Zareen Hidayaat 3

Zareen Hidayaat 3

زرّیں ہدایات (جلد سوم برائے طلباء۔1916ء تا 1931ء)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

زریں ہدایات (برائے طلباء) +19310-1916 جلد سوم از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحد المصلح الموعود خلیفه امسیح الثانی

Page 2

زریں ہدایات (برائے طلباء ) جلد سوم از حضرت خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ عنہ Zarreen Hidayaat (Baraei Tulaba) Vol-3 (A Selection of essays and lectures delivered between 1916 and 1931) By Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih II Present Urdu Edition: UK 2020 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS United Kingdom Printed and bound by: No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photography, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-215-5 (Vol.1-4 Set)

Page 3

زریں ہدایات (برائے طلباء) فهرست عناوین نمبر شمار 1 تبلیغ احمدیت کے آسان طریق عنوان 2 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی انگلستان روانگی 3 طلباء کو نصائح 4 تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے طلباء کی انجمن شبان الاسلام سے خطاب خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو 6 بچوں، بچوں کے والدین اور نگرانوں کے لئے نصائح 7 غیور اور با اخلاق بننے کا زمانہ بچپن ہے 8 طلباء کو نصیحت صفحہ 1 20 22 29 43 46 48 62 له یه ی موجودہ زمانہ کے زہریلے اثرات سے بچاؤ کے لیے تین ضروری باتیں 82 10 مدرسہ احمدیہ قادیان کے متعلق حضرت خلیفہ الثانی کا ارشاد 11 کانفرنس کے موقع پر مدرسہ احمدیہ سے متعلق ارشاد 12 طلباء مدرسہ احمدیہ کو نصائح 13 احمدی بچوں کی تعلیم و تربیت 14 کالجوں کے احمدی طلباء سے خطاب 97 101 103 106 118

Page 4

زریں ہدایات (برائے طلباء) نمبر شمار عنوان 15 ترقی کرنے والی قوم کے لئے ورزش کی ضرورت لندن میں ہندوستانی طلباء سے خطاب 17 لندن میں ہندوستانی طلباء سے گفتگو 18 احمد یہ کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور سے خطاب 19 اساتذہ و طلباء مدرسہ احمدیہ سے خطاب 20 احمدی خواتین کی تعلیم وتربیت کے لئے سکول کا قیام 21 اعلیٰ درجہ کے اردو لٹریچر کے مطالعہ کی اہمیت 22 جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ 23 احمدی طلباء کو نصائح 24 جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ 25 طلباء کو نصائح 26 جدائی کا فلسفہ 27 بیش قیمت نصائح 28 جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ 29 احمدی طلباء کو نصائح 30 حفاظت اور اشاعت اسلام کے لئے مسلمانوں کو بیدار کرو 31 جامعہ احمدیہ قادیان کے افتتاح کے موقع پر خطاب 32 پیغام بورڈران مدرسہ احمدیہ کے نام 33 کالجیٹ طلباء کے سوالات اور ان کے جوابات 34 لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم انعامات کا جلسہ صفحہ 138 143 149 167 179 188 195 199 203 222 226 240 245 252 258 261 270 280 281 287

Page 5

زریں ہدایات (برائے طلباء) نمبر شمار عنوان ماں باپ پر تربیت اولاد کی ذمہ داری کس قدر ہے 36 طلباء کو نصیحت وسیع ہمت اور بلند ارادوں کے ساتھ کوشش کرو 38 طلباء کو نصائح 39 احمدی طلباء اور زبان دانی 40 طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے خطاب 41 احمد یہ گرلز ہائی سکول قادیان میں ایف اے کلاس کا افتتاح صفحہ 292 294 295 312 315 328 335

Page 6

زریں ہدایات (برائے طلباء) 1 جلد سوم تبلیغ احمدیت کے آسان طریق مورحہ 8 اگست 1916 ء کو حضرت خلیہ اسیح الثانی نے طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول کو و مدرسہ احمدیہ قادیان سے جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.پچھلے سال ایام رخصت کے موقع پر میں نے بیان کیا تھا کہ ہمارے عقائد کوئی نئے عقائد نہیں.ہماری جماعت کوئی نیا مذ ہب یا کوئی نیا دین دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتی.لیکن باوجود اس کے کہ تمہیں سال سے بھی زیادہ عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کو ہو گیا ہے پھر بھی اب تک غیر ممالک کا تو حال ہی الگ ہے.اسی پنجاب میں جہاں خدا کے فضل سے ہزاروں سے گزر کر لاکھوں انسانوں تک ہماری جماعت پہنچ چکی ہے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ مرزائیوں نے نیا کلمہ، نیا قرآن اور نیا دین بنالیا ہے.جب پنجاب کا ہی یہ حال ہے تو دور کے ممالک کا تو اس سے بھی خراب ہوگا.چنانچہ جب ہمارے آدمی حیدر آباد دکن میں تبلیغ کے لئے گئے تو وہاں ایک بڑے مجتہد سے ان کی گفتگو ہوئی.وہ جنوبی ہند کے تمام شیعوں کا سرگر وہ تھا.شیعوں میں قاعدہ ہے کہ ان کا ایک ایسا سرگروہ ہوتا ہے جس کے احکام کے وہ پابند ہوتے ہیں اس سے ملنے کے لئے جب ہمارے آدمی گئے اور اسلام کی حالت پر گفتگو کی تا کہ اسلام کی موجودہ نازک حالت بتلا کر اسے اپنے سلسلہ کی طرف توجہ دلائیں اور بتلائیں کہ اس زمانہ میں مسیح موعود کے آنے کی کیسی ضرورت ہے.لیکن اس نے خود ہی گفتگو کرتے کرتے کہا آجکل اسلام کی سخت نازک حالت ہو رہی ہے.دن بدن تفرقہ بڑھتا جاتا ہے.کئی فرقے نکل رہے

Page 7

زریں ہدایات (برائے طلباء) 2 جلد سوم ہیں.آپ نے بھی ایک فرقہ قادیانی سنا ہوگا.یا آپ اس سے کہاں واقف ہوں گے وہ پنجاب میں ایک نئی جماعت نکلی ہے.اس نے اپنا نیا قرآن بنا لیا ہے اور نیا ہی کلمہ ایجاد کر لیا ہے.ہمارے آدمیوں نے کہا اچھا! کوئی ایسی جماعت بھی نکلی ہے جس نے نیا قرآن اور نیا کلمہ گھڑ لیا ہے؟ اس نے کہا ہاں وہ ایک قادیانی جماعت ہے.انہوں نے کہا کیا جناب نے اُس جماعت کا بنایا ہوا قرآن دیکھا ہے؟ اُس نے کہا میں نے تو نہیں دیکھا لیکن میرے ایک نہایت معتبر دوست نے مجھ سے ذکر کیا ہے اور وہ قرآن ان کے پاس موجود ہے.اس سے سمجھ لو کہ ہمارے متعلق لوگوں کے کیا خیالات ہیں.بعض دفعہ تو ایسا ہوتا ہے که بعض سادہ طبع احمدی بھی غیر احمدیوں کی اس قسم کی باتوں کو سن کر ہم سے اس کی تصدیق چاہتے ہیں.گویا غیر احمدیوں کو ہمارے متعلق اتنا دھوکا ہوا ہے کہ وہ احمدیوں کو بھی دھوکا میں ڈال دیتے ہیں.کہتے ہیں عرب میں ایک پاگل تھا.اس کو چھوٹے چھوٹے لڑکے بہت ستایا کرتے تھے.لڑکوں کی عادت ہے کہ اس قسم کے مخبوط الحواس انسان کو دل لگی کے طور پر چھیڑا کرتے ہیں.حالانکہ سب بیماروں سے بڑھ کر اس قسم کے بیمار کی حالت قابل رحم ہوتی ہے کیونکہ دوسرے بیمار اپنی حالت کی نسبت کچھ نہ کچھ تو جانتے ہیں لیکن وہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ میری کیا حالت ہے اس لئے بہت ہی قابلِ رحم ہوتا ہے اور اس کی حالت بہت ہی قابل خوف ہوتی ہے.مگر لوگوں میں یہ مرض ہے کہ جو سب سے زیادہ خطر ناک مریض ہوتا ہے اس سے بجائے عبرت حاصل کرنے کے ہنستے اور دل لگی کرتے ہیں.تو اس کے پیچھے لڑکے پڑے رہتے تھے.وہ فاطر العقل سا تھا.جب بہت تنگ ہوتا تو اپنی جان چھڑانے کے لئے لڑکوں کو کہہ دیتا کہ آج فلاں امیر کے ہاں دعوت ہے وہاں دوڑ جاؤ.لڑکے اسے چھوڑ کر ادھر دوڑ پڑتے.جب وہ چلے جاتے تو سوچتا کہ میں نے لڑکوں کو جھوٹ بول کر یہ تو کہہ دیا ہے کہ وہاں دعوت ہے جاؤ لیکن کیا ممکن نہیں کہ واقعہ میں وہاں دعوت ہو بھی.اس صورت میں تو وہ خوب دعوت اڑائیں گے.لیکن یہ نہیں ہو سکتا

Page 8

زریں ہدایات (برائے طلباء) 3 جلد سوم کہ میں ان سے مار بھی کھاؤں اور پھر وہ میری بتائی ہوئی جگہ سے دعوت بھی کھا جائیں اور میں محروم ہی رہوں.یہ سوچ کر وہ بھی ادھر ہی دوڑ پڑتا.لیکن وہاں کچھ بھی نہ ہوتا.لڑکے چونکہ دعوت کے نہ ملنے کی وجہ سے پہلے سے ہی غصہ میں ہوتے جب وہ خود ہی ان کے قبضہ میں چلا جاتا تو پھر خوب مارتے.تو بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سمجھانے والے کم عقلی اور ناواقفیت کی وجہ سے خود بھی دھوکا میں آجاتے ہیں اور کئی تو نا کبھی میں مخالفین کا کہنا صحیح اور درست بھی مان لیتے ہیں.وہ دیکھتے ہیں کہ ایک معزز آدمی کہ رہا ہے اس کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے ممکن ہے سچ ہی ہو.اس لئے جھٹ خط لکھ دیتے ہیں کہ ہمیں بتایا جاوے کہ احمدیوں کا کیا کلمہ ہے اور کونسا قرآن ہے.چونکہ بعض احمد ی اس قسم کے دھوکا میں آجاتے ہیں، اس سے متاثر ہو جاتے ہیں اس لئے میں اس کے متعلق کچھ بتانا چاہتا ہوں.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ ہمارا خدا، ہماری کتاب ، ہمارا رسول وہی ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.اور جو تعلیم آنحضرت علال لائے تھے اس سے ایک شوشہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے زیادہ یا کم نہیں کیا.حضرت مسیح ناصری نے کہا تھا کہ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ ملے گا.جب تک " سب کچھ پورا نہ ہو 1 مگر زمین و آسمان کی موجودگی میں ہی بائبل کا ایک شوشہ چھوڑ سب کچھ مٹ گیا.یعنی | قرآن کریم آگیا اور اس نے آکر اسے مٹا دیا.اب ہمیں یہ مانا پڑے گا کہ حضرت مسیح کے یہ کہنے سے کہ ” جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توربیت کا ہر گز نہ ملے گا.یہ مراد نہ تھی کہ یہ مادی زمین و آسمان جب تک نہ مٹیں گے اُس وقت تک توریت کا ایک شوشہ بھی نہ مٹے گا.بلکہ یہ مراد تھی کہ ہر ایک نبی کے وقت جو زمین اور آسمان نیا بنایا جاتا ہے وہ

Page 9

زریں ہدایات (برائے طلباء) 4 جلد سوم جب تک قائم رہے گا اُس وقت تک تو ریت بھی قائم رہے گی.اور جب وہ ٹل جائے گا تو بائل بھی مٹ جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی کشف میں دکھایا گیا تھا کہ آپ نے نئی زمین اور نیا آسمان بنایا ہے 2.نادانوں نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ زمین و آسمان نیا کس طرح بنایا جا سکتا ہے.لیکن دراصل انہوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کہ نبی کے وقت نئی زمین اور نیا آسمان | بنایا جاتا ہے.اصل میں یہ ایک محاورہ ہے اسی محاورہ کو حضرت مسیح ناصرتی نے استعمال کیا ہے.اگر اعتراض کرنے والے دیکھتے کہ پہلے مسیح نے بھی یہی کہا تھا کہ ”جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا شوشہ توریت کا نہ ملے گا.لیکن یہ زمین اور آسمان تو اسی طرح موجود رہے جس طرح پہلے تھے حالانکہ توریت بالکل مٹ گئی.کیا انہوں نے جھوٹ کہا تھا ؟ نہیں، بالکل درست کہا تھا لیکن اس کا مطلب وہ نہیں تھا جو سمجھا گیا.بلکہ یہ تھا کہ نبی کے ذریعہ جو ایک نیا سلسلہ قائم کیا جاتا ہے اس کو انہوں نے آسمان اور زمین سے تعبیر کیا ہے اور ان کے کہنے سے اسرائیلی سلسلہ مراد تھا.یعنی انہوں نے کہا کہ جب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا اُس وقت تک بائبل بھی چلے گی.لیکن جب یہ بدل دیا جائے گا اُس وقت بائبل بھی بدل دی جائے گی.چنانچہ بائبل کے الفاظ سے بھی یہی نکالتا ہے اور واقعات اسی کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب تک اسرائیلی نبی | آتے رہے وہ ان کو تو رات پر ہی چلاتے رہے اور توریت میں انہوں نے کچھ کم و بیش نہ کیا.لیکن جب ان کا آنا بند ہو گیا تو تو رات بھی مٹ گئی.اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح نے محاورہ اور اصطلاح کے طور پر فرمایا تھا کہ جب تک زمین اور آسمان ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ ملے گا.ورنہ واقعہ میں ان کے کہنے سے موجودہ زمین و آسمان ٹلا نا مراد نہ تھی.مگر ہمارے نبی کریم ﷺ جوتعلیم لائے ہیں اس کے متعلق تو ہم انہی معنوں میں جو ظا ہری ظاہری الفاظ سے نکلتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ جب تک یہ زمین ہے جس پر انسان چلتے پھرتے ہیں اور جب تک یہ آسمان ہے جو انسانوں کے سروں پر ہے اور جب تک بنی نوع انسان موجود رہیں گے کوئی | شخص اس تعلیم کو مٹا کر نئی تعلیم نہیں لا سکتا.اس لئے کہہ سکتے ہیں کہ جب تک آسمان اور زمین

Page 10

زریں ہدایات (برائے طلباء) 5 جلد سوم موجود ہے قرآن کریم بھی موجود رہے گا.لیکن ہمارے اور حضرت مسیح کے کہنے میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ان کی زمین و آسمان سے مراد صرف اسرائیلی سلسلہ تھی لیکن ہمارے نزدیک کوئی ہو جب تک بنی نوع انسان موجود ہے اس کے لئے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم پر عمل کرے اور آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا جوا اپنی گردن پر رکھے.تو ہمارا کلمہ وہی ہے، کتاب وہی ہے، رسول وہی ہے.پھر فرق کیا ہے؟ یہی کہ چونکہ اس تعلیم اور اس کتاب کے اس مفہوم کو جو آنحضرت ﷺ کی معرفت حاصل ہوا تھا لوگوں نے بگاڑ دیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ میں ایک نبی آیا.تا اس کے ذریعہ وہ ایمان اور یقین حاصل ہو سکے جو بچے اور راستباز لوگوں کو ہوا کرتا ہے اور تا شریعت میں جو غلط عقائد داخل ہو گئے ہیں ان کو نکال کر دور کر دیا جائے.یہی وہ کام ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے ہیں.ورنہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے اور نہ کوئی نیا کلمہ بنایا ہے.پس اب بھی ہمارے پاس وہی اسلام ہے جو رسول اللہ ﷺ کے وقت تھا.تو بجائے اس کے کہ کوئی تمہیں یہ کہے کہ تم نے کوئی نیا دین بنالیا ہے تم اسے کہو کہ ہمارا تو یہ دعوی ہے کہ ہم نے وہی پر ان دین قائم کیا ہے جو آنحضرت ﷺ لائے تھے.الله اس میں شک نہیں کہ اس زمانہ میں ایک نیا دین نہیں بلکہ کئی نئے دین پیدا ہو گئے تھے.اس زمانہ کے مولویوں، صوفیوں، امرا اور نیچریوں کے ذریعہ کئی قسم کے نئے دین قائم ہو گئے تھے اور حقیقی اسلام مٹ گیا تھا.لیکن حضرت مرزا صاحب اس لئے نہیں آئے تھے کہ یہ بھی کوئی نیا دین قائم کریں.بلکہ اس لئے آئے تھے کہ وہی پر ان دین قائم کریں جو آنحضرت ﷺ کے ذریعہ قائم ہوا تھا.پس ہم پر یہ الزام نہیں آسکتا کہ ہم نے نیا دین بنالیا ہے بلکہ اگر الزام آتا ہے تو ان لوگوں پر ہی کہ جنہوں نے نیا دین گھڑ لیا ہے.پس ہمارا جو دین ہے وہ وہی پرانا ہے جو آج سے تیرہ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ لائے تھے.آجکل کے انگریزی خواں مولویوں اور مسلمانوں کو طنزاً کہتے ہیں کہ ان کا مذہب اولڈ فیشن ہے حالانکہ وہ یہ بات ہمیں کہہ

Page 11

زریں ہدایات (برائے طلباء) 6 جلد سوم سکتے ہیں.لیکن ان کی بجائے مولوی لوگ ہمیں کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک نیا دین بنالیا ہے.اور انگریزی خواں ان کو کہتے ہیں کہ انہوں نے پرانا دین پکڑا ہوا ہے حالانکہ مولویوں کے پاس آجکل کا تازہ بتازہ اور تو بہ تو مذہب ہے اور ہمارے پاس وہی جس کو تیرہ سو سال گزر چکے ہیں.اگر یہی مذہب مولویوں کا بھی ہوتا جو ہمارا ہے تو کبھی کسی انگریزی خواں کو ان پر ہنسی کا موقع نہ ملتا.جیسا کہ ہم اس بات کا نمونہ موجود ہیں.لیکن ان دونوں گروہوں نے ٹھو کر کھائی ہے.مولوی صاحبان تو پرانے کو نیا کہتے ہیں اور انگریزی خواں نئے کو پرانا.کہتے ہیں کوئی شخص سید کہلاتا تھا کسی عدالت میں جو پیش ہوا تو اس کے متعلق کہا گیا کہ یہ سید نہیں ہے.اس نے کہا نہیں میں سید ہوں.اس کے متعلق وہ گواہ لایا.اس گواہ سے جب عدالت میں پوچھا گیا کہ کیا واقعہ میں یہ سید ہے؟ تو اُس نے کہا کہ واقعی یہ سید ہیں اور ہماری آنکھوں دیکھے سید ہیں.اس سے پوچھا گیا کہ آنکھوں دیکھے سیڈ“ کا کیا مطلب ہے؟ تو اس نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک تو وہ سید ہیں جو ہمیشہ سے کہلاتے آئے ہیں کہ ہم سید ہیں.ان کی نسبت تو ہمیں کوئی علم نہیں ہے کہ وہ سید ہیں یا نہیں.لیکن ان کے تو ابا جان نے ہمارے سامنے سید ہونے کا دعوی کیا تھا.ہم ان کا اعتبار کریں یا ان کا.تو غیر احمدی لوگ خود ایسا اسلام پیش کرتے ہیں جو بالکل جدید اور نیا ہے لیکن اعتراض ہم پر کرتے ہیں کہ انہوں نے نیا اسلام بنا لیا ہے.ہمارا نیا اسلام نہیں بلکہ وہی پرانا ہے جس کو تیرہ سو سال گزر گئے ہیں.پس ہم پر یہ الزام تو لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیں تیرہ سو سال پیچھے لے جانا چاہتے ہیں اور وہی پرانا اسلام منواتے ہیں جس سے بمشکل پیچھا چھڑایا تھا.لیکن ہم پر یہ الزام ہرگز ہرگز نہیں لگایا جا سکتا کہ ہم کوئی نیا اسلام منواتے ہیں.تو یہ بات خوب یاد کو تمہیں بہت لوگ ایسے ملیں گے جو کہیں گے کہ تم نے نیا دین اختیار کر لیا ہے لیکن تم دل میں یہ بٹھا لو کہ ہم نے کوئی نیا دین اختیار نہیں کیا بلکہ ہمارا وہی دین ہے جو قرآن کریم میں ہے.اگر کوئی تمہیں کہے کہ تم نے نیادین اختیار کر لیا ہے اور مرزا صاحب نے ایک نیا دین ایجاد کیا ہے تو اُسے کہو کہ یہ جھوٹ ہے.ہاں اگر تم الزام ہی لگانا چاہتے ہو تو یہ لگا لو کہ مرزا صاحب نے تیرہ سو سال پچھلا مذہب پھر دنیا کے سامنے لا رکھا ہے.یہ الزام ان کے

Page 12

زریں ہدایات (برائے طلباء) 7 جلد سوم نزد یک الزام ہو تو ہو لیکن ہمارے نزدیک یہ کوئی الزام نہیں بلکہ اسی کو ثابت کرناہمارا کام اور فرض ہے.پس تم کسی کے فریب میں نہ آؤ.ہر ایک وہ شخص جو ایسا کہنے والا ہے اسے خوب کھول کر سنا دو کہ تم میں اور ہم میں فرق یہی ہے کہ تم نے ایک نیا مذہب بنارکھا ہے اور ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ وہی پرانا مذ ہب ملا ہے جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت مہ کے ذریعہ دنیا کے لئے نازل کیا تھا.تمہارے ایمان کمزور نہیں بلکہ بالکل نیست و نابود ہو گئے ہیں اور تم نے اپنی روزی کمانے کے لئے الگ الگ فریق قائم کر کے نئے نئے مسئلے گھڑ لئے ہیں.جب تمہارے پاس مال و اموال نہ رہے تو تم نے اپنے اور اپنے ساتھ والوں کے دلوں کو اس طرح تسلی دے لی کہ امام مہدی آئے گا اور وہ آکر غیر مذاہب کے سب لوگوں کا مال و اسباب چھین کر ہمیں دے جائے گا.پھر جب تم ہر ایک جگہ ذلیل اور رسوا ہو گئے تو تم نے اس طرح اپنا دل خوش کرنا چاہا کہ حضرت مسیح آئیں گے اور تمام دنیا کی بادشاہت ہمیں دے جائیں گے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر تمہارے ان تمام خیالات کو باطل کر دیا اور اصل اسلام پیش کیا.پس ہم پر نئے دین کے ایجاد کرنے کا الزام نہیں آتا بلکہ تم پر ہی آتا ہے.پچھلے سال میں نے خدا تعالیٰ، ملائکہ، انبیاء اور کتب وغیرہ کے متعلق بتایا تھا.لیکن آج میں ایک اور بات بتانا چاہتا ہوں.یہ تو تم خوب یا د رکھو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کوئی نیا دین نہیں بنایا بلکہ وہی پرانا دین اپنے اصلی رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.لیکن جب لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی جائے تو کہہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب نے پرانا دین کس طرح پیش کیا ہے.حضرت عیسی کو انہوں نے وفات یافتہ قرار دے لیا ہے، اپنے آپ کو نبی اور مسیح موعود کہتے ہیں پھر یہ پرانا اسلام کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس کے متعلق مختلف دلائل دیئے جاسکتے ہیں.کچھ قرآن کریم سے، کچھ احادیث سے، کچھ عقل سے اور کچھ آئمہ کے اقوال سے.مگر تمہارے ذہن ان تمام دلائل کو کہاں برداشت کر سکتے ہیں کہ میں تمہارے سامنے ان کو بیان کروں.اس لئے میں ان کو بیان نہیں کروں گا کیونکہ یہ تمہاری طاقت سے بڑھ کر ہیں اور آجکل کے دماغ کوئی ایسے اعلیٰ نہیں رہے کہ اس عمر میں ایسی -

Page 13

زریں ہدایات (برائے طلباء) 8 جلد سوم باتیں یادرکھ سکیں.اس کی وجہ آجکل کے طریقہ تعلیم کی خرابی ہے.مجھے ڈارون پر حیرت آتی ہے وہ کہتا ہے کہ بندر سے ترقی کرتے کرتے انسان بنا ہے لیکن میں نے اکثر لڑ کے ایسے دیکھے ہیں کہ اگر آج ڈارون ہوتا تو کہتا کہ آدمی سے تنزل کرتے کرتے بندر بنے ہیں.آجکل اندر ہی اندر لڑکوں کی ایسی صحت خراب ہورہی ہے کہ زمانہ طالب علمی میں ہی بیسیوں بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.کوئی مدقوق ہو جاتا ہے، کوئی مسلول ہو جاتا ہے، کوئی کسی اور بیماری میں گرفتار ہو جاتا ہے ایسی صورت میں کہاں ان دلائل کو یاد رکھا جاسکتا ہے.اس لئے میں تم کو ایک گر بتاتا ہوں جس کو میں نے کثرت سے استعمال کر کے اس بات کا پورا پورا تجربہ حاصل کر لیا ہے کہ جہاں بھی اسے استعمال کیا جائے بڑی کامیابی ہوتی ہے.مجھے حضرت خلیفہ اول اپنے زمانہ خلافت میں بعض جگہ بھیج دیتے وہاں جا کر مجھے لیکچر دینا پڑتا.میری عادت ہے کہ جو لیکچر میں پہلے دے چکوں وہی دوسری دفعہ نہیں دے سکتا.مگر دیکھا لیا کہ بعض جگہ کے لوگ ایسے اجڈ اور کم علم اور کم عقل ہوتے ہیں کہ جب تک نہایت آسان اور موٹے طریق سے انہیں نہ سمجھایا جائے وہ سمجھ ہی نہیں سکتے.اس لئے میں نے ایک ایسا مضمون سوچا کہ جسے ایک زمیندار جو بالکل ان پڑھ اور جاہل ہو اور ایسے علاقے کا رہنے والا ہو جہاں کے مولوی اور ملانے چھریاں پڑھوا کر رکھ چھوڑتے ہیں وہ بھی سمجھ لے.ہمارے ملک میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں کہ وہاں کے مولوی اور امام مسجد بسمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ پڑھنا بھی نہیں جانتے.اس لئے وہ جانور وغیرہ ذبح کرنے کے لئے اپنی چھریوں پر کسی سے بسم الله الرَّحْمَانِ الرَّحِیمِ پڑھوا کر رکھ چھوڑتے ہیں.جب کبھی انہیں جانور ذبح کرنے کی ضرورت پڑے تو اسی چھری سے کرتے ہیں دوسری استعمال نہیں کرتے.تو جہاں کے مولویوں کا یہ حال ہو وہاں کے دوسرے لوگوں کی نسبت سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام کے متعلق کس قدر واقفیت رکھتے ہوں گے اور کہاں تک اسلامی مسائل کے سمجھنے کے اہل ہوں گے لیکن میں نے ایسا مضمون تیار کیا ہے کہ ایسے لوگ بھی سمجھ جائیں.اس وقت میں تمہیں بھی وہی بتا تا ہوں کیونکہ تم بھی ذرا مشکل باتیں نہیں سمجھ سکتے.اور اگر سمجھ لوتو پھر یاد نہیں رکھ سکتے.میں نے اس مضمون کا خدا کے فضل ނ

Page 14

زریں ہدایات (برائے طلباء) بہت اثر دیکھا ہے.9 جلد سوم غیر احمدیوں کے ساتھ جو ہمارا اختلاف ہے اس کے سمجھنے کے لئے ایک موٹا کر ہے.اس کو اگر سمجھ لو تو پھر کسی لمبی چوڑی تحقیقات کی ضرورت نہیں رہتی.اور وہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کا جو درجہ قرآن کریم یا آپ کے اقوال کے ذریعہ معلوم ہوتا ہے وہ ایسا ہے کہ مسلمانوں کی کسی جماعت اور کسی فرقہ کو اس میں اختلاف نہیں ہے.سنی، شیعہ، حنفی ، شافعی وغیرہ سب آپ کے درجہ اور فضیلت کے قائل ہیں.اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی شان میں پیش کیا الله ہے کہ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا حتی کہ آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 3 دنیا میں انسان کے لئے بڑے سے بڑا معیار فضیلت کیا ہے؟ یہی کہ وہ خدا کا پیارا ہو جائے لیکن آنحضرت ﷺ کی نسبت فرمایا کہ ہمیں یہ رسول اتنا پیارا ہے کہ اس کے غلام بھی ہمارے محبوب ہو جاتے ہیں.پس سمجھ لو کہ جس کے متبع اور غلام بھی خدا کے محبوب ہو جاتے ہیں وہ خود کتنی شان کا رسول ہو گا.رسول کریم ﷺ اپنی نسبت فرماتے ہیں آنا سَیدُ وُلدِ آدَم - 4- کہ آدم کی اولاد سے جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں میں ان سب کا سردار ہوں.ان میں حضرت ابراہیم ، حضرت موسی " حضرت عیسی وغیرہ سب شامل ہیں.یعنی تمام انبیاء کے آپ سردار ہیں.پھر قیامت کے دن سب سے بڑے اور پہلے شفیع آپ ہی ہوں گے.غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت اور شان کو بڑے زور سے بیان فرمایا ہے اور سب نبیوں کا سردار قرار دے دیا ہے.اگر واقعہ میں غور کیا جائے تو اس میں کیا شک ہے.حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے 5 جب درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے تو نبی اپنے کاموں سے پہچانا جاتا ہے.اس کے مطابق دیکھو رسول کریم ے اور دوسرے انبیاء میں کس قدر فرق ہے.ہمارے آنحضرت ﷺ کے پھل آپ کے صحابہ تھے.اور حضرت موسی کے پھل ان کی جماعت مگر ان دونوں میں دیکھو کس قدر فرق ہے.حضرت موسی کے صحابہ کو جب جنگ کا موقع پیش آیا تو باوجود اس کے کہ انہوں نے بڑے

Page 15

زریں ہدایات (برائے طلباء) 10 جلد سوم بڑے نشان دیکھے تھے حضرت موسی کو کہہ دیا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قعِدُونَ 6 کہ تو اور تیرا رب جاکر ان سے لڑتے پھرو.ہم تو یہ بیٹھے ہیں.یہ حضرت موسیٹی کی چالیس سالہ محنت اور مشقت کی تیار کردہ جماعت تھی.لیکن ادھر رسول کریم ﷺ کے صحابہ کو دیکھو.مہاجرین تو الگ رہے جو پندرہ سالہ جماعت تھی انصار جنہیں صرف دو ہی سال مسلمان ہوئے گزرے تھے اور جن کو رسول کریم ﷺ نے لکھ دیا ہوا تھا کہ اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنے کا موقع پیش آئے تو تمہیں لڑنے کے لئے جانے کی ضرورت نہیں ہوگی.ہاں اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہو تو پھر تمہیں مقابلہ کے لئے ہمارے ساتھ شامل ہونا ہوگا اس لئے وہ باہر جا کر لڑنے کے پابند نہ تھے.پھر صرف دوسالہ مومن تھے.اور رسول کریم ﷺ کی صحبت میں صرف ایک سال اور کچھ مہینے ہی انہوں نے گزارے تھے ان کو ایک موقع پر جب رسول کریم کے مخاطب کر کے فرماتے ہیں کہ مہاجرین تو جنگ کے لیے جائیں گے تم بتاؤ تمہاری کیا مرضی ہے؟ تو یہ سن کر ایک انصاری کھڑا ہو کر جواب میں کہتا ہے کہ یا رسول اللہ ! ہم حضرت موسی کے لوگوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَّا قُعِدُونَ - اس جواب پر غور کرو.اور دیکھو کہ اگر حضرت موسی کو شکست ہوتی تو ان کی تمام قوم کی قوم مصیبت میں پھنس جاتی کیونکہ جو حضرت موسی کا دشمن تھا وہ صرف انہی کا نہ تھا بلکہ موسیٰ" کی ساری جماعت کا تھا.اس لئے اگر وہ حضرت موسی کو شکست دے دیتا تو ساری قوم کو ہی گرفتار کر لیتا.لیکن کفار مکہ صرف رسول کریم ﷺ کے دشمن تھے انصار کے نہیں تھے.بلکہ انہیں تو کہتے تھے کہ تم اس کو چھوڑ دو اور ہمارے ساتھ مل جاؤ.پس اگر وہ ایسے وقت میں آنحضرت کو چھوڑ دیتے تو نہ صرف یہ کہ دشمن کی تکلیف سے بچ جاتے بلکہ فائدہ بھی اٹھاتے.مگر حضرت موسی کی قوم ان کے شکست کھانے سے کبھی نہیں بچ سکتی تھی.تو دونوں قوموں میں بہت بڑا فرق ہے.ایک تو وہ ہے کہ جس جرنیل کے ساتھ لڑنے سے انکار کرتی ہے اس کے مرنے کے ساتھ اس کی موت ہے مگر باوجود اس کے وہ اسے کہتی ہے کہ جا! تو اور تیرا رب جا کر صلى الله

Page 16

زریں ہدایات (برائے طلباء) 11 جلد سوم لڑو ہم نہیں لڑیں گے.اور دوسری وہ قوم ہے جسے اپنے سردار کے مارے جانے سے بظاہر کوئی نقصان نہیں بلکہ دشمن کہتا ہے کہ ہمارے ساتھ مل جاؤ تاہم بھائی بھائی بن جائیں اور فساد اور جھگڑے مٹ جائیں اور آزاد ہو کر زندگی بسر کریں.مگر وہ قوم ایک سالہ محبت پانے اور ایسے حالات کے ہونے کے باوجود یہ جواب دیتی ہے کہ ہم موسی" کے صحابہ کی طرح نہیں کہ کہہ دیں فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّا هُهُنَا قَعِدُونَ بلکہ ہم وہ ہیں جو تیرے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی.آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.اور جب تک کہ ہماری لاشوں پر سے دشمن نہ گزرے گا آپ کے قریب نہیں پہنچ سکے گا 7 اس ہمت اور جرات پر غور کرو.ایک صحابی کہتا ہے میں 13 جنگوں میں شامل ہوا ہوں اور کسی جنگ میں بھی رسول کریم ﷺ سے پیچھے نہیں رہا مگر کاش! میں کسی جنگ میں بھی شامل نہ ہوتا اور یہ فقرہ میرے منہ سے نکلتا کہ ہم موسی کے صحابہ کی طرح فَاذْهَبْ أَنتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَآ إِنَّا هُهُنَا فَعِدُونَ نہیں کہیں گے بلکہ تیرے داہنے، بائیں، آگے، پیچھے لڑیں گے گویا اس فقرہ کے کے کہنے پر بھی صحابہ رشک کیا کرتے تھے.حضرت مسیح کے لوگوں کی جو حالت تھی وہ بھی ظاہر ہے.جب ان کو پکڑا گیا تو با وجود اس کے کہ ان کے خلاف کوئی حکم نہ تھا مگر ان میں سے وہ جس کو حضرت مسیح نے کہا تھا کہ پطرس ! تو میری بھیڑیں چرائیو 8 اور جس کو پہلے سے ہی حضرت مسیح نے کہہ دیا تھا کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا اور اس نے کہا تھا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ تجھ کو چھوڑ دوں جس سے کہ ایمان پایا ہے 10 مگر جب وقت آیا تو حالانکہ نہ کوئی جنگ تھی نہ لڑائی صرف لوگ اکٹھے تھے اور انہیں میں پطرس بھی بیٹھا تھا تو ایک لونڈی نے اس کے پاس آکے کہا تو بھی یسوع جلیلی کے ساتھ تھا؟ اس پر اس نے سب کے سامنے انکار کر کے کہا میں نہیں جانتا کہ تو کیا کہتی ہے 11 پھر جب وہ اسار 12 کی طرف باہر چلا ایک دوسری نے اسے دیکھ کر ان سے جو وہاں تھے کہا کہ یہ بھی یسوع ناصری کے ساتھ تھا تب ان سے قسم کھا کے پھر انکار کیا کہ میں اس شخص کو نہیں جانتا 13 تھوڑی دیر بعد انہوں نے جو وہاں کھڑے تھے پطرس کے پاس آ کے کہا بے شک

Page 17

زریں ہدایات (برائے طلباء) 12 جلد سوم تو بھی ان میں سے ہے کہ تیری بولی تجھے ظاہر کرتی ہے تب اس نے لعنت بھیج کر اور قسم کھا کر کہا میں اس شخص کو نہیں جانتا.وہیں مرغ نے بانگ دی تب پطرس کو یسوع کی بات یاد آئی جو اس نے اس سے کہی تھی کہ مرغ کے بانگ دینے سے پہلے تو تین بار میرا انکار کرے گا.وہ باہر جا کر زار زار رو با 14 یہ تو دوسرے انبیاء کے لوگوں کا حال ہے اس کے مقابلہ میں آنحضرت ﷺ کو دیکھ لو اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.پس آپ کی یہ شان اور یہ عظمت ہے کہ ایک طرف تو آپ نے خدا تعالیٰ کے جلال اور عظمت کو ایسا ظاہر کیا کہ تمام دنیا کو اپنا دشمن بنالیا.اپنے بیگانے ہو گئے.وطن سے بے وطن ہو گئے مگر خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار سے باز نہ آئے.یہ تو آپ کا کام ہے اور خدا تعالیٰ آپ کی نسبت فرماتا ہے ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله - اگرتم اللہ سے پیار اور محبت کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ تم اس رسول کی اتباع کرو.اس سے نہ صرف یہ ہوگا کہ تم خدا سے پیار کرو گے بلکہ یہ ایک ایسا گر ہے کہ تم خدا کے پیارے اور معشوق بن جاؤ گے.عاشق سے معشوق بن جاؤ گے.عاشق سے معشوق کا درجہ بڑا ہوتا ہے اس لئے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گر ہے کہ جس سے نہ صرف تمہارے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو جائے گی بلکہ خدا تعالی کے دل میں بھی تمہاری محبت پیدا ہو جائے گی.یہ عظمت اس رسول کی خدا تعالی بیان فرماتا ہے پھر اس کے حالات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی محبت اور الفت میں ایسا چور تھا کہ اپنا ثانی نہیں رکھتا.اس شان کا جو انسان ہے اس کے ماننے والوں کا اس کے متعلق کوئی ایسا عقیدہ رکھنا جس سے اس کی ہتک ہو کبھی عقل تسلیم نہیں کر سکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کے متبع کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے اور جس کے سارے اقوال، حرکات اور سکنات خدا تعالیٰ کے لئے تھے اور جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے دنیا کا آرام حرام کر رکھا تھا، جسے دنیا کی کوئی لذت، کوئی سرور اور کوئی عیش خیال میں بھی نہ آتا تھا، جو خدا کے دین کے لئے ایک دفعہ نہیں بلکہ ہزاروں دفعہ مرمر کے جیا اور جو سب سے زیادہ رحیم اور کریم تھا اور جو

Page 18

زریں ہدایات (برائے طلباء) 13 جلد سوم احسانوں کی قدر کرنے والا تھا کیا ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس انسان کی محنتوں اور مشقتوں کو اکارت کر دے اور اس کی ہتک کروائے؟ ایسا کبھی نہیں ہوسکتا.اگر ایسا ہو تو خدا کی خدائی میں الشر فرق آجاتا ہے.پس یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ کوئی ایسا عقیدہ جس سے رسول الله الا اللہ ہتک ہو آپ کو ماننے والا کوئی نہیں رکھ سکتا.اگر رکھتا ہے تو وہ جھوتا ہے.پھر ہم کہتے ہیں یہ صرف نحو کی بخشیں مولویوں پر چھوڑ دو.وہ شخص جس کی سمجھ موٹی ہے اور جو قرآن بھی نہیں جانتا اس کو ہم کہتے ہیں وہ یہ تو مانتا ہے کہ رسول کریم ﷺ خاتم النبین ہیں اور خدا تعالیٰ کے سب انبیاء پر آپ کو فضیلت حاصل ہے.آپ کی ساری عمر خدا تعالیٰ کے جلال کے اظہار میں صرف ہوئی ہے.پھر کیا یہ بات عقل مان سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کو نعوذ باللہ ذلیل ہونے دے؟ یہ نہیں تسلیم کیا جاسکتا.پس جب یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا تو ہم کہتے ہیں کہ باقی مسائل پر کوئی لمبی چوڑی بحث کرنے کی ضرورت نہیں.صرف یہی دیکھ لو کہ جو دعویٰ کیا جاتا ہے اس سے آنحضور ﷺ کی ہتک ہوتی ہے یا عزت ؟ اگر ہتک ہوتی ہے تو وہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے حضور آپ کی جو عظمت اور شان ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کس طرح ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا عقیدہ درست ہو جس سے آپ کی ہتک ہو.وہ ضرور ہی باطل ہوگا.اس کے سمجھنے کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں بہت موٹی بات ہے.اور اگر کسی دعوئی سے آپ کی عزت اور عظمت ظاہر ہوتی ہے تو اس کے درست ماننے میں کوئی انکار نہیں ہونا چاہئے.اس بات کو مد نظر رکھ کر اس اختلاف کو جو ہم میں اور غیر احمدیوں میں ہے دیکھنا چاہئے.ایک بہت بڑا مسئلہ وفات مسیح کا ہے.ہم کہتے ہیں حضرت مسیح فوت ہو گئے ہیں اور غیر احمدی کہتے ہیں زندہ ہیں.اس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ دیکھو کون سے عقیدہ سے آنحضرت مے کی شان ظاہر ہوتی ہے اور کون سے عقیدہ سے آپ کی ہتک ہوتی ہے.سیہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ زندہ مردہ سے بہر حال اچھا ہوتا ہے اور اسی کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جو دنیا کے لئے مفید اور فائدہ رساں ہو.ایک تو انسان کی عمر طبیعی ہوتی ہے اس کے اندر اندر کسی کے لئے زندہ رہنے کی کوشش کرنا ایک اور بات ہے لیکن جب کسی انسان کو

Page 19

زریں ہدایات (برائے طلباء) 14 جلد سوم عمر طبعی سے گزر کر خاص طور پر زندہ رکھا گیا ہو تو یہ اس بات کا ثبوت ہوگا کہ گویا وہ ان سب سے زیادہ مفید اور نفع وہ ہے جن کو عمر طبعی گزرنے پر زندہ نہیں رکھا گیا.اس بات کو ذہن میں رکھ کر صل الله جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو تو سب مسلمان وفات یافتہ تسلیم کرتے ہیں لیکن حضرت مسیح کی نسبت کہتے کہ وہ انیس سو سال سے برابر زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.حالانکہ اس قدر لمبی عمر کسی انسان کی نہ آج تک ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے.حد سے حد 180 سال تک کی عمر دیکھی گئی ہے.حضرت نوح کی عمر جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے وہ ایک اور رنگ کی عمر ہے.ان کی عمر در حقیقت ان کی قوم اور جماعت کی عمر ہے.تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو پونے دوسو کے قریب قریب عمر ہوتی ہے.مگر حضرت مسیح کی نسبت کہتے ہیں کہ انیس سو سال تک زندہ بیٹھے ہیں.اور اگر آج ہی اتر آئیں تو چالیس سال اور زندہ رہیں گے گویا حضرت مسیح کی اس وقت ہی اتنی عمر قرار دی جاتی ہے کہ عام عمر سے ہیں گنا زیادہ ہے.اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح کو اس قدر غیر معمولی عمر دینے میں حکمت اور مصلحت کیا تھی.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کو اس قدر عرصہ تک زندہ رکھنے کی یہ غرض ہے کہ تا وہ آخری زمانہ میں آنحضرت ﷺ کی جگہ آئیں اور آکر آپ کی امت کی اصلاح کریں.اسی مقصد اور مدعا کے لئے انہیں خدا تعالیٰ نے موت سے بچا کر زندہ رکھا ہوا ہے.لیکن اس صلى الله بات کے ماننے سے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ نعوذ باللہ رسول کریم علیہ اس قابل نہ تھے کہ آپ کو اس طرح زندہ رکھا جاتا اور دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جاتا حالانکہ خدا تعالیٰ نے آپ سے وعدہ بھی فرمایا تھا مگر حضرت مسیح کو تو زندہ رکھا اور آپ کو 63 سال کی عمر میں وفات دے دی اور آپ اسی زمین میں دفن کئے گئے.ہزاروں مسلمان اسی عقیدہ میں پھنس کر عیسائی ہو گئے ہیں.عیسائی انہیں اس طرح دھوکا دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو سب نبیوں سے ہمارا نبی بڑا ہے.وہ کہتے ہیں ہاں.عیسائی کہتے ہیں پھر جو تمہارے نبی سے بڑا ہو وہ تو خدا ہوا.کہتے ہیں کہ ہاں.وہ کہتے ہیں اچھا تمہارا نبی زندہ ہے یا

Page 20

زریں ہدایات (برائے طلباء) 15 جلد سوم فوت ہو گیا؟ کہتے ہیں فوت ہو گیا.پھر وہ پوچھتے ہیں حضرت عیسی مردہ ہیں یا زندہ؟ کہتے ہیں زندہ اور آسمان پر بیٹھا ہے.وہ کہتے ہیں پھر بتاؤ تمہارے نبی سے مسیح کی شان بلند ہوئی کہ نہ ؟ اس بیچ میں پڑ کر انہیں کہنا پڑتا ہے کہ ہاں بلند ہوئی.پھر وہ کہتے ہیں جب تمہارے نبی سے جو تمام نبیوں سے بڑا ہے مسیح کی شان بلند ہے تو پھر وہ نبی تو نہ ہوا بلکہ خدا ہوا اور خدا کا بیٹا ہوا.کیوں یہ درست ہے یا نہ؟ اس کا جواب انہیں ہاں میں ہی دینا پڑتا ہے.تو حضرت مسیح کے زندہ ماننے کا ایک ایسا عقیدہ ہے کہ جس کو سن کر رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں اور ماتم کرنا اور رونا چاہئے کہ ہمارا عظیم الشان نبی تو فوت ہو گیا اور اسے زمین میں دفن کر دیا گیا لیکن ان کی جگہ بھیجنے کے لئے خدا تعالیٰ نے انیس سو سال سے حضرت عیسی کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے کہ وہ آکر ہماری اصلاح کرے گا.حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ پرانی چیز کو آئندہ کام میں لانے کے لئے سنبھال کر وہی رکھتا ہے جو نادار اور مفلس ہوتا ہے.ایک غریب کی اگر کچھ روٹی کھانے سے بیچ رہے تو وہ اسے رومال میں لپیٹ کر رکھ چھوڑتا ہے کہ رات کو کھاؤں گا لیکن امراء اس طرح نہیں کرتے.تو حضرت مسیح کو زندہ ماننے کے عقیدہ میں نہ صرف رسول کریم ے کی بہتک ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی بھی بہتک ہے کہ اس سے بڑی مشکلوں سے کہیں ایک مسیح ابن مریم بن گیا تھا چونکہ اسے یہ ڈر تھا کہ شاید پھر کبھی ایسا بن نہ سکے اس لئے اسی کو سنبھال کر رکھنا چاہئے تا کہ وقت پڑے کام آئے.یا جس طرح پیشہ ور اگر کوئی اچھی چیز بنا لیتے ہیں تو اسے نمونہ کے طور پر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے بھی حضرت مسیح کو بطور نمونہ اپنے پاس رکھ لیا کہ اس کو دیکھ کر آئندہ بناؤں گا.پھر دیکھو کبھی کوئی طاقتور یہ پسند نہیں کرتا کہ دوسرے سے مدد لے اور جو مدد لیتا ہے وہ طاقتور نہیں بلکہ کمزور ہوتا ہے.تم مدرسہ میں پڑھتے ہو اس لئے اس بات کو خوب سمجھ سکتے ہو کہ اگر تم خود بخود کوئی سوال حل کر لو تو کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ دوسرے کے پاس پوچھنے کے لئے جاؤ.لیکن یہ تسلیم کر کے کہ حضرت مسیح زندہ ہیں اور آنحضرت ﷺ کی امت کی اصلاح کے لئے آئیں گے ماننا پڑتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ ان کو بمنت کہیں گے کہ آپ میری امت کو سنبھالیں اور اس کی اصلاح کریں.چھوٹے چھوٹے لوگوں میں غیرت

Page 21

زریں ہدایات (برائے طلباء) 16 جلد سوم ہوتی ہے اور وہ دوسروں کی مدد لینے سے حتی الامکان پر ہیز کرتے ہیں.لیکن آنحضرت ﷺ کی نسبت کہا جاتا ہے کہ آپ حضرت مسیح کو اپنی مدد کے لئے بلائیں گے اس سے سمجھ لو کہ آپ کی کس قدر ہتک ہوتی ہے.ہاں آپ کے خدام میں سے اگر کوئی آپ کی امت کی اصلاح کے لئے کھڑا ہو جائے تو یہ آپ کی عزت کا موجب ہوگا.کیونکہ نوکر کا کام دراصل اس کے آقا کا ہی کام ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح کو زندہ ماننا اور آنحضرت ﷺ کی امت کی اصلاح کے لئے لانا آنحضرت علی کی بھی ہتک ہے اور خدا تعالیٰ کی بھی اور پھر حضرت مسیح کی بھی.کیونکہ آنحضرت ا الا اللہ خواہ کتے ہی بڑے نبی ہوں مگر حضرت مسیح نے اپنے طور پر نبوت پائی تھی لیکن ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہیں ایک امتی کے درجہ پر رکھا جائے گا گویا انہیں اتنے سال رکھنے کا یہ بدلہ ملے گا.تو اس عقیدہ سے ان سب کی ہتک ہوتی ہے پھر ان کو صحیح اور درست کس طرح کہا جاسکتا ہے.اسی طرح نبوت کا مسئلہ ہے.اس میں بھی دیکھ لو اگر امت محمدیہ میں سے کوئی نبی نہ ہو تو اس میں رسول کریم ﷺ کی ہتک ہے یا اگر ہو تو بہتک ہے؟ آپ کی امت میں نبی نہ ہونے کے تو گویا یہ معنی ہیں کہ آپ کی امت میں کوئی کامل فرد نہ ہوگا.یہ بات اگر سچ ہے اور ضرور سچ ہے کہ نبی کا درجہ امتی سے بڑا ہوتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ امت محمدیہ میں سے کسی کو بھی وہ درجہ حاصل نہیں ہوا جو پہلی امتوں کے لوگوں کو ہوا کرتا تھا.پہلی قوموں کے بگڑنے اور خراب ہونے پر ان کے لئے نبی آتے تھے مگر رسول کریم جو سب سے بڑے اور عالی شان نبی ہیں ان کی امت کی اصلاح کے لئے کہا جاتا ہے کہ کوئی نبی نہیں بھیجا جائے گا.یہ مانا کہ پہلی امتوں میں جو نبی آئے تھے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے تھے نہ کہ کسی نبی کے وسیلہ سے مگر یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ انہیں نبی کی اطاعت نبوت کے انعام کی مستحق ضرور بنا دیتی تھی اس لئے مانا کہ وہ نبوت پانے میں کسی کے شاگرد نہیں ہوتے تھے مگر انہیں اپنی امت کے نبی سے تعلیم ایسی حاصل ہو جاتی تھی کہ وہ نبوت کے مدرسہ میں داخل ہونے کے قابل ہو جاتے تھے مگراب رسول کریم ہے کی امت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور کہتے ہیں کہ ہمارے رسول کریم میے صلى الله

Page 22

زریں ہدایات (برائے طلباء) 17 جلد سوم کے لئے یہ فخر کی بات ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.حالانکہ یہ فخر نہیں بلکہ ذلت ہے.کیا کبھی تم نے اس بات پر فخر کیا ہے کہ ہمارا سکول ایسا ہے کہ کبھی اس کے لڑکے فرسٹ ڈویژن میں پاس نہیں ہوئے بلکہ ہمیشہ تھرڈ ڈویژن میں ہی پاس ہوتے ہیں؟ کبھی نہیں.کیونکہ یہ فخر کی بات نہیں بلکہ ذلت اور رسوائی کی بات ہے.مگر مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی.ممبروں پر کھڑے ہو کر روتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے نبی کی ایسی شان ہے کہ اس کی امت میں سے نبوت کا درجہ کسی کو نہیں مل سکتا.نبی ایک کامل فرد کو کہتے ہیں گویا ان کے خیال میں آنحضرت صلى الله ے کی امت میں کوئی کامل فرد نہیں ہوسکتا اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں.ان مولویوں کی دوستی اسی قسم کی ہے جس طرح کسی انسان سے ریچھ کی تھی.کہتے ہیں ایک ریچھ ایک انسان کا دوست تھا.ایک دن جبکہ وہ شخص سویا ہوا تھا تو ریچھ اس کے منہ پر سے لکھیاں اڑاتا تھا.ایک مکھی کو اڑا تا وہ پھر آ بیٹھتی.جب دو تین دفعہ اسی طرح اس نے کیا تو ریچھ نے ایک پتھر کی سل اٹھا کر اس کے سر پر دے ماری تا کہ مکھی کو ماردے.اس طرح اس شخص کی جان الله بھی ہوا ہوگئی.تو آجکل کے مولوی رسول کریم ﷺ کے ایسے ہی دوست ہیں.بجائے اس کے کہ رسول کریم ﷺ کی شان اور عظمت کا اظہار کریں الٹا ہتک کرتے ہیں اور جس طرح وہ ریچھ پتھر مار کر خوش ہو گیا تھا کہ اب تو مکھی بیٹھے اسی طرح یہ نبوت کا دروازہ بند کر کے خوش ہوتے ہیں کہ اب کوئی اسے کھولے تو سہی اور کوئی نبی تو آئے.مگر اس طرح انہوں نے گویا دوسرے لفظوں میں یہ مان لیا ہے کہ رسول کریم ہے جو سب سے بڑے استاد تھے ان کے شاگرد دوسروں.نکھے اور کمزور ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ استاد ہی نکما ہے حالانکہ رسول کریم حیو فرماتے ہیں کہ میں قیامت کے دن اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا 15.کیا رسول کریم صلی اللہ اس بات پر فخر کریں گے کہ کوئی نبی مجھے اپنی امت میں نظر نہیں آتا؟ یہ تو کوئی فخر کی بات نہیں ہے.پس تم لوگوں کو یہ موٹی موٹی باتیں سمجھا سکتے ہو اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ حضرت موسی " تو یہ کہیں گے کہ گو میرے ذریعہ کوئی نبی نہیں ہوا مگر میری امت میں اور میرے شاگردوں میں ایسی قابلیت کے لوگ ضرور ہوئے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے نبی بنا دیا ہے مگر آنحضرت ﷺ کہیں گے کہ میری صل

Page 23

زریں ہدایات (برائے طلباء) 18 جلد سوم امت میں سے کسی میں اتنی طاقت نہ تھی کہ نبوت کا مستحق ہو سکتا.یہ عقیدہ رکھنے والے مسلمانوں کو چاہئے کہ شرم کے مارے پسینہ پسینہ ہو جا ئیں اور روئیں کہ ہم سب سے بدتر امت قرار دیئے الله گئے ہیں.کیونکہ پہلی امتوں کو نبوت کا انعام مل سکتا تھا لیکن ہم کو اس سے محروم کر دیا گیا ہے.اس کے مقابلہ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا نبی ایسا ہے کہ وہ خود پکڑ کر نبوت کے درجہ پر کھڑا کرا دیتا ہے.حضرت موسیٰ" کے امتی نبی نہ تھے کیونکہ جب ان میں سے کوئی نبوت کے درجہ پر کھڑا کیا جاتا تو وہ امتی ہونے کے مقام سے اعلیٰ ہو جاتا تھا مگر آنحضرت ﷺ کا وہ درجہ ہے کہ آپ کے ذریعہ جب کوئی نبی بن جائے تو بھی وہ آپ کا غلام ہی رہتا ہے.پس ہمارا یہ دعوئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے نہ صرف یہ کیا ہے کہ آپ پر نبوت ختم نہیں ہو گئی بلکہ آپ خود اپنے امتی کو نبوت کے مقام پر پہنچا دیتے ہیں.اب بتاؤ یہ وہ مقام ہے جس کی نسبت کہا گیا کہ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ یا وہ کہ آپ کی امت سے کوئی نبی نہیں ہو سکتا.تو اس طرح سب مسائل کو دیکھو.جو بات ہم پیش کرتے ہیں اس سے رسول کریم کی عظمت ظاہر ہوتی ہے یا اس سے جو وہ پیش کرتے ہیں.ہر ایک عقلمند اور دانا اس طریق کو سن کر یہی کہے گا کہ جو عقیدہ جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اسی سے آنحضرت ﷺ کی عظمت اور شان ظاہر ہوتی ہے.پس اگر تم اس طرح دینی مسائل کو لوگوں کے سامنے پیش کرو تو کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور تم ہی کامیاب ہو گے.“ الفضل 29 اگست 1916ء) 1 متی باب 5 آیت 17 18 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ 1887ء ( چند الفاظ کے فرق کے ساتھ ) 2 تذكره صفحہ 152 تا 154 ایڈیشن چہارم 2004 ء 3 آل عمران : 32 4 ابن ماجه كتاب الزهد باب ذكر الشفاعۃ صفحہ 628، 629 حدیث نمبر 4308 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الأولى

Page 24

زریں ہدایات (برائے طلباء) 19 5 لوقا باب 6 آیت 44.پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 6: المائدة : 25 جلد سوم الخ :7 بخاری کتاب المغازی باب قَوْلِ اللهِ تَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُو صفحہ 668 حدیث نمبر 3952 مطبوعہ ریاض 1999ء ، الطبعة الثانية 8 یوحنا باب 21 آیت 15 تا 17 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 2 متی باب 26 آیت 34 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 10: متی باب 26 آیت 33 ، 35 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 11: متی باب 26 آیت 69، 70 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء :12 أسار: (اُسارا) دہلیز، برآمده (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 89 فیروز سنز لاہور 2010ء) 13: متی باب 26 آیت 72،71 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 14: متی باب 26 آیت 73 تا 75 پاکستان بائیل سوسائٹی لاہور 2011ء :15 ابو داؤد كتاب النكاح باب النهى عَنْ تَزُويج مَنْ لَّمْ يَلِدْ مِنَ النِّسَاءِ صفحه 297 1999 ء مطبوع رياض الطبعة الأولى

Page 25

زریں ہدایات (برائے طلباء) 20 20 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی انگلستان روانگی مؤرخہ 8 مارچ 1917ء کو طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی طرف سے حضرت مفتی | محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جو تقریر فرمائی وہ حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دو تین دن ہوئے ہمارے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی ایڈریس پڑھا تھا اور آج بھی ایک ایڈریس پڑھا گیا ہے.پیشتر اس کے کہ میں اس تقریب کے متعلق کچھ بیان کروں ایک مختصری نصیحت طلباء کو کرنا چاہتا ہوں.میں نے ایڈریس پڑھنے والے طلباء کو دیکھا ہے پڑھتے وقت ان کی آواز کا نپتی رہی اور وہ گھبرائے ہوئے نظر آئے اور اس وجہ سے ان کے جذبات اور احساسات جنہیں وہ دوسروں تک پہنچانا چاہتے تھے جلدی اور گھبراہٹ کی وجہ سے دب گئے.مجھے خوب یاد ہے کہ جب میں نے پہلی دفعہ تقریر کی تو تقریر کرنے کے وقت نہ مجھے یہ معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں نہ یہ پتہ تھا کہ کتنا وقت گزرا ہے اور نہ یہ خیال تھا کہ کوئی سننے والا ہے یا نہیں.جسم لرزتا تھا اور آواز کا نپتی تھی مگر میری وہ تقریر زبانی تھی اور میں نے پہلے سے کچھ سوچا ہوا بھی نہ تھا.سالانہ جلسہ کا موقع تھا کسی نے آکر کہا حضرت خلیفتہ امیج بلا رہے ہیں کہ آکر تقریر کرو.میں اُسی وقت چل پڑا اور جا کر تقریر کرنے کھڑا ہو گیا.تو گوابتدا میں یہ حالت ہوتی ہے لیکن اس کو دور کرنے کی کوشش کرنا نہایت ضروری ہے.پس ہمارے طلباء کو چاہئے کہ خواہ انہیں کتنا ہی بڑے بڑے لوگوں کے سامنے بولنا پڑے ہر گز نہ گھر ا ئیں بلکہ جو کچھ کہیں تسلی سے کہیں.مومن سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی سے نہیں ڈرتا اور نہ اسے ڈرنا چاہئے.پھر جو بات اچھی جلد سوم

Page 26

زریں ہدایات (برائے طلباء) 21 چار سوم اور عمدہ ہو اس کے کہنے سے ڈرنے اور خوف کھانے کے کیا معنی.پس جب کبھی تمہیں کوئی ایسا موقع پیش آئے تو پورے اطمینان اور تسلی کے ساتھ بولو اور اپنے جذبات پر خوف اور گھبراہٹ کو غالب نہ آنے دو.کیونکہ جن لوگوں کو یہ عادت پڑ جاتی ہے ان سے دور نہیں ہو سکتی اور وہ عمدگی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے.اب میں اس تقریب کے متعلق کچھ بیان کرتا ہوں.اور وہ یہ کہ مفتی صاحب کے ولایت جانے پر تمہارے ایڈریس پڑھنے ، چائے پلانے اور بسکٹ کھلانے کی کیا غرض ہے.یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس ایڈریس سے ان کے علم میں کوئی زیادتی نہ ہوگی اور نہ ہی اس سے ان کے کام میں کچھ آسانی پیدا ہو جائے گی.پھر یہ بسکٹ اور چائے بھی ولایت میں ان کے کام نہ آئیں گے اور نہ وہاں کی سردی میں یہ چائے ان کے جسم کو گرم رکھے گی بلکہ یہیں فصلہ ہو کر خارج ہو جائے گی.لیکن اگر تم نے اسی غرض کے لئے ان کو ایڈریس دیا، بسکٹ کھلائے اور چائے پلائی ہے تو یہ کسی صورت میں بھی قابل ستائش فعل نہیں ہے.ہاں ان الفاظ اور چائے وبسکٹ کی ایک غرض بھی ہے اور اگر وہ تمہارے مدنظر نہیں ہے تو اس دعوت کا کوئی فائدہ نہیں ہے.وہ کیا ؟ وہ ان احساسات اور جذبات کا اظہار، ان امیدوں اور آرزوؤں کا اظہار، اس محبت اور الفت کا اظہار ہے جو مفتی صاحب کے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کو وقف کرنے پر تمہیں ان سے پیدا ہوئی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کے دل میں کسی چیز سے محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے اور اس کے متعلق دل میں جوشِ الفت پیدا ہوتا ہے تو اسے کسی نہ کسی حرکت سے ظاہر کیا جاتا ہے.ایک دوست جب دوسرے دوست سے ملتا ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں، گلے ملتے ہیں اسی طرح ماں باپ جب بچے کو دیکھتے ہیں تو اسے بوسہ دیتے ہیں.کیا اس طرح کرنے سے بچہ کی عقل بڑھ جاتی ہے یا اسے کوئی اور ایسا فائدہ پہنچتا ہے جو اس جذبہ سے تعلق رکھتا ہے جس کی وجہ سے اسے بوسہ دیا گیا؟ کچھ نہیں.پھر وہ کیا بات ہے جو ماں باپ کو مجبور کرتی ہے کہ اپنے بچہ کو بوسہ دیں ؟ وہ اس کے ساتھ قلبی محبت ہے جس کا اس طرح اظہار کیا جاتا ہے.پھر

Page 27

زریں ہدایات (برائے طلباء) 22 جلد سوم دیکھو ایک چیز کا خیال دل میں آتا ہے اور اس خیال کے اظہار کے لئے زبان کو ہلایا جاتا ہے اور اس سے ایک آواز پیدا ہوتی ہے یا اس کے لئے کاغذ پر کچھ لکیریں کھینچی جاتی ہیں.یہ آواز کا نکالنا یا کاغذ پر لکیریں کھینچنا بذات خود کچھ نہیں ہوتا ہاں اس خیال کا قائم مقام اور اس کے اظہار کا ذریعہ ہوتا ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے.خدا نے انسان کے دل میں ہر ایک جذبہ جو پیدا ہوتا ہے اس کے اظہار کے لئے کچھ علامات رکھی ہیں ان کے ذریعے اس کا ظہور ہوتا ہے.تو مفتی صاحب کو دعوت دینے سے اگر تمہاری یہ غرض ہے کہ اس محبت اور جوش کا اظہار کر و جوان کے تبلیغ کے لئے ولایت جانے پر تم میں پیدا ہوا ہے اور اس کا اظہار تم نے ایڈریس کے لفظوں میں اس طرح کیا ہے کہ ہمیں ان کے جانے سے بہت خوشی ہوئی ہے اور پھر عملی طور پر چونکہ اور زیادہ اظہار ہوتا ہے اس لئے الفاظ سے بڑھ کر تم نے اپنے مال کے ذریعہ سے اظہار کیا ہے اور بتایا ہے کہ جہاں تک ہم اپنی قلبی محبت اور خوشی کا اظہار کر سکتے تھے ہم نے کیا ہے تو بہت خوشی کا مقام ہے.یہ دونوں طریق جو تم نے اختیار کئے ہیں یہ ایسے ہیں جو ناراضگی اور ناخوشی کے موقع پر اختیار نہیں کئے جاتے.مثلاً یہ نہیں ہوگا کہ ایک شخص کسی کے عزیزوں اور رشتہ داروں کو مارنے کے لئے چلنے لگے تو اسے ایڈریس دیا جائے یا اس کی دعوت کی جائے بلکہ یہ دونوں باتیں ایسے ہی موقع پر کی جاتی ہیں جبکہ جانے والے کے ساتھ اپنی آرزوئیں اور تمنائیں وابستہ ہوں، اس کے کام اور ارادہ سے محبت اور الفت ہو، اس کی کوشش اور سعی سے خوشی اور راحت ہو.لیکن اب سوال یہ ہے کہ جس بات کو دوسرے کے لئے پسند کیا جاتا ہے اور جس پر خوشی اور محبت کے اظہار کے طریق اختیار کئے جاتے ہیں کیا ایسا کرنے والے اسے اپنے لئے بھی پسند کرتے ہیں؟ اگر تو وہ اسے دوسرے کے لئے ہی پسند کرتے ہیں اور دوسرے کے متعلق ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو معلوم ہوا کہ انہیں اس سے حقیقی خوشی اور اصلی محبت نہیں ہے بلکہ وہ محض بناوٹ اور فریب کر رہے ہیں.گو وہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر اس موقع کو خوشی کا موقع نہیں سمجھتے.وہ محبت کا اظہار کرتے ہیں مگر دراصل کچھ نہیں کرتے.اور وہ جو کچھ کرتے ہیں محض ریاء کے طور پر کرتے ہیں یا یہ کہ وہ اسے اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور ان کے نزدیک وہ ایک بے ہودہ اور لغو کام کرنے کا ارادہ

Page 28

زریں ہدایات (برائے طلباء) 23 جلد سوم کرتا ہے اس لئے خوشی کا اظہار کرتے ہیں.ایسی صورت میں بھی گو انہیں خوشی ہوتی ہے مگر اس لئے نہیں کہ وہ کوئی اچھا کام کرنے جاتا ہے بلکہ اس لئے خوشی ہوتی ہے کہ وہ ان کا دشمن ہے اور ایک برے کام میں اپنے آپ کو لگانے لگا ہے جس سے اسے نقصان اور تکلیف پہنچے گی.اس لحاظ سے مفتی صاحب کا ولایت جانا دوصورتوں سے خالی نہیں.اول تو یہ کہ جنہوں نے اس موقع پر ایڈریس پڑھا ہے وہ ان کے ساتھ حقیقی محبت اور دلی خوشی رکھتے ہیں.دوم یہ کہ وہ انہیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اور اس بات سے خوش ہورہے ہیں کہ اچھا ہوا کہ وہ جارہے ہیں.جس طرح کوئی بڑا ظالم ہیڈ ماسٹر جب جانے لگتا ہے تو لڑکے اسے ایڈریس دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اچھا ہوا ہمارے سر سے بلاٹلی.مگر مفتی صاحب کے متعلق ان دو صورتوں میں سے دوسری صورت کے ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے.وہ کسی سکول کے ہیڈ ماسٹر نہیں ہیں اور نہ ہی طلباء سے ان کا اس قسم کا کوئی تعلق ہے کہ انہیں تکلیف پہنچائی ہو.اس لئے پہلی ہی صورت ہو سکتی ہے کہ ان کے جانے پر اس لئے خوشی کا اظہار کیا گیا ہے کہ وہ ایک بہت عمدہ اور اچھے کام کے لئے جارہے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ جس چیز کو اچھا سمجھا جاتا ہے اس کے اچھا ہونے کے اظہار کی کیا علامت ہوتی ہے؟ یہی کہ اس کو خود بھی کیا جاتا ہے.کبھی یہ نہیں ہوا کہ دو پیا سے ایک جگہ کھڑے ہوں اور ایک دوسرے کو کہے کہ تم فلاں جگہ جاؤ وہاں تمہیں پانی مل جائے گا.کیا وہ اس کی بات مان لے گا اور وہاں چلا جائے گا ؟ ہر گز نہیں.وہ تو اُسے کہے گا کہ اگر وہاں واقعہ میں پانی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ تو وہاں نہیں جاتا اور مجھے کہتا ہے کہ تو جا.تو ہم اس ایڈریس اور دعوت سے ایک ہی نتیجہ نکال سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس طرح مفتی صاحب کے کام کے ساتھ خوشی اور محبت کا اظہار کیا گیا ہے.لیکن میں ان سے جنہوں نے یہ ایڈریس دیا اور دعوت کی ہے سوال کرتا ہوں کہ اگر انہوں نے یہ ریاء کے لئے کیا ہے تو ان کے اس فعل کی کوئی قدر نہیں ہے لیکن اگر انہوں نے بچے دل اور قلبی محبت سے ایسا کیا ہے تو انہیں سوچنا چاہئے کہ جس طرح مفتی صاحب خدا کی راہ میں بیوی بچوں، گھر بار، دوست و آشناء آرام و آسائش کو قربان کرنے کو تیار ہو گئے ہیں اسی طرح کرنے کے لئے وہ کہاں تک تیار ہیں.

Page 29

زریں ہدایات (برائے طلباء) 24 جلد سوم اور اگر وہ بھی اسی طرح تیار ہیں تو ہم بھی اس بات کا اقرار کرنے کے لیے تیار ہیں کہ انہوں نے واقعہ میں سچے دل اور کچی محبت کے ساتھ ایڈریس دیا اور دعوت کی ہے.لیکن اگر وہ اپنے لئے اس بات کو پسند نہ کرتے ہوں تو اس سے یہی نتیجہ نکلے گا کہ انہوں نے صرف رسمی طور پر خوشی کا اظہار کیا ہے درحقیقت انہیں کوئی خوشی نہیں ہے.مگر جہاں تک مجھے معلوم ہے صحیح بات یہی ہے کہ تم نے سچے دل کے ساتھ اور سچی محبت کے اظہار کے لئے ایسا کیا ہے اس لئے میں ایڈریس دینے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں انہوں نے مٹھائیوں اور چائے اور بسکٹ اور الفاظ کے ساتھ ظاہر کیا ہے کہ انہوں نے مفتی صاحب کی روانگی کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے وہاں انہیں چاہئے کہ اپنے فعل سے بھی پسندیدگی کا اظہار کریں.مدرسہ احمدیہ کے طلباء کا تو کام ہی یہی ہے اور وہ اسی لئے تیار کئے جارہے ہیں کہ تبلیغ کریں لیکن مدرسہ انگریزی کے طلباء کو بھی اپنے آپ کو اسی کام کے لئے تیار کر نا چاہئے.قرآن کریم میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں کوئی تحفہ دے تو تم اسے کم از کم اتنا ہی تحفہ تو ضرور دو 1 ہمارے انگریزی خواں نو جوانوں کو سوچنا چاہئے کہ گورنمنٹ برطانیہ سے انہیں کس قدر فائدہ پہنچا ہے.اگر وہ دیکھیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہیں انگریزی زبان کے ذریعہ جو فائدے پہنچے ہیں وہ دراصل اس زبان والوں ہی سے پہنچے ہیں.ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب سمجھا جاتا تھا کہ آسمان زمین کے کناروں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے اور ہم زمین کے کناروں تک پہنچ کر آسمان پر پہنچ سکتے ہیں.چنانچہ مشہور تھا کہ حاتم وہاں تک پہنچ بھی گیا تھا یہ تو جغرافیہ کی حالت تھی جس کو دیکھ کر حیرت ہی آتی ہے.پھر تاریخ بگڑ کر ایسی صورت اختیار کر چکی تھی کہ اُس وقت کے حالات سن کر حیرانی آتی ہے.کہتے ہیں کہ کوئی بادشاہ کسی بزرگ سے ملنے کو گیا.وہ بزرگ اپنی تاریخی واقفیت جتلانے کے لئے اسے کہنے لگے تمہیں دین کی بہت خدمت کرنی چاہئے اس سے بڑا فائدہ حاصل ہوتا ہے.دیکھو سکندر ایک مسلمان بادشاہ گزرا ہے اس نے دین کی خدمت کی تو کس قدر نام پایا.یہ اور اسی قسم کی اور بیسیوں جاہلانہ باتیں پھیلی ہوئیں تھیں.مگر ان لوگوں نے اس قسم کی جہالتوں سے تم کو نکالا اور تم میں اس قسم کے خیالات پیدا

Page 30

زریں ہدایات (برائے طلباء) 25 جلد سوم کر دیئے جو علمی اور اعلیٰ درجہ کے ہیں تو یہ انگریز لوگ تمہیں دنیاوی لحاظ سے ظلمت سے نکال کر روشنی میں لے آئے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ان سے پہلے بھی علمی باتیں موجود تھیں مگر کوئی وجہ نہیں ہے کہ جب ان کے ذریعہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ علمی با تیں ہم تک پہنچی ہیں تو ہم ان کا احسان نہ مانیں.پھر یہ بھی غلط خیال ہے کہ انہوں نے چونکہ اپنے فائدہ اور نفع کے لئے ایسی باتیں بتائی ہیں اور لوگوں کو اعلیٰ درجہ کے علوم پڑھائے ہیں اس لئے ہم پر ان کا کوئی حق نہیں ہے.یہ ٹھیک ہے کہ اس میں ان کا اپنا بھی فائدہ ہے اور انہوں نے فائدہ حاصل کیا ہے لیکن اس سے ان کے احسان کے نیچے سے کوئی اسی طرح نہیں نکل سکتا جس طرح ایک شریر اور بد بخت لڑکا اپنے ماں باپ کو یہ کہہ کر ان کے احسانات سے آزاد نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے اپنے کسی مزے کے لئے تعلقات قائم کئے تھے اور میں پیدا ہو گیا اس لئے مجھ پر ان کے کوئی حقوق نہیں.لیکن اگر ہم یہی سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنے ہی فائدے کے لئے ایسا کیا ہے تو یہی ہم پر ان کا بہت بڑا احسان ہے.اس احسان کا بدلہ کس طرح ادا کیا جاسکتا ہے.قرآن کریم تو حکم دیتا ہے کہ جو تمہارے لئے اچھی دعا کرے اس کے لئے تم بھی اچھی دعا کرو.تو جو علمی طور پر فائدہ پہنچائے اور احسان کرے اس کے سلوک کا بدلہ دینا تو نہایت ضروری ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هَلْ جَزَاء الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ 2 جو کسی سے کوئی سلوک کرے اس کو بھی چاہئے کہ اس کے احسان کے بدلہ میں احسان کرے یعنی دوسرا ایسا بہتر سلوک کرے کہ اس کا سلوک بھی احسان کہلا سکے کیونکہ اگر وہ بھی اسی قدر کرے گا جس قدر کہ اس کے ساتھ کیا گیا ہے تو یہ بدلا ہوگا نہ کہ احسان احسان اُسی وقت احسان ہو گا جبکہ بڑھ کر سلوک کیا جائے گا.اب ہم کیا کریں کہ گورنمنٹ کے احسان کے بدلہ میں احسان کریں.یہ تو ناممکن ہے کہ ہندوستان کے لوگ انگریزوں کو دنیوی علم کے بدلہ میں دنیوی علم سکھائیں.پھر کیا کیا جائے ؟ غیر مذاہب والے تو شاید کہہ دیں گے کہ ہمارا مذہب ایسے موقع کے متعلق کچھ نہیں بتاتا لیکن ہمارا مذہب تو یہ کہتا ہے کہ احسان کا بدلہ اس سے بہتر دو.اب بہتر بدلہ کیا ہو سکتا ہے؟ یہ کہ انہوں نے ہمیں دنیاوی علوم سکھائے ہیں ہم انہیں دینی علوم سکھائیں.اور یہ دین ایک ایسی چیز

Page 31

زریں ہدایات (برائے طلباء) 26 جلد سوم ہے جس کا فائدہ اس دنیا میں بھی ہوتا ہے اور اس کے بعد بھی قائم رہتا ہے.پس ہم اگر ان کے احسانات کا بدلہ دے سکتے ہیں اور فرض ہے کہ ہر مسلمان دے تو ہماری جماعت پر فرض ہے کہ جب اس نے دنیاوی طور پر ان کے ذریعہ سے علوم سیکھے ہیں تو ان کو دینی علوم سکھائے.اور اگر انہوں نے پہاڑوں اور دریاؤں کے نام اسے بتائے ہیں تو ہم انہیں خدا اور اس کے رسول کا نام بتائیں کیونکہ ان کا احسان مقتضی ہے اس بات کا کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کے ذریعہ دنیاوی علوم | حاصل کئے ہیں وہ اس سے بڑھ کر بدلہ دیں.اور وہ سوائے دین کے ہو نہیں سکتا.پھر ایسے موقع پر مفتی صاحب کو ایڈریس دینا جبکہ وہ ولایت تبلیغ کے لئے جارہے ہیں اور خود انگریزی زبان سیکھنا اس بات کو بڑے زور سے چاہتا ہے کہ تم لوگ اپنے آپ کو عملی طور پر بھی ایڈریس دینے والے ثابت کرو اور بتادو کہ اہل یورپ نے جو ہم پر احسان کیا تھا اسے ہم اتارنے کے لئے تیار ہیں.اس وقت یورپ کے لوگوں کو ایسے علماء تو دین اسلام سکھا نہیں سکتے جو خود انگریزی نہیں جانتے.ان کی بجائے اگر کوئی گروہ آسانی کے ساتھ اسلام سکھا سکتا ہے تو وہ انگریزی خوانوں کا گروہ ہے کیونکہ دنیا میں جس کثرت کے ساتھ انگریزی دان لوگ ہیں اور کسی زبان کے نہیں ہیں.اس لئے اگر ہمارے انگریزی خواں اپنی زندگیاں اس کام کے لئے وقف کر دیں تو ہم انگریزی کے ذریعہ قریباً نصف دنیا پر تبلیغ کر سکتے ہیں لیکن یہ کام اُس وقت تک ہو نہیں سکتا جب تک کہ بہت سے مبلغ اس کام کے لئے یورپ میں نہ جائیں.ایک آدمی جا کر کیا کر سکتا.وہاں تو ہر مقام اور ہر شہر میں مبلغ ہونا چاہئے.کیا ہم قادیان میں بیٹھ کر سارے پنجاب میں تبلیغ کر سکتے ہیں؟ نہیں بلکہ گاؤں یہ گاؤں اور شہر بہ شہر جانے کی ضرورت ہے.اسی طرح وہاں بھی ضرورت ہے کہ ہر جگہ مبلغ ہوں اس لئے جب تک بہت لوگ اس کام کے لئے تیار نہ ہوں اُس وقت تک یہ کام ہو نہیں سکتا.جن لوگوں کی طرف سے اس وقت ایڈریس پڑھا گیا ہے اگر انہوں نے سچے دل سے پڑھا ہے اور مجھے یقین ہے کہ بچے دل سے پڑھا ہے تو میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنی آئندہ زندگی کے لئے کام سوچتے وقت اپنا ایک بہت بڑا فرض بھی یادرکھیں اور وہ دین کی ہے

Page 32

زریں ہدایات (برائے طلباء) 27 جلد سوم اشاعت ہے اس کے لئے آج ہی سے ارادہ کر لینا چاہئے کہ ہم تعلیم سے فارغ ہو کر مفتی صاحب کی طرح ہی کریں گے انشاء اللہ تعالی.میں نے ابھی بتایا ہے کہ یورپ اور دیگر ممالک میں انگریزی خوان ہی تبلیغ کر سکتے ہیں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ صرف انگریزی کام نہیں دے سکتی جب تک کہ دینی علوم | سے بھی آگا ہی نہ ہو.موجودہ مدرسہ احمدیہ تو ایسا ہے کہ فی الحال اس سے تمام ہندوستان میں تبلیغ کرنے کے لئے بھی مبلغ نہیں نکل سکتے اس لئے اس کی صورت یہ ہے کہ وہ لوگ جو کالجوں اور سکولوں میں پڑھتے ہیں وہ اپنی پڑھائی ختم کر کے کچھ مدت دینی علوم کے حاصل کرنے میں لگائیں لیکن ابھی تو یہاں تک کمزوری پائی جاتی ہے کہ اگر کوئی لڑکا مڈل تک پہنچ جائے اور اسے مدرسہ احمدیہ میں داخل کیا جائے تو کہتا ہے کہ میں تو مڈل تک پڑھ چکا ہوں اب میں پیچھے نہیں جاسکتا.گویا دینی علوم حاصل کرنا پیچھے جانا ہے اسی وجہ سے میں نے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہونے والے طلباء کے لئے رکھا تھا کہ تیسری جماعت کے بعد داخل کر دیا جائے تانہ ایک موہوم نظارہ انہیں دکھائی دے اور نہ انہیں دینی تعلیم حاصل کرنے پر مشکل پیش آئے.مگر کیا ہمیشہ اسی طرح کیا جائے گا ؟ اس طرح کرنے سے تو کام نہیں چلا کرتے.کام اُس وقت ہوگا جبکہ دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوجوان خود بخود دین کی طرف آئیں.اس میں شک نہیں کہ بعض نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا ہے وہ تو تمام دنیا کے لئے کافی نہیں ہیں اس لئے ہر ایک انگریزی خواں کو اس کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا چاہئے.کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ یہاں سکول میں استادوں کے مہیا کرنے میں مشکل ہوتی ہے چونکہ انہیں دوسری جگہ کچھ زیادہ تنخواہ ملتی ہے اس لئے یہاں نہیں آسکتے.دیکھولالہ ہنسراج جس نے دیا نند کالج کو ادنی حالت سے بڑھا کر نہایت عالی شان اور مشہور کالج بنا دیا وہ صرف 75 روپیہ تنخواہ لیتا تھا.اسی طرح اور بھی کئی ایک پروفیسر صرف پچاس پچاس روپے تنخواہ پاتے ہیں لیکن یہاں آنے کے لئے اسی اور پچاسی کا فرق روک بن جاتا ہے.اس بات کو خوب یا در کھو کہ جب تک دین کے لئے قربانی اور ایثار کی روح تم میں پیدا نہ ہوگی اُس وقت تک تمہیں کوئی

Page 33

زریں ہدایات (برائے طلباء) 28 جلد سوم کامیابی حاصل نہیں ہو سکے گی.پس تم آج ہی اس بات کا فیصلہ کر لو کہ جس خوشی اور مسرت سے تم اپنے ان بھائیوں کو ایڈریس دیتے ہو جنہوں نے اپنی زندگی دین کے لئے وقف کر دی ہے وہی خوشی کا وقت اپنے اوپر لانے کے لئے تیار رہو.اور اگر تم میں سے کسی کو کسی کام پر لگایا جائے تو وہ بڑی خوشی سے کرے اور کسی بات کی پرواہ نہ کرے.یہ ایڈریس جو تم نے پڑھا ہے تمہیں کیا انسانیت کے لحاظ سے اور کیا عقل کی رو سے اس بات کے لئے مجبور کر رہا ہے کیونکہ یہ بہت بری بات ہے کہ انسان دوسرے کو تو کہے کہ یہ کام جو تم کرنے لگے ہو بہت اچھا ہے اور مجھے اس سے بہت بڑی خوشی ہوئی ہے لیکن جب وہی کام کرنے کے لئے اس کی باری آئے تو پیچھے ہٹ جائے.پس اگر تم نے سچے دل سے مفتی صاحب کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کیا ہے تو اس بات کے لئے بھی تیار رہو کہ جب تمہیں دینی کام کے لئے بلایا جائے یا کہیں بھیجا جائے تو بڑی خوشی سے دوڑ آؤ.جب تک سب میں یہ روح پیدا نہ ہوگی کام کرنے والے آدمی بہت مشکل سے ملیں گے.ہاں یہ خوب یا درکھو کہ کام کرنے والے تو مل ہی رہیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ کیا ہے کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.3 مگر تمہیں یہ موقع پھر نہیں ملے گا.دیکھو امریکہ کے گزشتہ لیڈروں کو وہاں کے لوگ کس عزت کے ساتھ یاد رکھتے ہیں.جب دنیا کے لیے کام کرنے والوں کے نام اس طرح باقی رہتے ہیں تو پھر دین کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے والوں کے نام کیوں نہ باقی رہیں گے.پس یہ خیال ہر گز نہ کرو کہ تم اگر خدا کے راستہ میں کوشش کرو گے تو وہ رائیگاں جائے گی بلکہ اس کا تمہیں بہت بڑا بدلہ ملے گا.میں دعا کرتا ہوں کہ آج جس خوشی اور مسرت کا اظہار تم نے لفظوں اور اپنے مال سے کیا ہے خدا اس کو عملی طور پر بھی پورا کرنے کی توفیق دے.آمین ثم آمین.(الفضل 13 مارچ1917ء) 1 وَإِذَا حُمِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا (النساء: 87) 2 الرحمان: 61 تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 34

زریں ہدایات (برائے طلباء) 29 29 طلباء کو نصائح طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ قادیان کو موسمی تعطیلات ہوئیں تو انتظامیہ مدرسہ کی درخواست پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے یکم اگست 1917ء کو بعد نماز مغرب طلباء کو نصائح فرمائیں.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.رخصت اور چھٹی ایک ایسا لفظ ہے جو شاید آج ہر طالب علم کی زبان پر چڑھا ہوگا.چھٹی کے معنی کہ چھٹکارا ہو گیا.کام کرنے سے چھوٹ گئے.رخصت کے بھی یہی معنی ہیں کہ کام چھوڑ کر جانے کی اجازت مل گئی.تو رخصت اور چھٹی ایک ہی بات ہے.مگر یہ دونوں لفظ طلباء کی زبان پر بہت جاری ہوتے اور وہ چھٹی لینے کے بہت شائق ہوتے ہیں.ذرا کوئی تقریب ہو ہیڈ ماسٹر کے پیچھے پڑ جاتے ہیں.ایک دوڑا آتا ہے کہ آج تو ضرور چھٹی دی جائے ، دوسرا آتا ہے کہ آج چھٹی کا ہونا بہت ضروری ہے.اسی طرح ایک دوسرے کی اس قدر تائید کرتے ہیں کہ بے چارے ہیڈ ماسٹ کو چھٹی دینا ہی پڑتی ہے کیونکہ انسان کی عادت ہے کہ جو بات بار بار اس کے سامنے پیش کی جائے اس کا اس پر اثر ہو جاتا ہے.تو چھٹی اور رخصت کا لفظ طلباء کے لئے بہت پسندیدہ لفظ ہے لیکن بہت کم طلباء ہوں گے جنہوں نے اس لفظ کی حقیقت پر غور کیا ہوگا.چھٹی کے معنی ہیں چھوٹ گئے.اور رخصت کے معنی ہیں اجازت مل گئی.مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز سے چھوٹ گئے ؟ کیا علم پڑھنے سے چھوٹ گئے ؟ طلباء مدرسوں میں کیا کرتے ہیں؟ یہی کہ علم پڑھتے ہیں.لیکن ان کو چھٹی ملنے کا یہ منشاء تو نہیں ہوسکتا کہ چونکہ وہ علم پڑھنے سے چھوٹ جاتے ہیں اس لئے خوش ہوتے ہیں.تو انہیں پڑھنے پر کون مجبور کر سکتا ہے.پھر ان کے ماں باپ بھی تو خوش ہوتے ہیں کہ ان کو چھٹی ملی.کیا وہ ان کے تعلیم سے چھوٹ جانے کی وجہ سے جلد سوم

Page 35

زریں ہدایات (برائے طلباء) 30 جلد سوم خوش ہوتے ہیں؟ اگر یہ بات ہوتی تو وہ انہیں دس بیس روپے ماہوار خرچ کر کے یہاں کیوں بھیجتے ، اپنے پاس ہی کیوں نہ رکھتے.پھر ایسے لڑکے بھی جو بھیک مانگنا پسند کرتے ہیں مگر تعلیم نہیں چھوڑ نا چاہتے وہ بھی چھٹی ملنے پر کیوں اس طرح خوش ہوتے ہیں جس طرح ست اور تعلیم سے جی چرانے والے لڑکے خوش ہوتے ہیں بلکہ وہ تو ان سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ ست تو محنت کرنے سے ہمیشہ ہی آزاد رہتے ہیں اور جو محنتی ہیں انہیں یہی موقع ملتا ہے.تو چھٹی سے اس لئے خوشی نہیں ہوتی کہ علم پڑھنے سے چھوٹ گئے.پھر کیوں ہوتی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جو چیز کسی دوسری چیز کے مشابہ ہو وہ اس کے اندر اس قسم کے احساسات پیدا کر دیتی ہے جو دوسری کرسکتی ہے.انسان شیر کی تصویر کو دیکھ لے تو اس کے ذہن میں بہت سے ایسے خیال آجائیں گے جو اصل شیر کو دیکھنے سے آسکتے ہیں یا اپنے محبوب کی تصویر دیکھ کر اسی طرح جذبات ابھرتے ہیں جس طرح اس کی اصل شکل کو دیکھ کر.تو چونکہ چھٹی اُس زمانہ کو کہتے ہیں جو عمل کے بعد آرام حاصل کرنے کا زمانہ ہوتا ہے کوئی ایم اے پاس کر کے چھٹی کرتا ہے ، کوئی بی اے اور کوئی انٹرنس.اسی طرح کوئی مولوی فاضل، کوئی مولوی عالم اور کوئی مولوی کا جب امتحان دے لیتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میرا کسب علم کا زمانہ گزر گیا ہے.اب میرے لئے اس کے سیکھنے کی محنت سے آزاد ہو کر اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع ہے.اس وقت اسے تحصیل علم کی محنت اور مشقت سے آزادی مل جاتی ہے.یہ زمانہ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے.اس کے حاصل کرنے کے لئے تمام محنتیں اور مشقتیں برداشت کی جاتی ہیں.اسی کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائی جاتی ہیں.اور اسی کے لئے دن رات ایک کر دیا جاتا ہے.اس آزادی اور چھٹی کے زمانہ کا نمونہ چونکہ چھٹیاں ہوتی ہیں اس لئے ان سے خوشی حاصل ہوتی ہے.وہ تعلیم حاصل کرنے سے آخری چھٹی ہوتی ہے اور یہ چھٹیاں اس کے یاد دلانے کے لئے چھوٹے پیمانہ پر ہوتی ہیں کہ جاؤ سال کے بعد اتنے دن چھٹی مناؤ مگر چونکہ ان کا مقصد اور مدعا اپنی آخری منزل کو نہیں پہنچا ہوتا اس لئے پھر بلا لئے جاتے ہیں.پھر اگلے سال آزاد کر دیئے جاتے حتی کہ جب آخری حد کو پہنچ جاتے ہیں تو

Page 36

زریں ہدایات (برائے طلباء) 31 جلد سوم بالکل آزاد کر دیئے جاتے ہیں.تو چھٹی کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کام کرنے کے دنوں میں جو تم نے خوب محنت اور کوشش کی ہے اس کے بدلے آرام حاصل کرنے کے لئے تمہیں یہ موقع دیا جاتا ہے.گو یہ عارضی بات ہوتی ہے مگر اس سے یہ بتایا جاتا ہے کہ دیکھو تمہیں اس چھٹی سے کس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے.حالانکہ یہ چند دن کی بات ہے.اس سے اندازہ لگا لو کہ جب تیمو ب تمہیں ساری عمر کی چھٹی حاصل ہو جائے گی تو اُس وقت کس قدر خوشی اور راحت ہوگی اور وہ کیسی مزیدار ہوگی.ایک طالبعلم جو سال کے اندر چھٹی کی لذت حاصل کرتا ہے اسے سمجھ لینا چاہئے کہ جب وہ دس بارہ سال یا اس سے کم و پیش عرصہ میں تعلیم ختم کر کے جو چٹھی حاصل کرلے گا اس سے کس قدر لذت حاصل ہوگی.پھر یہ چھٹی ایک اور چھٹی کی طرف متوجہ کرتی ہے اور وہ موت کے بعد کی چھٹی ہے.اُس وقت بھی انسان تمام محنتوں اور مشقتوں سے آزاد ہو جاتا ہے.اور اگر اسے کچھ کرنا بھی پڑتا ہے تو وہ بھی اس کے لئے لذت اور آرام ہی کا باعث ہوتا ہے اور وہ ایسی رخصت اور چھٹی ہے کہ جس کا خاتمہ نہیں ہے.یہ چھٹی تو ڈیڑھ ماہ کے بعد ختم ہو جاتی ہے مگر موت کے بعد کی چھٹی ایسی چھٹی ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے متعلق خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ عَطاء غَيْرَ مَجْذُوذ ا کہ وہ عطاء ایسی ہے جو بھی کئے گی نہیں.پس تم غور کرو کہ جب دو ماہ کی تمہیں ایسی خوشی ہوتی ہے تو اس چھٹی سے کس قدر خوشی ہوگی جس کا خاتمہ ہی نہیں.پھر ان رخصتوں میں تو ساتھ کام بھی لگا ہوتا ہے استاد گھر پر کام کرنے کے لیے دے دیتے ہیں.مگر اُس میں کام نہیں ہوگا اور جو کچھ کہا جائے گا وہ حقیقی لذت اور سرور حاصل کرانے والا ہوگا نہ کہ بوجھ اور مشقت کے طور پر.ان چھٹیوں میں طالب علموں کو یہ بھی خوف لگا رہتا ہے کہ ہم پھر واپس جائیں گے اور جب کوئی لڑکا رخصتوں کے ختم ہونے کے بعد بستر باندھ کر واپس آنے کے لئے چلتا ہے تو اس کی تمام خوشی کرکری ہو جاتی ہے جو چھٹیوں کی وجہ سے اسے ہوئی تھی.یہاں ایک بچہ تھا جو ماں باپ کے پاس جانے کے لئے بہت بے تاب ہو رہا تھا اور اکثر افسردہ رہتا تھا.ایک دن ہمارے تقی الدین نے مسمریزم سے اسے سلا کر گھر بار کی سیر کرائی جس سے وہ بہت

Page 37

زریں ہدایات (برائے طلباء) 32 جلد سوم - خوش ہوا.لیکن جب اسے کہا گیا کہ چلو واپس تمہاری رخصت ختم ہوگئی ہے تو وہ چیخ مار کر رو پڑا.یہ تو ایک آنی نقشہ تھا مگر یہی حال لڑکوں کا ہوتا ہے.یہاں سے خوشی خوشی گھر جاتے ہیں لیکن وہاں سے آتے وقت کئی بہانے بناتے ہیں.کوئی کہتا ہے ابا آج مجھے نزلہ کی شکایت ہے یہ اچھا ہولے تو جاؤں گا.کوئی ماں کے پاس منہ بسورتا ہوا جاتا ہے کہ ابا جان کو کہیے ایک دو دن اور رہ لینے دیں.پھر کوئی کہتا ہے بقر عید قریب آگئی ہے میرا بڑا دل چاہتا ہے کہ عید گھر کروں اس لئے | عید کے بعد جاؤں گا.اس قسم کی باتیں تعلیم سے جی چرانے والے اورست لڑکے ہی نہیں کرتے ہوشیار اور محنتی لڑکے کا بھی ماں باپ اور عزیزوں سے جدا ہونے کی وجہ سے یہی جی چاہتا ہے کہ سکچھ دن اور رہ لے.تو اس چھٹی کی خوشی کے ساتھ رنج بھی لگا ہوا ہے اور اگر طالب علم اُس وقت کے رنج کا خیال کرے جو اسے چھٹیاں ختم کر کے واپس آنے کے وقت ہوتا ہے اور اپنے ذہن میں اس وقت کی اپنی حالت کا نقشہ کھینچے تو اس کی خوشی بہت کم ہو جائے گی.مگر باوجود اس کے اس عارضی چھٹی کی خوشی ایسی غالب ہوتی ہے کہ گویا انہیں ہفت اقلیم کی بادشاہت مل جاتی ہے.میں نہیں سمجھتا کہ وہ لوگ جو پانی کی طرح اپنا خون بہا کر یا بارش کی طرح برستی ہوئی آگ سے گزر کر پہاڑ کی چوٹی پر قابض ہوتے ہیں انہیں بھی لڑکوں جیسی خوشی ہوتی ہو.لڑکوں کو ان سے زیادہ ہی ہوتی ہے.چھٹی ملنے کی تاریخ سے سات آٹھ دن پہلے ہی ان کی پڑھائی چھٹ جاتی ہے استاد حساب لکھا رہا ہوتا ہے مگر ان کا حساب یہی ہوتا ہے کہ ان چھٹیوں کے ساتھ فلاں فلاں چھٹی اور مل جائے گی پھر اتنے دن ہو جائیں گے.اتنے دن فلاں جگہ رہیں گے.اتنے دن فلاں جگہ.اسی طرح ان دنوں ان کا جغرافیہ یہ نہیں ہوتا کہ لندن کہاں ہے اور پیرس کہاں بلکہ یہی ہوتا ہے کہ لدھیانہ کب پہنچیں گے یالا ہور کب یا کوئی اور جگہ جہاں کسی نے چھٹیوں میں جانا ہو.اسی طرح ان کو تاریخ میں یہ نظر نہیں آتا کہ بابر کون تھا اور اکبر کون.بلکہ یہی کہ پچھلی دفعہ ہم فلاں فلاں دوست سے ملے تھے اب فلاں فلاں سے ملیں گے.اسی طرح استاد انگریزی یا عربی پڑھا رہا ہے مگر ان کے کانوں میں بہن بھائیوں کی پیاری پیاری یا ماں باپ کی محبت بھری آواز گونج رہی ہوتی ہے.پھر بچوں کا کیا کہنا ہے مدرسوں کا بھی یہ حال ہوتا ہے کہ بہت دن

Page 38

زریں ہدایات (برائے طلباء) 33 جلد سوم پہلے سے ہی چلنے کی تیاری شروع کر دیتے ہیں.بلکہ بعض تو پہلے ہی چلے جاتے ہیں.تو اس چھٹی | کی اس قدر خوشی ہوتی ہے حالانکہ یہ خوشی دوڈیڑھ ماہ بعد ملیا میٹ ہو جانے والی ہوتی ہے.پھر اس چھٹی اور مرنے کے بعد کی چھٹی میں ایک اور بہت بڑا فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کا باپ زندہ ہو وہ اس کو اور جس کی ماں زندہ ہو اس کو ملتا ہے پھر جس کی بھائی بہنیں دادی نانی ہے یا اور رشتہ دار جو زندہ ہوں ان کو ملتا ہے.لیکن اس کے بیسیوں رشتہ دار ایسے بھی ہوتے ہیں کہ دوماہ کیا اگر سال بھر کی بھی چھٹی دی جائے تو بھی نہیں مل سکتا.کیونکہ وہ اس جہان میں موجود ہی نہیں ہوتے لیکن مرنے کے بعد جو چھٹی ہوتی ہے وہ اول تو ایسی ہے کہ جسے چند ماہ کیا چند ارب سال کی بھی نہیں کہہ سکتے.اس کی کوئی حد ہی نہیں مقرر کر سکتے.دوسرے اس کے ساتھ رنج نہیں.اور تیسرے یہ کہ اس میں آدم تک کے باپ دادوں اور رشتہ داروں سے ملاقات ہو جائے گی.پھر اس دنیا میں تو جو زندہ رشتہ دار ہوتے ہیں ان میں سے بھی کوئی کہیں اور کوئی کہیں ہوتا ہے اس لئے سب سے ملاقات نہیں ہوسکتی.مگر وہاں کوئی رشتہ دار ہو اور خواہ کسی زمانہ کا ہول سکے گا.لیکن جس طرح یہ چھٹی محنت کے بعد حاصل ہوتی ہے اسی طرح وہ بھی محنت اور مشقت چاہتی ہے اور جس طرح اس سے وہی لڑکا لطف اٹھا سکتا ہے جو محنتی ہو نہ کہ ست کیونکہ اسے تو پہلے بھی چھٹی ہوتی ہے اسے ان چھٹیوں سے کوئی لطف نہیں آتا.ایک ایسے شخص کے سامنے جس کا پیٹ ناک تک بھرا ہوا چھا کھانا رکھ دیا جائے تو اسے ایسی لذت محسوس نہیں ہوگی جیسی کہ ایک بھوکے کو.دیکھو روزہ کھولنے کے بعد پانی کا جو مزا آتا ہے وہ آجکل نہیں آتا تو محنت کے بعد آرام کا مزا آیا کرتا ہے.اس لئے چھٹی اس لڑکے کے لئے حقیقی خوشی کا باعث ہوتی ہے جو محنتی ہوتا ہے.اسی طرح اس دائمی چھٹی کی لذت بھی وہی حاصل کرے گا جو دنیا میں اس کے لئے محنت کرے گا.پس یہ چھٹی تمہیں اس چھٹی کی طرف متوجہ کرتی ہے جو تعلیم کے بعد ہوگی اور وہ چھٹی اس کی آنے والی چھٹی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو موت کے بعد ہوگی.اس لئے تمہیں اسے بھی مد نظر رکھنا چاہئے اور میں نے بتایا ہے کہ وہ بہت اعلیٰ درجہ کی چھٹی ہے.

Page 39

زریں ہدایات (برائے طلباء) 34 جلد سوم یہ تو چھٹیوں کے متعلق بات تھی اب میں کچھ اور بھی بتانا چاہتا ہوں.وہ دن جو طالبعلم اپنے گھروں میں گزاریں گے وہ ان کے لئے امتحان اور آزمائش کے دن ہوں گے.یہاں وہ نمازیں پڑھا کرتے تھے ان کے متعلق پتہ لگے گا کہ سپرنٹنڈنٹ کے لئے پڑھتے تھے یا خدا کے لئے.اگر یہاں سپرنٹنڈنٹ یا ٹیوٹروں کے ڈر سے پڑھا کرتے تھے تو گھر جا کر چھوڑ دیں گے اور اگر خدا کے لئے پڑھتے تھے تو پڑھتے رہیں گے.بہت لڑکے ہوتے ہیں جو صرف ٹیوٹروں کے لئے نماز پڑھتے ہیں.علی گڑھ کے متعلق ایک دوست نے سنایا کہ وہاں صبح اور عشاء کے وقت نماز کی حاضری لی جاتی ہے.بہت سے لڑکے اور وقتوں میں تو نماز کے لئے نہ آتے تھے مگر ان دونوں وقتوں میں آکر حاضری لگوا لیتے تھے.جب وقار الملک سیکریٹری ہوئے تو انھوں نے کہا کہ پانچوں وقت نماز کی حاضری لی جایا کرے.اس پر لڑکوں نے بہت شور مچایا کہ یہ ہم پر بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے.سرسید کے وقت سے اب تک ایسا نہیں ہوا تو اب کیوں کیا جاتا ہے.انھوں نے پہلے تو کہا کہ جولڑ کے نماز پڑھتے ہیں انہیں دو وقت یا پانچ وقت حاضری لینے سے کیا ڈر ہے.لیکن جب لڑکوں نے بہت اصرار کیا تو کہا کہ سرسید کو کوئی ایسی حدیث مل گئی ہوگی جس میں دو وقت نماز پڑھنے کا حکم ہوگا.مجھے تو پانچ ہی وقت نماز پڑھنے کا پتہ ملتا ہے اس لئے میں تو پانچ وقت ہی حاضری لیا کروں گا.تو بہت لڑکے ہوتے ہیں جو منتظمین کی نماز پڑھتے ہیں اور گھر پر جا کر چھوڑ دیتے ہیں جہاں انہیں کوئی کہنے والا بھی نہیں ہوتا.کیونکہ آجکل حالت یہ ہے کہ مرد عورتیں بہت کم نماز پڑھتے ہیں.لڑکا اگر بغیر نماز پڑھے سو جائے اور والد جگانے بھی لگے تو والدہ کہتی ہے نہ جگانا کچی نیند ہے دونوں نمازیں ملا کر پڑھ لے گا.لیکن جو ایک نہیں پڑھتا اس نے دو ملا کر کیا پڑھنی ہیں.بعض گھروں میں ماں باپ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے.اس لئے لڑکوں کے لئے یہ آزادی کا زمانہ ہوتا ہے اور اس میں پتہ لگ سکتا ہے کہ کون خدا کے لئے نماز پڑھتا تھا.تو گو یہ تمہارے لئے چھٹی کے ایام ہوں گے مگر دراصل ان میں تمہارا امتحان ہو رہا ہوگا.تیسری بات یہ ہے کہ کچھ ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق احمد یوں اور غیر احمدیوں میں

Page 40

زریں ہدایات (برائے طلباء) 35 جلد سوم اختلاف ہے.بہت لڑکے ایسے ہوتے ہیں جو واقف نہیں ہوتے گو یہاں کی صحبت کی وجہ سے انہیں دوسروں کے ساتھ گفتگو کرنے کا شوق ہوتا ہے.مگر ناواقفیت کی وجہ سے اچھی طرح کامیاب نہیں ہو سکتے.اس لئے پہلے خود واقفیت پیدا کرنی چاہئے.احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پہلا اختلاف یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ختم ہوگئی ہے ، اس کے خزانوں پر قفل لگ گئے ہیں، اب اس کے پاس اپنے بندوں کو دینے کے لئے کچھ نہیں رہا لیکن ہم کہتے ہیں کہ جس طرح پہلے اس کے خزانے کھلے تھے اسی طرح اب بھی کھلے ہیں اور جس طرح پہلے وہ اپنے بندوں کو نعمتیں دیا کرتا تھا اسی طرح اب بھی دیتا ہے.ان کے نزدیک ماموروں اور مرسلوں کا آنا بند ہو گیا ہے مگر ہمارے نزدیک نہ کبھی بند ہوا اور نہ ہوگا.کیوں؟ اس لئے کہ کسی انعام کے بند ہونے کی دو ہی وجہیں ہوسکتی ہیں.ایک یہ کہ دینے والا ہی نہ رہے یا اس میں دینے کی طاقت نہ رہے.دوسرے یہ کہ کوئی لینے والا ہی نہ ہو یا اس کا استحقاق نہ ہو.اب یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دینے والا نہ رہے یا اس میں دینے کی طاقت نہ رہی ہو.کیونکہ وہ خدا ہے.اور یہ بھی نہیں کہ لینے والا کوئی نہ رہا ہو.اسی مسجد میں دیکھو کتنے آدمی بیٹھے ہیں.یہ ایک موٹی بات ہے.دینے والا موجود، اس میں دینے کی طاقت موجود، پھر لینے والے موجود، ان کا استحقاق موجود، پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو وہ انعام نہ دیا جائے جو پہلے دیا جاتا تھا.پس ہمارے مخالفین کی یہ بات بالبداہت غلط ہے اور اس کے لئے کسی لمبی چوڑی بحث کی ضرورت نہیں ہے.نبوت ایک درجہ انعام ہے.اگر پہلے انسانوں کو خدا یہ مرتبہ دیتا تھا تو اب بھی دے سکتا ہے.اگر پہلی امتوں کا اسے حاصل کرنے کا استحقاق ہوتا تھا تو اس خیر امم کا بہت ہی زیادہ حق ہے.تو غیر احمد یوں اور ہم میں ایک فرق یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے خدا اپنے بندوں سے کلام کیا کرتا تھا اب نہیں کرتا.پھر بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ الہام کا دروازہ تو کھلا ہے مگر نبوت کا انعام بند ہو گیا ہے.مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ الہام ہی کے اعلیٰ مقام کا نام نبوت ہے.جب کسی انسان کو کثرت سے ایسے الہامات ہوں جو امور مہمہ پر مشتمل ہوں تو وہی نبوت ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًان

Page 41

زریں ہدایات (برائے طلباء) 36 جلد سوم إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولِ 2 تو ایسے الہامات جو کثرت سے امور غیبیہ کی خبریں دیں وہی رسالت ہے.جب یہ رسالت ہے تو پھر کیوں یہ مقام آج کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.کیا خدا تعالیٰ کو غیب کا علم نہیں رہا؟ یا انسانوں کو اس کی ضرورت نہیں رہی ؟ آجکل تو تمام زمانوں سے بڑھ کر اس کی ضرورت ہے کیونکہ دنیا خدا کو چھوڑ کر ظاہر پرست بن گئی ہے.خدا کی ہستی سے انکار کیا ہے جارہا ہے.اس کی طاقتوں اور قدرتوں کو قبول نہیں کیا جاتا.پس اس زمانہ میں تو علم غیب کی بہت زیادہ ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا پورا پورا یقین ہو.اور علم غیب خدا تعالیٰ سوائے نبیوں اور رسولوں کے اور کسی کو دیتا نہیں اس لئے ان کا آنا نہایت ضروری ہے.بہت لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جو کتاب یعنی شریعت لائے.لیکن یہ غلط ہے.دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّا أَنزَلْنَا التَّوْرةً فِيهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ 3 کہ ہم نے توریت کو اتارا اس میں ہدایت اور نور تھی.اور بہت سے نبی اس سے فیصلہ کیا کرتے تھے.پس معلوم ہوا کہ وہ نبی جو توریت سے فیصلہ کیا کرتے تھے ان پر کوئی شریعت نازل نہ ہوئی تھی تبھی تو وہ تورات سے فیصلہ کرتے تھے.ورنہ وہ اپنی شریعت کے موافق کرتے.اصل بات یہی ہے کہ نبی کے لئے کتاب یعنی شریعت لانے کی کوئی شرط نہیں ہے.نبوت کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانے کا نام ہے.اور اس کی اب بھی ضرورت ہے.اور یہ بند نہیں ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے.تو غیر احمدیوں سے ہمارا ایک یہ اختلاف ہے کہ آنحضرت یہ کے بعد نبی آسکتا ہے یا نہیں.ہم کہتے ہیں ایک نہیں آپ کے ماتحت اور آپ کی غلامی میں کئی آسکتے ہیں.وہ کہتے ہیں کوئی نہیں آسکتا.وہ اپنی جہالت اور نادانی سے سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی نبی آنحضرت ﷺ کے بعد آئے تو آپ کا درجہ کم ہو جاتا ہے.مگر کیا واقعہ میں ایسا ہوتا ہے؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ جس کا رتبہ بڑا ہو اس کے ماتحت بڑے بڑے لوگ ہوتے ہیں.کیا اس کا درجہ بڑا ہوتا ہے جس کے ماتحت تحصیلدار اور ڈپٹی کمشنر ہوں یا اس کا جس کے ماتحت صفائی کرنے والے چوہڑے وغیرہ؟ اس طرح کسی ایسے استاد کو لائق نہیں سمجھا جاتا جو یہ کہے کہ میرا کوئی شاگرد ایسا نہیں جو امتحان میں پاس ہو بلکہ سب کے سب ہی فیل ہوتے ہیں.تو بڑائی کا معیار یہی ہوتا ہے صد الله

Page 42

زریں ہدایات (برائے طلباء) 37 جلد سوم کہ اس کے ماتحت بڑے بڑے قابل اور بڑے درجہ کے لوگ ہوں.پس ہم بھی آنحضرت ے کے بعد کسی ایسے نبی کے آنے کے قائل نہیں جو آپ کی شریعت یا نبوت کو مٹائے مگر ایسے نبی کے آنے کے قائل ہیں جو آپ کی غلامی میں رہ کر درجہ نبوت حاصل کرے اور آپ کے دین کی خدمت کرنے کے لئے بھیجا جائے.رسول کریم ﷺ نے خود اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ عزت اور درجہ اسی کا بڑا ہوتا ہے جس کے ماتحت بڑے بڑے ہوں.چنانچہ آپ نے فرمایا لَوْ كَانَ مُوسَىٰ وَ عِيْسَىٰ حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِی 4 کہ اگر عیسی اور موسیٰ زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کرنی پڑتی.اگر کسی نبی کا دوسرے نبی کی اتباع کرنا ذلت ہوتی تو کیا نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ یہ اپنی ذلت کے لئے کہہ رہے تھے؟ نہیں بلکہ اپنی بڑائی اور درجہ بتلانے کے لئے کہا تھا کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو میری اتباع کرتے.اس بات نے اس کا فیصلہ کر دیا کہ نبی کے ماتحت نبیوں کا ہونا اس کی عزت ہوتی ہے نہ کہ ذلت.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضرت ﷺ کے ماتحت نبی ہو کر آنا، آپ کے دین کی جدت کے لئے مبعوث ہونا آپ کی عزت ہے نہ کہ ذلت.تو پہلا اختلاف ہم میں اور غیر احمدیوں میں یہ ہے کہ ہم کہتے ہیں خدا میں جو طاقتیں اور قدرتیں پہلے تھیں وہ اب بھی ہیں مگر وہ کہتے ہیں اب نہیں ہیں.پھر وہ کہتے ہیں آنحضرت یی او کے بعد نبی نہیں آسکتے ہم کہتے ہیں آسکتے ہیں.ہاں ایسے نہیں آسکتے جو آنحضرت ﷺ کے دین کو مٹائیں یا اس میں کچھ تغیر و تبدل کریں یا آپ کی غلامی کا دعوی نہ کریں.یادر ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے بعد کسی ایسے نبی کا آنا جو شریعت لائے اس لئے نہیں تسلیم کرتے کہ اس طرح قرآن ناقص قرار دینا پڑتا ہے نہ اس لئے کہ اس میں آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے.کیونکہ اس طرح کسی نبی کی بہتک نہیں ہوتی.آنحضرت ﷺ نے شریعت موسی کو منسوخ کیا تو کیا آپ نے حضرت موسی کی بہتک کی؟ ہر گز نہیں.ہاں تو رات کو نا قابل عمل قرار دیے دیا.تو یہ ایک بڑا اختلاف ہے.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو فرمایا کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور.ان کا خدا اور ہے ہمارا خدا اور ہمارا حج اور ہے ان کا حج اور.اسی طرح ان سے ہر بات صلى الله

Page 43

زریں ہدایات (برائے طلباء) میں اختلاف ہے.38 جلد سوم ایک اور بہت بڑا اختلاف حضرت مسیح کی وفات کے متعلق ہے اس کے متعلق بھی کچھ بتا دیتا ہوں.يُعِيسَى اِنّى مُتَوَفِّيكَ 5 میں خدا تعالیٰ نے حضرت عیسی سے وعدہ فرمایا ہے کہ ہم تجھے وفات دیں گے اور سورۃ مائدہ میں ان کی اپنی زبان سے وفات پانے کا اقرار کرایا ہے.بعض لوگ غلطی سے توفی کے معنی موت کے کرتے ہیں مگر یہ درست نہیں.اس کے معنی قبض روح کے ہیں.جہاں بھی قرآن کریم میں یہ لفظ آئے خدا اس کا فاعل اور ذی روح مفعول ہو تو اس کے معنی قبض روح ہی کے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے عیسی سے پوچھا تو انتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِى وَأُتِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ 6 کیا تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو اللہ کے سوا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آگے سے اس نے جواب دیا کی مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَكُنتُ | عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ أنتَ الرَّقِيب عَلَيْهِمْ 7 کہ میں نے نہیں ان کو کہا مگر وہی جس کا مجھے حکم دیا گیا تھا کہ عبادت کرو اللہ کی جو میرا رب ہے اور تمہارا بھی اور میں ان پر نگران تھا جب تک ان میں رہا.پس جب تو نے میری روح قبض کرلی تو پھر تو ہی ان پر نگران تھا.اس خواب میں حضرت عیسی نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ کہا ہے کہ جب تک میں ان میں رہا انہوں نے مجھے اور میری ماں کو معبود نہیں بنایا.لیکن جب تو نے میری روح قبض کر لی تو پھر تو ہی نگران تھا.سیر آیت وفات مسیح کے متعلق بطور اصل کے ہے.جب کسی سے گفتگو ہو تو اس کو پیش کرنا اور اس سے ادھر اُدھر نہ جانے دینا چاہئے.کیونکہ یہ نہایت صاف اور واضح ہے.حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے حضور اقرار کرتے ہیں کہ جب تک میں ان میں رہا ان کی نگرانی کرتا رہا اُس وقت وہ نہیں بگڑے تھے لیکن جب تو نے میری روح قبض کرلی اور میں ان میں نہ رہا تو تو ہی ان کا نگران تھا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ روح قبض کرنے سے مراد موت ہی ہے.

