان لے آؤ.پس ہم نے اس پکار کو سنا اور ایمان لے آئے.اس ایمان لانے

Page 214

211 کے نتیجے میں کیا طلب کیا جاتا ہے.اولوالالباب یہ عرض کرتے ہیں : ربنا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے خدا! پہلا مطالبہ تو ہمارا یہ ہے کہ جب ہمیں نئی زندگی عطا کی گئی، نئے دور میں ہم داخل ہو رہے ہیں تو ہمارے پرانے گناہوں کا شمار نہ کیا جائے CLEAN SLATE یعنی بالکل صاف سختی کے ساتھ ہم دوبارہ زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں لیکن یہ کہنا بھی کافی نہیں کیونکہ زندگی کے اندر بہت سی برائیاں اس طرح داخل ہو جاتی ہیں جیسے فطرت ثانیہ بن گئی ہوں اور محض ایمان لانے کے نتیجے میں وہ بیماریاں از خود جھڑ نہیں جایا کرتیں.پرانے گناہ تو بخشے گئے لیکن بد عادتیں جو زندگی کا حصہ بن چکی ہیں وہ کیسے چھٹیں گی اور ان کے نتیجے میں جو نئے گناہ پیدا ہوتے رہیں گے ان کا کیا بنے گا.تو دیکھئے یہ صاحب عقل لوگ کیسی اچھی دعا کر رہے ہیں.کہتے ہیں وعقد مناسباتنا پہلے کی بخشش اور آئندہ ہم سے ہماری وہ برائیاں دور کرنا شروع فرما دے جو برائیاں ہمارے ساتھ لاحق ہو چکی ہیں بیماریوں کی طرح ہمیں چھٹ گئی ہیں، جن کو دور کرنا ہماری طاقت میں نہیں ہے.پس ایمان لانے کے ساتھ ہی سب برائیاں دور نہیں ہو جایا کرتیں اور یہ خصوصا ان مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے جو دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں.محض تبلیغ کے ذریعے کسی کو مسلمان بنا لیتا اور یہ سمجھ لینا کہ فرض ادا ہو گیا ہرگز کافی نہیں کیونکہ بہت سے ایسے ایمان لانے والے ہوں گے جو بچے دل سے تو یہ بھی کر چکے ہوں گے لیکن اپنی بہت سی بدیاں ساتھ لے کر آئیں گے جن سے چھٹکارا پانا ان کے بس میں نہیں.اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی ، اگر تبلیغ کرنے والا ان سے مستقل تعلق رکھ کے ان کی برائیاں دور کرنے میں ان کی مدد نہیں کرتا تو ایسے ہی ہو گا جیسے بعض بچے وبائی امراض کا شکار ہوتے ہیں اور مائیں ان کو جگہ جگہ لئے پھرتی ہیں، اتنا نہیں سوچتیں کہ مجالس میں لے کے جائیں گی تو اور بھی بیماریاں پھیلائیں گی.کئی مائیں میرے پاس بھی لے آتی ہیں جب میں پیار کر چکتا ہوں تو بتاتی ہیں کہ اس کو فلاں وبائی بیماری ہے.اللہ تعالی حفاظت فرماتا ہے وہ الگ بات ہے لیکن یہ جو مضمون ہے اس کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیئے.قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ اولوالالباب اقرار کرتے ہیں کہ محض ایمان لانے کے نتیجے میں ہم پاک وصاف نہیں ہو گئے.ہمارے گناہ

Page 215

212 بخشے بھی جاچکے ہوں تب بھی ہمارے اندر برائیاں موجود رہیں گی اور تیری مدد کے سوا وہ برائیاں دور نہیں ہو سکتیں.پس مومنوں کو نو مبا.یعین کی فکر کرنی چاہئیے اور ان کے ساتھ لگ کر ان کی کمزوریاں دور کرنے میں ان کی مدد کرنی چاہیے ورنہ اسی طرح کھلے چھوڑ دیئے گئے تو باقی جماعت میں بھی وہ اپنی بیماریاں پھیلاتے رہیں گے.دعا کا اگلا حصہ اسے مکمل کر دیتا ہے.پھر وہ عرض کرتے ہیں.وتوفنا مع الابرار اگر ہماری دعا قبول ہو گئی تو اب برائیاں تو تو دور کرے گا لیکن پتہ نہیں کتنا وقت لگتا ہے.بعض بیماریاں عمر کا ساتھ دیئے ہوئے ہوتی ہیں، لمبے عرصے سے چھٹی ہوئی ہوتی ہیں اور پتہ نہیں کتنی عمر باقی ہے.اتنے عرصے میں وہ مٹ بھی سکیں گی کہ نہیں.موت کا کوئی وقت معین نہیں تو دیکھیں اولوالالباب نے کیسی عقل والی دعا کی.دتوفنا مع الابرار اے خدا! مارنا نہ جب تک نیکیوں میں شمار نہ ہو چکے ہوں.تیری مرضی ہے جلد صحت دے یا دیر سے صحت دے، مقصد یہ ہے کہ جب تک صحت نہ پا چکے ہوں ہمیں واپس نہ بلانا.آخری سانس اس حالت میں لے رہے ہوں کہ تو کہہ رہا ہو کہ تم ابرار میں داخل ہو گئے ہو.کیسی پیاری دعا ہے اور اولو الالعاب واقعی ایسی دعائیں کیا کرتے ہیں اور ایسی دعاؤں کی درخواستیں بھی کیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی لاہور میں ایک صحابیہ ہیں ، یہاں ہماری جماعت کی بڑی مخلص رکن آمنہ صدیقہ کی والدہ ہیں.بہت بڑی عمر ہو چکی ہے.غالبا" نوئے اور سو کے درمیان ہے لیکن ماشاء اللہ ہوش و حواس خوب قائم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کی باتیں یاد ان کا ابھی رمضان میں مجھے پیغام ملا اس پر مجھے یہ آیت یاد آئی.میں نے کہا دیکھیں خدا نے کس طرح اپنے پیارے بندوں کی باتیں قرآن کریم میں محفوظ کر دی ہیں.ان کی بھی جو پہلے گزر چکے تھے ان کی بھی جو بعد میں آنے والے تھے.انہوں نے کہا کہ میرے لئے صرف یہ دعا کیا کریں کہ خدا مجھے اس حالت میں واپس بلائے جب مجھ سے راضی ہو چکا ہو.میں.وتوفنا مع الابرار کی دعا صاحب عقل لوگوں کی دعا ہے.وہ جانتے ہیں کہ برائیوں کا زندگی کا ساتھ ہوتا ہے.بعض دفعہ گر بھی جائیں تو دوبارہ بھی آجاتی ہیں.آخری فیصلہ اس.

Page 216

213 الام وقت ہو گا جب انسان واپس جا رہا ہو گا.اس وقت اگر خدا کی رضا کی نگاہیں پڑ رہی ہوں، اگر اس کے نزدیک اس وقت انسان نیکوں میں شمار ہو چکا ہو تو زندگی کا مقصد پور ! ہو گیا اور پھر انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ میں باطل میں نہیں ہوں.ان لوگوں میں نہیں ہوں جو باطل شمار کئے جاتے ہیں.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کی دعا پھر اس کے بعد ابھی ایک دعا جاری ہے.اپنی ذات کے لئے سب کچھ مانگا گیا مگر اس دین کے لئے ابھی کچھ نہیں مانگا جس دین کے نتیجے میں ان کی اصلاح کا سلسلہ شروع ہوا.چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ موت کے تصور کے ساتھ ہی یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اے خدا! ہم نے پیغام دوسروں کو بھی تو پہنچانا ہے اور تیرے جو وعدے ہمارے متعلق پہلے نبیوں سے کئے گئے ہیں کہ ہم دنیا میں اس طرح اصلاح احوال کریں گے اور لوگوں کے حالات میں تبدیلیاں پیدا کریں گے وہ وعدے اگر پورے نہ ہوئے تو قیامت کے دن پھر بھی ہمارے لئے شرمندگی ہے یعنی ایک انسان اپنی ذات میں اگر نیک بھی بن چکا ہو اور اس کا بظا ہر نیک انجام بھی ہو وہ اگر دوسرے بنی نوع انسان کے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو وہ اپنے آپ کو کامیاب نہیں سمجھتا.یہ اولوالالباب کی تعریف کی جارہی ہے.چنانچہ یہ دعا بھی ساتھ بتا دی کہ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَ تَنَا عَلَى رُسُلِكَ اے خدا! وہ سارے وعدے ہمارے حق میں پوئے فرما دے جو تو نے پہلے رسولوں کو دیئے تھے کہ ہم آنے والوں کے ساتھ یہ یہ سلوک فرمائیں گے.اب یہ کیا مطلب ہے کہ : وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ دراصل یہاں یہ بات کھل گئی کہ یہ ساری دعا جو الوالالباب کی دعا ہے یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے غلاموں کے دعا ہے اور یہ جو باتیں ہو رہی ہیں یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے غلاموں کی باتیں ہو رہی ہیں کیونکہ یہ آپ کی ہی ایک امت ہے جس کے متعلق گزشتہ تمام انبیاء نے خوش خبریاں بھیجی تھیں اور وعدے کئے تھے کہ میں امت محمدیہ سے یہ یہ سلوک کروں گاوہ ہمارے حق میں پورے فرما دے.وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ قیامت کے دن ہمیں ذلیل و رسوا نہ ہونے دینا کہ وہ وعدے جو ہمارے ساتھ وابستہ

Page 217

214 تھے وہ پورے نہ ہوئے.اب اگر وعدے پورے نہیں ہوئے تو بظا ہر یہ خیال جاتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے وعدے پورے نہیں کئے.حالانکہ خدا تو وعدے پورے کرتا ہے پس اس دعا کا آخری حصہ یہ ہے.إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران : ۱۹۵) جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے تو یقیناً وعدہ خلافی کرنے والوں میں سے نہیں.تو لازما اپنے وعدے پورے کرتا ہے.پس جب ہم یہ التجا کرتے ہیں کہ یہ وعدے ہمارے حق میں پورے فرما تو مطلب ہے کہ ہمیں ان وعدوں کا مستحق بنا دے کیونکہ اگر ہم مستحق نہ رہے تو پھر یہ وعدے پورے نہیں ہوں گے لیکن قصور تیرا نہیں ہو گا، قصور ہمارا ہو گا تو اس طرح قرآن کریم ان لوگوں کی راہوں کو ہم پر آسان بنا دیتا ہے جن کی راہیں ان کی دعاؤں کے نتیجے میں ان پر آسان بنائی گئیں اور ہمیں نصیحت فرماتا ہے کہ اس طرح یہ دعائیں کرتے کرتے اس سفر میں آگے بڑھو.کمزور مردوں عورتوں اور بچوں کی دعا پھر اللہ تعالٰی کمزور عورتوں، مردوں اور بچوں کی دعا کو بھی قرآن میں محفوظ فرماتا ہے.ایسی عجیب کتاب ہے کہ زندگی کا کوئی پہلو خالی نہیں چھوڑتی.مختلف حالتوں کی دعائیں اس میں محفوظ ہیں.اگر آپ غور سے ان کا مطالعہ کریں تو زندگی کے ہر امکان پر یہ دعائیں حاوی ہیں اور زندگی کے ہر احتمال پر بھی یہ دعائیں حاوی ہیں.چنانچہ فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ پر اور ان کمزور مردوں عورتوں اور بچوں کی راہ میں جنگ نہیں کرتے ہو جو یہ کہتے ہیں.(یہ آیت کے پہلے حصے کا ترجمہ ہے) کہ ان لوگوں کی خاطر تم کیوں جہاد نہیں کر رہے ہو جو مظلوم ہیں اور جو مشکلات میں پھنے ہوئے ہیں اور یہ دعائیں کر رہے ہیں کہ ربنا آخرِ جَنَا مِنْ هذه الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اهْلُهَا کہ اے اللہ ہمیں اس بستی سے نجات بخش جس بستی کے رہنے والے ظالم ہو چکے ہیں وَاجْعَلْ لَنَا مِن لَّدُنكَ وَلا ہمارے لئے اپنی جناب سے کوئی دوست بنا کے بھیج دے.وَاجْعَلْ لَّنَا مِن لَّدُنْكَ نَصِيرًا (سورة النساء : ٤٧) اور اپنی ہی جناب سے ہمارے لئے کوئی مددگار بھیج دے.

Page 218

215: حضرت موسیٰ کی بے کسی کی دعا پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک دعا ہے جبکہ ان کی قوم نے ان کے ساتھ بیوفائی کی اور اللہ تعالٰی کے واضح ارشاد کو سننے کے باوجود اس پر عمل کرنے سے انکار کر دیا.ایسے وقت میں جبکہ خدا تعالٰی نے ان کو حکم دیا کہ وہ ایک شہر میں داخل ہو جائیں جس کی فتح ان کے لئے مقدر کی گئی تھی تو اس موقعہ پر انہوں نے کہا - فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَا لا إِنَّا هُنَا قَاعِدُونَ (سورۃ المائدہ : (۲۵) کہ اے موسیٰ جاتو اور تیرا رب دونوں لڑتے پھرو.ہم تو یہاں بیٹھے رہنے والے ہیں.جب تم دونوں ، تم اور تمہارا رب لڑکے شہر فتح کر لو گے تو پھر ہمیں بتا دیتا.ہم بھی داخل ہو جائیں گے.اس وقت حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ عرض کیا.آت التي لا أملك إلا نفْسِي واخي اے میرے رب ! میرا کمزوری کا یہ حال ہے کہ میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی کو اپنے ساتھ نہیں پاتا.سب میرا ساتھ چھوڑ چکے ہیں.اس دعا میں بھی بڑی گہری حکمت ہے.جواب دینے والوں نے موسیٰ سے کہا تھا کہ تو اور تیرا خدا لڑتے پھرو.دو کا ذکر کیا تھا.خدا تو ساری کائنات کا خدا ہے اور مالک ہے.اس نے کسی سے کیا لڑتا ہے جب وہ کسی کی ہلاکت کا فیصلہ کرے گا تو وہ ان کو ہلاک کر دے گا لیکن دو لڑنے والے ضرور تھے.ایک موسیٰ تھے اور ایک ان کا بھائی تھا.ان کے اس جواب سے یہ شبہ پڑ سکتا تھا کہ موسیٰ ہی صرف وفادار رہا اور موسیٰ کا بھائی بھی ان لوگوں میں شامل ہو چکا ہے.اس شیعہ کے ازالے کی خاطر حضرت موسیٰ کی دعا من و عن ہمارے سامنے رکھ دی گئی کہ دیکھو موسیٰ اکیلا ہی وفادار نہیں تھا اس کا بھائی بھی وفادار تھا اگرچہ قوم نے اس کا ذکر نہیں کیا تو یہ دعا بتائی کہ رب إني لا أملك الا نفْسِينِي وَأَخِي.اے خدا ! میں اکیلا ہی تیری راہ میں چلنے والا وفادار نہیں ہوں بلکہ میرا بھائی بھی میرے ساتھ ہے لیکن ہم صرف دو ہی ہیں.فَا فَرُقُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الفسقينَ (سورۃ المائدہ : (۳۶) ہمارے اور فاستوں کی قوم کے درمیان تفریق کر دے.ایسا سلوک فرما کہ ظاہر ہو جائے کہ تیرے پسندیدہ لوگ ہیں ، تیری رضا کو حاصل کرنے والے لوگ ہیں اور وہ لوگ نہیں جن سے تو ناراض ہوتا ہے.

Page 219

216 نیک دل عیسائیوں کی دعا قرآن کریم میں ایک دعا یہ بھی سکھائی گئی : رَبَّنَا آمَنَّا نَا كتبنا مع الشهرين (سورة المائدة : (۸) اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے.التامة الشهیدین میں ہمیں بھی شہداء میں شمار کرلے.شاہدین میں شمار کر لے.اس سے وہ پہلی دعا یاد آجاتی ہے جو حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے جواب میں ان لوگوں نے کی تھی جو اپنے آپ کو انصاری الی اللہ کہتے تھے.اس میں یہ ذکر تھا کہ اے خدا! ہمیں شاہدوں میں شمار کرلے اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا عجیب کرشمہ ہے کہ یہ دعا وہاں سکھائی گئی جہاں پہلے عیسائیوں کی تعریف کی گئی تھی.اور یہ فرمایا گیا کہ نصاریٰ میں آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ جب وہ خدا کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی محبت سے ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.نہیں چونکہ ان کی خوبیوں کا ذکر چل رہا تھا اس لئے ان کی وہ بہترین دعا یہاں مومنوں کو یاد کرا دی گئی جس کے نتیجے میں ان کی نیکیوں کو اتنا دوام ہوا کہ بعض ان میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے ظہور کے بعد بھی اپنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے بھی نیک ہوئے اور خدا کے نزدیک نیک ٹھرے.پس فاكتبنامة الشهرين کی دعا ان عیسائیوں کے ساتھ جنہوں نے ابتداء میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو قبول کیا ایک گہرا تعلق رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ کو یہ دعا منظور ہے تبھی امت محمدیہ کے سلسلے میں بھی اس دعا کو دہرایا گیا اور یہ بتایا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے غلام بھی یہی دعا کرتے ہیں.عیسائیوں کے حق میں پوری ہونے والی دعا اور ایک عید ایک دعا مائدہ سے متعلق ہے.وہ بھی تشریح طلب ہے.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دنیا کی محبت اپنے حواریوں پر سرد کر دی اور وہ یوں لگتا تھا کہ کشکول ہاتھوں میں پکڑے ہوئے تبلیغ کے لئے نکل گئے ہیں، سارے کام چھوڑ دیئے اور کوئی ذریعہ معاش باقی نہیں رہا تو اس وقت انہوں نے دنیا کی مشکلات سے گھبرا کر حضرت عیسی عليه الصلوۃ والسلام سے یہ عرض کیا کہ آپ خدا کے حضور یہ دعا کریں کہ وہ آسمان سے

Page 220

217 ہم پر مائدہ اتارے کیونکہ ہم تو اب کمائی جو گے " رہے نہیں.ہم تو خالصتہ " اس کے دین کے لئے وقف ہو گئے ہیں، اس لئے ہمارے رزق کا وہی انتظام کرے اور آسمان سے مائدہ اتارے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعا کی وہ اولین کے لئے بھی کی اور آخرین کے لئے بھی کی.وہ دعا یہ ہے قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللهم ربنا انزل علينا مايدا من السَّمَاء تَكُونُ لَنَا عِيد الأَولِنَا وَاخِرِنَا (سورة المائده : ۱۵) که اے ہمارے خدا! ہم پر آسمان سے نعمتوں کا دستر خوان نازل فرما.نعمتیں نازل فرما.ایسی نعمتیں جو ہمارے اولین کے لئے بھی عید ہو جائیں اور آخرین کے لئے بھی عید ہو جائیں یعنی دونوں کے لئے خوشیوں کے سامان لائیں.وايت منك اور وہ تیری طرف سے ایک نشان بن جائے.وَارْزُقْنَا وَ انْتَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ تو ہمارے رزق کا انتظام فرما اور تو بہتر رزق عطا کرنے والا ہے.اس دعا کے ساتھ یہ احتیاط ضروری ہے کہ اس دعا کے بعد خدا تعالٰی نے جو تنبیہ فرمائی ہے اس کو بھی پیش نظر رکھا جائے.یہ دعا سننے کے بعد اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں تیری یہ دعا قبول کروں گا لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ان لوگوں نے اگر ناشکری کی تو ان کو عذاب بھی ایسا دوں گا جو دنیا میں کبھی کسی کو نہ دیا گیا ہو اور دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنا دوں گا.اب اس شرط کے ساتھ رزق عطا کرنا یہ عجیب سا لگتا ہے.آخر اس کا کیا مطلب ہے؟ غور طلب بات ہے کہ ایک طرف اللہ تعالی رحیم و کریم ، رزاق، دیالو بے انتہاء سخی اور رحم کرنے والا اور اپنے نبی کی یہ دعا سکتا ہے کہ ہاں! میں ان کے لئے آسمان سے رزق اتاروں گا اور ساتھ ہی اتنی بڑی تنبیہہ کر دیتا ہے کہ اگر یہ ناشکرے ہوئے تو ایسا عذاب دوں گا کہ دنیا میں کبھی کسی کو نہ دیا گیا ہو اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کو جب آپ سمجھ لیں گے تو پھر اس دعا کو متوازن طور پر خدا کے حضور عرض کرنے کی توفیق پائیں گے ورنہ اس کا غلط مطلب سمجھ کر آپ دعا مانگتے رہیں گے.حضرت عیسی علیہ الصلواۃ والسلام نے مائدہ سے دراصل روحانی مائدہ مراد لیا تھا اور رزق کی دعا بھی مانگی ہے لیکن ضمنی طور پر چنانچہ آپ دوبارہ اس دعا کو پڑھیں.فرمایا.ہمارے لئے آسمان سے مائدہ اتار جو ہمارے

Page 221

218.اولین اور آخرین کے لئے عید ہو.دار دقنا اور ہمیں رزق دے.پس رزق اور ہوا اور وہ مائدہ اور ہوا اور اس مائدہ کے علاوہ رزق بھی مانگا ہے لیکن دعا کی درخواست کرنے والے جو لوگ تھے ان کے ذہن میں روحانی مائدہ نہیں تھا بلکہ دنیاوی مائدہ تھا.اللہ تعالٰی نے اس دعا کو قبول کرتے ہوئے متوجہ کیا کہ اصل روحانی مائدہ ہے.اگر تم نے روحانی مائدہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور دنیاوی رزق میں پڑگئے تو لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنو گے.دنیا تمہاری مادی ترقی دیکھے گی اور یہ سمجھے گی کہ حضرت عیسی نے جو دعا مانگی تھی اس کے نتیجے میں تمہیں سب کچھ حاصل ہو گیا اور تمہاری پیروی کو فخر سمجھے گی اور اس کو ذریعہ نجات سمجھے گی دنیا یہ سمجھے گی کہ ایسی قومیں جن پر خدا نے اتنی نعمتیں کی ہوں کہ ساری دنیا سے زیادہ ان پر رزق فراخ کر دیا ہو.وہ تمام دنیا کی دولتوں کے مالک بن بیٹھے ہوں وہ اچھے لوگ ہیں تبھی تو خدا تعالی ان کو عطا کر رہا ہے تو یہ فرمایا کہ ضروری نہیں ہے کہ یہ ظاہری رزق پانے کے بعد بھی خدا کی نظر میں وہ ایچھے لکھے جائیں.تیری دعا کی خاطر ہم ان کو رزق تو دے دیں گے لیکن اگر روحانی مائدہ کے بغیر انہوں نے رزق پر قناعت کی اور رزق کے عاشق ہو گئے اور اسی کے ساتھ دل لگا بیٹھے تو چونکہ دنیا کے لئے ٹھوکر کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس لئے ہم پر فرض ہو گا کہ ہم آخر ان کو ہلاک کر دیں تاکہ دنیا یہ سمجھ لے کہ محض ظاہری رزق عطا کرنا انعام نہیں ہے.انعام اور چیز ہے اور ظاہری رزق میں فراخی دینا اور چیز ہے.یہ وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنا عظیم الشان رزق یعنی مادی رزق بھی عطا کرنے کا وعدہ فرمایا اتنی ہی بڑی تنبیه کردی کہ اس رزق کا حق ادا کرنا ورنہ تم صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جاؤ گے اور ایک عبرت ناک عذاب کے ذریعے مٹائے جاؤ گے.یہ دعا حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا تھی جو اولین کے علاوہ آخرین کے متعلق خصوصیت سے مانگی گئی تھی.آخرین میں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے آج کے دور کے عیسائی ہیں اور آپ دیکھ لیجئے کہ خدا نے کس شان سے اس دعا کے ظاہر کو پورا فرمایا ہوا ہے.اتنا رزق وسیع کیا ہے کہ باقی ساری دنیا ان کے مقابل پر بھکاری بنی ہوئی ہے، کچھ بھی ان کے پہلے نہیں.ساری دنیا کے یہ رازق بنے ہوئے ہیں جس کو چاہیں اس کو رزق دیتے ہیں جس

Page 222

219 سے چاہیں اس سے چھین لیتے ہیں لیکن چونکہ اس شرط کو پورا نہیں کیا جو روحانی مائدہ سے تعلق رکھتی تھی اس لئے دنیا کے لئے ٹھوکر کا موجب بھی بن گئے ہیں.بہت سے غریب ممالک مسلمان بھی اور ہندو بھی اور بد حسٹ بھی اس لئے عیسائی ہو رہے ہیں کہ رہ کہتے ہیں دیکھو خدا نے ان سے حسن سلوک فرمایا.ان پر فضل فرمائے.یہ ٹھیک ہی ہوں گے تو خدا تعالی ایسا کہ رہا ہے.پس قرآن کریم کی دوسری آیت میں جو تنبیہہ مضمر تھی وہ تنبیہ ہم اپنے سامنے ظاہرا " پوری ہوتی ہوئی دیکھ رہے ہیں.پس اس لئے یہ لازم ہے کہ یہ قومیں اگر اصلاح نہیں کریں گی اور خدا تعالی کے روحانی رزق کی طرف متوجہ نہیں ہوں گی اور دین کی طرف بچے دین کی طرف واپس نہیں لوٹیں گی تو یہ عبرت کا نشان بن جائیں گی اور ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا.انگلستان کے دل میں لنڈن میں کھڑے ہو کر میں یہ بتا رہا ہوں کہ یہ 100 فیصد سچی باتیں ہیں.کوئی دنیا کی طاقت ان کو ٹال نہیں سکتی.دو ہزار سال پہلے کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس طرح عیسی کے ماننے والوں کو اتنا بڑا رزق عطا کیا جائے گا اور اتنا وسیع دستر خوان ان کے لئے اتارا جائے گا.چودہ سو سال پہلے جب قرآن کریم میں یہ آیت نازل ہوئی ہے کوئی وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ عیسائی آخر دنیا میں کس طرح حاوی ہو جائیں گے اور رزق کے تمام ذرائع پر کس طرح وہ قابض ہو کر بیٹھ جائیں گے کیونکہ اس آیت میں موجود ہے کہ جب عیسی نے آخر ان کے لئے یہ دعا مانگی تو خدا نے فرمایا ہاں ! میں قبول کروں گا لیکن جو لوگ دنیاوی رزق پر راضی ہو جائیں گے اور روحانیت کی طرف سے آنکھ پھیر لیں گے ان کو پھر بھی عذاب کا نشانہ بناؤں گا.عذاب کا وعدہ بھی لازما پورا ہوگا پس یہ جو دوسرا حصہ ہے اس نے لازما پورا ہوتا ہے صرف ایک شرط ہے کہ یہ قومیں تو بہ کریں اور ان آخرین میں شامل ہو جائیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے آخرین ہیں کیونکہ ایک وہ آخرین ہیں جن کا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر کیا ہے اور ان کے متعلق یہ مضمون بیان ہوا جو اس آیت میں ہے.ایک وہ آخرین ہیں جن کا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ذکر فرمایا ہے اور وہ ذکر بالکل مختلف

Page 223

220 رنگ میں ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس طرح آج غریب ہے یعنی غربت سے شروع ہوا اور دولت سے شروع نہیں ہوا ایسے آخرین آنے والے ہیں کہ وہ بھی اس تاریخ کو دھرائیں گے اور اسلام دوبارہ غریبانہ حالت سے شروع ہو گا.پس جن آخرین کا ذکر ہے وہ دولت مند نہیں ہیں بلکہ غریب جماعت ہیں لیکن خدا کی محبت میں اور خدا کی خاطر اپنے رزق کو قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور نیکی کی راہوں میں چندے دیتے چلے جاتے ہیں.میں ان امیر قوموں کے لئے اب کی بچنے کی راہ ہے کہ مسیح موسوی کے آخرین سے نکل کر مسیح محمدی کے آخرین میں داخل ہو جائیں اور وہیں ان کے لئے نجات ہے.آج کے دور کی اہم دعا اب حضرت آدم اور ان کے ساتھی کی دعا جو کہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوئی ہے جبکہ شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور انہیں دھوکہ دیا تو ان دونوں نے عرض کیا : ربنا ظلمنا انفسنا اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے.وان لم تغفر لنا وتَرْحَمْنَا لَتَكُونَنَّ مِن الخيرين (سورة الأعرابي : ۲۴) اگر تو نے ہم سے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم یقینا گھاٹا پانے والوں میں ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں : ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے.آج کل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئیے.ربنا ظلمْنَا انْفُسَنَا وَإِن لم تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ فوظات : جلد ۴ ص ۲۷۵) چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو روحانی طبیب بینا کر بھجوایا گیا تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے اس دعا کا اس دور کے ساتھ گہرا تعلق ہے.جب میں نے غور کیا تو مجھے

Page 224

221 سمجھ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ایک نئے دور کا آدم قرار دیا گیا.ہے اور یہ وہ دور خسروی ہے جب کہ اسلام کو دنیا میں از سر نو زندہ بھی کیا جائے گا اور غالب بھی کیا جائے گا.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعر میں اپنے آپ کو آدم قرار دیتے ہیں.پس اس دعا کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت سے بڑا گہرا تعلق ہے کیونکہ ایک نئے آدم کے دور کے ساتھ اس دعا کا تعلق ہے اس نئے دور میں اس دعا کی مدد سے داخل ہوں اور یہ دعا پڑھتے ہوئے داخل ہوں کہ ربنا ظلمنا انفسنا اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.وان لم تغفر لنا اگر تو نے مغفرت نہ فرمائی.وَتَرْحَمْنَا اور ہم پر رحم نہ فرمایا لَتَكُونَنَّ مِنَ الْخُسِرِينَ (الاعراف: ۲۴) تو یقیناً ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہوں گے.اس دعا میں لفظ شیرین کا بھی دور آخر سے گہرا تعلق ہے کیونکہ قرآن کریم میں سورہ عصر میں اللہ تعالی فرماتا ہے : والعضر ان الانسان لفي حشر (سورۃ العصر : ۲-۳) اس زمانے سے خبردار رہو اس زمانے کا خیال کرو جبکہ انسان بحیثیت مجموعی گھاٹا پانے والوں میں سے ہوگا.انسان کھانا کھائے کا یعنی تمام عالم کا یہ حال ہو گا.تمام دنیا کھانا کھانے والی دنیا ہو جائے گی.پس ان دعاؤں کا مضمون ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتا ہے اور بڑے گہرے آپس کے تعلقات ہیں جو سرسری نظر سے دکھائی نہیں دیتے لیکن جب آپ ذرا ڈوب کر ان کا مطالعہ کریں تو آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ روحانی نظام بھی بہت گہرا مربوط انتظام ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ اس کا تعلق چل رہا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے جب اپنی جماعت کو اس دعا کی طرف متوجہ فرمایا تو یونہی نہیں کہ دل میں یونہی خیال آگیا کہ چلو یہ بھی دعا کر لیا کرو بلکہ اپنے آدم ہونے کے اعتبار سے اور قرآن کریم کی اس خبر کے اعتبار سے کہ یہ زمانہ گھانا کھانے والوں کا زمانہ ہے، یہ دعا جماعت احمدیہ کے لئے نہایت ہی اہم ہے اور ہماری بقاء کے لئے بہت ہی ضروری ہے.جنتیوں کی دعا ایک اور دعا سے پتہ چلتا ہے کہ دعاؤں کا سلسلہ صرف اس زندگی سے تعلق نہیں

Page 225

222 رکھتا بلکہ مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا.چنانچہ سورہ اعراف میں یہ دلچسپ دعا موجود ہے جو مرنے کے بعد اعراف پر موجود جنتی خدا سے مانگیں گے اور اس وقت وہ یہ دعا کریں گے.ربَّنَا لا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (سورة الاعراف : ۴۸) کہ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں میں نہ شمار کرتا.اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ تو ظالموں کی دنیا سے نکل کر اپنے خدا کے حضور حاضر بھی ہو گئے اور اس مقام پر فائز کئے گئے جسے قرآن کریم اعراف کا مقام بتاتا ہے یعنی خدا کے نتخب چیدہ بندے.جس طرح پہاڑ کی بلند چوٹی پر کوئی کھڑا ہو اس طرح ان کو رفعتیں عطا کی جائیں گی اور وہ دور سے دکھائی دیں گے.نمایاں طور پر معلوم ہو گا کہ یہ خدا کے ایا رے بندے ہیں.اس مقام پر فائز ہونے کے باوجود یہ حال ہو گا کہ عرض کریں گے : ربنا لا تجعلنا مع القَوْمِ الظَّلِمِينَ اے ہمارے رب! ہمیں ظالموں کی قوم میں داخل نہ کرنا.دراصل ابھی اعراف پر فائز لوگوں کے ساتھ حساب کتاب ہونا باقی ہے.یہ اس دور کی بات ہو رہی ہے جبکہ حشر نشر ہو چکا ہے لیکن ابھی آخری فیصلے کا وقت آنے والا ہے مگر نیکیوں کی علامتیں بھی ظاہر ہو گئی ہیں.بدوں اور جہنم والوں کی علامتیں بھی ظاہر ہو رہی ہیں.وہ دو گروہوں میں بانٹے جارہے ہیں تو انکسار کا تقاضا یہ ہے اور عجز کا تقاضا یہ ہے کہ اس حالت میں بھی جبکہ سامنے جنت دکھائی دے رہی ہو خدا سے یہ عرض کریں کہ جہاں تک ہماری ذات کا تعلق ہے اگر تو ہمارے ظالم ہونے کا فیصلہ کرلے تو تیرا فیصلہ برحق ہو گا.ہم اپنے گناہوں اور کمزوریوں سے واقف ہیں.اعراف پر فائز ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی دھوکہ نہیں لگا.ہم یہ نہیں سمجھ رہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جان پر کوئی ظلم نہیں کیا.اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ ربنا لا تجعلنا مع القوم الظالمين تو مراد یہ ہے کہ تیرے حضور ہم ظالموں میں شمار نہ ہوں.ہماری تو یہ التجا ہے کہ مظلموں کے باوجود تو ہمیں نیک لوگوں میں لکھتا اور اگر ہم بخشے جائیں تو ہم اس دھوکے میں مبتلا نہیں ہوں گے کہ اپنی نیکیوں کی وجہ سے بخشے گئے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ ظالم ہوتے ہوئے بھی تو نے ہمیں ظالموں میں شمار نہیں فرمایا.

Page 226

223 دوسروں کے خلاف حضرت شعیب کی دعا حضرت شعیب علیہ السلام کی دعا جبکہ قوم کے متکبروں نے آپ کو دھمکی دی اور وہ دھمکی یہ تھی کہ تم واپس سواد اعظم میں لوٹ جاؤ.اکثریت قوم کی تمہیں واپس بلا رہی ہے.تم نے اقلیت کی ایک عجیب سی نئی راہ اختیار کرتی ہے اور بہت معمولی تعداد میں ہو.تمہاری حیثیت کوئی نہیں.جب چاہیں ہم تمہیں مٹا سکتے ہیں اس لئے اب دو ہی باتیں ہیں.جھگڑے ختم کرو اور بخشیں ختم کرو یا تو تم ہمارے مذہب میں واپس لوٹ آؤ یا پھر ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے اور تمہیں اپنے وطن میں بھی رہنے کا حق نہیں رہے گا.اس پر حضرت شعیب نے جو جواب دیادہ ایک دعا تھی جو اپنے رب سے مخاطب ہو کر کی.قوم یہ دھمکی دے رہی تھی اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ قوم کی بات کو بھلا کر وہ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کیا کہ.وَسِمَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا، على اللهِ تَوَلَنَا اللہ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے.هَدَ اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ہمارا توکل تو اللہ پر ہے نہ کہ کسی قوم کے سہارے پر نہ اکثریت پر نہ دنیاوی طاقت پر ربنا افتح بَيْنَنَادَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَانتَ خَيْرُ الفاتحين (الاعراف : ٩٠) اے خدا! اب اس قوم اور ہمارے درمیان تو فیصلہ فرما کیونکہ ہمیں تو اب فیصلے کی کوئی طاقت نہیں اور تو حق کے ساتھ فیصلہ فرما...وانت خير الفاتحين اور سب فیصلہ کرنے والوں سے تیرا فیصلہ بہتر ہوا کرتا ہے.پس وہ قوم جو دین کی راہ میں ستائی جائے اور اسے دھمکی دی جائے کہ یا تم ہمارے اند رواپس لوٹ آؤ ورنہ ہم تمہیں ملک بدر کردیں گے ان کے لئے یہ بہت ہی موزوں دعا ہے اور ان کے حالات پر اطلاق پاتی ہے.ملک بدر کرنے کا جو مضمون ہے اس کے متعلق یہ ذہن نشین کریں کہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ کسی کو وطن سے نکال کر ملک بدر کیا جائے.اس کے شہری حقوق چھین کر بھی اس کو ملک بدر کیا جا سکتا ہے.پس مختلف ادوار کے مختلف انداز ہوا کرتے ہیں.اس جدید دور میں ملک بدر کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ ملک میں رہتے ہوئے شہری حقوق سے محروم کر دیا جائے اور یہ واقعہ کوئی نیا نہیں اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے.

Page 227

224 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں بھی فرعون نے اس طرح موسیٰ کی قوم کو ملک بدر کیا تھا کہ جسمانی طور پر باہر نکلنے نہیں دیتا تھا اور شہری حقوق سارے چھین لئے تھے.پس یہ ملک بدر کرنے کی ذلیل ترین صورت ہے کہ نجات حاصل کرنے کے لئے جو باہر بھاگنا چاہے اس کی راہ میں روکیں ڈالو اس کو سزائیں دو.قید کرد کہ تم نکلنے کی کوشش کیوں کرتے ہو اور ملک میں رکھتے ہوئے اس کے سارے حقوق چھین لو.پس یہ جو فرعونی دور ہے اس کا ملک بدر کرنا سب سے زیادہ خوف ناک اور تکلیف دہ ہے.اللہ تعالٰی ہمیں اور اپنے تمام مظلوم بندوں کو اس قسم کے ظلموں سے نجات بخشے.حضرت موسیٰ کے مقابلہ پر آنے والے جادو گروں کی ہدایت پانے کے بعد کی دعا اس وقت جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم کو فرعون نے نکلنے نہ دیا اور حضرت موسیٰ نے اصرار کیا کہ میری قوم کو نکلنے دو ان ظلموں سے نجات بخشو.اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ اس ملک کے برابر کے شہری نہیں تو ان کو ملک چھوڑنے دو تو فرعون نے کہا میں یہ بھی نہیں کروں گا.جو زور لگا سکتے ہو لگاؤ اس پر بالآخر مقابلہ روحانی مقابلے تک پہنچا اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو فرعون نے کہا کہ تم جو الہی نشانات دکھاتے پھرتے ہو میرے نزدیک تو یہ محض دھوکہ اور جادو گری ہے اس لئے کیوں نہ تمہارا تمہارے جیسوں سے مقابلہ کرا دیا جائے اور دنیا دیکھ لے کہ اصل حقیقت کیا ہے.چنانچہ فرعون نے یہ منادی کرائی کہ جو اس ملک کے چوٹی کے جادوگر ہیں وہ اکٹھے ہو جائیں اور لوگ بھی فلاں دن جو کہ خوشیاں منانے کا ایک دن تھا اکٹھے ہوں کیونکہ اس دن ایک جادوگر کا دوسرے جادو گروں سے مقابلہ ہوتا ہے.اس کی ساری تفاصیل قرآن میں موجود ہیں مختصراً یہ بتاتا ہوں کہ جادو گر جب حضرت موسیٰ کے مقابلے کے لئے حاضر ہوئے تو فرعون نے ان سے مخاطب ہو کے کہا کہ بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ اس کے مقابل پر ہم سے کیا لو گے ؟ تو انہوں نے فرعون کا قرب نہیں مانگا.انہوں نے فرعون سے دنیاوی انعام مانگے.یہ بڑی دلچسپ بات ہے.خدا کے نیک -

Page 228

225 بندے جب خدا سے انعام مانگتے ہیں تو قرب الہی مانگتے ہیں انبیاء سے کوئی چیز مانگتے ہیں تو ان کا قرب مانگتے ہیں.فرعون نے معلوم ہوتا ہے اس میں سیکی محسوس کی.اس نے کہا اچھا یہ انعام تو میں دوں گاہی اور تمہیں مقرب بھی بنا لوں گا حالانکہ مقرب بننے کی کوئی التجا ہی انہوں نے نہیں کی تھی.اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں فرعون کی کوئی محبت نہیں تھی.فرعون کی کوئی عظمت نہیں تھی اور غالبا " یہی وجہ ہے کہ وہ پھر ہدایت یافتہ بھی ہو گئے.اگر فرعون یا اس کے دین سے گہری محبت ہوتی اور اس کی عظمت دلوں میں بیٹھی ہوتی تو شاید اتنی آسانی سے ہدایت نہ پاتے.بہر حال جب انہوں نے خدا تعالی کا نشان دیکھا اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو ان کے شعبدوں پر ایک عظیم الشان فتح عطا ہوئی تو فرعون کی طرف متوجہ ہوئے بغیر وہ ایمان لے آئے اور اسی وقت انہوں نے یہ دعا کی ربنا افرغ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَقَنَا تمشيومين (سورة الاعراف : ۲۷) کہ اے خدا! اے ہمارے رب! ہم پر میر نازل فرما - وتوفنا مسلمين اور ہمیں مسلمین میں وفات دینا.اس دعا کی وجہ یہ بنی کہ ان کے ایمان پر فرعون بہت بگڑا اور ان کو بہت دھمکیاں دیں اور یہ کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر کس طرح ایمان لے آئے ہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اجازت کا کیا سوال ہے.ہم نے سچائی دیکھی اور ایمان لے آئے.اس پر فرعون نے کہا اچھا! اگر یہ بات ہے تو میں تمہیں اس قدر درد ناک عذاب دوں گا کہ ایک طرف سے تمہارے بازو کاٹوں گا اور دوسری طرف سے ٹانگیں کاٹوں گا اور تمہیں ہمیشہ کے لئے ذلیل و رسوا کر کے اور بیکار کر کے پھنکوا دوں گا اور دنیا میں جو تکلیف دی جا سکتی ہے وہ تمہیں دوں گا.اس پر انہوں نے فرعون سے کہا.فائض ما انت قماش جو کچھ تو دنیا میں فیصلے کر سکتا ہے کر گزر.جو عذاب دے سکتا ہے دے.ہم تو سچائی کو دیکھ کر ایمان لے آئے ہیں اور ان مشکلی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جو ان کو نظر آرہے تھے انہوں نے یہ دعا کی.رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ تَوَفَّنَا مسلمین کہ اے خدا ! ہم پر مبر نازل فرما.تیری طرف سے جب تک صبر کی توفیق نہ ملے ہم اپنی کوشش سے صبر نہیں کر سکیں گے اور اگر ہمیں مارنا ہی ہے تو مسلمان ہونے

Page 229

226 کی حالت میں مارنا.موت کے ڈر سے کافر ہونے کی حالت میں زندہ نہ رکھنا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا حضرت ہارون کو جب حضرت موسیٰ نے جانشین بنایا اور ان کی قوم کا اکثر حصہ بگڑ گیا اور بچھڑا بنا لیا تو حضرت موسیٰ واپس لوٹے.یہ واقعہ آپ نے قرآن کریم میں با رہا پڑھا ہوگا کہ کس قدر غضب کی حالت میں تھے اور یہاں تک کہ حضرت ہارون کو ذمہ دار گردانا اور ان سے سختی سے جواب طلبی کی.اس پر حضرت ہارون نے اپنے بزرگ تر بھائی کو سمجھایا کہ میں تو بالکل بے قصور ہوں.مجھے میں تو طاقت ہی نہیں تھی کہ ان جاہلوں کو روک سکتا.میں نے کوشش کی مگر انہوں نے اپنی ضد کی اور توحید سے دوبارہ شرک کی طرف مائل ہو گئے تب حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی رب اغفرلين ولا خي و ادْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَالْتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ.لاعراف : ۱۵۲) اے میرے رب! مجھے بھی بخش دے اور میرے بھائی کو بھی بخش دے.وادخلنا في رحمتك اور ہم دونوں کو اپنی رحمت میں داخل فرما.حضرت موسیٰ کی اس دعا میں اور پہلی دعا میں یہ فرق ہے کہ یہاں اپنا رب کہہ کر دعا کی یہ درخواست پیش کی ہے.پہلے ہم دونوں کے رب یا ہمارے رب کے طور پر خدا سے التجا مانگی تھی.یہاں چونکہ حضرت موسی خدا کی طرف سے لوٹے تھے یعنی خدا کے ساتھ خاص لقاء کے بعد لوٹے تھے اور حضرت ہارون کا معالمہ وہاں مشکوک بنا ہوا تھا کہ آپ کسی حد تک ذمہ دار ہیں کس حد تک نہیں تو آپ نے اپنے حوالے سے دعا مانگی کہ مجھے تو تو جانتا ہے کہ میں تیری طرف سے لوٹ کے آیا ہوں میں کلیتہ بری الذمہ ہوں.اس لئے اے میرے رب! مجھے بھی بخش دے اور میرے بھائی کو بھی بخش دے اور ہم سے ان لوگوں سے الگ معاملہ فرما دانتَ أَرْحَمُ الرَّحِمِينَ - توسب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.حضرت موسیٰ کی دعائیں اپنا ایک خاص انداز رکھتی ہیں.جب آخر حضرت موسیٰ کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور اپنی قوم کے ۷۰ آدمیوں کو ایک مقررہ مقام پر جو خدا نے مقرر فرمایا تھا ساتھ لے جانے لگے تو وہاں طبعی طور پر زلزلہ آگیا اور وہ زلزلہ اتنا شدید تھا کہ

Page 230

227 ڈر تھا کہ سب ہلاک نہ ہو جائیں.خدا تعالٰی کی لقاء کے لئے (یعنی جس حد تک بھی ان کو لقاء نصیب ہو سکتی تھی) حضرت موسیٰ چنیدہ ستر آدمیوں کو ساتھ لیکر جا رہے تھے اور سکرام آگے سے زلزلہ آگیا اور وہ بھی بڑا خطرناک تو ایسے موقعہ پر حضرت موسیٰ نے کیا دعا کی وہ رَبِّ لَوْ شِئْتَ أَهْلَكْتَهُمْ مِّن قَبْلُ وراياي کہ اے خدا! اگر تو دعا یہ ہے.چاہتا تو اس سے پہلے بھی ان کو ہلاک کر سکتا تھا.اس وقت جبکہ ایک خاص جسم پر جا رہے ہیں یہ تو ہلاکت کا وقت نہیں ہے.یہ نہیں کہ یہ گن گار نہیں ہیں.یہ نہیں کہ ان کو ہلاک کرنا درست نہیں ہے، پر مجھے موقعہ اچھا نہیں لگ رہا اور جہاں تک تیری قدرت کا تعلق ہے.دائیا تیا چاہتا تو مجھے بھی ہلاک کر دیتا.آتُهْلِكُنا يما فعل السفهاء منا کیا تو ہمیں اب اس وجہ سے ہلاک کرے گا کہ ہما رے بعض بیوقوفوں نے شرک اختیار کیا ؟ ان میں الا فشنگ یہ نہیں میں مان مي ان هي الا فتنتك کا یہ مطلب ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہ صرف آزمائش ہے.ڈراوا ہی ڈراوا ہے اور کچھ نہیں ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تو ایسی بات تضلُّ بِهَا مَن تَشَاءُ وَتَهْدِي مَن تَشَاء اس طرح کی آزمائشوں کے ذریعے تو جس کو چاہتا ہے ہدایت بخشتا ہے.مراد ہدایت عطا کرنا ہے اور جن کمزوروں کو چاہتا ہے ان کو نگا کر دیتا ہے اور ان سے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے.انت ولينا لیکن اے خدا ! یا د رکھنا کہ ہمار ا ولی تو ہے.تیرے سوا اور کوئی نہیں.تیرے سوا ہم کسی سے مدد نہیں مانگ سکتے.نہ کسی اور دروازے کو کھٹکھٹائیں گے.فاغفر لنا پس ہمیں بخش دے.وارحمنا اور ہم پر رحم فرما.وانتَ خَيْرُ النَّافِرِین تو سب بخشنے والوں سے بڑھ کر اور سب سے بہتر بخشنے والا کرے.ہے.واكتب لنا في هذو الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَفِي الْآخِرَةِ إِنَّا هُدْنَا لَيكَ (سورة الاعراف : ۱۵۶-۱۵۷) اے خدا! اس دنیا میں بھی ہمارے لئے حسنات لکھ لے.اچھی چیزیں لکھ لے.حسنتہ اس دنیا میں بھی ہمارا مقدر بنا دے.وفي الأخيرة اور آخرت میں بھی.اِنَّا هُدنا رتیک کیسی پیاری دعا ہے.کہتے ہیں ہم تو اب تیری طرف آہی گئے ہیں.لمبا سفر کر کے تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں.اب تو

Page 231

228 واپسی کا کوئی رستہ نہیں رہا.اب تو خیر لیکر ہی واپس لوٹیں گے.انا خذنا اليك ہم تیرے پاس آگئے.اب ہم سے یہ سلوک نہ کرنا کہ دشمنوں میں ہماری فضیحت ہو اور جنگ ہنسائی بنے.پس انبیاء کی دعاؤں پر غور کریں اور دیکھیں یہ انعام یافتہ لوگ تھے.کیسے موقعہ اور محل کے مطابق کتنی حکمت کے ساتھ اور درد کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ انہوں نے ایسی دعائیں مانگیں جو معلوم ہوتا ہے کہ مانگتے وقت ہی خدا کے حضور مقبول لکھی گئیں تھیں اور ان کے رد کرنے کا سوال ہی نہیں تھا کیونکہ دعائیں اپنی سچائی اور خلوص کے ساتھ خود اپنی مقبولیت کی گواہ بن کر دلوں سے اٹھ رہی تھیں.سب دعاؤں کی تان اللہ کی حمد پر ٹوٹتی ہے چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے.اس لئے اس ایک دعا کے بعد جو اب میں آپ کو بتاؤں گا پھر یہ سلسلہ انشاء اللہ اگلے جمعہ میں جاری رہے گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ آخرت میں بھی دعاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے اس میں اور بھی مزید ترقیات عطا ہوتی ہیں اور روحانی دنیا میں کوئی ترقی دعا کی مدد کے بغیر عطا نہیں ہو سکتی.اس مضمون کو خوب ذہن نشین کرلیں.پس اگر مرنے کے بعد بھی ترقیات کا سلسلہ جاری ہے تو دعاؤں کا سلسلہ لازم ہے.چنانچہ فرمایا.دعونهم فيها جنت میں ان جنتوں کی کیا دعا ہوگی.سُبحنك الأهم اے اللہ! تو ہر برائی سے پاک ہے.دَتَحيَّتُهُمْ فِيهَا سلم اور وہ ایک دوسرے کو سلام بھیجیں گے.سلام دعا ہے.ایک دوسرے کے لئے خدا سے سلامتی مانگیں گے.وَأَخِرُدَعُوهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (سورة يونس : 1).اور آخری د عوامی ان کا یہ ہو گا آخری دعا ان کی یہ ہوگی کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.یہاں رب کے اوپر دعا کی جو تان ٹوٹی ہے اور قرآن کریم کی یہ پہلی آیت.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین پر جو دعا کی تان ٹوٹی ہے تو اس میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہو گیا جس سے ہم نے سورۂ فاتحہ کا آغاز کیا تھا.وہ مضمون یہ ہے کہ خدا

Page 232

229 تعالٰی رب ہے یعنی کسی چیز کو ایک حالت میں نہیں رہنے دیتا.جس چیز کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اسے ترقی دیتا رہتا ہے، اسے آگے بڑھاتا رہتا ہے، اس کی تکمیل فرماتا رہتا ہے.خدا کے ساتھ ایک دائمی ارتقاء کا تعلق ہے جو اس کی ربوبیت کی صفت سے ظاہر ہوتا ہے اور ربوبیت کی صفت سے تعلق رکھتا ہے.ہیں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شکر ہے ہم نے سب کچھ حاصل کر لیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو رب ہے اور ہمیشہ ترقی دیتا رہتا ہے.پس ان مقامات پر فائز ہونے کے باوجود ہم مزید ترقیات کے خواہاں ہیں.پس اے خدا! اپنی ربوبیت کا جیسا سلوک تو نے دنیا میں ہم سے فرمایا آخرت میں بھی ریوبیت کا یہ سلوک ہم سے جاری رکھنا.اس دعا کے بعد میں آج کے خطبے کو ختم کرتا ہوں.باقی انشاء اللہ جیسا کہ میں نے گزارش کی ہے اگلے خطبے میں اس مضمون کو جاری رکھیں گے.In واخر دعويهُمْ آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ

Page 233

Page 234

بیت الفضل لندن ۲۶ / اپریل ۱۹۹۱ء بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ اللہ کی راہ کے مسافروں کا سب سے بڑا سہارا.دعا تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا : گزشتہ دو جمعوں سے یہ مضمون چل رہا ہے کہ خدا کی راہوں پر قدم مارنے والے اللہ تعالیٰ کی راہ کے مسافر رستے کی صعوبتوں اور مشکلات کو کیسے برداشت کرتے ہیں اور کس طرح ان تکالیف پر غالب آتے ہیں جو خدا کی راہ میں چلنے والوں کو پہنچتی ہیں.قرآن کریم اس کا جواب ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ یہ معجزہ دعا کے ذریعہ ظہور ہوتا ہے ورنہ انسان کے اپنے بس میں نہیں کہ خدا کی راہ پر چلتے ہوئے اس کی تکالیف کو صبر اور رضا کے ساتھ کلیتہ برداشت کر سکے اور پھر بجائے مشکلات سے مغلوب ہونے کے غالب بن کر ابھرے.پس یہ دو اکٹھی ہاتیں ہیں جو دعاؤں کا پھل ہیں.صرف انبیاء ہی کی نہیں بلکہ دیگر انعام یافتہ لوگوں کی دعاؤں میں سے ان دعاؤں کو قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں اور جن کو امت محمدیہ کے لئے بطور نمونہ محفوظ رکھا گیا.نہیں تھا.ایسی ایسی قدیم دعائیں ہیں اور ایسے ایسے وقت میں ہوئیں جبکہ کوئی ان کا گواہ موجود ایک ابراہیم تھے اور ایک ان کا بیٹا اور ایسی بھی دعائیں تھیں جبکہ بیٹا بھی نہیں تھا.اکیلے ابراہیم جنگل بیابان میں دعائیں کر رہے ہیں.وہ دعائیں بظا ہر ہمیشہ کے لئے فضاؤں میں کھوئی گئیں اور ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا.کتنی مدت کے بعد ؟ ہزاروں سال بعد حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے دل پر وہ دعائیں الہام کی گئیں اور آپ کو بتایا گیا کہ میرے بندے ابراہیم نے اس طرح لق ودق صحرا میں یہ

Page 235

232 دعائیں کی تھیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ دعائیں بہت ہی قیمتی خزانہ ہیں اور جن لوگوں کے لئے ان دعاؤں کو محفوظ کیا گیا اگر وہ ان سے فائدہ نہ اٹھائیں تو کتنی بد نصیبی ہوگی.پس دنیا کے خزانوں کے پیچھے تو لوگ بہت محنت کرتے ہیں مگر وہ خزانے جو قرآن میں مدفون ہیں ان پر سے سرسری نظر سے گزر جاتے ہیں حالانکہ اگر ان میں ڈوب کر دیکھیں تو جو چیزیں بظا ہر دلچسپی کا موجب نہ بھی دکھائی دیتی ہوں غور کرنے کے بعد ان میں سے نئی نئی لذت کے مضامین نکلتے ہیں اور انسان کے دل پر قبضہ کر لیتے ہیں.اب اس سلسلے میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے والوں کی یہ دعا میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو قرآن کریم نے سورہ یونس آیت ۸۶-۸۷ میں بیان فرمائی ہے.فَقَالُوا عَلَى اللهِ تَوَلنَا رَبَّنَا لا تَجْعَلْنَا فِتْنَةَ لِلْقَوْمِ التلوين وتجنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے جب اپنی قوم سے کہا کہ تم خدا پر ایمان لے آؤ تو ان میں سے جو ایمان لے آئے ان کے متعلق اللہ تعالٰی فرماتا ہے.فَقَالُوا عَلَى الله توكلنا اس موسیٰ پر ایمان لانا تو بہت مشکل ہے اور تھا بھی وہ فرعون کا زمانہ اور ایسا جابر فرعون کہ جس کا ذکر بحیثیت ایک جابر فرعون کے تاریخ میں محفوظ ہے اور خود وہ اپنے جبر کا احساس رکھتا تھا.وہ یہ سمجھتا تھا کہ میرے سوا عبادت کے لائق کوئی چیز ہی نہیں ہے.اس وقت حضرت موسیٰ کی آواز پر یہ کہہ دیتا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں بہت بڑا دعوی ہوتا اور یہ ایک ایسا نہ دعوی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ ہم دنیا سے کلیتہ " مرمٹنے کے لئے تیار ہو گئے ہیں.پس اس لئے انہوں نے آغاز ہی میں یہ کہا.فَقَالُوا على الله توكلنا مشکل کام ہے لیکن جس خدا پر توکل کر کے ہم آگے بڑھ رہے ہیں وہ بچانے والا بھی ہے.وہ ہر ظالم کے اوپر غالب آسکتا ہے.ہر جابر سے بڑھ کر طاقت ور ہے.ربنا لا تجعلتا فتنة للقوم الظلمین اے خدا ہمیں ظالموں کی قوم کے لئے فتنہ نہ بنانا.فتنہ کے دوہرے معنی یہاں فتنہ کا مضمون بہت دلچسپ رنگ میں دُہرے معنی میں استعمال ہوا ہے.قرآن کریم میں فتنہ دین کے زبر دستی بدلنے کو بھی کہتے ہیں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے

Page 236

233 کہ اگر جبر کے ذریعے تکلیفیں دیگر کسی کو اس کا دین بدلنے پر مجبور کیا جائے تو اس کو فتنہ کہا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةً اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ جب دنیا سے فتنہ اٹھ جائے.ويكون الدین اللہ اور دین بالآخر اللہ ہی کے لئے ہو جائے.کسی جبر اور زور کا محتاج نہ رہے.دین آزاد ہو جائے تو ربنا لا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ میں ایک مطلب یہ ہے کہ اے خدا! ہمیں ان کا تختہ مشق نہ بنا.وہ جبر اور ظلم اور تعدی کے ذریعے دنیا میں اپنا دین پھیلانا چاہتے ہیں اور دین حق کو مٹانا چاہتے ہیں.پس ان معنوں میں ہمیں فتنہ نہ بنا کہ ہم ان کے تختہ مشق بن جائیں اور وہ ہم پر آزمائیں کرتے پھریں.فتنہ کا دوسرا مطلب ہے.ٹھوکر کا موجب نہ بیٹا.کیونکہ فتنہ کا ایک مطلب ٹھوکر ہے.پس اے خدا! جب ہم نے دین کو قبول کر لیا ہے تو ایسی کمزوریاں ہم میں نہ ہوں جن کو دیکھ کروہ کہیں کہ دیکھو جی! یہ مومنین ہیں.یہ یہ غلطیاں ان سے سرزد ہوتی ہیں.لوگوں کو پاک کرنے والے ہیں.آپ اتنے گناہوں میں ملوث ہیں.پس ہر قسم کی غلطیوں سے پاک کرنے کی دعا بھی اسی کے اندر داخل ہو گئی.پھر فتنہ کے دونوں معنوں کا ایک ملاپ بھی اس کے اندر شامل ہے.مطلب یہ ہے کہ اے خدا! اگر تو نے ہمیں ان کے ظلم کا نشانہ بننے دیا تو ظالم لوگ یہ سمجھیں گے کہ ان کا خدا نہیں ہے.ان کا کوئی بھی نہیں ہے.ٹھوکر کا مضمون اور ظلم و ستم کا مضمون یہاں اکٹھا ہو گیا.پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ دعا بہت ہی موزوں اور ہر محل دعا ہے اور خاص طور پر یہ جو ابتلاؤں کا دور ہے اس میں اس دعا کو اس تمام وسعت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے خدا کے حضور مانگنا چاہئیے اور اس مضمون میں اگر آپ اپنے مظلوم احمدی بھائیوں کے حالات کو پیش نظر رکھ لیں یا ان تکالیف کو جن میں سے آپ گزرے ہیں، مختلف جگہ پر مختلف نوعیت کے جو روز مرہ ظلم ہو رہے ہیں ان کو ذہن میں و ہر الیا کریں تو اس دعا میں بہت درد پیدا ہو جائے گا اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے مانے والوں کے متعلق جب آپ یہ سوچیں کہ کتنے عظیم لوگ تھے.کتنے

Page 237

234 کمزور تھے.کتنے خطرناک جابر سے ان کا مقابلہ تھا لیکن بات ہی اس سے شروع کی.على الله توكلنا ہم اللہ پر توکل کرتے ہوئے اب آگے بڑھ رہے ہیں ، تو تو کل کے مضمون کو کبھی نہ بھلا ئیں تو دیکھیں اس دعا میں کیسی زندگی پیدا ہو جاتی ہے.ہزارھا سال کی یہ دعا مر نہیں سکتی.زندہ دعا ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گی.پھر عرض کرتے ہیں ونجنا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور ہمیں کافروں کی قوم سے اپنی رحمت کے ذریعے نجات بخش.یہاں نجات بخشنے کا جو مضمون ہے غالبا" ہجرت کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو ہجرت کا حکم ہو چکا تھا اور فرعون ہجرت میں مانع تھا پس تعینا سے مراد یہاں ہجرت ہے کیونکہ جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام آخر حضرت شعیب کے پاس پہنچے اور وہاں پناہ لی تو انہوں نے اسی لفظ کے ساتھ آپ کو خوش خبری دی کہ تو ظالموں کی قوم سے نجات پاچکا ہے.پس کامیاب ہجرت یہاں مراد ہے تو یہ کہا کہ اے خدا! ان میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں ان کے ظلم و ستم سے بچا اور پھر اپنے فضل سے ہمیں ان لوگوں سے کامیاب ہجرت کرنے کی توفیق عطا فرما.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ دعا بھی ریکارڈ کی گئی کہ ربنا اطيش على أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الأليفة (سوره یونس : ۸۹) بالعموم انبیاء کی طرف بد دعائیں منسوب نہیں ہوتیں لیکن اگر آپ دو یا تین جگہ جہاں بد دعائیں مذکور ہیں ان کا بغور مطالعہ کریں تو بددعا کرنے کی حکمت اور اس کا جواز بھی وہیں موجود ہو گا اور مضمون بہت اچھی طرح کھل جاتا ہے.قرآن کریم ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ شبہ کا کوئی پہلو باقی نہیں رہنے دیتی.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے جب دیکھا کہ قوم باربار انکار کر رہی ہے اور ہر عذاب کے بعد وقتی طور پر توبہ کرتی ہے اور پھر دوبارہ انکار کر دیتی ہے تو یہ دعا کی ربنا العش على اموالهم اے خدا جو قوم اموال کے تکبر میں مبتلا ہو وہ تو ایمان لا ہی نہیں سکتی.مالداروں کا اپنا ایک نفسیاتی رنگ ہوا کرتا ہے اور اپنے سے

Page 238

235 غریب لوگوں کو ہمیشہ وہ تذلیل اور تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں تو حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا نفسیاتی مطالعہ کیا ہے اور یہ نتیجہ نکالا کہ عذاب تو آئے ہیں جیسا کہ خدا نے فرمایا.بار بار نشان دکھائے گئے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوئیں لیکن پھر آخر یہ کیوں پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور بظاہر ایمان لا کر پھر قدم پیچھے کی طرف ہٹا لیتے ہیں تو یہ سوچتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے سوچا کہ اموال کا تکبران کو برباد کر رہا ہے.دينا الطيش على اموالھم ان کے اموال پر حملہ کر.ان کے اموال برباد کردے.واشدد على قُلُوبِهِمْ اور دلوں میں جو انانیت پیدا ہو گئی ہے اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر سختی کر.ایسا عذاب ڈال جس سے دل نرم پڑ جائیں.فَلا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرُوا الْعَذَاب الأليم یہ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک درد ناک عذاب کا منہ نہ دیکھیں.اب یہ باتیں اللہ تعالٰی کو بھی معلوم تھیں.حضرت موسیٰ نے کوئی نئی بات تو نہیں نکالی اس کے باوجود خد اتعالیٰ کیوں ان لوگوں کو توفیق نہیں عطا فرما رہا تھا.اس لئے کہ وہ ایمان لانے کے اہل نہیں رہے تھے.چنانچہ اللہ تعالٰی جب دعاؤں کو قبول کرتا ہے تو دعا اور قبولیت دعا کے دوران ایک بہت ہی گہرا لطیف رشتہ ہوتا ہے جو سطحی مطالعہ سے نظر نہیں آتا مگر اللہ تعالٰی بھی اپنے بندوں سے ایسے لطائف کرتا رہتا ہے اور یہ مضمون قرآن کریم کی دعاؤں اور استجابت دعا کے مضمون میں بہت ہی دلچسپ رنگ میں محفوظ فرمایا گیا ہے.حضرت موسیٰ نے یہ کہا کہ جب عذاب الیم دیکھ لیں گے پھر یہ توبہ کریں گے.خدا نے کہا.ہاں ہمیں علم ہے کہ کس حد تک عذاب الیم دیکھیں گے تو توبہ کریں گے لیکن دعا قبول کرلی اور بعد میں فرمایا کہ جب ہم فرعون کو غرق کرنے لگے تو اس وقت اس نے کہا : - أمَنْتُ أَنه لا إله إلا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنُو الإِسْرَاءِ يْلَ اس فرعون نے اس وقت پکارا کہ اب میں ایمان لایا ہوں.لا اله إلا الدني اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے جس پر بنو اسرائیل ایمان لے آئے ہیں.اس کا جواب اللہ تعالٰی نے یہ دیا.الفن وقَدْ عَصَيْتُ قبل اب ایمان لاتا ہے قَبْلُ جبکہ اس سے پہلے تو انکار کر چکا تھا تو مراد یہ ہے کہ انبیاء کی فراست بھی درست.وہ یہ

Page 239

236 صحیح نتیجہ نکالتے ہیں کہ ابھی اور شدت عذاب میں چاہئیے اس کے بغیر یہ مانیں گے نہیں مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ گناہ میں اتنا بڑھ جاتے ہیں کہ جس قسم کا عذاب ان کو منواتا ہے وہ عذاب اس وقت آتا ہے جبکہ حجت تمام ہو چکی ہوتی ہے اور پھر ایمان لانا بیکار ہو جاتا ہے.اب دیکھ لو تمہاری دعائیں سنکر ہم نے فرعون کو اس حد تک عذاب دے دیا کہ جس کے نتیجے میں بالآخر اس کا سر جھکا لیکن خدا نے یہ کہا کہ اب تو تیری روح بچنے کا کوئی وقت نہیں رہا، چونکہ جب تک تیری روح خطرے میں تھی تو نے اس وقت تک تو موسیٰ اور موسیٰ کے رب کو قبول نہیں کیا اب بدن کا خطرہ ہے تو اب تو کہتا ہے کہ مجھے بچالے تو فرماتا ہے کہ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ ٹھیک ہے.اب روح کے بچے کا تو وقت نہیں رہا لیکن تیرے بدن کے بچانے کا وقت ہے.ہم تیرے بدن کو بچالیں گے اور وہ اس لئے بچائیں گے تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے یہ عبرت کا نشان بن جائے.حضرت موسیٰ کی دعا کے نتیجے میں پیش آنے والے اس واقعہ سے متعلق تاریخ میں بہت سا ابہام موجود ہے.بالعموم تمام مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ فرعون وہیں اس وقت غرق ہو گیا تھا اور بچا نہیں بلکہ صرف اس کا جسم بچا تھا اور تاریخ سے جہاں تک میں نے چھان بین کی ہے ایسی قطعی کوئی شہادت نہیں مل سکی کہ یہ فرعون جس کا ذکر چل رہا ہے یہ غرق ہو گیا تھا کیونکہ جو ممی (MUMMY) ملی ہے وہ ہے تو اسی فرعون کی.اس کے ساتھ ایسا واقعہ تو ضرور پیش آیا ہے مگر یہ قطعی شہادت نہیں ہے کہ وہ غرق ہو کر مرا تھا.اس لئے آئندہ مزید تحقیق ہمیں بتائے گی کہ اصل واقعہ کیا ہوا.پھر اس آیت کی صحیح تغییر ہمارے سامنے آئے گی کہ نُنجِيكَ بِبَدَنِكَ سے کیا خدا تعالیٰ کی یہ مراد تھی کہ ہم تیرے بدن کو آج بچائیں گے تیری روح پھر بھی نہیں بچے گی.تو پھر واپس لوٹے گا اور تیرا بدن دنیا کے لئے آئندہ عبرت کے لئے محفوظ کیا جائے گا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ہم تجھے فرق تو کر دیں گے لیکن تیری لاش کو بچائیں گے اور تیری لاش بعد میں دنیا کے لئے عبرت کا نشان بنے گی تو دونوں صورتوں میں یہ بہت ہی عظیم الشان معجزہ ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ابھی اس کا ایک پہلو تشنہ تحقیق

Page 240

237 بندے کے ساتھ اللہ کے سلوک کی اہمیت پس دعائیں کرتے وقت یہ احتیاط ضرور کرنی چاہئے کہ اپنی طرف سے دعاؤں میں ایسی ہو شیاریاں، یا چالاکیاں نہ کریں کہ بعد میں جب دعا قبول ہو تو پتہ لگے کہ اوہو! یہ تو ہماری دعا کے نتیجے میں ایسی بات ہو گئی.ایسے دلچسپ واقعات ہوتے ہیں.خدا تعالی اپنے بندوں کو دراصل بڑے پیارے اور لطیف انداز میں اپنے قرب کے نشان دیتا ہے.بعض دفعہ تھوڑی تھوڑی سزائیں بھی ساتھ چل رہی ہوتی ہیں.بعض لوگ بڑے معجزے دیکھنا چاہتے ہیں جو ظاہری اور عددی معجزے ہوں کہ جی فلاں شخص نے خواب میں دیکھا ہے کہ فلاں تاریخ کو یہ واقعہ ہو جائے گا اور یہ ہو گیا.یہ سطحی چیزیں ہیں.اصل جو زندہ معجزہ ہے وہ خدا کا بندے کے ساتھ ایسا باریک سلوک ہے جو زندگی میں اس کے ساتھ ہوتا رہتا ہے.ایسے لطیف اشارے اسے ملتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں دل کی گہرائیوں میں یہ بات جاگزیں ہو جاتی ہے کہ میرا اور اللہ کا ایک معاملہ ہے جو چل رہا ہے.اوپر بھی پانی نیچے بھی پانی مضمون سے حضرت منشی اروڑے خان والا واقعہ آپ نے بارہا سنا ہے.وہ اسی تعلق رکھتا ہے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب اور حضرت منشی اروڈے خارج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ رخصت ہو رہے تھے.جب واپس جانے کی اجازت لی تو شدید گرمی تھی اور بہت دیر سے بارش نہیں ہوئی تھی تو حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بے تکلفی سے پیار سے عرض کیا کہ حضور! دعا کریں.بہت ہی گرمی ہے.واپسی کا سفر بھی سخت ہے.اللہ تعالٰی بارش عطا فرمائے.تو منشی اروڑے خان نے کہا کہ میرے لئے تو یہ دعا کریں کہ اوپر سے پانی نیچے سے پانی پانی ہی پانی ہو جائے چنانچہ وہ یکے میں بیٹھے بٹالہ کی طرف روانہ ہوئے راستے میں وڈالہ کے قریب ایک جگہ جہاں ایک چھوٹی سے پلی آیا کرتی تھی ہم بھی جب گزرتے تھے تو وہاں ایک چھوٹی سے پلی آیا کرتی تھی) اس سے پہلے کہ وہ پلی آتی اچانک بادل امنڈ کر آئے اور اس قدر

Page 241

238 موسلا و هھا بارش شروع ہوئی کہ اس سے جل تھل بھر گئے اور وہ گھوڑا اسی طرح سرپٹ دوڑا جا رہا تھا.چنانچہ جب وہ پلی آئی تو اس پر وہ یکہ جو اچھلا تو منشی ظفر احمد صاحب تو ٹانگے میں ہی رہے اور منشی اروڑے خان اچھل کر با ہر پانی میں جا پڑے اور اوپر سے بھی پانی تھا اور نیچے سے بھی پانی.یہ جو چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں یہ بیرونی دنیا کے لئے شاید کوئی حقیقت نہ رکھتے ہوں لیکن مومن کی تقویت ایمان کے لئے بیرونی نشانات سے بہت زیادہ دلنشین اور روح میں اتر جانے والے نشانات اس قسم کے ہوا کرتے ہیں اور روز مرہ کی زندگیوں میں احمدیوں کے ساتھ یہ معاملات ہوتے رہتے ہیں.بعض دفعہ کوئی ایسا آدمی جس سے خدا تعالیٰ اچھی توقع رکھتا ہے کوئی چھوٹی سی غلطی کر بیٹھتا ہے تو اسی وقت اس کو سزا ملتی ہے.بعض ایسے ہیں جن کو بڑی بڑی غلطیوں پر بھی سزا نہیں ملتی اور وہاں سزا نہ ملنا خدا تعالیٰ کے غضب کی نشانی ہوتی ہے.بعض دفعہ اپنے پیاروں کو انسان جلدی پکڑتا ہے.جن سے اچھی توقعات ہوں ان کو جلدی نوکتا ہے.جن سے اچھی توقعات نہ ہوں ان کی بڑی بڑی چیزوں سے بھی درگزر کر جاتا ہے کہ ان سے توقع ہی یہی تھی.اس لئے وعاؤں کے مضمون میں آپ کو قرآن کریم میں بھی ایسے بڑے دلچسپ واقعات ملیں گے جہاں دعا کرنے والے نے ذرا کہیں کوئی غلطی کی تو اللہ تعالٰی نے بڑے پیارے اور لطیف انداز میں قبولیت کے وقت اس کی طرف اشارہ فرما دیا.فرعون کے بارہ میں حضرت موسیٰ کی دعا کا فائدہ پس فرعون کے ڈوبنے کی دعا کا حضرت موسیٰ کی اس دعا سے گہرا تعلق ہے جس کے نتیجے میں بالآخر اس کو ایمان لانے کی بھی توفیق ملی لیکن بیکار اور اس کا کوئی بھی فائدہ اس کو نہ پہنچا لیکن یاد رکھیں کہ انبیاء کی دعائیں تو بیکار نہیں جایا کرتیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں ایک نیا اور لطیف مضمون داخل فرما دیا - يتَكُونَ يَمَن خَلْفَكَ آيَةً ہم تیرے بدن کو محض ایک فضول لطیفہ گوئی کے طور پر نہیں بچا رہے.خدا تو کوئی عیت کام نہیں کرتا اور پھر میرے بندے موسیٰ کی دعا تھی اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ تو پہنچنا چاہئیے.تو جو فائدہ تجھے نہیں پہنچاوہ تیری وجہ سے آئندہ نسلوں کو پہنچے گا اور آنے والے

Page 242

239 لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں گے تو دیکھیں بظاہر سرسری طور پر ان دعاؤں سے گزریں تو معمولی سا مضمون سمجھ میں آتا ہے لیکن جب ڈوب کر چلیں اور ان کے اندر جو مضامین کی تہیں ہیں ان کو دیکھتے ہوئے سیر کرتے ہوئے آگے بڑھیں تو بڑے بڑے لطیف مضامین ہیں جو ان دعاؤں میں اور ان کی قبولیت کے نشانات میں پوشیدہ ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں ان کا عرفان فرماتا ہے.یہ آیت پوری یوں ہے - آلفنَ وَقَد عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ فَالْيَوْمَ تُنجِيكَ بِبَدَكَ لتَكُونَ لِمَن خَلْفَكَ آيَةً وَإِن كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ أيْتِنَا تَغْفِلُونَ (سوره یونس : ۹۲ ۹۳) کہ اب تو کہتا ہے کہ میں ایمان لے آیا حالانکہ اس سے پہلی عمر تم نے عصیان میں گزار دی اور تو صرف گہنگار ہی نہیں بلکہ فساد کرنے والا گنہ گار تھا.فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ يبدنك پر آج کے دن ہم تیرے بدن کو نجات بخشیں گے تاکہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت کا نشان بن جائے.وإِن كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ أَيْتِنَا لَغْفِلُونَ اور دنیا میں اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں.اس موقعہ پر جبکہ یہ آیت نازل ہوئی ہے، یہ کہنا کہ دنیا کے اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل ہیں، دہرے معنی رکھتا ہے.ایک تو عمومی بیان ہے کہ لوگ اکثر خدا کی آیات سے غافل ہی ہوتے ہیں، دوسرا یہ کہ فرعون کی لاش کے متعلق اس وقت ساری دنیا غفلت میں تھی اور یہ ایک ایسا نشان تھا جس پر دنیا کے کسی عالم کی بھی نظر نہیں تھی، کسی تاریخ دان کی بھی نظر نہیں تھی کیونکہ اس وقت کی معروف تاریخ کے مطابق فرعون کے دریا میں غرق ہونے کا واقعہ اور پھر خدا کا اس سے وعدہ کرنا یہ دنیا کے کسی تاریخی ریکارڈ میں درج نہیں تھا.قرآن نے پہلی دفعہ بیان فرمایا اور مصر کی تہذیب تہہ در تمہ ریت میں دفن ہو چکی تھی اور وہ بڑے بڑے مقبرے جن میں بعد میں فراعین کی لاشیں مدفون پائی گئیں اور بعد میں دریافت ہوئیں وہ اس وقت کی دنیا کی نظر میں نہیں تھے.پس اس ذکر کا کیسا پیا را انجام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَإِن كَثيرا من النَّاسِ عَن ايْتِنَا لَغْفِلُونَ کہ دنیا میں اکثر لوگ ہماری آیات سے غافل

Page 243

240 ہوتے ہیں ہم اتنے مستغنی ہیں کہ ہمیں کوئی جلدی نہیں کوئی گھبراہٹ نہیں جانتے ہیں کہ ایک وقت ضرور ایسا آئے گا کہ یہ مدفون خزانے پھر ا بھر آئیں گے اور زمین ان خزانوں کو یعنی خدا تعالٰی کے نشانات کے خزانے باہر پھینک دے گی.کشتی میں سوار ہوتے وقت حضرت نوح کی دعا اب میں آپ کو حضرت نوح کی دعا بتاتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے : وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسمِ اللهِ مَجْرِيهَا وَ مُرْسَهَا، إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَحِيمُ هود : ۲۲) نوح کی جو یہ دعا ہے یہ دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائی ہوئی دعا ہے.فرمایا : وقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا اس کشتی میں سوار ہو جاؤ.بشور الله مخرمها و موسکا اور یہ پڑھتے چلے جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کی ذات بابرکات کے ساتھ ہم اس سفر کا آغاز کرتے ہیں.مجرتها و مرستها اس کشتی کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی اسی کے نام سے ہے.اِن رَبِّي لَغَفُورٌ حِيم یقیناً میرا رب بہت ہی بخشنے والا اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے.پس یہ الهامی دعا ہے اور جتنے بھی سمندر کے یا دریاؤں وغیرہ کے سفر اختیار کئے جاتے ہیں ان میں عام طور پر وہ مسلمان جو اس دعا سے واقف ہیں یہی دعا کرتے ہیں اور ہمیں بھی سب احمدیوں کو یہ دعا کرنی چاہئے قادیان میں تو سب کو اس دعا سے بہت ہی واقفیت تھی اور بچے بچے کو سکھائی جاتی تھی لیکن اب جو موجود نسلیں ہیں اس سے کچھ تافل ہوتی جا رہی ہیں.اس لئے میں یہ دعائیں دوبارہ پڑھ کر ان کا پس منظر آپ کو بتا رہا ہوں کہ اپنے بچوں کو اپنے ماحول میں سب عزیزوں کو یاد بھی کرائیں اور ان کا مضمون سمجھائیں.ان دعاؤں سے ایک ذاتی تعلق پیدا کر دیں تاکہ جب بچے یہ دعائیں مانگیں یا آئندہ جو بڑے بھی ہوں گے وہ مانگیں تو ان کے دل کی گہرائیوں سے یہ دعائیں اٹھیں اور اس مضمون کو سمجھ کر وہ یہ دعائیں کرنے والے ہوں.حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام نے کشتی میں سوار ہونے کے بعد اللہ کے نام پر جو سفر اختیار کیا اس سفر میں ان کا ایک بیٹا ساتھ نہیں تھا اور جب وہ طوفان بہت بڑھا تو آپ نے دیکھا کہ وہ بیٹا ایک پہاڑی کے دامن میں کھڑا ہے.آپ نے اس کو آواز دی

Page 244

241 اور کہا کہ تم آجاؤ.ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.اس نے کہا کہ میں تو اس پہاڑہ میں پناہ لے لوں گا مجھے تمہاری کشتی کی کوئی ضرورت نہیں ہے.اس کے بعد اگلا منتظر خداتعالی یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بات ہو رہی تھی کہ ایک موج ان دنوں کے درمیان حائل ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے نظر سے غائب ہو گیا.اس پر حضرت نوح نے بڑی بے چینی سے یہ عرض کیا کہ اے خدا! تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تیرے اہل کو بچاؤں گا اور میں تیرے مقاصد کو تیرے طریق کار کو نہیں سمجھ سکتا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اہل کو غرق ہوتے دیکھ لیا ہے.تو بہتر جانتا ہے کہ یہ کیوں ہوا ہے لیکن میرے ذہن میں ایک خلش کی پیدا ہو گئی ہے.اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو یہ جواب دیا : إنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِك اے نوح ! یہ تیرا اہل نہیں تھا.إنه عمل غير صالح (عود : ۴۷) یہ بد اعمال بچہ تھا اور بد اعمال اولاد نبیوں غَيْرُ کی اولاد نہیں ہوا کرتی.یعنی نبیوں کی طرف منسوب ہونے کی اہلیت نہیں رکھتی تو اہل بمعنی اہمیت کے ہے، محض خونی رشتے کے لحاظ سے اولاد ہونا مراد نہیں.تو خداتعالی نے فرمایا کہ إِنَّهُ عَمَل غَيْرُ صَالِحٍ یہ تو غیر صالح لڑکا ہے.اس کے اعمال اچھے نہیں.یہ کیسے تیرا اصل ہو گیا.فَلا تَسْلُنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ، الي اعقاد أن تَكُونَ مِنَ الْجهلين - فلا تَسْتَلْنِ پس مجھ سے مت سوال کر ایسی باتوں کے متعلق جن کا تجھے علم نہیں ہے.اِن اعظُكَ أَن تَكُونَ من الجميلين میں تجھے نصیحت کرتا ہوں مبادا تو جاہلوں میں سے ہو جائے یعنی اگر تو نے احتیاط نہ کی تو خطرہ ہے کہ اس نہج پر اگر آگے بڑھتا رہا تو خالوں میں شامل ہو جائے گا.اس پر حضرت نوح نے پھر بڑی بے قراری سے یہ عرض کیا : قال رت را اعُوذُ بِكَ أَن أَسْتَلْكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمُ اے میرے اللہ ! میں تیری ہی پناہ مانگتا ہوں کہ میں آئندہ کبھی تجھ سے ایسا سوال کروں جس کا مجھے علم نہ ہو.والا تغفر لي وتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَيرِينَ (عود : (۴۸) اور اگر تو نے مجھ سے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اور مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میں یقینا گھانا پانے والوں میں سے ہو جاؤں گا.

Page 245

242 اطاعت کا تقاضا اعتراض نہ کرو یہاں جو مشکل مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا انسان کو علم ہو اس کے متعلق تو وہ سوال ہی نہیں کرتا جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق سوال کیا جاتا ہے تو یہاں پھر یہ کیا گفتگو ہو رہی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تو نے آئندہ ایسی باتوں کا سوال کیا جس کا تجھے علم نہیں تو تو ظالموں میں سے ہو جائے گا.نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا اور حضرت نوح کہتے ہیں کہ میں تو بہ کرتا ہوں، میں تیری پناہ میں آتا ہوں.اے خدا ! آئندہ کبھی میں ایسا سوال نہ کروں جس کا مجھے علم نہ ہو.تو یہ عجیب سا معمہ ہے کہ اگر علم ہو تو سوال کرنے کی ضرورت کیا ہے اور اگر علم نہ ہو تو سوال کرنا گناہ کیسے ہو گیا.دراصل یہاں سوال کی بجائے حضرت نوح کی پردہ داری فرمائی گئی ہے.ستاری کا سلوک ہوا ہے.ایک خفیف سا اعتراض دل میں پیدا ہوا ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا گیا اور چونکہ حضرت نوح ایک بڑے بلند پایہ نبی تھے اس اعتراض پر خود آپ نے بھی معلوم ہوتا ہے پردہ رکھا ہوا تھا.آپ نے جو دعا کی ہے اور سوال کیا ہے وہ بتا رہا ہے کہ ادب اپنی جگہ ہے لیکن ساتھ ہی بے قراری بھی ہے کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی میں کیا کروں.میرا دل بے چین ہو گیا ہے.خدا کے جو اولوا العزم انبیاء ہوتے ہیں ان کا دل ایسی باتوں پر بے چین نہیں ہونا چاہیے.ان سے خدا یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ سمجھ جائیں کہ کچھ ایسے واقعات ضرور ہوئے ہیں جن کا مجھے علم نہیں لیکن خدا کے علم میں ہیں اور خدا کا فیصلہ سچا ہے.اس لئے فیصلے سے متعلق سوال اٹھانے کا مجھے کوئی حق نہیں.یہ جو مضمون ہے یہ بہت ہی لطیف اور بہت گہرا مضمون ہے اور اس کو بھلا دینے کے نتیجے میں میں نے دیکھا ہے بہت سے اپنی جان پر ظلم کرنے والے احمدی بھی ٹھو کر کھا جاتے ہیں.خلفائے وقت کے کئی ایسے فیصلے ہوتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں بارہا ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ جو کسی باریک حکمت کے پیش نظر کئے جاتے ہیں اور ان کا دنیا کو علم دیا بھی نہیں جا سکتا.یہ دوسرا مضمون بھی اس میں مخفی ہے اور بہت ہی اہمیت والا مضمون ہے.بعض دفعہ انسان ایک سوال کر کے مزید دکھ میں مبتلا ہوتا ہے کیونکہ اس کا جواب اس کو اور تکلیف میں مبتلا کر دیتا ہے.ایک بیٹا ہے جس کی بد کاری کے

Page 246

243 متعلق کسی کو علم نہیں، باپ کو علم نہیں ، خدا تعالٰی نے اس پر پردہ ڈالا ہوا تھا اور نوح نے جب شک کا اظہار کیا ایسے شک کا اظہار جو اتنا خفی تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو شک کے طور پر پیش کرنا بھی پسند نہ فرمایا لیکن آپس میں جو مکالمہ ہوا ہے اس کی طرز بتا رہی ہے که اندر کیا بات تھی.ادب بہر حال قائم تھا اور اس وقت شک کے دوران بھی اتنا گہرا ادب تھا کہ اس ادب کے نتیجے میں اس وقت خدا نے آپ کو جاہل قرار نہیں دیا بلکہ یہ بتایا کہ آغاز اسی طرح ہوا کرتا ہے.ایک انسان اگر اپنے سے بالا ایسے لوگوں کے فیصلے جن کا احترام لازم ہے باریک نظر سے نہ دیکھے اور شک کی گنجائش ہو تو اس کا پہلا تقاضا تو یہی ہے کہ ادب اور احترام کی وجہ سے زبان نہ کھولے اور استغفار سے کام لے اور دعا سے کام لے لیکن اگر اس سے ایسا ہو بھی جائے اور بار بار ایسا ہو تو پھر خطرہ ہے کہ انسان مزید ٹھو کر کھا جائے گا.پس ایسے مختلف فیصلوں میں جہاں ایک مومن ایمان بھی رکھتا ہے اور ادب بھی رکھتا ہے وہاں بھی بعض دبی ہوئی آزمائشیں بھی بہت ہی خطرات کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں اور اس سلسلے میں نہایت اعلیٰ تعلیم یہ دی گئی ہے کہ اعتراض نہیں کرنا چاہئے استغفار سے کام لینا چاہئیے اپنے ایمان کی حفاظت کرنی چاہئے اور اللہ پر توکل کرنا چاہئیے اور خدا سے یہ دعا کرنی چاہیے کہ والا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي احن من الخمرین کہ اے خدا! اگر تو نے بخشش کا سلوک نہ فرمایا اور رحم نہ کیا تو اس صورت حال میں میں یقینا گھانا پانے والوں میں شامل ہو جاؤں گا اور اگر سوال اٹھتے ہی ہیں تو پھر یہ دعا بہت اچھی ہے.یعنی اس کا پہلا حصہ کہ قال رت الان اعوذ بك أن أسْتَلْكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلم اے خدا! میں تیری حکمتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.میں نہیں جانتا کہ اس دنیا میں بہت سی باتیں کیوں ہو رہی ہیں.تیری تقدیر کیا کیا مخفی مصلحتیں لئے ہوئے ہے.تیرے فیصلے کو ہم دیکھ لیتے ہیں.تیری زیر پر نظر نہیں جاتی.اس لئے ہم تجھ سے ان شکوک کے بارہ میں پناہ مانگتے ہیں جو ایسے موقعوں پر دلوں میں پیدا ہو جایا کرتے ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کی دعاء حسن کی انتہا ایک دعا حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہے جو اسی سورۃ کا ایک اور

Page 247

244 مضمون بھی ہمیں سمجھا رہی ہے.سورہ یوسف کے آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ہم بیان کرنے لگے ہیں یہ احسن القصص ہے.اتنا حسین واقعہ ہے کہ ایسا دلچسپ واقعہ اس سے زیادہ پیارا اور دلکش قصہ تم نے کبھی نہیں سنا ہو گا، نہ سن سکتے ہو کیونکہ یہ احسن القصص ہے.اب قرآن کریم میں انبیاء کے بہت سے نقص بیان ہوئے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر بڑے دلچسپ واقعات بیان ہوئے ہیں لیکن صرف سورہ یوسف کو احسن القصص کہا گیا ہے.میں اس پر غور کرتا رہا تو میرے دل نے یہ گواہی دی یہ دعا جو حضرت یوسف نے کی ہے کہ یہ حسن کی انتہا ہے.اتنی حسین دعا ہے اور حضرت یوسف کے حسن کا ایسا عجیب منظر پیش کرتی ہے کہ انسانی دنیا میں آپ کو ایسی مثالیں دکھائی نہیں دیں گی.آپ کو زلیخا نے جب ابتلا میں ڈالا اور دعوت دی اور اپنے ساتھ اس شہر کی یا اس قصبے کی دوسری خوبصورت عورتوں کو بھی شامل کر لیا کہ اگر یہ اکیلا میرے سے پوری طرح قابو نہیں آسکتا تو ہو سکتا ہے ہم سب مل کر اس پر اپنا جادو چلائیں تو یہ اس جادو کے اثر کے تابع ہماری بات مان جائے.یہ سکیم تھی جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے.اس پر حضرت یوسف یہ دعا کرتے ہیں : قَالَ رَت الوجنُ رَبِّ احب الي مِمَّا يَدْعُونَنِي اليه (سورة يوسف : (۳۴) یہ مجھے لذتوں کی طرف اور عیش و عشرت کی طرف بلا رہے ہیں.اے خدا میں زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں قید ہو جاؤں اور قید خانے میں زندگی بسر کروں.مجھے یہ آزادی پسند نہیں ہے جو لذتوں کی آزادی ہے مگر تیری رضا کی آزادی نہیں ہے.کتنی عظیم الشان دعا ہے.وہ یہ بھی دعا کر سکتا تھا کہ اے خدا! مجھے بچالے لیکن دوسری طرف قید خانے کو دیکھا.اس مضمون کو ذہن میں رکھا اور یہ دعا کی کہ اے خدا! مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے.اب دیکھیں دعا اور قبولیت میں کیسے لطیف رشتے ہیں میں پہلے یہ سمجھ نہیں سکتا تھا کہ حضرت یوسف بیچارے کو اللہ تعالٰی نے اتنی لمبی قید میں کیوں مبتلا کر دیا.اپنی منہ مانگی دعا ہے جو ان کے سامنے آئی.پس جہاں ایک طرف یہ دعاؤں میں احتیاط بتانے والا مضمون ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ اپنے لئے مشکل دعا مانگا ہی نہ

Page 248

245 کرو.اللہ تعالیٰ تو تمہیں مشکل میں ڈالے بغیر بھی معاملے حل کر سکتا ہے.اس لئے خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو مشکل میں ڈالتے ہو آپ نے یہ کہہ کر ہم پر بڑا احسان فرمایا لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ میرے بندے جب بعض دعائیں مانگتے ہیں تو میں ان کے دل کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں.اس دعا نے اور اس کی قبولیت نے مل کر اس معاملے کو اتنا حسین بنا دیا ہے کہ جب سے دنیا بنی ہے ایسا عجیب واقعہ کبھی دنیا میں پیش نہیں آیا کہ وہ خدا جو اپنے بندے سے اتنا پیار کرتا ہے اور پھر ایسے پاک باز بندے سے یعنی یوسف جیسے بندے سے اس کی دعا بھی سنتا ہے اور اس کو بچا بھی لیتا ہے اور پھر قید خانے میں ڈال دیتا ہے.تو قید خانے میں کیوں ڈال دیا ؟ حضرت یوسف علیہ السلام کی قید میں حکمت میرے نزدیک اس لئے کہ حضرت یوسف کے دل کی سچائی ثابت ہو اور عام دعا کرنے والوں سے الگ اور ممتاز کر کے آپ کو دکھایا جائے ورنہ دعا کرنے والے بڑی بڑی دعائیں کر جاتے ہیں اور باتوں باتوں میں اپنی جان فدا کرتے رہتے ہیں لیکن جب ابتلاء کا وقت آتا ہے تو جانیں لے کر بھاگ جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے اور مجھے کئی خط بھی آتے ہیں کہ جی آپ کہیں تو مال جان سب کچھ حاضر اور چھوٹا سا ابتلاء اولاد کی طرف سے آجائے یا قضاء کے فیصلے کی طرف سے آجائے تو نہ جان حاضر ہوتی ہے نہ مال حاضر ہوتا ہے، وہی لوگ باتیں بنانی شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں.یہ خلیفہ ہے؟ اس میں تو انصاف ہی کوئی نہیں تو خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ منہ کی اکثر باتیں جھوٹی اور بے معنی ہوا کرتی ہیں.خدا کے حضور سجدوں میں لوگ بڑی بڑی پیاری دعائیں کرتے ہیں.راتے ہوئے بھی کرتے ہیں کہ اے خدا! یہ ہو جائے تو ہم سب کچھ پیش کرنے کے لئے تیار ہیں مگر جب مشکل پڑتی ہے تو اس وقت وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور جگہ یوں بیان فرمایا کہ تم لوگ تو قتال مانگا کرتے تھے.کہتے تھے کہ اے خدا! ہمیں جہاد کے وہ میدان رکھا جہاں ہم اپنی قربانیاں پیش کریں اور اب وہ آگیا ہے تو تم کھڑے دیکھ رہے ہو.تمہیں سمجھ نہیں آرہی کہ کیا کریں تو دعا سے کوئی چیز مانگنا اور بات ہے اور جب وہ ابتلاء سامنے آکھڑا ہو تو اس میں پڑنا اور حوصلے کے ساتھ

Page 249

246 مبر کے ساتھ اس تکلیف کو برداشت کرنا اور بات ہے.پس خدا تعالیٰ نے اس حسین قصے میں جو سب سے زیادہ حسین ہے ہمیں یہ بتایا کہ یوسف نے دعا مانگی اور ہم نے اس کی دعا کو قبول کیا تو محض اس کو تکلیف دینے کے لئے نہیں بلکہ ساری دنیا کو بتانے کے لئے اور ہمیشہ کے لئے بتانے کے لئے کہ وہ دعا میں انتہائی سچا اور مخلص تھا.واقعہ " اس کو قید خانہ اور اس کی صعوبتیں دکھائی دے رہی تھیں اور وہ ان کی پناہ مانگ رہا تھا کہ اے خدا! اس عیش کی زندگی سے مجھے وہاں ڈال دے چنانچہ پھر انہوں نے اسے خوشی سے قبول کیا، وہاں رہے، وہاں تبلیغیں کرتے رہے، وہاں خدا کی یاد میں مزے کی زندگی گزاری اور ایک ذرہ بھی دل میں شکوہ پیدا نہیں ہوا کہ مجھے معصوم کو جو آج ساری دنیا میں سب سے زیادہ معصوم انسان ہے بے جرم کیوں مارا جا رہا ہے اور پھر آخر پر جب آپ کو وہاں سے نجات ملتی ہے تو پھر اس وقت بہت ہی عجیب حیرت انگیز انکسار کا اظہار کرتے ہیں.پیغامبر کو کہتے ہیں پہلے اپنے آقا بادشاہ سے کہو کہ وہ جو عورتیں تھیں جنہوں نے الزام لگایا تھا ان کا حال تو پوچھو.کیا حال ہے ان کا.اب کیا کہتی ہیں؟ اور مجھے نکالو تو معصوم حالت میں نکالو.دیکھیں کتنا عجیب دلچسپ اور گہرا مضمون ہے.فرمایا.میں الزام کی حالت میں قید ہوا ہوں میں الزام کی حالت میں کیسے باہر آجاؤں.یہ الزام تو مجھے پسند نہیں ہے.اس کی خاطر تو ساری تکلیفیں برداشت کی تھیں.اس لئے میں جب تک معصوم ہو کر نہیں نکالا جاتا مجھے ابھی بھی آزادی نہیں چاہیے حالانکہ بادشاہ مہربان ہو چکا ہے.اور پھر جب بادشاہ نے ان سے پتہ کروایا تو انہوں نے کہا وہ تو بالکل معصوم ہے.فرشتہ ہے.اس کا کوئی قصور نہیں.ہم نے شرارت کی تھی.ہم نے فتنہ پیدا کیا تھا.اس کے بعد وہ یہ کہتے ہیں میں اپنے نفس کو اب بھی بری نہیں کرتا.إنَّ النَّفْسُ لا مادة بالسوء کہ انسان کا نفس تو گناہوں کی تعلیم دینے والا ہے.اللہ ہی کا فضل تھا جو میں بچ گیا ہوں.پس دیکھیں کہ قرآنی دعائیں جو گہرے مضامین سمیٹے ہوئے ہیں جب آپ ان میں غوطہ مارتے ہیں.ان میں اتر کر ان دعاؤں کو اور ان کی مقبولیت کے حالات کو دیکھتے ہیں

Page 250

247 تو کیسے کیسے حسین دلکش نظارے ان پردوں کے پیچھے دکھائی دیتے ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ پردوں کے پیچھے اور پردے ہوتے ہیں.آپ اور بیچ میں داخل ہوتے چلے جائیں.اپنے نفس پر ان مضامین کو وارد کرتے رہیں تو آپ کو اور زیادہ لطیف اور دلکش نظارے ان کے پیچھے سے دکھائی دیتے چلے جائیں گے.شرک سے بچنے کے لئے حضرت ابراہیم کی دعا پھر ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دوسری دعا جو اس سے ملتی جلتی ہے جو پہلے گزر چکی ہے.وہ یہ بیان فرمائی گئی وراذ قال ابرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا واجْنُبْنِي وَبَنِي أَنْ نَعْبُدُ الْأَصْنَامُ (سوره ابرانیم : ۳۶) یہ جو دعا ہے یہ اس دعا سے ملتی جلتی لیکن اس سے مختلف ہے جو سورہ بقرہ کی ۱۳۵ اور آگے پیچھے کی آیات میں درج تھی.وہاں بھی یہ ذکر ہے کہ واذ قالَ ابرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بلدا أمنا سرسری نظر سے پڑھیں تو ایک ہی دعا لگتی ہے.دونوں جگہ اس شہر کے امن کی دعا مانگی گئی ہے.اس کے امین ہونے کی دعا مانگی گئی ہے لیکن حقیقت میں جو پہلی دعا تھی اس میں شہر کے لئے دعا نہیں مانگی تھی، جگہ کے لئے دعا مانگی تھی کیونکہ وہاں یہ دعا ہے رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنَّا یہ جگہ چٹیل میدان جہاں کچھ بھی نہیں ہے اسے ایک رستے بستے شہر میں تبدیل فرما دے.پس یہ دعا جواب کی گئی ہے اس میں یہ نہیں فرمایا کہ اس جگہ کو امن کی جگہ بنا دے بلکہ فرمایا ہے هذا البلد امنا کہ اے خدا! تو نے میری دعاؤں کو سن لیا اور اس جگہ کو شہر بنا چکا ہے.اب یہاں با قاعدہ آبادی ہے.اب میں اس شہر کے لئے تجھ سے امن کی دعا مانگتا ہوں.اس کے بعد اس دعا میں بعض ایسی باتوں کا ذکر ہے جو دراصل پہلی دعا کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان کے جواب میں اللہ تعالی نے آپ سے جو خطاب فرمایا اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی دعا میں ترمیم کی گئی ہے.پہلی دعا آپ کو یاد دلانے کے لئے پڑھتا ہوں.وہ یہ تھی : واذ قالَ ابرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدَا مِنَّا وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَن كَفَرَ

Page 251

248 فَأُمَيَّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اضْطَرة إلى عَذَابِ النَّارِ، وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (البقرة : ۱۲۷) جب ابراہیم نے خدا سے یہ عرض کیا کہ اے خدا! اس جگہ کو تو ایک شہر میں تبدیل فرما جو امن کا شہر ہو اور اس میں بسنے والوں کو تو ہر قسم کے رزق عطا فرما.ہر قسم کے پھل عطا فرما.مَنْ مَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْهِ الْأخر یعنی ان سب کو جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور آخرت پر ایمان لے آئیں.قَالَ وَمَن كَفَرٌ فَاميمه قليلا فرمایا.اے ابراہیم! میں تیری دعا کو اس سے زیادہ قبول کرتا ہوں جتنا تو مانگ رہا ہے جو ان میں سے ایمان نہیں بھی لائے میں دنیا کی زندگی میں ان کو بھی فائدہ پہنچاؤں گا.ہاں آخرت میں ان کو میں عذاب دوں گا.یہ جو آخرت کے عذاب کا جواب تھا اس نے حضرت ابراہیم کو بڑا ڈرا دیا ہے اور اگلی دعا میں پھر آپ نے ترمیم کرلی ہے.اس ترمیم کی طرف میں آپ لیکر جاؤں گا تو پھر آپ سمجھیں گے کہ اس دعا میں اور اس دعا میں کیوں فرق ہے ؟ اور کیسے پیارے انداز میں پھر آپ نے وہ ترمیم کرکے دعا کی ہے.کہتے ہیں هَذَا الْبَلَدَا مِنَّا جُنُبْنِي وبنا أن نعبد الاصنام پتہ لگ گیا ہے کہ کوئی ظالم ضرور پیدا ہوں گے.کچھ مشترک پیدا ہوں گے.شہر توحید کی خاطر بنایا گیا لیکن میں شرک کرنے والے بھی داخل ہو جائیں گے تو یہ دعا کی کہ اے خدا! مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچائے رکھ کہ ہم کبھی بھی بتوں کی پرستش کریں.رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ کہ ان بتوں اور جھوٹے خداؤں نے تیرے اکثر بندوں کو گمراہ کر دیا.فَمَن تعني فإنه مني جو ان میں سے میری پیروی کرنے گا وہ میرا ہو گا اور جو میرا ہو گا وہ موحد ہی رہے گا.اس لئے میروں پر تو تو ناراض ہو گا ہی نہیں.کس طرح ان کا دامن بچالیا.پہلے خدا نے اس دعا کے نتیجے میں ایک استثناء کیا تھا اور کہا تھا کہ میں ان کے ساتھ دنیا میں تو حسن سلوک کرتا رہوں گا لیکن آخرت میں ان کو پکڑوں گا.اس کے بعد یہ کہا کہ جو میرا ہو گا اس کو تو تو لازما" سزا نہیں دے گا کیونکہ مجھ سے تو اتنا پیار کرتا ہے اور مجھے سے تو ایسا حسن سلوک فرماتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو میرا ہو اس کے ساتھ بھی تو

Page 252

249 کے کسی قسم کا غضب کا معاملہ فرمائے.رہا ان لوگوں کا مقامہ جو میرے خلاف ہوں گے جو گنہگار ہوں گے جن کے متعلق تو نے کہا ہے کہ میں انہیں عذاب الیم میں مبتلا کروں گا.حضرت ابراہیم بے حد رحم کرنے والے تھے.بڑے نرم دل تھے اور قرآن کریم میں اس کا ذکر فرمایا گیا ہے تو وہاں بھی دل نہیں چاہتا کہ ان سے سختی کا سلوک ہو تو کہتے ہیں د من عصاني جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو میرے نافرمان ہیں فَانكَ غَفُورٌ نَّحِيم (ابراہیم : ۳۷) مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ تو بڑا بخشنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے.بس یہ کہہ کر بات چھوڑ دی.تو چاہے تو سزا دے سکتا ہے اور میری پہلی دعا کے جواب میں تو نے مجھے بتا دیا ہے کہ ایسے بد نصیبوں کو بالا خر سزا ملے گی تو میں اب نئی ترمیم شدہ دعا یہ عرض کر رہا ہوں کہ جو میرا ہے وہ تو امن میں آہی گیا اور جو میرا نہیں رہے گا میں اس کے لئے بھی صرف یہ کہتا ہوں کہ اس کو نہ دیکھنا.اپنی ذات کو دیکھنا.وہ گنہ گار ہے لیکن تو غفور رحیم ہے.بندوں کو عبادت گزار بنانے کی دعا دعا کا کتنا پیارا انداز ہے اور دعا کا کتنا دردناک انداز ہے.اگر اس کے گہرے درد کو سمجھ کر اسی درد میں ڈوب کر آپ دعائیں کریں تو دیکھیں آپ کی دعاؤں کو کیسے کیسے پھل لگتے ہیں.پھر عرض کیا : ' ربنا الي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ في أنه عند بييك المُحرَم رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تقوي اليهِمْ وَارْزُقُهُمْ مِنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَهُمْ يَشْكُرُونَ (ابراهیم : ۳۸) کہ اے خدا! میں نے اپنی اولاد کو اپنی اس پیاری اولاد اسماعیل کو اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک ایسے لق و دق صحرا میں جہاں کچھ بھی نہیں اگتا تیرے مقدس گھر کے قریب اس لئے چھوڑا لِيُقِيمُوا الصَّلوة کہ یہ لوگ تیری عبادت کریں.ان کے لئے جو یہ دعا مانگی تھی کہ ان کو پھل دینا ان پر رحمتیں کرنا.(پہلی دعا میں یہ ذکر تھا) وہ ثانوی باتیں ہیں.میرا مقصد اصل یہ تھا کہ تیرے گھر کے قریب میں ان کو چھوڑوں ناکہ اس گھر کے مقاصد کو یہ پورے کرنے والے ہوں.ليقيموا الصلوة فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِي التهم ہیں اس وجہ سے لوگوں

Page 253

250 کے دل ان کی طرف مائل کر کہ یہ تیرے عبادت گزار بندے ہیں ورنہ اگر تیرے عبادت گزار بندے نہ ہوں تو ان کو پھل کھلوانے میں مجھے کوئی دلچپسی نہیں.مجھے تو یہی دلچسپی تھی کہ قیامت کے دن تو بخش سکتا ہے تو ضرور بخش.جہاں تک دنیا کے پھلوں کا تعلق ہے تو نے وعدہ تو کر دیا ہے مگر میں عرض کر دوں کہ ابھی بھی مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں.دنیا میں ان کو کچھ دے نہ دے لیکن جو نیک بندے ہیں، جو عبادت کرنے والے ہیں ان کی طرف دلوں کو ضرور مائل فرمانا اور ان کے لئے لوگ دور دور سے طرح طرح کے تحائف لیکر آئیں، ہر قسم کے پھل ان تک پہنچیں.لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ تاکہ وہ لوگ تیرے شکر گزار بنیں.ان نعمتوں کو دیکھیں اور بار بار تیرا شکر ادا کریں کہ اے خدا! محض تیرے پیار کا اظہار ہے کہ لوگوں کے دل ہماری طرف مائل ہوئے ورنہ ہماری کیا حیثیت تھی.رَبِّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ حضرت ابراہم کا مقام آپ کی دعاؤں پر غور کرنے سے مزید ابھرتا چلا جاتا ہے.یہ عرض کیا کہ اے خدا میری نیت پاک ہے.مجھے تو یہ دلچپسی تھی کہ عبادت کرنے والے ہوں.ظاہری رزق میں مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی.ساتھ ہی یہ خیال آیا کہ بعض دفعہ انسان اپنی مخفی نیتوں سے خود بھی واقف نہیں ہوا کرتا.خدا کے حضور تو یہ دعویٰ کرنا بہت بڑی بات ہے کہ میں اس نیست سے کر رہا ہوں اور فلاں نیت سے نہیں کر رہا تو فورا عرض کیا : ربنا انكَ تَعْلَمُ دينَا مَا نُخْفِي وما تعلن اے خدا ! تو جانتا ہے جو ہم چھپاتے ہیں اور جن باتوں کا ہم اظہار کرتے ہیں.مطلب ہے ہم اچھی نیتیں کہہ بھی دیں.اچھی باتیں تیرے حضور عرض کر رہے ہوں کہ ہم یہ یہ نیکیاں پیش نظر رکھتے ہوئے دعائیں کر رہے ہیں پھر بھی احتمال موجود ہے کہ بعض مخفی ارادے برے ہوں.بعض مخفی نیتیں گندی ہوں یا نفسانی ہوں.اس لئے میں تیرے حضور یہ عرض کرتا ہوں کہ میں اپنے متعلق کسی بھی براء ت کا اقرار نہیں کرتا.میں جانتا ہوں کہ مجھے جو نیت صفا دکھائی دے رہی ہے اس کے پیچھے پھر بھی ممکن ہے کہ کوئی ایسا مخفی بدا رادہ موجو دہو اس کے لئے تو مجھے سے رحمت کا سلوک فرمانا.یعنی اپنی عاجزی کا اظہار ہے اور احتمالی گناہوں کا اقرار ہے.

