Zareen Hidayaat 2

Zareen Hidayaat 2

زرّیں ہدایات (جلد دوم برائے مبلغین۔1931ء تا 1956ء)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

زریں ہدایات (برائے مبلغین) +1956 1931 جلد دوم از ا ا ا ا ا ا ا ا ا را در این مورد اما اصلح الموعود رزا بشیر اله خلیفہ اسیح الثانی

Page 2

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) جلد دوم از حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ Zarreen Hidayaat (Baraei Muhalligheen) Vol-2 (A Selection of essays and lectures delivered between 1931 and 1956) By Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih II Present Urdu Edition: UK 2020 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS United Kingdom Printed and bound by: No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photography, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-215-5 (Vol.1-4 Set)

Page 3

زریں ہدایات (برائے مبلغین) فهرست عناوین جلد دوم نمبر شمار عنوان 1 مبلغین لندن اور دمشق کے اعزاز میں دعوت چائے تبلیغ احمدیت کے متعلق ضروری ہدایات 3 مبلغین جماعت احمدیہ کو ضروری ہدایات تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے قیام کی اغراض محترم خان صاحب منشی برکت علی صاحب کی الوداعی دعوت 6 غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے 8 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں جو نعمتیں ملی ہیں ان کی عظمت کو پہچا نو احمدیوں کواردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنی چاہئیں 10 حضرت میر مہدی حسین صاحب کا سفر ایران اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی زرین ہدایات 11 نوجوانوں کو کام کرنے کی تلقین اور لندن میں تبلیغ اسلام 12 احمدی نوجوانوں کو نصائح 13 مبلغین کو نہایت اہم ہدایات صفحہ 1 19 31 38 46 50 60 74 لله خیر 82 91 93 99 108

Page 4

زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد دوم نمبر شمار عنوان 14 (1) خوشی اور رنج کے جذبات ایک حد کے اندر محد و در کھو (2) انواع و اقسام کے کاموں میں اپنے اوقات صرف کرو (3) احمدی نقطۂ نگاہ سے اہم مسائل کو حل کرو 15 مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی اہمیت اور قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ و تفسیر کی ضرورت صفحه 117 130 16 احمدیت کا حقیقی مقصد سمجھو اور مغربیت کو کچل کر اسلامی تعلیم کا دوبارہ احیاء کرد 147 17 مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے والے احمدی مبلغین کو نہایت ضروری اور اہم ہدایات 18 دنیا کی تمام زبانیں سیکھو اور خدمت اسلام میں بڑی سے بڑی قربانی کو نیچ سمجھو 19 مدرسہ احمدیہ کو نہایت ضروری نصیحت 20 احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب 21 مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کی اہمیت اور مبلغین اسلام کو نہایت ضروری اور اہم نصائح 22 جماعت احمدیہ کا ہر فر دزیادہ سے زیادہ سادہ زندگی اختیار کرے.نوجوان دیگر ممالک میں جانے والے مبلغین کی ایک لمبی اور کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بنا دیں 23 اسلام نے فطرت کے ہر تقاضا کا لحاظ رکھا ہے اور اسے نہایت مفید رنگ میں پورا کیا ہے.شکار کرنے کا جذبہ بھی انسانی فطرت میں شامل ہے.اسلام نے اس جذ بہ کو بھی نہایت اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا ہے.اللہ تعالیٰ کو وہ دل پسند ہیں جو سچائی اور ہدایت کے تیر سے شکار کئے گئے ہوں 157 202 211 218 238 251 257

Page 5

زریں ہدایات (برائے مبلغین) نمبر شمار عنوان جلد دوم صفحه 24 افریقہ کی سرزمین کا اسلام کی ترقی کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے.ہمارا فرض ہے کہ وہاں پر جلد سے جلد خدائے واحد کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں 266 25 ایک واقف زندگی مبلغ کو ہدایات 26 ولایت جانے والے واقفین کو اہم ہدایات 273 278 27 مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی 28 مکرم مولوی نذیر احمد مبشر صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ کے اعزاز میں دعوت 286 29 مکرم چودھری منیر احمد صاحب واقف زندگی کا سفر انگلستان اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایات 30 علمائے جماعت اور طلبائے دینیات سے خطاب 31 تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے قیام و استحکام میں ایک نوجوان کا تاریخی کردار 32 موت آدمیوں کے مرنے کا نام نہیں بلکہ موت خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے دنیا میں قائم نہ ہونے کا نام ہے.جماعت احمدیہ کے مبلغین کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نئی دنیا کا آدم بنایا ہے 33 جامعتہ المبشرین کی سب سے پہلی فارغ التحصیل کلاس کے اعزاز میں الوداعی یارٹی 34 مبلغین مغربی افریقہ سے روح پرور خطاب.غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق بعض اہم اور ضروری ہدایات 35 کوشش کرو کہ دین کی خاطر وطنوں کو خیر باد کہنے اور روحانی نو آبادیاں قائم کرنے کا جذبہ تمہارے اندر نسلاً بعد نسل زندہ رہے 289 292 317 328 344 355 367

Page 6

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 1 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مبلغین لندن اور دمشق کے اعزاز میں دعوت چائے جلد دوم 23 جولائی 1931 ء طلباء مدرسہ احمدیہ نے مکرم مولوی محمد یار صاحب مولوی فاضل مبلغ انگلستان اور مکرم مولوی اللہ دتا صاحب مولوی فاضل مبلغ دمشق کو دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شمولیت اختیار فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے اُس وقت سے ہی اس نے مجھے اس بات کے سمجھنے کی توفیق دی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں عظیم الشان تغیر کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ قدرتی طور پر انسان کو اپنے عزیزوں اور بزرگوں کی عزت کی بیچ ہوتی ہے اور وہ پسند کرتا ہے کہ اس کے عزیز اور رشتہ دار معزز ہوں.اس میں ایک حد تک خود غرضی ہوتی ہے.انسان اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی عزت اور بڑائی کی خواہش خود غرضی کی وجہ سے تو نہیں کرتا مگر اس میں یہ بات مخفی ضرور ہوتی ہے کہ جب عزیزوں اور رشتہ داروں کی عزت بڑھے گی تو اس کی بھی بڑھے گی.لیکن میں نے اپنے نفس کو اچھی طرح ٹولا.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے مشن کے ساتھ اس لحاظ سے کبھی تعلق نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے آپ کا بیٹا بنایا اور ان کو میرا باپ بنایا.بلکہ یہ تعلق بچپن کے زمانہ سے ہی خالص طور پر اس امر پر مینی رہا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے اور اس وجہ سے ہوش سنبھالنے کے زمانہ سے ہی میں نے محسوس کیا کہ آپ کی بعثت لغو اور بے فائدہ نہیں بلکہ عظیم الشان تغیرات کا موجب ہے.

Page 7

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 2 جلد دوم ممکن ہے آپ میں سے بعض لوگ خیال کریں کہ جب ایک شخص ایک جماعت میں شامل ہوتا ہے تو پھر وہ کس طرح خیال کر سکتا ہے کہ اس جماعت کے بانی کی بعثت لغو اور بے فائدہ ہوسکتی ہے.اس میں شبہ نہیں کہ الفاظ میں کوئی ایسا شخص یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اگر بانی سلسلہ کی بعثت کو کوئی لغو کہتا ہے تو پھر اس پر ایمان نہیں لا سکتا.لیکن انسانی قلب کی ظاہری کی حالت کے علاوہ ایک باطنی حالت بھی ہوتی ہے اور باطنی لحاظ سے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بانی سلسلہ کی بعثت کو لغو سمجھ لیتے ہیں.وہ اس کے حقیقی منشا کے خلاف چلتے ہیں، اس کے کام کی باریکیوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اس حقیقت کو پیش نظر نہیں رکھتے جو اس کے تمام کاموں میں پائی جاتی ہے.عام مسلمانوں سے اگر پوچھو کہ کیا خدا تعالیٰ نے دنیا لغو پیدا کی ہے؟ تو ہر مسلمان کہلانے والا کہے گا نہیں خدا نے کوئی چیز لغو نہیں پیدا کی.مگر یہ کہنے والوں کی زندگیاں اور ان کا طریق عمل ثابت کرے گا کہ وہ دنیا کو لغو سمجھتے ہیں.وہ کہنے کو تو کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کا ذرہ ذرہ کام کا پیدا کیا ہے مگر ذرہ کا جو کام ہے وہ معلوم نہیں کریں گے.اس کے مقابلہ میں یورپین لوگوں کو دیکھو وہ یہ تو نہ کہیں گے کہ دنیا کو خدا نے پیدا کیا اور خدا کی ہستی کے قائل نہ ہوں گے مگر یہ کہیں گے کہ دنیا کا ذرہ ذرہ مفید اور فائدہ بخش ہے.اور پھر ہر چیز کے فوائد معلوم کرنے میں لگے ہوئے ہیں.کہیں روشنی کے متعلق تحقیقات ہو رہی ہے.کہیں ستاروں کے فوائد اور اثرات معلوم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.کہیں ہوا اور پانی کے خواص معلوم کئے جارہے ہیں.غرض ان کا عمل بتاتا ہے کہ دنیا کی کسی چیز کو لغو نہیں سمجھتے.لیکن وہ مسلمان جو منہ سے کہتے ہیں کہ دنیا کو خدا نے لغو نہیں بنایا ان کا عمل بتاتا ہے کہ وہ ایک ایک ذرہ کو غو سمجھتے ہیں.اسی طرح کئی احمدی ایسے ہو سکتے ہیں جو منہ سے تو یہ نہ کہیں بلکہ خیال میں بھی نہ لائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت لغو اور بے فائدہ ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت سے جو اثر وہ حاصل کرتے ہیں وہ یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ آپ کی بعثت ضروری نہیں سمجھتے.بعض لوگ کہتے ہیں آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ ثابت کر دیا یہی آپ کا کام تھا جو ختم

Page 8

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 3 جلد دوم ہو گیا حالانکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو انسان آتے ہیں وہ کسی ایک بات کے ثابت کرنے کے لئے نہیں آیا کرتے بلکہ جس چیز کو بھی وہ چھوتے ہیں اس کا ذرہ ذرہ بدل جاتا ہے اور اس طرح ایک انقلاب آ جاتا ہے.دیکھو جب کسی شہر میں بادشاہ آتا ہے تو اس کی ساری گلیوں اور ساری دکانوں کو سجایا جاتا ہے.صرف وہی گلیاں اور وہی دکانیں نہیں سجائی جاتیں جن کے پاس سے بادشاہ نے گزرنا ہوتا ہے بلکہ ہر دکان اور ہر گلی سجائی جاتی ہے.اگر دنیا کے بادشاہ کے لئے شہر کا ہر کونہ اور ہر دکان صاف کی جاتی ہے تو کیا ممکن ہے خدا کسی قلب پر نازل ہو اور اس کے متعلق کہا جائے یہ اتنے ہی کام کے لئے آیا ہے؟ اگر فرض بھی کر لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت وفات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے تھی تو بھی جب خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا تو ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ آپ پر اترتا اور آپ کے کسی کونہ کو بند رکھتا.جب کسی پر خدا نازل ہوتا ہے تو اسے پورا نور اور پورا عرفان عطا کرتا ہے.جس طرح بادشاہ کے آنے کے موقع پر وہ گلیاں بھی جن میں سے اس کا گزرنا ضروری نہیں ہوتا اور وہ دکانیں بھی جہاں وہ نہیں ٹھہرتا سجائی جاتی ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے پیارے بندہ کا کونہ کو نہ سجاتا ہے.پس اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی کام تھا کہ وفات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ثابت کریں تو بھی ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ آپ کا ہر ایک کو نہ نور سے بھر دیتا.لیکن یہ بات غلط ہے اور بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف وفات مسیح کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے یا چند اور مسئلوں کے لئے مبعوث کئے گئے.کسی ایک مسئلہ کے لئے مامور نہیں آیا کرتے.اللہ تعالیٰ جب کسی مامور کو بھیجتا ہے تو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے اور ہدایت تقسیم کے قابل چیز نہیں.انسان تقسیم ہوتے ہیں مگر ہدایت تقـ نہیں ہوتی.یہی وجہ ہے کہ نو ر اور ہدایت چاہے انسان مکمل نہ ہوں تو بھی مکمل ہی دی جاتی ہے.تفصیلات زمانہ کے لئے چھوڑ دی جاتی ہیں.لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ روحانی ترقیات کے لئے کسی چیز کی ضرورت ہو اور وہ چھوڑ دی جائے.مثلام حضرت مسیح ناصری جب آئے

Page 9

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 4 جلد دوم تو ان کی بڑی غرض یہ تھی کہ بنی اسرائیل میں نرمی پیدا کریں مگر یہ نہیں کہ انہیں اسی حصہ کے متعلق تعلیم دی گئی اور باقی علوم و عرفان انہیں حاصل نہ تھے.اگر حاصل نہ تھے تو ہدایت کے کامل درجہ پر وہ کس طرح پہنچ سکتے تھے.حقیقت یہی ہے کہ کوئی ہادی ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر پہلو سے کامل نہ ہو.بندوں کے بنائے ہوئے ہادی اور راہنما ناقص بھی ہو سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ جن کو ہادی بنا کر بھیجتا ہے انہیں کامل ہی بنا کر بھیجتا اور تمام معارف اور حقائق ان پر کھولتا ہے.پس باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایمانیات میں اور آسمانی علوم کے ہر حصہ میں خدا تعالیٰ نے کامل اور مکمل وجود بنا کر بھیجا اور باوجود اس کے کہ اپنی معرفت اور اپنی صفات کا کامل علم بخشا کئی لوگ یہی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وفات مسیح کا مسئلہ ثابت کرنے کے لئے یا اور بعض مسائل کا ثبوت دینے کے لئے بھیجا ہے.لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو پڑھتے ہیں تو ان کے مد نظر صرف یہ بات ہوتی ہے کہ ختم نبوت یا وفات مسیح پر آپ نے کیا دلائل دیئے اور ان کی نظر ان مسائل کے متعلق دلائل معلوم کرنے تک ہی محدود رہتی ہے.وہ آپ کی بعثت کی اصل غرض کو نہیں پہچان سکتے.مجھے یاد ہے جب مولوی برہان الدین صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات پر مدرسہ احمدیہ کے قائم کرنے کا سوال پیدا ہوا تو بعض نے کہا الگ مدرسہ قائم کرنا چاہئے، بعض نے کہا ہائی سکول کو توڑ کر دینیات کا مدرسہ بنا دیا جائے.بعض نے یہ بھی کہا که کسی مدرسہ کی ضرورت ہی نہیں.سالانہ جلسہ کے ایام تھے یہ پراپیگنڈا اس قدر زور سے کیا گیا کہ قادیان میدانِ جنگ بنا ہوا تھا.میں ان لوگوں میں سے تھا جو یہ کہتے تھے کہ مدرسہ احمد یہ الگ بنانا چاہئے اور ہائی سکول کو نہ توڑا جائے.صرف ایک وجود اور تھا جو اس خیال کا تھا اور وہ میرے استاد حضرت خلیفہ اول تھے.آپ کی بھی یہی رائے تھی کہ مدرسہ ہائی کو قائم رکھا جائے اور دینیات کا مدرسہ الگ بنایا جائے.باقی سب کی جنہوں

Page 10

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 5 جلد دوم نے اپنی رائے کا اظہار کیا یہی رائے تھی کہ مدرسہ ہائی تو ڑ دیا جائے اور دینیات کا مدرسہ قائم کیا جائے.سب سے میری مراد وہ لوگ ہیں جو اس معاملہ میں حصہ لے رہے تھے ممکن ہے جو لوگ خاموش تھے وہ ہمارے ہی ساتھ ہوں.یہ معاملہ اس حد تک بڑھ گیا کہ ہم پر اس قسم کے فتوے لگنے شروع ہو گئے کہ انہیں دین سے محبت نہیں.چونکہ میں گھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پہنچ کر بات آسانی سے کر سکتا تھا اس لئے حضرت خلیفہ اول کوئی بات میرے کان میں ڈال دیتے اور میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچا دیتا.آخر وہ دن آیا جب اس مسئلہ پر بحث ہوئی.اس میں تو ہمیں فتح حاصل ہوئی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرما یا مدرسہ ہائی نہ تو ڑا جائے.لیکن اُس وقت دوسری پارٹی کی طرف سے ایک شخص نے جن کا نام شاید نذیر احمد تھا اور جو کوئٹہ کی طرف سے آئے تھے تقریر کی اور کہا مدرسہ احمدیہ کی ضرورت ہی نہیں.ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں چند مسائل کا اختلاف ہے.ان مسائل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حل کر دیا ہے اور ان کے دلائل بتا دیئے ہیں باقی باتیں دوسرے مدرسوں سے سیکھی جاسکتی ہیں.وہ ابھی یہ تقریر کر ہی رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آگئے اور آپ نے پوچھا اس وقت تک کیا باتیں ہو چکی ہیں؟ وہ بتائی گئیں اور عرض کیا گیا اس وقت یہ بات پیش ہے کہ بعض کہتے ہیں دینیات کے مدرسہ کی ضرورت نہیں ہم میں اور دوسرے مسلمانوں میں چند باتوں کا اختلاف ہے اور ان اختلافی باتوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حل کر دیا ہے.تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر کی.میں نے سنا ہے وہ چھپ چکی ہے میں نے چھپی ہوئی نہیں پڑھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں.آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسروں لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح اور چند مسائل میں ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات، رسول کریم ﷺ ، قرآن ، نماز ، روزہ، حج ، زکوۃ غرض کہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ان سے ہمیں اختلاف ہے.ہم وہ روح لائے صلى الله

Page 11

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 6 جلد دوم ہیں جو رسول کریم ﷺ لائے تھے.دوسرے لوگوں کے پاس صرف الفاظ رہ گئے ہیں دل میں روح نہیں.اس لئے یہ غلط ہے کہ ہمیں نئے علماء پیدا کرنے کی ضرورت نہیں.ضرورت ہے اور بہت بڑی ضرورت ہے.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی فرمایا کہ آپ ہر مسئلہ کی تجدید کرنے کے لئے آئے ہیں اور یہی حق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے ایسے علوم عطا کئے ہیں کہ روحانی اسلامی علوم کا کوئی حصہ نہیں جس کے متعلق یہ کہ سکیں کہ اس میں آپ نے تجدید نہیں کی.ہر علم میں آپ نے تجدید کی ہے.یہ اور بات ہے کہ ہم اس کی قدر کریں یا نہ کریں.بعض وہ لوگ جو بعد میں آئے انہیں آپ کی حقیقی قدر نہیں.وہ سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت معمولی بات ہے.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ دنیا میں کس قدر عظیم الشان تغیر آپ کی ایک ایک بات سے پیدا ہو رہا ہے.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا بعض مسائل ایسے ہیں جو طبائع کے لحاظ سے کئی طریق پر عمل میں لائے جاتے ہیں جیسا کہ آمین کہتا ہے.بعض جو شیلی طبائع ہوتی ہیں وہ آمین بالحجر کہتی ہیں.بعض نرم طبائع ہوتی ہیں وہ آہستہ کہتی ہیں.اسی طرح نماز پڑھنے کے وقت ہاتھ باندھنے کا مسئلہ ہے.کوئی او پر ہاتھ باندھتا ہے کوئی نیچے.تو فرمایا فقہ کے بعض جھگڑے بالکل لغو ہیں.مختلف طبائع کے لحاظ سے بعض اعمال میں اختلاف ہو جانا کوئی معیوب بات نہیں.اب دیکھو یہ اصل بیان کر دینے کے بعد حنفیوں اور اہلحدیثوں کے اس قسم کے جھگڑے خود بخود مٹ رہے ہیں اور اس بارے میں بہت بڑا تغیر واقع ہو رہا ہے.یه تغیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد سے ہی پیدا ہوا.اب اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ فرمایا وہ معمولی بات ہے تو یہ غلط ہے.اس بات کی اہمیت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جنہوں نے پہلی حالت دیکھی یا اس کا صحیح طور پر اندازہ کر سکتے ہیں.بعد میں آنے والے جنہیں معلوم نہیں کہ ان اختلافات کی وجہ سے کیسے کیسے جھگڑے ہوئے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات کی اہمیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے.

Page 12

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 7 جلد دوم دیکھو کولمبس نے جب امریکہ دریافت کیا تو کتنا بڑا تغیر پیدا ہو گیا.مگر جب امریکہ دریافت ہو گیا تو بعض لوگوں نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے.ہم جہاز پر بیٹھ کر ادھر.جاتے تو ہم بھی دریافت کر لیتے.جب یہ بات کو لمبس تک پہنچی تو اس نے ایسے لوگوں کو بلا یا اور میز پر ایک انڈا رکھ کر کہا کسی طرح بغیر سہارے کے اسے کھڑا کر دو.ان سب نے بہت کوشش کی مگر کوئی کھڑا نہ کر سکا.آخر کولمبس نے انڈا لیا، پن مارکر اس میں سے لعاب نکالا اور اس کے ذریعہ انڈا کھڑا کر دیا.یہ دیکھ کر سب نے کہا یہ تو ہم بھی کر سکتے تھے.کولمبس نے کہا پھر کیوں نہ کیا؟ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا میں نے سنا ہے تم لوگ کہتے ہو ہم بھی امریکہ دریافت کر سکتے تھے.امریکہ دریافت کرنے کا تو تمہیں موقع نہ ملا.انڈا کھڑا کرنے کا تو موقع مل گیا تھا پھر اسے کیوں نہ کھڑا کر سکے.اصل بات یہ ہے کہ جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو آسان معلوم ہونے لگتا ہے.لیکن اس کے ہونے سے قبل اس کے کرنے کا طریق نکالنا مشکل ہوتا ہے.دیکھ لوگ روزانہ گھروں میں ہانڈی پکاتے اور ہانڈی ابلتی دیکھتے تھے مگر یہ دیکھ کر انجن کسی نے نہ بنالیا.آخر ایک شخص نے جب اس پر غور کیا وہ انجن بنانے میں کامیاب ہو گیا.پس بعض باتیں معمولی ہوتی ہیں مگر عظیم الشان تغیر پیدا کر دیتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسلام کی رائج الوقت تعلیمات میں ایسا تغیر کیا ہے کہ اصل تعلیم قائم کر دی ہے.اور اس تعلیم کو وہی لوگ دنیا میں پھیلا سکتے ہیں جنہیں سلسلہ احمد یہ تیار کرے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے مدرسہ احمدیہ کے قائم کرنے کی تائید کی تھی.کیونکہ جب تک کسی فن کے ماہر نہ ہوں اس کی باریکیوں تک نہیں جاسکتے.خدا کے فضل سے ہمارے علماء دوسرے علماء پر ہر رنگ میں غالب آ رہے ہیں.اور مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ احمدی علماء میں غیر احمدی علماء کی نسبت بہت فرق ہے.احمدی علماء کا ذہن رسا ، ان میں دین کے لئے جوش اور خدمتِ اسلام کی خواہش ہے.وہ اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرتے ہیں.اسی خیال کے ماتحت میں نے مدتوں سے ایک سکیم سوچی ہوئی تھی جس کی اب ابتدا کی گئی ہے.

Page 13

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 8 جلد دوم کیونکہ ہر کام کا وقت ہوتا ہے.حضرت علیؓ سے کسی نے پوچھا ربانی کون ہوتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا الَّذِي يُرَبِّي صِغَارَ الْعِلْمِ قَبْلَ كِبَارِهَا 1 کہ وہ جو علوم کے چھوٹے حصے پہلے سکھاتے ہیں بڑے بعد میں.میری سکیم یہ تھی کہ آہستہ آہستہ وہ ملک جہاں یورپین زبانیں بولی جاتی ہیں ان میں ہمارے علماء جائیں اور تبلیغ کریں.بے شک شروع میں وقتیں ہوں گی اور انہی دقتوں کی وجہ سے اس سکیم پر عمل کرنے میں دیر لگی لیکن اب وقت آ گیا ہے کیونکہ جو علماء نکل رہے ہیں ان کا بیشتر حصہ ایسا ہے جس نے کچھ نہ کچھ انگریزی پڑھ لی ہے.بعض نے تو انٹرنس کا امتحان پاس کر لیا ہے اور بعض نے اپنے طور پر سنڈی کی ہے ہے.اب موقع ہے کہ اس سکیم کو جاری کیا جائے.وہ سکیم کیا ہے؟ یہ کہ صحیح خیال دو طرح پیدا ہو سکتا ہے.یا تو براہ راست اللہ تعالیٰ کے الہام سے یا تجربہ سے.اور جب تک دشمن کے خیالات معلوم نہ ہوں اس کے اعتراضات کے جواب نہیں دیئے جا سکتے.اور ہمارے مخالف ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں ہیں.ہندوستان کے مخالف تو عام طور پر جاہل ہیں.ان کے خیالات پر اپنے علم کی بنیاد رکھنا غلطی ہوگی.مثلاً کفارہ کا مسئلہ ہے.یہاں کے عیسائی تو جاہلانہ طور پر اسے پیش کرتے ہیں لیکن یورپ کے لوگ فلسفیانہ رنگ میں اس کے متعلق مضامین لکھتے ہیں.وہ فلسفہ اور منطق نہیں جو ہندوستان کے جاہل عیسائی پیش کرتے ہیں.منطق اور فلسفہ یہ نہیں کہ کوئی بات ہی نہ سمجھ سکے بلکہ یہ ہے کہ وہی مطالب جو روزانہ استعمال کرتے ہیں انہیں محدود کر کے پیش کیا جائے.دنیاوی علوم کی ترقی مغربی ممالک میں ہو رہی ہے.وہاں جس رنگ میں اسلام پر اعتراض کئے جاتے ہیں وہ جدا گانہ ہے.مختلف ممالک کی زبانیں پڑھ لینے سے بھی ان اعتراضوں سے واقفیت نہیں ہو سکتی.اصل اور پوری واقفیت وہاں جا کر لوگوں سے ملنے سے ہو سکتی ہے.پھر کسی ایک ملک میں جا کر نہیں ہو سکتی ہر ملک میں اعتراضات کا علیحدہ رنگ ہے.مثلاً عربی کے متعلق جرمنی کے ایک شخص نولڈ کے نے سب سے پہلے تنقید کی.مگر اس کی کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ نہیں ملتا.تو سکیم یہ ہے کہ آہستہ آہستہ نئے علماء مختلف زبانیں سیکھیں اور مختلف ممالک

Page 14

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 9 جلد دوم کے لوگوں کے خیالات سے واقف ہوں.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ایک ملک میں ایک مبلغ کو بھیجا جائے.جب وہ وہاں کی زبان سیکھ لے تو دوسرے کو وہاں بھیج دیا جائے اور پہلے کو کسی اور ملک میں تبدیل کر دیا جائے تا کہ وہاں کی زبان سیکھ لے.اس طرح باری باری علماء کو بھیج کر مختلف زبانوں کا ماہر بنایا جائے.اور ہر ملک کے لوگوں کے اسلام پر اعتراضات سے آگاہ کیا جائے.مثلاً جب ایک مبلغ انگلستان کے حالات اور وہاں کی زبان سے واقف ہو جائے تو چھ ماہ یا سال کی چھٹی دلا کر اسے جرمنی بھیج دیا جائے تا کہ وہاں کی زبان سیکھ لے.انگریزی کے بعد دوسرے ممالک کی زبانیں سیکھنا آسان ہو جاتا ہے.اسی طرح جو مبلغ عربی ممالک میں بھیجا جائے اسے جب عربی کی مشق ہو جائے تو انگریزی کی مشق کے لئے ولایت بھیج دیا جائے.اسی طرح اگر ہمارے علماء عربی، انگریزی اور جرمن میں گفتگو اور تقریر کر سکتے ہوں تو ان کے خیالات زیادہ منجھے ہوئے ہوں گے.وہ بہت زیادہ دنیا کے خیالات سے واقف ہوں گے اور ان سے ہمیں آگاہ کر لیں گے تاکہ ہم اسلام کی حفاظت کا بہترین طریق اختیار کر سکیں.اسی طرح مختلف ممالک کا طرز تحریر بھی جدا گانہ ہے.اگر اس کا لحاظ نہ رکھا جائے تو ساری کوشش رائیگاں جاتی ہے.مثلاً یورپ میں جو کتابیں لکھی جاتی ہیں ان کے باب وغیرہ اور رنگ میں باندھے جاتے ہیں لیکن یہاں اور رنگ میں.یہاں کی طرز تحریر کے مطابق لکھی ہوئی کتاب جب وہاں جائے گی تو وہ لوگ کہیں گے کسی نا واقف کی لکھی ہوئی ہے.لیکن وہاں کا اگر کوئی شخص یہاں کی کتاب لکھنے والے سے علم میں کم بھی ہو تو اس کی کتاب سے شور پڑ جائے گا کیونکہ وہ اپنی کتاب کی ترتیب اس رنگ میں رکھے گا جو وہاں رائج ہے.ہمارے علماء یورپ کے طرز تحریر سے واقف ہو کر ایسی کتابیں لکھ سکیں گے جو انشاء اللہ مفید ثابت ہو سکیں گی.اس سکیم کی ابتدا کے طور پر ایک طرف مولوی محمد یار صاحب کو اور دوسری طرف مولوی اللہ دتا صاحب کو بھیجا جا رہا ہے.ہوسکتا ہے اگلی دفعہ اس مبلغ کو جو ولایت بھیجا گیا عربی ممالک مصر اور شام وغیرہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں

Page 15

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 10 جلد دوم کے مبلغ کو انگلستان میں.اگر ہمارے مبلغ عربی اچھی طرح بول اور لکھ سکیں پھر انگریزی اچھی طرح بول اور لکھ سکیں تو جہاں جائیں گے انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.اب تک یہ خیال پایا جاتا ہے کہ یورپین علوم پڑھنے سے انسان دین سے کھویا جاتا ہے اور جس نے دینی علوم پڑھے وہ عقل سے کھویا گیا.مگر ہم نے بتانا ہے کہ یہ میچ نہیں ہے.دینی اور د نیوی علوم دونوں ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں.میٹھا اور کڑوا پانی اسی طرح ملایا جائے گا.ولایت کی کیمرج اور آکسفورڈ کی یونیورسٹیاں پادریوں کی قائم کی ہوئی ہیں.لیکن کیمرج کی یونیورسٹی میں جہاں نئے خیالات کے لوگوں کا زور ہے وہاں سے دہریت اور لا مذہبی کی رونکلتی ہے.لیکن آکسفورڈ کی یونیورسٹی جو پرانی یو نیورسٹی ہے وہاں سے جو لوگ تعلیم پاتے ہیں ان کے دل میں عیسائیت کی محبت ہوتی ہے.کیونکہ ان کے دل میں مذہب کی محبت ڈالی جاتی ہے.لندن میں میں نے دیکھا مصباح الدین صاحب ایک شخص کو لائے جود ہر یہ تھا.مگر باوجود اس کے کہ وہ عیسائیت کا دشمن تھا حضرت مسیح سے اسے محبت تھی.اسی طرح فری تھنکر مذہبی طور پر حضرت مسیح کو برا بھلا کہیں گے مگر مذہبی جلسوں میں شریک ہوں گے اور ان میں حصہ لیں گے.اس کی وجہ یہی ہے کہ پادری استادوں نے ان کے دلوں میں مذہب کی ایسی محبت قائم کر دی ہے کہ دہر یہ ہونے کی حالت میں بھی وہ ان کے دل سے نہیں نکلتی.اس رنگ میں دنیوی تعلیم دینا ایسی خوبی ہے کہ اس کی نقل کرنے کی ہمیں ضرورت نہیں کیونکہ خو درسول کریم ﷺ نے یہ بات سکھائی ہے.بدر کی جنگ میں جو قیدی پکڑے آئے تھے ان کے متعلق رسول کریم ﷺ نے یہی شرط رکھی تھی کہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں تب آزاد کئے جائیں گے.2 اس سے ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ نے دنیوی علوم کا سیکھنا بھی ضروری قرار دیا ہے.حضرت مسیح نے تو اس کے لئے کوئی مدرسہ قائم نہ کیا تھا لیکن رسول کریم ﷺ نے قائم کیا.پس ہم نقل صلى الله کریں گے تو رسول کریم ﷺ کی کریں گے.ہاں یہ افسوس ضرور ہے کہ عیسائیوں نے ہم سے پہلے اس بات کو اختیار کیا.مسلمانوں نے اپنی بدقسمتی سے اس بات کو بھلا دیا اور اب

Page 16

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 11 جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے آ کر قائم کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز عمل دیکھ لو.آپ نے پہلے مدرسہ ہائی قائم کیا اور پھر مدرسہ احمدیہ.اس طرح آپ نے یہ قرار دیا کہ دنیوی تعلیم نظر انداز نہیں کی جاسکتی ہاں ایسے لوگوں کے ذریعہ دلائی جانی چاہئے کہ دوسروں میں جو نقائص پیدا ہوتے ہیں وہ دور ہو جائیں.اس وقت جس سکیم کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا نقشہ ایسا ہی ہے جیسے خواب کے بعد خواب کا منظر آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے مگر یہ خوشکن منظر ہے.اگر ہم اس میں کامیاب ہو جائیں تو کئی کالج اور یونیورسٹیاں ہم قائم کر سکیں گے.ان کے لئے ہمارے پاس ایسے علماء مہیا ہوں گے جو دینی اور دنیوی علوم کے ماہر ہوں گے.اور وہ مضرات جو دوسری جگہ پیدا ہوتے ہیں ہمارے ہاں پیدا نہیں ہو سکیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جو مبلغ اس سکیم کے ماتحت جائیں گے وہ اس مقصد کو جو خواہ ابھی دور کا ہی مقصد ہے مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی کے اوقات صرف کریں گے.پھر ان کو میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی بنیاد روحانیت پر ہے.دوسرے لوگ ہمارے علماء کے متعلق بے شک اچھی رائے رکھتے ہیں مگر میرا تجربہ ہے کہ جو نئے علماء نکل رہے ہیں ان کی تقریر اور تحریر کا رنگ وہ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رنگ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایسی نقل نہیں کرتے جیسی کہ کرنی چاہئے.ہمارے علماء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا طرز تحریر مد نظر رکھنا چاہئے جو سنجیدگی سے پُر ہے.اس میں اگر کوئی ہنسی کی بات بھی آتی ہے تو اس میں بھی سنجیدگی ہوتی ہے.ہمارے علماء کو خصوصا نو جوان علماء کو چاہئے کہ اپنی تقریر اور تحریر کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کے مطابق بنائیں.اور خوب یا درکھیں که خالی علم کچھ حقیقت نہیں رکھتا بلکہ وہ تباہی کا موجب ہوتا ہے.علم یہ نہیں کہ معلوم ہو یہ تغیر ہو گیا بلکہ یہ ہے کہ تغیر کرنے والی ہستی کی حقیقت معلوم ہو.اگر اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی حقیقت منکشف نہیں ہوتی تو سمجھ لینا چاہئے کہ علم حاصل نہیں کیا بلکہ جہالت ہے علم اللہ تعالیٰ

Page 17

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 12 جلد دوم کی ذات اور اس کی صفات سے واقف ہونے کا نام ہے.اور سب تغییرات جو دنیا میں ہوتے ہیں صفات الہیہ کا ظہور ہیں.اگر کوئی ان کے اصل بواعث سے ناواقف رہتا ہے اور ان کے اثرات اسے معلوم نہیں ہوتے تو وہ جہالت میں مبتلا رہتا ہے.ہمارے علماء کو یاد رکھنا چاہئے الفاظ سیکھ لینا اور انہیں بیان کر دینا حقیقی روحانیت نہیں.اصلی روحانیت کا اظہار اپنی رفتار، اپنی گفتار اور اپنی ہر حرکت سے کرنا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ نمائش کریں بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنا قلب ایسا صاف کریں کہ ان کی رفتار، گفتار اور حال سے خدا کا خوف ظاہر ہو.اور خدا کا خوف ایسی چیز نہیں جو چھپی رہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سنایا کرتے تھے ایک شخص نے چاہا کہ وہ لوگوں میں عزت حاصل کرے.اس کے لئے وہ سات سال تک مسجد میں عبادت کرتا رہا.مگر جب باہر نکلتا تو لوگ کہتے یہ منافق ہے.معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ کو اس کی ہدایت منظور تھی ورنہ کئی جھوٹے لوگ بھی عوام میں اپنا اثر قائم کر لیتے ہیں.آخر ایک دن اسے خیال آیا کہ سات سال تک میں نے دنیا کی عزت کے لئے کوشش کی مگر کچھ نہ ملا.اگر یہی عمر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں لگاتا تو یقیناً خدا تعالیٰ حاصل ہو جاتا.اس پر وہ رویا اور اس کے دل میں بہت رقت پیدا ہوئی.اس نے توبہ کی اور دنیا کے خیال کو چھوڑ کر خدا کے لئے مسجد میں عبادت کرنے کے لئے گیا.تھوڑے ہی دنوں کے بعد جدھر سے گزرتا لوگ کہتے یہ ولی اللہ جا رہا ہے.غرض دنیا میں کئی لوگ بناوٹ تو کر لیتے ہیں اور جھوٹ کو چھپا سکتے ہیں لیکن سچ کو کوئی نہیں چھپا سکتا.جھوٹ چھپانا کون سا مشکل کام ہے.مگر سچائی کو کوئی نہیں چھپا سکتا.جو خدا رسیدہ ہو وہ اگر اپنے آپ کو چھپانا بھی چاہے تو نہیں چھپا سکتا کیونکہ خدارسیدہ ہونا ایک طوفان کی ہے اور طوفان کو کون چھپا سکتا ہے.راکھ کے ڈھیر کو تو کپڑے کے نیچے چھپایا جا سکتا ہے لیکن آندھی کو کون ہے جو کسی چیز سے روک سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام

Page 18

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 13 جلد دوم فرماتے ہیں لوگ کہتے ہیں میں نام و نمود کے لئے کوشش کر رہا ہوں.خدا کی قسم ! میں تو گوشئہ خلوت سے نہیں نکلنا چاہتا تھا مگر خدا نے مجھے نکالا.3 پس یہ تو ممکن ہے کوئی نیک نہ ہو اور اپنے آپ کو نیک ظاہر کرے لیکن یہ ممکن نہیں کہ نیک ہو اور وہ پوشیدہ رہ سکے.چاہے دنیا اسے پوشیدہ رکھنے کے لئے کتنا زور لگائے اور خواہ وہ خود بھی پوشیدہ رہنے کی کوشش کرے.میں یہ نہیں کہتا کہ تکلف سے روحانیت کا اظہار کرو بلکہ یہ کہتا ہوں کہ حقیقت میں روحانیت حاصل کرو.تا کہ تمہاری آنکھ، تمہارے ناک ، تمہارے کان اور تمہاری آواز سے روحانیت ظاہر ہو.پھر اگر تم اسے چھپانا بھی چاہو گے تو نہ چھپ سکے گی.پس سب سے مقدم چیز یہی ہے کہ روحانیت پیدا کرو.خشیت اللہ پیدا کر و.تقویٰ پیدا کرو.مگر لفظوں میں اس کا اظہار نہ ہو کہ ہم خدا کے لئے کام کرتے ہیں بلکہ قلبی کیفیات سے اس کا اظہار ہو.اس روحانیت حاصل کرنے کا طریق یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھی جائیں.ان کے اندر جو روحانیت ہے اس پر غور کیا جائے.عام طور پر علماء جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھتے ہیں تو ان کی نظر دلائل تک ہی محدود رہتی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ کے لئے انہیں انہی کی ضرورت پڑتی ہے.مگر اس ضرورت سے علیحدہ ہو کر اپنے طور پر بھی قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے.قرآن کریم کی تلاوت کرتے وقت اور حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھتے وقت انہیں اپنے پیشہ کے ماتحت نہیں بنانا چاہئے بلکہ یہ سمجھنا چاہئے اس وقت دنیا مخاطب نہیں بلکہ میرا اپنا نفس مخاطب ہے.مجھے جس چیز کی ضرورت ہے وہ روحانی ترقی ہے اس لحاظ سے مجھے قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پڑھنی چاہئیں.اس وقت مجھے یہ نہیں دیکھنا چاہئے حضرت مسیح کی وفات کے کیا دلائل ہیں.یہ باتیں میں نے سیکھ لی ہیں.اس وقت میں اس لئے پڑھتا ہوں کہ مجھے کیا بننا چاہئے.کیونکہ سب سے مقدم سوال ہر ایک انسان کے لئے یہی ہے.لیکن مناظرہ کرنے والوں کو چونکہ یہ عادت پڑ جاتی ہے کہ جب وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی

Page 19

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 14 جلد دوم کتابیں پڑھتے ہیں تو ظاہری باتوں کی طرف ان کی نظر جاتی ہے اور ان میں جو روحانیت ہے اس تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اس لئے وہ روحانیت نہیں حاصل کر سکتے.اور یہی خطر ناک چیز ہے.اور اسی لئے صوفیا نے العلمُ حِجَابُ الأَكْبَرِ کہا ہے.کیونکہ ایسا شخص ان باتوں پر غور نہیں کرتا جو اس کے اپنے نفس سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ وہ صرف ان باتوں کو دیکھتا ہے جو دوسروں سے تعلق رکھتی ہیں.ایک بہت بڑے قاضی حضرت عمر کے زمانہ میں گزرے ہیں.حضرت عمر نے انہیں کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا.کوفہ کے لوگ بار بار شکائیتیں کرتے تھے اور حضرت عمرؓ گورنر بدل دیتے تھے آخر فر مایا میں اب کے گورنر تو بدل دیتا ہوں مگر ایسا انسان بھیجوں گا جو انہیں سیدھا کر دے گا.اُس وقت جنہیں گورنر بنا کر بھیجا گیا وہ بالکل نوجوان تھے.کوفہ کے لوگوں کو جب یہ معلوم ہوا کہ ایک بچہ ہم پر گورنر بنا کر بھیجا گیا ہے تو انہوں نے کہا شہر سے باہر ہی چل کر خبر لینی چاہئے.اور تجویز یہ ہوئی کہ بوڑھے بوڑھے لوگ جائیں اور جا کر سوال کریں کہ تمہاری عمر کیا ہے؟ چنانچہ کچھ لوگ گئے اور انہوں نے پوچھا کہ آپ کی عمر کیا ہے؟ حضرت عمرؓ نے بھی چونکہ چن کر آدمی بھیجا تھا انہوں نے کہا میری عمر اسامہ کو جب رسول کریم نے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا تھا اور حضرت ابوبکر و حضرت عمرؓ کو ان کے ماتحت رکھا تھا ان سے دو سال زیادہ ہے.یہ بات سن کر ان لوگوں پر ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے آپس میں کہا اب ان سے کوئی بات نہ کرنا.ان کا واقعہ لکھا ہے ایک شخص ان کے سامنے گواہی دینے آیا تو دیکھتے ہی پوچھا کیا آپ استاد ہیں؟ اس نے کہا ہاں.لوگوں نے پوچھا آپ نے کس طرح سمجھا کہ یہ استاد تھا؟ انہوں نے کہا طالب علموں پر حکومت کرنے کی وجہ سے استاد کی ایسی طرز قائم ہو جاتی ہے کہ فوراً پہچان لیا جاتا ہے.تو مناظرین کو چونکہ ہر وقت ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جن سے یہ گفتگو کرنی ہوتی ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ، رسول کریم ﷺ کے بعد نبی آ سکتا ہے، خدا ایک

Page 20

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 15 جلد دوم ہے تین نہیں.اس لئے ان کی نظر دلائل تک ہی محدود رہتی ہے.چونکہ روحانی امور پر بحث نہیں ہوتی اور کبھی یہ بحث نہیں ہوتی کہ روحانی ترقیات کس طرح حاصل ہو سکتی ہیں اس لئے ایک مناظر کا ذہن ادھر جاتا ہی نہیں.اور جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اسی قسم کی باتوں کی طرف اس کا ذہن جاتا ہے جو بحث و مباحثہ سے تعلق رکھتی ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کریں.ایک مناظرانہ زندگی اور ایک انسانی زندگی.قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تلاوت مناظرانہ حیثیت سے نہیں بلکہ انسانی حیثیت سے بھی کرنی چاہئے اور اس وقت صرف روحانی حصہ کو مدنظر رکھنا چاہئے تب اس بہت بڑے خطرہ سے انسان بچ سکتے ہیں جو مناظرہ حیثیت سے کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور قرآن کریم کا مطالعہ کرنے کی وجہ سے درپیش ہوتا ہے.ہر خوبی اور ہر کمال کے ساتھ خطرات ہوتے ہیں اور یہی وہ بات ہے جس کا ذکر رسول کریم میں نے اس طرح فرمایا ہے کہ ہر انسان کا گھر جنت میں بھی ہوتا ہے اور دوزخ میں بھی.4 عام طور پر لوگ اس بات کو سمجھے نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر قدم جو منزل کی طرف جاتا ہے ترقی کی طرف بھی جاتا ہے.مثلاً جب کی انسان کوئی گناہ کرتا ہے اور اس کے دل میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ میں نے برا کام کیا تو اس طرح اس کا گھر جنت میں بنتا ہے.اور آخر جب وقت آ جاتا ہے تو اسے ایسی ٹھوکر لگتی ہے کہ اصل مقام پر پہنچ جاتا ہے.اسی طرح جب کوئی اچھا کام کرتا ہے اور اس کے دل میں کبر پیدا ہوتا ہے تو اس کے لئے دوزخ میں گھر بنتا ہے اور آخرا سے ایسی ٹھوک لگتی ہے کہ دوزخ میں پہنچ جاتا ہے.پس ہر انسان اپنے لئے دوزخ اور بہشت میں گھر بناتا ہے.آگے یہ مومن کا کام ہے کہ جنت کے گھر کو قائم رکھے اور دوزخ کے گھر کو برباد کر دے.اور اس کا طریق یہی ہے کہ اپنے اوقات کا کچھ حصہ اپنے نفس کو دے.پس میں اپنے مبلغین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ روحانیت کی طرف توجہ کریں.کوئی لفاظی ، کوئی بحث و مباحثے ، کوئی مناظرے کام نہیں آسکتے.یہ سب کچھ تھا مگر خدا تعالیٰ نے