Page 44

زریں ہدایات (برائے طلباء) 39 جلد سوم غیر احمدی صاحبان کہتے ہیں کہ یہ جواب حضرت عیسی قیامت کو دیں گے ہم کہتے ہیں خواہ قیامت کو یا اس سے بھی کروڑوں سال بعد میں دیں ہم جو اس سے نتیجہ نکالتے ہیں وہ کسی صورت میں غلط نہیں ہو سکتا.کیونکہ ہم اس سے صرف یہ نکالتے ہیں کہ حضرت عیسی کہتے ہیں کہ جب تک میں ان میں تھا اور میری روح نہیں نکلی تھی اُس وقت میری امت نہیں بگڑی تھی.مگر جب میری روح قبض کرلی گئی تو اس کے بعد کا مجھے علم نہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی بگڑے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں بگڑے تو اسلام جھوٹا ہوتا ہے اور اس کے آنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی لیکن قرآن کریم سے ثابت ہے کہ عیسائی بگڑ چکے ہیں اور جب عیسائی بگڑ چکے ہیں تو ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسی وفات بھی پاچکے ہیں.یہ آیت وفات مسیح کو ایسی صفائی کے ساتھ ثابت کرتی ہے کہ کسی اور طرف جانے کی ضرورت ہی نہیں رہتی.اس لئے اس کو اچھی طرح پیش کرنا چاہئے.اور بتانا چاہئے کہ دیکھو قرآن کریم میں کسی اور جگہ یہ تو لکھا نہیں کہ حضرت عیسی زندہ ہیں اور اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ وفات پاچکے ہیں.پھر تم کیوں اس کو نہیں مانتے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اور آیات کو لو اور دیکھو ان سے کیا نکلتا ہے.انہیں کہنا چاہئے کیا یہ قرآن کی آیت نہیں ؟ اگر ہے تو جب اس سے یقینی طور پر وفات مسیح ثابت ہو جاتی ہے تو اور کوئی آیت اس کے خلاف کس طرح ہو سکتی ہے.اور اگر اس کے خلاف ہو سکتی ہے تو پھر یہ کہو کہ یہ قرآن کی آیت ہی نہیں کسی نے ملا دی ہے.مگر جب ایسا نہیں ہے تو اس کو چھوڑ کر اوروں کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے.کیونکہ اس آیت سے صاف طور پر ثابت ہے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے.تو اسی کو پیش کرنا چاہئے.دوسری آیات میں غیر احمدی کئی قسم کے دھو کے دے سکتے ہیں اور جھگڑا ڈال سکتے ہیں مگر اس میں ان کے لئے کوئی راہ نکلنے کی نہیں ہے.ایک اور بات یہ ہے کہ بہت سے نادان لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات کے متعلق کچھ ایسی کچی باتیں پیش کرتے ہیں جو بچے بھی نہیں کرتے.کہتے ہیں مرزا صاحب نے لکھا ہے خدا نے قلم کا چھینٹا دیا اور وہ چھینٹے ان کے کپڑوں پر آپڑے.کیا خدا بھی قلم پکڑا

Page 45

زریں ہدایات (برائے طلباء) 40 جلد سوم کرتا ہے.حالانکہ وہ نادان نہیں جانتے کہ یہ رویا ہے اور رویا میں اس قسم کے نظارے دکھائے جاتے ہیں.کوئی کہے میں رویا میں اڑ رہا تھا تو کیا اسے کہا جاسکتا ہے کہ تم جھوٹ کہتے ہو کبھی انسان بھی اڑا کرتے ہیں.کوئی سمجھدار تو یہ نہیں کہہ سکتا.پھر نہ معلوم غیر احمدی اس قسم کے اعتراضات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کیوں کرتے ہیں.پھر انہوں نے تو اس قسم کے قصے بنارکھے ہیں کہ موسیٰ نے دیکھا کہ خدا کا غذ چننے کے لئے زمین پر آ گیا.پھر کہتے ہیں حضرت موسی نے خدا تعالیٰ سے پوچھا کہ آپ کیا کھایا کرتے ہیں؟ تو خدا تعالیٰ نے کہا دودھ پیتا اور چاول کھاتا ہوں.تو خود تو اس قسم کے خیال رکھتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے رویا پر اعتراض کرتے ہیں.اس وقت میں اصل کے طور پر بتاتا ہوں زیادہ وقت نہیں ہے اسی کو یاد رکھنا.خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرماتا ہے وَلَو تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ 8 یہ ہم پر جھوٹ بولتا تو ہم اسے پکڑ لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ جھوٹا نبی ہلاک ہو جاتا ہے اور سچا نہیں ہوتا.نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد آنحضرت ﷺ 23 سال زندہ رہے ہیں اس سے صلى الله معلوم ہو گیا کہ کوئی جھوٹا نبی زیادہ سے زیادہ اس عرصہ تک زندہ نہیں رہ سکتا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دعوے کے بعد 26 سال کی زندگی ملی ہے اب یا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو سچا اور راستباز ماننا پڑے گا یا نعوذ باللہ رسول کریم ﷺ کو بھی جھوٹا قرار دینا ہوگا.لیکن رسول کریم ﷺ کی صداقت کے تو مسلمان قائل ہیں.اس لئے انہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بچے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ جو دلیل ان کی صداقت کی خد تعالی نے دی ہے وہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت میں پیش کی جاتی ہے بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ نشان صرف آنحضرت ﷺ کے لئے ہے.لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح تو یہ صداقت کی علامت ہی نہیں ہو سکتی.مثلاً ایک شخص کہے میں بی.اے ہوں اور ثبوت یہ پیش کرے کہ میں لال قمیص پہنے ہوئے ہوں.لیکن ایک اور شخص جو پرائمری پاس ہو

Page 46

زریں ہدایات (برائے طلباء) 41 جلد سوم اس نے بھی لال قمیص پہنی ہو اور وہ کہے کہ میں نے بھی اس قسم کی قمیص پہنی ہوئی ہے اور میں بی.اے نہیں ہوں.تو وہ کہے کہ یہ علامت صرف میرے لئے ہی ہے اور کسی کے لئے نہیں.کیا اس کی بات کوئی مان لے گا ؟ اس طرح تو بچے اور جھوٹے میں کوئی امتیاز ہی نہیں رہتا.لیکن جب یہ دلیل واقعہ میں پائی گئی ہے کہ بچے نبی کی خدا نے حفاظت کی اور کامیابی دی اور جھوٹوں کو ہلاک اور نا کام کیا تو پھر یہ آیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بھی کھلے طور پر صداقت ثابت کر رہی ہے.مخالفین نے اس بات کے لئے بڑا ز ور مارا ہے کہ کوئی ایسی مثال پیش کریں کہ کوئی جھوٹا دعویٰ کرنے والا اس قدر عرصہ زندہ رہا ہو لیکن نہیں کر سکے.بعض کہا کرتے ہیں کہ بہاء اللہ زندہ رہا ہے.مگر یادر ہے کہ اس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھانہ کہ نبوت کا.اور ہلاک نبوت کا دعویٰ کرنے والا ہوتا ہے نہ کہ خدائی کا کرنے والا.کوئی کہے کہ خدائی کا دعویٰ تو نبوت کے دعوے سے بھی بہت بڑا ہے اس لئے اس کے مدعی کو تو ضرور ہلاک ہونا چاہئے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدائی کا دعویٰ چونکہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ ہر ایک شخص اس کو جھوٹا سمجھتا ہے اور کوئی عقلمند اس سے دھوکا نہیں کھا سکتا اس لئے اس کے مدعی کو ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی.مگر ایک سچا نبی بھی چونکہ انسان ہی ہوتا ہے اس لئے جھوٹے نبی سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے اسی لئے اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے.کہتے ہیں ایک شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا.ایک شخص نے آکر اسے گردن سے پکڑ لیا اور یہ کہہ کر کہ تو ہی خدا ہے جس نے میرے ماں باپ کو مارا تھا مارنا شروع کر دیا.اور اسی طرح اپنے مرے ہوئے رشتہ داروں کے نام لے لے کر مارتا رہا.آخر اس نے کہہ دیا کہ میں خدائی کے دعوے سے تو بہ کرتا ہوں.تو خدائی کا دعویٰ فورا باطل ہو جاتا ہے اور اس سے لوگوں کے دھوکا کھانے کا اتنا خطرہ نہیں ہوتا جتنا نبوت کا دعوی کرنے والے سے ہو سکتا ہے.اس لئے اس کے لئے یہ سزا رکھی گئی ہے کہ اسے ہلاک کر دیا جاتا ہے غیر احمدی اور کئی مثالیں پیش کرتے ہیں لیکن سب غلط اور جھوٹی.ان کو کہنا چاہئے کہ اگر

Page 47

زریں ہدایات (برائے طلباء) 42 جلد سوم کوئی مثال کچی ہے تو پھر قرآن جھوٹا ہو جائے گا.کیونکہ اس آیت کے معنے سوائے اس کے اور تو کوئی ہو ہی نہیں سکتے کہ جھوٹا نبی ہلاک کیا جاتا ہے.لیکن اگر کوئی ہلاک نہ ہوا تو یہ غلط ہو گئی.یہ آیت ہم نے اپنی طرف سے نہیں بنائی قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی صداقت میں پیش کی ہے اس لئے یہ کبھی غلط نہیں ہوسکتی.پس جو کوئی اس قسم کی مثال پیش کرے اس کو شیخ چلی والی کہانی سنا دو کہ وہ جس شاخ پر بیٹھا تھا اسے ہی کاٹ رہا تھا.کسی نے کہا ایسا نہ کروگر جاؤ گے.اس نے کہا جا! بڑا پیغمبر آیا میں نہیں کرسکتا.لیکن جب گرا تو اس شخص کے پاس دوڑا دوڑا آیا اور کہا تو تو واقعی پیغمبر ہے اب بتا میں کب مروں گا.اس کہانی پر بہت لوگ ہنستے ہوں گے مگر وہ خود اسی قسم کا فعل کرتے ہیں.جس قرآن کو سچا اور خدا کا کلام مانتے ہیں اسی کے غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.یہ چند موٹی موٹی باتیں ہیں.باقی بہت وسیع ہیں اور ان کے لئے لمبے وقت کی ضرورت ہے.انہیں خوب یا درکھو.بحث و مباحثہ میں تمہارے کام آئیں گی.“ 1: هود: 109 2: الجن: 28،27 3: المائدة: 45 (الفضل 21 اگست 1917ء) 4 اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 5 آل عمران: 56 6: المائدة: 117 7: المائدة: 118 8 الحاقة: 4745

Page 48

زریں ہدایات (برائے طلباء) 43 جلد سوم تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ قادیان کے طلباء کی انجمن شبان الاسلام سے خطاب کیم جانوری 1918 ء کی شام کو ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی انجمن شبان الاسلام نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی مع قریباً تین سو احباب کے سکول کے ہال میں دعوت کی.کھانا کھانے کے بعد جناب مولوی عبد المغنی صاحب سپر نٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس نے طلباء کی اس انجمن کی رپورٹ پڑھی اور بتایا کہ گزشتہ سال کی موسمی تعطیلات سے چند ہی دن پہلے دونوں سکولوں کے طلباء میں اتحاد و یکجہتی اور قومی کاموں میں حصہ لینے کی روح پھونکنے کے لئے یہ انجمن بنائی گئی تھی.اس کی طرف سے پہلی دفعہ جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی دعوت | کی گئی تو حضور نے ممبران انجمن کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ اس دفعہ دونوں سکولوں کے طلباء موسمی تعطیلات میں ہائی سکول کے ہال کیلئے چندہ جمع کریں.چونکہ اس ارشاد کے بعد تعطیلات کے شروع ہونے میں بہت تھوڑے دن رہ گئے تھے اس لئے تحصیل چندہ کی تحریک اور انتظام خاطر خواہ اور پورے طور پر نہ ہو سکا اس وجہ سے خیال تھا کہ شاید طلباء کوئی قابل ذکر کام نہ کر سکیں لیکن الْحَمْدُ لِلَّهِ کہ انہوں نے چھ سوروپیہ کے قریب محض ہال کے لئے اور ڈیڑھ سو روپیہ مدرسہ احمدیہ کے لئے یعنی کل ساڑھے سات سو روپیہ جمع کیا.ڈیڑھ سو روپیہ عنقریب اسی مد میں اور ملنے والا ہے.اس طرح نوسور و پیہ ہو جائے گا.حضرت خلیفہ اسیح نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر طلباء نو سو روپیہ جمع کر لیں تو ایک سو روپیہ میں دوں گا.اب ہم گزارش کرتے ہیں کہ حضور وہ رقم مرحمت فرما دیں تا کہ چندہ میں برکت ہو.

Page 49

زریں ہدایات (برائے طلباء) 44 جلد سوم اس کے بعد مولوی عبد المغنی صاحب نے مذکورہ بالا انجمن کے متعلق کچھ قواعد پیش کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جو طالب علم دس روپیہ یا اس سے زیادہ کی رقم جمع کر کے لائے ہیں انہیں ممبر بنایا جائے اور آئندہ بھی جو طالب علم کم از کم اتنی رقم لائے وہ ممبر ہوسکتا ہے.اس پر حضرت خلیفہ اسبیع الثانی نے فرمایا کہ:.ماسٹر عبد المغنی صاحب نے اس وقت جور پورٹ انجمن شبان الاسلام کی سنائی ہے اس میں مجھے بھی اپنا ایک وعدہ یاد دلایا ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ڈیڑھ سو کی رقم ایسی ہے جو ا بھی وصول نہیں ہوئی.اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ جب انہیں یہ رقم وصول ہو جائے اُسی وقت میرے پاس آجائیں میں اپنی موعودہ رقم دے دوں گا.باقی جو انہوں نے قواعد پیش کیے ہیں ان کی اصلاح یا تصدیق کا موقع نہیں ہے.انہیں چاہئے تھا کہ پہلے میرے سامنے پیش کرتے.فی الحال میں اتنا کہتا ہوں کہ انہوں نے جو قاعدہ ممبروں کے متعلق تجویز کیا ہے وہ مجھے پسند نہیں ہے.اسلام کسی مذہبی انجمن کے ممبر کے لئے اس قسم کی کوئی شرط مقرر نہیں کرتا بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کسی نے دینی کام کرنے میں کس قدر محنت اور کوشش سے کام لیا ہے.اگر ایک طالب علم کسی ایسی جگہ چندہ جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں کے لوگ احمدیت کے سخت مخالف ہیں اور اسے لوگوں سے جھڑ کیاں ، طعنے اور سخت الفاظ سننے پڑتے ہیں اور اس طرح وہ ایک پیسہ ہی چندہ لاتا ہے تو وہ اُس طالب علم سے بہتر ہے جو اپنے باپ یا رشتہ داروں سے ایک بڑی رقم حاصل کر کے پیش کر دیتا ہے.پس اس قسم کی شرط اس روح | اور جذبہ کو مٹانے والی ہے جو اسلام پیدا کرتا ہے کیونکہ اسلام اخلاص چاہتا ہے اس لئے ممبر بننے والوں کے لئے یہ شرط نہیں ہونی چاہئے.بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ کسی نے دین کے لئے کس قدر محنت اور کوشش کی ہے.باقی شرائط کے متعلق میں اس وقت فوری طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا.ہاں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ آجکل ایک مکروہ اور نا پسندیدہ لفظ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو یہ ہے کہ قومی کام.یہ ایسے الفاظ انہیں لوگوں کے لئے رہنے

Page 50

زریں ہدایات (برائے طلباء) 45 جلد سوم چاہئیں جنہیں مذہب سے کوئی سروکار نہیں ہے.ہمارا کوئی کام قومی نہیں کہلا سکتا.قومی کام تو یہ ہوتا ہے کہ ایک جتھا ہے وہ اپنے سیاسی اغراض کے لئے جو کام کرتا ہے اسے قومی کام کہتا ہے.اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ دین کیا کہتا ہے.وہ ہر کام میں اپنے جتنے کو مد نظر رکھتا ہے کہ وہ نہ ٹوٹے خواہ کسی دینی اور مذہبی بات کے خلاف ہی کیوں نہ کرنا پڑے.چنانچہ آجکل کے مسلمان کئی ایک کام ایسے کرتے ہیں جو اسلام کے بالکل خلاف ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ یہ قومی کام ہے کیا کریں اگر ایسا نہ کریں تو قوم ٹوٹتی ہے.مگر دیکھو یہ لوگ جس کو قوم قوم کہتے ہیں اس کو ہم نے چھوڑ دیا ہے یا نہیں.بظاہر ہمارا غیر احمدیوں سے الگ ہونا ہمارے لئے نقصان کا باعث تھا لیکن ہم نے دین کی خاطر اس کی کوئی پرواہ نہیں کی پس ہمارا کوئی کام قومی کام نہیں بلکہ ہر ایک مذہبی ہے اس لئے ہمیں یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے اور اسے بالکل چھوڑ دینا چاہئے کیونکہ یہ سکھاتا ہے کہ جتھے کے مقابلہ میں مذہب کی کوئی پرواہ نہ کی جائے.ہاں ہمیں اپنی کوششوں اور کاموں کے متعلق مذہبی ، دینی ، اسلامی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں.اخیر پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ طلباء کی اس انجمن نے جو کام کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت کچھ ماسٹر عبدالمغنی صاحب کی کوشش کا نتیجہ ہے.اس لئے جہاں کام کرنے والے طلباء قدر کے قابل ہیں وہاں ماسٹر صاحب ان سب سے بڑھ کر تعریف کے مستحق ہیں.سب دوست دل سے انہیں جزاک اللہ ہیں.میرے نزدیک طلباء میں دینی کاموں میں حصہ لینے کی روح پیدا کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک پودے کو پانی دے کر کارآمد بنانا.لیکن جب وہ بڑے ہو جائیں تو اُس وقت یہ بہت مشکل کام ہو جاتا ہے.اس لئے میں اس بات کو بہت پسند کرتا ہوں کہ طلباء میں دینی کام کرنے کا احساس اور مادہ پیدا کیا جائے مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھا جائے کہ اس سے ان میں کسی قسم کی نخوت ، تکبر اور بڑائی نہ پائی جائے.خدا تعالیٰ ہمارے بچوں کو دینی کاموں میں صہ لینے کی توفیق بخشے.“ (الفضل 5 جنوری 1918ء)

Page 51

زریں ہدایات (برائے طلباء) 46 جلد سوم خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کرو 24 فروری 1920ء کو حضرت خلیفۃ السیح الثانی نے لاہور سے روانہ ہوتے وقت احمدی مردوں، عورتوں اور طلباء سے خطاب فرمایا.اس خطاب کے آخر میں طلباء کو نصیحت کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: دو خصوصاً میں طالب علموں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے دلوں میں خاص طور پر دین کی محبت پیدا کریں اور حالتوں کو بہت زیادہ اچھا بنائیں.خود خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں گاڑلیں کیونکہ محبت ہی قدرت کلام اور شان و شوکت اور اثر کو پیدا کرتی ہے.پس طالب علم خاص طور پر خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دلوں میں پیدا کریں اور ایسی محبت پیدا کریں کہ دنیا کی کوئی چیز اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے.جب یہ حالت پیدا ہو جائے گی تو وہ دیکھیں گے کہ ان کے اندر ایسی روشنی اور ایسا نور پیدا ہو جائے گا کہ کسی سے کوئی بات منوانے میں انہیں رکاوٹ پیش نہ آوے گی اور کوئی علم ایسا نہ ہو گا جو اسلام کے بطلان کے لئے نکلا ہو اور وہ اسے پاش پاش نہ کر دیں.مجھے محبت کے متعلق اپنا ایک بچپن کا رویا یاد ہے میری اُس وقت کوئی گیارہ بارہ برس کی عمر تھی.میں نے دیکھا ایک سٹیچو ہے جیسا کہ امرتسر میں ملکہ کا سنگ مرمر کا بنا ہوا ہے اس کے اوپر ایک بچہ ہے جو آسمان کی طرف ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بلاتا ہے.اتنے میں آسمان سے کوئی چیز اتری ہے جو نہایت ہی حسین عورت ہے.جس کے کپڑوں کے ایسے عجیب و غریب رنگ ہیں جو میں نے کبھی نہیں دیکھے.اس نے چبوترے پر اتر کر اپنے پر پھیلا دیئے اور نہایت محبت سے بچہ کی طرف جھکی ہے.وہ بچہ بھی و

Page 52

زریں ہدایات (برائے طلباء) 47 جلد سوم اس کی طرف اس طرح لپکا ہے جس طرح ماں سے محبت کرانے کے لئے لپکا کرتا ہے اور اس نے اس بچہ کو ماں کی طرح ہی پیار کرنا شروع کر دیا ہے.اُس وقت میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہو گئے.LOVE CREATES LOVE محبت محبت کو کھینچتی ہے.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ وہ بچہ عیسی ہے اور وہ عورت مریم.تو محبت ہی محبت کو بھینچتی ہے.پس تم خدا تعالیٰ کی محبت اپنے دل میں پیدا کر لو.جب ایسا کر لو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ تمہارے اندر نور کی کھڑ کی کھل گئی ہے گو پہلے چھوٹی سی ہوگی مگر جوں جوں خدا تعالیٰ کے جلال اور شان پر نظر پڑتی جائے گی وہ بھی فراخ ہوتی جائے گی.جب تمہاری یہ حالت ہو جائے گی تو مداری تو فریب سے روپیہ نکالتا ہے اور دیکھنے والے حیران ہو جاتے ہیں مگر تمہارے اندر وہ ایسی کھڑ کی کھل جائے گی کہ جو علم تم سے کوئی مانگے گا تم اسی سے نکال کر دکھا دو گے اور لوگ حیران رہ جائیں گے.میں اس امر کا تجربہ کار تمہارے سامنے کھڑا ہوں.مجھے کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ کسی نے اسلام پر کوئی نئے سے نیا اعتراض کیا ہو اور مجھے اپنے دل کی تھیلی سے اس کا جواب نہ مل گیا ہو.مجھے معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں اس اعتراض کا جواب ہے یا نہیں مگر جب میں اس میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو نکل ضرور آتا ہے اور یہ خدا کی محبت اپنے دل میں پیدا کرنے کا نتیجہ ہے.اس نصیحت پر جس میں میں نے طالب علموں کو زیادہ تر مخاطب کیا ہے میں آج کی تقر پرختم کرتا ہوں کہ ابھی مجھے گاڑی پر جانا ہے.( الفضل 15 مارچ 1920ء)

Page 53

زریں ہدایات (برائے طلباء) 48 جلد سوم بچوں ، بچوں کے والدین اور نگرانوں کے لئے نصائح 21 جولائی 1920 کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں طلباء ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ قادیان کو ان کے رخصت پر جانے سے قبل حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں.آج ہمارے دونوں سکولوں میں چھٹیاں ہونے والی ہیں.تمام اساتذہ بھی اور شاگرد بھی یا کم از کم ان میں سے اکثر تیار ہورہے ہیں کہ اپنے اپنے گھروں کو جائیں.ایسے وقت میں کہ عارضی طور پر اس تعلیم سے جدا ہو رہے ہیں جس کے متعلق ان کے والدین کا گمان ہے کہ ان کے لئے اچھی ہوگی اور جس کے لئے ان کو یہاں بھیجا تھا.دونوں سکولوں کے افسروں نے مجھے سے خواہش کی ہے کہ میں طلباء کو نصیحت کروں جس کو وہ گھروں میں یاد رکھیں اور اس پر عمل کریں.در حقیقت بچھڑے ہوؤں کو ملنے، عزیزوں اور پیاروں کو دیکھنے اور خوش ہونے کا جذبہ انسان تو انسان حیوان میں بھی پایا جاتا ہے.انسان اور حیوان کے جذبات میں فرق ہے مگر یہ جذ بہ حیوانوں میں بھی پایا جاتا ہے.اگر ایک شخص گھوڑی پر سوار اس کو دوڑائے لئے جارہا ہو اور اس گھوڑی کا بچہ پیچھے رہ جائے تو گھوڑی ہنہناتی ہے اور بچہ اس کو تلاش کرتا ہے.اور جب وہ دونوں ملتے ہیں تو کس طرح خوشی کی حرکتیں کرتے ہیں.وہ ایسا نظارہ ہوتا ہے کہ اس کو وہی جان سکتا ہے جس نے اس نظارہ کو دیکھا ہے.اب جولڑ کے اپنے گھروں کو جانے والے ہیں ان میں بعض کو ماں سے زیادہ محبت ہوگی بعض کو باپ سے.بعض کو چھوٹے بھائیوں سے محبت ہوگی بعض کو بڑی بہن یا چھوٹی بہن سے.بعض کو اپنے محلہ کے لڑکوں سے محبت ہوگی.بعض کو محض

Page 54

زریں ہدایات (برائے طلباء) 49 جلد سوم اپنی شہر کی گلیوں سے وہ انہی میں پھرنا چاہتا ہو گا.غرض جس کو جس چیز کی محبت ہوگی اس سے ملنے یا اس کو دیکھنے کی خوشی کی مختلف کیفیات ان بچوں کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہیں اور یہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ اس میں عاقل اور بالغ انسان بھی اپنے فرائض کو بھول جاتا ہے.عام طور پر دوہی موقع ایسے ہوتے ہیں جب کہ انسان فرائض کو فراموش کر دیتا ہے.ایک موقع تو خوشی کا ہوتا ہے اور دوسرار نج کا.ان کے زیر اثر اپنے فرائض سے غافل ہو جاتا ہے.پس ضروری ہے کہ ایسے وقت میں نصائح کی جائیں جو بچوں کے کام آئیں.مگر نصیحتیں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک نصیحت وہ ہوتی ہے جو ایک دن کے لئے ہوتی ہے.ایک وہ جو دو دن کے لئے.ایک وہ جو ہفتہ کے لئے.پھر ایک وہ نصیحت ہوتی ہے جو مہینہ بھر کے لئے ہوتی ہے.ایک چھ مہینے کے لئے.ایک سال کے لئے.ایک دو سال کے لئے کام آتی ہے.آج جس تقریب کے لئے یہ جلسہ ہے وہ دو مہینہ کی رخصت پر لڑکوں کے جانے کی تقریب ریب ہے.موقع کے لحاظ سے تو ایسی نصیحت ہونی چاہئے جو دو مہینہ تک بچوں کو کام آئے.لیکن اگر دو مہینہ کی رخصت کے خیال کو چھوڑ کر آج ایسی نصیحت کی جائے جو نہ صرف دو مہینہ تک کام آئے بلکہ عمر بھر کے لئے کام آئے اور نسلوں تک کام آئے کیونکہ ایسی چیز جو چند ساعت تک خوش کر سکے اس کی نسبت وہ زیادہ مفید ہوتی ہے اور اس کی زیادہ قدر و قیمت سمجھی جاتی ہے جو زیادہ دیر تک کام آسکے.اس لئے خواہ موقع کے مناسب نہ ہولیکن فوائد کے لحاظ سے ایسی ہی نصیحت کی جائے گی جو نہ صرف لڑکوں کو چھٹیوں میں کام آئے گی بلکہ جوانی اور بڑھاپے میں بھی کام آئے گی.بچپن کی عمر ایک ایسی عمر ہے کہ جس میں زیادہ خوشیاں منائی جاتی ہیں اور یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جس کے عام طور پر لوگ دوبارہ لوٹنے کے متعلق خواہش کیا کرتے ہیں.بڑے بڑے شاعر اور فلسفی اس قسم کی خواہش کیا کرتے ہیں کہ کاش! ہم کو بچپن کا زمانہ پھر مل جائے.پس تمہاری عمر ایسی عمر ہے جس کی خواہش بڑے بڑے لوگ کیا کرتے ہیں.کیونکہ یہ وہ زمانہ اور عمر ہوتی ہے کہ جس میں رنج اور غم نہیں ہوتے.تمہارے نزدیک تمام دنیا کی خوشی کے یہ معنی ہیں کہ

Page 55

زریں ہدایات (برائے طلباء) 50 جلد سوم تم خوش رہو.دنیا میں کتنے ہی مصائب اور آفات آئیں تمہیں ان کی کچھ پر واہ نہیں.ہاں اگر تمہاری خوشی منغض 1 ہو گی تو تمہارے لئے رینج کی بات ہوگی.لوگ اگر قطوں سے مرر ہے ہوں ، بیماریوں سے ہلاک ہو رہے ہوں تو تمہارے لئے کچھ فکر نہیں.جرمنی مٹتا ہے تو مٹ | جائے.قیصر معزول ہوتا ہے تو ہو جائے.روس کی حکومت زیروز بر ہوتی ہے تو ہو.زار روس ہلاک ہوتا ہے تو ہو جائے.انگلستان فتح پاتا ہے تو پا جائے.تمہیں رنج یا خوش کرنے والی صرف ایک ہی چیز ہے اور وہ تمہاری کھیل ، کھانے اور پہنے کی چیزیں یا دوستوں سے باتیں کرنا ہے.مگر جوں جوں تم بڑی عمر کے ہوتے جاتے ہو تمہاری خوشیاں کم اور افکار بڑھتے جاتے ہیں.بچوں کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ مثلاً ایک گھر میں ایک ہی کمانے والا ہے اور دس کھانے والے.اگر وہ شخص جو کماتا ہے بیمار ہو جائے اور اس کی ایسی حالت ہو کہ اس کے مرنے سے بچے یتیم اور عورت بیوہ ہونے والی ہو تو بھی چھوٹے بچوں کے لئے یہ حالت رنج اور غم کو بڑھانے والی اور فکر پیدا کرنے والی نہیں ہوتی.اور جس قدر کوئی چھوٹی عمر کا بچہ ہوتا ہے اسی قدر زیادہ اس ریج اور تکلیف کے احساس سے دور ہوتا ہے.حالانکہ سب سے زیادہ تکلیف اسی کو اٹھانی پڑے گی.کیونکہ جو بچے بڑے ہوتے ہیں وہ جلد آپ کمانے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن اس کو اس کا مطلق احساس نہیں.یہ اس وقت اس بات پر مصر ہے ماں مٹھائی لینی ہے.لوگ اس کو جنت کی زندگی کہتے ہیں مگر میں اس بات کا قائل نہیں کہ یہ جنت کی زندگی ہے.بہر حال میں اس کو بے فکری کی زندگی کہوں گا.کیونکہ جنت کی زندگی وہ زندگی ہوتی ہے جو حقیقی آرام کی زندگی ہو.اور یہ زندگی بے علمی کی زندگی ہوتی ہے.میں نے شاید پہلے بھی کسی وقت بتایا ہے کہ ایک گھر میں صرف ایک عورت اور اس کا چھوٹا بچہ رہتے تھے.ایک دن وہ عورت مرگئی.صبح کو پڑوسیوں نے جب دیکھا کہ بہت دن چڑھے تک اُس کا دروازہ اندر سے بند ہے تو انہوں نے اسے کھولا.اور دیکھا عورت مردہ پڑی ہے اور بچہ اس کے منہ پر طمانچہ مار رہا ہے اور ہنس ہنس کر کہہ رہا ہے ماں ! بولتی کیوں نہیں.وہ خیال کرتا تھا کہ ماں مجھ سے ناراض ہے اور دانستہ مجھ سے نہیں بولتی.اسے کیا معلوم کہ وہ بول ہی نہیں سکتی

Page 56

زریں ہدایات (برائے طلباء) 51 جلد سوم اور اس دنیا میں اس سے کبھی نہیں بولے گی.تو یہ زندگی بے فکری کی زندگی ہوتی ہے.اور یہ بے فکری بے علمی سے پیدا ہوتی ہے.تم جس عمر سے گزر رہے ہو وہ ایسی عمر ہے جس میں اپنی ضروریات کا پورا احساس اور علم نہیں ہوتا اور یہ حالت ایک اندھے سے مشابہ ہوتی ہے.دیکھو ایک اندھا رنگ کو نہیں سمجھتا.بچپن میں پڑھا تھا کہ ایک اندھا آنکھوں والوں سے پوچھتا ہے کہ تم جو کہتے ہو کہ فلاں چیز سرخ ہے، فلاں سفید یا سرخ یہ غلط ہے.مجھے تم بتاؤ تو سہی سرخ و سفید کیا چیز ہے.ہاں گرمی سردی تو البتہ ہوتی ہے.اسی گرمی سردی کا نام سرخ سفید رکھ دیا گیا ہے.یہ کہنے میں وہ معذور تھا کیونکہ وہ رنگ کو دیکھ ہی نہیں سکتا تھا.غرض یہ زندگی ایک بے فکری کی زندگی ہوتی ہے اور اس کو ہم پل صراط کہہ سکتے ہیں.اسلامی روایات میں آتا ہے کہ دوزخ پر ایک راستہ ہو گا اور وہ اتنا باریک ہو گا کہ تلوار کی دھار سے زیادہ باریک ہوگا.جو لوگ بد ہوں گے وہ اس پر سے کٹ کر دوزخ میں گر پڑیں گے اور جو نیک ہوں گے وہ اڑتے ہوئے اس پر سے گزر جائیں گے 2 یہ ایک الہامی استعارہ ہے.چونکہ اسی عمر میں نیکی یا بدی کی بنیاد پڑتی ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم تمہیں سمجھا ئیں تاکہ تم میں سے کوئی آئندہ یہ نہ کہے کہ مجھے کسی نے بتایا نہ تھا.پس ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لئے اور اس لئے بھی کہ شاید سنا ہوا کبھی تمہارے کام آئے سناتے ہیں.کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ انسان کو عین ضرورت کے وقت کوئی بھولی ہوئی چیز یاد آجاتی ہے اور اس سے وہ فائدہ اٹھا لیتا ہے.مثلاً ایک شخص اپنی جیب میں روپیہ رکھ کر بھول جائے اور سمجھے کہ میرے پاس کچھ نہیں ایسی حالت میں اسے کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے اور وہ دکاندار کے پاس جاتا ہے کہ مجھے کچھ دے لیکن وہ قیمت طلب کرتا ہے.اس وقت اگر جیب میں ہاتھ ڈالنے سے اس کے ہاتھ میں بھولا ہوا روپیہ آجائے تو اُسے کس قدر خوشی ہوگی اور وہ روپیہ اس کے کیسا کام آئے گا.پس ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے لئے اور نیز اس لئے کہ اگر تم آج سن کر بھول بھی جاؤ تو شاید پھر کبھی تمہارے کام آئے تمہیں نصیحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں.بچپن کا زمانہ ایسا زمانہ ہوتا ہے کہ اس میں یا تو انسان اعلیٰ درجہ کا نیک منتقی ، با اخلاق اور

Page 57

زریں ہدایات (برائے طلباء) 52 چلید سوم نفع رساں انسان بن گیا یا خراب ہو گیا.کیونکہ اس زمانہ میں اخلاق کی بنیاد پڑتی ہے.اگر اس وقت نگرانی کی جائے تو اچھا ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.مگر اصلاح و تربیت کی باتوں سے بعض اوقات استاد بھی واقف نہیں ہوتے.پس میں تمہیں بتا تا ہوں کہ کس طرح بدیاں یا خوبیاں بچپن میں ہی انسان میں آجاتی ہیں.دیکھو بخیل کتنا برا ہوتا ہے.سب اس سے نفرت کرتے ہیں.اگر کسی کو بخیل کہہ دیا جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ مجھے گالی دی گئی ہے.کہا کرتے ہیں کنجوس لکھی چوس".اس کے معنے ہیں یہ شخص ایسا بخیل ہے کہ اگر مکھی اس کی کسی کھانے کی چیز میں گر پڑے تو اس کو بھی چوس لیتا ہے.لیکن میں تمہیں بتاؤں کہ بخیل کیسے بنتا ہے؟ اور تم حیران ہو گے کہ تمہاری ہی عمر میں انسان کنجوس بنتا ہے.اور جس وجہ سے بچے کنجوس بنتے ہیں اس کو نہ صرف تم نہیں جانتے بلکہ عام طور پر بچوں کے استاد اور ماں باپ بھی اس سے ناواقف ہوتے ہیں.وہ میں تمہیں بتا تا ہوں تا کہ تم احتیاط کرو.یاد رکھو کنجوسی دو قسم کی ہوتی ہے (1) کنجوسی وہ جو عادتا ہوتی ہے (2) وہ جو طبعا ہوتی ہے.جو کنجوسی عادتاً ہوتی ہے اس کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی فقیر آتا ہے تو ماں باپ کہتے ہیں خود کماوے کھاوے اس کو دینے کی کوئی ضرورت نہیں.یہ سن کر بچوں کو کنجوسی اور بخل کی عادت ہو جاتی ہے اور گویا خود سکھائی جاتی ہے.دوسری قسم بخل کی طبعی بخل ہے.اس کی وجہ سن کر تم حیران ہو گے کہ جن بچوں کو بچپن میں پاخانہ روکنے کی عادت ہوتی ہے ان میں بجل پیدا ہو جاتا ہے.یہ بات کہ اس سے کس طرح بخل پیدا ہوتا ہے اور یہ کہ کس طرح اس کا دماغ پر اثر پڑتا ہے باریک باتیں ہیں.تم ان کو سمجھ نہ سکو گے اس لئے ان کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں.ہاں اتنا بتا دیتا ہوں کہ جو لوگ پیٹ بھر کر کھاتے ہیں اور کچھ دیر پاخانہ کو روکتے ہیں یا مثلاً کھیلتے وقت بچے پاخانے کو روکتے ہیں جب وہ پھر پاخانہ جاتے ہیں تو ان کو پاخانے کے بعد ایک راحت معلوم ہوتی ہے.چنانچہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے پوچھا کہ سب سے آرام دہ کون سی چیز ہے؟ ایک طبیب نے جواب دیا ! حضور پاخانہ کا آجانا.بادشاہ ناراض ہوا اور اُس کو نکلوادیا.اس نے باورچی سے مل کر کھانے میں ایک قابض دوا ڈلوانی شروع کی جس سے بادشاہ

Page 58

زریں ہدایات (برائے طلباء) 53 جلد سوم کو قبض ہو گئی.علاج کیا گیا مگر فائدہ نہ ہوا.چونکہ وہ طبیب مزاج شناس تھا اس لئے اس کو بلوایا گیا.اس نے دوادی تو قبض دور ہوگئی.بادشاہ نے کہا کیسا آرام آگیا ہے.طبیب نے کہا کہ بادشاہ سلامت! یہی تو میں نے کہا تھا.تو وہ چھوٹے بچے جن کو پاخانہ روکنے کی عادت ہوتی ہے ان کو یہ عادت اسی طرح پڑتی ہے کہ جب ان کو آرام معلوم ہوتا ہے تو وہ پھر اس آرام کو حاصل کرنے کے لئے پاخانہ کو ہمیشہ روکتے ہیں.مگر جب بڑے ہو جاتے ہیں تو اس عادت کو لغو سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں.مگر اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ پاخانہ روکنے کی عادت بڑی عمر میں مال روکنے کا عادی بنا دیتی ہے اور وہ بخیل ہو جاتے ہیں اور اس بری عادت کے باعث ان کو ہمیشہ ذلیل ہونا پڑتا ہے.دیکھو یہ کتنی چھوٹی بات ہے مگر اس کا کتنا بڑا نتیجہ کھاتا ہے.یہ بات میں نے تم کو اس لئے سنا دی ہے کہ تم کبھی اس کے روکنے کی کوشش نہ کرو.کیونکہ اس کا اثر علاوہ دیگر خرابیوں کے تمہارے اخلاق پر بہت برا پڑے گا.اب میں تم کو بتا تا ہوں کہ چوری کی عادت کس طرح پڑتی ہے.وہ بھی اسی عمر میں پڑتی ہے.اور اس طرح پڑتی ہے کہ مثلاً آموں کا موسم ہے بچہ بیمار ہے آم سامنے ہیں وہ بار بار ماں سے کہتا ہے کہ آم دو مگر وہ کہتی ہے آم تیرے لیے اچھے نہیں.لیکن جب ماں پرے ہوتی ہے تو بچہ اٹھ کر آم کھا لیتا ہے.اگر چہ یہ آم کسی غیر کے نہ تھے مگر چونکہ ماں کی غیر موجودگی میں خفیہ طور پر اس نے کھائے اس لئے اس کے دل میں یہ بات پیدا ہوگئی کہ جب ضرورت پڑے تو وہ کسی کی چیز کو اس کی عدم موجودگی میں استعمال کر سکتا ہے.اب آہستہ آہستہ اس کے دل میں پوشیدہ طور پر چیزیں استعمال کرنے کی عادت پڑنی شروع ہو جاتی ہے اور ہوتے ہوتے یہ حالت ہو جاتی ہے کہ جب اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو بجائے محنت کر کے جائز طور پر حاصل کرنے کے کسی کی چیز خفیہ طور پر حاصل کر کے استعمال کرنے کے لئے چوری کرتا ہے اور اس سے بڑھتے بڑھتے بڑا چور ہوتا ہے.دیکھو کتنی چھوٹی سی بات کا کتنا بڑا اثر پڑا.پس بچوں کو چوری کی بری عادت سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کبھی ان کی آنکھوں کے آگے اور ایسی جگہ جہاں تک بچوں کی

Page 59

زریں ہدایات (برائے طلباء) 54 جلد سوم دسترس ہو سکے کھانے پینے کی کوئی چیز نہ رکھی جائے جب اس طرح کیا جائے گا تو ان میں چوری | کی عادت نہیں پڑے گی.کم ہمتی اور مایوسی کی عادت بھی اسی عمر میں پڑتی ہے.بعض ماں باپ جو اپنے بچوں کی ہر ایک بات مانتے ہیں اور اگر نہ مانیں تو بچے فورا رو پڑتے ہیں اور ماں باپ ان کو چپ کرانے کے لئے اُن کے سب مطالبات پورے کر دیتے ہیں ایسے بچے آئندہ زندگی میں مشکلات کا مقابلہ کر سکنے کے اہل نہیں رہتے.جو جرنیل میدان سے بھاگتا ہے تو تم سمجھ لو کہ بچپن میں وہ بسکٹ یا کوئی اور چیز مانگتا تھا جو اسے فوراً دے دی جاتی تھی.اب جب دشمن کے مقابلہ میں فتح حاصل کرنے کے لئے آیا جو کہ مشکل سے حاصل ہوتی ہے تو چونکہ یہ مشکل پسند نہ تھا اس لئے اس بچپن کی عادت کے باعث میدان سے بھاگ گیا.غرض جتنی اچھی یا بری عادات ہیں وہ سب اس عمر میں پڑتی ہیں.ان کے لئے علیحدہ سہ نہیں ہوتے نہ یہ بڑی عمر میں آتی ہیں بلکہ انہی مدرسوں اور اسی عمر میں آتی ہیں اور یہ باتیں کھیلنے کودنے میں سیکھی جاتی ہیں.اس عمر میں عادات سیکھنے کے لئے مصلے بچھا کر بیٹھنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ کھیلنے کودنے کے میدانوں میں سیکھی جاتی ہیں.تم دیکھو کہ جو بچہ دوسرے کو شولڈر مارتا ہے وہ بڑی عمر میں سخت مزاج نکلے گا.لیکن جو کھیلنے میں قواعد کی پابندی کرتا اور نا جائز طور پر فتح نہیں کرنا چاہتا وہ فرض شناس ہوگا اسی طرح جو سٹک (Stick) دوسرے کو یونہی مارتا ہے اس کے متعلق سمجھو کہ ظالم ہوگا.اور جو برداشت کرتا ہے اور موقع دیکھ کر جدھر بال پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے ادھر پہنچاتا ہے وہ بڑا ہو کر لیڈر بنے گا اور مشکلات میں قوم کا ساتھ دے گا.غرض ان کھیلوں میں ہی اخلاق کی بنیاد رکھی جاتی ہے اور اسی عمر میں بچے دوزخ کے لئے تیار ہوتے ہیں یا بہشت کے لئے.پس اس عمر میں سوائے فرائض کے تمہارے لئے زیادہ نمازیں پڑھنا ضروری نہیں.بلکہ جو اس عمر میں کھیلتا نہیں اور زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ڈر ہے کہ بڑا ہو کر نمازوں کو ترک ہی نہ کر دے.کیونکہ عام طور پر ایسا ہی دیکھا گیا ہے.جو بچے اس وقت کھیلوں سے بچتے ہیں وہ اپنے اندر غفلت اور سستی کا بیج بوتے ہیں.تم کو چاہئے کہ اس عمر میں نمازیں جو

Page 60

زریں ہدایات (برائے طلباء) 55 جلد سوم فرض ہیں پڑھو اور خوب کھیلو.اور روزے جن پر فرض ہیں وہ رکھیں باقی چھوٹی عمر کے لڑکے نہ رکھیں کیونکہ تمہارے لئے یہ دن طاقت حاصل کرنے کے ہیں.پس خوب یادرکھو کہ ہر قسم کے اخلاق کی بنیاد اسی عمر میں پڑتی ہے اور اس وقت سے پڑتی ہے جبکہ ابھی بچے ننگے پھرا کرتے ہیں.یہ مت خیال کرو کہ بڑے ہو کر اعلیٰ اخلاق پیدا کرو گے.بلکہ وہ اسی عمر میں پیدا ہوں گے.تم نے ریڈروں میں پڑھا ہوگا کہ نپولین یا نیلسن جو کہ یورپ کے بڑے لوگ ہیں وہ بڑے ہو کر نپولین اور نیلسن نہیں بنے تھے بلکہ وہ اُسی وقت نپولین اور نیلسن بنے تھے جبکہ ابھی وہ بچے ہی تھے.اگر تم اس وقت کو کھو دو گے تو پھر یہ تمہارے ہاتھ نہیں آئے گا.اس وقت ملک کی جو حالت ہے وہ محتاج بیان نہیں.ہندو، مسلمان ، سکھ عام طور پر یہ کہہ رہے ہیں کہ پہلے ہم ہندوستانی ہیں پھر ہندو یا مسلمان یا سکھ.لیکن یہ غلط ہے اور اس لئے ہے کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہندوستان پر حکومت کریں اور انگریزوں کو نکال دیں حالانکہ یہ طریق ٹھیک نہیں.فرض کر دا اگر انگریز چلے جائیں تو کیا ہندوستانی حکومت کر سکیں گے؟ ہر گز نہیں کیونکہ ابھی ان کی اخلاقی حالت اچھی نہیں.جب ہندوستان پر انگریزوں نے قبضہ کیا ہے تو ان کو ایک قطرہ خون کا نہیں گرانا پڑا.کیونکہ ان میں حکومت کرنے کے اخلاق تھے اور ہم میں نہ تھے.اب فرض کرو کہ انگریز چلے بھی جائیں تو ان کی بجائے کوئی اور آجائے گا کیونکہ ابھی ہندوستانیوں میں اخلاق پیدا نہیں ہوئے انگریزوں اور دیسیوں میں یہ فرق ہے کہ جو کام ایک انگریز کے سپرد ہو گا وہ اسے خواہ کسی وقت کرنا پڑے کرے گا.وہ تمام دن لگا رہے گا، راتوں کو جاگے گا، اس وقت تک آرام نہیں لے گا جب تک اس کام کو کر نہ لے گا.مگر ہندوستانیوں میں عام طور پر اپنے فرائض کو ایسی عمدگی سے بجالانے کی عادت نہیں.جنگ کے ایام میں ضلعوں کے افسر تک ساری ساری رات جاگتے تھے.ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر نے اپنے بیرے کو کہہ دیا تھا کہ رات کو جس وقت تار آئے مجھے کو فوراً اطلاع دو.لوگوں نے بتایا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ رات کو سوتا ہی نہیں.چنانچہ

Page 61

زریں ہدایات (برائے طلباء) 56 جلد سوم ایک دفعہ رات کو تار آیا.پہرہ دار نے صاحب کو اطلاع دی.اس پر وہ خود اٹھ کر آیا اور کہا کہ کوئی تار آیا ہے؟ بیرے نے کہا آیا تو ہے مگر میں نے یہ سمجھ کر کہ آپ آرام کر رہے ہوں گے اطلاع نہ دی.اس نے کہا تم فوراً مجھ کو بتا دیا کرو لیکن ہندوستانیوں کی جب سلطنت گئی تو وہ عیش و عشرت میں مصروف تھے.حکومت قسطنطنیہ کے جو حصے بخرے ہوئے اس کی وجہ بھی انہی اخلاق کی کمی ہے.اگر ترکوں کی اخلاقی حالت اچھی ہوتی تو آج ان مسلمانوں کو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا.جب ترکوں کے اخلاق اچھے تھے وہ فاتح تھے اور دنیا ان سے ڈرتی تھی لیکن اب جبکہ ان میں اعلیٰ اخلاق نہ رہے تو حکومت بھی نہ رہی.کیونکہ جب تک حکومت کرنے کے اخلاق نہ ہوں حکومت نہیں رہ سکتی.ٹرانسوال والوں کو انگریزوں نے شکست دی مگر وہ اس خوبی سے لڑے اور ایسے لڑے کہ باوجود مفتوح ہونے کے فتح انہی کی رہی.انگریزوں نے معاہدہ میں لکھا کہ ہم تین سال میں ہوم رول دے دیں گے چنانچہ تیسرے سال انہوں نے مکمل ہوم رول دے دیا.اب تم باہر جاؤ گے تو تمہارے کانوں میں خلافت خلافت کی بھی آوازیں پہنچیں گی.تمہارے لئے بہت آسان ہے کہ تمہارا خلیفہ ہے اور اس کی خلافت روحانی ہے اس کو کوئی کیا چھین سکتا ہے.باقی رہی ترکی حکومت سو اس کو اسی چیز کے نہ رہنے نے کھویا جس کے ہونے سے انہوں نے یورپ میں فتوحات حاصل کی تھیں.اب ان کے کمانڈروں اور وزیروں کی ایسی حالت ہو گئی ہے کہ حریف کے افسروں سے مل جاتے ہیں اور اپنی ذات کے لئے رشوت لے کر دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دیتے اور ملک کو تباہ کر دیتے ہیں.روس اور روم کی وہ پہلی جنگ جس میں ترکوں کو غالباً اولاً شکست ہوئی مگر اُس وقت جبکہ ترکی فوجوں نے زار کی فوجوں کو بالکل بے دم کر دیا تھاتی کہ زار کواپنی افواج دیکھنے کے لئے خود آنا پڑا ترک جرنیل نے ہیں لاکھ پونڈ روسیوں سے رشوت لے کر اپنی فتح کو شکست سے بدل دیا.زار اور اس کا باڈی گارڈ جب ترکوں کی زد میں آیا تو توپ خانہ کے افسر نے کہا کہ اس وقت مجھے گولہ باری کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ میں سب کو فنا کر دوں لیکن جرنیل نے کہا ابھی ٹھہرو.پھر کئی بار گولہ باری کرنے کی اجازت طلب کی گئی لیکن وہ یہی کہتا رہا کہ ابھی ٹھہر دشتی کہ زار اور اس کے ساتھی زد سے گزر گئے

Page 62

زریں ہدایات (برائے طلباء) 57 جلد سوم اُس وقت اس نے کہا ہاں اب گولہ باری کرو.افسر توپ خانہ نے کہا اب میں کیا کروں.اسی طرح جب بلقان میں جنگ ہوئی تو ترکی محکمہ جنگ کی طرف سے ترکی افواج کے لئے جو سامانِ حرب بھیجا گیا اس کے جب صندوق کھولے گئے تو معلوم ہوا کہ اصلی کارتوسوں کی بجائے لکڑی کے کارتوس نما خول ان میں بھرے تھے اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ افسر خود روپیہ کھا گئے.پس جس ملک میں ایسے غدار حکمران ہوں وہ کس طرح تباہی سے بچ سکتا ہے اور جس قوم کا یہ کیریکٹر ہو کہ جوظلم کرتی ہو وہ دنیا میں کیسے حکومت کر سکتی ہے.اخلاص بڑی اعلیٰ درجہ کی چیز ہے مگر محض اخلاص سے اخلاق پیدا نہیں ہوتے.بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں مگر ان میں بعض اخلاقی کمزوریاں ہوتی ہیں.اخلاق سیکھنے اور کوشش کرنے سے ہی حاصل ہوتے ہیں.اور جو لوگ اخلاق کو سیکھتے نہیں اگر ان سے اخلاق کے خلاف کوئی بات سرزد ہو تو ان کے اخلاص پر حرف نہیں آسکتا کیونکہ وہ مجبور ہیں.پس اگر مشق نہ کرائی جائے تو اس زمانہ میں عادات خواہشات پر غالب آجاتی ہیں.اور اگر ابتدا ہی سے اخلاق کی نگہداشت نہ کی جائے تو اخلاق درست نہیں ہو سکتے.اور اخلاق کے بگڑنے سے قو میں بگڑتی اور اخلاق کے درست ہونے سے قو میں سنورتی ہیں.تمہارے سامنے سب سے بڑا اور پہلا کام یہ ہے کہ تم ابھی سے اپنی اخلاقی حالت کی فکر کرو اور ہر بات میں اخلاق سیکھنے کی کوشش کرو.اگر اس عمر میں | بچوں کے اخلاق کی درستی کی طرف توجہ نہ کی گئی اور ان میں برے اخلاق کی بنیاد پڑ گئی تو یہی بچے مذہب اور قوم کو بیچنے والے ہو جائیں گے.اس لئے بچوں میں ابھی سے اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ان کی واجبی عزت کرنی چاہئے.کیونکہ اس زمانہ میں جس قسم کی باتیں ان میں راسخ ہوں گی وہی بڑے ہو کر ان سے ظہور میں آئیں گی.اسی زمانہ میں ان کو حکومت کرنی آئے گی.اس میں ان کو دوسروں سے خوش معاملگی اور ایثار کرنا آئے گا.اور یہ معمولی معمولی باتوں سے ہوسکتا ہے.مثلاً اسی جلسہ تقریر میں ایک شخص ضعیف ہو، اونچا سنتا ہو، وہ اگر تمہارے پاس آئے تو تم اس کے لئے جگہ چھوڑ دو.کمزور کی مدد کرو، دوسروں کے فوائد کو مد نظر رکھو.جو لوگ دوسروں کے فوائد کو مد نظر نہیں رکھتے انہی کے لئے تباہیاں آتی ہیں.لیکن وہ جو

Page 63

زریں ہدایات (برائے طلباء) 58 جلد سوم دوسروں کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہیں وہ دراصل اپنا نقصان نہیں کرتے بلکہ ان کا بھی فائدہ ہوتا ہے.دوسرے جھوٹ کا مادہ تباہ کن ہوتا ہے اور اسی وقت اس کی بنیاد پڑتی ہے.مثلا تم کسی موقع پرستی کرتے ہو جس پر سپرنٹنڈنٹ تمہیں سزا دینے لگتا ہے.مگر تم اس غلطی سے انکار کرتے ہو حالانکہ تمہاری غلطی ہوتی ہے.اُس وقت تمہیں جھوٹ بول کر سزا سے بچنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ برداشت کرنا چاہئے لیکن اگر نہیں کرو گے اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ جب کبھی تمہارے آگے مصیبت آئے گی تم گھبرا جاؤ گے اور مردانگی سے اس کو برداشت نہ کر سکو گے اور جھوٹ بول کر اس کو ٹالنا چاہو گے.پس اگر تمہاری غلطی ہو تو قبول کرنا چاہئے.اسی طرح ہر معاملہ میں سچ بولنا چاہئے.عام طور پر یورپ والے ایشیائیوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ہم ان سے کیا معاملہ کریں.یہ لوگ جھوٹ کے عادی ہوتے ہیں.ہندوستانیوں پر بھی یہ عیب لگایا جاتا ہے.ہندوستانی سچے ہوتے ہیں.مگر ذاتی معاملات میں ان سے یہ کمزوری ہو جاتی ہے.اس اعتراض کا کہ ہندوستانی جھوٹ بولتے ہیں لطیفہ کے طور پر ہندوستانیوں نے یہ جواب دیا ہے کہ جھوٹے ہیں ہم تو آپ ہیں جھوٹوں کے بادشاہ یورپ کے لوگ معاملات میں جھوٹ نہیں بولتے اس لئے عدالتوں کو اپنا کام کرنے میں نہایت آسانی ہوتی ہے.وہاں جو کچھ لوگ دیکھتے ہیں اس کی گواہی دے دیتے ہیں.مگر برخلاف اس کے ہندوستان کی عدالتوں میں یہ ہوتا ہے کہ دوست کی خاطر صداقت کو چھپاتے ہیں.تیسرے فرض منصبی کی ادائیگی کا خیال رکھو.یہ بات بھی بچپن میں ہی سیکھی جاسکتی ہے.کھیل میں تمہیں جہاں لگایا جائے وہاں کے فرائض خوب ادا کرو.اور جب تمہیں ان کے ادا کرنے کی عادت ہوگی تو بڑے ہو کر جو کام تمہارے سپرد کئے جائیں گے تم ان کے کرنے میں کاہل اور نافرض شناس نہیں ہو گے.یورپ کے لوگوں کی یہ کیفیت ہے کہ جہاں ان کو لگا دو

Page 64

زریں ہدایات (برائے طلباء) 59 جلد سوم جان جائے گی مگر فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں ہوگی.ہندوستانی فوجیں جو انگریزوں کے زیر تربیت رہتی ہیں ان کی بھی یہی حالت ہوتی ہے.کہتے ہیں ایک خاص قوم کی بھرتی کی گئی اور اس کو ایک معرکہ کے مقام پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا جانے لگا تو انہوں نے کہا ہمارے ساتھ صلى الله ایک محافظ فوجی دستہ بھی ہونا چاہئے.سرکار نے کہا کہ تمہیں تنخواہ کس کام کی دی جاتی ہے.یہ ان کی تربیت کا نقص تھا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ اپنے فرائض | کی ادائیگی میں جان دے دیتے تھے اور ان کو جس کام پر لگایا جاتا تھا پورا کرتے تھے.مگر آجکل کہتے ہیں جب تک افسر نہ ہوں فرائض ادا نہیں کئے جاسکتے اور ماتحتی کو ذلت سمجھتے ہیں.حالانکہ جو ماتحتی میں کام نہیں کر سکتا وہ افسر ہو کر بھی کام کا اہل نہیں ہوتا.چہارم ایفائے عہد ہے.یہ عادت بھی اسی عمر میں پڑتی ہے.اگر تمہیں تمہارا استاد یا تمہارا ہم جماعت کہتا ہے کہ فلاں وقت مجھ سے پڑھو یا آکر میرے ساتھ کھیلو.اور تم وعدہ کرتے ہو تو خواہ کچھ ہو اس کو پورا کرو.یہاں یہ مراد نہیں کہ تمہارا ہم جماعت یا کوئی اور لڑکا تمہیں کسی شرارت کے کام کے لئے کہے مثلاً یہ کہ فلاں کو ماریں تو یہ کوئی عہد نہیں.لیکن اگر تم اس وقت عہد کے نباہنے کی کوشش نہیں کرو گے تو تمہیں عادت پڑ جائے گی کہ معمولی معمولی باتوں پر عہد کو توڑ دیا.کرو گے.پس جو عہد کرو اس کو جان کے ساتھ نبھاؤ اور اس کی ابھی سے عادت ڈالو.پنجم اطاعت ہے.یہ بھی ترقی کرنے والی قوم میں ہونی چاہیے.اور یہ بھی بچپن میں ہی پیدا ہوا کرتی ہے.ماں باپ کی اطاعت ، استاد کی اطاعت ، حاکم کی اطاعت ، بزرگوں کی اطاعت.اگر تم میں اطاعت کا مادہ ہوگا تو تم فاتح ہوسکتے ہو.ورنہ اطاعت کے نہ ہونے سے بہت سے ترقیوں کے مواقع تم سے کھوئے جائیں گے.پس اطاعت تکلیف اٹھا کر بھی کرو.یہ وہ اخلاق ہیں جنہیں سیکھ کر دنیا نے ترقی کی.اور جس قوم میں ان اخلاق کی کمی ہو جائے اس کے متعلق سمجھو کہ اس کی بردباری کے دن آگئے.آجکل کہتے ہیں کہ سٹرائیکوں میں ترقی ہے اور یورپ والے سٹرائکیں کرتے ہیں.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یورپ میں سٹرائیکوں کا سلسلہ کب چلا.اُسی وقت سے جب سے کہ یورپ خود تباہی اور بربادی کی طرف جارہا ہے.

Page 65

زریں ہدایات (برائے طلباء) 60 جلد سوم اہل یورپ کی ہزاروں خوبیاں چھوڑ کر ان کی خراب عادتوں کی نقل کرنا بہت ہی بڑی غلطی ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک بوڑھا جب گرتا ہے تو ایک نوجوان بھی گرنے لگے.اس کو کہا جائے کہ بچو وہ کہے کہ جب بوڑھا تجربہ کار گر گیا ہے تو میں کیوں نہ گروں.پس نادان ہیں وہ جو سٹرائکوں کو ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.کیونکہ یورپ میں سٹرائکیں اُس وقت شروع ہوئی ہیں جب یورپ کا قدم انحطاط و تنزل کی طرف اٹھنے لگا ہے.یورپ نے جن باتوں سے ترقی کی وہ یہ تھیں کہ ان میں ایثار تھا، ہمدردی تھی ، اطاعت تھی.اب وہ جو سٹرائکیں کرتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ پہاڑ پر سے نیچے گرنے لگے.لیکن اگر ہندوستانی بھی سٹرائکیں کرتے ہیں تو ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی گڑھے میں پڑا ہوا اور نیچے کی طرف جانے لگے.یہ تو میں نے وہ نصائح کی ہیں جو ہمارے سکول کے ہندو سکھ غیر احمدی بچوں کے لئے بھی مفید ہوسکتی ہیں.اب میں یہ بتانے لگا ہوں کہ ہمارے احمدی لڑکوں کو کیا کرنا چاہئے.ان کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے زندہ مذہب دیا ہے اور ان کا خدا ہمیشہ اپنے پاک اور پیارے بندوں سے بولنے والا خدا ہے.پس وہ خدا جو ایسا زندہ خدا ہے ہمیں اس کے بندے ہو کر زندہ ہونا چاہئے.ہم میں ایسی گرمی ہونی چاہئے کہ جس سے ہم دوسرے سرد لوگوں میں بھی گرمی پیدا کر سکیں.ہم نے بچپن میں ہی خدمت دین شروع کی.اور یہ اللہ کا فضل ہے کہ میری عمر سترہ برس کی تھی جب میں نے رسالہ تفخیذ نکالا ہے.اُس وقت مراد آباد کے ایک پرانے اور مشہور اخبار نے ریویو لکھا تھا کہ مذہبی رسالوں میں یہ رسالہ دوسرے نمبر پر ہے اور اول نمبر پر ہمارے ریویو کو مانا تھا.پس تم زندہ خدا سے تعلق پیدا کرو اور ایسی حالت پیدا کرو کہ اگر تمہیں خدا کے لئے جان بھی دینا پڑے تو دے دو.ماں باپ چھوڑنے پڑیں تو چھوڑ دو.غرض کوئی بڑی سے بڑی چیز تمہارے لئے خدا کے مقابلہ میں روک نہیں ہونی چاہئے.اگر اپنے آپ کو خدا ہی کے لئے کر دو گے تو خدا ہر میدان میں تمہارے ساتھ ہوگا.میں نے تمہیں ایسی نصائح کی ہیں جو اگر چہ تمہارے اس وقت زیادہ کام نہ آئیں لیکن ایک وقت تمہیں یہ فائدہ دیں گی اگر تم ان پر عمل کرو گے.اگر چہ آج تم کمزور ہو مگر تم

Page 66

زریں ہدایات (برائے طلباء) 61 جلد سوم طاقتور ہو گے.پس تم آج ہی سے فاتح بننا، حاکم بننا اور خدا کے اطاعت گزار اور قوم کے خدمت گزار اور ایثار کرنے والے اور فرائض شناس اور عہد کو پورا کرنے والے اور سچے بننے کی کوشش کرو اور اعلیٰ اخلاق سیکھو.جب تک یہ اخلاق نہیں ہوں گے کچھ نہیں ہوگا.آج لوگ جہاد کرنا چاہتے ہیں مگر جب ان کے اعلیٰ اخلاق ہی نہیں وہ کیا کریں گے.مشہور ہے کہ چوہوں نے مشورہ کیا کہ بلی ہمیں بہت تکلیف دیتی ہے اس کے ظلموں کا سد باب ہونا چاہئے.اس کے لئے ان کی ایک کمیٹی ہوئی.کسی نے کہا میں اس کے کان پکڑ لوں گا.کسی نے کہا میں ٹانگ پکڑلوں گا.کسی نے کہا میں دم پکڑ لوں گا.اسی طرح بہت سوں نے اپنی اپنی خدمات پیش کیں اور بلی کو مارنے کے لئے تیار ہو گئے.لیکن بعد میں ایک بوڑھے چوہے نے کہا کہ یہ تو سب کچھ ہو گا مگر اس کی میاؤں کو کون روکے گا.یہ سن کر سب ٹھنڈے ہو گئے.تو جب تک کسی قوم کی اخلاقی حالت ہی اچھی نہ ہو اُس وقت تک وہ کسی کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کیونکہ جن باتوں کی ضرورت ہوتی ہے ان کا اس قوم میں فقدان ہوتا ہے.پس چاہئے کہ تم ابھی سے غریبوں کی مدد لنگڑوں لولوں کی خدمت کرو.مثلاً اس طرح کہ وہ راستہ میں ہوں تو تم ان کو اپنے ساتھ لے لو.اور ہمسائیوں کی مدد اور کمزوروں پر رحم کرو.اس سے تمہاری اخلاقی بنیاد مضبوط اور درست ہوگی.او.اور استادوں کے لئے یہ نصیحت ہے کہ وہ بھی ہر نصیحت کا نمونہ بن کے دکھائیں.جب اخلاص کے ساتھ تربیت مل جاتی ہے تو پھر کسی قوم کی ترقی کو خدا کے فضل سے کوئی چیز نہیں روک سکتی.“ (الفضل 5 تا 9 اگست 1920ء) :1 منعض : مکدر - گدلا.افسردہ - حزیں (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 1296 فیروز سنز لاہور مطبوعہ 2010ء) :2 مسلم كتاب الايمان باب معرفة طريق الرؤية صفحه 92، 93 حدیث نمبر 451 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 67

زریں ہدایات (برائے طلباء) 29 62 جلد سوم غیور اور با اخلاق بننے کا زمانہ بچپن ہے 7 اکتوبر 1920ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول و مدرسہ احمدیہ قادیان سے جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے:." میں نے سکول کی رخصتوں سے پہلے ایک لیکچر اس بات پر تم لوگوں کے سامنے دیا تو تھا کہ اخلاق کی درستی اور آئندہ کی کامیابی کے لئے تربیت کا موقع بچپن ہے.در حقیقت جس طرح آج تم لوگ آئندہ کی کامیابی کا پیچ اپنے اندر ہو سکتے ہو اس سے بہتر زمانہ تمہیں اور کوئی نہیں مل سکتا.گو ہمارے مقررہ پروگرام سے یہ مضمون جو میں آج بیان کرنے لگا ہوں علیحدہ ہے کیونکہ پروگرام میں اعتقادات کے مضامین بیان ہونے ہیں لیکن چونکہ سبق یاد نہیں ہوتا جب تک کہ دہرایا نہ جائے اس لئے آج پھر اخلاق ہی کے متعلق کچھ سناتا ہوں.دنیا میں کامیابی کے لئے جو چیزیں زیادہ ممد ہوا کرتی ہیں ان میں سے ایک غیرت بھی ہے.غیرت انسان سے ایسے کام کراتی ہے کہ اگر وہ نہ ہو تو ان کے خیال سے ہی انسان کانپ جائے چہ جائیکہ ایسے کام کی جرات کرے.تو غیرت انسان سے بڑے بڑے کام کر لیتی ہے اور اس کے ذریعہ بڑی بڑی کامیابیاں لوگوں نے حاصل کی ہیں.ایک بڑے عالم جو عربی زبان کے زیور گنے جاتے ہیں ان کی طالب علمی کا واقعہ تمہارے لئے مفید ہوگا اس لئے سناتا ہوں.ان کا والد بہت بڑا عالم تھا.لوگ اس عالم کا بیٹا ہونے کی وجہ سے ان کا بہت ادب کرتے تھے.اگر چہ وہ خود کچھ پڑھے لکھے نہ تھے

Page 68

جلد سوم زریں ہدایات (برائے طلباء) 63 بڑے باپ کا بیٹا ہونے کے باعث بڑے لوگوں کی مجلس میں ان کو جگہ مل جاتی تھی.ہمارے ملک میں اور تو نہیں ڈاکٹر اور طبیب کا بیٹا خواہ ڈاکٹر اور طبیب نہ ہو ڈاکٹر اور طبیب کہلاتا ہے.مولوی کا بیٹا مولوی کہلاتا ہے خواہ علوم عربی سے محض نا واقف.پس بعض پیشوں میں زبر دستی بغیر استحقاق کے بیٹے کو باپ کا نام دے دیا جاتا ہے.اسی طرح چونکہ وہ بڑے عالم کے بیٹے تھے اس لئے لوگ ان کے والد کے علم کے احترام کے باعث ان کو بھی ادب کی نگاہوں سے دیکھتے اور یہ علماء کی مجلس میں بیٹھتے تھے.ایک دفعہ جب کہ ان کے باپ کی وفات ہو گئی اور وہ حسب معمول ایک علمی مجلس میں چلے گئے تو وہ زمانہ چونکہ اسلام کی ترقی اور عروج کا زمانہ تھا اور اُس وقت مسلمانوں میں غفلت اور سستی نہ تھی بلکہ ان کا قدم ترقی کے میدان میں تیزی سے بڑھ رہا تھا اس لئے ان کی مجلس میں علوم وفنون کے مشغلہ ہوتے تھے.جیسا کہ آج یورپ میں مختلف مجالس علوم وفنون کی ہوتی ہیں اور مختلف مسائل پر ڈیبیٹیں (Debates) ( بخشیں ) ہوتی ہیں.آجکل کی طرح نہیں کہ ہمارے طلباء مدرسہ کی پڑھائی کو ہی پڑھائی سمجھتے ہیں اور مدرسہ سے باہر پڑھنا گناہ خیال کرتے ہیں.ترقی کرنے والے ممالک کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ مدارس کے علاوہ ان کی مجالس بھی علوم کی ترقی کا باعث ہوتی ہیں.غرض وہ علمی مجالس ہوتی تھیں.ان میں بادشاہ وقت بھی آجایا کرتے تھے اور ایسی مجالس مساجد میں ہوتی تھیں.چونکہ وہ گفتگوئیں مفید ہوتی تھیں اس لئے ان کو وہ مساجد کے آداب کے خلاف نہیں سمجھتے تھے.اسی قسم کی ایک مجلس بغداد کی ایک مسجد میں لگی ہوئی تھی.علماء بیٹھے ہوئے تھے کہ اثنائے گفتگو میں ایک شاعر کے کلام پر گفتگو چلی اور سوال ہوا کہ اس کے کلام کی جو اس قدر تعریف ہوتی ہے اور اس کو سب پر فضیلت دی جاتی ہے اس کا کیا باعث ہے.اس موقع پر اس غریب کی جو شامت آئی تو وہ بھی رائے دینے لگا.جس پر مجلس میں سے کسی شخص نے کہہ دیا کہ میاں تم کو بولنے کا کیا حق ہے.تم اس بات کو کیا جانو.پہلے سیکھو پھر بولنا.یہ الفاظ سن کر وہ چپ ہورہے کیونکہ واقعی ان کو بولنے کا کوئی حق نہ تھا اور فوراً مجلس سے اٹھے اور شہر سے نکل گئے.راستہ پر

Page 69

زریں ہدایات (برائے طلباء) 64 جلد سوم میں لوگوں سے پوچھا کہ آجکل عربی زبان کا سب سے بڑا عالم کون ہے.لوگوں نے ایک امام کا نام بتایا.اس کے پاس گئے اور کہا کہ میں عربی پڑھنا چاہتا ہوں.انہوں نے کہا کہ ب پڑھ کر کیا لو گے ہیں برس کی تمہاری عمر ہو گئی ہے اور عربی زبان کا صرف ابتدائی حصہ سیکھنے کے لئے ہیں سال درکار ہوں گے.انہوں نے کہا کہ خواہ کچھ ہو میں کامل زبان پڑھوں گا.انہوں نے یہ شوق دیکھ کر پڑھانا شروع کیا اور وہ پڑھنے لگے.چونکہ حافظہ اور ذہن اچھا تھا اور ادھر ان الفاظ نے اس قدر غیرت مند بنا دیا تھا اس لئے جلد جلد ترقی کرنے لگے اور ایک بڑا عرصہ استاد کے پاس رہے.آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ فارغ التحصیل ہوئے.اور اس شان کے عالم ہوئے کہ استاد بھی اگر چہ بڑا امام تھا مگر اس کا نام اسی شاگرد کے باعث مشہور ہوا.وہاں سے فارغ ہو کر بغداد کی اسی مسجد میں آئے جس میں انہیں کہا گیا تھا کہ تمہیں بولنے کا حق نہیں اور درس دیا اور کہا کہ کیا اب مجھ کو بولنے کا حق ہے یا نہیں؟ تو دیکھو ایک چھوٹا سا فقرہ تھا کہ تمہیں بولنے کا کیا حق ہے.مگر اس نے کتنا اثر غیرت کے حق میں کیا کہ ایک شخص کو گمنامی اور خجالت کے گڑھے سے نکال کر بڑا بلند اور رفیع شان انسان بنا دیا.اور آج ان کو آٹھ سو سال گزرتے ہیں مگر جب تک عربی ادب رہے گا ان کا ممنون رہے گا.انہوں نے اپنے زمانہ میں ایسی ایسی تحقیقات زبان کی کی ہے که عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت اقدس نے جو دعویٰ کیا ہے کہ عربی زبان الہامی زبان ہے اس کو ان کی کتابوں کے پڑھنے کے بعد علمی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے.غور کرنا چاہئے کہ اتنا بڑا کام کرنے والی کیا چیز تھی ؟ غیرت.یہ تو دور کی بات تھی.ایک اور واقعہ قریب کا سناتا ہوں.ہمارے آباء واجداد کو اس علاقہ میں ایک اقتدار اور حکومت حاصل تھی.ان کی حکومت قادیان کے ارد گرد دس پندرہ میں تتک پھیلی ہوئی تھی.ایک طرف دریائے بیاس اور دوسری طرف بٹالہ اور پھر ایک طرف کپورتھلہ تک ہمارے اجداد کی حکومت تھی.جب سکھوں نے زور پکڑا تو یہ ریاست جاتی رہی.سکھوں نے رات کو چھاپہ مارا اور ہمارے پردادا کو کپورتھلہ جانا پڑا.مہاراجہ کپورتھلہ نے

Page 70

زریں ہدایات (برائے طلباء) 65 جلد سوم چاہا کہ وہ ان کے پاس رہیں اور وہ ان کو کچھ علاقہ دے دیں.جیسا کہ پٹھان شہزادے جب آتے ہیں تو گورنمنٹ برطانیہ ان کو کچھ دے دلا کر رکھ لیتی ہے.لیکن ہمارے پر دادا نے کہا کہ ہم تو چند روز کے لئے آئے ہیں قادیان ہی جائیں گے.مگر اسی حالت میں ان کا انتقال ہو گیا.میرے دادا یعنی حضرت صاحب کے والد صاحب کی عمر اُس وقت چودہ پندرہ سال کی تھی انہوں نے کہا کہ میں اپنے والد کو قادیان میں ہی دفن کروں گا.ان کو ہر چند سمجھایا گیا مگر انہوں نے یہی جواب دیا کہ جب ہم نے قادیان ہی جانا ہے تو میں اپنے والد کو یہاں کیسے دفن کر دوں.قادیان میں ہی دفن کروں گا.چنانچہ وہ لاش لے آئے اور یہاں دفن کی.پھر اس شوق میں دہلی گئے کہ وہاں علم سیکھوں گا.چنانچہ وہاں علم حاصل کیا.اور جگہوں میں بھی تعلیم پائی.طب میں کمال حاصل کیا.خدا نے اس فن میں آپ کو خاص ملکہ دیا تھا.باہر ریاستوں میں ملازمتیں کیں اور جدی جائیداد کے حاصل کرنے کا سامان کیا.جب کوئی اور ذریعہ نہ ہوا تو آپ نے غیرت کے ماتحت بہت سا روپیہ جمع کیا کہ مقدمات کے ذریعہ اپنا علاقہ حاصل کرلوں گا.وہ زمانہ ایسا تھا کہ لوگوں کو زمین کی کچھ قدر نہ تھی.ہمارے ایک چچانے ایک پورا گاؤں پانسو روپیہ میں خریدا تھا.ہمارے دادا نے ستر ہزار روپیہ مقدموں میں خرچ کیا.لوگوں نے کہا کہ آپ قادیان کے علاقہ سے بہت زیادہ زمین خرید سکتے ہیں اس کا خیال چھوڑ دیں.انہوں نے کہا یہ نہیں ہوسکتا.قادیان میں زمین لوں گا خواہ ایک بالشت ہی ہو.غرض انہوں نے غیرت کی وجہ سے قادیان کو نہ چھوڑا.آخر ان کی غیرت ہی کے باعث رسول کریم ﷺ کی وہ پیشگوئی جو آپ نے آج سے تیرہ سو سال قبل فرمائی تھی کہ مہدی کدعہ میں ہوگا اس طرح پوری ہوئی کہ حضرت صاحب کے والد نے قادیان کو حاصل کیا اور قادیان میں مہدی نے ظہور کیا.پس غیرت بڑے کام کراتی ہے.اسی کے ماتحت تم کو بھی میں بتاتا ہوں دو ورثہ انسان کو ملا کرتے ہیں.ایک باپ کی طرف سے اور ایک قوم کی طرف سے.جن لوگوں کے ماں باپ کسی ایسے پیشہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کو لوگ وقعت سے نہیں دیکھتے اور اس

Page 71

زریں ہدایات (برائے طلباء) 66 جلد سوم وجہ سے وہ اپنی کوئی عزت نہیں سمجھتے.اس لئے ان میں غیرت بھی پیدا نہیں ہوتی.مگر وہ قوم جس سے تعلق رکھتے ہیں وہ بہت بڑی ہے اس لئے اس کی طرف سے اس کے لئے غیرت ہونا ضروری ہے.مثلاً ایک انگریز جو اپنے ملک میں چوہڑے یا موچی کا کام کرتا ہے مگر جب وہ یہاں آئے گا تو صاحب بہادر ہی کہلائے گا کیونکہ وہ انگریز قوم سے تعلق رکھتا ہے جو معزز ہے.اس سے ثابت ہوا کہ قوموں کی عزت افراد کی طرف منتقل ہوا کرتی ہے.اگر چہ اس انگریز نے اپنے باپ سے تو کچھ ورثہ نہ پایا ہومگر اس کی دوسری جائیداد انگریزی طاقت ہے اس لئے وہ چوہڑے کا لڑکا اپنے باپ کے لحاظ سے چوہڑے کا لڑکا ہے مگر قوم کے لحاظ سے وہ انگریز قوم کا وارث ہے.اسی طرح فردا فردا تم میں کوئی کلرک کا بیٹا ہے کوئی زمیندار کا کوئی ڈاکٹر کا کوئی انجینیئر کا کوئی ماسٹر کا یا کوئی کسی پیشہ ور کا.ان پیشوں میں خواہ اس کا کتنا ہی کم حصہ اور ورثہ ہو مگر ایک اس کے پاس بہت بڑا ورثہ ہے جو باپ کے ورثہ کے ماسوا ہے اور وہ ، وہ ورثہ ہے جو اس قوم کی طرف سے ملتا ہے جس کا اس کا باپ ممبر ہے.پس ہر ایک شخص دو ورثہ رکھتا ہے.ایک باپ کا ورثہ ایک قوم کا ورثہ.باپ کی جائیداد اور ورثہ کی نسبت قومی ورثہ زیادہ قیمتی ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ایک زمیندار یا کوئی پیشہ ور جو کابل کو جا رہا ہے اس لئے ترکوں کو مصائب در پیش ہیں ورنہ اگر غور کیا جائے تو اس پیشہ ور کا تو کچھ نقصان نہیں.مگر اس کی بہت بڑی چیز کا نقصان ہو رہا ہے اور وہ اس قوم کی عزت جارہی ہے جس کا یہ ایک فرد ہے.گو یہ لفظوں میں نہ بیان کر سکے مگر اس کے دل کی یہی حالت ہے کہ مسلمان قوم میں سے ہونے کا جو ورثہ اس کو ملا تھا وہ اب جا رہا ہے.تم میں سے ہر ایک سیاستِ اسلامی کا وارث ہے.یہ دنیا سے چھینی گئی.کوئی زمانہ تھا.که اسلام روشنی پھیلانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا اور اسلام کے ایک فرد کی زبانی بات کو دوسروں کی تحریروں سے زیادہ وقعت دی جاتی تھی اور مسلمانوں کے زبانی اقرار پر اتنا بھروسہ ہوتا تھا کہ بے وفائی کا مخالفوں کو خیال تک نہ آتا تھا.کروسیڈز (Crusades)

Page 72

زریں ہدایات (برائے طلباء) 67 جلد سوم صلیبی جنگیں.یہ جنگیں عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس شام کے لئے ہوئی تھیں جس سے اب مسلمان نکال دیئے گئے ہیں.یورپ کی تمام طاقتیں ایک طرف تھیں.انگلستان، جرمنی، آسٹریا، فرانس، اٹلی ، قسطنطنیہ، سائپرس کی فوجیں آئیں مگر ایک صلاح الدین کے مقابلہ میں سب ناکام رہی تھیں.اس کی کیا وجہ تھی ؟ یہی کہ اُس وقت مسلمان مسلمان تھے.مسلمانوں کا ایک سپاہی بھی معزز اور محترم تھا.اُس زمانہ کا ایک عیسائی مؤرخ جوان جنگوں میں شامل تھا لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی زبانی بات ہمارے نزدیک زیادہ مسلم ہے بمقابلہ عیسائی بادشاہوں کے متفقہ اقرار کے.اسی طرح حضرت عمرؓ کے عہد کا واقعہ ہے کہ کسی موقع پر ایک حبشی مسلمان سپاہی نے عیسائیوں کی شرائط مان کر صلح کر لی.وہ غریب سپاہی اور سیاست سے ناواقف محض اس پر رضا مند ہو گیا کہ جنگ ختم ہو جائے گی.جب مسلمان جرنیل فتح کرتا ہوا وہاں گیا تو عیسائیوں کی طرف سے کہا گیا کہ یہ معاہدے کے خلاف ہے.جرنیل نے کہا ہم نے تو کوئی معاہدہ نہیں کیا.عیسائیوں کی طرف سے کہا گیا کہ تمہارے ایک آدمی نے معاہدہ کیا ہے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک حبشی مسلمان سپاہی معاہدہ کر گیا ہے.اس پر اختلاف ہونے لگا کہ اس کو کیا حق تھا.بعض صحابہ نے کہا کہ اب چونکہ یہ مسلمان معاہدہ کر چکا ہے اس لئے اس کی پابندی ضروری ہے.معاملہ حضرت عمر تک گیا.آپ نے فرمایا کہ جو کچھ ہو گیا ٹھیک ہو گیا.میں ایک مسلمان کی زبان کو جھوٹا نہیں کرنا چاہتا 1 تو وہ ایسا وقت تھا کہ جب ایک معمولی مسلمان کی بات کو بادشاہوں کی تحریر پر وقعت حاصل ہوتی تھی.پھر مسلمانوں کی دیانت کی یہ کیفیت تھی کہ حضرت عمرؓ کے عہد ہی کا واقعہ ہے ایک علاقہ مسلمانوں نے فتح کیا.وہاں کے لوگوں سے جزیہ یعنی حفاظت کا خرچ لیا لیکن عیسائیوں کی فوجیں آگئیں اور مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا.اس پر مسلمان جرنیل نے وہ تمام رقم جو اس علاقہ سے بطور ٹیکس حفاظت لی تھی واپس کر دی اور کہا کہ ہم نے یہ رقم حفاظت کے لئے لی تھی مگر چونکہ اس وقت ہم تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے واپس کرتے

Page 73

زریں ہدایات (برائے طلباء) 68 جلد سوم ہیں.اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ دو مہینہ کے بعد اس علاقہ کے عیسائیوں نے خود ہی مسلمانوں سے درخواست کی کہ آپ ہم پر حکومت کریں اور وہ عیسائی مسلمانوں کے طرفدار ہو کر عیسائی قوم سے نبرد آزما ہوئے.2 پھر علوم کا یہ حال تھا کہ گو یورپ اپنے تعصب کی وجہ سے یہ تو نہیں مانتا کہ مسلمانوں نے کوئی علم ایجاد کیا ہے مگر یہ سب مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے یونانی علوم کی حفاظت کی اور ان کو تباہ ہونے سے بچالیا.اگر مسلمان ان علوم کی حفاظت نہ کرتے تو یونانی علوم سب کے سب تباہ ہو جاتے.یورپ نے بھی جو کچھ کیا ہے اس میں ایجادات کا حصہ بہت کم ہے بلکہ ان یونانی علوم میں ترقیاں ہیں لیکن یہ احسان کیسے فراموش کر دیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے علوم کو مٹنے سے بچالیا.پھر اخلاق کے علاوہ ظاہری شان کے لحاظ سے اسلام کا ورثہ اتنا وسیع ہے جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.عیسائیوں اور مسلمانوں کی ترقی کا اگر مقابلہ کیا جائے تو فرق نمایاں نظر آئے گا.مسلمانوں نے اپنے مقابلہ کی تمام روکوں کو ہٹا دیا تھا.یورپ کے مقابلہ میں آج تمام دنیا کے دل میں یہ اہر پیدا ہوگئی ہے کہ وہ یورپ کی حکومتوں سے اپنے آپ کو آزاد کرانا اور اس غلامی کو پرے پھینکنا چاہتی ہے.لیکن مسلمانوں نے لوگوں کے قلوب کو رام کیا ہوا تھا اور لوگوں کے دل ان کے ماتحت تھے.آج انگریزوں کی سلطنت میں اگر احمدی جماعت کو علیحدہ کر لیا جائے جو بوجہ اپنے مذہبی فرض کے انگریزوں کی خیر خواہ اور سچے دل سے فرمانبردار ہے تو ایسے خیر خواہ جو بچے ہوں ملنے مشکل ہیں.لیکن مسلمانوں کے وقت میں یہ بات نہ تھی.غیر اقوام اپنے ہم قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو اپنا زیادہ خیر خواہ سمجھتی تھیں اور یہ فوجوں کی بناء پر تھا.پس وہ اسلام اور ایسا اسلام تم سے کھویا جا رہا ہے.اسلام کو آج بدترین مذہب شمار کیا جاتا ہے.اگر ایک وقت میں غیر اقوام مسلمانوں کے لفظ لفظ کو اپنی مذہبی کتب کی طرح وقع سمجھتی تھیں تو آج ایک پیسہ کے برابر بھی مسلمانوں کے اقوال کا اعتبار نہیں.کوئی زمانہ

Page 74

زریں ہدایات (برائے طلباء) 69 جلد سوم تھا کہ اسلام اور مسلمانوں نے دنیا کے دل موہ لئے تھے مگر آج ترکوں کو یورپ سے اس لئے نکالا جا رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں.اور کہا جاتا ہے کہ ترکوں کے یورپ میں رہنے سے یورپ کی ہتک ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ان میں اصلی اسلام نہ رہا.پس تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اس چیز کو ضائع نہ ہونے دو جس پر تم جائز فخر کر سکتے ہو.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم اپنے اخلاق کو درست کرو.اخلاق کی درستی اگر ہو جائے تو دین و دنیا دونوں کامل ہو جاتے ہیں.اور جب تک ایک شخص کے اخلاق درست نہ ہوں وہ خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ایک جھوٹے دغا باز کو دین حاصل نہیں ہو سکتا اور نہ وہ لوگوں کے دلوں پر قابو پاسکتا ہے اور نہ خدا ہی کی محبت پر اس کو قابو ہو سکتا ہے پس اخلاق کے بغیر نہ دین مل سکتا ہے نہ دنیا.جیسا کہ میں نے پچھلی دفعہ اخلاق پر بحث کی تھی اور بتایا تھا کہ اعلیٰ اخلاق بچپن میں ہی حاصل ہوتے ہیں.چین میں عورت کا پیر بہت چھوٹا ہوتا اس کی زینت خیال کیا جاتا ہے.لیکن اس کا پیر بڑی عمر میں تراش کر چھوٹا نہیں بنایا جا تا بلکہ چھوٹی عمر میں ہی لوہے کا موزہ پہنا دیا جاتا ہے.اسی طرح تم کو اپنے اندر اعلیٰ اخلاق ابھی سے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ اگر اب نہیں کرو گے تو بڑے ہو کر یہ باتیں پیدا کرنی مشکل ہوں گی.تم نے سنا ہوگا شاہ دولہ کے چو ہے جو کہلاتے ہیں ان میں سے بعض کے سر بچپن میں ہی چھوٹے بنائے جاتے ہیں پس تمہارے لئے یہ وہ زمانہ ہے کہ تم ہر اچھی بات کا بیج اپنے دل میں بو سکتے ہو اور بڑے ہو کر اس بیچ کو بڑا درخت پاؤ گئے.لیکن اگر اب ستی کرو تو بڑے ہو کر یہ باتیں حاصل کرنا مشکل ہوں گی.مثلا تم بچپن میں سنتے ہو کہ مسیح موعود آ گیا اور ابھی سے تم آپ کی صفات کے دلائل سنتے ہو اور اپنے دل کو بالکل تیار پاتے ہو اور سانچے میں ڈھل جاتے ہو.لیکن جس نے تیس برس کی عمر میں سنا اور پھر ما نا اس کو گویا اپنا جسم تراش کر پھر اپنے آپ کو تیار کرنا پڑے گا.پس یہ تمہارا بہت قیمتی وقت ہے.تم اس وقت اخلاق کی درستی میں مصروف ہو جاؤ.یہ ضروری نہیں کہ تم کسی ملک کے بادشاہ ہو یا وزیر ہو یا مد بر

Page 75

زریں ہدایات (برائے طلباء) 70 جلد سوم ہو جاؤ ، ذمہ دار افسر ہو جاؤ تب اخلاق حاصل کرو گے.بلکہ ابھی سے کھیل کے میدان میں تم ان تمام فرائض اور اعلیٰ اخلاق کو سیکھ سکتے ہو جو آئندہ عمر میں تمہیں بہترین انسان بنائیں.تمہارے لئے فٹ بال کا میدان ہی اخلاق سکھانے کا میدان ہے.اس میں تم وسیع القلب ، بردبار، جفاکش، صداقت شعار، راستی پر جان دینے والے بن سکتے ہو اور ایثار کرنا اسی میں سیکھ سکتے ہو.اور قربانی کا مادہ اسی میں پیدا ہوسکتا ہے.مثلاً تم فٹ بال لئے جارہے ہو اور ایسے موقع پر ہو کہ اگر تمہاری لک (Kick) لگ جائے تو گول ہو سکتا | ہے مگر خطرہ زیادہ ہے ہاں اگر تم دوسرے کو بال دو اور وہ لک لگائے تو یقینا گول ہوسکتا ہو.لیکن اُس وقت دو حالتیں ہیں.اگر تمہاری تک سے گول ہو تو واہ واہ تمہیں ملے گی اور اگر دوسرے کو بال دو جس کی سلک سے گول ہونا یقینی ہے تو ساری پارٹی کی عزت ہوئی.اُس وقت تمہارا کیا فرض ہونا چاہئے؟ کہ تم ذاتی تعریف کے خیال کو چھوڑ کر اپنی پارٹی کی عزت کے خیال سے بال دوسرے کو دے دو.جب تم یہ ایثار کرنا سیکھ لو گے تو بڑے ہو کر تم بڑے بڑے ایثار کرنا کوئی بڑی بات خیال نہ کرو گے.یا اگر کوئی تمہیں شولڈر (Shoulder) مارتا ہے اُس وقت دو حالتیں ہوں گی.یا تو تم اپنے دل میں کی نہ بٹھاؤ اور خیال کرو کہ اگر یہ میرے پاس سے اب گزرا تو میں اس کو وہ ضرب لگاؤں گا کہ یاد ہی کرے.یا تم یہ خیال کرو کہ اس سے غلطی ہو گئی اس کو معاف کر دینا چاہئے.اب تم خاموش رہو.اگر وہ پھر ایسی شرارت کرے تو اس کو جتا دو کیونکہ اگر اس نے برا کام کیا ہے تو تم وہی کام کر کے کیوں برے بنو.اس سے تمہیں در گذر اور عفو کر نا آجائے گا اور تم قانون شکن نہیں بنو گے.پس تم جھوٹ سے بچنا ، ایثار کرنا ، بہادری دکھلانا ، جرأت سے کام لینا ، عفو و درگذر، قربانی کرنا ، قوم کی عزت کا خیال ذاتی عزت پر مقدم کرنا یہ سب باتیں اسی میدان میں سیکھ سکتے ہو اور اسی سکول میں تم اخلاق سیکھو.یہی باتیں تھیں جو پہلے بیان کی تھیں اور آج پھر دُہرا دی ہیں.

Page 76

زریں ہدایات (برائے طلباء) 71 جلد سوم مجھے ایک تحریک ہوئی تھی اس کے ماتحت میں نے ایک پیغام نظم کیا ہے جو ان نوجوانوں کے نام ہے جو کالجوں میں ہیں یا فارغ ہو کر نکل چکے ہیں.سکول کے بڑے طلباء بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.چونکہ قادیان والوں کا پہلا حق ہے اس لئے پہلے انہی کو سنایا جاتا ہے اور اس میں میں جہاں تک عیب نو جوانوں میں معلوم کر سکا ہوں وہ سب بتائے ہیں اور ان سے بچنے کی نصیحت کی ہے اور ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے.،، الفضل 18 /اکتوبر 1920ء) 1 تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 72 مطبوعہ بیروت 1987ء 2 فتوح البلدان بلاذری صفحه 144،143 مطبوعہ قاہرہ 1319ھ

Page 77

زریں ہدایات (برائے طلباء) 72 جلد سوم طلباء کو نصیحت 4 مارچ 1921ء بعد از نماز فجر طلباء ففتھ کلاس ہائی سکول قادیان جو امتحان دینے کیلئے جانے والے تھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں مع ہیڈ ماسٹر کے حاضر ہوئے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے ان کو حسب ذیل نصائح فرمائیں.و تم میں دو قسم کے لڑکے ہیں.ایک وہ جو آئندہ پڑھائی جاری رکھیں گے اور ایک وہ جو پڑھائی بند کر کے کسی کا روبار میں لگ جائیں گے.میں دونوں کو نصیحت کرتا ہوں.دنیا میں کوئی عظیم تغیر موت کے بغیر نہیں ہو سکتا.عام لوگ موت سے اس لئے گھبراتے ہیں کہ انہیں آئندہ کے حالات نظر نہیں آتے.اگر انہیں وہ حالات نظر آجائیں تو اس طرح نہ گھبرائیں.دراصل موت اسی زندگی کو دوسری شکل میں منتقل کرنے والی ہوتی ہے اور اس کے ذریعے ایک عظیم الشان تغیر واقع ہوتا ہے.دنیا میں بھی وہی لوگ اپنی حالت میں عظیم تغیر پیدا کر سکتے ہیں جو ایک حالت پر موت وارد کر کے دوسری حالت پیدا کرتے ہیں.دنیا میں کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں.بعض لوگ بہت کچھ پڑھے لکھے ہوتے ہیں.ڈگریاں حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان کی ساری عمر ملازمت کیلئے عرضیاں دینے میں ہی گزر جاتی ہے.لیکن ایک وہ ہوتے ہیں جن کی عمر کا بیشتر حصہ کھیل کود میں صرف ہوتا ہے اور وہ بہت معمولی تعلیم حاصل کیے ہوتے ہیں لیکن اعلیٰ درجہ حاصل کر لیتے ہیں.پھر کئی ایسے ہوتے ہیں جو انٹرنس پاس کر کے کام میں لگ جاتے ہیں اور وہ تعلیمی زندگی

Page 78

زریں ہدایات (برائے طلباء) 73 جلد سوم بالکل علیحدہ ہو جاتے ہیں.وہ کچھ لکھ پڑھ تو لیں گے کیونکہ اس قدر علم کا مٹانا اور فراموش کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہوتی کہ سب کچھ فراموش کر دیں مگر جو تعلیم انہوں نے حاصل کی ہوتی ہے اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ تعلیم چھوڑ کر اسی جڑ سے جا ملتے ہیں جس سے کاٹ کر انہیں الگ کیا گیا تھا.ایک اور لوگ ہوتے ہیں جو دنیاوی کاموں میں لگ جاتے ہیں مگر علم میں بھی ترقی کرتے جاتے ہیں یہاں تک کہ اچھے عالم ہو جاتے ہیں.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انٹرنس تک پڑھے ہوتے ہیں لیکن ان کی قابلیت بی.اے اور ایم.اے پاس جتنی ہوتی ہے بلکہ ان سے بھی زیادہ.یہ سب اقسام کے لوگ اپنے دل میں نقشے کھینچتے ہیں جن میں سے بعض کے نقشے بہترین ہوتے ہیں، بعض کے بدترین اور بعض کے درمیانہ درجے کے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ جتنے آدمی ہوتے ہیں اتنے ہی درجوں کے نقشے کھنچتے ہیں کیونکہ ہر ایک کا نقشہ الگ الگ ہوتا ہے.بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ جنہیں آئندہ زمانہ کا خیال ہی نہیں ہوتا.وہ پڑھنے لکھنے کی طرف چنداں توجہ ہی نہیں کرتے لیکن ان میں سے بھی بعض بہترین انسان نکل آتے ہیں.اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو دن رات پڑھنے میں لگے رہتے ہیں ، اپنی آئندہ زندگی کے متعلق بڑے بڑے منصوبے باندھتے ہیں مگر جب وقت آتا ہے تو کچھ بھی نہیں نکلتے.ان کی مثال شیخ چلی کی کہانی کی ہوتی ہے.کہانی مشہور ہے کہ شیخ چلی کو کہیں سے چند پیسے مل گئے.اس نے ان کے انڈے خرید لئے اور خیال کرنے لگا کہ ان سے بچے نکلواؤں گا.پھر ان کو بیچ کر اور خرید لوں گامتی کہ اسی طرح بڑا دولت مند بن جاؤں گا اور وزیر کی لڑکی سے شادی کرلوں گا.جب وہ آئے گی تو اس پر رعب بٹھانے کیلئے اس سے بات نہیں کروں گا اور جب وہ منانے لگے گی تو یوں اسے لات ماروں گا.یہ خیالی پلاؤ پکاتے ہوئے اس نے لات ماری اور سارے انڈے توڑ دیئے.طالب علم یہ قصہ سنتے اور سن کر ہنتے ہیں حالانکہ ان کی اپنی حالت اسی قصہ کی مانند

Page 79

زریں ہدایات (برائے طلباء) 74 جلد سوم ہوتی ہے.وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم یوں کریں گے، پھر یوں کریں گے اور یہ ہو جائے گا.عجیب عجیب خیالی پلاؤ پکاتے ہیں لیکن جب عملی زندگی میں داخل ہوتے ہیں تو صبح سے شام تک بیوی بچوں کے فکر میں ہی پڑے رہتے ہیں.پہلے تو طالب علم سمجھتا ہے کہ میں کسی کا محتاج نہیں ہوں سب میرے محتاج ہیں لیکن جب طالب علمانہ حالت سے نکلتا ہے تو اپنے آپ کو سب کا محتاج پاتا ہے.یہ عام قاعدہ ہے کہ جس کو کوئی احتیاج نہ ہو لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اور جب اُسی کو احتیاج پیدا ہو جائے تو پھر نہیں کرتے.اسی قاعدہ کے ماتحت طالب علمی کی حالت میں چونکہ طالب علم کو لوگوں سے کوئی احتیاج نہیں ہوتی اس لئے لوگ اس کی عزت کرتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے لیکن جب وہ اس حالت سے نکلتا ہے اور اسے ملازمت حاصل کرنے یا اور کوئی ذریعہ معاش پیدا کرنے کی ضرورت لاحق ہوتی ہے تو اس کی ویسی عزت نہیں کرتے جیسی پہلے کرتے تھے.جس کے پاس جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کسی مطلب کیلئے ہی آیا ہے اس وقت اُسے اپنی اصلی حالت کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے آپ کو دوسروں کا محتاج پاتا ہے اور طالب علمی کی زندگی میں جتنے منصوبے اس نے باندھے ہوتے ہیں عملی زندگی میں آکر ان سب سے دستبردار ہو جاتا ہے.پس اکثر طالب علم ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم پانے کے زمانہ میں بڑے بڑے ارادے کرتے ہیں لیکن جب ان ارادوں کو پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو بالکل بھول جاتے ہیں.قرآن کریم میں اشارتاً ایک شخص کا ذکر آتا ہے کہ کوئی شخص تھا جو کہا کرتا تھا کہ وہ لوگ جن کے پاس مال ہے وہ کیوں اسلام کیلئے نہیں دیتے اگر میرے پاس ہو تو دے دوں مگر جب خدا نے اسے مال دیا تو اس نے زکوۃ دینا بھی چھوڑ دی.بات یہ ہے کہ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا وہ کہتا ہے اگر ہو تو میں اس طرح کروں.طالب علموں کے پاس بھی چونکہ کچھ نہیں ہوتا اس لئے وہ کہتے ہیں جب ہمارے پاس کچھ ہو گا تو ہم سب کچھ قربان کر دیں گے.لیکن جب وقت آتا ہے تو کچھ بھی نہیں کرتے.پہلے تو طالب علم جس فرقہ اور جس قوم سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق کہتا ہے کہ

Page 80

زریں ہدایات (برائے طلباء) 75 جلد سوم لوگ اس کے لئے کیوں سب کچھ قربان نہیں کر دیتے.مگر جب اسے کچھ مل جاتا ہے تو وہ ان سے بھی گیا گزرا ہو جاتا ہے جن پر ہنسا کرتا تھا.تم سکول سے نکلنے والے ہو.تمہارے دل میں بھی کئی خیالات ہوں گے اور تم نے بھی بڑے بڑے ارادے کیسے ہوں گے مگر یہ سب خیالی باتیں ہیں.اصل اُسی وقت کہی جاسکیں گی جب تم عملی زندگی میں ان کو اختیار کرو گے اور ان کو پورا کر کے دکھا دو گے ورنہ یاد رکھو جو شخص خیالی پلاؤ زیادہ پکانے کا عادی ہوتا ہے وہ زیادہ ناکام ہوتا ہے.وجہ یہ کہ ایسے شخص دماغ سے زیادہ کام لیتے ہیں اور جو ایسا کرتے ہیں وہ عملی طور پر بہت کم کام کرتے ہیں.پس پہلی نصیحت میں تم کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو یہ تمہارے لئے موت اور زندگی آنے والی ہے موت تو اس حالت سے نکلنا ہے جس میں اب تک تم رہے ہو اور زندگی دوسری حالت ہے جس میں تم خواہ ملازمت کر دیا کالج میں داخل ہو جاؤ یا کوئی اور کاروبار کرواس کیلئے تم خیالی پلاؤ نہ پکاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو اس سے یا تو ایسا زنگ لگ جائے گا کہ تمہیں عملی طور پر کام کرنے کی توفیق نہ ملے گی یا پھر تم مایوس ہو کر نا کام ہو جاؤ گے.ہم دیکھتے ہیں آجکل چونکہ اکثر طالب علم خیالی پلاؤ پکاتے ہیں اور بڑے بڑے منصوبے باندھتے ہیں جنہیں گورنمنٹ بھی پورا نہیں کر سکتی.اور اگر ان کی اپنی گورنمنٹ ہوتی تو وہ بھی پورا نہ کر سکتی اس لئے وہ اپنے منصوبوں سے مایوس ہو کر سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ ہماری دشمن - اور ہماری ترقی کو روکنا چاہتی ہے.اگر طالب علم خیالی پلاؤ نہ پکائیں تو انہیں عملی زندگی میں آکر مایوسی نہ ہو اور نہ وہ گورنمنٹ کو اپنا دشمن سمجھ کر اس کے خلاف ہو جائیں.تمہیں آئندہ زندگی کیلئے تیاری کرنی چاہئے اور خوب زور کے ساتھ اور پوری محنت کے ساتھ کرنی چاہئے.لیکن اپنے لئے انعام تجویز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ جس طرح روحانی زندگی کا انعام دینے والا خدا ہی ہے اسی طرح اس زندگی کا انعام دینے والے دوسرے ہیں.انسان کا اپنا کام یہ ہے کہ اپنے آپ کو تیار کرے نہ کہ اپنے لئے انعام بھی خود تجویز کرے.پس میری ایک نصیحت یہ ہے کہ اپنے ذہنوں سے ایسے خیال نکال دو اور پھر آئندہ ہے

Page 81

زریں ہدایات (برائے طلباء) 76 جلد سوم زندگی کیلئے تیاری کرو اور موجودہ حالت کی فکر رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ ٹھیک ہے یا نہیں.دوسری نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں تم نے جو تعلیم حاصل کی ہے تمہیں آنے والی زندگی میں اسے خرچ کرنے کا موقع ہوگا.تم نے یہاں تعلیم کے دوران روحانی تعلیم بھی حاصل کی ہے اس کے متعلق بھی تمہارا امتحان ہو گا.کئی لوگ ہوتے ہیں جو اس امتحان میں فیل ہو جاتے ہیں.جب تک یہاں رہتے ہیں نماز پڑھتے ہیں لیکن باہر جا کر چھوڑ دیتے ہیں.یہاں رہ کر سلسلہ سے بڑا تعلق ظاہر کرتے ہیں لیکن باہر جا کر اس تعلق کو توڑ دیتے ہیں اور جس طرح حضرت مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا تھا کہ جہاں کے لوگ تمہاری بات نہ سنیں وہاں کی گرد بھی اپنے پاؤں سے جھاڑ آنا اسی طرح وہ کرتے ہیں.تم بھی یہ غور کر لو یہاں کی زندگی تمہارے لئے بیج کی طرح ہوگی جو آگے بڑھتی رہے گی اور اس کے شگوفے نکلتے رہیں گے یا گرو کی طرح جسے تم جاتے وقت جھاڑ جاؤ گے.اگر بیج کی طرح ہے تو بیج کی طرح ہی اس کی حفاظت کرنے سے تمہیں فائدہ حاصل ہو سکے گا ورنہ نہیں.اور بیج کے رکھنے کا یہی قاعدہ ہے کہ اسے انسان تر و تازہ رکھے اور گھن نہ لگنے دے.تمہارے لئے اس پیج کو محفوظ رکھنے کا یہ طریق ہے کہ مرکز سے تعلق رکھو.اس وقت تمہاری نسل ایک کو نیل کی طرح ہے جو باڑ کے اندر ہو اور جسے کوئی جانور نہ کھا سکتا ہو.اگر تم باڑ کے اندر رہو گے تو محفوظ رہو گے اور اگر تم فیصلہ کر لو کہ جو چیز تمہیں یہاں سے ملی ہے وہ تمہارے لئے مفید ہے تو تمہیں اس کی حفاظت کرنے کا بھی فیصلہ کر لینا چاہئے.اور حفاظت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ مرکز سے تعلق مضبوط رکھو اور اس میں کبھی کمزوری نہ آنے دو.اگر تم اس طرح کرو گے تو جو کچھ تم نے حاصل کیا ہے وہ نہ صرف محفوظ رہے گا بلکہ اس میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا.اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھو.اس کے بعد میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جہاں انسان رہتا ہے وہاں کے لوگوں سے چونکہ اسے تعلق پیدا ہو جاتا ہے اس لئے کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ان سے

Page 82

زریں ہدایات (برائے طلباء) 77 جلد سوم تکلیفیں بھی پہنچتی ہیں، فائدے اور آرام بھی پہنچتے ہیں لیکن لوگوں کا قاعدہ ہے کہ آرام کو بھول جاتے ہیں اور تکالیف کو تازہ رکھتے ہیں.یہاں جو تم دو تین چار یا سات آٹھ سال رہے ہو ان میں جن لوگوں کے ساتھ تمہارا تعلق رہا ہے ان کی نسبت ممکن ہے تمہارا یہ خیال ہو کہ فلاں وقت یہ تکلیف پہنچی تھی اور فلاں وقت یہ.اور اس قسم کی باتیں تمہیں یاد ہوں مگر یاد رکھو جہاں کے متعلق ایسی باتیں جو لوگ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں وہاں سے ان کا تعلق قطع ہو جاتا ہے اور وہ بالکل علیحدہ ہو جاتے ہیں.شریف انسانوں کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اچھی باتوں کو یاد رکھتے اور تکلیف دہ باتوں کو بھول جاتے ہیں.تمہیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.اصل بات تو یہ ہے کہ لوگ اچھے سلوک زیادہ کرتے ہیں اور تکالیف کم لوگوں کی طرف سے پہنچتی ہیں مگر لوگ چونکہ تکالیف کو زیادہ یا در رکھتے ہیں اور اچھے سلوک کو جلدی بھول جاتے ہیں اس لئے تکالیف زیادہ معلوم ہوتی ہیں.ایک شخص کسی جگہ رہتا ہے اور روزانہ پیٹ بھر کر کھاتا ہے.وہ اگر ایک دن بھوکا رہے تو اسے یہ بات یادر ہے گی اور ہر روز کا کھانا بھول جائے گا.تو تکالیف کو یاد رکھا جاتا ہے اور یہ یاد رکھنا طبیعت کی کمزوری ہے نہ کہ اس تکلیف دینے والی بات میں یہ اثر ہوتا ہے کہ زیادہ یاد رہتی ہے.اگر انسان اس کے خلاف طبیعت بنالے یعنی نیک سلوک کو یا در کھے اور تکلیف کو بھلا دے تو اسے اچھی باتیں ہی یا در ہیں گی اور ایسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں اچھی باتیں ہی یا د رہتی ہیں اور ایسی باتیں جن سے انہیں تکلیف پہنچی ہو بھول جاتی ہیں.تو تکلیف دہ باتوں کو یاد رکھنے سے قلب اور دماغ پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور اس کا نتیجہ سخت خراب نکلتا ہے.علاوہ ازیں یہ سخت ناشکری کی بات ہے کہ تکلیفوں کو جو کم ہوتی ہیں یا درکھا جائے اور آراموں کو جو زیادہ ہوتے ہیں بھلا دیا جائے.کئی لوگ معمولی معمولی باتوں سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ تکلیف کو یا در رکھتے ہیں اور آرام کو بھول جاتے ہیں.اور کسی سے ناچاقی کی وجہ سے مرکز سے قطع تعلق کر لیتے ہیں حالانکہ اگر کسی آدمی سے ان کی لڑائی ہو تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جس سے اس کا تعلق تھا وہ بھی برا ہے مگر لوگ ایسا کرتے

Page 83

زریں ہدایات (برائے طلباء) 78 جلد سوم ہیں کہ جس سے لڑائی ہو اس کی قوم ، اس کے مذہب تک کو گالیاں دے دیتے ہیں حالانکہ کوئی قوم ایسی نہیں جو ساری کی ساری بری ہو.مغل، پٹھان ، سید اقوام میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی.اسی طرح کوئی مذہب ایسا نہیں جو سارے کا سارا برا ہو.ہاں ایک مذہب ایسا ہے جو سارے کا سارا اچھا ہے اور وہ اسلام ہے مگر سارے کا سارا کوئی مذہب برا نہیں.پس اگر کسی انسان سے کوئی تکلیف پہنچے تو اس ایک کی وجہ سے ساری قوم یا مذہب اور سلسلہ پر حرف نہیں آسکتا.خواہ کوئی انسان کتنا بڑا ہو تو بھی وہ برائی اس سے ہی تعلق رکھے گی سلسلہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا.تمہارے دلوں میں اگر استادوں یا ہیڈ ماسٹر یا سپرنٹنڈنٹ کے متعلق کوئی شکایت ہو تو اس کو یہاں سے جانے سے پہلے نکال دو تا کہ وہ.ایک خراب بیج کی طرح تمہارے ساتھ نہ جائے.تم اچھی باتوں کو یاد رکھو اور سب بری باتوں کو بھلا دو.اس کے بعد میں ایک اور نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ تمہیں بار بار قادیان آنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ بہت ضروری بات ہے.تمہاری مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص گھر سے مال لے کر ڈاکوؤں میں جائے.تم گھر سے اسی طرح جا رہے ہو.ہو سکتا ہے کہ تم اپنے مال کی حفاظت کرو اور اس عمدگی سے کرو کہ ڈاکو بھی تمہارے ساتھ ہو جائیں اور بجائے تم سے مال چھین کر تمہیں تہی دست کرنے کے تمہارے مددگار بن جائیں.اور ہوسکتا ہے تم اس کی حفاظت نہ کرو اور گھر سے نکل کر دو ہی قدم جانے پر تم سے چھین لیں.اگر تم یہ خیال کرو گے کہ تمہیں ایسے مخالفین میں جانا ہے جو تم سے تمہارا مال چھینے کی کوشش کریں گے اور تمہیں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے تو ۹۹ فیصدی امید ہے کہ حفاظت کر سکو گے.اور اگر اس کے خلاف کرو گے تو ۹۹ فیصدی خطرہ ہے کہ تم لوٹ لیے جاؤ گے.کیونکہ جو چوکس رہتا ہے وہ اپنی حفاظت کرتا ہے اور جو غافل ہو جاتا ہے وہ نقصان اٹھاتا ہے.تم اگر خطرہ کو محسوس کرو گے تو چوکس رہو گے اور جب چوکس رہو گے تو دشمن کے وار سے محفوظ رہو گے.لیکن اگر غافل ہو جاؤ گے تو نقصان اٹھاؤ گے.

Page 84

زریں ہدایات (برائے طلباء) 79 جلد سوم پھر ایک اور بات یاد رکھو کہ ہم نہ اس گورنمنٹ کو اور نہ کسی اور گورنمنٹ کو بے عیب سمجھتے ہیں.عیب ہر گورنمنٹ میں ہوتے ہیں اور اس میں بھی ہیں.وہ لوگ جو یہ خیال | کرتے ہیں کہ اس گورنمنٹ میں کوئی نقص نہیں ان کے سامنے جب نقائص پیش کیے جاتے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ اس گورنمنٹ میں کوئی عیب نہیں اس لئے ہم اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے.بلکہ ہمیں گورنمنٹ کے عیب دوسروں کی نسبت بہت زیادہ معلوم ہیں اور ہم بہت زیادہ زور کے ساتھ ان کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں مگر گورنمنٹ کے عیب کی نسبت ساری دنیا میں جو عیب ہے وہ چونکہ بہت بڑا ہے اس لئے ہم اپنی ساری طاقت اس کے دور کرنے میں صرف کرنا چاہتے ہیں.ہماری جماعت تھوڑی ہے اور ہمارے کام کرنے والے کم ہیں اگر ہمارے آدمی گورنمنٹ کے پیچھے پڑ جائیں تو اصل کام کرنے سے رہ جائیں گے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان عاجل | ہے یعنی جلدی حاصل ہونے والے نفع کے پیچھے پڑ جاتا ہے.اور یہ صاف بات ہے کہ سیاسیات کے متعلق چونکہ انسان سمجھتا ہے کہ مجھے کوئی عہدہ مل جائے گا اس لئے اپنی ساری کوشش اس میں صرف کر دیتا ہے اور دوسری طرف متوجہ نہیں ہوسکتا.یہ درست ہے کہ سیاسیات میں پڑنے والے سب لوگوں کو عہدے نہیں مل جاتے لیکن ملنے کی امید پر ہی لوگ خوش ہوتے اور اس میں مصروف رہتے ہیں اور ایسے لوگ دوسری طرف توجہ نہیں کر سکتے.ہمارے سیاسیات سے علیحدہ رہنے کی اور بھی وجوہات ہیں مگر یہ بڑی وجہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں ہماری ساری کی ساری جماعت اپنی ساری قوت اور سا راز در اشاعت اسلام میں لگا دے.کوئی پیشہ ور ہے تو اپنے پیشہ میں ، اگر کوئی تاجر ہے تو اپنی تجارت میں ، اگر کوئی ملازم ہے تو اپنی ملازمت میں اسی بات کو مد نظر رکھے اور اس کیلئے کوشش کرتا رہے.پس سیاسیات میں حصہ لینے سے روکنے کی وجہ ہماری یہ مصروفیت ہے.کیونکہ اگر ہماری جماعت سیاسیات میں پڑ گئی تو اصل کام کو بھول جائے گی.تمہیں اگر کوئی گورنمنٹ کے نقص اور عیب بتائے تو تم کہو ہم پہلے ہی ان باتوں کو.

