Zareen Hidayaat 4

Zareen Hidayaat 4

زرّیں ہدایات (جلد چہارم برائے طلباء۔1932ء تا 1959ء)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

زریں ہدایات (برائے طلباء) *1959 1932 جلد چهارم از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی

Page 2

زریں ہدایات (برائے طلباء ) جلد چہارم از حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ Zarreen Hidayaat (Baraei Tulaba) Vol4 (A Selection of essays and lectures delivered between 1932 and 1959) By Hazrat Mitza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih II Present Urdu Edition: UK 2020 © Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS United Kingdom Printed and bound by: No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photography, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-215-5 (Vol.1-4 Set)

Page 3

جلد چهارم صفحہ 1 8 14 19 33 40 1 2 3 4 57 14 15 45 زریں ہدایات (برائے طلباء ) فهرست عناوین نمبر شمار 1 عنوان م الاسلام اولڈ بوائز ایسوی ایشن کے لئے ہدایات 2 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا اعلان تعلیم یافتہ احمدی نوجوانوں کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ضروری ہدایات 4 احمد یہ سپورٹس کلب سے خطاب 5 حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو ضروری ہدایات دار الاقامہ جامعہ احمدیہ قادیان کے افتتاح کے موقع پر تقریر طلباء کو اہم نصائح کسی پیشہ کو ذلیل نہ سمجھا جائے اور ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے و بچپن کے نقوش ہی آئندہ زندگی کو سنوار سکتے یا اسے بدتر بنا سکتے ہیں 10 نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں ایک نہایت اہم خطاب.اپنے آپ کو اسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنا ؤ اور اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں ڈھالو کہ تم بڑے ہو کر اسلام کی خدمت کر سکو.بچے بہت جلد اثر قبول کرتے ہیں اس لئے ان کی حفاظت اور تربیت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے 11 تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے نتائج کیسے ہونے چاہئیں 78 100

Page 4

جلد چهارم صفحه 107 115 130 133 157 166 180 187 189 191 عنوان زریں ہدایات (برائے طلباء ) نمبر شمار 12 حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کیلئے زریں ہدایات 13 دین کی زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرو اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کی رغبت اپنے دل میں پیدا کرو 14 طلبائے بورڈنگ تحریک جدید کو نصائح 15 تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام کی اغراض 16 فضل عمر ہوٹل قادیان کے افتتاح کے موقع پر طلبائے تعلیم الاسلام کالج سے خطاب 17 احمدی نوجوان ہر علم میں دوسروں سے جلد سے جلد بڑھنے کی انتہائی کوشش کریں.خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں 18 ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں.طلباء کی علمی ، اخلاقی اور مذہبی نگرانی کے سلسلہ میں اپنے فرائض کو پوری ہوشیاری سے ادا کرنا چاہئے 19 اردو پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان بھی بننے والی ہے 20 تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلباء سے خطاب اپنے قلوب میں ایمان اور محبت الہی کی آگ روشن کرو ہمیں ایسے روشن دماغوں کی ضرورت ہے جو یورپ کو علوم سکھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں 21 عالی ہمت نوجوانوں کی ابتدائی منزلیں تو ہوتی ہیں لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک نہ ختم ہونے والی جدوجہد کیلئے تیار ہو جاؤ اور ہر وقت آگے قدم بڑھانے کی کوشش کرتے رہو

Page 5

زریں ہدایات (برائے طلباء) جلد چهارم صفحہ نمبر شمار عنوان 22 اپنے اندر قربانی کی حقیقی روح پیدا کرو اور اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرد اسلام کے ہر حکم اور قرآن مجید کی ہر آیت میں ایک ترتیب، ربط اور توازن موجود ہے.انجینئرنگ کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کے معمار اول (اللہ تعالیٰ) کی قدر کو پہچانو 24 | جامعہ نصرت ربوہ کا افتتاح اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو 25 دین کو سمجھو اور دین پر عمل کرنا اپنا شعار بناؤ 26 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب 202 225 227 254 264 299 ذاتی کاموں کے مقابلے میں خدا اور اس کے دین کو مقدم رکھنا ضروری ہے.297 28 گورنمنٹ کالج لائل پور کے مسلمان طلباء کو نصائح.اسلامی حکومت کے قیام کا اصل طریق یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سچا اور حقیقی مسلمان بنانے کی کوشش کرے 29 جماعتی اور ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان ملازمتوں کی بجائے ٹیکنیکل پیشوں کو اختیار کریں.ہمارے مدارس میں درسی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف دست کاریوں کی عملی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہئے.دستکاری کے پیشہ میں ترقی کرنے اور زیادہ کمانے کے وسیع امکانات موجود ہیں 30 آج دنیا اسلام کا پیغام سننے کے لئے بے تاب ہے اور وہ اپنی روحانی تشنگی بجھانے کے لئے اسلام کے چشمے سے سیراب ہونا چاہتی ہے 308 312

Page 6

زریں ہدایات (برائے طلباء ) نمبر شمار عنوان 31 اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کر دو اور توکل علی اللہ کی صحیح روح پیدا کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت ہرلمحہ تمہارے شاملِ حال رہے گی 32 طالب علمی کے زمانے کو آئندہ زندگی کے حق میں ایک بنیاد کی حیثیت حاصل ہے.طلباء اس بنیاد کو مضبوط بنا کر دنیا میں کار ہائے نمایاں سرانجام دینے کے اہل بن سکتے ہیں جلد چهارم صفحہ 315 318

Page 7

زریں ہدایات (برائے طلباء) 1 جلد چهارم تعلیم الاسلام اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے لئے ہدایات مورخہ 21 جنوری 1932ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں تقریب تقسیم انعامات منعقد کی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت , کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.قریباً دو سال کا عرصہ ہوا میں نے اس ہال میں انعامات کے متعلق بعض ہدایات دی تھیں اور چونکہ ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اس لئے پھر بیان کر دیتا ہوں.میں نے بتایا تھا کہ انعام لینے والا آتے اور جاتے السّلامُ عَلَيْكُمُ کہے.لیکن سوائے ایک دو طالب علموں کے کسی نے ایسا نہیں کیا.پھر میں نے بتایا تھا کہ جس وقت کسی کو انعام دیا جائے وہ جزاک اللہ کہے اور باقی سب بَارَكَ الله کہیں.اگر چہ بَارَکَ اللہ کے الفاظ مولوی محمد الدین صاحب ہیڈ ماسٹر فرض کفایہ کے طور پر کہتے رہے ہیں لیکن عام طور پر طالب علم اس میں شامل نہیں ہوئے.دراصل اس قسم کی روایات بھی انسانی طبائع پر اثر کرتی ہیں اس لئے ان کا قیام ضروری ہے.اس سے طبیعت میں جوش پیدا ہوتا ہے اور حوصلے بڑھتے ہیں.گویا جو غرض انعام دینے کی ہے وہی ان کی بھی ہے.اگر ایک طالب علم خاموشی کے ساتھ آئے اور انعام لے کر واپس چلا جائے تو اس پر اس کا اتنا گہرا اثر نہیں ہوگا.لیکن جب وہ یہ محسوس کرے کہ انعام حاصل کرنے میں اسے جو عظمت حاصل ہوئی ہے اسے اس کے ساتھیوں نے محسوس کیا ہے تو اس کی طبیعت پر اس انعام کا بہت زیادہ گہرا اثر ہو سکتا ہے.اس کے بعد میں ان طلباء کو جو یہاں موجود ہیں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ انعامات جن اغراض کے لئے دیئے گئے ہیں وہ بہت مبارک ہیں اور انہیں چاہئے کہ کوشش کر کے انہیں حاصل کریں.

Page 8

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 2 جلد چهارم اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے بھی جو کام کیا ہے وہ بھی بہت مبارک ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی کوششوں اور سعیوں کو آگے سے بھی زیادہ کرے گی.اور اپنے کام کے لحاظ سے ایسی نمایاں حیثیت اختیار کرنے کی کوشش کرے گی کہ اس کی ضرورت اور فائدہ اور زیادہ اہم سمجھا جانے لگے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسی قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ روز بروز ترقی کر سکتا ہے اور دنیا کے اندر کوئی چیز ایسی نہیں جو ترقی نہیں کر رہی.بلکہ ایک معنوں میں خدا تعالیٰ کا کلام بھی ترقی کر رہا ہے.یعنی اس کے معارف اور باریکیاں روز بروز زیادہ کھلتی جارہی ہیں.وہ آیات قرآنی جو ایک زمانہ میں مسلمانوں کے لئے ابتلا کا موجب سمجھی جاتی تھیں آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل وہ اسلام کی صداقت کے لئے دلیل و برہان کا کام دیتی ہیں.اسی طرح قانون قدرت بھی ترقی کر رہا ہے اور یہ خیال کرنا کہ انسانی دماغ کوئی ترقی نہیں کر سکتا ایسی بات ہے جس سے زیادہ اور کوئی لغو بات نہیں ہوسکتی.بعض نادانوں نے میرے ایک فقرہ پر اعتراض کیا ہے جس میں میں نے کسی موقع پر کہا تھا کہ انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ رسول کریم ﷺ کی اس حالت روحانیہ کو پالے یا اس سے بڑھ جائے جو حضور علیہ السلام کی کسی زمانے میں تھی.غیر احمدیوں کی طرف سے اس پر بہت اعتراض کئے گئے ہیں اور اسے رسول کریم ﷺ کی بہتک سے تعبیر کیا گیا ہے.لیکن نادان اتنا نہیں سوچتے کہ آپ کی موجودہ روحانی حیثیت اُس سے بہت بلند و بالا ہے جو بوقت بعثت یا انتقال تھی.یہ خیال کرنا کہ آپ آج بھی اُسی مقام پر ہیں اس سے زیادہ ہتک آپ کی کوئی نہیں ہو سکتی.اور جب آپ آگے بڑھتے اور ہمیشہ ترقی کر رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کی امت نہ بڑھے.نادان ایسے اعتراضات کر کے چاہتے ہیں کہ عارضی طور پر ہمارے خلاف طبائع میں جوش اور ہیجان پیدا کر دیں.لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ایسے اعتراضات انسان کی روحانیت اور دماغی ترقی کا خون کرنا ہے اور انسان کو دائرہ ترقیات سے نکال کر مایوسی کی ظلمت میں لے جانا ہے.بہر حال ہر چیز ترقی کرتی ہے حتی کہ خدا تعالیٰ کا کلام اور دین بھی ترقی کر رہا ہے.

Page 9

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 3 جلد چهارم ایسی صورت میں یہ خیال کرنا کہ کسی انسٹی ٹیوشن کا نظام جس طرح کسی وقت میں قائم کیا گیا تھا اپنی جگہ پر بدستور رہنا چاہئے اور اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں غلط خیال ہے.اولڈ بوائز ایک طرف اس نظام کی خامیوں سے واقف ہیں اور دوسری طرف اس کی خوبیوں سے آگاہ.اس کے علاوہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہوں نے دوسرے شہروں اور انسٹی ٹیوشنوں کی ترقیات کا بغور مطالعہ کیا ہے اور اس لئے وہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ خیالات اور ہمارے نظام کے درمیان اتصالی زنجیر کی ایک کڑی ہے جو اگر صحیح طور پر استعمال کی جائے تو ہماری ترقی میں محمد ہو سکتی ہے.پس اگر اولڈ بوائز ایسوسی ایشن روحانی، جسمانی، دینی، دنیوی تعلیم اور دیگر ضروری امور کے متعلق اپنے تجارب سے ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے کارکنوں کو مطلع کرتی رہے اور ایسی تجاویز پیش کرتی رہے جس سے نظام بہتر سے بہتر ہو سکے تو یہ ایک ایسی خدمت ہوگی جو نہ صرف اس نسل کے لئے بلکہ آئندہ نسلوں کے لئے بھی مفید ہوگی اور ایسوسی ایشن کے لئے مستقل طور پر ثواب کا محرک اور اجر کا موجب ہوگی.میں امید کرتا ہوں کہ ایسوسی ایشن اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے آئندہ اپنی کوششوں کو زیادہ تیز کرے گی.اس کے بعد میں طالب علموں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ صرف اس امر کو مد نظر نہ رکھیں کہ جو انعام ملے ہیں وہ صرف چاندی ، سونے یا ملمع کا کوئی تحفہ ہے یا کوئی کتاب ہے جس کی قیمت معمولی ہے اور اس سے دگنی بلکہ چار نئی قیمت کی چیز وہ خود خرید سکتے ہیں.بلکہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ان کی خریدی ہوئی چیز ان کی اپنی ہے لیکن دوسرے کی طرف سے دیا ہوا انعام دوسروں کی زبان اور عمل سے اس امر کا اقرار ہوتا ہے کہ تم اس کے مستحق ہو.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کو انعام مل جائے تو بعض دوسرے طالب علم کہتے ہیں کہ اس کی رعایت کی گئی.یہ نفس کا دھوکا ہوتا ہے.صرف دوسروں کے سامنے اپنی خفت کو کم کرنے کے لئے یہ آڑ لے لیتے ہیں.اور تعجب ہے کہ میں نے بعض والدین کو بھی دیکھا ہے اپنی اولاد کی طرف سے اس قسم کے پیدا کردہ دھوکا کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس وجہ سے ناراض ہو جاتے ہیں کہ ہمارا لڑکا لائق ہے مگر سکول میں دوسروں کی بلاوجہ رعایت کی جاتی ہے.ایک شخص نے میرے پاس

Page 10

زریں ہدایات (برائے طلباء) 4 جلد چهارم شکایت کی کہ میرا لڑکا عربی میں بہت لائق ہے مگر استاد نے ذاتی پرخاش کی وجہ سے اسے فیل کر دیا ہے.میں نے کہا آپ تو عربی جانتے نہیں.آپ کو کیسے علم ہو گیا کہ لڑکا عربی میں لائق ہے؟ کہنے لگے وہ خود کہتا ہے.میں نے کہا اچھا ! یہ تو ایسی بات ہے جس کا میں بھی تجربہ کر سکتا ہوں.میں نے اس لڑکے کا پرچہ منگوایا، استاد نے اسے شاید سو میں سے تین نمبر دیے تھے.مگر مجھے اس کے بے جارحم بلکہ عقل پر حیرانی ہوئی کہ اس پر چہ کے لئے اس نے کس طرح تین نمبر دے دیئے.دراصل فیل کرنے میں اس نے ظلم نہیں کیا بلکہ تین نمبر دینا ظلم تھا.تو میرا یہ لمبا تجربہ ہے کہ اپنے متعلق لوگ غلط رائے قائم کر لیتے ہیں اس لئے میں طلباء کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ انعام لینے والوں کے متعلق یہ مت خیال کریں کہ ان سے رعایت کی گئی ہے.بلکہ یہی سمجھو کہ وہ تم سے بڑھ گیا تا تمہارے اندر غیرت پیدا ہو اور اس سے بھی آگے نکلنے کے لئے تمہارے دل میں امنگ اور ولولہ پیدا ہو سکے.جو شخص آسانی سے اس بات کو برداشت کر لیتا ہے کہ دوسرا اس سے آگے بڑھ جائے وہ کوئی ترقی نہیں کر سکتا.جب تک ہر قدم پر یہ احساس نہ ہو کہ دوسرا مجھ سے بڑھنے نہ پائے اور جائز ذرائع سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کی جائے اُس وقت تک آئندہ زندگی کامیاب نہیں ہوسکتی.پھر یہ بھی مت خیال کرو کہ جو انعام دیا گیا ہے وہ بالکل بے حقیقت ہے اور تم اس سے بہت زیادہ قیمتی چیز خود خرید سکتے ہو.یا د رکھو کہ ایک پیسہ کی مالیت کا انعام لاکھ روپیہ کی قیمتی چیز سے جو تم نے خود خرید کی ہو بدرجہا اچھا ہے.پیسہ کا انعام حاصل کرنے والا دراصل اپنے تمام ساتھیوں کو شکست دے کر اور فتح کر کے وہ انعام حاصل کرتا ہے اس لئے اس کی قیمت بہت زیادہ ہے.ایک پہلوان سے اگر ایک پیسہ چھین لیا جائے تو وہ بہت زیادہ قیمتی ہے اُس پونڈ سے جو زمین پر پڑا ہوا اتفاقا مل جائے.بلکہ میں کہوں گا وہ مٹی کا ڈھیلا جو پہلوان سے چھین لیا جائے اُس لاکھ روپیہ کی تھیلی سے بھی زیادہ قدر رکھتا ہے جو مفت میں ہاتھ آ جائے کیونکہ اس میں تمہاری کوئی خوبی نہیں.پس اپنے نفس کو دھوکا دینے کی مت کوشش کرو.اور جب بھی تمہارا کوئی ساتھی انعام

Page 11

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 5 جلد چهارم حاصل کرے سمجھ لو کہ وہ تم سے بڑھ گیا ہے اور آئندہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.میں دعا پر اس تقریر کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ استادوں پر بھی رحم کرے اور طلباء کو تو فیق عطا فرمائے کہ وہ انعام کی حقیقت کو سمجھ سکیں.“ ( الفضل 2 فروری 1932ء)

Page 12

زریں ہدایات (برائے طلباء) 6 جلد چهارم حضرت خلیفہ امسیح الثانی کا اعلان کا تعلیم یافتہ احمدی نوجوانوں کے لئے ” ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کی طرف سے الفضل میں تعلیم یافتہ احمدی بے کار نو جوانوں کے متعلق جو اعلان شائع ہوا ہے اس میں وہ میرا منشاء اچھی طرح واضح نہیں کر سکے.میرا منشاء یہ ہے کہ وہ تعلیم یافتہ احمدی نوجوان جو بے کاری کی حالت میں اپنے خاندانوں کے لئے بار بنے ہوئے ہیں اور اپنی عمریں ضائع کر رہے ہیں اگر غیر ملکوں میں جا کر اپنی قسمت آزمائی کریں تو ان کے لئے بھی بہتر ہو گا اور اس طرح جماعت کے نوجوانوں میں ترقی کرنے کی روح بھی پیدا ہوگی.بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ملک میں کسی کے لئے ترقی کرنے کا موقع نہیں ہوتا لیکن دوسرے ممالک میں جا کر اس کے لئے ترقی کا راستہ کھل جاتا ہے.اس میں مشکلات اور خطرات بھی ہوتے ہیں حتی کہ جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے.لیکن ترقی کی امنگ رکھنے والوں کو اس قسم کے خطرات کی پرواہ نہیں ہوتی.اور جو نوجوان خطرات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں ان میں سے اکثر کامیاب ہو جاتے اور مال دار بن جاتے ہیں.انگلستان سے کئی نوجوان جو افریقہ گئے وہ نہ صرف خود آسودہ حال ہو گئے بلکہ کروڑوں روپیہ انہوں نے رفاہ عام کے کاموں میں چندہ کے طور پر دیا.اسی طرح ہندوستان کے کئی نوجوان جو دیگر ممالک میں گئے انہوں نے خاصی ترقی کی.در اصل جس چیز کی وجہ سے ترقی حاصل ہوتی ہے وہ عزم و استقلال، حوصلہ اور قربانی کا مادہ ہوتا ہے.جو نو جوان اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں کہ خواہ کچھ ہو قدم آگے ہی آگے

Page 13

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 7 جلد چهارم بڑھائیں گے وہ دنیوی ترقی کی منزل مقصود تک پہنچ جاتے ہیں.اس قسم کے نوجوانوں کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ اگر ہوں تو اطلاع دیں.پھر ان کے مناسب حال مشورہ دیا جائے گا.“ (الفضل 7 مئی 1933ء)

Page 14

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 8 00 جلد چهارم حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کو ضروری ہدایات حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بی.اے خلف الرشید حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کے ولایت روانہ ہونے کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے انہیں جو چند اہم نصائح اپنے قلم سے تحریر کر کے عطا فرمائی تھیں وہ حسب ذیل ہیں :.عزیزم مرزا مظفر احمد سَلَّمَكُمُ اللهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ آپ کو انگلستان جانا مبارک ہو.اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شر سے بچائے اور اس طرح وہاں رہنے کی توفیق دے جو اسلام اور سلسلہ کی عزت بڑھانے والا ہو.آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ:.سلسلہ کی عزت کا خیال (1) آپ کی حالت دوسرے طالب علموں کی طرح نہیں.ان کو کوئی نہیں جانتا.ان کی حالت کو کوئی نہیں دیکھتا.آپ کو لوگ اس نگاہ سے دیکھیں گے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں.اور آپ کے سامنے تعریف کرنے والے بعد میں لوگوں سے کہیں گے کہ ہم نے مرزا صاحب کے پوتے کو دیکھا ہے اس میں تو یہ یہ نقائص ہیں.پس ہمیشہ اس امر کا خیال رکھیں کہ آپ کے ہاتھ میں اپنی عزت کی حفاظت کا ہی کام نہیں ہے بلکہ سلسلہ کی عزت بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کی حفاظت کی بھی ذمہ داری ہے.(2) ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی مادیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے.پس آپ کو دعاؤں پر خاص زور دینا چاہئے.کوئی مشکل نہیں جسے اللہ تعالیٰ حل نہ کر سکتا ہو اور کوئی عزت نہیں جو اس کے دربار سے نہ مل سکتی ہو.پس ہمیشہ خدا تعالیٰ دعا

Page 15

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 9 جلد چهارم سے دعائیں کرتے رہیں اور ہمیشہ مشکل کے وقت میں اس کی طرف جھکیں تا کہ وہ شیطان کے حملہ سے محفوظ رکھے اور مشکلات کو دور فرمائے.(3) اس ملک کے اوقات ایسے ہیں کہ جلد آدمی نمازوں میں ست نماز با جماعت ہونے لگتا ہے.پس ہمیشہ کوشش کریں کہ نمازوں میں بے قاعدگی نہ ہو.یہ تو میں بالکل امید نہیں کرتا کہ ایک وقت کی نماز بھی آپ کے ہاتھ سے جاتی رہے.لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نمازیں وقت پر ادا ہوں.اور اگر ہو سکے تو باجماعت ادا ہوں.اگر پاس کوئی احمدی نہ ہو تو کسی غیر احمدی کو ہی اپنے پیچھے کھڑا کر کے جماعت کر سکتے ہیں.(4) قرآن شریف کا سمجھ کر مطالعہ کرتے رہیں کہ اس میں سب نور تلاوت قرآن اور ہدایت ہے.اگر غور سے پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ یورپ باوجو د ترقی کے اس کے مقابلہ میں ابھی تاریکی میں پڑا ہوا ہے.احمدیوں سے ملنا (5) ہر ممکن کوشش احمدیوں سے ملتے رہنے کی کرتے رہیں خصوصاً مسجد میں آنے کی کوئی موقع نہ دیں کہ مسجد میں آسکیں لیکن آئیں نہیں.(6) ہمیشہ اچھے دوستوں سے تعلق پیدا کریں خصوصاً وہ جو اچھے طبقہ دوست کیسے ہوں کے اور سمجھ دار ہوں.انسانی عقل کی ترقی اپنے دوستوں کے دماغ کے مطابق ہوتی ہے.بے وقوف دوست آپ کو بھی بے وقوف بنا دے گا.دوستی خصوصاً اچھے طبقہ کے انگریزوں سے ہو.ہندوستانیوں سے وہاں دوستانہ کم رکھیں.اس سے زبان صاف نہ ہوگی اور اخلاق خراب ہوں گے.(7) اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ آپ کو ملازمت کرنی ہوگی یا سلسلہ کا کام لیکن جو کچھ بھی ہو آپ کو یہ فائدہ دے گا کہ آپ اس طبقہ سے ملتے رہیں جس کا ہندوستان یا انگلستان کے پالیٹکس پر اثر ہوتا ہے.ایسے طبقہ میں ملتے رہنے کی کوشش کریں.میں نے اس کے لئے سراوڈائر (Sir O'Dwyer) کو خط لکھا ہے ان سے مناسب موقع ملتے رہیں.وہ خیر خواہ آدمی ہے.انشاء اللہ اچھا مشورہ دے گا اور مفید ثابت ہوگا.دوسرا شخص اگر اس کی صحت اچھی ہو

Page 16

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 10 جلد چهارم سر جافرے ہے.درد صاحب کی معرفت ان سے مل کر بھی تعارف پیدا کر لیں.اسی طرح سر میکلگن (Sir Maclagan) ہے.آخر الذکر ہمارے خاندان کے خاص طور پر واقف ہیں.(8) اپنے حلقہ میں تبلیغ کا کام کرتے رہیں اور اچھے نو جوانوں کو انگریز ہوں یا تبلیغ اسلام ہندوستانی مسجد میں لے جانے کی کوشش کریں کہ اس سے دل کو نور حاصل ہوتا ہے.(9) درد صاحب یا جو مبلغ ہو وہ وہاں کا امام اور امام مسجد لندن کی اطاعت امیر ہے.اس کی پوری فرمانبرداری کرنی چاہئے اور اس سے مشورہ لیتے رہنا چاہئے.(10) وہاں عورتوں کی وبا کثرت سے ہے.اس عورتوں کے متعلق ہدایت سے بچنا تو مشکل ہے کیونکہ وہ ہر مجلس میں موجود ہوتی ہیں لیکن جوان عورتوں سے الگ ملنے یا ان کے ساتھ سیر وغیرہ پر جانے سے احتراز کرنا چاہئے.کھانے کے متعلق (11) کھانے میں حلال وحرام کا خاص خیال رکھیں.اور شکل میں داڑھی کا.راستہ کے متعلق یا درکھیں کہ:.جہاز کا سفر (1) جہاز میں متلی سے بچنے کے لئے اچھا ذریعہ یہ ہے کہ اول تو کچھ نہ کچھ کھاتا ضرور رہے.دوم کھلی ہوا میں رہے.یعنی کمرہ کی جگہ ڈک (Deck) پر وقت گزارے.سوم جس وقت زیادہ بچکولے ہوں اُس وقت ذرا لیٹ جائے.حلال گوشت (2) جہاز میں جاتے ہی سٹیورڈ (steward) سے یعنی جہاز کے خادم سے کہہ دیں کہ آپ خنزیر یا بغیر حلال کا گوشت نہیں کھاتے.اس کا وہ خیال رکھے اور اس چیز کے متعلق آپ کو بتا دے.بلکہ چاہئے کہ میاں بشیر احمد صاحب تھامس لک کی معرفت پی اینڈ او کمپنی والوں کو فوراً اطلاع کرا دیں تا کہ کوئی تکلیف نہ ہو.(3) تھامس تک کے آدمی ہر جگہ بندرگاہ میں ملتے ہیں ٹھگوں کے متعلق احتیاط ان پر اعتبار کریں خود کوئی انتظام نہ کریں.یورپ میں

Page 17

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 11 جلد چهارم ٹھگ بہت ہوتے ہیں.ہوٹل وغیرہ میں ٹھہرنا ہو تو بھی ان کی معرفت انتظام کرائیں.انہیں کہہ سکتے ہیں کہ اوسط درجہ کے خرچ والا لیکن معتبر ہوٹل ہو.(4) جہاز سے اتر کر لندن پہنچنے کے وقت تک جہاز کے مسافروں کے سوا کسی سے تعلق نہ پیدا کر یں.نہ کسی کو ساتھ رہنے دیں.ایسے لوگوں میں سے 90 فیصدی ٹھگ ہوتے ہیں.(5) ہمیشہ روپیہ، ضروری کاغذات وغیرہ اندر کی جیب میں رکھیں.جیب کترنے والے کثرت سے بندرگاہوں وغیرہ پر پھرتے ہیں.(6) بندرگاہ پر سیر کو جانا ہو تو چند دوسرے لوگوں سے مل کر سیر کے متعلق احتیاط جائیں.اکیلے نہ جائیں کہ لٹیرے بڑے خطرناک حملے ایسے مواقع پر کر گزرتے ہیں.آسان راسته (7) فرانس سے انگلستان دو راستے جاتے ہیں.بذریعہ Dover اور Southampton.آپ کو سنا ہے چکر زیادہ آتے ہیں.تھامس لک کو کہہ دیں آپ Southampton کے ذریعہ سے جانا چاہتے ہیں.Dover کا راستہ نہایت سخت ہے.اور گودو گھنٹے کا ہے مگر اسی عرصہ میں جان نکال لیتا ہے.(8) جہاز میں پہنچتے ہی زائد جہاز میں روپیہ وغیرہ کی حفاظت کا طریق روپیہ اور پاسپورٹ اور ضروری کاغذ پر سر (Purser) کے پاس رکھوا دیں.ورنہ جہاز میں گم ہو جانے پر تکلیف کا سامنا ہوتا ہے.جہاز کے ٹھہرنے سے ایک دن پہلے کا غذات واپس لے کر باحتیاط رکھ لیں.چند گھنٹے پہلے مل سکیں تو اور بھی اچھا ہے.پر سر (Purser) کی رسید محفوظ رکھیں.اس کے دکھانے پر روپیہ اور کاغذات واپس ملیں گے.(9) جہاز سے اترتے وقت سٹیورڈ ( خادم ) کو دس شلنگ سے ایک خادم کو انعام پونڈ تک دینے کا رواج ہے.یہ کمرہ کے خادم اور کھانا کھلانے والے خادم دونوں کا حق ہوتا ہے.خواہ دونوں کو الگ الگ دے دیا جائے یا دونوں کی موجودگی

Page 18

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 12 جلد چهارم میں ایک کو.بعض جہازوں پر یہ دونوں کام ایک ہی شخص کرتا ہے.(10) جہاز پر لیمن جوس وغیرہ قیمتاً ملتا ہے.ضرورت کے موقع پر سٹیورڈ کی معرفت مل سکتا ہے.اسے حکم دینا کافی ہوتا ہے.(11) جہاز میں چڑھتے ہوئے کچھ پھل لے کر تعارف پیدا کرنے کا ذریعہ رکھ لیا جائے اور کچھ انگریزی رسالے.تو مفید ہوتا ہے.ساتھیوں سے اس کے ذریعہ سے تعارف ہو جاتا ہے اور شروع کے دن اچھے کٹ جاتے ہیں.مقدس سرزمین کے متعلق فرض (12) جہاز اس مقدس سر زمین کے پاس سے گزرے گا جس سے ہمیں نو ر ملا ہے.اور جہاں ہمارا سب سے پیارا وجود مدفون ہے.دونوں جگہ سے جہاز کے گزرنے کا علم جہاز کے افسروں سے ہو سکتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اُس جگہ اُس سر زمین کو دیکھ کر دعائیں کریں تا اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو.ایک جگہ تسبیح و تحمید اور دوسری جگہ درود پڑھیں کہ اس احسانِ عظیم کا جو ہم پر ہوا ہے اعتراف ہو.لَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ - 1 1_ الفضل کا مطالعہ (13) یہ تو آپ کے ابا کا کام ہے کہ الفضل تمہارے نام جاتا رہے مگر اس کو پڑھتے رہنا تمہارا کام ہے.اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے.خیریت سے لائے.خوشی خوشی سب کو چھوڑ ہیں.خوشی خوشی اور خیریت سے سب کو آکر ملیں.اللہ کے سپرد.وَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا وَّ نَاصِرًا.المی سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم بیش را (نوٹ) بمبئی میں سیٹھ اسماعیل صاحب آدم ہر قسم کا مفید مشورہ دے سکتے ہیں.میں ان کو لکھ رہا ہوں.ان کو پہنچنے کی اطلاع ضرور دے دیں.والسلام

Page 19

زریں ہدایات (برائے طلباء) 1 : ابراهيم : 8 13 جلد چهارم خاکسار مرزا محمود احمد (علیه اسبح ) ( الفضل 24 /اکتوبر 1933 ء )

Page 20

زریں ہدایات (برائے طلباء) 14 جلد چهارم احمد یہ سپورٹس کلب سے خطاب 26 مارچ1934ء کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے احمد یہ سپورٹس کلب سے جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس وقت جو ایڈریس پڑھا گیا ہے اس میں ایک تو یہ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ میں کلب کی سر پرستی منظور کروں.سر پرستی کا لفظ ہمیشہ ہی میرے لئے شبہ کا باعث بن رہا ہے اور کبھی اس کی حقیقت میری سمجھ میں نہیں آئی.کیونکہ عام طور پر سر پرست بڑے کو کہتے ہیں لیکن معنوی لحاظ سے سر پرست چھوٹا ہوتا ہے.پھر مسلم اور خدا کے سوا کسی اور چیز کی پرستش جمع بھی نہیں ہوا کرتی.بہر حال جن معنوں کے لحاظ سے یہ ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے میرے نزدیک اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جو خاص چندہ مقرر ہو اس کے دینے والوں کا نام سر پرست رکھ دیا جاتا ہے.اس چندہ کے دینے سے مجھے انکار نہیں اور میں وہ دینے کے لئے تیار ہوں.پھر اگر سر پرستی کے معنے وہ ہیں جو عام طور پر لئے جاتے ہیں یعنی توجہ کرنا ، خیال رکھنا اور نگرانی کرنا تو یہ بحیثیت درجہ کے جماعت کے ہر کام کی ہر وقت خلیفہ کے سپر د ہوا ہی کرتی ہے.دوسری خواہش یہ کی گئی ہے کہ احمد یہ ٹورنامنٹ کا احیاء کیا جائے.مجھے یاد نہیں کہ احمدیہ ٹورنامنٹ کے ختم کر دینے یا بند کرنے کے متعلق میری طرف سے کوئی ہدایت کی گئی ہو.جہاں تک میں سمجھتا ہوں میں نے ہمیشہ اس قسم کے ٹورنامنٹ کی تائید کی اور اسے پسند کیا ہے.ان حالات میں مناسب یہ ہے کہ ممبران کلب ناظر تعلیم و تربیت کو توجہ دلائیں جن کا کام اس بارے میں میری ہدایت پر عمل کرنا ہے.اگر ٹورنامنٹ کے متعلق احکام موجود ہیں اور پھر اس کے التوا کی کوئی وجوہات ہیں تو وہ ناظر صاحب تعلیم و تربیت ہی بتا سکتے ہیں.ممبران کلب ان سے

Page 21

زریں ہدایات (برائے طلباء) 15 جلد چهارم تبادلۂ خیالات کریں.اگر ان کا جواب تسلی بخش نہ ہوا تو پھر میں خود اس بارے میں غور کرنے کے لئے تیار ہوں.میں نے ہمیشہ ورزشی کھیلوں پر زور دیا ہے بشرطیکہ ان کا صحیح استعمال ہو.اس قسم کی کھیلیں یہ روح پیدا کرتی ہیں کہ باوجود مقابلہ کے آپس میں دوستانہ طور پر رہ سکتے ہیں.سپورٹس مین سپرٹ یہی ہوتی ہے کہ انسان دوسروں کے اختلاف کو بخوشی برداشت کر سکے.وہ لوگ جو ذرا ذرا سے اختلاف کی وجہ سے انتہا کو پہنچ جاتے ہیں اس روح کو نہیں سمجھتے جو کھلاڑیوں میں پائی جاتی ہے.جب کھلاڑی مقابلہ کے کھیل میں کھیلتے ہیں تو دونوں طرف سے اس شدت کا مقابلہ ہوتا ہے کہ گویا اس کھیل کے سوا ان کے مد نظر کوئی اور کام ہی نہیں ہے.لیکن جب ایک پارٹی جیت جاتی ہے اور کھیل ختم ہو جاتا ہے تو دونوں پارٹیوں کے کھلاڑی ایک دوسرے کی بغلوں میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلتے ہیں کہ ان میں کوئی مقابلہ ہوا ہی نہیں.یہی روح ہے جو دنیا میں امن قائم کر سکتی ہے.دنیا کی حکومتوں میں ، اقتصادیات میں ، علوم میں، معاشرت میں، اخلاق میں، عادات میں اختلاف ہے.مگر اسے اسی حد تک محدود رہنا چاہئے جس صیغہ سے تعلق رکھتا ہو.دوسرے کاموں تک اسے وسیع نہیں کرنا چاہئے.تمام تفرقے اسی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں که اختلاف کو وسیع کر کے دوسرے کاموں تک بڑھا دیا جاتا ہے.ایک پولیس کا افسر اپنی تحقیقات میں، ایک جج اپنے فیصلہ میں دوسرے اختلافات کے اثرات کو لے جاتا ہے.اگر اختلاف کو اسی حد تک محدود رکھا جائے جس حد سے اس کا تعلق ہوتا ہے تو کوئی پولیس کا افسر نا انصافی نہ کرے اور کوئی حج بد دیانتی کا مرتکب نہ ہو.چونکہ اختلاف کو اپنی حد کے اندر محدود رکھنے کی روح کھیلوں سے پیدا ہوتی ہے اس لئے میں انہیں پسند کرتا ہوں اور ان کے مقابلہ میں ڈیبیٹنگ (Debating) کو نا پسند کرتا ہوں.اس روح کو مد نظر رکھتے ہوئے اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ کوئی دماغ تندرست نہیں رہ سکتا جب تک صحت درست نہ ہو میں ورزشی کھیلوں کو ضروری سمجھتا ہوں.صحت کی درستی سے میری مراد وہ مخفی طاقت ہے جو انسان کو اس کے متعلقہ کاموں میں سے گزار دیتی ہے اور وہ ان کا موں کو عمدگی سے کر سکتا ہے.

Page 22

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 16 جلد چهارم بظاہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم دیکھتے کہ آپ بیمار رہتے اور آپ کی بیماری کے متعلق پیشگوئی تھی.مگر باوجود اس کے آپ کے کاموں ، آپ کی رفتار اور آپ کی گفتار سے کوئی یہ نہ سمجھتا تھا کہ آپ کی اتنے سال کی عمر ہے جتنے سال کے آپ تھے.آپ سیر کو جاتے اور میں نے آپ کو منگلیاں پھیرتے دیکھا ہے.میں نے وہ رکھی ہوئی تھیں مگر کسی نے مانگیں اور میں نے دے دیں.دراصل ورزش بیماریوں سے بچا نہیں سکتی البتہ کام کرنے کی طاقت پیدا کر دیتی ہے.ایک دفعہ میں نے رؤیا دیکھا کہ کسی شخص نے اعتراض کیا.وہ شخص اس وقت یہاں موجود ہے جس کے متعلق اعتراض کیا گیا مگر وہ موجود نہیں جس نے اعتراض کیا.اعتراض یہ تھا کہ فلاں شخص ورزش کرتا رہتا ہے حالانکہ واقعہ میں اس نے کبھی ورزش نہیں کی.بہر حال اس پر رویا میں اعتراض کیا گیا.میں نے جواب دیا یہ تو کوئی اعتراض کی بات نہیں.ورزش بعض اوقات دینی حکم ہو جاتی ہے.پھر میں نے مثال دی کہ ایک شخص جو ورزش نہیں کرتا اور پھر خدمت دین نہیں کر سکتا خدا تعالیٰ کے حضور وہ ورزش نہ کرنے کی وجہ سے جوابدہ ہو گا.غرض میں بہت ضروری سمجھتا ہوں کہ ورزش کی جائے مٹی کہ میرے نزدیک تو آواز کی بھی ورزش ہونی چاہئے.یہاں ایک پٹھان عبد الغفار خاں صاحب رہتے تھے جو عبد اللہ خاں پٹھان کے باپ تھے اور سید عبد الستار صاحب کہ جنہیں رویا اور کشوف ہوتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں دعا کرنے کے لئے کہا کرتے تھے ، میں نے بھی ان سے کئی بار دعا کرائی ان کے بھائی تھے.ان کو اذان دینے کا شوق تھا مگر آواز پست تھی.انہوں نے بلند آواز کے لئے مشق کرنی شروع کی تو اس قدر بلند ہو گئی کہ میل میل تک سنائی دیتی تھی.تو آواز کی بھی ورزش ہونی چاہئے.یہ مشق نہ صرف مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام آتی ہے بلکہ صحت کے لئے بھی ضروری ہے.مجھے افسوس ہے کہ اس وقت قرآن کریم، نظم اور ایڈریس جنہوں نے پڑھا سوائے تلاوت کرنے والے کے باقیوں کی آواز بہت پست اور گری ہوئی تھی.اچھی اور عمدہ آواز میں بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے.حضرت خلیفہ المسح الاول سناتے تھے

Page 23

زریں ہدایات (برائے طلباء) 17 جلد چهارم کہ ایک شخص خوش الحانی سے اذان دیا کرتا تھا.مسجد کے قریب ایک سکھ رئیس کا مکان تھا.اس کی لڑکی پر اذان کی آواز کا ایسا اثر ہوا کہ اس نے کہہ دیا میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں.جب اس سے پوچھا گیا کہ مسلمان ہونے کی کیا وجہ ہے؟ تو اس نے کہا کہ اذان کی آواز سن کر میرا دل بے اختیار اسلام کی طرف کھینچا جاتا ہے.اس پر اس سکھ رئیس نے اس مؤذن کو اس مسجد سے نکلوا دیا.اور پھر ایک ایسا شخص مقرر ہوا جس کی آواز ویسی عمدہ نہ تھی.اس کے بعد لڑکی سے پوچھا گیا تو کہنے لگی اب تو اسلام کوئی ایسا سچا نہیں معلوم ہوتا.تو آواز میں بھی اثر ہوتا ہے اور صحت کے لئے آواز کا بلند ہونا ضروری ہوتا ہے.جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس وقت رونا اس کے لئے ڈاکٹر مفید بتاتے ہیں.پس ہر رنگ میں ورزش ہونی چاہئے.صرف ہاکی یا فٹ بال کے ذریعہ جسمانی قومی کی ورزش کافی نہیں.اگر آواز کی ورزش کی جائے تو وہ بھی بہت مفید ہوسکتی ہے.ایک دفعہ میں ڈلہوزی گیا تو دیکھا دو پہاڑوں پر دو عورتیں کھڑی تھیں.ان میں سے ایک مرد کے جذبات کا اور دوسری عورت کے جذبات محبت کا باری باری اشعار میں اظہار کرتی.اور ان دونوں کی آواز دور سے خوب سنائی دیتی تھی.پس گلے کی ورزش کی جائے تو آواز بلند اور عمدہ ہوسکتی ہے.اور نہ صرف گلے کی ورزش کرنی چاہئے بلکہ آنکھوں کی ورزش بھی ہوتی ہے.میں نے اس کے متعلق ایک ڈاکٹر سے ذکر کیا تو اس نے کہا میں نے کئی لوگوں کی آنکھوں کی ورزش کے ذریعہ نظر تیز کی ہے.اسی طرح کانوں کی ورزش بھی ہوتی ہے.ریڈ انڈین لوگوں میں کانوں کی مشق اتنی دیکھی گئی ہے کہ وہ زمین پر کان لگا کر پتہ لگا لیتے کہ دشمن اتنی دور آ رہا ہے.انہیں مخالف لشکر کے چلنے کی گونج معلوم ہو جاتی ہے.وہ لوگ جو کھو جی ہوتے ہیں ان کی آنکھوں کی مشق اتنی تیز ہوتی ہے کہ پاؤں کا نشان دیکھ کر سراغ لگا لیتے ہیں.پس آنکھ، ناک، گلا وغیرہ سب کی ورزش سے ان میں طاقت پیدا ہوتی ہے.جس طرح ورزش کرنے سے جسم طاقتور اور مضبوط ہو سکتا ہے، ہاتھ مضبوط ہو جاتے ہیں، سینہ چوڑا اور مضبوط ہو جاتا ہے، ٹانگوں میں طاقت آجاتی ہے اسی طرح آنکھ، ناک، کان اور گلے کی ورزش سے ان میں بھی زیادہ

Page 24

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 18 جلد چهارم طاقت پیدا ہو سکتی ہے اور یہ اپنا کام زیادہ عمدگی کے ساتھ کر سکتے ہیں.پس اس قسم کی بھی ورزشیں ہونی چاہئیں اور ورزشی کھیلوں کو وسیع کرنا چاہئے.اور ایسے رنگ میں ڈھالنا چاہئے کہ نہ صرف جسم میں طاقت پیدا ہو بلکہ دوسرے قومی میں بھی طاقت پیدا ہو.اور ایسی کھیلیں ایجاد کی جاسکتی ہیں جن سے یہ بات حاصل ہو سکے اور اس قسم کی ورزشیں کی جا سکیں.میرے نزدیک جسمانی ورزش اچھی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ دوسرے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور ورزش کو زیادہ وسیع کرنا چاہئے.“ (الفضل 5 اپریل 1934ء)

Page 25

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 19 جلد چهارم حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو ضروری ہدایات حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب مولوی فاضل بی.اے کے ولایت جانے پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 6 ستمبر 1934 ء کو اپنے ہاتھ سے جو اہم نصائح تحریر فرما کر انہیں دیں وہ درج ذیل ہیں :.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ عزیزم ناصر احمد سَلَّمَكَ اللهُ وَحَفِظَكَ اللهُ وَنَصَرَكَ اللهُ وَوَفَقَكَ اللهُ لِحِدُمَةِ الدِّينِ وَإِعْلَاءِ كَلِمَةِ الْإِسْلَامِ - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ تمام علوم کا چشمہ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - پر وہ صداقت ہے جسے میرے کانوں نے سنا، میری آنکھوں نے دیکھا اور میرے باقی حواس نے اس کا مشاہدہ کیا.میں سنی سنائی بات پر ایمان نہیں لایا بلکہ میں نے اللہ تعالیٰ کے عریاں جلوے دیکھے.اس کی قدرتوں کو اپنے نفس اور اپنے گرد کی اشیاء میں اچھی طرح مشاہدہ کیا.پس میں ایک زندہ گواہ ہوں اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا.ایک آئینہ ہوں اس کے حسنِ بے عیب کا اور دنیا کی کوئی دلیل مجھے اس کے در سے پھرا نہیں

Page 26

زریں ہدایات (برائے طلباء) 20 جلد چهارم سکتی.کوئی لالچ یا کوئی خوف مجھے اس سے دور نہیں کر سکتا.میں نے دیکھا اور مشاہدہ کیا کہ اس کے دیئے ہوئے علم کے سوا کوئی علم نہیں اور اس کی دی ہوئی عقل کے سوا کوئی عقل نہیں.دنیا کے عاقل اس کے سامنے بے وقوف ہیں اور دنیا کے عالم اس کے سامنے جاہل ہیں.جو اس سے دور ہوا حقیقی علم سے دور ہوا.پس جو یہ خیال کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے جاری کئے ہوئے چشمہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے علم حاصل کر سکتا ہے وہ نہایت احمق اور جاہل ہے.علم سب کا سب قرآن میں ہے اور یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے.میں نے دنیا کا کوئی علم نہیں سیکھا.میں مدرسہ میں ہمیشہ فیل ہوا اور نا کام ہی میں نے مدرسہ چھوڑا.دوسری تعلیم سوائے قرآن کے کوئی حاصل نہیں کی.لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ سے مجھے دنیا کے سب علوم کے اصول سکھا دیئے ہیں.میں لوگوں کی خود ساختہ اصطلاحات بے شک نہیں جانتا لیکن میں ان سب علوم کو جانتا ہوں جو انسان کے دماغ کو روشنی دینے اور اعمال انسانی کی اصلاح اور اس کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.آج تک کسی علم والے سے میں مرعوب نہیں ہوا.اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ اپنے مخاطب پر غالب رہا ہوں.اس نے میری عقل کو روشنی بخشی اور میرے علم کو نور عطا کیا.اور ایک جاہل انسان کو عالم کہلانے والوں کا معلم بنایا.فَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم اس تجربہ کے بعد میرا یہ خیال کرنا کہ تم انگلستان علم سیکھنے جاتے انگلستان بھیجنے کی وجہ ہو پرلے درجہ کی ناشکری اور انتہاء درجہ کی احسان فراموشی ہوگا.سب علم قرآن کریم میں ہے.اس لئے سب سے پہلے میں نے تمہیں قرآن پڑھوایا بلکہ حفظ کروایا.پس پیشتر اس کے کہ تم ہوش سنبھالتے علم کا سر چشمہ تمہیں دلایا گیا اور عرفان کا دریا تمہارے اندر جاری کر دیا گیا.اب آگے اس سے فائدہ اٹھانا، نہ اٹھانا تمہارا کام ہے.پس اگر تم یہ محسوس کرتے ہو کہ جو کچھ تم باہر سیکھتے ہو اس سے بڑھ کر تم کو قرآن کریم میں ملتا ہے اور اگر تم یہ مشاہدہ کرتے ہو کہ باقی سب علم مردہ ہیں اور صرف قرآن کریم کا علم زندہ ہے، اگر ان باتوں کو تم ایک ایمانی کیفیت کے طور پر نہیں محسوس کرتے ہو بلکہ حق الیقین کی طرح اپنے وجود

Page 27

زریں ہدایات (برائے طلباء) 21 جلد چهارم میں پاتے ہو اور ہمیشہ اس کا تازہ بتازہ مشاہدہ تم کو حاصل ہوتا ہے تو تم سمجھ لو کہ تمہارا قدم ایمان کے مقام پر رکھ دیا گیا ہے.اب صرف عرفان اور سلوک کی منازل کا طے کرنا باقی ہے.لیکن اگر ایسا نہیں، اگر یہ امر تمہارے مشاہدہ میں ابھی نہیں آیا، اگر ایک ایمانی احساس سے زیادہ اس حقیقت کو جامہ نہیں ملا تو سمجھ لو کہ ابھی منزل مقصود کا نشان بھی تم کو نہیں ملا اور ابھی تم دیار محبوب کے قریب بھی نہیں پھٹکے.اس صورت میں ہوشیار ہو جاؤ کہ شیطان تمہارے قریب ہے اور ابلیس تم پر پنجہ مارنا ہی چاہتا ہے.شاید میں اپنے مقصد سے دور ہو رہا ہوں میں تم کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ سب علم قرآن کریم میں ہی ہے.اور اس کی کنجی محبت الہی ہے.جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے.اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے وہ اس کی عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے.پس میں تم کو انگلستان کسی علم سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے وہ قرآن کریم میں موجود ہے.اور جو قرآن کریم میں نہیں وہ علم نہیں جہالت ہے.میں مبالغہ سے کام نہیں لے رہا.میں کلام کو چست فقرات سے مزین نہیں کر رہا بلکہ یہ ایک حقیقت ہے، یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کے لئے میں ہر قسم کی قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں.میرے کلام میں نقص کا احتمال تو ہو سکتا ہے لیکن مبالغہ کا نہیں.وَاللهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ.میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس غرض سے جس غرض سے رسول کریم میں اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے.میں اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو.تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے.تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جاؤ جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے.غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کرو.یہ مت خیال کرو کہ وہاں سے تم کچھ حاصل کر سکتے ہو.وہاں کی ہر چیز آسانی سے یہاں مل سکتی ہے.تم کو میں اس لئے وہاں بھجوا رہا ہوں کہ تم وہاں کے لوگوں کو کچھ سکھاؤ.اگر تم کوئی صل الله

Page 28

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 22 جلد چهارم اچھی بات ان میں دیکھو تو وہ تم کو مرعوب نہ کرے.کیونکہ اگر وہ مسلمانوں میں موجود نہیں تو اس کی یہ وجہ نہیں کہ وہ اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں كَلِمَةُ الحِكْمَةِ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا 1 آپ کے اس قول میں (فِدَاهُ نَفْسِی وَ رُوحِی ) اس طرف اشارہ ہے کہ اسلام کے باہر کوئی اچھی تے نہیں.اگر کوئی ایسی شے نظر آئے تو یا تو ہمارا خیال غلط ہوگا اور وہ شے اچھی نہیں بلکہ بری ہوگی.یا پھر اگر وہ اچھی چیز ہوگی تو وہ ضرور قرآن کریم سے ہی لی ہوئی ہوگی اور مومن ہی کی گم گشتہ متاع ہوگی.جو کچھ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے میں اس کا ایک زندہ ثبوت ہوں.میں گواہ ہوں اُس راستبازوں کے بادشاہ کی بات کی صداقت کا.پس ایسا نہ ہو کہ تم یورپ سے مرعوب ہو.خدا تعالیٰ نے جو ہمیں خزانہ دیا ہے وہ یورپ کے پاس نہیں.اور جو ہمیں طاقت دی ہے وہ اسے حاصل نہیں.تم ایک اسلام کے سپاہی کی طرح جاؤ اور وہ سب کچھ اکٹھا کرو جو اسلام کی خدمت کے لئے مفید ہو.اور اس سب کچھ کو لغو مجھ کر چھوڑ دو جو اسلام کے خلاف ہے.کیونکہ وہ ہر گز کوئی قیمت نہیں رکھتا.تم اسے زہر سمجھ کر اس کی شدت کا مطالعہ کرو لیکن اسے کھاؤ نہیں کہ زہر کھانے والا انسان اپنے آپ کو خود ہلاک کرتا ہے اور لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کا مستحق ہوتا ہے.(2) تم ایک ایسے ملک کو جا رہے ہو جہاں شیطانی حیلہ سے بچنے کا طریق ایک طرف شیطان عملی طور پر سب پر غالب آنا چاہتا ہے تو دوسری طرف عملی طور پر وہ سب کو اپنے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے.اگر تم نے قرآن کریم کو ذرہ بھر بھی سمجھا ہے تو ان دونوں فتنوں سے تم کو کوئی خطرہ نہیں.بلکہ تم ہراک شیطانی حیلہ کو پانی کے بلبلہ سے بھی زیادہ نا پائیدار خیال کرو گے.لیکن اگر تمہارے دل میں کمزوری ہو تو یا درکھو اس کا علاج ہمارے آقا نے پہلے سے بتا رکھا ہے.روزانہ سورۃ کہف کی دس ابتدائی اور دس آخری آیتیں پڑھ چھوڑو اور ان کے مطالب پر غور کیا کرو.وہاں کی کوئی بری بات تم پر اثر نہیں کر سکے گی.اسی طرح چاہئے کہ روزانہ بلا ناغہ رات کو سوتے ہوئے

Page 29

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 23 جلد چهارم تین دفعہ آیت الکرسی اور آخری تینوں قل پڑھ کر اور تینوں دفعہ اپنے ہاتھوں پر پھونک کر اپنے سر اور دھڑ پر پھیر لیا کرو.اور اس کے بعد یہ دعا پڑھو اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ نَفْسِی اِلَيْكَ وَوَجْهُتُ وَجْهِي اِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ وَالْجَأْتُ ظَهْرِى اِلَيْكَ رَغْبَةً وَّرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بكِتَابِكَ الَّذِي أَنزَلْتَ وَنَبِيِّكَ الَّذِى اَرْسَلْتَ 2 اگر تم سمجھ کر اس دعا کو پڑھو گے تو اس میں ایک نور پاؤ گے.روشن نور جو دل کو محبت الہی سے بھر دے گا.(4) وہ تاریکی کا ملک ہے.تاریکی روشنی کی دشمن ہے.تہجد پڑھنے کی تاکید مومن روشنی کا حیوان ہے اور تاریکی میں زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے اپنے لئے نور پیدا کرنے کی ہرممکن کوشش کرو.اس نور کے پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تہجد ہے.بلا ناغہ تہجد پڑھنے کی کوشش کرو.مگر وہاں کے حالات کے مطابق ایسے وقت میں تہجد پڑھو کہ اس کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر سو سکو.ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ انسان تہجد پڑھے اور صبح کی نماز قضا کر دے.(4) قرآن کریم میں نے تم کو حفظ کرا دیا اس کا یا درکھنا تمہارا تلاوت قرآن کریم کام ہے.اس کی روزانہ تلاوت کو نہ بھولنا.میں اس کی خوبیوں کے متعلق پہلے کہہ چکا ہوں.اس کے بھیجنے والے سے زیادہ اس کی کون تعریف کر سکتا ہے.جو کچھ اس نے بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ نور ہے، وہ بیان ہے، وہ فرقان ہے 3 و تفصيل لكل شَی 44 ہے، وہ قول کریم ہے، وہ کتاب مکنون ہے 5 علم و عمل کے لئے وہی سب کچھ ہے.اور اس کے سوا جو کچھ ہے لغو ہے، فضول ہے بلکہ زہر ہے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ انسان آنکھیں کھول کر اس کو پڑھے اور دل کی کھڑکیوں کوکھولے رکھے.(5) دعا عبادت کا مغز ہے اور مومن کی جان ہے اور جو دعا میں دعا کرتے رہو غفلت کرتا ہے متکبر ہے اور اپنے آقا سے کبر کرتا ہے.وہ اس قابل نہیں کہ کوئی شریف آدمی اسے منہ لگائے.دعا اس کا نام نہیں کہ انسان منہ سے کہہ دے اور

Page 30

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 24 جلد چهارم سمجھ لے کہ دعا ہو گئی.دعا پگھل جانے کا نام ہے ، موت اختیار کرنے کا نام ہے، تذلیل اور انکسار کا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے.جو یونہی منہ سے بکتا جاتا ہے اور تذلل اور انکسار کی حالت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی، جس کا دل اور دماغ اور جس کے جسم کا ہر ذرہ دعا کے وقت محبت کی بجلیوں سے تھر تھر انہیں رہا ہوتا وہ دعا سے تمسخر کرتا ہے.وہ اپنا وقت ضائع کر کے خدا تعالیٰ کا غضب مول لیتا ہے.پس ایسی دعا مت کرو جو تمہارے گلے سے نکل رہی ہو اور تمہارے اندر اس کے مقابل پر کوئی کیفیت پیدا نہ ہو.وہ دعا نہیں الہی قہر کے بھڑ کانے کا ایک شیطانی آلہ ہے.جب تم دعا کرو تو تمہارا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے جلال کا شاہد ہو، تمہارے دماغ کا ہر گوشہ اس کی قدرتوں کو منعکس کر رہا ہو اور دل کی ہر کیفیت اس کی عنایتوں کا لطف اٹھا رہی ہو.تب اور صرف تب تم دعا کرتے ہو.یہ کیفیت بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے مگر جس کے ایمان کی بنیاد عشق الہی پر ہو اس کے لئے اس سے زیادہ آسان اور کوئی شے نہیں.بلکہ اس کی طبیعت کا تو یہ کیفیت خاصہ بن جاتی ہے اور وہ ہر وقت اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے.ایسے انسان کو یہ ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ ضرور الگ جا کر مصلیٰ پر بیٹھ کر دعائیں کرے وہ خلوت و جلوت میں دعا کر رہا ہوتا ہے.اور جب اس کی زبان پر اور اور کلام جاری ہوتے ہیں اور اس کی آنکھ کے آگے اور اور نظارے پھر رہے ہوتے ہیں اس کی روح اپنے مالک و خالق کے عقبہ رحمت 6 پر گری ہوئی اپنے لئے اور دنیا کے لئے طلب گار رحمت ہو رہی ہوتی ہے.(6) خدا تعالیٰ سے ہمارا تعلق دلیل اور فلسفے پر مبنی نہ ہونا چاہئے.عشق الہی پیدا کر و دلیل سے منی تو یہ ہیںکہ وہ راستہ دکھاتی ہے.جب تک ہم نے راستہ نہیں دیکھا تب تک تو دلیل ہمارے کام آ سکتی ہے لیکن جب ہم نے راستہ دیکھ لیا پھر دلیل ہمارے کسی کام کی نہیں.پھر صرف عشق اور صرف عشق اور صرف عشق ہمارے کام آ سکتا ہے.اور جب عشق پیدا ہو جائے تو پھر اپنے محبوب سے جدا رہنا بالکل ناممکن ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرو کہ اس سے زیادہ محبت کے قابل کوئی وجود نہیں.اگر خدا تعالیٰ کا تعلق دلیل اور ثبوت تک رہے گا تو تم کو تمہاری زندگی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا.فائدہ اُسی وقت ہوگا

Page 31

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 25 جلد چهارم جبکہ عشق الہی دل میں پیدا ہو اور سب جسم پر بھی اس کا اثر ہو.کسی شاعر کا قول ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الہاتا بھی نازل ہوا ہے کہ عشق الہی و سے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی - 7 پس اگر انسان خدا تعالیٰ کا ولی بننا چاہے تو چاہئے کہ عشق الہی پیدا کرے.اور اس کے آثار اس کے جسم پر بھی ظاہر ہوں ورنہ دل کے عشق کو کوئی کیا جان سکتا ہے.بہت لوگ اس دھو کا میں مبتلا رہتے ہیں کہ ان کے ظاہر پر تو کوئی اثر عشق الہی کا ہوتا نہیں مگر وہ خیال کر لیتے ہیں که عشق الہی ان کے دل میں پیدا ہے.آگ بغیر دھوئیں کے نہیں ہو سکتی.دل کی کیفیت چھپی نہیں رہ سکتی.جس کے دل میں عشق الہی ہوتا ہے اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر قول سے عشق الی کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے.بکری کے گوشت کے کباب پکتے ہیں تو اس کی بوذ کی حس والوں کو میل میل پر سے آ جاتی ہے.پھر کس طرح ممکن ہے کہ ایک انسان کا دل خدائے ذوالجلال کے عشق کی آگ پر پک رہا ہو اور اس کی خوشبود نیا کو مہکا نہ دے.پس اگر عشق کے آثار نہیں پیدا تو عشق کے سمجھنے میں دھوکا لگا ہے اور ایسے شخص کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.جب عشق ہوگا تو محبوب کے قرب کی بھی تمنا ہو گی.یہ قرب کس طرح ملتا ہے؟ اس کی تفصیل اس جگہ بیان نہیں ہو سکتی.اس کے کئی رنگ ہیں.نشان سے معجزہ سے، الہام سے، وحی سے ، خواب سے، کشف سے اور ہزاروں رنگ سے وہ بندہ کو حاصل ہوتا ہے.اور جو بندہ اس کے بغیر تشفی پا جاتا ہے وہ عاشق نہیں.پس جب تک اللہ تعالیٰ بھی اپنی محبت کا اظہار نہ کرے تسلی نہ پاؤ اور اپنے دل کو اور جلائے جاؤ.ہاں بوالہوس نہ بنو کہ بعض لوگ اپنے آقا کو بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں.یعنی انہیں خدا تعالیٰ کے قرب کی اس لئے خواہش ہوتی ہے تا لوگوں میں ان کی عزت ہو.تا وہ لوگوں سے کہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے بولتا ہے ان کے لئے نشان دکھاتا ہے اور وہ ولی اللہ ہیں.وہ اس خواہش کا نام خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی تڑپ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس طرح دین پھیلا سکیں گے.لیکن وہ خواہ کچھ کہیں یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے آقا کو ادنی خواہشات کے حصول کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں.الْعِيَاذُ بِاللهِ.بوالہوس نہ بنو

Page 32

زریں ہدایات (برائے طلباء) 26 جلد چهارم پس ایسی خواہش کبھی دل میں پیدا نہ ہو.کوئی سچا عاشق یہ خیال نہیں کر سکتا کہ اس کا محبوب اسے اس لئے ملے کہ وہ لوگوں کو دکھا سکے.عشق جب پیدا ہوتا ہے تو باقی.احساس دبا دیتا ہے.دنیا وَمَا فِيهَا بھلا دیتا ہے.پس ان لوگوں والی غلطی کبھی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ قدوس ہے.انسان کی جب اس پر نظر پڑتی ہے تو وہ باقی سب اشیاء کو بھول جاتا ہے.کیونکہ اس پر نظر پڑتے ہی وہ خود بے عیب ہو جاتا ہے.اور شرک سے بڑھ کر اور کون سا عیب ہو گا.پس اس قسم کے رذیل اور کمینے خیالات دل میں مت آنے دو.صرف خدا تعالیٰ کی جستجو ہوا اور اس کے سوا سب کچھ فراموش ہو جائے.بدنامی کے مواقع سے بچو (7) یادرکھو کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہو.ایک دفعہ تم بچپن میں سخت بیمار تھے اور جان کے لالے پڑ رہے تھے.انہی دنوں حضرت خلیفہ اسیح الاول گھوڑے سے گر گئے اور ان کی تکلیف نے ہمارے دل سے ہر خیال کو نکال دیا.میں ان کے پاس بیٹھا تھا اور وہ تکلیف سے کراہ رہے تھے.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد غنودگی ہو جاتی.میں پاس بیٹھا دعا کر رہا تھا.تمہاری حالت زیادہ خراب ہو گئی اور تمہاری والدہ نے سمجھا کہ تم مرنے ہی والے ہو.ان کی طرف سے ایک آدمی گھبرایا ہوا آیا.میں نے پیغام سنا اور سن کر خاموش ہو گیا کیونکہ حضرت خلیفہ اول کی محبت کے مقابلہ میں تمہاری محبت مجھے بالکل بے حقیقت نظر آتی تھی.تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا.پھر میں خاموش ہو رہا.پھر تیسری دفعہ آدمی آیا اور اُس وقت خلیفہ اول ہوش میں تھے.انہوں نے اس کی بات سن لی کہ ناصر احمد کی حالت خطر ناک ہے جلد آئیں.میں پھر بھی خاموش رہا اور نہ اٹھا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت خلیفہ اول نے میری طرف منہ پھیرا اور کسی قدر ناراضگی کے لہجہ میں کہا میاں! تم گئے نہیں !! اور پھر کہا کہ تم جانتے ہو کس کی بیماری کی اطلاع آدمی دے کر گیا ہے؟ وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پوتا ہے.مجھے بادل ناخواستہ اٹھنا پڑا اور میں گھر پر آیا.ڈاکٹر کو بلا کر دکھایا اور تم کو کچھ دنوں بعد خدا تعالیٰ نے شفا دے دی.مگر یہ سبق مجھے آج تک یاد ہے.ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کون ہیں بلکہ

Page 33

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 27 جلد چهارم یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک نسبت ہے اور ہماری کمزوریاں ان کے اچھے نام کو بد نام کرنے کا موجب ہو سکتی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ اپنے طریق عمل کو ہمیشہ اعتراض سے بالا ر کھنے کی کوشش کرو گے.ہمیشہ یادر ہے کہ مواقع فتن سے ہی نہ بچو بلکہ بدنامی کے مواقع سے بھی بچو.عورتوں کے ساتھ الگ بیٹھنا، الگ سیر کو جانا وہاں کے حالات میں ایک معمولی اور طبعی بات سمجھا جاتا ہے.مگر تم لوگوں کو اس سے پر ہیز چاہئے.وہاں عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا ایک بہت بڑی پریشانی ہے مگر اس سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ ہم رسول کریم ﷺ کے حکم کو توڑ دیں.(8) غذا میں پر ہیز رہے.وہاں جھٹکے کا گوشت ہوتا ہے جب تک غذا میں پر ہیز کو شرمیٹ (kosher meat) جو یہود کا ذبیحہ ہے اور جائز ہے میسر نہ ہو خود ذبح کر کے جانور دو اور اسے کھاؤ دوسرا گوشت کسی صورت میں مت چکھو.مچھلی، انڈا، سبزی وغیرہ یہ چیزیں غذا کے طور پر اچھی ہیں.گوشت کی ضرورت ان کے بعد اول تو ہے نہیں ورنہ ہفتہ میں دو تین بار مرغ ذبح کر کے پکوالیا کرو.بہر حال یہ امر یا در رکھنے کے قابل ہے کہ حلال غذا سے حلال خون پیدا ہوتا ہے.اگر غذا ئیں حرام ہوں گی تو خون بھی خراب ہوگا اور خیالات بھی گندے پیدا ہوں گے اور دل پر زنگ لگ کر کہیں کے کہیں نکل جاؤ گے.خدا تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں ان سے الگ ہو کر کامیابی ناممکن ہے.الله پس ان سامانوں کو نظر انداز نہ کرو.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں الا لِكُلِّ مَلِک حِمى وحمى اللهِ مَحَارِمُهُ 8 کان کھول کر سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے کہ جو شخص اس رکھ میں داخل ہوتا ہے سزا پاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کے مقرر کئے ہوئے محارم ہیں.پھر فرمایا عقل مند انسان وہ ہے جو رکھ کے پاس بھی اپنے جانور نہ چرائے.کیونکہ غلطی سے بھی جانوراندر چلے گئے تو یہ مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا.پس کھانے کے معاملہ کو معمولی نہ سمجھو.جہاز پر بھی اور ولایت جا کر بھی یاد رکھو.انگریزی جہازوں پر پرند گلا گھونٹ کر مارے جاتے ہیں دوسرا گوشت وہ اکثر بمبئی سے خریدتے ہیں.حلال کھانے والے کے لئے وہ پرند کے

Page 34

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 28 جلد چهارم ذبیحہ کا بھی انتظام کر دیتے ہیں.اس کی کوشش جہاز کے افسروں سے کر لینا ورنہ دوسرا گوشت اگر ذبیحہ کا ہو تو صرف وہ کھانا پرند کا گوشت نہ کھانا.میں شاذ و نادر خدمت دین کے لئے تیاری کے متعلق ضروری ہدایات طور پر بعض فوائد کے لئے سینما کی غیر معیوب فلموں کو دیکھ لینا جائز سمجھتا ہوں لیکن ناچ کی محفلوں میں شامل ہونا بہت معیوب ہے اور اس سے پر ہیز چاہئے.جوئے کی قسم کی سب کھیلوں سے پر ہیز چاہیئے.سینما و غیرہ سے بھی حتی الوسع پر ہیز ہی چاہئے.لیکن سال میں ایک دو دفعہ دیکھنے کا موقع ہوا اور فلم گندی نہ ہو تو حرج نہیں.مگر احتیاط کے سب پہلو مدنظر ر ہیں.تم نے زندگی وقف کی ہوئی ہے.زندگی وقف کرنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان دنیا کے عیش وعشرت اور آرام و آسائش کو ترک کر دے اور دین کی خدمت میں اپنی ہر طاقت صرف کر دے.یہ امر صرف ارادہ سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ہر روز کی تربیت اور تیاری کی ضرورت ہے.جس طرح سپاہی صرف بندوق پکڑ کر نہیں لڑسکتا بلکہ اسے فنونِ جنگ کے سیکھنے اور ان کی مشق کرتے رہنے کی ضرورت ہے اسی طرح دین کے سپاہی کو بھی ایک لمبی اور مستقل مشق کی ضرورت ہے.اس لئے اپنے ہر کام میں سادگی پیدا کرو.تمہارا اصل لباس غربت ہو.اس کے بغیر تم اپنا عہد پورا کرنے کے قابل نہ ہو گے اور نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو خرید لو گے.چاہئے کہ تمہارا لباس، تمہارا کھانا پینا، تمہاری رہائش سادہ ہو اور انکسار طبیعت کا خاصہ ہو جائے.کیونکہ خدمت کرنے والا خدمت گار ہوتا ہے.اگر ایک انسان کی چال ڈھال اور اس کا قول و گفتگو خدمت گاری پر دلالت نہیں کرتا تو وہ خدمت کر ہی کس طرح سکتا ہے.خدمت کا میدان غرباء میں ہوتا ہے.ایسے آدمی کے تو غرباء پاس بھی نہیں آتے.اگر کوئی تمہارا خادم ہو تو اسے بھائی کی طرح سمجھو.دل میں شرمندگی محسوس کرو کہ ایک بھائی سے خدمت لینے کی ضرورت محسوس ہوئی.ہر ایک ادنی اور اعلیٰ سے محبت کرو اور پیار اور اخلاق سے ملو.بڑوں کا ادب کرو اور چھوٹوں پر شفقت.

Page 35

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 29 جلد چهارم اپنے علم کی بناء پر یا اگر نیکی کی توفیق ملے اس کی بناء پر لوگوں پر بڑائی نہ ظاہر کرو کہ اس سے نیکی برباد ہو جاتی ہے.اپنے آپ کو سب سے چھوٹا سمجھو کہ عزت وہی ہے جو انکساری میں ملتی ہے.جسے خدا اونچا کرے وہی اونچا ہے.اپنے کسب سے کمائی ہوئی عزت عزت نہیں.لوٹا ہوا مال ہے جو عزت کی بجائے ذلت کا موجب ہے.ہر حالت میں دینی خدمت سے غافل نہ ہو.اپنے نفس پر خرچ کرنے کی بجائے دین پر اور غرباء پر خرچ کرنے کو ترجیح دو.مجھے بچپن میں تین روپے ملا کرتے تھے.اس میں سے خرچ کر کے تفخیذ الاذہان چلایا کرتا تھا.بعض اور دوست بھی اس میں شامل تھے وہ بھی میری طرح بے سامان تھے.پھر بھی ہم نے رسالہ چلایا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا چلایا.پس اپنے آرام پر دین کی مددکو مقدم سمجھو.چندہ کو اپنے تمام حوائج پر مقدم سمجھو.اور اس کے علاوہ بھی نفس پر تنگی کر کے صدقہ و خیرات کا خیال رکھا کرو.(9) تبلیغ زبان سے بھی اور حسن اخلاق سے بھی مومن کا تبلیغ کے متعلق ہدایت اہم فرض ہے اس کو مت بھولو.اور کوشش کرو کہ وہاں کی رہائش کا کوئی اچھا پھل وہاں چھوڑ کر آؤ.(10) اچھے دوست پیدا کرو.بجائے آوارہ اور خوش مذاق دوستوں اچھے دوست کے.پروفیسروں اور علمی مذاق والے لوگوں کی صحبت کو اپنے دل کی تسکین کا ذریعہ بناؤ.(11) مسجد کی آمد و رفت کو جہاں تک ہو سکے بڑھاؤ اور مسجد کی آمد و رفت اگر موقع ملے یورپ کے دیگر ممالک کی بھی سیر کرو.(12) امام مسجد یورپ میں خلیفہ کا نمائندہ امام مسجد احمد یہ لندن کی اطاعت ہے.اس کی اطاعت اور اس سے تعاون ایمان کا ایک جزو ہے اس میں کوتاہی ہر گز نہ ہو.(13) مومن بزدل نہیں ہوتا.عزیزوں کی جدائی شاق مومن بزدل نہیں ہوتا ہوتی ہے مگر تم مومن بنو اور ان کی جدائی تمہاری ہمت کو

Page 36

زریں ہدایات (برائے طلباء ) پست نہ کرے.نہ کام میں روک ہو.30 جلد چهارم صحیح بات قبول کرو اور غلط رد کر دو (14) لوگ عام طور پر لفظ رٹتے ہیں اور ناموں سے مرعوب ہوتے ہیں.تم اصطلاحوں سے نہ ڈرو.لفظ مت رٹو بلکہ مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرو.اور جو صحیح بات ہو اسے قبول کرو جو غلط ہوا سے رد کر دو.صرف اس لئے تسلیم نہ کرو کہ کورس میں لکھی ہے یا کسی بڑے آدمی نے اس کی تصدیق کی ہے.(15) اس وقت سب عزت احمدیت میں ہے.سب عزت احمدیت میں ہے پس احمدیت کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو دنیا کی ہر عزت سے مقدم سمجھو.اگر اس میں کوتاہی ہوئی تو تم اپنی عاقبت بگا ڑلو گے.(16) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں ، میری زندگی کا پانی تحریروں اور اخبارات سلسلہ کے پڑھنے کی عادت ڈالو کہ ان میں زندگی کا پانی ہے.سب نصیحتوں کا خلاصہ اور پھر سب نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے بنو خدا کے.ہم سب فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے.اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو.اپنی زندگی کو اُسی کے لئے کر دو.ہر سانس اُسی کے لئے ہو.وہی مقصود ہو.وہی مطلوب ہو.وہی محبوب ہو.جب تک اس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو ، جب تک اس کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو تم کو آرام نہ آئے ، تم چین سے نہ بیٹھو.یاد رکھو اس فرض کی ادائیگی میں سستی پر ایک خطر ناک لعنت مقرر ہے.ایک عظیم الشان انسان کی لعنت جس کی لعنت معمولی نہیں.وہ لعنت یہ ہے اے خدا ہرگز ممکن شاد آں دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست اور وہ لعنت کرنے والا شخص خدا کا پیارا، ہمارا سردار مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 37

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 31 جلد چهارم ہے.خدا تم کو اور تمہارے سب بھائیوں اور عزیزوں کو اس لعنت سے بچائے.آمین اللَّهُمَّ أَمِينَ.رَبِّي رَبِّي رَبِّي ! سپردم ماید خویش را تو دانی حساب کم بیش را رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ انْصَارِ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أُمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْرِ نَا يَوْمَ الْقِمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ و وَاخِرُ دَعْوَانَا أَن الْحَمْدُ لَكَ وَمِنْكَ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ - مرز امحمود احمد "6-9-1934 (الفضل 11 ستمبر 1934ء) 1 ترمذی ابواب العلم باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة صفحه 610 حدیث 2687 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى من الْكَلِمَةُ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِن فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا“ کے الفاظ ہیں.:2 بخارى كتاب الدعوات باب اذا بات طاهرا صفحہ 1098 حدیث 6311 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية.: تَبَرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ (الفرقان : 2) :4 تَفْصِيلًا لِكُلِّ شَيْءٍ (الانعام: 155) :5 إِنَّهُ لَقُرْآنُ كَرِيمَة فِي كِتَبٍ مَّكْنُونِ (الواقعه : 78، 79) 6 عقبہ رحمت : تکیه : آستانه، درگاه، روضه (فیروز اللغات اردو جامع صفحه 890 مطبوعه لاہور 2011ء)

Page 38

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 32 جلد چهارم 2: تذکره صفحه 390 ایڈیشن چہارم 2004 ء :8 بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبرأ لدينه صفحه 12 حدیث 52 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية.9 آل عمران: 193 تا 195

Page 39

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 33 جلد چهارم دارالاقامہ جامعہ احمدیہ قادیان کے افتتاح کے موقع پر تقریر 20 نومبر 1934ء کوحضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دار الاقامہ جامعہ حمد یہ قادیان کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے:." مجھے اس وقت اس بات سے نہایت خوشی ہوئی ہے کہ جامعہ احمدیہ کے دار الاقامہ کی تجویز آخر کار کامیاب ہو گئی.ہمارے پرنسپل صاحب جامعہ نے جہاں میری وہ تو جہات بیان کی ہیں جو شروع سے دینی تعلیم کی طرف رہی ہیں وہاں ان میں سے یہ بات رہ گئی ہے کہ دارالاقامہ بھی میرے دوسالہ انجمن اور نظارت میں ریمارکس کا ہی نتیجہ ہے.میرے نزدیک اصل چیز جامعہ کے کامیاب ہونے کے لئے دار الاقامہ ہے.کیونکہ یہی وقت صحیح اخلاق سیکھنے اور دینی خدمات کا جوش پیدا کرنے کا ہوتا ہے.اگر اس عمر میں باہر رہ کر لڑکوں میں ایسے اخلاق پیدا ہو جائیں جن میں دین کے متعلق کمزوری پائی جائے تو ہمارے نوجوان مناظر تو بن سکتے ہیں لیکن مبلغ نہیں بن سکیں گے.میں سمجھتا ہوں جامعہ سے بھی زیادہ دار الاقامہ ضروری ہے.ہر شخص جو اس بات کو سمجھ سکے گا کہ آدمی کا تیار کرنا آسان نہیں مگر ٹریکٹ یا کتاب لکھ لینا آسان ہے وہ دارالاقامہ کی اہمیت کا قائل ہوگا.مبلغ فورا نہیں پیدا کیا جا سکتا.اس کے لئے سال ہا سال تک کوشش کرنی پڑتی ہے.یہ وہ چیز ہے جس نے ہمیشہ میرے دل پر اثر ڈالا اور جس کا مجھے خیال رہا کہ اور چیزیں قربان کر کے بھی اسے تیار کرنا چاہئے.سب سے بڑی چیز جو میرے لئے اس بارے میں باعث رہنمائی ہوئی وہ یہ ہے کہ ضرورت کے وقت میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ آنا بھی جائز ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے مُتَحَرِّ فَالْقِتَانِ 1 مگر باوجود اس کے ہمارا خدا پسند

Page 40

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 34 جلد چهارم نہیں کرتا کہ پیچھے ہیں.یہی وجہ تھی کہ مدرسہ ہائی کو جب عربی مدرسہ میں تبدیل کرنے کی تجویز ہوئی تو میں ان لوگوں میں سے تھا جو ہائی سکول کو قائم رکھنے کی تائید میں تھے اور مدرسہ احمدیہ الگ بنانا چاہتے تھے.اُس وقت صرف حضرت خلیفہ امسیح الاول اور میں تائید میں تھے.اور خلاف ایسا جوش تھا کہ میں نے اپنے کانوں سنا کہ مولوی صاحب (حضرت خلیفہ اول) کا ایمان کمزور ہے کیونکہ وہ ہائی سکول کی بجائے دینی مدرسہ قائم کرنے کے خلاف ہیں.حالانکہ آپ دینی مدرسہ کے خلاف نہ تھے بلکہ یہ چاہتے تھے کہ دینی مدرسہ بھی ہو اور انگریزی بھی.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان سوچ سمجھ کر کوئی کام شروع کرے تو پھر اسے پیچھے نہیں ہٹنا چاہئے.جب یہ معلوم ہو کہ جو کام کر رہے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت ہے تو پھر خواہ کچھ ہو اس سے پیچھے نہ ہٹیں.سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو اس کی بجائے کسی اور طرف توجہ کرنے کی آواز آئے.گویا خدا ہی ہٹائے تو ہٹنا چاہئے ورنہ نہیں.اور یہ کوئی اعلیٰ درجہ کے ایمان کی علامت نہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی نے بھی جسے تھوڑی سی سمجھ آگئی تھی کہا تھا فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّى يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي 2 كم میں اُس وقت تک یہاں سے نہیں ملوں گا جب تک کہ میرا باپ مجھے اجازت نہ دے یا اللہ تعالیٰ مجھے کوئی حکم نہ دے.پس اس کے لئے کسی بڑے ایمان کی ضرورت نہیں.معمولی ایمان کا بھی یہی تقاضا ہے.یہ اصل جس کو میں نے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے متعلق اختیار کیا ایسا ہے کہ اسے اس سے زیادہ زور کے ساتھ جماعت احمدیہ کے متعلق اختیار کرنا چاہئے.اور جماعت کو یہ اصل قرار دینا چاہئے کہ جس کام کو اختیار کریں مضبوطی اور استقلال سے اختیار کریں.اس کے لئے ہر قربانی کرنے کے لئے تیار رہیں.سوائے اس کے کہ کوئی کام خدا تعالیٰ کی مشیت کے خلاف ہو.اب چونکہ مغرب کی نماز کا وقت ہو چکا ہے اس لئے میں زیادہ نہیں کہہ سکتا.صرف اتنی نصیحت ان طالب علموں کو کرنا چاہتا ہوں جن کے لئے جامعہ احمدیہ اور دار الاقامہ بنایا گیا ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے دار الاقامہ کی اصل غرض یہی ہے کہ نوجوان یہاں رہ کر نیکی اور تقویٰ

Page 41

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 35 جلد چهارم میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ترقی کریں.یہ بات ہر وقت اور ہر لمحہ ان کے مدنظر رہنی چاہئے.کیونکہ جب تک ہمارے وہ نوجوان جو مبلغ بننے والے ہیں ایمان میں اور یقین میں دوسروں سے بڑھ کر نہ ہوں ، دین کے لئے قربانی اور ایثار کی روح دوسروں سے بڑھ کر نہ رکھتے ہوں، ان کی نمازیں اور دعائیں دوسروں کی نمازوں اور دعاؤں سے فرق نہ رکھتی ہوں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے اور یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے.کیا ؟ یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ایسے مبلغ بجائے فائدہ کے نقصان پہنچانے والے ہوں گے.میرا یہ تجربہ ہے اور میں تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ کسی مذہبی جماعت کا انسان دشمن پر علم کے ذریعہ غالب نہیں ہو سکتا بلکہ تقویٰ کے ذریعہ غلبہ حاصل کر سکتا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو وہ اسے خود علم سکھاتا ہے.میں جب چھوٹا سا تھا تو باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے تھا اور خدا تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی اولا د کو خود علم سکھاتا ہے الا ما شاء الله حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ظاہری سادگی کو دیکھ کر خیال کرتا تھا کہ اگر کوئی اعتراض کرے تو آپ کیا جواب دیں گے.مگر جب کبھی کوئی اعتراض آپ کے سامنے پیش کیا جاتا اور آپ اس کا جواب دیتے تو یوں معلوم ہوتا کہ اس سے بہتر جواب کوئی ہو ہی نہیں سکتا.بات یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان میں سے ظاہری چالا کی دور کر دی جاتی ہے.وہ سیدھے سادھے نظر آتے ہیں.مگر جو ان کی صحبت میں رہتے ہیں ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ایسی فراست اور ایسا نور پایا جاتا ہے جو کسی اور میں نہیں ہوتا.بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سادگی کو دیکھ کر آپ کو پاگل کہتے.مگر آپ کی وہی مثال تھی جو غالب کے اس شعر میں پائی جاتی ہے کہ :.سادگی و پرکاری بیخودی و ہشیاری حسن کو تغافل میں جرات آزما پایا خدا تعالیٰ نے چونکہ ان سے کام لینا ہوتا ہے اس لئے ایک طرف ان میں کمال سادگی پائی جاتی ہے اور دوسری طرف کمال ہوشیاری.پھر جب خدا تعالیٰ ان سے کام لیتا ہے تو ان کی

Page 42

زریں ہدایات (برائے طلباء ) ہوشیاری ظاہر ہوتی ہے.36 جلد چهارم ہمارے مبلغوں کو اسی پر زور دینا چاہئے.بجائے ظاہری چالا کی پر زور دینے کے.اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئے تاکہ وہ انہیں خود ایسے علوم سکھائے جن سے غلبہ حاصل ہو سکتا ہے.جو لوگ اپنی چالا کی اور ہوشیاری پر بھروسہ رکھتے ہیں خوب غور سے دیکھ لو ان کے جوابات مقررہ ہوتے ہیں.لیکن جو اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں ان کو وہ ہر وقت نئے جواب سکھاتا ہے اور وہ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ 3 کا نظارہ دیکھتے ہیں.کوئی سوال کرو اس کا جواب نئی شان کا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات مسیح کا ذکر اپنی تصانیف میں اس قدر کیا ہے کہ تصنیف کی تاریخ میں کسی مسئلہ پر اتنا تکرار نہیں کیا گیا ہو گا.مگر جہاں سے بھی اس مسئلہ کو پڑھو نیا رنگ نظر آئے گا.کہیں جذباتی رنگ میں ، کہیں معقولی رنگ میں کہیں منقولی رنگ میں، کہیں آیات قرآنی سے استدلال کرتے ہوئے، کہیں احادیث سے ثابت کرتے ہوئے، کہیں تاریخوں کے حوالوں سے اس کا ثبوت دیا گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاتا ہے تو ہر موقع پر اسے نئے دلائل سو جھتے ہیں.پس ہمارے مبلغوں کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے کام کرنا چاہئے.ہمیں ایسے کی ضرورت نہیں ہے جو کتا ہیں رہنے والے ہوں.بلکہ ان کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ اپنے علوم پھینکے.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے مبلغین میں اس قسم کی قرآن کریم کے متعلق تحقیق رکھنے والے کم ہیں.ان کا زیادہ سے زیادہ علم یہ ہے کہ فلاں امام نے یہ لکھا اور فلاں نے وہ لکھا.گویا درسی تعلیم پر ان کا سارا زور ہے.حالانکہ اصل چیز وہ ہے جو باطنی علوم سے حاصل ہوتی ہے.اگر ہمارے مبلغ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کریں، اس کی طرف توجہ کریں اور اس کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں تو باطنی علوم بلغین کے ذریعہ ان پر یقینا غلبہ حاصل کر سکتے ہیں جو صرف ظاہری علوم رکھتے ہیں.میں نے اس وقت مختصر الفاظ میں جامعہ احمدیہ کے دارالاقامہ کی غرض بیان کر دی ہے اور

Page 43

زریں ہدایات (برائے طلباء) 37 جلد چهارم میں امید کرتا ہوں کہ مبلغ بننے والے نوجوان باطن کی صفائی کی طرف خاص توجہ دیں گے.لوگ کہتے ہیں کہ جو نئے مبلغ نکل رہے ہیں ان کا زیادہ سے زیادہ زور داڑھی کو چھوٹا کرنے پر ہوتا ہے.میں سمجھتا ہوں داڑھی کی لمبائی پر زور دینا بھی کوئی پسندیدہ بات نہیں.مگر یہ بھی پسندیدہ بات نہیں کہ چھوٹائی پر زور دیا جائے.وہ لوگ جو مبلغین کی داڑھی پر اعتراض کرتے ہیں ان کو تو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ظاہری باتوں کی طرف اتنا نہ جاؤ.مگر مبلغین سے بھی میں کہتا ہوں کہ وہ بھی داڑھی چھوٹی کرنے پر اتناز ورنہ دیں.ان کے بزرگ اپنی بیبیوں کے کم محبوب نہ تھے اپنی لمبی داڑھیوں کی وجہ سے.جتنے وہ سمجھتے ہیں کہ چھوٹی داڑھی سے ہو جائیں گے.انہیں اپنے اخلاق اعلیٰ بنانے چاہئیں.ایک دوست نے شکایت کی کہ ان کے ہاں ایک افسر آئے اور انہوں نے ایک مبلغ سے جو وہاں موجود تھا ایک سوال پوچھا تو مبلغ نے کہا ایسا سوال تمہارے جیسا کوئی احمق ہی کر سکتا ہے.مگر یہ اخلاق سے بالکل گری ہوئی بات ہے.اس رنگ میں جواب دینا کسی عام آدمی کے لئے بھی مناسب نہیں کجا یہ کہ مبلغ ایسا کہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو گالیاں سن کر دعائیں دیں.کیا مبلغ اخلاق سے بھی کام.نہیں لے سکتے.مبلغ میں تواضع اور انکسار ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ ہونا چاہئے.یہ بات رسم سی بنتی جارہی ہے کہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں میرے لئے دعا کرنا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے دعا کرنا تو اپنے اوپر موت وارد کرنا ہے 4 کہتے ہیں جو منگے سو مر ر ہے.اور جو مر گیا اس میں جوش کہاں اور خود نمائی اور خودستائی کہاں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا ہے ایک مبلغ کا مضمون میں نے ”الفضل میں پڑھا.جب میں اسے پڑھ رہا تھا تو میرا خیال تھا کہ میں قتسم کھا سکتا ہوں یہ اس کا مضمون نہیں ہوگا بلکہ اس کے متعلق کسی اور نے لکھا ہوگا.لیکن جب میں آخر میں پہنچا تو اسی کا اپنا نام لکھا ہوا تھا.گویا وہ خود ہی مباحثہ کرنے والا تھا اور آپ ہی اپنی کامیابی کا اعلان کر رہا اور کہ رہا تھا کہ عیسائیت کا قلعہ پاش پاش کر دیا گیا.اس پر کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق اتنے گر گئے ہیں کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ اپنی تعریف آپ کرتے ہیں.

Page 44

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 38 جلد چهارم عیسائیت کا قلعہ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ پاش پاش ہونا ہے مگر وہ ابھی تک عام لوگوں کو نظر نہیں آتا.وہ تو عام لوگوں کو اُس وقت نظر آئے گا جب آخری جنگ ہوگی.ہم تو اس جنگ کی کڑیاں ہیں.نہ مجھ سے آخری جنگ ہوئی اور نہ حضرت خلیفہ مسیح الاول نے کی اور نہ معلوم اور کتنے ہونے والے ہیں جو اس جنگ میں اپنا اپنا حصہ ادا کریں گے.ان سب کی مجموعی کوشش آخری جنگ ہوگی نہ کہ کوئی ایک مباحثہ آخری جنگ کہلا سکتا ہے.یہ دراصل انتہا درجہ کی خود پسندی، کبر اور غرور ہے.ہر مبلغ کو اس سے بچنا چاہئے اور اپنے دل کے کسی کو نہ میں اسے داخل نہیں ہونے دینا چاہئے.کیونکہ اس کی وجہ سے برکت اٹھ جاتی ہے اور انسان دین کی خدمت نہیں کر سکتا.مبلغ اگر محض لسان ہی ہوتا ہے تو پھر عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری بھی مبلغ ہوں گے اور جس طرح وہ محض باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے اسی طرح ایسا مبلغ بھی کچھ نہ کر سکے گا.پس میں اسی صورت میں خوش ہو سکتا ہوں کہ دار الاقامہ میں رہنے سے عجز اور انکسار پیدا ہو.اس طرح کوئی شخص کمزور نہیں ہوگا.بلکہ خدا تعالیٰ اس کی خود مدد کرے گا.اور اگر کسی موقع پر ظاہری شکست بھی ہو تو اس میں بھی حقیقی کامیابی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دہلی میں مباحثہ کیا تو عوام سمجھتے تھے کہ آپ کو شکست ہوئی کیونکہ آپ کا مد مقابل جب بولتا تو خوب گالیاں دیتا اور آپ نرمی سے جواب دیتے.مگر وہ لوگ جن کے دلوں میں ہدایت پانے کی تڑپ تھی ان کے نزدیک اصل میں وہی کامیاب ہوا جو کمزور نظر آتا تھا.پس ہمار ا سا راز در انابت الی اللہ پر ہونا چاہئے.اور میں یہی نصیحت اس وقت مبلغ بننے والے طلباء کو کرتا ہوں.کئی آدمیوں کے ذریعہ چالیس چالیس اور پچاس پچاس اصحاب احمدیت میں داخل ہو جاتے ہیں.مگر کئی مبلغ ایسے ہیں کہ ان کے ذریعہ کوئی بھی داخل نہیں ہوتا.اس کی وجہ اندرونی صفائی کی کمی ہے.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روایت یاد ہے کوئی شخص قرآن پڑھ رہا تھا اسے کسی نے کہا زبان کی صفائی کی بجائے دل کی صفائی پر زور دو.تو زبان کی صفائی پر ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی پر زور دینا چاہئے.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ ظاہری باتوں کو بالکل چھوڑ دو.بلکہ یہ ہے کہ جو حقیقی طور پر باطنی باتوں پر زور دیتا ہے وہ ظاہری پر بھی

Page 45

زریں ہدایات (برائے طلباء) دیتا ہے.“ 1: الانفال: 17 2: يوسف : 81 39 ( الفضل 27 نومبر 1934 ء) 3: الرحمن: 30 4 ذکر حبیب از حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحه 213 جلد چهارم

Page 46

زریں ہدایات (برائے طلباء) 40 جلد چهارم طلباء کو اہم نصائح 29 جولائی 1935ء کو طلبائے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان موسمی تعطیلات پر اپنے گھروں کو جانے سے قبل حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے انہیں حسب ذیل نصائح فرمائیں:.چونکہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی تحریر سے معلوم ہوا ہے کہ تم گھروں کو چھٹیاں گزار نے کے لئے جا رہے ہو اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ تمہارے گھر جانے سے پہلے تمہیں چند نصیحتیں کروں.گو نصیحتیں ہر وقت کافی طور پر ہوتی رہتی ہیں لیکن پھر بھی چونکہ وقت کے مناسب جو بات کہی جائے وہ خاص اثر رکھتی ہے اس لئے چند ایک باتیں کہ دیتا ہوں.یہ سکول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس لئے قائم فرمایا تھا کہ ہماری جماعت کے بچے خصوصاً اور دوسرے مسلمانوں کے بچے عموماً غیر مسلموں کے اثر سے محفوظ رہیں.اس سے پہلے ایک آریہ سکول ہوا کرتا تھا اور ایک سرکاری سکول بھی تھا جو اب بھی ریتی چھلہ کے قریب موجود ہے.سرکاری سکول لوئر پرائمری تک ہوتا تھا اور آریہ سکول میں اس سے اوپر کچھ جماعتیں ہوتی تھیں.اس وجہ سے مسلمانوں کے لڑکے اس میں داخل ہونے شروع ہو گئے.آریہ مدرس ہمیشہ کچھ نہ کچھ باتیں اسلام کے خلاف طلباء کے کانوں میں ڈالتے رہتے تھے اور ان کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہنچتی رہتی.اس سے تحریک ہوئی اور اپنا سکول کھولا گیا.چونکہ اُن دنوں سکولوں کے جاری کرنے کے لئے زیادہ پابندیاں نہ تھیں اس واسطے جلدی ہی یہ سکول جاری ہو گیا.اس کی عمارت بھی بہت بعد میں بنی.پہلے یہ سکول مدرسہ احمدیہ کی موجودہ عمارت میں ہی ہوتا تھا اور صرف وہاں تک تھا جہاں اب درزی خانہ ہے اُس وقت اس

Page 47

زریں ہدایات (برائے طلباء) 41 جلد چهارم کے صرف چار کمرے تھے.آریہ سکول میں طلباء پر جو اثر ڈالا جاتا تھا وہ تو بالکل ظاہر تھا کہ وہ خاص طور پر ہندو مذہب کی تبلیغ کرتے تھے.لیکن سرکاری پرائمری سکول میں بھی آریہ مدرس اسلام پر حملہ کرتے رہتے تھے.اس پرائمری سکول میں میں بھی کچھ عرصہ پڑھا ہوں.اُن دنوں کا ایک واقعہ مجھے اب بھی خوب یاد ہے کہ ایک دن جب میرا کھانا آیا جس میں کلیجی کا سالن تھا تو اسے دیکھ کر ایک طالب علم نے حیرانی سے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی اور کہا یہ تو ماس ہے اور اس کا کھانا حرام ہے.اگر چہ آخر میں وہ شخص احمدی ہوا اور مخلص احمدی ہوا مگر اُس وقت اس نے بڑی حیرانی کا اظہار کیا.بہر حال سرکاری سکول میں بھی اس قسم کا اثر ڈالا جاتا تھا.اگر چہ اب یہ باتیں ان سکولوں میں اور آریہ لوگوں میں کم ہوگئی ہیں اور ماس کی عظمت میں بھی فرق آ گیا ہے.لیکن اب اور قسم کی برائیاں ہیں جو پیدا ہوگئی ہیں.ہر زمانہ کے اثرات الگ الگ ہوتے ہیں اور ان کے بدل جانے سے ان کی اہمیت کم نہیں ہو سکتی.اُس زمانہ میں گوشت کی بڑی اہمیت تھی اور اب عورتوں کے پردہ کو زیادہ اہم قرار دیا جاتا ہے.گو سوال بدل گئے ہیں لیکن مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح اسلام کی تعلیم کو مٹا دیا جائے.تعلیم الاسلام ہائی سکول کے جاری کرنے کی غرض یہ تھی کہ یہ سکھلایا جائے کہ اسلام کا ہر اپنے اندر فائدہ رکھتا ہے اور گو بعض دفعہ اسلام کا کوئی حکم نہ سمجھ سکنے کی وجہ سے اس کی حکمت معلوم نہ ہو لیکن بہر حال وہ فائدہ مند ہی ہے.اگر تمہارے دل میں بھی یہ احساس باقی ہو کہ اسلام کی فلاں بات قابلِ اعتراض ہے اور فلاں درست نہیں تو پھر تمہارا یہاں آنا اور تعلیم پانا لغو ہے اور اس کی ذمہ داری یا تو خود تم پر ہے یا تمہارے اساتذہ پر تمہارے تمام اقوال اور تمہارے تمام افعال سے ظاہر ہونا چاہئے کہ اسلام کی عظمت تمہارے دل میں ہے اور تمہاری چھوٹی سے چھوٹی حرکت سے واضح ہو کہ تم اپنے آپ کو اسلام کے ذمہ دار سمجھتے ہو.سب سے ادب اور اخلاق سے پیش آتے ہو اور ایک اچھا نمونہ دکھاتے ہو.غیروں پر تمہاری نمازوں کا اثر نہیں ہو سکتا کیونکہ سب کے سب لوگ تمہیں نماز پڑھتا ہوا دیکھ نہیں سکتے.اور غیر مسلم نماز کی

Page 48

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 42 جلد چهارم کوئی وقعت نہیں سمجھتے.صرف اخلاق ہی ان پر اثر ڈال سکتے ہیں کیونکہ اخلاق فوراً نظر آ جاتے ہیں اور لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں.اور اخلاق کا مظاہرہ تم گاڑی میں بیٹھنے کے ساتھ ہی کر سکتے ہو.انگریزوں نے ایک نیک نمونہ پیدا کیا ہے کہ مرد عورتوں کو گاڑی میں بیٹھنے کے لئے جگہ دے دیتے ہیں اور اگر جگہ کی تنگی ہو تو خود کھڑے ہو جاتے ہیں.ان لوگوں نے گاڑی میں ، ٹریم کار (Tram Car) میں اسی نمونہ کو ظاہر کیا.حالانکہ انہی ایام میں یورپ میں عورتوں کو گھروں میں سخت تنگ کیا جاتا تھا.گھروں میں مردوں کا سلوک عورتوں سے نہایت سخت تھا.لیکن عورت کو گاڑی وغیرہ میں جگہ دینے کے لئے مرد کے کھڑے ہو جانے کا اثر دوسروں پر بہت اچھا پڑتا.تو اچھے اخلاق اور اچھی عادات خود بہت بڑا اثر رکھتی ہیں.اخلاق فاضلہ میں سے ایک صفت وقار بھی ہے.نماز میں کھڑا ہو کر بار بار کھجلانا اور کھانسنا بھی وقار کے خلاف ہے.مجبوری کے وقت اگر کوئی کھانس لے تو اور بات ہے.مجالس میں ڈکار اور اباسی ( جمائی لینا بغیر منہ پر ہاتھ رکھنے کے یہ بھی وقار کے خلاف ہے.منہ پر ہاتھ رکھنے سے اباسی کی بندش بھی ہو جاتی ہے اور ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس وقت جو شکل بگڑتی ہے وہ دوسروں کو نظر نہیں آتی.ڈکار لینا بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا.ڈکار کی پیدائش اس گیس سے ہوتی ہے جو معدہ میں پیدا ہوتی ہے.اگر تم کسی کے منہ کی طرف منہ کر کے ڈکار لو گے تو اسے برا لگے گا.لیکن اگر تم ڈکار کے وقت منہ کو ایک طرف کر لیتے ہو یا اسے دبا لیتے ہو یا اباسی کے وقت منہ پر ہاتھ رکھ لیتے ہو تو یقینی طور پر دوسروں پر اس کا اچھا اثر ہوگا.اسی طرح اگر تم کسی مجلس میں بیٹھے ہو اور گو دتے ناچتے نہیں، نہ ہی بلا وجہ کسی معاملہ میں دخل دیتے ہو اور ہنسی مذاق بھی نہیں کرتے اور دوسروں کے مقابلہ میں ایک ممتاز حالت پیدا کرتے ہو تو ممکن ہے کہ کوئی تم سے خود ہی پوچھ لے کہ کہاں سے آئے ہو.اور اس طرح تبلیغ کے لئے گفتگو کرنے کا موقع نکل آئے.گھر جا کر ہر بات میں سچ بولنے کا ایک گہرا اثر گھر والوں پر پڑتا ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ یہاں پڑھنے والے بچے کی اعلیٰ عادات کا اثر اس

Page 49

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 43 جلد چهارم کے والدین پر پڑا اور وہ احمدی ہو گئے.نماز کی پابندی بھی نہایت ضروری چیز ہے.ایک نماز کے ضائع ہو جانے سے ساری عمر ضائع ہونے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.جب تک تمہاری یہ حالت نہ ہو کہ تم محسوس کرنے لگ جاؤ ایک نماز کا بھی چھٹنا موت سے بدتر ہے تب تک تم نماز کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے.پس نماز کسی صورت میں نہ چھوڑنی چاہئے.تمہیں تماشوں میں بھی شامل نہ ہونا چاہئے.ممکن ہے یہاں تو ان چیزوں کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے تم بچے رہتے ہو لیکن باہر جا کر تم سے ضبط نہ ہو سکے.مگر یا درکھو کہ ان کا دیکھنا قطعاً ممنوع ہے.ہم نے موجودہ حالات میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو نہیں دیکھنا.تمہیں اس کی پوری طرح پابندی کرنی چاہئے.پھر ہم نے یہ بھی طے کیا ہے کہ تین سال تک ایک ہی کھانا کھائیں گے.تمہیں یہاں تو ایک ہی کھانا ملتا رہا ہے.گھر میں جا کر ان رخصتوں میں لطف اٹھانے کا خیال ہو گا.اس کے متعلق یہ تو اجازت ہے کہ اچھا کھانا کھاؤ لیکن دو کھانوں کی ایک وقت میں اجازت نہیں ہے.تم اپنے اچھے نمونہ اور عقل سے تبلیغ کر سکتے ہو.جو باتیں یہاں تمہارے کانوں میں پڑتی رہی ہیں ان سے ہی کام لے سکتے ہو.حدیث میں آتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے ذریعہ ایک آدمی بھی ہدایت پا جائے تو اس وادی سے بہتر ہے جو گھوڑے اور اونٹوں سے بھری ہوئی ہو اور وہ کسی کو مل جائے.چونکہ بعض اوقات نوجوان کے ہدایت پا جانے سے اس کے والدین ہدایت پا جاتے ہیں اس لئے اگر تم نو جوانوں اور بچوں میں تبلیغ کرو، ان پر احمدیت کی سچائی ثابت کر دو اور ان کو اسلام کا خادم بنا سکو تو اس سے بڑوں کی بھی اصلاح ہو جائے گی.دنیوی کاموں میں بھی مومن کو آگے رہنا چاہئے.تم یہ بھی کوشش کرو کہ یو نیورسٹی کے امتحان میں اعلیٰ نمبروں پر کامیاب ہو.اب تک ایسے لڑکے نہیں نکل رہے جو نمونہ ہوں.“ (الفضل 3 اگست 1935 ء )

Page 50

زریں ہدایات (برائے طلباء) 44 جلد چهارم 1 بخارى كتاب الجهاد باب فضل من اسلم على يديه رجل صفحه 497 حدیث 3009 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 51

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 45 جلد چهارم ما پیشہ کو ذلیل نہ سمجھا جائے اور ہر پیشہ سیکھنے کی کوشش کی جائے 2 مارچ 1936ء ساڑھے آٹھ بجے صبح حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے صنعتی سکول واقع محلہ دار البرکات قادیان کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج آپ لوگوں کو یہاں آنے کی اس لئے تکلیف دی گئی ہے کہ میرا منشاء ہے آج ہم دعا کر کے اس صنعتی سکول کا افتتاح کریں جس کا اعلان میں پہلے کر چکا ہوں.دنیا میں تعلیم اور صنعت و حرفت علیحدہ علیحدہ تنگ دائروں میں تقسیم ہو سکتی ہے.ورنہ بڑے بڑے دائرے تو صرف دو ہی ہیں.جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے علم دو ہیں علم الادیان اور علم الا بد ان 1 یعنی ایک علم وہ ہے جو دین کو نفع دیتا ہے اور دوسرا علم وہ ہے جو جسم کو نفع دیتا ہے.لوگوں نے اس علم کے معنی طب کے بھی کئے ہیں.بے شک طب بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے لیکن اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر وہ علم جس کا مادیت کے ساتھ تعلق ہو.پس رسول کریم صلى الله نے در حقیقت علم کی تعریف یہ فرمائی ہے کہ جو روح یا جسم کو فائدہ دے.جو علم روح یا جسم کے لئے فائدہ مند نہیں وہ علم نہیں کھیل ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.وہ علم جو روح کو نفع دے وہ تو اس وقت دین اسلام ہی ہے کیونکہ باقی دین اس قابل نہیں که وہ روح کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں.روحانی لحاظ سے صحیح طور پر اور ہر ضرورت کے موقع پر نفع دینے والی چیز صرف اسلام ہے.باقی رہا علم الا بد ان اس علم کا تعلق مختلف پیشوں سے ہے.