Page 21

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 16 جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا.ظاہری علوم کے لحاظ سے اب بھی غیر احمدی علماء ہمارے علماء کے سامنے بچوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں بلکہ ہماری جماعت کے بچوں کے سامنے بھی بچوں کی طرح ہیں.مگر یہ محض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیض ہے اسے مدنظر رکھو.ورنہ یہ علوم کیا اور یہ قابلیتیں کیا.اس سے ہزاروں درجے بڑھ کر بھی علم ہوں گے مگر روحانیت نہ ہو گی تو کامیابی حاصل نہ ہو سکے گی.یہی دیکھو عالم کہلانے والے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے حضرت مسیح پر اعتراض کئے ہیں حالانکہ یہ اسلام کے بچانے کی ایک تجویز تھی.پہلے لوگوں میں چونکہ روحانیت تھی اس لئے ان میں سے بھی بعض نے یہ طریق اختیار کیا.لیکن اب جن لوگوں میں روحانیت نہیں وہ اس طریق کی وجہ سے جو اسلام کی حفاظت کے لئے اختیار کیا گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہیں.کہتے ہیں روم کے ایک عیسائی بادشاہ نے ایک مسلمان عالم کو بلایا اور تجویز یہ ہوئی کہ اسے شرمندہ کیا جائے.پادری ان سے اس طرح گفتگو کرنے لگے کہ ہم آپ سے علم حاصل کرنا چاہتے ہیں کوئی اعتراض نہیں کرتے.کہا جاتا ہے آپ کے رسول ایک دفعہ سفر پر گئے اور وہاں ایسا واقعہ پیش آگیا کہ ان کی بیوی پر الزام لگایا گیا.یہ آپ کے رسول کے صحابی ہی کہتے ہیں ہم تو نہیں کہتے مگر آپ بتائیں کیا بات صحیح ہے؟ اس عالم نے کہا یہ تو کوئی ایسی مشکل بات نہیں جو آپ کی سمجھ میں نہ آ سکے بلکہ بالکل معمولی بات ہے.اس قسم کے دو واقعات گزرے ہیں.ایک عورت پہلے گزری ہے اس کا نام مریم تھا اس پر بھی الزام لگایا گیا اور ایک حضرت عائشہ ہیں جن پر الزام لگایا گیا.الزام کے لحاظ سے تو دونوں مساوی ہیں.لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ مریم بغیر شادی کے تھی کہ ان کے بچہ پیدا ہوا.لیکن حضرت عائشہ خاوند والی تھیں مگر ساری عمر میں ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہ ہوا.یہ ان لوگوں میں احساس تھا جن میں روحانیت تھی کہ اسلام کی حفاظت کے لئے کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں.اب علم تو ہے لیکن روحانیت نہیں.اسلام سے حقیقی محبت

Page 22

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 17 جلد دوم جاتی رہی ہے.اس لئے نہ صرف اسلام کی حفاظت کے لئے خود یہ طریق اختیار نہیں کرتے بلکہ اس کے اختیار کرنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کرتے ہیں.اگر ان کے دل میں اسلام کی محبت ہوتی تو یہ اعتراض کیوں کرتے.یہ کوئی گالی نہیں بلکہ عیسائیوں کے معتقدات پر اعتراض ہے.مگر یہ لوگ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے حضرت عیسی علیہ السلام پر اعتراض کئے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر اسلام کے بچانے کے لئے یہ ضرورت پیش آئے کہ سارے انبیاء کے متعلق یہ پہلو اختیار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں.غرض ہر انسان کے لئے سب سے مقدم چیز روحانیت ہے جسے یہ حاصل ہو وہ ہر میدان میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے.دراصل تلوار ایک ہی ہوتی ہے مگر چلانے والوں کے فرق کی وجہ سے نتائج مختلف نکلتے ہیں.کہا جاتا ہے ایک شخص بہت اچھی تلوار چلا سکتا تھا.ایک ہی وار سے گھوڑے کے چاروں پاؤں کاٹ ڈالتا تھا.شہزادہ نے اس سے تلوار مانگی مگر اس نے نہ دی.اس پر شہزادہ نے باپ سے شکایت کی اور بادشاہ نے تلوار چلانے والے کو ڈانٹا کہ کیوں تم نے تلوار نہیں دی.اس نے کہا بادشاہ سلامت ! مجھے تلوار دینے میں تو کوئی عذر نہیں مگر اس تلوار میں کوئی خاص خوبی نہیں ہے.آخر اس نے تلوار دے دی اور شہزادہ نے مارنی شروع کی لیکن اس سے کچھ بھی نتیجہ نہ نکلا.ہمارے مبلغوں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ تلوار چلانے والے بنیں.وہ ایک ذریعہ ہیں جن کے پیچھے خدا کی قدرت کام کر رہی ہوتی ہے.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے اندر خشیت اللہ پیدا کرنی چاہئے جس کی ہمارے نوجوان علماء میں کمی ہے.میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے مبلغ اپنے اس سفر میں اور اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ سے تعلق بڑھانے کی کوشش کریں.اگر یہ بات انہیں حاصل ہو جائے تو ساری دنیا بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی.لیکن اگر وہ اس سے محروم رہیں تو ساری دنیا بھی ان کے ذریعے ہدایت پا جائے تو انہیں کیا فائدہ.پس سب سے پہلے انہیں اپنے نفس کا خیال رکھنا

Page 23

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 18 جلد دوم چاہئے.ظاہری ترقی کا نہیں بلکہ باطنی ترقی کا.اس کا ایک ذریعہ تلاوت قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی کتب کا مطالعہ ہے.دوسرا دعا ئیں اور انکسار ہے.صرف خدا کا فضل ہی ہے جو انسان کو دین اور دنیا میں کامیاب کر سکتا ہے.“ (الفضل 30 جولائی 1931 ء ) 1: بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول صفحہ 17 حدیث نمبر 10 مطبوعہ رياض 1999 الطبعة الثانية میں یہ الفاظ یقال “ کے تحت آتے ہیں حضرت علی کا ذکر نہیں.2: زرقانی جلد 2 صفحہ 324 مطبوعہ بیروت 1994ء 3: حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 153 ایڈیشن 2008 ء 4 بخارى كتاب التفسير باب قوله فاما من اعطیٰ و اتقی صفحہ 884 حدیث نمبر 4945 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 24

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 19 جلد دوم تبلیغ احمدیت کے متعلق ضروری ہدایات حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کی کامیاب واپسی کی خوشی میں نظارت دعوت و تبلیغ نے جو دعوت چائے دی اس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.پہلے تو میں اپنے بعض دوستوں کو خصوصاً مولوی ابو العطاء صاحب کو مدنظر رکھتے ہوئے اور شاید اور دوست بھی عربی ممالک میں جائیں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جب ہم غیر ممالک میں آدمی بھیجتے ہیں تو ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ ان ممالک کی زبانیں اس رنگ میں سیکھیں جس رنگ میں وہ لوگ خود بولتے ہیں اور جو ان کے بولنے کا حق ہے.ہمارے ملک میں عربی زبان کی قدر کتابوں تک ہی رہی ہے جس کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے ہیں.عربی کی تعلیم میں یہ مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ اس زبان میں کلام کر سکیں.ہمارے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریک کی وجہ سے اتنی بات پیدا ہو گئی ہے کہ عام طور پر عربی دان عربی میں گفتگو کر لیتے ہیں اور ایسی گفتگو کر سکتے ہیں جو دوسرے علماء ان سے زیادہ عربی کی تعلیم رکھنے والے بھی نہیں کر سکتے.لیکن لیکچر اور خطبہ کا ابھی تک پورا انتظام ہمارے ہاں بھی نہیں ہے.سوائے اس کے کہ وقتی طور پر کوئی تیاری کر لے.اس صورت میں تکلف سے کام لینا پڑتا ہے اور مفہوم کے مطابق الفاظ استعمال نہیں کئے جاتے بلکہ الفاظ کے ماتحت مفہوم کر دیا جاتا ہے.لیکن اگر الفاظ مفہوم پر غالب آ جائیں اور مفہوم دب کر رہ جائے تو ہم لیکچر نہیں دیتے بلکہ اشارے کرتے ہیں.اور اگر اشارے ہی کرنے

Page 25

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 20 جلد دوم ہوں تو الفاظ کی بجائے ہاتھوں سے کیوں نہ کر لیں.ہاں اگر مضمون الفاظ پر غالب ہوتا ہے تو لیکچر صحیح معنوں میں لیکچر کہلا سکتا ہے.جہاں تک میرا تجربہ ہے عربی کی جو نظمیں پڑھیں یا مضامین سنے ہیں ان میں تکلف ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چونکہ مضمون اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے اس لئے شاندار الفاظ میں اس کمزوری کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے.جب ہماری جماعت کے لوگ بیرونی ممالک میں جاتے ہیں خواہ انگریزی بولنے والے ممالک میں یا عربی بولنے والے میں تو انہیں چاہئے کہ اس نقص کو دور کریں.لیکن ایک نقص عربوں کی زبان میں پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی گفتگو اعلیٰ درجہ کی زبان میں نہیں ہوتی.جنہیں خدا تعالیٰ توفیق دے وہ نہ صرف خود اعلیٰ زبان سیکھیں بلکہ عربوں کو بھی سکھائیں.قرآن کریم کی عربی اور ہے اور عربوں کی موجودہ زبان اور.یہ بھی ضروری ہے کہ عربوں کی موجودہ زبان سیکھیں تا کہ انہیں آسانی سے دین سکھا سکیں.لیکن قرآن کی زبان بھی سیکھنی چاہئے اور اسے رواج دینے کی کوشش کرنی چاہئے.عربی ممالک میں رہنے والے مبلغ کو چونکہ عربی میں گفتگو کرنے کی مشق کا موقع ملتا ہے ہم یہاں عربی نہیں بول سکتے.اور اگر بولیں تو ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں ملتا لیکن جو شخص عربی ممالک میں جاتا ہے اسے ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے.وہ دوستوں سے گفتگو کرتا ہے.اسے دشمنوں سے واسطہ پڑتا ہے.اسے بڑوں سے، چھوٹوں سے، اسے بیمار سے ، مصیبت زدہ سے، اسے حجام سے، اسے سقے سے غرض ہر قسم کے لوگوں سے گفتگو کرنی پڑتی ہے.اور اس طرح ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا موقع ملتا ہے.اس لئے فطرت جن امور کو ظاہر کرتی ہے انہیں وہ آسانی کے ساتھ سیکھ سکتا ہے.زبان کی یہ باریکیاں یہاں نہیں سیکھی جاسکتیں.اگر ہم عربی کالج میں اس کے لئے کوشش کریں تو بھی کامیابی نہیں ہو سکتی.انگریزی کا لجوں میں پڑھنے والے بھی اس طرح اپنے تمام خیالات کا اظہار نہیں کر سکتے جس طرح ایک انگریز کر سکتا ہے.اگر چہ انگریزی کے ناولوں نے

Page 26

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 21 جلد دوم ایک حد تک اس کمی کو پورا کر دیا ہے تا ہم ایک انگریز کورٹ شپ میں جن باریک اور فطری احساسات کا اظہار کر سکتا ہے ایک پنجابی انگریزی دان نہیں کر سکتا.کیونکہ اسے ہر قسم کے خیالات کے اظہار کا موقع نہیں ملتا.غرض ایک زبان کی باریکیاں اسی ملک میں سیکھی جاسکتی ہیں جہاں وہ بولی جاتی ہے.لیکن عربی ممالک میں ایک نقص بھی ہے اور وہ یہ کہ لوگوں نے اس زبان کو مسخ کر دیا ہے.ہمارے مبلغین کو چاہئے کہ اس نقص کی اصلاح کریں اور جب وہ ایسا کریں گے تو ان ممالک کا علمی طبقہ بھی سمجھے گا کہ یہ لوگ ہمارے ملک کی خدمت کر رہے اور ہماری زبان کی اصلاح کر رہے ہیں.کہا بیر وغیرہ مقامات جہاں کے لوگ احمدی ہو چکے ہیں وہاں ہمارے مبلغ اپنی گفتگو میں ایسی زبان استعمال کریں جو قرآنی زبان ہے.اس طرح وہاں کے لوگوں کی زبان کی بھی اصلاح ہوتی جائے گی اور اس طرح دوسرے لوگ بھی محسوس کریں گے کہ جو احمدی ہوتے ہیں ان کی زبان علمی اور قرآنی ہوتی جاتی ہے اور وہ یہ سمجھیں گے کہ احمدی ہمارے ملک کی اصلاح کر رہے ہیں.جیسا کہ سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ذکر کیا ہے مولوی جلال الدین صاحب احمدیہ کالج کے فارغ التحصیل طلباء میں سے پہلے ہیں جن کو تبلیغ کی وجہ سے جانی حملہ برداشت کرنا پڑا ہے.یہ ایسی چیز ہے کہ انسان کا اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا دوسروں کی توجہ اور ہمدردی کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ بناوٹ سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی.اس لئے جان دینے والے وہی لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مذہب کو سچا سمجھنے والے ہوں.ورنہ مدعی بھی جان کو خطرہ میں دیکھ کر پھر جاتے ہیں.محمد علی باب کے متعلق ہی آتا ہے کہ جب اسے گرفتار کر کے اس پر گولیاں چلائی گئیں تو وہ بھاگ نکلا اور ایک کمرہ میں جا چھپا.پھر وہاں سے پکڑا گیا.فرانس میں ایک مشہور مدعی گزرا ہے جس نے پوپ کے خلاف آواز اٹھائی تھی.پوپ نے اس کے مقابلہ کے لئے ایک لستان بھیجا جس نے زور دار تقریریں کیں اور کہا کہ میں الہام کا مدعی نہیں ہوں مگر

Page 27

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 22 جلد دوم پوپ کا پیرو ہوں.تم الہام کے مدعی ہو میرے ساتھ آگ میں سے گزرو معلوم ہو جائے گا کہ کون سچا ہے.مگر مدعی نے انکار کر دیا.اس کے ایک پیرو نے کہا میں آگ میں جاتا ہوں لیکن جب آگ جلائی گئی تو اس نے کوئی بہانہ بنا لیا اور آگ میں سے نہ گزرا.تو بڑے بڑے مدعی بھی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے بڑی مصیبتیں اٹھا ئیں مگر عین وقت پر پیچھے ہٹ گئے.دراصل آخر وقت تک یا تو سچا تکالیف برداشت کر سکتا ہے یا وہ کی جسے یقین ہو کہ میں سچا ہوں.اور یہ ایسا نظارہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی توجہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.باوجود ان جھوٹوں کی شمولیت کے جو اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہیں کیونکہ جان دینے کا منظر دھو کا وفریب سے ایک حد تک خالی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو تو فیق دی ہے کہ انہوں نے سچائی کی خاطر جانیں دیں.جیسا کہ افغان ہیں.ہندوستانیوں کو ابھی تک ایسا موقع نہیں ملا اور ایسا تو بالکل نہیں ملا کہ وہ جانتے ہوں کہ ان کی جان لی جائے گی اور پھر جان لی گئی ہو مگر ایسا بھی موقع نہیں ملا کہ بے جانے حملہ کر کے جان لی گئی ہو.اس قسم کا پہلا موقع مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے مولوی جلال الدین صاحب کو ملا.مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے افغانستان میں خدا کی راہ میں جان دی مگر وہ ہندوستانی نہ تھے.ان کی قربانی کا فخر افغانستان والوں کو حاصل ہے.غرض خدا کی راہ میں جان دینا ایک بہت بڑی نعمت ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ کی انگلی زخمی ہوئی تو آپ نے فرمایا اِن انتِ إِلَّا اصْبَعِ دَمِیتِ.1 تو انگلی ہی ہے جو زخمی ہوئی ہے.اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود یکہ آپ نبوت کے مقام پر تھے پھر بھی اللہ تعالیٰ کے لئے جان دینے کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.پھر جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہوتے ان کے لئے دعا کرتے.اور قرآن مجید میں آتا ہے فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ 2 یعنی یا تو مومن جان دے کر اپنا فرض ادا کر دیتا ہے یا حسرت رکھتا ہے کہ کب یہ وقت آئے.

Page 28

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 23 جلد دوم مولوی جلال الدین صاحب کو فخر کے طور پر خدا تعالٰی سے یہ بات ملی لیکن ابھی یہ ابتدائی چیز ہے حقیقی قربانیاں بہت بڑی ہوتی ہیں اور ان کے لئے بہت تیاری کی ضرورت ہوتی ہے میں امید رکھتا ہوں ہمارے مبلغین ان حقیقی قربانیوں کے لئے تیاری کریں گے.بے شک ہماری جماعت میں قربانی کی روح ہے مگر اصلی دلیری ابھی تک پیدا نہیں ہوئی.ایک دلیری جبر کے وقت کی ہوتی ہے.مثلاً یہ کہ لوگ احمدیت چھڑانے کے لئے ماریں ، دکھ دیں، نقصان پہنچائیں مگر احمد ی کہیں ہم احمدیت ہر گز نہ چھوڑیں گے.ایسے لوگوں کی تو کمی نہیں.لیکن وہ جو خود خطرہ کے مقام پر جائیں اور کسی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تبلیغ کریں ایسے کم ہیں.میں سمجھتا ہوں إِلَّا أَنْ تَشَاءَ اللهُ 3 کی استثناء کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ سو میں سے سو مبلغ ہی ایسے ہوں گے کہ اگر احمدیت کی وجہ سے لوگ ماریں تو وہ کوئی پرواہ نہ کریں گے.مگر سو میں سے دس بھی ایسے نہیں ہوں گے کہ خطرہ کے مقام پر خود جائیں اور وہاں کام کریں.لیکن جب تک یہ دیوانگی پیدا نہ ہو گی ہم کامیاب نہ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے:.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے نہ مصیبت سے نہ لوگوں کے سب وشتم سے نہ آسمانی ابتلا ؤں اور آزمائشوں سے.اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں.4 پس جب تک ہمارے مبلغین اس بات کو مد نظر نہیں رکھتے اور وہی نہیں جنہوں نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی ہوئی ہے بلکہ وہ بھی جنہوں نے انصار اللہ میں نام لکھائے ہیں یا اور دوسرے لوگ جو احمدیت میں داخل ہیں کہ لوگ ان کو مارتے جائیں اور وہ مار کھاتے جائیں لیکن تبلیغ احمدیت میں مصروف رہیں.تصنع سے نہیں ، بناوٹ سے نہیں بلکہ ان کے دو

Page 29

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 24 جلد دوم دل سے بھی آواز نکلے کہ آپ جو چاہیں ہم سے سلوک کریں مگر ہمیں آپ کی محبت مجبور کرتی ہے کہ آپ کی خدمت کریں اس وقت تک احمدیت کی پہلی بنیاد قائم نہیں ہو سکتی.اور جب یہ قائم ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت احمدیت کو دبا نہیں سکتی.اللہ تعالیٰ کا کلام ہمیشہ ہی كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَاءِ کا مصداق ہوتا ہے لیکن اس وقت ہماری انسا کمزوری دور ہو جائے گی اور ہم کامیاب ہو جائیں گے.دلائل کوئی چیز نہیں اصل چیز یہی ہے کہ مخالفت برداشت کرو، دکھ اور تکلیف اٹھاؤ اور لوگوں کو تبلیغ کرو.جب ہر جگہ، ہر شہر، ہر قصبہ اور ہر گاؤں میں یہ نظارے نظر آئیں گے کہ احمدی ماریں کھائیں گے، گالیاں سنیں گے ، دکھ اٹھائیں گے اور تبلیغ کریں گے تو شدید سے شدید مخالف بھی متاثر ہو جائیں گے.اور جو لوگ ظلم کر رہے ہیں ان سے کہیں گے کہ انسانیت کو کیوں بدنام کرتے اور ان کو دکھ دیتے ہو.ان کی محبت کی قدر کرو اور انسانیت سے پیش آؤ.دیکھو وہ عقبہ اور شیبہ جو اسلام کے شدید دشمن تھے جب بدر کی لڑائی کا موقع آیا جبکہ ابو جہل نے لوگوں کو ایک مقتول کا بدلہ لینے کے لئے اکسایا تھا تو وہ تیار ہو گئے کہ مقتول کے وارثوں کو ہم خود خون بہا دے کر راضی کر لیتے ہیں مگر مسلمانوں سے جنگ نہ کی جائے.انہوں نے یہ بھی کہا یا درکھو تم مسلمانوں کو ڈرا نہیں سکتے.وہ یا تو تمہیں مار دیں گے یا خود مر جائیں گے.اگر تم چاہتے ہو کہ ہر بھائی اپنے بھائی کوقتل کرے تو ی لڑو ورنہ جنگ سے باز آ ؤ - 6 یہ اشد ترین دشمن کہہ رہے تھے.اس لئے کہ انہوں نے مسلمانوں کی قربانی کا نظارہ دیکھا ہوا تھا.اسی طرح اگر ہماری جماعت کے لوگ قربانی کا نظارہ دکھائیں ، مخالف پتھروں سے ہم پر حملہ کریں اور ہم کلمہ خیر کے ساتھ ان کی طرف بڑھیں ، وہ گالیاں دیں ہم دین کی باتیں سنائیں، وہ غیط وغضب سے پُر گفتگو کریں اور ہم محبت اور الفت کی باتیں کریں تو انہی میں سے ایسے لوگ کھڑے ہو جائیں گے جو انہیں کہیں گے کہ تمہاری طرف سے یہ سلوک انسانیت پر ظلم ہے اس سے باز آ جاؤ.اب تو وہ کہتے ہیں کہ احمدی مسلمانوں

Page 30

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 25 جلد دوم کے دشمن، لالچی اور خود غرض ہیں لیکن تب کہیں گے احمدی بہادر ، احمدی لوگوں کے خیر خواہ ، احمدی مخلوق خدا کی خاطر دکھ اٹھانے والے ہیں.کیونکہ جب احمدی کہیں گے کہ تم جو سزا چاہو ہمارے جسم کو دے لو مگر ہم تمہاری روح کو بچانے کی کوشش کریں گے.ہم جسم کی سزا برداشت کر لیں گے تاکہ تمہاری روح کو بچا سکیں تو خود بخود ان لوگوں کے دلوں میں محبت کی چنگاری پیدا ہو جائے گی.ان کے گھروں کی عورتوں کے جذبات رحم و شفقت سے اہل پڑیں گے.ان سے نئی پوداثر لے گی اور پھر وہ اولا واحمدیت کی مؤید ہوگی.یہ اصل چیز ہے جو کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ارادہ سے دوسروں کی خیر خواہی کے لئے ، دنیا کو گمراہی سے بچانے کے لئے کوشش کی جائے اور کسی دکھ و تکلیف کی پرواہ نہ کی جائے ورنہ یہ کوئی اتنی بڑی قربانی نہیں ہے.جب دشمن پکڑ کر مار لیتا ہے یہ بھی قربانی ہے مگر اصل قربانی وہی ہے جو انسان خود اپنے اوپر وارد کرے.اگر دشمن کا مارنا ہی بڑی قربانی ہوتی ہے تو مانا پڑے گا کہ انبیاء سے بڑھ کر ان کے ماننے والوں نے قربانی کی جو دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے.مگر یہ درست نہیں.ہم اس کو بھی قربانی سمجھتے ہیں مگر اتنی بڑی نہیں جتنی اپنے نفس سے قربانی کی جائے اور جس کی تیاری میں دشمن کا دخل نہیں ہوتا.یہ تو نہایت ہی پاجی پن ہے کہ کوئی دشمن صداقت ترک کرنے کے لئے مارے تو مار سے ڈر کر صداقت کو چھوڑ دیا جائے اور کسی شریف انسان سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی.پس یہ کوئی بڑی قربانی نہیں.یہ تو دشمن نے زبر دستی پکڑ کر جو چاہا کیا لیکن جب ہم خود بخود دشمن کے پاس جاتے ہیں تا کہ اسے ہدایت ہو اور یہ جانتے ہوئے جاتے ہیں کہ ہمیں مار پڑے گی، تکلیف ہوگی ، دکھ پہنچے گا اور پھر ایسا ہی ہو تو یہ بہت شاندار قربانی ہے کیونکہ اس کا ہر جز و هما را پیدا کیا ہوا ہے.حالات سے مجبور ہو کر نہیں بلکہ خود حالات پیدا کر کے ہم نے قربانی پیش کی.دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مبلغین ایک غلطی کرتے چلے آ رہے ہیں اور وہ غلطی برابر چلی جا رہی ہے.خوب اچھی طرح یا درکھنا چاہئے کہ ہم کبھی کامیاب

Page 31

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 26 جلد دوم نہیں ہو سکتے جب تک ان کے نقش قدم پر نہ چلیں جن کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے اسوہ قائم کیا ہے.مگر بعض الفاظ سے دھوکا کھا جاتے ہیں جب قرآن میں پڑھتے ہیں کہ انبیاء کو ماننے والے اراذل تھے تو سمجھتے ہیں خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں پہلے ایسے ہی لوگ داخل ہوتے ہیں مگر یہ نہیں غور کرتے کہ اراذل سے مراد کیا ہے.حضرت ابراہیم کے ابتدائی ماننے والوں میں حضرت لوظ بھی تھے جو انہیں کے خاندان میں سے تھے.اسی طرح حضرت موسیٰ پر ابتدا میں ایمان لانے والے حضرت ہارون تھے.اگر انبیاء کو پہلے ماننے والے رذیل لوگ ہوتے ہیں تو حضرت ہارون کو بھی یہی کہنا پڑے گا.اور وہ چونکہ حضرت موسی کے بھائی تھے اس لئے حضرت موسی بھی نعوذ باللہ ایسے ہی ہوئے.رسول کریم میہ صلى الله کے زمانہ کی تو تاریخ موجود ہے کہ آپ کو کس کس نے ابتدا میں مانا.ان میں حضرت علیؓ، حضرت خدیجہ، حضرت ابو بکر بھی شامل تھے.کیا ان کو اراذل ان معنوں میں کہا جا سکتا ہے جو عام طور پر سمجھے جاتے ہیں؟ پس اراذل کا وہ غلط مفہوم ہے جو مبلغین اور دوسرے لوگ سمجھے ہوئے ہیں.قرآن کریم اسے رد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَوا انَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا 7 اطراف دو انتہائی حدود کو کہتے ہیں گویا ایک حد اشراف کی ہے اور ایک اراذل کی.یعنی ایک اعلیٰ خاندانوں کی حد ہے اور ایک عام لوگوں کی جنہیں مالی یا جسمانی طاقت حاصل نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ان دونوں طرفوں کو سمیٹ رہے ہیں.ایک طرف بااثر لوگوں میں سے اسلام میں داخل کر رہے ہیں دوسری طرف کمزوروں سے.پس اراذل سے یہ مراد نہیں کہ ادنی خاندان کے لوگ بلکہ وہ لوگ جو مالی لحاظ سے یا طاقت کے لحاظ سے کمزور ہوں.انہیں اراذل اس لئے نہیں کہا گیا کہ خاندانی لحاظ سے رذیل تھے بلکہ اس لئے کہ ان میں اس وقت کسی قسم کی طاقت اور قوت نہ تھی.حضرت عثمان ، زبیر عبد الله، سعد وغیرہ اعلیٰ خاندانوں میں سے تھے مگر اراذل تھے کیونکہ ابتدائی زمانہ میں ان کے پاس دولت نہ تھی ، طاقت نہ تھی.وہ ان کے بڑوں کے پاس تھی اور وہ اسلام میں داخل نہ تھے.حضرت علیؓ جب ایمان لائے تو

Page 32

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 27 جلد دوم اہل مکہ کی زبان میں رذیل تھے.کیونکہ ان کے پاس دولت نہ تھی ، وجاہت نہ تھی مگر یوں خاندانی لحاظ سے رذیل نہ تھے.اسی طرح زیر اپنی ذات میں رذیل سمجھے جاتے تھے مگر خاندان کے لحاظ سے رذیل نہ تھے.آخر ان کے مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کا خاندان بھی اسلام میں داخل ہو گیا.حضرت عمر کی بہن اور بہنوئی اراذل میں سے تھے مگر ان کے اسلام لانے کا وہی ذریعہ بنے.اس وقت تک ہمارے مبلغ عام طور پر اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے.اول تو وہ سمجھتے ہیں کہ امراء کو تبلیغ کرنی مفید نہیں.اور اگر کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کو جن کے دل لمبے عرصہ کے زنگ کی وجہ سے سیاہ ہو چکے ہیں.حالانکہ چاہئے یہ کہ ان خاندانوں کے نو جوانوں کو تبلیغ کی جائے.دیکھو اس بات سے مکہ فتح کرنے میں کس قدر مدد لی تھی اور اسی وجہ سے قرآن کریم میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو شامل کیا گیا کیونکہ اسلام کی کامیابی میں ان کو بھی دخل تھا.اور وہ اس طرح کہ خدا تعالیٰ نے مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے نو جوانوں کو چن لیا اور انہیں رسول کریم ﷺ کے قدموں میں ڈال دیا.اس وجہ سے کفار مسلمانوں پر سختی کرنے کی خواہش رکھتے ہوئے بھی بعض اوقات سختی نہ کر سکتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مکہ کے لوگوں کے پاس بھیجنا چاہا تو عرض کیا گیا کہ مکہ کے لوگ ان کی بات نہیں سنیں گے عثمان کو بھیجا جائے.چنا نچہ ان کو بھیجا گیا.جب کفاران کو مارنے لگے تو ان کے رشتہ دار کھڑے ہو گئے.غرض بہترین ذریعہ تبلیغ کا یہ ہے کہ اعلیٰ خاندانوں کے نو جوانوں کو تبلیغ کی جائے.اور قرآن سے دو ہی اطراف کا پتہ چلتا ہے جہاں سے لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو مظالم کے نیچے دبے ہوتے ہیں یا وہ خاندان جو اپنی شوکت کھو چکتے اور گر جاتے ہیں.ان کو اراذل کہتے ہیں.لیکن یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو جلد سچائی قبول کر لیتے ہیں اور ملک میں ہیجان پیدا کر دیتے ہیں.یہ ایسی بات ہے جس کی طرف اس وقت تک ہمارے مبلغین نے بہت کم توجہ کی ہے.انہیں چاہتے کہ جہاں جائیں وہاں کے سکولوں

Page 33

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 28 جلد دوم میں جائیں.ماسٹروں اور طالب علموں سے اچھے اچھے تعلقات پیدا کریں.بڑے خاندانوں کے نوجوانوں سے تعلقات بڑھائیں.ان کو تبلیغ کریں.پھر دیکھو چند سال میں ملک کا نقشہ کس طرح بدل جاتا ہے.جب بڑے بڑے خاندانوں کے نوجوان احمدی ہو جائیں گے تو ان کے خاندان احمدیوں پر تشدد نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کی مخالفت کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی.ایک اور بات یہ ہے کہ تبلیغ کے لئے عمدہ اخلاق اور لہجہ میں نرمی کی بے حد ضرورت ہے.وہ خشونت جس نے پرانے علماء کو بدنام کر رکھا ہے وہ کسی احمدی میں نہ ہونی چاہئے.اسلام سچائی ہے اور سچائی کو کوئی چیز مغلوب نہیں کر سکتی.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ جس.بات کریں اس سے لڑ پڑیں.اگر ہم دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے اس سے ملتے ہوئے اخلاق کو مد نظر نہ رکھیں گے تو اثر نہ ہو گا.ایک بات کو عمدگی سے پیش کرنے پر جو اثر ہو سکتا ہے وہ برے رنگ میں پیش کرنے سے نہیں ہو سکتا.مثلا اگر یوں کہیں کہ مسلمانوں میں یہ نقائص اور یہ کمزوریاں پیدا ہو گئیں اور ان کے ایمان میں نقص آ گیا ہے تو ہر شخص اسے تسلیم کر لے گا.لیکن اگر جو ملے اسے خواہ مخواہ کہا جائے کہ تم کا فر ہوتو وہ متنفر ہو جائے گا.جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ ایمان کا ایک درجہ ہے وہ اس میں نہیں.ورنہ کئی باتیں ایمان کی اس میں پائی جاتی ہوں گی.جس طرح ایک طالب علم امتحان میں پانچ نمبروں کی کمی کی وجہ سے بھی فیل ہو جاتا ہے اسی طرح وہ بھی ایمان میں نقص کی وجہ سے مومن نہیں کہلا سکتا.تو نقص تسلیم کرنے کے لئے ہر شخص تیار ہو جائے گا اور پھر اس کی اصلاح کی طرف بھی متوجہ ہو سکے گا.پس ہمارے مبلغین کو تبلیغ ایسے رنگ میں کرنی چاہئے کہ کسی قسم کے جھگڑے فساد کا شائبہ نہ ہو.پھر مبلغ اپنے اخلاق ایسے بنا ئیں کہ کسی کو ان سے خواہ مخواہ شکایت نہ پیدا ہو.اور وہ ایسے رنگ میں کلام کریں کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود بعض باتیں ایسے رنگ میں لکھی ہیں کہ لوگ انہیں سمجھ جائیں اور کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو.مثلاً آپ نے جو نبوت کی

Page 34

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 29 جلد دوم تشریحات کی ہیں ان کے یہ معنی نہیں کہ آپ دنیا سے ڈرتے تھے بلکہ آپ یہ چاہتے تھے کہ نبوت کو ایسے رنگ میں پیش کریں کہ لوگ الفاظ میں نہ الجھ جائیں اور ایسا طریق اختیار کریں کہ بغیر اس کے کہ سچائی کا ایک ذرہ بھی چھوڑیں اصل بات بیان کر دی جائے تاکہ لوگوں کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے.ہماری غرض کسی کو کافر بنانا نہیں بلکہ مومن بنانا ہے.کا فر خود بنتا ہے.اگر ہم ایسا طریق اختیار کرتے ہیں کہ کسی کو کافر بننے میں مدد دیتے ہیں تو خود ملزم بنتے ہیں.ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی ہے.مجھے تو ابو جہل میں بھی خوبی نظر آتی ہے.بدر کے دن جب اس نے کہا کہ اے خدا! اگر اسلام سچا ہے تو مجھ پر پتھر برسا 8 تو یہ بھی اپنے رنگ میں حسن ہی تھا.کیونکہ جس مذہب کو وہ سچا سمجھتا تھا اس کے لئے پتھر کھانے کو تیار ہو گیا.یہ بھی اپنے رنگ کا حسن تھا جو خدا تعالیٰ نے اس میں پیدا کیا.پس مبلغین کو ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے کہ تنگ دلی اور تنگ ظرفی نہ پائی جائے.خصوصاً وہ مبلغ جو عربی ممالک میں جائیں کیونکہ وہاں خشونت زیادہ پائی جاتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے مستقل اور باقاعدہ مبلغ اور دوسرے دوست بھی ان باتوں پر عمل کریں گے.اگر زیادہ نہیں تو کچھ دن ہی عمل کر کے دیکھ لیں اور پھر دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے.یہ عام مرض پایا جاتا ہے کہ لوگ جو باتیں سنتے ہیں انہیں فوراً بھول جاتے ہیں اور سننے کے بعد ان کے خلاف کرنے لگ جاتے ہیں.جان کر نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ باتیں عمل کرنے کے لئے سنتے ہی نہیں بلکہ مزہ حاصل کرنے کے لئے سنتے ہیں.اگر عمل کرنے کے لئے سنیں تو عظیم الشان تغیر پیدا ہو جائے.یہی باتیں جو اس وقت میں نے بیان کی ہیں ان پر عمل کر کے دیکھ لو اگلے ہی سال اگر نقشہ نہ بدل جائے تو جو چاہو کہو.مگر مشکل یہی ہے کہ عمل کرنے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.پچھلے دنوں میں نے ایک تبلیغی وفد یہ نصیحت کر کے بھیجا کہ یہ سمجھ کر جاؤ کہ ماریں کھانی پڑیں گی، تکلیفیں ہوں گی مگر سب کچھ برداشت کریں گے اور تبلیغ کرتے رہیں گے.لیکن جب کسی کو ذرا تکلیف پہنچی اس نے لوگوں کو یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہماری جماعت کے لوگ تمہاری خبر لیں گے.کئی ایک نے

Page 35

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 30 جلد دوم لکھا کہ لوگ ہمیں گالیاں دیتے ہیں ہم کیا کریں.بعض نے کہا کہ مضبوط اور طاقت ور آدمی آئیں تو اچھا اثر ہو.تو ان باتوں پر عمل کرو.سب سے پہلے مبلغین کے لئے عمل کرنا ضروری ہے.بے شک پہلے پہلے تکالیف ہوں گی ، تذلیل ہوگی ، لوگ پاگل بھی کہیں گے مگر آخر کار کامیابی ہوگی اور وہی لوگ قدر کی نگاہ سے دیکھنے لگ جائیں گے جو ابتدا میں تکالیف پہنچائیں گے.گاندھی جی نے جب ابتدا میں کام شروع کیا تو انہوں نے خود لکھا ہے میں نے کانگرس میں شامل ہو کر جب کہا کہ مجھے کام دو تو کہا گیا کہ تمہارے لئے کوئی کام نہیں.اس پر میں نے کہا دفتر میں بڑا گند پھیلا ہوا ہے اسے صاف کیوں نہیں کراتے.کہا گیا چوہڑا نہیں ملتا.میں نے کہا میں خود صفائی کر دیتا ہوں.چنانچہ میں صفائی کرنے لگ گیا.پھر سیکرٹری کا بٹن ٹوٹا ہوا تھا وہ لگا دیا.اس پر مجھے بہت سی ٹوٹی پھوٹی چیزیں مرمت کے لئے لا کر دے دی گئیں.تو بے شک ہر کام میں مشکلات پیش آتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ اثر ہونا شروع ہوتا ہے.“ (الفضل 19 جنوری 1932ء) 1:بخارى كتاب الادب باب ما يجوز من الشعر (الخ) صفحہ 1071 حدیث نمبر 6146 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: الأحزاب: 24 3: الكهف: 25 :4 انوار الاسلام روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 23 ،24 ایڈیشن 2008 ء 5: التوبة: 40 6 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 682 ، 683 مطبوعہ دمشق 2005 ء الطبعة الاولى 7: الرعد: 42 وَاذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَأَمْطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَةً منَ السَّمَاءِ (الانفال: 33)

Page 36

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 31 جلد دوم مبلغین جماعت احمدیہ کوضروری ہدایات حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کی کامیاب واپسی پر طلباء مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ نے ان کے اعزاز میں 14 جنوری 1932ء کو دعوت دی جس میں حضرت خلیہ اسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل تقریر فرمائی:.” میری طبیعت آج اچھی نہیں ہے اس لئے میں زیادہ تو نہیں کہنا چاہتا لیکن چونکہ یہ دعوت جن کی وجہ سے ہوئی ہے وہ ہماری جماعت کے ایک مبلغ ہیں اس لئے اس قدر اختصار کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر چیز میں جہاں خوبیاں ہوتی ہیں وہاں بعض عیوب بھی اس میں پائے جاتے ہیں اور جہاں کسی چیز میں عیب ہوتے ہیں وہاں بعض محاسن بھی اس میں ہوا کرتے ہیں.بری سے بری اور معیوب سے معیوب چیز لے لو اس کا کوئی نہ کوئی اچھا پہلو ہو گا.اور ا گا.اور اعلیٰ سے اعلیٰ اور اچھی سے اچھی چیز لے لو اس کا کوئی نہ کوئی خراب پہلو بھی ہوگا.ہاں اگر کوئی ہستی ایسی ہے جو خیر ہی خیر ہے اور جس کے حسن کے ساتھ کسی قسم کے شرکا تعلق نہیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے.ورنہ انسانوں میں سے خواہ انبیاء ہی کیوں نہ ہوں ان کی طرف بھی شرمنسوب کئے جاتے ہیں اور گو وہ ان کی ذات سے پیدا نہیں ہوتے مگر ان کے آنے کے ساتھ لوگوں کی شرارتوں اور بد اعمالیوں کی وجہ سے دنیا کے ایک حصہ پر آفات اور مصائب کا نزول ہوتا ہے اس لئے ان کی طرف انہیں منسوب کرتے ہیں.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کئی لوگ کہا کرتے تھے

Page 37

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 32 جلد دوم یہ اچھا نبی آیا کہ اپنے ساتھ طاعون اور زلزلے لے آیا اور جدھر دیکھو آفات ہی آفات نظر آتی ہیں.تو خیر محض صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے.اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قہر یہ بھی ہیں مگر وہ بھی مخلوق کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کا موجب بھی خود مخلوق ہی ہوا کرتی ہے.بہر حال وہی ایک ایسی ذات ہے جو تمام خوبیوں کی جامع ہے.باقی تمام چیزیں ایسی ہیں کہ یا تو ان میں نقائص ہوں گے یا کم سے کم ان کے ساتھ ایسی باتیں وابستہ ہوں گی جو دنیا کے لئے اگر ایک طرف ترقی کا موجب ہوں تو دوسری طرف تنزل کا بھی باعث ہوتی ہیں.اسی طرح دین کی تبلیغ بھی گو ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے لیکن تبلیغ کے ساتھ ایک نقص بھی لگا ہوا ہے.اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے مبلغ لفاظی یا محض باتوں ہی باتوں میں الجھ کر رہی جائے اور حقیقت سے کوسوں دور ہو جائے.چونکہ اس کا واسطہ ہمیشہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جن کے سامنے اس کا دل کھلا نہیں ہوتا بلکہ صرف زبان چلتی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ اس کے دل میں نور ہے یا تاریکی بلکہ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی زبان کیسی ہے.اور چونکہ وہ اس کی تعریف اور ثناء اس نور کی وجہ سے نہیں کرتے جو اس کے دل میں ہوتا ہے بلکہ محض زبان کی وجہ سے کرتے ہیں جس سے انہیں کسی قسم کا حظ حاصل ہوتا ہے.اس لئے آہستہ آہستہ اگر اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے کامل نہیں ہوتا اور اس کے دل کا نور ابھی مکمل نہیں ہوتا تو وہ اس ثناء اور تعریف سے متاثر ہو کر اور زبان کی شیرینی سے مسحور ہو کر اس وسوسہ میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ یہی وہ چیز ہے جس کی مجھے ضرورت تھی.تب اسی گھڑی سے اس کے دل کا نور سمٹنے لگتا ہے اور وہ سمٹتے سمٹتے اس کے قلب کے ایک گوشہ میں چھپ جاتا ہے اور دل کے اس میدان میں جہاں روحانیت کی جگہ ہونی چاہئے تھی جہاں آسمانی نور اور برکات کی جگہ ہونی چاہئے تھی کبر اور عجب اپنا ڈیرہ جما لیتا ہے.پس میں اس وقت یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت اور دوسری جماعتوں میں جو فرق ہے وہ یہی ہے کہ ہمیں یہ ہدایت کی گئی ہے اور اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی

Page 38

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 33 جلد دوم الله ہے کہ ہم لوگوں کے الفاظ کی طرف توجہ نہ رکھیں بلکہ ہماری توجہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہو.اسی وجہ سے خدا تعالیٰ پہلے اپنے بندوں کو لوگوں سے گالیاں سنوا تا تکلیفیں پہنچاتا اور پھر انہیں بڑا بناتا ہے.یہ بتانے کے لئے کہ لوگوں کی باتیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں ورنہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح بدر کے موقع پر ابو جہل کی زبان کاٹ دی بدر سے پہلے بھی وہ اس کی زبان کاٹ سکتا تھا.کسی انسان کی تلوار نے ابو جہل، عقبہ اور شیبہ کی زبانیں نہیں کائی تھیں بلکہ وہ خدا کی تلوار ہی تھی جس نے ان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا.اور یہ تلوار نہ مسلمانوں کی تعداد سے تعلق رکھتی تھی اور نہ ہی انسانی طاقت کی محتاج تھی بلکہ جس طرح بدر کے موقع پر چمکی اسی طرح مکہ کے ابتدائی ایام میں بھی دشمنوں کے خلاف چمک سکتی تھی.مگر کیوں پھر تیرہ سال پہلے یہ تلوار نہ چلی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ لوگوں کی باتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی تعریف اور ثناء کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں.خدا تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ محمد ﷺ ہمارا نور ہے اور اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ 1 کا مظہر.مگر باوجود اس کے کہ یہ بڑا عقلمند ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا پاگل ہے.باوجود اس کے کہ یہ بڑا بے نفس ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا لا لچی ہے.باوجود اس کے کہ یہ بڑا منکسر المزاج ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا متکبر ہے.باوجود اس کے کہ یہ بڑا مومن بلکہ اول المومنین ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا کا فر ہے.اور باوجود اس کے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا مقرب ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خدا سے دور ہے.غرض ہر ایک کمال جو اس کے اندر پایا جاتا ہے ان کی نظر سے مخفی ہے.اور ہر خوبی جو محمد ﷺ میں پائی جاتی ہے ان کی نگاہ میں عیب ہے.لیکن باوجود اس کے کہ ساری دنیا مل کر اسے معیوب بتاتی.ہے، اسے جھوٹا اور مفتری قرار دیتی ہے ایک دن نہیں، دو دن نہیں ، تین دن نہیں بلکہ مسلسل اور متواتر اور اصرار کے ساتھ ان باتوں میں بڑھی جاتی ہے اور اس کا ہر اگلا قدم اسے عناد اور بغض میں ترقی دیتا ہے.ایک دن آیا جبکہ وہی جو عیب دیکھنے والے تھے انہیں آپ میں خوبیاں نظر آنے لگیں اور وہی جو آپ کو برا کہنے والے تھے آپ کی تعریف کرنے