Page 85

زریں ہدایات (برائے طلباء) 80 60 جلد سوم جانتے ہیں.مگر چونکہ ان سے بڑا کام ہمیں درپیش ہے اس لئے ان میں دخل نہیں یتے.ہم ان لوگوں سے زیادہ گورنمنٹ کے عیبوں سے واقف ہیں جو شور مچارہے ہیں مگر ہمیں چونکہ فرصت نہیں اس لئے ادھر توجہ نہیں کر سکتے.دیکھو اگر کسی کا بیٹا مر رہا ہو تو کیا اسے یہ فکر ہو سکتا ہے کہ گھر کا پلستر اکھڑ گیا ہے اسے درست کراؤں؟ اسے تو بیٹے کی بیماری | اور علاج کا ہی فکر ہو گا.اس وقت اسلام کے خلاف یورش ہورہی ہے،اسلام کو برے سے برے رنگ میں پیش کیا جا رہا ہے، اسلام سے لوگوں کو متنفر کیا جا رہا ہے اور اسلام کے مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس وقت ہمیں اگر کوئی فکر ہے تو یہی کہ اسلام کی صداقت دنیا پر ثابت کریں.اسلام کی عزت اور وقعت لوگوں کے دلوں میں قائم کریں.اسلام کی خوبیاں لوگوں پر ظاہر کریں اور اسلام کو دنیا میں پھیلا دیں.پس ہم اس کام کو چھوڑ کر اور کسی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے.تمہارے سامنے گورنمنٹ کے نقص پیش ہوں گے اگر تمہارا یہ خیال ہوگا کہ اس میں کوئی نقص نہیں تو جب تم کو لوگ نقائص سنائیں گے تم حیران رہ جاؤ گے.لیکن اگر تمہارا یہ خیال ہوگا کہ ہم گورنمنٹ کے متعلق سب کچھ جانتے ہیں مگر چونکہ فرصت نہیں اس لئے ان باتوں میں نہیں پڑتے تو تم پر کسی بات کا اثر نہیں ہوگا.تمہیں دین کی خدمت اور اشاعت کرنی ہے تم اگر سیاست میں پڑ جاؤ گے تو ادھر سے بالکل رک جاؤ گے.آخر میں ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ساری دنیا میں کام آنے والی چیز اخلاق ہے.اچھے عادات اور اخلاق کا انسان ہر جگہ عزت اور فائدہ حاصل کر لیتا ہے.ہندو دکانداروں کو دیکھا گیا ہے گاہک کو دور سے ہی آنا دیکھ کر کہنے لگ جاتے ہیں آیئے جی آئی جی مگر مسلمان دکاندار گاہک کے ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے تجارت نکل کر دن بدن ہندوؤں میں جا رہی ہے کیونکہ گاہک انہی دکانداروں کے پاس جاتے ہیں جو اخلاق سے پیش آتے ہیں.اسی طرح وکیلوں اور دیگر

Page 86

زریں ہدایات (برائے طلباء) 81 جلد سوم پیشہ وروں کا حال ہے.انہی کے پاس زیادہ لوگ جاتے ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں.تم اخلاق اچھے بناؤ تاکہ تمہارے اپنے دل میں اطمینان پیدا ہو اور لوگوں کے دلوں میں تمہاری قدر اور عزت ہو.پھر دنیاوی ترقیات بھی اخلاق پر ہی منحصر ہوتی ہیں.لڑنا جھگڑنا ، جھوٹ بولنا، چوری اور بد دیانتی کرنا سب بری باتیں ہیں اور ان سے انسان بد نام ہو جاتا ہے اور بد نام انسان کوئی مفید اور اعلیٰ درجہ کا کام نہیں کر سکتا.تم تمام بری باتوں سے بچو اور اچھی باتیں حاصل کرو.پھر اپنی طبیعتیں خوش بناؤ.رنجیدہ اور پژمردہ مت بناؤ.خود خوش رہو اور دوسروں کے ساتھ خوشی اور اخلاق سے پیش آؤ.اگر تم ان باتوں کو یاد رکھو گے تو بہت فائدہ اٹھاؤ گے."" (الفضل 14 مارچ 1921ء)

Page 87

زریں ہدایات (برائے طلباء) 82 889 جلد سوم موجودہ زمانہ کے زہریلے اثرات سے بچاؤ کے لیے تین ضروری باتیں ذیل میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ان کلمات طیبات کا مفہوم اپنے الفاظ میں دیا جاتا ہے جو حضور نے مورخہ 28 ستمبر 1921ء کو بمقام لاہور احمدی طلباء سے خطاب فرمایا.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.” ہمارے طلباء کو تین باتیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں وہ باتیں اگر ان میں پیدا ہو جائیں تو موجودہ زمانہ کے زہریلے اثرات سے بچ سکتے ہیں.مگر ساتھ ہی اس بات کا بھی نہایت احتیاط سے خیال رکھنا ضروری ہے کہ ان تینوں باتوں کو عمل میں لاتے وقت اگر صحیح ضرورت اور موقع ومحل کا لحاظ نہ رکھا جائے یا ان باتوں کو غلط طریق سے عمل میں لایا جائے تو تین صفات کے مقابلہ پر تین عیوب کے پیدا ہو جانے کا احتمال ہے.پہلی بات یہ ہے کہ سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے.فرمایا اس زمانے میں سچ بولنے کی عادت بہت کم ہوگئی ہے اور جھوٹ کا رواج بہت عام ہو گیا ہے.غیر تعلیم یافتہ لوگ بھی جھوٹ بول لیتے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگ بھی جھوٹ بولنے میں ان سے پیچھے نہیں ہیں.بلکہ مؤخر الذکر گروہ کے جھوٹ بولنے کا طریق مقدم الذکر سے زیادہ خطر ناک ہوتا ہے.کیونکہ یہ لوگ ایسے رنگ میں جھوٹ بولتے ہیں کہ سرسری نگاہ سے معلوم بھی نہیں کر سکتے کہ یہ جھوٹ ہے.ہمارے طلباء کو چاہئے کہ اس بارے میں بہت احتیاط سے کام لیں اور جہاں کہیں بات کرنے کی ضرورت ہو تو خیال رکھیں کہ ہما را بیان کلی طور پر سچا ہو اور جھوٹ کا

Page 88

زریں ہدایات (برائے طلباء) 83 جلد سوم شائبہ بھی اس میں نہ پایا جائے.لیکن یہ یادر ہے کہ صادق القول ہونے کی صفت کو حاصل کرنے کے متعلق ایک احتیاط کی ضرورت ہے.اس احتیاط کو اگر مد نظر نہ رکھا جائے تو اس صفت کے مقابلے میں ایک عیب کے پیدا ہو جانے کا احتمال ہے اور وہ عیب سوء اخلاقی اور بے ادبی کا عیب ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ صرف ضرورت حقہ کے موقع پر سچی بات کا بیان کرنا ضروری ہوتا ہے.ہر جگہ اور ہر موقع پر بغیر کسی ضرورت کے سچی بات کا اظہار کر دینا بعض اوقات سوء اخلاقی کے عیب کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.مثلاً ایک شخص کو اپنے کسی ایک بھائی کے بعض عیوب کا علم ہے اگر وہ مجلس میں سب لوگوں کے رو برواس کے عیوب کا اظہار شروع کر دے تو ایسا شخص اگر چہ بیچ ہی بول رہا ہو گا لیکن اخلاق فاضلہ اس کے اس فعل کے متقاضی نہیں ہیں.اس شخص کا سچی بات بیان کرنا اس موقع پر خدا کی رضا کا نہیں بلکہ خدا کی ناراضگی کا موجب ہوگا.انسان خود اپنے متعلق بعض باتوں کا اظہار کرنا مناسب نہیں سمجھتا.مثلاً اسے علم ہو کہ آج اس کی والدہ نے غسل کیا ہے تو کیا اس بات کو (اگر چہ بچی ہے ) لوگوں کے سامنے بیان کرنا نا مناسب خیال نہیں کرتا ؟ پس جب خود اپنے نفس کے متعلق وہ تمام باتوں کا اظہار نہیں کرتا (اگر چہ وہ باتیں کچی ہی ہوں ) تو دوسروں کے متعلق کیوں اس بات کو پسند کرتا ہے.تو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جھوٹ سے بلکلی اجتناب ہو لیکن سچ بولنے کے لئے ضرورت اور موقع کا لحاظ رکھا جائے تا ایسا نہ ہو کہ بداخلاقی پیدا ہو جائے.پھر بعض موقعوں پر ضروری بھی ہوتا ہے کہ سچی بات کا اظہار کر دیا جائے لیکن بات کے بیان کرنے کا ایسا طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ بے ادبی کا عیب پیدا ہو جاتا ہے.دیکھو ایک ہی مفہوم کو کئی طریق سے ادا کیا جا سکتا ہے.مثلاً کسی کو کہنا ہو کہ کھانا کھا لوتو کئی فقرے ہو سکتے ہیں مثلاً کھانا تناول فرمائیے بھی کہہ سکتے ہیں اور کھانا ٹھونس لیجئے“ یا ”کھانا نگل لیجئے“ بھی کہہ سکتے ہیں.اگر چہ مطلب ان سب فقروں کا ایک ہی ہے کہ کھانا کھا لولیکن اس مطلب کو ایک طریق سے ظاہر کیا جائے تو ادب اور اخلاق بھی قائم رہتے ہیں مگر دوسرے طریق

Page 89

زریں ہدایات (برائے طلباء) 84 جلد سوم میں بے ادبی اور بداخلاقی پائی جاتی ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرُنَا وَاسْمَعُوا العنی تم رَاعِنَا | مت کہو اور انظرنا کہو.اب رَاعِنَا اور انظرنا کا مطلب ایک ہی ہے یعنی ہماری رعایت رکھیے یا ہماری طرف نظر رکھیے لیکن پھر بھی رَاعِنَا کہنے سے ممانعت کی گئی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ رانا کا مادہ باب مفاعلہ سے ہے اور اس باب میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ تم مقابل میں ایک بات کرو گے تب ہم تمہارے لیے ایسا کریں گے.اور راعنا میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ آپ ہماری رعایت رکھیں گے تب ہم بھی آپ کی رعایت ملحوظ رکھیں گے ورنہ نہیں.مگر انظرنا کے معنی صرف یہی ہیں کہ آپ ہماری رعایت رکھیے یا ہماری طرف نظر رکھیے.پس راعنا کے معنی اگر چہ عام محاورہ میں یہی ہیں کہ آپ ذرا ہماری رعایت رکھیے لیکن اس لفظ کے مادہ میں چونکہ بے ادبی کا مفہوم پایا جاتا ہے کیونکہ بڑے آدمی کو جس کا ادب ملحوظ رکھنا چاہئے یہ کہنا کہ ہم آپ کی رعایت اور ادب صرف اس صورت میں رکھیں گے کہ جب آپ بھی ہماری رعایت رکھیں گے ایک سخت بے ادبی کا کلام ہے اس لئے اس کی مخالفت فرمائی ہے اور اسی مفہوم کو ایسے لفظ میں ادا کرنے کے لیے حکم دیا ہے جس میں بے ادبی کا بالکل احتمال نہ ہو.اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی بات کو بیان کرنے کے لئے ادب کا طریق بھی ہو سکتا ہے اور بے ادبی کا طریق بھی ہوسکتا ہے.مومن کیلئے لازم ہے کہ ضرورت پر بات کو سچ سچ بیان کر دیوے لیکن اس بات کا خیال ضرور رکھے کہ اس کے بیان کرنے کے طریق اور الفاظ میں بے ادبی اور بداخلاقی نہ ہو.دوسری بات یہ ہے کہ دین کی طرف توجہ ہو.فرمایا یہ مرض عموماً کالج کے طلباء میں ہے کہ وہ دین کی طرف توجہ نہیں کرتے اور دین کو اہم امور میں سے شمار نہیں کرتے عمل پیرا ہونا تو درکنا را حکام دین کے علم سے بھی غافل اور بے خبر رہتے ہیں.فرما یا اول تو دینی علوم سے واقفیت ہونی چاہئے.عام طور پر طلباء یہ خیال کر لیتے ہیں کہ دین کا علم سیکھنے کے لئے کوئی زیادہ وقت یا محنت درکار نہیں ہے.وہ سمجھ لیتے ہیں کہ

Page 90

زریں ہدایات (برائے طلباء) 85 جلد سوم دین کا علم سیکھنے کا کام تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی گولی پانی میں حل کی اور اسے پی لیا اور اندر چلی گئی ایسا ہی دین ہے کہ بس چند دنوں میں جب ذرا توجہ کریں گے تو دین کا علم ہمارے اندر داخل ہو جائے گا.دین ان کے خیال میں ایک چھوٹی سی چیز ہے اور اگر محنت اور وقت درکار ہے تو ظاہری علوم کے لئے ہے.دین کے لئے کسی لمبے وقت کی ضرورت | نہیں.اکثر طالب علموں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ جب ہم کالج سے فارغ ہو جائیں گے تو جہینہ کیلئے قادیان جائیں گے وہاں ہمارے لیے استاد مقرر کر دیا جائے گا جو ہمیں اتنے عرصہ میں دین کے تمام مسائل سے واقف کر دے گا حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ ایک ماہ میں یا اس سے کچھ زیادہ عرصے میں دین سیکھا جا سکتا ہے.ان کے اس خیال کے پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ دین کو چھوٹی سی چیز خیال کرتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ دین کے علم کی وسعت ظاہری علوم کی وسعت سے بہت زیادہ ہے.اور دین کے علوم کی تفصیلات اور باریکیاں ظاہری علوم کی تفصیلات اور باریکیوں سے بہت زیادہ ہیں.جب ظاہری علوم کے حاصل کرنے میں بھی لمبا عرصہ اور بڑی محنت درکار ہے تو دین کے علوم حاصل کرنے میں بھی لمبا عرصہ اور بڑی محنت درکار ہے اور دین کے علوم حاصل کرنے کیلئے بھی بہت زیادہ عرصہ اور محنت کی ضرورت ہے.فرمایا دین کا علم حاصل کرنے کیلئے بہت سی دینی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.مثلاً قرآن کریم، کتب احادیث، کتب حضرت مسیح موعود اور صوفیاء کی کتابیں وغیرہ وغیرہ.اول تو ان سب کتابوں کے پڑھنے کے لئے بھی ایک لمبا عرصہ اور محنت درکار ہے.پھر اگر کوئی ان سب کتابوں کو پڑھ لے تب بھی یہ خیال غلط ہے کہ اس نے دین کا علم کامل طور پر سیکھ لیا ہے کیونکہ ان کتابوں کو ایک دفعہ عبور کرنے سے یہ نہیں ہوتا کہ سب کو سمجھ بھی لیا ہے.بلکہ بسا اوقات انسان ایک بات کو بیسیوں دفعہ پڑھتا ہے لیکن اس کا صحیح مفہوم یا اس بات کی خوبی کا علم اس کے ذہن میں نہیں بیٹھتا.پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہی بات اس کے سامنے سے گزرتی ہے اور فوراً اس بات کا صحیح مفہوم یا کوئی لطیف معنی اس کے قلب میں

Page 91

زریں ہدایات (برائے طلباء) 86 جلد سوم داخل ہو جاتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک انسان کے قلب میں ایک بات کی قبولیت کا مادہ نہ ہو تب تک وہ بات چاہے بیسیوں دفعہ اس کی نظر سے گزرے اس کے قلب میں وہ بات داخل نہیں ہوتی.پھر جس وقت کہ اس بات کی قبولیت کا مادہ اس کے قلب میں موجود ہوا گر اتفاقاً بھی ایسے وقت میں وہ بات اس کے سامنے سے گزر جائے تو ایسا ہوتا ہے کہ وہ بات اس کے قلب پر بجلی کی طرح اثر کرتی ہے اور اس بات کے لطیف | اور صحیح معنی اس کی سمجھ میں آجاتے ہیں تب وہ حیران ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ بات اس نے آج ہی پڑھی ہے.دیکھو! مادیات میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.مثلاً آٹھ آدمی ایک جیسے حالات میں رہتے ہیں اور ایک ہی کنویں سے پانی پیتے ہیں ان میں سے دو کو ہیضہ ہو جاتا ہے اور چھ بالکل صحیح سلامت رہتے ہیں.اب اگر چہ ہیضہ کے کیڑوں والا پانی سب نے پیا ہے لیکن سب میں ان کیڑوں کے اثر کی قبولیت کا مادہ موجود نہ تھا.ان میں سے دو میں چونکہ اس بیماری کے کیڑوں کے اثر کے لئے قبولیت کا مادہ موجود تھا اور اتفاقاً اس مادہ کی موجودگی میں ہیضہ کے کیڑے بھی داخل ہو گئے اس لئے ان دو کو تو ہیضہ ہو گیا اور باقیوں کو نہ ہوا.فرانس کے ایک ڈاکٹر نے جرمن تھیوری کو غلط ثابت کرنے کی غرض سے ایک شیشی کی شیشی ہیضہ کے کیڑوں کی کھالی لیکن اسے ہیضہ نہ ہوا کیونکہ اس کے اندر ہیضہ کے کیڑوں کے اثر کے لئے قبولیت کا مادہ موجود نہ تھا.اسی طرح پیلو فیور (Yellow Fever ) کا باعث جس قسم کے مچھر ہوتے ہیں اس قسم کے مچھر ایک ڈاکٹر کے سارے بدن پر لڑائے گئے لیکن اسے بخار نہ ہوا.پھر ایک اور ڈاکٹر کو ایک مچھر سے لڑایا گیا اور اسے بخار ہو گیا.ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب تک کسی بات کے لئے قبولیت کا مادہ موجود نہ ہو تب تک وہ بات چاہے بیسیوں دفعہ سامنے سے گزرے اس کا اثر انسان قبول نہیں کرتا اور دین کے علوم میں بھی ایسا ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص کو وفات مسیح کا عقیدہ سمجھانے کیلئے ہیں سال تک تبلیغ کی جاتی ہے اور قرآن اور حدیث اور بائبل اور کتب تاریخ وغیرہ سے دلائل اس کے سامنے بار بار پیش

Page 92

زریں ہدایات (برائے طلباء) 87 جلد سوم کیے جاتے ہیں لیکن اس کا قلب اس عقیدہ کو قبول نہیں کرتا.پھر ایسا ہوتا ہے کہ اکیسویں سال میں جا کر اسے اس مسئلہ کی سمجھ آجاتی ہے.اب کوئی نئے دلائل تو نہیں تھے جو اسے ہیں سال تک نہ بتائے گئے ہوں اور اکیسویں سال میں سنائے گئے اور اسے وفات مسیح پر یقین ہو گیا بلکہ وہی دلائل تھے جو بار بار اس کے سامنے پیش کیے جاتے تھے.بات یہ تھی کہ میں سال تک اس کے قلب میں وفات مسیح کی قبولیت کیلئے مادہ موجود نہ تھا اس لئے دلائل کے پیش کرنے کے باوجود اس نے اس عقیدہ کو قبول نہ کیا.پھر جس وقت کہ اس کے قلب میں قبولیت کا مادہ موجود تھا اور اتفاقاً ایسے وقت میں پھر اس کے سامنے یہ بات پیش کی گئی تو اس کے قلب میں یہ عقیدہ داخل ہو گیا.پھر دیکھو قرآن کریم کی آیات کے معانی اور معارف سمجھنے میں بھی ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایک آیت کو کئی بار انسان پڑھ جاتا ہے اور اسے سمجھ نہیں آتی.پھر ایک وقت میں بجلی کی طرح اُس کے قلب میں وہ آیت اثر کرتی ہے اور انسان خیال کرتا ہے کہ یہ آیت تو ابھی اتری ہے.حضرت عمرہ جیسے جلیل القدر انسان کی نظر سے بھی یہ آیت کئی دفعہ گزرتی ہے کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ 2 لیکن آپ کی | سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ اس میں رسول کریم ﷺ کی وفات کا ذکر ہے اور آپ یہ کی وفات پر قسمیں کھاتے ہیں کہ آپ ﷺ فوت نہیں ہوئے.لیکن حضرت ابوبکر نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ | كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَى لَا يَمُوتُ تو اُس وقت حضرت عمر پر بجلی کی طرح اس آیت کا اثر ہوا اور آپ کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ اس آیت میں رسول کریم ﷺ کی وفات کا ذکر تھا.اور آپ کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا یہ آیت ابھی آسمان سے نازل ہوئی ہے.3 پس دین کے علوم سیکھنے کیلئے دین کی کتابیں صرف ایک دفعہ پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا بلکہ چاہئے کہ انسان ان کو بار بار پڑھے تا کہ جس وقت اس کے قلب میں قبولیت کی کیفیت

Page 93

زریں ہدایات (برائے طلباء) 88 جلد سوم موجود ہو اُس وقت بھی اس کی نظر ان کتابوں پر سے گزرے اور اس طرح سے دین کی سمجھ حاصل ہو.پھر یہی نہیں بلکہ روحانی علوم بے انتہاء ہیں.میں نے ایک رویا میں دیکھا کہ میں ایک شخص کو سمجھا رہا ہوں کہ علوم روحانی کے دروازے ہوتے ہیں.ایک روحانی مقام ایسا ہوتا ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر انسان پر احکام دین کے متعلق نئے علوم کھلتے ہیں جن سے عوام بالکل بے خبر ہوتے ہیں.اس مقام پر پہنچنے والے انسان کیلئے بعض وہ چیزیں جو عوام کے لئے طیب بلکہ اطیب ہوتی ہیں اس کے لئے صرف حلال ہوتی ہیں.اور بعض وہ چیز میں جو عوام کے لئے حلال ہوتی ہیں اس کے لئے حرام ہو جاتی ہیں.بعض وقت اس پر سونا حرام ہوتا ہے اور جاگنا واجب ہو جاتا ہے اور بعض وقت اس پر جا گنا حرام ہو جاتا ہے اور سونا واجب ہو جاتا ہے.ایسے انسان کے لئے اپنی صحت کے قیام کے واسطے بعض اوقات سیر کرنا اور آب و ہوا کی تبدیلی کرنا واجب ہو جاتا ہے اور اگر ایسا نہ کرے تو گناہ کا موجب ہو جاتا ہے.پس یاد رکھنا چاہئے کہ دین کے ظاہری احکام کے جان لینے پر ہی دین کے علم کا انتہا نہیں ہے بلکہ اور بھی بے انتہا روحانی علم کا سمندر باقی ہوتا ہے.پھر کس قدر غلطی ہے اس کی جو یہ خیال کر لے کہ دین کے علم سیکھنے کے لئے کسی لمبے وقت اور محنت کی ضرورت نہیں ہے.فرمایا کہ ہمارے طلباء کو چاہئے کہ دین کے علم کو معمولی اور چھوٹی چیز خیال نہ کریں اور یہ نہ سمجھیں کہ کالج سے فارغ ہو کر چند ماہ اس کے سیکھنے کے لئے کافی ہوں گے بلکہ ابھی سے دین سیکھیں.پھر احکام دین پر عمل کی بھی ضرورت ہے عمل کے بغیر تو کچھ بھی فائدہ نہیں.فرمایا یہ نقص عام طور پر ہماری جماعت میں داخل ہونے والی عوام میں پایا جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مسائل کو سمجھ لیا تو ہمارا فرض ادا ہو گیا.وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی صداقت کو مان لیا بس ہمارا مقصود حاصل ہو گیا حالانکہ یہ بات غلط ہے.وفات مسیح کے عقیدہ کو اختیار کرنا یا حضرت صاحب کی صداقت پر یقین کرنا یہ چیزیں تو اصل مقصود نہیں

Page 94

زریں ہدایات (برائے طلباء) 89 جلد سوم ہیں.اصل مقصود تو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا ہے اور وہ تب حاصل ہو گا جب ہم ان باتوں پر عمل کریں گے جو حضرت صاحب نے اپنی تعلیم میں بیان فرمائی ہیں.جو لوگ سلسلہ احمدیہ کی صداقت کے پالینے کو ہی اصل مقصود سمجھ کر خوشی منائیں کہ ہم کامیاب ہو گئے ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک پیاسے کو مدت کی تلاش کے بعد ایک ٹھنڈے پانی کا چشمہ مل | جائے مگر وہ اس پانی کو پئے تو نہیں لیکن خوشی منائے کہ میں نے اپنا اصل مقصد حاصل کر لیا.اصل مقصد تو پیاس بجھانا تھا جو نہیں مجھے گی جب تک پانی پی نہ لے.یا ان کی مثال ایسے شخص کی مثال ہے جو بھوکا ہے اور اسے بڑی تلاش کے بعد کھا نامل گیا ہے اب وہ اسے کھا تا تو نہیں لیکن خوشی مناتا ہے کہ میں نے مقصد کو پا لیا.یا جو شخص نگا ہے اور اسے کپڑے مل جائیں اب وہ کپڑوں کے مل جانے پر ہی خوشی منائے اور انہیں پہنے نہیں.جب تک پیا سا پانی پئے گا نہیں یا بھوکا کھا نا کھائے گا نہیں اور نگا کپڑا پہنے گا نہیں تب تک صرف پانی یا کھانا یا کپڑے مل جانے سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.اسی طرح وہ آسمانی پانی جو حضرت مسیح موعود کی معرفت خدا نے اتارا ہے ( یعنی آپ کی تعلیم ) جب تک پیا نہ جائے تب تک خدا تعالیٰ کی محبت کی پیاس بجھ نہیں سکتی.حضرت مسیح موعود کی مثال ایک ڈاکٹر کی مثال ہے.اگر کسی بیمار کو ایک لائق ڈاکٹر مل جائے تو جب تک وہ اس ڈاکٹر کی بتائی ہوئی دوائیں استعمال نہ کرے گا تب تک ہر گز شفاء نہ پائے گا.جب تک واقعی طور پر اور سچ سچ اس راستہ پر انسان نہ چلے جو خدا تک پہنچنے کے لئے حضرت صاحب نے بتایا ہے تب تک حقیقی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کو انسان پا نہیں سکتا.پس صرف مسائل کی حقانیت کو سمجھ لینے کو ہی اصل مقصود سمجھنا غلطی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ احکام دین پر عمل بھی کیا جاوے.سودین کی طرف توجہ کی ضرورت ہے.دین کا علم سیکھا جائے اور دین کے احکام پر عمل کیا جائے.اب جس طرح پہلی بات یعنی سچ بولنے کے متعلق ایک احتیاط ضروری تھی جس کو مد نظر نہ رکھنے کی وجہ سے اس کے مقابل میں ایک عیب یعنی بداخلاقی کے پیدا ہونے کا احتمال تھا

Page 95

زریں ہدایات (برائے طلباء) 90 جلد سوم اسی طرح دین کی طرف توجہ کرنے کے متعلق بھی ایک احتیاط ضروری ہے ورنہ اس صفت کے مقابل پر ایک عیب پیدا ہو جائے گا جو ریاء کا عیب ہے.اس عیب کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں مادیت کے اثر کے ماتحت لوگ احکام دین کی حقیقت اور مغز کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور محض قشر اور احکام دین کو ظاہری طور پر ادا کر دینے کو ہی کافی سمجھتے ہیں اور اسی پر مطمئن ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر لیا حالانکہ حقیقت اور مغز سے محض نا آشنا ہوتے ہیں.یہ نقص نئی تعلیم کے حاصل | کرنے والوں میں بہت عام طور پر پایا جاتا ہے.مادیت کے اثر کے ماتحت وہ انسان کو کوئی احسن تقویم مخلوق خیال نہیں کرتے جس کے لئے روحانیت میں اعلیٰ ترقی کے میدان خالی ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ بندر سے پیدا ہوا ہے اور دوسرے حیوانوں میں اور اس میں صرف یہی فرق ہے کہ اس کا دماغ ذرا زیادہ اعلیٰ قسم کا ہے.یا یہ خیال کرتے ہیں کہ روح تو کوئی چیز نہیں ہے کیونکہ پڑھتے ہیں کہ جسم کی تمام حرکات دماغ اور اعصاب کے ذریعے سے ہیں.اور پھر یہ ایسی کتابیں پڑھتے ہیں کہ جن میں Psychology علم النفس والوں نے یہ لکھا ہے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے نیچر کے حالات سے مجبور ہو کر کرتا ہے اور اس کا اپنا ارادہ کچھ چیز نہیں کیونکہ جس چیز کو یہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے وہ بھی نیچر کے بعض اور حالات کی وجہ سے پیدا ہو گیا ہے.گویا یہ سب کام ارادے سے نہیں بلکہ ایک مجبوری سے کرتا ہے.غرضیکہ ان باتوں کے پڑھنے سے عام طور پر مادیت کے خیالات دل میں بیٹھ جاتے ہیں اور روحانیت کا اثر دلوں میں بہت کم ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چند احکام کو ظاہری طور پر ادا کرنے پر یہ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چونکہ خدا کا حکم تھا اس لئے حکم کو بجالانے کیلئے عمل کرتے ہیں کیونکہ حکم کو بجالانے کے بغیر چارہ نہیں اور نہیں خیال کرتے کہ ان احکام پر عمل کرنے کی غرض روحانیت کے ترقی کے مقام کو حاصل کرنا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مثلاً خدا کا حکم ہے کہ نماز پڑھو اس لئے ہم نے نماز پڑھ لی بس حکم پورا کر دیا اور یہ خیال نہیں کرتے کہ جب تک نماز کا فائدہ حاصل نہ ہو تب تک گویا یہ صرف قشر

Page 96

زریں ہدایات (برائے طلباء) 91 جلد سوم پر ہی قناعت کر رہا ہے اور مغز کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا.ان احکام کو ظاہری طور پر ادا کرنا تو گویا ایک سیڑھی کی مانند ہے اب اگر انسان سیڑھی پر ہی کھڑا رہے اور چھت پر نہ پہنچے تو کیا اسے مطمئن ہو جانا چاہئے کہ اس نے اپنا کام کر لیا.اس طور سے حقیقت اور مغز کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نمازیں ریاء کی نماز میں ہو جاتی ہیں اور روزے سمعت کے روزے ہو جاتے ہیں.غرضیکہ دین کی طرف توجہ کی جائے لیکن اس عیب سے احتیاط کے ساتھ بچنا چاہئے کہ ہمارے اعمال ریاء کے طور پر نہ ہو جائیں اور احکام شریعت کو ظاہری طور پر ادا کر لینے پر مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے.تیسری بات یہ ہے کہ علم کے سیکھنے میں یہ خیال نہ کرو کہ اپنے سے ادنیٰ سے علم سیکھنے میں ہماری ہتک ہے.علم کی ترقی میں یہ بات بہت بڑی روک ہو جاتی ہے.یہ مرض آجکل کے کالج کے طلباء میں بہت پایا جاتا ہے.وہ اگر کسی بات کو قبول کرتے ہیں تو صرف اس بات کو جو ان کے کورس میں ہو.اس کے سوا اگر کسی دوسرے سے اس علم کے متعلق جو دہ پڑھ رہے ہوں کوئی بات سنیں تو یا تو اس کی طرف توجہ ہی نہیں کریں گے اس خیال سے کہ بھلا جب ہم نے اس علم کا کورس پڑھا ہوا ہے تو ہم سے زیادہ دوسرا شخص کس طرح جان سکتا ہے اس کی بات محض لغو اور اٹکل پچو ہوگی.اور یا پھر اگر کسی دوسرے سے کوئی بات سنیں گے بھی تو چاہے اس سے پہلے وہ بات ان کے وہم میں بھی نہ آئی ہو یہی کہیں گے کہ ہم کو تو اس بات کا پہلے سے علم ہے.اپنے علم کو ہر ایک سے زیادہ خیال کریں گے اور سمجھیں گے کہ ہم سے زیادہ کسی کا علم اگر ہوسکتا ہے تو ایک کورس کا ہی ہو سکتا ہے.اس بات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ وہ کسی اور کی بات پر توجہ کرتے ہیں اور نہ ان کا علم ترقی کرتا ہے.ان کا علم کو رس تک ہی محدودرہتا ہے.یہ اگر اپنے ہی استادوں کی طرف دیکھیں جن سے وہ علم سیکھتے ہیں یعنی یورپ کے ماہرین علوم کی طرف دیکھیں جن کی تصانیف میں سے چند کتابیں ان کے کورس میں داخل ہیں تو ان کو معلوم ہو کہ وہ لوگ جو علوم کی تہہ تک پہنچے ہیں

Page 97

زریں ہدایات (برائے طلباء) 92 جلد سوم وہ اسی طرح علوم کے مالک ہوئے ہیں کہ چاہے چھوٹی سے چھوٹی چیز سے ہی علم اور سبق حاصل کرنا پڑے تب بھی وہ علم سیکھتے تھے اور سبق حاصل کرتے تھے اور ادنی ادنی حیوانات سے بھی وہ علم سیکھتے ہیں.چنانچہ آجکل وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں چیونٹیوں سے تمدن اور سوشلزم (Socialism) کے اصول سیکھنے چاہئیں.نئی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ چیونٹیوں میں تمدن کے بڑے پختہ اصول پائے جاتے ہیں.چیونٹیوں میں ہر کام ایک انتظام کے ماتحت ہوتا ہے.ان میں سے بعض اس کام کے لئے مقرر ہوتی ہیں کہ غلہ جمع کریں.بعض غلہ کے سکھانے کا کام کرتے ہیں.بعض ان میں سے ڈاکٹروں کے فرائض بجالاتی.ان کے باقاعدہ ہسپتال ہوتے ہیں اور اگر کام کرتے وقت کسی چیونٹی کا بازو یا ٹانگ ٹوٹ جائے تو بعض اور چیونٹیاں اس کام کے لئے مقرر ہوتی ہیں کہ ان کو اٹھا کر آرام گاہ پر لے جائیں.غرضیکہ ان میں تمدن کے بہت اچھے اصول پائے جاتے ہیں اور یورپ کے لوگ اب کہتے ہیں کہ ان سے تمدن کے اصول سیکھنے چاہئیں.ایسا ہی بعض دوسرے کیڑوں کے متعلق بھی تحقیقات ہو رہی ہے کہ اگر ان سے بھی علم سیکھا جا سکتا ہے تو سیکھا جائے.تو جوان علوم کے ماہر ہیں وہ ادنی انسان چھوڑ ادنیٰ سے ادنی حیوان سے بھی علم کے سیکھنے میں عار نہیں سمجھتے اور علم سیکھنے میں لگے ہی رہتے ہیں اور اسی طریق سے انسان علم میں ترقی کرتا ہے اور اسی طریق سے علوم موجودہ وسعت تک پہنچے ہیں.دیکھوسن کو نا (CINCHONA) کا درخت جس ملک میں پایا جاتا ہے وہاں جنگلی لوگ آباد تھے.وہ لوگ موسمی بخار میں اس درخت کا چھلکا استعمال کرتے تھے.یورپ کے ڈاکٹروں نے ان جنگلیوں سے بھی علم سیکھنے میں عار نہ کی اور ان کے چھلکا استعمال کرنے کو تمسخر میں نہ اڑایا بلکہ تجربے کیسے اور معلوم ہوا کہ واقعی اس سے فائدہ ہوتا ہے اور اس چھلکے سے انہوں نے کونین نکالی جو اتنی مفید چیز ہے کہ اب بچہ بچہ اس کے فوائد سے واقف ہے.اگر یہ لوگ خیال کر لیتے کہ ہم تو علم پڑھے ہوئے ہیں ہم کو بھلا جنگلی لوگ کیا سیکھا سکتے ہیں تو کونین جیسی مفید چیز کا علم دنیا میں نہ پھیلتا.اسی طرح ایک بادشاہ کا ذکر ہے کہ اس کو کوئی بیماری

Page 98

زریں ہدایات (برائے طلباء) 93 جلد سوم ہوگئی طبیب نے کئی دواؤں سے علاج کیا مگر افاقہ نہ ہوا.اتفاقاً ایک بوڑھی عورت آئی اس نے کہا میں علاج بتاتی ہوں.چھلیوں کو ابال کر پانی پلایا جائے.طبیب نے اس بڑھیا کی بات کو حقارت سے نہ دیکھا بلکہ اس کی بات پر غور کر کے کہا کہ ہاں بے شک چھلیوں میں ایسے اجزاء پائے جاتے ہیں جو معدہ کیلئے بھی مفید ہیں اور دماغ اور اعصاب پر بھی ان کا اچھا اثر پڑتا ہے امید ہے کہ ان سے بیماری کو افاقہ ہوگا چنانچہ اس کو چھلیوں کا پانی پلایا گیا اور واقعی بیماری دور ہوگئی.دیکھو ایک ان پڑھ بڑھیا کی بات پر غور کیا تو طبیب کے اپنے علم میں اضافہ ہو گیا اور اگر وہ یہ سمجھتا کہ میں تو طب کا عالم ہوں اور یہ بڑھیا جاہل ان پڑھ ہے اس کی کیا حقیقت ہے کہ کسی بات میں مجھے سبق پڑھا سکے تو نہ تو بادشاہ کی بیماری دور ہوتی اور نہ ہی طبیب کے علم میں اضافہ ہوتا.پس یا درکھو کہ کبھی دل میں تکبر پیدا نہ کرو کہ ہم بڑے عالم ہیں ہمیں کون سبق دے سکتا ہے.حضرت امام ابو حنیفہ کا ذکر ہے ان سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے سب سے بڑا سبق کس سے سیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا استاد تو میرے بہت گزرے ہیں مگر سب سے بڑا سبق میں نے ایک بارہ برس کے بچے سے سیکھا ہے.فرمانے لگے ایک دفعہ بارش کے موسم میں میں باہر چلا جارہا تھا میں نے ایک بارہ برس کے بچے کو دیکھا کہ سڑک پر بھاگا جارہا تھا زمین پھسلنی تھی میں نے اسے کہا بھئی ! ذرا سنبھل کے چلنا کہیں گر نہ پڑو.اس نے آگے سے جواب دیا کہ اے امام! میں گرا تو اکیلا گروں گا اور اگر آپ گرے تو اکیلے نہیں بلکہ ایک دنیا آپ کے ساتھ گرے گی کیونکہ آپ امام و پیشوا ہیں پس آپ بہت ہی سنبھل کے چلئے.اب دیکھو حضرت امام ابوحنیفہ جیسے انسان ایک بارہ برس کے بچے سے سبق سیکھتے ہیں.غرضیکہ تکبر انسان کو جہالت میں رکھتا ہے.اپنے علم کو کامل سمجھنا ہی جہالت ہے.کولمبس کے واقعہ کا یوں ذکر ہے کہ اس نے مسلمانوں سے یہ بات سنی تھی کہ سپین کے مغرب میں جو اٹلانٹک اوشن ہے اس سے پرے بھی زمین ہے اور وہ ملک یورپ سے بھی بڑا ہے.( کولمبس کے زمانے سے تین سو سال قبل حضرت محی الدین ابن عربی کو کشف کے

Page 99

زریں ہدایات (برائے طلباء) 94 جلد سوم ذریعہ اس بات کا علم ہوا تھا کہ سمندر کے پرے بھی زمین ہے اور وہ ملک یورپ سے بھی بڑا ہے اور اس کشف کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے.وہ کتاب اب بھی موجود ہے اور اس میں یہ بات لکھی ہوئی ہے اس سے مسلمانوں میں یہ خیال پھیل گیا اور مسلمانوں سے کولمبس نے سنا تھا ) اس بات کو سن کر کولمبس کو تحقیق کا شوق پیدا ہوا لیکن وہ غریب تھا اس نے حکومت سے مدد حاصل کرنے کے لئے درخواست کی.اس پر چین کے بادشاہ نے اپنے امراء وزراء کو جمع کیا اور پادریوں کو بھی جمع کیا تا ان سے اس معاملے میں مشورہ لے کہ آیا کولمبس کو مدد دی جائے یا نہ دی جائے.روم کے پوپ کا جانشین کارڈ نیل بھی وہاں حاضر ہوا تھا اس نے کھڑے ہو کر کہا کہ اگر کولمبس کا خیال درست ہے کہ سمندر کو عبور کر کے زمین پر پہنچا جاسکتا ہے تو وہ زمین تو ہندوستان کی زمین ہی ہوگی کیونکہ اور کوئی ملک تو ہے نہیں.اور اگر ہندوستان تک ادھر سے پہنچا جا سکتا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ زمین گول ہے.اس کا رڈ نیل نے کہا کہ کولمبس پاگل ہے کیونکہ زمین گول نہیں ہوسکتی کیونکہ زمین گول نہ ہونے کیلئے دو دلیلیں ہیں.ایک تو یہ کہ اگر زمین گول ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ زمین پر بعض حصے ایسے ہوں گے جہاں لوگوں کے سر نیچے کی طرف ہوں گے اور پاؤں اوپر کی طرف ہوں گے اور بارش وہاں نیچے سے اوپر کو ہوتی ہوگی اور درخت اوپر سے نیچے کو بڑھتے ہوں گے وغیرہ.جب یہ باتیں خلاف عقل ہیں تو زمین گول کیسے ہوسکتی ہے؟ پھر اس نے کہا کہ زمین گول نہیں ہوسکتی کیونکہ توریت میں زمین چپٹی لکھی ہے.دیکھو اس کارڈینل نے تکبر کیا اور کولمبس کو جاہل اور پاگل قرار دیا حالانکہ خود جہالت ہے.ان میں پھنسا ہوا تھا.آجکل بچہ بچہ جانتا ہے کہ زمین کو چھپٹی کہنا جہالت اور پاگل پن ہے.سب باتوں سے معلوم ہوا کہ ادنی آدمی سے علم سیکھنے کو عار سمجھنا اور تکبر کرنا جہالت ہے.آجکل کے طلباء کنویں کے مینڈک کی طرح اپنے علم کو کامل سمجھ لیتے ہیں.اپنے علم کو کامل سمجھ لینا علم میں بہت بڑی روک ہوتی ہے.بلکہ جوں جوں انسان علم میں ترقی کرتا

Page 100

زریں ہدایات (برائے طلباء) 95 جلد سوم ہے توں توں اس پر اپنے علم کا نقص اور بھی کھلتا جاتا ہے.دیکھو علوم کے ماہر جب نئی باتیں بیان کرتے ہیں تو اکثر مشکی طور پر بیان کرتے ہیں اور تھیوری (Theory) کے رنگ میں بات پیش کرتے ہیں.مگر ایک ان پڑھ آدمی کو کسی بیماری کے ایک نسخہ کا علم ہو تو وہ تحدی کے ساتھ کہتا ہے کہ بھئی! یہ دوائی استعمال کرو فوراً شرطیہ آرام آجائے گا.لیکن ایک ڈاکٹر جب دوا تجویز کرے گا تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ شرطیہ آرام آجائے گا بلکہ وہ کہے گا کہ میں ذمہ نہیں لے سکتا امید ہے کہ اس سے فائدہ ہوگا.پس اپنے علم کو کامل سمجھ لینا ہی جہالت ہے.طلباء کو اپنی طبیعت میں انکساری پیدا کرنی چاہئے تا علم میں ترقی ہو.لیکن خیال رہے کہ اس انکساری پیدا کرنے کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ طبیعت میں دنایت اور کم ہمتی پیدا ہو جائے.ایسا نہ ہو کہ جو بات سنوا سے فوراً ہی قبول کرلو بلکہ بات سنوضرور اور اس نیت سے سنو کہ اگر صحیح اور حق بات ہو تو قبول کر لیں گے لیکن بغیر تحقیق کے فوراً قبول کر لینا درست نہیں اس سے دنایت پیدا ہوتی ہے خدا داد عقل کو بھی استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے.پس (1) سچ بولنے کی عادت ڈالی جائے.تمہارے کلام میں کسی قسم کا جھوٹ کا شائبہ نہ ہو.لیکن ایسے موقعوں پر جہاں کچی بات کے اظہار کی ضرورت نہ ہو اور سچی بات کے بیان کرنے سے بداخلاقی کے عیب کے پیدا ہونے کا احتمال ہو وہاں سچی بات کا اظہار نہ کرو اور خاموش رہو.اور جس جگہ سچی بات کا اظہار ضروری ہو وہاں بھی ایسے طریق سے اجتناب چاہئے جو بے ادبی کا طریق ہو.(2) دین کی طرف توجہ کرو.دین کے علم کو معمولی نہ سمجھو.دین کا علم سیکھو اور بار بار دینی کتب کا مطالعہ کرو اور دین کے احکام پر عمل کرو.لیکن چند احکام کو صرف ظاہری طور پر ادا کر لینے کو ہی کافی نہ سمجھو اور ان احکام کی روحانی حقیقت اور مغز اور فائدہ کے حاصل کر لینے کے بغیر مطمئن نہ ہو.ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ریاء کا رنگ اختیار کر لیں.(3) علم سیکھو اور اپنے سے ادنی انسان سے بھی علم سیکھنے میں عار نہ سمجھو.اپنے علم کو کامل نہ

Page 101

زریں ہدایات (برائے طلباء) 96 جلد سوم سمجھو اور اپنے اندر تکبر پیدا نہ کرو بلکہ طبیعت میں انکساری پیدا کرو.لیکن اس انکساری کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ طبیعت میں دنایت اور کم ہمتی پیدا ہو جائے.ایسا نہ ہو کہ جو بات سنو فوراً قبول کر لو.بات کو سنوضرور اس نیت سے کہ اگر حق ہو تو قبول کر لیں گے.لیکن بغیر تحقیق (الفضل 13 اکتوبر 1921ء) کے قبول نہ کرو.“ 1: البقرة: 105 2 آل عمران: 145 3 بخاری کتاب المغازى باب مرض النّبيِّ صلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاته صفحه 757 حدیث نمبر 4454 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 102

زریں ہدایات (برائے طلباء) 97 جلد سوم مدرسہ احمدیہ قادیان کے متعلق حضرت خلیفۃ الثانی کا ارشاد برادران جماعت احمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مدرسہ احمدیہ کے منتظمین کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کا پراسپیکٹس چھاپ کر آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اس موقع پر میں بھی کچھ الفاظ مدرسہ کی سفارش کے طور پر تحریر کردوں.میں حیران ہوں کہ اس مضمون پر کیا تحریر کروں.مدرسہ احمدیہ کی ضرورت اور اس کا فائدہ ایسا بین ہے کہ یہ خیال بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے کہ جماعت کی توجہ اس کی طرف ویسی نہیں ہے جیسی کہ ہونی چاہئے.مدرسہ احمدیہ کی ضرورت کے متعلق صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ اگر مسیح موعود نے دنیا میں کوئی کام کیا ہے اور اگر آپ کا وجود دنیائے اسلام میں کسی قسم کا تغیر پیدا کرنے میں کامیاب ہوا ہے تو پھر مدرسہ احمد یہ یا ایسے ہی کسی درسگاہ کے بغیر خواہ اس کا کچھ ہی نام رکھ لیا جاوے چارہ نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے اپنی متفرق تحریرات میں تحریر فرمایا ہے.آپ کا صرف یہی کام نہیں تھا کہ مسیح ناصری کی وفات کی طرف توجہ دلائیں بلکہ آپ نے رائج الوقت اسلامی عقائد، رائج الوقت اسلامی تغییر ، رائج الوقت علم حدیث ، رائج الوقت علم کلام اور رائج الوقت علم فقہ اور اصول فقہ، رائج الوقت علم تصوف اور رائج الوقت علم اخلاق میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا ہے.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ان علوم کے لئے آپ نے نیا آسمان نئی زمین پیدا کر دی ہے.اور اسی کی طرف اس کشف میں اشارہ ہے جس پر نادان مخالف آج تک ہنسی اڑاتا اور آپ کو خدائی کا دعویدار قرار دیتا ہے.اس عظیم الشان تغیر علمی میں جو پچھلے تیرہ سو سال کے اندر اپنی نظیر آپ ہی ہے اور نہ معلوم کتنی صدیوں تک

Page 103

زریں ہدایات (برائے طلباء) 98 جلد سوم دنیا کے لئے ایک ہی راہنما ہو گا باریک بین نظر کیلئے ایسے سبق اور سامانِ اطمینان پیدا ہیں کہ وہ ان سے واقف ہونے کے بعد پرانے علوم کی طرف ( جو رسول کریم ﷺ کی طرف منسوب کیے جاتے ہیں لیکن آپ ﷺ سے اسی قدر دور ہیں جس قدر نور سے ظلمت ) لوٹنا ایک موت بلکہ موت سے بدتر اور روح اور ضمیر کیلئے ایک گھناؤنا اور قابل نفرت فعل خیال کرتا ہے.پس اس قدر تغیرات عظیمہ کے برقرار رکھنے اور ان کے اثرات کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے جب تک ایسے آدمی نہ ہوں جو اپنے پورے اوقات کو صرف کر کے اس امانت کی حفاظت کریں لمبا عرصہ تو الگ رہا ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے کہ دو تین نسلوں تک یه علوم محفوظ رہ سکیں.پس اگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی تحریر کیا ہے حضرت مسیح موعود نے مبعوث ہو کر تمام علوم دینیہ مروجہ میں ایک عظیم الشان انقلاب پیدا کر دیا ہے اور صرف ایک دو مسئلوں پر روشنی نہیں ڈالی.تو ان علوم کے محافظ پیدا کرنے بھی نہایت ضروری ہیں اور ایسے علماء ایک زبردست علمی | درسگاہ کی موجودگی کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتے اور یہی غرض مدرسہ احمدیہ کی ہے.اس وقت تک ابتدائی حالت کی وجہ سے اس غرض پر پورے طور سے زور نہیں دیا جا سکتا تھا مگر میں نے اب اس کے نصاب میں تغیر کر کے اسے ایسے رنگ میں چلانے کی ہدایت کی ہے کہ آئندہ یہی غرض اس کے منتظموں کے زیر نظر رہے اور آہستہ آہستہ چار سال کے عرصہ میں کالج تک ترقی دینے کا فیصلہ کر دیا ہے.وَاللهُ الْمُوَقِّقُ.ان تغیرات کے بعد اور ایک مقصد عظیم کو اس مدرسہ کے نصب العین کر دینے کے بعد اس کی اندرونی اصلاح کے ساتھ میں چاہتا ہوں کہ اس کی بیرونی حالت کی درستگی کی طرف بھی توجہ دی جائے اور یہ کام بغیر جماعت کی توجہ کے نہیں ہوسکتا.مدرسہ کے منتظمین اور اسا تذہ خواہ کس قدر بھی توجہ کریں لیکن آگے طالب علم کافی تعداد میں نہ ہوں یا اس قابلیت کے نہ ہوں جو اس امانت کے قابل ہو سکیں تو ان کی کوششیں اور ہماری سعی حسب دل خواہ بار آور نہیں ہوسکتی.پس میں اس تحریک کے ذریعہ تمام جماعت احمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس

Page 104

زریں ہدایات (برائے طلباء) 99 جلد سوم غفلت کو بھی اسی طرح دور کر دے جس قدر کہ دوسری غفلتوں کو دور کرنے میں وہ کامیاب ہو چکی ہے.مدرسہ احمدیہ تمہاری عملی جدوجہد کا نقطہ مرکزی ہے اور اسی کی کامیابی پر اس امر کا فیصلہ ٹھہرا ہے کہ آئندہ سلسلہ کی تبلیغ جاری رکھی جاسکے گی یا نہیں؟ آپ لوگوں میں سے بہت یہ خیال کرتے ہیں کہ انگریزی تعلیم کے ساتھ سلسلے کی کتب پڑھنے سے ہم اس غرض کو پورا کر سکتے ہیں جو اس سلسلے کے نظام علمی کے درست رکھنے کیلئے ضروری ہے لیکن اس سے بڑھ کر اور کوئی غلطی نہیں ہو سکتی.بیشک حضرت مسیح موعود کی کتب کا اکثر حصہ اردو میں ہے لیکن کیا جس زبان کو انسان سمجھ سکتا ہو اس میں لکھی ہوئی کتاب کو بھی ضرور سمجھ سکتا ہے.اگر یہ بات ہوتی تو سب سے زیادہ قرآن کریم کو سمجھنے والے اہل عرب ہوتے.بیشک بغیر کسی زبان کے سمجھنے کے اس میں لکھی ہوئی کتاب کو انسان نہیں سمجھ سکتا لیکن کتاب کے سمجھنے کیلئے صرف یہی ضروری نہیں اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ استاد کے ذریعہ سے اس کی رموز اور باریکیوں کو حاصل کرے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت صاحب نے قرآن اور احادیث کے علوم کے متعلق اصول بیان کئے ہیں ان کی مکمل تغیر نہیں لکھی اور جب تک کوئی شخص ان اصول کے ماتحت قرآن کریم اور احادیث کی کتب نہ پڑھے وہ ان اصول سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اور اس کیلئے علاوہ استاد کی مدد کے عربی زبان کے وسیع علم کی ضرورت ہے.یہی حال علم تصوف علم فقہ اور علم اخلاق کا ہے.پس بغیر عربی زبان کے وسیع علم کے اور بغیر ان علوم کی کتب کے بالاستیعاب مطالعہ کے جو حضرت مسیح موعود کے بنائے ہوئے اصول کی روشنی میں ہو یہ بات حاصل نہیں ہوسکتی.پس جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ عربی زبان کی محمد بد حاصل | کر کے اور اپنے طور پر تھوڑا سا مطالعہ کر کے خدمت دین حقیقی معنوں میں کر سکتے ہیں وہ ایسے ہی دھوکا خوردہ ہیں جیسا کہ وہ شخص جو ایک ہلدی کی ایک گھٹی لے کر پنساری بن بیٹھا تھا.یہ ممکن ہے کہ بعض مسائل کو یاد کر سکے، کوئی شخص عوام میں سے بعض کو ان مسائل سے واقف کر سکے لیکن علوم دینیہ کا ماہر نہیں ہو سکتا اور نہ ان کا محافظ کہلا سکتا ہے.یہ ایک

Page 105

زریں ہدایات (برائے طلباء) 100 جلد سوم با قاعدہ اور لمبی جد و جہد سے ممکن ہے.اس کے حصول کا کوئی اور ذریعہ نہیں.پس ہماری جماعت کے دولتمندوں اور درمیانی درجہ کے آدمیوں کو اس مدرسہ کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.اور رو پید اور بچوں سے اس کی ترقی کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ اس کے ذریعہ سے ہمیں ایسے واعظ جو علوم دینیہ کی حفاظت کر سکیں اور ایسے مبلغ جو بیرونی دنیا کو تمام مسائل مختلفہ میں تشفی بخش جواب دے سکیں حاصل ہوسکیں.اور تا علوم کی وہ نہر جو حضرت مسیح موعود نے جاری کی ہے منڈیروں کے نقص کی وجہ سے ہماری غفلت کے سبب ادھر ادھر بہہ کر ضائع نہ ہو جاوے اور ہماری آئندہ نسلیں بجائے دعا کرنے کے ہم سے نفرت کا اظہار نہ کریں اور تا خدا تعالیٰ کی ناشکری کے جرم کے مرتکب ہو کر اس کی ناراضگی کے ہم مستحق نہ بنیں.آمین.اَللَّهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الشَّاكِرِينَ وَلَا تَجَعَلْنَا مِنَ الْكَافِرِيْنَ - وَ آخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ خاکسار مرز امحمود احمد قادیان " الفضل 20 مارچ 1922ء)

Page 106

زریں ہدایات (برائے طلباء) 101 جلد سوم کا نفرنس کے موقع پر مدرسہ احمدیہ سے متعلق ارشاد کانفرنس کے موقع پر مدرسہ احمد یہ قادیان سے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے جو " ارشاد فرمایا وہ حسب ذیل ہے:.اب رات بہت گزرگئی ہے باقی امور اس وقت پیش نہیں کیے جاسکتے لیکن ایک ضروری امر ہے جس کی طرف میں احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ مدرسہ احمدیہ ہے.مدرسہ احمدیہ کی طرف ہماری جماعت کی بالعموم توجہ نہیں.اس میں پڑھنے والے اکثر وہ لڑ کے ہیں جن کو انجمن وظیفہ دیتی ہے.ذی ثروت لوگ اپنے بچوں کو بھیجنے میں غفلت سے کام لے رہے ہیں.پہلے لوگوں کو یہ شکایت تھی کہ خود کا رکن اپنے لڑکوں کو داخل نہیں کرتے.لیکن اب ان کو یہ شکایت نہیں ہونی چاہئے.میرا ایک لڑکا قرآن شریف حفظ کر رہا ہے جو چند دن میں ختم کرنے والا ہے.میں اس کو مدرسہ احمدیہ میں ہی داخل کراؤں گا.دوسرے لڑکے کو میں نے ہائی سکول میں داخل کیا ہے کہ چوتھی جماعت پاس کر لے.چوتھی پاس کرنے کے بعد اس کو بھی مدرسہ احمدیہ میں داخل کروں گا.صرف یہی نہیں جس قدر بھی میرے بچے ہوں گے سب کو انشاء اللہ تعالی مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے کا ارادہ کر لیا ہے.تو اب میرا حق ہے کہ میں آپ سے بھی مطالبہ کروں کہ اگر تمام | نہیں تو کم از کم ایک ایک بچہ تو ہر ذی ثروت اس مدرسہ میں داخل کرے.اس سے ایک تو انجمن کے خرچ میں کمی ہوگی اور دوسرے جو اپنے خرچ پر پڑھتے ہیں ان کی طبیعت میں ایک آزادی اور جرات ہوتی ہے اور ترقی کرنے کا خاص جوش ہوتا ہے.سوائے شاذ و نادر کے ان پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا کہ تم مجبور ہو کر پڑھتے ہو.اگر چہ اب تو وظیفہ لینے والوں

Page 107

زریں ہدایات (برائے طلباء) 102 جلد سوم کے اندر بھی یہ اخلاق پیدا ہورہے ہیں کیونکہ ان کو بھی وظیفہ قرضہ حسنہ کے طور پر دیا جاتا ہے لیکن پھر بھی دوسروں کو فوقیت ہے.ذی ثروت طلباء سے مدرسہ کا وقار بھی بڑھتا ہے اس لئے ایسے دوستوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچے مدرسہ احمدیہ میں داخل کرائیں.مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ اپنے ایسے لڑکوں کو جو دوسرے سکولوں میں تعلیم کے قابل نہیں ہوتے ادھر بھیج دیتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے.ان لڑکوں کو داخل کرائیں جو ہوشیار اور ہونہار ہوں.دین کے راستہ میں مال کی ہی قربانی نہیں بلکہ مکمل قربانی تب ہوگی جب اپنے مالوں کے علاوہ اپنی اولادوں کو بھی قربان کرو گے.جو دوست نمائندہ بن کر آئے ہیں ان کو بھی تاکید کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرائیں اور دوسروں کو بھی جا کر تاکید کریں کہ وہ بھی اپنے خرچ پر پڑھنے والوں کو مدرسہ احمدیہ میں بھیجیں.مدرسہ احمدیہ میں اپنے خرچ پر پڑھنے والے طلباء کا قلیل التعداد میں ہونا کیا ثابت نہیں کرتا کہ جو اپنے خرچ پر پڑھ سکتا ہے ادھر آنا نہیں چاہتا اور نہ کیا وجہ ہے کہ دوسرے مدرسہ میں زیادہ اپنے خرچ پر پڑھنے والے ہوں.اس نظارہ کو سامنے لا کر ان کے بدن میں لرزہ آ جاتا ہے کیونکہ اس کے یہ معنے ہوئے کہ جہاں تک ہمارا بس چلتا ہے ہم دینی علوم سیکھنے کی طرف ہرگز منہ نہیں کریں گے.ہاں جب مجبور ہو جائیں گے اور دوسرے مدرسہ میں داخل ہونے کی کوئی صورت نہیں رہے گی اُس وقت مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو جاویں گے یہ بڑی گندی روح ہے اس کو فوراً دور کرنا چاہئے.“ (الفضل 17 اپریل 1922ء) (1922/17

Page 108

زریں ہدایات (برائے طلباء) 103 جلد سوم طلباء مدرسہ احمدیہ کو نصائح 25 اپریل 1922ء کو نماز عصر کے بعد بورڈنگ مدرسہ احمدیہ قادیان میں طلباء مدرسہ احمدیہ نے مولوی فاضل کے امتحان میں جانے والے طلباء کوئی پارٹی دی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسح الثانی نے تشہد، تعوذ اور تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں:.دو بعض باتیں اس ایڈریس کے متعلق جو مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں نے مولوی فاضل کے امتحان کے لئے جانے والوں کو دیا ہے کہنا چاہتا ہوں.پیچھے بھی ایک موقع پر میں نے بعض | نصائح کی تھیں.اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ایک حد تک ان کا خیال رکھا گیا ہے.لیکن پھر بھی بعض باتیں اصلاح کے قابل ہیں.(1) جو نصائح اس مضمون میں بیان ہوئی ہیں وہ ایسی ہیں جو بڑا چھوٹے کو کرتا ہے.کئی قسم کی نصائح ہوتی ہیں.بعض وہ جو بڑے چھوٹے کو کرتے ہیں اور بعض وہ جو چھوٹے بڑوں کو کرتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ ایک مدرسہ میں پڑھنے والے ایک دوسرے سے امید رکھتے ہیں کہ جو پہلے جائیں وہ ان کے مدرسہ کے لئے نیک نمونہ قائم کرنے والے ہوں.مگر تمام ایڈریس ایسی باتوں پر مشتمل ہے جو بزرگ کی شان کے شایاں ہیں کہ چھوٹوں کو کہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایڈریس لکھنے والوں نے اس مقام کو نہیں سوچا جس پر وہ کھڑے ہیں.ایڈریس لکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ لکھنے والے اپنے اور دوسرے کے مقام کو مدنظر رکھیں اور پھر مناسب موقع کلام کریں.(2) دوسری بات یہ ہے کہا گیا ہے کہ دوسروں کو باہر جانے کا موقع نہیں ملا.آدمیوں کی قلت کی وجہ سے انہیں مرکز میں ہی رکھ لیا گیا ہے.مگر آپ طلبائے جماعت (مولوی فاضل )

Page 109

زریں ہدایات (برائے طلباء) 104 جلد سوم خوش قسمت ہیں جنہیں باہر جانے کا موقع ملے گا.یہ غلط ہے.بے شک باہر جا کر دین کا کام کر نا خوش قسمتی ہے مگر وہ زیادہ خوش قسمت ہے جو مرکز میں کسی کام پر لگایا جاتا ہے.مرکز کی اہمیت ہر شعبہ میں تسلیم کی جاتی ہے.اور دینی شعبہ میں تو خصوصاً بہت بڑی اہمیت ہے.پس باہر جانے والا خوش قسمت ہے اگر خدمت دین کے لئے جاتا ہے.مگر مقابلہ اس سے زیادہ خوش قسمت نہیں جو مرکز میں رہتا اور خدمت دین کرتا ہے.اگر کسی کو خدمت دین کے لئے باہر جانے کے لئے کہا جائے اور وہ اس لئے انکار کرے کہ میں مرکز میں رہوں گا تو قابل گرفت ہے.لیکن جسے دونوں موقعے حاصل ہیں کہ چاہے باہر جا کر خدمت دین کرے چاہے مرکز میں رہ کر.ان میں سے وہ قابل افسوس ہے جو مرکز کو چھوڑتا اور باہر جاتا ہے.اور وہ بہت خوش قسمت ہے جو مرکز میں رہتا ہے.(3) اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بچوں میں یہ عادت ہونی چاہئے کہ جو بات کہیں ایسا معلوم ہو کہ ان کے دل سے نکل رہی ہے.مجھے بچپن سے ہی یہ عادت ہے کہ جب تک تقریر کرنے والے کے دل کو پکھلتا ہوا نہ دیکھوں اور ایسانہ معلوم ہو کہ جو کچھ کہہ رہا ہے دلی جوش سے کہہ رہا ہے اُس وقت تک مجھے اطمینان نہیں ہوتا بلکہ تکلیف ہوتی ہے.تم کبھی یہ کوشش نہ کرو کہ دوسرے کے اقوال کی نقل کرو اور دوسروں کے دل سے نکلے ہوئے الفاظ اپنے منہ سے نکالو.کیونکہ ایسے لوگ دنیا میں کامیابی حاصل نہیں کیا کرتے.کامیاب وہی شخص ہوتا ہے جو اپنا دل نکال کر دوسروں کے سامنے رکھ دیتا ہے اور اپنے دلی جذبات پیش کرتا ہے.دیکھو مسلمانوں میں اس غلط روش کی وجہ سے کتنی تباہی آئی.اس وقت مسجدوں میں کھڑے ہو کر جمعہ کے دن وہی خطبے پڑھ دیتے ہیں جو نہ ضرورت زمانہ کے مطابق ہیں نہ ان کی اپنی حالت کے مطابق ہیں اور نہ سامعین کی حالت کے مطابق ہیں بلکہ آج سے پانسو سال پہلے کی ضروریات اور حالات کو مد نظر رکھ کر جو خطبے پڑھے گئے ہیں آج انہی کو دہرا دیتے ہیں.جس کا کوئی فائدہ نہیں.تم جب کوئی تحریر لکھنے لگو تو یہ مدنظر رکھ لو کہ فقرے درست ہوں، زبان صاف ہو، الفاظ صحیح ہوں.مگر دوسروں کے فقروں اور الفاظ کی نقل نہ کرو.میں نے دیکھا ہے اس ایڈریس میں یہ بات مدنظر

Page 110

زریں ہدایات (برائے طلباء) 105 جلد سوم نہیں رکھی گئی بلکہ کوشش کی گئی ہے کہ دوسروں کے فقرات کے مشابہ اپنے فقرات بنا ئیں اس لئے ایڈریس میں مجھے وہ جان نظر نہیں آئی جو ہونی چاہئے تھی.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی کی نقل | کرنے کی قطعاً کوشش نہ کرو.زبان اور محاورہ کی صحت کا خیال رکھو مگر اپنے جذبات کو اپنے الفاظ میں نکلنے دو وہی دوسروں پر اثر کریں گے اور وہی کوئی تغیر پیدا کرسکیں گے.تو ایک تو یہ بات ہو کہ تقریر میں ایک جوش ہو جو احساسات اور جذبات کو ابھارے.دوسرے یہ بھی ہو کہ بات موقع اور محل کے مناسب ہو.میں نے پہلے بھی یہ نصیحت کی تھی اور اب پھر کرتا ہوں چونکہ یہ دن طالب علمی کے ہیں اس لئے بچے نہیں سمجھتے لیکن اگر اب نہ سمجھیں گے تو پھر بڑے ہو کر بھی نہیں سمجھیں گے.اس لئے استادوں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جب طلباء سے تقریریں کرائیں تو خیال رکھیں وہ اپنے جوش سے کلام کریں.ان میں نقالی نہ ہو.اس کے بعد میں ان کے لئے جو امتحان کے لئے جانے والے ہیں اور ان کے لئے جنہوں نے یہ دعوت کی ہے اور ان کے لئے جو دعوت میں شامل ہوئے ہیں اور ان بچوں کے لئے جو بعد میں آئے ہیں دعا کرتا ہوں.“ (الفضل 4 مئی 1922ء)

Page 111

زریں ہدایات (برائے طلباء) 106 جلد سوم ,, احمدی بچوں کی تعلیم وتربیت 29 جون 1923ء کو بعد نماز مغرب محلہ دار الفضل قادیان کے بچوں کے جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.یہ سوال ایسا اہم سوال ہے کہ کسی قوم کی بہتری کا دارو مدار اسی پر ہوتا ہے.ہمیشہ جو تو میں تباہ ہوئی ہیں اسی وجہ سے ہوئی ہیں کہ پہلے لوگ مرگئے اور پچھلے ان کے قائم مقام نہ بن سکے.اگر حضرت ابوبکر کا قائم مقام ابوبکر پیدا ہو جاتا ، اگر حضرت عمر کا قائم مقام عمر پیدا ہو جاتا، اگر حضرت عثمان کا قائم مقام عثمان پیدا ہو جاتا، اگر حضرت علیؓ کا قائم مقام علی پیدا ہو جاتا، اسی طرح طلحہ زبیر اور دوسرے صحابہ کے قائم مقام پیدا ہوتے اور پھر ان کے قائم مقام ہوتے ، پھر ان کے اور یہی سلسلہ چلتا رہتا تو آج اسلام میں یہ نا خلف مولوی کیوں پیدا ہوتے جنہوں نے حضرت مسیح موعود پر کفر کے فتوے دیئے اور آپ کے رستہ میں روکیں ڈالیں.کیا شروع سے مسلمان ایسے ہی تھے؟ ہر گز نہیں.ان کے پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ پہلوں کی نسلیں ان کی قائم مقام نہ پیدا ہوئیں.پس کسی قوم میں جس قدر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آئندہ اولادیں ماں باپ کے نقش قدم پر نہیں چلتیں.اور یہ عجیب بات ہے کہ ہر علم کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ بعد میں آنیوالے پہلوں کی نسبت اس میں زیادہ ترقی کرتے ہیں.مثلاً پہلے جو حساب ہوتا تھا آج اس سے بڑھا ہوا ہے.اور آجکل کے حساب دان پہلے حساب دانوں سے بڑھے ہوئے ہیں.اسی طرح تاریخ کا حال ہے.اس زمانہ میں پہلے سے زیادہ عمدگی کے ساتھ تاریخیں مدون ہو چکی ہیں جو نہ صرف اس زمانہ کے حالات کی بلکہ اُس زمانہ کے حالات کی بھی جس میں وہ واقعات ہوئے.اس وقت اُس زمانہ کے حالات اس سے زیادہ اچھی طرح لکھے گئے جیسے کہ پہلے زمانہ میں لکھے گئے تھے.

Page 112

زریں ہدایات (برائے طلباء) 107 جلد سوم مثلاً ساتو میں آٹھویں صدی کے حالات اس زمانہ کے لوگوں کو زیادہ عمدگی کے ساتھ معلوم ہیں به نسبت اُس زمانہ کے لوگوں کے.اسی طرح جغرافیہ کا حال ہے.پہلے سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہے.پہلے جن ملکوں کے کسی کو نام بھی معلوم نہ تھے آج ان کو سب لوگ جانتے ہیں.مثلاً | امریکہ.اور ہمارے تو بچے بھی امریکہ کا نام خوب جانتے ہیں کیونکہ مفتی ( محمد صادق ) صاحب | وہاں گئے ہوئے ہیں اور ان کے حالات پڑھتے سنتے رہتے ہیں.مگر عجیب بات یہ ہے کہ جہاں ان میں بعد میں آنے والے ترقی کرتے ہیں وہاں دین کے معاملہ میں تنزل اختیار کرتے ہیں.حساب جانتے ہیں.اولا د اپنے باپ دادوں سے بڑھ کر ہوتی ہے.تاریخ میں زیادہ علم رکھتی ہے.جغرافیہ زیادہ جانتی ہے.اسی طرح لوہار، ترکھان، سنار جو پہلے مر گئے اب ان سے بہتر کام کرنے والے موجود ہیں مگر دینی معاملات میں یہ مثال نہیں ملتی.اس کی وجہ کیا ہے حالانکہ دین دنیا کے ہر ایک کام اور ہر ایک پیشہ سے زیادہ اہم اور ضروری ہے اور چاہئے تھا کہ اس میں زیادہ ترقی کرنے والے ہوتے.اس کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جب تاریخ دان تاریخ دانی میں فائدہ دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اس کے متعلق اپنا جانشین چھوڑ جائے تا کہ یہ علم مٹ نہ جائے.اسی طرح حساب دان جب حساب دانی میں فائدہ دیکھتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اپنا قائم مقام پیدا کرے.اسی طرح جغرافیہ والا جب اس علم کو نفع رساں پاتا ہے تو اپنے بعد اسے جاری رکھنے کے لئے اپنا قائم مقام بنانے کی کوشش کرتا ہے.لیکن دین کے معاملہ میں لوگوں میں بہت کم خواہش ہوتی ہے کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے پیچھے چھوڑیں.گو کسی قدر یہ خواہش ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جو رسمی دین کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اس کو سمجھتے ہیں.مگر خرابی یہ ہے کہ کسی امر کی صرف خواہش ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ اس خواہش کو پورا کرنے میں مدد دینے والے بھی ہوں.مثلاً ایک حساب دان کی یہ خواہش ہی کافی نہیں کہ اس کے پیچھے کوئی حساب دان رہے.اور یہ خواہش اُس وقت تک پوری نہیں ہو سکتی جب تک ایسے ماں باپ نہ ہوں جو اپنے بچوں کو اس کے سپرد کریں.یہی حال اور باتوں کا ہے.مگر دین کے معاملہ میں ایسا نہیں کرتے.

Page 113

زریں ہدایات (برائے طلباء) 108 جلد سوم اسی طرح ایک اور خرابی یہ ہے کہ اور تو ساری باتیں بچپن میں سکھانے کی خواہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو کر سیکھ لے گا.ابھی کیا ضرورت پڑی ہے.بچہ نے ابھی ہوش نہیں سنبھالی ہوتی اور ڈاکٹر منع کرتا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو گر ماں باپ اسے سکول بھیج دیتے ہیں.اور گو وہ کہتے ہیں کہ چونکہ آوارہ پھرتا ہے اس لئے سکول میں بیٹھا رہے گا مگر ان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ سال جو اس کے ہوش میں آنے کے ہیں ان میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے.مگر نماز کے لئے جب وہ بلوغت کے قریب پہنچ جاتا ہے تب بھی یہی کہتے ہیں کہ ابھی بچہ ہے بڑا ہو کر سیکھ لے گا.اگر یہ کہا جائے کہ بچے کو نماز کے لئے جگاؤ تو کہتے ہیں نہ جگاؤ نیند خراب ہوگی.لیکن اگر صبح امتحان لینے کے لئے انسپکٹر نے آنا ہو تو ساری رات جگائے رکھیں گے.گویا انسپکٹر کے سامنے جانے کا تو اتنا فکر ہوتا ہے مگر یہ نہیں کہ خدا کے حضور جانے کے لئے جگا دیں.تو بچہ کو بچپن میں ہی دین سکھانا چاہئے.جو بچپن میں نہیں سکھاتے ان کے بچے بڑے ہو کر بھی نہیں سیکھتے.جس طرح بڑی عمر میں جو شخص علم سیکھنا شروع کرتا ہے وہ کبھی اعلی ترقی نہیں کر سکتا اسی طرح بڑی عمر میں دین بھی نہیں سیکھا جا سکتا.مگر مصیبت یہ ہے کہ دنیا کے کاموں میں جو عمر بلوغت کی سمجھی جاتی ہے دین کے متعلق نہیں سمجھی جاتی.18،18 سال تک کے لڑکے کے متعلق کہتے ہیں ابھی بچہ ہے دین کی پابندی کرانے کے لئے سختی کرنے کی ضرورت نہیں.حالانکہ چھوٹا سابچہ جو چند سال کا ہوتا ہے اگر قلم اٹھا کر کہیں پھینک دیتا ہے تو اسے دھمکایا جاتا ہے.اگر کسی کتاب کو پھاڑ دیتا ہے تو ڈانٹا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ابھی سے اسے نہ سمجھایا گیا تو چیزیں خراب کرنے کی عادت پڑ جائے گی.لیکن اگر خدا کے دین کو خراب کرے تو کچھ نہیں کہا جاتا.اور دین اُس وقت سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جب لڑکا سمجھتا ہے کہ اب تو میں استاد ہوں اور میں دوسروں کو سکھا سکتا ہوں.اور اس وجہ سے کچھ نہیں سیکھ سکتا.پس جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سیکھنے کا زمانہ بچپن ہے اور جب تک یہ نہ سمجھیں گے کہ ہمارا اثر بچپن میں ہی بچوں پر پڑ سکتا ہے تب تک بچے دیندار نہیں بن سکیں گے.اور پھر جب تک عورتیں بھی مردوں کی ہم خیال نہ بن جائیں گی بچے دیندار نہیں ہوسکیں گے کیونکہ مرد ہر وقت بچوں کے

Page 114

زریں ہدایات (برائے طلباء) 109 جلد سوم ساتھ نہیں ہوتے.بچے اکثر ماؤں کے ہی پاس رہتے ہیں.اور دیکھا گیا ہے کہ دیندار مائیں بھی بچوں کو دین سکھانے میں سستی کر جاتی ہیں.نماز کا وقت ہو جائے اور بچہ سورہا ہو تو کہتی ہیں ابھی اور سولے.پس جب تک ماؤں کے ذہن نشین نہ کریں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کی جاسکتی ہے اُس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پس پہلی نصیحت تو یہ ہے جس کے مخاطب والدین ہیں.اور دراصل والد ہی ہیں کیونکہ اس وقت یہاں عورتیں نہیں ہیں کہ بچوں کی دینی تربیت بچپن میں ہی کرو اور بچپن میں ہی ان کو دین سکھاؤ تا کہ وہ حقیقی دیندار بنیں.اس کے بعد میں بچوں کو مخاطب کرتا ہوں.میں نے بتایا ہے کہ کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی جب تک بعد میں آنے والے ترقی یافتہ نہ ہوں.اس لئے مجھے قدرتا بچوں کی تربیت سے بہت ہمدردی ہے.لیکن کبھی کوئی کام عمدگی سے نہیں ہو سکتا جب تک اس کے کرنے کا طریق مد نظر نہ رکھا جائے.اور ہمارے ملک میں مشکل یہ ہے کہ اس طریق کو مد نظر نہیں رکھا جاتا جس سے کسی کام میں کامیابی ہو سکتی ہے.میرے نزدیک جس بات کی طرف سب سے پہلے توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور جو نہایت خطر ناک طور پر پھیلی ہوئی ہے وہ بے استقلالی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا سب سے بڑی نیکی کا کام کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا ماں | باپ کی خدمت کرنا.اس نے پھر پوچھا.اور آپ نے پھر یہی جواب دیا 1 اسی طرح ایک شخص نے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کی حالت کے مطابق اسے جواب دیا.اور جب تک وہ پوچھتا رہا اسی کو دہراتے رہے 2.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہی سب سے بڑی نیکیاں ہیں.بلکہ یہ کہ چونکہ ان میں اس کی خلاف ورزی سب سے بڑا نقص تھا اس لئے اسی کی طرف توجہ دلائی.ہمارے ملک میں بھی ایک نقص ہے اور اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ سب سے بڑا کامیابی کا مگر کیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ استقلال.پھر پوچھے گا تو یہی کہوں گا.پھر پوچھے گا تو بھی یہی بتاؤں گا.اور اگر کوئی دوسرا آدمی آکر پوچھے گا تو اس کو بھی یہی جواب دوں گا اور تیسرے کو بھی یہی حتی کہ جتنے پوچھتے جائیں گے اور جتنی بار پوچھیں گے یہی کہوں گا کہ ہر کام میں کامیابی حاصل کرنے کا

Page 115

زریں ہدایات (برائے طلباء) 110 جلد سوم گر استقلال ہے.اس کے نہ ہونے کی وجہ سے ہر کام میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں.ایک شخص اٹھتا ہے اور کوئی کام شروع کرتا ہے پھر چھوڑ کر بیٹھ رہتا ہے.اس طرح جو تھوڑا بہت کیا کرایا ہوتا ہے وہ بھی ضائع ہو جاتا ہے.پس جب تک استقلال کی عادت بچوں میں اور ان کی تربیت کرنے والوں میں نہ ڈالی جائے اُس وقت تک ساری کوشش بے فائدہ ہے.دیکھو آج تو یہاں جلسہ ہو رہا ہے لیکن اگر سال کے بعد اس کام سے متعلق کچھ بھی نہ ہو اور اسے چھوڑ دیا گیا ہو تو اس کا بچوں پر زیادہ مضر اثر پڑے گا.کسی کام کے شروع کرنے کا ایک اثر ہوتا ہے مگر وہ عارضی ہوتا ہے.اور کام کو چھوڑ دینے کا ایسا اثر ہوتا ہے کہ جن پر ہوتا ہے ان کو بھی اس کا پتہ نہیں لگتا.مگر نہایت خطرناک ہوتا ہے.ہر کام جو شروع کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے اس کا اثر بچوں پر یہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں بڑے ہمیں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ کسی کام کو لگا تار نہیں کرنا چاہئے اور اس طرح وہ کسی کام میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے.لیکن اگر ان پر یہ اثر پڑے کہ جو کام شروع کیا جائے اسے کرتے ہی جانا چاہئے تو وہ ہر کام میں استقلال اختیار کریں گے اور کبھی نا کام نہ ہوں گے.تو بے استقلالی ایک بہت بڑا نقص ہے.یہ تو بچوں کی انجمن ہے.اس نے مجھے بار بار اپنے جلسہ میں شامل ہونے کے لئے لکھا اور میں آج سے قبل نہ آسکا.لیکن ایک بڑوں کی انجمن میں نے بنائی تھی.پہلے پہلے میں اس میں خود شامل ہوتا رہا تا کہ کام چلنے لگ جائے.لیکن جب سے میں نہیں گیا اس کے جلسے بھی بند ہو گئے ہیں.اس کے سیکر ٹری کا دوسروں کو استقلال سے کام کرنے کا وعظ کرتے کرتے تو منہ خشک ہو جاتا ہوگا اور کام کرنے کی تجویزیں سوچتے سوچتے دماغ پراگندہ ہو جاتا ہوگا.مگر وہ کام جو شروع کیا تھا وہ نہ کر سکے اور چھوڑ دیا.وہ تجویز میں تو بڑی بڑی گورنمنٹوں کو بتانے کے لئے تیار ہوں گے مگر یہ چھوٹا سا کام بھی نہ کر سکے.یہ ٹھیک ہے کہ کوئی اکیلا آدمی کام نہیں چلا سکتا.لیکن اگر استقلال اختیار کیا جائے تو اگر سب میں نہیں تو کچھ آدمیوں میں ضرور استقلال پیدا ہو جائے گا.اور ان کے استقلال کے ساتھ کام کرنے کا یہ نتیجہ ہوگا کہ آگے اور لوگوں میں استقلال پیدا ہو جائے گا.یورپ کے لوگوں نے اس بات کو خوب.

Page 116

زریں ہدایات (برائے طلباء) 111 جلد سوم سمجھا ہے اور وہاں ایسی دکانیں اور اخباریں ہیں جو تین تین سو سال سے برابر چل رہی ہیں.جب سے خیال آیا کہ اخبار جاری کیا جائے یا اس قسم کی دکان نکالی جائے اُسی وقت سے وہ چلی آرہی ہیں.اسی طرح کئی مدر سے ہیں.جب سے ان کا خیال آیا اُسی وقت سے چلے آرہے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ شروع کرنے والوں نے استقلال سے کام چلایا.اس کا اثر اوروں پر پڑا.انہوں نے کام کرناشروع کر دیا پھر اوروں پر.اسی طرح کام چلتا گیا.تو والدین کے بعد کارکن اور بچوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ استقلال سے کام کرو.ماسٹر ( علی محمد ) صاحب نے کہا ہے کہ اس کام میں بچوں اور ان کے والدین نے مجھ سے تعاون نہیں کیا اس لئے ایک دفعہ یہ کام شروع ہو کر بند ہو گیا تھا اب پھر جاری کیا گیا ہے.میں کہتا ہوں اگر وہ استقلال سے کام کرتے رہتے تو اس کا اثر ضرور ہوتا اور کام جاری رہتا.انہوں نے دوبارہ کام کیوں شروع کیا؟ اسی لئے کہ ان کے دل سے پہلی ناکامی کا اثر دور ہو گیا.انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ کوئی مدد نہیں دیتا اس لئے کام جاری نہیں رہ سکتا.مگر پھر شروع کر دیا.اسی کا نام ہے استقلالی ہے.وہ پہلی باتوں کو بھول گئے اور پھر کام شروع کر دیا.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ استقلال سے جب تک کام نہ ہوگا اُس وقت تک کامیابی نہ ہوگی.اسی طرح والدین ہیں.شروع میں وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص ہمارے بچوں کی نگرانی کرتا ہے کیوں نہ ہم اس سے مل کر کام کریں اور اسے مدد دیں.لیکن پھر ان کی حالت ایسی ہی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں کوئی شخص دھوپ میں بیٹھا تھا.کسی نے کہا سائے میں ہو جاؤ تو کہنے لگا کیا دو گے؟ وہ سمجھتے ہیں فلاں شخص جو ہمارے بچوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے تو اس کو ضرور کوئی فائدہ ہی ہوتا ہوگا.ایک مثال ہے کہتے ہیں ایک آدمی کو کسی نے بتایا کہ درزی سب چور ہوتے ہیں کپڑا چرا لیتے ہیں.وہ ایک دن ٹوپی سلانے کے لئے درزی کے پاس کپڑا لے گیا اور جا کر پوچھا کیا اس کی ٹوپی بن جائے گی ؟ درزی نے کہا ہاں بن جائے گی.اس نے سمجھا فی الواقعہ درزی چور ہوتے ہیں.اس نے کچھ کپڑا خود رکھنا ہوگا تبھی کہ دیا کہ بن جائے گی.یہ سمجھ کر کہنے لگا کیا دو بن جائیں گی ؟ درزی نے کہا ہاں دو بن جائیں گی.اس پر تو اس نے سمجھا درزی کے چور ہونے میں

Page 117

زریں ہدایات (برائے طلباء) 112 جلد سوم کوئی شبہ نہیں رہ گیا.اگر میں دو کے لئے نہ کہتا تو ایک خود رکھ لیتا اور ایک مجھے دے دیتا.یہ خیال کر کے کہنے لگا کیا چار بن جائیں گی ؟ درزی نے کہاں ہاں.اس پر تو اُسے یقین ہو گیا کہ ضرور یہ چوری کرتا ہے.اور کہنے لگا کیا چھ بن جائیں گی ؟ درزی نے کہا ہاں چھ بن جائیں گی.یہ سن کر اس نے سمجھا اب تو شاید اور نہ بن سکے لیکن چلو پوچھ تو لیں.اور کہنے لگا کیا سات بن جائیں گی ؟ درزی نے کہا ہاں سات بن جائیں گی.اس سے زیادہ کی اسے امید تو نہ تھی لیکن کہنے لگا کیا آٹھ بن جائیں گی؟ درزی نے کہا ہاں آٹھ بن جائیں گی.اس کے بعد وہ چلا گیا.دوسرے دن جب وہ آیا تو دیکھا کہ ذرا ذراسی آٹھ ٹوپیاں رکھی ہیں.انہیں دیکھ کر درزی سے کہنے لگا یہ کیا؟ درزی نے کہا اپنا کپڑا ناپ لو.تم نے اس کی آٹھ ٹوپیاں بنانے کو کہا تھا میں نے بنا دیں.اسی طرح والدین سمجھتے ہیں کہ یہ جو مدرس بچوں کی نگرانی کرتا ہے تو اس کو ضرور کوئی فائدہ ہوتا ہوگا ہم کیوں اسے فائدہ پہنچائیں.یہ سمجھ کر وہ اس کی مدد کرنا چھوڑ دیتے ہیں.ماسٹر صاحب نے جو واقعہ سنایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں طرف سے بے استقلالی ہوئی.ماسٹر صاحب نے بھی بے استقلالی کی اور والدین نے بھی.اور جب تک دونوں یہ نیت نہ کرلیں کہ استقلال سے کام کریں گے اُس وقت تک کام نہیں چل سکے گا.دونوں پورے استقلال سے کام کرنے کا وعدہ کریں اور چاہے آندھی آئے چاہے مینہ اپنی بات پر قائم رہیں.یورپ کے متعلق میں نے کئی بار پڑھا ہے کہ کلب میں جو لوگ جاتے ہیں وہ بیس بیس سال متواتر جاتے رہے.جب یورپ کے لوگ معمولی معمولی باتوں میں جو کھیل اور تفریح سے تعلق رکھتی ہیں اس قدر استقلال دکھاتے ہیں تو کیوں ہم ان باتوں میں استقلال نہ دکھائیں جو ہماری ترقی سے تعلق رکھتی ہیں.اس کے بعد میں تربیت کے متعلق بعض موٹی موٹی باتیں بیان کرتا ہوں.اول تو مجھے اس بات سے صدمہ ہوا ہے کہ جتنے بچوں نے مضمون سنائے ہیں نیچی آواز سے سنائے ہیں.مجھے نیچی آواز سے سخت چڑ ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے.میرے نزدیک بچہ کا یہ پیدائشی حق ہے کہ ماں باپ اس کی آواز اونچی بنائیں تاکہ بچہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی آواز سنا سکے.

Page 118

زریں ہدایات (برائے طلباء) 113 جلد سوم جس بچہ کی آواز طوطی کی سی ہوگی وہ دنیا کے نقار خانہ میں اپنی آواز نہیں سنا سکے گا.دیکھو کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس کی آواز عمدہ اور اچھی نہ ہو.اور یہ نہایت ضروری ہے کہ انسان کی آواز بلند ہو.مگر ان بچوں کی آواز دھیمی اور کانپتی ہوئی تھی.میرا تو یہاں تک خیال ہے کہ رشتہ چنتے وقت ایسا رشتہ تلاش کرنا چاہئے جس کی آواز بلند ہو.اور استادوں کو چاہئے بچوں کی آوازیں بلند کرنے کے متعلق جو کتابیں ہیں انہیں پڑھیں اور جو طریق بتائے گئے ہیں ان کو کام میں لائیں.میرا چھوٹا بچہ منور احمد بہت آہستہ بولتا تھا.اس کو قاری غلام یسین صاحب کے پاس قرآن کریم پڑھنے کے لئے بھیجا گیا.ایک دن گھر میں جب اس سے سبق سننے لگے تو اس نے شور ڈال دیا اور بہت زور سے سنانے لگا.مجھے اس پر تعجب ہوا اور میں نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ قاری صاحب چونکہ اونچا سنتے ہیں اس لئے ان کو زور سے سنانے کی وجہ سے اونچی آواز سے پڑھنے کی عادت ہوگئی ہے.میں گھر میں بیویوں کو پڑھاتا رہا ہوں اور اونچی آواز کرنے کے لئے اس طرح کرتا تھا کہ اپنے سے دور بٹھاتا.تا سنانے کے لئے زور سے پڑھیں.اسی طرح جب میں مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتا تھا تو جولڑ کا نیچی آواز سے پڑھتا اس کو پرے بٹھا دیتا یا اپنی کرسی بہت پیچھے ہٹا لیتا اس پر اُسے مجبور ازور سے پڑھنا پڑتا.تو اونچی آواز کرنے سے اونچی ہو جاتی ہے اس کی ضرور کوشش کرنی چاہئے.دوسری بات یہ ہے کہ اخلاق کے متعلق جو بات مدنظر رکھنی چاہئے اور جو اعلیٰ خلق ہے اور دوسرے اخلاق پر حاوی ہے وہ دلیری اور جرات ہے.کوشش یہ ہونی چاہئے کہ بچوں کو بہادر اور دلیر بنایا جائے.ماسٹر صاحب نے مثال بیان کی ہے کہ ڈھاب میں نہانے سے جب بچوں کو روکا جاتا تو ان کے والد مخالفت کرتے اور کہتے یہ تیرنا جانتے ہیں یہ نہیں ڈوبیں گے.مگر وہ دوسروں کو تو ڈبوتے جو تیر نانہیں جانتے.میرے نزدیک اگر بچے بے احتیاطی سے ڈوبتے ہیں تو ان کو بچانا چاہئے.لیکن اگر تیرنا سیکھتے ہوئے باوجود ممکن احتیاط کے ڈوبتے ہیں تو کیا حرج ہے.انگریزوں میں تیرنے کے مقابلے ہوتے ہیں، کشتیاں دوڑنے کا مقابلہ کرتی ہیں اور

Page 119

زریں ہدایات (برائے طلباء) 114 جلد سوم بعض اوقات ٹوٹتی اور ڈوبتی ہیں، جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں لیکن یہ نہیں کہ آئندہ کے لئے مقابلہ چھوڑ دیں.پھر جاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں.جب تک ماں باپ یہ نہ سمجھیں کہ بچہ کا دلیری اور جرأت کا کام کرتے ہوئے مرجانا اچھا ہے بہ نسبت اس کے نکما بن کر زندہ رہنے کے اُس وقت تک اصلی جرات اور دلیری بچوں میں پیدا نہیں کی جاسکتی.مگر بڑی خرابی یہ ہے کہ ماں باپ خود بچہ کو نکھا اور بزدل بناتے ہیں.ذرا اندھیرا ہو تو کہتے ہیں باہر نہ جانا.ذرا کوئی مشقت کا کام کرنے لگے تو روک دیتے ہیں.وہ یہ چاہتے ہیں کہ بچہ چھوٹی موٹی بنا ر ہے.اور اس طرح بچے کسی کام کے نہیں رہتے.ماں باپ کا تو یہ کام ہونا چاہئے کہ جان بوجھ کر بچوں کو اندھیرے میں بھیجیں اور ہر طرح جرات اور دلیری.سکھائیں.وہ بچے جو تیر نا نہیں جانتے ان کو اکیلے پانی میں نہیں جانا چاہئے.مگر تیرنے والے ان کو اپنے ساتھ لے جائیں اور تیرنا سکھائیں.یہ نہایت ضروری ہنر ہے اس لئے ضرور سکھانا چاہئے اور اپنے بزرگوں کی پیروی کرنی چاہئے.حضرت اسماعیل شہید کے متعلق لکھا ہے وہ ایک جگہ گئے اور سنا کہ ایک سکھ ہے جو بہت تیرتا ہے اور کوئی مسلمان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ سن کر انہوں نے تیر نا شروع کر دیا اور آخر اس سے بڑھ گئے.تو ہر کام میں مومن کو دوسروں کا مقابلہ کرنا چاہئے.بشرطیکہ وہ شریفانہ ہنر ہو.یہ نہیں کہ کوئی مسلمان کسی ڈاکو سے بڑھ کر ہو جائے یا کسی چور سے بڑھ جائے.بلکہ یہ کہ مثلاً کشتی لڑنا ، سواری کرنا، تیرنا وغیرہ جسمانی طاقت کے کاموں میں بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.پس احمدی بچوں میں قوت اور بہادری پیدا کرنی چاہئے.انگریزوں میں یہاں تک احتیاط کی جاتی ہے کہ فٹ بال کھیلتے ہوئے یا کسی اور کھیل میں اگر کسی لڑکے کی ہڈی بھی ٹوٹ جائے تو بھی کھیل بند نہیں کریں گے.اس کو کھیل کے میدان سے اٹھا کر علیحدہ لے جائیں گے اور کھیل برابر جاری رہے گی.کیونکہ کھیل بند کرنے سے لڑکوں پر برا اثر پڑتا ہے اور ان کے دلوں میں خوف اور بزدلی پیدا ہوتی ہے.اسی تربیت کا نتیجہ ہے کہ انگریزوں کی چھوٹی سی قوم دنیا پر حکومت

Page 120

زریں ہدایات (برائے طلباء) 115 جلد سوم کر رہی ہے.مگر ہمارے ہاں اگر کسی کو کھیل میں معمولی سی چوٹ آجائے تو آئندہ کھیل کو بند کر دینے کی کوشش کی جاتی ہے.تو تیرنا بہت اچھا ہنر ہے.ہاں اس ڈھاب کا پانی اس قدر خراب ہے کہ اس میں بچوں کا تیر نا ان کی صحت کے لئے مضر ہے.اس کا خیال رکھا جائے اور ایسے دنوں میں انہیں تیرنا سکھا ئیں جبکہ پانی صاف ہو.مجھے یاد ہے جب بچپن میں مجھے تیر نا نہیں آتا تھا تو دوسروں کو دیکھ کر میرے دل پر بہت برا اثر پڑتا تھا کہ کیوں نہیں آتا.اور حضرت مسیح موعود نے ہمیں تیرنے والوں کے سپر د کر دیا کہ تیر ناسکھائیں.تو بچوں کو تیر ناضرور سکھانا چاہئے.اور میرا تو دل چاہتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ روپیہ دے تو گھوڑے رکھے جائیں اور ان پر سر بچوں کو سواری سکھائی جائے اور وہ پورے پورے سوار ہوں.لیکن جب تک اتنا مال نہیں ملتا بچوں کو دوسری کھیلوں کا کھلاڑی بنانا چاہئے.کیونکہ اچھے کھلاڑی کے اخلاق بھی اچھے ہوتے ہیں.برخلاف اس کے جو بچے بچپن میں ان باتوں میں پڑتے ہیں جو بڑوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ بڑے ہو کر بالکل نکمے ثابت ہوتے ہیں.ایک شخص جواب وکالت کرتا ہے اور سلسلہ سے اس کو کوئی تعلق نہیں رہا طالب علمی کی حالت میں بڑی لمبی لمبی نمازیں پڑھتا اور نمازوں میں اتنا روتا کہ چھینیں نکل جاتیں.مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ مسلمانوں کا لیڈ ر 3 وہ کہتے میرا دل چاہتا کہ اسے مسجد سے اٹھا کر نیچے پھینک دوں.یہ کیوں روتا ہے.اس نے کون سے گناہ کئے ہیں.اسی طرح میاں عبد السلام حضرت خلیفہ اول کے لڑکے جب دعا ہونے لگے تو رونے لگ جاتے.حضرت مولوی صاحب روکتے اور فرماتے یہ اعصابی کمزوری ہے.بڑا آدمی تو سمجھتا ہے کہ میری عمر کا بڑا حصہ ضائع ہو گیا ہے، مجھ سے کئی کوتاہیاں ہوئی ہیں خدا معاف کر دے اس لئے روتا ہے.بچہ اگر اس رنگ میں روتا ہے کہ میری انگلی عمر اچھی اور اعلیٰ ہو تو یہ جائز ہے.اور اگر اس لئے روتا ہے کہ اس کے گناہ بخشے جائیں تو وہ نقال ہے اس نے گناہ ہی کب کئے ہیں کہ بخشوا تا ہے.ہاں اگر اس کی یہ خواہش اور | امنگ ہے کہ دین کا خادم بنوں اور اس پر اسے رونا آتا ہے تو جائز ہے.پس بچوں کے لئے کھیلنا کودنا بہت ضروری ہے.ہاں کھیل میں اخلاق سکھانا چاہئیں.مثلاً

Page 121

زریں ہدایات (برائے طلباء) 116 جلد سوم یہی کہ کہا جائے اگر کوئی گالی دے تو اس کو گالی نہ دی جائے.اور پھر گروپ کے لڑکوں کے متعلق | رپورٹ منگائی جائے کہ کون سے لڑکے ہیں جنہوں نے گالی کا جواب گالی دیا.اگر کوئی ہو تو اس سے توبہ کرائی جائے.اسی طرح یہ کہ ہر ایک غریب اور مسکین کو مدد دیں.اور اس قسم کے واقعات آکر سنائیں کہ اس طرح کسی لڑکے کو مدد کرنے کا موقع ملا ہے مگر اس نے مدد نہیں کی.مثلاً کوئی چھوٹا بچہ ہے ادھر گائے آئی ہے لڑکا پاس کھڑا تھا اسے چاہئے تھا کہ چھوٹے بچے کو پرے ہٹالیہ مگر اس نے نہ ہٹایا تو اس کی باز پرس کی جائے.یا مثلاً کوئی برقع پوش عورت تھی جس پر جانور حملہ کرنے لگا تھا اور لڑ کا پاس کھڑا تھا مگر اسے بچانے کی کوشش کرنے کی بجائے ہنس رہا تھا تو اس کو بھی تنبیہ کی جائے.ایسے واقعات پر سرزنش کی جائے اور آئندہ کے لئے عہد لیا جائے کہ ایسا نہ کریں گے.اس طرح عملی طریق سے بچے اخلاق سیکھ سکتے ہیں.ان کی مثال طوطے کی سی ہوتی ہے جو کہتا ہے میاں مٹھو پچوری کھانی ہے.مگر نہ یہ جانتا ہے کہ میاں مٹھو کیا ہے اور نہ اسے یہ خبر ہوتی ہے کہ چوری کیا ہے بچوں کو اگر یوں کہا جائے کہ حاجت مند کی مدد کیا کرو.تو کہیں گے ہاں کریں گے مگر انہیں یہ نہیں معلوم ہوگا کہ کیا کرتا ہے.لیکن جب عملی طور پر انہیں سکھایا جائے گا اور ہوشیار لڑکے امداد دینے کے واقعات سنائیں گے تو دوسروں کو پتہ لگے گا کہ اس طرح مدد کرنی چاہئے.سکاؤٹ بوائے کو اسی طرح سکھایا جاتا ہے کہ پھونس کے گھر بنا کر اور ان میں ضروری اشیاء رکھ کر آگ لگاتے ہیں اور پھر آگ کو بجھانا اور چیزوں کو بچانا سکھایا جاتا ہے.تو سبقاً سبقاً بچوں کو یہ باتیں سکھانی چاہئیں اور گروپ میں ہی سکھائی جاسکتی ہیں الگ الگ ایسا انتظام نہیں ہو سکتا.اسی طرح ڈوبتے کو بچانا سکھانے کے لئے بھی گروپ ضروری ہے اور بچوں کو مشق کرانی چاہئے.اس میں دوسرے لوگ | بھی اگر دلچسپی لیں تو زیادہ مفید ہوسکتا ہے.مگر ہمارے ملک کے اخلاق ایسے ہیں کہ اگر کوئی بڑی صلى الله عمر کا آدمی کھیل میں شامل ہو تو حیرت اور تعجب کا اظہار کیا جاتا ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ کے متعلق آتا ہے کہ آپ شامل ہو جاتے تھے.ہاں باپ کو بھی چاہئے کہ بچوں کے اس قسم کے کاموں میں کبھی کبھی شامل ہو جایا کریں.پھر غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنا سکھانا چاہئے.اس

Page 122

زریں ہدایات (برائے طلباء) 117 چاند سوم کا مطلب یہ نہیں کہ جیبیں بھری ہوں بلکہ یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی عورت تکلیف میں ہے، اندھی ہے اور بچہ اس کے ساتھ ہے جسے وہ اٹھا نہیں سکتی تو لڑکا اٹھا لے.اگر کوئی گر جاتا ہے تو اسے اٹھائے.اسی قسم کے اور بیسیوں کام ہیں.چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے باقی باتیں پھر کسی وقت بیان کر دی جائیں گی.“ (الفضل 10 جولائی 1923ء) :1 بخاری کتاب الادب باب من أحق الناس بحسن الصحبة صفحه 1045 حدیث نمبر 5971 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 2 بخاری کتاب الادب باب البر والصلة صفحہ 1045 حدیث نمبر 5970 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 3 تذکرہ صفحہ 323 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 123

زریں ہدایات (برائے طلباء) 118 جلد سوم کالجوں کے احمدی طلباء سے خطاب دسہرہ کی تعطیلات پر لاہور کے مختلف کالجوں کے طلباء قادیان آئے.17 اکتوبر 1923ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے ہال میں ان کی طرف سے ایک ٹی پارٹی کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد جو خطاب فرمایاوہ حسب ذیل ہے.”میرے بعض عزیزوں نے مجھ سے درخواست کی ہے کہ میں اس موقع پر تقریر کروں لیکن تقریر کے لغوی معنے ” قرار پر دلالت کرتے ہیں بلکہ قرار دینے پر دلالت کرتے ہیں ( گواصل معنے استعمال میں اور لئے جاتے ہیں ) اور قرار تب ہی کوئی کسی کو دے سکتا ہے جب پہلے خود سے قرار ہوتا ہے.لیکن اس وقت میں جسمانی اور ذہنی طور پر قرار نہیں پاتا کہ تقریر کر سکوں.جسمانی قرار تو اس لئے نہیں کہ مجھے جو حرارت ہو جایا کرتی ہے وہ اس وقت شروع ہو گئی ہے اور ذہنی قرار اس لئے نہیں کہ جس موقع پر بولنے کے لئے کہا گیا ہے وہ ہمارے ملک اور قوم کے دستور کے خلاف ہے اور اس بات کا میرے دماغ پر بہت بڑا اثر ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جس قدر انسان ترقی کرتا جاتا ہے اور اس کی عقل تیز ہوتی جاتی ہے وہ رسوم اور رواج کو چھوڑتا جاتا اور ان سے بالا ہوتا جاتا ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض رسوم میں اعلیٰ اخلاق ہوتے ہیں اور وہ رسوم باطنی اخلاق کے اظہار کا ذریعہ ہوتی ہیں.میں سمجھتا ہوں ان اخلاقی جذبات کے اظہار کی رسومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جو لوگ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں وہ میزبان ہوتے ہیں اور جو باہر سے آئیں وہ مہمان ہوتے ہیں.اور ان ظاہری علامتوں میں سے جو اس خلق کے اظہار کے لئے مقرر ہیں اور میں سمجھتا ہوں بہترین

Page 124

زریں ہدایات (برائے طلباء) 119 جلد سوم تصویری زبان میں ہیں ایک یہ ہے کہ میزبان دعوت دے اور مہمان دعوت کھائے.مگر یہاں ایسے عجیب طریق سے بلایا گیا ہے کہ یہاں مہمان میزبان بن گئے ہیں اور میز بان مہمان ہو گئے ہیں.اس کے متعلق اگر مجھے ایسے وقت میں اطلاع نہ دی جاتی کہ میں سمجھتا اگر میں انکار کروں گا تو دعوت دینے والوں کو تکلیف ہوگی اور ان کو نقصان اٹھانا پڑے گا تو میں انکار کر دیتا مگر مجھے پہلے معلوم نہ ہوا بلکہ یہ معلوم تھا کہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء دعوت کرنے والے ہیں.یہ بعد میں معلوم ہوا کہ ان سے سمجھوتہ کر لیا گیا ہے.میں نے خیال کیا اگر اس وقت انکار کروں گا تو دعوت کا انتظام کرنے والوں کی طبیعتوں پر بوجھل اور گراں گزرے گا اور چونکہ طلباء میں پارٹی فیلنگ زیادہ پائی جاتی ہے اس لئے وہ سمجھیں گے کہ ہم نے دعوت کی تھی اس لئے قبول نہ کی گئی اور اگر کوئی اور کرتا تو قبول ہو جاتی.جس طرح غرباء سمجھ لیتے ہیں کہ ہم غریب ہیں اس لئے ہماری دعوت منظور نہیں کی جاتی.ایک دفعہ ایک غریب نے مجھے دعوت کے لئے کہا.اس کی ایسی حالت تھی کہ اس کے ہاں سے کھانا کھانا طبیعت پر بہت گراں معلوم ہوتا تھا اس لئے میں ٹالتا رہا.مگر جب میں نے دیکھا کہ اس سے اس کی طبیعت میں ملال پیدا ہونے لگا ہے تو میں نے دعوت قبول کر لی.پس ایسے آدمی کی دعوت اگر منظور نہ کی جائے تو خواہ اس کے لئے کتنی ہی معقول وجہ ہو وہ یہی سمجھتا ہے کہ میری غربت کی وجہ سے منظور نہیں کی گئی.اور اگر کسی امیر کی دعوت رد کی جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ کوئی معقول وجہ ہوگی.اسی طرح مجھے طلباء کے ابتلاء کا ڈر تھا کہ اگر میں نے انکار کر دیا تو کہیں گے کوئی بڑا آدمی دعوت کر تا تو مان لیتے مگر ہماری نہ مانی.اس وجہ سے میں نے اس دعوت کو قبول تو کر لیا لیکن در حقیقت یہ جو ناشتہ کا وقت تھا اس وقت مجھے یہی خیال آرہا تھا اور ہر ایک لقمہ اور چائے کا گھونٹ پکار پکار کر کہ رہا تھا کہ ن ستا، نہ ستا یعنی یہ ناشتہ ذرا سے تغیر کے ساتھ اپنی حقیقت ظاہر کر رہا تھا.میرے نزدیک مہمان کو میز بان کی دعوت کرنے کا حق ایک ہی موقع پر ہے اور وہ سزا کے طور پر کہ مہمان جائے اور لوگوں کو حق سنائے مگر وہ سننے کے لیے نہ آئیں اس پر وہ ان کی دعوت کرے اور انہیں کھانا کھلا کر بتائے کہ دیکھو تم حق سننے کے لئے نہ آئے مگر کھانے کے لئے

Page 125

زریں ہدایات (برائے طلباء) 120 جلد سوم آگئے.بس صرف یہی ایک موقع ہے جب میزبان کو مجرم کرنے کے لئے مہمان اس کی دعوت کر سکتا ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ملک وقوم کے دستور اور رسوم اثر رکھتی ہیں.اور خواہ کوئی انسان کسی قدر بڑھ جائے رسوم اور اخلاق سے تعلق رکھنے والی باتوں سے بالا نہیں ہو جاتا.ان کا اسے لحاظ رکھنا پڑتا ہے.حدیث میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر گوہ ( سوسمار) کا گوشت لایا گیا مگر آپ نے نہ کھایا.ایک صحابی نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ حرام ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں.اس نے پوچھا پھر آپ نے کھایا کیوں نہیں؟ فرمایا ہمارے ہاں اس کے کھانے کا رواج نہیں.1 تو رسول کریم ﷺ جو رسوم کو مٹانے کے لئے آئے تھے وہ بھی اس رواج کا لحاظ کرتے ہیں جو گوہ کے متعلق پایا جاتا تھا.بات یہ ہے کہ انبیاء ان رسوم کو مٹاتے ہیں جو لوگوں کے لئے قید اور مصیبت کا باعث ہوں نہ اُن کو جو اخلاق فاضلہ ہوں.اور چونکہ یہ بھی اخلاق فاضلہ کے خلاف ہے کہ جو چیز وہ لوگ استعمال نہ کرتے تھے اس کو استعمال کیا جاتا اس لئے رسول کریم ﷺ نے اسے استعمال نہ کیا کیونکہ اس کا استعمال لوگوں کی طبائع پر گراں گزرتا.تو بعض عادات اور رسوم اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مہمان کو مہمان بنانا چاہیئے اور میزبان کو میز بان بننا چاہئے.مگر اس دعوت میں اس کے خلاف کیا گیا ہے جو نہیں ہونا چاہئے تھا.یہ نصیحت میں نے اب اس لئے کی ہے کہ اگر پہلے کہتا تو طلباء سمجھتے ہم نے ایک کام جو شوق سے کیا تھا اسے رد کر دیا گیا اس خیال سے میں دعوت میں آ گیا.گو میرے لئے ہر قدم بلکہ ہر لقمہ تکلیف دہ تھا.پس یا درکھو کہ ہمارے ملک میں جو یہ اخلاقی رسم ہے اس کی خلاف ورزی نہیں ہونی چاہئے.یورپ میں یہ بات نہیں ہے.وہاں تو لوگ ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں اور اپنے خیالات لوگوں تک پہنچانے کے لئے ان کی دعوتیں کرتے ہیں.مگر وہاں تو یہ بھی رواج ہے کہ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی آئے تو وہ بھی ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں اور ماں باپ پوچھتے ہیں کیا کل تم کو فرصت ہوگی کہ

Page 126

زریں ہدایات (برائے طلباء) 121 جلد سوم تمہاری دعوت کریں؟ پھر یہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی گھروں میں اپنے کھانے کا خرچ خود ادا کرتے ہیں.ایک دوست نے سنایا.ایک چھوٹی لڑکی دوکنگ میں آئی اور اپنی کچھ نقدی کہیں بھول گئی.اس پر وہ رونے لگی اور اس کی حالت ایسی ہو گئی کہ گویا اسے ہسٹیر یا ہونے لگا ہے.میں نے پوچھا کیا ہوا کیوں روتی ہو؟ کہنے لگی میری رقم کھوئی گئی ہے اب میں کھانا کہاں سے کھاؤں گی.میں نے کہا اپنے گھر سے کھانا.کہنے لگی گھر میں ہر ہفتہ میں اس قدر رقم ادا کرتی ہوں تب کھانا ملتا ہے.تو وہاں کے اور اخلاق ہیں اور مشرقی اخلاق اور ہیں.ہمیں اپنے اخلاق چھوڑنے نہیں چاہئیں کیونکہ یہ مشرقی اخلاق سب سے اعلیٰ ہیں.اس کے بعد میں چند اور نصیحتیں کرتا ہوں تا کہ جو کوئی فائدہ اٹھانا چاہے اُٹھا لے.یہ بات خوب اچھی طرح یا درکھو کہ کوئی قوم قوم نہیں بن سکتی جب تک کہ وہ اپنی عادات، اپنے اخلاق اور اپنی رسومات میں دوسروں سے ممتاز نہ ہو.خاص اخلاق اور اپنی عادات کا اس کے گرد ایسا حلقہ ہونا چاہئے جو اس کے لئے حفاظت کی دیوار کا کام دے.اور اس احاطہ میں رہنے والے لوگ دوسروں سے الگ تھلگ معلوم ہوں.کیا جب ریل کے سفر میں یا کسی اور مجمع میں کوئی ہندو ملتا ہے تو تم اسے فوراً نہیں پہچان لیتے کہ یہ ہندو ہے؟ ضرور پہچان لیتے ہو.سوائے شاذ و نادر کے.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے ایک قسم کی علیحدگی ہے.جس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ فلاں ہندو ہے.اسی طرح ہندو ایک مسلمان کو فوراً پہچان لیتے ہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ حالانکہ وہ ہندو کبھی دہر یہ ہوتا ہے اور وہ مسلمان بھی دہر یہ ہوتا ہے.مگر ہندو کو ایک ہندو جس کشش سے ملے گا مسلمان سے نہیں ملے گا.اسی طرح مسلمان اس مسلمان سے جس رنگ میں ملے گا ہندو سے نہیں ملے گا.پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عقائد اور خیالات کی وجہ سے ایک ہندو ہندو کی طرف مائل ہوتا ہے اور ایک مسلمان مسلمان کی طرف.کیونکہ ایک دہر یہ مسلمان مسلمانوں سے لگاؤ رکھتا ہے اور ایک دہر یہ ہندو ہندوؤں سے وابستہ ہوتا ہے جس طرح یہ اپنے اپنے لوگوں سے مل سکتے ہیں دوسروں سے نہیں مل سکتے.اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ وہ عادات اور رسوم ہیں جو ہندو اور مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں.پس ہر قوم اپنے گرد ایک حلقہ بنالیتی ہے.وہ لوگ

Page 127

زریں ہدایات (برائے طلباء) 122 جلد سوم جنہوں نے علم النفس پڑھا ہے اور اس کے متعلق گہری تحقیقات سے آگاہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ ہر انسان اپنے ارد گر د حلقہ رکھتا ہے اور جس طرح سورج کے ارد گر د شعاعوں سے گھیرا پیدا ہو جاتا ہے اسی طرح انسان کے گرد حلقہ پیدا ہو جاتا ہے.جس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کے اثرات کو پرے ہٹاتا ہے اور اپنے اثرات دوسرے پر ڈالتا ہے.یہ حلقہ جس طرح افراد کا ہوتا ہے اسی طرح قو میں بھی اپنے ارد گرد حلقہ رکھتی ہیں.اور جولوگ روحانیت میں ترقی کر جاتے ہیں اور ان کی نظریں تیز ہو جاتی ہیں ان کو یہ حلقہ نظر بھی آجاتا ہے یا خدا تعالیٰ دکھا دیتا ہے.جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آیا.گندے اور ناپاک آدمی سے کالے رنگ کا حلقہ پیدا ہوتا ہے اور جو نیک اور پارسار ہوتے ہیں اُن سے سفید روشنی نکلتی ہے.اور ہر انسان کی طاقت کے مطابق پھیلتی اور اثر کرتی ہے.کسی کے گر گز بھر کا حلقہ ہوتا ہے، کسی کا اس سے زیادہ اور کسی کا اس سے بھی زیادہ.یہ حلقے دوسروں پر اثرات ڈالتے ہیں.ایک دفعہ ایک بہائی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی جو ایک احمدی کی بیوی تھی.وہ اپنے عقائد اور خیالات میں بہت جو ھیلی تھی.میں نے اس سے گفتگو کرتے وقت محسوس کیا کہ جو حلقہ میرے جسم سے نکل رہا تھا وہ اُس کے حلقہ سے جا کر فکر اتا تھا اور وہ آگے سے انکار کر رہا تھا کہ اسے اپنے اندر داخل ہونے دے.اس موقع پر مجھے یہ بات نمایاں طور پر محسوس ہوئی اور اُس وقت مجھے اس کے لئے خاص توجہ کرنی پڑی.پھر اس کے حلقہ نے میرے حلقہ کو داخل ہونے کا راستہ دے دیا.تو ہر انسان سے ایک قسم کی روشنی نکلتی ہے جو دوسرے کی روشنی پر اثر کرتی ہے.پھر جس کی زبردست ہوتی ہے وہ دوسرے کی روشنی کے حلقہ کو پھاڑ کر اندر داخل ہو جاتی ہے.یہی حالت قوم کی ہوتی ہے.ماسٹر مبارک علی صاحب بی.اے جو جرمنی میں تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں انہوں نے کئی دفعہ لکھا کہ مجھے کفر کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آتا.گو حضرت صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس پر میرا ایمان ہے اور میں اس کو مانتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ سارے مسلمان کہلانے والے کافر کیونکر ہو گئے.اگر چہ ان کا یہ خیال ہی غلط تھا اور یہ فقرہ بھی غلط ہے جو انہوں نے استعمال کیا کہ مسلمان کافر ہو گئے.اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے سارے تندرست بیمار ہیں کیونکہ ہم ہر ایک مسلمان

Page 128

زریں ہدایات (برائے طلباء) 123 جلد سوم کو مسلمان ہی کہتے ہیں کا فرنہیں کہتے.ہاں اگر کسی میں کفر کی وجہ پیدا ہو جائے تو اور بات ہے.غرض انہوں نے لکھا اور میں نے بتایا کہ ہم مسلمانوں کو کا فرنہیں کہتے بلکہ جو کافر ہیں ان کو کافر کہتے ہیں.ان کو ایک پروفیسر ملا جو خواجہ کمال الدین صاحب کو بھی مل چکا تھا.اس نے پوچھا تمہارے آپس میں کیا کیا امتیازات ہیں؟ ماسٹر صاحب لکھتے ہیں میں نے اسے بتایا کہ ہم یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں میں نقص آ گیا تھا اور وہ مسلمان نہیں رہے تھے.ان کی اصلاح کے لئے حضرت مرزا صاحب آئے.اب مسلمان وہی ہو سکتا ہے جو ان کی اصلاح یافتہ جماعت میں داخل ہو.مگر خواجہ صاحب یہ نہیں مانتے.یہ سن کر وہ پروفیسر کہنے لگا تم ضرور جیتو گے اور وہ ہار جائیں گے.کیونکہ کوئی قوم اُس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتی جب تک اپنے ارد گرد دائرہ نہیں بنا لیتی.اور جب اپنا علیحدہ دائرہ بنالیتی ہے تو اُسے ترقی کرنے اور بڑھنے کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے مگر دوسروں میں ملے رہنے سے یہ احساس نہیں پیدا ہوتا.اس نے یہ بھی کہا کہ وہ لوگ جو دوسروں کے ساتھ ملا رہنا پسند کرتے ہیں وہ کچھ عرصہ فائدہ اٹھا لیں تو اٹھا لیں مگر کامیاب نہیں ہوں گے کامیاب تم ہی ہو گے جنہوں نے اپنا الگ حلقہ بنایا ہے.اس گفتگو کو بیان کر کے ماسٹر مبارک علی صاحب لکھتے ہیں کہ اب مسئلہ کفر و اسلام کے متعلق | میری تسلی ہو گئی ہے.چونکہ طبائع مختلف ہوتی ہیں اس لئے کسی کو کسی بات سے تسلی ہوتی ہے اور کسی کو کسی رنگ سے.تو یہ بہت معقول بات ہے کہ جب تک کسی قوم کا حلقہ نہ ہو وہ ترقی نہیں کرسکتی.بہترین حلقہ اخلاق اور عادات کا حلقہ ہے.مسلمانوں میں سے لاکھوں انسان ایسے ہیں جو اسلام کا ذرہ بھی اپنے اندر نہیں رکھتے.پھر اگر وہ ہندو نہیں ہوتے تو کیوں؟ اپنی عادات کی وجہ سے.اسی طرح لاکھوں ہندو ہیں جن میں ہندو مذہب کا شائبہ بھی نہیں پایا جا تا عادات کے اس حلقہ کی وجہ سے جو ان کو گھیرے ہوئے ہے.یہی عیسائیوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں کا حال ہے.ہر قوم کے گرد ایک حلقہ ہوتا ہے اور جب تک وہ قوم اس حلقہ کو مضبوط نہ کرتی رہے قائم نہیں رہ سکتی.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے ارد گر د اخلاق کا حلقہ بنائیں اور ایسے اخلاق فاضلہ

Page 129

زریں ہدایات (برائے طلباء) 124 جلد سوم پیدا کریں جو دوسروں سے ہمیں ممتاز کر دیں.کیونکہ جب تک ہم میں اور دوسروں میں یہ امتیاز نہ ہو ہم دنیا کے سامنے بحیثیت قوم کے نہیں جاسکتے.پس جس طرح ایک ہندو اور مسلمان کو شکل دیکھتے ہی لوگ معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ ہندو ہے یا مسلمان اسی طرح ہر احمدی میں بھی ایسا امتیاز ہو کہ دیکھنے والا فورا اُسے احمدی سمجھ لے.مگر کیا ایسا ہی ہوتا ہے؟ کیا لوگ احمدیوں کو شکل دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں؟ بعض کو پہچان لیتے ہیں مگر سب کو نہیں.ہندوؤں میں سے شاید کسی ایک آدھ کو کوئی نہ پہچان سکے کہ یہ ہندو ہے مگر سب کو پہچان لیتے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کو اور اسی | طرح مسلمانوں کو.مگر احمد یوں کو اس طرح نہیں پہچان سکتے.کیونکہ احمدیوں کے اخلاق اور عادات میں دوسروں سے اس حد تک کھلا کھلا امتیاز نہیں کہ انہیں پہچان سکیں.پس چاہئے کہ احمدی ایسے اخلاق بنائیں کہ فوراً پہچانے جاسکیں.میں اس کے متعلق تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ شاید بعض پر گراں نہ گزرے مگر مختصراً یہ بتا دیتا ہوں کہ بعض وقت لوگ معلوم کر لیتے ہیں کہ فلاں شخص احمدی ہے.اور اگر تم سٹڈی (Study) کرو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیسے اخلاق ہیں جن کو دیکھ کر لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ احمدی ہے.اس بارے میں خوب مطالعہ کرو اور پھر ایسے اخلاق پیدا کرو.ہر ایک احمدی جب اس طرح کرے گا تو احمدیوں کے الگ اور نمایاں اخلاق ہو جائیں گے اور دوسروں سے ممتاز ہو جائیں گے.اس میں شک نہیں کہ ہمارے اخلاق اسلامی اخلاق ہیں اور ان لوگوں سے علیحدہ نہیں ہو سکتے جو مسلمان کہلاتے ہیں مگر ان لوگوں سے اسلامی اخلاق علیحدہ ہو رہے ہیں.ہو سکتا ہے کہ ان میں بھی بعض لوگ ایسے ہوں جن کو دیکھ کر کسی کو دھوکا لگ جائے کہ یہ احمدی ہے لیکن جب اپنے ارد گرد اخلاقی حلقہ کو مضبوط کرو گے تو ایسے لوگ تم میں آجائیں گے کیونکہ کثرت تمہاری ہوگی اور ان کا دل تم میں ہی لگے گا اور وہ تم میں جذب ہو جائیں گے.اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں تم میں اور دوسرے لوگوں میں نمایاں فرق پیدا ہو جائے گا.کیونکہ تمہاری عادات، تمہاری رسوم اور تمہارے اخلاق اسلامی ہوں گے اور ان کے غیر اسلامی.