Page 254

251 وَمَا يَخْفى على اللو من في و في الأرض ولا في السماء میں کیا چیز ہوں.اے خدا! تو تو وہ ہے جس سے آسمانوں اور زمین میں کوئی چیز بھی مخفی نہیں ہے.الحمد للو الذي وهب الكبير امعِيلَ وَإِسْحَقَ ، إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدعاء (ابراہیم : ۳۹-۲۰) ہر تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جس نے اس بڑھاپے کی عمر میں مجھے اسماعیل اور اسحاق جیسی اولاد عطا فرمائی.اور یہ وہ اولاد ہے جو نیک اولاد کی طلب کے نتیجے میں عطا ہوئی اور جس نے ثابت کر دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی نیت اندر تک پاک تھی.پس بظاہر یہ نہیں فرمایا گیا لیکن جب اس مضمون کو آپ اکٹھا ملا کر پڑھیں تو خدا کی طرف سے یہ گواہی بھی ساتھ دے دی گئی ہے کہ ابراہیم تو اپنے بجز میں کہہ رہا تھا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں میری نیت صاف ہے لیکن تو بہتر جانتا ہے، ساتھ ہی اس نے ایک ایسی بات کہی جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا تھا اور اس کی نیت کی پاکی کے مطابق اس سے سلوک فرمایا کیونکہ جس نیک اولاد کے متعلق اس نے کہا کہ میں تجھے سے نیک اولاد مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ نے وہ نیک اولاد عطا فرما کرتا دیا کہ تیری نیست پاک تھی چنانچہ اس کو اسماعیل دیا.پھر اسحاق دیا.ان ربي تسويه الدُّعَاءِ چنانچہ ابراہیم خود اقرار کر جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے دماغ وہاں پہنچا ہے تو خود ہی بات بھی سمجھ آگئی ہے.عاجزی کے معا بعد اللہ تعالیٰ نے سمجھا بھی دیا ہے کہ ابراہیم تو کیوں اپنی نیتوں کے متعلق ڈر رہا ہے.اپنی اولاد کے منہ تو دیکھ.کتنے پاک چہرے ہیں.ان کے وجودوں پر نظر کر.کیا یہ تیری دعاؤں کا ثمرہ نہیں ہیں.اگر ہیں تو پھر الْحَمْدُ پڑھ اور خدا کا شکر ادا کر اور اس کی حمد کے گیت گا اور یہ کہہ إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ النقاء کہ دیکھو دیکھو میرا رب بہت ہی دعا سننے والا ہے.اور اس دعا کی مقبولیت کے نشان کے طور پر اس نے مجھے ایسی پاک اولاد عطا فرمائی.یہ ویسی ہی دعا ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اپنے شعروں میں کہا کہ.بشارت تو نے دی اور پھر أولاد کہا ہرگز نہیں ہوں گے بریاد

Page 255

252 بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہوں شمشاد بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي لپس بار بار اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی دعاؤں کے مطابق پھل لگاتا ہے اور جب وہ پھل نکلتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ ہاں وہ دعائیں بھی سچی تھیں اور یہ پھل بھی بچے نکلے.دعاء اولاد والدین اور مومنوں کی بخشش کی دعا جس اب میں آخر پر (گو مضمون کا ابھی آخر تو نہیں آیا، ابھی کافی ہے لیکن باقی آئندہ انشاء اللہ) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہی ایک دعا پڑھتا ہوں.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوة ومِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَ تَقَبلُ دُعَاء رَبَّنَا اغفر لي ولوالدي وللمؤمنينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ابراهیم : ۱-۴۲) کہ اے خدا مجھے اور میری اولاد کو نماز پر قائم رکھ.ربنا وتقبل اور ہمارے رب ضرور ہماری دعا قبول کرلے.رَبَّنَا اغْفِرْلي ولوالدي اے خدا مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے.ولِلْمُؤْمِنین اور مومنوں کو بھی بخش دے.يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ ون حساب کتاب کیا جائے گا.یہاں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ پیدائش سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا مانگی تھی کہ میں نیک اولاد چاہتا ہوں.نماز پڑھنے والی اولاد چاہتا ہوں.اسی لئے میرے گھر کے پاس جہاں نہ پانی تھا نہ خوراک کا کوئی انتظام تھا اپنے نوزائیدہ بچے کو چھوڑ دیا کہ وہ تیری عبادت کرے اگر غذا کی اور دنیاوی لذتوں کی خواہش ہوتی تو ان آباد جگہوں سے لیکر اس ویران جگہ میں کیوں آتا.یعنی اس میں نیت کی صداقت کتنی گہری اور کتنی صفائی کے ساتھ ظاہر ہو رہی ہے اور اس دعا کو خدا نے قبول بھی فرما لیا.اس کے باوجود جب تک زندگی کا سانس ہے یہ دعا جاری رہنی

Page 256

253 ہیے کیونکہ عبادت پر قائم ہونے کے باوجود عابدوں کے لئے بھی امتحانات آیا کرتے ہیں اور ٹھو کر کے مواقع پیدا ہوتے رہتے ہیں.بعض ایسے عبادت کرنے والوں کا ذکر احادیث میں بھی ملتا ہے کہ عمر بھر عبادت کی مگر کسی موقعہ پر کسی وجہ سے ٹھو کر کھا کر ہمیشہ کرلئے خدا سے دور جا پڑے.تکبر سے بچنے اور نمازوں پر قائم رہنے کی دعا پس عبادت کرنے والے کو تکبر سے باز رکھنے کے لئے اور خدا کی خوش خبریاں پانے کے باوجود انکسار کے ساتھ خدا کے حضور یہ عرض کرتے رہنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے عبادت میں حاصل کیا ہے جب تک زندگی کا سانس ہے اسے خطرہ ہے.یہ تیری طرف سے ایک دولت اور نعمت ہے تو سہی لیکن نعمتیں بھی تو ضائع ہو جایا کرتی ہیں.اس لئے ابراہیم علیہ السلام خود پہلے اپنے لئے دعا کرتے ہیں.ربِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوة اے خدا مجھے بھی نماز قائم کرنے والا بنا.اب بتائیں آج کل کوئی شخص اگر بظاہر نماز پر قائم ہو چکا ہو تو اس کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نماز پر قائم ہونے سے بھلا کیا مقابلہ؟ کوئی نسبت ہی نہیں ہے لیکن بعض نمازی آجکل کی اس دنیا میں بڑا تکبر کر جاتے ہیں.ہمیں اور کیا چاہئیے ہم نماز پڑھتے ہیں اور خوب سختی سے نماز پر قائم ہیں حالانکہ سختی سے قائم ہونا اور چیز ہے اور دل کی نرمی کے ساتھ نماز پر قائم ہونا اور چیز ہے لیکن ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا نمونہ ہمیں بتاتا ہے کہ نماز پر قائم ہونا محفوظ مقام نہیں ہے جب تک انسان آخری سانس نہ لے اور خدا اپنی طرف نہ بلائے.پس اس دعا کو اس مضمون کو سمجھنے کے بعد ادا کیا کریں اور خدا کے حضور اپنی عبادتوں کو فخر کے ساتھ پیش نہ کریں بلکہ عاجزی اور انکسار کے ساتھ ڈرتے ڈرتے پیش کریں اور دنیا کی طرف نگاہ ڈالیں کہ اس دنیا میں بھی یہی ہوتا چلا آیا ہے اور آج بھی یہی ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے بڑے امیر بڑے بڑے دولت مند اچانک ایسے مصائب کا اور حوادث کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کچھ باقی نہیں رہتا.ساری دولتیں مٹ جاتی ہیں جو کچھ کمائی تھی وہ سب ختم ہو گئی تو اگر دنیا کی دوستیں محفوظ نہیں ہیں تو روحانی دولت بھی ان معنوں میں محفوظ نہیں ہے.اگر کوئی بلا پڑے گی تو بلا ان نعمتوں کو تباہ بھی کر سکتی

Page 257

254 ہے.اس لئے دعا ہی کے ذریعے ان نعمتوں کی حفاظت کی مدد مانگنی چاہئیے.رہنا اغفر لي ولوالد يا اے خدا مجھے بھی بخش دے، میرے والدین کو بھی.یہاں توازن پیدا کیا گیا ہے اور اولاد کے لئے جو دعا مانگی گئی تو اس کے مقابل پر فرمایا والدین کو بھی یاور کھا کرو.والدین کے لئے بھی دعا کیا کرو.ولوالدي میں نماز کے قیام کی دعا نہیں کیونکہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور اکثر صورتوں میں ہو چکے ہوتے ہیں یا بعض صورتوں میں فوت ہو چکے ہوتے ہیں.اس لئے والدین کے لئے قیام نماز کی دعا نہیں ملے گی بلکہ بخشش کی دعا ملے گی.ویلمومنین اور مومنوں کے لئے بھی.يوم يقوم الحساب جس دن کہ حساب کتاب کیا جائے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کے متعلق آئندہ کبھی گفتگو کی ضرورت پیش آئے گی کہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے والد کے لئے جو دعا کی تھی جس کے متعلق خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ اس کو خصوصی اجازت دی گئی تھی تو اس کے بعد پھر اس دعا کا کیا مطلب ہے کہ ویوالدي میرے والدین کے لئے بھی.کیا یہ وہی دعا ہے اس کے بعد خدا نے منع فرمایا یا یہ دعا کوئی اور مفہوم رکھتی ہے اور اسی طرح حضرت نوح کی دعا بھی ہمیں انہیں لفظوں میں ملتی ہے کہ دَلِوَالِدَي مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے اور ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس نبی یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم اور ان کے ماننے والوں کے لئے یہ جائز قرار نہیں دیا کہ ان يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُربى که خواه وه اقرباء ہی کیوں نہ ہوں یعنی صرف والدین کا ذکر نہیں ، دوسرے اقرباء بھی شامل ہیں کہ اگر وہ مشرک ہوں تو ان کے لئے استغفار نہیں کرنا.تو یہ ایک مضمون ہے جو بعض دفعہ پوچھتے بھی ہیں کہ اب نماز میں ہم یہ دعا پڑھتے ہیں.ہندوؤں سے اگر کوئی مسلمان ہوا ہو اور اس کے والدین مشرک ہوں تو کیا وہ نماز میں وہ دعا نہیں پڑھے گا اور پھر سوال یہ ہے کہ کیا صحابہ یہ دعا نہیں پڑھا کرتے تھے جن میں سے اکثر کے والدین مشرکین تھے تو یہ ایک مزید تحقیق طلب مضمون ہے.اس کے کچھ حصوں پر تو میں نے نظر ڈالی ہے اور کچھ مفہوم سمجھ آیا ہے لیکن ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے.آئندہ دوست

Page 258

255 کسی وقت انشاء اللہ تعالی آپ کے سامنے یہ مضمون پیش کروں گا.

Page 259

Page 260

NMIN-SPEET ہالینڈ ر متی ۱۹۹۱ء 257 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ دعاؤں کے ذریعہ منزل مراد کا حصول تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت اور مواصلاتی رابطے کا ذکر کرنے کے بعد حضور انور نے فرمایا :- اب میں اصل مضمون کی طرف لوٹتا ہوں جو ایک سلسلے کی صورت میں جاری ہوا ہے اور جس کا تعلق سوۃ فاتحہ کی اس دعا سے ہے کہ اهْدِنَا الفِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے ہمارے اللہ ! ہمیں صراط مستقیم پر چلا اس صراط مستقیم پر جس پر وہ لوگ چلتے رہے جن پر تو نے انعام نازل فرمائے.میں نے بتایا تھا کہ جن پر انعام نازل فرمائے گئے وہ دعاؤں کی بدولت اپنی مراد کو پہنچے ہیں محض انسانی کوششوں سے کامیاب نہیں ہوئے اور ہمارے لئے بھی سورۃ اتحہ کی اس دعا نے قرآنی دعاؤں کا ایک سلسلہ کھول دیا ہے اور اس سلسلے کا قرآن کریم میں مکمل طور پر ذکر محفوظ ہے.صرف انبیا ء ہی کی دعائیں درج نہیں بلکہ دیگر صالحین اور خدا تعالیٰ کے پسندیدہ بندوں ، مردوں اور عورتوں کی دعائیں بھی قرآن کریم میں ہمارے لئے محفوظ فرما دی گئی ہیں.والدین کے لئے اولاد کی دعا آج کے لئے پہلی دعا اولاد کی دعا ہے جو اسے اپنے والدین کے لئے کرنی چاہیے.اور یہ وہ دعا ہے جو الہامی دعا ہے ان معنوں میں کہ اللہ تعالٰی نے خود حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپکی امت کو سکھائی.دعا تو یہ ہے.وقُل رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيني صَغِيرًا (بنی اسرائیل : (۲۵) اے میرے

Page 261

258 رب ان دونوں پر میرے والد اور میری والدہ پر اس طرح رحم فرما جس طرح بچپن سے یہ میری تربیت کرتے چلے آئے ہیں.لیکن اس دعا کی گہرائی کو سمجھنے کے لئے اس کا وہ پس منظر جاننا ضروری ہے جو یہی آیت کریمہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ رہی ہے.پس پوری آیت کو پڑھنے کے بعد اس دعا کی اہمیت بھی سمجھ آتی ہے اور کن کن باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دعا کرنی چاہئیے، یہ مضمون بھی ہم پر روشن ہو جاتا ہے.آیت یہ ہے وقضى ربك ألا تعبد واللا إياه وبالوالدين إحسانا کہ اللہ تعالی نے یہ مقدر فرما دیا ہے فیصلہ کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی بجائے رنگ لفظ ہے یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم تیرے رب نے یہ فیصلہ صادر فرما دیا ہے.الا تعبد و الا اياه کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.وہابو الدین احسان اور والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرو.والدین کے ساتھ نیکی کے برتاؤ کی اتنی بڑی اہمیت ہے کہ توحید کی تعلیم کے بعد دوسرے درجے پر خدا نے جس بات کا فیصلہ فرمایا وہ یہ تھا کہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو.احسان کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے اس کے متعلق میں پھر دوبارہ آپ سے بات کروں گا.إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الكبر احدهما أو كلهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَاايْ وَلا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْل كريما كم إمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ العبد اگر ان میں سے کوئی تیرے ہوتے ہوئے تیری زندگی میں بڑھاپے تک پہنچ جائے، ان میں سے خواہ ایک پہنچے یا دونوں پہنچیں فَلا تَقُل لهما اف ان کو اف تک نہیں کہنی.اف نہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے بڑھاپے میں ایسی حرکتیں ہو سکتی ہیں جو ان کے بچپن کے سلوک سے مختلف ہوں.بچپن میں تو وہ بڑی رحمت کے ساتھ تمہاری تربیت کرتے رہے لیکن بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر انسان کو اپنے جذبات پر اختیار نہیں رہتا ، زیادہ زود رنج ہو جاتا ہے اور بہت سی صحت کی کمزوریاں اس کے مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کر دیتی ہیں.پھر کئی قسم کے احساسات محرومی ہیں.اولاد بڑی ہو گئی.اپنے گھروں میں آباد ہو گئی اور جس طرح والدین توقع رکھتے ہیں کہ یہ اپنی

Page 262

259 بیوی اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی ویسا ہی معاملہ کرے گا اس میں کوئی کوتاہی رہ جاتی ہے یا والدین کو وہم گزرتا ہے کہ ہم سے ویسا پیار نہیں جیسا اپنی بیوی اور اولاد سے ہے تو ان تمام باتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن کریم نے بڑی حکمت کے ساتھ فرمایا لا تقل لهتارت ایسی باتیں ہونگی جن کے نتیجے میں ہو سکتا ہے تمہیں جائز یا ناجائز شکایت پیدا ہو اور والدین تم سے بظاہر سختی کا سلوک کرنا شروع کر دیں تو تم جو بچپن کی نرمی کے عادی ہو اس سلوک سے گھبرا کر اُف نہ کہ بیٹھنا.اف کا لفظ کوئی گالی نہیں ہے.کوئی سخت کلامی نہیں ہے.ایک اظہار افسوس ہے.فرمایا کہ اظہار افسوس تک نہیں کرتا.ولا تنهرهما اور جھڑکنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اپنے والدین کے ساتھ ہرگز سخت کلامی نہیں کرنی.وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا اور ان کے ساتھ عزت کا کلام کرو.ہمیشہ احترام کے ساتھ ان سے مخاطب ہوا کرو.والحوض لهما جناح الذلي اور اپنی نرمی کے پر ان کے اوپر پھیلا اور مین الرحمة رحمت کے اور نرمی کے یا رحمت کے نتیجے میں جو نرمی پیدا ہوتی ہے اس کے پران کہ پر پھیلا دو اور پھر یہ دعا کرو.وقلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَتَيْنِي صَغِيرًا اے میرے رب! ان پر اسی طرح رحم فرما لمارتيني صَغِيرًا جس طرح انہوں نے بچپن میں بڑے رحم کے ساتھ میری تربیت فرمائی ہے.یہ بہت ہی پیاری اور کامل دعا ہے اور بہت سی ذمہ داریوں کی طرف جو اولاد کے زمہ اپنے والدین کے لئے ہیں ، ہمیں توجہ دلاتی ہیں لیکن اس دعا میں اور بھی بہت حکمتیں پنہاں ہیں.اب میں نسبتاً تفصیل سے اس آیت کے بعض مضامین کھول ی کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.والدین کے ساتھ احسان کا سلوک ضروری ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ احسان کا حکم دیا گیا ہے، ادائیگی فرض کا نہیں اور احسان بظا ہر ضروری نہیں ہوا کرتا.احسان تو ایسا معاملہ نہیں ہے کہ ہر انسان پر فرض ہو.کیا یا نہ کیا کوئی فرق نہیں پڑتا.یعنی اگر فرق پڑتا بھی ہے تو احسان ایک

Page 263

260 ایسی بات نہیں جو اگر انسان نہ کرے تو خدا کے نزدیک معتوب ہو جائے تو پھر خدا تعالٰی نے ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم کیوں نہ میر اور احسان کا حکم کیوں دیا ؟ اس میں اور بھی حکمتیں پوشیدہ ہوں گی لیکن دو ایسی حکمتیں ہیں جن کو میں آپ کے سامنے کھولنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ فرض کی ادائیگی پہلے ہوا کرتی ہے اور احسان بعد میں آتا ہے.اگر فرض ادا نہ ہو تو احسان کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس لئے قرآن کریم جو بڑی فصیح و بلیغ کتاب ہے، خدا کا کلام ہے اس نے ایک لفظ میں اس سے پہلے ہونے والی ذمہ داریوں کا بھی ذکر فرما دیا اور مومن سے گویا یہ توقع رکھی کہ جہاں تک اس کی روز مرہ کی ذمہ داریوں کا تعلق ہے، فرائض کا تعلق ہے وہ تو لا زیادہ پورے کر رہا ہے.ان کو نہ پورے کرنے کا تو سوال ہی نہیں لیکن جہاں تک والدین کا تعلق ہے محض ذمہ داریاں پورا کرنا کافی نہیں ہے.ان کے ساتھ احسان کا سلوک ہونا ضروری ہے.ایک یہ حکمت ہے.دوسری حکمت یہ ہے کہ یہاں لفظ احسان کو سمجھنے کے لئے ہمیں قرآن کریم کی ایک اور آیت کا سہارا لیتا ہوگا جو اس مضمون کے لئے کنجی کی حیثیت رکھتی ہے.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هَل جزاء الاحسان إلا الاحسان کہ احسان کی جزاء احسان کے سوا کیا ہو سکتی ہے.پس یہ احسان ان کے اوپر ان معنوں میں احسان نہیں ہے جن معنوں میں ہم ایک دوسرے پر احسان کرتے ہیں.یہ احسان والدین کے اوپر اولاد کی طرف سے کوئی یک طرفہ نعمت نہیں ہے جو ان کو ادا کی جا رہی ہے بلکہ خدا تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ والدین نے تم سے احسان کا معاملہ کیا تھا.اس لئے صرف فرض کی ادائیگی کافی نہیں ہوگی جب تک تم ان سے احسان کا معاملہ نہیں کرو گے تم اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے والے نہیں بنو گے.چنانچہ فرمایا.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ الا الاحسان کہ احسان کی جزاء تو احسان کے سوا ہے ہی کوئی نہیں.کوئی شخص تم پر احسان کرتا چلا جا رہا ہو اور تم اپنے روزمرہ کی ذمہ داریاں ادا کر رہے ہو تو یہ کافی نہیں ہے.چنانچہ اس مضمون کو آیت کے آخری حصے نے کھول دیا جہاں یہ دعا

Page 264

261 سکھائی گئی.رت از حَمْهُمَا كَمَا رَبَّنِي صَغِيرًا اے اللہ ان سے اس طرح رحم کا سلوک فرما جس طرح یہ بچپن میں مجھ سے رحم کا سلوک فرماتے تھے.صرف اپنے حقوق ادا نہیں کرتے تھے.محض مجھے زندہ رکھنے کے لئے اور روز مرہ کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے محنت نہیں اٹھاتے تھے بلکہ اس سے بہت بڑھ کر مجھ سے شفقت اور رحمت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.میری معمولی سی تکلیف پر یہ بے چین ہو جایا کرتے تھے.میری ادنی سی بیماری پر ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہو جایا کرتی تھیں اور انہوں نے جو مجھ سے سلوک فرمایا وہ رحمت کا سلوک ہے.پس مجھے جو احسان کا حکم ہے کہ میں بھی احسان کا سلوک کروں تو اے خدا ! میں اس احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا اس لئے میں دعا کے ذریعے تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور جب تک تو اس بارہ میں میری مدد نہ فرمائے، حقیقت میں میرے والدین کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں جو بھی کوشش کروں اس کے باوجود ان احسانات کو چکا نہیں سکتا پس تو میری مدد فرما اور رَبِّ ارْحَمْهُمَا اے خدا تو ان کے اوپر رحم فرما اور میرے سلوک میں جو کمیاں رہ جائیں گی وہ تو اپنے رحم سے پوری فرما دے مارتيني صَغِيرًا جس طرح بچپن میں یہ میری تربیت کرتے رہے تو ان کے ساتھ وہ سلوک فرمان بچہ کی تربیت میں سختی کی بجائے رحم کی ضرورت اس دعا نے ایک اور حیرت انگیز مضمون کو ہمارے سامنے کھول دیا کہ والدین بھی جہاں تک خدا کا تعلق ہے اس کی تربیت کے محتاج ہیں اور تمااف کہنے کے ساتھ ان کی بشری کمزوریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے تو وہاں بھی خدا تعالیٰ کی ربوبیت کی بہت ضرورت ہے.انسان تو مرتے دم تک خدا کی ربوبیت کا محتاج رہتا ہے اس لئے یہ دعا بہت ہی کامل دعا ہے اور اس کے معنی یہ نہیں گے کہ اے خدا ! اگر چہ بظاہر ان کے اعضاء مضمحل ہو چکے ہیں.یہ کمزوری کی طرف لوٹ رہے ہیں.طاقت کے بعد ضعف ہو چکا ہے.لیکن ضعف کے وقت زیادہ رحم کے ساتھ تربیت کی ضرورت پیش آتی ہے.جب میں بچہ تھا تو میرے والدین نے مجھے سے میرے ضعف کی

Page 265

262 وجہ سے رحم کا سلوک کیا اور صغیراً" کے لفظ نے بتا دیا کہ بڑے ہو کر رحم کا معاملہ اتنا نہیں رہا کرتا جتنا بچپن میں ہوتا ہے.بچپن کی کمزوری ہے جو رحم کا تقاضا کرتی ہے.بچے کو آپ ایک بات سکھاتے ہیں.چلانا سکھائیں تو با ربا روہ کرتا ہے.بولنا سکھائیں تو بار بار غلطیاں کرتا ہے.مثلا تا ہے.سبق پڑھائیں تو اس کو پڑھا ہوا سبق یا ربا ر بھولتا چلا جاتا ہے.لفظ آپ رٹا بھی دیں تو پھر اگلی دفعہ جب سنتے ہیں تو اس لفظ میں پھر وہی غلطیاں کرنے لگ جاتا ہے.بعض دفعہ بچے کو پڑھانا اعصاب شمکن ہوتا ہے اور حقیقت میں جب تک رحم کا معاملہ نہ کیا جائے اس وقت تک بچے کی صحیح تعلیم نہیں ہو سکتی.چنانچہ بعض والدین جو جہالت سے حوصلہ چھوڑ بیٹھتے ہیں وہ بچے سے بجائے رحم کے تختی کا معاملہ شروع کر دیتے ہیں اور سختی کے ساتھ بچے کی تربیت ہو نہیں سکتی.اس میں بغاوت پیدا ہو جاتی ہے.اس میں سخت رد عمل پیدا ہوتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اس کی تربیت ہو اس کے اندر بچپن سے نقائص بیٹھ جاتے ہیں.پس اس آیت کریمہ نے اس حکمت کو بھی ہمارے سامنے روشن کر دیا کہ وہ والدین جو اچھی تربیت کرنے والے ہوں وہ بچپن میں رحم کے ساتھ تربیت کیا کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کو یہ دعا سکھائی گئی ہے وہ کیونکہ دراصل حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کے ساتھی ہیں، آپ کے غلام ہیں اس لئے ان کے والدین سے بہترین توقعات بھی پیش فرمائی گئیں اور یہ بیان کیا گیا کہ جس طرح ہمارے والدین بچپن میں ہماری کمزوریوں کے پیش نظر ہم سے سختی کرنے کی بجائے رحمت کا معاملہ کیا کرتے تھے اور تربیت میں بار بار بخشش کا سلوک فرماتے تھے اسی طرح اے خدا! اب میرے والدین کمزور ہو چکے ہیں تو ان کی غفلتوں اور کمزوریوں سے در گذر فرما اور ان کے ساتھ بخشش اور رحمت کا سلوک فرما.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی یا درکھنے کے لائق ہے کہ کما کے لفظ نے ہمیں ہماری بہت سی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا دی جو صرف والدین کی طرف سے نہیں بلکہ اپنی اولاد اور آئندہ نسلوں کی طرف سے ہمیں پیش آتی ہیں اور ہمیں انہیں

Page 266

263 کس طرح ادا کرنا چاہیے، اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.فرمایا : ربِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا یورپی معاشرے کے عذابوں کی وجہ گیا کے لفظ نے یہ بتایا کہ اگر والدین بچوں کی تربیت رحمت کے ساتھ نہیں کرتے تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائے گی کیونکہ گما کا مطلب ہے جیسے انہوں نے بچپن میں رحمت کے ساتھ میری تربیت کی یہ وہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو بھلا کر یورپ اپنے معاشرے میں کئی قسم کے عذاب پیدا کر چکا ہے.اولاد کے ساتھ حسن سلوک اور رحم کے ساتھ تربیت کرنا اس لئے بھی نہایت ضروری ہے تاکہ بعد میں بڑے ہو کر اس اولاد کا اپنے والدین سے اسی طرح رحمت اور نرمی اور مغفرت کا تعلق ہو.اگر بچپن ہی سے والدین اپنی زندگی کی لذتوں میں منہمک پڑے ہوں اور اولا و کو سکولوں کے سپرد کر دیں یا معاشرے کے سپرد کر دیں اور ان کی تربیت میں جو ذاتی تعلق پیدا کرنا چاہئیے وہ تعلق پیدا نہ کریں تو یہ دعا ان کے حق میں نہیں سنی جائے گی) یا درکھیں یہاں بچوں کے ساتھ پیار کا ذکر نہیں ہے.بچوں کے ساتھ پیار تو ہر معاشرے میں والدین کو ہوتا ہی ہے.فرمایا ایسا پیار ہو جو تربیت میں استعمال ہوا ہو اور ایسا پیار نہ ہو جو تربیت خراب کرنے والا پیار ہو.پس پیا ر کے متوازن ہونے کا بھی اس آیت میں ذکر فرما دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ وہ پیا رہی کام کا پیار ہے جس کے نتیجے میں اولاد اعلیٰ تربیت پائے.پس وہ والدین جو اس بات سے غافل رہتے ہیں ان کی سوسائٹیوں میں کئی قسم کی خرابیاں جگہ پکڑ جاتی ہیں اور ان کی اولادیں جب بڑی ہوتی ہیں تو وہ اپنے والدین کے لئے نہ خدا تعالٰی سے احسان کی دعائیں مانگتی ہیں نہ خود احسان کا سلوک کرتی ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بوڑھے آدمیوں کے گھر ایسے والدین سے بھر جاتے ہیں جن کی اولادیں ان سے غافل ہو چکی ہوتی ہیں.ان کے ساتھ حسن سلوک تو درکنا ہو ان کی معمولی سی غفلت پر ان کو ڈانٹتے ہیں، ان سے قطع تعلقی کرتے ہیں، ان کے ساتھ بد سلوکی سے پیش آتے ہیں اور جن جن معاشروں میں یہ مرض بڑھتا چلا جاتا ہے وہاں حکومت کے اخراجات

Page 267

264 بوڑھے لوگوں کے گھروں پر زیادہ سے زیادہ بڑھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ بعض امیر ممالک بھی عاجز آجاتے ہیں اور ان کے پاس اتنا روپیہ مہیا نہیں ہوتا کہ وہ اپنی سوسائٹی کے سب بوڑھوں کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں جو ضرورتیں دراصل ان کی اولاد کو پوری کرنی چاہیئے تھیں لیکن جیسا کہ غالبا " مولانا روم کا شعر ہے از مکافات عمل غاض مشو گندم از گندم بروید جو ز جو " کہ اعمال کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں ان سے غافل نہ رہنا.گندم از گندم بروید جوز جو گندم کا بیج ڈالو گے تو گندم ہی اگے گی اور جو بوؤ گے تو جو ہی اگیں گے.جنریشن گیپ سے پاک سوسائٹی کا تصور اس لئے پہلی نسلوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کا تعلق دراصل اس تعلق کا آئینہ دار ہے جو پہلی نسلوں نے اپنی چھوٹی نسلوں سے رکھا تھا.اگر اس میں شفقت تھی اور اس میں صرف شفقت ہی نہیں تھی بلکہ تربیت کے لئے استعمال ہونے والی.شفقت تھی، اگر رحمت کا سلوک تھا اور اس رحمت کے نتیجے میں اولاد کے ساتھ بہت ہی حکمت کے ساتھ برتاؤ کیا گیا تاکہ ان کے اخلاق بگڑیں نہیں بلکہ سنورتے چلے جائیں اور اس رنگ میں ان کی تربیت کی گئی اور رحم کے نتیجے میں تربیت کی طرف زیا دہ توجہ دی گئی تو ایسے لوگوں کی اولادیں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس احسان کو یا د رکھتے ہوئے فطری طور پر اپنے والدین کے لئے آخر وقت تک نرم رہتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کے تعلق کٹ نہیں سکتے ، ایسی سوسائٹی میں کوئی Generation Gap پیدا نہیں ہو سکتا کیونکہ Generation Gap ایک بہت ہی خطرناک اصطلاح ہے اور آج کی ترقی یافتہ دنیا کی ایجاد ہے ورنہ قدیم سوسائٹیوں میں آج تک Generation Gap کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا یہ اعلیٰ تعلیم اور ترقی کی نشانی نہیں ہے بلکہ قرآن کریم نے جو حکمت بیان فرمائی ہے اس کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے کہ ایک Generation اپنی چھوٹی Generation کے ساتھ محبت کا تعلق چھوڑ دیتی ہے اور تربیت سے غافل ہو جاتی ہے تو وہ نسل جب بڑی ہوتی ہے اپنی

Page 268

265 پہلی نسل سے بہت دور ہٹ چکی ہوتی ہے.ان کے درمیان فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ فاصلے نسلاً بعد نسل بڑھتے چلے جاتے ہیں بجائے اس کہ وہ کم ہونے لگے اس لئے یہ دعا جو سکھائی گئی اس کا پس منظر بھی خوب کھول کر بیان فرما دیا گیا اور اس کا جو بیچ کا حصہ ہے وہ ہے وَاغْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلي من الرحمة کہ اے بچو ؟ تم اپنے والدین کے لئے اس طرح نرمی کے پر پھیلا دو جیسے پرندے اپنے چوزوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اپنے پروں میں ڈھانپ لیتے ہیں.یہاں پر کا استعمال اس لئے کیا گیا تاکہ پرندوں کا اپنے بچوں کے ساتھ سلوک ایک تصویر کی صورت میں ہماری نظروں کے سامنے ابھر آئے اور فرمایا کہ اس طرح اپنے والدین کے ساتھ پیار اور محبت کا سلوک کرو جس طرح پرندے اپنے بچوں کو پالتے ہیں، ان کی نگہداشت کرتے ہیں جو کلیتہ " ان کے محتاج ہوتے ہیں.یہاں دراصل انسانوں سے ہٹ کر پرندوں کی مثال دی گئی ہے.جناح کا لفظ محاورہ ہے ضروری نہیں کہ پر کے لئے استعمال ہو.ایک صفت کے بیان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے.لیکن کیوں استعمال ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پرندوں کی طرف ذہن منتقل ہو جاتا ہے کیونکہ پرندوں کے پر ہوتے ہیں.اور پرندے اپنے بچوں کی بعض دفعہ اس طرح لمبے عرصے تک تربیت کرتے ہیں کہ نہ وہ بچے دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں نہ کھا سکتے ہیں.ان کی چونچوں کو ٹھونگے مارمار کے وہ خوراک کے لئے کھلواتے ہیں، اور جب تک وہ اس لائق نہیں ہو جاتے کہ خود آزا و زندگی بسر کر سکیں.اس وقت تک پرندوں کے والدین مسلسل محنت کرتے چلے جاتے ہیں.پھر اس میں ایک اور بھی حکمت ہے کہ دونوں پرندے اپنے بچوں کے لئے محنت کرتے ہیں اور صرف ماں پر نہیں چھوڑا جاتا.اور قرآن کریم نے جو ہمیں دعا سکھائی اس میں بھی اس مضمون کو کھول دیا گیا ہے آجکل کے جدید معاشروں میں ایک یہ بھی خرابی ہے اور ہمارے قدیم معاشروں میں بھی یہ خرابی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تیسری دنیا کے ممالک میں یہ خرابی ترقی یافتہ ممالک سے بہت زیادہ پائی جاتی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ماں کا کام ہے تربیت کرے اور والد اس میں دخل نہیں دیتے.

Page 269

266 والد ساتھ مل کر محنت نہیں کرتے اور ماں پر چھوڑ دیتے ہیں کہ جس طرح کا ہے ان کو پالے ان کا خیال رکھے نہ رکھے.والد تو صرف کمانے میں مصروف رہتے ہیں.اور تے ہیں ہم نے تو اپنا فرض ادا کر دیا.قرآن کریم نے جو دعا سکھائی اس میں یہ بتایا رت از حمهُمَا كَمَا رَ تيزي صَغِيرًا { کہ اے میرے اللہ ان دونوں پر اس طرح رحم فرما جس طرح ان دونوں نے رحم کے ساتھ میری تربیت کی.یعنی ماں اور باپ دونوں اولاد کے لئے محنت کرنے میں برابر کے شریک ہونے چاہئیں اور دونوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں مگر ذمہ داریاں سمجھتے ہوئے نہیں بلکہ رحم کے نتیجے میں اور شفقت کے نتیجے میں.پس اس دعا کو اب دوباره واخْفِضُ لَهُمَا جَنَاءَ الذل کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو سمجھ آجائے گی کہ وہاں پرندوں کی ہی مثال دی گئی ہے کیونکہ جانوروں کی دنیا میں سب سے زیادہ مل کر اولاد کی خدمت کرنے میں پرندے ہیں، ان کے مقابل پر کسی اور جانور کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی.جس طرح پرندے دونوں مسلسل محنت کرتے ہیں اپنی اولاد کے لئے اس طرح دوسرے جانوروں میں اتنی مکمل مشترکہ محنت کی مثال نہیں ملتی.گھونسلہ بنانے میں بھی وہ اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں.خوبراک مہیا کرنے میں بھی اسی طرح محنت کر رہے ہوتے ہیں بلکہ بسا اوقات آدھا وقت Male یعنی نر پرندہ بیٹھتا ہے اور آدھا وقت انڈوں پر مادہ پرندہ بیٹھتی ہے اور پھر جہاں تک خوراک مہیا کرنے کا تعلق ہے اس میں بھی دونوں محنت کرتے ہیں مگر نر پرندے کو بعض دفعہ زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے خوراک مہیا کرنے میں تو فرمایا یہ بھی ہمیں اس دعا سے حکمت سمجھ آگئی کہ صحیح تربیت کرنے میں ماں کے علاوہ باپ کو برابر کا شریک رہنا چاہئیے.اور جہاں ماں اور باپ مل کر اولاد سے حسن سلوک کر رہے ہوں وہاں طلاقیں شاذ کے طور پر واقع ہوں گی.وہ گھر نہیں ٹوٹا کرتے.اکثر وہی گھر ٹوٹتے ہیں جہاں اولاد کی تربیت میں دونوں میں سے کسی ایک کا زیادہ دخل ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات اس حد تک خراب ہوتے ہیں کہ دونوں بیک وقت اپنی اولاد کی ذمہ داریاں ادا نہیں کرتے.اسی وجہ سے ایسی اولادیں پھر بڑی ہو کر زیادہ خراب ہو جایا کرتی ہیں.بعض دفعہ وہ ماں کی سائیڈ لیتی ہیں کیونکہ ماں

Page 270

267 نے تربیت اور پیار میں زیادہ حصہ لیا.بعض دفعہ باپ کے ساتھ تعلق قائم رکھتی ہیں اور ماں کے خلاف ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ ماں نے تو ہماری ذمہ داریاں ادا نہیں کیں باپ قربانی کرتا رہا ہے تو اس طرح گھروں کے ٹوٹنے کے احتمالات بھی بڑھ جاتے ہیں.تربیت کے لئے رحمت ضروری ہے یہ صورت حال پھر بعض دفعہ ایسے خطرناک نتائج پر فتح ہو جاتی ہے جس کے آثار اس وقت ترقی یافتہ ممالک میں ہر جگہ دکھائی دے رہے ہیں.کہ اولاد کو اپنے والدین سے خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.یورپ کے بعض علاقوں میں پولیس کی تحقیق کے مطابق میں فیصد گھر ایسے ہیں جہاں بچے اپنے ماں باپ سے محفوظ نہیں ہیں.یہاں تک کہ جنسی بے راہ روی کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.پس جہاں یہ صورت حال ہو وہاں یہ دعا کیسے کام کر سکتی ہے کہ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَار تيرني صَغِيرًا ایک ایسے صالح معاشرے کی دعا ہے جہاں والدین نے اپنی اولاد سے محض عام سلوک نہیں کیا.ذمہ داریاں ہی ادا نہیں کیں بلکہ بے حد رحمت کا سلوک کیا اور ان کی تربیت شفقت سے کی کسی غصے کے ساتھ نہیں کی.اور تربیت کے لئے رحمت ضروری ہے.یا درکھیں جہاں جلد بازی میں انسان غصے میں مبتلا ہو جاتا ہے.اولا و کو مارنے لگ جاتا ہے اس کو گالیاں دینے لگ جاتا ہے وہاں تربیت کا مضمون غائب ہو چکا ہوتا ہے.وہاں نفسانی جوش کا معاملہ شروع ہو جاتا ہے.اور نفسانی جوش سے تربیت نہیں ہوا کرتی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے ایک صحابی پر بہت ہی خفگی کا اظہار فرمایا جن کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ وہ اپنی اولاد سے سختی کرتے ہیں اور بار کے ان کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں.اتنی سختی کا اظہار فرمایا کہ بہت کم میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے صحابہ پر اس طرح ناراض ہوتے دیکھا ہے اور باربار اس طرف توجہ دلائی کہ تم دعا کیوں نہیں کرتے.اس سے پتہ چلا کہ خدا کے پاک بندے جو سچا ایمان رکھتے ہیں وہ تمام کوششوں میں سب سے زیادہ اہمیت دعا کو دیتے ہیں.

Page 271

268 تربیت میں سب سے اہم دعا ہے پس رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَ تَني صَغِيرًا میں ایک یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آگیا کہ وہ رستہ جس پر خدا کے انعام یافتہ لوگ چلا کرتے تھے وہ اپنی اولاد کے لئے صرف رحمت کا سلوک نہیں کیا کرتے تھے.ان کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے.اور ان کی دعائیں ان کے رحم کے نتیجہ میں ہوتی تھیں.کیونکہ رحم کے نتیجے میں وہ خود بعض سختیاں اختیار نہیں کر سکتے تھے.بعض جگہ وہ تجاوز نہیں کر سکتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالی کا حکم نہیں ہے کہ میں یہاں زبردستی اس کو ٹھیک کردوں.اس کے نتیجہ میں انکے دل میں درد پیدا ہوتا تھا اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہوتی تھی.پس وہ لوگ جو منعم علیم ہیں جن کو خدا نے اس دستہ پر کامیابی سے چلنے کی توفیق بخشی جو انعام یافتہ لوگوں کا رستہ تھا.انہوں نے اپنی اولادوں کے لئے دعائیں بھی بہت کیں.پس اس کے نتیجہ میں خدا نے بھی جوابا "حسن سلوک سکھایا تو اس مضمون کو دعا پر ختم کیا.فرمایا وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے اس میں دعائیں بھی شامل تھیں.کما کے لفظ نے بتا دیا کہ دعائیں ضرور شامل تھیں اگر دعائیں شامل نہ ہوتیں تو خدا دعا سکھاتا کیوں؟ پس اس مضمون کو دعا پر ختم کرنا اس آیت کو بہت ہی زیادہ دلکشی عطا کرتا ہے.بہت ہی حسین بنا دیتا ہے.کیسا کامل کلام ہے تربیت کے سارے امور بھی اس میں بیان ہو گئے دونوں نسلوں کے تعلقات اس میں بیان ہو گئے وہ خطرات بیان ہو گئے جو ہمیں در پیش آسکتے ہیں جن سے ہمیں متنبہ کیا گیا اور پھر یہ بتایا گیا کہ تربیت کا بہترین طریق دعا ہی ہے پس جس طرح تمہارے والدین بچپن میں دعاؤں کے ذریعہ تم سے اپنی رحمت کا اظہار کرتے تھے تم بھی آخر پر خدا سے یہ دعا کیا کرنا اور اس دعا کو حسن سلوک کے بعد رکھا ہے.دیکھیں ! والخوض لهما جناح الذلي من الرحمة ان پر اپنی رحمت کے پر پھیلا دو ان کو اپنے پروں کے نیچے لے لو.ساری بات بظا ہر مکمل ہو گئی.پھر فرمایا نہیں مکمل ہوئی جب تک نیز دعا ساتھ نہیں کرو گے.اس وقت تک تم حقیقت میں احسان کا بدلہ احسان کے ذریعہ نہیں دے سکو گے.پس اس دعا نے اس مضمون کو مکمل کیا اس دعا کے وقت

Page 272

269 ان سب باتوں کو اگر ہم پیش نظر رکھیں تو اس دعا میں بہت گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور بہت عظمت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ دعا اگلوں کے لئے بھی مفید ہے اور گزرے ہوؤں کے لئے بھی مفید ہے اور ہر طرف برا براثر دکھاتی ہے.توحید باری تعالٰی کے ساتھ اس مضمون کا بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ سوسائٹی میں وعدت توحید کے اعلیٰ قیام کے لئے ضروری ہے.اور سوسائٹی میں وحدت تبھی ممکن ہے اگر والدین کا اولاد کے ساتھ اور اولاد کا والدین کے ساتھ گہرا اٹوٹ تعلق قائم ہو چکا ہو.اس کے نتیجہ میں خاندان استوار ہوتے ہیں اسی کے نتیجہ میں سوسائٹی میں یک جہتی پیدا ہوتی ہے.جہاں خاندانی رشتے ٹوٹ جائیں جہاں والدین اپنی اولاد سے الگ ہونے شروع ہو جائیں وہاں سوسائٹی پارہ پارہ ہو کر بکھر جاتی ہے اور ایک بکھری ہوئی منتشر سوسائٹی توحید پر قائم نہیں ہوا کرتی پس وحدت کے ساتھ اس مضمون کا ایک اور بھی گہرا تعلق ہے یعنی ایک تعلق تو یہ ہے کہ خدا کو اپنی توحید کے بعد سب سے زیادہ یہ چیز پیاری ہے کہ مومن احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینے والا ہو اور دوسرا تعلق یہ ہے جو میں نے بیان کیا ہے.تو حید پر قائم رہنے کے لئے اصحاب کہف کی دعا.اب ایک اور دعا میں آپ کو بتا تا ہوں قرآن کریم میں سورۃ الکہف آیت ! میں یہ دعا بیان ہوئی ہے.رنتانيا من لدُنْكَ رَحْمَةً وَهَوَنُ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رشدا کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی جناب سے اپنے حضور سے رحمت عطا فرما ومين لنا من امرنا رشدا اور ہمارے لئے اپنی جناب سے ہدایت اور رشد کے سامان پیدا فرما.ہمیں ہدایت اور رشد عطا فرما.اس دعا کا بھی ایک پس منظر ہے.یہ دعا ان اصحاف کہف کی دعا ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان پر جب دنیا تنگ ہو گئی جب سطح زمین پر بسنا ان کے لئے ممکن نہ رہا تو بجائے اس کے کہ وہ توحید سے تعلق توڑتے انہوں نے یہ زیادہ پسند کیا کہ سطح زمین پر بسنے کی بجائے غاروں میں اتر جائیں اور بنی نوع انسان سے چھپ کر اپنی زندگی بسر کریں تاکہ توحید پر قائم رہ سکیں.

Page 273

270 پس اس دعا کا بھی توحید کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إذ اوى الشيةُ إلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَتَنَّا ابْنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَنُ لَنَا من امرنا رشدا اور یاد کرو اس وقت کو کہ جب نوجوانوں کی ایک جماعت (فشيه سے مراد نوجوانوں کی جماعت ہے) غار میں داخل ہونے لگی.غاروں کی طرف مائل ہو گئی اور یہ غاروں کی زندگی بسر کرتے ہوئے انہوں نے دعا کی کہ اے خدا دنیا سے تو ہمیں اب رحمت کی کوئی امید نہیں رہی.ربنا أينَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً مِیں مِن لدنك پر بہت زور ہے.من لدنك کا مطلب ہے کہ اب اپنی جناب سے تو نے جو کچھ دیتا ہے عطا کرنا.اگر دنیا میں کوئی رحمت کا دودھ باقی ہو تا تو ہمیں کیا ضرورت تھی کہ انسانوں کی طرح سطح زمین پر بسنے کی بجائے ہم جانوروں کی طرح غاروں میں اتر جاتے.یہ عیسائیت کی پہلی صدی اور پھر دوسری اور تیسری صدی کے ان موحدین کا ذکر ہے جنہوں نے توحید کی خاطر عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اور یہ قربانیاں ان کو رومن حکومت کے مظالم کے مقابل پر بھی دینی پڑیں اور بعض عیسائی متعصب فرقوں کے مقابل پر بھی دینی پڑیں جو رفتہ رفتہ توحید سے تثلیث کی طرف گمراہ ہو چکے تھے.پس ان کا یہ ذکر تاریخی لحاظ سے ہر اس قوم کے لئے اہمیت رکھتا ہے جس کو خدا کی راہ میں تکلیفیں پہنچائی جائیں گی اور بڑی بڑی آزمائشوں میں ڈالا جائے گا.اس سے پہلے میں نے حضرت یوسف کی ایک دعا آپ کے سامنے رکھی تھی.اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بہت ہی حسین قصہ ہے کہ یوسف نے یہ دعا کی کہ اے خدا یہ عورتیں جن لذتوں کی طرف مجھے بلاتی ہیں رب السجن احب الي مِمَّا يَدُ مُوْتَنِي اليها أحَبُّ إِلَيَّ میرے اللہ مجھے قید خانہ زیادہ پیارا ہے بجائے اس کہ میں انکی دعوت کے نتیجہ میں دنیاوی لذتوں کو اختیار کرلوں اور تیری رضا کو تیج کردوں.یہ اس سے ملتی جلتی دعا ہے.عیسائی قوم نے بھی آغاز میں خدا کی خاطر بہت ہی عظیم الشان قربانیاں دی ہیں اور ان کی قربانیوں کی یاد زندہ رکھنے کے لئے قرآن کریم نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے دنیا کی سطح کے مقابل پر غاروں میں بسنا پسند کر لیا.تہذیب کو چھوڑ کر پرانے زمانوں کی طرف لوٹ گئے جبکہ انسان ابھی متمدن نہیں ہوا تھا اور یہ عرض کیا کہ اے خدا اب ہمیں دنیا والوں اے

Page 274

271 سے رحمت کی کوئی امید نہیں رہی.اتنا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً اب تیرے سوا کوئی عطا کرنے والا نہیں ہے تو اپنی جناب سے ہمیں رحمت عطا فرما.دمين لنا من امرنا رشدا اور محض اپنے فضل اور رحمت کے نتیجہ میں ہمیں ہدایت پر قائم رکھتا کیونکہ ہدایت کی خاطر ہم یہ قربانی دے رہے ہیں اگر غاروں میں بسنے کے باوجود ہم ہدایت سے خالی ہو گئے یا دوبارہ گراہ ہو گئے تو ہماری یہ قربانیاں ضائع جائیں گی.جماعت احمدیہ کے حالات پر صادق آنے والی دعا جماعت احمدیہ کے حالات پر یہ دعا بہت صادق آتی ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ پہلے مسیح کے ماننے والوں کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہوئے اب اپنے لئے وہی ترجیحات قائم رکھیں جو پہلے مسیح کے مانے والوں نے اپنے لئے قائم رکھی تھیں کہ دنیا کی خاطر ہدایت کو قربان نہیں ہونے دیں گے اور مظالم سے گھبرا کر وہ ہدایت کی راہ نہیں چھوڑیں گے اور اللہ تعالٰی سے مدد مانگتے ہوئے اگر تمام انسانی حقوق سے محروم بھی کر دئیے جائیں گے تب بھی وہ خدا تعالٰی سے دعائیں کرتے ہوئے اس زندگی کو خوشی کے ساتھ قبول کرلیں گے.اس لئے مجھے اس کا خیال آیا کہ بعض دفعہ پاکستان میں تکلیفیں اٹھانے والے بعض احمدی مجھے شکایت کے خط لکھ دیتے ہیں کہ ہماری ترقیات رک گئیں.بچے لکھ دیتے ہیں کہ تعلیم کے معاملے میں ہم سے برا سلوک ہو رہا ہے.ہمارے حقوق ادا نہیں کئے جا رہے اور وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ تو مسیح محمدی کو ماننے والے ہیں اور مسیح موسوی کی قوم نے کتنی عظیم الشان قربانیاں دی تھیں اور کتنے ثبات قدم کے ساتھ ان قربانیوں پر قائم رہے تھے اور کچھ بھی پرواہ نہیں کی تھی کہ ان کو انسانی حقوق سے کسی حد تک محروم کیا جاتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے اس حد تک محروم کر دیا گیا کہ سطح زمین پر بسنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا.انسانوں والی زندگی بسر کرنا ان کے لئے ممکن نہیں رہا.پس اگر مسیح موسوی کے غلاموں نے ایسا عظیم الشان قربانی کا مظاہرہ کیا تو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے مسیح کی طرف منسوب ہو کر یہ اوٹی چھوٹی چھوٹی باتیں اس جماعت کو زیب نہیں دیتیں.دشمن جو چاہتا ہے کہ گزرے.جب تک چاہتا ہے اپنے مظالم پر اصرار کرتا چلا جائے مگر یہ دعا مانگتے ہوئے ا

Page 275

272 اگر جماعت احمد یہ خدا تعالٰی سے میر مانگے گی اور رحم مانگے گی تو انشاء اللہ ان کے حوصلے کبھی نا کام نہیں ہونگے اور ہمیشہ اللہ تعالٰی ان کے حوصلوں کو سربلند رکھے گا.اولاد کی تمنا میں حضرت زکریا کی دعا اب ایک دعا حضرت زکریا کی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اولاد کی تمنا میں کی گئی ہے مگر کس قسم کی اولاد کی تمنا ہے کیوں ایسی تمنا کی گئی تھی اس کا پس منظر میں پہلے حضرت زکریا کی ایک دعا میں آپ کے سامنے بیان کر چکا ہوں.یہ دعا اپنی ایک الگ شان رکھتی ہے بڑا گہرا اس میں درد ہے اور بہت ہی زیادہ خدا تعالٰی سے وفا کا اظہار ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق میں استقلال کا اظہار ہے.جمیع اس سے یہ آیت شروع ہوتی ہے.سورہ مریم کی یہ پہلی آیت ہے.تخلیص یہ وہ حروف ہیں جو حروف مقطعات کہلاتے ہیں اور ان میں خدا تعالٰی کی بعض صفات بیان کی گئی ہیں.اس کے بعد اللہ تعالٰی فرماتا ہے ذخر تختتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم اپنے ایک خاص بندے زکریا کے ساتھ تیرے رب کی رحمت کا ذکر کرنے لگے ہیں.جب کوئی خاص اہم بات ہو تو تمہیدا اس سے پہلے متوجہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو دیکھو اب بہت عظیم الشان ذکر ہونے والا ہے، تو اس طرح قرآن کریم نے اس مضمون کا عنوان باندھا ہے پہلے اپنی وہ صفات بیان فرمائیں جنکے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح فتح البیان میں یہ مذکور ہے کہ ام ھانی سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ک سے مراد گاف ہے.یعنی خدا اپنے بندے کے لئے کافی ہے.آليْسَ اللهُ عاف عندہ میں نہیں لفظ کاف پایا جاتا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے جس کی انگوٹھیاں احمدی اکثر پہنے پھرتے ہیں.تو پہلی بات تو "ک" ہے کہ خدا سے مایوس ہونے کا کیا سوال ہے کیا وہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں پھر "8" سے مراد خار ہے یعنی ہدایت دینے والا وہی ہے جو اپنے بندے کو ہدایت پر قائم رکھے تو رکھے ورنہ انسان اپنی طاقت سے ہدایت پر قائم رہ نہیں سکتا."ی" کا لفظ مخاطب کا ہے کہ اے خدا جو کافی ہے اور ہادی ہے اور

Page 276

273 "ع" سے مراد عالم یا علیم اور ص" سے مراد صادق ہے.عالم ان معنوں میں یعنی اس لئے اس موقع پر اس کا استعمال ہوا ہے کہ خدا تعالی بہتر جانتا ہے کہ کسی کے لئے کوئی اولاد مفید ہے یا نہیں ہے.کیوں اولاد عطا فرماتا ہے؟ کیوں نہیں اولاد عطا فرماتا.اور صادق ان معنوں میں کہ اگر وہ وعدہ کرلے تو ضرور پورا رتا ہے خواہ بظاہر اولاد کے پیدا ہونے کا کوئی امکان بھی باقی نہ ہو.پس ان صفات الہی کے ذکر کے بعد فرمایا اب ہم تجھ سے اپنے ایک بہت ہی پیارے بندے زکریا کے ساتھ اپنے حسن سلوک کا ذکر کرتے ہیں.اذ نادى ربه تدا حیا اس نے ہلکی ہلکی آواز میں جس طرح ایک آدمی کراہتا ہے اور گلے اور منہ سے درد ناک سی آوازیں نکلتی ہیں گو بظا ہر دوسرے آدمی کو وہ پوری طرح سمجھ بھی نہیں آتیں لیکن یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ بہت ہی کوئی درد ناک بات ہو رہی ہے تو اس حالت میں حضرت زکریا نے اپنے رب سے ایک دعا مانگی.وہ یہ تھی کہ قالَ رَبِّ إِني وَهَنَ الْعَظمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ النَّاسُ عَيْبًا وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَةٍ شَقِيًّا اے میرے اللہ ! میری ہڈیاں نرم پڑ چکی ہیں اور بڑھاپا میرے سر پر غالب آگیا ہے اور اس طرح وہ بھڑک اٹھا ہے جس طرح آگ روشن ہو جاتی ہے.اس طرح سفیدی سے میرا سر روشن ہو گیا ہے وَلَمْ أَكُن بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا اے اللہ میری وفا کو دیکھ کہ اب تک میں اپنی دعا سے جو میں تیرے حضور کر رہا ہوں مایوس نہیں ہوا.کتنی عظیم الشان دعا ہے ایک بوڑھا آدمی، جس کی ہڈیاں گل گئی ہوں، جس میں پوری طرح کھڑے ہونے کی طاقت نہ رہی ہو اس کے بال سفید ہو چکے ہوں اور صرف یہی نہیں بلکہ یہیں آگے جاکر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.دراني حفتُ المَوَالِيَ مِن وَرَاءِ فِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا اے خدا!! صرف میں ہی کمزور نہیں ہوں؟ میری بیوی بھی بانجھ ہے.اس میں بھی بچہ دینے کی کوئی جان نہیں ہے.کتنا عظیم تو کل ہے کہ اس کی کوئی مثال دنیا میں آپ کو دکھائی نہیں دے گی.ایسی ایسی عظیم دعائیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمارے لئے محفوظ کی ہیں کہ اخدنا الضراطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا مانگنے والوں کیلئے تو موجیں ہو گئی ہیں.جتنا مشکل رستہ ہے

Page 277

274 انتا ہی آسان ہو جاتا ہے.جب ہم انعام پانے والوں کی دعاؤں کا ذکر قرآن کریم میں پڑھتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ وہ رستے آسان ہوئے کیسے تھے؟ تو اب سنئے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میرے اس بندے نے مجھ سے یہ دعا کی.میری ہڈیاں نرم پڑ چکی ہیں.میرا سر سفیدی سے بھڑک اٹھا ہے ولذا لن يدعَائِكَ رَب شَدِیا اے اللہ آج تک میں (تجھ سے تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوا.وَانِي خِفْتُ الْمَوَالِي مِن وراه في میں اپنے بعد اپنے شریکے سے ڈر رہا ہوں کہ وہ پتہ نہیں ہم لوگوں سے کیا سلوک کریں گے وكانت امراتي عاقرا اور میری بیوی بانجھ ہے اس کا کوئی بچہ نہیں جو اس کی نگہداشت کر سکے ، اس کے لئے کھڑا ہو سکے اس کی حمایت کر سکے.یہ تنہا اس دنیا میں رہ جائے گی نصب لي من لدنك وليا مجھے اپنی جناب نِ جسے کوئی ولی کوئی دوست عطا فرما.اور ولی کی دعائے اس کی نیکی کی دعا بھی ساتھ ہی مانگ لی کیونکہ بد اولاد نیک لوگوں کی ولی نہیں ہوا کرتی.کیسی فصاحت و بلاغت ہے.حضرت زکریا کی دعا ، واقعی یہ جو کہتے ہیں کہ سنہری حرفوں سے لکھنے کے لائق ہے مگر سنہری حرف کیا چیز ہیں جس دعا کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام میں محفوظ کر لیا اس سے زیادہ روشن اور کوئی چیز کوئی روشنائی اس کو ہمیشہ کے لئے قائم نہیں رکھ سکتی.پھر کہا محمد فرزین ويرث من الي يعقوب کہ میں ایسی اولا د چاہتا ہوں جو میرا اور آل یعقوب کا ورثہ پائے اور یہ ورثہ نیکیوں کا وریہ تھا.کوئی دنیاوی دولتوں کا ورنہ نہیں تھا واجْعَلْهُ رَت رضی اور ایسا اس کو بنا جس سے تو راضی ہو جائے.اب جیسا کہ یہ دعا ہے، ظاہر ہے کہ یہ دعا یوں لگتا ہے کہ نا مقبول ہو ہی نہیں سکتی جس طرح اس کا مضمون اٹھایا گیا ہے، جس طرح اس کا آغاز کیا گیا ہے، پڑھتے پڑھتے انسان کا دل یقین میں ڈوب جاتا ہے انسان کا دل بے اختیار گواہی دینے لگتا ہے کہ نا ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس دعا کو نا منظور فرمادے چنانچہ اس کے معا" بعد یہ نہیں فرمایا کہ پھر اللہ تعالی نے اس کی دعا سن کی بلکہ بے ساختہ جواب دیا ہے کہ ہر گیتار تبرك بقلم اے میرے بندے زکریا ہم تجھے ایک غلام کی خوشخبری دے رہے ہیں : اِسْمُهُ يعنی اس کا نام بھی ہوگا لَمْ تَحتل الدين قبل سينا اس

Page 278

275' نام کی کوئی مثال اس سے پہلے دکھائی نہیں رہی.دنیا میں کبھی کسی نے اپنے بیٹے کا یہ نام نہیں رکھا جو آج ہم تمہیں دے رہے ہیں پس یہ ایک غیر معمولی بیٹا ہو گا اور بے مثال جیسا کہ خود ہو گا ویسا ہی اس کا نام ہوگا اسمه يخلى اور اس کا نام بھی ہے.اب بجی نام کا تو مطلب ہے زندہ رہنے والا.بھٹی نام کیوں رکھا گیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ان کی شہادت کی بھی خوش خبری تھی.حضرت بھی شہید ہوئے ہیں اور شہداء کے متعلق اللہ تعالی کی گواہی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور لفظ حی ان پر اطلاق پاتا ہے تم ان کو بے وقوفی سے مردہ سمجھ رہے ہو لیکن وہ ہمیشہ کی زندگی پانے والے ہیں.پس اللہ تعالٰی نے بعض حکمتوں کے پیش نظر حضرت ذکریا کو جو اولاد سے محروم رکھا تھا ان حکمتوں کے پیش نظر ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی اولاد سے محروم رکھا گیا.اور ان حکمتوں کا تقاضہ یہ تھا کہ یہ سلسلہ آگے نہ چلے کیونکہ یہ سلسلہ تبدیل ہونے والا تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے ان حکمتوں کو تو تبدیل نہیں فرمایا لیکن دعا کو پھر بھی قبول فرمالیا اور حضرت یحیٰ کے متعلق فرمایا کہ وہ زندہ رہے گا.یہاں زندگی کی یہ خوش شہری ہے کہ جب تک تو رہے گا تو اسے زندہ دیکھے گا.جب تک تیری بیوی زندہ رہے گی وہ اس کو زندہ دیکھے گی اور تم دونوں کو اس بچے کی طرف سے کوئی دکھ نہیں پہنچے گا.تم دونوں کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی، بعد میں ہم اسے وہ پیشگی کی زندگی عطا کریں گے جو شہادت کے ذریعہ ہوتی ہے.اولاد پانے کی دعا کرنے والوں کو نصیحت پس دعاؤں پر اگر آپ غور کریں جو قرآن کریم میں محفوظ کی گئیں ہیں تو عظیم الشان حکمتوں کے سمندر ہیں جو کوزوں میں بند کئے گئے ہیں اور دعائیں قبول کیوں ہوتی ہیں؟ اور کس وجہ سے ہوتی ہیں؟ وہ تمام باتیں وہ مصلحتیں بھی ان دعاؤں کے اندر مضمر ہیں، بظاہر نظر سے چھپی ہوئی ہیں لیکن اگر آپ غور کریں تو آپ کو سمجھ آسکتی ہے.پس وہ والدین جو اپنے لئے ایسی اولاد کی دعا کرتے ہیں کہ جو محض ایک طبعی اتنے کی دعا ہوا کرتا ہے کہ ہمیں بیٹا دے، ہمیں بیٹا دے، ہمیں بیٹا دے کیوں دے؟ اس سے کوئی بحث انکو نہیں ہوتی.نیک ہو یا بد ہو.اس سے انکو کوئی بحث نہیں ہوتی وہ

Page 279

276 تو اپنے طبیعی تقاضے کی وجہ سے بس اس تمنا میں مر رہے ہوتے ہیں کہ ہم بے اولاد مرے جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کی دعائیں ہمارے لئے محفوظ رکھی ہیں.جن بزرگ خواتین کی دعائیں ہمارے لئے محفوظ فرمائی ہیں وہاں ہمیشہ ایسی اولاد کی تمنا کی گئی ہے جو نیک ہو جو خدا والی ہو جو بزرگوں کے ولی بننے کی اہلیت رکھتی ہو، اور جو اپنے بزرگ والدین کی نیکیاں ورثے میں پانے والی ہو.پس احمدیوں کو بھی جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں اس جذبہ کے پیش نظر اسی سنت کے مطابق دعائیں کرنی چاہئیں اور ہمیشہ نیک اولاد کی دعا کرنی چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اس کے سوا اولاد کی جو دعائیں ہیں سب مردود اور دنیا کے قصے ہیں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے.داعیان الی اللہ کیلئے قیمتی دعا اب ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بیان کر کے پھر میں سردست اس مضمون کو یہاں ختم کروں گا کیونکہ آج خدام کا اجتماع ہے اور اور بھی یہاں بہت ہے پروگرام ہونے والے ہیں.باقی مضمون انشاء اللہ بعد میں جاری رہے گا.حضرت موسیٰ کی یہ دعا قرآن کریم میں مذکور ہے قَالَ رَت اشتر خويي صدري اے میرے اللہ میرا سینہ کھول دے.اے میرے رب میرا سینہ کھول دے.وينزل آفرینی اور جو فریضہ تو نے مجھے پر عائد فرمایا ہے اسے آسان کردے.دا عین الی اللہ جو خدا تعالیٰ کی راہ کی طرف بلانے کے لئے نکلتے ہیں ان کے لئے یہ دعا ایک نعمت غیر مترقہ ہے.ایک عظیم الشان نعمت ہے.اس دعا کو ذہن میں رکھ کر اور اسی طرح یہ دعا کرتے ہوئے جس روح اور جذبے کے ساتھ حضرت موسیٰ نے یہ دعا کی تھی، اگر کوئی داعی الی اللہ وقت کے بڑے بڑے جابر کو بھی دعوت دینے کیلئے نکلے گا تو اللہ تعالٰی کے فضل کے ساتھ اس کو شرح صدر عطا ہو گا.اس کی زبان کھولی جائے گی اس کی مشکلات آسان کی جائیں گی اور اس جابر کے خوف سے اس کو بچایا جائے گا.واحْلُلْ عُقْدَةٌ من لساني کہ مجھ سے تو صحیح گفتگو نہیں ہوتی.میں تو متلاتا ہوں اور اٹک کر بولتا ہوں.اور وقت کے اس زمانے کے سب سے بڑے جابر کے پاس تیرا

Page 280

277 پیغام لے کر جا رہا ہوں تو تو ہی ہے جو میری زبان کی گرہ کشائی فرما اور اس گرہ کو کھول دے يَفْقَهُوا قولي اور ایسی فصاحت كلام عطا کر کہ جو میں کہوں اس کو خوب اچھی طرح وہ لوگ سمجھنے لگیں.صرف میں بات ہی نہ کرنے والا ہوں بلکہ وہ بات ذہنوں سے دلوں تک اتر جانے والی ہو اور وہ خوب اچھی طرح سمجھ رہے ہوں.پھر عرض کیا واجْعَل أي وزيرا من اهیلي لیکن میرے اہل میں سے ایک وزیر بھی میرا مقرر فرما دے.فرون آجی یہ میرا بھائی ہارون ہے میں اس کی تجھے سے التجا کرتا ہوں اشد دیم آذری اس کے ذریعہ میرا بازو میری طاقت کو مضبوط فرما واشرحه ي آمدني اور میرے ساتھ جو تو نے نیکی کا معاملہ کیا ہے اس میں اس کو بھی شریک کردے.پس دنیا میں تو انسان شریک نہیں چاہتا لیکن نیکیوں میں شریک چاہنے کی دعا ہمیں بتائی گئی ہے کہ یہ ایک ایسی دولت نہیں ہے کہ جس کو تم اپنے تک محدود رکھو اور دوسروں تک پہنچانے سے بخل سے کام لو.اس میں خدا تعالیٰ سے خود شریک مانگا کرو - كي تستحك خيرا اے خدا یہ اس لئے ہو کہ ہم.سب مل کر پھر تیری خوب تسبیح کریں.ونذ محرك كثيرا اور خوب تیرا ذکر بلند کریں.إِنَّكَ كُنتَ بِنَا بَصِيرًا اے خدا تو ہمیں خوب دیکھ رہا ہے.اس دعا میں حضرت موسیٰ نے جو وزیر مانگا اس کی دلیل یہ دی کہ میں بول نہیں سکتا.اگرچہ یہ دعا بھی ساتھ کی کہ اے خدا میری زبان کی گرہ کھول دے، مجھے بولنے کی طاقت عطا فرما اور صحیح بولنے کی طاقت عطا فرما میرا پیغام مخاطب خوب اچھی طرح سمجھ سکے اس کے باوجود اپنا ایک وزیر مانگا کیونکہ دل میں پوری طرح اطمینان نہیں تھا کہ میں اس حق کو ادا کر سکوں گا کہ نہیں.اللہ تعالٰی نے دونوں دعائیں قبول کر لیں.وزیر تو بنا دیا لیکن اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ ضرورت اس کی کوئی نہیں ہے اور بڑا دلچسپ مضمون پیدا ہوا.چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ جب ہم نے حکم دیا تو موسیٰ کی دعا کے نتیجہ میں دونوں کو حکم دیا.کہا : اذْهَبَا إِلى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَف اے موسیٰ اور اے موسیٰ کے بھائی ایم دونوں فرعون کی طرف جاؤ اس نے بہت ہی سرکشی سے کام لیا ہے فقوله له قولا لینا اور تم دونوں اس سے بات کرتے ہوئے نرمی کی بات کرنا کیونکہ وہ

Page 281

278 دنیا کا ایک بہت بڑا انسان ہے اور سخت کلامی سے وہ بات سمجھ نہیں سکے گا.یہاں قول لین کہنے کی کیا ضرورت تھی حقیقت میں یہ حضرت موسیٰ کی دعا کا جواب ہے حضرت موسیٰ نے عرض کیا تھا يفقهوا قولي اے خدا! ایسی بات کہنے کی توفیق عطا فرما کہ وہ سمجھ جائیں پس قول لین کسی فرعون کے رعب کی وجہ سے نہیں ہے، اس کے خوف کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ انسانی فطرت کا یہ راز کھولا جا رہا ہے کہ جب تم بڑے آدمیوں سے بات کرو تو اگر تم اکڑ کر بات کرو گے اور یہ سمجھتے ہوئے کہ تم خدا کے نمائندہ ہو ، تمہیں نرمی کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو بات تو تم کر لو گئے اللہ تمہیں بچا بھی سکتا ہے لیکن پھر وہ بات سمجھیں گے نہیں.ایسے دنیا دار لوگ جو دنیا کی بڑائیوں کے نتیجہ میں اپنے آپ کو بہت اونچا سمجھ رہے ہوتے ہیں وہ نرم بات سننے کے عادی ہوتے ہیں، نرمی کی بات ان پر اثر کر سکتی ہے، سخت بات اور اونچی بات سے وہ اور زیادہ بھڑک اٹھتے ہیں اور برک جاتے ہیں.پس قولا لینا کی یہ نصیحت دراصل يَفْقَهُوا قولي کی دعا کی استجابت کا ایک نشان ہے اسی کے نتیجہ میں یہ ہدایت فرمائی گئی ہے لعل بعد محر او بخشی اس طرح ایک صورت پیدا ہو سکتی ہے کہ شائد وہ نصیحت پکڑے یا شائد خدا کا خوف اختیار کرے تو جب یہ دونوں پہنچے.دیکھیں یہاں ہر جگہ دونوں کو حکم دیا گیا ہے تشبیہ کے صیغہ سے.فرعون دونوں کی طرف متوجہ نہیں ہوا.موسیٰ کو مخاطب ہو کر اس نے کہا فَمَن رحما موسی اے موسیٰ تو بتا کہ تم دونوں کا رب کون ہے؟ فرعون بھی سمجھ گیا تھا کہ ہیں یہ دونوں ہی نمائندہ مگر بڑا نمائندہ یہ ہے اس لئے میں اسی کو مخاطب ہوں گا اس کے بعد ساری گفتگو حضرت موسیٰ نے کی ہے.حضرت ہارون ایک لفظ نہیں بولے.قَالَ رَبُّنَا الذي أعطى كُلّ شَيْءٍ خَلَقَهُ ثُمَّ هَدی موسیٰ نے جواب دیا دونوں نے جواب نہیں دیا.رَبُّنَا الذي أعطى كُلَّ شَيء خلقه وہی ہمارا رب ہے جس نے ہر چیز کو خلقت عطا فرمائی ہے ، مهدی پھر اسے ہدایت کے رستہ پر ڈال دیا پس دیکھیں کس لطافت اور باریکی کے ساتھ ساری دعا قبول ہوتی ہے.اللہ تعالٰی جانتا تھا کہ موسیٰ کو طاقت عطا کی جائے گی اسے کسی وزیر کی ضرورت نہیں ہوگی مگر چونکہ

Page 282

279 اپنے اس عاجز بندے سے خدا کو بہت پیار تھا اور اس نے نیکی میں ایک شریک مانگا تھا اس لئے خدا نے وہ دعا بھی قبول کرلی اور داخلُلْ مُقْدَةٌ مِّن يسان والى دعا بھی قبول کرلی.شرح صدر بھی عطا فرما دیا اور سارے قرآن کریم میں جہاں بھی فرعون کے ساتھ مکالمے کا ذکر ہے وہاں ہر جگہ آپ صرف حضرت موسیٰ کو بات کرتے ہوئے سیٹیں گے اور کہیں بھی حضرت ہارون کا کوئی ذکر فرعون سے گفتگو کرنے میں موجود نہیں ہے.پس داعیان الی اللہ کو چاہیے کہ وہ بھی اپنے لئے مددگار ما نگیں اپنے بھائیوں کو اپنا شریک بنائیں ان روحانی نعمتوں میں ان کو اپنا ساتھی بنائیں جو وہ خدا تعالیٰ سے پاتے ہیں اس میں کنجوسی نہ کریں لیکن دعا یہ کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں خود کفیل بنا دے اور وہ اس لائق ٹھہریں کہ ان کی باتیں ہر مخاطب غور اور تدبر سے سنے.ذکر الٹی کا اس کے دل پر اثر پڑے خدا کا خوف کرے اور بات کو سمجھنے لگے.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 283

Page 284

281 ناصر باغ - جرمنی ار مئی 1991 بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ انعام یافتہ لوگوں کی محفوظ دعائیں تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- سورۂ فاتحہ میں جو ہمیں یہ دعا سکھائی کہ اے خدا ہمیں سیدھے راستے پر ڈال ، وہ راستہ جو ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر تو نے انعام فرمایا.اس ضمن میں انعام کی راہ پر چلنے والے یا خدا کی راہ کے وہ مسافر جو انعام یافتہ شمار ہوئے ان کا ذکر قرآن کریم میں مختلف شکلوں میں ملتا ہے اور ان کی دعائیں بھی محفوظ کر دی گئی ہیں.ان دعاؤں کے سلسلہ میں ایک دعا نظر سے رہ گئی تھی جس کا بیان پہلے ہونا چاہیے تھا.اس لئے میں اس دعا سے آج کا مضمون شروع کروں گا.پھر چونکہ بعد کی چند دعائیں پہلے خطبہ میں بیان ہو چکی ہیں انکی ضرورت نہیں ہوگی.اور پھر اس پہلی بھولی ہوئی دعا کے بعد حضرت ایوب کی دعا سے سلسلہ مضمون شروع ہو جائے گا.مکہ سے مدینہ ہجرت کی پیشگوئی وہ دعا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سکھائی گئی اور دعا یہ ہے.آپ آؤ خليني مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاخْرِجَيْنِ مُخْرَةٌ صِدْقٍ و اجْعَل لي من لدن لنا نَصِيرًا (بنی اسرائیل : ( اے میرے رب مجھے صدق کے ساتھ داخل فرما یعنی میرا قدم سچائی پر پڑتا ہو اور سچائی کے ساتھ میں داخل واخرجني مخرج صدق اور اس طرح سچائی پر قدم رکھتے ہوئے یا سچائی کے قدم کے ساتھ میں اس منزل سے باہر نکلوں واجْعَلْ لِي مِن لَّدُنكَ سُلطنا نصیرا اور میرے لئے اپنی جناب سے ایک ایسا مددگار عطا فرما جو ہوں.

Page 285

282 غالب اور قوت والا ہو.یہ وہ سورۃ ہے جو ہجرت سے پہلے نازل ہوئی.اگرچہ اس بارہ میں اختلاف ہے لیکن جو مستشرقین محققین باقی مسلمان علماء سے اختلاف بھی رکھتے ہیں ان کے نزدیک بھی ۱۲ سال (نبوت) تک کا زمانہ ہے اس عرصہ کے اندر اندر یہ سورۃ نازل ہو چکی تھی اور بعض مفسرین تو اس سے بہت پہلے کا زمانہ بتاتے ہیں.بہر حال ہجرت سے پہلے کی یہ سورۃ ہے اور اس آیت کے متعلق بھی یہ تحقیق شدہ بات ہے کہ ہجرت سے پہلے کی ہے.اس لئے اس دعا میں دراصل ہجرت کی بھی پیشگوئی فرمائی گئی تھی.لیکن صرف ہجرت تک اس دعا کا مضمون محدود نہیں جیسا کہ میں بیان کروں گا.اس سے زیادہ وسیع تر معانی اس میں پائے جاتے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳ سال نبوت کے مکہ میں بسر فرمائے.تیرہ سال تک دکھ جھیلے اور پھر تیرھویں سال کے آخر پر یا کم و بیش اس عرصہ میں آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی.پس یہ دعا آپ کو یہ جما رہی ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم تجھے اس شہر سے نکلنا بھی ہے اور دوبارہ اس شہر میں داخل بھی ہوتا ہے.تیرا نکلنا بھی سچائی کے ساتھ ہو گا اور تیرا دوبارہ اس شہر میں داخل ہونا بھی سچائی کے ساتھ ہو گا لیکن اس میں نکلنے اور داخل ہونے کی ترتیب کو بدل دیا گیا ہے.اور داخل ہونے کا ذکر پہلے اور نکلنے کا بعد میں.فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم ، گویا کہ آپ کو دعا سکھائی جا رہی ہے کہ تو یہ دعا کیا کر.ریت آذر خلوني مُدْخَل صدقي اے میرے رب مجھے صدق کے ساتھ داخل فرما وآخر جري مخرج صدق اور صدق کے ساتھ مجھے نکلنے کی توفیق عطا فرما.تو مکہ سے تو پہلے نکلنا تھا پھر ادخال کا ذکر کیوں پہلے فرمایا.اس میں حکمت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک لحظہ کے لئے بھی خدا تعالٰی اس دکھ میں جتلا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ گویا میں مکہ سے نکلوں گا اور پھر شاید واپس آؤں یا نہ آؤں.پس واپسی کو زیادہ قطعی اور یقینی بنا کر پہلے پیش کر دیا گیا اور جس وقت یہ وحی نازل ہوئی ہے اس وقت اخراج سے پہلے آپ کو یہ خبر دے دی گئی کہ آپ نے ضرور اس شہر میں داخل ہوتا ہے، اس لئے جہاں تک نکلنے کا تعلق ہے اس سلسلہ میں کسی قسم کے نظکر کی اور غم کی ضرورت نہیں.

Page 286

283 دوسرا اس میں حکمت یہ تھی کہ مکہ سے جس حالت میں نکالے جا رہے تھے اس حالت کے متعلق دشمن یہ کہتا تھا کہ یہ صدق کی حالت نہیں ہے ، آپ سچائی کی حالت میں نہیں نکالے جا رہے.دشمن آپ کو جھوٹا کذاب مفتری اور طرح طرح کے اور بد نام دیتا ہے اور کہتا تھا کہ یہ جھوٹا ہے، اس نے خدا پر اپنی طرف سے بات گھڑی ہے ، مگر مدینہ جس نے آپ کا استقبال کیا اس نے صدق کے ساتھ آپ کا استقبال کیا.صدق کی گواہی دیتے ہوئے استقبال کیا.پس آپ آذرخذني کا مضمون مدینہ کی نسبت سے یہ ہوگا کہ اے محمد اب تو اس شہر میں داخل ہونے والا ہے جو تیرے صدق پر گواہ ہوگا اور صدق کے ساتھ تجھے قبول کرے گا اور پھر جب تو نکلے گا تو صدق کے ساتھ ہی نکلے گا اور دوبارہ اس شہر میں داخل ہوگا اور دوبارہ داخلے کا مضمون چونکہ پہلے بیان ہو چکا ہے اس لئے فتح مکہ کے اوپر آ خلني مدخل صدق کا مضمون صادق آئے گا اور یہ بات بن جائے گی کہ جب تو دوبارہ اس شہر میں داخل ہو گا.اس وقت شہر کا ذرہ ذرہ اس کی اینٹ اینٹ اس کی ساری فضا گواہی دے رہی ہوگی کہ یہ مرد صادق ہے، جو والپر اپنے شہر کو لوٹ کر آیا ہے.اور چونکہ یہ ایک پیشگوئی تھی اس لئے اس کے پورا ہونے کے نتیجہ میں از خود ہی آپ کا صدق مکہ میں داخل ہوتے ہوئے ظاہر و با ہر ہو جاتا تھا.وا نعل لي مِن لَّدُنكَ سُلطا نصيرا كا مطلب ہے اور میرے لئے اپنی جناب سے کوئی ایسے مددگار انصار عطا فرما دے جن کو تو طاقت عطا کرے غلبہ عطا کرنے اور انکی مدد معنی خیز ہو کوئی کمزور مدد گار نہ ہو بلکہ غالب اور طاقتور ہے وگار ہو چنانچہ یہ دعا بھی انتصار مدینہ کی صورت میں اللہ تعالٰی نے بعینہ اسی طرح قبول فرمائی جیسا کہ سکھائی تھی اور انصار مدینہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کی غالب نصرت کرنے کی توفیق ملی اور انصار نے جو مدد کی ہے وہ اگر چہ بظاہر انصار کی طرف سے ہے مگر من لینک کے لفظ نے یہ بتا دیا کہ انصار کی مدد اللہ کے ایماء پر ہے اور اللہ کی طرف سے ہے.اس کے بغیر اس مدد کی کوئی حیثیت نہیں ہے.پس بظا ہر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے مہاجر ساتھی انصار کے ممنون احسان ہونے والے تھے مگر خدا تعالٰی نے دعا من لدنك کا لفظ رکھ کر یہ خوش خبری بھی ساتھ دے دی کہ تیری اس دعا میں

Page 287

284 کے نتیجہ میں وہ مدد کریں گے ان کے دل تبدیل کئے جائیں گے.انکو توفیق عطا کی جائے گی، اس لئے تو یہ نہ سمجھنا کہ کسی انسان کے زیر احسان آرہا ہے بلکہ دعا کے نتیجہ میں یہ مدد خالصتا" اللہ ہی کی طرف سے ہوگی.عام روز مرہ کے سفر کی دعا دوسرا اس دعا کا ایک تعلق عام روز مرہ کے سفروں سے بھی ہے اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ قرآنی دعائیں وسیع معانی رکھتی ہیں اور مختلف حالات پر چسپاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی رہتی ہیں.اس لئے قرآن کریم کی جو دعائیں خاص مواقع سے بھی تعلق رکھتی تھیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے صحابہ انکو مختلف ملتے جلتے مواقع پر بھی استعمال کیا کرتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے.پس روز مرہ کے سفروں میں یہ دعا بہت ہی مفید ہے اور میں نے خود اس کا تجربہ کر کے دیکھا ہے اور حیرت انگیز طور پر اس دعا کے نیک اثرات کا مشاہدہ کیا ہے.ایک دفعہ میرا خیال تھا کہ اس موضوع پر جماعت سے الگ خطاب کروں کہ دعا کے نتیجہ میں سفروں میں جو حیرت انگیز سہولتیں میسر آتی ہیں وہ اتفاقی حادثات کے نتیجہ میں نہیں ہوتیں بلکہ ایسا مسلسل نصرت الہی کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے کہ کوئی معمولی عقل کا انسان بھی یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں غیبی ہاتھ ہے لیکن چونکہ اس سلسلہ مضامین میں اتنے لمبے عرصہ کے لئے ایک دوسرے مضمون کی گنجائش نہیں ہے اس لئے آئندہ کسی وقت انشاء اللہ اس حصہ کو آپ کے سامنے رکھوں گا.مراتب کی بلندی کی دعا اس دعا کا ایک اور بہت ہی اہم مفہوم انسان کے مراتب سے تعلق رکھتا ہے.انسان ہمیشہ حالتیں بدلتا رہتا ہے.ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت میں داخل ہوتا ہے.یہ حالت بدی سے اچھائی کی طرف بھی حرکت کر سکتی ہے اور اچھائی سے بدی کی طرف بھی حرکت کر سکتی ہے یعنی اس حالت کا بدلنا بدی سے اچھائی کی طرف بھی ہو سکتا ہے اور اچھائی سے بدی کی طرف بھی ہو سکتا ہے.پس خدا تعالٰی نے جہاں یہ دعا

Page 288

285 سکھائی وہاں صدق کا لفظ ساتھ سمجھا دیا کہ یہ دعا کرنا کہ اے خدا جب بھی میری حالت تبدیل ہو سچائی کے ساتھ تبدیل ہو.اس آیت سے پہلے جو مضمون چل رہا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بلند مراتب کا مضمون ہے اور پہلی آیت ہمیں یہ یہاں بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نصیحت فرمائی کہ وَمِنَ الْمَلِ فَتَمَجَدْ بِهِ نَافِلَةٌ لكَ وعَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا كه اے میرے بندے ! راتوں کو اٹھ کر تہجد کے نوافل ادا کیا کرو اور خدا کی راہ میں جدوجہد کیا کر.عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقاماً محمودا اس کے نتیجہ میں ہر گز بعید نہیں بلکہ قریب ہے کہ تجھے مقام محمود عطا کیا جائے.مقاما محمود کو تک رکھ کر اس مقام کے بہت ہی عظیم الشان ہونے کی طرف اشارہ فرما دیا گیا.پس اس دعا کے معا بعد یہ دعا ر کھی یعنی اس خوشخبری کے بعد کہ خدا تعالٰی تجھے بہت ہی عظیم مقام اور مرتبہ عطا فرمانے والا ہے، یہ دعا سکھائی رت ادخلي مُدْخَل صدق کہ اے خدا جس مقام پر تو مجھے فائز فرمانا چاہتا ہے یا جس پر فائز فرمانے کا تو نے فیصلہ فرمالیا ہے : ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ مجھے صدق کے ساتھ اس میں داخل فرمانا وآخر جرني محرج صدقي اور اس مقام پر ٹھہرائے نہ رکھنا بلکہ اس سے آگے بلند تر مقامات کی طرف بھی ہاتھ پکڑ کر لے جانا اور صدق کے ساتھ لے جانا یہاں صدق کے لفظ نے تنزل کی نفی فرما دی.چونکہ بعض دفعہ ایک انسان ایک اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کے باوجود اس مرتبہ پر اپنی شامت اعمال کے نتیجہ میں قائم نہیں رہ سکتا جیسا کہ قرآن کریم نے بلعم باعور کی مثال دی ہے کہ اللہ تعالٰی نے اسے ایسی صلاحیتیں عطا کی تھیں کہ اگر وہ چاہتا یعنی اگر وہ نیک اعمال پر استقامت اختیار کرتا اور خدا کی طرف رفعتیں حاصل کرنا چاہتا تو یقیناً اللہ تعالی ان صلاحیتوں کے نتیجہ میں جو اسے عطا کی گئی تھیں اسے بلند مقام عطا فرما سکتا تھا ولكنة الحلة الی الارض لیکن وہ بد بخت ایسا نکلا کہ وہ دوبارہ زمین کی طرف جھک گیا.پس اس کا بلند مرتبہ سے نکلنا مخرج صدقی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ وہ سچائی کی بجائے جھوٹ کے قدم کے ساتھ باہر نکلا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ

Page 289

286 کامل دعا سکھائی گئی کہ تیرا داخل ہونا بھی صدق کے ساتھ ہو اور تیرا نکلنا بھی صدق کے ساتھ ہو یعنی تنزل کی طرف تو نہ جائے بلکہ ہمیشہ بلند تر مراتب کی طرف تیرا قدم آگے بڑھتا رہے.دوسرا صدق کا معنی یہاں ایسا ہے جسے تمام مومنین کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے.بسا اوقات انسان کو اعلیٰ مراتب کی تمنا ہوتی ہے اور اس تمنا میں خود غرضی بھی داخل ہو جاتی ہے، ریا کاری بھی داخل ہو جاتی ہے اور انسان چاہتا ہے کہ میں بھی نیک شمار کیا جاؤں اور دنیا کی نظر میں میرا مرتبہ بلند ہو اور مجھے مقام محمود حاصل ہو.یعنی دنیا کی نگاہ میں مقام محمود حاصل ہو.ایسے لوگوں کو بعض دفعہ ایسے روحانی تجارب سے ملتے جلتے تجارب ہوتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے مقرب بن گئے ہیں حالانکہ وہ روحانی تجارب نہیں ہوتے وہ شیطانی تجارب ہوتے ہیں.پس ہر وہ شخص جو بلند پروازی کا خواہش مند ہے جو خداتعالی کا قرب چاہتا ہے اس کو یہ دعا بہت ہی باقاعدگی کے ساتھ اور اس کے مضامین میں ڈوب کر کرنی چاہیے ورنہ اس کا قدم قدم صدق نہیں رہے گا.ہیں رَبِّ ادخلني مدخل صدق کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا مجھے جو بھی مرتبہ عطا فرما وہ سچائی کے ساتھ ہو اس میں میرے دل کی نفسانی خواہشات کا کوئی بھی دخل نہ ہو اس میں میرے جھوٹ کا کوئی دخل نہ ہو.وہ خالصتہ " سچائی کا قدم ہو جو ترقیوں کی طرف اٹھنے والا ہو اور تیری رضا اسے حاصل رہے اور اس طرح جب میں اس مقام سے نکال کر ایک بلند تر مقام کی طرف لے جایا جاؤں تو تب بھی میری ادتی تمناؤں کا اس میں کوئی دخل نہ ہو بلکہ ارفع و اعلیٰ مقاصد کے لئے تجھ سے ہی مدد مانگتے ہوئے میں آگے بڑھنے والا بنوں.پس یہ دعا بہت ہی کامل جامع اور مانع دعا ہے.زندگی کے مختلف مراحل پر مختلف حالات پر چسپاں ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے روز مرہ کے سفروں کے سوا دنیا کے ہر سفر پر جو ظاہری ہو یا روحانی ہو اس کا اطلاق ہوتا ہے.پس دنیا کے کاروبار میں جہاں انسان بعض ملازمتیں مثلا کرتا ہے اور ترقیاں پاتا اس وقت بھی یہ دعا کام آسکتی ہے ورنہ بعض لوگ ترقی پاتے ہیں اور پھر ذلت کے ساتھ نکالے جاتے ہیں تو پیشتر اس سے کہ وہ ترقی حاصل کریں اگر اس دعا کو وہ اپنے جر زجان

Page 290

287 بنا چکے ہوں اور ہمیشہ اس دعا کی طرف ان کی توجہ رہے تو زندگی کا جو بھی مرحلہ پیش آئے گا، جس میں ایک حالت دوسری حالت میں تبدیل ہوتی ہے یہ دعا ان کے کام آئے گی.حضرت ایوب کی بے کسی کی دعا اور وہ چند دعائیں جو اس کے بعد قرآن میں بیان ہوئی ہیں وہ میں بیان کر چکا ہوں.اب حضرت ایوب کی اس دعا کی طرف آتا ہوں ، سورۂ انبیاء آیت ۸۴ میں اس کا ذکر ہے والوب إذْ نَادَى رَبَّةَ انّي مَسَّنِيَ الصُّرُ وانت ارحم الرحمين یاد کرو ایوب کو کہ جب اس نے بڑے درد سے اپنے رب کو پکارا کہ اے خدا مجھے تو بہت ہی دکھ پہنچ چکا ہے.وانتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِنِین اور میں جانتا ہوں کہ سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر تو رحم کرنے والا ہے.حضرت ایوب کے حالات زندگی اس سلسلے میں حضرت ایوب کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا مختصرا ذکر کرتا ہوں اور آپ کا تعارف بھی کرواتا ہوں کیونکہ بہت سے لوگ حضرت ایوب کے متعلق بہت کم جانتے ہیں.حضرت ایوب، حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے پندرہ سو سال کے لگ بھگ پہلے پیدا ہوئے.۱۵۵۰ کے قریب بیان کیا جاتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ الصلوة والسلام سے دو سو سال پہلے.آپ کی شخصیت کے متعلق اختلافات پائے جاتے ہیں.بعضوں کے نزدیک آپ بنی اسرائیلی نبی تھے اور بعضوں کے نزدیک آپ باہر کے کوئی نبی تھے جن کا ذکر وہاں ملتا ہے.مسلمان مفسرین نے آپ کو شام کے علاقے میں پیدا ہونے والا بتایا ہے اور بائبل میں مقام کا ذکر ہے لیکن اس کا مجھے صحیح پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس علاقے کا شہر ہے جس کی طرف آپ کو نسبت دی گئی ہے، غالباً عوض لفظ ہے جس کے متعلق میں ابھی تحقیق نہیں کر سکا کہ وہ کونسا علاقہ بتایا جاتا ہے.بہر حال جہاں تک بائبل کی روایات کا تعلق ہے ان کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ حضرت ایوب کو خدا تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا فرمائیں، دنیاوی اموال بھی، ریوڑ، گلے ہر قسم کے جانور بیوی بچے بہت ہی خوشحالی عطا فرمائی اور اس وقت علاقہ کے امیر ترین انسانوں

Page 291

288 میں سے تھے اور بہت ہی فیاض اور خدمت کرنے والے انسان تھے.شیطان کو آپ پر حسد ہوا اور شیطان نے خدا تعالٰی سے بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ ایوب جو تیرا بندہ ہے“ تو اس پر نازاں ہے کہ بڑی عبادت کرنے والا اور ان سب نعمتوں کے باوجود مجھے نہ بھلانے والا ہے، لیکن اسے آزمائش میں ڈال کر دیکھ پھر پتہ چلے گا چنانچہ اس کے اموال تباہ کر دے، پھر میں دیکھوں گا کہ وہ کیسے تیرا بندہ رہتا ہے.اس پر خدا تعالٰی نے اسے کہا کہ ہاں اموال پر تجھے تصرف دیا جاتا ہے اور حضرت ایوب کے تمام اموال تباہ ہو گئے.پھر اس نے اولاد کا طعنہ دیا کہ اولاد تو اچھی ہے.دنیا کے جانور اور دولتوں کی بعضوں کو پرواہ نہیں ہوتی اولاد کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتے پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی اولاد کو پہلے جلا وطن کروایا پھر مرنے دیا اور اولاد ضائع ہو گئی.پھر شیطان نے کہا کہ اس کے بدن کے اوپر مجھے تصرف دیا جائے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اگر بدن کی آزمائش بھی چاہتے ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لوچنانچہ آپ کے بدن کو ایسی بیماری لگ گئی کہ بائبل کے بیان کے مطابق جسم میں ناسور ہو گئے اور نہایت ہی مکروہ قسم کی بیماری تھی جس سے لوگ بھی کراہت کر کے پناہ مانگتے تھے اور دوڑتے تھے اور جسم میں کیڑے پڑ گئے اور لوگوں نے آپ کو نکال کر بستی سے باہر کر دیا تب بھی حضرت ایوب صابر و شاکر رہے اور خدا کے ساتھ وفائیں کوئی کمی نہ آئی.تب شیطان نے خدا سے کہا کہ بیوی تو ابھی تک ساتھ ہے اور وہ وفادار ہے، بیوی کی طرف سے بھی اس کو کچھ صدمہ پہنچے تو بیوی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے شیطان کی حال میں آکر یا کہانی یوں بیان کی گئی ہے کہ شیطان نے خود ہی سوچا کہ جس طرح میں نے حوا کو گمراہ کیا تھا میں اس کی بیوی کو بھی گمراہ کروں گا کہ یہ بھی ساتھ نہ رہے پھر میں دیکھوں گا کہ اس کا صبر ٹوٹتا ہے کہ نہیں.چنانچہ اس نے بیوی کو یہ کہا کہ یہ بچھڑا یا کوئی جانور میرے نام پر ذبح کرو تو تمہارا خاوند اچھا ہو جائے گا.گویا شرک کی تعلیم دی اور بیوی اس پر اس حد تک آمادہ ہو گئی کہ اس نے حضرت ایوب سے اس کا ذکر کیا اور یہاں تک کہا کہ تم اب خدا کو چھوڑو.کہاں تک صبر کرے گا.اس سے موت مانگ اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر.حضرت ایوب اس پر ناراض ہوئے اور عہد کیا کہ اگر میں اچھا ہو جاؤں گا تو اس کو ۱۰۰ کوڑے