Page 39

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 34 جلد دوم لگے.وہی عقلیں ، وہی آنکھیں، وہی دماغ اور وہی کان تھے مگر ایک وقت آپ کو سخت بُرا سمجھتے ہیں اور دوسرے وقت نہایت اچھا.پس انسانی تعریف اور مذمت کی کیا حقیقت ہوئی.انہی لوگوں میں سے جنہوں نے ایک وقت رسول کریم ﷺ کی سخت مخالفت کی مگر دوسرے وقت آپ کے صحابہ میں شامل ہوئے ایک شخص عمرو بن العاص ہیں.وہ جب وفات پانے لگے تو لکھا ہے بہت رو ر ہے تھے.ان کے لڑکے نے انہیں روتا دیکھ کر پوچھا آپ کیوں روتے ہیں آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے بہت سی دینی خدمات کی توفیق بخشی.انہوں نے کہا ایک وقت تھا جب ہم میں اللہ تعالیٰ کا رسول موجود تھا.ہم نے اس کے ہاتھ پر توبہ کی اور اس کے ساتھ مل کر جہاد میں شامل ہوئے.اگر اُس وقت میری جان نکل جاتی تو مجھے کوئی فکر نہ تھا.اس کے بعد خدا کا رسول ہم میں سے اٹھا لیا گیا.اس کے بعد نہ معلوم ہم سے کیا کیا قصور سرزد ہوئے اور کس قدر اعمال خیر میں کوتاہیاں ہوئیں.اس لئے میں ڈرتا ہوں ان خطاؤں کی وجہ سے مجھ سے پرسش نہ ہو.پھر کہنے لگے ایک زمانہ تھا کہ دنیا کے پردہ پر مجھے محمد سے زیادہ عیب دار شخص اور کوئی نظر نہ آتا تھا.جس مکان میں آپ ہوتے اس مکان کی چھت کے نیچے میں ٹھہر نا گوارا نہ کر سکتا اور دنیا کی ہر بدی میں آپ کے وجود میں سمجھتا.یہاں تک کہ اس نفرت اور حقارت کی وجہ سے میری یہ حالت تھی کہ میں نے آنکھ اٹھا کر کبھی آپ کا چہرہ نہ دیکھا کیونکہ میں پسند نہ کرتا تھا کہ آپ کا چہرہ دیکھوں.اس کے بعد ایک وہ زمانہ آیا جب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دی اور میں اسلام میں داخل ہو گیا.اُس وقت میری یہ حالت تھی کہ دنیا کا کوئی حسن نہ تھا جو میں آپ میں نہ سمجھتا.یہاں تک کہ اس محبت اور رعب حسن کی وجہ سے میں نے اُس وقت بھی رسول کریم ﷺ کا چہرہ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا.2 دیکھو یہ ایک شخص کا اپنا تجربہ ہے بعد میں اس کا دماغ نہیں بدلا، نہ اس کی آنکھیں صلى الله اور کان بدلے.مگر ایک زمانہ میں محمد ﷺ کو وہ نعوذ باللہ بدترین خلائق سمجھتا ہے اور دوسرے وقت تمام مخلوق میں سے آپ کو بہترین وجود یقین کرتا ہے تو انسانی تعریف کیا

Page 40

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 35 جلد دوم عليسة ہوئی اور انسانی ثناء اور انسانی مذمت کی کیا حقیقت رہ گئی.یہی چیز تھی جسے خدا تعالیٰ رسول کریم اور آپ کے ماننے والوں کے ذریعہ دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا اور لوگوں کو دکھانا چاہتا تھا کہ انسانی آنکھ اور انسانی زبان کوئی حقیقت نہیں رکھتی.بسا اوقات انسانی آنکھ ایک حسین کو بدشکل قرار دے دیتی ہے.اور بسا اوقات ایک انسانی زبان اچھی چیز کو برا کہنے لگ جاتی ہے.پھر بسا اوقات انسانی آنکھ ایک چیز کو اعلیٰ قرار دے دیتی اور انسانی زبان کسی چیز کی توصیف کرتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ چیز بری ہوتی ہے اور وہ تعریف نہیں بلکہ مذمت کے قابل ہوتی ہے.لیکن یہ انسانی کمزوری ہے کہ بہت سے لوگ انسانی تعریف کو خدا کی تعریف سمجھ لیتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے تمام اعمال راکھ کی طرح اڑ جاتے ہیں اور ان کی تمام نیکیاں خاک کی طرح جو میں غائب ہو جاتی ہیں اور اس طرح غائب ہوتی ہیں کہ ان کا نشان تک باقی نہیں رہتا.یا درکھو حقیقی حمد اور توصیف وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.کیونکہ دل کا نور ہی ہے جو انسانی قدر بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف ہی ہے جو انسان کو اشرف مقام پر پہنچاتی ہے.پس جہاں تبلیغ میں انسان کو نیکیوں کے حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھنے کا موقع ملتا ہے وہاں ساتھ ہی ساتھ کبر اور معجب اور نفس کی بڑائی کا خیال بھی لگا رہتا ہے.اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب انسان تلوار کی دھار پر کھڑا ہوتا ہے اور یہی وقت اس کے لئے پل صراط پر چلنے کا وقت ہوتا ہے.اُس وقت اس کے اختیار میں ہوتا ہے کہ چاہے تو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر لے اور چاہے تو اس کی لعنت کا مستحق بن جائے.پس یا درکھو کہ وہ چیز جو تمہاری زبانوں پر جاری ہوتی ہے اس سے تمہارا امتحان نہیں لیا جائے گا بلکہ وہ چیز جو تمہارے دل میں ہے اس سے تمہارا امتحان ہوگا.پھر تمہاری اس سے قدر نہیں بڑھے گی جو تمہارے متعلق لوگ کہتے ہیں بلکہ اس سے بڑھے گی جو تمہارے متعلق خدا کہے.اگر تم اپنی کوششوں سے، اگر تم اپنی محنتوں اور سعیوں سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر لیتے ہو تو چاہے ساری دنیا تمہاری مذمت کرتی رہے تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہو سکتی.کیا

Page 41

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 36 جلد دوم کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر محمد ﷺ اپنی تیرہ سالہ کی زندگی میں ہی فوت ہو جاتے اور آپ کا کوئی تعریف کرنے والا نہ ہوتا تو آپ نعوذ باللہ برے ٹھہرتے اور اگر ابو جہل زندہ رہتا اور اس کی تعریف کرنے والے باقی رہتے تو وہ معزز ہوتا ؟ محمد ہے اگر اس وقت بھی فوت ہو جاتے جب ساری دنیا آپ کی مذمت کرنے والی تھی تو بھی آپ سے زیادہ معزز اور کوئی نہ ہوتا.اور اگر ابو جہل کی قیامت تک تعریف کرنے والے باقی رہتے تو بھی اس سے زیادہ ذلیل انسان اور کوئی نہ ہوتا.پس اگر تبلیغ کی برکات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اپنے قلوب کی اصلاح کرو.یہ مت خیال کرو کہ قلوب کی باتیں پوشیدہ رہتی ہیں.یہ مت خیال کرو کہ دل کے خیالات چھپے رہتے ہیں بلکہ یاد رکھو کہ قلوب کی باتیں بھی ظاہر ہو جاتی ہیں اور کبھی تو اللہ تعالیٰ انہیں اس طرح ظاہر کر دیتا ہے کہ اسی کے منہ سے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جو اس کی قلبی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں اور کبھی اس کے اندر سے بار یک شعاعیں نکل کر دوسروں کے قلوب پر پڑتی ہیں.اور وہ چیز جسے یہ خفی سمجھ رہا ہوتا ہے اس پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ خدا کے بندوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی نظر با وجود انسانی نظر ہونے کے لوگوں کے دلوں تک پہنچ جاتی ہے.اور وہ چیز جو دنیا کے لئے پوشیدہ ہوتی ہے ان کے لئے ظاہر ہو جاتی ہے.ہاں وہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کی چادر اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے ان کے عیب کو چھپا لیتے ہیں.وہ ایسا اس لئے نہیں کرتے کہ ان کے دل کا خیال ان پر ظاہر نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ خدا نہیں چاہتا کہ اس کی ستاری کی چادر کو اٹھا دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے جو لوگ میری مجلس میں آتے ہیں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ان کے دل کی باتیں مجھ پر ظاہر کر دیتا ہے مگر ساتھ ہی منع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کو ظاہر مت کرو.کیونکہ وہ ستار ہے اور نہیں چاہتا کہ کسی کا عیب عام انسانوں پر ظاہر ہو.ہاں وہ اپنے بندوں میں سے بعض کو جنہیں چن لیتا ہے اور جن سے اس نے اصلاح خلق کا کام لیتا ہوتا ہے بعض دفعہ مطلع کر دیتا ہے تا وہ لوگوں کے قلوب کی

Page 42

زریں ہدایات (برائے مبلغین) اصلاح کر سکیں.37 جلد دوم اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عالم الغیب ہوتے ہیں.بسا اوقات ان پر دوسروں کا عیب کھولا جاتا ہے اور بعض دفعہ پاس بیٹھنے والوں کے عیب انہیں معلوم نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ یہ اسی لئے کرتا ہے تا ثابت ہو کہ عالم الغیب ہستی صرف خدا ہی ہے.پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے عجز کے ساتھ جھکو اور اس کا فضل چا ہو.اسی کی تعریف اور توصیف پر بھروسہ کرو.اور اپنی زبان کے پھل پر خوش نہ ہو.اور ڈرو کہ بہت دفعہ اس کا پھل سخت زہریلا ہوتا ہے اور بجائے تریاق بننے کے انسان کے لئے زہر بن جاتا ہے.اور اپنا کھایا ہوا ز ہر زیادہ مہلک ہوتا ہے.پس اس عظیم الشان کام کا بیڑا اٹھاتے ہوئے اس امر کو ہمیشہ مدنظر رکھو ایسا نہ ہو کہ تم بجائے ترقی کرنے کے تنزل میں گر جاؤ.“ الفضل 28 جنوری 1932ء) 1: النور : 36 :2 مسلم کتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله (الخ) صفحه 64 65 حدیث 321 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 43

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 38 88 جلد دوم تعلیم الاسلام ہائی سکول اور مدرسہ احمدیہ کے قیام کی اغراض 23 جنوری 1932ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کی طرف سے حضرت مولوی جلال الدین شمس صاحب کی کامیاب واپسی پر دعوت کی گئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:." آج میری طبیعت اس قدر خراب تھی کہ ڈاکٹر صاحب نے بستر میں رہنے کا مشورہ دیا تھا مگر چونکہ میں اس دعوت میں شریک ہونے کا وعدہ کر چکا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ شامل ہو جاؤں.ہمارا سکول دراصل ایک عظیم الشان ضرورت کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا ہے.ظاہری اور دنیوی تعلیم کے لئے دنیا میں اور بہت سے سکول ہیں.اس سکول میں کئی طالب علم ایسے ہیں جو لاہور، امرتسر بلکہ بعض بمبئی ، کلکتہ وغیرہ مقامات سے آئے ہوئے ہیں اور ظاہری تعلیم کا انتظام ان کے شہروں میں قادیان کی نسبت بہت اچھا ہے.پس جب قادیان کے سکول کو بورڈنگ سکول بنایا گیا ہے تو اس کی ضرور کوئی خاص وجہ ہوگی.مولوی جلال الدین صاحب نے اپنی تقریر میں دونوں مدرسوں کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ مدرسہ احمدیہ کی غرض دینیات سے طلباء کو واقف کرنا ہے اور ہائی سکول کی غرض یہ ہے کہ طلباء دنیوی علوم بھی حاصل کر سکیں.میں اسی امر کو کسی قدرا صلاح کے ساتھ ان طلباء کے فائدے کے لئے جو اس وقت یہاں موجود ہیں بیان کرنا چاہتا ہوں.دنیا میں اس وقت علماء کی کمی نہیں.اور علم سے مراد اگر وہ کتابیں اور کورس ہیں جو احمد یہ سکول میں پڑھائے جاتے ہیں تو یہ بات دنیا میں اور بھی بہت سے مقامات پر حاصل

Page 44

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 39 جلد دوم ہو سکتی ہے.اور اسی طرح ظاہری علوم کے لئے ہمارے اس ہائی سکول سے زیادہ بہتر انتظام دوسرے مقامات پر موجود ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ہمارے سکولوں کی غرض یہ نہیں کہ طلباء مدرسہ احمدیہ سے دینی اور ہائی سکول سے دنیوی تعلیم حاصل کر کے نکلیں.بلکہ ایک زائد چیز ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم کیا کہ عموماً دنیا میں عالم اسے کہا جاتا ہے جو چند کتابیں طوطے کی طرح رٹ لے اور ان کے ماتحت اپنی تمام زندگی ایک غلام کی طرح بسر کر دے.اسی طرح ظاہری علوم والے بھی دنیا میں موجود ہیں لیکن اس کے یہ معنی سمجھے جاتے ہیں کہ باطنی اور روحانی تعلیم کی ضرورت نہیں.گویا ایک طرف تو دینی علوم حاصل کرنے والے ہیں جو اپنے آپ کو خدا کی دی ہوئی عقل اور اس کے فعل کے مطالعہ سے مستغنی کہتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی علوم حاصل کرنے والے ہیں جو روحانیت کے مطالعہ سے بے نیاز ہیں.حالانکہ یہی وہ دو چیزیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام انسان ہے.اس طرح انسانیت دو قسم کے لوگوں میں تقسیم ہو گئی تھی.اس کے دونوں حصے دنیا میں موجود تھے لیکن ایک ایک فریق کے پاس اور دوسرا دوسرے کے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ دونوں چیزیں دنیا کے ہر فرد کے اندر اکٹھی موجود ہوں.ایک انسان کے لئے دو آنکھیں ضروری ہیں لیکن اگر دو کی ایک ایک آنکھ ہو تو دونوں مل کر دو آنکھوں والا انسان نہیں ہو سکتا.بلکہ دونوں کانے ہوں گے.اسی طرح اگر ایک شخص کے ہاتھ نہ ہوں اور دوسرے کے پاؤں نہ ہوں تو دونوں مل کر ایک کامل انسان نہیں بن سکتے بلکہ دونوں ناقص انسان ہوں گے اور ان کی موجودگی میں بھی دنیا کو دو کامل وجودوں کی احتیاج رہے گی.یا ایک شخص کا بایاں ہاتھ ہو اور دوسرے کا دایاں ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ کامل انسان میں دونوں ہاتھوں کا ہونا ضروری ہے.اسی طرح ہر فرد تب مکمل ہو سکتا ہے جب وہ اپنی ذات میں روحانی و جسمانی علوم کا جامع ہو.ایک طرف خدا کے قول سے اور دوسری طرف اس کے فعل سے واقف ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دنیا کو بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا

Page 45

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 40 جلد دوم قول و فعل ایک ہیں.یعنی سائنس و مذہب میں کوئی تضاد نہیں.سائنس خدا کے فعل کا نام ہے اور الہام اس کے قول کا.اگر خدا ایک ہے تو اس کا قول اور فعل بھی ایک ہونا چاہئے.اور اگر ان دونوں میں تضاد ہو تو ان میں سے ایک ضرور جھوٹ ہوگا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی غرض کو مدنظر رکھ کر ان سکولوں کو قائم کیا تھا.ہائی سکول کی غرض یہ تھی کہ جماعت کے بچے دنیوی تعلیم کے علاوہ مذہبی علوم سے بھی واقفیت حاصل کریں اور انہیں روحانیات سے مس پیدا ہو سکے.اور احمد یہ سکول کی غرض یہ تھی کہ ایسے علماء پیدا ہوں جو لکیر کے فقیر نہ ہوں اور الفاظ کے بیچ میں خدا کے فعل کو نہ بھول جائیں.اور جب تک ان سکولوں میں پڑھنے والے طلباء میں یہ باتیں موجود نہ ہوں ان سے وہ اغراض پوری نہیں ہوسکتیں جو ان کے بناتے وقت مد نظر تھیں.اور جب اغراض پوری نہ ہوں تو بہتر ہوگا کہ ان کو بند کر دیا جائے.پس اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طلباء تو یہاں موجود نہیں ہائی کے ہیں جن کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کا یہاں آنا اس غرض سے ہے کہ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور دینی علوم بھی سیکھیں.یہ خیال کرنا جہالت ہے کہ دنیوی علوم دینیات کے راستہ میں روک ہیں.جس کے راستہ میں دنیوی علوم حائل ہوں وہ دین ہی نہیں ہو سکتا.پس اس سکول کے طالب علم دینی علوم کو بھی ساتھ ساتھ ترقی دینے کی کوشش کرتے رہیں.دینی ترقی کے لئے یہاں ایک اور بھی موقع ہے جو باہر حاصل نہیں ہو سکتا.یا درکھنا چاہئے کہ دنیا میں دلیل ایک حد تک ہی فائدہ دے سکتی ہے.دلیل یقین نہیں صرف شک پیدا کرسکتی ہے.اور انسان اس چیز کے متعلق کبھی اچھا اور کبھی برا خیال کرنے لگ جاتا ہے.مثلاً ایک شخص خدا کا قائل ہے.اب اگر اس کے خلاف اسے دلائل دیئے جائیں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شبہ میں پڑ جائے گا کہ شاید خدا نہ ہی ہو.یا ایک دہریہ کے سامنے ہستی باری تعالٰی کے دلائل پیش کئے جائیں تو اس کو شبہ پیدا ہو جائے کہ خدا ہے.یا زیادہ سے زیادہ وہ کہے کہ ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نہیں.یا یہ کہ غالب گمان ہے

Page 46

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 41 جلد دوم خدا ہے.یا یہ کہ کوئی خدا ہونا چاہئے.لیکن یہ سارے شکوک کے مقام ہیں.کیونکہ ” ہونا چاہئے کے بھی یہ معنی نہیں کہ ضرور ہو.ایک چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے مگر وہ نہیں ہوتی.تو میرا مقصد یہ ہے کہ دلائل شکوک پیدا کر سکتے ہیں یقین نہیں.یقین صرف مشاہدہ سے ہی پیدا ہوتا ہے.اگر چہ بعض اوقات اس میں بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر عام طور پر اس کے اندر اتنا ثبوت ہوتا ہے کہ انسان قطعی فیصلہ کر سکتا ہے.ایک شخص ہے اسے ہم آنکھ سے دیکھتے ہیں.اب اگر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ نہیں تو ہم اسے وہم کہیں گے کیونکہ آنکھ کہہ رہی ہے کہ وہ موجود ہے.اگر چہ بعض دفعہ ایسی بیماری بھی ہو جاتی ہے کہ انسان ایک چیز کو دیکھتا ہے مگر وہ نہیں ہوتی.مگر وہ علیحدہ صورت ہے.پس دلائل سے زیادہ جو چیز قادیان میں حاصل ہوسکتی ہے وہ مشاہدہ ہے.اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک مامور کو مبعوث کیا اور اس کی صداقت کے لئے یہاں کئی مشاہدات موجود ہیں.وہ لوگ جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ یاد ہے ان کے کانوں میں یہ آواز اب تک گونج رہی ہوگی کہ حضور بار ہا فرماتے.اس میں تو شبہ ہو سکتا ہے کہ سورج ہے یا نہیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے.اور حضور کے فیض روحانی سے ہزاروں ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خود اس کا مشاہدہ کیا.اپنی ذات میں اس کی قدرت کو دیکھا اور اس کے کلام کو سنا.یورپ میں کئی لوگوں نے مجھ سے سوال کیا کہ یہ کس طرح مانا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ الفاظ میں الہام کرتا ہے؟ میں ان کو یہی جواب دیتا کہ نفی کے مدعی تم ہو.مثبت والا تو دعوی کرتا ہے کہ فلاں چیز میرے پاس ہے.تمہارا دعویٰ تو اس وجہ سے ہے کہ تمہارے پاس دلیل نہیں.مگر میرے کانوں نے جب خود خدا تعالیٰ کے الفاظ سنے ہیں تو میں کیونکر اس میں شک کر سکتا ہوں.تو میرا انشایہ ہے کہ جب ہم ایک بات کو مشاہدہ کر لیتے ہیں تو اس کے مقابلہ میں تمام دنیا کے دلائل پیچ ہو جاتے ہیں.سوائے اس کے کہ ساری دنیا کا مشاہدہ اس کے خلاف ہو.مثلاً ایک چیز کو ساری دنیا کڑوا سمجھتی ہے اب اگر ایک شخص کہے کہ میں نے چکھ کر دیکھا

Page 47

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 42 جلد دوم ہے یہ میٹھی ہے تو اس کا مشاہدہ غلط سمجھا جائے گا.لیکن خدا تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کے مشاہدات اس کثرت سے ہیں کہ ان کا انکار نہیں ہو سکتا.حضرت ابراہیم ، حضرت نوح ، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور حضرت محمد مصطفی یہ سب اس امر کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور اب ہمارے زمانہ میں ہی ایک شخص نے اس کی آواز کو سنا.ہم نے اس کی بیعت کی اور اس طرح ہزاروں انسانوں نے خود اس آواز کو سنا.اب اگر ساری دنیا بھی کہے کہ خدا ہم کلام نہیں ہوسکتا تو ہم کہیں گے سب پاگل ہیں کیونکہ جو کہتے ہیں ہمارے مشاہدہ کے خلاف کہہ رہے ہیں.اور یہ وہ چیز ہے جو باہر کسی اور جگہ حاصل نہیں ہو سکتی.اور یہی ایک ایسی دلیل ہے جس میں کسی قسم کا شک نہیں ہوسکتا.کیونکہ انسان دلائل سے غالب نہیں آسکتا بلکہ یقین سے غالب آتا ہے جو قادیان میں پیدا ہوتا ہے.میں جب شام میں گیا تو وہاں کے ایک مشہور عالم عبد القادر جو بلا د عر بیہ میں اچھی شہرت رکھتے ہیں ملنے کے لئے آئے.انہیں زبان عربی پر اس قدر عبور کا دعوی ہے کہ اپنے آپ کو عربی زبان کا مجدد سمجھتے ہیں.میں نے ان سے کہا مذہبی تحقیقات ہر شخص کا فرض ہے.انہوں نے جواب میں کہا کہ میں آپ لوگوں کی خدمات کا معترف ہوں لیکن مرزا صاحب کی کتابیں غلطیوں سے پر ہیں.ان سے عیسائیوں پر تو رعب ڈالا جا سکتا ہے لیکن مسلمانوں پر نہیں.ان میں مرزا صاحب سے زیادہ جید عالم موجود ہیں.آپ اپنی توجہ یورپ کی طرف ہی رکھیے یہاں آپ کو کامیابی نہیں ہو سکتی.میں نے جواب میں کہا کہ آپ نے یہ اتنا بڑا دعویٰ کر دیا ہے جس کے لئے آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں.اوّل تو یہ ہے کہ ظاہری طور پر آپ غلطیاں پیش کریں.اور دوسری بات جو آپ نے کہی ہے اس کے متعلق یادر کھیئے کہ میں یہاں سے جاتے ہی مبلغ بھیجوں گا اور نہیں چھوڑوں گا جب تک اس علاقہ میں جماعتیں قائم نہ ہو جائیں.چنانچہ میں نے واپس آتے ہی مبلغ بھیجا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے فلسطین و شام میں جماعتیں قائم ہو گئیں.اور اسی عبد القادر نے لا چار ہو کر لاہوری احمدیوں سے دلائل منگوا کر ہمارا مقابلہ کرنے کی کوشش کی.اور یہ

Page 48

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 43 جلد دوم بہر حال احمدیوں کا ہی پس خوردہ تھا.تو یہ کیا چیز تھی جس نے عبد القادر کے سامنے مجھ سے اتنا بڑا دعوی کرا دیا ؟ یہ وہی مشاہدہ والا یقین تھا جو قادیان میں ہی حاصل ہو سکتا ہے.یہاں کے درودیوار اور ہر ایک اینٹ نشان ہے.ایک زمانہ تھا کہ یہاں احمدیوں کو مسجدوں میں نہیں جانے دیا جاتا تھا.مسجد کا دروازہ بند کر دیا گیا.چوک میں کیلے گاڑ دیئے گئے تا نماز پڑھنے کے لئے جانے والے گریں.اور کنویں سے پانی نہیں بھرنے دیا جاتا تھا.بلکہ یہاں تک سختی کی جاتی تھی کہ کمہاروں کو ممانعت کر دی گئی تھی کہ احمدیوں کو برتن بھی نہ دیں.ایک زمانہ میں یہ ساری مشکلات تھیں.مگر اب وہ لوگ کہاں ہیں؟ ان کی اولادیں احمدی ہوگئی ہیں اور وہی لوگ جنہوں نے احمدیت کو مٹانے کی کوشش کی ان کی اولادیں اسے پھیلانے میں مصروف ہیں.غرضیکہ یہاں کی ایک ایک چیز خدا تعالیٰ کا نشان ہے.یہی مدرسہ جس جگہ واقعہ ہے یہاں پرانی روایات کے مطابق جن رہا کرتے تھے اور کوئی شخص دو پہر کے وقت بھی اس راستہ سے اکیلا نہ گزر سکتا تھا.اب دیکھو وہ جن کس طرح بھاگے ہیں.یہاں کی ایک ایک اینٹ اللہ تعالیٰ کا نشان ہے اور اس کی تاریخ معلوم کر کے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کس طرح پورا ہوا.مجھے یاد ہے اسی میدان سے جاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا ایک رؤیا سنایا تھا کہ قادیان بیاس تک پھیلا ہوا ہے اور مشرق کی طرف بھی بہت دور تک اس کی آبادی چلی گئی ہے.اُس وقت صرف یہاں آٹھ دس گھر احمدیوں کے تھے اور وہ بھی بہت تنگدست، باقی سب بطور مہمان آتے تھے.لیکن اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کس قدر ترقی اسے دی ہے.پس اپنے دنوں سے فائدہ اٹھاؤ.کیونکہ بڑے ہو کر تم پر بہت بڑی ذمہ داری عائدہ ہونے والی ہے.تم نے دنیا کو فتح کرنا ہے.اپنے متعلق یہ خیال مت کرو کہ تم بچے ہو یا کمزور ہو، مال میں یا علم میں دوسروں سے پیچھے ہو.کیونکہ خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد ایک کام کیا ہے.اور جسے وہ کام سپرد کرتا ہے اسے طاقتیں بھی خود ہی دے دیتا ہے.پس

Page 49

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 44 جلد دوم اپنی تمام کمزوریوں اور نقائص کے باوجود یا درکھو کہ خدا تعالیٰ نے تم سے کام لینے کا فیصلہ کر لیا ہے.اور تمہارا فرض قرار دے دیا ہے کہ اسلام کو دنیا میں غالب کرو.اس وقت اسلام اگر چہ کمزور ہے مگر تم جو ایک معمولی سے گاؤں کے سکول میں پڑھنے والے اور ایک معمولی حیثیت کے گاؤں میں رہنے والے ہو، غریب والدین کے بچے ہو، ادنی درجہ کے بورڈنگ میں اقامت رکھتے ہو.یادرکھو کہ تمہارے ذمہ خدا تعالیٰ نے عظیم الشان کام لگایا ہے.اور جب وہ کسی کے ذمہ کوئی کام لگاتا ہے تو اسے پورا کرنے کی توفیق خود ہی عطا فر ما دیتا ہے.پس یہ خیال مت کرو کہ تم میں اہلیت نہیں ہے.ضرور ہے.اور اگر اس ارادہ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ تو روزانہ ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے جو تمہیں غالب کر دیں.تمہارے ماں باپ تمہیں بتا سکیں گے کہ احمدیت ابتدا میں کیسی کمزور تھی.حتی کہ 1914ء میں جب خلافت میرے سپرد ہوئی تو خزانہ میں صرف چند آنے تھے اور کئی ہزار قرضہ تھا.اور جماعت میں سے مخالفین کے قول کے مطابق تو ننانوے فیصدی خلاف تھے.لیکن نوے تو بہر حال تھے.لیکن باوجود ان حالات کے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قدر ترقی دی کہ اُس وقت ایک بھی مبلغ باہر نہ تھا مگر آج ساری دنیا میں ہمارے مبلغ ہیں اور کوئی براعظم ایسا نہیں جہاں احمدی مبلغ نہ پہنچ چکے ہوں.انگلستان، امریکہ ، جاوا، سماٹرا، افریقہ، گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، ٹرینیڈاڈ ، آسٹریلیا وغیرہ ہر جگہ ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ 17 سال کے قلیل عرصہ میں ہوا.آج سے 17 سال قبل اس مدرسہ کی طرف اشارہ کر کے کسی نے کہا تھا کہ جماعت نے ایک بچہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی ہے اس لئے تھوڑے ہی عرصہ میں اس سکول پر عیسائیوں کا قبضہ ہو جائے گا.لیکن آج یہ حالت ہے کہ اس میں پڑھنے والے عیسائیوں کو مسلمان بنا رہے ہیں اور عیسائیت کو کچلنے والے اس سکول سے پیدا ہورہے ہیں.پس میں طلباء کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم سے پہلوں نے جو کام کیا تم اس سے بہتر کر سکتے ہو کیونکہ ان کا علم اور تجربہ بھی تمہاری راہنمائی کے لئے موجود ہے اور اس وجہ سے جو کچھ

Page 50

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 45 جلد دوم * انہوں نے کیا تم وہ زیادہ سہولت اور آسانی کے ساتھ کر سکتے ہو.اس لئے اپنی ہمتوں کو بڑھاؤ، ارادوں کو بلند کرو اور ہمیشہ اس مقصد کو سامنے رکھو.تم بے شک کھیلو کو دو کیونکہ اس کے بغیر بھی تم مجرم ہو گے مگر اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھو ایک دن ایسا آنے والا ہے جب دنیا کو فتح کرنے کا کام تمہارے سپر د ہو گا اور اس کے لئے تمہیں تیار ہو جانا چاہئے.“ (الفضل 9 فروری 1932 ء )

Page 51

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 46 جلد دوم محترم خان صاحب منشی برکت علی صاحب کی الوداعی دعوت 6 مارچ 1932ء کو جماعت احمد یہ شملہ ودہلی نے محترم جناب خان صاحب منشی برکت علی صاحب کو جو ایک لمبی اور قابل تعریف ملازمت کے بعد پنشن پر جا رہے تھے رتالکٹورہ پارک میں ایک شاندار گارڈن پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اور ایک نسخہ قرآن کریم جماعت کی طرف سے اپنے مبارک ہاتھوں سے خان صاحب کو عطا فر مایا.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو مختصر خطاب فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے:.قادیان میں اس قسم کی دعوتوں پر میں عموماً تقریر کیا کرتا ہوں کیونکہ وہاں میری حیثیت میزبان کی ہوتی ہے اور ہر جانے والے کو الوداع اور آنے والے کو خیر مقدم کہہ سکتا ہوں.لیکن یہاں بوجہ مختصر قیام کے میں خود مہمان کی حیثیت رکھتا ہوں اس لئے میں نہیں سمجھتا میں کن جذبات کا اظہار کروں.آپ لوگ خان صاحب سے جدا ہور ہے ہیں اور جدائی کو محسوس کر رہے ہیں لیکن آپ سے جدا ہو کر خانصاحب میرے پاس قادیان آ رہے ہیں.اس لئے نہ تو میں ان کو الوداع کہہ سکتا ہوں اور نہ جدائی کے متعلق وہ جذبات میرے اندر پیدا ہو سکتے ہیں جو آپ لوگوں کے دلوں میں ہیں.میرے اندر تو اس وقت خوشی کے جذبات ہیں اور باوجود آپ کے رنج کے مجھے خوش ہونا چاہئے.لیکن چونکہ دوستوں کی خواہش ہے اس لئے کچھ بیان کرتا ہوں.ایک غلطی کی اصلاح پہلی بات ایڈریس کے ایک فقرہ کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ لکھنے والے نے جان بوجھ

Page 52

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 47 جلد دوم کر نہیں بلکہ غلطی سے لکھا ہے لیکن چونکہ وہ قابل اصلاح ہے اس لئے میرا فرض ہے کہ میں اس کی اصلاح کروں.بلکہ اس سے پہلے بھی میری خواہش تھی کہ جب کبھی موقع ملے اس بات کی اصلاح کروں.اب چونکہ ایسا موقع میسر آ گیا ہے اس لئے میں اس کی اصلاح ضروری سمجھتا ہوں.وہ فقرہ اس رنگ کا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور خلیفہ کی دعاؤں سے ایسا ہوا.یعنی خدا کے فضل کے ساتھ خلیفہ کی دعاؤں کو شریک بنایا گیا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کسی خدا کے بندے کو شریک کرنا ٹھیک نہیں ہے کیونکہ یہ شرک ہے.یہ تو کی کہا جا سکتا ہے کہ خلیفہ کی دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوا.لیکن جس فقرہ کا میں ذکر کر رہا ہوں اس میں خلیفہ کی دعاؤں کو خدا کے فضل کے برابر قرار دیا گیا ہے.حالانکہ ہر کام خدا کے فضل کے ساتھ ہی ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ کی مجالس میں بھی بعض لوگوں نے اس قسم کے فقرے کہے تو آپ نے اصلاح فرما دی.اور فرمایا اللہ کے ساتھ ہمارا ذکر مت کرو.ہاں دعاؤں کے ساتھ خدا کا فضل نازل ہوتا ہے.میں جانتا ہوں کہ لکھنے والے کے دل میں یہ خیالات نہ تھے لیکن میرا بحیثیت خلیفہ فرض ہے کہ اس غلطی کی طرف توجہ دلاؤں.الله جدائی پر رنج دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جدائی پر رنج ایک طبعی امر ہے.آنحضرت ﷺ کے صاحبزادہ حضرت ابراہیم جب فوت ہوئے تو حضور کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے.اس پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ تو ہمیشہ ہمیں صبر کی تعلیم دیا کرتے ہیں مگر آج آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے ہیں.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ایسے موقع پر آنسوؤں کا جاری ہونا ایک طبعی امر ہے.1 پس وہ جو جدائی کا احساس نہیں رکھتا طبعی جذبات سے خالی ہے.جس کا فقدان سنگ دلی کی علامت ہے.صبر سنگدلی کا نام نہیں بلکہ جزع فزع سے اپنے آپ کو روکنے کا نام ہے.,, مومن اور غیر مومن کی جدائی پھر فرمایا.جدائی دو قسم کی ہوتی ہے ایک مومن کی اور ایک غیر مومن کی.غیر مومن کو

Page 53

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 48 جلد دوم جدائی میں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی ہے اور وہ اپنے ساتھ حسرتیں لے جاتا ہے.برخلاف اس کے مومن جدائی میں بھی اپنے ساتھ بہت سی خوشیاں رکھتا ہے.مثال کے طور پر دیکھو ایک سپاہی جو اپنے ملک کی خاطر لڑتا ہے اسے میدان جنگ میں جب گولی لگتی ہے تو اسے سوائے تاریکی کے اور کیا نظر آتا ہے.وہ ملک یا قوم جس کی خاطر وہ لڑا تھا وہ ابھی آزاد نہیں ہوتی.عزیز واقارب سے وہ علیحدہ ہو گیا.لیکن اسے نہیں معلوم کہ بعد میں ان سے کیا معاملہ ہونے والا ہے نہ ہی اسے اپنے متعلق علم ہوتا ہے کہ مستقبل میں اس کا کیا حشر ہوگا.غرضیکہ اسے تسلی دینے والی کوئی چیز نہیں ہوتی اور چاروں طرف اس کے لئے تاریکی ہی تاریکی ہوتی ہے اور اس طرح وہ بے حد حسرتوں کے ساتھ جان دیتا ہے.لیکن ایک مومن جو جہاد میں اس لئے جاتا ہے کہ وہ خدا کے دین کی حفاظت کرے اسے جب موت آتی ہے تو اس کے لئے اپنے محبوب حقیقی سے ملنے کا راستہ کھول دیتی ہے.بے شک وہ اپنے عزیز و اقارب سے جدا ہوتا ہے لیکن وہ اس یقین کے ساتھ جدا ہوتا ہے کہ وہ انبیاء سے ملنے والا ہے جو ان اعزاء سے بہت بہتر رفیق ہیں.پھر وہ سمجھتا ہے کہ جدائی عارضی ہے تھوڑے دنوں کے بعد وہ اعزاء بھی اس کے ساتھ آ ملیں گے.وہ جانتا ہے کہ موت اس کی کے لئے اس دنیا سے بہتر گھر کا دروازہ کھولنے والی ہے اس لئے مومن کی جدائی میں بھی ایک خوشی ہوتی ہے جو دوسروں کی جدائی میں نہیں ہوتی.مومن کے دنیا وی صدمے دنیاوی جدائیوں اور صدموں پر بھی مومن خیال کرتا ہے کہ قرآن کہتا ہے وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ 2 که مومن ایسے موقع پر صبر کرتا ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ اگر تم کسی چیز کی جدائی کے غم پر صبر کرو گے تو اس سے بہتر چیز ملے گی.پس دنیا کی جدائی میں بھی ایک اور سامانِ راحت پیدا کیا جاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ صادق الوعد اور کون ہو سکتا ہے.چونکہ خدا نے مومن کی کامیابی کے دروازے کھول رکھے ہوتے ہیں اس لئے وہ کسی بات سے گھبراتا نہیں.ہر رنج اور تکلیف کو اپنے لئے بہتر خیال کرتا ہے.کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

Page 54

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 49 ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است پس مومن کے لئے ہر تکلیف ایک ترقی کا پیش خیمہ ہوتی ہے.“ جلد دوم الفضل 20 مارچ 1932 ء ) 1 بخارى كتاب الجنائز باب قول النبي عليه انا بك لمحزونون صفحه 208 209 حدیث 1303 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 2 البقرة : 156

Page 55

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 50 50 غیر مسلموں میں تبلیغ کیلئے زریں ہدایات 5 مارچ 1933 ء کو بیت اقصیٰ قادیان میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے لوکل جماعت تی کے افراد جو کہ تبلیغ کیلئے جانے والے تھے کو حسب ذیل نصائح فرما ئیں.تشہد ، تعوذ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اس اجتماع کی اصل غرض تو یہ ہے کہ دعا کر کے دوستوں کو رخصت کیا جائے تا وہ جس جس علاقہ میں جانے والے ہیں وہاں جا کر اپنا کام شروع کر دیں لیکن میں مناسب سمجھتا ہوں کہ اس موقع کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دعا سے پہلے کچھ ہدایات دوں تا انہیں تبلیغ کرنے میں مددمل سکے.عام طور پر ہماری جماعت کے مباحثات چونکہ دوسرے مسلمانوں سے ہی ہوتے رہتے ہیں اور زیادہ تر انہی لوگوں سے ملنے جلنے اور بات چیت کرنے کا موقع ملتا ہے اور چونکہ انسان قدرتی طور پر اپنے سے زیادہ قریب اور زیادہ میل جول رکھنے والے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے اس لئے اس قدرتی میلان کی وجہ سے ہماری جماعت کے احباب کو جس قدر ان مسائل سے واقفیت ہے جن میں ہم میں اور غیر احمدیوں میں اختلاف ہے، اس قدر ان سے نہیں جن میں ہم میں اور غیر مسلموں میں اختلاف ہے.اس کے علاوہ ایک قدرتی بات یہ ہے کہ جب کوئی انسان دوران گفتگو میں عاجز آنے لگتا ہے تو وہ مشکل اور کے پیچیدہ عبارات میں اپنے مد مقابل کو الجھانے کی سعی کرتا ہے.انسان نے اپنی ذلت اور کی شکست کو چھپانے کے جو ذرائع ایجاد کئے ہیں ان میں سے بہترین ذریعہ یہ ہے کہ مشکل اصطلاحات اور پیچیدہ عبارات کے چکر میں خود بھی پھنس جائے اور دوسروں کو بھی پھنسا ؟ جلد دوم

Page 56

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 51 جلد دوم دے اور بد ترین طریق گالیاں دینا اور مار پیٹ پر اتر آنا ہے.ایسے لوگ جب دلائل سے عاجز آ جاتے ہیں تو یا تو گالیاں دینے اور مارنے پیٹنے پر اتر آتے ہیں اور یا پھر پیچیدہ اصطلاحات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں.جن کے معنی وہ نہ خود سمجھتے ہیں اور نہ دوسرے کی سمجھ میں آتے ہیں.اور یہ حال ہندو، مسلمان، سکھ سب کا ہے.جب وہ دیکھتے ہیں کہ دلیل سے نہیں چل سکتے تو اصطلاحات کے چکر میں پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں.مسلمان کو جب دلیل نہ آئے گی تو جھٹ کہہ دے گا اچھا بتاؤ نماز کے واجبات کتنے ہیں.حالانکہ ہر شخص روز نماز پڑھتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ کس طرح پڑھنی چاہئے.اسے اس کی کیا ضرورت ہے کہ واجبات معلوم کرتا پھرے.اور اگر وہ بتا بھی دے تو کیا ضروری ہے کہ وہ اسے صحیح بھی مان لیں.انہوں نے تو اپنے ڈھکوسلوں کی ایک فرضی لسٹ بنا رکھی ہوتی ہے مگر دوسرا ان بیہودگیوں میں نہیں پڑتا.اس نے گن کر نہیں رکھے ہوتے یا یا د بھی ہیں مگر بیان کرتے وقت کوئی رہ گیا تو جھٹ کہہ دیں گے کہ دیکھو اسے اتنا بھی معلوم نہیں.یہ تو ظاہری علوم والوں کا حال ہے.جو لوگ علماء کہلاتے ہیں وہ زیر زبر کا جھگڑا چھیڑ دیں گے حالانکہ ہزار ہا لوگ قرآن کریم کو خوب سمجھتے ہیں مگر وہ زیر زبر کے صحیح استعمال کو نہیں جانتے.بس اس پر وہ کہہ دیں گے کہ یہ جاہل ہے.پھر صوفیاء ہیں وہ جب دلیل سے عاجز آجائیں گے تو کہیں گے بتا ؤ لقاء کیا ہے؟ آپ مذہبی باتیں تو خوب کرتے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ لاہوت اور ناسوت کیا ہیں اور پھر قہقہہ لگائیں گے کہ دیکھو یہ ابتدائی باتوں سے بھی واقف نہیں حالانکہ ان باتوں کا روحانیات سے کوئی تعلق نہیں.یہ خود ساختہ باتیں ہیں.جیسے ایک تماشہ گر، نٹ نے بعض باتیں یاد کر رکھی ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ دوسروں سے پیسے وصول کرتا ہے.اس کے ہاتھ میں دیکھنے والے پیسہ سمجھتے ہیں حالانکہ وہ خالی ہوتا ہے.یا لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاتھ خالی ہے مگر پیسہ موجود ہوتا ہے.حقیقت میں اس کی باتیں اور حرکات ہی پیسہ کو لانے اور لے جانے کا بہانہ ہوتی ہیں اور انہی سے وہ دوسروں کو دھوکا میں ڈال کر اپنا کام کرتا ہے.بعینہ اسی طرح لاہوت ناسوت اور فرائض و واجبات :

Page 57

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 52 جلد دوم وغیرہ اصطلاحات بھی دوسروں کو دھوکا میں ڈالنے کیلئے وضع کر لی گئی ہیں.اور یہ ان لوگوں کا حال ہے جن کے پاس دین موجود ہے.جن کے پاس حقیقت تھی جب ان کے اندر کچھ کبھی آگئی تو اس قسم کی حرکات جب ان سے صادر ہونے لگیں تو جن کے پاس دین ہے ہی نہیں وہ کیا کچھ نہ کرتے ہوں گے.اسی لئے ایسے مواقع پر ہندو کہہ دیتے ہیں کہ اچھا یہ بتایا جائے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیسے کیا.مسلمان کے پاس چونکہ قرآن پاک موجود ہے اس کی لئے اسے دور جانے کی ضرورت نہیں پیش آتی مگر وہاں چونکہ یہ خانہ خالی ہی ہے اس لئے وہ یہیں سے شروع کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیسے کیا.کیونکہ جتنی کم صداقت کسی کے پاس ہوگی وہ اتنا ہی دور سے شروع کرے گا.وید چونکہ بہت پرانے ہیں اور ان میں بہت تغیرات ہو چکے ہیں اس لئے وہ پیدائش سے پہلے شروع کریں گے.عیسائیوں اور یہودیوں کے پاس چونکہ ان کی نسبت زیادہ صداقت ہے وہ دنیا کی پیدائش سے تو نہیں مگر آدم کے گناہ سے شروع کریں گے.ان لوگوں کی مثال بعینہ اس راجہ کی ہے جو بہت بخیل تھا.اس کے پاس ایک برہمن آیا اور کہا کہ مجھے مدد کی سخت ضرورت ہے.ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ سورگ 1 میں جانے کے خاص ذرائع میں سے ایک یہ ہے کہ برہمن کی بیٹی کی شادی کر دی جائے.برہمن نے راجہ سے کہا میری بیٹی جوان ہے اس کی شادی کیلئے مجھے امداد دو.وہ بخیل ہونے کی وجہ سے کچھ دینا بھی نہ چاہتا تھا اور ساتھ ہی برہمن کو صاف جواب دینا بھی اسے پسند نہ تھا اس لئے کچھ سوچ کر کہا کہ پر ارسال میری جو گائے گم ہو گئی تھی وہ لے لو.اس کا بیٹا اس سے بھی زیادہ بخیل تھا.اس نے کہا کہ اس سے بھی پہلے سال جو گائے مرگئی تھی وہ کیوں نہ اسے دے دی جائے.یہی حال ان مذاہب کا ہے.مسلمان تو زیر زبر کا جھگڑا ہی پیش کرے گا لیکن عیسائی آدم کے گناہ سے ادھر نہیں ٹھہرے گا.مگر آر یہ پوچھے گا کہ خدا کو مادہ کہاں سے ملا.غرضیکہ یہ سب بیچ دار گفتگو میں الجھتے اور دوسروں کو بھی الجھانا چاہتے ہیں اور نادان اس میں پھنس جاتے ہیں.مولوی عمرالدین شملوی جو اب مرتد ہو چکے ہیں میں ہمیشہ انہیں کہا کرتا تھا کہ جن