Page 52

زریں ہدایات (برائے طلباء) 46 جلد چهارم پیشے تو لاکھوں ہیں لیکن وہ چونکہ ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لئے بڑے بڑے پیشے چند ہی ہیں.مثلاً ایک پیشہ وہ ہے جس سے انسان کی زندگی کا بڑا تعلق ہے اور وہ زراعت ہے.زراعت کے ذریعہ غلہ وغیرہ اور ایسی چیزیں پیدا کی جاتی ہیں جن پر انسان کی زندگی کا دار و مدار ہے.اس کے بعد دوسری چیز جسم کو ڈھانکنے کا سوال ہے.اس کے لئے کپڑا بننے والے کی ضرورت ہے جس کو ہم جلارہا کہتے ہیں.پھر پہنے کے لئے مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.مثلا کپڑے کے علاوہ جرا ہیں ،سویٹر وغیرہ یہ سب چیزیں اسی پیشہ کے اندر آ جاتی ہیں اور وہ سب اشیاء جن کا کپڑے کے ساتھ تعلق ہو گا سب کی سب اس پیشہ سے متعلق ہوں گی.تیسرا پیشہ معماری ہے کیونکہ عناصر میں جو طوفان پیدا ہوتے ہیں ان کے اثرات سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان مکان بنائے یا ایک دوسرے کے ضرر سے بچنے کے لئے مثلاً چور یا حملہ آور سے محفوظ رہنے کے لئے مکان ضروری ہے پس تیسری چیز معماری ہے.چوتھا پیشہ جو اصولی حیثیت رکھتا ہے وہ لوہاری کا کام ہے.بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کی انسان کو ضرورت پیش آتی ہے یا خود انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی حاجت ہوتی ہے اس کے لئے مثلاً گاڑیاں ، موٹریں، سائیکل یا ریل گاڑیاں کام میں لائی جاتی ہیں.ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے اور انسانی کاموں میں سہولت پیدا کرنے کے لئے یہ دو پیشے ہیں.ایک لوہار کا کام، دوسرا ترکھان کا کام.یہ زراعت میں مفید ہونے کے علاوہ باقی بہت سے کاموں کے لئے بھی نہایت ضروری ہیں اور انسان کے عام مشاغل کو بھی سہل بناتے ہیں.پھر علم الا بدان میں وہ چیز بھی آجاتی ہے جس کو لوگوں نے مقدم رکھا ہے یعنی علم کیمیا اور علم طب.علم طب بھی انسانی علاج کو سہل کر دینے والی چیز ہے.تو گویا زراعت، معماری، لوہاری، نجاری، علم کیمیا علم طب.اور علم طب دراصل ایک لحاظ سے علم کیمیا ہی کی ایک شاخ ہے.اور کپڑا ئینے کا کام.یہ سات پیشے ہوئے.باقی تمام پیشے انہی کے اندر آ جاتے ہیں.مثلاً دوسرے کام پینٹنگ وغیرہ معماری کی بھی ایک شاخ ہے اور علم کیمیا کی بھی چمڑے کا کام اس

Page 53

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 47 جلد چهارم کے علاوہ ہے.تو اسے ملا کر گویا آٹھ پیشے ہوئے.ان آٹھ پیشوں کو جو قوم جان لیتی ہے اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کی محتاج نہیں رہتی.بشرطیکہ وہ ان پیشوں کو اس رنگ میں جانتی ہو جیسا کہ جاننے کا حق ہے.یہ نہیں کہ ایک کام سیکھ کر یہ سمجھ لیا جائے کہ بس اب کام ختم ہو گیا اور اب اس میں ترقی کرنے کی ضرورت نہیں.ورنری کا علم یعنی حیوانوں اور جانوروں وغیرہ کا پالنا اوران کا علاج بھی علم الا بدان ہی سے تعلق رکھتا ہے.یہ علم اور نرسنگ وغیرہ کا علم طب کے نیچے آجائیں گے.پس جتنے بھی علوم ہیں وہ سب انہی آٹھ پیشوں کے اندر محصور ہو جاتے ہیں.کیونکہ ان میں سے بعض یا تو زراعت سے تعلق رکھتے ہوں گے یا چمڑے کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے یا معماری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے یا نجاری کے کام سے تعلق رکھتے ہوں گے.ان چیزوں سے باہر اور شاید ہی کوئی چیز ہو.اگر یہ چیزیں کوئی قوم مضبوطی سے حاصل کرے تو وہ دوسری قوموں سے آزاد ہو جاتی ہے.ان کا مد پیشہ بے شک تجارت ہے مگر وہ تابع پیشہ ہے حقیقی پیشہ نہیں اور اپنی ذات میں وہ کوئی الگ نہیں.کیونکہ وہ انسان کی بنائی ہوئی چیزوں کو ہی لوگوں تک پہنچاتا ہے لیکن دولت کے لحاظ سے وہ پیشہ ان سے کم نہیں ان سے زیادہ ہی اہمیت رکھتا ہے.اور وہ اس لئے کہ مالی لحاظ سے اس کو ان پیشوں پر فوقیت حاصل ہے.سوائے اس کے کہ پیشہ ور اپنے ساتھ تجارت کو بھی شامل کر لیں.جب تجارت ساتھ شامل ہو جائے تو کام بہت وسیع ہو جاتا ہے.میں نے تحریک جدید کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ معلوم کیا ہے کہ ہماری جماعت میں کن پیشیوں کی کمی ہے اور کون کون سے پیشے ایسے ہیں جنہیں انفرادی یا جماعتی طور پر ہمیں لوگوں کو سکھانے کی ضرورت ہے.زراعت کے متعلق میں نے دیکھا ہے کہ ہماری جماعت میں کافی لوگ ایسے ہیں جو زراعت کا کام کرتے ہیں.تجارت کے متعلق میں نے غور کیا اور میں نے دیکھا کہ اگر چہ اس کی ہماری جماعت میں کمی ہے لیکن چونکہ ہم ابھی اس کام میں فوری ہاتھ ڈالنے کے قابل نہیں تھے اس لئے میں نے چند مبلغوں کو تیار کیا کہ وہ بعض ایسی نئی تجارتی چیزیں دریافت کریں جنہیں ہم ہاتھ میں

Page 54

زریں ہدایات (برائے طلباء) 48 جلد چهارم لے کر ان کی تجارت کر سکتے ہیں.جو تجارتیں پہلے قائم شدہ ہیں ان میں ہمارا داخل ہونا اور کروڑوں روپیہ کے سرمایہ کی تجارتوں کے مقابل ہمارا کھڑا ہونا ناممکن ہے اس لئے میں نے یہ تجویز کی کہ نئی تجارتی اشیاء دریافت کی جائیں.اس ضمن میں میں نے دیکھا کہ تجارتوں میں جو واسطے پائے جاتے ہیں ان کو اڑانے کی ضرورت ہے.ممکن ہے بعض دوست واسطوں کا مطلب نہ سمجھیں اس لئے میں اس کی تشریح کر دیتا ہوں.واسطے کا مطلب یہ ہے کہ اصل خریدار تک پہنچنے کے لئے ایک چیز کئی ایک ہاتھوں میں سے گزر کر آتی ہے.مثلاً ایک چیز انگلستان میں پیدا ہوتی ہے اور فرض کرو کہ وہ چین میں جا کر بکتی ہے تو بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسے پہلے ایک ملک نے خریدا.اس سے پھر دوسرے نے اور پھر تیسرے اور چوتھے نے.یہاں تک کہ وہ چیز کئی ملکوں میں سے ہوتی ہوئی چین تک جا پہنچی.جنگ کے دنوں میں اس راز کا انکشاف ہوا تھا کہ وہ دوائیاں جو یہاں آکر یکتی تھیں وہ در اصل جرمنی میں بنائی جاتی تھیں اور ان پر صرف انگریزی ٹھپہ لگتا تھا اور ہندوستان میں لوگ انہیں صرف انگریزی دوا کر کے خریدتے تھے.ہندوستانیوں کو اس بات کا علم نہ تھا.انگریز انہیں جرمنی سے خرید کر ہندوستانیوں سے ان کی بڑی بڑی قیمتیں لیتے تھے.اور بہت کم لوگ اس راز سے آگاہ تھے باقی سارے لوگ ناواقف تھے.جب جنگ شروع ہوئی تو دوائیاں نایاب ہو گئیں.اور لوگ اس بات سے حیران تھے لیکن پھر یہ راز کھلا کہ جرمنی کی دوائیاں انگلستان میں سے ہوتی ہوئی ہندوستان آتی تھیں.پس واسطے کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک کی اشیاء اور ملکوں میں سے گزر کر اصلی حاجت مند کے پاس پہنچتی ہیں.اس کے متعلق یہ پتہ لگایا جائے کہ کس ملک کی کون سی چیز کس کس ملک سے ہو کر آتی ہے.یہ معلوم کرنے کے بعد جو چیز مثلاً جرمنی میں بنتی ہے اس کے لئے اگر کوئی شخص جرمنی جا کر کہے کہ تم اپنی فلاں چیز براہ راست ہمیں بھیجو.اور اس طرح کی ایک دکان کھول لی جائے تو براہ راست تعلق قائم ہونے کی وجہ سے بیچ کا نفع جو دوسرے لوگ اٹھا رہے ہوں گے وہ نہیں اٹھائیں گے اور اس طرح وہ چیز ستی مل سکے گی اور نفع اپنے ہاتھوں میں رہے گا.میں نے دیکھا ہے کہ کہ بعض دفعہ سات سات اور آٹھ آٹھ واسطے درمیان میں پڑ جاتے

Page 55

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 49 جلد چهارم ہیں.سوال یہ ہے کہ کیوں کوئی چیز سات یا آٹھ ہاتھوں میں سے گزر کر آئے.جتنے واسطے اڑائے جاسکیں اتنی ہی کم قیمت دینی پڑے گی.پس اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ وہ چیز براہ راست ہمیں پہنچے گی اور دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اس پر کم خرچ آئے گا.اور واسطوں کے اڑ جانے سے ہم تھوڑے سرمایہ سے بڑے بڑے سرمایہ داروں کا مقابلہ کر سکیں گے.مگر یہ تجارت قادیان میں نہیں ہوگی کیونکہ یہاں کوئی منڈی نہیں ہے.یہ کلکتہ، دہلی یا دوسرے بڑے شہروں میں قائم ہو سکتی ہے.باقی پیشوں میں سے جو انسان کی ضروریات مہیا کرتے ہیں کپڑا بننے کا کام بہت بڑے سرمایہ کو چاہتا ہے اور یہ شروع سے ہی لاکھوں روپیہ والے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے.اس لئے فوراً اس میں ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا.اس کے لئے ہمارے پاس ایک NUCLEUS یعنی بیج ہے اور وہ ہوزری ہے.فی الحال جرابیں وغیرہ بنانے کا کام جاری ہے.اس کے ساتھ ہم آہستہ آہستہ دوسرے کپڑے بنانے کا کام بھی شروع کر دیں گے.کپڑے کے لئے کھڈیاں وغیرہ بھی استعمال کی جاتی ہیں لیکن ابھی تک کھڑیاں اتنی مفید ثابت نہیں ہوئیں.ایک دو دفعہ لدھیانہ سے مشینیں منگا کر دیکھی ہیں لیکن ان کے ذریعہ جو کام کیا گیاوہ زیادہ مفید ثابت نہیں ہوا.اگر آئندہ مفید ثابت ہو تو وہ کام بھی انشاء اللہ شروع کر دیا جائے گا.اب رہ گیا طب کا علم.طب کے متعلق باقاعدہ طور پر کام شروع نہیں کیا گیا.لیکن مبلغ جو باہر جاتے ہیں انہیں طب پڑھانے کا انتظام کیا جاتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو ایک الگ طیبی سکول جاری کر دیا جائے گا یا مدرسہ احمدیہ کی ایک شاخ کھول دی جائے گی.اور یہ کام خصوصاً اس لئے شروع کیا جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس سے تعلق تھا اور حضرت خلیفہ اول تو ایک بلند پایہ طبیب بھی تھے.غرض طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق رکھتی ہے.بچپن میں عموماً میری صحت خراب رہتی تھی ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تم قرآن شریف اور بخاری کا ترجمہ اور طب پڑھ لو.چنانچہ میں نے طب کی تین چار کتابیں پڑھیں بھی.تو طب کے متعلق میرا خیال ہے کہ اسے جاری کیا جائے.فی الحال مبلغین کو طب

Page 56

زریں ہدایات (برائے طلباء) 50 جلد چهارم پڑھانے کا انتظام کیا گیا ہے.اب پانچ پیشے رہ جاتے ہیں.کیمیا، چمڑے کا کام، لکڑی کا کام، لوہاری اور معماری معماری کے کام میں فی الحال میں نے دخل دینا ضروری نہیں سمجھا.کیونکہ معماری کے کام کے لئے خاص انتظام کی ضرورت پیش نہیں آتی.لوگ اپنے اپنے طور پر اسے سیکھ سکتے ہیں.لیکن اگر موقع ملا تو ہم اسے بھی نظر انداز نہیں کریں گے.باقی رہ گئے چار کام.لوہاری ، نجاری، چمڑے کا کام اور علم کیمیا.یہ سکول جس کے افتتاح کے لئے آج ہم جمع ہوئے ہیں اس میں تین کام شروع کئے جائیں گے.ابھی صرف دو جماعتیں کھولنے کا انتظام کیا گیا ہے.لوہاری اور نجاری.چمڑے کے کام کی سکیم ابھی زیر غور ہے.کیمیا کے کام مثلاً ادویہ سازی کے متعلق بھی میں مشورہ کر رہا ہوں.اور میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ اس کام کو بھی شروع کر دیا جائے.اس کام کی ایک قسم تو شروع کی ہوئی ہے اور وہ گلاس فیکٹری ہے.لیکن وہ ایک خاص شکل میں محدود ہے.کیمیا سازی میں پینٹنگ، پالش وغیرہ سب چیزیں آجاتی ہیں.میں اس کے متعلق ماہر فن لوگوں سے مشورہ کر رہا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو اس میں بھی ہاتھ ڈالا جائے گا.باقی تین کام جو ہم شروع کرنے والے ہیں اور ان کے ساتھ کپڑا بنے کا کام بھی لگا دیا جائے تو چار ہو جاتے ہیں نہایت ضروری ہیں مگر بد قسمتی سے یہ کام ہندوستان میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں.جب کسی ملک کے زوال کے دن آتے ہیں تو لوگوں کی بھی بدل جاتی ہیں.اگر کسی سے کہہ دیا جائے کہ یہ موچی ہے تو لوگ سمجھیں گے کہ وہ ذلیل کام کرنے والا ہے اور وہ خود بھی اس پیشے کو ذلیل سمجھے گا اور اسے چھوڑ دینے کی خواہش کرے گا.لوہار اور ترکھان کے پیشے کو بھی ذلیل سمجھا جاتا ہے.گو وہ موچی کے پیشے کی طرح بد نام نہیں اور گولوگ انہیں اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں مگر وہ کبھی پسند نہ کریں گے کہ ہمارے بچے لوہار یا ترکھان ذهنیتیں بنیں یاوہ جلا ہے کا کام سیکھیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پیشوں کی آمدنیاں محدود ہو گئی ہیں.جس کسی پیشہ میں نفع کم ہو جائے تو قدرتی طور پر اس کی قدر بھی کم ہو جاتی ہے.مثلا تمہیں ہندوستان

Page 57

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 51 جلد چهارم میں ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی ماہوار آمدنی پانچ چھ روپیہ سے زیادہ نہیں ہوگی.لیکن ایسے طبیب بھی ملیں گے جن کی آمدنی پانچ چھ ہزار روپیہ ماہوار ہوگی.اگر سارے طبیب پانچ یا چھ روپیہ آمدنی کے ہوں تو طب کی بھی بہت کم قدر ہو جائے.چونکہ لوہارے اور تر کھانے کی آمدنی بھی کم اور محدود رہ گئی ہے اس لئے لوگوں نے ان پیشوں کو ذلیل سمجھنا شروع کر دیا ہے.تجارت میں چونکہ آمدنی زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کی قدر زیادہ کی جاتی ہے.لیکن اگر ہم بھی ان تمام پیشوں کو اس طریق پر چلاتے جس طریق پر انہیں یورپ میں چلایا جاتا ہے تو یہاں بھی ان کی ویسی ہی قدر کی جاتی جیسی کہ وہاں کی جاتی ہے.اب دیکھ لو تمام کپڑا یورپ سے آتا ہے یا تو لنکا شائر میں بنتا ہے یا تجیم میں.بیان کیا جاتا ہے کہ ہر سال ساٹھ کروڑ روپے کا کپڑا باہر سے ہندوستان میں آتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ سب کام جلا ہے کرتے ہیں.چاہے کسی قسم کا کپڑا بنا جائے.گرم کپڑا ہو یا چھینٹ ہو یا کھدر.یہ کام جلا ہے کا کام ہی کہلائے گا.صرف کھدر بننے کا کام کسی کو لاہا نہیں بنا تا بلکہ کپڑ اپنے کا کام جلا ہا بنا تا ہے.پھر لوہارے کے تمام کاموں کی اشیاء یورپ سے آتی ہیں.مثلا ریل گاڑی کا سامان، کپڑے سینے کی مشینیں ، آٹا پینے کی مشینیں ، روٹی اور بنولے کی مشینیں ، موٹر بائیکس کل، مختلف پرزے، سب یورپ سے آ رہے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ آہستہ آہستہ یورپ والوں نے سرمایہ داری کے ذریعہ سارا کام اپنی طرف کھینچ لیا ہے.اور اب تو یہ حالت ہے کہ جب ہمارا کپڑا پھٹ جائے اور اسے سینے کی ضرورت ہو تو ہمیں سوئی کے لئے بھی یورپ کا دست نگر ہونا پڑتا ہے.بچپن میں مجھے یاد ہے کہ ہندوستان کی بنی ہوئی سوئیاں جو کچی سوئیاں کہلاتی تھیں استعمال کی جاتی تھیں.مگر اب وہ کہیں نظر نہیں آتیں.بات یہ ہے کہ جن چیزوں کے متعلق یورپ والوں نے دیکھا کہ ہندوستان میں استعمال ہوتی ہیں انہوں نے وہ چیزیں مشین کے ذریعہ بنانی شروع کر دیں.اب تو مشینوں نے کھدر بھی بنا دیا ہے اور وہ کھدر کریپ کہلاتا ہے.یورپ والوں نے کہا اگر ہندوستانی کھدر پہننے کے لئے ہی تیار ہیں تو ہم مشینوں سے کھدرہی تیار کر دیں گے.پھر نجاری کا کام ہے اس میں بھی اعلیٰ فن کے کام ولایت سے ہی آتے ہیں.بڑے بڑے گھروں میں دیکھ لو.کرسیاں اور گوچیں 2 یور

Page 58

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 52 جلد چهارم کی بنی ہوئی استعمال کی جاتی ہیں.اور بعض کو چوں کی قیمت کئی کئی سو تک ہوتی ہے.اسی طرح عمارتی کاموں میں بھی بعض ٹکڑے بنے بنائے ولایت سے آتے ہیں مگر یہ پیشہ پھر بھی ایک حد تک محفوظ رہا ہے.باقی رہا چمڑے کا کام.اس کا بیشتر حصہ ولایت چلا گیا تھا مگر اب واپس لوٹ رہا ہے.پہلے تمام چیزیں چمڑے کی ولایت سے بن کر آتی تھیں مگر اب ہندوستان کے بعض شہروں مثلاً کان پور وغیرہ میں چمڑے کی بہت اشیاء تیار کی جاتی ہیں تاہم چمڑے کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو یورپ سے تیار ہو کر ہندوستان آتی ہیں.اور یورپ والے ان کے ذریعہ روپیہ کما رہے ہیں.یورپ میں جوتیاں بنانے والے ہمارے ہاں کے موچیوں کی طرح نہیں سمجھے جاتے بلکہ ان کی وہی قدر و منزلت ہوتی ہے جو وہاں بڑے بڑے لارڈوں کی ہوتی ہے بلکہ وہاں تو ایسے لوہار، نجار یا بوٹ میکر ہیں جو لارڈ ہیں اور ان کی بہت عزت کی جاتی ہے.ان میں سے جب کوئی ہندوستان آتا ہے تو وائسرائے کا مہمان ہوتا ہے اور راجے نواب بھی اس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی آمدنیوں کو محدود نہیں رکھا بلکہ انہیں غیر محدود بنالیا ہے.اور ان کے پیشے اپنی غیر محدود آمدنیوں اور وسیع پیمانے پر ہونے کی وجہ سے معزز تصور ہورہے ہیں مگر ہندوستان میں وہی پیشے قلیل آمدنیوں کی وجہ سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں.یہاں ایک اور عجیب رواج بھی ہے.اور دراصل ہندوستانیوں کو اسی کی سزامل رہی ہے.اور وہ یہ ہے کہ ایک پیشہ ور انسان اپنے پیشہ کو ذاتی جائیداد تصور کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ صرف اپنے بیٹے کو وہ پیشہ سکھا دے کسی دوسرے کو وہ سکھانا پسند نہیں کرتا.اسلام نے اسے قطعاً پسند نہیں کیا کہ کوئی شخص کسی کام کو اپنی ذاتی جائیداد بنا کر بیٹھ جائے.یورپ میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی خاندان سارے کا سارا بوٹ بنانے والا نہیں ہوگا.اگر باپ بوٹ میکر ہوگا تو بیٹا کیمیا کے علم کا ماہر ہوگا.پوتے کپڑا بنانے کا کام کرتے ہوں گے اور پڑپوتے کسی فرم میں حصہ دار ہوں گے.غرض ایک ہی کام نہیں ہوگا جس میں وہ سارے کے سارے لگے ہوئے ہوں گے.مگر ہمارے ملک نے سمجھ رکھا ہے کہ پیشے ذاتی جائیداد ہوتے ہیں اور وہ اپنے خاندان تک ہی محدود

Page 59

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 53 جلد چهارم رہنے چاہئیں کسی اور کو نہیں سکھانے چاہئیں.اس کے دو بہت بڑے نقصان ہیں.ایک انفرادی اور دوسرا قومی.قومی نقصان تو یہ ہے کہ اگر بیٹا باپ جب لائق نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ فن گر جائے گا اور اس طرح قوم کو نقصان پہنچے گا.دوسرا نقصان یہ ہے کہ باپ سے بیٹے کو اور بیٹے سے پوتے کو جب وہ کام ورثہ میں ملے گا تو ان کے نام کے ساتھ ایک اور چیز جسے پنجابی میں ”آل 3 کہتے ہیں لگ جائے گی اور وہ اس کی قومیت بن جائے گی.حالانکہ اگر آزادانہ پیشہ اختیار کرنے کا طریق رائج ہو تو بالکل ممکن تھا کہ ایک درزی کا کام کرنے والے کا بیٹا اچھا لوہار یا اچھا نجار یا اعلیٰ معمار بن سکتا.پس اس طریق کا انفرادی طور پر بھی نقصان ہوا اور قومی طور پر بھی.یورپ میں لوگوں نے اپنے آپ کو ان نقصانات سے بچالیا ہے.نہ ان کے نام کے ساتھ کوئی آل“ لگی اور نہ ان کے پیشے ہی محدود رہے.کیونکہ انہوں نے ایک ہی کام پر جمے رہنا پسند نہیں کیا بلکہ کام تبدیل کرتے گئے.اور انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ وہ تبدیلی چاہتی ہے.مرد کم تبدیلی کا خواہاں ہوتا ہے مگر عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے.گھروں میں دیکھ لو جب کبھی عورتیں صفائی کرتی ہیں تو چیزوں کو ادھر سے ادھر رکھ کر نقشہ بدل دیتی ہیں اور بالکل بلاوجہ ایسا کرتی ہیں.پہلے اگر چار پائی مشرقی دیوار کے ساتھ ہوگی تو پھر مغربی دیوار کے ساتھ کر دی جائے گی.کبھی جنوبی دیوار کے ساتھ لگا دی جائے گی اور کبھی پھر مشرقی دیوار کے ساتھ رکھ دی جائے گی.یہ صرف نظارے کی تبدیلی ہوتی ہے.بہر حال تبدیلی ترقی کے لئے ضروری چیز ہے گوتبدیلی میں تنزل کا پہلو بھی ہوتا ہے.مگر اس میں ترقی بھی ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے انسان میں یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک حالت میں رہنا پسند نہیں کرتا بلکہ تغیر چاہتا ہے اور کام کی تبدیلی کے ساتھ بھی بہت سے خاندان بڑھتے اور گھٹتے ہیں.غرض ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے اس صنعتی سکول کی ابتدا کی ہے.میں نے بتایا ہے کہ ہندوستان کے تنزل اور اس کی تباہی کی ایک وجہ ان پیشوں کا ہمارے ہاتھوں سے نکل جانا ہے.اور یورپ کی ترقی کی وجہ ان پیشوں کا ان کے ہاتھ میں چلا جانا ہے.پھر میرے مد نظر یہ بات بھی ہے کہ اس طرح بے کاری کو دور کرنے کی بھی کوشش کی جائے مگر میں

Page 60

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 54 جلد چهارم فوری طور پر اس کام کو وسعت نہیں دے سکتا.کیونکہ ہمارے پاس سرمایہ کم ہے گو میری خواہش یہی ہے کہ ہر بے کار کو کام پر لگایا جائے مگر عقل چاہتی ہے کہ کام کو اس طریق سے نہ چلایا جائے کہ چند دن جاری رہ سکے اور پھر ختم ہو جائے بلکہ ایسے طریق سے قدم اٹھایا جائے کہ جس سے ہمارے کام کو دوام نصیب ہو.فی الحال میں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ ایک استاد کے ساتھ تین شاگرد ہوں اس طرح کام چلا نا سہل ہوگا.ہر تیسرے ماہ طالبعلموں کا انتخاب ہوا کرے گا اور مزید تین تین لڑکوں کو لے کر کام پر لگا دیا جائے گا.اس طرح سال میں ہر ایک استاد کے پاس 12 طالب علم ہو جائیں گے.اور پھر سال بھر کے سیکھے ہوئے لڑکے نئے داخل ہونے والے لڑکوں کو کام سکھا بھی سکیں گے.اس سلسلہ میں جو مشکلات پیدا ہوں گی وہ تو بعد میں ہی دیکھنے میں آئیں گی مگر اصولی طور پر یہ بات مدنظر رکھی گئی ہے کہ اس طرح آہستہ آہستہ کام کو بڑھایا جائے.میری تجویز یہ بھی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ بھی اس کام میں حصہ لیں اور وہ اس طرح کہ اس سرمایہ کے جو اس پر لگایا جائے حصص خریدیں.چنانچہ اس میں تجارتی طور پر حصہ لینے کے لئے میں نے جماعت کے لئے گنجائش رکھی ہے.اس میں سے پچاس فیصدی تک سرمایہ کے حصے خریدے جاسکتے ہیں.میں نے اس سکول کے متعلق اصول انتخاب میں یہ بات مد نظر رکھی ہے کہ یتامیٰ کو مقدم رکھا جائے اور ان کی نسبت دوسرے لڑکوں کے انتخاب کی شرائط کڑی ہوں.مثلاً پہلی شرط ان کے لئے یہ رکھی گئی ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں مگر قیموں کے لئے پرائمری پاس ہونے کی شرط نہیں گو انہیں بھی اگر وہ ان پڑھ ہوں تعلیم دی جائے گی.پھر یہ بھی شرط ہے کہ ان کو بورڈنگ میں رکھا جائے گا اور پانچ سال انہیں یہاں رہنا ہوگا.تین سال تک ان پر ہم خرچ کریں گے.باقی دو سال میں اس آمد پر جو ان کی تیار کی ہوئی اشیاء سے حاصل ہوگا ان کا خرچ چلے گا.پہلے تین سال سنگ استادوں کی تنخواہیں، بورڈنگ کا خرچ اور کپڑے وغیرہ کا خرچ تحریک جدید کے ذمے ہو گا.اس کے علاوہ ہم نے دو سال اس لئے زائد رکھے ہیں تا کہ وہ

Page 61

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 55 جلد چهارم سلسلہ کا کام کریں اور اس قرض کا کچھ حصہ جو ان پر خرچ ہوا ہو ادا کر سکیں.اگر کوئی لڑکا بیچ میں ہی کام چھوڑ کر چلا جائے گا تو اسے وہ روپیہ واپس دینا ہو گا جو اس پر خرچ ہوا.سوائے اس کے کہ کوئی اشد معذوری اسے پیش آ جائے.مثلاً کوئی آنکھوں سے اندھا ہو جائے یا اور کسی طرح کام کے نا قابل ہو جائے کیونکہ ایسے کاموں میں اس قسم کے حادثات بھی ہو جانے کا اندیشہ ہوا کرتا ہے.پس ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جولڑ کے داخل ہونا چاہیں وہی داخل ہو سکتے ہیں.یتامی کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ ان کو بغیر کسی شرط کے لے لیا گیا ہے مگر دوسروں کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ کم سے کم پرائمری پاس ہوں.آئندہ آہستہ آہستہ شرائط کڑی کر دی جائیں گی.مثلاً پھر یہ شرط رکھ دی جائے گی کہ مڈل پاس طالب علم لئے جائیں اور مڈل تک کی تعلیم تو مجلس مشاورت میں ہماری جماعت کے لئے لازمی تعلیم قرار پا چکی ہے.پس جب مڈل تک کی تعلیم ہر احمدی کے لئے لازمی ہے تو بعد میں تعلیم کے اسی معیار کے لحاظ سے طالب علم سکول میں لئے جائیں گے.علاوہ ازیں اس سکول کے استادوں کو دوسرے مدرسوں کے لڑکوں کو کام سکھانے پر لگایا جائے گا یعنی دوسرے مدرسوں کے طالبعلموں کو بھی اس قسم کے کام سکھائے جائیں گے.مثلاً ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ کے جولڑ کے چاہیں گے ان کے لئے بھی انتظام کر دیا جائے گا.مگر ان کے لئے ہفتہ میں صرف دو روز اس کام کے لئے ہوں گے.کیونکہ انہیں اپنے کورس کی اور بھی پڑھائی کرنی پڑتی ہے.بے شک اس طرح وہ بہت دیر میں کام سیکھ سکیں گے اور بعض دفعہ ان کو چھٹیوں میں یہ کام کرنا پڑے گا.مثلاً گرمیوں کی رخصتوں میں ان کو اور کہیں جانے کی اجازت نہ ہوگی بلکہ انہیں یہ کا م سکھایا جائے گا.بہر حال جب تک ہم پیشوں کے ساتھ تمام لوگوں کی دلچسپی نہ پیدا کر دیں گے اُس وقت تک پیشہ وروں کو ذلیل سمجھنے کی خرابی دور نہ ہوگی.جب سارے لوگ مختلف پیشے جانتے ہوں اور ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی آدمی اس قسم کا کام کرتا ہو تو پھر پیشوں کے متعلق حقارت لوگوں کے دلوں سے مٹ جائے گی.یورپ میں بڑے سے بڑے لوگ بھی اس قسم کے کاموں کو حقیر نہیں سمجھتے بلکہ وہ خود کسی نہ کسی پیشہ کے ماہر ہوتے ہیں.چنانچہ فرانس کا ایک پریذیڈنٹ تھا جس کے متعلق

Page 62

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 56 جلد چهارم لکھا ہے کہ جب کبھی اسے اپنے کام سے فرصت ملتی تو وہ دھونکنی پر جا کر کام شروع کر دیتا.پس اگر دوسرے سکولوں کی خواہش ہوئی تو ان کے لئے بھی انتظام کر دیا جائے گا.اس کے بعد میں دوستوں سے خواہش کرتا ہوں کہ وہ مل کر دعا کریں کہ اس ابتدا کو جو بظاہر چھوٹی اور بیچ معلوم ہوتی ہے.اللہ تعالٰی ترقی کی منازل تک پہنچائے اور ہمارے کام کرنے والے لوگ اس رنگ میں کام کریں کہ جہاں وہ دنیا کے لئے بہتری کا موجب ہوں وہاں دین کے لئے بھی بہتری کا باعث بنیں.میں استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ لڑکوں میں یہ روح پیدا کریں کہ دنیا کے ساتھ انہیں دین بھی حاصل کرنا ہے.گویاوہ دست با کار اور دل بایاز کے مصداق بنیں.شروع سے ہی ان کے اندر یہ روح پیدا کی جائے کہ سلسلہ کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنا، اپنے نفسوں کو مارنا اور اپنے پیشوں کو صرف ذاتی مفاد تک محدود نہ رکھنا بلکہ ان سے سلسلہ کو بھی فائدہ پہنچانا ان کا مقصد ہے.اگر یہ روح ان کے اندر پیدا ہو جائے کہ انہوں نے اپنی اپنی صنعتوں میں غیر ممالک کے صناعوں کا مقابلہ کرنا ہے اور ادھر نیکی اور تقویٰ پر بھی قائم رہنا ہے تب یہ لوگ ہمارے لئے مفید ہو سکتے ہیں ورنہ روٹی کمانے والے تو دنیا میں بہت لوگ ہیں.ہماری یہ غرض نہیں کہ صرف روٹی کمانے والے پیدا کئے جائیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ایسے ہوں جو دنیا کے ساتھ ساتھ دین کو بھی حاصل کرنے والے ہوں.وہ اسلام کی کھوئی ہوئی شوکت کو واپس لانے میں محمد ہوں اور دوسروں کو اس بات کا سبق دے سکیں کہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی ایک شخص حقیقی مومن ہوسکتا ہے اور دنیا کمانے سے ان کا ایمان کم نہیں ہوتا بلکہ ترقی کرتا ہے.“ الفضل 2 مارچ 1936ء) 1 : موضوعات کبیر ملاعلی قاری صفحہ 48 مطبع مجتبائی دہلی 1346ھ 2 گوچیں: گوچ: وہ آرام دہ کرسی جس پر نیم دراز لیٹ سکتے ہیں.گدے دار نشست ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 325 مطبوعہ کراچی 1993ء) 3:آل: کنیت.صفاتی نام.وہ نام جس سے کوئی مشہور ہو جائے.ذات.قوم پنجابی اردو لغت مرتبه تنویر بخاری صفحه 153 اردوسائنس بورڈ لاہور 1989ء)

Page 63

زریں ہدایات (برائے طلباء) 57 جلد چهارم بچپن کے نقوش ہی آئندہ زندگی کو سنوار سکتے یا اسے بدتر بنا سکتے ہیں 26 فروری 1937ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے طلباء نے موسمی تعطیلات پر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو نا تھا چنانچہ اس موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے صبح 9 بجے سکول کے ہال میں طلباء سے خطاب فرمایا جو حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:."میرے سامنے اس وقت کثرت بچوں کی ہے اور بچپن کی عمر ایک ایسی عمر ہے جس کا دوسری عمروں کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں کیا جاتا.ہاں اپنی عمر کے لحاظ سے تمہاری مثال اس بچے کی سی ہے جس کی ماں ایسے جنگل میں پھنس گئی ہو جہاں خوراک اور پانی میسر نہیں آتا.وہ رات اور دن پانی کی تلاش میں بھاگتی پھرتی ہے.اس کا گوشت پگھلنا شروع ہو جاتا ہے.اس کی ہڈیوں کا گودا گھلنا شروع ہو جاتا ہے.اس کی آنکھوں میں حلقے پڑ جاتے ہیں.اس کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے.اس کے کلے پچک جاتے ہیں.اس کے ہونٹ خشک کھال کی طرح ہو جاتے ہیں اور موت اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے.لیکن اس کا چھوٹا بچہ جس وقت چلا تا اور دودھ کے لئے بلبلاتا ہے اس کے خون کے آخری قطرے دودھ بن کر اس کی چھاتیوں میں آجاتے ہیں اور جس وقت کہ اس کی ماں کئی دنوں سے پانی کے ایک قطرے کو ترس رہی ہوتی ہے اس کا چھوٹا بچہ اس کی چھاتیوں سے چمٹ کر دودھ پی رہا ہوتا ہے.اس کے بچے کو معلوم نہیں ہوتا کہ پیاس کیا چیز ہے.اور اس ماں کو

Page 64

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 58 جلد چهارم معلوم نہیں ہوتا کہ پانی کیا چیز ہے.یا تمہاری مثال اپنے ماں باپ کے مقابلہ میں یا اپنے بزرگوں کے مقابلہ میں اس بچہ کی سی ہے جو ایک پہاڑ کے پیچھے سو رہا ہوتا ہے اور فوجوں کے زبر دست تو پخانے اس پر گولہ باری کر رہے ہوتے ہیں.وہ مضبوط چٹانیں جس کے بھیل 1 بعض دفعہ سینکڑوں فٹ کے ہوتے ہیں اس طرح ہوا میں اڑ رہے ہوتے ہیں جس طرح دھنکی ہوئی روئی ہوا میں اڑتی ہے.اس کے دائیں اور اس کے بائیں گولے آتے اور نکل جاتے ہیں مگر وہ پڑا ہوا سو رہا ہوتا ہے.وہ نہیں جانتا ضر ر کیا چیز ہے.وہ نہیں جانتا بدلہ کیا چیز ہے.وہ اس دنیا میں ہوتا ہے مگر اس کی دنیا با وجود قریب ہونے کے اور قسم کی دنیا ہوتی ہے.تم بھی اپنی اس عمر میں ان مشکلات اور ان مصائب اور ان آفات اور ان تکالیف کو نہیں سمجھ سکتے جو مصائب اور تکالیف جوانی اور ادھیڑ عمر میں بڑے لوگوں کو برداشت کرنی پڑتی ہیں.تم صرف ایک ہی بات جانتے ہو اور وہ یہ کہ تم منہ بسورو، اپنی آنکھوں میں پانی کے قطرے لے آؤ اور کہوا با! فلاں چیز لے دو، اماں فلاں چیز لے دو.اور اس کے بعد تم سمجھ لیتے ہو کہ دنیا کی ساری چیزیں تمہیں میسر آ گئیں.پس تمہاری دنیا امنگوں کی دنیا ہے.تمہاری دنیا امیدوں کی دنیا ہے.لیکن تمہارے ماں باپ کی دنیا ٹوٹی ہوئی امیدوں اور ضائع شدہ امنگوں کی دنیا ہے.تمہاری مثال نپولین کی اُس حالت سے ملتی ہے جب وہ ایک فاتح اور جرار لشکر لے کر اپنے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلا.جب وہ سمجھتا تھا کہ ساری دنیا اس کے قدموں کے نیچے ہے اور اس کے ایک ہی حملہ سے وہ بری طرح شکست کھا جائے گی.تم بھی انہی امنگوں کی دنیا میں سرشار ہو اور کہتے ہو کہ جو پہلوں نے نہیں کیا وہ ہم کر کے دکھائیں گے.مگر تمہارے ماں باپ کی دنیا نپولین کی اُس وقت کی دنیا ہے جب وہ سینٹ ہیلینا (St.Helena) میں قید تھا.جب وہ سمجھتا تھا کہ میرے نالے ہوا میں اڑ گئے.میری فریادیں بے کار گئیں.میری امید میں ضائع ہو گئیں اور میرے ولولے سب جاتے رہے.جب تمہارے ماں باپ بچے تھے وہ بھی ایسی ہی خواہیں دیکھتے تھے جیسی تم دیکھتے ہو.مگر ان کی خوابوں کی تعبیر ہوا میں اڑ گئی اسی طرح تم جو **

Page 65

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 59 جلد چهارم اب خواہیں دیکھ رہے ہو ان کی تعبیر بھی اُسی طرح اڑ جائے گی جس طرح تمہارے ماں باپ کے خوابوں کی تعبیر اُڑی.تم کو یہ نہیں معلوم کہ تمہارے آرام کی ہر گھڑی تمہارے ماں باپ کو جہنم میں دھکیل رہی ہے.جس وقت تم ایک اچھا لقمہ کھاتے ہو وہ لقمہ گیہوں کا نہیں کھاتے بلکہ اپنے ماں باپ کے خون کی بوٹیاں کھاتے ہو.جس وقت تم ایک اچھا کپڑا پہنتے ہو اس وقت تم روئی سے بنا ہوا کپڑا نہیں پہنتے بلکہ اپنے ماں باپ کا چمڑا ادھیڑ رہے ہوتے ہو.لوگ کہتے ہیں یہ دنیا کا سلسلہ کیوں چلایا گیا؟ میں کہتا ہوں یہ اس تکلیف کا بدلہ لینے کے لئے چلایا گیا ہے جو بچوں نے اپنے ماں باپ کو دی تا ان کے بھی بچے ہوں اور ان کو بھی وہی دکھ ہو جو ان کے لئے ان کے ماں باپ نے اٹھایا.جب وہ زمانہ آئے گا کہ تم بڑے ہو جاؤ گے، تمہاری امنگیں اپنے شباب پر ہوں گی اور تم کہو گے آج زمانہ آ گیا ہے کہ ہم شادیاں کریں اور اپنے گھر بسائیں.اُس وقت تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارے دائیں اور بائیں دکھ ہی دکھ ہے.تمہیں ہر چیز بری لگنی شروع ہو جائے گی اور وہی دن ہوگا جب تمہاری سزا کا وقت شروع ہوگا اور تم ان تمام امیدوں کو خاک میں ملتا دیکھو گے جو آج تمہارے دل میں پیدا ہورہی ہیں.اس سے پہلے کسی نے اپنے خواب کی وہ تعبیر نہیں دیکھی جو زمانہ اسے دکھاتا ہے، نہ تمہارے باپ نے ، نہ تمہارے دادا نے ، نہ تمہارے پردادا نے.جیسی تم اس وقت خواہیں دیکھتے ہو ویسی ہی خوا ہیں اپنی بچپن کی عمر میں وہ بھی دیکھا کرتے تھے.اور جیسے تم آج یہ سمجھتے ہو کہ تم دنیا کے بادشاہ ہو، تم اپنے ماں باپ سے کہتے ہو فلاں چیز ہمیں لے دو اور اس کے بعد تم سمجھتے ہو اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ تمہیں وہ چیز لے کر دیں.تم کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے ذرائع آمد کیا ہیں ، ان کے اخراجات کس قدر زیادہ ہیں اور انہیں مالی تنگی کس قدر لاحق ہے.تم صرف یہ جانتے ہو کہ جو کچھ تم نے مانگا وہ تمہیں مہیا کر دیا جائے.بعینہ اسی طرح وہ بھی اپنے بچپن کے زمانہ میں اپنے ماں باپ سے تقاضا کیا کرتے تھے.اور اب جو کچھ تم نے اپنے ماں باپ سے کیا ایک دن تم سے بھی کیا جائے گا.تمہارے بھی بچے ہوں گے.تمہاری بھی اولاد ہو گی اور وہ بھی تم سے اسی

Page 66

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 60 جلد چهارم طرح مطالبہ کرے گی جس طرح تم اب مطالبہ کر رہے ہو.اور وہ تم سے اسی طرح چمٹ کر یہ تقاضا کرے گی جس طرح جونکیں انسان کو چمٹ جاتی ہیں.یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا اور چلتا چلا جائے گا.پھر یہ زندگی کیا ہے جس میں تم پڑنا چاہتے ہو.اگر اس دن کا نقشہ تمہارے سامنے آجا تا تو تم کبھی اپنی امنگوں کو حد اعتدال سے بڑھنے نہ دیتے.اگر وہ نئی نویلی دلہن جو خوشی سے پھولی نہیں سماتی اور کہتی ہے اب میں اپنے گھر میں آبسی اُس دن کا نقشہ اپنے تصور میں لائے جب اس کا بچہ دانت نکال رہا ہوگا ، اس کی آنکھیں دکھ رہی ہوں گی، بخار اور اسہال سے نڈھال ہو رہا ہوگا اور پندرہ پندرہ دن اس کی تیمارداری میں اسے جاگنا پڑے گا.اور وہی مرد جو ابتدا میں بہادری سے اس کی خدمت کرنے کے لئے تیار تھا، جو اس پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے بھی آمادہ تھا اسے گالی دے گا اور کہے گا کمبخت! بچے کو سلاتی کیوں نہیں اس نے میری نیند حرام کر دی.تو کبھی وہ دکھاوے کے نقشہ سے بے جانخر میں مبتلا نہ ہو.مگر پھر کیوں یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا ؟ اسی لئے کہ اللہ تعالیٰ نے افزائشِ نسل کے لئے اس سلسلہ کی بنیاد محبت پر رکھی ہے جبر پر نہیں رکھی.اور چونکہ اس کی بنیاد محبت پر ہے اس لئے جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ کوئی چیز انہیں مل رہی ہے.یہ نہیں سمجھتے کہ ان کے لئے دکھ درد اور تکلیف کا سامان ہو رہا ہے.یہ محبت انسانی دل پر اس قدر غالب ہے کہ اگر کوئی شخص کسی ماں سے کہے کہ لاؤ اپنا بچہ مجھے دے دو میں اسے مار ڈالوں تا اس کی وجہ سے تمہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے تو وہ چیل کی طرح چھپٹا مار کر چاہے گی کہ اس کی آنکھیں نکال لے اور اگر ممکن ہو تو اس کا جگر چیر ڈالے.اسی لئے کہ وہ اپنے بچہ کی پرورش محبت کی وجہ سے کرتی ہے جبر کی وجہ سے نہیں کرتی.اگر جبر پر اس کی بنیاد ہوتی تو وہ کہتی بے شک لے جاؤ اور اسے مار ڈالو.تو اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو محبت پر چلایا ہے تا دنیا کا سلسلہ قائم رہے اور ایک لمبے عرصہ تک ختم نہ ہو.میرے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا وہ ایم اے تھا.کہنے لگا میں کسی خدا کا قائل نہیں.میں نے کہا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ دنیا میں اس قدر مشکلات اور مصائب

Page 67

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 61 جلد چهارم ہیں کہ میں ہرگز نہیں سمجھ سکتا کہ اس دنیا کو خدا نے بنایا ہے.اور اگر خدا نے ہی دنیا کو مشکلات میں ڈالا ہے تو پھر وہ ہر گز رحم کرنے والا نہیں.میں نے کہا آخر تمہیں کیا ہوا اور کیوں اس قسم کے خیالات تمہارے دل میں پیدا ہوئے؟ وہ کہنے لگا دنیا میں کوئی خوشی کا سامان نہیں.ہر طرف دکھ ہی دکھ اور تکلیف ہی تکلیف ہے.میں نے کہا آپ برا تو نہ منائیں گے اگر میں اس کا جواب دوں.وہ کہنے لگا برا کیوں منانے لگا ہوں.میں تو چاہتا ہوں کہ میرے اس سوال کا کوئی شخص جواب دے.میں نے کہا اس کا جواب بالکل آسان ہے.کہنے لگا کیا ؟ میں نے کہا آپ بازار میں چلے جائیں وہاں آپ کو رسی کے کئی ٹکڑے مل جائیں گے.آپ ایک رسی کا ٹکڑا لے لیں اور اس سے پھانسی لے کر مر جائیں.وہ کہنے لگا میں نہیں سمجھتا تھا آپ اتنی سختی سے مجھے جواب دیں گے.میں نے کہا میں نے آپ سے کوئی سختی نہیں کی.میں نے تو آپ کے قید خانہ کے دروازہ کو کھولنے کا طریق بتایا ہے.جب یہ دنیا مصیبت ہی مصیبت ہے اور اس کا آپ کے دل پر اتنا گہرا اثر ہے کہ آپ سمجھتے ہیں یا تو اس دنیا کو کسی خدا نے نہیں بنایا اور اگر واقعہ میں خدا نے بنایا ہے تو وہ ظالم ہے تو جو اس مصیبت سے نکلنے کا آسان ترین راستہ ہے وہ میں نے آپ کو بتا دیا ہے.اس پر کچھ پیسے بھی خرچ نہیں ہوں گے.رسی کے کئی ٹکڑے آپ کو آسانی سے مل سکتے ہیں آپ پھانسی لیں اور مر جائیں گھبراتے کیوں ہیں.وہ کہنے لگا یہ تو غلط طریق ہے.اب میں دنیا میں آچکا ہوں اور خود بخود اس سے نہیں نکل سکتا.میں نے کہا دکھوں کی دنیا میں جو شخص آیا کرتا ہے وہ اس سے نکلنے کی کوشش کیا کرتا ہے.کیا آپ نے کبھی سنا کہ قید خانہ میں جا کر کوئی شخص کہے کہ اب تو میں قید خانہ میں آ گیا ہوں اب خواہ مجھے کوئی نکلنے کا کیسا ہی اعلیٰ طریق بتائے میں اس سے فائدہ نہیں اٹھاؤں گا ؟ جب نہیں تو میں نے ایک آسان طریق آپ کو بتا دیا ہے جو دراصل یہ سمجھانے کے لئے ہے کہ آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ غلط ہے.پھر میں نے کہا یہ تو الگ بات رہی کہ تم اس مصیبت سے نکلنے کے لئے کیا کرو.سوال یہ ہے کہ جو لوگ خود کشی کر لیتے ہیں تم انہیں پاگل کہتے ہو یا نہیں؟ یہ ڈاکٹروں

Page 68

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 62 جلد چهارم کا عام خیال ہے کہ جو لوگ خود کشی کرتے ہیں وہ کسی عارضی جنون کے نتیجہ میں کرتے ہیں.پس جب خود کشی کرنے والوں کو پاگل کہا جاتا ہے اور آپ بھی ایسے شخص کو پاگل ہی کہیں گے تو تمہارا ان کو پاگل کہنا بتاتا ہے کہ تم اس دنیا کو مصیبت کی دنیا نہیں سمجھتے بلکہ یہ سمجھتے ہو کہ گو یہ مصیبت کی دنیا ہے مگر یہ کسی بڑی نعمت کا پیش خیمہ ہے.اور جو مصیبت کسی نعمت کا پیش خیمہ ہوا سے کوئی شخص برانہیں کجھتا.تو اس دنیا کی مشکلات بظاہر ایسے ہیں کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا میں آنا عذاب ہے مگر اس عذاب کی دنیا سے اپنی خوشی سے جاتا کوئی نہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عذاب میں بھی رحمت کا سامان موجود ہے اور ان رحمت کے سامانوں کی وجہ سے ہی انسان عذاب برداشت کر لیتا ہے.چنانچہ ان رحمت کے سامانوں کا اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے ابتدا میں ہی ذکر کیا اور فرمایا الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 2 یعنی سب تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے.اب یہ ہر شخص جانتا ہے کہ جب دنیا میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں تعریف کا مستحق ہے تو یہ اسی موقع پر کہا جاتا ہے جب اس سے انسان کو کوئی فائدہ حاصل ہوا ہو یا اس کے کام کی وجہ سے اسے خوشی ہو.یہ نہیں ہوتا کہ مثلاً جلا رجب کسی شخص کو پھانسی پر لٹکائے تو پھانسی پر لٹکنے والا کہے کہ جلاد کا درجہ بلند ہو اور اس کی شان ارفع ہو.وہ تو اس کو گالیاں دے گا اور اسے برا بھلا کہے گا.تو جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا کی شان ارفع ہو، اس کی حمد دنیا میں ظاہر ہو تو اس کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس پر احسان کیا ہے جس کا وہ ان الفاظ میں شکریہ ادا کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں مومن کو اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب تم قرآن پڑھنے لگو تو تمہاری قلبی حالت ایسی ہو سکتی ہے کہ تم اس دنیا کو مصیبت کی زندگی قرار دو اور اس دنیا میں آنے کو ایک عذاب سمجھو مگر فرمایا الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اگر تمہاری صرف یہی زندگی ہوتی تب بے شک یہ زندگی عذاب تھی مگر تمہاری یہی زندگی نہیں بلکہ اور بھی انسان کی کئی زندگیاں ہیں بلکہ اسی زندگی کے متوازی ایک روحانی زندگی بھی ہے جو انسان کو اگر حاصل

Page 69

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 63 جلد چهارم ہو جائے تو باوجود اس دنیا کے تمام دکھوں کے وہ خوشی محسوس کرتا اور تمام تکالیف کو بھول جاتا ہے.حضرت خلیفتہ المسح الاول سنایا کرتے تھے کہ بھیرہ میں ایک بڑھیا عورت رہتی تھی وہ بہت ہی غریب تھی اور اس کے گزارہ کی کوئی صورت نہ تھی.ایک دن مجھے خیال آیا کہ اس کے پاس چلیں اور اس سے دریافت کریں کہ کسی چیز کی اسے ضرورت تو نہیں.میں اس کے پاس گیا اور کہا اماں! کوئی ضرورت ہو تو بتاؤ میں خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں.وہ کہنے لگی سُبحَانَ اللهِ مجھے کیا ضرورت ہو سکتی ہے.میری ہر ضرورت اللہ تعالیٰ نے پوری کی ہوئی ہے.آپ فرمانے لگے میں نے پھر کہا نہیں کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ.وہ کہنے لگی بیٹا ! ایک میں ہوں اور ایک میرا لڑکا ہے.روٹی ہمیں اللہ تعالیٰ بھیج دیتا ہے، سونے کے لئے ہمارے پاس چار پائی موجود ہے اور ایک لحاف بھی ہے.ہم ماں بیٹا اسی ایک چارپائی پر سو جاتے ہیں.جب کچھ دیر کے بعد میرا ایک پہلو ٹھنڈا ہو جاتا ہے تو میں کہتی ہوں بیٹا! اپنا پہلو بدل لو.وہ بدل لیتا ہے اور اس طرح مجھے اپنا دوسرا پہلو گرم کرنے کا موقع مل جاتا ہے.اور جب میرے بیٹے کا ایک پہلوٹھنڈا ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اماں! دوسرا پہلو بدل لے اور میں بدل لیتی ہوں اور اس کا پہلو گرم ہو جاتا ہے.غرض اسی طرح ہماری ساری رات گزر جاتی ہے.پھر ہمارے پاس ایک موٹے حروف کا قرآن شریف موجود ہے جو ہم سارا دن پڑھتے رہتے ہیں.اس کے علاوہ ہمیں اور کیا چاہتے.ایک دنیا دار انسان اگر ایسی عورت کو دیکھے تو وہ کہے گا کہ یہ پاگل ہوگئی.لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کی تکلیفوں نے اسے کیوں متاثر نہ کیا اور ان کی غربت کی حالت اور ان کے لباس کے فقدان نے کیوں انہیں بے تاب نہ کر دیا.یہ حقیقت ہے کہ دنیا اپنی تمام کششوں اور اپنے تمام لشکروں کے ساتھ اس بڑھیا عورت اور اس کے بچہ پر حملہ آور ہوئی.مگر ان کے دل کی جنت نے ان کے جنموں کو ٹھنڈا کر دیا اور وہ رحمت کا پانی جو ان کے اندر سے نکل رہا تھا اس نے دنیا کے غضب کی آگ کو بجھا دیا.بھلا اس سے زیادہ اور کیا تکلیف ہو سکتی

Page 70

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 64 جلد چهارم ہے کہ نہ کپڑا میسر ہو نہ عمدہ کھانا صرف ایک لحاف تھا جس میں ایک ادھیڑ عمر کا لڑکا اور ایک بڑھیا پھونس 3 سوتی تھی مگر ان کے نزدیک دنیا کی ساری نعمتیں انہیں میسر تھیں.گھر میں ان کے لئے کوئی راحت کا سامان نہ تھا.ان کے بچے نہ تھے.وہ لڑکا شادی شدہ نہ تھا.گویا آئندہ نسل کے جاری رہنے کا بھی کوئی امکان نہ تھا.اگر کوئی دنیا دار ہوتا تو یہ حالت دیکھ کر وہ رو رو کر اپنی آنکھیں ضائع کر لیتا.مگر وہ بڑھیا عورت کہتی ہے قرآن میرے پاس موجود ہے اس کے علاوہ مجھے اور کیا چاہئے.تو قرآن سے جو راحت وہ حاصل کرتی تھی وہی راحت دنیا کے تمام عذابوں کو ٹھنڈا کر دیتی اور دنیا کے رنجوں کو خوشی میں بدل دیتی تھی.ایک دنیا دار بے شک کہے کہ یہ جہالت ہے ، یہ بے وقوفی اور نادانی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ اس کے نزدیک جہالت ہے.ان لوگوں کے نزدیک جہالت نہیں جنہوں نے روحانی زندگی حاصل کی.لیکن خواہ اس کا نام جہالت رکھ لو تمہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ ایک چیز دنیا میں ایسی موجود ہے جو دنیا کی تمام تکلیفوں اور دکھوں کو ٹھنڈا کر کے ان کو راحت میں بدل دیتی ہے.پھر اس کے بعد دیکھ لو ایسے عالم لوگ جن کے علم کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ، جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تغیرات پیدا کر دیئے ہیں مثلاً انبیاء اور صحابہ کرام ان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو دنیا میں تکالیف کے لحاظ سے انتہاء درجہ تک پہنچ گئے مگر ان کے کی کیا دل کی خوشیاں نہیں گئیں.رسول کریم ﷺ نے ایک دفعہ ایک صحابی کو جوا بھی نوجوان لڑکا تھا دیکھا کہ وہ غمگین صورت بنائے کھڑا ہے.رسول کریم ﷺ نے اسے فرمایا تم غمگین کیوں ہو؟ وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! میرا باپ بدر کی جنگ میں شہید ہو گیا ہے اور میں اس غم کی وجہ سے افسردہ شکل ہوں.آپ نے فرمایا میں تمہیں بتاؤں کہ مرنے کے بعد تمہارے باپ سے کیا کیفیت گزری.سنو! اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاما بتایا ہے کہ تمہارے باپ کی روح مرنے کے بعد اللہ تعالٰی کے سامنے پیش کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر کہا میرے بندے! تیری کوئی خواہش ہو تو مجھ سے بیان کر.میں تیری ہر خواہش پوری کروں گا.تمہارے باپ نے اس صلى الله

Page 71

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 65 جلد چهارم کے جواب میں کہا کہ اے میرے رب! میری خواہش یہ ہے کہ مجھے پھر دوبارہ زندہ کرتا میں پھر تیری راہ میں اپنی جان دوں، اور پھر زندہ کر اور پھر اپنی راہ میں وفات دے4 اب یہ لوگ جاہل نہیں تھے اور نہ دنیا ان کو کبھی جاہل کہہ سکتی ہے.کیونکہ ان لوگوں نے دنیا میں علوم کے دریا بہا دیئے اور دنیا کو انہوں نے وہ کچھ دیا جو نہ ایران دے سکا نہ روم دے سکا.انہوں نے دنیا کو وہ علوم سکھائے کہ آج یورپ بھی انہی کی خوشہ چینی کر رہا ہے.تم کو جو تعلیم دی جاتی ہے شاید اس کے ماتحت میری اس بات پر تم تعجب کرو اور کہو کہ یورپ کب مسلمانوں کے علوم پر فخر کرتا ہے.مگر حقیقت یہی ہے کہ تمہارے کورسوں میں بھی ان باتوں کو چھپایا جاتا ہے.ہاں بعض علیحدہ کتابیں ہیں جن میں ان تمام امور کا ذکر ہے اور جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ علم طب اور علم فلسفہ اور علم ہندسہ اور علم ہیئت اور علم منطق اور اسی طرح کے اور بیسیوں علوم ایسے ہیں جو عربوں سے یورپ نے سیکھے.حتی کہ ان علوم کے متعلق جس قدر اصطلاحات ہیں وہ بھی عربوں کی ہی نقل کی ہوئی ہیں.اور تو اور میوزک کے متعلق میں نے ایک کتاب دیکھی ہے جس میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ آجکل گانے بجانے کے متعلق جس قدر تازہ قوانین بنائے گئے ہیں وہ سب کے سب حتی کہ ان کے متعلق اصطلاحات بھی عربوں کی کتب سے لی گئی ہیں.پھر اس ضمن میں وہ ایک عجیب بات کا ذکر کرتا ہے وہ برٹش میوزیم کی ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس کے مصنف نے پادریوں سے پوچھا کہ فلاں فلاں علم کی کتابیں مسلمانوں میں نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں.کیا میں مسلمانوں کی ان کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کر سکتا ہوں؟ وہ لکھتا ہے کہ بشپ نے اس کے جواب میں اسے لکھا کہ ترجمہ تو بے شک کرو مگر مسلمانوں کا نام کہیں نہ لو اور اشارہ بھی یہ ذکر نہ کرو کہ تم کسی مسلمان کی کتاب کا ترجمہ کر رہے ہو ایسا نہ ہو کہ ہمارا مذہب خراب ہو جائے.پھر وہ لکھتا ہے کہ اس بشپ کا یہ خط برٹش میوزیم میں آج تک موجود ہے.غرض آج جس قدر علوم رائج ہیں اور جن پر یورپ فخر محسوس کرتا ہے وہ سب کے سب یا ان کا ایک معتد بہ حصہ

Page 72

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 66 جلد چهارم ایسا ہے جو مسلمانوں سے آیا.ابن رشد کا فلسفہ آج سے سو سال پہلے پیرس کی یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا تھا.مگر لوگوں کو مغالطہ میں رکھنے کے لئے اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ گویا یہ فلسفہ کسی انگریز کی دماغی کاوش کا نتیجہ ہے ابن رشد کو ایور ریس (Averroes) کہا جاتا ہے.اسی طرح بوعلی سینا کا قانون پڑھایا جاتا اور کہا جاتا کہ یہ ایوے سینا (Avicenna) کا قانون ہے.گویا ناموں میں ذرا سا فرق کر دیا گیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں نے بھی جب ان علوم کو انگریزوں کی کتابوں میں پڑھا تو انہوں نے یہ سمجھا کہ یہ کسی یوروپین مصنف کی تصنیف ہے.حالانکہ وہ مسلمانوں کی تصنیف ہوا کرتی تھی.لطیفہ یہ ہے کہ ایک دفعہ جب کہ مسلمانوں کی ترجمہ شدہ کتابیں روم کی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی تھیں بعض نئے علوم نکلے جن کی بناء پر عیسائیوں نے یہ کوشش کی کہ ان کتابوں میں سے بعض حصے نکال دیئے جائیں.اس پر پادریوں نے کفر کے فتوے دیئے اور کہا کہ اگر ان حصوں کو نکالا جائے گا تو کفر ہو جائے گا.گویا مسلمانوں کی کتابیں ایک لمبے عرصہ تک اپنے ہاں رائج رہنے کی وجہ سے پادری یہ سمجھنے لگ گئے کہ یہ عیسائیوں کی ہی کتابیں ہیں اور اگر کسی حصہ کو نکالا گیا تو کفر ہو جائے گا.تو یہ جو میں نے کہا ہے کہ یورپ اب بھی مسلمانوں کے علوم پر فخر کرتا ہے اس کی گواب تمہیں سمجھ نہ آئے مگر جب تم بڑے ہو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ یہی بات درست ہے جو میں نے کہی.غرض وہ لوگ ایسے تھے جنہوں نے دنیا کو علم سے بھر دیا مگر ان کو بھی خدا نے جنت دی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا تھا کہ دنیا کی تکلیفیں تکلیفیں نہیں بلکہ وہ ان تمام تکلیفوں کو عین راحت سمجھتے اور اس بات پر فخر کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان تکلیفوں کے برداشت کرنے کا موقع دیا.حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ ایک لڑائی میں شل ہو گیا تھا حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت جب سب سے پہلے انہی سے کرائی گئی تو کسی نے یہ فال لی تھی کہ جس

Page 73

زریں ہدایات (برائے طلباء) 67 جلد چهارم الله طرح طلحہ کا ہاتھ شل ہے اسی طرح یہ خلافت بھی ہمیشہ شل رہے گی.مگر ان کا ہاتھ کس طرح مثل ہوا؟ احد کی جنگ میں جب دشمنوں نے رسول کریم ﷺ پر حملہ کر دیا اور اسلامی لشکر ایک حادثہ کی وجہ سے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں منتشر ہو گیا تو اُس وقت حضرت طلحہ نے اپنا ہاتھ رسول کریم ﷺ کے آگے کر دیا تا کہ جو تیر بھی آئے ان کے ہاتھ پر لگے رسول کریم اللہ کی طرف نہ جائے.اب جس قدر تیر آتے وہ حضرت طلحہ اپنے ہاتھ پر لیتے جاتے.یہاں تک کہ تیر لگتے لگتے ان کا ہاتھ شل ہو گیا 5 اب تم اس کے مقابلہ میں پنے آپ کو دیکھو اور سوچو کہ کتنی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر تم گھبرا جاتے ہو.کسی شخص کو ایک تیر لگ جائے تو وہ رونے لگ جاتا ہے مگر انہیں تیروں پر تیر لگتے تھے اور وہ اُف تک نہیں کرتے تھے یہاں تک کہ تیر لگتے لگتے ان کا ہاتھ شل ہو گیا اور ہمیشہ کے لئے بیکار ہو گیا.بعد میں ایک دفعہ کسی موقع پر ایک شخص نے انہیں لنجا کہہ دیا.تو انہوں نے کہا ہاں ! میں لنجا ہوں مگر تمہیں پتہ ہے میں کس طرح گنجا ہوا ؟ پھر انہوں نے تمام واقعہ سنایا اور کہا کہ تم تو مجھے لنچا کہہ کر ایک عیب میری طرف منسوب کرتے ہومگر میں یہ تکلیف برداشت کرنا اپنے لئے ہمیشہ باعث فخر سمجھتا ہوں.غرض تکلیف کی دنیا کو دیکھ کر حقیقت راحت بظاہر معدوم معلوم ہوتی ہے لیکن ہمیں اسی دنیا میں اس دنیا کے متوازی بعض غیر مرئی دنیا ئیں نظر آتیں اور بعض غیر مرئی عالم دکھائی دیتے ہیں جن عالموں اور دنیاؤں میں ایسی راحت ہے جو اس دنیا کی تکلیف کو بالکل بھلا دیتی ہے اس کی ایک مثال میں نے ایمان العجائز یعنی بڑھیا عورت کے ایمان سے پیش کی ہے جو ایمان تو ہوتا ہے مگر لوگ کہہ دیتے ہیں یہ عدم علم اور جہالت کا ایمان ہے.مگر دوسری مثال میں نے ایسے لوگوں میں سے ایک کی پیش کی ہے جنہوں نے دنیا میں علم کے دریا بہا دیئے اور اپنی قوت قدسیہ سے ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا کئے کہ دنیا آج تک ان کے طریق عمل کی نقل کرنے پر مجبور ہے.انہی میں سے ایک مثال حضرت عثمان بن مظعون کی بھی ہے.وہ چھوٹے بچے تھے، سترہ اٹھارہ سال ان کی عمر تھی اور رسول اکر م م ا الا اللہ

Page 74

زریں ہدایات (برائے طلباء) 68 جلد چهارم نہایت ہی پیارے تھے.دراصل رسول کریم ﷺ پر ابتدائی زمانہ میں ایمان لانے والے بالعموم نوجوان ہی تھے.سب سے بڑی عمر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے مگر ان کی عمر بھی اُس وقت 37 سال تھی.اور باقی لوگ جو آپ پر ایمان لائے وہ 11 سال سے 37 سال تک کی عمر کے تھے.اور جو بڑے بڑے صحابہ ہیں ان میں سے بالعموم وہ ہیں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مستقلی کرتے ہوئے 15 سے 21 سال کی عمر کے تھے.الله ان ہی میں سے ایک حضرت عثمان بن مظعون بھی تھے جن کی عمر 17 ، 18 سال کی تھی جب وہ رسول کریم ﷺ پر ایمان لائے.آپ ایک بڑے مالدار اور رئیس شخص کے بیٹے تھے جب ایمان لائے تو خاندان نے ان کا بائیکاٹ کر دیا.انہیں گھر سے نکال دیا اور کئی دکھوں میں انہیں اس قدر مبتلا کیا کہ مکہ میں رہنا ان کے لئے مشکل ہو گیا اور وہ ہجرت کر کے حبشہ گئے.کچھ عرصہ جب انہیں اور ان کے بعض دوسرے ساتھیوں کو وہاں رہتے گزر گیا تو کفار نے ایک دفعہ یہ مشہور کر دیا کہ مکہ میں امن ہو گیا ہے.جس سے ان کی غرض یہ تھی کہ جو لوگ مکہ سے ہجرت کر کے جاچکے ہیں وہ کسی طرح واپس آ جائیں اور ہم انہیں پھر تکالیف پہنچائیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور بعض صحابہ یہ خبر سن کر واپس آگئے.انہی میں حضرت عثمان بن مظعونؓ بھی تھے.جب وہ مکہ کے قریب پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان سے دھوکا کیا گیا ہے اور مکہ میں کوئی امن نہیں ہوا.اس پر بعض صحابہ پھر واپس چلے گئے.حضرت عثمان بن مظعون کی بھی یہی نیت تھی کہ واپس چلے جائیں مگر انہیں مکہ کا ایک رئیس مل گیا جو ان کے باپ کا بہت گہرا دوست تھا.وہ انہیں دیکھ کر کہنے لگا عثمان ! تم کہاں؟ وہ کہنے لگے میں نے خبر سنی تھی کہ مکہ میں امن ہو گیا ہے اس لئے واپس آ گیا مگر یہاں آ کر معلوم ہوا کہ یہ خبر بالکل جھوٹ ہے اس لئے اب ارادہ ہے کہ پھر حبشہ واپس چلا جاؤں.وہ رئیس کہنے لگا بھلا وطن سے اچھا مقام بھی کوئی اور ہو سکتا ہے تم یہیں رہو، تمہاری حفاظت کا میں ذمہ دار ہوں اور تمہارے متعلق میں یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ تم میری حفاظت میں ہو.چنانچہ وہ اپنی حفاظت میں انہیں مکہ لائے اور اعلان کر دیا کہ اب عثمان آئندہ سے

Page 75

زریں ہدایات (برائے طلباء) 69 جلد چهارم میری پناہ میں ہے.چنانچہ وہ آزادی سے پھرتے رہے.ایک دن اسی طرح مکہ میں پھر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا حضرت بلال اور بعض دوسرے صحابہ جو غلام تھے انہیں لوگ بری طرح مار پیٹ رہے ہیں.گرم گرم ریت پر انہیں گھسیٹا جاتا ہے اور بڑے بڑے پتھر ان کے سینہ پر رکھے جاتے ہیں.حضرت بلال چونکہ حبشی تھے اور انہیں اور کچھ نہیں آتا تھا اس لئے جوں جوں انہیں گھسیٹتے اور مارتے وہ یہی کہتے کہ احد، احد.جب حضرت عثمان بن مظعون نے دیکھا کہ صحابہ لہولہان ہو رہے اور کفار کے کوڑے کھا رہے ہیں تو ان کے دل کو سخت صدمہ پہنچا اور وہ اس رئیس کے پاس گئے اور کہا چا! میں آج تک تمہاری حفاظت اور پناہ میں تھا مگر آج میں نے مسلمانوں کی ایسی دل ہلا دینے والی حالت دیکھی ہے کہ اس کے بعد میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے دوسرے بھائی تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں تکالیف برداشت کریں اور میں آرام سے پھرتا رہوں.اس لئے آج سے میں آپ کی حفاظت سے دست بردار ہوتا ہوں.وہ کہنے لگا اگر میری حفاظت سے نکلے تو تمہارا وہی حال ہو گا جو دوسرے مسلمانوں کا ہو رہا ہے.کہنے لگے کوئی پرواہ نہیں.اس نے کہا پھر سوچ لو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں تمہیں کوئی تکلیف پہنچے.وہ کہنے لگے کہ میں کچھ سوچنا نہیں چاہتا میں اب یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ آپ کی حفاظت سے نکل جاؤں.آخر جب اس نے اس قدر اصرار دیکھا تو وہ خانہ کعبہ میں گیا اور اس نے اعلان کر دیا کہ اب عثمان میری حفاظت میں نہیں رہا.لیکن چونکہ وہ غلام نہیں تھے بلکہ آزاد تھے اور ایک مشہور رئیس کے بیٹے تھے اس لئے لوگوں نے انہیں کوئی تکلیف نہ دی.ایک دن عرب کے مشہور شاعر لبید جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور عرب کے مشہور ترین شعراء میں سے تھے کسی میلہ کے موقع پر مکہ میں آئے اور عرب کے بڑے بڑے رؤسا ان کا کلام سننے کے لئے جمع ہوئے.لبید اپنا کلام سنا رہے اور عرب کے رؤسا وجد میں آ کر جھوم رہے تھے کہ شعر سناتے سناتے انہوں نے یہ مصرع پڑھا الا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ

Page 76

زریں ہدایات (برائے طلباء) 70 جلد چهارم سنوسنو! اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے.یہ وہ تعلیم تھی جو مسلمانوں کو روزانہ دی جاتی تھی اس لئے جو نہی انہوں نے یہ مصرع پڑھا حضرت عثمان بن مظعون کہنے لگے ٹھیک کہا ٹھیک کہا.اب گوان کا یہ کہنا لبید کی تصدیق تھی مگر عرب کے ایک مشہور ترین شاعر کو ایک 17 ، 18 سالہ نوجوان کا یہ کہنا تعریف نہیں بلکہ ایک رنگ کی مذمت تھی.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے غالب اور ذوق اپنا کلام سنائیں تو ایک بچہ اٹھ کر کہے کہ خوب کہا.ایسے موقع پر کسی بچے کا ایک بڑے شاعر کے کسی شعر کی تعریف کرنا مدح نہیں بلکہ مذمت سمجھی جاتی ہے.چنانچہ جب حضرت عثمان بن مظعون نے کہا ٹھیک کہا ٹھیک کہا.تو لبید یہ سن کر سخت برافروختہ ہوا اور اس نے کہا اے مکہ والو! پہلے تو تم بہت مؤدب ہوا کرتے تھے مگر اب تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم میں سے ایک لڑکا اٹھتا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا ٹھیک کہا.کیا میں اپنے کلام کی تصدیق کے لئے ایک لڑکے کا محتاج ہوں ؟ یہ سن کر بعض لوگ جوش میں بھر گئے اور انہوں نے چاہا کہ آپ کو سزا دیں مگر وہ رئیس جس نے انہیں پناہ میں کچھ عرصہ رکھا تھا پاس ہی بیٹھا ہوا تھا.وہ کہنے لگا یہ بے وقوف نوجوان ہے جانے دو اور اس کی طرف توجہ نہ کرو.اور انہیں منع کیا اور کہا کہ اگر اب کوئی شعر پڑھا جائے تو بالکل نہ بولنا.اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا یہ دوسرا مصرع پڑھا کہ وَكُلُّ نَعِيمِ لَا مَــــــالَةَ زَائِــلُ کہ ہر نعمت جو انسان کو ملے گی آخر ختم ہو جائے گی.جب اس نے یہ مصرع پڑھا تو حضرت عثمان پھر بول اٹھے اور کہنے لگے یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے.جنت کی نعمتیں قائم رہنے والی ہیں.اب تم سمجھ سکتے ہو کہ جس شخص کی تصدیق پر شاعر کو غصہ آ رہا تھا اس کی تردید پرا سے کس قدر غصہ آیا ہو گا.چنانچہ لبید نے سخت ناراض ہو کر کہا میرے لئے یہ بات بالکل نا قابل برداشت ہے اور اب میں مکہ میں کبھی نہیں آؤں گا جہاں کسی شاعر کی عزت بھی محفوظ نہیں.ان لوگوں کی غذا چونکہ زبان دانی ہی تھی اس لئے جب انہوں نے دیکھا که لبید ناراض ہو گیا ہے تو ایک شخص جوش میں اٹھا اور اس نے گھونسہ تان کر ان کی ایک

Page 77

زریں ہدایات (برائے طلباء) 71 جلد چهارم آنکھ پر اس زور سے مارا کہ ان کی آنکھ کا ڈیلا باہر آ گیا.یہ دیکھ کر اس رئیس کو جو ان کے باپ کا دوست تھا سخت صدمہ پہنچا مگر چونکہ وہ مکہ کے رؤسا پر اپنا غصہ نہیں نکال سکتا تھا اس لئے جس طرح غصہ میں انسان بعض دفعہ اپنے بھائی یا کسی اور رشتہ دار کو کوسنے لگ جاتا ہے وہ بھی حضرت عثمان کو ملامت کرنے لگا اور کہنے لگا میں نے نہیں کہا تھا کہ میری حفاظت سے باہر نہ نکلنا.اگر آج تم میری حفاظت میں ہوتے تو کیوں کوئی شخص تمہاری آنکھ پر مگا مار کر اسے پھوڑ دیتا.حضرت عثمان نے جواب دیا تم تو میری اس ایک آنکھ کے نکلنے پر افسوس کر رہے ہو اور میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اس تکلیف کا انتظار کر رہی ہے 6 غرض وہ تکلیف جسے دیکھ کر ایک دشمن کا فر کو بھی رحم آ گیا حضرت عثمان نے اسے اپنے لئے عزت افزائی کا مقام سمجھا.یہی عثمان بعد میں بدریا احد کی جنگ میں شہید ہو گئے.رسول کریم ﷺ کو ان سے اتنی محبت تھی کہ آپ انہیں اپنے بیٹوں کی طرح سمجھتے.ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جب انہیں دفتا ر ہے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اور آپ فرماتے جاتے تھے عثمان پر اللہ تعالیٰ رحم کرے کہ اس نے دنیا میں کوئی سکھ نہیں دیکھا.اور جب رسول کریم ﷺ کا صاحبزادہ ابراہیم فوت ہو گیا تو حدیثوں میں آتا ہے آپ نے اس کی وفات پر اسے مخاطب ہو کر کہا جا! اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس 1 تو وہ ایک لڑکا تھا ویسی ہی عمر کا جس عمر کے کئی لڑکے تم میں بیٹھے ہیں مگر جب اس نے خدا کے نور کو دیکھ لیا اور اس عالم کی بجائے ایک دوسرے عالم کو پالیا تو اس عالم کے مقابلہ میں یہ دنیا اس کی نگاہ میں بے حقیقت ہو گئی.اور جس وقت دنیا یہ سمجھ رہی تھی کہ وہ جہنم میں ہے اُس وقت اسے یہ نظر آ رہا تھا کہ میں جنت میں ہوں.تو فرمایا الحمد لله رَبِّ الْعَلَمِينَ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں دکھ ہیں مگر یہ اُسی وقت تک محسوس ہوتے ہیں جب تک انسان کی نگاہ اس دنیا پر ہو.لیکن جب اس کے علاوہ بھی اور عالم ہیں اور ہمارا خدا وہ خدا ہے جس کا قبضہ اسی عالم پر نہیں بلکہ دوسرے عالموں پر بھی ہے تو

Page 78

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 72 جلد چهارم انسان اس کی حمد کئے بغیر کس طرح رہ سکتا ہے.انسان اُسی وقت اللہ تعالیٰ کی حمد سے کنارہ کشی کرتا ہے جب وہ دوسرے عالموں سے اندھا ہوتا ہے.وہ دکھوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے ہوتا کہ بس انہی دکھوں میں ہم مر جائیں گے.ان کا کوئی علاج ، ان کا کوئی بدلہ اور ان کے معاوضہ میں کوئی رحمت کا سامان نہیں.لیکن اگر وہ اس پردہ کو اٹھا کر دیکھے جو اس جہان اور اگلے جہان میں حائل ہے تو وہ بے اختیار کہے اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ اگر ای عالم کا وہ خدا ہو تا تب تو انسان کہہ سکتا تھا اس عالم میں خدا نے ہمارے لئے سکھ کا تو کوئی سامان پیدا نہیں کیا گو یہ بھی غلط ہے، گو یہ بھی نادانی ہے مگر اس کے علاوہ جب اس نے اور عالم بھی پیدا کئے ہوئے ہیں جن کو دیکھنے یا جنہیں حاصل کرنے کے بعد کوئی رنج اور کوئی دیکھ انسان کو نہیں رہتا تو بہر حال انسان یہ کہنے پر مجبور ہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.اللہ تعالیٰ نے خوشیوں اور امنگوں کے پورا ہونے کے لئے ایک اور دنیا پیدا کی ہوئی ہے.اگر تم اپنے لئے اس دنیا کو پیدا کرو جو روحانی دنیا ہے تو جس وقت دکھ تمہارے سامنے آئیں گے اور تمہارے لئے جہنم پیدا کرنا چاہیں گے وہ دنیا اس جہنم کو جنت میں بدل دے گی اور دنیا کے دوزخ کو دبا دے گی ، بجھا دے گی ، مٹادے گی اور ہمیشہ کے لئے نابود کر دے گی.لیکن یا درکھو اس جنت کے حصول کی تیاری کا وہی وقت ہے جو اب تمہیں حاصل ہے.پس تم خدا کی طرف توجہ کرو اور سمجھ لو کہ بچپن میں جو شخص خدا کی طرف توجہ کرتا ہے اسے جو انعام ملتے ہیں اس کا مقابلہ وہ شخص نہیں کر سکتا جو بڑھاپے میں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو.آج تمہارے دل پر جو بھی نقش پیدا کیا جائے گا وہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا.اگر نیکی کا کوئی نقش پیدا کرو گے تو نیک بنو گے.اگر بدی کا کوئی نقش پیدا کرو گے تو بد بن جاؤ گے.لیکن بہر حال اس وقت کے نقوش تمہاری آئندہ زندگی کو سنوار سکتے اور اسی وقت کے نقوش تمہاری آئندہ زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں.اگر تمہارے باپ کے پاس ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے جھوٹ بولو تو اس سے اسے اتنا نقصان نہیں پہنچ سکتا جتنا تمہیں اس وقت پہنچ سکتا ہے جب تمہیں آکر کوئی کہے کہ جھوٹ بولو.تمہارا باپ اگر

Page 79

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 73 جلد چهارم جھوٹ بول لے گا تو اس جھوٹ کا ایک عارضی اثر اس کے دل پر پڑے گا مگر تمہارے دل پر جونقش پیدا ہو گا وہ مستقل اور دائمی ہوگا.پس جو شخص تمہیں کہتا ہے جھوٹ بولو وہ صرف تمہیں عارضی نقصان نہیں پہنچا تا، ایک دن یا دو دن کے لئے تمہیں تباہی میں نہیں ڈالتا بلکہ مستقل طور پر تمہیں ایسے راستہ پر چلاتا ہے جس کے آگے تباہی ہی تباہی ہے اور جس سے واپسی تمہارے لئے ناممکن ہو گی.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ خاص فضل کرے اور تمہیں اپنے ہاتھ سے ہدایت کی طرف کھینچ لائے.ہے پس تم کو یہ یا درکھنا چاہئے کہ تم آج دنیا کے لئے ایک باغ لگا رہے ہو جس کی وجہ سے تم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.تمہارے باپ کی حیثیت ایک مالی کی سی ہےمگر تمہاری حیثیت اس شخص کی سی ہے جو باغ لگاتا ہے.یا تمہارے باپ کی مثال اُس شخص کی سی ہے جو مکان میں قلعی کرتا ہے اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جو مکان کی تعمیر کے وقت اس کی نگرانی کرتا ہے.قلعی اگر خراب ہو جائے تو پھر بھی کرائی جاسکتی ہے.لیکن اگر مکان کی بنیاد غلط رکھی جائے تو اس کا سوائے اس کے اور کوئی علاج نہیں ہو سکتا کہ اس مکان کو گرایا جائے.اور پھر ایک لمبی جدوجہد کے بعد اسے صحیح بنیادوں پر قائم کیا جائے.پس تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تمہاری مثال مالی کی سی نہیں بلکہ باغ لگانے والے کی سی ہے.اگر باغ کا ایک پھل ضائع ہو جائے تو مالی اس کی پرواہ نہیں کرتا.کہتا ہے اور بہت سے پھل موجود ہیں ایک پھل کی کمی لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب نہیں ہوسکتی.لیکن اگر باغ غلط لگایا جائے ، اگر عمدہ پودے اور اعلیٰ بیج مہیا نہ کئے جائیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ اس باغ کو کتنا شدید نقصان پہنچے گا.پس مت خیال کرو کہ جو کچھ تمہارے ماں باپ نے کیا وہ زیادہ اہم ہے.زیادہ اہم وہ ہے جو تم کر رہے ہو.تمہارے ماں باپ نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا لیکن تم جو کچھ اب کر رہے ہو اسی پر آئندہ دنیا کی تعمیر ہونے والی ہے.پس تمہاری اہمیت ان سے بہت زیادہ ہے.تمہارے ماں باپ کی مثال اُن فرشتوں کی سی ہے جو دنیا کے کام چلاتے ہیں مگر تم اپنے بچپن کی عمر میں خدا تعالیٰ کے ظل

Page 80

زریں ہدایات (برائے طلباء) 74 جلد چهارم ہو جنہوں نے ایک نئی روحانی دنیا پیدا کرنی ہے اور جو کچھ تم آج پیدا کرو گے اس کی فرشتوں کی طرح کل نگرانی کرو گے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول ایک نہایت ہی لطیف مثال دیا کرتے تھے جو تمہاری اس حالت پر بہت عمدگی سے چسپاں ہوتی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے جب آموں کا موسم ہوتا ہے اور بچے آم چوستے ہیں تو آموں کی گٹھلیاں زمین میں دبا دیتے ہیں جن میں سے کچھ دنوں کے بعد کو نیل نکلتی ہے.تب بچے کو نیل سمیت آم کی گٹھلی نکال لیتے ہیں اس کا چھلکا تو ڑ کر الگ پھینک دیتے ہیں اور اندر سے جو گٹھلی نکلتی ہے اسے رگڑ کر اس کی پپیاں بنا لیتے ہیں اور سارا دن اسے بجاتے اور پی پی کرتے رہتے ہیں.مگر فرمایا کرتے تھے کہ وہی کو نیل اگر بچہ نہ اکھیڑے اور آم کے پودا کو بڑا ہونے دے تو کچھ عرصہ کے بعد وہ اس قدر مضبوط درخت بن جائے گا کہ اگر وہ بچہ اپنے ماں باپ اور رشتہ داروں سمیت بھی اسے اکھیڑ نا چاہے تو نہیں اکھاڑ سکے گا.یہی حالت آجکل تمہاری ہے.آج اگر تم مستقل طور پر یہ ارادہ کر لو کہ تم نے اپنے دلوں میں ایمان داخل کرنا ہے، تم نے جھوٹ نہیں بولنا، تم نے خیانت نہیں کرنی تم نے دھوکا نہیں دینا تم نے قریب نہیں کرنا تم نے لڑائی اور جھگڑے سے اجتناب رکھنا ہے تو چند دنوں کے اندر ہی تمہارے اندر ایک انقلاب پیدا ہو جائے گا اور تم دنیا میں عظیم الشان کام سر انجام دینے کے اہل بن جاؤ گے.اور ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق تم میں قائم ہو جائیں گے کہ دنیا تمہارے مقابلہ میں بڑے بڑے مدبروں اور فلسفیوں کو حقیر سمجھنے لگے گی.لیکن اگر تم برے اخلاق سیکھو گے تو ساری عمر جہنم میں رہو گے اور گو ظاہری لحاظ سے تمہیں بڑائی بھی مل جائے گی ، رتبہ بھی مل جائے گا ، عزت بھی حاصل ہو جائے گی لیکن اگر تم جھوٹ بولنے والے ہو گے تو لوگ کہیں گے یہ آدمی ہے تو بڑا مگر جھوٹا ہے.اسی طرح اگر تم خیانت کرنے والے ہو گے تو تمہارے ہمسائے تمہارے پاس امانتیں نہیں رکھیں گے.تمہیں قرضہ کی ضرورت ہوگی اور تم اپنے کسی دوست کے ہاں لینے جاؤ گے تو با وجود اس کے کہ اس کے گھر میں روپیہ ہو گا وہ تمہیں قرض دینے سے انکار کر دے گا اور کئی قسم کے

Page 81

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 75 جلد چهارم بہانے بنا کر تمہیں ٹال دے گا.کبھی کہے گا کہ میرے پاس روپیہ نہیں، کبھی کہے گا روپیہ تو ہے مگر کسی اور دوست نے امانتاً میرے پاس رکھوایا ہوا ہے یا مجھے خود ایک سخت ضرورت در پیش ہے اور اس وجہ سے میں روپیہ نہیں دے سکتا.لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ تم دیانت دار ہو ، تم اسی وقت کسی سے قرض مانگنے جاتے ہو جب واقعہ میں تمہیں شدید ضرورت لاحق ہو تو وہ بلا تامل تمہیں قرض دے دے گا اور اگر اس کے پاس روپیہ نہیں ہو گا تو وہ کسی اور سے تمہارے لئے مہیا کرنے کی کوشش کرے گا.اسی طرح اگر تم بزدلی اور دون ہمتی مٹا کر کر اپنے اندر جرات اور دلیری پیدا کرو تو لوگ ہر قسم کے کام تمہارے سپرد کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس تمہارے لئے یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا وقت ہے.تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے کھیلنے کودنے کی عمر ہے مگر کاش ! تم یہ سمجھتے کہ یہ تمہارے کھیلنے کودنے کی عمر نہیں بلکہ ایک نئی دنیا بسانے اور ایک نیا عالم تعمیر کرنے کی عمر ہے.تم خدا کا ایک قل ہو جو ایک نئی دنیا بسا رہے ہو.جس وقت تاج محل کی آگرہ میں بنیاد میں رکھی جارہی تھیں کون کہہ سکتا تھا کہ ان بنیادوں پر کتنا بڑا محل تعمیر ہونے والا ہے.اسی طرح تم آج جس دنیا کی بنیادیں ڈال رہے ہو ظاہر بین نفوس کی نگاہ میں وہ ایک کھیل ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے.جو کچھ آج دنیا دیکھ رہی ہے وہ وہ دنیا ہے جو تمہارے ماں باپ نے بسائی.مگر جو کل دنیا دیکھے گی وہ وہ دنیا ہوگی جو تم بساؤ گے اور جس کی بنیاد آج تمہارے ہاتھ سے رکھی جا رہی ہے.لیکن نہ تم اپنی اہمیت سمجھتے ہو اور نہ تمہارے باپ دادوں نے اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا.لیکن بہر حال اگر نیکی اور تقویٰ کے ساتھ اس دنیا کی بنیاد رکھو گے تو خواہ لوگ حقیقت کو سمجھیں یا نہ سمجھیں مگر وہ اتنا ضرور کہیں گے کہ تمہارے ذریعہ آئندہ دنیا کو جو کچھ ملے گا وہ اچھا ہی ہو گا.لیکن اگر جھوٹ اور فریب اور لڑائی اور ستی اختیار کرو گے تو گو ہم یہ نہ کہ سکیں کہ تمہاری ان کوششوں کا کیا نتیجہ نکلے گا مگر ہم یہ ضرور کہہ سکیں گے کہ جو بھی نتیجہ ہو گا وہ خراب ہوگا.پس تمہاری ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں اور تمہارے کام بہت وسیع ہیں.تمہیں چاہئے کہ تم اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور کھیل کود میں اپنی عمر ضائع مت کرو اور یہی غرض ہے جو تحریک جدید میں میں نے

Page 82

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 76 جلد چهارم رکھی ہے.تم جو اس وقت میرے سامنے لڑکے بیٹھے ہو تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تحریک جدید کی صرف ایک ہی غرض ہے اور وہ یہ کہ ہم ایک نئی روحانی دنیا تعمیر کریں.وہ دنیا جو موجودہ دنیا کا نقشہ پلٹ کر رکھ دے اور روحانی اعتبار سے ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بن جائے.اس دنیا کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع خواہ ہمیں نہ ملے اس میں کیا شبہ ہے کہ ہم میں سے کوئی شخص جب بھی جان دے گا اس خوشی اور مسرت میں جان دے گا کہ اس نے ایک نئی دنیا کی بنیادیں رکھ دی ہیں.مگر یا درکھو یہ مقصد خواہ کس قدراہم ہے اس میں تمہاری مدد کے بغیر ہمیں کامیابی نہیں ہو سکتی.ہم نے تمہیں ایک نقشہ بتا دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ اس کے نقشہ کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھالو اور دنیا کو اپنے لئے مسخر کرلو.اس وقت اسلام کا جھنڈا ہر جگہ گرا ہوا ہے اور ہم تمہیں اس کی مدد کے لئے بطور سپاہی تیار کر رہے ہیں.اگر تمہارے دلوں میں اس کام کی محبت اور عظمت نہیں تو یا درکھو تم بڑے ہو کر کوئی کام نہیں کر سکتے.پس میں تم کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم اپنی ذمہ داری کو سمجھو اور اسلام کا ایک اچھا سپاہی بننے کی کوشش کرو تا تمہارے ہاتھ میں جب اسلام کا جھنڈا آئے تو وہ ایسی حالت میں آئے کہ مخالف تمہاری قوت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے اور وہ سمجھ لے کہ تمہارا مقابلہ کرنا کوئی آسان کام نہیں.پس اپنی عمر کو بے قدری کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ الْحَمْدُ لِله کے دروازہ سے گزر کر اس عمر سے فائدہ اٹھاؤ اور اپنے اعمال سے ایک ایسی عظیم الشان دنیا بساؤ جو تمام آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہو.جس طرح بڑے بڑے شہروں کو دیکھ کر لوگ ان کے نمونہ پر اپنے شہر بساتے اور بڑے بڑے باغات دیکھ کر ان کے نقشہ کے مطابق اپنے باغات تیار کرتے ہیں اسی طرح تم اتنی اعلیٰ اور اتنی شاندار دنیا بساؤ کہ تمام لوگ اس کی نقل کرنے پر مجبور ہوں ، تمام بہترین دماغ اس کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں اور تمام نسلیں اس کے نمونہ کو اختیار کرنے پر مجبور ہوں یہاں تک کہ اس دنیا کو دیکھ کر یورپ اور امریکہ کے لوگ بھی آئیں اور کہیں کہ نہیں بھی اس دنیا کے کسی کو نہ میں بیٹھنے کے لئے جگہ دو.“

Page 83

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 77 جلد چهارم الفضل 12،11، 16، 17 مارچ 1961ء) 1: بھیل : مرکب دھات ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 3 صفحہ 311 مطبوعہ کراچی (*1981 2: الفاتحة 2 3 پھونس: پھوس : بہت ضعیف ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 319، 320 مطبوعہ لاہور (+2011 :4 ترمذی ابواب تفسير القرآن باب ومن سورة آل عمران صفحه 677 حدیث 3010 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى 5 طبقات بن سعد جلد 3 صفحہ 217 مطبوعہ بیروت 1985ء 6 : سيرت ابن هشام جلد 1 صفحه 421 422 مطبوعہ دمشق 2005ء :7 : كنز العمال جلد 11 صفحہ 737 ، 738 حدیث 33606 تا 33608 مطبوعہ دمشق 2012 الطبعة الأولى

Page 84

زریں ہدایات (برائے طلباء) 78 جلد چهارم نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں ایک نہایت اہم خطاب اپنے آپ کو اسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنا ؤ اور اپنی زندگیوں کو اس رنگ میں ڈھالو کہ تم بڑے ہو کر اسلام کی خدمت کر سکو.بچے بہت جلد اثر قبول کرتے ہیں اس لئے ان کی حفاظت اور تربیت کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے 25 جولائی 1937ء کو 8 بجے صبح نصرت گرلز ہائی سکول قادیان کے اساتذہ، استانیوں اور طالبات سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک اہم خطاب فرمایا.جس میں آپ نے انہیں اسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ بنے اور نئی پود کی صحیح تربیت کرنے کی طرف نہایت لطیف پیرایہ میں توجہ دلائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ایک ایسا قانون جاری کیا ہے جس کے متعلق اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام مخلوق اس قانون کے ماتحت ہے.انسان بھی اس قانون کے ماتحت ہے.حیوان بھی اس قانون کے ماتحت ہیں.سبزیاں اور ترکاریاں بھی اس قانون کے ماتحت ہیں.پھل اور پھول بھی اس قانون کے ماتحت ہیں اور گھاس اور پھوس بھی اس قانون کے ماتحت ہے حتی کہ جمادات مثلاً پتھر اور لوہا وغیرہ بھی اس قانون کے ماتحت ہیں.وہ قانون یہ ہے کہ ہر چیز اپنے ہمسائے کے اثر کو قبول کرتی ہے.دنیا میں کوئی چیز منفر د یعنی اکیلی نہیں.ایسی ذات جو کسی اثر کو قبول نہیں کرتی بلکہ تمام دوسری چیزیں اس

Page 85

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 79 جلد چهارم سے اثر قبول کرتی ہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے باقی جتنی بھی چیز میں ہیں وہ ساری کی سماری دوسروں کے اثر کو قبول کرتی ہیں.یہ قانونِ الہی دنیا میں اس قدر جاری ہے کہ ہر چیز میں اس کا نفوذ پایا جاتا ہے.یہاں تک کہ بعض لوگوں نے اس قانون کو دیکھتے ہوئے یہ خیال کر لیا ہے کہ اس دنیا کے چلانے میں کسی بالا رادہ ہستی یا کسی بیرونی شے کا دخل نہیں بلکہ یہ آپ ہی آپ اُس طرف چلی جا رہی ہے جس طرف اس کا رخ ہے.جو لوگ اس فن کے ماہر ہیں انہوں نے تو تحقیقات سے یہ ثابت کیا ہے کہ مختلف جانوروں نے رنگ بھی اپنے ماحول سے قبول کئے ہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جو چیزیں جنگل میں رہتی ہیں اور تپتی ہوئی ریتوں میں ان کی زندگی بسر ہوتی ہے ان کے رنگ خاکستری ہوتے ہیں.اور جو چیزیں درختوں پر رہتی ہیں ان کے رنگ درختوں کے رنگوں کے مشابہ شوخ ہوتے ہیں.مثلاً طوطے بالعموم بڑیا گولر یا پیپل کے درختوں پر رہتے ہیں.ان کے رنگ انہی درختوں کے مشابہ ہیں جن پر وہ رہتے ہیں.تو ماہرین فن کہتے ہیں کہ ان جانوروں نے آہستہ آہستہ ان درختوں سے رنگ قبول کیا ہے جن پر وہ عموماً رہتے ہیں.اسی طرح جنگلوں میں رہنے والی چیزیں جنگلوں کے اس ماحول سے رنگ قبول کرتی ہیں جن میں وہ رہتی ہیں.مثلا تیتر ہیں ان کے رنگ ملتے ہیں ان جنگلات یا جھاڑیوں سے جن میں وہ رہتے ہیں.چنانچہ ان کے رنگ خاکستری ہوتے ہیں.غرض یہ قانون اس قدر حاوی ہے کہ پانی میں رہنے والی مچھلیاں بھی اس پانی کے مشابہ ہوتی ہیں جن میں وہ رہتی ہیں اور بعض پر تو پانی کی لہریں اس طرح بنی ہوئی ہوتی ہیں کہ اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پانی بہ رہا ہے.اسی طرح پتھروں میں بھی یہ باتیں پائی جاتی ہیں.اگر آپ میں سے کسی کو کبھی دریا پر جانے کا اتفاق ہوا ہوگا تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ دریا میں مختلف قسم اور مختلف رنگوں کے پتھر ہوتے ہیں ان پتھروں کی جس جس حصوں میں نشو و نما ہوئی ہے یا جس قسم کے پہاڑ پر وہ پڑے رہے ہیں آہستہ آہستہ انہوں نے اسی کے مطابق رنگ یا شکل اختیار کر لی.تو معلوم ہوا کہ تمام جمادات، نباتات اور حیوانات میں یہ بات

Page 86

زریں ہدایات (برائے طلباء) 80 جلد چهارم پائی جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے رنگ کو قبول کرتے ہیں اور ارد گرد کی شعاعوں ، ہواؤں ، روشنی کے انعکاس اور اپنے ماحول سے اثر کو قبول کرتے ہیں.یہاں تک کہ اس علم کا گہرا مطالعہ کرنے سے انسان یہ نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کہ شاید رنگ ہی دنیا کی پیدائش کا موجب ہوئے ہیں.اور ڈاکٹریوں میں سے ایک ڈاکٹری ایسی ہے جس میں لوگ صرف رنگوں سے علاج کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ صرف دنیا میں رنگ ہی سب کچھ ہیں.چنانچہ وہ مختلف قسم کی رنگ دار شیشیوں میں پانی بھر دیتے ہیں اور پھر اس سے بعض بیماریوں کا علاج کرتے ہیں اور بسا اوقات یہ علاج بڑے فائدے کا موجب ہوتا ہے.بعض بیماریوں کے لئے سرخ شیشیوں میں پانی بھر دیا جاتا ہے، بعض کے لئے زرد شیشیوں میں اور بعض کے لئے سبز شیشیوں میں.پھر سورج کی شعاعوں کا اثر قبول کرنے کے لئے انہیں رکھ دیا جاتا ہے.اور پھر بغیر کسی خارجی دوا کے ملانے کے وہ پانی بیماروں کو پلایا جاتا ہے اور ہزاروں لوگوں کو اس کے ذریعہ شفا ہوتی ہے.یہ طریق علاج انہوں نے اسی قانون کے ماتحت تجویز کیا ہے کہ ہر چیز اپنے پاس سے رنگ اور اثر قبول کرتی ہے.پس معلوم ہوا کہ یہ ایک ایسا زبردست قانون ہے کہ دنیا کے ہر شعبہ میں اس کا اثر پایا جاتا ہے.جمادات پر اس کا اثر ہے.نباتات پر اس کا اثر ہے.حیوانات پر اس کا اثر ہے.انسان پر وہ اثر انداز ہے.اس اثر کے متعلق بے جان چیزوں میں ایک موٹی مثال ہمارے ملک میں یہ پائی جاتی ہے کہ اگر شہد کو کسی کڑوی چیز کے پاس رکھ دیا جائے مثلاً اسے ایلوے کے پاس رکھ دیں تو گوشہد بند بوتل میں ہو گا مگر وہ کڑوا ہو جائے گا.اس کے علاوہ کئی تجربے ایسے کئے گئے ہیں کہ مختلف اشیاء بغیر تعلق کے ایک دوسرے کے پاس رکھ دی گئیں اور باوجود یکہ ان میں با ہم کوئی تعلق نہیں تھا ایک نے دوسری سے اثر قبول کرنا شروع کر دیا.پس جب یہ قانون اتنا جاری ہے تو جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ انسان پر صحبت کا اثر نہیں ہوتا اس سے زیادہ بے وقوف اور کون ہوگا.اگر پتھر اپنے ماحول سے اثر قبول کرتے ہیں.اگر جھاڑیوں کے نیچے رہنے والے جانور ان جھاڑیوں کا اثر قبول کرتے

Page 87

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 81 جلد چهارم ہیں.اگر درختوں پر رہنے والے پرندے ان کے اثر کو قبول کرتے ہیں ، اگر پانی کے اندر رہنے والی مچھلیاں پانی سے اثر قبول کرتی ہیں اور اگر پانی کے اوپر اور پانی کے نیچے رہنے والی مخلوق اپنے گردو پیش سے اثر قبول کرتی ہے تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ چیزیں جو اثر کو کم قبول کرتی ہیں وہ تو اثر قبول کریں لیکن انسان جو سب سے زیادہ اثر کو قبول کرتا ہے وہ اثر قبول نہ کرے.یہ ناممکن ہے.انسان چونکہ سب سے زیادہ اثر قبول کرنے والا ہے اس لئے وہ سب سے زیادہ اثر قبول کرے گا.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کل مَوْلُودٍ يُوْلَدُ عَلَى فِطْرَةِ الإِسْلامِ یعنی ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے آگے فرمایا فَاَبَوَاهُ يُهَوِدَانِهِ أَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَانِهِ 1 یعنی بچہ پیدا تو فطرت اسلام پر ہوتا ہے لیکن بعد میں اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا لیتے ہیں.گویا انسانی فطرت جو پاکیزہ ہوتی ہے اس کو ماں باپ یا صحبت کا اثر بدل کر کچھ کا کچھ کر دیتا ہے.انسان پر تو صحبت کا اثر سب سے زیادہ پڑتا ہے.دوسری چیزوں پر ظاہری اثر زیادہ پڑتا ہے اور باطنی اثر بہت کم.لیکن انسان پر باطنی اثر زیادہ پڑتا ہے اور وہ اس اثر کے ماتحت اس قدر بدل جاتا ہے کہ مومن سے کا فربن جاتا ہے.پس جب یہ معلوم ہوا کہ صحبت کا اثر اتنا گہرا پڑتا ہے تو آپ کو ہمیشہ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ بچوں کی جو سب سے زیادہ اثر قبول کرنے والے ہوتے ہیں بہت زیادہ حفاظت کریں.بچوں کی زندگی بہت اثر قبول کرنے والی زندگی ہے کیونکہ ان میں نقل کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا ہے اور وہ بہت جلد باتیں سیکھنے لگ جاتے ہیں.چھوٹے سے چھوٹا بچہ بھی حتی کہ پیدا ہوتے ہی بچہ پہلے منٹ میں کچھ نہ کچھ سیکھنے لگ جاتا ہے.دوسرے منٹ میں وہ اور زیادہ سیکھ لیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دومنٹ کا بچہ ایک منٹ کے بچے سے زیادہ سیکھ چکا ہوتا ہے اور تین منٹ کا بچہ دومنٹ کے بچے سے زیادہ سیکھ چکا ہوتا ہے اور اس طرح جوں جوں وہ بڑھتا ہے زیادہ سے زیادہ سیکھتا چلا جاتا ہے.پہلے رونے سے اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، پھر ہوں ہاں کرنے لگتا ہے اور پھر لفظ بولنے لگ جاتا ہے.اگر

Page 88

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 82 جلد چهارم بچہ پہلے منٹ میں ہی کچھ نہیں سیکھتا تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ وہ جو غذا سے بالکل عاری ہوتا ہے پہلے ہی منٹ میں ماں جب اس کے منہ میں اپنی چھاتیاں دیتی ہے تو وہ دودھ پینے لگ جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے کچھ ایسا قانون بنایا ہے کہ بچہ جو پیٹ میں سانس نہیں لیتا جب باہر آتا ہے تو ہوا لگنے کے ساتھ ہی اس کے پھیپھڑے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ سانس لینے لگتا ہے.اس کے ہونٹوں میں ایک حرکت پیدا ہوتی ہے اور اس حرکت سے ان میں ایک مزہ پیدا ہوتا ہے.چونکہ ہونٹوں کو ہلانے سے وہ ایک لذت محسوس کرتا ہے اس لئے ماں جب اپنی چھاتیاں اس کے منہ میں دیتی ہے تو وہ فوراً منہ ہلانے لگ جاتا ہے.ایک دو دفعہ منہ ہلانے سے جب وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پیٹ میں بھی تسکین کی حالت پیدا ہو رہی ہے تو وہ دودھ پینا سیکھ جاتا ہے.اور اصل میں وہ اُسی وقت پہلی دفعہ دودھ پینا سیکھتا ہے ورنہ پہلے تو وہ سانس لیتا ہے.پھر ہونٹ ہلاتا ہے.پھر ہونٹ ہلانے سے ایک مزہ پیدا ہوتا ہے اور یہ مزہ اسے دودھ پینا سکھاتا ہے.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ کی زندگی اتنی جلدی جلدی ترقی کرتی ہے کہ وہ ہزار ہا چیزیں ایک ہی وقت میں سیکھ رہا ہوتا ہے.وہ زبان بھی سیکھ رہا ہوتا ہے، اخلاق کے جذبات بھی سیکھ رہا ہوتا ہے، اعمال کے طریق بھی سیکھ رہا ہوتا ہے ، حفظانِ صحت کے قوانین بھی سیکھ رہا ہوتا ہے.غرض وہ ساری باتیں ایک وقت میں سیکھ رہا ہوتا ہے.لیکن بڑا آدمی اس طرح نہیں سیکھ سکتا.وہ ایک کام سے توجہ ہٹا کر ہی دوسری طرف توجہ مبذول کر سکتا ہے.چنانچہ اگر اس کی توجہ ایک طرف لگی ہوئی ہوگی تو وہ دوسری طرف سے غافل ہو گا لیکن بچہ کی زندگی ایسی نہیں.پس یہی وہ عمر ہے جس کی سب سے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہے.جو لوگ اس عمر میں بچوں کی حفاظت نہیں کرتے وہ گویا انہیں ایسے لوگوں کے قبضہ میں دے دیتے ہیں جو ان کے دشمن ہیں.آجکل یورپ میں ایک تحریک جاری ہے جو زیادہ تر بالشویک لوگوں سے تعلق رکھتی ہے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ بچے کو مذہب سکھانا جائز نہیں.وہ بڑا ہو کر خود بخو دسیکھ لے گا.