Page 292

289 ماروں گا.اس شرک میں مبتلا ہونے کے نتیجہ میں یعنی بطور سزا اس کو میں سو کوڑے ماروں گا.اس پر بیوی چھوڑ کر چلی گئی اور اکیلے رہے تب بھی حضرت ایوب ثابت قدم رہے.تب اللہ تعالٰی نے آپ کو بتایا کہ یہ تیری آزمائش کا دور تھا، تو اس پر پورا اترا اور جو کچھ تیرے نقصانات تھے وہ سب پورے ہو جائیں گے اور اب تو ہے.پہلی حالتوں کی طرف بلکہ ان سے بھی بہتر حالتوں کی طرف لوٹایا جائیگا.پھر بیوی بھی ملتی ہے پھر اولاد بھی آتی ہے.پھر اور جو شہر کے لوگ نکالنے والے تھے ان کے اندر بھی ندامت پیدا ہوتی ہے گویا کہ انجام اس واقعہ کا یہ ہے کہ حضرت ایوب دوبارہ اپنی صحت کی طرف لوٹ آتے ہیں پرانی شان اور آن بان کی طرف بھی لوٹ آتے ہیں سب چھوٹے ہوئے، روٹھے ہوئے ساتھی واپس آجاتے ہیں ، یہ ہے خلاصہ اور مفسرین نے بھی کم و بیش یہی مضمون بیان کیا ہے لیکن بعض تبدیلیوں کے ساتھ اور بائیل نے یہ لکھا ہے کہ شیطان فرشتوں کے گروہ میں شامل ہو کر خدا کے حضور میں پیش ہوا اور اس طرح خدا سے اس نے گویا فرشتہ بن کر باتیں کیں اور یہ سارا قصہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہوا.مفسرین نے اس کو قبول نہیں کیا اور اس کو نیا رنگ یہ دے دیا ہے کہ اس زمانے میں یعنی کہ حضرت ایوب کے زمانے میں شیطان بعض دفعہ فرشتوں اور نبیوں کے در میان باتیں سن لیا کرتا تھا، مچان لگا کر بیٹھا رہتا تھا اور وہ باتیں سن لیا کرتا تو ایک دفعہ فرشتوں کی اور حضرت ایوب کی باتیں ہو رہی تھیں اور بڑی انکی تعریف ہو رہی تھی اور انہوں نے خدا سے بھی عرض کیا کہ دیکھو کیسا نعمتوں والا بندہ ہے اور پھر اس کے باوجود عبادت کرتا ہے تو اس پر شیطان کو پتہ چل گیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے چنانچہ اس نے یہ شرارت شروع کی.کیا حضرت ایوب ہندی نبی تھے حضرت مصلح موعودؓ نے تفسیر کبیر میں ذکر کیا ہے کہ اس سے ملتا جلتا ایک واقعہ ہریش چندر ایک ہندو بزرگ کا بھی بیان کیا جاتا ہے جن کے متعلق یہ آتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی طرح انعام یافتہ تھے جسی طرح حضرت ایوب کے ذکر میں ملتا ہے مگر وہاں شیطان کی بجائے بعض دیوتاؤں کو حسد پیدا ہوا.حضرت مصلح موعودؓ نے تو

Page 293

290 تفصیل سے ذکر نہیں کیا مگر میں نے پھر ان روایات کو مختلف تاریخی حوالوں سے دیکھا ہے.ہریش چندر کے متعلق مختلف روایات ملتی ہیں لیکن خلاصہ مختصرا یہی ہے کہ وہاں دیوتاؤں کو اس پر رشک آیا اور انہوں نے ہندو میتھالوجی کے مطابق سب سے بڑے خدا سے یہ کہا کہ ہمیں موقع دیں ہم اس کو آزمائش میں ڈالتے ہیں.چنانچہ ایک دیو تا انسان کے روپ میں گیا، اس نے ہریش چندر سے کہا : سنا ہے کہ تو بڑا سخی داتا ہے.کیا میری استدعا کو قبول کرے گا؟ اس نے کہا ہاں جو مانگے گا میں دوں گا اور ہریش چندر کے متعلق بھی یہ مشہور تھا کہ وہ حد سے زیادہ وعدے کا پختہ ہے اور جو ایک دفعہ قول و قرار دے بیٹھے اس سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، تو اس طرح پختہ قول لینے کے بعد اس نے کہا کہ اپنا سب کچھ مجھے دے دو.تمام جائداد دولتیں ، اموال گھر جو کچھ تیرا ہے سب کچھ دے دے اور ہریش چندر نے دے دیا اس کے بعد اس نے کہا کہ تو نے سب کچھ تو نہ دیا.ابھی تیرے بچے بیوی تو خود ہے اور تیرا جسم ہے اس کا کیا ہے، ہو گا چنانچہ یہ طے پایا کہ ان سب کو وہ بیچ دیں اور ایک شودر نے، جو ہندو Cast system کے مطابق سب سے ذلیل قسم کی ذات ہے، آپ کو خرید لیا اور پھر وہ مشقتوں کا دور شروع ہوا اور بہت ہی سخت تکلیفیں ہوئیں.مصائب در پیش ہوئے تو ملتی جلتی کہانی ہے.حضرت مصلح موعود کا یہ رجحان ہے کہ چونکہ زمانہ بھی کم و بیش ایک ہی ہے اس لئے بعید نہیں کہ حضرت ایوب ایک ہندی نبی ہوں اور (جیسا کہ پہلے بھی میں نے بیان کیا ہے کہ بعض محققین کے نزدیک وہ اسرائیلی نہیں تھے) اس ہندی نبی کی روایات وہاں پہنچی ہوں اور انکو بائبل کا حصہ بنا دیا گیا ہو.اس پس منظر میں اب میں قرآن کریم کی وہ دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اللہ تعالی نے حضرت ایوب کو سکھائی اور وہ یہ تھی وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّةَ أَنِّي مَسَّنِيَ تم المر و انت ارحم الرحمین یہاں ارحم الراحمین پر دعا کو ختم کیا گیا ہے کہ تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے حضرت ایوب کی حالت کے متعلق

Page 294

291 جو تفاصیل ہیں وہ تو ہمیں قرآن کریم میں نہیں ملتیں لیکن جتنے بھی اشارے ملتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو بہت ہی تکلیفیں پہنچیں اور جسمانی عوارض بھی بہت لاحق ہوئے اور یہاں تک کہ آپ کو اپنا ملک چھوڑ کر بھی جانا پڑا چنانچہ منجملہ تفصیل کے ساتھ تو ذکر نہیں مگر یہ ضرور ملتا ہے کہ کچھ نہ کچھ واقعات جیسا کہ بیان کئے گئے ہیں ویسے آپ کے ساتھ ضرور پیش آئے یہاں تک کہ سب نے آپ کو چھوڑ دیا.ارحم الرحمین کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا میری تو یہ حالت پہنچ گئی کہ دنیا کے جتنے رحم کرنے والے ہو سکتے ہیں وہ تو منہ موڑ کر چلے گئے.میری بیوئی نہ رہی ، میرے بچے نہ رہے، میرے شہر والے نہ رہے جو ایمان لائے تھے انہوں نے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی.اب میں اکیلا اپنے وطن سے نکلتا ہوں تو مجھے بتا کہ میں کیا کروں ، لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں مایوس نہیں تو ارحم الراحمین ہے.جس پر کوئی اور رحم کرنے والا نہ ہو اس پر تو رحم فرماتا ہے.اس دعا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما ستجبنا له نحفتا ما به من ضُر و اتينهُ اهْلَهُ وَ مِثْلَهُمْ کہ ہم نے اس درد ناک پکار کو سنا اور قبول کیا تحفنا ما به من ضم اور ان سب تکلیفوں کو کھول دیا اور تبدیل کر دیا جو اسے لاحق تھیں واقيله أهلَهُ وَمِثْلَهُمْ ہم نے اس کے اہل بھی اسے واپس لوٹا دیے اور اسے اس جیسے اور بھی بہت سے گھر عطا کئے جو اپنا سمجھتے ہوئے ان کے خاندان کی طرح ہی ہو گئے یعنی ان سے محبت کرنے والے ایسے خاندان عطا کئے جو اپنوں سے الگ شمار نہیں کئے جاسکتے تھے جس طرح بعض دفعہ انسانی تعلقات میں بعض خاندانوں میں اپنی محبت ہو جاتی ہے ایسا ملنا جلنا اور قرب کا تعلق ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی گھر کے افراد دکھائی دیتے ہیں پس مِثْلَهُمْ مَعَهُمْ میں یہ بھی خوشخبری دی گئی کہ ایک گھر تجھ سے چھٹا تھا، تجھے اور بھی بہت سے گھر ہم عطا کریں گے.تخمة من عندنا یہ خالصتا " ہماری طرف سے رحمت کے طور پر ہوگا دو گرای يلعبونیت اور جو عبادت کرنے والے ہیں ان کے لئے یہ ہمیشہ کیلئے نصیحت ہوگی کہ جس قسم کے بھی اقلام در پیش ہوں مایوس نہیں ہونا چا ہیے اگر صبر کے ساتھ عبادت پر قائم رہتے ہوئے صرف خدا کی ہی طرف جھکو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ

Page 295

292 تمہارے دکھوں کو دور فرمادے گا اور ہر تکلیف کو راحت میں تبدیل فرما دے گا.حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ایک اور دعا جو اس کے بعد مذکور ہے حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا ہے وہ یہ ہے کہ وذا النون إذذهَبَ مُنَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن تَقْدِرُ عَلَيْهِ قَتَادَى في الظلمت أن لا إله إلا انت سبحنك الي كنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ اور صاحب نون کی اس حالت کو یاد کرو إذ ذهَبَ مُغَاضِبًا جبکہ وہ بہت سخت خفا ہوتے ہوئے دل کے ساتھ جب اس کا دل بہت ناراض اور تنگی محسوس کر رہا تھا ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ کی طرف گیا نظن آن لن تقدر علیم اور اس نے یہ گمان کیا کہ گویا ہم اس پر غالب نہیں آئیں گے یا اس کے خلاف فیصلہ صادر نہیں کریں گئے.تقدر علیم کا مطلب یہ بھی ہے کہ کسی کے خلاف فیصلہ کرنا اور ایک یہ مطلب بھی ہے کہ کسی پر غلبہ پا لینا تو دونوں مفہوم کچھ نہ کچھ اس صورتحال پر اطلاق پاتے ہیں قنادی فی الظلمت تب اس نے اندھیروں میں یہ دعا کی أن لا إله إلا انت سبحت الي كنت من اليمن اے میرے خدا تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے شبخنک تو بہت پاک ہے الي كُنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ میں بہت ہی ظلم کرنے والوں میں سے تھا، میں اپنی خطاؤں کا اقرار کرتا ہوں اس لئے تو ہی ہے جو مجھے اس ظلم کی حالت سے نجات بخشے اس کے جواب میں خدا تعالیٰ " فرماتا ہے : فَاسْتَجَبْنَالَة وَنَيْنَهُ مِنَ الْغَةِ، وَكَذلِكَ نُفيِي الْمُؤْمِنِينَ ہم نے پھر اس کی اس دعا کو سن لیا اور شدید غم سے اس کو رہائی بخشی و گذرت نشی المُؤْمِنِينَ اور اسی طرح ہم مومنوں کو جزا دیا کرتے ہیں.حضرت یونس علیہ السلام کے حالات زندگی حضرت یونس کے متعلق بھی تاریخ میں اختلافات پائے جاتے ہیں اور ضرورت ہے

Page 296

293 کہ ان کے پس منظر سے متعلق بھی چند الفاظ بیان کئے جائیں.حضرت یونس کے متعلق بائیل نے جو واقعات بیان کئے ہیں وہ قرآن کریم سے مختلف ہیں اور ان کی ترتیب بھی بدلی ہوئی ہے اور بائبل کے بیان کے مطابق حضرت یونس کا جو واقعہ ہے ایک ایسی جگہ پیش آیا یعنی یا نا میں یا فا فلسطین کے مغربی ساحل پر ایک بندرگاہ ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ یافا سے آپ نے وہ جہاز پکڑا تھا یا سمندری کشتی پکڑی تھی جس میں سے بالآخر آپکو پھینکا گیا.یہ یا نا اس مقام سے جو نینوا کا مقام ہے جسے حضرت یونس کی بستی بھی قرار دیا جاتا ہے اگر سیدھا کوے کی اڑان اڑا جائے تو پانچ سو (۵۰۰) سے زائد میل دور ہے.نینوا جس کے متعلق عام طور پر مفسرین کا خیال ہے کہ نینوا وہ بستی ہے جہاں حضرت یونس کو بھجوایا گیا تھا وہ موصل میں واقع ہے جو عراق کے شمال میں آج کل کردوں کا علاقہ ہے، اس زمانہ میں جس زمانے کی یہ بات ہے وہاں اسیر ینز کی حکومت تھی حضرت یونس کا زمانہ آٹھ سو سال قبل مسیح بیان کیا جاتا ہے.لیکن مختصرا" اب میں بائبل کے متعلق بتاتا ہوں کہ بائبل کیا کہتی ہے پھر میں قرآن کریم کی طرف آؤں گا کہ قرآن کریم کیا بیان فرماتا ہے.بائبل کے نزدیک حضرت یونس جن کو جو نا یا ہونا کہا جاتا ہے اور انکے نام کی ایک کتاب بھی بائبل میں ہے.ان کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ تو نینوا بستی کو جا کر ڈرا کہ اگر وہ تو بہ نہیں کرے گی تو ہلاک کر دی جائے گی حضرت یونس نینوا جانے کی بجائے یا فا چلے گئے اور یافا جا کر آپ نے وہ کشتی پکڑ لی جس میں سے بالآخر آپ کو قرعہ اندازی کے بعد باہر پھینک دیا گیا اور مچھلی نے آپ کو نگل لیا.اول تو یہ بات قرین قیاس نہیں یعنی ایک مومن جس نے قرآن کریم کا مطالعہ کیا ہو اور انبیاء کی عظمت کا تعارف قرآن کریم سے حاصل ہوا ہو وہ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ خدا ایک نبی کو مشرقی علاقے میں کسی شہر میں جانے کا حکم دے اور وہ اس طرف پیٹھ کر کے مغرب کی طرف روانہ ہو جائے اور خدا کے حکم کا انکار کرکے کسی اور جگہ کا رخت سفر باندھے کسی اور جگہ کی تیاری کرلے.یہ تو شان نبوت کے بالکل خلاف بات ہے.ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی نبی ایسی کھلی کھلی خدا تعالیٰ کی نافرمانی کرے.دوسرے وہ زمانہ وہ ہے جبکہ اسیریا کی عراق کے شمالی علاقہ میں بہت ہی زبر دست

Page 297

294 حکومت تھی اور یہ وہی زمانہ ہے جس میں اسیر ہنر نے سب سے پہلے حملہ کرکے بنی اسرائیل کی حکومت کو پارہ پارہ کیا تھا.پس تاریخی نکتہ نگاہ سے ناممکن دکھائی دیتا ہے کہ اس زمانے میں فلسطین کے کسی باشندے کو خدا تعالیٰ یہ حکم دے کہ پانچ سو میل تو سیدھا رستہ ہے، ویسے زمینی سفر کا جو رستہ ہے وہ بہت لمبا بنتا ہے) اتنا لمبا رستہ طے کر کے تم نینوا جاؤ اور وہاں جاکر انکو دھمکاؤ، پس یہ قرین قیاس بات دکھائی نہیں دیتی.دوسرے یہ کہ نینوا بستی کے متعلق اس زمانے میں ایسی کوئی شہادت نہیں ہے کہ وہاں کسی نبی نے بھی کسی قسم کی منادی کی ہو اور اس کے نتیجے میں ساری بستی ایمان لے آئی ہو.پس بائبل کا قصہ کئی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے دوسرے بائیل نے جو واقعات کی ترتیب بیان کی ہے وہ بھی عجیب و غریب ہے.بائبل کے مطابق حضرت یونس نے خدا کا انکار کرتے ہوئے نینوا کی طرف جانے کی بجائے یافا سے کشتی پکڑی اور کسی اور جگہ کا رخ اختیار کیا.سمندر میں طوفان آگیا اور جب کشتی ڈوبنے کے قریب ہوئی تو لوگوں نے کہا کہ ہم میں کوئی گنہگار ایسا ہے جس کی وجہ سے خدا تعالی کا عذاب نازل ہونے لگا ہے.اس وقت حضرت یونس نے اقرار کر لیا اور کہا کہ میں ہی وہ ہوں جس کی وجہ سے تم سب کی شامت آگئی ہے، اس لئے بہتر یہ ہے کہ تم مجھے کشتی سے باہر پھینک دو.چنانچہ ان کو کشتی سے باہر پھینک دیا گیا، وہاں ایک بڑی مچھلی نے آپ کو نگل لیا اور بائبل کے بیان کے مطابق تین دن اور تین رات مسلسل آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے.پھر مچھلی نے آپ کو کسی جگہ اگلا وہاں سے پھر آپ واپس نینوا گئے اور اس طرح بالآخر خدا کی بات پوری کی.نینوا جانے کے بعد بھی آپ نے حقیقت میں سچی توبہ نہیں کی بلکہ نینوا والوں کو پیغام دیتے ہوئے یہ بھی کہتے تھے کہ مجھے پتہ ہے کہ ان لوگوں نے توبہ کر لیتی ہے اور خدا نے معاف کر دیتا ہے اور خوامخواہ میں بے عزت ہو جاؤں گا.چنانچہ جب نینوا کو اللہ تعالیٰ نے تباہ نہیں فرمایا اور نینوا کے باشندوں نے توبہ کر لی تو حضرت یونس خدا تعالٰی سے روٹھ کر وہاں سے پھر جنگل کی طرف چلے گئے.وہاں بائیبل کے بیان کے مطابق خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے ایک بیلدار درخت اگایا جس کی

Page 298

295 چھاؤں میں آپ نے امان حاصل کی لیکن پھر ایک کیڑا بھیج دیا جس نے اس کی جڑیں کھا لیں اور وہ درخت کھو کھلا ہو کر زمین پر جا پڑا تب حضرت یونس نے ایک اور شکوہ کیا کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا کہ ایک چھاؤں تھوڑی سی تھی اس سے بھی میں محروم رہ گیا.اللہ تعالٰی نے پھر ان کو کہا کہ یہ درخت تو نے نہیں لگایا تھا اور اس ایک درخت کے مرنے پر تجھے اتنا افسوس ہے جس کے لگانے میں تیری محنت کا کوئی دخل نہیں اور مجھ سے یہ توقع رکھتا ہے کہ لاکھ سے زائد بندے جو میں نے پیدا کئے ان کو آنا " فانا تباہ کر دوں.تب حضرت یونس کو یا یونا کو نصیحت حاصل ہوئی.حضرت یونس کے بارے میں قرآنی بیان قرآن کریم اس سے بالکل مختلف روایت بیان فرماتا ہے.سب سے پہلے یہ کہ قرآن کریم میں نینوا بستی کا کوئی ذکر نہیں اور مفسرین نے بائبل کو پڑھ کر اندازہ لگایا ہے کہ بستی نینوا ہی ہوگی.بعضوں کا خیال ہے ذوالنون یعنی نون والا جو کہا گیا ہے اس سے نینوا بستی والا مراد ہے حالانکہ نون مچھلی کو کہتے ہیں اور صاحب حوت بھی آپ کو قرار دیا گیا ہے.اس لئے پہلی بات تو یہ ہے کہ نینوا کا کوئی ذکر نہیں.دوسرے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اگر نینوا سے ناراض ہو کر آپ واپس جائیں تو سات آٹھ سو میل دور جا کر یافا کی بندرگاہ سے کیوں جہاز پکڑیں.آپ کے ساتھ ہی دریائے دجلہ تھا.نینوا کی بستی دریائے دجلہ کے ایک کنارے پر واقع ہے، وہاں سے کشتی لے کر آپ جو بھی سفر اختیار کرنا چاہتے اختیار کر سکتے تھے اس لئے یہ بات بھی قرین قیاس نہیں ہے.پس بائبل کے بیان کے بر عکس قرآن کریم نے اول تو اس بستی کا ذکر نہیں فرمایا دوسرے جو واقعہ بیان فرمایا ہے وہ بہت ہی معقول اور مربوط ہے اور اس میں کسی قسم کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں.خصوصیت کے ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم نے آپ کے تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہنے کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.یہ فرمایا ہے کہ مچھلی نے آپ کو نگلا اور یہ بھی فرمایا ہے کہ آپ نے اس تکلیف اور دکھ کی حالت میں یہ دعا کی ہے اور ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ مچھلی نے اگل دیا، لیکن یہ کہیں ذکر نہیں کہ تین دن اور تین رات آپ مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے.پس یہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ آپ کچھ

Page 299

296 عرصہ کے لئے وہاں رہے ہوں.اس بات کی وضاحت کی اس لئے خصوصیت سے ضرورت پیش آئی ہے کہ عموما" احمدی عیسائیوں کے ساتھ گفت و شنید کرتے وقت اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے اور زندہ رہے اور زندہ حالت ہی میں باہر نکالے گئے اسی طرح حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام تین دن کی آزمائش کے بعد جس میں چند گھنٹے صلیب پر کلک لٹکنا اور بقیہ عرصہ ایک قبر نما جگہ میں رہتا ہے آپ زندہ وہاں سے باہر نکلے تو میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے جس بات کا ذکر نہیں کیا وہ حکمت سے خالی نہیں.تین دن کا بائبل میں جو ذکر ہے وہ یقیناً غلط ہے.تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں کوئی چیز خدا کے قانون کے مطابق زندہ نہیں رہ سکتی اور اس عرصے میں ہڈیاں گل سڑ کے ختم ہو چکی ہوتی ہیں.یعنی ہر قسم کا گوشت گل سڑ کے ختم ہو جاتا ہے صرف ہڈیوں کا پنجر باقی رہ جاتا ہے اور اس کے علاوہ دم گھٹنا اور تیزابی حالتیں یہ تو سوچنے والی بات ہی نہیں ہے.پس قرآن کریم نے تین دن کا جو ذکر نہیں کیا وہ حکمت سے خالی بات نہیں ہے.معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی نے نگلا ہے اور اس کیفیت میں حضرت یونس نے بے اختیار یہ دردناک دعا کی ہے کہ اے خدا میں کن ظلمات میں پھنس گیا ہوں.یہ میری اپنی ہی ظلمات ہیں، اپنے گناہوں کی ظلمتیں ہیں اور میں اب تجھ سے التجاء کرتا ہوں کہ مجھے معاف کر دے، میں اپنے جرم کا اقرار کرتا ہوں تو اسی وقت قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی نے انکائی لی ہے اور حضرت یونس کو اگل دیا ہے اور یہ اتنی سی دیر ہوگی کہ سمندر کے اتنے پانی میں جہاں وہ بڑی مچھلی آجاتی ہے صرف اس سے ساحل تک پہنچتے پہنچتے کا عرصہ ہے کیونکہ آپ کو ساحل کے اوپر اگلا گیا ہے.پھر آپ نے وہاں چند دن ایک بیل کے سائے میں گزارے.اسی بیل کا پھل کھایا جس نے آپ کو شفاء بھی بخشی اور کچھ توانائی بھی دی اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ نے ہجرت کے بعد نبوت کا عرصہ شروع کیا.پس خلاصہ جو قرآن کریم کی رو سے بنتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یونس نبی نینوا یا کسر

Page 300

297 ایک بستی میں جس کی طرف آپ مبعوث ہوئے تھے خدا کا پیغام لے کر گئے اور بہتی والوں نے انکار کیا تو اللہ تعالی نے آپ کو خبر دی کہ اگر اس بستی نے توبہ نہ کی اور استغفار سے کام نہ لیا تو اس عرصے کے اندر اندر یہ ہلاک ہو جائے گی جیسا کہ دیگر انبیاء کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے اس اطلاع کے بعد حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام وہاں سے ہجرت کر کے کچھ فاصلے پر جاکر ٹھہر گئے اور آنے والوں سے اس بستی کا حال پوچھتے رہے یہاں تک کہ مقررہ وقت گزر گیا.حضرت یونس کو یہ علم نہیں تھا کہ اس عرصے میں اس بہتی نے نہ صرف توبہ کی بلکہ ایسے دردناک طریق پر اللہ تعالٰی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی کہ ارحم الرحمین خدا ایسی التجاؤں کو رد نہیں فرمایا کرتا.دیگر روایات اور بائیل کا بیان چنانچہ بیان کیا جاتا ہے لیکن یہ قرآن کریم کا بیان نہیں یہ روایات کا اور بائیل کا بیان ہے کہ بستی کے لوگوں نے حضرت یونس کے نکل جانے کے بعد یہ خیال کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے، یہ خدا کا نیک بندہ تھا اس کی باتیں ضرور پوری ہونگی اس لئے نجات کی صرف یہ راہ ہے کہ ہم سارے اس شہر کو چھوڑ کر ہا ہر میدان میں نکل جائیں اور خدا کے حضور سخت گریہ و زاری کریں اور گریہ و زاری کا اثر پڑھانے کیلئے اور لوگوں کے دلوں میں درد پیدا کرنے کیلئے انہوں نے یہ ترکیب کی کہ ماؤں نے اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلایا اور بکریوں کے بچوں کو تھنوں سے جدا رکھا گیا اور باہر میدان میں جب اس حالت میں گئے تو بچوں کے رونے اور چلانے اور جانوروں کے جو بھوکے تھے اور پیاسے تھے شور مچانے کے نتیجے میں ایک کہرام مچ گیا اور ایسی درد ناک حالت ہوئی کہ وہ سارا بڑا میدان جس میں ایک لاکھ کے لگ بھگ شہر کے لوگ بڑے چھوٹے موجود تھے ، قیامت کا نمونہ بن گیا اور اس طرح وہ روئے اور چلائے کہ جیسے جانوروں کو ذریج کیا جاتا ہے اور وہ تڑپتے ہیں تو چنانچہ خدا تعالٰی کو اس حالت پر رحم آگیا اور خدا نے اپنے وعید کو ٹال دیا.

Page 301

298 قرآن کی روشنی میں واقعات کا خلاصہ ، چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کاش باقی لوگ بھی جن کو خدا کے انبیاء نے ڈرایا یونس کی قوم کی طرح ہوتے.وہ گریہ و زاری کرتے وہ توبہ و استغفار کرتے ہم ان کو ، بھی بخش دیتے اور ان کا دنیا میں نفع کی حالت میں رہنا لمبا کر دیا جاتا، یعنی اچھی حالتیں ان کی لمبی کر دی جاتیں اور ان کو خدا کا عذاب نہ پکڑ لیتا تو یہ وہ واقعہ ہے، حضرت یونس چونکہ اس بات سے بے خبر تھے جب وقت معینہ گزر گیا اور ایک دیہاتی جو اس شہر سے آرہا تھا اس سے حضرت یونس نے پوچھا کہ کیوں جی! بتاؤ اس بستی کا کیا حال ہے؟ تو اس نے کہا وہ ٹھیک ٹھاک ہے بس رہے ہیں.اس پر حضرت یونس اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ وہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا اور میرے ذریعے انکو یہ وعید دیا تھا کہ تم ہلاک کئے جاؤ گے اور ہلاک نہیں کیا تو شرم کے مارے وہ بستی کو نہیں لوٹے.قرآن کریم اس کے بعد کے واقعات کو بہت ہی لطیف انداز میں بیان فرماتا ہے.فرماتا ہے ان يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ یا د رکھو کہ یونس مرسلین میں سے تھا.اس گواہی کے ساتھ اس کہانی کا آغاز ہوتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے متعلق ایسی بات نبه آمد و یا جو مرسلین کی شان کے خلاف ہے.اس کے متعلق یہ نہ خیال کر لینا کہ خدا نے اس کو حکم دیا کہ تو فلاں جگہ جا اور وہ نا فرمانی کرتے ہوئے کسی اور جگہ کی طرف چل پڑا تو مرسل وہ بہر حال تھا.مرسلین سے بھی بعض دفعہ کچھ غفلتیں ہو جاتی ہیں.عام انسان اس سے سینکڑوں گنا بڑی غفلتیں کرتا ہے اور پکڑا نہیں جاتا کیونکہ اس کے معیار کے مطابق وہ گناہ نہیں بنتا لیکن جتنا بلند مقام ہو اتنا ہی داغ نمایاں ہوتا جاتا ہے اور معمولی داغ بھی سفید کپڑوں پر بڑا ہو کر دکھائی دیتا ہے.پس یہ مضمون ہے جس کی طرف قرآن کریم اشارہ فرما رہا ہے.ان يؤنس لمنَ الْمُرْسَلِينَ که یونس بهر حال مرسلین میں سے تھا.خدا کے برگزیدہ بندوں میں سے تھا جس کو خدا نے اپنا پیغام بر بنا کر بھیجا تھا.اس لئے جو کچھ بھی اس سے غلطی ہوئی وہ مرسلین میں پھر بھی رہے گا اور سنئے والوں پر واجب ہے کہ وہ ادب کے تقاضوں کو ہاتھ سے نہ چھوڑیں ان ابق الی الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ جب وہ بھاگتا ہوا ایک بھرے ہوئے جہاز میں داخل ہوا.

Page 302

299 الیق کا مطلب ہے جیسے گاڑی چھوٹتی ہوئی آپ دیکھتے ہیں تو دوڑ کے پکڑتے ہیں گاڑی یا جہاز کی سیٹیاں بج چکی ہیں، رخصت ہونے والا ہے تو آپ تیزی سے آگے جاتے ہیں کہ میں رہ نہ جاؤں تو فرمایا کہ وہ جہاز پہلے ہی بھرا ہوا تھا اور چل رہا تھا حضرت یونس نے دیکھا تو دوڑ کر اس کو پکڑا.فَسَاحَة فَكَانَ مِنَ الْمُدْحَضِينَ قرع حضرت یونس نے ڈالا.اقرار وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اپنے گناہوں کا انکے سامنے اقرار کیا.معلوم ہوتا ہے جہاز ڈولا ہے، پہلے ہی بھرا ہوا تھا، طوفان آگیا ہے، لوگ ڈر گئے تو یہ فیصلہ ہوا کہ قرعہ ڈالا جائے اور جہاز کا لفظ تو اس پر اطلاق ہی نہیں کرتا.اس زمانے کے لحاظ سے جہاز کہلاتا ہو گا لیکن ایک عام کشتی تھی ورنہ جہاز سے ایک آدمی کے پھینک دینے سے تو کوئی فرق نہیں پڑا کرتا.اتنی بڑی کشتی تھی اس سے بڑی نہیں تھی کہ اگر اس میں سے ایک آدمی بھی باہر پھینک دیا جائے تو اس کے نہ ڈوبنے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں بچ جانے کے امکان پیدا ہو سکتے ہیں.چنانچہ خدا کی شان ہے کہ حضرت یونس سے قرعہ ڈلوایا گیا اور اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ پہلے ہی چونکہ بہت سے مسافر بھرے ہوئے تھے ، حضرت یونس چونکہ بعد میں آئے تھے ، اگر کوئی اور قرعہ ڈالتا تو حضرت یونس کو یہ شک پڑ سکتا تھا کہ مجھے انہوں نے نکالنا ہی تھا بہانہ بنالیا ہے، اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کو بتانے کے لئے کہ میری تقدیر کام کر رہی ہے اس میں کسی بندے کی سازش کا دخل نہیں ہے، ایسا انتظام کیا کہ کشتی والوں نے آپ ہی کو کہا کہ آپ قرعہ ڈالیں چنانچہ جب قرعہ نکالا تو آپ کا نام نکلا اور مُنحَضِينَ یعنی سمندر میں پھینکے ہوؤں میں سے وہ ہو گیا.فانتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَهُوَمُلِيمُ اس حالت میں مچھلی نے اس کو نگلا کہ وَهُوَ مُلِیہ کہ وہ ملامت کرنے والا تھا یعنی اپنے نفس پر ملامت کرنے والا تھا یا ملامت زدہ تھا فلولا انه مان من المستعین پس اگر ایسا ہوتا کہ اس سے پہلے وہ خدا کی تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا لليث في بَطْبة إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ تو یونس مچھلی کے پیٹ میں اس وقت تک رہتا کہ جس وقت دوبارہ انسانوں کو حشر کے دن اٹھایا جائے گا.

Page 303

300 خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں کو سبق دینے کا انداز ان آیات میں اگر آپ ذرا سا مزید غور کریں تو حضرت یونس کے ساتھ جو واقعات پہلے گزرے تھے ان کا بڑے لطیف رنگ میں ذکر موجود ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں ہمیں بتایا کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو سبق دیتا ہے تو نہایت ہی لطیف رنگ میں ان غلطیوں سے مناسبت رکھتے ہوئے سبق دیتا ہے جو ان سے پہلے ہو چکی ہوتی ہوتی ہیں اب یاد کریں کہ حضرت یونس نے ایک بھرے ہوئے شہر کو چھوڑا تھا، وہ بھرا ہوا شہر ایسا تھا کہ جو اپنے گناہوں کے باعث ہلاک ہونے کے لائق تھا اور خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ صرف یونس ایک ایسا انسان ہے جو بچائے جانے کے لائق ہے اور بھرے ہوئے شہر کو ہلاکت کا نشانہ بنتے ہوئے چھوڑ کر خدا کی وحی کے مطابق حضرت یونس اس شہر سے الگ ہوئے.چونکہ اس کے بعد ان سے ایک غلطی سرزد ہوئی اور دل میں یہ خیال گزرا کہ شائد خدا میرے خلاف کوئی فیصلہ نہ کرے چونکہ آپ مرسلین میں سے تھے اس لئے ہم یہ بدظنی نہیں کریں گے کہ یہ خیال انہوں نے کیا کہ اللہ تعالیٰ مجھے پر قادر نہیں ہو سکتا.میں نے غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجمہ کرنا یہاں درست نہیں ہے بلکہ بہت ہی لطیف بات ہے جو بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت یونس نے یہ سوچا ہوگا کہ وہ خدا جو ایک لاکھ گنہگاروں کو سخت گناہوں کے باوجود اس فیصلے کے باوجود کہ میں ان کو ہلاک کردوں گا پھر معاف کر دیتا ہے، تو مجھے کہاں پکڑے گا پھر؟ میں تو پھر نیک بندوں میں شمار ہوتا ہوں.میں تو اس کے مرسلین میں سے ہوں.مجھ سے تو زیادہ رحمت کا سلوک کرے گا.پس اس آیت یعنی مجھ پر قدرت نہیں پا سکے گا کا یہ مطلب ہے کہ اللہ میرے خلاف فیصلہ نہیں دے گا.جو اننا رحم کرنے والا خدا ہے اس نے مجھے کیا کچھ کہتا ہے؟ لیکن یہ بات وہ بھول گئے کہ ہر شخص سے اس کے حالات اور اس کی توفیق کے مطابق سلوک کیا جاتا ہے.خدا کے نیک بندوں سے بہت زیادہ اونچی توقعات ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ نے حضرت یونس کو یہ سبق دینا تھا کہ جب خدا تعالیٰ چاہے اس صورت حال کو بالکل الٹ سکتا ہے.پس اب آپ کشتی کی طرف آئیں ایک بھری ہوئی کشتی تھی ، وہاں حضرت یونس کے سوا سارے گنہگار تھے لیکن خدا تعالی

Page 304

301 نے ان سب گنہ گاروں کو بچا لیا یعنی بظاہر اور جو سب سے معصوم انسان تھا اس کو ہلاکت کی طرف باہر پھینکوا دیا اور جو بھی اس پہلے شہر میں واقعہ گزرا تھا اس سے بالکل الٹ مضمون ہو گیا.وہاں حضرت یونس ایک بھرے ہوئے شہر کو چھوڑ کر جارہے تھے، جس سارے شہر کو خدا کی تقدیر نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور صرف یہ ایک معصوم انسان تھا جسے نجات کی خبر دی گئی تھی اور کشتی کی حالت یہ تھی کہ گنگاروں سے بھری ہوئی تھی اور خدا کی تقدیر یہ کہہ رہی تھی کہ ان سب کو میں معاف کرتا ہوں اس نیک بندے کو یہاں سے نکالا جائے جس نے مجھ پر بد ظنی کی ہے اور اسے ہلاکت کے منہ میں ڈال دیا جائے.چنانچہ مچھلی نے آپ کو نگل بھی لیا، وہاں ظلمات کا لفظ استعمال کرنا اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سکھائی ہوئی دعا تھی.بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے.قنادى في الظلمت أن لا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَنَكَ وَإِن كُنتُ من الظلمین : ایک ظلمت کا کام اس سے سرزد ہوا تھا ساری زندگی نور میں کئی اور ہلکا سا ظلمت کا سایہ آیا جو اس نے خدا تعالٰی پر بد علنی کرلی.اس کے نتیجے میں وہ ظلمات میں گھیرا گیا.قتادى في الظلمت کئی قسم کے اندھیروں میں اس نے بے اختیار یہ دعا کی.آن لا إله إلا انت اے خدا تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے.شبختك تو بہت ہی پاک ہے.اني كنتُ مِنَ الظَّلِمِينَ میں ہی ظالم انسانوں میں سے تھا.اور ظلمت اور ظلم یہ دونوں ایک ہی طبع سے نکلے ہیں اور دونوں ہم معنی ہیں.ظلم کا مطلب گناہ بھی ہے اور اندھیرا بھی ہے.پس اس دعا کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے آپ کو دوبارہ نجات بخشی اور یہ فرمایا لولا آنها كَانَ مِنَ الْمُعِينَ میں نے جو یونس کو معاف کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کی ساری زندگی تسبیح و تحمید میں گزری تھی.پس خدا تعالٰی اپنے بندوں کی سابقہ نیکیوں کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھتا ہے اگرچہ غلطی بہت بڑی ہی کیوں نہ ہوئی ہو جو خدا توقع رکھتا ہے اس کے خلاف انسان سے بعض دفعہ کوئی ایسی غلطی سرزد ہو جاتی ہے جس سے گویا اس کا پچھلا سارا اعمال نامہ سیاہ شمار کر لیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نیک بندوں کی نیکیوں کو اس طرح بھلا

Page 305

302 نہیں دیا کرتے.وہ ہمیشہ تسبیح و تحمید میں وقت گزارا کرتا تھا، اس میں ہمارے لئے یہ نصیحت ہے کہ ہم عین وقت کے اوپر جو دعا کریں کہ اے خدا ہم سے غلطی ہو گئی ہمیں ظلم سے نجات بخش ہمیں ظلمات سے نکال دے اور اس سے پہلے خدا کی تسبیح و تحمید نہ کریں تو ہماری دعا میں قبولیت کی وہ طاقت نہیں ہوگی.اس لئے ہمیں ہمیشہ خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کی حالت میں رہنا چاہئیے.اس وقت خدا کی تسبیح کرنی چاہئیے جبکہ خدا سے کوئی مطالبہ نہیں ہو رہا.کوئی بھیک مانگنے کے لئے اس کے در پر نہیں گئے بلکہ اس کی محبت میں اس کی یاد میں اس کے پیار میں ، ہم اس کی مدح کے گیت گا رہے ہوں اس کی تسبیح بلند کر رہنے ہوں.ایسی حالت میں ہمیں جب بھی مشکل پیش آئے گی تب خدا تعالیٰ اس پرانی تسبیح کو یاد کرتے ہوئے اگر چہ گناہ بڑا بھی ہو گیا ہو تب بھی مغفرت کا سلوک فرمائے گا.پس وہ لوگ جو بعض دفعہ مجھے یہ لکھتے ہیں کہ ہم مصیبت میں گھر گئے ہم نے تو بڑی التجائیں کیں، بڑا شور مچایا بہت روئے پیٹے ہماری دعا قبول نہیں ہوئی، ان کے لئے اس میں نصیحت ہے.معلوم ہوتا ہے کہ پہلی زندگی میں وہ خدا سے غافل رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے نعمتیں عطا کیں لیکن انہیں خدا کو یاد رکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اسی وقت یاد آیا جب کہ ضرورت پیش آئی تو جب ضرورت پیش آئے اس وقت کی یاد کی کوئی حقیقت نہیں ہوا کرتی کوئی قیمت نہیں ہوا کرتی.پس ضمنا " یاد کروا دوائے وہ تین دن والی جو بحث ہے اس کو اس طرح نہیں کرنا چاہئیے کہ آپ اصرار کریں کہ ضرور تین دن ہی مچھلی کے پیٹ میں رہے تھے.تین دن کی خطرناک حالت ہم کہہ سکتے ہیں، معلوم ہوتا ہے بائبل میں جو واقعہ ہے وہ لکھنے والوں پر پوری طرح واضح نہیں تھا خد اتعالیٰ نے ممکن ہے کسی نیک بندے پروحی کی ہو یا ایک باہر کے نبی کا قصہ وہاں پہنچا ہو اور اس میں غلطی رہ گئی ہو.تین دن کی انتہائی نازک حالت کا ذکر ہو گا جس کو یہ سمجھ لیا گیا کہ گویا تین دن مچھلی کے پیٹ میں رہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دل کا حملہ ہوتا ہے تو تین دن تک بعض دفعہ ایک شخص Intensive care میں رکھا جاتا ہے یعنی ایسی حالت میں جہاں زندگی اور موت

Page 306

303 کے درمیان کشمکش جاری ہوتی ہے.پس وہ حالت جس میں بظا ہر موت غالب آنے والی ہوا سے ہم خطرناک حالت قرار دیتے ہیں ، بیماری تو بعد میں بھی کچھ چلتی ہے ، لیکن اس بعد کی حالت میں صحت کے غلبے کے امکان بڑھ جاتے ہیں.پس حضرت عیسی علیہ الصلوة والسلام کے ساتھ بھی صلیب پر چند گھنٹے رہنے کے بعد دو اڑھائی دن ایسی ہی حالت رہی کہ گویا جانکنی کی حالت تھی.شدید گہرے زخموں میں آپ مبتلا تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ دم آیا کہ نہ آیا، کچھ کہا نہیں جا سکتا تھا، تو تین دن کی مشابہت اس رنگ میں حضرت یونس سے ہوئی کہ حضرت یونس علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی مچھلی نے خواه چند ثانیوں کے لئے یا ایک دو منٹ کے لئے ہی پیٹ میں رکھا ہو، جب اگلا ہے تو اس کے زخم بھی اتنے کاری تھے اور اتنا گہرا نقصان ہو چکا تھا کہ تین دن اس کے بعد جان کنی کی حالت میں رہے ہیں.اگر خدا تعالی بیل اگا کر اس کا سایہ نہ کر دیتا اور اس بیل میں شفا نہ رکھتا تو آپ کے بچنے کے بظاہر کوئی امکان نہیں تھے اور ایسی حالت سے بھی اللہ تعالیٰ نجات بخش دیتا ہے.پس جہاں بعض احتیاطوں کے سبق ہیں وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بے انتہا ہونے کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے.ایسی خطرناک حالت میں بھی خدا تعالیٰ بچا سکتا ہے جس سے بظا ہر بچنے کی کوئی صورت حضرت زکریا کی دعا کا حقیقی مفہوم رت نہ ہو.اب میں آخر پر حضرت ذکریا کی دعا کے بعد اس خطبہ کو ختم کروں گا حضرت زکریا کی ایک دعا پہلے بھی گزر چکی ہے.اب جو دعا قرآن کریم نے دوسرے لفظوں میں ہمارے سامنے رکھتی ہے وہ یہ ہے وَزَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبِّهُ رَبِّ لَا تَذَرْنِ فَرْدًا وانت خير الورثنين (سورۂ انبیاء : آیت ۹) کہ زکریا کو بھی یاد کرو یاذ نادی ر جب اس نے اپنے رب کو پکارا اور یہ عرض کیا اے میرے خدا! مجھے اکیلا نہ چھوڑ وانت تخير الوارثین اور سب وارثوں میں بہتر تو ہی وارث ہے.پہلی دعا سے متعلق اگر کسی کو غلط فہمی پیدا ہوئی ہو تو اس دعا میں اس کا ازالہ فرما دیا گیا ہے.پہلی دعا میں یہ ذکر تھا کہ آپ نے یہ عرض کی کہ اے خدا! میرا کوئی ولی نہیں ہے، مجھے شریکوں کا ڈر ہے میری بیوی بانجھ ہے اور بوڑھی ہے

Page 307

304 میرے مرنے کے بعد وہ اکیلی رہ جائے گی تو کوئی اس کی حفاظت کرنے والا نہیں ہو گا اس سے کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ حضرت ذکریا کے نزدیک ظاہری اولاد کی ظاہری حکمتوں کے پیش نظر اہمیت ہے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر میرا وارث نہ ہوا تو میرے پیچھے میری بیوی گویا لاوارث رہ جائے گی تو حضرت زکریا چونکہ خدا تعالیٰ سے بے انتہاء پیار کرنے والے اور اس پر بے حد تو کل کرنے والے انسان تھے اس لئے اس غلط فہمی کے ازالہ کیلئے ان کی ایک اور دعا بھی قرآن کریم میں بیان فرما دی ، اس میں وہ کہتے ہیں کہ میری خواہش تو یہی ہے کہ میں اکیلا نہ رہوں، میرے بعد میری اولاد ضرور آئے لیکن یہ معنی نہیں ہیں کہ اولاد نہ ہوئی تو میرے پیچھے میری بیوی اور باقی جو بھی سلسلہ ہے وہ لاوارث ہو جائے گا وَانتَ خَيْرُ الوارثین ہر شخص کے بعد تو ہی اصل وارث ہوا کرتا ہے اور اس کی ہر جائیداد ہر عزت ہر دولت اور ہر ذمہ داری میری طرف لوٹ جاتی ہے.یہاں وارث کے دو معنی ہیں.ان دونوں معنوں میں آپ کو دعا کرنی چاہئیے.یعنی ان دونوں معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے دعا کرنی چاہیے.ایک وارث وہ ہے جو جائیداد پالیتا ہے اور ایک وارث وہ ہے جو ذمہ داریاں ورثے میں پاتا ہے اور سچا ارث وہ ہوتا ہے جو انکو ادا کرتا ہے تو وانت خير الوارثین میں یہ دونوں باتیں شامل ہیں.مطلب یہ ہے کہ اے خدا جو کچھ میرا ہے میرا تو ہے ہی کوئی نہیں.کسی کا بھی کچھ نہیں ، ہم تو مر کز یہاں سے چلے جانے والے ہیں، جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا ہے وہ سب تیری طرف واپس لوٹتا ہے اور تو ہی ہے جو باقی رہے گا اور ہر چیز آخر تیری ہی ہوگی.دوسرا معنی یہ ہے کہ دنیا والے وارث تو اپنی ذمہ داریاں ادا کریں نہ کریں، جو تجھ پر توکل رکھتے ہیں ان کا صحیح وارث تو ہی ہوا کرتا ہے اور انکے سارے بوجھ تو اٹھا لیتا ہے انکے قرضے اتارنے کا بھی تو ہی انتظام کرتا ہے، انکی دیگر ذمہ داریوں کا بھی تو ہی ذمہ دار بن جاتا ہے.پس وارث ان دونوں معنوں میں ہے.قبولیت دعا کی حکمت پس وہ لوگ جو اولاد کی تمنا رکھتے ہیں ان کو یہ دعا ان معنوں میں کرنی چاہئے کہ ہم تمنا تو رکھتے ہیں مگر یہ مطلب نہیں ہے کہ اولاد نہیں ہوگی تو نام برباد ہو جائیں گے ہمارا تو

Page 308

305 ہی تو ہے اور تو ہمیشہ رہنے والا ہے اور جس کا تو ہو جائے اس کے نام مٹا نہیں کرتے.اس کی ذمہ داریاں اس کے بعد بھی ادا ہوا کرتی ہیں.پس اگر تو اولاد نہ دے تو ہم ناراض نہیں، ہم خفگی محسوس نہیں کرتے ، تمنا ہے اگر عطا کر دے تو بہتر ہے ورنہ تو بهترین وارث ہے، تیرے ہوتے ہوئے ہم کسی قسم کے شکوے کا حق نہیں رکھتے چنانچہ فرمايا ما ستجبنا له وَوَهَبْنَالَة يَخي واصلحنا له زوجه پس ہم نے اس کی دعا کو قبول فرمالیا اور اسے ہم نے بیٹی بطور تحفہ عطا کیا واضتحنا له زوجه اور اس کی بوڑھی بانجھ زوجہ کی اصلاح فرما دی.: إِنَّهُمْ كَانُوا يُسْرِعُوْنَ فِي الخيراتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا یہاں بھی قبولت دعا کی حکمت واضح فرما دی کہ کیوں بعض لوگوں کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.فرمایا الهُمْ كَانُوا يُسْرِعُون فی الخیرات یہ وہ لوگ تھے جو محض ضرورت کے وقت میرے پاس نہیں آیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ میری محبت کے نتیجہ میں نیک کاموں میں سبقت لے جایا کرتے تھے.بنی نوع انسان کی خدمت کیا کرتے تھے جو بھی بھلائی کا موقع آتا تھا اس سے چوکتے نہیں تھے بلکہ آگے بڑھ بڑھ کر نیک کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے وين مُوْنَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا اور ہمیشہ مجھے یاد کیا کرتے تھے اور میرے سے دعائیں کیا کرتے تھے رغبت رکھتے ہوئے بھی اور خوف رکھتے ہوئے بھی.بعض دفعہ میری رضا کی تمنا میں اور لالچ میں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور بعض دفعہ اس خوف میں دعا کیا کرتے تھے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ ہو جائے کہ خدا ناراض ہو جائے اور پھر فرمایا وَكَانُوا لنا خونین اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ عاجزی کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے.بہت ہی خشوع و خضوع کرنے والے تھے پس جن کا یہ دستور ہو ان کی دعائیں جو غیر معمولی حالات میں قبول ہوئی ہیں تو اس کا یہ پس منظر ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ذکریا کے حق میں خدا تعالیٰ نے ایسا اعجازی نشان دکھا دیا.ہم دعا مانگتے ہیں.ہماری بوڑھی بیوی تو کچھ بھی نہیں جنتی، ہماری بانجھ عورت کو تو کچھ نہیں ہوتا ہماری کمزوریاں تو دور نہیں ہوتیں، ان کے لئے نصیحت ہے کہ خدا سے غیر معمولی طلب کرنے والے اپنے اندر بھی غیر معمولی تبدیلیاں پیدا کیا کرتے ہیں.وہ اپنی زندگی کو خدا

Page 309

306 کی خاطر بدل دیتے ہیں اور محض اپنی ضرورت کے وقت خدا کے حضور حاضر نہیں ہوتے بلکہ ساری زندگی حاضر رہتے ہیں اور اس کی رضا پر بھی راضی رہتے ہیں، اس کے ابتلاء پر بھی راضی رہتے ہیں اور ہمیشہ یہ خوف ان کو دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں خدا ہماری کسی کو تاہی کی وجہ سے ہم سے ناراض نہ ہو اور ہم اس کی رضا سے محروم نہ رہ جائیں.پس کوتاہی ایسے لوگوں کی دعائیں غیر معمولی طور پر اعجازی رنگ میں قبول کی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ایسے بندوں میں شامل فرمائے کہ ہم اس سے بہت کچھ مانگیں اور التجاؤں کے ساتھ مانگیں لیکن اس فیصلے کے ساتھ مانگیں کہ اگر وہ رد کر دے گا تب بھی ہم راضی رہیں گے.حضرت مصلح موعود کا یہ شعر جو میں پہلے بھی بارہا پڑھ چکا ہوں مجھے بہت ہی پیارا ، آپ کے سب شعروں میں زیادہ پیارا لگتا ہے.وہ یہ ہے کہ ہو فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو.اے ہمارے اللہ ! چاہتے تو فضل ہیں لیکن فضل ہو یا ابتلاء آجائے ، تیری طرف سے اگر ابتلا آجائے اور رضا والا ابتلا ہو نا راضگی والا ابتلا نہ ہو.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو.اس روح کے ساتھ آپ دعائیں کیا کریں تو آپ نے سب کچھ پا لیا.وہی لوگ دنیا میں کامیاب ہوں گے جو مالک کی ہر ادا سے راضی ہوں.جن کو خیرات سے پیار نہ ہو خیرات دینے والے ہاتھ سے پیار ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 310

307 بيت الفضل - لندن دار مئی 1991ء بسم الله الرّحمنِ الرَّحِيمِ حق کے ساتھ فیصلہ فرمانے کی دعا تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- ان دعاؤں کا ذکر چل رہا ہے جو خد تعالی کی طرف سے انعام یافتہ بندوں نے کیں اور جن کا ذکر بطور خاص قرآن کریم میں محفوظ فرمایا گیا.ایک دعا سورۂ انبیاء کی آیت میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کی دعا کے طور پر محفوظ -4 قل رَبِّ احْكُمْ بِالْحَقِّ ، وَرَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ کہ اس نے کہا یعنی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے کہا : : قل رب احكم بالحق کہ اے میرے رب ! حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے وَرَبُّنَا الرَّحْمنُ المُسْتَعَانُ عَلى مَا تَصِفُونَ اور ہمارا رب بہت ہی رحم کرنے والا بن مانگے دینے والا ہے.المُشعان اور ان باتوں میں ہمارا مددگار ہے عَلى مَا تَصِفُونَ جو تم ہمارے خلاف بناتے ہو.اس دعا کا پس منظر اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ اس میں پہلے زیور کی اس پیشگوئی کا ذکر ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ الارض یعنی فلسطین کی زمین خدا تعالیٰ کے عبادت گزارہ صالح بندوں کو عطا کی جائے گی.ان الارض يرفهَا عِبَادِي الصَّلِحُونَ (یہ اس پیشگوئی کے الفاظ ہیں.اس سے کچھ آیات کے بعد پھر یہ آیت آتی ہے.وران آذري لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ لَّكُمْ وَمَتَاعُ إِلَى جذب یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ بیان فرما رہے ہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا یا میں نہیں جانتا کہ یہ جو وعدہ ہے شاید تمہارے لئے آزمائش کا ایک

Page 311

308 ذریعہ بنے اور ومتاع إلى جنین اور کچھ عرصہ کے لئے تمہیں اس سے فائدہ پہنچے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے مطلع فرما دیا تھا کہ اگرچہ خدا تعالیٰ کے صالح عبادت گزار بندے بہر حال اس سرزمین کے وارث بنائے جائیں گے مگر وقتی طور پر اس پر غیروں کا قبضہ ہو گا کیونکہ یہ آیت بہر حال مسلمانوں سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا بیان شمار نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہ وعدہ کہ خدا کے پاک بندوں کو اور عبادت گزار بندوں کو زمین دی جائے گی ایک مستقل وعدہ ہے اور جس قوم کو مخاطب کر کے آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ قران آذري لَعَلَّهُ فِتْنَةٌ نَّكُمْ اس سے کوئی مخالف گروہ مراد ہے مسلمان مراد نہیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تمہارے لئے یہ کیا آزمائش لے کر آئے گی یعنی یہ زمین جس پر تم قابض ہو گے تمہارے لئے کیا آزمائش کا موجب بنے گی.ومتاعوانی چنین ہاں کچھ مدت کے لئے تمہیں ضرور اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے.اس کے معا بعد یہ دعا ہے قُل رَبِّ احْكُم بالحق اے میرے رب ! حق سے فیصلہ فرما دے.مجھے یاد ہے جب سے خلیج (GULF) کا تنازعہ چل رہا تھا تو اس وقت بھی میں نے بہت سوچ کر یہی دعا کرنے کی احباب جماعت کو تلقین کی تھی کہ کسی ایک طرف کی بجائے حق کے جیتنے کی دعا کریں کہ اللہ تعالی حق کو فتح عطا فرمائے.پس چونکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کی دعا کے ساتھ یہ دعا منطبق ہو جاتی ہے اور بعینہ اسی مضمون کی دعا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس دور کے ساتھ اس دعا کا خاص تعلق ہے اور یہ فیصلے ابھی ہونے باقی ہیں، کسی ایک فریق کے جیتنے یا نہ جیتنے کی بحث نہیں ہے بلکہ اس تنازعہ کے نتیجے میں جو کچھ بھی آگے جدوجہد کا ایک سلسلہ جاری ہونے والا ہے، جو حالات بھی پیدا ہوں گے بالآخر ہماری دعا یہی ہے کہ اے خدا ! حق کے ساتھ فیصلہ فرما دے اور جن لوگوں کے مقدر میں یہ سرزمین لکھی گئی ہے بالآخران تک یہ پہنچے.چنانچہ اس کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنے رب سے عرض کرتے ہیں.وَرَبُّنَا الرَّحْمنُ الْمُسْتَعَانُ کہ ہمارا رب بہت ہی رحمت

Page 312

309 کرنے والا بے انتہاء دینے والا بن مانگے دینے والا ہے اور جو کچھ یہ لوگ ہم پر باتیں بتاتے ہیں یا تم لوگ ہم پر باتیں بتاتے ہو ان کے خلاف کہیں ہمارا رب مددگار ہوگا اور مددگار ہے.پس اس وسیع تر معنی میں یہ دعا کرنی چاہیئے.شدید مخالفت کے مقابل پر اسی قسم کی نصرت چاہنے کی دعا اس کے بعد دوسری دعا سورۃ المومنون کی آیت ۲۷ میں ہے.یہ حضرت نوح کی دعا ہے.اس سے پہلے کی آیات میں یہ ذکر ہے کہ حضرت نوح کی قوم کے سرداروں نے آپ کے متعلق طرح طرح کی باتیں بنائیں اور کہا کہ تم محض اپنی فضیلت چاہتے ہو اور خدا کا پیغام ہم تک پہنچانا محض ایک بہانہ ہے اور پھر یہ کہا کہ اگر خدا چاہتا تو اپنی طرف سے فرشتے نازل فرماتا.کجا یہ کہ تمہیں ہم پر پیغمبر بنا کر بھجواتا جو محض ایک انسان ہو اس سے تمہیں کوئی حیثیت حاصل نہیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انسان ہی نہیں ایک مجنون انسان ہو.تمہیں تو جنون ہو چکا ہے، دیوانے ہو گئے ہو.پس ہم اس بد انجام کا انتظار کر رہے ہیں جو تمہیں پہنچے گا.اس پر حضرت نوح نے یہ دعا کی کہ قَالَ رَتِ انصري بقا كذِّبُوت.اے میرے رب ! میری نصرت فرما بِمَا كَذَّبُونِ - بمَا كَذَّبُون کا ایک ترجمہ یہ ہے اور یہی ترجمہ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی کیا ہے کہ بسبب اس کے جو انہوں نے مجھے جھٹلا دیا اور ایک اور ترجمہ جو اس سیاق و سباق میں بر محل بیٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ بمَا كَذِّبُونِ میری جن باتوں میں یہ تکذیب کر رہے ہیں ویسی ہی مقابل کی نصرت عطا فرما یعنی جن جن باتوں میں یہ میری تکذیب کرتے ہیں ایسی نصرت فرما کہ ان سب باتوں میں یہ خود جھوٹے ثابت ہو جائیں.اس دعا کی قبولیت کا ذکر اگلی آیت میں ملتا ہے اور وہ انہیں معنوں میں ہے جن معنوں میں میں یہ ترجمہ کر رہا ہوں.فَاوْحَيْنَا الیه آن اضنّمِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْينًا - ہیں اس دعا کے بعد ہم نے نوح پر وحی نازل فرمائی کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے دیکھتے ہیں ایک کشتی بنا اور اس طرح کشتی بنا جس طرح ہم تم پر وحی نازل فرماتے ہیں.قاد اجاة آمونا اور جب ہمارا حکم آگیا.وَفَارَ التَّنُّورُ اور چشموں نے خوب جوش مارنا شروع کیا.فَاسْلُكْ فِيهَا مِن كُل زوجین تو اس وقت ہر

Page 313

310 قسم کے جاندار جو ضروری ہیں ان کے جوڑے لے لیتا اور اپنے اہل کو ساتھ لے لینا سوائے اس کے جن کے خلاف ہمارا فیصلہ گزر چکا ہو.ولا تقاطِبَنِي فِي الَّذِينَ ظلموا اور جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ان کے بارہ میں مجھے خطاب نہ کرنا یعنی میرے سامنے دعا نہ کرنا.إِنَّهُمْ تُعرفون وہ یقیناً غرق کئے جائیں گے.پس دراصل انہوں نے حضرت نوح کو نہ صرف جھوٹا اور ریاء کار بتایا بلکہ قوم کا حضرت نوح کو جو خطاب ہے وہ اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ ہم انتظار کر رہے ہیں اور ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ عرصے تک تم اپنے بد انجام کو پہنچنے والے ہو تو یہ تھا ان کا تکذیب کا ذریعہ اور تکذیب کا جو مدعا تھا وہ یہ تھا کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے یہ جھوٹا ثابت ہو اور ہلاک ہو جائے.پس چونکہ حضرت نوح نے یہ دعا کی کہ رب الصرف بِمَا كَذَّبُونِ اے میرے خدا! میری ویسی ہی نصرت فرما جیسی یہ میری تکذیب کرتے ہیں تو بعینہ اس کی قبولیت کے جواب میں اللہ تعالٰی نے حضرت نوح کی آنکھوں کے سامنے ان کی ہلاکت کی خبر دے دی.اور ایسا ہی ہوا.پس یہ دعائیں اگر اسی پس منظر کو پیش نظر رکھ کر کی جائیں جس پس منظر میں قرآن کریم نے ان کا ذکر فرمایا ہے تو ان کے اندر قوت بھی بہت پیدا ہو جاتی ہے اور ان کا مضمون بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے اور حالات کے ساتھ مربوط ہو جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ پر بھی جہاں جہاں ایسے حالات گزرتے ہیں یا آئندہ گزریں گے جماعت احمدیہ کو بھی ان دعاؤں سے اسی طرح استفادہ کرنا چاہئیے.ہے.نقل مکانی کرنے والوں کیلئے دعا سورۃ المؤمنون کی آیت ۲۹ اور ۳۰ میں ایک اور دعا کا ذکر ہے جو اسی سلسلے میں ہی فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أنتَ وَ مَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ پس جب تو اور جو بھی تیرے ساتھ ہو گا کشتی پر سوار ہو جاؤ گے اور اطمینان کے ساتھ محفوظ ہو جاؤ گے قفل الحمديلو الذي تخامِنَ الْقَوْمِ امن تو پھر یہ کہنا کہ الْحَمْدُ لله تمام حمد سب تعریف کامل تعریف محض اللہ ہی کے لئے ہے.الَّذِي تحسنا من القوم ANNOTANA جس خدا نے ہمیں ظالموں کی قوم سے نجات بخشی.

Page 314

311 قل رب انا لي منزلاً مبرحا اور پھر یہ دعا کرنا کہ اے میرے رب مجھے مبارک منزل پر اتارنا وانتَ خَيْرُ الْمُنزل اور تو سب مہمان نوازوں پرا سے اور اتارنے والوں سے بہتر مہمان نواز اور بہترا تا رنے والا ہے.یہ دعا ہجرت کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے.اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اس دعا کا ذکر گزر چکا ہے جو آپ کو ہجرت کے متعلق سکھائی گئی تھی.یہ دعا حضرت نوح کی دعا ہے کہ منزلاً مبرا ہو.جہاں میں جاؤں دنیاوی اغراض سے نہ جاؤں بلکہ جو کچھ بھی مجھے ملے تیری طرف سے ملے اور برکتیں عطا ہوں.وہ مہاجرین جو آج مختلف ظلم کی جگہوں سے ہجرت کر رہے ہیں یا کل کریں گے یا آئندہ زمانوں میں کریں گے ان کو ہمیشہ یہ دعا پیش نظر رکھنی چاہئیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم والی دعا تو بہت ہی جامع و مانع دعا ہے اس کے علاوہ یہ دعا بھی خاص حالات پر اطلاق پاتی ہے اور جو مہاجرین یہ دعا نہیں بھی کر سکے ان کو اب یہ دعا اپنی دعاؤں میں شامل کر لینی چاہیے تاکہ ان کی منزل مبارک ہو اور خدا ہی ہے جو ان کی دیکھ بھال کرنے والا ہو اور ان کی مہمانی کرنے والا ہو.اس دعا کے بغیر کسی قوم کو حقیقی میزبانی کا حق عطا نہیں ہو سکتا اور دنیا والے جو میزبانی یا مہمانی کرتے ہیں وہ ایک عارضی سی حیثیت رکھتی ہے.اس میں برکت نہیں ہوتی.پس مختلف علاقوں میں جانے والے احمدی مهاجرین کو انہیں مسائل کا سامنا ہے.بعض قو میں بعض دوسری قوموں کے مقابل پر زیادہ فراخ دل ہیں لیکن ہر جگہ اس معاملے میں کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہو رہی ہیں اور ویسے بھی بہت سے غیور احمدی ایسے ہیں جن کے دلوں پر بوجھ ہے کہ ہم جو غیر قوموں کی مدد پر بیٹھے ہوئے، جب تک ہمیں کام کی اجازت نہ ملے گویا ان کی خیرات پر پل رہے ہیں ان کے لئے یہ دعا بہت ہی اہمیت رکھتی ہے.اگر یہ دعا کر کے چلتے تو ان کے دل میں ہمیشہ یہ یقین رہتا کہ میری آؤ بھگت کرنے والا در اصل خدا ہی ہے اور میری دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اللہ تعالٰی نے یہ سامان فرمائے ہیں اور اس طرح وہ کسی قسم کی نفسیاتی الجھن کا شکار نہ ہوتے اور پھر اس مدد کے باوجود بھی جو مشکلات ہیں اور حالات میں بعض دفعہ کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں روز مرہ کی زندگی میں بے برکتی بھی ہوتی

Page 315

312 الظالمين ہے ان سب کا علاج یہ دعا ہے کہ رَبِّ انْزِلْنِي مُتَزَ لا تُبْرعًا اے میرے رب! مجھے ایسی جگہ اتار اور اس طرح مجھ سے سلوک فرما کہ میں برکتوں والی جگہ پر اترنے والا ہوں.ایسی برکتیں پانے والا ہوں جو تیرے حضور سے عطا ہوتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو جو دعائیں سکھائی گئیں ان میں سے ایک یہ بھی دعا ہے قُل رَبِّ إِمَّا تُرِينِي مَا يُوعَدُونَ - رَبِّ فَلَا تَجْعَلُونِ فِي الْقَوْمِ کہ تو کہہ دے اے میرے رب ! کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تو مجھے اپنی زندگی میں ہی دکھا دے جو تو میرے مخالفوں سے وعدے کرتا ہے یعنی ان سے جو وعید کرتا ہے ان کو جو انذار فرماتا ہے کیا ہو نہیں سکتا؟ کیا ممکن نہیں التجا کا ایک رنگ ہے.کہ میں بھی اپنی آنکھوں سے وہ دیکھ لوں.آپ فلا تجعلون في القوم الظلمينت اور میرے رب! مجھے ظالموں میں شمار نہ فرمانا.اس کے معا بعد خدا تعالی کی طرف سے یہ جواب ہے وا تَا عَلَى أَن تُرِيكَ مَا تَعِدُهُمْ تقدرون کہ یقیناً ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان سے وعید کرتے ہیں تجھے بھی اس میں سے کچھ دکھا دیں.الْقَوْمِ خود ہی دعا سکھانے اور خود ہی قبول کرنے کی حکمت اس موقعہ پر ایک یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالی نے خود ہی قبول کرتی ہیں، پھر خود ہی دعائیں کیوں سکھاتا ہے، اس میں کیا حکمت ہے ؟ اور یہ جو طرز مسلسل چل رہی ہے کہ اللہ تعالٰی اپنے انبیاء کو ایک طرف دعا سکھاتا ہے اور دوسری طرف اس کی قبولیت کا اعلان فرما دیتا ہے.اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے دراصل اپنے بچوں سے اپنے تعلقات پر نظر ڈالنی چاہیے.وہ پیارے پیارے بچے جن کو ابھی پوری طرح خود شعور نہیں ہوتا بہت سی باتیں کرنے کا سلیقہ نہیں ہوتا.والدین جو پہلے سے ہی کچھ دینے پر تیار بیٹھے ہوتے ہیں انہیں پہلے مانگنے کے طریقے بتاتے ہیں اور کئی طرح سے پیار کے رنگ میں ان کو کہتے ہیں کہ تم ہم سے یہ مانگو اس طرح مانگو اور پھر جیب پہلے ہی بھری ہوتی ہے.ہاتھ مچل رہے ہوتے ہیں کہ ادھر سے وہ مانگے اور ادھر ہم اس کو عطا کر دیں تو یہ پیار کے خاص انداز ہیں.پس انبیاء کو جو دعائیں سکھائی جاتی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے محبت کے

Page 316

313 اظہار کے رنگ ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں کرتے.کلتہ "خدا ہی کے ہاتھوں میں پلتے ہیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ " الصلوۃ والسلام نے فرمایا.ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کئے گود میں تیری رہا میں مثل طفل شیر خوار پس ایک طفل شیر خوار کی طرح انبیاء کی کیفیت ہوتی ہے.ماں باپ کی گود میں اور ہاتھوں میں کھیلتے اور انہیں سے باتیں سیکھتے ہیں اور وہی باتیں ان کو سکھائی جاتی ہیں جو سکھانے والے کو مقبول نظر ہوں، اس کو پیاری لگتی ہوں.پس اس رنگ میں ہماری تربیت کے بھی سامان ہو گئے جن سے براہ راست خدا کا حکم نہیں ہوتا اور بعد میں.آنے والی نسلوں پر اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ باتیں جن کے ہم حق دار نہیں کہ خدا ہمیں براہ راست سکھائے اپنے پیارے انبیاء کو سکھا کر ان کا ذکر محفوظ کر کے ہمیں بھی وہ طریقے بتا دئے.پس آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو آپ کے دشمنوں کا جو انجام دکھانا تھا وہ تو مقدر تھا.اس کے فیصلے ہو چکے تھے مگر اللہ تعالی نے آپ کو اس رنگ میں یہ دعا سکھائی کہ گویا آپ کی طلب پر عطا ہو رہا ہے اور طلب پر عطا ہونے میں اپنی ایک لذت ہے اور پھر معا بعد بلا توقف یہ اطلاع فرما دی کہ وانا على أن تُرِيكَ مَا تَعِدُهُمْ تَغدِرُونَ کیوں نہیں میرے بندے ہم ضرور اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ ہم ان کو ڈرا رہے ہیں تجھے بھی وہ دکھا دیں.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زندگی میں جو دشمن پر کامل غلبہ عطا ہوا اور طرح طرح کے معاند آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے غلاموں کے ہاتھوں عبرت ناک شکست کھا کر اس دنیا سے اپنے انجام کو سدھارے.یہ ساری باتیں اس دعا کے نتیجے میں تھیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مقدر تو تھا مگر دعا کے تعلق کے ساتھ تقدیر کو باندھ دیا گیا.اس سے ہمیں یہ حکمت بھی سمجھ آتی ہے کہ تقدیر الہی کا دعاؤں سے گہرا رابطہ ہے اور تقدیر کے بتانے میں دعا کام کرتی ہے.پس ایک پہلو جب تک تشنہ تکمیل ہو اس وقت تک تقدیر جاری نہیں ہوتی.پس اس خوش فہمی میں بیٹھے

Page 317

314 رہنا کہ فتح بہر حال ہمارے مقدر میں ہے اس لئے ہمیں کچھ کرنے یا کہنے کی ضرورت نہیں یہ غلط ہے.یہ مضمون بھی اس طرز کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقدیر اپنی جگہ درست لیکن تقدیر کی طلب اپنی جگہ ضروری ہے جیسا کہ گرمی ہوتی ہے تو مون سون پہنچ جاتی ہے.مون سون کا اٹھنا اپنی جگہ اپنے قانون کے مطابق ہے لیکن اس کو طلب کرنے کے لئے کسی خاص علاقے کی خاص گرمی کی بھی ضرورت ہے.چنانچہ وہ گرمی اگر پوری طرح میسر نہ آئے تو مون سون تو اپنی جگہ اٹھتی ہی ہے لیکن اس علاقے پر بعض دفعہ نہیں برتی.پس اس لحاظ سے یعنی یہ مضمون تو بعینہ صادق نہیں آتا مگر یہ ایک ملتی جلتی مثال ہے ہمیں اپنی فتح کی دعاؤں سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے اور یہ سمجھ کر کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے وعدے فرمائے ہیں کہ آخرین کے دور میں میں اسلام کو تمام دیگر ادیان پر غلبہ عطا فرماؤں گا اس لئے ہمیں کیا ضرورت ہے اس کے لئے گریہ و زاری کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر اس مضمون پر سب سے زیادہ گہری تھی، اس کے باوجود آپ نے اس قدر بیقراری سے غلبہ اسلام کی دعائیں کی ہیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ دعائیں کرتے کرتے آپ کی جان نکل جائے گی.چنانچہ آپ کا بہت ہی درد ناک اظہار ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ سنت قائم کر کے ہمیں بتا دیا.انبیاء اور صلحاء اور اخیار کا یہی مقام ہے اور یہی ان کو زیب دیتا ہے کہ خدا کے وعدوں کے باوجود اس کی طلب میں اپنی جان کھونے کی کوشش کریں اور بہت ہی گریہ وزاری کے ساتھ اللہ تعالٰی سے فضل مانگتے رہیں.پھر یہاں جو فرمایا گیا کہ آتٍ فَلا تجعلني في القومِ الظَّلِمِينَ یہاں ظالمین کا کیا معنی ہے اور في القوم المومنین سے کیا مراد ہو سکتی ہے.یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم یہ دعا کر رہے ہوں کہ جن ظالموں کو تو نے ہلاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جن کے متعلق میں عرض کر رہا ہوں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے دکھا دے کہ تیرے وعدے پورے ہوئے ہمیں ان میں نہ شامل فرما دے.یہ تو ایک بالکل بے تکی اور بے جوڑ بات بن جائے گی.پس ظالمین کے استعمال کے متعلق قرآن کریم پر نظر

Page 318

315 ڈالنی چاہئیے کہ کن کن معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.ایک دعا اس سے پہلے گزری ہے جس میں حضرت یونس نے یہ عرض کی تھی کہ اے خدا! میں نے اپنی جان پر کیا اور اگر تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا اور میری بخشش نہ فرمائے گا تو میں ظالمین میں سے ہو جاؤں گا.وہاں ظالمین کے معنی یہ ہیں کہ تیری بخشش پر اعتراض کرنے والا.تیری بخشش پر تلخی محسوس کرنے والا.تو نے گنگا روں سے جو حسن سلوک فرمایا اور نری فرمائی اور عفو سے کام لیا اس پر میرے دل میں ایک ہلکا سا میل آگیا یہ ظلم ہے تو اس دعا کے تعلق میں جب آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اے میرے رب ہمیں ظالموں میں نہ داخل فرما دینا تو اس کا مطلب یہ تو ہر گز نہیں بن سکتا کہ ہمیں ان لوگوں میں نہ داخل فرما دیتا جن کے بد انجام دیکھنے کی ہم تمنا کر رہے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر تیری تقدیر یہ ہو کہ ہم آنکھوں سے نہ دیکھیں.اگر تیرا مہی فیصلہ ہو کہ ہماری زندگیاں ختم ہو جائیں اور یہ قوم اسی طرح دندناتی پھرتی رہے اور ظلم کرتی رہے اور ان کا بد انجام ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھیں تو ہمارے دلوں پر سیکیست نازل فرمانا ہمارے دلوں پر مبر نازل فرمانا اور ہم تیری رضا پر راضی رہنے والے ہوں اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہوں نے اس سے پہلے جب تو نے ان کے دشمنوں سے بخشش کا سلوک فرمایا تو دل میں کسی قسم کی تنگی محسوس کی.شرارتوں اور وساوس سے بچنے کی دعا پھر سورۃ المؤمنون بھی میں آیات ۹۸ اور 99 میں آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو ایک دعا سکھائی گئی.وہ یہ ہے : - وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ يلكَ مِن هَماتِ الشَّيييين - واعُوذُ بِكَ رَتِ آن يَعْضُرُون - کہ اے میرے بندے ! تو مجھ سے یہ سوال کر مجھ سے یہ دعا کر کہ وقُل رَّبِّ أَعُوذُ باق مِن حَمَاتِ الشَّينِي.اے میرے رب ! میں تیرے سرکش بندوں کے وساوس اور ان کے فتنوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں.واعود يك رب آن يَحْضُرُوں.اور میں تجھ سے اس بات کی پناہ مانگتا ہوں کہ وہ مجھ تک پہنچ سکیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے : اور تو کہہ دے اے میرے

Page 319

316 رب میں سرکش لوگوں کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں حمات کا اول ترجمہ وساوس ہیں اور کئی قسم کے برے خیالات ہیں اور دراصل شیاطین کی شرارتوں سے ان کا گہرا تعلق ہے.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے اس موقع پر اس کا ترجمہ شرارتیں کر دیا.ایسے دور جن میں مخالفین کو خاص طور پر غلبہ نصیب ہو اور وہ مؤمنوں سے جس طرح چاہیں سلوک کریں، اس دور میں ان شرارتوں کے نتیجے میں وساوس پیدا کئے جاتے ہیں اور اپنے موقف سے مومنین کو ہٹانے کے لئے طرح طرح کے وسوسے پھیلائے جاتے ہیں کہ دیکھو اگر تمہارا خدا ہوتا، اگر تم کچے ہوتے ، جس پر تم ایمان لائے ہو اگر وہ واقعی خدا نے بھیجا ہو تا تو آج تم کیوں بے سہارا چھوڑے جاتے.کیوں تم آج ہمارے رحم و کرم پر ڈالے گئے.پس شرارتوں کے ساتھ وساوس کا گہرا تعلق ہے اور ہم نے گذشتہ ابتلاء کے دور میں پاکستان میں (جو ابھی بھی جاری ہے خاص طور پر یہ دیکھا ہے کہ پہلے احمدیوں کو علموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے.طرح طرح کی شرارتیں کی جاتی ہیں اور پھر خود ظلم کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ دیکھو ہم تو تم پر ظلم کر رہے ہیں اور ہمارا کچھ نہیں ہو رہا اس لئے ہم بچے ہیں تم جھوٹے ہو اور بعض نادان اور جاہل کچھ ظلموں سے تنگ آکر کچھ اپنی کم فہمی کی وجہ سے اس دلیل کو مان جاتے ہیں حالانکہ شیطان اور ظلم کرنے والا سچا ہو ہی نہیں سکتا.جو شخص ظلم سے کام لے رہا ہے اس ظلم کے نتیجے میں اس کی سچائی کیسے ثابت ہو گئی.ظالم تو بہر حال جھوٹا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے اس کا ذکر شیاطین کے طور پر فرمایا ہے کہ یہ عجیب بافی اور شیطان لوگ ہیں.ایک طرف مومنوں کو دکھ دیتے ہیں اور پھر انہی دکھوں کو ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اے محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم تو یہ دعا کیا کر کہ وَقُل رَّبِّ أعوذبك من حممَاتِ الشَّيطنين - میں شیاطین کے ہر قسم کے شر اور ان شرور کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وساوس سے تیری پناہ مانگتا واعُوذُ بِكَ رَبِّ آن يَعْضُرُون بلکہ میں تو یہ پناہ مانگتا ہوں کہ ہم تک ان کی برسائی ہی نہ ہو.نہ وہ ہم تک پہنچ سکیں نہ ان کے وساوس اور ان کے شر ہمیں چھوئیں.ہوں.

Page 320

317 :: دوزخیوں کے مقابل خدا کے نیک بندوں کی دعا ایک دعا سورۃ المؤمنون آیت ۱۰۰ میں درج ہے.یہ خدا کے ان نیک بندوں کی دعا ہے جو دوزخیوں کے مقابل پر جب وہ ان سے تمسخر کیا کرتے تھے تو وہ دعا مانگا کرتے تھے.اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ إنه كَانَ فَرِيقٌ مِّن عِبَادِي يَقُولُونَ میرے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا کہ جب ان پر ظلم ہوئے، ان سے تمسخر کا سلوک ہوا تو وہ یہ کہا کرتے تھے : ربنا اتنا فاغفرلنا : اے ہمارے رب ! ہم تو ایمان لے آئے ہیں اس لئے ہم سے بخشش کا سلوک فرما.وارحمنا اور ہم پر رحم فرما- وانت خير الرحمنین.اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.اس کے معا بعد خداتعالی فرماتا ہے فاتحة تُمُوهُم فَاتَّخَذُ مغربیا وہ یہ دعائیں کرتے تھے.یہ التجائیں کرتے تھے اور اس کے باوجود تم انہیں مذاق کا نشانہ بنا لیتے تھے.حلى التوكُمْ ذِكْرِي یہاں تک کہ تم میرے ذکر کو بھلا بیٹھے- وَكُنْتُمْ مُنْهُمْ تَضْحَكُونَ.اور تم ان سے مسلسل مذاق کرتے رہے.اِنّي جَزَيْتُهُمُ الْيَوْمَ بِمَا صَبَرُوا أَنَّهُمْ هُمُ الْفَائِزُونَ کہ آج کے دن جو جزاء سزا کا دن ہے میں اپنے ان مومن بندوں کو جو تمہارے ظلموں کے مقابل پر صبر کیا کرتے تھے جزاء کی خوشخبری دیتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ آنیم هُمُ الفائزون کہ کہیں وہ لوگ ہیں جو نجات یافتہ ہیں اور نیک انجام کو پہنچنے والے ہیں.پھر سورۃ المؤمنون کی 19 آیت میں ایک اور دعا آنحضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو سکھائی گئی.اللہ تعالٰی فرماتا ہے : وَقُل رَّبِّ اغْهِرُ وَارْحَمْ وَ انْتَ خَيْرُ الرحمین کہ اے میرے رب تو مجھے سے مغفرت کا سلوک فرما.وارحم اور رحم کا سلوک فرما- وانت حي الرحومین مجھ سے بڑھ کر اور کوئی رحم کرنے والا نہیں.

Page 321

318 آخرت کے عذاب کے بدلے دنیا کا عذاب قبول کرلیں سورة الفرقان آیت ۶۷۶۶ میں اللہ تعالٰی عباد الرحمان کی دعا بیان فرماتا ہے.عباد الرحمان کا تذکرہ چل رہا ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وہ بندے ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی سے چلتے ہیں.جب جاہل ان کو مخاطب ہوتے ہیں اور ان پر طعن و تشنیع کرتے ہیں تو وہ جوابا " یہ کہتے ہیں واذا خاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سلما اور پھر اپنے رب کے حضور راتیں سجدوں اور قیام میں گزار دیتے ہیں.ان کے متعلق فرمایا کہ وہ کیا دعائیں کرتے ہیں.والذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جهما إن عذابها ان غَرَامًا إِنَّهَا مَاءَتْ مُسْتَقَراء مُقَامًا - یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے اس وجہ سے وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک طرف دشمن کا عذاب ہے اور اس کے ساتھ اس کا تعلق ہے.فرعون کے وقت میں جن ساحروں کو اللہ تعالی نے ایمان لانے کی توفیق عطا فرمائی انہوں نے بھی کی ذکر کیا تھا کہ ہم تو خدا سے زیادہ ڈرتے ہیں مجھ سے نہیں ڈرتے.تو ہم پر جو چاہے عذاب نازل کر ہم نے تو صداقت کو دیکھ لیا اور پہچان لیا.اس لئے اب ہم اس صداقت سے پھرنے والے نہیں ہیں.پس دنیا کے عذاب اور دنیا کی طعن و تشنیع اور دنیا کے تمسخر کے نتیجے میں ایک طرف انسانوں کا خوف پیدا ہوتا ہے اس خوف سے صرف خدا کا خوف انسان کو بچا سکتا ہے اگر وہ دل پر غالب ہو.پس ان دو خوفوں کے در میان عباد الرحمان کیا فیصلہ کرتے ہیں، ان کا ذکر چل رہا ہے.فرمایا ان کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں اور سجدے کرتے ہیں.خدا کے حضور کھڑے ہو جاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں : وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِف منا عَذَابَ جَهَنَّمَ اے اللہ ہمیں عذاب جہنم کا زیادہ خوف ہے اس لئے اس عذاب کو ہم سے ٹال دے.اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ عَرَاما کیونکہ جہنم کا عذاب جو ہے وہ تو بہت بڑی تباہی ہے کہ دنیا کے عذاب تو اس کے سامنے کوئی حیثیت نہیں إِنَّهَا مَارَتْ مُسْتَقَرا و مُقَامًا: کہ وہ تو عارضی طور پر بھی بہت برا ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر تو بد تر ہے.عارضی طور پر کہہ کر دراصل دنیا کے رکھتے.

Page 322

319 عذاب کی طرف اشارہ فرما دیا اور بتایا کہ جس عذاب سے تم بھاگتے ہو وہ تو عارضی ہے اور جس عذاب کی طرف تم اس کے نتیجے میں جاسکتے ہو وہ ایک مستقل عذاب ہے لیکن عارضی حیثیت سے بھی دنیا کے عذاب کے مقابل پر آخرت کا عذاب بہت زیادہ سخت ہو گا یعنی اگر محض عارضی بھی ہو تب بھی دنیا کے عارضی عذاب کے مقابل پر وہ بہت زیادہ کڑا ہو گا تو خدا کے عارف بندے اس بات کو جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں اس لئے دنیا کے عارضی عذاب کو وہ آخرت کے عذاب پر ترجیح دے دیتے ہیں یعنی کہ اس عذاب کو قبول نہیں کرتے اور دنیا کے عذاب کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں.پس إنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَر او مُقَاماً اس کے یہ معنی ہیں کہ اے خدا! ہمیں تو تیرے عذاب سے اتنا ڈر لگتا ہے کہ ہم تجھ سے یہی پناہ مانگتے ہیں.وہ عذاب جو تیری طرف سے آئے اگر تھوڑا بھی ہو تو وہ بہت زیادہ تباہ کن ہوتا ہے اور نا قابل برداشت ہوتا ہے.اپنی اولاد اور اہل و عیال کے لئے دعا پھر یہی عباد الرحمان اپنی اولاد کے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے یہ دعائیں کرتے ہیں.والَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنَ ازْوَاجِنَا وَذُرِّيتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا (سورة الفرقان : ۷۵) کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی جناب سے اپنے ازواج کی طرف سے درسنا اور اپنی اولادوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ لا مانا اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض دفعہ لوگ ازواج سے مراد صرف بیویاں لیتے ہیں اور تفسیر صغیر میں بھی یہی ترجمہ ہے کہ ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.یہ ترجمہ کرنے کی وجہ غالبا " یہ بنی کہ شروع میں ہوں معلوم ہوتا ہے جیسے مردوں سے متعلق بات ہو رہی ہے.عباد الرحمان، خدا کے بندے اور وَالَّذِينَ يَقُولُونَ میں بھی مردوں کا ذکر ہے کہ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں لیکن در حقیقت خدا تعالیٰ نے جہاں مردوں کے صیغے میں بات کی ہے وہاں مومن

Page 323

320 عورتیں شامل ہیں اور ان کو اس خطاب سے نکالنے کا ہمیں کوئی حق نہیں کیونکہ نہ صرف عربی طرز کلام ہے بلکہ دنیا کی دوسری قوموں میں بھی جب ہم بنی نوع انسان کا ذکر کرتے ہیں تو بسا اوقات مردوں کے صیغے میں بات ہو رہی ہوتی ہے اور مراد عورتیں بھی ہوتی ہیں.بڑے اور چھوٹے سب اس میں شامل ہوتے ہیں تو طرز کلام یہ ہے جو آسمان ہے کہ ایک ہی صیغے کا ذکر ہو جائے اور اس میں اس جنس کی ہر قسم کے ہر نوع کے افراد اس جنس میں شامل ہو جائیں پس والَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنَ ازواجنا میں مردوں ہی کو صرف دعا نہیں سکھائی گئی، عورتوں کو بھی دعا سکھائی گئی ہے اور ان کو اسی طرح دعا کرنی چاہیے کہ هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيتِنَا کیونکہ زوج کا مطلب بیوی نہیں ہے.زوج کا لفظ میاں اور بیوی دونوں پر برابر اطلاقی پاتا ہے.اس لئے عورتوں کو اس دعا کو تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں.وہ اس مضمون میں شامل ہیں اور دعا کے اندر ویسے بھی زوج کے تحت ان کے خاوند شامل ہو جاتے ہیں.ہمیں اب اس دعا کا معنی یہ ہو گا کہ اے خدا! ہمیں ہمارے زندگیوں کے ساتھیوں سے خواہ وہ مرد ہوں خواہ وہ عورتیں ہوں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما.وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إماما اور ہمیں متقیوں کا امام بنانا.ایسی نسل پیچھے چھوڑنے کی توفیق عطا فرما جو تیری نظر میں متقی ہوں.یہ وہ دعا ہے جس کے نتیجے میں ہمارے گھروں کے ماحول سدھر سکتے ہیں.جو خطوط مجھے ملتے ہیں، بلا استثناء ان میں روزانہ کچھ خطوط ضرور ایسے ہوتے ہیں جن میں گھر یلو زندگی کی نا چاقیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عذاب کا ذکر ہوتا ہے اور ایسے خطوط بعض دفعہ بچوں کی طرف سے بھی ملتے ہیں.بچے لکھتے ہیں ہمارے ماں باپ کی آپس میں ناچاقیاں ہیں.آپس میں ایک دوسرے کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے ہیں گھر جہنم بنا ہوا ہے اور ہم جو بہن بھائی ہیں یوں لگتا ہے کہ بے سہارا ہیں اور ہمارے سر پر کوئی چھت نہیں ہے.اس صورت حال سے ہم بہت ہی تنگ ہیں اور مشکل یہ ہے کہ ہم کسی کی طرف داری کر نہیں سکتے.اگر کسی کو سچا سمجھیں بھی تب بھی ہم کسی ایک کی

Page 324

321 طرف داری نہیں کر سکتے.پھر بیویوں کے خط آتے ہیں.خاوندوں کے خط آتے ہیں.اس کے بر عکس بعض خط بہت ہی پیارے ملتے ہیں.جس میں ایک بہو اپنی ساس کی اپنے خسر کی اپنے خاوند کی اپنے سارے ماحول کی تعریف کر رہی ہوتی ہے.ان کے لئے دعاؤں کے لئے لکھ رہی ہوتی ہے.کہتی ہے میں تو ایک جنت نشان گھر میں آگئی ہوں.اس طرح یہ لوگ میرا خیال کرتے ہیں.اس طرح مجھے پیار دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جن کو اعلیٰ خلق عطا ہوں امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے گھر جنت نشان ہی بنتے ہیں.اخلاق کی کمی کے نتیجے میں یہ دنیا ہمارے لئے جہنم بن سکتی ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ اگر اخلاق گھروں کو جہنم بنا سکتے ہیں تو یہی اخلاق قوموں کو بھی جنم میں دھکیل دیتے ہیں.یہی اخلاق بنی نوع انسان کے لئے جہنم پیدا کر دیتے ہیں.پس اخلاق کی بہت بڑی اہمیت ہے اور اعلیٰ خلق کے نتیجے میں صرف ہمارے گھر ہی جنت نشان نہیں بن سکتے بلکہ ہماری گلیاں، ہمارے شہر ہمارے وطن اور اس کے بعد پھر ساری دنیا کے لئے تمام سطح ارض جنت بن سکتی ہے لیکن اس کے لئے دعاؤں کی ضرورت ہے.میں نے پہلے بھی بارہا احباب جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اس دعا سے غیر معمولی استفادہ کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ پھر آگے اولاد پر بھی ممتد ہو جاتی ہے اور اولاد پر بھی اس کا فیض جاری ہوتا ہے، کیونکہ اس دعا میں یہ سکھایا گیا ہے مِن ازْوَاجِنَا وَ ذُريتنا اور ذریت میں صرف پہلی نسل مراد نہیں ہے بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کا سلسلہ اس کے اندر آجاتا ہے قیامت تک کے لئے انسان اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں کرنا چاہتا ہے اس کے لئے اس سے بہتر دعا نہیں ہو سکتی کہ اے خدا ! ہماری اولاد کو اولاد در اولاد کو سلسلہ اولاد کو ہماری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنانا اور وہ ٹھنڈک ان معنوں میں ہو کہ واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقين إماما کہ ہمیں متقیوں کا امام بنانا.غیر متقی کا امام نہ بناتا یہ بہت ہی کامل دعا ہے اور قیامت تک اثر پیدا کرنے والی ہے اور پھر یہ بھی ہمیں توجہ ولاتی ہے کہ اگر تم نے اپنے لئے اس دنیا میں جنت پیدا کر لی اور تمہاری اولاد کو یہ توفیق نہ ملے کہ وہ متقی ہو تو تم نے جو کچھ حاصل کیا تھا عملاً اس کو کھو بیٹھو گے.تمہارا سارا سرمایہ ضائع ہو جائے گا.تمہاری ساری محنتوں کا پھل جاتا رہے گا اس لئے صرف اپنے

Page 325

322 لئے فکر نہ کیا کرو.اپنی آئندہ آنے والے نسلوں کی بھی فکر کیا کرو.ساری جماعت کا معاشرہ پاکیزہ بنانے کی دعا اس مضمون پر غور کر کے اگر آپ یہ دعا کریں تو آپ کے گھر کے ماحول کا ایک بہت ہی دلکش نقشہ آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہے.بعض میاں بیوی ایک دوسرے سے راضی ہوتے ہیں مگر ان کے آپس میں راضی ہونے کی بناء تقویٰ نہیں ہوتی.ایسے میاں بیوی بھی تو ایک دوسرے سے راضی ہوتے ہیں جن کے گھر میں Disco چل رہا ہے.گانے بجانے ہو رہے ہیں.کئی قسم کی بیہودگیاں ہو رہی ہیں.بظاہر وہ گھر جنت ہے لیکن اس دعا کے آخری حصے نے بتا دیا کہ وہ جنت محض ایک فرضی اور خیالی جنت ہے اور عارضی حیثیت کی ہے کیونکہ ایسے لوگوں کی اولادیں پھر متقی نہیں بن سکتیں.ایسے لوگوں کی آنے والی نسلیں ان کے لئے حقیقی معنوں میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا نہیں کر سکتیں تو وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إماما نے صرف مستقبل کی بات نہیں کی بلکہ اس زمانے میں جو ہمیں نصیب ہوا ہے ہمارے گھروں کا ایسا نقشہ بھی کھینچ دیا جس میں تقویٰ کی باتیں ہوں.اگر تقویٰ کی باتیں نہ ہوں تو اگلی نسل کو تقویٰ کہاں سے نصیب ہو جائے گا.پس آنکھوں کی ٹھنڈک وہ جس کا تقویٰ سے گہرا تعلق ہو.اس کے لئے دعا سکھائی گئی ہے اور اس دعا سے غفلت کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں بہت سے گھر بے وجہ مصیبتوں اور آزمائشوں میں مبتلا ہیں.سنجیدگی سے ہر وہ خاوند اور ہر وہ بیوی جو اپنے لئے یہ دعا کرتی ہے ان کو میں یقین دلاتا ہوں کہ اس دعا کے نتیجے میں ان کے گھروں کے نقشے بدل جائیں گے اور ساری جماعت کا معاشرہ اتنا پاکیزہ ہو جائے گا اور اتنا بلند ہو جائے گا کہ واقعی وہ اس بات کا مستحق ہو گا کہ بنی نوع انسان کی راہنمائی کر سکے اور ہم ساری دنیا کو جنت دینے والے بن جائیں.اللہ تعالی احباب جماعت کو توفیق عطا فرمائے.حضرت ابراہیم کے دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی دعا پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا سورۃ الشعراء آیات ۸۴ تا ۹۰ میں بیان فرمائی گئی.وہ دعا یہ ہے کہ رت حب اي حكمًا وَ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ.

Page 326

323 اے میرے رب مجھے حکم عطا فرما اور الحقني بالصلحنين اور مجھے صالحین میں شامل فرما دے.یہاں حکم کا معنی حکومت نہیں.حکومت بھی ہو سکتا ہے مگر صحیح تعلیم مراد ہے.فیصلہ کن صحیح تعلیم.ایسی صحیح تعلیم جو بین ہو ، جو روشن ہو.جس میں بد تعلیم سے نمایاں فرق شامل ہو.ہر ایسی تعلیم کو ہم حکم کہہ سکتے ہیں.پس اپنے رب سے یہ عرض کرتے ہیں : رب هب لي حكما.اے خدا! مجھے کھلی کھلی روشن امتیازی ہدایت عطا فرما - والحقني بالصلحین اور مجھے صالحین میں شمار فرما لے.صالحین کے ساتھ میرا تعلق قائم فرما دے.وَاجْعَلْ لِي لِسان صدقي في الأخر تین اور بعد میں آنے والوں کی زبان پر میرا ذ کر سچائی کے ساتھ چلے.یہ دعا بہت ہی معنی خیز ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالٰی نے جتنی گہری اور جتنی بلند صفات سے نوازا تھا اور جس طرح آپ کے ذہن میں باریک در بار یک مضامین نازل فرمائے جاتے تھے ان کا اظہار آپ کی دعاؤں سے ہوتا ہے.اپنی دعاؤں کے آئینے میں ہمیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا دل دکھائی دینے لگتا ہے.آپ کی طرز فکر دکھائی دینے لگتی ہے.عام طور پر لوگ آئندہ زبانوں میں اپنی شہرت چاہتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے جتنے ہیرو (Hero) ہیں وقت کے گزرنے کے ساتھ ان کا ذکر چلتا ہے اور بلند ہو تا رہتا ہے اور اس میں کئی قسم کے فرضی قصے بھی داخل ہونے لگ جاتے ہیں.پس جس کو ہم Legendary Figures کہتے ہیں.وہ انسان جو اپنے اپنے وقتوں میں ہیرو (Hero) شمار ہوئے ، بہت بلند مقام تک پہنچے وہ بالآخر Legend بن جاتے ہیں اور ان کے متعلق قصے کہانیاں، افسانے مشہور ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کے حقیقی وجود سے بہت بڑھ کر ان کی طرف اعلیٰ صلاحیتیں منسوب ہونے لگتی ہیں.اس کے نتیجے میں بہت سے انبیاء کو خدا یا خدا کا بیٹا یا اس کا قریبی بنا دیا گیا اور یہ وہ طبعی رجحان ہے جس نے سلسلہ ہائے مذاہب کو شدید نقصان پہنچایا ہے.دیکھیں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کی قوم نے کیا سلوک کیا ہے.اسی طرح حضرت کرشن کے ساتھ حضرت رام چندرجی کے ساتھ اور بہت سے x

Page 327

324 بزرگ انبیاء ایسے گزرے ہیں جن کو وقت کے گزرنے کے ساتھ بہت بڑے مقامات اور مرتبے عطا کئے گئے.حضرت ابراہیم علیہ السلام بلند مرتبہ نہیں مانگ رہے.آنے والی نسلوں سے یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ آپ کی حمد و ثناء میں مصروف رہیں اور آپ کی تعریف میں بڑے بڑے قصیدے کہیں.کیسی عمدہ دعا ہے : واجعل لي لسان صدقي اے میرے رب میرے متعلق تو آئندہ جو بات بھی ہو کچی ہو.اس میں جھوٹ کی اونی سی ملونی بھی نہ ہو.اب آپ دیکھیں کہ کس شان کے ساتھ حضرت ابراہیم کے حق میں خدا تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا ہے.کتنا بلند مرتبہ آپ کو عطا کیا گیا.ابو الانبیاء کہلائے اور آج کی دنیا کے مذاہب کے سلسلوں میں تین سب سے قوی سلسلے آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.یہود بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.عیسائی بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور مسلمان بھی آپ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.یہ وہ تین قومیں ہیں جو در حقیقت اپنی طاقت کے لحاظ سے تمام دنیا پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور اس کے باوجود حضرت ابراہیم کی ذات کے بارے میں کبھی کوئی مبالغہ نہیں کیا گیا.ہزاروں سال گزر گئے ہیں.کسی نے آپ کے متعلق فرضی قصے نہیں بنائے.کوئی ایک بھی فرضی خیالی قصہ آپ کی طرف منسوب نہیں ہوا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ سچی دعاؤں میں جو دل کی گہرائیوں سے اٹھتی ہیں کتنی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.دل سے بیچ کی یہ پکار تھی کہ اے خدا ہمیشہ میری تعریف سچی رہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس دعا کو سچا کر دکھایا.ای دعا کے مطالعہ سے مجھے درود شریف میں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے نام کی حکمت سمجھ آئی.اور بھی بہت سے انبیاء گزرے ہیں ان کا بھی ذکر خیر د رود میں چل سکتا تھا لیکن حضرت ابراہیم کو کیوں یہ اعزا نہ دیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ سلم اپنی امت کو یہ درود سکھائیں کہ آله و اللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وعلى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِمَدٌ - اللهُم بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ على إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.