Page 130

زریں ہدایات (برائے طلباء) 125 جلد سوم اس بات کی تشریح کرنے کے لئے میں بعض ایسی باتیں لے لیتا ہوں جن کے بیان کرنے میں حرج نہیں اور دوسری چھوڑتا ہوں.مثلاً ایک احمدی وقت پر نماز ادا کرنا فرض سمجھتا ہے مگر دوسرے لوگوں میں سے اگر کوئی نماز پڑھتا بھی ہے تو وہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اس قسم کی طہارت ہو، ایسی جگہ ہو.وغیرہ وغیرہ.ایک احمدی ایسا نہیں کرے گا بلکہ جب نماز قضاء ہونے کا ڈر ہوگا تو جس حالت میں بھی ہوگا پڑھ لے گا.اور میرے نزدیک اگر کوئی شخص سر سے لے کر پاؤں تک نجاست میں لتھڑا ہوا ہومگر نماز کا وقت جارہا ہو اور وہ نماز پڑھ لے تو جائز ہے کیونکہ اصل نماز دل کی ہے ظاہری حالت اگر درست رکھنے میں معذوری ہو تو اس کی پرواہ نہیں کی جائے گی.دیکھو بیماری میں انسان جب کھڑا نہیں ہو سکتا یا بیٹھ نہیں سکتا تو ظاہری حرکات کئے بغیر ہی نماز ادا کرتا ہے یا نہیں کرتا ؟ اور اس کو شریعت نے جائز قرار دیا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ نماز در اصل دل کی ہے.پس اگر کپڑے ناپاک ہوں اور اگر یہی حالت ہو کہ پاک نہ ہو سکتے ہوں تو یہ نہیں کہ نماز پڑھنا منع ہے بلکہ ایسی صورت میں بھی فرض ہے کہ نماز کے لئے کھڑا ہو جائے مگر مسلمان ایسا نہیں کرتے.کچھ عرصہ ہوا یہاں ایک دکن کے رئیس آئے میں نے ان کو نصیحت کی کہ نماز پڑھا کریں.کہنے لگے گھر جا کر شروع کروں گا.میں نے کہا یہ آپ کو کس طرح معلوم ہے کہ گھر جا کر آپ کو نماز پڑھنے کا موقع ملے گا بھی یا نہیں.کہنے لگے سفر میں چونکہ بے احتیاطیاں ہو جاتی ہیں اس لئے کپڑے پاک نہیں رہ سکتے.گھر جا کر پاک کر کے نماز شروع کروں گا.میں نے بتایا اگر کوئی ایسی مجبوری ہو تو بھی نماز ضرور پڑھنی چاہئے نماز کسی صورت میں بھی چھوڑی نہیں جاسکتی.میں رات کے بارہ بجے تک ان سے باتیں کرتارہا.ان پر اتنا اثر ہوا کہ وہ صبح کی نماز میں شامل ہوئے اور نیند کی وجہ سے ان کی یہ حالت تھی کہ ان کے ملازموں نے بتایا اپنی جوتی پہننے کی بجائے اور جوتی پہن کر چلے گئے.تو جس طرح احمدی پابندی کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں دوسرے لوگ نہیں پڑھتے.یہ ایک علامت ہے جس سے لوگ پہچان سکتے ہیں کہ فلاں شخص احمدی ہے.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جن سے لوگ احمدیوں کو پہچان سکتے ہیں.اور جب احمدی اپنے اخلاق اور عادات اعلیٰ درجہ کے بنائیں گے تو آہستہ آہستہ ایسا ہو گا کہ ان کی شکلوں پر اثر پڑنا شروع

Page 131

زریں ہدایات (برائے طلباء) 126 جلد سوم ہو جائے گا.اگر ایک ہندو کا ہندوانہ لباس اتروا دیا جائے اور وہ کوئی حرکت بھی نہ کرے تو سو آدمی اگر اسے دیکھیں گے تو غالبا وہ شکل ہی سے پہچان لیں گے کہ یہ ہندو ہے.وجہ یہ ہے کہ اخلاق اور عادات سے شکلیں بدلتی رہتی اور ان پر اثر پڑتا رہتا ہے.شکا گو کا ایک پرنسپل ہے اس کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے طالب علمی کے زمانہ میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہت اعلیٰ قابلیت کا انسان ہو گا اور جب وہ امتحان میں کامیاب ہوا تو ملک میں اس کی ایسی دھاک بندھی ہوئی تھی کہ وہ ایک کالج کا پروفیسر مقرر ہو گیا.پھر پرنسپل بن گیا مگر اس وقت وہ بالکل نالائق ثابت ہوا.کوئی رعب داب قائم نہ رکھ سکا.جب اس کی بہت بدنامی ہوئی تو اس نے اپنے ایک دوست سے جو علم اخلاق کا ماہر تھا مشورہ لیا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے.اس نے کہا تمہارے جبڑے کھلے رہتے ہیں جو بے استقلالی اور کم ہمتی کی نشانی ہے.تم اپنے جبڑے بند رکھا کرو اور چہرہ کو سخت بناؤ.اس نے اسی طرح کیا.میں نے اس کا اپنا بیان پڑھا ہے وہ لکھتا ہے گو میں ایسا نہیں ہوں مگر اب میں سارے امریکہ میں سخت گیر سمجھا جاتا ہوں اور کالج کا انتظام بہت اعلیٰ درجہ کا ہو گیا ہے.تو اس طرح ہو جاتا ہے.اس وقت میں ان تفصیلیوں میں نہیں پڑوں گا کہ کیوں ہو جاتا ہے یہ علمی بات ہے جو بہت وقت چاہتی ہے مگر ہو جاتا ہے.پس اگر تم اعلیٰ اخلاق اور اچھی عادات بناؤ گے تو ان کا اثر تمہارے چہروں پر ہوگا جو تم میں اور دوسروں میں امتیاز قائم کر دے گا.پس اخلاق فاضلہ بنانا اور ان پر عمل کرنا قوم بننے کے لئے نہایت ضروری ہے اور تمہیں اس کے لئے خاص کوشش کرنی چاہئے.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ کی نگرانی کی کس قدر ضرورت ہے.یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ ہر بات جس سے ہم بچتے ہیں وہ حرام نہیں ہوتی بلکہ کچھ اور وجوہات ہوتی ہیں جن کے باعث بچنا پڑتا ہے.کالج کے لڑکے عموماً اس بات کے متعلق جس سے انہیں کوئی رو کے یہ پوچھتے ہیں کیا یہ حرام ہے؟ ابھی میرے پاس شکایت پہنچی ہے کہ کالجوں کے لڑکے اور خصوصا قادیان سے جانے والے لڑکے سینما دیکھنے کے بہت شائق ہیں اور جب ان کو روکا جاتا ہے تو کہتے ہیں کیا سینما دیکھنا حرام ہے؟ وہ یہ کہ کر بڑے خوش ہوتے ہوں گے کہ

Page 132

زریں ہدایات (برائے طلباء) 127 جلد سوم ہم نے خوب پکڑا.اگر کہے گا حرام ہے تو ہم کہیں گے یہ تو رسول کریم ﷺ کے بعد کی چیز ہے حرام کس نے کی.اور اگر کہے گا حرام نہیں تو کہیں گے پھر دیکھنا کیوں منع ہے.مگر میں پوچھتا ہوں کیا تم وہی باتیں نہیں کرتے جو قرآن نے حرام قرار دی ہیں اور باقی سب کچھ کر لیتے ہو.قرآن نے تو صرف چار چیزوں کو حرام ٹھہرایا ہے.شرک سے ذبح کیا ہوا جانور ، خون ،سو راور مردہ.مگر کتا اس میں شامل نہیں.اور اگر کسی سے اس کے متعلق پوچھو گے تو وہ یہی کہے گا کہ اس کا کھانا منع ہے.حرام نہیں کہے گا.اگر وہ مغز اسلام سے واقف ہوگا.کیونکہ قرآن کریم میں انہی چار چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے؟ باقی اشیاء جن کو استعمال نہیں کیا جاتا سنت کے لحاظ سے حرام ہیں لیکن شرعی طور پر نہیں.پھر کیا کوئی کتے کا گوشت کھانے کے لئے تیار ہے؟ اسی طرح کوئی کہے کیا چوہا حرام ہے؟ سارے قرآن میں اس کو حرام نہیں کہا گیا.لیکن اگر کوئی کہے میں لاؤں تم کھاؤ گے تو کیا تم کھا لو گے؟ تو انسان حرام چیزوں کو ہی نہیں چھوڑتا بلکہ اوروں کو بھی چھوڑتا سکھوں کی چونکہ کوئی شریعت نہیں اور وہ نہیں جانتے کہ فلاں بات کے متعلق کیا کرنا ہے اس ہے.لئے وہ اس قسم کے سوالات کیا کرتے ہیں.ایک تعلیم یافتہ سکھ ملتان کا جو بی.اے اور وکیل تھا مجھ سے پوچھنے لگا آپ کے مذہب میں ختنہ کرانے کا جو حکم ہے اس کے متعلق عورتیں کیا کریں؟ میں نے اُس کی عقل کے مطابق اُسے یہ جواب دیا کہ آپ کے مذہب میں ڈاڑھی مونچھیں رکھنا فرض ہے اس کے متعلق عورتیں کیا کرتی ہیں؟ اس پر کہنے لگا مجھے سمجھ آگئی ہے.اسلام نے اس تفصیل کے ساتھ احکام بیان کر دیئے ہیں کہ کوئی دقت پیش نہیں آتی اور نہ کسی اُلجھن میں انسان پڑ سکتا ہے بشرطیکہ اس کے دل میں کبھی نہ ہو.شریعت ایسی ناپاک چیزوں کو جن کی ناپاکی خود انسان معلوم کر سکتا ہے چھوڑ دیتی ہے کہ فطرت آپ ان کے متعلق فیصلہ کرے اور نام ان کالے دیتی ہے جن کو فطرت نجس قرار نہیں دے سکتی اور عام طور پر یہ بتا دیتی ہے جو چیز نجس ہے اسے نہ کھاؤ.اسی طرح اور بھی ایسی باتیں ہیں جو حرام اور منع نہیں کی گئیں مگر ان کو کر نہیں سکتے.مثلاً قرآن کریم اور حدیث میں کیا کسی نے پڑھا ہے کہ جب کوئی کھانا کھائے تو اپنے ہاتھ کہنیوں

Page 133

زریں ہدایات (برائے طلباء) 128 جلد سوم تک نہ بھرے؟ اگر کوئی ایسا کرے اور اُسے روکا جائے تو کیا وہ کہہ سکتا ہے کہ کہاں منع ہے جو تم روکتے ہو.اسی طرح کیا تم پسند کرتے ہو کہ جب تم کھانا کھا رہے ہو تو تمہارا سارا منہ کھانے سے بھرا ہوا ہو اور اس پر مکھیاں بیٹھی ہوں؟ ہر گز نہیں.مگر شریعت نے اس کو کہاں منع کیا ہے؟ پس کئی ایسی باتیں ہیں جن سے ہم بچتے ہیں مگر شریعت میں منع نہیں ہیں.اور ہزاروں لاکھوں ایسی باتیں ہیں جن کو ہم نا پسند کرتے ہیں مگر کہیں قرآن اور حدیث میں ان کے متعلق نہیں لکھا.پس یہ سوال ہی غلط ہے کہ فلاں چیز حرام ہے یا حلال بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ اصولاً اس میں مضر تیں ہیں یا نہیں؟ اور اسے خوبی کے لحاظ سے دیکھو پھر فیصلہ کرو.جب ذرا ذرا باتوں کے لئے چھان بین اور تحقیقات کی جاتی ہے تو وہ باتیں جو قوم اور نسل پر اثر کرنے والی ہوں اُن پر کیوں غور نہ کیا جاوے.کئی لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ سینما دیکھنے کے سب سے زیادہ شائق وہ لڑکے ہیں جو قادیان سے آتے ہیں.ان کو اس بات پر تعجب ہو گا مگر مجھے نہیں.چونکہ یہاں سینما ہوتا نہیں اس لئے جب یہاں کے لڑکے شہر میں جاتے ہیں تو قدرتی طور پر اس کے دیکھنے کا ان کو شوق ہوگا.مذہبی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ ان میں زیادہ مذہبی احساس ہونا چاہئے مگر طبعی طور پر ان پر تعجب نہیں ہوسکتا.شہروں میں رہنے والے لوگوں نے سینما دیکھا ہوتا ہے اس لئے ان کے لئے معمولی بات ہوتی ہے مگر گاؤں کے لوگ شہروں میں جا کر اسے دیکھنے کی بڑی خواہش کریں گے.ایک دفعہ میں چھوٹی عمر میں لاہور گیا تو میں نے سنا کہ ایک کمپنی آئی ہوئی ہے اس کا تماشہ سقوں تک نے اپنی مشکیں بیچ بیچ کر دیکھا.تو بی طبعی بات ہے.مگران کے طبعی جذبات مذہبی جذبات کے ماتحت ہونے چاہئیں جنہیں وہ مذہبی جذبات پر حاکم بنا لیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ گو طبعی تقاضے اور ہیں مگر ان کو قوم و مذہب اور جماعت کے فوائد کے ماتحت بنانا چاہئے.دیکھو اگر کسی کو کوئی مارتا ہے تو اسے طبعی جذبات تو یہی کہیں گے کہ وہ بھی اسے مارے اور اگر کوئی گالی دیتا ہے تو وہ بھی اسے گالی دے.مگر امن چاہتا ہے کہ وہ ایسا نہ کرے اور اگر معاف نہیں کر سکتا تو عدالت میں جائے.اگر کوئی شخص کسی سے لڑنے کے لئے آتا ہے تو جب تک اپنے آپ کو بچانے کے لئے مقابلہ کرنے پر مجبور نہ ہو جائے اُس وقت تک اسے نہیں لڑنا چاہئے ورنہ وہ بھی مجرم ہو گا.اسی

Page 134

زریں ہدایات (برائے طلباء) 129 جلد سوم طرح اگر کوئی کسی کی زمین پر قبضہ کرتا ہے اور وہ اسے لٹھ مار دیتا ہے تو وہ بھی پکڑا جائے گا اور مجرم قرار پائے گا.پس ہم مانتے ہیں کہ طبعی جذبات کے ماتحت ایک شخص چاہتا ہے کہ سینما دیکھے.اور سینما ایک دلچسپ چیز ہے جسے میں نے بھی دیکھا ہے اور کبھی کبھی دیکھنا منع نہیں.مگر ایک دوست نے لکھا ہے کہ بعض لڑکے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہر فلم جو آئے اس کا دیکھنا فرض ہے.اگر اس کو فرض سمجھا جائے تو امریکہ میں تو لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو فلمیں ہی تیار کرتے رہتے ہیں اور وہ تمہارے لئے اس قدر فرض تیار کر دیں گے کہ مذہبی سنن اور نوافل کے ادا کرنے کا بھی تمہیں وقت نہیں ملے گا.میں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی کبھی کبھی سینما دیکھنے کے لئے چلا جائے یا اگر کوئی علمی فلم آئے اور اُسے دیکھ لے تو دیکھ سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سینما اعلیٰ درجے کی ایک نعمت ہے مگر اس کا برے طور پر استعمال کر کے اسے نقصان رساں بنایا گیا ہے جیسے فونوگراف کے متعلق ہے سینما کے ذریعہ ایک جگہ کے نظائر دوسری جگہ کے لوگوں کو دکھائے جاسکتے ہیں جن سے وہ کئی قسم کے فوائد اور سبق حاصل کر سکتے ہیں مگر اس کو غلط طور پر استعمال کر کے خطر ناک بنا دیا گیا ہے.شملہ میں ایک دفعہ سینما میں جنگ کی تصویریں دکھا رہے تھے.مگر ایک دو نظارے دکھا کر پھر وہی ناچ وغیرہ شروع کر دیتے ہیں اس طرح اس کو خراب کر دیا گیا ہے گوعلمی لحاظ سے یہ بہت مفید چیز ہے اور میرا تو خیال ہے کہ چھوٹا سا منگوا کر سکول میں رکھا دیا جائے جس میں لڑکوں کو دنیا کی نمائشوں کے حالات اور دوسرے اہم واقعات اور نظارے دکھائے جائیں تو یہ ایک بہترین ایجاد ہے مگر اس کا بدترین استعمال شروع کر دیا گیا ہے.پس میں سینما کو برا نہیں کہتا بلکہ ان باتوں کو برا کہتا ہوں جو اس میں دکھائی جاتی ہیں.اگر یہ پوچھو کہ کیا سینما حرام ہے؟ تو میں کہوں گا حرام نہیں مگر بعض تصویر میں اس میں دکھائی جاتی ہیں ان کو میں حرام کہوں گا.ایک دفعہ ایک دوست نے سوال کیا کہ داڑھی کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ میں نے اُسے جواب میں یہ نہ کہا کہ داڑھی کا یہ تعلق ہے بلکہ یہ کہا کہ مد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اسلام سے بڑا تعلق ہے.اس پر وہ آگے کچھ نہ کہہ سکا.تو کئی ایسی باتیں ہیں جو اپنی ذات سے کوئی تعلق نہیں رکھتیں لیکن نسبتوں کے لحاظ سے تعلق رکھتی ہیں.پس سینما حرام تو الگ رہا ضروریات زندگی کے

Page 135

زریں ہدایات (برائے طلباء) 130 جلد سوم لئے لازمی ہے اور اگر کوئی علمی باتیں اس میں دکھائی جاتی ہیں اور کوئی دیکھنے کے لئے نہیں جاتا تو میں کہوں گا اسے زور دے کر لے جانا چاہئے.مگر اس میں جو تصویر میں دکھائی جاتی ہیں ان میں سے بعض کو میں حرام کہوں گا، بعض کو لغو اور بعض کو ضروری قرار دوں گا.یہ بات تم خود جانتے ہو کہ آجکل کیسی تصویریں دکھائی جاتی ہیں.شروع شروع میں اچھی تھیں، علم ہیئت کے نظارے دکھائے جاتے تھے ، چاند اور ستاروں کی حرکات دکھائی جاتی تھیں، جاپان اور روس کی جنگ کے نقشے ہوتے تھے مگر اب معلوم ہوتا ہے حالت بہت بگڑ چکی ہے اس لئے ایسی تصویروں کا دیکھنا مناسب نہیں ہے.پس میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہر بات کو اس رنگ میں نہ دیکھو کہ وہ حرام ہے یا حلال.بلکہ ہر کام کرتے وقت تم یہ دیکھو کہ تم کس حالت میں ہو اور یہ سوچو کہ تمہیں کیا کام کرنا ہے.تمہارے کندھوں پر کتنا بوجھ اور کتنی ذمہ داری ہے.تمہاری تعداد تھوڑی ہے، تمہارے پاس اموال نہیں، تمہیں سامان میسر نہیں، مگر تمہارا مقابلہ ساری دنیا کے ساتھ ہے جو تمہارے خلاف بڑے ساز وسامان کے ساتھ کھڑی ہے.اور تم نے دنیا کو وہ باتیں منوائی ہیں جن کا وہ انکار کر رہی ہے.اور نہ صرف وہی انکار کر رہی ہے بلکہ مسلمان کہلانے والے بھی انکار کر رہے ہیں.ایسی حالت میں کیا تمہارے لیے ضروری نہیں کہ تم اپنی طاقتوں کو اس طرح خرچ کرو کہ ان کے بہتر سے بہتر نتائج پیدا ہوسکیں.دیکھو ایک چھوٹی چیز بڑی کے مقابلہ میں پہلے ہی بے اثر ہوتی ہے اور اگر وہ بھی پھیل جائے تو اور بھی بے اثر ہو جاتی ہے.مثلاً ہوا ہے.بندوق میں بند کر کے اس سے جانور مار لیا جاتا ہے لیکن اتنی ہوا اگر کمرہ میں چھوڑ دی جائے تو کچھ بھی نہیں ہوگا.مگر وہی ہوا پمپ سے جب بندوق میں یا ہوائی تو ہیں ہوتی ہیں ان میں بند کر دی جائے تو گو تھوڑی ہوتی ہے مگر اس سے بڑے بڑے کام لیے جاسکتے ہیں.اسی طرح اگر تم اپنی طاقتوں کو جمع کر کے ان سے کام لو گے تو وہ کام دیں گی.اور اگر ان کو ادھر اُدھر پھیلا دو گے تو کچھ نہ ہوگا.پس بہتر کاموں میں اپنے وقت لگاؤ.تم میں سے کئی ایسے ہوں گے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتے ہوں گے.کئی ایسے ہوں

Page 136

زریں ہدایات (برائے طلباء) 131 جلد سوم گے جو احادیث سے بے خبر ہوں گے.کئی ایسے ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام | کی کتب نہیں پڑھی ہوں گی.کئی ایسے ہوں گے جو مخالفین کے اعتراضات کے جواب نہیں جانتے ہوں گے ان کو اپنے اوقات ان باتوں میں لگانے چاہئیں.اب تو یہ حالت ہے کہ کئی طالب علم پامال شدہ اعتراضات کو سن کر گھبرا جاتے اور لکھتے ہیں کہ ان کا ضرور جواب دینا چاہئے.حالانکہ کئی بار ان کا جواب دیا جا چکا ہوتا ہے.مگر ان کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے مثل ہے کہ ایک گیدڑ کا بچہ تھا ایک دن جو تیز ہوا چلی تو وہ ماں سے کہنے لگا جب سے میں پیدا ہوا ہوں کبھی اس زور کی آندھی نہیں آئی.ماں نے کہا تجھے پیدا ہوئے ہی کتنا عرصہ ہوا ہے.اسی طرح بعض طلباء ایسے ایسے اعتراض بڑی حیرانی اور پریشانی کے ساتھ پیش کرتے ہیں جن کے بیسیوں دفعہ جواب شائع ہو چکے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ آج تک کسی نے ایسے اعتراضات نہیں کئے.احمد یہ ہوٹل کے ہی ایک لڑکے نے اس قسم کا ایک سوال لکھا تھا حالانکہ کئی دفعہ اس کا جواب شائع ہو چکا مگر جو سلسلہ کے لٹریچر کو دیکھتا ہی نہیں اُسے کیا معلوم ہو سکتا ہے.مثلاً الفضل جائے اور اسے حقارت سے پرے پھینک دے، میرا کوئی مضمون جائے اسے ادب کی وجہ سے پھینکے تو نہ مگر رکھ چھوڑے کہ پھر پڑھیں گے اور پھر پڑھنے کا موقع ہی نہ آئے تو اسے اعتراضات کے جواب کس طرح معلوم ہوں.اس کو تو سینما کے حالات معلوم ہوں گے کیونکہ وہاں جانا وہ اپنا فرض سمجھتا ہے.مگر یاد رکھو اس قسم کی باتیں تمہارے فرائض میں داخل نہیں بلکہ یہ عیسائیوں کے فرائض ہیں ان کو ادا کرنے دو.اور وہ تو اس میں اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ یورپ میں گاؤں اس لئے اجڑنے لگ گئے ہیں کہ وہاں سینما نہیں ہوتے اور دیہاتوں کے لوگ شہروں میں جارہے ہیں.بے شک تمہارے دلوں میں بھی سینما وغیرہ دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا ہوگا اور تمہیں بھی جوش آتا ہو گا کہ دوسروں کی طرح تم ان باتوں میں حصہ لو مگر یا درکھو ان سے بچنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے.دیکھو جب مسٹر گاندھی کا شور اٹھا تو کئی احمدیوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہو گیا اور ان کی ایسی حالت تھی جیسے منہ زور گھوڑے کے منہ میں لگام دے کر اُسے زور سے روکا جائے.وہ سمجھتے تھے سوراج ایک پکا ہوا سیب ہے جسے دوسرے حاصل کر لینے لگے ہیں اس میں

Page 137

زریں ہدایات (برائے طلباء) 132 جلد سوم ہمارا بھی حصہ ہونا چاہئے.اور ہماری اس تعلیم کو کہ اس شورش میں حصہ نہ لو اپنے لئے روک سمجھتے تھے.مگر اب تسلیم کیا جا رہا ہے کہ جو کچھ ہم کہتے تھے وہی صحیح تھا اور جو کچھ وہ کر رہے تھے غلطی تھی.چنانچہ صفائی کے ساتھ دوسرے لوگوں کی طرف سے تسلیم کیا جا رہا ہے کہ بڑے بڑے وعدوں سے لیڈروں نے لوگوں کے دلوں میں ایسی امیدیں پیدا کر دیں جو کبھی پوری نہیں ہو سکتی تھیں اور اس طرح وہ اب بددل ہو گئے ہیں.تو سیاسی تحریکیں جو بہت گہرا اثر رکھنے والی اور توجہ کو بہت زیادہ کھینچنے والی ہوتی ہیں ان سے بھی ہم نے اپنے آدمیوں کو روکے رکھا ہے.وجہ یہ ہے کہ ایسی تحریکیں ساری توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور بعض دفعہ یہ جائز بھی ہوتی ہیں تو بھی ان سے روک دیا جاتا ہے.کیونکہ اگر کوئی کسی کام کے لئے جار ہا ہو مگر راستہ میں کسی جائز چیز کو دیکھنے کے لئے ٹھہر جائے تو وقت پر نہ پہنچ سکے گا.اسی طرح جو شخص اور تحریکوں کی طرف متوجہ ہو جائے گا وہ خدمت دین سے محروم رہ جائے گا.تم لوگ اگر اور باتوں میں پڑ جاؤ گے تو تمہاری زندگی کا جو اصل مدعا ہے اُسے کس طرح پورا کرو گے تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ تمہارے سامنے بہت بڑا کام ہے اور تمہارا مدعا نہایت عظیم الشان ہے.اگر اس بات کو تم یاد نہ رکھو گے اور ہر وقت یہ تمہارے سامنے نہ رہے گی تو تم کچھ نہ کر سکو گے.پس اپنے کام کو مدنظر رکھو.بے شک اس قسم کی باتیں نا جائز نہیں مگر اس کے لئے موقعے دیکھو.اگر تم سینما دیکھتے رہو اور مخالفین تیاریوں میں لگے رہیں تو تم ان کا کس طرح مقابلہ کر سکو گے.بیسیوں ٹریکٹ آریوں کی طرف سے اور عیسائیوں کی طرف سے نکلتے ہیں.اگر ابھی سے ان کے جواب دینے کی تیاری نہ کرو گے تو وہ کون لوگ ہوں گے جو جواب دیں گے.پس ایک میری یہ نصیحت ہے کہ اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ کرو اور ابھی سے اس کام کے لئے تیاری کرو.اگر تم نے مذہبی میدان میں کام کرنا ہے تو کرنے سے پہلے اس کام کی تیاری میں لگ جاؤ کیونکہ آج فرصت کے جو لمحے تمہیں حاصل ہیں وہ کل نہ ہوں گے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان لغو اور فضول باتوں کو جانے دو کہ فلاں چیز حرام ہے یا حلال.اور ایسے کاموں میں اپنے اوقات صرف کردو کہ جو دین کے لئے مفید ہوں.اس طرز پر

Page 138

زریں ہدایات (برائے طلباء) 133 جلد سوم اگر تم اب تیاری نہ کرو گے تو بڑے ہو کر کچھ نہیں کر سکو گے.جولڑ کا بچپن میں تہجد پڑھنے کی عادت | نہیں ڈالتا وہ بڑا ہو کر صبح کی نماز بھی نہیں پڑھے گا.ابھی سے اس تیاری میں لگ جاؤ اور خصوصاً قادیان سے جانے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنا اچھا نمونہ پیش کریں تا کہ دوسروں پر بُرا اثر نہ پڑے.یہاں سے ان کے جانے پر پتہ لگتا ہے کہ وہ یہاں جو نمازیں پڑھتے تھے دل سے پڑھتے تھے یاڈر سے.اگر وہاں جا کر نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا نہیں کرتے تو معلوم ہوا کہ یہاں ڈر سے پڑھا کرتے تھے.چاہئے کہ نماز کی پوری پوری پابندی اختیار کریں.یہ بات خوب اچھی طرح یا درکھو.یہ میرا تجربہ ہے اور میں نے سینکڑوں پر کر کے دیکھا ہے کہ کوئی شخص خواہ کتنا بگڑ جائے مگر نماز کا پابند ہو تو بالآخر اس کی اصلاح ہو جائے گی اور اُسے حالت درست بنانے کی تو فیق مل جائے گی.لیکن بظاہر خواہ کوئی کتنا ہی اچھا ہو مگر نماز کا پابند نہ ہو تو وہ خراب ہو جائے گا.تم نماز کو ایسا ہی سمجھو جیسا کہ جہاز کے لئے لائف بوٹ ہوتے ہیں.کبھی اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے اور اس کی ادائیگی میں کبھی سستی نہ کرنی چاہئے.اس کے بعد میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاق فاضلہ کے بغیر کوئی مذہب قائم نہیں رہ سکتا.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ کالج میں داخل ہونے کے لئے سکول میں داخل ہونے کی کیا ضرورت ہے.جب تک کوئی سکول میں نہ جائے گا کالج میں داخل نہیں ہوسکتا.اسی طرح روحانیت میں ترقی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اخلاق فاضلہ نہ ہوں.اگر یہ پوچھے کہ کیا اخلاق فاضلہ مذہب ہیں؟ تو میں کہوں گا نہیں مگر مذہب کے لئے پہلی سیڑھی ہیں جس کے بغیر کوئی مذہب میں داخل نہیں ہوسکتا.پس اخلاق مذہب نہیں مگر اخلاق کے بغیر مذہب حاصل نہیں ہو سکتا.میں ان دونوں باتوں پر علیحدہ علیحدہ زور دیتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ بہت لوگوں کو دھوکا لگا ہوا ہے کہ اخلاق مذہب ہے اور چونکہ اخلاقی تعلیم سب مذاہب میں پائی جاتی ہے ہندو، بدھ ، عیسائی ، مسلمان سب یہی کہتے ہیں کہ چوری بری ہے، جھوٹ نہیں بولنا چاہئے ، لڑائی فساد نہیں کرنا چاہئے ، وغیرہ وغیرہ اس لئے وہ لوگ جو اخلاق کو مذہب قرار دیتے ہیں کہہ دیتے ہیں یہ مختلف مذاہب آپس میں خواہ مخواہ جھگڑے پیدا کرتے ہیں اخلاقی باتوں کو مان لینا کافی ہے.مگر خوب

Page 139

زریں ہدایات (برائے طلباء) 134 جلد سوم یا درکھو کہ اخلاق بالکل الگ چیز ہیں اور مذہب الگ.لیکن اخلاق کے بغیر مذہب حاصل نہیں ہو سکتا.پس اخلاق کو اس لئے ترک نہ کرو اور نہ اس لئے حقیر سمجھو کہ وہ مذہب نہیں اور نہ یہ سمجھو کہ وہ مذہب کا حصہ ہیں.ان کو اپنی اپنی جگہ سمجھو اور اخلاق فاضلہ حاصل کرو تا کہ لوگ تمہاری باتوں سے متاثر ہوں.تمہاری گفتگو میں ایسی نرمی، محبت اور ہمدردی ہو کہ تم ایک ممتاز درجہ رکھو.کیونکہ تم اس بات کے مدعی ہو کہ تمہیں سچا مذ ہب حاصل ہو گیا ہے.مگر مذہب تو اخلاق کے بعد حاصل ہوتا ہے.اگر تمہارے اخلاق اعلیٰ نہیں تو یہ کس طرح سمجھ لیا جائے کہ تمہیں مذہب حاصل ہو گیا ہے.کوئی کہے میں ایف ایس سی میں پڑھتا ہوں مگر اس نے میٹرک پاس نہ کیا ہو تو کس طرح اس کی بات قابل تسلیم ہو سکتی ہے.اسی طرح اگر کسی میں اخلاقی عیب پائے جاتے ہیں تو دنیا کس طرح اس کی یہ بات ماننے کے لئے تیار ہوسکتی ہے کہ اسے مذہب مل گیا ہے.پس تم اخلاق فاضلہ پیدا کرو.ان کے بغیر نہ تم دوسروں کو تبلیغ کر سکتے ہو اور نہ خود روحانیت حاصل کر سکتے ہو.پھر جب تم کالجوں میں جاتے ہو تو تم پر اور بھی کئی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ماں باپ تم پر اس لئے روپیہ خرچ کرتے ہیں کہ تم تعلیم حاصل کرو.نہ کہ تماشے دیکھتے پھرو.ہر ایک مسلمان میں یہ غیرت ہونی چاہئے کہ وہ ہر کام میں دوسروں سے اعلیٰ ہو.اور میں کسی اچھی بات میں بھی مسلمانوں کو پیچھے نہیں دیکھنا چاہتا مگر ہماری جماعت کے لڑکے اس طرف توجہ نہیں کرتے.کیا وجہ ہے کہ پروفیسر ایک ہی ہوتا ہے لیکن ہندولڑ کے بڑھ جاتے ہیں اور مسلمان پیچھے رہ جاتے ہیں.تمہیں چاہئے کہ ایسے اعلیٰ طریق پر تعلیم حاصل کرو کہ کسی سے پیچھے نہ رہو بلکہ اول رہو.میں یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے مذہبی فرائض کو قربان کر کے تعلیم میں لگے رہو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ سینما و غیرہ کو قربان کر کے اپنا وقت تعلیم میں لگاؤ.مگر اب یہ نہیں معلوم ہوتا کہ احمدی لڑکوں میں اس بات کی غیرت ہے کہ تعلیم میں دوسروں سے بڑھ جائیں حالانکہ کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس میں یہ جذبہ نہ پایا جائے.یہ طبعی مسئلہ ہے کہ کوئی چیز خواہ وہ نباتات میں سے ہو یا حیوانات میں سے اگر اس میں یہ احساس نہ ہو کہ مجھے دوسروں سے بڑھنا ہے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتی.ایک درخت کے پاس جاؤ جب وہ بیج پیدا کر رہا ہواور دیکھو کہ کتنے بیج پیدا کرتا ہے.

Page 140

زریں ہدایات (برائے طلباء) 135 جلد سوم آم کے درخت اس قدر آموں کے بیج پیدا کرتے ہیں کہ اگر ان کے مخالف سامان نہ ہوں تو ساری دنیا پر آم ہی آم پھیل جائیں.ان کے بیشتر حصہ کو خدا تعالیٰ ضائع کر دیتا ہے.مگر اس سے یہ تو ظاہر ہے کہ ان میں زندہ رہنے اور بڑھنے کی کس قدر خواہش ہے اور اسی خواہش کی وجہ سے آم کے درخت موجود رہتے ہیں.اسی طرح انسان ایک کیڑا سے بنتا ہے مگر ایک ایک انسان اس قدر کیڑے پیدا کر رہا ہے کہ اگر وہ تلف نہ ہوتے تو دنیا میں صرف انسان ہی انسان نہ سما سکتے.تو ہر چیز میں یہ خواہش ہے کہ میں ہی میں رہوں اور اس طرح وہ زندہ رہتی ہے.جس میں یہ خواہش نہ ہو وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتی.پس تم میں قومی طور پر یہ خواہش ہونی چاہئے کہ سب سے بڑھ جاؤ.جب تم میں یہ احساس پیدا ہو گا اُس وقت تمہیں زندہ رہنے کا استحقاق پیدا ہو گا.آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے اور ذرائع ہوں گے.جب کسی میں یہ جذبہ کمزور ہو جائے تو وہ ترقی نہیں کر سکتا.پس تم میں یہ خواہش ہونی چاہئے کہ سب سے بڑھ جاؤ ورنہ تم ترقی نہیں کر سکو گے.پھر میں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ جو افر مقرر ہوں گوان کی نگرانی گراں گزرتی ہے مگر خوش آئند نتائج پیدا کرتی ہے کیونکہ اس طرح اطاعت اور فرمانبرداری کا مادہ پیدا ہونا چاہئے.لوگ حریت اور آزادی چاہتے ہیں مگر آزادی وہی مفید ہوسکتی ہے جو حدود کے اندر ہو.اگر ایک شخص کپڑے پھاڑ کر پھینک دے اور نگا کھڑا ہو کر کہے کہ یہ حریت ہے تو اسے حریت نہیں کہا جائے گا بلکہ اس کا نام جنون رکھا جائے گا.تم اس قسم کی حریت کے پاس تک نہ جاؤ جو لوگوں نے سمجھ رکھی ہے اور قانون کی پابندی کو فخر سمجھو.اگر کوئی قانون نا جائز ہے تو اُسے جائز ذرائع سے بدلوانے کی کوشش کرو.مگر جب تک وہ موجود ہے اُس کی پابندی کرو.ایشیائی اور مغربی اقوام میں ایک بہت بڑا فرق یہی ہے کہ ایشیائی لوگ قانون کی پابندی نہیں کرتے لیکن مغربی لوگ کرتے ہیں اور یہ نہایت ضروری امر ہے.یہاں ہی ایک واقعہ ہوا.قاضی نے ایک فیصلہ کیا جس میں ضرورت تھی کہ مجرم فوراً اپیل کرے یا جرمانہ ادا کرے.مگر جب یہ مقدمہ میرے پاس لائے کہ گو یہ قانون میرا ہی بنایا ہوا ہے کہ ایک ہفتہ اپیل کے لئے مہلت دی جائے لیکن اب کے

Page 141

زریں ہدایات (برائے طلباء) 136 جلد سوم موقع دو اور آئندہ کے لئے ان ان شرائط کو رکھ دو کہ ان کے ماتحت فوراً اپیل کی جائے.تو گو میرا اپنا بنایا ہوا قانون تھا مگر اس کا احترام بھی ضروری تھا.پس چاہے تمہاری مرضی کے خلاف کوئی قانون ہو اس کی بھی پابندی کرو اور اس کو بدلنے کے لئے جائز طریق سے کوشش کرو.میں نے بتایا ہے کہ طبائع حریت چاہتی ہیں مگر دیکھو اس غلط حریت نے ہندو مسلمانوں کی کیا حالت بنادی ہے اور وہ اکالیوں سے کس طرح ڈر رہے ہیں.کہتے ہیں کوئی شخص سرائے میں اُترا اور بھٹیاری کو کھانا پکانے کے لئے کہا.وہ کھانا پکارہی تھی کہ کسی بات پر اس کو اس نے ناراض کر دیا.بھٹیاری نے کچا پکا کھانا پکایا اس کی جھولی میں ڈال دیا جو ٹپکتا جارہا تھا.کسی نے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہنے لگا زبان کا رس ہے.اب اخباروں والے لکھتے ہیں کہ گورنمنٹ اکالیوں کو کیوں نہیں روکتی مگر میں کہتا ہوں وہ تو وہی کچھ کر رہے ہیں جو تم کہتے تھے یعنی قانون کی خلاف ورزی.اب کئی جگہ اکالیوں نے مسجد میں گرا دی ہیں، اذانیں دینے سے مسلمانوں کو روک دیا ہے اور ایسی نظائر موجود ہیں کہ مسلمانوں کی لڑکیاں بھگا کر لے جاتے ہیں.آگے حج ڈر کی وجہ سے ان کے خلاف فیصلہ نہیں کر سکتے.وہ کھلم کھلا کمین مسلمانوں کی لڑکیاں بھگا کر لے جاتے اور جا کر امیروں سے بیاہ دیتے ہیں.ان کو لالچ وغیرہ سے ورغلا لیتے ہیں اور چیف کورٹ تک نے ان کے حق میں فیصلے دیئے ہیں.یہ نتیجہ ہے قانون کے رعب مٹنے کا.تم ہمیشہ قانون کا ادب کرو اور اس کی پابندی ضروری سمجھو.صیحتیں ہیں جو میں نے اس وقت تمہیں کی ہیں اور میری سب سے بڑی نصیحت تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کرو کیونکہ اس کے بغیر کوئی عمل عمل صالح نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کی اور اس کے رسولوں کی محبت جڑ ہے اعمال صالحہ کی.پس ہماری قوم کے جو اعلیٰ مقاصد ہیں اور جو اسے مد نظر رکھنے چاہئیں ان میں یہ تین محبتیں بھی ہیں (1) اللہ تعالیٰ سے محبت (2) رسول کریم سے محبت (3) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت.اگر ان کی محبت ہماری قوم میں ہوگی تو وہ ہر قسم کی تباہیوں اور ہلاکتوں سے بچ جائیں گی.مسلمانوں کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں میں رسول کریم ﷺ کی محبت کے جذبات پیدا نہ کیے مگر عیسائی

Page 142

زریں ہدایات (برائے طلباء) 137 جلد سوم بڑے زور سے یسوع کی محبت پیدا کرتے رہتے ہیں.ایک عیسائی نے گزشتہ ہفتہ ہی ایک کتاب واپس کی ہے جس پر اُس نے صرف یہ فقرہ لکھا کہ چاہے کچھ ہو میں یسوع مسیح کو نہیں چھوڑ سکتا.مصر جاتے ہوئے مجھے دو بیرسٹر ملے تھے یوں تو وہ اسلام سے ہنسی اور تمسخر کر لیا کرتے تھے مگر رسول کریم کے سے انہیں محبت تھی.آپ کے خلاف ایک لفظ بھی نہ سن سکتے تھے.اب سنا ہے ان کے دہریت کے خیال جاتے رہے ہیں.میں نے ان کو تبلیغ کی تھی.تو آئندہ نسلوں کے لئے یہ نہایت اہم سوال ہے کہ ہم ان میں خدا تعالیٰ ، رسول اور مسیح موعود کی محبت پیدا کریں.اس طرح احمدیت مضبوط ہو جائے گی.میں سمجھتا ہوں میں نے کافی تقریر کر لی ہے اور میں سمجھتا ہوں اس سے زیادہ تمہارے لئے بھی بوجھ ہوگا اور میرے لیے بھی.اس لئے ختم کرتا ہوں.“ (الفضل 26 اکتوبر 1923ء) 1 بخاری کكتاب الذبائح والصيد باب الضب صفحہ 984 حدیث نمبر 5537 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 143

زریں ہدایات (برائے طلباء) 138 جلد سوم ترقی کرنے والی قوم کے لئے ورزش کی ضرورت 3 دسمبر 1923ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں احمد یہ ٹورنامنٹ کے انعامات تقسیم کرنے کے لئے ایک تقریب ہوئی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے:.و سیکرٹری صاحب ٹورنامنٹ نے ابھی کھیلوں کے متعلق اپنی رپورٹ سنائی ہے جس میں بتایا ہے کہ سب اصحاب نے جن کے سپر د کوئی کام کیا گیا تھا کام میں خوب حصہ لیا ہے.اسی طرح ذولفقار علی خان صاحب نے سیکرٹری صاحب کا شکر یہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے اچھی دلچسپی سے کام کیا ہے.مجھے چونکہ ان کھیلوں کا زیادہ حصہ دیکھنے کا موقع نہیں ملا صرف ایک دوکھیلوں میں آسکا ہوں اس لئے میں ذاتی مشاہدہ کی بناء پر نہیں کہ سکتا کہ کام کیسا ہوا ہے اور کس نے زیادہ اچھا کام کیا ہے مگر چونکہ یہی آواز آتی ہے کہ سب اصحاب نے اپنا اپنا متعلقہ کام خوب کیا ہے اس لئے ہمیں بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ کام اچھا ہی ہوا ہو گا.لیکن میں ایک خاص بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دنیا میں کوئی قوم کسی کام میں ترقی نہیں کر سکتی جب تک وہ یہ نہ بجھتی رہے کہ ابھی اس کام میں اور ترقی ہو سکتی ہے.جب کام کرنے والے یہ سمجھ لیں کہ ہم نے جو کام کرنا تھا وہ کر چکے اور اب ہمارے آگے ترقی کا کوئی میدان نہیں تو اس خیال کا پیدا ہونا ہی ان کے تنزل کا پہلا سبب ہوتا ہے.میں نے جہاں تک تاریخ کا مطالعہ کیا ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ جب بھی کسی قوم نے تعلیم میں، حکومت میں، تجارت میں، صنعت و حرفت میں یا کسی اور مفید کام میں یہ سمجھ لیا کہ بس جو کچھ ہم نے کرنا تھا وہ ہم کر چکے تو وہی وقت ان کے تنزل کی ابتدا کا تھا.

Page 144

زریں ہدایات (برائے طلباء) 139 جلد سوم کہا گیا ہے کہ انجمن ٹورنامنٹ نے اپنے فرائض کو بخوبی ادا کیا اور اگر یہ خیال ہو کہ اس | سے آگے ترقی نہیں ہو سکتی تو میں کہوں گا ایسا خیال تباہی کی علامت ہے چونکہ میرے نزدیک ورزش کا جاری رکھنا جماعت کی دماغی اور جسمانی ترقی کے لئے ضروری ہے اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ غور کر کے دیکھو کہ کس کس کام میں کیا کیا نقائص تھے.پھر جو کمیاں یا غلطیاں نظر آئیں ان کو آئندہ سال میں دور کرنے کی پوری سعی اور کوشش کرو.دنیا کا کوئی کام نہیں جس میں ترقی بند ہوگئی ہو.ادنی ادنی کاموں میں بھی اور باریکیاں نکل رہی ہیں اس لئے اعلیٰ کاموں میں کیسے ترقی بند ہو سکتی ہے.پس ایک طرف تو میں ورزش کی جماعت انتظامی کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غور کرے اس کے کام میں کیا کیا نقائص رہے ہیں اور ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کرے.دوسری طرف ادھر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کھیلوں میں حصہ لیا ہے اور ان کھیلوں کو دیکھا ہے وہ ان کھیلوں کو محض کھیل اور وقت گزارنے کا ایک مشغلہ نہ سمجھیں.اگر وہ ان کھیلوں کے متعلق غور سے کام لیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ کھیلیں کام کرنے کی مشق کراتی ہیں.کھیلوں میں اخلاق ، صبر، استقلال اور مقابلہ کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ باتیں اور ذرائع سے بمشکل پیدا ہوتی ہیں.بہت بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں جن کی بڑائیوں کی بنیاد فیلڈ گراؤنڈ (بازی گاہ) میں رکھی گئی.اگر وہ کھیلوں میں حصہ نہ لیتے تو ان کی بڑائی ظاہر نہ ہوتی.ا ورزش جسمانی ایسی ضروری چیز ہے کہ رسول کریم ﷺ بھی اس میں حصہ لیتے تھے بلکہ ورزش کرنے والوں کا حوصلہ بڑھاتے تھے.کھیلوں سے میری مراد وہ کھیلیں ہیں جن سے جسمانی طاقتوں میں اضافہ اور جسم اور عقل مضبوط ہوتے ہیں اور فراست میں ترقی ہوتی ہے نہ کہ وہ کھیلیں جن سے بجر تضیع اوقات کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا.ورزشوں میں مقابلہ کا طریق رسول کریم ﷺ نے بھی استعمال فرمایا ہے.بعض نادان احادیث میں ورزشی کھیلوں کا ذکر دیکھ کر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ آپ کھیل دیکھتے تھے مگر وہ کھیل کھیل نہیں تھے بلکہ دشمن سے مقابلہ اور جنگ کرنے کی مشق تھی.بخاری میں ایک حدیث ہے کہ آپ نے مسجد میں لڑائی کرائی اور

Page 145

زریں ہدایات (برائے طلباء) 140 چلید سوم وہاں پر جنگی کرتب دکھائے گئے.آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تم بھی دیکھو.آپ کسی قدر جھک گئے اور حضرت عائشہ نے ان کرتبوں کو دیکھا.اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم اللہ نے دیکھا کہ صحابہ آپس میں تیراندازی کی مشق کر رہے ہیں آپ نے فرمایا ایک طرف میں ہوتا ہوں.جس فریق کے مقابلہ میں آپ کھڑے ہونے لگے تھے اس طرف کے لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کے مقابلہ میں کھڑے نہیں ہوتے.آپ نے فرمایا اچھا! میں دیکھتا ہوں تم لوگ مقابلہ کرو 2 غرض رسول کریمی ورزشوں میں حصہ لیا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر میں کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے.سوائے ایسی بیماری کے جس میں آپ ہل نہ سکتے ہوں.جب میری خلافت کا زمانہ آیا تو میں نے ابتداء کام کے باعث ورزش کرنا چھوڑ دیا جس سے میری جسمانی حالت پر بہت برا اثر پڑا.اُس وقت میں نے ایک خواب دیکھی جس میں میں ایک شخص کو ورزش کی ضرورت سمجھا رہا ہوں.اس کو میں نے کہا بعض کھیل بعض لوگوں کے لئے جائز ہوتے ہیں مگر وہ لوگ جن کے ذمہ بڑے بڑے ذمہ داری کے کام ہوتے ہیں اگر وہ ورزشوں میں حصہ نہ لیں اور صحت جسمانی کا خیال نہ رکھیں تو ان پر گناہ ہوتا ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے سمجھا یہ مجھے ہی سمجھایا گیا ہے.اس کے بعد میں نے ورزشوں میں حصہ لینا شروع کیا جس سے میری جسمانی صحت اچھی ہوگئی اور میں پہلے سے زیادہ کام کرنے کے قابل ہو گیا.ورزشوں میں سے فٹ بال اور گت کا ضروری ہیں.گت کا ایسی چیز ہے جس سے تلوار چلانے کی مشق ہوتی ہے.یہ ایسی باتیں ہیں جو قوموں کی بقاء کے لئے ضروری ہیں.ہمارے ملک میں قانون اسلحہ جاری ہے جس کے باعث ہر شخص تلوار اور بندوق نہیں رکھ سکتا.لیکن میرے نزدیک اگر وہ لوگ جن کے پاس لائسنس ہوں پاس کھڑے ہو کر بطور مشق کے بندوق چلوا د میں اور اس طرح اوروں کو بھی نشانہ سکھا دیں تو اس میں کچھ حرج نہیں اور اس سے اپنی جماعت کے لوگ

Page 146

زریں ہدایات (برائے طلباء) 141 جلد سوم بندوق چلانے کے فن سے واقف ہو سکتے ہیں.اور تلوار چلانا سکھنے کے لئے ضروری نہیں کہ تلوار ہی پاس ہو گٹکے سے تلوار چلانے کا فن سیکھا جا سکتا ہے.ہمارے ملک میں نیزہ چلانے کا فن نہیں مگر تلوار کا قائم مقام گت کا موجود ہے اور گنے کا تلوار ہی سے تعلق ہے.میں عام کھیلوں میں سے گتنے کے فن کو اچھا اور شریف فن سمجھتا ہوں کیونکہ اس کا فنون جنگ سے تعلق ہے اور اس کا سیکھنا ضروری ہے.کیا معلوم کہ کسی کو کب ملک و دین کے لئے بلا لیا جائے اُس وقت جو شخص نہیں جانتا ہوگا وہ ایسے وقت میں یہی کہے گا کہ میں کچھ نہیں کر سکتا.گو میں نے تمام کھیل دیکھے نہیں مگر کھیلوں کے متعلق سنتا رہا ہوں.میں نے سنا ہے کہ ہائی سکول کی فٹ بال کی ٹیم ایسی مضبوط نہیں ہے جیسی پہلے ہوتی تھی.اس لئے ہائی سکول کے لڑکوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی روایات کو قائم رکھیں.ہمارا سکول فٹ بال میں شروع سے فائق رہا ہے خالصہ سکول کے طلباء پر بھی ایک دو دفعہ انہوں نے کامیابی حاصل کی ہے باوجودیکہ وہ بڑے جسم اور بڑی بڑی عمر کے نوجوان ہوتے ہیں.پس ہائی سکول کے طلباء کا فرض ہے کہ وہ اپنی روایات کا خیال رکھیں کیونکہ قومی روایات کا قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے.فٹ بال میں ہمارا سکول ہمیشہ فائق رہا ہے اس لئے چاہئے کہ وہ اس کی ورزش کو بڑھا ئیں نہیں تو گھٹائیں بھی نہیں.میں نے جہاں تک سنا معلوم ہوا ہے کہ فٹ بال کی طرف اب لڑکوں کی ویسی توجہ نہیں رہی.ہاکی سے میں نفرت کرتا ہوں.چونکہ یہ صحت کے لئے مضر ہے اس لئے چاہئے کہ فٹ بال اور کرکٹ کی طرف زیادہ توجہ کی جائے.ہاکی سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جھک کر کھیلنا پڑتا ہے.ولایت میں تو اب فیصلہ ہو گیا ہے کہ بتدریج ہا کی ہٹا دی جائے اس سے صحت کو نقصان ہورہا ہے مگر یہاں ابھی اس طرف توجہ نہیں کی گئی حالانکہ میں نے کئی دفعہ اس کی مضرت کی طرف سکول کے لوگوں سے ذکر کیا ہے.میں نے جو کھیل دیکھا ہے وہ اولڈ بوائے (Old Boy) اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کا مقابلہ تھا اس سے معلوم ہوا کہ مدرسہ احمدیہ کی ٹیم اولڈ بوائے سے اچھی تھی.شاید ناموں کا بھی اثر ہوتا ہے اولڈ (old) کے معنے بوڑھے اور پرانے یا قدیم کے ہیں.اس لئے اولڈ بوائے سے

Page 147

زریں ہدایات (برائے طلباء) 142 جلد سوم مراد پرانے طالب علم ہوتے ہیں.اولڈ بوائے اس طرح کھیلتے تھے کہ واقعی اپنی عمر سے بہت زیادہ بوڑھے معلوم ہوتے تھے در آں حالیکہ عمر کے لحاظ سے مدرسہ احمدیہ کے بعض لڑکے ان سے بڑے تھے.شاید اولڈ بوائے نے اپنے نام کی خاطر یہ طریق اختیار کیا تھا کہ وہ بوڑھے ثابت ہوں.مجھے بڑی خواہش تھی کہ میں کسی اولڈ بوائے کی ایسی ہٹ (Hit) دیکھوں جو جوان آدمی کی ہٹ کہلا سکے.مجھے قدرتاً اولڈ بوائے سے اس لئے ہمدردی تھی کہ میں بھی اس سکول کا اولڈ بوائے ہوں گو خلیفہ ہونے کے لحاظ سے مدرسہ ہائی اور مدرسہ احمدیہ دونوں سے محبت ہے مگر چونکہ آجکل عربی زبان کے متعلق خیال ہے کہ اس سے دنیاوی ترقی نہیں ہوتی اس لئے بعض معاملات میں بعض اوقات مجھے مصلحت سے عربی مدرسہ سے زیادہ ہمدردی کرنی پڑتی ہے لیکن باوجود اس کے مجھے لڑکوں کی نسبت اولڈ بوائے سے زیادہ رغبت تھی اور مجھے خواہش تھی کہ اولڈ بوائے ایک ہی مزیدار ہٹ لگا دیں مگر انہوں نے ایک بھی ہٹ نہ لگائی.اگر وہ نام کی مناسبت سے اپنے آپ کو جلد بوڑھا سمجھ بیٹھے ہوں تو میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم بہت جلدی بوڑھے ہو گئے.اتنی جلدی تمہیں بوڑھا نہیں ہو جانا چاہئے تھا یا اپنے آپ کو بوڑھا نہیں سمجھ لینا چاہئے تھا.“ ހ تقسیم انعامات کے بعد فرمایا:.گو یہ کھیل ہے اور کھیل بھی کسی غرض کے لئے ہوتی ہے ہماری غرض جسمانی صحت کی ترقی اور دماغی ترقی ہے اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شریف اور مفید فن میں ہماری جماعت کو دوسروں پر غلبہ عطا فرما دے.“ (الفضل 11 دسمبر 1923ء) 1 بخاری کتاب النكاح باب حسن المعاشرة مع الاهل صفحه 927 حدیث نمبر 5190 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 2 بخارى كتاب الجهاد والسير باب التحريض على الراي صفحه 479 حدیث نمبر 2899 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 148

زریں ہدایات (برائے طلباء) 143 جلد سوم لندن میں ہندوستانی طلباء سے خطاب سفر یورپ کے دوران 15 ستمبر 1924ء کو شام چار بجے حضرت خلیفۃ السیح الثانی اور آپ کے خدام کو ہندوستانی طلباء کی طرف سے لندن میں چائے کی دعوت دی گئی.طلباء کی طرف سے ایڈریس ایک ہندو نو جوان مسٹر سہگل نے پیش کیا.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.برادران ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے انگریزی میں بولنے کا موقع نہیں ملا.میں نے انگریزی میں بولنے کی اس سفر میں کوشش کی ہے اور اس لحاظ سے بھی کہ میرے مخاطب ہندوستانی طلباء ہیں میں اس ایڈریس کا جواب اردو میں دوں گا اور ایسے لوگوں کے لئے جو اردو نہیں سمجھ سکتے خواہ وہ چند ہی ہوں عزیزی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب انگریزی میں میرے جواب کا خلاصہ سنادیں گے.جو خواہشات آپ نے اس ایڈریس میں بیان کی ہیں میں انہیں سن کر بہت خوش ہوا.ان کی روح کے ساتھ مجھ کو ہمدردی ہے اور میں آپ سے اتفاق رکھتا ہوں.اسلام ایک ایسا مذ ہب ہے کہ اگر کوئی شخص تعصب سے پاک ہو کر عقل سے کام لے تو اس کی فطرت اسے مجبور کرے گی کہ وہ اسلام کو قبول کرے.اسلام گل دنیا کے لئے آیا ہے اور وہی عالمگیر مذہب ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کو عقل اور قوت فیصلہ اسی لئے دی ہے کہ اگر وہ اس سے کام لے تو وہ ہدایت کو پالیتا ہے اور اگر اس سے دور بھی چلا گیا ہو تو اتنا دور نہیں ہو جاتا کہ اس کی اصلاح ناممکن ہو بشر طیکہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی قوتوں کو بے کار اور معطل نہ چھوڑ دے.یاد رکھو جو سچے طور پر کوشش کرتا ہے وہ مقصد کو پالیتا ہے اور راستہ سے بھٹک جانے کے باوجود

Page 149

زریں ہدایات (برائے طلباء) 144 جلد سوم بھی واپس آ سکتا ہے.خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ اصول بتایا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر کوشش کرتے ہیں ہم ضرور ضروران پر اپنی راہوں کو کھول دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کا یہ قانون بالکل درست اور تجربہ سے صحیح ثابت ہو چکا ہے اور عقل اس کی تائید کرتی ہے.پس کامیابی کے لئے کوشش شرط ہے اور وہ کوشش اس طریق پر ہو جو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے اور وہ یہی ہے کہ خدا داد عقل سے کام لو.اسلام کی سچائی عقل اور تجربہ سے ثابت ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اسلام کو اصلی صورت میں پیش کیا جائے گا تو وہ یورپ، ایشیا، افریقہ، امریکہ غرض ساری دنیا میں یقیناً پھیلے گا اس لئے کہ وہ گل دنیا کے لئے آیا ہے اس کے سوائے اور کوئی مذہب نہیں ہے جو عالمگیر ہو.اور قرآن شریف میں اس کے تمام دنیا میں پھیل جانے اور تمام ادیان پر غالب آنے کی پیشگوئی موجود ہے چنانچہ آتا ہے هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّهِ 2 یعنی خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے اور اس کی غرض یہی ہے کہ اس دین کو گل ادیان پر غالب کر دے اور تمام ادیان کو ایک دین پر جمع کر دے.ہم کو یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا اور یہ بھی ایک ثابت شدہ امر ہے کہ اس کے لئے یہی زمانہ ہے اور ہماری ساری کوشش اسی مقصد کے لئے ہے.آپ نے یہ خواہش پیش کی ہے کہ میں اسلام کو صحیح اور سچی شکل میں پیش کروں.میں اس سے بالکل متفق ہوں اور متفق ہی نہیں بلکہ اگر اسلام کو اس کی حقیقی شکل میں پیش نہ کیا جاوے تو وہ اسلام نہیں بلکہ کچھ اور ہو گا.اور ہماری غرض تو یہی ہے کہ اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کو دکھائیں اور بدقسمتی سے جو حالت اس کی تبدیل کر دی گئی ہے اور اس کی صحیح تعلیمات کو اعتقادی اور عملی غلطیوں سے بدل دیا گیا ہے اسے پھر دنیا میں ظاہر کیا جائے.لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ تفاصیل کے بیان میں اگر انسان کو کوئی اختلاف نظر آئے تو اس کو معقولیت کے ساتھ دیکھنا چاہئے.بلا غور کئے اس کو اختلاف قرار دے دینا غلطی ہوگی.بعض اختلاف ایسے ہوتے ہیں جو قدرتی ہوتے ہیں.مثلاً دو بھائیوں میں یا بہن بھائی میں باوجودیکہ کہ وہ ایک ہی ماں باپ کی

Page 150

زریں ہدایات (برائے طلباء) 145 جلد سوم اولا د ہوتے ہیں فرق نظر آئے گا اور ہوتا ہے.آواز میں ، قد و قامت میں ، خیالات اور مذاق میں مگر یہ اختلاف ان کو اس ایک حقیقت سے کہ وہ بھائی ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں جدا نہیں کر دیتا.اسی طرح میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا ہے کہ اسلام کا حقیقی چہرہ ہم دنیا کو دکھا ئیں اور یہی کام ہم کر رہے ہیں ممکن ہے تفاصیل میں کوئی اختلاف نظر آئے مگر روح وہی ہے جس سے میں اتفاق کرتا ہوں اور میں خوش ہوں کہ آپ نے یہ خواہش پیش کی ہے.میں اس ایڈریس کو سن کر اور بھی خوش ہوا ہوں کہ اشاعت اسلام کا سوال آپ لوگوں کے زیر نظر ہے اور ہم تو اسی کام کے لئے پیدا ہوئے ہیں اور اسی سوال کے لئے میں نے یہ سفر کیا ہے.مجھے کو اس بات سے اور بھی خوشی ہوئی ہے کہ اس ایڈریس کو پڑھنے والے صاحب ہندو ہیں.میں نے ابھی کہا ہے کہ جو شخص طلب صادق کے ساتھ حق کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور کوشش کرتا ہے اس پر حقیقت کھل جاتی ہے اور وہ راہ پالیتا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا یعنی جو پورے طور پر کوشش کرتے ہیں ہم کو اپنی ذات کی قسم ہے کہ سچائی کی طرف اسے کھینچ کر لاتے ہیں.جب انسان اس روح کو لے کر کوشش کرتا ہے تو نتیجہ با برکت ہوتا ہے.غرض میں آپ کی ان نیک خواہشوں کو جو اشاعت اسلام کے موافق ہیں بہت خوشی اور قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہوں کہ مجھ سے آپ منافقانہ رنگ کی امید نہ رکھیں.جس تعلیم کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ حق ہے اور وہی حق ہے جس کے بغیر اسلام کا میاب نہیں ہو سکتا میں اسی کو پیش کروں گا اور دنیا کی کوئی چیز اور طاقت اس حق کے پیش کرنے سے مجھ کو روک نہیں سکتی اس لئے کہ سب سے پیاری چیز میرے لئے وہی ہے.پس میں پھر کہتا ہوں کہ آپ کی ایسی نیک خواہشوں کی قدر کرنے کے باوجود آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ مجھ سے یہ امید نہ رکھیں کہ میں منافق کا پارٹ پہلے (part play) کروں گا.

Page 151

زریں ہدایات (برائے طلباء) 146 جلد سوم میں ہمیشہ سے اس امر کو عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آزادی ضمیر کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرے.کچھ پرواہ نہیں اگر وہ میرے خلاف بھی ہو.میں نے اپنے خلاف سخت سے سخت خیالات کے اظہار کو بھی خوشی سے سنا ہے.ایک واقعہ کا ذکر کرتا ہوں.بارہ سال کے قریب ہوتے ہیں جب میں حج کے لئے آیا تھا تو اُس جہاز میں تین بیرسٹر بھی تھے جو ہندوستان سے آ رہے تھے.انہوں نے امتحان پاس کر لیا تھا.ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں باقی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں.ان سے جہاز پر مذہب کے متعلق گفتگو ہوتی رہی اور اس سلسلہ میں وہ حضرت صاحب کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے رہے مگر میں نے ظاہر نہ ہونے دیا تا کہ ان کو اپنے خیالات کے اظہار میں روک نہ ہو اور وہ اپنے اعتراضات کو چھپائیں نہیں.میں ان کے اعتراضات کا جواب دیتا رہا.آخری دن ان کو معلوم ہوا کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کا بیٹا ہوں تو انہوں نے معذرت کی.میں نے ان کو کہا آپ کو اپنے خیالات کے آزادانہ اظہار کا حق تھا.غرض میں آزادانہ اظہار رائے کو ہمیشہ عزت اور قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں.ہندوستان کے متعلق جس خواہش کا اظہار آپ نے کیا ہے اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی شخص اس کا خواہش مند نہیں ہے کہ ہندوستان آزاد ہو.خاندانی ٹریڈیشن کے لحاظ سے بھی اگر دیکھا جائے تو ہمارے خاندان نے سات سو سال تک اپنے علاقہ میں حکومت کی ہے جو میرے دادا صاحب پر آکر ختم ہوگئی اس لئے ہمارے خاندان میں حکومت کی روایتیں موجود ہیں.مجھ کو تعجب ہوتا ہے جب لوگ ہم کو گورنمنٹ کا خوشامدی کہتے ہیں حالانکہ کوئی شخص کبھی بھی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے گورنمنٹ سے کبھی کسی قسم کا فائدہ اٹھانے کی خواہش کی ہو.گورنمنٹ کے بعض افسروں نے یہ کہا بھی ہے کہ کیوں یہ لوگ خواہش نہیں کرتے.ہمارے خاندان میں گورنمنٹ کے اعلیٰ افسروں کی چٹھیاں موجود ہیں جن میں ہمارے خاندان کے امتیازات کا اعتراف ہے مگر میں سچ کہتا ہوں کہ ہم نے کبھی ان چٹھیات کو ویسٹ پیپر ( ردی کاغذ) سے زیادہ نہیں سمجھا اس لئے کہ کبھی یہ خواہش پیدا نہیں ہوئی کہ ان کو پیش کر کے کوئی اجر لیں.اب جو خدمات ہمارے سلسلہ نے کی ہیں ان کے بدلہ میں بھی کچھ نہیں

Page 152

زریں ہدایات (برائے طلباء) 147 جلد سوم چاہتے اور میں ہتک سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ ہم کو کوئی خطاب دے یا کوئی اور اجر دے.مجھ کو ایک مرتبہ ایک بڑے آدمی نے خط لکھا کہ اگر آپ کو ”ہز ہائی نس“ کا خطاب دیا جائے تو آپ کا کیا خیال ہے؟ میں نے اس کو لکھا کہ میں اس کو اپنی ہتک سمجھتا ہوں.غرض ہم نے کبھی گورنمنٹ کی خوشامد نہیں کی اور میں اس سے کسی خدمت کا معاوضہ لینا خواہ وہ ہمارے بزرگوں نے کی یا ہمارے سلسلہ نے اب کی ہے ہتک سمجھتا ہوں.میں نے گورنمنٹ کی جو تائید کی ہے وہ اس لئے کہ اسلام جو تعلیم دیتا ہے اس پر عمل کرنا میرا فرض ہے اور میں بحالات موجودہ ضروری سمجھتا ہوں کہ جب تک ہندوستان ایک نہ ہوگا اور ہندو مسلمانوں میں حقیقی اتفاق و اتحاد نہ ہوگا ہندوستان کی ترقی نہ ہوگی.اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میں اس کا مخالف ہوں کہ زبان سے ہم اتحاد کا شور مچائیں اور دل سے مختلف ہوں جیسا کہ واقعات اور حالات نے ہندو مسلم اتحاد کی حقیقت کو کھول دیا ہے.یہ بات میں آج آپ کے سامنے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ میں عرصہ سے اس حقیقت کو واضح کر رہا ہوں.میرے خیالات کی مخالفت بھی ہوئی مگر آج واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ جب تک دل ایک نہ ہوں کچھ نہیں ہو گا.پہلے ضروری ہے کہ ایسے اصول طے کر لئے جاویں کہ ہند و مسلمانوں میں حقیقی اتحاد ہو جائے.میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ میں مانگنے کا قائل نہیں.میں چار پانچ برس کی عمر سے اپنے واقعات کو یا درکھتا ہوں اور میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے اپنے باپ سے بھی کچھ نہیں مانگا تھا پس میں مانگنے کا حامی نہیں ہوں.اگر ہم اتحاد پیدا کر لیں اور وہ اتحاد اخلاص کے ساتھ ہو تو میں دعوئی سے کہتا ہوں کہ سیلف گورنمنٹ خود مل جائے گی مانگنے کی ضرورت نہ ہوگی.مگر اس اتحاد کے لئے کوشش نہیں کی گئی.ہندو مسلمانوں کے اتحاد کو صحیح اصول پر قائم کرنے کے لئے کبھی کوشش نہیں ہوئی اور جس نے کی اس کی مخالفت کی گئی.جن تین بیرسٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک ہندو کا میاب بیرسٹر نے جو لاہور میں شاید کام کرتا ہے اُس وقت اپنے مسلمان دوست سے کہا تھا کہ اگر میرے لڑکی ہوئی تو تمہارے لڑکے کو دوں گا اور ایسا

Page 153

زریں ہدایات (برائے طلباء) 148 جلد سوم ہی مسلمان کہتا تھا مگر اب یہ حالت ہے کہ لاہور والے کسی سے ملتے نہیں اور دوسرے دو جو ملتان میں غالباً کام کرتے ہیں وہ اس سوسائٹی کے ممبر ہیں جو تفرقہ ڈلواتی ہے.غرض آپ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں.پس آپ اس کے مطابق عمل کریں اور ان نیک خواہشات کو رکھتے ہوئے اگر غلط راستہ پر بھی چلیں گے تو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو فائدہ ہوگا بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ کام کرو گے.یہ کہہ کر میں اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو بھی اور آپ کی کوششوں اور جذبات اور خواہشوں کو کامیاب بنانے کی توفیق دے اور مجھ کو اور میرے متبعین کو بھی.“ 1: العنكبوت: 70 2 الصف: 10 ( الفضل 25 /اکتوبر 1924ء)

Page 154

زریں ہدایات (برائے طلباء) 149 جلد سوم لندن میں ہندوستانی طلباء سے گفتگو سفر یورپ کے دوران 20 ستمبر 1924ء کو شام چار بجے حضرت خلیفۃ المسح الثانی کی طرف مسلمان ہندوستانی طلباء کولندن میں چائے پر بلایا گیا.اس موقع پر طلباء سے جو سوال و جواب ہوئے وہ درج ذیل ہیں:.پر مسلم حکمرانوں کی فرمانبرداری ایک طالب علم میں آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کو غیر مسلم حکمران قوم کا کس حد تک لائل (Loyal) ہونا چاہیئے.حضرت اقدس میں اس سوال کا جواب دینے سے پہلے آپ سے اصولی طور پر ایک بات پوچھتا ہوں ممکن ہے اس سوال ہی میں اس کا جواب بھی آجائے.آپ یہ بتائیں کہ اگر مسلمان حکومت ہو تو مسلمانوں کو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کس حد تک کرنی ضروری ہے.طالب علم: جب تک وہ مسلمان حکومت درست رہے، عدل وانصاف کے قوانین پر عمل کرے اور رعایا کے حقوق کی حفاظت کرتی رہے اس کا وفادار رہنا ضروری ہے.اگر وہ ان باتوں کو چھوڑ دے اور غلطیاں کرے تو نہیں.حضرت اقدس : بہت ٹھیک ہے جب تک وہ نیک رہے اُس وقت تک اطاعت اور فرمانبرداری ضروری ہے.تو یہی اصول حکومت کی اطاعت کی حد کا ہو گیا.اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کیا قید رہی.طالب علم : آخر وہ مسلمان ہیں.حضرت اقدس: آپ نے جب یہ اصل قائم کیا کہ جب تک مسلمان حکمران نیک کام کریں ان

Page 155

زریں ہدایات (برائے طلباء) 150 جلد سوم کی اطاعت کرنی چاہئے تو پھر اس اصل کو مخصوص تو نہیں کر سکتے کہ یہ صرف مسلمانوں کے متعلق ہے اور غیر مسلم کی حکومت اگر عدل و انصاف بھی کرے تو اس کی اطاعت نہ کی جائے.حکومت میں اپنے پرائے کا سوال نہیں ہوتا بلکہ حقوق اور رعایا کا سوال ہوتا ہے.دیکھو اس ملک میں انگریزوں ہی کی حکومت ہے مگر کیا انگریز اس وجہ سے خوش ہو جائیں گے کہ ہمارے بھائی حکمران ہیں؟ نہیں بلکہ وہ اپنے حقوق مانگیں گے.آئر لینڈ کا قضیہ آپ کے سامنے ہے تو حکومت میں جو سوال معرض بحث میں آتا ہے وہ رعایا کے حقوق کا سوال ہوتا ہے.طالب علم : انگریزوں کا غیر ہونا تو آپ نے بھی تسلیم کر لیا ہے کیونکہ آپ ان کو دعوتِ اسلام دیتے ہیں.جب ان کے سامنے اسلام پیش کیا جاتا ہے تو وہ غیر ہوئے.حضرت اقدس : دعوتِ اسلام تو ہمارا فرض ہے ہم مسلمانوں کو بھی دعوت دیتے ہیں.میں تو کہتا ہوں کہ حکومت کے ساتھ اس بات کا کوئی تعلق نہیں.سوشل حقوق الگ ہوتے ہیں، مذہبی الگ اور حکومت کے الگ اور ان میں جدا جدا احکام ہوتے ہیں.دیکھو انسان مختلف جوارح اور اعضاء کا مجموعہ ہے.ہاتھ پاؤں وغیرہ سب کے سب مجموعی طور پر ایک حیثیت رکھتے ہیں مگر ان کے کام الگ الگ ہیں.اسی طرح سوشل اور پولیٹیکل معاملات کا بھی ایک جدا جدا دائرہ ہے.اگر ہم ان کو ملا کر بحث کریں گے تو غلط راستہ پر جا پڑیں گے.ہر ایک دائرہ کے اندر رہ کر غور ہو سکتا ہے.گورنمنٹ اور رعایا کے متعلق جو احکام ہیں ان کو اسی نظر سے دیکھو، سوشل اصولوں پر اسے نہ پر کھو یا کسی اور نقطہ خیال سے اس پر بحث نہ کرو.آپ نے خود ایک اصل بتایا ہے کہ حکومت جب تک نیکی کے کام کرتی ہے، رعایا کی خبر گیری ، انصاف اور عدل کے اصولوں پر ہوتی ہے اور ان کے حقوق محفوظ ہیں تو ایسی حکومت کی اطاعت اور اس سے وفاداری کرنی چاہئے.پس جب تک حالات میں تغیر نہ ہو اس اصل کو کیوں چھوڑا جائے.مذہب میں سیاست ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر جگہ سیاست کو دخل دیا جائے.احکام اسلامی میں یہ بھی ایک اصل ہے کہ ان میں حالات کے بدلنے کے ساتھ استثناء ہو جاتا ہے.مثلاً وضو کرنے میں ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن جس شخص کے ہاتھ ہی نہ ہوں اس کے لئے ہاتھ دھونا ضروری نہیں.میں

Page 156

زریں ہدایات (برائے طلباء) 151 جلد سوم جہاں تک سمجھتا ہوں آپ کا یہ سوال اصل سوال نہیں بلکہ آپ کے دل میں جو سوال ہے وہ یہ ہے کہ فارن (Foreign) حکومت کیوں حکومت کرتی ہے؟“ اس پر طالب علم مذکور نے کہا کہ ہاں اصل سوال یہی ہے ) میں اس سوال کا بھی جواب اصولی طور پر دیتا ہوں.آپ مانتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ مسلمانوں نے بھی دوسروں پر حکومت کی ہے.حضرت ابو بکر صدیق آنحضرت مہ کے بعد خلیفہ ہوئے اور وہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم کا اسوہ تھے.اور ان کے بعد اسلامی حکومت کا دائرہ اور بھی وسیع ہوتا گیا.یہاں تک کہ ایران ، مصر، شام اور دور تک اسلامی حکومت پہنچ گئی.اب اگر کسی قوم کو کسی دوسری قوم پر حکومت کرنے کا حق نہیں تو سوال ہوتا ہے کہ پھر مسلمانوں کو دوسروں پر حکومت کرنے کا کیا حق تھا؟ اور دوسری قوموں پر اسلامی حکومت کی بنیاد خود آنحضرت ﷺ کے وقت میں پڑی ہے اس لئے ہم یہ کہنے کے مجاز نہیں کہ یہ طریق غلط تھا.اب فرض کرو کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں عراق و شام کہتے کہ ہم تمہارے علاقہ میں نہیں رہتے اور فرض کرو کہ خالد اور ابو عبیدہ کی جگہ میں اور آپ ہوتے اور ہم سے یہ سوال کیا جاتا کہ ہم.آپ کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے آپ اپنے ملک کو چلے جائیں تو ہمارا کیا جواب ہوتا.“ اس موقع پر طالب علم مذکور سوچ میں پڑ گیا لیکن خلیفہ عبدالحکیم صاحب بول اٹھے ) ان کو سیکنڈری پوزیشن دو جیسے انگریز ہندوستان میں ہیں وہ غلامی پیدا کرتا ہے.مفتوح سے زیادہ ذلیل پوزیشن کسی کی نہیں ہوتی.اس کے تمام امور میں غلامی پیدا ہو جاتی ہے.جیسے اوڈوائر نے پیروں کو جمع کر لیا اور وہ سب کے سب اس کے دروازے پر پہنچے اور جس قسم کا ایڈریس اس نے چاہا دے دیا.“ یہ فقرے کچھ ایسے طور پر خلیفہ عبد الحکیم صاحب نے ادا کئے جن سے طنز کا رنگ نمایاں تھا حضرت نے ہنستے ہوئے فرمایا ) ہم تو اُس موقع پر نہ تھے.آپ کہتے ہیں ایسا ہوا شاید آپ ہوں گے ، آپ کے کہنے سے مان لیتے ہیں.پروفیسر صاحب پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ جھٹ بول اٹھے.نہیں نہیں ! میری

Page 157

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 152 جلد سوم مراد آپ سے نہیں تھی اور آپ ان میں شریک نہ تھے.حضرت : یہاں تو اصول کا سوال ہے اور اصولاً اس کو حل کرنا چاہئے.میں پوچھتا ہوں کہ کسی وجہ سے کسی قوم نے حملہ کر کے دوسری کو فتح کر لیا تو کیا آپ کے نزدیک ایسے اسباب ہو سکتے ہیں کہ جس کو فتح کیا ہے اس کو ہمیشہ مفتوح رکھے؟ پروفیسر عبد الحکیم : ایک قوم ہے جو ہمیشہ تنگ کرتی ہے، گھروں پر آ کر حملہ کرتی ہے تو پھر ہماری | قوم کا حق ہے کہ سیلف ڈیفنس (Self Defence) حفاظت خود اختیاری کے طور پر اس کو مفتوح رکھیں.میں ان جنگوں کو جو اسباب صداقت پر بنی ہوں جائز سمجھتا ہوں امپیریل ازم کو جائز نہیں سمجھتا.حضرت: کیا ایسی صورت میں یہی جائز ہے کہ ان پر قبضہ رکھا جاوے یا اسی قدر کافی ہے کہ شکست دے دی جاوے؟ عبد الحکیم : جیسی ضرورت ہو اس کے موافق عمل کیا جاتا ہے.جیسے جرمنی کے متعلق کیا گیا ہے.کابل کو فتح کرنا آسان ہے مگر کابل پر حکومت مشکل ہے یہ ایک ضرب المثل ہے.حضرت: خیر، کابل کی حکومت کی مشکلات تو پہاڑی علاقہ کی وجہ سے ہیں یہ بحث نہیں.آپ کے اس جواب سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ بعض اسباب اور وجوہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ہوتے وئے مفتوح قوم کو دبائے رکھنا جائز ہے.عبد الحکیم : ہاں بشرطیکہ ان کو تباہ نہ کیا جائے.حضرت : کہاں تک دبایا جائے ؟ اس کی حد بندی کون کرے گا اور کون حج ہو گا ؟ عبد الحکیم : زبردست اپنا فیصلہ آپ کرتا ہے، اپنا حج آپ ہی ہوتا ہے، اس کا سوسات میں کا ہوتا ہے.حضرت : اگر یہ اصول درست ہے تو آپ کے پوائنٹ آف ویو (Point of view) سے یہ سوال حل ہو گیا.انگریزوں نے اپنا فیصلہ آپ ہی کر لیا.عبد الحکیم : نہیں، یہاں تو موریٹی (Morality) کے پوائنٹ آف ویو سے دیکھا جاوے گا.( اخلاقی نقطہ نگاہ سے )

Page 158

زریں ہدایات (برائے طلباء) 153 جلد سوم حضرت : موریلٹی کے پوائنٹ آف ویو میں بھی تو اختلاف ہے تو جب اخلاقی نقطہ نگاہ مختلف ہوئے تو پھر کس پہلو پر فیصلہ ہوگا.عبدالحکیم : میں تو یونہی درمیان میں آ گیا.“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے اور حضرت کا سلسلہ کلام پھر سے طالب علم سے شروع ہوا ) حضرت : بہتر ، پھر وہی سوال آ گیا کہ اگر حضرت ابو بکر کا زمانہ ہو اور غیر مسلم علاقے بغاوت کریں اور کہیں کہ ہم آپ کے ماتحت نہیں رہنا چاہتے آپ کو کوئی حق نہیں تو پھر آپ کیا ایڈوائز (Advise) کریں گے، کیا مشورہ دیں گے؟ پہلا طالب علم : جب وہ لوگ چاہیں گے کہ ہم یہ حکومت نہیں چاہتے تو ان کو چاہئے کہ آزاد کر دیں اور ان پر سے اپنی حکومت اٹھا لیں.حضرت : تو اب یہ اصل قائم ہوا کہ جب کوئی قوم اپنی غیر قوم حکمران کو کہے کہ ہمارا علاقہ خالی کر دو تو خالی کر دینا چاہئے.اب ہم واقعات سے دیکھتے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کا کیا عمل ہے؟ انہوں نے تو کسی علاقہ کو نہیں چھوڑا.اس اصل کو قائم کر کے اب آگے چلائیے.اس موقع پر طالب علم مذکور نے تو کوئی جواب نہ دیا.اور پھر پروفیسر عبد الحکیم صاحب نے دخل دیا) عبد الحکیم : جنرل تھیوری یہ ہے کہ کسی قوم کا حق نہیں کہ دوسری قوم پر اپنی اغراض کے لئے حکومت کرے خواہ وہ قوم کوئی ہی ہو ، ہاں اس کی اصلاح کے لئے حکومت کرے.حضرت اس قوم کے ارادہ اور مرضی کے موافق یا اس کے خلاف؟ عبد الحکیم : اس کا فیصلہ مشکل ہے.حکومت کے افعال کو دیکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ یہ فعل جائز ہے یا نا جائز.حضرت : جب فیصلہ مشکل ہے تو جائز ناجائز کا فیصلہ کون کرے گا.جس حکومت کو کہا جاوے کہ نا جائز ہے اس کا ہر فعل نا جائز ہوگا.کیا ہندوستانی حکومت کے قابل ہیں عبدالحکیم : اصل بات یہ ہے کہ کیا آپ ہندوستانیوں کو حکومت کے قابل سمجھتے ہیں؟

Page 159

زریں ہدایات (برائے طلباء) 154 جلد سوم حضرت مجھ سے جو سوال ہوا ہے میں نے اس کا جواب بارہا دیا ہے.کل کے خطبہ جمعہ میں بھی اس سوال کا جواب آ گیا ہے.میں نے ہمیشہ کہا ہے اور انگریزوں کو کہا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ ہندوستانی حکومت کے قابل نہیں.میں نے اس سوال پر غور کیا ہے اور میں اس کے دلائل رکھتا ہوں کہ ہندوستانی ہندوستانیوں پر حکومت کر سکتے ہیں.ہاں اگر یہ سوال ہو کہ ہندوستانی فرانس یا انگلستان پر حکومت کر سکتے ہیں؟ تو ہم کہیں گے ہر گز نہیں.لیکن یہ سوال ہی غلط ہے کہ ہندوستانی ہندوستان پر حکومت کر سکتے ہیں یا نہیں.ہر ایک ملک کے باشندے اپنے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں.کیا افغان افغانستان پر حکومت نہیں کرتے ؟ کیا وہ ہندوستانیوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں؟ آپ نے خوشامد پر بہت زور دیا ہے.“ خلیفہ عبدالحکیم نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہہ دیا تھا کہ گورنمنٹ کی خوشامد کی جاتی ہے.اس کی طرف اشارہ ہے.عرفانی ) در کسی وجہ سے آپ کا یہ خیال ہو گا.ہم تو کسی کی خوشامد نہیں کرتے خواہ وہ کوئی ہو.ہم نے گورنمنٹ کو ہمیشہ اس کی غلطیوں سے آگاہ کیا ہے اور صاف صاف کھلے الفاظ میں اس کو بتایا ہے.ہمارے ایڈریس اس پر شہادت دے رہے ہیں اور تمام افسروں کو معلوم ہے کہ ہم نے ہمیشہ ان کی غلطیاں ظاہر کی ہیں.خوشامد وہ شخص کرے جس کو گورنمنٹ سے کچھ لینا ہو.ہم تو ان کو سلام کرنے کے لئے بھی نہیں جاتے اور کوئی شخص یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ ہم نے کبھی کسی قسم کی خواہش ان سے کی ہو.میں اگر کبھی کسی سے ملا ہوں تو میری غرض بعض ان غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوئی ہے جو ملکی مفاد اور ملکی امن کے خلاف ہوتی ہیں نہ کوئی ذاتی غرض.آپ لاہور کے رہنے والے ہیں اور آپ کے خاندان کے لوگ اس بات کو اچھی طرح جان سکتے ہیں.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہم نے کوئی فائدہ اٹھایا ہے یا اس کی خواہش کی ہے؟ عبد الحکیم : کیا آپ کا وفد لارڈ ریڈنگ کے پاس گیا تھا؟ حضرت : ہاں.عبد الحکیم : کیا غرض تھی ؟

Page 160

زریں ہدایات (برائے طلباء) 155 جلد سوم حضرت: اس کے لئے ہمارا ایڈریس واضح ہے.ہم نے اس کو بتایا تھا کہ ہم کو آپریٹ (Co-operate) کر سکتے ہیں اور ان کو ان غلطیوں سے بھی آگاہ کرنا تھا جو حکومت کی طرف سے ہوتی ہیں.عبد الحکیم : مطلب یہ ہے کہ آپ ریڈنگ کے پاس گئے اور اس کو رعایا پرور اور حریت پرور کہتے ہیں.حضرت آپ نے یہ کہاں سے نکالا ہے کہ ہم حریت پرور کہتے ہیں یا اس قسم کے اور الفاظ استعمال کرتے ہیں.ہمارا ایڈریس موجود ہے.بغیر دیکھے اور معلوم کرنے کے ایک بات کہنا جس کی اصلیت نہ ہو پسندیدہ بات نہیں ہوتی.عبد الحکیم : آپ نے پبلک کی شکایتوں کا بھی ذکر کیا ہے.حضرت : میں تو ابھی کہہ چکا ہوں کہ ہمیشہ ہم نے حکومت کی غلطیاں ظاہر کی ہیں اور اُسی ایڈریس میں موجود ہیں.عبدالحکیم : میں نے پڑھا نہیں.حضرت: پھر بغیر پڑھنے کے اس قسم کے اعتراض درست نہیں ہیں.ہم کسی انسان کی خوشامد نہیں کر سکتے اور حقیقت کے اظہار سے کوئی چیز ہم کو روک نہیں سکتی.ابھی اوڈوائر کے مقدمہ میں شہادت کا سوال تھا ہم نے صاف کہہ دیا تھا کہ ہم ڈائر کی غلطیوں کا بھی اظہار کریں گے.غرض ہم نے کسی موقع پر اظہارِ حقیقت سے پر ہیز نہیں کیا ہے.عبد الحلیم : میں ایک دفعہ شملہ پر تھا وہاں پر ایک احمدی نے کہا تھا کہ گورنمنٹ کی وجہ سے ہم مسلمانوں سے پناہ میں ہیں.حضرت: اگر واقعات ایسے ہوں تو پھر اعتراض کیا ہے.اس موقع پر حضرت کو ان تکالیف کے تصور سے جو غیر احمدی احمد یوں کو دیتے ہیں جوش آگیا اور آپ نے پُر جوش لہجہ میں فرمایا ) کیا آپ اس کو جائز سمجھتے ہیں کہ کسی احمدی کی لڑکی کو پکڑ کر کنجروں کو دے دیا جاوے

Page 161

زریں ہدایات (برائے طلباء) 156 جلد سوم کہ اس کو گا نا سکھاؤ ؟ اور اس سے بڑھ کر کوئی ظلم اور بے حیائی ہو سکتی ہے کہ ایک عورت کی لاش کو قبر سے نکال کر کتوں کے سامنے پھینک دیا.اور بعض اخباروں نے اس فعل کی تحسین کی اور کسی ر مسلمان سے نہ ہو سکا کہ ان پر اظہار افسوس کرتا.اختلاف کے سوال کو چھوڑ کر یہ کیسی بے رحمی اور بداخلاقی ہے.اسی رمضان میں ایک شخص کو پانی تک لینے نہ دیا اور سخت دکھ دیئے اور پکڑ کر بند کر دیا کہ وہ اپنی شکایت بھی نہ کر سکے.قصور میں ہماری جماعت کو جس طرح پر دکھ دیا گیا وہ ایک تازہ مثال ہے.آئے دن مختلف مقامات پر مسلمان محض اختلاف کی وجہ سے ہماری جماعت کو تکلیف دیتے ہیں.پھر ان حالات میں اگر اس نے یہ کہا تو کیا غلط ہے.عبد الحکیم : حالات اس قسم کے ہیں تو آپ کا اور آپ کی جماعت کا یہ فرض ہے کہ اپنی حفاظت اس طریق پر کریں.مسئلہ خلافت کی وجہ سے بھی مخالفت ہوئی ہے.سلطنت ترکی سے ہمدردی حضرت: خلافت کے سوال کے متعلق سن لو.جب لکھنو میں خلافت کانفرنس کا پہلا جلسہ ہوا ہے تو مولوی عبد الباری صاحب نے مجھے دعوت دی اور بلایا.میں نے دیکھا کہ میرے جانے سے کوئی فائدہ نہیں.یہ لوگ کسی کی صحیح بات کو مان نہیں سکتے.تاہم میں نے ایک رسالہ لکھا اور ایک وفد بھیجا.رسالہ میں میں نے بتایا کہ خلافت ترکی کا سوال پیش نہ کیا جاوے، کیونکہ مسلمانوں کے بعض فرقے اس کو نہیں مانتے.سلطان ترکی کے سوال کو رکھا جاوے جس کے ساتھ ہر مسلمان کو ہمدردی ہے اور میں نے یہ بھی لکھا کہ ترکوں اور اسلام کے متعلق جو غلط فہمیاں یورپ و امریکہ میں پھیلائی گئی ہیں ان کو دور کیا جاوے.میں نے خود اس کام کے لئے اپنی طرف سے مبلغ دینے کا وعدہ کیا جو ان غلط فہمیوں کو دور کریں.اُس وقت اس کی طرف کسی نے خیال نہ کیا لیکن بعد میں جب شیعہ اور اہلحدیث اور دوسرے لوگوں نے جو خلافت کے قائل نہیں مخالفت کی تو اب ان کے بعض لیڈر تسلیم کرتے ہیں کہ جو طریق میں نے بتایا تھا وہی صحیح تھا.اور اب جس حالت میں یہ مسئلہ آ گیا ہے وہ آپ کو معلوم ہے.میں نے ہر موقع پر اپنی طاقت کے موافق مدد دینی چاہی ہے لیکن یہ ہم سے نہیں ہو سکتا کہ ہم مذہب کو قربان کر دیں.مذہب کے لئے ہم ہر ایک قربانی کر سکتے ہیں مگر اس

Page 162

زریں ہدایات (برائے طلباء) 157 جلد سوم صداقت کو ہم نہیں چھوڑ سکتے جو خدا کی طرف سے آئی ہے.“ (حضرت کی اس تقریر کا بہت اثر ہوا اور پروفیسر عبد الحکیم صاحب کہنے لگے کہ یہ بالکل درست ہے.میں جب قسطنطنیہ میں تھا اور سید امیر علی اور سر آغا خان صاحب کی طرف سے خلافت کی تائید میں خیالات کا اظہار ہوا تو لوگ کہتے تھے کہ یہ خود تو خلافت کے قائل نہیں ) پہلا طالب علم : میری سمجھ میں تو آپ کی پوزیشن آگئی ہے اور جو اعتراضات آپ پر ملک کی آزادی کے متعلق ہوتے ہیں وہ درست نہیں بات بالکل صاف ہو گئی ہے.مسلمانوں کو کافر کہنا ایک طالب علم : کہتے ہیں کہ آپ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں؟ حضرت: آپ عیسائیوں کو کافر کہتے ہیں تو کیا ان کا حق ہے کہ آپ کو مار دیں؟ وہی طالب علم: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ اسلام کا خلاصہ ہے.پھر جب کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہے تو احمدی اس کو کا فرکیوں کہتے ہیں؟ حضرت: ایک بات میں آپ سے پوچھتا ہوں.اگر کوئی شخص یہی کلمہ پڑھتا ہو مگر یہ کہے کہ میں موسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتا وہ نعوذ باللہ مفتری تھے تو آپ اسے کیا کہیں گے؟ طالب علم : کافر ہی ہوگا.اس موقع پر پھر پروفیسر عبد الحکیم صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا اور کہا ) عبد الحکیم : اس میں ایک مغالطہ ہے.آنحضرت یہ شریعت کو کامل کر گئے اور اب کوئی چیز دین کے لئے باقی نہیں.اس لئے میں اس بات کے لئے مجبور نہیں ہوں کہ کسی دوسرے کو نبی یا نیک سمجھوں.اگر کوئی شخص آنحضرت ﷺ کو مانتا ہو اور موسی کا غلام نہ ہو تو میرے خیال میں وہ مسلمان ہو گا.حضرت: آپ کے خیال کو میں نہیں پوچھتا.دوسرے مسلمان اس کو مسلمان نہیں مانتے اور نہیں مانیں گے جو حضرت موسی کا انکار کرے.طالب علم : یہ بالکل درست ہے.

Page 163

زریں ہدایات (برائے طلباء) 158 جلد سوم عبد الحکیم : سارے قرآن میں یہ ذکر نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی رسول آئے گا.حضرت: یہ بحث تو الگ رہی کہ ذکر ہے یا نہیں.لیکن فرض کرو کہ ایک شخص کا خیال ہے کہ رسول آئے گا تو اس کو کیا کہو گے؟ عبد الحکیم : کیا وہ شریعت کو مکمل سمجھتا ہے؟ حضرت: ہاں وہ مکمل سمجھتا ہے اور باوجود اس کے وہ مانتا ہے کہ ایک رسول آیا ہے.یہ خیال غلط ہے یا صحیح مگر وہ مانتا ہے تو اس رسول کا جو انکار کرے اس کو وہ کیا کہے اور اس کا کیا حق ہے؟ عبد الحکیم : ہاں اس کا حق ہے کہ وہ نہ ماننے والے کو کافر کہے.حضرت : تو پھر معلوم ہوا کہ یہ سوال نہیں کہ کا فرکیوں کہتے ہو بلکہ سوال یہ ہے کہ کہاں لکھا ہے کہ رسول آئے گا.“ اس پر حضرت اقدس نے سورۃ اعراف کا تیسرا رکوع نکال کر پڑھا اور سوال کیا کہ اس میں يبني ادم کا جو خطاب ہے، یہ کسی زمانہ کے لوگوں کے لئے ہے؟) پروفیسر عبد الحکیم : وہ جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں موجود تھے یا آئندہ آئیں گے.حضرت : بہت اچھا اب آگے چلئے چوتھے رکوع میں فرماتا ہے يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ التى 1 اس میں کون لوگ مراد ہیں؟ پروفیسر عبد الحکیم : وہی جو موجود تھے یا جو آئندہ ہوں گے.حضرت: پھر یہ آیت کیا ثابت کرتی ہے؟ پروفیسر عبد الحکیم : اس آیت سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء آئیں گے.میں نے جب اس کو پڑھا تھا تو یہی سمجھا تھا کہ رسول آئیں گے.حضرت: پھر قرآن مجید سے یہ تو ثابت ہے کہ رسول آئیں گے پھر جو شخص کسی رسول کو مانتا ہے کہ آ گیا ، کیا اس کو یہ حق نہیں کہ اس کے نہ ماننے والوں کو کافر کہے؟ پروفیسر عبد الحکیم : ہاں اس کا حق ہے.وہی طالب علم : مگر میں نے مولوی محمد علی صاحب کے ترجمہ قرآن مجید میں یہ معنی نہیں پڑھے.

Page 164

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 159 جلد سوم حضرت : اس کا مجھ سے کیا تعلق.میں تو آپ ترجمہ کرتا ہوں اور ترجمہ صاف ہے.میں مولوی محمد علی صاحب کی اتباع نہیں کرتا.اور میں تعلی سے نہیں کہتا بلکہ تحدیث نعمت کے طور پر کہتا ہوں کہ ان سے زیادہ عربی جانتا ہوں.پروفیسر عبدالحکیم : ( طالب علم کو مخاطب کر کے ) اس آیت سے یہی ثابت ہے اور اس میں بحث فضول ہے.پہلا طالب علم : کیا پہلوں میں سے بھی کسی نے یہ معنی کئے ہیں اور کسی کا ایسا عقیدہ ہے؟ حضرت : یہ سوال معقول ہے یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم دکھائیں.چنانچہ مولانا روم، ابن عربی، دیو بند مدرسہ کے بانی مولانامحمد قاسم اجرائے ثبوت کے قائل ہیں.طالب علم : مرزا صاحب پر کون سی کتاب نازل ہوئی ؟ حضرت: ہر رسول کے لئے کتاب شرط نہیں.شریعت کامل اور ختم ہو چکی ہے پہلے ایسے رسول بنی اسرائیل میں آتے رہے ہیں جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.پروفیسر عبد الحلیم : مگر حضرت مرزا صاحب تو اپنی رسالت کا انکار کرتے ہیں.من نیستم رسول و نیآورده ام کتاب حضرت : یہ تو آپ کی رسالت کو ثابت کرتا ہے کہ میں ایسا رسول نہیں جو کتاب لایا ہو.عبد الحکیم نہیں وہ تو کہتے ہیں کہ رسول بھی نہیں اور کتاب بھی نہیں لایا.وو 99 حضرت : آپ کو عطف سے غلطی لگتی ہے." مخاطب کے لئے دلیل کے طور پر بھی آتا و ہے اور اس کا دوسرا مصرع پڑھو.و ہاں ملہم استم و ز خداوند منذرم اور نذیر قرآن مجید میں رسول کے لئے آیا ہے.عبد الحکیم : قرآن مجید کسی نبی کو کسی پر فضیلت نہیں دیتا.حضرت قرآن مجید میں تو لکھا ہے تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ 2 الله عبد الحکیم : قرآن مجید میں آنحضرت ﷺ نے کہا ہے کہ مجھے کسی پر فضیلت نہیں.

Page 165

زریں ہدایات (برائے طلباء) 160 جلد سوم حضرت قرآن مجید آپ کے سامنے ہے نکال کر دکھا دیں اور قرآن مجید آنحضرت ﷺ کا کلام نہیں یہ خدا کا کلام ہے.دوسرا طالب علم : آپ مسلمان کو پھر کا فر تو کہتے ہیں؟ حضرت : لوگ کافر کے معنی یہ کرتے ہیں کہ وہ جہنم میں چلا جائے گا، ہم یہ نہیں کہتے.یہ ہمارے اختیار کی بات نہیں.اس میں جہنم کا سوال نہیں.یہ خدا کا کام ہے.یہ ایک ریلیجس ٹرم ہے.وہ انکار کرتا ہے اس لئے کا فر کہلاتا ہے.( حضرت صاحب نے حقیقۃ الوحی سے اس کے متعلق حوالہ جات دکھائے ) طالب علم : کافر کی تشریح ہو گئی ہے یہ درست ہے.(یہاں یہ گفتگو ختم ہوگئی اور پھر سیاسی گفتگو شروع ہوگئی ) سیاسی مسائل پر گفتگو ایک طالب علم: ہم کس طرح اپنے حقوق حاصل کریں؟ حضرت: ہمارا یہ طریق ہے کہ ہم قانون کے ماتحت اپنے حقوق لیتے ہیں.اگر نہ لے سکیں اور مذہبی مداخلت ہو تو پھر اس ملک کو چھوڑ دینا چاہئے.یہ آسان طریق ہے.ملک میں رہ کر قانون میں تبدیلی کی کوشش کرنی چاہئے اور جب تک لاء (Law) ہے اس کا احترام کرنا چاہئے.کیونکہ اگر ایک دفعہ قانون شکنی کی عادت ڈال دو گے تو پھر قانون کا احترام اور اطاعت اٹھ جائے گی.جب وہ قانون درست نہ ہو تو امن سے اس کے تبدیل کرانے کی کوشش کرو.اگر کامیابی نہ ہو تو اس سے باہر چلے جاؤ.طالب علم : ہاں یہی درست طریق ہے.حضرت : ہمارے خلاف دو قسم کا پرسی کیوشن (Persecution) ہے.اول مسلمان ہمارے مخالف ہیں.دوم ہندو مسلمانوں کی مخالفت کی وجہ سے بحیثیت مسلمان ہماری مخالفت کرتے ہیں.اب آپ ہی بتائیں کہ ہم کیا طریق اختیار کریں.میں نے ہر موقع پر مسلمانوں کو صحیح مشور دیا ہے اور مسلمانوں کے مفاد میں ان سے کو آپریٹ (Co-operate) کیا ہے مگر وہ خود فائدہ نہ اٹھائیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے.ابھی مسلم لیگ کے موقع پر جب انہوں نے مجھے دعوت

Page 166

زریں ہدایات (برائے طلباء) 161 دی تو میں نے اپنے خیالات کا اظہار تحریری طور پر کر دیا.طالب علم : ہجرت کی جو تحریک ہوئی تھی اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟ جلد سوم حضرت: میں نے ہجرت کے موقع پر گورنمنٹ کو لکھا تھا کہ وہ اس میں کسی قسم کی مداخلت نہ کرے.اگر وہ روکے گی تو پھر وہ ملک میں رہ کر بھی جنگ کر سکتے ہیں.مگر جو لوگ ہجرت کر کے گئے نہ تو وہ کسی اصول اور قانون کو مد نظر رکھ کر گئے اور نہ کسی کی سیادت میں گئے.ایک بے اصول جوش کے ماتحت یہ کام کیا گیا جس کا نقصان بہت زیادہ ہوا.سرحد والے اپنی جائیدادیں نہایت ہی نقصان کے ساتھ بیچ کر چلے گئے اور آگے کوئی خبر گیراں نہ ہوا.جس کا نتیجہ بے چینی ہوا اور تکالیف میں مبتلا ہو کر نا کام واپس ہوئے.اور اس تحریک کی ناکامی نے اس کو بے اثر کر دیا.اگر یہ تحریک صحیح اصول پر آرگنائزڈ (Organized) ہوتی تو یقیناً مؤثر ہوتی.عبد الحکیم : قوم کی قوم تو ہجرت نہیں کر سکتی.کانٹیٹیوشنل (Constitutional) طریق پر آپ سے متفق ہوں.حضرت : میں اس حد تک موافق ہوں جو لاء (Law) کے خلاف نہ ہو ورنہ انار کی (Anarchy) پیدا ہوگی اور اس سے سخت نقصان ہوگا.جس وقت تک یہ احساس رہے کہ لاء (Law) کی تعمیل کرنا ہے اُس وقت تک امن قائم ہے اور امن کے ساتھ ہم ایسے قوانین کو جو نقصان رساں ہوں تبدیل کرا سکتے ہیں.عبدالحکیم : اگر قانون ایمان کے خلاف ہو.حضرت: اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے تو ہمارا یہی ایمان ہے کہ ملک سے باہر چلے جانا چاہئے.اگر اس کو تبدیل نہیں کراسکتے پھر نکل جانے میں اس بات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہ کھانے کو ملے گا یا نہیں.میں تو جماعت میں اسلام کے لئے ایک غیرت کی عملی سپرٹ (Spirit) پیدا کرتا ہوں.میری بیوی کا بھائی آیا، میں اس کے لئے شوق سے منتظر تھا.دروازہ کھول کر اسے دیکھا کہ اس نے ٹوپی پہنی ہوئی ہے.مجھے اس سے رنج ہوا کہ اس نے کیوں پہنی.تین دن تک میں اس

Page 167

زریں ہدایات (برائے طلباء) 162 جلد سوم سے نہیں ملا جب تک کہ اس نے مجھے لکھ کر نہیں دے دیا کہ میں اسلام کے قومی کیریکٹر کا پابند رہوں گا.میں نے فیشن کی تقلید کرنے والوں کی اپنے کل کے خطبہ جمعہ میں مثال دی ہے کہ وہ اس فیشن کے ایسے غلام ہیں جیسے ایک کتامیم کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہے.میں اپنی جماعت میں جو روح پیدا کر رہا ہوں تم اسے سمجھو تو تمہارے یہ خیالات نہ رہیں.میری جماعت میں کوئی شخص اپنے مقدمات کو عدالت میں نہیں لے جاتا بلکہ شریعت کے فیصلہ کے موافق قاضیوں سے طے کراتا ہے.“ اس پر ایک شخص نے طنزاً کہا کہ چماروں میں بھی ایسا ہی ہے.حضرت نے یہ سن کر فرمایا کہ ) یہ اس لئے ہے کہ تم ان سے عبرت سیکھو.جن کو تم چمار کہتے ہو وہ اس معاملہ میں تم سے بہتر وو ہیں.“ سب نے متفق ہو کر کہا کہ یہ بالکل درست ہے ) ایک طالب علم : میں نے سنا ہے کہ انڈیا آفس والے آپ کو بلا کر پوچھتے ہیں کہ ہندوستان پر کیسے حکومت کریں.حضرت : یہ غلط ہے کہ مجھ سے یہ پوچھا گیا.تعدد ازدواج طالب علم : ایک اور سوال کرتا ہوں قرآن شریف نے کہاں تک اجازت دی ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کریں.حضرت : قرآن شریف نے چار تک حکم دیا ہے اگر عدل نہ کر سکے تو پھر ایک ہی کرے.ہر ایک بیوی کو برابر باری دے اور برابر مال دے.میں نے اپنی جماعت کے لئے حکم دے دیا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادی کر کے عدل نہیں کرے گا تو میں اس کو سزا دوں گا جو قومی بائیکاٹ ہوگا.سوال: محبت برابر نہیں ہوسکتی.حضرت: کیا ایک شخص اپنے متعدد بچوں سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟ یہ خیال صحیح نہیں.اپنے عمل سے انسان مساوات رکھ سکتا ہے.اور میں اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ یہ عیش نہیں بلکہ ایک بہت

Page 168

زریں ہدایات (برائے طلباء) 163 جلد سوم بڑی قربانی ہے جبکہ وہ دوسری بیوی سے بھی ویسی ہی محبت کرے گا.سوال: کیا یہ جائز ہے کہ عورت کا ولی یا اگر عورت بالغ ہو تو خود شادی کے وقت یہ شرط کرے کہ اس کا شوہر دوسری شادی نہ کرے گا.حضرت : ہمارے نزدیک یہ جائز ہے.سوال: لونڈیوں کی تو کوئی حد نہیں.حضرت : ہم اس کو جائز نہیں سمجھتے.عبد الحکیم : اب تک مکہ میں اس کا رواج ہے کہ لونڈیاں فروخت ہوتی ہیں.حضرت: اگر ہمارا اختیار ہو تو سب سے پہلے اس کو منسوخ کریں.اگر وہ لونڈی کہہ دے کہ وہ جنگی قیدی نہیں ہے تو اسے حق ہے کہ اپنے حق کی بناء پر آزاد ہو جائے.حضرت عمر کے عہد میں ایک قوم کو آزاد کر دیا گیا تھا.عبد الحکیم : غلام کی کمائی کس کی ہوگی ؟ حضرت جس دن وہ آزاد ہو جاوے اس کی کمائی الگ ہو جائے گی.قرآن مجید سے تو ثابت ہوتا ہے کہ جب وہ آزاد ہونا چاہے فوراً ا سے آزاد کرنا چاہئے اور اگر اس کے پاس روپیہ نہ ہو تو گورنمنٹ روپیہ دے کر آزاد کرائے.عبد الحکیم : تعدد ازدواج کے متعلق میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک عورت نے جب شادی کی تو اس کے شوہر کی ایک سو روپیہ آمدنی تھی.اب اگر وہ چار کر لے تو اس کے حصہ میں پچیس روپے آئیں گے کیا یہ اس پر ظلم ہو گا یا نہیں؟ حضرت عورت اگر سمجھتی ہے کہ ظلم ہے تو اس کو اسلام نے ضلع کرالینے کا حق دیا ہے.علاوہ ازیں کیا اس کے ساتھ ہی مرد کی ضروریات میں بھی کمی ہوگی یا نہیں ؟ اور پھر اگر ایک عورت کے ہی چار بچے ہو جائیں تو وہ رقم تقسیم ہو جائے گی یا نہیں؟ عبد الحکیم : معمولی آمدنی کا آدمی جب دوسری شادی کرتا ہے تو بچوں کے اخراجات میں کمی ہو جاتی ہے اور ان بچوں پر ظلم ہوتا ہے اور اس خاندان کا کلچر کمزور ہو جاتا ہے.

Page 169

زریں ہدایات (برائے طلباء) 164 جلد سوم حضرت: اس کا جواب دو طرح ہے.اول تو اگر بچے زیادہ ہو جائیں تو آپ کے اصول کے موافق اس کثرت سے ہی کلچر کمزور ہو گا اور پہلے بچے پر ظلم ہوگا اس لئے اولاد پر کنٹرول ہونا چاہئے اور یہ طریق غلط ہے.دوسرے اسلام نے تعلیم کا بار حکومت پر رکھا ہے.حکومت کو یہ باراٹھا نا چاہئے کیونکہ وہ بچے قومی طاقت کا جزو ہیں.عبد الحلیم : کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ تعلیم دلا نا قوم کا حق ہے؟ حضرت : ہاں.عبد الحکیم : گورنمنٹ کو ٹیکس بڑھانے پڑیں گے اور لوگ جب تعلیمی بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد سمجھیں گے تو اولا د بڑھے گی.حضرت : گورنمنٹ پر تعلیمی بار سے یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ سب بوجھ اٹھائے بلکہ جس قدر والدین اٹھا ئیں ان پر ڈالا جائے باقی حکومت کو اٹھانا چاہئے.اور اس کے لئے اگر ٹیکس لگانے کی پڑتے ہیں تو وہ قوم کی مشترکہ ضروریات اور بہتری کے لئے ہیں، اس میں حرج کیا ہے؟ عبدالحکیم : میرا سوال حل ہو گیا.مبلغین کا شادی کرنا ایک شخص میں اس کو پسند نہیں کرتا کہ آپ کے مشنری یہاں آ کر شادی کریں.حضرت : میں مبلغین کے لئے یہ جائز نہیں رکھتا کہ وہ باہر جا کر شادی کریں.کیونکہ اگر وہ روپیہ کمانے کے لئے جاتے تو ان کی بیوی کو یہ تسلی ہوتی کہ وہ روپیہ کما کر لائے گا.لیکن جب وہ تبلیغ کے لئے آتا ہے تو اس کی بیوی اس کے اس نیک مقصد کے لئے خود بہت بڑی قربانی کرتی ہے.اس لئے اگر وہ آ کر شادی کرتا ہے تو وہ اس قربانی کی ہتک کرتا ہے جو اس کی بیوی نے کی ہے.پس اس کو بھی قربانی کرنی چاہئے اور میں نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے.سائل : یہ بہت ہی اچھا قانون ہے.ایک اور شخص: اگر کوئی شخص ایک سے زیادہ شادی کر لے اور پہلی بیوی کو شکایت ہو تو وہ کیا

Page 170

زریں ہدایات (برائے طلباء) کرے؟ 165 جلد سوم حضرت: میں اپنی جماعت میں اگر ایسا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص اپنی بیوی سے اچھا اور برابر کا سلوک نہیں کرتا تو خواہ اس کی بیوی شکایت بھی نہ کرے میں دخل دیتا ہوں اور باز پرس کرتا ہوں.ایک شخص نے ایسا کیا اور اس کی بیوی نے بھی شکایت نہیں کی تھی مگر میرے علم میں جب اس کا سلوک آیا تو میں نے فوراً اس پر نوٹس لیا.تعددازدواج اور بیتامی عبدالحکیم : تعدد ازدواج کے سلسلہ میں ایک اور سوال ہے.جہاں قرآن مجید نے اس کا حکم دیا ہے وہاں بتائی کا ذکر.ہے.اس سے کیا تعلق؟ دوسرے مسلمانوں نے اس کو عام کس طرح کر لیا یعنی چار کی حد بندی کیونکر کی.جس انداز میں قرآن نے بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ معین نہیں کرتا بلکہ غیر معین ہے.حضرت : بعض لوگوں نے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ حد بندی نہیں.مگر رسول اللہ ﷺ نے چونکہ حد بندی کر دی ہے اس لئے وہی معنی مقدم ہوں گے جو آنحضرت ﷺ نے کئے ہیں.ضا الله یتامیٰ کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے.اس کے متعلق مثلاً حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص کو دس یتیم بچے مل گئے.اگر اس کے اپنے اور بچے بھی ہوں تو ایک عورت کہاں تک خدمت کر سکے گی ایسے موقع پر ضروری ہے کہ وہ دوسری شادی کرلے تا کہ سب کی ہو سکے.یہ ایک صورت ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ خودان یتامیٰ کی ماں سے شادی کرلے تا کہ وہ ان یتامیٰ کی پرورش میں پوری دلچسپی لے سکے.کیونکہ ممکن ہے کہ پہلی بیوی کو انٹرسٹ (Intrest) نہ ہو.تو یہ تعلق اور جوڑ اس آیت کا ہے.اور اس سے مقصد یتامی کی صورتوں میں سے ایک کثرت ازدواج ہے.الله حضرت جابر کا واقعہ احادیث میں ہے کہ انہوں نے بڑی عمر کی عورت سے شادی کی اور آنحضرت ﷺ نے دریافت کیا تو انہوں نے وجہ یہ بتائی کہ میری بہنیں چھوٹی عمر کی تھیں، یہ ان کی خبر گیری کر سکے گی.غرض یتامیٰ کے ساتھ دوسری شادی کا تعلق ہے.عام اس کو اس طرح پر کر لیا کہ فَانكِحُوا کو یا حکم قرار دیں گے یا اجازت.تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسی

Page 171

زریں ہدایات (برائے طلباء) 166 جلد سوم صورت میں حکم ہے دوسری صورت میں اجازت.یتانی کی حفاظت کے سوال کو مدنظر رکھ کر جب شادی ہوتی ہے تو عورت کا حق تلف نہیں ہوتا.پھر اصل اشیاء کی حلت ہے.اسلام کے اس حکم کے ماتحت کہ یتامیٰ کی حفاظت کے لئے شادی کر سکتا ہے اس سے حلت ثابت ہوتی ہے.عبد الحکیم : میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ دوسری شادی کرنا سزا ہے.حضرت سزا نہیں قربانی ہے.عبد الحکیم : کیا ایسے شخص کو جو گزارہ نہ کر سکتا ہو اور وہ دوسری شادی کرے آپ سزا دیں گے؟ حضرت: میں یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ شادی کے لئے مجھ سے اجازت لی جاوے.لیکن اگر میرے نوٹس میں ایسی بات آئے کہ وہ عدل نہیں کر سکتا یا حدود شریعہ کو توڑتا ہے تو میں اس پر الفضل 30 اکتوبر 1924ء) ایکشن لوں گا.“ 1: الاعراف: 36 2: البقرة: 254

Page 172

زریں ہدایات (برائے طلباء) 167 جلد سوم احمدیہ کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور سے خطاب 25 نومبر 1924ء کو احمد یہ کالج ایسوسی ایشن لاہور نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی خدمت میں تہنیت نامہ پیش کیا.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.جو ایڈریس اس وقت کالجیٹ طلباء کی طرف سے پیش کیا گیا ہے میں اس کے متعلق اپنی طرف سے اور ہمراہیان سفر کی طرف سے جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتے ہوئے یہ بتانا | چاہتا ہوں کہ ان کے کام اور ان کی زندگی سے اور جس رنگ میں وہ اپنے اخلاق کی ، اپنے دین کی اور اپنی روحانیت کی تربیت کا موقع رکھتے ہیں اس سے میں ایسی دلچسپی رکھتا ہوں کہ اور کم چیزوں سے مجھے ایسی دلچسپی ہے.اور اس کی وجہ یہ ہے جیسا کہ بارہا میں انہیں بتا بھی چکا ہوں کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ روحانیت اور تربیت دونوں علیحدہ علیحدہ میدان ہیں.میرے نزدیک دنیا نے اس وقت تک ایک خطر ناک غلطی کی ہے اور جب میں دنیا کا ذکر کرتا ہوں تو اس سے میری مراد انبیاء صلحاء اور اولیاء نہیں ہیں بلکہ عوام الناس ہیں.انہوں نے اس نکتہ کو نہیں سمجھا کہ اخلاق اور روحانیت علیحدہ علیحدہ چیزیں ہیں اور تربیت علیحدہ.اس وجہ سے لوگ تربیت کے نقائص کو روحانیت کی غلطیاں قرار دے لیتے ہیں اور تربیت کی خوبیوں کو روحانیت کا کمال سمجھ لیتے ہیں.جس کے دو نقص ہیں بلکہ تین ہیں.جن میں سے دو تو لوگوں کے اپنے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ایک قوم سے تعلق رکھتا ہے.اپنی ذات سے تعلق رکھنے والے نقص یہ ہیں کہ بہت لوگ جو اعلیٰ تربیت پا کر اعلیٰ اخلاق حاصل کر لیتے ہیں اس سے وہ اس وہم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہمیں اعلیٰ روحانیت بھی حاصل ہو گئی ہے اور اس وجہ سے وہ روحانیت سے غفلت

Page 173

زریں ہدایات (برائے طلباء) 168 جلد سوم کرنے لگ جاتے ہیں جیسا کہ یورپ کے لوگ ہیں.ہمارے ملک کے لوگوں کے اگر اخلاق کو دیکھا جائے تو معیار اخلاق کے لحاظ سے ان کے اخلاق اعلیٰ ہیں مگر تربیت کے لحاظ سے یورپین لوگ اعلیٰ ہیں.اور وہ اخلاق کا استعمال اس خوبی سے کرتے ہیں کہ دل پر قبضہ کر لیتے ہیں.مثلاً ایک موٹی بات ہے کہ خواہ کتنا ہی ہجوم ہوا ایک دوسرے کو دھکا نہیں دے گا اور آپس میں کچھ نہ کچھ فاصلہ رکھے گا.ایسی حالت میں بھی اگر کسی کا جسم کسی کے ساتھ چھو جائے تو انہیں ایسی عادت پڑی ہوئی ہے کہ خواہ اسی کو ٹھوکر لگے Beg your Pardon کہے گا.میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ ہجوم میں مجھ سے ہی ٹھو کر لگتی جس پر میں تو شرم سے آہستہ Beg your Pardon کہتا لیکن جسے ٹھوکر لگتی وہ مجھ سے پہلے ہی کہہ دیتا.یہ تربیت کا نتیجہ ہے.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں.مثلاً کوئی مسافر جارہا ہو اور اسے رستہ معلوم نہ ہو تو ہمارے ملک میں غرباء تو اُسے رستہ بتا دیں گے اور اگر کوئی امیر آدمی رستہ پوچھنے والا ہوگا تو اسے اپنی عزت افزائی سمجھیں گے لیکن اگر کسی امیر سے کوئی رستہ پوچھے تو وہ ایسی شکل بنائے گا کہ اس کا فوٹو لے کر عجائب خانہ میں بھیجنے کے قابل ہوگا.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہتک سمجھتا ہے مگر وہاں یہ حالت ہے کہ خواہ کسی سے رستہ پوچھو فوز ابتا دے گا.ہمیں اس بات کا کئی دفعہ تجربہ ہوا ہے اور دو موقعے تو ایسے خاص ہیں کہ جو کبھی نہیں بھول سکتے.جب ہم احمدیہ مسجد کو پہلے دن جا رہے تھے تو موٹر چلانے والا اس رستہ سے ناواقف تھا.چلتے چلتے اس نے دیکھا کہ ایک شخص موٹر میں بیٹھا ہے اور دوسرا موٹر سائیکل والا اس سے باتیں کر رہا ہے.ہمارے موٹر ڈرائیور نے اس سے پوچھا کہ 63 میلر وز روڈ کدھر ہے؟ اس نے پتہ بنایا مگر ہمارا موٹر ڈرائیور پھر بھی نہ سمجھا اور کہنے لگا پھر بتاؤ.اس نے پھر بتایا لیکن جب اس نے دیکھا اب بھی وہ سمجھا نہیں تو اپنے ساتھی سے کہنے لگا ذرا ٹھہرو میں رستہ بتا آؤں.چنانچہ وہ آیا اور رستہ بتا کر واپس گیا.ایک دفعہ ہم کتابیں خریدنے کے لئے ایک دکان پر گئے.وہ دکان ایک گلی کے اندر تھی.پولیس مین سے ہم نے اس کا پتہ پوچھا اور اس نے بتایا مگر ہم سمجھ نہ سکے.اتنے میں دیکھا کہ

Page 174

زریں ہدایات (برائے طلباء) 169 جلد سوم ایک لیڈی اسی دکان کا پتہ ادھر ادھر سے پوچھتی پھرتی ہے ہم نے سمجھا یہ بھی اسی دکان پر جانے والی ہوگی.وہ جب ہمیں اس دکان کے قریب لے آئی تو کہنے لگی اب تو آپ کو رستہ مل جائے گا.تب معلوم ہوا کہ وہ ہمارے لئے اس دکان کا پتہ لگا رہی تھی.جب ہم آگے گئے تو چونکہ دھوئیں سے اس دکان کا نام مٹا ہوا تھا اس لئے ہم اسے پہچان نہ سکے.یہ دیکھ کر پھر وہ دوڑتی ہوئی آئی اور دکان بتا کر واپس چلی گئی.اس قسم کے اخلاق ان لوگوں میں پائے جاتے ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ان لوگوں کی روحانیت بھی اعلیٰ درجہ کی ہے بلکہ یہ ہیں کہ ان کی تربیت اعلیٰ درجہ کی ہے جس کے روحانیت سے خالی ہونے کا یہ ثبوت ہے کہ حقیقی نقصان کے وقت جاتی رہتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص سے مجھے اخلاق پر گفتگو کرنے کا موقع ملا.کہنے لگا دیکھو ہمارے کیسے اعلیٰ اخلاق ہیں.میں نے اسے کہا تم لوگوں میں جو اخلاق پائے جاتے ہیں یہ تربیت کے اخلاق ہیں مذہب کے اخلاق نہیں ہیں.میں نے کہا یہ تمہاری تربیت کا نتیجہ ہے کہ مجمع میں ترتیب کو قائم رکھتے ہو.لیکن کیا اگر تھیٹر میں سیٹیں نہ ملتی ہوں تو لوگ ایک دوسرے کو نہیں کچلتے.وہاں تربیت کا کوئی خیال نہیں رہتا.لیکن ایک ایسا شخص جو مذہب کے لحاظ سے اعلیٰ اخلاق کا پابند ہو گا وہ ہر جگہ صبر اور استقلال سے کام لے گا.تو ایمان وہاں بھی کام دیتا ہے جہاں مایوسی ہو مگر خالی تربیت ایسے موقع پر رہ جاتی ہے.لیکن اگر روحانیت کے ساتھ تربیت بھی ہو تو پھر ہر موقع اور ہر محل پر اخلاق دکھائے جاسکتے ہیں.ہمارے ملک میں بہت سے نقائص تربیت کی کمی کا نتیجہ ہوتے ہیں.بعض ایسے اخلاق جو روحانی ہیں ان میں ہمارے ملک کے لوگ بڑھے ہوئے ہیں اور جو روحانی نہیں ہیں ان میں وہ لوگ بڑھے ہوئے ہیں.اور اس کی وجہ ان کی تربیت ہے.لندن میں ایک اخبار والے سے میرا انٹرویو ہوا اس نے پوچھا کیا آپ یہاں کے لوگوں سے کچھ سیکھنے کی ضرورت سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا کچھ آپ سے ہمیں سیکھنے کی ضرورت ہے اور کچھ تمہیں ہم سے سیکھنے کی ضرورت ہے.روحانیت کے اصول تمہیں ہم سے سیکھنے چاہئیں اور ہم نے تربیت کے اصول تم سے سیکھنے ہیں اس نے یہ گفتگو ایک مشہور اخبار سٹار میں شائع کر دی.

Page 175

زریں ہدایات (برائے طلباء) 170 جلد سوم پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تربیت سے جو اخلاق تعلق رکھتے ہیں وہ روحانیت سے تعلق نہیں رکھتے.بہت ممکن ہے کہ ایک شخص بہت مخلص ہو مگر اس اخلاص میں تربیت کی کمی کی وجہ سے غلطیاں کرے.کل ہی ہجوم میں ایک شخص نے ہجوم کو روکتے ہوئے بوٹ کے ساتھ میرے پاؤں کی انگلی کچل دی.اگر اس کی بجائے ایک سپاہی ہوتا جسے اس کام کی تربیت حاصل ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ مجھ سے کتنے فاصلے پر اسے کھڑا ہونا چاہئے تھا.اس میں اخلاص تھا اور اخلاص ہی کی وجہ سے وہ یہ کوشش کر رہا تھا کہ ہجوم کے ریلے کو رو کے مگر چونکہ تربیت نہ تھی اس لیے جس تکلیف سے مجھے بچانا چاہتا تھا اس کا آپ ہی باعث بن گیا.اسی طرح کئی لوگ پیچھے سے میرا کپڑا کھینچ لیتے ہیں یہ ان کا اخلاص ہوتا ہے مگر تربیت نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف پہنچ جاتی ہے.یا جلسہ کے وقت جب میں ہجوم میں سے گزر رہا ہوتا ہوں تو کئی آدمی چلتے چلتے میرے پاؤں دبانے لگ جاتے ہیں اور اس طرح کئی بار گرنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے.اگر ان باتوں کو اخلاص سے الگ کر کے دیکھیں تو یہ بد تہذیبی ہوگی.مگر یہ تربیت کی کمی کا نتیجہ ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کے دو حصے ہیں ایک حصہ تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور دوسرا روحانیت کے ساتھ.اور میرے اس عقیدہ کے رو سے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ کوئی قوم ایک ہی نسل میں کامل نہیں ہوسکتی.سوائے خدا تعالی کی طرف سے آنے والے انسانوں کے.پہلی نسل مخلص ہو گی مگر تربیت یافتہ نہ ہوگی.وجہ یہ کہ وہ ایسے ہی لوگوں سے لئے جائیں گے جن میں اخلاق مفقود ہو گئے ہوں گے.کیونکہ خدا تعالیٰ ایسے ہی لوگوں میں نبی بھیجتا ہے جو ہر رنگ میں گرے ہوئے ہوتے ہیں تاکہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس نے ادنی لوگوں کو اپنے نبی کے ذریعہ اعلیٰ بنا دیا ہے.تو ابتدا میں جماعت کا ہر فرد کامل نہیں ہوسکتا کیونکہ پہلے حصہ کے لوگ تربیت میں ناقص ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کوئی قوم دنیا میں اُس وقت تک دیر پا اثر قائم نہیں کر سکتی جب تک کہ وہ اپنی آئندہ نسل کی تربیت نہ کرے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ آئندہ نسل میں روحانیت اور اخلاص بھی قائم رہے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ تربیت پر ہی ساری توجہ لگا دینے سے اخلاص اور روحانیت مرجاتی ہے اور انسان محض مشین کے

Page 176

زریں ہدایات (برائے طلباء) 171 جلد سوم طور پر رہ جاتا ہے.چنانچہ جرمنوں کے متعلق کہتے ہیں کہ ان پر اتنی پابندیاں عائد کی گئی ہیں کہ ان کے جذبات اور احساسات باطل ہو گئے ہیں.تو تربیت میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اخلاص اور روحانیت کا اگر خاص خیال نہ رکھا جائے تو اسے صدمہ پہنچ جاتا ہے اس لئے تربیت کے ساتھ ساتھ اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے.پس کسی قوم کی تربیت کے لئے یہ ضروری ہے کہ نوجوانوں کے اخلاص کو قائم رکھ کر ان کی تربیت کی جائے یعنی بین بین حالت ہو.نہ تو ایسی حالت ہو کہ تربیت کے نقص کی وجہ سے وہ اخلاق دکھا ہی نہ سکیں اور نہ تربیت کی خاطر ایسی پالش ہو کہ آئینہ نماند والی مثل صادق آجائے.پس چونکہ آئندہ نسل کی تربیت نہایت ضروری ہے اور ایسی تربیت جو اخلاص کے قیام کے ساتھ ساتھ کی جائے اس لئے مجھے طلباء کے معاملہ میں خصوصیت سے دلچسپی ہے اور اب یورپ جا کر تو اور بھی توجہ ہوگئی ہے.میں نے وہاں افسوس کے ساتھ دیکھا کہ جو طلباء وہاں جاتے ہیں وہ اتنے کمزور ثابت ہوتے ہیں کہ وہاں کی رو کے مقابلہ میں ان کی مثال ایک پتہ کی سی ہوتی ہے اور جو شخص کسی رو کے ساتھ اس طرح بہہ جاتا ہے اس نے دنیا میں کیا کام کرنا ہے.عام طور پر وہاں جو طلباء جاتے ہیں ان میں خدا اور رسول کا ادب نہیں پایا جاتا.اس وقت میں احمدی طلباء کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ عام طلباء کا ذکر کر رہا ہوں.گو بعض باتوں میں احمدی طلباء بھی شامل ہیں.وہاں جو مسلمان طلباء جاتے ہیں ان میں اگر کسی وجہ سے دین کا ادب ہے تو وہ صرف سیاست ہے تا کہ ایک دین کے نام پر ان کا جتھہ قائم رہے ورنہ جب مذہبی مسائل پر گفتگو ہو تو صاف کہہ دیتے ہیں ہمارا تو خدا پر بھی ایمان نہیں ہے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی وجہ نہیں کہ یورپ سے اس قدر موثر ہوا جائے.یورپ جاتے وقت مجھے ایک یہ بھی خیال تھا کہ لوگ کہتے ہیں یہاں کے لوگوں کو تم قائل کر لیتے ہو یورپ میں بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور نظمند لوگ ہیں ان سے بات کرنا کارے دارد والا معاملہ ہے اس وجہ سے میرا خیال تھا کہ دیکھوں وہ کیسے لوگ ہیں.وہاں جاکر میں نے ان لوگوں سے ہر قسم کی گفتگو کی.سائنس کے جدید انکشافات کے متعلق ان سے گفتگو کی.ڈارون کے فلسفہ کے متعلق ان سے بات چیت ہوئی.