Page 89

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 83 جلد چهارم حالانکہ یہ بالکل پاگل پن کی بات ہے.کیونکہ بچہ تو کسی چیز کو شروع سے ہی سیکھنا شروع کر دیتا ہے.ظاہر ہے کہ بچے پر اگر ماں باپ کا اثر نہیں ہو گا تو اس پر دوسروں کا اثر پڑنا شروع ہو جائے گا.لیکن دوسرے چونکہ ماں باپ سے زیادہ بچہ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے اور ممکن ہے اس کے بدخواہ ہی ہوں اس لئے بچے کو وہی تعلیم ملنی چاہئے جو اس کے سب سے زیادہ خیر خواہ اسے دیں.اور اسے وہی اثر قبول کرنا چاہئے جو اس کے سب سے زیادہ خیر خواہ اس پر ڈالیں.مثلاً ایک عیسائی ماں باپ کو اپنے بچوں کو عیسائی ہی بناتے ہیں مگر ساتھ ہی نیکی کی تعلیم بھی دیتے ہیں، سچ بولنے کی تلقین کرتے ہیں ، جھوٹ سے منع کرتے ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتے کہ ان کا لڑکا بدمعاش ہو جائے یا جھوٹ بولے.گو وہ یہ سکھائیں گے کہ حضرت عیسی خدا کے بیٹے تھے یا یہ کہ خدا تین ہیں.اور گو یہ تعلیم غلط ہے لیکن وہ اسے سچ سمجھ کر اسے سکھائیں گے اور اسے تلقین کریں گے کہ ہمیشہ سچ پر قائم رہنا.اور گو عیسائیت کی تعلیم جو وہ اسے دے رہے ہوں گے غلط ہو گی مگر اس کے پیچھے جو روح ہے وہ صحیح ہوگی.مثلاً ایک ہندو اپنے لڑکے یا لڑکی کو بے شک یہی تعلیم دے گا کہ مندروں میں جانا چاہئے ، مورتی کی پوجا کرنی چاہئے ، گو یہ تعلیم غلط ہے مگر یہ تعلیم ہی اسے یہ سکھاتی ہے کہ نیک بننا چاہئے ، سچ بولنا چاہئے ، بددیانتی اور غیبت سے پر ہیز کرنا چاہئے اور خدا سے ڈرنا چاہیئے.یہی حال سکھوں ، یہودیوں اور مسلمانوں کا ہے.ہر ماں باپ اپنے بچوں کو اپنی اپنی تعلیم دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی ان کے دل میں سچائی کو قبول کرنے کا مادہ بھی دیکھتے ہیں.مگر غیر آدمی سے نیکی کی تعلیم کی توقع نہیں کی جاسکتی.بالکل ممکن ہے وہ جھوٹ، بددیانتی اور چوری وغیرہ کی تعلیم دے.پس معلوم ہوا کہ ماں باپ غلط تعلیم تو دے سکتے ہیں مگر بالعموم کوئی نہ کوئی نیک بات بھی اپنے بچوں کے دلوں میں ڈالتے رہیں گے اور یہی نیک بات کسی نہ کسی وقت ان کے کام آئے گی.مثلاً جب ایک ہندو اپنے بچے کو دیانت داری کی تعلیم دیتا ہے تو جب وہ بچہ بڑا ہو کر یہ دیکھے گا کہ اسلام سچا مذہب ہے تو وہ اس دیانت داری کے اثر کے ماتحت اسلام کو قبول کرے گا.اسی طرح ایک عیسائی کے والدین اپنے لڑکے یا

Page 90

زریں ہدایات (برائے طلباء) 84 جلد چهارم لڑکی کو عیسائیت کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی اسے دیانت داری اور نیک کاموں کی تلقین کرتے ہیں تو وہ بڑے ہو کر اگر مسلمان نہیں ہوں گے تو دیانتداری سے اسلام کا مقابلہ کریں گے اور جب دیکھیں گے کہ اسلام سچا مذہب ہے تو وہ اسے قبول کر لیں گے.لیکن اگر کسی کو بد دیانتی، جھوٹ ، فریب یا دھوکا بازی کی تعلیم دی گئی ہوگی تو لاکھ سچائی کا راستہ اسے بتاؤ وہ کہے گا کہ مجھے تو سچائی کی تلاش ہی نہیں.میں تو انہی طریقوں سے روزی کمانے کو جائز سمجھتا ہوں جو مجھے بتائے گئے ہیں.اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بچوں کو ماں باپ کے سپرد کیا ہے.گو یہ سچ ہے کہ ہر بچہ اسلام کی فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے اور بعد میں عیسائی، یہودی ، سکھ یا ہندو بنتا ہے.لیکن قرآن کریم یہ نہیں کہتا کہ زبردستی دوسروں کے بچوں کو اپنے ہاں لے آؤ اور انہیں مسلمان بنالو.ان کے والدین انہیں غلط تعلیم دیتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کے دل میں سچ کے قبول کرنے کا مادہ بھی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں.اس طرح جب وہ بڑے ہوں گے تو جہاں ان میں یہودیت، ہندویت یا عیسائی مذہب کی محبت پیدا ہوگی وہاں اسلام کو قبول کرنے کا مادہ بھی ان میں موجود ہو گا.اُس وقت جب اس مرد یا عورت کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کی جائے گی تو ماں باپ کی نیکی کے اثر اور تعلیم کی وجہ سے وہ اسلام کو قبول کریں گے.لیکن اگر ماں باپ کے زیر سایہ بچہ کی تربیت نہ ہوئی ہو بلکہ وہ غیروں کے اثرات کا شکار ہو گیا ہو تو وہ نہ صرف یہودی نہ ہوگا اور نہ صرف عیسائی نہ ہوگا اور نہ صرف ہندو نہ ہوگا بلکہ اس کی فطرت بھی گندی ہوگی اور وہ سچائی کو قبول نہیں کرے گا.اسی وجہ سے اسلام نے بچوں پر ماں باپ کے حق کو مقدم رکھا ہے.والدین بالعموم نا دانستہ طور پر جھوٹ یا خیانت کی تعلیم دیتے ہیں دانستہ طور پر عمداً ایسا نہیں کرتے.غرض میں نے بتایا ہے کہ بہترین اثر قبول کرنے کا وقت بچپن کا زمانہ ہی ہے.ماں باپ سے اتر کر دوسرا درجہ استادوں کا ہے.کیونکہ بعض تعلیمیں ایسی ہوتی ہیں جو ماں باپ نہیں دے سکتے اس لئے وہ اپنے بچوں کو مدرسوں میں ڈالتے ہیں اور یہ سمجھ کر مدرسوں میں ڈالتے ہیں کہ وہاں جو استاد یا استانیاں ہیں وہ معتبر ہیں.اور وہ اس یقین

Page 91

زریں ہدایات (برائے طلباء) 85 جلد چهارم کے ساتھ بچوں کو مدرسوں میں بھیجتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ دیانت داری سے معاملہ کریں گے.جب وہ ان کی دیانت داری پر انحصار کرتے ہوئے اپنے بچوں کو ان کے سپر د کرتے ہیں تو ان پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مثلاً جب والدین اپنے لڑکے یا لڑکی کو سکول میں بھیجتے ہیں تو ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ وہاں حساب ، جغرافیہ اور یونیورسٹی کے دوسرے علوم سیکھیں اور استاد سے انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ ان مضامین میں انہیں طاق کرے.اس صورت میں استاد کی حیثیت سے مدرس کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو وہ باتیں ہرگز نہ سکھائے جو اس کے ماں باپ کا منشا نہیں.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یقین دھوکا بازی کا مرتکب ہوتا ہے.چنانچہ جب کبھی احمدی استاد مجھ سے پوچھتے ہیں کہ سکول کے اوقات میں غیر از جماعت لڑکوں کو اسلام اور احمدیت کے مسائل بتائے جائیں یا نہیں ؟ تو میں انہیں ہمیشہ یہی تلقین کرتا ہوں کہ سکول کے وقت میں ایسا ہر گز نہ کرو.اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم بددیانت ہو گے.چنانچہ ہمیشہ میں نے احمدی استادوں کو یہ تلقین کی ہے کہ جب تک سکول میں ہو ایسا ہر گز نہ کرو کیونکہ وہاں بچے ایک انتظام کے ماتحت ہیں.ہاں جب وہ سکول سے باہر ہوں تو اُس وقت وہ اس انتظام کے ماتحت نہیں ہوتے.اُس وقت انہیں مسائل بتانے میں کوئی برائی نہیں.کیونکہ اُس وقت ماں باپ دیکھتے ہیں کہ بچے کا وقت کہاں اور کس طرح صرف ہوتا ہے.اگر اس صورت میں بھی کوئی استاد کسی طالب علم کو حساب پڑھانے کے لئے بلاتا ہے لیکن پھر احمدیت یا یہودیت یا ہندویت کی تعلیم دینا شروع کر دیتا ہے تو یہ دھوکا ہے.پس استادوں کی ذمہ داری بہت بڑی ہے.انہیں وہی تعلیم بچوں کو دینی چاہئے جس کے لئے ماں باپ انہیں ان کے پاس بھیجتے ہیں.سوائے اس کے کہ وہ واضح کر دیں کہ ہمارے ہاں فلاں فلاں چیز کی تعلیم دی جاتی ہے.مثلاً ایک مدرسہ ہے جہاں قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے.اگر اس بات کو واضح کر دیا جائے تو پھر اگر کوئی ہند و تعلیم کے لئے اپنے بچے کو وہاں بھیجتا ہے تو یہ کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہوگی.کیونکہ اگر اس بچے کو قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے تو اس کے والدین

Page 92

زریں ہدایات (برائے طلباء) 86 جلد چهارم کی اجازت سے دی جاتی ہے.لیکن اگر کسی دہریہ کے بچے کو بغیر یہ بتانے کے کہ یہاں اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے قرآن مجید کا درس دیا جائے تو یہ بھی دھوکا ہو گا جو کسی صورت میں بھی جائز نہیں.پس دوسرا قدم بچوں کی تربیت کا یہ ہے کہ ماں باپ کے بعد انہیں استادوں کے سپر د کر دیا جائے.استادوں کی ذمہ داری گوماں باپ سے کم ہوتی ہے کیونکہ بچوں کی خیر خواہی کے لحاظ سے والدین پر ان کی طرف سے زیادہ فرض ہوتا ہے لیکن تعلیم کے لحاظ سے استاد کی ذمہ داری بھی کچھ کم نہیں ہوتی بلکہ اس کی ذمہ داری تربیتی رنگ میں والدین سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے.پھر بچے جب خود ہوش سنبھالتے ہیں تو ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مثلاً جب سکول میں انہیں بھیجا جاتا ہے تو یہی سمجھ کر بھیجا جاتا ہے کہ وہ وہی کچھ سیکھیں گے جن کا انہیں حکم دیا گیا ہے.اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ماں باپ سے بددیانتی کرتے ہیں.دیکھو سکول میں جانے والی ایک لڑکی دوسری لڑکیوں کے اچھے کپڑے دیکھ کر ماں سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ بھی اسے عمدہ کپڑے بنا کر دے.وہ ماں اسے عمدہ کپڑے بنا کر دیتی ہے لیکن خود اس کے اپنے کپڑوں میں دس دس پیوند لگے ہوئے ہوتے ہیں.اور بعض اوقات گھر کے اندر اوڑھنے کے لئے کوئی بھی کپڑا نہیں ہوتا.صرف ایک پھٹا ہوا گرتا ہوتا ہے جو باہر جانے کے لئے وہ استعمال کرتی ہے لیکن اپنی بچی کو وہ اچھے کپڑے سلا کر دیتی ہے.اب اگر وہ بچی سکول میں جا کر تعلیم کی طرف توجہ نہیں دیتی بلکہ وہاں چوری ، جھوٹ اور فریب سیکھتی ہے لیکن جب وہ گھر جاتی ہے تو ماں اس پر واری صدقے ہوتی ہے کہ میری بچی پڑھ کر آئی ہے اور اسے یہ علم نہیں کہ وہ بچی تعلیم حاصل کرنے کی بجائے جھوٹ اور فریب سیکھ رہی ہے تو اندازہ لگاؤ یہ کس قدر بد دیانتی ہے جس کی وہ لڑ کی مرتکب ہو رہی ہے.ہماری جماعت کے سکولوں پر تو بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ان کی غرض صرف دنیوی تعلیم دینا نہیں بلکہ دینی تعلیم دینا بھی ہے.ہمارے پاس گورنمنٹ کی

Page 93

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 87 جلد چهارم طرح ٹیکسوں کے ذریعہ حاصل کردہ روپیہ نہیں.ہمارا رو پید ان لوگوں سے آتا ہے جو اپنے آپ کو ہزاروں مشکلات میں ڈال کر اور اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر چندے بھیجتے ہیں.اگر ہمارے سکول میں پڑھنے والی لڑکیاں وہ تعلیم حاصل نہیں کرتیں جس کے حاصل کرنے کے لئے انہیں کہا گیا ہے یا اگر استاد انہیں وہ تعلیم نہیں دیتے جس کا دلانا ہمارے مد نظر ہے بلکہ وہ انہیں روحانیت کا سبق دینے کی بجائے ان کی بری تربیت کرتے ہیں تو وہ نہ صرف والدین اور انجمن کی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں بلکہ ان لوگوں کی بد دیانتی بھی کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو فاقوں میں رکھ کر چندے دیئے.اسی طرح وہ لڑکیاں جو عمدہ اخلاق سیکھنے کی بجائے چوری اور جھوٹ وغیرہ کی عادتیں سیکھتی ہیں وہ نہ صرف اپنے ماں باپ کی خیانت کرتی ہیں بلکہ ان ہزاروں، لاکھوں اشخاص کی بھی خیانت کرتی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر سکول کا انتظام کیا.اسی طرح وہ استاد جو بچوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے نہ صرف اس انجمن کی خیانت کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے وہ ملازم ہیں بلکہ ان ہزاروں لاکھوں نفوس کی بھی خیانت کرتے ہیں جنہوں نے اپنے بیوی بچوں کو تکلیف میں ڈال کر سکول کا انتظام کیا ہے.پس ہمارے سکولوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں.ہائی سکولوں میں استاد یا طلباء پر تو صرف دو طرف سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک تو اُس انجمن یا ادارے کی طرف سے ذمہ داری جس کے زیر انتظام وہ سکول قائم ہے.دوسرے والدین کی طرف سے ذمہ واری جن کے بچوں کی تربیت ان کے سپرد ہوتی ہے.لیکن ہمارے ہاں تین قسم کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک والدین کی طرف سے، دوسری انجمن کی طرف سے اور تیسرے تمام جماعت کی طرف سے.پس ہمارے سکولوں کی استانیوں ، استادوں ، لڑکوں اور لڑکیوں کو اس بات پر بہت زیادہ غور کرنا چاہئے کہ ان کی ذمہ داری کس قدر زیادہ ہے.پھر مقام کے لحاظ سے بھی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے.مثلاً ایک لڑائی ہو رہی ہے.اس میں ایک دستہ فوج کو ایک ایسے دوازے پر کھڑا کیا گیا ہے جہاں لکڑیاں اور اینٹیں وغیرہ پڑی ہیں جن کی حفاظت ان کے ذمہ ہے.

Page 94

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 88 جلد چهارم دوسرے دستہ فوج کو خزانہ پر متعین کیا گیا ہے اور تیسرے دستہ فوج کو بادشاہ کی حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا ہے.ظاہر ہے کہ اس حالت میں تینوں فوجوں کی ذمہ داری مختلف ہے.اس فوج کی ذمہ داری بہت زیادہ ہے جسے بادشاہ کی جان کی حفاظت کے لئے مقرر کیا گیا ہے.اس سے اتر کر اُس فوج کی ذمہ داری ہے جو خزانہ کی حفاظت پر متعین ہے.اور اس سے اتر کر اُن لوگوں کی ذمہ داری ہے جنہیں لکڑیوں اور اینٹوں وغیرہ پر مقرر کیا گیا ہے.صلى الله الله حدیثوں میں آیا ہے کہ صحابہ میں سے سب سے جری اور بہادر وہ ہوتا تھا جو رسول کریم ے کے پاس کھڑا ہوتا تھا 2 اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے صحابہ کم بہادر ہوتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس کھڑے ہونے والے کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی.کیونکہ اس کا کام صرف یہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ لڑے بلکہ اس کا کام یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ رسول کریم ﷺ کی جان کی حفاظت کرے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ کے سامنے ایک تلوار پیش کی اور فرمایا کہ یہ تلوار میں اس شخص کو دوں گا جو اس کی ذمہ داری ادا کرے گا.کئی صحابہ نے ہاتھ بڑھایا لیکن آنحضرت ﷺ نے آخر وہ تلوار حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو دی 3 اور حضرت على كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ نے فی الواقعہ اس قدر بہادری کے جوہر دکھائے کہ آپ نے اس تلوار کا حق ادا کر دیا.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو ایک جھنڈا دیا اور کہا کہ یہ جھنڈا اس شخص کو دیا جائے گا جو اس کا حق ادا کرے گا.اس پر ایک صحابی نے کہا یا رسول اللہ ! یہ جھنڈا مجھے دے دیں.آپ نے جھنڈا اس صحابی کو دے دیا.اس کے بعد کفار کے لشکر سے لڑائی ہوئی.وہ صحابی دائیں ہاتھ سے تلوار چلا رہا تھا اور اس کے بائیں ہاتھ میں جھنڈا تھا.دشمنوں نے اس پر یہ دیکھ کر حملہ کیا کہ اگر جھنڈا اس کے ہاتھ سے گر گیا تو اسلامی لشکر منتشر ہو جائے گا.چنانچہ دشمنوں نے اس صحابی کا وہ ہاتھ کاٹ دیا جس میں اس نے جھنڈا پکڑا ہوا تھا.جب اس کا وہ ہاتھ کٹ گیا تو اس نے جھنڈے کو اپنی بغل میں دبا لیا.پھر اس کا

Page 95

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 89 جلد چهارم دایاں ہاتھ بھی کٹ گیا.اس پر اس نے جھنڈا لاتوں میں سنبھال لیا.کفار نے اس کی لاتیں بھی کاٹ دیں تو اس نے مسلمانوں کو آواز دی کہ اب کوئی دوسرا مسلمان اس جھنڈے کو پکڑے کیونکہ میں اس قابل نہیں رہا کہ اب اس کو تھام سکوں.غرض مقام اور حالات کے لحاظ سے ذمہ داری اور زیادہ بڑھ جاتی ہے.اگر اُس وقت کوئی دوسرا سپاہی ہوتا تو جونہی اس کا ایک ہاتھ کٹ جاتا وہ مرہم پٹی کے لئے فوراً ہسپتال بھاگ جاتا.اُس زمانہ میں ہسپتال تو نہیں ہوتے تھے جنگوں میں زخمیوں کی مرہم پٹی کے لئے عورتیں ہمراہ ہوتی تھیں.لیکن چونکہ اس صحابی نے جھنڈا یہ کہہ کر لیا تھا کہ وہ اس کی ذمہ داری ادا کرے گا اس لئے اس نے اپنے سارے اعضاء کٹوا لئے مگر جھنڈے کو نیچے گرنے نہیں دیا.پس ذمہ داریوں کے لحاظ سے ہر چیز کی اہمیت بڑھتی چلی جاتی ہے.اسی طرح ہمارے سکول صرف سکول ہی نہیں بلکہ یہ ایسی جگہیں ہیں جہاں تیاریاں ہو رہی ہیں اسلام اور کفر کی اُس جنگ کے لئے جو ہمیں آئندہ پیش آنے والی ہے.یہ مت خیال کرو کہ آجکل کفر کے ساتھ ہماری جو جنگ ہو رہی ہے وہ اصل جنگ ہے.اصل جنگ اُس وقت ہوگی جب احمدیت اور زیادہ پھیل جائے گی کیونکہ ابھی تو بڑے بڑے دشمنانِ اسلام ہماری طرف دیکھ کر ہنس رہے ہیں اور ہماری کوششوں پر خندہ زن ہیں.نقصان پہنچانے والی طاقتیں ہماری ترقی کو ابھی کھیل اور ہنسی سمجھتی ہیں اور ہمارا مقابلہ کرنے والے ابھی ہم پر ہنستے ہیں.اس وقت جو ہمارا مقابلہ کر رہے ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ گالیاں دینے یا ہمارے خلاف بد زبانی کرنے کی طاقت ہے اصل طاقتوں میں سے کوئی طاقت ایسی نہیں جس نے اس وقت تک اسلام اور احمدیت کا مقابلہ کیا ہو.وہ اُس وقت مقابلہ کریں گی جب وہ دیکھیں گی کہ اسلام تمام دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے اور ان پر اثر انداز ہورہا ہے.لیکن وہ وقت ابھی نہیں آیا.قرآن کریم میں یہ پیشگوئی موجود ہے کہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ آہستہ آہستہ ہوگی 4 جس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے راستہ میں ابتلا بھی آہستہ آہستہ اور بار بار آئیں گے کیونکہ ہر ترقی کے مقابلہ میں ایک ابتلا بھی آیا کرتا ہے.

Page 96

زریں ہدایات (برائے طلباء) 90 جلد چهارم بہر حال یہ امر اچھی طرح یاد رکھو کہ تم پر نہ صرف سکول کی ذمہ داری ہے، نہ صرف انجمن کی ذمہ داری ہے اور نہ صرف ماں باپ کی ذمہ داری ہے بلکہ اسلام کی طرف سے بھی ایک بڑی ذمہ داری عائد ہے جسے دشمنوں کے نرغہ سے بچانے کے لئے ایک فوج تیار کی جا رہی ہے اور تم اس فوج کے سپاہی ہو.تم ہر طرف سے گھرے ہوئے ہو گے اور دشمنوں کے نرغہ میں ہو گے.ایسی حالت میں جس ہمت اور جرات کا بروئے کار لانا ضروری ہوتا ہے اس کے لئے تمہارا ابھی سے تیار ہونالازمی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بادشاہ تھا اس کے دماغ میں خرابی پیدا ہو گئی.اس نے کہا کہ فوج کے اتنے اخراجات برداشت کرنے کا بھلا کیا فائدہ ہے یہ قصاب جو بکروں کو ذبح کرتے رہتے ہیں ان سے ہی فوج کا کام لینا چاہئے.چنانچہ اس نے حکم دے دیا کہ انہیں چھریاں دے دی جائیں تا کہ وہ جنگ میں دشمن سے لڑسکیں.اس نے فوجوں کو برخاست کر دیا اور قصابوں کو کہا کہ جب کوئی لڑائی پیش آئے تو تم اپنی چھریوں سے دشمن کا مقابلہ کرو.بادشاہ کی اس حالت کو دیکھ کر ایک غنیم نے اس کے ملک پر چڑھائی کر دی.اس نے ملک کے قصابوں کو حکم دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کریں.وہ اپنے دل میں خوش تھا کہ مفت میں ساری لڑائی لڑی جائے گی.غرض لڑائی ہوئی اور تھوڑی دیر کے بعد تمام قصاب ظلم ظلم پکارتے ہوئے دوڑتے آئے اور کہا کیا یہ بھی کوئی لڑائی ہے کہ ہم تو پہلے دشمن کے سپاہیوں کو گلے سے پکڑتے ہیں ، پھر زمین پر لٹاتے ہیں اور پھر چھری ان کے گلے پر پھیرتے ہیں لیکن وہ بے تحاشا ہمیں مارتے چلے جاتے ہیں.نہ رگ دیکھتے ہیں نہ بٹھا ، بس تلوار مارتے ہیں اور گرا دیتے ہیں.یہ کوئی لڑائی نہیں.انہیں سمجھایا جائے.ابھی یہ باتیں ہی ہو رہی تھیں کہ دشمن کی فوج شہر میں داخل ہو گئی اور بادشاہ کو قید کر لیا گیا.پس اگر ہماری آئندہ نسلوں میں اسلام اور احمدیت حقیقی طور پر داخل نہیں ہوگی اور وہ اس جنگ کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوں گی جس میں انہوں نے سارے مذاہب کو

Page 97

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 91 جلد چهارم شکست دینا ہے تو وہ کس طرح اس میں فتح حاصل کر سکتی ہیں.فتح تو ضرور ہو گی کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا لیکن یہ فتح ان سپاہیوں سے نہیں ہوگی بلکہ نئے سپاہیوں سے ہوگی جو خدا تعالیٰ پیدا کرے گا.ہمارے استادوں اور استانیوں کو چاہئے کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کو اسلام کے حقیقی سپاہی بنا ئیں تا کہ اخلاق اور مذہب کے ساتھ دنیا پر فتح حاصل کی جائے.یاد رکھو اخلاق کی فتح کے مقابلہ میں دوسری فتوحات کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں.دلائل اور اخلاق ایک بہت بڑا حربہ ہیں جن سے دنیا پر فتح حاصل کی جاسکتی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں رسول کریم ﷺ سے فرماتا ہے کہ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا ء یعنی تو اس چیز سے جہاد کر جو تجھے دی گئی ہے اور یہی جہاد اکبر ہے.پس قرآن کریم سے بڑھ کر اور کوئی حربہ نہیں.لیکن اس وقت تک ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سکول کی لڑکیوں میں وہ اوصاف پیدا نہیں ہوئے جو قرآن کریم کا منشاء ہے.ابھی تک ان میں سے پوری طرح خیانت ، جھوٹ ، فریب ، لڑائی ، چوری اور غیبت کی عادتیں نہیں گئیں.مثلا کتا بیں چرانے کی شکایتیں بعض اوقات سنی جاتی ہیں.اگر یہ باتیں ان میں پائی جاتی ہیں تو اس تعلیم کا کیا فائدہ.یہ گند تو دنیا میں پہلے ہی موجود تھا اس میں کمی کون سی کی گئی ہے.کتابیں پڑھا دینا یا انہیں پڑھ لینا تو کوئی چیز نہیں حقیقی سے عمل ہے.قرآن شریف نے اس شخص کو جو کتا ہیں پڑھ لیتا ہے مگر عمل نہیں کرتا گدھا کہا ہے کیونکہ وہ کتابوں کو اپنے اوپر اٹھائے پھرتا ہے 6 اور چونکہ وہ عمل نہیں کرتا اس لئے اس میں اور گدھے میں کوئی فرق نہیں.ہماری طالبات کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ یہاں ان کی تعلیم و تربیت پر جو روپیہ صرف ہوتا ہے وہ گورنمنٹ کا روپیہ نہیں.یہ روپیہ ان غریب اور کنگال لوگوں کا ہے جنہوں نے خدا کے لئے اپنے وطنوں کو چھوڑا.خدا کے لئے اپنے ماں باپ کو چھوڑا.دوستوں کو چھوڑا اور بعض حالات میں جائیدادوں کو چھوڑا.اور باوجود اس کے نہایت تنگی کے وقت اور اپنے آپ کو تکالیف میں ڈال کر آنہ آنہ جمع کیا جس سے تمہارے لئے

Page 98

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 92 جلد چهارم انتظام کیا گیا کہ تم اسلام کی اس لڑائی کے لئے جو تمہیں پیش آنے والی ہے تربیت حاصل کر لو اور کفر کی طاقتوں کے مقابلہ کے لئے اپنے آپ کو تیار کر لو.پھر اس سے بڑھ کر اور کیا بد دیانتی ہو سکتی ہے کہ اس سپہ گری کی طرف تمہیں توجہ ہی نہیں.تم میں سے کوئی ڈاکٹر بننے کی خواہاں ہے اور کوئی ایم اے کی ڈگری حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن اس چیز کی طرف اسے توجہ ہی نہیں جو ہمارا اصل مقصد ہے.بھلا سوچو تو کہ لاہور یا امرتسر یا دوسرے شہروں کے لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہارے لئے روپے بھیج رہے ہیں.کیا تم نے بھی خیال کیا کہ وہ کیوں تمہارے لئے روپے بھیج رہے ہیں؟ وہ تمہارے چا نہیں، تمہارے بھائی نہیں ، تمہارے رشتہ دار نہیں، پھر یہ بھی نہیں کہ وہ کروڑ پتی ہیں کہ کروڑوں روپوں میں سے اگر چند روپے یہاں بھیج دیں تو انہیں معلوم تک بھی نہیں ہوتا.وہ غریب ہیں اور خود تکلیف اٹھا کر روپیہ بھیجتے ہیں.وہ اس لئے روپیہ نہیں بھیجتے کہ تم ایم.اے یا بی.اے بن جاؤ بلکہ وہ اس لئے روپیہ بھیجتے ہیں کہ تم ایسی تعلیم حاصل کرو جس سے تم اسلام کی سپاہی بن جاؤ.اگر لاہور، امرتسر، گوجرانوالہ، پشاور، یوپی، بہار، بنگال بلکہ ہندوستان سے بھی باہر جاوا اور سماٹرا وغیرہ ممالک کے غریب احمدی چندے بھیجتے ہیں تو کیا وہ اس خیال سے بھیجتے ہیں کہ تم ایم.اے یا بی.اے کی ڈگریاں حاصل کر لو؟ نہیں بلکہ وہ اس خیال سے روپیہ بھیجتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ اسلام کے سپاہی بنانے کے لئے لگایا جارہا ہے.پس استادوں اور استانیوں کو ہمیشہ یہ احساس رکھنا چاہئے کہ وہ جرنیل ہیں جن کا کام یہ ہے کہ طالبات کو اسلام کا سپاہی بنائیں.اور طالبات کو ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ان کا کام ایم.اے یا بی.اے کی ڈگریاں حاصل کرنا نہیں بلکہ ان کا اصل کام یہ ہے کہ وہ اسلام کی سپاہی بنیں.پس تمہیں چاہئے کہ اپنی زندگیاں اس رنگ میں ڈھالو کہ تم اسلام کی خدمت کر سکو.میرا یہ مطلب نہیں کہ تم وہ لائنیں اختیار نہ کرو جو ڈگریاں وغیرہ حاصل کر کے اختیار کی جاتی ہیں بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تم اپنی زندگیوں کو اس طرح ڈھا لو کہ تم اسلام کی خدمت بجالا سکو.کیونکہ وہ لوگ تمہاری محبت کے لئے روپیہ نہیں بھیجتے

Page 99

زریں ہدایات (برائے طلباء) 93 جلد چهارم بلکہ وہ خدا اور رسول کی محبت کے لئے روپیہ دیتے ہیں.ان کو خدا تعالیٰ پر ایمان ہے.رسول کریم ﷺ پر ایمان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان ہے.پس وہ ان کی لائی ہوئی تعلیم کو بلند کرنے کے لئے روپیہ بھیجتے ہیں.وہ تمہاری تعلیم کے لئے روپیہ نہیں دیتے، تمہارے لئے نہیں دیتے بلکہ خدا اور اس کے رسول کے لئے دیتے ہیں.پس تم اپنی زندگیوں کو اس طرح بناؤ کہ ان کے لائے ہوئے دین کی خدمت کر سکو.اور اس کے لئے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عمل پر اس کا اثر ظاہر ہو.کیونکہ انسان جب اعلیٰ اخلاق دکھاتا ہے تو لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں.پشاور میں عیسائیت کے داخلہ کا ایک عجیب قصہ ہے.شروع شروع میں وہاں عیسائیت کی تبلیغ کے لئے ایک انگریز پادری گیا.اس نے بہتیری تبلیغ کی مگر کسی شخص نے اس کی طرف توجہ نہ کی.اور بارہ برس تک ایک شخص بھی عیسائی نہ ہوا.لیکن وہ متواتر بازاروں اور گزرگاہوں میں لیکچر وغیرہ دیتا رہا.ایک دن ایک پٹھان کو خیال آیا کہ یہ پادری ہر روز وعظ کرتا رہتا ہے لیکن کوئی اس کی باتوں پر کان نہیں دھرتا اس کو اس سے منع کرنا چاہئے.چنانچہ وہ پٹھان اس پادری کے پاس گیا اور کہا تو ہر روز یہاں بولتا ہے اور اس سلسلہ کو بند نہیں کرتا.پٹھان جو شیلے ہوتے ہی ہیں اس نے پادری کے منہ پر تھپڑ دے مارا.وہ پادری ہوشیار تھا اس نے جھٹ کہہ دیا کہ تمہارے مذہب کی تعلیم یہی ہے کہ دوسروں کو مارولیکن میرے مذہب کی تعلیم یہ ہے کہ تی کھا لو مگر صبر کرو.دوسرے دن پھر جب وہ پادری وعظ کر رہا تھا تو پٹھان گیا اور پھر اس کے منہ پر ایک تھپڑ مارا.پادری نے پھر وہی کہا کہ تم اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہو اور میں اپنے مذہب پر عمل کر رہا ہوں.تیسرے دن پھر اس پٹھان نے پادری کے تھپڑ مارا.ایک مالدار اور صاحب جائیداد آدمی نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اُسی وقت وہ پادری کے پاس آیا اور کہا کہ میں عیسائی ہوتا ہوں اور میں عیسائی مشن کے لئے اپنا مکان وقف کرتا ہوں.یہ صرف نمونہ کا اثر تھا حالانکہ حقیقی رحم کی تعلیم صرف اسلام میں ہی ہے اور عیسائیت اس تعلیم سے بالکل عاری ہے.لیکن دیکھو نمونہ کا کتنا اثر ہوا.بارہ سال کی کوششوں سے ایک شخص بھی

Page 100

زریں ہدایات (برائے طلباء) 94 جلد چهارم صلى الله الله صلى الله عیسائی نہیں بنا تھا لیکن نمونہ سے تیسرے دن ایک صاحب حیثیت آدمی عیسائی بن گیا.پس اخلاق فاضلہ کا اثر نہایت اعلیٰ ہوتا ہے.اسلام کی ابتدائی تاریخ سے بھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح نمونوں نے لوگوں کو اسلام کی طرف کھینچا.ابتدا میں رسول کریم ے کے اپنے رشتہ دار بھی اسلام میں داخل نہیں تھے.آپ کے چا حضرت حمزہ نے بھی ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا.ان کے اسلام میں داخل ہونے کی وجہ بھی یہی تھی کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کے اخلاق کو دیکھا.چنانچہ حضرت حمزہ کے اسلام لانے کا واقعہ بھی عجیب ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ ایک چٹان پر بیٹھے کچھ سوچ رہے تھے کہ ابو جہل نے آپ کو آ کر گالیاں دیں اور پھر اس خبیث نے آپ کو تھپڑ مار دیا.رسول کریم می خاموش رہے اور اسے کچھ نہ کہا.حضرت حمزہ کو شکار کا بڑا شوق تھا وہ صبح سویرے شکار کھیلنے باہر چلے جاتے اور شام کو گھر واپس آتے.اُس دن جب وہ شام کو شکار سے واپس آئے تو ان کے گھر کی ایک لونڈی نے جس نے یہ واقعہ دیکھا تھا اور جو اس وجہ سے بھری بیٹھی تھی اس نے ان سے کہا کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم بہادر بنے پھرتے ہو لیکن دشمن تمہارے بھتیجے کو گالیاں دیتے اور مارتے پیٹتے ہیں.حضرت حمزہ نے کہا کیا بات ہے؟ لونڈی نے جواب دیا تمہارا بھتیجا صبح چٹان پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا کہ ابو جہل آیا اور اس نے اسے گالیاں دیں اور پھر مارنا شروع کر دیا.مگر آگے سے اس نے ایک لفظ تک نہیں کہا.کیا تم کو غیرت نہیں آتی کہ تم اپنے آپ کو بہادر سمجھتے ہو مگر تمہارے بھتیجے کو دشمن پیٹتے ہیں.باوجود اس کے کہ حضرت حمزہ میں ایمان نہیں تھا لیکن یکدم ان کے دل کی کھڑکیاں کھل گئیں اور ان کی چشم بصیرت نے دیکھ لیا کہ اتنا بڑا اعلیٰ نمونہ بغیر سچائی کے ظہور میں نہیں آسکتا.ضرور ہے کہ رسول کریم ﷺ بچے ہیں اور انہیں ایک نور ملا ہے کیونکہ اس قدر اعلیٰ اخلاق کوئی معمولی چیز نہیں.حضرت حمزہ شکاری لباس پہنے ہوئے تھے انہوں نے وہ کپڑے بھی نہیں اتارے بلکہ سید ھے کعبہ میں گئے اُس وقت ابو جہل دوسرے رؤسا کے ساتھ وہاں بیٹھا ہوا تھا.لوگوں نے جس وقت ان کی شکل دیکھی تو کہا کہ آج خیر نہیں.

Page 101

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 95 جلد چهارم اُس وقت ابوجہل کا نام ابوالحکم تھا.لوگوں نے کہا ابوالحکم! دیکھو! وہ حمزہ چلا آ رہا ہے.اس کی شکل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ غصہ سے بھرا ہوا ہے.حضرت حمزہ کے ہاتھ میں کمان تھی کیونکہ اُس زمانے میں بندوقیں تو تھی نہیں تیر کمان سے ہی لوگ شکار کھیلا کرتے تھے.انہوں نے آتے ہی کمان ابو جہل کے منہ پر ماری اور کہا تجھے اس شخص پر ہاتھ اٹھانا آتا ہے جو آگے سے جواب نہیں دیتا.اگر ہمت ہے تو آ اور میرے مقابل پر کھڑا ہو جا.چونکہ یہ دونوں رئیس تھے اس لئے لوگوں نے درمیان میں پڑ کر بیچ بچاؤ کر دیا.اس کے بعد وہ سیدھے رسول کریم ﷺ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھ پر اسلام کی کیفیت کھل گئی ہے اور میں مسلمان ہوتا ہوں 7 غرض اخلاق کے اعلیٰ نمونے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں.پس نمونہ اصل چیز ہے.تم خواہ کتنا وعظ کرو اگر تم چور ہو، بدیانت ہو، غیبت کرنے والی ہو، دوسروں پر تہمتیں لگانے والی ہو ، نماز کی پابند نہیں ہو تو تمہاری باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے.جس وقت تم یہ کہہ رہی ہوگی کہ اسلام سچا ہے، اس میں فلاں خوبیاں ہیں تو تمہارے پاس کی لڑکی جس کو تم نے جھوٹ بولنا سکھایا ہوگا تمہاری باتوں پر ہنس رہی ہوگی.اصولی اخلاق بہت بڑا اثر ڈالتے ہیں.مثلاً دیانت ہے، سچائی ہے، محنت ہے ، رحم ہے یہ اصولی اخلاق بھی پانچ ارکانِ اسلام کی طرح پانچ ہیں اور وہ یہ ہیں.سچائی ، رحم ، دیانت، وفاداری اور محنت و با قاعدگی کار.یہ پانچ ارکان ایسے ہیں جن کی پابندی سے انسان ہر جگہ نیک نمونہ پیش کرتا ہے.مثلاً محنت اور باقاعدگی کے نیچے نمازیں بھی آجاتی ہیں.اگر با قاعدہ کام کرنے کی عادت نہ ہوگی تو نماز کے چھوٹنے کا بھی احتمال ہو سکتا ہے حالانکہ نماز کا چھوڑ نا ایسا ہی ہے جیسے کسی نے زہر کھا لیا.مگر تم اپنے نفسوں کو ٹول کر دیکھو.تم میں سے کتنی ہیں جنہوں نے نماز میں کبھی ناغہ نہیں کیا اور کبھی ایک نماز بھی نہیں چھوڑی.تم کہو گی کہ ایک نماز اگر چھوٹ گئی تو کیا ہوا.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ کیا تم میں سے کوئی زہر کی ایک پڑیا کھانے کے لئے تیار ہوگی؟ مردوں میں بھی نمازوں کے متعلق ستی پائی جاتی ہے.یہاں جب کبھی کوئی جلوس وغیرہ

Page 102

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 96 جلد چهارم نکلے تو میرا دل دھڑکا کرتا ہے کہ کہیں لوگوں کی نماز نہ رہ جائے.عورتوں میں یہ مرض مردوں کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے.اگر کوئی نماز ضائع ہو جائے تو انہیں اس کی چنداں پرواہ نہیں ہوتی.لیکن معلوم ہونا چاہئے کہ چھوٹے چھوٹے نقائص بھی ایمان کے ضائع کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.یہاں ایک فلاسفر ہے اسے اس قسم کی باتوں پر بحث کرنے کی عادت ہے.ایک دفعہ روزے کا سوال پیدا ہوا تو اس نے روزہ کی افطاری کے وقت سے ایک آدھ منٹ پہلے روزہ کھول لیا یا سحری کچھ پیچھے کھالی.مجھے اب صحیح طور پر یاد نہیں رہا.لوگوں نے جب اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ اتنے سے فرق سے کیا بنتا ہے.دومنٹ پہلے روٹی کھائی یا چار منٹ بعد میں کھالی اس میں کون سا فرق پڑ جاتا ہے.وہ سارا دن لوگوں سے اس مسئلہ پر بحث کرتا رہا.رات کو جب وہ سویا تو اس نے ایک خواب دیکھا.وہ ذات کا جلا ہا ہے خواب بھی اس نے جلا ہوں والا ہی دیکھا.اس نے دیکھا کہ وہ سوت کو پان دینے لگا ہے.سوت کو پان لگانے کے لئے کیلے گاڑے جاتے ہیں.ایک کیلا ایک طرف ہوتا ہے اور دوسرا کیلا اس سے کچھ فاصلہ پر دوسری طرف.پھر اس پر ایک جھاڑو سا پھیرتے ہیں.اس نے دیکھا کہ اس نے سوت کو ایک طرف کے کیلے سے باندھا ہے اب وہ اس کا دوسرا سرا دوسرے کیلے کی طرف باندھنے کے لئے لے جا رہا ہے.جب وہ اس کیلے کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ سوت چھوٹا ہے اور کیلے تک نہیں پہنچتا.کیونکہ کیلا غلط اندازے سے ذرا آگے گڑ گیا ہے.اب سوت اس کے ہاتھ میں ہے اور وہ خواب میں شور مچارہا ہے اور لوگوں کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ دوڑ یو دو انگلیوں کے فرق سے میرا سارا سوت خراب ہونے لگا ہے.اس پر اس کی آنکھ کھل گئی اور اسے سمجھ آ گئی اگر دو انگلیوں کے فرق سے سوت خراب ہو سکتا ہے تو دومنٹ کے فرق سے روزہ کیوں خراب نہیں ہوتا.پس محنت کی اگر عادت نہ ہوگی تو نمازوں میں بھی سستی ہوگی ، روزوں میں بھی سستی ہوگی اور دوسرے کاموں میں بھی سستی ہوگی.اسی طرح اگر وفاداری نہیں ہوگی تو منافقت

Page 103

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 97 جلد چهارم پیدا ہو گی ، جس طرح ابھی بعض لوگوں نے اپنی منافقت کا ثبوت دیا ہے، وہ سالہا سال سے میرے خلاف سازشیں کرتے تھے مگر ظاہر بیعت میں بھی داخل تھے.اسی طرح سچائی ہے.سچائی بہت سی نیکیوں کی جامع ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنے دین کا نام حق بلکہ خود اپنا نام بھی حق رکھا ہے.غرض سچائی ایک ایسا گر ہے جس سے انسان تمام نیکیوں کو اختیار کر سکتا ہے.مگر عورتوں میں خصوصاً جھوٹ کی عادت ہوتی ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے عورتوں کی بیعت میں اتہام طرازی اور جھوٹ سے بچنے کی شرط رکھی ہے.مردوں کے لئے یہ شرط نہیں رکھی گئی.وفاداری کے ماتحت غیبت بھی آجاتی ہے.جو وفا کرتا ہے وہ پیٹھ کے پیچھے کبھی بات نہیں کہا کرتا.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ غیبت یہ نہیں کہ کسی کے متعلق سچی بات کہی جائے بلکہ کسی کی پیٹھ کے پیچھے اس کے متعلق کوئی جھوٹی بات کہنا غیبت ہے.لیکن یہ خیال غلط ہے.اگر کسی کے متعلق جھوٹ کہا جائے تو وہ تو جھوٹ ہوا.غیبت یہی ہے کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق کوئی سچی بات کر کے اسے مطعون کہا جائے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے کسی شخص کو غیبت سے منع فرمایا.لوگوں نے کہا کہ ہم تو سیچ بولتے ہیں.آپ نے فرمایا غیبت یہی تو ہے.اگر تم جھوٹ بولتے ہو تو وہ تو جھوٹ ہوا 8 پس خالص غیبت یہی ہے کہ کسی کے متعلق اس کے پیٹھ کے پیچھے کچی بات کہی جائے ورنہ جو بات سچی نہ ہو بلکہ جھوٹی ہو وہ تو غیبت اور جھوٹ ملے ہوئے ہیں.غرض اخلاق فاضلہ کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے.پھر تعلیم کا حصول ہے.اس میں تمہیں اپنے مذہب کو اچھی طرح سیکھنا چاہئے اور اپنی تعلیم سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے.لیکن عورتوں میں یہ نقص ہے کہ وہ اپنی تعلیم حاصل تو کرتی ہیں لیکن جب ان سے کوئی دینی مسئلہ پوچھا جائے تو اس کا جواب دینے میں شرم محسوس کرتی ہیں.حالانکہ یہ شرم نہیں بلکہ کمزوری ہے.اور یہ ایک خطر ناک مرض ہے جو طالبات میں پایا جاتا ہے.لیکن افسوس کہ استادوں اور استانیوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں نے دیکھا ہے کہ خود ہمارے گھر کی بچیوں میں وہ دلیری نہیں جو ہونی

Page 104

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 98 جلد چهارم چاہئے.اسی طرح دوسری بچیوں کا حال ہے.وہ انگریزی سیکھتی ہیں لیکن ان سے انگریزی میں گفتگو کرو تو آگے سے ایک فقرہ بھی انگریزی کا نہیں بولیں گی.اسی طرح سے جب دین کی کوئی بات پوچھی جائے تو آگے سے بولتی نہیں.وہ کہتی ہیں کہ ان کو فلاں مسئلہ آتا ہے لیکن وہ بیان نہیں کر سکتیں.یہ صرف کمزوری کا نتیجہ ہے لیکن اس کا نام شرم رکھا جاتا ہے حالانکہ یہ شرم بعض اوقات بہت سے گناہوں کا موجب ہو جاتی ہے.حقیقت میں یہ شرم نہیں بلکہ کمزوری اور بزدلی ہے اور یہ چیز گناہوں کو روکتی نہیں بلکہ انہیں بڑھاتی ہے.پس استادوں اور استانیوں کے لئے ضروری ہے کہ طالبات کے ذہن سے اس کمزوری کو دور کریں.حیرت کی بات ہے کہ اس کمزوری کا نام شرم رکھا جاتا ہے.حالانکہ قرآن کریم میں امہات المومنین کو بھی یہ ہدایت کی گئی ہے کہ جب وہ کسی مومن مرد سے بات کریں تو ان کی بات میں تختی ہونی چاہئے 9 اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب تم سے کوئی بات کرے تو اسے جھڑک دو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نخرہ نہ پایا جائے.میں نے دیکھا ہے کہ لڑکیاں جب بھی بات کریں گی ان کے لب ولہجہ میں ایک قسم کا نخرہ پایا جائے گا.پس تمہیں پورے طور پر یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ہمیشہ صاف اور سیدھی بات کرو اور تمہاری کسی بات میں لچک اور نخرہ نہ ہو.یہ چیزیں کمزوری کی علامت ہیں جن سے تمہیں بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.“ الفضل 22، 23، 25 اپریل 1961ء) 1: بخارى كتاب الجنائز باب ما قيل فى اولاد المشركين صفحه 222 حديث 1385 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية.:2 مسلم كتاب الجهاد باب غزوہ حنین صفحه 791،790 حدیث 4616 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية.3 بخارى كتاب المغازی باب غزوہ خیبر صفحہ 715 حدیث نمبر 4210 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 4 كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ

Page 105

زریں ہدایات (برائے طلباء) يُعْجِبُ الزراع (الفتح : 30) 5 الفرقان: 53 99 99 : مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ( الجمعة : 6) جلد چهارم :7 سیرت ابن هشام جلد 1 صفحه 339 340 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى.:8 مسلم کتاب البر والصلة صفحه 1132 حديث نمبر 6593 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية.و يُنسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِنَ النِّسَاءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا (الاحزاب: 33)

Page 106

زریں ہدایات (برائے طلباء) 100 جلد چهارم تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے نتائج کیسے ہونے چاہئیں 11 جون 1938ء کو اولڈ بوائز تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی طرف سے حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی.اے ہیڈ ماسٹر کے اعزاز میں دعوت دی گئی اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر کی:.یہ جلسہ جیسا کہ تقریروں سے ظاہر ہے اس غرض کے لئے منعقد کیا گیا ہے کہ ماسٹر محمد دین صاحب ہیڈ ماسٹر اور دوسرے اساتذہ کو جنہوں نے اس سال کی میٹرک کلاس کو تیار کر کے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے مبارک باد دی جائے اور ان کے کام پر اظہار خوشنودی کیا جائے.جیسا کہ ماسٹر محمد دین صاحب نے جواب میں بیان کیا ہے ہمارے سکول کا یہ نتیجہ بعض دوسرے سکولوں کے نتیجہ کے مقابلہ میں ایسا نہیں کہ ہم اسے قابل اطمینان کہہ سکیں.قابل تسلی ہے مگر یہ نہیں کہ اب کسی مزید جد و جہد کی ضرورت نہیں رہی.لیکن روایات ہمیشہ اپنے پیچھے اپنا اثر چھوڑا کرتی ہیں.جن لوگوں کی روایات اچھی قائم ہو جائیں وہ قلیل جد و جہد سے زیادہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں لیکن جن کی روایات اچھی نہ ہوں انہیں کسی اعلیٰ مقام پر پہنچنے کے لئے زیادہ جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے.عربی میں کہتے ہیں کہ الْعَودُ أَحْمَدُ یعنی جو کام دوسری دفعہ کیا جائے وہ زیادہ اچھا ہوتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے سکول

Page 107

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 101 جلد چهارم کا یہ نتیجہ بعض دوسرے سکولوں کے نتیجہ کے مقابلہ میں اچھا نہیں کہلا سکتا.مجھے یاد ہے کہ وزیر آباد کے ایک سکول کا نتیجہ متواتر سالہا سال تک سو فیصدی نکلتا رہا ہے اور سالہا سال تک یو نیورسٹی میں اعلیٰ امتیاز کے ساتھ کامیابی حاصل کرنے والے پہلے تین لڑکوں میں سے ایک ضرور اس سکول کا ہوتا رہا ہے.تو ایسے سکول بھی ہیں جو سو فیصدی نتائج پیش کرتے ہیں.خصوصاً آریہ سکول لاہور سنٹرل ماڈل سکول لاہور اور وزیر آباد کا وہ سکول جس کا میں نے ذکر کیا ہے جو ممکن ہے اب ایسا اعلیٰ نہ رہا ہو.ایسے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم اپنے سکول کے اس نتیجہ سے مطمئن نہیں ہو سکتے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ جو سکول چالیس، پینتالیس فیصدی نتیجہ نکالتا رہا ہو وہ اگر ترقی کر کے نوے فیصدی سے اوپر نتیجہ نکالے تو یہ ترقی یقیناً خوشکن ہے اور ایک ایسا اچھا معیار ہے جسے آئندہ قائم کرنے کے لئے اتنی محنت نہیں کرنی پڑے گی جتنی پہلے کرنی پڑی ہے.اس سے کام کرنے والوں کے حوصلے بلند اور ارادے مضبوط ہوں گے.اور طلباء کے اندر بھی یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم سے پہلوں نے یہ معیار قائم کیا ہے ہمیں اسے قائم رکھنا چاہئے اور اس لحاظ سے یہ تسلی بخش ہے.پس یہ نتیجہ جہاں ہمارے لئے اس وجہ سے خوشی کا موجب ہے کہ نوے فیصدی سے اوپر نکلا ہے وہاں اس لحاظ سے بھی خوشکن ہے کہ ہمارے اساتذہ اور طلباء اب اس سے بھی آگے قدم ماریں گے اور کوشش کریں گے کہ آئندہ سو فیصدی نکلے.اور جب اللہ تعالیٰ انہیں.کامیابی دے دے کہ نتیجہ سو فیصدی نکلے تو پھر یہ کوشش کریں گے کہ طلباء صرف پاس ہی نہ ہوں بلکہ اتنے نمبر حاصل کریں کہ یونیورسٹی میں خاص عزت حاصل کر سکیں.اور ایسی پوزیشن حاصل کر لیں کہ اگر آئندہ محنت اور لیاقت کا تسلسل جاری رکھ سکیں تو اچھے عہدے حاصل کرسکیں.یا درکھنا چاہئے کہ مومن بھی چھوٹی چیز پر تسلی نہیں پاتا.میں نے کئی دفعہ مثال دی ہے کی کہ سید اسماعیل شہید جہاد کے لئے دہلی سے پشاور جا رہے تھے کہ رستہ میں انہوں نے سنا کہ ایک سکھ ایسا تیراک ہے کہ وہ دریائے اٹک کو تیر کر عبور کر جاتا ہے اور اس کا کوئی

Page 108

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 102 جلد چهارم مقابلہ نہیں کر سکتا.انہوں نے دریافت کیا کہ کیا کوئی مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ؟ انہیں بتایا گیا کہ نہیں.انہیں اس قدر غیرت آئی کہ گو ایک ضروری کام کے لئے جا رہے تھے مگر وہیں ٹھہر گئے اور تیرنے کی مشق شروع کر دی.آخر اسے چینج کیا کہ آؤ مقابلہ کر لو.اور پھر اسے شکست دی.تو اگر مسلمان بزرگ اپنے اندر اس قدر غیرت رکھتے تھے کہ انہیں یہ بھی گوارا نہ تھا کہ تیرنے میں کوئی سکھ مسلمان سے بڑھ جائے تو تعلیمی لحاظ سے ہمیں جس قدر دوسروں سے ممتاز رہنے کی کوشش کرنی چاہئے وہ ظاہر ہے.ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ نہ صرف دین میں ہی غالب رہیں بلکہ دنیا کے کاموں میں بھی ہر طرح سے دوسروں پر فضیلت حاصل کر سکیں.بے شک یہ ایک خواب اور خیال ہے مگر زندہ قوموں کے خواب پورے ہو کر رہتے ہیں.دنیا میں انسان کے تمام اعمال کے پیچھے دراصل خیال ہی کی طاقت ہے جو اسے کامیاب کرتی ہے.کسی کام میں خواہ کتنی محنت اور کوشش کی جائے اگر خیالات اعلیٰ نہ ہوں تو کامیابی نہیں ہو سکتی.لیکن اگر خیالات اعلیٰ ہوں تو تھوڑی سی محنت اور جد و جہد سے بھی زیادہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.بچپن میں ہمیں سکول میں ایک کتاب پڑھائی جاتی تھی جس میں ایک کہانی تھی کہ کسی عورت کے بچہ کو عقاب اٹھا کر لے گیا اور لے جا کر پہاڑ کی ایک ایسی بلند چوٹی پر رکھ دیا جہاں اس علاقہ کا کوئی آدمی چڑھ نہ سکتا تھا.ماں کی مامتا مشہور ہے اور اس نے اس کے اندر ایسے جذبات پیدا کر دیے کہ باوجود یکہ راستہ نہایت دشوار گزار تھا، چوٹی بالکل سیدھی تھی اور کہیں آسانی سے پاؤں رکھنے کی جگہ نہ تھی مگر وہ چڑھتی چلی گئی اور اپنے بچہ کو جا کر اٹھا لیا.لیکن جب بچہ اس کو مل گیا تو اس کے ساتھ ہی وہ جذبات بھی ڈھیلے پڑ گئے جن کے ماتحت وہ او پر پہنچ گئی تھی اور اسے محسوس ہو گیا کہ اس کے لئے نیچے اتر نا مشکل ہے.اس پر اس نے شور مچانا شروع کیا اور لوگوں نے بڑی مشکل سے اسے وغیرہ پھینک کر اسے نیچے اتارا.تو جب جذبات اور خیالات میں طاقت اور مضبوطی ہو تو ان کے پیچھے جو اعمال ہوتے ہیں ان میں کامیابی زیادہ آسان

Page 109

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 103 جلد چهارم ہو جاتی ہے.قوموں کی ترقی کا موجب ہمیشہ ان کے ارادے ہوتے ہیں.اگر یہ خیال کر لیا جائے اور فیصلہ کر لیا جائے کہ ہم دوسروں سے کسی لحاظ سے بھی پیچھے نہیں رہیں گے تو یہ خیال ایسی طاقت اور قوت پیدا کر دیتا ہے کہ انسان واقعی دوسروں سے آگے نکل جاتا ہے.دیکھو مسمریزم کیا ہے؟ خیالات ہی ہیں.لیکن اس سے ایسے ایسے حیرت انگیز کام ہو جاتے ہیں کہ لوگ انہیں معجزہ سمجھتے ہیں.یورپ میں لاکھوں ایسے انسان ہیں جو سپر چولزم کے ماتحت اپنے ان خیالات کو بھی چھوڑ رہے ہیں جنہیں وہ سائنس کے ماتحت مانتے تھے.اور بہت سے فلاسفر اور ڈاکٹر سپر چولزم کی طرف چلے جا رہے ہیں حالانکہ صحت نظر سے اگر دیکھیں تو یہ صرف خیالات کی طاقت ہے لیکن جو لوگ حقیقت سے واقف نہیں وہ دھوکا کھا جاتے ہیں.مشہور نو مسلم مسٹر عبد اللہ کوئیلم جو اس وقت پروفیسر لیون کے نام سے لندن میں رہتے ہیں ان کا اصل نام تو عبداللہ کو ٹیم ہی ہے مگر ان سے ایک دفعہ ملکی قانون کے ماتحت کوئی جرم سرزد ہو گیا تھا اور ان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے لیکن وہ فرار ہو گئے اور بعد میں حکومت برطانیہ کی شاندار خدمات سرانجام دیں جن کی وجہ سے حکومت ان کو سزا دینا نہ چاہتی تھی اور ساتھ ہی قانون کو توڑنا بھی اسے گوارا نہ تھا اس لئے انہیں اس نام کے ساتھ وہاں رہنے کی اجازت دے دی گئی.پولیس کو بھی اس بات کا علم ہے مگر وہ کچھ نہیں کرسکتی.یورپ میں سب سے پہلے اسلام کو پھیلانے والے وہی ہیں.میں جب انگلستان گیا تو انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ سپر چولزم کا اثر یہاں بہت پھیلتا جا رہا ہے اور بڑے بڑے لائق لوگ اس میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں مجھے بتائیں کہ اس کی اصلیت کیا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ یہ دراصل انسانی خیالات کی طاقتوں کا نتیجہ ہے جس کا قطعی اور یقینی ثبوت یہ ہے کہ اس کے پیچھے حقیقت بالکل نہیں ہوتی.اس ضمن میں میں نے انہیں چند ایک باتیں بتائیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ روح اسی زبان میں باتیں کرتی ہے جو میڈیم 1 کی ہو.مثلاً ایک انگریز میڈیم ہو تو جو روح آئے گی وہ ضرور انگریزی میں ہی

Page 110

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 104 جلد چهارم بات کرے گی.یا کسی ایسی زبان کے الفاظ استعمال کرے گی جو بچپن میں سنے ہوں.مثلاً بچپن میں وہ کبھی فرانس گیا ہو اور اُسی وقت سے فرانسیسی زبان کے بعض الفاظ اس کے دماغ میں محفوظ ہوں گے کیونکہ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ چلہ کے ایام کی بعض باتیں بھی انسانی دماغ میں محفوظ رہتی ہیں اور کبھی کوئی روح کسی ایسی زبان میں بات نہ کرے گی جس سے کبھی کوئی تعلق نہ رہا ہو.اگر کسی عرب کی روح آئے تو وہ بھی انگریزی میں بات کرے گی اور فرانسیسی کی آئے تو وہ بھی اور افریقن کی روح بھی.میں نے کہا کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگلے جہان میں سب انگریزی ہی بولتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ دلیل بالکل ٹھیک ہے اور مجھے اس کا ذاتی طور پر تجربہ بھی ہے.ایک دفعہ میرے ایک دوست مجھے ایک ایسی مجلس میں ساتھ لے گئے اور کہا کہ ایک دفعہ دیکھ لو.چنانچہ میں گیا.گانا وغیرہ گایا گیا اور جب وہ حالت آئی تو مجھے کہا گیا کہ تم بتاؤ کس کی روح آئے؟ میں نے کہا مجھے تو رسول کریم ﷺ کی ذات سے سب سے زیادہ انس ہے ان کی الله روح کو بلاؤ.اس پر ایک روح آئی جو گویا ان کے نزدیک رسول کریم ﷺ کی روح تھی مگر وہ بات چیت انگریزی میں کرتی تھی.میں نے کہا کہ آپ مجھے سورۃ فاتحہ سنائیں.اس سوال پر میڈیم میں کچھ گھبراہٹ سی پیدا ہوئی اور اس نے کہا کہ مجھے تو یہ نہیں آتی.میں نے کہا زندگی بھر آپ لوگوں کو سکھاتے رہے اور ہر نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھنے کا حکم دیا پھر اب آپ بھول گئے.سپر چولزم کی تردید کے اور بھی دلائل ہیں مگر سب سے زبر دست یہ ہے کہ کیا وجہ ہے سب روحیں اپنی اپنی زبانیں بھول جاتی ہیں اور انہیں صرف وہی یا د رہتی ہے جو میڈیم کی ہو.اس میں شبہ نہیں کہ اس کیفیت کے ماتحت انسان ایسی عجیب کا رروائیاں کر لیتا ہے کہ دیکھنے والا حیران رہ جاتا ہے.دراصل Subjective mind میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقتیں رکھی ہیں کہ وہ ایسے عجیب کام کر لیتا ہے جن کو Objective mind سمجھنے سے بھی قاصر رہتا ہے.میں نے خود تجربہ کیا ہے کہ سر کے پیچھے کتاب کھول کر رکھ دی اور اس صفحہ

Page 111

زریں ہدایات (برائے طلباء) 105 جلد چهارم کے بعض الفاظ پڑھ لئے.بظاہر یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی مگر Subjective mind میں یہ طاقت ہے.اور جب محض خیال سے اس قدر عجیب اور حیرت انگیز کام دنیا میں ہوتے ہیں تو جب یہ خیال ایمان کی شکل اختیار کرے تو پھر تو کوئی چیز اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی.حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمہارے لئے ناممکن نہ ہو گی ' 2 اور جب خالی خیال اس قدر عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتا ہے اور ایسی قوتیں بخش سکتا ہے کہ جن سے انسان ایسے کام کر لیتا ہے کہ جو دوسری صورت میں ممکن نہیں تو جب خیالات ایمان کی حالت میں آجائیں تو تم سمجھ سکتے ہو کہ ان سے کس قدر طاقت پیدا ہو سکتی ہے.اس سے ایسی آگ پیدا ہوتی ہے کہ جو دنیا کی سب گاڑیوں کو کھینچ کر لے جائے.پس کارکنوں میں ایسا جذبہ یقین پیدا ہونا چاہئے جو طالب علموں کے اندر بھی سرایت کر جائے.اور جب دونوں کے اندر ایک سے جذبات ہوں گے تو ایک ایسا نتیجہ نکلے گا جو دینی اور دنیوی دونوں لحاظ سے مفید ہوگا.ہمارے سکول کا مقصد صرف یہ نہیں ہونا چاہئے کہ طلباء پاس ہو جائیں.انہیں کم سے کم قرآن کریم کا اس قدر ترجمہ آنا چاہئے کہ قرآنی مطالب کا سمجھنا ان کے لئے سہل اور آسان ہو جائے.اگر یہ چیز پیدا نہیں ہو سکتی تو نتیجہ خواہ کیسا اچھا نکلے وہ مفید نہیں ہوسکتا.ماسٹر محمد دین صاحب کے اس خیال سے میں متفق ہوں کہ یہ کامیابی دراصل ٹیم کی کوششوں کا نتیجہ ہے.اس میں شک نہیں کہ چند سالوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض ایسے اساتذہ دیئے ہیں جو نہایت محنت سے کام کرتے ہیں.لیکن ماسٹر صاحب کے اس خیال سے میں متفق نہیں ہوں کہ انہوں نے جب سے ہائی کلاسز کو پڑھانا چھوڑا ہے نتائج اچھے نکل رہے ہیں.وہ اگر چھوٹی جماعتوں کو پڑھاتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ بڑی جماعتوں کے نتائج میں ان کی کوششوں کا دخل نہیں.بلکہ ان کا چھوٹی جماعتوں کو پڑھانا

Page 112

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 106 جلد چهارم لڑکوں کے اندر ایسی قابلیت پیدا کر دیتا ہے کہ وہ آگے جا کر اچھے نتائج پیدا کرسکیں.اور نتائج کی خرابی کی ایک بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ بعض طالب علم چھوٹی جماعتوں سے کمزور آتے ہیں.بہر حال یہ کامیابی ایک شخص کے کام کی نہیں بلکہ سب کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور سارے ہی تعریف کے مستحق ہیں.اور میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ گول کے قریب پہنچ کرست نہیں ہو جائیں گے بلکہ کوشش کریں گے کہ ترقی زیادہ ہو اور نتائج سو فیصدی نکلیں.اور جب اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر کوشش کریں کہ طلباء یونیورسٹی میں خاص امتیاز حاصل کر سکیں.اور جب یہ حاصل ہو جائے تو پھر کوشش کریں کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ طلباء دینی لحاظ سے بھی ترقی کریں.اور وہ غرض پوری ہو سکے جو اس سکول کو قائم کرنے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مد نظر تھی.چونکہ سنت ہے کہ جو دعوت کرے اس کے لئے دعا کی جائے اس لئے میں دعا کرتا (الفضل 19 جون 1938ء) ہوں دوسرے دوست بھی شامل ہوں.“ 1: میڈیم (Medium) ذریعہ اظہار ( اوکسفر ڈانگلش اردو ڈکشنری صفحہ 995 مطبوعہ کراچی 2013ء) 2 بمتی باب 17 آیت 20 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء میں دانہ کی بجائے وانے“ کا لفظ ہے.

Page 113

زریں ہدایات (برائے طلباء) 107 جلد چهارم حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کیلئے زریں ہدایات 29 جون 1938 ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب عربی تعلیم کے حصول کیلئے مصر روانہ ہوئے.اس موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے صاحبزادہ صاحب کو جو تحریری ہدایات دیں وہ درج ذیل ہیں:.عزیزم مبارک احمد سَلَّمَكَ اللهُ تَعَالَى السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لائے اور اپنی رضامندی کی راہ پر چلنے کی توفیق دے.تمہارا سفر تو عربی اور زراعت کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہے لیکن چھوٹے سفر میں اس بڑے سفر کو نہیں بھولنا چاہئے جو ہر انسان کو در پیش ہو.جرنیل جرنیلوں کے، مد بر مد بروں کے، بادشاہ بادشاہوں کے حالات پڑھتے رہتے ہیں تا کہ اپنے پیشروؤں کے حالات سے فائدہ اٹھا ئیں.اگر تم لوگ اہل بیت نبوی کے حالات کا مطالعہ رکھو تو بہت سی ٹھوکروں سے محفوظ ہو جاؤ.انسان کا بدلہ اس کی قربانیوں کے مطابق ہوتا ہے.رسول کریم اللہ فرماتے ہیں یہ نہ ہوگا کہ لوگ تو قیامت کے دن اپنے اعمال لے کر آئیں اور تم وہ غنیمت کا مال جو تم نے دنیا کا حاصل کیا ہے.اے میرے صحابہ! تم کو بھی اپنے اعمال ہی لا کر خدا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے.اہل بیت نبوی کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم نہ کی اولاد ہونے کے سبب سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں ان کی وجہ سے ہے.

Page 114

زریں ہدایات (برائے طلباء) 108 جلد چهارم (1) تم اب بالغ جوان مرد ہو.میرا یہ کہنا کہ نماز میں باقاعدگی چاہیئے ایک فضول سی بات ہوگی.جو خدا تعالیٰ کی نہیں مانتا وہ بندہ کی کب سنتا ہے.پس اگر تم میں پہلے سے با قاعدگی ہے تو میری نصیحت صرف ایک زائد ثواب کا رنگ رکھے گی اور اگر نہیں تو وہ ایک صدا بصحرا ہے مگر پھر بھی میں کہنے سے نہیں رک سکتا کہ نماز دین کا ستون ہے.جو ایک وقت بھی نماز کو قضا کرتا ہے دین کو کھو دیتا ہے اور نماز پڑھنے کے یہ معنے ہیں کہ باجماعت ادا کی جائے.اچھی طرح وضو کر کے ادا کی جائے.ٹھہر کر ، سوچ کر اور معنوں پر غور کرتے ہوئے ادا کی جائے اور اس طرح ادا کی جائے کہ توجہ کلی طور پر نماز میں ہو اور یوں معلوم ہو کہ بندہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.جہاں دو مسلمان بھی ہوں ان کا فرض ہے کہ باجماعت نماز ادا کریں بلکہ جمعہ بھی ادا کریں.اور نماز سے قبل اور بعد ذکر کرنا نماز کا حصہ ہے جو اس کا تارک ہو وہ نماز کو اچھی طرح پکڑ نہیں سکتا اور اس کا دل نماز میں نہیں لگ سکتا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا نمازوں کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللہ اور اَلْحَمْدُ لِلہ پڑھا جائے اور چونتیس دفعہ اللهُ أَكْبَرُ یہ سود فعہ ہوا 1 اگر تم کو بعض دفعہ اپنے بڑے نماز کے بعد اٹھ کر جاتے نظر آئیں تو اس کے یہ معنی نہیں بلکہ وہ ضرورتا اٹھتے ہیں اور ذکر دل میں کرتے جاتے ہیں.إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ.تہجد غیر ضروری نماز نہیں.نہایت ضروری نماز ہے.جب میری صحت اچھی تھی اور جس عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرتا تھا.تین تین چار چار گھنٹہ تک اور رسول کریم ﷺ کی اس سنت کو اکثر مد نظر رکھتا تھا کہ آپ کے پاؤں کھڑے کھڑے سوج جاتے تھے 2 رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو مسجد میں نماز کا انتظار کرتا اور ذکر الہی میں وقت گزارتا ہے وہ ایسا ہے جیسے جہاد کی تیاری کرنے والا.(2) اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں وہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ 3 ہے.اس کا تعلق ہر ایک سے اس احساس کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے بندے کو اس کے متعلق ہو.جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور وہ اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے.دنیا کا کوئی قلعہ، کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کر سکتا جس قدر کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد.

Page 115

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 109 جلد چهارم کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے.پس اسی کی جستجو انسان کو ہونی چاہئے.جسے وہ مل گئی اسے سب کچھیل گیا.جسے وہ نہ ملی اسے کچھ نہ ملا.(3) زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے.رسول کریم وہ جب مجلس میں بیٹھتے ستر دفعہ استغفار پڑھتے 4 اسی وجہ سے کہ مجلس میں لغو باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور یہ آپ کا فعل امت کی ہدایت کے لئے تھا نہ کہ اپنی ضرورت کے لئے.جب آپ اس قدر احتیاط اس مجلس کے متعلق کرتے تھے جو اکثر ذکر الہی پر مشتمل ہوتی تھی تو اس مجلس کا کیا حال ہوگا جس میں اکثر فضول باتیں ہوتی ہوں.یہ امور عادت سے تعلق رکھتے ہیں.میں دیکھتا ہوں ہمارے بچے جب بیٹھتے ہیں لغو اور فضول باتیں کرتے ہیں.ہم لوگ اکثر سلسلہ کے مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے اس وجہ سے بغیر پڑھے ہمیں سب کچھ آتا تھا.انسان کی مجلس ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں شامل ہونے والا جب وہاں سے اٹھے تو اس کا علم پہلے سے زیادہ ہو نہ یہ کہ جو علم وہ لے کر آیا ہوا سے بھی کھو کر چلا جائے.صا الله (4) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ یا اسلام کی تبلیغ کرنا دوسروں کا ہی کام نہیں ہمارا بھی کام ہے اور دوسروں سے بڑھ کر کام ہے.پس سفر میں ، حضر میں تبلیغ سے غافل نہ ہوں.رسول کریم فداه جسمی و روحی فرماتے ہیں تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کا ملنا اس سے بڑھ کر ہے ایک وادی کے برابر تجھ کو مال مل جائے 5 (5) بنیادی نیکیوں میں سے سچائی ہے.جس کو سچ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا.جسے سچ نہ ملا اس کے ہاتھوں سے سب نیکیاں کھوئی جاتی ہیں.انسان کی عزت اس کے واقفوں میں اس کے سچ کی عادت کے برابر ہوتی ہے.ورنہ جو لوگ سامنے تعریف کرتے ہیں پس پشت گالیاں دیتے ہیں اور جس وقت وہ بات کر رہا ہوتا ہے لوگوں کے منہ اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن دل تکذیب کر رہے ہوتے ہیں.اور اس سے زیادہ برا حال کس کا ہوگا کہ اس کا دشمن تو اس کی بات کورد کرتا ہی ہے مگر اس کا دوست بھی اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس سے زیادہ قابلِ رحم حالت کس کی ہوگی.اس کے برخلاف بچے آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دوست اس کی بات

Page 116

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 110 جلد چهارم مانتے ہیں اور اس کے دشمن خواہ منہ سے تکذیب کریں لیکن ان کے دل تصدیق کر رہے ہوتے ہیں.(6) انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَعْنَابِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ 6 کبھی دوسرے کی دولت پر نگاہ نہ رکھے اور کبھی کسی کا حسد نہ کرے.جو ایک دفعہ اپنے درجہ سے او پر نگاہ اٹھاتا ہے اس کا قدم کہیں نہیں نکلتا.اگلے جہان میں تو اسے جہنم ملے گی ہی وہ اس جہان میں بھی جہنم میں رہتا ہے.یعنی حسد کی آگ میں جلتا ہے یا سوال کی غلاظت میں لوٹتا ہے.کیسا ذلیل وجود ہے وہ کہ اکیلا ہوتا ہے تو حسد اس کے دل کو جلاتا ہے اور لوگوں میں جاتا ہے تو سوال اس کا منہ کالا کرتا ہے.انسان اپنے نچلوں کو دیکھے کہ وہ کس طرح اس سے تھوڑا رکھ کر قناعت سے گزارہ کر رہے ہیں اور اس پر شکر کرے جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا ہے اور اس کی خواہش نہ کرے جو اسے نہیں ملا.اس کے شکر کرنے سے اس کا مال ضائع تو نہیں ہوتا ہاں اسے دل کا سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے.اور طمع کرنے سے دوسرے کا مال اسے نہیں مل جاتا صرف اس کا دل جلتا اور عذاب پاتا ہے.جس طرح بچہ بڑوں کی طرح چلے تو گرتا اور زخمی ہوتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے سے زیادہ سامان رکھنے والوں کی نقل کرتا اور گرتا اور زخمی ہوتا ہے اور چند دن کے جھوٹے دوستوں کی واہ واہ کے بعد ساری عمر کی ملامت اس کے حصہ میں آتی ہے.اور انسان کو ہمیشہ اپنے ذرائع سے کم خرچ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ اس کے ذمہ دوسرے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور امداد بھی ہے.ان کا حصہ خرچ کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو اس کا حال کیا ہوگا.(7) جفاکشی اور محنت ایسے جو ہر ہیں کہ ان کے بغیر انسان کی اندرونی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں اور جو شخص اس دنیا میں آئے اور اپنا خزانہ مدفون کا مدفون چھوڑ کر چلا جائے اس سے زیادہ بدقسمت کون ہوگا.(8) ہر شخص جو باہر جاتا ہے اس کے ملک اور اس کے مذہب کی عزت اس کے پاس امانت ہوتی ہے.اگر وہ اچھی طرح معاملہ نہ کرے تو اس کی عزت نہیں بلکہ اس کے ملک اور

Page 117

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 111 جلد چهارم مذہب کی عزت برباد ہوتی ہے.لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستانی دیکھے ہوئے ہیں.وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.ہم نے احمدی دیکھے ہوئے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.(9) مسافر کو جھگڑے سے بہت بچنا چاہئے اس سے زیادہ حماقت کیا ہوگی کہ دوسرا شخص تو جھگڑا کر کے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور یہ ہوٹلوں میں جھگڑے کے تصفیہ کا انتظار کرتا ہے.مسافر تو اگر جیتا تب بھی ہارا اور اگر ہارا تب بھی ہارا.(10) غیر ملکوں کے احمدی ہزاروں بار دل میں خواہش کرتے ہیں کہ کاش! ہمیں بھی قادیان جانے کی توفیق ملے کہ وہاں کے بزرگوں کے تقویٰ اور اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھائیں اور خصوصا اہل بیت کے ساتھ ان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں.وہ اپنے گھروں کو ایمان کے حصول کے لئے چھوڑ نا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں.سخت ظلم ہوگا اگر ہم ان کے پاس جاکر ان کے ایمانوں کو ضائع کریں اور ان کی امیدوں کو سراب ثابت کریں.ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ سمجھیں کہ ہماری امید سے بڑھ کر ہمیں ملا نہ یہ کہ ہماری امید ضائع ہوگئی.(11) ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں.وہ ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے ہیں.مومن کو چغلی سننے سے پر ہیز چاہئے اور سن کر یقین کرنے سے تو کلی اجتناب واجب ہے.جو دوسرے کی نسبت عیب بغیر ثبوت کے تسلیم کر لیتا ہے خدا تعالیٰ اس پر ایسے لوگ مسلط کرتا ہے جو اس کی خوبیوں کو بھی عیب بتاتے ہیں.مگر چاہئے کہ چغلی کرنے والے کو بھی ڈانٹے نہیں بلکہ محبت سے نصیحت کرے کہ اگر آپ کا خیال غلط ہے تو بدظنی کے گناہ سے آپ کو بچنا چاہئے اور اگر درست ہے تو اپنے دوست کے لئے دعا کریں تا اسے بھی فائدہ ہو اور آپ کو بھی ، اور عفو سے کام لو کہ خدا تمہارے گناہ بھی معاف کرے.(12) تم کو مصر، فلسطین اور شام کے احمدیوں سے ملنا ہوگا.ان علاقوں میں احمدیت ابھی کمزور ہے.کوشش کرو کہ جب تم لوگ ان ممالک کو چھوڑ و تو احمدی بلحاظ تعداد کے زیادہ اور بلحاظ نظام کے پہلے سے بہتر ہوں.اور تم لوگوں کا نام ہمیشہ دعا کے ساتھ لیں اور کہیں کہ ہم کمزور

Page 118

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 112 جلد چهارم تھے اور کم تھے فلاں لوگ آئے اور ہم طاقتور بھی ہو گئے اور زیادہ بھی ہو گئے اور ان پر رحم کرے اور انہیں جزائے خیر دے.مومن کی مخلصانہ دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے.(13) جمعہ کی پابندی جماعت کے ساتھ خواہ کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو ادا کرنے کی اور دن میں کم سے کم ایک نماز اجتماعی جگہ پر پڑھنے کی اگر وہ دور ہو ورنہ جس قدر زیادہ تو فیق مل سکے کوشش کرنی چاہئے اور جماعتوں میں جمعہ کی اور ہفتہ واری اجلاسوں اور نماز با جماعت کی خاص تلقین کرنی چاہئے.(14) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر اجتماع کے موقع پر دعا فرماتے تھے اللَّهُمَّ رَبَّ السموات السبع وما اظلن و رب الارضين السبع وما اقللن و رب الشياطين وما اظللن و رب الرياح و ما ذرين فانا نسئلک خیر هذه القرية و خير اهلها و خير مافيها ونعوذ بك من شر هذه القرية و شر اهلها وشر ما فيها.اللهم بارك لنا فيها وارزقنا جناها و هيبنا الى اهلها و حبب صالحی اهلها الینا یعنی اے ساتوں آسمانوں کے رب اور جن چیزوں پر آسمانوں نے سایہ کیا ہوا ہے اور اے ساتوں زمینوں کے رب اور جن کو انہوں نے اٹھایا ہوا ہے اور اے شیطانوں کے رب اور جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں اور ہواؤں کے رب اور جن چیزوں کو وہ کہیں سے کہیں اڑا کر لے جاتی ہیں ہم تجھے سے اس بستی کی اچھی چیزوں اور اس کے بسنے والوں کے حسن سلوک اور جو چیز بھی اس میں ہے اس کے فوائد طلب کرتے ہیں اور بستی کی بدیوں اور اس کے رہنے والوں کی بدسلوکیوں اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس کے نقصانات سے پناہ طلب کرتے ہیں.اے اللہ ! ہمارے لئے اس بستی کی رہائش کو با برکت کر دے اور اس کی خوشحالی سے ہمیں حصہ دے اور اس کے باشندوں کے دل میں ہماری محبت پیدا کر اور ہمارے دل میں اس کے نیک بندوں کی محبت پیدا کر.آمین.یہ دعا بہت جامع اور ضروری ہے.ریل میں داخل ہوتے وقت کسی شہر میں داخل ہوتے وقت، جہاز میں بیٹھتے اور اس سے اترتے وقت خلوص دل سے یہ دعا کر لینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شرارت سے حفاظت کا موجب ہوتی ہے.

Page 119

زریں ہدایات (برائے طلباء) 113 جلد چهارم (15) مصر میں انگریزی اور فرانسیسی کا عام رواج ہے مگر تم عربی سیکھنے جارہے ہو ، پورا عہد کرو کہ عرب سے سوائے عربی کے اور کچھ نہیں بولنا خواہ کچھ ہی تکلیف کیوں نہ ہو ورنہ سفر بیکار جائے گا.ہاں وہاں کی خراب عربی سیکھنے کی ضرورت نہیں.اگر غیر تعلیم یافتہ طبقہ سے زراعت کی اغراض یا اور کسی غرض سے گفتگو کی ضرورت ہو تو خود بولنے کی ضرورت نہیں.ساتھ ترجمان رکھ لو.عربی پڑھ تو چکے ہی ہو.تھوڑی سی محنت سے زبان تازہ ہو جائے گی.(16) اپنے ساتھ قرآن کریم ، اس کے نوٹ، جو درس تم نے لکھے ہیں اور میری شائع شدہ تفسیر رکھ لو کام آئے گی.یہ علوم دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے.بڑے سے بڑا عالم ان کی برتری کو تسلیم کرے گا اور انشاء اللہ احمدیت کے علوم کا مصدق ہوگا.(17) ایک منجد، کتاب الصرف اور کتاب النحو ساتھ رکھو اور جہاز میں مطالعہ کرتے جاؤ کیونکہ لمبے عرصہ تک مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے زبان میں بہت نقص آجاتا ہے.(18) شریعت کا حکم ہے جہاں بھی ایک سے زیادہ آدمی رہیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کریں تا فتنہ کا سد باب ہو.اسْتَودِعُ اللهَ وَ كَانَ اللهُ مَعَكَ أَيْنَمَا كُنْتَ والسلام خاکسار مرز امحمود احمد تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 597 تا 602) 1:بخاری کتاب الاذان باب الذكر بعد الصلواۃ صفحہ 136 ، 137 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 2: بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفرك الله (الخ) صفحہ 856 حدیث 4837 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 3 الاخلاص 4

Page 120

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 114 جلد چهارم صلى الله 4: بخارى كتاب الدعوات باب استغفار النبي عل (الخ) صفحہ 1097 حدیث نمبر 6307 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية صلى الله 5: بخارى كتاب الجهاد باب دعاء النبي عليه الى الاسلام صفحہ 487 حدیث 2942 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 6: الحجر: 89

Page 121

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 115 جلد چهارم دین کی زیادہ سے زیادہ واقفیت حاصل کرو اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کی رغبت اپنے دل میں پیدا کرو 3 راگست 1938ء کو بعد نماز عصر طلباء وکارکنان تحریک جدید نے بورڈ نگ تحریک جدید میں بعض مبلغین کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.” جب بورڈنگ تحریک جدید کی ابتدا کی گئی تو اُس وقت غالباً بورڈنگ ہائی سکول میں 36 37 لڑکے تھے لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے 145 ہیں.گویا اُس زمانہ کے بورڈروں سے چار گنا زیادہ ہیں.اور اس زیادتی تعداد کا فائدہ یقیناً سکول کو بھی پہنچا ہے کیونکہ جتنے طالب علم زیادہ ہوں فیسوں کی آمدنی بھی زیادہ ہوتی ہے اور غالباً ایڈ (Aid) بھی زیادہ ملتی ہے.مگر میں سمجھتا ہوں ابھی یہ تعداد پوری نہیں.جب میں نے تحریک کی تھی اُس وقت میرے ذہن میں یہ تھا کہ کم از کم تین سو بورڈرز ہوں اور وہ بھی باہر سے آئے ہوئے.اُن طلباء کو جو قادیان کے ہیں اور بورڈنگ میں رہتے ہیں میں اپنی سکیم سے خارج سمجھتا تھا.اس لئے نہیں کہ ان کا بورڈنگ میں داخل ہونا مفید نہیں، یقینا مفید ہے اور تحریک جدید کے بورڈنگ کے کارکنوں کے لئے سرٹیفکیٹ ہے کیونکہ بعض اوقات مقامی لوگوں کو کسی ادارہ کے متعلق اعتراضات ہوتے ہیں ان حالات میں مقامی لڑکوں کا بورڈنگ میں داخل ہونا سرٹیفکیٹ ہے اُن خدمات کا جو بورڈنگ تحریک جدید کے افسر سر انجام دے رہے ہیں.مگر

Page 122

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 116 جلد چهارم میری سکیم یہ تھی کہ کم از کم تین سو بیرونی جماعتوں کے نمائندے یہاں رہیں اور یہاں سے ایک ایسی روح لے کر جائیں جو ہر وقت انہیں خدمت دین کے لئے بے تاب رکھے.اس میں مقامی بورڈر شامل نہیں تھے.پس اس سکیم کے بعد بیرونی طلباء 120 یا 125 کے قریب آئے ہیں اور ابھی ایک ایک کے مقابلہ میں دو دو کے آنے کی ضرورت ہے.شاید بورڈنگ کی موجودہ عمارت اتنی تعداد کے لئے کافی نہ ہو.مگر مکانوں کا بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں ہے.جب انسان بڑھتے ہیں تو مکانات بھی بڑھتے جاتے ہیں.اس تعداد کو پورا کرنے کے متعلق سب سے زیادہ ذمہ داری بورڈ نگ کے لڑکوں پر ہے.ابھی ایڈریس کا جو جواب دیا گیا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ زبانی دیا گیا ہے، جواب دینے والا بے شک علمی خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور وہ خاندان تقریریں کرنے والا ہے.یہ بات اسے علمی سہولت پہنچانے والی ہے.مگر میرے لئے یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے اس رنگ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ایک لڑکے کی تقریر سنی جس میں شکلی تھی ، بے خوفی تھی اور صفائی تھی.مجھے ایسا شبہ پڑتا ہے کہ تقریر کے کچھ حصے شاید حفظ کئے ہوئے تھے.مگر ممکن ہے یہ لہجہ کا اثر ہو اور واقعہ میں یاد نہ کئے ہوئے ہوں.ہوسکتا ہے کہ بوجہ پوری مشق نہ ہونے کے لہجہ ایسا ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یاد کئے ہوئے فقرے دہرائے جا رہے ہیں.تقریر کی خوبی جہاں روانی ، سلاست زبان اور فصاحت پر مشتمل ہوتی ہے وہاں آواز کے اتار چڑھاؤ پر بھی مشتمل ہوتی ہے.اور جن لیکچراروں میں یہ بات پائی جاتی ہے وہ وہی ہوتے ہیں جو قوموں کو اٹھا کر بہت بلندی پر لے جاتے ہیں اور ان میں بجلی کی ایسی رو پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ جان و مال ، عزت و آبرو، آرام و آسائش غرض کسی چیز کی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کرتیں.یہ چیزیں طبعی طور پر لیکچرار کے اندر ہوتی ہیں یا پھر مشاقی سے پیدا کی جاتی ہیں.پس ممکن ہے کہ کتابیں رٹنے کے نتیجہ میں اس قسم کا لہجہ ہو مگر مجھے پر یہ اثر ضرور ہے کہ بار بارد ہرا کر فقرے یادر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے.باوجود اس کے یہ پہلا

Page 123

زریں ہدایات (برائے طلباء) 117 جلد چهارم موقع ہے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ایک طالب علم نے زبانی ایسی تقریر کی جس سے میں متاثر ہوا.میں امید کرتا ہوں کہ اس سلسلہ کو بڑھانے کی کوشش کی جائے گی.میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ ایک دو طالب علموں کو سامنے رکھ کر اپنی کوشش کا ثبوت دیا جائے اس طرح جماعتیں نہیں بنا کرتیں اور نہ ترقی کر سکتی ہیں البتہ نمائش کی جاسکتی ہے.پس یہ غلط ہے کہ ہر شخص لیکچرار اور مصنف نہیں ہوسکتا، ہو سکتا ہے.ہاں ہر ایک کے مراتب الگ الگ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ ہر انسان کی ترقی کا ایک دائرہ ہوتا ہے اس میں وہ ترقی کرتا ہے.تو اوسط درجہ کی ترقی کی استعداد ہر انسان میں پائی جاتی ہے.ہاں کوئی کسی پہلو میں بڑھ جاتا ہے اور کوئی کسی میں کم رہ جاتا ہے.بعض لوگ حساب کے زیادہ ماہر ہوتے ہیں اور بعض تاریخ کے.مگر یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو حساب یا تاریخ بالکل ہی نہ آئے اور وہ ان کے متعلق کچھ بھی قابلیت پیدا نہ کر سکے.پس کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اس معیار کو بڑھایا جائے اور کوشش کی جائے کہ اعلیٰ تقریر کرنے کا ملکہ سب لڑکوں میں پیدا ہو.یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو میں نے بیان کی.اصل بات یہ تھی کہ بورڈ نگ تحریک جدید ترقی کرے.اس کی ذمہ داری ان طلبہ پر ہے جو اس بورڈنگ میں رہ چکے ہیں یا آئندہ رہیں گے.بورڈروں نے اپنے ایڈریس میں تسلیم کیا ہے کہ اس بورڈنگ میں رہ کر انہوں نے فائدہ اٹھایا ہے.اگر یہ درست ہے کہ اس وجہ سے انہیں دین کی زیادہ واقفیت حاصل ہوئی ، اگر یہ صحیح ہے کہ ان کی احمدیت سے محبت بڑھ گئی ہے.اگر یہ ٹھیک ہے کہ دین کے احکام پر عمل کرنے کی رغبت ان میں زیادہ پیدا ہوگئی ہے.اگر یہ واقعہ ہے کہ انہوں نے نمازوں میں زیادہ با قاعدگی اختیار کر لی ہے اور اگر یہاں نہ آتے تو یہ باتیں ان میں اس رنگ میں پیدا نہ ہوتیں تو ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر ایک بہت بڑی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے.اور وہ یہ ہے کہ وہ طلباء جو ان فوائد سے محروم ہیں ان کو تحریک کریں کہ وہ بھی یہاں آئیں اور ان کے والدین سے کہیں کہ انہیں یہاں بھیجیں.اگر سارے طالب علم اس

Page 124

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 118 جلد چهارم ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے تیار ہوں تو وہ ایک انجمن بنا ئیں جو اس بورڈنگ کی ترقی کے لئے کوشاں ہو.جس طرح ہم بڑوں سے یہ عہد لیتے ہیں کہ ہر شخص سال میں کم از کم ایک شخص کو احمدی بنائے اسی طرح وہ عہد لیں کہ سال میں کم از کم اتنے طالب علم ہم بورڈنگ میں داخل کرائیں گے.اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ طالب علم احمد ی ہی ہوں غیر احمدی بھی ہو سکتے ہیں.غیر احمدی طالب علم جب اس نظام کے ماتحت رہیں گے جو یہاں ہے اور جس میں اپنے اوپر آپ پابندیاں عائد کی جاتی ہیں، تسلیم اور اطاعت کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے، دین کے لئے قربانی کرنے کی روح پیدا کی جاتی ہے تو خواہ وہ غیر احمدی ہی چلے جائیں وہ اس نظام کو قائم کریں گے جو لوگوں کو اسلام کی طرف لانے والا ہو گا.اور جس کا نہ ہونا لوگوں کو احمدیت کی طرف آنے سے روکے ہوئے ہے.ہمارے ملک میں اپنی مرضی سے اطاعت کا جوا اٹھانے کی چونکہ لوگوں میں عادت نہیں ہے اس لئے وہ احمدیت کی طرف نہیں آتے اور ڈنڈے سے اطاعت اختیار کرتے ہیں حالانکہ اصل غلامی یہی ہے.اپنی مرضی سے ایک نظام کے ماتحت رہنا غلامی نہیں ہے بلکہ یہی تہذیب ہے.اور جولوگ ایک نظام کے ماتحت اپنی مرضی سے رہتے ہیں انہیں مہذب کہا جاتا ہے.اور جن کو ڈنڈے کے ذریعہ کسی نظام کے ماتحت رکھا جاتا ہے انہیں غیر مہذب قرار دیا جاتا ہے.ہندوستان کے لوگ اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ جبر کی حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن اپنی مرضی سے اطاعت اختیار کرنے کو غلامی کہتے ہیں.اگر ان لوگوں میں ڈسپلن کی عادت پیدا ہو جائے اور وہ ایک نظام کے ماتحت آ جائیں تو ان کو احمدیت میں لانا بالکل آسان ہو جائے.پس چاہے غیر احمدی طالبعلم ہوں ہر بورڈ ر عہد کرے کہ وہ دو دو یا تین یا چار طالب علم لائے گا حتی کہ وہ تعداد پوری ہو جائے جو سکیم تجویز کرتے وقت میرے مد نظر تھی بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ جتنے طالب علم زیادہ ہوں اتنا ہی اچھا ہے.اگر تین سو کی بجائے تین ہزار ہو جائیں تو بھی ہم ان کے لئے انتظام کر لیں گے.اِنشَاءَ اللهُ تَعَالٰی.

Page 125

زریں ہدایات (برائے طلباء) 119 جلد چهارم پس ایک تو جانے والے اور پیچھے رہنے والے طلباء کو میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ انجمن بنا کر اپنے ذمہ یہ کام لیں کہ کم از کم ایک ایک اور طالب علم داخل کریں گے اور پھر کوشش کریں کہ 145 کی تعداد اگلے سال کم از کم 290 ہو جائے.اگر وہ ایسا کریں گے تب مجھے معلوم ہوگا کہ انہیں یہاں آنے کے فوائد کا احساس ہے.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ طالب علم اور ٹیوٹرز ، سپرنٹنڈنٹ اور ہیڈ ماسٹر وغیرہ کے تعلقات ایک دوسرے سے تعاون پر مبنی ہونے چاہئیں ورنہ حقیقی فائدہ نہیں حاصل ہو سکتا.جس طرح استاد اور ٹیوٹر طلباء کے نگران ہوتے ہیں اسی طرح طلباء ان کے نگران ہوں.مگر وہ نگرانی تعاون والی ہو اور ترقی کی طرف لے جانے والی ہو.ایسی نہ ہو جس میں بغاوت اور خودسری پائی جائے.میں کارکنوں کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میں اب تک اس کام پر خوش نہیں ہوں جو ہوا ہے.در حقیقت اس وقت تک طلباء کو جو فوائد پہنچے ہیں وہ اس لئے پہنچے ہیں کہ یہاں پہلے سے ایک نظام کے ماتحت کام ہو رہا ہے.بورڈ نگ تحریک جدید کی طرف سے ابھی تک ایسا کوئی انتظام نہیں جس سے وہ پروگرام پورا ہو جس کے لئے یہ بورڈنگ جاری کیا گیا تھا.اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی خاص نتائج نہیں پیدا ہوئے.اگر اس بورڈنگ کو اس رنگ میں چلایا جائے جو میرے پیش نظر ہے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مذہبی لیڈر اور راہنما پیدا ہو سکیں گے جو دنیا میں عظیم الشان روحانی تغیر پیدا کر دیں گے.اس کے لئے ضرورت ہے کہ رات دن ان طلباء کو ان کے فرائض ذہن نشین کرائے جائیں.ان کو بتایا جائے کہ قوم کے لئے کسی فرد کا قربان ہونا اس کے لئے نقصان دہ بات نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑی خوش قسمتی کی علامت ہوتی ہے.اور یہ زیادہ سے زیادہ عزت کا مقام ہے کہ کسی کو قوم کے لئے بنیاد بننے کا موقع میسر آ سکے.ایسی بنیاد جس پر شاندار عمارت تیار ہو سکے.نو جوانوں میں یہ روح پیدا کرنے کے لئے علم النفس کا جاننا نہایت ضروری ہے.

Page 126

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 120 جلد چهارم اس کے نہ جاننے کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک نقص پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان میں قربانی کا مادہ کم ہو گیا ہے.اس نقص کو ایک قوم نے دور کیا مگر ایسے رنگ میں کہ اور زیادہ خرابیاں پیدا ہو گئیں.وہ قوم شیعہ ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زندہ مسلمانوں کی جس قدر تعریف کی گئی ہے اس سے بہت زیادہ مرنے والوں کی کی گئی ہے.چنانچہ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَه زیادہ زور والے الفاظ ہیں بہ نسبت وَمِنْهُم مَّن ينظرُ 1 کے مگر مُردہ قوموں میں یہ بات پائی جاتی ہے اور پور پین اقوام میں بھی جو اپنے آپ کو بہت ترقی یافتہ مجھتی ہیں یہ بات موجود ہے.گو وہ اس وقت نمایاں نہیں مگر جب یہ تو میں گریں گی تب معلوم ہوگا کہ وہ زندوں کی زیادہ تعریف کرتی ہیں اور جو دوسروں کی خاطر اپنی جان قربان کر دیں ان کی کم.قرآن کریم میں شہداء کو زندہ قرار دیا گیا ہے 2 اس لئے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو اور زیادہ نیکیاں کرتے.اب وہ اللہ کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں.اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کو رزق نہیں دیا جاتا.وہاں کا جو بھی رزق ہے وہ دوسروں کو بھی دیا جاتا ہے.شہداء کے رزق کا مطلب ان کا حصہ ہے یعنی دنیا میں جو اچھے کام ہو رہے ہیں ان کے ثواب کا حصہ ان کو بھی دیا جا رہا ہے.دین کی جو خدمات زندہ رہنے والے کر رہے ہیں حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی کو بھی ان کا ثواب مل رہا ہے.کیونکہ اگر وہ زندہ ہوتے تو وہ بھی یہ خدمات سرانجام دیتے.پس خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ ایک مومن کے ساتھی جب تک زندہ رہتے اور دین کی خدمات سرانجام دیتے ہیں مرنے والے کو اس حیثیت سے جس میں وہ مرا ثواب ملتا رہتا ہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا ہے کہ ایسے موقع پر جو شہادت پا جائیں ان کو زندہ رکھنا ضروری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شہید کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ بہت جلد اعلیٰ مدارج حاصل کر لیتا ہے.اس لئے نہیں کہ تھوڑی خدمت کے بدلہ میں اسے اعلیٰ مدارج حاصل ہو جاتے ہیں بلکہ اس لئے کہ تھوڑے دن خدمت کر کے وہ اسی راہ میں جان دے دیتا ہے.اگر وہ زندہ رہتا تو اس کے نیک اعمال کا تسلسل جاری رہتا.مگر خدا تعالیٰ نے

Page 127

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 121 جلد چهارم اپنے منشاء کے ماتحت اسے توڑا اور اسے شہادت دے دی تا کہ بعد کے آنے والے زندہ رہیں.اس وجہ سے خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دینے والوں کے اعمال جاری رہتے ہیں.وہ جن کے ساتھ زندگی میں مل کر کام کرتے تھے ان کے اعمال جس قد رثواب کے مستحق ہوں گے اسی قدر ثواب شہادت پانے والوں کو بھی ملے گا یعنی جس درجہ اور جس درجہ کی قربانی کرنے والا کوئی شہید ہوگا اسی درجہ کے مطابق اسے انعام ملیں گے اور موت اس سے اس کو محروم نہیں کر سکے گی.دیکھو بعض صحابہ ایسے تھے کہ انہیں اسلام لائے دو چار ہی دن گزرے تھے کہ لڑائی میں شہادت پاگئے.کیا ان کے اعمال ختم ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں.بلکہ ان کو اُس وقت تک وسعت دی جائے گی جب تک کہ ان کے ساتھ کے صحابہ زندہ ہیں.غرض دین کی راہ میں قربانی بہترین چیز ہے اور جنہیں یہ حاصل ہو ان کی قدر دوسروں کی نسبت بہت زیادہ ہونی چاہئے.قرآن کریم نے ایسا ہی کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ آپ دعا کیا کرتے تھے کہ مجھے شہادت حاصل ہو اور مدینہ میں ہی ہو 3 آخر انہیں حاصل ہو گئی اور مدینہ میں ہی حاصل ہوئی مگر تعجب ہے ان جیسے انسان نے یہ دعا کس طرح کی.مدینہ میں انہیں شہادت ملنے کے یہ معنی تھے کہ دشمن مدینہ پر حملہ کرے اور وہ اس قدر غلبہ پالے کہ مسلمانوں کے خلیفہ کو قتل کر دے.مگر با وجود اس کے حضرت عمر شہادت کے لئے دعا کیا کرتے تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا درجہ ہے کہ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ اس کی تمنا کیا کرتے تھے.یہ روح اور یہ ولولہ ہر احمدی کو اور خاص کر ہر احمدی نوجوان کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے اور ایک ایک طالب علم کے ذہن نشین یہ بات کر دینی چاہئے کہ اصل چیز جس کا قائم رہنا ضروری ہے وہ اسلام اور احمدیت ہے.ہر احمدی قصر احمدیت کی اینٹ ہے اور اگر کسی وقت کسی اینٹ کو اس لئے تو ڑ کر پھینکنا پڑے کہ قصیر احمدیت کے لئے یہی مفید ہے تو اسے اپنی انتہائی خوش قسمتی سمجھنا چاہئے.دیکھو ا ینٹ جب تک مکان کی دیوار میں لگی رہے

Page 128

جلد چهارم زریں ہدایات (برائے طلباء ) 122 صرف اینٹ ہے.لیکن مکان میں اگر کسی جگہ سوراخ ہو جائے جس میں سے پانی اندری آنے لگے اور اُس وقت ایک اینٹ نکال کر اسے پیسا جائے اور اس طرح مصالحہ بنا کر سوراخ کو بند کر دیا جائے تو وہ اینٹ مکان بن جائے گی.اسی طرح جو شخص قوم کے لئے فنا ہو جاتا ہے وہ ثابت کر دیتا ہے کہ اس نے قوم کے لئے قربانی کی.اور جو قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے اپنے آپ کو قربان کر دیتا ہے وہ خود نہیں رہتا بلکہ قوم بن جاتا ہے.یہ ہے وہ روح جو ہر احمدی نوجوان کے دل میں پیدا کرنی چاہئے.اور یا درکھنا چاہئے کہ جن میں یہ روح پیدا ہو جاتی ہے وہ معمولی انسان نہیں رہتے.ان کے چہروں سے ، ان کی باتوں سے اور ان کے اعمال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ انسان نہیں بلکہ مجسم موت ہیں.بدر کے موقع پر جب کفار نے اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے لئے آدمی بھیجے تو انہوں نے آ کر کہا کہ سواریوں پر ہمیں آدمی نظر نہیں آتے بلکہ موتیں نظر آتی ہیں.ان سے نہیں لڑنا چاہئے ورنہ ہماری خیر نہیں ہے 4 جب نو جوانوں میں ہمیں یہ روح نظر آ جائے گی اور ہم دیکھیں گے کہ وہ اسلام کے لئے قربان ہونے کے منتظر بیٹھے ہیں اور پر تو لے ہوئے اس بات کے منتظر ہیں کہ کفر کی چڑیا آئے اور وہ اس پر جھپٹ پڑیں اُس دن ہم جے گے کہ تحریک جدید کا بورڈنگ بنانے کا جو مقصد تھا وہ حاصل ہو گیا.چونکہ یہ کام تعلیم کی درستی کی کوشش ، تربیت کی درستی کی کوشش ، اچھے مطالعہ کی ضرورت اور اچھے ماحول کی ضرورت پر منحصر ہے اس لئے میں کارکنوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس مقصد کو سمجھیں جو ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور اس کو کامیاب بنانے کی پوری پوری کرشش کریں.بورڈ نگ تحریک جدید کے تمام کا رکن واقفین زندگی ہیں اور وقف کرنے کے معنی یہ ہیں کہ میری زندگی جماعت کے لئے ہے.اب جماعت احمدیہ، تحریک جدید کے بورڈنگ کی صورت میں ان کے سپرد کر دی گئی ہے.کیونکہ ضروری نہیں کہ ان کو کسی کام پر باہر ہی بھیجا جائے.جماعت کے بچوں کی صحیح تربیت بھی بہت بڑی خدمت ہے.یورپ میں پرنسپل کو وزراء جتنی عزت دی جاتی ہے اور بڑی قدر کی جاتی ہے.میرے جھیں

Page 129

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 123 جلد چهارم نزدیک ایسے بورڈنگ کا ٹیوٹر ہونا یا مینیجر ہونا یا سپرنٹنڈنٹ ہونا بہت بڑی عزت ہے اور قابل قدر خدمت ہے.کارکن یہ نہ سمجھیں کہ ان کی عزت پندرہ بیس روپیہ تنخواہ کے لحاظ سے ہوگی.ان کی عزت ان کے کام کی وجہ سے ہوگی.تنخواہوں کو ایک جیسا اس لئے رکھا گیا ہے کہ چونکہ سلسلہ کا ہر ایک کام ایک جیسی اہمیت رکھتا ہے اس لئے ایک ہی رنگ کا گزارہ ہونا چاہئے خواہ کوئی انٹرنس پاس ہو یا بی.اے یا مولوی فاضل.اگر کارکن اس بات کو سمجھتے تو جانتے کہ قوم کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے اور یہ ایسی ذمہ داری کا کام ہے جس کا اندازہ لگانا انسانی طاقت سے بالا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کیا نتائج نکلیں گے.پس میں کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کی ذمہ داری معمولی نہیں ہے مگر جو کام اس وقت تک انہوں نے کیا ہے وہ بہت معمولی ہے.اس نے طلباء میں کوئی خاص امتیاز پیدا نہیں کیا.اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے.مگر یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک طالبعلموں میں دین کے متعلق محبت اور دلچسپی نہ پیدا کر دی جائے اور ایسی طرز سے ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے کہ وہ اسے مشقت نہ سمجھیں بلکہ کھیل کے طور پر خیال کریں.اسی طرح طلباء کے جسمانی قومی اور حسیات کو بھی بڑھانا اور ترقی دینا چاہئے.اس کے لئے ان سے ایسے کام لئے جائیں جو کھیل کے کھیل ہوں اور جسمانی قومی کو ان سے ترقی حاصل ہو.مغربی کھیلوں کو ترک کر دینا چاہئے کیونکہ ان میں امیر وغریب میں امتیاز پایا جاتا ہے اور صحت کے لئے اور قومی کی ترقی کے لئے وہ ایسی مفید نہیں ہیں جیسی وہ کھیلیں جو ہمارے ملک میں رائج تھیں.ہماری دیسی کھیلیں یقیناً فٹ بال اور ہاکی سے زیادہ مفید ہیں.دراصل کھیلیں ایسی ہونی چاہئیں جن سے انسانی ذہن کی بھی ترقی ہو.فٹ بال میں مقابلہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے مگر بہت اونی درجہ کا.اسی طرح میں نے تحریک جدید کے بورڈنگ کے بورڈروں کے لئے یہ بھی رکھا تھا کہ اگر کسی طالب علم سے کوئی قصور سرزد ہو تو اس کی سزائر کے ہی تجویز کریں.اس طریق کو غالباً اب چھوڑ دیا گیا ہے.اور جب یہ جاری تھا اُس وقت بھی درست طور پر نہیں تھا.