Page 328

325 اس درود سے یہ بھی سمجھ آگئی کہ لسان صدق کا درود کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہے.اس دعا کو اس درود کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کما کی دعا سکھا کر حضرت ابرہیم کی دعاؤں کے ساتھ اپنی امت کو باندھ دیا اور گویا اپنے متعلق بھی یہ دعا کر دی کہ اے خدا جس طرح ابراہیم پر تو نے سلامتی بھیجی اور اس زمانے میں بھی آپ کو سلامتی عطا ہوئی آئندہ آنے والی نسلوں میں، آئندہ آنے والے زمانوں میں بھی ہمیشہ ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو مس شیطان سے پاک رکھا اور لغو اور جھوٹے قصوں سے آپ کو بچایا ، اے خدا اسی طرح میری بھی حفاظت فرما اور میری امت کی بھی حفاظت فرما.بہر حال ایک مضمون نہیں یہ تو بہت ہی وسیع مضامین ہیں.کما کے تعلق میں یہ باتیں پھر انشاء اللہ کبھی توفیق ملی تو میں آپ کے سامنے رکھوں گا.بہت سے احمدی یہ سوال کرتے رہتے ہیں کہ كما جو کہہ دیا گیا تو اس میں کیا برابری مقصود ہے لیکن برابری مقصود نہیں، کچھ اور مضامین بھی ہیں.ایک تعلق بہر حال درود شریف کا اس آیت میں مذکو ردعا سے ہے.وَاجْعَلْ لِي لِسَانَ صِدْقِي فِي الْآخِرِينَ کہ اے خدا!! آخرین میں میرا ذکر خیر، سچائی کا ذکر جاری رہے اور چونکہ آخرین کا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہونا تھا، کیونکہ قیامت تک کے لئے آخرین کا دور آپ کا دور تھا اس لئے اگر آپ کی امت میں آپ کا ذکر خیر سچائی کے ساتھ جاری نہ رہتا تو یہ دعا قبول نہ ہوتی.پس اس کے نتیجے میں اس دعا کی قبولیت کا سب سے بڑا ثبوت وہ درود ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ہمیں سکھایا.وَاجْعَلَنِي مِن وَرَثَةٍ جَنَّةِ النَّعِيمِ اور اے اللہ ! مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا.جنت تو خود ہی نعمت ہے.پھر یہ کیا مطلب کہ مِن وَرَشَة جَنَّةِ النَّعِم ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ جنت کے بھی مختلف درجے ہیں.ایک جنت نعیم ہے.جَنَّةِ النعنبو کے معنی میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ وہ جنت ہے جس میں انبیاء شامل ہوتے ہیں کیونکہ ویسے تو سب نعمتوں والے خواہ وہ صالح ہو، خواہ شہید ہوں، خواہ صدیق ہوں یا نبی ہوں جنت میں جائیں گے اور ان معنوں میں ہر جنت جنة النعيم

Page 329

326 کہلا سکتی ہے مگر "ال" نعیم کے اندر ایک اور معنی پیدا کر دیتا ہے یعنی وہ جنت جو ان لوگوں کی جنت ہے جن کو کامل نعمت عطا ہوئی اور کامل نعمت انبیاء کو عطا ہوتی ہے.پس ہر گز بعید نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ان معنوں میں یہ دعا کی ہو کہ مجھے جنت میں بھی انبیا کے زمرے میں رکھنا اور وہ جنت عطا کرنا جس میں مجھ سے کامل طور پر لانعام یافتہ لوگ شامل ہوں.پس آپ دیکھیں کہ اس دعا کا سورۂ فاتحہ کی اس دعا سے کتنا گہرا رابطہ ہے کہ اخدنا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتُ عَلَيْهِمْ بس من عَلَيْهِ میں شامل ہوتا ہے تو منعم علیه گروه کی وہ ساری دعائیں پیش نظر رہنی چاہیں جو ہماری زندگی کے مختلف حالات پر اطلاق پاتی چلی جاتی ہیں.پھر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام عرض کرتے ہیں : واغفر لابي إِنَّهُ كان من الضالین کہ اے میرے رب! میرے باپ کو بھی بخش دیتا.میں جانتا ہوں کہ وہ گمراہ تھا، اس کے باوجود تجھ سے یہ عرض کر رہا ہوں.اس کے متعلق یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت ابراہیم نے چونکہ آزر سے یہ وعدہ کر لیا تھا کہ میں تیرے لئے ضرور دعا کروں گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور خاص یہ اجازت فرمائی کہ وہ اپنے اس وعدے کو پورا کریں لیکن آخر پر خدا نے ایک وقت پر آپ پر یہ ظاہر فرما دیا کہ وہ صرف گمراہ نہیں تھا بلکہ میرا دشمن تھا اور یہ بتانا ہی کافی تھا.اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لئے کبھی دعا نہ کی.وَلَا تُخَر يوم يُبْعَثُونَ.اور جس دن لوگوں کو اٹھایا جائے گا اس دن مجھے رسوا نہ کرنا.یوم لا ينفع مال ولا بنون جبکہ انسان کے کام نہ اس کے مال آئیں گے نہ اس کے الا منَ الَّى اللَّهُ بِقَلْبٍ سليم ایک ہی بات کام آئے گی کہ خدا کے حضور کوئی صاف دل لیکر حاضر ہو.پاک دل لے کر حاضر ہو.ایسا دل لے کر حاضر ہو جو خدا کے حضور جھکا رہنے والا ہو اور اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر بیٹھا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اسی حالت میں اس دنیا سے بلائے کہ جب حضرت ابراہیم کی یہ دعا ہمارے حق میں بھی یہ گواہی دے کہ إِلَّا مَنْ أَنَّ اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيم ہم ان لوگوں میں شمار ہوں جو بچے.

Page 330

327 ایک سلیم دل لے کر اپنے خدا کے حضور واپس لوٹنے والے ہوں.

Page 331

Page 332

بیت الفضل - لندن ۲۴ مئی 1991ء 329 بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :- انعام یافتہ خدا کے پاک بندوں کی وہ دعائیں جو قرآن کریم میں محفوظ ہیں ان کے ذکر میں کچھ ایسی دعائیں نظر سے رہ گئی تھیں جو اس سے پہلے گزر چکی ہیں جہاں تک میں پہنچا ہوں اور اب جب دوبارہ تحقیق کرائی گئی کہ کہیں کوئی ایسی دعا نظر سے رہ تو نہیں گئی تو چند دعائیں سامنے آئی ہیں اس لئے اب میں وہ دعائیں پہلے آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے بعد جہاں سلسلہ مضمون چھوڑا تھا وہاں سے پھر شروع کروں گا.نقصان کے وقت مانگی جانے والی دعا کی حکمت سب سے پہلی دعا جو روز مرہ عام طور پر مسلمانوں کے استعمال میں رہتی ہے خواہ وہ اس کا مطلب سمجھتے ہوں یا نہ ( سمجھتے) ہوں وہ انا للہ وانا اليورْجِعُونَ ہے.غالبا یہ اس لئے نظر سے رہ گئی تھی کہ اس میں بظا ہر دعا کا رنگ نہیں ہے.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.مگر جو موقعہ ہے، جہاں یہ استعمال ہوتی ہے وہ نقصان کا موقعہ ہے اور اس دعا کے نتیجہ میں بسا اوقات انسان کی گمشدہ چیزیں مل جاتی ہیں اور بہت سے نقصان پورے ہو جاتے ہیں.قرآن کریم نے یہ دعا نقصانات کے ذکر ہی میں بیان فرمائی اور فرمایا کہ میرے مومن بندے ایسے ہیں جب انکو کئی قسم کے مالی جانی، پھلوں وغیرہ کے نقصانات پہنچتے ہیں.مصیبتوں میں وہ آزمائے جاتے ہیں تو ان کا یہ قول ہوتا ہے اناللہ وانا الیه رجعون ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہ ایک بہت ہی موثر دعا ہے.میں نے ایک دفعہ پہلے خطبہ میں اس کا ذکر بھی کیا تھا کہ بعض بچوں پر میں نے اس کو آزما کر دیکھا اور انہوں نے جب توجہ سے بہت چھوٹی عمر

Page 333

330 میں بطور دعا اسے پڑھنا شروع کیا تو بسا اوقات انکی گمشدہ چیزیں حیرت انگیز طور پر ملتی تھیں اور ان تجارب کا بہت گہرا نقش ان کے دل و دماغ پر جم گیا اور ہمیشہ کے لئے انکی دعا کی طرف توجہ ہو گئی لیکن یہ ایک ایسی دعا ہے جس میں کوئی چیز ملے یا نہ ملے دعا اپنی ظاہری صورت میں مقبول ہو یا نہ ہو یہ دعا وہ فائدہ پہنچا جاتی ہے جو نقصان کو پورا کرنے والا فائدہ ہے بلکہ اس سے بڑھکر.جو کھویا گیا وہ اللہ ہی کا تھا اس میں توجہ یہ دلائی گئی ہے کہ جو کچھ ہم نے کھویا ہے در حقیقت یہ ہمارا نہیں تھا.اللہ ہی کا تھا.ہر چیز جو کائنات میں پیدا ہوئی ہے وہ خدا ہی نے پیدا فرمائی ہے.اصل ملکیت اس کی ہے.یہاں تک کہ ہم بھی تو اسی کے ہیں.وانا الیہ رجِعُونَ اور ہم نے بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جاتا ہے.پس تھوڑی سی چیز کے گم جانے کا کیا غم کرنا ؟ اس عارضی نقصان پہ رونے دھونے کا کیا فائدہ؟ ہم بھی تو ہمیشہ یہاں نہیں رہیں گے.یہ دوسرا مضمون شروع ہو جاتا ہے.اور یہ غم بھی عارضی ہے کیونکہ بالآخر ہر چیز خدا ہی کی طرف لوٹائی جائے گی اور ہم اسی دار فانی سے عالم بقا کی طرف واپس لوٹ آئیں گے.یہ دعا بہت ہی گہری ہے اور دعا کا رنگ اس میں اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ خدا مالک ہے اور چونکہ وہ مالک ہے اس لئے ہر چیز بالآخر اس کی طرف لوٹے گی.تو ایک قسم کا خاموش دعا کا رنگ یہ بنتا ہے کہ اے خدا تو نے ہمیں عارضی ملکیت دی تھی.تو جو مستقل مالک ہے.سب چیزیں تیری طرف لوٹتی ہیں.تو ہماری.عارضی ملکیت بھی ہماری طرف لوٹا دے.یہ ایک خاموش دعا کا رنگ ہے جو اس مضمون میں داخل ہے.چنانچہ اگر آپ اس کو سمجھ کر اور غور سے اور عاجزی سے یہ دعا کریں تو اللہ تعالٰی کے فضل کے ساتھ بسا اوقات اس دعا کے نتیجہ میں حیرت انگیز طور پر نہ صرف نقصان پورے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بہت بڑھ کر عطا کیا جاتا ہے.وہ جماعت کے مخلصین جنہوں نے مختلف ابتلاؤں میں بسا اوقات اپنا سب کچھ کھو دیا.جو کچھ تھا ان کے ہاتھ سے جاتا رہا.گھر لوٹ لئے گئے.دکانیں جلا دی گئیں اور جو کچھ سرمایہ تھا وہ لوگ جنہوں نے قرضے دینے تھے لے بھاگے.تجارتوں میں اکثر ایسے قرضے ہوتے ہیں

Page 334

331 کہ جنکے آنے جانے کے ساتھ تجارت چلتی ہے اور انہوں نے صبر کا نمونہ دکھایا اور یہی کہا إنَّا لِلهِ وَإِنَّا لَيَرْجِعُونَ اور اس کے نتیجہ میں ایک ایک کی جگہ دس دس دکائیں نہیں.جہاں چند دوکانیں احمدیوں کی جلائی گئی تھیں وہاں بازار احمدیوں کے ہو گئے.ایک مکان تھا تو پھر مختلف بچوں کے لئے الگ الگ مکان بنانے کی توفیق ملی.پس یہ ایک ایسا تجربہ ہے جس کے پیچھے جماعت احمدیہ کی سو سالہ تاریخ آج کے زمانہ میں گواہ کھڑی ہے اور اس سے پہلے امت محمدیہ کی تمام تاریخ مختلف ممالک میں اس بات پر گواہ ہے کہ یہ ایک بہت ہی مئوثر دعا ہے.پھر بعجز سکھاتی ہے اور بظاہر کچھ بھی نہ ملے تو ایک عظیم الشان چیز ملنے کی بشارت دیتی ہے.وہ لوگ جو عجز کے ساتھ دنیا سے تعلق رکھنے کی بجائے خدا سے تعلق رکھتے ہیں.دنیا سے راضی ہونے کی بجائے خدا سے راضی رہتے ہیں ان کے لئے اس میں یہ خوشخبری ہے کہ تم خدا کی کھوئی ہوئی چیز خدا کو مل جاؤ گے.سب سے بڑی دولت جو دنیا میں ممکن ہے اور سوچی جا سکتی ہے یا دنیا میں کیا دنیا و ما فیہا آخرت ہر لحاظ سے انسان کے اور اک میں جو چیز سب سے زیادہ قیمتی آسکتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.تو فرمایا تم تھوڑا سا کھونے کے نتیجہ میں کیوں غم کر رہے ہو.تم اپنے رب کو پالو گے.اور یہ جو مضمون ہے اس میں مومنوں کے لئے خصوصیت سے اس لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالی کی طرف اگرچہ ہر چیز لوٹے گی لیکن قرآن کریم فرق کر کے دکھاتا ہے.قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے بندے ہیں جن کی روح خدا کی طرف ہمیشہ لوٹتی رہتی ہے.جنکا تصور خدا کی طرف لورا رہتا ہے.اصل رجوع ان کا ہوگا.اور جو دنیا کے بندے ہیں وہ خدا کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے.یہ مضمون قرآن کریم کی ایک الگ آیت میں واضح طور پر بیان فرما دیا گیا.بظا ہر ان دو باتوں میں تضاد ہے.بظاہر ایک آیت یہ کہتی ہے کہ ہر چیز کا ئنات کی بالآخر خدا کی طرف لوٹائی جائے گی اور قرآن کریم بعض دوسری جگہوں پر اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ بالآخر ساری کائنات کی صف لپیٹ دی جائے گی اور کچھ بھی نہیں رہے گا..جو کچھ تھا وہ پھر عدم ہو جائے گا.صرف خدا کی ذات باقی رہے گی.تو زندگی ہو یا بے جان چیزیں ہر چیز اس کی طرف لوٹنے والی ہے.دوسری جگہ فرمایا کہ خدا

Page 335

332 - کے وہ بندے جو متکبر ہیں، جو دنیا میں کھوئے جاتے ہیں انکا رجوع نہیں ہو گا.وہ خدا کی طرف نہیں لوٹائے جائیں گے.ان دو باتوں میں تضاد نہیں ہے.معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو پائیں گے نہیں.اندھے لوٹائے جائیں گے.لوٹیں گے مگر دیکھیں گے کچھ نہیں.ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا.پس یہاں ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے جو کچھ کھوتے ہیں اور صبر کرتے ہیں.اور دل کو تسلی دیتے ہیں کہ سب کچھ خدا کا تھا.اس کی طرف چلا گیا تو کیا ہے.ہم نے بھی تو اسی کی طرف جاتا ہے.ان کے لئے خوش خبری یہ بن جاتی ہے کہ تم نے کچھ کھویا ہے اس سے بہت زیادہ پالو گے.اور مخلوق کھوئی ہے تو خالق کو پالو گے.اس لئے اس دعا کی گہرائی میں اتر کر اس کے سارے پہلوؤں پر غور کر کے خود بھی اس دعا سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی شروع ہی سے یہ دعا سکھانی چاہئیے.یہ سورۃ البقرۃ آیت ۱۵۷ ہے.وقف نو کی سکیم کی بنیادی دعا اس کے بعد ایک دعا آل عمران کی رہ گئی تھی.یہ آیات ۳۶ تا ۳۸ے ہیں.اس میں یہ ذکر ہے کہ اذ قالَتِ امْرَآتُ عِمْر رَ اللّهِ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرِّرًا فَتَقَبَّلُ مني إنك انت السميع العليم.سے که یاد کرو وہ وقت جبکہ آل عمران کی ایک عورت نے اپنے رب سے یہ التجا کی کہ انے میرے رب جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اسے آزاد کر کے میں نے تیری نذر کر دیا.پس تو میری طرف سے جس طرح ہو اسے قبول فرما لے.یقینا تو ہی بہت سننے والا اور بہت جاننے والا ہے.یہ دعا وہ دعا ہے جس کی روشنی میں میں نے وقف نو کی تحریک کی تھی اور یہ تحریک کی تھی کہ عورتیں جو امید رکھتی ہیں یا آئندہ توقع رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی گود بھرے گا وہ بچے کی پیدائش سے پہلے اسے وقف کریں.میرے ذہن میں یہ بات تھی کہ عام طور پر اس سے پہلے جتنی وقف کی تحریکیں ہوتی ہیں ان میں عورتوں کے وقف کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی.اور یہ ہماری خواتین پر بہت زیادتی ہے کہ ان کے لئے

Page 336

333 وقف کا کوئی نظام ہی نہ ہو گویا یہ نعمت صرف مردوں ہی کے لئے رہ گئی ہے.پس اس آیت سے مجھے یہ روشنی ملی کہ اگر مائیں یہ عہد کریں کہ میرے پیٹ میں جو کچھ ہے اے خدا میں تیرے حضور پیش کرتی ہوں پھر جو لڑکی ہوگی وہ بھی وقف ہوگی اور بعض دفعہ ایسی وقف لڑکی، لڑکوں سے بہت بہتر اور مقدر والی ثابت ہوتی ہے جیسا کہ حضرت مریم کے معالمہ میں ہوا جو آل عمران کی اس دعا کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں.ا قالت امرات عمر را نذرتُ لكَ مَا فِي بَطْنِي مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلُ مني إنك انت السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اے میرے خدا جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں نے تیرے حضور پیش کر دیا.مُحددا آزاد کرتے ہوئے.یہاں لفظ محددا بہت قابل غور ہے اور جو یہ دعا کرتے ہیں انکو اس کا مضمون پیش نظر رکھنا چاہیئے.جب ہم زندگی وقف کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آزادی سے قید کی طرف جا رہے ہیں.اپنی ساری آزادیاں کھو دیں اور ہمیشہ کے لئے وقف کی زنجیروں میں باندھے گئے اور بہت سے واقفین بچے ہیں جنکو ان کے والدین یہی بتاتے ہیں کہ دیکھو سوچ سمجھ کر وقف کرو.عمر بھر کی قید ہے.تمہارا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.اپنی مرضی قربان ہو جائے گی.کوئی اپنا وطن نہیں رہے گا.جماعت جہاں چاہے گی تمہیں اٹھا کر بھیج دے گی اور پھر جتنی دیر چاہے گی وہاں رکھے گی.جس حال میں چاہے گی وہاں رکھے گی.تو بہت ہی مشکل زندگی ہوگی.یعنی دنیا کے لحاظ سے معمولی گزا را تو اور بات ہے لیکن اپنی مرضی کی ایسی قربانی کہ اپنی مرضی اپنی نہ رہے یہ ایک بہت زیر دست قربانی ہے.حقیقی آزادی وقف میں ہے اس کے برعکس قرآن کریم وقف زندگی کو ایک بالکل اور رنگ میں پیش فرماتا ہے.فرماتا ہے اس صاحب حکمت عورت نے یہ دعا کی اے خدا جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں تیرے حضور پیش کر کے اس کو آزاد کرتی ہوں.آزاد کس سے؟ دنیا کے سمجھنٹوں سے شیطان کی غلامی سے.ہر اس چیز سے جو غیر اللہ ہے یا غیر اللہ کی طرف سے آتی ہے اس سے میں اسے آزاد کرتی ہوں.یعنی آزادی کی ایک نئی تعریف فرما دی

Page 337

334 گئی.یہ بتایا گیا کہ حقیقی آزادی وقف میں ہے جو خالصتہ ”خدا کی خاطر ہوا کرتا ہے.اور جو خدا کا غلام ہو جائے وہ ہر غیر اللہ کی غلامی سے نجات پا جاتا ہے.اور یہ وہ تجربہ ہے جو حقیقی واقفین کو ہمیشہ ہوتا رہتا ہے اور جو وقف کی روح کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے ایک اللہ کی غلامی قبول کر کے ہزار غلامیوں سے نجات پالی ہے.پس یہ بھی ایک رنگ سمجھانے کا ہے.اس دعا کو سمجھ کر اس کے مطابق اپنے واقف بچوں کی تربیت کرنی چاہئیے اور اس رنگ میں جب تربیت کریں گے تو کوئی شخص اپنی وقف زندگی کو بوجھ محسوس نہیں کرے گا.اس میں کسی پابندی پر تلخی محسوس نہیں کرے گا بلکہ حقیقی آزادی یہی سمجھے گا کہ خدا کے سوا ہر دوسری چیز سے ہر دوسری قید سے وہ آزاد ہو چکا ہے.اِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ اے خدا! تو بہت ہی سننے والا اور بہت ہی جاننے والا ہے.اب دیکھیں کتنی پر حکمت دعا ہے.کتنی گہری دعا ہے اور ایک عورت کو سمجھائی گئی جو نبی نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی قدر فرمائی کہ قرآن کریم میں اس دعا کو ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا اور واقفین کیلئے اس دعا کو ایک ماڈل ننا کر پیش کیا.پس وقف نو کے سب بچے اسی دعا کی حکمت کا فیض ہیں جو میرے دل میں ڈالی گئی اور اس کے نتیجہ میں یہ وقف نو کی تحریک ہوئی.خدا تعالیٰ کا لطیف مذاق فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُها انثى کہہ تو یہ بیٹھی تھیں کہ جو کچھ ہے تیرے حضور ہے اور دماغ میں یہ تھا کہ لڑکا ہوگا.یہ بھی خدا کے عجیب رنگ نہیں.قرآن کریم میں جب آپ یہ دعائیں پڑھتے ہیں اور انکی قبولیت کا حال دیکھتے ہیں تو بہت ہی لطیف مذاق خدا کی طرف سے چلتا ہے.ایک بہت ہی گہرا رابطہ ہے دعا میں اور قبولیت میں.اللہ تعالٰی نے کہا اچھا، جب تو نے یہ کہا کہ جو کچھ ہے تو پھر میری مرضی جو کچھ پیدا کروں.ضروری نہیں کہ بیٹا ہی ہو.چنانچہ جب بیٹی پیدا ہوئی تو اس نے آت التي وضعتها انثى.میری تو بیٹی پیدا ہو گئی.واللهُ أَعْلَمُ ہما وضعت حالا نکہ خدا زیادہ جانتا ہے کہ اس نے کیا پیدا کیا تھا.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خدا کو بتا رہی تھی کہ بیٹی ہے حالانکہ وہ جانتا ہے.یہ تو عام سادہ معنی ہیں.لیکن اس

Page 338

335 سے بھی زیادہ گہرے معنی یہ ہیں کہ اس کو کیا خبر تھی کہ جو بیٹی پیدا کر رہی ہے وہ بیٹوں سے بہت افضل ہوگی.وہ تو ظاہر کو دیکھ رہی ہے لیکن میں نے اس کی آزمائش بھی کرلی اور اس کی دعا کو اعلیٰ رنگ میں قبول کیا ہے.پس خدا کے لطائف میں کوئی انسانی لطائف کا رنگ نہیں ہوتا کہ جس کے نتیجہ میں دوسرے کو تکلیف پہنچے اور بھونڈا مذاق ہو.خدا کے مذاق میں بھی ایک نعمت چھپی ہوئی ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قبولیت کے بہت ہی لطیف رنگ ہیں.کس رنگ میں وہ قبول کرتا ہے.بظا ہر دعا کے نقائص کی طرف انسان کو متوجہ بھی کر دیتا ہے اور پھر پردہ پوشی بھی فرما دیتا ہے.بہر حال فرمایا وَلَيْسَ الشَّعر الانف مرد جو بھی ہو وہ اس عورت جیسا نہیں ہو سکتا.اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ عام بچوں کی کیا بات ہے.عام لڑکوں کا کیا ذکر وہ اس لڑکی کا مقابلہ نہیں کر سکتے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان لڑکی ہے.دوسرا فرمایا.ليس الأحد الان اس انٹی جیسا اپنی نوعیت کے لحاظ سے کوئی لڑکا نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس کے اندر وہ صفات بھی رکھ دی گئی ہیں جن کے نتیجہ میں عورت مرد کی محتاج ہوتی ہے اور بچہ پیدا کرتی ہے اور پیدائش کی صفات بھی رکھ دی گئی ہیں.یہ اکیلی کافی ہے.اس کو کسی مرد کی ضرورت نہیں.تو اس لحاظ سے عورتوں میں تو افضل تھی ہی مردوں پر بھی سبقت لے گئی.پس قرآن کریم کی دعاؤں پر جب آپ غور کیا کریں تو اس کے پس منظر کو غور سے پڑھا کریں.بعد میں آنے والے مضمون کو غور سے دیکھا کریں تو آپ کی دعاؤں میں بھی وسعت پیدا ہوگی.آپ کی دعاؤں میں گہرائی پیدا ہوگی.الفاظ وہی ہونگے لیکن ان کے معافی پھیلتے چلے جائیں گے اور ایک دفعہ کا مضمون کافی نہیں ہوگا بلکہ جتنا آپ غور کریں گے یہ میرا تجربہ ہے اللہ تعالٰی کے فضل سے آپ کو اور مضامین انہی دعاؤں میں ملتے چلے جائیں گے.چنانچہ فرمایا.فتقبلها رَبُّهَا بِقَبُول حَسَنٍ وَالبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا حسین پس اس کے رب نے اس بچی کو قبول فرمالیا.بِقَبُول حَسَنٍ بہت ہی قبولیت تھی والتيا نباتا حمنا اور اس کی پرورش کی اور اس کو بڑھایا بہت ہی خوبصورت اور حسین رنگ میں.پس واقفین نو پیش کرنے والوں کے لئے یہ

Page 339

336 نمونہ ہے کہ وہ بھی اپنے واقفین نو بچون کی اسی رنگ میں تربیت کریں.کہ عام بچوں ے مختلف دکھائی دیں.بہت ہی حسین اور دلکش انداز میں ان کو پالا پوسا جائے اور پروان چڑھایا جائے لیکن دعا کے نتیجہ میں یہ توفیق مل سکتی ہے.ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے ساحروں کی دعا ہے جو رہ گئی تھی.یہ سورۃ الاعراف آیت ۱۲۷ ہے.ربنا افرغ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اے ہمارے رب ہمیں صبر عطا فرما اور ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دیتا.پہلے یہ مضمون دو سرے رنگ میں گزر چکا ہے.مراد یہ ہے کہ چونکہ وہ فرعون کو مخاطب ہو کر چیلنج دے بیٹھے تھے کہ جو عذاب تو دے سکتا ہے ہم کو دے.جو ہم سے کرنا چاہتا ہے کر گزر لیکن ہم کسی قیمت پر بھی مرتد نہیں ہونگے اور جو ایمان اللہ تعالی نے عطا فرمایا ہے اس سے ہر حالت میں چھٹے رہیں گے.یہ انکا چیلنج تھا فرعون کو.لیکن معا ان کا ذہن اس طرف گیا کہ یہ خدا کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں.خواہش ہے.ارادے ہیں لیکن انسان کمزور ہے اس لئے اس معاملے میں لازما ہمیں خدا سے طاقت مانگنی چاہیئے.پس ہر وہ مومن جو نیک ارادے باندھتا ہے اور وقتی طور پر خلوص سے باندھتا ہے جانتا ہے کہ وہ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلے کر رہا ہے اس کے لئے بھی نصیحت ہے کہ دعا سے اللہ تعالٰی سے مدد مانگے ورنہ نیک باتوں کے نیک ارادے جو خلوص کے ساتھ بھی کئے گئے ہوں ضروری نہیں کہ انسان کو ان کے پورا کرنے کی توفیق مل سکے پس آخری بات یہ کہہ دی کہ وقوقنا مسلمین ہمیں بلانا اس وقت جب کہ ہم تیری نظر میں فرمانبردار ہوں.دیدار الہی کے لئے حضرت موسی کی دعا ایک حضرت موسیٰ کی مشہور دعا جو دیدار الہی کے لئے انہوں نے کی تھی حالانکہ دیدار تو روز ہوتا تھا.کچھ اور معنوں میں وہ دیدار چاہتے تھے.یہ سورۃ الاعراف ۱۴۴ ۱۴۵ ہے.ولما جاء موسى لِمِيْقَاتِكَادٌ حَلَمَهُ رَبُّهُ

Page 340

337 اور جب وقت مقررہ اور مقررہ جگہ پر موسیٰ اللہ تعالٰی کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے وكلمة ربہ اور خدا نے ان سے کلام کیا.قَالَ رَبِّ اين انظر اليك اے میرے خدا ایسا کر کہ میں تجھے دیکھوں اور بہت ہی خوبصورت محاورہ ہے آرت کا مطلب ہے مجھے دیکھا.آنگز کہ میں دیکھوں.تو عام بول چال میں ہم یہ کہہ سکیں گے اے اللہ مجھے دکھا تو سہی کہ تو کیسا ہے تاکہ میں تجھے اپنی آنکھوں سے دیکھ تو لوں الرني انظر اليك ، قَالَ لَن تَريني فرمایا.اے موسیٰ! تو ہر گز مجھے نہیں دیکھ سکے گا.ولكن القول الْجَبَلِ يَا اسْتَقَرٌّ مَعَانَا فَسَوْفَ تَرْيني - ہاں تو اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ اپنے مقام پر ٹھہرا رہا پس پھر ممکن ہے تو بھی مجھے دیکھ سکتے.قلما تجد ربُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَعَاوَ خَر موشی صحقًا اور موسیٰ خش کھا کر پچھاڑ کھا کر جا پڑے.فلمَّا افَاقَ قَالَ سُبْحَنَكَ تُبْتُ الْهَكَ وَآنَا اول المُؤْمِنین پس جب آپ کو ہوش آئی تو کہا سبختك اے رب تو ہر کمزوری سے پاک ہے.یعنی ایک دعا سے بات شروع ہوئی تھی.دعاپر ختم ہو رہی تھی اس لئے پوری آیت پڑھنی پڑی ہے آپ کو بتانے کے لئے کہ بیچ کا مضمون کیا تھا اور آخر پر پھر ایک دعا ہے.) حجت الفت میں تو بہ کرتا ہوں تیری طرف وانا اول المومنین اور میں پہلا مومن ہوں.اس آیت کے ساتھ ایک روایت وابستہ ہے جس نے بعض اشکال بھی پیدا کئے ہیں اور کافی اس پر مفسرین نے احادیث کے ماہرین نے بخشیں کی ہیں.روایت یہ ہے کہ قیامت کے دن جب حشر نشر ہو گا اور جب خدا تعالیٰ تجلی فرمائے گا تو سب بے ہوش ہو کر جاپڑیں گے اس وقت سوال یہ ہے کہ پہلے کس کو ہوش آئے گی.ایک حدیث ہے کہ حضرت موسیٰ سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم دیکھیں گے تو موسیٰ پہلے ہی ہوش میں کھڑے ہوں گے.اس کی توجیہ اس حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ موسیٰ کو اس سے پہلے اس کا تجربہ ہو چکا ہے وہ تجملی جس کے نتیجہ میں آنا " فانا" انسان هوش و حواس کھو بیٹھتا ہے.اس کا جلوہ اتنا سخت ہے کہ طبیعتیں برداشت نہیں کر سکتیں اس دنیا میں موسیٰ نے مانگ لی تھی اور اس کا تھوڑا سا نمونہ موسیٰ دیکھ چکا

Page 341

338 ہے.پس چونکہ اس میدان کا کھلاڑی رہ چکا ہے اس راہ سے گزر چکا ہے اس لئے جب واقعہ قیامت کے دن یہ تجلی ہوگی تو نسبتاً جلدی افاقہ ہو گا.یہ حدیث اس آیت کی روشنی میں اور دوسری متعلقہ آیت کی روشنی میں جس کا میں نے ذکر کیا ہے قابل غور ہے لیکن عموما" آپ کو مفسرین اور ماہرین حدیث کی کتب میں یہی تشریح ملے گی.بہر حال یہ جو دعا ہے اس میں ہے وانا اول المؤمنین یہ جو لفظ اول ہے اس سے مراد وقت کے لحاظ سے اول نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ سے بہت پہلے اول آچکے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم معنوی لحاظ سے مومنوں میں سے سب سے اول ہیں.پس اول اور آخر یہ دونوں لفظ جو ہمیں قرآن کریم یا احادیث میں ملتے ہیں یہ مرتبے کے لحاظ سے ہیں نہ کہ ظاہری وقت کے لحاظ سے.اول جب کہا جاتا ہے تو مراد نمبر میں پہلا ہے.جس طرح کوئی امتحان میں فرسٹ آتا ہے اسے اول کہتے ہیں ویسا ہی مضمون ہے.بچھڑے کو معبود بنا کر شرمسار ہونے والوں کی دعا ایک دعا قوم میں بچھڑے کو معبود بنانے والوں میں سے ان لوگوں نے کی جو شرمندہ ہوئے تھے اور انہوں نے توبہ کی تھی.وہ دعا یہ تھی ولما سقط في ايديهم و راوا انَّهُمْ قَدْ ضَلُّوا ، قَالُوالَيْن لَم يَرحَمْنَابُنَا وَيَغْفِرُ لَنَا لَتَكُونَنَّ مِن الخسرین کہ جب وہ شرمندہ ہو گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ گمراہ ہو گئے تھے تب انہوں نے یہ دعا کی تین تغیر حَمْنَا ربنا اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ فرمائے گا اور ہماری بخشش نہ فرمائے گا لتَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ يقيناً ہم بہت گھاٹا پانے والوں میں سے ہونگے.نہیں دیکھیں ہر موقعے کے لئے ہر ایسی صور تحال کے لئے جس سے انسان دو چار سکتا ہے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں کوئی نہ کوئی اس پر اطلاق پانے والی دعا ہمیں سکھا دی ہے اور اس لحاظ سے بھی اگر آپ قرآن کریم کی دعاؤں کو ازبر کریں.یا پوری یاد نہیں کر سکتے تو کچھ حصہ کبھی کبھی یاد کرتے رہا کریں اور قرآنی دعاؤں کو ہر مشکل کے وقت دیکھ لیا کریں.آپ کو ضرور کوئی نہ کوئی دعا اپنی صور تحال پر اطلاق پاتی ہوئی ایسی ہو

Page 342

339 ملے گی جس کو جس طرح وہ دعا کی گئی تھی اسی جذبہ کے ساتھ آپ جب دعا کریں گے تو انشاء اللہ تعالٰی قبولیت دعا کے عظیم الشان نظارے دیکھیں گے.علم بڑھنے کی دعا سکھائی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کو اتنی دعائیں خدا تعالی نے خود سکھاتی ہیں کہ اور کسی نبی کے ذکر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئی دعائیں اس کثرت سے نہیں ملتیں.ایک موقعہ پر فرمایا.وَلَا تَعْجَلُ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَى إِلَيْكَ وَحْيُهِ : وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (سورۃ طہ : (۱۱۵) اے میرے بندے تو جب وحی نازل ہوا کرے تو جلدی جلدی اسے دہرانے کی کوشش نہ کیا کر کہ کہیں بھول نہ جائے وقل رب زِدْنِي عِلْمًا اور یہ کہا کر کہ اے میرے رب میرا علم بڑھاتا چلا جا.اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی معصومیت کا بھی پتہ چلتا ہے اور خدا تعالٰی کے کلام کو کس طرح دیکھتے تھے اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے.وحی نازل کرنا بھی خدا کا کام ہے اور وحی کو محفوظ کرنا بھی خدا کا کام ہے.مگر جس کو کسی چیز سے بے انتہا محبت ہو اور اسے وہ سنبھالنا چاہے.اسے یقین بھی ہو کہ یہ چیز سنبھل جائے گی تب بھی وہ اپنی طرف سے بہت کوشش کرتا ہے اور جلدی جلدی ہاتھ پاؤں مار کر اسے سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے.پس یہ وہ نقشہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا کھینچا گیا.جب آپ پر وحی نازل ہوتی تھی آپ تیزی کے ساتھ زبان چلاتے تھے اور اس وحی کو دہراتے چلے جاتے تھے تاکہ کوئی بھی لفظ کوئی نکتہ بھی ادھر سے ادھر نہ ہو.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ فرمایا کہ تجھے یہ محنت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.ہاں اس عرصہ میں تو یہ دعا کیا کر وقل رب زِدْنِي عِلْمًا اے میرے اللہ میرا علم پڑھا.اب یہ جو دعا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کا جو نظام حفظ تھا وہ عام نظام حفظ جیسا نہیں تھا.بلکہ جہاں تک وحی کا تعلق ہے ہو سکتا ہے کہ باقی انبیاء کو بھی یہی امتیاز حاصل ہو کہ وحی اس رنگ میں نازل ہوتی ہے کہ وہ از خود ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور اسے توجہ سے سن کر یاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ دعا وہ سکھائی گئی ہے جو بالکل اور ہے کہ اے میرے رب میرا علم بڑھا دے.

Page 343

340 آپ کسی کی بات سن رہے ہوں اور کوئی اور بات منہ سے کر رہے ہوں تو جو آپ سن رہے ہیں نہ وہ سمجھ سکتے ہیں نہ اسے یاد کر سکتے ہیں.تو وحی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کو یہ دعا سکھایا جاتا کہ یہ دعا کیا کرو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ذہنی کوشش کا وحی کو محفوظ کرنے سے کوئی علاقہ نہیں تھا وہ ازخود اترتی تھی اور نقش بنکر دائمی نقش بنکر جمتی چلی جاتی تھی.اور توجہ اس طرف دیتے یا نہ دیتے خدا کی تقدیر نے اس کو بہر حال محفوظ کرنا تھا.پس فرمایا کہ فارغ وقت میں یہ کیا کر کہ مجھ سے اور دعائیں مانگا کر اور یہ کہا کر کہ اور بھی علم نازل فرما اور جو علم ہے بجائے اس کے کہ میں اسے کھو دوں میرا علم بڑھا دے کیونکہ جو بات بھول جائے وہ حاصل کیا ہوا علم انسان کھو دیتا ہے تو زدن منما میں یہ جتایا کہ تیرے علم کو کھونے کا تو سوال ہی کوئی نہیں.ہم جو ذمہ دار ہو گئے ہیں.ہاں تو مزید مانگا کر.حضرت بانی سلسلہ کو سکھائی گئی دعا اس دعا کے ضمن میں ایک اور دعا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما" سکھائی گئی وہ بھی آپ کو بتاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ اللهم أرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ اے میرے اللہ مجھے اشیاء کی حقیقتیں بتا.یعنی ان کے اندر جو گہرے راز ہیں وہ سمجھا.میں بالعموم قرآن کریم کی اس دعا کے ساتھ اس دعا کو ملا کر کرتا ہوں اور خصوصا اس وقت جب کہ کسی قسم کی رہنمائی کی خاص ضرورت ہو اور میرا یہ تجربہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بہت سے ایسے مطالب پر آگاہی فرماتا ہے جس کی طرف انسان کا اپنا ذہن اپنی کوشش سے جا نہیں سکتا.الہام تو نہیں ہوتا لیکن اس طرح خدا تعالٰی نکتے دماغ میں اچانک ڈالتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.اس جماعت کو بھی اس قرآنی دعا سے استفادہ کرنا چاہیے اور ہمارے طالب علموں کو خاص طور پر اس دعا کو جو چھوٹی سی دعا ہے ایک چھوٹا سا فقرہ ہے.وَقُلُ آبِ زِدْنِ عِلْمًا اس کو پڑھتے رہنا چاہیے.اس کے نتیجہ میں انکی توجہ اس امر کی طرف بھی مبذول ہوتی رہنی چاہیے کہ اصل علم کلام الہی ہے.دوسرا دنیا کا جو علم ہے وہ ثانوی علم ہے.یہاں قرآن کریم کی وحی سے متعلق علم کا لفظ استعمال ہوا ہے.چنانچہ طالب علم جب یہ دعا مانگیں

Page 344

341 وقل رب زدني علماً تو یہ نہ کیا کریں کہ اعلیٰ مضمون کو چھوڑ دیا کریں اور ادنی مضمون کو ذہن میں رکھ کر دعا کیا کریں.دعا یہ کیا کریں کہ اے خدا ہم دنیا کے عارضی علوم کی طرف متوجہ ہیں.یہ مجبوریاں ہیں.ہمیں وہ علم بھی عطا فرما جو تو نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم پر نازل فرمایا تھا.اور اس کے صدقہ میں ہمیں یہ دنیاوی علم بھی عطا فرمادے جو اس کی ذیل میں آتا ہے.اس کے ساتھ ساتھ میں نے وہ جگہیں بھی درج کروالی ہیں جہاں انکو اپنی ترتیب کے لحاظ سے بیٹھنا چاہیے تھا.مگر اس وقت میں چھوڑتا گیا ہوں لیکن جب یہ خطبہ ضبط تحریر میں آئے گا تو کاتب وہ ذکر بھی کردے گایا ان کو اٹھا کر وہیں لے جائے گا جہاں انکو ہونا چاہیے.یعنی جب یہ سلسلہ خطبات اکٹھا شائع ہو گا تو آج جو ان آیات سے متعلق گفتگو ہوئی ہے انکو ہم اصل مقام پر لے جائیں گے.تو جو لوگ سن رہے ہیں وہ بعد میں خیال نہ کریں کہ غلطی ہو گئی ہے.بالا رادہ ایسا کیا جائے گا.حضرت موسیٰ کی دعا جو بے بسی کی حالت میں ہر شخص کر سکتا ہے اب جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے پھر بات شروع کرتا ہوں.سورۃ الشعراء آیات ۱ تا ۸ا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا ذکر فرمایا گیا ہے.واذ نَادَى رَبُّكَ مُوسى اَنِ انتِ القَوْمَ الظَّلِمِينَ - قَوْمَ فِرْعَونَ الَّا يَتَّقُونَ - قال رب إني أَخَافُ أن يُكَذِّبُونِ - وَيَضِيقُ صَدْرِي وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إلى هرُونَ - وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبُ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ - (الشعراء : ۱۱-۱۵) حضرت موسیٰ پر جب خدا تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور ان کو حکم فرمایا کہ تو فرعون کی ظالم قوم کی طرف جا الا يتقون کیوں وہ تقویٰ اختیار نہیں کرتے.کیوں وہ خدا خوفی کی راہ اختیار نہیں کرتے.قالَ رت الي أَخَافُ أَن يُكَذِّبُونِ عرض کی اے خدا میں ڈرتا ہوں کہ مجھے جھٹلا نہ دیں.اب یہ جو لفظ ہے جھٹلانے کا.اسمیں حضرت موسیٰ کا ذہن اس طرف نہیں جاتا کہ انبیاء کو ہمیشہ جھٹلایا جاتا ہے بلکہ خاص دلیل آپ کے ذہن میں ہے جس کو قرآن کریم کھول کر بیان فرماتا ہے وہ کہتے ہیں وہ تقوی اختیار نہیں کرتے ٹھیک ہے پر میں بھی تو ایک بات سے ڈرتا ہوں اور وہ خوف میرا

Page 345

342 اور یہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے اور کیوں جھٹلائیں گے ويضيق صدري و لا ينطلق لساني میرا سینہ باتیں بیان کرتے وقت کھلتا نہیں ہے.میں کوئی مضمون سوچ کر بیان کرنا چاہتا ہوں تو اپنے سینے میں تنگی محسوس کرتا ہوں اور یہ انسانی تجربہ کی بات ہے.ایک انسان بات ٹھیک بیان نہیں کر سکتا.طالب علم امتحان میں بعض باتیں جانتے ہوئے بھی پیش نہیں کر سکتے.یہ ضروری نہیں کہ جو طالب علم ناکام رہے یا کم نمبر لے وہ ضرور ہی نالائق ہو گا.بعض دفعہ اس بے چارے کو بات پیش کرنے کا سلیقہ نہیں آتا.تو حضرت موسیٰ نے اس طرح اللہ سے عرض کیا لا ينطلق لساني میری زبان بھی نہیں کھلتی.کہا جاتا ہے حضرت موسیٰ ہکلا کر بولتے تھے.فازیل إلى هرون اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ ہارون کی طرف وحی بھیج دے.اب یہ عجیب دلچسپ دعا ہے.عاجزی بھی ہے سادگی بھی کیسی پیاری کہ اللہ تعالیٰ کو بتا رہے ہیں کہ ان باتوں کو سوچ کر میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ زیادہ مناسب ہوگا کہ ہارون کو نہی بنایا جائے اور مزید اصل بات آخر پر نکلی ہے.وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنْبُ فَلَخَافُ آن يَقْتُلُون مشکل یہ ہے کہ مجھ پر ایک گناہ ہے جسکے لئے اس قوم کو میں جواب وہ ہوں.اور غلطی سے مجھ سے ان کا ایک آدمی مر گیا تھا.اب اگر عام حالات میں نبی کو جھٹلائیں تو وہ تو ہے ہی جھٹلانا.لیکن اگر جرم بھی ہو اور پتہ ہو کہ نبی نہیں ہے یہ جھوٹا ہے.پھر تو بڑھ چڑھ کر زیادہ غصے کے ساتھ پہلے نقصان کا بدلہ اتاریں گے اور پہلے گناہ کی جزا دیں گے.تو یہ تھا اصل قصہ نہ جس کی وجہ سے اپنے آپ کو بیچ میں سے نکال ہی دیا کہ اے اللہ ان سب حالات میں بہتر یہی ہے کہ تو موسیٰ کی بجائے ہارون کو نبی بنا دے قال كلا فَاذْهَبَا بِايَتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ فرمایا کہ خبردار موسیٰ ضرور جاؤ لیکن تم دونوں جاؤ.اب دعا قبول بھی فرمائی اور وہ جو خوف تھا وہ بھی دور کر دیا.گلا میں ہلاکت کا ڈرانا نہیں بلکہ امید کو زیادہ یقینی طور پر پیش کرتا ہے.گلا سے مراد یہ ہے کہ جو باتیں تو سوچ رہا ہے تیرے تو ہمات ہیں ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.ہو کیسے سکتا ہے کہ خدا کے تم نمائندہ ہو اور خدا کی مرضی کے سوا کوئی تم پر ہاتھ ڈال بیٹھے.فاذهبا تم دونوں جاؤ پانینا ہمارے نشانات لیکر انا معكم

Page 346

343 تستمعون میں تمہارے ساتھ سننے والا ہوں.اس آیت سے اور اس دعا کے جواب سے پتہ چلتا ہے کہ ساتھ ہی حضرت موسیٰ کو کچھ قبولیت کی خوشخبری بھی دے دی گئی تھی.کیونکہ تشنیہ سے خطاب معا جمع میں تبدیل ہو جاتا ہے.فرمایا تم دونوں جاؤ ہمارے نشان لیکر - إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ میں تمہارے ساتھ کھڑا تمہاری التجاؤن کو سن رہا ہوں گا.پس وہ جو ساحروں کی دعا تھی اس کے سننے کی خوشخبری بھی اس آیت میں پہلے کلام میں حضرت موسیٰ کو دے دی گئی تھی کہ تم ڈرتے کس بات سے ہو تم پڑھو گے.ایک سے دو میں نے تمہیں بنایا ہے.تم دو بھی نہیں رہو گے.دو سے تین چار ایک قوم بنتے چلے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ کھڑا تمہاری التجاؤں کو سن رہا ہو گا.وہ کون ہو سکتا ہے جو تم پر ہاتھ ڈالے.فَاتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولا انا رسُول رب العلمین اور فرعون کے پاس جاؤ اور دونوں اس سے یہ کہو کہ ہم خدا کے رسول ہیں.خدا کے ایلچی ہیں.یہاں جمع کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا بلکہ واحد کا صیغہ استعمال فرمایا ہے.رسول نہیں فرمایا بلکہ رسول آب العلمين یعنی ان دو میں کوئی فرق نہیں تھا کہ دو الگ الگ رسول ہوں.ایک ہی مشن پر ان دونوں کو فائز فرمایا گیا تھا.اور اپنی مجموعی حیثیت میں وہ ایک ہی رسول کے مقام پر فائز تھے.اب سوال یہ ہے کہ یہ دعا ہم عام حالات میں کیسے مانگیں گے.کسی کو خدا ایسے مقام پر فائز کرے یا ایسے حالات ہوں تو پھر یہ دعا اس سے مانگی جائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دعاؤں کے اندر بعض مخفی التجا کی کیفیات ہیں جو ایک عاجز بندے کے کام آجاتی ہیں جب وہ موسیٰ کے رنگ میں ڈوب کر یا کسی اور گزشتہ نبی کی دعا کو یاد کرتے ہوئے اس کے رنگ میں ڈوب کر یہ دعائیں کرتا ہے.اپنے بجز اور بے بسی کی کیفیت کے لئے ایسی حالت میں جب کسی سے کوئی گناہ کسی کا سرزد ہو گیا ہو کسی سے خوف کھاتا ہو تو حضرت موسیٰ کی یہ دعا حضرت موسیٰ کے رنگ میں ڈوب کر اگر کی جائے تو اللہ تعالٰی کے فضل کے ساتھ انسان کی دوسری ضروریات میں بھی کام آسکتی ہے.قومی بدیوں سے نجات کی دعا حضرت لوط کی ایک دعا بیان فرمائی گئی ہے سورۃ الشعراء میں (یہ جو دعا تھی یہ بھی

Page 347

344 سورۃ الشعراء آیت ۱ تا ۱۸ تھی اب سورۃ الشعراء کی آیت ۱۷۰ میں حضرت لوظ کی یہ دعا بیان ہوتی ہے.رَبِّ نَجْري واهني ممَّا يَعْمَلُونَ اے میرے رب مجھے اور میرے اہل کو نجات بخش ان باتوں سے جو میری قوم کرتی ہے.یہاں جسمانی نجات کی دعا نہیں ہے جو اس کے ذیل میں آئی تھی.اصل میں ایک ایسے گناہ سے نجات کی دعا ہے جو ساری قوم میں وبا کی طرح پھیل چکا تھا اور ساری قوم میں سرائیت کر گیا تھا.ایسے موقعہ پر دعا کے بغیر انسان صحیح معنوں میں ایسی قومی بدیوں سے بچ نہیں سکتا.پس جب مثلاً انگلستان میں رہنے والے یہ دیکھتے ہیں کہ بعض بدیاں یہاں پھیلی ہوئی ہیں.امریکہ میں رہنے والے دیکھتے ہیں کہ بعض بدیاں وہاں پھیلی ہوئی ہیں تو ان کے لئے بھی یہ دعا کرنی چاہئیے.ورنہ یہ بدیاں اس طرح فضا میں سرائیت کر چکی ہوتی ہیں کہ ہر سانس میں انسان ان کو لے رہا ہوتا ہے.ٹیلی ویژن آن کرے.ریڈیو آن کرے.بازاروں میں چلے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان بدیوں سے کلیتہ " بیچ کر نکل سکے.پس یہ دعا ہمیں سکھاتی ہے کہ نجات صرف ظاہری نجات کی دعا نہیں ہوتی بلکہ بدیوں سے روحانی نجات بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے.اور جو روحانی نجات حاصل کرتا ہے اس کے لئے بدنی نجات خود بخود عطا ہو جاتی ہے.پس حضرت لوط اگر صرف بدنی نجات مانگتے تو اس کے اندر روحانی نجات شامل نہیں تھی مگر جب روحانی نجات مانگی تو اس میں بدنی نجات شامل ہو گئی.امریکن یونیورسٹیوں کی حالت زار پس وہ لوگ جو مثلاً امریکہ میں رہتے ہیں.مجھے ایک طالب علم کی والدہ کا خط ملا.انہوں نے یہ لکھا کہ میرے دو بچے ہیں ان میں سے ایک نے جو فلاں یونیورسٹی میں امریکہ میں پڑھتا ہے مجھے لکھا ہے کہ یہاں طالب علموں کی بھاری اکثریت نشہ کرتی ہے اور یونیورسٹی میں یہ فیشن ہے اور اس کے علاوہ دوسری بدیوں کا ذکر تھا کہ یہ بھی کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہم میں رہنے کا حق نہیں رکھتے.یہ ہم سے الگ ایک مخلوق ہے اور پوری کوشش کی جاتی ہے کہ وہ تیں ان کو بھی ڈال دیں.تو اس نے اپنی والدہ کو دعا کے لئے لکھا تھا کہ دعا کے ذریعہ میری مدد کریں ورنہ یہ بڑا مشکل

Page 348

345 ہے.پس جو طالب علم امریکہ جاتے ہیں میں انکو ہمیشہ یہی نصیحت کرتا ہوں کہ وہاں تم کوشش تو ضرور کرو گے بچنے کی لیکن یہ دعا ضرور کرتے رہتا.چنانچہ والدہ نے جب مجھے دعا کے لئے لکھا تو اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ میرے جو خطرات تھے وہ درست تھے یورپ میں بھی خرابیاں ہیں لیکن جتنی بدیاں اس وقت امریکن یونیورسٹیوں میں اخلاقی لحاظ سے پھیلی ہوئی ہیں میرا خیال ہے دنیا کے پردے پر اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.پاکستان میں کثرت سے پھیل رہی ہیں نشہ بہت عام ہو رہا ہے تو وہاں سے جو لوگ ہجرت کرتے ہیں.ہجرت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ قوم کی بد اعمالیوں سے نجات کی دعا مانگا کریں اور اس کیلئے حضرت لوط کی یہ دعا ہمارے لئے ایک نمونہ ہے رب نقوی داخلي ممَّا يَعْمَلُونَ اے میرے رب مجھے بھی اور میرے اہل کو بھی ہر اس بدی سے نجات بخش جو یہ کرتے ہیں.فتح نمایاں کے ذریعے روحانی نجات پانے کی دعا حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے رَبّ إِن قَوْمِي كَذَّبُونِ (الشعراء : (۱۱۸) اے میرے اللہ ! میری قوم مجھے جھٹلا بیٹھی ہے فافته بيني و بينهم اب میرے اور ان کے درمیان فرق کر کے دکھا دے وَنَجْنِي وَ مَن مي منَ الْمُؤْمِنِينَ (الشعراء : (19) اور مجھے اور مومنوں کو نجات بخش.اب یہ بظاہر محض بدن کی نجات کا ذکر چل رہا ہے لیکن اس دعا کو آپ غور سے پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ مضمون اس کی نسبت زیادہ گہرا ہے جو دکھائی دیتا ہے.آپ نے پہلے یہ دعا کی ہے کہ قوم مجھے جھٹلا بیٹھی ہے اب ہمارے درمیان تمیز کر دے کہ کون پاک ہے کون ناپاک ہے.اور تمیز اس طرح کر کہ پاکوں کو بچالے اور ناپاکوں کو ہلاک کر دے پس یہاں بدنی نجات کی دعا نہیں تھی.روحانی نجات کی دعا تھی بدنی نجات کو اس کا نشان بنا کر مانگا گیا تھا.اب دعا غور سے سنیں رب ان قومي كَذَّبُونِ حضرت نوح نے عرض کیا اے میرے رب! میری قوم مجھے جھٹلا بیٹھی ہے.یعنی اب اس سے کوئی امید باقی نہیں رہی.فَافَتح بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ اب میرے اور ان کے درمیان فتحا نمایاں فرق کر کے دکھا دے.کہ دنیا دیکھ لے کہ کون پاک تھا اور کون تجھے

Page 349

346 ہے کہ پیارا تھا اور کون ناپاک اور کون تیری نظر میں مغضوب تھا.اور نشان کیا ہو اس طرح کا وہ یہ وَنَحْنِي وَمَن مَّنِي مِنَ الْمُؤْمِنِينَ مجھے اور وہ لوگ جو مجھ پر ایمان لائے ہیں ان سب کو اس ہلاکت سے بچالے جو اس قوم کا مقدر ہو چکی ہے.فَأَنجَيْنَهُ وَمَنْ مَعَهُ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونَ (الشعراء : ۱۳۰) اور ہم نے اسے اور جو کچھ اسکے ساتھ تھے.ایک بھری ہوئی کشتی میں نجات دی.اس سے پہلے ایک بھری ہوئی کشتی کا ذکر گزر چکا ہے جس میں سوائے خدا کے ایک نبی کے ساری قوم کیلئے جگہ تھی وہ اس بھری کشتی میں نہ صرف یہ کہ خود نجات نہیں پاسکا بلکہ وہ باقی قوم کے لئے بھی خطرہ بن گیا کہ اگر یہ ہوا تو کشتی ڈوبے گی.اگر یہ نکلے گا تو کشتی بچے گی.تو وقتی طور پر جب خدا کی رحمت کا سایہ آزمائش کے لئے بھی اٹھتا ہے تو کتنا ہولناک منظر پیدا ہو جاتا ہے.یہاں اب بالکل بر عکس منتظر ہے.فرمایا.جاشوق سے جتنے مومن ہیں وہ بھی کشتی میں بھر لے اور ہر قسم کے ضرورت کے جانوروں کے نمونے بھی بھر لے.ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ بھری ہوئی کشتی میں تمہیں ان طوفان خیز موجوں سے نجات بخشیں گے.اور فرمایا کہ ہم نے ایسا ہی کیا ثُمَّ اغرقنا بعد البقين (الشعراء : ۱۳۱) پس اس کے بعد ہم نے باقی سبکو فرق فرما دیا ان في ذلك لآيَةً ، وَمَا كَانَ اكْثَرُهُمْ مُؤْمِنينَ (الشعراء : ۱۲۲) اس میں ایک بہت بڑا نشان ہے لیکن افسوس کہ اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے.صاحب اختیار اور اقتدار لوگوں کی دعا حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک دعا ہے جس کے ساتھ ایک گہرا مضمون وابستہ ہے.لیکن وہ میں بعد میں بیان کروں گا.اب وقت نہیں ہے پہلی دعا جو ہے اس کا مختصر ذکر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.(بعد میں جو ایک ایسی دعا ہے جس کے ساتھ قرآن کریم کی صداقت کا ایک نشان وابستہ ہے اس کا ذکر بعد میں تفصیل کے ساتھ کروں گا.اس دعا کے ساتھ بھی اس کا تعلق ہے لیکن دو تین دعائیں اکٹھی ہیں جن کا انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں ذکر کیا جائے گا) حضرت سلیمان علیہ السلام نے عرض کی رت آواز عرفني أن أشكر يعمتك التي أنعمت علي انہوں (حضرت

Page 350

347 سلیمان علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ اے خدا مجھے توفیق عطا فرما آن اشكر نعمتك التي أنعمت علي وعلى والا دعا میں تیری اس نعمت کا شکر ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائی وآن اعْمَلَ صَالِحًا اور میں نیک اعمال بجالاؤں ترضُهُ جن سے تو راضی ہو وَادْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَاركَ الضلعين (النمل : ۲۰) اور مجھے اپنی رحمت کے ساتھ اپنے صالح بندوں کے گروہ میں داخل فرمالے.حضرت سلیمان کی یہ دعا اس موقع پر بیان ہوئی ہے جب وہ اپنے لشکر سمیت وادی نملہ میں داخل ہوئے اور عام طور پر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ایک چیونٹی تھی جس نے حضرت سلیمان کو دیکھ کر اپنی باقی چیونٹی بہنوں کو متنبہ کیا کہ یہ ایک بہت بڑا جابر بادشاہ آگیا ہے اور بہت بڑی فوج لے کر آیا ہے.اگر اس سے بچتا ہے تو بھاگ کر اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ ورنہ اس لشکر کے پاؤں تلے تم روندی جاؤ گی.یہ بات حضرت سلیمان نے جن کو علماء یہ بیان کرتے ہیں کہ ظاہری طور پر منطق الطیر عطا ہوئی تھی یعنی پرندوں کی بولی ظاہر میں بھی عطا ہوئی تھی اور دنیا کے ہر قسم کے پرندوں کی زبان وہ سمجھتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ یہ تو چیونٹی تھی "منطق الطیر میں چیونٹی بیچاری کہاں سے داخل ہو گئی.اس لئے "نمل" سے مراد چیونٹی لینا درست نہیں ہے."نملہ" ہے اصل میں جو ایک قوم کا نام تھا.اور حضرت سلیمان جب لشکر کشی کر رہے تھے تو ایک ایسی قوم پر سے گزرے جس قوم کے ایک فرد نے اپنی قوم کو متنبہ کیا کہ اپنی اپنی پناہ گاہوں میں چھپ جاؤ اور غائب ہو جاؤ.معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہاڑی علاقہ تھا یا ایسی جگہیں تھیں جہاں غاروں میں چھپا جا سکتا تھا.چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ قوم ایک لشکر کے سامنے آتی اور اس کے نتیجے میں اس کو خطرات درپیش ہوتے تو مشورہ دینے والے نے یہ مشورہ دیا.حضرت سلیمان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بات سمجھا دی کہ اس طرح یہ تجھ سے خوف کھا رہے ہیں اس پر انہوں نے عرض کی رت آذار غریق أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَي وعلى والدي وان أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ کہ اے خدا میں دنیا کے بادشاہوں جیسا تو بادشاہ نہیں ہوں تو نے مجھ پر ایک عظیم الشان نعمت کی اور میرے والدین پر بھی ویسی ہی نعمت فرمائی.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں نیک اعمال کروں ایسے

Page 351

348 نیک اعمال جن سے تو راضی ہو.اگر عام بادشاہوں کی طرح میں نے اپنی فتوحات کے نتیجے میں یا لشکر کشی کے دوران کمزوروں کو کچلا اور مسلا اور بے بسوں پر ظلم کیا تو پھر میں اس نعمت کی خلاف ورزی کر رہا ہوں گا.یہ معنی ہیں اس کے.وادخلني برحمتك في عبادك الصاحين اور اپنی رحمت کے صدقے اپنی رحمت کی عطا برَحْمَتِكَ الصَّلِحِينَ کے طور پر مجھے نیک بندوں میں شامل فرمالے.یہ دعا اس وقت کے کام کی دعا ہے جب انسان کو خداتعالی بنی نوع انسان کے ایک سے پر کسی قسم کی فضیلت بنے.کسی قسم کا ان کے ساتھ معاملہ کرنے کی طاقت بخشے اور اس کے نیچے کئی قسم کے خدمتگار ہوں.کئی لوگوں کے معاملات اس کے قبضہ قدرت میں ہوں.ایسے وقت میں بھی انسان کو محض اپنی عقل پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ جس طرح حضرت سلیمان جو بہت ہی صاحب عقل تھے اور سب سے بہتر مقام پر فائز تھے، یہ فیصلہ کرتے کہ کون مجرم ہے کون نہیں ہے.کس کو سزا دینی ہے.کس کو نہیں دینی ہے.لیکن اعلیٰ عقل کا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ وہ عاجزی کے ساتھ خدا سے دعا کرتے کہ اگر تو نے مجھے توفیق دی تو میں اس طاقت کا صحیح استعمال کر سکوں گا.اگر تو نے مجھے توفیق نہ دی تو میں اپنی عقل کے باوجود اس طاقت کا صحیح استعمال میں کر سکوں گا.خطرہ ہے کہ ایسے اعمال سرزد ہوں جن سے تو ناراض ہو.اس لئے مری التجاء یہ ہے کہ خواہ کتنی ہی مجھے حکومت کیسا ہی غلبہ کیوں نہ عطا کر.مجھے توفیق عطا فرما کہ ہر حالت میں میرے اعمال تیری رضا کے مطابق ہوں.اور طاقت کے نشے میں میں کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں پس ہر موقع ہر محل کے مطابق ان لوگوں کی دعائیں قرآن کریم میں محفوظ ہیں جن پر اللہ تعالی نے انعام نازل فرمائے اور جن کی راہوں پر چلنے کی ہم سورڈ فاتحہ میں دعا کرتے ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان راہوں پر خدا کی رضا کے مطابق ہمیشہ قدم مارتے رہیں.

Page 352

349 بیت ناصر سرینام ۳۱ار مئی 1991ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ موجودہ سلسلہ خطبات کا پس منظر تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے فرمایا گزشتہ چند جمعوں سے قرآن کریم میں مذکور دعاؤں کا بیان چل رہا ہے اور میں جماعت کو اس طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ سورۂ فاتحہ میں جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عليهم ولا الضالین تو وہ رستہ جو نیک لوگوں کا رستہ ہے، وہ رستہ جس پر وہ لوگ چلے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا اس رستے کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے اس رستے کے خطرات سے بچنے کے لئے اور اس رستے پر چلتے ہوئے خدا کی رضا پانے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ وہ دعائیں زندگی بھر مانگتے رہیں جو دعائیں خدا کے وہ پاک بندے مانگا کرتے تھے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ انعام یافتہ لوگ تھے.اللہ نے ان پر انعام فرمائے تھے تو جن کا رستہ مانگا ہے ان کی ادائیں بھی تو لینی پڑیں گی ان کے طریق بھی تو اختیار کرنے پڑیں گے.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ہم رستہ انعام والوں کا مانگیں اور ادائیں مغضوب علیہ کی اختیار کرلیں.اس لئے سب سے اہم بات جو منعم علیہ گروہ یعنی انعام یافتہ لوگوں کی ہمیں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ہر لمحہ دعا کے سہارے گزرتا تھا.ہر مشکل کے وقت ہر آسانی کے وقت ہر خوشی اور ہر غم میں وہ خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگا کرتے تھے.یہ سفر جو میں نے اللہ اختیار کیا، اس سفر سے پہلے میں نے بھی وہ دعائیں کیں جو سفر کے موقعہ کے مناسب حال قرآن کریم میں مذکور ہیں.آج میں آپ سے سرینام کے

Page 353

350 دار الخلافہ پیرا ماریبو (Paramaribo) میں مخاطب ہوں.اور بعض باتیں آپ کو دوبارہ سمجھانی پڑ رہی ہیں جو اس سے پہلے میں بیان کر چکا ہوں کیونکہ آپ ایک ایسی جماعت ہیں جن کو پوری طرح اردو نہیں آتی اگر چہ آہستہ سمجھا کر بات کروں تو اردو سمجھتے ہیں.بعض آپ میں سے اچھی بھی جانتے ہیں ، بعض ذرا کمزور جانتے ہیں اس لئے میں یہ وضاحت کر رہا ہوں کہ یہ خطبہ جب یا ہر جائے گا اور دنیا کی اکثر جماعتوں میں پہنچتا ہے تو وہ متعجب ہونگے کہ مجھے کیا ہو گیا ہے.میں کیوں بار بار وہ باتیں سمجھا رہا ہوں جو وہ سمجھ چکے ہیں تو ان کو علم ہونا چاہیے کہ میں اس وقت یہ خطبہ سر نام کے دارلخلافہ پیرا مار بو (Paramaribo) سے دے رہا ہوں اور وہاں کی جماعت اس وقت میرے سامنے بیٹھی ہے.ان میں بچے بھی ہیں ، بڑے بھی ہیں اور پردے کے پیچھے خواتین بھی ہیں اور ان کو ان کے فہم اور طاقت کے مطابق بات سمجھا کر آگے چلنا ہو گا تو پس منظر میں نے دوبارہ بتا دیا کہ ہم روزانہ ہر نماز میں انعام یافتہ لوگوں کا رستہ سورۂ فاتحہ کی ہر دعا میں مانگتے ہیں اور دن رات خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کا رستہ دکھا ان کا رستہ دکھا جن پر تو نے انعام فرمایا.ان کے رستے سے بچا جن لوگوں کے رستے پر تیرا غضب نازل ہوا تو پھر ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی ادائیں لازما " اختیار کرنی ہوں گی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جو دعائیں وہ کیا کرتے تھے، ایسی دعائیں جو خدا نے قبول فرمالیں، ایسی دعائیں جو خداتعالی کو پیاری لگیں اور اتنی پیاری لگیں کہ اپنے سب سے پیارے رسول حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم کو وہ دعائیں الہاما جائیں اور وہ دعائیں بھی قرآن کریم میں محفوظ کیں جو خود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی بار سکھائی گئیں اور اس سے پہلے دوسرے انبیاء کو بعض ایسی دعائیں تھیں جو نہیں سکھائی گئیں تو یہ ہمارا سارا خزانہ ہے.اس خزانے سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیئے.شکر نعمت کیلئے حضرت سلیمان کی دعا اب میں حضرت سلیمان کی ایک دعا آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ دعا سورۃ النمل آیت ۲۰ سے لی گئی ہے.آپ عرض کرتے ہیں :

Page 354

351 رب اور عربی آن اشكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَان أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ واد خلني برحمتك في عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ - اس ہے کہ اے میرے رب! رت اور عراق مجھے تو توفیق عطا فرما.مجھے اس بات کی طاقت بخش آن اشكر نعمتك کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں.یہ سادہ کی دعا ہے.اس کا پہلا حصہ یہ ہے کہ مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں.سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہم تو ہر چھوٹی سی نعمت ہو یا بڑی نعمت ہو شکریہ کہہ کر سمجھتے ہیں کہ حق ادا ہو گیا تو پھر حضرت سلیمان کو کیا ضرورت تھی کہ خدا سے شکریے کا طریقہ بھی مانگیں اور توفیق بھی مانگیں.امر واقعہ یہ ہے کہ شکریہ ادا کرنا صرف زبان سے شکریہ ادا کرنا نہیں ہوا کرتا.کوئی شخص آپ پر اتنا بڑا احسان کرے.آپ کا کام کرنے کے لئے اتنی مشکل اٹھائے.کوئی شخص ڈوب رہا ہے اس کی جان بچانے کے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالے اور دریا میں چھلانگ دے اور بڑے مشکل سے ہاتھ پاؤں مار کے خود ڈوبتے ابھرتے اس شخص کی جان بچالے اور وہ باہر آکر کہہ دے.شکریہ ! تو کیا شکریہ ادا ہو جائے گا؟ یہ سوال ہے.اس لئے یہ دعا ہمیں سکھا رہی ہے کہ تم یہ ہو قوفی نہ کیا کرو کہ زبانی خدا کو کہہ دیا اچھا شکریہ.بہت آپ نے احسان فرمایا.بس کافی ہو گئی.شکریہ اگر ادا کرنا ہے تو خدا سے اس کی توفیق مانگو.توفیق اس چیز کی مانگی جاتی ہے جو مشکل ہو.جس کے لئے جان کو جو کھوں میں ڈالنا پڑتا ہو.پس انبیاء چونکہ شکریے کا حق ادا کرنا چاہتے تھے ، ہر چند کہ اللہ کے شکریہ کا حق ادا نہیں ہو سکتا اور غالب والی بات ہی درست ہے کہ جان دی دی ہوئی اس کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا کہ ہم خدا کو زیادہ سے زیادہ جو چیز پیش کر سکتے ہیں اپنی جان دے سکتے ہیں ناں.اس سے بڑھ کر ہم کیا کر سکتے ہیں لیکن جان بھی خدا کو دے دیں تو وہ بھی تو اسی نے دی تھی.اس کی عطاء کو اس کو واپس کریں گے ، نئی چیز کیا اپنے پاس سے گھر سے لائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مصرعہ جو مجھے بہت پیارا لگتا ہے باربار میں

Page 355

352 اسے پہلے بیان کر چکا ہوں.بہت ہی اعلیٰ پائے کا ایک شعری قلبی مضمون بیان ہوا ہے.عرض کرتے ہیں کہ سب کچھ تیری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے.جو کچھ نعمتیں تو نے ہمیں بخشی ہیں ان میں سے کچھ بھی ایسی نہیں جو ہم نے خود بنائی ہوں، سب تیری عطا ہے.اگر تیرے حضور واپس کر دیں تو اس کے نتیجے میں ہم تو تجھے کچھ دینے والے نہیں بنیں گے.پس شکریہ ادا کرنا زبان سے اور بات ہے اور دل سے شکریہ ادا کرنا اور بات ہے.جب دل سے شکریہ ادا ہو تو انسان کے اندر طلب پیدا ہو جاتی ہے کہ میں شکریے کا حق ادا کرنے کی کوشش کروں.آپ دیکھیں کہ اللہ ہمیں جو توفیق بخشتا ہے ہم اس کے حضور چندے دیتے ہیں اور اس معاملے میں ساری دنیا میں سب سے نمایاں جماعت احمدیہ ہے.ساری دنیا کے پردے پر تلاش کر کے دیکھ لیجئے آپ کو احمدیہ جماعت سے بڑھ کر خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والی کوئی جماعت نہیں ملے گی.بڑے چھوٹے جوان سارے توفیق کے مطابق کچھ نہ کچھ دیتے ہیں لیکن بعض لوگ جو کچھ زیادہ دینے کی توفیق پاتے ہیں ان کے دماغ میں بعض دفعہ یہ کیڑا پڑ جاتا ہے کہ اچھا جماعت تو ہم پر منحصر ہے.ہماری قربانیاں ہیں جن کے نتیجے میں جماعت چل رہی ہے اور بعض ایسے لوگوں کا انجام پھر برا ہوتا ہے، خدا انہیں باہر نکال پھینکتا ہے لیکن وہ لوگ جو عجز کے ساتھ قربانی کرتے ہیں جن کے دل میں شکریہ پیدا ہوتا ہے وہ جانتے ہیں کہ سب کچھ خدا کی عطاء ہے.ہم نے جو کچھ واپس کیا اس کا بہت تھوڑا واپس کیا جو اس نے ہمیں دیا تھا.اس لئے ہمارا احسان نہیں ہے.خدا کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں دیا اور یہ بھی احسان ہے کہ اس میں سے کچھ اس کے حضور پیش کیا.پس انبیاء اس لئے شکریے کا حق ادا کرنے کی توفیق مانگتے ہیں.وہ جانتے ہیں، وہ عارف باللہ ہوتے ہیں ان کو پتہ ہے کہ خدا کے احسان بہت زیادہ ہیں.ان کو پتہ ہے کہ خالی زبان سے الحمد للہ کہنا کافی نہیں ہے.بدن کو بھی شکریے کے ساتھ خدا کے حضور جھکنا ہو گا.جذبات کو بھی جھکنا ہو گا.خدا نے جو کچھ ہمیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا ہو گا.اب اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں ، ہر نعمت

Page 356

353 کا شکریہ اس کے رنگ میں ادا ہوا کرتا ہے.ایک شخص کو اللہ نے علم عطا کیا ہے وہ اپنے علم سے پیسے کما بھی سکتا ہے اور پیسے لگا کر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ پہنچا بھی سکتا ہے.علم تو وہی ہے جو خدا نے دیا ہے بعض لوگ اس کو صرف تجارت کے لئے استعمال کرتے ہیں.بعض اس علم کو خدا کی خاطر اس کے بندوں پر خرچ کرتے ہیں اور اس کے لئے وہ تکلیف بھی اٹھاتے ہیں اور خود اپنی جان پر ان کو خرچ کرنا پڑتا ہے تو ان دونوں چیزوں میں دیکھیں کتنا فرق ہے.پس قرآن کریم نے جو ہمیں سکھایا : دمعاً رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کہ جو کچھ ہم ان کو عطا کرتے ہیں یا جو کچھ ہم نے ان کو دیا اس میں سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت سلیمان" نے یہ دعا کہ تو آپ کی دعا کے پیچھے بہت بڑا مضمون تھا کیونکہ حضرت سلیمان کو خدا نے بہت کچھ دیا تھا.اتنی حکمت دی تھی کہ دنیا کے پردے پر کبھی کسی انسان کو اس زمانے میں وہ حکمت نہ ملی اور ساری دنیا میں آپ کی حکمت کی باتیں اس وقت بھی شہرت پا گئیں اور آج تک حضرت سلیمان علیہ السلام کو عظیم الشان فلسفی ، حکیم ، ایک دانشور ایک دانا انسان کے طور پر دنیا جانتی ہے.پس حکمتوں کا شکریہ کیسے ادا کریں جب تک حکمتوں کے موتی نہ بکھیریں، جب تک ساری دنیا کو اپنی حکمتوں سے فائدہ پہنچانے کی کوشش نہ کریں.پھر بادشاہت وہ عطاء کی جس کی کوئی مثال یہودی تاریخ میں نہیں ملتی نہ پہلے نہ بعد میں، اس زمانے سے آج تک کبھی کسی کو ایسی شاندار دنیاوی بادشاہت نہیں ملی جیسی خدا کے اس پاک نبی کو دنیاوی بادشاہت ملی اور پھر روحانی بادشاہت بھی عطا ہو گئی.نبی بنائے گئے، اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہو سکتی ہے تو یہ ساری باتیں حضرت سلیمان کے ذہن میں تھیں اگر چہ اس سے پہلے آپ کے باپ حضرت داؤد کو بھی نعمتیں ملی تھیں مگر جو شان و شوکت یہود کی سلطنت کو حضرت سلیمان کے زمانے میں عطا ہوئی ویسی اور کبھی کسی کو عطا نہیں ہوئی.اب اس کو دوبارہ پڑھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیوں عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور گر کرمنت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ اے خدا تیری نعمتیں تو میری حد سے بڑھ گئی ہیں.کس طرف دیکھوں جہاں تیری نعمت نہیں.کس بات پر غور کروں جہاں مجھے تیرے احسان نہ دکھائی دیتے

Page 357

354 ہوں.پس تو ہی ہے جو مجھے اپنی اس چھوٹی سی زندگی میں اپنے شکریے کا حق ادا کرنے کی توفیق بخش سکتا ہے.شکر نعمت کی توفیق خدا ہی سے مانگیں ان باتوں کو سوچتے ہوئے، اس سارے پس منظر کو دماغ میں رکھتے ہوئے اگر ہم میں سے ہر ایک چھوٹا بڑا خدا کی نعمتوں پر غور کرے اور عاجزانہ طور پر یہ عرض کرے کہ اے خدا! جو کچھ تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے توفیق بھی دے کہ میں تیرا سچا شکریہ ادا کروں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اگر کوئی ڈوبتے کو بچاتا ہے اور بعد میں اس شخص کا کوئی بچہ ڈوب رہا ہو یا اس کا کوئی پیارا مشکل میں ہو تو اس کو دیکھ کر وہ شخص جس کو بچایا گیا وہ آنکھیں پھیر کر چلا جائے تو یہ ناشکری ہوگی، یہ ظلم ہوگا.اس کے لئے یہ کافی نہیں ہے کہ جب اس کو بچایا گیا تھا تو اس نے بچانے والے کو شکریہ کہہ دیا.پس اللہ کو تو ہم نعوذ باللہ کسی شکل میں احسان کا بدلہ براہ راست نہیں دے سکتے.وہ تو ساری کائنات کا پیدا کرنے والا ہر چیز کا مالک وہ ہمیں زندگی عطا کرنے والا ، ہمیں سب نعمتیں عطا کرنے والا ہم اس کا شکریہ کس طرح ادا کریں.ایک ہی رستہ ہے کہ اس کے رستے پر خرچ کریں.ان بندوں پر احسان کریں جو خدا کے بندوں پر ہوں اور نہیں خدا اس احسان کا موقعہ عطا کرے.پس اس دعا نے ہمیں حکمت کی بہت کچھ باتیں سکھائیں.اب آپ دیکھ لیجئے خدا کے بہت سے بندے تکلیف میں ہیں.کئی قسم کی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں.ہم یہاں ایک سکول دیکھنے گئے تھے جو ایک ڈچ نیک دل انسان نے قائم کیا تھا اور اب بڑھتے بڑھتے کافی ترقی کر گیا ہے.اس میں معذور بچے ہیں جن کی دیکھ بھال کی جاتی ہے.جن کو اس قابل بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ زندگی میں ایک عزت والا مقام حاصل کر سکیں اور کسی کی محتاجی کے بغیر اپنا گزارا کر سکیں.یہ بہت نیکی کا کام ہے جو احمدی ہے اس کے اوپر تو ہر دوسرے سے بڑھ کر یہ فرض ہے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرنے کے لئے ایسے لوگوں پر احسان کرے.جب ہم میں سے کسی کے ہاں کوئی معذور بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو ایسا شخص اگر بد قسمت ہو تو بعض دفعہ خدا پر باتیں بنانے لگ جاتا ہے.وہ

Page 358

355 کہتا ہے اللہ تعالٰی نے مجھ پر ہی ظلم کرنا تھا اور ساری دنیا رستی بستی ہے اس کو تو تکلیف نہیں پہنچی اور مجھے خدا نے چن لیا.یہ اس کی جہالت ہے جو کچھ خدا نے دیا ہے اس میں سے تھوڑا سا نہ دینے پر اتنی تکلیف ہو، اتنا جزع فزع اور خدا پر اتنی باتیں بنانا یہ نہ دیکھنا کہ اس نے جو دیا ہے وہ بہت زیادہ ہے اور مالک ہے اگر وہ بھی واپس لے لے جو دے چکا ہے تو کسی کا کوئی بس نہیں.دوسرے ان باتوں پر غور کرنے سے اگر وہ بچے دل سے غور کرتا تو اس کو بہت بڑی حکمت سمجھ آجاتی.اللہ تعالی جن کو دیتا ہے ان کی آزمائش بھی کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے کہ جن کو میں نے عطا کیا ہے وہ میرے شکریہ کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نہیں.خدا تو نعوذ باللہ لولا لنگڑا نہیں ہو سکتا.خدا تو بے نور نہیں ہو سکتا.آپ کو آنکھیں عطا ہوئیں تو اگر بے آنکھوں والوں کی خدمت نہ کریں گے تو خدا کا شکریہ کیسے ادا کریں گے ؟ اگر ہاتھ پاؤں عطا ہوئے اور دنیا میں اگر کوئی لولا لنگڑا نہ ہوا اور اس کی خدمت کا آپ کو موقعہ نہ ملے تو کیسے خدا کا شکریہ ادا کریں گے.پس دنیا میں آزمائشوں کا جو نظام چل رہا ہے، اگر غور کیا جائے تو دراصل ایک ہی رستہ ہے جس رستے سے خدا کے شکر گزار بندے اپنے رب کا شکر ادا کر سکتے ہیں اور یہ جو مضمون ہے یہ ہمیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے سکھایا ہے.آپ نے ہمیں معرفت کی یہ بات سمجھائی ہے کیونکہ ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا.یہ ایک حدیث قدسی ہے یعنی ایک حکایت کے رنگ میں ایک بیان ہے کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی بندہ پیش ہو گا تو وہ اسے کہے گا کہ دیکھو میں بھوکا تھا اور بہت تکلیف میں تھا تو نے مجھے روٹی نہ کھلائی اور پھر کے گا کہ میں بغیر کپڑوں کے تھا، میرے بدن پر گرمی سے بچنے کے لئے اور سردی سے بچنے کے لئے کچھ نہیں تھا تجھے توفیق تھی تو نے میری کچھ خدمت نہ کی تو نے مجھے کپڑے نہ پہنائے.میں نے چھت کے تھا، میرا کوئی گھر نہیں تھا اور تجھ سے امید تھی کہ تو مجھے گھر دے گا، مجھے آرام پہنچائے گا لیکن تو نے میری کوئی خدمت نہ کی.اس طرح خدا باتیں کر رہا ہو گا اور وہ بار بار احتجاج کرے گا کہ اے میرے مالک اے میرے خدا ! تو تو سب کو دینے والا ہے، تو نے ہی تو تن ڈھانکے ہیں، تو کب بغیر کپڑے کے تھا.تو

Page 359

356 تو سب کو رزق دینے والا ہے تو کب بھوکا تھا تو اللہ فرمائے گا دیکھ جب میرا بندہ نگا تھا اور نہ سردی سے بچ سکتا تھا نہ گرمی سے اس وقت میں ہی ننگا تھا تو اس وقت میری مدد کر سکتا تھا یعنی میرے بندے کی مدد کر سکتا تھا.جب میرا کوئی غریب بندہ بھو کا تھا اور تو کھانا کھلا سکتا تھا مگر نہیں کھلایا تو گویا تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا.جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں آپ دیکھ لیں اس کے ساتھ یہ بالکل مطابقت کھا رہا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اس تمثیل کے ذریعے ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ تم اگر خدا کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہو تو براہ راست تو ادا کر ہی نہیں سکتے.جو کچھ خدا نے تمہیں دیا ہے اس کے غریب بندوں پر احسان کرتے ہوئے اس میں سے کچھ ان کو دو تو اس رنگ میں تو گویا خدا کا شکریہ ادا کر سکتے ہو.جتنی زیادہ کسی کو نعمتیں عطا ہوں ادا اتنی ہی زیادہ شکریہ ادا کرنے کی ذمہ داری اس پر پڑ جاتی ہے.اتنی ہی زیادہ اس کو دعا کرنی پڑے گی اور انبیاء کی دعاؤں نے ہمیں سکھا دیا کہ انبیاء جیسے بڑے مقام پر فائز لوگ بھی اپنی طاقت سے شکریہ ادا نہیں کر سکتے تھے.اگر انبیاء کو خود یہ طاقت ہوتی کہ اللہ کا شکریہ ادا کر سکیں تو خدا سے رو رو کر دعائیں مانگنے کی اور گریہ و زاری کی کیا ضرورت تھی کہ اے اللہ ! ہمیں شکریہ کا طریقہ سکھا.صاف معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء عارف تھے.خدا کی حکمت کے راز سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ اگر خدا نے توفیق نہ دی تو ہم شکر کا حق بھی ادا نہیں کر سکیں گے پس حضرت سلیمان کے منہ سے یہ دعا بہت زیب دیتی ہے کیونکہ آپ پر خدا کے بے انتہاء احسانات تھے.پس نہایت عاجزی کے ساتھ جھکتے ہوئے خدا کا خوف کھاتے ہوئے انہوں نے عرض کیا : رب اور شرقی آن اشكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي انْعَمْتَ عَلَيْ اے میرے رب مجھے توفیق عطا فرما.أن أشكر نعمتك کہ میں تیری نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں.الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَي اس نعمت کا جو تو نے مجھے پر کی اور صرف اسی کا نہیں.وعلى والدي اور اس نعمت کا بھی مجھ پر شکریہ واجب ہے جو تو نے میرے والدین پر کی.اب یاد رکھیں اس دعا نے ہمیں ایک اور بہت گہرا حکمت کا موتی پکڑا دیا.بچوں پر فرض ہے کہ اپنے والدین کا شکریہ بھی ادا کریں.اور والدین پر جو خدا نے نعمتیں عطا کیں، والدین کی

Page 360

357 زندگی تھوڑی ہوئی اور وہ ان سب نعمتوں کا شکریہ ادا نہ کر سکے تو یہ اولاد پر فرض ہو گیا اور وہ والدین بھی جو خدا کے نیک بندے تھے اور انہوں نے خدا کا شکر کرتے ہوئے زندگی گزاری انکی اولاد کو بھی یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہم پر ہمارے ماں باپ کا احسان ہے.ہم اس احسان کا صرف اس رنگ میں بدلہ اتار سکتے ہیں کہ جو نیک کام وہ کیا کرتے تھے ان نیک کاموں کو ہم بھی کریں.جو خدا نے ان پر احسان کئے تھے ان احسانات کا شکریہ ہم انکی طرف سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کریں، تو کتنا عظیم الشان نبی تھا حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام.کتنی گہری معرفت اور حکمت کی باتیں کرنے والے تھے.آپ کی دعائیں بھی گہری حکمت پر مبنی تھیں.پس شکریہ اپنا ہی نہیں بلکہ اپنے والدین کا بھی ادا کرنے کا خیال آیا.اور کہا وعلى والد اور اپنے والدین کا بھی شکریہ ادا کروں اور کس طرح شکریہ ادا کروں؟ زبان سے! نہیں نہیں.عرض کرتے ہیں وان اعملَ صَالِحًا ترضہ ایک ہی طریق ہے تیرا شکریہ ادا کرنے کا کہ نیک اعمال بجالاؤں ایسے اعمال بجالاؤں جو تجھے پسند آجائیں.اللہ تعالیٰ نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے پس شکریہ ادا کرنے کا ایک اور طریق ہمیں سمجھا دیا کہ شکریہ ادا اس لئے کیا جاتا ہے کہ دوسرا خوش ہو اور اللہ تعالیٰ تو زبانی باتوں سے خوش نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ تو نیک اعمال سے خوش ہوتا ہے.پس خدا سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا مجھے ایسے نیک اعمال ادا کرنے کی توفیق بخش کہ جن پر تیری نگاہیں پڑیں تو تو خوش ہو جائے کہ دیکھو میرا بندہ سلیمان کیسے اچھے کام کر رہا ہے.کیسے نیک کاموں میں مصروف ہے.اور مجھے خوش کرنا چاہتا ہے حضرت سلیمان عرض کرتے ہیں کہ اس رنگ میں تو مجھے دیکھے کہ تیری رضا کی نظر مجھ پر پڑ رہی ہو.آپ کا کوئی بچہ خوش کرنے کی کوشش کرتا ہو اور آپ کی مرضی کا کام کرے اور پھر بار بار دیکھے کہ آپ خوش ہوئے ہیں کہ نہیں اور آپ کے چہرے پر مسرت کے آثار دیکھے خوشی کے آثار دیکھے ، مسکراہٹ دیکھے ، آنکھوں میں پیار دیکھے تو اس کو کیسا مزا آئے گا.پس حضرت سلیمان یہی عرض کر رہے ہیں.کہتے ہیں کہ اے خدا توفیق بخش کہ میں نیک کام کروں اور ایسے کام جنکو تو پسند کرتا ہو اور تیرے

Page 361

358 پیار کی نگاہیں مجھے پر پڑ رہی ہوں.اور پھر میں کہوں کہ ہاں اب میں نے تیرا شکریہ ادا کیا ہے.جس طرح تو نے مجھے راضی کیا میں نے بھی تجھے راضی کر دیا.وَادْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّاحِينَ اور مجھے اپنی خاص رحمت سے اپنے صالح بندوں میں داخل فرمالے ایسے بندوں میں جن کے متعلق تو یہ گواہی دیتا ہے کہ وہ صالح زندگی گزارنے والے تھے.عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں اور قرآن کریم سے بھی یہی ثابت ہے کہ نبی سب سے اونچی نعمت اس کے بعد صدیق اس کے بعد شہید اس کے بعد صالح، اور وہ سمجھتے ہیں صالح سب سے ادنی درجہ ہے اس لئے نبیوں سے نیچے کا مقام ہے.لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صالح نہیں ہوتا.یا نبی شہید نہیں ہوتا یا نبی صدیق نہیں ہوتا بلکہ نبی کے اندر بیک وقت یہ سارے عہدے شامل ہوتے ہیں.یہ سارے مرتبے اس کو اکٹھے نصیب ہوتے ہیں.جو صرف صالح ہو وہ اوپر کا درجہ نہیں رکھتا لیکن جو اوپر کا درجہ رکھتا ہو یعنی شہید ہو وہ صالح بھی ہوتا ہے.پس انبیاء جانتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ صالح رہنا پڑے گا اور اس لئے وہ عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ ہم تیری نظر میں صالح رہیں اور ایسے اعمال نہ ہم سے سرزد ہوں کہ تیرے ہاں ہم غیر صالح لکھے جائیں.حضرت سلیمان پر یہود اور بائیبل کا ظلم حضرت سلیمان ایک ایسے نبی ہیں جن پر یہود نے یعنی اس قوم نے جس پر حضرت سلیمان کے سب سے زیادہ احسان ہیں سب سے زیادہ ظلم کئے ہیں.آج تک کسی احسان مند نے اپنے محسن کے خلاف ایسی ناشکری کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا یہودی قوم نے حضرت سلیمان کے متعلق ناشکری کا مظاہرہ کیا ہے.آپ بائبل میں پڑھ کر حیران ہونگے کہ نہ صرف یہ کہ حضرت سلیمان کو نبی تسلیم نہیں کیا جاتا اور صرف بادشاہ مانا جاتا ہے بلکہ ایسے گندے کردار کا بادشاہ مانا جاتا ہے کہ اس کو پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے.اگر نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ یہ خدا کا شکر گزار بندہ ہے تو پھر دنیا ہے امن و امان اٹھ جائے.دنیا میں کوئی نیکی باقی نہ رہے.یہ قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے بائیل کے گزشتہ انبیاء کے تقدس کو دنیا کے سامنے دوبارہ قائم کیا ہے.یہ

Page 362

359 قرآن کریم کا احسان ہے کہ اس نے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کو ایسے پاک باز خدا ترس بزرگ انسانوں کے طور پر پیش کیا ہے جن کو خدا نے اپنی اعلیٰ ترین نعمت عطا فرمائی.ورنہ بائیل کی رو سے اور یہود کے قصوں کی رو سے تو حضرت سلیمان ایک نہایت ہی خوف ناک قسم کے بد کردار انسان نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ بنتے ہیں.اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ عیسائی عام طور پر قرآن کریم پر جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن کریم نے تو بائیل کی نقل اتاری ہے.وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم کو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، جو پرانی بائیبل کی باتیں ہیں وہ آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے سنی ہیں اور انہی قصوں کو قرآن کریم میں لے لیا ہے.اگر یہ بات درست ہوتی تو قرآن کریم میں حضرت داود اور حضرت سلیمان کا ذکر نبی کے طور پر نہ ملتا.اور حضرت داؤد اور حضرت سلیمان کا ذکر اتنے پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ نہ ملتا.ایسے مقدس اور بزرگ انسانوں کے طور پر نہ ملتا.بلکہ بائیبل کی نقل ماری ہوتی تو قرآن کریم ان کے ذکر سے بھی گھن کرتا اور کہا دیکھو نعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ کیسے گندے لوگ تھے.پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان کو جو ہمارے سامنے پیش کیا ہے تو ایک بہت ہی عظیم الشان اور بزرگ نبی کے طور پر پیش کیا ہے جو احسان مند اور ہر لمحہ خدا کا شکریہ ادا کرنے والا تھا.اور بنی نوع انسان کو ان نعمتوں سے حصہ دینے والا تھا جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی تھیں.اس کے مقابل پر آپ جب بائیل پر غور کرتے ہیں اور بائیبل کے جو محققین ہیں ان کی رائے دیکھتے ہیں تو آپ یہ دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ کس طرح بعض قومیں ظالم ہو کر اپنے پاک انبیاء پر کیسے کیسے بہتان تراشنے لگتی ہیں.ایک یہودی تاریخ کا مصنف حضرت سلیمان کے متعلق لکھتا ہے کہ یہود حضرت سلیمان کی بادشاہت سے سخت بے زار تھے کیونکہ وہ نہایت گندے کردار کے انسان تھے نہ صرف گندے کردار کے بلکہ مشرک تھے اور خدا کے ساتھ اپنے کئے ہوئے عہد کو توڑ بیٹھے تھے اور غیر قوموں کی عورتوں کو بیاہ کر کے لاتے تھے اور پھر ان کے معبودوں کی پرستش کرنے لگ

Page 363

360 جاتے تھے.یہ جو کچھ لکھا ہے، یہ بائیبل کی نقل ہے.بائیل میں یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں.لیکن آخر پر وہ لکھتا ہے کہ ہاں ایک بات ہے کہ وہ عقل مند ضرور تھے.لیکن اس عقل کا کیا فائدہ جو ان کے کام نہ آسکے.چنانچہ وہ کہتا ہے کہ یہود میں یہ حکایت مشہور تھی اور یہ بات بار بار کسی جاتی تھی کہ SOLOMAN WAS THE WISEST MAN ON EARTH YET SEE HOW FOOLISHLY ‘HE LIVED.کہ سلیمان دنیا کا سب سے زیادہ عقل مند انسان تھا لیکن دیکھو وہ خود کتنی بیوقوفی کی زندگی گزار کر چلا گیا.تو ایسی ظالم قوم ہے کہ حضرت سلیمان کے اوپر ایسے ایسے بہتان باندھے ہیں جو ایک عام انسان پر بھی باندھتے ہوئے خدا کا خوف کھانا چاہئیے اور آپ کے کردار کو ہر طرح سے داغ دار بنانے کی کوشش کی ہے.حضرت سلیمان کے دور میں عظیم الشان مذہبی آزادی م میں نے اس پر تحقیق کی غور کیا، کچھ بائیل کے متعلقہ حصوں کا مطالبہ کیا تو مجھے یہ راز سمجھ آیا ہے کہ کیوں انہوں نے ایسا کیا ہے.حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام غیر معمولی انصاف کرنے والے انسان تھے.ایسا منصف نہیں اور بادشاہ یہود کی تاریخ میں آپ کو شاید ہی کوئی اور دکھائی دے بلکہ بے مثل ہیں اس معاملے میں چنانچہ آپ نے غیر قوموں کو یہ حق عطا کیا کہ مذہبی اختلاف رکھتے ہوئے اپنے خدا کی اس طرح ہی ستش کریں جس طرح یہود کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے خدا کی پرستش کریں یعنی جس کو خدا سمجھتے ہیں اس کی پرستش کریں.چنانچہ حضرت سلیمان کے زمانہ میں ان غیر قوموں کو مذہبی آزادی کا حق ملا ہے جو اس سے پہلے اس حق سے محروم تھیں اور بہت وسیع حکومت تھی آپ کی وہاں حقیقت میں اکثریت تو غیر قوموں کی تھی اور اسرائیل کو خدا نے اگرچہ بادشاہت عطا کی تھی مگر اسرائیلی ایک اقلیت میں تھے، Minority میں تھے تو کتنا ظلم ہو تا کہ ایک اقلیت کے مذہب کو تو کھلی چھٹی ہوتی کہ جو چاہے کرے لیکن

Page 364

361 ملک کی اکثریت کو اس خدا کی پرستش کا حق نہ ہو تا جس کو وہ خدا سمجھ رہے ہیں تو حضرت سلیمان کا انصاف تھا جو یہودیوں کو چبھتا تھا اور تکلیف دیتا تھا.حضرت سلیمان وہ نبی ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کے تصور کو یہود تک محدود نہیں رہنے دیا اور تمام بنی نوع انسان کے لئے خدا کے تصور کو عام کر کے پیش کیا جس طرح کہ ہم سورہ فاتحہ میں الحمد لله رب العلمین پڑھتے ہیں.اگر آپ سلاطین نمبرا پاپ دار کا مطالعہ کریں (جس کو انگریزی میں 1-Kings کہا جاتا ہے یعنی سلاطین) تو آپ کو معلوم ہو گا کہ حضرت سلیمان نے جب ہیکل سلیمانی تعمیر فرمایا اور اس کی تکمیل کی آخری تقریبات ہو رہی تھیں اور جشن منایا جا رہا تھا تو اس وقت آپ نے ایک عظیم الشان تقریر ہیکل سلیمانی کے مقاصد کے اوپر کی اور وہ تقریر اپنے مضمون کے لحاظ سے اس سے ملتی جلتی ہے جو خانہ کعبہ کے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی.اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تقریر یعنی ان کی دعائیں بہت جامع مانع ہیں اور اس سلسلے میں آپ کے ملفوظات بہت جامع مانع ہیں لیکن حضرت سلیمان کی اس تقریر میں اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں.یہود کے ایک نبی کے لئے کیسی عجیب بات ہے کہ وہ وہاں اعلان کر رہے ہیں کہ اے خدا! یہ ہیکل سلیمانی صرف یہود کے لئے محدود نہ رہے.اے خدا! اس ہیکل میں جو دعائیں مانگی جائیں وہ اس صورت میں بھی قبول فرما کہ یہود وہ دعائیں مانگ رہے ہوں اسرائیلی وہ دعائیں مانگ رہے ہوں اور اس صورت میں بھی قبول فرما کہ دنیا کے دور کے کناروں سے آنے والے وہ لوگ جن کا ہمارے مذہب سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے وہ بھی یہاں اگر دعائیں مانگیں تو تو ان کو بھی قبول فرمائے.حضرت سلیمان یہ کہتے ہیں کہ وہ خدا جو اسرائیل کا خدا ہے وہی کل عالم کا خدا ہے گویا وہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہی خدا ہے جو صرف اس عالم کا نہیں بلکہ تمام جہانوں کا رب ہے.دیکھیں سورۂ فاتحہ کے مضمون کا ایک حصہ حضرت سلیمان کو بھی عطا ہوا.الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْخَمِينَ کا گویا یہ ترجمہ ہے.کہتے ہیں تمام جہانوں کا وہ رب ہے.وہ یہود کے لئے کس طرح محدود ہو جائے گا.پس وہ خدا سے دعائیں کرتے چلے جا

Page 365

362 رہے ہیں اور سارے ہوں بڑے بڑے بزرگ، نیک بد چھوٹے بڑے سب اکٹھے ہوئے ہوئے تھے اور سارے ان کے ساتھ آئین کہتے تھے اس دعا میں شامل تھے کہ اے خدا تو اس گھر کو عام کر دے.اس کے فیض کو عام کردے.سارے بنی نوع انسان جو بھی یہاں حاضر ہوں وہ تیری رحمتوں کا فیض پائیں اور واپس جاکر اپنی اپنی قوموں میں اعلان کریں کہ ہم نے ایک ایسے خدا کے گھر کا پتہ پایا ہے جس کا فیض ساری دنیا پر عام ہے.جو تمام جہانوں کا رب ہے.جو سب سے زیادہ طاقت ور ہے تو یہ حضرت سلیمان کی پیاری باتیں تھیں جو یہودی علماء کو تکلیف دیتی تھیں.وہ متعصب علماء جنہوں نے خدا کو اپنے گھر کی ملکیت بنا لیا تھا وہ سمجھتے تھے کہ نیکی سوائے اسرائیل کے باہر ہو ہی نہیں باہر ہوہی نہیں سکتی وہ کس طرح حضرت سلیمان کو برداشت کرتے.پھر حضرت سلیمان کی ایک اور چیز جو یہود کو تکلیف دیتی تھی وہ بھی انصاف کا ایک اور پہلو ہے.حضرت سلیمان نے بہت عظیم الشان تعمیرات کرائیں.آپ کو علم ہے کہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ آپ کو خدا نے ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کی توفیق بخشی اور سفر جو آپ سے پہلے ایک مہینے کی مشقت سے کیا جاتا تھا وہ صبح اور شام میں طے ہو جایا کرتا تھا تو حضرت سلیمان کو اللہ تعالٰی نے بہت علم عطا کیا، بہت ہی عظیم الشان ایجادات کی توفیق بخشی اور بہت سی اصلاحات کی توفیق بخشی.اس ضمن میں قوم کی تعمیر کا جو پروگرام تھا اس میں آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ساری آبادی جو بالغ مرد ہیں جن میں کام کرنے کی طاقت ہے وہ بلا امتیاز اپنے وقت کا تیسرا حصہ الہی کاموں میں یا قومی کاموں پر خرچ کرے گویا کہ ایک قسم کا قومی وقف کا اعلان تھا اور تیسرا حصہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ جو روایت یا رسم ہمارے ہاں چلی آتی ہے کہ تیسرے حصے سے زیادہ خدا کو نہیں دینا یعنی خدا خود پسند نہیں فرماتا کہ تم اپنے بال بچوں کا حق مار لو بلکہ یہ اجازت دیتا ہے کہ تیسرے حصے تک اپنے مال کو خدا کی راہ میں قربان کرو تو یہ رسم کوئی نئی نہیں بہت پرانی چلی آرہی ہے.حضرت سلیمان کو بھی اللہ تعالی نے یہ حکمت کی بات سمجھائی کہ اس طرح خدمتیں لو کہ جن لوگوں کو خدمت پر مقرر کرو ان کے وقت کے تین حصوں میں سے دو حصے ان کے ہوں گے اور ایک حصہ قوم کا ہو گا.حضرت سلیمان سے

Page 366

363 پہلے یہ رواج تھا کہ یہود کو اس خدمت سے مستقلی سمجھا جاتا تھا.وہ سمجھتے تھے ہم حاکم قوم ہیں.جس طرح ڈرح یہاں حکومت کرتے تھے تو خود ویسے محنت کے کام نہیں کرتے تھے جیسے آپ لوگوں سے لیتے تھے یا افریقہ کے ان لوگوں سے لیتے تھے جن کو وہ پکڑ کر یہاں لائے تھے.وہ آپ بادشاہ بن کر پھرتے تھے.انگریز یہی سلوک ہندوستانیوں سے کیا کرتے تھے افریقیوں سے کیا کرتے تھے تو ابتداء " یہی رواج چلا آرہا تھا کہ یہود چونکہ ایک فاتح قوم ہے اس لئے یہود خود محنت کے کام نہیں کریں گے اور جو قومیں مغلوب نہو چکی ہیں صرف ان سے ان کے وقت کا 13 حصہ لیا جائے گا لیکن حضرت سلیمان کا یہ عظیم الشان انصاف ہے کہ آپ نے پہلی مرتبہ اس قانون کو تبدیل کیا اور کہا کہ یہود بھی اسی طرح وقت پیش کریں گے جس طرح غیر قومیں پیش کریں گی اور اس ملک میں اپنے اور غیر کا کوئی فرق نہیں رہے گا.انصاف چلے گا اور کامل انصاف چلے گا.کتنا عظیم الشان نبی تھا.کیسے انقلابی فیصلے کرنے والا تھا.ایسا محسن اعظم ! اور اس کا بدلہ یہود نے اس ناپاک طریق پر دیا کہ ان باتوں سے چڑ کر آپ پر گندے حملے کئے.آپ نے چونکہ غیروں کو عبادت کا حق دیا اس لئے یہ کہنے لگ گئے کہ یہ مشرک تھا اور یہ خود غیر قوموں کی عبادت کیا کرتا تھا.وجہ یہ بیان کی کہ بے شمار غیر قوموں کی عورتوں سے اس نے بیاہ کئے اور بیان یہ کیا جاتا ہے کہ موے بیویاں کیں اور وہ بھی کافی نہ سمجھیں اس کے علاوہ ۳۰۰ لونڈیاں بھی گھر میں رکھ لیں تو گویا ایک ہزار بیویاں حضرت سلیمان کی بیان کی جا رہی ہیں حالانکہ یہ ایک ایسی جاہلانہ بات ہے جسے انسان قبول ہی نہیں کر سکتا.نہایت ناپاک قصے بنا بنا کر ان کی طرف منسوب کئے اور پھر یہ کہا کہ یہ ساری بیویاں غیر قوموں کی تھیں یا بھاری اکثریت ان کی تھی اس لئے ان بیویوں کو خوش کرنے کے لئے ان کے خداؤں کی عبادت کرنے لگ گیا اور ان کے حضور سجدے کرنے لگ گیا اور ان کے معبد بنانے لگ گیا تو قومیں جب وقت کے نبی کی مخالف کرتی ہیں تو اس طرح ان پر ناپاک حملے کرتی ہیں.ہم بھی ایک ایسے زمانے سے گزر رہے ہیں جہاں ہمارے سامنے نبوت کی تاریخ بن رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ کے تابع فرمان نبی ہیں.آزاد نبی نہیں ہیں مگر امتی نبی ضرور ہیں.آپ

Page 367

364 ان کی تحریرات پڑھ کر دیکھیں کہیں بھی آپ نے امتی نبوت کا انکار نہیں کیا.امام مہدی ہونا اور امتی نبی ہونا ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.میں آپ پر بھی اسی طرح ناپاک حملے کئے جا رہے ہیں.آپ غیر احمدی مخالفین کا لٹریچر پڑھ کر دیکھ لیں.آپ حیران رہ جائیں گے کہ کیسے گندے ناپاک حملے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام پر اور آپ کے خلفاء پر آپ کے صحابہ پر یہ لوگ کرتے چلے جا رہے ہیں گویا ہم اس تاریخ کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھ رہے ہیں جس تاریخ کا ذکر قرآن کریم میں محفوظ ہے اور جس کے تفصیلی تذکرے ہمیں بائیبل میں ملتے ہیں.پس حضرت سلیمان کی اس ایک دعا پر ہی آپ غور کر کے دیکھ لیں آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ موحد ہی نہیں بلکہ ایک بہت پائے کے عارف باللہ موحد تھے.آپ کو شرک سے دور کا بھی علاقہ نہیں تھا.آپ احسان فراموش نہیں تھے بلکہ احسان کو بے انتہاء محسوس کرنے والے تھے اور خود لوگوں کے محسن تھے اور اس کے باوجود عجز اتنا تھا کہ سمجھتے تھے کہ میں احسان کا حق ادا نہیں کر سکا اور اللہ تعالٰی → سے عاجزانہ پوچھتے تھے کہ مجھے شکریہ ادا کرنے کی راہیں سکھلا.پس آج کے اس خطبہ میں چونکہ دیر ہو چکی ہے میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں اور آئندہ انشاء اللہ باقی دعاوں کا تذکرہ جس ملک میں بھی وہ خطبہ ہو گا وہاں سے پیش کروں گا.ساری جماعت پر خطبات کا نیک اثر آپ سے میں توقع رکھتا ہوں کہ آپ اپنی نئی نسلوں کو خطبات با قاعدہ سنوایا کریں یا پڑھایا کریں یا سمجھایا کریں کیونکہ خلیفہ وقت کے یہ خطبات جو اس دور میں دیئے جا رہے ہیں.یہ دنیا میں اللہ تعالٰی کی طرف سے ظاہر ہونے والی نئی ایجادات کے سہارے بیک وقت ساری دنیا میں پھیل رہے ہیں اور ساری دنیا کی جماعتیں ان کو براہ راست سنتی اور فائدہ اٹھاتی اور ایک قوم بن رہی ہیں اور امت واحدہ بنانے کے سامان پیدا ہو رہے ہیں.اس لئے خواہ وہ نجی کے احمدی ہوں یا سرینام کے احمدی ہوں.ماریشس کے ہوں یا چین جاپان کے ہوں.روس

Page 368

365 کے ہوں یا امریکہ کے سب اگر خلیفہ وقت کی نصیحتوں کو براہ راست سنیں گے تو سب کی تربیت ایک رنگ میں ہو گی.وہ سارے ایک قوم بن جائیں گے خواہ ظاہری طور پر ان کی قوموں کا فرق ہی کیوں نہ ہو.ان کے رنگ چہروں کے لحاظ سے جلدوں کے لحاظ سے الگ الگ ہوں گے مگر دل کا ایک ہی رنگ ہو گا.ان کے ملے اپنے ناک نقے کے لحاظ سے تو الگ الگ ہوں گے لیکن روح کا حلیہ ایک ہی ہو گا.وہ ایسے روحانی وجود بنیں گے جو خدا کی نگاہ میں مقبول ٹھہریں گے کیونکہ وہ قرآن کریم کی روشنی میں تربیت پارہے ہوں گے اور قرآن کے نور سے حصہ لے رہے ہوں گے.سرینام میں تربیت کے خطرات آپ کے ہاں سرینام میں مجھے تربیت کے لحاظ سے بہت سے خطرات دکھائی دیئے ہیں.یہ ایک ایسی جگہ ہے جہاں افریقن مزاج جو ناچ گانے اور کھلے معاشقے اور شراب نوشی کا مزاج ہے، کثرت کے ساتھ پھیل رہا ہے اور یہ معاشرہ غالب آرہا ہے.یہاں بے پردگی صرف بے پردگی نہیں بلکہ اس سے زیادہ بے حیائی میں بھی تبدیل ہو چکی ہے.یہاں فیشن ایسے ہیں جو کھلم کھلا عورت کی ایسی نمائش کرنے والے ہیں جن سے انسان کی طبیعت پر بوجھ پڑتا ہے اور طبیعت میں کدورت پیدا ہوتی ہے.ایسی جگہ پر رہتے ہوئے احمدی ماں باپ کو اپنی بچیوں کی فکر کرنی چاہئے.اپنی نوجوان نسلوں کی فکر کرنی چاہئے اور ایسے آزاد معاشرے میں جب تک شروع سے ان کی صحیح تربیت نہیں کریں گے اس وقت تک ان کے اخلاق کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی.کچھ دیر تک یہ آپ کے بچے رہیں گے پھر یہ معاشرے کے بچے بن جائیں گے.پھر یہ اس قوم کے بچے ہو جائیں گے.کا سرمایہ دوسرے کے ہاتھوں میں چلا جائے گا.جبکہ یہ وہ دولت ہے جو خدا نے آپ کو عطا کی ہے.سب سے بڑی دولت اولاد کی دولت ہے.اگر ساری عمر کی کمائی آپ ایک دن گنوا " بیٹھیں تو کتنا دکھ محسوس کرتے ہیں لیکن یاد رکھیں

Page 369

355 اولاد کی دولت سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی دولت نہیں ہے.اگر اولاد ہاتھ سے نکل جائے تو گویا ساری عمر کی کمائی ہاتھ سے گئی.پس اس کا فکر کریں اور اس ضمن میں آپ کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ باقاعدگی کے ساتھ خطبات کو خود بھی سنیں اور اپنے بچوں کو بھی سمجھائیں تو چونکہ ان میں قرآن کریم کا ذکر چلتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کا ذکر چلتا ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے کلام سے نصیحتیں پیش کی جاتی ہیں اس لئے تربیت کا ایک بہت ہی اچھا ذریعہ نہیں اور آپ کی نئی نسل کو قرآن اور دین اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ان خطبات کے وسیلے سے انشاء اللہ ایک گہرا ذاتی تعلق پیدا ہو جائے گا اور جب خدا سے تعلق پیدا ہو جائے تو پھر دنیا والے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے.کیسا ہی گندا معاشرہ ہو لیکن جس کا اللہ سے تعلق ہو جائے وہ محفوظ ہو جاتا ہے.پس اس سے فائدہ اٹھائیں اور آج خدا نے آپ کو توفیق بخشی ہے کہ سرینام کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کسی بندے کا خلیفه براه راست آج آپ سے جمعہ کے دن مخاطب ہے اور یہ جو تاریخی واقعہ ہے یہ ایک ہی دفعہ ہوتا تھا اور ایک ہی دفعہ ہو چکا.اب یہ دہرایا نہیں جا سکتاک خلفاء انشاء اللہ آئندہ بھی آئیں گے.تقریریں بھی کریں گے.خطبے بھی دیں گے پہلی دفعہ پہلی دفعہ ہی رہتی ہے.دہرانے سے وہ دوسری پہلی مرتبہ تو نہیں ہو سکتی.تو آپ خوش نصیب ہیں کہ اس تاریخی موقعہ کے گواہ بن گئے ہیں.اس کا شکر ادا کرنا بھی تو ضروری ہے.پس حضرت سلیمان کی طرح خدا سے دعا مانگیں اور اس بات کا شکر آپ اس طرح ادا کر سکتے ہیں کہ اپنی اولاد کو خطبات سنانے کا انتظام کریں اور انہی الفاظ میں سنائیں.خلاصوں پر راضی نہ ہوں.عام طور پر یہ رواج مریوں، مبلغوں میں دیکھا جاتا ہے کہ محنت سے جی چراتے ہوئے بجائے اس کے کہ وہ سارے خطبہ کا ترجمہ کر کے پیش کریں، اپنی طرف سے وہ اپنے کام کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں اور اردو میں ایک محاورہ ہے ”ٹر فانا" تو وہ سمجھتے ہیں کہ اس.