Page 177

زریں ہدایات (برائے طلباء) 172 جلد سوم جن مسائل پر وہ اعتراض کرتے ہیں ان کے متعلق ان سے مکالمے ہوئے.مگر کبھی کسی موقع پر مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایسی بات کسی نے پیش کی ہو جس کے جواب کے لئے مجھے نئی تحقیقات کی ضرورت محسوس ہوئی ہو.جب بھی انگریزوں سے کسی مسئلہ پر گفتگو ہوئی وہ خاموش ہو گئے.ایک انگریز ڈاکٹر کو مصباح الدین صاحب لائے تھے جو کہتا تھا خدا کے ماننے کی کیا ضرورت ہے.مگر جب میں نے ضرورت بیان کی تو اس نے تسلیم کیا کہ خدا کو ماننے کی ضرورت ہے.وہ انگریز اس لئے چپ نہ ہو جاتے تھے کہ ان سے چپ کرانے کے طریق سے گفتگو کی جاتی تھی.گفتگو دونوں طرح کی جاتی ہے.کبھی تو اس طرح کہ جب کوئی شخص بے فائدہ بات کو طول دے رہا ہو اور اس کی غرض محض باتیں کرنا ہو نہ کہ کوئی امر دریافت کرنا تو اسے چپ کرانے کے لئے جواب دیئے جاتے ہیں.اور مجھے ہندوستانیوں سے گفتگو کرتے ہوئے افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ وہ گفتگو محض گفتگو کے لئے کرتے تھے کسی مسئلہ کی تحقیقات کے لئے نہیں.مگر انگریزوں میں سے مجھے کوئی ایسا نہیں ملا جس سے مجھے چپ کرانے کے طریق سے گفتگو کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو.اور سفر یورپ سے مجھے جو بہت بڑا تجربہ ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کو ہر ملک میں، ہر علم کے لوگوں میں اور ہر طبقہ میں پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے کسی نئی تحقیقات کی ضرورت نہیں.ایک دفعہ بھی تو میرے سامنے کوئی ایسا سوال پیش نہیں ہوا جس کے متعلق مجھے ذرا بھی احساس پیدا ہوا ہو کہ یہ کوئی نئی بات ہے.مگر مشکل یہی ہے کہ وہ لوگ تربیت اور روحانیت کو جدا نہیں کر سکتے.اور انہوں نے کیا کرنا ہے مسلمان علماء بھی اسی غلطی میں پڑے ہوئے ہیں.بمبئی میں مولوی ابوالکلام صاحب نے باتوں باتوں میں کہا مجھے سمجھ نہیں آتا عمل کے سواروحانیت کیا ہے.تو علماء کو بھی یہی ٹھو کر گئی ہوئی ہے کہ وہ روحانیت اور تربیت کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ روحانیت بالکل الگ چیز ہے اور تربیت الگ.وہ کہتے ہیں مذہب اسی لئے ہوتا ہے کہ دیانتداری سکھائے ، حسن سلوک سکھائے ، جرائم سے بچائے.اور جن لوگوں میں یہ اخلاق پائے جائیں وہ روحانیت کے حامل سمجھے جاویں.پھر جو لوگ اس سے بھی آگے بڑھے ہیں اور مذہب سے بالکل آزاد ہو گئے ہیں انہوں نے ہر گناہ اور بدی کا فلسفہ ایجاد کر لیا ہے اور

Page 178

زریں ہدایات (برائے طلباء) 173 جلد سوم ان کا ارتکاب کرنا ان کے نزدیک برا نہیں ہے.یہ بچوں کی مجلس ہے اس لئے میں ان باتوں کو بیان کرنا نہیں چاہتا.مجھے آپ کے ایڈریس سے خصوصیت کے ساتھ خوشی ہوئی ہے مگر میں اس کے ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب قوم کی آئندہ ترقی آئندہ نسل پر ہوتی ہے تو تربیت اور روحانیت دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے.بعض اخلاق روحانیت نہیں ہوتے یا یوں کہنا چاہئے کہ بعض اخلاق کی خواہش روحانیت نہیں ہوتی.اور جو شخص یہ کوشش جاری رکھتا ہے کہ اعلیٰ اخلاق حاصل کرے اس میں اخلاص اور روحانیت ہوتی ہے مگر وہ ایسا محفوظ نہیں ہوتا کہ اسے کوئی خطرہ نہ ہو.وہ خطرہ اور امن کی سرحد پر ہوتا ہے اور قرآن کریم نے رابطوا کہہ کر سرحدوں کی حفاظت کی طرف توجہ دلائی ہے اس لئے ایسا آدمی اگر پرواہ نہیں کرے گا تو گر جائے گا.ایسا آدمی جس کی تربیت مکمل نہ ہو روحانیت حاصل کر سکتا ہے لیکن جب وہ تربیت کی وجہ سے کسی پر غصہ ہوتا ہے یا کسی سے لڑتا ہے تو گو یہ اس کے لئے مضر نہ ہومگر جس پر اس کی لڑائی اور غصے کا اثر پڑتا ہے اس کے لئے ضرور مضر ہو گا.آپ لوگوں کو اخلاق کی درستی ابھی سے ایسے رنگ میں کرنی چاہئے کہ آئندہ نتیجہ برا نہ ہو.اگر کوشش کی جائے تو پہلی نسل اخلاق میں بہت ترقی کر سکتی ہے اور جب اس کے ساتھ اخلاص بھی مل جاوے تو کامیابیاں بہت بڑھ جاتی ہیں.میرے نزدیک اگر تین چار نسلوں کو اعلیٰ اخلاق سکھا دیئے جائیں اور ان میں روحانیت کو بھی قائم رکھا جاوے تو اس پیشگوئی کو نہایت آسانی کے ساتھ پورا کیا جاسکتا ہے جو حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں شیطان کے کچلے جانے کے متعلق ہے.اس وقت تک جو کی ہے وہ یہی ہے کہ اخلاق اور روحانیت کو ایک ہی سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ اخلاق تربیت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور تربیت سیکھنے سے آتی ہے.یہ بات میں نے کئی بار بتائی ہے کہ میرے لڑکپن کے زمانہ میں ہمارا مکان بن رہا تھا میں نے ترکھان کو نیشہ سے کام کرتے دیکھ کر اسے ایک معمولی کام سمجھا.اور جب وہ ادھر اُدھر ہوا تو میں نے نتیشہ اٹھا کر لکڑی پر مارا جو پہلی دفعہ ہی مارنے سے میرے ہاتھ پر جا لگا.جس کا اب تک نشان موجود ہے.میں نے سمجھا تھا جب لکڑی سامنے ہے، تیشہ ہاتھ میں ہے اور آنکھیں کھلی ہیں تو پھر

Page 179

زریں ہدایات (برائے طلباء) 174 جلد سوم تیشہ کس طرح لگ سکتا ہے.مگر تربیت کے نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ پر لگ گیا.تو اکثر اوقات ایک انسان خواہش کرتا ہے کہ میں کوئی کام کروں یا کسی کو آرام پہنچاؤں مگر تربیت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتا.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک رعشہ کی بیماری والا ہو.کون چاہتا ہے کہ وہ گرے لیکن جسے رعشہ ہو وہ گر پڑتا ہے.میں اس ایڈریس کے جواب میں اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ چونکہ جماعت کی ترقی کا انحصار نوجوانوں کی تربیت پر ہے اس لئے آپ لوگ اپنے لئے اور ہمارے لئے ، اپنی روحانیت کے لئے اور ہماری روحانیت کے لئے اور تمدن کے لئے مدد کریں اور اگر ایسا ہو جائے تو بہت جلدی ترقی ہو سکتی ہے.اور کوئی بھی مشکل نہیں ہے جو ہماری ترقی کو روک سکے یا ہمیں ہراساں کر سکے.جب بھی کبھی کوئی مشکل وقت مجھ پر آیا ہے اُسی وقت میں نے اپنے اندر بہت زیادہ قوت پائی ہے باوجود اس بیماری کے جو اس سفر میں ہوئی یعنی آٹھ آٹھ دفعہ پاخانہ کے لئے جانا پڑتا تھا اور بعض دفعہ تو پاجامہ میں ہی نکل جاتا تھا مگر چونکہ کام تھا اس لئے میں نے اس بیماری کی کوئی پرواہ نہ کی اور برابر کام میں لگا رہا.لیکن بیروت اور شام کے درمیان دوران سفر میں ایک دن کام نہ تھا تو ایسی حالت ہوئی کہ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے اور غشی تک نوبت پہنچ گئی.یہی بات ہندوستان میں ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جتنا کبھی کام بڑھا ہے اتنی ہی زیادہ خدا تعالیٰ نے طاقت دے دی ہے.پس مشکلات کوئی چیز نہیں.اگر خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور یقین ہو تو مشکلات کمزور نہیں کرتیں بلکہ طاقتور بناتی ہیں.میں کبھی مشکلات سے نہیں گھبراتا، نہ مجھے یہ خوف ہے کہ آپ لوگوں کو ان کا سامنا کرنا پڑے گا.اگر ڈر ہے تو یہی کہ تربیت اخلاص کو نہ لے جائے.اگر تم لوگ تربیت میں مکمل ہو جاؤ تو اخلاص میں کمی نہ آجائے اور جب یہ دونوں باتیں حاصل ہو جائیں گی تو یورپ کا فتح کرنا کچھ بھی مشکل نہیں ہوگا.میرا خیال ہے کہ یورپ کے ایک عام آدمی کی سمجھ ہندوستان کے ایک عام آدمی کی نسبت کم ہے اور یورپ کے ایک لکھے پڑھے آدمی کی سمجھ ہندوستان کے ایک لکھے پڑھے آدمی سے کم ہے لیکن عام تجربہ اور تربیت کے لحاظ سے وہاں کے لوگ بہت بڑھے ہوئے ہیں.یہاں کے لوگوں میں نقص ہے کہ ایک

Page 180

زریں ہدایات (برائے طلباء) 175 جلد سوم بات سن کر سمجھ لیتے ہیں اس کا کرنا نہایت آسان ہے.ایک ایسا شخص جس نے جنگ کے متعلق کوئی بھی کتاب نہ پڑھی ہو لڑائی کے متعلق گفتگو اس طرح کرے گا کہ گویا دس سال فوج کا کمانڈر انچیف رہا ہے.مگر وہ لوگ اس طرح نہیں کرتے.وہ ایک بات کو لے کر اس میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کی تہہ تک پہنچ جاتے ہیں.اور جس طرح یا جوج ماجوج کے متعلق قصہ مشہور ہے کہ وہ دیوار کو اپنی زبان سے چاہتے رہتے ہیں وہ بات ان پر صادق آتی ہے کہ ایک بات کو لے کر اس کی تحقیقات شروع کر دیتے ہیں اور جس طرح زبان کے ساتھ چاٹنے سے ایک چیز کے نہایت باریک ذرے کم ہوتے ہیں لیکن اگر لگا تار یہ فعل جاری رہے تو ایک دفعہ چاقو مار کر چلا جانے والے سے زیادہ حصہ اترے گا یہی ان لوگوں کی حالت ہے.میرے نزدیک وہ لوگ اتنے عقلمند نہیں ہیں جتنے مستقل مزاج اور استقلال سے کام کرنے والے ہیں.اس صفت کی وجہ سے وہ تو جس کام کو شروع کرتے ہیں اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور جوان سے زیادہ ہوشیار اور منظمند ہیں وہ استقلال نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہو جاتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ بھی اگر اسی طرح استقلال سے کام کرتے جائیں تو یورپ کے لوگ بہت خوشی سے زانوئے ادب ان کے آگے تہہ کریں کیونکہ ان میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ کوئی نئی بات جہاں سے ملے حاصل کی جائے.چونکہ وہ لوگ ایجادوں کی وجہ سے نئی باتیں سیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور علم حاصل کرنے کے شوقین ہیں اس لئے جب وہ کوئی نئی بات سنتے ہیں تو ان کے چہروں سے بشاشت اور آنکھوں سے مسرت ٹپکتی ہے.پس ہمارے نوجوان اگر روحانیت کے ساتھ تربیت بھی حاصل کر لیں تو ان کے لئے دنیا کو فتح کرنا نہایت آسان ہے.پس یورپ سے آپ لوگوں کے لئے جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آپ لوگ اپنے نفس کی اور ہماری مدد کریں اور اعلیٰ اخلاق سیکھیں.اگر ایسا ہو جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ احسن طریق سے دنیا میں اسلام کو قائم کیا جاسکتا ہے.میں نے ان لوگوں کو جتنا بھی کریدا ہے میرا دل یقین سے بھر گیا ہے اور میں نے انگلستان کے لوگوں سے کہا ہے کہ میں تمہیں خوش کرنے کے لئے نہیں کہتا بلکہ حقیقت کا اظہار کرتا ہوں کہ تمہاری روحانیت مری نہیں بلکہ دبی ہوئی ہے.میں نے دیکھا ہے جب بھی انہیں مذہب

Page 181

زریں ہدایات (برائے طلباء) 176 جلد سوم سے متعلق کوئی ایسی بات بتائی گئی جو ان کے لئے نئی تھی تو ان کی آنکھوں میں وہ چمک اور چہرہ پر وہ بشاشت نظر آئی جو کسی پیاسے کو پانی کے ملنے پر ہوتی ہے اور خدا کے فضل سے وہاں کامیابی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے.ایک عورت نئی احمدی ہوئی ہے جو بہت ہی جو شیلی ہے اور کل ہی اس کی طرف سے تبلیغی رپورٹ مجھے پہنچی ہے.اس نے لکھا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تبلیغی رپورٹ بھیجتی رہے گی.تو ان لوگوں میں حق کو قبول کرنے کا مادہ ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے سامنے حق رکھا جائے.وہاں کئی لوگوں سے لباس کے متعلق ذکر آیا تو انہوں نے کہا کہ ہم اس لئے ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں کہ وہ ہماری نقل کرتے ہیں.پہلے ہم ہندوستانیوں کو ایسا نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ پرانے لوگوں کی عزت کی جاتی تھی لیکن اب ان کے نقل کرنے کی وجہ سے ان کا ادب اور احترام ہمارے دلوں سے جاتا رہا ہے.اور یہ بالکل صحیح بات ہے.اگر یہاں کے لوگ اس وثوق اور یقین کے ساتھ وہاں جائیں کہ ہمیں ان پر یہ ثابت کرنا ہے کہ تمہارے غلام نہیں ہیں اور بعض باتیں جو جائز بھی ہوں ان میں بھی ان کی نقل نہ اتاریں.مثلاً پتلون پہننا ناجائز نہیں ہے مگر قومی وقار کے خلاف ہے اس لئے نہ پہنیں تو اس کا ان پر بہت اثر ہو.کئی انگریزوں نے مجھ سے اس کے متعلق سوال کیا کہ کیا پتلون پہننا آپ کے نزدیک ناجائز ہے؟ اس کے جواب میں میں نے بتایا اسلام کی رو سے منع نہیں ہے لیکن جب تم لوگ ہندوستان میں جا کر شلوار پہنو گے اُس وقت ہم بھی یہاں آکر پتلون پہن لیں گے ورنہ نہیں.گرمی میں موٹا کپڑا پہننا مشکل ہے بہ نسبت سردی میں باریک کپڑا پہنے کے کیونکہ انسانی جسم میں گرمی کی برداشت کی اتنی طاقت نہیں ہے جتنی سردی کی برداشت کی.مگر وہ لوگ یہاں آکر گرمی کے موسم میں بھی اپنے ہی کپڑے پہنتے ہیں جو موٹے ہوتے ہیں.دوسری بات جو میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ و نیوی معاملات کی طرف جو توجہ کی جائے وہ سیچ طریق سے ہونی چاہئے.میں بہت غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو انڈسٹری کی طرف بہت توجہ کرنی چاہئے.تجارت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے اور زراعت بھی ہندوؤں ہی کے ہاتھ میں ہے.یہ بات وہ سب لوگ

Page 182

زریں ہدایات (برائے طلباء) 177 جلد سوم جانتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ پنجاب کے علاوہ ہندوستان میں اور بھی علاقے ہیں.پنجاب کے مسلمان کہتے ہیں زراعت کہاں بنیوں کے پاس ہے مگر سرگودھا اور لائل پور کے علاوہ اور بھی علاقے ہیں جہاں زراعت ہندوؤں کے ہاتھ میں ہے.ہندوستان میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں کی نسبت تین گنا ہے مگر ان کے پاس مسلمانوں کی نسبت دس گنا زیادہ زمین ہے.ہندوستان کی انڈسٹری مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی مثلاً شال، ہاتھی دانت کا کام، بنارسی دوپٹے ، چڑے وغیرہ کا کام اور اگر چہ اب ہندوؤں نے اس طرف بھی توجہ کی ہے مگر وہ اس کام میں نئے نئے داخل ہورہے ہیں.مسلمان اب بھی ان سے سبقت لے جاسکتے ہیں.پھر نئی قسم کی صنعت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.مگر ہمارے ملک کے لوگوں میں یہ عیب ہے کہ وہ ابتدائی مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں حالانکہ آخری کامیابی ابتدائی مشکلات کے بعد ہی حاصل ہو سکتی ہے اور وہ عام طور پر ملازمتوں کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.دوسرے لوگوں نے تو کچھ کرنا نہیں ہماری جماعت کے نوجوانوں کے لئے صنعت و حرفت کا میدان کھلا ہے.بنگال میں پانچ سال سے یہ تحریک شروع ہوئی ہے مگر انگریزوں کو اعتراف کرنا پڑا ہے کہ تھوڑے تھوڑے سرمایہ سے کام شروع کرنے والوں نے یورپ کو نقصان پہنچا دیا ہے.مثلاً صابن سازی کا کام شروع کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جرمن، آسٹرین اور جاپانی کارخانوں والے لکھیاں مار رہے ہیں اسی طرح ہندوستان میں سالانہ سیاہی کئی کروڑ روپیہ کی صرف ہوتی ہے اس کے متعلق بھی بنگال میں کوشش شروع کی گئی ہے.اسی طرح ٹین لاکھوں روپیہ کا ولایت سے آتا ہے اب بہت سا بنگال میں تیار ہونے لگا ہے.نب کثرت سے یورپ سے آتے تھے، اب ہندوستان میں بننے لگے ہیں.دیا سلائی بنانے میں اگر چہ کامیابی نہیں ہوئی مگر کارخانے جاری ہو گئے ہیں.یہ وہ کام ہیں جو سو روپیہ سے لے کر ہزار روپیہ تک کے سرمایہ سے شروع کئے جاسکتے ہیں اور ان کاموں میں اتنا نفع ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی تکلیف کے بعد زیادہ آرام مل سکتا ہے.اگر ہمارے نوجوان اپنے آپ کو ایسے کاموں میں لگائیں تو گو شروع میں انہیں تکلیف ہوگی مگر آخر میں اپنے لیے اور جماعت کے لئے مفید ثابت ہوں گے اور ایسا رستہ نکل سکتا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں

Page 183

زریں ہدایات (برائے طلباء) 178 جلد سوم کے مظالم اور زیادتیوں سے بچ سکتے ہیں کیونکہ جب کوئی حب قومی رکھنے والا صنعت و حرفت کے کسی کارخانہ کا مالک ہوگا تو وہ قومی لوگوں کو فائدہ بھی پہنچائے گا.اور جب یہاں کارخانے جاری ہو جانے کی وجہ سے باہر سے مال آنا بند ہو جائے گا تو مسلمانوں کی تجارت اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں مگر یہ کام ہو سکتا ہے تعلیم یافتہ لوگوں کے ذریعہ جو نئے علوم سے اور دنیا کے حالات سے واقف ہوں اور معلوم کرتے رہیں کہ اور لوگ کیا کر رہے ہیں.اس طرح جماعت کو بھی بہت مدد مل سکتی ہے اور تبلیغ میں بھی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.پس یہ ضروری امر ہے جس کی طرف کا لجوں کے طلباء کو نیز سکول کے طلباء کو بھی کہ وہ بھی اس وقت موجود ہیں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.انٹرنس تک کی تعلیم حاصل کردہ بھی اگر ہوشیار ہو تو کام چلا سکتا ہے.ہندوؤں اور سکھوں میں تو بی اے پاس بھی چھوٹی چھوٹی دکانیں شروع کر دیتے ہیں مگر مسلمانوں میں یہ بات نہیں ہے.میں چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے نوجوان اس طرف توجہ کریں یہ نسبت اس کے کہ گورنمنٹ کی ملازمت تلاش کرتے پھریں.گورنمنٹ کی بڑی سے بڑی ملازمت گورنمنٹ کے بدلنے پر بیچ ہو جاتی ہے مگر ایک ڈاکٹر ڈاکٹر ہی رہے گا خواہ کوئی گورنمنٹ ہو.اسی طرح صناع ہر جگہ کام کر سکتا ہے اور اس قسم کے علوم تبلیغ کے لئے بھی بہت مفید ہو سکتے ہیں.ایک کلرک باہر جا کر کام نہیں کر سکتا مگر ایک درزی جہاں جائے کام کر سکتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو صنعت و حرفت کی طرف خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے.یہ ایسا میدان ہے جو دینی اور دنیوی لحاظ سے ان کے لئے مفید ثابت ہوسکتا ہے.آخر میں میں اپنی جماعت کے بچوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص اور روحانیت میں ترقی دے.انہیں اپنے ارادوں کو پورا کرنے کی توفیق دے.ان کے لئے سامان پیدا کرے.ان پر اپنی برکات نازل کرے.اس دنیا میں بھی اور آئندہ بھی.“ ( الفضل 6 دسمبر 1924) 1 آل عمران: 201

Page 184

زریں ہدایات (برائے طلباء) 179 جلد سوم اساتذہ وطلباء مدرسہ احمدیہ سے خطاب 25 نومبر 1924ء کو بعد نماز مغرب اسا تذہ و طلباء ہائی سکول قادیان نے سکول کے بورڈنگ کے ڈائٹنگ ہال میں حضرت خلیفہ السیح الثانی ، آپ کے رفقائے سفر اور بہت سے دیگر اصحاب کو دعوت طعام دی.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.اس وقت جو ایڈریس مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ساتھ تعلق رکھنے والے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے پڑھا گیا ہے اس کے متعلق اپنی طرف سے اور ہمراہیان سفر کی طرف سے جَزَاكُمُ الله اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو اس سکول کے متعلق میرے دل میں ہیں.جیسا کہ اس ایڈریس میں اشارہ کیا گیا ہے میں خود بھی اس سکول کا طالب علم ہوں اس وجہ سے مجھے طبعی طور پر اس سکول کے ساتھ انس ہے.دنیا میں انس دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک مذہبی اور دوسرے طبعی.مذہبی طور پر تو مجھے ہر اس کام سے انس ہے جو سلسلہ احمدیہ سے متعلق ہے.اور ایک اس صیغہ سے ہے جس کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں ہوا.اور ہر اس شخص کو ہونا چاہئے اور ہے جو جماعت احمد یہ میں داخل ہے.لیکن اس کے علاوہ ایک طبعی تعلق ہوتا ہے جو طبعی وجوہ کی بناء پر ہوتا ہے.مثلاً وہ ہندو طلباء جو اس سکول میں پڑھتے رہے ہیں انہیں اس سکول کے ساتھ اس لئے لگاؤ اور محبت نہیں ہوگی کہ اسے حضرت مسیح موعود نے قائم کیا ہے یا اس لئے کہ یہ جماعت احمدیہ کا مرکزی سکول ہے اور نہ اس لئے کہ اس کے ذریعہ اس امر کی کوشش کی جاتی ہے کہ احمدیت کی اشاعت کرنے والے پیدا کئے جائیں.پھر نہ

Page 185

زریں ہدایات (برائے طلباء) 180 جلد سوم اس وجہ سے کہ اس سکول کے بچوں میں احمد یہ اخلاق قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.مگر پھر بھی انہیں سکول سے انس ہوگا.کیونکہ کسی جگہ کچھ عرصہ رہنا، بیٹھنا اور سبق پڑھنا ایسی باتیں ہیں کہ جن کا طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے اور اس وجہ سے اس جگہ کو وہ محبت کی نظر سے دیکھتا ہے.دیکھو وطن کی محبت کیا چیز ہے؟ وطن سے تعلق کی کوئی اخلاقی اور مذہبی وجہ نہیں ہے مگر جب انسان اپنے ملک کو اپنے شہر کو اپنے محلہ کو یا اپنے گھر کو چھوڑتا ہے تو اسے تکلیف محسوس ہوتی ہے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ ایک شخص جو سالہا سال ایک گھر میں رہتا ہے اسے علم بھی نہیں ہوتا کہ مجھے اس گھر سے محبت ہے.اور اگر کوئی اس سے پوچھے کہ کیا تمہیں اس مکان سے محبت ہے؟ تو وہ کہے گا اینٹوں اور پتھروں سے کیا محبت ہو سکتی ہے.لیکن اگر دس پندرہ سال رہنے کے بعد اسے وہ مکان چھوڑنا پڑے تو اُس وقت معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کیا حال ہے.اُس وقت اس کی آنکھوں کی روشنی ، چہرہ کا رنگ، ہاتھوں کی حرکت سب یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اس کا دل درد محسوس کر رہا ہے اور وہی گھر جس کے متعلق وہ کہتا تھا کہ اس کی اینٹوں اور لکڑیوں سے کیا محبت ہو سکتی ہے اس کی ایک ایک اینٹ ، ایک ایک لکڑی، ایک ایک دروازہ اور دروازوں کی ایک ایک کنڈی غرضیکہ اس مکان کی ہر ایک چھوٹی بڑی چیز مختلف جذبات اس کے اندر پیدا کر رہی ہوگی.اور اسے یوں محسوس ہو گا کہ اس کے لئے ایک ہی راحت کا سامان تھا اور وہ گھر تھا جسے چھوڑ رہا ہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ طبعی وابستگی بھی بہت بڑا اثر رکھتی ہے.پس اس سکول سے مجھے جو تعلق ہے اور میں اس میں پڑھتارہا ہوں اس کی وجہ سے مجھے اس سے طبعی انس اور لگاؤ ہے اس لئے یہ ایڈریس جو اس وقت دیا گیا ہے اسے میں خاص طور پر اور خصوصیت کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں.کیونکہ اس نے مجھے ان ایام گزشتہ اور زمانہ سلف کی یاد دلا دی ہے جب میں طالب علم کی حیثیت سے اس سکول میں آتا اور اس میں پڑھانے والے مدرسوں سے سبق حاصل کرتا تھا.بچپن کا زمانہ بھی عجیب زمانہ ہوتا ہے اور اس کی کیفیات بھی عجیب ہوتی ہیں.بعض شاعروں نے تو نظموں کی نظمیں اس امر پر لکھ دی ہیں کہ سب سے بہترین زمانہ بچپن کا زمانہ ہے مگر میں اس سے متفق نہیں کیونکہ بچپن کی خوشی جہالت کی خوشی ہوتی

Page 186

زریں ہدایات (برائے طلباء) 181 جلد سوم ہے اور ایسی خوشی کوئی خوشی نہیں ہوتی.البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ راحت کی زندگی وہی ہوتی ہے.اُس وقت موجودہ اور وقتی ضروریات کے علاوہ کسی چیز کی قدرو منزلت نگاہوں میں نہیں ہوتی.مجھے ہمیشہ وہ واقعہ خاص طور پر غمگین کر دیا کرتا اور قلب کے بار یک دربار یک جذبات کو ابھار دیا کرتا ہے جو میں نے ایک دفعہ اخبار میں پڑھا کہ ایک عورت رات کو مرگئی.وہ بیچاری اکیلی ہی تھی.اس کا خاوند پہلے ہی مر چکا تھا اور اس کا کوئی اور رشتہ دار اس کے پاس نہ تھا وہ اکیلی ہی اپنے گھر میں رہتی تھی اور اس کا ایک چھوٹی عمر کا بچہ تھا.رات کو وہ بچہ کو لے کر سوئی.لیکن ایسا حادثہ ہوا کہ رات کو ہی مرگئی.بچہ جب صبح کو اٹھا اور ماں کو لیٹے ہوئے دیکھا تو اس نے ماں کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا اٹھو.لیکن جب ماں نے کوئی جواب نہ دیا تو اس نے سمجھا ماں مجھ سے ناراض ہے اس لئے جواب نہیں دیتی.وہ بار بار اس کے منہ پر ہاتھ پھیرے اور کہے اٹھو.اسی طرح وہ قریباً آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ کرتا رہا کہ کوئی ہمسایہ کسی ضرورت کے لئے اس گھر میں آیا تو اس نے دیکھا کہ بچہ ماں سے کھیل رہا ہے اور نفسی کر رہا ہے مگر وہ مری پڑی ہے.دیکھو اس بچہ کی خوشی کیسی دردناک خوشی تھی.ایک سمجھدار اور عقلمند انسان کے نزدیک یہ خوشی ہزار غم سے بھی بڑھ کر غمگین کرنے والی تھی.مگر بچہ کے نزدیک ایسی ہی خوشی تھی جیسی ایک عقلمند کو حقیقی طور پر خوش کن بات سے ہوتی ہے.کیا کوئی ہے جو بچہ کی اس خوشی پر رشک کرے؟ ہرگز نہیں.بلکہ ہر ایک سمجھدار انسان کو اس کے خیال سے درد پیدا ہو گا.پس میں ان شاعروں سے متفق نہیں ہوں جو کہتے ہیں بچپن کا زمانہ حقیقی راحت اور حقیقی خوشی کا زمانہ ہے.میرے نزدیک یہ زمانہ راحت کا زمانہ ہے مگر حقیقی راحت کا نہیں.ہاں اس زمانہ کے اثرات ایسے پختہ ہوتے ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتے.خواہ ان پر سو سال ہی گزر جائیں پھر بھی انسان انہیں شوق اور دلچپسی کی نگاہ سے دیکھتا ہے.شوق کی نگاہ سے تو وہ ان کو دیکھتا ہے جو جہالت کی خوشیاں ہوتی ہیں اور دلچسپی کی نگاہ سے ان کو جو اس زمانہ میں بیج پھینکتا ہے.اپنی یا سو سالہ زندگی میں جب وہ ان اثرات کو دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ آج جو نتائج پیدا ہور ہے ہیں وہ اُس بیچ کا نتیجہ ہیں جو بچپن میں ڈالا گیا تھا.اور درخت خواہ کتنا بلند و بالا ہو جائے اور کس قدر پھیل جائے مگر پھر بھی وہ بیج کی

Page 187

زریں ہدایات (برائے طلباء) 182 جلد سوم وابستگی کو اپنے سے جدا نہیں کر سکتا.اسی طرح انسان خواہ کتنا بڑا ہو جائے اور خواہ کتنی ترقی کر جائے ، کتنا ہی بڑا عالم ہو جائے اس زمانہ کو نہیں بھول سکتا جو اس کی ترقیوں کے لئے بیج کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی تمام ترقیوں کے راز اسی میں پوشیدہ ہوتے ہیں.طبعی اور قدرتی طور پر مجھے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے وابستگی ہے اور ایسی وابستگی ہے جو کبھی قطع نہیں ہوسکتی.بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں جو قلب پر بڑا اثر کرتی ہیں اور زمانہ بچپن کے چھوٹے چھوٹے نقطے ہوتے ہیں جو آئندہ زندگی میں عظیم الشان تغیر کرتے ہیں.میں نے اسی سال الفضل میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں اپنی زندگی پر ریویو کیا تھا اور بتایا تھا کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتیں عظیم الشان تغیر پیدا کرنے کا باعث ہوئیں.میں محسوس کرتا ہوں کہ بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں بعض احباب اور اساتذہ نے زمانہ بچپن میں مجھ سے کہیں مگر انہوں نے میری آئندہ زندگی پر ایسا گہرا اثر ڈالا جو کبھی مٹ نہیں سکتا اور بعض باتوں کا تو مجھے اس وقت تک بعینہ وہ نظارہ یاد ہے جو ان باتوں کے وقت تھا.ایک استاد جواب فوت ہو چکے ہیں اور جن سے بہت ہی تھوڑا عرصہ میں نے پڑھا شاید ایک ہفتہ یا ایک آدھ دن کم یا زیادہ مگر مجھے وہ کمرہ نہیں بھولتا جس میں کھڑے ہو کر اور وہ لڑکے نہیں بھولتے جوارد گرد کھڑے تھے، وہ نقشہ نہیں بھولتا جو دیوار پر لٹکا ہوا تھا، وہ جگہ نہیں بھولتی جہاں میں کھڑا تھا.اُس وقت انہوں نے مجھے ایک چھوٹی سی بات بتائی تھی جو آج تک مع اُس لمحہ کے سارے نظارہ کے جب مجھے بتائی گئی نہیں بھولی.اور اس کا مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں نے اسے اپنا شعار بنا لیا.اب بھی وہ کمرہ ، وہ شعور ، وہ کیفیات بلکہ احوال ظاہری کے ساتھ میری نظروں کے سامنے ہے.وہ وہی کمرہ ہے جو ایک شیر فروش کی دکان کے سامنے ہے اور اب اس میں درزی خانہ ہے.اسی طرح اور بہت سے نظارے ہیں جو مجھے یاد ہیں.پس چونکہ اس سکول کے ساتھ مجھے خاص وابستگی ہے اس لئے خصوصیت کے ساتھ میں اس ایڈریس پر اپنے خیالات میں ہیجان اور لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں اور اسی احساس، شعور، دلچسپی اور وابستگی کے ساتھ جو مجھے اس سکول سے ہے.اس سکول | کے طلباء کو نصیحت کرتا ہوں کہ در حقیقت انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں.جب تک ان دونوں کو

Page 188

زریں ہدایات (برائے طلباء) 183 جلد سوم مد نظر نہ رکھا جائے کوئی کامیابی نہیں حاصل ہو سکتی.ان میں سے ایک پہلو تو اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ اس سے زیادہ حقیقت کوئی نہیں جو انسان کی زندگی ہے جب تک ان دونوں پہلوؤں کو مد نظر نہ رکھا جائے کہ انسان کی زندگی ایسی حقیقت ہے جیسی اور کوئی حقیقت نہیں اور دوسرے یہ کہ انسانی زندگی ایک گزر جانے والے افسانہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی اُس وقت تک کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا.دنیا میں یہ خوشی ہرگز خوشی کہلانے کی مستحق نہیں ہے کہ انسان دوسرے کی کامیابی پر مبارک باد کہے یا دوسرے کی ناکامی پر افسوس کرے.خوشی کیا ہے؟ یہ کہ جو ہم چاہتے ہیں وہ حاصل ہو گیا.اور رنج کیا ہے؟ یہ کہ جو نہیں چاہتے تھے وہ ہو گیا.تو خوشی کے معنے یہ ہوئے کہ ہمارے مقصد اور مدعا کے مطابق کوئی امر ہو.اور رنج مقصد کے خلاف ہونے کا نام ہے.جب یہ بات ہے تو کیا کوئی اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ دوسرے نے اس مقصد کو پورا کیا اور وہ محروم رہا؟ یا اس امر پر افسوس کر سکتا ہے کہ دوسرے کے مقصد کے خلاف جو بات تھی وہ ہوگئی ؟ حقیقی خوشی خود مقصد کو حاصل کرنے اور حقیقی رنج اس مقصد سے محروم رہنے کا نام ہے.پس ہر ایک انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ خود اپنے اصل مقصد کو حاصل کرے.اور جو باتیں اس کے مقصد کے خلاف ہوں ان کو دور کرے.جو ایڈریس اس وقت دیا گیا ہے اس کے اندر وہ حقیقت مخفی ہے جسے پیش کرنے والوں نے اپنی زبانوں اور لفظوں اور طریق سے بھی ظاہر کیا ہے یعنی الفاظ کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ واضح طور پر.جو دعوت اس وقت دی گئی ہے یا جو زیب و زینت کے سامان اس وقت اس کمرہ میں مہیا کئے گئے ہیں ان سامانوں کی زیب و زینت ، دعوت طعام اور اظہارِ خیالات یہ ہ باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ جن کی طرف سے یہ سب کچھ کیا گیا ہے ان کا مدعا اور مقصد بھی یہی ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلائیں اور اسلام کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں.اگر یہی مقصد ہے اور عقل کہتی ہے کہ یہی ہے تو اُس وقت تک حقیقی خوشی نہیں پیدا ہو سکتی اور نہ ہونی چاہئے جب تک اس مقصد کو حاصل نہ کر لیں.دوسروں کو اس مقصد کی تکمیل کرتے

Page 189

زریں ہدایات (برائے طلباء) 184 جلد سوم دیکھنا ، دیکھنے والے کے لیے حقیقی خوشی نہیں ہو سکتی.بلکہ اگر ان میں حس ہو تو ان میں اور زیادہ احساس پیدا ہو جائے گا.ایک پیاسا اگر کسی کو پانی پیتا دیکھے تو اس کی پیاس بجھ نہیں جائے گی بلکہ اور تیز ہوگی.پس اگر یہ ایڈریس جو اس وقت پیش کیا گیا ہے اپنے مطالبات کے لحاظ سے صحیح ہے اور یہ جو اظہار خوشی کی گئی ہے حقیقی ہے تو اس سکول کے ہر مدرس اور ہر طالب علم یا ہر اس شخص کا جو کسی نہ کسی طرح اس کے ساتھ وابستہ ہے فرض ہے کہ اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کرے.سکول کے طالب علم سکول کو چھوڑ کر انگلستان یا امریکہ میں تبلیغ کے لئے نہیں جاسکتے اور وہ تبلیغ بھی ایسی نہیں کر سکتے جو موثر ہو.لیکن ایک چیز ہے جو خاص طالب علموں سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.یعنی یہ کہ وہ اپنی زندگی کے متعلق سمجھیں کہ اس کی بناء پر ہم نے آئندہ کام کرنا ہے.اور اس وقت جو کچھ کریں گے وہ آئندہ زندگی کے لئے بیج ہوگا.اگر بیچ میں سبزی پیدا کرنے ، تنومند درخت بنے اور سایہ دار درخت ہونے کی طاقت نہیں تو کوئی پانی اور کوئی کوشش اس میں یہ باتیں نہیں پیدا کر سکتی.اسی طرح جس میں بچپن کے زمانہ سے دین کی خدمت کا بیج اور مادہ نہ ہو وہ بڑا ہو کر دین کی خاص خدمت نہیں کر سکتا.اور کوئی کوشش اس سے دینی کام کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی.ہاں نئی پیدائش اس سے کر سکتی ہے.مگر وہ اس دنیا میں نہیں ہوا کرتی بلکہ وہ اگلے زمانہ میں قبر، برزخ ، حشر اور دوزخ کے گزرنے کے بعد ہوتی ہے.وہ بہت دور کی دنیا ہے.اور خدا تعالیٰ جس کے نزدیک عرصہ اور مدت کی کوئی ہستی ہی نہیں وہ اسے خلود اور ابد آباد کہتا ہے.وہاں نئی پیدائش ہوگی.مگر اس دنیا میں نہیں ہوگی.یہاں وہی کوشش کام آئے گی جو بچپن میں کی گئی ہے.اور جس طرح جسمانی بناوٹ پیدائش کے بعد بدل نہیں سکتی بلکہ جو ماں کے پیٹ میں ہو گیا وہ ہو گیا اسی طرح بچپن کی پیدائش بڑے ہو کر بدل نہیں سکتی.جو ہو گیا سو ہو گیا.پالش کسی قدر چیز کو بدل دیتا ہے مگر اصل کو نہیں بدل سکتا.اسی طرح صابن میل کو تو دور کر سکتا ہے مگر ایک حبشی کو گورا نہیں بنا سکتا.پس جو تربیت بچپن میں انسان کی ہوتی ہے وہ ایسا بیج ہوتا ہے کہ اگر اس میں ترقی کی طاقت نہ ہو تو انسان کو ئی عظیم الشان تغیر نہیں پیدا کر سکتا.یہ ایک بار یک بات ہے اور اس کا اظہار مفید نہیں کیونکہ طلباء اس کو سمجھ نہیں

Page 190

زریں ہدایات (برائے طلباء) 185 جلد سوم سکتے.اور بعض دوسرے لوگ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ بیچ کا اندازہ کس طرح لگایا جاسکتا ہے.اور یہ نہایت باریک مسئلہ ہے کہ کس طرح بچپن کے بیج کو حج کیا جاتا ہے اس لئے میں اسے بیان نہیں کروں گا.مگر یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ جو شعور بچپن کے زمانہ میں انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے اسی کے ماتحت وہ زندگی بسر کرتا ہے.اور اگر ہمارے طالب علموں کو دین کا شعور ہو تو | ایسی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں گے جس کی ایک مسلمان سے توقع ہو سکتی ہے.پس میں سکول کے استادوں اور تعلق رکھنے والوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اگر ان کے یہ خیالات سطحی نہیں بلکہ حقیقی ہیں، عارضی نہیں بلکہ مستقل ہیں، عام رو کے ماتحت نہیں بلکہ دلی ہیں تو انہیں چاہئے کہ طالب علموں کی زندگیوں کو اس طرح بنائیں کہ وہ بڑے ہو کر ایسے سایہ دار درخت بن سکیں جن کے سائے کے نیچے حقیقت کے پانے والے آرام کرسکیں.میں نے بتایا ہے کہ زندگی کے دو بہت بڑے مقصد ہیں جو انسان کو مد نظر رکھنے چاہئیں.ایک یہ کہ اس زندگی سے بڑھ کر اور حقیقت نہیں ہے.اور دوسرے یہ کہ یہ زندگی و ہم سے زیادہ نہیں ہے.شاید بعض لوگوں کو یہ بات سمجھ نہ آئی ہو.میرا مطلب اس سے یہ ہے کہ انسانی کامیابیوں کے لئے جس قدر انسان کی اپنی ذات تعلق رکھنے والی ہے اور کوئی چیز نہیں.حتی کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں بھی اُسی وقت ظاہر ہوتی ہیں جب انسان کے اندر ان کے لئے تڑپ ، خواہش، محبت، جذب اور درد پیدا ہو.پس اللہ تعالیٰ جو رحمان، رحیم ، مجید اور محسن ہے اس کے فیوض بھی نازل ہونے بند ہو جاتے ہیں اگر انسان ان کے لئے کوشش نہ کرے.اور وہ چہرہ جو چاہتا ہے کہ لوگ اُسے دیکھیں اور وہ نور جس کا مقصد یہ ہے کہ چمکے اور لوگوں کو منور کرے وہ بھی نازل نہیں ہوتا جب تک انسان اس کے لئے کوشش نہ کرے.اس لئے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے سب سے بڑی حقیقت اس کی اپنی ذات ہے.اگر اس میں رو، جذب اور کشش نہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی کوئی برکت اس پر نازل نہیں ہوتی.لیکن اس کے مقابلہ میں اس میں بھی شبہ نہیں کہ انسانی زندگی سے زیادہ وہمی اور بے حقیقت اور کوئی چیز نہیں.انسان کے جذبات اور تفکرات محض وہم ہوتے ہیں جو پیش آمدہ حالات کے ماتحت بدلتے رہتے ہیں.میں نے

Page 191

زریں ہدایات (برائے طلباء) 186 جلد سوم رستہ میں ہی اس امر پر خطبہ پڑھا تھا اور کہا تھا دیکھو ایک وقت انسان سمجھتا ہے کہ اگر میں نے یہ بات نہ کی یا فلاں بات کا بدلہ نہ لیا تو میں زندہ ہی نہیں رہ سکتا.اس کے دوست اور رشتہ دار آتے ہیں اور اسے سمجھاتے ہیں مگر وہ نہیں مانتا.پھر وہ وقت گزر جاتا ہے اور جس بات کو وہ زندگی سمجھتا تھا بھول جاتی ہے اور بسا اوقات وہ خیال کرتا ہے کہ اگر میں معاف کر دیتا تو کیا اچھا ہوتا.اس وقت وہ ندامت غم اور رنج محسوس کرتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ جب انسان کسی بات کو حقیقت سمجھ رہا ہوتا ہے وہ اصل میں حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ اگر حقیقت ہوتی تو نہ بدلتی.بات یہ ہے کہ جوشوں سے ایک بات پیدا ہو جاتی ہے جسے حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے.پس انسان کی زندگی محض وقتی جوشوں اور وقتی خیالات کے ماتحت ہوتی ہے اور اکثر اوقات حقیقت سے دور ہوتی ہے إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ سولاس کے کہ انسان اس ہستی کے ماتحت ہو جاوے جو کسی قسم کے افکار و حوادث کے ماتحت نہیں ہے نہ موجودہ سے موثر ہوتی ہے، نہ ماضی کا اس پر اثر پڑتا ہے ، نہ آئندہ کا.جب انسان اپنے آپ کو اس کا عکس بنا لیتا ہے تب حقیقی زندگی حاصل ہوتی ہے.اور پھر ایسے لوگوں میں نہ قوت فاعلی رہتی ہے نہ انفعالی جیسی کہ دوسرے لوگوں میں ہوتی ہے.اس لئے وہ ہر چیز کو اس کی قدر کے مطابق دیکھتے ہیں.مگر یہ ان کی زندگی کی خوبی نہیں ہوتی.کیونکہ یہ بات انہیں اُس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ کہتے ہیں اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَاءَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ العلمين 1 پس سب سے ضروری بات جو انسان کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ وہ سمجھے اس کے ہر ایک فعل کا نتیجہ نکلے گا اور کوئی فعل ضائع نہ ہوگا.پھر یہ بھی کہ وہ وقتی حالات اور اثرات کے ماتحت جہالت کے گڑھے میں گر جاتا ہے اس لئے اسے ایسے ہادی اور راہنما کی ضرورت ہے جو ان جذبات اور افکار سے اسے آزاد کرائے.ان دو باتوں کے سمجھنے سے انسان اپنے مقصد کو پا لیتا اور کامیاب ہو جاتا ہے.یہ دونوں حقیقتیں طالب علموں کو اور دوسرے لوگوں ں کو مد نظر رکھنی چاہئیں.اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کی زندگیاں موجودہ زمانہ کے تاثرات کا نقشہ نہ ہوں گی بلکہ ایسی حقیقی زندگیاں ہوں گی جو دوسروں پر بھی اپنا اثر ڈالیں گی.میں سمجھتا ہوں کہ ایڈریس میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان کے لئے مجھے کچھ اور

Page 192

زریں ہدایات (برائے طلباء) 187 جلد سوم کہنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ اپنا مطلب آپ ادا کر رہے ہیں.وہ نئے ہیں کیونکہ وہ نئے مونہوں سے نکلے ہیں.اور وہ پرانے ہیں کیونکہ کئی بار روشنی میں آچکے ہیں.اس لئے میں کچھ اور نہیں کہنا چاہتا.مگر ان خیالات پر جو روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس کے متعلق جہاں تک صحت نے مجھے اجازت دی بلکہ اس سے بھی زیادہ کہہ چکا ہوں.اور اب دعا کرتا ہوں کہ اگر وہ باتیں جو بیان کی گئی ہیں صحیح ہیں تو خدا تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق بخشے.اور اگر غلط ہوں (الفضل 9 دسمبر 1924) تو ان کی اصلاح کی توفیق دے.“ 1: الانعام: 163

Page 193

زریں ہدایات (برائے طلباء) 188 جلد سوم احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے سکول کا قیام 17 مارچ 1925ء کو حضرت خلیہ اسیح الثانی نے قادیان میں احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے سکول کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.دو تعلیم کا مسئلہ ایک ایسا اہم اور ضروری مسئلہ ہے کہ جہاں تک ہم دیکھتے ہیں انسانی تاریخ کی ابتدا سے ہی ہمیں انسان اس طرف توجہ کرتے معلوم ہوتے ہیں.انسان کی پیدائش کے بعد سب سے پہلا کام یا انسان کے انسان بننے کے بعد سب سے پہلا سلوک جو اللہ تعالیٰ نے کیا وہ یہ ہے کہ وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء كُلَّهَا 1 آدم علیہ السلام کو حقیقت اشیاء کی بتلائی گئی.در حقیقت نام سے اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کو پہچنوایا جائے اور پہچنوانے سے یہی مراد ہوتی ہے کہ کسی چیز کی حقیقت معلوم ہو.ایک چیز کو دوسری چیز کے مقابلہ میں اسی طرح پہچانا جاتا ہے کہ فلاں چیز میں یہ یہ گن اور یہ یہ صفات ہیں اور فلاں میں یہ.مثلاً آم اور خربوزہ ہے ان کی شکل اور مزے کے اختلاف سے ہی ان کو پہچانا جاتا ہے.اگر ان کے گن اور صفات الگ الگ نہ ہوتے تو ان میں امتیاز نہ کیا جا سکتا.یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں جو ابتدائی نام الہامی طور پر اشیاء کے رکھے گئے ہیں وہ ان اشیاء کی حقیقت پر دلالت کرتے ہیں.پس عَلمَ ادم الاسماء کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ حضرت آدم پر حقیقت اشیاء ظاہر کی گئی.اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارا فلسفہ، ساری سائنس اور ہر ایک چیز کے متعلق پورا پورا علم انہیں سکھایا گیا بلکہ جس قدر اُس زمانہ میں کام چلانے کے لئے ضرورت تھی اُسی قدر اشیاء کے متعلق انہیں علم سکھایا گیا اور اس سے ظاہر ہو گیا کہ تمام علوم کی ابتدا الہام کے ذریعے ہوئی ہے.پہلی چیز جس کی

Page 194

زریں ہدایات (برائے طلباء) 189 جلد سوم بنیاد انسان کی پیدائش کے بعد رکھی گئی وہ علم ہے.اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے ساری چیزیں ابتدا میں خود بنائی ہیں اور پھر ان کی ترقی انسان کے سپرد کی ہے اسی طرح علم کی بنیاد خدا تعالیٰ نے خود رکھی اور اس کی ترقی انسان کے سپرد کر دی.پہلا آدم خدا تعالیٰ نے خود بنایا آگے ترقی انسانوں کے سپرد کر دی.پہلے آگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی پھر اس کو قائم رکھنا انسان کے سپرد کر دیا.اسی طرح تمام اشیاء کی ابتدا خدا تعالیٰ نے خود قائم کی اور انہیں آگے ترقی انسان نے دی.یہی حال علم کا ہے.پہلے علم خدا تعالیٰ نے دیا آگے اس میں ترقی انسان کرتے گئے.اسے بڑھاتے گئے اور ہم برابر ابتدا سے اب تک دیکھتے چلے آتے ہیں کہ انسان علم میں ترقی کرتا جا رہا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اس قسم کے بھی موجود ہوتے ہیں جو علوم کی قدر نہیں کرتے اور ایسے وجود بھی ابتدا سے ہی چلے آئے ہیں.ایسے وجودوں کا نام ابلیس رکھا گیا ہے یعنی نا امیدی میں مبتلا رہنے والا.در حقیقت امید ہی تمام علوم کو بڑھانے اور ترقی دینے والی ہوتی ہے اور جتنی زیادہ امید ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ علوم میں ترقی کی جاسکتی ہے.امید کا لفظ ہمیں دو باتیں بتلاتا ہے.ایک تو یہ کہ انسان کے لئے ترقیات کے رستے کھلے ہیں.اور دوسری یہ کہ ہم ان ترقیوں کو حاصل کر سکتے ہیں.پس جب ہم امید کا لفظ بولتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ترقی کا رستہ کھلا ہے اور ہمیں بہت کچھ مانا باقی ہے.پھر یہ لفظ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ جو باقی ہے وہ ہمیں مل بھی سکتا ہے.اور نا امیدی کے معنی ہیں ہے تو سہی دنیا میں بہت کچھ مگر ہمیں مل نہیں سکتا.پس علم سیکھنا اور علم میں ترقی کرنا امید کے ساتھ وابستہ ہے.اگر کسی کو امید ہوگی تو وہ علم سیکھے گا.اور اگر نہیں ہوگی تو نہیں سیکھے گا.ابلیس کے معنے یہی ہیں کہ اس نے علم حاصل نہ کیا.اس نے سمجھا کہ جو کچھ مل سکتا تھا وہ مجھے مل گیا اور جو مجھے نہیں ملا وہ کسی کو نہیں مل سکتا.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی امید منقطع ہوگئی.خدا تعالیٰ اس کے متعلق فرماتا ہے آبی وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ 2 اس نے کہا کہ میں اس مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا کہ علم سیکھوں.استکبار کے معنی کسی چیز کو بڑا سمجھنے کے بھی ہیں.اس نے اس کو بڑا سمجھا کہ یہ کہاں ممکن ہے یہ باتیں سیکھی جاسکیں چونکہ سب

Page 195

زریں ہدایات (برائے طلباء) 190 جلد سوم ڈھکوسلے ہیں اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ میں آدم کا شاگرد بنوں.اس انکار علم کی وجہ سے وہ محروم ہو گیا اور محروم ہونے کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ ذلیل ہو گیا.اور آدم جس نے علم حاصل کیا تھا اس کی نسل غالب آگئی.اب بھی ہم دیکھتے ہیں دنیا میں عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء کا سلسلہ جاری ہے.ایک قوم علوم کے حصول میں کوشش کرتی ہے اور نئی نئی باتیں نکالتی رہتی ہے.اور ایک دوسری کہتی ہے یہ کہاں ممکن ہے کہ کوئی نیا علم نکلے.اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ علم میں ترقی کرنے والی تو میں غالب آ رہی ہیں اور دوسری ذلیل ہو رہی ہیں.جب یورپ والے توپ اور بندوق کی ایجاد کر رہے تھے تو ایشیا والے کہتے تھے یہ کہاں ممکن ہے کہ کوئی ایسی چیز بھی بن سکے جو دور سے دشمن کو مارے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ والے ترقی کر گئے اور ایشیا والے گر گئے.پس یہ سمجھنا کہ فلاں بات حاصل نہیں ہو سکتی انسان کو ابلیس بنا دیتا ہے.اور پھر ایسے انسان سے دنیا میں وہی سلوک ہوتا ہے جو آدم کے مقابلہ میں ابلیس سے ہوا.جس طرح ابلیس کو نکال دیا گیا اسی طرح ایسے انسانوں کو بھی دنیا سے نکال دیا جاتا ہے.اور دنیا سے نکال دینے کا یہ مطلب ہے کہ ایسی قوم مٹادی جاتی ہے یا ذلیل اور خوار کر دی جاتی ہے.اب چونکہ یورپ والے آدم کا کام کر رہے ہیں ، نئے نئے علوم دریافت کرتے اور تمام علوم کو ترقی دے رہے ہیں اس لئے وہ ترقی کر رہے ہیں اور وہ لوگ جو علوم کی طرف توجہ نہیں کرتے اور نئے علوم نہیں نکالتے وہ مٹ رہے ہیں.امریکہ کے اصلی باشندوں کو دیکھو ان کی کیا حالت ہے.اسی طرح آسٹریلیا میں پرانی نسل کے کروڑوں انسان تھے مگر اب شاید چند ہزار رہ گئے ہوں گے.عقلی طور پر ہندوستانیوں کا بھی یہی حال ہے.گو وہ ہندوستان سے نکالے نہیں گئے مگر ان پر بھی حکومت انہی لوگوں کی ہے جنہوں نے علوم کو ترقی دی.ان قوموں کا یہ حال کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ انہوں نے علم سے استکبار کیا.مختلف زمانوں میں ابلیس مختلف رنگ اختیار کرتا ہے.اس زمانہ میں اس نے یہ رنگ اختیار کیا کہ ایجادیں نہیں ہو سکتیں اور یہ ناممکن بات ہے.چنانچہ جب پہلے پہل ریل گاڑی ہندوستان میں چلی تو ہندوستان کے لوگ اس بات سے انکار کرتے ہوئے کہ آگ اور پانی میں اس قسم کی طاقت کہاں ہو سکتی ہے اسے دیوتا سمجھنے لگے.اور جب گاڑی کھڑی ہوتی تو انجن پر پھول

Page 196

زریں ہدایات (برائے طلباء) 191 جلد سوم چڑھاتے کہ یہ بھی ایک دیوتا ہے.یہ ان کی اس مایوسی کا نتیجہ تھا کہ بھلا انسان اس قسم کی ایجاد کہاں کر سکتا ہے.پس جب ابتدا سے انسان کی عظمت اور ترقی آدم سے مشابہ ہونے یعنی علم حاصل کرنے پر ہے اور علم سے مایوس ہونا ابلیس بنتا ہے تو سمجھ لو انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ علم حاصل کرے.دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے معنی علم اور کفر کے معنی جہالت ہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی جگہ جہالت کا لفظ کفر کے معنوں میں استعمال فرمایا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَنْ لَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ فَقَدْ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً 1 کہ جو اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا وہ کفر کی موت مرتا ہے.پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خود علم سیکھے اور علم پھیلانے کی کوشش کرے.اور جس طرح مسلمان کے لفظ سے مرد مخاطب ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں.مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نبیوں کو اسی قوم میں مبعوث کرتا ہے جو سب سے زیادہ گری ہوتی ہے تا کہ یہ بتائے کہ کس طرح اس نے گرے ہوئے لوگوں کو بڑھا یا اس لئے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہندوستان میں بھیجا جو تمدنی ، سیاسی علمی حالت میں بہت گرا ہوا ہے تا کہ ہندوستان سے ایک ایسی جماعت پیدا کرے جو ساری دنیا کی استاد ہو.مگر قوموں کی حالت ایک دن میں نہیں بدلا کرتی.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی پہلی جماعت جاہلوں میں سے ہی لی تھی اس لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ تک اس جماعت کے لوگ بھی جاہل ہی نظر آتے.اس وجہ کے ماتحت ہماری جماعت میں بھی یہ نقص ہے کہ مرد بھی تعلیم میں کم ہیں اور عورتیں بھی.اور اس نقص کا دور کرنا نہایت ضروری ہے.ہر کام کے لیے وقت مقدر ہے.پہلے مردوں میں سے اس نقص کو دور کرنے کی ضرورت تھی پھر عورتوں میں سے.گو اس وقت تک مردوں کی طرف بھی ایسی توجہ نہیں کی گئی کہ جو خوش کن ہو مگر ان کے متعلق امید ہے کہ انہیں ایسے راستہ پر ڈال دیا گیا ہے کہ جس پر چل کر ان کی ترقی ہو سکتی ہے.اب عورتوں کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اسی نقص کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ سکول جاری کیا گیا ہے جس کا افتتاح اس وقت کیا جا رہا ہے.ابتدائی حالت کی وجہ سے اس کی طرف توجہ کم

Page 197

زریں ہدایات (برائے طلباء) 192 جلد سوم ہوگی مگر ابتدا میں یہ کام ایسا ہی ہوتا ہے.مجھے یاد ہے ہمارا وہ ہائی سکول جس کی اب ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے کہ معائنہ کرنے والے انسپکٹر کہتے ہیں پنجاب بلکہ ہندوستان میں کسی سکول کی ایسی عمارت نہیں اس کا جب پہلے دن افتتاح ہوا تو مرزا نظام الدین صاحب کے کنویں کے پاس ٹاٹ بچھا کرلڑکوں کو بٹھایا گیا تھا.پھر کچھ دن تک لڑکے مہمان خانہ میں بٹھائے گئے.پھر ایک کچا مکان بنایا گیا.اس کے مقابلہ میں آج عورتوں کے سکول کی ابتدا بہت اعلیٰ ہے.یہ بینچوں پر جن کے آگے میزیں ہیں بیٹھی ہیں.وہ ٹاٹ پر بیٹھے تھے.یہ اپنے مکان میں بیٹھی ہیں وہ کسی کی جگہ پر بٹھائے گئے تھے.پس گو اس سکول کی یہ بنیاد ہے مگر ہائی سکول کی بنیاد سے بہت اعلیٰ ہے.آج یہ بنیا دا دنی معلوم ہوتی ہے لیکن اگر عورتیں شوق سے کام کریں تو جیسا کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا اور اس کی صفت رحیمیت اس بات کو ظاہر کرتی ہے یہ سکول بھی اسی طرح ترقی کرے گا جس طرح ہمارے ہائی سکول نے کی ہے.اور ایک وقت آئے گا جب اس درجہ پر پہنچ جائے گا کہ سارے ہندوستان میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں بے نظیر ہوگا.چونکہ قادیان ام القریٰ ہے اس لئے جس طرح یہاں کے لوگ دین میں نمونہ ہوں گے اسی طرح یہ سکول علم میں دنیا کے لئے نمونہ ہوگا.پس اس کی ابتدائی حالت سے گھبرانا نہیں چاہئے.اپنے وقت پر اس میں ترقی آئے گی اور اس قدر ترقی آئے گی کہ اب اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک فضل ہوگا اور خدا تعالیٰ کے فضل کا اندازہ اس کے آنے سے ایک منٹ بھی پہلے کوئی نہیں کر سکتا.اس امید کے ساتھ اور اس درخواست کے ساتھ کہ عورتیں ہمت اور استقلال کے ساتھ کام کریں میں اس سکول کا افتتاح کرتا ہوں.اس کی طرف مردوں کی توجہ کو کھینچنا بھی انہی کا کام ہوگا.اور وہ اگر کوشش کریں گی تو ضرور کھینچ سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے ماں کی چھاتیوں میں دودھ اُسی وقت اترتا ہے جب بچہ روتا ہے.یہ سچ ہے کہ مردوں کے پاس اسباب اور اختیار ہوتے ہیں اور عورتیں بطور طعنہ کہا بھی کرتی ہیں کہ جب مرد کچھ نہ کریں تو ہم کیا کر سکتی ہیں.مگر انہیں یا د رکھنا

Page 198

زریں ہدایات (برائے طلباء) 193 جلد سوم چاہئے کہ ماں جس قدر اپنے بچہ سے محبت رکھتی ہے اور خدا تعالیٰ جس قدر اپنے بندہ پر مہربان ہے مرد اس سے زیادہ عورتوں پر مہربان نہیں ہو سکتے.اور جب کہ ماں بھی بچہ کے رونے پر دودھ دیتی ہے اور خدا بھی بندہ کو بہت سے انعام مانگنے پر دیتا ہے تو مرد ان سے بڑھ کر مہربان کس طرح ہو سکتے ہیں کہ خود بخود عورتوں کو امداد دیں.اس وجہ سے عورتوں ہی کی توجہ اور کوشش مردوں کی توجہ کو اس طرف کھینچے گی تا وہ وقت آجائے کہ عورتیں اس کام میں مردوں کی محتاج نہ رہیں.ایک دوسرے کا تعاون تو جاری رہے گا مگر مقدار کا لحاظ کیا جائے گا.اگر سارا کام مرد کریں اور عورتیں کچھ نہ کریں تو عورتوں کے لئے شرم کی بات ہوگی.اور اگر سارا کام عورتیں کریں اور مرد کچھ نہ کریں تو یہ مردوں کے لئے قابل شرم ہوگا.اس لئے ایسا وقت نہیں آنا چاہئے مگر یہ ضرور ہونا چاہئے کہ عورتیں اپنا بو جھ آپ اٹھا سکیں.چونکہ اس وقت وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو سلسلہ کے نظم ونسق سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ان کو میں اس اہم پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ابلیسیت نہیں نکل سکتی جب تک علم کی طرف خاص توجہ نہ کی جائے.اور وہ اُسی وقت نکلے گی جب ہم عورتوں کی تعلیم کی طرف پوری توجہ کریں گے.مجھے افسوس کے ساتھ لڑکیوں کے پرائمری سکول کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ اس میں ایک سو | ساٹھ لڑکیاں پڑھتی ہیں مگر وہ اس مکان میں کس طرح بیٹھ سکتی ہیں جس میں ان کا سکول ہے سوائے اس کے کہ بلیک ہول کی طرح اس میں بند ہوں.تو میں صیغوں کے افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کی طرف زیادہ خیال رکھیں.اور عورتوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے استقلال سے کام کریں تاکہ ناامیدی اور مایوسی کا جو اثر پڑتا ہے وہ دور ہو کر خدا تعالیٰ کا رحم اور فضل افق سے ظاہر ہو.اخیر میں میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہم پر ایسی برکتیں نازل کرے جو دین ودنیا اور عاقبت کے لیے مفید ہوں اور ایسے نتائج نہ ہوں جو مضر ہوں بلکہ خدا تعالیٰ کی رحمت کا باعث ہوں.“ (الفضل 21 مارچ 1925ء) 1: البقرة : 32

Page 199

زریں ہدایات (برائے طلباء) 2: البقرة: 35 194 جلد سوم 3 مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 92 مطبوعہ مصر 1935ء میں "مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً کے الفاظ ہیں.“

Page 200

زریں ہدایات (برائے طلباء) 195 جلد سوم اعلیٰ درجہ کے اردو لٹر پچر کے مطالعہ کی اہمیت طلباء مدرسہ احمدیہ نے مولوی فاضل کلاس کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.مدرسہ احمدیہ جس کی بنیاد ابتداء حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحب مرحوم کی وفات پر ان کی یادگار کے طور پر قائم کی گئی تھی اور اسی طرح مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی اسے یاد گار قرار دیا گیا تھا اور بعد میں اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یاد گار قرار دیا گیا.کیونکہ در حقیقت ہمارا تبلیغی مدرسہ اور کالج بہترین یادگار اُسی انسان کی ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے اس کام کے لئے کھڑا کیا اس کی تعلیمی تاریخ کے کئی دور گزرے ہیں اور ہم جن حالات میں سے گزر رہے ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اوقات میں تغیر کا پیدا ہونا کوئی عجیب بات نہیں ہے.پہلے پہل اس مدرسہ میں ایسے رنگ میں کورس رکھا گیا جس میں پرانی کتب مروجہ کو جاری کیا گیا تھا.پھر اس میں تغیر ہوا اور زیادہ تر اس کی بنیاد درس نظامیہ پر رکھی گئی.کچھ عرصہ کے بعد پھر تغیر ہوا اور یہ ضروری سمجھا گیا کہ نئے طریق کی طرف تعلیم کو پھیرا جائے اور مصر کی بعض جدید کتب کو رکھا جائے.لیکن اس میں بھی کورس کی کتابیں اتنی زیادہ رکھی گئیں کہ تعلیم مقررہ وقت میں ختم نہ ہو سکتی تھی.سال گزرجاتا مگر کورس کا معتد بہ حصہ باقی رہ جاتا.اس میں شبہ نہیں کہ کورس مقرر کرنے میں مدرسوں کی رائے بھی تھی لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ان کی سستی اور کوتاہی کی وجہ سے نہیں بلکہ کورس کے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا بہت سا حصہ باقی رہتا.مدرسوں نے نیک نیتی کے ساتھ اس کورس کے مقرر کرنے میں رائے دی

Page 201

زریں ہدایات (برائے طلباء) 196 جلد سوم تھی.کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ کتب پڑھائیں.مگر وقت کی کمی کی وجہ سے نہ پڑھا سکے.پھر پانچ سال کے قریب عرصہ ہوا ایک اور تغیر ہوا.مدرسہ میں انگریزی، اردو، حساب، جغرافیہ اور سائنس کی تعلیم کو بھی شامل کیا گیا.اس نئے دور کے ماتحت جو تعلیم دی گئی اسے حاصل کرنے والے طلباء اس سال نکلیں گے.اس وجہ سے مدرسہ احمدیہ کے جو طلباء اس سال مولوی فاضل کے امتحان کے لئے جارہے ہیں وہ پہلے دور کی آخری جماعت اور اس دور کی یادگار ہیں.ہم ابھی نہیں کہہ سکتے کہ تعلیم کا کونسا دور بہتر ہے کیونکہ ابھی ہمارا تجربہ کافی نہیں ہوا.لیکن ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ خدا کے فضل سے مدرسہ احمدیہ کے طلباء ہر سال بہتر حالت میں نکل رہے ہیں اور یہ ہمارے لیے بہت خوشی کی بات ہے.دراصل تعلیمی کورس کچھ نہیں کیا کرتے.کورس بطور مدد کے ہوتے ہیں.کیونکہ ہر ایک استاد اتنی قابلیت نہیں رکھتا کہ ہر طالب علم کی نگہداشت کر سکے اور سمجھ سکے کہ اسے کس طرح تعلیم دینی چاہئے تا وہ کامل بن سکے.چونکہ ہر استاد میں اور ہر وقت یہ قابلیت نہیں ہوتی اس لئے کوشش کی جاتی ہے کہ ایسے سامان ہوں جن کی وجہ سے اگر استاد کی طرف سے غفلت بھی ہو تو تعلیم میں نقص نہ ہو.اور اگر قابلیت نہ رکھے تو بھی نقص نہ آئے.پس کورسوں کا تغیر تعلیم کے لحاظ سے کوئی بڑی بات نہیں.اگر استاد یہ مد نظر رکھیں کہ ہمیں طلباء کو کیا بناتا ہے لیکن پھر بھی چونکہ کورس کا اثر ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ مختلف دوروں پر غور کریں.اس میں شک نہیں کہ مدرسہ کی تعلیم ہر سال بہتری کی طرف جارہی ہے.اور میرے نزدیک جب سے یہ سکول قائم ہوا ہے بعض حالات سے قطع نظر کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس کا قدم ترقی کی طرف بڑھ رہا ہے.اور میں سمجھتا ہوں اگر اس کا انتظام طبعی طریق پر جاری رہا تو ایک دن ایسا آسکتا ہے کہ اس سے ایسے طالب علم نکلیں جیسی کہ ہماری خواہش ہے.میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ ایسے طلباء پیدا ہو گئے ہیں یا سکول ایسے راستہ پر چل رہا ہے کہ ایسے پیدا ہو سکتے ہیں.مگر یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک دن آنے والا ہے جب ہم منزل مقصود پر پہنچ سکیں گے.اسی وجہ سے میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے ضروری ہے اور اساتذہ کے لئے اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ دیکھیں کورس کی کونسی تبدیلی ایسی ہے جس نے لڑکوں پر سب سے اچھا اثر کیا ہے.

Page 202

زریں ہدایات (برائے طلباء) 197 جلد سوم مدرسہ کا موجودہ کو رس جس کی آخری جماعت اس سال نکلے گی اور جس کے ایک طالب علم نے اس وقت ایڈریس پڑھا ہے اس جماعت کے طلباء کو آداب مجلس کی واقفیت ، جنرل نالج سے اور دوسرے مروجہ علوم سے آگاہی ہونی چاہئے اور زبان بھی شستہ ہونی چاہئے.میں نے بتایا ہے مدرسہ احمدیہ ترقی کر رہا ہے لیکن بحیثیت مجموعی میرے نزدیک زبان کے لحاظ سے ایسی ترقی نہیں ہوئی جس کے متعلق کہہ سکیں کہ ہمارے فارغ التحصیل طلباء ملک کے ہر طبقہ تک اپنے خیالات پہنچا سکتے ہیں.آج ہی میں ناظر صاحب دعوت و تبلیغ سے گفتگو کر رہا تھا میں نے انہیں کہا اپنے واعظین سے کہیں کہ اردو کا مطالعہ کیا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام الف لیلہ اور مقامات حریری کا مطالعہ کیا کرتے تھے جس کے یہ معنی ہیں کہ آپ اس کام میں اپنا وقت صرف کرتے تھے اور اُس وقت صرف فرماتے تھے جب کہ آپ نے دعوئی نہ کیا تھا مگر آپ کو الہام ہونے شروع ہو گئے تھے اور آپ مخالفین اسلام کے ساتھ مباحثات کر رہے تھے.ایسے وقت میں بھی آپ مطالعہ کے لیے وقت نکالتے تھے.اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے وقت کا ایک حصہ اس کام کے لئے دے سکتے ہیں اور اس کی ضرورت سمجھتے ہیں تو میں نہیں سمجھتا کوئی اور یہ کس طرح خیال کر سکتا ہے کہ مجھے ایسے مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے.میرے خیال میں ہمارے طلباء اور واعظوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کے اردو لٹریچر کا مطالعہ کریں.میں نے اور کاموں کی وجہ سے اردو لٹریچر کی طرف توجہ نہ کی تو چند ہی دن میں نقص محسوس ہونے لگ گیا.بعض خیالات جنہیں میں ادا کرنا چاہتا نہ کر سکتا لیکن اس سے پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا.پھر میں نے مطالعہ شروع کیا تو یہ نقص دور ہو گیا.بے شک اظہار خیالات کا تعلق صحت سے ہے.اگر صحت خراب ہو تو خیالات خواہ کتنے ہی اعلیٰ ہوں زبان پر الفاظ ہی نہ آئیں گے.اسی طرح خیالات کی وسعت علمی قابلیت اور دلائل کی رفعت بھی اظہار خیالات سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کا بہت کچھ انحصار لٹریچر کے مطالعہ پر ہے.اگر انسان ادیب ہو تو دوسرے موانع کے باوجود کچھ نہ کچھ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتا ہے.میں آج اس تقریب پر اسی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اردو ٹر پچر کا مطالعہ کیا جائے.عربی لٹریچر کا مطالعہ

Page 203

زریں ہدایات (برائے طلباء) 198 جلد سوم تو اس لئے ضروری ہے کہ تا دینی کتب سے واقفیت اور ان باریکیوں کا علم حاصل ہو جائے جو قرآن کریم اور احادیث کے سمجھنے کے لیے ضروری ہیں.لیکن لوگوں تک اپنے اپنے خیالات پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ اردو لٹریچر کے مطالعہ کی طرف توجہ کی جائے.میں اس کے متعلق متواتر توجہ دلا رہا ہوں.شاید سکول کے افسروں کو اس طرف توجہ ہو مگر مجھے تا حال ایسی ترقی نظر نہیں آتی جسے معتد بہ ترقی کہا جاسکے.آج کی تقریب سے میں یہی فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں کہ استادوں اور طلباء کو بتاؤں کہ وہ اردو لٹریچر کی طرف توجہ کریں.شباب اردو، ہزار داستان زمانہ اور اسی قسم کے اور اردو لٹریچر کے جو رسالے شائع ہوتے ہیں اگر ان کو پڑھا جائے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ پڑھنے والے اپنے کام سے غفلت کر رہے ہیں.بلکہ یہ کہا جائے گا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کیونکہ وہ دوسروں تک اپنے خیالات عمدگی سے نہیں پہنچا سکتے جب تک علم ادب سے واقف نہ ہوں.چونکہ اب اذان (نماز مغرب ) ہو رہی ہے اس لئے میں اسی نصیحت پر اپنی تقریر ختم کرتا ہوں.اور دعا کرتا ہوں جس میں سب احباب شریک ہو جائیں کہ امتحان کے لئے جانے والے کامیاب ہوں.نہ صرف اس امتحان میں بلکہ ان امتحانوں میں جو آئندہ انہیں پیش آنے والے ہیں.پھر میں ان طالب علموں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے ایڈریس دیا اور ہمیں یہاں بلایا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں حقیقی علم سے حصہ دے اور اپنی رضا کے ماتحت چلائے.“ ( الفضل 16 مئی 1925ء)

Page 204

زریں ہدایات (برائے طلباء) 199 جلد سوم جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ 26 مئی 1925ء کو احمد یہ ٹورنامنٹ میں انعامات کے حقدار قرار دیئے جانے والوں کو انعامات دینے کے لئے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا :.چونکہ میری طبیعت اچھی نہیں اور میں کھڑا نہیں ہوسکتا بلکہ بیٹھا ہوا بھی مشکل سے ہوں اس لئے میں بیٹھے بیٹھے دعا سے پہلے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ ٹورنامنٹ کی سب سے مقدم غرض یہ ہے کہ جماعت کے افراد میں چستی اور چالا کی پیدا ہو کیونکہ دین کو بہت بڑا تعلق جسم کے ساتھ ہے.میں چونکہ بیمار رہتا ہوں اس لئے مجھے تندرستی کی قدر خوب معلوم ہے.میں نے دیکھا ہے تندرستی میں جس قدر عبادت اور دین کا کام کر سکتا ہوں بیماری میں اتنا نہیں کر سکتا.صحت کی حالت میں تو بار بار ایسا ہوا ہے کہ متواتر کئی کئی دنوں تک میں رات کو صرف دو گھنٹے کے قریب سویا اور دن میں بھی سونے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.اور یہ سارا وقت دینی کام میں صرف کیا گیا.پھر اس حالت میں یہ بھی ہوتا کہ میں کام کرتے کرتے 2 بجے رات سویا اور 4 بجے تہجد کے لئے اٹھ کھڑا ہوا.مگر بیماری میں ایسا نہیں ہو سکتا.نہ اس قدر عبادت کی جاسکتی ہے جس قدر صحت کی حالت میں کی جاتی ہے اور نہ کوئی دینی کام اس حد تک کیا جا سکتا ہے.تو صحت کا تعلق روحانیت سے بہت بڑا ہے.اور جتنے کام انسان کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان میں صحت کو بہت بڑا دخل ہے.مثلا تبلیغ ہی ہے ایک بیمار اور کمزور آدمی اس عمدگی سے تبلیغی سفر نہیں کر سکتا جس عمدگی سے ایک تندرست اور اچھی صحت والا کرتا ہے.تندرست آدمی سخت گرمی کے ایام میں بھی جہاں ضرورت ہو جا سکتا ہے اور تبلیغ کر سکتا ہے لیکن بیار آدمی اپنی جگہ پر بھی تبلیغ نہیں کر سکتا.

Page 205

زریں ہدایات (برائے طلباء) 200 جلد سوم ایک دفعہ میں نے رویا میں دیکھا ایک شخص دوسرے پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ اتنا وقت | کھیل میں صرف کرتا ہے.میں اعتراض کرنے والے کو سمجھاتا ہوں کہ ایک حد تک ورزش کرنا بھی عبادت میں داخل ہے اور ایک وہ حد ہے کہ اگر انسان نہ کرے تو گناہ گار ہوتا ہے.پھر میں نے بتایا کہ انسان صحت کو درست رکھ کر اگر دین کا کام کرے تو جتنا وقت چاہے ورزش میں خرچ کر سکتا ہے.مجھے رویا میں آدمی تو اور نظر آئے مگر شاید میں خود ہی مراد تھا.گو میں نے اتنی عمدگی کے ساتھ اس پر عمل نہ کیا جتنا کرنا چاہئے تھا.پس چونکہ صحت قائم رکھنا دین کے لئے نہایت ضروری ہے اس لئے میں نے اس ٹورنامنٹ کو پسند کیا اور اس کا ترقی کرنا میرے لئے پسندیدہ ہے.مگر اس قسم کی مقابلہ کی کھیلوں سے بعض نقائص بھی پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً بلا وجہ ضد اور تعصب.ٹورنامنٹ کمیٹی کو اس قسم کی باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے.اور چونکہ یہ باتیں طالب علموں میں پیدا ہوسکتی ہیں اس لئے میں دونوں سکولوں کے ہیڈ ماسٹروں کو بھی توجہ دلاتا ہوں.یہ دونوں سکول ہمارے دو بازو ہیں.ہمارا ایک باز و مدرسہ احمدیہ ہے.جب تک ہمارے پاس مبلغ نہ ہوں ہم دنیا میں تبلیغ نہیں پہنچا سکتے.اور ہمارا دوسرا باز و ہائی سکول ہے.جب تک دنیا پر ہم یہ نہ ثابت کر دیں کہ ہم جہالت کی وجہ سے دین کی طرف متوجہ نہیں بلکہ ہم دنیوی علوم بھی رکھتے اور ان میں دوسروں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں اور دین کی خدمت ہم اس لئے نہیں کر رہے کہ دنیا کما نہیں سکتے بلکہ ہم دنیا کمانے کی قابلیت رکھتے ہوئے بلکہ دنیا کماتے ہوئے بھی دین کی خدمت کر سکتے ہیں کامیاب نہیں ہو سکتے.پس یہ دونوں سکول ہمارے بازو ہیں کیونکہ ایک اگر مذہبی تعلیم کی تحمیل کے لئے ہے تو دوسرا اس اعتراض کو رد کرنے کے لئے ہے کہ ہم ستی، جہالت اور نادانی سے دین کی طرف متوجہ نہیں بلکہ باوجود دنیوی علوم رکھنے اور دنیا کمانے کی طاقت ہونے کے ہم دین کی طرف متوجہ ہیں تو ہم ان دونوں سکولوں کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اگر ان دونوں صیغوں میں بے جا تعصب، ایک دوسرے کے متعلق حقارت پیدا ہو جائے.مدرسہ ہائی کے طلباء کو مدرسہ احمدیہ کے طلباء دنیا کمانے والے کہیں یا مدرسہ ہائی کے طلباء مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو حقیر سمجھیں تو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.میرے نزدیک دونوں کے لئے ضروری ہے کہ مقابلہ کی

Page 206

زریں ہدایات (برائے طلباء) 201 جلد سوم سپرٹ پیدا کریں مگر برادرانہ مقابلہ کی.بھائی سے بھائی کے مقابلہ کی طرح یا خاوند سے بیوی کے مقابلہ کی طرح.ایسا ہی مقابلہ جیسا ایک دفعہ رسول کریم ﷺ اور حضرت عائشہ نے کیا تھا.آپ فرماتی ہیں ایک دفعہ میں دوڑنے میں رسول اللہ ﷺ سے آگے نکل گئی اور ایک دفعہ آپ 1 اسی مقابلہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے افسوس ہے کہ ہائی سکول کے طلباء نے کم انعام حاصل کیے ہیں.تعداد کے لحاظ سے تو شاید اتنے کم نہ ہوں مگر مجموعی حیثیت سے جو انعامات ہیں مثلا فٹ بال، ہاکی کے ان میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء بڑھ گئے ہیں.گو میں پسند کرتا ہوں کہ وہ انعامات حاصل کرتے کیونکہ ان کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے اور وہ عموماً غرباء کے بچے ہیں اور میرے اپنے بچے بھی اسی سکول میں پڑھتے ہیں مگر باوجود اس کے مجھے تکلیف ہوئی ہے میں امید کرتا ہوں کہ ہائی سکول کے استاذ آئندہ اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے.اس ٹورنامنٹ سے ہمارے مدنظر ایک یہ بات بھی ہے کہ آئندہ کے لیے لڑکوں کا کیریکٹر تیار کریں.جو شخص ادنیٰ سے ادنی اور چھوٹی سے چھوٹی چیز میں اپنا کیریکٹر تیار نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.فٹ بال یا ہا کی کھیلتے ہوئے جو طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ مجھ سے بال ( گیند ) نکل گیا تو کیا ہوا کل اگر اس کے قبضہ سے ملک بھی نکل گیا تو اسے کچھ محسوس نہ ہوگا.بڑے بڑے کاموں میں بھی وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ جو بھی ذمہ داری اس پر ڈالی جائے اسے پورا کرنا اس کا فرض ہے.اگر کوئی بال اس سے مس (Miss) ہو جاتا ہے جسے و پیچ (Catch) نہیں کر سکتا لیکن وہ آئندہ زیادہ چستی سے کام نہیں لیتا تو اپنی زندگی تباہ کرتا ہے کیونکہ اس کا یہ نتیجہ ہوگا کہ کسی بڑی ناکامی کا بھی اس پر کچھ اثر نہ ہوگا.میں یہ نہیں کہتا کہ کھیلوں میں مقابلہ کرتے وقت ایک دوسرے سے بغض اور حسد پیدا ہو مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داری کا پورا احساس ہو.جس کام پر کسی کو مقرر کیا جائے اس کے متعلق کسی قسم کی تکلیف کا احساس | نہیں ہونا چاہئے اور نہ اسے معمولی بات سمجھنا چاہئے.اس کے متعلق اسی طرح احساس ہونا چاہئے جس طرح کسی ملک کو فتح کرنے کے متعلق ہوتا ہے.اگر تم اس طرح کرو گے تو نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنی قوم اور دین کے لئے بھی مفید ثابت ہو گے.وہ

Page 207

زریں ہدایات (برائے طلباء) 202 جلد سوم اس کے بعد میں دعا کر کے مجلس کو برخاست کرتا ہوں کیونکہ میں زیادہ نہیں بیٹھ سکتا.“ الفضل 2 جون 1925ء) 1 ابوداؤد كتاب الجهاد باب فى السبق على الرجل صفحہ 373 حدیث نمبر 2578 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الأولى

Page 208

زریں ہدایات (برائے طلباء) 203 جلد سوم احمدی طلباء کو نصائح 14 اگست 1925ء کو بعد نماز عصر بیت المبارک میں طلبہ تعلیم الاسلام ہائی سکول و مدر ساحمہ یہ قادیان کے رخصتوں پر جانے کے موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے طلباء کو تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں:.اس وقت جو دونوں سکولوں کے طالب علم جمع ہوئے ہیں اس کی غرض یہ ہے کہ چونکہ اکثر طلباء جو اپنے اپنے گھروں میں ایامِ رخصت گزارنے کے لئے جانے والے ہیں اس لئے منتظمین مدارس نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں طلباء کے جانے سے پہلے انہیں کچھ نصائح کروں جو ان کے لئے ان چھٹیوں میں مفید ثابت ہوں.پس میں اپنے ان بچوں کی توجہ اس کی طرف پھیر نی چاہتا ہوں کہ ہر ایک لفظ جو منہ سے بولا جاتا ہے اس کے دو معنے ہوتے ہیں.ایک معنے اس کی ذات میں ہوتے ہیں اور دوسرے نسبت سے.ہمارے بچے خوش ہیں کہ اب انہیں رخصتیں ملی ہیں.کیونکہ یہ ان کی فطرت میں ہے کہ وہ ایسی باتوں سے خوش ہوں جن سے انہیں پڑھنے سے فرصت مل جائے.اور پھر ان کی محبت اور چیزوں کے ساتھ بھی ہے.ان کے دلوں میں رشتہ داروں کی محبت ہے.ماں باپ کی محبت ہے.دوستوں کی محبت ہے اور یہ محبت کا ہونا درست ہے برانہیں بلکہ سارا کارخانہ ہی محبت پر ہے.اور وہ اس لئے بھی خوش ہوتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو اب ملیں گے.پس اگر وہ چھٹیوں سے خوش ہوں تو جائز ہے.لیکن اس محبت سے یا اس خوشی سے وہ غلطی سے رخصت کا مضمون غلط نہ سمجھ لیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ پہلے ان کو رخصت کے معنے بتاؤں.رخصت کے معنے ہیں اجازت.کسی کو کسی کام کے لئے اجازت دینا یہ رخصت ہے اور تعطیل کام کو بند کر دینا ہے.

Page 209

زریں ہدایات (برائے طلباء) 204 جلد سوم ہمارے اور دوسرے بچے ان الفاظ سے غلطی کھا جاتے ہیں.اور بہت سے ان میں سے رخصتوں سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب تعطیل ہو گئی تو اس کے یہ معنے ہیں کہ اب کوئی کام کرنا ہی نہیں.اور رخصت سے یہ سمجھتے ہیں جو دل کرے کرو بلکہ یہاں تک کہ وہ نماز کی بھی رخصت منا لیتے ہیں.ایسے لڑکے رخصت صرف اس بات کی نہیں سمجھتے کہ سکول کو چھوڑ کر گھروں کو چلے بلکہ اس کی بھی سمجھتے ہیں کہ جو چاہیں سو کریں.دنگا فساد کریں، آوارہ پھریں ، لوگوں کو تنگ کریں، ہر ایک کے ساتھ لڑیں جھگڑیں، لیکن تعطیل اور رخصت کے یہ معنے نہیں بلکہ اس کے کچھ اور معنے ہیں.دیکھو! سکول سے ہر روز تعطیل ہوتی ہے لیکن سکول کے وقت کے بعد جو چھٹی ہوتی ہے اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ اس کے بعد کوئی کام کرنا نہیں.بے شک اس چھٹی کے وقت وہ کام تو نہیں کرنا پڑتا جو سکول میں ہوتا ہے لیکن اور کام ہوتا ہے جو اس چھٹی کے وقت کا ہے.مثلاً کپڑوں کا صاف کرنا ہے، جسم کا صاف کرنا ہے، قوت اور طاقت کی بحالی کے لئے ورزش کرنا ہے، نمازوں کا پڑھنا ہے، دوستوں اور ہمسایوں اور رشتہ داروں کی خدمت کرنا ہے، استاد جو گھر پر کرنے کے لئے کام دے اسے کرنا ہے یہ سارے چھٹی کے کام ہیں جو سکول کے وقت میں نہیں ہو سکتے بلکہ اُس وقت کے ہوتے ہیں جسے بچے چھٹی کہتے ہیں.اس چھٹی سے مراد مدرسہ سے چھٹی ہے نہ کہ ہر کام سے چھٹی.ایک طالب علم اگر چھٹی ملنے کے بعد مدرسہ سے گھر جاتا ہے تو گھر جا کر وہ یہ نہیں کہتا کہ مجھے چھٹی ہے اس لئے میں کوئی کام نہیں کرتا.مثلاً اگر اس کا بھائی بیمار ہے اور اسے کہا جائے کہ اس کے لئے دوائی لے آؤ تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں دوائی لانے نہیں جاتا کیونکہ مجھے اس وقت چھٹی ہے.ایسا ہی اگر باپ اسے کوئی کام بتائے یا ماں اسے کسی جگہ بھیجنا چاہے تو وہ یہ کہ کر کہ مجھے چھٹی ہے اس سے چھٹکارا نہیں پاسکتا.اسی طرح وہ اس کام سے جو سکول سے اسے گھر پر کرنے کے لئے ملتا ہے یا نماز سے یا دوسرے ایسے ہی کاموں سے جو سکول کے وقت میں نہیں کئے جاسکتے اس حیلہ سے نہیں بچ سکتا.پس باوجود چھٹی کے وہ کام تو کرے گا لیکن وہی جو چھٹی کے وقت کے کام ہیں.پس جو بچے رخصتوں پر جاتے ہیں یا درکھیں کہ ان کے ذمہ رخصتوں کے بھی کام ہیں.کچھ تو

Page 210

زریں ہدایات (برائے طلباء) 205 جلد سوم ان کے وہ کام ہیں جو سکول سے ان رخصتوں میں گھر کرنے کے لئے ملے ہیں.پھر اس کے سوا اور کام بھی ہیں جو مدرسہ کے وقت میں نہیں کر سکتے تھے لیکن رخصتوں میں ان کے لئے موقع ہوتا ہے.ان کاموں میں سے ایک کام نہایت ہی اہم ہے وہ تبلیغ کا کام ہے.تبلیغ کا کام تم سکول کے وقت میں نہیں کر سکتے تھے کیونکہ سکول میں اس کے لئے کوئی موقع نہیں تھا.اور پھر سکول سے باہر بھی تم نہیں کر سکتے تھے کیونکہ تم احمدیوں میں رہتے تھے اور دن رات انہیں کے ساتھ تمہارا میل جول تھا.ان میں تم تبلیغ نہیں کر سکتے تھے.تمہارا تبلیغ کے لئے یہ چھٹی کا زمانہ تھا.گویا ساڑھے دس ماہ تبلیغ کی طرف سے تمہیں چھٹی تھی.لیکن اب تبلیغ کا کام ان چھٹیوں میں ہے.پس میں اپنے بچوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان چھٹیوں سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے.اور یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ سکول سے چھٹی کے یہ معنی ہیں کہ ہر کام سے چھٹی ہوگئی.چونکہ دوسرے دنوں میں تمہارے لئے تبلیغ کا موقع نہیں تھا اب موقع ہے اس لئے میں تمام بچوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ سفر میں اور حضر میں، گھر میں اور بازار میں جہاں جائیں تبلیغ کریں.یہ مت سمجھو کہ تمہاری بات کا اثر کیا ہوگا اور یہ کہ تم ابھی بچہ ہو تمہارا بڑوں پر کیا اثر پڑے گا.یہ ایک غلط خیال ہے اس کو دل سے نکال دینا چاہئے اور ابھی سے دل میں اس بات کو جگہ دینی چاہئے کہ ہم کچھ کر سکتے ہیں.جب تک یہ بات پیدا نہ ہو جو بچے کچھ کر بھی سکتے ہیں وہ بھی کچھ نہ کر سکیں گے.یہ مت سمجھو کہ تمہاری بات کا اثر نہیں.اثر ہو نہ ہو تمہارا کام کہنا اور سمجھانا ہے.رسول اللہ اللہ کے منہ سے جن لوگوں نے تبلیغ سنی وہ سب کے سب اسلام نہ لائے.مگر انہی میں سے بعض نے صحابہ سے سنی تو ایمان لے آئے.سو یہ مت خیال کرو تمہاری بات کا کچھ اثر | نہیں.تم سناؤ.یہ ضروری نہیں کہ سنے والامان بھی لے.پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تبلیغ کسی بڑے الله آدمی کے منہ سے ہی سنی جائے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہزاروں آدمیوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور نہ مانا.اور دوسروں سے سنا اور مانا.یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت ہوا.بیسیوں شخص آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کے دعاوی اور دلائل سنے لیکن مانا نہیں.اور بیسیوں نے غیروں سے سنا اور مان لیا.پس تبلیغ کے لئے یہ ضروری نہیں کہ

Page 211

زریں ہدایات (برائے طلباء) 206 جلد سوم انسان بڑا ہی ہو تو تبلیغ کرے بلکہ چھوٹی عمر میں بھی ایسی باتیں کر سکتا ہے جو مؤثر ہوں.امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں ان سے کسی نے پوچھا آپ پر بھی کسی کے وعظ کا اثر ہوا ہے؟ فرمایا اتنا نہیں جتنا کہ ایک آٹھ نو برس کے بچے کا ہوا ہے.فرمانے لگے ایک دن بارش کے وقت میں گھر سے نکل کر بازار کو جارہا تھا.بارش کے سبب کیچڑ ہو رہا تھا جس میں ایک بچہ دوڑ رہا تھا.میں نے اسے کہا بچے ذرا سنبھل کر چلو گر نہ جانا.اس نے جواب دیا امام صاحب! آپ سنبھل کر چلئے میں گر گیا تو میں ہی گروں گا آپ اگر گریں گے تو لاکھوں گریں گے.امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اس بچے کی بات کا مجھ پر بڑا اثر ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے ماننا ہوتا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ کون مجھ سے کہہ رہا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کیا بات کہہ رہا ہے.اگر بات معقول ہو تو فورا مان لیتا ہے.اب اسی واقعہ کی طرف دیکھو امام ابو حنیفہ نے تو اسے گرنے کا لفظ کہہ کر کیچڑ میں پھسلنے کی طرف اشارہ کیا لیکن اس نے گرنے کا لفظ بول کر عقائد اور مسائل میں غلطی کرنا مراد لیا.اور یہ ایسا برجستہ جواب تھا کہ امام ابوحنیفہ جیسے شخص کے دل پر بھی اثر کر گیا.آخر یہ لڑکا ہی تو تھا جس نے یہ کہا تھا.پس تم اپنی عمر یا اپنے علم یا کسی اور وجہ سے حق بات کہنے سے مت جھجکو.تم جس بات کو حق سمجھتے ہو وہ کہو.جن لوگوں کے اندر سچائی کی تڑپ ہوگی اور صداقت کے ساتھ پیار ہو گا وہ ضرور قبول کر لیں گے.ایسے اشخاص یہ دیکھتے ہیں کہ بات میں صدق اور راستی ہے یا نہیں.اور یہی امران کے ماننے کا سبب بنتا ہے.اگر بات میں راستی ہو اور کہنے والا صدق سے کہتا ہو تو ایسے لوگ ماننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.پس تم میں سے کوئی یہ مت سمجھے میں کیا کر سکتا ہوں بلکہ ہر ایک کو یہ خیال ہونا چاہئے کہ میں بھی کام کر سکتا ہوں.اور یادرکھو جب تک یہ احساس پیدا نہ ہوگا تم کچھ بھی نہ کر سکو گے.حتی کہ اس عمر میں بھی کچھ نہ کر سکو گے جس عمر کے متعلق تم امید لگائے بیٹھے ہو کہ جب وہاں تک پہنچیں گے تو کریں گے.میرا تجربہ ہے جو بچہ اس بات کو سمجھ کر کہتا ہے کہ وہ بچہ ہے وہ تمام عمر ہی بچہ رہتا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا.ایک تو وہ بچہ ہوتا ہے جو ماں باپ کا سکھایا ہوا کہتا ہے کہ میں ابھی چھوٹا

Page 212

زریں ہدایات (برائے طلباء) 207 جلد سوم ہوں اس کا ذکر نہیں.لیکن وہ جو اپنے قصور اور غلطی سے یہ کہہ کر بری ہونا چاہتا ہے کہ میں ابھی بچہ ہوں وہ بڑا ہو کر بھی کوئی مفید کام نہیں کر سکتا.ہمارے ملک میں یہ ایک بدعادت ہے کہ اگر کسی کا بچہ قصور کرے اور اس کی شکایت والدین سے کی جائے تو وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے، بچہ ہے، بڑا ہوگا تو آپ ہی ان باتوں کا اسے پتہ لگ جائے گا.مگر اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ بچہ بھی ایسے موقعوں پر کہنے لگ جاتا ہے میں تو ابھی بچہ ہوں جب بڑا ہوں گا تو ایسا نہیں کروں گا.حالانکہ جب وہ شرارت کر سکتا ہے اور اس پر اپنے آپ کو بچہ کہہ کر پردہ ڈالنے کی کوشش کر سکتا ہے تو کیا وجہ ہے وہ نیک کام نہیں کر سکتا.کر سکتا ہے.مگر یہ بات اس کے دل میں نہیں ڈالی جاتی.پس یہ ضروری ہے کہ بچوں میں اس بات کا احساس پیدا ہو کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں.جس وقت یہ احساس پیدا ہو جائے تو بچے چھوٹی عمر میں بھی بڑے بڑے کام کر سکتے ہیں کیونکہ کام کرنے کی اہلیت تو ان میں ہوتی ہے لیکن وہ اس خیال سے نکھے بنے رہتے ہیں کہ ہم ابھی بچے ہیں.پس یہ غلط بات ہے کہ کوئی کچھ کام نہیں کر سکتا اور یہ کہ وہ ابھی بچہ ہے.اگر وہ بد کام کر سکتا ہے تو نیک کام بھی کر سکتا ہے.ہم یہ کیونکر مان لیں کہ خدا نے بدی کی طاقت تو اس میں رکھی ہے لیکن نیکی کی نہیں رکھی.یہ تو وہ کر سکتا ہے کہ چوری کرے، بدی کرے ، گالی دے، کسی کو تھپڑ مارے، کسی کو تنگ کرے، کسی پر ظلم کرے، کسی کا ناحق نقصان کرے لیکن یہ نہیں کر سکتا کہ نماز پڑھے ، چوری نہ کرے، کسی کو نقصان نہ پہنچائے.اگر بچے عیب اور بدیاں کر سکتے ہیں تو نیکیاں بھی کر سکتے ہیں.پس میں اپنے بچوں کو پھر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مت سمجھو ہم کچھ کر نہیں سکتے.بہت کام ہیں جو تم کر سکتے ہو لیکن کرنے کے لئے احساس اور عزم ہونا چاہئے.تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارے کرنے کے لئے کوئی کام نہیں.تمہارے کرنے کے لئے تو بہت کام ہیں لیکن اس احساس کو پیدا کرو کہ تم نے کام کرنا ہے اور تم کام کر سکتے ہو.پس اس بات کا خیال نہ کرو کہ تم بچے ہو اور تم کچھ کر نہیں سکتے.دیکھو حضرت یوسف علیہ السلام بچپن کے وقت ہی گھر سے بے گھر ہوئے.ملک سے بے ملک ہوئے لیکن ہر مقام پر اپنی عقل اور سمجھ سے کامیابی حاصل کرتے رہے.انہوں نے کبھی بھی یہ

Page 213

زریں ہدایات (برائے طلباء) 208 جلد سوم خیال نہ کیا کہ میں کچھ کر نہیں سکتا اور کبھی اپنے عزم اور کام کرنے کے احساس کو ضائع نہ ہونے دیا.سب سے پہلے تو انہوں نے یہ کیا کہ بھائی جب مارنے لگے تو ان کو رام کر لیا.اور وہ جو قتل کرنے پر تلے ہوئے تھے زندہ کنویں میں ڈال کر چلے گئے.اور پھر ایک قافلہ والوں نے جب انہیں کنویں سے نکالا تو انہیں ایسا گرویدہ بنالیا کہ انہوں نے سمجھا کہ یہ بہت قیمتی چیز ہے اسے ضائع نہیں کرنا چاہئے.”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ انہوں نے سمجھ لیا اس سے ہمیں بہت فائدہ حاصل ہوگا اور وہ ان کی بے حد قدر کرنے لگ گئے.پھر دیکھو ! مصر میں جا کے اس شخص کو رام کر لیا جس کے ہاتھ ہے.وہ ان پر ایسا لٹو ہوا کہ اس نے آپ کو اپنا بیٹا بنالیا.پھر قید خانہ میں جا کر قیدیوں کو رام کر لیا.قیدی چونکہ عموماً مجرم ہوتے ہیں اس لئے قید خانہ میں خواہ کوئی کتنا ہی شریف اور معزز کیوں نہ جائے وہ اسے بھی مجرم ہی سمجھتے ہیں لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں قیدی ایسا نہیں کرتے.ان سے عزت کے ساتھ پیش آتے اور ان کا ادب کرتے اور ان سے اپنی خوابوں کی تعبیریں پوچھتے ہیں.پھر جب قید خانہ سے نکل کر بادشاہ کے سامنے آئے تو اسے بھی رام کر لیتے ہیں.اس سے اپنی ہی بات منواتے ہیں.چنانچہ قید سے نکل کر گل خزانوں کی چابیاں لے لیں.پھر کامل اختیار مانگتے ہیں وہ بھی مل جاتے ہیں.غرض جس صحبت میں گئے اپنا اثر ڈالتے رہے.اور یہ جو کچھ بھی انہوں نے کیا چھوٹی عمر میں ہی کیا.جسے ہمارے بچے یہ کہ کر رائیگاں گنوادیتے ہیں کہ ہم ابھی بچہ ہیں.ایسا ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مثال ہے.انہوں نے بھی بچپن میں بڑے بڑے کام کئے.ایک موقع پر رسول کریم ﷺ نے جب اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے کہا کہ کوئی ہے جو میری مدد کرے.تو حضرت علیؓ جن کی اُس وقت گیارہ سال کی عمر تھی بچپن کا عالم تھا مگر فوراً بول اٹھے میں مدد کروں گا 1 اگر اس وقت یہی سوال یہاں کیا جائے تو میں سمجھتا ہوں یہاں بھی تین تین چار چار سال کے بہت سے بچے کھڑے ہو جائیں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم کریں گے.لیکن حضرت علیؓ نے صرف کہہ ہی نہیں دیا تھا انہوں نے گیارہ سال کی عمر میں جو بات کہی وہ سوچ | سمجھ کر کہی اور ساری عمر اس پر عمل پیرار ہے.ان کے سامنے لوگوں کی دشمنی بھی تھی اور مخالفوں کی

Page 214

زریں ہدایات (برائے طلباء) 209 جلد سوم مخالفت بھی تھی.اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس راہ میں مصیبتیں اور تکلیفیں ہیں.لیکن باوجود اس کے انہوں نے یہ کہا کہ میں مدد کروں گا اور پھر آئندہ عمر میں اسے پورا بھی کر دکھایا.چنانچہ ہر خطرہ اور ڈر کے موقع پر انہوں نے اپنے آپ کو پیش کیا.اور یہ سب اس احساس اور عزم کا نتیجہ تھا جوان میں بچپن میں پیدا ہوا تھا.پس یاد رکھو عمر کوئی چیز نہیں نیست چیز ہے.جب انسان نیت کر لے تو پھر سب کچھ کر سکتا ہے.عمر خواہ چھوٹی ہو خواہ بڑی پھر وہ کسی کام کے کرنے سے ہر گز نہیں جھجکتا.خلفائے کرام کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے.تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ کوفہ کے لوگ بڑے شورش پسند تھے.ہر وقت شرارتیں کرتے رہتے تھے اور گورنروں کو تنگ کر کے نکال دیتے تھے.قاضیوں کو بھی تنگ کیا کرتے تھے.اس وجہ سے حضرت عمرہ کو بار بار قاضی اور گورنر بدلنے پڑتے تھے.آخر حضرت عمرؓ نے کہا اب میں ایسا آدمی بھیجوں گا وہ سیدھے ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے بائیس سال کی عمر کے ایک نوجوان ابن ابی لیلی کو بھیج دیا.اہل کوفہ نے سمجھا کہ خلیفہ وقت نے جو یہ گورنر بھیجا ہے تو شاید ہنسی کی ہے.ہم بھی اس سے تمسخر ہی کریں.اس خیال سے رؤسا اور عمائدین سب لوگوں کے قائم مقام بن کر شہر سے باہر استقبال کے لئے آئے اور باتوں باتوں میں پوچھا آپ کی عمر کیا ہے؟ یہ انہوں نے طنزاً کہا کیونکہ اس سے ان کی یہ غرض تھی کہ ان کو جتا دیں کہ یہاں تو بڑے بڑے معمر اور تجربہ کار آدمی بھی نہیں ٹھہر سکے اور آپ تو ابھی بچہ ہیں.آپ کی کیا حقیقت ہے کہ ٹھہریں گے اور کچھ کر سکیں گے.اگر کوئی سیدھا سادھا لڑکا ہوتا تو کہہ دیتا میں بائیس سال کی عمر کالڑکا ہوں.مگر ابن ابی لیلیٰ اس بات کو تاڑ گئے کہ یہ طنز کر رہے ہیں.اور پھر ایسا دندان شکن جواب دیا کہ وہ سمجھ گئے اس کا مقابلہ آسان نہیں.الله.آنحضرت ﷺ کے وقت اسامہ بن زیڈ ایک نوجوان صحابی تھے جو حضرت زید کے بیٹے تھے.حضرت زید غلام ہو گئے تھے مگر آنحضرت ﷺ نے ان کو آزاد کر دیا تھا اور اپنے پاس رکھ لیا.تھا.جن سے آپ کو بہت محبت تھی.وہ ایک لشکر کے سردار مقرر کئے گئے.جب وہ مارے گئے تو اس لشکر کی سرداری آنحضرت ﷺ نے ان کے بیٹے اسامہ کو دی.لیکن آپ کی وفات کی وجہ

Page 215

زریں ہدایات (برائے طلباء) 210 جلد سوم سے وہ لشکر نہ جاسکا.پھر حضرت ابو بکڑ نے اسے سر لشکر مقرر کر کے رومیوں کے مقابلہ پر بھیج دیا.رومیوں کی طاقت بڑی زبردست تھی اس لئے ادھر سے جو بھی لشکر گیا وہ بڑا بھاری تھا.جس میں بڑے بڑے صحابہ حتی کہ حضرت عمرؓ اور حضرت علی بھی شامل تھے.اسامہ کی عمر اُس وقت ہیں سال کی تھی لیکن انہوں نے بڑی دانائی اور دلیری کے ساتھ لشکر کی کمان کی اور رومیوں کے لشکر کا مقابلہ کیا اور ان کو شکست دی.ابن ابی لیلیٰ چونکہ تاڑ گئے تھے کہ یہ لوگ مجھ پر طنز کر رہے ہیں اس لئے انہوں نے کہا میری عمر اسامہ سے دو سال بڑی ہے.جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر میں سال کی عمر میں اسامہ اتنے بڑے لشکر کی کمان کر سکتا ہے اور رومیوں جیسے دشمن کو شکست دے سکتا ہے تو ابن لیلی بھی جو اسامہ سے دو سال بڑا ہے کو فیوں پر حکومت کر سکتا ہے اور ان کو درست کر سکتا ہے.یہ سن کر وہ چپ ہو گئے اور سمجھ گئے کہ اس کا مقابلہ آسان نہیں.چنانچہ جتنا عرصہ وہ وہاں رہے کسی نے سر نہ اٹھایا اور انہوں نے نہایت دلیری اور عقلمندی سے کام کیا.اور ان کی قضاء کے واقعات اتنے مشہور ہیں کہ انگریزوں کے ملک میں بھی ان کی قضاء کے قصے بعض ریڈروں میں بھی درج ہیں.یورپ کے لوگ حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کو اتنا نہیں جانتے جتنا ابن ابی لیلیٰ کو جانتے ہیں.غرض جتنا عرصہ وہ کوفہ میں رہے ان کے سامنے کوئی نہ آیا.یہ اس قسم کے واقعات ہیں کہ ان سے سبق سیکھنا چاہئے.اور بچوں کو چاہئے کہ ابھی سے اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں ورنہ وہ بڑے ہو کر بھی کچھ نہ کرسکیں گے.انگریزی کے ریڈروں میں ہالینڈ کے ایک لڑکے کا حال بیان کیا گیا ہے جو ایک غریب عورت کا بیٹا تھا.اسے اکثر اوقات گھر کے کام کاج کے سبب سکول میں جانے سے دیر ہو جاتی تھی جس پر اسے استاد مارتے بھی تھے.مگر جب اسے مار پڑتی یا کوئی اور سزا ملتی تھی تو اگر چہ وہ گھر کے کام کو بطور عذر پیش تو کر سکتا تھا لیکن وہ سوچتا کہ سکول کے لئے یہ کوئی جواب نہیں اس لئے چپ ہو رہتا.اور ماں سے بھی کچھ نہ کہتا کیونکہ وہ شریف اور فرمانبردارلر کا تھا.ایک دن اسی وجہ سے ماسٹر نے اسے کہا تم بہت شریر ہو اور روز دیر کر کے آتے ہو آج تمہیں یہ سزادی جاتی ہے

Page 216

زریں ہدایات (برائے طلباء) 211 جلد سوم کہ سکول کے بعد دو گھنٹہ ٹھہر کر کام کرو.چنانچہ اس دن اس نے دو گھنٹے زائد کام کیا.جب اسے بھی چھٹی ہوئی تو شام کا وقت تھا جغرافیہ پڑھنے والے لڑکے جانتے ہیں ہالینڈ کا ملک سطح سمندر سے نیچا ہے اس لئے سمندر کی طرف بند باندھے ہوئے ہیں.اگر وہ بند ٹوٹ جائیں تو سمندر کا پانی ملک میں آجائے اور سب کچھ تباہ ہو جائے.اسی خطرہ کی وجہ سے اس ملک کے لوگوں نے گھروں میں کشتیاں رکھی ہوئی ہیں تا کہ جب طوفان آئے یا بند ٹوٹ جائے تو اپنے آپ کو بچا سکیں.سکول جانے کے لئے اس بند کے اوپر سے راستہ گزرتا تھا.یہ لڑکا شام کو جب اسے چھٹی ہوئی گھر آنے کے لئے بند کے اوپر سے آرہا تھا تو اسے ایک جگہ کچھ بلبلے سے اٹھتے دکھائی دیئے جو ہند کے ساتھ اٹھ رہے تھے اور بہت باریک سوراخ نظر آیا.یہ کھڑا ہو کر اسے دیکھنے لگا.مگر اس کے دیکھتے دیکھتے وہ سوراخ اور بڑا ہو گیا.اب وہ سوچنے لگا کہ اگر میں گاؤں میں جا کر لوگوں کو اطلاع دیتا ہوں تو یہ اور بھی بڑا ہو جائے گا اور ممکن ہے بند ٹوٹ ہی جائے.اس لئے اس نے خود اس کے بند کرنے کی کوشش کی مگر کارگر نہ ہوئی.آخر اس نے اپنی انگلی اس میں ڈال دی مگر تھوڑی دیر میں وہ سوراخ ہاتھ کے برابر ہو گیا.پھر اس نے اپنا بازو ڈال دیا.اور اسی طرح وہ پانی کو رو کے رہا.اتفاق ایسا ہوا کہ کوئی شخص ادھر نہ آیا.لیکن وہ اس سے گھبرایا نہیں اور بدستور اس کو بند کئے کھڑا رہا.حتی کہ رات ہوگئی وہ پھر بھی نہ گھبرایا اور اسی طرح اسے بند کئے رہا.صبح کے وقت ایک چرواہا ادھر آیا.چرواہے کی جب ادھر نظر پڑی تو اس نے سمجھا کہ کوئی مردہ پڑا ہے کیونکہ سخت سردی تھی.وہ لڑکا ٹھٹھر گیا تھا.جب وہ اس کے قریب آیا تو لڑکے نے بڑی مشکل سے اسے بتایا کہ بند ٹوٹا ہوا ہے اس کی مرمت کرو.اس پر اُس چرواہے نے شور مچایا اور لوگوں کو جمع کر کے اس سوراخ کو بند کر دیا.اس طرح اس لڑکے نے اپنے علاقے کے لوگوں کی جان بچائی.کتنے بچے ہیں جو اس طرح کے کام کرتے ہیں یا کتنے بچے ہیں جنہیں ایسی باتوں کو دیکھ کر اس قسم کے کاموں کا احساس پیدا ہوتا ہے.بچوں کو چاہئے کہ کام کرنے کا عزم پیدا کریں.اور پھر موقع اور محل کو دیکھ کر اس کے مطابق کام کرنے کی ہمت دکھا ئیں.یہ اتفاقی بات تھی کہ وہ بیچ گیا اور نہ وہاں سردی اتنی سخت ہوتی ہے کہ انسان ہلاک ہو جاتے ہیں مگر اس نے اس کی کچھ پرواہ

Page 217

زریں ہدایات (برائے طلباء) 212 جلد سوم نہ کی اور جو کام کرنے کا اس نے ارادہ کیا تھا اسے کر کے چھوڑا.ایک اور مثال بھی ایسی ہے اور میں اس کے بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا.وہ مشہور مثال ہے جو نپولین کے متعلق ہے.نپولین کو رسی کا (Corsica) کا رہنے والا تھا.جس طرح آجکل ہندوستان انگریزوں کے ماتحت ہے اسی طرح جزیرہ کو رسی کا فرانس کا مقبوضہ تھا.اور فرانس ہی کا قانون وہاں چلتا تھا.اور جس طرح انگریز ہندوستانیوں کو محکوم ہونے کے سبب حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اسی طرح فرانسیسی بھی کو سیکن کو حقیر و ذلیل سمجھتے تھے.نپولین ایک غریب کا لڑکا تھا.مگر چھوٹی عمر میں ہی مصنوعی ہتھیاروں سے کھیلا کرتا تھا.وہ اصلی ہتھیار تو بہم نہیں پہنچا سکتا تھا اور نہ ہی اس کی عمر اتنی تھی کہ وہ ان کے ساتھ کھیلتا.اس لئے وہ لکڑی یا کسی اور چیز سے اسی وضع قطع کے ہتھیار بنالیتا اور ان کے ساتھ کھیلا کرتا تھا.اس نے لکڑی کی ایک چھوٹی سی تلوار بنائی ہوئی تھی جسے وہ ہمیشہ اپنے ساتھ لٹکائے رکھتا تھا.حتی کہ سکول بھی جاتا تو اسے اپنے ہمراہ لے جاتا.فرانس کے لڑکے اس پر مہنتے اور اسے Little Corsican ”چھوٹا کو سیکن حقیر کو سیکن" بزدل کورسیکن" کہا کرتے تھے.جس کا مطلب یہ تھا کہ ملک تو تمہارا غلام ہے اور تم یوں تلوار لٹکائے پھرتے ہو.مگر وہ خاموش رہتا.اور جب فرانسیسی لڑکے اسے بہت تنگ کرتے دس دس بارہ بارہ مل کر اس کے پیچھے پڑ جاتے.تو ان لڑکوں کا شاید یہ خیال ہو کہ نپولین یا تو رو پڑے گا یا اگر ہم سے الجھ پڑا تو مار کھائے گا.وہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہ کرتا اور چلتے چلتے پلٹ کر یہ کہہ دیتا.بزدل میں ہوں کہ تم.جو دس بارہ میرے پیچھے پھر رہے ہو.ٹھیک ہے میں ہی بزدل ہوں.آخر کار وہی Little Corscan جسے فرانس کے لڑکے ”چھوٹا کورسیکن بزدل کورسیکن حقیر کورسیکن“ کہتے تھے سارے ملک کا بادشاہ ہو گیا بلکہ شہنشاہ بن گیا.پس یہ مت خیال کرو کہ تم کچھ کر نہیں سکتے.یہ خیال انسان کو تباہ کر دیتا اور نا کارہ بنا دیتا ہے.تم اس خیال کو پاس بھی نہ پھٹکنے دو کہ تم کچھ کر نہیں سکتے.بلکہ ہر وقت یہی سمجھو کہ تم سب کچھ کر سکتے ہو.لیکن خدا کی مدد و نصرت کے ساتھ.پس ہر وقت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ 2 | پر دھیان رکھو کہ اے مولا! تیری بندگی تو کر سکتے ہیں لیکن تیری مدد کے ساتھ.اور ہر حال میں اسی

Page 218

زریں ہدایات (برائے طلباء) سے مدد مانگو اور اس کی عبادت کرو.213 جلد سوم ہمارے بچوں کو چاہئے کہ وہ یقین کریں کہ ہم سب کچھ کر سکتے ہیں.لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.پس کام کرو اور یقین رکھو کہ ہمیشہ خدا کی طرف سے مدد ہوتی ہے.میرے نزدیک ایک چھوٹا بچہ بھی ملکوں کو صداقت پہنچا سکتا ہے.بشرطیکہ لوگ ماننے کے لئے تیار ہوں.کوئی کہے گا یہ تو مشکل ہے کہ لوگ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.مگر ایسے آدمی کو سوچنا چاہئے کہ جب تک بات کہی نہ جائے یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی مانے گا نہیں.پس چاہئے کہ جو کچھ کہنا ہے کہہ دو اور اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت مانگو.وہ آپ ہی دلوں کو اس طرف جھکا دے گا اور ایسے لوگ پیدا کر دے گا جو ماننے والے ہوں گے.پہلے نیت پیدا کرو اور پھر اس نیت سے جو کرو گے وہ ہو جائے گا.پھر ہمارے بچوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ جن لوگوں نے کچھ کرنا ہوتا ہے وہ مخالفتوں کی پرواہ نہیں کیا کرتے وہ اپنا کام کیے جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مخالفت کے درمیان ہی موافقت پیدا ہو جاتی ہے.تم بھی مخالفتوں کی پرواہ ہر گز نہ کرو اور کام کرنے کا احساس پیدا کرو.ہندو اپنے بچوں میں یہ احساس پیدا کراتے ہیں کہ اپنی قوم کو فائدہ پہنچانا ہر موقع پر مد نظر ر ہے.اس لئے ان کے لڑکے چھوٹی چھوٹی عمر میں بھی بعض دفعہ ایسے کام کرتے ہیں جو دوسرے بچوں کو حیرت میں ڈالنے والے ہوتے ہیں لیکن بڑے ہو کر تو وہ سب کچھ اپنی قوم کے لئے کر گزرتے ہیں اور ہر طرح اپنی قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں.لیکن ایک مسلمان کچھ نہیں کر سکتا.وہ ڈرتارہتا ہے کہ اگر میں کوئی ایسی بات کروں گا تو شاید میری مخالفت ہو.اگر میں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کے لئے کچھ کیا تو معلوم نہیں لوگ کیا کریں گے.اس قسم کے خیالات سے وہ قوم کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا.بات یہ ہے کہ جو شخص ارادہ کرلے کہ میں نے فلاں کام کرنا ہے وہی کچھ کر سکتا ہے.ایک ہندو اپنی قوم کے لئے کچھ کرتا ہے تو اسے کیا لوگ منہ میں ڈال لیتے ہیں یا وہ نوکری سے برخواست کر دیا جاتا ہے؟ جو مسلمان ایسے کاموں سے ہچکچاتے ہیں باوجود کچھ نہ کرنے کے بھی یہ باتیں ان کے پیش آجاتی ہیں اور یہ اس بزدلی کا نتیجہ ہے جو

Page 219

زریں ہدایات (برائے طلباء) 214 چار سوم شروع میں ہی کام نہ کرنے کے لئے پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے آج اگر نیت کرو گے تبھی زندگی میں کوئی ایسا دن آئے گا کہ تم کچھ کر سکو گے.ورنہ بڑے ہو کر تمہاری فطرت مر جائے گی.حضرت مسیح موعود جب فوت ہوئے تو مخالفت حد سے بڑھ گئی.حتی کہ جماعت کے بعض بڑے بڑے لوگ بھی گھبرا گئے کہ اب کیا ہوگا.مگر میں نے اُسی وقت یہ عہد کیا تھا کہ خدایا! اگر ساری کی ساری جماعت بھی مرتد ہو جائے گی اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو بھی میں اس صداقت کو پھیلاؤں گا جو حضرت مسیح موعود لائے.اُس وقت میری عمر انیس سال کی تھی.اب تم میں بہت سے لڑکے اسی عمر کے ہیں.ذرا اپنے دلوں کو ٹولیں کہ کیا ان میں بھی یہ ارادہ، یہ عزم، یہ احساس اور یہ نیت پائی جاتی ہے.اگر نہیں تو اس کو پیدا کرنا چاہئے اور کام کرنا چاہئے.لیکن شرط یہ ہے کہ محجب اور تکبر نہ ہو بلکہ اخلاص اور بلند حوصلگی ہو.تم ارادہ کرو کہ ہمیں سب کچھ کرنا ہے اور یہ نہ خیال کرو کہ ہم نے یہ کیا ہے.اگر ایسا ارادہ نہ کرو گے تو کبھی کچھ نہ کر سکو گے.عجب اور بلند حوصلگی میں یہی فرق ہے کہ جس نے کام کیا اور کر کے یہ کہا کہ میں نے یہ کیا اور وہ کیا اس نے عجب کیا.لیکن بلند حوصلہ شخص کام کر کے بھی یہی کہتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا مگر سب کچھ کرتا ہے.گویا تکبر اور مجب کرنے والا ماضی کی باتیں کہتا ہے اور کام کرنے والا مستقبل پر نظر رکھتا ہے.تم بلند حوصلہ بنو اور بلند حوصلگی سے کام کرو.مگر عجب اور وہم کو پاس نہ پھٹکنے دو.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ سب سے اول اخلاق فاضلہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ یہ جس طرح بڑوں کے لئے ضروری ہیں اسی طرح بچوں کے لئے بھی ضروری ہیں انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرو.اخلاق فاضلہ میں یہ بھی داخل ہے کہ گالی نہ دینا، برے کام نہ کرنا کسی پر ظلم نہ کرنا کسی سے بے ادبی سے پیش نہ آنا.تمہیں ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے.پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارا ملک ذلیل سمجھا جاتا ہے اور اس کے ذلیل ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی کام کرنے والا ذلیل ہوتا ہے.لیکن یورپ کے بڑے بڑے آدمی اوٹی اولی کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں.میں جب کی

Page 220

زریں ہدایات (برائے طلباء) 215 جلد سوم انگلینڈ گیا تو وہاں ایک بڑا آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آیا.تحفہ کے طور پر میں نے اسے چند کتا بیں دیں اور ایک آدمی سے کہا کہ سواری تک لے جا کر دے.مگر اس نے اصرار کے ساتھ خود اٹھالیں.ہمارے ملک میں اگر بڑے آدمی کو کتابیں دی جائیں تو اول تو وہ نہ لینے کے لئے کوئی بہانہ بنائے گا کہ پھر منگوالوں گا.اور اگر لے بھی لے تو بہت برا منائے گا.مگر یورپ میں یہ بات نہیں.وہاں بڑے بڑے لوگ بنڈل خود اٹھاتے اور اس میں کوئی عار نہیں سمجھتے.تو ہمارے ملک میں یہ بڑا نقص ہے اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ والدین ان باتوں کی عادت بچپن میں نہیں ڈالتے.اور پھر بیرونی اثرات سے محفوظ رکھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے.وہ یہ سمجھتے ہیں ابھی بچہ ہے بڑا ہوگا تو آپ ہی سیکھ جائے گا.اور خود بچے بھی یہی خیال کرتے ہیں.حالانکہ یہی وقت ہوتا ہے جب بچہ کو آئندہ کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے جسے بعض والدین لاڈ پیار میں گنوا دیتے ہیں.پچھلے زمانہ میں والدین جب استاد کے سپرد کرتے تھے تو ساتھ ہی استاد سے کہہ دیتے تھے اس کی ہڈیاں ہماری اور گوشت پوست تمہارا.جس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہڈی نہ ٹوٹے باقی جتنی سزا تم چاہو دے لو.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ اچھی بات تھی.یہ تو بچے لو یہ پر ظلم تھا.لیکن کم از کم اس سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے زمانہ میں والدین اپنی اولاد میں اچھی باتیں پیدا کر جانے کے بہت خواہشمند ہوتے تھے.وہ اس بات کی پرواہ نہ کرتے تھے کہ ان کے بچے کے ساتھ استاد کیا سلوک کرتا ہے بلکہ وہ یہ بات چاہتے تھے کہ ان کے بچے میں محنت مشقت کی عادت پڑے اور یہ اچھی عادتیں اور عمدہ باتیں سیکھ جائے.اس لئے وہ اس قسم کی بات استاد سے کہہ دیتے تھے جسے بعض استاد عملی طور پر پورا بھی کرتے.ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک لڑکا تھا اسے جب استاد کے سپرد کیا گیا تو استاد نے دوسرے لڑکوں کے ساتھ اسے بھی ایک رمبا 3 دے دیا اور لڑکوں کے ساتھ گھاس کھودنے کے لئے بھیج دیا.یہ کوئی اچھی بات نہیں.میں اسے پسند نہیں کرتا.مگر میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ لڑکے اخلاق فاضلہ نہ سیکھیں یا کام سے جی چرانے کی عادت اختیار کریں.انہیں چاہئے اچھے اور عمدہ اخلاق سیکھیں.اور جو کام ہو اسے اپنے ہاتھوں سے کرنے کی مشق کریں.اور ہر حال میں عمدہ نمونہ بن کر دکھا ئیں.