Page 130

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 124 جلد چهارم سپرنٹنڈنٹ جب نگران کے طور پر ان میں موجود ہو تو طلباء اپنے طور پر کام نہیں کر سکتے.اسی طرح کھانے کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اس کا انتظام طالب علموں کے ہاتھ میں دیا جائے.جو طالب علم انچارج ہو وہ مہینہ کا پروگرام بنائے اور اس کے مطابق کھانے کا انتظام کرے.پھر وہ دیکھتا رہے کہ کوئی سودا مہنگا تو نہیں خریدا گیا، کوئی چیز خراب تو نہیں لائی گئی، گھی ناقص تو نہیں استعمال کیا جارہا، ایندھن کیسا ہوتا ہے اور روزانہ کتنا خرچ ہوتا ہے.عام طور پر لوگوں کو پتہ نہیں ہوتا کہ اتنے کھانے پر کتنا ایندھن خرچ ہوتا ہے.نواب محمد علی خان صاحب نے ایک دفعہ اس کا اندازہ لگایا اور پھر اس کے مطابق خرچ کا حساب رکھنے سے بہت فائدہ ہوا.تو کسی لڑکے کے سپر د کاپی کر دینا کافی نہیں.اس طرح باور چی نہایت آسانی کے ساتھ اسے اتو بنا سکتا ہے.اصل طریق یہ ہے کہ لڑکے کو ہر بات کا ذمہ دار بنایا جائے اور اس کا فرض ہو کہ چیزوں کی خرید و فروخت کا خیال رکھے.اس طرح کئی لڑکوں کو خود بخود ٹریننگ حاصل ہوتی جائے گی.لیکن اس تجویز پر بھی اس طریق سے عمل کیا گیا جو محض تمسخر تھا کہ صرف اشیاء نوٹ کرنے کے لئے کاپی دے دی گئی.چاہئے یہ تھا کہ پہلے ایسے عنوان طے کر لئے جاتے جن کی وجہ سے کھانے پکانے کا انتظام کرتے وقت علم میں ترقی ہوتی.مثلاً اچھی اجناس ایک عنوان ہے.اس کے متعلق یہ بیان کیا جاتا کہ یہ یہ چیزیں اجناس میں ملائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے وہ خراب ہو جاتی ہیں اور اچھی اجناس اس طرح کی ہوتی ہیں.پھر جب کوئی خراب جنس ہوگی تو منتظم لڑکا فورا معلوم کر لے گا.اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں سے مشقت کے کام ہاتھ سے کرائے جائیں.مثلاً سبریاں تیار کرائی جائیں اور بورڈنگ میں بچوں کی پیدا کردہ سبزیاں استعمال کی جائیں.اس طرح عملی کام سے ان کا لگاؤ پیدا کیا جا سکتا ہے.اسی طرح سائنس کے کا ذریعہ جو نئے کام نکل سکیں ان پر لیکچر دیے جائیں اور عملی طور پر مہینہ میں کم از کم ایک دفعہ انہیں بتایا جائے کہ بڑے ہو کر وہ کیا کیا کام کر سکتے ہیں.اب کے انٹرنس کے امتحان میں شامل ہونے والے جو طلباء مجھ سے ملنے کے لئے گئے ان سے میں نے پوچھا کہ کتنوں نے

Page 131

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 125 جلد چهارم سائنس لی ہے؟ تو معلوم ہوا کہ کل 59 ہیں جن میں سے صرف 25 سائنس پڑھتے رہے ہیں.یہ افسوس ناک بات تھی کیونکہ میرے نزدیک سو فیصدی کو سائنس پڑھنی چاہئے تھی.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مدارس میں عملی تعلیم جو آئندہ زندگی میں کام آ سکتی ہے سائنس یا ڈرائنگ ہی ہے اس سے غفلت برتنا طالب علم کی زندگی کو تباہ کرنا ہے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ طلباء اپنی رغبت اور شوق کے ساتھ سو فیصدی سائنس لیں.پھر اس کے بعد جدھر چاہیں جائیں.پھر صرف سائنس اتنی وسعت نہیں رکھتی جب تک عملی تجربہ نہ ہو.مجھے افسوس ہے کہ تحریک جدید کی تحریکوں میں سے جو تحریک ناکام رہی ہے وہ لوہار اور ترکھان کا کام سکھانے والی ہے.حالانکہ اس قسم کے کام اگر طالب علموں کو سکھائے جائیں تو ان کو بہت کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے.اب میں کارکنوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ ایسے طریق نکالیں کہ طالب علموں کو عملی طور پر صنعتی تعلیم بھی دی جا سکے.اسی طرح میں نے بتایا تھا کہ حواس خمسہ کی ترقی عملی زندگی پر بڑا اثر رکھتی ہے.اس کے لئے میں نے بعض کھیلیں بھی بتائی تھیں.90 فیصدی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ناک کی جس مکمل نہیں ہوتی ، صرف 10 کی اچھی ہوتی ہے.اب آنکھ کی حفاظت پر زور دیا جا رہا ہے مگر ضرورت ہے کہ ناک، کان، زبان اور لمس کی طاقت کے متعلق بھی باقاعدہ ٹریٹنگ ہو.پرانے زمانہ میں ایسی کھیلیں کھیلی جاتی تھیں جن سے حواس کی طاقت بڑھتی تھی.شاید ایسی کھیلوں کو پسند نہ کیا جائے.ایک کھیل تو رسول کریم ﷺ بھی کھیلے.ایک صحابی تھے جو بہت معمولی شکل کے تھے.وہ کوئی چیز بیچ رہے تھے.نہایت پریشان حال کھڑے تھے.پسینہ بہ رہا تھا.رسول کریم ﷺ نے اس حال میں ان کو دیکھا تو پیچھے چلے گئے اور ان کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے.چونکہ رسول کریم ﷺ کا جسم نازک اور نرم تھا اس صحابی نے آپ کو پہچان لیا اور اپنا جسم آپ کے ساتھ ملنا شروع کر دیا 5 یہ لمس کا امتحان تھا.یہ کھیل ہم بھی کھیلا کرتے تھے.اس طرح عقل کو بڑھایا جا سکتا ہے اور ایسی کھیلیں ایجاد کی جاسکتی ہیں.اسی طرح آنکھ سے کسی چیز کا اندازہ کر لینا بھی مشق کرنے

Page 132

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 126 جلد چهارم سے آسکتا ہے.کانوں کی جس کو بڑھانے والی یہ کھیل ہے کہ آنکھیں بند کر کے ٹانگیں لمبی کر دی جاتی ہیں اور ٹانگوں پر سے لڑ کے گزرتے ہیں.جن کے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ اب کون گزرا.جس کی آنکھیں بند ہوتی ہیں وہ گزرنے والے کے قدم سے یا لباس کی کھڑ کھڑاہٹ سے اس کا پتہ لگاتا ہے.اور اسی طرح کان کی جس تیز ہوتی ہے.مگر اب اس قسم کی کھیلوں کو چھوڑ دیا گیا ہے.حالانکہ یہ اعلیٰ درجہ کے مدر سے تھے جہاں جسوں کی طاقت کو بڑھایا جاتا تھا.بوسونگھنے کی قوت کو بڑھانے کے لئے میں نے ایک طریق بتایا تھا.وہ یہ کہ مختلف قسم کی خوشبو میں تھوڑی تھوڑی دور رکھی جائیں اور لڑکوں سے کہا جائے کہ سونگھ کر معلوم کریں کہ کون سی خوشبو کس چیز کی ہے.جو لڑکا جس خوشبو کو پہچان لے اس کے پاس کھڑا ہو جائے.اس طرح ان میں کھیل کی وجہ سے جس پیدا ہو گی اور ناک کی جس کا وہ صحیح استعمال کریں گے تو اس میں ترقی ہوتی جائے گی.ان باتوں کا عملی زندگی میں بہت فائدہ ہوسکتا ہے.جس کے ناک کی جس تیز ہو وہ اپنے منہ کی بو دور کر سکتا ہے.گولیکی اور سدو کی کے لوگوں میں ایک مرض ہے.جھوٹے صوفیاء نے ان میں عادت ڈال دی ہے کہ ناک کے قریب منہ کر کے باتیں کرتے ہیں اور اس طرح سمجھتے ہیں کہ وہ مرشد کی برکات کا اثر حاصل کرتے ہیں حالانکہ بعض اوقات دوسرے کے منہ سے ایسی بو آتی ہے جو نا قابل برداشت ہوتی ہے.مگر ان کے ناک کی جس چونکہ ماری جاتی ہے اس لئے وہ خود محسوس نہیں کرتے.جب ناک کی جس تیز ہوگی تو اپنے منہ کی حالت معلوم ہو جائے گی اور جب منہ کی حالت درست ہو جائے گی تو معدہ کی سڑاند بھی دور ہو جائے گی.اسی طرح زبان میں چکھنے کی جس ہے جو تجارت پیشہ لوگوں کو ان کے کاروبار میں بڑی مدد دیتی ہے.ہر قسم کی کھانڈ ایک جتنی مٹھاس نہیں رکھتی.کسی میں کم کسی میں زیادہ ہوتی ہے.جس نے کھانڈ مٹھاس کی خاطر لینی ہو وہ چکھ کر پتہ لگا سکتا ہے کہ کس قسم کی کھانڈ میں زیادہ مٹھاس ہے.ولایت میں چیزوں کے چکھنے اور ان کے ذائقے معلوم کرنے

Page 133

زریں ہدایات (برائے طلباء) 127 جلد چهارم والوں کو پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ تنخواہ ملتی ہے.ان کا عام طور پر شراب اور چائے کے چکھنے کا کام ہوتا ہے.وہ چکھ کر بتاتے جاتے ہیں کہ فلاں شراب فلاں خانہ میں رکھو.پھر اس کے مطابق اس کی قیمت پڑتی ہے.ان سے کم تنخواہ چائے لکھنے والے پانے کے ہیں جو بتاتے ہیں کہ فلاں پتی میں یہ خاصیت ہے.اس طرح وہ اعلیٰ اور ادنی پتی کی تقسیم کرتے ہیں.مگر ہمارے ہاں تو چائے کا نام رکھ کر اگر بنفشہ پلا دیا جائے تو بھی بہت لوگ ایسے ہوں گے جنہیں کوئی پتہ نہ لگے گا کیونکہ وہ دراصل چائے نہیں پیتے بلکہ چائے کا نام پیتے ہیں.اسی طرح آنکھوں کا امتحان ہے.مختلف رنگوں کے چارٹ موجود ہوں.جو لڑکا سکول میں داخل ہو اس کا امتحان لے لیا جائے کہ اس کی آنکھوں میں کوئی نقص تو نہیں ہے.اور اگر کوئی نقص ہو تو اس کا علاج کرایا جائے.مگر ہمارے ہاں تو بعض لوگ کئی رنگوں کے نام بھی نہیں جانتے.غرض رنگوں کے متعلق آنکھوں کے تجربے کئے جائیں اور جس کی آنکھ میں کوئی نقص ہوا سے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اسی طرح حلق ہے.آواز کا عمدہ اور بلند ہونا نہایت ضروری چیز ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہیں جو حاصل کئے جا سکتے ہیں.کانوں کا بہت بڑا تعلق آواز سے ہے اور کانوں کی یہ جس اس قدر ترقی کر سکتی ہے کہ امریکہ کے ریڈ انڈین زمین پر کان رکھ کر بتا سکتے ہیں کہ فلاں طرف سے دو یا تین یا چار سوار آ رہے ہیں.پہلے یورپین لوگ ان کی اس قسم کی باتوں کو جادو سمجھتے تھے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ کان کی جس کی تیزی کا نتیجہ ہے.غرض حواس خمسہ کی ترقی انسانی ترقی سے بہت بڑا تعلق رکھتی ہے اور اس کا روحانیت سے بھی بہت گہرا تعلق ہے.جب بچپن سے یہ بات لڑکوں کے ذہن نشین کی جائے گی کہ حواس خمسہ مرکب ہیں اور ان کے باریک فرقوں سے کچھ کا کچھ بن جاتا ہے اسی طرح روحانی حواس بھی مرکب ہیں اور ان کے ذرا سے فرق سے بھی بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے تو ہر موقع پر وہ اس بات کو یاد رکھیں گے اور انشاء اللہ بہت فائدہ اٹھائیں گے.

Page 134

امور - 128 جلد چهارم زریں ہدایات (برائے طلباء ) پھر طلباء کی اخلاقی تربیت کی طرف توجہ کی جائے.مثلاً انہیں بتایا جائے کہ بدظنی اور نگرانی میں کیا فرق ہے اور اس کے نہ جانے سے کیا نقصانات ہوتے ہیں.اس قسم کے پر لیکچر کرائے جائیں.اسی طرح لڑکوں کو اسلامی تاریخ سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے، اس کے نہ جاننے کی وجہ سے مسلمانوں کی ہمتیں ٹوٹ گئیں اور حو صلے پست ہو گئے ہیں.مجھے ایک دفعہ خیال آیا تھا کہ ایسے چارٹ بنائے جائیں جن میں دکھایا جائے کہ پہلی صدی میں کہاں کہاں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی تھی ، دوسری میں کہاں کہاں، تیسری صدی میں اسے کس قدر وسعت حاصل ہوئی.حتی کہ چودھویں صدی تک ساری کیفیت دکھائی جائے.اس طرح ہر طالب علم کے سینے پر ایک ایسا زخم لگے گا جو اسلام کی فتح سے ہی درست ہو گا.آج مسلمان سب کچھ بھول چکے ہیں.اگر کچھ یا د رہا تو یورپ کا بیان کردہ اور وہ بھی غلط رنگ میں.غیر مبایعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش کیا کرتے ہیں کہ ایک عام آدمی نے بھری مجلس میں ان پر اعتراض کیا تھا.حالانکہ یورپ والوں نے اسے غلط رنگ دے کر اپنے ڈھنگ کا بنالیا ہے اور غیر مبایعین نے نادانی سے ان کی نقل کرنی شروع کر دی ہے.بے شک ہمارے آباء کی اس قسم کی خوبیاں بھی ہیں جن کو یورپ نے صحیح طور پر سمجھا مگر بسا اوقات وہ ایسی باتیں پیش کرتے ہیں جو خو بیاں نہیں اور ہمارے آباء میں نہیں تھیں.ہم جب اسلامی تاریخ لکھیں گے تو اور رنگ میں لکھیں گے اور ان واقعات کو صحیح رنگ میں پیش کریں گے اور ان کی غلطیاں ظاہر کر دیں گے.غرض اسلامی تاریخ کے متعلق لیکچر ہوں اور اس قسم کے نقشے بنائے جائیں.میں مرکزی دفتر کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ طلباء کے ہر کمرہ میں اس قسم کے نقشے ہوں جن سے ہمارے لڑکے یہ سمجھ سکیں کہ مسلمان پہلے کیا تھے اور آج کیا ہیں.جب تک ہم اپنے بچوں کے سینوں میں ایک آگ نہ بھر دیں گے اور جب تک ان کے دل ایسے زخمی نہ ہو جائیں گے جو رستے رہیں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.اسلام کی ترقی چاہتی ہے کہ ایسی تاثیر پیدا ہو جو پرانی یاد کو تازہ رکھے اور پل بھر چین نہ لینے دے.جب تک یہ نہیں ہوتا ہماری

Page 135

زریں ہدایات (برائے طلباء) 129 جلد چهارم جد و جہد سخت کمزور رہے گی اور زیادہ شاندار نتائج پیدا نہیں ہوں گے.یہ چیزیں ہیں جو تحریک جدید کے مرکز اور بورڈنگ میں کام کرنے والوں کو مدنظر رکھنی چاہئیں.ان کے متعلق میں اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب سے تعاون کی توقع رکھتا ہوں.اور امید کرتا ہوں کہ جو کام کرنے والے ہیں وہ ان باتوں کو ذہن میں رکھیں گے اور دوسری طرف وہ طلباء جو جانے والے ہیں وہ کوشش کریں گے کہ اگلے سال بورڈنگ تحریک جدید میں اس سال سے دو گنے لڑکے ہوں.اگر وہ اس کے لئے کوشش کریں گے تو ضرور کامیاب ہوں گے.جب دوسرے لڑکے قادیان میں تعلیم پانے کے فوائد ان کے منہ سے سنیں گے تو ان پر ضرور اثر ہوگا اور وہ بھی ان فوائد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.پھر وہ لڑکے جو کامیاب ہوں اور کالجوں میں تعلیم پانا چاہیں وہ احمد یہ ہوٹل لاہور میں داخل ہوں تا کہ بورڈنگ تحریک جدید میں جو سبق انہیں پڑھائے گئے ہیں وہ اچھی طرح پختہ ہو جائیں.پھر تحریک جدید کا ایک حصہ وقف زندگی بھی ہے.طالب علم بھی زندگی وقف کریں اور اسلام کے بچے خادم بن جائیں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں اور مجھے اپنے فرائض ادا کرنے کی صحیح طور پر توفیق بخشے." الفضل 13، 14 ابريل 1961 ء ) 1: الاحزاب : 24 :2 وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ (البقره: 155) صلى الله 3 بخارى كتاب فضائل المدينة باب كراهية النبي علية ان تعرى المدينة صفحہ 304 حدیث 1890 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية.:4 سیرت ابن هشام جلد 1 صفحه 682، 683 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى 5 شمائل الترمذى باب ما جاء فى صفة مزاح رسول الله الله صفحه 19ء 20 مطبوعہ کراچی 1380ه 66

Page 136

زریں ہدایات (برائے طلباء) 130 جلد چهارم طلبائے بورڈ نگ تحریک جدید کو نصائح 24 جولائی 1941 کو طلباء بورڈ نگ تحریک جدید کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو نصائح فرمائیں ان نصائح کا خلاصہ حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مومن کے ارادہ سے اس کا عمل بڑھ جاتا ہے اور اس کے عمل سے اس کا ارادہ بڑھ جاتا ہے.یہی تسلسل ہے جو قوموں کی کامیابی کا ذریعہ ہوتا ہے.جب اس بورڈنگ ہاؤس کو بنایا گیا تو اس میں ایک سو ساٹھ یا ایک سواسی بورڈ رز کے رہنے کی گنجائش رکھی گئی.لیکن ابھی تک اس میں زیادہ سے زیادہ ایک سو پچاس لڑکے داخل ہو سکے ہیں گویا ابھی اور گنجائش ہے.اس بورڈ نگ کو بنے 27 ، 28 سال ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک ہم اسے بھرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے.میں سمجھتا ہوں اگر اس میں داخل ہونے والے بچے ایسا نمونہ بن کر باہر جائیں جسے دیکھ کر دوسروں کو اپنے بچے قادیان میں تعلیم پانے کے لئے بھیجنے کی حرص، لالچ اور خواہش پیدا ہو اور وہ ایسے رنگ میں رنگین ہو کر یہاں سے نکلیں جس میں تحریک جدید ان کو رنگنا چاہتی ہے تو میں سمجھتا ہوں ایک سال کیا ، ایک مہینہ کیا ایک دو ہفتوں میں ہی یہ بورڈنگ بھر سکتا ہے.“ اس کے بعد فرمایا:.” جب میں نے بورڈنگ تحریک جدید کی تحریک کی اُس وقت بورڈنگ میں 37 کے قریب لڑکے تھے اور وہ بھی کم ہوتے جا رہے تھے.پھر تحریک جدید کے ماتحت جماعت نے توجہ کی.ادھر بورڈنگ میں رہنے والوں نے ایک حد تک نمونہ اچھا دکھایا اور آج مجھے

Page 137

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 131 جلد چهارم بتایا گیا ہے کہ 137 بورڈ رز ہیں.مگر یہ ترقی ہمارے لئے خوشی کا موجب نہیں ہو سکتی جب تک تعداد کی ترقی کے ساتھ عملی ترقی نہ ہو.“ عملی ترقی کی تشریح میں فرمایا :.جو غرض تحریک جدید کی ہے اور جو باہر سے آ کر یہاں پڑھنے والوں کی ہے وہ معمولی نہیں بلکہ بہت بڑی ہے.اور وہ یہ ہے کہ ہم ایسے سپاہی تیار کریں جو اسلام کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہیں اور ہر میدان میں اسلام کی طرف سے لڑیں.مخالفین اسلام کے پر خچے اڑا دینے اور دشمن کو ریزہ ریزہ کر دینے کے الفاظ کافی نہیں ہو سکتے.اگر کافی ہو سکتے ہیں تو ایسے زندہ انسان جن کے جسم کے ذرہ ذرہ میں وہ لہریں پیدا ہو رہی ہوں جو انہیں اسلام کی جنگ کی طرف لے جارہی ہوں اور اسلام کو غلبہ دلانے کے لئے بے تاب 66 کر رہی ہوں.“ پھر فرمایا:." تم یہ مت خیال کرو کہ ہم طالب علم ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں.دراصل یہی وہ زمانہ ہے جس میں کی ہوئی تیاری بعد کی زندگی میں مفید ثابت ہوتی ہے اور یہی وہ زندگی ہے جس میں آئندہ کام کرنے کے لئے جوش اور ولولہ پیدا کیا جاتا ہے.تم میں چھوٹے بھی ہیں اور بڑے بھی.وہ عمر جو چھوٹوں کی ہے وہ بھی ہم پر گزری ہے.اور وہ عمر جو بڑوں کی ہے وہ بھی ہم پر گزری ہے.اسی عمر میں اسلام کی خدمت کا ہم میں ایسا جوش پایا جاتا تھا کہ اُس وقت ہم بڑوں کی امداد کے محتاج نہ ہوتے تھے.“ اس کے بعد حضور نے بتایا کہ کس طرح 16 سال کی عمر میں حضور نے مع چند اور ساتھیوں کے خدمتِ اسلام کے لئے ایک رسالہ جاری کیا اور کس طرح خود ہی کوشش کر کے بغیر بڑوں کی کسی قسم کی امداد کے اس میں کامیابی حاصل کی اور رسالہ کو نہایت مفید بنایا.پھر فرمایا:.ہم اس عمر میں بھی آزاد رائے رکھنے والے لوگ تھے.اس کے یہ معنی نہیں کہ

Page 138

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 132 جلد چهارم بڑوں کی باتیں نہ مانتے تھے بلکہ یہ کہ جب ایک دفعہ سن لیتے کہ دین کی خدمت کے لئے فلاں کام کرنا چاہئے تو پھر دوبارہ پوچھنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی کہ وہ کام کس طرح کریں.آزادی کی روح اور دلیری سے کام کرتے تھے اور کام کرنا جانتے تھے.“ آخر میں فرمایا:.میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ خیال اپنے دلوں سے نکال دو کہ ہم بچے ہیں ہم اس عمر میں کیا کر سکتے ہیں.ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جب یہ سنتے کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کو ترقی دے گا تو ہم سمجھتے کہ یہ ترقی ہمارے ذریعہ ہی ہوگی اور پھر کام کرنے لگ جاتے اور خدا تعالیٰ اس میں برکت دیتا.تم یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی بڑا کام نہیں کر سکتے.اس عمر میں سب سے ضروری چیز زبان سیکھنا ہے.تمہیں اردو سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے بعد مضامین لکھنے خود بخود آ جائیں گے.پھر تمہیں یہ یقین رکھنا چاہئے کہ بہت بڑے مقصد کے لئے تم پیدا کئے گئے ہو.تمہارے اندر اسلام اور احمدیت کو دنیا میں پھیلانے کے لئے ایک آگ سی لگی ہونی چاہئے.یہ آگ ہر عمر کے بچہ کے دل میں پیدا ہوسکتی اور اس سے بڑے بڑے کام کر سکتی ہے کیونکہ جب یہ آگ پیدا ہو جائے تو کوئی چیز مقابلہ نہیں کر سکتی.پس اسلام اور احمدیت کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کرو اور اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھو.“ الفضل 26 جولائی 1941 ء )

Page 139

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 133 جلد چهارم تعلیم الاسلام کالج قادیان کے قیام کی اغراض 4 جون 1944ء کوتعلیم الاسلام کالج قادیان کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفہ اسی الثانی نے جو تقریر فرمائی وہ حسب ذیل ہے:.یہ تقریب جو تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی ہے اپنے اندر دو گنا مقاصد رکھتی ہے.ایک مقصد تو اشاعت تعلیم ہے جس کے بغیر تمدنی اور اقتصادی حالت کسی جماعت کی درست نہیں رہ سکتی.جہاں تک تعلیمی سوال ہے یہ کالج اپنے دروازے ہر قوم اور ہر مذہب کے لئے کھلے رکھتا ہے کیونکہ تعلیم کا حصول کسی ایک قوم کے لئے نہیں ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم تعلیم کو بحیثیت ایک انسان ہونے کے ہر انسان کے لئے ممکن اور سہل الحصول بنا دیں.میں نے لاہور میں ایک دو ایسی انسٹی ٹیوٹ دیکھیں جن کے بانی نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان میں کسی مسلمان کا داخلہ نا جائز ہوگا.مجھ سے جب اس بات کا ذکر ہوا تو میں نے کہا اس کا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی ایسی ہی انسٹی ٹیوٹ قائم کریں اور اس میں یہ واضح کریں کہ اس میں کسی غیر مسلم کا داخلہ ناجائز نہ ہوگا کیونکہ ایک مسلم کا اخلاقی نقطۂ نگاہ دوسری قوموں سے مختلف ہوتا ہے.پس جہاں تک تعلیم کا سوال ہے ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ہر مذہب وملت کے لوگوں کے لئے تعلیم حاصل کرنا آسان ہو.اس کالج کے دروازے ہر مذہب وملت کے لوگوں کے لئے کھلے ہوں اور انہیں ہر ممکن امداد اس انسٹی ٹیوٹ سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے دی جائے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ آجکل کی تعلیم بہت سا اثر مذ ہب پر بھی ڈالتی ہے.ہم یقین ہیں کہ وہ غلط اثر ہوتا ہے کیونکہ وہ مذہب کے خلاف ہوتا ہے.ہم یہ ماننے کے لئے

Page 140

زریں ہدایات (برائے طلباء) 134 جلد چهارم تیار نہیں کہ خدا کا فعل اس کے قول کے خلاف ہوتا ہے، نہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار ہیں کہ خدا کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے.ہمیں ایک اور ایک دو کی طرح یقین ہے کہ خواہ ہمارے پاس ایسے ذرائع نہ بھی ہوں جن سے ان اعتراضات کا اسی رنگ میں دفعیہ کیا جا سکتا ہو جس رنگ میں وہ اسلام پر کئے جاتے ہیں یا جن علوم کے ذریعہ وہ اعتراضات کئے جاتے ہیں اُنہی علوم کے ذریعہ ان اعتراضات کا رڈ کیا جا سکتا ہو.پھر بھی یہ یقینی بات ہے کہ جو اعتراضات خدا تعالیٰ کی ہستی پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات خدا تعالیٰ کے رسولوں پر پڑتے ہیں یا جو اعتراضات اسلام کے بیان کردہ عقائد پر پڑتے ہیں وہ تمام اعتراضات غلط ہیں اور یقیناً کسی غلط استنباط کا نتیجہ ہیں.چونکہ اس قسم کے اعتراضات کا مرکز کالج ہوتے ہیں اس لئے ہمارے کالج کے قیام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ مذہب پر جو اعتراضات مختلف علوم کے ذریعہ کئے جاتے ہیں اُن کا انہی علوم کے ذریعہ رڈ کیا جائے.اور ہمارے کالج میں جہاں ان علوم کے پڑھانے والے پروفیسر مقرر ہوں وہاں ان کا ایک یہ کام بھی ہو کہ وہ انہی علوم کے ذریعہ ان اعتراضات کو رڈ کریں اور دنیا پر ثابت کریں کہ اسلام پر جو اعتراضات ان علوم کے نتیجہ میں کئے جاتے ہیں وہ سر تا پا غلط اور بے بنیاد ہیں.پس جہاں دوسرے پر وفیسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کو زیادہ سے زیادہ قوی کرتے چلے جائیں وہاں ہمارے پروفیسروں کی غرض یہ ہوگی کہ وہ ان اعتراضات کا زیادہ سے زیادہ رڈ کرتے چلے جائیں.اب تک ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں تھا جس سے یہ کام سرانجام دیا جا سکتا.انفرادی طور پر ہماری جماعت میں پروفیسر موجود تھے مگر وہ چنداں مفید نہیں ہو سکتے تھے اور نہ اُن کے لئے کوئی موقع تھا کہ وہ اپنے مقصد اور مدعا کو معتد بہ طور پر حاصل کرسکیں.پس جہاں ہمارے کالج سے منتظمین کو اور عملہ کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ غیر مذاہب کے طالب علم جو داخل ہونے کے لئے آئیں اُن کے داخلہ میں کوئی ایسی روک نہ ہو جس کے

Page 141

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 135 جلد چهارم نتیجہ میں وہ اس کالج کی تعلیم سے فائدہ حاصل نہ کرسکیں وہاں منتظمین کو یہ بھی چاہئے کہ وہ کالج کے پروفیسروں کے ایسے ادارے بنائیں جو ان مختلف قسم کے اعتراضات کو جو مختلف علوم کے ماتحت اسلام پر کئے جاتے ہیں جمع کریں اور اپنے طور پر اُن کو ر ڈ کرنے کی کوشش کریں.اور ایسے رنگ میں تحقیقات کریں کہ نہ صرف عقلی اور مذہبی طور پر وہ ان اعتراضات کو رڈ کر سکیں بلکہ خود اُن علوم سے ہی وہ اُن کی تردید کر دیں.میں نے دیکھا ہے بسا اوقات بعض علوم جو رائج ہوتے ہیں محض ان کی ابتدا کی وجہ سے لوگ ان سے متاثر ہو جاتے ہیں.ذرا کوئی تھیوری نکل آئے تو بغیر اُس کا ماحول دیکھنے کے اور بغیر اُس کے مال اور ماعلیہ پر کافی غور کرنے کے وہ ان سے متاثر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور اسے علمی تحقیق قرار دے دیتے ہیں.مثلاً پچھلے سو سال سے ڈارون تھیوری نے انسانی دماغوں پر ایسا قبضہ کر لیا تھا کہ گو اس کا مذہب پر حملہ نہیں تھا مگر لوگوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اس تھیوری کی وجہ سے تمام مذاہب باطل ہو گئے ہیں کیونکہ ارتقاء کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے.حالانکہ جس مذہب پر اس تھیوری کا براہ راست حملہ ہو سکتا تھا وہ عیسائیت ہے، اسلام پر اس کا کوئی حملہ نہیں ہو سکتا تھا.اسی طرح جہاں تک خدا تعالیٰ کے وجود کا علمی تعلق ہے ارتقاء کے مسئلہ کا مذہب کے خلاف کوئی اثر نہیں تھا صرف انتہائی حد تک پہنچ کر اس مسئلہ کا بعض صفات الہیہ کے ساتھ ٹکراؤ نظر آتا تھا اور درحقیقت وہ بھی غلط فہمی کا نتیجہ تھا.لیکن ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ ڈارون تھیوری کے خلاف کوئی بات کہنا عقل اور سائنس پر حملہ کرنا ہے.مگر اب ہم دیکھتے ہیں آہستہ آہستہ وہی یورپ جو کسی زمانہ میں ڈارون تھیوری کا قائل تھا اب اس میں ایک زبر دست رو اس تھیوری کے خلاف چل رہی ہے اور اب اس پر نیا حملہ حساب کی طرف سے ہوا ہے.چنانچہ علم حساب کے ماہرین اس طرف آ رہے ہیں کہ یہ تھیوری بالکل غلط ہے.مجھے پہلے بھی اس قسم کے رسالے پڑھنے کا موقع ملا تھا مگر گزشتہ دنوں جب میں دہلی گیا تو وہاں مجھے اب کے ایک بہت بڑے ماہر پروفیسر مولر کے ملے جنہیں پنجاب یونیورسٹی نے بھی

Page 142

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 136 جلد چهارم پچھلے دنوں لیکچروں کے لئے بلایا تھا اور اُن کے پانچ سات لیکچر ہوئے تھے.انہوں نے بتایا تھا کہ علم حساب کے رو سے یہ قطعی طور پر ثابت کیا جا چکا ہے کہ سورج اڑتالیس ہزار سال میں اپنے محور کے گرد چکر لگاتا ہے اور جب وہ اپنے اس چکر کو مکمل کر لیتا ہے تو اُس وقت مختلف سیاروں سے مل کر اُس کی گرمی اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اس گرمی کے اثر کی وجہ سے اس کے اردگرد چکر لگانے والے تمام سیارے پگھل کر راکھ ہو جاتے ہیں.میں نے کہا اگر اڑتالیس ہزار سال میں تمام سیارے سورج کی گرمی سے پکھل کر راکھ ہو جاتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کی عمر اس سے زیادہ نہیں ہوتی.وہ کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے دنیا کی عمر اس سے زیادہ ہر گز نہیں ہو سکتی.میں نے کہا ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ علم قطعی طور پر صحیح ہے لیکن اگر آپ کی رائے کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ڈارون تھیوری اور جیالوجی کی پرانی تھیوری بالکل باطل ہے.وہ کہنے لگے یقیناً باطل ہیں.میں نے کہا علوم کا اتنا بڑا ٹکراؤ آپس میں کس طرح ہو گیا ؟ انہوں نے کہا وہ تو علوم ہیں ہی نہیں عقلی ڈھکو سلے چلاتے ہیں اور ہم جو کچھ کہتے ہیں علم حساب کے رو سے کہتے ہیں.بہر حال اب ایک ایسی رو چل پڑی ہے کہ وہ بات جس کے متعلق سو سال سے یہ سمجھا جا تا تھا کہ اس کے بغیر علم مکمل ہی نہیں ہو سکتا اب اسی کو رڈ کرنے والے اور علوم ظاہر ہو رہے ہیں.اسی طرح نیوٹن کی تھیوری جو کششِ ثقل کے متعلق تھی ایک لمبے عرصہ تک قائم رہی مگر اب آئن سٹائن کے نظریہ نے اس کا بہت سا حصہ باطل کر دیا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ جن باتوں سے دنیا مرعوب ہو جاتی ہے وہ بسا اوقات محض باطل ہوتی ہیں اور اُن کا لوگوں کے دلوں پر اثر نے علم کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ اپنی جہالت اور کم علمی کی وجہ سے ہوتا ہے.جب دنیا میں ہمیں یہ حالات نظر آ رہے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ مسائل جنہوں نے سینکڑوں سال تک دنیا پر حکومت کی ہمارے پروفیسر دلیری سے یہ کوشش نہ کریں کہ بجائے اس کے کہ بعد میں بعض اور علوم ان کو باطل کر دیں ہماری انسٹی ٹیوٹ پہلے ہی ان کا غلط

Page 143

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 137 جلد چهارم ہونا ظاہر کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلام پر ان علوم کے ذریعہ جو حملے کئے جاتے ہیں وہ درست نہیں ہیں.اگر وہ کوشش کریں تو میرے نزدیک ان کا اس کام میں کامیاب ہو جانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ خدا کی مدد سے، محمد رسول اللہ ﷺ نے جو دین قائم کیا ہے اس کی مدد سے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو روشنی لائے ہیں اس کی مدد سے اور احمدیت نے جو ماحول پیدا کیا ہے اس کی مدد سے وہ بہت جلد اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور جو کام اور لوگوں سے دس گنا عرصہ میں بھی نہیں ہو سکتا وہ ہمارے پروفیسر قلیل سے قلیل مدت میں سرانجام دے سکتے ہیں.پس میری غرض کا لج کے قیام سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں ایک ایسا مرکز مل جائے جس میں ہم بیج کے طور پر ان تمام باتوں کو قائم کر دیں تا کہ آہستہ آہستہ اس پیج کے ذریعہ ایک ایسا درخت قائم ہو جائے ، ایک ایسا نظام قائم ہو جائے ، ایک ایسا ماحول قائم ہو جائے جو اسلام کی مدد کرنے والا ہو جیسے یورپین نظام اسلام کے خلاف حملہ کرنے کے لئے دنیا میں قائم ہے.پس ہمارے کالج سے منتظمین کو مختلف علوم کے پروفیسروں کی ایسی سوسائٹیاں قائم کرنی چاہئیں جن کی غرض یہ ہو کہ اسلام اور احمدیت کے خلاف بڑے بڑے علوم کے ذریعہ جو اعتراضات کئے جاتے ہیں اُن کا دفعیہ انہی علوم کے ذریعہ کریں.اور اگر وہ دیکھیں کہ موجودہ علوم کی مدد سے ان کا دفعیہ نہیں کیا جا سکتا تو پھر وہ پوائنٹ نوٹ کریں کہ کون کون سی ایسی باتیں ہیں جو موجودہ علوم سے حل نہیں ہوتیں اور نہ صرف خودان پر غور کریں بلکہ کالج کے بالمقابل چونکہ ایک سائنس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی قائم کی گئی ہے اس لئے وہ پوائنٹ نوٹ کر کے اس انسٹی ٹیوٹ کو بھجواتے رہیں اور انہیں کہیں کہ تم بھی ان باتوں پر غور کرو اور ہماری مدد کرو کہ کس طرح اسلام کے مطابق ہم ان کی تشریح کر سکتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام ان باتوں کا محتاج نہیں.اسلام وہ مذہب ہے جس کا مدار ایک زندہ خدا پر ہے پس وہ سائنس کی تحقیقات کا محتاج نہیں.مثلاً وہی پر و فیسر مولر جن

Page 144

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 138 جلد چهارم کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے جب مجھے ملے تو انہوں نے بتایا کہ وہ اور نیویارک کے بعض اور پروفیسر بھی تحقیقات کر کے اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس ساری یو نیورس کا ایک مرکز ہے.اس مرکز کا انہوں نے نام بھی لیا تھا جو مجھے صحیح طور پر یاد نہیں رہا.اُنہوں نے بتایا کہ سارے نظامِ عالم کا فلاں مرکز ہے جس کے گرد یہ سورج اور اس کے علاوہ اور لاکھوں کروڑوں سورج چکر لگا رہے ہیں اور انہوں نے کہا میری تھیوری یہ ہے کہ یہی مرکز خدا ہے.گویا اس تحقیق کے ذریعہ ہم خدا کے بھی قائل ہیں.یہ نہیں کہ ہم دہریت کی طرف مائل ہو گئے ہوں.پہلے سائنس خدا تعالیٰ کے وجود کو رڈ کرتی تھی مگر اب ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ اس سارے نظام کا ایک مرکز ہے جو حکومت کر رہا ہے اور وہی مرکز خدا ہے.میں نے کہا نظام عالم کے ایک مرکز کے متعلق آپ کی جو تحقیق ہے مجھے اس پر اعتراض نہیں.قرآن کریم سے بھی ثابت ہے کہ دنیا ایک نظام کے ماتحت ہے اور اس کا ایک مرکز ہے.مگر آپ کا یہ کہنا کہ وہی مرکز خدا ہے درست نہیں.میں نے اُن سے کہا مجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامات نازل ہوتے ہیں اور کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنے کلام اور الہام کے ذریعہ وہ مجھے قبل از وقت بتا دیتا ہے.آپ بتائیں کہ کیا آپ جس مرکز کو خدا کہتے ہیں وہ بھی کسی پر الہام نازل کر سکتا ہے؟ وہ کہنے لگے الہام تو نازل نہیں کر سکتا.میں نے کہا تو پھر میں کس طرح تسلیم کرلوں کہ وہی مرکز خدا ہے.مجھے تو ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے اور وہ باتیں اپنے وقت پر پوری ہو جاتی ہیں.کوئی بات چھ مہینے کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے، کوئی دو سال کے بعد پوری ہو جاتی ہے اور اس طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ مجھ پر جو الہام نازل ہوتا ہے خدا کی طرف سے ہی ہوتا ہے.پھر میں نے انہیں مثال دی اور کہا آپ مجھے بتائیں کیا آپ کا وہ کرہ جسے آپ خدا قرار دیتے ہیں کسی کو یہ بتا سکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے انگلستان کی مدد کے لئے اٹھائیس سو ہوائی جہاز بھیجوایا جائے گا ؟ وہ کہنے لگے اس کرہ سے تو کوئی ایسی بات کسی کو نہیں بتائی جاسکتی.میں نے کہا تو پھر ماننا پڑے گا کہ اس کتے کا اور اسی طرح

Page 145

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 139 جلد چهارم اور کتوں کا خدا کوئی اور ہے، یہ خود اپنی ذات میں خدا نہیں ہیں.کیونکہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اس مرکز کے ذریعہ کسی کو کوئی خبر قبل از وقت نہیں پہنچ سکتی.لیکن میں اپنے تجربہ سے جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام انسان پر نازل ہوتا ہے جو کئی قسم کی غیب کی خبروں پر مشتمل ہوتا ہے.پس آپ بے شک اس مرکز کو ہی خدا مان لیں لیکن ہم تو ایک علیم وخبیر ہستی کو خدا کہتے ہیں.اُس کے اندر قدرت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر جلال بھی ہوتا ہے، اُس کے اندر جمال بھی ہوتا ہے، اُس کے اندر علم بھی ہوتا ہے، اس کے اندر حکمت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر بسط کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندرخمی ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر سمیت ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر حلیم ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر میمن ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے، اُس کے اندر واسع ہونے کی صفت بھی ہوتی ہے.غرض بیسیوں قسم کی صفات ہیں جو اُس کے اندر پائی جاتی ہیں.اسی طرح اُس کا نور ہونا ، اُس کا وہاب ہونا، اُس کا شکور ہونا، اُس کا غفور ہونا ، اُس کا رحیم ہونا، اُس کا ودود ہونا ، اُس کا کریم ہونا ، اُس کا ستار ہونا اور اسی طرح اور کئی صفات کا اُس کے اندر پایا جانا ہم تسلیم کرتے ہیں.کیا یہ صفات اس مرکز میں بھی پائی جاتی ہیں جس کو آپ خدا کہتے ہیں؟ جب ایک طرف اس کے اندر یہ صفات نہیں پائی جاتیں اور دوسری طرف ہم پر ایک ایسی ہستی کی طرف سے الہام نازل ہوتا ہے جس میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو اپنی ان صفات کو اپنے کلام کے ذریعہ دنیا پر ظاہر کرتا ہے اور باوجود اس کے کہ ساری دنیا مخالفت کرتی ہے پھر بھی اُس کا کلام پورا ہو جاتا ہے اور جو کچھ اُس نے کہا ہوتا ہے وہی کچھ دنیا کو دیکھنا پڑتا ہے تو اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہم آپ کی تھیوری کو کس طرح مان سکتے ہیں.اس پر وہ کہنے لگا اگر یہ باتیں درست ہیں تو پھر ماننا پڑے گا کہ یہ تھیوری باطل ہے.اس کلام کے ہوتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کوئی ایسا خدا نہیں جس کے تابع یہ تمام مرکز ہو.تو مذہب کے لحاظ سے ہم ان چیزوں کے محتاج نہیں ہیں.ہمارے لئے یہ ضروری نہیں کہ ہم سائنس کے علوم کی مدد سے خدا تعالیٰ کو حاصل

Page 146

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 140 جلد چهارم کریں خدا بغیر سائنس کے بھی انسان کومل جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو آپ نے نہ فلسفہ پڑھا، نہ سائنس پڑھی ، نہ حساب پڑھا ، نہ کوئی اور علم سیکھا مگر پھر بھی خدا آپ سے اس طرح بولا کہ آج تک نہ کسی سائنسدان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے ، نہ کسی حساب دان کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے ، نہ کسی فلسفی کو وہ نعمت نصیب ہوئی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی نہ یہ فلسفہ پڑھا، نہ یہ سائنس پڑھی، نہ یہ حساب پڑھا لیکن جس رنگ میں خدا نے آپ سے کلام کیا وہ نہ کسی فلسفے والے کو نصیب ہوا ، نہ کسی سائنس والے کو نصیب ہوا، نہ کسی حساب والے کو نصیب ہوا.اسی طرح اب میرے ساتھ جس طرح خدا متواتر کلام کرتا اور اپنے غیب کی خبریں مجھ پر ظاہر فرماتا ہے یہ نہ سائنس کا نتیجہ ہے، نہ فلسفے کا نتیجہ ہے، نہ حساب کا نتیجہ ہے کیونکہ میں نے نہ سائنس پڑھی ہے ، نہ فلسفہ پڑھا ہے، نہ حساب پڑھا ہے.تو ہمیں کسی سائنس یا فلسفہ یا حساب کی مدد کی ضرورت نہیں بلکہ وہ لوگ جو دن رات ان علوم میں محو رہتے ہیں ان میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے کہ اگر ہم اُس کے سامنے اپنے الہامات پیش کریں اور وہ ان پر غور کرے تو ہمیں امید ہے کہ وہ سمجھ جائے گا.جیسے پروفیسر مولر جب میرے پاس آیا اور میں نے اُس سے سنجیدگی کے ساتھ باتیں کیں تو وہ حقیقت کو سمجھ گیا.یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ میں مجھے قبل از وقت الہام کے ذریعہ کئی خبریں دی گئی تھیں جو اپنے وقت پر پوری ہوئیں اس وجہ سے اُس کی راہ میں مشکلات تھیں لیکن اُس نے اتنا ضرور تسلیم کر لیا کہ اگر الہام ثابت ہو جائے تو پھر یہ مان لینا پڑے گا کہ جس تھیوری کو میں پیش کرتا ہوں وہ غلط ہے.جب اُس نے الہام کا امکان تسلیم کرتے ہوئے اپنی تھیوری کو غلط مان لیا تو وہ جن کے سامنے الہام پورے ہوتے ہیں وہ ایسی تھیوری کو کب مان سکتے ہیں.وہ تو ایسے ہی خدا کو مان سکتے ہیں جو قادر ہے، کریم ہے، مہیمن ہے ، عزیز ہے، سمیع ہے، مجیب ہے ، حفیظ ہے اسی طرح اور کئی صفات حسنہ کا مالک ہے.اپنی آنکھوں دیکھی چیز کو کون رو کر سکتا ہے.تو سائنس بھی اور فلسفہ بھی اور حساب بھی جہاں تک خدا کا تعلق

Page 147

زریں ہدایات (برائے طلباء) 141 جلد چهارم ہے ایک تھیوری سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.ان کو ماننے والا کہہ سکتا ہے کہ شاید یہ غلط ہوں یا شاید یہ صیح ہوں.اسے قطعی اور یقینی وثوق ان علوم کی سچائی پر نہیں ہوسکتا.لیکن ہمیں خدا تعالیٰ کی ذات پر جو یقین ہے وہ ہر قسم کے شبہات سے بالا تر ہے.وہ یقین ایسا ہی ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اے خدا ! میں سورج کا انکار کر سکتا ہوں، میں اپنے وجود کا انکار کر سکتا ہوں مگر جس طرح تو مجھ پر ظاہر ہوا ہے میں اس کا کبھی انکار نہیں کر سکتا.یہ وہ یقین ہے جو خدا پر ایمان لانے والوں کو حاصل ہوتا ہے.مگر کیا ایسا یقین کسی سائنسدان کو اپنے کسی سائنس کے مسئلہ کی سچائی پر ہوسکتا ہے یا کیا ایسا یقین کسی حساب دان کو اپنے حساب کے کسی مسئلہ کی سچائی پر ہو سکتا ہے؟ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ حساب قطعی اور یقینی چیز ہے مگر اب نئی دریافتیں ایسی ہوئی ہیں جن کی وجہ سے حساب کے متعلق بھی شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.مگر حساب سے عام سودے والا حساب مراد نہیں بلکہ وہ حساب مراد ہے جو فلسفہ کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور فلسفہ خود مشکوک ہوتا ہے.ہر زمانہ میں جو فلاسفر ظاہر ہوتا ہے اُس کے علوم کا انکار کرنے والا علوم جدیدہ کا منکر قرار دیا جاتا ہے.لیکن ابھی پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلسفی کھڑا ہو جاتا ہے جو اس پہلے فلاسفر کی تحقیق کو غلط قرار دے دیتا اور نئے نظریات پیش کرنا شروع کر دیتا ہے.اُس وقت جولوگ اُس کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں لوگ ان کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ علوم جدیدہ کے منکر ہیں.مگر پچاس ساٹھ سال نہیں گزرتے کہ ایک اور فلاسفر اس تحقیق کو قدیم تحقیق قرار دے کر ایک نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور پہلی تحقیقات کو غلط قرار دے دیتا ہے.کیا تم نے کبھی دیکھا ہے کہ خدا کا وجود بھی غلط قرار دیا گیا ہو؟ یا کبھی کوئی نبی ایسا کھڑا ہوا ہو جس نے کہا ہو کہ خدا کے متعلق لوگوں کے دلوں میں جو خیال پایا جاتا تھا وہ موجودہ تحقیق نے غلط ثابت کر دیا ہے ؟ آدم سے لے کر اب تک ہمیشہ ایسے وجود آتے رہے ہیں جنہوں نے اپنے تجربہ اور مشاہدہ سے دنیا کے سامنے یہ حقیقت پیش کی کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے اور پھر دلائل و براہین سے اُس کے

Page 148

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 142 جلد چهارم وجود کو ایسا ثابت کیا کہ دنیا اُن دلائل کا انکار نہ کرسکی.انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی طرف سے کھڑے ہوئے ہیں اور خدا کی ہستی کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ہمیں کامیاب کرے گا.چنانچہ دنیا نے اُن کی مخالفت کی مگر خدا نے اُن کو کامیاب کر کے دکھا دیا اور اس طرح ثابت کر دیا کہ اس عالم کا حقیقتاً ایک قادر اور مقتدر خدا ہے جو اپنے پیاروں سے کلام کرتا اور مخالف حالات میں اُن کو کامیاب کرتا ہے.پس خدا کے وجود پر انبیاء کی متفقہ گواہی ایک قطعی اور یقینی شہادت ہے جو اُس کی ہستی کو ثابت کر رہی ہے.آج تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنے سے پہلے آنے والے نبی کی تردید کی ہو.ہر سائنسدان پہلے سائنسدان کی تردید کرتا ہے، ہر فلاسفر پہلے فلاسفر کی تردید کرتا ہے، ہر حساب دان پہلے حساب دان کی تردید کرتا ہے مگر انبیاء کا وجود ایسا ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تصدیق ہی کرتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ اُن کی تردید کرے، وہ اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کو باطل ثابت کرے.قرآن کریم نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں پیش کیا تھا جسے عیسائیوں نے غلطی سے نہ سمجھا اور اعتراض کر دیا کہ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ 2 یعنی دنیا میں ایک ہی سلسلہ ہے جس میں ہر آنے والا اپنے سے پہلے کی تصدیق کرتا ہے.اس کی تکذیب اور تردید نہیں کرتا.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی ماہ تک اور محمد مے سے لے کر مسیح موعود تک ایک نبی بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس نے پہلے انبیاء اور اُن کی لائی ہوئی صداقتوں کا انکار کیا ہو بلکہ وہ ہمیشہ پہلوں کی تصدیق کرتا ہے.لیکن دوسرے تمام علوم چونکہ ظنی ہیں ، وہمی اور خیالی ہیں اس لئے ہر نئی سائنس پہلی سائنس کی تردید کرتی ہے اور ہر نیا فلسفہ پہلے فلسفہ کی تردید کرتا ہے، ہر نیا حساب پہلے حساب کی تردید کرتا ہے.بے شک انبیاء کی تعلیمیں منسوخ بھی ہوتی ہیں مگر منسوخ ہونا اور چیز ہے اور ان تعلیموں کو غلط قرار دینا اور چیز ہے.فلسفہ والے کہتے ہیں کہ فلاں زمانہ میں جو فلسفی گزرا تھا اُس کا فلسفہ غلط تھا کیونکہ نئی تحقیقات نے اس کو باطل ثابت کر دیا ہے.سائنس کی جب نئی تحقیقات ہوتی ہے تو سائنسدان کہتے ہیں پہلے سائنسدانوں نے غلطی کی، اُنہوں نے فلاں فلاں مسائل بالکل صل الله

Page 149

زریں ہدایات (برائے طلباء) 143 جلد چهارم غلط بیان کئے تھے.اسی طرح علم حساب کی جب تحقیق ہوتی ہے حساب دان یہ کہتے ہیں کہ فلاں حساب دان نے یہ غلطی کی تھی اور فلاں حساب دان نے وہ غلطی کی تھی.لیکن دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی مبعوث ہوا ہو اور اُس نے یہ کہا ہو کہ فلاں نبی نے غلط بات کھی تھی.انبیائے سابقین کی تعلیمیں بے تک منسوخ ہوتی رہی ہیں مگر منسوخ ہونے کے یہ کی معنی نہیں تھے کہ وہ تعلیمیں غلط تھیں.ان تعلیموں کے منسوخ ہونے کا صرف اتنا مفہوم ہے کہ وہ تعلیمیں اُس زمانہ کے لئے تھیں بعد کے زمانہ کے لئے نہیں تھیں.پس ہمیں ذاتی طور پر اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم سائنس اور فلسفہ اور حساب اور دوسرے علوم کے ذریعہ اسلام کی صداقت ثابت کریں.اسلام ان سب سے بالا ہے.لیکن چونکہ دنیا میں کچھ لوگ ان وہموں میں مبتلا ہیں اور وہ ان علوم کے رعب کی وجہ سے اسلام کی تائید میں اپنی آواز بلند نہیں کر سکتے اس لئے اُن کی ہدایت اور راہ نمائی کیلئے ضروری ہے کہ ہم ایسے مرکز کھولیں اور اُن کی زبان میں اُن سے باتیں کرنے کی کوشش کریں اور انہیں بتائیں کہ علوم جدیدہ کی نئی تحقیقا تیں بھی اسلام کی مؤید ہیں.اسلام کی تردید کرنے والی اور اس کو غلط ثابت کرنے والی نہیں ہیں.یہ کام ہے جو ہمارے سامنے ہے.چونکہ یہ نیا کام ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہمیں اس کام میں دقتیں پیش آئیں.لیکن ایک وقت آئے گا جب آہستہ آہستہ ان علوم کے ذریعہ بھی اسلام کی صداقت دنیا کے کونہ کو نہ میں پھیل جائے گی اور لوگ محسوس کریں گے کہ علوم خواہ کس قدر بڑھ جائیں، سائنس خواہ کس قدر ترقی کر جائے اسلام کے کسی مسئلہ پر زد نہیں پڑ سکتی.دنیا میں ہمیشہ دشمن کے قلعہ پر پہلے گولہ باری کی جاتی ہے اور یہ گولہ باری فوج کا بہت بڑا کام ہوتا ہے لیکن جب گولہ باری کرتے کرتے قلعہ میں سوراخ ہو جاتا ہے تو پھر فوج اس سرعت سے بڑھتی ہے کہ دشمن کے لئے ہتھیار ڈال دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہتا.ہم نے بھی کفر کے مقابلہ میں ایک بنیاد رکھی ہے اور ہماری مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے پرانے زمانہ کی منجنیقیں اپنے ہاتھ میں لے کر کوئی شخص موجودہ زمانہ کے مضبوط ترین قلعوں کو سر

Page 150

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 144 جلد چهارم کرنے کی کوشش کرے یا غلیلوں سے دشمن کو شکست دینے کا ارادہ کرے.ہم کو بھی جب دیکھنے والا دیکھتا ہے تو کہتا ہے یہ لوگ کیا کر رہے ہیں.وہ عظیم الشان قلعے جو کنکریٹ کے بنے ہوئے ہیں، جن کی تعمیر میں بڑے بڑے قیمتی مصالح صرف ہوئے ہیں، جن کو ایلیون پونڈر گنز (Eleven Pounder Guns) سیون ٹی فائیو ملی میٹر گنز (Meter Guns.75) بھی بمشکل سر کر سکتی ہیں ان قلعوں کو وہ ان پتھروں یا غلیلوں سے کس طرح تو ڈسکیں گے.مگر جو خدا کی طرف سے کام ہوتے ہیں وہ اسی طرح ہوتے ہیں.پہلے دنیا اُن کو دیکھتی ہے اور کہتی ہے ایسا ہونا ناممکن ہے.مگر پھر ایک دن ایسا آتا ہے جب وہی دنیا کہتی ہے ا اس کام نے تو ہونا ہی تھا کیونکہ حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے.جب محمد رسول اللہ ہے آئے تو دنیا نے اُس وقت یہی کہا کہ ان دعووں کا پورا ہونا ناممکن ہے.انہوں نے آپ کو مجنون کہا، انہوں نے آپ کے متعلق یہ کہا کہ اس شخص پر نَعُوذُ باللہ ہمارے بتوں کی لعنت پڑ گئی ہے.مگر آج یورپ کے مصنفوں کی کتابیں پڑھ کر دیکھ لو وہ کہتے ہیں اگر کی مسلمانوں کے مقابلہ میں قیصر کی حکومت کو شکست ہوگئی ، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں کسری کی حکومت کو شکست ہوگئی ، اگر مسلمانوں کے مقابلہ میں دنیا کی کوئی قوم نہیں ٹھہر سکی تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں وہ زمانہ ہی ایسا تھا اور اُس وقت حالات ہی ایسے پیدا ہو چکے تھے جو محمد ﷺ کی تائید میں تھے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمد ﷺ کے زمانہ میں تو آپ کے دعوی کو پاگل پن اور جنون سمجھا جاتا تھا مگر آج یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے دعوئی کو لوگوں نے تسلیم کر لیا تو اس میں کون سی عجب بات ہے.زمانہ کے حالات اس دعویٰ کے مطابق تھے اور لوگوں کی طبائع آپ کے عقائد کو تسلیم کرنے کیلئے پہلے ہی تیار ہو چکی تھیں.یہی احمدیت کا حال ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ کیا لوگ کہتے تھے کہ ناممکن ہے کہ یہ شخص دنیا پر فتح حاصل کر سکے، یہ اپنی آئی آپ مر جائے گا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تک نے یہ کہہ دیا کہ میں نے ہی اس شخص کو بڑھایا تھا اور اب میں ہی اس شخص کو گراؤں گا 3 مگر آپ کے سلسلہ کو دن بدن ترقی ہوتی چلی گئی یہاں

Page 151

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 145 جلد چهارم تک کہ وہ شخص جسے قادیان میں بھی لوگ اچھی طرح نہیں جانتے تھے اُس کی جماعت پہلے پنجاب کے مختلف حلقوں میں پھیلنی شروع ہوئی ، پھر پنجاب سے بڑھی اور افغانستان میں گئی ، بنگال میں گئی، بمبئی میں گئی ، مدراس میں گئی ، یو.پی میں گئی ، سندھ میں گئی ، بہار میں گئی ، اڑیسہ میں گئی ہی پی میں گئی ، آسام میں گئی اور پھر اس سے بڑھ کر بیرونی ممالک میں پھیلنی شروع ہوئی.چنانچہ انگلستان میں احمدیت پھیلی، جرمنی میں احمدیت پھیلی ، ہنگری میں احمدیت پھیلی، امریکہ میں احمدیت پھیلی، ارجنٹائن میں احمدیت پھیلی، یوگوسلاویہ میں احمدیت پھیلی، البانیہ میں احمدیت پھیلی، پولینڈ میں احمدیت پھیلی، زیکو سلواکیہ (Czechoslovakia) میں احمدیت پھیلی ، سیرالیون میں احمدیت پھیلی ، گولڈ کوسٹ میں احمدیت پھیلی ، نائیجیریا میں احمدیت پھیلی، مصر میں احمدیت پھیلی ، مشرقی افریقہ میں احمدیت پھیلی ، ماریشس میں احمدیت پھیلی فلسطین میں احمدیت پھیلی ، شام میں احمدیت پھیلی ، روس میں احمدیت پھیلی ، کاشغر میں احمدیت پھیلی ، ایران میں احمدیت پھیلی ، سٹریٹ سیٹلمنٹس 4 میں احمدیت پھیلی، جاوا میں احمدیت پھیلی، ملایا میں احمدیت پھیلی، چین میں احمدیت پھیلی، جاپان میں احمدیت پھیلی.غرض دنیا کے کناروں تک احمدیت پہنچی اور پھیلی.اور لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ دنیا میں کچھ پاگل لوگ بھی ہوتے ہیں.اگر چند پاگلوں نے احمدیت کو مان لیا ہے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں.مگر ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرے گا کہ دنیا میں احمدیت کی ایسی مضبوط بنیاد قائم ہو جائے گی کہ یہ نہیں کہا جائے گا کہ احمدیت کی فتح کی امید ایک مجنونانہ خیال ہے بلکہ کہا جائے گا کہ احمدیت کو مار دینے کا خیال ایک مجنونانہ خیال ہے.وہ دن دور نہیں کہ وہی لوگ جو آج احمدیت کی ترقی کو ایک ناممکن چیز قرار دے رہے ہیں جب اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ احمدیت ترقی کر گئی ہے، احمدیت ساری دنیا پر چھا گئی ہے، احمدیت نے روحانی لحاظ سے ایک انقلاب عظیم پیدا کر دیا ہے تو وہی لوگ کہیں گے احمدیت کی کامیابی اور اس کی فتح کوئی معجزہ نہیں.اگر احمدیت فتح یاب نہ ہوتی تو کیا ہوتا.اس وقت یورپ اتنا مضمحل ہو چکا تھا، اس وقت انسانی دماغ اتنا پراگندہ ہو چکا تھا، اس

Page 152

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 146 جلد چهارم وقت سائنس اپنی حد بندیوں کو توڑ کر اس طرح کا ایک فلسفہ بن چکی تھی کہ اگر احمدیت نے فتح پائی تو یہ کوئی معجزہ نہیں.اس وقت کے حالات ہی اس فتح کو پیدا کر رہے تھے.پس یہ پیج جو ہم بور ہے ہیں ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا میں پھیل کر رہے گا.ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ پیج پھیل جائے گا.ہمیں یہ کہنے کی بھی ضرورت نہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ یہ بیچ کبھی ضائع نہیں ہوگا.ہم خدا کی طرف سے مانتے ہیں اور اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیج ایسا ہے جس میں سے ایک دن ایسا تناور درخت پیدا ہونے والا ہے جس کے سایہ میں بیٹھنے کے لئے لوگ مجبور ہوں گے.اور اگر وہ نہیں بیٹھیں گے تو تپتی دھوپ میں وہ اپنے دماغوں کو جھلسا ئیں گے اور انہیں دنیا میں کہیں آرام کی جگہ نہیں ملے گی.پس ہم جانتے ہیں کہ جس راستہ کو ہم نے اختیار کیا ہے وہ ضرور ہمیں کامیابی تک پہنچانے والا ہے.کسی خیال کے ماتحت نہیں، کسی وہم اور گمان کے ماتحت نہیں بلکہ اُس علیم و خبیر ہستی کے بتانے کی وجہ سے یہ یقین ہمیں حاصل ہوا ہے جو کبھی جھوٹ نہیں بولتی ، جس کی بتائی ہوئی بات کبھی غلط نہیں ہوسکتی.یہ ہوسکتا ہے کہ جن لوگوں پر اعتبار کر کے ہم نے انہیں اس کالج میں پروفیسر مقرر کیا ہے ان میں سے بعض نا اہل ثابت ہوں مگر ان کے نا اہل ثابت ہونے کی وجہ سے اس کام میں کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا.جس طرح دریا کے دھارے کے سامنے پتھر آ جائے تو وہ بہہ جاتا ہے مگر دریا کے دھارے کو وہ روک نہیں سکتا اسی طرح اگر کوئی شخص غلط کام کرتا ہے یا اپنے کام کے لئے کوئی غلط طریق اختیار کرتا ہے وہ احمدیت کے دریا کے سامنے کھڑا ہوتا ہے وہ اپنی تباہی کے آپ سامان کرتا ہے وہ مٹ جائے گا مگر جس دریا کو خدا نے چلایا ہے، جس کی حفاظت کے لئے اُس نے اپنے فرشتوں کو آپ مقرر کیا ہے دنیا کی کوئی طاقت اس کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی.خواہ وہ یورپ کی ہو، خواہ وہ امریکہ کی ہو، خواہ وہ ایشیا کی ہو اور خواہ وہ دنیا کے کسی اور ملک کی ہو.ہمیں نظر آ رہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے یورپ میں بھی اتر رہے ہیں، امریکہ میں بھی اتر رہے ہیں، ایشیا میں بھی اتر رہے ہیں اور ہر شخص

Page 153

زریں ہدایات (برائے طلباء) 147 جلد چهارم جو اس مشن کا مقابلہ کرتا ہے، ہر شخص جو خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغام کو رڈ کرتا ہے وہ اپنی ہلاکت کے آپ سامان کرتا ہے.آج اور کل ، پرسوں اور ترسوں، دن گزرتے چلے جائیں گے، زمانہ بدلتا چلا جائے گا، انقلاب بڑھتا چلا جائے گا اور تغیر وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا.روز بروز اس سلسلہ کی راہ سے روکیں دور ہوتی جائیں گی ، روز بروز یہ دریا زیادہ سے زیادہ فراخ ہوتا چلا جائے گا.دریا کے دہانہ کے پاس ہمیشہ چھوٹے چھوٹے نالے ہوتے ہیں جن پر سے ہر شخص آسانی سے کود کر گزرسکتا ہے.میں نے خود جہلم کے دہانہ کے پاس ایسے نالے دیکھے ہیں اور میں خود بھی ان نالوں پر سے کود کر گزرا ہوں مگر آہستہ آہستہ دریا ایسا وسیع ہوتا جاتا ہے کہ بڑے بڑے گاؤں اور بڑے بڑے شہر بہا کر لے جاتا ہے.اسی طرح ابھی ہم دریا کے دہانہ کے قریب ہیں.ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب لوگ ہماری جماعت کے متعلق سمجھتے تھے کہ یہ ایک نالے کی طرح ہے جو شخص چاہے اس پر سے کود کر گزر جائے.مگر اب ہم ایک نہر کی طرح بن چکے ہیں.لیکن ایک دن آئے گا جب دنیا کے بڑے سے بڑے دریا کی وسعت بھی اس کے مقابلہ میں حقیر ہو جائے گی.جب اس کا پھیلا ؤ اتنا وسیع ہو جائے گا، جب اس کا بہاؤ اتنی شدت کا ہوگا کہ دنیا کی کوئی عمارت اور دنیا کا کوئی قلعہ اس کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکے گا.پس ہمارے پروفیسروں کے سپر د وہ کام ہیں جو خدا اور اُس کے فرشتے کر رہے ہیں.اگر وہ دیانتداری کے ساتھ کام کریں گے تو یقیناً کامیاب ہوں گے اور اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو ہم یہی دعا کریں گے کہ خدا اُنہیں تو بہ کی توفیق دے اور اُنہیں محنت سے کام کرنے کی ہمت عطا فرمائے.لیکن اگر وہ اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو وہ اس سلسلہ کی ترقی میں ہرگز روک نہیں بن سکیں گے.جس طرح ایک مچھر بیل کے سینگ پر بیٹھ کر اُسے تھ کا نہیں سکتا اسی طرح ایسے کمزور انسان احمدیت کو کسی قسم کی تھکاوٹ اور ضعف نہیں پہنچا سکیں گے.جن سوالات کو اس وقت میرے سامنے پیش کیا گیا ہے ان سب کے متعلق میں ابھی

Page 154

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 148 جلد چهارم فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک لباس کا سوال ہے میری رائے یہ ہے کہ ہمیں تعلیم کو آسان اور سہل الحصول بنانا چاہئے اور کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے جسے طالہ برداشت نہ کر سکیں تا ایسا نہ ہو کہ غریب لڑکے اس بوجھ کی وجہ سے تعلیم سے محروم رہ جائیں.جہاں تک کھیلوں کا تعلق ہے مجھے افسوس ہے کہ کالجوں میں بعض ایسی کھیلیں اختیار کر لی گئی ہیں جن پر روپیہ بھی صرف ہوتا ہے اور صحت پر بھی وہ برا اثر ڈالتی ہیں.میں نے یور بین رسالوں میں پڑھا ہے انگلستان میں کھیلوں کے متعلق ایک کمیٹی مقرر کی گئی تھی جس نے بہت کچھ غور کے بعد یہ رپورٹ پیش کی کہ ہاکی کے کھلاڑیوں میں سل کا مادہ زیادہ پایا جاتا ہے.یہ تحقیق تو آج کی گئی ہے لیکن میں نے آج سے 21 سال پہلے اس کی طرف توجہ دلا دی تھی اور میں نے کہا تھا کہ میں ہاکی سے نفرت کرتا ہوں یہ صحت کے لئے مضر ہے.اس سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے.5 اسی طرح بعض اور مواقع پر بھی میں توجہ دلاتا رہا ہوں کہ ہا کی قطعی طور پر صحت پر اچھا اثر پیدا نہیں کرتی بلکہ مضر اثر کرتی ہے.ہاکی میں ہاتھ جڑے رہتے ہیں اور سانس سینہ میں پھولتا نہیں.اس طرح با وجود کھیلنے کے سینہ چوڑا نہیں ہوتا 6 جب میں نے یہ بات کہی اُس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ہاکی سے سینہ کمزور ہو کر سل کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.مگر اب دوسرے لوگ بھی آہستہ آہستہ اسی طرف آ رہے.عزیزم مرزا ناصر احمد کا ان الفاظ میں کہ:.وو وہ تمام قو میں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی تھلیٹکس (ATHLETICS ) کی طرف رہتی ) اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی زیادہ ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلباء کی صحتوں پر کوئی برا اثر نظر نہیں آتا غالباً جرمنی کی طرف اشارہ ہے جہاں ان کھیلوں پر بہت کم زور دیا جاتا ہے کیونکہ ان کھیلوں پر روپیہ اور وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر صحت کو کم فائدہ پہنچتا ہے.چنانچہ ان

Page 155

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 149 جلد چهارم کھیلوں کی بجائے انہوں نے جو دوسری کھیلیں اختیار کی ہیں ان کا صحت پر بھی اچھا اثر پڑتا ہے اور روپیہ بھی کم خرچ ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دوسری کھیلوں کا رواج اب دن بدن بڑھ رہا ہے.انگریزی ممالک میں شاید اس وجہ سے کہ وہاں کہر زیادہ ہوتی ہے اس قسم کی کھیلوں کی ضرورت سمجھی جاتی ہے جو دوڑ دھوپ والی ہوں لیکن وسطی یورپ یا جنوبی یورپ میں ان کا زیادہ رواج نہیں.میں یورپین کھیلوں میں سب سے کم مصرفٹ بال سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے سینہ پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ سینہ چوڑا اور فراخ رہتا ہے.ہاکی میں چونکہ دونوں ہاتھ بند ہوتے ہیں اُدھر سانس سینہ میں پھولتا نہیں اس لئے ہاکی کے نتیجہ میں اکثر سینہ پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ وہ کمزور ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ ہاکی کو مصر سمجھتا رہا ہوں.مگر اب چار پانچ سال ہوئے انگلستان میں ایک کمیشن مقرر کیا گیا تھا جس نے تحقیق کے بعد یہ رپورٹ کی ہے کہ ہا کی پلیئرز میں سل کا مادہ نسبتا زیادہ دیکھا گیا ہے.بہر حال یہ ایک ابتدائی کام ہے اور جیسا کہ بتایا گیا ہے ایسے لڑکے کالج میں نہیں آئے جو بڑے بڑے نمبروں پر پاس ہوئے ہوں.میں سمجھتا ہوں اگر ہمارے پروفیسر کوشش کریں اور والنزعتِ غَرْقًا 7 کے ماتحت اپنے فرض کی ادائیگی میں پوری طرح منہمک ہو جائیں اور وہ سمجھ لیں کہ تعلیمی طور پر تربیت تعلیم سے باہر نہیں بلکہ تعلیم کے ساتھ ہی شامل ہے.ہم نے اپنی زندگیاں وقف کر دی ہیں اور ہمارا مقصد یہ ہے کہ جولڑ کے ہمارے ہاں تعلیم پائیں وہ تعلیم میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ تربیت میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں ، وہ اخلاق فاضلہ میں دوسروں سے اعلیٰ ہوں تو یقیناً وہ ان ان گھڑے جواہرات کو قیمتی ہیروں میں تبدیل کر سکتے ہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اخلاص اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کا خوف اپنے دلوں میں پیدا کریں اور لڑکوں کی تعلیمی حالت بھی بہتر بنائیں ، ان کی اخلاقی حالت بھی بہتر بنائیں اور ان کی مذہبی حالت بھی بہتر بنائیں.میں اس موقع پر اساتذہ اور طلبا دونوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارا مقصد دوسرے کالجوں سے زیادہ بلند اور اعلیٰ ہے.کئی باتیں اس قسم کی ہیں جو دوسرے کالجوں میں جائز.

Page 156

زریں ہدایات (برائے طلباء) 150 جلد چہارم سمجھی جاتی ہیں لیکن ہم اپنے کالج میں اُن باتوں کی اجازت نہیں دے سکتے.طلباء کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں اور اساتذہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں.اور ان افسروں کا فرض ہے کہ وہ اپنے سے بڑے افسروں کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کریں.اگر کسی شخص کو کوئی شکایت پیدا ہو تو اسلامی طریق کے رو سے یہ جائز ہے کہ وہ بالا افسر کے پاس اُس معاملہ کو پہنچائے اور حقیقت ظاہر کرے.اور اگر وہ افسر توجہ سے کام نہ لے تو اُس سے بھی بالا افسر کے پاس اپیل کرے.یہ دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے اور وہ اس سے پوری طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے.ہمارا یہ طریق نہیں کہ جب تک ایجی ٹیشن نہ ہو ہم کسی کی بات نہیں سنتے.ہم صداقت کو ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کے منہ سے سن کر بھی قبول کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ صداقت اگر ایک چوہڑے کے منہ سے نکلے تو ہم اُس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر صداقت نہ ہو تو خواہ سارا کالج مل کر زور لگائے ہم وہ بات تسلیم کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے.پس جو روایت ہمارے سکول میں قائم ہے میں امید کرتا ہوں کہ کالج میں بھی اس کو قائم رکھا جائے گا.احمدی طالب علموں کے متعلق تو میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اس پر پوری طرح قائم رہیں گے لیکن چونکہ اس کالج میں دوسرے طالب علم بھی داخل ہوں گے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے احمدی طلباء اپنے اثر سے دوسروں کو بھی اس روایت پر قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور کوئی ایسی حرکت نہیں ہونے دیں گے جو کالج کے نظام کے خلاف ہو اور جس سے یہ شبہ پڑتا ہو کہ زور اور طاقت سے اپنی بات منوانے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ زور اور طاقت سے ماننے کے لئے یہاں کوئی شخص تیار نہیں ہے.دنیا میں لوگ زور اور طاقت سے اپنے مطالبات منواتے ہیں مگر وہ اُس وقت منواتے ہیں جب انہیں یقین ہوتا ہے کہ دوسرا فریق زور اور طاقت سے مرعوب ہو جائے گا.اگر انہیں یہ یقین نہ ہو تو وہ زور اور طاقت استعمال کرنے کی جرات بھی نہ کریں.

Page 157

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 151 جلد چهارم واقعہ مشہور ہے کہ کوئی یتیم لڑکا جس کی ماں چکی پیس پیس کر گزارہ کیا کرتی تھی ایک دن اپنی ماں سے کہنے لگا مجھے دو آنے چاہئیں.ماں نے اُسے کہا میرے پاس تو صرف ایک آنہ ہے وہ لے لو.مگر لڑ کا ضد کرنے لگا اور کہنے لگا میں تو دو آنے ہی لوں گا.وہ لڑکا اُس وقت چھت کی منڈیر پر بیٹھا تھا ماں کو کہنے لگا مجھے دو آنے دو ورنہ میں ابھی چھلانگ لگا کر مر جاؤں گا.اُس بیچاری کا ایک ہی لڑکا تھا وہ اُسے ہاتھ جوڑے ہنتیں کرے اور بار بار کہے کہ بیٹا! ایک آنہ لے لے اس سے زیادہ میرے پاس کچھ نہیں.مگر وہ یہی کہتا چلا جائے کہ مجھے دو آنے دے نہیں تو میں ابھی چھلانگ لگا تا ہوں.ماں نیچے کھڑی روتی جائے اور بچہ اوپر بیٹھ کر چھلانگ لگانے کی دھمکی دیتا چلا جائے.اُس وقت اتفاقا گلی میں سے کوئی زمیندار گزر رہا تھا.وہ پہلے تو باتیں سنتا رہا آخر اُس نے وہ آلہ جس سے توڑی ہلائی جاتی ہے اور جسے سانگھا کہتے ہیں نکال کر اُس لڑکے کے سامنے کیا اور کہا تو اوپر سے آ میں نیچے سے سانگھا تیرے پیٹ میں ماروں گا.لڑکا یہ سنتے ہی کہنے لگا میں نے چھلانگ تھوڑی لگانی ہے میں تو اپنی ماں کو ڈرا رہا تھا.تو اس قسم کی باتیں وہیں سنی جاتی ہیں جہاں زور اور طاقت سے دوسرے لوگ مرعوب ہو جاتے ہوں لیکن ہم وہ ہیں جنہیں اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ صداقت خواہ ایک کمزور سے کمزور انسان کے منہ سے نکلے اُسے قبول کر لو اور صداقت کے خلاف کوئی بات قبول مت کرو چاہے وہ ایک طاقتور کے منہ سے نکل رہی ہو.قادیان سے باہر بے شک ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمارے سلسلہ کی کسی انسٹی ٹیوٹ میں اس قسم کی باتیں برداشت نہیں کی جاسکتیں.پس ہمارے نوجوانوں کو خود بھی احمدیت کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اور دوسرے نو جوانوں پر بھی واضح کرنا چاہئے کہ یہاں کوئی ایسا طریق برداشت نہیں کیا جاسکتا جو دین کے خلاف ہو اور جو مذہبی روایات کے منافی ہو.ہم نے یہ کالج دین کی تائید کے لئے بنایا ہے.اگر کسی وقت یہ محسوس ہو کہ یہ کالج بجائے دین کی تائید کرنے کے بے دینی کا ایک ذریعہ ثابت ہو رہا ہے تو ہم ہزار گنا یہ زیادہ بہتر سمجھیں گے کہ اس کا لج کو -

Page 158

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 152 جلد چهارم بند کر دیں بجائے اس کے کہ بے دینی اور خلاف مذہب حرکات کو برداشت کریں.اس کالج کے پروفیسروں کو بھی یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ بیرونی دنیا میں عام طور پر صداقت کو اُس وقت تک قبول نہیں کیا جاتا جب تک یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنے لوگ اس بات کو پیش کر رہے ہیں.اگر ایک جتھہ کی طرف سے کوئی بات پیش کی جارہی ہو تو اُسے مان لیتے ہیں لیکن اگر ایک کمزور انسان کے منہ سے صداقت کی بات نکلے تو اُس کی طرف توجہ نہیں کرتے.ہمیں اس طریق کے خلاف یہ عمل کرنا چاہئے کہ اگر صداقت صرف ایک لڑکے کے منہ سے نکلتی ہے تو ہم اس بات کا انتظار نہ کریں کہ جب تک سولر کا اُس کی تائید میں نہیں ہو گا ہم اُسے نہیں مانیں گے بلکہ ہمیں فور وہ بات قبول کر لینی چاہئے کیونکہ صداقت کو قبول کرنے میں ہی برکت ہے اور صداقت کو قبول کرنے سے ہی قومی ترقی ہوتی ہے.یہ امر بھی یادرکھنا چاہئے کہ ہمارا طریق سارے کا سارا اسلامی ہونا چاہئے.بے شک ہندو ،سکھ ، عیسائی جو بھی آئیں ہمیں فراخ دلی کے ساتھ اُنہیں خوش آمدید کہنا چاہئے مگر جہاں تک اخلاق کا تعلق ہے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اُن کے اخلاق سرتا پا مذ ہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.اُن کی عادات مذہب کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہوں ، اُن کے افکار مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں ، اُن کے خیالات مذہب کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں.پس جہاں ہمارے پروفیسروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں وہاں اُن کا ایک یہ کام بھی ہے کہ وہ رات دن اس کام میں لگے رہیں کہ لڑکوں کے اخلاق اور اُن کی عادات اور اُن کے خیالات اور اُن کے افکار ایسے اعلیٰ ہوں کہ دوسروں کے لئے مذہبی لحاظ سے وہ ایک مثال اور نمونہ ہوں.اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا یقین ہم لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں تو ہندؤوں اور سکھوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ ہندو بھی خدا کے قائل ہیں اور سکھ بھی خدا کے قائل ہیں.اگر ہم دہریت کو مٹاتے ہیں، اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین لڑکوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں، اگر ہم اللہ تعالیٰ کی محبت کا درس اُن کو دیتے ہیں تو اُن کے ماں باپ یہ سن

Page 159

زریں ہدایات (برائے طلباء) 153 جلد چهارم کر برا نہیں منائیں گے بلکہ خوش ہوں گے کہ ہمارے لڑکے ایسی جگہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جہاں دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُن کی مذہبی لحاظ سے بھی تربیت کی جارہی ہے.پس جہاں تک تو حید کے قیام کا سوال ہے، جہاں تک مذہب کی عظمت کا سوال ہے، جہاں تک خدا تعالیٰ کی محبت کا سوال ہے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی سب اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کو یہ تعلیم دی جائے کیونکہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی باتیں سکھاتا ہے.میرے نزدیک ہمیں ان باتوں پر اس قدر زور دینا چاہئے کہ ہمارے کالج کا یہ ایک امتیازی نشان بن جائے کہ یہاں سے جو طالب علم بھی پڑھ کر نکلتا ہے وہ خدا پر پورا یقین رکھتا ہے، وہ اخلاق کی حفاظت کرتا ہے، وہ مذہب کی عظمت کا قائل ہوتا ہے.اگر ایک ہندو یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے.اگر ایک سکھ یہاں سے بی.اے کی ڈگری لے کر جائے تو اُسے بھی خدا تعالیٰ کی ذات پر پورا یقین ہونا چاہئے.وہ دہریت کے دشمن ہوں ، وہ اخلاق سوز حرکات کے دشمن ہوں، وہ مذہب کو نا قابل عمل قرار دینے والوں کے مخالف ہوں اور یور بین اثر سے پوری طرح آزاد ہوں.وہ چاہے احمدیت کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں مذہب کی بنیادی باتیں اُن کے دلوں میں ایسی راسخ ہوں کہ اُن کو وہ کسی طرح چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں.اسی طرح ہمارے کالج کا ایک امتیازی نشان یہ بھی ہونا چاہئے کہ اگر ایک عیسائی یا یہودی اس جگہ تعلیم حاصل کرے تو وہ بھی بعد میں یہ نہ کہے کہ سائنس یا حساب یا فلسفہ کے فلاں اعتراض سے مذہب باطل ثابت ہوتا ہے بلکہ جب بھی کوئی شخص ان علوم کے ذریعہ اس پر کوئی اعتراض کرے وہ فوراً اُس کا جواب دے اور کہے میں ایک ایسی جگہ پڑھ کر آیا ہوں جہاں دلائل و براہین سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اس دنیا کا ایک خدا ہے جو سب پر حکمران ہے میں ایسے اعتراضات کا قائل نہیں ہوں.اگر ہم دہریت کی تمام شاخوں کی قطع و برید کر دیں، اگر ہم خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین کالج میں تعلیم پانے والے لڑکوں کے دلوں میں اس مضبوطی سے پیدا کر دیں کہ دنیا کا کوئی

Page 160

زریں ہدایات (برائے طلباء) 154 جلد چهارم فلسفہ، دنیا کی کوئی سائنس اور دنیا کا کوئی حساب انہیں اس عقیدہ سے منحرف نہ کر سکے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے.چونکہ اب شام ہو گئی ہے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں لیکن میں آخر میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہماری نیت یہ ہے کہ جلد سے جلد اس کالج کو بی.اے بلکہ ایم.اے تک پہنچا دیں.اس لئے کالج کے جو پروفیسر مقرر ہوئے ہیں انہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو بھی بڑھانے کا فکر کرنا چاہئے اور آئندہ ضروریات کے لئے انہیں ابھی سے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے تا کہ جب بڑی کلاسز کھولی جائیں تو قواعد کے لحاظ سے اور ضرورت کے لحاظ سے اور تجربہ کے لحاظ سے وہ اُن کلاسز کو تعلیم دینے کے لئے موزوں ہوں اور اس کام کے اہل ہوں.اور چونکہ ہمارا منشا آگے بڑھنے کا ہے اس لئے جہاں کالج کے پروفیسروں کو اپنا تعلیمی معیار بلند کرنا چاہئے اور اپنے اندر موجودہ قابلیت سے بہت زیادہ قابلیت پیدا کرنی چاہئے وہاں انہیں یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ جب کالج میں وسعت ہو تو جو اچھے اور ہونہار طالب علم ہوں اور دین کا جوش اپنے اندر رکھتے ہوں اُن کو اس قابل بنائیں کہ وہ اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوں اور ساتھ ہی اُن کے دینی جوش میں ترقی ہوتا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہوں تو وہ صرف دنیا کمانے میں ہی نہ لگ جائیں بلکہ اس کالج میں پروفیسر یا لیکچرار کا کام کر کے سلسلہ کی خدمت کر سکیں.پس ایک طرف وہ اعلیٰ درجہ کے ذہین اور ہوشیار لڑکوں کے متعلق یہ کوشش کریں کہ وہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوں اور دوسری طرف انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائیں کہ جب وہ اپنے تعلیمی مقصد کو حاصل کر لیں تو اس کے بعد اپنی محنت اور دماغی کاوش کا بہترین بدلہ بجائے سونے چاندی کی صورت میں حاصل کرنے کے اس رنگ میں حاصل کریں کہ اپنے آپ کو ملک اور قوم کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.اس کے بغیر کالج کا عملہ مکمل نہیں ہوسکتا.پس ایک طرف ہمارے پروفیسر خود علم بڑھانے کی کوشش کریں اور دوسری طرف آئندہ پروفیسروں کے لئے ابھی سے سامان پیدا کرنے شروع کر دیں اور نو جوانوں سے

Page 161

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 155 جلد چهارم کہیں کہ وہ قوم کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دیں.پھر خواہ انہیں کالج میں رکھ لیا جائے یا سلسلہ کے کسی اور کام پر لگایا جائے بہر حال ان کا وجود مفید ثابت ہوسکتا ہے.سکول میں میں نے دیکھا ہے جب افسروں کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو اس کے بعد ہمیں سکول میں سے ہی ایسے کئی لڑکے مل گئے جنہوں نے اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.میں امید کرتا ہوں کہ یہی طریق کالج میں بھی اختیار کیا جائے گا تا کہ جو طالب علم اس کالج سے تعلیم پا کر نکلیں اُن کے متعلق ہمیں کامل یقین ہو کہ وہ تعلیم کے بعد دین کے میدان میں ہی آئیں گے.یہ نہیں ہوگا کہ دنیا کمانے میں مشغول ہو جائیں.اور تاکہ ہم فخر سے کہہ سکیں کہ ہمارے کالج کا ہر طالب علم اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے پیش کر دیتا ہے.صرف ہمارے بچے ہوئے طالب علم ہی دنیا کی طرف جاتے ہیں کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خواہ ہم کوئی کام کریں ہماری اصل دوڑ مذہب کی طرف ہی ہونی چاہئے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور یہ پیج جو آج اس مقام پر ہم بورہے ہیں اس سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہو جس کی ایک ایک ٹہنی ایک بڑی یونیورسٹی ہو، ایک ایک پتہ کالج ہو اور ایک ایک پھول اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کی ایک اعلیٰ درجہ کی بنیاد ہو.جس کے ذریعہ کفر اور بدعت دنیا سے مٹ جائے اور اسلام اور احمدیت کی صداقت اور خدا تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی وحدانیت کا یقین لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائے.اللَّهُمَّ مِینَ الفضل 15،14،12، 16 فروری 1961ء ) | 1 مولر (MULLER PAUL HERMAN) (1899ء-1965ء ) سوئس محقق کیمیا.اس نے 1939ء میں ڈی ڈی ٹی کے کرم کش خواص دریافت کئے.جس کے صلے میں اسے 1948 ء میں فعلیات اور طب کا نوبل انعام ملا.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 2 صفحہ 1646 مطبوعہ لاہور 1988ء)

Page 162

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 2 البقرة : 42 156 جلد چهارم 3 اشاعة السنة جلد 13 نمبر اصفحہ 4،3 مطبوعہ 1890ء :4 سٹریٹ سیٹلمنٹس (STRAITS SETTLEMENTS) ملایا میں برطانیہ کی سابق شاہی نو آبادی 1826ء سے 1858ء تک برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے پینانگ ، ملکا اور سنگا پور کو ایک انتظامی جزو کی حیثیت سے سنبھالے رکھا.بعد ازاں قلیل مدت کیلئے انڈیا آفس نے انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا.1867ء میں یہ نو آبادی قائم کی گئی اور 1946ء میں ختم کر دی گئی.اب سنگا پور ایک الگ کالونی ہے مگر باقی حصے ملایا کے اتحاد میں شامل ہو گئے.اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 741 مطبوعہ لاہور 1987ء) 5 الفضل 11 / دسمبر 1923ء الفضل 21 اکتوبر 1939ء 7 النزعت: 2

Page 163

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 157 جلد چهارم فضل عمر ہوٹل قادیان کے افتتاح کے موقع پر طلبائے تعلیم الاسلام کالج سے خطاب 27 اکتوبر 1945ء کو بعد نماز عصر نوتعمیر فضل عمر ہوٹل واقع دار العلوم قادیان کا افتتاح کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.سپر نٹنڈنٹ صاحب ہوٹل تعلیم الاسلام کالج نے ایک پرانے واقعہ کی طرف اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے.آپ لوگ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے والے اور تاریخی طور پر اسے یادر کھنے والے اُس کیفیت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو کیفیت آج سے 32 سال پہلے مارچ 1914ء میں قادیان کے لوگوں پر طاری ہوئی تھی.سپرنٹنڈنٹ صاحب نے ہمیں امید دلائی ہے کہ وہ ریبیٹ فارموں (Rebate forms ) اور ڈیوٹی شاپوں کے ذریعہ کچھ رقم جمع کرنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح سلسلہ کے اس بار کو اتارنے میں محمد ہوں گے جو اس ہوٹل کے تعمیر کرنے کی وجہ سے پڑا ہے.یہ بار غالباً سولہ ہزار روپیہ کا ہے.اس کے اتارنے کے لئے ہمارے دس بارہ ایم.اے جن میں سے بعض کی عمر 30، 35 سال کے قریب ہے اور ڈیڑھ سو طالب علم مختلف گھرانوں کے جن میں سے بعض امیر گھرانوں کے ہیں اور بعض غریب گھرانوں کے.بعض ایسے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے اپنے علاقہ میں اچھی حیثیت، بڑا اثر اور کافی رسوخ رکھتے ہیں اور ماں باپ ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو بہت کام کر سکتے ہیں.مگر اس سے اس بات کا اندازہ کرو کہ آج سے 32 سال پہلے جماعت کے تمام

Page 164

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 158 جلد چهارم اداروں پر قبضہ رکھنے والے لوگ ایک ساعت میں جب جماعت سے الگ ہو کر کھڑے ہو گئے تھے تو اُس وقت جماعت اس رقم سے زیادہ مقروض تھی.یہ سولہ ہزار کی رقم ہے مگر اُس وقت اٹھارہ ہزار کچھ سو کا قرض جماعت پر تھا.اُس وقت کی قادیان آج والی قادیان نہ تھی.جتنے محلے قصبہ سے باہر آج آباد نظر آتے ہیں ان میں سے کوئی بھی نہ تھا.قادیان کی آبادی اُس وقت قریباً قریباً اتنی ہی ہوگی جتنی اس وقت کالج اور اس کے متعلقین کی تعداد ہے.قصبہ کے باہر جتنے مکانات نظر آتے ہیں سوائے سکول کے اور سوائے مسجد نور اور مولوی محمد علی صاحب کی اس کوٹھی کے جس کی طرف سپر نٹنڈنٹ صاحب نے اشارہ کیا ہے باقی تمام جنگل ہی جنگل تھا.اُس وقت یہ سوال جماعت کے سامنے آیا کہ کیا اپنے اصول پر قائم رہ کر ا کا برین جماعت کا مقابلہ کریں یا ان سے ڈر کر ہتھیار رکھ دیں.اُس وقت اس فیصلہ کا انحصار ایک ایسے شخص پر تھا جس کی عمر کالج کے بہت.پروفیسروں سے کم تھی.جس کی حیثیت موجودہ کالج کے بہت سے پروفیسروں سے بہت کم تھی.جس کا علم جہاں تک دنیوی علوم کا تعلق ہے کالج کے ہر طالب علم سے کم تھا.صرف اس ایک انسان کے ذمہ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ان تمام ذمہ داریوں کے ہوتے ہوئے ، آیا ان تمام بوجھوں کے ہوتے ہوئے اور آیا ان تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے جبکہ جماعت کے تمام اکا بر خلاف کھڑے ہو گئے تھے ، جبکہ بہت سی بیرونی جماعتوں میں ابتلا آچکا تھا، جبکہ جماعت کے لوگوں میں یہ خیال پیدا کر دیا گیا تھا کہ قادیان کے لوگ سلسلہ کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور بہت بڑے فتنہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں اس وقت ان کا مقابلہ کرنا چاہئے یا ان کے سامنے ہتھیار رکھ دینے چاہئیں.وہ اکا بر جو سلسلہ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے ان کا اندازہ اس وقت کی حالت کی نسبت کیا تھا.اس کی طرف سپرنٹنڈنٹ صاحب نے اپنے ایڈریس میں اشارہ کیا ہے.وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا اثر اور رسوخ اتنا زیادہ ہے اور ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہونے والے تعداد میں علم میں ، ساز و سامان میں اور اثر و رسوخ میں اتنے کمزور ہیں کہ اگر ہمارے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو گرتے

Page 165

زریں ہدایات (برائے طلباء) 159 جلد چهارم پڑتے زیادہ سے زیادہ دس سال تک ٹھہریں گے پھر یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا اور احمدیوں کا نام و نشان مٹ جائے گا.اُس وقت اس شخص کو جس کی عمر 25 سال تھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس بات کا فیصلہ کرنے کی توفیق ملی کہ خواہ حالات کچھ بھی ہوں اُس جھنڈا کو کھڑا رکھے گا جس کو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کھڑا کیا ہے.آج آپ لوگ اُن پندرہ دنوں کی حالت کا اندازہ نہیں کر سکتے جو 14 مارچ 1914ء کے بعد آئے اور یہ کہ جماعت کو اُس وقت کتنا بڑا ابتلاء پیش آیا تھا.بیرون جات سے تاریں اور خطوط آئے کہ جب اکابرین جماعت دوسری طرف چلے گئے ہیں تو قادیان والوں کو ان کے خلاف فیصلہ کرنے کا کس نے اختیار دیا تھا.اور سب سے عجیب واقعہ میں آپ لوگوں کو سناؤں.حضرت خلیفہ امسح الاول کی وفات سے چند دن پہلے ایک پروفیسر تھا جو ایم.اے تھا.میرا گہرا دوست اور حضرت خلیفہ امسح الاول کا مقبول شاگرد.اس کے والد سے جو جموں میں حج تھا حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی ذاتی دوستی تھی.وہ خود بھی احمدیت میں اخلاص رکھتا تھا اور میرا دوست ہونے کی وجہ سے میرا ہم سبق بھی بن جایا کرتا تھا.اور حضرت خلیفہ امسیح الاول کی صحبت میں بیٹھا کرتا تھا.جب اسے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی بیماری کی اطلاع پہنچی تو وہ یہاں آیا اور تین چار روز یہاں رہا.مسجد مبارک میں آنے کے لئے ہمارے گھر کا ایک دروازہ ہوتا تھا جو سیٹرھیوں کے اندر کھلتا تھا.ایک دن اس پر آکر اس نے دستک دی اور میں باہر نکلا.اس نے میرا ہاتھ نهایت گرم جوشی سے پکڑ لیا اور رقت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اس نے کہا مجھے اور چھٹی نہیں مل سکتی اس لئے میں واپس علی گڑھ جا رہا ہوں.آپ اس مصافحہ کو میری بیعت سمجھیں.میں نے کہا (اس کا نام تیمور تھا اور اب ایک کالج کا وائس پرنسپل ہے) تیمور! تمہارا حضرت خلیفہ المسیح الاول سے کتنا گہرا تعلق ہے اور تم ان سے سنتے رہے ہو کہ خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر کرنا گناہ ہے.تم بجائے اس کے کہ اچھا نمونہ دکھاتے بہت برا نمونہ پیش کر رہے ہو.میرے یہ کہنے پر اسے اور بھی رقت آ گئی اور

Page 166

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 160 جلد چهارم وہ بے ساختہ رونے لگ گیا.اور کہا میں جانتا ہوں مگر مجھ سے رہا نہیں گیا کیونکہ میں فتنہ کے آثار دیکھ رہا ہوں.حضرت خلیفہ اسی الاول کی حالت نازک ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی قابو یافتہ لوگ نظام سلسلہ کو بدلنے کی کوشش کریں گے.اس وجہ سے میں نے بیعت کے لئے کہا ہے.یہ سات آٹھ دن حضرت خلیفہ امسیح الاول کی وفات سے پہلے کا واقعہ ہے.وہ میرا گہرا دوست تھا اور چند ہی گہرے دوستوں میں سے تھا.اس نے اس جوش سے مصافحہ کیا اور یہ جانتے ہوئے کہ خلیفہ کی زندگی میں کسی اور کے خلیفہ ہونے کا ذکر کرنا جائز نہیں بے تاب ہو کر کیا اور روتے ہوئے کہا کہ اسے میری بیعت سمجھیں.مگر حضرت خلیفہ المسیح الاول کی وفات کے بعد جماعت نے جب یہ فیصلہ کیا کہ خلافت کو قائم رکھیں گے اور خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ اس فیصلہ کے مطابق جو قرآن اور اسلام کے رو سے درست ثابت ہے میں جماعت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لوں تو تیسرے ہی دن اس کی طرف سے تار پہنچا که فوراً مولوی محمد علی وغیرہ سے صلح کر لو ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا.اس سے قیاس کرلو کہ وہ کیسے ہیجان کا زمانہ تھا.جو شخص آٹھ ہی دن پہلے میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ اسے میری بیعت سمجھو اور میں اسے ملامت کرتا ہوں کہ تمہیں ایسا نہیں کہنا چاہئے وہی آٹھ دن بعد مجھے کہتا ہے کہ تم نے غلطی کی ہے فورا مولوی محمد علی صاحب سے صلح کر لو ورنہ تمہارا انجام اچھا نہ ہو گا.اس سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ ایک شخص رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کا فراٹھے گا اور ایک شخص رات کو کا فرسوئے گا اور صبح کو مومن اٹھے گا وہ بات پیدا ہوگئی تھی.صلى تو آج آپ لوگ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ دن کیسے خطر ناک تھے اور خدا تعالیٰ نے کس قسم کے فتنوں میں سے جماعت کو گزارا.اُس حالت کا آج کی حالت سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.اگر وہی جوش اور وہی اخلاص جو اُس وقت جماعت میں تھا آج بھی آپ لوگوں میں ہو تو یقینا تم پہاڑوں کو ہلا سکتے ہو.اُس وقت جماعت کے لوگ بہت تھوڑے

Page 167

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 161 جلد چهارم تھے مگر خدا تعالیٰ نے ان کو ایسا ایمان اور ایسا جوش بخشا کہ کوئی بڑی سے بڑی روک بھی انہیں کچھ نہ نظر آتی تھی.آج کے نوجوان اور آج کی جماعت اگر ویسا ہی ایمان پیدا کرے تو دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر سکتی ہے.جو کام ایک پونڈ بارود کر سکتا ہے ایک ٹن بارود اس سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے.اگر اُس وقت جماعت کی حیثیت پونڈ کی تھی تو آج خدا کے فضل سے ٹن کی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اُس وقت جماعت کے لوگ بارود تھے کیا آج بھی وہ بارود ہیں یا ریت کا ڈھیر؟ اگر بارود ہیں تو یقینا آج اُس وقت کی نسبت بہت زیادہ کام کر سکتے ہیں.لیکن اگر ریت ہیں تو اُس وقت کے کام کا سواں حصہ بھی نہیں کر سکتے.پس میں نوجوانوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں.مجھے اُس وقت کے ایک طالب علم کا واقعہ یاد آ گیا.اب وہ دارجلنگ میں تاجر ہے.اُس وقت یہاں سوال پیدا ہوا کہ جماعت کیا چاہتی ہے؟ آیا خلافت قائم رہے یا نہ؟ اس کے لئے لوگوں کی رائے نوٹ کرنے کا بعض اصحاب نے انتظام کیا.بعض سکول کے لڑکوں نے بھی کہا کہ رائے نوٹ کرنے والے کاغذ ہمیں بھی دو ہم بھی دستخط کرائیں گے.ان سے کہا گیا کہ تمہارے ہیڈ ماسٹر صاحب خلاف ہیں تمہیں تکلیف نہ پہنچے.اُس وقت مولوی صدر الدین صاحب ہیڈ ماسٹر تھے.مگر لڑکوں نے کہا ہمیں نقصان کی پرواہ نہیں.اس طرح اس لڑکے نے بھی کاغذ لے لیا اور جو مہمان آتے ان کے سامنے پیش کرتا کہ اپنی رائے لکھ دیجئے.اسے دیکھ کر ہیڈ ماسٹر آیا اور اس نے اس کے ہاتھ سے زبردستی کاغذ چھین کر پھاڑ دیا.اور کہا جاؤ ایسا نہ کرو.یہ میر احکم ہے.مگر اس نے پھر کاغذ لیا اور پنسل سے وہی عبارت اس پر لکھ کر جو پہلے کاغذ پر لکھی تھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے لگ گیا.پھر ہیڈ ماسٹر آیا اور اس نے کاغذ چھین کر پھاڑ ڈالا اور دستخط کرانے سے منع کیا.اس پر اس نے کہا میں آپ کے ادب کی وجہ سے اور تو کچھ نہیں کہتا مگر یہ دینی کام ہے میں اسے چھوڑ نہیں سکتا.اس کا والد بھی مخالف تھا.اس نے اسے خرچ دینا بھی بند کر دیا مگر اس نے کوئی پرواہ نہ کی اور آج اچھا تاجر ہے.