Page 58

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 53 جلد دوم بحثوں میں آپ پڑے رہتے ہیں یہ آپ کو انجام کار گمراہ کر دیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات کیسی عمدہ ہے کہ ایک باپ کو اس سے کیا غرض کہ اس کے بیٹے کا جگر کہاں ہے، تلی کیسی ہے، دل کہاں ہے وہ تو صرف یہ دیکھتا ہے کہ اس کا بیٹا ہے یا نہیں اور پھر اس سے پیار کرنے لگ جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ سے ہمارے تعلق کے لئے یہ کی کافی ہے کہ وہ ہمارا رب ہے اور ہم اس کے بندے ہیں.وبس.اس نے آدمی کو کہاں کی سے بنایا ، کیسے بنایا یہ فضول سوالات ہیں.پس غیر مسلموں سے بحث کرتے وقت ان کی طرف سے تمہارے سامنے ضرور ایسے عقدہ ہائے لا ینحل پیش کئے جائیں گے.یہ مت خیال کرو کہ زمیندار ان باتوں سے واقف نہیں ہوتے.انہیں بھی مسلمانوں کی طرح چند اصطلاحات یاد ہوتی ہیں.وہ تناسخ کی تفصیل بیان نہیں کر سکتے مگر وہ یہ ضرور کہہ دیں گے کہ اپنے اپنے عمل کا نتیجہ ہے.آخر یہ جو دنیا میں فرق ہے یہ کیا ہے ؟ یاوہ کہہ دے گا کہ اسلام جانوروں کو ذبح کر کے کھانے کا حکم دیتا ہے.تو اپنے رنگ میں اور اپنے اصول پر ان کے اعتراضات ضرور ہوتے ہیں.جس طرح کوئی مسلمان خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی طاقتوں سے واقف ہو یا نہ ہو ، دوران گفتگو میں عادتاً اِنشَاءَ الله کہہ دے گا.حالانکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ساری طاقتیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اس کے منشاء کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا.سارے سامان اس کے پیدا کردہ ہیں اور اس کے تصرف کے نیچے ہیں میری کوششوں کے باوجود اللہ کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو یہ کام ہو اور اگر نہ چاہے تو نہ ہو.مگر جاہل مسلمان ان باتوں کو نہیں جانتا لیکن اِنشَاءَ الله کہے گا ضرور.تو جس طرح مسلمان کو بعض مذہبی اصطلاحات اور جملے یاد ہوتے ہیں اسی طرح ہندوؤں کو بھی یاد ہوتے ہیں اور ایسے ہی ان کے اعتراضات بھی ہوتے ہیں.ایک دفعہ ریل میں میرے ساتھ ایک سکھ آنریری مجسٹریٹ سفر کر رہے تھے.وہ مجھے کہنے لگے کہ اگر آپ برا نہ منائیں تو میں ایک مذہبی سوال کرنا چاہتا ہوں.میں نے انہیں کہا کہ مذہبی سوال میں برا منانے کی کیا ضرورت ہے.پھر اس نے دو چار منٹ اپنے غیر متعصب ہونے کے متعلق تقریر کی اور

Page 59

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 54 جلد دوم کہا میں اسلام کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں مگر بعض باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں.مثلاً آپ کے ہاں جو ختنہ کا حکم ہے مرد تو اس پر عمل کر سکتے ہیں عورت کیا کرے؟ میں نے کہا یہ کیا مشکل بات ہے آپ کے ہاں داڑھی رکھنے کا حکم ہے جو مرد تو رکھ سکتے ہیں مگر عورت کیا کرے؟ جو علاج آپ اس کے لئے تجویز کریں گے وہ ہماری طرف سے سمجھ لیں.کہنے لگے ان کے تو ہوتی ہی نہیں.میں نے کہا اسی طرح ختنہ کا حال ہے.تو ایسے ایسے اعتراض کی ان لوگوں نے بنائے ہوئے ہوتے ہیں جن سے اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں.قرآن کریم نے اس بارہ میں بھی راہنمائی کی ہے.اس نے ظاہری الفاظ میں پیچیدہ مسائل کو پیش کیا ہے.اس کا فلسفہ اس کے لفظوں کے نیچے چھپا ہوا ہے جو اسے نکالنا چاہے کرید کر نکال لے گا وگرنہ ایک عامی 2 کے لئے اس کے اندر سیدھی سادھی باتیں ہیں.مثلاً آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا کون ہے، تم کو ذلیل پانی سے پیدا کیا ہے، پھر تمہارے لئے سامانِ معیشت پیدا کئے ، تم مصیبتوں میں گھبراتے ہو، آفتوں پر روتے ہو، ہم نے زمین و آسمان کو تمہاری خدمت پر لگا دیا ہے.کیا موٹی موٹی باتیں ہیں جنہیں ایک زمیندار بھی سمجھ سکتا ہے.پھر اس کے اور ورشنز (VERSIONS) ہوتے ہیں اور اُن کے اور.لیکن ایک عامی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ قرآن کریم میں فلسفہ کی باتیں ہیں.ہاں ایک فلسفی اس کے اندر فلسفہ کا بحر بیکراں دیکھتا ہے.تو چونکہ آپ کو ہندوؤں اور سکھوں سے گفتگو کی زیادہ عادت نہیں اس لئے ان سے گفتگو کرتے وقت ضروری ہے کہ قرآن کریم کے طرز کی اتباع کریں.اس کے الفاظ سہل اور دلائل میں سادگی ہے.قرآن کریم کے پیش کردہ دلائل پر غور کرو تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ سب کے سد.رو چیزوں پر مرکوز ہیں.ایک تو یہ کہ تمام عالم میں ایک طاقتور ہستی ہے.سورج ، چاند ، تری ، نور، ظلمت کو دیکھو تمہیں معلوم ہوگا کہ ایک طاقتور ہستی ہے جو ان کے پیچھے کام کر رہی ہے.اور دوسرے یہ کہ تم اسے نظر سے اٹھا دو تو ہر چیز میں فنا نظر آئے گی.ایک طرف کا ئنات کا ایک ایک ذرہ بتا رہا ہے کہ کوئی طاقت موجود ہے جو اس پر حکومت کر رہی ہے

Page 60

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 55 جلد دوم اور جو کبھی ملتی نہیں ، جس کی قوتوں کی کوئی حد بندی نہیں.اور دوسری طرف ہر ذرہ یہ بتا رہا ہے کہ ہر چیز فنا ہونے والی ہے.یہ دونوں متوازی سلسلے ہر جگہ دنیا میں نظر آتے ہیں.ایک طرف ہم آنکھ کو دیکھتے ہیں کہ اس کی حفاظت کیلئے قدرت نے کیا کیا سامان رکھتے ہیں.ابرو ہیں جو چوٹ وغیرہ سے حفاظت کرتے ہیں.پلکیں ہیں تا بار یک گردو غبار کو اندر جانے سے روک دیں.پھر اسے گیلا رکھنے کے لئے قدرت نے ایسی غدود میں رکھی ہیں تا آنکھ خشک نہ ہو.ایک زمینداران تفاصیل کو نہیں جانتا.لیکن جب آنکھ خشک ہوتی ہے وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس میں خرابی پیدا ہو گئی.یہ تو عام باتیں ہیں لیکن ڈاکٹروں سے پوچھو تو وہ کیا کیا پردے اور بار یک باتیں آنکھ کے متعلق بتائیں گے.گویا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوت ہی قوت ہے.دوسری طرف یہ حال ہے کہ ایک شخص جنگل میں جا رہا ہے کوئی سرکنڈا لگا اور آنکھ نکل گئی.یا کھیل میں چوٹ لگی تو آنکھ بیٹھ گئی کوئی چیز پڑ گئی تو روشنی جاتی رہی.پھولا بن گیا.اب غور کرو کہ ایک طرف تو سینکڑوں فلسفی لگے ہیں مگر آنکھ کے معارف ختم نہیں ہوتے.دوسری طرف انگوٹھا لگا اور آنکھ باہر.گویا کمزوری اتنی کہ کوئی طاقت اس میں ہے ہی نہیں اور یہی حال ہر ذرہ کا ہے.ایک طرف طاقت ہی طاقت اور دوسری طرف کمزوری ہی کمزوری.اور یہ سب باتیں کیا ظاہر کرتی ہیں؟ یہی کہ تم کچھ نہیں خدا سب کچھ ہے.پس جن کے پاس تبلیغ کے لئے جاؤ انہیں یہ آسان باتیں بتا کر ان کے دل میں خشیت پیدا کرو اور بتاؤ کہ انسان خدا کی مدد کے بغیر کچھ نہیں اور پھر انہیں بتاؤ کہ اسلام کے ذریعہ ہی تم خدا کو پاسکتے ہو.اگر کوئی کہے کہ ہمارے مذہب میں سچائی ہے تو اسے بتاؤ کہ بے شک ہے مگر اسلام میں زیادہ ہے.بجائے اس کے کہ اسے کہو تیرا مذ ہب جھوٹا ہے، اس کی تائید کر کے اسلام کی فضیلت اس کے ذہن نشین کرو.اگر جھوٹا کہو گے تو وہ کہہ دے گا کہ سارے ہی ڈھکو سلے ہیں.اور اگر کہو کہ سچائی ضرور ہے تو رستہ آسان ہو جائے گا.قرآن کریم نے یہی طریق اختیار کیا ہے.عیسائی کہتے ہیں کہ سب نبی چور اور بیمار ہیں.لیکن قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں نبی بھیجے ہیں 3 جو سب خدا کے پیارے ہیں.پس چاہئے

Page 61

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 56 جلد دوم کہ اس طرح ان کے دل میں خشیت پیدا کرو اور انہیں یہ بھی بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء مبعوث کرتا رہا ہے اور ان کے ذریعہ ہی دنیا کو ترقی دیتا رہا ہے اور دنیا کی ترقی ایک ہی دین پر قائم ہونے سے ہو سکتی ہے.لڑائیاں جھگڑے سب لوگوں نے خود پیدا کئے اور یہ اپنی وجہ سے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں.یہی باتیں ہیں جو قرآن شریف پیش کرتا ہی ہے اور جو مفید ہوسکتی ہیں.باقی رہا یہ کہ دنیا کو خدا نے کس طرح پیدا کیا اور کس چیز سے پیدا کیا ؟ یہ فضول باتیں ہیں.بیٹے سے محبت کرنے کے لئے کوئی شخص اس کا جگر تلی نہیں دیکھا کرتا.جو چیز دیکھنی چاہئے وہ یہی ہے کہ خدا کا ہاتھ نظر آتا ہے، اسے پکڑ لو.دلیل کے وقت ان کے سامنے تازہ نشانات اور سادہ عام فہم باتیں پیش کرو.اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کی عقل کے مطابق اس کے لئے نشان رکھے ہیں.ایک فلسفی نے کسی بزرگ سے دریافت کیا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا فلسفہ اتنا باریک ہے کہ فلسفی بھی اسے نہیں سمجھ سکتے پھر زمیندار لوگ اسے کس طرح مان لیتے ہیں.بزرگ نے کہا کہ خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت ہر شخص کو اپنے فہم کے مطابق مل جاتے ہیں.کوئی بدوی پاس سے گزر رہا تھا.اس سے اس نے دریافت کیا کہ تم خدا کو کیوں مانتے ہو؟ اس نے کہا کہ جنگل میں اگر کوئی لینڈ نا پڑا ہو تو اسے دیکھ کر ہم سمجھ لیتے ہیں کہ کوئی اونٹ ادھر سے گزرا ہے تو اس قدر عظیم الشان کارخانہ بغیر کسی خالق کے کیونکر ہو گیا.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سادہ دلائل کی طرف توجہ دلائی ہے.پس تم بھی تفصیلات اور فلسفیانہ باتوں کے بیچ میں نہ پڑو کیونکہ ان سے نکلنے کا نہ تمہیں رستہ ملے گا اور نہ انہیں.اصل چیز یہ ہے کہ ہمارے پاس زندہ خدا ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والا ، زندہ رکھنے والا، خالق مالک ہے.اس کے تازہ نشانات ہم روز دیکھ رہے ہیں اور ان باتوں کے ہوتے ہوئے ہمیں اس بیچ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے کہ خدا کس طرح ہے.اس کی کیا صورت ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ زمیندار لوگ چیچک کا ٹیکا کراتے ہیں حالانکہ وہ اس بات کو قطعاً نہیں سمجھ سکتے کہ نشتر مارنے سے چیچک کس طرح رک جاتی ہے.وہ صرف یہ جانتے ہیں کہ جن لوگوں نے یہ ٹیکا کر ایاوہ اس سے محفوظ ر

Page 62

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 57 جلد دوم اور ان کے لئے اس کے مفید ہونے کی یہ کافی دلیل ہے.اب تک بعض ڈاکٹر اس کے مخالف ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ سب کمزوریاں اور بیماریاں اس سے پیدا ہوتی ہیں.مگر یہ جو ہے تذبذب کی حالت ہے یہ ایک زمیندار میں نہیں ہوتی.مضرت اس کی آنکھوں سے مخفی - وہ صرف اتنا جانتا ہے کہ کرانے والوں کو فائدہ ہوا ہے.یا لوگ کو نین کھاتے ہیں مگر ہر ایک یہ کہاں جانتا ہے کہ یہ بخار کو کس طرح جا کر روکتی ہے.عام آدمیوں کو ان باتوں سے کی تعلق نہیں ہوتا وہ اتنا جانتے ہیں کہ اس سے فائدہ ہوتا ہے.اور اصل دلیل یہی ہے اس لئے اسے پیش کرو اور بتاؤ کہ اسلام زندہ مذہب ہے.تمہارے ہی علاقہ میں ایک شخص نے دعویٰ کیا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ہمکلام ہوتا ہے.لوگوں نے مل کر اس کی مخالفتیں کیں.وہ سمجھتے تھے کہ اسے تباہ کر دیں گے مگر آخر وہ خود هَبَاءَ مَّنثُورًا ہو گئے لیکن اسے اللہ تعالیٰ نے ترقی دی.وہ بڑھا ، پھولا اور پھلا.دنیا کے کناروں سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو اس کے پاس لایا ، بڑوں کو بھی اور چھوٹوں کو بھی ، عالموں کو بھی اور جاہلوں کو بھی.غور کرو یہ کیا چیز ہے.تمہارے بھی آخر بزرگ ہوئے ہیں.پنڈت دیانند صاحب کو ہی لے لو اور دیکھو کہ مذہبی لحاظ سے ان کے ماننے والے کم ہو رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں.حالانکہ شروع میں ہی راجے اور مہاراجے ان کے ساتھ شامل ہو گئے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کی تعداد کئی سال تک چند سو سے نہ بڑھ سکی مگر پھر بھی دیکھو اللہ تعالیٰ انہیں کس طرح ترقی دے رہا ہے.پھر انہیں یہ بتاؤ کہ یہ مت خیال کرو ہم پڑھے لکھے نہیں.ہر ایک کے لئے اللہ تعالیٰ سے ملنے کا رستہ کھلا ہے.غرضیکہ ایک طرف انہیں امید کا پیغام دو اور دوسری طرف خوف کا.انہیں سمجھاؤ کہ جب تک کوئی نبی مبعوث نہ ہو اُس وقت تک اور بات ہوتی ہے لیکن جب نقارہ بج جائے تو گھر میں بیٹھنے والا مستوجب سزا ہوتا ہے.باقی تناسخ وغیرہ مسائل پر بخشیں کرنا یہ سود ڈھکوسلے ہیں.خواہ ہمارا مولوی کرے یا ان کا.ہم بھی بے شک ایسا کرتے ہیں مگر اسی کی طرح جس طرح پتھر مارنے والوں کو جواب دیا جاتا ہے.پتھر مارنا شرفاء کا شیوہ نہیں مگر

Page 63

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 58 جلد دوم جوابی رنگ میں بعض اوقات مارنا بھی ضروری ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے شریف سے شریف انسان کو بھی مجبور دس پندرہ منٹ پاخانہ میں بیٹھنا پڑتا ہے لیکن کون ایسا احمق ہے جو شوقیہ طور پر وہاں جا کر بیٹھے.پس ان باتوں میں نہ پڑو.ہاں اگر دشمن ایسے رنگ میں اعتراض کرے اور کسی طرح پیچھا نہ چھوڑے تو اور بات ہے.وگرنہ سادہ باتیں اور عام فہم دلائل پیش کرو.یہی گر ہے جس سے نبی کامیاب ہوئے.فلسفہ نے دنیا میں کوئی جماعت پیدا نہیں کی.ارسطو کی دنیا میں کوئی جماعت نہیں مگر موٹی و ابراہیم کی ہیں.جماعت ہمیشہ وہی بنا سکتے ہیں جو خدا کی قدرت پر بنیادیں رکھتے ہیں.ارد گرد کے دیہات میں عام طور پر یہ بھی احساس ہے کہ ہم ان کے دشمن ہیں.ان کی اس غلط فہمی کو دور کرو اور بتاؤ کہ ہمارے دل میں تو ماں باپ سے بھی زیادہ محبت ہے.یہ ذریعہ ہے جس سے تم کامیاب ہو سکتے ہو.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں.سب اس میں شریک ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے اور تبلیغ کے نیک نتائج پیدا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کرشن بھی ہے اور آپ کا ایک الہام ہے کہ ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.5 حضرت کرشن نے بھی آپ کے متعلق پیشگوئی کی ہے، باوا نا نک علیہ الرحمۃ نے بھی کی ہے.آپ کو گئو پال کہا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کی جماعت گائے کی طرح ہو گی.جس طرح گائے اپنے مالک کے تھان پر کھڑی رہتی ہے، تھوڑے چارہ پر قناعت کرتی اور دودھ دیتی ہے، عمدہ نسل کے بچے پیدا کرتی ہے، ایسے ہی آپ کی جماعت بھی ہوگی.پس ممکن ہے بعض لوگ مدیح کا ذکر کریں لیکن انہیں بتاؤ کہ ہم تو گئو پال ہیں اور ان تمام انسانوں کو جو گوؤں کی طرح کے ہوں اپنے اندر لیتے ہیں اور کی دوسروں کے ساتھ بھی ہمارا سلوک گئوؤں کی طرح کا ہی ہے.ہاں اگر کوئی شیر کی طرح حملہ کرے تو اس کا جواب تو دینا ہی پڑتا ہے.پس جاؤ اور اس الہام کو پورا کرنے کے لئے

Page 64

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 59 جلد دوم ہندوؤں اور عیسائیوں کو تبلیغ اسلام کرو.“ ( الفضل 12 مارچ 1933ء) 1: سورگ: بہشت.جنت ( تنویر اللغات پنجابی توں اردو صفحہ 612 ناشر ایور نیو بکس پلیس اردو بازار لاہور ) 2 عامی : ادنی.جاہل (فیروز اللغات اردو صفحہ 889 مطبوعہ کراچی 2010ء) 3: وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر: 25) 4: الفرقان: 24 تذکرہ صفحہ 312.ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 65

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 60 60 ہمارے تمام کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہونی چاہئے صدرا انجمن احمدیہ کے محرروں کی طرف سے محترم جناب خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مبلغ انگلستان کے انگلستان سے واپس تشریف لانے پر ان کے اعزاز میں یکم مئی 1933ء کوئی پارٹی دی گئی جس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.میں قریباً دس دن کی بیماری کے بعد چونکہ آج گھر سے نکلا ہوں اس لئے کرسی پر بیٹھنا بھی میرے لئے ایک حد تک تکلیف کا موجب ہوا ہے.لیکن جس تقریب کے لئے آج ہم بلائے گئے ہیں وہ اس قسم کی ہے کہ اس کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے میں خاموش بھی نہیں رہ سکتا.سب سے پہلے تو میں اس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ میں نہیں جانتا کن وجوہ سے، بہر حال واقعات یہ ہیں کہ خانصاحب کے آنے پر جیسا کہ عام دستور چلا آتا ہے ٹی پارٹیاں ہونی چاہئے تھیں مگر نہیں ہوئیں.اس وجہ سے میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ شاید درد صاحب کے جانے پر جو خطبات میں نے پڑھے ان کی وجہ سے بعض لوگوں میں ایک قسم کا خوف پیدا ہو گیا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ اگر ہم اس میں حصہ لیں تو شاید پرانے سلسلہ میں کوئی ایسی بات پیدا ہو جائے جو ان کے لئے مضر ہو.گو میں سمجھتا ہوں میرا یہ خیال درست نہیں کی تھا.کیونکہ آج ہی مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ بعض اور دوست بھی خانصاحب کو دعوت دینا کی چاہتے ہیں مگر چونکہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہو چکا تھا اس لئے جب مجھے اس ٹی پارٹی کی خبر پہنچی تو خاص طور پر خوشی ہوئی.لیکن ساتھ ہی ایک چیز تھی جس نے میرے دل پر برا اثر جلد دوم

Page 66

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 61 جلد دوم پیدا کیا اور وہ یہ کہ یہ دعوت جن لوگوں کی طرف سے تھی کیوں انہوں نے اس کا حلقہ اس حد تک محدود رکھا جس حد تک یہ محدود رکھا گیا ہے.میں اس بات کے سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں، نہ صرف عقلاً بلکہ فطرتا بھی کہ اسلام کی موجودگی میں اور اسلامی طریق عمل کے ہوتے ہوئے ہمارے سوشل اور تمدنی تعلقات میں افسر اور ماتحت کا کوئی امتیاز ہے.میری طبیعت نظام کے بارے میں جتنی سخت ہے اسے سب لوگ جانتے ہیں.اطاعت ایک امیر کی یا اطاعت ایسے مامور کی جس کے لئے اطاعت کا مقام مقرر کیا گیا ہوا ایسی چیز ہے جسے میں اسلام کی ترقی اور سلسلہ کی بہبودی کے لئے نہایت ضروری خیال کرتا ہوں.مگر باوجود اس کے کہ اطاعت کے معاملہ میں میں ایسا شدید ہوں کہ بعض لوگوں کو مجھ سے شکایت بھی پیدا ہوئی ہوگی اور ہونی چاہئے اور باوجود اس بات کے جاننے کے کہ اس معاملہ میں میں نہایت ہی سخت گیر واقع ہوا ہوں اب تک بھی میں اس امر پر قائم ہوں کہ اگر پھر کبھی مجھے نظام سلسلہ کے متعلق کسی امر کا فیصلہ کرنا پڑے تو میں اپنے پچھلے طریق عمل کو بدلنے کے لئے تیار نہیں.میں اسلام کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے آج بھی نظام سلسلہ کی پابندی اسی طرح ضروری سمجھتا ہوں جس طرح آج سے پہلے ضروری خیال کرتا تھا.اور اگر آج یا کل یا پرسوں یا آج سے دس سال کے بعد بھی مجھے ضرورت پیش آئے تو اطاعت کے معاملہ میں نہ صرف یہ کہ آگے سے کم سختی نہ کروں بلکہ اس امر کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ تربیت پر ایک لمبا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک مکمل اصلاح ہو جانی چاہئے تھی شاید پہلے سے بھی زیادہ سختی کروں.لیکن باوجود اس کے میں خیال نہیں کرتا کہ تمدنی معاملات میں ہمارے درمیان کوئی امتیاز ہے.جب تک کوئی کام ایک نظام کے ماتحت ہوتا ہے ایک آمر اور ایک مامور ہوتا ہے.اُس وقت تک امتیاز قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے.مگر جو نہی سوشل تعلقات کا وقت آ جاتا ہے یہ تمام امتیازات ختم ہو جاتے ہیں اور اُس وقت یہ اصل ہمارے درمیان قائم ہو جاتا ہے کہ اسلام کسی امتیاز کو تسلیم نہیں کرتا.سوائے اس امتیاز کے جو ادب کا امتیاز ہے یا سوائے اس امتیاز کے جو محبت کا امتیاز ہے.یہ دونوں

Page 67

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 62 جلد دوم ایسی چیزیں ہیں جو کسی قانون کے ماتحت نہیں آتیں.کوئی قانون دنیا میں ادب کے امتیاز کی حد بندی نہیں کر سکتا اور کوئی قانون دنیا میں محبت کے امتیاز کی حد بندی نہیں کر سکتا.اس لئے کہ قانون محدود الفاظ میں ہوتا ہے لیکن ادب اور محبت نہایت وسیع حلقہ رکھتے ہیں.بچپن میں ہم ایک کہانی پڑھا کرتے تھے کہ کوئی شخص تھا جو نہایت سخت گیر تھا اور ہمیشہ اپنے نوکروں سے ایسے کاموں کا تقاضا کرتا جو ان کے فرائض میں شامل نہ ہوتے.اور جب وہ انہیں سر انجام نہ دے سکتے تو نکال دیتا.آخر اپنے جیسا ہی اسے ایک نوکر مل گیا.اس نے آتے ہی کہا حضور! میں آپ کی ہر خدمت کرنے کے لئے تیار ہوں مگر پہلے مجھے کا غذ پر لکھ دیں کہ میرے کیا کیا فرائض ہیں.آقا کے ذہن میں جس قدر باتیں آسکتی تھیں وہ تمام اس نے کاغذ پر لکھ دیں اور سمجھ لیا کہ اب میں نے خوب اسے جکڑ لیا ہے اور اسے میرا ہر کام کرنا پڑے گا.اتفاق ایسا ہوا ہے کہ کچھ دنوں کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں جا رہا تھا.نو کر ساتھ تھا کہ گھوڑا بدک کر بھا گا.آقا گر پڑا اور اس کا پاؤں رکاب میں پھنس گیا.اس نے شور مچایا اور نوکر سے کہا کہ مجھے بچاؤ.مگر نوکر نے کا غذ نکال کر کہا سرکار! دیکھ لیجئے اس میں یہ کام نہیں لکھا.تو ادب اور بنی نوع انسان کی محبت نہایت وسیع مضامین ہیں.اتنے وسیع کہ خدا کی کتاب نے بھی انہیں تفصیل سے بیان نہیں کیا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا کو ان باتوں کا علم نہیں.علم ہے لیکن اگر وہ بیان کرتا تو اتنی ضخیم کتاب ہو جاتی کہ قیامت تک پڑھنے کے باوجود انسان اسے مکمل طور پر نہ پڑھ سکتا.پس میں اس بات کے سمجھنے سے بالکل قاصر ہوں کہ وہ سوشل تعلقات جو افراد میں پائے جاتے ہیں اور جن کو اسلام نے قائم کیا ہے ان کے بارے میں ہم میں کسی قسم کا امتیاز ہو.اور اگر ہے تو یقیناً اس امتیاز کو قائم نہیں رہنا چاہئے.میں نہیں جانتا یہ دعوت جو تھی کیوں اور کن حالات کے ماتحت کلرکوں تک ہی محدود رہی.اگر کلرکوں کے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس موقع پر خان صاحب کوئی پارٹی دینی

Page 68

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 63 جلد دوم چاہئے تو کیا وجہ ہوئی کہ انہوں نے اپنے افسروں کو اس میں شامل نہ کیا.اس سے میرا یہ مطلب نہیں کہ میں انہیں قصور وار سمجھتا ہوں.میں ان پر الزام نہیں رکھتا.صرف اپنی حیرت کا اظہار کرتا ہوں کہ کیا اس کا موجب یہ خیال ہوا کہ انہوں نے سمجھا اگر ہم یہ سوال اٹھائیں گے تو ممکن ہے جو افسر سمجھے جاتے ہیں کہیں کہ ہم اس میں کیوں حصہ لیں.یا یہ کہ انہیں اس امر کا خیال نہیں آیا کہ افسروں کو بھی شریک کیا جائے.اگر نہیں خیال آیا تب بھی قابل افسوس بات ہے کیونکہ اس کی بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے.اور اگر امتیاز سمجھا گیا تب تو قابل افسوس بات ہے ہی.ذاتی طور پر میں ہمیشہ حیران رہا ہوں کہ خلافت کو چھوڑ کر دو محکمے ایسے ہیں جنہیں ایسے موقع پر جب کوئی مبلغ باہر سے آئے اور وہ ایسا مبلغ ہو جس کی خدمات اسلام کی ترقی کے لئے ہوں اور اس کا اعزاز جماعت پر واجب ہو اس کی دعوت میں حصہ لینا چاہئے.مگر دونوں محکموں نے آج تک اس میں حصہ نہیں لیا.اور مجھے ہمیشہ حیرت رہی ہے کہ جن دو محکموں کا یہ فرض ہے کہ وہ باہر سے آنے والے مبلغین کا اعزاز کریں وہی دو محکمے ہمیشہ لا پرواہ رہتے ہیں اور انہوں نے کبھی بحیثیت محکمہ اس میں حصہ نہیں لیا.جب کوئی مبلغ باہر جا تا ی تبلیغ کے بعد قادیان واپس آتا ہے تو میں دیکھتا ہوں تعلیم الاسلام ہائی سکول، مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمد یہ اس کے اعزاز میں حصہ لیتے ہیں.بعض ذاتی دوست ہوتے ہیں وہ اپنے طور پر دعوت کر دیتے ہیں حالانکہ جو مبلغ باہر جاتا یا باہر سے قادیان آتا ہے اس کا خلافت کے بعد پہلا تعلق ناظر دعوت و تبلیغ سے ہوتا ہے.اور اس کا دوسرا تعلق قادیان کی مقامی جماعت سے ہوتا ہے.لیکن اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کرتا تو جب سے کہ یہ سلسلہ تبلیغ شروع ہوا ہے میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ کبھی ناظر دعوت و تبلیغ یا لوکل انجمن کی طرف سے آنے والے مبلغین کو دعوت نہ سہی ، اعزازی پارٹی ہی دی گئی ہو.مجھے جب بھی یہ خیال آیا کرتا ہے میں سمجھتا ہوں ان کی مثال دیسی ہی ہے جیسے کسی شخص کے گھر مہمان آئے اور وہ باہر نکل کر اعلان کرنا شروع کر دے کہ بھائیو! میرے ہاں مہمان

Page 69

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 64 جلد دوم آیا ہے اپنے اپنے گھر کھانا تیار رکھنا.اور اتنا کہہ کر وہ سمجھ لے کہ اس کا فرض ادا ہو گیا.ذاتی طور پر میں ہمیشہ آنے والے مبلغین کے اعزاز میں حصہ لیتا ہوں إِلَّا مَا شَاء الله اگر بعض دفعہ نہ ہو سکا ہو تو یہ اور بات ہے ورنہ جب بھی کوئی مبلغ آتا ہے میں ہمیشہ اس کی دعوت کرتا ہوں تا کہ جماعت میں یہ احساس رہے کہ ہم ان لوگوں کے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.غرض میرا نمونہ ان لوگوں کے لئے موجود تھا اور نچلے لوگوں کا نمونہ بھی موجود تھا یعنی طالب علموں کا.کیونکہ وہ نچلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.ان کی نگاہیں راہ نمائی حاصل کرنے کے لئے ہماری طرف اٹھا کرتی ہیں.مگر باوجود اس کے کہ اوپر سے انہوں نے مجھے اعزاز کرتے دیکھا اور نیچے سے طالب علموں کو ، قادیان کی لوکل انجمن احمد یہ اور نظارت دعوت و تبلیغ نے کبھی مبلغین کی آمد پر اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کیا.وہ اپنا فرض صرف یہی خیال کرتے ہیں کہ دوسروں کی پارٹی میں حصہ لیا اور چلے گئے.حالانکہ میں سے پہلا حق ناظر دعوت و تبلیغ کا ہے کہ وہ ذاتی طور پر نہیں بلکہ نظارت کا نمائندہ ہو کر مبلغ کا خیر مقدم کرے.دنیا کی حکومتوں میں بھی جب کوئی شخص نمایاں کام کر کے آتا ہے تو فارن سیکر ٹری اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت اس کی خدمات کو تسلیم کرتی اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے.اگر اسی دعوت میں تحریک کر دی جاتی اور کسی کو خیال آ جاتا که ناظروں کو بھی کہہ دینا چاہئے کہ وہ اس میں شریک ہو جائیں تو میں سمجھتا ہوں اس پرانی کوتاہی کے ازالہ کی صورت نکل آتی.مگر کسی وجہ سے نہ محرروں کو یہ خیال آیا اور نہ ہی سمجھتا ہوں ت ناظروں کو.میں اس بات کا بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ سوشل تعلقات میں امتیاز نہیں ہوتا.محرر یا ناظر ہونا، چھوٹا یا بڑا ہونا محض انتظامی امور کے لئے ہے.ورنہ اسلام تو آیا ہی اسی لئے ہے کہ تا وہ تمام بنی نوع انسان میں محبت اور اخوت کے تعلقات قائم کرے.وہ جہاں اس قدر شدید صال الله اطاعت قائم کرتا ہے کہ رسول کریم ﷺے جیسا مہربان بھی فرماتا ہے مَنْ أَطَاعَ أَمِيْرِى فَقَدْ أَطَاعَنِيْ وَمَنْ عَصَى اَمِيْرِى فَقَدْ عَصَانِي 1 یعنی جس نے میرے امیر کی اطاعت

Page 70

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 65 جلد دوم کی اس نے میری اطاعت کی.اور جس نے میرے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.وہاں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ اور صحابہ کے طریق میں سوشل معاملات کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں تھا.اور اگر ہم اپنی زندگیوں میں ان امتیازات کو مٹا نہ سکیں سوائے ادب اور محبت کے امتیازات کے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم اسی ملوکیت کو قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے مٹانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی.میں سمجھتا ہوں اگر محرروں کے دل میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ ناظروں کو اس میں شامل کرتے تو خود ناظروں کو یہ احساس ہونا چاہئے تھا کہ وہ رشک سے محرروں سے کہتے کہ ہمیں کیوں اس میں شامل نہیں کیا گیا.ہمیں بھی حصہ دار بناؤ اور شامل کرو.اور اگر محرروں کے دل میں یہ شبہ تھا کہ وہ ناظر ہیں اور ہم محرر ہمکن ہے وہ اس میں شریک ہونا پسند نہ کریں تو ناظروں کا فرض تھا کہ وہ خود اس شبہ کو دور کرتے اور اس طرح ایک وقت میں دونوں اعزاز میں حصہ لیتے.اس کے بعد میں کچھ اس کام کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جس کے لئے خان صاحب ولایت گئے تھے.جس وقت در دصاحب کی انگلستان سے واپسی کا وقت آیا اور میں نے دوستوں سے اس بارہ میں مشورہ لیا کہ ان کی جگہ خانصاحب کو ولایت بھیجا جائے تو کئی دوستوں کے دل میں یہ شبہ پیدا ہوا کہ چونکہ خانصاحب نے یہ کام اس رنگ میں پہلے نہیں کیا اگر چہ وہ پنجاب میں بعض جماعتوں کے امیر رہے ہیں مگر چونکہ یہ جدید نوعیت کا کام ہے اس لئے ممکن ہے وہ اسے بخوبی سر انجام نہ دے سکیں.لیکن اُس وقت میرے دل میں جو چیز تھی وہ یہ تھی کہ جس چیز کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ظاہری قابلیت کے ساتھ دل میں اخلاص اور خشیت ہو.اور میں سمجھتا تھا اگر ایسا ہوگا تو کوظاہری حالات کیسے ہی ہوں کی اللہ تعالٰی اخلاص کو قبول کر کے اس کمی کو پورا کر دے گا.اس میں شبہ نہیں کام کی نوعیت کے لحاظ سے جس قسم کے تجربہ کی ضرورت تھی وہ خانصاحب کو حاصل نہیں تھا اور ظاہری حالات

Page 71

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 66 جلد دوم کے لحاظ سے دوستوں کا مشورہ وزنی تھا مگر یہ اسی صورت میں قابل قبول ہو سکتا تھا جب ہم یہ خیال کریں کہ ہمارا سلسلہ بھی دوسری قسم کی تنظیموں میں سے ایک تنظیم ہے لیکن جبکہ یہ صحیح نہیں اور جبکہ ہمارا سلسلہ خدائی سلسلہ ہے اور خدائی تائید و نصرت ہمارے شامل حال ہے تو اس قسم کا خیال بھی صحیح نہیں ہو سکتا تھا.میں سمجھتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ جب کوئی مومن خدا تعالیٰ کے دروازہ پر گر جائے تو خواہ وہ نہایت ہی کمزور ہو اس کا تجربہ محدود اور اس کا علم معمولی ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ کے حضور کامل طور پر گر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے ایسی راہ نمائی حاصل ہوتی ہے کہ وہ کام میں کامیاب ہو کر نکلتا ہے اور مشکلات اس کے راستہ سے دور ہو جاتی ہیں.مجھے یاد ہے جس وقت میری خلافت کا زمانہ شروع ہوا تو ابھی پانچ سات ہی دن ہوئے تھے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب یہیں تھے جب وہ لاہور جانے لگے تو ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم کی روایت تھی کہ انہوں نے آہ بھرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر اور مدرسہ ہائی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہم تو جاتے ہیں لیکن یہ عمارتیں جو سلسلہ احمدیہ کے لئے قائم کی گئیں ایسے نا اہل لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہیں کہ اب یہ سکول ٹوٹ جائے گا اور عیسائیوں کے قبضہ میں چلا جائے گا.اس میں شبہ نہیں ظاہری حالات کے ماتحت یہ خیال صحیح سمجھا جا سکتا تھا.میری تعلیمی حالت نہایت معمولی تھی.ستی کہو یا صحت کی کمزوری خیال کر لو میں سکول میں کبھی اچھے نمبروں پر کامیاب نہیں ہوا تھا.دینی تعلیم ایسی تھی کہ میرے گلے اور آنکھوں کی تکلیف کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الاول کتاب خود پڑھا کرتے تھے.آپ خود کمزور اور بوڑھے تھے مگر میری صحت کو اس قدر کمزور خیال فرمایا کرتے تھے کہ بخاری اور مثنوی رومی خود پڑھتے اور میں سنتا جاتا.عربی ادب کی کتابیں بھی خود ہی پڑھتے.اور جب میں پڑھنا چاہتا تو فرمایا کرتے میاں! تمہارے گلے کو تکلیف ہوگی.مجھے یاد ہے بخاری کے ابتدائی چار پانچ سپارے تو ترجمہ سے پڑھائے مگر بعد میں آدھ آدھ پاره روزا نہ بغیر ترجمہ کئے پڑھ جاتے.صرف کہیں کہیں ترجمہ کر دیتے.اور اگر میں پوچھتا

Page 72

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 67 جلد دوم تو فرماتے جانے دو! خدا خود ہی سمجھا دے گا.میری تعلیمی حالت اور صحت کی کیفیت تو یہ تھی.پھر سلسلہ کے انتظام کے لحاظ سے ہمارا نظام میں کوئی دخل نہ تھا.شروع سے آخر تک پورے طور پر وہی لوگ حاوی سمجھے جاتے تھے.اور کہا کرتے تھے کہ سارے کارکن چلے جائیں گے تو کام خود بخود بند ہو جائے گا.مالی حالت ایسی تھی کہ جس دن وہ گئے ہیں اُس دن خزانہ میں غالباً دس آنہ کی رقم تھی اور پھر انجمن پر قرض بھی تھا.ایسے حالات میں انہیں یقین تھا کہ سلسلہ ٹوٹ جائے گا اور عیسائی ہماری درسگاہوں پر قبضہ کر لیں گے.پس میں سمجھتا ہوں وہ کہنے والا ایک حد تک معذور تھا.لیکن ان ظاہری سامانوں کے علاوہ ایک اور چیز بھی تھی اور وہ ایک بالا ہستی تھی.وہ ایک ایسی ہستی تھی جو اندر بھی ہے اور باہر بھی ، اول بھی ہے اور آخر بھی.هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ : جس وقت ظاہری حالات یہ کہہ رہے تھے کہ یہ سلسلہ چند دنوں تک ٹوٹ جائے گا اُس کی وقت اس ہستی نے مجھے کہا ” خدائی کاموں کو کون روک سکتا ہے.“ اور اُس وقت جب تفرقہ کی ابتدا تھی اور خود ان کی طرف سے یہ کہا جا رہا تھا کہ جماعت کا اٹھانوے فیصدی حصہ ہماری طرف ہے ، پہلے ہفتہ کے اندر اندر ہی خدا تعالیٰ نے مجھے الہاما بتایا کہ لَيْمَ قَنَّهُمُ ہمیں اپنی ذات ہی کی قسم ہے کہ ہم انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے ابھی چند دن ہوئے غیر مبایعین سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کا مجھے اشتہار ملا.وہ لکھتا ہے اگر چہ یہ صیح ہے کہ ہمارے عقا ئد درست ہیں لیکن میرا نام لکھ کر کہتا ہے ہم یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کا الہام لَیمَزِ قَنَّهُمُ ہمارے متعلق پورا ہو چکا.غرض میرا یہ تجربہ ہے کہ جب خدا کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو وہ کام ہوکر رہتا ہے اور انسانی عقل ناکام ہو کر رہ جاتی ہے.اسی تجربہ کے ماتحت میں نے خانصاحب کو انگلستان روانہ کیا.خانصاحب سے میری پہلی ملاقات ان کے احمدیت میں داخل ہونے سے بھی پہلے ہوئی تھی.اُس وقت میں فیروز پور کسی لیکچر کے لئے گیا اور ان سے واقفیت ہوئی.پھر حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں انہوں نے قرآن مجید کا کچھ حصہ مجھ سے سبقاً بھی پڑھا.تو چونکہ

Page 73

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 68 جلد دوم میرے تعلقات ان سے قدیم سے تھے اس لئے میں ان پر حسن ظن رکھتا تھا اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ظاہری تجربہ میں کوئی کمی بھی ہوئی تو یہ دعائیں کر کے اس کمی کو پورا کر لیں گے.اس کے بعد جب چودھری ظفر اللہ خان صاحب ولایت گئے تو ان کی رپورٹ جو لندن مشن کے متعلق تھی وہ نہایت ہی خوشکن تھی.انہوں نے لکھا کہ اب کچھ اس قسم کی ترقی خدا کے فضل سے ہو چکی ہے کہ یوں کہنا چاہئے گویا پہلا نظام ہی بدل گیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کی اس سنت کے ماتحت کہ جو بھی اس کے سامنے گر جائے وہ خاص طور پر اس کی نصرت فرماتا ہے خدا تعالیٰ نے خانصاحب کو کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی.اور میں سمجھتا ہوں اگر یہی روح ان میں قائم رہی تو خدا تعالیٰ انہیں اور بھی خدمت دین کے مواقع عطا فرمائے گا.میری غرض اس تمام بیان سے یہ ہے کہ اصل چیز جس پر ہمارے تمام کاموں کی بنیاد ہونی چاہئے وہ اللہ تعالیٰ پر توکل ہے.علم کے لحاظ سے ہمارے بڑے سے بڑے عالم بھی دنیا کے دوسرے عالموں کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اور درحقیقت اگر ہم یہ نہ کہیں تو ایک حقیقت کا انکار ہو گا کہ اگر ہماری جماعت کے سائنس دانوں کو لیا جائے تو وہ باقی دنیا کے سائنس دانوں کے مقابلہ میں بچوں کی سی حیثیت رکھتے ہیں.اگر دنیاوی علوم کو لیا جائے تو اس لحاظ سے بھی ہمارے علماء کی کوئی حیثیت نہیں.دنیا میں ایسے ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی ساری عمریں محض چند مسائل کی تحقیق میں صرف کر دیں اور ان کا مقابلہ ہماری جماعت کے علماء ہی کیا ساری دنیا بھی نہیں کر سکتی.پھر اسی زمانہ میں مسلمانوں میں ایسے ایسے عالم ہیں جنہوں نے فقہ، تاریخ اور حدیث کے متعلق ایسی کتابیں لکھی ہیں جو پچھلی کئی مستند کتابوں سے فوقیت لے گئی ہیں.پس اگر ظاہری علوم کو مد نظر رکھا جائے تو ہمارا سائنس دان دوسرے سائنس دان کے مقابلہ میں، ہمارا ڈاکٹر دوسرے ڈاکٹر کے مقابلہ میں ، ہمارا انجینئر دوسرے انجینئر کے مقابلہ میں ، ہمارا مشنری دوسرے مشنری کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.اگر عیسائی مشنریوں کو دیکھا جائے تو ہمیں ان میں ایسے عالم نظر آتے ہیں کہ وہ ظاہری علوم میں اس قدر ترقی کر چکے ہیں کہ ہمارے مبلغوں