Page 221

زریں ہدایات (برائے طلباء) 216 جلد سوم ہمارے ہاں اسٹیشنوں پر قلی ہوتے ہیں جن سے لوگ کام لیتے ہیں اور خود اپنا چھوٹا موٹا اسباب اٹھانا بھی ہتک سمجھتے ہیں.لیکن میں نے اپنے سفر یورپ میں دیکھا ہے کہ یورپ میں کوئی قلی نہیں ہوتا.امریکہ کا ایک آدمی میرے ساتھ سفر کر رہا تھا.اس کا تمام خاندان اس کے ساتھ تھا.اس سفر پر ان کا دو لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہو چکا تھا.فرسٹ کلاس میں سب لوگ سفر کر رہے تھے اور ابھی کئی ملکوں میں انہوں نے پھر نا تھا.مگر باوجود اس کے سب کام اپنے آپ کرتے تھے.کسی جگہ انہوں نے یہ نہیں کیا کہ کسی قلی کا انتظار کریں یا کسی کو مدد کے لئے بلائیں.بلکہ اپنا اسباب آپ اٹھاتے اور خوشی کے ساتھ ان کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے.بچوں کے لئے بچپن کا زمانہ سیکھنے کا ہے اس لئے اس میں ہر بات سیکھو.خود اپنا کام آپ کرنے کی مشق کرو.اور دوسروں کی مدد ڈھونڈنے سے حتی الوسع بچو تا کہ تمہیں کام کرنے کی عادت پڑے.اگر کام کرنے کی عادت نہ ہو تو کسی ایسے موقع پر جبکہ تمہیں خود ہی کام کرنا پڑے تم کچھ نہیں کر سکو گے.مثلاً کوئی غریب پڑا ہے وہ چل نہیں سکتا یا اسے کوئی اور تکلیف ہے وہ کسی کام کے کرنے سے مجبور ہے اب اگر کسی لڑکے کو خود کام کرنے کی عادت نہیں تو وہ اس کی کچھ مدد نہیں کر سکے گا.اور ایسا ہی اگر اس کو محنت اور مشقت کی عادت نہیں اور اسے کوئی کام خود کرنا پڑ گیا ہے تو وہ اپنی مدد کے لئے بھی ادھر اُدھر دیکھتا رہے گا.اور کوئی آدمی ہے کوئی آدمی ہے کی آواز میں لگائے گا.لیکن اگر اسے کام کرنے کی عادت ہے اور محنت و مشقت کو برداشت کر سکتا ہے تو وہ کسی کی انتظار نہیں کرے گا اور کسی کی مدد کا منتظر نہیں رہے گا بلکہ فورا سب کام خود ہی کر لے گا.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اسمع الاول کے پاس ایک آدمی آیا.کچھ دوائیوں کا کام تھا اور کوئی دوائی دوسری جگہ سے لائی تھی.آدمی ذرا آسودہ حال تھا.ادھر اُدھر دیکھنے لگا.حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے دریافت فرمایا کیا دیکھتے ہو؟ کہنے لگا کسی آدمی کو دیکھتا ہوں کہ مجھے وہ دوائی لا دے لیکن مجھے کوئی آدمی نظر نہیں آتا.اس پر آپ نے فرمایا تھوڑی دیر کے لئے تم ہی آدمی بن جاؤ.غرض | ہمارے ملک میں جو امیر ہوتے ہیں وہ اپنے آپ کو آدمی سے کچھ اوپر سمجھتے ہیں.تم خود کام کرو

Page 222

زریں ہدایات (برائے طلباء) 217 جلد سوم صلى اور یہ مت سمجھو کہ بڑے آدمی کے بیٹے ہو.رسول کریم ﷺ جب کہیں باہر جاتے تھے تو خود کھانے پکانے میں حصہ لیتے تھے.میں بھی ایسا ہی کرتا ہوں.جب کبھی باہر جاتا ہوں تو اپنے حصہ کا کچھ کام آپ بھی کرتا ہوں لیکن لوگ اسے ہتک سمجھتے ہیں.بچوں کے لئے ان باتوں کو آسودہ حال ہونے کے سبب چھوڑ دینا یا کسی اور وقت سیکھنے کے خیال سے موجودہ زمانہ میں ان کی طرف متوجہ نہ ہونا ہر گز درست نہیں.کیونکہ ہر ایک کام کے لئے ایک وقت ہوتا ہے اور جب وقت گزر جائے تو پھر مشکل ہو جاتی ہے.اس لئے اُس زمانہ سے پہلے عادت ڈالو تا تمہیں ضرورت کے موقع پر کسی کام کے کرنے سے ہچکچاہٹ نہ پیدا ہو اور کوئی تکلیف نہ ہو.ہر موقع پر نوکروں سے کام لینے کی عادت مت ڈالو.میں نے دیکھا ہے بڑے بڑے لوگ جنہیں نوکروں سے کام لینے کی عادت ہوتی ہے جب یہاں آتے ہیں تو انہیں تکلیف ہوتی ہے.نوکر ساتھ نہیں ہوتے.خود وہ کچھ کر نہیں سکتے.پس تم نوکروں سے یا دوسروں سے کام کروانے کی بجائے خود کام کرنے کی عادت ڈالو.کیونکہ بغیر اس کے انسان کامیاب نہیں ہوسکتا.کیونکہ اگر کہیں اُسے کام کرنا پڑ جاتا ہے تو کر نہیں سکتا اور یہ ظاہر ہے کہ کامیابی بغیر کام کرنے کے حاصل نہیں ہو سکتی.اور دوسرے اخلاق فاضلہ میں سے کام کرتا بھی ہے اس لحاظ سے بھی اس کا عادی ہونا چاہئے.پھر میں جہاں تمہیں کام کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانے کے لئے کہتا ہوں وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ زبان کو روکو.ہمارے ملک میں دستور تھا اور بہت اچھا دستور تھا کہ بڑے آدمی کی تنبیہ کا چھوٹا جواب نہ دے.لیکن اب اگر کسی لڑکے کو اس طرح جواب دینے سے روکا جائے تو وہ کہہ دیتا ہے فلاں ہمارا کیا لگتا ہے جو ہم جواب نہ دیں.میں بتا تا ہوں وہ تمہارا کیا لگتا ہے.وہ تمہارا استاد لگتا ہے.یہ زبان، یہ عادات، یہ اخلاق سب قومی ہیں اور تم نے ان سے ہی سیکھے ہیں جو تم سے بڑے ہیں.پس جتنے بڑے ہیں وہ تمہارے استاد ہیں کیونکہ جو کچھ تم سیکھ رہے ہو ان ہی سے سیکھ رہے ہو.تو ان کو استاد سمجھ کے ان کی عزت کرو.نہ صرف ہندو اور سکھ بلکہ چوہڑا بھی اگر تم سے بڑی عمر کا ہے تو اس کی بھی عزت کرو.کیونکہ بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو تم بڑوں

Page 223

زریں ہدایات (برائے طلباء) 218 جلد سوم سے سیکھتے ہو.ان کی عزت کرو.اور اپنی زبان کو روکو تا کوئی بری بات یا بے عزتی کا کلمہ اس سے نہ نکلے.بعض دفعہ لڑکوں کی آپس میں کوئی بات ہو جاتی ہے جو بڑھ جاتی ہے اور ایک دوسرے کو دق کرنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ لڑنے لگ جاتے ہیں.ایسے موقع پر جب کوئی لڑکا کسی کو تنگ کر رہا ہو تو دوسرے لڑکے تنگ کرنے والے کو روکنے کی بجائے اُلٹے مظلوم پر ہنسیں گے.پھر یہی نہیں بلکہ ظالم سے کہیں گئے اک ہور لا.یعنی اور ایک تھپڑ مارو.ولایت میں ایسا لڑکا نیکی (Bully) کہلاتا ہے جولڑکوں کو چھیڑے اور ناحق تنگ کرے.اور ایسے لڑکے کے پیچھے سکول کے تمام لڑکے پڑ جاتے ہیں اور اُسے یکی یکی کہ کر اتنا تنگ کرتے ہیں کہ مجبور ہو کر اسے یا اپنی اصلاح کرنی پڑتی ہے یا سکول چھوڑنا پڑتا ہے.ان کے ہاں مظلوم کی مدد کی جاتی ہے اور ظالم کی نہیں.لیکن ہمارے ہاں ظالم کی مدد کی جاتی ہے اور مظلوم کی نہیں.حدیث میں آتا ہے تو اپنے بھائی کی مدد کر خواہ وہ ظالم ہے خواہ مظلوم.صحابہ نے حیرانی سے پوچھا یا رسول اللہ ! ظالم کی کیسے مدد کی جاسکتی ہے؟ فرمایا اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ہاتھ کو ظلم سے روکو.ظالم کی یہ مدد ہے کہ ظالم کو ظلم سے بچاؤ 4 تمہارے سامنے اگر بڑے چھوٹوں پر ظلم کریں تم ان کو روکو.امیر غریبوں پر زیادتی کریں تو ان کو روکو.بادشاہ ہونے کی صورت میں بھی تو وہی کچھ کیا جاسکتا ہے جب بادشاہ نہ ہونے کی صورت میں ایسا کرنے کی عادت ہو.پس تم ایسی عادتیں ڈالو اور کسی کو دوسرے پر ظلم مت کرنے رو.پھر میں ایک اور بات کی طرف بھی بچوں کو توجہ دلاتا ہوں.بے شک جنسی ایک حد تک جائز ہے لیکن تمسخر جائز نہیں.میرے پاس ایک لڑکے کا جھگڑا آیا ہے اس نے نماز پڑھتے ہوئے کسی لڑکے کو چھیڑا تھا.اس جرم کی سزا میں استادوں نے چار بید اس کو لگوا دیئے اور تین اُسے جسے چھیڑا تھا.میں نے چھیڑنے والے کے متعلق سمجھا کوئی اور ہوگا جسے میں جانتا ہوں وہ نہیں ہوگا.ب مجھے پتہ لگا کہ یہ وہی ہے جس کے متعلق میرا خیال تھا کہ وہ ایسی شرارت نہیں کر سکتا تو مجھے

Page 224

زریں ہدایات (برائے طلباء) 219 جلد سوم حیرت ہوئی کہ ایسے خاندان کا لڑکا جو مخلص ہے اور جس کے سارے ممبر مخلص ہیں ایک ایسی شرارت کرے جو پرلے درجے کی کمینہ شرارت ہے وہ گو میرے پاس کم آتا ہے اور اُسے شاید خیال ہے کہ میں اُسے نہیں جانتا لیکن اس کی کم سے کم میں شکل شناخت کرتا ہوں.اس نے ایسی پاجیانہ اور کمینہ حرکت کی ہے جو نہایت ہی قابل ملامت ہے.بازی بازی باریش با با هم بازی کھیل تو کھیل تھی ہی نماز سے بھی کھیل شروع ہوگئی.میں نہیں سمجھتا کہ وہ لڑکا اپنے باپ کی داڑھی کے ساتھ بھی کھیلے گا.یہ تمسخر اور نا جائز جنسی کی عادت کا نتیجہ ہے کہ وہ بڑھتے بڑھتے اب خدا کی عبادت پر بھی ہنسی محول کرنے سے نہ رکا.ابتدا میں افسروں نے کچھ لحاظ کیا جس سے وہ بڑھ گیا.تمسخر اور ہنسی انسان کے ایمان کو خراب کر دیتی ہے.اگر فوراً اس کی گوشمالی ابتدا ہی میں کردی جاتی اور اسے شروع ہی میں روکا جاتا تو وہ ایسی پاجیانہ حرکت نہ کرتا.اور اگر والدین یا استاد سمجھدار ہوتے تو اس کی ایسی حرکات پر نہ کوئی رعایت کر سکتا اور نہ چشم پوشی سے کام لیتا بلکہ قرار واقعی اس کو سزادی جاتی.اور سارے کے سارے سکول کے لڑکے اگر اس کے برخلاف ہو جاتے اور اسے تنگ کرتے تو وہ سمجھ جاتا اور پھر آئندہ ان حرکات کا مرتکب نہ ہوتا.لوگ کسی کی رعایت ڈر کے مارے کرتے ہیں اور اُستاد بھی کسی لڑکے کے شرارت کرنے پر بھی صرف اس لئے چپ رہتے ہیں کہ بڑے آدمی کا لڑکا ہے لیکن اگر دوسری طرف سے بھی بڑی طاقت کھڑی ہو جاتی ہے تو پھر وہ ڈر کے مارے انصاف کرتے ہیں.پس جہاں میں بڑوں کو کہتا ہوں کہ وہ انصاف اور رعایت انصاف اور رعایت کے اصول کی بناء پر کریں وہاں ہی میں چھوٹوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ جنسی اس حد تک نہ کریں کہ ناجائز ٹھہر جائے کیونکہ یہ ایک بُری بات ہے اور تمسخر کی عادت نہ ڈالیں کہ یہ پاجیانہ فعل ہے.پھر میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ والدین کی خدمت اور اطاعت کرو.رسول کریم کے فرماتے ہیں جنت ماں باپ کے قدموں کے نیچے ہے پس اس جنت کے لینے کی کوشش کرو اور اس جنت کا لینا یہی ہے کہ ماں باپ کی خدمت اور اطاعت کی جائے.آجکل بچوں میں یہ بات صلى الله

Page 225

زریں ہدایات (برائے طلباء) 220 جلد سوم بہت کم پائی جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک ہندو کا قصہ سنایا کرتے تھے.اس نے جو کچھ کہ اس کے پاس تھا خرچ کر کے اپنے لڑکے کو پڑھوایا اور سمجھا کہ اس کی کمائی کھاؤں گا.وہ لڑ کا تعلیم پا کر ڈپٹی ہو گیا.ایک دفعہ اس کا باپ اس سے ملنے گیا.ہند و غلیظ تو ہوتے ہی ہیں اور پھر پرانے زمانہ کے ہند و تو غلیظ ہونے میں مشہور ہی تھے.اور پھر ان میں سے بھی جو غریب آدمی ہوں ان کی غلاظت تو حد سے بڑھی ہوتی ہے.اس ڈپٹی کے باپ کے کپڑے بھی میلے کچیلے اور غلیظ تھے.پگڑی، گر تا سب گندہ دھوتی بھی پھٹی پرانی اور میلی.جسے چکناہٹ نے اور بھی بدبودار کر دیا تھا.باپ جس نے بڑی محنت سے اور سب کچھ خرچ کر کے اسے پڑھایا تھا اس حالت میں اسے ملنے گیا اور اندر جا کر ایک کرسی پر جا بیٹھا.آجکل تو لوگ ڈپٹی کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن پچاس سال پہلے ڈپٹی ایک اچنبھا ہوا کرتا تھا.لوگ اسے دیکھنے آیا کرتے تھے.اگر ڈپٹی صاحب کا گزر کسی گاؤں سے ہو جاتا تو ارد گرد کے دیہات کے لوگ بھی دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے کہ دیکھیں ڈپٹی کیا ہوتا ہے.ان کے نزدیک ڈپٹی شاید انسان نہیں رہتا تھا بلکہ انسان سے بڑھ کر کچھ اور ہو جاتا تھا.اُس زمانہ میں جب اس ڈپٹی کا باپ اسے ملنے آیا تو اس وقت اس کے پاس کو کے رؤساء اور امراء اور عمائدین بیٹھے تھے اور اور دوست یار بھی اس کے جمع تھے.اس کے میلے کچیلے اور گھن دار کپڑے دیکھ کر ان کو بہت کراہت پیدا ہوئی.اور کسی نے کہہ دیا یہ کون ہے جو یہاں آگھسا ہے؟ یہ سن کر ڈپٹی صاحب نے سوچا یہ کہنے میں میری ہتک ہوگی کہ میرا باپ ہے اس لئے اس نے کہہ دیا کہ یہ ہماراہلیا ہے.چونکہ اس نے مجھے بچپن میں کھلایا ہے اس لئے بے تکلف ہو گیا ہے.یہ سن کر اس کے باپ نے گالی دے کر بتایا کہ میں اس کا باپ ہوں.اس پر لوگوں نے ڈپٹی صاحب کو ملامت کی اور بجائے عزت کے ذلت کرنی شروع کر دی.تو بچو تم خواہ کسی حالت میں ہو جاؤ ماں باپ کی عزت ہمیشہ ملحوظ رکھو اور ان کے احترام میں فرق نہ آنے دو.بچہ جب پڑھ کر جاتا ہے تو بات بات پر اپنی لیاقت جتاتا ہے.ماں ان پڑھ ہوتی ہے اب وہ کیا جانے زمین گول ہے یا چپٹی.وہ جب بچہ سے کئی باتیں سنتی ہے تو رعب میں آجاتی ہے اور جھتی

Page 226

زریں ہدایات (برائے طلباء) 221 جلد سوم ہے کہ ہمارا بچہ بہت پڑھ گیا ہے لیکن یہ پڑھنا کوئی پڑھنا نہیں کہ دو ایک جماعتیں پاس کر لیں یا ایک آدھ سیپارہ ختم کر لیا.میرے پاس عورتیں آتی ہیں اور اپنے بچوں کے متعلق کہتی ہیں کہ ان کی نوکری کا بندوبست کرو.وہ بہت پڑھ گیا ہے.لیکن جب پوچھا جاتا ہے کتنا پڑھ گیا ہے تو کہہ دیتی ہیں کہ قرآن شریف فرفر پڑھ لیتا ہے.اور اگر کسی نے اور زیادہ کہا تو یہ کہہ دیا کہ اردو کی دوسری اور تیسری کتاب پڑھ لی ہے.مگر یہ کوئی تعلیم نہیں اور نہ اس سے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد حاصل ہوتا ہے.پس تم پڑھو اور خوب محنت کر کے پڑھو.لیکن ماں باپ کی عزت کرو یہ نہ ہو کہ تم تعلیم حاصل کر کے ماں باپ کی بے ادبی کرنے والے بن جاؤ.پھر میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں نماز پڑھو اور اس میں سستی نہ کرو.دینی کتب پڑھو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو.تم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو دس ہیں روپیہ مہینہ کی مٹھائی کھا جاتے ہیں.اگر تم دوروپے سال کے حساب سے بھی حضرت صاحب کی کتابیں خرید کر ساتھ لے جاؤ تو دس سال میں تمہارے پاس بہت سی کتابیں جمع ہو سکتی ہیں.ان کتابوں میں علم اور روحانیت کا بہت ذخیرہ جمع ہے جو ہر وقت تمہارے کام آسکتا ہے.حضرت صاحب کی ساری تعلیم ان کتابوں میں موجود ہے.پس تم ان کو پڑھو کہ یہ بہترین استاد ہیں.تعداد کے لحاظ سے یہ صیحتیں گو تھوڑی ہیں لیکن عمل کے لحاظ سے بہت ہیں.ان پر عمل کرو اور اس کے بعد کچھ دعا کر لو تا خدا تم پر بھی اور تمام دوسرے لوگوں پر بھی رحم فرمائے اور مدد کرے.“ (الفضل 18 /اگست 1925ء) 1 السيرة الحلبية جلد 1 صفحہ 466 مطبوعہ بیروت 2012 ء الطبعة الأولى 2: الفاتحة: 5 3 رمبا گھر پا ( تنویر اللغات پنجابی اردو صفحہ 552 ناشر ایور نیوبک پیلس اردو بازار لاہور ) :4 كنز العمال جلد 16 صفحہ 461 حدیث 45439 مطبوعہ دمشق 2012ء الطبعة الأولى

Page 227

زریں ہدایات (برائے طلباء) 222 جلد سوم جلسہ تقسیم انعامات احمدی ٹورنامنٹ 29 نومبر 1925 ء کو حمد یہ ٹورنامنٹ کے جلسہ تقسیم انعامات میں حضرت خلیفہ اسمع الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں:.جیسا کہ پہلے دستور چلا آیا ہے انعامات تقسیم کرنے کے بعد میں بعض باتیں بطور نصیحت کہا کرتا ہوں.لیکن آج انعام تقسیم کرنے سے پہلے ہی کچھ کہنا چاہتا ہوں.ایک تو اس لئے کہ بوجہ نزلہ چونکہ گلے میں تکلیف ہے اس لئے میں زیادہ نہیں بول سکتا.اور دوسرے اس لئے کہ انعام لینے والوں کو بھی بعض ہدایات دینا چاہتا ہوں.ٹورنامنٹ کی غرض یہی ہے کہ ہماری جماعت میں جسمانی صحت اور جسمانی طاقتوں کو ترقی دینے کا خیال پیدا ہو.اور روحانی ترقیات کے لئے جسمانی صحت کا خیال نہایت ضروری ہے.مجھے شروع ایام خلافت میں زیادہ کام کی وجہ سے ہر قسم کی ورزش ترک کر دینی پڑی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک دوست دوسرے پر اعتراض کر رہے ہیں کہ وہ ورزش میں وقت ضائع کرتا ہے.میں نے اعتراض کرنے والے کو سمجھانا شروع کیا.اُس وقت میرا آخری فقرہ یہ تھا - کہ بعض حالتیں ایسی آتی ہیں کہ جب جسمانی ورزش نہ کرنا گناہ ہوتا ہے.اس کے بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں نے سمجھا یہ تو اپنے آپ کو ہی میں نصیحت کر رہا تھا.اس کے بعد میں نے ورزش شروع کر دی.ابھی چند دن ہوئے شاید دس بارہ دن ہوئے ہوں گے میں نے ایک عجیب رویا دیکھی.میں خطبہ پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ جامع مسجد بہت وسیع ہے.اتنی وسیع تو نہیں کہ جہاں تک نظر جاتی ہے مگر بہت وسیع ہے دور تک پھیلی ہوئی ہے.نمازی بھی بہت

Page 228

زریں ہدایات (برائے طلباء) 223 جلد سوم کثیر ہیں جن کو میں نے تین نصیحتیں کی ہیں.پہلی تو میں بھول گیا ہوں.دوسری یہ کی ہے کہ جماعت کے لوگوں کو چاہئے مرکزی کاموں میں زیادہ دلچسپی لیں.اور تیسری یہ کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنی آئندہ نسلوں کی صحت کا خیال رکھیں.یہ نصیحت کرتے ہوئے میں نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ ہماری آئندہ نسلوں کے لئے ہماری نسبت ہزار گنا زیادہ کام در پیش ہے جس کے اٹھانے کے لئے ان کے کندھے اتنے ہی زیادہ چوڑے ہونے چاہئیں.یہ خواب ایک بہت بڑی بشارت بھی اپنے اندر رکھتی ہے.اور وہ یہ کہ جب ہماری انگلی پود کام کرنے کے قابل ہوگی تو اُس وقت جماعت لاکھوں سے بڑھ کر کروڑوں تک پہنچ جائے گی.مگر اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمیں جسمانی صحت کا بھی خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے.پس صحت کی درستی اور حفظانِ صحت کا خیال روحانیت کے حصول میں سے ایک حصہ ہے.اگر مستقل طور پر اس کو کام اور اپنا مشغلہ نہ بنا لیا جائے تو روحانی ترقی میں اس سے بہت بڑی مددملتی ہے.پس یہ ہماری جماعت کے لئے نہایت ضروری ہے.موجودہ ٹورنامنٹ کا میں نے ایک ہی کھیل دیکھا ہے جس کے متعلق میں خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ ہمارے لڑکوں نے فٹ بال میں بہت ترقی کی ہے.گو اس کھیل میں تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء دبے رہے ہیں مگر اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کا کھیل اچھا نہیں تھا.ایک حد تک ان کا کھیل اچھا تھا.اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے اور جو ایک حد تک معقول ہے وہ یہ ہے کہ ہائی سکول کے طلباء رسہ کشی میں بہت طاقت صرف کر چکے تھے.کسی حد تک میں اس لئے کہتا ہوں کہ اس ٹیم میں سے پانچ چھ نے ہی رسہ کشی کی تھی.باقی اس میں شامل نہ تھے اور ان کے لئے یہ کھیل ایسا ہی تھا جیسا مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے.ہاں ایک اور بات ضروری ہے اور ٹورنامنٹ کمیٹی کے لئے یہ بات قابل غور ہے کہ مدرسہ احمدیہ کا کورس 12 سالہ ہے اور ہائی سکول کا دس سالہ.گو یا دو سال کی زیادتی ہے.اور بچپن کی عمر میں یہ بڑی زیادتی ہے.یہاں آئندہ چوتھی ٹیم کالج کی ٹیم بنانی چاہئے جس میں دوسرے کالجوں کے لڑکوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں.سکول کی ٹیم صرف سکول کے لڑکوں کے ساتھ کھیلے.میں سمجھتا

Page 229

زریں ہدایات (برائے طلباء) 224 جلد سوم ہوں اس اصلاح کے نتیجہ میں ہائی سکول کو جو دقتیں اب پیش آتی ہیں وہ نہ آئیں گی.مگر باوجود اس کے میں کہتا ہوں ہائی سکول کی ٹیم کے لئے ترقی کی ابھی بڑی گنجائش ہے.میرے نزدیک لڑکوں کے کھیلنے کے متعلق یہ احتیاط نہیں مد نظر رکھی جاتی کہ ہر حصہ کی مشق نہیں کرائی جاتی.ہر چیز عمدہ اُسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ ہر حصہ کی مشق ہو.مثلاً یہ کہ مختلف اینگل (Angle) سے کس طرح تک (Kick) مارنی چاہئے.سر سے کس طرح ، الٹے پاؤں سے کس طرح.غرض ہر لڑکے کو ہر طرح کی مشق ہونی چاہئے.میرے نزدیک کھیلوں میں ترقی کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ ہائی سکول کو مدرسہ احمدیہ کے ساتھ کھیلنے کا زیادہ موقع دیا جائے.جوٹیم کمزور ہو وہ بار بار مقابلہ کرنے سے طاقت ور ہو جاتی ہے.اس کے بعد میں انعام لینے والے بچوں کے لئے یہ تجویز کرتا ہوں کہ جو انعام لینے آئے وہ پاس آکر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہے اور مصافحہ کرے.اس کے بعد انعام دیا جائے گا.ہمارا ہر طریق اسلامی رنگ اور اسلامی شان کا ہونا چاہئے.مصافحہ کرنے پر جتنا زور اسلام نے دیا ہے اتنا کسی صل الله اور مذہب نے نہیں دیا.رسول کریم ﷺ کے اعمال اور طریق ہمارے لئے سنت ہے.صحابہ میں دستور تھا کہ خوشی کے موقع پر رسول کریم ﷺ سے مصافحہ کرتے اور آپس میں ایک دوسرے سے بھی ایسے موقعوں پر مصافحہ کرتے.انعام لینے کا موقع بھی چونکہ خوشی کا موقع ہے اس لئے جس کے ہاتھ سے انعام لیا جائے اس سے مصافحہ کرنا چاہئے.دوسری قوموں میں بھی یہ دستور ہے کہ جب انعام یا ڈگریاں یا خطاب یا تمنے دیئے جاتے ہیں تو ساتھ مصافحہ بھی کرتے ہیں.پس جولڑ کا انعام لینے کے لئے آئے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہے اور مصافحہ کرے.پھر انعام لینے کے بعد جراكُمُ الله کہنا چاہئے.یعنی انعام دینے والوں کے لئے دعا کرنی چاہئے.اور انعام دینے والے کو بارک اللہ کہنا چاہئے.میں یہ کہوں گا حاضرین بھی یہی کہیں.“ اس موقع پر حضور نے جب ایک لڑکے کو انعام دیا اور وہ ہاتھ پیچھے کھینچتے ہوئے گلدستہ کو بھی جو میز پر رکھا تھا اپنی طرف کھینچ لے گیا تو حضور نے فرمایا:.یہ تو ہم نے نہیں دیا یہ ہمارا ہے.“

Page 230

زریں ہدایات (برائے طلباء) پھر حضور نے فرمایا:.225 جلد سوم ہے.66 انعام لینے والے جَزَاكُمُ الله نرم آواز سے کہتے ہیں.اس کی کوئی وجہ معلوم ہوتی اسی سلسلہ میں یہ بھی فرمایا:.اس قدر حاضرین کی طرف سے بَارَگ اللہ کی آواز بہت مدھم آتی رہی ہے.اس لئے میں تجویز کرتا ہوں کہ ٹورنامنٹ کی مینیجنگ کمیٹی آئندہ ہال کے دروازوں پر آدمی کھڑے کر دے جو آنے والوں سے یہ اقرار کرا کر اندر گھنے دے میں بَارَكَ الله کہوں گا.“ آخر میں حضور نے دعا کروائی کہ:.اللہ تعالیٰ ہمیں جسمانی اور روحانی دونوں طاقتیں عطا فرمائے اور ہمارے رستہ میں جو روکیں ہیں انہیں دور کر کے ترقی بخشے.“ (الفضل 15 دسمبر 1925ء)

Page 231

زریں ہدایات (برائے طلباء) 226 جلد سوم طلباء کو نصائح 5 فروری 1926ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ کی طرف سے مکرم شیخ محمود احمد صاحب کو ایڈریس پیش کرنے کے لئے ایک مجلس کا انعقاد کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.مجھے اس بات سے بہت خوشی ہوئی ہے کہ آج جن لڑکوں نے قرآن نظم اور ایڈریس پڑھا وہ ان لڑکوں سے مختلف ہیں جو ہمیشہ ایسے موقعوں پر ان چیزوں کو پڑھا کرتے تھے.طلباء کا عام طور پر یہ قاعدہ تھا کہ جب کبھی ایسا موقع آتا تو وہ انہیں لڑکوں کو پڑھنے کے لئے کہتے جو اکثر ان کو پڑھتے.گویا یہ عید کا جوڑا تھا جو انہوں نے بنا کے رکھا ہوا تھا کہ جس طرح سارے سال کے بعد ایک دفعہ اس جوڑے کو نکال کر پہن لیتے ہیں اسی طرح جب موقع پڑتا ہے تو انہیں لڑکوں کو ایڈریس وغیرہ پڑھنے کے لئے پیش کر دیتے ہیں.مگر اس دفعہ ایسا نہیں کیا گیا.اس دفعہ اور لڑکوں کو پیش کیا گیا ہے.جس لڑکے نے اس وقت ایڈریس پڑھا ہے یہ اس کا پہلا موقع ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ کوشش کرے تو اس میں ترقی کر سکتا ہے.اسی طرح دوسرے لڑکے بھی اگر اس بات کی کوشش کریں تو وہ بھی اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں.مولوی محمد یوسف صاحب نے نظم پڑھی ہے اور بے شک اچھے انداز میں پڑھی ہے لیکن آواز مدہم تھی.ان کی قوم کی آواز اونچی ہے اور خاص تربیت کے ماتحت اور بھی اونچی ہو جاتی ہے.اگر آواز ناجائز اور بدی کے لئے صرف کی جاسکتی ہے اور جلب منافع کے واسطے استعمال ہو سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ نیکی کے لئے استعمال نہ ہو سکے اور قلوب کو نیک اثر قبول کروانے کے لئے صرف نہ ہو سکے.ان کی آواز سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی رنگ ان کی آواز میں مخفی ہے -

Page 232

زریں ہدایات (برائے طلباء) 227 جلد سوم لیکن چونکہ ہدایت اور تربیت کرنے والا کوئی نہیں ملا اس لئے اچھی طرح اسے نہیں نبھا سکے.جو ماہر فن ہوتے ہیں وہ شعر کو بلند پڑھ سکتے ہیں.تمام لوگ ایسا نہیں کر سکتے.لیکن بعض اشعار ایسے ہوتے ہیں کہ آپ ہی آواز بلند کرالیتے ہیں اور بعض ایسے نہیں بھی ہوتے.یہ اشعار جو پڑھے گئے ہیں یہ اسی قسم کے تھے کہ آواز کو بلند کرا لیتے.پھر جن اشعار کا اس وقت کے لئے انتخاب کیا گیا ہے معنی کے لحاظ سے مناسب موقع تھے.ردیف اور قافیہ ایسا تھا کہ جن میں ہر شخص ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھ سکتا تھا.لیکن چونکہ ان کی تربیت نہ تھی اس لئے وہ اونچی آواز سے ان کو نہ پڑھ سکے.ہاں اگر تربیت کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ آواز جو اس وقت ہلکی تھی بلند ہو سکتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تربیت کے بعد یہ اچھی طرح بلند آواز سے پڑھ سکتے ہیں محض تربیت کے نہ ہونے سے بلند آواز سے نہ پڑھ سکے.ایڈریس جو مولوی چراغ الدین صاحب نے پڑھا ہے ان کی قومی جھلک اس سے نمایاں تھی.اور مولوی صاحب نے پہلی ہی دفعہ غالباً یہ ایڈریس پڑھا ہے لیکن باوجود اس کے ان کی غلطیاں کم تھیں لیکن میں سمجھتا ہوں اگر وہ کوشش کریں تو غلطیوں کو کم کر سکتے ہیں.ان کی آواز میں ایک قسم کا درد اور احساس بھی تھا جو اگر معانی کے ساتھ ساتھ چلایا جاتا تو اثر کرنے والا تھا.خالی لفظ اثر نہیں کر سکتے.ایک ہی لفظ ہوتے ہیں ایک جرنیل کہتا ہے آگے بڑھو.لوگ پیچھے ہٹتے ہیں.دوسرا جرنیل کہتا ہے تو سب کے سب بڑھ جاتے ہیں.فرق صرف یہی ہوتا ہے کہ ایک کے ساتھ دل میں درد اور احساس ہوتا ہے اور ایک کے ساتھ نہیں.دنیا میں ایسی مثال نپولین کی ملتی ہے.ایک دفعہ اسے قید کر کے لے گئے اور اس کی جگہ دوسرے کو بادشاہ بنا دیا.کچھ عرصہ کے بعد وہ آزاد ہو کر آ گیا.اور کئی آدمی پرانی اور ٹوٹی پھوٹی لٹھیں لے کر اس کے ساتھ ہو گئے اور وہ ان سب کے ساتھ حملہ آور ہوا.ادھر سے سب سے بڑا جرنیل اس کے مقابلے کے لئے کھڑا کیا گیا.اور فرانس کا پادری بھی بائبل میز پر رکھ کر آ گیا اور اس جرنیل نے اس کے سامنے بائیل پر ہاتھ دھر کر مقابلے کی قسم کھائی.ایسا ہی تمام سپاہیوں سے بھی قسمیں لی گئیں کہ ہم مقابلہ کریں گے.پھر یہ ایک باقاعدہ فوج تھی.اس کے پاس ہر قسم کا

Page 233

زریں ہدایات (برائے طلباء) 228 جلد سوم سامان موجود تھا.اس پر اس نے مقابلے کی قسمیں بھی کھائیں.اور نپولین کے ساتھیوں کے پاس کچھ بھی نہ تھا.غرض اس طرح وہ فوج نپولین کے لئے آگے بڑھی.ادھر نپولین کے پاس سامان بھی نہیں تھا، آدمی بھی تھوڑے تھے.مگر باوجود اس کے وہ فوج جس وقت آئی تو وہ ست راہ ہوا اور ہر اول کو آگے بھیجا کہ ان کو روکو اگر نہ رکیں گے تو ہم پیچھے سے آجائیں گے.سپاہیوں نے کہا بھی کہ ہم سات سو آدمی آٹھ نو ہزار آدمیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو نپولین نے کہا اگر مقابلہ نہیں کر سکتے تو فرانس کیسے فتح کر سکو گے.غرض وہ آگے بڑھے اور انہوں نے ان کو جاروکا.فرانس کی باقاعدہ فوج بنی اور کہا کہ میاں! ہم بوچر نہیں ہیں کہ تمہیں ماریں.جاؤ نپولین سے کہو اگر لڑنا ہے تو سپاہی لائیے.چنانچہ نپولین کو جب اس کی اطلاع ملی تو وہ خود وہاں پہنچا.اور جو فوج پر اباندھ کر کھڑی تھی اس نے کہا کہ کیوں مفت میں اپنی جانیں گنواتے ہو.ان کو واپس لے جاؤ اور ان کی ہم سے خونریزی نہ کراؤ.ہم قسمیں کھا کر آئے ہیں.یہ سننا تھا کہ نپولین نے آواز دی کہ تم میں سے جو چاہتا ہے کہ اپنے بادشاہ کے سینے پر گولی مارے وہ مارے.اس نے کہنے کو تو یہ جملہ کہہ دیا مگر نہ معلوم اس کے اندر کیا اثر تھا کہ کوئی بھی ان میں سے گولی نہ مار سکا.ادھر نپولین کے منہ سے یہ فقرہ نکلا ادھر بادشاہی سپاہیوں نے جو قسمیں کھا کر نپولین کے مقابلے کے لئے آئے تھے رائفلیں آسمان پر چھوڑ دیں اور سب اس کی طرف دوڑ آئے.یہاں تک کہ وہ جرنیل بھی آگیا.اور وہی فوج جو اُسے پکڑنے کو آئی تھی اس کے ساتھ شامل ہو گئی.اس کی کیا وجہ تھی ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان الفاظ کے پیچھے یقین تھا، احساسات تھے، جوش تھا، دل تھا.اور یقین اور احساس اور جوش اور دل وہ باتیں ہیں کہ اگر وہ کسی آواز کے پیچھے ہوں تو وہ خس و خاشاک کی طرح ہر روک کو صاف کرتی اور ہر راستہ کو پیدا کرتی چلی جاتی ہے.دنیاوی زندگی میں جو مادی ہے یہ ہمیں نظر آتا ہے کہ اگر کسی آواز کے ساتھ احساس اور یقین ہو تو وہ کایا پلٹ دیتی ہے.تو اس زندگی کا کیا حال ہوگا جو روحانی ہے اور جس کا منبع ہی خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اس کے متعلق بہترین مثال ہمیں آنحضرت ﷺ کی دیکھنے میں آتی ہے کہ کس وقت اور کس حال میں آپ کھڑے ہوئے.وہ کون سے حال تھے جن میں آر

Page 234

زریں ہدایات (برائے طلباء) 229 جلد سوم کھڑے ہوئے تھے.وہ وہی حال تھے جن سے عرب نا آشنا تھا اور جو مکہ کے لوگوں کے خیال اور حال دونوں سے اُلٹ تھے.اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کے مفاد کے بھی خلاف تھے.پھر جو باتیں آنحضرت سے لے کر اٹھے وہ بھی سراسر ان لوگوں کے مخالف تھیں.آنحضرت علی وہی باتیں تو کہتے تھے جو آج ہم کہہ رہے ہیں.اور ان کے ہاتھ میں بھی شروع میں سوائے قرآن کریم کے کوئی تلوار نہ تھی.اور وہاں بھی آپ کے برخلاف ویسی ہی آواز اُٹھتی تھی جیسے آجکل مولویوں کی.لیکن کیا چیز تھی کہ ان سب کو کاٹتی چلی جاتی تھی اور آنحضرت ﷺ کا قدم آگے ہی آگے اٹھتا تھا.وہ یہی تھی کہ آپ نے زبردست احساسات اور روحانی جذبات کی رو چلائی.وہ رو جو سانپ کی طرح آدمی کے لپٹ جاتی تھی اور جو تریاق کی پچکاری کرتی.مُردنی سے نہیں بلکہ محبت کی اور حیات سے متاثر ہو کر.اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے زبان سے وہ کام کر لیا جو کام تلوار سے لوگ نہ کر سکے.اثر جو ایک ایسی آواز سے پیدا ہوتا ہے جس کے پیچھے یقین احساس اور جذبہ ہوتا ہے.عام زندگی میں ہر ایک شخص اس کی کیفیات کو محسوس نہیں کر سکتا.لیکن یہی بات بعض دفعہ جب نمایاں طور پر زندگی میں آتی ہے تو سب اس کو دیکھتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہے جس کی دنیاوی تاریخ میں کوئی مثال نہیں.لوگ کہتے ہیں کہ نپولین بڑا فاتح تھا، تیمور بڑا فاتح تھا، سکندر بڑا فاتح تھا لیکن میں نے ایسا واقعہ ان کی زندگیوں میں بھی نہیں دیکھا جو جنگ حنین میں ایک با احساس اور پر جذبات آواز کا نظر آتا ہے.کسی بڑے سے بڑے فاتح کی زندگی میں اگر کوئی ایسی مثال مل سکتی ہے تو وہ صرف جذبات اور احساسات تک ہی محدود ہے کہ ان کی وجہ سے وہ اثر پیدا ہوا.لیکن آنحضرت ﷺ کی آواز میں جنگ حنین کے وقت بالخصوص جو اثر پیدا ہوا وہ روحانی احساسات اور جذبات کے سبب سے تھا.اس لئے عام فاتحین کی آوازوں سے جواثر پیدا ہو وہ اس اثر سے برابری نہیں کر سکتا اور نہ ہی برابر کہلانے کا مستحق ہے جو آنحضرت مہ کی آواز سے پیدا ہوا.غرض آنحضرت سے بارہ ہزار سپاہیوں کا لشکر لے کر میدان میں آگئے اور ادھر سے چار ہزار آدمی مقابلہ کے لئے آئے جو نہایت ہی تجربہ کار تھے.مسلمانوں کی فوج کا کچھ

Page 235

زریں ہدایات (برائے طلباء) 230 جلد سوم حصہ ایسے مقام پر ٹھہرایا گیا جہاں راستہ بالکل تنگ تھا.صرف چند گز کی سڑک تھی جس میں سے انہوں نے گزرنا تھا.یعنی ان منڈیروں کے ساتھ ساتھ بنو ثقیفہ کی فوج نے گزرنا تھا کہ جن پر مسلمان متعین تھے اور جہاں سے کہ وہ آسانی سے انہیں مار سکتے تھے.لیکن باوجود اس کے جو تغیر وہاں پیدا ہوا وہ نہایت خطرناک تھا.جیسا کہ قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے ان کے دل میں خیال پیدا ہو گیا کہ شاید ہم ہی یہ سب کام کر رہے ہیں اور ہمارے ہی زور بازو سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے.اور جب دس ہزار سے ہم نے مکہ فتح کر لیا اب تو ہم بارہ ہزار ہیں.اب ہمیں کون شکست دے سکتا ہے.پھر مقابلہ بھی صرف چار ہزار سے ہے اور وہ بھی بنو ثقیف کی قوم سے جو کوئی ایسی لڑاکا اور جنگجو قوم نہیں.غرض اِدھر ان کے دل میں یہ خیال تھے ادھر اہل مکہ جو نئے نئے فتح ہوئے تھے وہ ان کی ان باتوں کو دیکھ کر کہ رہے تھے اب تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں اب کون ہے جو تمہیں روک سکے.غرض یہ سب باتیں جمع ہو رہی تھیں لیکن تیروں کے پہلے ہی واروں نے نہ صرف سواروں میں بلکہ گھوڑوں اور اونٹوں کے دلوں میں بھی رعب ڈال دیا.اچھے اچھے سواروں کے نیچے گھوڑے تڑپتے تھے، بدکتے تھے گویا چاہتے تھے کہ ہم ان کو گرا کر بھاگ جائیں.میں نے تجربہ کیا ہے میں گھوڑے رکھا کرتا تھا کہ گھوڑے سوار کو پہچانتے ہیں.اگر وہ سمجھ لیتے ہیں کہ سوار مضبوط اور پورا سوار ہے تو کان دبائے چلے جاتے ہیں.اور اگر وہ جان لیتے کہ سوار مضبوط نہیں اور فن سواری میں پورا مشاق نہیں تو وہ پھر آرام سے نہیں چلتے.میں نے دیکھا ہے کہ اگر ایک گھوڑا میرے نیچے کان دبائے چلا جاتا ہے تو دوسرے کے نیچے آکر وہ شوخیاں کرتا اور دلتیاں چلاتا ہے.غرض گھوڑے بھی سوار کو پہچانتے ہیں.تو انہوں نے بھی سمجھ لیا کہ یہ وہ سوار نہیں جنہوں نے مکہ فتح کیا تھا.غرض اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے.وہ اگر چاہتے بھی تھے کہ کھڑے رہیں لیکن ان کی سواریاں بے بس ہو گئیں اور آنحضرت ﷺ صرف بارہ آدمیوں کے درمیان اس میدان میں رہ گئے.بے شک ان میں سے بہت سے ایسے بھی تھے کہ دل سے چاہتے تھے کہ وہاں ٹھہریں مگر وہ اپنے آپ کو سنبھال نہ سکے.اور جب یہ حالت ہوئی تو ان لوگوں میں بھی جو صرف ٹوٹ کے لئے آئے تھے یہ دلیری پیدا ہو گئی کہ مسلمانوں کو

Page 236

زریں ہدایات (برائے طلباء) 231 جلد سوم دبانا شروع کر دیا.بلکہ وہ تو کہتے تھے کہ اب مسلمان گئے.چنانچہ انہوں نے مسلمانوں کو کہا کہ اب تم توبہ کر لو.بعض اصحاب بیان کرتے ہیں کہ ہم نے کوشش کی کہ مڑیں مگر گھوڑے اور اونٹ صلى مڑتے نہیں تھے.اُس وقت چاروں طرف سے تیر پڑ رہے تھے اور آنحضرت ﷺ اکیلے ہی دشمن کی طرف بڑھے.ان بارہ صحابیوں نے جو آپ کے ارد گرد رہ گئے تھے آپ کو آگے جانے سے روکا اور عرض کی یا رسول اللہ ! آگے جانے کا موقع نہیں.آگے جانا جان بوجھ کر جان کو گنوانا ہے مگر آپ نے کہا أنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب ! اور آگے بڑھ گئے.اُس وقت جہاں تک انسانی آواز جاسکتی تمام صحابہ اس حد سے آگے نکل چکے تھے.لیکن آنحضرت ﷺ نے حضرت عباس سے کہا کہ انہیں پکارو کہ انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.اب یہ آواز ہر ایک سپاہی کے کان میں پہنچی.اور وہ لوگ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے ہمارے قریب کھڑے ہو کر یہ کہا کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.میں نے اس واقعہ میں دیکھا کہ سارا لشکر بھاگ چکا تھا لیکن اس آواز پر وہ پھر لوٹا.اس کی مثال اور کسی واقعہ میں نظر نہیں آتی.وائرلو کی جنگ میں ایک واقعہ ایسا نظر آتا ہے جو بظاہر اس کے برابر معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ اس کے برابر نہیں.بے شک اس جنگ میں بھی لشکر بھاگا مگر وہاں ایسا نہ ہوا.اس جنگ کے مشہور مشہور جرنیل کہتے ہیں کہ ہم تلواریں مارتے تھے اگر کوئی سپاہی پیچھے مڑتا تھا لیکن باوجود اس کے کوئی نہ رک سکا.آخر فوج کو پیچھے بھاگتے دیکھ کر نپولین آگے بڑھا کہ جان دے دے.لیکن اس کے کمانڈروں نے اسے روکا.لیکن حسنین کی جنگ میں جب سپاہی بھاگتے ہیں تو آنحضرت یہ آگے بڑھتے ہیں.صحابہ روکتے ہیں مگر آپ رکتے نہیں.اور انَا النَّبِيُّ لَا كَذِبِ أَنَابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب کہتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں.اگر تھوڑی دیر کے لئے یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں لڑائیوں میں برابری ہے تو وہ

Page 237

زریں ہدایات (برائے طلباء) 232 جلد سوم صرف لشکر کے بھاگنے میں ہے.اور اسے بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بھی کوئی برابری نہیں کیونکہ ان کی کیفیات میں بڑا فرق موجود ہے.اور پھر یہ فرق اس واقعہ سے اور بھی صاف طور پر ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہاں اس کی فوج بھا گئی ہے تو جرنیل پیچھے سے تلوار میں مار مار کر روکتے ہیں مگر وہ رُکتے نہیں.اور نپولین وہاں کھڑا ہے اور آخر فیصلہ کرتا ہے کہ مجھے اکیلے کو آگے بڑھنا چاہئے.وہ بڑھتا بھی ہے لیکن اس کے جرنیل اس کو روک لیتے ہیں.آنحضرت ﷺ کو بھی صحابہ روکتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں ہٹ جاؤ مجھے آگے جانے دو.تو صحابہ ٹہٹ جاتے ہیں.لیکن جب نپولین کہتا ہے کہ ہٹ جاؤ مجھے آگے بڑھنے دو تو اس کے جرنیل کہتے ہیں کہ اسے پکڑ لو اور ہر گز آگے نہ بڑھنے دو.اس کا دماغ ٹھیک نہیں رہا.آگے بڑھ کے مفت جان گنوا لے گا.وہاں تو یہ حال تھا کہ تلواریں مار کر لوگوں کو روکا جاتا ہے اور وہ رکتے نہیں.اور یہاں ایک آواز جاتی ہے اور آواز بھی وہ آواز جو انسانی ہے اور جو ایک ایسے مقام سے دی گئی ہے کہ جن کو پہنچانی ہے وہ اس حد سے کہیں دور نکل چکے ہیں کہ جہاں تک انسانی آواز پہنچ سکتی ہے.اور پھر اس آواز کا اثر کیا ہوتا ہے؟ ایک صحابی کہتے ہیں ہم مُردہ تھے اور جس وقت یہ آواز ہمارے کانوں میں پہنچی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسرافیل نے صور پھونکا ہے.ہمارے قلوب کے اندر ایک رو پیدا ہوگئی اور ایک ایسی لہر اور ولولہ ہمارے اندر اٹھا اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ ہم دنیا کو بالکل بھول گئے.ہمیں ہر طرف سے یہ آواز سنائی دیتی کہ ادھر آؤ ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.ادھر آؤ ! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.چنانچہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اُسی وقت واپس مڑے اور اس مڑنے کی کوشش کرتے ہوئے بعض دفعہ ہماری سواریوں کا منہ ان کی پیٹھ سے لگ لگ جاتا.اور اگر کوئی سواری نہ مڑتی یا اسے مڑنے میں دیر لگ جاتی تو تلواریں مار مار کر ان کی گردنیں اڑا دیتے.اور لبیک یا رسول اللہ لبیک کہتے ہوئے بھاگے آتے.اور تھوڑے ہی عرصہ میں سارا لشکر جمع ہو گیا.ان حالات کے ماتحت یہ ہرگز ما نانہیں جاسکتا کہ حنین کے واقعہ کی مثال وائر لو یا کسی اور جنگ میں نظر آتی ہے.یہ آواز کیا تھی.بے شک یہ عباس کے منہ سے نکلی مگر اس کے پیچھے محمد رسول اللہ علے کا دل تھا جو کہہ رہا تھا مجھے یہاں کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی بجز اس کے کہ تمہارے لئے میدان

Page 238

زریں ہدایات (برائے طلباء) 233 جلد سوم صاف کروں سوائے اس کے کہ تمہارے لئے خدا کے فضل کے دروازے کھولوں.پس وہ محبت بھرا دل تھا جو اس آواز کے پیچھے تھا اور اس میں اک ایسا احساس تھا کہ جو رسیوں کی طرح پھیل گیا اور ان لوگوں کو باندھ کر لے آیا.پس احساسات کے پیچھے جب خاص اثرات ہوتے ہیں تو اُس وقت جواثر ہوتا ہے وہ خالی نہیں جاتا.ہمارے مبلغین کے لئے ضروری ہے کہ وہ احساسات کے ساتھ الفاظ کو بھی بھیجا کریں تاکہ ان کا اثر ہو کیونکہ جب تک احساسات کے ساتھ الفاظ نہ نکالے جائیں اثر نہیں کرتے.پھر اس کے ساتھ ساتھ قلوب میں ہمدردی اور غمخواری بھی پیدا کی جائے اور اس کے ساتھ پر احساس آواز نکالی جائے پھر وہ اثر ہوتا ہے جوزائل نہیں ہوتا.احساسات ایک بُو ہے جو خون سے آتی ہے.جو دل کسی کے لئے خون ہو جاتا ہے وہ یہ ہے جو ہوا سے اڑتی ہے اور دوسرے کے ناک میں پڑتی ہے پھر وہ جوش پیدا کر دیتی ہے اور تمام پرانی عادتیں اور تمام پرانے خیال بدل ڈالتی ہے اور ان کی جگہ نئے جذبات اور نئے ارادے اور نئے خیال پیدا کر دیتی ہے.پس ہمارے مبلغین کو خصوصیت کے ساتھ اپنی آواز کے ساتھ احساس پیدا کرنا چاہئے.ان کی کوئی آواز نہ ہو جو بغیر احساس کے ہو اور جس کے ساتھ ہمدردی اور سچی غمخواری نہ ہو.اس کے بعد میں ایڈریس کے ایک جملے کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اصلاح کے قابل ہے جو یہ ہے کہ مصر کے متعلق جو اس ایڈریس میں یہ کہا گیا ہے کہ ”مصر جو علوم وفنون کا گہوارہ ہے یہ غلط خیال ہے.اور یہ بالکل غلط ہے جو میرے کان میں پڑ رہی ہے کہ مدرسہ احمدیہ کے اکثر طلباء کے دل میں یہ ہے کہ ہم اس لئے مصر اپنی تعلیم کے لئے جائیں کہ وہ علوم وفنون کا گہوارہ ہے.چنانچہ مجھے ایک رقعہ بھی لکھا گیا ہے جس میں یہی بات کہی گئی ہے لیکن میں انہیں بتلاتا ہوں کہ مصر علوم وفنون کا گہوارہ نہیں.کیا صرف اپنی زبان بول لینے سے کوئی ملک یا کوئی شہر یا کوئی قصبہ علوم وفنون کا گہوارہ ہو سکتا ہے جو مصر کے متعلق صرف اس لئے کہ وہ اپنی زبان جو عربی ہے بول سکتا ہے یہ کہا جائے کہ وہ علوم وفنون کا گہوارہ ہے.اگر یہ بھینی ، اگر یہ منگل ، اگر یہ کھارہ وغیرہ گاؤں جو قادیان

Page 239

زریں ہدایات (برائے طلباء) 234 جلد سوم کے ارد گرد واقع ہیں علوم و فنون کا گہوارہ ہیں کیونکہ یہ اپنی زبان بول سکتے ہیں تو بے شک مصر بھی علوم وفنون کا گہوارہ ہے.اس سے زیادہ کیا جہالت ہو سکتی ہے کہ کسی ملک کے اپنی زبان بول لینے سے اسے علوم و فنون | کا گہوارہ کہ دیا جائے.مصر اور شام اور ایسے ہی بعض دوسرے ملکوں کی زبان ہی عربی ہے.پس اگر اس لئے کہ یہ ملک اپنی بولی جو ہے ہی عربی بول سکتے ہیں علوم وفنون کا گہوارہ کہلا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ سرحد اپنی بولی بول لینے کی وجہ سے علوم وفنون کا گہوارہ نہ کہلائے.پنجاب اور ہندوستان کے گاؤں اپنی اپنی زبانیں بول لینے کے سبب علوم وفنون کا گہوارہ نہ کہلائیں.اس طرح تو دنیا کا کوئی مقام بھی نہیں ہے جو علوم وفنون کا گہوارہ نہ ہو.کیونکہ کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں کے لوگ اپنی زبان نہ بول سکتے ہوں.دنیا میں ہر جگہ کے لوگ اپنے علاقوں کی بولیاں بولتے ہیں لیکن ان بولیوں کے بول لینے سے وہ علوم وفنون کا گہوارہ نہیں ہو سکتے.پھر مصر کے لوگ تو اپنی زبان بھی غلط بولتے ہیں لیکن ہم ان کے بالمقابل اپنی زبان کو سیح بولتے ہیں.اور کہاں غلط ہمیں پتہ ہے کہ ہماری زبان کی حرکات کیا ہیں.ہم اپنی زبان کے محاوروں کو چستی کے ساتھ برمحل استعمال کرنا بھی جانتے ہیں.لیکن مصری اور عربی اور شامی اپنی زبان کو ہماری طرح صحیح استعمال کرنا نہیں جانتے.جس طرح ہم اپنی زبان کو درست طور پر استعمال کرتے ہوئے لیکچر دے سکتے ہیں اور گفتگو کر سکتے ہیں وہ اپنی زبان کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہوئے نہ لیکچر دے سکتے ہیں اور نہ گفتگو.دنیا بھر میں اگر کوئی ملک یا کوئی قوم اپنی زبان بھی صحیح طور پر استعمال نہیں کر سکتی تو وہ عرب ہیں.انگلستان میں چلے جاؤ تو اکثر شہری لوگ اپنی بولی صحیح استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے.اسی طرح ہندوستانی بھی اپنی زبان صحیح بول سکتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں کتاب کا استعمال ہے اور وہاں سند کتاب ہے لیکن ہمارے ملکوں میں ہماری زبان سند ہے.پس اگر کوئی زبان جو اپنے علاقے میں بولی جاتی ہو کسی کو علوم وفنون کا گہوارہ بناسکتی ہے تو اس کا حق ہم کو ہے نہ کہ ان کو.کیونکہ وہ تو اپنی زبان بھی درست اور صحیح نہیں بول سکتے اور ہمارا ملک اپنی زبان کو

Page 240

زریں ہدایات (برائے طلباء) 235 جلد سوم بالکل درست اور صحیح طور پر استعمال کرتا ہے.علوم وفنون سے مراد علوم عالیہ ہوتے ہیں.زبان اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں.یہ صرف اظہار مافی الضمیر کا ذریعہ ہے.اور علم دوہی ہیں.العِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْأَبْدَانِ وَعِلْمُ الاديان 2 یعنی علم دو قسم کا ہی ہوا کرتا ہے ایک جسمانی اور ایک روحانی.جس سے انسان کی روح کو فائدہ پہنچے وہ علم روحانی ہے.اور جس سے انسان کے جسم کو فائدہ پہنچے وہ علم جسمانی ہے.مثلاً ڈاکٹری یا انجینئری وغیرہ علم ہیں ان سے جسمانی فائدہ پہنچتا ہے.سائنس ، فلسفہ، ہندسہ، م النفس وغیرہ بھی ایک علم ہیں کہ ان سے دماغی اور تمدنی اور معاشرتی ترقی ہوتی ہے.اسی طرح اقتصاد بھی ایک علم ہے جس سے نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے.افراد کو افراد کی حیثیت سے بھی فائدہ ہوتا ہے اور قوم کے رنگ سے بھی.اس علم کے ذریعے افراد، قوم، خاندان اور ملک مالی لحاظ سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس کوئی نادان ہی ہوگا جو کہے کہ مصر علوم وفنون کا گہوارہ ہے.کیا مصر میں لوگ ڈاکٹری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ انجینئری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں ؟ علم النفس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ فلسفہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟ یا مصر میں علم الادیان کا چرچاہے؟ یا خدا کے کلام کی صحیح تشریح کی جاتی ہے؟ یا خدا تعالیٰ کے احکام کی پابندی میں لوگ سب ملکوں سے آگے بڑھے ہوئے ہیں؟ وہ کون سا علم ہے جس سے مصر علوم وفنون کا گہوارہ کہلا سکتا ہے؟ ہمارا ملک ہندوستان جو دوسرے ملکوں سے تعلیم میں بہت پیچھے ہے مگر مصر سے بہت بڑھ کر ہے وہ زیادہ اس بات کا حقدار ہے کہ علوم وفنون کا گہوارہ کہلائے.کیونکہ مصر کے بالمقابل سینکڑوں گنا زیادہ ہر قسم کے علوم کا یہاں چرچا ہے.پورٹ سعید میں ہم آنکھوں کے ہسپتال دیکھنے گئے.ہم نے سنا کہ یہاں ایک ڈاکٹر ماہرفن مشہور ہیں.میری آنکھوں میں چونکہ تکلیف تھی اس لئے ہم نے خیال کیا کہ انہیں ملنا چاہئے.خیر ہم اسے ملنے گئے.مختلف باتیں کرتے ہوئے آنکھوں کے ایک خاص قسم کے آپریشن کا ذکر درمیان میں آگیا.لیکن پورٹ سعید کا مایہ ناز ڈاکٹر کہنے لگا کہ میں نے کیا نہیں لیکن کتابوں میں

Page 241

زریں ہدایات (برائے طلباء) 236 جلد سوم پڑھا ہے کہ اس قسم کا بھی ایک آپریشن کیا جاتا ہے.میں نے اسے کہا کہ یہ تو ایک معمولی سا آپریشن ہے اور ہمارے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اس سے واقف ہیں.جب اس نے یہ سنا تو کہنے لگا کہ مہربانی کر کے وہ آپریشن مجھے کر کے دکھا ئیں.مصر میں یا شام میں جو تعلیم ہے وہ بالکل ادنی ہے اور علوم جو وہاں جاری ہیں ان میں وہ ہندوستان سے بہت پیچھے ہیں.علم الابدان ہو یا علم الادیان ہر دو میں وہ ہندوستان کی برابری نہیں کر سکتے.فلسفہ خیال تو مطلقاً ہند جیسا نہیں.ہندوستان میں ٹیگور اور اقبال جیسے آدمی بھی ہیں جن کی تحریریں یورپ جیسے ملکوں میں ترجمہ کی جاتی ہیں اور بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں.ان کے بالمقابل کو نسا مصری ہے جس کا فلسفہ یورپ کی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہو اور وہ مقبول ہوا ہو.ٹیگور اور اقبال کے فلسفہ کے تو متعدد ترجمے وہاں ہو چکے ہیں.یہاں تک کہ جرمنی میں تو ہر جرمن کے ہاتھ میں اس کے کلام کا جرمن ترجمہ نظر آتا ہے.ہمارے ایک دوست نے جو جرمنی سے ہو آئے ہیں بیان کیا کہ جرمنی میں کیا بچے اور کیا بوڑھے، کیا مرد اور کیا عورت ٹیگور کی کوئی نہ کوئی کتاب ہر موقع پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں.اور یہ بات جرمن لوگوں کے فیشن میں داخل ہوگئی ہے کہ وہ اس کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھیں.مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ کون وہ مصری ہے جس کی کسی کتاب کا ترجمہ اس قدر مقبول ہوا ہو اور جس کے خیالات کی ان ممالک میں اس قدر عزت کی گئی ہو.مصر ایک اسلامی ملک ہے لیکن باوجود اسلامی ملک ہونے کے کوئی مذہبی تحریک وہاں.پیدا نہیں ہوتی.جتنی تحریکیں مذہبی رنگ میں پیدا ہوتی ہیں وہ ہندوستان میں ہی ہوتی ہیں لیکن مصر سے کبھی کوئی تحریک پیدا نہیں ہوئی.اور اگر کبھی کوئی ہوئی بھی تو وہ وہیں مرگئی اور پھیلی نہیں.ނ پھر باوجوداس بات کے کہ نہ وہاں علوم و فنون کا دور دورہ ہے اور نہ باوجود اسلامی ملک ہونے کے کوئی مذہبی تحریک وہاں سے پیدا ہوتی ہے اسے اگر علوم وفنون کا گہوارہ کہا جائے تو حماقت ہے.جمال الدین افغانی نے مصر میں ایک روح پیدا کی اور جس کے ساتھ مذہبی رنگ بھی تھا.لیکن وہ اس ملک کا باشندہ نہیں تھا بلکہ اس ملک میں جا ٹھہرا تھا.قدرت سے افغانی کا لفظ اس

Page 242

زریں ہدایات (برائے طلباء) 237 جلد سوم کے ساتھ رہ گیا.وہ دراصل وہاں کا باشندہ نہیں تھا بلکہ افغانستان سے وہاں جا بسا تھا.اگر افغانی کا لفظ اس کے نام کے ساتھ قائم نہ رہ گیا ہوتا تو ممکن تھا کہ لوگ اسے مصری سمجھتے.مگر مصریوں کی قسمت سے افغانی کا لفظ اس کے نام کے ساتھ باقی رہ گیا.ساری تحریکیں جو کبھی کبھی اس ملک میں اٹھتی رہی ہیں وہ جمال الدین افغانی کی ہی ایجاد ہیں.مفتی عبدہ اس کا شاگر د تھا.اس کے بعد اس نے ان کو قائم کیا.اور اس لحاظ سے کہ ساری تحریکیں جمال الدین افغانی کی ہی ایجاد ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ سبھی ہندوستان ہی سے گئی ہیں اور مصر سے نہیں اٹھیں.غرض ان تحریکوں کے موجد جمال الدین افغانی ہی ہیں.غرض ان تحریکوں کے موجد جمال الدین افغانی کا مولد یہی ملک ہے.اور اگر اس قسم کی تحریکوں کی وجہ سے ہی کسی ملک کو گہوارہ علوم وفنون کہا جاتا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان تحریکوں کی بناء پر مصر کو گہوارہ علوم وفنون کہا جائے.کیونکہ یہ سب تحریکیں مصر کے کسی آدمی کی طرف سے پیدا نہیں کی گئیں بلکہ ایک دوسرے ملک کے باشندے نے ان کو پیدا کیا.پس اگر انہیں تحریکوں سے ہی اسے گہوارہ علوم وفنون کہنا ہے تو کیوں نہ افغانستان کو گہوارہ علوم وفنون کہا جائے کہ جہاں کا جمال الدین افغانی رہنے والا تھا.پس مصر میں اگر کسی چیز کے لئے ہم طلباء کو بھیج سکتے ہیں تو یہ ہے کہ وہاں کے لوگ عربی زبان بول سکتے ہیں اور جن میں رہ کر یہ عربی بولنا سیکھ سکتے ہیں.کیونکہ ارد گرد عربی بولنے والے ہی ہوتے ہیں.وہاں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو عربی بولنے کی مشق ہو سکتی ہے.اعراب کی مشق اپنے علم سے اور بولنے کی مشق اُن سے.پس زیادہ سے زیادہ اگر کسی چیز کے لئے ہم طلباء کو وہاں بھیج سکتے ہیں تو عربی بولنا سیکھنے کے لئے نہ کہ اس لئے کہ وہاں کوئی ایسے علوم وفنون جاری ہیں جو ہندوستان میں نہیں یا جو ہندوستان سے بڑھ کر ہیں.یاد رکھو ہندوستان سے بڑھ کر وہاں کچھ بھی نہیں بلکہ وہاں جو کچھ ہے وہ ہندوستان سے اقسام اور کیفیات ہر دو میں بدرجہا کم ہے.بے شک اب وہاں تحریکیں شروع ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے ایک حد تک وہ ان کا گہوارہ کہلا سکتا ہے لیکن اس لحاظ سے کہ وہ ہم سے علم وفنون میں بڑھے ہوئے ہیں اور ہم ان سے کچھ سیکھ سکتے ہیں وہ ہر گز کسی بات کا گہوارہ کہلانے کا مستحق نہیں.رہی زبان تو تم کتنا ہنسو گے اگر

Page 243

زریں ہدایات (برائے طلباء) 238 جلد سوم تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ یہ لوگ تو ابھی اسے سیکھ ہی رہے ہیں.بے شک وہ عربی بول سکتے ہیں لیکن وہی عربی جو وہاں مروج ہے لیکن وہ عربی جو علوم وفنون کی حاوی ہو سکتی ہے یا کسی زبان کے ادبی کمال تک پہنچی ہوتی ہے وہ ابھی ان کے پاس نہیں.اسے وہ سیکھ رہے ہیں.تم اگر یہ سنو کہ دہلی کے لوگ اردو سیکھ رہے ہیں تو تمہیں نفسی پیدا ہوگی.یہی حال مصریوں کا ہے.میں جب 1912ء میں وہاں گیا تو ان کی بولی سمجھ میں نہیں آتی تھی.لیکن اب ان کی بولی میں فرق ہے.اب سمجھ میں آجاتی ہے.کیونکہ اب وہ اسے سیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں.لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ روانی کے ساتھ بول سکتے ہیں.اور اسی بات کے سیکھنے کے لئے ہم بعض لڑکوں کو وہاں بھیجتے بھی ہیں.ہمارا اور ان کا مقابلہ اپنی اپنی زبانوں میں ہو سکتا ہے.جس طرح ہم اپنی زبان کو صاف اور صحیح اور درست بول سکتے ہیں مصری یا شامی نہیں بول سکتے.ہر ملک کی زبان ہوتی ہے اور یہ قدرتی بات ہے کہ اس ملک کا ہر فرد بشر اس سے واقف ہو.لیکن باوجود اس کے کہ کسی ملک کے باشندوں کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک کی زبان سے واقف ہوں پھر بھی اگر کوئی اس سے واقف نہ ہو اور اس کو صحیح طور پر استعمال نہ کرے تو وہ ہر گز ہرگز اس ملک کے باشندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو اپنے ملک کی زبان کو بالکل صحیح استعمال کرتے ہوں.ہندوستان اور مصر میں یہ مابہ الامتیاز ہے کہ مصر کے لوگ اپنے ملک کی زبان صحیح نہیں بولتے اور ہندوستان کے لوگ اپنے ملک کی زبان کو بالکل صحیح استعمال کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کی زبان سند ہے اور ان کی نہیں.آخر میں میں اس امر پر بھی خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ شیخ محمود احمد صاحب جس غرض کے لئے مصر گئے تھے اس کو انہوں نے اچھی طرح پورا کیا ہے.ان کی غرض یہی تھی کہ وہ ان میں رہ کر زبان کو سیکھیں.سو انہوں نے ان کے ڈھب میں بولنا سیکھا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں انہوں نے خطبوں میں مصریوں کے طریق خطبہ کا ہر وقت لحاظ رکھا.بعض ملکوں کے کیریکٹر ہوتے ہیں اور ان کی کچھ خصوصیات ہوتی ہیں جو دوسروں میں اور ان میں امتیاز پیدا کرتی ہیں اور جو بطور معیار

Page 244

زریں ہدایات (برائے طلباء) 239 جلد سوم کے ہوتی ہیں.پھر جن ملکوں میں ابھی تک یہ باتیں پیدا نہیں ہوئی تھیں ان میں سے بعض نے یہ باتیں پیدا کر لی ہیں.چنانچہ ہر امر میں انہوں نے خصوصیات پیدا کیں.یہاں تک کہ فن تقریر میں بھی اس امتیاز کو پیدا کیا.لیکن ہندوستان کی تقریر کے فن کا کوئی معیارا بھی تک قائم نہیں ہوا.جو جس طرح چاہتا ہے تقریر کر لیتا ہے اور اس میں ہی ان کو مزا بھی آتا ہے.اور اس کی وجہ بھی ہے کہ یہاں مختلف رسم و رواج رکھنے والی قو میں آباد ہیں.مگر دوسری قوموں میں ایک نظام تقریر مقرر ہو گیا ہے.اور میں خوش ہوں کہ شیخ صاحب نے اس نظام تقریر کوسیکھا اور اپنی ہر تقریر میں اسے مد نظر بھی رکھا اور اپنا سارا کلام مصریوں کی طرح کیا.پس یہ ان کی کوشش قابل تحسین ہے.شیخ صاحب نے مصری انداز میں تقریر کی ہے.یہ طریق بتاتا ہے کہ ان لوگوں کو کیریکٹر بنانے کا اگر خیال ہے تو صرف بولنے میں اور اس کیریکٹر کا شیخ صاحب نے خوب مطالعہ کیا ہے.مجھے آج بولنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ ڈاکٹروں نے مجھے زیادہ بولنے سے منع کیا ہوا ہے اور ابھی میں نے خطبہ جمعہ بھی بیان کرنا ہے.اس لئے میں یہیں بس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ جو باتیں میں نے بیان کی ہیں وہ ضروری ہیں.پس میں اس دعا پر اپنی تقریر کوختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے طالب علموں کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے کہ جس مقصد کے لئے یہ دینی تعلیم انہوں نے پانی شروع کی ہے.اور انہیں خدا ترقی عطا فرمائے اور ان کے علموں اور ان کی زبانوں میں برکت ڈالے.اور انہیں ہر اس بات کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو دین کی خدمت کے لئے ان کی محمد ہوسکتی ہے.“ ( الفضل 7 مئی 1926ء) :1 مسلم كتاب الجهاد باب غزوة حنين صفحہ 790-791 حدیث نمبر 4615 تا 4617 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية 2 سیرت ابن هشام جلد 2 صفحه 1240 مطبوعہ دمشق 2005 الطبعة الأولى

Page 245

زریں ہدایات (برائے طلباء) 240 جلد سوم جدائی کا فلسفہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی طرف سے ہویں جماعت کے طلباء کو دعوت چائے دی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.دنیا میں جو تکلیف دہ چیزیں ہیں ان کا خلاصہ ایک ہی لفظ میں آجاتا ہے اور وہ لفظ جدائی ہے.درحقیقت تمام غم، تمام تکلیفیں، تمام فکریں ، تمام رنج اور تمام دکھ صرف جدائی کے خلاف اظہار نفرت کا ایک نظارہ اور ایک نشان ہوتے ہیں.دردیں اور بیماریاں کیا ہیں؟ یہی کہ جسم کے بعض حصوں کی طاقت کے ضائع ہونے کا نام ہے.غم ،فکر اور رنج کس لئے ہوتے ہیں؟ اس لئے کہ مال یا جان یا عزت یا کوئی اور پیاری چیز انسان کے ہاتھ سے جاتی رہتی ہے.پس تمام تکلیفیں اور رنج سب جدائی کے نتیجہ میں ہوتے ہیں.اسی طرح روحانی غم اور فکریں جو ہیں وہ بھی جدائی کے نتیجہ میں ہوتی ہیں.روحانی مردنی اور روحانی بیماری کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ.جدائی.گناہ کیا ہے؟ وہی چیز جو انسان کو خدا تعالیٰ سے دور کر دے.پس ہر دکھ اور تکلیف خواہ وہ روحانی ہو یا جسمانی جدائی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور ایک لفظ جو ہر قسم کے غموں اور دکھوں کو اپنے اندر شامل رکھتا ہے وہ جدائی ہے.جب ایک چیز سے جدائی ہوتی ہے تو طبعا انسان غم محسوس کرتا اور سنگ دل سے سنگ دل انسان کے اندر بھی اس موقع پر ایسی رو پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر وہ اسے غم کی حد تک نہیں پاتا تو کم از کم اپنے قلب میں بے چینی اور اضطراب ضرور محسوس کرتا ہے.بسا اوقات لوگ بعض چیزوں کو چھوڑتے ہوئے کہتے ہیں ہمیں ان سے کوئی غم نہیں ہوا مگر انہیں بھی بے چینی سی ضرور ہوتی ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ انہیں غم نہیں ہوا بلکہ یہ ہیں کہ غم کی

Page 246

زریں ہدایات (برائے طلباء) 241 جلد سوم طاقت کا احساس ان کے دل سے مٹ گیا ہے اور ایک اور طور پر بے چینی کے ذریعے انہیں غم ہوا ہے.ان کی مثال اس سونے والے کی طرح ہوتی ہے جس کے احساسات پر نیند کا پردہ پڑا ہوتا ہے.وہ بستر پر پڑے ہوئے کسی کنکر وغیرہ کے درد اور تکلیف کو نہیں محسوس کرتا جو اسے پہنچ رہی ہوتی ہے مگر بے چینی اسے ہوتی ہے جو اس کے کوٹنے اور بار بار پہلو بدلنے سے ظاہر ہورہی ہوتی ہے.پس یہ قانون قدرت ہے کہ جدائی کے موقع پر انسان کو غم اور رنج محسوس ہو.اسی وجہ سے ایک لڑکا جو کئی سال ایک جگہ پڑھتا، کچھ لوگوں کو اپنا دوست بنا لیتا اور کچھ سے علم حاصل کر کے تعلق پیدا کر لیتا ہے ان حالات میں جب وہ اس جگہ سے جدا ہونے لگتا ہے تو غم محسوس کرتا ہے اور جن سے جدا ہورہا ہوتا ہے انہیں بھی غم ہوتا ہے.آگے غم بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک غم تو وفاداری کی علامت ہوتا ہے اور ایک اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ حیوانیت زندہ ہے.ہر چیز جو زندہ ہے جدائی کا غم محسوس کرتی ہے.اور اب تو یہ بھی ثابت ہو گیا ہے کہ درختوں میں بھی یہ احساس ہے بلکہ بعض حالتوں میں انسانوں سے بڑھ کر احساس ہے.ایسی صورت میں جو جدائی کا غم ایسا ہو کہ کچھ عرصہ کے بعد جاتا رہے وہ ایسا ہی غم ہوگا جو دوسرے جانداروں اور درختوں میں بھی پایا جاتا ہے.لیکن اگر وہ غم یادر ہے، اس کے اثرات پائے جائیں اور وہ ہمیشہ تازہ در ہے تو وہ حیوانوں اور درختوں کے غم سے علیحدہ ہوگا.یہی فرق ہے انسانی اور حیوانی غم میں.ورنہ یوں تو حیوانوں کو بھی غم ہوتا ہے.ایک گائے کا بچہ اس سے جدا ہو جائے تو وہ بھی اس کے لئے چلائے گی اور شور مچائے گی لیکن چار پانچ دس بارہ دن تک بچہ کو بھول جائے گی.اور پھر اگر وہی بچہ اس کے پاس لایا جائے تو مار کر اسے علیحدہ کر دے گی.اس کے مقابلہ میں اگر ایک انسان کا بچہ کھویا جائے تو سالہا سال گزر جانے کے بعد حتی کہ 20 30 یا 40 سال کے بعد بھی جب ماں باپ بستر مرگ پر پڑے ہوں گے اُس وقت بھی انہیں یہی خیال تکلیف دے رہا ہو گا کہ نہ معلوم ہمارے بچہ کا کیا حال ہوگا اور وہ کہاں اور کس حالت میں ہوگا.تو انسان اور دوسری چیزوں کے غم میں یہ فرق ہے.حیوانوں کو بھی جدائی سے غم محسوس ہوتا ہے مگر وہ جلدی بھول جاتے ہیں اور انسان ایسے صدمہ اور غم کو یا درکھتا اور موت تک یاد رکھتا ہے.

Page 247

زریں ہدایات (برائے طلباء) 242 جلد سوم اس وقت ہمارے سکول کی دسویں جماعت کے لڑکے امتحان کے لئے جانے والے ہیں.چونکہ ہر ایک کے متعلق یہی امید ہونی چاہئے کہ وہ پاس ہو کر اعلیٰ تعلیم کے لیے جائے اس لئے ان کے دوستوں اور ان کے بزرگ مدرسوں کو طبعا اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ وہ ان سے جدا ہور ہے ہیں.اسی طرح وہ لڑکے بھی اپنی جدائی محسوس کر رہے ہیں.ان کے دلوں میں بھی غم ہے.مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے جدائی پر غم تو حیوانات اور نباتات میں بھی پایا جاتا ہے.یہ غم ایک گائے اور ایک درخت کو بھی ہوتا ہے.اس سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہی کہ غم کرنے والے نباتات اور حیوانات میں شامل ہیں.لیکن اگر وہ اس غم کی یاد یہاں سے جانے کے بعد بھی تازہ رکھیں اور ان واقعات، ان نصیحتوں اور ان ذمہ داریوں کو محسوس کرتے رہیں جن کا احساس ان میں یہاں پیدا کیا گیا ہے اور اپنی زندگی اسی طرح بسر کریں جس طرح یہاں بسر کرتے رہے ہیں تب معلوم ہوگا کہ وہ انسانی زندگی کے معیار پر پورے اترے ہیں.میں اس سال کی دسویں جماعت پر خصوصیت سے اس لئے خوش ہوں کہ میں نے بچوں کی اصلاح کے متعلق گزشتہ سال چند خطبے پڑھے تھے.اس جماعت نے خصوصیت سے ان پر عمل کرنے کی کوشش کی اور سوائے چند کے باقیوں نے اپنے وعدوں کو نبھایا اور کوشش کی کہ اپنے ظاہر کو بھی اسلامی شعار کے مطابق بنائیں.چونکہ انہوں نے اس بارے میں مثال قائم کی ہے اس لئے میں ان سے پہلوں کی نسبت زیادہ خوش ہوں.لیکن اگر وہ اس تبدیلی کو اسی حد تک رکھیں کہ جب تک یہاں رہے اس کے پابند ر ہے اور جب یہاں سے جدا ہو کر باہر چلے جائیں تو اس پر قائم نہ رہیں اور نئی ایسوسی ایشن کے اثر کے نیچے آجائیں تو معلوم ہوگا کہ یہاں انہوں نے صرف بچپن کا جوش دکھایا.حقیقی تبدیلی پیدا نہ کی تھی.لیکن اگر وہ یہاں سے جانے کے بعد بھی ان نصائح کی پابندی کریں، اگر ان کے قول ٹوٹ نہ جائیں، اگر وہ اپنے وعدے فراموش نہ کریں تب یقین ہوگا کہ ان کے وعدے سچائی پر مبنی تھے اور واقعہ میں ان میں اخلاص تھا.لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو یہی کہنا پڑے گا کہ ان کے سب احساسات اور جذبات وقتی اثر کا نتیجہ تھے اور ان کا غم بناوٹی غم تھا.بہت سے انسان دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو ایک بات دل سے بیان کر رہے

Page 248

زریں ہدایات (برائے طلباء) 243 جلد سوم ہوتے ہیں مگر وہ قابل قدر نہیں ہوتے.کیونکہ وہ محض وقتی جوش کے ماتحت ایسا کر رہے ہوتے ہیں.اور وقتی طور پر تو منافق بھی متاثر ہو جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے ایک لڑائی میں ایک شخص کو ایسے جوش سے لڑتے دیکھا کہ بعض صحابہ کہنے لگے اگر کسی نے دنیا میں جنتی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.جہاں لڑائی کا زیادہ زور ہوتا وہیں حملہ کرتا اور جہاں خطرہ زیادہ ہوتا وہیں پہنچتا.جب رسول کریم ﷺ نے یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا اگر کسی نے دنیا میں دوزخی دیکھنا ہو تو اسے دیکھ لے.اس پر بعض صحابہ حیران ہوئے کہ یہ کیا ؟ جو اپنے آپ کو اس قدر خطرہ میں ڈال کر لڑ رہا ہے وہ دوزخی ہو گیا !! ایک صحابی کہتے ہیں بعض کے دل میں یہ خیال پیدا ہونے پر میں نے قسم کھائی کہ جب تک میں اس شخص کا انجام نہ دیکھ لوں اس کا پیچھا نہ چھوڑوں گا.آخر وہ لڑتے لڑتے زخمی ہوا.اور جب اسے زخموں کی تکلیف زیادہ ہوئی تو زمین پر نیزہ گاڑ کر اس پر اپنے آپ کو گرا کر خود کشی کر لی.اور خودکشی ایسا گناہ ہے جو بخشا نہیں جاتا.کیونکہ یہ آخری گناہ ہوتا ہے جس کے بعد انسان کو تو بہ کا موقع نہیں ملتا.اس کے بعد وہ صحابی اس مجلس میں آیا جہاں رسول کریم لیے بیٹھے ہوئے تھے.اور کہنے لگا میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ اور اللہ کا رسول سچا ہے.آپ نے دریافت فرمایا کیا بات ہے؟ اس پر اس نے سارا واقعہ عرض کیا.جسے سن کر رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا اللہ تعالیٰ سچا ہے اور میں اس کا سچا رسول ہوں 1 تو وقتی طور پر جوش ایک منافق میں بھی پیدا ہو جاتا ہے.جب وہ شخص درد سے کراہ رہا تھا تو صحابہ نے اسے کہا تمہارے لئے جنت کی بشارت ہے کیوں گھبراتے ہو؟ وہ کہنے لگا میرے لئے جنت نہیں بلکہ دوزخ ہے کیونکہ میں قومی انتقام کے جوش سے لڑا ہوں نہ کہ دین کی خاطر.پس وقتی جوش قابل قدر نہیں ہوتا خواہ وہ سچائی کے ساتھ ہی ظاہر کیا جائے.اس شخص کے دل میں اس جوش کے متعلق نفاق نہ تھا بلکہ اخلاص تھا لیکن وہ اخلاص قوم کے لئے تھا.عام حالت اس کی نفاق ہی کی تھی.اُس وقت وقتی اخلاص کی حالت پیدا ہوئی تھی مگر اُس وقت کا اخلاص بھی کام نہ آیا کیونکہ وہ خدا کے لئے نہ لڑا بلکہ اپنی قوم کے لئے لڑا تھا.تو وقتی جوش کسی کام کا نہیں ہوتا.سوائے اس کے کہ اس سے جو ہر پیدا ہو.اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے.

Page 249

زریں ہدایات (برائے طلباء) 244 چار سوم وہ طالب علم جو امتحان کے لئے جارہے ہیں ان کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں کامیاب کرے.گو یہ جدائی ہے مگر اس جدائی کو ہم پسند کرتے ہیں.یہ نسبت اس کے کہ وہ کامیاب نہ ہوں اور یہاں رہیں.پس ہماری یہی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں کامیاب کرے.مگر اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ باہر جا کر ان جذبات کو قائم رکھیں جو انہوں نے یہاں دکھائے ہیں.اور جو نمونہ یہاں پیش کیا ہے اسے باہر بھی دکھائیں.مثلاً نمازوں کی پابندی کرنا، ڈاڑھی رکھنا.پھر تمام اسلامی اخلاق کی پابندی کریں.میں سمجھتا ہوں اگر وہ ان باتوں کی پابندی کریں گے تو نہ صرف آئندہ آنے والے لڑکوں کے لئے بلکہ کئی اپنے بڑوں کے لئے بھی ایسی مثال قائم کریں گے جس سے بہت فائدہ ہوگا اور ان کو بھی ثواب ملے گا.اب چونکہ نماز مغرب کا وقت ہو گیا ہے اور اندھیرا ہو چکا ہے اس لئے میں دعا پر اس تقریر کو ختم کرتا ہوں احباب بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان لڑکوں کو کامیاب کرے.“ (الفضل 19 مارچ 1926ء) :1 بخارى كتاب الجهاد باب إِنَّ اللهَ لَيُويّدُ الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِرِ صفحہ 507506 حدیث نمبر 3062 ، کتاب المغازى باب غَرْوَة خَيبر صفحہ 714713 حدیث نمبر 4203 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 250

زریں ہدایات (برائے طلباء) 245 جلد سوم بیش قیمت نصائح انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے جلسہ منعقدہ قادیان میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے کی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد بزبان انگریزی جو نصائح فرمائیں ان کا اردو ترجمہ حسب ذیل ہے:.”ہمارے نوجوانوں کی طرف سے یہ خواہش ظاہر کی گئی ہے کہ میں آج ان کے جلسہ میں انگریزی زبان میں کچھ بیان کروں سوا اگر چہ مجھے انگریزی بولنے کی مشق نہیں تا ہم میں ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے کچھ بیان کرتا ہوں.انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے سیکرٹری نے اپنی تقریر میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ ہم نے تبلیغی کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کے لیے لاہور میں ایک لائبریری اور ریڈنگ روم جاری کیا ہے جن میں مختلف اخبارات آتے ہیں اور مختلف کتابیں بہم پہنچائی گئی ہیں اور پہنچائی جارہی ہیں جو جہاں دوسروں کو فائدہ پہنچا رہی ہیں وہاں ہی ان دوستوں کو بھی مدد دیتی ہیں جو مضامین لکھ کر اخبارات کو بھیجا کرتے ہیں.اسی ضمن میں سیکرٹری انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن نے یہ بھی بیان کیا کہ اس لائبریری کے لئے میں نے ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی ) بھی بعض کتابیں دی ہیں اور بعض اور کتابیں دینے کا وعدہ کیا ہے.سو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں اس وعدے کے مطابق اور کتابیں بھی دوں گا جو ان اغراض کے لیے مفید ہوں گی اور جن سے آرٹیکل لکھنے میں کافی مدد ملے گی.میں اس وقت کوئی خاص لیکچر نہیں دینا چاہتا بلکہ چند باتیں بطور نصیحت کہنا چاہتا ہوں.ایسوسی ایشن کے ممبر خوب جانتے ہیں کہ دنیا میں مذہب سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.لیکن مذہب ہو

Page 251

زریں ہدایات (برائے طلباء) 246 جلد سوم یا کوئی اور شے انسان بغیر زبان کے اس کے متعلق کچھ بھی بیان نہیں کر سکتا.زبان خیالات کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر کسی شے کے متعلق کسی زبان میں اظہار خیالات کرنا ہو تو جب تک اس زبان کے بولنے میں کافی مہارت نہ ہو ا ظہار خیالات نہیں کیا جاسکتا.اور چونکہ مجھے انگریزی زبان بولنے کی مہارت نہیں اس لئے میرے لئے کسی حد تک مشکل ہے کہ میں اس میں روانی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کروں لیکن باوجود ان مشکلات کے میں چند باتیں کہنی چاہتا ہوں.ایسوسی ایشن کے سیکرٹری نے جو کارگزاری کی رپورٹ بیان کی ہے اور اپنے کام کرنے کے ڈھنگ کو بھی واضح کیا ہے وہ میں نے سنا ہے اور میں ان کے اس بیان سے پہلے بھی کسی قدران حالات سے آگاہ تھا لیکن میں اس وقت ان پر کوئی ریمارکس نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کی بجائے میں چند نصیحتیں کرنی چاہتا ہوں جن کو اگر مد نظر رکھا جائے گا تو عام حالات کے ماتحت وہ ان کے لئے مفید پڑیں گی.پس میں پہلی نصیحت یہ کرتا ہوں کہ سب سے پہلے تم اپنے خیالات کو صاف اور پاکیزہ بناؤ.کیونکہ تبلیغ کے لئے یہ از بس ضروری ہے کہ پہلے اپنے خیالات کی نفاست پیدا کی جائے تا کہ یہ نفاست دوسروں کے قلوب پر بھی تاثیر کرنے والی ہو.کیونکہ اس رنگ میں تبلیغ کا جلد اثر ہوتا ہے.لیکن اگر خیالات کو صاف نہ کیا جائے اور ان میں پاکیزگی پیدا نہ کی جائے تو پھر خواہ کتنا ہی عمدہ کام کیوں نہ کیا جائے کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا.اس بات کو یادرکھنا چاہئے کہ خیالات میں بغیر اس قسم کی پاکیزگی پیدا کئے کے تم ہر گز صادق آدمی نہیں کہلا سکتے.کیونکہ صادق وہی ہوتا ہے جس کا قول اور فعل اپنے اندر یکسانیت اور موافقت رکھتا ہو.لیکن جب قول تمہارا یہ ہو کہ خیالات کو صاف کرو اور فعل تمہارا یہ ہو کہ اپنے خیالات صاف نہ ہوں تو پھر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تم صادق آدمی ہو.بنا بریں میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے خیالات کو صاف اور پاکیزہ بناؤ.اور اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی کہتا ہوں کہ اپنے خیالات پر ضبط بھی رکھو.تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری باتیں کسی کے ابتلا کا باعث ہوں یا کسی کو ان سے ٹھوکر لگے.پھر ایسا ہی اگر تم اپنے دلوں میں بعض بری باتوں کا

Page 252

زریں ہدایات (برائے طلباء) 247 جلد سوم خیال کرتے رہو اور ان کو ترک نہ کرو تو یہ بات بھی بجائے خود خطرہ سے خالی نہیں.پس اگر تم ان باتوں کی طرف دھیان نہ کرو گے تو اس صورت میں تم سب کچھ ضائع کرنے والے بنو گے نہ کہ بنانے والے.سو میری پہلی نصیحت یہ ہے کہ تم اپنے خیالات کو ہمیشہ نگاہ میں رکھو.اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھو کہ خواہ تم نے کسی بڑے سے بڑے مرحلے تک بھی کیوں نہ کام سرانجام دے لیا ہو یہ مت سمجھو کہ تم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا ہے.کیونکہ جتنا تم زیادہ کام کرو گے اتنا ہی تمہارا فرض بھی بڑھتا چلا جائے گا.اور جتنا تمہارا فرض بڑھتا چلا جائے گا اتنا ہی تمہارے آگے میدان وسیع ہوتا جائے گا.پس کسی مرحلے پر پہنچ کر یہ خیال مت کرو کہ تم نے اپنے فرض کو ادا کر دیا.تم نے ایسوسی ایشن بنائی ہے اور ایسوسی ایشن کو آپریشن (Co-operation) ہی ہوتی ہے.اور اگر ایسوسی ایشن صحیح معنوں میں کو آپریشن نہ ہوتو یہ کوئی عمدہ چیز نہیں.صرف اتنی بات پر خوش ہو جانا معیوب ہوگا کہ ہم نے ایسوسی ایشن بنائی ہے.ہم اس میں جمع ہوتے ہیں.لیکچر دیتے ہیں اور تبادلہ خیالات کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں.کیونکہ جب تک تمہارے دلوں میں کو آپریشن کی لہر نہ اٹھے، جب تک تمہارے اندر بھائیوں کی مدد اور محبت کا مادہ پیدا نہ ہوتب تک یہ کچھ نہیں.اور اس صورت میں اگر تم جمع ہوتے ہو کہ تم میں بھائیوں کی مدد کا کوئی خیال نہیں تو صرف تم اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہو نہ کہ کچھ اور.کیونکہ ایسوسی ایشن کا یہ مقصد نہیں ہوا کرتا.پھر بھائیوں کی مدد کے خیال کے ساتھ تمہیں اپنی مدد کا بھی خیال رکھنا چاہئے کیونکہ اپنی مدد آپ کرنا بھی ایک عمدہ بات ہے.پس تمہیں اس رنگ میں ترقی کرنا چاہئے اور ایک دوسرے سے تعاون بھی.کیونکہ جب تم تعاون کرو گے تو پھر تم ایسوسی ایشن کے حقیقی اور اصلی مقصد کو پورا کرنے والے ٹھہرو گے اور اپنے آپ کی مدد کرنے والے بنو گے.پس میں دوسری نصیحت یہ کرتا ہوں کہ ایسوسی ایشن کے ذریعہ کو آپریشن حاصل کی جائے اور آپس میں تعاون اور اپنی مدد آپ کرنے کا مادہ پیدا ہونا چاہئے.ہر ایک آدمی پہلے بچہ ہوتا ہے اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ بچپن میں کھیل کود کے لئے بھی

Page 253

زریں ہدایات (برائے طلباء) 248 جلد سوم وقت چاہئے اور انسان بچپن میں عام طور پر کھیلتا کودتا ہی نظر آتا ہے.لیکن باوجود اس کھیل کود کے وہ حواس خمسہ ظاہری سے کام لیتا ہے.مثلاً وہ سنتا بھی ہے، دیکھتا بھی ہے، محسوس بھی کرتا ہے، مزہ بھی چکھتا ہے تو جب مین بچپن میں اس کے ظاہری حواس کام کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ کہا جاسکے کہ اس کے حواس باطنی کام نہ کرتے ہوں گے.تو جب یہ ظاہر ہے کہ بچپن ہی سے ایک انسان کے حواس ظاہری و باطنی کام کرتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ بچپن ہی سے اس میں Sincerity یعنی راستی اور خلوص نہ پیدا کیا جائے.پس میں تمہیں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اس Sincerity کو پیدا کرو.Sincerity یہ نہیں کہتی کہ انسان ہنسی نہ کرے، بولے نہیں اور بالکل چپ سادھ کر بیٹھ جائے بلکہ Sincerity کے یہ معنی ہیں کہ جب بھی کام کرو، جو بھی کام کرو نہایت خلوص کے ساتھ کرو اور راستی کے ساتھ کرو اور پوری توجہ کے ساتھ کرو خواہ تم مذہبی کام کرو، خواہ تم کوئی تقریر کرو، خواہ تم روزانہ زندگی کا کوئی کام کرو.غرضیکہ جو کام کروا سے Sincerity کے ساتھ کرو اور تمام تر توجہ کے ساتھ کرو.ماسوا ازیں اگر ایک بچہ کے روزانہ مشاغل پر غور کیا جائے تو وہاں بھی یہ بات پائی جاتی ہے کہ باوجود طفولیت کی بے پرواہی کے وہاں بھی ایک قسم کی Sincerity کام کر رہی ہے.چنانچہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ ایک بچہ جب کبھی بھی کوئی کام کرتا ہے خواہ وہ کام کھیل ہی کا کیوں نہ ہو تو پوری توجہ اور محنت سے کرتا ہے اور راستی اور خلوص کے ساتھ کرتا ہے اور یہ سمجھ کر کرتا ہے کہ یہ اچھا کام ہے.اور یہی Sincerity ہے.تو جبکہ ایک بچہ میں یہ Sincerity پائی جاتی ہے تو بڑوں میں ان سے زیادہ یہ ہونی چاہئے.پس میں یہ نصیحت بھی کرتا ہوں کہ Sincerity پیدا کرو اور ہر کام میں اس کو استعمال کرو.زندگی کے دوسرے شعبوں کے متعلق بھی میں کہتا ہوں کہ ان میں بھی اس کو پیدا کرو لیکن اس وقت آپ کی ایسوی ایشن کے مفاد کو مدنظر رکھ کر یہ بات نصیحتا کہتا ہوں کہ اگر تم اس کام کو نہ کرتے تو اور بات تھی.لیکن اب جب تم اسے کر رہے ہو تو اسے Sincerity سے کرو.چوتھی نصیحت میں تبلیغ کے متعلق کرتا ہوں.میں نے اس کے متعلق آج صبح بھی اور کل بھی بیان کیا تھا کہ تبلیغی کی طرف سے ہمارے نو جوانوں کو بالخصوص کسی وقت بھی غافل نہ ہونا چاہئے.

Page 254

زریں ہدایات (برائے طلباء) 249 جلد سوم تبلیغ ایک ایسی ضروری شے ہے کہ کسی وقت بھی بھلائی نہیں چاہئے.میں اس بات کا افسوس کے ساتھ اظہار کرتا ہوں کہ تم میں سے بہت سے نو جوان یہ سمجھ رہے ہیں کہ تبلیغ کا وقت کالج لائف کے بعد آئے گا اور اس وقت ہمیں طالب علمی کے فرائض ادا کرنے چاہئیں اور جب ان سے فراغت ہوگی تو تبلیغ کریں گے.لیکن یہ درست نہیں.تمہیں کیا معلوم ہے کہ تمہاری اس وقت کی کہی ہوئی ایک بات کسی اور بندہ خدا کے لئے دلیل راہ بن سکتی ہے.تبلیغ اگر اچھی چیز ہے جیسے کہ وہ فی الواقعہ اچھی چیز ہے تو اسے آج ہی کرنا چاہئے اور کسی آئندہ زمانہ پر اسے اٹھا نہ رکھنا چاہئے.میں نے کل بھی کہا تھا کہ اچھے کام اچھے کام نہیں ہو سکتے جب تک کہ اسی وقت نہ کئے جائیں.پس اچھے کام اسی وقت کئے جانے چاہئیں.پھر یہ بھی نہیں کہ ایک دفعہ کسی کو تبلیغ کر دی اور پھر چپ ہور ہے.نہیں! بلکہ اسے مسلسل اور متواتر کرتے رہنا چاہئے.اور سمجھ لینا چاہئے کہ جس طرح نماز پڑھنا ہمارے لئے فرض ہے، جس طرح روزے رکھنا ہمارے لئے فرض ہے، جس طرح دوسرے احکام کی پابندی ہمارے لئے فرض ہے اسی طرح تبلیغ بھی ہمارا فرض ہے.اور جس طرح وہ فرض ایک دفعہ ادا کر دینے سے چھٹ نہیں جاتے اسی طرح یہ فرض بھی ایک دفعہ کرنے سے چھٹ نہیں سکتا.کیا تم ایک دفعہ روٹی کھا کر پھر کھانا چھوڑ دیتے ہو؟ یقینا نہیں.تو جب تم دوسرے کاموں کو متواتر کئے جاتے ہو تو اس کی طرف سے غفلت کر جانا یقیناً کامیابی کا ذریعہ نہیں.جس طرح ایک کام اگر تھوڑی دیر کرنے کے بعد چھوڑ دیا جائے تو وہ عمدہ بات نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے نتائج خوشگوار نکلتے ہیں اسی طرح تبلیغ کا معاملہ ہے کہ اگر ایک یا دو دفعہ یا ایک عرصہ تک کر کے چھوڑ دی جائے تو یہ کوئی عمدہ کام نہیں ہوتا اور نہ ہی اس سے کوئی مفید نتیجہ نکل سکتا ہے.پس تبلیغ تمہارے اہم فرضوں میں سے ایک فرض ہے اور اگر یہ فی الواقعہ تمہاری ڈیوٹی ہے جیسا کہ فی الواقعہ تمہاری ڈیوٹی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسے چھوڑ دیا جائے یا اگر کیا جائے تو غیر مسلسل طریق پر کیا جائے.تم میں سے بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی علم تو ہے نہیں ہم کیونکر تبلیغ کر سکتے ہیں.اس لیے میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں کہ یہ مت خیال کرو کہ تم کوعلم نہیں.کالجوں میں یکساں حالت کے

Page 255

زریں ہدایات (برائے طلباء) 250 جلد سوم طالب علم نہیں ہوتے.اگر کسی کی علمیت تم سے زیادہ ہے تو کئی ایک ایسے بھی تو ملیں گے جو تم سے کم علم رکھتے ہیں اور تم سے بہت کم اسلامی اور مذہبی باتوں کو جانتے ہیں.پس تم اس سے مت گھبراؤ اور اس بات سے تبلیغ کرنا مت چھوڑو کہ تمہارا علم کم ہے.پھر تبلیغ کے لئے کسی لمبے چوڑے علم کی ضرورت بھی نہیں ہوتی.اور پھر تم کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم سے حصہ دیا گیا ہے.تم اگر تبلیغ کرو گے تو تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کس قدر وہ طالب علم ہیں جو اپنے مذہب سے ناواقف ہیں اور اپنے مذہب کے ہلکے ہلکے اور موٹے موٹے حکم بھی نہیں جانتے.اور اس بات کے محتاج ہیں کہ تم انہیں یہ باتیں بتلاؤ.پس تم یہ مت خیال کرو کہ تم کو کچھ نہیں آتا تمہیں سب کچھ آتا ہے.میں ایک دفعہ اپنی بیوی کے ایک رشتہ دار بھائی کو تبلیغ کر رہا تھا.اب تو وہ گریجوایٹ ہے اُس وقت وہ سکول میں پڑھتا تھا.میں نے اسے اسلام کی باتیں بتائیں.وہ حیران ہو گیا.پھر میں نے اسے کہا اسلام میں ہے کہ آنحضرت علیہ کے بعد ایک نبی آئے گا کیا تمہیں اس کی خبر ہے؟ کیا تم نے اس کے متعلق کبھی کچھ سنا ہے؟ وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا کہ میں نے تو کبھی یہ باتیں نہیں سنیں اور نہ ہی میں نے کبھی سنا کہ آنحضرت عملے کے بعد کوئی نبی آئے گا.پھر میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے علماء اس کے متعلق کیا کہتے ہیں؟ کیا وہ بھی کسی آنے والے کا پتہ بتاتے ہیں یا نہیں؟ کہنے لگا وہ تو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے.اس پر میں نے اسے بتایا کہ وہ کس طرح آئیں گے.اس کے بعد جب وہ سکول گیا تو اس نے وہاں کے ایک مولوی سے یہ سب کچھ بیان کر کے وہی پوچھا جو میں نے اس سے پوچھا تھا.اس کا جواب تو مولوی نے کچھ نہ دیا مگر اس کو سخت ست کہا.وہ بیچارہ سخت ڈرا اور اس نے مجھ سے بیان کیا کہ یہ مولوی اب میرے باپ کو کہہ دے گا.لیکن یہ بات اس سے ضرور ہوئی کہ اس پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ پھر اس نے کبھی کسی مولوی سے کوئی ایسی بات نہ پوچھی.اور ان مسائل سے متعلق بالخصوص کسی مولوی سے کچھ دریافت نہ کیا.پس یہ نہ سمجھو کہ ہر ایک تم سے زیادہ علم دار ہے.کالجوں میں تو کئی ایسے ملیں گے جو

Page 256

زریں ہدایات (برائے طلباء) 251 جلد سوم بالکل اسلام نہیں جانتے اور اس سے بالکل Ignorant ( کورے ) ہیں.سو تم کو ان میں | تبلیغ و اشاعت کرنی چاہئے.انہیں اسلام بتانا چاہئے ، ان کو اسلام کے احکام سے واقف کرنا چاہئے ، ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم سے آگاہ کرنا چاہئے کیونکہ آخر ان کا بھی حق ہے کہ وہ بھی اس بات سے فائدہ اٹھا ئیں جس سے کہ تم نے اٹھایا.سو اس بات کو یادرکھو اور ہر گز نہ بھولو کہ ان کو فائدہ پہنچانے میں ہی فائدہ ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو میں انگریزی میں کہہ سکتا تھا.یہ تو | نہیں کہ میں اس سے زیادہ تمہیں کچھ نہیں بتا سکتا مگر یہ ہے کہ موقع کے مناسب جو کچھ ضروری تھاوہ میں نے کہہ دیا ہے.تمہیں چاہئے کہ اس سے فائدہ اٹھاؤ اور خدا کی خوشنودی پانے والے ( الفضل 25 مئی 1926ء) بنوں

Page 257

زریں ہدایات (برائے طلباء) 252 جلد سوم جلسہ تقسیم انعامات احمد یہ ٹورنامنٹ احمد یہ ٹورنامنٹ کے جلسہ تقسیم انعامات کے موقع پر حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں:.در حقیقت جب تک طاقتوں کا صحیح مقابلہ نہ ہو اُس وقت تک انسان کو اس امر کا پتہ نہیں لگتا کہ اس کی قوت یا بنی نوع انسان کی قوت انسان کو ترقی کی کس حد تک پہنچا سکتی ہے.انسان دوسروں کے کاموں کو دیکھ کر ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ میرے اندر کس حد تک ترقی کرنے کی طاقت ہے ورنہ بسا اوقات وہ سمجھ لیتا ہے کہ جس حد تک میں کامل ہو گیا ہوں اس سے بڑھ کر کمال نہیں حاصل ہو سکتا.اس وجہ سے وہ اپنی طاقتوں سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھا سکتا.دنیا میں جو الفاظ کسی لغت والے بولتے اور لکھتے ہیں انسان کو وہی معلوم نہیں ہوتے بلکہ مادری طور پر اور بھی بہت سے الفاظ جانتا ہے مگر جب علم ادب کے ماہروں کی کتب پڑھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہی الفاظ جو وہ جانتا ہوتا ہے انہیں کس موقع اور محل پر کس طرح استعمال کرنا چاہئے.اس طرح وہ اپنی زبان میں ترقی کرتا جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ غیر زبان والے ہی دوسری زبان پڑھتے ہیں.یعنی یہ نہیں کہ انگریزی زبان ہندوستانی ہی پڑھتے ہیں بلکہ خود انگلستان کے لوگ بھی انگریزی پڑھتے اور سکھتے ہیں.اسی طرح فرانسیسی اپنی زبان پڑھتے ہیں اور دیگر ممالک کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے.صرف ایک بد قسمت زبان اردو ہے جس کے متعلق ہندوستانی سمجھتے ہیں کہ اس کے سیکھنے کی ضرورت نہیں یہ ہم یونہی سیکھ سکتے ہیں.مگر دوسری زبانوں کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جاتا.وہ لوگ علمی طور پر اپنی زبانوں کو سیکھتے اور ان میں ترقی کرتے ہیں.انگریز شیکسپیئر ، سکاٹ، ملٹن اور جانسن کی کتب اس لئے نہیں پڑھتے کہ ان میں جو الفاظ درج ہوتے

Page 258

زریں ہدایات (برائے طلباء) 253 جلد سوم ہیں وہ انہیں معلوم نہیں ہوتے اور وہ الفاظ نہیں جانتے بلکہ اس لئے پڑھتے ہیں کہ ان ماہرین نے الفاظ کو جس ترتیب، جس انداز اور جس طریق سے استعمال کر کے جذبات میں جوش اور ہیجان پیدا کیا ہوتا ہے وہ نہیں جانتے.اور جب وہ ان کی کتابیں پڑھتے ہیں تو انہیں اپنی زبان سے مقابلہ کرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں زبان کے متعلق ابھی کیا کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے.پس مقابلہ سے ہی انسان کو معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی قوتوں کو صحیح طور پر استعمال کر کے کہاں تک ترقی کر سکتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ میرے جیسی طاقت اور قوت والا انسان بہت سے فنون سیکھ سکتا ہے تو وہ بھی سمجھتا ہے کہ میں بھی ترقی کر سکتا ہوں.پس مقابلہ انسانی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے.دوسری چیز انسانی ترقی کے لئے ضروری تعاون ہے.یہ بالکل علیحدہ بات ہے کہ انسان دوسروں کو گرا کر خود کسی مقام پر پہنچ جائے اور یہ بالکل علیحدہ ہے کہ دوسروں سے تعاون کرتے ہوئے اپنے آپ کو آگے بڑھا کر لے جائے.دو آدمی جن میں کام کرنے کی اعلیٰ طاقت ہوا گر علیحدہ علیحدہ کام کریں تو کبھی اس مقام پر نہیں پہنچ سکیں گے جہاں دونوں مل کر کام کرنے سے پہنچ سکتے ہیں.کیونکہ جس طرح افتراق اور انشقاق سے کام کرنے والے کمزور اور بے طاقت ہو جاتے ہیں اسی طرح تعاون سے مضبوط اور طاقتور ہو جاتے ہیں.ایک بادشاہ کی موٹی مثال سکول کے کورس میں پڑھائی جاتی تھی جس نے اپنے بیٹوں کو جمع کر کے ایک جھاڑو ان کے سامنے رکھا اور ہر ایک سے کہا کہ اس کو توڑو.انہوں نے باری باری توڑنے کی کوشش کی مگر توڑ نہ سکے.پھر اس نے جھاڑو کے تنکے تنکے کر کے کہا اب تو ڑو انہیں.انہوں نے آسانی سے تو ڑلیا.اس پر اس نے کہا دیکھو! جب تک یہ تنکے ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے تم انہیں نہ توڑ سکے.لیکن جب یہ پراگندہ ہو گئے تو تم نے فورا تو ڑ لیا.اسی طرح اگر تم مل کر رہو گے تو کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا.لیکن اگر علیحدہ علیحدہ ہو جاؤ گے تو دشمن تمہیں تباہ کر دیں گے.بات یہ ہے کہ علیحدہ علیحدہ قوت جب مل جاتی ہے تو ایک نئی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور اس سے جتنی ترقی ہو سکتی ہے اتنی علیحدہ علیحدہ طاقت صرف کرنے سے نہیں ہوسکتی.تمام تمدنی ترقی

Page 259

زریں ہدایات (برائے طلباء) 254 جلد سوم تعاون سے ہوتی ہے.دیکھو آجکل انگلستان میں مزدوروں نے سٹرائک کی ہوئی ہے چونکہ انہوں نے ایک انتظام کے ساتھ سٹرائک کی ہے اس لئے سارا ملک خطرہ میں پڑ گیا ہے اور بادشاہ سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے حاکم تک گھبرا رہے ہیں کہ ملک میں فساد اور خونریزی نہ پھیل جائے.اب اگر مزدور آپس میں تعاون نہ کرتے تو کبھی اس طرح سارے ملک کو نہ ہلا سکتے اور ساری دنیا میں تہلکہ نہ مچاسکتے.اسی طرح اگر ان کے مقابلہ میں گورنمنٹ تعاون سے کام نہ لیتی ، ملک کے لوگ گورنمنٹ کے ساتھ نہ مل جاتے تو وہ انگلستان دو تین دن کے اندر اندر پراگندہ حال ہو جاتا جس کو دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت تباہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی.مزدوروں نے تو آپس میں اس طرح تعاون کیا کہ ریل چلانے والوں نے ریل چلانی چھوڑ دی، کوئلہ نکالنے والوں نے کوئلہ نکالنا بند کر دیا.یہاں کوئلہ کی اتنی قدر نہیں سمجھی جاسکتی جتنی انگلستان میں ہے کیونکہ ہمارا ملک گرم ہے مگر وہاں سردی ہوتی ہے.اس لئے کوئلہ ضروریات زندگی میں سے ایک بہت ضروری چیز ہے.پھر کارخانے کوئلہ کے ذریعہ چلتے ہیں.غرض کوئلہ نکالنے والوں نے کوئلہ نکالنا چھوڑ دیا.ریل چلانے والوں نے ریل چلانے سے انکار کر دیا.ٹریم (Tram) بند ہوگئی.پریس والوں نے اخبار چھاپنے بند کر دیئے.ہوٹلوں کے ملازموں نے ہوٹلوں میں کام کرنے سے انکار کر دیا.اور ایسی حالت ہو گئی کہ وہ یورپ جو اس بات کا عادی ہو گیا ہے کہ تمام کام ایک انتظام کے ماتحت آپ ہی آپ ہوں اُس پر آج یکدم وہ زمانہ آ گیا جبکہ انگلستان کے لوگ جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور ہر شخص اپنی ضرورت آپ پوری کرتا تھا.اگر عام لوگ گورنمنٹ کے ساتھ تعاون نہ کرتے تو انگلستان تین دن کے اندر اندر تباہ و برباد ہو جاتا.نہ کوئی کہیں جاسکتا نہ آ سکتا.نہ روشنی ہوتی نہ کھانے پینے کا کوئی سامان ہوتا.لوگ بھوکوں مرجاتے.مگر یہ تعاون کا ہی نتیجہ ہے کہ 25 لاکھ مزدوروں کے کام چھوڑ دینے پر بھی گورنمنٹ نے ملک کی حفاظت کرلی ہے.پس دنیا میں ہر قوم کی ترقی کیلئے صحیح مقابلہ اور صحیح تعاون کی ضرورت ہے.اور یہ دونوں باتیں ٹورنامنٹ کے ذریعہ بچوں میں پیدا کی جاسکتی ہیں.جو اگر چہ آج کے بچے ہیں لیکن کل کے باپ ہوں گے.آج ہم جو سبق ان بچوں کو دیں گے کل وہ قومی

Page 260

زریں ہدایات (برائے طلباء) 255 جلد سوم طور پر مفید ثابت ہوگا.اسی لئے میں نے ٹورنامنٹ جاری کیا ہے.لیکن اگر اس سے صحیح طور پر کام نہ لیا گیا تو یہی مقابلہ شقاق پیدا کر کے جماعت کو تباہ کر سکتا ہے.اس لئے میں اس موقع پر جہاں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ جماعت کے چھوٹے بڑوں نے اس نتیجہ کو پیدا کرنے کی کوشش کی جو ٹورنامنٹ کے ذریعہ پیدا کرنا میرے مد نظر ہے وہاں ٹورنامنٹ کی منتظم کمیٹی کو ہوشیار بھی کرتا ہوں کہ وہ بہت احتیاط اور ہوشیاری کے ساتھ اس بات کی نگرانی کرے کہ ناجائز مقابلہ اور غلط تعاون کی روح نہ پیدا ہو.ورنہ سخت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.مجھے اس دفعہ ٹورنامنٹ کی کھیلیں دیکھنے کے لئے آنے کا موقع نہیں ملا.مگر ایک بات مجھے ایسی معلوم ہوئی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض ناقص پہلو بھی پیدا ہورہے ہیں اور ضد اور تعصب کی طرف طبائع کا رجحان ہو رہا ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا معاملہ نہیں جس سے معلمین کے کان آشنا نہ ہوئے ہوں.مگر انہوں نے اسے روکا نہیں.اور وہ یہ کہ مدرسہ احمدیہ کے لڑکے کوئی کھیل جیت کر ایسے طور پر نعرے لگاتے ہوئے گئے کہ گو یا کسی اشد ترین دشمن پر فتح پا کر آئے ہیں.ان کے شور سے تمام قادیان کی دیوار میں گونج رہی تھیں اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا دجال کا سر کچل کر آئے ہیں.دیکھو یورپ کے لوگ جو مذہب کے سکھائے ہوئے اخلاق | نہیں رکھتے ان میں بھی یہ قاعدہ ہے کہ کسی مقابلہ میں جو پارٹی ہارتی ہے اس کی طرف جیتنے والے بڑھتے اور ان سے مصافحہ کرتے ہیں.ہارنے والے ان کو کامیابی پر مبارکباد کہتے ہیں اور جیتنے والے بھی انہیں مبارکباد کہتے ہیں کہ تم بھی تو اس مقابلہ میں شامل تھے.اس طرح کھیل کی روح قائم رہتی ہے اور ضد ، عداوت اور دشمنی تک نوبت نہیں پہنچتی.مگر یہاں بالکل الٹ کیا گیا.یہی وجہ تھی کہ جب ان لڑکوں نے کہا کہ مصافحہ کرنا چاہتے ہیں تو میں نے کہلا بھیجا کہ یوں تو جو چاہے مسجد میں مصافحہ کر سکتا ہے مگر وہ کونسی دینی فتح کر کے آئے ہیں کہ خاص مصافحہ کے متمنی ہیں.دیکھو مدرسہ احمد یہ ہم نے اس لئے بنایا ہے اور اس لئے اس کے اخراجات برداشت کر رہے ہیں کہ اس میں پڑھنے والے دنیا کی اصلاح کرسکیں.مگر جو اپنوں میں ہی شقاق کا باعث ہوتے ہیں ان سے کیا امید ہوسکتی ہے کہ دنیا کا شقاق دور کر سکیں گے.اسی طرح وہ

Page 261

زریں ہدایات (برائے طلباء) 256 جلد سوم مدرس جولڑکوں کو ایسی حرکت سے نہ روک سکیں دنیا کو کس طرح برائیوں سے روک سکیں گے.اور کس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ دنیا فتنہ وفساد سے چور ہو کر اور انشقاق اور افتراق سے تھکی ہوئی ان کی طرف ہاتھ بڑھائے گی کہ وہ اس کا شقاق دور کریں.اگر وہ لڑکوں کی اصلاح نہیں کر سکتے.سنو اور غور سے سنو تم آپس میں فٹ بال کھیلتے رہو، مدرسہ احمدیہ ہائی سکول کو شکست دیتا رہے، جیتنے والے نعرے بلند کرتے رہیں اس سے دنیا کو کچھ فائدہ نہ ہوگا.اور دنیا اسی طرح ضلالت اور گمراہی میں پڑی رہے گی جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے قبل پڑی تھی.تمہاری زندگی کا مقصد اور مدعا تو صرف یہ ہے کہ تم کوشش کرو کہ وہ غرض پوری ہو جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے.اور یہ غرض تمہارے اکٹھے اور مل کر کام کرنے کے بغیر کبھی پوری نہ ہوگی.تم میں مقابلہ کی روح ہونی چاہئے تمہیں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دوران مقابلہ میں چیئر ز دو.لیکن جیت گئے تو پھر کام ختم ہو گیا.آپس میں بھائی بھائی کی طرح مل جاؤ اور کوئی ایسی حرکت نہ کرو جس سے کسی کی دل شکنی اور دل آزاری ہو.ٹورنامنٹ کی ایک غرض تعاون کی روح پیدا کرنا ہے.اگر یہ پیدا نہیں ہوتی تو ٹورنامنٹ کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے.اس لئے میں اساتذہ سے بھی کہتا ہوں کہ اپنی ذمہ داریاں سمجھو.اور یہ سمجھو کہ کیا چیز ان کے سپرد کی گئی ہے.ان کے سپر د جماعت کے بچے کئے گئے ہیں جنہوں نے اگلے زمانہ میں ہماری جگہ کام کرنا ہے.اگر ان میں شقاق کی روح رہی اور محبت کی روح نہ پیدا ہوئی تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ کام جو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا وہ برباد ہو جائے گا.ہمارے کام کوئی کھیل تماشا نہیں.ہمارے ہر ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کے آئندہ نتائج نکلیں گے.اس لئے ہمارے ہر کام میں یہ بات مدنظر رہنی چاہئے کہ محبت و پیار، قربانی و ایثار کی روح پیدا ہو.اگر اساتذہ بچوں میں یہ بات پیدا کر دیں گے تو اللہ تعالیٰ کی برکتوں کے وارث ہوں گے.اور اگر اس میں کو تاہی کریں گے تو ان کی نیکی اور تقویٰ اس جہان میں بھی ان کے کام نہ آئے گا اور اگلے جہان میں بھی کچھ فائدہ نہ دے گا.دیکھو ساری دنیا کو

Page 262

زریں ہدایات (برائے طلباء) 257 جلد سوم دشمن بنا کر ہمیں کیا ملا.خدا تعالیٰ کی رضا ہی ہے جس کے لئے ساری دنیا کی ہم نے کوئی پرواہ نہیں کی.لیکن اگر وہ بھی حاصل نہ ہوئی تو ہم جیسا بد قسمت کون ہو سکتا ہے.پس دونوں سکولوں کے اساتذہ کو اور دوسرے لوگوں کو بھی جو ٹورنامنٹ میں حصہ لیتے ہیں اور لڑکوں کے والدین کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بچوں میں تعاون، محبت اور ایثار کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کریں.میرے نزدیک اس قسم کا قانون پاس کر دینا چاہئے کہ جب کوئی پارٹی کسی مقابلہ میں جیتے تو ایک دومنٹ تک خوشی کا نعرہ لگا سکتی ہے لیکن جس کو جیتے اس کے لئے بھی نعرہ لگائے کیونکہ اس نے بھی کام کیا ہے.اور پھر آپس میں اس طرح ملیں کہ محبت والفت کا نظارہ نظر آئے.اس موقع پر میں ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آداب ایسی چیز ہیں کہ کوئی قوم جو یہ نہیں سیکھتی ترقی نہیں کر سکتی.مگر ہمارے سکولوں میں اس کی بہت کم پر واہ کی جاتی ہے.یہاں ہی ہمارے اپنے گھر کے لڑکے جو مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں اور وں سے تو الگ رہا مجھ سے مصافحہ کرتے وقت بھی دونوں ہاتھ نہیں ملاتے.اس قسم کے آداب سکھانا استادوں کا کام ہے.پھر میں نے دیکھا ہے یہاں لڑکے بیٹھے رہتے ہیں.اگر کوئی بڑی عمر کا آدمی آجائے تو اٹھ کھڑے نہیں ہوتے اور اپنی جگہ ان کو بیٹھنے کے لئے پیش نہیں کر دیتے.کوئی تیسرا آدمی ان کو کھڑا کر دے تو کھڑے ہو جاتے ہیں مگر خود ان میں یہ احساس نہیں ہے.حالانکہ ہمارے بچوں کے لئے یہ چاہئے کہ ایک آدمی آئے تو اسے جگہ دینے کے لئے دس اٹھ کھڑے ہوں.اس قسم کے اخلاق کی روزانہ مشق کرانے کی ضرورت ہے.ابھی جب ہم لاہور گئے تو میاں شریف احمد صاحب جو ناظر تعلیم و تربیت ہیں وہ بھی ساتھ تھے.انہوں نے لاہور کے ایک مدرسہ کو دیکھا جس کا انتظام نہایت اعلی درجہ کا پایا مگر میں نے یہاں دیکھا ہے بڑے آدمیوں کے آنے پرلڑ کے بیٹھے رہے.پھر کسی دوسرے نے کھڑا کیا تو کھڑے ہوئے.اس قسم کی باتیں بچوں کو کھانی ضروری ہیں.ان نصائح کے بعد میں دعا پر اس جلسہ کو ختم کرتا ہوں.خدا کرے کہ یہ مفید ہوں اور ان (الفضل 11 جون 1926ء) سے فائدہ اٹھایا جائے."