Page 168

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 162 جلد چهارم تو اس رنگ میں وہ وقت گزرا.اور اُن دنوں جو جماعت تھی آج کی جماعت سے اسے کچھ نسبت ہی نہیں.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسے امراء ہیں کہ اُن دنوں جماعت کی جو سالانہ آمدنی تھی اُس قدر آج ایک ایک شخص دے دیتا ہے.پچھلے ہی دنوں بعض اصحاب نے پچاس ساٹھ ہزار روپیہ چندہ دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اخلاص ہو تو انسان بہت کچھ کام کر سکتا ہے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اندر اخلاص پیدا کریں.دنیا میں بڑے بڑے کالج ہیں مگر ان میں پڑھنے والے لڑکے تفرقہ اور فساد کا موجب بن رہے ہیں.ہمارا تو کالج ہے دنیا میں یو نیورسٹیاں ہیں جو مذہب کے لئے ذلت کا موجب ہیں.مگر صحیح طریق پر چلنے والے لڑکے بڑے بڑے کام کر لیتے ہیں خواہ ان کا کالج گارے مٹی کا ہی بنا ہوا ہو اور خواہ وہ درختوں کے نیچے بیٹھ کر تعلیم پاتے ہوں.تم لوگ اپنے اندر یہ روح پیدا کرو تا کہ تمہارے وجود مفید ثابت ہوں.باقی رہی بوجھ اٹھانے کی صورت یہ اس روح کے مطابق نہیں جو ہم میں تھی.ہم اس عمر میں اس سے بڑے بڑے کاموں کو بھی بہت چھوٹا سمجھتے تھے اور کر گزرتے تھے.میں نے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد اسی رنگ میں رکھی.اور جب سوال پیدا ہوا کہ عربی بولنے کو رواج دینا چاہئے تو میں نے چندہ کر کے سید ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبد الرحمن مصری کو مصر بھجوایا.پھر تحریری طور پر تبلیغ کرنے کے لئے تشحید الاذہان رسالہ اسی طرح جاری کیا.کئی تحریکیں ہوتی تھیں جنہیں ہم چند دوست مل کر جاری کر دیتے تھے اور خدا تعالیٰ ان میں برکت دیتا تھا.میں سمجھتا ہوں کالج کے طالب علم اگر ہوشیاری علم، تجربہ اور خاندانی رسوخ سے کام لیں تو چھٹیوں میں چار چار پانچ پانچ سو روپیہ چندہ جمع کر لینا ان کے لئے کوئی مشکل امر نہیں ہے.ابھی ہم اس ہوٹل کو ڈبل یا تین گنا کرنے کے متعلق باتیں کر رہے تھے.اگر اسے ڈیل کر دیں تو اس میں ڈیڑھ سو طالب علموں کے رہنے کی گنجائش پیدا ہو سکتی ہے.اور اگر تین ہوسٹل بنا دیے جائیں تو تین چار سو طالب علم رہ سکتے ہیں.اگر ہم کچا ہوٹل بھی بنائیں اور موجودہ ہوٹل کو ڈبل بنا کر آگے برآمدے بنائے جائیں تو پینتالیس ہزار روپیہ

Page 169

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 163 جلد چهارم خرچ کا اندازہ ہے.اور اگر تین گنا کریں تو ایک لاکھ چالیس ہزار خرچ کچھے کا تخمینہ ہے.اور اگر پکا بنایا جائے تو دو تین لاکھ روپیہ چاہئے.پھر بی ایس سی کلاس کھولنی ہے.اس کے لئے سامان اور کمروں کی بھی ضرورت ہے.ان کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چاہئے.پھر ایم.ایس سی کلاس بھی جاری کی جائے تو کل خرچ دس لاکھ کے قریب ہو گا.لیکن اگر موجودہ طالب علم بھی عزم کر لیں کہ جب چھٹیوں پر جائیں تو اپنے دوستوں سے، رشتہ داروں سے جن کے پاس وہ جائیں چندہ جمع کریں گے تو یقیناً وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں.لوگ عموماً طلباء کو خوش کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارے لیڈر بننے والے ہیں تو دودو تین تین سو روپیہ جمع کر لینا کچھ مشکل نہیں.علی گڑھ کے طالب علم اسی طرح کافی روپیہ جمع کرتے ہیں.اگر ہر طالب علم دو تین سو روپیہ جمع کرے اور اوسطاً ایک لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہو اور کچھ بوجھ انجمن اٹھائے تو چند سال میں دس لاکھ روپیہ جمع ہونا مشکل نہیں ہے.اور ہم سب کلاسیں کھول سکتے ہیں.یہی جذبہ کالج کے پروفیسروں میں ہونا چاہئے.پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمارے نوجوان اتنا بوجھ نہ اٹھائیں.چودھری ظفر اللہ خان صاحب امریکہ گئے تو وہاں کے متعلق انہوں نے سنایا کہ ایک لڑکا ان کو ایک شہر دکھانے کے لئے ساتھ ہو گیا.وہ کہیں نو کر تھا اس کا باپ بڑا امیر آدمی تھا چودھری صاحب نے اس سے پوچھا تمہارا باپ اتنا دولت مند ہے تم نوکری کیوں کرتے ہو؟ اس نے کہا میرے باپ کا باپ غریب آدمی تھا.مگر میرے باپ نے کوشش کی اور وہ امیر بن گیا.اب میں بھی کوشش کر کے اپنے باپ سے بڑھنا چاہتا ہوں.پس آپ لوگوں کو جہاں دینی لحاظ سے اپنی اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنی چاہئے وہاں کالج کو ترقی دینے اور اس کو مدد دینے کی بھی کوشش کرنی چاہئے.آپ لوگ جب کالج کی تعلیم سے فارغ ہو جائیں گے تو اولڈ بوائز ایسوسی ایشن بنالیں گے اور دس سال میں ایک ہزار نوجوان اس کالج سے تعلق رکھنے والے پیدا ہو جائیں گے.کچھ پڑھنے والے اور کچھ اولڈ بوائز.اگر ان کی کوششیں اپنے اپنے حلقہ میں جاری رہیں تو دس لاکھ سے بھی زیادہ رقم جمع کر سکتے

Page 170

زریں ہدایات (برائے طلباء) 164 جلد چهارم ہیں.اور پھر دس سال میں تین چار ہزار طلباء ہو سکتے ہیں.اس طرح یہ اتنا وسیع حلقہ بن جاتا ہے کہ اگر وہ معمولی کوشش بھی کریں تو تین چار لاکھ روپیہ بھی سال میں جمع کر سکتے ہیں.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قادیان کی رہائش سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ایک مرض ہے کہ کالج کے طلباء عام لوگوں سے الگ رہتے ہیں.جہاں تک آوارگی کا تعلق ہے انہیں الگ رہنا چاہئے.مگر جہاں تک قادیان کا تعلق ہے اگر طلباء خلافت سے وابستگی اختیار نہ کریں گے ، مقامی اداروں اور نظارتوں سے تعلق نہ رکھیں گے تو ان میں وہ روح نہ پیدا ہو گی جو احمدیت پیدا کرنا چاہتی ہے.اگر وہ سلسلہ کی تحریکوں سے الگ رہیں گے تو ان میں مذہب سے دلچسپی اور مذہب کے لئے فدا کاری نہ پیدا ہوگی.پس کوشش کرنی چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ مرکزی اداروں سے تعلق رکھیں اور وقتا فوقتا ان میں کام کریں.اب وقت نہیں ہے اس لئے میں دعا کر کے جاتا ہوں مگر ایک لطیفہ سنا دیتا ہوں.یہ سامنے کی کوٹھی جنہوں نے اپنے رہنے کے لئے بنوائی تھی اس میں اب ہوٹل کے جو سپر نٹنڈنٹ رہیں گے وہ ان کے ہم نام، ہم قوم، ہم ڈگری اور ہم علاقہ ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے پہلا آدم آیا تو اسے شیطان نے جنت سے نکالا.مگر دوسرا آدم اس لئے آیا ہے کہ جنت میں داخل کرے 2 اس کوٹھی میں پہلے رہنے والے محمد علی نام کے ایم.اے ڈگری والے، آرائیں قوم کے اور وطن کے لحاظ سے جالندھری تھے.ان کے ساتھیوں نے خلافت کے اختلاف کے وقت کہا تھا دیکھ لینا دس سال تک یہاں عیسائیوں کا قبضہ ہو گا.خدا تعالیٰ کی نکتہ نوازی دیکھو دس سال بعد نہیں تھیں سال بعد ایک دوسرا شخص اسی نام، ای ڈگری، اسی قوم اور اسی ضلع کا آج ہمارے سامنے یہ کہہ رہا ہے کہ اب میں اس کوٹھی میں رہوں گا اور احمدیت کی روایات کو قائم کرنے کی کوشش کروں گا.جو کچھ پہلےمحمد علی ایم.اے آرائیں جالندھری نے کہا تھا بالکل غلط ہے.یہ جگہ خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے ہی بنائی اور یہاں اسلام کے خادم ہی رہیں گے اور میں محمد علی ایم.اے آرائیں جالندھری اپنے طلباء سمیت پوری کوشش کروں گا کہ

Page 171

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 165 احمدیت اپنی سب روایات سمیت قائم رہے اور دنیا پر غالب آئے." (الفضل یکم نومبر 1945ء) 1 مسلم کتاب الایمان باب الحث على المبادرة بالاعمال صفحه 63 حدیث 313 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية - 2: خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 308،307 ایڈیشن 2008 (مفہوماً) جلد چهارم

Page 172

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 166 جلد چهارم احمدی نوجوان ہر علم میں دوسروں سے جلد سے جلد بڑھنے کی انتہائی کوشش کریں.خدمت دین کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں 27 فروری 1946ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی کے طلباء سے جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- سکولوں میں سے ہمیشہ ہی طالب علم امتحانوں کے لئے جاتے ہیں.اور بظاہر یہ ایک ایسی چیز ہے جسے اپنی جدت کو کھو دینا چاہئے لیکن چونکہ اس فعل کا نتیجہ آئندہ ملک اور قوم پر اثر انداز ہوتا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ یہ فعل متواتر ہر سال ہوتا ہے پھر بھی اپنی جدت کو کھوتا نہیں.جس طرح بچے پیدا ہوتے ہی چلے آئے ہیں اور جب سے بنی نوع انسان نے ہوش سنبھالا ہے وہ اپنے اور دوسرے گھروں میں بچوں کی پیدائش دیکھتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس کے بچوں کی پیدائش نے اپنی جدت کو کھویا نہیں بلکہ ہر گھر اور ہر محلہ اور ہر شہر کے افراد یا ہر ملک کے افراد بلکہ ساری دنیا کے افراد بچوں کی پیدائش میں ویسی ہی دلچسپی لیتے رہتے ہیں جیسا کہ آدم کے زمانہ کے لوگوں نے لی ہوگی.آدم کے زمانہ کے لوگوں کی دلچپسی گو ہمارے سامنے نہیں مگر بنی نوع انسان کی ہزاروں سال تک کی تاریخ ہمارے سامنے آچکی ہے اور تاریخ بتاتی ہے کہ بچوں کی پیدائش نے ہمیشہ ہی

Page 173

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 167 جلد چهارم افراد اور قوم کے دلوں میں گدگدیاں پیدا کی ہیں اور ان کے اندر ایک نئی خوشی کی لہر دوڑا دی ہے.پس یہ چیز گو پرانی ہے مگر کبھی بھی نئے جامے کے بغیر دنیا کے سامنے نہیں آئی.پس ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ جو چیز ہمیشہ ہی نئے جامے کے ساتھ اپنی دلچپسی کو قائم رکھے ہوئے ہے وہ جامہ کس رنگ کا ہے.میں نے بتایا ہے کہ طالب علم ہر سال ہی مدرسوں سے امتحان دینے کے لئے جاتے ہیں.لیکن باوجود اس کے اس کی جدت اس وجہ سے قائم ہے کہ اس کا اثر ملک کے مستقبل پر پڑتا ہے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہمارے سکول میں سے جانے والے لڑکے قوم کے آئندہ مستقبل پر کیا اثر ڈالتے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ سابق میں وہ اثر اچھا نہیں رہا.نہ قابلیت کے لحاظ سے اور نہ کامیاب ہونے والوں کی تعداد کے لحاظ سے.جہاں غیر قوموں کے سکولوں میں بعض جگہ پر سو فیصدی لڑکے پاس ہوئے، جہاں غیر قوموں کے سکولوں میں بعض جگہ سو فیصدی لڑکے فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے وہاں ہمارے طلباء 60، 70 فیصدی کے اندر چکر لگاتے اور بالعموم تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوتے ہیں.یہ صاف بات ہے کہ اس قسم کا مواد جب کسی قوم کو ملے گا تو وہ کامیاب طور پر کام نہیں کر سکے گی.کالجوں کی تعلیم سکولوں کی تعلیم سے زیادہ مشکل ہوتی ہے اور اس میں زیادہ عقل اور زیادہ محنت کی ضرورت ہوتی ہے.کیونکہ وہ تعلیم صرف تعلیم کے لحاظ سے ہی اوپر کے درجہ کی نہیں ہوتی بلکہ قسم کے لحاظ سے بھی جدا گانہ ہوتی ہے.اس لئے جو طالب علم اچھی قابلیت لے کر کالج میں نہیں جاتے جب ان کی عقل پر بوجھ پڑتا ہے تو وہ پورے طور پر اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتے اور اپنے علم اور اسا تذہ کے ساتھ دوڑ نہیں سکتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اساتذہ اور کتا بیں آگے بھاگتی چلی جاتی ہیں اور وہ پیچھے رہ جاتے ہیں اور آہستہ آہستہ استادوں اور کتابوں کی آوازیں جو کچھ کچھ ان کے دلوں میں علم کی محبت پیدا کر رہی ہوتی ہیں مدہم ہوتی چلی جاتی ہیں اور آخر وہ ان آوازوں کو سننے سے ہی محروم رہ جاتے ہیں.پس ضرورت ہے کہ ہمارے سکول کے معیار کو بلند کیا جائے.مجھے گزشتہ سال مختلف رنگوں میں یہ بات سنائی گئی ہے کہ ہمارے سکول کا معیار بلند ہو رہا

Page 174

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 168 جلد چهارم ہے.مگر یہ بات اسی صورت میں صحیح سمجھی جاسکتی ہے کہ پہلے ہمارے سکول کا نتیجہ اگر 60 اور 70 فیصدی کے درمیان تھا تو اب 70 اور 80 فیصدی یا 80 اور 90 فیصدی کے درمیان پہنچ جائے اور دو تین سالوں تک 100 فیصدی پر پہنچ جائے.اسی طرح نتائج معیار قابلیت کے لحاظ سے آگے سے اعلیٰ ہو جائیں یعنی اگر پہلے تھرڈ ڈویژن میں زیادہ لڑکے پاس ہوتے تھے تو اب سیکنڈ ڈویژن میں زیادہ پاس ہوں اور پھر فرسٹ ڈویژن میں زیادہ ہوں اور پھر آہستہ آہستہ تھرڈ اور سیکنڈ ڈویژن بالکل ختم ہو جائے اور سب فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونے لگ جائیں.یہ چیز ہے جو ہمیں مطمئن کر سکتی ہے اور تسلی دلا سکتی ہے کہ ہمارے سکول کے طالب علم پہلے کی نسبت ترقی کر رہے ہیں.یہ ظاہر بات ہے کہ قوم کا بوجھ ہمیشہ تعلیم یافتہ لوگوں پر ہی پڑا کرتا ہے.صلى الله اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم دنیا کے سامنے یہ بات پیش کرتے ہیں کہ ہمارے مذہب کے بانی محمد رسول اللہ ہی یہ امی تھے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ جماعت کے تمام افراد کو اُمّی ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ اگر معجزانہ رنگ میں ایک چیز دکھاتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ معجزہ ہر فرد کے لئے ظاہر کرتا ہے.معجزے کے تو معنے ہی یہی ہیں کہ باقی دنیا اس کی مثال لانے سے محروم ہے.اگر رسول کریم ﷺ نے امی ہو کر دنیا کی اصلاح کرلی تو اس کا دوسرے لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ دنیا میں اُمی لوگ وہ کام نہیں کر سکتے جو رسول کریم نے کیا.یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ امی لوگ دنیا کی اصلاح کر سکتے ہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُمّی لوگ نہیں کر سکتے.اگر خدا تعالیٰ ایک اُمّی سے یہ کام کرا لے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اُمّی سے اس طرح کام کرا لے گا.کیونکہ معجزہ ہر انسان کے ذریعہ نہیں دکھلایا جاتا.خدا تعالیٰ بعض معجزات بعض افراد کے ذریعہ دکھلاتا ہے اور باقی افراد کو اپنی کوششوں سے اس معیار پر آنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے.جو چیزیں انبیاء کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے معجزانہ طور پر ملتی ہیں باقی لوگوں کو محنت سے حاصل کرنی ہوتی ہیں.پس رسول کریم ﷺ کا اُمی ہونا یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علوم مروجہ

Page 175

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 169 جلد چهارم سے اس رنگ میں واقف نہ ہونا جس رنگ میں علماء کو واقفیت حاصل ہوتی ہے اس بات کا ثبوت نہیں کہ باقی دنیا کو بھی علوم حاصل کرنے کی ضرورت نہیں.میری ہی مثال لے لو.ایک پرائمری فیل آدمی کا ساری دنیا کے مقابلہ میں کھڑا ہو جانا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ پرائمری فیل ایسا کر سکتا ہے.بلکہ یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ چونکہ یہ کام اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے سوا ہو ہی نہیں سکتا اس لئے یہ انہی تائید اور نصرت سے ہوا ہے.اگر عام طور پر یہ کام تعلیم یافتہ آدمیوں کے سوا بھی ہو سکتا تو یہ معجزہ کس بات کا ہوتا.معجزہ کے تو معنے ہی یہی ہیں کہ انسان اسے نہیں کر سکتا.اور جب یہ بات ہے تو معلوم ہوا کہ علوم میں ترقی حاصل کرنے کے بغیر کوئی قوم دنیا میں ترقی نہیں کر سکتی.انگریزی میں ایک مقولہ ہے گو وہ اور رنگ میں کہا گیا ہے لیکن بہر حال اس کے ساتھ ملتا جلتا مضمون ہے کہتے ہیں استثناء قانون کو ثابت کرتا ہے کمزور نہیں بناتا.پس یہ استثنائی چیزیں ہوتی ہیں ورنہ باقی سب کو اس قانون کا پابند ہونا پڑتا ہے جو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان میں جاری کیا ہے.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے عام طور پر طالب علموں میں بحث ہوتی ہے کہ شہری زندگی اچھی ہے یا گاؤں کی زندگی اچھی ہے.ہم بھی بچپن میں اس قسم کے ڈیٹس (Debates) میں شامل ہوا کرتے تھے.لیکن در حقیقت یہ مضمون ہے ہی باطل.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ ماں اچھی ہے یا بیٹا.ماں اور بیٹے کی تو آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہوتی.دنیا میں جب کبھی ترقی شروع ہوگی تو منزل کی حالت میں ترقی کی بنیاد رکھی جائے گی.آخر جب قوم میں ہیجان پیدا ہو گا تو لازمی بات ہے کہ کمزوری کی حالت سے قوم ترقی کرے گی.جس کے نتیجہ میں اس کا تمدن بڑھتا چلا جائے گا اور تمدن بڑھنے اور انڈسٹری کے وسیع ہونے کے نتیجہ میں شہر پیدا ہوتے ہیں اور شہروں کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کے لئے خوراک مہیا کرنے کے لئے ارد گرد گاؤں اور قصبات بنائے جاتے ہیں.گویا شہر گاؤں کی اولاد ہیں اور ماں اور بیٹے کا تقابل دنیا میں کوئی نہیں کیا کرتا.اسی طرح اُمیت سے بے شک علم پیدا ہوتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ امیت کو قائم رکھنا چاہئے

Page 176

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 170 جلد چهارم اور علم کو پیدا کرنا چاہئے.اگر ایسا کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ماں تو ہو مگر اس کے بچے نہ ہوں.اگر ماں کے بچے پیدا نہ ہوں گے تو نسل ختم ہو جائے گی.اسی طرح اگر امیت کی نسل نہ ہوگی تو بنی نوع انسان کی علمی ترقی سب ختم ہو جائے گی.کیونکہ اگر بیج کو صرف بیج کی حد تک ہی رکھا جائے اور اس کو بو یا نہ جائے تو درخت کبھی پیدا نہیں ہو سکتا.اگر اللہ تعالیٰ ایک اُمّی کے ذریعہ اپنا سلسلہ قائم کرتا ہے تو وہ یہ امید رکھتا ہے کہ وہ سلسلہ بعد میں علوم ظاہری و باطنی کو لے کر دنیا کا مقابلہ کرے.پس ہماری جماعت کے نو جوانوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ انہوں نے دنیوی قوموں کا مقابلہ کرنا ہے انہیں اس کے لئے دونوں قسم کے علوم حاصل کرنے ہوں گے یعنی دنیوی بھی اور مذہبی بھی.جب تک یہ دونوں باتیں ہمارے اندر پیدا نہ ہوں گی ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.کوئی قوم اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کی دینی اور دنیوی عمارتیں صحیح نہ ہوں.اگر دنیوی عمارتیں صحیح نہ ہوں گی تو قدرتی بات ہے کہ دنیوی کاموں کے لئے ہمیں غیر قوموں کی طرف نظر اٹھانی پڑے گی.اور جب غیر قوموں کے لوگ ہمارے دنیوی کام ٹھیک کریں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ ان کے اخلاق و عادات اور ان کے عقائد ہمارے نوجوانوں پر بھی اثر کریں گے اور ہماری قوم کی دیوار محفوظ نہیں رہ سکے گی.پس جب تک ہم اپنے تمام کاموں کو خود پورا نہ کر سکیں اُس وقت تک ہم اپنی قابلیت کا سکہ دنیا پر نہیں جما سکتے.رسول کریم ﷺ کی ہجرت کے قریباً سو سال بعد کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ بنوامیہ کے ایک خلیفہ کے زمانہ میں حساب میں گڑ بڑ پیدا ہوگئی اور انہوں نے حکم دیا کہ حسابوں کو درست کر کے پیش کیا جائے.اس کی تعمیل میں جن افسروں کو حکم دیا گیا انہوں نے کہا کہ حساب کی درستی میں اتنے مہینے لگ جائیں گے اور اتنے مہینوں کے بعد ہم حساب کو صحیح کر کے پیش کر سکیں گے.اُس زمانے میں ابھی عربی میں حساب رکھنے کا رواج نہیں ہوا تھا کیونکہ حساب دان یہودی تھے اور وہی حساب کے محکموں کے افسر تھے اس لئے عبرانی میں ہی حساب رکھا جاتا تھا.جس طرح آج سے کچھ سال پہلے لوگ

Page 177

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 171 جلد چهارم لنڈے میں حساب رکھتے تھے اردو میں حساب رکھنے کا رواج نہیں تھا اس لئے تمام کام ہندوؤں کے ہاتھ میں تھا.حتی کہ مسلمانوں کو ہندومنشی رکھنے پڑتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ جب کبھی بادشاہ کو حساب دیکھنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ یہ بتانے کے لئے کہ ہمارے بغیر کام نہیں ہو سکتا کہہ دیتے کہ یہ بات تو دو تین ماہ میں پوری ہوگی.ایک اہم موقع پر خلیفہ نے جب حساب طلب کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ حساب تین چار ماہ تک پیش کیا جا سکے گا.اس نے اُسی وقت اپنے افسر کو بلایا اور کہا یہ تو بڑی مصیبت ہے کہ جب چاہیں حساب دیں اور جب چاہیں نہ دیں پھر بھی کیا اعتبار ہے کہ ان کا حساب صحیح ہوتا ہے یا غلط ، اس لئے سارے دفا تر عربی زبان میں کر دیئے جائیں.اس پر افسروں نے کہا کہ پچھلا حساب پچاس سال سے چلا آ رہا ہے اس کو عربی زبان میں تبدیل کرنے اور پھر عربی زبان میں حساب رکھنے کے لئے نئے طریقے ایجاد کرنے پر بیسیوں سال لگ جائیں گے.بادشاہ نے کہا میں تو یہ چاہتا ہوں کہ یہ چھ ماہ میں ہو جائے.انہوں نے کہا یہ تو ناممکن ہے.اُس وقت حجاج جو بہت ظالم مشہور ہے نو جوان تھا اور بہت تیز طبیعت کا تھا.وہ بادشاہ کا منہ چڑھا تھا اور رشتہ دار بھی.اس کو بادشاہ نے بلایا اور کہا کہ یہ مشکل ہے میں چاہتا ہوں کہ یہ کام چھ ماہ میں ہو جائے.حجاج نے کہا میں چھ ماہ میں کرا دوں گا.چنانچہ اس نے چھ ماہ میں سارا حساب کھول کر رکھ دیا.تو جب تک ہمارے ہاتھ اس طرح بندھے ہوئے ہوں گے کہ ہم مجبور ہوں کہ دوسرے لوگ ہمارا کام کریں اُس وقت تک کبھی بھی ہماری قوم ترقی نہیں کر سکتی کیونکہ ہمارے راستے میں ہر جگہ رکاوٹیں پیدا کرنے والے لوگ موجود ہوں گے.کامل قوم وہی ہوتی ہے جس میں ہر قسم کے افراد موجود ہوں.اگر اس قوم کے افراد بیمار ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ اس میں ڈاکٹر موجود ہوں.اگر مقدمات ہوتے ہیں تو ضروری ہے اپنے وکیل موجود ہوں.اگر چیزیں خریدنے کی ضرورت ہے تو ضروری ہے کہ ان میں تاجر موجود ہوں.پھر جس قسم کی تجارت سے واسطہ پڑتا ہوضروری ہے کہ وہ تجارت ان کے

Page 178

زریں ہدایات (برائے طلباء) 172 جلد چهارم ہاتھ میں ہو.اسی طرح ہر قسم کے علوم سے بھی وہ واقف ہوں اور ان پر ان کو عبور حاصل ہو.غرض ہر وہ چیز جس سے ان کو واسطہ پڑے ان کا ان کے قبضہ میں ہونا ضروری ہے.اگر ایک چیز بھی جس کی ہمیں ضرورت ہے ہمارے ہاتھ میں نہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کے ذریعہ ایسا نتیجہ پیدا نہیں ہو گا جس سے ہمیں اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا.مثلاً بعض جگہوں پر صرف موٹروں اور لاریوں اور ریلوں کی سٹرائیک سے ہی گورنمنٹیں بدل جاتی ہیں.ایک قوم کے لوگ یا ایک خیال کے لوگ اس پر قبضہ کر لیتے ہیں اور اس پر قبضہ کرنے کے بعد جب چاہیں سٹرائیک کر دیتے ہیں.اب خواہ فوج موجود ہو لیکن فوج مثلاً لکھنو میں بیٹھی ہے اور فوج کی ضرورت دہلی میں ہے اور لاریوں اور ریل والوں نے سٹرائیک کر دی ہے تو اب فوج دہلی جائے تو کس طرح جائے.پس ترقی کے لئے ہر علم کے آدمیوں کا قوم میں موجود ہونا ضروری ہوتا ہے.جس قانون سے کوئی آزاد نہیں ہوا ہم اس سے کس طرح آزاد ہو سکتے ہیں.ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں ہر قسم کے آدمی ہوں اور ہوشیار آدمی ہوں.جو کند ذہن لڑکے ہیں وہ ہر میدان میں جا کر شکست کھاتے ہیں مگر ذہین اور ہوشیار لڑکے ہر میدان میں اول رہتے ہیں.اول نمبر کے مقابلہ میں جو دوسرے نمبر پر ہوگا یقینا ہار جائے گا اور اول نمبر والا جیتے گا.اگر کہیں کوئی لڑائی ہوتی ہے تو جولڑ کے زیادہ ذہین ہوں گے ، جو تعلیم میں زیادہ ہوشیار رہے ہوں گے وہ توپ بھی اچھی چلائیں گے ، ان کی بنی ہوئی تو پیں بھی زیادہ اعلیٰ ہوں گی.اور یہ لازمی بات ہے کہ دوسری طرف کے سپاہی خواہ کتنے بہادر ہوں چونکہ ان کے لئے تو ہیں بنانے والے ہوشیار نہیں ہوں گے اس لئے ان کی تو ہیں دور کی مار نہیں کریں گی.اسی طرح ان کی بندوقیں دور کی مار نہیں کریں گی اس لئے دوسروں کے مقابلہ میں وہ کچھ کر نہیں سکیں گے اور ہار جائیں گے.غرض دوسرے نمبر کی چیز دنیا میں کبھی زندہ نہیں رہ سکتی.وہی چیز زندہ رہ سکتی ہے جو اول نمبر پر ہو.جب تک ہمارے نوجوان اول نمبر پر آنے کی کوشش نہ کریں گے ، جب تک وہ اپنی قابلیت کو اتنا نہ

Page 179

زریں ہدایات (برائے طلباء) 173 جلد چهارم بڑھائیں گے کہ ان کو دنیا کی ہر قوم کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکے ، اگر وہ اول نمبر پر نہ آئیں تو دوم نمبر پر بھی نہ ہوں بلکہ اول کے برابر ہی ہوں اُس وقت تک ہم امید نہیں کر سکتے کہ قوم کا دوسرا حصہ جو قربانی کے لئے ہوتا ہے وہ قوم کے لئے مفید وجود ثابت ہو.ایک تو بچی ہوتا ہے اور ایک سپاہی ہوتا ہے.ان میں سے سپاہی جولڑنے والے ہیں اصل قربانی کا بکرا ہوتے ہیں.تو بچی تو دور سے بیٹھے توپ چلاتے ہیں اصل فتح تو لڑنے والوں کے ذریعہ ہوتی ہے.جو عوام الناس ہیں اور جو علمی فنون کے لحاظ سے دوسرے درجہ پر ہوتے ہیں.اصل قربانی ان کی ہوتی ہے.لیکن وہ خواہ کتنے بہادر ہوں سامان کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.پس جو سامان انہیں مہیا کیا جائے اگر وہ اچھا نہ ہو تو وہ اچھا کام نہیں دے سکتے.مثلاً بر ما میں لڑائی ہوئی اس کے متعلق جاپانیوں کا اعتراف ہے اور اتحادیوں کا بھی کہ یہ لڑائی در حقیقت ڈاکٹروں نے لڑکی ہے.برما کے علاقہ میں مچھروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی اور اس سے ملیر یا اتنی کثرت سے پھیلتا تھا کہ وہاں ہیں فیصدی آدمی فوجوں کے مرجاتے تھے.جاپانیوں سے یہ غفلت ہوئی کہ انہوں نے پورے طور پر اس طرف توجہ نہیں کی اور خیال کیا کہ ہمارے آدمی قربانی کر رہے ہیں لیکن انگریز اُس وقت تک برما کے علاقہ میں داخل نہیں ہوئے جب تک انہوں نے مچھروں پر قبضہ نہیں کر لیا.انہوں نے کہا کہ ہم اسی صورت میں وہاں جائیں گے کہ مچھر ہمارے ماتحت ہوں.اس صورت میں نہیں جائیں گے کہ ہم مچھروں کے ماتحت اور ان کے رحم پر ہوں.چنانچہ ان کی کوششوں کے نتیجہ میں بجائے میں فیصدی اموات کی شرح کے ایک فیصدی سے بھی کم ہو گئی.یہی وجہ تھی ان کے جیتنے کی.اس کے مقابلہ میں جاپانیوں سے غفلت ہوئی اور انہوں نے ملیریا کا خیال نہ کیا.جس کی وجہ سے ان کی فوج کا کافی حصہ مچھروں کا شکار ہو گیا اور ان کی بٹالینوں میں وہ طاقت نہ رہی جو جنگ کے زمانہ سے پہلے تھی.مثلاً تیرہ سو آدمی بٹالین ہونے چاہئیں تو ان کی بجائے چھ سات سو رہ گئے اور ان میں سے بھی اکثر ملیریا کے مارے ہوئے تھے اور بالکل کمزور اور نحیف.اس کے مقابلہ میں انگریز اور امریکن فوجوں

Page 180

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 174 جلد چهارم کی بٹالینیں پوری کی پوری تھیں اور ان میں جتنے افراد تھے سب کے سب چست اور چالاک تھے.ان کو کسی قسم کی بیماری نہیں تھی اور وہ تازہ دم تھے یہی وجہ تھی کہ باوجود زیادہ قربانی کرنے کے جاپانیوں کو شکست ہوئی.جہاں تک قربانی کا سوال ہے انہوں نے بہت قربانی کی لیکن سامانوں کی خرابی اور اپنی غفلت کی وجہ سے وہ جیت نہ سکے.ایک احمدی جاپانیوں کی قید سے آزاد ہو کر آئے اور مجھے ملے.انہوں نے کہا کہ ہمیں جاپانی قید کر کے فلاں جزیرہ میں لے گئے.وہاں ہمیں وہ ایک ہفتہ کے لئے صرف ایک جراب بھر چاول دیتے تھے اور ہمیں اس پر گزارہ کرنا پڑتا تھا.میں نے کہا میں اسے ظلم نہیں سمجھ سکتا جب تک یہ نہ بتاؤ کہ وہ جاپانی سپاہی کو اس سے زیادہ دیتے تھے.انہوں نے کہا جاپانیوں کو بھی اتنا ہی دیتے تھے.میں نے کہا کہ جب وہ اپنوں کو بھی اتنا ہی دیتے تھے تو ہم کو بھی اتنا ملنا کس طرح ظلم کہلا سکتا ہے.اب دیکھو وہ قوم سامان کے بغیر لڑائی کے لئے آمادہ تھی.انہوں نے قربانی کی لیکن ایسی قربانی جو غلط تھی اور جس کے نتیجہ میں شکر لازمی تھی.وہ قربانی کے لفظ پر خوش رہے.اگر وہ ہوشیار ہوتے تو ایسی غفلت نہ برتتے.لیکن انگریزوں نے اپنے سپاہیوں سے ایسی قربانی کا مطالبہ نہیں کیا اور یہی عقلمندی تھی.کیونکہ لڑنے والے سپاہی کا اگر پیٹ نہ بھرا جائے تو اس کی طاقت کم ہو جاتی ہے.ہاں اگر کوئی ایسا مشکل موقع پیش آ جائے کہ پاس کچھ نہ رہے تو ایسی حالت میں پھر مجبوری ہے.جیسے صحابہ بعض دفعہ صرف کھجوروں کی گٹھلیوں پر گزارہ کرتے تھے.ایک لڑائی میں صحابہ نے گھلیوں پر گزارہ کیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اس وجہ سے ہمیں سخت قبض ہو گئی.جسے پاخانہ آتا تھا مینگنیوں کی شکل میں آتا تھا کیونکہ غذا میں کوئی رطوبت نہ تھی 1 پس جب ضرورت ہو تو پھر بے شک ہر قربانی ہونی چاہئے مگر بغیر ضرورت کے نہیں.اسلام نے صرف دفاعی جنگوں کا حکم دیا ہے اور دفاعی جنگ میں قربانی کرنی ہی پڑتی ہے.مگر جب یہ پروگرام ہو کہ تم نے حملہ کرنا اور دنیا کو فتح کرنا ہے تو پھر ایسی قربانی کا مطالبہ کرنا گویا قوم کی ہمت کو توڑنا اور اس کو تباہی کے گڑھے میں گرانا ہے.جن کے ذہن میں یہ ہو کہ ہم پر دوسرے حملہ آور

Page 181

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 175 جلد چهارم ہیں ان سے جتنی بھی قربانی کراتے جاؤ وہ کرتے جائیں گے.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ تم حملہ آور ہو اور تم نے ہی فتح پانی ہے تو پھر ضروری ہے کہ اس حملہ کے لئے اور سپاہیوں کی طاقت کو بحال رکھنے کے لئے ان کا پیٹ بھرا رہے.چونکہ جاپان حملہ آور تھا دفاعی جنگ نہیں کر رہا تھا کہ اس کے سپاہی اپنی حکومت کو مجبور سمجھتے.پس جب حکومت نے سپاہیوں کا پیٹ نہ بھرا تو ان کے حوصلے قائم نہ رہ سکے.پس یہ لڑائی عقلی طور پر لڑی گئی ہے.اتحادیوں کے ڈاکٹروں نے ملیریا کا ایسا علاج نکالا کہ ان کے سپاہی ملیریا کے اثر سے بچ گئے.اتحادی فوجی افسر ملیریا کی دوائی پر روٹی سے بھی زیادہ زور دیتے تھے.مجھے ایک فوجی دوست ملنے آئے ان کا چہرہ زرد تھا.انہوں نے بتایا کہ ہمارے چہرے اس وجہ سے زرد ہیں کہ ہمیں ملیریا سے بچنے کے لئے روزانہ mcpacrinc کی گولیاں کھانی پڑتی ہیں جو چہرے کو زرد کر دیتی ہیں.پھر جب کوئی فوجی چھٹی پر آنے لگتا ہے تو پہلے دو تین دن اسے دو دو تین تین بلکہ چار چار گولیاں کھلاتے ہیں اور جاتے ہوئے اسے جتنے دن کی چھٹی ہوتی ہے اس حساب سے گولیاں گن کر دے دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ باقاعدہ کھاتے رہنا.اس طرح اتحادیوں نے اپنی فوجوں کو لڑوایا اور حکمت عملی سے فتح پالی.پس جب تک ہم علمی طور پر دوسری اقوام کا مقابلہ نہ کریں کامیاب نہیں ہو سکتے.ابھی تمہارا دماغ اتنا وسیع نہیں کہ تمام مشکلات کو سمجھ سکو یا ان ضروریات کو سمجھ سکو جو آئندہ تمہارے راستہ میں بحیثیت ایک خاص قوم کے افراد ہونے کے پیش آئیں گی.لیکن تم اتنا تو سمجھ سکتے ہو کہ دنیا میں علم والے آدمی کا مقابلہ جاہل نہیں کر سکتے.تو پ کا مقابلہ لٹھ سے نہیں ہو سکتا.لٹھ آدمی کا سر پھاڑ سکتی ہے لیکن توپ کا کام نہیں دے سکتی.اور توپ کا کام، سائنس کا علم اور لوہے کا علم جاننے سے ہوتا ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ لوہا ڈھالا توپ بنائی اور توپ کے دہانے میں گولے کو ڈال کر چلا دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ معمولی معمولی باتوں سے بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے.توپ کی دور کی مار نالی کی صفائی پر ہوتی ہے.اگر نالی کی صفائی کم ہوگی تو توپ کم مار کرے گی.اور اگر نالی کی صفائی زیادہ ہوگی تو توپ

Page 182

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 176 جلد چهارم زیادہ مار کرے گی.پرانے زمانہ کی قسم کی تو ہیں اب بھی لو ہار بناتے ہیں لیکن چونکہ ان میں صفائی نہیں ہوتی اس لئے وہ دو چار سو گز اور زیادہ سے زیادہ پانچ سو گز تک مار کرتی ہیں.لیکن جو تو ہیں scientific اصول پر بنائی جاتی ہیں وہ چار چار پانچ پانچ میل تک مار کرتی ہیں.اسی طرح بندوق کا حال ہے.پھر جب نالی میں سے گولا نکلتا ہے تو اس کی گرمی کی وجہ سے لوہے پر اس کا اثر پڑتا ہے جس کی وجہ سے نالی ٹیڑھی ہو جاتی ہے.ہمارے سرحد کے پٹھان جو تو ہیں بناتے ہیں وہ چند ماہ کے بعد خراب ہو جاتی ہیں لیکن سائنس کے ذریعہ اب ایسی تو میں بنی ہیں جن پر گولے کا اثر کم سے کم ہوتا ہے یا وہ کم سے کم خرابی قبول کرتی ہیں اور کام زیادہ لمبے عرصہ تک دیتی ہیں.کیونکہ ان کا لوہا خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے.اگر سرحدی تو ہیں چھ سات ماہ تک کام دیتی ہیں تو یہ 8 ، 10 سال تک کام دے جاتی ہیں.تو یہ ساری چیزیں علم کی وجہ سے دنیا میں قائم ہیں اور جو قو میں ہار رہی ہیں وہ جہالت کی وجہ سے ہار رہی ہیں.علم اتنی جلدی جلدی ترقی کر رہا ہے کہ پہلے گدھوں پر سواری ہوتی تھی.پھر گھوڑوں پر ہونے لگی.پھر رتھوں ،شکرموں پر سواری شروع ہوئی.پھر سائیکل نکل آئے ، پھر موٹریں آگئیں، پھر ریل آئی ، پھر ہوائی جہاز آ گئے ، اسی طرح ہمارا علم بھی بڑھتا چلا جانا چاہئے یہاں تک کہ ہم آگے بڑھی ہوئی قوموں کے برابر ہو جائیں.آج جو دنیا میں کھڑا رہے گا گر جائے گا.پہلے بھی ایسا ہی ہوتا تھا لیکن اس زمانہ میں تو دنیا حیرت انگیز طور پر ترقی کی طرف اپنا قدم بڑھا رہی ہے.آج اگر ایک آدمی موٹر میں سوار ہو کر جا رہا ہے اور ایک آدمی سڑک کے کنارے کھڑا ہے تو ہیں چھپیس سیکنڈ میں ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ وہ کتنا آگے نکل گیا ہے اور یہ کتنا پیچھے رہ گیا ہے.پس اس زمانہ میں کسی آدمی کا کھڑا ہونا اپنی موت کا آپ فتویٰ دینا ہے.اس لئے ہمارے نوجوانوں کو صرف نعروں پر ہی نہیں رہنا چاہئے.بعض نو جوان خصوصاً سکول کے لڑکے جب کسی جلوس کی صورت میں کہیں جاتے ہیں تو نعرے لگاتے جاتے ہیں.فلاں زندہ باد، فلاں زندہ باد.حالانکہ صرف زندہ باد کہنے سے کیا بنتا ہے.زندہ باد کہنے سے نہ تم اور نہ تمہاری قوم زندہ رہ

Page 183

زریں ہدایات (برائے طلباء) 177 جلد چهارم سکتی ہے.بلکہ عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے تم اپنی قوم کو زندہ کر سکتے اور زندہ رکھ سکتے ہو.پس عمل کر کے دکھلاؤ.اگر تم صرف زندہ باد کے نعرے لگاتے رہو گے اور عمل نہیں کرو گے تو موت اور ہلاکت کے سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا.پس اپنی زندگی کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو.بچوں کا کام کھیل کو د ہوتا ہے اور ہم کھیل کو د سے تم کو منع نہیں کرتے.لیکن ایسی باتیں نہ کرو جن کے خلاف رات دن تمہارا عمل ہوتا ہے.اگر فٹ بال، کرکٹ ، ہاکی، والی بال کھیلتے ہو تو یہ کھیلیں تمہاری صحت کے لئے مفید ہیں.تمہاری مذہبی ذمہ داریوں کے خلاف نہیں اور نہ تمہاری دنیوی ذمہ داریوں کے خلاف ہیں.لیکن تمہارا وہ نعرہ تکبیر جو بظاہر نیکی معلوم ہوتا ہے اور تمہارا زندہ باد کہنا جو بظاہر نیکی معلوم ہوتا ہے اور جو فٹ بال یا کرکٹ یا والی بال کے مقابلہ میں ایک جاندار چیز ہے وہ یقینا تمہاری روحانیت کو مارنے والا ہے اگر اس کے مطابق تمہارا عمل نہیں.فٹ بال کسی صورت میں بھی تمہاری روحانیت میں رخنہ نہیں ڈالتا مگر تمہارا اللہ اکبر کا نعرہ یقیناً قومی ترقی پر اثر ڈالتا ہے.اگر تمہاری زبان پر الله اَكْبَرُ ہے اور تمہارا ایمان بجائے اللهُ أَكْبَرُ کے لات و منات کو اکبر کہہ رہا ہے، اگر تم اپنے عمل سے غداری کر رہے ہو اور اگر تم ترقی کے راستہ پر گامزن نہیں ہو رہے اور اگر تم اپنی قوم کی ترقی کے لئے کوشش نہیں کر رہے تو تمہارا یہ نعرہ تکبیر تمہارے دل پر زنگ لگانے والا ہے.اور دنیا کی نگاہوں میں بھی اور اپنی نگاہوں میں بھی اور خدا تعالیٰ کی نگاہوں میں بھی جو تمام خفیہ رازوں سے واقف ہے تم مجرم بنتے ہو.پس اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا کرو کہ اپنی قوم کے لئے مفید بن سکو.تم میں سے جنہیں تو فیق مل سکے ان کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں ( مدرسے کی تعلیم کے متعلق میں نے بتایا ہے کہ یہ ابتدائی تعلیم ہے) ہمارے بعض نو جوان تعلیم سے بچنے کے لئے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو نوکریاں کرنی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نو جوانوں کا فرض ہے کہ اپنے ماں باپ کی ذمہ داریوں کو اٹھائیں اور ان کے بوجھ کو ہلکا کریں لیکن اگر ان کے ماں باپ اس بوجھ کو اٹھا سکیں تو پھر ہر ایک

Page 184

زریں ہدایات (برائے طلباء) 178 جلد چهارم نوجوان کا فرض ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرے تا وہ اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لئے زیادہ مفید وجود بن سکے.اول تو یہ کوشش کریں کہ اچھے سے اچھے نمبروں پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں پاس ہو سکیں.پھر جو پاس ہوں وہ کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ کالج میں داخل ہو کر کالج کی تعلیم حاصل کریں.اور پھر دوسری چیز جو زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ تم میں زیادہ سے زیادہ ایسے لوگ پیدا ہوں جو اپنے آپ کو قوم کی خدمت کے لئے پیش کریں.اس وقت ہماری جماعت ایسے مقام پر ہے کہ اس کا نظام پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہونا چاہتا ہے اور ہو رہا ہے." ہونا چاہتا ہے" سے مراد یہ ہے کہ اس وقت اس نظام پر پھیلنے کے لئے اندرونی دباؤ بڑھ رہا ہے.اگر ہم اس کو روکیں تو یقیناً ہمارا نظام ٹوٹ کر رہ جائے گا لیکن اس کے لئے ہمیں آدمی کم مل رہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری جماعت میں اتنی تعلیم نہیں جتنا ہماری جماعت میں پھیلاؤ ہے.جب پھیلاؤ کے مطابق تعلیم نہیں ہوتی تو قوم ٹوٹ جاتی ہے یا اس قوم کا قدم ترقی کی دوڑ میں رک جاتا ہے.اگر ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے تو ہمارے مبلغ بھی زیادہ ہوں گے اور ہمارے دفتر بھی بڑھیں گے.اور جتنے مبلغ زیادہ ہوں گے اتنا ہی مرکز کا عملہ بھی بڑھ جائے گا.لیکن اگر تعلیم زیادہ نہ ہوگی ، اگر تعلیم حاصل کرنے والے اپنی زندگی دین کے لئے وقف نہ کریں گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا مبلغین کم رہ جائیں گے جس سے اسلام کو نقصان پہنچے گا یا اگر مبلغین پورے ہوں گے اور وہ تبلیغ کے لئے باہر چلے جائیں گے تو آدمیوں کی کمی کی وجہ سے مرکز میں کم آدمی رہ جائیں گے اور مرکز کو نقصان پہنچے گا.پس تم میں سے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تا ہماری جماعت کا پھیلاؤ آئندہ مرکز کے ساتھ اپنے رشتہ کو قائم رکھ سکے.اگر بیرون جات میں پھیلاؤ زیادہ ہے اور مرکز چھوٹا ہے یا مرکز پھیلتا چلا جا رہا ہے لیکن بیرون جات میں تبلیغ کا دائرہ وسیع نہیں تو دونوں صورتوں میں جماعت ٹوٹ جاتی ہے.وہ آدمی عقلمند نہیں ہوتا جس کا جسم کامل انسان جیسا ہو لیکن سر چھوٹا سا ہو جیسے ” شاہ دولے کا چوہا ہوتا ہے.تم میں سے بہتوں

Page 185

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 179 جلد چهارم نے اسے دیکھا ہوگا.اسی طرح وہ بھی احمق ہوتا ہے جس کا سر بہت بڑا ہوتا ہے اور جسم چھوٹا.اس کا سر اس لئے بڑا نہیں ہوتا کہ وہ بڑا عظمند ہے بلکہ ہڈیوں کے بڑھ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے اور ہڈیوں کا بڑھ جانا بھی نقص کی وجہ سے اور صحت کی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے دونوں نسبتیں قائم رہنی چاہئیں.اگر سر جسم کی نسبت سے بہت چھوٹا ہو جائے تو بھی انسان بے وقوف ہوگا اور اگر جسم کی نسبت سے سر بہت بڑا ہوگا تو بھی بہت بے وقوف ہوگا.دنیا میں سب سے بڑے سرہائنٹ ساٹ افریقن قبیلہ کے ہوتے ہیں جو کوئی زبان اچھی طرح سیکھ لینے کے بعد بھی اسے چار پانچ سال میں بالکل بھول جاتے ہیں.پس مرکز کا چھوٹا ہونا اور شاخوں کا پھیل جانا بھی خطرناک ہے.اور شاخوں کا چھوٹا ہونا اور مرکز کا پھیل جانا بھی خطر ناک ہے.ہمیں چاہئے کہ ہم ان دونوں چیزوں کا توازن قائم رکھیں.اگر ان دونوں چیزوں کا توازن قائم نہ رکھ سکے تو ہم کامیاب نہ ہو سکیں گے.اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو صحیح طور پر اسلام کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے اندروہ صحیح جذبات پیدا کرے جو زندہ قوموں کی کامیابی کے لئے ضروری ہوتے ہیں اور جن کے بغیر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی.اسی طرح اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے اور علم کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.“ ( الفضل 8 مارچ 1946ء) 1 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي عله باب مناقب سعد بن ابی وقاص صفحہ 628 حدیث 3728 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 186

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 180 جلد چهارم ہمارے تعلیمی اداروں کو چاہئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کریں.طلباء کی علمی ، اخلاقی اور مذہبی نگرانی کے سلسلہ میں اپنے فرائض کو پوری ہوشیاری سے ادا کرنا چاہئے حضرت خلیفہ اسی الثانی نے 18 نومبر 1946ءکوتشہد،تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد ایک اہم خطاب فرمایا جو حسب ذیل ہے:.1 ایک حدیث میں رسول کریم ﷺ نے جنتیوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا ہے کہ اھل الْجَنَّةِ بُلة I یعنی جنتی بالکل سادہ مزاج ہوں گے.اس حدیث سے بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ دنیاوی کاموں میں ہوشیاری اور بالغ نظری بھی ایک مومن کی شان کے خلاف ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ کا عملی نمونہ ان معنوں کو باطل ثابت کر رہا ہے.رسول کریم ﷺ کے مدینہ میں تشریف لے جانے کے بعد متواتر آٹھ سال تک کفار سے آپ کی لڑائی جاری رہی.مگر اس لمبے عرصہ میں ایک بھی مثال اس قسم کی نہیں ملتی کہ مسلمانوں کی غفلت کی حالت میں کفار نے ان پر حملہ کر دیا ہو.سو کے قریب مسلمانوں کی کفار کے ساتھ لڑائیاں ہوئیں.اور اگر چھوٹے چھوٹے غزوات کو بھی شامل کر لیا جائے تو دواڑھائی سو کے درمیان تک ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے یعنی اگر اوسط نکال لی جائے تو ان آٹھ سالوں میں متواتر ایک ایک مہینے میں تین تین اور چار چار واقعات اس قسم کے ہو جاتے تھے.مگر جہاں تک رسول کریم ﷺ کی نگرانی کا سوال ہے مؤرخ حیران ہوتے ہیں کہ ان بے شمار لڑائیوں میں اتنے لمبے عرصہ تک ایک بھی مثال اس قسم کی نہیں ملتی کہ دشمن

Page 187

زریں ہدایات (برائے طلباء) 181 جلد چهارم نے آپ کی غفلت میں مسلمانوں پر حملہ کر دیا ہو.غزوہ خندق کے موقع پر بھی کفار نے خفیہ خفیہ تیاریاں کر کے اور یہ سمجھ کر کہ مسلمان اس وقت سست ہیں یا غفلت کی حالت میں ہیں حملہ کیا مگر جب وہاں پہنچ کر دیکھا تو مسلمان مدینہ کے باہر دشمن کا انتظار کر رہے تھے.یہ اتنی ہوشیاری کی بات ہے کہ اس کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی.مگر لوگوں نے بے وقوفی سے رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کے یہ معنے سمجھ لئے کہ جنت میں وہی شخص جائے گا جو اتنا سادہ ہو گا کہ اسے دنیا جہان کی کوئی خبر ہی نہیں ہوگی.حالانکہ اس حدیث میں رسول کریم نے مومن کا نقشہ نہیں کھینچا بلکہ اَهْلُ الْجَنَّةِ کا نقشہ کھینچا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جنتی لوگوں کے دلوں میں سے ہر قسم کا کینہ اور بغض نکال لیا جائے گا2 جب ان کے سینوں میں سے ہر قسم کی برائی نکال لی جائے گی تو ان پر تو کسی قسم کے شبہ کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی.مگر لوگ اس کے یہ معنے لیتے ہیں کہ الْمُؤْمِنُ بُلْهُ حالانکہ یہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ اَهْلُ الْجَنَّةِ بُلہ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اگر کوئی شخص جس کے پاس دس میں ہزار روپے ہوں کسی ایسی جگہ رات گزارے جہاں اس کے کمرے میں خدا تعالیٰ کا کوئی مقدس انسان یا ولی موجود ہو اور وہ اپنے ٹرنک کو تالا لگا تا پھرے.تو یہ اس کی حماقت کی علامت ہوگی.اسی طرح جب جنت کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہاں رہنے والوں کے دلوں میں سے ہر قسم کا کینہ کپٹ اور تمام قسم کی برائیاں نکال لی جائیں گی اور وہ بالکل فرشتہ بن جائیں گے تواهْلُ الْجَنَّةِ بُلہ کہنا بالکل درست ہوا.مگر لوگ اس کے یہ معنے لیتے ہیں کہ الْمُؤْمِنُ بُلة حالانکہ یہ اشارہ تو اس طرف کیا گیا ہے کہ جس طرح دنیا داروں پر اعتبار کرنے والا بے وقوف ہے اسی طرح جن پر اعتبار کیا جا سکے ان پر اعتبار نہ کرنا بھی گناہ ہے.اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہر ایک پر خواہ وہ کسی قسم کا ہو اعتبار کیا جا سکتا ہے.یہ تو صرف اس مومن کی شان ہے جو اھلی الْجَنَّةِ ہو اور مطلب یہ ہے کہ اگر اس قسم کے نیک لوگ ہوں جن پر اعتبار کیا جا سکتا ہو تو ان سے ہوشیاری کی ضرورت نہیں.اور اگر نیک نہیں تو ان سے ہوشیاری بہت ضروری چیز

Page 188

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 182 جلد چهارم ہے.پس اس میں صرف یہ اشارہ ہے کہ مومن کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہئے مگر آجکل کے جاہلوں نے بے وقوفی سے اس کے یہ معنی سمجھ لئے ہیں کہ کسی مسلمان پر بھی شک نہیں کرنا چاہئے اور اس حدیث کو جو اپنے اندر نہایت لطیف معنے رکھتی ہے کچھ کا کچھ سمجھ بیٹھے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کوئی شخص کتاب پڑھ رہا تھا اس میں اس نے پڑھا کہ جس شخص کا سر چھوٹا اور داڑھی لمبی ہو وہ بے وقوف ہوتا ہے.اس نے اپنے سر کو دیکھا تو وہ چھوٹا تھا اور داڑھی کو دیکھا تو وہ لمبی تھی.اس نے حماقت سے یہ سمجھ لیا کہ صبح کو ہر شخص جو مجھے دیکھے گا وہ میرے سر کو چھوٹا اور داڑھی کو لمبا دیکھ کر کہے گا کہ یہ بے وقوف ہے.اس نے سوچا کہ سرکوتو میں بڑا نہیں کر سکتا اور سر کو چھپایا بھی جاسکتا ہے بڑی سی پگڑی سر پر رکھ دوں گا.مگر داڑھی کا کوئی انتظام ہونا چاہئے.قینچی تو اس کے گھر میں تھی نہیں جس سے وہ داڑھی کو کاٹ کر چھوٹا کر سکتا.دیا جل رہا تھا ( اس زمانے میں لیمپ نہیں ہوتے تھے بلکہ لوگ دیئے جلاتے تھے ) اس نے سوچا ایک مشت سے جتنی لمبی داڑھی ہے اس کو کم کر دینا چاہئے.چنانچہ اس نے مشت میں داڑھی پکڑ کر دئیے کے اوپر رکھ دی.داڑھی جلتے جلتے جب آگ کی گرمی اس کے ہاتھ کو پہنچی تو جھٹ اس نے ہاتھ چھوڑ دیا اور ساری داڑھی جل گئی.وہ کہنے لگا واقعی میں بے وقوف ہوں اور کتاب والے نے بالکل ٹھیک لکھا ہے.اسی طرح أهلُ الْجَنَّةِ بُلہ میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کا نکتہ بیان کیا گیا تھا مگر نادانوں نے اس کی شکل کو بگاڑ دیا.اس کا مطلب تو یہ تھا کہ جن سے بدی کا امکان ہی نہ ہوان پر بدظنی کرنا بے ایمانی ہوتی ہے.جب کوئی ٹرنک کو تالہ لگاتا ہے تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ کوئی چور اس میں سے کچھ لے نہ جائے.لیکن اپنے گھر میں وہ ہر وقت تالا نہیں دیکھتا کیونکہ اسے اپنے بیوی بچوں پر اعتماد ہوتا ہے.اسی طرح جہاں غیروں سے ہوشیار رہنا نیکی ہے وہاں ایسے لوگوں پر بدظنی کرنا بھی جن سے برائی کا امکان ہی نہ ہو گناہ ہے.اھلُ الْجَنَّةِ کے متعلق تو اللہ تعالیٰ کی شہادت موجود ہے کہ وہ نیکی اور تقدس کے اعلیٰ مقام پر ہیں.پس اگر کوئی اہل جنت سے اپنا بنوا سنبھالتا ہے تو وہ اپنی بے ایمانی

Page 189

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 183 جلد چهارم کا آپ اظہار کرتا ہے.جب خدا تعالیٰ نے گواہی دے دی کہ یہ لوگ نیک ہیں تو ان سے بوا سنبھالنے کی کیا ضرورت ہے.پس وہاں تو ایمان کی یہ علامت ہو گی کہ اپنے بٹوے کی پرواہ نہ کی جائے کیونکہ وہ سب ولی اللہ ہوں گے اور ان کو اَھلُ الْجَنَّةِ کا مقام حاصل ہو چکا ہوگا.لیکن دنیا میں چونکہ ہر قسم کے لوگ رہتے ہیں اس لئے مومن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ چوکس اور ہوشیار رہے اور دوسرے لوگوں کی کاروائیوں سے پوری طرح باخبر رہے تا کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچے.مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس اس قسم کی شکایتیں پہنچتی رہتی ہیں کہ بعض لوگ ہمارے مدرسہ کے بعض بچوں کو ورغلا کر لے جاتے ہیں اور ذمہ دار افسروں کو اس کا علم تک نہیں ہوتا.یہ ایک ایسی فروگزاشت ہے جو نہایت افسوس ناک ہے.بچے ہماری جماعت کی ایک قیمتی متاع ہیں.اگر ہم ان کی نگرانی نہیں کریں گے تو ہم اپنی قوم سے دشمنی کرنے والے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو بڑا امیر اور لکھ پتی تھا وہ ایک دن مسجد میں نماز پڑھنے گیا.اس کو افیون کھانے کی عادت تھی ( اور افیونی عام طور پر افیون کھانے کے بعد کوئی میٹھی چیز منہ میں رکھتے ہیں اور اس کو چوستے رہتے ہیں ) وہ افیونی امیر جب مسجد کے قریب آیا تو باوجودیکہ وہ لکھ پتی تھا زمین پر ادھر ادھر ہاتھ مارنے لگ گیا.لوگ اس کو اس طرح زمین پر ہاتھ مارتے دیکھ کر کھڑے ہو گئے.انہوں نے سمجھا خدا جانے اس کی کیا قیمتی چیز گر گئی ہے.انہوں نے پوچھا کہ کیا کوئی انگوٹھی یا ہیرا گر گیا ہے؟ اس نے کہا انگوٹھی یا ہیرے کی تو کوئی بات نہیں خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے رکھا ہے میرے منہ سے ایک ریوڑی گر گئی ہے.لوگوں نے کہا بھلا آپ جیسے امیر آدمی کے لئے ریوڑی کی کیا بات ہے.یہ تو بالکل معمولی چیز تھی.اس نے کہا ہے تو معمولی چیز لیکن اگر کسی غیر افیمی کے ہاتھ آگئی تو وہ کڑک کر کے ایک ہی دفعہ کھا جائے گا اور اصل مقام تو ریوڑی کا یہ ہے کہ آدمی اس کو منہ میں رکھ کر آہستہ آہستہ چوستا رہے اور گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تک اس کے مزے لیتا

Page 190

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 184 جلد چهارم رہے.کڑک کر کے ایک ہی دفعہ ریوڑی کو نگل جانا اس کی ہتک کے مترادف ہے.ذرا اندازہ تو لگا ؤ کہ ایک افیمی تو ایک ریوڑی کو اتنا سنبھالتا ہے اور اس کو اتنا فکر ہوتا ہے کہ اگر کسی غیر افیمی کے ہاتھ آگئی تو وہ اس کی بے قدری کرے گا اور ہمارے سپرد بچے ہوں اور ہم ان کو نہ سنبھالیں.بچوں کی اتنی بھی قدر نہ کرنا جتنی کہ اس افیمی نے ریوڑی کی کی تھی یہ کتنی افسوسناک بات ہے.اگر ہم بچوں کو سزا دیں اور وہ سزا سے ڈر کر بھاگ جائیں تو ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں مگر کوئی شخص کسی بچہ کو ورغلا کر لے جائے تو یہ ہماری غفلت کی علامت ہے.مدرسہ احمدیہ میں ابتدا میں صرف چند لڑ کے ہوا کرتے تھے.پھر ہم نے لوگوں میں تحریکیں کر کر کے اور انہیں اس کی اہمیت بتا بتا کر زیادہ لڑ کے داخل کرائے مگر افسروں نے سمجھ لیا کہ اب اتنے لڑکے آگئے ہیں کہ اگر ان میں سے کچھ بھاگ بھی جائیں تو کوئی حرج نہیں.حالانکہ میرے نزدیک مدرسہ احمدیہ کی ایک ایک کلاس میں دو دو تین تین سو طلباء ہونے چاہئیں.میں نے عمر فاروق صاحب اٹالین سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں عیسائیوں میں یہ اصول ہے کہ ہر پانچ سو آدمی کے پیچھے وہ ایک پادری رکھتے ہیں.ہندوستان میں اس وقت چالیس کروڑ کی آبادی ہے اس کا یہ مطلب ہوا کہ ہمیں آٹھ لاکھ مبلغ چاہئیں.بلکہ آٹھ لاکھ بھی کافی نہیں ہو سکتے کیونکہ ہزار ہا گاؤں ہندوستان میں ایسے بھی ہیں جن کی آبادی سوسو اور ڈیڑھ ڈیڑھ سو آدمیوں کی ہے.اس کے یہ معنے ہوئے کہ ہمیں آٹھ لاکھ کی بجائے سولہ لاکھ مبلغین کی ضرورت ہے تب جا کر ہم ان عیسائیوں کے برابر مبلغ رکھ سکتے ہیں.سو یا دو سو مبلغ ہندوستان میں رکھنا تو چٹنی کے برابر بھی نہیں.مگر افسوس ہے کہ لوگوں میں اس کے متعلق ابھی پورا احساس پید انہیں ہوا حالانکہ ہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ لڑکوں کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرائیں.بلکہ ہندوستان میں بھی مختلف جگہوں پر مدرسہ احمدیہ کی شاخیں قائم کریں اور وہاں بھی ہر جماعت میں دو دو اور تین تین سو طالب علم داخل ہو.مگر لوگ دور بینی بہت کم

Page 191

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 185 جلد چهارم استعمال کرتے ہیں اور ہمت ہار کے بیٹھے رہتے ہیں.جو شخص اس وقت مارس موٹر کمپنی (morris motor co) کا مالک ہے وہ کسی وقت سائیکلوں کی مرمت کیا کرتا تھا لیکن اب وہ کروڑ پتی ہے.اسی طرح اور بھی سینکڑوں لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جو شروع میں نہایت اونی حالت میں تھے مگر آہستہ آہستہ ترقی کر کے وہ بہت بڑی شخصیت کے مالک بن گئے.ایک شخص جو اس وقت امریکہ کے سب سے بڑے بنک کا ڈائریکٹر ہے اور امریکہ کے پریذیڈنٹ کا دوست ہے وہ کسی وقت معمولی چپڑاسی تھا.تو کئی لوگوں کے اندر حوصلہ ہوتا ہے اور وہ ترقی کر جاتے ہیں.جو شخص کام کرنے والا ہوتا ہے وہ ہمیشہ اپنی اور قوم کی ترقی اور بہبود کے لئے سوچتا رہتا ہے.مگر وہ شخص جو افیمی کی طرح پڑا رہتا ہے اس کو کیا.اگر پچاس لڑکے ہو گئے تو بھی اور اگر سو ہو گئے تو بھی وہ اپنی اونگھ سے ہوشیار ہی نہیں ہوتا.ایسے لوگ قومی ترقی میں روک بن جاتے ہیں اور دوسروں پر بھی برا اثر ڈالنے کا موجب ہوتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اندھے لوگ ہمارے نشانوں کے پاس سے گزر جاتے ہیں.یہی حال ان لوگوں کا ہے.مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ کو تو چاہئے تھا کہ وہ ہر ہفتے ایک میٹنگ کرتے اور سوچتے کہ ہمارے مدرسہ کی تعلیم کے اندر بھی کون سی کمی ہے اور لڑکوں کے اندر کون کون سے عیوب ہیں اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے.پھر وہ سارے ہندوستان میں مدرسہ احمدیہ کی شاخیں کھولنے کی تجاویز پر غور کرتے اور اس کے متعلق سکیمیں سوچتے.مگر ہمارا ماسٹر تو سوائے اس کے کہ وہ مردے کی طرح ڈھیر ہو کر پڑا رہے اور کوئی کام ہی نہیں کر سکتا اور کبھی اس کو احساس تک نہیں ہوتا کہ میرے ذمے کون کون سے فرائض ہیں.یہی حال ہیڈ ماسٹروں اور پرنسپلوں کا ہے ان کو ایسی باتوں کی طرف کسی قسم کی توجہ نہیں.ان کے رجسٹروں کو دیکھو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ سال میں ایک بھی اس قسم کا جلسہ نہیں ہوا جس میں وہ اس بات کے متعلق سوچتے کہ تعلیم کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے اور لڑکوں کی اصلاح کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کئے جا

Page 192

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 186 جلد چهارم سکتے ہیں.یہ ایسی باتیں ہیں جو ان لوگوں کی غفلت اور جمود پر دلالت کرتی ہیں.اگر استاد پر جمود اور سکون ہو تو اس کے شاگر د لازماً اس سے بھی جمود اور سکون میں بڑھ جائیں گے.لیکن اگر استاد ہوشیار ہو گا تو اس کا شاگرد اس سے بھی زیادہ ہوشیار ہو گا.پس تعلیمی اداروں کو اپنے اندر بیداری پیدا کرنی چاہئے اور طلباء کی علمی اور اخلاقی اور مذہبی نگرانی کے سلسلہ میں اپنے فرائض کو پوری ہوشیاری سے ادا کرنا (الفضل 5 مئی 1961ء) 66 چاہئے.1 كنز العمال جلد 14 صفحہ 467 حدیث 29283 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الاولى 2 نَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِل (الحجر: 48)

Page 193

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 187 جلد چهارم اردو پاکستان کی ہی نہیں بلکہ ہندوستان کی زبان بھی بننے والی ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے پنجاب یونیورسٹی اردو کانفرنس کے لئے جو پیغام بھجوایا تا اور 26 مارچ 1947ء کو کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں پڑھ کر سنایا گیا وہ حسب ذیل ہے:.”میرے نزدیک اردو کی صحیح خدمت یہی ہے کہ جس طرح وہ طبعی طور پر پہلے بڑھی تھی اسے طبعی طور پر اب بھی بڑھنے دیا جائے.میرا یہ خیال ہے اور مجھے خوشی ہوگی اگر میرا یہ خیال غلط ہو کہ اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ زیادہ سے زیادہ داخل کرنے کی کوشش مسلمانوں کی طرف سے پہلے شروع ہوئی ہے اور ہندوؤں میں بعد میں رد عمل پیدا ہوا.نسیم لکھنوی تک کی مسلمانی اور ہندوانی اردو ایک نظر آتی ہے.اسی طرح سرشار کی نثر مسلمانوں کی نثر سے مختلف نہیں.اگر ہم نے اپنے چار کروڑ مسلمانوں سے تعلق رکھنا ہے جو ہندوستان میں بستے ہیں تو ہمیں پاکستان میں اردو کی رو کو اسی طبعی رنگ پر چلنے دینا چاہئے جس رنگ پر آج سے سو پچاس سال پہلے وہ چل رہی تھی.دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ اگر اردو کا نفرنس دہلی اور اس کے نواحی علاقوں کے اجڑے ہوئے لوگوں کے لئے یہ تحریک بھی جاری کرے کہ انہیں ایک خاص علاقے میں بسا دیا جائے تاکہ اردو زبان کے ساتھ پرانی ہندوستانی اصلی تہذیب بھی اپنا علیحدہ جلوہ دکھاتی رہے تو اس سے اردو کی بھی خدمت ہوگی اور ہماری ایک پرانی یادگار بھی تازہ رہ سکے گی.تھل پراجیکٹ میں اس کے لئے کافی گنجائش ہے.

Page 194

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 188 جلد چهارم تیسرے میرے نزدیک اردو کی یہ بہترین خدمت ہوگی کہ اگر ہم اس کے لئے پاکستان کی زبان بنائے جانے کا مطالبہ کریں.پاکستان کی زبان بننے کے بعد صوبوں کی زبان وہ آب ہی آپ بن جائے گی.ہمیں ابھی صوبہ جات کے متعلق کوئی بحث نہیں چھیڑنی چاہئے وہ خود اپنی ضرورتوں کے مطابق اپنے لئے سکیمیں بنالیں گے اور جب پاکستانی ذہنیت قائم ہو جائے گی اور جب پاکستانی وطنیت ایک جسم اختیار کرے گی تو صوبہ جات خود بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے.اردو یقیناً پاکستان ہی کی نہیں ہندوستان کی زبان بھی بنے والی ہے.مگر ہمیں جلدی نہیں کرنی چاہئے.اور اس خالص تہذیبی اور علمی سوال کو سیاسی سوال نہیں بنا ( الفضل 27 مارچ 1948ء) دینا چاہئے.

Page 195

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 189 جلد چهارم تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلباء سے خطاب اپنے قلوب میں ایمان اور محبت الہی کی آگ روشن کرو ہمیں ایسے روشن دماغوں کی ضرورت ہے جو یورپ کو علوم سکھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں 8 راکتو بر 1949ء کو تعلیم الاسلام کالج لاہور میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.تلاوت قرآن کریم ونظم کے بعد کالج کے پرنسپل حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ایم.اے نے کالج کے متعلق مفصل رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں قادیان سے لاہور آنے اور یہاں پر کالج کے قیام کے سلسلے میں مشکلات کے مختلف مراحل کا ذکر کرتے ہوئے کالج کے موجودہ حالات اور اس سال کے خوشکن نتائج کا ذکر کیا گیا تھا.نیز پیش آمدہ مشکلات کے سلسلہ میں حضور کی خدمت میں راہنمائی اور دعا کے لئے عرض کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد طلباء سے جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :.آپ اب عمر کے ایسے حصہ میں داخل ہو رہے ہیں جبکہ ذمہ داری کا احساس دل میں پیدا ہو جایا کرتا ہے پس آپ کو محسوس ہونا چاہئے کہ آپ ایک ایسی قوم کے نوجوان ہیں جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے نئی زمین اور نیا آسمان بنانے کا کام سونپا ہے.یہ اتنا بڑا پروگرام ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا پروگرام بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.اور یہ پروگرام

Page 196

زریں ہدایات (برائے طلباء) 190 جلد چهارم تبھی پورا ہو سکتا ہے جبکہ تمہارے قلوب میں ایمان اور محبت الہی کی آگ روشن ہو جائے اور تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا اور حقیقی تعلق پیدا کر لو.یہی وہ بنیادی چیز ہے جو تمہارے اندر محبت، قربانی ، وقت کی قدر عقل کی بلندی، ارادوں کی وسعت غرض تمام اعلیٰ صفات پیدا کر سکتی ہے.“ حضور نے کالج کے وقار کو بلند کرنے اور کالج کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے بعض اہم تجاویز طلباء کے سامنے رکھیں اور کالج کے مفاد کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانی کرنے کی تحریک کی اور فرمایا:.وو یہ خیال کر لینا ایک حماقت کی بات ہے کہ قربانی کا معیار کسی جگہ جا کر ختم ہو جاتا ہے.جس طرح علم ہمیشہ بڑھتا چلا جاتا ہے اسی طرح محنت اور قربانی بھی غیر محدود چیزیں ہیں.پس آپ کو غیر محدود طور پر محنت اور قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے.یاد رکھو جو محنت اور قربانی کی حد بندی کرتا ہے وہ بھی دنیا میں بڑا کام نہیں کر سکتا اور نہ وہ ایک زندہ قوم کا کامیاب فرد بن سکتا ہے.“ حضور نے فرمایا:.ہمیں صرف تمہارے اچھے نتائج مطمئن نہیں کر سکتے.ہمیں تمہارے پاک دل اور روشن دماغوں کی ضرورت ہے.ایسا دل جس میں محبت الہی کی آگ روشن ہو اور ایسے دماغ جو کنویں کے مینڈک اور صرف یورپ کے خوشہ چیں نہ ہوں بلکہ قرآن کریم پر تدبر کرنے اور اس کے نتیجہ میں خود نئے نئے علوم پیدا کرنے اور یورپ کو سکھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں.“ (الفضل و راکتوبر 1949ء)

Page 197

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 191 جلد چهارم عالی ہمت نوجوانوں کی ابتدائی منزلیں تو ہوتی ہیں لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی ایک نہ ختم ہونے والی جدو جہد کیلئے تیار ہو جاؤ اور ہر وقت آگے قدم بڑھانے کی کوشش کرتے رہو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 2 اپریل 1950ء کو تعلیم الاسلام کالج لاہور کی جلسہ تقسیم اسناد میں تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا :.انسانی زندگی میں مختلف تغیرات آتے ہی رہتے ہیں اور یہی تغیرات انسانی زندگی کی دلچسپی کا موجب ہوتے ہیں.انسان کی زندگی سے ان تغیرات کو خارج کر دو تو اس کی ساری دلچسپی ختم ہو جاتی ہے.ایک لمبے عرصہ کی ہم آہنگی بھی بعض دفعہ انسانی فطرت کا جزو بن جاتی ہے.لیکن فطرت کا جزو بننے اور دلچسپی کا موجب ہونے میں بہت بڑا فرق ہے.فطرت کا جزو بننے کے صرف یہ معنی ہیں کہ اس شخص کو ” ہم آہنگی کوئی غیر چیز نہیں معلوم ہوتی.وہ اسے نا پسند نہیں کرتا وہ اس کا عادی ہو گیا ہے.بعض دفعہ اس ”ہم آہنگی کو بدلنے سے وہ صدمہ بھی محسوس کرتا ہے مگر اسی طرح جس طرح بازو کا جوڑ الگ ہو جائے تو انسان تکلیف محسوس کرتا ہے.لیکن جب جوڑا اپنے مقام پر صحیح طور پر جڑا ہوا ہوتا ہے تو کوئی خاص کیفیت محسوس نہیں کرتا.ایک انسان کی ساری عمر اگر اس طرح گزر جائے کہ اس کے بازو کا جوڑ صحیح طور پر اپنے مقام پر جڑار ہے اور کبھی اس میں کوئی تکلیف 66

Page 198

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 192 جلد چهارم نہ ہو تو شاید ایک دفعہ بھی اسے خیال نہ گزرے گا کہ اس کے بازو کا کوئی جوڑ بھی ہے اور وہ اپنی جگہ پر صحیح طور پر جڑا ہوا ہے اور اپنے مقررہ کام کو اچھی طرح ادا کر رہا ہے کیونکہ ہم آہنگی سکون کو پیدا کرتی ہے.لیکن فکر میں ہیجان پیدا نہیں کرتی.پس زندگی در حقیقت تغیرات کا نام ہے.کوئی ترقی بغیر تغیر کے نہیں.منزل بہ منزل آگے کو بڑھنا یعنی مختلف نیک تغیرات کے سلسلہ میں سے گزرنا ہی ترقی کی تعریف ہے.خدا تعالیٰ ازلی ابدی صداقت ہے.ذات کے لحاظ سے وہ غیر متبدل بھی کہلاتا ہے لیکن صفات کے لحاظ سے وہ بھی غیر متناہی تغیرات اور تبدیلیوں کا حامل ہے.اگر اس کی صفات کے ظہور میں تغیر اور تنوع نہ ہوتا تو وہ ایک منفی خدا ہوتا.جیسا کہ ہندوؤں اور بدھوں کا تصور ہے.وہ ایک مثبت خدا نہ ہوتا جیسا کہ قرآن کریم کا نظریہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ 1 خدا تعالی | ہر زمانہ میں ایک نئی اور اہم حالت میں ہوتا ہے.پس بتاؤ تو سہی کہ تم خدا تعالیٰ کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے.ان آیات میں نہایت وضاحت سے صفات الہیہ کے مثبت پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور انسانی ترقی کی ایک جامع مانع تعریف کر دی گئی ہے.خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا زاویہ انسانوں کی طرف ہر وقت تبدیل ہوتا رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ ظہور صفات سے ہم آہنگی قائم رکھنے کے لئے انسان کو زاویہ بدلنا پڑے گا.گھوڑے کو سدھانے والا ایک چکر میں کھڑا ہو جاتا ہے اور گھوڑے کی رسی پکڑ کر خود چاروں طرف گھومتا ہے ، گھوڑے کو بھی اس کے ساتھ گھومنا پڑتا ہے.مرکزی شے کے گھومنے کا دائرہ بہت چھوٹا بلکہ عین مرکز میں صفر کے برابر ہوتا ہے مگر پہلوؤں پر کھڑے ہوئے گھوڑے کو رسی کے برابر لمبا فاصلہ طے کر کے چاروں طرف دوڑنا پڑتا ہے اور اس میں اس کے فن میں کمال پیدا کرنے کا راز مخفی ہے.خدا تعالیٰ اپنا پہلو ہر وقت بدلتا ہے.انسان کو اس کے پہلو بدلنے کے ساتھ اپنا قدم بڑھانا پڑتا ہے تا خدا تعالیٰ سے ہم آہنگی قائم رہے.یہ تغیر خدا تعالیٰ کے ساتھ انسانی تعلق میں تغیر پیدا نہ ہونے دینے کے لئے ضروری ہے اور اس کی

Page 199

زریں ہدایات (برائے طلباء) 193 جلد چهارم تغیر سے انسان انسانیت کے فن میں کمال پیدا کرتا ہے.جس طرح سدھانے والے کے گرد چکر میں دوڑ کر گھوڑا گھوڑے کی قابلیتوں میں کمال حاصل کرتا ہے اور اسی کمال کے مختلف ٹکڑے ترقی کے نام سے موسوم ہوتے ہیں.غرض آیت مذکورہ بالا میں یہ امر واضح کیا گیا ہے کہ صفات باری تعالیٰ میں ہر وقت ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی رہتی ہے اور اس تبدیلی کے ساتھ انسان کو بھی اپنے اندر صفات باری کے موجودہ دور کے مطابق تبدیلی کرنی پڑتی ہے اور اس سے بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی طرف اٹھتا ہے.دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف ادوار میں بنی نوع انسان کا قدم ترقی کی ایک خاص جہت کی طرف اٹھا ہے.کسی وقت فلسفہ کا دور آیا ہے تو کسی وقت ادب کا.کسی وقت اخلاق کا دور آیا ہے تو کسی وقت فنون لطیفہ کا.کسی وقت قانون سازی کا دور آیا ہے تو کسی وقت تہور و شجاعت کا.غرض اچھے انسانی دماغوں میں ہر زمانہ میں ایک ہم آہنگی معلوم ہوتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم بالا کی کشش ہر زمانہ کے اعلیٰ دماغوں کو اس زمانہ کے صفاتی دور کی طرف کھینچنے میں لگی رہتی ہے اور اس فن میں انسانی دماغ زیادہ ترقی کر جاتا ہے.جس طرح کہ صفات باری اس وقت اشارہ کر رہی ہوتی ہیں.قرآن کریم نے اسے ملاء اعلیٰ کی مشاورت کا نام دیا ہے.یہ آسمانی فیصلے جس طرح روحانی امور کے متعلق ہوتے ہیں اسی طرح دنیوی علوم کے متعلق بھی ہوتے ہیں اور وہ دماغ جو اپنا زاویہ صفات باری کے موجودہ زاویہ کے عین مطابق کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اپنے زمانے کے اور اپنے فن کے راہنما بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور تاریخ میں ایک نام پیدا کر لیتے ہیں.صلى الله اس کی طرف رسول کریم ﷺ نے دعائے استخارہ سے اشارہ کیا ہے.انسان بے شک اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے لیکن بے موسم محنت بھی تو رائیگاں جاتی ہے.شاید ہر غلہ سال کے ہر حصہ میں بویا جا سکتا ہے اور کچھ نہ کچھ روئیدگی بھی اس سے حاصل کی جاسکتی ہے لیکن وہ

Page 200

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 194 جلد چهارم غلہ جو اپنے موسم میں بویا جاتا ہے اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.اسی طرح شاید ہر غلہ ہر ملک میں بویا جا سکتا ہے لیکن وہ غلہ جو اس ملک میں بویا جاتا ہے جس کی زمین کو اس غلہ سے مناسبت ہے اس کی کیفیت ہی اور ہوتی ہے.ہر انسان کے لئے ہر علم کا حاصل ہونا اور ہر قسم کا کام کرنا ممکن ہے لیکن ہر فن میں اس کا صاحب کمال ہونا ضروری نہیں.اس کے دماغ کی مخفی قابلیتوں کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.وہی جانتا ہے کہ مختلف مفید علوم میں سے کون سا علم اور مختلف مفید کاموں میں سے کون سا کام اس کی طاقتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس کے زمانہ اور اس کے ملک اور اس کی قوم کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے لئے مناسب ہے.پس فرمایا کہ خواہ اچھے سے اچھا کام ہو اس کے شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو.جس کے الفاظ آپ نے یہ تجویز فرمائے ہیں اللهُمَّ إِنِّي اسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ وَ اسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ وَ اسْتَلْكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ وَ تَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمُرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاقْدِرُهُ لِى وَيَسِّرُهُ لِى ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيْهِ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هذا الأمرَ شَرٌّ لِى فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِى فَاصْرِفُهُ عَـ اَصْرِفْنِى عَنْهُ وَ اقْدِرُ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ ثُمَّ ارْضِنِی بِهِ.یعنی اے میرے رب! جو کام میں کرنے لگا ہوں یا جو علم میں حاصل کرنے لگا ہوں یا جو ذمہ واری میں اٹھانے لگا ہوں اس کے بارہ میں تجھ سے جو میری مخفی طاقتوں سے بھی واقف ہے، اپنے زمانہ حال کے متعلق ارادوں سے بھی واقف ہے اور میری ذاتی ، خاندانی ، قومی ملکی اور عالمگیری ضرورتوں اور ذمہ داریوں سے بھی واقف ہے سب سے بہتر فیصلہ طلب کرتا ہوں.اور پھر تجھ سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ اس فیصلہ کے مطابق مجھے کام کرنے کی تجھ سے توفیق اور امداد حاصل ہو.اور تیسری بات تجھ سے یہ طلب کرتا ہوں کہ جو بات میرے لئے مناسب ہو اور جس کی طرف تو میری راہنمائی کرے اور جس کے حاصل

Page 201

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 195 جلد چهارم کرنے کے لئے تو میری مدد کرے اس کام یا اس ذمہ داری کے ادا کرنے میں تیرا انتہائی فضل مجھ پر نازل ہو اور میں اس کام میں ادنیٰ مقام حاصل نہ کروں بلکہ مجھے اس میں اعلیٰ مقام حاصل ہو.میں تجھ سے یونہی اور بلا وجہ یہ درخواست نہیں کرتا بلکہ اس وجہ سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ جن امور کے پورا کرنے کی مجھے طاقت حاصل نہیں تجھے ہے.اور جن مخفی باتوں کا مجھے علم نہیں تجھے ہے.پس اے خدا! اگر تیرے علم میں وہ کام جو میں کرنا چاہتا ہوں میرے لئے اچھا ہے، میری دینی ضرورتوں کے لحاظ سے اور میری دنیوی ضرورتوں کے لحاظ سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ جو طاقت اور محنت میں اس کام میں خرچ کروں گا اس کا نتیجہ مجھے زیادہ سے زیادہ اچھا حاصل ہو سکے گا تو پھر تو اس کام کے کرنے کی مجھے توفیق عطا فرما.اور اس کام کو اعلیٰ درجہ کی تکمیل تک پہنچانے کے لئے مجھے سہولت بخش.اور اس کے نتائج کو میرے لئے وسیع سے وسیع تر بنا.اور اگر اس کے برخلاف تیرے علم میں یہ ہو کہ وہ کام میرے لئے مناسب نہیں دین کے لحاظ سے یاد نیا کے لحاظ سے یا اس لحاظ سے کہ میری محنت کے مطابق اس سے نتیجہ پیدا نہ ہوگا تو تو اس کام کے راستہ میں روکیں ڈال دے اور میرے دل میں بھی اس سے بے رغبتی پیدا کر دے اور اس کے سوا جس امر میں میرے لئے بہتری ہے اس کے سامان میرے لئے پیدا کر دے اور اس کی طرف میری توجہ پھیر دے اور اس کی خواہش میرے دل میں پیدا کر دے.یہ دعا کتنی کامل ہے اور اس میں کس لطیف پیرایہ سے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ ہر اچھا کام، ہر زمانہ اور ہر انسان کے لئے مفید نہیں ہوتا بلکہ اچھے سے اچھا کام بھی بعض زمانوں میں اچھا نہیں رہتا اور اچھے سے اچھا کام بھی بعض قوموں اور بعض افراد کے لئے اچھا نہیں ہوتا.پس اپنی محنت کے اعلیٰ سے اعلیٰ پھل حاصل کرنے کے لئے انسان کو وہ کام اختیار کرنا چاہئے جو اس کے لئے اور اس کی قوم کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے اس زمانہ میں مفید ہو اور جسے اعلیٰ طور پر بجالانے کی اس میں ذاتی قابلیت موجود.اگر یہ نہ ہو تو اسے وہ کام یا علم کسی دوسرے بھائی کے لئے چھوڑ دینا چاہئے اور خود ہو

Page 202

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 196 جلد چهارم اپنے لئے اپنے مناسب حال کام یا علم تلاش کرنا چاہئے.لیکن چونکہ بنی نوع انسان کی ترقی کا معاملہ انسانی جدو جہد اور اس کی دماغی قابلیتوں کے علاوہ خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کے موجود الوقت مرکز کے ساتھ بھی وابستہ ہے اس لئے کسی کام کو شروع کرنے یا کسی علم کی تحصیل کی طرف متوجہ ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بھی یہ دعا کر لینی چاہئے کہ اس زمانہ کے متعلق جو اس کی تجویز اور اس کا فیصلہ ہے وہ اسے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق بخشے تا کہ اچھا بیج اچھی زمین میں مناسب موسم میں پڑے تا اعلیٰ سے اعلیٰ کھیتی پیدا ہو اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو.جیسا کہ میں شروع میں بتا چکا ہوں انسانی زندگی کی سب دلچسپیاں ایک غیر متناہی تغیر سے وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرتے ہوئے غیر متناہی تغیر کے سامان بھی اس کے ساتھ ہی پیدا کر دیئے ہیں.لیکن جب تغیر صحیح اصول پر ہو تو وہ تغیر ترقی کا موجب ہوتا ہے اور جب غلط اصول پر ہو تو تنزل کا موجب ہوتا ہے.لیکن سکون اپنی ذات میں ہمیشہ ہی تنزل کے سامان مخفی رکھتا ہے.جو قوم ساکن ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ نیچے ہی گرتی چلی جاتی ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ یہ امر ہمیشہ اپنے مدنظر رکھیں کہ اس دنیا میں سکون موت کا نام ہے.جو کھڑا ہو گا وہ مر جائے گا یا پیچھے کی طرف دھکیلا جائے گا جو دوسرا نام موت کا ہی ہے.پس انہیں چاہئے کہ اپنی تعلیم کے ختم کرنے پر وہ ایک منٹ بھی یہ خیال نہ کریں کہ اب شاید ان کے لئے آرام کا وقت آ گیا ہے.انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ آرام کا نہیں بلکہ کام کا وقت آ گیا ہے.جیسا کہ میں اوپر کہہ آیا ہوں اسلامی اصول کے لحاظ سے ہر وقت انسان کے لئے آگے قدم بڑھانا ضروری ہے اور اس کی ترقی اس بات کے ساتھ وابستہ ہے کہ وہ صرف قدم ہی آگے نہ بڑھائے بلکہ اس جہت میں بڑھائے جس جہت کی طرف خدا تعالیٰ کی صفات اشارہ کر رہی ہوں.اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وہ جو کام کریں دعا کر کے اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگ کر کریں.میں خصوصاً ان طلباء کو جنہوں نے کہ یونیورسٹی کی تعلیم ختم کی ہے

Page 203

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 197 جلد چهارم اور ڈگریاں حاصل کی ہیں ان کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.جب انہوں نے تعلیم شروع کی تھی تو شاید انہیں یہ بات معلوم نہ تھی کہ رسول کریم ﷺ نے ہر بڑے کام کے لئے استخارہ مقرر فرمایا ہے اور شاید اپنے لئے مضامین کا انتخاب کرتے وقت انہوں نے دعاؤں میں کوتاہی کی ہو.لیکن اب جبکہ ان کی پہلی منزل ختم ہو گئی ہے اور دوسری منزل شروع ہونے والی ہے جو شاید اور بہت سی منزلوں کا پیش خیمہ ہوگی تو انہیں چاہئے کہ وہ اسلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق خدا تعالیٰ سے دعا کر کے اپنے لئے راہ عمل تجویز کریں.شاید بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ یونیورسٹی کی ڈگری لینے والوں اور کالج کے طلباء کو مخاطب کرتے وقت یہ کیا راگ چھیڑ دیا گیا ہے تو میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ پاکستان کا مطالبہ ہی اس دعوئی پر مبنی تھا کہ اسلام ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو ہم سیاسی وجوہ کی بناء پر ترک کرنے کے لئے تیار نہیں.اور اسلام نام ہے خدا تعالی ، اس کی قدرتوں اور اس کے نبیوں پر ایمان لانے کا.اگر ہم اپنے دعوؤں کی بنیاد اسلام پر رکھتے ہیں تو ہم کو یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم خدا پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی زندہ قدرتوں پر ایمان رکھتے ہیں ورنہ ہمیں نہ کسی الگ جتھہ کے بنانے کی ضرورت تھی اور نہ یہ مناسب تھا.دوسرے مذاہب بطور مجہہ کے پہنے جا سکتے ہیں مگر اسلام نہیں.اسلام ایک زندہ مذہب ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں دخل انداز ہوتا ہے اور ہمارے ہر فعل پر حکومت کرنا چاہتا ہے.اگر ہم اسلام کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر خدا اور اس کے رسول کو تصرف حاصل ہوگا.اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ دنیا کی ترقی اور تنزل میں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کو بہت بڑا دخل حاصل ہے.اگر ہم ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے تو ہم در حقیقت ایک مردہ خدا کا مجسمہ پوجتے ہیں اور بت پرستوں سے زیادہ ہماری حیثیت نہیں.اور ظاہر ہے کہ مردہ خدا ایک مردہ گھوڑے کے برابر بھی قیمت نہیں رکھتا کیونکہ مردہ گھوڑے کا چمڑا اور اس کی ہڈیاں تو کام آ سکتی ہیں

Page 204

زریں ہدایات (برائے طلباء) 198 جلد چهارم لیکن مردہ خدا کی کوئی چیز بھی کسی کام نہیں آ سکتی.اگر ہم خدا تعالیٰ پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں ایک زندہ خدا پر یقین رکھنا ہوگا اور اگر ہم ایک زندہ خدا پر یقین رکھتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ اس دنیا کے روز مرہ کے کاموں میں دخل رکھتا ہے اور ہماری ترقی یا تنزل کے ساتھ اس کی قدرتوں اور اس کے فضلوں کا بھی تعلق ہے.اور ظاہر ہے کہ اگر ہم یہ یقین رکھیں گے تو پھر ہمیں اپنی کوششوں کے ساتھ اس سے استمداد کرنے کی بھی ضرورت ہوگی اور یہی چیز ہے جس کو کہ اسلام پیش کرتا ہے.پس میں ان نوجوانوں کو جو تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی زندگی کے دوسرے مشاغل کی طرف مائل ہونے والے ہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے قانون کے مطابق سکون کے حاصل کرنے کی بالکل کوشش نہ کرو بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی جد و جہد کے لئے تیار ہو جاؤ اور قرآنی منشا کے مطابق اپنا قدم ہر وقت آگے بڑھانے کی کوشش کرتے رہو اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہو کہ وہ آپ کو صحیح کام کرنے اور صحیح وقت پر کام کرنے اور صحیح ذرائع کو استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور پھر اس کام کے صحیح اور اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرے.یا درکھو کہ تم پر صرف تمہارے نفس کی ہی ذمہ داری نہیں تم پر تمہارے اس ادارے کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہیں تعلیم دی ہے اور اس خاندان کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہاری تعلیم پر خرچ کیا ہے.خواہ بالواسطہ خواہ بلا واسطہ.اور اس ملک کی بھی ذمہ داری ہے جس نے تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کیا ہے اور پھر تمہارے مذہب کی بھی تم پر ایک ذمہ داری ہے.تمہارے تعلیمی ادارے کی جو تم پر ذمہ داری ہے وہ چاہتی ہے کہ تم اپنے علم کو زیادہ سے زیادہ اور اچھے سے اچھے طور پر استعمال کرو.یونیورسٹی کی تعلیم مقصود نہیں ہے وہ منزل مقصود کو طے کرنے کے لئے پہلا قدم ہے.یونیورسٹی تم کو جو ڈگریاں دیتی ہے وہ اپنی ذات میں کوئی قیمت نہیں رکھتیں بلکہ ان ڈگریوں کو تم اپنے آئندہ عمل سے قیمت بخشتے ہو.ڈگری صرف تعلیم کا ایک تخمینی وزن ہے.اور ایک تخمینی وزن ٹھیک بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی

Page 205

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 199 جلد چهارم ہو سکتا ہے.محض کسی یونیورسٹی کے فرض کر لینے سے کہ تم کو علم کا ایک تخمینی وزن حاصل ہو گیا ہے تم کو علم کا وہ فرضی درجہ نصیب نہیں ہو جاتا جس کے اظہار کی یونیورسٹی ڈگری کے ساتھ کوشش کرتی ہے.اگر ایک یونیورسٹی سے نکلنے والے طالب علم اپنی آئندہ زندگی میں یہ ثابت کریں کہ جو مینی وزن ان کی تعلیم کا یونیورسٹی نے لگایا تھا ان کے پاس اس سے بھی زیادہ وزن کا علم موجود ہے تو دنیا میں اس یو نیورسٹی کی عزت اور قدر قائم ہو جائے گی.لیکن اگر ڈگریاں حاصل کرنے والے طالب علم اپنی بعد کی زندگی میں یہ ثابت کر دیں کہ تعلیم کا جو تخمینی وزن ان کے دماغوں میں فرض کیا گیا تھا ان میں اس سے بہت کم درجہ کی تعلیم پائی جاتی ہے تو یقینا لوگ یہ نتیجہ نکالیں گے کہ یونیورسٹی نے علم کی پیمائش کرنے میں غلطی سے کام لیا ہے.پس تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ یو نیورسٹیاں اتنا طالب علم کو نہیں بناتیں جتنا کہ طالب علم یونیورسٹیوں کو بناتے ہیں.یا دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لو کہ ڈگری سے طالب علم کی عزت نہیں ہوتی بلکہ طالب علم کے ذریعہ ڈگری کی عزت ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے پیا نہ علم کو درست رکھنے بلکہ اس کے بڑھانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے.اور اپنے کالج کے زمانہ کی تعلیم کو اپنی عمر کا پھل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ اپنے علم کی کھیتی کا بیچ تصور کرنا چاہئے.اور تمام ذرائع سے کام لے کر اس پیج کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے تا کہ اس کوشش کے نتیجہ میں ان ڈگریوں کی عزت بڑھے جو آج تم حاصل کر رہے ہو.اور اس یونیورسٹی کی عزت بڑھے جو تمہیں یہ ڈگریاں دے رہی ہے.اور تمہاری قوم تم پر فخر کرنے کے قابل ہو اور تمہارا ملک تم پر اعلیٰ سے اعلیٰ امیدیں رکھنے کے قابل ہو اور ان امیدوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھے.تم ایک نئے ملک کے شہری ہو.دنیا کی بڑی مملکتوں میں سے بظا ہر ایک چھوٹی مملکت کے شہری ہو.تمہارا ملک مالدار ملک نہیں ہے ایک غریب ملک ہے.دیر تک ایک غیر حکومت کی حفاظت میں امن اور سکون سے رہنے کے عادی ہو چکے ہو.سو تمہیں اپنے اخلاق اور اپنے کردار بدلنے ہوں گے تمہیں اپنے ملک کی عزت اور ساکھ دنیا میں قائم کرنی ہوگی.

Page 206

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 200 جلد چهارم تمہیں اپنے وطن کو دنیا سے روشناس کرانا ہو گا.ملکوں کی عزت کو قائم رکھنا بھی ایک بڑا دشوار کام ہے لیکن ان کی عزت کو بنانا اس سے بھی زیادہ دشوار کام ہے.اور یہی دشوار کام تمہارے ذمہ ڈالا گیا ہے.تم ایک نئے ملک کی نئی پود ہو.تمہاری ذمہ داریاں پرانے ملکوں کی نئی نسلوں سے بہت زیادہ ہیں.انہیں ایک بنی بنائی چیز ملتی ہے.انہیں آباؤ اجداد کی سنتیں یا روایتیں وراثت میں ملتی ہیں مگر تمہارا یہ حال نہیں ہے.تم نے ملک بھی بنانا ہے اور تم نے نئی روایتیں بھی قائم کرنی ہیں.ایسی روایتیں جن پر عزت اور کامیابی کے ساتھ آنے والی بہت سی نسلیں کام کرتی چلی جائیں اور ان روایتوں کی راہنمائی میں اپنے مستقبل کو شاندار بناتی چلی جائیں.پس دوسرے قدیمی ملکوں کے لوگ ایک اولاد ہیں مگر تم ان کے مقابلہ پر ایک باپ کی حیثیت رکھتے ہو.وہ اپنے کاموں میں اپنے باپ دادوں کو دیکھتے ہیں تم کو اپنے کاموں میں آئندہ نسلوں کو مد نظر رکھنا ہوگا.جو بنیاد تم قائم کرو گے آئندہ آنے والی نسلیں ایک حد تک اس بنیاد پر عمارت قائم کرنے پر مجبور ہوں گی.اگر تمہاری بنیاد ٹیڑھی ہوگی تو اس پر قائم کی گئی عمارت بھی ٹیڑھی ہوگی.اسلام کا مشہور فلسفی شاعر کہتا ہے کہ خشت اول چوں شہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار سج یعنی اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھتا ہے تو اس پر کھڑی کی جانے والی عمارت اگر ثریا تک بھی جاتی ہے تو ٹیڑھی ہی جائے گی.پس بوجہ اس کے کہ تم پاکستان کی خشت اول ہو تمہیں اس بات کا بڑی احتیاط سے خیال رکھنا چاہئے کہ تمہارے طریق اور عمل میں کوئی کبھی نہ ہو کیونکہ اگر تمہارے طریق اور عمل میں کو ئی بھی ہوگی تو پاکستان کی عمارت ثریا تک ٹیڑھی چلتی چلی جائے گی.بے شک یہ کام مشکل ہے لیکن اتنا ہی شاندار بھی ہے.اگر تم اپنے نفسوں کو قربان کر کے پاکستان کی عمارت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دو گے تو تمہارا نام اس عزت اور اس محبت سے لیا جائے گا جس کی مثال آئندہ آنے والے لوگوں میں نہیں پائی جائے گی.پس

Page 207

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 201 جلد چهارم میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنی نئی منزل پر عزم، استقلال اور علو حوصلہ سے قدم مارو.قدم مارتے چلے جاؤ اور اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے قدم بڑھاتے چلے جاؤ کہ عالی ہمت نوجوانوں کی منزل اول بھی ہوتی ہے، منزل دوم بھی ہوتی ہے، منزل سوم بھی ہوتی ہے لیکن آخری منزل کوئی نہیں ہوا کرتی.ایک منزل کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری وہ اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.وہ اپنے سفر کوختم کرنا نہیں جانتے.وہ اپنے رختِ سفر کو کندھے سے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں.ان کی منزل کا پہلا دور اُسی وقت ہوتا ہے جبکہ وہ کامیاب اور کامران ہو کر اپنے پیدا کرنے والے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں اور اپنی خدمت کی داد اس سے حاصل کرتے ہیں.جو ایک ہی ہستی ہے جو کسی کی خدمت کی صحیح داد دے سکتی ہے.پس اے خدائے واحد کے منتخب کردہ نو جوانو ! اسلام کے بہادر سپاہیو! ملک کی امیدوں کے مرکز و! قوم کے سپوتو ! آگے بڑھو کہ تمہارا خدا تمہارا دین، تمہارا ملک اور تمہاری قوم محبت اور امید کے مخلوط جذبات سے تمہارے مستقبل کو دیکھ (الفضل 3 اپریل 1950ء) رہے ہیں.1: الرحمن : 31،30 :2 بخاری کتاب التهجد صفحه 186 حديث 1162 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 208

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 202 جلد چهارم اپنے اندر قربانی کی حقیقی روح پیدا کرو اور اپنی زندگیوں کو دین کی خدمت کے لئے وقف کرو 23 جنوری 1951 ء کو طلباء جماعت دہم تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کو حضرت خلیفة امسیح الثانی نے حسب ذیل نصائح فرما ئیں.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میری طبیعت چونکہ خراب ہے اس لئے ممکن ہے کہ میں سارا وقت کھڑے ہو کر نہ بول سکوں.اس صورت میں میں جتنی دیر کھڑا ہوسکوں گا کھڑے ہو کر تقریر کروں گا اور پھر بیٹھ جاؤں گا.مجھے آج ہی معلوم ہوا ہے کہ بجائے اس کے کہ آج کا جلسہ چنیوٹ میں رکھا جاتا اس کا انتظام ربوہ میں کیا گیا ہے اور طلباء یہیں آگئے ہیں.پہلے تو یہ سن کر مجھے افسوس ہوا کہ جب ہم نے موٹر پر جانا تھا تو چاہے ہم یہاں آتے یا چنیوٹ جاتے ایک ہی بات تھی.لیکن بعد میں مجھے خیال آیا سکول کی عمارت دیر سے کسی مصرف میں نہیں لائی گئی اس جلسہ کے یہاں منعقد کرنے سے طلباء کو بھی اپنے آئندہ سکول سے واقفیت ہو جائے گی اور دوسرے لوگوں میں بھی اس کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی پس اس تقریب کا یہاں ہونا اپنے اندر ایک حکمت رکھتا ہے.جوطلباء پرانے ہیں وہ جانتے ہیں کہ قادیان میں آخری زمانہ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طالب علم اٹھارہ انیس سو کے درمیان تھے.اب ان کی تعداد پانچ چھ سو کے درمیان

Page 209

زریں ہدایات (برائے طلباء) 203 جلد چهارم ہے اس کی بڑی وجہ تو یہی ہے کہ جس جگہ اب سکول قائم ہوا ہے وہاں جماعت کے افراد کم ہیں اور دوسرے لوگوں کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ وہ اس سے تعصب رکھتے ہیں اس لئے خواہ ہمارے سکول کی تعلیم بہترین ہو وہ اس میں اپنے لڑکے داخل نہیں کراتے.طلباء کی جو تعداد ہے وہ قادیان میں آخری زمانہ میں طلباء کی تعداد سے ایک تہائی سے بھی کم ہے.ربوہ میں بھی ابھی پوری طرح مکانات نہیں بنے بلکہ ابھی بیسواں حصہ بھی مکانات نہیں بنے.جب پوری طرح مکانات بن جائیں گے اور یہاں کی آبادی دس پندرہ ہزار کے درمیان ہو جائے گی تو بیرونی طلباء کو ملا کر سکول کے طلباء کی تعداد بارہ چودہ سو ہو سکے گی.پھر جس طرح جماعت کے دوست تعلیم کے لئے اپنے لڑکے یہاں بھیجتے تھے اگر وہ اپنے لڑ کے تعلیم کے لئے یہاں بھیجنا شروع کر دیں تو کچھ بعید نہیں کہ طلباء دو ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جائیں.بظاہر یہ باتیں بعض ایسے لوگوں کو جو اگر چہ مخلص ہیں لیکن وہ الہی سنت کا مطالعہ کرنے کے عادی نہیں بری لگتی ہیں اور ہم جب کہتے ہیں کہ ربوہ سال یا دو سال کے بعد آباد ہو جائے گا اور یہاں رہنے والے زیادہ ہو جائیں گے تو ان لوگوں کو جو اخلاص تو رکھتے ہیں لیکن غلطی خوردہ ہیں تکلیف ہوتی ہے کہ اس طرح گویا ہم دو چار سال اور قادیان سے باہر رہیں گے.بے شک جہاں تک ان کے اخلاص کا تعلق ہے وہ قابل قدر ہے لیکن جہاں تک سنت اللہ کا سوال ہے یہ نہایت غلطی خوردہ خیال ہے.مشہور تاریخ میں ایک مثال آتی ہے وہ مثال اتنی مشہور ہے کہ اس کا ایک حصہ عوام میں عام طور در ہے.شعراء شعروں میں محمود و ایاز کے قصے بیان کرتے ہیں.یہ ایاز در حقیقت ایک غلام تھا.وہ تعلق تو کسی اچھے خاندان سے رکھتا تھا لیکن کسی لڑائی میں قیدی بنا لیا گیا اور اس طرح غلام ہو کر محمود کے پاس آیا.وہ ابھی بچہ ہی تھا کہ بادشاہ کو اس کی شکل عقل اور ذہانت پسند آئی اور اس نے اسے اپنی خدمت میں رکھ لیا اور بعد میں اس کی دانائی اور عقل کو دیکھ کر اس کا درجہ بلند کرتا گیا یہاں تک کہ وہ اس کے مقربین میں سے ہو گیا اور

Page 210

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 204 جلد چهارم ایک وقت آیا کہ وہ فوج کا سپہ سالار بن گیا.گو وہ اچھے خاندان سے تھا لیکن اُس وقت وہ ایک غلام کی حیثیت میں تھا اور غلام حقیر سمجھے جاتے ہیں.رؤسا کو یہ بات بہت بری لگی کہ ایک غلام آگے آ رہا ہے اور رؤسا اس کے ماتحت کام کر رہے ہیں.اس تکلیف کی وجہ سے وہ ایاز کے خلاف اکثر بادشاہ کے کان بھرتے رہتے تھے.انہوں نے ایک دن بادشاہ سے کہا کہ یہ غدار ہے.غیر قوم کا ایک فرد ہے اس کو ہمارے ملک کے مفاد سے کیا تعلق.جب بھی اسے موقع ملے گا فتنہ کھڑا کر دے گا.اور ہم لوگ جو اپنے باپ دادا کے وقت سے آپ کے خادم ہیں ہمارے باپ دادوں نے بھی آپ کے خاندان کی بڑی بڑی خدمات کی ہیں اور آپ نے ان پر بڑے بڑے احسانات کئے ہیں.ہمارا اور اس کا جوڑ ہی کیا ہے.اسی طرح وہ اکثر بادشاہ کے پاس ایاز کی شکایتیں کرتے رہتے تھے.ایک دن بادشاہ نے جب وہ دربار میں بیٹھا ہوا تھا خزانچی کو بلایا اور اسے کہا خزانہ میں ایک قیمتی موتی پڑا ہے وہ فلاں جگہ سے آیا ہے جاؤ اور وہ موتی لے آؤ.خزانچی وہ موتی لے آیا.اس کی چمک نہایت اعلیٰ درجہ کی تھی، اس سے غیر معمولی شعاعیں دیکھ کر تمام درباری حیران ہو گئے.بادشاہ نے درباریوں سے دریافت کیا کہ اس کی کیا قیمت ہوگی؟ درباریوں نے کہا اس کی قیمت دو چار ہزار اشرفی سے کیا کم ہو گی.جب وہ موتی دربار میں پھر چکا تو محمود نے کہا ایک ہتھوڑا لا ؤ.چنانچہ ہتھوڑا لایا گیا.اُس وقت وزرا عدد کے لحاظ سے ہوتے تھے لیکن اب وزرا محکموں کے لحاظ سے ہوتے ہیں.اُس وقت محمود کے سات وزیر تھے.اس نے بڑے وزیر کو بلایا اور کہا اس موتی کو ہتھوڑا لے کر توڑ ڈالو.وزیر تھوڑی دیر قبل دربار میں اس موتی کی تعریف سن چکا تھا.سب لوگوں نے اس کے سامنے موتی کی شان اور خوبی بیان کی تھی اور انہوں نے اس کی قیمت کا بہت زیادہ اندازہ لگایا تھا.اس کے بعد بادشاہ کا وزیر کو یہ کہنا کہ ہتھوڑے سے اس موتی کو توڑ ڈالو ایک عجیب بات تھی.اس کا دل ڈر گیا کہ بادشاہ مجھے پکڑنا نہ چاہتا ہو وہ ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا بادشاہ سلامت! مجھ ناچیز کو آپ نے ابھارا، بلند کیا اور اپنا وزیر بنالیا.اس کے

Page 211

زریں ہدایات (برائے طلباء) 205 جلد چهارم بعد یہ حرام خوری ہوگی کہ اس کے قیمتی موتی کو جس کی وجہ سے دوسرے بادشاہ تک رشک کرتے ہیں کہ کاش ! یہ موتی ان کے پاس ہو توڑ ڈالوں.بادشاہ نے کہا تم نے محبت کا بہت اظہار کیا ہے اچھا بیٹھ جاؤ.پھر بادشاہ نے دوسرے وزیر کو بلایا اور کہا ہتھوڑا لو اور اس موتی کو توڑ ڈالو لیکن اسے ایک نکتہ مل چکا تھا اس نے دیکھ لیا تھا کہ وزیر اعظم نے ایک بات کہی اور بادشاہ اس پر خوش ہوا اس لئے اس نے اس کے پیچھے چلنا تھا.جب بادشاہ نے کہا کہ اس موتی کو توڑ دو تو اس وزیر نے کہا بادشاہ سلامت ! آپ کے اور آپ کے باپ دادوں کے ہمارے خاندان پر کس قدر احسانات ہیں.میں کچھ بھی چیز نہیں تھا مگر آپ نے مجھے نوازا اور اپنا وزیر بنالیا.میرے باپ دادوں اور میرے خاندان نے آپ کا نمک کھایا اتنے احسانات کے بعد یہ نمک حرامی ہوگی کہ میں اتنی قیمتی چیز توڑ ڈالوں.غرض بادشاہ نے اسی طرح ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے وزیر سے یہی سوال کیا اور ساتوں وزیروں نے یہی جواب دیا.جب سارے وزرا گزر چکے تو بادشاہ نے ایاز کو اشارہ کیا کہ ہتھوڑے سے اس موتی کو توڑ دو.ایاز نے ہتھوڑا لیا اور اس موتی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.وزرا اور دوسرے درباری حیران ہوئے کہ اسے اس قدر قیمتی موتی تو ڑ دینے کی جرات کیسے ہوئی.ان کے لئے یہ بات تعجب انگیز تھی کہ ایاز نے بغیر غور کئے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس قیمتی موتی کو توڑ دیا ہے.انہوں نے یک زبان ہو کر کہا بادشاہ سلامت ! ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ غلام کسی دن موقع پا کر فتنہ کھڑا کر دے گا.اس کو اتنی عزت دینا مناسب نہیں.پرانے نمک خواروں اور غداروں میں یہی فرق ہے.کتنی قیمتی چیز تھی جس کی وجہ سے آپ کی شہرت تھی اور دوسرے بادشاہ آپ پر رشک کرتے تھے لیکن اس نے آپ کی عزت اور شہرت کی پرواہ نہ کی اور اسے توڑ کر رکھ دیا.محمود نے بھی مصنوعی غصہ والی شکل بنائی اور کہا ایاز ! تم نے یہ کیا کیا ہے تو جانتا تھا کہ یہ موتی کس قدر قیمتی چیز ہے اور کیا تو نے وزرا سے اس کی تعریف نہیں سنی تھی ؟ ایاز نے کہا حضور ! میں نے تعریف تو سنی تھی.محمود نے کہا تو پھر تو نے اسے کیوں توڑ دیا ؟ ایاز نے کہا میری نظر میں

Page 212

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 206 جلد چهارم اس موتی کی کوئی قدر نہیں ، میرے نزدیک سب سے قیمتی چیز آپ کی ذات ہے.میں یہ نہیں دیکھ سکتا کہ آپ کوئی حکم دیں اور پھر اس کی تعمیل نہ ہو.میرے نزدیک اس سے بڑھ کر ہتک آمیز اور کوئی بات نہیں کہ کوئی کہے محمود نے اپنے سپاہی کو حکم دیا اور اس نے پورا نہیں کیا.اس موتی کی قدر ہی کیا ہے.بادشاہوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ محمود اگر کسی سپاہی کو حکم دیتا ہے تو چاہے وہ کتنا ہی خطر ناک کیوں نہ ہو وہ کر گزرتا ہے.میں مانتا ہوں کہ یہ موتی نہایت قیمتی تھا اور دوسرے بادشاہ اس کی وجہ سے آپ پر رشک کرتے تھے لیکن اگر میں آپ کے علم کی تعمیل نہ کرتا تو دوسرے بادشاہوں کو موقع مل جاتا اور وہ کہتے کہ محمود نے اپنے ایک سپاہی کو حکم دیا اور اس نے تعمیل نہیں کی.اس لئے میں نے موتی تو ڑ دیا اور اونی چیز کو اعلیٰ کے لئے قربان کر دیا.بادشاہ نے وزرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بتا ؤ ایاز نے جو کچھ کہا ٹھیک ہے یا تمہاری بات ٹھیک ہے؟ وزرا نے کہا جو کچھ ایاز نے کہا وہی درست ہے.محمود نے کہا یہی وجہ ہے کہ اس کو عزت ملی ہے.پس یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے جذبات قادیان کے ساتھ وابستہ ہیں مگر ایسا کیوں ہے؟ کیا ہمارے جذبات قادیان کے ساتھ اس لئے وابستہ ہیں کہ وہاں ہمارے باپ دادا پیدا ہوئے ؟ اگر یہ بات درست ہے کہ ہمارے جذبات قادیان سے اس لئے وابستہ ہیں کہ ہمارے باپ دادے وہاں پیدا ہوئے تو کیا ہمارے باپ دادا ہی کسی جگہ پیدا ہوئے ہیں اور کسی کے باپ دادے کسی جگہ پیدا نہیں ہوئے ؟ ہر بستی میں ، ہر گاؤں اور شہر میں کسی باپ دادا کی اولاد ہوتی ہے اور کروڑوں کروڑ لوگ دنیا میں ایسے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے باپ دادوں کی جگہ کو چھوڑ دیا ہے.پس اگر وہ صدمہ ان کے لئے نا قابل برداشت نہیں تھا ، اگر وہ حادثہ ان کے دلوں کو ہلا دینے والا نہیں تھا تو ہمارے اپنے باپ دادا کی جگہ کو چھوڑ دینا کیوں نا قابل برداشت ہو.ہمارا ایک ہی جواب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ انہیں وہ بستیاں اس لئے پیاری تھیں کہ ان میں ان کے باپ دادوں نے جنم لیا تھا.لیکن قادیان ہمیں اس لئے پیارا نہیں ہے کہ ہمارے باپ دادوں نے وہاں جنم لیا تھا

Page 213

زریں ہدایات (برائے طلباء) 207 جلد چهارم بلکہ وہ ہمیں اس لئے پیارا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے قائم کیا ہے.بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس جواب کے بعد ہمارا سوال حل ہو جاتا ہے لیکن دراصل ہمارا سوال حل نہیں ہوا بلکہ یہ جواب دے کر ہم نے اپنے خلاف فتویٰ دے دیا ہے کیونکہ ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ کسی جگہ ہمارے باپ دادوں کا پیدا ہونا کوئی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ خدا تعالیٰ کا حکم ہمارے لئے قیمتی چیز ہے.اور اگر خدا تعالیٰ کا حکم ہمارے نزدیک زیادہ قیمت رکھتا ہے تو اگر خدا تعالیٰ کہے کہ تم قادیان سے باہر رہو تو بہر حال اس کی بات ہی مانی جائے گی اور ہماری سعادت اسی میں ہوگی کہ ہم اس حکم کو بخندہ پیشانی مان لیں.پس اگر ہم نے یہ دلیل دی ہے تو در حقیقت ایسے لوگوں کے خلاف دی ہے جن پر یہ بات سخت گراں گزرتی ہے کہ ہم کہیں ایک یا دو سال میں ہمارار بوہ آباد ہو جائے گا.قادیان ہمیں اس لئے پیارا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے قائم کیا ہے اور اگر خدا تعالیٰ کہے کہ تم قادیان سے باہر رہو تو پھر ہمیں قادیان سے باہر ہی رہنا پڑے گا اور ہما را با ہر رہنا ہی اس کی رضا کا موجب ہوگا.صحابہ کے زمانہ میں ایک دفعہ اتنی سخت طاعون پڑی کہ اس کی وجہ سے ہزاروں آدمی مر گئے اور مسلمان لشکر اس بیماری کی وجہ سے اس قدر تباہ ہوا کہ یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ اگر رومن سلطنت نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا تو وہ اس کے حملہ کی تاب نہیں لاسکیں گے اور کچلے جائیں گے.صحابہ نے مقامی لوگوں سے دریافت کیا کہ جب طاعون پڑتی ہے تو وہ کیا کرتے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور اکٹھے ہو کر نہیں رہتے.اس پر بعض صحابہ نے فیصلہ کیا کہ وہ پہاڑوں پر پھیل جائیں لیکن حضرت ابو عبیدہ بن جراح نے جو کمانڈر انچیف تھے اعتراض کیا کہ کیا تم اس بات کے قائل نہیں کہ ہر بلا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے؟ اور اگر ہر بلا خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے تو أَتَفِرُّونَ مِنْ قَضَاءِ اللهِ کیا تم اللہ تعالیٰ کی قضا سے بھاگتے ہو؟ جن صحابہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ لشکر پہاڑوں پر پھیلا دیا جائے انہوں نے جواب دیا کہ نعم نَفِرُّ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ إِلَى قَضَاءِ اللهِ 1 ہاں ہم خدا تعالیٰ کی قضا سے اس کی قضا کی رم

Page 214

زریں ہدایات (برائے طلباء) 208 جلد چهارم طرف بھاگتے ہیں یعنی جس خدا نے طاعون بھیجی ہے اس نے ہی قانون بنایا ہے کہ اگر تم دور دور علاقوں میں پھیل جاؤ اور اکٹھے نہ رہو تو اس سے محفوظ رہو گے.ہر تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوتی ہے.اور اگر ہر تقدیر خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہو گئی ہے تو کیا یہ حماقت نہیں کہ ہم اس تقدیر کے نیچے تو بیٹھے رہیں جو ابتلا لاتی ہے اور اس تقدیر کی طرف نہ جائیں جو رحمت لاتی ہے.غرض ہم غیر کی طرف نہیں جا رہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہی مقرر کردہ دوسری تقدیر کی طرف جا رہے ہیں.پس بے شک یہ باتیں بعض لوگوں کے لئے تکلیف دہ ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ کی یہ مرضی ہے کہ ہم قادیان سے باہر رہیں تو ہمیں باہر ہی رہنا پڑے گا.خدا تعالیٰ کے الہامات اور پیشگوئیوں سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گا لیکن اگر اس کے واپس ملنے میں دس یا بیس سال بھی گزر جائیں بلکہ اگر ہماری انگلی نسل چھوڑ کر تیسری نسل بھی گزر جائے تو ہم اس کے لئے تیار ہیں.ہم یہ جانتے ہیں کہ قادیان ضرور ہمیں واپس ملے گا.مگر کب ملے گا؟ اس کا علم خدا تعالیٰ کو ہے.ہمیں قادیان چھن جانے کی وجہ سے دکھ ضرور ہوتا ہے لیکن ہمارا حقیقی سکھ اسی میں ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا فیصلہ منظور کریں.بے شک کمزور ذہن والے لوگ اس قسم کی باتیں سن کر گھبرا جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم قادیان نہیں جائیں گے.میں کہتا ہوں یہ بات غلط ہے.ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم قادیان جائیں گے لیکن یہ بات ہمارے اختیار میں نہیں اور نہ ہمیں اس چیز کو اپنے اختیار میں لینا چاہئے.یہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہی ہمیں واپس لے جائے گا تو ہم واپس جائیں گے.ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں قادیان یا کسی اور کے نوکر نہیں.بہر حال جب خدا تعالیٰ کی مشیت یہی ہے کہ ہم نے کچھ عرصہ تک قادیان سے باہر رہنا ہے تو ربوہ آباد ہوگا اور ایک بڑا شہر بنے گا.اور یہاں کے رہنے والوں کے بچے بھی ہوں گے اور اگر اُس وقت سکول کے طلباء کی تعداد انیس سو یا دو ہزار بھی ہو جائے تو بڑی بات نہیں.