Page 370

367 سکتے طرح جماعت کو بھی ٹرخا دیا.خلیفہ وقت کو بھی ٹرخا دیا اور یہ لکھ دیا کہ ہم نے آپ کے خطبہ کا مضمون عمدگی سے پیش کر دیا.یہ کافی نہیں ہے.ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے بات کرنے کا اپنا ایک طریق سکھایا ہے.ہر شخص خواہ وہ وہی مضمون بیان کر رہا ہو الگ اثر رکھتا ہے.اس لئے اصل طریق یہ ہے کہ اگر آپ میں سے کسی کو اردو سمجھ نہ آئے تو مربی سلسلہ پورے خطبہ کا ترجمہ اس زبان میں کرے جو زبان آپ کو سمجھ آتی ہے اور وہ ایک ہفتے کے اندر اندر با کسانی ایسا کر ہے.جہاں تک انگریزی، فرینچ، جرمن کا تعلق ہے اس کا پہلے ہی انتظام ہے.دنیا کی بہت تھوڑی جگہیں ایسی ہیں جہاں یہ زبانیں نہ سمجھ آ رہی ہوں.ہاں عربی کا بھی انتظام ہے.تو عربی، انگریزی، جرمن، فریج (اردو تو ہے ہی ان سب میں پہلے سے انتظام ہے.صرف وہاں مربیوں کو یا آپ کو محنت کرنی پڑے گی جہاں چند علاقوں میں یہ زبانیں نہیں سمجھی جاتیں.تو اس پر توجہ کریں اور اس رنگ میں آپ شکریہ کا حق ادا کرنے والے ہوں گے کہ اپنی اولادوں کو ہمیشہ خطبات سے جوڑ دیں.اگر آپ یہ کریں گے تو ان پر بہت بڑا احسان کریں گے.اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.ان کو غیروں کے حملوں سے بچانے والے ہوں گے.ان کے اخلاق کی حفاظت کرنے والے ہوں گے.پس اللہ تعالٰی آپ کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے اور خدا تعالٰی آپ کی جماعت کو بہت ترقی دے.میں نے یہاں آکر دیکھا ہے کہ سرینام کی جماعت میں اللہ کے فضل سے بہت اخلاص کا مادہ ہے.یہاں اخلاص کی کان ہے لیکن اگر کانوں کو کھودا نہ جائے، ان سے قیمتی جواہر نکالے نہ جائیں تو کیا فائدہ؟ وہ مٹی میں ملی رہتی ہیں.آپ لوگوں کے اندر خدا نے اخلاص کا وہ مادہ عطا کیا ہے کہ اگر مبلغ یا مربی اور آپ کے عہدیدار اس اخلاص کی کان سے فائدہ اٹھائیں اور ان جواہر کو باہر نکالیں تو آپ کے فیض سے سارا علاقہ اللہ کے فضل کے ساتھ اسلام اور احمدیت کے نور سے بھر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 371

Page 372

بیت الاول.گوئٹے مالا ۱۴ جون 199 369 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تشهد و تعویذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج کا یہ خطبہ میں مسجد بیت الاول گوئٹے مالا سے دے رہا ہوں.جیسا کہ احباب جماعت کو معلوم ہے کہ ایک لمبے عرصہ سے قرآنی دعاؤں کے مضمون پر خطبات کا سلسلہ جاری ہے.صرف گزشتہ خطبہ اس میں استثناء کرنا پڑا.کیونکہ یہ خطبہ ٹرینیڈاڈ (TRINIDAD) میں آیا اور ٹرینیڈاڈ کی جماعت میں کوئی بھی اردو نہیں جانتا.اس لئے جماعت کی خواہش یہ تھی کہ چونکہ تاریخ میں پہلی دفعہ ہمیں موقعہ ملا ہے کہ ہم آپ سے براہ راست بات سن سکیں اس لئے ہماری خاطر اس دفعہ استثناء کر دیں اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے ہمارے مسائل کو پیش نظر رکھ کر خطبہ دیں.چنانچہ ان کی اس خواہش کے احترام میں میں نے ایسا ہی کیا.پس اس سلسلہ مضمون کا یہ خطبہ اسی طرح جاری ہے جس طرح پہلے تھا اور بیچ کا جو خطبہ تھا وہ وقفہ شمار ہونا چاہئے.یہ دعا جو میں اب پڑھ کر سنانے لگا ہوں سورۂ نمل کی آیت ۴۵ سے لی ہے.اس میں ملکہ سبا جس کا نام بلقیس بیان کیا جاتا ہے اس نے یہ دعا کی کہ رب التي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاسْلَمْتُ مَعَ سُليمن ورب العلمين (سورة النمل : ۴۵) کہ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں آج سلیمان کے ساتھ اس کے رب پر ایمان لاتی ہوں.اس سے پہلے جب ملکہ بلقیس حضرت سلیمان کے پاس حاضر ہوئی تھی تو اس نے یہ کہا تھا کہ ہم نے تو جب پیغام سنا تھا اسی وقت ہی مسلمان ہو گئے تھے.تعجب یہ ہے کہ پھر دوبارہ اسلام لانے کا کیا مطلب ہے.اصل واقعہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان سمجھتے تھے کہ ایک منہ کی بات ہے.

Page 373

370 حقیقت میں ان کو ابھی اسلام کا علم نہیں.اسلام لانے اور اسلام میں ترقی کرنے میں ایک فرق ہے.پس حضرت سلیمان نے اس کا ایک امتحان لیا اور امتحان ہی نہیں بلکہ اس امتحان کے ذریعہ ایک پیغام دیا.آپ نے اسے ایک ایسے کمرے میں ملاقات کا وقت دیا جس کا فرش شیشے سے جڑا ہوا تھا اور دیکھنے والے کو دھو کہ لگتا تھا کے یہ پانی ہے شیشہ نہیں ہے.چنانچہ ملکہ جب اس میں داخل ہوئی تو اس نے اپنے کپڑے بے اختیار اسی طرح سمیٹ لئے جس طرح پانی میں داخل ہوتے وقت ہر انسان طبعا اپنے کپڑے سمیٹتا ہے.اس پر جب اس کو احساس ہوا کہ کیا غلطی ہوئی ہے تو پھر وہ سمجھی کہ دراصل مجھے یہ پیغام ہے کہ یہ جو ظاہری چمک ہے یہ کوئی حقیقت نہیں رکھتی.اس کے پیچھے ایک اور پیغام ہے اور وہ خدا تعالیٰ ہے.پس صنعت کی چمک دمک سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے.جب یہ پیغام اس کو ملا تو ر حقیقت وہ توحید کی دوبارہ قائل ہوئی ہے اور دل کی گہرائی سے قائل ہوئی ہے.چنانچہ اس واقعہ کے معا بعد اس نے یہ اظہار کیا ہے.اس سے پہلے آیت میں - ہے کہ فلماراته حَسِبَتْهُ لَجَةٌ والفتْ عَن سَاقَتِهَا ، قَالَ إِنَّهُ صَرَهُ مُمَرِّدُ من قوارير (النمل: (۴۵) جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ کبھی کہ یہ ایک چمکتا ہوا شفاف پانی ہے.وكشفت عن ساقيها ، اس نے اپنے ، لیاس کو اٹھایا یہاں تک کہ اس کی پنڈلیاں ننگی ہو گئیں.قَالَ اِنَّهُ صَدَعُ مُمَزِّه اس پر حضرت سلیمان نے فرمایا کہ یہ تو جڑاؤ شیشہ ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.مین قوال تیر شیشے کے جڑاؤ ٹکڑوں سے بنا ہوا ہے.تب اس نے دعا کی.قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.یہاں ظلم کے معنی دو طرح ہیں.ایک تو ظلم اور شرک کو قرآن کریم نے ہم معنی قرار دیا ہے اور چونکہ وہ مشرک قوم سے تعلق رکھتی تھی اور حقیقت میں اب اس کو توحید کا سچا علم ہوا تھا اس لئے ظلمت کے معنی یہ ہیں کہ اس سے پہلے میں ایک مشرکانہ زندگی بسر کرتی تھی.میں اس سے توبہ کرتی ہوں.دوسرے ظاہر داری کی باتوں میں یا محض دوسرے کو خوش کرنے کے لئے یہ اے میرے

Page 374

371 کہنا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں یہ بھی ایک ظلم ہوا کرتا ہے.تو وہ سمجھ گئی کہ حضرت سلیمان کو اب میری حقیقت کا علم ہو چکا ہے.آپ جانتے ہیں کہ ابھی میں نے تعلیم درضا کی راہیں طے کرتی ہیں اس لئے اس سے پہلے جو میں نے حضرت سلیمان پر یہ اثر ڈالا تھا کہ گویا میں تو پیغام سنتے ہی مسلمان ہو گئی تھی یہ مجھ سے غلطی ہوئی اور میں اس سے تو بہ کرتی ہوں.وَاسْلَمْتُ مَعَ سُلیمن اور اس دفعہ اس نے بہت ہی عمدہ الفاظ میں اپنے ایمان کو بہت اعلیٰ رنگ میں پیش کیا ہے کہ اب جو میرا ایمان ہے وہ وہی ہے جو سلیمان" کا ہے اور جیسا کہ سلیمان کے ایمان میں کوئی رخنہ نہیں ہے کوئی گدلا پن نہیں ہے، اسی طرح اب اے میرے خدا تو میرے ایمان کو بھی قبول فرما لے رب العلمين " جو تمام جہانوں کا رب ہے.پس یہ دعا بھی انسان کو بعض مواقع پر کام دیتی ہے.کئی قسم کے ظلم انسان کرتا ہے.اگرچہ آجکل ویسا شرک تو نہیں جیسے پرانے زمانوں میں پایا جاتا تھا یا اب بھی بعض جگہوں میں پایا جاتا ہے لیکن بسا اوقات انسان اپنے نفس کو معبود بنا لیتا ہے.اپنی خواہشوں کو معبود بنا لیتا ہے جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا تو ہر ایسے موقعہ پر جبکہ سہو آ بھی غلطی ہو انسان کو ایسی دعا کرنی چاہئے جس کا تعلق شرک سے سچی توبہ اور حقیقت اسلام کو پالینے سے ہے.ایک دعا حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کی ہے یہ سورۃ القصص آیت ۷ اسے اے لی گئی ہے.وہ عرض کرتے ہیں.آتِ اللَّهِ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْنِ ربِّ میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا پس مجھے بخش دے.یہاں ظلم کا معنی وہ نہیں ہے جو اس سے پہلے گزر چکا ہے.یہاں ظلم سے مراد ایک ایسا واقعہ ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام معصومانہ ملوث ہو گئے تھے.پس جب ایک عام انسان ظلم کا لفظ استعمال کرتا ہے تو اس کے معانی زیادہ گہرے ہوتے ہیں.بعض دفعہ واقعی اس سے بڑا ظلم سرزد ہوا ہوتا ہے لیکن اگر ایک نبی یا ولی خدا تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے یہ کہتا ہے کہ میں نے ظلم کیا تو اس کو ان معنوں میں نہیں لیتا چاہئے.مثلاً ملکہ سبا کا ظلم ابھی گزرا ہے.وہ واقعی ایک مشرکہ تھی.اس نے شرک

Page 375

372 سے توبہ کی تھی.اس سے جو پہلا فعل سرزد ہوا تھا وہ بھی اس کے نزدیک ایک ظلم تھا اور واقعی ظلم تھا لیکن حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام جس ظلم سے توبہ کر رہے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے ایک ہم قوم کو ایک ظالم قوم کے ہاتھوں مار کھاتے ہوئے دیکھا تو اس کی مدد کے لئے آگے بڑھے.آپ یہ سمجھتے تھے کہ یہ مخص مظلوم ہے اور طاقتور قوم کا فرد اس پر ظلم کر رہا ہے.کیونکہ آپ بہت طاقتور تھے.آپ نے جب اس کو مکہ مارا تو ایسی جگہ لگ گیا مثلاً بعض دفعہ کنپٹی پر لگ جاتا ہے یا کسی اور نازک جگہ پر کہ اس سے انسان کی جان بھی نکل جاتی ہے تو قرآن کریم کے بیان کے مطابق حضرت موسی نے جب مکہ مارا تو اس کا وقت آگیا تھا.اس نے دم توڑ دیا اور اس وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام ڈرتے رہے اور توبہ کرتے رہے.چنانچہ آپ نے عرض کیا.رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْنِ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.پس مجھے بخش و فَخَفَرلَهُ ، إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (القصص: ۱۷) اللہ تعالیٰ نے یقیناً اس کو بخش دیا اور وہ بہت ہی بخشنے والا اور بار بار رحم فرمانے والا ہے.اس کے بعد حضرت موسی نے ایک عرض کی- قال رَبِّ بِمَا انْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَن أَعُوْنَ ظَهِيرًا المجرمين (القصص: ۱۸) اے میرے رب! تو نے چونکہ مجھ پر انعام فرمایا ہے.بخشش کا سلوک فرمایا ہے.پس مجھے پر شکر واجب ہے اور میں یہ اقرار کرتا ہوں کہ آج کے بعد کبھی مجرموں کی مدد نہیں کروں گا.اس میں ہر دعا کرنے والے کے لئے ایک پیغام ہے.ہم جب دعا کرتے ہیں تو بسا اوقات یہ سوچتے ہیں کہ فلاں کی دعا قبول ہو گئی ہماری نہیں ہوئی.حالانکہ دعا کی قبولیت میں بھی ایک بہت ہی لطیف نظام عدل جاری ہے.وہ لوگ جو قبولیت دعا کے بعد اس کا شکر ادا کرنا جانتے ہیں.دعا کی قبولیت کے بعد ان پر جو تقاضے عائد ہوتے ہیں ان کا حق ادا کرنا جانتے ہیں، ان کی دعائیں اللہ تعالی زیادہ سنتا ہے.لیکن ضروری نہیں کہ صرف انہی کی دعائیں سنی جائیں.بعض دفعہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک شخص جن گناہ میں ملوث ہے پھر ہو گا، پھر ہو گا اور پھر ہو گا.پھر بھی بخشتا

Page 376

373 چلا جاتا ہے.یہ تو اس کی مغفرت کے ساتھ تعلق رکھنے والی بات ہے لیکن اگر آپ دعا کی قبولیت کا راز سمجھنا چاہیں.یعنی وہ معاملہ جو خدا اور انبیاء کے درمیان ہوتا ہے تو وہاں اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ خاص رحمت کا سلوک اس لئے فرماتا ہے.ان کی دعائیں بہت زیادہ قبول کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ ناشکرے نہیں ہیں.میری طرف سے ہر احسان کے بعد یہ پہلے کی نسبت احسان کا بہت زیادہ بخشش مانگنے کے ذریعے بدلہ اتارنے کی کوشش کریں گے.اللہ تعالٰی کے احسان کے مقابل پر تو احسان نہیں ہو سکتا لیکن اس کے سامنے زیادہ جھک کر اور اس کے احسانات میں ڈوب کر اور بار بار اس کی حمد کے گیت گا کر ایک رنگ میں انسان احسان کا اعتراف کرتا ہے.پس ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالٰی کا مغفرت کا زیادہ سلوک ہوتا ہے اور ان کی دعائیں بھی عام لوگوں کی نسبت زیادہ مقبول ہوتی ہیں.پس مغفرت پر بھی سہارا ہو سکتا ہے لیکن بسا اوقات محض مغفرت پر سہارا نہیں لیا جا سکتا اور عادت کو ایسا درست کرنا ضروری ہے کہ جس کے نتیجہ میں دعائیں قبول ہوں اور اسی مضمون کو قرآن کریم نے ہمارے انسانی تعلقات کے سلسلہ میں ایک اور رنگ میں بیان فرمایا.فرمایا.جب کوئی تمہارا گناہ کرتا ہے.جب کوئی تم پر زیادتی کرتا ہے تو تمہارا حق ہے کہ تم بدلہ لو جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ ہمیں گناہوں کی سزا دے لیکن فمن عفار أصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری :۴۱) جو مغفرت کرے بشرطیکہ اس کی مغفرت اصلاح کا موجب ہے.جرم کی حوصلہ افزائی کا موجب نہ بنے اس کا اجر خدا کے ہاں ہے.اللہ تعالیٰ نے اس مضمون میں قبولیت دعا کا بہت گہرا راز بھی بیان فرما دیا.جب خدا نے ہمیں یہ نصیحت فرمائی کہ تمہیں کھلی بخشش کی اجازت نہیں ہے.اگر تمہاری بخشش کے نتیجہ میں گناہ کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے تو نہیں بخشا.لیکن اگر اصلاح پیدا ہوتی ہے اور انسان اس بخشش کے شکر کے نتیجہ میں اپنی حالت تبدیل کرتا ہے تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ پھر ایسے شخص کی بخشش باعث اجر ہے اور یقیناً خدا کے پاس اس کا اجر محفوظ ہے.پس وہی بات ہے جو یہاں کی جا رہی ہے.انسان T

Page 377

374 کے تعلق میں بھی وہی اصول بیان ہوا ہے.قرآن کریم کی آیات میں بہت گہرے رشتے ہیں.ایک منضبط نظام ہے.اندر اندر تعلقات قائم ہیں اور کوئی بھی ایسی آیت نہیں جو دوسری آیات کے ساتھ گہرے تعلقات نہ رکھتی ہو.پس اس ضمن میں مغفرت کا مفہوم اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے جس کے نتیجہ میں جب بھی بخشش کی دعا کی جائے تو دل میں یہ نیت ہونی چاہئے کہ اگر اللہ بخشش کا سلوک فرمائے گا تو اس کے بعد میں بھی انبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے اس کے شکریہ کا اظہار اس رنگ میں کروں گا جس رنگ میں پاک لوگوں کی سنت چلی آئی ہے.اب یہ سوال ہے کہ پھر خدا بار بار ایسے لوگوں کو کیوں بخشتا ہے جو بار بار جرم کرتے ہیں.باوجود اس کے کہ ہمیں منع کرتا ہے کہ جرم کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی.اگر بخشش کے نتیجہ میں حرم سرزد ہو تو پھر نہیں بخشا.میں نے اس مضمون پر گہرائی سے غور کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اس مسئلے کو صحیح حل کر سکا ہوں.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے خدا تعالی کی مغفرت ایسے گنہگاروں سے بار بار ہوتی ہے جن کے دل میں شرم یقینا پیدا ہوتی ہے.بخشش کے نتیجہ میں جرم کی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی.واقعی تائب ہوتے ہیں.بہت شرمندہ ہوتے ہیں.علیحدگی میں خدا کے حضور روتے ہیں.گریہ و زاری کرتے ہیں.اے خدا ہمیں بخش دے ہم سے غلطی ہوئی.بہت گنہگار ہیں کمزور ہیں.اور پھر اس کے بعد کمزوری غالب آجاتی ہے.ایسے لوگوں کا معاملہ ہرگز وہ نہیں ہے جن کے ساتھ آپ حسن سلوک کریں اور وہ گناہوں پر شیر ہوتے چلے جائیں.ہر گھر میں ایسے بچے دیکھے گئے ہیں.بعض مائیں ان کو بگاڑ دیتی ہیں اور وہ اتنے بدتمیز ہو جاتے ہیں کہ آنے والے مہمانوں کا بھی ناک میں دم کر دیتے ہیں.ان گھروں میں جانا ایک مصیبت بن جاتی ہے.کیونکہ وہ ہر جرم کے بعد اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں.کوئی بات نہیں.کوئی حرج نہیں.ٹھیک ہے سب کچھ.یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ اگر مغفرت کرنی ہے تو ایسے شریف النفس لوگوں کی مغفرت کرو جن کے اوپر نیک اثر پڑے.یہ لازم نہیں ہے که اسی وقت وہ توبہ کرلیں لیکن اصلاح کی طرف میلان ضرور رکھتے ہوں.پس اللہ

Page 378

375.تعالٰی چونکہ عالم الغیب ہے اور دل کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرے کون سے بندے نیک فطرت اور سعید ہیں اور گناہوں میں ملوث ہونے کے باوجود بچی شرمندگی کا احساس رکھتے ہیں.وہ اس علم کے باوجود ان کو بخش دیتا ہے کہ پھر بھی گناہ کریں گے اور پھر بھی گناہ کریں گے لیکن بالآخر وہ نیک انجام ہوتے ہیں.ان میں اور دوسرے لوگوں میں فرق یہ ہے کہ جو گناہوں پر اصرار کرتے ہیں اور ضد کرتے ہیں اور بد تمیزی سے گناہ پر جرات کرتے ہیں وہ ہمیشہ بد انجام کو پہنچتے ہیں.لیکن بچی تو بہ کرنے والے یا تو بہ کرتے رہنے والوں کا انجام ہمیشہ نیک ہوتا ہے.پس یہاں خدا تعالٰی نے حضرت موسی کے متعلق فرمایا کہ وہ بہت ہی نفیس طبیعت کا انسان تھا.میں نے بغیر شرط کے اس کو بخشا لیکن اس کے دل میں بہت ہی جذبات تشکر پیدا ہوئے اس نے کہا.قَالَ رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أعُوْنَ ظَهِيرًا المجرمين اے خدا! تو نے بڑا احسان کیا ہے جو مجھے بخش دیا ہے.اب میں اس کے بدلے تو بہ کرتا ہوں اور محمد کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی مجرموں کی پشت پناہی نہیں کروں گا.حضرت موسی کی ایک اور دعا ہے.رَبِّ تَجْرِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ القصص : (۲۲) جب اس حادثاتی قتل کی اطلاع جس کا ذکر ابھی گزر چکا ہے قوم کے بڑے لوگوں تک پہنچی تو انہوں نے مل کر مشورے کئے کہ اس شخص کو ضرور سزا دینی چاہئے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک غالب قوم تھی اور قوم کے وقار کا سوال تھا.یہ بحث نہیں تھی کہ غلطی سے قتل ہوا ہے یا عمد ا ہوا ہے.یہ بحث تھی کہ ایک غالب قوم کے فرد پر اگر ایک مغلوب قوم کا فرد جرم کرنے لگے تو اس سے ان کا جو سارا رعب تھا وہ جاتا رہے گا.اس غرض سے ان لوگوں نے آپس میں مشورے کئے اور حضرت موسی کے قتل کا فیصلہ کیا.اس وقت جب آپ ڈرتے ہوئے چھپتے ہوئے ملک چھوڑ رہے تھے کیونکہ ان میں سے ہی ایک ہمدرد انسان نے جو آپ کی سچائی کا قائل تھا اور آپ کی عزت کرتا تھا اس نے آپ کو اطلاع دی کہ میں وہاں سے آرہا ہوں جہاں تمہارے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں اس لئے بہتر ہے کہ ابھی یہاں

Page 379

376 سے نکل جاؤ.چنانچہ اس کے مشورے پر جب آپ روانہ ہوئے ہیں تو یہ دعا کی.رت نَجْنِي مِنَ الْقَوْمِ الطيون اے میرے رب مجھے ظالموں کی قوم سے نجات بخش.اس میں بھی حکمت کی بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں اپنے اس گناہ سے توبہ نہیں کی گئی کیونکہ پہلے ہی خدا بخش چکا تھا.جس کو خدا بخش دے اس پر ظالم قوم ہی حملے کی جرأت کر سکتی ہے تو فرمایا تو نے مجھے بخش دیا ہے مگر دنیا کے ظالم تو مجھے نہیں بخش رہے.اس لئے ان ظالموں سے بھی اب مجھے نجات بخش.چنانچہ اللہ تعالی نے آپ کو نجات بخشی اور اس سے اگلی دعا اسی تسلسل کی ہے.اس سے آگے تین آیات بعد یعنی سورۃ القصص کی بائیسویں آیت میں یہ دعا ہے.آپ نقني من القوم الظلمین اور آیت پچیسویں میں یہ دعا ہے.رب إني لما انزلت ري من خير فقير اے میرے رب ! تو میری جھولی میں جو بھی خیرات ڈال دے میں اس کا فقیر ہوں.یہ بہت دلچسپ موقعہ ہے.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام ہجرت کر کے مدین کی قوم کی طرف گئے جہاں حضرت شعیب کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ اس وقت خدا تعالیٰ کے اس قوم کے لئے نبی تھے اور دونوں ہم عصر ہیں.حضرت شعیب کی دو بیٹیاں تھیں.ان کا بیٹا کوئی نہیں تھا.حضرت شعیب کی بیٹیاں قوم کے پنگھٹ پر پانی بھرنے کے لئے آئی ہوئی تھیں اور چونکہ بہت سے مرد تھے اس لئے وہ شرما کر ایک طرف کھڑی رہیں اور انتظار کرتی رہیں کہ کب ان کی باری آئے تو وہ اپنے گھڑے بھریں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام ایک دیوار یا درخت کے سائے تلے بیٹھے دیکھ رہے تھے.آپ چونکہ بہت مضبوط قوی میکل انسان تھے اور دل میں گہری ہمدردی بھی تھی.آپ اٹھے اور ان سے ان کے برتن لئے اور مردوں کو ہٹاتے ہوئے جاکر ان کا پانی بھرا اور گھڑے ان کے سپرد کر دیئے.واپس آکر وہیں بیٹھ گئے اور چونکہ آپ کی عادت نہیں تھی کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں.کسی سے مدد مانگیں.یہ احسان کا سلوک کرنے کے بعد ان کی طبیعت دعا کی طرف مائل ہوئی اور معلوم ہوتا ہے اس احسان کے نتیجہ میں دل سے یہ دعا اٹھی

Page 380

377 ہے کیونکہ آپ اس دعا کے مضمون کو غور سے سنیں تو اس کے پیدا کرنے کے لئے کوئی محرک ہوا ہے.چنانچہ وہ محرک یہ تھا کہ آپ نے بے یارو مددگار بچیوں پر ایک احسان کیا اور پھر خیال آیا کہ میں بھی تو خدا کے حضور بے یار و مددگار پڑا ہوں.کیوں نہ خدا سے عرض کروں کہ میری مدد کرے.چنانچہ یہ دعا بہت ہی درد ناک ہے اور بہت ہی دل پر اثر کرنے والی ہے.ایک دفعہ انگلستان میں ایک بڑی تقریب میں جب میری تقریر ختم ہوئی تو اس کے بعد مجھ سے بعض ملنے والے آئے.ان میں کسی ملک کی ایک شہزادی بھی تھی.اس نے قرآن کریم کی بعض آیات سنیں تو دل پر بہت اثر ہوا تو مجھ سے اس نے کہا کہ سارے قرآن کریم میں سے کوئی ایک دعا جو آپ کو بہت پسند ہے وہ مجھے لکھ دیں میں اسے آئندہ اپنی زندگی کا وظیفہ بناؤں گی.چنانچہ میں نے اس کو یہ دعا لکھ کر دی اور سمجھایا کہ کیوں مجھے یہ دعا پسند ہے.اس دعا میں ہر چیز خدا پر چھوڑ دی گئی ہے.کچھ نہیں مانگا گیا.صرف یہ کہا گیا ہے کہ رَبِّ إِلَيَّ لِمَا أنزلت إلي من خار تقير اے خدا! میں محتاج ہوں.تجھے پتہ ہے کہ میں کس کس چیز کا محتاج ہوں.میں کیا کیا بتاؤں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دعا کو ایک اور بہت ہی پیارے رنگ میں یوں عرض کیا:.وہ دے مجھ کو جو اس دل میں بھرا ہے زبان چلتی نہیں شرم و حیا ہے زبان چلتی نہیں شرم و حیا ہے.میں کیا کیا بیان کروں.میں تجھ سے کیا کیا مانگوں.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! جو کچھ تو میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا فقیر ہوں.میں نہیں جاتا کیا مجھے چاہئے نہ مجھے حقیقت میں علم ہے.چنانچہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد جو بھی احسانات کا سلسلہ ہے وہ اسی دعا کے نتیجہ میں ہے اور اس کی جڑیں اسی دعا میں ہیں.معا بعد اس گھر میں ایک واقعہ ہوا جس گھر کی وہ بیاں تھیں ان دونوں بیٹیوں نے اپنے باپ کو یہ واقعہ سنایا کہ ایک بہت ہی نیک مرد اور اچھا تو انا مرد اس طرح بیٹھا ہوا اجنبی ہے.اس نے نہ

Page 381

378 ہم سے کچھ پوچھا نہ مانگا صرف ہمارا کام کیا اور جا کر پھر بیٹھ گیا لیکن ضرورت مند معلوم ہوتا ہے اس پر ان کے والد جو نبی تھے اور خدا تعالی کی طرف سے نو ریافتہ تھے انہوں نے بھیج کر بلوایا اور بلانے کے بعد ان کو کیا کیا دیا.ایک امان دی اور کہا کہ اب تم یاد رکھو تم امن میں آچکے ہو.تمہیں اب کوئی خطرہ نہیں کسی قوم سے.دوسرے گھر دیا اور ان کو کہا میرے گھر میں رہو.تیسرے یہ کہا کہ ان دونوں بچیوں میں سے جس کو انتخاب کرتے ہو وہی تمہاری ہے.چوتھے اس خیال سے کہ یہ ممنون احسان نہ ہو.یہ نہ سمجھے کہ میں کسی کے احسان کے نیچے آگیا ہوں کہا کہ اس میں کوئی شرمانے کی بات نہیں.میرا اور تمہارا نوکری کا معاہدہ ہے.میں ۸ سال یا ۱۰ سال تم سے خدمت لوں گا.اس لئے کوئی احسان نہیں.چار باتیں اس طرح حضرت موسی کے لئے اس سے پیدا فرمائیں اور اس کے بعد پھر اسی شادی کے بعد حضرت شعیب کی محبت میں رہنے کے نتیجہ میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کے دل میں جو نیکی کے بیچ تھے وہ بہت ترقی کر گئے اور بعد میں واپسی کے سفر میں آپ کو نبوت بھی عطا ہو گئی.پس اس لئے مجھے یہ دعا پیاری ہے کہ اس میں بہت ہی وسیع مضامین ہیں.تعیین نہیں کی گئی اپنی چالاکیوں سے کہ یہ بھی دے، وہ بھی دے اور وہ بھی وتے.کھلا خدا پر معاملہ چھوڑ دیا گیا ہے جو کچھ تو جانتا ہے کہ ہمیں ضرورت ہے وہ ہمیں مہیا فرما دے.اب حضرت لوط کی ایک دعا ہے.قال رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُقْودين (العنکبوت : (۳۱) اب میرے خدا! اے میرے رب !! مصد قوم کے مقابل پر میری نصرت فرما.اس دعا کا پس منظر معلوم کرنا بھی ضروری ہے.حضرت لوط کی قوم میں جو بدیاں پائی جاتی تھیں.آپ سب جانتے ہیں اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں مگر خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ جب بھی حضرت لوط نے نصیحت فرمائی کہ ان بدیوں سے باز آؤ.لماعان جَوَاب قَوْمِهِ إِلا أَن قَالُوا انْتِنَا بِعَذَابِ اللوان كُنتَ مِنَ الصديقين (العنکبوت:۳۰) ہر دفعہ وہ تان میں یہی کہتے تھے کہ اچھا پھر جو

Page 382

379 عذاب تیرا خدا ہم پر وارد کر سکتا ہے جاؤ اپنے خدا سے وہ عذاب مانگ لاؤ.یعنی اب گفت و شنید کی راہیں بند ہو چکی ہیں.اب نصیحت کے ان قصوں کو چھوڑو.ہم تمہاری باتیں سنتے سنتے تنگ آگئے ہیں.نہیں باز آئیں گے.ہزار دفعہ کہا نہیں باز آئیں گے.اب تم جاؤ اور اپنے خدا کو کہو کہ وہ عذاب لے آئے جس تم ہمیں ڈراتے ہو.یہ ہے پس منظر.نہایت بیہودہ طریق پر متکبر رنگ میں خدا کے عذاب کو چیلنج کیا گیا ہے اور حضرت لوط کے ساتھ بڑا تحقیر کا معاملہ کیا گیا ہے لیکن اس کے جواب میں آپ یہ دیکھیں کہ حضرت لوط نے عذاب کی دعا نہیں کی یہ عرض کیا.آپ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ اے میرے رب میں تو اب بھی صرف نصرت چاہتا ہوں.مفسد قوم کے خلاف میری نصرت فرما کیونکہ اللہ تعالیٰ جانتا تھا کہ ان کا فساد اصلاح کی حد سے بڑھ چکا ہے.اس لئے ان پر عذاب آیا مگر حضرت لوط نے براہ راست قوم کے خلاف عذاب طلب نہیں کیا.حضرت ابراھیم کی ایک دعا سورۃ صافات آیت نمبر 11 میں ہے.اس میں عرض کرتے ہیں.رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِينَ - اس سے پہلے کا واقعہ یہ ہے کہ آپ کو قوم نے آگ کا عذاب دینے کی کوشش کی.بعض مفسرین کا خیال ہے کہ با قاعدہ آگ میں ڈال دیا گیا اور وہ آگ گلزار بن گئی.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اسے روحانی محاوروں کے طور پر بیان فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دراصل ہر نبی کے لئے مخالفت کی ایک آگ بھڑکائی جاتی ہے.اس آگ ہی میں سے وہ گلزار ظاہر ہوتا ہے جو ان کی مقبولیت کی صورت میں اور ان کی آخری فتح کی صورت میں خدا تعالی کی طرف سے ان کو انعام ملتا ہے.تو ضرت ابراہیم کے ساتھ جس آگ کا ذکر ہے یہ تمثیلی زبان ہے اس کو ظاہر پر نہیں قبول کرنا چاہئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے اور تحدی کے ساتھ لکھا ہے کہ اگر وہ ظاہری آگ بھی ہے تو ہمیں کامل یقین ہے کہ خدا تعالٰی کی خاص سنت نے اس آگ سے حضرت ابراھیم کو بچا لیا تھا.گلزار بننے والی یہ باتیں تو مفسرین کے قصے ہیں.قرآن کریم نے جہاں تک فرمایا ہے وہ بس بڑی

Page 383

380 اتنا ہی ہے اور اتنا ہی ہمارے لئے کافی ہے کہ وہ آگ تھی.خواہ وہ ظاہر کی آگ تھی خواہ وہ مخفی آگ تھی.معنوی طور پر آگ تھی.اللہ تعالٰی نے اس آگ سے آپ کو بچا لیا اور آگ جلانے والوں کو نا کام کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ایک الہام ہوا.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے" ظاہری طور پر بھی کیا یہ درست ہے ؟ ہم نے ہا رہا دیکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دشمن کی بار بار کی ان کوششوں کو ناکام کر دیا کہ احمدیوں کو زندہ آگ میں جلائیں.ابھی حال ہی میں پیچھے پاکستان میں دو احمدی بستیوں کو جلا کر خاک کر دیا گیا لیکن غیر معمولی طور پر اور حیرت انگیز اعجازی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کو اس آگ سے بچا لیا.ایک دفعہ مولانا رحمت علی صاحب مرحوم و مغفور جو انڈونیشیا میں مبلغ تھے.وہ جن دنوں میں وہاں مبلغ تھے ان دنوں میں بہت مخالفت تھی.مجھے اب جگہ کا نام یاد نہیں مگر وہ جس جگہ بھی تھے شدید مخالفت تھی اور وہاں بڑے بڑے مناظرے ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی کی شرارت سے نہیں بلکہ حادثہ اس بلاک کو آگ لگ گئی.(لکڑی کے اکثر مکان وہاں ہوتے ہیں) جس کے ایک طرف حضرت مولوی رحمت علی صاحب کا مکان تھا اور ساتھ ہی بہت تیز آندھی چلی اور اس رخ پر چلی جس رخ پر آپ کا مکان تھا.اس وقت سب لوگ اکٹھے ہو گئے.باقاعدہ ایک جمگھٹ ہو گیا.لوگ اپنے اپنے گھروں سے چھلانگیں مارمار کر نکل رہے تھے.سامان نکال رہے تھے.احمدی بھی وہاں آئے اور مولوی صاحب کو کہا کہ نکلیں اس گھر سے.ختم کریں.آگ آپ کے پاس آرہی ہے تو اس وقت مولوی صاحب نے اس الہام کا حوالہ دے کر خدا سے دعا کی کہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے.انہوں نے عرض کیا کہ اے میرے آقا ! میں مسیح موعود کا غلام ہوں آپ کی غلامی میں یہاں پیغام دینے آیا ہوں.اس لئے آج اس الہام کو میرے حق میں سچا کر دے.آج تک انڈونیشیا کے وہ لوگ عش عش کرتے ہوئے لکتے ہوئے اور روحانی وجد کے ساتھ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہتے ہیں آگ بڑھتی رہی.بڑھتی رہی.

Page 384

381 ہم لوگ ڈولتے رہے.ایک لرزہ طاری ہو گیا کہ کیا ہونے ولا ہے جس وقت آگ وہاں پہنچی ہے جہاں سے ان کا مکان شروع ہوتا تھا تو ایسی موسلادھار بارش شروع ہوئی.اسقدر تیز کہ آگ کو اس اگلے ساتھ کے گھر تک پہنچنے کی توفیق نہیں ملی.ساری آگ ٹھنڈی پڑ گئی.پس خدا تعالٰی ظاہری طور پر بھی ان باتوں کو پورا کر دکھایا کرتا ہے.یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر جگہ معنوی سہارے تلاش کریں.وہ صاحب مقدرت ہے.جب چاہے جس طرح چاہے وہ اپنی کائنات کو جو اس کی غلام ہے جیسا حکم دے وہ اس کے تابع ہے اور ویسا ہی کرتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اس الہام کے یہ معنی تو بہر حال ثابت ہوئے کہ ظاہری آگ بھی خدا تعالٰی کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے بچے غلاموں پر غلبہ نہیں پا سکے گی.پس اس وقت جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام نے خدا کا یہ معجزہ دیکھا تو وہاں سے ہجرت کی اور ہجرت کرتے ہوئے یہ کہا.وقال إني ذاهب إلى ربي سيهدين الصافات : (۱۰۰) میں تو اپنے رب کی طرف چلا ہوں.سیدین اور وہ میری ہدایت کرے گا.میری راہنمائی فرمائے گا.ربِّ هَبْ لِي مِن الصَّلِحِينَ (الصافات : ۱۰۱) اے میرے رب مجھے صالح اولاد عطا فرما.اب ان دو باتوں کا جوڑ کیا ہے.دیکھنے والی یہ بات ہے آگ سے ہلاکت سے بیچ کر باہر نکل رہے ہیں ہجرت فرما رہے ہیں اور کہتے ہیں مجھے صالح اولاد عطا فرما.اصل بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اس وقت تک اس قوم سے رخصت نہیں ہوئے جس وقت تک کامل طور پر یقین نہیں ہو گیا کہ کوئی بھی ایمان نہیں لائے گا.جو ظلم انہوں نے کرنا تھا وہ انتہاء تک پہنچا دیا اور جب دیکھا کہ ان کے آباء و اجداد میں سے سب تباہ ہونے والے ہیں کچھ بھی نہیں.تو اکیلے نکلے اور اس وقت خدا سے عرض کی کہ اب میری نسل کو تو چلا.میں تو تیرے ان بندوں میں سے ہوں جو عاجز ہیں.تیرے حضور کامل طور پر جھکنے والے سب کچھ تیرے سپرد کرنے والے.پہلوں کی نسلیں اگر ہلاک ہو جائیں تو وہ ان کی ذمہ داری.میں تو تیری خاطر اس قوم

Page 385

382 کو چھوڑ کر ہجرت کر رہا ہوں.اس لئے مجھ سے پاک نسل جاری فرما.یہ جو معنی ہے اس کو قرآن کریم کی دوسری بہت سے آیات تقویت دیتی ہیں اور خود ہائیل بھی اس بات کو تقویت دیتی ہے.وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراھیم کی اس دعا کے نتیجہ میں محض ایک بچے کی خوشخبری نہیں دی گئی بلکہ آپ کو یہ خوشخبری دی گئی کہ میں تیری نسل کو تمام دنیا میں اتنا پھیلاؤں گا کہ جس طرح آسمان کے ستارے نہیں گنے جا سکتے اور ریت کے ذرے نہیں گنے جا سکتے اس طرح تیری نسل بے شمار ہو گی.پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراھیم نے اتنے کامل اخلاص کے ساتھ اپنی قوم کو اپنے آباء و اجداد کو چھوڑا تھا.ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ دیا تھا کہ آپ سے پھر آگے ایک نیا جہان پیدا ہونا تھا.نئی نسلیں جاری ہوئی تھیں چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم نے اکیلے حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ و السلام کو امت قرار دیا ہے.پس وہ لوگ جو اپنے رشتے داروں کو اپنے جتھوں کو خدا کی خاطر چھوڑتے ہیں.وہ جو اپنی برادریوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور اکیلے ہو جاتے ہیں بعض دفعہ وہ اپنے آپ پر رحم کرنے لگ جاتے ہیں اور مجھے ان پر رحم آتا ہے.اس قدر بے وقوفی ہے کس بات پر رحم کر رہے ہو.تم نے سنت انبیاء کو زندہ کیا ہے اگر خدا کی خاطر کیا ہے تو وہ تمہیں ایک قوم بنا دے گا اور تمہاری قوم بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہو جائے گی.وہ جتھے چھوٹے ہو جاتے ہیں اور پھر غائب ہو جاتے ہیں اور تاریخ کے صفحوں میں ملتے ہیں لیکن مستقبل میں پاک لوگوں کی نسلیں جاری رہتی ہیں.یہ سنت انبیاء ہے لیکن سب سے زیادہ شان کے ساتھ یہ سنت حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کے حق میں پوری ہوئی.پس رَبِّ هَبْ لِي مِنَ الصَّلِحِنین کی دعا ایک بہت شاندار پس منظر رکھتی ہے اور ایک بہت عظیم الشان مستقبل رکھتی ہے.ان معنوں میں اپنی اولاد کے لئے دعا کرنی چاہئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بھی ابراهیم فرمایا گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے ساتھ آگ ہی کے معاملہ میں نہیں بلکہ برادری کے قطع تعلقی کے معالمہ میں بھی خدا نے ایسا ہی سلوک فرمایا.چنانچہ جب ساری برادری نے آپ کو چھوڑ دیا تو اس وقت آپ کو

Page 386

383 الہام ہوا.ينقطع اباؤُكَ وَيُبْدَه مِنكَ کہ اے غلام احمد ! تیرے آباء و اجداد کی نسل کائی گئی.دیبدَهُ مِنكَ اب تجھ سے یہ نسل جاری ہو گی.یہ ایسا عظیم الشان الہام ہے اور ایسی عظیم الشان قوت کے ساتھ یہ سچا ثابت ہوا ہے کہ اس کی روشنی کے سامنے آنکھیں چندھیاتی ہیں.وہ ظالم اور احمق لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود کا کوئی ایک نشان دکھاؤ.اگر ان کے اندر ذرا بھی انصاف کا مادہ ہو تو صرف یہی بہت کافی ہے.ان پر ثابت کرنے کے لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے دعوے میں بچے تھے.خدا ان سے ہم کلام ہوتا تھا اور آپ کی تائید میں نشان ظاہر فرماتا تھا.جب یہ الہام ہوا ہے جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے اس زمانے میں کم و بیش 20 افراد خاندان آپ کے آباء و اجداد کے تھے جو قادیان میں بستے تھے اور ان میں سے کوئی ایمان نہیں لایا اور یکے بعد دیگرے وہ مرتے چلے گئے اور ان کی نسلیں ختم ہوتی چلی گئیں.قریبی رشتے دار بھی دور کے رشتے دار بھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے کے ایک پرانے خادم تھے بابا سندھی.وہ ایک دفعہ خدمت کے لئے ہمارے ساتھ ڈلہوزی بھی گئے.بڑی عمر تھی لیکن پھر بھی جسم میں توانائی تھی.ان سے بعض وقعہ ہم پرانی باتیں سنا کرتے تھے تو بڑے مزے سے وہ قصے سناتے تھے کہتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کے مخالفین کی جو حویلی تھی وہاں یکے بعد دیگرے تالے ہی پڑتے چلے گئے.پہلے وہ گھر بیواؤں سے بھر گیا پھر ان کے بچے مرنے شروع ہوئے.رفتہ رفتہ وہ خالی ہو گئی.کہتے ہیں مرزا گل محمد کے والد مرزا نظام دین صاحب آخری عمر میں بہت کمزور ہو گئے تھے.صدموں کا دماغ پر بھی اثر تھا تو میں (یعنی بابا سندھی) ان کو دبایا کرتا تھا.کہتے ہیں! وہ مجھ سے کبھی کہتے تھے فلاں بی بی کو بلا کر لاؤ.فلاں بی بی کو بلا کر لاؤ.ہر دفعہ میں جواب دیتا تھا کہ میں کس کو بلا کر لاؤں اس کے کمرے میں بھی تالا پڑ گیا ہے.میں کس کو بلا کے لاؤں اس کے کمرے میں بھی تالا پڑ گیا ہے.بہت ہی دردناک منظر ہے لیکن خدا کی یہ شان خود ان کی بد نصیبی کے نتیجہ میں ظاہر ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام جیسا گوہر اپنے اندر پا کر اس کی قدر نہیں 1.

Page 387

384 کی اور آپ کو مٹانے کی کوشش کی.پس جو خدا کے پاک بندوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے بالآخر ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی وقت لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خدا یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان کو مٹا دیا جائے اور پھر ان کو کوئی بچا نہیں سکتا.مرزا نظام دین کا ایک بیٹا زندہ رہا جن کا نام مرزا گل محمد ہے اور ان کی نسل میں اب تک احمدیت ہے اور خدا کی یہ شان ہے کہ ان کو اس لئے زندہ رکھا گیا کہ انہوں نے احمدی ہو جاتا تھا.کوئی شخص ایسا زندہ نہیں رہا جس نے احمدی نہیں ہونا تھا.اسی کو زندہ رکھا گیا جس نے احمدی ہونا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اپنے بیٹوں میں سے دو تھے.ایک مرزا سلطان احمد.ایک مرزا فضل احمد.اس وقت دونوں میں سے کوئی بھی آپ پر ایمان نہیں لایا تھا اسی کو زندہ رکھا گیا اور اسی کی نسل جاری رکھی گئی جس نے ایمان لانا تھا یعنی مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد.اسی طرح بے اولاد لاولد اس دنیا سے رخصت ہو گئے.بہت ہی تفصیل کے ساتھ میں نے جائزہ لیا ہے ہر ہر واقعہ میں ایک عظیم نشان پوشیدہ ہے.ایک صاحب اولاد ہونے کی طاقت رکھتے تھے.شادی کرنا چاہتے تھے لیکن دماغ میں ایسا دورہ پڑا کہ فقیر بن گئے اور فقیر بننے کے بعد خود اپنے آپ کو اولاد کی اہلیت سے ہمیشہ کے لئے محروم کر لیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالٰی عنہ بسا اوقات یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہتے تھے کہ ان کی حالت دیکھ کر رحم آتا تھا.یوں لگتا تھا جیسے وہ دیواروں سے سر ٹکرائیں گے.کہا کرتے تھے میں نے اپنے اوپر کیا کر لیا ہے کیا ظلم کر بیٹھا ہوں.کاش مجھ میں طاقت ہوتی اور میں شادی کرتا اور میری اولاد ہوتی لیکن خدا کی تقدیر کے نیچے تھے.پس اسی طرح حضرت ابراھیم عليه الصلوۃ و السلام کے آباء و اجداد کی نسل کائی جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا.معلوم ہوتا ہے حضرت ابراھیم کو پتہ تھا مجھے تو یقین ہے کہ خدا نے الہاما خبر دی تھی کہ یہ واقعہ ہے تم جس جگہ سے رخصت ہو رہے ہو اب یہاں کوئی باقی نہیں بچے گا.یہ ساری نسلیں ختم ہونے والی ہیں.اس وقت حضرت ابرھیم نے دعا کی.آپ حب ال من الصَّلِحِينَ اے خدا مجھے نسل دے مگر نیک نسل دے.بد نسل کا میں

Page 388

385 متمنی نہیں ہوں.مجھ سے آئندہ نیک نسلیں جاری ہوں اور دیکھیں کتنی گہری دعا تھی کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم بھی آپ ہی کی نسل میں پیدا ہوئے.پس محض دعا کے لفظوں کی بات نہیں ہوا کرتی.خدا کی نظر دعا کی گہرائی پر بڑتی ہے.دل میں کتنی گہرائی سے اٹھی ہے.کسی جذبے کے ساتھ اٹھی ہے.کس درد کے ساتھ اٹھی ہے.کس اخلاص اور ایثار کی روح کے ساتھ اٹھی ہے.یہ ساری باتیں ہیں جو دعا کو طاقت بخشتی ہیں اور پھر نیک اعمال دعا کو طاقت بخشتے ہیں.اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ کلمہ طیبہ خدا ہی کی طرف رفع کرتا ہے مگر نیک اعمال اس کو طاقت مہیا کرتے ہیں.پمپ کر کر کے نیک اعمال اس کلمہ کو اوپر اٹھاتے نہیں تو اسی طرح دعاؤں کا حال ہے.یہ ساری باتیں دل کے نیک اور نیک اعمال مل کر دعاؤں میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دیتے ہیں اور قوموں کے مستقبل ان دعاؤں سے بنتے ہیں.ہے.پھر ایک دعا حضرت سلیمان کی ہے جو سورۃ ص آیت ۳۶ میں بیان ہوئی وهب بن ملحا اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرما ایک ایسا عظیم ملک عطا فرما لا يتبون لأحد من بعدي کہ میرے بعد پھر کبھی کسی کو نصیب نہ ہو.إنك أنت الوهاب یقینا تو بہت ہی مہربانی کرنے والا ہے.بہت ہی زیادہ پیار کا سلوک فرمانے والا ہے.قَالَ رَبِّ اغفرلي اس دعا کے متعلق کئی علماء بخشیں اٹھاتے ہیں کہ ایسی دعا مناسب بھی ہے کہ نہیں.درست ہے کہ نہیں کہ میرے بعد کسی کو دیسی سلطنت نہ ملے.یہ تو بظاہر ایک خود غرضی کی دعا ہے.لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری اولاد میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھ اور بڑھا چڑھا اور اس شان کو بڑھاتا رہے.حضرت سلیمان نے یہ کیسی دعا کی اور پھر دعا بھی ایسی جو بد دعا بن کر بعد میں ظاہر ہوتی ہے چنانچہ حضرت سلیمان کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے بعد نہ نسل میں نبوت رہی، نہ اس رنگ میں وہ بادشاہت رہی.حضرت سلیمان کا دور بنی اسرائیل کی حکومت کا سب سے شاندار دور تھا.آپ نے آنکھیں بند کیں تو فتنے شروع ہوئے اور سلطنت دو حصوں میں بٹ گئی اور آپ کی نسل کے حصے میں چھوٹی سلطنت آئی لیکن فلسطین اسی کا حصہ تھا.اسی کو جوڑا کہا جاتا ہے.ایک شمالی

Page 389

386 سلطنت تھی جس میں بنی اسرائیل کے دس قبائل آباد تھے اور ایک جنوبی جس میں دو تھے.ان میں حضرت سلیمان" کا اپنا قبیلہ بھی تھا.چنانچہ آپ کے بیٹے کے پاس بالآخر صرف وہی بادشاہت رہ گئی جو دو قبیلوں کی راجدھانی پر مشتمل تھی اور وہ دس قبیلے وہ ہیں جن کے متعلق بعد میں حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ کہا کہ میں بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی طرف جانے والا ہوں.اصل مضمون تو دعا کا ہے مگر ضمنا ساتھ ساتھ میں آپ کو یہ باتیں بھی سمجھاتا جاتا ہوں کیونکہ ہمارے جماعتی محاورے میں اکثر گمشدہ بھیڑوں کا ذکر ملتا ہے تو وہ کیا تھیں اور کیسے بنیں.وہ دس قبائل جو شمال کے قبائل تھے ان کی ایک الگ سلطنت قائم ہوئی اور انہی کی طرف حضرت مسیح کا اشارہ ہے.گمشدہ ان کو اس لئے کہا گیا کہ ۶۰۰ سال کی حکومت کے بعد یعنی حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام کے بعد جب بنی اسرائیل کو حکومت ملی تو اس کے پورے ۶۰۰ سال کے بعد بابلیوں نے ان پر حملہ کیا اور آجکل کے کرد بھی اکثر باہلی علاقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں.اس زمانے میں بابلیوں کی ایک بہت شاندار سلطنت تھی اور ان کو بالکل تہس نہس کر دیا.کلیہ ملیا میٹ کر کے ان کو ملک بدر کر دیا اور یہ ساری دنیا میں بکھر گئے.بعض روایات کے مطابق مارا تو بہت بری طرح لیکن پوری طرح نکالا نہیں بلکہ ایک سو سال بعد جبکہ جنوبی عراق کی طرف سے حملہ ہوا ہے اس وقت ان کو آخری دفعہ کلیہ نکال دیا گیا.مگر بہر حال حضرت عیسی علیہ الصلوۃ و السلام کے زمانے میں آپ کی آمد سے کئی سو سال پہلے یہ لوگ دنیا میں بکھر چکے تھے اور ان کا وہاں کوئی وجود نہیں تھا.حضرت موسی سے حضرت عیسی کا فاصلہ ۱۳۰۰ سال کا ہے.یہ بات احمدیوں کو خصوصاً یاد رکھنی چاہئے.پس حضرت عیسی علیہ الصلوۃ و السلام گمشدہ بھیڑوں کے بکھرنے کے ۶۰۰ سال کے بعد ظاہر ہوئے ہیں.یہ اس لئے یاد رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کی امت کے مسیح تھے.آپ بھی پوری ۱۳ صدیوں کے بعد ظاہر ہوئے ہیں اور مماممت مسیح کی لوگ بات کرتے ہیں تو فیتے سے آپ زمانے کو ناپ کر دیکھ لیں بعینہ

Page 390

387 آقاب اتنا زمانہ بنتا ہے.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی اللہ وسلم کے بعد ٣ مجدد گزرے تھے اسی طرح حضرت موسی کی امت پر حضرت عیسیٰ سے پہلے ۱۳ مجددین گزر چکے تھے.بہر حال یہ قوم کا ایک حصہ اس زمانے میں بکھرا تھا.اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حضرت سلیمان نے خود اپنے بچوں کے لئے اور اپنی قوم کے لئے بد دعا کی تھی.اس کے متعلق قرآن کریم اشارہ کر رہا ہے.اس سے پہلی آیت میں کہ اصل واقعہ کیا تھا.پہلی آیت یہ ہے کہ وَلَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَنَ وَالْقَيْنَا عَلَ كُرَيهِ جَسَدًا تُقَ (ص : ۳۵) کہ ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا ، فتنے میں ڈالا.والقَيْنَا عَلی گریته جسدا اور اس کے تخت پر ایک لاشے کو لا بیٹھایا.تواناب اس کے نتیجہ میں وہ بار بار خدا کے حضور جھکا اور مغفرت مانگی اور توبہ کی.بہت ہی افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سے غیر احمدی مفسرین اس کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان سے گناہ سرزد ہوا اور آپ نے اپنے بستر پر ایک عورت ڈال دی.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ بہت ہی جاہلانہ تفسیریں ہیں.یہ تفسیریں دیکھ کر تو بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ کس طرح ہمیں اندھیروں سے روشنی میں نکالا ہے.اور اگر یہ بات تھی تو اچانک اس کے بعد اپنی قوم پر بد دعا کرنے کی کیا ضرورت تھی.اگر نعوذ یا اللہ من ذلک کوئی گناہ ہی سرزد ہوا تھا تو اس گناہ کا بدلہ اپنی قوم کو اپنے بچوں کو دینا تھا کہ یہ دعا کرتے کہ اچھا چونکہ مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اس لئے میری اولاد اور میری نسلوں کو اس کی سزائیں دے اور سارے بنی اسرائیل کو اس کی سزادے اور میرے بعد یہ ملک تباہ کر دے.ہرگز یہ بات نہیں ہے.آپ کو جب خدا نے خبر دے دی کہ تیری اولاد اس لائق نہیں ہے کہ وہ تیری تخت نشین ہو.نالائق اولاد آنے والی ہے تو اس وقت آپ نے یہ کہا کہ اے خدا میں تو نبی ہوں اور نبوت کے ساتھ ملوکیت کرتا رہا ہوں اور پورے انصاف اور تقویٰ کے ساتھ حکومت کے حقوق ادا کرتا رہا ہوں.اگر ایک نالائق کے سپرد یہ ساری قومیں کر دی گئیں تو وہ تو بہت

Page 391

388 ظلم کرے گا.ہرگز وہ اس لائق نہیں ہے کہ ایسی شاندار حکومت اس کے سپرد کی جائے.پس اس عاجزانہ دعا کے نتیجہ میں جو تقویٰ پر مبنی تھی خدا تعالیٰ نے آپ کے بعد پھر اس حکومت کو اس طرح جاری نہیں رہنے دیا.یہ آخری حکومت ہے جس میں نبوت اور دنیاوی حکومت اکٹھے تھے.ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے تھے.پس ہرگز نعوذ باللہ من ذلک نہ نبیوں کو بد دعائیں دینے کی عادت ہوتی ہے نہ وہ ایسی جاہلانہ خود کشی کرنے والی بد دعائیں کرتے ہیں.یہ دعا تقومی پر مبنی ہے.یہ سمجھتے ہوئے کہ جس کے ہاتھ میں قوم کی لگام ہو گی اگر خدا کے نزدیک وہ بد ہے تو خدا پھر اس کے سپرد یہ حکومت نہ کرے اس سے بنی نوع انسان کو دکھ پہنچے گا.

Page 392

واشنگٹن ڈی سی.امریکہ ۲۱ ر چون ۶۱۹۹۱ 389 بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا یہ خطبہ میں واشنگٹن ڈی.سی امریکہ سے دے رہا ہوں، اور اس اعلان کی ضرورت اس لئے ہے کہ بہت سی جماعتوں میں اب براہ راست خطبے کی آواز پہنچنے لگی ہے.چونکہ میں سفر پر ہوں اس لئے جہاں بھی کوئی خطبہ پڑھا جاتا ہے وہاں خطبہ کا آغاز اسی فقرے سے کرتا ہوں کہ میں اس وقت کہاں سے بول رہا ہوں) انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلنا دعاؤں کی مدد کے بغیر ناممکن ہے یہ سلسلہ مضامین جو جاری ہے اس کا تعلق قرآنی دعاؤں سے ہے.یعنی ان لوگوں کی دعاؤں سے جن کے متعلق ہم روزانہ سورۃ فاتحہ میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ! ہمیں ان انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلا.چونکہ یہ ایک بہت مشکل راہ ہے اس لئے میں نے پہلے سے ہی یہ واضح کر دیا تھا کہ اس راہ پر چلنا دعاؤں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں اور قرآن کریم نے خود ہی وہ سب دعائیں سکھا دی ہیں جن دعاؤں کی مدد سے پہلے انعام یافتہ لوگوں نے یہ مشکل راہیں طے کیں.پس ان دعاؤں سے غافل رہ کر ہر نماز میں یہ دعا کرتے رہنا کہ اے خدا! ہمیں انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلا، کوئی معقول طریق نہیں ہے.ایک طرف تو ایک بہت ہی مشکل راہ پر چلنے کی دعا مانگی جاری ہے.دوسری طرف ان لوگوں کی اداؤں سے پوری طرح نا واقف جن لوگوں نے اس سے پہلے ان راہوں پر چل کر خدا سے انعام پائے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کا ذکر تفصیل سے قرآن کریم میں محفوظ فرما

Page 393

390 دیا کہ یہ وہ انعام یافتہ لوگ تھے.یہ یہ کیا کرتے تھے اور اس اس طرح مجھ سے دعائیں مانگا کرتے تھے اور اس طرح قبول فرمانا تھا اور ان پر مزید انعامات کی بارش نازل فرمایا کرتا تھا.حضرت ایوب علیہ السلام کی ایک پُر درد دعا حضرت ایوب علیہ السلام کی ایک دعا پہلے بھی گذر چکی ہے.اب ایک اور دعا ہے جس کی ادا اس پہلی دعا سے کچھ مختلف ہے.قرآن کریم فرمایا ہے.وَاذْكُرْ عَبَدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّةَ انِي مَسَّنِيَ الشَّيْطانُ بِنُصْبٍ وعَذَاب (ص : ۴۲) فرمایا کہ میرے بندے ایوب کو بھی تو یاد کرو.إذ نادى ربه جب اس نے اپنے رب کو بڑے درد سے پکارا اور یہ کہا کہ مجھے شیطان نے بہت ہی تکلیف اور عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے.اس دعا کی ادا کچھ مختلف اس رنگ میں ہے کہ یہ دعا سے بڑھ کر شکایت کا رنگ رکھتی ہے.یہ نہیں کہا کہ اس لئے تو میری مدد فرمایا یہ کر اور وہ کر بلکہ بے ساختہ درد کا اظہار ہے جیسے بسا اوقات کوئی بچہ اپنی بیماری کا بتاتا ہے کہ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور آگے کچھ نہیں کہتا.تو بعض دفعہ ان مانگی دعائیں جو محض درد کا اظہار ہوتی ہیں بہت گہرا اثر رکھتی ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے معا بعد فرمایا.از كض برجلك یہ بھی نہیں کہا کہ ہم نے دعا قبول کر لی کیونکہ دعا تو ایک بین بین سا رنگ رکھتی تھی.شکایت تھی یا بے ساختہ درد کا اظہار تھا.فوراً معاً مخاطب ہو کر فرماتا ہے.تو سوار ہو.ایک سواری پکڑ اور اپنی ایڑی سے اسے تیز بھگا.هذَا مُخْتَصَلُ بَارِدٌ وَ شَرَابٌ (ص: ۴۳) اور دیکھو یہ جگہ کیسی اچھی پانیوں پر مشتمل جگہ ہے.ٹھنڈی ہے اور بہت عمدہ نہانے کا پانی بھی اور پینے کا پانی بھی میسر ہے.حضرت ایوب علیہ السلام کی ہجرت دراصل اس میں ہجرت کی طرف اشارہ تھا اور بعد کے واقعات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کو جس شیطان نے تنگ کر رکھا تھا وہ اس زمانے کا کوئی

Page 394

391 بہت ہی بڑا غاصب اور ظالم انسان تھا.حضرت ایوب کے متعلق کہانیاں تو بہت مشہور ہیں لیکن قرآنی بیان سے جو بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ اگرچہ جسمانی بیماری بھی تھی مگر محض کوئی ایک تکلیف نہیں تھی بلکہ آپ کے دشمن نے ہر طرح سے آپ کی زندگی آپ پر اجیرن کر رکھی تھی.آپ کے اموال لوٹ لئے گئے تھے.آپ کے جانوروں میں طرح طرح کی بیماریاں پھیلا دی گئی تھیں.آپ کے خاندان میں سے بعض لوگوں کو آپ سے بد ظن کر دیا گیا تھا اور اتنے درد ناک حالات پیدا کئے گئے کہ روایات میں آتا ہے کہ آپ کی بیوی بھی آپ کو چھوڑ کر الگ ہو گئی.ان تمام واقعات کا تو قرآن نے ذکر نہیں فرمایا لیکن جس رنگ میں اس دعا کے بعد خدا تعالیٰ حضرت ایوب سے مخاطب ہوا اس سے پہلی بات تو یہ پتہ لگتی ہے کہ ہجرت کا حکم تھے تھا.ان حالات میں مزید ایسی جگہ میں ٹھہرنا مناسب نہیں ہے.دوسرا وعدہ یہ تھا کہ تمہیں ہم ایک ٹھنڈی چشموں والی جگہ میں پہنچا دیں گے اور وہ ایسے چشمے ہیں جن سے تم اپنے جسم کو دھو تو شفاء نصیب ہو گی.یہاں "بارد" سے مراد ٹھنڈ پیدا کرنے والا پانی ہے.ٹھنڈا پانی نہیں کیونکہ تحقیق کرنے سے جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے حضرت ایوب کو چونکہ خارش کی جسمانی بیماری تھی اور جسم پر ناسور پیدا ہو گئے تھے اس لئے گندھک کے چشموں والے علاقے کی طرف آپ کی ہجرت ہوئی ہے جو گرم ہوتا ہے لیکن جب ایک انسان کا جسم سوزش سے جل رہا ہو اور سخت بے قرار ہو تو گرم پانی جو اسے شفا دیتا ہے تو انسان ہمیشہ یہ کہتا ہے کہ مجھے ٹھنڈ پڑ گئی.چین نصیب ہوا.تو یہاں بارد سے مراد ٹھنڈا پانی نہیں بلکہ تسکین بخش پانی ہے.صحت عطا کرنے والا پانی ہے.تبھی میں نے اس کا ترجمہ ٹھنڈا پانی نہیں کیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ صحت بخش پانی.چنانچہ پینے کے لئے بھی اچھا تھا لیکن پینے کے لئے ضروری نہیں کہ وہی پانی استعمال ہوا ہو کیونکہ ہم نے ایسے علاقوں میں دیکھا ہے جہاں بہت ہی گرم پانی کے ابلتے ہوئے چشمے ہوتے ہیں ان میں جلد کے مریض جا کر نہاتے ہیں اور صحت یاب ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت ہی ٹھنڈے پانی کے چشمے بھی ہوتے ہیں اتنا ٹھنڈا پانی کہ بعض دفعہ اس میں ہاتھ رکھا نہیں جاتا.کلو منابلی

Page 395

392 میں اس قسم کے بہت چشمے ہیں.بچپن میں مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ہمیں وہاں لے کر گئے اور وہاں اتنا گرم پانی تھا کہ اس میں ہاتھ ڈالنا نا ممکن تھا اور ساتھ ہی ٹھنڈے پانی کا چشمہ اتنا ٹھنڈا تھا کہ حضرت مصلح موعود نے انعام مقرر کیا کہ جو بچہ ایک منٹ ہاتھ رکھے گا میں اسے اتنا انعام دوں گا لیکن کوئی نہیں رکھ سکا.تو وہ ایسی جگہ تھی جہاں معنوی طور پر بھی بارد پانی تھا اور ظاہری طور پر بھی ساتھ بارو پانی موجود تھا.ایک پانی شفاء کے لئے بارد تھا اور ایک پینے کے لئے ٹھنڈ پیدا کرتا تھا اور اچھا پانی تھا.پھر فرمایا وَوَهَبْنَالَةَ اهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ (ص: ۴۴) اور ہم نے اس کے گھر والے بھی اس کو واپس کر دیئے.معلوم ہوتا ہے ہجرت کے وقت وہ ساتھ نہیں گئے.جب ان کے حالات بہتر ہوئے تو پھر رفتہ رفتہ وہ ملنے شروع ہوئے لیکن محض اہل و عیال ہی نہیں ملے.وَمِثْلَهُمْ مِّعَهُمْ اور بہت سے ایسے خاندان مل گئے جو اپنے خاندان ہی کی طرح تھے اور یہ امر واقع ہے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی تو جتنے خاندان رشتہ دار پیچھے چھوڑے ان سے بہت بڑھ کر محبت کرنے والے خاندان اور رشتہ دار نصیب ہوئے اور روحانی طور پر اہل مدینہ نے اخوت کا حق ادا کر دیا.کبھی ہجرت کرنے والوں کو اپنے خاندانوں میں وہ سکون نہیں ملا.ایسی محبت ان سے نہیں کی گئی جیسے مدینہ کے انصار نے ان سے محبت کی یہاں تک کہ بہت سے ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے اپنی آدمی جائیداد آنے والے مہاجرین کو بانٹ دی اور اتنا جذبہ تھا اپنا سب کچھ فدا کرنے کا کہ ایک دفعہ ایک صحابی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میں نے مال جائیداد ہر چیز تو تقسیم کر دی ہے مگر بیویاں میری ایک سے زائد ہیں.میں چاہتا ہوں اگر اجازت ہو تو آدھیوں کو طلاق دے دوں اور یہ جو مہاجر آئے ہیں بعض ان میں سے اپنی بیویوں کو پیچھے چھوڑ آئے تھے میں ان کے ساتھ ان کی شادی کروا دوں.حیرت انگیز جذبہ تھا.

Page 396

393 پس حضرت ایوب کے متعلق بھی معلوم ہوتا ہے جہاں ہجرت کی گئی وہاں کے لوگوں نے اسی طرح احسان کا سلوک کیا ہے اور اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق ایسا ہوا ورنہ یہ فقرہ عجیب سا لگتا ہے.رومنتاله اخلک یہ تو ٹھیک ہے ہم نے اس کے اجل اس کو واپس کر دیئے.دوبارہ عطا فرما دیے.وَمِثْلَهُمْ معَهُمْ اس جیسے اور بھی بہت سے.تو یہ ہجرت کا انعام تھا اور میں نے بھی دیکھا ہے پاکستان سے جب انگلستان آیا ہوں تو کثرت سے ایسے خاندان ہیں جو اس قدر محبت کا گہرا تعلق رکھتے ہیں کہ بالکل یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خاندان میں آگئے ہیں اور نہ صرف یہ کہ فرق نہیں لگتا بلکہ کئی پہلوؤں سے زیادہ محبت اور شفقت کا اظہار کرنے والے خاندان ہیں.تو جب میں یہ آیت پڑھتا ہوں ہمیشہ مجھے مدینہ کی بات بھی یاد آتی ہے اور اپنے سفر کے بعد اللہ کی رحمت بھی یاد آتی ہے.لیکن جو خاص نکتہ غور کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ دعا بعض دفعہ بن مانگے محض درد کے اظہار کے نتیجہ میں قبول ہوتی ہے.اس سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر گذرا ہے جس میں انہوں نے عرض کیا کہ رب إنّي لِمَا أَنزَلْتَ إِليَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص : (۲۵) اے میرے خدا میں مانگتا کچھ نہیں تو بہتر جانتا ہے کہ مجھے کس چیز کی حاجت ہے پس جو تو چاہے میں اس کا فقیر ہوں اور اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ہر ضرورت کو پورا کر دیا.گذشتہ خطبہ میں میں نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی.اب یہ بھی ایک ملتی جلتی دعا کی ادا ہے کہ اظہار درد تو ہے لیکن طلب کوئی نہیں ہے یہاں تک کہ اللہ تعالٰی خود فرماتا ہے کہ ہاں ہم نے سن لیا ہے.تو بہت دکھ میں ہے.بہت تو نے صبر کیا.اب تو یہ یہ کام کر.تو نے صبر کیا کے لفظ یہاں تو نہیں آئے لیکن اس دعا کے بعد خدا کے سلوک کا ذکر چلتے ہوئے اس بات پر بات ختم ہوئی ہے.إِنَّا وَجَدْ لَهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابُ (ص) : (۴۵) که ہم نے اسے یعنی حضرت ایوب کو بہت ہی صبر کرنے والا پایا.کیا ہی اچھا بندہ تھا.عہد ہو تو ایسا ہو.نغم العبد کا محاورہ اس رنگ کا مضمون ہے جسے ہم اردو میں کہتے ہیں کیا خوب انسان تھا.انسان ہو تو ایسا ہو.تو اللہ تعالی فرماتا ہے میرے ،

Page 397

394 بندے بہت ہیں مگر ایسا بندہ ہو تب مزے کی بات ہے جیسے ایوب تھا.بہت ہی صبر کرنے والا تھا.ان آداب اور کثرت سے میری طرف جھکنے والا تھا.قبولیت دعا کے لوازم پس دعا کی قبولیت کے پیچھے یہ مزاج بھی تو ہیں جنہیں اپنانا ہو گا.محض درد کا اظہار کافی نہیں ہے.خصوصیت کے ساتھ درد کا اظہار اگر ایسے بندہ کی طرف سے ہو جو صابر ہو تو دل پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے اور عام انسانی معاملات میں میں نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ بعض لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر درد کا اظہار کرتے ہیں وہ مانگیں بھی تو ان کو دینے پر دل نہیں کرتا.جس طرح بعض بندے جن کو مانگنے کی عادت نہیں ہے وہ خاموش رہتے ہیں اور صبر پر صبر کرتے چلے جاتے ہیں.جب ان کا صبر ٹوٹتا ہے تو بے اختیار ان کے لئے دل پھٹنے لگتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ بہت ہی تکلیف میں ہو گا.جب اس نے یوں ہاتھ پھیلایا ہے تو ایک تو اس دعا سے پہلے حضرت ایوب کا صبر ہے جس نے ایک پس منظر بنایا اور پھر اوّاب کا مطلب ہے ہر بات میں خدا کی طرف دوڑتا تھا.غیر کی طرف نہیں جاتا تھا.جب بھی کوئی ضرورت پڑتی تھی، جب بھی کوئی تکلیف ہوتی تھی اگر دوڑتا تھا تو خدا کی طرف دوڑتا تھا.یہ دو عادتیں ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالٰی نے اس دعا کو اس شان کے ساتھ قبول کیا ہے.پس جب بھی آپ قرآنی دعائیں مانگا کریں تو ان اداؤں کے ساتھ مانگا کریں جن اداؤں کے ساتھ پھر دعائیں مقبول ہوتی ہیں.بعض لوگ مجھے کہتے ہیں کہ جی ہمیں آپ دعا لکھ دیجئے جو ہم کرتے رہیں.بعض کہتے ہیں ہم یہ ورد کرتے چلے جا رہے ہیں.گھنٹوں مصلے پر بیٹھ کر یہ ورد کرتے چلے جاتے ہیں.ہماری دعا تو ابھی تک قبول نہیں ہوئی لیکن بغیر اداؤں کے کیسے قبول ہو گی.پیار تو اداؤں پر آتا ہے کلمات یہ نہیں آیا کرتا.ایک ہی بات ایک عام آدمی کہتا ہے بعض دفعہ اس پر غصہ آجاتا ہے ایک ایسا شخص جس سے پیار پیدا ہو جائے جب وہ بات کہتا ہے تو اس پر پیار آتا

Page 398

395 ہے.پیار آنا ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے اور قبولیت دعا کا پیار سے تعلق ہے.جس طرح ایک شاعر نے کہا ہے کہ : پیار ان کو آتا ہے پیار پر غصہ ہم کو غصہ نہ پیار آتا ہے اب دونوں کا آپس کا تعلق اس قسم کا ہے کہ ایک شخص کو نفرت ہے ایک کو محبت ہے.جس کو نفرت ہے کہنے والا کہتا ہے ہم اس سے پیار کرتے ہیں تو اسے ہم پر غصہ آجاتا ہے اور ہمارا یہ حال ہے کہ جب اسے غصہ آتا ہے تو ہمیں آ جاتا ہے تو یہاں دعاؤں کے معاملہ میں محض لفظوں کی بات نہیں ہے کہ کسی نبی کے الفاظ آپ دہرانے لگ جائیں.قرآن کریم نے ان کیفیات کا ذکر فرمایا ہے.ان حالات کا ذکر فرمایا ہے.ان نبیوں کے اخلاق کا ذکر فرمایا ہے.ان نبیوں کے اپنے ساتھ تعلقات کا ذکر فرمایا ہے.وہ ایک پس منظر بنا کر پھر وہ دعا سکھائی گئی ہے.اس پس منظر کے پیدا کرنے کے لئے اگر انسان کوشش کرے اگر چہ ویسا نہ بھی بن سکے لیکن کچھ تو ہو پھر دعا کر کے دیکھے کبھی خطا نہیں جائے گی.میرا تو ایمان ہے کہ وہ دعا جو انبیاء نے کی اور خطا نہ گئی اگر اسی درد اور اسی جذبے کے ساتھ کی جائے تو کبھی خطا نہیں جائے گی.ہم نے تو دیکھا ہے کہ وہ اچھے ڈاکٹر جو نسخے بیان کرتے ہیں اور ساتھ اس کے متعلق تفصیل سے بتاتے ہیں کہ یہ یہ باتیں ہوں تو نسخہ کارگر ہو گا.ان کا نسخہ واقعی کارگر ہوتا ہے.میں ہومیو پیتھک کا شوق رکھتا ہوں اور میں نے دیکھا ہے بعض ڈاکٹر جو نسخہ بتاتے ہیں شمار ہی کبھی کامیاب ہو لیکن بعض جو تفصیل سے بتاتے ہیں کہ یہ یہ باتیں ہوں تو کامیاب ہو گا وہ ضرور کامیاب ہوتا ہے.پس اللہ تعالٰی سے بہتر کون ڈاکٹر ہو سکتا ہے جو انسان کی ہر اصلاح کے لئے ہمیں قرآن کریم جیسا نسخہ عطا کرتا ہے.آپ غور سے دیکھیں تو قرآن کریم کی ہر دعا سے پہلے اس کا پس منظر بیان ہوا ہے.وہ ساری ادائیں تفصیل سے زیر بحث لائی گئی ہیں جن پر نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالٰی نے ان دعاؤں کو قبول فرمایا.

Page 399

396 مومنوں کے لئے ملائکہ کی دعا اب ایک دلچسپ دعا ایسی ہے جو بندے نہیں کر رہے بلکہ فرشتے کرتے ہیں.فرمایا الذين يحملون العزل ومن حوله يُسَحُونَ بِحَمْدِ رَتِهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ ويستغفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا (المومن : ۸) کہ ہمارے بعض ایسے ملائک ہیں جو ہم نے پیدا کئے جو عرش کو سنبھالے ہوئے ہیں.وَمَن حوله اور جو کچھ بھی اس کے ارد گرد ہے.يُستحُونَ يحميرتهم وہ خدا کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ کرتے ہیں.ویؤمنون ہو اور وہ اس پر پوری طرح ایمان لاتے ہیں.ويستنفرون للذين امنوا اور جو لوگ بھی ایمان لاتے ہیں ان کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں.اس آیت کا اکثر مفسرین یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذالك آسمان پر کہیں عرش کوئی ایسا تخت ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے اور اس کو کچھ فرشتے کندھوں پر اٹھائے ہوتے ہیں اور یہ ان فرشتوں کی دعا ہے.یہ ایک بالکل جاہلانہ تصور ہے.اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اللہ تعالیٰ تو ساری کائنات کو اٹھائے ہوئے ہے.اس کو اٹھانے والا کون ہے.اس لئے عرش سے مراد ہرگز کسی قسم کا کوئی جسمانی عرش نہیں.عرش کے مختلف معانی ہیں.قرآن کریم میں عرش کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور عرش سے نظام کائنات ہی مراد ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے جب ہم نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اس کے بعد فرمایا.ثم استوى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف : (۵۵) پھر اللہ تعالٰی نے عرش پر استوئی کیا.تو عرش سے مراد وہ ساری کائنات تھی اور اس کا نظام تھا جس کو خدا نے پیدا کیا اور پھر اس کو سنبھال لیا.اس کا انتظام چلایا.پس وہ طاقتیں جو نظام کائنات کو چلانے والی طاقتیں ہیں اور نظام کائنات کی جب ہم بات کرتے ہیں تو صرف ظاہری نظام کائنات نہیں بلکہ روحانی نظام کائنات بھی ہے اور یہاں غالبا اسی کا ذکر ہے کہ وہ خدا کے پیدا کردہ فرشتے یا وہ طاقتیں جو روحانی نظام عالم کو چلانے کی ذمہ دار ہیں وہ خدا

Page 400

397 کی حمد کرتی ہیں.اس کی تسبیح کرتی ہیں اور پھر یہ عرض کرتی ہیں کہ اے خدا! مومنوں سے مغفرت کا سلوک فرما.فرشتوں کی طرف زیادہ دھیان اس لئے جاتا ہے کہ یہاں اپنے لئے انہوں نے استغفار نہیں مانگی.یہ بھی ممکن تھا اس آیت کا ترجمہ کہ خدا کے فرشتہ صفت انسان یہ دعا کرتے ہیں لیکن فرشتہ صفت انسانوں میں سب سے بڑھ کر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے وہ پہلے اپنے لئے استغفار فرماتے تھے پھر مومنوں کے لئے استغفار فرماتے تھے.چونکہ ملائکہ کو بدی کی طاقت نہیں ہے.ان کو اختیار ہی نہیں ہے.اس لئے وہ اپنے لئے استغفار کرہی نہیں سکتے.ان کے لئے بے اختیاری کی بات ہے.پس اس لئے یہاں ترجمہ یہی کرنا پڑے گا کہ ایسے فرشتے جو روحانی نظام کو چلانے والے ہیں ان کا دل بھی چاہتا ہو گا کہ ہم بھی استغفار کریں اور چونکہ ان پر استغفار اطلاق نہیں پاتا اس لئے وہ خدا کے مومن بندوں کے لئے استغفار کرتے ہیں اور استغفار اس طرح کرتے ہیں.ربنا ويست كُل في ونَحْمَةٌ وَ عِلْمًا اے ہمارے رب! دمعت كل قمي و رَحْمَةٌ وَعِلْمًا تو نے اپنے علم اور رحمت کے ذریعے ہر چیز پر احاطہ کر لیا ہے.تیرا علم بھی ہر چیز پر حاوی ہے اور تیری رحمت بھی ہر چیز پر حاوی ہے.نا غوريلذِينَ تَابُوا پس ان لوگوں سے مغفرت کا سلوک فرما جو توبہ کرتے ہیں.وَاتَّبَعُوا سَبِيلك اور جو تیرے رستے پر چلتے ہیں.وقهم عذاب الجحيم اور ان کو آگ کے عذاب سے بچا.رَبَّنَارُ ادْخِلُهُمْ جَنَّتِ عَدْنٍ التي وعد تهُمْ وَ مَن صَلَحَ مِن أتيهِمْ أَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّتِهِمْ ، إِنَّكَ أَنتَ العزيز الحكيم اے ہمارے رب ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل فرما دے.وہ جنتیں جن کا تو نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے اور ان کو بھی جو ان کے آبا و اجداد میں سے اچھے لوگ تھے.وذريتهم اور ان کی اولادوں کو بھی انك انت : الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ یقینا تو غالب علم رکھنے والا اور صاحب حکمت ہے.وقهم الشتات : ان کو بدیوں سے بچا.ومن تَنِي السَّيَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ آج اگر تو کسی کو بدیوں سے بچارے تو تو نے اس پر بہت رحم فرمایا.وذلك هو

Page 401

398 الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (المومن : ۸ تا ۱۰) اور یہ بہت ہی عظیم کامیابی ہے.ان آیات میں دو باتیں ایسی ہیں جو میں خاص طور پر آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں.اگرچہ ملایک کے متعلق یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان اور مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے لیکن حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی تمام بنی نوع انسان خصوصاً مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے اور چونکہ آپ بھی رحمہ العالمین تھے اس لئے جب میں یہ پڑھتا ہوں کہ ربنا دوست كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا اے ہمارے رب تو ہر چیز پر اپنی تو رحمت کے ذریعے عام ہو گیا ہے تو وہ پہلا نبی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رحمت تمام بنی نوع انسان کے لئے عام کی گئی وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کا بھی اس میں ذکر ہے اور آپ کی رحمت جو تمام بنی نوع انسان پر پہنچی ہے زیادہ تر آپ کی دعاؤں کے ذریعہ پہنچی ہے کیونکہ براہ راست آپ کی تعلیم کے ذریعہ آپ کا فیض عام نہیں ہوا.علما میں تعلیم کا ذکر ہے اور رحمة میں آپ کی برکتوں کا ذکر ہے.پس ایک ہی نہی جس کی تعلیم بھی تمام بنی نوع انسان کے لئے عام تھی اور جس کی رحمت بھی عام تھی وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اگر چہ تعلیم تو سب جگہ نہیں پہنچ سکی اور آج بھی نہیں پہنچ سکی.آج بھی جس ملک میں ہم بیٹھے ہوئے ہیں اس ملک کے اکثر باشندے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تعلیم سے غافل ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے لئے تھی لیکن آپ کی رحمت ضرور پہنچی ہے اور رحمت اگلوں کو بھی پہنچی ہے اور پچھلوں کو بھی پہنچی ہے اور تمام عالم کو پہنچی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کائنات ہیں اس مضمون کو سمجھنے کے لئے آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہماری طرف سے یہ به محض دعویٰ نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و

Page 402

399 سلم کو مقصود کائنات بتایا گیا ہے اور چونکہ شریعت نے ترقی کرتے ہوئے بالا خر جس طرح ارتقا انسان تک پہنچا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تک پہنچنا تھا.گویا اسلام میں شریعت کا ارتقاء ہے اس پہلو سے جو پہلے لوگ تھے.ان سب کو جو تربیت دی گئی وہ اسی طرف قدم بڑھانے کی غرض سے تربیت دی گئی اور تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے شریعت نازل ہوئی اور رحمت کے نزول ہوئے ان سب کو بالا خر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے پیدا کی جانے والی عالمی برادری کا جز بننے کے لئے تیار کیا جا رہا تھا.پھر جس طرح درخت کو پھل لگتا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اپنی مراد کو پہنچ گیا لیکن پھل لگنے کے بعد تو اس کی خدمت نہیں کی جاتی.درخت کی خدمت تو بیج ڈالتے وقت بلکہ بیج ڈالنے سے پہلے شروع کر دی جاتی ہے.جب آپ مٹی کھودتے ہیں اس کو نرم کرتے ہیں جب آپ کھاد کا انتظام کرتے ہیں اور پانی کا انتظام کرتے ہیں.ابھی بیج بویا بھی نہیں تو یہ سب انتظام شروع ہیں پھر بیج ہوتے ہیں پھر وہ درخت بفتا ہے اور مسلسل اس کی نگہداشت جاری رہتی ہے یہاں تک کہ بالاخر وہ پھل پیدا کرنے لگ جاتا ہے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیض اگر زمانے میں بھی پہلوں کو پہنچا اور کائنات میں بھی ہر جگہ عام تھا تو یہ کوئی فرضی دعوئی نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوْلاكَ نَمَا خَلَقْتُ الْأَخْلَاكَ : کہ اے میرے بندے اگر تجھے پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں کائنات کو پیدا نہ کرتا کیونکہ اس کائنات کا پھل تو ہے.اس کا مقصود تو ہے.تجھ جیسا میں نے پیدا کرنا تھا بیچ میں دوسرے بھی پیدا ہو گئے اور درخت کے پھل کے لئے لکڑی بھی تو پیدا ہوتی ہے.پتے بھی تو پیدا ہوتے ہیں اور ان کے مختلف فوائد بھی دنیا کو پہنچتے ہیں.تو یہ وہ معنی ہے جن معنے میں میں سمجھتا ہوں کہ فرشتے خدا سے عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! تیری رحمت اور علم تو سب دنیا میں اب عام ہو چکی ہے.فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ

Page 403

400 عذاب الْجَحِيمِ (المومن : ۷) اس لئے ہر اس شخص پر رحم فرما اس کی توبہ قبول فرما جو تیری طرف توبہ سے جھکتا ہے اور اس کو آگ کے عذاب سے بچا.موجودہ دور کی بدیوں سے بچنے کا طریق یہاں ، يَوْمَئِذٍ کا معنی بھی سمجھ آجاتا ہے.اس دعا میں فرشتے یہ عرض کرتے ہیں.وَقِهِمُ السَّيَاتِ وَمَن تَنِي الشَّيَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ یہاں یوم سے مراد زمانہ ہے.عام طور پر تو عقل میں یہی بات آنی چاہئے کہ جس زمانے میں بھی خدا کسی پر رحم کرے کسی کو بخش دے وہ اس نے بہت رحم کیا.يومينی سے کیا مراد ہے؟ فرشتے یہی کہتے ہیں کہ آج تو جس کو بخش دے وہ مراد کو پہنچ گیا.مراد یہ ہے کہ جو زمانہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں بخشا جائے اس کی کیا ہی شان ہے ؟ یہ وہ زمانہ ہے جو خدا سے رحمت طلب کرنے والا اور خدا کی طرف توبہ کے ساتھ رجوع کرنے کا زمانہ ہے.دوسرے اس آیت کے ذریعہ ہمیں تحفتہ یعنی تو نے رحم کیا کی ایک ایسی تشریح معلوم ہوئی جو اس سے پہلے معلوم نہیں تھی.ہم دعا کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں.واعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَاو ارحمنا (البقرة : ۲۸۷) قرآن کریم کی یہ دعا ہے جو ہمیں سکھائی گئی.واعْفُ عَنَّا ہم سے درگزر فرما.واغفر لنا اور ہمیں بخش دے.وارحمنا اور ہم پر رحم فرما.عام طور پر دعا کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ رحم سے مراد یہ ہے کہ جس طرح فقیر کہتا ہے ہماری حالت زار ہے.بھوکے ہیں.ننگے ہیں.کوئی دے اے رحم فرمائے.لیکن یہاں رحم کا معنی اس سے بہت زیادہ گہرا ہے.چنانچہ ملا یکہ اللہ نے اپنی دعا کے دوران آخر پر جا کر اس مضمون کو کھولا.وہ عرض کرتے.وَ مَن تَقِ الشَّيَاتِ يَوْمَئِذٍ فقد رحمته کہ اس زمانہ میں یعنی شریعت محمدیہ کے زمانہ میں جس کو تو بدیوں سے بچارے اس پر تو رحم فرماتا ہے یعنی ترے رقم کا مطلب ہے کسی کو بدیوں سے بچانا اور خصوصاً زمانہ نبوی میں جو شخص بدیوں سے بچا رہے کیونکہ سب سے آزمائشیں بدیوں کے لئے زمانہ نبوی میں مقدر تھیں.وہی ہے

Page 404

401 جس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ تو نے اس پر رحم فرمایا.اب دوبارہ اس دعا کو پڑھیں تو اس کا زیادہ واضح مضمون سمجھ میں آجاتا ہے.ہم کہتے ہیں ہم سے عفو کا سلوک فرما.جو غلطیاں ہم کر جاتے ہیں ان سے صرف نظر فرمائے.گویا تو نے دیکھا ہی نہیں.واغفر لنا جو گناہ کر بیٹھے ہیں وہ بخش دے.اس لئے ناکہ ہم اور گناہ کرتے چلے جائیں ؟ نہیں! و ارحمنا اور ہم پر رحم فرما ان معنوں میں کہ ہمیں بدیوں سے بچالے.ہم آئندہ بدیاں کریں ہی نہ.پس یہ مضمون ملائکہ کی اس دعا سے واضح ہوا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا يَوْمَئِذٍ اس لئے کہا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خود پیشگوئی فرمائی ہے کہ جیسی بدیوں کی آزمائش میری امت میں آنے والی ہے ویسی آزمائش کبھی کائنات میں نہیں آئی.فرمایا کہ میرے زمانہ میں دجال نے پیدا ہوتا ہے اور فرمایا کہ دجال سے تمام انبیاء اپنی اپنی امتوں کو ڈراتے آئے ہیں کہ خبردار! ایک ایسا زمانہ ظاہر ہونے والا ہے کہ دجال ظاہر ہو گا اور کبھی ایسی بدیاں انسان کے سامنے امتحان بن کر اٹھ کھڑی نہیں ہوں گی جیسے اس زمانہ میں اٹھ کھڑی ہوں گی.اور اکثر انسانوں کو مغلوب کرلیں گی.بدیاں پیدا کرنے والے کا نقشہ بھی ایک بہت بڑے دیوہیکل وجود کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو مذہب سے کلیتہ کاری اور دنیا میں بے انتہا ترقی یافتہ ہے اور جہاں تک بدیوں کی تفاصیل کا تعلق ہے تو احادیث میں بھی اور قرآن کریم میں بھی مختلف جگہ پر ان کا ذکر ملتا ہے کہ آئندہ ایسے ایسے دن آنے والے ہیں اور یہ وہ دن ہیں جن میں سے ہم گزر رہے ہیں.پس يَوْمَئِذٍ کا سب سے زیادہ تعلق اس زمانہ سے ہے.اب دیکھیں کہ اس دور میں مغرب سے جیسی بدیوں کے سیلاب نکلے ہیں اور دنیا کو ڈبوتے چلے گئے ہیں ویسے اس سے پہلے کسی زمانے میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی.جس ملک میں آپ بیٹھے ہیں یہ بعینہ اس نقشے کا تصور ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کی اداؤں کے متعلق کھینچا تھا.چودہ سو سال پہلے آپ نے فرمایا کہ اس کی دینی آنکھ نہیں ہوگی یعنی روحانیت سے اور تقویٰ سے اور اللہ کی محبت سے وہ عاری ہو گا لیکن بائیں آنکھ

Page 405

402 بہت بڑی اور بہت روشن ہوگی اور اتنی بصیرت والی ہو گی کہ وہ پاتال تک نظر ڈالے گی.زمین کے راز دیکھ لیا کرے گی.پس آج تک دنیا میں کوئی طاقت امریکہ سے بڑھ کر سائنس پر عبور حاصل کرنے والی پیدا نہیں ہوئی.بدیاں بھی یہیں سے نکل کر سب دنیا میں پھیل رہی ہیں اور دنیاوی ترقیات کے لحاظ سے بھی یہی ملک ہے جو آگے ہے.پس جب یہ دعا آپ پڑھیں تو سوچیں کہ یہاں یو مئذ سے کون سا دور مراد ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا وہ دور جس میں بدیاں پھیلنا مقدر تھیں.آپ آئے تھے رحمت اور علم پھیلانے کے لئے اگر اسی امت میں ایک ایسا دور بھی آتا تھا جب کہ ہر طرف سیئات نے پھیل جانا تھا تو کیسی اچھی دعا ہمارے لئے کی گئی ہے.ابھی ہم پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کہ عرش پر خدا کے فرشتے اس زمانہ کو یاد کر کے ہمارے لئے دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اس دور میں دعاؤں کی مدد کے بغیر وہ بچ نہیں سکیں گے.بہت بڑی ذمہ داریاں ان پر ہوں گی اور کمزور لوگ ہوں گے.ان کے مقابل پر اتنی بڑی طاقتیں ظاہر ہوں گی کہ تو خود فرماتا ہے کہ ایسی طاقتیں کبھی دنیا میں جاری نہیں کی گئیں.اس لئے ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ رحم کا سلوک فرما ان کو بدیوں سے بچانا.پس یہاں جو ماں باپ اپنے بچوں کے متعلق اپنی بچیوں کے متعلق فکر مند رہتے ہیں اور مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بتائیں کیا نسخہ ہم استعمال کریں وہاں اور نسخوں سے پہلے سب سے بڑا نسخہ میں دعا کا بتاتا ہوں.اور دعا کس رنگ میں کرنی چاہئے یہ آپ کو قرآن کریم کی اس آیت نے بتا دیا.اللہ تعالیٰ کے وہ فرشتے جن کے ذریعہ نظام روحانی جاری ہے.جن کے کندھوں پر روحانی نظام چلانے کا بوجھ ہے ان کی دعا ایک بہت ہی معنی خیز دعا ہے.ری نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ دعا کی ہے.پس ہمیں بھی اس دعا میں شامل ہو جانا چاہئے اور جس طرح کہ میں نے اس کی تفصیل بتائی ہے اس کا پس منظر سکھایا ہے ان معنوں میں یہ دعا اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے کیا کریں.اس زمانہ کے متعلق ایک اور دعا.ایک اور دعا ہے جو اللہ تعالی نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے

Page 406

403 صحابہ کو سکھائی.یہ سواری کی دعا ہے.اِذا اسْتَوَيْتُهُ عَلَيْهِ وَتَقُولُوا سُبْحْنَ الَّذِي مَخْرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّالَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبَّنَا لَمُنْقَلِبُونَ (الزخرف : (۱۵) کہ وہ لوگ جب سوار ہوتے ہیں تو سوار ہونے پر خدا سے یہ دعا مانگتے ہیں.فرمایا جب تم سواریوں پر چڑھ جایا کرو اور قرار پکڑ لیا کرو تب یہ کہا کرو.پاک ہے وہ ذات جس نے سواری کو ہمارے لئے مسخر فرما دیا.ہم تو اس لائق نہیں تھے کہ اس سواری کو اپنے تابع کر سکیں.مقرنین کا مطلب ہے لگام ڈال سکیں.مسخر کرنا جیسے کسی چیز کو ہمیشہ کے لئے دائمی طور پر اپنا غلام بنا لیا جائے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور وہ چیز مجال نہ رکھتی ہو کہ مالک کی مرضی کے خلاف کوئی بات کر سکے.یہ مضمون ہے جو تسخیر کے تابع ہے اور اسی کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا ومَا كُنَّالَه مُقرِنِينَ ہم ہرگز طاقت نہیں رکھتے تھے کہ اسے اپنے تابع فرمان کر سکتے.ورنا إلى ربنا لمنقلبون اور یقینا ہم اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.یہ دعا بھی اس زمانے کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتی ہے.کیونکہ پہلی سواریاں جو انسان کے لئے بنائی گئی تھیں یعنی جانور ان میں اور موجودہ سواریوں میں بہت بڑا فرق پڑ چکا ہے.یہ سواریاں غیر معمولی طور پر طاقتور ہیں اور ان کا تعلق بھی اسی دجال سے ہے جس کے متعلق میں ابھی دعا پڑھ چکا ہوں.اس لئے گو یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ آگے پیچھے بھی دعائیں اسی لئے رکھی گئیں کہ یہ اسی زمانہ کی دعائیں ہیں کیونکہ صورت الگ الگ ہے لیکن خواہ کوئی اسے حسن اتفاق سمجھے خواہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص تقدیر سمجھے.امر واقعہ یہی ہے کہ جہاں پہلی دعا کا ذکر ہے اور آخری زمانے کی بدیوں کا ذکر ہے وہاں اس کے معا بعد جو دوسری دعا ہمیں قرآن کریم میں ملتی ہے وہ یہی دعا ہے اس لئے میرا رجحان اسی طرف ہے کہ یہاں موجودہ زمانے کی سواریاں خصوصیت سے پیش نظر ہیں اور اللہ تعالٰی ہمیں سکھاتا ہے کہ جب ان سواریوں پر بیٹھا کرو تو یہ دعا کیا کرو کہ بظاہر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے قابو کرلی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تیرے ہی قابو میں ہیں.اگر تیرا قانون قدرت ساتھ نہ دے تو یہ سواریاں ہرگز ہمارے قابو

Page 407

404 نہیں آسکتیں اور واقعہ یہی ہے کہ موجودہ دور میں جب بھی سائنسدانوں نے تکبر کئے ہیں خصوصاً سواریوں کے معاملہ میں تو ہمیشہ ان کو منہ کی کھانی پڑی ہے.انگلستان میں ایک بہت بڑا جہاز بنایا گیا.اتنا شاندار کہ کہتے تھے کہ کبھی ایسا جہاز نہ بنا.شاید اور نہ آئندہ بن سکے اور بہت ہی فخر تھا انگلستان کو کہ ایسا مسافر جہاز جو انگلستان سے امریکہ تک سفر کرے گا پہلے کبھی اس کا تصور نہیں تھا.ہر قسم کی سہولت تھی.ہر قسم کے خطرات سے بچنے کا انتظام تھا اور بڑی شان اور تکبر کے ساتھ انہوں نے روانہ کیا اور وہ اپنے پہلے تجرباتی سفر میں ہی سمندر میں غرق ہو گیا اور بے شمار لوگ اس کے ساتھ غرق ہو گئے جو بڑی شان کے ساتھ اس پہلے تاریخی سفر میں شامل ہو رہے تھے.جہازوں کا بھی اعتبار نہیں ہے.اعتبار ہو بھی تو قانون قدرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب طوفان اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو انسان کی بتائی ہوئی مشین ان کے سامنے بالکل ایک پر کاہ کی حقیقت رکھتی ہیں.جس طرح ایک چھوٹا سا خاک کا ذرہ ہو یا ایک تنکا ہو اور وہ اڑتا پھرے ایسی حیثیت ہو جایا کرتی ہے.اس لئے احمدیوں کو خصوصیت سے یاد رکھنا چاہئے کہ ہر سواری پر سوار ہونے کے بعد یہ دعا کیا کریں لیکن اس کے ساتھ ایک اور بھی کلمہ زائد فرما دیا گیا جو بہت ہی پر لطف کلمہ ہے وہ یہ ہے کہ وَإِنَّا إِلَى رَيْنَا لَمُنْقَلِبُونَ کہ ہم نے آخر خدا ہی کی طرف جاتا ہے.بہت گہرا مضمون ہے جو اس کلمے میں بیان فرمایا گیا ہے.ایک یہ کہ سواریوں پر بیٹھتے ہوئے خصوصاً خطرناک سواریوں پر بیٹھتے ہوئے خدا کے مومن بندے دعائیں تو کرتے ہیں لیکن ڈرتے نہیں ہیں.وہ دعا کرنے کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اے خدا! یہ تو عارضی سفر ہے.اصل سفر تو ہمارا تیری طرف ہوتا ہے.ہم نے بالآخر تجھے تک پہنچنا ہے اس لئے اگر تیری مرضی یہ ہو کہ یہ جہاز غرق ہو جائے ہم اپنے وطن واپس نہ بھی جا سکیں تو اصل وطن تو وہ ہے جہاں تو ہے.جہاں تجھ سے جا کر ملنا ہے.اس لئے ہم یقین رکھتے ہیں.در نگال رَحْنَا لَمُنْقَلِبُونَ ہم تو یقیناً اپنے رب کی طرف لوٹائے جائیں گے.اس کا ایک دلچسپ تجربہ مجھے بھی ہوا.۱۹۶۵ء میں جب میں سری لنکا گیا تو جس

Page 408

405 جہاز پر میں سوار تھا میرے ساتھ سری لنکا کے ایک کیبنٹ منسٹر بھی تھے.ہم سری ) پہنچنے لگے تو اس سے چند منٹ پہلے ایسا خوفناک طوفان آیا کہ میں نے اس سے پہلے جہاز میں کبھی ایسا خوفناک منظر نہیں دیکھا.کہرام مچ گیا.سارے جہاز میں چیخ و پکار اور دعائیں کوئی بیوی بچوں کو یاد کر رہا تھا کوئی خدا کو یاد کر رہا تھا اور جہاز بے حد اونچا نیچا ہو رہا تھا اور میں اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا.مجھے یہ دعا یاد تھی اور میں بالکل ایک ذرا بھی فکر میں مبتلا نہیں ہوا.خیر خدا نے فضل کیا.کچھ دیر کے بعد ہم اس طوفان سے گزر گئے.جب نیچے اترنے لگے تو اس نے مجھ سے پوچھا تم کون ہو.میں نے کہا میں مسلمان ہوں.کہتا ہے کہ اس جہاز میں اور بھی تو بہت سے مسلمان سفر کر رہے ہیں.تم کون سے مسلمان ہو.خیر میں اس کی بات سمجھ گیا.میں نے اس کو بتایا.کہتا ہے میں حیران ہوں کہ سارا جہاز ایک قیامت کا نمونہ دکھا رہا تھا اور تم آرام سے بیٹھے ہوئے تھے تمہیں کچھ بھی پتہ نہیں.میں نے کہا اس لئے کہ ولنا ان ربنا لمنقلبون نے ہمیں پیغام دیا ہے کہ ہم یہ چھوٹے چھوٹے سفر کرتے ہیں.بعض منازل کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ ہمیں یاد کراتا ہے کہ اپنی آخری منزل نہ بھول جانا.وہ اصل منزل ہے اور دائمی مقام ہے.ہم نے لوٹ کر وہیں آتا ہے تو میں یہ سوچ رہا تھا کہ آج چلے جائیں، کل جائیں، جانا تو وہیں ہے.فرق کیا پڑتا ہے.پس مومن کو ایسی دعا کے بعد کا یہ جملہ غیر معمولی تقویت دیتا ہے.اول تو یہ کہ اس دعا کی برکت سے میرا ایمان ہے کہ بہت سے حادثات سے مومن بچایا جاتا ہے اور جہاں مقدر ہو بھی وہاں بڑی شان اور طمانیت کے ساتھ خدا کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے.پس دعائیں وہی کیا کریں جو انعام یافتہ لوگوں کی دعائیں ہیں مگر انعام یافتہ لوگوں کی اداؤں کے ساتھ ان کے مضامین میں ڈوب کر دعائیں کیا کریں.یہ دعا چونکہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سکھائی گئی تھی اس لئے ساتھ ہی اس کے گہرے مطالب بھی بتا دیئے گئے جن کو آپ سے بہتر اور کوئی نہیں کچھ سکتا تھا کہ تو اور تیرے ساتھی یہ دعائیں تو کیا کرو گے لیکن ہمیشہ یہ یاد رکھتے

Page 409

406 ہوئے کہ بالآخر خدا ہی کی طرف لوٹنا ہے.انسان کامل کی ایک دعا اب ایک دعا ہے جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ الانسان کی دعا ہے.الانسان سے مراد یہ ہے کہ انسان کامل کی دعا ہے کیونکہ خدا تعالٰی نے اسی طرح اس دعا کو پیش فرمایا ہے اور اس سے میں سمجھتا ہوں کہ یقیناً یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعا ہے.اس میں الانسان کے لفظ کے سوا اور بھی اشارے ہیں جو اس دعا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا بتاتے ہیں فرمایا.ان الَّذِينَ قَالُوا ربنا الله ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (الاحقاف : (۱۴) یقیناً وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر وہ استقامت اختیار کرتے ہیں.فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوتَ ان پر کوئی خوف نہیں آتا اور کبھی، وہ اپنی ضائع شدہ چیزوں پر غم نہیں کرتے.يَحْذَنُون کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غم کے موقعے ان کو پیش نہیں آتے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب خوف آتے ہیں تو آتے ضرور ہیں لیکن وہ ان سے ڈرتے نہیں.مرعوب نہیں ہوتے بلکہ ہر خوف کے وقت خدا کا خوف ان پر غالب رہتا ہے اور دنیا کے خوفوں سے ان کو بچاتا ہے پھر کچھ نہ کچھ نقصان بھی پہنچتا ہے جیسے کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان فرمایا گیا.لیکن ان نقصانوں کے نتیجہ میں غم میں مبتلا نہیں ہوتے.جاتا ہے تو کہتے ہیں ٹھیک ہے چلا گیا اور احمد یہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں بھی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایسے غلام پیدا ہوئے جن کا سب کچھ لوٹ لیا گیا لیکن وہ مسکراتے رہے.غم میں مبتلا نہیں ہوئے.میں نے پہلے بھی خطبوں میں ایک نوجوان کا ذکر کیا تھا جو ۱۹۷۴ء کے فسادات میں مجھے ملنے آیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث " سے ملنے آیا تھا تو میں ان دنوں وقف جدید میں کام کیا کرتا تھا وہ میرے پاس بھی آگیا اور کمرے میں داخل ہوا تو باچھیں

Page 410

407 کھلی ہوئی مسکراتا ہوا ہنستا ہوا بہت خاص خوشی کے مزاج کے ساتھ داخل ہوا اس کا نام نصیر تھا.اس کو اس حال میں دیکھ کر میں نے کہا.نصیر! کیا بات ہے آج تم نے بہت کچھ پا لیا ہے کہ تم اس طرح خوش ہو رہے ہو.اس نے کہا یہی سوال حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے بھی مجھ سے کیا تھا اور ان کو بھی میں نے یہی جواب تھا کہ آج ہم نے خدا کی راہ میں سب کچھ کھو دیا ہے.یہ خوشی ہے.چاولوں کی ملیں اور کارخانے تھے.خدا کے فضل سے بڑا کھاتا پیتا گھر تھا.انہوں نے بتایا کہ سارا دن ٹرک لولد کے بوریاں ڈھوتے رہے (ڈھونا پنجابی میں سامان لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کو کہتے ہیں) اور کسی نے بھی پوچھا نہیں اور نہ پولیس آئی اور نہ کسی کو پرواہ ہوئی یہاں تک کہ سب کچھ صاف ہو گیا.کارخانہ بھی بریار دیواریں منهدم کردی گئیں اور میں اب اس لئے خوش ہوں کہ بہت مزے میں ہوں کہ اب سب کچھ اللہ نے پھر دوبارہ دیتا ہے.ہم نے تو جو کچھ تھا وہ سب اللہ کے سپرد کر دیا ہے..پس وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا یہ مطلب ہے.اس کے برعکس وہ لوگ جن میں ایمان کی کمی ہوتی ہے ان کو آپ دیکھیں چھوٹا سا نقصان پہنچے تو جان کا زیاں کر بیٹھتے ہیں.وہ اس غم میں گھل گھل کر اپنی جان ضائع کر دیتے ہیں تو کتنا فرق کتنے عظیم الشان بندے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.اور آپ ہی کے تربیت یافتہ ہیں.خدا تعالیٰ ان کے متعلق فرما رہا ہے.ان الذین قالوا ربنا اللہ دیکھو کیسے شاندار بندے ہیں میرے جب وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے تو پھر کسی اور کو رب نہیں مانتے.یہاں ربنا اللہ میں یہ مضمون ہے.رب کا مطلب ہے پرورش کرنے والا.سب کچھ عطا کرنے والا.زندگی کے گزارے دینے والا.اونی حالتوں سے ترقی دے کر اعلیٰ حالتوں کی طرف لے جانے والا.رب تو خدا کو کہیں مگر دنیا کی طاقتوں سے ڈر جائیں اور ان کو رب سمجھ لیں خدا فرماتا ہے ایسا نہیں ہوتا.میرے بندے وہی ہیں جو میرے رب کہنے کے بعد پھر میرے ہو رہتے ہیں اور ان کی نشانی کیا.ہے.لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ

Page 411

408 يخزنون دنیا کا کوئی خوف ان پر غالب نہیں آسکتا.بے خوف ہو جاتے ہیں اور جو بھی نقصان پہنچ جائے ان کو غم نہیں ہوتا.ہمیشہ سکینت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.کتنا عظیم الشان انسان ہے جو قرآن کریم پیدا کرنا چاہتا ہے.اسی لئے اس دعا کو اللہ تعالٰی نے الانسان کی دعا کے طور پر پیش فرمایا کہ ابھی ان کی صفات بیان ہو رہی ہیں دعا ابھی آگے آتی ہے فرمایا.أوليك أصْحَبُ الْجَنَّةِ لدين فيها یہی وہ لوگ جو جنتوں میں داخل کئے جائیں گے اور پھر ہمیشہ رہیں گے.ان جنتوں سے ان کو کبھی نکالا نہیں جائے گا.جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یہ ان کے اعمال کی جزاء ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ کے لئے خدا کے ہو گئے تھے.خدا ہمیشہ کے لئے ان کا ہو جائے گا.ووَصَّيْنَا الانْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اخشنا ہم نے الانسان یعنی محمد رسول اللہ کو انسان کامل کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے والدین سے احسان کا سلوک کرو.یہاں یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو اپنے والدین کا منہ نہیں دیکھا.والدہ کو دیکھا لیکن تھوڑے عرصہ کے لئے اور والد تو بعض روایات کے مطابق آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے.پس بوالدیه اخطنا کا کیا مطلب ہے.یہاں دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو نصیحت ہے وہ تمام بنی نوع انسان کو نصیحت ہے کیونکہ انسان کامل کو جو نصیحت کی جائے اس میں تمام اوئی انسان شامل ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مزید کسی تمہید باندھنے کی ضرورت نہیں پڑی.فرمایا ہم نے انسان کامل سے یہ کہا تھا کہ یاد رکھو کہ اپنے والدین سے ہمیشہ احسان کا سلوک کرنا حَمَلَتْهُ أَمهُ كُرَهَا وَوَضَعَتْهُ كُرْهاً یہ مضمون بھی دیکھ لیجئے عام ہے.تمام بنی نوع انسان پر یہ مضمون مشتمل ہے.آگے جا کر یہ مضمون اور رنگ اختیار کر جائے گا.تم دیکھو تمہاری ماؤں کا تم پر کتنا احسان ہے یا اگر لفظی ترجمہ کریں تو غائب میں مضمون بیان ہو رہا ہے.تو ترجمہ ہو گا ہر انسان کی ماں اسے بہت تکلیفوں سے پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے.وَوَضَعَته گرها اور بہت تکلیف کے ساتھ جنم دیتی ہے.تو مینے تک اپنے پیٹ میں پالتی ہے.ایسی حالت میں کہ وہ بہت

Page 412

409 ہی اونی حالت سے ترقی کرتے کرتے انسان کی حالت تک پہنچتا ہے.اب آپ دیکھیں جس نے ربنا اللہ کا دعویٰ کیا تھا اسی کی مزید صفت بیان ہوئی ہے.رب کا مطلب ہی یہ ہے ادنی سے ترقی دے کر اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا.انسانی رشتوں میں اس کی بہترین مثال ماں بنتی ہے فرمایا اپنی ماں کی طرف دیکھو کہ ہر انسان کی ماں نے اسے بڑی مصیبتوں سے پیٹ میں پالا اور پھر بڑے خطرات کے ساتھ اس کو جنم دیا.وَحَمْلُهُ وَيَصْلُه تَلْقُونَ شَهْرًا اور یہ عرصہ پیٹ میں اٹھائے پھرنے کا اور پھر وضع حمل کا اور پھر دودھ پلانا یہ تھیں مہینوں تک پھیلا ہوا ہے.حتى إذا بلغ اشده ويلم البنين سنة یہاں تک کہ جب وہ بلوغت کو پہنچ گیا اور چالیس سال کی عمر کو پہنچ گیا قال رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي انعمت ملی تو اس نے دعا کی جو میں بیان کروں گا.یہاں میں نے کہا تھا کہ آگے جا کر مضمون بدل جائے گا.ایک مضمون ہے عام جو سارے بنی نوع انسان میں مشترک ہے.ہر ایک کی ماں اسی طرح اسے جنم دیتی ہے لیکن ہر شخص احسان مند نہیں ہوا کرتا.اب واپس حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مضمون لوٹ گیا ہے.ایک عام واقعہ بیان کر کے جو سب بنی نوع انسان میں مشترک ہے پھر الانسان بمعنی محمد رسول اللہ اس مضمون کو دوبارہ اٹھا لیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جب وہ بلوغت کو پہنچا اور ۴۰ سال کی عمر کو پہنچا اور ۴۰ سال کی عمر آپ کی نبوت کی عمر تھی اس لئے ۴۰ سال کا لفظ استعمال ہوا ہے ورنہ ہر انسان تو ۴۰ سال کی عمر کو ہ یہ بات نہیں کہا کرتا.پس یقینا قطعی طور پر یہاں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور آپ کا نقشہ بیان فرمایا ہے کہ آپ نبوت پانے کے بعد کیا دعائیں کیا کرتے تھے.فرمایا قالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتِكَ التي الْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَي اے میرے رب! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر کی اور اس نعمت کو تمام کر دیا.( تمام کا مضمون لفظاً ظاہر نہیں لیکن نبوت میں تمام کا لفظ شامل ہوتا ہے اس لئے تمام کا لفظ داخل کیا) آیت کریمہ فرماتی ہے آپ اور منی آن آشكُرَ نِعْمَتَكَ

Page 413

410 التي انعمت علي اے میرے رب! مجھے توفیق عطا فرما کہ میں اس نعمت کا شکریہ ادا کرتا رہوں.شکریہ ادا کر سکوں اس کی توفیق پاؤں جو تو نے مجھے پر فرمائی.و علی والدی اور میرے والدین پر تو نے جو نعمت کی ہے اس کا بھی میں شکر ادا کروں.- اب دیکھیں یہاں والدین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسان کا یہاں ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ آپ کے والدین پہلے گزر چکے تھے.یہ مضمون لگتا ہے دو دھاگوں سے بنا ہوا ہے کبھی عام ہو جاتا ہے کبھی خاص ہو جاتا ہے.عام ہو جاتا ہے تو تمام بنی نوع انسان پر پھیل جاتا ہے جب سمٹتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات میں سمٹ آتا ہے.آپ یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے خدا! مجھ پر تو نے جو اتنا بڑا احسان فرمایا یہ توفیق عطا فرما کہ اس پر شکر کا حق ادا کر سکوں اور صرف اسی کا نہیں بلکہ اپنے والدین کی طرف سے بھی تیرا شکر ادا کروں.صاف ظاہر ہے که والدین گذر چکے ہیں اور ان کو پتہ نہیں کہ کیا نعمت ان کو ملی ہے اور واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین گذر چکے تھے ان کو کیا پتہ تھا کہ ان کی صلب سے دنیا کا سب سے بڑا انسان پیدا ہونے والا ہے اور وہ ایسے اعلیٰ مدارج تک پہنچے گا کہ کبھی کسی انسان کے تصور میں بھی یہ نہیں آسکتا تھا کہ کوئی شخص خدا کے اتنا قریب ہو جائے اور چونکہ والدین ایسی حالت میں گزرے تھے کہ ابھی وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور نہ مسلمان ہو سکتے تھے اور انبیاء کو حکم نہیں ہے کہ وہ اپنے ان والدین کے لئے دعا کریں جن کے متعلق احتمال ہو کہ وہ مشرک ہیں.اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا نہیں کی بلکہ یہ عرض کیا ہے کہ اے خدا ! ان پر بھی تو نے بہت بڑا انعام کیا ہے.اتنا بڑا انعام کہ مجھے ان کے گھر پیدا کر دیا اور وہ شکر ادا نہیں کر سکتے.ان کو علم نہیں ہے کہ کیا احسان تو نے ان پر کیا ہے.مجھے توفیق عطا فرما کہ میں ان کی طرف سے تیرا شکر ادا کروں.میں سمجھتا ہوں کہ ان کی مغفرت کی دعا کرنے کا اس سے اعلیٰ طریق اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا اور ان معنوں میں احسان کا بدلہ بھی اتار گئے.مضمون دیکھیں کس طرح اٹھایا گیا ہے کہ والدین

Page 414

411 کے احسان کو یاد کرو.والدین کے احسان کو یاد کر کے آنحضرت فرماتے ہیں اے خدا! ان کی طرف سے مجھے شکر کی توفیق عطا فرما.پس جن کی طرف سے محمد رسول اللہ شکر ادا کر رہے ہوں کیسے ممکن ہے میں تو یقین نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالی ان سے مغفرت کا سلوک نہ فرمائے.وأن أعمل صالحا ترضعہ اور شکر کی تعریف فرما دی.ہم جو زبانی شکر ادا کرتے رہتے ہیں یہ تو کوئی شکر نہیں.فرمایا شکر کس طرح ادا کروں فرمایا و آن أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضُهُ.میں ہمیشہ ایسا عمل کروں کہ جن کے نتیجہ میں تو راضی ہو تا رہے.اس میں شکر کا فلسفہ بھی بیان ہو گیا.ایک انسان شکر اس لئے کرتا ہے کہ کوئی شخص اس پر احسان کرتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اس احسان کا بدلہ چکا سکے.خدا کو آپ احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے لیکن احسان کا بدلہ چکانے کی روح یہ ہے کہ جب آپ احسان اتارتے ہیں تو اگلا راضی ہوتا ہے.جب آپ کو کوئی تحفہ دے اور آپ اس کو اس سے بڑھ کر تحفہ دیں تو تجھے تو عارضی چیزیں ہیں بعض دفعہ وہ خود استعمال بھی نہیں کرتا کسی اور کو دے دیتا ہے یا پھینک دیتا ہے یا اس کے کام کی چیز نہیں ہوتی لیکن وہ راضی ہو جاتا ہے اگر محبت سے ایک ذرہ بھی کسی کو تحفہ دیا جائے تو وہ راضی ہو جاتا ہے تو کیسا عمدہ گہرا نفسیاتی نکتہ بیان فرمایا.فرمایا کہ میں تو تجھ پر احسان کر نہیں سکتا لیکن مجھے راضی تو کر سکتا ہوں اور احسان کا بدلہ تو اسی لئے پکایا جاتا ہے کہ کوئی راضی ہو جائے ہیں اب تو ایسا فیصلہ فرما کہ ایسے عمل کی تو مجھے خود توفیق عطا فرما.مجھے معلوم نہیں تو کس عمل سے راضی ہو گا.جس عمل سے بھی تو راضی ہوتا ہے وہی عمل میں کرتا چلا جاؤں اور ساری زندگی میں تیری رضا حاصل کرتا رہوں.تجھے خوش کرتا رہوں.وآضي غرين في ذريتي اور یہی نہیں میری ذریت کو بھی صالح بنا دے اور اس ذریت میں آپ ب شامل ہیں.صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی اولاد ہی نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان جنہوں نے آپ سے تعلق جوڑنا تھا یا آئندہ جوڑیں گے وہ سارے اس دعا میں شامل ہو جاتے ہیں الي حُبْتُ إِلَيْكَ وَاللَّهِ مِن المسلمين (الاحقاف : ( دیکھیں اب بات کس طرح کھل گئی ہے.

Page 415

412 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرتے ہیں کہ تو تو جانتا ہے میں تیری طرف لوٹ آیا ہوں میں تو ایسی توبہ کر چکا ہوں کہ کبھی کسی نے ایسی توبہ نہیں کی ہوگی اور مجھے کچھ نہیں چاہتے میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ ہاں میں مسلمان ہوں.پن اس کے نتیجہ میں میرے بعد میں آنے والے تعلق رکھنے والوں سے بھی احسان کا سلوک فرما اور ان کو بھی ایسے اعمال کی توفیق بخش جن کے ذریعے تو راضی ہو جائے.پس اسی دعا پر میں آج کا خطبہ ختم کرتا ہوں.لیکن میں آپ کو ایک دفعہ پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس دعا کی دنیا میں ہر جگہ پر ہر دور کے انسان کو ضرورت رہی ہے لیکن جیسی آج کے دور میں اس دنیا میں اس جگہ جہاں سے میں یہ خطبہ دے رہا ہوں اس دعا کی ضرورت ہے شائد کسی اور جگہ کبھی اس دعا کی ضرورت نہ پڑی ہو.ایسے ظالم ماحول میں آپ بس رہے ہیں جس کی فضا زہریلی ہے.جب بچے سانس لیتے ہیں تو دو قسم کی پولوشن میں جتلا ہوتے ہیں ایک پولوشن تو بنی نوع انسان کو نظر آ رہی ہے اور اسکے خلاف ان کے دماغ روشن ہو گئے ہیں وہ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کسی طرح اس پولوشن کو کم کریں.اس فضاء کی وہ آلودگی جو جرائم کے ذریعہ خاک کے ذروں کے ذریعہ دھوئیں کے ذریعہ زہریلی گیسوں کے ذریعہ دنیا کو نظر آتی ہے اس سے وہ بڑے سخت منتخبہ ہو چکے ہیں اور کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن ایک آلودگی ایسی ہے جو اس سے بہت زیادہ ہلاکت کرنے والی ہے اور وہ روح کو ہلاک کرنے والی آلودگی ہے وہ اس فضا میں اتنی زیادہ ہے کہ اگر ان کو پتہ چلے کہ کس فضا میں دم لے رہے ہیں تو اس خوف سے ان کے دم نکل جائیں کہ کیا ہوا ہے جو ہم اپنی سانسوں میں لے رہے ہیں.اس کی طرف کوئی توجہ نہیں پس جب آپ یہ دعا کیا کریں تو اس رنگ میں دعا کیا کریں کہ آپ نے بھی اس آلودگی سے بچتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے لئے بھی دعا کیا کریں.اللہ تعالٰی اس آلودگی سے ان کو بھی بچائے کیونکہ یہ فضا واقعی بہت گندی ہے.میں نے بہت سے احمدی ماں باپ کو روتے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں اس طرح ہماری بچی ہاتھ سے نکل گئی اس طرح ہمارا بچہ ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے.اس کے نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں زندگی کے متعلق اس

Page 416

413 کا تصور بدل جاتا ہے اور کوئی نصیحت اس پر کام نہیں کر سکتی.وہ اور رنگ میں دیکھے رہا ہوتا ہے ماں باپ اور رنگ میں دیکھ رہے ہوتے ہیں.پس ایسی حالت میں دعاؤں انہی کا سہارا ہے اور دعا کے علاوہ اور بھی باتیں ہیں جو میں بعض دوسری جگہ بیان کرتا چلا آیا ہوں اور آئندہ بھی بیان کروں گا.مگر ہمارا سب سے طاقتور سہارا دعا ہے اور دعاؤں سے میں سمجھتا ہوں یہ دعا جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سناتی ہے یہ امریکہ کے حالات میں اور باقی دنیا کے حالات میں بھی آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے.اللہ تعالٰی ہمیں توفیق عطا فرمائے.اس دعا کا حق ادا کرتے ہوئے اس میں ڈوبتے ہوئے خاص سوز کے ساتھ اپنے لئے اپنی آئندہ نسلوں کے لئے دعا کیا کریں.اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبول فرمائے.

Page 417

Page 418

ڈیٹرائیٹ (امریکہ) ایسٹرن مشی گن یونیورسٹی ۱۲۸ جون ۱۹۹۶ء 415 پشمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: آج جمعہ کا دن ہے اور میں یہ خطبہ ڈیٹائیٹ سے دے رہا ہوں جہاں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کثیر تعداد میں امریکہ کی جماعتیں اپنے سالانہ کنونشن میں یعنی جلسہ سالانہ میں شرکت کے لئے تشریف لائی ہوئی ہیں.گذشتہ کچھ عرصہ سے قرآن کریم میں مندرج ان دعاؤں کا ذکر چل رہا ہے جو خدا تعالٰی کے انعام یافتہ بندے خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرتے رہے اور اس سے انعام پاتے رہے.لیکن اس ذکر کو دوبارہ چھیڑنے سے پہلے میں مختصراً آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جمعہ کے دن کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی ایک بہت گہرا اور دائمی رشتہ ہے.اور اس رشتے کا ذکر سورۃ جمعہ میں فرمایا گیا ہے.جمعہ کا دن جمع ہونے کا دن ہے اور اسی پہلو سے عربی میں اس دن کو جمعہ قرار دیا گیا.لیکن قرآن کریم میں سورہ جمعہ میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ایسا وقت بھی آئے گا کہ جب آئندہ آنے والے لوگ پہلے آنے والے لوگوں کے ساتھ جمع کر دیئے جائیں گے.ووَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعه : (۴) بعد میں آنے والے ایسے بھی ہیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے والوں اور آپ کی غلامی کرنے والوں میں بعد میں آنے کے باوجود اس طرح شامل کر دیئے جائیں گے کہ گویا وہ انہی میں سے ہیں.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جمعہ کے دن سے ایک گہرا اور دائمی رشتہ ہے.جو مضمون میں دعاؤں کا بیان کر رہا ہوں اس کا بھی اس رشتے سے ایک اور رشتہ ہے اور وہ یہ ہے کہ قرآنی دعائیں جو انعام یافتہ لوگوں نے مانگیں جماعت احمدیہ

Page 419

416 اگر ان دعاؤں میں خاص توجہ اور انہماک سے گریہ و زاری کے ساتھ خدا تعالیٰ سے فضل مانگتی رہے تو گذشتہ تمام زمانے اس زمانے میں جمع ہو جائیں گے اور وہ سارے انعام جو اللہ تعالی نے گذشتہ تمام زبانوں میں اپنے مختلف عاجز بندوں پر نازل فرمائے ان دعاؤں کے طفیل وہ سارے انجام اس زمانے میں جماعت احمدیہ میں جمع ہو سکتے ہیں - دعاؤں کے ذکر میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السلام کی دعا سے میں آج کے مضمون کا آغاز کرتا ہوں.یہ دعا قرآن کریم میں سورۃ القمر میں محفوظ فرمائی گئی.دعا تو اتنی ہے فَدَعَارية الي مَعْلُوبُ فَانتَصِرُ حضرت نوح نے اپنے خدا کو پکارا اور عرض کیا کہ میں مغلوب ہو چکا ہوں اور میری مخالف قوم مجھے پر غالب آگئی ہے پس تو میری نصرت فرما.اس دعا کا پس منظر یہ بیان فرمایا گیا ہے.گذبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عبدنا و قالُوا مَجْنُون وارد جد کہ اس سے پہلے نوح کی قوم نے نوح کو جھٹلا دیا.تخَذُبُوا عَبَدَنَا اس قوم نے ہمارے بندے کو جھٹلا دیا.اس طرز بیان میں بہت ہی پیار کا اظہار ہے اور حضرت نوح سے غیر معمولی اپنائیت کا اظہار ہے.یہ نہیں فرمایا کہ نوح کو جھٹلا دیا بلکہ فرمایا تحذِّبُوا عَبَدَنَا انہوں نے ہمارے بندے کو جھٹلایا.وَقَالُوا مَجْنُونَ وَاذْهُ جِر اور کہا یہ تو پاگل ہے.اسے جنون کے دورے پڑتے ہیں.دارم جد اور ہمارے خداؤں کی طرف سے پھٹکارا گیا ہے.ہمارے خداؤں نے اس پر پھٹکار ڈالی ہے چنانچہ حضرت نوح نے اس موقعہ پر یہ عرض کیا آتي مغلوب فانتصر "اے میرے خدا میں مغلوب ہو گیا پس تو میری نصرت فرما.اس دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَفَتَحْنَا ابْوَابَ السَّمَاءِ بما منهم ہم نے اس کے جواب میں آسمان کے دروازے کھول دیئے جن مسلسل برسنے والا پانی نازل ہوا.وتجرْنَا الْأَرْضَ عُيُونا اور ہم نے

Page 420

417.اور ہم زمین سے بھی چشمے پھوڑ دیئے.فالتقى الماء پس یہ دونوں پانی یعنی آسمان کا پانی اور زمین کا پانی اکٹھے ہو گئے.علی امر قد قدر ایک ایسی بات پر جس کا فیصلہ کیا جا چکا تھا.وحَمَلْتَهُ عَل ذَاتِ الْوَاحِ وَذَسُرٍ نے اسے ایک ایسی چیز پر اٹھا لیا یعنی سیلاب میں ایک ایسی چیز کے ذریعے اسے بچایا جو بھٹیوں اور میخوں سے بنائی گئی تھی.تجري باغيننا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی.جزاء لمن كان محفر القمر : ۱۰ تا ۱۵) یہ جزاء ہے اس شخص کی جس کا انکار کیا گیا ہے.اس دعا کا جماعت احمدیہ کے ساتھ خصوصیت سے اس لئے رشتہ ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے بھی نوح کے زمانے کی باتیں کی گئیں اور آپ کو اللہ تعالٰی نے الہاما ایک سے زائد مرتبہ فرمایا کہ تجھ پر بھی نوح جیسا زمانہ آئے گا اور ہم ویسے ہی تیری مدد فرمائیں گے.چنانچہ انہی الہامات کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے کشتی نوح لکھی.ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب کوئی احمدی بچہ ایسا نہیں مل سکتا تھا جس نے کشتی نوح کا مطالعہ نہ کیا ہو لیکن آج میں سمجھتا ہوں کہ ہماری بہت سی نسلیں ایسی ہیں، بہت سے ممالک میں احمدی نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے شائد نام تو سن رکھا ہو لیکن انہیں اس اہم کتاب کے مطالعہ کی توفیق نہ ملی ہو.یہ اس لئے ضروری ہے کہ یہ کشتی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو عطا کی گئی ہے یہ پھٹوں اور مینوں سے نہیں بنائی گئی بلکہ ایک تعلیم سے بنائی گئی ہے.پس آج کے زمانہ میں جو ہلاکتوں کا زمانہ ہے اور طرح طرح کے عذاب اندر آنے پر تیار بیٹھے ہیں.اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کشتی نوح کے مضمون سے خوب اچھی طرح واقف ہو اور معلوم کرے کہ کس کشتی کے مہارے اس نے بچتا ہے ورنہ جو بھی اس کشتی میں سوار نہیں ہو گا اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی.دو قسم کی ہلاکتیں انسان کو درپیش ہیں.ایک روحانی ہلاکت اور ایک مادی

Page 421

418 ہلاکت اور جیسا کہ ظاہر ہو رہا ہے اس زمانہ میں یہ مضمون لفظاً لفظاً ظاہری طور پر نہیں دہرایا جائے گا لیکن معنوی طور پر دہرایا جائے گا.پس آسمان سے بارش کا برینا اور زمین کا پانی اگلتا یہ دو معنی اس طرح آج کے زمانے پر اطلاق پاتے ہیں کہ روحانی ہلاکت ہے جو آسمان سے انسان کو کاٹ رہی ہے اور دنیاوی ہلاکت ہے جو طرح طرح کے عذابوں کے ذریعے جو دنیا کی بدکاریوں کے نتیجہ میں نازل ہو رہے ہیں.انسان کے جسمانی خاتمے کا بھی سامان پیدا کیا جا رہا ہے.پین دونوں طرح کی ہلاکتیں دنیا کو در پیش ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے جو تعلیم کشتی نوح میں دی ہے اگرچہ اس پر سو فیصد عمل کرنا بہت مشکل کام ہے اور شاذ ہی کوئی ایسا شخص ہو جو یہ کہہ سکے کہ میں نے اس ساری تعلیم کو اچھی طرح سمجھ لیا اور میں کامل یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ میں اس پر عمل پیرا ہوں.لیکن اس تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرنا ہی درحقیقت نجات کا موجب ہے.بعض احمدی مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم جب کشتی نوح کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اپنے آپ کو اس کشتی میں نہیں پاتے.ہم کیا کریں.ہمیں تو اس کتاب کے مطالعہ سے خوف آتا ہے کیونکہ بعض ایسی ایسی باریک باتیں اس میں بیان فرمائی گئی ہیں کہ اگر تم ایسا کرو گے تب بھی میری جماعت میں سے نہیں.اگر تم ویسا کرو گے تب بھی میری جماعت میں سے نہیں.تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمیں امن کے پیغام کی بجائے ہمارے دل سے ایک خوف کی آواز اٹھتی ہے اور ہمیں ڈراتی ہے کہ تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو جو اس کشتی میں سوار ہیں.ہے کہ ایسے خیالات صرف ایک دو کے دل میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ ہر وہ شخص جو ضمیر کی آواز پر کان دھرتا ہے، اس کے دل میں ایسے ہی خیالات پیدا ہوں گے.میں اپنے تجربے سے بھی اسی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ کتاب پڑھتے ہوئے بعض وقعہ انسان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ ابھی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے کا اہل نہیں ہوا.لیکن دوسری طرف ایک اور پہلو بھی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر

Page 422

419 چلنا خدا کی رضا کے بغیر ممکن نہیں ہے اور دعا ہی سے سہارا ملتا ہے اور جو شخص در بغیر دعاہی سہارا ملتا کے ذریعہ کشتی نوح میں داخل ہونے کی التجا کرتا رہے اس کا ہر قدم اس امن کی کشتی کی طرف اٹھتا رہے گا اور اس دوران جس قدم پر بھی اس کو موت آئے وہ امن کی حالت میں مرے گا.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے ہمارے سامنے خوب اچھی طرح کھول کر بیان فرما دیا ہے.ایک تمثیل میں آپ نے یہ بیان فرمایا کہ ایک شخص جس نے بہت گناہ کئے تھے اتنے گناہ کئے تھے اتنے گناہ کئے تھے کہ کوئی دنیا کا ایسا گناہ تصویر میں نہیں آسکتا تھا جو اس سے سرزد نہ ہوا ہو.وہ مختلف بزرگوں اور مختلف علماء کے دربار میں حاضر ہوتا رہا اور ان کے سامنے اپنی حالت زار بیان کر کے یہ کہتا رہا کہ اب میرا دل چاہتا ہے کہ میں تو بہ کر لوں کیا میرے لئے بھی کوئی توبہ کا دروازہ کھلا ہے.ہر عالم اور ہر ظاہری بزرگ نے اس کو یہی جواب دیا کہ تمہارے لئے توبہ کا کوئی دروازہ نہیں کھلا.تم نے اپنے اوپر توبہ کا ہر دروازہ بند کر لیا ہے.اس لئے تمہاری بخشش کا کوئی امکان باقی نہیں رہا.لیکن بالآخر اس کو کسی ایک بزرگ نے یہ مشورہ دیا کہ تم اگر فلاں شہر کی طرف چلے جاؤ وہ نیک لوگوں کا شہر ہے.صالحین کا شہر ہے.اس شہر میں جابسو اور بدشہروں کو چھوڑ دو تو ممکن ہے تمہاری نجات کا کوئی سامان ہو.اس نیت کے ساتھ وہ اس شہر کی طرف چل پڑا لیکن راستے میں بیماری نے آلیا اور ایسی حالت ہو گئی کہ اس کے لئے چلنا نا ممکن ہو گیا.چنانچہ اس حالت میں وہ لیٹے ہوئے کہنیوں کے بل گھٹتا ہوا اس شہر کی طرف آگے بڑھنے لگا اور ایسی حالت میں اس کو موت آگئی.ایسے وقت میں خدا تعالی کے فرشتے خدا کے حضور حاضر ہوئے اور اس شخص کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ ہم اسے کن لوگوں میں شمار کریں.اللہ تعالٰی نے جواب دیا کہ یہ بندہ توبہ کی نیت کر چکا تھا اور توبہ کا ایسا سماں تھا کہ جب اس کے بدن نے جواب دے دیا اور کوئی طاقت باقی نہ رہی تب بھی آخر دم تک گھٹتے ہوئے نیکیوں کے شہر کی طرف حرکت کرتا رہا.پس اس کے ساتھ یہ معاملہ کرو کہ فاصلہ نا ہو.اگر نیکوں کے شہر کی

Page 423

420 طرف کا فاصلہ کم نکلے تو اسے بخشے ہوئے لوگوں میں شمار کرو اور اگر بد لوگوں کے شہروں کا فاصلہ کم نکلے تو یہ سمجھو کہ اس کی بخشش کا سامان نہیں ہوا.تمثیل میں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ فرشتے جب فاصلے ناپنے لگے تو اللہ تعالی بد شہروں کی طرف کا فاصلہ لمبا کرتا چلا گیا اور نیک شہر کی طرف زمین کو سکیڑتا رہا.یہاں تک کہ آخری نتیجہ یہ نکلا کہ فرشتوں نے دیکھا کہ وہ شہر اس کے نزدیک تر ہے جس شہر میں یہ تو بہ کی نیت سے جا رہا تھا.پس ہمارے خدا کا اپنے بندوں سے ایسا معاملہ ہے.وہ غفور و رحیم ہے.اس سے مایوسی کفر اور گناہ ہے.پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارا قدم ہجرت میں نیکوں کی طرف ہو.دراصل اس تمثیل کا تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی الہ و سلم کی اس مشہور حدیث سے ہے کہ انما الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ ہر شخص کا عمل اس کی نیتوں کے مطابق طے پائے گا.اگر اس کی ہجرت خدا کی طرف ہو گی تو ایسا شخص خدا سے اجر پانے والا ہو گا.اگر اس کی ہجرت کسی عورت کی طرف یا مال کی طرف یا کسی دنیاوی غرض کی طرف ہو گی خواہ کہنے میں وہ کچھ کہتا رہے، اس کو وہی اجر ملے گا جو اس کی نیت ہے.پس نیتوں کا بہت گہرا تعلق سچی توبہ اور آخری نجات سے ہے.اس پہلو سے جب آپ یہ دعائیں کریں جو حضرت نوح کی دعا ئیں تھیں تو نوع کی کشتی میں بیٹھنے کا تصور بھی تو ساتھ پیدا ہونا چاہئے.ورنہ یہ دعائیں غیر مقبول ہوں گی اور بے معنی ہو جائیں گی.آپ دعا تو کریں گے کہ اے خدا! نوح نے جس طرح تجھے پکارا تھا ہم تجھے پکارتے ہیں.ہم بھی مغلوب ہو گئے ہیں.ہم بھی بے بس ہو چکے ہیں.ہماری قوم بھی اپنے مظلموں سے ہم پر غلبہ پا چکی ہے.ہماری نصرت فرما اور اس کے باوجود ہمارا قدم اس دور کے نوح کی بستی کی طرف اٹھنے والا نہ ہو یعنی نیک لوگوں کی طرف ہجرت کا قدم نہ ہو بلکہ بند شہروں کی طرف ہجرت کا قدم ہو تو یہ دعائیں بالکل بے کار جائیں گی.ان کے اندر کوئی اثر اور کوئی قوت نہیں ہوگی.پس دعاؤں کے مضمون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان جیسا بننے کی ا

Page 424

421 i کوشش کریں جن کی وہ دعائیں ہیں.حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السلام نے ہے گریه و زاری کے ساتھ پیغام پہنچانے میں حد کر دی تھی.کوئی ایک معمولی سایت بھی باقی نہ چھوڑا جس کے ذریعے آپ قوم تک نجات کا پیغام پہنچا سکتے تھے اور آپ نے نہ پہنچایا ہو.اس کا ذکر بعد میں ایک دعا میں آئے گا.سروست میں آپ کو اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ کشتی نوح کا مطالعہ کیا کریں اور آج کا نوح وہی نوح ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کی غلامی میں اس زمانے کو عطا ہوا ہے.آج کے نوح کی کشتی وہ کشتی ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تعلیمات میں ملتا ہے.پس اس کشتی میں بیٹھنے کی کوشش کرتے رہیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنی غفلتوں کی بخشش مانگتے رہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہمارا قدم اس طرف بڑھتا رہا تو خواہ ہم اس تک پہنچ سکیں یا نہ پہنچ سکیں خدا کی مغفرت ہمیں اپنی جھولی میں اٹھا لے گی اور خود اس کشتی تک پہنچا دے گی.قرآن کریم میں ایک اور دعا کا ذکر ہے جس کا تعلق مومنوں کے باہمی تعلقات سے ہے.انصار کی تعریف بیان فرمائی گئی کہ وہ کیسے اچھے لوگ تھے.کس طرح انہوں نے اپنے گھر مہاجرین کے لئے کھول دیئے اور اس کے بعد مومنوں کی ایک دعا یہ سکھائی گئی.والذين جاء ومِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ولإخوانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالايْمَانِ (الحشر : ( کہ وہ لوگ جو مہاجرین اور انصار کے بعد آئے وہ ان کے ذکر خیر سے متاثر ہونے کے بعد یہ دعا کیا کرتے تھے.والَّذِينَ جَارُ وَمِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلا عُوَانِنَا کہ اے ہمارے رب ہمیں بھی بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی بخش دے.الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالايْمَانِ وہ لوگ جو ایمان میں ہم سے ولا تجعل في قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا اور ہمارے سبقت لے گئے.دل میں کسی مومن کے لئے کبھی اور نفرت نہ پیدا ہونے دے.رَبَّنَا انَّكَ وَاوْفُ رحيم (الحشر : (1) اے ہمارے رب تو تو بہت ہی مہربان اور بہت ہی زحم

Page 425

422 سے پیش آنے والا ہے.اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ انصار اور مہاجرین جو خدا کی نظر میں بہت بڑے بڑے مرتبے پا گئے.آخری دور میں کچھ ایسے اختلافات میں ملوث ہوئے کہ جن کے نتیجہ میں مورخ کے لئے یہ سمجھنا بہت مشکل ہو گیا کہ کس نے کیا غلطی کی تھی اور کون کس حد تک حق پر تھا.ان عبث بحثوں میں مبتلا ہو کر مسلمان دو حصوں میں بٹ گئے.ایک وہ جو شیعان علی کہلاتے ہیں اور ایک وہ جو اہل سنت.اور چودہ سو سال ہونے کو آئے آجتک یہ ان بحثوں سے باز نہیں آ رہے کہ کون کس سے بہتر تھا.کس نے کیا گناہ کیا.کس سے کیا غفلتیں سرزد ہوئیں.مجھ سے ایک مرتبہ ایک شیعہ دوست نے سوال کیا کہ بتائیے حضرت علی درست تھے یا حضرت عائشہ درست تھیں.میں نے کہا جس نے بتانا ہے وہ تو اس کے دربار میں حاضر ہو چکے.میں کون ہوں بتانے والا اور آپ کون ہیں پوچھنے والے.جس خدا نے فیصلے فرماتے ہیں اس کے دربار میں خدا کے یہ نیک بندے حاضر ہو چکے ہیں.اپنا سب کچھ اس کو پیش کر بیٹھے ہیں.اس لئے ان لغو بحثوں میں مبتلا نہ ہوں.اس آیت کریمہ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام باقر کے سامنے جو ایک بہت بزرگ شیعہ امام تھے.اولین ائمہ میں سے تھے.کسی شیعہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کے بعض خلفاء اور صحابہ کے متعلق زبان دراز کی.غیرت سے آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور بہت ہی جلال کے ساتھ اس آیت کی تلاوت فرمائی.وَالَّذِينَ جَادُو مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا الْفِرْ لَنَا وَالِاخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْايْمَانِ کہ وہ لوگ جو ان بزرگوں کے بعد آنے والے ہیں وہ تو صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں بھی بخش دے اور ان کو بھی بخش دے.اگر ان سے کچھ غلطیاں سرور ہوئی ہیں تو ہماری التجا یہ ہے کہ ان کو معاف فرما دے اور ہم تو ہیں ہی گہنگار بندے.ہمیں بھی ضرور معاف فرما.یہ وہ بھائی ہیں جو ایمان میں ہم پر سبقت لے گئے تھے اور ان کے پہلے ایمان لانے کے نتیجہ میں ہم نے یہ فیض پایا ہے.اس لئے ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ان کے متعلق کسی قسم کا اور کوئی کلمہ کہیں.سوائے اس کے کہ تجھ سے ان کے لئے بخشش کے

Page 426

423 طالب ہوں.وَلا تَجْعَل في قُلُوبِنَا غِلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا اور ہمارے ولی ایسے بنا دے کہ ان میں کسی ایمان لانے والے کے لئے بھی کسی قسم کی کوئی کبھی نہ رہے.کوئی بیہودہ خیالات پیدا نہ ہوں.رَبِّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ اے خدا تو تو بہت ہی مہربان ہے.میں بھی مہربان بنا دے.تو تو بار بار رحم کرنے والا ہے.ہمیں بھی بار بار رحم کرنے والا بنا دے.پس مسلمان سوسائٹی کے لئے یہ دعا بہت ہی قیمتی دعا ہے.ایسی جماعتیں جہاں بعض دفعہ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ نفرتوں میں بدل جاتے ہیں اور وہ جماعتیں پھٹ جاتی ہیں.خصوصیت کے ساتھ ان کے لئے یہ دعا بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور شیعوں اور سینیوں سے گفتگو کے دوران بھی آپ کے پیش نظر یہ دعا رہنی چاہیے اور یہی مسلک ہے جو سب سے اچھا مسلک ہے.اس میں عاجزی اور انکسار پایا جاتا ہے اور معاملات کو خیر الفاتحین خدا کے سپرد کر دیا جاتا ہے.یہ دعا سورۃ الحشر آیت میں ہے.ایک دعا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام کی اور ان لوگوں کی دعا ہے جو آپ کے ساتھ تھے اور آپ کے اسوہ سے فیض پانے والے تھے.قرآن کریم فرماتا ہے.وہ لوگ مشرک نہیں تھے اور ہر قسم کے شرک سے بیزار تھے اور خالصہ اللہ وقف ہو چکے تھے.وہ خدا کے حضور یہ عرض کیا کرتے تھے.ربنا عليك توكحلت والَيْكَ انْتِنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (الممتحنه : (۵) اے خدا ہما را تمام تر توکل مجھ پر ہے.واليك انبنا اور ہم تیری ہی طرف جھکنے والے ہیں.واليك المصير اور تیری ہی طرف ہر راستہ جاتا ہے.تیری طرف جانے کے سوا ہم اور کوئی راہ نہیں پاتے- إليكَ الْمَصِيرُ ایک بہت ہی خوبصورت بیان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اور کسی طرف جا نہیں سکتے.لازما بالاخر وہاں پہنچتا ہے جیسے کہا جاتا ہے."All roads lead to Rome" یہ تو ایک فرضی محاورہ ہے.کہاں ساری سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کی طرف ساری سڑکیں جاتی ہیں.مومن کی بھی اور کافر کی بھی.

Page 427

424 بالآخر اسی کی طرف لوٹ کر جاتا ہے.تو وہ یہ عرض کرتے ہیں.عليك تو محلنا واليك انتِنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ اس دعا میں ایک بہت ہی گہرا پیغام ہے وہ یہ ہے کہ خدا کی طرف تو تم نے بہر حال لوٹ کر آتا ہے خواہ کافر بنو یا مومن بنو.نیک ہو یا بد ہو.آخر وہاں جائے بغیر چارہ نہیں ہے لیکن وہ لوگ جو از خود پہلے خدا کی طرف حرکت کرتے ہیں وہی ہیں جو مقبول ہوتے ہیں.وہی ہیں جو اس کو پالیتے ہیں.تو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام اور آپ کے غلاموں نے یہ دعا کی کہ اے خدا ہمارا تجھ پر توکل ہے.اور ہم تیری ہی طرف آ رہے ہیں اور جانتے ہیں کہ بالاخر تیری ہی طرف جاتا ہے.اس لئے جو لوگ طومی طور پر خدا کی طرف سفر اختیار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں اپنی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرماتا ہے اور طاقت بخشتا ہے کہ وہ بالاخر اس کو پالیں.پھر یہ دعا ہے.ربنا لا تجعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا واغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ الممتحند : (4) اے ہمارے رب ہمیں ان لوگوں کے لئے فتنہ نہ بنا جنہوں نے انکار کر دیا.فتنہ سے دو باتیں مراد ہیں.ایک یہ کہ ہم کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بنیں.ہم ایمان لے آئے.ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں.ہم تیری طرف آتے ہیں لیکن راہ میں ایسی ٹھوکریں نہ کھائیں کہ کوئی اور دیکھنے والا بھی ٹھوکر کھا جائے اور ہماری وجہ سے کسی ابتلا میں پڑ کردہ راہ راست کو کھو دے.یہ ایک بہت ہی اہم دعا ہے.ہر انسان کو اپنے اعمال کی اس طرح نگرانی بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے کہ میری وجہ سے کوئی انسان ٹھوکر میں مبتلا نہ ہو.حضرت عیسی علیہ الصلوۃ و السلام نے ایک مرتبہ اس مضمون کو یوں بیان فرمایا کہ ایک ایسا شخص جو کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے بہتر تھا کہ اس کی ماں نے اسے جنم نہ دیا ہوتا کیونکہ وہ شخص بھی پکڑا جاتا ہے.اس لئے دعا کے ذریعے اللہ تعالٰی سے مدد طلب کرتے رہنا چاہئے.امریکہ کے اس سفر کے دوران بارہا مجھ سے بعض دوستوں نے یہ ذکر کیا کہ پاکستان سے آنے والے اس طرح کرتے ہیں اور اس طرح کرتے ہیں اور ہمارے

Page 428

425 لئے وہ ٹھوکر کا موجب بن جاتے ہیں.ان کو تو میں یہ سمجھاتا ہوں کہ اسلام کسی ایک ملک کا اسلام نہیں ہے.اسلام تو تمام دنیا کا اسلام ہے.آپ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو اس لئے نہیں مانا کہ آپ کا تعلق ہندوستان سے تھا.آپ نے تو اس لئے ان کو جاتا ہے کہ آپ کا تعلق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم سے تھا.ایک ایسے رسول سے تعلق تھا جس کے متعلق قرآن شریف نے بیان فرمایا کہ لا شرقية ولا غربية (النور : (۳۶) ایسا نور ہے جو نہ مشرق کا ہے نہ مغرب کا ہے دونوں میں سانجھا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ رَحْمَةً لِلْعُلَمينَ (الانبياء : (۱۳۸) ہے.وہ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے.تو میں ان کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ آپ تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کو پانے کے دعویدار ہیں.پھر یہ جغرافیائی تفریقیں کیسی؟ پھر یہ خیال کیسا کہ فلاں شخص کو ہم سے بہتر ہونا چاہئے تھا.کیوں کسی کو ہم سے بہتر ہونا چاہئے؟ وہی بہتر ہے جو خدا کے نزدیک بہتر ہے.إن أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ القُكُمْ (الحجرات : ۱۴) رنگ و نسل کی تمیز ہمیشہ کے لئے مٹادی گئی ہے.تم میں سے وہی معزز ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے.اس لئے میں ان کو یہی کہتا رہا کہ آپ ان لوگوں پر رحم کریں جو پاکستان سے آتے ہیں اور آپ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سفیر بن کر آئے ہیں لیکن وہ احمدیت کی بجائے بعض اور بدیوں کے سفیر بن جاتے ہیں.آپ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے سفیر بن کر ان کو بچانے کی کوشش کریں نہ کہ ان کی وجہ سے خود ٹھوکر کھا جائیں.پس جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ٹھو کر کھاتے نہیں ان کا یہ عذر قبول نہیں ہو گا اور قرآن کریم یہ بات کھول کر بیان فرما چکا ہے کہ جب قیامت کے دن بعض لوگ جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے تو وہ یہ عذر پیش کریں گے کہ اے خدا ان بڑے لوگوں نے ہمیں گمراہ کیا.ان کی وجہ سے ہم نے ٹھوکر کھائی.اس کے جواب میں اللہ تعالٰی فرمائے گا.تم دونوں کے لئے جہنم ہے.ٹھو کر میں جتلا کرنے والوں کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جنہوں نے بعض لوگوں کے بد نمونے سے اثر قبول کر کے خود اپنی گمراہی کے سامان کئے.

Page 429

426 پس قرآن کریم کی تعلیم دو طرفہ ہے اور مکمل ہے اور متوازن ہے.لیکن یہ بیان کرنے کے باوجود ان احمدیوں کی ذمہ داری کو میں کم نہیں سمجھتا جنہوں نے لیے عرصہ تک پاکستان یا ہندوستان میں تربیت پائی.بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو صحابہ کی اولاد ہیں.بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کو خود دیکھا ہوا ہے اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے صحابہ کو دیکھے ہوئے لوگوں سے تربیت پائی ہے.وہ جب باقی دنیا میں جاتے ہیں تو طبعا انسانی فطرت ہے خواہ یہ دلیل مضبوط ہو یا نہ ہو کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ احمدیت کے سفیر آرہے ہیں اور ان کے نمونہ پر چل کر ہمیں نجات ملے گی.جب وہ غلط نمونے دیکھتے ہیں تو لازماً ان کو صدمہ پہنچتا ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے انعام یافتہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو تقویت دی جاتی ہے وہ ٹھوکر نہیں کھاتے لیکن کمزور پھر بھی ٹھوکر کھا جاتے ہیں.اس لئے یہ دعا بہت ہی ضروری ہے جو حضرت ابراہیم اور آپ کے صحابہ نے کی کہ رَبَّنَالَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لذِينَ كَفَرُوا اے خدا ہمیں ان لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ نینجا جنہوں نے کفر کیا یہاں تنذينَ كَفَرُوا کہہ کر اس بات کو کھول دیا کہ وہ لوگ بری الذمہ نہیں ہیں جو ٹھو کر کھا جاتے ہیں کیونکہ انکار ان کی فطرت میں ہے تبھی وہ ٹھوکر کھاتے ہیں.پہلے کفر کی حالت ان کے اندر موجود ہے.اگر وہ نہ ہوتی تو وہ ٹھو کر نہ کھاتے لیکن اس کے باوجود ہم اس بات میں ملوث نہیں ہونا چاہتے.ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ہماری وجہ سے کوئی ظالم ٹھو کر کھا جائے.دوسرا مضمون فتنہ کا یہ ہے کہ دشمن کو ہمیں عذاب میں جتلا کرنے کا موقعہ عطا نہ فرما.قرآن کریم ان معنوں میں بھی لفظ "فتنہ استعمال فرماتا ہے." الَّذِيْنَ فَتَلُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا (البروج : 1) وہ لوگ جنہوں نے مومنوں کو فتنے میں ڈالا اور پھر توبہ نہ کی.پس فتنہ دو طرفہ ہے.مومن کی طرف سے فتنہ یہ ہے کہ کوئی شخص ٹھوکر کھا جائے اور خدا کی راہ سے ہٹ جائے کافر کا فتنہ یہ ہے کہ زبردستی عذاب میں مبتلا کر کے کسی کو خدا کی راہ سے ہٹائے.نتیجہ فتنے کا ایک ہی ہے اگرچہ مختلف سمتوں سے مختلف شکلوں میں فتنہ ظاہر

Page 430

427 ہوتا ہے.مومن قلم اور تعدی کر کے فتنے کا موجب نہیں بنتا بلکہ اپنی نااہلی کی رانی سے یا غلطیوں کی وجہ سے فتنے کا موجب بن جاتا ہے.نتیجہ یہی ہے کہ کوئی دیکھئے والا خدا کی راہ سے دور ہو جاتا ہے.کافر اس قسم کے فتنے میں مومن کو مبتلا کرتا ہے کہ جسمانی عذاب دے کر اس کو خدا کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے.پس آج کے دور میں یہ دعا دنیا کے ہر حصے میں برابر اطلاق پا رہی ہے.کچھ ایسی جگہیں ہیں جہاں غیروں کو احمدیوں کی طرف سے فتنہ در پیش ہے.ان کی بد اعمالیوں یا کمزوریوں کی وجہ سے غیر فتنے میں مبتلا ہو سکتے ہیں.بعض ایسے ملک ہیں جہاں احمدیوں کو غیروں کی طرف سے اذیت اور عذاب کا فتنہ در پیش ہے.پس دونوں لحاظ سے یہ دعا ایک عالمگیر دعا ہے اور ہر جگہ اپنے اپنے مضمون کے مطابق اثر دکھائے گی.پس میں چاہتا ہوں کہ احمدی خصوصیت کے ساتھ اس دعا کے ذریعے اللہ تعالٰی سے مدد مانگتے رہیں پھر یہ عرض کی گئی واغفر لنا ربنا ! اے خدا ہمیں بخش انَّكَ انك انت الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يقيناً تو بہت ہی عزت والی طاقت رکھتا ہے.لفظ "عزیز" سمجھنے کے لائق لفظ ہے.اس میں طاقت بھی ہے اور عزت بھی ہے.جبر نہیں ہے بلکہ ایسی طاقت ہے جس کے نتیجہ میں طاقتور معزز ہوتا ہے اور طاقت کا بے محل استعمال نہیں کرتا اور لازماً غالب آتا ہے.پس عزیز کا ترجمہ محض غالب یا طاقت والا کرنا درست نہیں بلکہ یہ معنے ہیں کہ اے وہ طاقتور ہستی جس کی طاقت میں عزت و احترام شامل ہے اور "الحکیم " تو حکمتوں والا خدا ہے.ہمیں بھی عزت والی طاقت عطا فرما اور ہمیں بھی حکمتیں عطا فرما.دے ایک دعا ہے جس کا ذکر تو بہ النصوح کرنے والوں کے ذکر کے بعد آتا ہے یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ جو خدا کے حضور سچی توبہ کرتے ہیں ان کو اللہ تعالی ایک نور عطا فرماتا ہے اور وہ نور ان کے آگے بھی بھاگتا ہے ان کے پیچھے بھی ہوتا ہے اور ان کو ہر طرف سے گھیر لیتا ہے فرمایا.يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُو هُوَ لالَ اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَلَى رَبِّكُمْ أَن يُكْفَرَ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ ويُدْخِلَكُم مني تجري من تحتها الأنهرُهُ يَوْمَ لا يُغْرَى اللَّهُ النَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا

Page 431

428 معَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِايْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التحريم : 9) اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو سچی تو بہ کرو اور کامل توبہ کرو.ممکن ہے کہ خدا اس کے نتیجہ میں تمہاری بدیاں تم سے دور فرمادے.وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهرُ اور تمہیں ایسے باغات میں داخل فرمائے جن میں دائمی نہریں بہتی ہیں.يَوْمَ لا يُخْذِى اللَّهُ النَّبِيِّ یاد رکھو ایک ایسا دن آنے والا ہے جبکہ خدا کا نبی ذلیل نہیں کیا جائے گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہر عزت بخشی جائے گی کیونکہ دنیا اس نبی کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتی ہے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ وہ ذلیل نہیں کیا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر کوشش کو ناکام اور نا مراد بنا دیا جائے گا اور ہر عزت اس مقدس نبی کے حصے میں آئے گی فرمایا.لا يُغْزِي اللَّهُ النَّبِيِّ وَالَّذِينَ امنوا معه اور یہی سلوک ان لوگوں سے بھی کیا جائے گا جو اس کے ساتھ ایمان لانے والے ہیں.نُورُهُمْ يَسَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ان کا نور ان کے سامنے ان کے آگے آگے دوڑے گا.وہایمانهمْ اور ان کے داہنے ہاتھ بھی.يَقُولُونَ رَبَّنَا اتْمِعْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا وہ یہ عرض کریں گئے کہ اے ہمارے رب ہمارا نور ہمارے لئے کامل فرما دے اور ہمیں بخش دے.اِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے.یہاں نور کے سامنے بھاگنے کا اور دائیں طرف بھاگنے کا ذکر ہے.تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کے بائیں طرف نور نہیں ہو گا اور ان کے پیچھے نور نہیں ہو گا یہ اس محاورے کا مطلب نہیں.سامنے بھاگنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے رہتے روشن ہوں گے.انہیں معلوم ہو گا کہ ہم نے کیا کرنا ہے اور دائیں طرف کے نور کا مطلب یہ ہے کہ ان کا دین روشن ہو گا اور دین کے معاملات میں غلطیوں سے میرا ہوں گے کیونکہ سامنے تو انسان رستہ دیکھنے کے لئے نور کا محتاج ہوا کرتا ہے.آپ ٹارچ لے کر جب اندھیرے میں چلتے ہیں تو ٹارچ کا منہ پیچھے کی طرف کر کے تو آگے نہیں بڑھتے.پس اس میں ایسی کیفیت بیان ہو گئی جس سے مراد یہ ہے کہ وہ ہمیشہ

Page 432

429 ترقی کرنے والے لوگ ہوں گے اور یہ جو محاورہ ہے نُورُهُمْ يسعى بين ايديهم اس نے ایک بہت ہی خوبصورت منظر کھینچا ہے.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم اور آپ کے غلاموں کی تیز رفتاری کا.جتنا تیز یہ آگے قدم بڑھائیں گے اتنا ہی اور تیزی سے آگے آگے بڑھے گا.جس طرح بعض دفعہ ایک پائلٹ اس لئے زیادہ تیز آگے بڑھتا ہے کہ پیچھے آنے والا تیز رفتار ہے.ویسا ہی نقشہ نور کا کھینچا گیا ہے کہ وہ ایسی تیزی کے ساتھ خدا کی جانب قدم بڑھانے والے ہیں کہ نور کو جلدی ہو گی کہ میں کہیں پیچھے نہ رہ جاؤں اور وہ ان کے رستے روشن کرتا چلا جائے گا.اور پایمانیہ کا مطلب ہے کہ ان کا دایاں پہلو یعنی دین پوری طرح روشن ہو گا یعنی دنیا میں اگر وہ غلطیاں بھی کر جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں.بعض باتوں میں دنیا کے لحاظ سے وہ لا علم بھی ہو سکتے ہیں لیکن اس سے ان کی روحانی شخصیت پر کوئی بداثر نہیں پڑے گا اور پھر وہ یہ دعا کریں گے.دینا انید تقا نورتا اسے خدا ہمارا نور کامل فرما دے.جس کا مطلب یہ ہے کہ نور کسی ایسی حالت کا نام نہیں ہے جہاں روشنی مکمل ہو جائے.میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا.روشنی درجہ بدرجہ بڑھتی رہتی ہے اور درجہ بدرجہ کم بھی ہوتی رہتی ہے.یہ روشن جس میں ہم اب بیٹھے ہوئے ہیں، نام سمجھ رہے ہیں کہ بہت ہی اچھی روشنی ہے.دور تک ہر چیز ہمیں صاف دکھائی دے رہی ہے لیکن باہر کی دھوپ میں نکل کر دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ روشنی کچھ اور ہی روشنی ہے اور اسی زمانے میں اسی دن آپ کسی سخت گرم ملک کی دھوپ میں جا کر نکل کر دیکھیں تو اتنی تیز روشنی ہوگی کہ آنکھیں نہیں کھلیں گی.تو روشنی اپنی کیفیت کے لحاظ سے بدلتی رہتی ہے.انهم لنا نور کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا نور بڑھاتا چلا جا.دوسرے نورتا کہہ کر ایک اور اشارہ فرما دیا گیا.ہر شخص کے اندر اللہ تعالٰی نے اندرونی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں اور دراصل وہی ہیں جن سے وہ نور پاتا ہے.آنکھوں کا تعلق نور سے ہے.جس کی آنکھیں زیادہ روشن ہوں اتنا ہی زیادہ وہ بیرونی نور سے استفادہ کر سکتی ہیں.اگر آنکھوں میں روشنائی نہ ہو تو خواہ ہزار سورج چمک رہے ہوں ایسے شخص کو

Page 433

430 کچھ دکھائی نہیں دے گا.پس اللہ تعالی یہ دعا سکھا کر بہت عظیم احسان ہم پر فرماتا ہے.اس طرح متوجہ کرتا ہے کہ تم میرے نور کے اگر محتاج ہو اور واقعی مجھ سے مزید نور چاہتے ہو تو اپنے باطن کا نور بڑھاؤ اور خدا سے یہ دعا کرو کہ اے خدا ہمارا نور کامل فرما دے ہمارے اندر بہت سی ایسی کمزوریاں ہیں کہ ہم تیرے نور سے پوری طرح استفاده نہیں کر سکتے ان کمزوریوں کو دور فرماتا رہ تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ نور کے اہل بن سکیں.واغفر لنا کا مضمون ان معنوں میں اس مضمون سے تعلق رکھتا ہے کہ ہماری صلاحیتیں جو تو نے ہمیں بخشی ہیں ہو سکتا ہے ہم نے ان کا غلط استعمال کیا ہو اور اس وجہ سے ان کے اندر پوری طرح دیکھنے کی طاقت نہ رہی ہو اس لئے ہم بخشش کے طالب ہیں.اگر کچھ گناہ سرزد ہوئے ہیں.کچھ غلطیاں ہوتی ہیں تو تو در گزر فرما اور بخش دے تاکہ ہماری خوابیدہ صلاحیتیں جاگ اٹھیں.ہماری مرتی ہوئی صلاحیتوں میں نئی زندگی پیدا ہو جائے.إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير تو ہر چیز پر قادر ہے.جب چاہے یہ فیصلہ کرے کہ کس کی مرتی ہوئی صلاحیتیں زندہ ہوں.تو اس بات پر قادر ہے کہ انہیں زندہ کر سکے لیکن دنیا میں ہم ہر چیز پر قادر نہیں ہیں.اب نور کی بات ہو رہی ہے.ڈاکٹر کے پاس اگر کوئی شخص آنکھیں دکھانے کے لئے جائے اور ڈاکٹر یہ معلوم کرے کہ اس کا اندرونی نور مر چکا ہے.یعنی وہ رگ یا NERVE جسے OPTICAL NERVE کہا جاتا ہے.اس میں نور نہیں رہا تو ڈاکٹر ہمیشہ عاجزی سے یہ کہے گا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا.ہمارے بس کی بات نہیں اور یہ بتائے گا کہ جو رگیں مر جائیں، جو NERVES مر چکی ہوں ان کو کوئی انسان دوبارہ زندہ نہیں کر سکتا تو اِنَّكَ عَلى كل شيء قدیر نے ایک نئی امید پیدا کر دی.ہمیں یہ بتایا کہ دنیا کے تجربے میں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ اندرونی صلاحیتیں مر چکی ہوں تو دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتیں مگر اے خدا تو تو قادر ہے.تو چاہے تو مرے ہوؤں کو بھی زندہ کر سکتا ہے.پس ہم تجھ سے ہر چیز مانگتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ تو ہر چیز عطا کرنے کی قدرت رکھتا ہے.

Page 434

431 کیا کہ ایک دعا فرعون کی بیوی کی دعا قرآن کریم نے محفوظ فرمائی ہے.وہ یہ ہے ضَرَبَ الله مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتٌ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بيتان الجنة ونجنِي مِنْ فِيْمَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (التحريم : ١٢) اور اللہ تعالٰی نے مومن بندوں کے لئے ایک یہ بھی مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ بعض پہلوؤں سے فرعون کی بیوی کی طرح ہوتے ہیں.کس پہلو سے؟ اس پہلو سے کہ جب اس نے اپنے آپ کو مجبور اور مغلوب دیکھ کر اور ایک فاسق و فاجر بادشاہ کے ہاتھوں بے بس پاتے ہوئے یہ عرض رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا اے خدا مجھے تو اپنے پاس گھر عطا کر.یہاں فرعون کے گھر میں بسنے والی ایک مجبور عورت ہے.اس کا اور کوئی اپنا گھر نہیں.کتنی درد ناک دعا ہے.اس نے اپنے سارے دکھوں کا تصور کر کے کہ میں خدا کی عبادت کرنا چاہتی ہوں.میں نیک بننا چاہتی ہوں مگر ایک ظالم کے گھر میں ڈالی گئی ہوں جو ایسا ظالم ہے جو بڑی عظیم الشان سلطنت پر حکومت کر رہا ہے اور ساری قوم اس سے ڈر رہی ہے اس کے گھر سے نکل کر جاؤں بھی تو کہاں جاؤں.اس لئے دنیا کا کوئی گھر مجھے پناہ نہیں دے سکتا.یہ مضمون ہے.عرض کرتی ہیں.ربِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْنا فِي الْجَنَّةِ اے خدا مجھے تو اپنے پاس جنت میں گھر بتا دے.ونجني مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ مجھے فرعون سے بھی نجات بخش اور اس کی بد اعمالیوں سے بھی نجات بخش.وَنَحْنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ مجھے ظالموں کی قوم سے نجات عطا فرما.پس مومنوں پر بھی ایسی کیفیت آتی ہے کہ وہ بے بس ہو جاتے ہیں.ایک ایسے ملک میں بستے ہیں جہاں کا بادشاہ ظالم ہے.جہاں کی قوم ظالم ہے.وہ وہاں سے نکل کر کہیں جا نہیں سکتے.جو نکل کر جا سکتے ہیں وہ تو ہجرت کر جاتے ہیں مگر ایسے بھی کمزور ہیں جیسے فرعون کی بیوی ہے.وہ نہ گھر سے نکل سکتی ہے نہ ملک سے نکل سکتی ہے.ایسے بے بس بھی ہیں ان کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے دیکھیں کیسے نجات کے اور

Page 435

432 سامان مہیا فرما دیئے.قرآن کریم میں ایک ایسی درد ناک دعا لکھ دی جس کے نتیجہ میں ایسے بے بس لوگ بھی فیض پا جاتے ہیں اور براہ راست خدا سے نجات کی راہیں مانگتے ہیں اور یہ عرض کرتے ہیں کہ اس دنیا کے گھر کی کیا بات ہے ہمیں جنت میں اپنے حضور گھر عطا فرما.حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السلام کی ایک اور دعا ہے جو بہت ہی درد ناک ہے اور اس میں بہت تفصیل کے ساتھ یہ نقشے کھینچے گئے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے لئے کیا کیا کچھ کیا.بعض لوگ پیغام پہنچانے کے بعد جب دیکھتے ہیں کہ پیغام کو قبول نہیں کیا گیا یا ان سے حقارت کا سلوک کیا گیا تو بد دعا میں بے حد بے مبری کرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اچھا اس نے ہماری بات نہیں مانی رد کر دی ہے اب دیکھو خدا کا عذاب اسے پکڑے گا.یہ بالکل جاہلانہ اور بچگانہ باتیں ہیں اور غیر مومنانہ باتیں ہیں.خدا کے انبیاء کی طرز اس سے بالکل مختلف ہے.وہ پیغام رسانی کی حد کر دیتے ہیں.اس طرح پیغام پہنچاتے ہیں کہ عام انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور پھر بظا ہر ناکام و نامراد ہونے کے باوجود وہ خدا سے عذاب نہیں چاہتے.یہاں تک کہ اللہ تعالٰی خود ان کو جتائے کہ کسی قوم کا کیا انجام ہونے والا ہے.اب دیکھیں حضرت نوح نے کس طرح دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا تھا.امریکہ میں بار بار مجھ سے یہ کہا گیا کہ ہم نے تو دعوت الی اللہ کا حق ادا کیا.لوگ سنتے ہی نہیں.مگر کیا آپ نے اس طرح کیا جس طرح حضرت نوح بیان کر رہے ہیں.قال رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَ نَهَارًا عرض کیا اے میرے رب میں نے تو اپنی قوم کو دن کو بھی پکارا اور رات کو بھی پکارا.فلم يزدهم دعاء في الافرارا.اور میری پکارنے ان کو مجھ سے متنفر ہونے کے سوا اور کچھ نہ دیا.وہ مجھ سے اور زیادہ بھاگنے لگے.وإني كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا آمَا بعهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَاسْتَخْشَواثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتَكْبَارًا - اے میرے خدا جب بھی میں نے ان کو بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے.اپنی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ تیری بخشش حاصل کریں.

Page 436

433 جعلوا ا صَابِعَهُمْنِ أَذَانِهِمْ انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیاں دیں.واسْتَغْشَواثِيَابَهُمْ اور اپنے سروں پر اور اپنے کانوں پر کپڑے لپیٹ لئے.وا صَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا.اور انہوں نے ضد کی کہ ہم ہرگز نہیں مائیں گے اور بہت بڑے تکبر سے کام لیا.لیکن اس کے باوجود میں ان سے مایوس نہیں ہوا.میں انہیں تیری راہوں کی طرف بلاتا رہا.جس جس طرح مجھے خیال گزرا که شاید اس طرح یہ لوگ مان جائیں.میں ویسے ہی طریق اختیار کرتا چلا گیا.یہ سننے کے بعد انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ اب اس کے بعد کوئی دعوت کی راہ باقی رہی ہوگی.آپ کے ساتھ کوئی ایسا سلوک کرے کہ کانوں میں انگلیاں ڈالے.سر اور منہ پر کپڑے لیٹے اور بار بار ضد اور تکبر سے کہے کہ جاؤ جو کرنا ہے کر لو میں ہرگز تمہاری بات نہیں سنوں گا تو آپ کہیں گے ہر راہ ختم ہو گئی ہے مگر حضرت نوح" اس ذکر کو جاری رکھتے ہیں کہتے ہیں.ت اني دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا - پھر مجھے خیال آیا کہ بعض دفعہ کھلے کھلے اعلانوں سے بعض لوگ سن لیتے ہیں.مخفی باتوں سے نہیں سنتے تو میں نے بازاروں میں نکل کر بلند آواز سے لوگوں کو بلانا شروع کیا.پھر میں نے خوب کھول کھول کر اور اعلان کر کر کے ثُمَّ إني أعْلَنْتُ لَهُمْ اور میں نے مخفی طور پر اشاروں وا سررت لهم إشرارًا - ان کو بلایا.کنایوں سے بھی ان کو پکارا کہ آؤ خدا کی طرف آجاؤ.فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إنه كان غفارا اور میں ان کو بتاتا چلا گیا کہ تمہارا رب بہت ہی مہربان ہے.بہت ہی بخشش کرنے والا ہے.اس سے بخشش مانگو تاکہ تم بخشے جاؤ.تیزول السَّمَاء عَلَيْكُمْ مُدْرَارًا - وہ تم پر نعمتوں کی بارشیں برساوے گا.: اور وہ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلَ لَكُمْ آنهرًا - تمہارے لئے تمہارے اموال میں برکت دے گا اور تمہاری اولادوں میں برکت دے گا اور تمہیں وہ ہمیشگی کے باغات عطا فرمائے گا.وَيَجْعَل لكم انهوا - اور تمہارے لئے نہریں جاری فرمائے گا.مَا لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلهِ وَقَارًا - تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم خدا کی طرف حکمت کی باتیں منسوب نہیں کر رہے..}

Page 437

434 ولد خلقكم اطوارا اور میں نے ان کو ان کا ماضی یاد دلایا اور ان کو بتایا کہ دیکھو خدا نے تمہیں اس مقام تک پہنچانے سے پہلے کن کن ادوار سے گزارا.کیسے کیسے طبقات سے گزرتے ہوئے تم ترقی کرتے آخر انسان کے مقام تک پہنچے ہو.الم تروا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمُوتٍ طباعاً.پھر انسانی زندگی سے پہلے کی طرف نگاہ ڈالو.کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے زمین و آسمان کو کس طرح طبقه به طبقہ دور به دور پیدا فرمایا.وجَعَل القَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا.اور اس نے آسمانوں میں چاند کے لئے نور رکھ دیا جو ٹھنڈی چاندنی تمہارے لئے لے کر آتا ہے وَجَعَل الشَّمْسَ سِرَاجًا اور تمہارے لئے چمکتا ہوا سورج بنایا.والله البتكُم مِّنَ الْأَرْضِ تَبَاتًا اور اللہ تعالی نے نباتات کی طرح تمہیں زمین سے اٹھایا ہے اور تمہاری رفتہ رفتہ پرورش فرمائی ہے.تقَيُعِيدُ كُوفِيهَا وَيُخْرِجُكُفر الراجا ، لیکن یاد رکھو کہ بالآخر تم اسی مٹی میں ملا دیئے جاؤ گے اور اسی مٹی سے ایک دن نکالے جاؤ گے.والله جعل لكم الأرض بِسَاطًا اور تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے کچھونے کی طرح بچھا دیا ہے.لِتَسْلُعُوا مِنْهَا سُبُلًا نِيَاجًا زمین پر کھلے کھلے رستوں پر قدم آگے بڑھاؤ.قَالَ نُوْحُ رَّةٍ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي والبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلا خَسَارًا اے میرے خدا یہ سب کچھ کرنے کے باوجود انهُمْ عَصَونِي یہ پھر بھی میرا انکار کرتے چلے جا رہے ہیں.تاکہ تم اس واتَّبَعُوا اور اس کی پیروی کرتے ہیں مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَا لَهُ وَوَلَدُة ظالموں کی پیروی انہوں نے کی ہے جن کو ان کے مال نے اور ان کی اولاد نے کھائے کے سوا کچھ نہیں دیا.یعنی ایسے دنیا والے امیروں کی پیروی کرتے ہیں.ایسی طاقتور قوموں کے پیچھے لگ گئے ہیں جن کے متعلق یہ دیکھ رہے ہیں کہ آخر ان کا قدم گھاٹے کی طرف اور نقصان کی طرف ہے.ومكروا مكوا كبارا اور میری نیکیوں کے جواب میں یہ اپنے مکر میں بڑھتے چلے گئے.یہاں تک کہ بہت بڑے بڑے مگر میرے خلاف استعمال کئے.وَقَالُوا لا تذرت الهتكم

Page 438

435 ولا تذرن ودا ولا سواعًا وَلَا يَغُوتُ وَيَعُوْق وَنَسْرًا.اور ان کے لیڈروں نے ان میں بار بار اعلان کئے کہ ہرگز تم نے اپنے معبودوں کو نہیں پھر کیا.نہ تم وُڈ کو چھوڑو گے نہ سواع کو چھوڑو گے نہ یغوث کو چھوڑو گے نہ نسر کو چھوڑو وقد اضلُوا گھیرا اور انہوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے.ولا تزر الظلمين الاضللا اور تو نہیں بڑھاتا ان لوگوں کو جو گمراہ ہو گئے.ہیں مگر گمراہی میں ہی یعنی تیری تقدیر اس طرح کار فرما ہوتی ہے کہ جو لوگ گمراہی میں بڑھنے پر ضد کرتے ہیں تو ان کو پھر موقعہ دیتا ہے کہ وہ گمراہی میں آگے بڑھتے چلے جائیں.ممَّا خَطِيْتِهِمْ أَخْرِقُوا فَأَدْخِلُوا نَارًا فَلَمْ يَهِدُ وَالهُمْ مِن دُونِ اللَّهِ انْصارَا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس ان کی خلیات کی وجہ سے بے شمار گناہوں کی وجہ سے وہ آگ میں داخل کئے گئے.فَلَمْ يَجِدُ والهُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ اور خدا کے سوا ان کو کوئی مددگار پھر نظر نہ آیا.یعنی کوئی مددگار انصارا ان کے کام آ نہیں سکتا تھا.وقال نُوْحُ رَّتٍ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِن الكفرين ديارا تب نوح نے کہا اے خدا اب کافروں میں سے اس زمین پر کوئی باقی نہ چھوڑ.یہ جو دعا ہے یہ سب کچھ کرنے کے بعد کی دعا ہے.اس سے پہلے کی نہیں ہے.اور اس کی وجہ بیان کی گئی ہے.اندان تُذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا اب اس قوم کی حالت ایسی ہو چکی ہے کہ اگر ان کو زمین پر تو باقی چھوڑے گا تو یہ سوائے گمراہی پھیلانے کے، سوائے بدیاں پھیلانے کے اور کوئی کام نہیں کریں گے اور ایسے بچے جنیں گے جو گمراہی میں بڑھتے چلے جائیں گے.رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَي اے میرے رب میری بھی بخشش فرما میرے والدین سے بھی بخشش کا سلوک فرما.وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِي مؤمنا اور ہر اس شخص کو بھی بخش دے جو میرے گھر میں ایمان لاتے ہوئے داخل ہو.وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ سب مومنوں کو بخش اور سب مومنات کو بخش.وَلَا تَزِدِ الظَّلِمِينَ الاتَبَارًا.اور دشمنوں کو سوائے

Page 439

436 ہلاکت کے اور کچھ نصیب نہ ہو..یہ وہ دعا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے پھر وہ مشہور بارش برسائی اور زمین نے اپنے چٹے اگلے یہاں تک کہ طوفان نوح آیا.وہ عظیم سیلاب جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.مگر میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ قرآن سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ سیلاب ساری دنیا میں نہیں آیا بلکہ صرف نوح کی قوم پر آیا ہے جو کہ ایک محدود علاقہ میں بہتی تھی اور صرف وہی لوگ ہلاک کئے گئے جن کا ذکر ان آیات میں ملتا ہے جن کو حضرت نوح نے کامل طور پر پیغام پہنچا دیا تھا اور اس پیغام کو ہر طرح سے ہر پہلو سے سننے اور سمجھنے کے باوجود انہوں نے حضرت نوح کا انکار کیا.یہاں ایک خاص مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے.لوگ یہ کہتے ہیں کہ قانون قدرت بارشیں برساتا ہے اور قانون قدرت ہی ہے جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ زمین سے چٹے اہلنے لگتے ہیں تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ عذاب الہی ہے اور کیا خدا تعالیٰ اپنے قانون کو تبدیل کر کے خصوصیت کے ساتھ نئے قانون جاری فرماتا ہے.حضرت نوح کی اس تبلیغ میں اس مسئلے کا حل ملتا ہے.حضرت نوح نے یہ کہا.نزول السَّمَاءِ عَلَيْكُمْ مُذرا ڈا کہ تم پر خدا کثرت سے بارشیں نازل فرمائے گا.یعنی بارشوں کا نازل ہونا معلوم ہوتا ہے مقدر تھا اور غیر معمولی طور پر بارشوں کا اس علاقے میں برسنا پہلے سے ہی مقدر ہو چکا تھا اور اس کی تیاریاں ہو چکی تھیں لیکن ساتھ ہی بتایا کہ یہ بارشیں ہلاکت کی نہیں ہوں گی.قانون قدرت تو ہے مگر اللہ تعالیٰ جس طرح چاہے قانون قدرت کو استعمال فرماتا ہے.وہ بارشیں نازل فرمائے گا کس لئے ؟ يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وہ بارشیں تمہارے لئے کثرت اموال کا موجب بنیں گی اور کثرت اولاد کا موجب بنیں گی اور تمہارے لئے ہمیشہ کی جاری رہنے والی نہریں پیچھے چھوڑ جائیں گی.پس قانون قدرت کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے یہ سوال ہے.بارشوں نے تو آنا تھا وہ تو پہلے سے ہی بخارات کی صورت میں اٹھ کر کہیں اکٹھی ہو چکی تھیں لیکن کسی طرح برسیں گی اکٹھی برسیں گی یا ٹھہر ٹھر

Page 440

437 کر برسیں گی.فائدہ پیچھے چھوڑ کر جائیں گی یا نقصان پیچھے چھوڑ کر جائیں گی.یہ فیصلے انسان کے اعمال نے کرنے تھے.پس ایسا ہی ہوا.دیکھیں بارشیں آئیں لیکن اور رنگ میں آئیں.بجائے فائدہ پہنچانے کے ہمیشہ کے لئے اس قوم کا نہ کا نشان مٹا گئیں.no یہ دعا سورۃ نوح آیات ۶ تا ۲۹ سے لی گئی ہے.یعنی ان آیات میں وہ سارا مضمون بھی بیان ہے اور دعا بھی اس میں شامل ہے.اب میں آخری دو دعاؤں کا ذکر کرتا ہوں جو معوذتین کے نام سے مشہور ہیں اور جن میں ڈالی آموڈ پریت کہہ کر ہمیں بعض دعائیں سکھائی گئی ہیں.فرمایا.قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو یہ کہہ اور کہتا چلا جا اور جو سنے وہ بھی آگے یہ پیغام دیتا چلا جائے کہ تم اپنے رب سے یہ کہا کرو.اعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہ ہم اس رب کی پناہ میں آتے ہیں جو تخلیق کا رب ہے.جو راتوں کو صبحوں میں تبدیل کرتا ہے اور صبحوں کو راتوں میں بدلتا ہے.جس کی طاقت سے یا جس کی تقدیر سے نئی نئی چیزیں پھوٹتی ہیں.گٹھلیاں پھٹتی ہیں اور ان سے کونپلیں نکلتی ہیں جو درخت بن جاتی ہیں.بیج پھوٹتے نہیں اور طرح طرح کی سبزیاں اور پودے پیدا کرتے ہیں.اس سارے نظام کو فلق کا نظام کہا جاتا ہے.ایک عورت حاملہ ہوتی ہے اور ایک بچے کو پیدا کرتی ہے.پس کائنات میں جہاں بھی ایک چیز اپنی کیفیت بدل کر ایک دوسرے روپ میں تبدیل ہوتی ہے اس نظام کو نظام فلق کہا جاتا ہے تو دعا یہ سکھائی گئی کہ آعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ تو کہ خود بھی کہہ اور لوگوں سے بھی کہہ اور لوگ آگے لوگوں کو کہتے چلے جائیں کہ وہ خدا سے یہ عرض کیا کریں کہ اے خدا ہم رب فلق کی پناہ چاہتے ہیں یعنی تیری پناہ چاہتے ہیں.جس نے یہ نظام پیدا فرمایا ہے.مِن شَرِّ مَا خَلَق ہر تخلیق کے ساتھ کچھ شر وابستہ ہیں.ہمیں ہر تخلیق کی خیر تو عطا فرما لیکن ہر تخلیق کے شر سے بچا لے.اب آپ دیکھیں بعض عورتیں بیچاری حاملہ ہوتی ہیں.نو مہینے تکلیف اٹھاتی ہیں لیکن بچہ پیدا کرتی ہیں اور اسی حالت میں وفات پا جاتی ہیں اور اپنے بچے کا منہ دیکھنا بھی ان

Page 441

438 کو نصیب نہیں ہوتا.بعض ایسے بچے پیدا کرتی ہیں جو ساری عمران کے لئے سوہا روح بن جاتے ہیں.عذاب کا موجب بن جاتے ہیں ان کو سنبھالنے میں بہت و اٹھاتی ہیں.ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ از خود نہ وہ کھا سکتے ہیں نہ چل سکتے ہیں سنبھل سکتے ہیں.پس تخلیق کے ساتھ جہاں بہت سی خیر وابستہ ہے اور یاد رکھیں.خیر غالب ہے وہاں کچھ طبعی شر بھی ہیں.پس یہ ایک بہت ہی اہم دعا ہے جسے ہمیں ہر ایسی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے خدا کے حضور مانگتے رہنا چاہئے جس میں ایک کیفیت دوسری کیفیت میں بدلتی ہے.وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اندھیروں کے اس شر سے ہمیں بچا جبکہ ہر طرف فتنے اور شرارتیں پھیل جاتی ہیں.وَمِن شَرِّ النَّفْتِ فِي الْعُقَدِ اور ان پھونکنے والوں کے شر سے بچاج رشتوں میں پھونکتے ہیں.تعلقات میں پھونکتے ہیں اور بدنیتوں کے ساتھ کوششر کرتے ہیں کہ انسانی تعلقات کو خراب کر دیں اور ان میں دشمنیاں اور نفرتیں پیدا کریں.اس دعا کی گھریلو حالات کو سدھارنے کے لئے بھی بہت شدید ضرورت ہے.آج تک بارہا میں نے توجہ دلائی ہے کہ اپنے گھروں میں رحمی رشتوں کا خیال کریں اور اپنے تعلقات کو سدہاریں لیکن اس کے باوجود کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ ایسی تکلیف دہ خبریں یا ساسوں کی طرف سے یا بہوؤں کی طرف سے یا ماؤں کی طرف سے یا بیٹیوں کی طرف یا بیٹوں کی طرف سے نہ آتی ہوں.جہاں ایک دوسرے سے شکوے کئے گئے ہیں بعض بیویاں اپنے خاوندوں کے شکوے کرتی ہیں.بعض بچے اپنے باپوں کے شکوے کرتے ہیں کہ سخت کلام میں بد تمیز ہیں.ہر وقت گھر میں ایک عذاب بنا ہوا ہے.تعلقات کو توڑنے والے ہیں بجائے جوڑنے کے.اور اس کے نتیجہ میں شر پیدا ہوتا ہے.اس کے نتیجہ میں گھر جنتوں کی بجائے جہنم میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالٰی نے یہ دعا سکھائی کہ ہر ایسے پھونکنے والے کے شرسے ہمیں بچا جس کے نتیجہ میں تعلقات خراب ہوتے ہیں اور یہاں پھونکنے والوں سے مراد جادو ٹونے ٹوٹکے کرنے والے بھی ہیں.مطلب یہ ہے کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ کی طرح ان کے دم سے ان کے بدن سے دوسرے کے حالات بگڑ جائیں.افریقہ

Page 442

439 میں آج تک یہ رواج پایا جاتا ہے اور بہت سے احمدی مجھے افریقہ سے لکھتے ہیں کہ ہم کس طرح بچیں.ان کا جواب ۱۴۰۰ سال پہلے قرآن کریم نے دے دیا ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ ضرور ان کے بد نفوس میں اثر ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان بد نفوس کے ساتھ وہ شرارتیں بھی کرتے ہیں اور دھوکہ بازیوں سے بھی کام لیتے ہیں.بعض مخفی طریقوں پر زہر بھی دے دیتے ہیں.بعض دشمنوں سے نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں اور بظاہر اپنا ایک رعب بھی قائم رکھتے ہیں کہ ہمارے دم پھونکنے کے نتیجہ میں تمہیں یہ نقصان پہنچا ہے.پس ہر قسم کے اس فتنہ سے بچایا گیا ہے جس کے نتیجہ میں تاریکی پھیلے، روشنی کم ہو، ایک نئی تخلیق ہو لیکن بدیاں لے کر آئے یا خود بد ہو جائے یا جہاں سے نکلی ہے اس کو بد بنا دے.ہر اس قسم کے احتمالات کے لئے یہ کامل دعا ہمیں سکھائی گئی اور پھر فرمایا.وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَمَدَ.(الفلق : ۲ تا ۶ ہمیں حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرے.یہ مضمون کچھ الجھا ہوا سا نظر آتا ہے کیونکہ حاسد کے شرسے بچا نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرتے.اس کا مطلب یہ ہے کہ محض حسد کسی کو نقصان نہیں پہنچا تا جب وہ حسد کے نتیجہ میں بد عمل کی ٹھانتا ہے.جب وہ نقصان پہنچانے کی کوئی تدبیر کرتا ہے تو وہ وقت ہے جب یہ کیا گیا.اِذا حَسَدَ ورنہ لوگ خالی حسد کرتے پھرتے رہتے ہیں.جلتے رہتے ہیں.ان کا اپنا نقصان ہوتا ہے.کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تو حاسد کہہ کر یہ تو بتا دیا کہ وہ ہر وقت حسد کی حالت میں ہے.پھر اذاحمد کا کیا مطلب ہے؟ وہ شخص جو ہے ہی حاسد ہمیشہ ہی حسد کرنے والا ہو وہ جب حسد کرنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا یہ مطلب ہے کہ جب وہ اپنے حسد کو ایک بد عمل میں تبدیل کر دے.شرارت میں تبدیل کردے.جب فتنہ پیدا کرے.جب سازش کرے.تجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے.میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے تو جانتا ہے کہ وہ کیا کر رہا ہے.ایسی صورت میں تو مجھے اس کے شر سے بچا.پھر آخری دعا یہ ہے.قُل اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ

Page 443

440.کہہ دے اور کہتا چلا جا کہ تم سب اپنے رب کے حضور یہ عرض کیا کرو اعوذ برب الناس - کہ میں پناہ چاہتا ہوں اس ذات کی جو تمام بنی نوع انسان کے رزق کا ذمہ دار ہے.ان کی پرورش کا ذمہ دار ہے.ان کو ادتی حالتوں سے اعلیٰ حالتوں کی طرف ترقی دیتے ہوئے لے جانے کا ذمہ دار ہے.وہ ہر حال میں ان کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والا ہے.میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو حقیقی.ہے سیلان الناس وہی ہے جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ بھی ہے.الو الناس اور وہی ہے جو تمام بنی نوع انسان کا معبود بھی ہے.یہ تین باتیں کہہ کر انسان کی تمام ضرورتوں کا خیال رکھ لیا گیا.کوئی بھی ایسا دائرہ نہیں جس میں انسان کوشش کرتا ہے جس پر یہ دعا حاوی نہ ہو گئی ہو.اس پر میں بہت تفصیل سے اپنے رمضان کے درسوں میں روشنی ڈال چکا ہوں اور کئی گھنٹے اس مضمون کو بیان کرتا رہا ہوں.اس وقت میں دہرانے کی نیت سے کھڑا نہیں ہوا میں مختصراً آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں.یا رزق ہے، اقتصادیات کا مضمون ہے جس نے انسان کو ہر طرف سے گھیرا ہوا ہے یا بادشاہتیں ہیں یعنی سیاست ہے اور یا پھر عبادت ہے.مذہب کی دنیا ہے.ان تین مضامین میں انسان کی تمام دلچسپیاں بیان کر دی گئی ہیں اور یہی تین ہیں جو انسانی زندگی پر ہر لحاظ سے حاوی ہیں.تو فرمایا کہ تم یہ دعا کیا کرو کہ اے رب ا ہمیں لوگوں کا محتاج نہ بنا.یہ مراد ہے.اپنا محتاج رکھنا.ہم غیروں کی محتاجی سے تیری طرف بھاگتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اصل رزق تیرے ہاتھ میں ہے.اس لئے دنیا کے بس میں نہ ڈالنا.اپنی طرف سے رزق عطا فرمانا.دنیا کے بادشاہ ظالم ہوتے ہیں.ہم ان کے مقابل پر بے بس ہوں گے لیکن ہم جانتے ہیں کہ تو اصلی بادشاہ ہے.تیرے ہاتھ میں ان بادشاہوں کی بھی گردنیں ہیں.اس لئے ان کے ظلم سے ہم تیری پناہ میں آتے ہیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم کو جب کسری کے نمائندے نے یہ اطلاع دی کہ تم تین دلنا کے اندر اندر میری طرف آؤ اور اپنی حرکتوں سے توبہ کرو ورنہ میں تمہیں قتل کروا دوں گا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس پیغام دینے والے

Page 444

441 سے کہا کہ مجھے تھوڑی سی مہلت دو میں دعا کر کے معلوم کروں کہ اللہ چاہتا ہے.دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو رات کو خبر دی اور اس خبر کو آ یوں بیان فرمایا کہ جاؤ واپس چلے جاؤ تمہارے بادشاہ کو میرے بادشاہ نے رات ہلاک کر دیا ہے.وہ جو میرا مالک ہے اور میرا رب ہے اور میرا بادشاہ ہے اس نے تمہارے پادشاہ کو رات ختم کر دیا ہے.وہ واپس گیا اور معلوم ہوا یعنی دیر کے بعد یہ خبر وہاں پہنچی کیونکہ ایران سے چلتی ہوئی بین کی طرف خبر پہنچتے پہنچتے دیر لگی تھی کہ عین اسی رات جس رات آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کو یہ نظارہ دکھایا گیا خود کسری کے اپنے بیٹے نے اپنے باپ کو اس کے ظلموں کی وجہ سے قتل کر دیا.تو یہ معنی ہیں ملک النا س کے.آپ اگر یقین کریں کہ وہ ملک ہے تو وہ طاقت رکھتا ہے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ سے آپ کو بچائے لیکن یقین کی بھی ضرورت ہے اور اس کی ملکیت کے اندر رہنے کی بھی ضرورت ہے.آپ اس کی ملکیت سے نکل کر دنیا کی ملکیت میں زندگی بسر کریں اور جب تکلیف اٹھائیں تو اس کی طرف دوڑیں اس وقت یہ صادق نہیں آئے گی.حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوائے خدا کے کوئی ملک نہیں تھا اس لئے آپ کی التجا سنی گئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنی شان اور جلوے کو کس شان کے ساتھ ظاہر فرمایا پس اگر خدا کی ملکیت کے جلوے دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کی ملکیت کے دائرے میں رہیں پھر دیکھیں کہ خدا تعالی کسی طرح آپ کی نصرت فرماتا ہے اور الم النامیں ہر قسم کی خواہشات سے نجات کے لئے یہ دعا ہے.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں خود فرماتا ہے کہ کئی دفعہ انسان اپنی تمناؤں کو اپنا معبود بنا لیتا ہے اور وہ نہیں جانتا کہ وہ مشرک ہو رہا ہے.بظاہر یہی کہتا ہے کہ لااله الا الله کوئی اور خدا نہیں ہے سوائے اللہ کے.لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں کو اپنا خدا بتائے پھرتا ہے.چھوٹے چھوٹے طاقتور لوگوں کو اپنا خدا بنائے پھرتا ہے اور اپنی تمناؤں کو ہر دوسری چیز پر غالب رکھتا ہے.ایسا شخص جب یہ دعا کرے گا تو اس کی دعا میں کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ خدا کے گا کہ تم کہتے ہو کہ مجھے تم نے الے بنایا اور روز مرہ

Page 445

442 مقصور کی زندگی میں تم نے سینکڑوں اور بت بنائے ہوئے ہیں اس لئے دعاؤں میں اثر کے لئے نیک اعمال کی بھی ضرورت ہے اور اگر کامل نیک اعمال نہ بھی ہوں تو نیک نیتی کے ساتھ نیک اعمال کی کوشش کرنے کا بہت بڑا دخل ہے دعاؤں میں.انسان عاجزی کے ساتھ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ اے خدا میں گنہگار ہوں، مجھ سے بہت ہی بدیاں سرزد ہوتی ہیں.میں بار بار گناہوں میں متبلا ہوتا ہوں لیکن میرا دل تیرا احترام کرتا ہے.میرا دل تجھ سے محبت کرتا ہے.میں جانتا ہوں تیرے سوا کوئی نہیں جو مجھے بچا سکے.یہ التجا اگر درد سے کی جائے تو اللہ تعالی بہت غفور رحیم ہے.وہ گناہوں سے پردہ پوشی بھی فرماتا ہے.ان کی بخشش بھی فرماتا ہے لیکن دل کی آخری تمنا خدا ہونا چاہئے.اس کا معنی ہے.الہ آخری تمنا آخری مدعا آخری " خدا ہونا چاہئے اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ کی یہ دعا غیر معمولی طاقت کے مظاہرے دکھائے گی.الہ الناس میں اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا ایک ہی معبود ہے اور کوئی معبود نہیں ہے.مِنْ شَرِّ الْوَسْوَا مِنَ الْخَنَّاسِ : کس چیز سے پناہ مانگ رہا ہوں ہر قسم کے وسوسوں سے.وسواس کہتے ہیں وسوسے پھیلانے والوں کو.عام طور پر وسوسوں سے نجات پانے کے لئے دعا مانگی جاتی ہے مگر لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے." من شر الوسوا میں ایسے وسوسے پیدا کرنے والے کے شر سے جو الخناس بھی ہے یعنی خاموشی سے شرارت سے وسوسے پیدا کر دیتا ہے اور پیچھے ہٹ جاتا ہے اور بسا اوقات آپ کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کس بدنیتی کے ساتھ آپ کے دل میں ایک شک کا بیج ہو گیا ہے.الذي يوسون في صدور الناس ایک ایسا دور آنے والا ہے جبکہ یہ ختماس تمام دنیا میں خدا کے خلاف اس کی ربوبیت کے خلاف اس کی الوہیت اور ملکیت کے خلاف وسوسے پھیلانا شروع کرے گا اور آج کا یہ وہ دور ہے جس دور میں سے ہم گزر رہے ہیں کیونکہ آج کی دنیا میں ایسے فلسفے پیدا ہو چکے ہیں جو خدا کو رب نہیں بتاتے بلکہ دنیا کے طاقتور ملکوں کو رب بناتے ہیں اور ان سے احتیاج کا تصور اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ ہر حاجت کے وقت سب سے پہلے بڑی طاقتیں ذہن میں آتی ہیں کہ فلاں سے

Page 446

443 مدد مانگیں گے.فلاں سے مدد مانگیں گے.مسلمان ممالک کو دیکھیں جب ضرورت پڑتی ہے.وہ کشکول اٹھاتے ہیں، کبھی امریکہ کی طرف بھاگتے ہیں کبھی روس کی طرف بھاگتے ہیں.کبھی چین کی طرف چلے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا خدا ہے.سے پس عملی دنیا میں آج وہ زمانہ ہے جبکہ ہمارے اللہ بکھر چکے ہیں اور بہت سے بن چکے ہیں اور رب بھی بہت سے اور ہو چکے ہیں تو فرمایا کہ ایک ایسا وقت آنے والا ہے جبکہ تمہارے ایمان کی جڑیں کھوکھلی کرنے والی طاقتیں پیدا ہوں گی.وہ تمہارے دل میں وسوسے پیدا کریں گی اور تم ان وسوسوں کے نتیجہ میں نہ خدا کو اپنا رب سمجھو گے نہ اپنا بادشاہ سمجھو گے.دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو بادشاہ سمجھنے لگ جاؤ گے اور نہ اس کو معبود سمجھو گے کیونکہ فی الحقیقت تمہارے دل میں تمہاری آرزووں کی عبادت ہو رہی ہو گی.فرمایا.الَّذِي يُوسول في صُدُورِ النَّاسِ.مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس : (تا) یہ وہ شر پیدا کرنے والی طاقتیں ہیں جن سے ہم پناہ مانگتے ہیں.جو بڑے لوگوں میں سے بھی ہیں اور چھوٹے لوگوں میں بھی ہیں.بورژوا بھی ہیں اور PROLETARIAT بھی ہیں.CAPITALIST بھی ہیں اور سائنٹفک سوشلسٹ بھی ہیں.انجن سے یہاں مراد بڑی بڑی طاقتیں اور عظیم الشان طاقتیں ہیں اور الناس سے مراد عوامی طاقتیں ہیں.تو یہ دعا اس زمانہ کے اوپر ہر پہلو سے اطلاق پا رہی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم سونے سے پہلے ان دعاؤں کو پڑھتے تھے اور اپنے ہاتھوں پر پھو سکتے تھے اور اپنے جسم پر ملتے تھے.اس میں کوئی SUPERSTITION نہیں ہے.دعا تو خدا سنتا ہے.جسم پر ملتے کیوں ہیں.اصل بات یہ ہے کہ یہ محبت کا اظہار ہے.بعض دفعہ کسی پیارے کا کپڑا انسان کو مل جائے.اسے انسان اپنے جسم پر ملتا ہے.اپنے منہ سے لگاتا ہے.اسے چومتا ہے.پس میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ جسم پر ملتا اس غرض سے نہیں تھا کہ آپ سمجھتے تھے کہ اگر جسم پر مل لی گئی تو میں بلاؤں سے بچ جاؤں گا.آپ تو محفوظ مقام پر تھے.آپ کو

Page 447

444 تو ہمیشہ سے خدا کی حفاظت حاصل تھی اور دعائیں خدا سے کیا کرتے تھے اور جانتے تھے کہ حفاظت خدا کی طرف سے آئے گی.پس جسم پر دعاؤں کو پھونک کر ملتا سوائے عشق اور محبت کے اظہار کے اور کچھ نہیں.خدا کے کلام کو پڑھتے تھے.دل اس میں ڈوب جاتا تھا.محبت اچھلنے لگتی تھی.بڑے پیار کے ساتھ ہاتھوں پر پھونکتے تھے.اپنے جسم پر اس پیارے کلام کو ملتے تھے.اس جذبے اور ولولے کے ساتھ اگر جماعت دعائیں کرے تو میں یقین دلاتا ہوں کہ انعام پانے والوں کی جس راہ کی ہم تمنا کرتے ہوئے روزانہ پانچ وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں یہ دعا کرتے ہیں کہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے ہمارے رب ہمیں صراط مستقیم پر چلا.اس صراط مستقیم پر جس پر ہم سے پہلے وہ لوگ چلتے رہے جن کو تو نے انعاموں کے لئے چن لیا.جن پر تو نے انعاموں کی بارشیں نازل فرمائیں.پس یہ وہ لوگ ہیں جو یہ دعائیں کرتے ہوئے صراط مستقیم پر چلا کرتے تھے اللہ تعالٰی ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے ہم ان دعاؤں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں ہم ان راہوں پر چلیں جہاں ہمیشہ اللہ کی طرف سے انعام کی بارشیں برستی رہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا.میں نے اس جمعہ کا آغاز جمعہ کے معنی کے بیان سے کیا تھا اور میں نے آپ کو یہ خوشخبری دی تھی کہ ہم آج جماعت احمدیہ وہ جماعت ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں ملتا ہے اور آخری زمانہ کے لوگ جو پہلے زمانے کے لوگوں سے ملائے جائیں گے وہ اللہ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی غلامی میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے والے لوگ ہوں گے.اس سے آپ ان پہلوں سے ملیں گے، اس کے بغیر نہیں.لیکن یہ زمانہ اور لحاظ سے بھی جمع کا زمانہ ہے.اتنی دور دور کے ممالک ایک جگہ مختلف رنگ میں جمع ہو جاتے ہیں کہ انسان کی عقل حیرت میں مبتلا ہوتی ہے اور خدا تعالٰی نے اس بات کا ہمیں مزید یقین دلانے کے لئے کہ ہم ہی وہ لوگ ہیں جن کا سورۃ جمعہ سے گہرا تعلق ہے ایسی نئی ایجادات

Page 448

445 فرما دی ہیں جن کے نتیجہ میں یہاں بیٹھے ہم دور دور کے احمدیوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور اکٹھے ایک جگہ جمع ہو چکے ہیں.عید کا جو خطبہ میں نے دیا تھا اس کے متعلق ابھی مجھے رپورٹ ملی ہے کہ خدا تعالٰی کے فضل سے اس وقت دنیا کے چو ہیں ممالک میں سنا جا رہا تھا اور دنیا کی تریسٹھ جماعتیں اس کو براہ راست سن رہی تھیں.اب یہ سلسلہ انشاء اللہ پھیلتا چلا جائے گا اور ظاہری طور پر بھی صرف جماعت احمدیہ ہے اور صرف جماعت احمدیہ ہے جس کو خدا نے یہ توفیق بخشی ہے کہ اس طرح ایک زمانے کے مختلف لوگوں کو بھی ایک ہاتھ پر جمع کر دے.پس ان معنوں میں یہ ہمارے لئے خوشخبری بھی ہے اور ذمہ داریوں کو بڑھانے والی بات بھی ہے.