Page 263

زریں ہدایات (برائے طلباء) 258 جلد سوم احمدی طلباء کو نصائح 7 مارچ 1927ء کو مغرب کے قریب تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے فورتھ ہائی کلاس کے طلباء نے اپنے ففتھ ہائی کلاس کے بھائیوں کو ان کے امتحان میں شامل ہونے کے لئے جانے کی تقریب پر دعوت چائے دی.چونکہ دو تین دن سے حضرت خلیفتہ السیح الثانی کی طبیعت علیل تھی اس لئے حضور نے اس شفقت اور نوازش کے باعث جو حضور اپنی جماعت کے بچوں پر فرماتے اپنے نئے مکان کے صحن میں ہی اس دعوت کا انتظام کرنے کی خاص طور پر اجازت بخشی تا حضور باوجود علالت کے اپنی نصائح سے بچوں کو مستفیض ہونے کا موقع بخش سکیں.اس موقع پر حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.میں اس وقت تکلیف کی وجہ سے کھڑا ہو کر تقریر نہیں کر سکتا لیکن چونکہ ہمارے سکول کی دسویں جماعت کے طلباء خدا کے فضل سے سب کے سب یا ان میں سے بہت سے امتحان کے بعد قادیان سے رخصت ہو جائیں گے اور شاید ان میں سے بہتوں کو کالجوں میں تعلیم پانے کا موقع ملے گا اس لئے میں انہیں خصوصیت سے ان عہدوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے انصار اللہ کی جماعت میں داخل ہو کر کئے ہیں.میں نے پہلے بھی افسوس کے ساتھ کئی بار یہ بات کہی ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ جو طلباء سکول سے نکل کر احمد یہ ہوٹل میں جاتے ہیں ان کا رویہ اچھا اور پسندیدہ نہیں رہتا.میں نے متواتر طلباء کو توجہ دلائی ہے کہ باجماعت نماز پڑھا کریں اور شریعت کے وہ احکام جو ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں ان کی کم از کم اتنی پابندی کریں کہ دوسروں کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ جب

Page 264

زریں ہدایات (برائے طلباء) 259 جلد سوم مسلمان خودان پر عمل نہیں کرتے تو دوسروں کو کس طرح ان کی خوبی کا قائل کر سکتے ہیں.مگر باوجود اس کے مجھے معلوم ہوا ہے کہ طلباء شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں.پچھلے چار ماہ ہوٹل کے سپرنٹینڈنٹ اور طلباء سے میری خط و کتابت رہی ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے طلباء نے اس لئے بعض شرعی احکام پر عمل کرنا چھوڑ دیا کہ کچھ طلباء ان پر عمل نہیں کرتے تھے.یہ بات میرا دماغ سمجھنے کے لئے تیار نہیں کہ کوئی شخص شریعت کے احکام پر اس حد تک ہی عمل کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے جس حد تک دوسرے عمل کریں.حالانکہ اسلامی احکام پر اس لئے عمل نہیں کرنا چاہئے کہ دوسرے ان پر عمل کرتے ہیں بلکہ اس لئے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ حکم ہے.اگر دس ہزار انسان بھی نماز نہ پڑھیں تو ہم نماز پڑھنا اس لئے نہیں چھوڑ سکتے کہ اتنی بڑی تعداد نماز نہیں پڑھتی.اگر اسی حکم پر عمل کرنا چاہئے جس پر دوسرے لوگ عمل کریں تو کوئی بھی عمل نہیں کیا جا سکتا.کون ساعمل ایسا ہے جس پر سب کے سب مسلمان کہلانے والے عمل کر رہے ہیں.اگر دوسروں کی دیکھا دیکھی ہی عمل کرنا ہے تو شریعت کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.دنیا شراب پیتی ہے پھر کیا ہمیں بھی شراب پینا چاہئے ؟ دنیا کے اکثر حصہ کی عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں پھر کیا ہماری عورتوں کو بھی پردہ نہیں کرنا چاہئے ؟ دنیا کے اکثر لوگ قرآن کریم کو جھوٹا سمجھتے ہیں کیا نعوذ باللہ ہمیں بھی ایسا ہی سمجھنا چاہئے ؟ اگر دوسروں کی دیکھا دیکھی عمل کرنا ہے تو کوئی نیک کام بھی ایسا نہیں جو کیا جا سکے.یہ کہنا کہ چونکہ بعض لڑکے داڑھی منڈاتے ہیں اس لئے ہم نے بھی منڈادی یا بعض لڑکے نماز نہیں پڑھتے اس لئے ہم بھی نہیں پڑھتے حد درجہ کی بے ہودگی ہے.پچھلے سالوں میں تو یہ شکایت سنی جاتی تھی کہ قادیان سے جو سٹوڈنٹ آتے ہیں وہ نمازیں باجماعت پڑھنے میں سستی کرتے ہیں.لیکن اس دفعہ یہ سنا گیا ہے کہ قادیان سے آنے والے اکثر طلباء نے نمازیں پڑھنی جاری رکھیں.لیکن پھر اس لئے چھوڑ دیں کہ بعض اور نہیں پڑھتے تھے.اسی طرح بعض نے داڑھیاں نہ منڈا ئیں لیکن پھر اس لئے منڈوا ڈالیں کہ بعض اور منڈاتے تھے.اگر چہ یہ پہلے سے کسی قدر ترقی ہے کیونکہ پہلے تو قادیان سے جانے والے طلباء کی یہ شکایت تھی کہ شرعی احکام کی تعمیل میں سنتی کرتے تھے مگر اب یہ کہا گیا

Page 265

زریں ہدایات (برائے طلباء) 260 جلد سوم ہے کہ دوسروں کو دیکھ کر انہوں نے ستی اختیار کی لیکن یہ بھی بہت افسوس کی بات ہے.امید ہے آپ کے جو طلباء جائیں گے وہ یہ دکھائیں گے کہ دوسرے شرعی احکام پر چلیں یا نہ چلیں وہ ضرور چلیں گے اور اس مضبوطی سے قائم رہیں گے کہ جو ان احکام کی پابندی نہ کرتے ہوں وہ بھی انہیں دیکھ کر پابندی اختیار کرلیں گے.چونکہ اس سال طلباء انصار اللہ کی جماعت میں داخل ہوئے ہیں جہاں انہوں نے بہت سے عہد کیے ہیں اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ اس سال جانے والے طلباء کا نمونہ بہت اعلیٰ اور پہلے کی نسبت بہت بہتر ہو گا.اسی پر میں اپنی تقریر ختم کر کے دعا کرتا ہوں کیونکہ میں تکلیف سے بیٹھا ہوا ہوں اور دوسرے احباب سے بھی کہتا ہوں کہ دعا کریں خدا تعالیٰ ہمارے طلباء کو امتحان میں کامیاب کرے اور اسلامی احکام پر عمل کرنے کا اعلیٰ نمونہ بنائے.“ (الفضل 11 مارچ 1927ء)

Page 266

زریں ہدایات (برائے طلباء) 261 جلد سوم حفاظت اور اشاعت اسلام کے لئے مسلمانوں کو بیدار کرو 28 اپریل 1927ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ قادیان نے طلباء مولوی فاضل کلاس کو دعوت چائے دی.اس موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل خطاب فرمایا:." آج ( 28 اپریل ) جو ایڈریس پڑھا گیا ہے مجھے اس پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ مجھے شکایت تھی عام طور پر ہمارے مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی اردو ایسی صاف اور شستہ نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہئے لیکن آج کا جو ایڈریس پڑھا گیا اس کی زبان ایسی تھی کہ امید کی جاسکتی ہے آئندہ ترقی کر کے لکھنے والا ایسا کارآمد وجود ہو سکے جو زبان اور قلم سے مفید خدمت کر سکے.لیکن اس ایڈریس میں ایک نقص بھی تھا جس کی اصلاح کی بہت ضرورت ہے.اور وہ یہ کہ اس میں بہت کچھ تکلف سے کام لیا گیا ہے.یہ بات خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا میں تکلف سے کبھی دل فتح نہیں ہوا کرتے.خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو فتح کرنے کے لئے الگ الگ طریق قرار دیئے ہیں.اور تکلف کانوں کے فتح کرنے کے لئے ہے.کان اس سے عمدگی کے ساتھ فتح ہو سکتے ہیں مگر سادگی سے دل فتح کئے جاتے ہیں.ایک عمدہ شعر جس کے الفاظ کی بندش چست ہو، جس کے مطالب گرگری پیدا کرنے والے ہوں وہ کانوں پر ایسا اثر کرے گا کہ سننے والے سن کر مست ہو جائیں گے اور ان کے سر جھومنے لگیں گے.ان کے چہروں سے بشاشت اور خوشی کے آثار ظاہر ہوں گے لیکن جونہی وہ اس مجلس مشاعرہ کو چھوڑیں گے ان کے دل ایسے ہی کورے

Page 267

زریں ہدایات (برائے طلباء) 262 جلد سوم اور خالی ہوں گے جیسے اس مجلس میں آنے کے وقت تھے.لیکن سادہ کلام جس میں دردمند دل اپنے دردمندانہ خیالات کا اظہار کر رہا ہو قلوب پر ایسا تصرف جمائے گا کہ گو سننے والے بظاہر اس کی طرف سے بے توجہ ہی نظر آئیں اور ممکن ہے اس پر اعتراض بھی کریں مگر ان کے قلوب پر ایسا گہرا اثر پڑے گا کہ جب وہ اس مجلس سے اٹھیں گے جس میں ان کے کان دلچسپ اور دلکش باتیں سننے کے مشتاق تھے مگر ان کا یہ اشتیاق پورا نہ ہوا تو ان کا دل آہستہ آہستہ محسوس کرنے لگے گا کہ اس مجلس میں شامل ہونا بے فائدہ نہ تھا.اگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم سے یہ طاقت دے که سادہ کلمات سے دلوں کو اور لطیف اور دلکش کلام سے کانوں کو فتح کیا جا سکے تو بڑی خوشی کی بات ہے.لیکن اگر ایک شخص کو ایک ہی چیز میسر آسکتی ہے تو سادگی کو اختیار کرنا چاہئے کیونکہ ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا ہے نہ کہ کانوں کے لئے دلکشی کے سامان مہیا کرنا.اس وقت ایڈریس کے جواب کی ذمہ داری بھی ایک ایسے لڑکے کے سپرد کی گئی ہے جس کے سپرد چار پانچ سال سے ایڈریس لکھنے اور پڑھنے کا کام رہا ہے.اور میں کہ سکتا ہوں اس وقت جو جواب دیا گیا ہے وہ سادہ طور پر اپنے دلی جذبات کا اظہار ہے اور میں اس جواب کو پہلے ایڈریسوں پر ہزاروں درجے زیادہ وقعت دیتا ہوں.جب تک ہمارے دل میں یہ بات راسخ نہ ہو جائے گی کہ ہمارا کام دلوں کو فتح کرتا ہے اُس وقت تک ہماری تقریریں اور تحریریں اُس تیر انداز کی طرح ہوں گی جس کے تیر چاروں گوشوں میں تو پڑتے تھے لیکن اگر نہیں پڑتے تھے تو اس جگہ جہاں وہ مارنا چاہتا تھا.اس کے تیر مشرق و مغرب، شمال و جنوب ہر طرف پڑتے تھے مگر نشانہ خالی تھا.بہت لوگ ہیں جو دوسروں کی تحریروں اور تقریروں کی نقل کرنا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں اگر ہم اس طرح کے لکھنے اور بولنے والے ہو جائیں تو دنیا کو فتح کرلیں.حالانکہ تصنیف اور تقریر نے دنیا کو بھی فتح نہیں کیا.اس کے لئے سوز ، گداز اور درد کی ضرورت ہوتی ہے.اس سوز کی جو بناوٹوں سے عاری ہو، اس گداز کی جو تکلف سے بے گا نہ ہو، اور اس درد کی جو تصنع سے پاک ہو، ایک ماتم کرتا ہوا دل، ایک چلاتا ہوا دل، ایک سوز سے گداز ہوا ہوا دل جب کوئی بات پیش کرتا ہے تو پتھر کا دل رکھنے والے انسانوں میں بھی رقت پیدا کر دیتا ہے.

Page 268

زریں ہدایات (برائے طلباء) 263 جلد سوم ہے خدا کے نبیوں کے کلام اسی وجہ سے تکلف سے عاری ہوتے ہیں.قرآن کریم کی عبارت کو پڑھو کس طرح دل پر اثر کرتی ہے.اس کے مقابلہ میں حریری اور دوسرے مصنفوں کی عبارتیں پڑھو.بظاہر ان کی بندشیں کیسی چست اور دلکش ہوتی ہیں.اگر اسی کا نام بلاغت اور فصاحت ہے تو قرآن کریم ان کے مقابلہ میں (نعوذ باللہ ) گرا ہوا معلوم ہوگا.مگر حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی بلاغت اور ہے.جنہوں نے ظاہری طور پر قرآن کا مقابلہ ان عبارتوں سے کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ قرآن کی بلاغت ان کے مقابلہ میں بیچ ہے.مگر بلاغت تکلف اور تصنع کا نام نہیں.قرآن کریم کی بلاغت اور فصاحت کے متعلق تو کہنا ہی کیا ہے یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے نبیوں کے کلام میں بھی بلاغت اور فصاحت اس ہمدردی اور خیر خواہی میں مخفی ہوتی ہے جس کی خاطر دنیا کے لئے وہ کلام کیا جاتا ہے.قرآن کریم کے سادہ الفاظ ہیں اور وہی الفاظ ہیں جو روزمرہ کی بول چال میں بولے جاتے ہیں.مگر جب وہی الفاظ قرآن کریم کی بندش میں آتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی آسمان سے اترے ہیں.الفاظ تو پرانے ہی ہوتے ہیں مگر ان کی بندش جدید ہوتی.جو قلوب پر خاص اثر کرنے والی ہوتی ہے.کیونکہ اس بندش کے اندر خالق ارض و سما کی یہ خواہش پنہاں ہوتی ہے کہ جس غرض کے لئے بندوں کو پیدا کیا گیا ہے وہ پوری ہو اور اسے حاصل کر لیں.اس کی محبت، اس کی شفقت، اس کی ذرہ نوازی ہمارے لئے ہر لفظ کو نیا اور ہر بندش کو جدید بنا دیتی ہے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ درد اور سوز پیدا کریں اور ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے آئیں کہ دنیا محسوس کرے ہمارے قلوب میں اس کے لئے درد اور سوز ہے.ہمارے درد اور سوز کو دلوں میں نہیں چھپا رہنا چاہئے بلکہ جس طرح دیوانہ اپنے کپڑے پھاڑ کر نگا ہو جاتا ہے اسی طرح ہمارے کلام میں سے درد اور سوز ننگا ہو کر ظاہر ہونا چاہئے.اس پر کہنے والے کہیں گے کہ سی نگی عبارتیں ہیں، ان میں فصاحت و بلاغت نہیں، مگر یا درکھو کام انہیں سے ہوگا.ہاں عبارت صاف اور زبان کے محاورہ کے مطابق ہو.کیونکہ جب تک ہم زبانوں کے محاورہ کی پابندی نہ کریں ہمارے مطالب لوگوں کے لئے غلط مفہوم پیدا کر دیں گے اور ان کے لئے ہمارے مفہوم

Page 269

زریں ہدایات (برائے طلباء) 264 جلد سوم کو صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہو جائے گا.آج کے اس جلسہ کی غرض یہ ہے کہ احمد یہ سکول کے طلباء ان بھائیوں کو جو سکول سے نکل کر امتحان کے لئے جانے والے ہیں اور اگر پاس ہو گئے تو ان کی تعلیم مدرسہ سے ختم ہو جائے گی الوداع کہیں.مگر تعلیم سے فارغ ہونے والوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک مدرسہ سے نکل کر دوسرے میں جا رہے ہیں.اب تک مدرسہ میں وہ اس طرح تھے جس طرح رحم مادر میں بچہ ہوتا ہے.جب تک بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے یا ماں کی گود میں ہوتا ہے اسے اپنی کوئی فکر نہیں ہوتی.ساری فکر ماں کو ہوتی ہے.اسی طرح ایک طالب علم کی زندگی علمی لحاظ سے ایسی ہوتی ہے جیسے رحم مادر میں یا ماں کی گود میں بچہ.ہاں مدرسہ سے نکل کر اس کی زندگی شروع ہوتی ہے اور اس کا اپنا ارادہ کام کرتا ہے.یہی زندگی اس کی زندگی کہلانے کی مستحق ہوتی ہے.مدرسہ میں اس کی زندگی نہیں بلکہ استادوں کی زندگی ہوتی ہے.جب لڑکوں کی اپنی زندگی شروع ہوتی ہے اُسی وقت معلوم ہو سکتا ہے اسلام کے لئے کتنا درد، کتنی جلن ، کتنا سوزان کے دل میں پیدا ہوا ہے.اگر یہاں سے جانے کے بعد دین کی محبت ان کے دلوں میں پائی گئی ، دین کے لئے وہ ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہوئے ، ان کے دلوں میں وہی سوز اور گداز پایا گیا جو یہاں تھا تو ہم سمجھیں گے کہ قادیان کی رہائش سے انہوں نے فائدہ اٹھایا.لیکن اگر انہوں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح بعض ایسے لڑکوں نے کیا جنہوں نے دس دس بارہ بارہ سال یہاں پڑھا لیکن یہاں سے جانے کے بعد اپنی ملازمتوں اور دنیا کے دھندوں میں پھنس گئے اور قادیان کی طرف کبھی انہوں نے منہ بھی نہ کیا.بعض تو اتنے گر گئے کہ اگر پیغامیوں کی ملازمت مل گئی تو پیغامیوں میں مل گئے اور اگر غیر احمدیوں کی ملازمت مل گئی تو ان میں شامل ہو گئے.اگر ایسا ہی انہوں نے بھی کیا تو ان کی محنت بھی ضائع گئی اور ان کے استادوں کی بھی ضائع گئی.موجودہ زمانہ اسلام کے لئے ایسا ہی نازک ہے جیسا یورپ کی سلطنتوں کے لئے جنگ یورپ کا زمانہ تھا.اُس وقت ان سلطنتوں نے لڑکوں کو سکولوں اور کالجوں سے نکال لیا اور کہہ دیا تھا کہ یہ پڑھنے کے دن نہیں بلکہ جنگ کرنے کے دن ہیں.اسی طرح آج اسلام کے

Page 270

زریں ہدایات (برائے طلباء) 265 جلد سوم لئے کام کرنے کے دن ہیں.اسی لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مبلغین کلاس کے طلباء کو باہر کام پر بھیج دیا جائے یا جو اور دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور مبلغین کے طور پر پڑھنا چاہیں یا معاہدہ کے مطابق انہیں اس کام پر لگایا جائے ان کو بھی تبلیغ پر لگا دیا جائے.اور کچھ کو رس مقرر کر دیا جائے جسے وہ فرصت کے وقت پڑھا کریں اور چھ مہینہ کے بعد آ کر امتحان دے جائیں.ایسے وقت میں ہر ایک احمدی کے دل میں درد ہونا چاہئے کہ وہ دین کا کام کرے.بہت لوگ علم کے نہ ہونے کی وجہ سے اپنی کمزوری کو یہ کہہ کر چھپانا چاہتے ہیں کہ ہمیں علم ہو تو ہم تبلیغ کریں مگر علم نہیں اس لئے کچھ نہیں کر سکتے.میں کہتا ہوں ہم نے دنیا سے یہ منوانا ہے کہ خدا ایک ہے اور اسلام اس کا سچا مذ ہب ہے اس کے لئے کسی مدرسہ اور کسی کالج میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں.اس کے لیے خود خدا تعالیٰ نے مدرس بھیج دیا ہے اور اس نے ایسی واضح | تعلیم سامنے رکھ دی ہے کہ جس کے لئے کسی استاد کی ضرورت نہیں.اس بارے میں وہی مثل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے دگر استاد را نامی ندانم اس کے لئے نہ کسی استاد کی ضرورت ہے نہ کوئی استاد یہ تعلیم دے سکتا ہے.صرف وہی دے سکتا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے.پس اس تعلیم کے لئے کسی اور مدرس کی ضرورت نہیں.ہاں تربیت کے لئے اور باریک مسائل جاننے کے لئے استاد کی ضرورت ہوتی ہے.مگر آج ایسی ضرورت ہے کہ باریک مسائل کو چھوڑ کر لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ خدا ہے اور وہ اپنے بندوں سے کلام کرتا، ان کی دعائیں سنتا، ان کی مشکلات دور کرتا ہے اور اسلام اس نے بھیجا ہے.اس کے لئے صرف اخلاص کی ضرورت ہے.اور جب کوئی شخص لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کہتا ہے تویہ تعلیم اسے اُسی وقت آجاتی ہے.اور اسے ایسی طاقت حاصل ہو جاتی ہے کہ پھر اسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا.اور یہ تعلیم ہماری جماعت کے ہر شخص کو حاصل ہے اس لئے کام کرنے کی ضرورت ہے.اور ضرورت ہے کہ اس ملک کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ایسی آگ لگادی جائے کہ کوئی سونے نہ پائے.عام لوگ صداقت -

Page 271

زریں ہدایات (برائے طلباء) 266 جلد سوم کیوں محروم رہتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ غفلت میں پڑے رہتے ہیں.قرآن بار بار منکروں کے متعلق کیوں کہتا ہے کہ وہ غافل ہیں.اسی وجہ سے کہ اگر وہ غفلت میں نہ پڑے ہوتے تو قرآن کو مان لیتے.پس اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس ملک میں آگ لگادیں اور ایسی آگ لگا دیں کہ کوئی سونے نہ پائے اور کوئی غافل نہ رہے.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے آپ سامان پیدا کر دیئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت جب کوئی شکایت کرتا کہ ہمارے علاقہ میں احمدیت نہیں پھیلتی تو آپ فرماتے آگ لگا دولوگ خود بخود احمدیت کی طرف توجہ کریں گے.اور جب کوئی کہتا ہمارے گاؤں یا علاقہ میں احمدیت کے خلاف بڑا فساد پھیلا ہوا ہے تو فرماتے یہ خدا نے آگ لگائی ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.ہماری ستی اور کمزوری تھی کہ اس وقت تک ہم ملک میں آگ نہ لگا سکے.اب خود اسلام کے دشمنوں نے آگ لگائی ہے اور اب وہ وقت اور وہ گھڑی آگئی ہے جس کی ساری عمر میں تلاش رہتی ہے.مشہور ہے ہر انسان کو ساری عمر میں ایک دفعہ خواجہ خضر ملتے ہیں.اُس وقت انسان جو چاہے ان سے لے سکتا ہے.ہماری عمر میں وہ گھڑی آگئی ہے جب خواجہ خضر ہمیں مل گئے ہیں.اس وقت ہم ذرا بھی توجہ اور کوشش کریں تو جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت سارا ملک ہمارا ہو سکتا ہے.تمام ترقیات خدا تعالیٰ نے لا کر ہمارے سامنے ڈال دی ہیں.اس وقت جو آگ ملک میں لگائی گئی ہے اس کے بھڑ کانے کے سامان ہمارے پاس ہیں اور پھر اس آگ کو بجھانے کا مصالحہ بھی ہمارے ہی پاس ہے.جب تک ایک ایک انسان محفوظ نہ ہو جائے اُس وقت تک اس آگ کو بھڑ کائے رکھنا ہمارا فرض ہے تاکہ کوئی سونے نہ پائے اور کوئی غفلت کا شکار نہ ہو جائے.اور جب سب لوگ جاگ اٹھیں اور غفلت کو ترک کر دیں تو پھر اس لئے کہ کوئی اس آگ کی زد میں نہ آجائے اس کا بجھانا ہمارا کام ہوگا.پس ہمارا فرض ہے کہ ان سامانوں کو ایسے رنگ میں استعمال کریں کہ ہمارا ملک آگ سے بچ کر ہدایت حاصل کرلے جو نہ صرف اس دنیا میں ہر انسان کے کام آئے بلکہ دوسری دنیا کے لئے بھی اسے راحت اور آرام پہنچا سکے.جو طلباء امتحان کے لئے جارہے ہیں یا جو ابھی پڑھ رہے ہیں میں ان سے کہتا ہوں آج

Page 272

زریں ہدایات (برائے طلباء) 267 جلد سوم کام کرنے کا خاص موقع ہے.ان کا فرض ہے اس وقت ایسا تو شہ و زاد راہ لے لیں جو اس | جہان میں بھی کام آئے اور اگلے جہان میں بھی ان کے لئے سرخروئی کا باعث ہو.اس وقت جو بھی فراغت انہیں میسر آئے اس سے ایسے رنگ میں کام لیں کہ دینِ اسلام کی اشاعت ہو اور مسلمان دشمنوں کے حملوں سے بچ جائیں.یہ مت سمجھو کہ ہم طالب علم ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں.طالب علموں کے لئے بھی چھٹیاں آتی ہیں.اگر ان سے کام لو تو بہت کچھ کام کر سکتے ہو.اگر خدا تعالیٰ نے ہمیں آگ بجھانے کے سامان دیئے ہیں تو آگ کو بھڑ کا نا بھی ہمارا کام ہے.مگر یاد رکھو جب میں کہتا ہوں آگ بھڑ کانے کا سامان بھی ہمارے پاس ہے اور ہمیں آگ بھڑ کانی چاہئے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ جنگ اور فساد کیا جائے گا.ہمارا سلسلہ تو دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے آیا ہے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ آگ بھڑ کا نا بھی تمہارا فرض ہے اور اس کا سامان بھی تمہارے پاس موجود ہے جس سے تمہیں کام لینا چاہئے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایسا درد اور ایسا احساس پیدا کر دو کہ اس وقت اگر انہوں نے اسلام کی حفاظت کا خیال نہ کیا تو اسلام مٹ جائے گا.اس کے لئے ایسی جلن، ایسا سوز ، ایسا درد پیدا کرنا کہ مسلمانوں کو اُس وقت تک چین نہ آئے جب تک اسلام کو اچھی طرح قائم ہوا ہوا نہ دیکھ لیں، یہ ہمارا کام ہے.ہماری غرض ساری دنیا میں اسلام قائم کرتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسے سامان مہیا کر دیئے ہیں کہ ساری دنیا میں اسلام پھیلانے کا مرکز ہندوستان مضبوط ہو جائے.اس لئے ہمیں اس ملک میں خاص طور پر کام کرنے اور دوسروں کو اسلام کی حفاظت اور اشاعت کے لئے تیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ آگ لگا دی جائے.اس آگ سے مراد جنگ کرنا یا فساد کرنا یا فتنہ پیدا کرنا نہیں بلکہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں اس بات کے لئے سوز اور گداز پیدا کر دیں کہ اسلام کو غالب کرنا ہے.اس آگ کا سامان ہمارے پاس ہے.کیونکہ آگ بغیر آگ کے نہیں لگتی.کسی چیز کو آگ اُس پر مٹی ڈال دینے سے یا اس پر لکڑیوں کا ڈھیر لگا دینے سے یا لوہے کا طومار لگا دینے سے نہیں لگا کرتی.آگ آگ سے ہی لگتی ہے.اور وہ آگ ہمارے قلوب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلائی ہے.

Page 273

زریں ہدایات (برائے طلباء) 268 جلد سوم اور کسی کے قلب میں نہیں.پس ہمارے دلوں میں اور صرف ہمارے دلوں میں وہ سوز ہے جس سے دوسروں کے دلوں میں سوز پیدا کیا جاسکتا ہے.ہمارے ہی دلوں میں درد ہے جس سے دوسروں کے دلوں میں درد پیدا کیا جاسکتا ہے.اسی طرح ایک چراغ سے دوسرے چراغ جلائے جاسکتے ہیں.اور وہ چراغ ہمارے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلایا ہے.پس وہ چراغ ہم ہی ہیں جو مسلمانوں کے گھروں میں چراغ روشن کر سکتے ہیں.جس سے انہیں اندھیری رات میں روشنی حاصل ہو سکتی ہے.اور وہ آگ ہم ہی ہیں جس سے وہ دن کو کام چلا سکتے ہیں.پس ہمارے ہی ہاتھوں میں ترقی اور کامیابی ہے.کیونکہ اسلام کو غالب کرنے کا درد، اسلام کو فتح مند کرنے کی سوزش ہمارے ہی دلوں میں ہے.پس تم اس آگ کے ذریعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے ہمارے دلوں میں جلائی ہے سارے ملک میں لگا دو اور اس طرح لگا دو کہ پھر وہ نہ بجھے.اور اسے بھڑ کا ؤ یہاں تک کہ ہر ایک دیوانہ وار اٹھ کھڑا ہو.اور اسی طرح دیوانہ وار پکار اٹھے جس طرح منصور نے کہا تھا آنَا الْحَقُّ “ میں حق ہوں.اس سے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ میں خدا ہوں بلکہ یہ تھا کہ میرے اندر خدا بول رہا ہے.پس تم ایسی آگ لگاؤ کہ انسانوں کے جسم کے ہر سوراخ سے بلکہ بال بال اور رواں رواں سے اس کے شعلے نکل رہے ہوں تا کہ اس سے وہ خس و خاشاک جل کر راکھ ہو جائے جو اسلام کی گاڑی کے آگے آکر اس کی رکاوٹ کا باعث بن رہی ہے اور اسلام کی گاڑی اُسی سرعت اور تیزی سے چلنے لگ جائے جس طرح پہلے چلتی رہی ہے.میں نے پہلے بھی نصیحت کی ہے اور اب بھی کرتا ہوں کہ اپنے اندر ایسی آگ پیدا کرو جس کی چنگاریاں چاروں طرف پھیل جائیں اور جس کے شعلے ہرطرف بلند ہو جائیں تاکہ مسلمان بیدار ہوں، غفلت کو چھوڑ دیں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے لاکھوں نہیں کروڑوں اٹھ کھڑے ہوں.میں اس تقریر کو اس دعا پر ختم کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس سوزش اور آگ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کی ہے ہر فرد کو بھڑکانے کی توفیق دے.اور اسے لے کر اس طرح کھڑے ہو جائیں کہ ہر فرد کے دل میں وہ سوز اور درد پیدا کر دیں جس سے اسلام دنیا میں

Page 274

زریں ہدایات (برائے طلباء) 269 جلد سوم غالب آجائے اور کوئی طاقت اسے مغلوب کرنے کے لئے کھڑی ہونے والی نہ رہے.“ ( الفضل 3 مئی 1927ء)

Page 275

زریں ہدایات (برائے طلباء) 270 جلد سوم جامعہ احمدیہ قادیان کے افتتاح کے موقع پر خطاب 20 مئی 1928ء کو حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے جامعہ احمدیہ قادیان کا افتتاح فرمایا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آپ نے فرمایا:." آج کا دن شاید ہمارے لئے کوئی خصوصیت رکھتا ہے کہ اس دن بہت سی دعوتیں جمع ہو گئی ہیں.میرا خیال تھا ہم اس جگہ اس لئے آرہے ہیں کہ دعا کر کے جامعہ احمدیہ کا افتتاح کریں.لیکن سامنے کے موڈ سے مڑتے ہی معلوم ہو گیا کہ یہاں بھی نفسانی مجاہدہ ہمارا انتظار کر رہا ہے.اور ابھی یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جا تا شام کو پھر ایک دعوت میں مدعو ہیں.اور ممکن ہے شام سے پہلے پہلے کوئی اور دعوت بھی انتظار کر رہی ہو.اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ دن ہمارے لئے اکل و شرب کا دن بن گیا ہے.اور رسول کریم صلى الله نے عید کے دن کی یہی تعریف فرمائی ہے.سو جس طرح خدا تعالیٰ نے اس دن میں بغیر اس کے کہ ہم ارادہ اور نیت کر کے پہلے سے انتظام کرتے خود اپنی طرف سے ہی ایسے سامان کر دیتے ہیں کہ اس دن کو ہمارے لئے عید کی طرح بنا دیا ہے.اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ واقعہ میں ہمارے لئے اسے عید بنا دے.جب خدا تعالیٰ نے اس دن میں عید سے ظاہری مشابہت پیدا کر دی ہے اور بغیر کسی انسانی ارادہ کے دخل کے ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں تو یہ اس کی شان کے خلاف ہے کہ کوئی ایسی چیز دے جو کام کی نہ ہو.ہم اس کی شان کو مد نظر رکھ کر یہی امید رکھتے اور اس سے یہی التجا کرتے ہیں کہ اس ظاہری عید کو حقیقی عید بنا دے.اس مُردہ میں روح پھونک دئے اس جسم میں سانس ڈال دئے اس بے بس مجسمہ کو چلتی پھرتی

Page 276

زریں ہدایات (برائے طلباء) 271 جلد سوم چیز بنا دے تا کہ جس طرح ظاہری طور پر اس دن نے عید سے حصہ پایا ہے اسی طرح باطن | میں بھی عید کی خصوصیات حاصل کر لے.ہمارے جو مبلغ باہر جارہے ہیں ان کے متعلق تو میں پہلے کچھ نصائح بیان کر چکا ہوں اور سمجھتا ہوں مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.میں نے خود بھی ان کو نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے.اور وہ یہ کہ جب میں تقریر کرنے کیلئے کھڑا ہوا تو بولنے کی طاقت نہ تھی.حرارت تھی، متلی ہو رہی تھی اور سر درد کی شکایت تھی.مگر تقریر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور اب سوائے سردرد کے باقی آرام ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح میں نے نصائح کرنے میں فائدہ اٹھایا ہے اسی طرح مبلغین ان کے سننے سے فائدہ اٹھائیں گے.لیکن اس دوسری تقریب کے متعلق جو مدرسہ احمدیہ نے ترقی کر کے جامعہ قائم ہونے کی کی ہے کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے کام وہ آپ ہی کرتا ہے اور ایسی راہوں سے وہ اپنا کام کرتا ہے کہ انسان کے ذہن، فکر اور واہمہ میں بھی وہ نہیں آتیں.وہ وہاں سے سامان جمع کرتا ہے جہاں سے انسان کو امید ہی نہیں ہوتی.اور وہاں سے نتائج پیدا کرتا ہے جس طرف انسان کی نظریں نہیں اٹھ سکتیں.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ تمام کاموں کے لئے اس نے کچھ قواعد ر کھے ہوئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چیز کے کمال کے لئے ایک نظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے.بہت لوگوں نے خدا تعالیٰ کی صفات پر غور کر کے صفات کے مفرد پہلو پر غور کیا ہے.لیکن ان کے اجتماعی پہلو پر انہوں نے غور نہیں کیا.وہ کہتے ہیں خدا تعالیٰ رب رحمن رحيم ، لمُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 1 ہے.مگر یہ غور نہیں کرتے کہ یہ تمام صفات ایک نظام کے اندر ہیں.اور ہر ایک صفت کے علیحدہ علیحدہ دائرے اور حلقے ہیں.اور ایک صفت دوسری صفت کے دائرہ کو قطع نہیں کرتی.جب یہ معلوم ہو گیا کہ ہر ایک صفت اپنے دائرہ میں چلتی ہے تو لازماً یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ کمال کی صفات میں سے ایک نظام کی صفت بھی ہے.یعنی نظام کا کامل ہونا بھی اس کی

Page 277

زریں ہدایات (برائے طلباء) 272 جلد سوم صفات میں سے ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے میری سنت تبدیل نہیں ہوتی.اور جہاں خدا تعالیٰ باوجود طاقت کے فرماتا ہے میں ایسا نہیں کروں گا پھر وہ نہیں کرتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نفی میں بھی قدرت پائی جاتی ہے.اگر ایسا نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ اپنے متعلق کیوں یہ فیصلہ کرتا کہ میں ایسا نہیں کروں گا.پس جس طرح کوئی بات کرنا خدا تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتا ہے اسی طرح موقع اور محل کا لحاظ رکھتے ہوئے کوئی فعل نہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کی قدرت پر دلالت کرتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے بھی قانون مقرر کئے ہوئے ہیں.ان قوانین میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی کام کے لئے اس نے جو رستے اور طریق مقرر کئے ہیں اگر ان پر چلا جائے تو با برکت نتائج نکلتے ہیں اور اگر نہ چلا جائے تو ایسے بابرکت نتائج نہیں نکلتے جیسی امید رکھی جاتی ہے.پس اس میں شبہ نہیں کہ سب کام خدا تعالیٰ ہی کرتا ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں ہے که مقررہ قانون کے مطابق انسان کے لئے کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے.اس میں شبہ نہیں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے متعلق فرمایا ہے مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ الله رلى 2 خدا تعالیٰ نے بدر کے موقع پر جو برکت نازل کی اور مخالفوں کو شکست ہوئی اس کے متعلق فرمایا اے محمد ! تم نے نہیں پھینکا تھا.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا جب کہ تم نے پھینکا تھا.اگر سارا کام خدا تعالیٰ نے ہی کرنا تھا تو پھر اِذْ رَمَيْتَ کہنے کی کیا ضرورت تھی.اس موقع پر خدا تعالیٰ نے نصرت دی اور ایسی نصرت دی کہ اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے وَلكِنَّ الله رَلی سب کچھ خدا نے ہی کیا تھا.مگر اس کے ساتھ إِذْ رَمَيْتَ کہنا بتاتا ہے کہ جب تک محمد ﷺ نے نہیں پھینکا خدا تعالیٰ نے بھی نہیں پھینکا تھا.بے شک نتیجہ خدا کے پھینکنے سے نکلا مگر اُس وقت جب رَهَيْتَ ہوا یعنی جب رسول کریم نے پھینکا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بحر کو پھاڑا مگر اُس وقت جب حضرت موسیٰ علیہ السلام | نے خدا تعالیٰ کے کہنے پر سوشا مارا.پھاڑا تو خدا نے مگر پھاڑنے کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ سے وابستہ کر دیا.مطلب یہ ہے کہ پہلے کوشش کرو پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے

Page 278

زریں ہدایات (برائے طلباء) 273 جلد سوم نتائج نکلیں گے.غرض تمام کاموں کے لئے خواہ وہ روحانی ہوں یا جسمانی یہ قاعدہ مقرر ہے کہ مقدور بھر کوشش کرو.اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرو پھر جو کی رہ جائے گی وہ خدا تعالیٰ پوری کر دے گا.اسی قانون کے ماتحت ضروری ہے کہ سلسلہ کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے ایسی جماعت تیار کی جائے جو ہمیشہ کے لئے سلسلہ کے مذہبی اور تبلیغی کاموں کی اپنے آپ کو حامل سمجھے.ایسی جماعت تیار کرنا بدعت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک گم شدہ چیز ہے جسے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا.قرآن کریم میں صاف الفاظ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 3 اور دوسری جگہ فرماتا ہے وَمَا كَان الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوْا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ 4 کہ تمام کے تمام - لوگ چونکہ مرکز میں نہیں پہنچ سکتے اس لئے چاہئے کہ وہ اپنے میں سے ایک جماعت اس کام کے لئے وقف کر دیں کہ جو دین سیکھے اور پھر جا کر دوسروں کو سکھائے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ مدرسہ رسول کریم ﷺ کے وقت سے قائم ہے اور قرآن کریم نے قائم کیا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر وسعت دی.بے شک آپ سے پہلے عربی مدارس قائم تھے مگر وہ پرانے کالجوں کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں.یہ ایسے ہی کانج تھے جیسے اس وقت گورنمنٹ کالج ہیں.سو اگر موجودہ گورنمنٹ کی حالت گر جائے تو سو سال کے اندر اندر ان کالجوں کی وہی حالت ہو جائے گی جو عربی مدارس کی اب ہے.جن عربی کالجوں کی یہ بگڑی ہوئی شکلیں ہمارے زمانہ میں موجود ہیں وہ اسی طرح کے کالج تھے جس طرح کے حکومت کے اس وقت ہیں.یعنی دنیوی کا روبار کے لئے ان میں لوگوں کو تیار کیا جاتا تھا نہ کہ تبلیغ کیلئے تعلیم دی جاتی تھی.وہی تعلیم اب تک چلی جارہی ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ان مدارس میں سے نکلے ہوئے اکثر لوگ ایسے ہوں گے جو قرآن نہ جانتے ہوں گے.

Page 279

زریں ہدایات (برائے طلباء) 274 جلد سوم ایسے مولوی یوں تو زمین آسمان کے قلابے ملائیں گے لیکن جب ان کے سامنے کوئی آیت پیش کر کے کہا جائے گا کہ اس کا مطلب بتاؤ تو کہیں گے اس کے لئے تغییر دیکھنی چاہئے.مطلب یہ کہ اس نے قرآن پڑھا ہوا ہی نہ ہوگا اور قرآن کے معنی نہیں آتے ہوں گے.کسی نے اپنے شوق سے پڑھ لیا تو پڑھ لیا ورنہ ان مدارس میں پڑھایا نہیں جاتا.غرض یہ مدارس تبلیغی نہ تھے بلکہ دنیوی کالج تھے.جیسے گورنمنٹ کالج، خالصہ کالج ڈی.اے.وی کالج ہیں.ان مدارس میں پڑھنے والوں کو ملازمتیں ملتی تھیں.وہ دنیوی کاروبار میں اس تعلیم سے فائدہ اٹھاتے تھے.وہ مدرسہ جو تبلیغ اسلام کی خاطر اور اشاعت اسلام کو مد نظر رکھ کر قائم کیا گیا اور جس کی غرض وَلتَكُن مِنكُمُ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ الخ کی مصداق جماعت پیدا کرنا تھی وہ یہی مدرسہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم کیا اور جو ترقی کر کے اب جامعہ بن رہا ہے.عربی مدارس میں بے شک حدیث پڑھائی جاتی تھی مگر اس لئے نہیں کہ وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ والى جماعت پیدا ہو.بلکہ اسے ایک علم سمجھا جاتا اور اس لئے پڑھایا جاتا کہ اس سے مفتی اور قاضی بننے میں مددمل سکتی تھی اور نوکری مل جاتی تھی.اسی طرح فقہ پڑھاتے مگر اس لئے نہیں کہ غیر مسلموں کو مسلمان بنا کر انہیں اسلامی امور سمجھائیں گے بلکہ اس لئے کہ مفتی اور قاضی نہ بن سکیں گے اگر یہ نہ پڑھیں گے.یہ ایسی ہی تعلیم تھی جیسی آجکل لاء (LAW) کالج کی ہے.اس کی غرض یہ نہیں کہ قانون کی آگے تبلیغ کی جائے گی بلکہ یہ ہے کہ ملازمت حاصل ہو.پس وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کو مسلمانوں نے کئی سو سال سے بھلا رکھا تھا.رسول کریم ﷺ نے ایسا سکول جاری کیا تھا اور آپ اس میں پڑھاتے رہے.بعد میں چند صحابہؓ نے اسے جاری رکھا.جب وہ قوم ختم ہو گئی تو وہ مدرسہ بھی ختم ہو گیا.پھر یہ دنیوی علوم بن گئے یعنی محض دنیوی فوائد کے لئے پڑھے جانے لگے.اشاعت اسلام ان کے پڑھنے کی غرض نہ رہی.اب اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ فضیلت اور رتبہ دیا اور ہمیں اس پر فخر کرنا چاہئے کہ تیرہ سو سال کے بعد ہمیں اس آیت

Page 280

زریں ہدایات (برائے طلباء) 275 جلد سوم پر عمل کرنے کی توفیق خدا تعالیٰ نے دی.خدا تعالیٰ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد اور ہدایت کے ماتحت مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا تا کہ اس میں ایسے لوگ تیار ہوں جو وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ الخ کے منشاء کو پورا کرنے والے لوگ ہوں.بے شک اس مدرسہ سے نکلنے والے بعض نوکریاں بھی کرتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک شخص ایک ہی کام کا اہل نہیں ہوتا.انگریزوں میں بہت سے لوگ قانون پڑھتے ہیں مگر لاء کالج سے نکل کر سارے کے سارے بیرسٹری کا کام نہیں کرتے بلکہ کئی ایک اور کاروبار کرتے ہیں.تو اس مدرسہ سے پڑھ کر نکلنے والے کئی ایسے ہوتے ہیں جو ملازمتیں کرتے ہیں مگر یہ اس لئے نہیں بنایا گیا کہ اس سے تعلیم حاصل کرنے والے نوکریاں کریں.بلکہ اصل مقصد یہی ہے کہ مبلغ بنیں.اب یہ دوسری کڑی ہے کہ ہم اس مدرسہ کو کالج کی صورت میں دیکھ رہے ہیں.تبلیغ کے لحاظ سے یہ کالج ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں نہ صرف دینی علوم پڑھائے جائیں بلکہ دوسری زبانیں بھی پڑھانی ضروری ہیں.ہمارے جامعہ میں بعض کو انگریزی ، بعض کو جرمنی ، بعض کو سنسکرت ، بعض کو فارسی ، بعض کو روسی ، بعض کو سپینش وغیرہ زبانوں کی اعلیٰ تعلیم دینی چاہئے.کیونکہ جن ملکوں میں مبلغوں کو بھیجا جائے ان کی زبان جاننا ضروری ہے.بظاہر یہ باتیں خواب و خیال نظر آتی ہیں مگر ہم اس قسم کی خوابوں کا پورا ہونا اتنی بار دیکھ چکے ہیں کہ دوسرے لوگوں کو ظاہری باتوں کے پورے ہونے پر جس قدر اعتماد ہوتا ہے اس سے بڑھ کر ہمیں ان خوابوں کے پورے ہونے پر یقین ہے.ہم نے دنیا کی صاف اور واضح ہاتوں کو اکثر جھوٹا ثابت ہوتا دیکھا ہے مگر ان خوابوں کو ہمیشہ پورا ہوتا دیکھتے ہیں.انہی خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا کہ اس میدان میں جہاں آج یہ جلسہ ہو رہا ہے دن کے وقت کوئی اکیلا نہ آ سکتا تھا اور کہا جاتا تھا یہاں جن رہتے ہیں.یہ جگہ جہاں یہ کوٹھی ہے، جہاں یہ سرسبز باغ ہے، جہاں سینکڑوں آدمی چلتے پھرتے ہیں، یہاں سے کوئی شخص گزرنے کی جرات نہ کرتا تھا.کیونکہ سمجھا جاتا تھا یہاں جن رہتے ہیں.مگر اس جگہ کے

Page 281

زریں ہدایات (برائے طلباء) 276 جلد سوم متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دکھایا کہ یہاں شہر بس رہا ہے.یہ اُس وقت کی بات ہے جب قادیان کی دیواروں کے ساتھ پانی کی لہریں ٹکراتی تھیں.جب قادیان کی زندگی احمدیوں کے لئے اس قدر تکلیف دہ تھی کہ مسجد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے آنے سے روکا جاتا.راستہ میں کیلے گاڑ دیئے جاتے تاکہ گزرنے والے گریں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا مجھے دکھایا گیا ہے یہ علاقہ اس قدر آباد ہو گا کہ دریائے بیاس تک آبادی پہنچ جائے گی.اُس وقت کس کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ قادیان کی بستی ترقی کر سکے گی.یہ ویران جنگل جہاں جنات پھرتے تھے، جن یہی تھے کہ چور چکار لوگوں کو لوٹتے مارتے تھے اور لوگوں نے سمجھ لیا تھا یہاں جنات رہتے ہیں.تو جہاں جنات پھرتے تھے کس کو توقع ہوسکتی تھی کہ یہاں فرشتے پھرا کریں گے.لوگوں میں مشہور ہے کہ ابلیس فرشتہ تھا جو بگڑ کر ابلیس بن گیا.یہ جھوٹ مشہور ہے مگر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ذریعہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ وہ جو ابلیس تھے ، فرشتے بن گئے.فرشتے کا ابلیس بننا جھوٹی کہانی ہے.مگر اس میں شک نہیں کہ ہم نے جنوں کو حضرت مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ملائکہ بنتے اور ابلیس کو فرشتہ بنتے دیکھا ہے.ہم نے ان ویرانوں کو آباد ہوتے دیکھا ہے جن کی طرف آنے کا کوئی رخ بھی نہ کرتا تھا.غرض ہم نے ایک ایک بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمائی اپنی آنکھوں سے پوری ہوتی دیکھی.اور اس وقت کے لحاظ سے نہ کہ آئندہ کے لحاظ سے ترقی کی آخری کڑی جو ریل ہے وہ بھی عنقریب آنے والی ہے.اس کے آنے میں سب سے بڑا حصہ قادیان کا ہے.رپورٹ جو گورنمنٹ میں پیش کی گئی اس میں یہی لکھا تھا کہ قادیان میں کثرت سے لوگ آتے ہیں اس لئے اس ریلوے لائن کا بننا مفید ہوگا.پس یہ ریل قادیان کے سبب اور قادیان کی وجہ سے بن رہی ہے.جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان کی ترقی کا اعلان کیا اُس وقت ان چیزوں کا خیال کس کو ہو سکتا تھا.اور ریل کا خیال تو ایسا ہے کہ پچھلے سال تک بھی

Page 282

زریں ہدایات (برائے طلباء ) 277 جلد سوم کسی کو خیال نہ تھا کہ اتنی جلدی بننا شروع ہو جائے گی.زیادہ سے زیادہ یہ خیال تھا کہ چھ سات سال تک بن سکے گی مگر خدا تعالیٰ نے آنا فانا اس کے بننے کے سامان کر دیئے.پس یہ خوا میں ہیں جو ہم نے پوری ہوتی دیکھیں اور بعض ایسی خواہیں ہیں جو ابھی پوری نہیں ہوئیں اور بعض ایسی ہیں جو مستقبل بعید سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے پورا ہونے کے متعلق اندازہ لگانے سے ہم قاصر ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے ہمیں اس قدر خوا ہیں پوری کر کے دکھا دی ہیں کہ ہم پورے وثوق اور یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ جو بھی پوری نہیں ہوئیں وہ بھی ضرور پوری ہوں گی.گو اس وقت اس بات کو بھی خواب و خیال ہی سمجھا جائے کہ اس کالج میں ہر زبان کے پروفیسر مقرر ہوں جو مختلف ممالک کی زبانیں سکھائیں.اس سے ہماری غرض یہ ہے کہ ہر ملک کے لئے مبلغ نکلیں.لیکن یہ ایک دن میں ہو جانے والی بات نہیں ہے.ابھی آج تو ہم اس کی بنیادرکھ رہے ہیں.مدرسہ احمدیہ کے ساتھ بھی مبلغین کی کلاس تھی مگر اس میں شبہ نہیں کہ ہر چیز اپنی زمین میں ہی ترقی کرتی ہے.جس طرح بڑے درخت کے نیچے چھوٹے پودے ترقی نہیں کرتے اسی طرح کوئی نئی تجویز دیرینہ انتظام کے ساتھ ترقی نہیں کر سکتی.اس وجہ سے جامعہ کے لئے ضروری تھا کہ اسے علیحدہ کیا جائے.اس کے متعلق میں نے 1924ء میں صدر انجمن احمدیہ کولکھا تھا کہ کالج کی کلاسوں کو علیحدہ کیا جائے اور اسے موقع دیا جائے کہ اپنے ماحول کے مطابق ترقی کرے.آج وہ خیال پورا ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ یہی چھوٹی سی بنیا د ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے کالجوں میں شمار ہوگی.اس موقع پر میں ان طلباء کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو اس میں داخل ہوئے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں.ان کے سامنے عظیم الشان کام اور بہت بڑا مستقبل ہے.وہ عظیم الشان عمارت کی پہلی اینٹیں ہیں اور پہلی اینٹوں پر ہی بہت کچھ انحصار ہوتا ہے.ایک شاعر نے کہا تھا خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار سج

Page 283

زریں ہدایات (برائے طلباء) 278 جلد سوم اگر معمار پہلی اینٹ ٹیڑھی رکھے تو ثریا تک دیوار ٹیڑھی ہی رہے گی.جتنی اونچی دیوار کرتے جائیں اتنی ہی زیادہ ٹیڑھی ہوگی.گو کالج میں داخل ہونے والے طالب علم ہیں اور نظام کے لحاظ سے ان کی ہستی ما تحت ہستی ہے لیکن نتائج کے لحاظ سے اس جامعہ کی کامیابی یا ناکامی میں ان کا بہت بڑا دخل ہے.یہ تو ہم یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کے کام ترقی کرتے جائیں گے مگر ان طلباء کا ان میں بہت بڑا دخل ہو گا.اس لئے انہیں چاہئے کہ اپنے جوش ، اپنے اعمال اور اپنی قربانیوں سے ایسی بنیاد رکھیں کہ آئندہ جو عمارت تعمیر ہو اس کی دیوار میں سیدھی ہوں، ان میں کبھی نہ ہو.ان کے سامنے ایک ہی مقصد اور ایک ہی غایت ہو اور وہ یہ کہ اسلام کا اعلاء ہو.اس جامعہ سے پڑھ کر نکلنے والے سارے کے سارے دین کی خدمت میں نہیں لگائے جاسکیں گئے ان میں سے بعض ہی لگ سکیں گے.لیکن ان میں سے ہر ایک اپنا یہ مقصد اور غایت قرار دے سکتا ہے کہ وہ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد اسلام کی اشاعت کے لئے کام کرے گا.اس کے لئے ضروری نہیں کہ انسان مبلغ ہی ہو پہلے بھی اسلام اسی طرح پھیلا تھا.حضرت ابو بکر حضرت عمر نے اپنا کاروبار نہ چھوڑ دیا تھا.وہ اپنے کام بھی کرتے اور ساتھ ہی اشاعت اسلام صلى الله میں رسول کریم ﷺ کی مدد بھی کرتے تھے.تو ہو سکتا ہے کہ جامعہ کے بعض طلباء کو تبلیغ کے کام پر نہ لگایا جا سکے.ان میں بطور مبلغ تبلیغ کرنے کی قابلیت نہ ہو یا کوئی اور مجبوریاں ہوں.ان تمام صورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جامعہ کے طلباء کو ایک ہی مقصد اپنی زندگی کا قرار دینا چاہئے اور وہ تبلیغ اسلام ہے.خواہ عمل کے کسی میدان میں جائیں، کوئی کام کریں اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کو نہ بھولیں.ہوسکتا ہے کہ اس طرح کام کرنے والوں میں سے کئی تبلیغ کے لئے زندگی وقف کرنے والوں میں سے بعض سے زیادہ عمدہ طور پر تبلیغ کا کام کریں.پس ان کو ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور وہ تبلیغ اسلام ہے.اور ان کا یہی موٹو (Motto) ہونا چاہئے کہ وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَة فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا

Page 284

زریں ہدایات (برائے طلباء) 279 جلد سوم قَوْمَهُمْ اِذَارَ جَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ.میرے نزدیک ان آیتوں کو لکھ کر کالج میں لگا دینا چاہئے تا کہ طالب علموں کی توجہ ان کی طرف رہے اور انہیں معلوم رہے کہ ان کا مقصد اور مدعا کیا ہے.اس کے بعد میں تمام دوستوں سے جو یہاں جمع ہوئے ہیں خواہش کرتا ہوں کہ میرے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اس جامعہ میں برکت دے.اور ان طالب علموں کے لئے جن سے ہماری بہت سی امیدیں وابستہ ہیں، جن کے چہروں سے ہم اپنا مستقبل پڑھتے ہیں انہیں اس سفر میں جو ماریشس اور امریکہ جانے والے مبلغوں سے بھی لمبا ہے کیونکہ یہ چند دن کا سفر ہے مگران کا زندگی بھر کا بلکہ اس زندگی سے بعد کا بھی سفر ہے اس میں خدا تعالیٰ ان کا حامی اور ناصر ہوا اور انہیں تو فیق عطا کرے کہ جو مقصد اور مدعا انہوں نے اس کے حکم کے ماتحت چنا ہے اور حکم بھی وہ جو آخری حکم ہے اور جس کے بعد کوئی حکم نازل نہیں ہوگا اس میں (الفضل 14 اگست 1928ء) کامیاب کرے.1: الفاتحة: 4 2: الانفال : 18 3 ال عمران 105 4: التوبة: 122

Page 285

زریں ہدایات (برائے طلباء) 280 جلد سوم پیغام بورڈران مدرسہ احمدیہ کے نام مولوی عبدالرحمان صاحب سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ مدرسہ احمدیہ نے یکم اگست 1928ء کو بورڈران کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں ڈلہوزی ایک تار بدیں مضمون ارسال کیا کہ مدرسہ احمدیہ کے بورڈران موسم گرما کی رخصتوں پر جارہے ہیں اور حضور کی ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہوئے دعا کی درخواست کرتے ہیں.اس کے جواب میں حضور نے حسب ذیل تار ارسال فرمایا:." آپ کا تار ملا.خدا تعالیٰ ان بچوں کو برکت دے.میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو احمدیت کے لئے بطور نیک نمونہ پیش کریں گے اور ریز روفنڈ کی فراہمی کے لئے پوری کوشش (الفضل 10 اگست 1928ء) کریں گے.“

Page 286

زریں ہدایات (برائے طلباء) 281 جلد سوم کالجیٹ طلباء کے سوالات اور ان کے جوابات 15 جنوری 1929ء کو کالجوں کے طلباء نے حضرت خلیفہ امسیح الثانی سے لاہور میں مختلف سوالات کئے جن کے حضور نے جوابات عنایت فرمائے جو کہ حسب ذیل ہیں:.حضرت خلیفتہ اسیح: میرے نزدیک اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ اگر ضرورت ہو تو درمیان میں پردہ ڈال کر ایک طرف لڑکے بیٹھے ہوں اور دوسری طرف لڑکیاں اور تعلیم حاصل کریں.لیکن خرابیاں کمرہ تعلیم میں نہیں پیدا ہوا کرتیں بلکہ کمرہ سے باہر پیدا ہوتی ہیں.لڑکے لڑکیوں کا اکٹھے آنا جانا ، ملنا جلنا اس سے نقائص پیدا ہو سکتے ہیں.خود ہمارے ہاں یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ جب تک لڑکیوں کے لئے علیحدہ تعلیم کا انتظام مکمل نہیں ہوتا ہائی سکول کی اعلیٰ کلاسوں کے ساتھ لڑکیاں بھی تعلیم حاصل کریں اور علیحدہ پردہ میں تعلیم پاتی رہیں.مگر اسی نقص کی وجہ سے کہ ان کا ملنا جلنا مناسب نہیں اس تجویز کو منظور نہ کیا گیا.بیان کیا گیا کہ کالجوں میں مسلمان طلباء تعلیم میں ہندوؤں سے بہت پیچھے ہوتے ہیں اور ہند و طلباء ہی زیادہ فوائد بھی حاصل کرتے ہیں.حضرت خلیفہ امی: مسلمان خود تعلیم میں پیچھے رہے ہیں.انہوں نے پہلے پہل تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں کی حالانکہ جب مسلمانوں کی سلطنت گئی ہے اُس وقت مسلمانوں میں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد دوسروں سے زیادہ تھی.اگر وہ تعلیم جاری رکھتے تو آج ان کی یہ حالت نہ ہوتی.ایک نوجوان مسلمان انگریزی تعلیم کی اسی طرح مخالفت کرتے رہے جس طرح اب لڑکیوں کی تعلیم کی کرتے ہیں.لیکن آج سے چالیس پچاس سال کے بعد انہیں اس غلطی کا بھی احساس ہوگا اور اُس وقت کچھ نہ بن سکے گا.کیونکہ دوسری قوموں کی لڑکیاں تعلیم میں بہت ترقی

Page 287

زریں ہدایات (برائے طلباء) 282 جلد سوم کر رہی ہیں.حضرت خلیفہ المسح: ہم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے جس قدر کوش کر سکتے ہیں کر رہے ہیں.اس سال قادیان سے 12 لڑکیاں مولوی کے امتحان میں شامل ہوں گی.یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ باقی سارے مسلمانوں میں سے جن کی تعداد ہماری جماعت سے بہت زیادہ ہے اتنی لڑکیاں چھوڑ اتنے لڑ کے بھی شاید ہی اس امتحان میں شامل ہوں.قادیان میں ہماری جماعت کی قریباً سو فیصدی لڑکیاں پڑھی لکھی ہیں.اور ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جلد ان کی اعلی تعلیم کا انتظام مکمل ہو جائے.ایک نوجوان مسلمانوںکو تعلیم میں تر قی کرنے کے لیے کیا کرنا چاہئے؟ حضرت خلیفہ اسیح: میرے نزدیک سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان طالب علموں کو ان کے مذاق اور ان کے رجحان طبیعت کے مطابق تعلیم دلائی جائے.ہندوؤں میں چونکہ تعلیم زیادہ ہے اور وہ بہت عرصہ سے اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں اس لئے ہند و طلباء کے والدین تعلیم یافتہ ہوتے ہیں.وہ اپنے بچوں کے متعلق اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کو کس قسم کی تعلیم دلانی چاہئے.مگر مسلمان طلباء کے والدین چونکہ عموماً جاہل ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے بچوں کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے.ایک زمیندار باپ کے ذہن میں سب سے بڑی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے لڑکے کو کوئی سرکاری ملازمت مل جائے.مگر سرکاری ملازمت ساری دنیا کو نہیں مل سکتی.اس لئے پڑھنے اور تعلیم حاصل کر لینے کے بعد بھی بہت سے نوجوان کسی کام کے ثابت نہیں ہوتے.بیسیوں نہایت مفید اور فائدہ بخش پیشے مسلمانوں سے اس لئے چھوٹ گئے ہیں کہ مسلمانوں نے وہ تعلیم حاصل نہ کی جو ان پیشوں کے لئے ضروری تھی اور کئی نوجوان اس لئے کامیابی حاصل نہ کر سکے کہ انہیں ان کے مذاق کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہ ملا.اس کے متعلق کئی دفعہ کئی مسلمان پر وفیسروں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا یہ بہت مفید اور ضروری بات ہے اور ضرور ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ مسلمان طلباء کو ان کے مذاق کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا جائے.اور جن پیشوں میں ترقی کرنے کی گنجائش ہو ان میں کام

Page 288

زریں ہدایات (برائے طلباء) 283 جلد سوم آنے والی تعلیم حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.مگر کرتے کراتے کچھ نہیں.اگر ہم اس کام کو شروع کر دیں تو فورا لوگ کہنے لگ جائیں گے اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض ہے اور رکاوٹیں پیدا کرنے لگ جائیں گے.اس بات کی بہت ضرورت ہے کہ اس قسم کی انجمن ہو جو ہر طالب علم کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قبل دیکھے اور اندازہ لگائے کہ اس کے لئے کس قسم کی تعلیم مفید ہوسکتی ہے اور وہ کس پہلو میں ترقی کر سکتا ہے.پھر اس کے مطابق اسے تعلیم پانے کا مشورہ دے.اگر اس طرح کیا جائے تو دس سال کے اندر اندر عظیم الشان تغیر پیدا ہو سکتا ہے.اس سے ایک اور بھی فائدہ ہوگا.اور وہ یہ کہ جس کام میں دماغ خوب چلتا ہوگا اور جس کی طرف طبیعت کا رجحان ہوگا اس میں طالب علم خوب ترقی کر سکے گا.اس وقت ہندو افسر خواہ کتنا تعصب کریں اتنا نقصان نہ پہنچ سکیں گے جتنا اب پہنچاتے ہیں.ایک نوجوان عورتوں کا پردہ کس قسم کا ہونا چاہئے؟ حضرت خلیفہ اسیح: جیسا اسلام نے بتایا ہے نوجوان : مروجہ پردہ کیسا ہے؟ حضرت خلیفہ المسح : میں اسے سیاسی پردہ کہا کرتا ہوں.اس گورنمنٹ میں عصمت کی قیمت روپیہ ہے.مگر اسلام نے اس کی بہت بڑی قیمت رکھی ہے.اس لئے مسلمانوں نے احتیاط کے طور پر یہ پردہ اختیار کیا ہے.اصل پردہ یہ ہے کہ عورت خرید و فروخت، کام کاج کے لئے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور اس قدرمنہ کھلا رکھسکتی ہے جتنا حصہ بنگا کرنا کام کے لئے ضروری ہو.قرآن کریم میں إلَّا مَا ظَهَرَ 1 کہا گیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ عورت کو اپنا ضروری کام کرنے کے لئے جتنا حصہ منہ کا ننگا کرنا پڑے کر سکتی ہے.اسی طرح جہاں ہاتھوں سے کام کرنا ہو وہاں ہاتھ سنگے کر سکتی ہے.حتی کہ اگر کسی بیماری کی وجہ سے یا بچہ کے پیٹ سے نہ نکل سکنے کی حالت میں آپریشن کرانے کی ضرورت ہو تو کراسکتی ہے.اس کے مقابلہ میں ایسی عورت جسے معیشت کے لئے کام کرنے کی ضرورت نہیں اتنا مہ نگار کھ سکتی ہے کہ سانس آسانی سے لے سکے، آسانی سے دیکھ سکے اور چل پھر سکے.یہی صحابہ کرام کا طریق عمل تھا اور یہی رسول کریم ﷺ کا

Page 289

زریں ہدایات (برائے طلباء) 284 جلد سوم رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے متعلق یہی معلوم ہوتا ہے اور ایسی شہادتوں سے معلوم ہوتا ہے جن کا براہ راست پردہ سے تعلق نہیں.ایک ایسی شہادت ہوتی ہے جو کسی خاص مقصد کو ثابت کرنے کے لئے ہوتی ہے.اُس وقت کہا جا سکتا ہے کہ اپنی غرض پوری کرنے کے لئے یہ شہادت بنائی گئی ہے.لیکن اگر کسی دوسرے واقعہ سے ایسا نتیجہ نکلتا ہو جس سے ایک بات کی تصدیق ہوتی ہو تو وہ بہت مضبوط شہادت ہوگی.اس وقت میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ اسی قسم کی ہے.حضرت عائشہ کے متعلق آتا ہے کہ تین دن کی لڑائی کے بعد ایک خبیث الفطرت نے ان کا پردہ اٹھا کر کہا یہ تو سفید رنگ کی عورت ہے 2 اگر منہ بالکل کھلا رکھا جاتا تھا تو تین دن کی لڑائی کے بعد یہ نہ کہا جاتا کہ ان کا رنگ ایسا ہے.کیونکہ حضرت عائشہ خود فوج کولڑاتی رہی تھیں انہیں بآسانی دیکھا جا سکتا تھا.اسی طرح اور امور کے متعلق بعض روایتیں ہیں جن سے پردہ کے متعلق یہی پتہ لگتا ہے کہ عورتیں منہ بند رکھتی تھیں، گھونگٹ ہوتا تھا.اس کے مقابلہ میں ایسی روایتیں بھی آتی ہیں کہ کہ سب کام کاج کرنے والی عورتیں منہ کا ایک حصہ کھلا رکھتی تھیں.اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عورتیں ایسا کرتی تھیں.عبد اللہ بن زبیر کا ذکر آتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں انہوں نے شادی کرنی چاہی تو ایک عورت کو بھیجا کہ فلاں عورت کا رنگ اور شکل دیکھ کر مجھے بتاؤ اگر عورتیں باہر کھلے منہ پھرا کرتیں تو انہیں رنگ اور شکل دیکھنے کے لئے ایک عورت کو بھیجنے کی کیا ضرورت تھی.اسلام نے یہ جائز رکھا ہے کہ مرد شادی سے پہلے عورت کو دیکھ سکتا ہے مگر اُس وقت جب کہ شادی کے متعلق باقی شرائط طے ہو جائیں اور صرف شکل وصورت کا سوال باقی رہ جائے.ایک حدیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آیا جس نے آکر کہا میں فلاں جگہ شادی کرنا چاہتا ہوں مگر پتہ نہیں لڑکی کی شکل کیسی ہے.رسول کریم ﷺ نے فرما یا اس طرح شکل دیکھنا جائز ہے.جا کر دیکھ لو.اس نے جب لڑکی کے باپ سے جا کر کہا تو وہ اس کے لئے

Page 290

زریں ہدایات (برائے طلباء) 285 جلد سوم تیار نہ ہوا.یہ بات لڑکی بھی سن رہی تھی کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے شادی سے قبل شکل دیکھی جاسکتی ہے.وہ پردہ اٹھا کر سامنے آگئی کہ جب رسول کریم ﷺ نے فرما دیا ہے یہ جائز ہے تو پھر اس میں کیا حرج ہے 3 معلوم نہیں اس کی شکل ہی اچھی تھی یا شادی کرنے والے کو اس کی یہ ادا پسند آ گئی.غرض پردہ کے متعلق صاف پتہ لگتا ہے کہ قرآن مجید میں ایسا حکم نہیں ہے جو ہر عورت پر منطبق کیا جا سکے.بلکہ ہر ایک کے حالات کے مطابق اس کا اطلاق ہوتا ہے.اگر کوئی گھر سے باہر کام کرنے والی عورت ہے تو اس کے لئے اتنی پابندی نہیں ہے جتنی اس کے لئے ہے جسے گھر سے باہر نکل کر کام نہیں کرنا پڑتا.اور یہ عقلاً بھی درست بات ہے.برے خیالات زیادہ تر اسی کو آتے ہیں جو بے کار ہو.تاہم میرا خیال ہے موجودہ پردہ میں اصلاح کی ضرورت ہے اور وہ یہ کہ اس قسم کا گھونگٹ ہو جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوتا تھا.مروجہ نقاب والا پردہ نہ ہو.ایک نوجوان : کیا سود لینا جائز ہے؟ ہندو ہم سے سود لیتے ہیں.اگر ہم نہ لیں گے تو ہمارا سارا مال ہندوؤں کے ہاں چلا جائے گا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی: اس بارے میں ہمارا مسلک دوسرے لوگوں سے مختلف ہے.اس وقت جو کچھ میں بیان کروں گا یہ احمدی عقیدہ ہوگا.یہ نہیں کہ دوسرے علماء کیا کہتے ہیں.ہمیں ان سے اختلاف ہے.ہمارے سلسلہ کے بانی نے یہ رکھا ہے کہ سود اپنی ذات میں بہر حال حرام ہے.ترکوں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ بنکوں کا سود سود نہیں.حنفی علماء کا فتویٰ تھا کہ ہندوستان میں چونکہ انگریزوں کی حکومت ہے اور یہ حربی ملک ہے اس لئے غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے.اور اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ کوئی یہ مسئلہ پوچھتا ہی نہیں.لوگ کثرت سے سود لیتے اور دیتے ہیں.ہم کہتے ہیں چاہے بنک کا سود ہو چاہے دوسرا دونوں حرام ہیں.لیکن بانی سلسلہ احمدیہ نے ایک فیصلہ کیا ہے جو اسلام کے دوسرے مسائل سے مستنبط ہوتا ہے.ایک حالت انسان پر ایسی بھی ہے جب وہ کسی بلا میں مبتلا ہو جاتا ہے اس سے بچنے کے لیے یہ کہنا کہ فلاں چیز جائز ہے اور

Page 291

زریں ہدایات (برائے طلباء) 286 جلد سوم فلاں ناجائز یہ فضول بات ہے.مثلاً ایک آدمی گند میں گر جائے جو کئی گز میں پھیلا ہو اور اسے کہا جائے کہ گند میں چلنا منع ہے تو وہ کس طرح اس گند سے نکل سکے گا.بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ رکھا ہے کہ اگر کوئی اس لئے سود لے کہ سود کی بلا سے بچ جائے تو وہ لے سکتا ہے.مثلاً ایک جگہ وہ ہمیں فیصدی سودا دا کرتا ہے اگر اسے پانچ فیصدی سود پر بنگ سے رو پیدل سکتا ہے تو وہ لے لے.اس طرح امید ہو سکتی ہے کہ وہ سود کی بلا سے بچ سکے.نوجوان: ایک جگہ پچیس فیصدی سود دینا پڑتا ہے.اگر ایک مسلمان ایسے شخص سے کہے کہ میں پانچ فیصدی سود پر قرض دیتا ہوں تو کیا وہ پانچ فیصدی سود لینے والا جائز کام کرتا ہے؟ کیونکہ وہ زیادہ شرح کے سود سے بچاتا ہے.حضرت خلیفتہ المسح : دوسری جگہ زیادہ سود ادا کرنے والا اگر کم شرح سے سود لینے والے سے روپیہ لے کر سود ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لئے جائز ہے.مگر جو اس طرح سود لیتا ہے وہ ناجائز کرتا ہے اور گناہ گار ہے کیونکہ وہ اپنے فائدے کے لئے سود لیتا ہے.کسی بڑی مضرت سے بچنا اس کی غرض نہیں.“ 1: النور : 32 الفضل 25 جنوری 1929 ء) 2 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 254 مطبوعہ بیروت 1965ء 3 ابن ماجه أبواب النكاح باب النظر الى المرأة صفحه 267 حديث 1864 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى

Page 292

زریں ہدایات (برائے طلباء) 287 جلد سوم لڑکوں اور لڑکیوں میں تقسیم انعامات کا جلسہ 28 جنوری 1929ء صبح دس بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں جلسہ تقسیم انعامات | منعقد ہوا.جس میں انعامات کے حقدار قرار پانے والے لڑکوں اور لڑکیوں کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے انعامات سے نوازا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.جلسہ تقسیم انعامات میرے نزدیک ایک ایسا فنکشن ہے جو سکول کی زندگی کو زیادہ دلچسپ بنانے میں بہت مفید ہو سکتا ہے.اور ہم صرف ایک ضرورت کو آج پورا نہیں کر رہے بلکہ اس ضرورت کو اس کے وقت سے بہت پیچھے پورا کر رہے ہیں.ناظر صاحب تعلیم و تربیت نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ بچوں کا تعلیم حاصل کرنے سے یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ انعام حاصل کریں بلکہ مقصد اس سے بلند و بالا اور اعلیٰ وارفع ہونا چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئے کہ عارضی انعام حاصل کئے جائیں بلکہ تعلیم خود اپنا انعام ہوا کرتی ہے.ہر چیز کی قدر انسان اس کی لذت چکھنے کے بعد ہی معلوم کر سکتا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں جس شخص کو کوئی حقیقی علم آتا ہوا گر کوئی اس کے سامنے یہ بات پیش کرے کہ لاکھ دو لاکھ یا دس بیس لاکھ روپے لے لو اور پھر جاہل بن جاؤ تو وہ اسے کبھی قبول نہیں کرے گا.ممکن ہے کہ کوئی خراب دماغ کا شخص اسے تسلیم کر لے لیکن ایسی مثال شاذ ہی ہو سکتی ہے.جس شخص کی دونوں آنکھیں صحیح و سالم ہوں عام طور پر وہ ان کی قدر محسوس نہیں کر سکتا.سوائے ان لوگوں کے جنہیں معرفت حاصل ہو اور جو خدا تعالیٰ کی ہر ایک نعمت کی قدر جانتے ہوں.لیکن جس وقت آنکھ میں کوئی بیماری ہو جائے تو پھر اس کی قدر محسوس ہوتی ہے.یا اگر

Page 293

زریں ہدایات (برائے طلباء) 288 جلد سوم ضائع ہی ہو جائے تو پھر اور بھی زیادہ قدر معلوم ہوتی ہے.یہی حال علم کا ہے.جس وقت طالب علم اسے حاصل کر رہا ہوتا ہے یا حاصل کر چکتا ہے اُس وقت عام طور پر اس کی قدر نہیں کی جاتی.لیکن اگر یہ سوال ہو کہ علم کو مٹا دیا جائے تو کوئی عالم اپنے علم کو جہالت سے تبدیل کرنا پسند نہیں کرے گا.خواہ اس کے مقابلہ میں اسے فقروفاقہ اور غربت و افلاس کی زندگی ہی بسر کرنی پڑے.یہ تو دنیاوی یا روحانی ظاہری علوم کا حال ہے.لیکن وہ روحانی علوم جو خدا تعالیٰ کے قرب کے نتیجہ میں ملتے ہیں ان کا عالم تو اس سوال کو اپنی ہتک اور ذلت سمجھے گا.لیکن باوجود اس کے یہ بھی صحیح ہے کہ بعض چیزیں اپنے اظلال سے پہچانی جاتی ہیں.اور جب انسان دور سے انہیں دیکھے تو نہیں پہچان سکتا.ان ہی چیزوں میں سے علم بھی ہے.علم کی ذاتی خوبیاں پہچانت طالب علم کے لئے ناممکن ہے.وہ یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ علم کا کیا فائدہ ہے.پہلے پہل تو ماں باپ اسے یہ کہہ کر مدر سے بھیجتے ہیں کہ تمہیں مٹھائی ملے گی.اُس وقت مدرسہ جانے سے اس کی ایک ہی غرض ہوتی ہے کہ شام کو آنے پر مٹھائی ملے گی.اگر اُس وقت ماں باپ اس کے سامنے یہ باتیں کر رہے ہوں کہ یہ تعلیم حاصل کر کے بڑا قانون دان یا انجینئر یا کوئی اور بڑا رتبہ حاصل کرے گا اور وہ سوال کرے کہ یہ کیا بات ہے اور ایسا بننے سے کیا ہوگا تو وہ سوائے اس کے اسے کچھ نہیں بتا سکتے کہ ایسا بننے سے تمہیں بہت سی مٹھائیاں کھانے کو ملیں گی کیونکہ وہ اس سے زیادہ کچھ سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتا.یا اگر ذرا اور بڑا ہوگا تو یہ کہیں گے کہ تمہیں گھوڑا ، گاڑی اور اچھے اچھے کپڑے سہنے کوملیں گے.لیکن جب وہ ایم اے پاس کر لے تو اس کے سامنے اگر لڈوؤں کا تھال بھر کر رکھ دیا جائے اور اسے کہا جائے لو یہی وہ چیز ہے جس کے لئے تم نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی تھی تو اُس وقت وہ اس بات کو سمجھنے کے قطعا نا قابل ہوگا.جس طرح وہ پہلے دن علم کے فوائد سمجھنے کے نا قابل تھا اسی طرح وہ علم حاصل کر لینے کے بعد اس بات کو بھی نہ سمجھ سکے گا کہ یہی وہ چیز ہے جس کے لئے وہ علم حاصل کر رہا تھا.اور ممکن ہے بچپن میں تو وہ یہ سمجھتا ہو کہ یہ ایسی باتیں ہیں جو میں سمجھ نہیں سکتا لیکن ایم اے پاس کرنے کے بعد وہ اپنے سامنے مٹھائی کے تھال کو تعلیم کا مقصد قرار دے کر ر کھنے والے کے متعلق یہ ہی سمجھے گا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے.

Page 294

زریں ہدایات (برائے طلباء) 289 جلد سوم انعام کی حیثیت نہیں دیکھی جایا کرتی.انسانی فطرت میں مقابلہ اور آگے بڑھنے کی خواہش رکھی گئی ہے.اگر ہم کوئی معمولی خوبصورت سا پتھر یا شیشے کی گولی ہی رکھ دیں اور چند بچوں سے کہیں کہ دوڑو ! جو اول رہے گا اسے یہ انعام دیا جائے گا تو اول رہنے والے کے سوا کوئی کہے گا مجھے فلاں نے کہنی مار دی تھی اس لئے میں اچھی طرح دوڑ نہیں سکا.کوئی کہے گا فلاں نے مجھے لات مار دی تھی اس لئے میں پیچھے رہ گیا.کوئی کہے گا آج میری ٹانگ میں درد تھا اس لئے فلاں مجھ سے آگے بڑھ گیا.غرض کہ ہر ایک کوئی نہ کوئی وجہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ اصل میں یہ حق میرا ہی تھا ضرور پیش کرے گا حالانکہ وہ پتھر یا شیشے کی گولی ایک بے حقیقت چیز ہے.تو انعامات طالب علم کی زندگی کو دلچسپ بنانے اور اس میں تعلیم کے لئے حقیقی شوق پیدا کرنے کے لئے ایک ضروری چیز ہیں لیکن میرے خیال میں یہ ضروری ہے کہ انعاموں کو ہمیشہ طالب علم کے سامنے رکھنے کا انتظام ہونا چاہئے.جب تک انعامات ایک لمبے سلسلہ کے ساتھ وابستہ نہ کر دیئے جائیں وہ ایسے دلچسپ اور مفید نہیں ہو سکتے.یہ ایک ضروری بات ہے جسے پورا کرنا ہمارے منتظمین کا فرض ہونا چاہئے.ٹورنامنٹ کے انعاموں کے متعلق بھی ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ وہ سارا سال ورزش کا شوق دلانے میں مد ثابت ہوسکیں.اور علوم کے انعامات کے متعلق بھی ایسا ہی ہونا چاہئے.اگر زمانہ امتحان میں پڑھائی کا شوق پیدا کیا جائے تو یہ اتنا مفید نہیں ہو سکتا جتنا سارا سال محنت کرنے کا ہوگا.اس لئے اگر کوئی ایسی تجویز ہو سکے جس سے ایسے انعامات کو سارے سال میں پھیلایا جا سکے تو یہ بہت مفید ہو گا.مثلاً سالانہ امتحان میں اول رہنے والوں کو ہی انعام نہ دیئے جائیں بلکہ سہ ماہی امتحانات کے نتائج پر دیئے جائیں اور تمام نتائج ملا کر کسی طالب علم کو انعام کا مستحق قرار دیا جائے.میں یہ تجویز ابتدائی صورت میں پیش کر رہا منتظمین کو چاہئے اس پر غور کر کے کوئی راہ نکال لیں.کیونکہ ایک نتیجہ تو بہت سے اثرات سے متاثر ہو سکتا ہے.فرض کرو ایک طالب علم تمام سہ ماہی امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرتا آرہا ہے لیکن سالانہ امتحان کے روز اسے گھر سے حسب منشاء کھانا نہیں ملا جس سے اس کی طبیعت بدمزہ ہوگئی اور اس کا دماغ اچھی طرح کام کرنے کے قابل نہ رہا.یا اگر وہ امتحان کے ہوں.

Page 295

زریں ہدایات (برائے طلباء) 290 جلد سوم دنوں میں بیمار ہو یا قریب کے زمانہ میں بیمار رہا ہو تو اچھی طرح تیاری نہ کر سکے گا.ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اس کے سہ ماہی نتائج کو بھی شامل کر لیا جائے تا حقدار کو اس کا حق مل سکے.اس صورت میں بھی بعض طلباء محروم رہ سکتے ہیں.مثلاً وہ جو بہت بیمار ہو اور امتحان دے ہی نہ سکے لیکن ایسی استثنائی صورتوں کا لحاظ نہیں رکھا جاسکتا.تو میرا مطلب یہ ہے کہ انعامات پھیلا دینے چاہئیں.اس کے علاوہ غور کیا جائے تو اور بھی صورتیں نکل سکتی ہیں.مثلاً انعامات کے طور پر بعض حقوق طلباء کو دیئے جاسکتے ہیں.میں نے انگلستان کے پبلک سکولوں کے متعلق کتابوں میں ایسی باتیں پڑھی ہیں.مثلاً انہیں مانیٹر بنا دیا جائے اور کچھ اختیارات دے دیئے جائیں جو ہر وقت طالب علم کے سامنے آتے رہیں اور وہ انہیں روزانہ استعمال کرتار ہے تا آئندہ سال ان کو حاصل کرنے کی خواہش دوسروں میں بھی اور اس میں بھی پیدا ہو.غرض کئی چیزیں ہیں جن سے انعام کی یاد کو تازہ رکھا جاسکتا ہے.دوسرے میں سمجھتا ہوں ایک انعام اخلاقی یعنی Good Conduct کا بھی ہونا چاہئے.جس طرح دینیات کی تعلیم لفظی ہے اسی طرح عملی تعلیم بھی ہے.اس کے لئے یہ دیکھا جائے کس طالب علم نے اپنے عمل کو دوسروں کے لئے نمونہ بنایا.فرض کرو ایک لڑکے کا دماغ اچھا نہیں اس لئے وہ کتابی محنت سے انعام حاصل نہیں کر سکتا.جب ایسے انعام کا سوال ہوگا تو وہ سارا دن محنت کرنے کے باوجود بھی رہ جائے گا.لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ کون طالب علم اپنے فرائض کی ادائیگی میں باقاعدہ رہا ہے ، باقاعدہ اٹھتا، باقاعدہ پڑھتا، باقاعدہ کھیلتا اور وقت پر نمازیں ادا کرتا رہا ہے.دوسرے لڑکوں سے لڑائی جھگڑا نہیں کرتا رہا.بلکہ اگر لڑکوں میں اختلاف ہوا تو ان میں اصلاح کرواتا رہا ہے تو وہ لڑکا بھی جو بوجہ پیدائشی نقص یعنی کمزوری دماغ کے انعام حاصل نہیں کر سکتا وہ بھی انعام کا مستحق ہو سکتا ہے.اور اس طرح بھی انعام دینے کا انتظام ہونا چاہئے تا انعامات محض By Chance خوبی کا نتیجہ نہ ہوں بلکہ ان میں کوشش اور سعی کا بھی دخل ہو.صلى الله رسول کریم میں یہ ایک دفعہ جہاد پر جارہے تھے.آپ نے اپنے ساتھی مجاہدین سے فرمایا مدینہ

Page 296

زریں ہدایات (برائے طلباء) 291 جلد سوم میں کچھ لوگ ہیں جو انعام کے ایسے ہی مستحق ہیں جیسے تم لوگ.انہوں نے عرض کیا یا رسول الله ! یہ کس طرح؟ ہم تو خدا کی راہ میں تکالیف برداشت کرتے ہیں پھر گھروں میں آرام سے بیٹھنے والے ہمارے ساتھ انعام میں برابر کے شریک کیونکر ہو سکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا وہ لوگ اندھے ، لولے اور معذور ہیں.جو اگر چہ گھروں میں بیٹھے ہیں لیکن ان کے دل چاہتے ہیں کہ کاش! ہم بھی جہاد میں شریک ہوتے 1 اسی طرح ایسے طالب علم بھی ہوتے ہیں جن کے دماغ کمزور ہوتے ہیں اس لئے کتابی محنت کر کے وہ انعام نہیں لے سکتے.لیکن وہ کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دوسروں سے بڑھنے کے لئے محنت ضرور کرتے ہیں اور ان کی محنت بھی قابل داد ہونی چاہئے.اور ایسا انتظام ضرور کرنا چاہئے کہ وہ بھی انعام حاصل کر سکیں.“ ( الفضل یکم فروری 1929ء) 1 بخارى كتاب الجهاد باب من حَبَسَهُ العُذْرُ عنِ الغَزُو صفحه 470 حدیث نمبر 2839 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 297

زریں ہدایات (برائے طلباء) 292 جلد سوم ہے:.ماں باپ پر تربیت اولاد کی ذمہ داری کس قدر ہے والدین اور تربیت اولاد کے حوالے سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی ایک تحریر جب ذیل دو بچپن کی تعلیم ایک آہنی میخ ہوتی ہے جس کا نکالنا آسان کام نہیں.اسلام اگر آج تیرہ سوسال کے بعد دنیا کی نصف آبادی بلکہ تہائی کے دلوں میں بھی داخل نہیں ہوا تو اس کی وجہ وہی خیالات ہیں جو لوگوں کے دلوں میں بچپن کی عمر میں داخل کر دیئے گئے ہیں.پس جب باطل اس عمر میں دل میں داخل ہوتا ہے اور نکلتا نہیں تو حق کا کیا حال ہوگا.جب اس عمر میں کہ دل ایک صاف لوح کی طرح ہوتا ہے اسے نقش کیا جائے.اسی امر کو مد نظر رکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مدرسہ تعلیم الاسلام کا اجرا کیا اور اسی امر کو مدنظر رکھ کر آپ کے بعد آپ کے خلفاء اس کام کو چلا رہے ہیں.مگر ہماری کوششیں اس امر میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک کہ دوسرے لوگ بھی اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھیں.سنانے والے کے کلام کا اثر کارآمد نہیں ہو سکتا جب تک کہ جماعت کے احباب اس سکول میں اپنے بچے پڑھنے کے لئے نہ بھیجیں.جہاں جسمانی امراض سے اپنے بچوں کے بچانے کے لئے اس قدر کوشش کی جاتی ہے وہاں روحانی امراض سے بچانے کے لئے کیا کچھ کوشش نہ ہونی چاہئے.میں اپنے احباب سے امید کرتا ہوں کہ وہ پچھلی بے پروا ہی کو ترک کر کے آئندہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں گے اور نہ صرف اپنے بچوں کو قادیان بھیجیں گے بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی تحریک کریں گے تا کہ مدرسہ تعلیم الاسلام کی اصل | غرض پوری ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشاء کی تکمیل ہو.

Page 298

زریں ہدایات (برائے طلباء) 293 جلد سوم خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل 12 مارچ 1929ء)

Page 299

زریں ہدایات (برائے طلباء) 294 جلد سوم طلباء کو نصیحت 12 مارچ 1929ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی فورتھ ہائی کلاس کی طرف سے ففتھ ہائی کلاس کے طلباء کو قصر خلافت کی نچلی منزل پر دھوت چائے دی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مختصر تقریر کی جو حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس دعوت سے جو وقت منتخب کیا گیا ہے اس کے مطابق پہلی تقریریں ہوئی ہیں اور مجھے بھی اسی کے مطابق بولنا چاہئے.چونکہ پانچویں جماعت کے طلباء نے اپنے آپ کو سپاہی سے مشابہت دی ہے اس لئے میں کہتا ہوں جب تم سپاہی ہو تو آگے بڑھو اور فتح پاؤ یا عزت کی موت (الفضل 19 مارچ 1929 ء) مرو.

Page 300

زریں ہدایات (برائے طلباء) 295 جلد سوم وسیع ہمت اور بلند ارادوں کے ساتھ کوشش کرو 17 نومبر 1929ء بعد نماز ظہر بہت اور قادیان میں احمد یہ انٹر کا ٹویٹ لاہور کے ممبران اور احباب جماعت سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خطاب کیا.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.گو آج میری طبیعت صبح سے علیل ہے اور حرارت بھی بڑھی ہوئی ہے لیکن چونکہ میں وعدہ کر چکا تھا نیز اس لئے بھی کہ میں چاہتا تھا بقول اس پٹھان کے جس نے کہا تھا ” میرے بچہ کا پہلا وار ہے خالی نہ جائے اس لئے تقریر کرنے کے لئے آ گیا ہوں تا کہ جو امیدیں لے کر کا جیٹس یہاں آئے ہیں ان کے متعلق ان کا پہلا ہی ٹرپ ضائع نہ جائے.پس میں نے یہی مناسب سمجھا کہ اس وقت حسب وعدہ اپنے کالجیٹ عزیزوں کے سامنے بعض باتیں بیان کروں.سب سے پہلی چیز جو میرے نزدیک ایک طالب علم کے سامنے آتی ہے اور جو ایسی ہے کہ میں سمجھتا ہوں ہر تندرست اور صحیح دماغ کے سامنے ضرور آنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ایک طرف تو اس کے سامنے امیدوں اور امنگوں کا وسیع میدان ہوتا ہے، اسے اخلاق فاضلہ سکھانے یا دیگر علوم میں ترقی کرنے کے لئے ایسی ایسی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جن میں بڑے بڑے لوگوں کے احوال درج ہوتے ہیں، کالج کے کورسوں میں یا پرائیویٹ سٹڈی کے ذریعہ ایسے لوگوں کے احوال اور اعمال کا مطالعہ کر کے طالب علم کے نزدیک دنیا کی کوئی چیز انہونی نہیں رہتی اور ہر بلندی اور ہر کمال اسے قریب الحصول معلوم ہوتا ہے.وہ خیال کرتا ہے جس طرح جنت کی یہ کیفیت بیان کی گئی ہے کہ وہاں جس چیز کی خواہش ہوگی وہ فورا مل جائے گی اسی طرح دنیا کی سب ترقیاں اور کامیابیاں میرے ارادہ اور خواہش کی پابند ہیں.جونہی میں نے ادھر توجہ کی سب کی سب مکمل

Page 301

زریں ہدایات (برائے طلباء) 296 جلد سوم طور پر مجھے مل جائیں گی.چونکہ طالب علم کی نظر اس کے واہمہ کے ماتحت ہوتی ہے اور وہ جس قدر علم حاصل کرتا ہے اپنے دماغ میں سے ہی کرتا ہے، اس نے دنیا کا مطالعہ نہیں کیا ہوتا اس لئے وہ قانونِ قدرت کے گھبرا دینے والے ست رویہ سے آگاہ نہیں ہوتا.وہ قوت واہمہ کا غلام ہوتا ہے.قوت واہمہ اس کے سامنے ایک چیز پیش کرتی ہے اور وہ اس پر ایسا ایمان لے آتا ہے جیسے ایک مومن کلام الہی پر یا ایک سائنٹسٹ نیچر پر.وہ ایک منٹ کے لئے بھی گمان نہیں کر سکتا کہ یہ محض ایک سبز باغ قوت واہمہ نے مجھے دکھایا ہے.غرض ایک طرف تو وہ ایسے ایسے خواب دیکھتا ہے اور اتنی بڑی چیز اپنے سامنے رکھتا ہے جو اگر چہ دنیا میں موجود نہیں لیکن اس کے نزدیک ایک سچائی ہوتی ہے.لیکن دوسری طرف اگر وہ مسلمان کے گھر پیدا ہوا اور اس نے دینیات سے کچھ آگاہی حاصل کی ہے تو ایک اور تعلیم اس کے سامنے آتی ہے.اور وہ یہ کہ انکسار سے کام لینا چاہئے.طول اہل میں نہیں پڑنا چاہئے.لمبی امیدیں نہیں کرنی چاہئیں.حرص و آز 1 میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.لالچ ترک کر دینا چاہئے.پہلے پہل طالب علم کی نظر ان دونوں پہلوؤں پر پڑ کر نا دانستہ یا دانستہ چندھیا جاتی ہے.کبھی تو وہ جانتا ہوتا ہے کہ اس کے اندر جذبات کی ایک جنگ جاری ہے اور کبھی وہ اسے مطلقا محسوس نہیں کرتا.صرف ایک افسردگی اس کے قلب پر طاری ہوتی ہے اور وہ اس کا سبب نہیں سمجھ سکتا.اگر آپ لوگوں میں سے ہر ایک اپنے گزشتہ ایام پر نظر ڈالے تو اسے معلوم ہوگا کہ بعض اوقات اُس پر ایسے آئے ہیں کہ بلا سبب طبیعت میں افسردگی پیدا ہو جاتی ہے.اور بسا اوقات اس پر ایسی ساعتیں گزری ہیں جب تعلیمی شوق کے باوجود اُسے کالج کی تعلیم میں کوئی لذت محسوس نہیں ہوتی.یا جب کھانا اس کے حسب منشا ہونے کے باوجود اسے مزہ نہیں دیتا.یا جب وہ دوستوں کی مجالس میں ان کی محبت کے اشتیاق کے با وجود خوشی محسوس نہیں کرتا.بلکہ علیحدگی میں بھی جہاں اس کی اپنی بادشاہت ہوتی ہے وہ جو چاہے بناتا اور جو چاہے گراتا ہے ایسی خود مختار حکومت میں بھی وہ خوش نہیں ہوتا.اس پر ایک افسردگی چھائی ہوتی ہے جس کا سبب اُسے معلوم نہیں ہوتا.یہ حالت بچوں پر بھی آتی ہے اور بڑوں پر بھی.اور جو لوگ حقائق سے واقف ہیں وہ اس کا

Page 302

زریں ہدایات (برائے طلباء) 297 جلد سوم سبب اندرونی جذبات کی جنگ بتاتے ہیں.جن کی تفصیلات سے ہم واقف نہیں.لیکن ان سے متاثر ہوئے بغیر بھی نہیں رہ سکتے.جس طرح ایک بلند پہاڑ پر جانے والا شخص لمبی سانس کھینچتا ہے اور اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ گویا آہیں بھر رہا ہے اور اس کے بغیر وہ رہ نہیں سکتا یہی حال اندرونی جذبات کی جنگوں کے اثر کے متعلق ہوتا ہے.بہت بلند پہاڑ پر اگر کسی ایسے انسان کا رہنا فرض کر لیا جائے جس کے اردگرد مصنوعی طور پر ہوا کا پریشر بڑھا دیا جائے اور ہوا کے بوجہ کثیف ہونے کے اسے لمبی سانس کھینچنے کی حاجت نہ رہے تو وہ لمبی سانس کھینچنے والے کے متعلق یہی خیال کرے گا کہ اسے کوئی سخت صدمہ پہنچا ہے اس لئے آہیں لے رہا ہے.حالانکہ اسے کوئی صدمہ نہیں پہنچا ہوگا بلکہ اُسے اُس وقت جسمانی لحاظ سے فرحت حاصل ہو رہی ہوگی.اس کا سبب لطیف ہوا ہوگی.میدان میں چونکہ اسے کثیف ہوا میں سانس لینے کی عادت تھی اور لطیف | ہوا کی وہ مقدار جتنی کہ اس کے سینے کو سانس لینے کے لئے کھینچنے کی ضرورت تھی ہوا کے بوجہ لطیف ہو جانے کے اس کی تسلی نہیں کر سکتی اس لئے اسے لمبا سانس لینا پڑتا ہے تا کافی ہوا اندر جاسکے.یا بعض دفعہ ایسے ممالک میں جانا پڑتا ہے جہاں رطوبت زیادہ ہوتی ہے.وہاں ہوا کے بوجہ رطوبت بوجھل ہو جانے کے باعث انسان اس طرح محسوس کرتا ہے جیسے کوئی چیز اسے دبائے چلی جارہی ہے.وہ سخت گھبراہٹ محسوس کرتا ہے.حالانکہ گرمی زیادہ نہیں ہوتی.جیسے جاپان کا علاقہ ہے.وہاں یہی حالت ہوتی ہے.جاپان میں تو شاید بہت کم لوگوں کو جانے کا موقع مل سکے یہاں ہندوستان میں بمبئی ، کراچی یا کلکتہ میں ہی جا کر دیکھ لیا جائے گرمی تو کم محسوس ہوگی ، پارہ بھی کم دکھائی دے گا لیکن طبیعت میں ایسی گھبراہٹ ہوگی کہ گرم سے گرم جگہ بھی ایسی نہیں ہو سکتی.جس کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ ہوا میں رطوبت مل جانے کے باعث کثافت پیدا ہو جاتی ہے جو اُ سے بوجھل کر دیتی ہے.تو بہت سی چیزیں ہمارے قلب میں ایسی پیدا ہوتی ہیں کہ نہ تو نظر آتی ہیں اور نہ اُن کے سبب معلوم ہو سکتے ہیں.صرف نتائج محسوس ہوتے ہیں.اسی طرح بعض اوقات انسان ایک افسردگی محسوس کرتا ہے لیکن اس کا سبب اُسے معلوم

Page 303

زریں ہدایات (برائے طلباء) 298 جلد سوم نہیں ہوتا.بعض دفعہ وہ خیال کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور ایسا ہوتا بھی ہے کہ بعض دفعہ طبیعت میں بیماری کے اسباب جمع ہو جانے کی وجہ سے ہی افسردگی پیدا ہو جاتی ہے.مگر بعض اوقات اس کا سبب جذبات کی جنگ اور Conflicting views ہوتے ہیں.اور اب تحقیق ہوئی ہے کہ بعض بیماریوں کا سبب جذبات کی جنگ ہوتی ہے جن کا علاج اس جنگ کو دور کرنے سے خود بخود ہو جاتا ہے.اسے انگریزی میں سائی کو انپیلے سنز (PSYCHOANALYSIS) کہتے ہیں.چونکہ موجبات جنگ نظر سے پوشیدہ ہوتے ہیں اس لئے جب ڈاکٹر پوچھتا ہے تمہیں کوئی تکلیف | ہے؟ تو اسے نفی میں جواب دے دیا جاتا ہے.وہ پوچھتا ہے کہیں درد ہے؟ تو کہہ دیا جاتا ہے کہ نہیں.لیکن پھر بھی طبیعت افسردہ ہی رہتی ہے.کیونکہ اس کی وجہ دماغی تاثرات ہوتے ہیں.اب تو یہاں تک معلوم ہوا ہے کہ بعض دفعہ دو سال کی عمر میں جذبات کو کوئی بار یک ساصدمہ پہنچا مگر اس کا اثر پچاس سال کی عمر تک رہا.بہت سے جسمانی علاج کئے گئے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا.لیکن جب ڈاکٹر نے اس طریق کو مد نظر رکھتے ہوئے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے علاج کیا تو وہ کیفیت دور ہو گئی اور مریض صحت یاب ہو گیا.تو انسان کی زندگی میں یہ جنگ ہوتی ہے.اور میں نے محسوس کیا ہے کہ مسلمان اور خصوصاً احمدی طلباء میں یہ زیادہ ہے.ایک طرف تو ان کے سامنے وسیع ارادے اور پر جوش امنگیں ہوتی ہیں اور دوسری طرف مذہبی امور جن کے متعلق انہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کی امیدوں کو محو کر رہے ہیں.ان کے دل مذہب کے مصدق ہوتے ہیں.وہ اس کی سچائی دیکھ چکے ہوتے ہیں اس لئے اُسے بھی نہیں چھوڑ سکتے.لیکن دوسری طرف دنیاوی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق عقل کہتی ہے کہ یہ بھی صحیح ہیں اس لئے انہیں بھی ترک نہیں کر سکتے.ایسی حالت میں ان میں سے بعض کے اندر ایسی جنگ شروع ہو جاتی ہے جس کا اثر ان کے ارادوں ، ان کی امنگوں، ان کی صحت بلکہ ان کے دین پر بھی پڑتا ہے.قرآن کریم میں ان کیفیات کا ذکر دو جگہ ہے.ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَلْهُكُمُ الشَّكَاثُرُ حَتَّى زُرتُمُ الْمَقَابِرَ 2 یعنی تم بھی عجیب - انسان ہو کہ تکاثر نے تمہیں تکلیف میں ڈال رکھا ہے.تمہاری امنگیں ختم ہونے میں ہی نہیں

Page 304

زریں ہدایات (برائے طلباء) 299 جلد سوم آتیں.تمہارے ارادے بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں.اس جاہ طلبی کے خیال اور اس آگے ترقی کرنے کی خواہش نے تمہیں ایسا خراب کر رکھا ہے کہ تم کسی کام کے نہیں رہے.تمام اندرونہ تمہارا بگڑ چکا ہے.حتی کہ موت تک تمہارے اندر کسی اصلاح کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی.یعنی امیدوں، امنگوں، ارادوں اور زیادت طلبی کو ایسے بھیا نک رنگ میں پیش کیا ہے کہ انسان خیال | کرتا ہے ان سب باتوں کو چھوڑ چھاڑ کر الگ ہو جائے.کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ ایسے خیالات رکھنے والوں کو موت تک ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی.ایسی حالت کو دیکھ کر انسان خیال کر سکتا ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ ہو جانا چاہئے یعنی یاد نیا کو چھوڑ دیا جائے یا دین کو.لیکن اس کے بعد ایک اور آیت ہے جو اُ سے ایک نئی جنگ میں مبتلا کر دیتی ہے.ان امنگوں اور خواہشات کے متعلق یہاں تو فرمایا تھا کہ تکاثر کی وجہ سے تم غافل ہو گئے ہو اور زیادت طلبی نے تمہیں دین سے محروم کر دیا ہے لیکن دوسری جگہ فرمایا اِنَّا اَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ 3 یعنی ہم نے تمہیں اتنی زیادتی بخشی ہے کہ جس کے مقابلہ میں دنیا کی اور کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.کوثر عربی زبان میں ایسی وسیع زیادتی کے لئے بولا جاتا ہے جو انتہاء سے بھی آگے ہو.مگر یہ کوثر بطور سز کوثر بطور سزا نہیں بلکہ فرمایا فَصَلِّ لِرَيْك وَانْحَر به تو خوش ہو کہ خدا نے تجھے اس قدر زیادتی عطا کی.پس کثرت اگر ایسی ہی بری چیز تھی تو چاہئے تھا کہ حکم ہوتا اس کے لئے استغفار کرو.مگر فرمایا یہ سز انہیں بلکہ انعام ہے.پس تو خوش ہو.اس سے معلوم ہوا کہ یہ خدا تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے.پھر دوسری جگہ فرمایا اِهْدِنَا القِرَاحَ الْمُسْتَقِيمَ 5 یعنی دعا سکھائی گئی ہے کہ اے خدا! تو نے جو جو کچھ کسی کو دیاوہ مجھے بھی دے.اب غور کا مقام ہے کہ یہاں تو خدا تعالیٰ نے خود سکھایا ہے کہ تم تکاثر طلب کرو.اور پھر یہ دعا بھی سکھائی کہ جو جو انعام دنیا میں کسی کو ملا ہے وہ سب ہمیں دے.پھر یہ کیا معمہ ہے کہ ایک آیت میں تو تکاثر کو موجب تباہی بتایا اور دوسری میں سکھایا ہے کہ کسی چیز پر بس ہی نہ کرو بلکہ کہو جو جو کچھ دنیا میں کسی کو ملا وہ سب ہمیں مل جائے.گویا جب روکا تو بالکل ہی روک دیا اور جب منگوایا تو اتنا کہ حساب ہی نہیں.لیکن یہ دونوں چیزیں اضداد نہیں.اور ترقی میں روک ہمیشہ وہی چیزیں

Page 305

زریں ہدایات (برائے طلباء) 300 جلد سوم ہوتی ہیں جو اضداد ہوں.ان سے انسان گھبرا جاتا ہے کہ کسے چھوڑے اور کسے پکڑے.قرآن کی ان دونوں آیتوں میں سے ایک میں تو کہا گیا ہے کہ تمہاری حد سے بڑھی ہوئی امنگوں نے تمہیں برباد کر دیا.جس کے یہ معنے ہیں کہ امنگیں تباہ کن ہوتی ہیں.مگر دوسری میں بتایا ہے کہ دنیا کی ہر نعمت طلب کرو اس سے معلوم ہوا کہ امنگیں بری نہیں.بلکہ امنگ اتنی وسیع رکھنے کو کہا ہے کہ دنیا کا کوئی نمونہ سامنے رکھا ہی نہیں.دنیا میں عام طور پر قاعدہ ہے کہ کسی بڑے آدمی کو سامنے رکھ کر اس جیسا بننے کی خواہش کی جاتی ہے.مثلا کوئی جرنیل یہ کہے گا کہ مجھے اتنا عروج | حاصل ہو کہ میں نپولین کو بھی مات کر جاؤں.لبرل کہے گا میں گلیڈسٹون کو پیچھے چھوڑ جاؤں.اور کنسرویٹو خواہش کرے گا بیکن فیلڈ میرے سامنے کچھ حقیقت نہ رکھے.اسی طرح ہمارے پرانے خیالات کے مسلمان بھائیوں کی نظر ہمیشہ افلاطون ، سقراط اور بقراط پر جا پڑتی ہے.انہیں اپنی قوم کا کوئی آدمی ایسا نظر نہیں آتا کہ اس جیسا بننے کی خواہش کریں.مگر اسلام بتا تا ہے یہ دون ہمتی ہے کہ یہ دعا کی جائے میں افلاطون ہو جاؤں یا نپولین بن جاؤں یا میکنفیلڈ یا پٹ بن جاؤں.یا کوئی مقرر خواہش کرے میں برک ہو جاؤں یا محرر میکالے بنے کی خواہش کرے.ڈراما نویس شیکسپیئر بنا چاہے اور شاعر کیٹی بن جانے کی آرزور کھے.بلکہ اسلام سکھاتا ہے تم یہ دعا مانگو کہ ہم سب کچھ بن جائیں اور جملہ کمالات کے جامع ہوں.دیکھو ہم ایسے نبی کی امت ہیں جس میں تمام انبیاء کے کمالات موجود تھے.ہم حضرت عیسی کے متبع نہیں کہ دعا مانگیں ان کے سے کمال ہمیں مل جائیں.یا حضرت موسی کے پیرو نہیں کہ اُن الله کے کمالات حاصل ہونے کی دعا کریں.بلکہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی امت ہیں جس نے سب انبیاء کے کمالات اپنے اندر جمع کر لئے تھے.اس لئے ہمیں بھی یہی خواہش اور امنگ رکھنی | چاہئے کہ ہم تمام کمالات کے جامع ہوں.اور سورۃ فاتحہ کی دعا اپنے اندر اس قدر وسیع مطالب رکھتی ہے کہ نظر نہیں آتا کہ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے انسان نے اپنے سامنے اس قدر وسیع Imagination رکھا ہو.سب اس سے نیچے ہی ہیں.نہ اس کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو ناممکن سی بات معلوم ہوتی ہے اس قدر کمالات انسان کس طرح اپنے اندر جمع کر سکتا ہے.لیکن

Page 306

زریں ہدایات (برائے طلباء) 301 جلد سوم یا درکھنا چاہئے انسان کو بڑا بنانے کے لئے ہمیشہ ناممکن چیزیں ہی اس کے سامنے رکھی جاتی ہیں.نپولین نے کہا تھا ناممکن کے معنے مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکے اگر چہ میں ہمیشہ سے یہ لفظ سنتا آیا ہوں.یہ سائیکالوجی کا اصول ہے کہ ممکنات کے حصول کے لئے انسان جب تک ناممکنات میں نہیں پڑتا وہ کبھی کامیاب بھی نہیں ہو سکتا.انسان کا دماغ ایک چھلنی کی طرح ہے اس میں ساری چیزیں نہیں ٹھہر سکتیں.جو آتی ہیں ان میں سے ایک قلیل حصہ اس میں ٹھہرتا ہے باقی بہت سا نکل جاتا ہے.ہر لحظہ انسان بیسیوں چیزیں دیکھتا ہے.اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ انسان ایک سیکنڈ میں صرف ہیں چیزیں ہی دیکھتا ہے تو ایک منٹ میں وہ بارہ سو دیکھے گا.لیکن کیا وہ سب اسے یادرہ جاتی ہیں؟ یا صرف تین چار ہی رہیں گی.کیونکہ دماغ کی چھلنی باقی سب کو نیچے پھینک دے گی.تو جب تک انسان بہت بڑا ہاتھ نہیں مارتا وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا.اگر کوئی مچھلی پکڑنے والا یہ خیال کرلے کہ میں صرف موٹی موٹی مچھلیاں پکڑوں گا تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.وہ جال پھینک دیتا ہے اور سب کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے، چھوٹی چھوٹی خود ہی جال سے نکل جاتی ہیں اور بڑی ہاتھ آ جاتی ہیں.بعینہ یہی حالت ہر انسان کی ہے.اس کے سامنے اگر چھوٹا مقصد ہو تو وہ اس سے بھی نیچے رہ جاتا ہے.لیکن اگر بڑا اور بلند ہو تو اس کے مطابق ہی وہ ترقی کرنے کی بھی کوشش کرے گا.تو ترقیات کی خواہش اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے.پھر سوال ہوتا ہے وہ کیا بات ہے جس سے اسلام روکتا ہے؟ اس انکسار کا کیا مطلب ہے جو اسلام سکھاتا ہے؟ اس حرص و آز سے بچنے کے کیا معنی ہیں جسے اسلام بر اقرار دیتا ہے؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ حرص و آز اور لا طائل 6 امنگوں اور ترقی والی امنگوں میں بہت بڑا فرق ہے.اسلام امنگ سے نہیں بلکہ غلط امنگ سے روکتا ہے.اسلام واہمہ سے منع نہیں کرتا بلکہ غلط واہمہ سے منع کرتا ہے.واہمہ پر ہی تو انسانی ترقی کی بنیاد ہے.اگر انسان کے اندر سے اسے نکال دیں تو وہ مردار رہ جاتا ہے.یہ سب کرشمے قوت واہمہ ہی کی پرواز کا نتیجہ ہیں.اس کی سے روکنا ایسا ہی ہے جیسے ایک پرندے کے پر کاٹ دیئے جائیں.اسلام پرواز سے نہیں روکتا

Page 307

زریں ہدایات (برائے طلباء) 302 جلد سوم بلکہ اس سے روکتا ہے کہ ہماری قوت واہمہ غلط پرواز نہ کرے.جس سے اسلام روکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم پرواز کی نقل کریں لیکن اصل میں پرواز نہ کریں.اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ لوگوں نے بعض اوقات دیکھا ہوگا کہ پالتو مرغ اڑنے کے لئے پر جھاڑتے ہیں لیکن وہ زمین سے نہیں اُٹھ سکتے.اسی طرح بعض انسان بھی پر مار کر ہی رہ جاتے ہیں.وہ دوڑ کی نقل کرتے ہیں مگر اصل میں نہیں دوڑتے.جیسے بعض اوقات کسی کو دھوکا دینے کے لئے یونہی پاؤں مارے جاتے ہیں.سو اسلام پرواز سے نہیں روکتا بلکہ اس سے روکتا ہے کہ پرواز کی نقل کرو مگر پرواز نہ کرو.اسلام نقالی کو بہت ناپسند کرتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ مسلمان ڈراما میں کامیاب نہیں ہوئے.انہوں نے ہر فن میں کمال پیدا کیا.ان میں عیوب بھی آئے.مگر تھیڑ ان میں نہیں آیا.شراب خانے بھی ان میں کھلے ہیں.مسلمان عورتیں فاحشہ بھی ہو جاتی ہیں.جو ا بازی بھی مسلمانوں میں ہے لیکن ان میں تھیڑ نہیں آیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے دماغ میں روز اول سے یہ بات کچھ اس طرح گھس گئی ہے کہ ہمیں حقیقت (Reality) تک ہی رہنا چاہنے نقل کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے.اور یہ بات باوجود خطر ناک تنزل کے ان سے علیحدہ نہیں ہوئی پس ضروری ہے کہ ہم اڑیں.بلکہ اھدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ من بلند پروازی ہمارے لئے فرض کر دی گئی ہے.اور یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ ہم بہت بڑا Ideal اپنے پیش نظر رکھیں جس سے باہر کوئی چیز نہ ہو.کیونکہ جب امید وسیع ہو تو کوشش بھی اُسی کے مطابق وسیع ہوتی ہے.پاگل انسان کو دیکھ لو وہ خیال کرتا ہے میں بہت قوی ہوں.اور دیکھا گیا ہے واقعی وہ معمول سے بہت زیادہ قوی ہو جاتا ہے اور ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ کمزور سے کمزور پاگل بھی مضبوط سے مضبوط آدمی کو اٹھا کر پھینک دیتا ہے.وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ دنیا میرے سامنے حقیر ہے میرا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اس لئے وہ اعصاب کی انتہائی قوت صرف کر دیتا ہے.لیکن جو یہ خیال کرے کہ میں کمزور ہوں اس کے اعصاب بھی اتنی ہی ہمت دکھلاتے ہیں جتنا اس کا خیال ہوتا ہے.اب تحقیقات ہوئی ہے کہ انسان کے اندر دیگر حیات کی طرح اندازہ کی بھی ایک حس ہے.