Page 215

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 209 جلد چهارم ہاں کبھی کبھی مجھے خیال ضرور آتا ہے کہ قادیان واپس ملنے پر ربوہ کی کیا پوزیشن ہوگی ؟ جو حال مہاجروں کا ہوا ہے اسے دیکھتے ہوئے ربوہ کا نشان ایسا عظیم الشان نشان ہے کہ مخالف بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس قسم کی مثال اور کہیں نہیں ملتی.اخبار آفاق کو ہی لے لو اس نے میرے خلاف بھی لکھا لیکن اس نے ساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ ربوہ کی آبادی ایسا عظیم الشان کام ہے کہ گورنمنٹ بھی مہاجرین کے لئے نہیں کر سکی.پس دنیا کی نگاہ میں ہمارا ربوہ آباد کر لینا بہت بڑا نشان ہے.میں اکثر سوچا کرتا ہوں کہ ربوہ کا اس وقت آباد کر لینا ایک بہت بڑا نشان ہے.لیکن قادیان واپس ملنے پر اس کی آبادی کی کیا صورت ہوگی ؟ وہ قربانی جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کو دینی پڑی اس کا خیال کرتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دیکھ کر وہ قربانی ہم سے نہ لے.اور وہ قربانی یہ تھی کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم ﷺ نے ہزاروں ہزار گلے بکریوں اور بھیڑوں اور اونٹوں کے مکہ والوں کو دے دیئے.محمود کے وزیروں کی طرح کمزور کی نظر مال پر ہوتی ہے اور محبت کی نظر ذات پر ہوتی ہے.ایک کمزور انصاری نے کہا مکہ ہم نے فتح کیا ہے اور خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن ہزاروں ہزار جانوروں کے گلے رسول کریم ﷺ نے اپنے رشتہ داروں الله یعنی مکہ والوں کو دلائے ہیں.رسول کریم ﷺ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے انصار کو بلایا اور فرمایا اے انصار! مجھے یہ خبر پہنچی ہے.کیا یہ ٹھیک ہے؟ انصار نے اس بات کو سنتے ہی فوراً کہا یا رسول اللہ ! خبر تو ٹھیک ہے لیکن یہ فقرہ بعض نادانوں کے منہ سے نکل گیا ہے ہم اس سے بیزار ہیں.آپ نے فرمایا اے انصار ! یہ صرف ایک نقطہ نگاہ ہے.اس میں کیا شبہ ہے کہ میں مکہ میں پیدا ہوا.میری قوم نے مجھے وہاں سے نکال دیا.مدینہ سے فوجیں آئیں اور مکہ فتح ہوا.لیکن مال غنیمت میں سے ہزاروں ہزار گلتے جانوروں کے ان لوگوں کومل گئے جو مکہ کے رہنے والے تھے تمہیں وہ گلے نہ ملے.(حالانکہ اگر ایسا کہنے والے سوچتے تو یہ گے جانوروں کے کس کے تھے یہ گلے خود مکہ والوں کے ہی تھے اور انہیں واپس مل گئے ) لیکن ایک اور نقطہ نگاہ بھی ہے.جس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدینہ سے فوجیں آئیں اور الله

Page 216

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 210 جلد چهارم ان کی مدد سے مکہ فتح کیا گیا.لیکن جب مکہ فتح ہو گیا تو میں نے سارا مال غنیمت اپنے رشتہ داروں یعنی کہ مکہ والوں کو دلایا.اسی طرح تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ سینکڑوں سال کے بعد آخری موعود پیدا ہوا.وہ موعود مکہ میں پیدا ہوا لیکن مکہ والوں نے اس کی قدر نہ کی.اس ناقدری کی سزا میں خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو مدینہ بھیج دیا اور اس کی وجہ سے مدینہ کی چھوٹی سی بستی کو اتنی برکت دی کہ وہ دوسری بستیوں پر حاکم ہوگئی.پھر انسانی مدد سے نہیں بلکہ آسمانی تائید سے اس نے طاقت پکڑنی شروع کی اور پھر انسانی طاقت سے نہیں بلکہ الٹھی مدد سے مکہ فتح ہوا.جب مکہ فتح ہوا تو مکہ والوں نے خیال کیا کہ اب ان کی کھوئی ہوئی عظمت انہیں واپس مل جائے گی اور وہ رسول جس کو انہوں نے اپنی نادانی کی وجہ سے مکہ سے نکال دیا تھا اب ان کو واپس مل جائے گا.لیکن ان کی امیدیں خام خیالیاں ثابت ہوئیں اور مکہ والے جو خدا تعالیٰ کے رسول کو لینے آئے تھے چند اونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو چلے گئے لیکن وہ مدینہ جہاں خدا تعالیٰ کا رسول پیدا نہیں ہوا تھا، خدا تعالیٰ کا رسول مکہ میں پیدا ہوا تھا اور خدا تعالیٰ نے اسے مکہ کے لئے بھیجا تھا اس کے رہنے والے خدا تعالیٰ کے رسول کو ساتھ لے گئے.فرمایا اے انصار ! تم یہ بھی کہہ سکتے ہو 2 اب تم خود فیصلہ کر لو کہ کیا بکریاں اور اونٹ زیادہ قیمتی ہیں یا محمد رسول اللہ ہی زیادہ قیمتی ہیں.پس کو مکہ فتح ہوا لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی کسی حکمت کے ماتحت رسول کریم ﷺ اور صحابہ سے یہ قربانی کی کہ مکہ کے فتح ہو جانے کے بعد انہیں وہاں جانے نہ دیا اور یہ بہت بڑی قربانی تھی جو رسول کریم ﷺ اور صحابہ کو کرنی پڑی.ہم اپنی کمزوری کو دیکھتے ہوئے خواہش رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس بھی مل جائے اور اس قربانی کا بھی ہم سے مطالبہ نہ کیا جائے.ربوہ کی آبادی کے لئے خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے دلوں میں رغبت پیدا کرے کہ وہ یہاں آکر بسیں اور آباد ہوں.اس میں سکول بھی ہوں اور اس کی آبادی بھی بڑھتی چلی جائے.دنیا میں صرف مکہ ہی شہر نہیں ، صرف مدینہ ہی شہر نہیں ، صرف قادیان ہی شہر نہیں ، لاکھوں لاکھ اور شہر بھی ہیں اور کئی شہر مکہ

Page 217

زریں ہدایات (برائے طلباء) 211 جلد چهارم اور مدینہ سے بیسیوں گنا بڑے ہیں.بہر حال وہ دن خواہ دیر سے آئے یا جلد آ جائے.جس رنگ میں خدا تعالیٰ سے یہاں التجائیں کی گئی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے خدا تعالیٰ ربوہ کو بھی ضرور آباد ر کھے گا.یہ زمین ہزاروں سال سے فریاد کر رہی تھی کہ خدا تعالیٰ کا نام لینے والے یہاں آکر ہیں.اب خدا تعالیٰ نے اس بنجر اور بے آب و گیاہ وادی کو رونق بخشی اور اسے آباد کیا.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی دین ہے اور خدا تعالیٰ کی دین عارضی نہیں ہوتی.وہ یقیناً اس بستی کو آبا در کھے گا اور ہمیشہ اس کی ترقی کے سامان پیدا کرتا چلا جائے گا کیونکہ جب خدا تعالیٰ کا نام کسی جگہ پر لیا جاتا ہے تو وہ جگہ ویران نہیں ہوتی.وہ مٹائی نہیں جاتی.پس یہاں بھی ہمارا سکول ہو گا.لڑکے آئیں گے اور اس میں پڑھیں گے.اور یقینا وہ لوگ جو باہر سے یہاں آئیں گے وہ ویسی ہی برکتیں پانے والے ہوں گے جیسی برکتیں انہیں قادیان سے حاصل تھیں.جو شخص صرف اس لئے قادیان جاتا تھا کہ اسے قادیان پسند تھا ہم اسے کہیں گے کہ قادیان اب ہندوستان میں رہ گیا ہے.لیکن جو اس لئے قادیان جاتا تھا کہ وہاں خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہوئی تو ہم اسے کہیں گے تمہیں یہاں بھی ویسی ہی برکتیں مل سکتی ہیں جیسی برکتیں تمہیں قادیان میں ملتی تھیں.ہمارا یہ جواب ویسا ہی ہوگا جیسے حضرت ابو بکر نے رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت بعض صحابہ کو دیا.جب ان کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ آپ فوت نہیں ہوئے بلکہ وقتی طور پر خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت ہم سے جدا ہوئے ہیں.حضرت ابو بکڑ نے جب یہ بات سنی تو آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا میں نے سنا ہے کہ تم ایسا کہتے ہو لیکن تمہیں یاد رکھنا چاہئے مد (ﷺ ) خدا تعالیٰ کے ایک رسول تھے.قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ اس سے پہلے اور رسول بھی تھے جو گزر گئے آفَابِن ماتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ 3 کیا آپ مر جائیں گے یا قتل کئے جائیں گے تو تم اپنا دین چھوڑ دو گے؟ پھر آپ نے فرمایا سنوا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ جو شخص تم میں سے محمد (ﷺ) کی عبادت کرتا تھا وہ یا در رکھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں.وَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ عليسة

Page 218

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 212 جلد چهارم يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَتَّى لَا يَمُوتُ 4 لیکن جو شخص خدا تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اسے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں خدا تعالیٰ اب بھی زندہ ہے اور وہ کبھی نہیں مرے گا.پس جو شخص جگہوں کا خیال کرتا ہے اس کا ٹھکانا کہیں نہیں.وہ آج بھی گیا اور کل بھی گیا.لیکن اگر ہم خدا تعالیٰ کے منشا اور اس کی خاطر کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو وہ ہمیں کسی مصلحت کے ماتحت اس جگہ سے باہر رکھے تو ہمارا باہر رہنا بھی اس کی رضا کا موجب ہوگا.کہنے والے کہا کرتے ہیں کہ ہم نے قادیان کو مکہ کی جگہ اپنا مرکز بنا لیا ہے.یہودی بھی کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں نے بیت المقدس کی جگہ مکہ بنا لیا ہے.ہندو یہودیوں کو کہا کرتے تھے کہ انہوں نے ہر دوار کی جگہ بیت المقدس بنا لیا ہے.کہنے والے ایسا کہا ہی کرتے ہیں لیکن مومن بینگن کا نوکر نہیں بلکہ راجہ کا نوکر ہوتا ہے.مومن کی نظر ہمیشہ اس طرف جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کیا کہتا ہے.کتنے ہیں جو کہہ سکتے ہیں کہ ہم کل تک زندہ رہیں گے.انسان مرتا ہے اور موت ایسی چیز ہے جو اس کے ساتھ ہمیشہ لگی ہوئی ہے.کہاں ہیں ہمارے باپ دادے؟ وہ ہم سے دنیوی شانوں میں کہیں بڑھ کر تھے.ان میں سے بعض دینی شانوں میں بھی ہم سے بڑھ کر تھے.رسول کریم ﷺ کہاں ہیں ؟ موسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں؟ عیسی علیہ السلام کہاں ہیں؟ ابراہیم اور نوح یھم السلام کہاں ہیں؟ فوت ہو گئے.اسی طرح ایک دن ہم بھی فوت ہو جائیں گے.کئی لوگ ایسے ہیں جن کے متعلق تو تم یہ خیال کرتے ہو کہ اگر یہ لوگ مرگئے تو کیا ہوگا.لیکن سو سال کے بعد بعض اور لوگ ایسے پیدا ہو جائیں گے جن کے متعلق اُس وقت کے لوگ کہیں گے کہ اگر یہ مر گئے تو ہم کیا کریں گے.قائد اعظم محمد علی جناح جب زندہ تھے تو لوگ کہتے تھے اگر یہ مر گئے تو کیا ہوگا.آج سے چار پانچ سو سال پہلے مسلمان بادشاہ جس شان سے آئے قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح کا ان سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا.قائد اعظم کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو بچا کر حفاظت کے ایک کو نہ میں لے آئے.لیکن وہ مسلمان بادشاہ خیبر سے گھوڑے دوڑاتے ہوئے سندھ سے بہار تک اور بہار سے برما تک قابض ہو گئے.ان کے زمانہ میں بھی

Page 219

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 213 جلد چهارم لوگ یہ کہتے تھے کہ اگر یہ مر گئے تو کیا ہوگا.مگر وہ مرے اور دنیا اسی طرح چلتی چلی گئی.پس حقیقت یہ ہے کہ جب قوم اپنے کیریکٹر اور قربانی کی روح کو قائم کر لیتی ہے تو اس کو کوئی تباہ نہیں کر سکتا.لیکن جب وہ اپنے کیریکٹر اور قربانی کی روح کو قائم نہیں رکھتی تو بڑے بڑے بادشاہ بھی فیل ہو جاتے ہیں اور وہ قوم کو ابھار نہیں سکتے.دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کہ قوم کی کیا حالت ہے.جب افراد ا چھے ہوں تو اس قوم کی زندگی کے دن لمبے ہو جاتے ہیں.انگریز پانچ سو سال سے حکومت کر رہے ہیں لیکن وہ بدلے نہیں.ہم بدل گئے ہیں.اس لئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور ہم صرف نعرے لگانا جانتے ہیں.لیکن انگلینڈ اور امریکہ والے نعروں کے قابو میں نہیں آئے.وہی پر چل جس نے انگلینڈ کو خطرات سے اُس وقت بچایا تھا جب وہ سمجھتا تھا کہ وہ جرمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا اسے اس نے ہٹا دیا اور ایٹلی (Attlee ) کو آگے لے آیا جو اکثریت کا نمائندہ تھا.یہ بات ایک لحاظ سے غیر معمولی تھی اور ایک لحاظ سے معمولی تھی.غیر معمولی اس لحاظ سے تھی کہ ملک نے قوم کو جہنم سے نکالنے والے کو پیچھے ہٹا دیا.اور معمولی اس لئے کہ لبرل پارٹی برسر اقتدار آ گئی جو اکثریت میں تھی.اب پھر دیکھو اکثریت اگر چہ مزدوروں کی تھی لیکن جب انہوں نے اپنا مفاد اس میں سمجھا کہ چرچل کو جو کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھتے تھے آگے لایا جائے تو وہ اسے آگے لے آئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ قوم کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہے اور اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہے.وہ کسی کو اس لئے ووٹ نہیں دیتا کہ وہ اس کی پارٹی کا ایک فرد ہے بلکہ وہ اسے اس لئے ووٹ دیتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے میں انگریز ہوں اور انگریزی قوم کے مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ووٹ دوں گا.کل ہی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا اس میں لکھا تھا کہ فرانس کے ایک جرنیل کو ایک آرڈر آیا جو ظالمانہ تھا.یہ دیکھ کر کہ وہ آرڈر نہایت ظالمانہ ہے دوستوں نے اسے مشورہ دیا کہ تم اسے رد کر دو.یہ جرنیل وہی تھا جس نے سسلی کو فتح کیا تھا اور اسے مسلمان جرنیل موسیٰ کی طرح مسلی فتح کر لینے کے بعد سزا ملی.اس نے کہا تم مجھے غلط مشورہ دیتے ہو

Page 220

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 214 جلد چهارم گور نمنٹیں آتی ہیں اور جاتی ہیں لیکن فرانس زندہ رہے گا.میں فرانس کا خادم ہوں اور اس سے غداری نہیں کر سکتا.موسیٰ نے بھی دوستوں کے اس مشورہ پر کہ تم سرنڈر (surrender) نہ کرو.یہی جواب دیا تھا کہ ولید کا حکم نہیں بلکہ خلیفہ کا حکم ہے اس حکم کی تعمیل کر کے میں مارا ضرور جاؤں گا لیکن میں نہیں چاہتا کہ کوئی یہ کہے کہ خلیفہ کے حکم کی تعمیل نہیں کی گئی.خواہ اس حکم کا نفاذ میرے گرنے یا مرنے سے ہی ہو میں اسے رد نہیں کروں گا.اسی طرح اس جرنیل نے کہا کہ تو میں آئیں گی اور بدل جائیں گی لیکن فرانس زندہ رہے گا اور یاد رکھا جائے گا.میں موت کو قبول کرلوں گا لیکن یہ بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ دنیا میں یہ کہا جائے کہ فرانس کے کسی جرنیل نے حکم رد کر دیا تھا.انہی چیزوں کے ساتھ افراد کی عزت ہوتی ہے.بعض لوگوں کی محبت چیزوں سے ہوتی ہے اور بعض کی محبت اصول سے ہوتی ہے.جو لوگ اصول کے ساتھ محبت رکھتے ہیں وہی جیتے ہیں.جو تو میں اصول کی قدر کرتی ہیں گو ان کا ایک واجب الاطاعت امام ہوتا ہے لیکن حقیقتاً وہ خود لیڈر ہوتی ہیں.جب ایک لیڈر مر جاتا ہے تو وہ دوسرا لیڈر پیدا کر لیتی ہیں.ان کی مثال کیلے کے درخت کی سی ہوتی ہے.اگر کیلے میں پھل لگ جائے تو لوگ اسے کاٹ دیتے ہیں ورنہ اسے پھل نہیں لگتا.یہی حال زندہ قوموں کا ہوتا ہے.زندہ قوموں کے افراد اپنی شخصیت کو کچل دیتے اور قومیت کو زندہ کر دیتے ہیں.اور مذہبی نقطہ نگاہ سے وہ اپنی جسمانیت کو مار کر روحانیت کو زندہ کر لیتے ہیں.نادان کہتا ہے کہ خلیفہ خدا نہیں بنا تا بلکہ اسے لوگ چنتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے آیت استخلاف میں کتنا بڑا فلسفہ بیان کیا ہے.ساری تاریخ دیکھ لو تمہیں یہی نمونہ ملے گا کہ وہی تو میں زندہ رہتی ہیں جو لیڈر پیدا کرتی ہیں.تمہیں ایک تیمور مل جائے گا، تمہیں ایک نپولین مل جائے گا، تمہیں ایک ہٹلر مل جائے گا.لیکن تیموروں ، ہٹلروں اور نپولینوں کا سلسلہ اسی جگہ ملے گا جہاں قوم میں زندگی پائی جاتی ہو.انگلینڈ کے مدبر کہاں سے گرتے ہیں؟ امریکہ کا پریذیڈنٹ سائنس کے کون سے عمل خانہ

Page 221

زریں ہدایات (برائے طلباء) 215 جلد چهارم میں بنایا جاتا ہے؟ وہ معمولی آدمیوں میں سے ہی ایک آدمی ہوتا ہے لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کے پیچھے قوم کی روح کھڑی ہے.قوم پریذیڈنٹ کا آئینہ بن جاتی ہے اور پریذیڈنٹ قوم کا آئینہ بن جاتا ہے.قرآن کریم نے اس گر کو بیان کیا ہے کہ خلیفہ تم چن لیکن وہ ہمارا نمائندہ ہوگا.انگلستان اور امریکہ کو دیکھ لو یا دوسرے ملکوں کو دیکھ لو جہاں بھی بیداری پائی جاتی ہے وہاں یہی نمونہ پایا جاتا ہے.اس کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ ایک نعمت ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ جب تک مسلمان زندہ رہیں گے وہ صحیح نمائندہ چنیں گے.یہ ایک ایسی صداقت ہے جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا.جب تک اٹلی کی حکومت قائم رہی قیصر باوجود ڈکٹیٹر کہلانے کے نمائندہ قوم تھے.وہ قوم کی ایک ایک حرکت اور ہر کو دیکھتے تھے اور اس کے مطابق فیصلہ کرتے تھے اور اس طرح ہزاروں دوسرے لیڈروں پر فتح پالیتے تھے.دھوکا سے کسی کو مار لینا اور بات ہے لیکن اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قوم کے نمائندے تھے.شیکسپیئر نے اس کا ایک جگہ نہایت ہی عمدہ نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح سیزر (Caesar) کو قتل کر کے قوم کو ایک مخلص خادم سے محروم کر دیا گیا مگر وہی قوم جس کے اشارہ سے سینز کو قتل کیا گیا تھا اسے اس طرح برانگیختہ کر دیا گیا کہ وہ اس کے قاتلوں کے خلاف ہو گئی.اس نے قوم کے سامنے کھڑے ہو کر بیان کیا کہ قیصر نے قوم کے لئے یوں قربانی کی ، یوں قربانی کی.وہ ہمارا مال و متاع لوٹ سکتا تھا لیکن اس نے لوٹا نہیں ، اس نے ہر موقع پر قوم کو فائدہ پہنچایا اور اسے ہر خطرہ سے محفوظ رکھا.لیکن میری آنکھیں غلط دیکھتی ہیں.بروٹس جس نے اسے قتل کیا ہے اور وہ تمہارا نمائندہ ہے کہتا ہے کہ یہ غلط ہے.قیصر نے قوم کے فائدہ کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ اس نے ہر موقع پر قوم کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے.پھر وہ بیان کرتا ہے قیصر کی عقل ہماری رہنمائی کرتی تھی مگر میں غلطی کرتا ہوں.تمہارا نمائندہ بروٹس کہتا ہے کہ یہ سب غلط ہے اور اس جیسا عقلمند شخص غلطی نہیں کر سکتا.اس طرح شیکسپیئر نے قیصر کی خوبیاں بیان کرنا شروع کیں اور ایک ایک مثال بیان

Page 222

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 216 جلد چهارم کی.ابھی تقریر ختم نہیں ہوئی تھی کہ قوم کھڑی ہو گئی اور اس نے قیصر کے قاتل بروٹس کو قتل کر دیا.گویا قتل ہو جانے کے بعد بھی سیز رہی جیتا.اور جب قوم کو پتہ لگا کہ اس کا صیح نبض شناس کو وہی تھا تو وہ اپنے فعل پر پچھتانے لگ گئی.پس کوئی ایک شخص حاکم ہو ہی نہیں سکتا.ایک حاکم اُس وقت ہوتا ہے جب لوگ بے وقوف ہوں یا ایک حاکم اُس وقت ہوتا ہے کہ اگر چہ وہ ڈکٹیٹر ہوتا ہے مگر وہ قوم کی آواز ہوتا ہے.اس کا کوئی نام رکھ لو قوم اس کے پیچھے چلے گی.ان دو صورتوں کے علاوہ ڈکٹیٹر ہو ہی نہیں سکتا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قوم بیدار ہو اور پھر اس پر ڈکٹیٹرانہ حکومت ہو.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قوم واقعہ میں بیدار ہو اور ڈکٹیٹر واقعہ میں ڈکٹیٹر ہو.وہ جانتی ہے کہ ان کا حاکم اچھا ہے اس لئے وہ اسے برداشت کر لیتی ہے.پچھلے دنوں یونیسکو کا وفد یہاں آیا.اس کے ایک امریکن ممبر سے جمہوریت پر گفتگو شروع ہوگئی.میں نے اسے کہا جمہوریت تو اچھی ہے مگر دنیا میں مختلف جمہوریتیں ہیں.ایک جمہوریت انگلستان کی ہے.ایک جمہوریت امریکہ کی ہے.ایک جمہوریت رشیا کی ہے.اس نے کہا رشیا کی جمہوریت !! رشیا میں تو ڈکٹیٹر شپ قائم ہے.میں نے کہا ڈکٹیٹر کو کس نے بنایا ہے.پبلک سمجھتی ہے ڈکٹیٹر ان کی مرضی کے مطابق چلتا ہے اور اس کا مفاد اس کے مدنظر ہے اس لئے وہ اس کی ڈکٹیٹر شپ کو برداشت کر رہی ہے.ورنہ اگر پبلک اسے پسند نہ کرتی تو ڈکٹیٹر نہیں رہ سکتا تھا.اور جمہوریت کے معنی ہیں پبلک کی رائے.خواہ ایک حاکم ہو یا دس حاکم ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.وہ بہر حال جمہوریت ہے.آپ کا کیا حق ہے کہ آپ اسے جمہوریت نہ کہیں.اس نے کہا اس طرح تو جمہوریت کی تعریف نہایت وسیع ہو جائے گی اور ایک فلاسفی بن جائے گی.میں نے کہا یہ ٹھیک ہے اس طرح جمہوریت کی تعریف وسیع ہو جائے گی اور یہ فلاسفی بن جائے گی لیکن تمام اعلیٰ مسائل آخر کار فلاسفی میں ہی تبدیل ہو جاتے ہیں.میں نے کہا آپ رشیا کی حکومت کو جو چاہیں سمجھیں لیکن اگر پبلک اسے پسند نہ کرتی تو یہ قائم نہ رہتی.آخر پبلک چپ کیوں ہے.تم

Page 223

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 217 جلد چهارم دیکھ لورشین قوم نے جرمن کے مقابلہ میں کس قدر قربانی کی ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ غلطی خوردہ ہو تو ہو لیکن وہاں جمہوریت ضرور ہے.پس اصل چیز یہی ہوتی ہے کہ عوام کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جائے.افراد کی زندگی سے ہی قومیں زندہ رہا کرتی ہیں اور ہر قوم کی بنیاد بچے ہوتے ہیں.جو لوگ بڑی عمر کے ہوتے ہیں ان کی غلطیاں راسخ ہو جاتی ہیں وہ دور نہیں ہو سکتیں.لیکن آئندہ نسل کی اگر صحیح طور پر تربیت کی جائے تو ان سے وہ غلطیاں دور کی جاسکتی ہیں.احمدیت کی بنیاد اور وہ افراد جنہوں نے اس کا کانٹا بدلنا ہے وہ کانٹا جس سے دیکھا جائے گا کہ احمدیت کی گاڑی پہاڑوں پر چلتی ہے یا گڑھے میں گرتی ہے وہ تم ہو.لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جماعت کے نوجوانوں میں قربانی کی جس روح کی ضرورت ہے نہیں پائی جاتی.سکول کی آخری کلاس میں جو اب امتحان میں شامل ہو رہی ہے 85 طلباء ہیں.ان میں سے صرف دو واقف زندگی ہیں.باقی طلباء کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ جماعت کی خدمت کریں گے.بڑی چیز یہ ہے کہ دینیات پڑھ کر دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا جائے.اگر وہ آگے نہیں آتے تو تبلیغی لحاظ سے ان سے کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.“ 33 اس موقع پر جناب سید محمود اللہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے عرض کیا کہ اس کلاس کے پانچ طلباء واقف زندگی ہیں.ہاں ان میں سے جو طالب علم دینی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوں گے وہ دو ہی ہیں.اس پر حضور نے فرمایا:.مجھے جو اطلاع ملی ہے وہ یہی ہے کہ اس کلاس میں صرف دو طالب علم واقف زندگی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پانے والے واقفین سو فیصدی وقف پر قائم رہتے ہیں لیکن جو طالب علم کا لجوں کی تعلیم سے فارغ ہو کر وقف میں آتے ہیں ان میں سے پچاس فیصدی بھاگ جاتے ہیں اور جس فوج کا پچاس فیصدی حصہ بھاگ جائے وہ کتنی خطر ناک ہوگی اس لئے میں بجائے پانچ کہنے کے دو ہی کہوں گا.“

Page 224

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 218 جلد چهارم سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.جب رسول کریم ہے جنگ احد میں گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں ایک ایسا درہ ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو دشمن اس میں سے مسلمانوں پر حملہ کر سکتا ہے.وہ درہ اتنا چھوٹا تھا کہ وہاں دس آدمی بھی دشمن کو روک سکتے تھے.آپ نے ایک صحابی کو بلایا اور اسے فرمایا ہم تمہیں دس آدمی دیتے ہیں تم اس درہ کی حفاظت کرو.یہ درہ اتنا ضروری ہے کہ چاہے ہمیں شکست ہو جائے اور چیلیں ہماری نعشوں کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا جائیں اور چاہے فتح ہو جائے اور دشمن بھاگ جائے تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا.مسلمانوں کو اس جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور مسلمانوں کا لشکر دشمن کی فوج کو رگیدتا ہوا آگے بڑھا.اس لشکر میں خالد بن ولید بھی تھے جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.عمرو بن عاص بھی تھے جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے اور ان کے ساتھ عکرمہ بھی تھے جو ابھی کفر کی حالت میں تھے.خالد بن ولید نہایت ہوشیار جرنیل تھے.جب دشمن فوج شکست کھا کر مکہ کی طرف واپس لوٹ رہی تھی تو خالد بن ولید کی نظر اس درہ پر پڑی.اس نے دیکھا کہ درہ خالی ہے.جب مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار شکست کھا کر بھاگ گئے تو اسلامی لشکر کے سپاہی غنیمت کا مال اکٹھا کرنے لگ گئے.درہ کے محافظوں نے اپنے انچارج سے کہا سارے مسلمانوں نے آج جہاد کیا ہے اور اس طرح ثواب حاصل کیا ہے لیکن ہم اس ثواب سے محروم رہ گئے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ بھاگتے ہوئے دشمن پر ہم بھی دو چار تلوار میں مارلیں اور اس طرح جہاد کے ثواب میں شریک ہو جائیں.افسر نے کہا رسول کریم ہے نے فرمایا تھا مسلمان لشکر کو خواہ شکست ہو یا فتح ہم نے اس جگہ سے نہیں ہلنا اس لئے میں اس جگہ کو خالی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا.اس کے ساتھیوں نے کہا آپ ﷺ کے اس فرمان کا سچ سچ یہ مطلب تو نہیں تھا کہ فتح کے بعد بھی ہم یہاں رہیں بلکہ آپ نے یہ الفاظ اس درہ کی اہمیت پر زور دینے کے لئے کہے تھے اور آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ہم اس درہ کو خالی کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لیں.لیکن اب تو جلد بازی کا سوال ہی

Page 225

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 219 جلد چہارم نہیں رہا.دشمن شکست کھا چکا ہے اور ہمار الشکر اس کو رگید تا چلا جا رہا ہے.اب یہاں بیٹھے رہنا اپنے آپ کو ثواب سے محروم رکھنا ہے.افسر نے کہا تم خواہ مجھے چھوڑ دو میں اُس وقت تک اس درہ کو نہیں چھوڑوں گا جب تک رسول کریم ﷺ مجھے ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں لیکن میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ اگر تم ایسا کرو گے تو غلطی کرو گے.انہوں نے کہا تم بہت زیادہ لفظوں کے پیچھے جا رہے ہو.ہم یہاں بیٹھ کر ثواب سے محروم نہیں رہیں گے چنا نچہ وہ چلے گئے اور افسر اکیلا رہ گیا.خالد بن ولید نے درہ کو خالی پایا تو عمرو بن العاص کو آواز دی اور کہا تم جتنے آدمی اکٹھے کر سکتے ہو کرو میں بھی آدمی اکٹھے کرتا ہوں.درہ خالی ہے ہم نے اس میں سے مسلمانوں پر حملہ کرنا ہے.عمرو بن عاص کی سمجھ میں یہ بات آگئی.مسلمان فتح کے بعد لوٹ رہے تھے کہ دو تین سو آدمیوں نے منظم طور پر مسلمانوں پر عقب سے حملہ کر دیا.درہ خالی تھا صرف ایک آدمی تھا جو مارا گیا.اس کے بعد اس دستہ نے اسلامی لشکر پر حملہ کر دیا.اچانک حملہ کی تاب نہ لا کر سارا اسلامی لشکر بھاگ گیا یہاں تک کہ رسول کریم ﷺ کے پاس صرف بارہ آدمی رہ گئے.اور ایک وقت ایسا آیا کہ آپ کے پاس صرف دو آدمی رہ گئے.رسول کریم کے زخمی ہو کر نیچے گرے دوسرے صحابہ کی نعشیں آپ کے اوپر آ گئیں اور آپ نیچے دب گئے اور مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.یہ نتیجہ تھا رسول کریم ﷺ کے ایک حکم کو نہ ماننے کا.بے شک افسر نے یہی کہا تھا کہ مجھے اس بات سے غرض نہیں کہ لڑائی میں فتح مسلمانوں کی ہوتی ہے یا دشمن کو ، رسول کریم ﷺ نے ہمیں یہی حکم دیا ہے کہ ہم کسی صورت میں بھی یہاں سے نہ ہلیں سو میں یہاں کھڑا رہوں گا لیکن اس کے باقی ساتھیوں نے اسے چھوڑ دیا اور قوم کو ایک خطرناک نتیجہ دیکھنا الله پس قوم کی حقیقی فتح اسی میں ہوتی ہے کہ اس کے افراد اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں اور دیکھیں کہ قوم کو کس چیز کی ضرورت ہے.بھٹہ میں سے اینٹیں نکلتی ہیں تو ان میں سے کوئی اینٹ چھت میں جالگتی ہے اور کوئی پاخانہ میں.ہر ا ینٹ کو چھت میں نہیں لگایا جا سکتا.اگر

Page 226

زریں ہدایات (برائے طلباء) 220 جلد چهارم اس کی پاخانہ میں ضرورت ہوگی تو اسے پاخانہ میں لگا دیا جائے گا اور اگر اس کی چھت میں ضرورت ہو گی تو اسے چھت میں لگا دیا جائے گا.اسی طرح قوم کے نو جوانوں کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ کالجوں میں تعلیم حاصل کر کے ہی دین کی خدمت کر سکتے ہیں.دیکھنا یہ چاہئے کہ اس وقت کس چیز کی ضرورت ہے.اگر سلسلہ کو علماء کے ذریعہ ترقی مل سکتی ہے تو انہیں علماء بن کر اس کی خدمت کرنی چاہئے.اگر ڈاکٹروں کے ذریعہ سلسلہ کو ترقی مل سکتی ہو تو انہیں ڈاکٹر بن کر اس کی خدمت کرنی چاہئے.اور اگر سپاہیوں کے ذریعہ اسے ترقی مل سکتی ہو تو سپاہی بن کر اس کی خدمت کرنی چاہئے.ترقی کا راز یہی ہے.اگر تم کہتے ہو کہ ہم اپنی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کر لیں پھر دین کی خدمت کریں گے تو تم نظام کی مضبوطی کا باعث نہیں بنو گے بلکہ اس میں مخل ہو گے.مجھے تو کچھ انگریزی کی شد بد ہے لیکن اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ بی.اے یا ایم.اے ہو کر ہی سلسلہ کی خدمت ہو سکتی ہے تو تم اپنے پہلے دو لیڈروں کی خطرناک ہتک کرتے ہو کیونکہ وہ دونوں انگریزی کا ایک حرف بھی نہیں جانتے تھے.میں بھی پرائمری فیل ہوں.اگر میں نے اپنے طور پر کتابیں پڑھی ہیں تو تم بھی پڑھ سکتے ہو.تمہاری دینی تعلیم بہر حال مجھ سے زیادہ ہے کیونکہ میں نے با قاعدہ دینی تعلیم حاصل نہیں کی.پس ضرورت ہے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان آگے آئیں اور دین کے لئے اپنی زندگیاں پیش کریں.افریقہ کے علاقے میں ایک دفعہ دو عیسائی مشنری مارے گئے.مردم خور انسانوں نے انہیں کھا لیا.جب انگلستان میں یہ خبر پہنچی تو گر جا کے بانی ڈر گئے کہ اگر یہ خبر ملک میں پھیل گئی تو اور آدمی نہیں مل سکیں گے.لیکن جب یہ خبر ملک میں پھیلی تو انہیں پانچ سو آدمیوں کی طرف سے تاریں ملیں کہ ان مشنریوں کی جگہ ہمیں بھجوا دیا جائے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ گو عیسائیت مر چکی ہے لیکن عیسائیوں کو مذہب سے محبت ہے.تو افریقوں نے یہ سمجھا کہ اگر ہم انہیں مار کر کھا لیں گے تو شاید دوسرے لوگ ڈر جائیں اور اس طرف منہ نہ کریں لیکن ہوا یہ کہ انہوں نے دو آدمی کھائے اور سینکڑوں نے وہاں جانے کے لئے اپنے نام پیش کر دیئے.یہ روح ہے جس

Page 227

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 221 جلد چهارم سے قو میں زندہ رہتی ہیں.تم ان لوگوں کی بنیاد ہو جنہوں نے دنیا فتح کرنی ہے اور اسلام کا جھنڈ از مین کے چپہ چپہ میں گاڑنا ہے.پس جماعت میں بیداری ہونی چاہئے اور یہ روح ہونی چاہئے کہ اس کے افراد دین کو دنیا پر مقدم رکھیں.یہی خدمت ہے جس سے خدا تعالیٰ خوش ہوتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آئندہ بڑے رزق والی نسلیں تمہارے بیچ سے پیدا ہوں گی.جن لوگوں نے پہلے قربانیاں کی تھیں انہی کی نسلیں اب معزز گئی جاتی ہیں.ہز ہائی نس سر آغا خان کو لے لو وہ سید کہلاتے ہیں لیکن باوجود اس احمقانہ تعلیم کے کہ وہ خدا ہیں یا خدا تعالیٰ کے قائم مقام ہیں پچھلے دنوں ان کی امریکہ اور بمبئی میں جو بلی منائی گئی اور ہیرے اور جو ہرات سے انہیں تو لا گیا اور پھر وہ ہیرے اور جو ہرات صدقہ میں دیئے گئے.یہ سب کچھ اسی وجہ سے تھا کہ ان کے باپ دادوں نے کسی وقت قربانیاں کی تھیں.بعد میں آنے والے کہتے ہیں کہ یہ بڑے کیوں ہیں.لیکن وہ یہ خیال نہیں کرتے کہ اس کے باپ دادوں نے اسے بڑا بنایا ہے.انہوں نے خدا تعالیٰ کی خاطر دنیا چھوڑ دی اور خدا تعالیٰ نے دنیا اس کی اولاد کے قدموں میں ڈال دی.جس طرح ایک پیج سے بعض دفعہ جنگل کھڑا ہو جاتا ہے اسی طرح ان کی کسی وقت کی کی ہوئی قربانی پھل لائی اور اس کے خاندان کو اس طرح اوپر اٹھایا کہ دوسری قو میں اس پر رشک کرنے لگیں.ہاں قربانی کرنے والوں کو بدلہ ان کے مرنے کے بعد ملتا ہے اور نسلی انعام دس پندرہ سال بلکہ پانچ پانچ چھ چھ پشتوں کے بعد ملتا ہے.آجکل کے سید نے کچھ نہیں کیا ، اسے جو کچھ ملا ہے اس کے دادے پڑ دا دے کی قربانی کے نتیجہ میں ملا ہے.اگر تم بھی قربانی کرو گے تو تمہاری آنے والی نسلیں بھی معزز ہوں گی.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک راجپوت جسے کھانے کو نہیں ملتا ، اسے پہنے کو لباس نہیں ملتا وہ پھٹی پرانی لنگوٹی پہنے ہوئے ہوتا ہے اور اس کے مقابلہ میں ایک جلا ہا کم خواب پہنتا ہے اور روپے پیسے کی اس کے پاس کمی نہیں.لیکن اگر وہ اس راجپوت سے کہتا ہے کہ مجھے اپنی بیٹی دے دو تو وہ اسے اپنی ہتک سمجھتا ہے.اب اس راجپوت نے کچھ نہیں کیا ، اسے جو

Page 228

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 222 جلد چهارم عزت ملی ہے وہ اس لئے ملی ہے کہ اس کے کسی پڑدادے نے کسی وقت قربانی کی تھی.اسے جو کچھ ملا ہے اس کے باپ دادا کی قربانی کے نتیجہ میں ملا ہے.اسی طرح جاٹ، برهمن ، مغل، سید اور پٹھان ہیں یہ سب تو میں معزز گنی جاتی ہیں.یہ بھی ایک نسلی عزت ہے جو انہیں حاصل ہے.موجودہ مغلوں نے کچھ نہیں کیا، موجودہ پٹھانوں نے کچھ نہیں کیا ، موجودہ برہمنوں نے کچھ نہیں کیا.بلکہ یہ عزتیں اور رہے ان کے دادوں پر دادوں کی قربانی کا نتیجہ ہیں جو انہوں نے اپنے وقت میں کی نسلی اور قومی عزتیں اور رتنے فورا نہیں ملتے بلکہ یہ کئی پشتوں کے بعد ملتے ہیں.بعض عزتیں جلد مل جاتی ہیں اور بعض عزتیں آٹھ دس پشتوں کے بعد ملتی ہیں.مثلاً ایک شخص تعلیم حاصل کرتا ہے اور وہ ہیڈ ماسٹر ہو جاتا ہے، انسپکٹر بن جاتا ہے یا اسے اور عہدہ مل جاتا ہے تو یہ نقد عزت ہے.اس کا مقابلہ قومی عزت سے نہیں کیا جا سکتا.تم پچاس جرنیل لے لو اور ان کی عزت کا قریشیوں اور سیدوں کی عزت سے مقابلہ کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ان پچاس جرنیلوں کی قریشیوں اور سیدوں کے مقابلہ میں کوئی ہستی ہی نہیں.پس انفرادی عزتیں لاکھوں کروڑوں انسانوں میں سے چند ایک کو ملتی ہیں.لیکن نسلی عزتیں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو ملتی ہیں.انفرادی عزت فوری طور پر ملتی ہے اور فوراً چلی جاتی ہے لیکن نسلی عزت دیر سے ملتی ہے اور پھر ختم ہونے میں نہیں آتی.گورنمنٹ کے کتنے عہد یدار یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی طرح وہ پیروں اور گدی نشینوں کا اثر مٹا دیں لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے.پیر پگاڑو کو لے لو.وہ اس کے بچوں کو انگلینڈ لے گئے.لیکن پاکستان والے مجبور ہو کر انہیں اب واپس لائے ہیں کیونکہ اس کی عزت قوم میں اس قدر پھیل چکی تھی کہ وہ مٹ نہ سکی.پس وہ قربانیاں جن کا اجر نسلوں کے بعد ملتا ہے حقیر نہیں ہوتیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر تم اب قربانی کرو گے تو ایک چھوٹی سی جماعت کے لیڈر بنو گے لیکن یہی جماعت جب دو ارب ہو جائے ہو جائے گی تو اُس وقت کے لوگ تمہیں اس دور بین سے نہیں دیکھیں گے جس دوربین کے ساتھ تمہیں تمہاری.

Page 229

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 223 ☆ جلد چهارم موجودہ نسل دیکھتی ہے.تم نے سائر میں دیکھی ہو گی.اس کے ایک کنارے سے دیکھا جائے تو انسان پانچ چھ فٹ کا معلوم ہوتا ہے لیکن جب دوسرے کنارے سے دیکھتے ہیں تو اس کا آسمان سے سر لگا ہوا ہوتا ہے اور اس کا جسم زمین پر پھیلا ہوا ہوتا ہے.یہی حالت تمہاری ہوگی.اگر تم اب قربانی کرو گے تو آنے والی نسلیں تمہیں سائر بین سے دیکھیں گی.تمہارا سر آسمان پر لگ رہا ہو گا اور جسم زمین پر پھیلا ہوا ہوگا.پس اس وقت موقع ہے کہ تم قربانی کر لو تا تمہاری آنے والی نسل معزز گنی جائے.اگر تم سب قربانی کرو گے تو اگر چہ تم غریب رہو گے لیکن تمہاری اس قربانی سے تمہارے پڑپوتے فائدہ اٹھائیں گے.تمہاری آنے والی نسل کو لوگ سروں پر اٹھا ئیں گے اور کہیں گے تمہیں پتہ ہے کہ کس کے بیٹے ہیں؟ یہ فلاں رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں.اور تم میں سے جو شخص قربانی نہیں کرتا اس کا پوتا پڑپوتا کہے گا یہ لوگ ہم سے بڑھ گئے ہیں.یہ اگر چہ کم جائیداد والے ہیں لیکن لوگ ان کے قدم چومتے ہیں.عقل مند ا سے یہی جواب دے گا کہ ان کے باپ دادا نے کسی وقت قربانی کی تھی جو ان کے کام آئی لیکن تمہارے باپ دادے نے وہ قربانی نہیں کی تھی.تم بھول گئے.خدا تعالیٰ نے اسے یاد رکھا.ان کے باپ دادوں نے قربانیاں کی تھیں یہ ان کو بھول گئے لیکن خدا تعالیٰ کو ان کی قربانیاں یاد تھیں اور اس نے تم کو ان کا غلام بنا دیا.آجکل کے خاں صاحب نے کوئی کام نہیں کیا اس کو کچھ بھی پتہ نہیں.لیکن جب وہ کسی جگہ جاتا ہے تو تم میں سے ہر ایک یہ کہتا ہے کہ فلاں خاں صاحب تشریف لائے ہیں.اسے پتہ بھی نہیں کہ سات آٹھ پشت قبل اس کے بزرگوں نے اپنے آپ کو تنوروں میں پھینک دیا تھا.وہ آگ میں کودے اور انہوں نے اپنی قوم کو بلند کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے آسمان پر کہا ان لوگوں نے اپنے آپ کو ہلاک کیا ہے تا ان کی قوم کو عزت نصیب ہو اس لئے ہماری طرف سے یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان کی نسل کو عزت دی جائے.بس اب یہ چیز تمہارے اختیار میں ہے کہ تم دین کی خاطر قربانی کر کے اپنی آئندہ نسل کو معزز بنا لو ورنہ آٹھ دس پشتوں کے بعد تمہاری اولا د کو یہ حق نہیں ہو گا کہ اسے وہ

Page 230

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 224 جلد چهارم عزت ملے کیونکہ تمہارے لئے اب موقع تھا کہ تم کوئی کام کر جاتے تا تمہاری آئندہ نسل عزت والی ہو جاتی لیکن تم نے اس موقع سے فائدہ نہ اٹھایا.میں معترض کے ساتھ اس حد تک متفق ہوں کہ حرام خور نذرانے کھاتے ہیں لیکن کرتے کچھ نہیں.مگر سوال یہ ہے کہ ان کو نذرانے ملنا یا ان کی حرام خوری کرنا ان کے نکما پن کے بدلہ میں نہیں بلکہ انہیں ان کے باپ دادوں کی قربانی کے نتیجہ میں نذرانے مل رہے ہیں جنہوں نے سچ سچ کام کیا تھا.اس لئے وہ اس عزت میں جو انہیں ملی حق بجانب ہیں.پس تمہارے لئے اب موقع ہے کہ تم قربانی کر کے اپنے آپ کو اور اپنی نسل کو کہیں سے کہیں لے جاؤ.جب وہ دن آئے گا کہ ترازو کے ذریعہ باپ دادوں کے کام کا بدلہ دیا جائے گا تو تم لوگ جو وقف سے بھاگتے ہو تمہاری اولاد کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ معزز قرار دی جائے.اُس دن انہی کی اولا د کو حصہ دیا جائے گا جو اب قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں گے اور یہی لوگ خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز اور مقبول ہوں گے.“ ( الفضل 24 مئی 1962ء) :1 بخاری کتاب الطب باب ما يذكر في الطاعون صفحہ 1012 حدیث 5729 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية.:2 بخارى كتاب المغازى باب غزوه الطائف حدیث 4330 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية.3 آل عمران : 145 صلى الله 4 بخاری کتاب المغازى باب مرض النبی و وفاته صفحه 757 حدیث 4454 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 231

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 225 جلد چهارم اسلام کے ہر حکم اور قرآن مجید کی ہر آیت میں ایک ترتیب، ربط اور توازن موجود ہے.انجینئرنگ کی تعلیم کی روشنی میں دنیا کے معمار اول (اللہ تعالیٰ ) کی قدر کو پہچانو 2 را پریل 1951 ء کو مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ انجینئر نگ کالج لاہور کی طرف سے تعلیم الاسلام کالج کے سٹاف روم میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.انجینئرنگ کا فن اپنی ذات میں روحانیت سے ایک وابستگی رکھتا ہے کیونکہ انجینئر نگ کے تمام علوم ماخوذ ہیں.اُسی صفت سے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی.ہمارے طلباء کو چاہئے کہ جہاں وہ انجینئرنگ کی تعلیم سے دنیوی رنگ میں فائدہ اٹھائیں وہاں اس حقیقت کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں کہ جب دنیا کی ہر چیز میں ایک ترتیب اور توازن نظر آتا ہے تو دنیا کے صانع اول یعنی خدا نے ہمیں جو مذہب عطا فرمایا ہے اور جو کتاب دی ہے اس میں یقینا زیادہ بہتر صورت میں ایک ترتیب اور توازن ہو گا.“ سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.مسلمانوں پر زوال اسی وجہ سے آیا ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا کہ اسلامی اصولوں میں اور قرآن مجید میں کوئی تو ازن اور ترتیب نہیں ہے بلکہ یہ بے ربط اور بے جوڑ باتوں کا مجموعہ ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اسلامی احکام کی حکمتوں اور قرآنی آیات کی

Page 232

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 226 جلد چهارم گہرائیوں پر غور و تدبر کرنا چھوڑ دیا.حالانکہ جب معمولی سے معمولی چیز میں ایک توازن اور ایک نسبت موجود ہے تو یہ ہو کس طرح سکتا ہے کہ صانع اول کی طرف سے نازل شدہ کا کتاب میں ترتیب نہ ہو.“ حضور نے قرآن مجید کے اس حکم کا ذکر فرمایا کہ گھروں میں ان کے دروازوں کے ذریعہ داخل ہونا چاہئے 1 اور اس کی لطیف تشریح کرتے ہوئے فرمایا:.اس کا یہی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر اخلاقی، قومی اور ملکی اور مذہبی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ایک راستہ مقرر فرمایا ہے.اگر اس راستے کو اختیار نہ کیا جائے گا تو اس کی مثال ایسی ہی ہو گی جیسے دروازے کی بجائے دیوار پھاند کر گھروں میں داخل ہو جائے.اور یہی وہ اصل ہے جس پر انجینئر نگ کی بنیاد ہے.اور یہ اصل اسلام کے ہر حکم میں بھی کارفرما ہے.پس ہمارے طلباء کو چاہئے کہ وہ انجینئر نگ کی تعلیم کی روشنی میں معمار اول یعنی خدا تعالیٰ کی قدر کو بھی پہچانیں.اگر وہ اس نقطہ نگاہ سے قرآن مجید کا اور اسلام کا مطالعہ کریں گے تو یقیناً ان کا ایمان ترقی کرے گا اور انہیں یہ نظر آ جائے گا کہ جس طرح انجینئر نگ کی بنیاد ڈیزائن پر ہے اسی طرح اسلام کی بھی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے ہر حکم میں ایک ڈیزائن رکھتا ہے.“ تقریر کے شروع میں حضور نے اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا کہ " ہمارے طلباء انجینئرنگ کی طرف جو ایک اہم شعبہ ہے توجہ دے رہے ہیں.“ 1: وَأتُوا البيوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا (البقرة : 190) (الفضل 4 اپریل 1951ء)

Page 233

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 227 جلد چهارم جامعہ نصرت ربوہ کا افتتاح اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو 14 جون 1951ء بروز جمعرات صبح سات بجے حضرت خلیفہ المسح الثانی نے جامعہ نصرت ربوہ کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو تقریر فرمائی وہ حسب ذیل ہے:.زمانہ کے حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا چلا جاتا ہے یہ ایک عام قانون ہے جو دنیا میں جاری ہے.دریا چلتے ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں کے نشیب و فراز کی وجہ سے ان کے بعض حصوں پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ دور جا کر دریا کا رخ بدل جاتا ہے.بعض دفعہ دس دس پندرہ پندرہ ، بیس ہیں ، تمھیں تھیں میل تک دریا رخ بدلتے چلے جاتے ہیں.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ زمانہ بدل جاتا ہے.یہ دونوں قسم کے نظارے ہمیں دنیا میں نظر آتے ہیں.کبھی زمانہ کے بدلنے سے انسان بدلتے ہیں اور کبھی انسانوں کے بدلنے سے زمانہ بدلتا ہے.انسان کمزور ہوتا ہے تو زمانہ کے بدلنے سے وہ بدل جاتا ہے اور جب طاقتور ہوتا ہے تو اُس کے بدلنے سے زمانہ بدل جاتا ہے.کمزور قو میں اپنی حاصل شدہ عظمت اور طاقت کو زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی چلی جاتی ہیں.وہ اپنے ہمسایوں سے بد رسوم کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے بداخلاق کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے سستی اور جہالت کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے جھوٹ اور فریب کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے ظلم اور تعدی

Page 234

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 228 جلد چهارم کو لیتی ہیں اور وہی قوم جو کسی وقت آسمان پر چاند اور ستاروں کی طرح چمک رہی ہوتی ہے نہایت ذلیل اور حقیر ہو کر رہ جاتی ہے.تم اپنے ہی اسلاف کو دیکھو اگر تمہیں اپنے بناؤ اور سنگار سے فرصت ہو کہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہو.مجھے بتایا گیا ہے کہ کالج کی طالبات نے جب مضمونوں کا انتخاب کیا تو ان میں سے اکثر نے تاریخ سے بچنے کی کوشش کی.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی بچہ کو کہیں کہ آؤ ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کا نام بتائیں اور وہ بھاگے.تاریخ کیا ہے؟ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارا باپ کون تھا، تمہارا دا دا کون تھا، تمہاری ماں کون تھی ، تمہاری نانی کون تھی.تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد کیا تھے اور اب تم کیا ہو.تاریخ سے کسی شخص کا بھا گنا یا اس مضمون کو بوجھل سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو.حالانکہ اگر دنیوی لحاظ سے کوئی مضمون ایسا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں لڑنا چاہئے تو وہ تاریخ ہی ہے.تاریخ سے بھاگنے کے معنی ہوتے ہیں طبیعت میں مردہ دلی ہے.جیسے کسی کمزور آدمی کو زخم لگ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے نہ دکھاؤ میں نہیں دیکھتا میرا دل ڈرتا ہے.تاریخ سے بھاگنے والی قوم وہی ہوتی ہے جو ڈرپوک ہوتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر میرے ماں باپ کی تاریخ میرے سامنے آئی اور اس میں میرا بھیانک چہرہ مجھے نظر آیا اور مجھے پتہ لگا کہ میں کون ہوں تو میرا دل برداشت نہیں کرے گا.چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس آئینہ میں میری شکل مجھے نظر آئے گی اس لئے وہ اپنی شکل کے خیال اور تصور سے کہ وہ کتنی بدصورت ہوگی اسے دیکھنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے.یہ بات فطرت انسانی میں داخل ہے کہ وہ اپنے آباؤ و اجداد اور اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اپنی شکل کا دیکھنا چاہتا ہے.کئی ماں باپ جن کے ہاں کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے بدصورت بچے پیدا ہو جاتے ہیں اُن سے اُن کی مائیں بھی نفرت کرنے لگتی ہیں اور وہ بدصورت بچے اپنے دوسرے بھائیوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں اس خیال سے کہ یہ ہم سے اچھے ہیں.اسی طرح جب تاریخ میں انسان اپنے آباء کو دیکھتا ہے کہ انہوں نے یہ یہ

Page 235

زریں ہدایات (برائے طلباء) 229 جلد چهارم کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور اُن کی یہ شان تھی اور اس کے مقابلہ میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور پھر وہ اس چلن اور طریق کو دیکھتا ہے جو اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہوا ہے تو دیانتداری کے ساتھ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ میری غفلت اور میری سهل انگاری اور میری اپنے فرائض سے کوتاہی اور میری عیش و آرام کی زندگی مجھ کو مجرم بنانے کے لئے کافی ہے.اسے تاریخ کے اس آئینہ میں اپنا گھناؤنا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ جب میں پرانے حالات پڑھوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ لوگ جو میرے آباء تھے ان کاموں سے نفرت کیا کرتے تھے تو مجھے بھی اپنے اندر تغیر پیدا کرنا پڑے گا.پس وہ اپنے بدصورت چہرہ کو ان کے خوبصورت چہرہ سے ملانے سے گھبراتا ہے اور اس لئے تاریخ سے دور بھاگتا ہے.جب آجکل کا مسلمان تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کے باپ اور ماں ہمالیہ سے بھی اونچے قدوں والے تھے، آسمان بھی ان کے دبدبہ سے کانپتا تھا اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی تصویر کا خیال کرتا ہے کہ بالکل ایک بالشتیہ نظر آتی ہے اور اس کی مثال ایک کا رک جتنی بھی نہیں جو دریا میں بہتا چلا جاتا ہے.سمندر کی پہریں اٹھتی ہیں اور اُس کے آباؤ اجداد کی مضبوط چٹان سے ٹکراتی ہیں اور وہ بلند و بالا ہونے والی لہریں جن کو دیکھ کر بسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دنیا کو بہا کر لے جائیں گی وہ اُس کے آباؤ اجداد کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں.ان کا پانی جھاگ بن کر رہ جاتا ہے اور اس چٹان کے قدموں میں وہ جھاگ پھیل رہی ہوتی ہے.ہوا میں بلبلے پھٹ پھٹ کر غائب ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کو نظر آتا ہے کہ اس کے آباؤ اجداد کی کیا شان تھی.پھر وہ اپنی طرف دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ندی جس کی حیثیت ہی نہیں ہوتی اس میں وہ ایک کارک کی طرح اِدھر اُدھر پھر رہا ہے.کبھی وہ کسی چٹان سے ٹکراتا ہے اور کبھی کسی سے.کبھی دائیں طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بائیں طرف کبھی وہ خس و خاشاک کے ڈھیروں میں چھپ جاتا ہے اور کبھی گندی جھاگ میں.اور ہر شخص اس کی لرزتی اور کپکپاتی ہوئی حالت کو دیکھ کر اس سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیا ہی ذلیل چیز

Page 236

زریں ہدایات (برائے طلباء) 230 جلد چهارم ہے.تاریخ سے بھاگنے والا وہی بزدل ہوتا ہے جس میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ حقائق کے آئینہ میں اپنے باپ دادا کی شکل کے سامنے اپنی شکل رکھ سکے.بہادر اور ہمت والا انسان خود جاتا ہے اور اس آئینہ کو اٹھاتا ہے.وہ اس آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ہاں میرے آباؤ اجداد اگر چٹان تھے تو میں بھی چٹان بن کر رہوں گا.وہ اگر طوفان تھے تو میں ان سے بھی اونچا طوفان بنوں گا.وہ اگر سمندر کی لہروں کی طرح اٹھتے تھے تو میں ان سے بھی اونچا اٹھوں گا.تم جانتی ہو کہ وہ لڑکی جس کے ہے.نمبر کلاس میں زیادہ ہوتے ہیں وہ اپنے نمبروں کو چھپاتی نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتی.نمبروں کا بتانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنا منہ دکھانا.وہ اپنا اندرونہ دکھاتی ہے.اور جس کے نمبر کم ہوتے ہیں وہ ان کو چھپایا کرتی ہے.پس تاریخ کے پڑھنے سے گریز در حقیقت بزدلی کی علامت ہے.در حقیقت یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اپنے مکروہ چہرے کا پتہ ہے اور اس شخص کو اپنے آباؤ اجداد کے حسین چہرے کا بھی پتہ ہے مگر ان دونوں باتوں کے معلوم ہونے کے بعد وہ یہ جرات نہیں رکھتا کہ ایک آئینہ میں دونوں کی اکٹھی شکل دیکھ سکے.یہاں تک تو میں نے صرف عام پیرا یہ میں اس مضمون کی اہمیت بیان کی ہے اگر مذہبی پہلو لے لو تو تاریخ ہی ایک مسلمان کو بتا سکتی ہے کہ کس طرح ایک ریگستان سے ایک انسان اٹھا اور اس نے اپنی مقناطیسی قوت سے اپنے اردگرد کے فولادی ذروں کو جمع کرنا شروع کیا.پھر تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک علاقہ میں پھیل گیا.پھر ملک میں پھیل گیا.پھر زمین کے تمام گوشوں میں چپے چپے پر اُس کی جماعت پھیل گئی.قرآن کریم میں مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ان کا نام بَرَرَةٍ 1 اور سَفَرَةٍ 2 رکھا ہے.یعنی ان کے قدم گھر میں سکتے ہی نہیں تھے دنیا کے گوشوں گوشوں میں پھیلتے چلے جاتے تھے.اور جہاں جاتے تھے اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ درجہ کے چلن کی خوشبو پھیلاتے جاتے تھے.لیکن کجاوہ پھیلنے والا مسلمان اور گجا آج کا سمٹنے والا مسلمان کجا وہ زمانہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ

Page 237

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 231 جلد چهارم میں فرمایا کہ مردم شماری کرو اور دیکھو کہ اب کتنے مسلمان ہو چکے ہیں.مردم شماری کی گئی اور مسلمان مردوں ، عورتوں اور بچوں کی تعداد سات سو نکلی 3 تم جانتی ہو کہ ربوہ کی آبادی اس وقت اڑھائی ہزار کے قریب ہے گویا تمہاری ربوہ کی آبادی کا 1/4 حصہ تھے.اور یہ وہ مردم شماری تھی جو ساری دنیا کے مسلمانوں کی تھی کیونکہ اُس وقت مدینہ سے باہر مسلمان بہت تھوڑے تھے سوائے حبشہ کے کہ وہاں کوئی پچاس کے قریب مسلمان ہوں گے یا مکہ میں کچھ مسلمان تھے جو ڈر کے مارے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے اور کھلے بندوں اسلام میں شامل نہیں تھے.غرض مردم شماری کی گئی اور سات سو کی آبادی نکلی - و صحابہ جن کے سپر دیہ کام تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مسلمانوں کی آبادی سات سو نکلی ہے.پھر انہوں نے کہا یا رَسُول الله ! آپ نے مردم شماری کا حکم کیوں دیا تھا؟ کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ مسلمان تھوڑے ہیں؟ 03- يَا رَسُول اللہ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں اب ہمیں دنیا سے کون مٹا سکتا ہے.4 آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان ساٹھ کروڑ ہیں لیکن ان ساٹھ کروڑ کا دل اتنا مضبوط نہیں جتنا اُن سات سو کا دل مضبوط تھا.آخر یہ تفاوت جو دلوں کے اندر ہے تمہیں اس کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے بغیر تاریخ کے مطالعہ کے.ایک ایک مسلمان نکلتا تھا اور دنیا کی طاقتیں اُس کے سامنے جھک جاتی تھیں.وہ نقال نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات میں اپنے آپ کو آدم سمجھتا تھا.وہ یقین رکھتا تھا کہ دنیا میری نقل کرے گی.میرا کام نہیں کہ میں اس کی نقل کروں.تم اگر تاریخ پڑھو تو تمہیں پتہ لگے گا کہ آج تم ہر بات میں یورپ کی نقل کر رہی ہو.تم بعض دفعہ کہہ دیتی ہو فلاں تصویر میں میں نے ایسے بال دیکھے تھے اُف جب تک میں بھی ایسے بال نہ بنالوں مجھے چین نہیں آئے گا.فلاں پاؤڈر نکلا ہے جب تک میں اُسے خرید نہ لوں مجھے قرار نہیں آئے گا.اس کے معنی یہ ہیں کہ تم سمجھتی ہو کہ تمہارا دشمن بڑا ہے اور تم چھوٹی ہو.اگر تم بڑی ہو تو اُس کا کام ہے کہ وہ تمہاری نقل کرے.اور اگر وہ بڑا ہے تو پھر تمہارا کام ہے کہ تم اُس کی نقل کرو.

Page 238

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 232 جلد چهارم حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی لشکر ایران کے ساتھ ٹکر لے رہا تھا کہ بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ عرب ایک غریب ملک کے رہنے والے بھوکے ننگے لوگ ہیں اگر ان کو انعام کے طور پر کچھ روپیہ دے دیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ لوگ واپس چلے جائیں اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں.چنانچہ اُس نے مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کو کہلا بھیجا کہ اپنے چند آدمی میرے پاس بھجوا دیئے جائیں میں اُن سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں.جب وہ ملنے کے لئے آئے تو اُس وقت بادشاہ بھی اپنے دار الخلافہ سے نکل کر کچھ دور آگے آیا ہو ا تھا اور عیش اور یتیم کا ہر قسم کا سامان اس کے ساتھ تھا.نہایت قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے ، نہایت اعلیٰ درجے کے کاؤچ اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا کہ مسلمان سپاہی آپہنچے.سپاہیوں کے پاؤں میں آدھے چھلے ہوئے چمڑے کی جو تیاں تھیں جو مٹی سے اٹی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے.جس وقت وہ دروازے پر پہنچے چوبدار نے آواز دی کہ بادشاہ سلامت کی حضوری میں تم حاضر ہوتے ہو اپنے آپ کو ٹھیک کرو.پھر اس نے مسلمان افسر سے کہا تمہیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں.تم نے اپنے ہاتھوں میں نیزے اُٹھائے ہوئے ہیں ان نیزوں سمیت قالینوں پر سے گز رو گے تو ان کو نقصان پہنچے گا.اس مسلمان افسر نے کہا تمہارے بادشاہ نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے ہیں.اگر ملنے کی احتیاج ہے تو اُس کو ہے ہمیں نہیں.اسے اگر اپنے قالینوں کا خیال ہے تو اسے کہ دو کہ وہ اپنے قالین اٹھا لے.ہم جو تیاں اتارنے یا نیزے اپنے ہاتھ سے رکھنے کے لئے تیار نہیں.اس نے بہتیرا پروٹسٹ کیا اور کہا کہ اندر نہایت قیمتی فرش ہے جو تیاں اتار دو اور نیزے رکھ دو مگر انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا.اس نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے.غرض اسی حالت میں وہ اندر پہنچے.وہاں تو بڑے سے بڑا جرنیل اور وزیر بھی زمین بوس ہوتا اور بادشاہ کے سامنے سجدہ کرتا تھا مگر یہ تنی ہوئی چھاتیوں اور اٹھی ہوئی گردنوں کے ساتھ وہاں پہنچے.بادشاہ کو سلام کیا اور پھر اُس سے پوچھا کہ بادشاہ ! تم.

Page 239

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 233 جلد چهارم نے ہمیں کیوں بلایا ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ تمہارا ملک نہایت جاہل، پست ، در ماندہ اور مالی تنگی کا شکار ہے اور پھر عرب وہ قوم ہے کہ جو گوہ تک ( ایک ادنی جانور ہے) کھاتی ہے وہ عمدہ کھانوں سے نا آشنا ہے، عمدہ لباس سے نا آشنا ہے اور بھوک اور افلاس نے اسے پریشان کر رکھا ہے.معلوم ہوتا ہے اس تنگی اور قحط کی وجہ سے تمہارے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں میں جائیں اور ان کو لوٹیں.میں تمہارے سامنے تمہاری اس تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ تمہارا جتنا لشکر ہے اس میں سے ہر سپاہی کو میں ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں گا.تم یہ روپیہ لو اور اپنے ملک میں واپس چلے جاؤ.مسلمان کمانڈر نے کہا اے بادشاہ! یہ جو تم کہتے ہو کہ ہماری قوم گوہ تک کھانے والی تھی اور ہم غربت اور ناداری میں اپنے ایام بسر کر رہے تھے یہ بالکل درست ہے.ایسا ہی تھا.مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا.خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا اور اُس نے ہم کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور ہم نے اُسے قبول کر لیا.تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم روپوؤں کے لئے نکلے ہیں؟ مگر ہم روپوؤں کے لئے نہیں نکلے.تمہاری قوم نے ہم سے جنگ شروع کی ہے اور اب ہماری تلواریں تبھی نیام میں جائیں گی جب یا تو کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ گے اور یا پھر مسلمانوں کے باجگزار ہو جاؤ گے اور ہمیں جزیہ ادا کرو گے.ایران کا بادشاہ جو اپنے آپ کو نصف دنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس جواب کو برداشت نہ کر سکا اُسے غصہ آیا اُس نے چوبدار سے کہا جاؤ اور ایک بورے میں مٹی ڈال کر لے آؤ.وہ بوری میں مٹی ڈال کر لے آیا تو اس نے کہا کہ یہ بوری اس مسلمان سردار کے سر پر رکھ دو اور اسے کہہ دو کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں اور سوائے اس مٹی کے تمہیں کچھ اور دینے کے لئے تیار نہیں.وہ مسلمان افسر جس کی گردن ایران کے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکی تھی اس موقع پر اُس نے فوراً اپنی گردن جھکا دی، پیٹھ پر بوری رکھی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آجاؤ بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے سپرد کر دی ہے.مشرک تو وہی ہوتا ہے بادشاہ نے یہ سنا تو اس کے پاؤں تلے سے

Page 240

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 234 جلد چهارم زمین نکل گئی اور اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کو جلدی پکڑ و مگر وہ اُس وقت تک دور نکل چکے تھے ؟ انہوں نے کہا اب یہ پکڑی جانے والی مخلوق نہیں ہے.پھر وہی بادشاہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں وہ میدان چھوڑ کر بھاگا.پھر ملک چھوڑ کر بھاگا اور شمالی پہاڑوں میں جا کر پناہ گزیں ہو گیا اور اس کے قلعے اور محلات اور خزانے سارے کے سارے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے.ابو ہریرہ وہ غریب ابو ہریرہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سارا دن بیٹھے رہنے کے خیال سے کوئی گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتا تھا اور جسے بعض دفعہ کئی کئی دن کے فاقے ہو جایا کرتے تھے ایک دفعہ وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کھانسی اٹھی.انہوں نے اپنی جیب میں سے رومال نکالا اور اُس میں بلغم تھو کا اور پھر کہا بخ بخ ابو ہریرہ ! یعنی واہ واہ ابو ہریرہ ! کبھی تو فاقوں سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور آج تو کسری کے اس رومال میں تھوک رہا ہے جسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنی شان دکھانے کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا.لوگوں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا میں آخری زمانہ میں مسلمان ہو ا تھا میں نے اس خیال سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لوگوں نے بہت کچھ سن لی ہیں اور اب میرے لئے بہت تھوڑ ازمانہ باقی ہے یہ عہد کر لیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ سے نہیں ہلوں گا سارا دن مسجد میں ہی رہوں گا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی باہر تشریف لائیں میں آپ کی باتیں سن سکوں.کچھ دن تو میرا بھائی مجھے روٹی پہنچا تا رہا مگر آخر اُس نے روٹی پہنچانی چھوڑ دی اور مجھے فاقے آنے لگے.بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو اُس کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے.جب میں بے ہوش ہوتا تو میرے سر پر بھی وہ جوتیاں مارنا شروع کر دیتے حالانکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا.

Page 241

زریں ہدایات (برائے طلباء) 235 جلد چهارم اب گجا وہ حالت اور گجا یہ حالت کہ ایران کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور اموال تقسیم ہوئے تو وہ رومال جو شاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ میرے حصہ میں آیا.مگر ایران کا بادشاہ تو آرائش کے لئے اس رو مال کو اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور میرے نزدیک اس رومال کی صرف اتنی قیمت ہے کہ میں اس میں اپنا بلغم تھوک رہا ہوں 6 سوائے تاریخ کے کون سی چیز ہے جو تمہیں اپنے آباء کے ان حالات سے واقف کر سکتی ہے اور تمہیں بتا سکتی ہے کہ تم کیا تھے اور اب کیا ہو.کسی ملک میں مسلمان عورت نکل جاتی تھی تو لوگوں کی مجال تک نہیں ہوتی تھی کہ وہ اُس کی طرف اپنی آنکھ اٹھا سکیں.آجکل ربوہ کی گلیوں میں احمدی عورتیں پھرتی ہیں تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ باہر کا کوئی او باش آدمی یہاں آیا ہوا ہو اور وہ کوئی شرارت کر دے.لیکن ایک وہ زمانہ گزرا ہے کہ مسلمان عورتیں دنیا کے گوشے گوشے میں جاتیں، اکیلے اور تن تنہا جاتیں اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ سکے.اور اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا تو وہ اُس کا ایسا خمیازہ بھگتا کہ نسلوں نسل تک اُس کی اولاد ناک رگڑتی چلی جاتی.مسلمان اپنے ابتدائی دور میں ہی دنیا میں پھیل گئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ابھی اسی توے سال ہی گزرے تھے کہ وہ چین اور ملایا اور سیلون اور ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے.ادھر وہ افریقہ کے مغربی ساحلوں تک چلے گئے تھے اور ان کی لہریں یورپ کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھیں.اس ابتدائی دور میں مسلمانوں کا ایک قافلہ جس کو سیلون کے بدھ بادشاہ نے خلیفہ وقت کے لئے کچھ تحائف بھی دیئے تھے سیلون سے روانہ ہوا اور اسے سندھ میں لوٹ لیا گیا.سندھ میں اُن دنوں راجہ داہر کی حکومت تھی جب اس قافلہ کے لوٹے جانے کی خبر مشہور ہوئی تو گورنر عراق کا والی مکر ان کو حکم پہنچا کہ ہمارے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ جوسیلون سے چلا تھا وہ سندھ میں لوٹا گیا ہے اور مسلمان مرد اور عورتیں قید ہیں.تم اس واقعہ کی تحقیق کر کے ہمیں اطلاع دو.

Page 242

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 236 جلد چهارم والی مکران نے راجہ داہر سے دریافت کیا تو اُس نے اس واقعہ کا انکار کر دیا.مسلمان چونکه خودر است باز تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سچ بولتے ہیں.جب راجہ داہر نے انکار کر دیا تو انہوں نے بھی مان لیا کہ یہ بات سچ ہوگی.کچھ عرصہ کے بعد ایک اور قافلہ انہوں نے اسی طرح لوٹا اور ان میں سے بھی کچھ عورتیں انہوں نے قید کیں.ان عورتوں میں سے ایک عورت نے کسی طرح ایک مسلمان کو جو قید نہیں ہوا تھا یا قید ہونے کے بعد کسی طرح رہا ہو گیا تھا کہا کہ میرا پیغام مسلمان قوم کو پہنچا دو کہ ہم یہاں قید ہیں اور مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بچائے.اُس وقت خلیفہ بنوامیہ افریقہ پر چڑھائی کی تجویزیں کر رہا تھا اور سپین فتح کرنے کی سکیم بن رہی تھی اور تمام علاقوں میں یہ احکام جاری ہو چکے تھے کہ جتنی فوج میسر آسکے وہ افریقہ کے لئے بھجوا دی جائے.اُس وقت وہ پیغا مبر پہنچا اور اُس نے عراق کے گورنر کو جو حجاج نامی تھا اور جو سخت بد نام تھا یہ پیغام پہنچایا.اُس میں بدنامی کی بھی باتیں ہوں گی مگر اس جیسا نڈر، بہادر اور اسلام کے لئے قربانی کرنے والا آدمی بھی اُس زمانہ میں ہمیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے.آنے والے نے حجاج سے کہا کہ میں سندھ سے آیا ہوں.وہاں یکے بعد دیگرے دو مسلمان قافلے لوٹے گئے ہیں اور کئی مسلمان قید ہیں.راجہ داہر نے گورنر مکران سے یہ بالکل جھوٹ کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا.حجاج نے کہا کہ میں کس طرح مان لوں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو درست کہہ رہے ہو؟ ہر بات کی دلیل ہونی چاہئے بغیر کسی دلیل کے میں تمہاری بات نہیں مان سکتا.اُس نے کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں واقعہ یہی ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں.حجاج نے کہا کہ اول تو تمہاری بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم نے گورنر مگر ان کو لکھا اور اُس نے جو جواب دیا وہ تمہارے اس بیان کے خلاف ہے.دوسرے تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے خلیفہ وقت کا حکم ہے کہ جتنی فوج میسر ہوا فریقہ بھیج دو.پس اس وقت ہم اپنی فوجوں کو کسی اور طرف نہیں بھیج سکتے.غرض اس نے ہر طرح سمجھایا مگر حجاج پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اُس نے کہا کہ میرے حالات اس قسم کے نہیں کہ میں اس

Page 243

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 237 جلد چهارم طرف توجہ کر سکوں.جب وہ ہر طرح دلائل دے کر تھک گیا تو اُس نے کہا میرے پاس کی آپ کے لئے اور خلیفہ وقت کے لئے ایک پیغام بھی ہے.حجاج نے کہا وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ جب میں چلا ہوں تو ایک مسلمان عورت جو قید ہونے کے خطرہ میں تھی اور اس وقت تک قید ہو چکی ہوگی اُس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ اسلامی خلیفہ اور عراق کے گورنر کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ مسلمان عورتیں ظالم ہندوؤں کے ہاتھ میں قید ہیں اور ان کی عزت اور ان کا ناموس محفوظ نہیں ہے ہم مسلمان قوم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرے اور ہمیں یہاں سے بچانے کی کوشش کرے.کوئی ملک نہیں ، کوئی قوم نہیں دو یا تین عورتیں ہیں اور میں یا چھپیں مرد ہیں جن کے بچانے کے لئے بعض دفعہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس سپا ہی موجود نہیں.یہ ایک معمولی واقعہ ہے.اس کا حجاج پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہی حجاج جو یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس فوج نہیں ، ہم یورپ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں وہ اس پیغام کو سن کر گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور جب اُس آنے والے آدمی نے پوچھا کہ اب آپ مجھے کیا جواب دیتے ہیں؟ تو حجاج نے کہا کہ اب کہنے اور سننے کا کوئی وقت باقی نہیں اب میرے لئے کوئی اور فیصلہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اب اس کا جواب ہندوستان کی فوج کو ہی دیا جائے گا.چنانچہ اُس نے بادشاہ کو لکھا اُس نے بھی یہی کہا کہ ٹھیک فیصلہ ہے اب ہمارے لئے غور کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں.اور اس فیصلے کے مطابق مسلمان فوج سندھ کے لئے روانہ کر دی گئی.درمیان میں کوئی ہزار میل کا فاصلہ ہے یا اس سے بھی زیادہ.اور اس زمانے میں موٹروں کے ساتھ بھی اس فاصلے کو آسانی سے طے نہیں کیا جا سکتا لیکن بادشاہ نے حکم دیا کہ اب مسلمانوں کی عزت اور ناموس کا سوال ہے بغیر کسی التوا کے جلد سے جلد منزل مقصود پر مسلمانوں کا پہنچنا ضروری ہے.چنانچہ مسلمان درمیان میں کہیں ٹھہرے نہیں اُنہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر رات اور دن سفر کیا اور بارھویں دن اس فاصلے کو جو آج ریلوں اور موٹروں کے ذریعہ بھی اتنے قلیل عرصہ میں طے نہیں کیا جا سکتا اپنی ان تھک محنت اور کوشش

Page 244

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 238 جلد چهارم کے ساتھ طے کرتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گئے.اب تو تمہارا اپنا وجود ہی بتا رہا ہے کہ اس مہم کا نتیجہ کیا ہوا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آٹھ ہزار سپاہی جو بصرہ سے چلا تھا اس آٹھ ہزار سپاہی نے دو مہینہ کے اندر اندر سندھ کو مسلمان اور اس کے گردو نواح تک کو فتح کر لیا اور وہ قیدی بچائے گئے ، عورتیں بچالی گئیں اور سندھ کا ملک جس میں راجہ داہر کی حکومت تھی اسے سارے کا سارا فتح کر لیا گیا.اور پھر مسلمانوں کا لشکر ملتان کی طرف بڑھا مگر بدقسمتی سے بادشاہ کی وفات کے بعد اُس کا بھائی تخت نشین ہوا.اُسے ان لڑائیوں میں بادشاہ سے بھی اختلاف تھا اور افسروں سے بھی اختلاف تھا.جب اپنے بھائی کی وفات کے بعد وہ حکومت کے تخت پر بیٹھا تو اُس نے محمد بن قاسم کو جو ایک فائح جرنیل تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ حملہ کر کے بنگال تک چلا جائے ، معزول کر کے واپس آنے کا حکم دے دیا.اور جب وہ واپس آیا تو اسے قتل کروا دیا ور نہ ہندوستان کا نقشہ آج بالکل اور ہوتا.آج صرف یہاں پاکستان نہ ہوتا بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان ہوتا.جن ملکوں کو عربوں نے فتح کیا ہے اُن میں اسلام اس طرح داخل ہوا ہے کہ کوئی شخص اسے قبول کرنے سے بچا نہیں.غیر قو میں جو ہندوستان میں آئی ہیں ان کے اندر تبلیغی جوش نہیں تھا اس لئے انہوں نے چند علاقوں کو فتح کیا ہے.وہاں کے رہنے والوں میں اسلام کی دشمنی بھی تھی ، اسلامی تعلیم سے منافرت بھی تھی اور پھر ان فاتح اقوام کا سلوک بھی زیادہ اچھا نہیں تھا لیکن عرب تو اس طرح بچھ جاتا تھا کہ وہ جس ملک میں جاتا اپنے آپ کو حاکم نہیں سمجھتا تھا بلکہ لوگوں کا خادم سمجھتا تھا.نتیجہ یہ ہوتا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی سارے کا سارا ملک مسلمان ہو جاتا.پس اگر اُس زمانہ میں ہندوستان کو فتح کر لیا جاتا تو یقیناً آج ہندوستان ، ایران اور مصر کی طرح ایک مسلمان ملک ہوتا کیونکہ وہ لوگ عربوں کا نمونہ دیکھتے تھے.اُن کی خدمت اور حسن سلوک کو دیکھتے تھے، اُن کی دیانت اور راست بازی کو دیکھتے تھے اور ان اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے.ان کے سامنے عرب اور غیر عرب کا سوال نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف سچائی کا سوال ہوتا تھا جس کے بعد بغض اور کینے

Page 245

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 239 جلد چهارم آپ ہی آپ مٹ جاتے ہیں.تمہارے باپ دادا کے یہ حالات سوائے تاریخ کے تمہیں اور کس ذریعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں.یہی چیز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے ورنہ محض دو دو نے چار سے یعنی دو کو دو سے ضرب دی جائے تو چار حاصل ہوتے ہیں تمہیں کیا نفع حاصل ہو سکتا ہے.لیکن اگر تم تاریخ پڑھو اور تم ذرا بھی عقل رکھتی ہو، ذرا بھی جستجو کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہو تو تمہاری زندگی ضائع نہیں ہوسکتی.مضمون تو میں نے اور شروع کیا تھا مگر میں رو میں بہ کر کہیں کا کہیں چلا گیا اور میں کہہ یہ رہا تھا کہ کبھی زمانہ بدلتا ہے اور لوگ اس کے ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ زمانوں کو بدل دیتے ہیں.مسلمان وہ قوم تھی جو زمانہ کے ساتھ نہیں بدلی بلکہ زمانہ کو اس نے اپنے ساتھ بدل دیا.وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوگوں کو اپنے اخلاق کی نقل پر مجبور کر دیا.اپنے لباس کی نقل پر مجبور کر دیا.اپنے تمدن کی نقل پر مجبور کر دیا اور وہ دنیا کے استاد اور راہنما تسلیم کئے گئے.آج مسلمان عورت یورپ کی بے پردگی کی نقل کر رہی ہے حالانکہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عورتوں کے پردہ کو دیکھ کر یورپ کی عورتوں نے پردہ کیا.چنانچہ نوں (NUNS) کو دیکھ لو.یورپ ایک بے پر د ملک تھا اور بے پردگی ان میں فیشن سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عورت پردہ کرتی ہے تو بہت حد تک انہوں نے بھی پردہ لے لیا.چنانچہ ننز (NUNS) میں گو پورا پردہ نہ ہو لیکن ان کی نقاب بھی ہوتی ہے، ان کی پیشانی بھی ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے جسم پر کوٹ بھی ہوتا ہے جس سے ان کے تمام اعضاء ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور گوہم اسے پورا اسلامی پردہ نہ کہہ سکیں مگر نوے فیصدی پردہ ان میں ضرور پایا جاتا ہے.حالانکہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام کے یورپ میں جانے سے پہلے نگی پھرتی تھی اور جیسے بندریا کو ایک ٹھگھری پہنا دی جاتی ہے اسی طرح انہوں نے ایک گھگھر کی پہنی ہوئی ہوتی تھی.چنانچہ یورپ کی پرانی تصویریں دیکھ لو صورتوں کے بازو، ٹانگیں اور سینہ وغیر و سبک بنگا ہوتا تھا.مگر جب مسلمان عورتوں کو انہوں نے پردہ کرتے دیکھا تو انہوں نے بھی پردہ

Page 246

زریں ہدایات (برائے طلباء) 240 جلد چهارم کے بہت سے حصوں کو لے لیا.مگر یورپ اب پھر اُسی پہلے زمانہ کی طرف جا رہا ہے اور مسلمان عورت بھی پردہ اتار کر خوش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کی نقل کر رہی ہے.آج کی مسلمان عورت یہ کہتی ہے کہ ہم زمانہ کے ساتھ چلیں اور پرانی مسلمان عورت یہ کہتی تھی کہ زمانہ میرے ساتھ ہے.یہ اپنی غلامی کا اقرار کرتی ہے اور وہ اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی تھی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں دوسروں کی نقل کروں.لوگوں کا کام ہے کہ وہ میری نقل کریں.فرض میں کہی ہو رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں.ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں.پس میں اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارا زور مذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں اور شاید جماعت میں میں اکیلا ہی تھا جو اس بات پر زور دیتا تھا اور نہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا ان سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی جائے تا کہ بیرون جات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریزی تعلیم حاصل کریں.اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے کی اجازت دی جائے.مگر میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن آج میں ہی زنانہ کالج کا افتتاح کر رہا ہوں.یہ تیسری قسم کی چیز ہے.نہ میں زمانہ کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خدا تعالیٰ نے زمانہ میں ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کر سکتے ہیں.یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اس کو جانے دو لیکن یہ کتنا خوش گوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا.جائے گا.پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بدلے.زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہئے وہ ابھی نہیں ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ

Page 247

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 241 جلد چهارم کو سمو دیا ہے اور اسے کچھ ہمارے مطابق کر دیا ہے اور کچھ ابھی ہمارے مطابق نہیں.پس ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج میں بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کلاسز کو اڑا دیا جائے اور اسی کالج میں لڑکیوں کو زائد دینی تعلیم دی جائے تاکہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معلومات حاصل کر لیں اور اسلام پر ان کی نظر وسیع ہو جائے.عیسائی حکومت جو تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی.پس میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کر دینا چاہئے تا کہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتیں ہیں اُن کی برابری کر سکیں اور ایک مقام پر ان کے ساتھ بیٹھ سکیں.گو ہونا تو یہ چاہئے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد تمہاری دماغی کیفیت اور تمہاری قلبی کیفیت اور تمہاری ذہانت دوسروں سے بہت بالا اور بلند ہو اور جب بھی تم اُن کے پاس بیٹھو وہ یہ محسوس کریں کہ تمہارا علم اور ہے اور ان کا علم اور.تمہارا علم آسمانی ہے اور اُن کا زمینی.اور اگر تم قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.تم انٹرنس (Entrance) پاس ہو لیکن میں انٹرنس میں فیل ہو اتھا بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ میں مڈل پاس بھی نہیں کیونکہ میں مڈل میں بھی فیل ہو ا تھا.در حقیقت قانون کے مطابق میری تعلیم پرائمری تک ختم ہو جانی چاہئے تھی کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے پرائمری کا امتحان بھی پاس نہ کیا تھا مگر چونکہ گھر کا سکول تھا اس لئے اساتذہ مجھے انگلی کلاسوں میں بٹھاتے چلے گئے.پس میں پرائمری پاس بھی نہیں اور تم تو میٹرک کا امتحان پاس کر چکی ہو.پھر ایف اے بندگی اس کے بعد بی اے بندگی اور پھر اِنشَاء الله ایم اے کی کلاسز بھل جائیں گی اور تم ایم اے ہو جاؤ گی.اگر تم یہ سمجھو کہ قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں دنیا کے علوم بالکل بیچ ہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ قرآن کریم میں وہ علوم کیوں پائے جاتے ہیں.پہلے ہمیشہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر عمل پیدا ہوتا ہے.اگر تمہیں یقین ہو کہ قرآن کریم میں وہ علم بھرا ہوا ہے جو دنیا میں نہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ وہ ہے کہاں.اور جب تم

Page 248

زریں ہدایات (برائے طلباء ) تلاش کرو گی تو وہ تمہیں مل جائے گا.242 جلد چهارم قرآن کریم خود بتاتا ہے کہ وہ ایک بند خزانہ ہے.اس کے الفاظ ہر ایک کے لئے کھلے ہیں.اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں مگر اُس کے لئے کھلی ہیں جو پہلے ایمان لاتا ہے.وہ فرماتا ہے لا يَمَسُّة إلا المطهرون 7 وہ لوگ جو ہماری برکت اور رحمت سے ممسوح کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہوا ہے.باقی عربی کتا بیں عربی جاننے سے سمجھی جاسکتی ہیں لیکن قرآن ایمان سے سمجھا جا سکتا ہے.اگر تمہیں کامل ایمان حاصل ہو اور پھر تم اس کو دیکھو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی کسی مجلس میں، دنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ عورت سے تم نیچی نہیں ہو سکتیں.وہ تمہیں اس طرح دیکھیں گی جس طرح شاگرد اپنے اساتذہ اور معلمین کو دیکھتے ہیں کیونکہ تمہارے پاس وہ چیز ہو گی جو اُن کے پاس نہیں ہوگی.مگر مصیبت یہ ہے کہ احمدی نوجوان بھی ابھی اس بات پر تو ایمان لے آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا ماً مور بھیجا، وہ اس بات پر بھی ایمان لے آیا ہے کہ احمدیت کچی ہے مگر ابھی اس بات پر اُسے پختہ ایمان حاصل نہیں ہوا کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے.اگر یہ بات حاصل ہو جاتی تو آج ہماری جماعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی.اگر تمہاری جیب میں روپیہ موجود ہو تو کیا ضرورت ہے تم صندوق کھولنے جاتی ہو یا اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہو اور روپیہ نکال لیتی ہو.اگر واقع میں ایک احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے تو وہ کسی اور طرف جائے گا کیوں ؟ وہ قرآن پر غور کرے گا اور وہ کچھ ملے گا جو اُسے دوسری کتابوں میں مل سکتا ہی نہیں.تب اُس کی زندگی دوسروں سے زیادہ اعلیٰ ہوگی اور وہ ان میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہوگا.بے شک بعض مجبوریوں کی وجہ سے اسے بھی یونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑے گا مگر اس کو آخری ڈگری دینے والا کوئی چانسلر نہیں ہوگا، کوئی گورنر نہیں ہوگا، کوئی وزیر نہیں ہوگا بلکہ اسے آخری ڈگری دینے والا خدا ہوگا.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ڈگری کے مقابلہ میں انسانوں کی ڈگری کوئی حقیقت نہیں رکھتی.