Page 74

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 69 جلد دوم کی ان کے مقابلہ میں کوئی ہستی نہیں.مگر باوجود اس کے ایک موقع بھی آج تک ایسا نہیں آیا کہ دنیا کے کسی بڑے سے بڑے عالم سے ہمیں شکست اٹھانی پڑی ہو.جب وہ ہمارے مقابل پر آتے ہیں تو اس قدر مرعوب ہو جاتے ہیں کہ ان کی زبانیں خشک ہو جاتی ہیں اور ان کی ڈینگیں اور بڑیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتیں.میں جب ولایت گیا تو پروفیسر مارگولیتھ کے متعلق مجھ سے بعض انگریز اور ہندوستانی طالب علموں نے بیان کیا کہ وہ کہتا ہے میں جب قادیان گیا اور عربی میں گفتگو کرنی چاہیے تو کوئی مجھ سے عربی زبان میں گفتگو نہ کر سکا.پروفیسر مارگولیتھ اس سے پہلے قادیان آچکا تھا.میں نے جب یہ باتیں سنیں تو انہیں کوئی وقعت نہ دی.مگر وہ ہندوستانی طالب علم اصرار کرنے لگے کہ اب آپ ولایت آئے ہوئے ہیں یہ ایک نیکی کا کام ہے اور اسلام کی فتح ہوگی اگر اس کے دعوی کو باطل کیا جائے اس کے ساتھ عربی میں گفتگو کریں.بعض انگریز تماش بین تھے وہ بھی اصرار کرنے لگے.آخر میں نے ایک مجلس منعقد کی اور حافظ روشن علی صاحب مرحوم سے کہا کہ چائے کی پارٹی پر پروفیسر مارگولیتھ کو بھی بلانے کا ارادہ ہے اس سے آج عربی میں گفتگو کریں گے.آخر وہ آیا اور اس سے گفتگو شروع کی گئی.مگر ابھی دو چار ہی باتیں ہوئی تھیں کہ اس طرح اس کے حواس اڑے کہ تمام لوگ حیران رہ گئے.اس کا منہ خشک ہو گیا اور کہنے لگا آپ لوگ عالم ہیں میں آپ سے عربی میں گفتگو نہیں کر سکتا.اردگرد جو لوگ کھڑے تھے وہ اس کی باتوں پر بننے لگے اور انہوں نے تمسخر کرنا بھی شروع کیا مگر وہ بولا تک نہیں، اس کا رنگ بالکل فق ہو گیا، زبان خشک ہو گئی اور اصرار کے باوجود باتیں کرنے سے انکار کر دیا.حالانکہ وہ مستشرقین میں چوٹی کا آدمی سمجھا جاتا ہے.اسی طرح ایک اور مجلس میں دو بڑے بڑے آدمی جو ز بر دست مصنف اور عربی علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور انگریزوں کے زبر دست اور مینٹلسٹ (Orientalist) ہیں موجود تھے.ہمارے سامنے ان سے کسی شخص نے ایک سوال کیا مگر ان دونوں نے ہماری طرف اشارہ کر کے کہا ان کی موجودگی میں ہم کیا جواب دے سکتے ہیں حالانکہ وہ اتنا

Page 75

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 70 جلد دوم معمولی سوال تھا کہ ہمارا ایک طالب علم بھی اس کا جواب بآسانی دے سکتا ہے.مگر حق کا رعب ایسا پڑا کہ وہ ہمارے سامنے بول نہ سکے.اسی طرح اور مقامات پر بھی میں نے دیکھا ہے کہ الہی نصرت ایسے طریق پر مومن کے شامل حال ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ظاہری علوم میں پیچھے ہوتا ہے لوگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.مگر یہ نصرت خشیت الہی کے نتیجہ میں آیا کرتی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شعر ہے ہر اگر اک نیکی کی جڑ اتفا ہے چڑ رہی سب کچھ رہا ہے اصل بات یہ ہے کہ خشیت اللہ اگر انسان کو حاصل ہو جائے تو نصرت الہی بھی اس کے شامل حال ہو جاتی ہے اور پھر کوئی میدان ایسا نہیں ہوتا جس میں وہ دشمن سے گھبرا سکے بلکہ ہر میدان میں فتح حاصل ہوتی ہے.اور کیوں فتح نہ ہو جبکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِی 3 یعنی خدا تعالیٰ نے یہ فرض قرار دے دیا ہے کہ میں اور میرے رسول دنیا پر غالب ہو کر رہیں گے.اس جگہ رُسُلُ سے صرف رسول ہی مراد نہیں بلکہ رسولوں کے متبع بھی اس میں شامل ہیں.پس کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے غلبہ مقدر ہو وہ بجائے غالب ہونے کے مغلوب ہو جائے.لیکن جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.ظاہری لحاظ سے دوسرے لوگ ہم سے بہت آگے ہیں اور قوم کی خاطر قربانی کرنے والے بہت پائے جاتے ہیں.ہمارے دفاتر اور مدارس میں جو کام ہوتا ہے اگر ہم دیکھیں تو باہر کے لوگ زیادہ وقت دفتروں میں دیتے اور زیادہ محنت اور دلچسپی کے ساتھ تعلیم وغیرہ میں حصہ لیتے ہیں.پس ہمارے اخلاص اور تعلق باللہ کا نشان اگر ظاہری کام ہو تو یقیناً ہم دنیا کے سامنے اپنے کاموں میں شرمندہ ہو جائیں.جو چیز ہمیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے لوگ قوم، ذات یا ملک کے لئے یا مقرر کردہ آئیڈلز اور مقاصد کے لئے کام کرتے ہیں مگر ہم محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کرتے ہیں.یہ وہ

Page 76

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 71 جلد دوم امتیاز ہے جو ہم میں اور دوسروں میں ہے.اور یہی وہ امتیاز ہے جس کی وجہ سے ہمارا تھوڑا کام بھی دوسروں سے زیادہ بہتر نتیجہ پیدا کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کا واقعہ ہے ایک شخص مسلمانوں کی طرف سے کفار سے جنگ کر رہا تھا.صحابہ کہتے ہیں وہ اس قدر سر گرمی سے جنگ میں مصروف تھا کہ ہمیں رشک آتا تھا.اتنے میں ایک صحابی نے دوسرے سے کہا دیکھو یہ کیسا جنتی آدمی ہے.رسول کریم کے کان میں بھی یہ آواز پہنچ گئی.آپ نے فرمایا اگر کسی نے دنیا کے پردے پر دوزخی چلتا پھرتا دیکھنا ہو تو وہ اس لڑنے والے کو دیکھ لے.چونکہ مسلمانوں کی ظاہری طور پر وہ بہت حمایت کر رہا تھا اس لئے رسول کریم ﷺ کی اس بات سے صحابہ کے دلوں میں تزلزل پیدا ہوا اور انہوں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اسلام کے لئے اتنی قربانی کرے اور پھر بھی وہ دوزخ میں جائے.ایک صحابی کہتے ہیں جب لوگوں کے دلوں میں میں نے یہ وسوسہ پیدا ہوتے دیکھا تو میں نے کہا خدا کی قسم ! میں اس شخص کا پیچھا نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.وہ صحابی کہتے ہیں میں اس کے پیچھے پیچھے رہا؟ یہاں تک کہ وہ اسی جنگ میں شدید زخمی ہوا.آخری وقت سمجھ کر لوگ اس کے پاس آتے اور کہتے تمہیں جنت کی بشارت ہو مگر وہ کہتا مجھے جنت کی کیوں خبر دیتے ہو دوزخ کی خبر دو کیونکہ میں نے آج اسلام کے لئے جنگ نہیں کی بلکہ ان کفار سے مجھے کوئی پرانا بغض تھا اس کا بدلہ لینے کے لئے میں ان سے لڑا.پھر اس کی حالت جب زیادہ خراب ہو گئی تو اس نے برچھی زمین پر گاڑی اور اس پر گر کر خود کشی کر لی.وہ صحابی کہتے ہیں میں آیا.رسول کریم مجلس میں بیٹھے تھے.میں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے رسول ہیں.آپ نے فرمایا کیوں کیا ہوا ؟ اس صحابی نے تمام داستان سنائی.تب آپ نے بھی فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اس کا رسول ہوں.4 تو ظاہری قربانیاں دیکھی جائیں تو دنیا میں ہم سے زیادہ قربانیاں کرنے والے صلى الله

Page 77

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 72 جلد دوم موجود ہیں.گو بحیثیت قوم ہمیں امتیاز حاصل ہے مگر افراد کے لحاظ سے زیادہ قربانیاں کرنے والے مل سکتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ان کی تمام قربانیاں قوم یا ملک کے لئے ہوتی ہیں یا اس مذہب کے لئے ہوتی ہیں جسے وہ قوم کی طرح سمجھتے ہیں.مگر ہم میں سے ہر شخص کی نیت یہ ہوتی ہے کہ اس کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے اور جیسا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اعمال انسانی نیت پر موقوف ہوتے ہیں 5 چونکہ ہمارے کاموں کی بنیاد اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہے اس لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی تائید حاصل ہو جاتی ہے.پس میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے تمام کاموں میں للہیت پائی جانی چاہئے.قربانی چھوٹی ہو یا بڑی اگر للہیت ہوگی تو چھوٹی قربانی بھی بڑی ہو جائے گی.اور اگر للہیت نہ ہوگی تو بڑی قربانی بھی کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکے گی.پس اصل چیز جو برکت کا موجب ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری تمام قربانیاں محض خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے ہوں.اگر ہم یہ مقصد لے کر کھڑے ہو جائیں تو دنیا سے تمام لڑائیاں اور جھگڑے فتنے اور فساد دور ہو جائیں اور بہت سی خلشیں جو امن سے محروم کر دیتی ہیں نا پید ہو جائیں.کیونکہ جب کوئی شخص خدا کے لئے کام کرتا ہے اُسی وقت اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے.وہ بندوں کی تعریف کا مشتاق نہیں ہوتا بلکہ اگر کوئی کرے تو شرمندہ ہو جاتا ہے اور دل میں کہتا ہے کہ جس کی خاطر میں نے کام کیا تھا اگر وہ خاموش ہے تو ان لوگوں کی تعریف سے مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے تمام کا رکنوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ وہ افسر اور ماتحت، ناظر اور محرر کے امتیاز کو تمدنی معاملات میں نہ لے جائیں اور سمجھ لیں کہ ہم سب کا اصل مقصد یہ ہے کہ متحدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں.اس کے بعد میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان بھائیوں کی خدمت کو قبول فرمائے کی جنہوں نے یہ دعوت کی اور انہیں نیک اجر دے.کیونکہ انہوں نے اپنے ایک بھائی کی آمد پر خوشی منائی.اسی طرح میں خانصاحب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ جو خدمات وہ بجا لائے ہیں اللہ تعالیٰ

Page 78

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 73 جلد دوم ان کے بدلہ میں ان کے دل میں اور زیادہ نیکی اور تقویٰ پیدا کرے کہ مومن کا یہی اجر ہے.مومن کا وہ اجر نہیں جو اسے دنیا سے ملے.بلکہ اصل اجر وہ ہے جو اسے اللہ تعالیٰ عطا فرمائے.اسی طرح دوسرے مبلغ جو میدان جنگ میں ہیں ان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں کامیاب کرے اور ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرتے ہوئے سلسلہ اور اسلام کی خدمات کی پہلے سے زیادہ تو فیق عطا فرمائے.“ (الفضل 9 مئی 1933 ء) 1 بخاری کتاب الاحکام باب قول الله تعالى اطيعوا الله واطيعوا الرسول (الخ ) صفحہ 1229 حدیث نمبر 7137 مطبوعہ رياض 1999ء الطبعة الثانية 2: الحديد : 4 3 المجادلة: 22 :4 بخارى كتاب المغازى باب غزوة خيبر صفحہ 714،713 حدیث 4203، كتاب الجهاد باب ان الله ليغير الدين الخ صفحہ 506 ،507 حدیث 3062 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 5 بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله الله صفحہ 1 حدیث نمبر 1 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 79

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 74 جلد دوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں جو نعمتیں ملی ہیں ان کی عظمت کو پہچانو 3 مئی 1933 ء کو جامعہ احمدیہ و مدرسہ احمدیہ کی طرف سے محترم جناب خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مبلغ انگلستان کے اعزاز میں ایک مشترکہ ٹی پارٹی دی گئی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے :." میں زیادہ دیر تک کھڑا نہیں ہوسکتا کیونکہ کل سے پیچش کی تکلیف ہے.لیکن چونکہ ہمارے سلسلہ کے کاموں میں مبلغین کا آنا جانا نہایت اہم امور میں سے ہے، میں اس موقع کا خالی جانا بھی پسند نہیں کرتا.چونکہ یہ دعوت مبلغین ، کالج کے طلباء اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی طرف سے کی گئی ہے اور چونکہ وہ آئندہ اس کام اور بوجھ کو اٹھانے والے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت پر رکھا گیا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ تر انہیں کو مجھے مخاطب کرنا چاہئے.اس میں شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لئے فتوحات مقدر کی ہیں اور آئندہ زمانہ میں اگر کوئی دین غالب ہونے کی حیثیت سے قائم رہے گا تو وہ احمدیت ہی ہوگی.ظاہری حالات کے ماتحت بے شک ہم کمزور نظر آتے ہیں لیکن دنیا میں ہر چیز کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے اس بات کو ہی نہیں دیکھا جاتا کہ اس کی موجودہ طاقت کیا ہے.بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس حد تک ترقی کر سکتی ہے.بیسیوں چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں ایسی ہیں جو تاڑ 1 کے درخت یا آم کے درخت کی تازہ نکلی ہوئی

Page 80

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 75 جلد دوم کو نیل سے زیادہ مضبوط نظر آتی ہیں.مگر کوئی شخص ان کو اور تاڑیا آم یا یوکلپٹس 2 کی تازہ روئیدگی کو دیکھ کر یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ جھاڑی ان سے زیادہ مضبوط ہے.ایک گیہوں کا پودا چار ماہ میں جتنی بلندی حاصل کر لیتا ہے آم کا پودا اتنے عرصہ میں اتنی ترقی نہیں کر سکتا مگر باوجود اس کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ گیہوں کا پودا آم سے زیادہ مضبوط ہے.بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ آم میں کس قدر بلند ہونے کی طاقت ہے اور گیہوں میں کتنی.پس ہماری جماعت کی طاقتوں کا اندازہ اس پر نہیں کیا جا سکتا کہ ہم کتنی ترقی کر چکے ہیں بلکہ اس کا اندازہ دنیا کو اس سے لگانا چاہئے کہ ہمارے اندر کس قدر ترقی کرنے کی گنجائش موجود ہے.اور اس اصل کے ماتحت احمدیت کو اگر دیکھا جائے تو کوئی قوم خواہ اس کے افراد ہم سے کتنے زیادہ کیوں نہ ہوں ، وہ کتنی زیادہ منظم اور وسیع کیوں نہ ہو اور اس کا مال و دولت دنیا کو خیرہ کرنے والا کیوں نہ ہو پھر بھی احمدیت کے مقابل میں اس کی حقیقت بیج ہے.تفصیلات کو جانے دو ایک ایسی چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہمیں ملی ہے جس کے مقابل میں تمام دلائل اور تمام مذاہب کے فلسفے باطل ہیں.جس وقت مسیحیت کے فلسفی اپنی چرب زبانی اور وسیع تجربہ کے ماتحت دل لبھانے والی اصطلاحات کو پیش کرتے ہوئے عیسائیت کو خوب صورت شکل میں دنیا کے پیش کرتے ہیں ، جس وقت پنڈت لاکھوں بلکہ جیسا کہ وہ کہتے ہیں کروڑوں سال کی تہذیب پر بنیاد رکھتے ہوئے جو گیوں کی عمروں کے غور کئے ہوئے مسائل پیچیدہ اصطلاحات میں جنہیں وہ خود بھی نہیں سمجھتے پیش کرتے ہیں، جس وقت مسلمان علماء کہلانے والے لمبے جبوں کے ساتھ یونانیوں کی پس خوردہ یا ان سے نقل کردہ اصطلاحات میں اسلام کے مسائل ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں جو اسلام اور بانی اسلام کے مدنظر نہ تھا ، جس وقت یہودی نبوت کی لمبی زنجیر پر انحصار رکھتے ہوئے ان خوبصورت تشبیہات کے ساتھ جن پر یہودیت کو ناز ہے.اپنی تعلیم پیش کرتے ہیں اُس وقت ایک فقرہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا، ایک جملہ جس پر تمام تعلیمات کا انحصار ہوتا ہے ایک احمدی اسے سیدھے سادھے

Page 81

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) ہے.76 جلد دوم الفاظ میں پیش کر کے سب کی کوششوں کو باطل کر دیتا ہے.وہ جملہ کیا ہے؟ یہ کہ بے شک تمہاری تعلیمات اعلیٰ درجہ کی ہیں اور دعوے اس قسم کے ہیں کہ ان کے متعلق تمہارے دلائل مجھے ہوئے اور سلجھے ہوئے ہیں مگر ایک بات بتاؤ کہ ان کا نتیجہ کیا ہے.اگر مذہب کی غرض خدا تعالیٰ سے ملاقات اور وابستگی ہے اور اس کے بدلہ میں کوئی چیز ملتی ہے تو ہم ان کے اصطلاحات کے چکر میں جانے کے بجائے تم سے یہ پوچھتے ہیں کہ تمہیں خدا سے کیا ملا ہے.بس اس پر گل مذاہب ایسے دم بخود ہو جاتے ہیں کہ گویا سانپ سونگھ گیا.ہمارا وہ سیدھا سادھا زمیندار جو تمام فلسفوں سے نہ صرف عاری ہے بلکہ انہیں سمجھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتا وہ ایک فقرہ سے سب کو نادم اور خاموش کر دیتا ہے.وہ کہتا ہے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پر عمل کر کے زندہ خدا کے کچھ نہ کچھ زندہ نشان دیکھے ہیں.اس کے مقابل میں تمہارے پنڈتوں ، عالموں اور ربیوں نے کیا دیکھا ؟ وہ صرف یہ ہی نہیں کہتے کہ انہوں نے نہیں دیکھا بلکہ وہ کہتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا.اور یہ کہ کر وہ گویا اس کی عظمت و شان کا اعتراف کرتے ہیں.خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب نے اپنی تقریر میں پروفیسر مارگولیتھ کا ذکر کیا ہے میں نے بھی سفر یورپ میں ان سے اور بعض دوسرے مستشرقین سے گفتگو کی اور کہا کہ آپ قرآن کریم کے متعلق یہ خیال رکھتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں اور اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے قلب پر یا کان میں ڈالا گیا.اور اس کے لئے کبھی آپ تاریخوں سے دلائل ڈھونڈتے ہیں، کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ نتائج ہیں ان طبعی حالات کے جن میں سے آپ گزرے، کبھی کہتے ہیں یہ جوابات ہیں ان سوالات کے جو قوم کی طرف سے آپ پر کئے جاتے تھے اور اس لئے یہ رسول کریم ﷺ کی بنائی ہوئی کتاب ہے.لیکن میں کہتا ہوں ان بحثوں کو جانے دو کہ یہ ان حالات کا طبعی یا تاریخی نتیجہ ہے یا سوالات کا جواب ہے.میں تسلیم کرتا ہوں محمد یہ عظیم الشان نبی اور ہادی ہیں.تم فلسفیانہ اور سائنٹیفک دلائل سے ثابت کرو کہ خدا تعالیٰ کی زبان نہیں اور وہ نہیں بولتا یا کسی

Page 82

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 77 جلد دوم انسانی زبان میں گفتگو کرنا اس کی شان کے خلاف ہے.مگر ان سب باتوں کے جواب میں میں صرف یہی کہوں گا کہ اگر یہ واقعہ خود میرے ساتھ پیش آیا ہو اور میں نے واقعی سمجھ لیا ہو کہ یہ خدا تعالیٰ کے الفاظ ہیں تو بتاؤ تمہارے دلائل کی میرے نزدیک کیا حقیقت رہ سکتی ہے.ان میں سے ہر ایک نے کہا کہ اس صورت میں تو واقعی کوئی دلیل آپ پر اثر نہیں کرتی سکتی.میں نے کہا تم مجھے پاگل سمجھ لو غلطی خوردہ قرار دے لو لیکن جب مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ کلام کیا ہے تو میں کیسے مان لوں کہ محمد ﷺ سے وہ ہمکلام نہیں ہوا.یہ وہ چیز ہے جس کے مقابلہ میں کوئی نہیں ٹھہر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل یہ ایک ایسی نعمت ہمیں ملی ہے کہ ہم کسی جگہ بھی شرمندہ نہیں ہو سکتے اور ہمیں کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہو سکتی.کیونکہ گھبراہٹ اسی وقت ہوتی ہے جب انسان شبہ میں ہو اور اسے خیال ہو کہ ممکن ہے میری بات غلط ہو جائے.مگر جس کا اپنا مشاہدہ ہو وہ اگر دوسروں کے سامنے ثابت نہ بھی کر سکے اور انہیں قائل نہ کر سکے تب بھی گھبراہٹ اس کے اندر پیدا نہ ہوگی.زید کے ہاتھ میں ایک چیز موجود ہے اگر دوسرے اسے نہیں دیکھ سکتے تو اسے ان کی نظروں کی کمزوری پر افسوس ہوگا چیز کے وجود کے متعلق اس کے دل میں کوئی شبہ پیدا نہیں ہو سکتا.وہ یہی خیال کرے گا کہ بعض لوگوں کی نظروں میں ایسی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ بعض اشیاء کو نہیں دیکھ سکتے.عام لوگوں کو دوسرے سے گفتگو کرتے ہوئے خطرہ ہوتا ہے کہ اگر کسی نے سائنس کی تھیوری پیش کر دی یا کوئی اور اصطلاح لے بیٹھا تو ہم کیا جواب دیں گے.لیکن ہمارے سامنے اگر ایسی صورت پیش آئے تو ہم کہیں گے تمہاری سائنس تمہیں مبارک ہو لیکن ہم اس واقعہ کو کیا کریں جو ہمارے ساتھ پیش آ رہا ہے.آپ کا فلسفہ صحیح ہو گا لیکن ہم اپنے مشاہدہ کے مقابل میں اس کی کیا حقیقت سمجھ سکتے ہیں.غرضیکہ اس کے مقابل پر نہ فلسفہ ٹھہر سکتا ہے اور نہ سائنس.اور اس سے ہماری جماعت کو ایک ایسی طاقت اور قوت حاصل ہوگئی ہے کہ ناممکن ہے یہ جماعت کسی سے دب سکے.جتنا کسی جماعت کے اندر یقین ہوتا ہے اتنا ہی وہ زیادہ ترقی کر سکتی ہے.جب بھی کسی قوم نے

Page 83

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 78 جلد دوم ترقی کی ہے پہلے اس کے اندر یقین پیدا ہوا ہے کہ ہم ضرور جیتیں گے.پھر یہ نہیں کہ جیتنے کا صرف دعوئی ہی دعوئی ہو ، دعوئی اور یقین میں بہت فرق ہے.دعوئی جوش کی حالت میں کیا جاتا ہے اور یقین ٹھنڈی حالت میں.لڑائی کے وقت ایک دوسرے کو کہتا ہے میں جان سے ماردوں گا، تمہیں پیس ڈالوں گا ، تباہ کر دوں گا.حالانکہ دوسرا اس سے اس قدر طاقتور ہوتا ہے کہ تھپڑ مارے تو مر جائے.اور اگر جوش کی حالت نہ ہونے کے وقت یعنی دو چار روز پہلے یا لڑائی کے بعد جب اسے کوئی غصہ فریق مخالف کے متعلق نہ ہو اس سے پوچھا جائے کہ فلاں آدمی طاقتور ہے یا تم ؟ تو وہ نہایت سادگی سے تسلیم کرے گا کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ طاقتور ہے.یہ تو دعوی کی صورت ہے، لیکن یقین ان تمام حالات کو جو عقل پر پردہ ڈال دیتے ہیں علیحدہ کر کے ہوتا ہے.مسلمان عام طور پر یہی کہتے ہیں کہ ہم ہندوؤں کو مار دیں گے لیکن جب علیحدگی میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل سے بات چیت کرتے ہیں تو اس امر کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ ہماری حالت بہت خراب ہے اور ہم کسی پہلو سے بھی دوسروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے.گویا دعویٰ جوش اور دیوانگی پر مبنی تھا.تو میں بتا رہا تھا کہ ترقی کے لئے خواہ وہ دینی ہو یا دنیوی پہلی ضروری چیز یقین ہے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ہمیں حاصل ہے.اور یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ دلائل کے لحاظ سے ہمارے مقابل پر کوئی نہیں ٹھہر سکتا بلکہ اس لئے بھی کہ ایسی خبر میں خدا تعالیٰ کے کلام میں موجود ہیں کہ زمین و آسمان انہیں نہیں ٹال سکتے اور کوئی طاقت انہیں پورا ہونے سے نہیں روک ہو سکتی.پس ہم یقین کے اس مقام پر ہیں جہاں دوسرا اور کوئی نہیں.اس لئے ہمیں قربانی بھی ایسی ہی کرنی چاہئے جو دوسرے نہ کر سکتے ہوں.دیکھو زمیندار کو یقین ہوتا ہے جس کی بناء پر وہ غلہ گھر سے نکال کر باہر پھینک آتا ہے.پس ایک طرف مشاہدہ اور دوسری طرف یقین یہ ہمیں حاصل ہیں.اور یہ ایسی چیزیں ہیں کہ ممکن نہیں کسی کے سامنے یہ پیش کی جائیں اور وہ اس امر کو تسلیم نہ کرے کہ ہمارے اندر نشو ونما کی وہ قابلیت ہے جو دوسرے کسی کے اندر نہیں.اور اس لئے سب کو

Page 84

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 79 جلد دوم ماننا پڑے گا کہ یہی غالب آنے والی قوم ہے.وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاید حالات بدل جائیں اور ایسی صورت اختیار کر لیں کہ یہ جماعت تباہ ہو جائے.مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے اندر ترقی کرنے کی قابلیت موجود نہیں.اگر چہ ہمارے نزدیک یہ خیال بھی غلط ہے کیونکہ ہم اپنی ترقی کا یقین اللہ تعالی کی طرف سے الہام کی بناء پر رکھتے ہیں.لیکن جو لوگ اس بات پر ایمان نہیں رکھتے وہ بھی اس امر کو دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی طاقت دی ہے کہ دنیا کا کوئی مذہب مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا.باقی رہا حوادث زمانہ سے تباہی کا احتمال.سو جیسے یہ احتمال ہے کہ تباہ ہو جائے ویسے ہی یہ بھی ہے کہ نہ ہو.ہمارے پاس معقولیت ہے جو کسی دوسرے مذہب کے پاس نہیں.عیسائیت کس بات کی تائید کے لئے کھڑی ہے؟ اسی لئے کہ ایک کھانے پینے والے انسان کو جس کی اگر قرآن کریم تصدیق نہ کرتا تو بائبل میں اس کے پیش کردہ حلیہ کے رو سے شاید اسے نیک آدمی منوانا بھی مشکل ہو جاتا ( چہ جائیکہ ) اسے خدا منوائے.مسلمان کس چیز کو پیش کرتے ہیں؟ یہ کہ مرض تو دنیا میں موجود ہے مگر اس کا علاج موجود نہیں.کون عقلمند ہے جو اسے تسلیم کرے.ان کے پیش کردہ سب دلائل کے بعد بھی اگر پوچھا جائے تو ہر عقلمند اور سمجھ دار اس بات کو مانے گا کہ اگر مرض باقی ہے تو علاج بھی ضرور موجود ہونا چاہئے.اسی طرح ہندوؤں کی طرف سے جو باتیں پیش کی جاتی ہیں وہ بھی معقولیت سے خالی ہیں.لیکن احمدیت اگر چہ لوگ بظاہر اس کی مخالفت ہی کریں رائج وہی ہورہی ہے.وہی باتیں جن کی بناء پر آج سے ہیں سال پہلے ہم پر کفر کے فتوے لگائے جاتے تھے اب انہیں دنیا تسلیم کر رہی ہے.پہلے کہا جاتا تھا کہ عیسی علیہ السلام کا مرنا خلاف اسلام بات ہے کہ ، ہے لیکن آج کہا جاتا ہے کہ اس بات کو کون مانتا ہے کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ ہیں.اور اب مخالفین کا بیشتر حصہ اس کا قائل ہو چکا ہے.منہ سے خواہ وہ مخالفت ہی کریں مگر دل ضرور مان چکے ہیں.اسی طرح ناسخ و منسوخ کا مسئلہ ہے.ایک زمانہ تھا کہ کہا جاتا تھا یہ لوگ کیسے پاگل

Page 85

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 80 جلد دوم ہیں کہ کہتے ہیں قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں.مگر آج کسی سمجھدار آدمی یا مولوی کے پاس جاؤ وہ تسلیم کرے گا کہ قرآن کریم میں کوئی ناسخ و منسوخ نہیں.اگر چہ بعض باتوں کو سیاسی اغراض یا تعصب کی وجہ سے تسلیم نہیں کیا جاتا مگر احمدیت نے ان کی عمارت کے اندر سرنگ لگالی ہے.اور اگر آج نہیں تو کل ضرور وہ گر کر رہے گی.اور یہ مشکل کام کی نہیں.اگر نوجوان ہمت نہ دکھا ئیں یا گھبرائیں تو یہ نہایت افسوس کی بات ہوگی.بے شک دلوں کا فتح کرنا آسان کام نہیں.مگر اس کے لئے تمام سامان ہمارے پاس موجود ہیں جو اوروں کے پاس نہیں ہیں.اس واسطے دنیا کے مقابلہ میں ہمارے لئے یہ کام آسان ہے.پس ہمارے نئے ہونے والے اور پرانے مبلغین سب کو خیال رکھنا چاہئے کہ کھانا پکا ہوا تیار ہے اب صرف اس کا کھانا باقی ہے.اپنے حوصلوں اور ارادوں کو بلند و بالا کرو اور اس نعمت کی عظمت کو پہچانو جو خدا تعالیٰ نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی معرفت دی ہے.آج لوگوں کا یہ کہنا کہ مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں یا قرآن میں ناسخ و منسوخ نہیں کوئی معمولی بات نہیں.اس کے پیچھے ایک ایسی طاقت ہے جو دنیا کو تہ و بالا کر سکتی ہے اور اس کے ذریعہ زمین و آسمان کو الٹ دیا جا سکتا ہے.پس اس نعمت کی قدر کرو.اگر آدمی کو معلوم نہ ہو کہ اس کے پاس جو ہتھیار ہے وہ کس قدر زبردست ہے تو وہ شکست کھا جاتا ہے.اس لئے اس نعمت کی عظمت کو پہچانو اور خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو ایسی نعمت اور دولت دی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے نوجوانوں کو سچا خلوص اور تقومی عطا کرے جو اس کے منشاء کے مطابق ہو.اور جنہوں نے اپنے واپس آنے والے بھائی کی دعوت کی ہے انہیں اس کا اجر عطا کرے.نیز خان صاحب کے کام میں جو حصہ خلوص سے کیا گیا اس کے بدلہ میں انعام عطا کرے.اور جس میں کوئی غلطی رہ گئی ہے اسے معاف کر کے اسے بھی نیکی سے بدل دے.اور جو مبلغین کام کر رہے ہیں یا آئندہ کرنے

Page 86

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 81 جلد دوم 66 والے ہیں ان سب کو بہتر سے بہتر ثواب حاصل کرنے کی توفیق دے.آمین.“ الفضل 14 مئی 1933 ء ) 1: تاڑ کھجور کی قسم کا ایک درخت ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 336 مطبوعہ لاہور (,2010 2 یوکلپٹس : ایک درخت جس کا عرق دوائیوں میں استعمال ہوتا ہے.(فیروز اللغات اردو جامع صفحه 1470 مطبوعہ لاہور 2010ء)

Page 87

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 82 جلد دوم احمدیوں کو اردو سیکھنے کے لئے حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھنی چاہئیں 22 جولائی 1933ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ نے مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ افریقہ کوئی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:." آج کی مجلس ہمارے مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلباء کی طرف سے مولوی کی نذیر احمد صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ کی آمد پر منعقد کی گئی ہے.جہاں یہ مجلس اور اس قسم کی دوسری مجالس جماعت میں اس روح کو پیدا کرنے اور قائم رکھنے کی محرک ہوتی ہیں جس کے بغیر وہ کام جو ہمارے سپرد کیا گیا ہے مکمل نہیں ہوسکتا وہاں جماعت کو ان حالات سے واقف کرنے کا موجب بھی ہوتی ہیں جن میں سے ہمارے مبلغ گزرتے ہیں.لیکن ان مجالس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے مدرسہ کے طلباء جس رنگ کو اخذ کر رہے ہوتے ہیں وہ سامنے آ جاتا ہے اور اس طرح ہمیں ان کے حالات سے آگاہ ہو کر بعض نصائح کرنے کا موقع مل جاتا ہے.آج کا ایڈریس مدرسہ کی طرف سے ایک لڑکے محمد عبد اللہ نے پڑھا ہے.مجھے ایک طرف تو خوشی ہوئی کہ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا یہ ایک بچہ کی حیثیت میں میری ہی تحریک پر کشمیر سے آئے.جب میں 1921ء میں کشمیر گیا تو میں نے تحریک کی تھی کہ کشمیری طالب علم مدرسہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئیں.اس تحریک پر یہ بھی آئے تھے.کچھ

Page 88

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 83 جلد دوم عرصہ سے میں ان کی شکل تو دیکھتا ہوں گا لیکن یہ سمجھ کر نہ دیکھی تھی کہ یہ وہی محمد عبد اللہ ہیں.اور جب آج کے پروگرام میں ایڈریس کے سامنے ان کا نام پڑھ کر میں نے ان کی شکل دیکھی تو یہ نہ سمجھا کہ یہ وہی ہیں.مجھے اس بارے میں شبہ پڑا اور میں نے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب سے پوچھا کہ کیا یہ وہی لڑکا ہے؟ اور ان کے بتانے پر مجھے معلوم ہوا.اللہ تعالیٰ نے کیا عجیب قانون بنایا ہے کہ ایک بچہ ہوتا ہے، پھر جوان ہوتا ہے، پھر بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن جو اسے بچہ دیکھتے ہیں ان کے سامنے اس کی کیفیت بچہ والی ہی رہتی ہے.اگر میں آج انہیں نہ دیکھتا اور اگر دیکھتا تو نہ پہچانتا.اور دس پندرہ سال کے بعد دیکھتا تو میرے سامنے ان کی وہی بچپن والی شکل ہوتی.کسی دینی فلاسفر نے کہا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر رنج جو پیدا کیا ہے اس کے ساتھ برکت بھی رکھ دی ہے.اس کا ایک مطلب تو وہ ہے جو مثنوی والے نے بیان کیا ہے کہ ہر بلا کیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است لیکن وہ اور مضمون ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے.خدا تعالیٰ جو مشکل پیدا کرتا ہے اس کے اندر خوشی بھی ہوتی ہے.ہر مصیبت جو آتی ہے خواہ وہ کافر پر آئے یا مومن پر اس میں بہتری اور بھلائی کا پہلو بھی ہوتا ہے.چونکہ خدا تعالیٰ ارحم الراحمین ہے اس لئے جب کوئی ایسی بات بھیجتا ہے جو تکلیف دہ ہوتی ہے تو اس میں کوئی نہ کوئی خوبی کا پہلو بھی ہوتا ہے.اس کے ماتحت وہ فلاسفر یہ بتاتا ہے کہ مثلاً جوانا مرگی 1 بظاہر تکلیف دہ چیز ہے لیکن اس کے ساتھ ایک اور چیز بھی لگی ہے جو احساسات سے تعلق رکھنے والی ہے.ایک شخص کی جوان بیوی فوت ہو جاتی ہے، ایک بیوی کا جوان خاوند فوت ہو جاتا ہے، ایک بھائی کا جوان بھائی فوت ہو جاتا ہے، ایک دوست کا جوان دوست فوت ہو جاتا ہے لیکن جو زندہ رہتے ہیں ان کی نگاہ میں 70، 80 سال کی عمر ہو جانے پر بھی فوت ہونے والے کی جوانی کی شکل ہی پھرتی رہے گی.ایک شخص کی زندہ رہنے والی بیوی بوڑھی ہو جائے گی

Page 89

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 84 جلد دوم اور جذباتی طور پر اس کی شکل بدل جائے گی مگر فوت ہونے والی جوان بیوی اسی شکل میں آنکھوں کے سامنے پھرے گی جس شکل میں فوت ہوئی ہوگی.ایک چھوٹا بھائی زندہ رہتا ہے اور اس سے بڑا فوت ہو جاتا ہے.لیکن جب تک چھوٹا بھائی زندہ رہتا ہے وہ خود بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اپنے فوت ہونے والے بڑے بھائی کو جوان ہی دیکھتا ہے.غرض خدا تعالیٰ نے تکالیف اور مصائب کے کئی بدلے جذباتی رنگ میں مقرر کئے ہیں جو مادی رنگ میں نظر نہیں آتے.میں نے ضمنی طور پر یہ بات بیان کی ہے جو میرے ذہن میں ایڈریس پڑھنے والے کو دیکھ کر آئی.میری نگاہ میں وہ اتنی عمر کا ہی بچہ تھا جس عمر میں میں نے اسے یہاں آنے پر دیکھا تھا.اصل بات جو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو جماعتیں قائم کی جاتی ہیں آسمانی اصطلاح میں ان کا پیدا کرنا نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرنا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان پر جاری کیا گیا کہ ”ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے ہیں 2 اور اسی کشف میں آپ نے دیکھا کہ آپ نے نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کی.نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام نہ ہوتا تو آپ کے نبی ہونے میں شک ہوتا.اگر نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کرنے کے لئے نبی نہیں آتا تو پھر اس کے آنے کی کیا ضرورت ہے.نبی اسی وقت آتا ہے جب دنیا دین سے ناواقف ہو جاتی ہے.ابو حیان نے اپنی تفسیر میں یہ سوال اٹھایا ہے.کہتے ہیں یہ نہیں کہ نبی آکر دنیا کو کافر بنا دیتا ہے.یہ غلط ہے بلکہ نبی آتا ہی اُس وقت ہے جب دنیا کا فربن چکی ہوتی ہے اور وہ آ کر مومن بناتا ہے.اس کی مثال سورج کی سی ہوتی ہے جو روشن ہو کر لوگوں کو ان کا گند دکھا دیتا ہے.اس کی مثال اس سالن کی سی نہیں ہوتی جس میں بہت زیادہ مرچیں پڑی ہوں اور جس کے کھانے سے پیچش ہو جائے.بلکہ ڈاکٹر کی ہوتی ہے جو یہ بتاتا ہے کہ پیچش پیدا ہو چکی ہے.پس نبی آتا ہی اُس وقت ہے جب لوگ کفر کی حالت کو پہنچ چکے ہوں اور

Page 90

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 85 جلد دوم وہ آ کر لوگوں کو مومن بناتا ہے.کافر لوگ خود اپنے آپ کو بناتے ہیں.جب یہ حالت ہو جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلی زمین اور آسمان بر باد ہو چکے ہیں اور ان پر شیطان نے قبضہ کر لیا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ نبی کو مبعوث کر کے کہتا ہے جاؤ اور جا کر نئی زمین اور نیا آسمان بناؤ.تب نبی آ کرنئی زمین اور نیا آسمان بناتا ہے.نادان کہتے ہیں یہ شرک ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی نئی زمین اور نیا آسمان بنانے نہیں آتا تو وہ نبیوں کی صف میں کھڑے ہونے کی کوئی وجہ نہیں رکھتا.یہی وجہ ہے کہ جب کوئی نبی آتا ہے تو وہ دنیا کو بدل دیتا ہے.بول چال بدل جاتی ہے.رنگ ڈھنگ بدل جاتا ہے اور ہر نفس بدل جاتا ہے.اسی مدرسہ احمدیہ کے قیام کا سوال تھا کہ ایک صاحب نے اس مجلس میں جو غور کرنے کے لئے منعقد ہوئی تھی کہا ہمیں کوئی دینی مدرسہ قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے.غیر احمدیوں سے ہمارا صرف وفات مسیح کے مسئلہ میں اختلاف ہے.وہ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں ہم کہتے ہیں فوت ہو گئے.ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ایک رسالہ لکھ دیں جس میں وفات مسیح کے دلائل درج ہوں اور وہ لوگوں کے سامنے پیش کریں.باقی ہمارے لڑکے جائیں اور دوسرے مدرسوں میں پڑھیں.یہ مجلس اس دالان میں منعقد کی گئی تھی جو میاں بشیر احمد صاحب کے مکان کا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس میں موجود نہ تھے.جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ بات کہی گئی ہے تو آپ نے ایک تقریر فرمائی جس میں فرمایا مسیح کی وفات کی غلطی کو دور کرنا بھی اس سلسلہ کی بہت بڑی غرض ہے.لیکن صرف اتنی سی بات کے لئے خدا تعالیٰ نے مجھ کو کھڑا نہیں کیا بلکہ بہت سی باتیں ایسی پیدا ہو چکی تھیں کہ اگر ان کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ ایک سلسلہ قائم کر کے کسی کو مامور نہ کرتا تو دنیا تباہ ہو جاتی اور اسلام کا نام و نشان مٹ جاتا.غرض نبی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے آتا ہے اور ہم جو ایک نبی کی جماعت

Page 91

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 86 جلد دوم ہیں ہمارے ہر کام میں وہ اثر ہونا چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیدا کیا ہے.مگر مجھے یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ اس وقت جو ایڈریس پڑھا گیا ہے اس میں بعض اصطلاحات وہی استعمال کی گئی ہیں جو تکلف کے ساتھ دوسرے لوگ استعمال کرتے ہیں اور جن تکلفات سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم کو نکالا ہے.ممکن ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتدا میں اس قسم کی کوئی اصطلاح استعمال کی ہو.مگر نئی زمین اور نیا آسمان بننے میں بھی وقت لگتا ہے.ایک بچہ 9 ماہ کے بعد پیدا ہوتا ہے اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے پیدا نہیں کر سکتا بلکہ اس لئے کہ ایسا ہی ہونا ضروری ہے.میں نے ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ اگر بچہ فوراً پیدا ہو جائے اور فوراً بڑا ہو جائے تو عجیب مصیبت کا سامنا ہوتا.ابھی زچگی کا سامان تیار نہ ہوتا کہ بچہ پیدا ہو جاتا.پھر پیدا ہونے کے بعد اس کے لئے جب کپڑے تیار کئے جاتے تو وہ اتنا بڑا ہو چکا ہوتا کہ کپڑے اسے پورے نہ آتے.پھر اور بڑے کپڑے بنائے جاتے تو وہ جوان ہو چکا ہوتا.غرض یہ ایک مضحکہ خیز بات بن جاتی.اب جس عرصہ میں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ اس لئے نہیں کہ خدا اس کا محتاج ہے بلکہ ہم اس کے محتاج ہیں.ہماری ضروریات اس کی محتاج ہیں.ادھر بچہ پیدا ہوتا ادھر جوان ہو جاتا تو اس کی تعلیم و تربیت کس طرح ہو سکتی.ماں باپ بچہ سے کہتے سکول جاؤ لیکن بچہ کہتا میں جوان ہوں میری شادی کرو.اس طرح ایسی ابتری پھیل جاتی کہ جو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ خدا جوان پیدا نہیں کر سکتا اتنی دیر کے بعد بچہ کیوں پیدا کرتا ہے وہ جھٹ کہہ اٹھتے کہ ہم نے بھر پایا 3 ہمیں بچہ پیدا ہونے کا وہی طریق اور وہی اٹھارہ سال کے بعد بلوغت کا طریق چاہئے.ان کی گڈریا کی مثال ہوتی.جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے ایک بڑے درخت پر چھوٹا سا آم اور کمزورسی بیل کے ساتھ بہت بڑا کدو دیکھا تو کہنے لگا یہ بھی کوئی انصاف ہے.اسی خیال میں وہ آم کے درخت کے نیچے بیٹھ گیا کہ اوپر سے ایک آم اس کے سر پر گرا.اس کے لگتے ہی جھٹ بول اٹھا میں سمجھ گیا خدا نے جو کچھ کیا وہی ٹھیک ہے.اگر آم کی بجائے اتنا بڑا کدو