Page 308

زریں ہدایات (برائے طلباء) 303 جلد سوم آپ چھوٹے بچے کو ایک تھپڑر پورے زور سے ماریں لیکن ہاتھ اس کے جسم پر اتنے زور کا ہی پڑے گا جسے وہ برداشت کر سکے.لیکن مضبوط آدمی کو مارو تو اسے بہت زیادہ چوٹ محسوس ہوگی.اس کی وجہ یہ ہے کہ اندرونی اعصاب اندازہ کر رہے ہوتے ہیں جس کے مطابق قوت صرف ہوتی ہے اور نتائج مختلف نکلتے ہیں.چونکہ ہوش مند انسان کے دل میں ایک مخفی خیال یہ بھی ہوتا ہے کہ کہیں زیادہ زور پڑنے سے میرے اعصاب ٹوٹ نہ جائیں اس لئے وہ کچھ قوت بطور ریز رو فورس محفوظ رکھتا ہے اور اُسے خرچ نہیں کرتا.لیکن پاگل کے اندر چونکہ یہ خیال نہیں ہوتا اس لئے وہ پوری طاقت صرف کر دیتا ہے.ایک دفعہ یہاں ایک عورت پاگل ہوگئی.حضرت خلیفہ امسیح الاول عورتوں میں درس قرآن دے رہے تھے کہ اس نے آکر کہا چونکہ یہاں سب لوگ میرے دشمن ہو گئے ہیں اور میرے در پئے آزار ہیں اس لئے میں اب زندہ رہنا نہیں چاہتی.یہ کہہ کر اس نے کھڑ کی کھولی تا نیچے گو د جائے.حضرت خلیفہ اول نے عورتوں سے کہا اسے پکڑ لو.کئی ایک عورتیں اسے لپٹ گئیں لیکن وہ ان سب سے چھوٹ چھوٹ جاتی.اس پر آپ نے خود اسے پکڑا.ایسے موقع پر پردہ وغیرہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں رہ جاتا مگر باوجود اس کے کہ آپ ایک قومی اور مضبوط آدمی تھے اور یہ آپ کی وفات سے سات آٹھ سال قبل کا واقعہ ہے اُس وقت آپ کا جسم مضبوط تھا مگر پھر بھی میں تو وہاں نہیں تھا مجھے گھر کی عورتوں نے بتایا، وہ آدھی آدھی کھڑکی سے لٹک جاتی تھی.اس کی وجہ یہی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کی طاقت محدود دائرہ میں خرچ ہورہی تھی.کیونکہ آپ کی عقل ریز رو فورس کے استعمال کی اجازت نہ دیتی تھی اور وہ بوجہ فاتر العقل ہونے کے تمام قوت صرف کر رہی تھی.تو جتنا بڑا انسان کا اندازہ ہواسی کے مطابق قوت بھی ظاہر ہوتی ہے.اسی سے دھوکا کھا کر بعض لوگوں نے ایک نیا علم مسمریزم جاری کیا ہے.تھیو سافیکل (THEOSOPHICAL) سوسائیٹیاں اسی خیال کی تنویع ہیں.جوں جوں انسان کے حوصلے بلند اور ارادے وسیع ہوتے ہیں اسی کے مطابق وہ قوت بھی صرف کر سکتا ہے.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ارادے بلند رکھو لیکن ان کے مطابق عمل بھی کرو.اُڑو! جتنا اڑ سکتے ہو اور نیت یہ ہو کہ ہم نے آسمان پر پہنچنا ہے.یہ

Page 309

زریں ہدایات (برائے طلباء) 304 جلد سوم نہیں کہ بیٹھے تو رہوزمین پر مگر سمجھو یہ کہ ہم آسمان پر پہنچ جائیں گے.گویا ارادہ اور امنگ اتنی رکھو جتنی کے لئے تم قربانی کر سکتے ہو.جس کے لئے قربانی نہیں کر سکتے اس سے اسلام روکتا ہے.اسی طرح ایک امنگ ایسی بھی ہوتی ہے جس میں دوسرے کا نقصان ہوتا ہے.یہی خیال ہوتا ہے کہ میں بڑا بن جاؤں اور فلاں ذلیل ہو جائے.یہ حسد ہے اس سے بھی اسلام نے روکا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان کے سامنے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کا Ideal رکھا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہاں انعامات کی کمی نہیں.اگر کوئی شخص یہ خیال کرتا ہے کہ زید گرے تو میں اس کی جگہ لوں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ خدا پر بدظنی کرتا ہے اور سمجھتا ہے خدا کے پاس جو کچھ تھا وہ تو اس نے فلاں شخص کو دے دیا.اب اور کچھ نہیں جو مجھے دے.اس سے اسلام روکتا ہے.پس اسلام دو قسم کی امنگوں سے روکتا ہے.ایک تو وہ جن کے خلاف انسان کی کوشش ہو اور دوسری وہ جو نیکی کی مخالف ہوں.جو انسان امنگ تو دل میں رکھتا ہے مگر اس کے مطابق کوشش نہیں کرتا وہ اپنے نفس کو دھوکا دیتا ہے اور منافقت کرتا ہے.جو شخص دوڑتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ میں گھوڑے سے زیادہ دوڑوں گا اس میں ضرور عام حالات سے زیادہ طاقت آجائے گی.لیکن جو چار پائی پر لیٹا رہتا ہے اور چاہتا ہے کہ موٹر سے بھی تیز بھاگوں تو اس کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں ہوگا کہ اس کے اندر منافقت، بزدلی اور سستی پیدا ہو جائے گی.جن امنگوں کے مطابق انسان کی کوشش ہو وہ جائز بلکہ ضروری ہیں.لیکن اگر کوئی ایسے ارادے کرتا ہے جن کے مطابق اس کا عمل نہیں تو ان سے اسلام روکتا ہے یا اس سے روکتا ہے جس میں دوسرے کا نقصان چاہا جائے.کیونکہ اس سے اپنی نیکی بر باد اور خدا تعالیٰ پر بدظنی ہوتی ہے.پس یہ دونوں متضاد چیزیں نہیں.اس لئے امنگیں رکھو مگر ان کے ساتھ کوشش بھی کرو.جتنی امنگ بلند ہو اتنی ہی مفید ہے.سوائے ان امنگوں کے جن کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.مثلاً مردہ زندہ کرنا.ایسی امنگ ادب کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے.یا پھر بعض ایسی باتیں ہیں جن کے متعلق خدا نے خود کہ دیا ہے کہ مانگنے سے نہیں ملا کر تیں.میں خود جسے چاہوں دیتا ہوں.مثلاً نبوت ہے.اس کا مانگنا بھی ناجائز ہے.

Page 310

زریں ہدایات (برائے طلباء) 305 جلد سوم پس طلباء کو ایک تو میری نصیحت یہ ہے کہ بلند ارادے رکھو اور یہ خیال مت کرو کہ اسلام | امنگوں سے روکتا ہے اسلام صرف منافقت یا دوسروں سے حسد سے روکتا ہے.وگرنہ سب سے بلند ارادوں کا حق صرف مسلمان کو ہی ہے مگر جب ساتھ کوشش بھی ہو.صوفیاء کی بعض کتب لوگوں کو دھوکا لگ جاتا ہے.کچھ دن ہوئے ایک سماٹری طالب علم نے تصوف کی ایک کتاب کے متعلق مجھے کہا مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتا اس میں کیا لکھا ہے.یہی بار بار آتا ہے کوئی نیت مت کر کوئی ارادہ مت کر.جہاں خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے وہیں کھڑارہ.لیکن یہ دراصل اس کی اپنی کوتاہ نہی تھی وگرنہ میں نے خود یہ کتاب پڑھی ہے.مجھے تو وہ بہت پیاری معلوم ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے پڑھائی تھی اور فرمایا تھا میرے نزدیک جو کتابیں بہترین ہیں وہ پڑھا دیتا ہوں.اور قرآن ، بخاری اور فتوح الغیب پڑھائی تھی.اور پڑھایا ایسی حالت میں کہ مجھے کوئی اعتراض بھی نہیں کرنے دیتے تھے اور فرماتے تھے تم یہ پڑھ لو.باقی علم خدا خود سکھاتا ہے.عام لوگوں کو تو یہ کتابیں شاید جہالت سے نکالنے کے لئے بھی کافی نہ ہوں.اور حقیقت بھی یہی ہے که انسان خواہ جتنا بھی چاہے علم پڑھ جائے مگر خدا کے فضل کے بغیر وہ جہالت سے نہیں نکل سکتا.علم خدا ہی جسے چاہے سکھاتا ہے اس لئے میں یہ نصیحت بھی طلباء کے لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ اس دھوکا میں نہ پڑیں کہ انسان علم پڑھنے سے عالم بن جاتا ہے.ایک محقق نے کیا ہی اچھی بات پیش کی ہے کہ تم ہمیشہ کے لئے دنیا کو دھوکا نہیں دے سکتے.اور ایک ہی وقت میں ساری دنیا کو دھوکا میں نہیں رکھ سکتے.اسی طرح اگر چہ یہ بات اس کے الٹ ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ کوئی علم ایسا نہیں جو انسان کی ساری عمر اور اس کے سارے حالات پر حاوی ہو سکے.علم کے معنی خزانہ کے ہیں یعنی وہ ہمارے پاس ہے اور جب چاہیں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.یا وہ ایک خادم کی طرح ہے کہ اسے آواز دیں اور وہ حاضر ہو جائے.وگرنہ وہ ناک، کان، آنکھ کی طرح ہر وقت ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا.بعض لوگ طب یا فلسفہ بہت کوشش سے پڑھتے ہیں مگر پھر بھی ایسے اوقات ان پر آتے ہیں کہ ان کے ذہن میں اس علم کی کوئی بھی بات نہیں ہوتی.ہاں جس وقت انہیں ضرورت ہو اور وہ اسے یاد کریں تو وہ حاضر ہو جاتا ہے.کسی بہترین ڈاکٹر یا

Page 311

زریں ہدایات (برائے طلباء) 306 جلد سوم وکیل کے دماغ میں بھی ہر وقت ادویات یا قانونی باتیں نہیں رہ سکتیں.عام حالات میں وہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی جاہل زمیندار.جب وہ باہم دوستوں سے ملتے ہیں تو اپنے علم کی باتیں اُس وقت ان کے ذہن میں نہیں ہوتیں بلکہ وہ عام لوگوں والی ہی گفتگو کرتے ہیں.مثلاً یہ کہ سناؤ خیریت ہے؟ بال بچے راضی ہیں؟ اتنی مدت کہاں رہے؟ اُس وقت ان کی ساری گفتگو میں ایک بات بھی خاص علم کی نہیں ہوگی.اُس وقت وہ ایسے ہی جاہل ہوں گے جیسے ایک ان پڑھ زمیندار.اور دیکھو کامل سے کامل آدمی بھی اپنے بیوی بچوں میں عالمانہ گفتگو نہیں کرتا بلکہ اس کے بھی وہی جذبات اور وہی افکار ہوتے ہیں جو ایک جاہل کے دماغ میں.ان میں مطلقاً کوئی فرق نہیں ہوگا.پس اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عالم سے عالم آدمی کا بھی بہت ہی قلیل وقت علم کے ماتحت صرف ہوتا ہے.پس عالم اسے نہیں کہنا چاہئے جو کتابیں پڑھ لے بلکہ عالم وہ ہے جو اپنے علم کو اپنے سامنے اس طرح حاضر کرتا رہے کہ اس کی زیادہ سے زیادہ گھڑیاں علم میں گزریں.میرے خیال میں ننانوے فیصدی اور ایسا بھی میں انسانیت کے ادب کے خیال سے کہہ رہا ہوں اور نہ سو فیصدی لوگ ہی ایسے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ وہ عالم ہیں مگر ان کے اکثر اوقات جہالت میں گزرتے ہیں.پس عالم وہ نہیں جو کتابیں پڑھ لے بلکہ وہ ہے جس کے اندر علم داخل ہو جائے.قرآن کریم نے علم کا نام صبغت اللہ رکھا ہے 7 اور رنگ ایسی چیز ہے جو ہر ذرہ کو اپنے رنگ میں رنگین کر لیتی ہے.اسی لئے اسلام نے علم کا نام تصبیح رکھا ہے.رنگ ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے اور کسی وقت بھی جدا نہیں ہوتا.تو شریعت نے علم الہی کا نام اللہ کا رنگ رکھا ہے.قرآن شریف نے فرمایا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا 8 بڑے بڑے فلاسفر جو خدا تعالیٰ سے نہیں ڈرا کرتے اس لئے وہ عالم نہیں کیونکہ وہ علم سے کام نہیں لیتے.ان کا علم ان کے کھانے پینے، پہننے اور بیوی بچوں میں رہنے غرضیکہ تمام حالات پر حاوی نہیں ہوتا.ان کا علم ایک پیشہ کے طور پر ہوتا ہے.جیسے سپہ گری کا پیشہ ہے.جب لڑائی کا وقت آئے سپاہی | تلوار اٹھا لیتا ہے مگر بعد میں اسے علیحدہ کر کے رکھ دیتا ہے.اسی طرح ان لوگوں نے بھی علم کو بطور پیشہ اختیار کیا ہوتا ہے.علم رنگ بن کر ان پر نہیں چڑھا ہوتا بلکہ اس کی حیثیت ایک کپڑے

Page 312

زریں ہدایات (برائے طلباء) 307 جلد سوم کی سی ہے جب ضرورت ہوئی اوڑھ لیا اور پھر اتار کر رکھ دیا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ میں عالم ہوں.میں سوتے ہوئے بھی گویا جاگتا ہوں 9 اس کا مطلب یہی ہے کہ سوتے ہوئے بھی علم الہی میرے دل میں موجیں لے رہا ہوتا ہے.اور یہی حقیقی علم ہے کہ انسان ہر وقت اس نشہ میں سرشار رہے.یہی علم کا حقیقی مقصد ہوتا ہے کہ انسان اس علم کی روح پر جسے اس نے پڑھا ہے ہر وقت حاوی رہے.دو طالب علم ایک ہی مدرسہ میں قانون کی ایک ہی کتابیں پڑھتے ہیں مگر ایک معمولی وکیل بنتا ہے اور دوسرا بہت ہی کامیاب پریکٹس کرتا ہے.بعض اوقات اگر آپ کا میاب وکیل سے کوئی دفعہ پوچھیں تو وہ بغیر کتاب دیکھنے کے نہیں بتا سکے گا.لیکن دوسرا معمولی وکیل جھٹ بتا دے گا.حالانکہ پہلے کی شہرت بہت زیادہ ہوتی ہے اور دوسرے کی کچھ بھی نہیں ہوتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ کامیاب وکیل نے قانون کے سطحی الفاظ تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا ہوتا بلکہ اس کی روح کو اپنے اندر جذب کر لیا ہوتا ہے.گو اس کی شقیں اسے زبانی یاد نہ ہوں لیکن تقریر کے وقت حج کو اس کی باتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے حالانکہ معمولی دفعہ دیکھنے کے لئے بھی اسے کتاب کی ضرورت ہوتی ہے.لیکن دوسرے نے قانون کی روح کو اپنے اندر جذب نہیں کیا ہوتا اس لئے وہ کامیاب نہیں ہوتا.پس علم پڑھو.اور اس طرح پڑھو کہ وہ تمہاری زندگانی کا ایک جزو ہو جائے اور زندگی کی تمام حرکات پر حاوی ہو.اگر تم میں سے کوئی قانون پڑھتا ہے تو وہ اسے اس طرح پڑھے کہ قانون اس کی ہر بات سے ٹپک رہا ہو.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہ قانون کی دفعات اپنی روز مرہ کی گفتگو اور عام حالات میں استعمال کر کے اپنے دوستوں کو پریشان کر دے اور وہ اس کے نزدیک بھی نہ پھینکیں.اور اس کی مثال ایسی ہو جائے جیسے کہ گورداسپور میں ایک مسل خواں تھے.اس کام میں انہیں اتنا شغف تھا کہ وہ کوئی کام بغیر مسل کے کرنا پسند نہیں کرتے تھے.حتی کہ بیوی کو بھی حکم دے رکھا تھا کہ کوئی بات بغیر مسل پیش کئے مجھ سے نہ کہا کرو.بیوی بے چاری مجبور تھی کیا کرتی.آپ گھر میں آتے اور بیوی کسی چیز کے منگانے کے متعلق کہتی تو حکم ہوتا اچھا مسل پیش کرو.وہ مسل پیش کرتی تو اسے حکم ہوتا اچھا کیفیت سناؤ.وہ بتاتی کہ دو پیسہ کا نمک آیا تھا وہ

Page 313

زریں ہدایات (برائے طلباء) 308 جلد سوم فلاں فلاں کھانے میں خرچ ہوا اور اب اس قدر کی اور ضرورت ہے.آپ یہ سب سن کر حکم دیتے اچھا دو پیسہ کا اور نمک خریدنے کی منظوری دی جاتی ہے.اتفاق ایسا ہوا کہ گورداسپور کی ایک عدالت سے کچھ مسلوں کی چوری ہو گئی.گورنمنٹ نے اعلان کیا کہ سراغ لگانے والے کو انعام دیا جائے گا.ان کے پڑوسی روز مسلوں کے جھگڑے ان کے گھر میں سنتے رہتے تھے ان میں سے کسی نے رپورٹ کر دی کہ مسلیں ان کے گھر میں ہیں.پولیس نے تلاشی لی تو وہ نمک مرچ کی مسلیں نکلیں.سو میرا یہ مطلب نہیں کہ قانون پڑھنے والے طلباء قانونی دفعات کا اپنی روزمرہ کی گفتگو اور دوست احباب کی مجالس میں استعمال شروع کر دیں اور اپنے اردگرد سے تمام دوستوں کو پریشان کر کے بھگا دیں.بلکہ یہ ہے کہ قانون جو روح ان کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے وہ ان کے اندر پیدا ہو جائے.اسی طرح طب جو روح پیدا کرنا چاہتی ہے وہ علم طب حاصل کرنے والے اپنے اندر پیدا کریں.اس کے بعد میں ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ ہمارے عزیزوں کو قومی کاموں میں بھی حصہ لینا چاہئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ گورنمنٹ حکم دیتی ہے طلباء کا نگر میں اور دیگر سیاسی تحریکات میں حصہ نہ لیں لیکن طالب علم کہتے ہیں نہیں ہم ضرور حصہ لیں گے.لیکن ہم کہتے ہیں دینی کاموں میں ضرور حصہ لو اور طالب علم نہیں لیتے.اس کی مثال تو ایسی ہے کہ کہتے ہیں ایک شخص کی بیوی ہمیشہ الٹ ہی کیا کرتی تھی.اگر خاوند کہتا آج میں چاول کھاؤں گا تو وہ ضرور روٹی پکاتی.خاوند نے بھی اس کی عادت کو سمجھ لیا.جس دن اس کا دل چاول کھانے کو چاہتا وہ کہہ دیتا آج ضرور روٹی پکانا اور اس دن ضرور چاول پک جاتے جنہیں وہ مزے سے کھاتا بھی جاتا اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا کہ میں نے تو روٹی کے لئے تمہیں کہا تھا پھر بھی تم نے چاول ہی پکائے.ایک دفعہ وہ دونوں کسی دریا میں سے گزر رہے تھے وہاں مرد اپنا اصول بھول گیا اور بیوی سے کہہ دیا کہ مجھے مضبوط پکڑے رکھو.بیوی نے اسے جھٹ چھوڑ دیا اور وہ دریا میں بہہ گئی.اس شخص نے دریا کے اوپر کی طرف اس کی تلاش شروع کی.کسی نے کہا میاں! بہنے والا نیچے جایا کرتا ہے اس لئے نیچے کی طرف تلاش کرو.اس نے کہا نہیں میری بیوی

Page 314

زریں ہدایات (برائے طلباء) 309 جلد سوم ہمیشہ الٹ ہی کیا کرتی تھی اس لئے ضرور اوپر کی طرف ہی گئی ہوگی.تو شاید طالب علموں میں بھی ایسی روح ہوتی ہے کہ جس کام کے متعلق کہا جائے نہ کروا سے وہ ضرور کرنا چاہتے ہیں اور جس کے کرنے کے لئے کہا جائے اسے نہیں کرتے.لیکن میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بچوں میں یہ روح یقینا نہیں ہوگی اور ان کے اندر مسلمانوں والی سیدھی سادھی روح ہوگی.اس لئے انہیں کچھ نہ کچھ وقت تبلیغ کے لئے بھی ضرور نکالنا چاہئے.میں نے لاہور میں بھی طلباء کو جب یہی نصیحت کی تھی تو بعض نے کہا تھا کہ لوگ ہماری سنتے نہیں.میں نے جس طرح یہ کہا ہے کہ علم اس طرح سیکھو کہ وہ تمہارے جسم کے ہر حصہ میں جذب ہو اور ہر سکون و حرکت سے اس کا اظہار ہو.اسی طرح یہ بھی کہتا ہوں یا درکھنا چاہئے کہ تبلیغ بھی بغیر خاص جوش اور جنون کے نہیں ہو سکتی.تمہارے اندر یہ روح ہونی چاہئے کہ ہمیں جو چیز ملی ہے ہمارا فرض ہے کہ اسے دنیا تک پہنچائیں کیونکہ اگر یہ چیز اسے نہ ملی تو وہ ضرور تباہ ہو جائے گی.بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں تم دنیا کو کافر کہتے ہو تمہاری بات کیوں سنیں.انہیں بتانا چاہئے کہ دنیا کے اندر کون سی سچائی ہے جسے ترک کر دینے والا نقصان نہیں اٹھاتا.اگر کو نین بخار کے لئے مفید ہے تو اس کو چھوڑنے والا ضرور بخار میں مبتلا ہو جائے گا.اسی طرح جب ایک مامور دنیا میں آیا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسے نہ ماننے والا نقصان نہ اٹھائے.کفر کوئی گالی نہیں بلکہ یہ اس نقصان کا نام ہے اور جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کفر گالی ہے.اگر کسی صداقت کے انکار سے کوئی بھی نقصان نہ ہو تو وہ سچائی سچائی ہی نہیں بلکہ جھوٹ ہے.کفر کے معنے نقصان کے ہیں.ہر سچائی اپنے مقابل میں ایک ضرور رکھتی ہے اور اسی ضرر کا نام کفر ہے.جو شخص ایک سوئی کا بھی انکار کرے گا وہ بھی نقصان اٹھائے گا اور کپڑے نہیں سی سکے گا.پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک انسان خدا کے ایک مامور کا انکار کرے اور اسے کوئی ضرر یا نقصان نہ پہنچے.بعض دفعہ ایک انسان جھوٹ بول دیتا ہے اس کے متعلق ہم یہ تو ضرور کہیں گے کہ اس نے جھوٹ بولا ہے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ یہ جھوٹا ہے.مگر جب جھوٹ بولنا اس کی عادت ہو جائے گی تو پھر اسے جھوٹا ہی کہا جائے گا.اسی طرح بعض اوقات نرم سے نرم دل آدمی بھی کسی سے لڑ پڑتا ہے مگر

Page 315

زریں ہدایات (برائے طلباء) 310 جلد سوم ہم اسے لڑا کا نہیں کہتے.لیکن جب یہ عادت حد سے زیادہ بڑھ جائے تو ا سے لڑا کا ہی کہا جائے گا.اسی طرح بعض اوقات ڈاکو بھی رحم کریتے ہیں لیکن انہیں رحم دل نہیں کہا جاتا.لیکن جب ان کا رحم زیادہ بڑھ جائے تو انہیں بھی رحم دل کہہ دیا جاتا ہے.اسی طرح کفر ہے.ہر چیز کے مقابلہ میں کفر ہے.جب تک وہ محدود حالت کے اندر ہو ہم کہتے ہیں اس میں فلاں برائی ہے لیکن جب اس میں برائی حد سے بڑھ جائے تو اسے برا کہا جاتا ہے.اسی طرح جب نیکی کمال کو پہنچ جائے تو اسے نیک کہا جاتا ہے.دنیا میں کون سا ایسا پھل ہے جس میں کوئی نقص یا کمی نہ ہو لیکن عام طور پر کہا یہی جاتا ہے کہ فلاں پھل بہت اچھا ہے.پھر جب وہ سڑ جائے تو کہتے ہیں خراب ہو گیا.حالانکہ اس میں بعض دانے اچھے بھی ہوتے ہیں.پس جب یہ صحیح ہے کہ نیکی کے مقابل میں کفر ہے تو ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارے بھائی اس ضرر سے بچ سکیں.اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا ایک بھائی زہر کھا رہا ہے اور ہم اسے روکتے نہیں تو اس کے یہی معنے ہیں کہ یا تو ہمیں یہ حقیقت ہی معلوم نہیں کہ زہر کیا چیز ہے اور یا پھر ایسے بزدل اور کمینے ہیں کہ ایک بھائی کا نقصان دیکھ کر ہمارے اندر جوش نہیں پیدا ہوتا.ہر شخص کا ایک حلقہ اثر ہوتا ہے اور طلباء کا بھی ہوتا ہے.اس لئے اپنے اپنے حلقہ اثر میں ضرور تبلیغ کا فرض ادا کرنا چاہئے.عام اصول کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے کہ اچھا پیج اچھا پودا اگاتا ہے اور براپیچ بر پودا.بسا اوقات اس کے الٹ بھی ہوتا ہے.مگر عام قاعدہ یہی ہے.اسی طرح یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری جماعت میں بھی بعض کمزور ہوں لیکن عام قاعدہ یہی ہے کہ نبیوں کی جماعتوں میں ترقی کی قابلیت زیادہ ہوتی ہے.اگر چہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے بھی بعض گر جائیں.پس اگر ہماری قابلیت کے معیار سے لوگ گر جائیں تو ہمارا فرض ہے کہ انہیں اوپر اٹھائیں.اپنے اندر یہ جذب پیدا کر کے دیکھ لوضرور اثر ہوگا.میں سمجھتا ہوں اب کافی وقت دے چکا ہوں اور میری طبیعت بھی علیل ہے اس کے علاوہ بعض نے اس گاڑی سے جانا بھی ہوگا.اس لئے میں اسی پر تقریر ختم کرتا ہوں.یار زندہ صحبت باقی.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو کسی دوسرے موقع پر دوسری باتیں بھی بیان کروں گا.

Page 316

زریں ہدایات (برائے طلباء) وَبِاللهِ التَّوْفِيقِ" 311 جلد سوم الفضل 29 نومبر 1929ء) 1 حرص و آز طمع ولالچ ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 566،18 مطبوعہ لاہور 2011ء) 2: التكاثر : 3,2 3 الكوثر : 2 4 الكوثر : 3 5 الفاتحة : 6 6 لا طائل : بے فائدہ (المنجد عربی اردو صفحہ 618 مطبوعہ جولائی 1975ء کراچی) 7: البقرة : 139 8: فاطر : 29 9 بخاری کتاب التهجد باب قيام النبى الله بالليل في رمضان صفحه 183 حدیث نمبر 1147 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 317

زریں ہدایات (برائے طلباء) 312 جلد سوم طلباء کو نصائح 11 مارچ 1930ء کو طلباء تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے ففتھ کلاس ہائی کے طلباء کو الوداع کہنے کے لئے ایک جلسہ کا انعقاد کیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ او رسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.مجھے اس بات کی خوشی ہوئی ہے کہ مدرسہ بائی کے طالب علموں نے متواتر قرآن کریم کی تلاوت میں ایک اچھا نمونہ پیش کیا ہے.اور میں سمجھتا ہوں نہ صرف یہ کہ دوسرے انگریزی پڑھنے والے طالب علم اس سے سبق حاصل کر سکتے ہیں بلکہ میرے نزدیک تلاوت میں ایسی غلطیوں سے قطع نظر کرتے ہوئے جن کے دور کرنے کا انہیں موقع حاصل نہیں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے بھی یہ مثال ہے.اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے مدرسہ ہائی کے طلباء کی تلاوت بطور مثال ہے تو یہ کوئی معمولی تعریف نہیں کیونکہ مدرسہ احمدیہ میں پڑھنے والوں کو دین کی خدمت اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے تیار کیا جارہا ہے.باوجود اس کے اگر وہ قرآن کی تلاوت صحیح طور پر نہ کر سکیں اور باوجود اس کے ایسی حلاوت نہ پیدا نہ اور یہ کرسکیں جو قلوب پر اثر کرنے کے علاوہ مخفی جذبات کو ابھارے تو ان کے مقابلہ میں دوسرے طلباء جو یہ صفت پیدا کریں تعریف کے قابل ہیں.اس کے بعد میں ایڈریس کے نفس مضمون کے متعلق کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا.اس میں عام دستور کے مطابق افسوس کا اظہار کیا گیا اور اس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا وہ شکر یہ اور امتنان تھا.لیکن اتنا میں جانتا ہوں کہ جن جذبات کا اظہار اس میں کیا گیا ہے اور جس طرح اس اظہار کو قبول کیا گیا ہے اگر ان الفاظ کے نیچے وہی روح ہے جو ظاہرہ طور پر نظر آئی ہے تو ہمارے لئے

Page 318

زریں ہدایات (برائے طلباء) 313 جلد سوم کوئی زیادہ فکر کرنے کی بات نہیں.اگر بچے طور پر ہمارے طالب علم محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگیاں ایک خاص مقصد کے لئے وقف کی ہوئی ہیں اور ان کا باطن ان کے ظاہر کو جھٹلاتا نہیں اور اگر ان کے الفاظ ان کی قلبی کیفیات کی ترجمانی کر رہے ہیں تو یہ ہمارے لئے بہت خوشی کی بات ہے.کیونکہ کسی چیز کا احساس ہی ہوتا ہے جو اپنے لئے صحیح طریق عمل اختیار کرنے میں مدد دیتا ہے.ہماری عادتیں ، ہمارا ماحول، ہماری مجبوریاں ایک طرف ہوں لیکن قلبی احساسات ایک طرف تو وہ ایسی طاقت رکھتے ہیں کہ کبھی نہ کبھی اپنے لئے رستہ نکال ہی لیتے ہیں.ایک موتی کو خواہ کتنی ہی مٹی کے اندر دفن کر دو اس سے اس کے اصلی جو ہر میں کوئی نقص نہ پیدا ہوگا بلکہ حقیقی خوبی کے لحاظ سے میں یہ کہوں گا کہ اگر اسے پیس ڈالو، جلا دو پھر بھی وہ اپنی خوبیاں اور تاثیرات اپنے ساتھ رکھے گا.اس میں شبہ نہیں کہ اس کی بعض خوبیاں جاتی رہیں گی مگر اس کی اصلیت جدا نہیں ہوگی.انسان کے احساسات بھی حقیقت رکھتے ہیں.ان پر خواہ ہزاروں عادات کے پردے ڈال دیں، واقعات کی مسلسل آندھیاں اور تاریکیاں انہیں چھپا دیں وہ حقیقت نہیں کھوتے.بلکہ تاثیر بھی نہیں کھوتے ، باہر نکلنے کی کوشش نہیں چھوڑتے اور ایک نہ ایک وقت نکل ہی آتے ہیں.حتی کہ اگر پہلے انہیں نکلنے کا موقع نہ ملے تو موت کے وقت ہی موقع مل جاتا ہے.چنانچہ بڑے بڑے دہریہ جن کی زندگیاں خدا تعالیٰ کے خلاف صرف ہو جاتی ہیں مرنے کے وقت یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ہمارا دل ندامت سے لبریز ہے اور ہمیں اپنے عقیدہ کے متعلق شبہات ہیں.اُس وقت انہیں خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق کوئی نئے دلائل نہیں سوجھتے.بلکہ بات یہ ہوتی ہے کہ ان کا عمل جو غیر طبعی تھا جب ساکن ہونے لگتا ہے تو یکدم قدیمی احساسات جو پیدائش سے ان میں رکھے گئے تھے ابھر نے لگتے ہیں.اور انہیں بتا دیتے ہیں کہ اُس وقت جب تم دوسروں کے دلوں سے ان خیالات کو مٹانے کی لاکھوں کوششیں کر رہے تھے اُس وقت ہم خود تمہارے دل میں بیٹھے تھے.تم نے ہم پر لاکھوں من مٹی ڈال دی اور بہت نیچے دبا دیا مگر ہم زندہ تھے اور اس بات کے منتظر تھے کہ موقع ملے تو نکل آئیں.آج جبکہ تمہارے اعمال بند ہو رہے ہیں ہمارے قید خانہ کے دروازے کھل گئے اور ہم باہر نکلنے کے لئے

Page 319

زریں ہدایات (برائے طلباء) تیار ہو گئے.314 جلد سوم غرض احساسات بہت قیمتی چیز ہیں.اگر وہ بچے طور پر پیدا ہو جائیں تو ان کا مارنا آسان کام نہیں.پس وہ احساسات جن کا اظہار طلباء کی طرف سے کیا گیا ہے اگر حقیقی طور پر ان کے دلوں میں پیدا ہو چکے ہیں تو مجھے تسلی ہوگی اور میں اس یقین میں رہوں گا کہ خواہ کیسے حالات پیدا ہو جائیں کسی نہ کسی دن لوٹ کر وہ اصلی حالت کی طرف آئیں گے اور اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جائیں گے جس کا آج انہوں نے الفاظ میں اظہار کیا ہے.پس میرے لئے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تم جنہوں نے ایڈریس پڑھا ہے اس میں جو کچھ کہا ہے اگر سچے دل سے کہا ہے تو تمہارے لئے یہی کافی ہے.اور تم جنہوں نے اس ایڈریس کا جواب دیا ہے جواب میں جو کچھ کہا ہے اگر سچے دل سے کہا ہے تو تمہارے لئے یہی کافی ہے.یہی تمہاری راہ نمائی کرے گا اور یہی تمہارے لئے شمع کا کام دے گا.“ (الفضل 18 مارچ 1930ء)

Page 320

زریں ہدایات (برائے طلباء) 315 جلد سوم احمدی طلباء اور زبان دانی 28 فروری 1931 ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ قادیان کی تبلیغی انجمن کے سالانہ جلسہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حسب ذیل تقریر فرمائی.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.میں بوجہ سینہ کے درد اور بخار کی حرارت کے زیادہ بول نہیں سکتا مگر میں منتظمین جلسہ سے کہوں گا کہ اس معاملہ کے متعلق بار بار توجہ دلانے کے باوجود مدرسہ کے ذمہ دار افسروں کو اصلاح کا خیال پیدا نہیں ہوا اور ابھی تک انہوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ وہ طالب علم جو تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوں ایسے ہونے چاہئیں جو کم از کم اپنی زبان صحیح طور پر جاننے والے ہوں.میں قطعی طور پر یہ خیال نہیں کر سکتا کہ ایک انگریز طالب علم جو چھٹی یا ساتویں جماعت میں پڑھتا ہو جب تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو انگریزی زبان کے معمولی الفاظ بھی غلط کہنے لگے پھر میں کس طرح سمجھ لوں ہمارے طلباء اپنی مادری زبان کے الفاظ بھی صحیح طور پر ادا نہ کر سکیں.غلطی ہر شخص کر سکتا ہے.شیکسپیئر بھی جسے زبان دانی کے لحاظ سے پیغمبری کا درجہ دیا جاتا ہے اس کی بھی لوگوں نے کئی غلطیاں نکالی ہیں مگر ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ اپنی حد سے باہر ہو جائے تو نہایت بد نما نقص ہوتا ہے.تبلیغ میں سب سے مقدم چیز یہ ہے کہ ہم صحیح طور پر اپنا مافی الضمیر ادا کر سکیں.اور تبلیغ میں بڑی مشکل یہی ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے مافی الضمیر کو اچھی طرح ادا نہ کر سکے.اور یقینا اگر ہم اپنے ملک کی زبان بھی صحیح طور پر نہیں بول سکتے اور اس کے الفاظ کی لغت جاننا تو الگ رہا ان کا تلفظ بھی صحیح ادا نہیں کر سکتے تو دوسرے لوگ اس بات کا خیال کرتے بالکل

Page 321

زریں ہدایات (برائے طلباء) 316 جلد سوم حق بجانب ہوں گے کہ یہ ان لوگوں کی سستی اور غفلت کا نتیجہ ہے.اور جس شخص پر ہمارے متعلق یہ اثر پڑے گا کہ ہم سستی اور غفلت کا شکار ہیں وہ کبھی سنجیدگی کے ساتھ ہماری باتوں پر غور نہیں کرے گا.یہ علیحدہ بات ہے کہ لڑکے اپنی تقریر میں حروف کو ان کے مخارج کے لحاظ سے پورے طور پر ادا نہ کر سکیں.مثلاً ”ق“ ہے.ہو سکتا ہے کہ لڑکے اس کا صحیح تلفظ ادا نہ کریں.اگر چه مدرسہ احمدیہ کے طالب علموں کو یہ بھی آنا چاہئے مگر ق“ اگر بڑا ادا نہ ہو سکے تو چھوٹا ہی سہی.لیکن اپنی زبان کے روز مرہ کے الفاظ کو بھی ان کی اصل شکل سے بگاڑ کر کہنا اور ان کے بولنے میں بھی غلطیاں کرنا ، سننے والوں کے دلوں میں یہ بات یقینی طور پر بٹھا دیتا ہے کہ یہ لوگ صحیح طور پر اپنے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتے.نظموں کے متعلق میں نے بارہا کہا ہے کہ ان کا جلسوں میں پڑھنا کوئی ثواب کا موجب نہیں.میرا کام ہی ایسا ہے جس کے لئے مجھے مطالعہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے مگر آج تک میں نے کسی کتاب میں کسی بزرگ کا یہ قول نہیں پڑھا کہ اگر کسی جلسہ میں تعلم نہ تو پڑھی جائے تو وہاں فرشتے نازل نہیں ہوتے.نظم ایک غیر طبعی چیز ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بے شک نظمیں کہی ہیں مگر اس لئے کہ تا لوگوں پر ان کے ذریعہ اثر ہو.لیکن اگر اثر کی بجائے الٹا یہ نتیجہ پیدا ہو کہ لوگوں کو نفرت ہو جائے تو پھر نظموں کے پڑھنے کی کیا ضرورت ہے.آج کی نظمیں جس رنگ میں پڑھی گئی ہیں انہیں سن کر میرا جی چاہتا ہے کہ میں ان منتظمین کی دعوت کروں جس میں گندھک کا پلاؤ، کونین کا زردہ اور ایلوے کی کھیر پکا کر ان کے آگے رکھوں اور دیکھوں کہ وہ اسے کیسے شوق سے کھاتے ہیں.اگر وہ شوق سے کھا لیں تو میں سمجھوں گا اس طرح پڑھی جانے والی نظمیں سن کر بھی وہ خوش ہو سکتے ہیں.ایک نظم پڑھنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ شعر پڑھ کر سنائے مگر اس نے اس طرح ان شعروں کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور ایسا غلط تلفظ ادا کیا کہ مجھے پہلے سمجھ میں ہی نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر پڑھا جا رہا

Page 322

زریں ہدایات (برائے طلباء) 317 جلد سوم ہے.سمجھ میں نہیں آتا ایسے لڑکوں سے جو شعر پڑھنا نہیں جانتے شعر پڑھوانے کی ضرورت ہی کیا ہے.میں اگر سکول کا ہیڈ ماسٹر ہوتا تو آرڈر دے دیتا کہ اگر اس قسم کے لڑکوں کو میں نے کبھی شعر پڑھتے سنا تو ان پر جرمانہ کر دوں گا.کوئی وجہ نہیں کہ جسے شعر سے کچھ مس نہیں اور جسے پتہ ہی نہیں کہ الفاظ کا صحیح تلفظ کیا ہے اس سے مجلس میں اشعار پڑھائے جائیں.اشعار پڑھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ہر شخص کو نہیں بنایا بلکہ خاص خاص طبیعتوں میں یہ ملکہ رکھا ہے.کیا ضرورت ہے کہ اگر مجھے معماری نہیں آتی تو میں آپ ہی آپ ایک عمارت کھڑی کرنا شروع کر دوں.میرا فرض ہے کہ میں معمار سے کہوں.اسی طرح خدا نے ہر شخص کو کھانا پکانے کی قابلیت نہیں دی اور جسے کھانا پکانا نہ آ تا ہوکس قدر غلطی ہوگی اگر وہ پکانے بیٹھ جائے.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے ایک ہی دفعہ میں نے روٹی پکائی اور اس کے چھ گوشے نکل گئے.اس کے بعد میں نے کبھی روٹی نہیں پکائی میں نے سمجھ لیا خدا نے مجھے اس کام کے لئے نہیں بنایا.اسی طرح جسے اشعار سے کوئی لگاؤ نہیں، جسے زبان کا کچھ پتہ نہیں وہ جب شعر نہیں پڑھ سکتا تو اسے مجلس میں شعر نہیں پڑھنے دینے چاہئیں.ہمارا بہت ضروری فرض یہ ہے کہ ہم اپنی زبان کا صحیح استعمال سیکھیں.اور جب تک ہم اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے اُس وقت تک کبھی اس صحیح مقام پر نہیں پہنچ سکتے جو تبلیغ کے مؤثر ہونے کے لئے ضروری ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا سے جو دعائیں فرمائیں وہ بہت سی ہوں گی وہ ہمیشہ اپنی ترقیات کے لئے دعائیں کرتے ہوں گے.مگر جب نبوت ملی تو جن باتوں کے لئے انہوں نے اُس وقت دعا کی ان میں سے ایک یہ بھی تھی وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي 1 الخ.اے خدا! میری زبان کی گرہیں کھول دے اور اسے صاف اور شستہ بنادے.کیونکہ بغیر اس کے مبلغ کا کام نہیں ہو سکتا.غیر زبانوں کو جانے دو مبلغ کو وہ زبان تو کم از کم آنی چاہئے جو اس کی مادری زبان ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو کتا ہیں اردو میں ہیں ان کے متعلق میں نے غیر احمدیوں اور مخالفوں سے سنا ہے کہ مرزا صاحب کی

Page 323

زریں ہدایات (برائے طلباء) 318 جلد سوم کتابیں پڑھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اردو نثر کو صحیح بنیادوں پر آپ ہی نے قائم کیا ہے.پہلے اردو اس طرح لکھی جاتی تھی جیسے قصے ہوتے ہیں.یعنی عبارت کا وزن ملا کر لکھنے کا طریق تھا.مثلاً اس طرح لکھتے تھے جس وقت میرے حبیب کا میری زبان پر نام آیا فوراً محبت کی طرف سے مجھے پیام آیا.تو پہلے اسی قسم کی نظم نمانثر لکھا کرتے تھے.اور اس طرح اس نثر میں وہ زور اور وہ طاقت نہیں رہتی تھی جس کا مطالب کی ادائیگی کے لئے پایا جانا ضروری ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اردو نثر کی بنیاد رکھی.حتی کہ سرسید جو بڑے ادیب سمجھتے جاتے تھے ان کی نثر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نثر کے مقابلہ میں بڑی پیچیدہ نظر آتی ہے.یہ باتیں بتاتی ہیں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ جو قوم تبلیغ کے لئے نکلے اُس کی زبان صاف اور شستہ ہو.آخر قرآن کی زبان خدا نے اتنی اعلیٰ کیوں رکھی ہے.اگر زبان کوئی اثر کرنے والی چیز نہیں ہے اور صرف یہ مقصد ہوتا کہ مضمون بیان ہو جائے خواہ طرز بیان کتنا ہی خراب ہو تو قرآن کی زبان ایسی اعلیٰ نہ ہوتی.مگر قرآن کی زبان جیسی میٹھی اور فصیح و بلیغ ہے اسے دیکھتے ہوئے یہی معلوم کہ اور صحیح ہوں.ہوتا ہے کہ خدا کا منشاء ہے کہ مسلمانوں کی زبانیں نہایت عمدہ اور فصیح ہوں.آج سوائے سیکرٹری کی رپورٹ کے جو نہایت قابلیت سے لکھی گئی ہے اور جس میں انسانی دماغ کی کیفیات کو مد نظر رکھا گیا ہے مثلاً یہ کہ تبلیغ کے لئے جانے والوں نے اتنے سو میل سفر کیا اور اگر افراد کے لحاظ سے مسافت کا اندازہ لگایا جائے تو اتنے ہزار میل سفر ہوتا ہے اور کوئی تقریر ایسی نہ تھی جس کی تعریف کی جا سکے.سیکرٹری کی رپورٹ میں یہ بات مدنظر رکھی گئی تھی کہ اس کا سننے والوں پر اثر ہو.پس آج اگر میں تعریف کر سکتا ہوں تو سیکر ٹری کی.اگر چہ لہجہ اس کا بھی خراب تھا مگر رپورٹ کا مضمون اس کی عمر کے لحاظ سے بہت اچھا تھا اور اس وجہ سے اس کی غلطیوں پر بھی پردہ پڑ جاتا ہے.قرآن کریم کی تلاوت جس بچہ نے کی اس نے بہت ہی عمدہ کی.عمر کے لحاظ سے اس میں بہت زیادہ تر نم تھا اور جسم کے لحاظ سے اس میں بہت زیادہ طاقت تھی.اگر استاد

Page 324

زریں ہدایات (برائے طلباء) 319 جلد سوم محنت کرے تو یہ بچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک دن نہایت عمدہ حافظ بن سکتا ہے.سوائے ان دو کے میں اور کسی کی تعریف نہیں کر سکتا.چونکہ مجھے اس وقت بخار ہو رہا ہے اس لئے جو باتیں پہلے مجھے معمولی تکلیف دیا کرتی تھیں آج تو مجھے وہ کالے کھاتی تھیں.ہر غلطی کے ساتھ میری نبض کی ایک حرکت زیادہ ہو جاتی تھی.اس صورت میں میں کہنا چاہتا ہوں دوست میرے ان تلخ ریمارکس کا زیادہ گہرا اثر لے کر نہ جائیں.تبلیغ کا کام جوان بچوں نے دورانِ سال میں کیا وہ بہت مبارک ہے.اور جو نقائص ہیں وہ بھی اگر ذمہ دار افسر توجہ کریں تو دور ہو سکتے ہیں.اگر سکول میں اچھی نظم پڑھنے والا کوئی نہیں ملتا تو نظم مت پڑھائیں.کوئی ضرورت نہیں کہ ایک ایسے شخص کو نظم پڑھنے کے لئے کھڑا کر دیا جائے جس کی آواز نظم پڑھنے کے قابل ہی نہ ہو.میری آواز بچپن میں بہت اچھی ہوتی تھی اور میں بہت شعر پڑھا کرتا تھا.مگر اب میری آواز خراب ہو گئی ہے اس لئے میں شعر نہیں پڑھتا.اور اگر پڑھوں تو اپنی آواز مجھے خود ہی بری معلوم ہوتی ہے.میں پہلے تہجد کے وقت جب تلاوت کیا کرتا تھا تو چونکہ آواز اچھی تھی اس لئے مجھے اتنا لطف آتا کہ میں بعض دفعہ تین تین گھنٹے تلاوت کئے جاتا تھا مگر اب میں آہستہ تلاوت کرتا ہوں کیونکہ آواز خراب ہو گئی ہے.اور تھوڑا پڑھتا ہوں کیونکہ اگر زیادہ پڑھوں تو آواز اور زیادہ خراب ہو جاتی ہے.پس میں بالکل نہیں سمجھ سکتا کہ ہمیں کیا مجبوری پیش آسکتی ہے کہ ہم ضرور ایسے لڑکوں سے جلسہ میں نظم پڑھائیں جن کی نہ آواز اچھی ہے اور نہ صحیح الفاظ پڑھ سکتے ہیں اور لوگوں کے کانوں پر ظلم کریں.پھر تقریر کے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہئے کہ اگر اچھی طرح تقریر کرنے والے طالب علم نہ ملیں تو لڑکوں کو پہلے سے تقریریں رٹا دینی چاہئیں.اس طریق پر بھی کئی اچھے لیکچرار پیدا ہو جاتے ہیں.مجھے علم ہے کہ ہماری جماعت میں بعض آجکل اچھے بولنے والے ہیں مگر انہوں نے ابتدا میں اسی طرح مشق کی.استادوں کو چاہئے کہ پہلے وہ خود لڑکوں کی تقریریں سنیں.اور جن حروف کا وہ غلط تلفظ ادا کریں انہیں ٹھیک کر دیں اور پھر کہہ دیں کہ وہ اس تقریر کو خوب اچھی طرح رٹ

Page 325

زریں ہدایات (برائے طلباء) 320 جلد سوم لیں.اس طریق پر جب مجمع عام میں تقریر کی جائے گی تو سننے والوں کی طبائع پر نا خوشگوار اثر نہیں پڑے گا.بچپن میں ایک دفعہ میں نے بھی لکھی ہوئی تقریر پڑھی تھی مگر کہتے ہیں ہونہار پر وا کے چکنے چکنے پات‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ میں قابلیت بھی رکھی تھی اس لئے میں نے احتیاط کے ساتھ پڑھی.وہ پہلی تقریر مجھے شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھ کر دی تھی.میری اُس وقت دس گیارہ سال کی عمر ہوگی.اُس وقت یہاں بورڈنگ کی یہ عمارتیں نہیں تھیں.انہوں نے تقریر لکھ دی اور میں نے پڑھی.مضمون چونکہ تجربہ کار آدمی کا لکھا ہوا تھا اس لئے بڑی تعریف ہوئی.مگر جب کوئی تعریف کرتا تو مجھے یوں معلوم ہوتا کہ وہ مجھے تھپٹر مار رہا ہے.کیونکہ میرا وہ اپنا مضمون نہیں تھا.میں دل میں بہت شرمندہ ہوا.اور میں نے عہد کیا کہ اب آئندہ میں کسی کا مضمون ہر گز نہیں پڑھوں گا بلکہ خود تقریر تیار کروں گا.اُس وقت کی جرأت اور دلیری میرے کام آئی اور پھر میں نے خود تقریریں کرنی شروع کر دیں.مگر میں کہتا ہوں کہ اگر طالب علم ایسے نہیں ملتے جو اچھی تقریر میں کر سکیں تو استادوں کا فرض ہے کہ وہ تقریروں کو رٹا دیں.دس بارہ یا پندرہ یا ہمیں دفعہ وہ تقریر انہیں پڑھا دیں.مگر اتنی ضرور احتیاط کر لیں کہ وہ ایسے لڑکے نہ ہوں جو پندرہ بیس دفعہ یاد کرانے کے با وجود بھی بھول جانے والے ہوں.چونکہ یہ بچوں کی مجلس ہے اس لئے ایک لطیفہ سنا کر میں اس تقریر کو بند کرتا ہوں.کہتے ہیں کوئی شخص تھا اسے لطیفہ سنجی 2 کی عادت تھی اور لطائف سننے اور سنانے کا اسے بہت شوق تھا.وہ ایک دن اپنے کسی زمیندار معزز دوست سے ملنے کے لئے گیا.زمیندار نے اس کی دعوت کی.چونکہ وہ امیر تھا اور شائستہ بھی اس کا نوکر بھی بہت سمجھ دار تھا کھانا کھاتے ہوئے دو تین چاول کے دانے مہمان کی داڑھی پر گر گئے.نوکر نے ادھر توجہ ولانے کے لئے کہا " بلیل بر شاخ گل نشستہ اس نے داڑھی کو شارخ گل سے اور چاولوں کو بلبل سے تشبیہ دی.گویا استعارے میں یہ بات کہہ دی کہ آپ کی داڑھی پر چاول گرے ہوئے ہیں.یہ سن کر اس نے داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور چاول گر گئے.میز بان کو یہ

Page 326

زریں ہدایات (برائے طلباء) 321 جلد سوم استعاره سن کر شوق پیدا ہوا کہ ہم بھی کبھی اسے استعمال کریں گے.یہ چونکہ گاؤں کا رہنے والا تھا اور اس کا نوکر بھی دیہاتی تھا اس نے نوکر کو سکھلانا شروع کیا.روزانہ کچھ چاول داڑھی پر گرا لیتا اور نوکر سے کہتا کہو! د بلبل بر شاخ گل نشستہ سکھاتا رہا.سکھاتا رہا.مگر مصیبت یہ تھی کہ اس نوکر کو یاد نہ رہتا اور بار بار سکھانے کے باوجود وہ بھول جاتا.مدتوں کے بعد کسی شہر میں دعوت ہوئی.یہ بھی چونکہ معزز زمیندار تھا اسے بھی دعوت نامہ آیا.اب اس کی امید بر آئی اور نوکر کو روزانہ سبق ملنا شروع ہوا کہ بلبل بر شاخ گل نشسته ".آخر دعوت کھانے اپنے نوکر سمیت چلے.راستے میں اس سے پوچھتے جاتے جب داڑھی پر چاول گریں گے تو تم کیا کہو گے.کبھی تو وہ کہہ دیتا وہی پھول والی بات اور کبھی کہہ دیتا بلبل کا ذکر.اس پر وہ ناراض ہوتا اور کہتا تو بڑا نالائق ہے چھوٹی سی بات یاد نہیں رکھتا.کہنا در بلبل بر شارخ گل نشسته آخر دعوت کھانے جب سب لوگ بیٹھ گئے اور کھانا چنا جانے لگا تو اس نے سوچا کہ ایک دفعہ نوکر کو پھر سبق یاد کرا دینا چاہئے.ایسا نہ ہو کہ وقت پر بھول جائے.قضائے حاجت کے بہانے سے باہر آیا اور پاخانے کے دروازہ پر کھڑے ہو کر نوکر سے کہا نیک بخت ! تجھے پتہ ہے جب میری داڑھی پر چاول گریں گے تو تو کیا کہے گا ؟ اس نے کہا مجھے تو وہ بات بھول گئی ہے.کہنے لگا تو بڑا ہی کند ذہن ہے.کہنا بلبل بر شارخ گل نشستہ جب کھانا کھانے بیٹھا تو دو تین چاول اپنی داڑھی پر گر الئے اور نوکر کی طرف دیکھنے لگا مگر وہ فقرہ بھول جانے کی وجہ سے بول نہ سکا.ادھر اس نے سمجھا چونکہ میں نے ایک دو چاول داڑھی پر گرائے ہیں اس لئے شاید اسے نظر نہیں آتے.اس پر اس نے ایک بڑا سا لقمہ اٹھا کر داڑھی پر رکھ لیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نو کر کی طرف دیکھنے لگا مگر وہ پھر بھی نہ بولا.اور جب بالکل ضبط نہ ہو سکا تو کہنے لگا کمبخت ! بولتا کیوں نہیں.نوکر نے را کر کہا وہ پاخانے والی بات جو آپ نے بتائی تھی.اس پر ساری مجلس اڑن کبوتر بن گئی.تو ایسے طالب علموں کو تقریریں نہ رٹائی جائیں جو سکھانے کے بعد بھی یہی کہہ دیں ہمیں تو یاد نہیں رہا.ایسے لڑکے ہوں جو ذہین ہوں.انہیں تقریر میں رٹا دی جائیں اور پھر

Page 327

زریں ہدایات (برائے طلباء) 322 جلد سوم مجلس میں بولنے کے لئے کہا جائے.انگریزوں میں بھی عام طور پر یہی طریق ہے کہ ابتدا میں تقریر میں حفظ کرا دی جاتی ہیں.پس یہ کوئی نقص نہیں بلکہ ابتدائی مراحل طے کرنے کے لئے ضروری ہے.ہماری جماعت میں چونکہ خدا کے فضل سے اچھے اچھے لیکچرار ہیں اور بعض فطرت سے اچھی قابلیت لے کر آتے ہیں اس لئے یہ غلط خیال پیدا ہو گیا ہے کہ ہر لڑکا اچھی تقریر کر سکتا ہے.حالانکہ بعض فطرت سے قابلیت لے کر آتے ہیں اور بعض سکھانے سے قابل بنتے ہیں.پس یہ خیال اپنے دلوں سے نکال دینا چاہئے کہ ہر طالب علم میں یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ زبان کا ماسٹر بن سکے.جن لڑکوں میں ایسی قابلیت نہ ہوا نہیں مجلس میں تقریر کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اپنی مجلسوں میں تقریریں کریں.مگر جب دوسرے لوگ بلائے جائیں تو ان کے سامنے ایسے لڑکوں کو ہی کھڑا کرنا چاہئے جن کے متعلق لوگ اچھا اثر لے کر جائیں.مثلاً ابھی ایک طالب علم نے یہ بات کہی جو مجھے بہت پسند آئی کہ ہماری جماعت میں نیکیاں بہت ہیں مگر چونکہ سفید کپڑے پر معمولی سا سیاہ داغ بھی بد نما معلوم ہوتا ہے اس لئے لوگوں کی نظر میں ہماری جماعت کے کسی شخص کی کمزوری بہت کھنکتی ہے.یہ بات نہایت معقول اور اس سپرٹ کے عین مطابق ہے جو میں اپنی جماعت میں پیدا کرنا چاہتا ہوں.پس طالب علموں کو تقریریں رنا دی جائیں تا وہ خوب اچھی طرح یاد کر کے مجلس میں سنائیں اور اس طرح طبائع پر اچھا اثر پیدا ہو.پھر اس طالب علم کو آئندہ کے لئے یہ احساس پیدا ہو جائے گا کہ اب اگر چہ میں نے کسی دوسرے کا مضمون پڑھا ہے لیکن اگر آئندہ میں اپنی قابلیت کے اس معیار کو قائم نہ رکھ سکا تو لوگوں میں شرمندگی اٹھانی پڑے گی اور وہ کہیں گے کہ یہ ہمیشہ دوسروں سے مضامین لکھوا کر پڑھ دیتا ہے.پس یہ خیال بھی اسے ترقی کی طرف بڑھانے میں محمد ہو گا.ہمارا زنانہ رسالہ مصباح ہے.اس میں بعض مرد ہیں جو عورتوں کی طرف سے مضمون لکھ دیتے ہیں اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی مرد ہے جو عورتوں کے لباس میں بول رہا ہے.مگر کچھ بھی ہو اس طریق پر بھی ہمت بڑھتی ہے.پس استاد بھی اگر اسی طرح

Page 328

زریں ہدایات (برائے طلباء) 323 جلد سوم لڑکوں کو لیکچر سکھایا کریں تو اس میں کیا حرج ہے.البتہ ہر لفظ کا تلفظ صحیح بتایا جائے اور پھر وہ زبانی تقریر کریں تا کہ تقریر کرنے کا ملکہ بڑھے.ہاں اگر کسی طالب علم میں خود بخود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی قابلیت رکھی گئی ہو تو پھر اسے اس طریق پر کام کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ اس کے لئے نقصان دہ ہوگا.یہ طریق ان لڑکوں کے لئے ہے جن میں قابلیت نہیں ہوتی.ان میں قابلیت پیدا کرنے کے لئے اس طریق پر چلنا ضروری ہے جو ابھی میں نے بتایا ہے.اس کے بعد میں ان اساتذہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے لڑکوں میں تبلیغ کا جوش پیدا کیا.میرے پاس ماسٹر عبد الواحد صاحب رپورٹیں بھجواتے رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں لڑکوں نے نہایت استقلال سے کام کیا ہے.جس طریق پر پہلے کام کیا جاتا تھا اسے دیکھتے ہوئے میرا خیال تھا کہ چھ ماہ کے بعد یہ جوش ٹھنڈا پڑ جائے گا.مگر استقلال اور ہمت سے لڑکوں نے ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کے سلسلہ کو جاری رکھا.مجھے اگر چہ ان کی اس وقت کی تقریریں پسند نہیں آئیں مگر میں ان کے تبلیغ کے عمل سے بہت خوش ہوں اور یہی مومن کی علامت ہوتی ہے کہ اس کا عمل اس کے قول سے بڑھ کر ہوتا ہے.اور اس کی نیست اس کے عمل سے بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہے.چھ دن کے بعد بچوں کو جمعہ کی ایک چھٹی ملتی ہے.طبعاً ہر شخص چاہتا ہے کہ چھٹی کے دن آرام کرے مگر اس چھٹی کے دن تبلیغ کے لئے جانا، تقریریں کرنا اور گالیاں سننا بڑا کام ہے.بچوں میں جوش زیادہ ہوتا ہے.لیکن ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر رہنا کہ گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو یہ ان کے لئے کوئی تھوڑا سا مجاہدہ نہیں کتنی دفعہ ان کے دلوں میں گدگدی اٹھتی ہوگی کہ گالیاں دینے والوں کا گلا دبا دیں مگر ان کا ضبط نفس قابل تعریف ہے.میں نے ہائی سکول | والوں کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر کہتا ہوں کہ دین کی تبلیغ صرف عربی مدرسہ والوں ہی سے مخصوص نہیں بلکہ ان کا بھی فرض ہے.وہ ان کے نمونہ کو ہی دیکھتے ہوئے

Page 329

زریں ہدایات (برائے طلباء) 324 جلد سوم ނ اٹھیں اور تبلیغ کا کام کریں.اور میں سمجھتا ہوں اگر وہ اپنے مدرسہ میں تبلیغ کا انتظام کریں تو ان سے اچھا انتظام کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس لڑکے مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں.زیادہ ہیں اور اسی طرح پھر لوکل انجمن کا کام بھی مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں کے تبلیغی کام سے اس دفعہ بہت کم ہے.میں انہیں بھی توجہ دلاتا ہوں.مدرسہ احمدیہ کے 80 یا 90 بورڈر ہیں اور سارے سکول میں دوسو کے قریب لڑکے ہیں.لیکن یہاں کی باقی احمدی آبادی چھ ہزار کے قریب ہے.اگر دونوں سکولوں کے لڑکے نکال دیئے جائیں تو ساڑھے پانچ ہزار کے قریب افراد رہ جاتے ہیں.اور اگر عورتوں اور بچوں کو نکال دو تب بھی دو ہزار کام کرنے والے مرد رہتے ہیں.اگر دو ہزار آدمی بھی ان 80 طالب علموں جتنا تبلیغی کام نہ کر سکیں تو کتنی افسوس کی بات ہوگی.میں نے خطبہ جمعہ میں بھی توجہ دلائی تھی.اور اب پھر کہتا ہوں کہ اگر سارے دوست ہمت کر کے کھڑے ہو جائیں اور زور لگائیں تو ایک سال میں ہی سارے علاقے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پھیل سکتا ہے اور ہزاروں نئے احمدی بن سکتے ہیں.میں نے ابھی مردم شماری کے موقع پر یہ تحریک کی تھی کہ وہ لوگ جو دل میں احمدی ہیں مگر بعض وجوہات کے ماتحت اپنی احمدیت کا اظہار نہیں کر سکتے انہیں چاہئے کہ وہ کم از کم اس موقع پر اپنے آپ کو احمدی لکھا دیں تا خدا کے نزدیک کم از کم ایک گواہی ان کے احمدی ہونے پر ہو جائے.مجھے اس کے متعلق ایک جگہ سے چٹھی آئی ہے کہ یہاں پہلے صرف چار احمدی تھے مگر جب اس تحریک کے ماتحت لوگوں نے اپنے نام لکھوائے تو اس جگہ کے پچاس گھروں نے اپنے آپ کو احمدی لکھا دیا اور عید کے دن بڑی تعداد کے ساتھ نماز پڑھی گئی.تو کئی ایسے ہیں جو دلوں میں احمدی ہیں مگر کسی ڈر کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتے وگرنہ احمدیت ان کے دلوں میں گھر کر چکی ہے.اور قادیان کے ارد گرد کے دیہات کے لوگ اس امر کو خوب سمجھ چکے ہیں.صداقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس قدرنشانات وہ دیکھ چکے ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن رشتہ داروں کی مخالفت کی وجہ

Page 330

زریں ہدایات (برائے طلباء) 325 جلد سوم سے یا اور بعض وجوہات سے وہ اپنی احمدیت کا اظہار نہیں کرتے.ایسے لوگوں میں مولوی بھی ہیں، علماء بھی ، تاجر بھی ، صناع بھی.پس ایسے لوگوں سے کہنا چاہئے کہ کب تک وہ چھپے رہیں گے.انہیں کہو کہ اپنے آپ کو ظاہر کریں اور جو ایسے نہیں انہیں تبلیغ کروتا وہ بھی سلسلہ میں داخل ہوں.میں چھوٹا تھا میں نے اُس وقت ایک رؤیا دیکھی جو اُس وقت کی عمر کے لحاظ سے ہی تھی.میں نے دیکھا کبڈی کا میچ ہو رہا ہے.ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف غیر احمدی ، غیر احمدیوں کا کپتان مولوی محمد حسین بٹالوی ہے جو ایک سفید سا جبہ پہنے ہوئے ہے.میں نے اُس وقت مولوی محمد حسین بٹالوی کو نہیں دیکھا تھا اور جب پہلی مرتبہ میں نے اسے دیکھا تو سفید جبہ میں ہی دیکھا.کبڈی کھیلتے ہوئے جب غیر احمدیوں کی طرف سے کبڈی دینے والا آتا ہے تو احمدی اسے پکڑ کر اپنی طرف بیٹھا لیتے ہیں.یہاں تک کہ سارے غیر احمدی اس طرف آگئے.صرف مولوی محمد حسین بٹالوی پیچھے رہ گئے.تب میں نے دیکھا کہ وہ بھی آہستہ آہستہ دیوار سے سمٹ سمٹ کر اس طرف بڑھنے شروع ہوئے اور لکیر پر پہنچ کر یہ کہتے ہوئے کہ اچھا سارے آگئے ہیں تو میں بھی آجاتا ہوں اس طرف آگئے.یہی اب لوگوں کے دلوں کی کیفیت ہو رہی ہے.اب صرف انہیں توجہ دلانی چاہئے اور کہنا چاہئے کہ وہ اس طرف آجائیں.اور میں سمجھتا ہوں دوست اگر ہمت سے کام کریں تو ایک دو سال کے عرصہ میں ہی کثرت احمد یوں کی ہو سکتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بعض ایسے بھی علاقے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام تک نہیں پہنچا مگر قریب قریب کے تمام علاقوں میں آپ کا نام پہنچ چکا ہے.اور اب در حقیقت ملتِ يَوْمِ الدِّینِ 3 والا دن آ چکا ہے.یعنی نتائج نکلنے والا دن.اب چاہئے کہ احمدی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں اور ہر گاؤں والوں سے پوچھیں کہ ان کی رشتہ داریاں کہاں کہاں ہیں اور پھر ان کے رشتہ داروں سے ملیں.اور پھر اس طرح سب رشتہ داروں کو احمدیت کی تبلیغ کریں.ہر شخص کی زبان پر احمدیت کا چرچا ہو.اگر یہ کیفیت لوگوں میں

Page 331

زریں ہدایات (برائے طلباء) 326 جلد سوم پیدا ہو جائے تو سارے لوگ یکدم یا آہستہ آہستہ سلسلہ میں داخل ہو جائیں.پس میں سمجھتا ہوں کہ سب دوستوں کو ہمت سے کام کرنے کی ضرورت ہے.ان بچوں نے نہایت خوبی سے کام کیا ہے.تلاوت کرنے والے لڑکے نے جس رنگ میں تلاوت کی ہے اسے دیکھ کر امید پڑتی ہے کہ یہ انشاء اللہ ایک دن بہت اچھا حافظ بنے گا.باقیوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے لہجہ کو موثر بنا ئیں تا کہ سننے والوں پر بہت اچھا اثر پڑے.میں امید کرتا ہوں کہ ان بچوں کے عملی نمونہ کو دیکھ کر بڑوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہو گا.مقامی لوکل انجمن کے پریذیڈنٹ بھی میں نے سنا ہے اب مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے ہیں اس لئے انہیں اور بھی توجہ کرنی چاہئے.اور اب تو ان کے لئے خاص طور پر تبلیغی کام کو وسعت دینے کا موقع ہے.کیونکہ لڑکوں کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی وہ کام لے سکتے ہیں.اب وقت ہے کہ وہ زور سے کام کریں.اسی طرح میں نظارت دعوت و تبلیغ کو بھی توجہ دلاؤں گا کہ صرف قادیان اور اس کے گردونواح میں ہی نہیں بلکہ سارے ملک میں تبلیغ کا انتظام کرے.میں چاہتا ہوں کہ ایک تبلیغ کا ہفتہ تجویز کروں جس میں ہر احمدی اپنا کام چھوڑ کر تبلیغ کے لئے نکل کھڑا ہو تا سارے ملک میں شور مچ جائے.سب شہروں میں جلسے ہوں.میری بھی تقریریں ہوں.میں موٹر پر سفر کروں.مثلاً صبح امرتسر تقریر کروں ، پھر لاہور پھر اگلے شہروں میں.اسی طرح سات دنوں میں سمارے علاقے کا دورہ ہو جائے.باقی جماعت کے لوگ بھی اس ہفتے میں تبلیغ کے لئے وقف ہوں اور یوں معلوم ہو کہ اب ساری دنیا کو ہم نے احمدیت میں داخل کر لیتا ہے.لیکن میں کہتا ہوں ساری دنیا کو تو الگ رہا پہلے کم از کم اپنے ضلع کو تو محفوظ کر لو.احمدیت کے لئے ایک ہفتہ کی بجائے تبلیغ احمدیت کا ایک دن ہی مقرر کر لو اور اس میں اس طرح شور ڈال دو کہ یوں نظر آئے آج زمین بھی اور آسمان بھی ، درخت بھی ، پانی کے قطرے بھی، بچے بھی اور بڑے بھی سب تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوئے ہیں.اب میں دعا کرتا ہوں باقی دوست بھی دعا کریں.میں ان بچوں کے لئے خاص طور

Page 332

زریں ہدایات (برائے طلباء) 327 جلد سوم پر دعا کروں گا باقی دوست بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی مستیوں کو دور فرمائے بلکہ ہم سب کی بستیوں اور غفلتوں کو بھی دور فرمائے." (الفضل 10 مارچ 1931ء) 28:45:1 2: لطیفہ سنجی : لطیفہ گوئی 3: الفاتحة : 4

Page 333

زریں ہدایات (برائے طلباء) 328 جلد سوم طلبا تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے خطاب 20 مارچ 1931ء کو طلبا تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کلاس دہم نے ایک جلسہ کا انعقاد کیا اور حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.جیسا کہ میرے عزیزوں نے اپنے ایڈریس میں بیان کیا ہے میں اس دفعہ بیماری کی وجہ سے اُس وقت جبکہ ففتھ ہائی کے طلباء کا امتحان قریب تھا اور جن ایام میں عادتا میں یہاں سے جانے والے بچوں کو بعض نصیحتیں کیا کرتا ہوں باہر گیا ہوا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کر دیا کہ اب کے امتحان کا سنٹر یہاں مقرر ہو گیا.اس لئے باوجود اس کے کہ امتحان سے پہلے مجھے طلباء کو نصائح کرنے کی فرصت نہ تھی اب اس بات کا موقع مل گیا کہ انہیں کچھ نصائح کروں.ب سے پہلے تو میں ان کے ایڈریس کے متعلق ایک نصیحت کرنی چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ انسان کے احساسات اور خیالات اس کے اعمال پر بہت کچھ اثر انداز ہوتے ہیں.انسان جس قسم کی نیت اور خواہش رکھتا ہے اگر وہ کچی اور سنجیدگی سے اس کے دل میں قائم ہوئی ہو تو آئندہ اعمال اس کے مطابق بدلتے جاتے ہیں.ایڈریس میں ہمارے طلباء نے باہر سے آنے والے طلباء کے متعلق اپنی مہمان نوازی اور خاطر داری کی کوششوں کا ذکر کیا ہے.میں چونکہ باہر کم نکلتا ہوں اور ان باتوں کے علاوہ جن کی میں ضرورت سمجھتا ہوں دوسری باتیں کم کرنے کا موقع ملتا ہے اس لئے میں نہیں کہہ سکتا کہ واقعہ میں انہوں نے اسی رنگ میں مہمان نوازی کی ہے یا نہیں جس کی اسلام میں تاکید ہے اور جو ایک مسلم کی شان کے شایان ہے.لیکن اس بارے میں جو بات انہوں نے کہی ہے اسے درست تسلیم کرتے ہوئے بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایک فقرہ

Page 334

زریں ہدایات (برائے طلباء) 329 جلد سوم ایڈریس میں ایسا کہا ہے جو مجھے پسند نہیں آیا.اور وہ یہ ہے May be they might have experienced certain inconveniences due to some drawbacks in our arrangements.اس فقرہ سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مہمان نوازی کے متعلق انہوں نے جو کام کیا ہے اس پر وہ مطمئن ہیں اور اسے کافی سمجھتے ہیں.یہ روح غلط ہے.ہمیں ہر نیکی کرتے وقت یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ نیکی ہمیں اتنی مقبول اور اتنی پسندیدہ ہے کہ جو کچھ اس کے متعلق کیا اسے ہم بہت تھوڑا سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے اور زیادہ عمدگی سے کریں.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے بچوں کو آئندہ جب کبھی موقع ملے چاہے اپنے گھر میں کسی کی مہمان نوازی کریں، چاہے کسی مسافر سے سفر میں معاملہ کریں، چاہے اس قسم کے عام میل ملاپ کا موقع ملے جیسا کہ اس دفعہ امتحان کے موقع پر انہیں ملا ہے تو ان میں یہ احساس نہ ہو کہ ہم نے جو کرنا تھا کر لیا اور یہ نہ سمجھیں کہ ممکن ہے اس میں کوئی کوتاہی ہوگئی ہو.بلکہ یہ سمجھیں کہ یقینا اس معیار کے مطابق ہم نہیں کر سکے جس کے مطابق ہمیں کرنا چاہئے تھا.ہمارے بچوں کو ہمیشہ اپنے ذہن اور ارادہ کو بلند رکھنا چاہئے.میں اس وقت کسی ایسے شخص کا قول جو مجھ سے مشابہت رکھتا ہے یعنی رسول کریم کا خلیفہ ثانی ہے ہدایت کے لئے پیش کرتا ہوں.وہ حضرت عمرؓ کا قول ہے.فرماتے ہیں نِيَّةٌ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ 1 مؤمن جو کام کرتا ہے اس کی نیت اس سے بہت بڑھ کر ہوتی جو کی ہے.جو کچھ وہ کرتا ہے اس کے متعلق یہی کہتا ہے کہ کچھ نہیں کیا.اس سے بڑھ کر کرنا چاہئے تھا.پس تم ہمیشہ جب اپنے دوستوں یا دوسروں سے مل کر ان کی خدمت کرو، ان کے آرام و آسائش کے لئے کوشش کرو، اپنے بزرگوں کا ادب و احترام کرو تو وہ اس قدر ہو جس قدر تم کر سکتے ہو.اور جتنا زیادہ کر سکو کرو.لیکن اس کے ساتھ یہ احساس ہو کہ ہم نے کچھ نہیں کیا اور جو کچھ کیا اس سے بہت زیادہ ہمیں کرنا چاہئے تھا.بچوں نے اپنے ایڈریس میں ایک نہایت مناسب موقع بات پیش کی ہے جسے میں اس وقت نظر انداز نہیں کر سکتا.ایڈریس میں ان تعلقات کا ذکر کیا گیا ہے جو مختلف اقوام اور مختلف صلى الله

Page 335

زریں ہدایات (برائے طلباء) 330 جلد سوم مذاہب کے لوگوں کے آپس میں ہونے چاہئیں.میں نہیں سمجھ سکتا اسے بدقسمتی کہوں یا خوش قسمتی کیونکہ میں انجام سے واقف نہیں ہوں.انجام اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے.لیکن واقعات ایسے ہیں کہ ہمارے ملک کے مختلف مذاہب اور مختلف اقوام کے لوگوں کے آپس کے تعلقات ایسے اچھے نہیں جیسی اچھی بنیاد پر ہونے چاہئیں.باوجود اس کے کہ بعض لوگوں کے دل میں خواہش ہے اور وہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ آپس کے تعلقات بہتر ہوں مگر تعلقات بگڑتے جارہے ہیں.میں سمجھتا ہوں مسلمان ہونے کے لحاظ سے یہ بہترین نصیحت ہوگی جو میں بچوں کو کروں گا کہ وہ ملک کی موجودہ فضا کو بدلنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں.اس لئے بھی کہ یہ ملک کی بہترین خدمت ہے اور اس لئے بھی کہ ہماری جماعت تبلیغی جماعت ہے.اور چونکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم دوسرے لوگوں کو اپنے اندر داخل کریں اس وجہ سے ہماری وہ کوششیں جو لوگوں کی عام بھلائی اور بہتری سے تعلق رکھتی ہیں انہیں بھی لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے.گو ہمارا فعل اُس ڈاکٹر کی طرح ہوتا ہے جو نشتر لے کر چیرتا پھاڑتا ہے لیکن ڈاکٹر کی نیت کی تو لوگ تعریف کرتے ہیں کیونکہ وہ کسی قسم کے اختلاف کے نیچے نہیں دبی ہوتی اور اس کے کام کو اچھا سمجھتے ہیں.لیکن جو عقائد کے اختلاف کے ساتھ کام کرتا ہے اسے برا سمجھتے ہیں.اس وجہ سے ہماری وہ نبیت اور ارادہ جولوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے ہوتا ہے بہت پوشیدہ ہے.ہمیں ضرورت ہے کہ اس کے اظہار کی کوشش کریں.اور وہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ایسے معاملات جو دوسروں سے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں عقائد کا کوئی سوال نہیں ہوتا ان کے متعلق ایسا رویہ اختیار کریں کہ لوگوں کو محسوس ہو ہم ان کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں.پس ہمارے بچے سکول میں یا باہر یا جہاں کام کریں یہ مقصد ان کے مد نظر رہے.وہ دوسری اقوام اور دیگر مذاہب کے لوگوں سے ایسا اچھا سلوک کریں کہ وہ یہ ماننے کے لئے مجبور ہو جائیں کہ یہ بنی نوع انسان کے بچے خادم اور حقیقی وفادار ہیں.اس کے ساتھ ہی ان کا جو اصل مقصد ہے اور جو ہر اس شخص کا ہونا چاہئے جو اپنے مذہب کو سچا سمجھتا ہے اسے نہ بھولیں.یعنی جسے سچائی اور صداقت سمجھتے ہیں اسے پیش کرتے رہیں.جو شخص کسی مذہب کو مانتا ہے لیکن دوسروں کے سامنے اسے پیش نہیں کرتا وہ یا تو خود دھو کا خوردہ

Page 336

زریں ہدایات (برائے طلباء) 331 جلد سوم ہے یا د نیا کو دھوکا دے رہا ہے.ایک عیسائی ، ایک سناتنی ، ایک آریہ، ایک سکھ ، ایک مسلمان ان میں سے ہر ایک جو اپنے مذہب کو سچا تسلیم کرتا ہے اس کے لئے یہ فرض کا سوال نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ وہ اپنا مذ ہب دوسروں کے سامنے پیش نہ کرے.اور اگر پیش نہ کرے تو یقینا دو باتوں میں سے ایک ہوگی.یا تو وہ خود دھوکا خوردہ ہوگا یا دوسروں کو دھوکا دے رہا ہو گا.اور مذہب کو سچا سمجھنا ہمارے ساتھ ہی مخصوص نہیں دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں.میں نے عیسائیوں کی کتابیں پڑھی ہیں وہ اپنے مذہب کی سچائی پر بہت زور دیتے ہیں.اسی طرح دیگر مذاہب کے لوگ کرتے ہیں.عیسائیوں میں ایسے لوگ ہیں جو مذہب کی خاطر جانیں قربان کرتے رہتے ہیں.امریکہ سے چین میں کئی مشنری آئے اور انہوں نے جانیں دیں.ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی.اور ایک کے مارے جانے پر دوسرا اس کی جگہ لینے کے لئے آجاتا اور جان دینے کی کوئی پرواہ نہ کرتا.اگر وہ اپنے مذہب کو سچانہ مجھتے تو پھر جانیں کیوں دیتے.جان دینا، ملک چھوڑنا اور روپیہ خرچ کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے.یہ تمام قربانیاں وہ مذہب کے لئے کرتے ہیں.اس سے ماننا پڑتا ہے کہ ان کا مذہب ہمارے نزدیک خواہ سچا نہ ہو لیکن وہ لوگ نیک نیت اور بنی نوع انسان کے خادم ضرور ہیں.اور ان کے منہ سے جو بات نکلے وہ کسی کو بری نہیں لگنی چاہئے.وہ شخص جو نیک نیتی کے ساتھ سمجھتا ہے کہ ہم غلطی پر ہیں اور وہ کوشش کرتا ہے کہ ہمیں غلطی سے نکالے اس کی بات سن کر تو ہمارا دل اس کی محبت سے بھر جانا چاہئے.مجھے تو خواہ کوئی ہندو، عیسائی یا سکھ آکر اپنے مذہب کی دعوت دے تو میرا دل اس کی محبت سے بھر جاتا ہے اور اسے قابلِ تعریف سمجھتا ہوں.ہم جس چیز کو نا پسند کرتے ہیں اور جسے سب کو نا پسند کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ دوسروں کے بزرگوں اور قابل احترام راہ نماؤں کو بلاوجہ برا کہا جائے.دنیا میں ہر شخص اپنی محبوب چیزوں سے پیار اور محبت رکھتا ہے اور ان کے متعلق برے الفاظ سننا پسند نہیں کرتا.میں نہیں سمجھتا کبھی شریف انسان یہ پسند کریں کہ بازار میں جا کر ایک دوسرے کی ماں بہن کو گالیاں دیں.کسی فلسفہ کے ماتحت نہیں بلکہ نیچر میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ کوئی انسان ماں باپ کے خلاف بری بات نہیں سن سکتا.اور جب کوئی ماں باپ کے متعلق برے الفاظ نہیں سن سکتا تو

Page 337

زریں ہدایات (برائے طلباء) 332 جلد سوم مذہبی بزرگوں اور پیشواؤں کے متعلق کس طرح سن سکتا ہے جو ماں باپ اور دوسرے تمام رشتہ داروں سے زیادہ عزیز اور محبوب ہوتے ہیں.پس ہمارے نوجوان کو اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہئے کہ دوسروں کے بزرگوں کا ہر طرح اعزاز اور اکرام کیا جائے.ایڈریس میں پرافٹ ڈے (Prophet Day) کی تحریک کا بھی ذکر کیا گیا ہے.میرا ارادہ پرافٹس ڈے (Prophets Day) مقرر کرنے کا بھی ہے.یعنی نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیکچر دلائے جائیں بلکہ دیگر مذاہب کے بانیوں کے متعلق بھی لیکچر دیئے جائیں.چودھری ابوالہاشم صاحب ایم اے انسپکٹر آف سکولز بنگال جو انفاق سے اس وقت یہاں بیٹھے ہیں انہوں نے مجھے یہ لکھا تھا جس کے جواب میں میں نے انہیں لکھا کہ میرا یہ ارادہ ہے اور میں اسے عمل میں لانے کی کوشش کروں گا.جب پرافٹ ڈے مستحکم ہو جائے تو میرا منشاء ہے کہ ایک ایسا دن مقرر کیا جائے جس میں ہر مذہب کے بزرگوں کی خوبیاں بیان کی جائیں خواہ وہ ہندوؤں کے بزرگ ہوں یا سکھوں کے یا عیسائیوں کے.تجویز یہ ہوگی کہ ہر مذہب کے بزرگ کی خوبیاں دوسرے مذاہب کے لوگ بیان کریں.مثلاً مسلمانوں کے بزرگوں کی ہندو، ہندوؤں کے بزرگوں کی عیسائی، عیسائیوں کے بزرگوں کی مسلمان.اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کے لئے تو اپنے مذہب کے بانی کی خوبیاں خود بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن پرافٹس ڈے کے لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کے بزرگوں کی خوبیاں بیان کی جائیں.یہ کوئی بناوٹ نہیں بلکہ حقیقت ہے.جھوٹ نہیں سچ ہے کہ ہر مذہب کے بانی میں ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جن کا ہر انسان کو اعتراف کرنا چاہئے.میں مہاتما بدھ کے حالات جب بھی پڑھتا ہوں میرے آنسو نکل آتے ہیں اور مجھ پر رقت طاری ہو جاتی ہے اور ہر وہ شخص جس کا دل مر نہیں گیا اگر پڑھے گا تو اس پر یہی اثر ہوگا.اسی طرح اگر کوئی ہندو یا سکھ یا عیسائی تعصب سے علیحدہ ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان قربانیوں کا ذکر پڑھے گا جو آپ نے دنیا کوفسق و فجور سے چھڑانے ، ظلمت و تاریکی سے نکالنے اور انسانیت قائم کرنے کے متعلق کیں، انسانوں میں مساوات قائم کرنے کے متعلق کیں تو وہ ضرور متاثر ہوگا اور آپ کی

Page 338

زریں ہدایات (برائے طلباء) 333 جلد سوم تعریف و توصیف کرنا اپنا فرض سمجھے گا.اسی طرح حضرت کرشن اور رام چندر جی کے حالات پڑھنے والا ان کے متعلق خراج تحسین ادا کرے گا کیونکہ شرافت انسانی اور پاکیزہ فطرت ایسی ہے جو ہر قوم اور ہر مذہب کے لوگوں میں پائی جاتی ہے.پس ایک ایسا دن جس میں ایک دوسرے مذہب کے بانیوں کی تعریف و توصیف کی جائے تمام ملک کے لئے اور تمام اقوام کے لئے مفید ہوگا.اس کے بعد میں اس نظم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو اس وقت پڑھی گئی ہے.میں نے اس کے متعلق نظم کے لحاظ سے تو غور نہیں کیا مگر اس میں جن مایوس کن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان کا میری طبیعت پر بہت بوجھ پڑا.یا درکھو بے شک تم تھوڑے ہو اور ابتدائی حالت میں ہومگر تمہارا مقصد اور مدعا نہایت عظیم الشان ہے اور وہ یہ کہ دنیا کو نیکی وتقوی اور خدا تعالیٰ کے لئے فتح کرتا ہے.تمہارے لئے مایوسی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.ایک مومن تو اگر مر بھی جائے تو بھی اس کا م منقطع نہیں ہوتا.تمہارا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ پہلے اپنے نفس کو اور پھر دنیا کو فتح کرو.کام اس حالت میں مایوس ہونے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے سے ایک شخص سر نیچے کئے ہوئے گزرا تو آپ نے اس کی ٹھوڑی پر مکا مارا کہ یہ مایوسی کی شکل ہے.تم جو امتحان کے بعد یہاں سے جانے والے ہو یہ تمہارے لئے یہاں سے جدائی نہیں.تم کہیں جاؤ ایک ایسے رشتہ میں وابستہ ہو جو تمہیں یہاں سے پیوستہ رکھے گا.رونے کا مقام تو وہ ہوتا ہے جہاں جدائی ہو گر تم جدا نہیں ہو سکتے تمہیں اس صداقت نے شکار کیا ہے جس کا شکار بھاگ نہیں سکتا.نہ اس دنیا میں نہ اس کے بعد.کوئی بعد اسے دور نہیں کر سکتا.تم نے دنیا میں بڑے بڑے کام کرتے ہیں.تم میں یہی روح اور یہی سیرت ہونی چاہئے کہ کوئی چیز تمہیں مرکز سے جدا نہیں کر سکتی.ایک چیز ہے جس سے رنج ہو سکتا ہے اور وہ یہی کہ دین کی خدمت کے متعلق کو تا ہیاں ہوں اور خدا تعالیٰ کو اس طرح خوش نہ کیا جاسکے جس طرح کرنا چاہیئے یا دنیا کی خدمت اس طرح نہ ہو سکے جس طرح ہونی چاہئے.اس پر اگر تمہیں رنج ہو، صدمہ ہو درد ہوتو یہ میچ ہوگا، جائز ہوگا اور مفید ہوگا.مگر یہ درد کہ یہاں سے

Page 339

زریں ہدایات (برائے طلباء) 334 جلد سوم جارہے ہیں درست نہیں.تم جاتے کہاں ہو تم تو نہیں ہو کیونکہ جب تم جارہے ہو تمہاری نیست یہی ہے کہ پھر آؤ اور بار بار آؤ.پس اپنی ہمتوں کو بلند کر واور ساری دنیا کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو.جیسا کہ میں نے انصار اللہ سے عہد لیا ہے تم نہ اپنے لئے بلکہ دنیا کے لئے کام کرو تا کہ تمہاری زندگیاں مفید ہوں.میں اس تقریب کے خاتمہ پر بچوں کے لیے دعا کروں گا چونکہ یہاں اس وقت مختلف عقائد اور مختلف مذاہب کے لوگ بیٹھے ہیں اس لئے اعلان کرتا ہوں کہ جو دعا کے قائل نہ ہوں وہ بے تکلفی سے بیٹھے رہیں اور دعا میں شریک نہ ہوں یا جس طرح اور جس طریق سے چاہیں دعا کریں.ولایت میں ہم اسی طرح کرتے رہے.ہماری کسی مجلس میں جس میں دعا کی جاتی جو لوگ دعا کے قائل نہ ہوتے انہیں کہہ دیا جاتا وہ جس طرح چاہیں عمل کریں دکھاوے کی ضرورت نہیں.ہم ان کے دعا میں شریک نہ ہونے کو نا پسند نہیں کریں گے.“ 1: المعجم الكبير جلد 6 صفحہ 228 مطبوعہ عراق 1979ء (الفضل 28 مارچ 1931ء)

Page 340

زریں ہدایات (برائے طلباء) 335 جلد سوم احمد یہ گرلز ہائی سکول قادیان میں ایف اے کلاس کا افتتاح یکم جولائی 1931ء کو احمدیہ گرلز ہائی سکول قادیان میں ایف اے کلاس کے افتتاح کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:."1925ء میں میں نے اس نیت سے کہ عورتوں کی تعلیم ایسے اصول پر ہو کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیم کی بھی تکمیل ہو سکے اور اس خیال سے کہ مذہبی تعلیم اپنے ساتھ دلچسپی اور دلکشی کے زیادہ سامان نہیں رکھتی اور بعد میں اس کا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے مذہبی تعلیم کو پہلے رکھا تا کہ ایک حد تک دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد لڑکیاں انگریزی تعلیم حاصل کر سکیں.اور چونکہ اس سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اس لئے یہ بڑی عمر میں بھی اگر حاصل کرنی پڑے تو گراں نہ گزرے گی.لڑکیوں کے لئے پہلے عربی کی کلاسیں کھولیں.اُس وقت قادیان میں بھی ایسے لوگ تھے جو اس پر معترض تھے اور باہر بھی.خاص کر پیغامی سیکشن نے بہت ہنسی اڑائی.لیکن اللہ تعالٰی کے فضل سے پنجاب میں ہی نہیں بلکہ ہندوستان میں یہ پہلی مثال ہے کہ اس کثرت سے مولوی کا امتحان ہماری جماعت کی لڑکیوں نے پاس کیا.میرا خیال ہے سارے ہندوستان میں اتنے عرصہ میں مولوی کا امتحان پاس کرنے والی اتنی لڑکیاں نہ ہوں گی جتنی ایک سال میں ہماری لڑکیوں نے یہ امتحان پاس کیا.اس کے بعد زنانہ سکول کی لڑکیاں چونکہ ہائی کلاسوں کی تعلیم پاسکتی تھیں اس لئے مدرسہ ہائی کے استادوں کی امداد سے ہائی کلاسیں کھولی گئیں.ان میں بھی خدا کے فضل سے اچھی کامیابی ہوئی.اور اس سال سات طالبات انٹرنس کے امتحان میں کامیاب ہوئیں.یہ بھی اپنی ذات میں پہلی مثال ہے.کیونکہ کسی سکول سے سات مسلمان

Page 341

زریں ہدایات (برائے طلباء) 336 جلد سوم لڑکیاں آج تک ایک سال میں کامیاب نہیں ہوئیں.اور چونکہ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ہم اپنی جماعت کو بھی تحریک کرتے رہتے ہیں اس لئے قادیان سے باہر بھی کئی لڑکیوں نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور اچھے نمبروں پر پاس کیا ہے.چنانچہ ایک احمدی لڑکی لڑکیوں کے مقابلہ میں سیکنڈ رہی اور لڑکوں کے مقابلہ میں اس کا 13 یا 14 نمبر ہے.میرا منشاء یہ ہے کہ اس تعلیم کو جاری رکھا جائے حتی کہ اتنی کثیر تعداد گر یجوایٹ خواتین کی پیدا ہو جائے کہ ہم سکول میں بھی زنانہ سٹاف رکھ سکیں اور کالج بھی قائم کر سکیں.گورنمنٹ نے اب مردوں کے لئے یہ شرط عائد کر دی ہے کہ وہ پرائیویٹ امتحان نہیں دے سکتے.لیکن عورتوں کے لئے یہ شرط نہیں.پیشتر اس کے کہ عورتوں کے لئے بھی پرائیویٹ امتحان نہ دینے کی شرط پنجاب یونیورسٹی عائد کرے ہم اتنی تعداد پیدا کر لیں جو کہ ہماری آئندہ نسلوں کو تعلیم دینے اور ہماری تعلیمی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو.میں نے جہاں تک غور کیا ہے جب تک عورتیں ہمارے کاموں میں شریک نہ ہوں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے.زیادہ تر امور ایسے ہیں جن میں عورتوں کا سوال پیش آتا ہے.اسی طرح تربیت اولاد کا سوال ہے جو عورتوں سے خاص طور پر تعلق رکھتا ہے.اور یہ حل نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورتیں تعلیم یافتہ نہ ہوں اور یہ کام ان کے سپرد نہ کر دیا جائے.کسی گھر میں کتنی ہی تعلیم یافتہ عورت ہو اور وہ بچوں کی کتنی ہی اعلیٰ تربیت کرتی ہو اس میں کامیابی نہیں ہو سکتی کیونکہ اولاد پر ارد گرد کے بچوں کا بھی اثر پڑتا ہے.اور تمام بچوں کی صحیح تربیت اُسی وقت ہوسکتی ہے جبکہ کافی تعداد میں تعلیم یافتہ عورتیں مل جائیں.اور چھوٹی عمر کے بچوں کے بورڈنگکس بنا کر ان کا انتظام عورتوں کے سپر د کر دیا جائے تا کہ وہ ان میں بچپن میں ہی خاص اخلاق پیدا کریں اور پھر وہ بچے بڑے ہو کر دوسروں کے اخلاق کو اپنے اخلاق کے سانچے میں ڈھالیں.بغیر ایسی اجتماعی جد و جہد کے کامیابی نہیں ہو سکتی.نہ تقریروں سے ، نہ وعظوں سے ، نہ درس سے.اس میں کامیابی کی یہی صورت ہے اور قومی کریکٹر اسی طرح بن سکتا ہے کہ ایسے ہومز (Homes) قائم کئے جائیں اور جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے وہ ان میں اپنے بچوں کو داخل کریں.عورتیں ان کی

Page 342

زریں ہدایات (برائے طلباء) 337 جلد سوم نگران ہوں.بچے چھوٹی عمر سے لے کر 7، 8 سال تک ان میں رہیں اور اس عرصہ میں ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کئے جائیں.پھر یہ جماعت دوسروں کو اپنے رنگ میں ڈھالے.یہ لڑکے اور لڑکیاں جن کے 8،7 سال تک کی عمر میں ایک جگہ تربیت پانے میں کوئی حرج نہیں قوم کے لئے بہت مفید ہو سکتے ہیں.اگر ہم ایسے ہو مز قائم کر سکیں تو اس کے ذریعہ سے اخلاق پیدا کئے جاسکتے اور ایسی تربیت ہو سکتی ہے جو ہماری جماعت کو دوسروں سے بالکل ممتاز کر دے.مگر یہ بات کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کا فی تعلیم یافتہ عورتیں نہ ہوں.اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں زنانہ کالج مردانہ کالج سے بھی زیادہ اہم ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں مردانہ کالج کی ضرورت نہیں.ضرورت ہے مگر اس کے متعلق سرکاری طور پر جو شرائط ہیں وہ ہم ابھی پورے نہیں کر سکتے.لیکن اگر ہم ان شرائط کو پورا کر سکیں تو بھی میرے نزدیک لڑکیوں کے لئے کالج ضروری ہے.کیونکہ لڑکے تو باہر بھی رہ سکتے ہیں لیکن لڑکیوں کے لئے باہر رہنا مشکل ہے.ان حالات کو مد نظر رکھ کر جیسا کہ ناظر صاحب نے بیان کیا ہے بے سروسامانی کی حالت میں کام شروع کیا جا رہا ہے.ہم امید کرتے ہیں کہ ہائی سکول کے اساتذہ نے لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق جیسے پہلے محنت کی ہے اب بھی کریں گے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ لڑکیوں کی ایف اے کلاس کے لئے مضمون جیوگرافی (Geography) مقرر کیا گیا ہے.میں نے سنا ہے عام طور پر طالب علم یہ مضمون نہیں لیتے.شاید اس لئے کہ اسے مفید نہیں سمجھا جاتا یا اس لئے کہ اس میں امتحان سخت ہوتا ہے اور لڑ کے کم پاس ہوتے ہیں.دراصل یہ ایسا علم ہے جس کی زنجیر نہیں ہوتی اور اس وجہ سے یہ مشکل سے یاد ہوتا ہے.جن علوم میں زنجیر ہوتی ہے وہ جلد یاد ہوتے ہیں کیونکہ ایک بات سے دوسری بات یاد آ جاتی ہے.مجھے معلوم ہوا ہے فلاسفی میں امتحان دینے والے زیادہ نمبر حاصل کرتے ہیں کیونکہ اس میں زنجیر چلتی | ہے.میرے خیال میں یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ اس مضمون کے لئے آدمی تیار کر لیا جائے.ہمارے قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر اس میں ماہر ہیں.سکول میں اب جو چھٹیاں ہونے والی ہیں ان میں ان سے یا کسی اور سے ضروری ضروری باتیں پڑھالی جائیں اور یہ مضمون لڑکیوں کے لئے

Page 343

زریں ہدایات (برائے طلباء) 338 جلد سوم رکھا جائے.اس میں کامیابی کی زیادہ توقع ہو سکتی ہے.چونکہ یہ ہماری پہلی کوشش ہے اس لئے ایسی راہ اختیار کرنی چاہئے جس سے کامیابی کی زیادہ توقع ہو.فلاسفی تربیت اولاد میں بھی بہت امداد دیتی ہے اس لئے یہی پڑھانی چاہئے.میں امید کرتا ہوں منتظمین اس کے لئے کوشش کریں گے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں جس میں سب احباب شامل ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے.ہمارے اسباب میں جو کمزوری ہے اسے دور کر کے اعلیٰ درجہ کا نتیجہ پیدا کرے.اور ایسے فوالد عطا کرے کہ جن سے نہ صرف عورتوں کی ذہنی ترقی ہو بلکہ آئندہ اولاد کی تربیت کے لئے بہتر سے بہتر سامان پیدا ہوں.“ (الفضل 7 جولائی 1931ء)

Page 344

Page 345

انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات 3 10 11 12 16 18

Page 346

Page 347

323 109 111 3 آداب احمدی مضامین اساتذہ نے لڑکوں میں تبلیغ کا جوش پیدا کیا ہر احمدی کے دل میں درد ہونا چاہئے کہ وہ دین کا کام کرے 265 استقلال آداب سکھا نا اُستادوں کا کام ہے 257 اخلاق سکولوں میں آداب کی کم پرواہ کی 257 کامیابی کا بڑاگر استقلال اخلاق کی اگر درستی ہو تو دین و دنیا استقلال سے کام کرو کامل ہو جاتے ہیں 69 اسلام جاتی ہے آزادی آزادی وہی مفید ہے جو حدود کے اندر ہو آگ اعلیٰ اخلاق بچپن میں ہی حاصل اسلام کل دنیا کے لئے آیا ہے 143 ہوتے ہیں 135 اچھے اخلاق کا انسان ہر جگہ عزت ثابت ہے حاصل کرتا ہے اپنے اندر ایسی آگ پیدا کرو جس ایسے اخلاق پیدا کریں جو دوسروں کے دن ہیں 144 265.264 69 اسلام کی سچائی عقل اور تجربہ سے 80 آج اسلام کے لئے کام کرنے کی چنگاریاں پھیلیں 268 سے ہمیں ممتاز کریں 123 124 اسلام امنگ سے نہیں غلط امنگ 1 ابلیس اخلاق کے بغیر کوئی مذہب قائم نہیں اخلاق کے بغیر مذہب حاصل نہیں ابلیس مختلف زبانوں میں مختلف ہو سکتا رو سکتا 133 سے روکتا ہے اسلام دو قسم کی امنگوں سے روکتا ہے 301 304 134 190 یورپین اخلاق کے استعمال سے افتراق رنگ اختیار کرتا ہے احساسات احساسات بھی حقیقت رکھتے ہیں 313 168 افتراق اور انشقاق سے کام کرنے دل پر قبضہ کرتے ہیں اخلاق سیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے 214 والے کمزور ہو جاتے ہیں اساتذہ احساسات بہت قیمتی چیز ہیں 314 اساتذہ کونظم ، تقریر کی تیاری احساسات اعمال پر اثر انداز ہوتے ہیں 328 کے لئے ہدایات صیغوں کے افسر عورتوں کی تعلیم 319 320 کا خیال رکھیں 253 193

Page 348

4 الہام الہام کے اعلیٰ مقام کا نام نبوت ہے 35 دین سیکھنے کا زمانہ بچپن ہے 108 | خاص تعلق رکھتا ہے بچپن کی تعلیم ایک آہنی شیخ ہے 292 بچوں کی تربیت کے لئے 336 تجاویز 337.336 فلاسفی تربیت اولاد میں بھی امداد دیتی ہے بچوں کو بہادر اور دلیر بنانا چاہیئے 113 ترقی تمام علوم کی ابتداء الہام کے ذریعہ بچوں میں شروع سے اعلیٰ اخلاق 188 پیدا کرنے کی کوشش کی جائے ہوئی انڈسٹری نوجوانوں کو انڈسٹری کی طرف بہت احمدی بچوں میں قوت اور بہادری 57 114 ترقی بند ہوگئی ہو 338 دنیا کا کوئی کام نہیں جس میں 139 ترقی کے لئے دوسری چیز تعاون 253 توجہ کرنی چاہئے 176 انعام انعام لینے کے آداب 224 پیدا کرنی چاہئے بخل بخل کیسے پیدا ہوتا ہے بحمل کی اقسام 52 52 انگریز انگریزوں کی ہندوستانیوں کے مقابلہ میں خوبی 55 56 | پرده تعطیل انگریزوں کی چھوٹی سی قوم دنیا پر پر وہ کیا ہے 283 284 تعطیل کا مطلب کام بند کرنا 203 مقابلہ انسانی ترقی کے لئے نہایت ضروری ہے 253 تعددازدواج تعدد ازدواج کی وضاحت 162 163 حکومت کر رہی ہے 114 تقریر ایڈریس اناڑی بچوں کو تقر بر لکھ کر رٹائی تبلیغ ایڈریس کی خامیاں 103 تا 105 تبلیغ احمدیت کے آسان طریق 1 تا 18 جائے 3230319 تبلیغ متوائر کرنی چاہئے تبلیغ کی طرف جماعت توجہ 249 تکبر انسان کو جہالت میں رکھتا کرے 93 تربیت بادشاہ بادشاہ کا علاج کا طریق بچپن کی عمر میں خوشیاں زیادہ منائی آسید نسل کی تربیت ضروری ہے 171 تمسخر اور بی ایمان کو خراب کرتی جاتی ہیں 49 وه تربیت اولاد کا سوال عورتوں سے ہے 93 324-323 تمسخر تمسخر جائز نہیں 218 219

Page 349

5 تنزل تنزل کا پہلا سبب تیرا کی تلاوت ایک بچے کی حلاوت کی تعریف کی تربیت پر ہے 174 دین جماعت کے لیے ضروری ہے کہ دین کا بہت بڑا تعلق جسم کے ساتھ 323 ہے 318 319 صحت کا خیال رکھے 138 جھوٹ جھوٹ بول کر سزا سے بچنے کی رخصت کوشش نہیں کرنی چاہئے 58 رخصت کے معنی اجازت 199 تیرا کی ضروری ہنر ہے 114 115 رخصت اور تعطیل میں فرق یورپ کے لوگ عام معاملات میں 203 203 ٹ جھوٹ نہیں بولتے 58 | رسوم ٹورنامنٹ کی مقدم غرض 199 چ انبیاء ان رسوم کو مٹاتے ہیں جو لوگوں ٹورنامنٹ کی غرض جسمانی صحت 222 کے لئے قید ہوں 120 چوری ٹورنامنٹ کی ایک غرض، تعاون چوری کی عادت کس طرح پڑتی روایات کی روح پیدا کرنا 256 قومی روایات کا قائم رکھنا ضروری 53 ہے ٹورنامنٹ جیتنے والوں کے لیے ہوتا ہے 141 ہدایت 257 ج ماتحت ہوتا ہے چیونٹی چیونٹیوں میں ہر کام انتظام کے 92 ہو سکتی جب تک اخلاق فاضلہ روحانیت روحانیت میں ترقی حاصل نہیں جامعہ احمدیہ جامعہ احمدیہ میں زبانوں کی اعلیٰ تعلیم حلال و حرام نہ ہوں روحانی ترقیات کے لئے جسمانی 133 دینی چاہئے 275 جامعہ احمدیہ کے طلباء کی ذمہ داریاں 2790277 حلال و حرام کے اصول 127 ، 128 صحت کا خیال ضروری ہے ہمارے اعمال میں ریا نہیں ہونی 222 رياء ورد جماعت چاہئے 91.90 ہمارے لیے ضروری ہے کہ درد جماعت کی ترقی کا انحصار نو جوانوں اور سوز پیدا کریں س 263

Page 350

6 چ اور آپس میں مصافحہ کرتے سچ بولنے کی عادت کم ہوگئی ہے.82 صحت 224 علم کی بنید وخدا تعالیٰ نے خود رکھی 189 بغیر کسی موقع کے سچی بات کا اظہار صحت کا تعلق روحانیت سے بہت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ علم سیکھے سوع اخلاق ہے سکول 83 بڑا ہے ہائی سکول اور مدرسہ احمد یہ دو بازو 200 | سور سود اپنی ذات میں حرام ہے سیاسیات 285 b طلباء طلباء خدا کی محبت اپنے دلوں میں گاڑدیں 199 اور پھیلائے 46 191 علم سے مایوس ہونا ابلیس بننا ہے 191 علم دو ہیں شریعت نے علم کا نام اللہ کا رنگ رکھا ہے.علوم 235 306 جماعت کو سیاسیات سے الگ رکھنے کی وجہ ش شریف 79 طلباء کو تین باتیں اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیں 82 طلباء باہر جا کر اچھا نمونہ دکھائیں 244 طلباء شریعت کے احکام پر عمل کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں طلباء کے سوالات کے شریف انسان اچھی باتوں کو یاد رکھتے ہیں 77 جوابات 259 286t 281 احمدی طلباء کو اُردو زبان پر عبور کی تلقین 327.315 صادق صادق وہ ہے جس کے قول اور فعل یکساں ہوں عادات 246 سب بُری عادات بچپن میں پڑتی صحابه ہیں 54 حضور کے صحابہ اور اصحاب موسیٰ عجب کا فرق 10.9 دینی علوم کے لئے بہت سی دینی کتب کا مطالعہ ضروری دینی علوم کے لئے لمبی محنت درکار ہے علوم وفنون سے مراد علوم عالیہ 85 85 ہوتے ہیں 235 عورت ایک عورت کی درد ناک موت 181 جب تک عورتیں ہمارے کاموں میں شریک نہ ہوں ہم کامیاب نہیں ہو سکتے غ غیرت 336 غیرت انسان سے بڑے بڑے کام صحابہ خوشی کے موقع پر حضور ﷺ سے عجب اور بلند حوصلگی میں فرق 214 214 کراتی ہے 62

Page 351

141 گ گریکا گنگے سے تلوار چلانے کا فن سیکھا 198-197 7 " 53.51 50 41<17<8<3<2 64062 121.115.112.111.61.59 253.215.211.210.126 65.64 309-308-303 جا سکتا ہے ل لٹریچر اُردو لٹر پچر کا مطالعہ کیا جائے 337 لڑکیاں ایک عالم دین کی غیرت کا واقعہ حضرت مسیح موعود کے والد کی غیرت ف فتح دنیا کی فتح کے لئے سوز و گداز اور کالج درد کی ضرورت ہوتی ہے 262 زنانہ کالج مردانہ کالج سے بھی اہم فٹ بال ہے فٹ بال اور کرکٹ کی طرف زیادہ توجہ کی جائے فرض منصبی احمدی لڑکیوں نے بڑی کثرت سے 141 اپنا کام آپ کرنے کی مشق کرد 216 مولوی کا امتحان پاس کیا 335 336 فرض منصبی کی ادائیگی کا خیال رکھو 58 کامیابی ق قانون ہمارا کام دلوں کو فتح کرنا 262 | لطیفه کامیابی کے لئے کوشش شرط ہے 144 مایوسی 320-221 54 233 136 قانون کی پابندی کرو 135 - انسان دینی کتب بار بار پڑھے 87 مایوسی کی عادت بچپن میں پڑتی اللہ کے قوانین پر چلنے سے تو نتائج نکلتے ہیں قاعده کھیلیں 272 | کھیلوں میں اخلاق کی بنیاد رکھی جاتی ہے ہے مبلغین 54 مبلغین کا کام ہے کہ اپنی آواز تمام کاموں کے لئے قاعدہ ہے کہ کھیلوں سے اخلاق ، صبر، استقلال کے ساتھ احساس پیدا کریں مقدور بھر کوشش کرد 273 مقابلہ کی طاقت پیدا ہوتی ہے 139 محبت الہی تمام کاموں کے لئے خدا نے قواعد کھیلیں کام کرنے کی مشق کراتی محبت الہی کے بغیر کوئی عمل، مقرر کئے ہیں 271 ہیں 139 عمل صالح نہیں

Page 352

8 مرکزی ہے 99 طاقتور بناتی ہیں مدرسہ احمدیہ کی طرف جماعت کی مظلوم توجہ نہیں بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرائیں مخالفت مرکز سے تعلق مضبوط رکھو 76 نظارت دعوت و تبلیغ مخالفت کی ہرگز پرواہ نہ کرو 213 مرکز کی اہمیت ہر شعبہ میں تسلیم کی نظارت دعوت و تبلیغ سارے ملک جاتی ہے مدرسہ احمدیہ مدرسہ احمدیہ کی ضرورت 97 تا 100 مشکلات 104 میں تبلیغ کا انتظام کرے نظام مدرسہ احمد یہ عملی جدو جہد کا نقطہ اگر خدا پر بھروسہ ہو تو مشکلات نظام کا کامل ہونا بھی اس کی صفات 174 میں سے ہے نماز 101 | مظلوم کی مدد کا واقعہ 218 نماز کا پابند خواہ کتنا ہی بگڑا ہو اس کی مقاصد 101 102 قوم کے اعلیٰ مقاصد میں تین بخشیں 136 نوکر 326 271 اصلاح ہو جائے گی 133 مدرسہ احمدیہ کی تاریخ 195 تا 198 مومن نوکروں سے کام لینے کی عادت مدرسہ احمدیہ کا قدم ترقی کی طرف مومن سوائے خدا کے کسی سے نہیں مت ڈالو 21 پڑھ رہا ہے 196 ورتا 20 مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے مهمان نوازی مدرسہ ہائی کی تلاوت مثالی ہے 312 والدین مہمان نوازی کے بارہ میں ایک مدرسہ تعلیم الاسلام مدرسہ تعلیم الاسلام سکول کے اجراء والدین کی ہمیشہ عزت رکھو 220 ہدایت 329 ورزش کا مقصد 292 ورزش کا جاری رکھنا جماعت کی دماغی ی مذہب 139 130 132 نبیوں کے کلام تکلف سے عاری مذہب اخلاق کے بعد حاصل ہوتا ہے ہر مذہب کے بانی میں خوبیاں مرکز 134 ہوتے ہیں نصائح 332 جامع نصائح و جسمانی ترقی کے لئے ضروری ہے 263 وقت بہتر کاموں میں وقت لگاؤ اپنے اوقات کو صحیح طور پر خرچ 81، 221 ، 246 251 کرو

Page 353

9 ہاکی ہاکی سے سینہ کمزور ہو جاتا ہے 141 ہدایات (طلباء کو ہدایات) اخلاقی حالت کی فکر کرو غلطی ہو تو قبول کرو 57 چاہئے ہر معاملہ میں سچ بولو 58 مضمون اور تقریروں کے لئے 58 ہدایات اطاعت تکلیف اٹھا کر بھی کرو 59 ہندو 60 105-104 جو عہد کر وا سے جان سے نبھاؤ 59 ہندو اپنی قوم کو فائدہ پہنچاتے ہیں 213 احمدی بچوں کو خدا کا شکر گزار ہونا

Page 354

10 الفاتحة آیات قرآنیہ إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ (45) 36 وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا (70) 144 فاطر ملك يَوْمِ الدِّينِ (4) 271 وَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ (117) 38 إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِ مَا قُلْتُ لَهُمُ إِلَّا (118) 38 - إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ (29) 306 (5) 212 الانعام الرحمن اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانِ 25 الصف 186 (61) الاعراف (163) 299 البقرة (6) لَا تَقُولُوا رَاعِنَا (105) تِلْكَ الرُّسُلُ (254) عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا يبَنِي آدَمَ إِمَّا (36) 158 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ (10) (32) 188 الانفال الحاقة 144 أبى وَاسْتَكْبَرَ (35) 189 مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ (18) 272 وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا (4745) 40 84 159 التوبة الجن وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ (122) 273 ) علِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ آل عمران هود (28-27) 36.35 قُلْ إِنْ كُنتُم تُحِبُّونَ الله عَطَاء غَيْرَ مَجْنُودَ (109) 31 التكاثر (32) طه الهكُمُ التَّكَاثُرُ (32) 298 يَعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (56) 38 | وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي الكوثر وَلْتَكُن مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ (105) (28) 273 317 إِنَّا أَعْطَيْكَ الْكَوْثَر (2) 299 النور فَصَلِّ لِرَبِّكَ (3) 299 المائدة فَاذْهَبُ أَنْتَ وَرَبُّكَ (25) إِلَّا مَا ظَهَرَ (32) 283 العنكبوت 11.10

Page 355

11 احادیث میں قیامت کے دن امت کی ہے 219 أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ 231 کثرت پر فخر کروں گا 17 اگر کسی نے دوزخی دیکھنا ہو 243 و دوزخ پر ایک راستہ ہو گا 51 شادی سے قبل شکل دیکھنا جائز 37 سب سے بڑی نیکی ماں باپ کی ہے خدمت أَنَا سَيِّدُ وُلْدِادَمَ ل لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى نہیں لَّمْ يَعْرُفَ اِمَامَ زَمَائِهِ 191 ہمارے ہاں گوہ کھانے کا رواج 285-284 109 مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں 120 میں سوتے ہوئے بھی جاگتا اپنے بھائی کی مددکر 218 ہوں حديث المعنى جنت ماں کے قدموں کے نیچے 291.290 307

Page 356

236 165 252 237-236 227 24 263 236 151 155 171.8 138 333 12 اسماء 33.9 191 190 188 157 آدم علیہ السلام حضرت آغا خان سر f اقبال علامه اکبر (بادشاہ) امیر علی سید اوڈوائر 236 32 157 155.151 ج جابر.حضرت جانسن جمال الدین افغانی بار 32 چ ابراہیم علیہ السلام حضرت بدھ مہاتما 332 چراغ الدین مولوی ابن ابی لیلی.اُن کی دانائی پرک 300 کا واقعہ 209 210 برہان الدین جہلمی.حضرت حاتم ابن عربی ابوالکلام.مولوی ابوالہاشم چودھری 159 172 332 ابوبکر حضرت ،151،106،87 ، 278.210.153 ابوحنیفہ.حضرت امام.اُن کا مولوی بقراط بہاء اللہ پیکفیلڈ 195 | حریری حشمت اللہ ڈاکٹر 300 41 300 خ خالد.حضرت واٹر ایک واقعہ 206،93 | پٹ ابو عبیدہ.حضرت 151 بطرس 300 12.11 ڈارون ز اسامہ بن زید.حضرت 209 210 اسماعیل شہید.حضرت.اُن کی تقی الدین 31 ذوالفقار علی خان تیمور 229 رام چندرا حضرت 114 300 بهادری افلاطون

Page 357

13 173.146.131.123.106.1660163 159 روم مولانا +205-195-192-191-179 280.256.251.250.214 115 *285-276273-268-265 325 323-316-286 195-115 عبد السلام پسر خلیفہ اول عبدالکریم سیالکوٹی.حضرت مولوی ریڈنگ لارڈ 154 155 عبد الرحمان مولوی ز 56-50 106 عبد اللہ بن زبیر.حضرت 284 آپ کے رویا و کشوف الہامات 28،4، 209 عبد المغنی مولوی 45043 115.40.39 5 زار زبیر حضرت زید سمر سید سقراط سکاٹ سکندر سینگل ش 318.34 300 252 229-24 143 237 آپ کے نبی بننے میں حضور کی عبدالواحد ماسٹر 323 | بعثت کا مقصد عبد مغنی عثمان.حضرت 106 | عزت ہے 37 علی حضرت 108 ، 210،208 آپ سیر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے 140 علی محمد ماسٹر عمر حضرت 111 آپ کا مطالعہ کے لیے وقت نکالنا 197 * 209.163.106 بیان کرده واقعه 333،329،284،278،210 تعلیم الاسلام سکول کا جاری کرنا 220 292 68.67 آپ کے عہد کے دو واقعات 87 شریف احمد حضرت میاں 257 آپ پر ایک آیت کا اثر.<9<7<5<4<3 عیسی.حضرت <47<39.38<37.1613.11 شکر 315-300-252 b 106 طلحہ حضرت ع عائشہ حضرت 284،201،140 عباس - حضرت عبد الباری مولوی 232-231 156 آپ نے اردو نثر کی بنیاد رکھی 319،318 غلام یاسین قاری 113 ق 137،97،76، 300،250 | قیصر حیات مسیح کے عقیدہ میں خدا کی اور رسول کریم کی ہتک ہے 15 کارڈ نیل غ کرشن.حضرت غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا 1 ، 3 ،6، 7، کمال الدین خواجہ 97،89،88،69،41،40 تا 100 ، کولمبس عبدالحکیم.خلیفہ.پروفیسر 151 تا 161، 50 94 333 123 94.93

Page 358

14 آپ کے اعمال اور طریق ہمارے مسیح موعود کے بارہ میں روایات 115 لئے سنت 224 بہائی عورت سے ملاقات 122 131 جنگ حنین میں حضور کی آواز کا دکن کے رئیس کو نماز کی تلقین 125 گاندھی گلیڈسٹون 300 | اثر حضور کی شجاعت بدر کے موقع پر نصرت 2330229 231 بچپن میں لاہور کا سفر 272 نماز کے بارہ میں تجربہ 128 133 مبارک علی ماسٹر 122 ، 133 آپ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع 300 سوالوں کے جوابات 149 تا 166 صا الله محمد رسول اللہ علی.حضرت محمد اسلم قاضی ، خاتم الانبياء3 14،129،4 تا 18 محمدحسین بٹالوی 98-87-65-59-42<40×37.36 <136-129-127-120-109.165.160 157.151.137 <209-208-205-201-191 <250-243-229.228.219 337 | حج کا ایک واقعہ 146 32 آپ کی غیرت ایمانی 162،161 محمد صادق.حضرت مفتی 20 تا 24 آپ کا یورپین اخلاق سے متاثر 107.28026 ہوتا محمد ظفر اللہ خان.حضرت سفر یورپ کے تجربات چودھری سر 143 168 168 <172-171.169 272،270 تا278،274، محمد قاسم نانوتوی 159 یورپین کے اخلاق کے 283 تا285 290 291 ، 307 ، محمد علی مولوی 158 159 واقعات 332،329 | محمد یوسف مولوی 226 | اخبار سٹار کو انٹرویو قرب الہی کے حصول کے لئے آپ کی محمود احمد حضرت مرزا.پیروی ضروری ہے آپ تمام انبیاء کے سردار بچپن میں تیشہ سے زخمی 5 مصلح موعود 293،100 | ہونا آپ کے رویا و کشوف 47،46، بیماریوں میں کام 169.168 169 174-173 174 سب سے بڑے اور پہلے شفیع آپ کا بلند ترین مقام آپ کو سب انبیاء پر فضیلت ہے آیت خاتم النبین آپ کھیل میں شامل ہو جاتے آپ جسمانی ورزش میں حصہ لیتے آپ کھانا پکانے میں حصہ لیتے 9 9 13.12 13 13 116 140،88، 200، 222 223، سفر یورپ کے دوران بیمار ہونا 174 آپ کی پہلی تقریر 325 یورپ کے بارہ میں 20 | تجربات 1760174 سترہ برس میں تشحیذ نکالنا 60 ہائی سکول سے طبیعی لگاؤ 179 180 ، بچوں کو مدرسہ احمدیہ میں داخل 182 139 140 کرنے کا پروگرام 101 الفضل میں آپ کی سوانح 182 217 آپ کی محنت شاقہ 199

Page 359

15 مسیح موعود کی وفات کے وقت مریم علیہا السلام حضرت 47 نورالدین حضرت مولوی 214 مصباح الدین آپ کا انگلستان جانا 214 215 | ملٹن آپ کا گھوڑے رکھنا 230 منصور (صوفی ولی) 172 252 268 305-303.115.8 216 305 خلیفہ اول آپ کا ایک واقعہ آپ کے پڑھانے کا طریق آپ کی روٹی پکانے کی کوشش 317 55 34 27 320 208-207 آپ کا مصر جانا 238 رشتہ داروں کو تبلیغ منور احمد حضرت مرزا ( ابن حضرت نیلین 250 مصلح موعود ) 113 دوران تقریر نصرت الہی بچپن میں آواز 271 319 موسیٰ علیہ السلام - حضرت 10،9 ، وقار الملک تہجد کے وقت 3-3 گھنٹے تک.157.122.40.37.18.17 317.300-272 تلاوت کرنا 319 بچپن میں شیخ یعقوب علی عرفانی کی لکھائی ہوئی تقریر کرنا 320 میکالے 300 | ہنس راج ن ی بچوں کی تبلیغ پر خوشی کا اظہار 323 نپولین 212،56، 227 229 ، یعقوب علی شیخ حضرت تا 231 232، 300 ، 301 یوسف علیہ السلام حضرت 192 14 مہاتما بدھ کے حالات پڑھ کر آنسو نکل آتا 332 نظام الدین مرزا محمود احمد شیخ 226 238 239 نوح علیہ السلام.حضرت

Page 360

16 مقامات آ بنگال 332.177 آئرلینڈ 150 بھینی 233 ڈلہوزی 280 آسٹریا 67 پروٹ 174 آسٹریلیا 190 پنجاب اٹلی 67 192:177:26.2<1.335.234 افریقہ 144 | پیرس افغانستان امرتسر 237.154 326.46 روس روم س 32 سائپرس چین 130.56.50 94.56 مکی 156.57.56 امریکہ ،107،28 ،126 129 ، ج سرگودها 67 94.93 161 177 <279-190-184-156-144 331 جاپان 297:130 جرمنی 6750 122 152 ، شام 174،151،67، 234، 236 126 155-129 151 34 236 چ شکاگو چین 331،69 | شمله حیدر آباد دکن 1 عراق علی گڑھ 125 238،65 فرانس 212،154،86،67، 228-227 دہلی <154.67.50-20 انگلستان <252.234.215.184.175 <290.254 151 190-144 64 64.63 57 297.172 ایران ایشیا بٹالہ بغداد بلقان سمیتی

Page 361

کوفه کھارا قادیان 26 65،64،62، 71 ، <126-118.106.85.78.72 17 210.209 233 | منگل 233 128، 133، 138، 188،179، گورداسپور 307،55 308 ہالینڈ *259.258.255.245.233 264، 270 ، 292، 294 ، 312 ، لائل پور +336-335-328-326-324 قادیان اُم القریٰ ہے ل 177 211.210.58.55.27.25.154.151.147.146.94 ہندوستان $191.190.177.174.162.128.118.82<46<32/x <238.236 234 212.192 245.167.154-148-147 192 <297 <285 <267.239 326-309-295-281-257 قادیان کی ابتدائی حالت 275 335 276 | لدھیان قایان میں سو فیصد احمدی لڑکیاں لو 32 156 ی پڑھی لکھی ہیں 282 | لندن 143،32، 169،149 یورپ.56.55.27.26 قطنطنیہ 157.67 <69.68.67-63-60058 قصور 156 ماریشس 279 <120.112.110.94091 مادر پیشه کابل 152 مراد آباد 171.168.156-144-131|290.10 <190-177-175-174-172|60 کپورتھلہ 208-195-151.13764 264-236-216-215-214 کراچی 297 233 تا 238 یورپ میں ہارنے والے جیتنے کلکتہ 297 مم 10 ، 163 ، 229 230 والوں کو مبارک باد دیتے ہیں 255 کورسیکا 212 ملتان 148.127

Page 362

322 197 198 160 | مصباح مقامات حریری ہزار داستان زمانه 60 169 305 18 کتابیات الفضل (اخبار) 131 ،182 حقیقۃ الوحی ریویو آف ریلیجنز س سٹار (اخبار) ف فتوح الغیب 197 227.86.4.3 305.139 60 37.36.4.3 الف لیلہ بائبل بخاری شد تورات

Page 362