Page 449

Page 450

ٹورنٹو.کینیڈا در جولائی 1991ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ انعام پانے والوں کی دعائیں تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت اور مجلس خدام الاحمدیہ فرانس کے نام ایک پیغام کے بعد فرمایا :- ایک لمبے عرصے سے نماز سے متعلق خطبات کا ایک سلسلہ دے رہا ہوں.جس میں سورہ فاتحہ سے نماز میں استفادہ کرنے سے متعلق مختلف خطبات دیئے ہیں.آخری خطبہ اس مضمون پر تھا کہ نماز میں جب ہم اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الذين انْعَمْتَ عَلَيْهِم کہتے ہیں تو وہ خدا کے پاک بندے جن پر خدا نے انعام فرمایا ان کے رستے پر چلنے کی دعا مانگتے ہیں.اس لحاظ سے ہم پر ضروری ہے کہ اس سفر کو آسان کرنے کے لئے انہیں لوگوں کی دعائیں مانگیں جن کی قبولیت کے طور پر اللہ تعالی نے ان پر احسان فرمائے.پس آخری خطبہ جو امریکہ میں اس موضوع پر تھا اس میں منعم علیہ گروہ کی دعاؤں میں سے آخری دعاؤں پر میں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.اس دعا کا اگلا حصہ ہے غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّلِينَ اے ہمارے رب ہمیں اس رستے پر نہ چلاتا جس پر وہ انسان چلتے رہے جو تیرے غضب کا نشانہ بنے.یا وہ لوگ چلے جنہوں نے کچھ عرصہ صراط مستقیم پر چل کر اس صراط مستقیم کو چھوڑ دیا اور بھٹک گئے.قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ بھی بعض دعائیں کیا کرتے تھے.اور جیسے مُنعم عَلَيْهِہ گروہ کی دعائیں قرآن کریم میں درج ہیں.تخضُوب اور ضالین کی دعائیں بھی درج ہیں.پس ضروری ہے کہ ہم ان

Page 451

448 دعاؤں سے بچیں اور ان دعاؤں کی روح سے بچیں جو قرآن کریم میں عبرت کے طور پر ہمارے لئے محفوظ کی گئی ہیں.اور اس پہلو سے آج کا خطبہ اسی موضوع پر ہو گا.صرف دنیا حاصل کرنے کی دعامانگنا خطرناک ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فين النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا اينا في الدُّنيا وَ مَالَهُ فِي الآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ کہ بعض انسانوں میں سے ایسے بھی ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ہمیں اس دنیا کی سند عطا فرما یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا.اس دعا کا پس منظر یہ ہے کہ حج کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا قَضَيْتُمْ منَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا الله گذركم با: عُمْ أو أشد ذكرًا کہ جب تم حج کے مناسک ادا کر چکو یعنی عبادات پوری کر چکو تو پھر اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم اپنے آباء و اجداد کو یاد کیا کرتے ہو.بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر.اس کے بعد فرماتا ہے کہ بعض ان میں سے ایسے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں دنیا کی اچھی چیزیں عطا فرما.سوال یہ ہے کہ اس کالج کے مضمون سے کیا تعلق ہے.وہ تعلق یہ ہے کہ وہ انسان جو اس دنیا کا ہو چکا ہو اور دنیا ہی کے لئے جیتا ہو دنیا ہی کے لئے مرتا ہو.وہ جب عبادت کے معراج پر بھی پہنچتا ہے تو اس کی دعا دنیا طلبی کی دعا ہی ہوتی ہے.پس فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ حج میں جو لوگ میرے قریب آئے.جو اپنی عبادت کے معیار کو پہنچے وہ سب کے سب ایسے ہیں جو میری تمنا کو لیکر آئے تھے.کچھ بد نصیب ان میں سے ایسے بھی ہیں جو دنیا کی آرزوئیں لے کر یہ جان جوکھوں کا سفر اختیار کرنے والے تھے.اور آخر پر جب وہ خانہ کعبہ کا طواف کرتے رہے تو مجھ سے دنیا ہی مانگتے رہے.فرمایا میں ان کو دنیا دوں گا لیکن پھر آخرت میں ان کیلئے کوئی حصہ نہیں ہوگا.یہاں جو سزا کا پہلو ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ عبادت میں جب ایک انسان معراج کو پہنچتا ہے تو خدا قریب آچکا ہوتا ہے.اس وقت خدا کو نہ مانگنا اور دنیا کی طرف جھک جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بالآخر دنیا ہی کی عبادت کرتے ہیں.پس دنیا مانگنا منع نہیں ہے مگر جس پس منظر میں دنیا

Page 452

449 مانگنے کا نقشہ بیان ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں جا کر وہ لوگ اپنے اندرونے کو ننگا کر دیتے ہیں.پس خدا بہتر جانتا ہے کہ کتنے لکھو لکھا حج کرنے والے ہیں جو دنیا طلبی کی تمنا لئے ہوئے حج کرتے ہیں.لیکن یہاں اس مضمون کا تعلق صرف حج ہی سے نہیں بلکہ ہر عبادت سے ہے.اس کے بعد اللہ تعالٰی نصیحت فرماتا ہے وَمِنْهُمْ مِّن يَقُولُ ربنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ لیکن کچھ ایسے بندے بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اے خدا ہمیں دنیا کی اچھی چیزیں بھی عطا فرما.لیکن آخرت کی اچھی چیزیں بھی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی چیزیں ہمیں اپنی طرف اس طرح مائل نہ کرلیں کہ ہم ان کے نتیجے میں تجھے بھول جائیں اور بالآخر آگ کے عذاب کا سزاوار ٹھہریں.پس دنیا کی اچھی باتیں طلب کرتے ہوئے ساتھ احتیاطا " یہ دعا بھی سکھا دی گئی کہ وہ باتیں بھی تمہیں ملیں گی اور آخرت کی اچھی چیزیں بھی ملیں گی.مگر یاد رکھنا کہ دنیا کی اچھی چیزوں میں گم نہ ہو جانا.کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر بھی یہ خطرہ رہے گا کہ تم خدا کے عذاب کے سزا وار ٹھہرو.یہ دعا سورۃ البقرۃ آیت ۲۲ سے لی گئی تھی.ایک دوسری مغضوب اور ضالین کی دعا یہ ہے جو سورۂ نساء کی آیت ۷۸ سے لی گئی ہے.اس میں وہ یہ دعا کرتے ہیں.وَقَالُوا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوَلَا أَخَرَ تَنَّا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ، قُلْ مناء الدُّنْيَا قَلِيلُ ، وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيلاً اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو نے کیوں ہم پر قتال اتنی جلدی فرض کر دیا.کاش تو نے اسے کچھ مدت کے لئے ٹال دیا ہوتا.ان سے کہہ دے کہ دنیا کی زندگی تو ایک عارضی فائدے کی جگہ ہے اور باقی رہنے والی بھلائی آخرت ہی میں ہے.اور تم سے کوئی اتنا بھی علم نہیں کیا جائے گا جتنا کھجور کی گٹھلی کے اندر لکیر ہوتی ہے.

Page 453

450 ابتلاؤں میں جوابی حملے کی بجائے صبر کی تلقین اس دعا کا پس منظریہ ہے.اللہ تعالٰی فرماتا ہے الم ترال الذين امل تهُمْ كُلُوا أَيْدِيكُمْ وَالِقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزكوة کہ کیا تم نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جن کو اللہ تعالٰی یہ فرماتا تھا کہ تم لوگوں سے اپنے ہاتھ کو روکے رکھو.واقيمُوا الصلوة وأتُوا الزَّعُوة اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو.یہاں ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جن پر یکطرفہ ظلم ہو رہے ہیں اور اس ظلم کے دور میں وہ بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کیوں اجازت نہیں دی جاتی کہ ہم اپنا دفاع کریں.ہمیں کیوں اجازت نہیں دی جاتی کہ ہم بھی جوابی حملے کریں.اور اس مزاج کے لوگ جیسے پہلے زمانوں میں پائے جاتے تھے اس زمانے میں بھی پائے جاتے ہیں.پاکستان میں جو احمدیوں پر ایک لمبا ابتلاء کا دور گزرا ہے.اس میں مجھ سے بھی ایسے مطالبے ہوئے ہیں اور بعض خطوط کے ذریعے بھی بڑے بڑے احتجاج ملتے ہیں کہ ہمیں موقع دیں.ہم بھی جوابی کارروائی کریں.جس طرح وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں ہم اس کا بدلہ ان سے اتاریں.لیکن ان کو میں ہمیشہ صبر کی تلقین کرتا ہوں.پس قرآن کریم فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ مومنوں کو جوابی حملے کی اجازت نہیں دیتا.اور یہ نصیحت فرماتا ہے کہ اپنے ہاتھ روکے رکھو اور صبر سے کام لو.دعا کے ذریعے اور زکوۃ کے ذریعے نیک کاموں میں خرچ کرکے تسکین قلب حاصل کرو.لیکن وہ لوگ جب بالآخر جهاد فرض کر دیا جاتا ہے تو اس وقت ان کا مزاج بالکل الٹ جاتا ہے.وہ جو پہلے بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں موقع دیا جائے ہم جوابی کارروائی کریں گے.ان کی یہ کیفیت ہو جاتی ہے کہ کہتے ہیں.رَبَّنَالِمَ كُتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ.لولا اخر تنا إلى اجل قریب اے خدا اتنی جلدی تو نے جہاد فرض کر دیا ابھی تو ہمیں طاقت بھی کوئی نہیں آئی.کاش کچھ اور مدت کے لئے اس فرضیت جہاد کو ٹال دیا ہوتا.قُلْ مَتَاءُ الدُّنْيَا قَلِيلُ ان سے کہہ دے کہ تم دنیا میں چند دن اور بھی رہ جاؤ گے بالآخر یہ دنیا عارضی ہے.اور اس دنیا کے فائدے بھی یعنی دنوں کے فائدے ہیں.جو باقی رہنے والی حسنات ہیں وہ تو آخرت ہے.پس چند دن کے جہاد کے ٹالنے سے تمہیں کیا فرق پڑے گا.بہر حال یہ جو دعا ہے یہ اس سے پہلے کی ایک کیفیت

Page 454

451 سے تعلق رکھتی ہے جو کھو کھلی کیفیت ہے اور وہ مومنوں کو دھوکہ دینے والی بات ہوتی ہے.عام طور پر ایسے لوگ جو بڑھ بڑھ کر باتیں کرتے ہیں وقت آنے پر ہمیشہ بزدلی دکھایا کرتے ہیں.یہ دعا جو میں بیان کر چکا ہوں.یہ سورہ نساء کی تھی.پکڑ آنے کے وقت یہ کہنا کہ پھر ایسا نہیں کریں گے بے معنی ہے پھر سورۃ انعام ۲۸ تا ۳۱ میں مغضوب علی کی یہ دعا ہے.ولو ترى إذ وقفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا لَيْتَنَا نُرَ وَلا تُكَذِّبَ بِايَتِ رَهْنَا وَ تَكُونَ من المُؤْمِنین کاش تو دیکھتا ان لوگوں کو جو آگ کے سامنے پیش کئے جائیں گے.یعنی مرنے کے بعد ان کا عذاب ان کو دکھائی دینے لگے گا.فَقَالُوا لَيْتَنَا تُردُ ولا تكوت پالیت رہنا کہیں گے کاش ایسا ہو کہ ہمیں واپس لوٹا دیا جائے.تب ہم ہرگز اپنے خدا کی اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہیں کریں گے وَتَكُونَ مِنَ المومنین اور ہم یقیناً مومنوں میں سے ہو جائیں گے.اللہ تعالٰی فرماتا ہے بل بدا لهم ما كانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ، وَلَوْ رُدُّ والعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وإِنَّهُمْ لَكَذِبُونَ - بل بدا لهُمْ مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْل ان کی وہ صورت حال وہ حقیقت ظاہر ہو چکی ہے جو اس سے پہلے وہ چھپایا کرتے تھے.لیکن اگر وہ دوبارہ لوٹا دیئے جائیں تو ہمیشہ وہی کریں گے پھر بھی وہی کریں گے جس سے ان کو منع کیا جاتا تھایا منع کیا جاتا ہے.اور اس دعوے میں وہ جھوٹے ہیں کہ اگر ہمیں ایک اور مہلت دی جائے تو ہم اس مہلت سے استفادہ کرتے ہوئے خدا تعالٰی کی آیات کی تصدیق کریں گے اور خدا تعالی کے احکامات کے مطابق کریں گے.یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے.اور اس کا فیصلہ دراصل اس دنیا میں ہو چکا ہوتا ہے.خدا تعالٰی کا یہ کہنا کہ اگر ان کو دوبارہ لوٹایا جائے تو وہی کریں گے یہ محض ایک دعوئی نہیں بلکہ اس کا ثبوت ان لوگوں کی زندگیوں سے بارہا ملتا ہے.ہر وہ شخص جو اپنے گناہ کے نتیجے میں اپنی پاداش عمل کا منہ دیکھنے لگتا ہے.اور سمجھتا ہے کہ اس کی سزا قریب آگئی ہے ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ اگر یہ اس بارٹل جائے اگر اس دفعہ میں نہ پکڑا جاؤں تو میں توبہ کرلوں گا اور جب مشکل مل جاتی ہے.تب ابتلاء دور

Page 455

452 ہو جاتا ہے تو پھر دوبارہ وہی حرکتیں کرتا ہے.ایسے طالب علم آپ نے دیکھے ہوں گے اور میں ذاتی تجربے کے طور پر بھی جانتا ہوں کہ جب امتحان سر پر آجایا کرتا تھا تو ہم بہت توبہ کیا کرتے تھے کہ اگلی دفعہ جب نئے سال ترقی کریں گے تو پھر شروع سے ہی کتابیں اچھی طرح سنبھال کر رکھیں گے.خوب پڑھیں گے محنت کے ساتھ اس دفعہ کسی طرح یہ بلا ٹل جائے.اور ایسے طلبا جو یہ باتیں کرتے ہیں جب بھی بلا ملتی ہے دوبارہ پھر بالکل ویسے ہی ہو جاتے ہیں.دنیا کے امتحانوں میں تو کوئی ایسی بات نہیں.مگر جب خدا کے حضور ایسے وعدے کئے جائیں اور بار بار پہلی حالت کی طرف رجوع کیا جائے تو پھر قیامت کے دن خدا تعالی کا یہ جواب دیکھیں کیسا بر حق ہے کہ تم وہی تو ہو جو پہلے اسی قسم کی باتیں کیا کرتے تھے.آج اگر ہم یہ عذاب ٹال دیں اور تمہیں واپس لوٹا دیں تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم پھر دوبارہ وہی حرکتیں کرو گے جو اس سے پہلے کرتے چلے آئے - پس ایسی باتیں کرنا جب پکڑ کا وقت آجائے اور امتحان کا وقت ختم ہو جائے بالکل بے معنی اور لغو باتیں ہیں.ایسی دعا سے استغفار اور اس کے مواقع سے استغفار کرنا چاہیے.سرمایہ داروں کے ذریعہ غریبوں کا استحصال سورہ انعام کی ایک دعا ہے ۱۳۹ آیت میں.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وقال أوليتهم من الإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَم بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وبَلَقْنَا اجلنا الذي أجلت لنا قَالَ النَّارُ مَثوكُم خلدين فيها الا مَا شَاء اللَّهُ إن ربك معه عليه فرماتا ہے يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا جب اللہ تعالیٰ ان سب کو اکٹھا کرے گا.نِمَعْشَرَ الْجِن قد اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْإِنْسِ اے جنوں میں سے سردارو اور بڑے لوگو تم نے عوام الناس کا خوب استحصال کیا ہے.و قَالَ اورتهم من الانس عوام الناس میں سے جو بڑے لوگ ہیں وہ خدا کے حضور یہ عرض کریں گے.رَبَّنَا اسْتَمْتَم بَعْضُنَا بِبَعْضٍ اے خدا ہم میں سے بعض نے بعض کا استحصال کیا ہے بلعْنا أَجَلَنَا الَّذِي أَجَلْتَ لَنَا - یہاں تک کہ وہ مدت جو تو نے ہمارے لئے مقرر فرما ر کھی تھی وہ پوری ہوئی.قال

Page 456

453 النَّارُ منو بكُم خُلدين فيها الله تعالیٰ فرمائے گا آگ تمہارا ٹھکانا ہے تم اس میں لمبے عرصے تک رہو گے الا ماشاء الله سوائے اس کے کہ اللہ اس بلا کو ٹالنے کا فیصلہ فرما لے.ان ربك حرعیہ علیہ - اللہ تعالی بہت حکمتوں والا اور بہت جاننے والا ہے.ان آیات میں بظا ہر دعا پیش نہیں کی گئی مگر ایک ایسی حالت بیان کی گئی ہے جس کے نتیجے میں اپنی حالت خدا کے حضور پیش کرنے والے رحم کی تمنا کرتے ہیں.یہ دعا جو عذاب کے سامنے حاضر ہونے کے بعد بعض لوگ کریں گے نسبتاً زیادہ مطالعہ کی محتاج ہے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ یہاں جن سے کیا مراد ہے.انس سے کیا مراد ہے اور کیا بات پیش کی جارہی ہے.پہلی بات تو یہ ہے فرمایا مَعْشَرَ الْجِن قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْإِنْسِ اے جو تم نے لوگوں میں سے عوام الناس میں سے اکثر سے ناجائز فائدے اٹھائے ہیں.سوال یہ ہے کہ اگر جن وہ مخلوق ہے.جس کے متعلق عوام الناس میں مشہور ہے اور خاص طور پر ملا لوگ مشہور کرتے رہتے ہیں کہ یہ انسانوں سے ہٹ کر ایک ایسی مخلوق ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی.اس کے متعلق کب انسان کے سامنے یہ بات آئی ہے.کب انسانی تجربے میں یہ بات آئی ہے کہ ان فرضی جنوں نے بھاری تعداد میں - انسانوں سے فائدہ اٹھایا ہو.اور ان کو اپنا غلام بنا لیا ہو.کوئی اتفاق سے کہیں کوئی ایسا ریض ملتا ہے جس کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کو چن چڑھ گیا اور اس نے اس کو قابو کر لیا.پس یہاں لازما " جن سے مراد کچھ اور ہے.اور ہی معنی ہیں جو جماعت احمدیہ کی تفاسیر میں ہمیں ملتے ہیں.یعنی جن سے مراد بڑے لوگ ہیں.اور جب خدا جن اور انس کا ذکر ایک دوسرے کے مقابل رکھ کر فرماتا ہے تو اس سے ہمیشہ مراد Capitalist اور Proletariat یعنی عوام الناس اور بورژوا لوگ ہیں ایک دوسرے کے مقابل پر یعنی بورژوا کے مقابل پر Proletariat.جو بڑی بڑی استحصالی طاقتیں ہیں مثلاً مغربی طاقتیں Capitalist ان کے مقابل پراشترا کی طاقتیں اور بڑے

Page 457

454 آدمیوں کے مقابل پر چھوٹے غریب بے کس عوام یہ مقابلہ ہمیشہ کیا جاتا ہے جن اور انس کے ذریعے.اور اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ لفظ استحصال کا ذکر یہاں خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.ہمیشہ اشتراکیت کی طرف سے یہی آواز اٹھائی گئی ہے کہ مغربی Capitalist طاقتیں استحصالی طاقتیں ہیں اور سائنٹفک سوشلزم کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ بعض لوگ بعض غرباء کا استحصال کرتے ہیں اور اس کے رد عمل کے طور پر ایک اشتراکی نظام وجود میں آیا.تو اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ ہم بڑے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں گے تواسْتَكْرْتُمْ مِنَ الْإِنسِ تم نے عوامی طاقتوں کو زیر کر لیا ہے.اور ان سے بہت سے استفادے کئے ہیں.ایسے استفادے جو استحصال کہلاتے ہیں.جو جائز نہیں ہیں یہ ایک دور تو وہ تھا جو جنگ عظیم سے پہلے کا دور تھا جبکہ اشتراکی نظام مقابل پر ابھرا نہیں تھا اور اس وقت ایک ہی Capitalist نظام تھا جو ساری دنیا کو زیر کئے ہوئے تھا.ایک اب وہ دور ہے جس میں ہم واخل ہو رہے ہیں.اس میں پھر Capitalist نظام اکیلا رہ گیا ہے.اور اکثر عوامی نظام کو اس نے زیر منقار کر لیا ہے اپنی لگام کے نیچے لے لیا ہے.وقال أوليتهم من الانْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ یہ ذکر چل رہا ہے قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کو سزادی جائے گی.یہ پس منظر ہے اس آیت کا.انسان اپنے گناہوں کا خود ذمہ دار ہے اس وقت خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو عوام الناس ہیں وہ یہ عرض کریں گے کہ اے خدا یہ لوگ غالب تھے اور طاقتور تھے.انہوں نے ہمارا استحصال کیا.اور اس استحصال کے نتیجے میں ہم سے بدیاں سرزد ہوئیں.ہم ان کے پیچھے چل پڑے اور اس معاملے میں ہم مجبور تھے.اس کے جواب میں اللہ تعالٰی فرماتا ہے.قالَ النَّارُ مَثْوَبِكُمْ خَيدِينَ في مَا شَاء الله کہ یہ کوئی ایسی مجبوری نہیں ہے جس کے نتیجے میں انسان خدا کو چھوڑ دے اور راہ راست سے ہٹ جائے.اس لئے اگر دنیا میں انہوں نے تمہارا استحصال کیا تو اس کا یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ تم گناہوں پر مجبور ہو گئے اور صراط مستقیم چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.اس لئے یہ عذر قبول نہیں ہوگا.

Page 458

455 گمراہوں کی یہ دعا ہمارے لئے ایک عبرت ہے.بہت سے ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ بڑے لوگوں کے تابع ہیں ان کے ہاتھوں مجبور ہیں.اس لئے ہم اپنے گناہوں کی پاداش نہیں دیکھیں گے.ہم اپنے گناہوں کی سزا نہیں پائیں گے کہ ہم تو مجبور تھے.اللہ تعالٰی اس عذر کو رد فرما رہا ہے.اور فرماتا ہے کہ ہر انسان اپنا خود ذمہ دار ہے.اگر کسی بڑے آدمی کے پیچھے لگ کر تم بدی کرو گے تو یہ کہنا کافی نہیں ہو گا کہ ہم بڑے آدمی کے اثر کے نیچے مجبور تھے.بعض دفعہ بد دعائیں بھی قبول ہو جاتی ہیں ایک دعا سورہ اعراف کی آیات ۱۳ تا ۱۹ میں ہے یعنی دعا تو آیت ۱۵ ۱۶ ۷ میں اور ۱۸ میں درج ہے.لیکن آیات جو درج ہیں یہاں یہ ۱۲ تا ۱۹ ہیں.دعا یہ ہے.قال انظرني إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.یہ شیطان کی دعا ہے.اب اندازہ کریں کہ دعاؤں کا مضمون کتنا پھیلا ہوا ہے.نعمتوں کی دعائیں کرنے والوں میں سر فہرست حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہیں پھر فرشتے ہیں پھر خدا کے دیگر انبیاء اور نیک لوگ ہر قسم کے اور مغضوب اور ضالین کی دعا کرنے والوں میں سر فہرست شیطان ہے.اس کی دعا بھی محفوظ فرمائی گئی.اور بتایا گیا کہ تمہیں اس شیطان سے واسطہ ہے.کونسی دعا تمہیں نہیں مانگنی چاہیئے اور جس قسم کے شرسے تمہیں واسطہ پڑ گیا اس کی کیفیت کیا ہے.وہ اپنے لئے خدا سے کیا مانگ بیٹھا ہے.اور اللہ تعالیٰ ایک مدت کیلئے اس کی یہ دعا قبول بھی فرما چکا ہے.اس لئے ہمیں بہت ہی کھلے لفظوں میں متنبہ فرما دیا گیا ہے.فرمایا ، شیطان نے کہا انظرني إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.اے خدا مجھے اس دن تک مات دے دے جس دن سب لوگ اٹھا کر تیرے حضور حاضر کئے جائیں گے.قالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ فرمایا ہاں تجھے مہلت دی جاتی ہے.تو بعض دفعہ بد دعا بھی قبول ہو جاتی ہے.اور یہ کہتا کہ ہم نے قلان دعا مانگی اور قبول ہو گئی صرف میں کافی نہیں ہے.اگر بد دعا قبول ہو تو بہت بڑی لعنت ہے.اگر نیک دعائیں قبول ہوں تو پھر قربت کا نشان ہے نہ کہ بد دعاؤں کا قبول ہو جانا.اور بددعاؤں کے قبول ہونے کی بھی بعض حکمتیں ہیں.

Page 459

456 سیدھے راستہ پر بھی بھٹکانے والا شیطان ملے گا بهر حال خدا نے وہیں فرما دیا کہ ہاں تجھے چھٹی ہے.قَالَ فَيما الوَيْتَنِي لاقعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ اس نے کہا اچھا اگر مجھے اجازت ہے تو میں بتاتا ہوں کہ میں کیا کروں گا.چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی اجازت دے دی ہے کہ میں تیرے بندوں کو بھٹکاؤں.اس لئے لا تعدت لهُمْ صراطَ الْمُسْتَقِيمَ میں صراط مستقیم پر بیٹھ جاؤں گا اور ہر وہ شخص جو صراط مستقیم سے گزر رہا ہو گا اس کو بھٹکانے کی کوشش کروں گا.تو دیکھیں جب ہم دعا کرتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.تو یہ کافی نہیں ہے.تبھی اس کے بعد یہ تشریح آتی ہے.صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الفاينن راستہ تو سیدھا ہے.مگر اس سیدھے راستے پر بھٹکانے والے لوگ بھی بیٹھے ہوئے ہیں.وسوسے پیدا کرنے والے بھی بیٹھے ہوئے ہیں.طرح طرح کے عذر تراش کر یہ سمجھانے والے بھی بیٹھے ہیں کہ یہ کر لو تو کوئی حرج نہیں وہ کر لو تو کوئی حرج نہیں.اتنی سی بات سے کیا ہوتا ہے تو صراط مستقیم پر جگہ جگہ اسی طرح یہ شیطان بیٹھے ہوئے ہیں جس طرح بعض دفعہ عید گاہ کی طرف جاتے ہوئے رستہ میں بیٹھے ہوئے فقیر ملتے ہیں.اور طرح طرح کے بہانے بنا کر یہ انسان کو بھٹکانے کی کوشش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ راز ہم پر کھول دیا ہے اگر یہ چھپا رہتا تو ہمارا دھوکہ کھانا شائد کوئی عذر رکھتا.لیکن یہ سب کچھ بیان ہونے کے بعد ہمارا پھر آنکھیں کھول کر دھوکہ کھانا یہ ہمارے گناہوں کی شدت کو بڑھا دیتا ہے.کہتا ہے پھر میں کیا کروں گا.تم لا تيم من بين ايديهم ومِن خَلْفِهِمْ میں پھر ان کے آگے سے بھی آؤں گا اور پیچھے سے بھی آؤں گا.یعنی پیچھا ہی نہیں چھوڑوں گا.صرف رستے پر بیٹھا نہیں رہوں گا بلکہ ساتھ ساتھ بھاگوں گا.اور میں نے دیکھا ہے بچپن میں ایسے فقیر بڑا تنگ کیا کرتے تھے جن کو اگر کچھ نہ دو تو وہ آگے بھی ہوتے تھے پیچھے بھی ہوتے تھے.رستے روکتے تھے.پیچھے سے دامن پکڑتے تھے اور لوگوں کا پیچھا چھوڑتے نہیں تھے جب تک ان کو کچھ مل نہ جائے.تو خدا نے شیطان کا بھی ویسا ہی نقشہ کھینچا ہے کہ صراط مستقیم پر بیٹھا نہیں

Page 460

457 رہے گا ساتھ ساتھ دوڑے گا اور کبھی سامنے سے اگر کوئی بات کرے گا کبھی پیچھے سے اگر کان میں کچھ پھونکے گا اور مجبور کرے گا کہ تم اس کی بات مان کر صراط مستقیم سے ہٹ جاؤ اور ٹھوکر کھا جاؤ.وعن أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ پھر کبھی وہ دائیں طرف سے بھی آئے گا اور کبھی بائیں طرف سے بھی آئے گا.دائیں طرف سے مراد یہ ہے کہ دین پر کھلے کھلے حملے کرے گا اور بائیں طرف سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی لالچیں دے گا.کیونکہ بائیں طرف دنیا کا نشان ہے اور دائیں طرف دین کا نشان ہے.غرضیکہ ہر طرح سے وہ مشکلوں میں مبتلا کر دے گا.وَلا تَجِدُ ا كثرَهُمْ شکرین یعنی شیطان یہ بتائے گا کہ میں یوں کروں گا اور یوں بھی کروں گا اور پیچھا نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ میں تجھے بتا دیتا ہوں کہ تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکر گزارہ نہیں پائے گا.قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مد، وما من حُوْرًا، لَمَن تَبِعَكَ منْهُم لا ملكة جملة منكم اجمعين خدا نے فرمایا کہ اے شیطان تو میرے دربار سے نکل جا.تیری ہمیشہ مذمت کی جائے گی اور تو درگاہ سے راندہ ہوا ہے.پس جو بھی تیری پیروی کرے گا اس کا بھی ویسا ہی حال ہو گا.اور میں تم سب سے جہنم کو بھر دوں گا.شکر گزار انسان ٹھوکر نہیں کھا سکتا یہاں ایک بہت ہی پتے کی بات شیطان نے بیان کر دی.جس سے مومن کو فائدہ اٹھانا چاہئیے جس طرح لقمان سے کسی نے پوچھا تھا کہ تو نے حکمت کی باتیں کس سے سیکھیں.اس نے جواب دیا کہ بیوقوفوں سے.تو بعض دفعہ شیطان سے بھی کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس سے مومن فائدہ اٹھا لیتا ہے.اول تو اس کا سارا بیان خدا نے ریکارڈ کر دیا اور ہمارے سامنے رکھ دیا کہ یہ باتیں ہیں جن کے متعلق میں اس کو اجازت دے بیٹھا ہوں.دوسری بات یہ ہے اس نے آخری نتیجہ یہ نکالا ہے لا تجد الثَّرَهُمْ شُکرین کہ اے خدا تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں دیکھے گا.جس کا مطلب یہ ہے کہ شکر گزار انسان ٹھوکر نہیں کھا سکتا.کوئی ایسا شخص جو احسان مند ہو اور اس کے اندر احسان مندی کا جذبہ پایا جاتا ہو اور اس کے دل میں کسی محسن کے

Page 461

458 احسانات کا احساس رہے.وہ شخص اس طرح حد سے نہیں گزر سکتا کہ محسن کے خلاف کوئی کارروائی کرے.بعض انسان ایسے ہیں جو احسان فراموش ہوتے ہیں.ان سے آپ ساری عمر احسان کا سلوک کریں ذرا سا منہ موڑیں تو وہ اس کے نتیجے میں آپ کے مخالف ہو جاتے ہیں اور بعض آپ کو گزند بھی پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.ایک فارسی کا شعر اس مضمون کا بہت ہی اچھا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ دیکھو کتا ایک ایسا جانور ہے کہ تم اس کو ایک دفعہ روٹی کا ٹکڑا ڈال دو.پھر اس کو سو دفعہ مارو.لیکن وہ تم پر حملہ نہیں کرے گا.لیکن بعض انسان ایسے بدنصیب ہیں کہ ان کو سو دفعہ روٹی ڈالو ایک دفعہ ان سے منہ موڑ لو تو وہ تم پر بھونکنے لگتے ہیں اور تمہارے خلاف ہو جاتے ہیں اور تم سے بدلے اتارنے کی کوششیں کرتے ہیں.تو شیطان نے بہت پتے کی بات کہی ہے تبھی خدا نے اس کو محفوظ کر لیا اور ہمیں شیطان سے بچنے کی راہ سکھا دی.وہ شخص جو احسانات کے نتیجے میں زیر بار ہو جاتا ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہو تا کہ اپنے محسن کے خلاف کوئی کارروائی کرے.پس وہ انسان جو چاروں طرف سے آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں سے اللہ تعالٰی کے احسانات سے گھرا ہوا ہے اس کے اوپر بھی احسانات ہیں اور اس کے نیچے بھی احسانات ہیں.اللہ تعالیٰ یہ توجہ دلا رہا ہے کہ شیطان ایسے شخص پر حملہ نہیں کر سکتا جو ان احسانات کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے والا ہے.کیونکہ شیطان کہتا ہے میں دائیں طرف سے بھی حملہ آور ہوں گا.دائیں طرف سے بھی اللہ تعالیٰ کے احسانات کا احساس اس کا دفاع کر رہا ہو گا.وہ کہتا ہے میں سامنے سے آؤں گا.سامنے سے بھی اللہ تعالٰی کے احسانات کا احساس اس کا دفاع کر رہا ہو گا اس طرح آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف اللہ تعالٰی کے احسانات انسان کو گھیرے ہوئے ہیں اور ایک احسان مند ہونے والا دل کبھی بھی اس کے نتیجے میں شیطان کے حملے کا نشانہ نہیں بن سکتا.تو شیطان نے پتے کی بات یہ کسی کہ میں ناشکروں پر حملے کروں گا اور جتنے ناشکرے ہیں وہ میرے غلام بن جائیں گے.اور یہ بات درست ہے.گناہ کا آغاز ناشکری سے ہوتا ہے اور اس کا انجام وہی ہے جس طرح قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا کہ تم سب سے پھر میں جہنم کو بھر

Page 462

459 دوں گا.ایک دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے.کہ جو میرے عبد ہیں ان پر تو غالب نہیں آسکے گا.جو چاہے کرلے.اور عبد سے مراد وہی ہے کہ جو احسان مند لوگ ہیں جو خد اتعالیٰ کے احسانات کو یا د رکھ کے اس کے غلام ہو جاتے ہیں.جنم میں داخل ہونے والوں کی دعا ایک اور دعا ہے سورہ اعراف آیات ۳۸ تا ۴۰ میں ان میں دعا والا حصہ یہ ہے قال الخلواتي أمر قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِكُمْ مِنَ الْجِنِّ وَالانْسِ فِي النَّارِ كُلَّمَا دخلت أُمَّةَ لَعَنَتْ اخْتَهَا حَتَّى إِذَا اذَارَكُوا فِيْهَا جَمِيعًا، قَالَتْ أُخْرَيهُمْ للهم ربنا هَؤُلاء أَضَلُّونَا فَاتِهِمْ عَذَابًا ضِعْفًا مِنَ النَّارِ، قَالَ يكل ضِعْفُ وَلكِن لَّا تَعْلَمُونَ فرمایا کہ جب ایک امت ایک قوم بعض گروہ جب نئے داخل ہوں گے جہنم میں تو اللہ تعالٰی فرمائے گا.قَالَ ادْخُلُوا في أمم قدْ خَلَتْ مِن قبيكُمْ کہ اے لوگو تم اپنے ہی جیسی ایک اور امت کے مقام میں داخل ہو جاؤ.تم سے پہلے بھی کچھ لوگ ایسے گزرے تھے جو تمہارے جیسے اعمال کیا کرتے تھے.ان کا جو ٹھکانا ہے وہی تمہارا ٹھکانا ہے.یعنی خدا دنیا میں مختلف زمانوں میں آنے والے انسانوں سے نا انصافی نہیں کرے گا.جن اعمال کے نتیجے میں پرانے زمانوں میں بعض لوگ کسی خاص انجام کو پہنچے ویسے اعمال کرنے والے خواہ جب بھی آئیں گے بالآخر ان کا بھی وہی مقام ہو گا.فرمایا كلما دخلت امّةً لَّعَنتْ أختها اور اس حال میں وہ لوگ داخل ہوا کریں گے کہ جب بھی کوئی لوگ داخل ہوں گے تو اپنے بیوں پر لعنت بھیجیں گے جس طرح مومن جب جنت میں داخل ہوں گے سلام کہا کریں گے.اسی طرح جنم میں جانے والے اپنے ساتھیوں پر لعنت بھیجیں گے.حتى إذا ادارَكُوا فِيْهَا جَمِيعًا یہاں تک کہ جب وہ سب اکٹھے ہو جائیں گے.قَالَتْ أُخْرُهُمْ لأولهُمْ اس وقت بعد میں آنے والے اپنے پہلے آنے والوں کے متعلق اپنے رب سے یہ عرض کریں گے کہ اے خدا یہ وہ شیطان لوگ ہیں جن کے پیچھے چل کر ہم نے اپنا دین بھی آوایا اور اپنی دنیا بھی گنوائی.یہ وہ بد بخت ہیں جن کو ہم نے اپنا امام بنا لیا تھا.پس ان کو دوہرا عذاب دے.اور یہ بھی ایک خاص گناہ

Page 463

460 گار کی فطرت کا اظہار ہے.ایک مومن تو یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا بخش دے.معاف کر دے اور جو شیطان صفت لوگ ہیں ان کو مزا اور ہی طرح آتا ہے.ان کو اگر اپنی بخشش میں مزا نہیں تو دوسرے کے زیادہ عذاب میں مزا ہے.اپنی دنیا کی زندگیوں میں بھی ان کا یہی طریقہ ہوا کرتا تھا کہ کسی کے دکھ کو دیکھ کر ان کو سکون ملتا تھا.تو جہنم میں جا کر بھی ان کا مزاج نہیں بدلے گا.وہ یہ نہیں کہیں گے کہ اے خدا ان بد بختوں نے ہمیں گمراہ کیا اس لئے ہمیں معاف کر ہم سے رحم کا سلوک فرما.وہ کہیں گے اچھا پھر ان کے دوہرے عذاب کا مزا ہمیں چکھا.اللہ تعالٰی اس کے جواب میں فرمائے گا.رہیں ضِعف دیکھو دونوں کے لئے دوہرا ہی عذاب ہے.ولكن لا تَعْلَمُونَ لیکن تم اس بات کو سمجھتے نہیں.دونوں کے لئے دوہرا عذاب کیوں ہے.ایک دوسرے کے لئے گمراہی کا موجب بنا اور ایک نے گمراہی اختیار کی.سوال یہ ہے کہ اس کا یہ جواب کیوں دیا گیا کہ دونوں کے لئے دو ہرا عذاب ہے لیکن تم نہیں جانتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی کی پیروی کرتے ہوئے ایک برا نمونہ پیش کرتا ہے وہ محض کسی برے نمونے کے پیچھے چلنے والا نہیں بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے خود بھی وہ ٹھوکر کا سامان بن جاتا ہے.تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے ان کی پیروی کی اس لئے ان کو دوہرا عذاب دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تو پیروی کر کے اب میرے حضور حاضر ہو گئے.لیکن تم نہیں جانتے کہ تم نے کتنے بد نمونے پیچھے چھوڑے ہیں.اور کتنی آنے والی نسلوں کی گمراہی کے سامان پیدا کئے ہیں.اس لئے جس دلیل سے تم کہتے ہو کہ ان کو دوہرے عذاب میں مبتلا فرما وہی دلیل تمہارے دوہرے عذاب کا بھی مطالبہ کرتی ہے.پس اللہ تعالیٰ ہر گز ظلم کرنے والا نہیں اور خدا تعالیٰ جب گمراہوں اور مغضوبوں سے باتیں کرتا ہے تو بظا ہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو ٹوک جواب دے دیا کوئی دلیل نہیں.لیکن جب آپ گہری نظر سے دیکھیں تو خدا کے دو ٹوک جواب میں گہری حکمت کار فرما ہوتی ہے اور بہت ہی پر شوکت اور پر حکمت کلام ہے.چنانچہ یہ بات سن کر پھر خدا فرماتا ہے.وَقَالَتْ أَوْلَهُمْ لا غريهُمْ فَمَا كانَ لَكُمْ عَلَيْنَا مِن فَضْلٍ فَذُوتُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْسِبُونَ کہ دیکھ

Page 464

461 لیا تم نے.تمہیں ہم پر کوئی فضیلت نہیں دی گئی.تم سے کوئی غیر معمولی سلوک نہیں کیا جائے گا.اب آؤ مل کر ہم اس عذاب کو چکھیں جو ہم نے بھی کمایا تھا اور جو تم نے بھی کمایا ہے.ابو جہل کی بے وقوفانہ دعا سوره الانفال آیت ۳۱ تا ۳۴ میں سے ایک آیت میں یہ دعا ہے کہ دراد قالوا اللَّهُمَّ اِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْعَقَ مِنْ عِندِكَ فَامُطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّن السَّمَاءِ او انیتا بعذاب الیم کہ بعض ایسے بد بخت لوگ ہیں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین میں سے.کیوں کہ ان کا ذکر ہو رہا ہے جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے اللہ اگر واقعی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم حق پر ہیں اور تو نے انکو حق عطا کیا ہے یہ حق تیری طرف سے ہے فَامْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّن السماء تو ہم پر پھر آسمان سے پتھروں کی بارش نازل فرما او انتنَا بِعَذَابِ ایستید یا ہمیں بہت ہی درد ناک عذاب دے.یہ دعا کفار مکہ کی دعا ہے اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ابو جہل نے یہ دعا کی تھی اور یہ کہا تھا کہ جس بندے کا میں انکار کر بیٹھا ہوں مجھے اتنا یقین ہے کہ یہ جھوٹا ہے کہ میں بڑی دلیری کے ساتھ تجھے مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اے خدا اگر تو نے اس کو سچ عطا کیا ہے تو پھر آسمان سے بے شک مجھ پر پتھروں کی بارش نازل فرما اور جو بھی درد ناک عذاب ہو سکتا ہے ہمیں پہنچے.ایک دفعہ ایک بدوی نے بنو عباس کے ایک خلیفہ کو یہ طعنہ دیا کہ تم لوگ جو قریش مکہ بن کر اپنی فضیلتوں کے قصے سناتے ہو.خدا نے ہم پر تمہارا حال کھول دیا ہے.تم بڑے ہی بیوقوف لوگ ہو اور قرآن کریم نے تمہاری بیوقوفی پر ہمیشہ کیلئے گواہی دے دی ہے.اس نے تعجب سے پوچھا کہ کون سے گواہی.اس نے کہا تم میں سے سب سے بڑا صاحب حکمت ابوالحکام ہی تھا تا.جس کو خدا نے بعد میں ابو جہل قرار دیا اور ابوالحکم کا حال یہ تھا کہ خدا سے اس نے یہ دعا کی کہ اے خدا اگر محمد مصطفی کو تو نے حق عطا فرمایا ہے تو پھر ہم پر پتھروں کی بارش نازل فرما.وہ بڑا پاگل آدمی تھا اس کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اے

Page 465

462 خدا اگر حق ہے تو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اس حق کو قبول کر لیں.یہ کہنا چاہیئے تھا کہ اگر یہ جھوٹا ہے تو ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم اس کو نہ مانیں.لیکن اگر حق ہے تو پھر ہم پر رحمتیں نازل فرما اور ہمیں توفیق عطا فرما.یہ دعا مانگ بیٹھا کہ اگر حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش نازل فرما.لیکن یہ ابو جہل کی فطرت ہے یہ ہر زمانے میں دہرائی جاتی ہے.بعض لوگ ہم نے دیکھے ہیں یہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی کے متعلق خدا آسمان سے اتر کر ہمیں کہے کہ یہ سچا ہے تب بھی ہم نہیں مانیں گے.تو یہ جو فطرت ہے بغاوت کی یہ شیطانی فطرت ہے.اور خدا آسمان سے خود اتر کر کہے کہ یہ سچا ہے تو ہم نہیں مانیں گے.یہ کوئی فرضی بات نہیں بلکہ اس سے پہلے جو شیطان کا مکالمہ گزر چکا ہے اس میں یہ بات کھل کر ثابت ہو چکی ہے.شیطان جانتا تھا کہ خدا حق ہے.اور شیطان جانتا تھا کہ خدا نے آدم کو حق قرار دیا ہے.اور اس کے باوجود وہ دیکھو کیسی بڑھ بڑھ کر باتیں کرتا ہے اور کہتا ہے اے خدا میں پھر بھی نہیں مانوں گا اور تو مجھے مہلت دے تاکہ قیامت تک میں ان لوگوں کے رستے پر بیٹھوں.اس دعا سے یہ معاملہ بھی سمجھ آگیا کہ شیطان کن لوگوں کے بھیس میں ان رستوں پر بیٹھا کرتا ہے.ہر نبی کے دور میں جیسے آدم کے دور میں ایک شیطان نے خدا سے یہ مکالمہ کیا.عملاً ایسے ابلیس پیدا ہوتے رہتے ہیں جو بعینہ ہی بات کہتے ہیں کہ اے خدا تو نے ہمیں بتا دیا تب بھی ہم نہیں مانیں گے.اور آدم کی کہانی ہر دور میں دہرائی جاتی ہے.پس ان مغضوب علیم کی دعاؤں سے اور جو مکالمہ انہوں نے خدا سے کیا ہمارے لئے ہمیشہ کے لئے گہری صیحتیں ہیں.اللہ تعالٰی ہمیں ان سے استفادہ کی توفیق بخشے.مغضوب علیھم کی چھپی ہوئی دعا سورۂ یونس آیت ۲۲ تا ۲۴ کی ایک دعا ہے جو مَغْضُوب علی کی طرف منسوب ہے.مغضوب علی کا مضمون تو ہے لیکن یہ ذرا مضمون میں چھپا ہوا لپٹا ہوا مضمون ہے.فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي يُسَيَرُكُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وہی خدا ہے جو تمہیں خشکیوں اور سمندروں میں سفروں پر لے جاتا ہے.اور سفر کی سہولتیں تمہیں عطا فرماتا ہے.حتى إذا كُنتُمْ فِي الْفُلْكِ یہاں تک کہ

Page 466

463 جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو.وَجَرينَ بِهِمْ بِرِيح طيبة کشتیاں ٹھنڈی خوشگوار ہواؤں کے ساتھ ان کو لیکر سفر پر روانہ ہوتی ہیں.بیا اور وہ اس سے بہت خوش ہو جاتے ہیں جَاءَ تقاريه عاصف اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ہوا میں تیزی آجاتی ہے.اور تنک ہوائیں چلنے لگتی ہیں وجاءَهُدُ لَمَوْجُ مِن كُلِّ مَكَانٍ اور ہر طرف سے موجیں ان کو گھیر لیتی ہیں.وَظَنُّوا أَنَّهُمْ أَحِيْطَ بِهِمْ اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ان موجوں کے گھیرے میں آچکے ہیں.دعوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين وہ اس وقت پورے اخلاص کے ساتھ اپنے دین کو سچا قرار دیتے ہوئے خدا سے یہ عرض کرتے ہیں لون انجَيْتَنَا مِن هَذِهِ لَتَكُونَنَّ مِنَ الشكرين اے خدا اگر اس بار اس مصیبت سے تو ہمیں نجات بخش دے تو ہم یقیناً تیرے شکر گزار بندے بن جائیں گے.فلما انجيهُمْ إِذَ هُوَ يَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ پھر جب اللہ تعالی ان کو نجات بخش دیتا ہے.تو وہ دنیا میں اسی طرح ناحق بغاوت کرتے پھرتے ہیں.جس طرح پہلے کیا کرتے تھے.اور خدا کے معصوم بندوں کو ستاتے ہیں.ياتِهَا النَّاسُ إِنَّمَا يُغَيكُمْ عَلَى انْفُسِكُمْ مَتَاعَ الحيوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ الَّيْنَا مَرْجِعُكُمْ فتنبِئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ کہ اے لوگو سن لو کہ تمہاری بغاوت بالآخر تمہارے ہی خلاف ہوگی.متاع الحيوةِ الدُّنْيَا اور یہ جو نفع کی باتیں کرتے ہو یہ تو عارضی دنیا کا نفع ہے بالا خر تم ہماری طرف لوٹ کر آنے والے ہو اور تب ہم تمہیں بتائیں گے کہ تمہارے اعمال کی کیا حقیقت تھی.اس دعا کو مغضوب علیم کی دعا میں نے اس لئے کہا ہے کہ بالآخر یہ لوگ اپنے وعدوں سے مل جاتے ہیں اور بہت جاتے ہیں.مگر مصیبت کے وقت کی یہ دعا بذات خود مغضوب علیم کی دعا نہیں اسی لئے میں نے کہا کہ یہ لیٹی ہوئی سی دعا ہے.ہر وہ شخص جو نیک ہو یا بد ہو جب مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس قسم کی دعائیں کیا کرتا ہے.لیکن بعض ان میں سے ایسے ہیں جو مغضوب بھی ہیں.جو جھوٹے ہیں دھوکہ دینے والے ہیں.خدا سے وعدے کرتے ہیں اور پھر ان وعدوں سے ہٹ جاتے ہیں.ان لوگوں کے

Page 467

464 متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی بھی دعائیں قبول کر لیا کرتے ہیں.پس یہاں یہ مضمون سمجھانے کی خاطر میں یہ دعا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ ایسی دعا جو مصیبت کے وقت کی جائے بعد دفعہ وہ اس شدت کے ساتھ دل سے اٹھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر گواہی دیتا ہے کہ دین کے خلوص کے ساتھ وہ دعا کی گئی تھی.واقعہ ”دل کی کیفیت یہی ہوتی ہے.اور چونکہ وہ کیفیت ایسی ہے جس کو خداتعالی رد نہیں فرمایا کرتا.اس لئے اس علم کے باوجود کہ یہ کیفیت بدل جائے گی اس وقتی کیفیت پر احسان فرماتے ہوئے اس دعا کو قبول کر لیتا ہے.پس بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بد بھی ہیں تب بھی ہماری دعائیں تو قبول ہو ہی جاتی ہیں.ان کو دھوکے میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے.اللہ تعالیٰ انتار حم فرمانے والا ہے کہ جب ایک انسان ایک اضطرار کی حالت میں دعا کرتا ہے مضمون اور وقتی طور پر مخلص ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کو رد نہیں کر سکتی.یہ آپ نے اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی دیکھا ہوگا.بعض لوگ بار بار شرارت کرتے ہیں.لیکن جب پکڑے جائیں تو واقعی ایسی عاجزی کی کیفیت اختیار کر لیتے ہیں.ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں وہ تھر تھر کانپتے ہیں پاؤں کو جھک جھک کر ہاتھ لگاتے ہیں کہ خدا کے لئے معاف کر دو آئندہ ہم نہیں ایسا کریں گے.اگر پتہ بھی ہو آپ کو کہ آئندہ پھر بھی کریں گے وہ عاجزی اور انکساری کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ ایک شریف انسان اس کو رد نہیں کر سکتا.پس اگر ایک عام انسان بھی اس الحاج سے متاثر ہو جاتا ہے اس عاجزی سے متاثر ہو جاتا ہے تو خدا تو بہت زیادہ غفور الرحیم ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کو علم نہیں.خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ پھر یہی حرکتیں کریں گے.لیکن ساتھ ہی بیان فرما دیا کہ آخر ہمارے پاس آتا ہے.ہمیں پتہ ہے کہ بھاگ کے تو کہیں جائیں گے نہیں.چونکہ انجام بالآخر میرے پاس ہوتا ہے اس لئے مجھے اس سے فرق ہی کوئی نہیں پڑتا چاہئے میں دس دفعہ معاف کروں.ہزار دفعہ معاف کروں.چونکہ مجھ تک پہنچنے والے ہیں اس لئے آخری فیصلہ میں قیامت کے دن کروں گا.جب سب کے اعمال میرے حضور پیش کئے جائیں گے.چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے ایک دعا کے ذکر کے بعد میں آج کا خطبہ نیبو کر دوں گا.

Page 468

465 کس وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی فرماتا ہے وَجَاوَزْنَا بِبَني اسراءيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنَ وَ جُنُودُهُ بَغْيًا وَ عَدْوًا، حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْخَرَقُ ، قَالَ أَمَنْتُ أَنَّهُ لا إلهَ إِلا الذي أمَنَتْ بِهِ بَنُو الشراء يل وانا مِنَ الْمُسْلِمِينَ الْثَنَ وَقَدْ عَصَيْتُ قبل وكنتَ مِنَ الْمُقودين فرماتا ہے کہ جب ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتار دیا اور فرعون نے اپنے لشکروں کے ساتھ اس کی پیروی کی اور بغاوت کی باتیں کرتے ہوئے اور دشمنی کے ارادے لیکر ان کے پیچھے چل پڑا.یہاں تک کہ جب اس | کے غرق ہونے کا وقت آپہنچا.اس وقت اس نے یہ دعا کی لاإله إلا الذي آمنت به بنو الاسراءیک میں گواہی دیتا ہوں کہ بنو اسرائیل جس خدا پر ایمان لائے ہیں اس خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں.وآنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اور میں مسلمان ہوتا ہوں.تب خدا نے فرمایا انفاق کیا اب جب کہ تیرے غرق ہونے کا وقت آپہنچا ہے وَقَدْ عَصَيْتُ قبل اور تو اس سے پہلے ساری عمر نا فرمانی میں گزار چکا ہے.وكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ اور تو ہمیشہ فساد کرنے والوں میں سے رہا.اس دعا کے بیان کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے اس دعا کو بھی مشروط رنگ میں قبول کر لیا.یہ جانتے ہوئے کہ اس وقت آخری لمحے میں اس کو دعا کا کوئی حق نہیں تھا.اس کی ساری عمر دیوں میں گزری.ساری عمر بغاوت میں کئی.اب جبکہ موت سر پر آکھڑی ہوئی بلکہ ڈوب رہا ہے ان لمحوں میں جو وہ دعا کرتا ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں.لیکن اس کے باوجود بعض دفعہ اس دعا میں ایک شدت ایسی اضطرار کی پیدا ہو جاتی ہے کہ خدا اس کو بھی قبول فرمالیتا ہے.لیکن کسی حکمت کے تابع.فرمایا ہم نے اس کو یہ جواب دیا آلان کیا اب اس وقت ؟ پھر فرماتا ہے.فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ ببرنك چلیں ہم تیرے بدن کو نجات بخش دیں گے.کیونکہ روح کے خوف سے تو نے تو بہ نہیں کی تھی.بدن کا خوف در پیش ہے تو تو بہ کر رہا ہے.اس لئے اس آخری تو بہ میں روح کو تو نہیں بچاؤں گا لیکن تیرے بدن کو ضرور بچالوں گا.کس لئے ؟ اس لئے لِتَكُونَ لِمَن خَلْفَكَ آيَةً نا کہ تو اپنے بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت

Page 469

466 کا نشان بن جائے.وان كثيرا من النَّاسِ عَن ابْتِنَا لَغَفِلُونَ دنیا میں اکثر ایسے لوگ ہیں جو ہمارے نشانات سے غافل ہیں.اور اس آیت سے مختلف مفسرین نے مختلف نتائج نکالے ہیں.آذركَهُ الْخَرَقُ کے مضمون میں وہ یہ سمجھتے ہیں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جب وہ غرق ہو رہا تھا تو اس وقت کی یہ دعا تھی.اس لیئے خدا نے صرف بدن کو بچایا یعنی لاش کو بچایا اور فرعون کو نہیں بچایا.وہ سمجھتے ہیں روح کے مقابل پر لاش سے مراد یہ ہے کہ وہ زندہ رکھا گیا اور اس کی دعا اس رنگ میں قبول ہوئی کہ اس کا بدن بعد میں باقی رہے گا.میرے دل میں ہمیشہ اس تفسیر کے بارے میں تردد رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ فراعین مصر کی لاشیں تو ویسے ہی محفوظ کی جاتی تھیں.اس لئے خدا نے اس کی کیا دعا سنی.وہ تو دستور تھا اہل مصر کا اپنے فرعون کی لاش کو ڈھونڈھ کر جب وہ پانی اترا ہو گا تو انہوں نے ضرور اس کی می بنالی ہوگی.اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ ہم تیرے بدن کو محفوظ رکھیں گے اس سے مراد اسکی زندگی سمیت بدن ہے اور یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ روح نہیں بچے گی یعنی جب وہ قیامت کے دن پیش ہو گا تو اس وقت گناہ گاروں اور مجرموں کے طور پر ہی پیش ہو گا.لیکن چونکہ اس نے عارضی زندگی کی خاطر دعا مانگی ہے اور روحانی زندگی کی خاطر نہیں مانگی.اس لئے اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ تجھے ہم عارضی زندگی عطا کر دیں گے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.پچاس سال ٹھہرو سو سال مھر و.لیکن بالآخر اس کے نتیجے میں تجھے معاف نہیں کریں گے.کیونکہ جو گناہ تجھ سے سرزد ہو چکے ہیں آخری دم تک تو نے ان سے توبہ نہ کی تھی اس مضمون کی روشنی میں میرے ذہن پر ہمیشہ یہی اثر رہا کہ فرعون کے متعلق جستجو کروں کہ واقعتہ اس سے کیا ہوا.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے انگلستان میں ایک انسائیکلو پیڈیا ایسا میرے ہاتھ آیا جس میں تفصیل سے اس فرعون کا ذکر تھا یعنی Rameses the second (رئیس ثانی) اور مجھے یہ معلوم کرکے بڑا تعجب ہوا کہ وہ اس واقعہ کے بعد پچاس ساٹھ سال تک زندہ رہا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ نوے سال کی عمر اس نے پائی اور بہت چھوٹی عمر میں اس کا باپ فوت ہو گیا.حضرت موسیٰ کی زندگی کا اکثر حصہ اس کے باپ کے زمانے میں کٹا ہے جو اور مزاج

Page 470

467 کا تھا..اس کی موت کے بعد یہ نوجوان تھا جب یہ بادشاہ بنا ہے.اور چونکہ یہ حضرت موشی سے پہلے ہی حسد کرتا تھا اور جانتا تھا کہ یہ بنی اسرائیل کا ایک لڑکا ہماے دربار میں ہمارے بادشاہ کے گھر میں پل رہا ہے.اس کی وجہ سے اس کے دل میں حسد تھا.تو ذاتی انتقام کی خاطر بھی اس نے بہت زیادہ شدت اختیار کی.جب یہ واقعہ ہوا ہو گا.جس وقت بھی ہوا ہے اس وقت حضرت موسیٰ اپنی بڑی عمر کو پہنچ چکے تھے.اور یہ شخص ابھی بالکل نوجوان تھا.اگر یہ اس وقت غرق ہو جاتا.واقعہ ” ڈوب کر مر چکا ہوتا تو اس کی جو لاش ممی کی ہوئی ملتی وہ نو جوانی کی لاش ہونی چاہیے تھی.اس کی جو لاش دریافت ہوئی ہے وہ ایک نوے سالہ انسان کی لاش ہے.جس سے پتہ چلتا ہے کہ لازما " اللہ تعالیٰ نے اس کو جب بدن کی نجات کا وعدہ فرمایا تو مراد دنیاوی زندگی کی نجات کا وعدہ ہے.خالی بدن کے رکھنے کا تو کوئی مطلب نہیں.اور فرمایا کہ یہ اس لئے ہو گا کہ اس کے بعد جب بھی مرے گا تیری لاش ہمیشہ کے لئے عبرت کے نشان کے طور پر محفوظ رہے گی اور پھر ہم دنیا کو بتائیں گے کہ یہ وہ ظالم انسان تھا جس نے خدا سے ٹکر لی تھی.ایک اور وجہ بھی اس کی لاش کو بچانے کی یہ نظر آتی ہے کہ اگر یہ ڈوب جاتا تو ممکن ہے پانی اترنے کے بعد اس کی لاش ڈھونڈنے کی کوشش کی جاتی.لیکن اس کا بہت کم امکان تھا.کیونکہ سمندر میں ڈیلٹا کے پاس ایسی مچھلیاں ہوتی ہیں جو لاشوں کو کھا جاتی ہیں بڑی جلدی اور پھر اریں بھی بہا کے کہیں سے کہیں لے جاتی ہیں.معلوم ہوتا ہے جب فرعون ڈوبنے لگا ہے جب اس نے دعا کی ہے تو اس کے حوالی موالی اس کے ساتھی زور مارتے رہے ہیں کہ کس طرح اس کو بچالیں اور بالآخر اس کو دنیا کی زندگی کی نجات مل گئی تھی.دعا کے مضمون کے لحاظ سے آخری نتیجہ یہ نکالنا چاہئے کہ آخری سانس کی دعائیں قبول نہیں ہوا کرتیں.اس لئے تو بہ کے لئے وہ وقت ہوا کرتا ہے جب تو بہ کے بعد بھی ایک زندگی گزارنی ہو.اگر تو بہ ایسے وقت میں ہو جب کہ انسان اپنے آخری وقت کو پہنچ چکا ہو تو ایسی توبہ قبول نہیں ہوا کرتی.اس لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالٰی ہمیں منضُوب علی جی کی طرح اس وقت توبہ کی توفیق نہ بخشے جبکہ تو بہ کے دروازے بند

Page 471

468 ہو چکے ہوں.بلکہ زندگی میں توبہ کی توفیق بخشے اور توبہ کی دعا کرتے وقت ان سب بد نصیبوں کے انجام کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ یہ دعا کیا کریں کہ اے خدا ہم اس وقت مخلص ہیں لیکن تو نے ہمیں بتایا ہے کہ بعض مَغضُوبِ عَلَيْهِم بھی تو مخلص تھے.تو نے ہمیں بتایا ہے کہ بعض گمراہ بھی تو دعا کرتے وقت مخلص تھے.اس لئے ہم نہیں جانتے کہ ہمارا کیا انجام ہوگا.اس لئے ہم تیرے حضور جھکتے ہوئے عاجزانہ یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے اس اخلاص کو عارضی نہ بنا دینا.ان بدنصیبوں میں ہمیں شامل نہ کرنا جن کے وقتی اخلاص کے پیش نظر تو نے ان کی التجاؤں کو قبول فرما لیا.لیکن جب مہلت دی تو وہ دوبارہ ویسے ہی کاموں میں پڑ گئے.اس لئے ہمیں ایسی کچی توبہ کی توفیق عطا فرما جو تیرے حضور دائی ٹھہرنے اور جب بھی ہم سے دوبارہ غلطی سرزد ہو مجرموں کی طرح ہم سے صرف نظر نہ کرنا بلکہ اس طرح صرف نظر فرمانا جس طرح اپنے بندوں پر رحم کرتے ہوئے کوئی صرف نظر کیا کرتا ہے.پس امید ہے کہ ہم جب مضمون کو ختم کریں گے تو ہماری ان تحت عنبو کی دعاؤں میں ایک نئی جلا پیدا ہو جائے گی.ہمیں معلوم ہو چکا ہو گا کہ انعام یافتہ لوگوں کی دعائیں کیا رنگ رکھتی ہیں اور مغضوب علی کی دعائیں کیا رکھتی ہیں.یہ دعا قبول ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے.وہ دعا قبول ہوتی ہے تو کیوں ہوتی ہے.اللہ تعالٰی ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.ایسی صراط مستقیم جس پر ہر چند کہ شیطان بیٹھا ہو مگر ہم اس کے شکر گزار بندوں کی طرح اس پر قدم ماریں اور کبھی بھی شیطان ہمارے شکر پر حملہ نہ کر سکے.کیونکہ وہی ہمارا دفاع ہے.اگر ہم شکر سے عاری ہو گئے تو پھر ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں.ایسی صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے جس پر انعام یافتہ مدے دعائیں کرتے ہوئے چلتے رہے.اور بالآخر اپنی مراد کو پہنچے.اس

Page 472

469 بیت الفضل - لندن ۱۲ جولائی 1991ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فرعون کے غرق ہونے کے بارے میں ایک نظریہ تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : گزشتہ جمعہ میں میں نے غرِ المَغضُوبِ علی کی تفسیر کے دوران منضوب علیہم گروہ کی بعض دعائیں نمونہ " آپ کے سامنے رکھی تھیں وہی مضمون آج بھی جاری رہے گا لیکن دوسری آیت جو گزشتہ تسلسل میں پیش کرنی تھی اس سے پہلے میں فرعون کے عرق سے متعلق کچھ مزید کہنا چاہتا ہوں.میں نے یہ استنباط کیا تھا کہ قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ جب فرعون غرق ہونے کے قریب پہنچا تو اس نے ایک دعا کی اور اس دعا کے نتیجے میں ہم نے اس کو یہ جواب دیا کہ الن وَقَدْ عَصَيْتُ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ (سوره یونس : آیت ۹۳) اب تو یہ دعا کا وقت نہیں رہا کیونکہ اس سے پہلے تو مسلسل نا فرمانی کرتا رہا اور فساد پھیلاتا رہا.فَاليَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لیکن آج کے دن ہم تیرے بدن کو ضرور نجات دے دیں گے.لِتَكُونَ لِمَن خَلْفَكَ آيَةً لا کہ وہ جو تیرے بعد آنے والے ہیں ان کے لئے تو عبرت کا نشان بن جائے.اس بحث میں میں نے یہ امکان پیش نظر رکھا تھا اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ بدن کی نجات کا جو وعدہ فرعون کو دیا گیا تھا اس سے مراد محض لاش کی نجات نہیں کیونکہ لاشیں تو بہتوں کی کنارے پر پہنچ گئی ہوں گی.بہت سے ایسے ہیں بلکہ اکثر فرعون وہی ہیں جن کی لاشیں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دی گئی تھیں تو خصوصیت کے ساتھ اس فرعون کی دعا کے نتیجے

Page 473

470 میں جب بدن کی نجات کا ذکر ہے تو اس سے میں نے یہ استنباط کیا کہ ایسی زندگی مراد ہے جو روج سے عاری ہو جیسے انگریزی میں Zombie کہا جاتا ہے.بعض ایسے لاش نما انسان ہوتے ہیں جن کی زندگی روحانیت سے کلیتہ "عاری اور روح سے عاری ہوتی ہے.انگریزی میں لفظ Zombie تو ظاہری روح کے بغیر زندگی کا تصور پیش کرتا ہے لیکن نُنَجِيكَ يبريك میں جو مضمون ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہم تجھے زندگی تو دے دیں گے مگر نجات نہیں دیں گے اور روحانیت سے عاری زندگی ہوگی.اس ضمن میں باقی آیات جن میں فرعون اور اس کے ساتھیوں کے عرق کا ذکر ہے کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ سوائے ایک موقعہ کے ہر دوسری جگہ بنو اسرائیل کو نجات دینے اور ان کی پیروی کرنے والے ان کے پیچھے آنے والے فرعون کے لشکر کے فرق کا ذکر ہے لیکن ایک جگہ خود فرعون کے فرق کا بھی ذکر ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس موقعہ کے ساتھ اس مضمون کا کہیں تضاد تو نہیں جو میں بیان کر رہا ہوں.سورۂ بقرہ میں ہے کہ واد فَرَقْنَا بِكُمُ البَحْرَا جَيْنَكُمْ وَاغْرَقْنَا الَ فِرْعَوْنَ وَانْتُمْ تَنْظُرُونَ (بقره : ۵۱) یعنی ہم نے آل فرعون کو غرق کر دیا اور تم دیکھ رہے تھے.پھر سورہ انفال میں بھی واغرقنا ال فرعون کا ذکر ہے.پھر سورة الشعراء میں وَانْجَيْنَا مُوسَى وَ من مَعَهُ أَجْمَعِينَ ثُمَّ غَرَقْنَا الأخرين (الشعراء : ٢٢-١٧) اسی طرح الزخرف میں بھی یہی مضمون ہے.مختلف جگہ جہاں بھی فرعون اور اس کے ساتھیوں کے عرق کا ذکر ملتا ہے سوائے ایک سورۃ الاسراء کے باقی جگہ صرف فرعون کے ساتھیوں یا فرعون کی قوم کے فرق کا ذکر ہے.سورۃ الاسراء میں یہ ذکر ہے.فافرَقْلَهُ وَمَنْ مَعَهُ جَمِيعًا (الاسراء : ۱۰۴) اور ہم نے فرعون کو اور اس کے ساتھ جو بھی تھے سب کو غرق کر دیا."غرق" سے مراد ڈوب کر مر جانا نہیں.اب سوال یہ ہے کہ ایک جگہ خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ ہم نے اس کو غرق کر دیا.دوسری جگہ فرماتا ہے جب غرق قریب آیا اور اس نے دعا کی تو ہم نے اس سے بدنی

Page 474

471 نجات کا وعدہ کر لیا تو کیا ان دونوں کے درمیان تضاد ہے یا کوئی تطبیق کی صورت ممکن ہے.عرق کا لفظ جب میں نے ڈکشنری میں دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہر جگہ جس کو ہم اردو میں ڈوبنا کہتے ہیں بالکل وہی مفہوم عربی میں غرق کا پایا جاتا ہے.کوئی شخص تیرنے کی کوشش کرتا ہو بچنے کی کوشش کرتا ہو لیکن ہار جائے اور پانی کے اندر ڈوب جائے.ڈوب مرنے کا معنی غرق کا میں نے کہیں نہیں دیکھا.اس لئے ان دونوں میں میرے نزدیک تضاد کوئی نہیں.جس طرح خدا تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ سے بھی ایک نبی کو زندہ بچالیا تھا جہاں اس کے بچنے کے امکان ایک عام ڈوبے ہوئے آدمی کے بچنے کے مقابل پر بہت کم تھے.بارہا ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص ڈوب جاتا ہے اور ڈوبے ہوئے کو ایسی حالت میں نکال لیا جاتا ہے کہ ابھی اس نے دم نہیں توڑا اور پھر کوشش کر کے اس کو بچا لیا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ جہاں غرق کا لفظ استعمال فرماتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ فرعون ضرور ڈوبا ہے اور اپنے لشکر کے ساتھ ڈوبا ہے اور جہاں تک فرماتا ہے کہ ہم تیرے بدن کو نجات بخشیں گے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈوبے ہوئے کے لئے ظاہری زندگی کے بچانے کا انتظام ممکن ہے اور خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام ضرور کیا ہوگا کیونکہ اس وعدے کا خصوصیت کے ساتھ یہاں ذکر کرنا ایک گہرا پیغام رکھتا ہے اور وہ پیغام اس وقت تو لوگوں کو سمجھ نہیں آرہا تھا اب کی دنیا میں ہمیں سمجھ آیا جبکہ ہم نے فرعون کی لاش کو بچا ہوا اور میں ہوئی ہوئی حالت میں دیکھا لیکن جب میں نے مزید تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ وہ فرعون جس نے موسیٰ سے ٹکر لی اور جس کے متعلق یہ آتا ہے کہ ہم نے اس کو غرق کیا وہ فرعون ۹۰ سال کی عمر میں طبعی موت مرا ہے اور اس کی می اور اس کے سارے کاغذات جو ساتھ ہیں اور تمام تحریریں یہ بتا رہی ہیں کہ وہ نو عمری میں غرق ہونے کی حالت میں نہیں مرا تھا بلکہ لمبی عمر پا کر اس کے بعد اس نے کئی لڑائیاں بھی کی ہیں، ان لڑائیوں کے بعد ایک جگہ فلسطینیوں کے ہاتھوں بڑی بھاری شکست بھی کھانے لگا تھا، جس کو بعد میں دوبارہ ایک قسم کی فتح میں تبدیل کیا گیا لیکن ایک موقع پر تو بہر حال بہت ذلت ناک شکست بھی اس نے کھائی.سوال یہ ہے کہ کیا قرآن کریم کا ایسا ترجمہ کیا جائے گا جس کے مقابل پر تاریخی

Page 475

472 گواہی کھڑی ہو اور بجائے اس کے کہ وہ لاش عبرت کا نشان ہے نَعُوذُ بِاللَّهِ مِن ذيك قرآن کریم پر شک ڈالنے کا ایک نشان بن جائے ایک یہ پہلو ہے.دوسرا پہلو یہ ہے کہ قرآن کریم کے معانی پر غور کر کے اس کی خاص طرز کلام کو سمجھتے ہوئے ایسے معنی کئے جائیں جو بجائے اس کے کہ حقائق سے متضاد دکھائی دیں حقائق کو اس رنگ میں پیش کریں کہ غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ کی شان ان سے ظاہر ہو اور وہ لاش واقعہ " عبرت کا نشان بن جائے.میرا رجحان لازماً اس طرف ہے اور میرے نزدیک غرق ہونے اور غرق ہونے کے بعد بچائے جانے میں کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ عام انسانی تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ با رہا ڈوبے ہوؤں کو بچالیا گیا ہے.خاص طور پر فرعون کے ارد گرد جو اس کا محافظ عملہ تھا اور خاص طور پر وہ دریائے نیل کے کنارے بسنے والے لوگ تھے اور ان میں بڑے بڑے پیراک تھے، بہت ماہر غوطہ خور موجود تھے ان لوگوں کا اپنے بادشاہ کو بچانے کی کوشش نہ کرنا بعید از ضم ہے.اس لئے ہر گز بعید نہیں بلکہ میرے نزدیک واقعتہ " یہی ہوا کہ فرعون کے ڈوبنے کے بعد اس کے ساتھیوں نے غوطہ خوری کے ذریعے جو بھی انہوں نے کوشش کی اس کی لاش کو نکالا اور چونکہ خدا تعالیٰ نے وعدہ کر لیا تھا کہ میں تیرے بدن کو نجات بخش دوں گا اس لئے وہ بدن زندہ رہا اور ایک لمبے عرصے تک اس بدن کے ساتھ وہ چلتا پھرتا حکومت کرتا ہوا دکھائی دیا لیکن اس کی روح کو نجات نہیں بخشی گئی گویا زندگی میں ہی اس کی موت کا فیصلہ کر دیا گیا تھا اور یہ ایک ایسا قطعی فیصلہ تھا جو باقی سب سے اس کو جدا کرتا ہے.باقی لوگوں کے لئے آخر دم تک توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے.اس سے زیادہ اور کوئی کیا عبرت کا نشان ہو سکتا ہے کہ ایک لمبی زندگی اور بادشاہت کی اور فخر کی زندگی اس کے سامنے پڑی ہو اور اس کو معین طور پر خبر دی گئی ہو کہ تم پر ہر قسم کی توبہ کا دروازہ بند ہو چکا ہے.اب تم ایک ظاہری زندگی بسر کرو گے لیکن اس میں کوئی روحانیت نہیں ہوگی تو یہ ساری باتیں میرے ذہن میں تھیں اور ہیں اور اس کے باوجود میرا رجحان اس طرف ہے کہ قرآن کریم نے جو وعدہ کیا تھا وہ بدنی زندگی کا وعدہ تھا، محض بدن کو عبرت کا نشان بنانے کا وعدہ نہیں تھا.

Page 476

473 عذاب کے وقت کی دعا قبول نہیں ہوتی اب ہم بقیہ آیات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.ایک دعا یہ بتائی گئی ہے کہ والذي النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ.فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا آخِرُنَا إلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ ، تُجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ ، أَوَلَمْ تَكُونُوا أقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّن زَوَالٍ 1 (سوره ابراهیم : آیت ۴۵) اور تو لوگوں کو اس دن سے ڈرا جس دن عذاب ان کو آئے گا.فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا آخَرُنَا إِلَى أَجَلٍ قریب وہ لوگ جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ خدا سے یہ استدعا کریں گے کہ اے خدا ہمیں کچھ اور مہلت دے دے.نجب دعوتك وتتيح الرسل ہم تیری دعوت کو قبول کریں گے اور تیرے بھیجے ہوؤں کی پیروی کریں گے.آوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ مَا لَكُمْ مِّن زَوَالٍ کیا اس سے پہلے تم یہ قسمیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ تمہیں کبھی کوئی زوال نہیں ہوگا.وسَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ (سوره ابراهیم : آیت (۴۹) اور تم ان لوگوں کے گھروں میں بسے رہے جنہوں نے تم سے پہلے اپنی جان پر ظلم کئے تھے.وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ اور تم پر خوب روشن ہو چکا تھا کہ ان کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا تھا.وضربنا لكُمُ الامثال اور ہم نے تمہارے سامنے کھول کھول کر مثالیں بیان کی تھیں.وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ اور جو مکروہ کر سکے انہوں نے وہ سارے مکر کئے اور اللہ کے پاس ان مكْرُهُمْ کے مکروں کا مکمل ریکارڈ موجود ہے.قران حانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولُ مِنْهُ الْجِبَالُ خواہ ان کے مکر ایسے بھی تھے جس سے پھاڑ ٹل جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مکروں کو نا کام کر دیا.یہ جو دعا ہے یہ ایسی دعا ہے جیسی کئی دعائیں اس سے پہلے بھی آپ کے سامنے

Page 477

474 پیش کی جاچکی ہیں کہ عین اس وقت جبکہ خدا کا فیصلہ آجائے اس وقت کی دعا قبول نہیں ہوا کرتی.اس سے پہلے فرعون کی دعا کی مثال بھی گزری ہے لیکن اس میں خدا تعالٰی نے خود استثناء فرمایا ہے کہ جزوی طور پر میں تیری بات مانوں گا لیکن مکمل طور پر نہیں مانی جائے گی.اکثر دعائیں تو وہ بیان کی گئیں ہیں جو قیامت کے دن جہنم کے سامنے پیش کرتے ہوئے یا جہنم کے اندر ظالموں کی التجائیں ہیں اور ان سب کے رد ہونے کا ذکر ا ہے.کچھ دعائیں وہ ہیں جو موت کا منہ دیکھ کر یا عذاب کا منہ دیکھ کر کی جاتی ہیں ان کے بھی اکثر رد ہونے کا ذکر ہے.سوال یہ ہے کہ ان کی دعائیں صرف دو تین مضمونوں پر کیوں مشتمل ہیں.وجہ یہ ہے کہ مومن کو تو ایسے دور میں ابتلاؤں کی ایک لمبی زندگی ملتی ہے جبکہ دعائیں قبول ہو سکتی ہیں، وہ دعائیں کرتا ہے اور دعائیں مقبول ہوتی ہیں اور اس کے بے شمار نمونے ہیں جو اس کی زندگی کے مختلف حالات پر چسپاں ہوتے ہیں.لیکن کافر کی دعائیں ہوتی اس وقت کی ہیں جبکہ آخری وقت آپہنچا ہو.اس لئے صرف نجات کی چند دعائیں یا عذاب سے بچنے کی دعا کے سوا آپ کو کوئی دعا نظر نہیں آئے گی.ان کو دعا کا شعور نہیں ہوتا.اس لئے دعا کے بہت تھوڑے نمونے ہیں جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھے ہیں لیکن ان پر بھی جب غور کریں تو ان سے ہمیں بہت سی نصیحت ملتی ہے.یہاں ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ ذکر فرمایا کہ جب وہ عذاب کا منہ دیکھیں گے تو بچنے کے لئے دعا کریں گے لیکن جو جواب اللہ تعالی نے دیا ہے اس کا بظاہر اس دعا سے تعلق نہیں ہے.فرمایا : اولمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِّن قَبْلُ مَا لَكُمْ تين زوال تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تم پر کبھی زوال نہیں آئے گا؟ وہ تو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے خدا!! ہمیں بچا لے.ہم تو بہ کریں گے.ہم سے عذاب ٹال دے تاکہ ہم دوبارہ موقعہ پائیں کہ تیرے رسولوں کی پیروی کریں اور تجھ پر ایمان لائیں لیکن جواب یہ دیا جا رہا ہے کہ کیا اس سے پہلے تم ہی لوگ یہ تمہیں نہیں کھایا کرتے تھے کہ ہمیں کوئی زوال نہیں آئے گا.اصل بات یہ ہے کہ یہاں ان کافروں کا ذکر ہے جو زمین میں تکبر کرتے ہوئے خدا کی جگہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بھیجے ہوؤں کو ایسے چیلنج کرتے ہیں کہ

Page 478

475 جن کے نتیجے میں گویا خدائی کے اختیارات ان کو مل چکے ہیں اور کھلے کھلے چیلنچ کرتے ہیں کو جو کچھ کرنا ہے کر لو.جو عذاب لا سکتے ہو لے آؤ.ہم پر کبھی کوئی زوال نہیں آئے گا.ہمیں ہمیشگی کی بادشاہت عطا ہوتی ہے.ہماری طاقت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.تو یہ ساری کہانی ہے جو اس قسم کے اندر بیان فرما دی گئی ہے.تم یہ کہا کرتے تھے اور قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تمہیں زوال نہیں آئے گا.کن معنوں میں زوال نہیں آئے گا؟ جب وہ انبیاء سے کر لیتے تھے تو ان کو وہ کہا کرتے تھے کہ جو کرنا ہے کر گزرو.جو دعائیں کرتی ہیں کرو.کوئی دنیا میں ایسی طاقت نہیں.کوئی آسمان پر ایسی طاقت نہیں جو ہماری ترقیوں کو تنزل میں بدل دے.فرمایا کہ جن کے تکبیر کا یہ حال تھا وہ جب عذاب کو سامنے دیکھتے ہیں اور اس زوال کو دیکھتے ہیں جس کے متعلق وہ انکار کیا کرتے تھے تو اس وقت ان کی دعا کے قبول ہونے کا کوئی وقت نہیں رہتا.وَسَكَنْتُمْ فِي مَسْكِين الَّذِينَ ظَلَمُوا انْفُسَهُمْ یہاں ہر جگہ جہاں کافر کی یا ظالم کی دعا بیان ہوئی ہے اس کے رد ہونے کے دلائل بھی بیان فرما دیئے گئے ہیں.فرمایا : تم تو ایسے لوگ ہو جو تم نے کبھی نصیحت پکڑی ہی نہیں.اب عذاب کو دیکھ کر کیسے نصیحت حاصل کرو گے.اس سے پہلے تم جیسے لوگوں پر عذاب نہیں آئے تھے؟ کیا انہی کے گھروں میں تم بے نہیں رہے؟ کیا تم نے تاریخ سے یہ سبق نہیں سیکھے کہ تم جیسے کام کرنے والے تم سے پہلے ہلاک کر دئیے گئے.پس اگر عذاب سے تم نے نصیحت پکڑتی ہے تو پہلوں کے عذاب سے کیوں نصیحت نہ پکڑی.وہ بھی تو تم جیسے ہی تھے.تمہارے جیسے کاموں کے نتیجے میں وہ اپنے بد انجام کو پہنچے.پس تمہارے سامنے ان کا ماضی ہے اور اب تم اس ماضی کو بھلا کر نظر انداز کرنے کے بعد جب اس کو مستقبل کے طور پر اپنے سامنے دیکھ رہے ہو تو ہمیں کہتے ہو کہ ہمیں واپس کردو.ہم نصیحت پکڑیں گے.یہ فطرت کے خلاف بات ہے جسے نصیحت پکڑنی ہو وہ دوسرے کے بد حال کو دیکھ کر اپنے لئے نصیحت کا رستہ اختیار کرتا ہے اور نیکی کا رستہ اختیار کرتا ہے.جب اپنے اوپر آپڑے تو پھر بچنے کا کوئی سوال نہیں رہا کرتا.وَقَد مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ پھر وہ بھی تمہاری طرح بہت فکر کرنے والے تھے اور خدا کے پاس انکا مکر ہے “ اس کا اور

Page 479

476 مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے قبضہ قدرت میں ہے کہ ان کے مکر کو جس طرح چاہے ذلیل اور رسوا کر کے نامراد کردے.عِندَ الله مكرهم ان کے مکر خدا کی مٹھی میں ہیں.وہ خدا والوں کو کیا کہہ سکتے ہیں.دوسرا مطلب یہ ہے کہ خدا کے پاس ان کے مکروں کا مکمل ریکارڈ موجود ہے.وَاِن كَان مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ اگر ایسے ایسے مکر بھی ان کے پاس ہوتے جن سے پہاڑ ٹل جاتے تب بھی خدا کے قبضہ قدرت میں تھے.خدا کی اجازت کے بغیر وہ سارے مکر بے اثر رہتے اور بے اثر رہے تو جو دعا آخر پر نامنظور کی جاتی ہے اس کا فیصلہ بھی خدا تعالی ساتھ ساتھ بیان فرماتا چلا جا رہا ہے.وإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيْكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّن حَمَّا تَسْنُونٍ (سورة الحجر : آیت ۲۹) اس ذکر کے بعد کہ کس طرح ہم نے انسان کو ایک گلی سڑی مٹی سے پیدا کیا اور پھر فرشتوں کو اس کی اطاعت کا حکم دیا، فرماتا ہے : سب نے اطاعت کی سوائے ابلیس کے جب خدا نے پوچھا کہ کیوں تو نے اطاعت نہیں کی تو اس نے کہا کہ لم اكن لاسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهُ مِن صَلْصَالٍ مِّن حَمَإٍ مَسْنُونٍ (سورة الحجر : آیت ۳۴) کہ میں ان میں سے نہیں ہوں جو ایک ایسی ذلیل چیز کی اطاعت کریں جسے تو نے گندی مٹی سے پیدا کیا ہے.ایسی گھٹیا اور رسوا چیز کی اطاعت کرنے والوں میں میں نہیں ہوں.قالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رجيم - (سورة الحجر : آیت ۳۵) فرمایا که تو اپنی موجودہ کیفیت سے باہر نکل جائیعنی ہم تجھے اس حالت میں نہیں رہنے دیں گے جس حالت میں ہم نے تجھے بنایا ہے.تجھے ذلیل ورسوا کریں گے.وان عليك اللعنة إلى يوم الدين (سورۃ الحجر : (۳۶) اور قیامت کے دن تک کے لئے تجھے يَوْمِ پر لعنت ہے.:

Page 480

477 ہے.شیطان صاحب عقل بھی ہوتے ہیں یہ سننے کے بعد تب شیطان نے دعا کی ہے لیکن یہاں لفظ شیطان نہیں بلکہ ابلیس بابليسُ مَا لَكَ الَّا تَكُونَ مَعَ الشجدين (سورة الحجر : ۳۳) یہاں لفظ ابلیس خاص طور پر قابل توجہ ہے.میں آگے جاکر بیان کروں گا کہ کیوں یہ یہاں خاص اہمیت رکھتا ہے.قَالَ رَبِّ فَالْفِرْنَ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (سورة الحجر : ۳۷) اے خدا! مجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دے کہ لوگوں کو تو دوبارہ نئی زندگی عطا کرے گا.قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظرين (سورة الحجر : ۳۴) ہاں ہم تجھے اس وقت تک کے لئے مہلت دیتے ہیں اپنی قومِ الوَقْتِ الْمَعْلُويد (سورة الحجر ۳۹) اس معین وقت تک کے لئے جس کا ذکر گزر چکا ہے.قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا أَيْنَتَ لمة في الأرْضِ وَلَا غَوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (سورة الحجر : ۲۰) اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے گراہ قرار دے دیا ہے.میں ان کے لئے زمین میں جو کچھ ہے وہ بہت ہی حسین اور خوبصورت بنا کر دکھاؤں گا.ولا غوِيَنَّهُمْ أَجْمَدِينَ.اور میں تیرے سب کے سب بندوں کو گمراہ کر دوں گا.إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ ( سورة الحجر : ۲۱) وہاں شیطان نے خود یہ استثناء کیا کہ سوائے ان بندوں کے جو تیرے مخلص بندے ہیں.یہاں مخلص کا لفظ نہیں بلکہ مخلص کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.مراد یہ ہے کہ جن کو تو خالص کر دے.پس شیطان نے جو بات کی وہ بھی حکمت کی بات ہے اور شیطان کی طرف بھی قرآن نے جو باتیں منسوب کی ہیں ان میں سے بعض عقل اور سمجھ کی باتیں ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے شیطان دنیا میں صاحب عقل بھی ہوتے ہیں مگر انکار کی دفعہ ان کی عقلیں ماری جاتی ہیں جس طرح ابو جہل پہلے ابو الحکم کہلاتا تھا.حکمت کا باپ وہ جہالت کا باپ بن گیا اور یہاں ابلیس سے مراد میں سمجھتا ہوں ہر دور کا ابلیس ہے.اور مہلت دینے سے مراد یہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں سے کسی کو بھیجتا ہے تاکہ اس کے خالص بندوں کا انتخاب کیا جائے اور ظاہری بندوں سے بچے اور مخلص بندوں کو الگ کر کے دکھایا جائے تو ان کو نبی کے ذریعے مخلص بتایا جاتا ہے.وہ لوگ جو نبی کی اطاعت کرتے ہیں وہ خدا کی طرف سے خالص بنائے

Page 481

478 جاتے ہیں.اپنے طور پر کوئی خالص نہیں بن سکتا، تو یہ نبوت کا مضمون ہے جس کو شیطان نے یہاں بیان کیا ہے.وہ کہتا ہے ہاں وہ لوگ جن کو نبوت کے ذریعے تیری طرف سے خلوص عطا ہو گا اور وہ نبوت کی پیروی کے ذریعے مخلص بنائے جائیں گے وہ یقینا میری پیروی نہیں کریں گے.قال هذا صِرَاطَ عَلَى مُسْتَقِيمُ (سورة الحجر : (۲۲) خدا تعالٰی نے اس کے جواب میں فرمایا.یہ وہ سیدھا رستہ ہے جو میری طرف آتا ہے.یعنی شیطان بھی وہیں بیٹھا ہوا بہکا رہا ہے اور خدا کے انبیاء بھی اسی رستے پر نیک نمونے دکھا رہے ہیں اور جن کو خدا کے ان نیک بندوں پر ایمان لانے کی توفیق ملتی ہے وہ مخلص بنا دئے جاتے ہیں اور ان پر شیطان کا کوئی دخل نہیں رہتا فرمایا : (سورة (سورة ان عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَنَّ إِلَّا مَن اتَّبَعَكَ مِنَ الْغُوينَ.الحجر : ۳۳) میرے بندوں پر تجھے کوئی تسلط نہیں، سوائے ان کے جو پہلے سے گمراہ ہوں اور ٹیڑھی طبیعت رکھتے ہوں.وَإِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ أَجْمَعِيْنَ الحجر : (۴۴) اور جہنم تم سب کیلئے وعدہ ہے.اخم میں سب کے لئے اس جہنم میں داخل ہوگے.لَهَا سَبْعَةُ آبو اب اس کے سات دروازے ہیں.احد تابِ مِنْهُمْ جُزر مقسوم (سورۃ الحجر : (۴۵) اور اس کے ہر دروازے کے لئے ایک ہ مقرر ہو چکا ہے.ایک ایسا جزء ہے جو پہلے سے تقسیم شدہ ہے اور وہ ان دروازوں کے کے ذریعے داخل ہو گا.شیطان انہی کو گمراہ کر سکتا ہے جن میں کچھی ہے ان ساده کی آیات میں بہت سی حکمت کی ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر ضروری ہے.شیطان نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ تیرے مخلص بندوں کے سوا میں سب کو گمراہ کردوں گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو تو گمراہ کرے گا ان پر بھی تیرا تسلط اس وجہ سے ہو گا کہ ان کے اندر کچھی موجود ہوگی ورنہ تیرا کچھ بھی اختیار نہیں ہے.یہ ایک بہت گہرے فلسفے کی اور حکمت کی بات ہے جسے مومن کو سمجھ لینا چاہئیے کہ شیطان کا کسی پر کوئی تسلط نہیں ہے.جن کو خدا مخلص کر دے ان پر تو اس کے تسلط کا سوال ہی نہیں ، دوسرے جو بندے ہیں ان میں سے جو ٹیڑھے ہوں وہی شیطان کو دعوت دیتے ہیں.جن کے نفس

Page 482

479 میں کجی نہ ہو ان پر شیطان کو غلبہ نہیں مل سکتا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان عمادي ليس لك عَلَيْهِمْ سُلْطن میرے بندوں پر تو تیرے غلبے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.إلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغُوين - سوائے اس کے کہ کوئی ٹیڑھے لوگ خود تیری پیروی کریں.اندر کی کجی باہر کے گناہ کو بلاتی ہے پس گناہ کا فلسفہ ہے جو بہت کھول کر بیان فرما دیا گیا.اگر اب اپنی غلطیوں پر کوئی انسان گہری نظر سے نگاہ ڈالے اور اپنے ماضی کے حالات کا مطالعہ کرے تو اس پر یہ ب کھل جائے گا کہ اندر کی کبھی ہے جو باہر سے گناہ کو بلاتی ہے.جب تک وہ کچھی انسانی فطرت میں پیدا نہ ہو انسان گناہ کی طرف نہ راغب ہو سکتا ہے نہ گناہ اسے مغلوب کر سکتا ہے.اس لئے پہلے اندر ایک فیصلہ ہو جاتا ہے اور وہ وہی فیصلہ ہے جو آگے پھر گناہ کے رستوں کی پیروی کرنے کی توفیق دیتا ہے پس کیسا خوبصورت اور واضح انسانی فطرت کا نقشہ کھینچا گیا ہے.پس اندر کی جو کچی ہے اس کا نام شیطان ہے اور باہر سے بلانے والے جو ہیں وہ ابلیس ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کے دور میں ابو جہل ایک ابلیس تھا اور اسی طرح ہر دور میں بہت سے ابلیس پیدا ہوتے ہیں ضروری نہیں کہ صرف ایک ہی ہو.وہ بدیوں کی طرف بلاتے ہیں اور ہر انسان کے اندر ایک شیطان ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کی رگوں میں شیطان دوڑ رہا ہے اور ہر شخص کا اپنا شیطان ہے.پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا بھی شیطان ہے تو آپ نے فرمایا ہاں لیکن وہ مسلمان ہو گیا ہے.یعنی میرے اندر کوئی کمی رہی نہیں.یہ فطرت کا بہت گہرا راز ہے ہر انسان کی رگوں میں کچھ نہ کچھ بھی موجود ہوتی ہے جو اسے باہر کی بد آواز کے سامنے سرجھکانے پر آمادہ کر دیتی ہے اور اصل خطرناک شیطان اندر کا شیطان ہے اور وہ شیطان اگر مسلمان ہو جائے تو پھر دنیا میں کسی کو اس شخص کے اوپر غلبہ نہیں نصیب ہو سکتا یعنی خدا کے سوا کسی کو اس شخص پر غلبہ نصیب نہیں ہو سکتا.