Page 92

زریں ہدایات (برائے مبلغین) میرے سر پر لگتا تو نا معلوم میرا کیا حال ہوتا.87 جلد دوم یہ ایک لطیفہ ہے لیکن در حقیقت اگر ان چیزوں کا نقشہ کھینچا جائے تو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین پر اعتراض کرنے والے خود ہنسنے لگ جائیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ابتدائی زمانہ کی تحریروں میں اگر بعض الفاظ ایسے آ بھی جائیں تو ان پر ہم بنیاد نہیں رکھ سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی براہین احمدیہ سے پہلے اور بعد کی اردو میں بڑا فرق ہے.لیکن خواہ کسی وقت کی اردو لے لیں دوسرے لوگوں کی اردو میں اور اس میں بہت فرق ہے.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دینی امور میں اصلاح کی ہے وہاں اردو زبان میں بھی بہت بڑی اصلاح کی ہے.چنانچہ ایک شخص نے لندن یونیورسٹی سے پی.ایچ.ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے انگریزی لٹریچر کا اردو لٹریچر پر اثر کے عنوان سے ایک تھیس (Thesis) لکھا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آپ کی تحریروں نے زبان اردو پر خاص اثر ڈالا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصلاحات صرف مذہبی دائرہ میں ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں آپ نے اصلاح کی ہے.اور ہمیں اپنی اصلاحات کو دنیا میں رائج کرنا چاہئے.آج کے ایڈریس میں رسول کریم ہی ہے کے متعلق خواجہ دو جہاں کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.معلوم ہوتا ہے پرانے زمانہ کی کتابیں پڑھنے سے یہ اثر قبول کیا گیا ہے.کسی وقت یہ الفاظ رسول کریم ﷺ کے متعلق استعمال ہوتے تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی تحریر کی سلاست اور روانی نے اس قسم کے الفاظ کو مٹا کر ایسے الفاظ رکھے جو سیدھے قلب پر اثر کرتے ہیں.اسی طرح خدائے ایزد کہا گیا ہے.ایزد کا لفظ آتش پرست ایرانیوں سے لیا گیا ہے.ہمیں اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے کی ضرورت نہیں.اگر کوئی شاعر ضرورت شعری کی وجہ سے ایسا کوئی لفظ استعمال کر لے یا اگر مخاطب ایسے لوگ ہوں جن کے لئے اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے ضروری ہوں تو یہ اور بات ہے.ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ اور صلى الله

Page 93

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 88 جلد دوم رسول کریم ﷺ کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہی ہمیں استعمال کرنے چاہئیں کیونکہ وہ قلب پر زیادہ اثر کرتے ہیں.میں نے مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ اردو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں سے سیکھیں.اور اب پھر یہی نصیحت کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض پنجابی زبان کے الفاظ بھی اردو زبان میں استعمال کئے ہیں جن پر مخالف اعتراض کرتے ہیں.اوّل تو ہم سمجھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو میں شامل ہو کر رہیں گے.کیونکہ اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے یا یہ کہ اردو کے حامل احمدی ہو جائیں گے.آج یورپین لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں پانچ سو کے قریب الفاظ غیر زبان کے ہیں مگر ہر عرب کہتا ہے کہ وہ الفاظ ہمارے اپنے ہیں غیر کے نہیں.کیونکہ قرآن میں آجانے کی وجہ سے ہمارے ہو گئے ہیں.اسی طرح زمانہ خود اردو زبان کو اس طرف لے جا رہا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں وہ اردو کے سمجھے جائیں گے.پس ہمارے طلباء کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب نمونہ اور ماڈل ہونی چاہئیں.خصوصاً آخری زمانہ کی کتابیں، ان کی روانی اور سلاست پہلے کی نسبت بہت بڑھی ہوئی ہے.ان کی اردو نمونہ کے طور پر ہے اور وہی اردو دنیا میں قائم رہے گی.پس ہمیں نقل اس شاہسوار کی کرنی چاہئے جو میدان میں کھڑا رہے نہ ان کی جو بھاگ رہے ہیں.باقی رہی شاعری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں بھی سہولت پیدا کر دی ہے.اصل مقصد یہ ہونا چاہئے کہ جو بات کہی جائے وہ عمدگی سے لوگوں کے ذہن نشین ہو سکے.لیکن دوسروں کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ سمجھیں یہ کوئی خاص زبان جانتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے ایک آدمی نے مجھے آکر کہا ایک بہت بڑا مولوی آیا ہے جو تین قسم کے وعظ کر سکتا ہے.ایک چار آنے والا ، ایک آٹھ آنے والا ، روپیہ والا.چار آنے والا وعظ تو عام لوگ سمجھ سکتے ہیں.اور آٹھ آنے والا بعض

Page 94

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 89 جلد دوم لوگ سمجھ سکتے ہیں.مگر ایک روپیہ والا کوئی نہیں سمجھ سکتا.تو دوسرے لوگوں کے سامنے قابلیت کا یہ معیار تھا.مگر ہمارا طریق یہ ہونا چاہیئے کہ ہم ایسے رنگ میں بات کریں جسے ہر شخص سمجھ سکے.ہماری اصطلاحات ایسی ہوں جو معمولی پڑھے لکھے کے لئے بھی بوجھ نہ ہوں کیونکہ ہمارا کام لوگوں تک حق پہنچانا ہے.اس کے لئے آسان سے آسان اور سادہ سے سادہ طریق ہونا چاہئے.پس ہماری زبان میں ایسی شنگی اور سلاست ہونی چاہئے کہ اگر ادنی درجہ کے لوگوں میں بھی کلام کریں تو وہ آسانی سے سمجھتے جائیں.اس کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان کی نقل کرنی چاہئے جو آپ کی کتب میں ہے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس مبلغ کے اخلاص کو جو واپس آیا قبول فرمائے اور آئندہ اخلاص میں ترقی اور برکت دے.کیونکہ وہی چیز اچھی ہوتی ہے جس کا انجام اچھا ہو.بہت چیزیں ابتدا میں اچھی ہوتی ہیں مگر ان کا انجام خراب ہوتا ہے اور بہت چیزوں کی ابتدا خراب ہوتی ہیں لیکن انجام اچھا ہوتا ہے.لیکن بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی ابتدا بھی اچھی ہوتی ہیں اور انجام بھی اچھا ہوتا ہے.میں دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ ان کو یہی بات عطا کرے.ذاتی بڑائی اور ذاتی وقار کا انہیں خیال نہ ہو.اسی طرح ان بچوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے دعوت کی کہ خدا تعالیٰ انہیں دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے اور انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا کثرت سے مطالعہ کیا کریں.ایک دفعہ میرے پاس ایک تعلیم یافتہ سکھ آیا اور کہنے لگا میں نے حضرت مرزا صاحب کی کتابیں پڑھی ہیں اور پنڈت دیانند جی کی کتابیں بھی پڑھی ہیں.پنڈت صاحب تو کج بحث معلوم ہوتے ہیں مگر مرزا صاحب خدا رسیدہ ظاہر ہوتے ہیں.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے عام طور پر ان کی کتابوں کی قدر نہیں کی.اگر حضرت مرزا صاحب کے سر پر کیس ہوتے تو سارے سکھ ان کے ساتھ ہو جاتے.پھر کہنے لگا معاف کریں میں نے دیکھا ہے آپ کی جماعت کے مبلغین میں بحث کا رنگ زیادہ پایا جاتا ہے.ان میں وہ روحانیت نظر نہیں آتی جو حضرت مرزا صاحب کی

Page 95

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 90 جلد دوم کتابوں میں پائی جاتی ہے.مجھے بھی ایک حد تک اس کا اقرار کرنا پڑا.کیونکہ یہ ایسا نقص ہے جو ہمیں بھی محسوس ہوتا ہے اور اس کی اصلاح کی ضرورت ہے.ہمارے نو جوانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا کام بحث کرنا نہیں بلکہ لوگوں کے دلوں کی اصلاح کرنا ہے.اگر دلوں کی اصلاح نہ ہو اور تمام کے تمام مولویوں کو شکست دے دیں تو ہمارا نام خدا تعالیٰ کے حضور شکست کھانے والوں میں لکھا جائے گا نہ کہ فتح پانے والوں میں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے نوجوانوں کو اس بات کے سمجھنے کی توفیق دے.اس کے بعد خموشی سے دعا کرتا ہوں تاکہ سارے لوگ اس میں شامل ہو جائیں." ( الفضل 6 اگست 1933ء) 1 جوانا مرگی : جوانه مرگ مرتا: جوان موت مرنا، جلدی مرجانا ( فرہنگ آصفیہ جلد دوم صفحہ 667 مطبوعہ لاہور 2015ء) 2: تذکرہ صفحہ 152 تا 154 ایڈیشن چہارم 2004 ء بھر پانا: باز آنا اپنے کیے پر پچھتانا (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 233 فیروز سنز لاہور مطبوعہ 2010ء)

Page 96

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 91 جلد دوم حضرت میر مهدی حسین صاحب کا سفر ایران اور حضرت خلیفة المسیح الثانی کی زریں ہدایات حضرت میر مهدی حسین صاحب 29 را اکتوبر 1934ء کو آنریری مبلغ کی حیثیت - ایران تشریف لے گئے.اس موقع پر حضرت علیہ اسیح الثانی نے اپنے قلم سے انہیں جو ہدایات کا لکھ کر عطا فرمائیں وہ حسب ذیل ہیں:.مگر می سید مهدی حسین صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ نے ایران جانے کا ارادہ کیا ہے اللہ تعالیٰ اس ارادہ کو پورا فرما کر اس کے نیک نتائج پیدا کرے.اس موقع پر میں چند امور کی طرف آپ کو توجہ دلاتا ہوں.(1) آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے اور اس لئے آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے ہیں اور صرف اس کی مدد ہمارے کام بنا سکتی ہے.پس تبلیغ سے زیادہ ہمار از ور دعاؤں پر ہونا چاہیئے.(2) بہترین تبلیغ اچھا نمونہ ہے.جب خدا تعالیٰ کسی سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کے عمل میں برکت دیتا ہے اور لوگ اس کے نور سے خود بخو دمرعوب ہونے لگتے ہیں.(3) تبلیغ میں ہمیشہ نرمی اور استقلال کو مدنظر رکھنا چاہئے.ایک طرف تو دوسروں کے احساسات کا پورا پاس ہو، ان کی محبت ہر لفظ سے ظاہر ہوتی ہو.لیکن دوسری طرف سچائی کے بیان کرنے میں بالکل بے خوفی کا اظہار ہو.

Page 97

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 92 جلد دوم (4) حضرت مسیح ناصری نے ایک بہت اچھی نصیحت فرمائی ہے کہ جس جگہ کبھی دیکھو اس قصبہ کی خاک تک جھاڑ کر چلے جاؤ 1 بعض لوگ حق کو قبول کرنے میں سابق ہوتے ہیں.ہمیشہ ایسے آدمیوں کی تلاش میں رہنا چاہئے اور ضدی لوگوں کو بعد میں آنے والوں کے لئے چھوڑ دینا چاہئے.(5) جماعت آبادان اور دوسری جماعتوں سے وقتاً فوقتاً مشورہ لیتے رہا کریں کہ مشورہ کے کام میں برکت ہوتی ہے.(6) اپنے حالات سے ہر مرحلہ پر اطلاع دیتے رہیں کہ اس طرح دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے اور دل کو بھی تسلی رہتی ہے.جب کوئی دوست باہر جاتا ہے تو ہزاروں مخلصوں کے دل اس کی فکر میں اندر ہی اندر گھلے جاتے ہیں.سچے مومن ایک دوسرے کے اعضاء ہوتے ہیں اور جب کوئی عضو الگ ہو تو ضرور تکلیف ہوتی ہے.پس جب تک خبر رسانی کے ذریعہ اطلاع حالات رہے دل تسلی پاتے رہتے ہیں ورنہ تکلیف پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کے ارادہ میں برکت دے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد مگر ریادر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حکومت وقت کی فرمانبرداری کا حکم دیا ہے.ایران میں آپ اس حکومت کے تابع ہوں گے.پس حکومت کے قانون کی پابندی کا خیال رہے.خاکسار مرزا محمود احمد تاریخ احمدیت جلد 6 صفحہ 226 ، 227 ) 1 متی باب 10 آیت 14 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء

Page 98

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 93 جلد دوم نو جوانوں کو کام کرنے کی تلقین اور لندن میں تبلیغ اسلام مورخہ 7 ستمبر 1935ء کو 7 بجے صبح تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن نے مکرم مولوی محمد یار صاحب مولوی فاضل مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوتِ چائے دی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.دینگ میز احمد یہ ایسوسی ایشن کے ایڈریس میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں.ایک اپنے کام کی تائید میں اور دوسری مولوی محمد یار صاحب کے لندن میں تبلیغی کام کے متعلق.ہر شخص جو دین کے لئے اپنا وقت خرچ کرتا ہے، دین کے لئے اپنے وطن سے جدا ہوتا ہے اور اپنی زندگی کے بہترین اوقات خدمت دین میں صرف کرتا ہے وہ خواہ غلطی کرے یا صحیح طور پر کام کرے بہر حال اس کا فعل مستحسن اور قابل تعریف ہوتا ہے.اسی لئے اس بارے میں ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن یا کوئی اور انجمن اگر اپنے خیالات و جذبات تشکر کا اظہار کرے تو اس کا فرض یہی ہے کہ اس کام کی تعریف کرے.کیونکہ جب تک کوئی جماعت اپنے کام کے اچھے حصے کا اظہار نہ کرے اس کے کام میں ترقی نہیں ہو سکتی.جہاں تک ینگ میز احمد یہ ایسوسی ایشن کے کام کا تعلق ہے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ انجمنیں بنا لینا آسان ہوتا ہے لیکن کام کرنا مشکل ہوتا ہے.میرے سامنے ایڈریس اور جواب ایڈریس میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ ایک زمانہ میں بینگ میز احمد یہ ایسوسی ایشن کے سپر د ایسا کام تھا جس کی اُس وقت ضرورت نظر آتی تھی.لیکن اب بعض ایسی انجمنیں اور بن گئی ہیں جنہوں نے کام تقسیم کر لیا ہے اور جس میں

Page 99

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 94 جلد دوم دوسرے لوگوں کو کام کرنے کی ضرورت نظر نہیں آتی.میں سمجھتا ہوں کہ ضرورت کام کرنے سے نظر آتی ہے اور دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں جسے بغیر ضرورت سمجھا جائے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی جگہ بہت سی انجمنوں کا ہونا بجائے اتحاد کے فساد کا موجب ہو جاتا ہے.لیکن اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زیادہ انجمنیں نہیں بنانی چاہئیں.کیونکہ جگہ کے لحاظ سے اور کام کی وسعت کے لحاظ سے بہت سی انجمنیں بنائی جاسکتی ہیں.میں سمجھتا ہوں اگر ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن خصوصیت کے ساتھ کوئی کام کرے تو اس کا وجود با وجود دوسری انجمنوں کے نہایت مفید ہو سکتا ہے.ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے لئے کوئی خاص کام تجویز کر لیا جائے.ہمارے ملک میں ایک مرض یہ بھی ہے کہ جب کوئی انجمن قائم کی جاتی ہے تو اس کے پروگرام میں دنیا کے تمام کام داخل کر لئے جاتے ہیں اور ایک مہا جال تیار کر لیا جاتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی ایک کام بھی وہ بخوبی سر انجام نہیں دے سکتی.اگر الگ الگ انجمنیں ہوں اور وہ آپس میں کام تقسیم کر لیں.ایک کا کام تعلیم کے متعلق، دوسری کا کام تربیت کرنا، تیسری کا تبلیغ ہو اور اسی طرح چوتھی پانچویں چھٹی کے سپرد علیحدہ علیحدہ کام ہوں تو ہر ایک اپنا اپنا کام بخوبی سر انجام دے سکتی ہے.لیکن اگر مختلف انجمنوں کے پروگرام میں ساری کی ساری باتیں داخل ہوں تو لازمی بات ہے کہ ان کا آپس میں ٹکراؤ ہو جائے.اگر الگ الگ انجمنیں الگ الگ کام کریں تو کام بہت اچھا ہو سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس تقسیم عمل کے ساتھ ینگ میز احمد یہ ایسوسی ایشن بہت کام کر سکتی ہے.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اپنے پروگرام کو وسیع کرنے کی بجائے محدود کرے.یہ ضروری نہیں کہ ایک ہی پروگرام ہمیشہ کے لئے رکھا جائے.جس طرح کام میں تبدیلیاں ہو سکتی ہیں اسی لحاظ سے پروگرام بھی تبدیل ہوسکتا ہے.اور سلسلہ کے لوگ بھی ایسے کام میں جو تقسیم عمل کے ماتحت ہوگا مدد دیں گے.انجمنوں کا پروگرام کوئی شرعی قانون نہیں ہوتا کہ اسے بدلا نہ جا سکے.اس لئے پہلے سے ہی مہا حال بنانے کی کیا ضرورت ہے.پس اگر ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن ایک یا دو کام اپنے ذمہ لے لے اور

Page 100

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 95 جلد دوم انہی کاموں کو کرتی رہے تو کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا.اور جب کسی تیسرے کام کی ضرورت درپیش ہو تو وہ بھی پروگرام میں شامل کیا جا سکتا ہے.خواہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر.یہ طریق ہے جس سے کام پوری توجہ سے کیا جا سکتا ہے اور اپنی طاقتوں کو صرف کرنے کا موقع حاصل ہو جاتا ہے.ایڈریس کے جواب میں جو کچھ کہا گیا ہے شاید اسے میں نظر انداز کر دیتا مگر اس میں کی چونکہ ایسی باتوں کا اظہار کیا گیا ہے جن کی یہاں ضرورت نہیں تھی.یہ کوئی ایسی انجمن نہیں ہے جس میں کوئی ایسی رپورٹ پیش کی جائے جو لندن میں طریق تبلیغ کے معاملہ سے تعلق رکھتی ہو.مولوی صاحب کی تقریر سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ صدر انجمن احمد یہ کے سامنے تقریر کر رہے ہیں.ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ لندن مشن کے نظام میں دخل دے اس لئے ایسی تقریر کی بھی ضرورت نہ تھی اس لئے اس سے متعلق میں چاند با تیں کہنی چا ہتا ہوں.ولایت کے مشن کے متعلق یہ بات کہ آیا وہاں دو آدمی کام کر سکتے ہیں یا ایک ایسی بات نہیں کہ جس کے متعلق کسی غور و غوض کی ضرورت ہو.میرے نزدیک یہ غلط ہے کہ کسی جگہ دو مبلغوں کا ہونا کام کو خراب کر سکتا ہے.ہاں اگر ان کی ذہنیت خراب ہو تو پھر کام خراب ہو سکتا ہے.قادیان میں آٹھ ناظر ہیں، مبلغ ہیں، ناظروں کے ماتحت بہت سے کارکن ہیں جن کی کل تعداد دو سو کے قریب ہوگی اور وہ سب یہاں کام کرتے ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان دو سو آدمیوں کو علیحدہ علیحدہ شہروں میں بھیج دیا جائے تو کام بہت اچھا ہو سکتا ہے.اگر اس طرح کیا جائے تو کام فوراً بند ہو جائے گا.انگلستان میں بیسیوں شہر ہیں، ہزاروں قصبات ہیں اگر چہ وہ پنجاب کی دو تہائی کے قریب ہے تا ہم ایک وسیع ملک ہے.کروڑوں انسان آباد ہیں وہاں ایک دو مبلغوں سے کس طرح جگہ جگہ تبلیغ ہو سکتی ہے.کوئی شخص ایک ضلع میں بیٹھ کر بھی ضلع کے سارے لوگوں کو تبلیغ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ ایک دو آدمی ایک ملک کے ہر حصے میں تبلیغ کر سکیں.یہ تو ہوسکتا ہے کہ ایک مبلغ دورہ کرے

Page 101

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 96 جلد دوم اور دوسرا مرکز میں رہے مگر یہ بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرح تمام ملک میں تبلیغ کا شور بر پا کیا جا سکتا ہے.نہ ایک نہ دو نہ چار مبلغ تبلیغ کر کے ملک میں شور ڈال سکتے ہیں.اگر ہیں یا چھپیں آدمی بھی بھیجوا دیے جائیں تو بھی یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تمام ملک کو بیدار کر سکیں گے.یہاں ہندوستان میں لوگ اپنے کاروبار میں اس قدر مصروف نہیں ہوتے کہ کوئی فرصت کا وقت نہ نکال سکیں.مگر انگلستان کے لوگوں کے ذمہ اتنا کام ہوتا ہے اور وہ اپنے کاروبار میں اس قدر مشغول ہوتے ہیں کہ وہ کسی اور کام کی طرف توجہ ہی نہیں کر سکتے.اور یہ بات ان کی عادت میں داخل ہے کہ وہ کوئی ایسا کام جسے وہ فضول سمجھتے ہیں نہیں کرتے.اگر چہ ان کے کچھ کام ایسے بھی ہیں جن کو ہم فضول سمجھتے ہیں مگر ان کے نزدیک وہ فضول نہیں ہیں.مثلاً سینما یا ناچ وغیرہ ہے.وہ ان باتوں کو اپنے کام کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور انہیں اپنے اصلی کام کے لئے مفید اور محمد خیال کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ سرکاری افسروں کے اس قسم کے اخراجات ان کی گورنمنٹ برداشت کرتی ہے.تمام ناچ وغیرہ جو وزراء یا گورنمنٹ کی طرف سے کرائے جاتے ہیں ان کے اخراجات گورنمنٹ خود برداشت کرتی ہے.اس قسم کی باتوں کے علاوہ وہ زائد وقت نہیں نکال سکتے.میں جب انگلستان میں گیا تو وہاں ایک جگہ ایک پولیٹیکل لیکچر دیا جس میں حاضری تین چار سو سے زیادہ نہیں تھی.اس کے علاوہ ایک مذہبی پبلک لیکچر دیا گیا جس میں صرف دواڑھائی سو آدمی ہوں گے.دوسرے تمام لیکچر جو ہمارے ہوتے رہے ان میں تمہیں چالیس یا پچاس آدمیوں سے زیادہ لوگ جمع نہ ہوتے.مجھے یاد ہے کہ مسٹر داس گپتا جو وہاں رہتے ہیں اور انہوں نے کئی انجمنیں بنائی ہوئی ہیں اور جن کی ایک انجمن کے سر پرست ڈیوک آف کناٹ ہیں اکثر ہمارے پاس آتے تھے.ان سے جب لیکچروں میں سامعین کی تعداد کے متعلق ذکر کیا گیا تو وہ کہنے لگے آپ کو اس ملک کی واقفیت نہیں.ٹیگور کو آپ جانتے ہیں ان کی کئی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں اس ملک میں شائع ہوئی ہیں مگر ان کے لیچروں میں زیادہ سے زیادہ ستر آدمی ہوتے تھے.جس سے وہ بہت مایوس ہو گئے.مگر

Page 102

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 97 جلد دوم جب امریکہ گئے اور نیو یارک میں ان کا پہلا لیکچر ہوا تو اس کے لئے سات ہزار ٹکٹ فروخت ہو جانے کے بعد بھی بہت سے لوگ باقی تھے جو لیکچر سننے کے شوقین تھے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ملک مقابلہ ایک نیا ملک ہے.اس میں لوگوں نے خاص عادات اور خاص نظام ابھی پیدا نہیں کیا جیسا کہ انگلستان کے لوگوں نے پیدا کیا ہوا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انگلستان میں زیادہ مبلغین موجودہ حالات سے زیادہ کام کر سکتے ہیں، زیادہ تبلیغ ہوسکتی ہے.مگر یہ بات کہ ان کے ذریعہ وہاں تبلیغ کا شور بر پا ہوسکتا ہے ناممکن ہے.کیونکہ اہل انگلستان سینکڑوں سالوں سے دوسری قوموں پر حکومت کرتے چلے آئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی تہذیب اور ان کا تمدن انتہائے کمال تک پہنچا ہوا ہے اور وہ تمام دنیا پر تفوق حاصل کر چکے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ جو راہ انہوں نے اختیار کر رکھی ہے وہی درست ہے ان امور کے پیش نظر ان پر تبلیغ کا فوری اثر نہیں ہوسکتا.اصل بات یہ ہے کہ کام اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ کام کرنے کے لئے صحیح طریق اختیار کیا جائے.اگر ان اصول کو مد نظر رکھا جائے جو کام کرنے کے ہیں تو کام بہت اچھا ہو سکتا ہے.اگر صحیح طور پر کام کیا جائے تو بھی لندن میں دو مبلغ بہت تھوڑے ے ہیں.لندن میں ستر اسی لاکھ کی آبادی ہے اور یہ شہر سترہ اٹھارہ میل تک پھیلا ہوا ہے.پس اگر وہاں تبلیغی مشن میں کوئی تغیر کرنا پڑا تو وہ اس خیال کے ماتحت نہیں کیا جائے گا کہ وہاں دو مبلغوں کے لئے کام نہیں بلکہ اس خیال کے ماتحت کیا جائے گا کہ وہاں دو ہندوستانیوں کو مل کر کام کرنا نہیں آتا.چونکہ اس کے متعلق ایک سکیم میرے زیر غور ہے اس لئے میں نے اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کر دیا ہے.باقی تقریر کو میں نظر انداز کرتا ہوں گویا کہ وہ کی ہی نہیں گئی.میں پھر ینگ مینز احمد یہ ایسوسی ایشن کو توجہ دلاتا ہوں کہ یہ کام کا موقع ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے وہ مفت میں ثواب کما سکتے ہیں.لیکن دقت یہ ہے کہ تربیت کی کمی کی وجہ سے انہیں عاجل چیز کا احساس زیادہ ہے اور وہ

Page 103

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 98 جلد دوم آجل چیز جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اس کا احساس کم ہے.اگر نیشنل لیگ اپنا کام با قاعدہ کر رہی ہے تو ایسوسی ایشن کے لئے اور کام کی کمی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے بہت وسیع کام پیدا کئے ہیں.اور اگر ان کاموں کو باقاعدگی سے کیا جائے ، محنت، توجہ اور تندہی سے کیا جائے تو وہ بہت عمدہ نتائج پیدا کر سکتے ہیں.لیکن اگر سیکرٹری یا پریذیڈنٹ اپنے دوسرے کاموں کی وجہ سے فرصت ہی نہ نکال سکیں تو پھر کام کیا ہو سکتا ہے.جب تک انسان کسی کام کی سرانجام دہی کے لئے اپنی جان پر بوجھ نہ ڈالے اور یہ محسوس نہ کرے کہ اس سے اس کے دوسرے کاموں اور اس کی طبیعت پر اثر پڑ رہا ہے اُس وقت تک وہ کام خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں ہو سکتا.اگر اس جذبہ کے ماتحت کام کیا جائے تو بینگ میز احمد یہ ایسوسی ایشن یہ قطعاً نہیں کہہ سکتی کہ نیشنل لیگ یا احمدیہ کو رہنے کی وجہ سے اس کی ضرورت نہیں رہی.بلکہ اگر دس گیارہ اور انجمنیں بھی قائم ہو جائیں تو بھی وہ زیادہ نہیں.مگر اس طرح نہیں کہ مہا جال پھیلا یا جائے اور اپنے پروگرام میں تمام دنیا کے کام شامل کر لئے جائیں.تقسیم عمل ہو تو پھر مختلف انجمنوں کے پروگرام کا آپس میں ٹکراؤ نہیں ہوتا بلکہ اتحاد اور تعاون پیدا ہوتا ہے اور کام بھی بخوبی ہو سکتا ہے.“ (الفضل 9 اکتوبر 1935 ء )

Page 104

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 99 99 احمدی نوجوانوں کو نصائح 16 نومبر 1935ء کو انٹر کالجیٹ ایسوسی ایشن کے نو جوانوں نے مکرم مولوی محمد یار عارف صاحب مولوی فاضل مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.”ہمارے عام محاورات میں بعض الفاظ اس قسم کے رائج ہو چکے ہیں کہ اگر چہ بظاہر ان کے معانی سے کوئی برا اثر محسوس نہیں ہوتا لیکن امید ہو سکتی ہے کہ آئندہ ان سے غلط مفہوم پیدا ہو.اس قسم کے الفاظ میں سے His Holiness کا لفظ بھی ہے.یہ محاورہ جہاں تک میرا خیال ہے مفتی محمد صادق صاحب اور مولوی عبد الرحیم صاحب نیر نے شروع کیا تھا.رومن کیتھولک اس لفظ کو اپنے پوپ کی نسبت استعمال کرتے تھے کیونکہ وہ اس کو کلی طور پر معصوم عن الخطاء سمجھتے تھے.اور اس بات کے قائل ہیں کہ اگر کبھی پوپ کوئی حکم خلاف شریعت بھی دے دے تو وہی شریعت ہے اور اس کی زندگی تک اُسی پر عمل ہوتا رہے گا.کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ جو کچھ وہ کہتا ہے خدا کی طرف سے ہوتا ہے.لیکن ہم کسی انسان کو معصوم عن الخطاء نہیں مان سکتے.بشری قسم کی غلطیاں تو ہر انسان سے ہو سکتی ہیں.البتہ یہ مانتے ہیں کہ انبیاء سے شرعی غلطیاں نہیں ہو سکتیں اور وہ اس پہلو سے معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں.ہماری زبان میں حضرت کا لفظ ادب کے مقام پر بولا جاتا ہے.لیکن بقول ہر چہ گیر علتی علت شود آجکل بعض لوگ اس کا استعمال بد معاش.کے معنوں میں کرتے ہیں لیکن اس سے اس کی حقیقت اور اصلیت میں فرق نہیں پڑ سکتا.جلد دوم

Page 105

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 100 جلد دوم ہمیں اسلامی اصطلاحات سے ایک گہرا تعلق ہونا چاہئے.ایسا گہرا تعلق کہ جیسا باپ کو اپنے بیٹے سے بھی نہیں ہوتا.اور ہمیشہ اسلامی اصطلاحات کو رواج دینا چاہئے.کیونکہ دوسری اصطلاحات کو استعمال کرنے سے بعض دفعہ غلط فہمی ہو سکتی ہے.ممکن ہے بعد میں آنے والے لوگ یہی سمجھیں کہ ہمارا بھی یہی عقیدہ تھا جو غیر اسلامی اصطلاح استعمال کرنے والوں کا اس اصطلاح کے متعلق تھا.ممکن ہے وہ ہمارے متعلق یہی سمجھیں کہ ہم His Holiness کا لفظ اسلامی عقیدہ کے مطابق ہی استعمال کرتے تھے.تاہم مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ نہ ہم غلطی کریں اور نہ آئندہ اپنی اولادوں کو غلطی میں مبتلا ہونے دیں.ایک غلط فہمی کی وجہ سے یہ میٹنگ مغرب کے بعد ہو رہی ہے.جب کسی سے کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو وہ خیال کر لیتا ہے کہ لا ہے کہ Oh I am sorry کہہ کر معاملہ کو ختم کر دیا جائے گا.لیکن میرا یہ طریق ہے کہ جب تک کوئی شخص اس امر کے متعلق جس پر اسے گرفت کی گئی ہو مکمل جواب نہ دے دے اُس وقت تک میں اس سے کوئی بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا.تا اسے I am sorry نہ کہنا پڑے.میں چاہتا ہوں کہ ہمارا طرہ امتیاز اور ہمارا قدم اخلاقی معیار کے لحاظ سے بہت اونچا ہو.یہ واقعہ میرے سامنے کا نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت کا ہے کہ آپ کو اطلاع ملی کہ ایک احمدی نے بغیر ٹکٹ کے سفر کیا اور قادیان آیا ہے.یہ سن کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُسی وقت اپنی جیب سے اسے کچھ رقم دی اور فر ما یاریل کی چوری بھی ویسی ہی چوری ہے جیسی کسی دوسری چیز کی چوری ہوتی ہے.تم ریلوے والوں کو ان کا کرایہ ادا کرو اور جاتی دفعہ ٹکٹ لے کر جاؤ.پس ہمارا اصل معیار دیانت داری اور صداقت ہے.اگر ہم اس کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں.دنیا میں اگر کوئی لا زوال دولت ہے تو دیانت اور امانت ہی ہے جو خدا نے اپنے بندوں کے لئے بھیجی

Page 106

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 101 جلد دوم ہے.اس کے حصول کے لئے کوشش کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے.اس دنیا کی زندگی حقیقی زندگی نہیں بلکہ جو بعد کی زندگی ہے وہی اصل زندگی ہے.اگر کوئی شخص مدرسہ کی زندگی کو اصل زندگی سمجھتا ہے تو وہ ہمیشہ ناکام رہتا ہے.جب میں ابتدائی زمانہ میں رام پور گیا تو وہاں کے مدرسہ میں ایک پٹھان کو دیکھا جس کے بال سفید ہو چکے تھے اور اس کی عمر 45 سال کے قریب تھی.اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا تم اتنی مدت تک پڑھ ہی رہے ہو؟ اس نے کہا ہاں اس وقت تک تین دفعہ بخاری شریف ختم کر چکا ہوں.میں نے اس سے دریافت کیا کس غرض کے لئے پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا اگر میں یہاں سے فارغ ہو کر باہر چلا جاؤں تو روٹی کہاں سے کھاؤں.میں یہاں اس انتظار میں ہوں کہ مولوی صاحب مریں تو میں ان کا قائم مقام بنوں.تو بعض لوگ طالب علمی کو ہی اپنا مقصد قرار دے لیتے ہیں.ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ وہ غلطی کرتے ہیں یا نہیں مگر یہ یقینی بات ہے کہ وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اس زندگی کو اپنا مقصد قرار دے لیتے ہیں.حالانکہ یہ زندگی اگلی زندگی کا ایک قلیل ترین جزو ہے اور انگلی زندگی کے لئے دیانت اور امانت عظیم الشان خزانے ہیں.اگر ہم ان کو چھوڑ دیں تو ہم سے بڑھ کر گھاٹے میں اور کوئی نہیں ہوسکتا.ہم میں سے کتے ہیں جنہیں احمدیت کی وجہ سے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو نہیں چھوڑنا پڑا.بہت قلیل تعداد ان لوگوں کی ہے جن کو یہ قربانیاں نہیں کرنی پڑیں.حتی کہ ہمارا خاندان جس کے مقامی حالات کی وجہ سے بظاہر ممکن نہیں معلوم ہوتا کہ ہمیں بھی اس مشکل سے دو چار ہونا پڑا ہو گا ہمارے بھی بہت سے رشتہ داروں کے ہم سے تعلقات احمدیت کی وجہ سے قطع ہو گئے.میری بیوی کے چچا انسپکٹر آف سکولز تھے.غیر متعصب بھی تھے.قادیان میں انسپکشن کے لئے آئے تو انہوں نے پوری کوشش کی کہ مجھ سے نہ ملیں.ایک دفعہ لاہور میں ایک شادی کے موقع پر مجھ سے انہی کے خاندان کے ایک شخص نے کہا آپ کیوں ان کی سے نہیں ملتے ؟ میں نے کہا وہ ملنا نہیں چاہتے.میری تو خواہش ہے کہ ان سے ملوں.ہم

Page 107

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 102 جلد دوم یہ باتیں کر رہی رہے تھے کہ اتنے میں وہ آگئے.ان صاحب نے ان سے میری ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا ابھی آتا ہوں.اور پھر جب تک ہم وہاں رہے وہ تقریب میں شامل نہ ہوئے.میں سمجھتا ہوں ہمارے درجنوں ایسے رشتہ دار ہیں جو احمدیت کی وجہ سے منقطع ہو گئے.اس واسطے نہیں کہ ہم ان سے نہیں ملنا چاہتے بلکہ اس واسطے کہ وہ نہیں ملنا چاہتے.ہمیں اپنے خاندان کے لوگوں سے گالیاں ملتی تھیں.ہماری تائی صاحبہ جو بعد میں احمدی ہو گئیں وہ ہم کو برا بھلا کہتی تھیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ جبکہ میری عمر 6 ، 7 سال کی ہوگی میں سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا تو انہوں نے میری طرف دیکھ کر بار بار یہ کہنا شروع کیا جیہو جیہا کاں اوہو جیہی کو کو اس فقرہ کو انہوں نے اتنی دفعہ دہرایا کہ مجھے یاد ہو گیا.میں نے گھر میں جا کر یہ بات بتلائی اور پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ تو انہوں نے بتایا جیسے باپ برا ہے ویسا ہی بیٹا بھی برا ہے.قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بائیکاٹ کیا گیا.لوگوں کو آپ کے گھر کا کام کرنے سے روکا جاتا.کمہاروں کو روکا گیا، چوہڑوں کو صفائی سے روکا گیا ، ہمارے عزیز ترین بھائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھاوج اور دیگر عزیز رشتہ دارختی کہ آپ کے ماموں زاد بھائی علی شیر یہ سب طرح طرح کی تکلیفیں دیا کرتے تھے.ایک دفعہ گجرات کے علاقہ کے کچھ دوست جو سات بھائی تھے قادیان میں آئے اور باغ کی طرف اس واسطے گئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتا تھا.راستہ میں ہمارے ایک رشتہ دار باغیچہ لگوا رہے تھے.انہوں نے ان سے دریافت کیا کہاں سے آئے ہو اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے جواب میں کہا گجرات سے آئے ہیں اور حضرت مرزا صاحب کے لئے آئے ہیں.انہوں نے کہا دیکھو میں ان کا ماموں کا لڑکا ہوں میں خوب جانتا ہوں یہ ایسے ہیں ویسے ہیں.ان میں سے ایک نے جو دوسروں سے آگے تھا بڑھ کر ان کو پکڑ لیا اور اپنے بھائیوں کو آواز دی کہ جلدی آؤ.اس پر

Page 108

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 103 جلد دوم و شخص گھبرایا تو اس احمدی نے کہا میں تمہیں مارتا نہیں کیونکہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے رشتہ دار ہو.میں اپنے بھائیوں کو تمہاری شکل دکھانی چاہتا ہوں کیونکہ ہم سنا کرتے تھے کہ شیطان نظر نہیں آتا.مگر آج ہم نے دیکھ لیا ہے کہ وہ ایسا ہوتا ہے.پس ہم میں سے کوئی نہیں جس نے اپنے رشتہ داروں، قریبیوں اور اپنے احساسات کی قربانی نہیں کی.اور آجکل جو کچھ دنیا میں ہمیں کہا جاتا ہے کون اسے آسانی سے سن سکتا ہے.مخالف یہ سب کچھ اس لئے کر رہے ہیں کہ ہم نے خدا کے فرستادہ کو قبول کیا ہے.جب ہم نے احمد بیت کے لئے دنیا کو قربان کر دیا ہے، دنیا کی سب چیزوں کو کھو کر دیانت اور امانت کو حاصل کیا ہے تو نو جوانو ! دیانت اور امانت کا ایسا ثبوت دو کہ کوئی تم پر حرف نہ لا سکے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ افراد کو لوٹنا بد دیانتی نہیں ہے.بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ انجمنوں کو لوٹنا بد دیانتی نہیں ہے.گورنمنٹ کے بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ عوام الناس کو لوٹنا برا نہیں ہے.اور بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کو لوٹنا برا نہیں ہے.لیکن کسی کا حق مارنا خواہ وہ کوئی ہو گناہ ہے اور قابل گرفت جرم.آجکل کے اہلحدیثوں کو خصوصاً یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ غیر مذاہب کے لوگوں کا مال کھا نا برا نہیں.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک رشتہ دار کا واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ اس کو انہوں نے اٹھنی دی کہ بازار سے سودا لے آؤ.وہ سودا بھی لے آیا اور اٹھتی بھی لے آیا اور ان کو دینی چاہی.انہوں نے پوچھا کیسی ہے ؟ اس نے کہا کہ مال غنیمت ہے.ان کے استفسار پر اس نے بیان کیا کہ وہ دکاندار اٹھتی کو صندوقچی کے اوپر رکھ کر اندر کوئی چیز لینے کے لئے گیا تو میں نے اٹھالی اور سودا بھی لے لیا.گویا اس کے نزدیک غیر مذہب کے آدمی کا مال لینا جائز تھا اور یہ بددیانتی نہیں تھی.حالانکہ دیانت کا سوال اپنے مذہب کے لوگوں تک ہی محدود نہیں بلکہ وسیع اصول ہے.اگر کوئی مسلمان کسی مسلمان سے بددیانتی سے پیش آئے یا عیسائی عیسائی سے بد دیانتی کرے تو یہ اس قدر برا نہیں جس قدر یہ برا ہے کہ کوئی مسلمان کسی ہندو سے یہ سمجھ کر بد دیانتی کرے کہ اسلام نے اسے اس بات کی

Page 109

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 104 جلد دوم اجازت دی ہے.کیونکہ اس طرح ایک تو اس نے بددیانتی کر کے گناہ کیا دوسرے اس کو اسلام سے اور دور کر دیا.پس تمہارے اخلاق اس قسم کے ہونے چاہئیں کہ تمہارے ہمسائے تم پر انگلیاں نہ اٹھا ئیں بلکہ تعریف کریں اور کہیں کہ یہ کبھی جھوٹ نہیں کہہ سکتا.یہ کبھی بددیانتی نہیں کرتا.کئی لوگ مذہباً احمدیت کی سچائی کو مان لیتے ہیں اور احمدیت میں داخل ہو کر اصلاح کی کوشش بھی کرتے ہیں.لیکن بعض دفعہ مرض کے طور پر وہ غلطی بھی کر جاتے ہیں.لیکن تمہارے لئے کتنا اچھا موقع ہے کہ بچپن سے تمہارے کانوں میں یہ آواز پڑتی چلی آ رہی ہے کہ دیانت اچھی چیز ہے.اگر ایسے ماحول کے ہوتے ہوئے بھی تم میں سے کوئی کسی وقت دیانت کو چھوڑ دے تو افسوس کا مقام ہے.ایک عیسائی کے نزدیک لا اله الا اللہ کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ وہ تثلیث کا قائل ہے.ایک سناتی کے نزدیک لا اله الا اللہ کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ وہ بتوں کا پوجاری ہے.ایک آریہ کے نزدیک حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی کوئی قیمت نہیں کیونکہ وہ اس بات کا قائل ہے کہ ویدوں کے رشیوں کے بعد کسی سے خدا ہمکلام نہیں ہو سکتا.لیکن ان سب کے نزدیک دیانت اور امانت کی قیمت ہے کیونکہ سب کے سب اس کو قیمتی خیال کرتے ہیں اور وہ تمہارے نیک نمونہ سے یقیناً متاثر ہوں گے اور اقرار کریں گے کہ احمدیت نے ان کے اندر ایک ایسی تبدیلی پیدا کر دی ہے اور ان کو ایک ایسی چیز دے دی ہے جو عام طور پر دوسروں میں نہیں پائی جاتی.اس طرح تم لوگوں کے دلوں کو متاثر کر سکتے ہو.باقی مسائل کے متعلق ان کو ہزاروں اعتراض ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ ایسے خزانے ہیں جو ابھی ان کے لحاظ سے زمین میں دبے ہوئے ہیں.لیکن یہ ایک بالکل ظاہر چیز ہے اور ہر ایک اس کی صداقت کا قائل ہے.پس اخلاق اور اعلیٰ نمونہ کے ساتھ احمدیت کی تبلیغ اور اس کی خدمت کرو.اس کے بعد میں ایڈریس کی اس بات کی طرف آتا ہوں کہ عیسائی ہم پر یہ اعتراض ا

Page 110

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 105 جلد دوم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے اخلاق اچھے نہیں ہیں.اس اعتراض کا جو جواب مولوی محمد یار صاحب نے دیا ہے وہ جواب بھی نہایت لطیف ہے.لیکن ایک اور بات یہ بھی یادر ہے کہ جب مبلغ کے سامنے یہ سوال پیش ہو تو اسے کہہ دینا چاہئے کہ میں تو انسان ہوں میرا تعلق خدا تعالیٰ سے ہے.ہم خدا کی محبت کو اور دیانت اور امانت کو دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں.مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کوئی مسلمان یا ہندو یا عیسائی کیا کرتا ہے.ہاں اس سے ضرور مجھے غرض ہے کہ لوگ دیانت اور امانت پر چلیں.میں مسلمانوں کو اس امر کی تاکید کرتا ہوں کہ اسلام کے احکام پر عمل کریں اور عیسائیوں سے کہتا ہوں کہ انجیل پر عمل کریں.اور اگر ہر دو تو میں اسی طرح کریں یعنی مسلمان اسلام پر اور عیسائی انجیل پر عمل پیرا ہوں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ملک جہاں مسلمان بستے ہوں گے نہایت امن اور سکون ہو گا لیکن جہاں عیسائیت کی تعلیم پر عمل ہورہا ہوگا وہاں ابتری پھیلی ہوئی ہوگی.مصر کا ایک واقعہ ہے کہ ایک پادری ہمیشہ اس امر کا وعظ کرتا کہ عیسائیت بہت اچھی ہے.محبت کی تعلیم دیتی ہے.رحم دلی کی تاکید کرتی ہے.قریب تھا کہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ گرفتار ہو جاتا کہ ایک مسلمان کو نہایت ہی مفید تجویز سوجھی.اس نے اس پادری کے گال پر زور سے تھپڑ مارا.پادری نے جب اسے مارنا چاہا تو اس نے کہا کہ آپ اپنی تعلیم پر عمل کریں اور دوسرا گال بھی میری طرف کر دیں.پادری نے کہا کہ اگر میں اپنی تعلیم پر عمل کروں تو میرا چلنا پھرنا دو بھر ہو جائے اب میں تمہاری تعلیم پر ہی عمل کروں گا.جرمن اور فرانس کی لڑائی پر بعض پادریوں کی طرف سے سوال اٹھایا گیا کہ یہ لڑائی عیسائیت کی تعلیم کے خلاف ہے.فرانس کو چاہئے تھا کہ تحکیم چھوڑ فرانس کے قلعے بھی جرمن کے حوالے کر دیتا اور لڑائی ختم ہو جاتی.پس اگر ہر قوم اپنے مذہب پر عمل کرے تو بغیر تبلیغ کرنے کے اسلام کی فوقیت ثابت ہو جائے گی.مسلمانوں میں جب بھی فساد ہوتا ہے وہ اسلام کو چھوڑنے سے ہی ہوتا ہے.