Page 249

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 243 جلد چهارم غرض یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہو سکتی ہے اس لئے اسے مشترک کر دیا جائے.اس کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہوسکتی ہیں.کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں.میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتی اور دنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا.اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی محبت ایک دینی چیز ہے.پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے اور دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دنیا کا کام کرے اسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.اور جولڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اُسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا.جو دینی خدمت کی طرف جانے والی ہیں انہیں یا درکھنا چاہئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.دین کے معنی صرف سُبْحَانَ اللهِ ، سُبحَانَ اللہ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور ان کے دکھ درد کو دور کرنے میں حصہ لینے کے بھی ہیں.اور جولڑ کیاں دنیا کا کام کرنا چاہتی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے.پس اُنہیں دنیوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے چلے جانا چاہئے.اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں در حقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اس لئے وہ جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہو گیا.پس یہ مقصد

Page 250

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 244 جلد چهارم ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو.دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھلا کر دنیوی کاموں میں ہی منہمک ہو جائیں مگر چونکہ یہ کالج احمدیہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہوگا کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو.اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھٹ جاتا ہے تو تم اُس مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے.پس ان ہدایات کے ساتھ میں احمد یہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو مد نظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے جو ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے.جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اُس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کو اور احمد بیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذ بہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں ، اخلاق فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں.تمہیں برا تو لگے گا مگر واقعہ یہی ہے کہ عورت بچ بہت کم بولتی ہے.اس کے نزدیک اپنے خاوند کو خوش کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور سچائی کی کم.جب اسے پتہ لگتا ہے کہ فلاں بات کے معلوم ہونے پر میرا خاوند ناراض ہوگا تو بھی اس معاملہ میں جھوٹ ہی بولتی ہے سچائی سے کام نہیں لیتی.کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر میں نے سچ بولا تو میرا خاوند ناراض ہو گا.وہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ میں محکوم نہیں مجھے مرد کے برابر حقوق

Page 251

جلد چهارم زریں ہدایات (برائے طلباء ) 245 " حاصل ہیں اور دوسری طرف وہ مرد سے ڈرتی ہے.اگر اس کا مرد سے ڈرنا ٹھیک ہے تو پھر وہ محکوم ہے اسے دنیا کے کسی فلسفہ اور قانون نے آزاد نہیں کیا.اور اگر وہ مرد کے برابر قومی رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولے اور اسی طرح صداقت پر قائم نہ رہے جس طرح آزاد مرد صداقت پر قائم رہتے ہیں.یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے لیکن تمہاری اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے.تمہیں اپنے دل میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ تم آزاد ہویا نہیں.اگر تم آزاد نہیں ہو تو کہو کہ خدا نے ہم کو غلام بنا دیا ہے اور چھوڑ واس بات کو کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں.اور اگر تم آزاد ہو تو خاوند کے ڈر کے مارے جھوٹ بولنا اور راستی کو چھپانا ایک لغو بات ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی عورت میں کام کرنے کی عادت بہت کم ہے.لجنہ بنی ہوئی ہے اور کئی دفعہ میں اسے اس طرف توجہ بھی دلا چکا ہوں مگر ہنوز روز اول“ والا معاملہ ہے.تمہیں اپنے کالج کے زمانہ میں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ عورت کی زندگی زیادہ سے زیادہ کس طرح مفید بنائی جاسکتی ہے.یہ پرانا دستور جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اس میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عورت صرف کھانے پینے کے کام کے لئے ہی رہ گئی ہے اس کے پاس کوئی وقت ہی نہیں بچتا جس میں وہ دینی یا مذہبی یا قومی کام کر سکے.یورپ کے مد برین نے مل کر اس کا کچھ حل سوچا ہے اور اس وجہ سے اُن کی عورتوں کا بہت سا وقت بیچ جاتا ہے.مثلاً یورپ نے ایک قسم کی روٹی ایجاد کر لی ہے جسے ہمارے ہاں ڈبل روٹی کہتے ہیں.یہ روٹی عورتیں گھر میں نہیں پکاتیں بلکہ بازار سے آتی ہے اور مرد ، عورتیں اور بچے سب اسے استعمال کرتے ہیں.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ بادشاہ کے ہاں کیا دستور ہے آیا اُس کی روٹی بازار سے آتی ہے یا نہیں لیکن یورپ میں ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نوسو نانوے یقیناً بازاری روٹی ہی کھاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا بہت سا وقت بچالیتے ہیں.اس کے علاوہ انہوں نے اس قسم کے کھانا پکانے کے برتن (Cooker) نکالے ہوئے

Page 252

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 246 جلد چهارم ہیں جن سے بہت کم وقت میں سبزی اور گوشت وغیرہ تیار ہو جاتا ہے.پھر انہوں نے اپنی زندگیاں اس طرح ڈھال لی ہیں کہ عام طور پر وہ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں.یورپ میں بالعموم چار کھانے ہوتے ہیں.صبح کا ناشتہ، دو پہر کا کھانا، شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا.عام طور پر درمیانے طبقہ کے لوگ صبح کی چائے گھر پر تیار کر لیتے ہیں.باقی دو پہر کے کھانے اور شام کی چائے وہ ہوٹل میں کھا لیتے ہیں اور شام کا کھانا گھر پر کھاتے ہیں.پھر سرد ملک ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا کئی کئی وقت چلا جاتا ہے.اور پھر کھانے انہوں نے اس قسم کے ایجاد کر لئے ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے.مثلاً کولڈ میٹ ( Cold meat) ہے.روٹی بازار سے منگوالی اور کولڈ میٹ کے ٹکڑے کاٹ کر اس سے روٹی کھا لی.لیکن ہمارے ہاں ہر وقت چولہا جلتا رہتا ہے.جب تم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہو تو تمہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تم اپنی زندگی کس طرح گزارو گی.اگر چولہے کا کام تمہارے ساتھ رہا تو پھر پڑھائی بالکل بے کار چلی جائے گی.تمہیں غور کر کے اپنے ملک میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پڑیں گے کہ چولہے پھونکنے کا شغل بہت کم ہو جائے.اگر یہ شغل جاری رہا تو پڑھائی سب خواب و خیال ہو کر رہ جائے گی.یہی چولہا پھونکنے کا شغل اگر کم سے کم وقت میں محدود کر دیا جائے مثلاً اس کے لئے ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام رکھ لیا جائے تب بھی اور کاموں کے لئے تمہارے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ تم نوکر رکھ لو گی.نوکر رکھنے کا زمانہ اب جا رہا ہے.اب ہر شخص نو کر نہیں رکھ سکے گا بلکہ بہت بڑے بڑے لوگ ہی نوکر رکھ سکیں گے.کیونکہ نوکروں کی تنخواہیں بڑھ رہی ہیں اور ان تنخواہوں کے ادا کرنے کی متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی استطاعت نہیں ہوسکتی.جب میں یورپ میں گیا ہوں تو اُس وقت تک ابھی نوکروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں تب بھی ہم نے جو عورت رکھی ہوئی تھی اُسے ہم 21 شلنگ ہفتہ واریا ساٹھ روپے ماہوار دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانا بھی دیتے تھے.پھر ان کی یہ شرط ہوا ا

Page 253

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 247 جلد چهارم کرتی تھی کہ ہفتہ میں ایک دن کی پوری اور ایک دن کی آدھی چھٹی ہو گی.ڈیڑھ دن تو اس طرح نکل گیا جس میں گھر والوں کو خود کام کرنا پڑتا تھا.آقا بہتیری شور مچاتی رہے کہ کام بہت ہے وہ کہے گی کہ میں نہیں آسکتی کیونکہ میری چھٹی کا دن ہے.پھر جتنا وقت مقرر ہو اس سے زیادہ وہ کام نہیں کرے گی.کتنا بھی کام پڑا ہو وہ فورا چھوڑ کر چلی جائے گی اور کہے گی کہ وقت ہو چکا ہے.دراصل اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ زیادہ کام کریں کیونکہ وہاں ہر طبقہ کے لوگوں کی الگ الگ انجمنیں بنی ہوئی ہیں.کوئی گھر کے نوکروں کی انجمن ہے، کوئی قلیوں کی انجمن ہے، کوئی انجنوں میں کوئلہ ڈالنے والوں کی انجمن ہے، کوئی استادوں کی انجمن ہے.ان انجمنوں کی سفارش کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی.اگر وہ زائد کام کریں تو انجمن کی ممبری سے ان کا نام کٹ جاتا ہے اور پھر انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی.ہمیں وہاں مضمون لکھنے کے لئے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی.دفتر نے ایک عورت اس غرض کے لئے رکھی جو زیکو سلواکیہ کی رہنے والی تھی.اُسے ہمارے مضامین پڑھنے کے بعد سلسلہ سے دلچسپی ہوگئی مگر مشکل یہ تھی کہ اُس کا وقت ختم ہو جاتا اور ہمارا کام ابھی پڑا ہوا ہوتا.بعض دفعہ ہمیں دوسرے ہی دن مضمون کی ضرورت ہوتی اور وہ کہتی کہ میں اب جارہی ہوں کیونکہ وقت ہو گیا ہے.مگر چونکہ اسے ہمارے سلسلہ سے دلچسپی ہو گئی تھی اس لئے وہ کہتی کہ میں زائد وقت کی ملازمت تو نہیں کر سکتی لیکن میں یہ کر سکتی ہوں کہ مضمون ساتھ لے جاؤں اور گھر پر اسے ٹائپ کروں.انجمن والے مجھے گھر کے کام سے نہیں روک سکتے.اُس وقت میرا اختیار ہے کہ میں جو چاہوں کروں.آپ مجھے اُس وقت کی تنخواہ نہ دیں میں آپ کا کام مفت کر دوں گی.اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہیں تو بعد میں انعام کے طور پر دے دیں.اس طرح وہ مشن کا کام کیا کرتی تھی.کیونکہ ڈرتی تھی کہ اگر انہیں پتہ لگا کہ میں چھ گھنٹہ سے زیادہ کہیں کام کرتی ہوں تو وہ مجھے نکال دیں گے اور پھر مجھے کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی.یہ چیزیں ابھی ہمارے ملک میں نہیں آئیں لیکن جب آئیں تو پھر لوگوں کے لئے بہت کچھ مشکلات پیدا

Page 254

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 248 جلد چهارم ہو جائیں گی.اب تو وہ پانچ سات روپیہ میں نو کر رکھ سکتے ہیں لیکن جس دن نو کر کی پچاس روپیہ تنخواہ ہوگئی اور سور و پیہ تمہیں ملا تو تم نوکر کہاں رکھو گی.آجکل یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ ہفتہ وار ہے جس کے معنی آجکل کے پاکستانی روپیہ کی قیمت کے لحاظ سے 120 روپیہ ماہوار کے ہیں اور کھانا بھی الگ ہی دینا پڑتا ہے.اس زمانہ میں اوپر کے طبقہ کی تنخواہیں گر رہی ہیں اور نچلے طبقہ کی تنخواہیں بڑھتی جا رہی ہیں.اس کے معنی یہ ہیں جو شخص سات آٹھ سو روپے ماہوار لیتا ہے وہ بھی ملازم نہیں رکھ سکتا صرف ہزاروں روپیہ ماہوار کمانے والا ملازم رکھ سکتا ہے.ایسی صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دوتین وقتوں میں کھالیا یا ایک وقت ہوٹل میں جا کر کھا لیا اور دوسرے وقت کے کھانے میں کولڈ میٹ استعمال کر لیا.اس طرح بہت سا وقت اور کاموں کے لئے بھی بچ سکتا ہے.پھر ہمارے ہاں ایک یہ بھی نقص ہے کہ بچوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی.بچے دستر خوان پر بیٹھتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ امی! نوکر پانی نہیں لاتی کہ ہم ہاتھ دھوئیں.امی ! نوکر نے برتن صاف نہیں کئے.امریکہ میں ہر بچہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے برتن کو خود دھو کر رکھے اور اگر وہ نہ دھوئے تو اسے سزا ملتی ہے.کیونکہ ماں اکیلی تمام کام نہیں کر سکتی.اگر وہ کرے تو اس کے پاس کوئی وقت ہی نہ بچے.وہ اسی طرح کرتی ہے کہ کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کاموں میں بچوں سے مدد لیتی ہے.غرض یورپ میں اول تو روٹی بازار سے منگوائی جاتی ہے.پھر انہوں نے کولڈ میٹ اور اسی قسم کی چیزیں ایسی بنائی ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہر وقت گرم کھانا کھایا جائے وہ اسی سے روٹی کھا لیتے ہیں.پھر ایک وقت کا پکا ہو ا کھانا دو وقتوں میں کھا لیتے ہیں.اور پھر کام میں بچوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت سا وقت بچا لیا جاتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک لطیفہ پڑھا جو امریکہ کے ایک مشہور رسالہ میں شائع ہو ا تھا اور جس سے ان لوگوں کے کیریکٹر پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے.ایک باپ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ میرے بچوں کو کبھی کبھی یہ تو بھول

Page 255

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 249 جلد چهارم جاتا ہے کہ آج ہم نے سکول جاتا ہے.کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے برتن صاف کرنے ہیں.کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے کپڑے بدلنے ہیں.کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اتنے بجے سونا ہے.لیکن اگر کبھی ہنسی میں میں نے اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کیا ہوا ہوتا ہے اور اُس پر پانچ سال بھی گزر چکے ہوں تو وہ ان کو نہیں بھولتا.اس مثال سے اُن کے کیریکٹر کا پتہ لگتا ہے کہ وقت پر سونا، وقت پر سکول جانا، وقت پر کپڑے بدلنا اور کھانے کے برتن دھونا یہ سب بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور یہ باتیں ان کے فرائض میں شامل کی جاتی ہیں.اس رنگ میں انہوں نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ ان کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے.پھر بچوں کے پالنے کا کام ایسا ہے جس میں بہت کچھ تبدیلی کی ضرورت ہے.یورپ میں تو عورتیں بچے کو پنگھوڑے میں ڈالتی ہیں.چوسنی تیار کر کے اُس کے پاس رکھ دیتی ہیں اور مکان کو تالا لگا کر دفتر میں چلی جاتی ہیں.جب بچے کو بھوک لگتی ہے تو وہ خود چوسنی اٹھا کر منہ سے لگا لیتا ہے.لیکن ہمارے ہاں اگر ماں دو منٹ کے لئے بھی بچے سے الگ ہو تو وہ اتنا شور مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کو الگ نہیں کرتی.اسے ہر وقت اپنے ساتھ چمٹائے پھرتی ہے.بچہ پیدا ہوا اور اسے گود میں ڈال لیا اور پھر تین چار سال تک اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے بلکہ ہمارے ملک میں تو پانچ پانچ سال تک لاڈلے بچوں کو اٹھائے پھرتی ہیں.یہ سارے رواج اس قابل ہیں کہ ان کو بدلا جائے.جب تم ہمت کر کے ان رسوم کو بدلو گی تو آہستہ آہستہ باقی عورتوں میں بھی تمہارے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہو جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ سب سے پہلے روٹی پکانے کے طریق میں تبدیلی کی ضرورت ہے.عربوں میں بھی بازار سے روٹی منگوانے کا طریق ہے.مگر وہاں تنور کی خمیری روٹی ہوتی ہے انگریزی روٹی کا رواج نہیں.جتنے ملکوں میں بازار سے روٹی منگوانے کا طریق رائج ہے ان سب میں خمیری روٹی کھائی جاتی ہے.خمیری روٹی ہمیشہ تازہ ہی پکا کر کھانی

Page 256

زریں ہدایات (برائے طلباء) 250 جلد چهارم پڑتی ہے.بہر حال بغیر اس کے کہ روٹی کا سوال حل ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہوسکتیں اور بغیر اس کے کہ بچہ پالنے کے طریق میں تبدیلی ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں.جب تک بچہ گود میں رہے گا یا ماں بے کا ر رہنے پر مجبور ہوگی یا بیٹی مجبور رہے گی.کام کے لئے فراغت اسے اُسی وقت ہوسکتی ہے جب بچہ کو پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے اور پھر وقت پر اسے دودھ پلا دیا جائے.گود میں اسے نہ اٹھایا جائے.غرض جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا ماں کی زندگی بیکار رہے گی.اور جب تک کھانے کا سوال حل نہیں ہوتا عورت کی زندگی بیکار رہے گی.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روزانہ چار وقت کے کھانے کی بجائے صرف دو وقت کا کھانا رکھ لیا جائے اور ناشتہ کا کوئی سادہ دستور نکالا جائے اور کھانے ایسے تیار کئے جائیں جو کئی کئی وقت کام آسکیں اور روٹی بازار سے منگوالی جائے.لیکن اگر صبح شام کھانا پکانے ، برتن مانجنے کا کام عورت کے ہی سپر در ہے گا تو وہ بالکل بے کار ہو کر رہ جائے گی اور کسی کام کے لئے وقت صرف نہیں کرے گی.پس جہاں دینی مسائل کو مدنظر رکھنا تمہارے لئے ضروری ہے وہاں ان عائلی مشکلات کو حل کرنا بھی تمہارے لئے ضروری ہے.ہندوستان میں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ جب ان کے پاس دولت آگئی تو انہوں نے اس قسم کے مشاغل بے کاری کو اختیار کر لیا.گھروں میں مرد بیٹھے چھالیہ کاٹ رہے ہیں ، گلوریاں بنا رہے ہیں اور عورت بھی کھانے پکانے میں مصروف ہے.کبھی یہ چیز تلی جا رہی ہے، کبھی وہ چیز لی جارہی ہے، کبھی کہتی ہے اب میں چٹنی بنالوں، کبھی کہتی ہے اب میں میٹھا بنا رہی ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تو کھانے تیار کرنے میں مشغول ہو گئے اور حکومت انگریزوں نے سنبھال لی.یہ مصیبت جتنی ہندوستان میں ہے باہر نہیں.عرب میں جا کر دیکھ لو سارا عرب بازار سے روٹی منگواتا ہے.مصر میں جا کر دیکھ لو سارا مصر بازار سے روٹی منگواتا ہے.اور سالن بھی وہ گھر تیار نہیں کرتے بازار سے ہی منگوا لیتے ہیں.وہاں لوبیا کی پھلیاں بڑی کثرت سے ہوتی.

Page 257

زریں ہدایات (برائے طلباء) 251 جلد چهارم ہیں.صبح کے وقت مکہ میں چلے جاؤ ، قاہرہ میں چلے جاؤ بازاروں میں لوبیا کی دیگیں تیار ہوں گی اور ہر شخص اپنا برتن لے جائے گا اور تنور کی روٹیاں اور لوبیا کی پھلیاں لے آئے گا.غریب اسے یونہی کھا لیتے ہیں اور امیر آدمی گھی کا تڑکہ لگا لیتے ہیں.اسی طرح دو پہر کے وقت روٹی بازار سے آتی ہے اور سائن کے طور پر بھی وہ کوئی سستی سی چیز لے لیتے ہیں اور گزارہ کر لیتے ہیں.مگر ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم وہ ماما رکھنا چاہتے ہیں جو ایک سیر آئے میں 80 پھلکے پکا سکتی ہو.بازار والوں نے اپنے کام کو اس طرح ہلکا کر لیا کہ سیر آٹے میں چھ روٹیاں تیار کر لیں اور انگریزوں نے سیر میں چار اور بعض دفعہ دو.اور انہوں نے اپنے کام کو اس طرح بو جھل بنا لیا کہ 80،80 پھلکے بنانے لگے.یہ سب شغل بے کاری ہیں جن کو دور کرنا پڑے گا اور جن کو دور کر کے ہی تم اپنا وقت بچا سکتی ہو.آخر علم کے استعمال کے لئے تمہارے پاس وقت چاہئے.اگر تم نے اپنے آپ کو ایسا بنالیا کہ تمہارے پاس کچھ بھی وقت نہ بچا تو تم نے کرنا کیا ہے.پس پہلا سوال وقت کا ہے.تم کو اپنی زندگی ایسی بنانی پڑے گی کہ تم ان کاموں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کر سکو.پھر تمہارے لئے آسانی ہی آسانی ہے.اور تم اس وقت سے فائدہ اٹھا کر بیسیوں ایسے کام کر سکتی ہو جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری ہیں.پس یہ مسئلہ بھی تمہیں ہی حل کرنا پڑے گا.اور اگر تم حل کر لو تو تمہاری مائیں آپ ہی آپ تمہاری نقل کرنے پر مجبور ہوں گی.ہم نے دیکھا ہے لڑکی پرائمری پاس ہوتی ہے تو جاہل مائیں اپنی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہماری یہ بیٹی پرائمری پاس ہے.بڑی عقل مند اور ہوشیار ہے.اگر مائیں اپنی پرائمری پاس لڑکیوں کی بات رد نہیں کر سکتیں تو تم تو بی.اے ہو گی تمہاری بات وہ کیوں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی.یہ کام جو میں نے بتایا ہے اسے معمولی نہ سمجھو.یہی وہ چیز ہے جس نے ہمارے ملک کی عورت کو بے کا ربنا دیا ہے.دوسری قوموں نے تو اس مسئلہ کو حل کر لیا اور چھ سات ٹے بچا لئے لیکن تمہیں کھانے پکانے کے دھندوں سے ہی فرصت نہیں ملتی.اگر تم بھی چھ سات گھنٹے بچا لوتو یقینا تم

Page 258

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 252 جلد چهارم ان اقوام سے بہت زیادہ ترقی کر سکتی ہو.کیونکہ وہ اگر چھ گھنٹے بچاتی ہیں تو دو گھنٹے قومی کاموں میں صرف کرتی ہیں اور چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کرتی ہیں.لیکن تم اپنا سارا وقت قومی اور مذہبی کاموں میں صرف کرو گی.اس لئے یورپ کی عورت کے مقابلے میں تمہیں اپنے کاموں کے لئے تین گنا وقت مل جائے گا.اور جب وہ چھ گھنٹوں میں سے چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کرے گی اور تمہارا تمام وقت خالص دینی کاموں میں صرف ہوگا اور اس طرح تم ان سے تین گنا کام کرو گی تو تمہاری فتح یقینی ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے یورپ کی تین تین عورتوں کے مقابلے میں تمہاری ایک ایک عورت ہو گی.اس وقت تمہاری سو عورت بھی یورپ کی ایک عورت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ تمہارا علم بھی کم ہے اور تمہارے پاس اپنے قومی کاموں کے لئے وقت بھی نہیں بچتا.لیکن جب تم علم حاصل کر لو گی اور قومی کاموں کے لئے وقت بھی ان سے زیادہ صرف کرو گی تو تمہاری ایک عورت کے مقابلہ میں یورپ کی سو عورت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھے گی.جب تک یورپ کا ماحول ایسا ہے اور اس کا طریق عمل ایسا ہے کہ اس کی ایک عورت تمہاری سوعورت کے برابر ہوگی اُس کا جیتنا یقینی ہے.لیکن جب تم اپنے آپ کو ایسی بنا لوگی کہ تمہاری ایک عورت اُن کی سوعورت کے برابر ہوگی تو پھر تمہارا جیتنا یقینی ہے.ان ریمارکس اور نصیحتوں کے ساتھ میں اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہو ا کالج کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کالج کی اس چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نوازے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے.“ الفضل ربوہ 15 جولائی 1951 ء ) 1: عبس : 17 2: عبس: 16 :43 مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستمرار بالايمان(الخ) صفحه 75 حدیث نمبر 377 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 259

زریں ہدایات (برائے طلباء) 253 جلد چهارم 5 تاریخ طبری جلد 4 صفحہ 322 تا325 دار الفکر بیروت 1987ء 6 بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النبي صلى الله علیه وسلم و حض على اتفاق اهل العلم (الخ) صفحہ 1261 حدیث نمبر 7324 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 7: الواقعة : 80

Page 260

زریں ہدایات (برائے طلباء) 254 جلد چهارم دین کو سمجھو اور دین پر عمل کرنا اپنا شعار بناؤ یکم مارچ 1954 ء کو بعد نماز عصر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کی جماعت نہم کے طلباء نے میٹرک کے امتحان میں شمولیت اختیار کرنے والے طلباء کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی از راہ شفقت شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.میں نے آج یہاں آنا تو قبول کر لیا تھا لیکن عصر کے قریب سے مجھے شدید سر درد کا دوره شروع ہے.جو بائیں طرف سر کے نصف حصہ میں ہے اور یہ ملیریا کی علامت ہوتی ہے جس کی وجہ سے میرے لئے یہاں آنا مشکل تھا.خصوصاً اس وجہ سے کہ ہوا لگ کر طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی ہے.مگر چونکہ یہ دوسرا موقع تھا وعدے کا.ایک دفعہ وعدہ کر کے میں لاہور چلا گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ میں آ جاؤں خواہ اس موقع پر میں چند الفاظ ہی کہوں.اس وقت جو قرآن کریم کی تلاوت کی گئی ہے اور اسی طرح جو نظم پڑھی گئی ہے اس کے متعلق یہ بات مجھے ہمیشہ ہی خوش کرتی ہے کہ ہمارے ہائی سکول میں اس بات کی پوری احتیاط کی جاتی ہے یا بہت حد تک احتیاط کی جاتی ہے کہ تلاوت صحیح طور پر کی جائے اور اسی طرح نظم بھی صحیح طور پر پڑھی جائے.بلکہ میں کہہ سکتا ہوں تلاوت کے معاملہ میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء جن کی پڑھائی خالص عربی ہے ان پر بھی تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء اس لحاظ سے فوقیت رکھتے ہیں.مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی تلاوت بہت سی غلطیوں سے پُر ہوتی ہے مگر ہائی سکول کے طلباء بہت صحیح تلاوت کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو

Page 261

زریں ہدایات (برائے طلباء) 255 جلد چهارم لڑکوں کو خاص مشق کرائی جاتی ہے اور یا پھر ان میں عربی کے متعلق جو احساس کمتری پایا جاتا ہے وہ انہیں زیادہ احتیاط کی طرف مائل کر دیتا ہے.بہر حال یہ امر ہمیشہ ہی میرے لئے خوشی کا موجب رہا ہے سوائے پہلے ایک دو سالوں کے کہ جن میں طلباء کچھ غلطیاں کر جاتے تھے اس کے بعد میں مسلسل ان کی تلاوت کو غور سے سنتا رہا ہوں.سوائے معمولی غلطیوں کے عموماً تلاوت صحیح کی جاتی ہے.اس دفعہ بھی جس لڑکے نے تلاوت کی ہے صحیح کی ہے اور جس لڑکے نے نظم پڑھی ہے اس کا طریق بھی ایسا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ مطلب سمجھ کر نظم پڑھ رہا ہے.لیکن اس کا سینہ ایسا کھلا نہیں تھا کہ وہ اس بوجھ کو زیادہ دیر تک برداشت کر سکتا.آجکل چونکہ یہ بھی ایک فن بنا ہوا ہے اس لئے اساتذہ کو چاہئے کہ وہ طلباء کو اس کی مشق کرا دیا کریں.اونچی آواز ہمیشہ سینہ میں سانس کو روک رکھنے سے پیدا ہوتی ہے.جب ہم لمبا سانس کھینچ کر بولیں تو ہماری آواز بلند ہو جاتی ہے.پس طلباء کو ایسی مشق کرانی چاہئے کہ وہ سانس کھینچ کر زیادہ دیر تک روک سکیں.اگر یہ مشق نہ ہو تو آواز نیچی رہ جاتی اور کمزور پڑ جاتی ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے میری طبیعت اچھی نہیں اس لئے میں اس وقت صرف چند الفاظ ہی کہنا چاہتا ہوں.ہمارا یہ سکول اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے طلباء کو دین کی تعلیم دی جائے.اس سکول کا نام ہی تعلیم الاسلام ہے اور اسی غرض کے ماتحت طلباء کو یہاں تعلیم دی جاتی ہے.پس مقدم چیز یہی ہے کہ جولڑ کے باہر سے یہاں آتے ہیں وہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھیں ، پھر اس کے مطالب کو سمجھیں اور اسلام کی زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں تا کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو کر باہر جائیں تو لوگ محسوس کریں کہ انہوں نے دین کو اچھی طرح سمجھا ہے اور اس کو سیکھنے کی کوشش کی ہے.یوں اگر دین کی وسعت کو دیکھا جائے تو اس کی کوئی حد نہیں.بلکہ دنیا کی کسی چیز کو لے لو، دنیا کی مٹی کو لے لو، پانی کو لے لو.آج تک مٹی اور پانی کے نئے نئے خواص نکلتے چلے آ رہے ہیں.ہائیڈ روجن بم انہی میٹیوں اور پانیوں سے نکالا گیا ہے اور دنیا حیران ہے کہ کیسی خطر ناک

Page 262

زریں ہدایات (برائے طلباء) 256 جلد چهارم چیز ایجاد ہوئی ہے.لیکن جہاں ان اشیاء کی باریکیاں ختم ہونے میں نہیں آتیں اور ان کے نئے سے نئے خواص نکلتے چلے آ رہے ہیں وہاں جب تک سائنس کی تحقیق نہیں ہوئی تھی تب بھی لوگ دریاؤں سے ویسا ہی مزہ اٹھاتے تھے جیسے آج اٹھا رہے ہیں.بے شک انہوں نے سائنس نہیں پڑھی تھی لیکن کیا وہ پہاڑوں کو دیکھ کر لطف نہیں اٹھاتے تھے؟ کیا وہ دریاؤں کو دیکھ کر لطف نہیں اٹھاتے تھے ؟ کیا وہ صحراؤں کو دیکھ کر لطف نہیں اٹھاتے تھے؟ خدا نے دنیا کو بنا یا ہی ایسا ہے کہ ہر علم اور ہر ملک کا انسان اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے.مثلاً زمین پر گھانس پھونس ہے، درخت ہیں، پہاڑ ہیں ، دریا ہیں اور اسی طرح اور ہزاروں ہزار چیزیں ہیں.اب بغیر اس کے کہ ایک شخص جانتا ہو کہ بارشیں کیوں ہوتی ہیں، بیجوں کے اندر کیا کیا قابلیتیں ہوتی ہیں، زمین کے اندر کیا کیا خاصیتیں ہیں، پہاڑوں کے کیا کام ہیں، دریاؤں کے کیا فوائد ہیں ایک جاہل سے جاہل انسان بھی ان کو دیکھتا ہے تو لطف حاصل کرتا ہے.ایک گونگا اور بہرہ انسان بھی دیکھتا ہے تو ہی ہی ہاہا کرنے لگ جاتا ہے.غرض کم سے کم علم والا بھی اس سے مزہ حاصل کرتا ہے اور بڑے سے بڑے علم والا بھی اس سے مزہ حاصل کرتا ہے.یہی حال قرآن کریم کا ہے اس میں جو باریکیاں مخفی ہیں ان کو تو جاننے والے جانتے ہی ہیں لیکن کم سے کم علم والا بھی قرآن کریم سے اُسی طرح لطف حاصل کر سکتا ہے جس طرح ایک کم سے کم علم والا.جو سائنس کا ایک حرف بھی نہیں جانتا قدرت کے مناظر کو دیکھ کر لطف حاصل کر لیتا ہے.پس اگر تم معمولی توجہ سے بھی قرآن کریم پڑھو اور اس پر غور کرو تو جتنی عقل تمہارے اندر پائی جاتی ہے اس کے مطابق تمہیں اس کے اندر ایسی خوبیاں نظر آ جائیں گی کہ تم اس کے بار یک حسن کو جانے بغیر ہی اس سے لذت آشنا ہو جاؤ گے.قصہ مشہور ہے کہ دو فلاسفر تھے جن کی آپس میں بحث شروع ہو گئی.ایک دلائل دیتا کہ خدا ہے اور دوسرا کہتا کہ خدا نہیں.آخر یہ بحث لمبی ہو گئی.جو فلاسفر یہ کہتا تھا کہ خدا نہیں وہ کہتا کہ خدا کا عقیدہ تم نے خود ایجاد کیا ہے اور آہستہ آہستہ اسے لوگوں پر ٹھونس دیا

Page 263

زریں ہدایات (برائے طلباء) 257 جلد چهارم ہے.ورنہ جو چیز نظر ہی نہیں آتی اسے کوئی مان کس طرح سکتا ہے.پہلے تم نے خود ایک خدا ایجاد کیا اور پھر تم نے لوگوں سے کہا کہ اسے تسلیم کرو ورنہ خالی عقل اس خیال پر کبھی نہیں پہنچ سکتی کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے.دوسرے نے کہا کہ خالی عقل اس عقیدہ پر پہنچ سکتی ہے یا نہیں.اس کے پہچاننے کا طریق یہ ہے کہ یہی بات ہم کسی جنگلی آدمی سے پوچھ لیتے ہیں.اگر تو وہ کہے گا کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ عقیدہ ایسا ہے جسے فطرت تسلیم کرتی ہے.اور اگر وہ کہے گا کہ مجھے کیا پتہ، یہ بات تو پڑھے لکھے جانتے ہیں تو نہ لگ جائے گا کہ یہ عقیدہ پڑھے لکھے لوگوں کی ایجاد ہے.فطرت کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ ایک جانگلی کے پاس گئے.وہ اُس وقت اونٹ پر گھانس لا در ہا تھا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ میاں ! ہم تم سے ایک بات پوچھنا چاہتے ہیں تم ہمیں یہ بتاؤ کہ اس دنیا کا کوئی خدا ہے یا نہیں ؟ وہ ہنس کر کہنے لگا کہ خدا نہیں تو کیا ہے؟ انہوں نے کہا کوئی ثبوت؟ وہ کہنے لگا ارے میاں ! جنگل میں لید پڑی ہوئی ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ یہاں سے گدھا گزرا ہے.مینگنی پڑی ہوئی ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں یہاں سے بکری گزری ہے.کیا اتنی بڑی زمین اور آسمان کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس دنیا کو بھی کسی نے بنایا ہے.اب دیکھو ہستی باری تعالیٰ کے جو بار یک دلائل ہیں ان کا اسے کوئی علم نہیں تھا.مگر چونکہ یہ چیز انسانی فطرت میں داخل تھی اس لئے اس نے کہا کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کو دیکھ کر ہم کہتے ہیں کہ یہ بلا وجہ نہیں تو پھر ہم زمین اور آسمان کو دیکھ کرکس طرح کہہ سکتے ہیں کہ یہ خود بخود پیدا ہو گئے ہیں.بے شک یہ ایک نامکمل دلیل ہے جب تم فلسفہ پڑھو گے تو تم دیکھو گے کہ اس دلیل پر اعتراض کرنے والا اعتراض کرے گا اور کہے گا کہ یہ دلیل غلط ہے لیکن اس شخص کے لئے یہ دلیل بالکل کافی تھی اور وہ حیران تھا کہ کیا کوئی ایسا بے وقوف بھی ہو سکتا ہے جو کہے کہ اتنی بڑی دنیا کا کوئی خدا نہیں.اگر لید اور مینگنیوں کو دیکھ کر اونٹ اور گھوڑے اور بکری کا خیال آ سکتا ہے تو زمین و آسمان کو دیکھ کر خدا کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.جس طرح اس بدوی نے اپنی عقل کے مطابق خدا تعالیٰ

Page 264

زریں ہدایات (برائے طلباء) 258 جلد چهارم کے وجود کو دیکھا اور سمجھا اسی طرح قرآن کریم کے بھی مختلف پر دے ہیں اور ہر انسان اپنی عقل کے مطابق اس کو سمجھ لیتا ہے.ایک جاہل آدمی اپنے علم کے مطابق اور ایک عالم مخلص اپنے علم کے مطابق.یہ کہنا کہ انسان کو خدا کی راہنمائی کی کیا ضرورت ہے؟ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ سائنس میں سوچنے کی کیا ضرورت ہے.حالانکہ سائنس نام ہی اس چیز کا ہے کہ انسان مٹی پر غور کر کے ، پانی پر غور کر کے ، ہوا پر غور کر کے، گرمی اور سردی پر غور کر کے مختلف نتائج اخذ کرے اور ان کی روشنی میں اپنے علم اور تجربہ کو ترقی دے.اگر وہ کہے کہ مجھے پانی کے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، مجھے مٹی پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے، مجھے ہواؤں کے متعلق کسی سوچ بچار کی کیا حاجت ہے، میں کیوں سوچوں کہ سردی کیوں آتی ہے اور گرمی کیوں بڑھتی ہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ اس کے نتیجہ میں کوئی ترقی نہیں کر سکتا.وہ جس طرح جاہل تھا اسی طرح جاہل رہے گا.اسی طرح یہ کہنا کہ خدا کی راہنمائی کی کیا ضرورت ہے؟ یہ بھی ویسی ہی جاہلانہ بات ہے جیسے یہ بات کہ مجھے مٹی اور پانی اور ہوا اور گرمی اور سردی پر غور کرنے کی کیا ضرورت ہے..حقیقت یہ ہے کہ جو چیز درون پردہ ہو جب تک وہ آپ ہمیں آواز نہ دے اور آپ اپنے متعلق راہنمائی نہ کرے ہمیں باہر سے اس کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں ہو سکتا.فرض کرو ایک مکان کا دروازہ اندر سے بند ہے اور تمہیں معلوم نہیں کہ اس کے اندر کون ہے تو تمہیں اندر کا حال کس طرح پتہ لگ سکتا ہے.جب تک اندر سے خود تمہارے کانوں میں کوئی آواز نہ آئے.فرض کرو اس مکان کے اندر بکری بندھی ہوئی ہے اور تم باہر کھڑے کہہ رہے ہو السَّلَامُ عَلَيْكُمُ کیا میں اندر آ جاؤں؟ اس پر اندر سے ” میں میں کی آواز آتی ہے تو تم سمجھ جاتے ہو کہ اندر کوئی بکری ہے، آدمی نہیں.لیکن جب تک تمہیں آواز نہیں آتی ممکن ہے تم بار بار ادب کے ساتھ کہو کہ اجازت ہو تو اندر آ جاؤں؟ پس بکری کی آواز تمہیں حقیقت حال سے آگاہ کر دیتی ہے.یا تم آواز دیتے ہو اور اندر سے

Page 265

زریں ہدایات (برائے طلباء) 259 جلد چهارم کسی پردہ دار عورت کی آواز آ جاتی ہے تو تم کہتے ہو کہ معاف کیجئے میں نے سمجھا تھا کہ صاحب خانہ اندر ہیں.تو جو چیز پس پردہ ہو جب تک وہ خود آواز نہ دے ہمیں پتہ کس طرح لگ سکتا ہے کہ وہ کون ہے اور اس کی کیا حقیقت ہے.اگر ہم اپنے قیاس سے اس کے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے تو وہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے مشہور ہے کہ کسی شہر میں چار اندھے رہا کرتے تھے.اتفاقاً ایک دن اُس شہر میں ہاتھی آ گیا اور سینکڑوں آدمی اس کے دیکھنے کے لئے اکٹھے ہو گئے.ان اندھوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو.سارا شہر دیکھ آیا ہے اگر ہم نہ گئے تو لوگ کیا کہیں گے.چنانچہ کوئی شخص انہیں سہارا دے کر وہاں لے گیا.اب وہ دیکھ تو سکتے نہیں تھے انہوں نے کہا کہ چلو ہم ٹول کر ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے.چنانچہ ایک نے ہاتھ مارا تو وہ اس کی دم پر پڑا، دوسرے نے ہاتھ مارا تو کان پر پڑا، تیسرے نے ہاتھ مارا تو سوٹڈ پر پڑا، چوتھے نے ہاتھ مارا تو پیٹ پر پڑا.اس کے بعد وہ واپس آگئے اور پھر انہوں نے بیٹھ کر آپس میں ہاتھی کے متعلق باتیں شروع کر دیں.ایک نے کہا کہ ہاتھی بس ایک لمبی سی چیز ہوتی ہے جس کے آگے تھوڑے سے بال ہوتے ہیں.دوسرے نے کہا کہ تم بالکل جھوٹ بولتے ہو ہاتھی تو ایسا ہوتا ہے جیسے چھا ج ہوتا ہے.تیسرے نے کہا تم نے ہاتھی دیکھا ہی نہیں وہ تو ڈھول کی طرح ہوتا ہے.چوتھے نے کہا کہ سب غلط کہتے ہو وہ تو ایک موٹی سی لچکدار چیز ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا ( اس کا ہاتھ سونڈ پر پڑا تھا ) یہ اختلاف اس لئے ہوا کہ انہوں نے بے دیکھے محض قیاس سے ایک چیز کا اندازہ کیا تھا.اسی طرح جو چیز درون پردہ ہو اس کا پستہ باہر سے نہیں لگ سکتا.اگر کوئی پتہ لگانے کی کوشش کرے گا تو وہ اندھوں کی طرح غلط پر ہی پہنچے گا.یہی حال خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کی دینی تعلیموں کا ہے.یہ علم صرف خدا تعالیٰ کی کتاب سے ہی حاصل ہوسکتا ہے اور جو شخص اسے باہر سے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے وہ ان اندھوں کی طرح ہوتا ہے جن میں سے کسی نے سونڈ پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے.کسی نے دم پر ہاتھ مار کر مجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی

Page 266

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 260 جلد چهارم دیکھ لیا ہے.کسی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے اور کسی نے کان پر ہاتھ مار کر مجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے.تمہیں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تم اسلام کو سمجھو، قرآن کو سمجھو، محمد رسول اللہ ﷺ کے احکام کو سمجھو اور ان کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کرو اور عقل کا دامن اپنے ہاتھ سے کبھی نہ چھوڑو.یادرکھو خدا عقل کا محتاج نہیں لیکن عقل کو اس نے ہمارے علم کا ذریعہ بنایا ہے.جہاں تک خدا تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے وہ عقل کا خالق ہے اس لئے خدا تعالیٰ کا نام اسلام میں عاقل نہیں آتا.عقل کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو روکنا.مثلاً میرے سامنے اس وقت پیالی پڑی ہے.میری نظر اس کے دائیں بھی پڑتی ہے اور بائیں بھی پڑتی ہے.لیکن سامنے آ کر رک جاتی ہے اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کوئی چیز پڑی ہے.اگر میری نظر یہاں نہ رکے تو مجھے پیالی نظر نہ آئے.پس چونکہ ہم بغیر حد بندی کے کسی چیز کو محسوس نہیں کرتے اس لئے ہمارے لئے عقل کی ضرورت ہے.لیکن خدا شش جہت سے بلکہ اس سے بھی زیادہ جہتوں سے ہر چیز کو دیکھتا ہے اس لئے اسے کسی روک اور حد بندی کی ضرورت نہیں.لیکن چونکہ ہمیں ضرورت ہے اس لئے وہ کوئی ایسی بات نہیں کرتا جو عقل کے خلاف ہو.اگر وہ اس کے خلاف کرے تو یہ ایسی ہی بات ہو گی جیسے کسی گھر کو آگ لگ جائے تو مالک مکان آگ کو بجھانے کی بجائے لوگوں کو پنکھے دے دے کہ وہ اور زیادہ اس آگ کو بھڑ کا ئیں.یا ڈوبنے والے کو بچانے کی بجائے انسان اس کے سینہ پر پتھر رکھ دے.جو شخص ڈوبنے والے کے سینہ پر پتھر رکھے گا وہ اسے ڈبو دے گا.جو شخص آگ لگنے پر کسی کو پنکھے دے گا وہ اس آگ کو بجھائے گا نہیں بلکہ اسے اور زیادہ بھڑکائے گا.اسی طرح کوئی عقلمند ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ کسی کو روٹی پکانے کے لئے کہے اور اسے لکڑی کی بجائے پانی دے دے.کوئی عقل مند ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ ڈوبتے کو بچانے کا حکم دے اور اس کے سینہ پر پتھر رکھوا دے.کوئی عقل مند ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ آگ بجھانے کا حکم دے اور ہاتھوں میں پنکھے پکڑوا دے.

Page 267

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 261 جلد چهارم اسی طرح خدا بھی یہ نہیں کر سکتا کہ وہ لوگوں کو حکم دے کہ عقل استعمال نہ کرو.بے شک اس کو عقل کی ضرورت نہیں لیکن ہمیں اس کی ضرورت ہے اور چونکہ ہمیں عقل کی ضرورت ہے اس لئے وہ کوئی حکم ہمیں ایسا نہیں دے سکتا جو عقل کے خلاف ہو.بعض بے وقوف سائنس دان کہتے ہیں کہ ہم عقل سے خدا کو معلوم کر سکتے ہیں جیسے بعض بے وقوف مولوی یہ کہتے ہیں کہ مذہب کا عقل سے کیا تعلق ہے.یہ دونوں بے وقوف ہیں.خدا کو ہم عقل سے دریافت نہیں کر سکتے اور مذہب کو بغیر عقل کے ہم سمجھ نہیں سکتے.جس طرح دنیا کی تمام معقول باتوں کے سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اسی طرح مذہب کے سمجھنے کے لئے بھی عقل استعمال کی جاتی ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ کوئی انسان محض عقل سے خدا کو پا سکتا ہے.خدا کے پانے کے لئے مذہب ہمارا رہنما ہے اور مذہب کے سمجھنے کے لئے عقل کا پاسبان ضروری ہے.ان دونوں حدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تم دینی تعلیم کے حصول کی کوشش کرو.خدا نے تمہیں موقع دیا ہے کہ تم اس دین کو جو کہ آخری اور کامل دین ہے سمجھو اور اسے لوگوں کے سامنے پیش کرو.اگر تم سچے دل سے اور اپنی پوری کوشش اور جدو جہد سے ایک مہینہ بھی قرآن کریم کو غور سے پڑھو اور اسے سمجھنے کی کوشش کرو تو وہ خود بخود تمہاری رہنمائی کرنے لگ جائے گا اور تمہیں آپ ہی آپ نئے سے نئے رستے نظر آنے شروع ہو جائیں گے.پنجابی میں ایک ضرب المثل ہے کہ گھروں میں آیاں تے سنے توں دیندا ہاں یعنی گھر سے تو میں آیا ہوں اور پیغام تم دے رہے ہو.بالکل یہی بات خدا تعالیٰ کے متعلق کہی جاسکتی ہے.جب کوئی شخص خدا سے ملنا چاہے تولا ز ما خدا ہی اسے بتا سکتا ہے کہ تم اس اس طرح مجھے مل سکتے ہو.وہ خود بخود اس تک کس طرح پہنچ سکتا ہے.پس وہ سائنس دان پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کو اپنی عقل کے زور سے پاسکتے ہیں.خدا کو خدا کے ذریعہ ہی پایا جا سکتا ہے.اور خدا کی رہنمائی حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور کامیاب ذریعہ یہی ہے کہ انسان خدا کے کلام پر غور کرے، اسے سمجھے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے.-

Page 268

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 262 جلد چهارم غرض تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں تمہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اپنے سکول کی اچھی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.مجھے افسوس ہے کہ طلباء جب سکول کی تعلیم سے فارغ ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اپنے اس سکول سے تعلق قائم نہیں رکھتے.حالانکہ دوسروں میں یہ بات پائی جاتی ہے.علی گڑھ کو دیکھ لو.وہاں جن لوگوں نے تعلیم پائی ہے وہ اب تک اپنے کالج کے نام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں.پاکستان میں آ کر بھی ان کی یہ کوششیں جاری ہیں کہ یہاں ایک نیا علی گڑھ بنا دیا جائے.تم کو بھی چاہئے کہ تم اس سکول سے اپنے تعلق کو قائم رکھو.ماں کے پیٹ سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا بڑے ہو کر وہ اس تعلق کو بھلا دیتا ہے جو اس کا اپنی ماں کے ساتھ تھا ؟ اگر وہ اپنی ماں کو بھلا سکتا ہے تو تم بھی کہہ سکتے ہو کہ ہم اپنے سکول کے پرانے تعلق کو کیوں یاد رکھیں.لیکن اگر وہ نہیں بھلا سکتا اور اگر بھلاتا ہے تو لوگ اسے ملامت کرتے ہیں تو تمہیں بھی اس تعلق کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے.جوں جوں تم دنیوی کاموں میں شمولیت اختیار کرو اور تمہاری سمجھ زیادہ ہوتی چلی جائے تمہیں وہ سکول بھی یادرکھنا چاہئے جس نے بچپن میں علم کی بنیاد تمہارے دماغوں میں قائم کی تھی.اور اپنے ان اساتذہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے جنہوں نے تمہیں علم سے آراستہ و پیراستہ کیا ہے.میں سمجھتا ہوں اس وقت سکول کے ہزاروں طالب علم مختلف مقامات پر کام کر رہے ہوں گے اگر ہر ایک کو اپنے سکول کا احساس ہوتا تو سکول کی عمارتوں کے وہ حصے جو ابھی خالی پڑے ہیں خالی نظر نہ آتے.علیگڑھ کالج کے طلباء ہر سال چھٹیوں پر جاتے ہیں اور ہزاروں روپیہ کالج کے لئے چندہ کر کے لے آتے ہیں.اگر اس سکول کے طلباء بھی اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور سکول کی ترقی کے لئے چندے بھجوائیں اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو بھی تحریک کریں کہ وہ نئے لڑکے یہاں تعلیم کے لئے بھجوائیں تو اس سکول کا معیار لازماً بڑھتا چلا جائے گا اور اس کی شہرت میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا.اور جب کوئی کہے گا کہ میں ربوہ کے تعلیم الاسلام ہائی سکول کا طالب علم ہوں تو سب لوگ کہیں گے کہ یہاں کے لڑکے بڑے ہوشیار ہوتے ہیں ہم بھی

Page 269

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 263 جلد چهارم اپنے لڑکوں کو یہیں تعلیم کے لئے بھجوائیں گے.لیکن اگر تم اس سکول کو بھول جاؤ اور تمہاری زبان پر بھی نہ آئے کہ ہم اس سکول میں پڑھتے رہے ہیں اور اسلام کی تعلیم ہم نے وہیں سے سیکھی ہے تو کسی کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ اس سکول کی کیا عظمت ہے.پس جب تم یہاں سے جاؤ تو اس امر کو یا د رکھو کہ جب بھی کوئی موقع نکلے تو اس سکول کی عظمت کا ذکر کرو اور بتاؤ کہ وہاں کس طرح دینی تعلیم دی جاتی ہے اور کس محنت اور توجہ کے ساتھ اخلاق سکھائے جاتے ہیں.پھر جب خدا تعالیٰ تمہیں کام کرنے کا موقع دے تو تم اپنے اموال سے بھی اس سکول کی مدد کرو.اگر ایک لڑکا چار چار پانچ پانچ روپے بھی بھجوائے تو دس پندرہ ہزار روپیہ سالانہ چندہ آجاتا ہے.اس طرح دو چار سال میں ہی سکول کی بلڈنگ مکمل ہوسکتی ہے.اس کے بعد میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ امتحان دینے والوں کو اچھے نمبروں پر کامیاب کرے اور جس غرض کے لئے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے اس میں وہ پورے اتریں اور اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب زندگی عطا کرے اور انہیں ہمیشہ صحیح رستہ پر چلنے کی توفیق عطا ( الفضل 29 نومبر 1955ء) فرمائے.“

Page 270

زریں ہدایات (برائے طلباء) 264 جلد چهارم تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب مؤرخہ 6 دسمبر 1954ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی: آج تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی تقریب کے سلسلہ میں مجھے یہاں بلایا گیا ہے جیسا کہ اس کالج کے نام سے ظاہر ہے اس کے بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ اس کالج میں طلباء اسلام کی تعلیم سیکھیں یعنی وہ یہاں آکر جہاں دنیوی علوم حاصل کریں وہاں وہ قرآن کریم کے پیش کردہ علوم کو بھی حاصل کریں.بعض لوگ نادانی اور جہالت کی وجہ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید قرآن کریم دوسرے علوم کے سیکھنے سے روکتا ہے حالانکہ قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم اور تجربہ حاصل کرنا چاہئے.اور علم نام ہی اس چیز کا ہے جس کو حقیقت اور شواہد سے ثابت کیا جا سکے.جس چیز کو قوانین قدرت کی مدد سے ثابت نہ کیا جاسکے وہ جہالت، قیاسات اور وہم ہوتا ہے.اس کا نام علم نہیں رکھا جا سکتا.علم کے معنی ہوتے ہیں جاننا اور دوسری چیز کے لئے دلیل ہونا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.اِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ 1 کہ وہ قیامت کے لئے ایک علامت اور دلیل ہیں.پس علم کے معنی ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے دوسری باتیں ثابت کی جاسکیں اور ثابت وہی چیز کی جاسکتی ہے جس کے لئے ظاہری شواہد موجود ہوں.پس جو چیز قانون قدرت کی تائید رکھتی ہے وہ علم ہے.اور جو چیز قانون قدرت کی تائید نہیں رکھتی

Page 271

زریں ہدایات (برائے طلباء ) وہ علم نہیں.265 جلد چهارم بعض لوگوں کے نزدیک شاید یہ تعریف بعض علوم پر چسپاں نہ ہو سکے.مثلاً تاریخ ہے.تاریخ کا علم بھی علم کہلاتا ہے لیکن بظا ہر قانون قدرت اس کی تائید نہیں کرتا.علم جغرافیہ کے ساتھ قانون قدرت کی دلیل موجود ہے.حساب کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.علم النفس کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.ڈاکٹری کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.لاء (LAW) کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.اس کے شواہد اس زمانہ میں موجود ہیں.وہ حکومت موجود ہے جس نے قانون مقرر کیا ہے.پھر عوام موجود ہیں جو اس کے نگران ہیں.پھر حج موجود ہیں جن کا کام ملک میں قانون کو رائج کرنا ہے لیکن تاریخ اس بات کا نام ہے کہ فلاں وقت فلاں جگہ پر فلاں واقعہ ہوا.اب بظاہر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ شواہد قدرت کی محتاج نہیں.لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علم تاریخ بھی شواہد قدرت کا ویسے ہی محتاج ہے جیسے دوسرے علوم اس کے محتاج ہیں اگر ہم شواہد قدرت کو نکال دیں تو علم تاریخ محض جہالت اور قصوں کا مجموعہ رہ جاتا ہے.مثلاً الف لیلہ ہے.اس میں بعض واقعات موجود ہیں."کلیلہ و دمنہ ہے.اس میں بھی بعض قصے موجود ہیں لیکن ہم انہیں تاریخ نہیں کہتے.ہاں ایڈورڈ گبن کی کتاب The Decline And Fall of The Roman Empire کو تاریخ کہتے ہیں.ابن خلدون کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں.ابن اثیر کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ "کلیلہ و دمنہ “ اور ” الف لیلہ کی باتوں کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود نہیں لیکن ان کتابوں میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے ان کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ دان بھی بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں لیکن تاریخ دانوں کے غلطی کر جانے کی وجہ سے خود علم پر کوئی حرف نہیں آتا.حساب دان بھی بعض اوقات غلطی کر جاتا ہے.انجینئر بھی روزانہ غلطیاں

Page 272

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 266 جلد چهارم کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ تاریخ دانوں کی غلطیوں کی وجہ سے علم تاریخ کو علم نہ کہا جائے.ہندوستان کا ایک مشہور واقعہ ہے.گورنمنٹ نے بمبئی کی پورٹ کو گہرا کرنے کا منصو بہ تیار کیا اور اس کے لئے ایک نقشہ بنایا گیا اور کروڑوں کی مشینری اس غرض کے لئے درآمد کی گئی.لیکن کلکولیشنز (Calculations) میں غلطی ہو گئی جس کی وجہ سے یہ کروڑوں کی مشینری بیکار ہو گئی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا.پس اندازہ غلط ہو جانے یا ماہرین سے غلطی ہو جانے کی وجہ سے یہ کہنا کہ وہ علم نہیں غلط ہے.مثلاً حساب کو اس لئے علم نہیں کہتے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا بلکہ اسے اس لئے علم کہا جاتا ہے کہ قواعد کے مطابق اگر عمل کیا جائے تو اس میں امکان صحت موجود ہے اور جس علم میں امکان صحت موجود ہے اسے ہم علم کہہ دیتے ہیں.اور جس میں امکان صحت موجود نہ ہوا سے ہم علم نہیں کہتے.تاریخ کو بھی ہم اس لئے علم کہتے ہیں کہ اس میں امکان صحت موجود ہے.تاریخ کے علم کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے.ایک وقت آیا جب مسلمانوں نے اپنے آباؤ اجداد کی باتوں کو بھلا دیا اور ان کی تاریخ یورپین مصنفین نے لکھی.چونکہ ان کے سامنے یورپ کا بڑھتا ہوا اقتدار اور قومی ترقی تھی اس لئے انہوں نے سمجھا کہ علم تاریخ کو بھی چاہئے کہ وہ ان کے اقتدار میں مدد کرے.اور وہ مدداسی طرح کر سکتا ہے کہ دشمن کا منہ اتنا زیادہ سیاہ کر کے دکھایا جائے کہ قوم اس کی طرف رغبت نہ کرے.اور اپنی قوم کے کردار کو شاندار کر کے دکھایا جائے تا نوجوانوں کی ہمت بڑھے.پس ان کے لئے یہ علم ، علم تھا.ان کی ترقی جھوٹ کے ذریعہ ہی ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے واقعات کو غلط طور پر پیش کیا.اگر وہ جھوٹ نہ بولتے اور واقعات کو غلط طور پر پیش نہ کرتے تو وہ ترقی نہیں کر سکتے تھے.پس یہ تاریخ ان کے لحاظ سے علم تھا کیونکہ ان کے مد نظر یہ تھا کہ اس کے پڑھنے سے مسلمانوں کی بداخلاقی ، جہالت اور ذلت نظر آئے اور یورپ کی ترقی دوسری اقوام کو مسحور کر دے.لیکن ہمارے نزدیک یہ جہالت تھی کیونکہ یہ محض جھوٹ تھا.اس کا اصل واقعات سے قریب کا تعلق بھی نہیں تھا.

Page 273

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 267 جلد چهارم اور باتیں تو جانے دو تم سب مسلمان ہو مسلمان ہونے کی وجہ سے تم نے بعض باتیں سنی تو ہوں گی.جن لوگوں نے یورپین مصنفین کی کتابیں نہیں پڑھیں ان کے لئے شاید یہ نئی بات ہو لیکن جو لوگ اور مینٹلسٹوں (Orientalists) کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہیں انہوں نے یہ بات پہلے ہی پڑھی ہوگی.بہر حال جن لوگوں کو اس کا علم نہیں ان کے لئے یہ بات بالکل اچنبھا ہے کہ یورپین مصنفین اسلام کے متعلق اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ کی اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد ﷺ کی نعش نَعُوذُ باللهِ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے.اب کیا تم نے یہ بات کسی جاہل سے جاہل مسلمان سے بھی سنی ہے؟ تم نے یہ تو سنا ہو گا کہ فلاں بزرگ نے مردہ پر پانی پھینکا اور وہ زندہ ہو گیا.تم نے یہ بھی سنا ہوگا کہ فلاں بزرگ نے پھونک ماری تو مکان سونے کا بن گیا.اگر تم میں سے کسی نے امام شعرانی کی کتاب پڑھی ہو گی تو اس نے اس قسم کے کئی واقعات اس میں پڑھے ہوں گے لیکن ان سب افتراؤں کے اندر تم نے یہ افترانہ پڑھا ہوگا نہ سنا ہوگا کہ رسول کریم ﷺ کی نعش نَعُوذُ باللہ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے لیکن یورپین مصنفین یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے.پھر تم میں سے بعض نے شاید قرآن کریم با ترجمہ نہ پڑھا ہوگا لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے تم سب نے بعض باتیں سنی ہوں گی.تم نے سنایا پڑھا ہوگا کہ قرآن کریم میں عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکر ہے.دونوں کی نمازوں اور استغفار کا ذکر ہے.دونوں کے اچھے کاموں کی تعریف کی گئی ہے.لیکن یورپین مصنفین اپنی کتابوں میں بلا استثناء لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے عورت میں روح نہیں پائی جاتی.مرنے کے بعد جس طرح کتا، بلی اور دوسرے جانوروں کی روحیں ضائع کر دی جائیں گی اسی طرح عورتوں کی روحیں بھی ضائع کر دی جائیں گی اور وہ جنت میں نہیں جائیں گی.اب آپ لوگوں کے نزدیک یہ بات الف لیلہ کے واقعات سے بھی زیادہ جھوٹی ہے کیونکہ الف لیلہ نے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کے سامان تو مہیا کئے ہیں لیکن اس بات نے تمہارے دلوں کو مجروح کیا ہے اور دکھ دیا

Page 274

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 268 جلد چهارم ہے.پس یہ تاریخ یورپین اقوام کے لئے تو علم ہے کیونکہ ان کو عورتوں میں کافی نفوذ حاصل ہے.اگر ان کے اندر یہ چیز پیدا کر دی جائے کہ اسلام ایک گندہ اور غیر معقول مذہب ہے، اس کے نزدیک عورتوں کے اندر روح نہیں پائی جاتی اور وہ موت کے بعد کتوں اور بلیوں کی طرح ضائع کر دی جائیں گی تو تم جانتے ہو سب عورتیں اپنے بچوں کو یہی تعلیم دیں گی کہ اس غیر معقول اور گندے مذہب کو مٹانا ضروری ہے.پس ان کے لحاظ سے یہ تاریخ علم ہے لیکن ہمارے لحاظ سے وہ جہالت اور قیاسات کا مجموعہ ہے.گویا ایک جہت.ت سے مستشرقین کی یہ تاریخ علم ہے اور ایک جہت سے جہالت ہے.بہر حال تاریخ بھی دنیوی علوم میں سے ایک اہم علم ہے کیونکہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہم ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے.لیکن تاریخ کے مطالعہ سے ہم ان سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں.ایک آدمی کسی سے کچھ واقعات سنتا ہے وہ انہیں دوسرے کے آگے بیان کرتا ہے اور وہ کسی اور کے آگے بیان کرتا ہے اور اس طرح وہ واقعات ہم تک پہنچ جاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سننے والے آگے بیسیوں غلطیاں کر جاتے ہیں.ایک واقعہ آتا ہے کہ شہزادہ ویلز یورپ کی پہلی جنگ میں ایک جگہ فوج کا معائنہ کرنے گئے.وہاں فوجیوں نے ایک قسم کا مظاہرہ کیا.وہاں یہ تجربہ کیا گیا کہ ایک سپاہی دوسرے سے ایک فقرہ کہے اور وہ اس سے اگلے سپاہی سے وہ فقرہ کہے اور وہ اگلے سپاہی سے کہے.پھر دیکھا جائے کہ آخر پر جا کر وہ کیا بن جاتا ہے.جو فقرہ پہلے سپاہی نے دوسرے سے کہا وہ یہ تھا کہ "پرنس آف ویلز ہیز کم (Prince of Wales has come) لیکن کئی میل تک کھڑی ہوئی فوج کے آخر تک جو پیغام پہنچا وہ یہ تھا کہ ”گو می ٹو پنسز (Give me two pences) اب دیکھ لو کہ سنتے سنتے فقرہ کیا سے کیا ہو گیا.کسی کی ٹون، لہجہ یا ایکسٹنٹ (Accent) میں فرق پڑا تو اس نے کچھ اور سن لیا.اسی طرح آہستہ آہستہ اس میں فرق پڑتا گیا اور آخر میں اس کا مفہوم بالکل ہی بدل گیا.یہی حال تاریخ میں بھی ہو سکتا ہے.وہاں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک ایک واقعہ پہنچتا ہے اور

Page 275

زریں ہدایات (برائے طلباء) 269 جلد چهارم لہجہ اور ٹون میں فرق پڑنے سے ان میں فرق پڑنا لازمی ہوتا ہے.پس اس میں شبہ نہیں کہ غلطی کا امکان اس میں بھی موجود ہے لیکن یورپ والوں نے ہم پر سخت ظلم کیا ہے.اگر واقعات ان سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ انہیں صحیح اور درست سمجھتے ہیں لیکن اگر وہی بات مسلمانوں کے متعلق ہو تو کہتے ہیں یہ چیز سماعی ہے اس لئے اسے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا.مسلمانوں کا علم حدیث جس کو علم کی حد کے اندر رکھنے کے لئے بہت بڑی محنت اور کوشش کی گئی ہے اس کے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے گئے ہیں جن کے ذریعہ احادیث کو پر کھا جاتا ہے.اس کے متعلق یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ یہ کوئی علم نہیں اس کی بنیا د سماع پر ہے اور جو چیز ساعی ہو وہ قابل اعتبار نہیں ہوتی.لیکن انجیل جس کے راوی خود کہتے ہیں کہ یہ مسیح سے سینکڑوں سال بعد مرتب کی گئی ہے اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول ہے.اب دیکھ لو جس کے متعلق کوئی احتیاط نہیں کی گئی وہ تو ان کے نزدیک یقینی اور قطعی ہے اور جس چیز کے متعلق ہر طرح کی احتیاط برتی گئی وہ محض سماعی باتیں ہیں اسے علم نہیں کہا جا سکتا.لیکن ان کے اس تعصب کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں یہ ماننے سے انکار نہیں کہ سماعی باتوں میں غلطی ہو سکتی ہے.کہنے والے کا کوئی مطلب ہوتا ہے اور سننے والا کچھ سمجھ لیتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک جنگ میں کچھ آدمی مارے گئے.ان میں رسول کریم ﷺ کے چچیرے بھائی حضرت علی کے بڑے بھائی بھی شامل تھے.مدینہ میں یہ رواج تھا کہ مرنے والوں کا ماتم کیا جاتا تھا اور اس کے متعلق ان کا یہ خیال تھا کہ ماتم کرنے سے مرنے والے کی روح خوش ہوتی ہے.مسلمان ابھی حدیث العہد تھے اور ان سے یہ احساس پورے طور پر مٹا نہیں تھا.جب عورتوں نے ان لوگوں کی موت کی خبر سنی تو انہوں نے سمجھا ہمیں ماتم کرنا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ اپنے مُردوں کی قدر کرتے ہیں.چنانچہ بین شروع ہوا.رسول کریم ﷺ نے شور سنا تو دریافت فرمایا یہ کیا ہے؟ صحابہ نے بتایا کہ عورتیں جنگ میں مرنے والوں پر رو رہی ہیں.آپ نے

Page 276

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 270 جلد چهارم فرمایا یہ بہت بری بات ہے.اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.ویسے بھی مُردوں پر رونا درست نہیں.اس سے قوم میں سے بہادری اور جرات کا احساس جا تا رہتا ہے اور اس کی ہمت گرتی ہے.جاؤ انہیں منع کرو.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ان کے پاس گئے اور کہا رسول کریم فرماتے ہیں بین ختم کرو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.عورتوں کے اندر جوش پایا جاتا تھا وہ اپنے مُردوں کو یاد کر رہی تھیں اور رورہی تھیں.مہین میں ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی لوگ رونے لگ جاتے ہیں.انہوں نے کہا کہ جاؤ مرے ہمارے رشتہ دار ہیں، ہمارے دل دکھے ہوئے ہیں اور ہم رو رہی ہیں تم منع کرنے والے کون ہوتے ہو.حضرت ابو ہریرہ واپس آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے ان عورتوں سے کہا تھا کہ وہ ماتم کرناختم کر دیں مگر وہ رکھتیں نہیں.آپ نے فرما یا أُحُبُّ التَّرَابَ عَلَى وُجُوهِهِنَّ 2 اس فقرہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تو ان کے منہ پر مٹی ڈال لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنی ہیں کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے.ہمارے ہاں بھی اس موقع پر کہتے ہیں "کھ اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ عملی طور پر مٹی مونہوں پر ڈالی جائے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو.یہی محاورہ عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالو یعنی انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دو.حضرت ابو ہریرۃ نے اس کا مفہوم نہ سمجھا اور لفظی ترجمہ کی بناء پر اپنی جھولی میں مٹی بھرنی شروع کی.حضرت عائشہ نے انہیں جھولی میں مٹی بھرتے دیکھ لیا اور فرمایا تم یہ کیا حماقت کر رہے ہو ؟ رسول کریم ﷺ کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ واقعہ میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے.مان لیا کہ وہ غلطی کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن رسول کریم ﷺ کا مطلب بھی یہ نہیں تھا کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے بلکہ آپ کا مطلب صرف یہ تھا کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے.اگر حضرت عائشہ حضرت ابو ہریرہ کو جھولی میں مٹی ڈالتے ہوئے نہ دیکھتیں تو یہ روایت آگے چلی جاتی.پھر اگر حضرت ابو ہریرہ لفظی روایت کر دیتے تو بعض لوگ اس کے معنی سمجھ لیتے اور بعض نہ سمجھتے.لیکن اگر آپ معنوی روایت کر دیتے تو اس کا مفہوم سمجھنے میں

Page 277

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 271 جلد چهارم ذریعہ کوئی اختلاف نہ ہوتا.بلکہ سب مسلمان یہی کہتے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب عورتیں لیکن کریں تو ان کے مونہوں پر خوب مٹی ڈالو اور حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے کہ میں نے آپ کے ارشاد پر خود مٹی ڈالی ہے اور اس طرح مسلمانوں میں ایک نا پسندیدہ رواج پڑ جاتا اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہنستے اور مذاق اڑاتے کہ یہ کیا اسلام ہے جس میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جاتی ہے.پس تاریخ کے متعلق یہ مانی ہوئی بات ہے کہ اس میں اس قسم کی غلطی کا پایا جانا ممکن ہے لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ یورپین مصنفین اپنے متعلق اور قوانین وضع کرتے ہیں اور ہمارے متعلق اور قوانین بتاتے ہیں.یہ طریق غلط ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ سماعی باتوں میں فرق ضرور ہوتا ہے اور سننے والے کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں.لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طریق ایسا بھی ہے کہ جس کے یعہ غلطی سے بچا جا سکتا ہے.اور وہ طریق یہ ہے کہ روایت میں غلطی راوی کی وجہ سے پڑتی ہے لیکن ایک شخص کے متعلق جب ہم کئی واقعات سنتے ہیں تو اس کے متعلق ہم معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کا کیریکٹر یہ ہے.اور جب کسی کے کیریکٹر کا علم ہو جائے تو علم النفس کے ذریعہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ کون سا واقعہ سچا ہے اور کون سا غلط ہے.اگر کوئی واقعہ اس ا کے کیریکٹر کے مطابق ہے تو ہم کہیں گے یہ واقعہ سچا ہے اور اگر کوئی واقعہ اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے تو ہم کہیں گے یہ واقعہ غلط ہے.مثلا اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص دیانت دار ہے تو اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ کسی کا روپیہ لے کر بھاگ گیا ہے تو ہم کہیں گے یہ بات غلط ہے، یہ محض دشمنی کی وجہ سے کہا گیا ہے ورنہ یہ بات اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے.گویا جب ہم سائیکالوجی کے نیچے اسے لائیں گے تو یہ ایک علم بن جائے گا.چنانچہ اسلامی تاریخ پر میرا ایک لیکچر چھپا ہوا موجود ہے جس کا نام ” اسلام میں اختلافات کا آغاز ہے.میں نے اس لیکچر میں اس بات پر بحث کی ہے کہ اسلام میں اختلافات کا آغاز کس طرح ہوا.اس لیکچر کے صدر پروفیسر سید عبد القادر صاحب تھے.میں نے ان کی صدارت میں مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور میں تقریر کی اور اپنے نقطہ نگاہ

Page 278

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 272 جلد چهارم سے اسلامی تاریخ کے اس حصہ کو اس طرح بیان کیا کہ جس طرح مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے.اسی طرح صحابہ کو میں نے ان تمام الزامات سے بری ثابت کیا جو ان پر لگائے جاتے تھے.میرا وہ لیکچر اب بھی پروفیسروں کے زیر نظر رہتا ہے اور بعض کا لجوں میں تو یہ سفارش کی جاتی ہے کہ طلباء میرے اس لیکچر کا ضرور مطالعہ کریں.میں نے اس لیکچر میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بات کہ اسلام میں فتنوں کا موجب حضرت عثمان اور بڑے بڑے صحابہ تھے بالکل جھوٹ ہے.اس لیکچر کے سلسلہ میں میں نے زیادہ تر طبری کو مدنظر رکھا ہے.طبری نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ایک ایک واقعہ کی پانچ پانچ سات سات روایات دے دیتا ہے.میں نے دیکھا کہ ان میں سے وہ کون سے واقعات ہیں جن کی ایک زنجیر بن سکتی ہے.ان واقعات کو میں نے لے لیا اور باقی کو چھوڑ دیا کیونکہ ایک طرح کی زندگی میں اختلاف نہیں ہو سکتا.اگر ایک سال ایک کام معاویہ کر رہے ہوں، اگلے سال وہ کام عمر و بن عاص کر رہے ہوں اور اگلے سالوں میں وہی کام پھر معاویہؓ سے منسوب ہو تو درست بات یہی ہو گی کہ وہ کام دوسرے سال بھی معاویہ ہی کر رہے تھے.حضرت عمرو بن عاص کا نام غلطی سے آ گیا ہے.اس اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صحابہ سے بعض غلطیاں ہوئیں یا حضرت علی کے متعلق بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں وہ سب غلط ہیں.گویا یہاں علم النفس میرے کام آیا.اگر ایک شخص کے متعلق ایک سال بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں ، دوسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں.تیسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں تو ہمیں وہی واقعات درست ماننے پڑیں گے جو ایک کڑی اور زنجیر بنا دیں.رحم دل اور سنگدل یا پارسا یا عیاش آدمی جمع نہیں ہو سکتے.مثلاً ایک آدمی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ رحم دل ہے اور اکثر واقعات اس کی رحم دلی پر دلالت کرتے ہیں اگر اس کے متعلق بعض ایسی روایات آجائیں کہ وہ ظالم تھا تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ اسے ظالم بتانے والی روایات غلط ہیں کیونکہ رحم دلی اور ظلم جمع نہیں ہو سکتے.پس سائیکالوجی سے شواہد کو چیک کر لیا جائے تو تاریخ بھی علم بن جاتا ہے.

Page 279

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 273 جلد چهارم سائیکالوجی کی مدد سے ہم دو سال بعد بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کونسا واقعہ درست ہے اور کونسا غلط.میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں اور یہ مثال الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الأعداء کی مصداق ہے.بائبل میں لکھا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی تجلی دیکھنے طور پر گئے تو ان کے پیچھے ہارون علیہ السلام مشرکوں سے مل گئے اور بچھڑے کی پوجا شروع کردی.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو آپ نے انہیں روکا.اب دیکھو قرآن کریم 1900 سال بعد آیا ہے اور بائیل خود اس کے ماننے والوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں لکھی گئی تھی.اب ایک روایت بائبل میں موجود ہے اور ایک روایت قرآن کریم نے بیان کی ہے جو 1900 سال بعد میں آیا.ہاں اس کا یہ دعوی تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اب اگر دیکھا جائے کہ ان روایات میں سے کونسی روایت رست ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب الہام کو یہ شبہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے بھی یا نہیں.مثلاً میں ایک شخص کے متعلق یہ جانتا ہوں کہ وہ یہاں بیٹھا ہے اب اس کے متعلق میں یہ بھلا کیوں کہوں گا کہ وہ چنیوٹ میں ہے.حضرت ہارون علیہ السلام تو مُلهَم مِنَ الله تھے اگر ان کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ درست ہے تو آپ بچھڑے کی پوجا کس طرح کر سکتے تھے.پس علم النفس ہمیں بتاتا ہے کہ ان پر بچھڑے کی پوجا کا الزام لگانا درست نہیں.پھر مذہبی کتابوں اور تاریخ سے آپ کی جس قسم کی ذہانت کا پتہ لگتا ہے اس ذہانت والا شخص بھی یہ غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجا شروع کر دے.اس لئے عقلاً بھی قرآن کریم کی روایت ٹھیک ہے اور بائیل کی روایت غلط ہے.یہ چیز ایسی ہے کہ اسے جس سمجھ دار انسان کے سامنے بھی ہم پیش کریں اسے قرآن کریم کی فضیلت ماننی پڑتی ہے.یہ تو ہمارا بیان ہے لیکن انسائیکلو پیڈیا میں بھی لکھا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے ہارون علیہ السلام نے شرک نہیں کیا بلکہ آپ نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا سے روکا اور اس روایت کو عقل سلیم بھی تسلیم کرتی ہے.اس کے مقابلہ میں بائبل کی روایت غلط

Page 280

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 274 جلد چهارم ہے.غرض خود یورپین محققین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بائبل کے مقابلہ میں قرآن کریم کی روایت زیادہ درست ہے.پس جب تاریخ کے ساتھ علم النفس مل جاتا ہے تو وہ اسے قطعی اور یقینی بنا دیتا ہے.غلطیاں ہر علم والے سے ہوتی ہیں.حساب میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ڈاکٹری میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں، انجینئر نگ میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں.اسی طرح دوسرے علوم میں بھی غلطیوں کا امکان ہوتا ہے.لیکن علم انہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں امکان صحت موجود ہوتا ہے.تاریخ میں بھی امکان صحت موجود ہے.اس لئے وہ علم ہے.غرض اگر سائیکالوجی کے ذریعہ واقعات کو جانچا جائے تو تاریخ چاہے کتنی پرانی ہو ہم اسے پرکھ لیں گے.یہ کالج جن علوم کے لئے بنایا گیا ہے ان کا سیکھنا تعلیم الاسلام میں شامل ہے.تعلیم الاسلام کے متعلق غلط طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی صرف نماز روزہ کے ہیں.قرآن کریم سب علوم سے بھرا پڑا ہے.خدا تعالیٰ نے شریعت اور قانونِ قدرت دونوں کو بنایا ہے.پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان میں سے ایک کو مانتے ہیں اور ایک کو نہیں مانتے.قانونِ قدرت بھی مذہب ہے اور خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور اس کے نتائج بھی یقینی ہیں.قانونِ قدرت خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور شریعت اس کا قول ہے.اگر ہم خدا تعالیٰ کے قول سے استدلال کرتے ہیں تو اس کے فعل سے کیوں استدلال نہ کریں.خدا تعالیٰ کے قول کو لے لینا اور اس کے فعل کو ترک کر دینا ایک بے ڈھنگے اور بے اصولے آدمی کا کام ہے.خدا تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتا ہے کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 3 تم وہ کچھ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں.گویا اس نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کریں بھی.پھر خدا تعالیٰ یہ کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کہے کچھ ، اور کرے کچھ.ہمارا خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہو سکتا.اس نے دین کو بھی بنایا ہے اور زمین و آسمان کو بھی پیدا کیا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ ایک اس کا قول ہے اور دوسرا اس کا فعل.اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مؤید ہیں.اور جب خدا تعالیٰ کا قول اور فعل ایک دوسرے کے موید ہیں

Page 281

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 275 جلد چهارم تو دنیا میں جتنے مضامین پائے جاتے ہیں وہ قرآن کریم کے شاہد ہیں.جس طرح ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ نماز روزہ کے احکام پر عمل کریں اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت د نیوی علوم بھی سیکھیں.آگے جس طرح کوئی زیادہ عبادت کرتا ہے اور کوئی کم عبادت کرتا ہے اسی طرح کوئی زیادہ علوم سیکھ سکتا ہے اور کوئی کم علوم سیکھ سکتا ہے.ہمارے ہاں کوئی علاج معالجہ کا کام کرے تو اسے حکیم کہا جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے بعض نسخ معلوم کر لئے ہیں اور چونکہ اس کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہوتی اس لئے وہ ان نسخوں کے ذریعہ روزی کما لیتا ہے.حالانکہ "حکیم" کا لفظ یونانیوں نے ایجاد کیا تھا اور وہ اس شخص کے متعلق حکیم کا لفظ استعمال کرتے تھے جو سارے علوم جانتا ہو.اسے علم ہیئت بھی آتا ہو ، حساب بھی آتا ہو، علم کیمیا بھی آتا ہو، علم سیمیا بھی آتا ہو، جغرافیہ میں بھی اسے دسترس حاصل ہو.اسی طرح وہ فلسفہ، منطق اور علم علاج میں بھی واقفیت رکھتا ہو.اسے موسیقی بھی آتی ہو کیونکہ موسیقی بھی ایک قسم کا علم ہے.ان سب علوم کے جاننے کے بعد کوئی شخص حکیم کہلاتا تھا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول ایک ماہر طبیب تھے اور طبابت کے علاوہ آپ کو کئی اور علوم میں بھی دسترس حاصل تھی.جب لوگ آپ کو حکیم کہتے تھے تو آپ فرماتے تھے میں تو طبیب ہوں حکیم نہیں ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھے بعض اور علوم بھی آتے ہیں لیکن میں نے علم موسیقی نہیں سیکھا اس لئے میں بھی حکیم نہیں کہلا سکتا کیونکہ حکیم اس شخص کو کہتے ہیں جو سب علوم جانتا ہو.اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کی طائرانہ نظر ہر علم پر پڑ جاتی ہے.مثلاً برنارڈ شا کو ہر علم میں تھوڑی بہت دسترس حاصل تھی اور وہ ہر علم کو استعمال کرنا جانتا تھا.پس علوم کا سیکھنا اسلام کا ہی ایک حصہ ہے.آگے تم زیادہ علوم سیکھ لو یا کم یہ تمہارا کام ہے.پس تعلیم الاسلام کالج کے یہ معنی نہیں کہ یہاں صرف قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے.یہ واقعات کے خلاف ہے.یہاں دنیوی علوم بھی سکھائے جاتے ہیں.جب تم یہ سمجھ کر حساب سیکھتے ہو کہ قرآن کریم نے کہا ہے حساب سیکھو تو یہ اسلام کا ہی ایک حصہ بن جاتا ہے.خدا تعالی خود فرماتا ہے کہ میں قیامت کے

Page 282

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 276 جلد چهارم روز ہر ایک سے حساب لوں گا.اگر وہ حساب دان ہے تو ہم حساب کیوں نہ سیکھیں.اگر جغرافیہ کا جاننا خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عیب نہیں تو یہ ہمارے لئے بھی عیب نہیں.اگر جغرافیہ اور حساب جاننے کے باوجود خدا تعالیٰ کی ذات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا تو ہمارا حساب اور جغرافیہ سیکھنا بھی ہمیں دین کے دائرہ سے خارج نہیں کرتا.بدقسمتی سے مسلمانوں نے گزشتہ زمانہ میں یہ خیال کر لیا تھا کہ ان کا علوم پڑھنا جرم ہے.چند دن ہوئے بنگال سے ایک وفد یہاں آیا.اس کے بعض ممبروں نے بتایا کہ ابتدا میں مولویوں نے ہی کہا تھا کہ انگریزی پڑھنا جرم ہے.چنانچہ مسلمانوں نے اس زبان کا بائیکاٹ کر دیا اور ہندوؤں اور دوسری اقوام نے اس زبان کو سیکھا.اس طرح ہند و مسلمانوں سے آگے نگل گئے.اب ہر کام میں ہندو مسلمان سے آگے ہیں.گویا اسلام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان کا موجب ہمارے مولوی ہی ہیں.اگر مولوی لوگ انگریزی زبان کی کے خلاف فتوئی نہ دیتے تو مسلمان بھی ابتدا میں ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور وہ بہت زیادہ ترقی کر جاتے.لیکن انہوں نے اس قدر سختی کی کہ کیمیا، سیمبیا، جغرافیہ اور دوسرے تمام علوم انہوں نے ممنوع قرار دے دیئے.ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ سے ملے اور آپ نے سوال کیا کہ اے خدا! اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کرتے اور کون سی چیز خوراک کے طور پر استعمال کرتے ؟ خدا تعالیٰ نے جواب دیا میں خدا ہوں میں نے کیا کھانا تھا.مجھے خوراک کی احتیاج نہیں.پھر مجھے انسان کی طرح دنیوی کام کرنے کی بھی ضرورت نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر بھی بتائیے کہ اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کام کرتے اور کیا چیز بطور خوراک استعمال کرتے ؟ اس پر خدا تعالیٰ نے کہا اگر میں دنیا میں ہوتا تو دودھ چاول کھاتا اور ردی کاغذ چتا.گویا ہمارے مولویوں کے نزدیک دنیوی علوم کا سیکھنا تو جرم ہے اور چوہڑوں کا کام کرنا یعنی زمین پر پڑے ہوئے ردی کاغذ چننا ایسا کام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ دنیا میں آتا تو نعوذ باللہ وہ بھی یہی کام کرتا.

Page 283

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 277 جلد چهارم ي یاد رکھو دنیوی علوم کا سیکھنا جرم نہیں بلکہ ان کا سیکھنا بہت ضروری ہے.قرآن کریم ان سب علوم کی تائید کرتا ہے.خدا تعالیٰ سِیرُ وا فِي الْأَرْضِ 4 کہہ کر تاریخ اور جغرافیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے.اسی طرح کہتا ہے تم اسراف سے کام نہ لو بلکہ اقتصاد کو ملحوظ رکھو.یہ کام بغیر حساب کے کس طرح ہو سکتا ہے.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ستاروں، سورج اور چاند کی گردش کی طرف دیکھو.اور یہ کام علم ہیئت کے بغیر نہیں ہو سکتا.پھر قرآن کریم نے سائیکالوجی کو بار بار پیش کیا ہے کہتا ہے اَفَلَا تَعْقِلُونَ 5 اس طرح منطق کو بیان کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے مشرکین کہتے ہیں کہ ہم وہی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف بھی ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں 6 اب دیکھو یہ منطق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے باپ دادا اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقش قدم پر چل کر تباہ ہو گے.غرض قرآن کریم ہر قسم کے علوم کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے.جب بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ہائی سکول کا قیام فرمایا تو اس کا نام تعلیم الاسلام ہائی سکول رکھا.آپ کی نقل میں ہم نے بھی اس کالج کا نام تعلیم الاسلام کا لج رکھا ہے.آپ نے جب سکول بنایا تو آپ کی غرض یہ تھی کہ اس میں صرف قرآن کریم اور حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے دنیوی علوم بھی پڑھائے جائیں گے اور اس طرح آپ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ دوسرے علماء نے جو بعض دنیوی علوم کو غیر اسلامی کہا ہے غلط ہے.سب چیزیں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں اس لئے جو چیز بھی دنیا میں پائی جاتی ہے اس سے فائدہ اٹھا نا ضروری ہے.پھر اپنی ذات میں کوئی علم برا نہیں.ہر علم سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں.گو سارے علوم میں دسترس رکھنے والے زیادہ نہیں ہوتے.مثلاً مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں مگر پھر بھی میں حکیم نہیں کہلا سکتا.کیونکہ حکیم اس کو کہا جاتا ہے جو ہر فن اور ہر علم میں دسترس رکھتا ہو اور مجھے بعض علوم نہیں آتے.مثلا علم موسیقی بھی ایک علم ہے مگر میں اس سے

Page 284

زریں ہدایات (برائے طلباء ) واقف نہیں ہوں.278 جلد چهارم ایک دفعہ ایک لطیفہ ہوا.کسی نے موسیقی سیکھی تو میں نے کہا میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی خاص سُر میں گاتا ہے اور اس میں وہ کوئی مضمون بیان کرتا ہے تو یہی چیز موسیقی کہلاتی ہے.اگر آواز اور لہجہ اچھا ہوا تو وہ کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے.لیکن یہ جو تم صرف تاروں پر گاتے ہو اور اسے پکا راگ کہتے ہو یہ کیا ہے؟ ایک شخص کہتا ہے کہ گاڈ سیو دی کنگ" (God save the king) خدا تعالی بادشاہ کو سلامت رکھے.اب اگر تاروں پر اس فقرہ کو دہرایا جائے تو گاؤ سے کوئی دوسرا لفظ بھی مراد لیا جا سکتا ہے.اب ہم اس آواز سے کوئی دوسرا لفظ کیوں مراد نہ لیں.صرف یہ کیوں سمجھیں کہ گانے والا ' گا ڈسیو دی کنگ کہہ رہا ہے.میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سُر ہے.آگے یہ ٹر جس لفظ سے بھی مل جائے مل جائے.آپ نے چونکہ اس سر کو گاڈ سیو دی کنگ“ کے لئے بنایا ہے اس لئے آپ ہیں کہ گانے والا یہی گا رہا ہے.وہ کہنے لگے آپ نہیں سمجھتے میں آپ کو سمجھاتا ہوں.چنانچہ انہوں نے علم موسیقی کے متعلق آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ گفتگو کی اور مجھے اس کے متعلق بعض باتیں سمجھانے کی کوشش کی اور پھر فخریہ طور پر کہا اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے؟ میں نے کہا میں نے علم موسیقی کے متعلق پہلے جو کچھ سمجھا تھا اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی غلط ہے.لیکن اب آپ نے جو کچھ بتایا ہے وہ بھی میں نہیں سمجھا.کچھ عرصہ کے بعد میں لاہور گیا وہاں ایک معزز غیر احمدی دوست مجھے ملنے آئے.مجلس میں موسیقی کا ذکر ہو رہا تھا.وہاں میں نے یہ لطیفہ سنایا.انہیں پینٹنگ (painting) کا شوق تھا.میں نے کہا آپ بتائیں یہ کیا علم ہے.اگر ہم کوئی پہاڑی بنا لیں یا کوئی گدھا یا گھوڑا بنا لیں تو یہ تصویر ہمیں اچھی لگے گی لیکن مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک غیر انسانی چیز ہے اور اس کے سامنے ہزاروں تاریں ہیں.گویا وہ اس کی ٹانگیں ہیں.اب کیا دنیا میں کوئی اس قسم کی مخلوق ہے جس کی ہزاروں ٹانگیں ہوں ؟ انہوں نے کہا آپ نے پینٹنگ کو نہیں سمجھا یہ بھی ایک علم ہے.میں آپ کو سمجھا تا ہوں.میں نے کہا پہلے میری 6

Page 285

زریں ہدایات (برائے طلباء) 279 جلد چهارم بات سن لیں اس کے بعد آپ جو چاہیں کہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ جو جذبات انسانی فوٹو میں نہیں لائے جا سکتے ایک پینٹر اپنی تصویر میں انہیں بآسانی لا سکتا ہے.پینٹنگ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ چاہے کوئی شخص ہنس رہا ہو وہ اسے تصویر میں روتا ہوا دکھا سکتا ہے.یا چاہے کوئی کتنا شریف ہو وہ اسے تصویر میں بدمعاش اور غنڈا دکھا سکتا ہے.اس لئے اسلام نے ان تصویروں کی ممانعت کی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ اچھے سے اچھے آدمی کو برا دکھایا جاسکتا ہے.فوٹو میں یہ بات نہیں.اگر کوئی آدمی ہنس رہا ہو تو فوٹو اسے ہنستا ہوا ہی دکھائے گا.اب یہ کہ اس میں کوئی فلسفہ ہوتا ہے یا بعض بار یک باتیں ہوتی ہیں جو ایک عام آدمی نہیں سمجھ سکتا یہ غلط..انہوں نے کہا بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی.میں آپ کو سمجھاتا ہوں.چنانچہ وہ سمجھاتے رہے اور آخر میں میں نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلے دوست کو موسیقی کے بارہ میں دیا تھا کہ نصف گھنٹہ یا پون گھنٹہ تک آپ سمجھاتے رہے لیکن میں جو کچھ سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس علم کے متعلق جو کچھ میں اب تک سمجھتا رہا ہوں وہ غلط ہے اور آپ نے جو کچھ سمجھانا چاہا ہے وہ میں نہیں سمجھا.اب دیکھو د و علم گئے جو مجھے نہیں آتے.پھر میں کہاں حکیم کہلا سکتا ہوں.نہ میں علم موسیقی جانتا ہوں اور نہ میں Painting جانتا ہوں.ورنہ مجھے ہر علم کا شوق ہے.ہاتھ دیکھنا، کمپیریٹوریلیجن (Comparative Religion)، طب، جغرافیہ، تاریخ ، حساب اور باقی اکثر علوم کے متعلق میں نے کتابیں پڑھی ہیں اور میں ان کے متعلق خاصی واقفیت رکھتا ہوں.لیکن یہ علوم میں نے کالج میں نہیں پڑھے.پرائیویٹ طور پر ان کا مطالعہ کیا ہے.ایک چھوٹا سا نکتہ تھا جس نے مجھے اس کا شوق دلایا.میں ایک دفعہ دہلی جا رہا تھا کہ سفر پر جانے سے پہلے حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا میاں! تم نے کبھی کچھنی کا ناچ بھی دیکھا ہے؟ مجھے بہت شرم آئی کہ آپ نے یہ کیا سوال کیا ہے اور میں کوئی جواب نہ دے سکا.آپ نے فرمایا میاں ! تم دین سیکھ رہے ہو اگر تمہیں کچھی کے ناچ کا ہی علم نہیں تو تم اس کے متعلق کیا رائے قائم کر سکتے ہو.تم اسے فن کے طور پر دیکھو.اس چیز نے مجھے احساس دلایا کہ علم کے

Page 286

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 280 جلد چهارم طور پر کوئی چیز بھی بری نہیں.ہاں اگر وہی چیز تعیش کے طور پر کی جائے تو وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے.مثلاً چوری بھی ایک علم ہے.اگر یہ علم نہ سیکھا جائے تو جاسوس کیسے بنیں.اس کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں.ان میں لکھا ہے کہ چور کی ایک عادت ہوتی ہے اور وہ اسے بار بار دہراتا ہے.مثلاً ایک چور کو کھڑکی سے کودنے کی عادت ہے.دوسرے کو سیندھ لگانے کی عادت ہے.جاسوسوں نے ان پر نشان لگایا ہوا ہوتا ہے.جب بھی کوئی چوری ہوتی ہے جاسوس اس نشان کا تتبع کرتے ہیں.مثلاً کسی گھر میں چوری ہوتی ہے اور چور کھڑکی سے کو دا ہے تو انہیں معلوم ہوگا کہ کتنے چور ایسے ہیں جنہیں کھڑکی سے کودنے کی عادت ہے.ان کے متعلق وہ یہ معلوم کریں گے کہ ان میں سے کون سا شخص فلاں تاریخ کو گھر سے غیر حاضر تھا.جو شخص گھر سے غیر حاضر ہوگا وہ اسے پکڑ لیں گے.غرض یہ بھی ایک علم ہے اور یہ اپنی ذات میں برا نہیں اس سے بہت فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.پس جو علم قانون قدرت کے مطابق ہیں وہ دین کا ایک حصہ ہیں.ان کے ساتھ خود بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے.تمہیں جو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کیا گیا ہے تو اس مقصد کے ماتحت داخل کیا گیا ہے کہ تم دین کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم بھی سیکھو.میں جانتا ہوں کہ تم میں سے 30 ، 40 فیصدی غیر احمدی ہیں لیکن تم بھی اس نیت سے یہاں آئے ہو کہ دینی تعلیم حاصل کرو.بے شک کچھ تم میں سے ایسے بھی ہوں گے جو دوسرے کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے.اس کالج کا خرچ تھوڑا ہے اس لئے وہ یہاں آگئے.یا ان کا گھر ربوہ سے قریب ہے اس لئے وہ اس کالج میں داخل ہو گئے.یا ممکن ہے ان کے بعض رشتہ دار احمدی ہوں اور وہ یہاں آباد ہوں اور انہیں ان کی وجہ سے یہاں بعض سہولتیں حاصل ہوں.لیکن تم میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہوگی جو یہ سمجھتی ہوگی کہ اس کالج میں داخل ہو کر ہم اسلام سیکھ سکیں.تم میں سے جو طالب علم اس نیت سے یہاں نہیں آئے کہ وہ اسلام کی تعلیم سیکھ لیں میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تم اب یہ نیت کر لو کہ تم نے اسلام کی تعلیم سیکھنی ہے.اور جب میں یہ کہتا

Page 287

زریں ہدایات (برائے طلباء) 281 جلد چهارم ہوں کہ تم اسلام کی تعلیم سیکھو تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم احمدیت کی تعلیم سیکھو.ہمارے نزدیک تو اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں.احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے.لیکن اگر تمہیں ان دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے تو تم وہی سیکھو جسے تم اسلام سمجھتے ہو.اگر انسان کرتا اور ہے اور کہتا اور ہے تو وہ غلطی کرتا ہے.دیوبندی بریلویوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے.بریلوی دیوبندیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے.اور سنی شیعوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے اور شیعہ سنیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے.اسی طرح آغا خانیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے.جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے.احمدیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے.لیکن جب یہ سب فرقے اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتے ہیں تو وہ اسلام کے متعلق کچھ نہ کچھ تو ایمان رکھتے ہوں گے ورنہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے.بریلوی بھی مسلمان ہیں ، دیو بندی بھی مسلمان ہیں، سنی بھی مسلمان ہیں، شیعہ بھی مسلمان ہیں ، جماعت اسلامی والے بھی مسلمان ہیں ، احمدی بھی مسلمان ہیں.تم ان میں سے کسی فرقے کے ساتھ تعلق رکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مانتے ہو اس پر عمل کرو.قرآن کریم میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے عیسائیو! تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم عیسائیت پر عمل نہ کرو اور یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ اے یہودیو! تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم یہودیت پر عمل نہ کرو.اب دیکھ لو قرآن کریم ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم اسلام پر عمل کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مذہب پر عمل کرو کیونکہ نیکی کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے مذہب پر عمل کرے.پھر دیکھو اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ جائز رکھا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر مذہب نے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اس کے ماننے والے ان اصول کی پیروی کرتے ہیں.تم سمجھتے ہو کہ یہودی سور نہیں کھاتے اس لئے تم تسلی سے ان کا ذبیحہ کھا لو گے.اسی طرح

Page 288

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 282 جلد چهارم عیسائیوں سے تم کوئی معاملہ کرتے ہوئے نہیں گھبراؤ گے کیونکہ ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور کسی سے فریب نہ کرو.انفرادی طور پر اگر کوئی شخص تم سے فریب کرے تو کرے لیکن اپنے مارل کوڈ (Moral Code) کے ماتحت وہ تم سے فریب نہیں کرے گا.اہل کتاب کی لڑکیوں سے جو شادی کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ وہ تمہاری زوجیت میں آجانے کے بعد اپنے مارل کوڈ کے ماتحت چلیں گی.مثلاً یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم کے ماتحت کوئی عورت اپنے خاوند کو زہر نہیں دے گی.اس لئے تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو گے اور ایک دوسرے پر اعتماد کر سکو گے.گویا شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دی ہے اور بتایا ہے کہ اپنے مخصوص عقیدہ پر چلنے میں بڑی سیفٹی ہے.پس کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنے عقائد کے مطابق عمل کرو.اگر کوئی پروفیسر تمہیں کسی احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو تم اس کا مقابلہ کرو اور میرے پاس بھی شکایت کرو.میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.لیکن اگر وہ تمہیں کہتا ہے تم نماز پڑھو تو یہ تمہارے مارل کوڈ کے خلاف نہیں اور اس کا نماز پڑھنے کی تلقین کرنا ریلیجس انٹرفیرنس (Religious Interference) نہیں.تم نماز پڑھو چاہے کسی طرح پڑھو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.تم اپنے میں سے کسی کو امام بنا لو.کالج کے بعض پر وفیسر غیر احمدی ہیں تم ان میں سے کسی کو امام بنالولیکن نماز ضرور پڑھو.شیعہ اور بوہرہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑتے ہیں باندھتے نہیں.ہم اہل حدیث کی طرح سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں.حفی لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں.اس کے خلاف اگر کوئی پروفیسر تمہیں مجبور کرتا ہے تو تم اس کی بات ماننے سے انکار کر دو.اگر وہ کہتا ہے کہ تم آمین بالجبر کہو تو یہ اہلحدیث کا مذہب ہے حنفیوں کا نہیں.اگر تم حنفی ہو تو تم اس کی بات نہ مانو اور میرے پاس شکایت کرو میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.مذہب میں دخل اندازی کا کسی کو حق نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بنا تا ہے مسلمان نہیں بناتا.لیکن تم میں سے ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ

Page 289

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 283 جلد چهارم تعلیم الاسلام کالج کا طالب علم ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر چلے.اب اسلام کی تم کوئی تعریف کرو اسلام کی جو تعریف ہمارے باپ دادوں نے کی ہے تم اسی کو مانولیکن اگر تم اس تعلیم پر جسے تم خود درست سمجھتے ہو عمل نہیں کرتے تو یہ منافقت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کالج میں اگر کوئی ہندو بھی داخل ہونا چاہے تو ہمارے کالج کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں لیکن وہ بھی اس بات کا پابند ہو گا کہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے.کیونکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے.مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے، ہندو اپنے مذہب پر عمل کرے، عیسائی عیسائیت پر عمل کرے اور یہودی یہودیت پر عمل کرے.پس اس اسلامی حکم کی وجہ سے ہم اسے مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے.لیکن یہ کہ تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرو لیکن کسی مارل کوڈ کے ماتحت نہ چلو تو یہ درست نہیں ہوگا.تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہوگا اور پھر تمہارا فرض ہوگا کہ تم اس کے ماتحت چلو.پس اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں مسلمان نہیں تب بھی ہم تمہیں برداشت کر لیں گے لیکن اس شرط پر کہ تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہو گا.چاہے تم اسے تجربہ کے طور پر تسلیم کرو.مثلا تم تجربہ کے طور پر اپنے ماں باپ کے مذہب کو اختیار کر لو تب بھی ہم برداشت کر لیں گے.لیکن اگر تم کسی مارل کوڈ کے ماتحت مستقل طور پر نہیں چلتے اور نہ کسی مارل کوڈ کو تجربہ کے طور پر اختیار کرتے ہو تو دیانتداری یہی ہے کہ تم اس کالج میں داخلہ نہ لو.اسلام کہتا ہے کہ تم جس مذہب کی تعلیم پر بھی عمل کرنا چاہو عمل کرو.ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.اگر کوئی ہندا اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، عیسائی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، یہودی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے تو وہ ، اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی حنفی المذہب ہے اور وہ حنفی مذہب پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی شیعہ ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے

Page 290

زریں ہدایات (برائے طلباء) 284 جلد چهارم ہے تو اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.کیونکہ یہ کالج تعلیم الاحمدیہ کالج نہیں تعلیم الاسلام کالج ہے اور اسلام ایک وسیع لفظ ہے.کوئی کوڈ آف ماریٹی (Code of Morality) جس کو علمائے اسلام نے کسی وقت تسلیم کیا ہو یا اب اسے تسلیم کر لیں وہ اسلام میں شامل ہے.پس میں طلباء کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم کالج کی روایات کو قائم رکھو.یہ تعلیم الاسلام کالج ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کالج تمہیں عملی مسلمان بنادے گا اور یہی اس کالج کے قائم کرنے کی غرض ہے.پھر ہر کالج کی کچھ نہ کچھ روایات ہوتی ہیں.مثلا آ کسفورڈ یونیورسٹی ہے اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پانے والے تمام طلباء کے لئے ایک خاص قسم کا نشان مقرر کیا ہوا ہے.اب جو شخص اس نشان کو دیکھے گا وہ فوراً سمجھ جائے گا کہ اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی ہے.ہمارے ملک میں علیگڑھ کالج نے اس قسم کی روایات قائم کی تھیں.وہاں سے فارغ ہونے والے طلباء اپنے نام کے آگئے علیگ لکھ لیتے تھے اور جو شخص یہ لفظ پڑھتا اگر وہ بھی علیگڑھ میں پڑھا ہوا ہوتا تو اس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا.اس قسم کی روایات اس کالج کے ساتھ بھی وابستہ ہونی چاہئیں.چونکہ اس کالج کا نام تعلیم الاسلام کالج ہے اور تم میں سے ہر ایک اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں آیا ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم یہاں رہ کر اسلام سیکھو.آگے میں نے بتایا ہے کہ یہاں فرقہ بندی کی کوئی بات نہیں.تم کسی فرقہ کے مخصوص عقائد پر عمل کرو اور دوسرے لوگوں کو بتاؤ کہ کالج والے ہمیں جرات دلاتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے فرقہ کے عقائد پر عمل کریں.اگر ہم حنفیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس سے روکتے نہیں، اگر ہم شیعیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس میں مخل نہیں ہوتے ، اگر ہم دیو بندی یا بریلوی ہیں تب بھی وہ ہمارے مذہبی عقائد میں دخل اندازی نہیں کرتے ، اس سے ملک کے لوگوں میں عمل کی سپرٹ پیدا ہوگی اور پاکستان سے ستی کی لعنت دور ہوگی.شیخو پورہ میں ایک عیسائی پادری تھا وہ اپنی مدت ملازت پوری کر کے واپس جا رہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے سوشل تعلقات کی وجہ سے ان کے گھر گئے.اس سے وہ بھی ممنون

Page 291

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 285 جلد چهارم ہو گیا اور جب ہمارے مبلغ واپس آنے لگے تو وہ بھی انہیں چھوڑنے آیا.ہمارے مبلغ نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی دن پاکستان کی عظمت اور اس کا رعب بھی دنیا پر قائم ہو جائے گا؟ عیسائی پادری نے کہا جب تک اس ملک میں حقہ کا رواج ہے اور جب تک اس ملک میں سستی اور کاہلی پائی جاتی ہے پاکستان رعب اور عظمت حاصل نہیں کر سکتا.اس کا مقصد یہ تھا کہ ویسٹ آف ٹائم اور ویسٹ آف انرجی دونوں انسان کو ترقی کی طرف قدم بڑھانے نہیں دیتیں.دیکھ لو پور پین لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے لیکن ان کے مقابلہ میں ہمارے ہاں ایک جمور پایا جاتا ہے.گویا ہم افیونی ہیں.افیونی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک طبعی افیونی ہوتے ہیں اور دوسرے نفسیاتی افیونی ہوتے ہیں.ہم نفسیاتی افیونی ہیں.میں جب انگلستان گیا میرے ساتھ سلسلہ کے ایک عالم بھی تھے.ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا حضور ! کیا آپ نے یہاں کوئی آدمی چلتے بھی دیکھا ہے؟ میں ان کا مطلب سمجھ گیا میں نے کہا نہیں.میں نے یہاں ہر شخص کو دوڑتے دیکھا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کوئی آفت آ رہی ہے.کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یورپ والی مزدوری نہیں ملتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا مزدور ہمارے مزدور سے پانچ گنا زیادہ کام کرتا ہے.اگر ہمارے ملک میں ایک مزدور ڈیڑھ روپیہ روزانہ کماتا ہے تو ایک یورپین مزدور دن میں ساڑھے سات روپیہ کا کام کر دیتا ہے.اب پاکستانی مزدور کے مقابلہ میں پانچ گنا زیادہ کام کرنے پر اگر اسے پانچ روپیہ روزانہ مزدوری دی جائے تو کیا حرج ہے.وہاں ایک عمارت بن رہی تھی.ہمیں پہلی نظر میں یوں معلوم ہوا کہ گویا آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اسے بجھانے کے لئے جا رہے ہیں.لیکن ہمارا مزدور اس طرح چلتا ہے کہ گویا اسے دھکا دے کر موت کی طرف لے جایا جا رہا ہے.جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو آہ بھرتا ہے، پھر کمر پر ہاتھ رکھتا ہے، پھر اینٹ پر پھونک مارنے لگتا ہے، اس کے بعد وہ اسے اٹھا کر ٹوکری میں رکھتا ہے اور یہی عمل وہ دوسری اینٹوں پر کرتا ہے.آٹھ دس منٹ

Page 292

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 286 جلد چهارم کے بعد وہ ٹوکری اٹھائے گا.پھر جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے اس کے جسم میں ہیں خم پڑیں گے.پھر جب وہ ٹوکری اٹھا کر قدم اٹھاتا ہے تو اس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے.اس طرح وہ ہیں پچیس منٹ میں معمار کے پاس پہنچتا ہے.پھر معمار بھی اس قسم کی حرکات کرتا ہے کہ گویا کسی مریض کا آپریشن ہونے لگا ہے.پس جب تک تم لوگ قربانی ، محنت اور دیانتداری کی عادت نہیں ڈالتے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پرانی عادات کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کوئی نئی عادت پیدا نہ ہونے دینا آسان ہوتا ہے.مثلاً بڑی عمر میں جا کر سگریٹ وغیرہ کا استعمال ترک کرنا مشکل ہوتا ہے.لیکن اگر اس عمر میں ان باتوں کو چھوڑ دو تو زیادہ مشکل نہیں.اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ قوم کی عمارت کو بنانا نو جوانوں کا کام ہوتا ہے.تم اس فقرہ کو روزانہ دہراتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بیان کرتے ہو لیکن عملی طور پر اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں مدنظر نہیں رکھتے.مثلاً سکولوں اور کالجوں کے لڑکے سٹرائیک کرتے ہیں اور اپنے جلسوں اور تقریروں میں یہ الفاظ دہراتے ہیں کہ ہم قوم کے معمار ہیں.قو میں ہمیشہ نو جوانوں سے بنا کرتی ہیں.اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ لڑکے قوم کے معمار ہوتے ہیں.لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ سٹرائیک کرنے والے لڑکے ہی قوم کے معمار ہیں.اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر تم اپنی بری عادات چھوڑ دیتے ہو تو تم فی الواقع قوم کے معمار ہو.لیکن اگر تم ایسی حرکات کرتے ہو جن سے قوم کو نقصان پہنچتا ہے تو تم قوم کے معمار کہلانے کے مستحق نہیں.تم اپنی قوم کی سٹڈی (Study) کرو.اگر تم دیکھتے ہو کہ ہمارے بڑوں میں سے بعض جھوٹ بولتے تھے تو تم جھوٹ نہ بولو.اس طرح تم اپنی قوم سے جھوٹ جیسی لعنت کو دور کر سکو گے.میری ایک رشتہ کی ہمشیرہ احمدی نہیں ہیں.ویسے وہ احمدیت سے محبت کا اظہار کرتی ہیں.جب کبھی ان سے کہا جاتا ہے کہ تم احمدیت قبول کیوں نہیں کرتیں؟ تو وہ یہی کہا کرتی ہیں کہ ہم تو پہلے ہی احمدی ہیں کون کہتا ہے کہ ہم غیر احمدی ہیں.ایک دفعہ اس قسم کی باتیں ہو رہی تھیں تو انہوں نے کہا فلاں مسجد میں ہم نے احمدیوں

Page 293

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 287 جلد چهارم کے ساتھ نماز پڑھی تھی.ان کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا اس نے کہا اماں! جانے بھی دو.احمدی تو فلاں جگہ نماز پڑھتے ہیں.اب ہمیں یہ مذاق ہاتھ آ گیا ہے کہ جب کوئی ایسی بات ہو تو ہم اس لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات درست ہے.اسی طرح مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے جنہیں "سر" کا خطاب بھی ملا ہوا تھا.انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گورنمنٹ نے باہر بھجوایا.ان کے ایک کالج فیلو احمدی تھے.انہوں نے اس احمدی دوست سے کہا کہ میں فلاں کا نفرنس میں شرکت کے لئے جا رہا ہوں.مجھے وائسرائے نے اختیار دیا ہے کہ میں جسے چاہوں اپنے ساتھ بطور سیکرٹری لے جاؤں.میرا خیال ہے کہ تم میرے ساتھ سفر میں سیکرٹری کے طور پر رہو.چنانچہ انہوں نے اس احمدی دوست کو اپنا سیکرٹری بنالیا.چونکہ وہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے اس لئے لوگ ان کا لحاظ کرتے تھے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.ایک دفعہ ایک جگہ مختلف جگہوں کے انگریز بیٹھے اپنے تجربات سنا رہے تھے تو انہوں نے ان سے کہا آپ بھی اپنا کوئی تجربہ سنائیں.اس پر انہوں نے بھی اپنا ایک تجربہ سنایا.ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ بدقسمتی سے اس موقع پر میں بھی ساتھ تھا اور میں جانتا تھا کہ واقعہ اس طرح نہیں جس طرح یہ اب بیان کر رہے ہیں.میں نے سمجھا کہ انہیں غلطی لگی ہے اس لئے جب وہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے کہا جناب ! یہ واقعہ اس طرح نہیں ہوا جس طرح آپ نے بیان کیا ہے بلکہ یہ واقعہ اس طرح ہوا ہے اُس موقع پر میں بھی آپ کے ساتھ تھا.اس پر وہ خاموش ہو گئے.اس کے بعد ایک دن دوبارہ انہوں نے ایک مجلس میں ایک واقعہ سنایا.اُس موقع پر بھی میں نے کہا آپ کو اس واقعہ کے بیان کرنے میں غلطی لگی ہے.میں بھی آپ کے ساتھ تھا.واقعہ اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے بیان کیا ہے.انہوں نے کہا تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن ایسا کہنے میں وہ کچھ انقباض محسوس کر رہے تھے.کھانا کھانے کے بعد جب وہ کمرہ سے باہر نکلے تو انہوں نے میری گردن پر ہاتھ مار کر کہا کہ کیا جھوٹ بولنا تیرا اور تیرے باپ کا ہی حق ہے میر احق نہیں ؟ تو اب دیکھوا گر چہ