Page 483

480 جنت اور جہنم کے سات دروازوں کا مطلب اس گہری انسانی فطرت کے راز کو سمجھنے کے بعد ایک انسان شیطانی اثرات سے یا ابلیسی اثرات سے بہتر رنگ میں بچ سکتا ہے اور پھر مزید اس بات کو واضح فرما دیا کہ یہاں فطرت انسانی کی بات ہو رہی ہے.فرمایا : جنم جس میں یہ لوگ داخل کئے جائیں گے لها سبعة آبواب اس کے سات دروازے ہیں.جنت کے بھی سات دروازے بتائے گئے ہیں اور جہنم کے بھی سات دروازے بنائے گئے ہیں.اس ضمن میں ربوہ میں آغاز کے سالوں میں میں نے ایک مرتبہ ایک خطبہ دیا تھا جس میں سمجھایا تھا که ان دروازوں سے کیا مراد ہے.پانچ تو حواس خمسہ ہیں.کان کا دروازہ ، آنکھ کا دروازه قوت شامہ کا دروازہ مزے کا دروازہ اس کا دروازہ وغیرہ وغیرہ.یہ پانچ سوراخ ایسے ہیں جن کے ذریعے انسان بیرونی دنیا سے رابطہ کرتا ہے.اگر ان دروازوں پر پہرے نہ بٹھائے گئے ہوں تو جہاں بھی کمزوری ہوگی وہاں سے کوئی اچکا داخل ہو سکتا ہے کوئی چور آسکتا ہے.پس جو لوگ ان دروازوں کی حفاظت کریں وہ خدا کے فضل کے ساتھ امن میں رہتے ہیں لیکن دو دروازے اندر بھی ہیں ان میں سے ایک دماغ کا دروازہ ہے اور ایک دل کا دروازہ ہے اور یہ دونوں دروازے ایسے ہیں جو تمام پانچوں اثرات کو قبول کرتے یا رد کرتے ہیں اور اثرات کے نتیجے میں ان کی اپنی ایک شخصیت پیدا ہوتی ہے.ایک شخصیت ذہنی قابلیتوں کی شخصیت ہے، ایک شخصیت جذباتی قابلیتوں کی شخصیت ہے.اور یہ دونوں چیزیں بیرونی اثرات سے رفتہ رفتہ بنتی ہیں اور اندرونی قابلیتوں کے اوپر جب بیرونی اثرات اپنی روشنی ڈالتے ہیں تو ان کے نتیجے میں اندر سے ایک روشنی پیدا ہوتی ہے.اسی طرح جب بیرونی اندھیرے اندر کے اندھیروں پر اپنا اثر ڈالتے ہیں تو اندر سے ایک اور تاریکی پیدا ہوتی ہے.پس ذہنی تاریکیاں ہوں یا قلبی تاریکیاں ہوں.ذہنی روشنیاں ہوں یا قلبی روشنیاں ہوں، یہ دو دروازے ہر انسان کے اندر کھلے رہتے ہیں.پس قرآن کریم نے جب فرمایا کہ سات دروازوں سے تم لوگ جہنم میں داخل کئے جاؤ گے تو مراد یہ ہے کہ اندر کے شیطان انسانی نفس کے ساتھ لگے ہوئے جو شیطان ہیں یہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.ان میں سے زبان

Page 484

481 آنکھ، ناک، وغیرہ وغیرہ یہ جتنے بھی حواس خمسہ کے دروازے ہیں ان پر اگر انسان قابو پائے اور ان کو خدا کے سپرد کر دے تو پھر اندر کے دو دروازے بھی واقعہ "خدا کے سپرد ہو جاتے ہیں یعنی ذہن کا دروازہ اور دل کا دروازہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ ایسے لوگ وہ ہیں جو مخلصین ہیں.جن کو اللہ کے لئے خالص کر دیا گیا ہے ان پر کسی ابلیس کو کوئی تسلط نہیں ہو سکتا.یہ مضمون سمجھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ کتنا مشکل کام ہے اور خدا تعالیٰ نے صراط مستقیم کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ یہ صراط مستقیم ہے جہاں یہ سب کچھ ہوتا ہے اور روز پانچ وقت پانچ نمازوں میں ہر رکعت میں ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہمیں صراط مستقیم پر چلا.کیسی صراط مستقیم ہے جہاں نیک بھی چلتے ہیں 'بد بھی چلتے ہیں ٹھوکریں کھانے والے لوگ بھی ہیں ، بیچ کر نکل جانے والے لوگ بھی ہیں.اکثر وہ ہیں جو رستہ کھو دیں گے.کم وہ ہیں جو خوش نصیب ہیں اور جو آخر منزل تک پہنچیں گے ان بد دعاؤں سے ہمیں متنبہ کیا جو مغضوب علیہم اور ضالین کی دعائیں ہیں لیکن وہ بھی آپ کو صراط مستقیم پر ہی ملتے ہیں لیکن وہ صراط جو سیدھی خدا تک پہنچا دیتی ہے وہ عِباد الله المُخلصین کی راہ ہے اور انہیں کی دعائیں کرتے ہوئے ہمیں ان رستوں پر آگے بڑھنا چاہیے اور جو جو ٹھوکریں خدا تعالیٰ نے ہم پر کھول دی ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرتے رہنا چائیے لیکن اس یقین کے ساتھ کہ اپنی کوشش سے کوئی انسان نیک نہیں ہو سکتا جب تک دعا کے ذریعے اسے توفیق نہ ملے اور دعا کی قبولیت کے لئے ضروری ہے کہ دل سے ایک خالص آواز اس دعا کی قبولیت کے لئے اٹھے.عام دعاؤں کے لئے تو دل سے خالص آوازیں آسانی سے اٹھ جاتی ہیں مگر نیکی کی دعا کے لئے دل کی خالص آواز کو بلند کرنا بہت مشکل کام ہے یہ بات میں آپ کو اچھی طرح سمجھا دینا چاہتا ہوں.آپ اگر یہ دعا کریں کہ ہمارا بچہ ٹھیک ہو جائے تو دل سے نکلے گی.یہ دعا کریں کہ اے خدا ہمیں اس بلا سے نجات بخش دے.ہمیں اس طوفان سے بچالے تو دل سے اٹھے گی.چنانچہ قرآن کریم نے جیسا کہ میں نے پہلے دو خانوں میں ذکر کیا ان دعاؤں کی قبولیت کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں پتہ تھا کہ بعد میں یہ لوگ مکر جائیں گے لیکن اس وقت دل سے دعا کر رہے تھے.ایک مضطر کی دعا تھی اور ہم نے اس کو قبول کر

Page 485

482 لیا لیکن نیکی کی دعا مانگنا سب سے مشکل دعا ہے کیونکہ وہ بہاؤ کے خلاف دعا ہے.انسانی فطرت گناہوں کی پیروی کرتی ہے، اس کی طرف دھکیل کر لے جانا چاہتی ہے.طبیعت کا طبیعی بہاؤ مزے کی طرف ہے لذتوں کی طرف ہے، آرام طلبی کی طرف ہے.بہاؤ کے خلاف دعا کرنا سب سے زیادہ مشکل دعا ہے.واقعہ نیکی کی دعا مانگتے ہوئے ہر انسان اگر اپنے نفس کو کرید کر دیکھے اور یہ غور کرے کہ واقعہ وہ خدا سے ان سب چیزوں سے بچنے کی دعا مانگ رہا ہے تب اس کو پتہ چلے گا کہ وہ دعا کچھ نیم جان کی دعا تھی.انسان کہتا ہے کہ مجھے نیکی عطا کر لیکن ساتھ ڈرتا بھی ہے اور پوری طرح نیت بھی نہیں رکھتا.ایک شخص مثلا رزق حلال کی دعا مانگتا ہے اب اس کے لئے روزانہ رزق حرام کئی طرح سے بہت خوبصورت بن کر ظاہر ہوتا ہے اگر ان سب امکانات کو پیش نظر رکھے اور پھر یہ دعا کرے کہ اے خدا مجھے رزق حلال عطا کر تب اس کو سمجھ آئے گی کہ مخلص دعا ہوتی کیا ہے.وہ دعا مخلص نہیں ہوگی جبتک کہ وہ پہلے رزق حرام کے سارے دروازے اپنے اوپر بند نہیں کر لیتا اور خدا سے یہ کہہ نہیں دیتا کہ میں نے کر دیتے ہیں اب میں التجا کرتا ہوں کہ وقت کے اوپر آکر ٹھو کر نہ کھا جاؤں.اس وقت تک یہ دعا مخلص نہیں ہو سکتی تو مخلص دعا یعنی نیکیوں کے معاملے میں مخلص دعا سب سے مشکل دعا ہے.اپنے بچوں کے لئے آپ کر سکتے ہیں.اپنے مرے ہوئے بزرگوں کے لئے کر سکتے ہیں کیونکہ ان کی خاطر آپ کو اپنے اندر تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے.آسانی سے کر سکتے ہیں.مائیں بچوں کو جتنی مرضی دعائیں دے لیں.اے خدا! ان کو نیک بنا.سب ٹھیک ہے لیکن اپنے لئے نیکی مانگیں اپنی کمیاں درست کرنے کی دعائیں مانگیں اور بہت سی ایسی دعائیں مانگیں تب ان کو سمجھ آئے گی کہ بچوں کے لئے تو پوپہلے منہ سے آسانی سے دعائیں کرلیں.مرے ہوئے بزرگوں کے لئے بھی کر لیں لیکن وہ دعائیں بھی تب زیادہ مقبول ہوں گی اگر اپنے لئے بھی اسی جان کے ساتھ دعائیں کی جائیں.اس لئے اپنے لئے دعائیں یہ بھی فیصلہ کر دیتی ہیں کہ مستقبل کے لئے مقبول ہوں گی یا نہیں اور ماضی کے لئے مقبول ہوں گی یا نہیں.انبیاء کی نیکیوں کی دعائیں کیوں ان کی اولاد کے حق میں مانی جاتی ہیں.عام انسان کے لئے کیوں نہیں مانی جاتیں.یہ بھی تو ایک مسئلہ ہے.پس،

Page 486

483 مخضوب علیم کی دعاؤں پر جب آپ غور کرتے ہیں تو بہت سے نیک لوگوں کی دعاؤں کی حکمتیں بھی سمجھ آنے لگ جاتی ہیں.اسی لئے یہ مضمون ضروری ہے اور اس لئے میں آپ کے سامنے اسے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.جو مغضوب لوگوں کی دعائیں ہیں یا سنج لوگوں کی دعائیں ہیں وہ جب نیکی کی دعائیں بھی کرتے ہیں تو ان کے اندر ایک کبھی ہوتی ہے اور اس کچھی کی وجہ سے وہ دعائیں رو ہو جاتی ہیں اور غیروں کے لئے خواہ کبھی نہ بھی ہو چونکہ اپنے لئے کبھی ہوتی ہے اس لئے دوسروں کے لئے دعاؤں میں بھی کمزوری واقع ہو جاتی ہے.خدا کے نشانوں کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے کی سزا قیامت کے دن ایک سوال ہے پوری دعا نہیں بنتی اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب کسی کو اندھا بنا کر اٹھائے گا یعنی دوسری دنیا میں نور سے عاری کر دے گا.بصیرت سے عاری فرما دے گا تو وہ یہ کہے گا.قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَى وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا سور حملہ : ۱۲۶) کہ اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھا دیا.میں تو دنیا میں دیکھا کرتا تھا.قال تحذيك الفك ابْتَنَا فَنَسِيتَها اللہ فرمائے گا کہ اس لئے یعنی دلیل یہ ہے کہ تیرے پاس میرے نشانات آیا کرتے تھے یا آتے رہے اور تو نے انہیں نظر انداز کر دیا.نسيتقا کا معنی یہاں بھلا دیتا " ان معنوں میں نہیں کہ ایک چیز یاد تھی اور بھلا دی گئی.نسنتها کا معنی ہے : انہیں اس طرح نظر انداز کر دیا کہ گویا وہ بھول چکے تھے.ان کو فراموش کر دیا.ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی.وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنسى (سورة طه : ۱۳۷) اور آج تجھے اسی طرح بھلا دیا جائے گا.دیکھتے ہوئے نہ دیکھنے کا مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.فنسنتا مطلب یہ نہیں ہے کہ تو نے کوئی یاد چیز کو بھلا دیا بلکہ مراد یہ ہے کہ تیرے سامنے تھی اور تو نے دیکھا ہی نہیں.نظر انداز کر دیا تو جو چیز اپنی مرضی سے تو نے نہیں دیکھی آج تجھے نظر ہی نہیں آئے گی.اور آج تو بھی اسی طرح خدا کے سامنے بھلا دیا جائے گا اور تیری ضرورتوں کی پرواہ نہیں کی جائے گی.یہ بہت ہی درد ناک سزا ہے اور یہ سزا ہم دنیا میں اپنے لئے بناتے چلے جاتے ہیں.جب خدا کی طرف سے کوئی بات ظاہر ہو جائے اسے کا

Page 487

484 دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند کر لی جائیں تو اس پر یہ مضمون صادق آتا ہے.میں نے تبلیغ کے دوران بہت سے مولویوں سے باتیں کی ہیں اور میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ لوگ اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے نظر آتے تھے.جب ان کے سامنے کھلی کھلی بات رکھی گئی تو آپ ان کے چہروں پر خوف کے آثار دیکھ سکتے تھے.آپ جانتے تھے کہ ان کو نظر آگیا ہے لیکن بڑی پریشانی کے ساتھ انہوں نے اس رخ کو موڑا ہے اور کوشش کر کے مضمون کو بدلتے تھے.یہ ان لوگوں کا ذکر ہے اور روز مرہ کی زندگی میں بعض دفعہ انسان مومن ہوتے ہوئے بھی ایسی غلطیاں کر جاتا ہے اس لئے سوال کا جواب خدا نے ہمیشہ کے لئے دے دیا کہ تم آئندہ کی زندگی کے لئے اپنی بصارت اور بصیرت خود بناؤ گے یا خود بگاڑو گے.اگر اس دنیا میں تم اندھے بن کر رہو گے تو قیامت کے دن بھی اندھے ہی اٹھائے جاؤ گے اور اگر اس دنیا میں روشنی پاؤ گے تو پھر قیامت کے دن بھی روشنی عطا ہوگی.اس کا تعلق صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ حواس خمسہ سے ہے.تمام حواس کا تعلق خدا تعالیٰ کی بعض فرمانبرداریوں اور بعض نشانات سے ہے اور جہاں جہاں انسان ان کو بھلاتا ہے وہاں اگر کلیتہ ان پر فالج نہیں گرا دیتا تو کم سے کم ان حستوں کو بیمار کر دیتا ہے اور قیامت کے دن ان حشوں سے اس نے جنت کی لذتیں پانی ہیں یا اس جنت سے محرومی کے نتیجے میں عذاب دیکھنا ہے.اس لئے بہت ہی احتیاط کی ضرورت ہے کہ اس دنیا میں ہم اپنے حواس خمسہ کو اس طرح استعمال کریں کہ ان سے ملتے جلتے ، ان سے تعلق رکھنے والے حواس خمسہ آئندہ کی دنیا میں پیدا ہوتے رہیں.چنانچہ جب میں نے کہا کہ اس کا تعلق صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ دوسرے حواس سے بھی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس کے بعد فرماتا ہے کہ وكذلك نجوي من أشرف وَلَمْ يُؤْمِن پایت رتم ہم اسی قسم کا سلوک ہر اس شخص سے کرتے ہیں جو اسراف سے کام لیتا ہے اور خدا تعالی کے نشانات پر ایمان نہیں لاتا اور ان کا انکار کرتا ہے.وَلَعَذَابُ الْأَخِرَةِ اشَر وَابْقَی اس ضمن میں جو بعد میں آنے والا عذاب ہے وہ زیادہ سخت ہو گا اور باقی رہنے والا ہو گا.یہ دعا سورہ طہ ۱۲۵ اور ۱۲۸ سے

Page 488

485 سورہ مومنون کی ۱۰۰ تا ۱۰۲ آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ المَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (سورة المومنون : آیت (۱۰۰) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آجائے تو وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! مجھے لوٹا دے لَعَلى أَعْمَلْ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ خَلا تاکہ میں جو جگہ چھوڑ کر آیا ہوں اس جگہ واپس جاکر نیک اعمال بجا لاؤں یعنی اپنی زندگی کو نئے اعمال سے زینت دوں.تحاد خبردار ایسا نہیں ہوگا.اِنَّهَا كَلِمَةً هُوَ قائدها یہ تو محض منہ کی بات ہے جو یہ شخص کہہ رہا ہے.وَمِن وَرَائِهِمْ بَرزخ إلى تيوم يُبْعَثُونَ.اور ایک پردہ ایسے لوگوں کے پیچھے ہے جو قیامت کے دن تک ان کے درمیان اور حقیقت کے درمیان لٹکا رہے گا.فَإِذَالْفِ فِي الصُّورِ فَلا انسَابَ بَيْنَهُمْ يَومعد و لا يتساءلون جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان کوئی قرار بیتیں باقی نہیں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کا حال پوچھ سکیں گے.قرآن کریم میں تکرار مضامین کی حکمت ایک بات تو بارہا پہلے گزر چکی ہے کہ جب پکڑ کا وقت آجائے.جب موت آجائے تو اس وقت بچنے کی کوئی دعا کار آمد نہیں ہوتی.ان مضامین کو جب دہرایا جاتا ہے تو بے وجہ نہیں دہرایا جاتا بلکہ ان کے ساتھ مزید کچھ اور مضامین بیان کر دئیے جاتے ہیں.قرآن کریم میں در حقیقت ایک ہی REPETITION نہیں ہے.آپ کو بہت کی جگہ بعض مضامین دہرائے ہوئے دکھائی دیں گے اور انسان سمجھتا ہے کہ وہی مضمون دوبارہ وہی مضمون دوبارہ.اس کے دو فائدے ہیں.ایک فائدہ تو یہ ہے کہ بعض مضامین بار بار نظر کے سامنے آئیں تو انسانی فطرت پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے لیکن ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ان دہرائے ہوئے مضامین کو مختلف شکلوں میں پیش کیا جاتا ہے اور قرآن کریم میں ایک بھی ایسی دہرائی نہیں جس کا پس منظر یا بعد میں آنے والی آیات

Page 489

486 اس مضمون پر کوئی نئی روشنی نہ ڈالتے ہوں.اس لئے کہیں بھی محض بمرار نہیں ہے بلکہ ہر تکرار کے ساتھ کچھ حکمتیں ایسی پوشیدہ ہیں جو پہلے موقعہ پر بیان نہیں ہوئی تھیں یا ان کے بعض پہلو بیان نہیں ہوئے تھے.چنانچہ یہاں بھی یہی بات ہے.لعلي اعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ خَلا کہہ کر بظاہر وہی باتیں پیش کی گئی ہیں جو پہلے بھی کئی دفعہ پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ومن ورائهة برر إلی یومِ يُبْعَثُونَ اور ان کے درمیان ایک پردہ ہو گا جو قیامت کے دن تک لڑکا رہے گا.کن کے درمیان پردہ ہے؟ یہ بحث ہے.ایک مضمون تو یہ ہے کہ مستقبل میں جو ان کے لئے ظاہر ہونا ہے وہ پوری طرح ان کو دکھائی نہیں دے گا اور ایک پردہ ہو گا لیکن جب مزید غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اعمال صالحہ کے درمیان اور ان کے درمیان ایک پردہ ہے جو کبھی بھی نہیں اٹھایا جائے گا اور انہیں اعمال صالحہ کی توفیق مل ہی نہیں سکتی.جس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی میں اگر کوئی شخص بدی کی حالت میں اٹھایا جاتا ہے تو جس حد تک اس کے بچنے کا امکان تھا وہ امکان اس کو مہیا کیا جا چکا ہے.اور جس شخص کو ابھی اور بھی آزمائش میں ڈالنا ہو اور ابھی اس کی صلاحیتیں پوری طرح استعمال نہ ہوئی ہوں اور یہ امکان ہو کہ ابھی کچھ اور امتحان باقی ہیں تو ایسے شخص کو اگر وہ بد ہے بدیوں میں لمبی زندگی ملتی ہے اور اگر وہ نیک ہے تو نیکی میں اور لمبی زندگی ملتی ہے لیکن کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ اپنی نیکی یا بدی کی کیفیتوں میں اس حد تک آزمایا نہ جا چکا ہو کہ جس کے بعد یقین سے یہ کہا جا سکتا ہو کہ اب اس کے بعد اگر اس کو لاکھ سال کی زندگی بھی ملے تو اس کے اندر تبدیلی پیدا نہیں ہوگی.اگر کروڑ سال کی زندگی بھی ملے تو اس کے اندر تبدیلی پیدا نہیں ہوگی.یہی مضمون ہے جو اللہ تعالٰی نے وَمِن وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْهِ يُبْعَثُونَ.میں فرمایا ہے کہ زندگی کی حد تک ہم نے ان کو دیکھ لیا.یہ جو کہتے ہیں ہمیں دوبارہ موقعہ ملے گا تو ہم نیک اعمال کریں گے.یہ سب بکواس جھوٹ ہے، منہ کی باتیں ہیں.قیامت تک یہ لوگ اب نیکی کی توفیق نہ پانے والے ہیں تب ہم نے ان کو ایسی حالت میں اٹھایا ہے اور پھر اس مضمون کو آگے بڑھا کر فرمایا.فاذا نيفتوني

Page 490

487 الصُّورِفَلا اَنَا بَيْنَهُمْ يَوْمَ لا لوت ان کے اور ان کے نیک ساتھیوں کے درمیان کوئی رشتہ بھی باقی نہیں رہے گا جس طرح ان کے اور ان کے اعمال کے درمیان کوئی رشتہ نہیں اسی طرح ان کے اور ان کے وہ رشتے دار جو نیک تھے ان کے درمیان کوئی رشتہ اب دوبارہ قائم نہیں ہو گا بلکہ ان کے بدوں کے ساتھ رشتے رہیں گے اور جس طرح یہاں انسان اپنے نیک ساتھیوں کے بھی حال پوچھ لیا کرتا ہے اولاد ہو یا ماں باپ ہوں یا عزیز ہوں، اقرباء ہوں نیک اور بد اکٹھے رہتے ہیں لیکن یہاں مرنے کے بعد فرمایا کہ بدوں اور نیک کی دنیا الگ کر دی جائے گی اور وہ ایک دوسرے کے حال پوچھنے کی بھی توفیق نہیں پائیں گے سوائے اس کے کہ قرآن کریم میں بعض جگہ نمونة " خدا تعالٰی سے استدعا کی گئی ہے کہ ہمیں ان لوگوں کا حال بتا اور خدا تعالیٰ ان کو توفیق دے گا کہ نمونہ دوسرا حال دیکھ لیں.وہ ایک الگ مضمون ہے جو استثناء کے طور پر ہے اور اس آیت میں عمومی مضمون ہے جو بیان ہوا ہے.

Page 491

Page 492

489 اسلام آباد (یو.کے) ۲۶ جولائی ۱۹۹۱ء بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ساری بلندیوں کا راز تشهد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا : کچھ عرصہ سے نماز سے متعلق خطبات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ سلسلہ اس غرض سے شروع ہوا تھا کہ وہ احباب جماعت جو نماز سے محبت تو رکھتے ہیں لیکن استفادے کی طاقت نہیں رکھتے ان کی مدد کی جائے اور انہیں سمجھایا جائے کہ پانچ وقت نماز سے کس طرح زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور کس طرح نماز سے محبت میں مزا حاصل کیا جا سکتا ہے.حقیقی محبت وہی ہے جس میں مزا ہو ورنہ محبت کی دو قسمیں ہیں.ایک عقیدے کی محبت ہوا کرتی ہے.اس محبت کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو بعض اعمال پر مجبور کر لیتا ہے لیکن ان اعمال میں لذت حقیقی محبت سے پیدا ہوتی ہے.اس سلسلہ میں ایک عرصہ تک سورہ فاتحہ کے مضامین پر خطبات ہوتے رہے.اب میں بقیہ نماز متعلق کچھ عرض کروں گا.پہلی قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ ہر حرکت کے وقت ہمیں سکھایا گیا ہے کہ اللہ اکبر کا اقرار کریں.سوائے دو حرکات کے یعنی رکوع سے اٹھتے وقت اور سلام پھیرتے وقت ان کا جب موقعہ آئے گا تو ان پر وہاں گفتگو ہوگی.اللہ اکبر حرکت کے ساتھ کیا تعلق رکھتا ہے.دراصل انسان زندگی میں ذہنی اور جسمانی جتنی بھی حرکات ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف کرتا ہے، اس کے ہمیشہ دو محرکات ہوا کرتے ہیں.ایک خوف اور ایک حرص خوف کے نتیجے میں انسان ایک پہلو سے دوسرے پہلو کی طرف منتقل ہوتا ہے.یہاں تک کہ سوتے میں جب آپ

Page 493

490 کروٹ بدلتے ہیں تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کیونکہ جس پہلو پر آپ لیٹے رہتے ہیں کچھ عرصے کے بعد وہاں تکلیف شروع ہو جاتی ہے اور تکلیف سے بھاگنے کے لئے آپ حرکت کرتے ہیں.وہ لوگ جن کو انتہائی پر سکون نیند آتی ہے وہ ایک ہی کروٹ پر پڑے رہتے ہیں.کیونکہ نیند کے غلبے کی وجہ سے ان کو یہ احساس نہیں رہتا کہ ایک پہلو پر لیٹے لیے ان کو تکلیف شروع ہو چکی ہے.بہرحال انسان کی زندگی کے جس پہلو پر خواہ وہ ادتی ہو یا اعلیٰ ، آپ غور کر کے دیکھیں آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ جب آپ جگہ بدلتے ہیں یا حالت بدلتے ہیں تو ہمیشہ یا خوف اور تکلیف سے بچنے کے لئے یا کسی خواہش اور تمنا کو پورا کرنے کے لئے اللہ اکبر کا اعلان ہر حرکت کے وقت آپ کو یہ بتاتا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے.اس سے بھاگ کر تم کہیں نہیں جاسکتے اور اگر تم نے کسی حالت سے کسی اور حالت کی طرف منتقل ہوتا ہے تو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف منتقل ہونا چاہیے.جو چھوٹا ہے اس سے بڑے کی طرف جانا چاہیے اور زندگی کی ہر حرکت اس غرض سے ہو کہ تم اس ذات کے قریب تر ہوتے چلے جاؤ جو اکبر ہے.یہ بہت ہی گہرا اور وسیع مضمون ہے.اس کی تفصیل میں جانے کا وقت نہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اشارہ کافی ہے.اس مضمون پر جب نماز پڑھنے والا غور کرے گا تو اس کے لئے اور بھی مضامین کی کھڑکیاں کھلتی چلی جائیں گی اور نماز کی یا ہر کی حالت بھی عبادت بنتی چلی جائے گی کیونکہ اللہ اکبر کا پیغام نمازی کے لئے صرف نماز کی حالت میں پیغام نہیں بلکہ ساری زندگی کا پیغام ہے اور حرکت و سکون کا تمام فلسفہ اس میں بیان ہو گیا ہے.اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس اس کی اطاعت کے لئے ہے پس نماز کی حالت میں اس پہلو سے اس مضمون پر غور کرنے کے نتیجے میں زندگی کے دیگر مسائل بھی خدا کے فضل کے ساتھ احسن رنگ میں حل ہوتے چلے جائیں گے.اس کے بعد رکوع کی حالت ہے اس میں ہم سُبْحَانَ رَنِي الْعَقِيمِ پڑھتے ہیں.اکثر لوگ غفلت کی حالت میں یہ پڑھتے ہوئے گزر جاتے ہیں ان کو علم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں.اس مضمون پر دو تین پہلو خاص طور پر توجہ کے لائق ہیں اول یہ کہ عظیم کے کیا معنی ہیں.عظیم کے معنی بڑا ہے.کن معنوں میں پڑا؟ اکبر میں بڑائی

Page 494

491 کے جو معنی ہیں وہ مقابلہ " بڑائی کے معنی ہیں اور اکبر کا مضمون عظیم سے مختلف ہے.عظیم اپنی ذات میں ایک ہیبت اور ایک جلوہ رکھتا ہے.ہیت کا ایسا جلوہ جو قریب سے دکھائی دے.جب بھی آپ کسی کو عظیم سمجھتے ہیں اس کو عظیم سمجھنے کیلئے ایک تو دور کا نظارہ ہے وہ کانوں کے ذریعے آپ کو بتایا جاتا ہے یا دور سے آنکھوں کے ذریعے دکھایا جاتا ہے کہ فلاں چیز عظیم ہے لیکن اس کی عظمت کا احساس اس کے قریب آئے بغیر نہیں ہوا کرتا.جب تک آپ کسی پہاڑ کے دامن میں نہ پہنچیں آپ کو یہ علم نہیں ہو سکتا کہ پہاڑ کن معنوں میں عظیم ہے.ہمالہ کی باتیں ہم نے بھی سن رکھی تھیں مگر جب ہم ہمالہ کی طرف روانہ ہوئے اور ہمالہ کے دامن میں پہنچے اور بلند و بالا چوٹیوں کا قریب سے مشاہدہ کیا تب ہمیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی عظمت کیا ہوا کرتی ہے.اسی طرح وہ انسان جو عظیم کہلاتے ہیں دور کے نظارے میں وہ عظیم مانے تو جاتے ہیں لیکن انکی عظمت کا احساس نہیں ہوا کرتا.عظمت کا احساس ہمیشہ قرب سے ہوا کرتا ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عظمت در حقیقت ان لوگوں پر روشن ہوئی جو آپ کے قریب تھے اور وہ جو دور کے زمانوں میں پیدا ہوئے ان پر بھی آپ کی عظمت کو ظاہر کرنے کے لئے روحانی قرب کا نظام جاری فرمایا گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی آپ کو قریب سے دیکھا اور یہی وجہ ہے کہ آپ کے قرب کی وجہ سے ہمیں بھی قرب نصیب ہوا اور ہم نے بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عظمتوں کا قریب سے نظارہ کیا.میں مضمون ہے جس کو سورۂ جمعہ میں یوں بیان فرمایا گیا.وأخرينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی قربت عطا کی جائے گی.زمانے کے لحاظ سے وہ دور ہیں لیکن خدا کی تقدیر کے تابع قریب کئے جائیں وہ گے.وہ آخرین میں پیدا ہونے والے اولین سے ملا دئیے جائیں گے.پس یہاں بھی عظمت کا مضمون ہے.جب تک کسی کی عظمت اس کے قرب سے ظاہر نہ ہو اس وقت تک اس عظمت کے نتیجے میں عظمت کے احساس کے نتیجے میں انسان کے اندر تبدیلیاں پیدا نہیں ہوا کرتیں.پس سُبحان ربی العظیم کا مضمون مجھنے کے بعد انسان ہیں

Page 495

492 کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہم نے سورۂ فاتحہ میں جس خدا کی عظمت کا نظارہ کیا تھا اس خدا کے قریب تر ہو گئے ہیں اور اتنا قریب ہوئے ہیں کہ اس کے حضور جھک گئے اور اس کی اطاعت کو قبول کر لیا ورنہ دور کا خدا اطاعت کروانے کے لئے کافی نہیں.خدا کی اطاعت حقیقی معنوں میں سبھی ہو سکتی ہے جب اس کی عظمت کا احساس ہو اور عظمت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرب کو چاہتی ہے.پس رکوع نے اس مضمون کو مکمل کر دیا.یہ اطاعت کی حالت ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا : والعوامة الراكومنين یہ مطلب نہیں ہے کہ جہاں تم لوگوں کو رکوع کرتے دیکھو تم بھی ساتھ اسی طرح بدن جھکا کر رکوع کر لو.مراد یہ ہے کہ جہاں بھی تم خدا کے بندوں کو اطاعت کرتے ہوئے دیکھو تم بھی اسی طرح اطاعت میں ساتھ شامل ہو جایا کرو.کیونکہ خدا کی اطاعت کا مضمون زندگی کے ہر شعبہ پر ہر حال پر حاوی ہے.اس پہلو سے جب آپ سُبْحَانَ رَبّي العَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ سبحان ربی العظیم کہتے ہیں تو عظمتوں کا مضمون بھی بدلتا چلا جاتا ہے.همتیں ہر صورت حال پر مختلف رنگ میں اطلاق پاتی ہیں.پہاڑ کی عظمت اور ہے.ایک جانور کی عظمت اور ہے.ایک انسان کی عظمت اور ہے اور خدائے ذوالمجد والعلا کی عظمت اور ہے.وہ خدا جس کی عظمت کو سورۂ فاتحہ نے ہمیں سمجھایا اس کی عظمت کو قریب سے دیکھنے کے نتیجہ میں روح بے اختیار رکوع میں جاتی ہے.اور جسم کا رکوع اس کے تابع ہوتا ہے.اس سے پہل نہیں کرتا.پس جب آپ قیام کے وقت کے مضامین کو خوب اچھی طرح سمجھ کر پڑھ لیں تو اس وقت آپ کے دل پر ایک ایسی کیفیت طاری ہونی چاہئیے جس کے نتیجہ میں روح جھکتی ہو اور بدن بھی ساتھ جھکنے کے لئے ہے اختیار ہو جائے.ایسی حالت کا نام رکوع ہے اور اس کے بعد جب آپ عظمت کے مضمون پر رکوع کی حالت میں غور کریں گے تو تین دفعہ کا یہ اعتراف که سُبْحَات ترتي العظيم آپ کو بہت ہی مختصر سا دکھائی دے گا.اس لئے ساری زندگی کے رکوعوں میں آپ کے لئے مختلف سوچوں کا انتظام فرما دیا گیا ہے.

Page 496

493 اللہ کی عظمت انسان کو اپنی پاکیزگی کی طرف متوجہ کرتی ہے لفظ العظيم" اور سُبْحَانَ رَ الْعَظیم میں ایک ایسا خوبصورت مضمون ہے جو ختم نہ ہونے والا ہے اور ہر انسان اپنی کیفیت کے مطابق اپنے حالات کے مطابق اپنے رب سے اس وقت کے حالات کے مطابق اس کی عظمتوں کے مختلف تصورات سے سُبحان ربی العظیم میں نئے رنگ بھر سکتا ہے علاوہ ازیں یہ قابل غور بات ہے کہ سورۂ فاتحہ نے تو ایک خدا سے غائبانہ تعارف کروایا اور اس خدا کو آپ نے نصف سورۃ کے بعد مخاطب کرنا شروع کیا لیکن وہ تخاطب جمع کی حالت میں الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ تمام کائنات پر حاوی خدا ہے.کوئی ایک ہے.وجود بھی اس کی ربوبیت سے باہر نہیں ہے اور اس کی حمد کا ترانہ خواہ انسان با شعور ہو خواہ زندگی کی دوسری شکلیں ہوں، خواہ جمادات ہوں وہ سارے اپنے اپنے رنگ میں ہمیشہ گاتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ ایک عام حالت ہے اس میں ذاتی تعلق کا پیدا ہونا ابھی انتظار چاہتا ہے اس انتظار کی حالت کو خدا نے ایاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کے ذریعہ ختم فرما دیا اور ایک ذاتی تعلق قائم فرما دیا اس رب سے جو سب کا سانجھا رب ہے لیکن یہاں بھی اجتماعی رنگ ہے.ہم اے خدا ! تیری عبادت کرتے ہیں یا تیری عبادت کرنا چاہتے ہیں یا تیری عبادت کریں گے اور تیری ہی عبادت کریں گے لیکن مدد بھی تجھ سے چاہیں گے لیکن یہاں ابھی تک ایسا تعلق قائم نہیں ہوا کہ آپ یہ کہہ سکیں کہ میرا رب ہے.یہ تعلق ایک اونی قدم تعلق کا ہے اور یہ تعلق اطاعت کے بغیر قائم نہیں ہوا کرتا.زبانی تعریف کے ذریعہ کوئی چیز آپ کی نہیں ہو سکتی.جب آپ عمل کی شکل میں اس کا بننے کی کوشش کرتے ہیں تب وہ آپ کی ہو جاتی ہے تو رکوع نے بتایا کہ وہ رب جو آپ سب کا ہے وہ آپ کا بھی تو ہونا چاہئیے یعنی آپ کی ذات کا بھی تو ہونا چاہئے اور اگر آپ واقعی سچے دل سے اس کی تعریف کر رہے ہیں اور اس سے دعائیں کر رہے ہیں تو اس کو اپنانے کے لئے آپ کو خود ذاتی طور پر اس کے سامنے سر جھکانا ہو گا اور اطاعت کرنی ہوگی.جب آپ اطاعت کے ذریعہ اس کے ہوں گے تب آپ کو یہ حق دیا جائے گا کہ یہ اعلان کریں.سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيمِ سُبْحَانَ رَبِّي

Page 497

494 الْعَظِيمِ پاک ہے میرا رب پاک ہے میرا رب پاک ہے میرا رب اور بڑی عظمتوں والا ہے.بڑی عظمتوں والا ہے.بڑی عظمتوں والا ہے.پاک کن معنوں میں ہے آپ کا رب پاک کن معنوں میں ہے.عظمتوں والا کن معنوں میں ہے اور آپ کا رب کن معنوں میں عظمتوں والا ہے.اس میں آپ کے ساتھ نسبتیں قائم ہو گئیں اور ایک اور مضمون نفس کے تجزیہ اور تزکیہ کا شروع ہو گیا.آپ کن باتوں سے پاک ہیں.کن باتوں سے پاک ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اگر بعض باتوں میں آپ پاک ہیں یعنی اپنی توفیق کے مطابق اور بعض باتوں میں پاک ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو حق ہے کہ کہیں سُبحان ربی میرا رب پاک ہے تاکہ یہ کہہ کر خدا سے مدد مانگیں.اگر آپ میں عظمت کے نشان پائے جاتے ہیں یا کچی عظمت کے خواہاں ہیں اور اس کی طرف حرکت کر رہے ہیں تو آپ کو یہ حق ہے کہ کہیں سُبحان ربی العظيم ہاں میرا رب عظیم ہے.اس نے مجھے عصمتیں عطا کی ہیں.وہ مجھے عظمتوں کی طرف لیکر روانہ ہوا ہے.پس دیکھیں کہ مضمون کو ذرا سا بدل کر دیکھنے سے زاویہ بدلنے سے نئے مضامین کے کیسے جہان آپ کے سامنے کھلتے پہلے جاتے ہیں.صرف زبانی حمد کافی نہیں اس کا عمل میں ڈھلنا ضروری ہے اس کے بعد پھر وہ حرکت ہے جہاں اللہ اکبر کی بجائے ایک اور مضمون شروع ہوتا ہے وہ سمع الله لِمَن حَمِدَہ اللہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی حمد کی.اگر کہیں استثناء کرنا تھا تو عام انسانی عقل یہ سوچتی ہے کہ یہاں سورہ فاتحہ کا مضمون جو حمد میں کمال درجے کا مضمون ہے جو درجہ کمال کو پہنچا ہوا مضمون ہے.جہاں وہ مضمون ختم ہوا تھا اس کے بعد آنا چاہیے تھا.سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ الله نے اس کی سن لی جس نے اسکی حمد کی لیکن اس کو بعد میں کیوں ڈال دیا گیا یعنی رکوع کے بعد کیوں رکھا گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ حمد بننے کے لئے صرف زبان کی حمد کافی نہیں.زبان کی حمد کو خدا نہیں سکتا جب تک اس حمد کے نتیجہ میں اطاعت کی روح پیدا نہیں ہوتی اور وہ اطاعت اعمال میں نہیں ڈھلتی.اس لئے وہ جو خدا کی تعریفوں کے زبانی جمع خرچ کرتے ہیں ان کی حمد گویا خدا نے سنی ان سنی کر دی.انسان کی زندگی میں روز مرہ بعض ایسے

Page 498

495 تجارب ہوتے رہتے ہیں.بعض علاقے ہیں جہاں جھوٹی تعریفیں کرنے کی عادتیں ہیں وہ جب آپ سے ملتے ہیں تو ہمیشہ آپ کی بڑی تعریفیں کرتے ہیں.بعض دفعہ ایسی تعریفیں کرتے ہیں کہ مبالغے کی حد کر دیتے ہیں لیکن اگر آپ خود جھوٹے نہیں ہیں تو آپ کی طبیعت میں بجائے اس سے کہ ان کے لئے محبت پیدا ہو تنفر پیدا ہو تا رہتا ہے.اگر آپ جھوٹے ہیں تو جھوٹی تعریفوں سے ہمیشہ خوش ہو جایا کرتے ہیں لیکن آپ کا صدق آپ کو بتائے گا کہ کسی حد تک آپ بچے ہیں کیونکہ سچا انسان کبھی جھوٹی تعریف سے راضی نہیں ہو سکتا اور سنتا ہی نہیں.سنی ان سنی کر دیتا ہے بلکہ نفرت کرتا ہے اور گھبراتا ہے.وہ چاہتا ہے کہ جلد یہ ملاقات ختم ہو.پس ایسی حمد جو دل سے نہ اٹھے اور جو اپنے اندر گہری سچائی نہ رکھتی ہو وہ خدا نہیں سنتا لیکن جب حمد کے نتیجہ میں اطاعت شروع ہو گئی جب انسان نے قربانیاں پیش کرنی شروع کر دیں جب اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیں تو حمد سننے کے لائق ہے اور اسی مضمون کو قرآن کریم نے دوسری جگہ یوں بیان فرمایا کہ کلمہ طیبہ کو پاک کلمے کو نیک اعمال بلند کرتے ہیں.جب تک نیک اعمال اچھے کلمات کے ساتھ شامل نہ ہوں اس وقت تک ان کو رفعت پرواز عطا نہیں کی جاتی اور وہ اوپر پہنچتے ہی نہیں.پس وہ ایسی آوازیں ہیں جو عرش سے درے درے گر جاتی ہیں اور اپنے مقصود اور مقام تک نہیں پہنچتیں ہیں رکوع نے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا کہ اگر تم ایسی حمد چاہتے ہو جسے خدا سنے تو پھر اطاعت کرو اور خدا کے حضور جھک جاؤ.ایسی صورت میں تمہیں یہ آواز سنائی دے گی کہ اللہ اس حمد کو قبول فرماتا ہے جو بچی حمد ہے.سَمِعَ اللهُ لِمَن حَمِدَهُ اب خدا یہ کہتا ہے کہ ہاں میں اس حمد کو سنتا ہوں اس حمد کرنے والے کی پکار کو سنتا ہوں جو بچے دل سے میری حمد کرتا ہے.اس کے نتیجہ میں جب آپ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہتے ہیں تو یہ تشکر کی حمد ہے.یہ شکرانے کی حمد ہے.پہلی حمد جو سورۂ فاتحہ کی تھی اس کے قبول ہونے کی خوشخبری رکوع کے بعد آپ کو عطا کی گئی اور اس خوشخبری کے نتیجہ میں اظہار تشکر کے طور پر آپ پھر جھک جاتے ہیں اور کہتے ہیں : رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ حمدا كثير أطيبا مبار کافیه ایسی حمد جو نہ ختم ہونے والی ہے.بہت بڑی وسیع ہے.

Page 499

496 یباً پاک ہے.اس میں نفس کی کوئی ملونی شامل نہیں ہے.وہ تیری خاطر ہے اپنی بڑائی کی خاطر نہیں.مُبار کا نیا اس میں بہت سی برکتیں ہیں.کی حمد ہمیشہ بڑھتی رہتی ہے سوال یہ ہے کہ حمد میں برکتوں سے کیا مراد ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو حمد واقعی کچی ہو اس میں سے نئی محمد پھوٹتی رہتی ہے اور وہ ہمیشہ بڑھتی چلی جاتی ہے.ایک ایسا محبوب جس کی خوبیاں آپ کے ابتدائی تعارف سے زیادہ گہری ہوں جب آپ اس کے قریب جاتے ہیں اور اس کی تعریف کرتے ہیں تو اس کے اندر مزید حسن پاتے ہیں.اس کے اندر مزید گہرائی پاتے ہیں یہاں تک کہ آپ ہر دفعہ جب اس کے حضور اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں تو پہلے سے بڑھ کر محبت لیکر لوٹتے ہیں.تھک کر واپس نہیں آتے.وہ لوگ جن کے محبوب کھو کھلے ہوں اور سطحی ہوں انکی محبتیں بہت جلد ختم ہو جاتی ہیں.زیادہ لمبا عرصہ نہیں چلا کرتیں کیونکہ ان کے محبوبوں میں گہرائی نہیں پائی جاتی.ان کے حسن میں گہرائی نہیں پائی جاتی اس لئے وہ حمد برکت سے خالی رہتی ہے.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ مضمون سمجھایا کہ تمہاری کچی حمد وہی ہے جو برکتوں والی حمد ہو جس میں ہمیشہ نشود نما ہوتی رہے جو بڑھتی چلے اور تمہیں نئے سے نئے حمد کے مضمون سوجھتے چلے جائیں اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا کوئی ایسا وجود نہیں جس کی حمدان معنوں میں برکتوں والی حمد ہو کہ اس کی برکتیں نہ ختم ہونے والی ہوں.خدا تعالیٰ کی ہستی پر جتنا آپ غور کریں گے.اس کی صفات پر جتنا غور کریں گے.اس کے ماضی کے احسانات پر جتنا غور کریں گے.اس کے حال کے احسانات پر جتنا غور کریں گے.مستقبل میں اس سے جو کچھ چاہیں گے.ان سب مضامین کا عرصہ بہت ہی دراز ہے اور بہت ہی وسیع ہے اور حمد جس حصے سے تعلق رکھنے والی بھی ہو گی اگر آپ بچے غور کی عادت ڈالیں اور دل ڈال کر حمد کرنے والے ہوں تو اس حصے میں وہ برکتوں والی حمد ہوگی.عظیم اور اعلیٰ میں فرق اس کے بعد پھر اللہ اکبر ہے اور وہاں آپ سجدے میں سُبحان ربی الاعلیٰ

Page 500

497 - سبحان ربي الأعلى - سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى کی تکرار کرتے ہیں.عظیم اور اعلیٰ میں کیا فرق ہے.عظیم تو ساری کائنات پر محیط ہے اور عظیم میں آپ سے دوری نہیں آپ سے قرب کا مضمون ہے.قرب ان معنوں میں کہ آپ اس کی عظمت کے قریب آگئے ہیں.قریب سے آپ نے جلوہ دیکھا ہے اور اس جلوے سے مرعوب ہو گئے ہیں لیکن علو کے مضمون میں ایسی بلندی ہے کہ آپ محسوس کرتے ہیں کہ قریب آنے کے باوجود آپ اس کے ہمسر نہیں بن سکتے.وہ بہت بلند تر ہے اور جتنا آپ اس کے قریب جاتے ہیں اتنا ہی اسکی بلندی کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ مضمون بھی حقیقت میں کوہ ہمالہ کے قرب سے بھی معلوم ہو جاتا ہے اور بلند عمارتوں کے تعلق میں بھی معلوم ہو جاتا ہے.آپ نے سنا ہوا ہے کہ آنفل ٹاور اتنا اونچا ہے.ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ اتنی اونچی ہے.ٹورنٹو کا CN ٹاور اتنا اونچا ہے دور سے دیکھیں تو اونچے تو ہیں مگر کوئی خاص اثر دل پر نہیں پڑتا لیکن جب آپ قریب جاتے ہیں.ان کے دامن میں کھڑے ہو جاتے ہیں تب آپ کو ان کی بلندی کا احساس ہوتا ہے لیکن بعض ایسی بلندیاں ہیں جن کی بنیادیں آپ سے شروع نہیں ہوتی بلکہ وہ بلند تر ہیں.مثلاً سماوات کی بلندیاں ہیں.وہ آپ کی پہنچ سے بالا ہیں.فرعون نے ایک دفعہ یہ کوشش کی اور قرآن کریم نے اس کا ذکر فرمایا ہے کہ ایسی بلند عمارت بناؤں جس پر چڑھ کر میں خدا کی بلندی کا خود نظارہ تو کروں کہ اگر خدا ہے تو کتنا اونچا ہے اور کہاں ہے.یہ اسکی ذہنی پستی کا معراج ہے لیکن اس نے ہمیں ایک سبق دیا اور وہ سبق یہ دیا کہ علو کا مضمون ایسا ہے جس کی بنیادیں آپ کے پاس نہیں ہیں.وہ بلند تر مقام پر ہے.جس طرح غالب نے کہا ہے نہ منزل اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکاں اپنا خدا کی بلندی کے تصور کیلئے خود گرنا اور نفس کو مٹانا پس خدا کی بلندی کیلئے عرش سے پرے کے تصورات کی ضرورت ہے اور اس بلندی تک پہنچنے کے لئے فرعونیت نہیں جو جسمانی بلندی کا تقاضا کرتی ہے بلکہ عبودیت

Page 501

498 چاہیے جو کرنے اور اپنے نفس کو مٹادینے کا تقاضا کرتی ہے.چنانچہ انتہائی انکسار کی حالت میں سب سے زیادہ بلند مضمون سکھایا گیا.وہ انسان جو اپنا سر خدا کے حضور زمین سے رگڑ دیتا ہے، اپنی پیشانی زمین پر ٹکا دیتا ہے، ایسی حالت میں پہنچ جاتا ہے کہ بعض وقعہ مغربی دنیا کے لوگ جو ان باتوں کو نہیں سمجھتے جب مسلمانوں کو سجدے کی حالت میں دیکھتے ہیں تو وہ تمسخر اڑاتے ہیں کہتے ہیں کیسے بے وقوف لوگ ہیں خدا نے اشرف المخلوقات بنایا اور سیدھا چلنے والا جانور بنایا لیکن اب یہ زمین پر ماتھے رگڑ رہے ہیں.ان بے وقوفوں کو علم نہیں ہے کہ ساری بلندیوں کا راز اس بات میں ہے کہ جو سب سے اعلیٰ ہے اس کے سامنے سب سے زیادہ نیچے ہو جاؤ.اس تک پہنچنے کا زینہ سب سے زیادہ نیچے جھکنے سے ملتا ہے.اوپر بلند ہونے سے نہیں ملا کرتا.پس سُبحان ربي الاعلیٰ اس حالت میں کہتے ہیں جب آپ نے اپنے آپ کو کلیتہ ” خدا کے سامنے ا عاجز اور نابود کر دیا.انتہائی ذلتیں قبول کر لیں.کچھ بھی اپنا باقی نہ چھوڑا.جس خدا نے آپ کو سیدھا چلنے والا بنایا تھا آپ اس کے سامنے اس طرح ہو گئے جس طرح دنیا کا ایک عام کیڑا ہوتا ہے.جس کو اٹھنا نہیں آتا.ایسی حالت میں آپ یہ دعا کرتے ہیں سبحان ربي الا علی پاک ہے میرا رب جو بلند تر ہے ہر چیز سے بلند تر ہے.وہ خدا ہے جو پھر آپ کو علو عطا کرتا ہے اور آپ یہ حق رکھتے ہیں کہ میرا رب اعلیٰ ہے کہہ سکیں اور جب آپ یہ کہتے ہیں کہ میرا رب سب سے بلند ہے.میرا رب اعلیٰ ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر بھی وہ علو پیدا ہوگی جو آپ کے رب میں ہے ورنہ وہ آپ کا رب کیسے ہو گیا.جو آپ کا ہو اس کی کچھ باتیں آپ میں پائی جاتی ہیں اس کا کچھ فیض آپ کے وجود میں نظر آنا چاہیے.نہیں ہر وہ شخص جو رب العظیم کی تکرار سے گزرتا ہے اور بچے دل سے گزرتا ہے اس میں عظمتوں کے نشان پیدا ہونے چاہیں.ہر وہ شخص جو بار بار خدا کے حضور انتہائی تفرع کے ساتھ سبحان ربی الاعلیٰ کہتا ہے اگر وہ رب واقعی اس کا ہے تو اس کے اندر علو مرتبت کے نشان پیدا ہونے چاہئیں تب وہ خدا کا سفیر بنگر دنیا میں نکل سکتا ہے.تب اس کو دیکھ کر دنیا خدا کی عظمتوں کو محسوس کرتی ہے.تب اس کو دیکھ کر دنیا خدا کے علو کو محسوس کرتی ہے تبھی حضرت مسیح

Page 502

499 موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بارہا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے عشق میں نثر میں بھی اور نظم میں بھی یہ مضمون بیان فرمایا کہ تو خدا تو نہیں ہے لیکن خدا نما ایسا ہے کہ کبھی ایسا خدا نما نہیں دیکھا گیا.تجھے دیکھا تو خدا کو دیکھ لیا یہ شرک کا جملہ نہیں ہے بلکہ عدم شرک کا جملہ ہے.اس کی گہرائی کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض دفعہ لوگ دھو کہ کھا جاتے ہیں محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) خدا نما اس لئے بنے کہ اپنے وجود کو مٹا دیا.لاالہ کے مضمون کو اپنی ذات میں مکمل کر دیا.یہ نہیں کہا کہ اے خدا! تیرے سوا اور میرے سوا دنیا میں جتنے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہیں اور بالعموم لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ لااله الا الله تو در حقیقت میں اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اے خدا تیری ذات ہے اور میری ذات ہے باقی سب کچھ نہیں لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم نے اپنی ساری زندگی کے ذریعہ یہ مضمون ظاہر فرمایا کہ میں بھی نہیں ہوں.سوائے خدا کے کچھ بھی نہیں ہے.جب آپ نے اپنی ذات کو مٹا دیا تو اس برتن میں پھر خدا ظاہر ہوا ہے اور محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہر حرکت میں اور ہر سکون میں اللہ جلوہ گر ہوا.پس یہ شرک کا مضمون نہیں ہے بلکہ توحید کامل کا مضمون ہے اور سبحان ربی الاعلیٰ ہمیں اس مضمون کی یاد دلاتا ہے کہ اگر تم اعلیٰ ہو اور تم کہتے ہو کہ میرا رب اعلیٰ ہے تو اپنے اندر سے سفلی صفات دور کرو کیونکہ جو سفلی صفات کا بندہ ہے وہ رب اعلیٰ کا بندہ تو نہیں بن سکتا.اس لئے ایک دن کے سجدے کی بات نہیں ، ساری زندگی کی جدوجہد کا معالمہ ہے.کیا ایک دن میں کیا ایک سال میں کیا دس یا ہیں یا سو سال میں بھی انسان ہر قسم کی سفلی صفات سے مبرا ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس یہ ایک ایسا جاری مضمون ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن یہ حرکت ہمیشہ اونی حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف جاری رہے گی اور یہ حرکت تب جاری ہوگی جب آپ کے اندر عجز پیدا ہوگا اور عجز کا ایک نیا مقام آپ کو عطا ہو گا.پس ہر سجدے کو آپ کا عجز بڑھانا چاہیئے ہر سجدے کے نتیجہ میں آپ کو اپنی بے بضاعتی اور بے بسی کا مزید احساس پیدا ہونا چاہیے.اس احساس اور خلاء کو خدا کا علو بھرتا چلا جائے گا اور آپ کے اندر سے ایک نیا وجود پیدا ہوتا چلا جائے گا.یہ ہے سجدوں کا مضمون اور

Page 503

500 اب آپ دیکھیں کہ وہ لوگ جو جہالت سے یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی عبادتیں عجیب بور کرنے والی عبادتیں ہیں.ایک ہی مضمون تکرار کرتے چلے جاؤ.ہر روز کم سے کم پانچ دفعہ اس کے حضور حاضر ہو.ہر رکعت میں اس کے سامنے وہی دعائیں کرتے چلے جاؤ.اگر آپ کا تصور سرسری اور ظاہری ہے تو یہ خالی برتن ہیں.ان برتنوں سے آپ یقیناً کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے لیکن برتنوں کو تو بھرا جاتا ہے اور خدا تعالی نے اس رنگ میں برتن عطا کئے ہیں اور بھرنے والے وہ مضامین بخشتے ہیں کہ جو ہر دفعہ برتنوں میں نیا مضمون بھرتے ہیں نیا رنگ بھرتے ہیں، نیا حسن بھرتے ہیں، نئی لذتیں بھرتے ہیں اور یہ سلسلہ ابد تک جاری رہنے والا سلسلہ ہے اور یہ سلسلہ موت کے بعد بھی جاری رہے گا کیونکہ خدا کی عظمتوں کا کامل تصور کسی انسان کے بس کی بات نہیں.یہ ایک لامتناہی ارتقاء کا سلسلہ ہے جو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے.اس کے بعد ہم التحیات کی طرف آتے ہیں.التحیات میں ہم خدا کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ التَّحِيَاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتِ سب مجھے خدای کے لئے ہیں.وَالصَّلوات والطيبات اور سب بدنی عبادتیں بھی خدا ہی کے لئے ہیں اور وہ پاکیزہ چیزیں جو اموال سے یا زندگی کی صلاحیتوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی سب خدا ہی کے لئے اور خدا کے حضور تحفہ ہیں.اللہ کی محبت کے نتیجے میں اسے تحفے پیش کئے جاتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ تحفہ کیا ہوا کرتا ہے اور کیسا تحفہ ہے اور کیا روز ایک ہی تحفہ آپ بار بار پیش کرتے چلے جائیں گے.اس مضمون پر جب آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ تحفہ نہ ٹیکس ہے نہ تجارت ہے بلکہ تھنے میں ایک خاص مضمون پایا جاتا ہے جس کو سمجھے بغیر آپ التحیات کا حق ادا نہیں کر سکتے تھے میں یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ مادے کو روحانی کیفیات میں تبدیل کرنا.یہ ایک بارٹر سسٹم (Barter System) ہے جس کا میٹریل ازم (Materialism) سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور Materialism میں بھی جہاں انسانی مجبوریوں کے تحت دل اعلیٰ لذات کی تمنا کرتا ہے وہاں تھنے کا مضمون ضرور داخل ہو جاتا

Page 504

501 ہو یا اور ہے.پس میٹریل ازم (Dialectical Materialism) Materialist فلاسفی ہو جیسا کہ مغربی Capitalism کی فلاسفی بھی Materialist ہے ان میں تحفے کا مضمون بجتا نہیں ہے اور ایک بے تعلق سی چیز ہے.اگر انسانی فطرت کی مجبوری نہ ہوتی تو ان دونوں نظاموں سے تحفے کا تصور مٹ جانا چاہیے تھا.تحفہ یہ ہے کہ Matter جو ایک ٹھوس چیز ہے وہ دیکر اس کے بدلے ایک ایسی کیفیت حاصل کریں جس کا کوئی وجود نہیں ہے.جو آپ کے دل کے حالات سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے.جو آپ کے تصورات کی دنیا سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے اور اگر کامل عقل کے ساتھ اگر مارکس (Marx) کی عقل کے ساتھ آپ اس سودے کا معائنہ کریں گے تو آپ کہیں گے یہ پاگل پن ہے.جنون ہے.حد سے زیادہ بے وقوفی ہے.کسی دوست سے محبت ہے تو اس کے وجود کو حاصل کرو.اس سے جو کچھ لے سکتے ہو لو لیکن اس کو کچھ دینے کی کیا ضرورت ہے.اور ایسے دوست کو جس سے ظاہری طور پر کچھ ملنے کی بھی توقعات نہ ہوں اس کے اوپر اپنے مال نچھاور کرنا اپنی زندگی کی محنتیں قربان کرنا نہایت درجے کی بیوقوفی ہے.اس کے بدلہ کیا ملتا ہے؟ اس کے بدلے محبت ملتی ہے جو ایک ایسی کیفیت ہے جس کو کوئی انسان انگلی لگا کر دکھا نہیں سکتا کہ یہ محبت ہے.نہ اس کا رنگ ہے نہ اس کا روپ ہے نہ اس کا مزا ہے نہ اس کی خوشبو ہے.ایک کیفیت ہے اس کے سوا اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پس مادی حالت کو روحانی حالت میں تبدیل کرنے کا نام تحفہ ہے جو کسی اور Transaction میں کسی اور تبادلے میں نہیں ملتا.پس آپ نے اب تک خدا تعالیٰ سے جو تعلقات قائم کئے اس کے حضور رکوع کیا اس کے حضور محمود کئے تو آپ نے قربانیاں تو دیں اور اطاعت بھی کی لیکن کیا یہ ایک مکینیکل کی اطاعت ہے.ایسی اطاعت ہے جیسے کسی بادشاہ کی عظمت کو قبول کر کے اس کے خوف سے اطاعت کی جاتی ہے.خوف اطاعت کے لئے لازم ہے لیکن کافی نہیں.حقیقی اطاعت محبت کی اطاعت ہوا کرتی ہے اور جب آپ سبحان ربی.سبحان ربی کہتے ہیں تو یہاں محبت کے تعلق کا اقرار کر لیا گیا ہے ورنہ میرا رب میرا رب نہیں کہہ سکتے.دنیا کا رب ٹھیک

Page 505

502 ہے.کائنات کا رب ہے اور جابر ہے اور طاقتور ہے اس کے سامنے جھکنا ضروری ہو گیا عقل نے سمجھا دیا یہ بھی ٹھیک ہے لیکن میرے رب کے مضمون میں تو ایک پیار کا مضمون داخل ہو گیا.پس اسکے بعد کچھ تھے اور تحائف کا سلسلہ بھی تو جاری ہونا چاہیے.چنانچہ انسان رب کو اپنا بنا کر پھر بڑی عاجزی سے اس کے حضور یہ عرض کرتا ہے کہ التَّحِيَاتُ لِلهِ سب تحالف اللہ کے لئے ہیں.وَالصَّلَوتُ والطيبات اور تحائف کیا ہیں؟ بدنی قربانیاں.والصلوتُ اور مالی قربانیاں." یہ مضمون ان دو لفظوں سے بیان تو نہیں ہوتا لیکن مجبورا " وقت کی رعایت کے مطابق میں نے خلاصہ یہ کہہ دیا ہے.بدنی قربانیاں انسان محبوب کے لئے دیکھیں کتنی کرتا ہے.اس کی خاطر انسان ہر تکلیف اٹھانے کی کوشش کرتا ہے.یہاں تک کہ محبت کے ادنی درجے میں بھی یہ کیفیتیں روز ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں.ایک سردی کا موسم ہے.دروازہ کھلا رہ گیا ہے.ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آتا ہے.آپ کا کوئی دوست اٹھ کر کھولنے کے لئے جا رہا ہے.آپ جلدی سے اٹھتے ہیں کہ نہیں تم بیٹھو میں کرتا ہوں.کیا مصیبت ہے.کیوں اس کو نہیں کرنے دیتے.وہ کام کر رہا ہے.ٹھنڈی ہوا سے آپ بھی بچ جائیں گے وہ بھی بچ جائے گا.آپ نے کیوں پھل کی.یہ فطرت کی گری آواز ہے جو آپ کو بتا رہی ہے کہ جب آپ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے بدنی تکلیف اٹھاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں لذت پاتے ہیں.دینے کے نتیجہ میں جو لذتیں ہیں وہ مضمون ہمیں تحائف کا مضمون سمجھاتا ہے لینے کے نتیجہ میں جولز تیں ہیں وہ اونی حالتیں ہیں.اصل اعلیٰ لذتیں جو دائمی لذتیں ہیں جو لطیف تر لذتیں ہیں وہ ہمیشہ دینے کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہیں.آپ اپنے محبوب کو کچھ پیش کریں وہ واپس کر دے تو دیکھیں کیسی تکلیف میں آپ مبتلا ہوں گے اور کچھ دیر کے بعد اگر وہ آپ کو کچھ دیتا ہے تو بعض دفعہ لینے کا مزہ تو ہے لیکن تھوڑا سا دل بجھ جاتا ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں اس کو کچھ اور دوں تاکہ دینے کے لحاظ سے میں بالا رہوں.حالانکہ یہ دینا اونی حالت کا دیتا ہے لیکن اس میں بھی انسان ایک قسم کی بالائی حالت چاہتا ہے.وہ چاہتا ہے میں

Page 506

503 زیادہ دوں اس سے کم لوں.میں زیادہ تکلیف اٹھاؤں اس کو کم تکلیف پہنچاؤں.یہ جو لذتیں ہیں یہ انسان کے اندر ایک نیا وجود پیدا کرتی ہیں جس کا خدا سے تعلق قائم ہو سکتا ہے کیونکہ خدا مادی نہیں ہے اور انسانی تعلقات میں اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے اسی لئے رکھا ہے.میں نے جہاں تک Evolution کا مطالعہ کیا ہے میرے نزدیک Evolution اونی کیفیت سے اعلیٰ کیفیت کی طرف حرکت کا نام ہے اور یہ جو Evolution میں ہم بدنی تبدیلیاں دیکھتے ہیں یہ ثانوی حیثیت کی تبدیلیاں ہیں.یہ مضمون بہت وسیع ہے.اس کے ایک حصہ پر میں نے ماریشس کی ایک تقریب میں روشنی ڈالی تھی مگر بہت مختصر لیکن سردست میں اس سے گزرتا ہوں کیونکہ اب وقت بھی کم ہو رہا ہے.باقی مضمون انشاء اللہ پھر بعد میں بیان ہو گا.بہر حال التحیات کے مضمون میں ہم داخل ہوئے ہیں اور چونکہ آج جلسے کا بھی دن ہے اور بہت سے کام کرتے ہیں اس لئے انشاء اللہ حسب توفیق اگلے جمعہ میں یہ بقیہ مضمون بیان ہو جائے گا.اور اس جلسے کے آخر پر سورہ فاتحہ کے بعد جو طبعی اور منطقی نتیجہ نکلتا ہے اس کے تعلق میں میں خطاب کروں گا یعنی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالنین کی دعا اگر قبول ہو جائے تو انعام یافتہ لوگوں میں کیا تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اور کیا ظاہری علامتیں ان میں دکھائی دینے لگتی ہیں.اسی طرح مغضوب جب انعام یافتہ لوگوں سے ٹکراتے ہیں تو ان سے خدا کیا سلوک کیا کرتا ہے.یہ چونکہ بہت ہی وسیع مضمون ہے.ایک خطبہ میں یہ بیان ہونے والا نہیں.کچھ حصہ میں نے گزشتہ عید میں بیان کیا تھا.بقیہ حصہ اگر پورا نہیں تو اس کا ایک حصہ میں انشاء اللہ تعالیٰ جلسہ سالانہ کی آخری تقریر میں بیان کروں گا اور اسکے بعد اب میں نے گھڑی دیکھی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں آج کے خطاب کو ختم کرتا ہوں.

Page 507

Page 508

اسلام آباد (یو.کے) ۲ اگست ۱۹۹۱ء 505 يشو الله الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نمازوں کے سلسلے کا آخری خطبہ تشهید و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا :- نمازوں کے سلسلے میں جو خطبات دئیے جا رہے ہیں، آج یہ غالبا" اس سلسلے کا آخری خطبہ ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں التحیات پر گفتگو ختم کی تھی لیکن التحیات کا مضمون ابھی جاری تھا.اس لئے التحیات ہی سے میں اس مضمون کو دوبارہ اٹھاتا ہوں.التحیات کا مطلب ہے تھے.اور تحفوں کا تعلق عام دیگر انسانی لین دین کے معاملات سے بالکل الگ اور ممتاز ہوتا ہے.اس میں انسان ایک چیز کسی دوست یا کسی بڑے کے حضور اس خاطر پیش کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے ویسی کوئی چیز نہ ملے بلکہ اس کی محبت اور رضاء حاصل ہو اور یہی تھے کا مفہوم ہے.اس نقطہ نگاہ سے جو بھی مالی قربانی خدا کی راہ میں ہم پیش کرتے ہیں ان کے اندر بڑھا کر واپس لینے کا مضمون قربانی کرنے والے کے ذہن میں نہیں آنا چاہئیے.اسی مضمون کو قرآن کریم یوں پیش کرتا ہے کہ ولا تمنن تستغيرُ کہ تو یہ سوچ کر احسان نہ کیا کر کہ تو بڑھا کر واپس لے گا.اس لئے اگرچہ آپ کو بار بار یہ سمجھایا جاتا ہے کہ خدا تعالٰی ہمیشہ بہت پڑھا چڑھا کر دیتا ہے لیکن اگر اس نیت سے خدا کے حضور پیش کیا جائے کہ زیادہ ملے گا تو یہ بہت ہی اونی سودا ہے اور اپنی قربانی کو تھنے کی بجائے ایک عام تجارت بنا دینے والی بات ہے.خدا سے تجارت کا معاملہ چلتا تو ہے مگر وہاں تجارت کا مفہوم اور ہے.پس التمیات نے ہمیں بتا دیا ہے کہ جو کچھ تم خدا کے حضور پیش کرتے ہو اس نیت سے پیش کیا کرو کہ اس کے بدلے جزاء ملے اور جزاء رضا کی جزاء ہو نہ کہ دنیاوی جزاء اس -

Page 509

506 نیت سے تجھنے کا مضمون سمجھنے کے بعد ہماری تمام قربانیوں پر ایک غیر معمولی اثر پڑے گا چنانچہ نماز نے ہمیں صرف مالی قربانیوں سے متعلق ہی نہیں سمجھایا بلکہ بدنی قربانیوں سے متعلق بھی یہی سمجھایا ہے فرمایا التَّحِيَاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَاتِ اللہ تعالی کو تحفہ پیش کرنے کے آداب السکوت سے بدنی قربانی مراد ہے اور انقبات سے وہ پاکیز چیزیں مراد ہیں جو قولی ہوں یا فعلی ہوں یا جنس سے تعلق رکھتی ہوں اور جو ہم خدا کے حضور پیش کرتے ہیں.پس اس پہلو سے انسان کے خدا سے تمام تعلقات تحفہ پیش کرنے کے تعلقات ہو جاتے ہیں.جو شخص تحفہ قبول کرتا ہے اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو انسان کسی بڑے انسان سے تحفہ لیتا ہے جبکہ اس کے مقابل پر وہ مالی لحاظ سے بھی اور دوسرے لحاظ سے بھی اونی ہوتا ہے.ایسا شخص دل میں خواہش تو بہت رکھتا ہے کہ میں کسی طرح بڑھا چڑھا کر پیش کروں لیکن اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتا.اس لئے اگر وہ شخص جس کے حضور وہ تحفہ پیش کرنا چاہے حقیقتاً معزز ہو اور دل کا کریم ہو تو وہ اس کے ادنی کو بھی بہت بڑھا کر قبول کرتا ہے.اس کے سوا اس غریب کے دل کی تمنا پوری ہونے کی صورت باقی نہیں ہوتی گویا اس کے دل کی تمنا بھی کسی بڑے انسان کے کرم پر منحصر ہے.پس اس پہلو سے جہاں تک خدا کو تحفہ دینے کا تعلق ہے وہ تو یہی رشتہ بنتا ہے.ایک ایسے وجود کو تحفہ پیش کیا جا رہا ہے جو ہر لحاظ سے بالا ہے اور اسے ضرورت نہیں ہے.ہم اس کو تحفہ پیش کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے لیکن جب وہ قبول کرتا ہے تو کریم کے نتیجے میں اس رنگ میں قبول کرتا ہے جیسے تم نے بہت بڑا کام کیا ہے.اور چونکہ وہ زیادہ دینے کی استطاعت رکھتا ہے اس لئے وہ از خود زیادہ دیتا ہے ورنہ پیش کرنے والے کو تو اپنی غربت اور کم مائیگی کا احساس تھا.وہ تو اس شرم سے پیش کر رہا ہے کہ میں جو پیش کر رہا ہوں اس لائق نہیں کہ میں یہ پیش کر سکوں کیونکہ میرا محبوب اتنا بڑا ہے کہ میری طرف سے کچھ بھی پیش کیا جائے تو وہ چیز اس لائق نہیں ٹھرتی کہ اس کے حضور پیش کی جائے.پس اس کے بعد اس کے دماغ میں یہ خیال آنا کہ جتنا میں دوں گا اس سے بڑھ کر وہ مجھے دے دے گا.کتنی کمینی بات ہوگی کتنی گھٹیا بات ہو جائے گی

Page 510

507 اور تھے کے مزاج بگاڑنے والی بات ہوگی.پس خدا تعالیٰ سے تعلقات کے وقت یہ سودا پیش نظر نہ رکھا کریں کہ ابھی میں نے دیا اور کل مجھے زیادہ مل جائے گا بلکہ یہ خیال کیا کریں کہ خدا کی راہ میں دینا چاہئیے اس کی استطاعت نہیں رکھتے اور تحفہ پیش کرنے کو دل چاہتا ہے اور تھنے کے مقابل پر اگر کوئی واپسی کی بات کرے تو اس سے بھی انسان شرم سے کٹ جاتا ہے تو اس نیت سے خدا کے حضور پیش کرنا چاہیے کہ میں دے رہا ہوں اور شرم کے ساتھ دے رہا ہوں کہ جتنی توفیق ہے اس کے مطابق دے رہا ہوں ور نہ حق یہ تھا کہ اس سے بہت زیادہ دیا جاتا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ اسے قبول کرے اور دنیا میں فورا واپس نہ کرے تو یہ خیال دماغ میں پیدا ہو جانا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ چندے میں بڑی برکت پڑتی ہے لیکن ہمیں تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوا، بہت ہی گھٹیا اور لمینی بات ہوگی اور یہ تحفہ نہیں رہے گا اور چونکہ تحفہ نہیں رہے گا اس لئے قبول بھی نہیں ہوگا کیونکہ التحیات نے ہمیں بتایا ہے کہ تھتے ہی ہیں جو قبول ہوں گے ، باقی چیزیں نہیں ہونگی.اگر تحفہ پیش کرتے ہو تو منظور ہے.تحفہ نہیں تو پھر تم اپنے کام سے کام رکھو خدا اپنے کام سے کام رکھتا ہے.تمہارے ساتھ ان قربانیوں کے نتیجے میں خدا سے تمہارا تعلق قائم نہیں ہو گا.دوسری بات التحیات ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ روزانہ ہم خدا کے حضور پانچ وقت جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوتُ وَالطَّيِّبَاتِ تو کوئی پہلے تھے تو دوبارہ نہیں دیا کرتا.آخر ہم پانچ وقت کی ہر نماز میں بعض دفعہ ایک سے زیادہ دفعہ جب خدا کے حضور یہی بات پیش کرتے ہیں کہ التَّحِيَاتُ لِلَّهِ وَالقُلُوتُ والطلبات تو اس کا یہ مطلب تو بہر حال نہیں ہو سکتا کہ ہم نے ایک دفعہ جو نیکیاں کر دیں، ایک دفعہ جو قربانیاں خدا کے حضور پیش کیں انہیں کو بار بار تحفہ بنا کر دے رہے ہیں کیونکہ دنیاوی تعلقات میں تو انسان ایسا نہیں کرتا.اگر ایسا کرے تو بہت ہی پاگل اور احمق دکھائی دے گا.پس نماز پانچ وقت یہ پیغام دیتی ہے کہ دو نمازوں کے دوران تم نے کوئی نیکی کی ہے کہ نہیں.اگر دو نمازوں کے دوران کوئی اچھا نیک قول بھی تم نے کہا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق اور

Page 511

508 قرآن کے ارشاد کے مطابق وہ بھی ایک ہدیہ ہے ایک تحفہ ہے، ایک اچھا نیک عمل ہے خواہ قول بھی اچھا ہو تو وہ بھی نیک اعمال میں شمار ہو جاتا ہے.پس اگر اس عرصے میں کوئی اور نیک عمل کرنے کی توفیق نہیں ملی تو ذکر الہی کی توفیق ملی ہوگی.کسی کو نیک نصیحت کرنے کی توفیق ملی ہوگی غیر کو نہیں تو اپنی بیوی اپنے بچوں کو اپنے ساتھیوں کو کوئی اچھی بات کہنے کی توفیق ملی ہوگی اس تمام عرصے میں جو دو نمازوں کے درمیان آپ پر گزرتا ہے کچھ نہ کچھ تحفہ آپ نے ضرور بناتا ہے اور وہی تحفہ ہے جو خدا کے حضور پیش کیا جائے گا.پس اگر اس پہلو سے سوچتے ہوئے جب آپ نماز میں التَّحِيَاتُ لِلهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَات کہتے ہیں تو بسا اوقات دل کانپ جائے گا کہ ہم خالی ہاتھ آئے ہیں اور بات یہ کر رہے ہیں کہ اے خدا! ہم تیرے حضور تحفہ پیش کرنا چاہتے ہیں اور تھے بھی ایسے ہیں جو جمع کی صورت میں ہیں یعنی تحائف پیش کر رہے ہیں.وَالصَّلَوتُ : نیک اعمال کے ذریعے بدنی قربانیوں کے ذریعے بھی والطيبات اور اچھی چیزیں پیش کر کے بھی.پس اس مضمون کو سمجھنے کے بعد التحیات کا پیغام بہت ہی وسیع ہو جاتا ہے اور زندگی کے ہر دائرے پر حاوی ہو جاتا ہے.روز مرہ کی نمازوں میں نیکیاں بھرنے کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اللہ کے حضور وہی نیکیاں قبول ہونگی جو تحائف کا رنگ رکھتی ہوں گی اس کے بغیر نہیں.چنانچه لن تنالوا البِر حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ میں دراصل یہی پیغام ہے جو دیا گیا ہے کہ نیکی کی تعریف ہی تم نہیں سمجھتے اگر تمہیں یہ پتہ نہ ہو کہ جو کچھ خدا کے حضور پیش کرتے ہو، وہ کرو جو سب سے اعلیٰ ہو.اگر تمہیں سب سے اچھا پیش کرنے کا مزاج نہیں ہے.اگر تمہیں یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ خدا کے حضور سب سے اچھا پیش کرنا چاہیے تو تمہیں نیکی کی تعریف کا علم نہیں ہے.پس نیکی کی تعریف اور تحفے کی تعریف ایک ہی ہوگی کیونکہ تحفے میں بھی انسان اچھی چیز چن کر پیش کیا کرتا ہے جبکہ TAX میں بری چیز چن کر پیش کیا کرتا ہے.اگر مالیہ وصول کرنے والے گندم کی شکل میں مالیہ وصول کرنے آئیں تو کبھی زمین دار یہ نہیں کرتا کہ بہترین گندم چن کر وہ مالیہ والوں کے سپرد کر دے.جو سب سے ذلیل ، پانی میں ڈوبی ہوئی یا کالی ہوتی ہوئی گندم

Page 512

509 ہے وہ مالیہ میں لگا دے گا.لیکن تجھے میں بر عکس مضمون ہے.پس حقیقت میں کن تنالوا البر حتى تنفقوا میں تھے ہی کی تعریف کی جا رہی ہے چنانچہ فرمایا حتى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ کہ جب تک تمہیں محبت نہ ہو.پس محبت ہی کے نتیجے میں تحفہ پیدا ہوتا ہے اور چونکہ تحفہ محبوب کے لئے پیش کیا جاتا ہے اس لئے محبوب کے لئے محبوب چیز پیش کی جاتی ہے.پس وہ اعمال قبول ہوں گے جو آپ کو محبوب ہوں، جن کو فخر کے ساتھ آپ پیش کر سکیں اور وہ اچھی چیزیں مالی قربانی ہو یا کوئی اور کلمات کے ذریعے خدا تعالیٰ کی حمد کا بیان ہو وہ ساری اچھی چیزیں جو آپ پیش کرتے ہیں ایسے رنگ میں ہوں کہ بھی ہوئی ہوں، آپ کو اچھی لگ رہی ہوں.آپ کی نظر میں بھی محبوب ہوں.اس کے بعد یعنی التَّحِيَاتُ اللهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبات کے بعد انسان کہتا ہے کہ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا و عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ - کہ اے نبی ہم تجھ پر سلام بھیجتے ہیں.یہ سلام در حقیقت تھے ہی کے رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے کیونکہ خدا کو تحفہ دینے کے بعد جو سب سے زیادہ محبوب ہستی ہمیں دکھائی دیتی ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ہستی ہے اور اللہ کو تحائف پیش کرنے کے بعد سب سے زیادہ تھے کا حق اگر کوئی وجود رکھتا ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہی کو وجود ہے.اس سلسلہ میں بعض لوگ نا کبھی سے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو مخالب کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نعوذ باللہ حاضر ناظر ہیں اور حاضر ناظر کو مخاطب کیا جاتا ہے.اگر یہ دلیل درست ہو تو پھر خدا حاضر ناظر نہیں رہے گا کیونکہ اس مخاطب میں التحیات لک یا اللہ نہیں کہا گیا بلکہ التَّحِيَاتُ لِلهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبات فرمایا گیا ہے، تو خدا غائب ہو گیا اور محمد رسول اللہ حاضر ہو گئے یہ مضمون تو بالکل ہی اکھڑ جائے گا بے معنی ہو جائے گا.اس لئے یہاں جو تخاطب ہے وہ اور معنی رکھتا ہے.بعض دفعہ حاضر کو عزت اور احترام کے نتیجے میں غائب کیا جاتا ہے اور غائب کو بھی عزت اور احترام کے نتیجے میں حاضر کیا جاتا

Page 513

510 ہے.آنحضرت جو ہم کہتے ہیں تو اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم غائب بھی ہیں مگر معزز بھی ہیں کیونکہ آں" کا لفظ اعزاز کے لئے بولا جاتا ہے لیکن یوپی میں جب خطاب کرتے ہیں تو بعض دفعہ حاضر کو غائب کے طور پر یہ بتانے کے لئے خطاب کرتے ہیں کہ ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں اور بعض دفعہ غائب کو عزت کی خاطر مخاطب کر دیا جاتا ہے.چنانچہ ہم کہتے ہیں کہ آپ نے یہ فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ و سلم کو آپ کہہ رہے ہیں حالانکہ آپ غائب ہیں تو یہ جو طرز تخاطب ہے یہ اسی معنی میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کو عزت اور احترام کی خاطر آپ کہا جا رہا ہے حالانکہ آپ غائب ہیں اور خدا حاضر ہے لیکن اسے عزت اور احترام کی خاطر غائب کیا جا رہا ہے اور کلام کا یہ محاورہ دنیا کے ہر کلام میں ملتا ہے.پس خدا کے ساتھ اس کی عظمت اور شان کے پیش نظر حاضر ہوتے ہوئے بھی غائب کا خطاب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا خدا کے مرتبہ کے بعد دوسرے مرتبہ پر ذکر ہے لیکن غائب ہوتے ہوئے بھی مخاطب کا خطاب ہے اور اس سے زیادہ اس کے اور کوئی معنی نہیں ہیں.نعوذ باللہ یہ مطلب نہیں ہے کہ جب ہم سلام بھیجتے ہیں تو جیسا کہ بعض مسلمان یقین کرتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم ہمارے سامنے آکھڑے ہوتے ہیں گویا ہر نماز پڑھنے والے کی نماز کے سامنے اس موقعہ پر وہ آکھڑے ہوں گے.یہ محض ایک جاہلانہ بات ہے.اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یہ خیال بھی شرک ہے.پس جب بھی آپ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ کہتے ہیں تو عزت اور احترام کے لئے خطاب کر رہے ہیں ورنہ حقیقت میں سامنے رکھ کر خطاب نہیں کر رہے.نماز میں سلام بھیجنے کی حکمت دوسری بات السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِينَ - ہے یعنی ہم سب پر بھی سلام ہو اور مخاطب کے متعلق متکلم کا صیغہ آیا کرتا ہے.پس اس پہلو سے بھی التحیات کے اندر ایک حسن بلاغت پایا جاتا ہے.غائب میں خدا کی بات ہوئی.پھر مخاطب میں حضرت محمد رسول اللہ کی بات ہوئی.اس کے بعد ہم متکلم میں داخل ہو گئے

Page 514

511 اور اپنے ساتھ تمام مومنین کو شامل کر لیا خواہ وہ موجود ہوں یا نہ ہوں.اس لئے اس مضمون میں موجودگی کی کوئی بحث نہیں ہے.صرف ایک درجہ بدرجہ مرتبے کی کا رہی ہے اور ایک حسن کلام ہے جو اس شان کے ساتھ اپنے پہلو بدل رہا ہے.و عَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّلِحِينَ - پھر تمام صالح بندوں پر سلامتی بھیجی گئی.اس مضمون پر جا کر سورۂ فاتحہ سے ہم نے جو مضامین سیکھے تھے وہ اپنے درجہ کمال کو پہنچ گئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مدح کی اور اپنے لئے اور تمام مومنین کے لئے ہر قسم کی دعائیں ہم نے اس میں مانگیں.اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلقات قائم کئے.آپ اس کے بعد یہ سوال ہے کہ اشهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا الله کا کیا موقعہ ہے اور اس مقام پر اسے کیوں سجایا گیا ہے؟ میں نے جہاں تک غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ کلمہ لااله الا الله در حقیقت سورۂ فاتحہ میں موجود ہے اور إِلَّا محمد رسول اللهہ بھی سورہ فاتحہ میں موجود ہے اور یہ مضمون سورہ فاتحہ ہی کا ہے جو یہاں آکر کامل ہوتا ہے اور ہمیں ایک نئی طرز پر بتایا جا رہا ہے.جب ہم اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کہتے ہیں تو یہاں صرف معبود کے طور پر خدا کا اقرار ہی نہیں کرتے بلکہ انسان کہہ کر ساتھ غیب کی نفی بھی کر رہے ہیں تو حقیقت میں لالة إِلَّا الله کا مضمون إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں بہت شان کے ساتھ گویا مختلف لفظوں میں بیان ہو جاتا ہے.اس کے بعد جب ہم انعمت علیم کے مضمون میں داخل ہوتے ہیں تو سب سے بڑا نبی جس پر سب سے زیادہ انعاموں کی بارش کی گئی وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم ہی تھے.اسی لئے نماز میں جب ہم یہ دعا مانگتے ہیں کہ ان لوگوں کے رستے پر چلا جن پر تو نے انعام فرمایا تو سب سے زیادہ واضح طور پر جو نبی انسان کے ذہن پر چھا جاتا ہے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ہیں.آپ ہی ہیں جو ذہن پر چھاتے ہیں.آپ ہی ہیں جو دل میں سا جاتے ہیں اور حقیقت میں آپ کے نام کے ساتھ باقی سب نبیوں کا نام شامل ہو جاتا ہے.پس انعام یافتہ لوگوں میں سب سے اہم ذکر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ

Page 515

512 آلہ وسلم کا ہے اور اسی کا دوسرے لفظوں میں بیان یوں ہوا کہ لا الهَ إِلَّا الله مُحمد رسُولُ اللهِ تو نماز نے چونکہ درجہ بدرجہ ہماری تربیت کی اور سورۂ فاتحہ کا مضمون ہم پر مزید کھلتا چلا گیا.اس مضمون کا معراج یہ کلمہ ہے، اشْهَدُ أن لا إله إِلَّا اللهُ وَحْدَل لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولَهُ - لیکن یہاں یہ کلمہ تجربے کے بعد بیان ہوا ہے.نظریاتی طور پر نہیں.سورۂ فاتحہ نے ہمیں خدا سے تعلقات کے ایسے تجارب سے گزارا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا مقام ہم پر اس طرح ظاہر فرما دیا کہ تحفہ دیتے وقت سب سے پہلے خدا کی ذات کا تصور ذہن میں آیا اور اس کے معا بعد حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کا تصور ذہن میں آیا.پس اس مضمون نے ہمیں یاد کرایا کہ لا إله إلا الله محمد رسول الله حقیقت میں دو ہی چیزیں ہیں.اللہ کی ذات اور محمد رسول اللہ.باقی - سب افسانے ہیں.باقی وہ ہیں جو ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ تعلق کی بناء پر ان کا وجود بنتا ہے.درود میں حضرت ابراہیم کے ذکر کی حکمت یہاں تک سورہ فاتحہ کا سفر حاضر اور مستقبل کا سفر تھا.اس میں حاضر کے طور پر مخاطب کیا جا رہا ہے اور حاضر یا مستقبل کے طور پر دعائیں مانگی جا رہی ہیں.اب نماز آپ کو دوسرے زمانوں کا سفر بھی کرائے گی اور پہلوں کی یادیں بھی آپ کے لئے لے کر آئے گی.چنانچہ آپ دیکھیں.شروع سے آخر تک جب تک ہم کلمہ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ میں پڑھتے اور یہ شہادت نہیں دیتے اس وقت تک ہماری ساری دعائیں حاضر اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی دعائیں ہیں.ان معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر دعا بھیجتے وقت بھی آپ کو ماضی کے وجود کے طور پر مخاطب نہیں کیا گیا بلکہ ایک حاضر وجود کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے اور اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ آپ کا زمانہ زندہ ہے.آپ ایک ایسے زندہ نبی ہیں جو زمانی لحاظ سے ماضی میں نہیں رہے بلکہ حال کے بھی نبی ہیں اور مستقبل کے بھی نبی ہیں.اس ”اب تک" کا جو مضمون تھا وہ چونکہ حاضر اور مستقبل کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا اس لئے آپ کا ذکر ان لوگوں میں

Page 516

513 کیا گیا.اب ماضی کی طرف بھی نماز ہمیں لیکر جاتی ہے.چنانچہ اس کے معا" بعد جب باہم كَمَا صَلَّيْتُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِند كم کر درود بھیجتے ہیں تو ماضی کے نیک لوگوں کے لئے بھی دعائیں مانگتے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم کے بعد جس کا سب سے زیادہ حق ہے کہ اس پر سلام بھیجا جائے تو وہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ابوالانبیاء بھی کہلاتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام وہی بزرگ نبی ہیں جن کی اولاد میں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پیدا ہوئے.آپ وہی بزرگ نبی ہیں جن کی دعاؤں کو خدا تعالٰی نے قبولیت کا شرف بخشا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلم آپ کی دعاؤں کا بہترین ثمر ہیں.پس اس تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ تم اگر اپنے محسنوں کے لئے دعا کرتے ہو اور ان کو تحائف پیش کرتے ہو تو ایک بڑے عظیم سابق محسن کو بھی یاد رکھنا اور وہ ابراہیم ہیں اور ان کے حوالے سے پھر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر سلامتی بھیجو.سلامتی تو ہم دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر بھیج رہے ہیں.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وجود کے ساتھ منسلک کر کے حضرت ابراہیم کو بھی بہت ہی عظیم خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور ما صلیت میں جاری سلامتی ہے، کوئی ماضی کی سلامتی نہیں ہے.یہ مضمون بھی لوگ غلط سمجھتے ہیں.واقعہ یہ ہے کہ یہ مراد نہیں ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم پر سلامتی بھیجی گئی تھی اور ختم ہو گئی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر سلامتی بھیج.اگر ایسی محدود سلامتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کیلئے مانگی ہے تو اس سے نہ مانگنا بہتر ہے.کما صلیت میں دراصل ماضی کا واقعہ ہے.ماضی میں سلامتی شروع ہوئی تھی اس لئے ماضی کا صیغہ بولا گیا ہے ورنہ ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہ سلامتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے وقت پر اگر ختم ہو گئی بلکہ قرآن خود بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا نام سلامتی کے ساتھ قیامت تک لیا جائے گا.آخرین میں بھی سلامتی کے ساتھ آپ کو یاد کیا جائے گا.پس اس طرح اس دو لب یہ بنے

Page 517

514 گا کہ اے خدا! تو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر اسی طرح ہمیشہ جاری رہنے والی سلامتیاں بھیج جس طرح تو نے ابراہیم پر ہمیشہ جاری رہنے والی سلامتی بھیجی تھی.جس طرح ابراہیم کی نسل میں تو نے عظیم الشان پھل لگائے اسی طرح محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نسل میں بھی بہت ہی عظیم الشان پھل لگا.جس طرح ابراہیم اور ابراہیم کی اولاد سے تو نے محبت کی اور ان سب سے محبت کی جو ابراہیم کے چلنے والے تھے اسی طرح محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آپ کی اولاد ران سب سے محبت فرما جو آپ کے پیچھے چلنے والے ہیں.پس ان معنوں میں درود شریف میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر ایک اور رنگ بھی اختیار کر لیتا ہے اور کیونکہ ایک ماضی کے محسن کا ذکر ہے اس لئے نماز کی دعا زمانے میں وسیع تر ہو جاتی ہے اور اس کا تعلق ماضی سے بھی شروع ہو جاتا ہے.اس تعلق کی بناء پر آگے چل کر آپ کو اپنے والدین کے لئے بھی دعا سکھا دی گئی.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذريتي میں پہلے اولاد کا جتایا لیکن سارے زمانے اکٹھے کر دیئے ہیں.رب اجعلني مقيم الصلوۃ اے خدا مجھے نماز کا قائم کرنے والا بنا دے.ومن ذريتي اور میری اولاد کو بھی نماز پر قائم کر دے.رَبِّنَا وَتَقَبلُ دُعا اے ہمارے رب! ہماری دعا قبول فرما.رَبَّنَا اغْفِرْ لي ولوالدي وَالْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَاب اے خدا! مجھے بھی بخش دے اور میرے والدین کو بھی بخش دے جس طرح روحانی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے والدین کا ذکر کیا گیا اسی طرح دعا کرنے والے نے اپنے والدین کا بھی ذکر کیا کہ مجھے بھی بخش.میری اولاد کو بھی بخش اور میرے والدین کو بھی تو حضرت ابراہیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور آئندہ نسلوں کا تعلق روحانی طور پر ہمارے سامنے پیش کیا گیا ہے اس دعا میں ویسا ہی اپنی اولاد کے ساتھ اپنے ساتھ اور اپنے والدین کے ساتھ ایک تعلق دکھا کر اس کی دعا سکھا دی گئی.نماز میں لذت کا لامتناہی سلسلہ پس نماز کو اگر آپ غور سے پڑھیں تو ایک لامتناہی مضمون ہے جو کبھی ختم نہیں ہو

Page 518

515 سکتا اور یہ نا ممکن ہے کہ ہر نماز میں نماز کا ہر پہلو سے حق ادا ہو.اس لئے کہیں نہ کہیں آپ کو کسی جگہ ٹھہر کر نماز کی لذت حاصل کرنی ہوگی اور یہ آپ کے مزاج اور حالات کے مطابق ہے.ہر لفظ پر اگر آپ گھریں اور اس طرح غور کر کے نماز پڑھیں تو ایک ہی نماز ۲۴ گھنٹے چلتی رہے گی اور یہ ممکن نہیں ہے.اس لئے اللہ تعالٰی نے مزاج کو ایسا بتایا ہے کہ وہ بدلتے رہتے ہیں.کبھی کسی خاص مزاج میں انسان نماز پڑھ رہا ہے اور کبھی کسی خاص مزاج میں نماز پڑھ رہا ہے.کبھی سورۃ فاتحہ کا پہلا حصہ ہے اس نے ہی دل تھام لیا ہے اور آگے نہیں بڑھنے دیتا.کبھی درمیان میں آکر دل اٹکتا ہے کبھی آخری پر.کبھی رکوع میں کبھی سجود میں گویا کہ مختلف حالات میں مختلف انسان اپنے مزاج کے مطابق مختلف رنگ میں نماز سے لذت پانے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اس لئے جو شخص متلاشی ہو گا جب اس کو اپنے مزاج کی چیز کہیں ملے گی تو وہ وہیں ٹھہر جائے گا اور وہاں وہ زیادہ لطف اٹھائے گا اور اس طرح کوئی نماز بھی انسان کی ایسی نہیں جو لذتوں اور پھلوں سے خالی رہ جائے لیکن اگر غفلت کی حالت میں نمازیں ادا کرنی ہیں تو ساری عمر کی نمازیں بھی خالی ہونگی، خالی برتن ہوں گئے ایسے برتن کہ جب آپ یہ خدا کے حضور پیش کریں گے اور کہیں گے التَّحِيَاتُ لِلهِ وَالصَّلَواتُ وَالطَّيِّبَات تو خالی التحیات کے کھو کھلے برتن ہوں گے جن میں نہ الصلوات ہونگی نہ الطیبات ہوں گی.یہ ایک تمسخر ہے.اپنے ساتھ بھی دھوکہ ہے اور خدا سے بھی دھوکہ کرنے کی کوشش ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا بنائے کہ ہماری عبادات کو اپنے ذکر سے بھر دے اور ایسے ذکر سے بھر دے کہ جس سے ہماری زندگیاں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہمیشہ معطر رہیں.ہمارے وجود خدا کی ذات سے لذت پانے والے ہوں، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور خدا کی ذات کے رنگ اور اس کی صفات ہماری ذات میں جاری ہونے والی ہوں.یہ وہ نماز ہے جو بالآخر انسان کو خدا نما بنا دیتی ہے.یہ وہ نماز ہے جس کے بعد انسان جتنی دفعہ بھی نماز میں جاتا ہے ہر دفعہ کوئی نیا موتی لیکر لکھتا ہے.نیا گو ہر لیکر واپس لوٹتا ہے.کبھی انسان ایسی نمازوں سے خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا اور جتنا ترقی کرتا ہے انتا ہی خدا کے رنگ اس پر پہلے سے بڑھ کر چڑھتے چلے جاتے ہیں.اتنا ہی زیادہ اس میں

Page 519

516 انکار پیدا ہوتا چلا جاتا ہے.اتنا ہی زیادہ وہ رکوع اور سجود کا اہل ہوتا چلا جاتا ہے اور تکبر کی بجائے اس میں انکساری بڑھنے لگتی ہے.خدا کرے کہ ہمیں ہمارے بیٹوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی موجودہ نسلوں کو بھی اور آئندہ نسلوں کو بھی ایسی ہی نمازیں نصیب ہوں.

Page 520

519 525 اشَايَة 33 A اسماء مقامات

Page 521

آدم علیہ السلام آذر 462,220 326 اسماء آمنہ صدیقہ ( ایک احمدی خاتون ) 212 ابراہیم علیہ السلام 247,231,186,185,183,182,181,180,179,170,73 324,323,322,254,253,252,251,250,249,248 426,424,423,384,382,381,379,361,326,325 ابو جهل 514,513,512 479,462,461 اروڑے خان ، منشی (رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اسحاق علیہ السلام اسد اللہ خان مرزا.غالب 251 146 238,237.اسماعیل علیہ السلام 251,249,183,182 انس رضی اللہ عنہ 188 ایٹن بارو - ڈیوڈ (DAVID ATTENBOROUGH) مشہور بیالوجسٹ دیکھئے ڈیوڈ ایوب علیہ السلام 394,393,391,390,290,289,288,287,281 بابا سندھی خادم حضرت مسیح موعود علیہ السلام) باقر امام رضی اللہ عنہ 422 383

Page 522

520 بشیر احمد مرزا - ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام 384 بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود بلغم باغور بلقیس (ملکہ سبا) بنی اسرائیل جالوت جدمون حوا عليها السلام داؤد علیہ السلام دجال 392,379,309,306,289,242,194 285 369 385,287 ج - ح - د - ڈ - ر - ز 189 189 288 359,353 401,98 ڈیوڈا میٹن بارو (DAVID ATTENBOROUGH) مشهور بیالو : 44,43,33,31,27,26,24,22 رام چندر جی سری 323 - رحمت علی.مولانا مبالغ انڈونیشیا ر عمسیس ثانی (فرعون) 466 زکریا علیہ السلام 380 305,304,303,275,274,273,272,203,202,201 س - ش - ص - ض - ط - ظ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ 175 سلطان احمد مرزا ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام 384 سلیمان علیہ السلام 358,357,356,353,351,350,348,437,346,31,30 385,370,369,366,364,363,362,361,360,359 سواع (قوم نوح کا ایک دیوتا) 387,386 435 اعلیہ السلام 378,376,223

Page 523

521 صالح علیہ السلام 358 مدام حسین.عراق کے موجودہ صدر - ضیاء الحق ، جنرل طالوت 193 189 132 ظفر احمد - منشی ، رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام 238,237 ع-غ-ف-ق-ک-گ عائشہ صدیقہ - ام المومنین رضی الله عنها 422,153 عبد الباقی ارشد (لندن کے ایک مخلص احمدی) علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی 422 عیسی علیہ اسلام 23 303,287,286,275,219,218,216,207,205,73 424,387,386,323 غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیه السلام 128,123,97,96,86,79,78,77,76,75,54,42,41,17 237,221,220,212,188,187,152,146,142,140,136 366,364,363,351,340,315,314,313,276,267,251 425,418,417,387,386,383,382,381,380,379,377 515,499,491,462,444 318,279,278,239,238,236,235,232,225,224 497,472,471,470,469,466,465,431,341,336 فرعون فضل احمد مرزا ، ابن حضرت مسیح موعود علیہ السلام 384 323 کرشن علیہ السلام کسری - شاه ایران 441,440 لم 384,383 457 381,380,379,378,345,344,343 گل محمد مرزا لقمان علیہ السلام لوط علیہ السلام

Page 524

522 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 96,95,93,89,86,81,78,73,44,37,36,19,13,9,3 140,139,136,128,127,126,125,124,118,99,98,97 174,171,165,162,159,153,149,148,143,142,141 198,196,195,193,189,187,186,185,182,181,175 271,262,258,257,254,244,231,220,216,213,200 316,314,311,308,307,285,284,283,282,281,272 363,359,356,355,350,339,338,337,325,324,317 405,402,401,400,399,398,397,392,387,386,385 437,429,425,421,420,419,415,411,409,407,406 510,509,507,491,479,461,455,444,443,441,440 514,512 333,202,201 مريم عليها السلام محمد و احمد مرزا.دیکھئے بشیر الدین محمود احمد موسی علیہ السلام 235,234,233,232,227,226,225,224,215,143,73 343,342,341,338,336,287,279,278,276,238,236 467,393,387,386,378,377,376,372,371 ن ناصر احمد مرزا - خلیفہ المسیح الثالث 406 نبیل ابن عبد الباقی صاحب ارشد - لندن نسر (قوم نوح کا ایک دیوتا) 435 نصیر احمد ( ایک احمدی نوجوان ) نظام دین مرزا نوح علیہ السلام 407 23 384,383 311,310,309,254,243,242,241,240,84,73 436,435,432,421,420,416,345

Page 525

523 و-ه-ی رو (قوم نوح کا ایک دیوتا) 435 182 342,279,278,277,226 290,289 275 ہاجره عليها السلام ہارون علیہ السلام ہریش چندر یحیی علیہ السلام يغوث (قوم نوح کا ایک دیوتا) 435 یوسف علیہ السلام 246,245,244,243, 270 یونس علیہ السلام 306,301,300,299,298,297,296,295,293,292

Page 526

آنفل ٹاور (پیرس - فرانس) 497 احد 174 294,129 اسرائیل افغانستان امریکہ امریکہ (جنوبی) انڈونیشیا 439,438,363,23 130 404,402,365,344,133,132,131,130,129,82,81,25 447,443,432,424,415,413 انگلستان 32 380 466,404,393,377,344,219,22 ثالہ (ضلع گورداسپور - بھارت) بنگلہ دیش 26,25 پ.پٹ 237 ہارا مار ہو (سورینام) (PARAMARIBO) پاکستان 350 450,426,425,424,393,380,345,316,271,171,138 369 497,447 ٹرینیڈاڈ (TRINIDAD) ٹورنٹو.کینیڈا جالیان 364,159 ج - چ - خ

Page 527

جوڈا ( فلسطین) چین خلیج (GULF) وجله ڈلہوزی (بھارت) ڈیٹرائیٹ (امریکہ) ریوه (پاکستان) روس روم سمان فرانسسکو ساؤتھ امریکہ سیا (مین) 385 364,443,159 308,129 و - ؤ - ر 526 146 383 415 23 464,364,130,97 423 س-ش 32 32 369 سندرین (بنگلہ دیش) 25 سری لنکا 405,404 سرینام (جنوبی امریکہ) 367,365,364,349 شام شرق اوسط عراق فرانس فلسطین نجی (جزائر) 287,130,129 129 ع-ف-ق-ک-گ 386,293,132,130 447 471,385,307,294,293 364 قادیان (ضلع گورداسپور - بھارت) 383,240

Page 528

32 کلومتانی (بھارت) 391 527 کویت گوئٹے مالا 132 369 ل - من لاہور (پاکستان) لنڈن ماریشس مدین 212 219 364 376 مار بشه منوره 392,283,282,281,93 مصر مکه مکرمه ملائشیا نیل (دریا) 239 282,281 25,24 472 نوا 296,295,294,293 و-ه-ی واشنگٹن ڈی سی.امریکہ 389 وڈالہ (ضلع گورداسپور) 237 وینام مالیہ ہندوستان یافا (اسرائیل) یورپ.130 497 426,363,159 295,294,293 263

Page 528