Page 111

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 106 جلد دوم لیکن دوسری قوموں میں جب فساد ہوتا ہے اپنے مذہب پر چلنے کی وجہ سے ہوتا ہے.اسلام کے مقابل کوئی مذہب عملی طور پر ٹھہر نہیں سکتا اور مسلمانوں کے نقائص کی وجہ سے ہی خدا تعالیٰ نے احمدیت کو قائم کیا ہے.اگر ہم اس بات کو اپنے عمل سے بھی ثابت کر سکیں تو احمدیت بہت جلد پھیل سکتی ہے.لیکن اگر تمہارے اندر نہ قربانی کا جذبہ ہو نہ غریبوں سے حسن سلوک، نہ سچائی ، نہ امانت، نہ بڑوں کا ادب، نہ ان سے ہمدردی تو تم اس سوال کا کیا جواب دو گے کہ تم نے مسیح موعود کو مان کر کیا حاصل کیا.اس سے قبل ایک وقت تھا کہ تم کہہ سکتے تھے ابھی انتظار کرو.بیج ابھی بویا گیا ہے.کچھ عرصہ کے بعد پھل لائے گا.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ لوگ احمدیت میں نئے نئے داخل ہو رہے تھے اور تم لوگوں کو تسلی دلا سکتے تھے کہ ابھی ان نو احمدیوں پر سے پچھلی میل دور نہیں ہوئی.لیکن جب کو نیپل درخت بن جائے اور پھر اس پر ایک لمبا عرصہ بھی گزر جائے مگر وہ درخت پھل نہ لائے تو اس حالت میں معترض کو کیا جواب دیا جا سکتا ہے.پس تمہاری ذمہ داری پہلوں سے زیادہ ہے.تمہارے کام اور جذبات دوسروں سے بالکل ممتاز ہونے چاہئیں.تمہاری زندگیاں بنی نوع انسان کی ہمدردی میں گزرنے والی ہوں.تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے ہفتہ کے اوقات میں سے کچھ حصہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے کام پر خرچ کرتے ہیں.طالب علم بھی بڑے آدمی کی طرح خدمت کر سکتا ہے اور تمہاری غربت کو محوظ رکھتے ہوئے تمہاری قربانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے.لیکن یہ اس صورت میں ہو سکتا ہے کہ تم کچھ کر کے دکھاؤ.مجھے لندن کے ہو مرس را مرز کا قصہ بہت پسند آتا ہے.اس کا ایک نوکر تھا جو اس سے بہت تھوڑی تنخواہ حاصل کرتا تھا.ایک دن اس نے مذاقاً نوکر سے کہا میرا تو دیوالہ نکل گیا ہے اور اب میں تمہیں اتنی تنخواہ نہیں دے سکتا.اس پر نو کرنے ہیں تمہیں یا چالیس روپے جو اپنی تنخواہ سے بچائے ہوئے تھے اپنے مالک کے سامنے پیش کر دیئے.اس کا اس پر بہت بڑا اثر ہوا.تو چھوٹی سے چھوٹی قربانی کی بھی قدر بہت زیادہ ہوتی ہے اور جذبات قربانی کی عظمت کو بلند کر دیتے ہیں.اگر مثلاً

Page 112

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 107 جلد دوم راک فیلر (Rockefeller) کسی کو دس لاکھ روپیہ دے دے تو اسے کوئی بڑی بات نہ سمجھی جائے گی.لیکن اگر کوئی غریب کسی کو ایک روپیہ بھی دے دے تو اس کو خاص وقعت دی جائے گی.پس دلوں پر اثر ڈالنے والی قربانی کی روح ہوتی ہے نہ کہ اس چیز کی بڑائی.اسی طرح طالب علمی کے زمانہ کی چھوٹی چھوٹی قربانیاں بہت اثر پیدا کر سکتی ہیں.تم اپنی زندگیوں کو احمدیت کے معیار پر لاؤ.جو شخص صداقت کے لئے قربانی کرتا ہے وہ کبھی نہیں مرتا.جیسا کہ میں نے خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ ایسے انسانوں کے متعلق فرماتا ہے بَلْ أَحْيَا 1 وہ ہمیشہ زندہ رکھے جاتے ہیں پس یہ خیال تمہیں بز دل نہ بنائے کہ تم بڑی قربانی نہیں کر سکتے.اگر تمہاری قربانی دوسرے نوجوانوں کو غیرت دلانے والی ہوگی تو تم دنیا میں ایک ایسا بیج بوؤ گے جسے کوئی اکھاڑ نہ سکے گا.اپنے اندراس روح کو پیدا کرو کہ دنیا میں دین کے لئے قربانی کرنے والا کبھی نہیں مرتا.“ (الفضل 4 دسمبر 1935 ء ) 1: البقرة: 155 هه 66

Page 113

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 108 جلد دوم مبلغین کو نہایت اہم ہدایات 17 نومبر 1935ء مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نے احمدیہ انٹر کالجینیٹ ایسوسی ایشن لاہور کے ممبروں کو جامعہ احمدیہ کے صحن میں دعوت چائے دی.از راہ شفقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی اس تقریب میں شرکت فرمائی اور تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.” جب میں کوئی ایسا اجتماع دیکھتا ہوں جس میں مدرسہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے فارغ طلباء کا مشترک حصہ ہوتا ہے تو میرا دل اس خوشی کو محسوس کرتا ہے کہ ایسے زمانہ میں جبکہ میری زیادہ عمر نہ تھی اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ میں ان دونوں شعبوں کے مٹائے جانے میں روک بن سکوں اور ان کے قائم رہنے میں مدد دے سکوں.گو وہ کام مادی لحاظ سے زیادہ اہمیت نہ رکھتا ہو لیکن میں سمجھتا ہوں کہ روحانی نقطہ نگاہ سے بہت بڑے نتائج پیدا کرنے والا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے چند ماہ پہلے یہ سوال اٹھا کہ ہماری جماعت کو مخالفین کا چونکہ علمی لحاظ سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اس لئے ہمیں علماء کی ضرورت ہے اور ان کے لئے کوئی انتظام ہونا چاہئے.اس سوال کے پیدا ہونے پر عام طور پر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اس کی صورت یہ ہے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کو بند کر دیا جائے اور تمام زور مدرسہ احمدیہ پر صرف کیا جائے.اُس وقت اس کے متعلق اس قدر غلو ہو گیا اور یہ معاملہ اس وقت کا اس قدر اہم ترین مسئلہ بن گیا کہ اگر کوئی یہ کہتا کہ مدرسہ انگریزی کی بھی قائم رہنا چاہئے تو اس کے متعلق کہا جاتا کہ اس میں نفاق کی کوئی رگ ہے.کیونکہ اس کی کے دل میں انگریزی مدرسہ قائم رکھنے کی خواہش ہے.اُس زمانہ کی جو شیلی طبائع کے

Page 114

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 109 جلد دوم مطابق آخر تمام وہ لوگ جو بولنے والے تھے اور اہل الرائے سمجھے جاتے تھے مومن بن گئے اور کمزور ایمان والے ہم دو سمجھے گئے.یعنی حضرت خلیفہ المسیح الاول اور میں.مجھے یاد ہے حضرت خلیفہ امسح الاول کی طبیعت میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ادب بہت زیادہ تھا اس لئے خود کچھ عرض کرنے کی بجائے جو دلائل مدرسہ ہائی کے قائم رکھنے کے متعلق سوجھتے وہ مجھے سمجھاتے اور فرماتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سناؤ.آخر میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مدرسہ ہائی کو قائم رکھا جائے اور مدرسہ احمدیہ کو الگ جاری کیا جائے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ جس انسٹی ٹیوشن کی ضرورت کا انکار نہیں کیا جاسکتا اس کے قائم رکھنے کا موجب بنوں.اس تجویز کے مطابق مدرسہ احمدیہ قائم کیا گیا یا یوں کہنا چاہئے کہ اسے مضبوط کر دیا گیا کیونکہ کچھ جماعتیں پہلے جاری تھیں.اس وقت عام طبائع میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ اچھے پیمانہ پر اسے چلانا چاہئے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام مئی 1908 ء میں فوت ہوئے اور دوسرا جلسہ جو دسمبر 1908ء میں ہوا اس میں جماعت کے سامنے یہ سوال رکھا گیا کہ مدرسہ احمدیہ کی غرض کیا ہے.صرف یہ کہ مُلا پیدا کرے اور ملاؤں نے پہلے ہی دنیا کو تباہ کر رکھا ہے.پھر اس مدرسہ سے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.یہ سوال جلسہ عام میں پیش کرنے کی بجائے مصلحی مجلس شوری میں پیش کیا گیا جس میں ساری جماعتوں کے نمائندے موجود تھے.وہ لوگ جو اُس وقت خاص اثر اور رسوخ رکھتے تھے یعنی خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب، سید محمد حسین شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب ان کی تجویز یہ تھی کہ تعلیمی وظائف بڑھا دیے جائیں تا کہ احمدی نوجوان زیادہ تعداد میں کالجوں میں جائیں اور پاس ہونے کے بعد ان میں سے جو دین کی خدمت کے لئے زندگی وقف کریں انہیں ایک آدھ سال میں قرآن پڑھا کر مبلغ بنا دیا جائے.نہ معلوم کیا سبب ہوا اُس وقت ہم تشحید الاذہان کا کام بھی کیا کرتے تھے.میں اس میں مصروف رہایا کوئی اور کام تھا.مجلس شوری کے شروع ہونے کے وقت میں وہاں نہ پہنچ سکا اور جب وہاں پہنچا تو خواجہ کمال الدین صاحب تقریر

Page 115

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 110 جلد دوم کر رہے تھے اور بڑے زور سے یہ کہہ رہے تھے کہ ہماری جماعت بڑی عقل مند ہے وہ کسی چیز کا ضائع ہونا گوارا نہیں کر سکتی.ہمیں چونکہ انگریزی دان مبلغ چاہئیں اس لئے مدرسہ احمدیہ پر اس قدر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں.اُس وقت میں نے دیکھا کہ قریباً سب لوگ متاثر ہورہے تھے.چنانچہ ان کی تقریر کے بعد کچھ اور لوگ کھڑے ہوئے اور انہوں کی نے ان کی تائید کی اور آوازیں آنے لگیں کہ ٹھیک ہے ایسا ہی ہونا چاہئے.اس قسم کی مجلس میں بولنے کا میرے لئے پہلا موقع تھا.اُس وقت میں نے اس طرف توجہ دلائی کہ دنیا میں ہر چیز اپنے لئے ماحول چاہتی ہے اور اس کے لئے ضروری انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے.یہ خیال کر لینا کہ کوئی شخص کچھ دن دینیات کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین سے پوری طرح واقف ہو سکتا ہے اور اس کے تاثرات دین کے متعلق ایسے مضبوط ہو سکتے ہیں جیسے اس شخص کے جسے بچپن سے دین کی تعلیم حاصل کرنے پر لگایا گیا ہو.یہ غلط ہے.دین سے صحیح واقفیت رکھنے والے علماء پیدا کرنے کے لئے مدرسہ احمدیہ کی ضرورت ہے اور اسے قائم رکھنا چاہئے.پھر خدا تعالیٰ نے مجھے اس موقع پر ایک جذباتی دلیل بتادی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کی وفات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کو آپ کی یاد گار بنا دیا جائے.میں نے کہا ہم سے پہلے کچھ لوگ تھے جو رسول کریم ﷺ کے صحابہ تھے.جب رسول کریم ﷺ نے رحلت فرمائی تو ایک عام بغاوت پھیل گئی اور ایسا خطرہ پیدا ہوا کہ مدینہ بھی محفوظ نہیں رہے گا.اُس وقت صرف تین مقامات پر نماز با جماعت ہوتی تھی اور بہت سے لوگوں نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا تھا.اُس وقت بعض صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ آپ اس وقت ذرا نرمی سے کام لیں اور کچھ قوموں سے جو ز کوۃ دینے سے انکار کر رہی ہیں زکوۃ لینا چھوڑ دیں.اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کوئی شخص رسول کریم اللہ کے وقت اونٹ باندھنے کی رسی بھی زکوۃ میں دیتا تھا تو میں اسے بھی نہ چھوڑوں گا.خواہ خون کی ندیاں بہہ جائیں اور خواہ خطرہ اتنا بڑھ جائے کہ

Page 116

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 111 جلد دوم عروسة مدینہ کی گلیوں میں صحابہ کی بیویوں کو دشمن گھسیٹتے پھریں 1 میں نے کہا ایک طرف رسول کریم کے بعض صحابہ آپ کی ایک یادگار میں جو خاص طور پر آپ کی طرف منسوب بھی نہیں تھی کچھ تغیر کرنے کے لئے کہتے ہیں تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صاف انکار کر دیتے ہیں اور ہر خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن ادھر ہم یہ نمونہ پیش کر رہے ہیں کہ وہ مدرسہ احمدیہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار بنایا گیا تھا اس پر پورا سال بھی گزرنے نہیں پایا کہ اس کے بند کرنے پر تیار ہو گئے ہیں.میں سمجھتا ہوں میری اس دلیل نے لوگوں کو زیادہ اپیل کیا.ادھر میں نے تقریر ختم کی ادھر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا مدرسہ احمدیہ ضرور قائم رہنا چاہئے.مجھے یاد پڑتا ہے میرے بعد شاید خان صاحب برکت علی صاحب بولے.لوگوں نے کہا اب ہم اور کچھ سنا نہیں چاہتے.مدرسہ احمدیہ کا قائم رکھنا ضروری ہے.جب اخلاص سے کوئی شخص بات پیش کرتا ہے تو اس پر قائم بھی رہتا ہے مگر مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے والوں میں چونکہ اخلاص نہ تھا اس لئے اپنی بات پر قائم نہ رہے.جب مدرسہ احمدیہ کو جاری رکھنے کے حق میں کوئی بات پیش ہوتی تو وہ کہہ دیتے یہی تو ہمارا مطلب تھا ہم بھی یہی کہتے تھے.آخر کہا گیا کہ یہ امر تمام جماعتوں کے سامنے پیش کیا جائے گا.انہوں نے سمجھا کہ اُس وقت جذبات ٹھنڈے ہو جائیں گے اور مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے پر لوگوں کو آمادہ کر سکیں گے.چنانچہ ایجنڈا میں اس تجویز کو جس رنگ میں درج کیا گیا اس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ مدرسہ احمدیہ کا بند کرانا منظور ہے.لیکن جماعت کے لوگ چونکہ محسوس کر چکے تھے کہ مدرسہ احمد یہ ضروری چیز ہے اس لئے تمام جماعتوں کی طرف سے یہی رائے آئی کہ مدرسہ احمدیہ قائم رہنا چاہئے.پس جب میں کوئی ایسا اجتماع دیکھتا ہوں تو یہ دونوں باتیں جو میرے بچپن کے کام ہیں جوانی کے کئی کاموں سے زیادہ خوشنما اور پسندیدہ نظر آتے ہیں.میں آج بھی اسی خیال پر قائم ہوں جس پر اُس وقت تھا.قرآن کریم سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص جماعت کو دین کی خدمت کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلْتَكُنْ مِنْكُمُ أُمَّةً

Page 117

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 112 جلد دوم يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 2 اور دوسری طرف فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ 3 سارے مومنوں کا فرض ہے کہ دعوت الی الخیر کریں.تو ایک خاص جماعت کا ہونا ضروری ہے اور یہ لازمی چیز ہے.کوئی فوج اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کا ایک حصہ خاص کام کے لئے مخصوص نہ ہو.اور تمام نیچر میں یہی بات نظر آتی ہے کہ ایک ذرہ مرکزی ہوتا ہے.مذہبی تبلیغ کے لئے بھی ایک ایسا مرکز ہونا چاہئے جو اپنے ارد گرد کو متاثر کر سکے اور دوسروں سے صحیح طور پر کام لے سکے.یہی غرض مبلغین کی ہے.لیکن عام طور پر خود مبلغین نے بھی ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھا.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ احمدیت کے سپاہی ہیں اور کام انہیں خود کرنا ہے.مگر جو یہ سمجھتا ہے وہ سلسلہ کے کام کو محدود کرتا ہے.ہم خدمت دین کے لئے کس قدر مبلغ رکھ سکتے ہیں.اس وقت ساٹھ ستر کے قریب کام کر رہے ہیں جن کا جماعت پر بہت بڑا بوجھ ہے اور چندے کا بہت بڑا حصہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے.مگر وہ کام کیا کرتے ہیں.اگر کام کرنے والے صرف وہی ہوں تو سلسلہ کی ترقی بند ہو جائے.ان کے ذریعہ سال میں صرف دو تین سو کے قریب لوگ بیعت کرتے ہیں.اور باقی جن کی تعداد کا اندازہ دس بارہ ہزار کے قریب ہے جماعت کے لوگوں کے ذریعہ احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.رہے مباحثات جو مبلغین کو کرنے پڑتے ہیں یہ اسی وقت تک ہیں جب تک ہمارے ملک کے لوگوں کے اخلاق کی اصلاح نہیں ہوتی.مباحثات پبلک کے اخلاق کی خرابی کی وجہ سے کرنے پڑتے ہیں.جس طرح ہمارے ملک میں لوگ مرغبازی اور بٹیر بازی کے عادی تھے جسے قانون نے ایک حد تک روک دیا ہے.وہ مولوی بازی کے بھی عادی ہیں.ایک مولوی ادھر کھڑا ہو جاتا ہے ایک ادھر.ایک دوسرے کو چونچیں مارتے ہیں اور پبلک یہ تماشہ دیکھ کر خوش ہوتی ہے.یہ دراصل گرے ہوئے اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے اور یہ ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا کہ طہارت کے لئے جانا پڑتا ہے.چوہڑے کے کام کو

Page 118

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 113 جلد دوم ذلیل سمجھا جاتا ہے مگر ایک وقت ہر انسان کو خود یہی کام کرنا پڑتا ہے.ایسا ہی یہ کام ہے کہ دوسرے ہم پر پاخانہ پھینکتے ہیں اور ہم اسے دور کرتے ہیں.کوئی شخص اولا د اس لئے نہیں پیدا کرتا کہ اس کی طہارت کرے.مگر طہارت کا کام والدین کو کرنا پڑتا ہے.اسی طرح ہمارا یہ مقصد نہیں کہ علماء مباحثات کے لئے پیدا کریں بلکہ علماء کی غرض یہ ہے کہ وہ آفیسرز کی طرح ہوں جو اپنے ارد گرد فوج جمع کریں اور اس سے کام لیں.یا اس کی گڈریے کی طرح جس کے ذمہ ایک گلے کی حفاظت کرنا ہوتی ہے.اور یہ کام دس ہیں مبلغ بھی عمدگی سے کر سکتے ہیں.جب تک ہمارے مبلغ یہ نہ سمجھیں اُس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوسکتا.مبلغ کے معنے وہ یہ سجھتے ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرنے والا.مگر صرف یہ معنے نہیں بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ غیروں کو مخاطب کرانے والا.رسول کریم ﷺ سے بڑھ کر کون مبلغ ہو سکتا ہے مگر آپ کس طرح تبلیغ کیا کرتے تھے؟ اس طرح کہ شاگردوں سے کراتے تھے.صحابہ میں آپ نے ایسی روح پھونک دی کہ انہیں اُس وقت تک آرام نہ آتا تھا جب تک خدا تعالیٰ کی باتیں لوگوں میں نہ پھیلا لیں.پھر صحابہ نے دوسروں میں یہ روح پھونکی اور انہوں نے اوروں میں اور اس طرح یہ سلسلہ جاری رہا.حتی کہ مسلمانوں نے اس بات کو بھلا دیا.تب خدا تعالیٰ نے اس روح کو دوبارہ پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کو بھیجا.اس طرح بھی رسول کریم ﷺ ہی تبلیغ کر رہے ہیں.پس علماء کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے لوگ پیدا کریں جو دوسروں کو تبلیغ کرنے کے قابل ہوں.وہ خدمت گزاری اور شفقت علی الناس کا خود نمونہ ہوں اور دوسروں میں یہ بات پیدا کریں.مگر عام طور پر مبلغ لیکچر دے دینا یا مباحثہ کر لینا اپنا کام سمجھتے ہیں.اور خیال کر لیتے ہیں کہ ان کا کام ختم ہو گیا.اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہو رہا ہے کہ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ علماء بیکار رہتے ہیں.بات اصل میں یہ ہے کہ تقریر کرنے یا مباحثہ کرنے کے بعد مبلغ کو اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کچھ آرام کرے.کیونکہ بولنے کا کام مسلسل بہت دیر

Page 119

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 114 جلد دوم تک نہیں کیا جا سکتا.بولنے میں زور لگتا ہے اور تقریر کے بعد انسان نڈھال ہو جاتا ہے.مبلغ سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہر روز کئی کئی گھنٹے تقریر کرے.اگر کوئی ایسا کرے تو چند ماہ کے بعد اسے سل ہو جائے گی اور وہ مرجائے گا.پھر روزانہ کہاں اس قدر لوگ مل سکتے ہیں جو اپنا کام کاج چھوڑ کر تقریریں سننے کے لئے جمع ہوں.پس یہ کام چونکہ ایسا نہیں جو مسلسل جاری رہ سکے اس لئے لوگوں کو شکایت پیدا ہوتی ہے کہ مبلغ فارغ رہتے ہیں حالانکہ ان معاملات میں ان کا فارغ رہنا قدرتی امر ہے.دراصل انہوں نے اپنے فرض کو سمجھا نہیں.وہ کہہ دیتے ہیں جب ہمارے پاس کوئی آیا ہی نہیں تو ہم سمجھائیں کسے.اس وجہ سے ہم فارغ رہتے ہیں.لیکن اگر وہ اپنا یہ فرض سمجھتے کہ ان کا کام صرف تقریر کرنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کے اخلاق کی تربیت کرتا ہے ، انہیں تبلیغ کرنے کے قابل بنانا ہے اور پھر وہ اپنا تصنیف کا شغل ساتھ رکھیں.جہاں جائیں لکھنے پڑھنے میں مصروف رہیں.کوئی ادبی مضمون لکھیں.کسی مسئلے کے متعلق تحقیقات کریں.ضروری حوالے نکالیں.تاریخی امور جمع کریں تو پھر ان کے متعلق یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ فارغ رہتے ہیں.یہ تاریخی مختلف کام ہیں جن کی طرف ہمارے مبلغین کو توجہ کرنے کی ضرورت ہے.اگر کوئی مبلغ کہیں جاتا اور وہاں تصنیف کا شغل بھی جاری رکھتا تو لوگ یہ نہ کہتے کہ وہ فارغ رہا.بلکہ یہی کہتے کہ لکھنے میں مصروف رہا.مگر مبلغین کو اس طرف توجہ نہیں.اور یہی وجہ ہے کہ تصنیف کا کام نہیں ہو رہا.ممکن ہے اس وقت بھی یہاں بعض مبلغ ہوں.مگر دعوت چونکہ ان کی طرف سے ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں اس لئے میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہی طریق اختیار نہ کریں جو ان سے پہلوں نے کیا اور جس کی وجہ سے 9 حصے کام ضائع ہوا اور صرف ایک حصہ ہو رہا ہے.اس طرح جماعت کی ترقی نہیں ہوسکتی.کیونکہ جو مبلغ اپنے اوقات کی حفاظت نہیں کرتے اور انہیں صحیح طور پر صرف نہیں کرتے وہ جماعت کے لئے ترقی کا موجب نہیں بن سکتے.جو لوگ آئندہ مبلغ بننے والے ہیں وہ اپنے اوقات کی پوری طرح حفاظت کرنے کا تہیہ کریں.

Page 120

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 115 جلد دوم ان کا صرف اپنے منہ سے تبلیغ کرنا نہیں بلکہ دوسروں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا ، ان کے اخلاق کی تربیت کرنا، ان کو دین کی تعلیم دینا، ان کے سامنے نمونہ بن کر قربانی اور ایثار سکھانا اور انہیں تبلیغ کے لئے تیار کرنا ہے.گویا ہمارا ہر ایک مبلغ جہاں جائے وہاں دینی اور اخلاقی تعلیم کا کالج کھل جائے ، کچھ دیر تقریر کرنے اور لیکچر دینے کے بعد اور کام کئے جاسکتے ہیں.مگر متواتر بولا نہیں جا سکتا کیونکہ گلے سے زیادہ کام نہیں لیا جا سکتا.مگر باقی قوی سے کام لے سکتے ہیں.میں تقریر کرنے کے بعد لکھنے پڑھنے کا کام سارا دن جاری رکھتا ہوں.اب تقریر کرنے کے بعد جا کر تحریر کا کام کروں گا اور پھر شام تک گلے کو کچھ آرام حاصل ہو جائے گا تو درس دوں گا انشاء اللہ.پس میں مبلغین کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اپنا کام اب جو سمجھا ہوا ہے وہ ان کا کام نہیں ہے.یہ بہت چھوٹا اور محدود کام ہے.افسر کا کام یہ نہیں ہوتا کہ سپاہی کی جگہ بندوق یا تلوار لے کر خود لڑے بلکہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ سپاہیوں کو لڑائے.اسی طرح مبلغ کا کام یہ ہے کہ جماعت کو تبلیغ کا کام کرنے کے لئے تیار کرے اور ان سے تبلیغ کا کام کرائے.اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کی ترقی ہوسکتی ہے.پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ سکتی ہے.اسی طرح جماعت کی تربیت کی طرف مبلغین کو توجہ کرنی چاہئے.جماعت کے بیکاروں کے متعلق تجاویز سوچنی چاہئیں.بیاہ شادیوں کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے.غرض جس طرح باپ کو اپنی اولاد کے متعلق ہر بات کا خیال ہوتا ہے اسی طرح مبلغین کو جماعت سے متعلق ہر بات کا خیال ہونا چاہئے.کیونکہ وہ جماعت کے لئے باپ یا بڑے بھائی کا درجہ رکھتے ہیں.اور ہر نقص کو رفع کرنا ان کا کام ہے.جب وہ یہ کام کریں گے تو لازمی طور پر جماعت کے لوگوں کے تعلقات ان کے ساتھ بڑھیں گے.ان سے خلوص اور تعاون بڑھے گا.اور اس طرح وہ دیوار جو حائل ہے اور جس کو دور کرنے کے لئے دونوں طرف سے تقریریں کی گئی ہیں حائل نہیں رہے گی.کیا ایک مولوی کا بیٹا جب ایم اے ہو جائے تو باپ کو اس سے محبت

Page 121

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 116 جلد دوم نہیں رہتی ؟ یا اگر کسی کا بیٹا عربی کی تعلیم حاصل کرلے تو اسے اپنے ماں باپ سے محبت نہیں رہتی؟ در اصل نہ عربی محبت کرنے سے روک دیتی ہے نہ انگریزی.بلکہ آپس کے تعلقات کی کمی اور ایک دوسرے سے تعاون کی روح نہ ہونے کی وجہ سے دیوار حائل ہونے لگتی ہے.اگر ہمارے انگریزی دان اور عربی دان مبلغین میں تعلقات بڑھیں اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اپنے آپ ہی متحد ہوتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ دونوں جماعتوں انٹر کا لیجیٹ ایسوسی ایشن اور جامعہ والوں کو اخلاص اور تقویٰ عطا کرے اور ان میں قربانی کا صحیح جذبہ پیدا کرے اور صحیح طور پر اسلام کی خدمت کا موقع (الفضل 21 نومبر 1935ء) 66 1 تاريخ الخميس للسيوطى صفحه 51 مطبوعه لاهور 1892ء 2: آل عمران : 105 3: آل عمران: 111

Page 122

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 117 جلد دوم (1) خوشی اور رنج کے جذبات ایک حد کے اندر محد و در کھو (2) انواع و اقسام کے کاموں میں اپنے اوقات صرف کرد (3) احمدی نقطۂ نگاہ سے اہم مسائل کو حل کرو 4 جنوری 1936ء کو بیرونی ممالک سے واپس آنے والے مبلغین مکرم صوفی مطیع الرحمن صاحب ایم.اے اور حضرت مولوی محمد صادق صاحب اور انگلستان و فلسطین جانے والے مبلغین حضرت مولوی جلال الدین صاحب و مکرم مولوی محمد سلیم صاحب کی دعوت چائے کے موقع پر حضرت خلیفہ المسح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.یہ دعوت اپنے اندر متضاد جذبات کی نمائش رکھتی ہے.اس میں ان دوستوں کو ایڈریس دیا گیا ہے جو ہندوستان سے باہر اسلام کی تبلیغ کر کے واپس آئے ہیں.اور اس میں ان کو بھی ایڈریس دیا گیا ہے جو ہندوستان سے باہر تبلیغ اسلام کے لئے جا رہے ہیں.گویا ایک حصہ ایڈریس بظاہر خوشی کے جذبات پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ بظا ہر غم اور رنج کے جذبات پر مشتمل ہے.میں سمجھتا ہوں یہ موقع دنیا کی عام حالت کا ایک نقشہ ہے اور اس سے ہمیں بہت بڑا سبق ملتا ہے.جو بات اس دعوت میں اتفاقی طور پر پیدا ہو گئی ہے وہ خدا تعالیٰ نے دنیا میں ارادی طور پر پیدا کی ہوئی ہے.اور ایک وقت میں یہ دونوں باتیں جاری ہوئی ہیں.یعنی خوشی بھی اور رنج بھی.ایک غلط کار انسان خوشی کی گھڑیوں

Page 123

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 118 جلد دوم میں خیال کر لیتا ہے کہ اس کے لئے رنج اور تکلیف کا کوئی موقع ہی نہیں اور ایک نادان انسان رنج اور مصیبت کی گھڑیوں میں سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لئے کوئی خوشی باقی نہیں.حالانکہ بسا اوقات رنج اور خوشی تو ام ہوتی ہیں.بسا اوقات جبکہ کوئی شخص خوشی منا رہا ہوتا ہے رنج اور مصیبت اس کے دروازہ پر کھڑی اسے جھانک رہی ہوتی ہے.اور بسا اوقات جبکہ کوئی شخص دکھ اور تکلیف کی حالت میں سمجھ لیتا ہے کہ اس کے لئے خوشی نابود ہو چکی ہے خوشی اس کی پیٹھ کے پیچھے ناچ رہی ہوتی ہے.اس ایڈریس کا موقع بھی دنیا کی عام حالت کا نقشہ اتفاقی طور پر بن گیا ہے.جس ان جذبات پر نگاہ ڈالی جاتی ہے جو باہر سے آنے والے مبلغین کو دیکھ کر پیدا ہوتے ہیں.یہ دونوں مبلغ اس وقت اتفاقا دائیں طرف بیٹھے ہیں یا بالا رادہ، ان کو دیکھ کر جب خوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو بائیں طرف نگاہ کرنے سے جہاں جانے والے مبلغ بیٹھے ہیں معا ایک شاعر کی زبان میں یہ آواز آتی ہے کہ جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے اسی طرح جب ہم بائیں طرف دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ ہمارے جسم کے ٹکڑے اور ہمارے عزیز دوست ہم سے جدا ہو کر جا رہے ہیں تو دائیں طرف سے آواز آتی ہے انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی یہی نقشہ ساری دنیا میں نظر آتا ہے.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنے جذبات ایک حد کے اندر رکھنے چاہئیں کیونکہ کسی ایک طرف لڑھک جانے والا انسان ہمیشہ ناکام و نا مرا در ہتا ہے.تمام انسان دو قسموں میں منقسم ہیں.ایک قسم کے لوگ طبعی طور پر خوشی کے جذبات کی طرف مائل ہوتے ہیں.وہ ہر چیز کا روشن پہلو لینے کے عادی ہوتے ہیں.ان کو انگریزی میں اپنی مسٹ (Optimist) کہتے ہیں.اور دوسری قسم کے لوگ فطری طور پر ہر چیز کا تاریک پہلو دیکھتے اور مایوسی کے جذبات کی طرف مائل ہوتے ہیں.ان کو انگریزی میں پیسی مسٹ (Pessimist) کہتے ہیں.لیکن سچائی اور کامیابی کا گر درمیان

Page 124

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 119 جلد دوم میں ہوتا ہے.وہ لوگ جو کسی چیز کے بھی تاریک پہلو کو نظر انداز نہیں کرتے اور روشن پہلو کو بھی نہیں چھوڑتے وہ کامیابی کا گر پالیتے ہیں.کیونکہ جب کبھی دنیا میں کسی قوم کے لئے کامیابیاں آتی ہیں تنزل کا پیج ضرور ساتھ لاتی ہیں.جب کسی قوم پر تنزل کے ایام آتے ہیں تو کامیابی کے سامان ساتھ لاتے ہیں.ہوشیار آدمی ان سے کام لیتا اور پانسہ پلٹ دیتا ہے لیکن بے وقوف ایسا نہیں کرتا اس لئے نقصان اٹھاتا ہے.میں سمجھتا ہوں اس ایڈریس میں جانے والے اور آنے والے دوستوں کے لئے ایسا سبق ہے جس سے فائدہ اٹھا کر بہت کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے.جو آنے والے دوست ہیں ان کے لئے باتیں سننے کے تو انشاء اللہ بہت سے مواقع ہیں مگر جانے والوں کے لئے یہ ملاقات کا آخری موقع ہے.اس لئے میں انہی کو مخاطب کر کے چند باتیں بیان کرتا ہوں.ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں تبلیغ اسلام کے رستہ میں کئی قسم کے حادثات پیش آئیں گے.کئی اونچ نیچ کے واقعات پیدا ہوں گے.جب وہ لوگوں کو تبلیغ کریں گے تو بعض تالیاں بجائیں گے ، نعرے بھی لگائیں گے مگر ان کے دلوں میں موافقت نہ ہوگی.وہ اسلام کی صداقت کے قائل نہ ہوں گے.پیش کردہ امور کی تائید نہیں کریں گے.تمہیں ان کے ظاہری حالات کو دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہئے اور ان ظاہری حالات سے متاثر ہو کر یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ ہمارا راستہ بالکل پُر امن اور صاف ہے، ہمیں کوئی مشکلات پیش نہ آئیں گی، ہماری باتیں سب لوگ بخوشی قبول کر لیں گے.پھر کئی جگہ ایسا ہو گا کہ آپ لوگ دین کی باتیں سنائیں گے مگر لوگ نہیں سنیں گے.تکالیف پہنچائیں گے، برا بھلا کہیں گے مگر ایسے موقعوں پر مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ امید کھنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ضرور کامیابی عطا کرے گا.وہ اتفاق اور وہ تائید جو کسی کے دل سے نہیں نکلتی سلسلہ احمدیہ کے لئے مفید نہیں ہو سکتی.اسی طرح نہ وہ بے پرواہی اور ایذا رسانی جس کا سامنا ہو مضر ہوسکتی ہے.بالکل ممکن ہے کہ جو ظاہرہ طور پر تعریف و توصیف کرنے

Page 125

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 120 جلد دوم والے ہوں وہ یہ خیال کریں کہ ان کا یہ رویہ ان کے لئے مضر ہے اور وہ مخالفت شروع کر دیں.اسی طرح یہ بالکل ممکن ہے مخالفت کرنے والے محسوس کریں کہ ان کا رویہ شریفانہ نہیں ہے اور وہ اسے بدل کر تائید کرنے لگ جائیں.اس قسم کی باتوں سے مبلغ کو متاثر نہیں ہونا چاہئے.لیکن حالت یہ ہے کہ ذرا کسی مبلغ کو کوئی خوشکن بات معلوم ہو وہ لکھ دیتا ہے کہ عنقریب یہ سارا ملک فتح ہو جائے گا.اور ذرا تکلیف پیش آ جائے تو لکھ دیتا ہے کہ اس ملک میں تبلیغ کرنے سے قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اگر مبلغوں کی اس قسم کی خط و کتابت کا چارٹ تیار کیا جائے تو وہ ٹائیفائیڈ کے چارٹ کی طرح کا ہوگا جس میں بخار کا اندازہ لگانے والی لکیر کبھی اوپر ہوتی ہے کبھی یک لخت نیچے چلی جاتی ہے.ایک مبلغ ایک ہی ملک میں ایک وقت اپنے آپ کو کامیاب سمجھتا ہے لیکن وہی مبلغ اسی ملک میں دوسرے وقت اپنے آپ کو بالکل ناکام قرار دے رہا ہوتا ہے اور اس طرح لکیر یک لخت نیچے چلی جاتی ہے.وجہ یہ کہ وہ لوگوں کے ظاہری اور وقتی حالات سے متاثر ہو کر جھٹ ایک رائے قائم کر لیتے ہیں حالانکہ ایسے لوگ جو ظاہرہ طور پر تائید کر رہے ہوں ہدایت نہیں پاسکتے.اور جو بظاہر مخالفت میں لگے ہوئے ہوں ان کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہدایت نہیں پاتی سکیں گے.ان دونوں قسموں کے لوگوں کو دیکھ کر کوئی رائے قائم کرنا صحیح طریق نہیں ہے.صحیح طریق وہی ہے جس میں وقتی جذبات کو شامل نہ کیا جائے کیونکہ وقتی جذبات بدلتے رہتے ہیں.ہر انسان کے متعلق جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعض جذبات طبعی ہوتے ہیں اور بعض عارضی.ماں باپ کو اپنی اولاد سے، بیوی خاوند کو ایک دوسرے سے، بھائی کو بہن سے اور بہن کو بھائی سے ایک دائمی محبت ہوتی ہے اور ایک وقتی جو تفصیلی امور سے تعلق رکھتی ہے.ایک بیٹے کے متعلق ایک وقت باپ یہ خیال کرتا ہے کہ یہ نالائق ہے اس سے مجھے کیا تعلق.لیکن دوسرے وقت وہ کہتا ہے یہ بیٹا میرا سہارا ہے اس کے سوا میرا اور کون ہے.مبلغین کو چاہئے کہ جب وہ تبلیغی امور کے متعلق رپورٹ لکھیں تو عارضی جذبات اور

Page 126

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 121 جلد دوم وقتی معاملات کو نظر انداز کر کے اصل حقیقت بیان کیا کریں.کیونکہ صبح کے واقعات شام کو اور شام کے واقعات صبح کو غلط ثابت ہو جاتے ہیں اور ان پر زور دینا اپنی کمزوری کو ظاہر کرنا ہوتا ہے.تمہیں چاہئے کہ ہر قسم کے واقعات میں سے اس چیز کو لے لو جو حقیقی ہے اور جو تار کے طور پر سب واقعات میں چلی جاتی ہے.دیکھو تسبیح کو اگر کسی جگہ سے پکڑ کر لٹکا دیا جائے تو اس کا ایک حصہ اوپر ہو جائے گا اور دوسرا نیچے.مگر یہ اس کی ظاہری حالت ہوگی دور نہ تا گا ایک ہی ہوگا جو اوپر نیچے یکساں چلا گیا.یہی حالت قوموں کی ہوتی ہے.اور اسی کو بدلنا اور اسی کی اصلاح کرنا ہمارا فرض ہے.ایک بڑے مضبوط آدمی کو نزلہ اور زکام کی شکایت ہو جاتی ہے لیکن ایک کمزور محفوظ رہتا ہے.اس سے اگر کوئی یہ اندازہ لگائے کہ جس کو زکام نہیں ہوا وہ زیادہ طاقتور ہے اور وہ جسے زکام ہوا وہ کمزور ہے تو یہ غلط ہو گا.طاقت اور کمزوری کے لئے صحت کے اصل رشتے اور تار کو دیکھنا چاہئے نہ کہ ایک آدھ دن کی بیماری یا صحت کو دیکھنا چاہئے.اگر آپ لوگ اس نکتہ کو یا درکھیں گے تو نہ خوشی کے وقت اصل حقیقت آپ کی آنکھوں سے اوجھل ہوگی، نہ کوئی غم اور تکلیف آپ کو مایوس کرے گی اور نہ اتار اور چڑھاؤ کے جذبات سے آپ لوگ متاثر ہوں گے.کیونکہ دیکھ سکیں گے کہ حقیقت وہ ہے جو ان سب واقعات کے بیچ میں سے اسی طرح سے گزرتی ہے جس طرح منکوں میں سے تا گا.پس جب تم تبلیغ اسلام کا کام کرو تو نتائج کا انحصار درمیانی واقعات پر مت رکھو.اسی طرح جب تم رپورٹ لکھو تو بھی اس بات کو مد نظر رکھو.یہ وہ بیک گراؤنڈ ہے جس پر تمہاری جدو جہد کی بنیاد ہونی چاہئے اور یہ اکثر ظاہر کے خلاف ہوا کرتی ہے.تمہیں اپنے کام میں پس پردہ حالات کو نگاہ میں رکھنا چاہئے اور انہی پر انحصار کرنا چاہئے.دوسری بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کام کرنے کا معیار دنیا میں عام طور پر فرق رکھتا ہے.کئی لوگ تھوڑا کام کرتے ہیں لیکن سمجھتے ہیں وہ بڑا کام کرتے ہیں.کئی لوگ بہت کام کرتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ تھوڑا کیا صحیح طریق یہ ہے کہ دوسری قوموں کے کام کا

Page 127

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 122 جلد دوم اندازہ لگا کر اسے اقل ترین معیار قرار دیا جائے اور پھر اپنے کام کو دیکھا جائے کہ وہ کس قدر ہے.کام کا وہ اندازہ جو اپنی طبیعت کی حالت سے لگایا جائے وہ طبیعت کی پریشانی کے لحاظ سے ہوتا ہے کہ بہت کام کیا یا کم.لیکن طبیعت کے پریشان ہونے سے جو بوجھ اور تکان محسوس ہوتی ہے وہ اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ بہت کام کیا بلکہ یہ کام کرنے کے خلاف جذبہ ہوتا ہے.میرا یہ احساس ہے جس کا میں کئی بار ا ظہار کر چکا ہوں اور شاید مجلس میں اس کا بیان کرنا موزوں نہ ہو مگر چونکہ اس بات کی اصلاح کی ضرورت ہے اس لئے میرے نزدیک اس کے بیان کرنے میں حرج نہیں.میرا احساس یہ ہے کہ ہمارے مبلغین عام طور پر کام کرنے کے معنی نہیں سمجھتے.میں جو کچھ ان کے متعلق سمجھتا ہوں ممکن ہے وہ غلط ہومگر میرا خیال ہے کہ اس وقت مبلغ جو کام کر رہے ہیں انسانی نقطہ نگاہ سے اس سے دس گنا زیادہ کام کیا جاسکتا ہے اگر وہ صحیح طور پر اپنے اوقات صرف کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ دیده دانستہ فارغ بیٹھے رہتے ہیں مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ جسے وہ کام کہتے ہیں اس کے لحاظ سے وہ فارغ رہتے ہیں.میں نے بار بار مبلغین کو توجہ دلائی ہے کہ ان کے کام کے معنی صرف تقریریں کرنا نہیں.جب تک وہ اپنا کام صرف تقریریں کرنا سمجھیں گے اُس وقت تک ان کا بہت سا وقت فارغ ہی رہے گا کیونکہ سارا دن کوئی شخص تقریریں نہیں کر سکتا.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت دیر تک بول سکتا ہوں اور جن لوگوں سے میں ملا ہوں ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو باوجود اس کے کہ میری صحت کمزور ہے مجھ سے زیادہ دیر تک بول سکتا ہو.مگر میں جانتا ہوں کہ تقریر کرنے کے بعد اس قدر کوفت ہوتی ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.ممکن ہے میرا یہ اندازہ اپنے متعلق ہو اور کوئی اور شخص ہر روز 12 گھنٹے بول سکتا ہو.اور 12 سال یا 20 سال یا 50 سال تک روزانہ اسی طرح بول سکتا ہو.مگر میں یہی سمجھتا ہوں کہ انسان ایک حد تک بول سکتا ہے.زیادہ لمبا عرصہ نہیں بول سکتا اور زیادہ مدت تک نہیں بول سکتا.کیونکہ جس طرح انسان کا ہر ایک عضو تھکتا ہے اسی طرح بولنے سے گلے میں بھی تھکاوٹ ہوتی ہے.اور جس طرح اور محنتیں دماغ پر اثر کرتی ہیں

Page 128

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 123 جلد دوم بولنے کی محنت ان سے زیادہ اثر کرتی ہے.ان حالات میں یہ سمجھنا کہ مبلغ کا کام صرف تقریریں کرنا ہے اور وہ چھ سات گھنٹے اپنی دوسری ضرورتوں میں صرف کرنے کے بعد باقی سترہ اٹھارہ گھنٹے روزانہ کام میں لگا سکتا ہے درست نہیں ہوسکتا.اور جب تک مبلغ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کام صرف تقریر میں کرنا ہے اس وقت تک وہ فارغ ہی رہیں گے.با وجود اس کوفت کے جو تقریر کرنے سے انہیں ہوتی ہے.لیکن یہ اسی صورت میں ہوگا جبکہ کوئی دوسرا کام نہ ہو.لیکن جب اور کام بھی ہو تو باوجود اضمحلال کی حالت کے وہ کام کر سکتے ہیں.میں نے اس طرف بار بار توجہ دلائی ہے کہ مبلغین کا کام صرف تقریر کرنا نہیں بلکہ تربیت کرنا ہے اور دوسروں میں کام کرنے کی روح پیدا کرنا ہے.پھر تالیف و تصنیف کا کام ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلطان القلم کا خطاب دیا ہے.آپ کی جماعت میں شامل ہونے والوں کو بھی اس صفت کے حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر غرباء کی ترقی کا خیال رکھنا، بے کاروں کو کام پر لگانے کی کوشش کرنا، مصیبت زدوں کو مفید مشورے دینا ، دوسرے لوگوں کے مفید اور اچھے کاموں میں دلچسپی لینا بھی مبلغین کے لئے ضروری ہے.مثلاً بیواؤں کی امداد کرنے والی انجمنیں خواہ غیر احمدیوں کی ہوں یا سکھوں کی یا ہندوؤں کی ان میں شامل ہو کر جو مبلغ کام کرتا ہے وہ تبلیغ کا ہی کام کرتا ہے اور اس قسم کے کام تبلیغ کا حصہ ہیں.اگر فی الحال یہ نہ سہی تو اپنی جماعت کی ایسی ضروریات موجود ہیں جن میں مبلغ حصہ لے سکتا ہے.مثلاً رشتہ ناطہ کی مشکلات کو حل کرنا، بے کاروں کے لئے کام تجویز کرنا، مصیبت زدوں سے ہمدردی کرنا، آپس کی ناچاقی اور رنجش کو دور کرنا یہ ایسی باتیں ہیں کہ ان کے کرنے سے اس قسم کی تکان نہیں ہوتی جو تقریر کرنے سے ہوتی ہے اور اس طرح انسان سارا وقت کام میں صرف کر سکتا ہے.اگر ایک مبلغ اپنی رپورٹ نہیں بلکہ دوسرے مبلغین کی رپورٹیں پڑھے تو میرا خیال ہے کہ مبلغین کے کام کے متعلق وہی اندازہ اس کا ہو جو میرا ہے.اپنی ذات کے متعلق اندازہ لگانے میں خواہ کسی میں کام کرنے کا کتنا ہی