Page 294

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 288 جلد چهارم وہ ایک بڑے آدمی تھے لیکن انہیں جھوٹ بولنے کی عادت پڑی ہوئی تھی.دو دفعہ انہیں ٹوکا گیا تو انہوں نے برداشت کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ جب میں مجلس کو گرمانے کے لئے مبالغہ آمیز بات کرتا ہوں تو تمہیں کیا حق ہے کہ مجھے ٹو کو.لیکن تم اگر چاہو تو اس قسم کی عادتوں کو ترک کر سکتے ہو اور اس طرح ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے.تم دیکھتے ہو کہ ہمارے ملک میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور اس بے اطمینانی کی یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے قول اور فعل میں فرق ہے.مجھے یاد ہے جب میں یورپ گیا تو رستہ میں کچھ روز ہم دمشق میں بھی ٹھہرے.ہمارے خلاف کسی نے ایک اشتہار شائع کیا اس کے جواب میں ہم نے بھی ایک اشتہار شائع کیا.پولیس نے ہمیں اطلاع دی کہ آپ کا وہ اشتہا ر ضبط کر لیا گیا ہے.اُن دنوں وہاں دو گورنر ہوا کرتے تھے.ایک فرانسیسی اور دوسرا شامی.دوسرے دن میں فرانسیسی گورنر سے ملنے گیا تو میں نے ان سے اشتہار کا ذکر کر دیا کہ وہ دوسرے لوگوں کے ایک اشتہار کے جواب میں تھا لیکن پولیس نے چھاپہ مار کر اسے ضبط کر لیا ہے.اس پر وہ کہنے لگا یہ بری بات ہے لیکن دراصل اس بات کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.مجھے افسوس ہے کہ یہ حکم شامی گورنر کا ہے.آپ کل اپنے کسی آدمی کو بھجوائیں تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس بارہ میں مناسب غور کریں.چنانچہ دوسرے دن میرا سیکرٹری وہاں چلا گیا تو شامی گورنر نے کہا یہ دراصل دوسرے گورنر کی شرارت ہے میں اس کی تحقیقات کروں گا.جب میرے سیکر ٹری باہر آئے تو گورنر کی لڑکی بھی باہر آئی اور وہ ہنس کر کہنے لگی میرا باپ جھوٹ بولتا ہے میں نے خود سنا ہے کہ وہ اس قسم کا آرڈر دے رہا تھا.غرض بے اطمینانی اس قسم کی باتوں سے پھیلتی ہے.انگریز کتنا ہی برا ہولیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قوم کا ایک مخصوص کیریکٹر تھا.ہماری ایک زمین تھی جو صد را انجمن احمد یہ نے خرید کی ہوئی تھی.وہ افتادہ زمین تھی کسی کام نہیں آتی تھی.وہاں لوگ کھیلتے اور میلے کر لیتے تھے.چونکہ وہ جگہ خالی تھی اس لئے مخالفوں نے شور مچایا کہ یہ پبلک کی جگہ ہے اور اس

Page 295

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 289 جلد چهارم پر انہوں نے قبضہ کر لیا.ہم نے بھی اس زمین کو واپس لینے کی کوشش کی.کاغذات مسٹر ایمرسن کے پاس تھے وہ مالیات کے ماہر تھے.انہیں ہمارے ایک دوست ملے تو انہوں نے کہا میں نے یہ کا غذات چھ ماہ سے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں.میں نے اپنا پورا زور لگایا ہے کہ میرا ہاتھ پڑے تو میں آپ سے یہ زمین چھین لوں لیکن چھ ماہ تک غور کرنے کے باوجود میرا کہیں ہاتھ نہیں پڑا.اس لئے میں نے زمین آپ کو واپس دے دی ہے.اگر ہمارے ملک کے افراد میں بھی یہی روح پیدا ہو جائے کہ وہ کسی کا حق چھینے کے لئے تیار نہ ہوں تو قلوب کی بے اطمینانی بڑی حد تک دور ہو سکتی ہے.اس کا لج میں جو غیر احمدی طالب علم آئے ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر تم اس کا لج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہو تو صرف اسلام سیکھنے کے لئے.ورنہ اگر دنیوی ملازمتوں کو دیکھا جائے تو ہماری جماعت کے لئے کئی قسم کی مشکلات ہیں.گو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مختلف قسم کی مشکلات کے باوجود احمدی گورنمنٹ سروسز میں عام طور پر منتخب ہو جاتے ہیں اور یہ صرف ہمارے تعلیمی اداروں کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے.دوسری جگہوں میں لڑکے سینما د یکھتے ہیں، بعض شراب بھی پیتے ہیں اور اس طرح اپنے وقت کو لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک انگریز پادری نے یہ کہا تھا کہ جب تک اس ملک سے حقہ کی عادت نہیں جائے گی یہ ملک دنیا کی نظروں میں عظمت حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح میں یہ کہوں گا کہ جب تک سینما دیکھنے اور ریڈیو کے گانے سننے کی عادت نہیں جائے گی ہمارے ملک کو ترقی حاصل نہیں ہو گی.لیکن جو نوجوان ان عادتوں سے بچائے جائیں گے وہ ترقی حاصل کرلیں گے.یورپین لوگوں نے تعلیمی اداروں کے متعلق کئی قسم کے قواعد بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے طلباء پر بعض خاص پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں.لیکن ہمارا ملک ابھی اس بارہ میں بہت پیچھے ہے جس کی وجہ سے طلباء اخلاقی لحاظ سے بلند معیار حاصل نہیں کر سکتے.اس کے مقابلہ میں جو تعلیم تمہیں یہاں حاصل ہوگی وہ تمہیں ہر سوسائٹی اور ہر مجلس میں ایک امتیازی مقام عطا کرے گی اور تمہارا

Page 296

زریں ہدایات (برائے طلباء ) سکہ دوسروں کے دلوں پر بٹھا دے گی.290 جلد چهارم لوگ کہتے ہیں کہ احمدی جماعت کے لوگ سفارشوں کی وجہ سے ملازمتوں میں داخل ہو جاتے ہیں ان کی یہ بات بالکل غلط ہے.احمدیوں کے ملازمتوں میں لئے جانے کی وجہ صرف ان کے اخلاق ہیں سفارشات نہیں.پس اگر تم اپنے استادوں سے تعاون کرو گے تو آئندہ زندگی میں تمہاری ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہوگی.اور اگر ایک افسر متعصب ہونے کی وجہ سے کسی وقت تمہیں رد بھی کر دے گا تو دوسرا افسر تمہارے اخلاق دیکھ کر تمہیں جگہ دے دے گا.ایک دفعہ ایک پوسٹ کے لئے ایک احمدی دوست نے درخواست دی لیکن جب وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوا تو اس کے بعض ممبران نے کہا چونکہ یہ احمدی ہے اس لئے ہم اسے یہ جگہ نہیں دے سکتے.کمیشن کا ایک انگریز بھی ممبر تھا اس نے کہا تم اس کو موقع تو د داور دیکھو کہ یہ اپنی قابلیت کی وجہ سے اس جگہ کا مستحق ہے یا نہیں.اس کے کہنے پر انہوں نے اس احمدی کو موقع دے دیا اور بعد میں کمیشن کے غیر احمدی ممبروں نے بھی کہا کہ واقعہ میں یہی شخص اس پوسٹ کا حقدار تھا.پس اگر تم ایک جگہ تعصب کی وجہ سے رو کر دیے جاؤ گے تو دوسری جگہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے تمہیں لے لیا جائے گا.تم دیکھ لو چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو سر میاں فضل حسین صاحب نے ہی آگے کیا تھا اور پھر بڑے زور سے آگے کیا تھا.گورنمنٹ نے کسی کام کے سلسلہ میں میاں فضل حسین صاحب کو افریقہ بھیجنا تھا انہوں نے کہا میں اس شرط پر افریقہ جانا منظور کرتا ہوں کہ تم میری جگہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو لگاؤ.پھر جب مستقل ممبری کا سوال آیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس کئی غیر احمدی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ کیا آپ اس کا فر کو ممبر بنا ئیں گے؟ میں نے کہا مجھے تو یہی کافر اس کام کے قابل نظر آتا ہے.تمہاری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی موزوں آدمی ہو تو اس کا نام بتا دو.وہ کہنے لگے کہ یہی سوال تھا جو مجھے ان سے چھڑا لیتا تھا کیونکہ اس کے جواب میں ہر شخص اپنا نام ہی لیتا تھا.غرض کیریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے قوم کئی قسم کی خوبیوں سے محروم ہو جاتی ہے.اگر تم اپنا

Page 297

زریں ہدایات (برائے طلباء) 291 جلد چهارم کیریکٹر بنا لو گے تو وہی کیریکٹر تمہارے لئے نیک نامی کا لیبل ہوگا اور مستقبل میں تمہارا نام روشن کر دے گا.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے آپ کو تعلیم الاسلام کے لیبل کے مطابق بناؤ.اور یہ کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی اسلامی فرقہ جو اپنے اخلاق کی بنیاد قرآن کریم پر رکھتا ہے تم اس میں شامل ہو جاؤ.مخالفت محض چند عقائد کی بناء پر ہے لیکن جہاں تک اسلام کا سوال ہے سارے فرقے مسلمان ہیں.تمہیں یہ بحث کرنے والے تو نظر آئیں گے کہ خدا تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں.چنانچہ دیو بندیوں اور اہلحدیث کی بہت سی کتابیں اس مضمون پر لکھی گئی ہیں لیکن تمہیں ایسا کوئی فرقہ نظر نہیں آئے گا جو یہ کہے کہ کوئی مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں.پس اگر قرآن کریم پر بنیا د رکھی جائے تو تمام فرقوں میں بہت تھوڑا فرق رہ جاتا ہے.اور اصل چیز قرآن ہی ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے.بہر حال جیسے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ باتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمُ 7 یعنی میرے سب صحابہ شستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرو تم ہدایت پا جاؤ گے.اسی طرح تم کسی اسلامی فرقہ کے پیچھے چلو تم اصولی اور بنیادی امور میں غلطی نہیں کرو گے.بے شک عقائد میں ہمارا دوسرے فرقوں سے کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور ہو گا لیکن عمل میں آکر یعنی نماز، روزہ، زکوۃ اور حج میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں اور اپنی عملی زندگی میں ہم نے کوئی ایسا اصول نہیں بنایا جس پر اس سے پہلے کسی بزرگ نے عمل نہ کیا ہو.پس چند عقائد اور بعض مائنر ڈیٹیلر (Minor Details) کے علاوہ سب اسلامی فرقوں کا آپس میں اتحاد ہے.اس وقت جو اختلاف نظر آتا ہے وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے ہمارے ہاں رواج تھا کہ لوگ شادی بیاہ پر نیو تا دیتے تھے اور بد قسمتی سے یہ رواج بھی تھا کہ جتنا کسی نے پہلے دیا ہو کم از کم اتنا ضرور دیا جائے.ایک شادی کے موقع پر کسی بخیل نے میں روپے نیو تا دینا تھا اور اس قدر رقم دینا اسے دوبھر معلوم ہو رہا تھا.وہ باہر نکلا تو کوئی غریب آدمی بھی باہر کھڑا تھا جو اسی فکر میں تھا کہ نیوتا

Page 298

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 292 جلد چهارم کس طرح ادا کرے.اس بخیل نے دوسرے شخص سے کہا آؤ میں تمہیں نیوتا نہ دینے کی ایک تجویز بتاؤں.چنانچہ وہ دونوں چھت پر چڑھ گئے اور چھت کے اوپر پیر مارنے لگے.اس سے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں پر مٹی گری.گھر کے مالک نے آواز دی اور کہا تم چھت پر کون ہو؟ اس پر اس بخیل نے کہا اچھا! اب ہم کون ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے وہ دونوں وہاں سے ناراض ہو کر چلے گئے.اس وقت مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں.تھیوری ڈاگما اور کریڈ (Theory dogma or Crccd) آرام سے طے کرنے والی باتیں ہیں.یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لڑا جائے.پس میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم تعلیم الاسلام پر عمل کرو.پھر چاہے تم کسی فرقہ کے عقائد کے مطابق چلو تمہارے اختلافات دور ہو جائیں گے.اس کے بعد میں اپنے بچوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.جب میں نے دوسروں سے کہا ہے تو ان سے کیوں نہ کہوں.میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے عمل سے یہ ثابت کر دو کہ تمہارا ایک قومی کیریکٹر ہے.اگر تم مثلاً کسی کے بہکانے سے سینما دیکھنے چلے جاتے ہو تو تمہارا کیا کیریکٹر ہے.اگر تمہارا اتنا ہی کیریکٹر ہے کہ ٹکٹ مفت مل گیا تو سینما دیکھ لیا تو جب ملک کی کسی دشمن سے لڑائی ہوئی اور تم کسی دستہ فوج کے کمانڈر ہوئے تو کیا تم دباؤ کے نیچے آ کر ملک کے راز افشاء نہیں کرو گے؟ اگر تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے کیریکٹر کا خیال نہیں رکھتے تو تم بڑی باتوں میں اس کا خیال کیسے رکھو گے.تم دیال سنگھ کالج کو تو جانتے ہو گے لیکن تمہیں شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ اس کے بانی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا.اس نے اسلام کا مطالعہ کیا.اس کا ایک مولوی سے دوستانہ تھا.اس نے جب اسلام کا مطالعہ کیا تو اس نے اسے قبول کرنے کا ارادہ کر لیا.آریوں کو پتہ لگا تو انہوں نے اسے سمجھانا شروع کیا.اس نے کہا مجھے اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے بہتر اور کوئی مذہب نہیں.انہوں نے کہا تم نے صرف کتابی علم حاصل کیا ہے تم نے ان لوگوں کے عمل کو نہیں دیکھا.تم اس مولوی کو جس سے تمہارا دوستانہ ہے ایک

Page 299

زریں ہدایات (برائے طلباء) 293 جلد چهارم مسلمان ہزار یا دو ہزار روپیہ دے دو تو یہ تمہارے ساتھ شراب بھی پی لے گا حالانکہ شراب اسلام نے حرام کی ہے.چنانچہ اس نے ایک دن اس مولوی سے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے اسلام قبول کر رہا ہوں اور اپنا سب کچھ چھوڑ رہا ہوں تم دیکھتے ہو کہ میں شراب کا عادی ہوں.اسلام قبول کرنے کے بعد تو مجھے شراب پینا ترک کرنا ہو گا.اب آخری دفعہ مجلس لگ جائے تو کیا ہی اچھا ہو.اور پھر جب میں نے آپ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دینا ہے تو آپ میری خاطر ایک دفعہ تو شراب پی لیں.میں آپ کی خدمت میں دو ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا.چنانچہ مولوی صاحب نے دو ہزار روپیہ ہاتھ میں لیا اور شراب پی لی.اس سے اس نے معلوم کر لیا کہ آریہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہی درست ہے.مہ کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں چنانچہ وہ برہمو سماج میں چلا گیا.پس تمہیں اپنے آپ کو ایسا بنانا چاہئے کہ جو کچھ تم منہ سے کہتے ہو اس پر عمل بھی کرو.تمہارا قول اور فعل ایک ہو.آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ والے تمہاری نقل نہیں کرتے لیکن تم یورپ والوں کی نقل کرتے ہو.در حقیقت جب تم ان کی نقل کرتے ہو تو اپنی ذلت پر آپ مہر لگاتے ہو.میں جب انگلستان گیا تو چونکہ وہاں سردی زیادہ تھی اس لئے میں کچھ علیگڑھی فیشن کے گرم پاجامے بھی بنوا کر ساتھ لے گیا اور میرا ارادہ تھا کہ وہاں جا کر انہیں استعمال کروں گا.لیکن میں نے وہاں جاتے ہی پاجامے استعمال نہیں کر لیتے تھے.میں نے ابھی شلوار ہی پہنی ہوئی تھی کہ ایک دو دن کے بعد امام صاحب مسجد لندن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے شلوار پہننے کی وجہ سے لوگوں کو ٹھوکر لگ رہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امام جماعت احمد یہ ننگے پھر رہے ہیں.کیونکہ اگر کسی کی قیمص پتلون سے باہر ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ نگا ہے.میں نے کہا اگر وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ میں نے ان کے وطن کا لباس نہیں پہنا اس لئے میں نگا ہوں تو یہ ان کی عقل کا فتور ہے.میں نے لباس پہنا ہوا ہے.انہوں نے کہا بہر حال ان کا لحاظ کرنا چاہئے آپ شلوار کی بجائے پتلون پہن لیا

Page 300

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 294 جلد چهارم کریں.میں نے کہا میں آتی دفعہ چند پاجامے علیگڑھی فیشن کے سلوا کر لایا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں یہاں آکر وہ پاجامے استعمال کروں گا لیکن اگر انہیں اعتراض ہے کہ میں نے یہاں آکر ان کا لباس کیوں نہیں پہنا تو میں اب وہ پاجامے بھی استعمال نہیں کروں گا شلوار ہی پہنوں گا.شام کو سر ڈینی سن راس مجھے ملنے آئے.وہ علیگڑھ میں کچھ عرصہ رہ گئے تھے.ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے.میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں یہاں آ کر اپنا ملکی لباس پہنتا ہوں اور آپ کے ملک کے لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں ننگا پھر رہا ہوں آخر وہ کیوں برا مناتے ہیں؟ کیا یہ ہمارا ملکی لباس نہیں ؟ سر ڈینی سن راس نے کہا وہ اس لئے برا مناتے ہیں کہ انہیں اس لباس کے دیکھنے کی عادت نہیں.میں نے کہا پھر مجھے بھی ان کا لباس دیکھنے کی عادت نہیں.میں اسے برا کیوں نہ سمجھوں.اگر کوئی روسی، جرمن یا فرانسیسی آپ کے ملک میں آتا ہے اور وہ اپنا ملکی لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اسے برانہیں سمجھتے لیکن اگر کوئی ہندوستانی یہاں آکر اپنا لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اس پر برا مناتے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں.سرڈینی سن راس نے کہا ہاں بات تو یہی ہے.اس پر میں نے کہا اگر یہی بات ہے تو ہر عقلمند ہندوستانی کو چاہئے کہ وہ آپ کی کسی بات میں نقل نہ کرے.کم از کم میں اس بات کے لئے تیار نہیں کہ آپ کو بڑا سمجھوں اور اپنے آپ کو ذلیل سمجھوں.میں نے کہا سر ڈینی سن راس! مجھے سچ سچ بتائیں کیا آپ لوگ اپنے ذہن میں ہر اُس ہندوستانی کو ذلیل نہیں سمجھتے جو ہر بات میں آپ کی نقل کرتا ہے؟ انہوں نے کہا بات تو یہی ہے.پس تم نے ہر جگہ پھر نا ہے.اگر تم ہر بات میں دوسروں کی نقل کرو تو تمہارے ملک اور مذہب کی کیا عزت رہ جائے گی.ہم جب انگلستان گئے تو جس جہاز میں ہم سفر کر رہے تھے اس کا ڈاکٹر مجھے ملا.وہ اٹلی کا رہنے والا تھا وہ ابھی کنوارا تھا.میں نے اسے کہا تم شادی کیوں نہیں کرتے؟ وہ انگریزی نہیں جانتا ا تھا.اس نے اشاروں سے بات کو سمجھانے کی کوشش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا.اٹالین وائف ہسبنڈ کم ہوم.شی سٹنگ.اے فرینڈ کم ہوم، شی.اس کے

Page 301

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 295 جلد چهارم ساتھ اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ منہ پر پوڈر لگاتی ہے) اٹالین نو وائف یعنی اٹالین بیوی بھی کوئی بیوی ہے.جب خاوند گھر آتا ہے تو وہ اس کی پرواہ بھی نہیں کرتی.لیکن جب کوئی دوست گھر آ جاتا ہے تو چہرہ پر پوڈر مل لیتی ہے.یہی حال ہمارا ہے ہم غیر کو دیکھتے ہیں تو اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں اور جب گھر میں ہوں تو دھوتی باندھ لیتے ہیں.گویا ہماری سادگی گھر والوں کے لئے ہے اور ہمارا فیشن دوسروں کے لئے ہے.اگر ہم خود ایسا کرتے ہیں تو دوسرا شخص ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا.ہمارے ایک امریکن احمدی نو مسلم یہاں آئے تو شلوار پہنے لگے.میں نے انہیں کہا کہ تم نے اپنے وطن کا لباس چھوڑ کر شلوار کا استعمال کیوں شروع کر دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں آرام رہتا ہے.پس شلوار اگر چہ آرام دہ لباس ہے لیکن ہم دوسروں کو دیکھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں.مگر جب یورپین لوگ ہمارے ہاں آتے ہیں تو اپنا لباس ترک نہیں کرتے اور یہ ایک قومی کیریکٹر ہے.تم بھی اپنے اندر کیریکٹر پیدا کرو لیکن وہ کیریکٹر اسلامی ہو غیر اسلامی نہ ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام میں کوئی خاص لباس نہیں اسی طرح پتلون کوئی انگریزی لباس نہیں.انگریز تو کچھ عرصہ قبل کھال کی دھوتی پہنتے تھے.پتلون ترکی لباس ہے اس لئے اس کے پہننے میں کوئی عیب نہیں.ہاں صرف نقل کرنے میں عیب ہے ورنہ یہ نہیں کہ کوٹ کلمہ پڑھتا ہے اور پتلون حضرت عیسی علیہ السلام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے.میں اس وقت کیریکٹر پر بحث کر رہا ہوں.اگر کوئی لباس آہستہ آہستہ ہماری قوم میں آ جائے تو آ جائے.اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن تم کسی کی نقل نہ کرو.آج سے چند سال قبل ہمارے باپ دادے موجودہ کاٹ کا کوٹ نہیں پہنتے تھے.کچھ کپڑا مہنگا ہو گیا ہے اور کچھ وقار کی وجہ سے لوگوں نے پہلا کاٹ بدل لیا.پس جس طرح کوئی اسلامی زبان یا غیر اسلامی زبان نہیں اسی طرح کوئی لباس اسلامی یا غیر اسلامی نہیں.جو لباس آہستہ آہستہ ہم میں آجائے وہ ہمارے لباس کا حصہ ہے.اس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں.لیکن تم اپنا

Page 302

زریں ہدایات (برائے طلباء) 296 جلد چهارم کیریکٹر وہ بناؤ جو اسلامی ہو یعنی جس میں قومیت کا احترام ہو.اسلام نماز کی سہولت چاہتا ہے اور جس لباس میں یہ خوبی ہو وہی اسلامی لباس ہے.پس اس کا لج میں رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے مانو کو سامنے رکھو اس سے تمہاری عزت بڑھے گی اور لوگ تمہاری نقل کریں گے تم ان کی نقل نہیں کرو گے.آخر میں میں دعا کر دیتا ہوں کہ خد تعالی اس کالج کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اور اس کے طالب علم رسول کریم کے شاگرد ہوں جو لوگوں کو آپ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں.ہماری کوتاہیوں اور بد عملیوں کی وجہ سے آج رسول کریم ﷺ کو گالیاں پڑ رہی ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح فرمائے اور انہیں محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں میں شامل روزنامه الفضل ربوه مورخہ یکم، 2 ، 3 ،6، 7 دسمبر 1955ء) فرمائے.1: الزخرف.62 2 بخاری کتاب المغازی باب غزوة موتة من أرض الشام حدیث 4263 صفحه 722 مطبوعه مکتبه دار السلام مارچ 1999ء الطبعة الثانية 3: الصف.3 4: الانعام 12 5 البقرة 45 : وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا عَلَيْهِ ابَاءَ نَا اَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا (البقرة.171) :7 مشكوة باب مناقب الصحابه الفصل الثالث صفحہ 1696 حدیث 6009 الجزء الثالث مطبوعه المكتب الاسلامى بيروت 1985 الطبعة الثالثة

Page 303

زریں ہدایات (برائے طلباء) 297 جلد چهارم ذاتی کاموں کے مقابلے میں خدا اور اس کے دین کو مقدم رکھنا ضروری ہے مؤرخہ 5 دسمبر 1955 ء کو جامعتہ المبشرین کے اساتذہ اور طلباء نے محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے اعزاز میں الوداعیہ تقریب منعقد کی.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حاضرین کو جن نصائح سے نوازا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.” حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے ان حالات پر اختصار سے روشنی ڈالی جن کے تحت ابتدا میں محترم شاہ صاحب کو تبلیغ کی غرض سے بلاد عربیہ میں بھجوایا گیا تھا اور بتایا کہ اس مرتبہ بھی جب میں دمشق گیا تو میں نے دیکھا کہ اب بھی وہاں لوگوں کے دل میں شاہ صاحب کا بہت احترام ہے اور وہ ان کی بہت تعریف کرتے ہیں.اگر چہ وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط جماعت قائم ہے جو نہایت مخلص احباب پر مشتمل ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام کے پیش نظر يَدْعُو لَكَ ابْدَالُ الشَّامِ وَ صُلَحَاءِ الْعَرب میں نے چاہا کہ وہاں جماعت اور زیادہ ترقی کرے اس لئے میں نے شاہ صاحب کو ایک مرتبہ پھر وہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا.گواب شاہ صاحب کی عمر بڑی ہے اور میں بھی بیمار ہوں.لیکن میں نے سوچا کہ انسانوں کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے خدا اور اس کے دین کا کام بہر حال مقدم رہنا چاہئے.چنانچہ میرے کہنے پر اسی جذبہ کے ماتحت شاہ صاحب تیار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں اہل شام کا ایک بہت بڑا مقصد بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دعاؤں کے ساتھ احمدیت کو ترقی دینی ہے پس یہ ضروری ہے کہ دعاؤں اور قربانیوں کا

Page 304

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 298 جلد چهارم یہ سلسلہ اور بڑھے اور وسیع ہوتا اس کے بڑھنے کے ساتھ دنیا میں احمدیت کی ترقی اور اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا ہوں.اگر وہاں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہو جائے تو اس کا نفسیاتی طور پر یہاں بھی خوشگوار اثر ظاہر ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شاہ صاحب کے موجودہ سفر کو ان کے پہلے سفر سے بھی زیادہ کامیاب کرے اور وہ پہلے سے بھی کئی گناہ زیادہ جماعت وہاں چھوڑ کر کامیابی و کامرانی کے ساتھ واپس آئیں.“ (الفضل 6 دسمبر 1955ء)

Page 305

زریں ہدایات (برائے طلباء) 299 جلد چهارم گورنمنٹ کالج لائل پور کے مسلمان طلباء کو نصائح اسلامی حکومت کے قیام کا اصل طریق یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سچا اور حقیقی مسلمان بنانے کی کوشش کرے گورنمنٹ کالج لائل پور کے طلباء کی ایک پارٹی 29 جنوری 1956ء کوریوو آئی جس کی نے مرکزی دفاتر ، خلافت لائبریری اور تعلیمی ادارے دیکھنے کے علاوہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی سے بھی ملاقات کی.چنانچہ پارٹی کی خواہش پر حضور نے انہیں قیمتی نصائح سے بھی مستفیض فرمایا.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس زمانہ میں ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑی نصیحت یہی ہو سکتی ہے کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کرے.اس وقت ہر شخص اپنے اپنے کام میں لگا ہوا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کی طرف بہت کم لوگوں کو توجہ ہے.سلسلہ عالیہ احمدیہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.ہر کے در کار خود با دین احمد کار نیست یعنی دنیا میں ہر شخص اپنے اپنے کام میں مصروف ہے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین کی طرف کسی کو توجہ نہیں.اس زمانہ میں دنیا کی محبت اس قدر بڑھ گئی ہے.کہ دنیا میں سوائے اس کے اور کوئی چیز ہی نظر نہیں آتی.اگر انسان کی طبیعت ترقی کی

Page 306

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 300 جلد چهارم طرف مائل ہوتی ہے تو وہ صرف یہی سوچتا ہے کہ وہ کوئی نوکری کر لے، اپنی تجارت کو بڑھا لے یا زراعت میں ترقی کر لے لیکن وہ کبھی نہیں سوچتا کہ وہ کوشش کرے کہ اس کے دل میں خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت ترقی کر جائے.اس وقت ہمارے ملک میں محض رسم کے طور پر یہ جوش پیدا ہو چکا ہے کہ ملک میں اسلامی حکومت قائم ہونی چاہئے.حالانکہ سب سے بڑا ملک انسان کا اپنا قلب اور اس کا دماغ ہے مگر ان میں اسلامی حکومت قائم نہیں کی جاتی.گویا باہر تو ہم اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں مگر دل اور دماغ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی طرف ہماری توجہ نہیں.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ کراچی میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے.ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق پنجاب میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے ، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق سرحد میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے ، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ سابق بلوچستان میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے ، ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ایسٹ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہو جائے لیکن ہم یہ نہیں چاہتے کہ ہمارے دل و دماغ میں بھی کہ جس پر ہمارا اپنا قبضہ ہے اسلامی حکومت قائم ہو.کیونکہ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمیں اپنے دل و دماغ میں اسلامی حکومت قائم کرنی چاہئے اور پھر باوجود اس کے کہ ایسا کرنا ہمارے امکان میں ہے ہم اس میں کامیاب نہ ہوں تو دوسرا شخص اعتراض کرے گا کہ اسے ملک میں تو اسلامی حکومت قائم کرنے کا فکر ہے لیکن ابھی تک یہ اپنے دل اور دماغ میں بھی اسلامی حکومت قائم نہیں کر سکا.اس اعتراض سے بچنے کے لئے اپنے دل و دماغ کو چھوڑ کر ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کا شور مچایا جا رہا ہے.اگر ہم باہر نکل کر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی شخص تاجر ہے، کوئی زمیندار، کوئی صنعت کار ہے، کوئی پروفیسر ہے، کوئی طالب ہے اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ 1 یعنی تم میں سے ہر شخص حاکم ہے اور جو شخص بھی اس کے تابع ہے اس کے متعلق اس سے سوال کیا جائے گا کہ آیا اس نے اسے اسلام کی تعلیم پر چلایا ہے یا نہیں.مثلاً باپ ہے قیامت کے دن اس سے سوال کیا جائے گا

Page 307

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 301 الله جلد چهارم کہ آیا اس نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو اسلام کی تعلیم پر چلا یا یا نہیں.ان کو اسلام کی تعلیم دی ہے یا نہیں.خاوند ہے اس سے بیوی کے متعلق سوال کیا جائے گا.افسر ہے اس سے ماتحتوں کے متعلق سوال کیا جائے گا.دوست ہے اس سے اس کے دوستوں کے متعلق سوال کیا جائے گا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جوں جوں تعلیم کا رواج بڑھ رہا ہے دین کی طرف رغبت کم ہو رہی ہے.تعلیم کو رواج دینا تو ضروری امر تھا.رسول کریم ﷺ نے اس کو مسلمانوں پر واجب قرار دیا ہے.مثلاً آپ نے فرمایا ہے کہ اگر تمہیں چین میں بھی صلى الله علم سیکھنے کے لئے جانا پڑے تو جاؤ2 اور جب رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کے لئے تعلیم کو اس قدر ضروری قرار دیا ہے تو ہمیں چاہئے تھا کہ ہم اس قدر ضروری چیز کو اس طرح ضبط میں لاتے کہ ہمارے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دین کے بھی خادم ہوتے.لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب بچے ہوش سنبھالتے ہیں تو وہ فلمی گانے تو یاد کر لیتے ہیں لیکن اگر انہیں کہا جائے کہ تم قرآن کریم کی کوئی سورۃ سناؤ تو وہ انہیں یاد نہیں ہو گی.مگر اس کے باوجود لوگ اسلامی حکومت کا قیام چاہتے ہیں.گویا وہ زور تو اس بات پر لگاتے ہیں کہ کسی طرح شیطانی حکومت کا قیام ہو لیکن منہ سے اسلامی حکومت کے قیام کے خواہش مند ہوتے ہیں.دنیا میں جو کچھ کسی کے پاس ہوتا ہے وہی دوسرے کو دیتا ہے.میرے پاس فلمی گانے تو ہیں نہیں، میں ایک مذہبی آدمی ہوں میرے پاس صرف قرآن اور حدیث ہے.اس لئے میری نصیحت یہی ہے کہ اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال کر قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ میں بھی صرف کرو.اگر میری اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے آپ روزانہ کچھ وقت قرآن کریم اور احادیث کے مطالعہ میں لگائیں گے اور اس کے احکام پر عمل کریں گے تو آپ لوگوں کے گھروں میں خود بخو د اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی.اور جب آپ لوگوں کے گھروں میں اسلامی حکومت کا قیام ہو جائے گا تو ملک میں اسلامی حکومت کے قیام کے لئے آپ کو زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی.ایک دفعہ میں کراچی گیا تو وہاں ایک موقع پر مجھ سے کہا گیا کہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے متعلق

Page 308

زریں ہدایات (برائے طلباء) 302 جلد چهارم اپنا نظریہ بیان کروں.اُس وقت میں نے یہی کہا تھا کہ جب میں مسلمان ہوں تو میں اسلامی حکومت کیوں نہ مانگوں گا.اگر میں اسلامی حکومت نہ چاہتا تو ہجرت کر کے پاکستان میں کیوں آتا.میرا پاکستان میں آنا ہی بتاتا ہے کہ میں اسلامی حکومت کے قیام کا خواہش مند تھا.لیکن کیا اسلامی حکومت میرے بنانے سے بنتی ہے.دنیا میں ہم کوئی عمارت بناتے ہیں تو اس کے کمرے آسمان سے گھڑے گھڑائے نہیں آ جاتے.بلکہ ہم اینٹیں لیتے ہیں اور انہیں ایک خاص طریق سے نیچے اوپر رکھ دیتے ہیں جس سے ایک مشکل بن جاتی ہے اور ہم کہتے ہیں یہ برآمدہ ہے.پھر ہم اینٹوں کو ایک اور طریق سے نیچے اوپر رکھتے ہیں جس سے ایک اور شکل بن جاتی ہے اور ہم کہتے ہیں یہ کمرہ ہے.اسی طرح ہم کونے پر ایک کمرہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں یہ بیٹھک ہے.ایک کمرہ بناتے ہیں اور اس میں کچھ طاقچے لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ غسل خانہ ہے.پھر اگر ہم عمارت پر کچی اینٹیں لگاتے ہیں تو مکان کچا بنتا ہے اور اگر پکی اینٹیں لگاتے ہیں تو مکان کا بنتا ہے.حکومت بھی ایک عمارت ہے جس کی اینٹیں افراد ہیں.حکومت کی عمارت افراد کے ساتھ ہی بنتی ہے.کیا تم نے کبھی جنگلوں اور صحراؤں میں بھی کوئی حکومت دیکھی ہے؟ حکومت شہروں میں ہوتی ہے اس لئے حکومت نام ہے مجموعہ افراد کا.جب افرا دل جل کر کام کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں یہاں حکومت قائم ہے.اور اگر تمام افراد مسلمان ہوں تو ان سے بنی ہوئی حکومت غیر مسلم کیسے ہو سکتی ہے.مسلمان افراد سے جو حکومت بنے گی چاہے کوئی اسے غیر مسلم بنانے کے لئے کتنا زور لگائے کہ اس عمارت کو کچی ثابت کرے وہ پکی عمارت ہی کہلائے گی.اسی طرح کچی اینٹوں سے جو عمارت بنے گی چاہے کوئی کتنا زور لگائے کہ اسے کچی عمارت ثابت کرے وہ کچی عمارت ہی کہلائے گی.اسی طرح اگر افراد مسلمان ہوں گے تو ان سے جو حکومت بنے گی چاہے اس کا نام کچھ رکھ لو وہ بہر حال اسلامی حکومت ہوگی.جب حکومت کے بنانے والے لا الہ الا اللہ کہنے والے ہوں گے تو وہ حکومت غیر اسلامی کس طرح ہو سکتی ہے.پس اسلامی حکومت کا قائم کرنا ہمارے اپنے اختیار میں ہے.

Page 309

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 303 جلد چهارم اسلامی حکومت کسی اور کے بنانے سے نہیں بنتی.اگر ہم خود مسلمان بن جائیں گے تو حکومت بھی اسلامی بن جائے گی.ہندوستان میں دیکھ لو وہ منہ سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے غیر دینی حکومت بنائی ہے لیکن ہے وہ ہند وحکومت.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے.اگر ان کے کہنے کے مطابق وہاں واقعی لا دینی حکومت قائم ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہندوستان کے کسی حصہ میں جب بھی مارے جاتے ہیں مسلمان ہی مارے جاتے ہیں.کیا تم نے کبھی پڑھا ہے کہ بہار بنگال میں فسادات ہوئے اور اتنے ہندو اور سکھ مارے گئے.تم جب بھی پڑھو گے کہ ہندوستان میں فلاں جگہ فسادات کے نتیجہ میں کچھ لوگ مارے گئے تو وہ لا ز ما مسلمان ہی ہوں گے.غرض چاہے وہ اسے لا دینی حکومت ہی کہیں لیکن چونکہ وہاں ہندوؤں کی کثرت ہے اس لئے ان کی وجہ سے جو حکومت بنی ہے وہ ہند و حکومت ہی ہے.اسی طرح اگر ہم بھی حقیقی مسلمان بن جائیں تو چونکہ یہاں ہماری اکثریت ہے اس لئے چاہے کوئی کتنا زور لگائے یہاں اسلامی حکومت ہی بنے گی.پس اگر سب افراد صحیح معنوں میں مسلمان ہوں تو ان سے بنی ہوئی حکومت بہر حال اسلامی ہو گی.چاہے اس کا کوئی نام رکھ لیا جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.لیکن یہ ضرور ہے کہ اسلامی کہلانے سے ہندو چڑتے ہیں حالانکہ چاہے وہ اپنی حکومت کو لا دینی کہتے ہیں لیکن ہے وہ بھی دینی.اگر وہ لادینی حکومت ہوتی تو جبکہ میں نے بتایا ہے ہر دفعہ فسادات میں مسلمان ہی کیوں مارے جاتے ، کبھی نہ کبھی یہ خبر بھی آتی کہ فلاں جگہ اتنے ہندو مارے گئے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا.لیکن وہ کہتے یہی ہیں کہ ہماری حکومت لا دینی ہے.لیکن چونکہ وہاں ہندوؤں کی اکثریت پائی جاتی ہے اس لئے اس اکثریت کی وجہ سے ملک میں جو حکومت قائم ہوئی ہے وہ ہند و حکومت ہی ہے اس لئے جو ابتلا بھی آتا ہے وہ مسلمان پر ہی آتا ہے.بہر حال اسلامی حکومت کے قیام کا اصل طریق یہ ہے کہ پاکستانی مسلمان دل سے مسلمان ہو جائیں.اس کے نتیجہ میں جو حکومت قائم ہوگی اسے آپ کوئی نام دے دیں وہ یقیناً اسلامی حکومت ہوگی کیونکہ اس کے بنانے والے مسلمان ہوں گے اور مسلمان جس

Page 310

زریں ہدایات (برائے طلباء) 304 جلد چهارم حکومت کو بنائیں گے وہ کسی صورت میں بھی غیر اسلامی نہیں ہوسکتی.اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.کہتے ہیں کوئی معزز سکھ تھا اس نے ایک دن سفید پگڑی پہن لی.اسے دیکھ کر بچے تالیاں پیٹنے لگ گئے.ایک شخص اس کے پاس آیا اور اس نے کہا سردار جی! آپ تو پکے سکھ ہیں اور آپ پر ساری قوم کو ناز ہے آپ نے یہ کیا کیا کہ سفید پگڑی پہن لی.وہ گھبرا کر کہنے لگا سفید اور کالی پگڑی میں کیا رکھا ہے اصل میں تو دل کا لا ہونا چاہئے.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ ناموں سے کیا بنتا ہے اصل میں تو دل مسلمان ہونا چاہئے.اگر دل مسلمان نہیں تو ظاہر میں تم بے شک اسلام اسلام کہو اس سے کچھ نہیں بنتا.آخر مسلمانوں کے لئے حکومت کوئی نئی چیز نہیں.انہوں نے اس سے الله پہلے بھی حکومت کی ہے.محمد رسول اللہ ﷺے کے بعد حضرت ابوبکر نے حکومت کی لیکن کیا کسی کی مجال تھی کہ آپ کی حکومت کو غیر اسلامی کہہ سکتا ؟ پھر حضرت عمر نے حکومت کی اُس وقت بھی کسی کی کیا مجال تھی کہ آپ کی حکومت کو غیر اسلامی کہہ سکتا ؟ جب خلیفہ مسلمان ہوا اور مدینہ کے لوگ مسلمان ہو گئے تو حکومت خود بخو داسلامی ہو گئی.پس تم اپنے آپ کو سچا اور مخلص مسلمان بناؤ.اور یاد رکھو کہ اسلامی حکومت بنانا تمہارے اپنے اختیار میں ہے.تمہیں کون کہہ سکتا ہے کہ نمازیں نہ پڑھو یا تمہیں کون مجبور کر سکتا ہے کہ تم ضرور فلم دیکھنے جاؤ.لیکن اگر تم نمازیں نہیں پڑھتے ، اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کرتے اور سینما جاتے ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہی گانے اور وہی مردوں اور عورتوں کا اختلاط حالانکہ تم منہ سے یہ کہتے ہو کہ ہم اسلامی حکومت چاہتے ہیں.ہاں اگر تم مساجد میں جاؤ، نمازیں پڑھو، اسلام کی تعلیم پر عمل کرو تو پھر جو حکومت بھی بنے گی اسلامی ہوگی.پس میں آج صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ سچے مسلمان بن جائیں تو اسلامی حکومت خود بخود قائم ہو جائے گی.کسی کی طاقت نہیں کہ وہ آپ کی بنائی ہوئی حکومت کو غیر اسلامی کہہ سکے.احادیث میں آتا ہے کہ ایمان کی ادنی علامت یہ ہے کہ

Page 311

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 305 جلد چهارم انسان بڑے سے بڑے خطرہ کے وقت بھی ایمان کو ہاتھ سے نہ جانے دے 3 اب تو کسی کو لاٹھی بھی لگ جائے تو وہ اپنے عقائد سے انکار کر دیتا ہے لیکن پہلے زمانہ میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کو آروں سے چیرا جاتا تھا اور قسم قسم کی تکالیف دی جاتی تھیں تا کہ وہ خدا تعالی کی توحید سے انکار کر دیں لیکن وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہتے تھے.اگر تمہارے سروں پر بھی آرے چلائے جائیں اور تمہیں تپتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائے اور دوسری آفات تم پر وارد کی جائیں اور تم پھر بھی لا الہ الا اللہ کا نعرہ بلند کرو تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو تمہاری بنائی ہوئی حکومت کو غیر اسلامی حکومت کہہ سکے.اگر کوئی شخص ہمیں آروں سے چیر دے یا ہتھوڑوں سے ہماری ہڈیاں توڑ دے لیکن پھر بھی ہمارے منہ سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ہی نکلے تو پھر اسلام ہی اسلام ہوگا اور ہر شخص اس کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا.پس تمہیں اسلام کی اشاعت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.نہ صرف تم خود مسلمان بنو اور اپنے دل میں اسلام کی تعلیم کو راسخ کرو بلکہ اپنے گھروں میں بھی اسلامی تعلیم کو رواج دو.خود بھی نمازیں پڑھو اور اپنے بیوی ، بچوں، بہنوں اور بھائیوں کو بھی نمازیں پڑھاؤ تو شیطان خود بخود بھاگ جائے گا.اور غیر اسلام شیطان ہی تو ہے پھر تمہارے مسلمان بننے کے بعد شیطان بھاگے گا کیوں نہیں.ہمارے ہاں پنجابی میں ایک مثل مشہور ہے کہ قریشیاں جتھے بانگ وتی اوتھے ڈنگر کے نہیں بنھیا یعنی جہاں قریشیوں نے اذان دے دی وہاں کوئی جانور نہیں رہ سکتا.گویا مسلمان اب اسلام سے اتنے بیگانہ ہو گئے ہیں کہ اذان کو بھی وہ مصیبت سمجھنے لگ گئے ہیں حالانکہ اگر یہ درست بھی ہو کہ اذان دینے کی وجہ سے جانور بھاگ جاتا ہے تو بے شک بھاگ جائے اس کی وجہ سے خدا تعالیٰ تو مل جائے گا اور خدا تعالیٰ سے بہتر اور کیا چیز ہو سکتی ہے لیکن در حقیقت یہ بات ہی غلط ہے.صحابہ بھی اذانیں دیتے تھے مگر انہوں نے یہ کبھی شکایت نہیں کی کہ اذان کی آواز سن کر ان کے جانور بھاگ جاتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں

Page 312

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 306 جلد چهارم کہ اسلام کی برکت سے انہیں ہزاروں جانور ملے اور وہ دین کے ساتھ دنیا کے بھی بادشاہ ہو گئے.حضرت ابو ہریرہ کو ہی دیکھ لو.وہ رسول کریم ﷺ کے آخری زمانہ میں اسلام لائے تھے.اسلام لانے کے بعد انہوں نے خیال کیا کہ مجھ سے پہلے مسلمانوں نے رسول کریم کی صحبت سے بہت زیادہ فائدہ اٹھا لیا ہے.میں اب مسلمان ہوا ہوں اس لئے لازماً مجھے آپ کے بہت کم ارشادات سننے کا موقع ملے گا.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے میں ہر وقت مسجد میں ہی بیٹھا کروں گا تا کہ آپ کی کوئی بات ایسی نہ رہے جو میں نہ سنوں.آپ ایک غریب گھرانہ کے تھے اس لئے مسجد میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے اکثر انہیں فاقے بھی برداشت کرنے پڑتے تھے اور ان فاقوں کی وجہ سے بعض اوقات انہیں بے ہوشی کے دورے پڑ جاتے تھے.لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ مرگی کے دورے ہیں اور عربوں کے اس خیال کے مطابق کہ مرگی کے مریض کے سر پر جوتیاں ماری جائیں تو دورہ ہٹ جاتا ہے لوگ حضرت ابو ہریرۃ کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے.لیکن جب خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتوحات دیں اور ایک جنگ میں ایران کو فتح کیا گیا اور کسری کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے تو حضرت عمر نے کسریٰ کا وہ رومال جو وہ تخت پر بیٹھنے کی حالت میں استعمال کرتا تھا حضرت ابو ہریرہ کو دے دیا.ایک دن حضرت ابو ہریر کا کو نزلہ کی شکایت ہوئی اور انہیں چھینک آئی تو انہوں نے اس رومال سے ناک صاف کر لیا.بعد میں آپ نے خیال کیا کہ یہ تو کسریٰ کا خاص رو مال تھا جو وہ تخت پر استعمال کیا کرتا تھا.اس پر آپ نے کہا بخ بخ ابو ہریرہ.کہ واہ واہ ابو ہریرہ کبھی تو وہ وقت تھا کہ بھوک کی وجہ سے تمہیں بے ہوشی کے دورے پڑا کرتے تھے اور لوگ اسے مرگی کا دورہ سمجھتے ہوئے تمہارے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے لیکن آج تو کسریٰ کے رومال سے ناک صاف کر رہا ہے.پھر آپ نے لوگوں کو یہ واقعہ سنایا اور بتایا کہ میں اس قدر غریب تھا لیکن محمد رسول اللہ اللہ کے طفیل مجھے یہ شان ملی کہ اب میں کسری کے رومال سے ناک صاف کر رہا ہوں.خدا تعالیٰ نے مجھے

Page 313

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 307 جلد چهارم دین بھی دیا اور دنیا بھی دی.الله پس اگر تم بھی پکے مسلمان بن جاؤ تو تمہیں نہ صرف دین ملے گا بلکہ دنیا بھی ملے گی.تم سے پہلے بھی جن لوگوں نے دین کی باتوں پر عمل کیا خدا تعالیٰ نے انہیں دنیوی نعماء سے بھی بہرہ ور کیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں نے دین پر عمل کیا تو انہیں دنیا کی نعماء بھی ملیں.محمد رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ نے دین کو دنیا پر مقدم کیا تو انہیں خدا تعالیٰ نے دنیا سے بھی وافر حصہ دیا.پھر وہ آپ لوگوں کو دنیا کی نعمتوں سے کیوں محروم کرے گا.جو انہیں ملا ہے وہ تمہیں بھی ملے گا.اگر تم اسلام کی تعلیم پر عمل کرو گے اور اپنے اندر اسلام پیدا کر لو گے ، لغویات سے پر ہیز کرو گے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نور کے چشمے تمہارے گھروں میں چلنے لگ جائیں گے.پس میری بھی نصیحت ہے اگر تم میری اس نصیحت پر عمل کرو گے تو تم اس سے ضرور فائدہ اٹھاؤ گے.“ الفضل 10 اكتوبر 1962ء) :1 بخارى كتاب النكاح باب المرأة راعية (الخ) صفحه 930 حدیث 5200 مطبوعه رياض 1999ء الطبعة الثانية 2 كنز العمال جلد 10 صفحہ 138 حدیث 28697 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الاولى :3 بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان صفحه 6 حدیث 16 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية :4 بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة صفحه 1261 حدیث 7324 مطبوعه رياض 1999ء الطبعة الثانية

Page 314

زریں ہدایات (برائے طلباء) 308 جلد چهارم جماعتی اور ملکی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے نوجوان ملازمتوں کی بجائے ٹیکنیکل پیشوں کو اختیار کریں.ہمارے مدارس میں درسی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف دستکاریوں کی عملی ٹریننگ کا بھی انتظام ہونا چاہئے.دستکاری کے پیشہ میں ترقی کرنے اور زیادہ کمانے کے وسیع امکانات موجود ہیں 18 فروری 1956ء کو طلباء جماعت نہم تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے جماعت دہم کے طلباء کو الوداع کہنے کے لئے ایک دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا.جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی اور اس موقع پر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد طلباء سے خطاب فرمایا.اس خطاب کا خلاصہ حسب ذیل ہے :.الْحَمدُ لِلهِ کہ ہمارے سکول کی ایک اور میٹرک کلاس اس سال ربوہ سے امتحان میں شامل ہونے کے لئے جارہی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیابی عطا

Page 315

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 309 جلد چهارم فرمائے.میں ابھی ابھی مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم سے یہ ذکر کر رہا تھا کہ ہمارے مرکز میں اب تعلیم حاصل کرنے والے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہمیں جلد سے جلد ان کے لئے ایک ایک اور ہائی سکول قائم کرنا چاہئے.لیکن اس کے راستے میں سب سے بڑی روک سلسلے کی مالی مشکلات ہیں جو اُس وقت تک دور نہیں ہو سکتیں جب تک کہ ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں محض ملازمتیں کرنے کی بجائے مختلف زرعی ، تجارتی اور صنعتی لائنوں کی طرف جا کر ان میں ترقی کرنے ، زیادہ کمانے اور سلسلہ کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کا رجحان پیدا نہیں ہوتا.حضور نے فرمایا اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں درس تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف دستکاریوں کے سکھانے کا بھی انتظام ہو تو اس سے یقینا یہ رجحان ترقی کر سکتا ہے.مثلاً اگر ہمارے اس سکول میں لوہارا اور تر کھا نا کام سکھایا جائے تو ہمارے بہت سے بچے سکول سے فارغ ہو کر ان لائنوں میں ترقی کر سکیں گے.اسی طرح اگر ایک زمیندارہ کلاس اس میں ہو جس میں بتایا جائے کہ کون سے وقت کون سی فصل اچھی ہوتی ہے، مختلف فصلوں کے ہل چلانے اور پانی دینے کا کیا طریق ہے، اچھا بیج استعمال کرنے اور مناسب موقع پر کھاد دینے سے پیداوار میں کتنا اضافہ ہو جاتا ہے.اس طرح کی ابتدائی باتیں اگر زمیندار بچوں کو سکول میں ہی بتا دی جائیں تو اس سے یقیناً وہ بڑے ہو کر بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور جماعت کے زمینداروں کی پیداوار کہیں سے کہیں پہنچ سکتی ہے.زرعی ترقی کی اہمیت حضور نے یورپ کے مختلف ممالک کی فی ایکٹر پیداوار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ہمارے احمدی زمیندار محنت سے کام کریں اور زرعی ترقی کے لئے نئے نئے تجربات سے فائدہ اٹھائیں تو ان کی آمدنیاں کئی گنا بڑھ سکتی ہیں.اور اگر وہ اپنی پیداوار کا معیار یورپ کی کم سے کم پیداوار تک بھی لے جائیں تو جماعت کا چندہ بآسانی ساڑھے تین کروڑ تک پہنچ سکتا ہے.اور ہم ایک سکول چھوڑ کٹی مزید سکول اور کالج قائم کر سکتے ہیں.

Page 316

زریں ہدایات (برائے طلباء) 310 جلد چهارم حضور نے فرمایا ہماری جماعت کے جماعت کی مالی قربانی عدیم النظیر ہے کام دوحصوں میں منظم ہیں.ایک کام ہے اپنی آمد نیوں کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا.یہ کام ہماری ذاتی ہمت اور سعی سے تعلق رکھتا ہے.اور موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ جماعت نے پوری ہمت سے یہ کام نہیں کیا اور اس میں ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہے.دوسرا کام ہے دین کی خدمت کے لئے چندہ دینا.یہ کام دل سے تعلق رکھتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور اس کام میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں نمایاں کامیابی عطا فرمائی ہے.پس جو کام ہمارے اختیار میں تھا اس کے کرنے میں تو ہم نے کوتاہی کی ہے لیکن جو کام اللہ تعالیٰ کے اختیار میں تھا وہ اس نے کر دیا ہے اور ایسے رنگ میں کر دیا ہے کہ دنیا ہماری جماعت کی مالی قربانی کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے.ہمارے پاکستان کے احمدی جس طرح پیٹ کاٹ کاٹ کر دین کے لئے چندہ دیتے ہیں اس کی فی الواقع کوئی مثال نہیں مل سکتی حالانکہ یورپ کے مقابلہ میں ان کی آمدنیاں بہت ہی محدود ہیں.اگر پاکستان کا معیار زندگی بھی یورپ اور امریکہ جتنا بلند ہو اور پاکستانی احمدی اپنی موجودہ شرح کے مطابق ہی چندہ دیں تو بھی ہمارا چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پورے پاکستان کی موجودہ سالانہ آمدنی کے لگ بھگ پہنچ سکتا ہے.اور ہم تعلیمی اور رفاعی کاموں میں بیسیوں گنا زیادہ حصہ لے سکتے ہیں.حضور نے فرمایا ہمارے نوجوانوں میں بی.اے، ایم.اے ٹیکنیکل پیشوں کی اہمیت کرنے کا بہت شوق ہے.وہ خواہ فیل ہی ہوتے رہیں پھر بھی کالج میں جانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں ٹیکنیکل لائنوں کی طرف جانے کو پسند نہیں کیا جاتا.حالانکہ ان لائنوں میں ملازمتوں کی نسبت ترقی کرنے اور روپیہ کمانے کے بہت زیادہ امکانات ہیں.حضور نے کئی ایک مثالیں دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ کس طرح بعض دستکاروں نے نہایت معمولی اور محدود پیمانے پر کام شروع کیا اور پھر ترقی کرتے ہوئے کہیں سے کہیں پہنچ گئے.

Page 317

زریں ہدایات (برائے طلباء) 311 جلد چهارم حضور نے فرمایا پس دو باتیں ایسی ہیں جنہیں اگر ہمارے سکولوں دوضروری باتیں میں رائج کیا جائے تو ہماری آئندہ نسلوں میں ملازمتوں کی طرف جانے دستکاریوں سے نفرت کا رجحان بدلا جا سکتا ہے.ایک تو یہ کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ دستکاری کا کوئی کام ضرور سکھایا جائے.مثلاً لوہار کا کام ہے یا زمیندارہ کا کام ہے جس کے لئے سکول سے ملحق ایک چھوٹا سا قطعہ زرعی فارم کے طور پر مخصوص کیا جا سکتا ہے جس میں عملی طور پر زراعتی ترقی کی ابتدائی باتیں سکھائی جائیں گی.دوسری بات یہ ہے کہ سکول کے ہر بچے کو کمپونڈری کمپونڈری کے کام کی اہمیت کا کچھ کام سکھایا جائے.اس کے لئے اگر ہفتے میں صرف دو گھنٹے بھی مخصوص کر دیئے جائیں تو بھی بچے اپنی تعلیم میں حرج کئے بغیر معمولی علاج معالجہ کرنے پر قادر ہو جائیں گے.اور یہ چیز ایسی ہے جس کی از حد ضرورت ہے.ملک میں ڈاکٹروں کی بہت کمی ہے اس لئے کمپونڈری کا کام کرنے والے ملک کی بڑی خدمت کر سکتے ہیں اور ہزاروں بلکہ لاکھوں کما سکتے ہیں اور عملاً کما بھی رہے ہیں.پس میرے نزدیک یہ دو باتیں ایسی ہیں جو اگر ہمارے سکولوں میں رائج ہو جائیں تو ان سے موجودہ ذہنیت کو بدلا جا سکتا ہے.اور نو جوانوں کے قلوب میں مختلف ہنروں اور پیشوں کو سیکھنے کا شوق اور ولولہ پیدا کیا جاسکتا ہے جس کی بدولت عملی زندگی میں ان کے لئے آمدنی پیدا کرنے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کے نئے نئے راستے کھلیں گے.اور اس طرح جماعت کی مالی حالت بھی زیادہ مستحکم ہو سکے گی اور جماعت اسلام کی ترقی اور دین کی خدمت کے سلسلے میں اپنی سعی کو تیز سے تیز تر کر سکے گی.آخر میں حضور نے فرمایا اگر نو جوانوں کی موجودہ ذہنیت ہی قائم رہی اور ان میں دستکاری کے پیشوں کو اختیار کرنے کا شوق پیدا نہ ہوا تو یا درکھو اس سے نہ ملک کا معیار زندگی بلند ہوسکتا ہے اور نہ جماعت کی مالی پوزیشن ہی مضبوط ہو سکتی ہے.کیونکہ گو ملازموں کی تنخواہیں بڑھ گئی ہیں لیکن ساتھ ہی اخراجات زندگی بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں.“ ( الفضل 23 فروری 1956ء)

Page 318

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 312 جلد چهارم آج دنیا اسلام کا پیغام سننے کے لئے بے تاب ہے اور وہ اپنی روحانی تشنگی بجھانے کے لئے اسلام کے چشمے سے سیراب ہونا چاہتی ہے احمدی نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں اور دور دراز علاقوں میں جا کر اسلام کا پیغام پہنچا ئیں.مورخہ 22 نومبر 1956ء کو جامعتہ المبشرین کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مکرم مولوی عبد القدیر صاحب کے بیرون ممالک سے واپسی پر ان کو خوش آمدید کہنے کیلئے دریائے چناب کے کنارے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں حضرت خلیفہ اہسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.دو یہ تقریب دو مبلغوں کے واپس آنے پر منعقد کی گئی ہے.اس میں شک نہیں مبلغین کا کئی کئی سال تک ممالک غیر میں تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کے بعد واپس آنا بھی ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے لیکن ہمارے لئے اور زیادہ خوشی کا موجب یہ امر ہے کہ مبلغ باہر جائیں کیونکہ آج دنیا اسلام کا پیغام سننے کے لئے بیتاب ہے.وہ روحانیت کی پیاسی ہے اور اس امر کی محتاج ہے کہ کوئی آئے اور اس کی پیاس بجھائے.خود غیر ممالک کے لوگوں کی طرف سے بکثرت خطوط موصول ہورہے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی مبلغ بھیجو تا کہ وہ ہم تک اسلام کا پیغام پہنچائے اور ہم اپنی روحانی تشنگی بجھا سکیں.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ کام ہمارے سپرد کیا ہے اور ہمیں اس

Page 319

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 313 جلد چهارم بات کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ ہم اپنے گھروں سے نکلیں اور دنیا کی اربوں ارب آبادی تک اسلام کا پیغام پہنچائیں اور اسے محمد رسول اللہ اللہ کی غلامی میں داخل کریں.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.یہ عظیم الشان کام اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی قوم کے سپرد کیا ہے جو تعداد میں بہت تھوڑی ہے اور دنیا کی ہر جماعت اور ہر قوم کے مقابلے میں چھوٹی ہے لیکن اللہ تعالی اس چھوٹی سی جماعت سے ہی یہ خدمت لینا چاہتا ہے اور تمام دنیا کے لوگوں کو اس میں داخل کر کے اسے ساری دنیا پر محیط کرنا چاہتا ہے.پس ہمیں یہ فکر نہیں ہے کہ دنیا میں اسلام کیسے پھیلے گا.اسلام تو جلد یا بدیر بہر حال پھیل کر رہے گا.ہمیں فکر ہے تو اس بات کا ہے کہ اسلام کو پھیلانے والے کہاں سے آئیں گے.آج دنیا کا اربوں ارب انسان اسلام کا محتاج ہے اور ان کی اس احتیاج کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منتخب کیا ہے.ہم اس فرض سے اسی صورت میں عہدہ برا ہو سکتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں میں خدمت دین اور تبلیغ اسلام کا جوش پیدا ہو.وہ صوفیائے کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمت اسلام کے لئے باہر نکلیں اور دور دراز علاقوں میں پھیل جائیں.یہاں تک کہ دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہ رہے جہاں اسلام کی تبلیغ نہ ہورہی ہو.اگر یہ جذبہ ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو پھر اربوں ارب لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے اور دنیا میں اسلام پورے طور پر غالب آجائے گا.خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.دنیا کی عزت کوئی عزت نہیں.اصل اور حقیقی عزت دین کی خدمت میں مضمر ہے.جو شخص بھی خدمت دین کو اپنا صلح نظر بناتے ہوئے دنیا کے دور دراز علاقوں تک اسلام کا پیغام پہنچائے گا اور اپنی زندگی اس فریضے کی ادائیگی کے لئے وقف کئے رکھے گا اُس کا نام قیامت تک زندہ رہے گا.اس عزت کے آگے دنیوی شہرت یا عزت کوئی حقیقت نہیں رکھتی.حضور نے مزید فرمایا:.دین ایک بادشاہت ہے جو زور سے حاصل نہیں کی جاسکتی بلکہ اس کا ملنا اللہ تعالیٰ کے

Page 320

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 314 جلد چهارم فضل پر منحصر ہے.جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر لیا ہے اسے یہ بادشاہت مل گئی ہے.پس احمدی نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس بادشاہت کی قدر کریں اور اس کی وجہ سے جو فرائض ان پر عائد ہوتے ہیں انہیں كَمَا حَقَّہ ادا کریں تاکہ ان کے ذریعہ سے دوسروں کو بھی یہی بادشاہت ملے.یہ بادشاہت دل میں ایمان اور خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے سے ملتی ہے.اپنے دلوں میں صحیح ایمان اور خدا تعالیٰ کی سچی محبت پیدا کرو اور پھر دنیا میں پھیل کر ہر ایک کے لئے اس بادشاہت کو عام کر دو.حضور نے فرمایا:.جب کوئی شخص اعلیٰ کھانا کھاتا ہے تو طبعا اس کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے گھر والے بھی یہی کھانا کھا ئیں.یہاں چینی بھی ہیں، ڈچ گی آنا، انڈونیشیا، ٹرینیڈاڈ اور افریقہ کے طالب علم بھی یہاں موجود ہیں.اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت نصیب کی ہے لیکن ان کو اس ہدایت کی کیا خوشی ہو سکتی ہے جبکہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے اپنے ہم وطن اس ہدایت سے محروم ہیں.طبعا ان کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ یہ علم دین حاصل کر کے اپنے اہلِ ملک کو اسی ہدایت سے بہرہ ور کریں اور انہیں چین نہ آئے جب تک کہ ان کے ہم وطنوں میں سے ہر ایک شخص اس نعمت سے متمتع نہ ہو جائے.یہ کام جبھی ہو سکتا ہے کہ ہر نو جوان جسے یہ نعمت میسر آئی ہو وہ اس کی صحیح رنگ میں قدر کرے اور دوسروں کو بھی اس سے متمع کرنے کے لئے اپنے گھر سے نکل کھڑا ہو.پس ہمارے لئے مبلغین کا میدان تبلیغ سے واپس آنا ہی خوشی کا موجب نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ مبلغ دوسرے ملکوں کی طرف جائیں اور اس کثرت سے جائیں کہ دنیا کا کوئی علاقہ بھی ایسا نہ رہے کہ جہاں اسلام کی اشاعت نہ ہو رہی ہو.“ (الفضل 25 نومبر 1956ء)

Page 321

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 315 جلد چهارم اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے وقف کر دو اور تو کل علی اللہ کی صحیح روح پیدا کر و.اگر تم ایسا کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہرلمحہ تمہارے شامل حال رہے گی 7 فروری 1957ء کو طلباء جماعت نہم تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ نے جماعت دہم کے طلباء کو الوداع کہنے کے لئے دعوت عصرانہ کا اہتمام کیا جس میں از راہ شفقت حضرت خلیفة المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے طلباء سے جو خطاب فرمایا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.ایڈریس میں طلبائے جماعت دہم کے اچھے نمونہ کا ذکر کیا گیا ہے اور جواب ایڈریس میں اساتذہ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے جو زائد وقت دے کر بلا معاوضہ طلباء کو پڑھاتے رہے.در حقیقت یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو آنے والوں کے لئے مشعل راہ بن سکتی ہیں اور انہیں مدنظر رکھ کر ہمارے سکول کے طلباء سینکڑوں سال کے لئے اپنی قوم ، ملک بلکہ دنیا کے لئے ایک نمونہ بن سکتے ہیں.حضور نے یورپ کے ایک ڈاکٹر کی مثال دیتے ہوئے جس نے عمر بھر اپنے آپ کو اپنے سکول سے وابستہ رکھا طلباء کو نصیحت فرمائی کہ طلباء اگر واقعی اپنے سکول سے اور اپنے اساتذہ سے محبت اور اخلاص رکھتے ہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ عمر بھر اس تعلق کو قائم رکھیں.اپنے سکول کی نیک روایات کو زندہ رکھتے ہوئے ہمیشہ اس کے ساتھ گہری وابستگی کا ثبوت دیں.

Page 322

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 316 جلد چهارم تحریک وقف زندگی حضور نے تحر یک وقف زندگی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا آپ کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مجھے یقین دلایا ہے کہ بہت سے لڑکے دین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس ارادہ کی تکمیل کرنے اور پھر عمر بھر اپنے عہد کو نبھانے کی توفیق دے.آمین.حضور نے فرمایا بعض لوگ سلسلہ کی آمد کو دیکھتے ہوئے یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ شاید سلسلہ اب زیادہ واقفین کے اخراجات برداشت نہ کر سکے.لیکن یہ ہرگز صحیح نہیں ہے.در حقیقت اسلام کو ابھی لاکھوں واقفین زندگی کی ضرورت ہے.باقی رہے ان کے اخراجات سو یہ اخراجات نہ قوم دے گی اور نہ ملک اور حکومت بلکہ خود خدا مہیا کرے گا اور ایسی جگہوں سے مہیا کرے گا جس کا تم گمان بھی نہیں کر سکتے.ہماری عمر بھر کا یہ تجربہ ہے کہ اگر انسان خدا کا ہو جائے اور صحیح معنوں میں اس پر تو کل کرے تو وہ آپ اس کی ساری ضروریات کا کفیل ہو جاتا ہے.اور ہر موقع پر غیب سے اس کی مدد اور نصرت کے سامان مہیا فرما دیتا ہے.اس ضمن میں حضور نے حضرت خلیفہ اصبح الاول نے المسیح اپنے تئیں خدا کے سپر دکر و کے اور خود اپنی زندگی کے متعدد واقعات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا.کبھی مت خیال کرو کہ روپیہ کہاں سے آئے گا.اگر تم خدا کے ہو جاؤ گے تو حضرت مسیح کے قول کے مطابق خدا تمہارے لئے آسمان سے اتارے گا اور زمین سے اگائے گا.پس تم اخراجات اور تنخواہوں کا خیال نہ کرو.بلکہ خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے لگا دو اور تبلیغ اسلام کو وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جاؤ.پھر جماعت جوں جوں بڑھے گی تمہارے گزارے بھی بڑھیں گے مگر نیت کبھی یہ نہ کرو کہ تمہارے گزارے بڑھیں.نیت ہمیشہ یہی رکھو کہ تم نے تنخواہوں اور گزاروں کا خیال کئے بغیر محض خدا کے لئے کام کرنا ہے.پھر تم خود مشاہدہ کرو گے کہ کس طرح خدا تمہاری مددکرتا ہے.

Page 323

زریں ہدایات (برائے طلباء) 317 جلد چهارم آخر میں حضور نے فرمایا انسان کو یا تو پوری طرح دنیا دار بن جانا چاہئے اور یا پوری طرح خدا کا ہو جانا چاہئے.جو لوگ دونوں طرف نگاہ رکھتے ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے.یا تو دنیا دار بن جاؤ اور دنیا کے سارے مکر و فریب کر کے دوسروں کی طرح تم بھی روپیہ کما لو.اور یا پھر پوری طرح خدا کے بن جاؤ تا کہ وہ تمہاری جملہ ضروریات کا کفیل ہو جائے.جو لوگ دونوں طرف نگاہ رکھتے میں وہ بیک وقت دو کشتیوں میں پاؤں رکھنا چاہتے ہیں.ایسے لوگ دین اور دنیا دونوں میں ناکام رہتے ہیں.“ الفضل 9 فروری 1957ء)

Page 324

زریں ہدایات (برائے طلباء) 318 جلد چهارم طالب علمی کے زمانے کو آئندہ زندگی کے حق میں ایک بنیاد کی حیثیت حاصل ہے.طلباء اس بنیاد کو مضبوط بنا کر دنیا میں کا رہائے نمایاں سرانجام دینے کے اہل بن سکتے ہیں 9 فروری 1959ء کولائل پور کے متعددکالجوں کے طلباءور بوہ دیکھنے اور حضرت خلیفہ المسح الثانی سے ملاقات کے لئے تشریف لائے.دفاتر صدر انجمن، تحریک جدید اور تعلیمی ادارے دیکھنے کے بعد 11 بجے سب طلباء حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے.اس موقع پر آپ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو نصائح طلباء کو فرمائیں ان کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.طالب علمی کا زمانہ اور اس کی اہمیت ”آپ لوگ طالب علم ہیں.آپ جس زمانے میں سے گزر رہے ہیں یہ ایک ایسا زمانہ ہوتا ہے جس میں آئندہ زندگی کی بنیاد پڑتی ہے.اس زمانے کی اہمیت اور قدر و قیمت کو سمجھنا اور اس کے مطابق اپنے اعمال وکردار کو بنانا نہایت ضروری ہے کیونکہ اسی پر آئندہ ترقی کا تمام دارو مدار ہے.بلکہ اگر آپ لوگ دیکھیں اور غور کریں تو آئندہ زندگی کی بنیاد بچپن سے ہی پڑنی شروع ہو جاتی ہے.اگر بچپن میں نیک عادتیں ڈالی جائیں تو بڑے ہونے پر وہی عادتیں راسخ ہو کر انسان کو نیکی کی طرف مائل کرنے کا موجب بن جاتی ہیں اور اس طرح اس کی زندگی سنور جاتی ہے.برخلاف اس کے اگر بچپن سے ہی بری عادتیں پڑ جائیں تو بڑے ہو کر ان عادتوں کا ترک کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کیونکہ جو

Page 325

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 319 جلد چهارم عادتیں چھوٹی عمر میں گھر کر لیں وہ بعد میں مشکل سے ہی جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں بچے کی تربیت کا سلسلہ اُس وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے کہ جب وہ پیدا ہوتا ہے کیونکہ حکم ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہی جائے 1 پہلے لوگ اس بات کی اہمیت اور ضرورت کو سمجھنے سے قاصر تھے اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اتنے سے بچے کے کان میں اذان وغیرہ دینا بے معنی ہے.لیکن اب سائیکالوجی نے ثابت کر دیا ہے کہ سب سے پہلے بچے کے کان کام کرنے لگتے ہیں.سو نو زائیدہ بچے کے کان میں اذان کہنے سے شریعت کی غرض یہ تھی کہ جب پہلے روز سے ہی یہ الفاظ بچے کے کانوں میں ڈالے جائیں گے تو ان الفاظ کا احترام ہمیشہ اس کے دل میں قائم رہے گا کیونکہ بڑا ہونے کے بعد جب بھی اسے یہ بتایا جائے گا کہ تیرے پیدا ہونے پر تیرے کان میں یہ آواز ڈالی گئی تھی یقیناً ان الفاظ پر غور کرنے اور ان کے مفہوم کو سمجھنے کی طرف اسے رغبت پیدا ہوگی.اور اس طرح وہ ان باتوں کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کی طرف مائل ہوتا چلا جائے گا.الغرض بچپن اور پھر طالب علمی کا زمانہ اس لحاظ سے انتہائی اہم ہوتا ہے کہ اس میں آئندہ زندگی کی بنیاد رکھی جاتی ہے.عقل وشعور اور زندگی کی بنیاد سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جب کسی عمارت کی بنیا د رکھی جاتی ہے تو اُس وقت باقاعدہ ایک تقریب منعقد کر کے بڑے بڑے لوگوں کو بلایا جاتا ہے اور بڑی خوشی منائی جاتی ہے.یہ سب اہتمام ظاہر کرتا ہے کہ لوگ ایک عمارت کی بنیاد کو بھی بڑی اہمیت دیتے ہیں.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ اپنے اس زمانہ طالب علمی میں جس عمارت کی بنیا درکھ رہے ہیں اس کی اہمیت کتنی زیادہ ہے.آپ جو بنیا درکھ رہے ہیں وہ عقل و شعور اور زندگی و عمل کی بنیاد ہے.اس کے آگے اس بنیاد کی جو مٹی اور چونے سے اٹھائی جاتی ہے کوئی حیثیت نہیں.عقل و شعور اور زندگی و عمل کی بنیاد اینٹ پتھر اور چونے کی بنیاد سے بہت زیادہ اعزاز و اکرام کی مستحق ہے اور اس کے

Page 326

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 320 جلد چهارم لئے خاص اہتمام اور فکر ضروری ہے.پس آپ اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھیں بلکہ اپنی اور اس وقت کی قدر و قیمت کو پہچانیں.اگر آپ آئندہ زندگی کی بنیاد کو صحیح لائنوں پر استوار کریں گے اور پھر اسے مضبوط سے مضبوط تر کرتے چلے جائیں گے تو پھر یاد رکھیں یہ بنیاد ایک طرف زمین کے پاتال تک اور دوسری طرف آسمان کی غیر محدود بلند یوں تک جاسکتی ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ تُوتِى أَكُلَهَا كُلَّ حِينِ بِاِذْنِ رَبَّهَا 2 یعنی نیک بات کی مثال اچھے درخت کی مانند ہے جس کی جڑیں تو زمین میں گڑی ہوئی ہیں لیکن اس کی شاخیں آسمان میں ہیں اور وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے تازہ بہ تازہ پھل دیتا رہتا ہے.پس اگر آپ چاہیں تو آپ کی شاخیں آسمان میں جا کر فرشتوں سے باتیں کر سکتی ہیں اور اسی طرح آپ دنیا میں اپنے کارناموں سے تاریخ کا رخ موڑ سکتے ہیں.حقیقی علم کا سر چشمہ اس ضمن میں حضور نے طلباء کو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے کارناموں کو پڑھنے اور ان کی قائم کردہ روایات کو آگے بڑھانے کی طرف توجہ دلائی.اور فرمایا کہ تاج محل تو ایک عمارت ہے دنیا کے کونے کونے سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں.اگر آپ ان لائنوں پر کام کر کے آئندہ زندگی کی بنیاد ڈالیں گے تو آپ کے ذریعہ عقل و شعور اور عمل و کردار کی جو جماعت تعمیر ہوگی وہ تاج محل سے بہت زیادہ بلند و بالا اور رفیع الشان ہوگی.جس اشتیاق سے لوگ تاج محل کو دیکھنے جاتے ہیں اس سے کہیں زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ وہ آپ کے پاس آئیں گے اور بہت زیادہ تعداد میں آئیں گے.اصل چیز یہ ہے کہ آپ لوگ اسلام کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کریں.آپ اسلام سیکھیں.خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کریں اور پھر اس کے عطا کردہ علم کی مدد سے دنیا کے استاد بنیں.اگر اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق قائم ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ انسان کو وہ علم عطا کرتا ہے کہ جس کے آگے دنیوی ذرائع سے حاصل ہونے والا علم کوئی حیثیت نہیں رکھتا.جس کو خدا تعالیٰ علم کی دولت سے مالا مال کر

Page 327

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 321 جلد چهارم دے وہ مرجع خلائق بن جاتا ہے اور دنیا اس کی طرف کھنچی چلی آتی ہے.اس ضمن میں حضور نے تحدیث بالنعمت کے طور پر اپنے بعض واقعات بیان کئے اور بتایا کہ علم کا حقیقی سرچشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے.حضور نے فرمایا پس میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ اسلام سیکھیں، خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کریں اور دنیا کے استاد بنیں.“ الفضل 11 فروری 1959ء) 1 کنز العمال جلد 16 صفحه 599 مطبوعہ دمشق 1433 الطبعة الاولى 2: ابراہیم : 25

Page 328

Page 329

انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات 3 11 12 13 17 20 20

Page 330

Page 331

3 T آواز آواز بلند کرنے کی مشق کرنے کی تلقین عمدہ آواز میں اثر ہوتا ہے 16 16 طلباء کو اونچی آواز میں مشق کی تلقین 255 آنکھیں اخلاق مضامین حضور نے ہر بڑے کام کے لئے اچھے اخلاق کے غیر معمولی نتائج 74 استخارہ مقرر فرمایا ہے بُرے اخلاق کے بُرے نتائج 75،74 اسلام اخلاق فتح کا بڑا حربہ 91 | اسلام زندہ مذہب ہے 137 ، 197 اخلاق فاضلہ کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے 97 اسلام سائنس کی تحقیقات کا ادارے تعلیمی اداروں میں دستکاریوں کے 309 محتاج نہیں اسلام نے دفاعی جنگوں کا حکم دیا ہے سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے سلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے 197 137 174 ارادے مذہب کے مطابق عمل کرے آنکھوں کی ورزش بھی ہوتی ہے 17 قوموں کی ترقی کا موجب ہمیشہ اُن اسلام ایک وسیع لفظ ہے 283 284 313 214 217 139 احمدی کے ارادے ہوتے ہیں 102 اربوں ارب انسان اسلام کا اساتذہ محتاج ہے ہر احمدی کے لئے مڈل تک تعلیم لازمی 55 صنعتی سکول کے اساتذہ کو ہدایات 56 اصول ہر احمدی قصر احمدیت کی اینٹ ہے ایک احمدی کا جاپان میں قید سے رہا ہونا احمدیت اساتذہ کی ذمہ داری بہت بڑی ہے 85 جولوگ اصول سے محبت رکھتے ہیں 121 اساتذہ لڑکوں لڑکیوں کو حقیقی سپاہی جیتے ہیں 174 بنائیں 91 افراد اُستانیاں افراد کی زندگی سے قومیں زندہ رہتی اُستانیاں طالبات کو اسلام کا سپاہی ہیں 92 اللہ تعالٰی اصل چیز اسلام اور احمدیت ہے 121 بنائیں احمدیت کی فتح کی پیشگوئی 144 تا 147 استخاره احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے 281 استخارہ اور اس کی دعا 193 194 دعا اللہ تعالیٰ کے اندر بیسیوں صفات ہیں

Page 332

126 65 4 اللہ تعالیٰ اپنا پہلو ہر وقت بدلتا ہے 192 پہلے ایمان پیدا ہوتا ہے پھر عمل 241 بد بو دور کر سکتا ہے ہستی باری تعالٰی کی دلیل 256 257 | خدا کو خدا کے ذریعہ ہی پایا جاسکتا بچپن ایک متعصب بشپ کا واقعہ 261 ہے بچپن کے نقوش آئندہ زندگی پر انچارج میں انچارج کے فرائض اثر انداز ہوتے ہیں 57 تا 77 پادری 124 بچپن میں خدا کی طرف توجہ کا انعام 72 ایک یادری کے برداشت کے انجینرنگ انجینئر نگ کا فن روحانیت سے وابستگی بچپن کی عمر کو بے قدری سے نہ دیکھو 76 اثرات بچپن کی عمر کی سب سے زیادہ حفاظت ایک پادری کا واقعہ 94.93 285-284 رکھتا ہے 225 انعام انعام لیتے وقت ہدایات طلباء کو انعامات دینے کی اغراض کی ضرورت بچپن کا زمانہ بہترین اثر قبول کرنے 82 پیشہ ور لوگ دوسروں کو پیشے نہیں انعام کی عظمت 1 4:3 کا وقت ہے آئندہ زندگی کی بنیاد بچپن سے ہوتی ہے 84 سکھاتے ٹیکنیکل پیشوں کی اہمیت 52 310 318 228 228 228 230 266 انگریز انگریزوں کا نمونہ اولاد تربیت اولا د اور والدین کی ذمہ داریاں اولڈ بوائز 42 82.81 بچوں کی تربیت کا دوسرا گر اچھے تاریخ استاد 86 تاریخ کیا ہے ہر قوم کی بنیاد بچے ہوتے ہیں 217 تاریخ سے بھاگنے والی قوم امریکہ میں ہر بچہ کھانے کا برتن صاف ڈرپوک رکھنے کا پابند 248 | تاریخ بتاتی ہے کہ تمہارے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے جو کام پیدائش سے ہی بچوں کی تربیت 319 آباؤ اجداد کیا تھے کیا وہ مبارک ہے بخیل تاریخ پڑھنے سے گریز بزدلی ایمان بخیل کا واقعہ جب خیال ایمان کی شکل اختیار 291 کی علامت کرے تو کوئی چیز اس کے سامنے نہیں ٹھہرتی یدیو علم تاریخ کو صحیح استعمال نہ کرنے 105 جس کے ناک کی جس تیز ہومنہ کی سے مسلمانوں کا نقصان

Page 333

5 تاریخ بھی دنیوی علوم میں سے مذہبی جماعت کا فرد تقومی کے ذریعہ میں جانا ضروری اہم علم ہے تبدیلی 268 غلبہ حاصل کرتا ہے تلاوت انسانی فطرت تبدیلی چاہتی ہے 53 مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے مقابلہ 35 جماعت کی مالی قربانی عدیم النظیر ہے جنگ عورت زیادہ تبدیلی چاہتی ہے 53 میں ہائی سکول کے طلباء کی تلاوت جنگ جیتنے کے بارہ میں رہنمائی تبدیلی ترقی کے لیے ضروری ہے 53 اچھی تحریک جدید تہجد 255.254 جہالت تحریک جدید کی ایک غرض نئی تہجد نہایت ضروری نماز ہے 108 قو میں جہالت کی وجہ سے ہار 309 310 175.174 روحانی دنیا کی تعمیر تحریک جدید کی غرض، چوکس 76.75 ٹھگ سپاہیوں کی تیاری 131 ٹھگوں کے متعلق احتیاطیں 11،10 چندہ ترقی ترقی کے گر عزم، حوصلہ، قربانی کا مادہ 6 ج رہی ہیں 176 چ چندہ دینے والے غرباء کی قربانی 92،91 ترقی کے لئے ہر علم کے آدمیوں کا جامعہ احمدیہ ہونا ضروری ہے ہمارا فرض ہے کہ ہر فرد کے لئے تعلیم جماعت احمدیہ ممکن بنائیں 133 جماعت احمدیہ کو مادیت کے مقابلہ 172 | جامعہ احمدیہ کے کامیاب ہونے کے حواس لئے اصل چیز دار الاقامہ ہے 33 حواس خمسہ کی ترقی کا روحانیت سے گہرا تعلق ہے حکومت 127 اللہ تعالیٰ نے انسان میں تغیر کا مادہ کے لئے کھڑا کیا گیا ہے جماعت احمدیہ پر ابتلا بار بار آئیں 8 اسلامی حکومت کا قائم کرنا ہمارے اختیار میں ہے 302 رکھا ہے 53 تقدير گے ضروری ہے کہ ہماری جماعت میں ہر قسم کے آدمی ہوں 89 172 حکیم کا لفظ یونانیوں نے ایجاد کیا 275 ہر تقدیر خدا کی طرف سے جاری 208 جماعت کی مالی پوزیشن کی بہتری یونانی اُسے حکیم کہتے ہیں جو سارے تقوی کے لئے نوجوانوں کا مختلف پیشوں علوم جانتا ہو 275

Page 334

6 دین ایک بادشاہت ہے 313 سپر چولز خ خطرات ترقی کی امنگ والوں کو خطرات کی رنگ پرواہ نہیں ہوتی 6 سپر چولزم کیا ہے سچائی 105103 رنگوں سے بعض بیماریوں کا علاج 80 سچائی بہت سی نیکیوں کی جامع ہے 97 اعلیٰ خیالات سے تھوڑی محنت سے روایات سکول زیادہ کامیابی حاصل ہوتی ہے 102 جن کی روایات اچھی ہوں وہ قلیل جماعت کے سکولوں کی غرض دینی تعلیم دینا ہے 255.86 100 سکول کے معیار کو بلند کیا جائے 167 123 136 110 282 150 جدوجہد میں زیادہ کامیابی حاصل ر کرتے ہیں دار الاقامه ز سلسلہ احمدیہ دار الاقامہ کی غرض 35:34 سلسلہ احمدیہ کا ہر ایک کام ایک جیسی زراعت دجال زرعی ترقی کی اہمیت 309 دجال اور شیطان سے بچنے کا زندگی طریق 23.22 اہمیت رکھتا ہے سورج سورج کی گرمی کے سیاروں پر زندگی تغییرات کا نام ہے 192 دعا اثرات دعا کی حقیقت مومن کی مخلصانہ دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے 24-23 س ش سائنس 112 سو فیصد طلباء سائنس کا مضمون رکھیں شرافت دہریہ 125 ایک دہریہ مزاج کا واقعہ 60 تا 62 ساکن جو قوم ساکن ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے شریعت دین دین کے معنی نیچے کرتی ہے 196 شریعت نے مذہب کو بہت عظمت 243 سپاہی بنی نوع انسان کی خدمت دین کا لڑنے والے سپاہی کا پیٹ نہ بھرا حصہ ہے دی ہے شکایت 243 | جائے تو طاقت کم ہو جاتی ہے 174 | شکایت کرنے کا طریق

Page 335

شهری جائے 7 124 نئی مملکت کے شہریوں کی ذمہ داریاں صحابي ایک صحابی کا جھنڈا تھا منا صحبت صحبت کے اثرات خلافت سے سچی محبت رکھنے والا علم سب کا سب قرآن میں ہے 20 199 ، 200 طالب علم 89.88 161 ہمارا علم بھی بڑھنا چاہئے طالب علمی کا زمانہ اور اس کی علم جلدی ترقی کر رہا ہے اہمیت طلباء 318 319 وہ چیز جو قانون قدرت کی تائید کرے علم ہے طلباء کے جسمانی قومی کو ترقی دینی چاہیے 123 78 82 طلباء کی اخلاقی تربیت کی جائے 127 صحت کی درستی سے مراد انسان کی کرنا ضروری ہے 128 176 176 264 320 علم کا سر چشمہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے علم النفس علم النفس کا جاننا ضروری ہے 119 226 طلباء کو اسلامی تاریخ سے آگاہ مخفی طاقت 15 طلباء انجینئر نگ کی روشنی میں خدا b کی قدر پہچانیں طلباء کو ہائی سکول میں داخل طاعون کرنے کی غرض 2630255 صحابہ کے زمانہ میں مسلمان لشکر اس بیماری کی وجہ سے تباہ 207 طب سلسلہ احمدیہ سے خاص تعلق کھتی ہے 49 علوم علوم میں ترقی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی 169 علوم کا سیکھنا اسلام کا حصہ ہے 275 عمل طلباء فارغ ہونے کے بعد سکول عمل سے قوم کوزندہ کیا جاسکتا ہے کی عظمت کا ذکر کریں طلباء کالج کی روایات کو قائم رھیں 263 284 نعروں سے نہیں عورت 177.176 ایک بڑھیا عورت کی شکر گزاری 63 عورت پیچ کم بولتی ہے 244.97 طالب علم طلباء طالبات طالبات کا کام ڈگریاں نہیں اسلام ع عزت کا سپاہی بنتا ہے ایک طالب علم کا واقعہ 92 | عزت وہی ہے جو انکساری میں 4.3 ملتی ہے ملتی.ہمارے ملک کی عورت میں کام کرنے کی عادت کم ہے عیسائی 29 آدم خور افریقنوں کا عیسائی کو کھانا طالب علموں کو کھانے کا انتظام دیا اصل عزت دین کی خدمت ہے 313 اور عیسائیوں کی غیرت 245 220

Page 336

نیست غیبت کیا ہے غ کالج 97 8 کیریکٹر تعلیم الاسلام کالج کے قیام کی کیریکٹر نہ ہونے سے قوم کئی اغراض 133 تا 155 خوبیوں سے محروم ہوتی ہے کالج کے دروازے ہر مذہب وملت 133 گفتگو ف کے لوگوں کے لئے فلاسفر کالج کی ایک غرض مذہب پر ایک فلاسفر کا خواب 96 اعتراضات کا جواب ق کالج کے پروفیسر اعتراضات کا ردکریں قانون 134 290 زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے 109 قانونِ قدرت خدا کا فعل ہے 274 قرآن 134 135 لونڈی کالج کے پروفیسر دوسروں کے لئے حضرت حمزہ کی لونڈی کی غیرت ایمانی 94 نمونہ بنیں کالج کے طلباء مرکزی اداروں سے قرآن ایمان سے سمجھا جاسکتا ہے 242 | تعلق رکھیں 152 164 مبلغ م مبلغین قرآن کی خوبیوں سے کم علم بھی کالج کی تعلیم سکولوں کی تعلیم سے مبلغ فوز انہیں پیدا کیا جاسکتا لطف حاصل کرتا ہے 256 | مشکل قرآن غور سے پڑھا جائے تو ایک زمانہ کالج کی غرض مہینہ میں رہنمائی ملے گی 261 قرآن کریم علوم سے بھرا پڑا ہے 274 قربانی قربانی کرنے والوں کو بدلہ ان کے مرنے کے بعد ملے گا قناعت قناعت کی تلقین 221 110 کان 167 مبلغین ہر بات میں دوسروں سے 243 ممتاز ہونے چاہئیں 33 35 مبلغین کو باطنی صفائی کی تلقین 35 تا 37 سب سے پہلے بچے کے کان کام مبلغین کو خدا پر توکل رکھنا چاہئے 36 کرتے ہیں کمپونڈری 319 کمپونڈری کے کام کی اہمیت 311 محبت الہی متلی دوران سفر متلی سے بچنے کا طریق 10 محبت الہی قرآن کی کنجی ہے مغربی کھیلوں کو ترک کر دینا چاہئے 123 محبت الہی کی ایک دعا کھیلیں صحت کے لئے مفید ہیں 177 محنت 23 کھیلیں 21 له به

Page 337

95 108 108 108 95 9 جاتا معده 168 | نماز نماز کا چھوڑ نا ایسا ہے جیسے کسی نے جب منہ کی حالت درست ہوگی تو زہر کھا لیا معدہ کی سڑاند دور ہو جائے گی 126 نماز کے بعد تسبیحات کی تلقین نماز کی شرائط ملیریا نماز با جماعت کی اہمیت جاپان میں ملیریا سے 20 فیصد نمونه فوجی مرگئے مولوی 173 نمونہ اصل چیز ہے نوجوان ایک بے عمل مولوی کا دردناک نو جوانوں کو ہر بات میں اول آنے واقعہ مومن چیز 292 293 کی تلقین عالی ہمت نوجوانوں کی آخری منزل کوئی نہیں ہوتی مومن چھوٹی چیز پر تسلی نہیں پاتا 101 مومن کو چغلی سننے سے پر ہیز کرنا 173 201 191 96 184 محنت کی عادت نہ ہونے سے نماز روزے پر اثر 186-185 152 مانه ارسم مدرسہ احمدیہ کی کلاس میں دودو تین تین سو طلباء چاہئیں مدرسہ احمدیہ کے اساتذہ کو ہدایات مذہب مذہب کو ہر قسم کے لوگوں میں غالب رکھنے کی تلقین ہماری اصل دوڑ مذہب کی طرف ہونی چاہئے مسلمان مسلمانوں کے زوال کا ایک 155 226-225 ہندوستانی مسلمانوں کے تنزل کی وجه 250 نوکر چاہئے 111 یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ مومن کے ارادے سے اس کا عمل ہفتہ 248 بڑھ جاتا ہے 130 نیکی مومن کے عمل سے اس کا ارادہ بڑھ نیکی کا پہلا قدم یہ ہے کہ انسان اپنے 281 28 122 178 مسمریزم مسمریزم کیا ہے جاتا ہے 130 مذہب پر عمل کرے 103 مومن کو ہر وقت ہوشیار رہنا چاہئے 182 وقف مضامین وقف زندگی کے معنی اردو سیکھنے سے مضامین لکھنے آجائیں ن وقف کے یہ معنی ہیں کہ میری زندگی گے 132 | نصائح جماعت کے لئے ہے معجزہ سب نصائح کا خلاصہ، خدا کے بنو 30 زیادہ سے زیادہ نوجوان زندگیاں معجزہ ہر انسان کے لئے نہیں دکھلایا ہائی سکول کے طلباء کو نصائح 41 تا 43 وقف کریں کے کو

Page 338

10 واقفين اسلام کو لاکھوں واقفین کی ضرورت ہوگی 316 ہے واقفین تنخواہوں اور گزاروں کا ہاکی خیال نہ کریں 316 ہا کی صحت پر نما اثر ڈالتی ہے 148 ورزش وفاداری نہ ہوگی تو منافقت پیدا کو ہدایات 96 97 | صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ہدایات خدمت دین کی تیاری کے لئے 1308 31 19 صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ہدایات 28 ہائی سکول ورزش کام کرنے کی طاقت پیدا کے لئے ہدایات 1130107 ہائی سکول کے قیام کی غرض 40 کرتی ہے ہمسایہ آنکھوں اور کانوں کی ورزش 16 17 ہائی سکول کے قیام کا پس منظر 41،40 ہدایات وفاداری ہر چیز اپنے ہمسائے کے اثر کو قبول کرتی ہے 78 صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب

Page 339

11 الفاتحة آیات قرآنیہ يوسف الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ (81) 34 (2) البقرة 62 مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ (42) 142 ابراهيم كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (30) فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا لَئِن شَكَرْتُمْ لَا زِيدَنَّكُمُ تُكَذِّبَانِ (31) (8) 12 الواقعة 192.36 أَفَلا تَعْقِلُونَ (45) 277 مثَلاً كَلِمَةً طَيِّبَةٌ (25) 320 لَا يَمَسُّ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ آل عمران الحجر أَفَائِنْ مَّاتَ (145) 211 لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ (89) 110 (80) 192 242 رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلَ النَّارَ 31 الفرقان الصف لِمَ تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُونَ (193 تا 195) جَاهِدُهُم بِهِ (53) 91 (3) 274 الانعام الاحزاب سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (12) (24) 277 120 تَفْصِيلاً لِكُلِّ شَيْءٍ (155) 23 الزخرف وَالتَرعَتِ عُرُقًا (2) 149 الاخلاص الانفال إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ (62) 264 لَم يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ (4) 108 مُتَحَرفًا لِقِتَال (17) 33 الرحمن

Page 340

12 احادیث أُحُبُّ التَّرَابَ 270 كُلُّ مَوْلُودِ يُولَدُ 81 غیبت یہی ہے ل 291 لِكُلِّ مَلِک حِمى أَصْحَابِي كَالنُّجُوم 27 اے میرے صحابہ 97 107 جو مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے 108 ایک شخص رات کو مؤمن سوئے گا 160 حدیث بالمعنى اے انصار اگر کسی کے ذریعہ ایک آدمی کو اگر تمہیں چین جانا پڑے أَهْلُ الْجَنَّةِ...180 كُلُّكُمْ رَاعٍ 300 بدائیت ملے كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ 22 | علم دو ہیں 210-209 301 43، 109 ایمان کی ادنی علامت 304 305 45 جب بچہ پیدا ہو 319

Page 341

13 اسماء اسماعیل آدم سیٹھ اسماعیل شهید سید آئن سٹائن.اس کے نظریہ 12 نے نیوٹن کی تھیوری باطل کر اُن کی غیرت ایمانی 101 102 136 ایاز ( محمود کا ایک وزیر) دی آدم علیہ السلام حضرت 164،141 ایٹلی 166 آغا خان سر 221 ایڈورڈ گین ایمرسن ابراہیم علیہ السلام حضرت 212 ابراہیم.حضور کا بیٹا 71 برنارڈ شا ابن اثیر 265 بروٹس ابن خلدون 265 بشیر احمد.حضرت مرزا ابن رشد 66 بلال.حضرت ابو بکر حضرت 68، 211،120 ، بوعلی سینا ابو جہل 304 95.94 ابو عبید بن الجراح حضرت 207 ابو ہریرہ.حضرت 270 271 پیر پگاڑو 306 307 تھا مس تک حضرت ابو ہریرہ کی فاقہ کشی 234 تیمور | 206t 203 213 جافرے سر چرچل ج 10 213 匡 こ 265 حجاج بن یوسف 170 ، 236 ، 237 289 275 216-215 10.8 69 66 222 11.10 214.160.159 حمزہ.حضرت.ان کے اسلام لانے کا واقعہ خ خالد بن ولید حضرت داہر.راجہ ڈائر 95.94 218 238.236.235 ڈارون.اس کی تھیوری نے انسانی دماغوں پر قبضہ کیا ڈینی سن راس.سر ذوق ز 135 294 70

Page 342

14 طلحہ حضرت احد میں ہاتھ شل ہونا ع عائشہ حضرت عبد الرحمان مصری عبد الرحیم ورد 270 162 10 عبدالستار سہلہ.ان کو حضرت س سرشار ( شاعر کا نام) 187 اسلام پھیلانے والے) بیتزر 215 216 عثمان.حضرت ش عثمان بن مظعون ابتدائی زمانہ شعرانی.حضرت امام میں ایمان 267 شیکسپیر 215 اُن کا راہ خدا میں تکالیف اُٹھانا ص عطاء اللہ شاہ بخاری صدرالدین مولوی 161 b 66 67 عکرمہ حضرت علی حضرت 71068 38 218 <120.88.66 272.269.232.120 306-304 121 184 +218 272.219 غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا 2 ، 8، عبد اللہ کو نیلم ( یورپ میں پہلے <36-30-27-26-25-24 103 117.109.93.49.40-37 272-120 142-141.140.137.120 <277.168.164.159.144 68.67 314-299-297 آپ کے مشاغل آپ کے الہامات آپ کی ایک بددعا 16 297.25 go 30 آپ کی سادگی دیکھ کر لوگ عمر حضرت آپ کی شہادت کی تمنا عمر فاروق اتالین عمر و بن عاص.حضرت آپ کو پاگل کہتے دہلی مباحثہ میں طرز عمل بیان کرده واقعه بیان کرده لطیفه ف فضل حسین میاں.سر ق 35 38 90 184-183 290 مسیح موعود اور حضرت مصلح موعود دعا کے لئے کہتے عیسیٰ علیہ السلام.حضرت 83، قیصر 216.215.144 عبد الغفار خان پٹھان عبد القادر پروفیسر عبد القدیر مولوی 16.295.269-264.212.105 16 271 312 316 کسری 306-234-144 غ عبداللہ خان بیٹھان 16 غاله 70،35 | البيد 70.69

Page 343

15 مبارک احمد حضرت صاحبزادہ 113107 آپ کا امی ہونا 168 خلیفہ اول کی بیماری میں کیفیت 26 دشمن کی سرگرمیوں پر کڑی نظر مشکل حالات میں خلافت 181.180 سنبھالنا 159157 جامعہ احمدیہ اور ہائی سکول کے درہ پر تیراندازوں کو بٹھانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خاتم الانبیاء 21، 22، 27 ، مدینہ میں مردم شماری کرانا 218 لئے کردار 34.33 اسفار محمد بن قاسم 231.230 238 آپ کا ڈلہوزی جانا محمد حسین بٹالوی.مولوی 144 | سفرانگلستان محمد دین ماسٹر 105 دمشق جانا 17 103 297 محمد دین مولوی 1، 309،100 تعلق باللہ محمد علی جناح قائد اعظم محمد علی خان نواب 212 آپ کے رویا 16 124 آپ پر الہامات کا نزول 138 ، محمد علی مولوی پیغامی 158 ،164 139 محمد علی چودھری.پروفیسر 164 قصے <91.88-8167.45.43 *107.104.97.94.93 137.125.112.109.108 180.170.144.142.140 219 212 211.209.193 *267*260*235.234.230 *296.291.271*269 <306-304-301.300.299 313-307 آپ کا کا بدری صحابی کو تسلی محمود ( بادشاہ 203 تا 206 ، 209 ولانا 64 محمود اللہ شاہ 217 آپ پر ابتدائی ایمان لانے محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین مصلح والے آپ کی حضرت عثمان بن 68 موعود اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے زندہ گواه 20.19 آپ کے بیان کردہ قصے 102 +257 256.182.151 276-260-259 بیان کردہ واقعات <170.41 €288.287.286-285-171 مظعون سے محبت 71 سوانح آپ کو ابو جہل کا تھپڑ مارنا 94 آپ کا بچپن 131،51،49 بیان کردہ لطیفه 294-293-290 304 آپ کی ایک دعا 112 بچپن میں تشحیذ نکالنا 29، 131 | مشاہدات 17، 21، 103 تا 105 ، غریب صحابی سے بے تکلفی 125 آپ کی تعلیم 241-220 147

Page 344

16 متفرقات مسیح موعود کے بارہ میں موسیٰ علیہ السلام حضرت 212، بلند پایہ طبیب 276،273 307 کنچنی کے ناچ کے بارہ میں روایات 49.35 ایک مبلغ کے مضمون پر نا پسندیدگی 37 آپ کی ایک زبردست سکیم.موسیٰ مسلمان بادشاہ 213، رائے 214 آپ کا توکل مولر پروفیسر 135 ، 137 ،138 ، نیوٹن 140 صنعتوں اور پیشوں کے بارہ میں آپ کا بتائی پر احسان 56045 ن ولی اللہ شاہ سید ناصر احمد حضرت مرزا 148، 189 - دمشق میں ان کی عزت | 54 55 آپ کو یورپ بھیجنے کا مقصد 21 22 ولید ایک دہریہ کو حکیمانہ جواب 60-61 آپ کو ہدایات 19 31 و میز شنبمزادہ ، اس کا واقعہ بحالت صحت چار چار گھنٹہ تہجد چارگی پڑھنا ہر علم کے شیدائی وشوقین آپ کا تو کل مظفر احمد حضرت مرزا ان کو ہدایات معاوج يكلكن 49 279 316 136 312.162 297 214 268 108 279 316 نپولین نیم لکھنوی 214.58 187 ہارون علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام حضرت 212 ہٹلر ی نورالدین حضرت خلیفہ اول 26 آپ کے بیان کردہ واقعات 16، یوسف علیہ السلام حضرت 275-160 159.74-38-34 1208 272 63.17 10 273 214 34

Page 345

17 مقامات ایران 65 232،145 233، 235، 306،238 | پشاور 310 101.93.92 آسام آکسفورڈ 145 284 ایشیا 146 پشاور میں عیسائیت کے داخلہ کا آگرہ 75 قصم پرما 212،173 | پنجاب اٹلی 215 برما میں مچھروں کی وجہ سے ملیریا پولینڈ اٹالین کا واقعہ 294 295 | پھیلا 173 | پیرس 94.93 300.145 145 66 ارجنٹائن 145 برما کی لڑائی ڈاکٹروں نے لڑی اڑیسہ 145 ہے 173 ٹرینیڈاڈ 314 افریقہ 145،6، 220 235 ، بصره 238 300 جاپان 175.145 145 بمبئی 12 ، 27، 145 ، 221 ، 266 جاپانیوں کی شکست کی وجہ 174 145 بنگال 276،238،145،92، جاپانی سپاہیوں کی بہت کم 236، 290 ، 314 بلوچستان افغانستان البانية امرتسر 92 امریکہ 76، 145،138،127 ، بہار 213،185،146 تا 216 ، بھیرہ انڈونیشیا 303 303-212.145.92 63 212 51 221 ، 310،248 | بيت المقدس 314 انگلستان 21،20،11،9،8،6، 103،48، 138 ،148،145، پاکستان.197.188.187 غذا جاوا جرمنی جموں جہلم 213،149 216 ، 220 ، 200 ، 222 ، 238 240 241، چنیوٹ +302-300-285-284-262 <294.293-285-222 چین 174 145.92 148.145.48 159 147 273-202 301-235-145.48

Page 346

240-212 251 145 52 301.300 49 92 145 213 18 92 | قاہرہ سلی سماٹرا 238 235-212.145 231.68 بشه 145 کاشغر سی پی مشق 288 | سیرالیون 145 | کان پور وہلی 49،38، 101 ،135 ، سیلون 235 کراچی کلکته 279.187.172 شام 297.145.111 ڈچ گی آنا ڈلہوزی 314 17 شیخوپوره 284 | گوجرانوالہ ع گولڈ کوسٹ عراق ربوه 202 203، 208 209، عرب.بازار سے روٹی 227، 262،235،231 264 ، منگوانے کا رواج 235 237 گولیکی مولیکی اور سرو کی کے 250 لوگوں کا ایک نقص 280، 299 ، 308 ، 315 علی گڑھ 294،262،163،159 لائلپور ربوہ کی اہمیت روس روم زیکوسلواکیہ س سپین سٹریٹ سیٹلمنٹ سدو کی سرحد 211 ف 126 318.299 لاہور 133،129،101،92، 145ء 216 فرانس 213،104،55،11، 66-65 247.145 236 145 126 300 214 فلسطين 145،111 | لدھیانہ لکھنو ق قادیان 1 ،57،49،45،40،33، لندن *130 129.115.111.100 158.157.151.145-133 لنکاشائر 166،164،159، 202،189، ماریشس 211 210-209-208-207 <254.225.191.189 278-271 49 172 293.11 51 145 145

Page 347

<239-237-235.231 <249-248-246-245-240 212 19 ہردوار *181.180.121 <231-230-211*209 ماه پیشه 304.269 مصر 162،145،113،111، ہندوستان 48،9،6 50 51 | 288،269،268،266،252، 315-310-309.293 185 184 118.92.52 سکران *250-238 236-235 بکہ 7168،21، 209 210 ، مالایا ملتان نائیجیریا نیویارک وزیر آباد 250-231-212 235-145 238 237،235،211،188 238 ، یورپ تاریکی میں پڑا ہے 250، 266 ، 303 یورپ کی ترقی کی ایک وجہ ہندوستان کی تباہی کی ایک وجہ 53 یورپ نے تمام علوم عربوں سے ہنگری ی یوپی 145 سیکھے یورپ میں پرنسپل کو وزراء جتنی 145،92 | عزت دی جاتی ہے 145 یورپ 10، 22، 51،42،29، یورپ میں ڈارون تھیوری کے 138 101 82.76.66-65.55.52 144.128.122.103 *190.149.146 خلاف رو یورپ کی خوبیاں یوگوسلاویہ 9 53 65 122 135 286-285 145

Page 348

272 b 265 طبری کلیله و دمنه The Decline And Fall of The Roman Empire 265 20 کتابیات 267.265 274-273 49 162 الف لیلہ 209 آفاق (اخبار) آ بائیل اسلام میں اختلافات کا آغاز 271 بخاری الفضل 37.12.6 انجیل 269 انسائیکلو پیڈیا 273 تحمید الاذہان

Page 348