Page 129

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 124 جلد دوم جوش ہو انسان غلطی کر سکتا ہے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ دوسری طرف غلطی کا رخ ہو جائے یعنی انکسار کی طرف اور اپنے کام کو بیچ سمجھنے کے متعلق مگر زیادہ تر غلطی اپنے کام کو زیادہ سمجھنے کی لگتی ہے.پس اگر مبلغ دوسروں کی رپورٹیں پڑھیں تو اندازہ لگا لیں گے کہ ان کا زیادہ وقت بے کارگزرتا ہے.یا درکھنا چاہئے کہ تقریر کرنا اصل تبلیغ نہیں تبلیغ زیادہ تر عمل ہوتی ہے.دیکھو رسول کریم کی تبلیغ میں تقریروں کا بہت کم حصہ ہے.عام طور پر لوگوں کی امداد کرنا ، ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کرنا، ان میں خدمت دین کی روح پیدا کرنا اصل کام تھا.اسی طرح پر ہر ایک مبلغ بہت کام کر سکتا ہے اور عمر بھر کر سکتا ہے.کیونکہ ان خدمات کے کرنے میں کسی ایک عضو کو استعمال نہیں کرنا پڑتا بلکہ مختلف کاموں کے لئے مختلف اجزا استعمال کئے جاتے ہیں.بعض خدمات ہاتھوں کے ذریعہ کی جاتی ہیں، بعض کانوں سے ، بعض آنکھوں سے، بعض پاؤں سے اور بعض زبان سے.اگر مبلغین مختلف کام کرنا اپنے ذمہ لے لیں گے تو ان کا کوئی عضو اس قدر نہ تھلے گا کہ وہ اور کام کرنے کے قابل نہ رہیں.کیونکہ کبھی ہاتھ کام کر رہے ہوں گے، کبھی پاؤں ،کبھی زبان اور کبھی پیٹھ کام کر رہی ہوگی.یعنی بوجھ اٹھانے کا موقع ہو تو پیٹھ سے کام لیا جا سکتا ہے.اب بڑا نقص یہ ہے کہ ایک حصہ جسم سے کام لیا جاتا ہے اور باقیوں کو بے کار چھوڑ دیا جاتا ہے.اب جو مبلغ بیرونی ممالک میں جار ہے ہیں انہیں خصوصیت سے میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ان ملکوں میں جار ہے ہیں جہاں لوگ اپنے ہر عضو سے کام لینے کے اور بہت سرگرمی سے کام کرنے کے عادی ہیں.انواع و اقسام کے کام کرنے کے عادی ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ وہ شیطان کے لئے کام کرتے ہیں ہمارے مبلغین کو خدا تعالیٰ کے لئے کام کرنا چاہئے.ان ممالک کے لوگ رات دن محنت کرنے کے عادی ہیں اور اگر صرف محنت کرنا خدا تعالیٰ کی بخشش حاصل کرنے کے لئے کافی ہوتا تو یورپ اس بات کا مستحق ہوتا کہ خدا تعالیٰ کی بخشش حاصل کر سکے.وہ لوگ ہر قسم کی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے کام کرتے ہیں اور ان کو

Page 130

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 125 جلد دوم دباتے ہوئے آگے نکل آتے ہیں.پرسوں ہی ہندوستان کے ایک سابق وائسرائے لارڈ ریڈنگ کے فوت ہونے کی خبر اخبارات میں چھپی ہے.وہ پہلی دفعہ ایک ادنی مزدور کی حیثیت سے ہندوستان میں آئے تھے.پھر جب وہ وائسرائے کی حیثیت سے بمبئی میں اترے تو انہوں نے کہا آج میں وہ بات بتا تا ہوں جو کسی کو معلوم نہیں.اور وہ یہ کہ میں پہلی دفعہ ساحلِ ہندوستان پر جہاز میں کوئلہ ڈالنے والے لڑکے کی حیثیت سے اترا تھا مگر آج وائسرائے کی حیثیت سے آیا ہوں.اسی طرح ایڈیسن جو بہت بڑا موجد گزرا ہے فونوگراف وغیرہ اسی کی ایجادیں ہیں وہ اپنی ابتدائی زندگی میں خطوط پہنچانے والے لڑکے کا کام کرتا تھا.اور وہ 9 سال سے کام کرنے لگا.ادھر ادھر چٹھیاں پہنچا نا اس کا کام تھا.اُس وقت ایک خط پہنچانے کے بعد دوسرا خط ملنے تک اسے جو وقفہ ملتا اس میں سائنس کی کتابیں پڑھتا رہتا اور آخر اس نے وہ ترقی حاصل کی جسے ساری دنیا جانتی ہے.غرض انواع و اقسام کے کام کرنا، انواع و اقسام کی باتوں میں دلچسپی لینا، انواع و اقسام کے علوم کا مطالعہ کرنا جہاں انسان کو فارغ رہنے کی لعنت سے بچا سکتا ہے وہاں اس کے لئے ترقی کے راستے بھی کھول دیتا ہے.ہمیں یورپ کی اتباع نہیں کرنی چاہئے اور کی میں دوسروں سے بہت زیادہ اس کا مخالف ہوں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کی خاطر ان علوم کی طرف توجہ کرتا ہے وہ اعلیٰ سے اعلیٰ نکات اخذ کر سکتا ہے.سائنس کیا ہے؟ خدا تعالیٰ کا فعل ہے.سائنس کے متعلق غور کرنے والے غلطیاں کر سکتے ہیں، جس طرح قرآن کریم پر غور کرنے والے بھی غلطیاں کر سکتے ہیں مگر اس سے قرآن کریم پر کوئی حرف نہیں آتا اسی طرح اگر کوئی سائنس وغیرہ علوم پر غور کرنے والا غلطی کرتا ہے تو اس سے وہ علوم برے نہیں سمجھے جاسکتے.ہمارا فرض ہے کہ ان سے بھی فوائد حاصل کریں.میں جب ان علوم کی کتابیں پڑھتا ہوں تو مجھے ان میں بھی ایسی باتیں ملتی ہیں جو قرآن کریم کی صداقتوں کو واضح کرتی ہیں اور اسلام کی خوبیاں نمایاں کرتی ہیں.پس اس زمانہ میں انواع و اقسام کے جو علوم نکل رہے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ہم ان کی

Page 131

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 126 جلد دوم طرف توجہ نہ کریں.لیکن میں سمجھتا ہوں ہمارے مبلغ عام طور پر ان علوم کے نام تک نہیں جانتے.بے شک وہ سائنس کے ماسٹر نہ ہوں مگر سائنس کی کتابیں پڑھنے سے ان کی معلومات میں وسعت پیدا ہو گی اور قرآن کریم کے علوم سمجھنے میں مددمل جائے گی.اس طرح ایک طرف تو دین کے نکات سمجھنے میں انہیں مدد ملے گی اور دوسری طرف ان علوم کی وجہ سے پیدا شدہ غلطیوں کی اصلاح کرنے کا موقع مل جائے گا.لوگوں کے ہزاروں عقائد اور خیالات کی بنیاد سائنس اور فلسفہ پر ہے.گو بظاہر ایسا نظر نہ آئے لیکن پس پردہ یہی ہوتا ہے اور ان علوم کی کتب پڑھنے سے اس کا پتہ لگ سکتا اور اصلاح کا موقع مل سکتا ہے.مثلاً کفارہ کے متعلق عام طور پر جو کچھ بیان کیا جاتا ہے اس سے سمجھا جاتا ہے کہ عیسائیوں نے اسے ایجاد کیا لیکن دراصل اس کے پس پردہ رومی فلسفہ ہے جس کے نتیجہ میں کفارہ قرار دیا گیا.اور اس کی اصل شکل وہ نہیں جس طرح کہ اسے پیش کیا جاتا ہے.اور ہم جب تک اس فلسفہ کی حقیقت نہ سمجھیں جس کے نتیجہ میں کفارہ پیدا ہوا اُس وقت تک کسی ماہر اور عالم عیسائی کو قائل نہیں کر سکتے.مسئلہ کفارہ پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ایک عام عیسائی کور لا بھی سکتے ہیں اور ہنسا بھی سکتے ہیں لیکن جس نے عیسائیت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہو اور کفارہ کی اصل حقیقت جانتا ہو وہ ہماری باتوں سے اُس وقت تک متاثر نہ ہو گا جب تک اس بات تک نہ پہنچیں جو کفارہ کے اندر کام کر رہی ہے.پس ان علوم کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے اور خدمت دین کے لئے نہایت مفید ہو سکتا ہے.مگر یاد رکھو ان کی ہر بات کی نقل بری ہے اور ان کی اصطلاحات سے مرعوب ہو جانا غلطی ہے.ہمارا کام مفید باتوں سے فائدہ اٹھانا اور مرعوب کرنے والی باتوں کو توڑنا ہے.اصطلاحات کیا ہوتی ہیں ؟ دراصل وہ علوم کے سمجھنے کے لئے اشارے ہوتے ہیں.ایک لمبے فقرہ کو اشارہ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے نہ کہ وہی علم ہوتا ہے.پس دوسروں کی قائم کردہ اصطلاحات سے مرعوب ہونا بیوقوفی ہے اور علوم کی بنیاد ان پر رکھنا نادانی ہے.اس کا بھی مرتکب نہ ہونا چاہئے.پس ہر علم کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان سے فائدہ اٹھایا

Page 132

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 127 جلد دوم جائے.اگر نصف یا چوتھائی حصہ ہی سمجھ میں آجائے تو وہی کام کے لئے کافی ہے.پھر تصنیف کرنا بھی مبلغین کے کاموں میں سے ایک اہم کام ہے اور یہ مستقل یادگار ہوتی ہے.اگر خدا تعالیٰ وقت دے اور توفیق دے تو ضرور اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.ہزاروں مسائل ایسے ہیں جن کے متعلق ضرورت ہے کہ ان پر احمدی نقطہ نگاہ سے لکھا جائے اور انہیں حل کیا جائے.پہلے لوگ ان کے متعلق اس رنگ میں لکھ ہی نہ سکتے تھے کیونکہ ان کے لئے وہ عقدہ لا نخیل تھے.مثلاً اسلام میں اختلافات “ پر میں نے جو لیکچر دیا اور جس میں مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں اور جھگڑوں کے اسباب اور وجوہات بیان کیں اس کے متعلق بڑے بڑے تاریخ دان تسلیم کرتے ہیں کہ یہ باتیں ان پر پہلے نہ کھلی تھیں.حالانکہ وہ اسلامی تاریخ کی کتابیں پڑھتے اور پڑھاتے تھے وجہ یہ کہ وہ نقطہ ہم پر ہی کھل سکتا تھا.ہم سے پہلے اسلام سے بعد کی وجہ سے یہ بات لوگوں کے ذہنوں سے مٹ چکی تھی کہ رسول کی قوت قدسی عام حالات سے نمایاں ہونی چاہئے.اسی طرح یہ خیال کہ بشریت کی غلطیوں سے صحابہ آزاد نہ تھے ان باتوں کے مٹ جانے کی وجہ سے ستی ایک طرف چلے گئے اور شیعہ دوسری طرف.لیکن ہم نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ قرآن کریم کو دیکھا، آپ کے عمل اور اثر کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ نبی دنیا میں پاک جماعت قائم کرنے کے لئے آتا ہے مگر اس کے ماننے والوں سے بشری غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں.اس بات نے ہمیں اسلامی تاریخوں کے سمجھنے میں مدد دی اور ہم اصل حقیقت تک پہنچ گئے.میں نے اپنے اس مضمون میں صرف طبری کو لیا ہے اور اس بات کو مد نظر رکھا ہے کہ ہم یہ مان ہی نہیں سکتے کہ تمام صحابہ بد دیانت اور خائن اور مفسد ہو سکتے ہیں.ادھر ہم یہ بھی نہیں مان سکتے کہ اسلامی تاریخوں میں جو باتیں آئی ہیں وہ سراسر غلط ہیں.ان میں اگر کچھ جھوٹ ہے تو سچ بھی ضرور ہے.یہ نکتہ ہے جس کو پیش نظر رکھ کر میں نے طبری کا مطالعہ کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ طبری میں دو متوازی روایات چل رہی ہیں.ایک کو وہ غلط قرار

Page 133

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 128 جلد دوم دیتا ہے اور دوسری کو صحیح.عام لوگ اس بات کو اس لئے نہ سمجھ سکے کہ طبری ان باتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف مقامات پر لاتا ہے.ان ٹکڑوں کو میں نے نکال کر ایک جگہ رکھ دیا.دوسرے لوگ دونوں قسم کی روایتوں کو آپس میں ملانے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ نہ ملیں اور جب سلسلہ ٹوٹا تو ایک روایت کو غلط قرار دے دیا اور دوسری کو صحیح.جس روایت میں کسی بڑے صحابی کا نام آ گیا اسے صحیح کہنے لگ گئے اور دوسری کو غلط.مگر اس طرح کچھ نتیجہ نہ نکلتا.طبری نے جن روایات کو ترجیح دی ہے انہوں نے ان کو نہ سمجھا.حالانکہ وہ وجوہ ترجیح بھی بتاتا ہے.مثلاً ایک نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ایک روایت سے صحابہ پر اعتراض پڑتا ہے اور دوسرا یہ کہ اعتراض نہیں پڑتا.جن روایات سے اعتراض نہیں پڑتا ان میں واقعات کی کڑی ملتی جاتی ہے مگر جن سے اعتراض پڑتا ہے ان میں واقعات کی کڑی نہیں ملتی اور یہ ان کے غلط ہونے کا کافی ثبوت ہے.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تاریخ اسلام پر کوئی لیکچر نہیں دیا مگر آپ کو قبول کرنے کی وجہ سے جو یہ بات ہمارے دماغوں پر حاوی ہو چکی ہے کہ رسول کے صحابہ سب کے سب گمراہ نہیں ہو سکتے اس سے اسلامی تاریخ کا نہایت پیچیدہ نکتہ ہم پر حل ہو گیا اور جن لوگوں تک میری وہ کتاب پہنچی ہے انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس میں وہ عظیم الشان بات بیان کی گئی ہے جو اس سے پہلے انہیں معلوم نہ تھی.پس ہمیں وہ سہولتیں حاصل ہیں جو دوسروں کو میسر نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے ایسی روشنی بخشی ہے جو اوروں کے پاس نہیں.اس لئے ہم سابقہ مشکلات کو حل کر سکتے اور اسلام کی صداقت کو نئے سے نئے رنگ میں پیش کر سکتے ہیں.ہمارے مبلغین کے لئے ضروری ہے کہ ایسے مسائل کو حل کریں.مثلا غَرَانِيقُ الْعُلَى کے قصہ کی تحقیق ضروری ہے.اس کے علاوہ اور ہزاروں مذہبی اور تاریخی مسائل ایسے ہیں جن کی وجہ سے اسلام پر اثر پڑتا ہے.یعنی جن کے غلط رنگ میں پیش ہونے کی وجہ سے اسلام پر برا اثر پڑ رہا ہے.اور ان کو اگر صحیح صورت میں پیش کیا جائے تو اسلام کے متعلق

Page 134

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 129 جلد دوم اچھی رائے پیدا کی جاسکتی ہے.پھر علمی، تمدنی، سیاسی ایسے مسائل ہیں جن کے متعلق احمدیت کے نقطہ نگاہ سے بہت کچھ بیان کرنے کی ضرورت ہے.اور یہ کام مبلغ کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے.زنانہ تعلیمی کورس تیار کرنے کے متعلق کئی بار اخبار میں اعلان کیا گیا مگر اس کے متعلق کوئی کام نہ ہوا.حالانکہ مبلغین کے پاس اس قسم کا کام کرنے کے لئے کافی وقت ہوتا ہے.اس وقت میں پھر نصیحت کرتا ہوں اور باہر جانے والوں کو خصوصیت سے کہ ان کا بے کار بیٹھنا لوگوں کو نمایاں نظر آتا ہے.انگلستان، شام اور دیگر ممالک کے لوگ چونکہ خود مختی ہوتے ہیں اس لئے جب وہ مبلغ کو بے کا ر دیکھتے ہیں تو برا مناتے اور شکایت کرتے ہیں.وہ یہ تو کہتے ہیں کہ فلاں مبلغ بڑا دیندار اور بڑا قابل ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھتے ہیں کہ اسے لکھا جائے زیادہ محنت اور مشقت سے کام کرے.پس آپ لوگ اپنے اوقات کو اس طرح لگائیں کہ دیکھنے والے محسوس کریں کہ کام کر رہے ہیں اور کام کرنے کے متعلق اپنا نقطہ نگاہ بدلیں.صرف تقریر کرنا کام نہیں بلکہ کام کا بہت وسیع میدان ہے.اب میں نے جو تقریر کی ہے اس کی وجہ سے میرا گلا بیٹھا جا رہا ہے.لیکن یہاں سے جا کر میں ہاتھوں کی سے اور آنکھوں سے کام کر سکتا ہوں جبکہ گلا کام نہیں کر سکے گا.آپ لوگوں کو یہ میری دوسری نصیحت ہے.اور میں سمجھتا ہوں یہ آپ کے بہت کام آ سکتی ہے.پس اپنا نقطہ نگاہ بدلو.اپنے آپ کو محنتی بناؤ.اپنے کام میں تنوع پیدا کرو تا کہ نیک نتائج نکلیں.سلسلہ کو ا وسعت حاصل ہو اور آپ لوگوں کی مستقل یادگاریں قائم رہیں.“ الفضل 9 جنوری 1936ء)

Page 135

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 130 جلد دوم مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی اہمیت اور قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ وتفسیر کی ضرورت حضرت مولوی شیر علی صاحب کی ولایت کو روانگی اور مولوی اللہ دتا صاحب کی بلا د عربیہ سے واپسی پر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اساتذہ وطلباء کی طرف سے 25 فروری 1936ء کو ان کے اعزاز میں دعوت چائے دی گئی جس میں حضرت خلیفہ اسمع الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.مولوی اللہ دتا صاحب چونکہ اب قادیان میں ہی رہیں گے اور شاید بعض اور پارٹیاں بھی ہوں جن میں ان کے متعلق کچھ بیان کرنے کا موقع مل جائے.لیکن مولوی شیر علی صاحب ولایت جا رہے ہیں اور اب ان کے یہاں ٹھہرنے کا بہت کم وقت ہے اس لئے میں اپنی تقریر میں زیادہ تر بلا د غربیہ میں تبلیغ اسلام کو مد نظر رکھوں گا.میں جہاں تک سمجھتا ہوں مغربی تبلیغ فی الحال ان امور میں سے ہے جن کو انسان نہ چھوڑ سکتا ہے نہ اختیار کر سکتا ہے.ہمارے ملک میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی باورچی تھا اسے یہ عادت تھی کہ کھانا پکاتے وقت کوئی نہ کوئی چیز کھا جاتا.اس کا آقا بہت بخیل تھا.ایک دن اسے خیال پیدا ہوا کہ نو کر ہنڈیا میں سے بوٹیاں نکال کر کھا جاتا ہے اس پر اسے گرفت کرنی چاہئے.یہ خیال آنے پر وہ ایک دن یک دم باورچی خانہ میں چلا گیا.اُس وقت نو کر گرم گرم بوٹیاں نکال کر منہ میں ڈال رہا تھا.جونہی اس نے اپنے آقا کو آتے

Page 136

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 131 جلد دوم دیکھا جلدی سے بوٹیوں کو نگلنے کی کوشش کی مگر چونکہ وہ گرم تھیں اس لئے نہ وہ انہیں تھوک سکا نہ نگل سکا بلکہ وہ اس کے گلے میں پھنس کر رہ گئیں.مغرب کی تبلیغ کی حالت بھی اس وقت ایسی ہی ہے اور کچھ عرصہ تک ایسی ہی رہے گی.اور میں سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ ہماری جماعت کے بعض اصحاب بھی مغربی تبلیغ کے مخالف ہیں کیونکہ وہاں تبلیغ کرنے کے نتیجہ میں بعض ایسے شرور پیدا ہونے کا خطرہ ہے جو ساری جماعت پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.مثلاً موجودہ زمانے میں ہم وہاں پر وہ جاری نہیں کر سکتے.اور عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بوجہ اس کے کہ مغرب میں تبلیغ کے لئے ایسے آدمی چنے جاتے ہیں جو انگریزی جانتے ہوں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ اپنے اندر روحانی طاقت کس قدر رکھتے ہیں اس لئے بعض مبلغ جب ولایت سے پھر کر آتے ہیں تو وہاں کے اثرات کے ماتحت ہوتے ہیں اور کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ پردے کی کیا ضرورت ہے اور بجائے اس کے کہ وہ وہاں اسلامی ماحول تیار کریں وہاں کی زہریلی فضا سے متاثر ہو جاتے ہیں.بالکل ممکن ہے کہ یہ زہر کسی وقت بڑھ جائے اور اتنا ترقی کر جائے کہ وہ ساری کی ساری عمارت جو ہم تیار کر رہے ہیں اس کے لئے ڈائنامیٹ ثابت ہو.اور وہی کوششیں جو اسلام کی اشاعت کا موجب ہو رہی ہیں اس کے ضعف اور تباہی کا موجب بن جائیں.اس قسم کے اور بھی کئی نقائص ہیں جن کے متعلق یہ احتمال پیدا ہو سکتا ہے کہ ممکن ہے وہ کسی وقت ساری جماعت کے لئے کمزوری اور ضعف کا موجب بن جائیں.کئی مواقع ایسے ہوتے ہیں جب انسان سے نیک نیتی سے بھی کمزوری ہو جاتی ہے.ایک موقع پر جس کی تفصیل بیان کرنا میں پسند نہیں کرتا بعض مستورات آئیں اور انہوں نے مجھ سے مصافحہ کرنا چاہا.میں نے کہا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کر سکتا کیونکہ اسلام نے اس سے منع کیا ہے.یہ سننے کے بعد ایک ہمارے مبلغ تھے انہیں خیال پیدا ہوا کہ بجائے بعد میں کسی اور ذریعہ سے بات پہنچنے کے بہتر ہے کہ میں خود ہی ذکر کر دوں.چنانچہ وہ باہر نکل کر مجھ سے کہنے لگے اصل بات یہ ہے کہ میں تو عورتوں سے مصافحہ

Page 137

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 132 جلد دوم کے متعلق کبھی کبھی کمزوری دکھا دیا کرتا ہوں کیونکہ یہاں سخت مجبوری ہے.عورتیں مردوں سے نہ صرف مصافحہ بلکہ معانقہ بھی کرتی ہیں.میں معانقہ تو نہیں مگر مصافحہ کر لیتا تھا.تو یہ چیزیں ایسی ہیں جن میں بعض دفعہ انسان مجبور ہو جاتا ہے.کبھی حجاب آ جاتا ہے.کبھی شرم دامنگیر ہو جاتی ہے.اور کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر میں نے مصافحہ نہ کیا تو انہیں مجھ سے نفرت پیدا ہو جائے گی اور اس طرح اسلام کی تبلیغ کو نقصان پہنچے گا.اور یہ بجائے قریب ہونے کے اسلام سے اور زیادہ دور ہو جائیں گے.کبھی خیال آتا ہے کہ پردے کی تائید کرنے سے انہیں تنفر پیدا ہوگا.کبھی یہ خیال آتا ہے کہ اگر کثرت ازدواج پر میں نے زور دیا تو یہ اسلام سے دور ہو جائیں گے.غرض اس قسم کے سوالات کی وجہ سے جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ایک مبلغ کمزوری دکھا دیتا ہے اور بجائے مبلغ بننے کے وہ معذرت کرنے والا ہو جاتا ہے.اور جس قوم میں معذرت کنندے پیدا ہو جائیں اس کی تباہی کے لئے کسی اور دشمن کی ضرورت نہیں ہوا کرتی.جو قوم اپنے خیالات اور عقائد پر خود ہی یقین نہیں رکھتی وہ کسی دوسرے سے یہ امید نہیں رکھ سکتی کہ وہ اس کے خیالات اور عقائد پر ایمان لائے.بلکہ ایسا کمزور انسان لوگوں میں یہ جرات پیدا کر دیتا ہے کہ وہ کہیں شاید ساری قوم ہی اس قسم کی ہے.اور بجائے اس کے کہ وہ یہ سمجھیں کہ یہ کسی مفید عقیدہ اور مفید خیال کو لے کر ہمارے پاس آتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ تبلیغ کے پردہ میں ان کی کوئی سیاسی غرض پوشیدہ ہے مذہبی روح ان کے پیچھے نہیں.اور وہ مسائل جن کو ہمارے ذہنوں میں دلائل سے داخل نہیں کر سکتے انہیں معذرت کے پردوں کے نیچے چھپانا چاہتے ہیں ور نہ مذہبی یقین رکھنے والے دنیا کے کسی میدان میں شرمندہ نہیں ہوتے.بے شک کلامِ احسن سے مباحثہ کرنا قرآن مجید کا حکم ہے مگر اس کا ہر گز یہ منشاء نہیں کہ ہم اس قسم کا کلام کریں جو مسائل کی حقیقت کو چھپا دے.صرف بعض تکلیف دہ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کے بیان کرنے میں احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً کفر و اسلام کا مسئلہ ہے.اس میں ایسے الفاظ استعمال کرنے پڑتے ہیں اور

Page 138

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 133 جلد دوم استعمال کرنے چاہئیں جو محتاط ہوں کیونکہ کفر کا لفظ ایسا ہے جسے انسان اپنے لئے گالی سمجھتا ہے.پس اس مسئلہ کے بیان کرنے میں اگر ہم احتیاط سے کام لیتے ہیں تو یہ اعلیٰ اخلاق کا اظہار ہو گا کمزوری نہیں کہلائے گی.کیونکہ حقیقت اس کے ساتھ ہوتی ہے.کئی جگہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں آپ ہمیں کا فر کہتے ہیں؟ میں کہتا ہوں آپ اپنے آپ کو کیا کہتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں مسلمان.میں کہتا ہوں جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو میں اسے مسلمان کہتا ہوں.پھر میں پوچھتا ہوں آپ یہ بتائیں کیا غیر احمدیوں میں حقیقت اسلام موجود ہے؟ وہ کہتے ہیں نہیں.میں کہتا ہوں یہی میرا عقیدہ ہے.نام کے لحاظ سے جو شخص اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہم بھی اسے مسلمان کہتے ہیں لیکن آپ بھی مانتے ہیں کہ مسلمانوں نے حقیقت اسلام کو چھوڑ دیا ہے اور میں بھی کہتا ہوں کہ انہوں نے حقیقت اسلام کو ترک کر دیا ہے.اور جب میں حضرت مرزا صاحب کو راستباز مانتا اور آپ کی صداقت کا قائل ہوں تو میں یہ کس طرح تسلیم کر سکتا ہوں کہ حقیقت اسلام آپ کو قبول نہ کرنے والوں میں بھی پائی جاسکتی ہے.اس احتیاط کے اختیار کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کا فروہ ہوتا ہے جو رسول کریم ﷺ کا منکر ہو اور آپ پر حملہ کرے.اب ایک مسلمان ایسے لفظ کو یقینا گالی سمجھے گا.پس ایسے موقع پر جہاں احتمال ہو کہ دوسرا شخص ہمارے الفاظ کو گالی سمجھے گا ایسے الفاظ استعمال کر لینے جن سے حقیقت بھی واضح ہو جائے اور دوسرے کا دل بھی نہ دکھے جائز ہے.مگر عام مسائل کے متعلق جب انسان ایسا رویہ اختیار کر لیتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ دوسری قوم سے تأثر اختیار کر رہا ہے.صلى الله جن باتوں میں یورپ سے ہمیں اختلاف ہے اس سے کم اختلاف رسول کریم ہے کا مکہ والوں سے نہ تھا.آپ بھی جب مشرکینِ مکہ کے سامنے کہتے کہ خدا ایک ہے تو وہ اس عقیدہ کو ( نعوذ باللہ ) ایسا ہی احمقانہ سمجھتے تھے جیسے یورپ والے پر دہ اور تعدد ازدواج کے مسائل کو آج سمجھتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ.چنانچہ قرآن کریم میں ان کی طرف سے ان الفاظ میں حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ اَجَعَلَ الْأَلِهَةَ الهَا وَاحِدًا - 1 أَجَعَلَ

Page 139

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 134 جلد دوم الْآلِهَةَ کے الفاظ بتاتے ہیں ان کے نفس کے گوشہ گوشہ میں یہ بات جم چکی تھی کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی بات ہی نہیں کہ معبود کئی ہیں اور یہ نعوذ باللہ ایسا بیوقوف ہے کہ اس نے سب کو کوٹ کاٹ کر ایک اللہ بنا دیا ہے.وہ کہتے بھلا ایسی حماقت کی بات بھی کوئی اور ہوسکتی ہے.مکہ والے جو یہ یقین رکھتے تھے کہ الہ کئی ہیں وہ اس حقیقت کو سن کر کہ خدا تو ایک ہی ہے کتنے ہنستے ہوں گے.میں سمجھتا ہوں اس بات کو سن کر ہنستے ہنستے مکہ والوں کی پسلیوں میں بل پڑ جاتے ہوں گے.مگر اس کا نتیجہ یہ تو نہ نکلا کہ رسول کریم ﷺ نے معذرت کرنی شروع کر دی کہ الہ ہیں تو پانچ ہیں تو تین ، ہیں تو دونگ دیکھو بعض مصلحتیں ہوتی ہیں ان کی بناء پر ایسی باتیں کہنی ہی پڑتی ہیں.بلکہ آپ نے علی الاعلان فرمایا کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر رکھ دو تو میں تمہاری بات ماننے کے لئے تیار نہیں بلکہ تم سے یہ منواؤں گا کہ خدا ایک ہی ہے 2.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں.اگر اسلام کا ایک مسئلہ بھی غلط ہے یا اس کا ایک مسئلہ بھی پالش کا مستحق ہے تو پھر اسلام جھوٹا ہے اور بہتر ہے کہ ہم اسے چھوڑ دیں.اور اگر اسلام سچا ہے تو پھر دنیا جو اس پر اعتراض کرتی ہے پاگل ہے اور پاگلوں کے ڈر کے مارے ہم حق بات کو کیوں چھوڑ دیں.پاگل کا علاج یہ نہیں کہ ہم اس سے ڈر کر حقیقت کو چھپائیں بلکہ یہ ہے کہ پاگل کا پاگل پن دور کریں.مگر قدرتی طور پر چونکہ مغربی ممالک میں اس قسم کی باتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اس لئے مغربی تبلیغ کے متعلق جماعت کو ہر وقت بیدار رہنا چاہئے.اس کی نگرانی رکھنی چاہئے اور ہر وقت دیکھتے رہنا چاہئے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے.کس طریق پر کام ہو رہا ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکل رہا ہے.اس وقت مغربی تبلیغ کے نتیجہ میں جو چیز ہمیں مل رہی ہے وہ یہ شہرت ہے کہ احمدی جماعت کام کر رہی ہے اور یہ فائدہ ہے کہ جماعت کی مخالفت لوگ انتہائی سختی سے نہیں کر سکتے.کیونکہ اس کی شہرت ایسے ممالک میں بھی ہو چکی ہے جن سے دنیا مرعوب ہے.گویا اس تبلیغ سے اس وقت ہمیں سیاسی اور تمدنی طور پر فائدہ پہنچ رہا ہے مذہبی لحاظ سے نہیں.گو ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی قوم ایسی نہیں جو خدا تعالیٰ کے پیغام کے قبول

Page 140

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 135 جلد دوم کرنے کی استطاعت اپنے اندر نہ رکھتی ہو اور یقیناً جو کام پیچھے نہیں ہواوہ آج ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے پیغام کے اہل مغرب ویسے ہی مستحق ہیں جیسے مشرقی.کیونکہ ہمیں جو تعلیم ملی ہے اس کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ لَا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةِ 3 ہے.اس لئے ہمارے لئے جھجکنے کی کوئی وجہ نہیں.پس وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ مغرب میں تبلیغ اسلام کی کیا ضرورت ہے وہ میرے نقطہ نگاہ سے ویسے ہی بے وقوف ہیں جیسے وہ لوگ جو مغرب میں تبلیغ کرتے وقت اسلامی احکام کے متعلق معذرتیں کرنے لگ جاتے ہیں.ان دونوں نے اسلام کی طاقت اور اس کی قوت کو نہیں پہچانا.جن لوگوں کے نزدیک مغرب اس بات کا اہل ہی نہیں کہ خدائی احکام پر عمل کرے انہوں نے قرآن مجید کی طاقت کو نہیں سمجھا.اور جو لوگ مغربی طاقت اور اس کی شوکت سے مرعوب ہو کر اسلامی تعلیم کے متعلق معذرتیں کرنے لگ جاتے ہیں انہوں نے اسلامی تعلیم کو نہیں پہچانا.اگر وہ تعلیم جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواة والسلام نے قرآن مجید سے اخذ کر کے دنیا میں پیش کیا ہے درست ہے اور اگر “ کا یہ لفظ تو میں نے فرض کے طور پر استعمال کیا ہے ورنہ اس میں شبہ ہی نہیں کہ وہ درست ہے تو یقیناً وہ کامیاب ہو کر رہے گی.اور ان دونوں گروہوں سے اصل تعلیم احمدیت کو جنگ کرنی پڑے گی.کیونکہ یہ دونوں گروہ ایسے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ میں مایوس ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ ایک مثبت میں مایوسی کا اظہار کرتا ہے اور دوسرا نفی میں.ایک کہتا ہے مغرب اسلام قبول کر ہی نہیں سکتا اسے چھوڑ دو.دوسرا کہتا ہے اس کے سامنے اسلامی تعلیمیں پیش کرنا تو ضروری ہے مگر بعض احکام پر وہ عمل نہیں کر سکتے اس لئے انہیں چھوڑ دینا چاہئے.اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ ہے جس کے دفعیہ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اور اس کے نوٹس جلد سے جلد شائع ہوں.اگر ہم قرآن کریم کے ترجمہ اور اس کے نوٹس کو مکمل کر دیں تو اس فتنہ کے راستہ کو بہت حد تک مسدود کر سکتے ہیں.اگر ہمارے ترجمہ قرآن کریم میں اسلامی احکام پر خوب زور دیا جائے اور ان تمام مسائل کے متعلق جن کے بارے میں یہ احتمال ہو سکتا ہے کہ ہمارے مبلغ ان کو بیان کرنے میں ا

Page 141

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 136 جلد دوم کمزوری دکھا ئیں تفصیلی بحث ہو اور انہیں دلائل کے رو سے درست ثابت کیا گیا ہو تو ہمارے مبلغ یا وہ احمدی جو تجارت وغیرہ کے لئے غیر ممالک میں جائیں ان مسائل کے متعلق اسلام کی صحیح تعلیم کو چھپا نہیں سکتے اور اس طرح معذرت کا طریق اختیار کرنا آئندہ کے لئے ناممکن ہو جاتا ہے.مثلاً قرآن مجید میں پردہ کا حکم ہے.اگر ہم دھڑلے کے ساتھ پردے کی خوبیاں ثابت کریں اور بے پردگی کے نقصانات بتا ئیں اور دوسرے خیالات کو رد کریں تو پھر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں.یا تو آئندہ مبلغ قرآن مجید کے ان اوراق کو جن میں ان مسائل پر بحث ہو پھاڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے یا مجبور ہوکر وہی تعلیم بیان کریں گے جو ترجمہ قرآن مجید اور اس کے نوٹوں میں ہماری جماعت کی طرف سے پیش کی گئی ہو.یا اگر کوئی مبلغ کثرت ازدواج کے مسئلہ کے متعلق معذرت کرنے کا عادی ہے اور ترجمہ قرآن کریم میں کثرت ازدواج کی تائید میں زور و شور سے نوٹس موجود ہوں تو مبلغ کے لئے یہی صورت رہ جاتی ہے کہ یا تو قرآن مجید کو لوگوں چھپائے یا اسے پیش کرے.اور جب وہ قرآن مجید لوگوں کے سامنے پیش کرنے پر مجبور ہوگا کیونکہ قرآن مجید ہی وہ کتاب ہے جس سے تمام اسلامی علوم نکلتے ہیں تو وہ اس بات پر بھی مجبور ہو گا کہ اسلامی احکام کو ان کی اصل شکل میں بیان کرے.یا اسی طرح عورتوں سے مصافحہ کرنا ہے یا سود ہے یا بعض اور مسائل ہیں جن میں اسلامی تعلیم اور مغربی تعلیم کا آپس میں تصادم ہو جاتا ہے.اس تصادم کے موقع پر قرآن مجید کا ترجمہ ہی ایک ایسی چیز ہے جو کام آ سکتی ہے.کیونکہ قرآن مجید میں تمام مسائل آ جاتے ہیں.اس کے علاوہ اور کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں اتنے انواع کے علوم ہوں جتنے انواع کے علوم قرآن مجید میں موجود ہیں.بلکہ اگر ہم آج قرآن مجید کی موجودگی میں کوئی ایسی نئی کتاب لکھنا چاہیں جو اسی طرح تمام علوم پر حاوی ہو جس طرح قرآن مجید حاوی ہے تو نہیں لکھ سکتے کیونکہ قرآن مجید کے بطون بھی ہیں.پس قرآن مجید کا ترجمہ اور اس کے تفسیری نوٹس ہی ایسی چیز ہیں جو مغربی ممالک میں اس مصیبت کا سر چل سکتے ہیں.اور

Page 142

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 137 جلد دوم میرے نزدیک یہ ایک نہایت ہی اہم کام ہے جس کی طرف جتنی جلدی توجہ ہو سکتی اتنا ہی مناسب ہوتا اور اب بھی جتنی جلدی یہ کام ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے.مولوی شیر علی صاحب اس غرض کے لئے ولایت جارہے ہیں تا کہ وہاں جا کر وہ قرآن کریم کے ترجمہ کی انگریزی زبان کے لحاظ سے مزید نگرانی کر سکیں.اس بات کی قرآن مجید کے نوٹوں کے لئے بھی ضرورت ہے مگر ترجمہ کے لئے زیادہ ضرورت ہے.کیونکہ ترجمہ میں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ اگر تحت اللفظ ترجمہ کیا جائے تو زبان بگڑ جاتی ہے.اور اگر زیادہ واضح کیا جائے تو وہ ترجمہ کی حد سے نکل کر تفسیر بن جاتا ہے.پس ضروری ہے کہ ماہر اہل زبان اصحاب سے اس بارے میں مشورہ لے لیا جائے.ہو سکتا ہے کہ وہ ترجمہ دیکھ کر کسی جگہ کوئی ایک ہی لفظ ایسا بتا دیں جو ایک فقرہ کا قائم مقام ہو سکے اور اس طرح ترجمہ مختصر ہونے کے باوجود زیادہ مطالب پر حاوی ہو جائے.یا کوئی زبان کی غلطی ہو تو اسے دور کر دیں.یہ کام جس وقت ہو جائے گا اس کے بعد بقیہ کام ہمارے لئے سہل ہو جائے گا.ایڈریس میں جیسا کہ بیان کیا گیا ہے مولوی صاحب کی صحت کمزور ہے اور وہ زیادہ سردی برداشت نہیں کر سکتے بلکہ ایک دفعہ میں نے ایک رویا بھی دیکھا تھا جس کی ایک حد تک میں اب خلاف ورزی کر رہا ہوں.لیکن میں سمجھتا ہوں وہ اپنا کام جلد سے جلد ختم کر لیں گے اور ان کا ولایت میں مختصر سے مختصر قیام ہوگا.مفتی صاحب جب امریکہ سے واپس آئے تھے تو اُس وقت میں نے رویا میں دیکھا کہ میں کہتا ہوں میں اب مفتی صاحب اور مولوی شیر علی صاحب کو باہر نہیں جانے دوں گا.رویا میں گو یہ میرا اپنا فقرہ تھا مگر رڈیا کے اس قسم کے الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کام اس قسم کا ہے کہ اگر وہ قلیل سے قلیل عرصہ اس کام میں لگا کر واپس آجائیں تو ان کا وہاں کا قیام بھی قادیان کا قیام ہی سمجھا جائے گا.زیادہ غرض یہ ہے کہ ترجمہ کی اصلاح ہو جائے اور زبان کے لحاظ سے اس میں کوئی نقص نہ رہے.باقی طباعت کا کام دوسرے لوگ بھی کر سکتے

Page 143

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 138 جلد دوم.ہیں.صحت کے کمزور ہونے کی وجہ سے تکالیف بے شک ہوتی ہیں لیکن ان ممالک میں ایسے سامان موجود ہیں جن سے ایسی تکلیفیں دور کی جا سکتی ہیں.مثلاً سردی ہے.ایسے آدمی کو جس نے باہر نکل کر کام کرنا ہو بے شک اس کی وجہ سے تکلیف ہوگی لیکن مکان کے اندر بیٹھ کر جس نے کام کرنا ہو اسے اس سے کوئی تکلیف نہیں ہو سکتی.کیونکہ وہاں الیکٹرک ہیٹر ز اور گیس وغیرہ سے مکانات کو خوب گرم رکھا جاتا ہے.پھر بعض مکانات ایسے ہوتے ہیں جنہیں پانی سے گرم کیا جاتا ہے.دیواروں میں لوہے کی نالیاں ہوتی ہیں جن میں سے ہر وقت ابلتا ہوا پانی گزرتا رہتا ہے اور اس طرح مکان کی دیوار میں گرم رہتی ہیں اور اندر بیٹھا ہوا آدمی بغیر اس کے کہ اس کے پاس انگیٹھی ہو یہ سمجھتا ہے کہ مارچ یا اپریل کا مہینہ ہے اور اسے کوئی سردی محسوس نہیں ہوتی.بلکہ بعض جگہ ریلوں کو بھی اس طرح گرم کیا جاتا ہے اور وہ اس قدر گرم ہو جاتی ہیں کہ آدمی کے لئے بعض دفعہ بیٹھنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ پاؤں جلتے ہیں تو یہ سارے سامان ہو سکتے ہیں اور انسان تکلیف سے بچ سکتا ہے.بحری سفر میں بھی جو تکالیف ہوتی ہیں وہ گو بظاہر محسوس زیادہ ہوتی ہیں مگر خطرات والی نہیں ہوتیں.جیسے متلی ہے، متلی جب کسی کو ہو تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ اب اس کی زندگی کا آخری لمحہ ہے لیکن جب تے ہو جائے تو طبیعت صاف ہو جاتی ہے.دراصل سمندر کی حرکت کی وجہ سے انسانی جسم میں بھی ایک متوازی حرکت پیدا ہوتی ہے اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کا معدہ نیچے ہی نیچے چلا جا رہا ہے.لیکن عام لوگوں کی رائے یہ ہے کہ سمندری سفر کے بعد انسان کی صحت پہلے کی نسبت زیادہ اچھی ہو جاتی ہے.بے شک بعض استثنائی صورتیں بھی ہوتی ہیں اور ممکن ہے کوئی شخص ایسا بھی ہو جس کی صحت سمندری سفر کے بعد اچھی نہ ہو لیکن بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے کہ سمندری سفر کے بعد صحت بہت حد تک درست ہو جاتی ہے.اور ممکن ہے اس سفر سے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو مولوی صاحب کی صحت بھی درست ہو جائے کیونکہ سمندری ہواؤں میں ایسی تاثیرات ہوتی ہیں جو خشکی کی ہواؤں میں نہیں ہوتیں.مگر میں سمجھتا ہوں ایک بہت بڑی چیز جو مولوی شیر علی صاحب کو حاصل

Page 144

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 139 جلد دوم ہے وہ یہ ہے کہ قادیان کے بہت سے لوگ ان کے شاگردوں میں سے ہیں اور قدرتی طور پر جہاں اس قسم کا تعلق ہو وہاں دعائیں بھی ہوا کرتی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں یہ بہت بڑی طاقت ہے جو مولوی صاحب کو حاصل ہے.جس انسان کے پیچھے کثیر دعا ئیں جاری ہوں اس کی مشکلات خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ ہی آپ حل ہو جایا کرتی ہیں.یہ کام جسے خدا تعالیٰ جلد سے جلد تکمیل تک پہنچائے اس قسم کا ہے کہ اپنے اندر بہت بڑی ذمہ داری رکھتا ہے.دنیا میں قرآن کریم کے ترجمے ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی غرض تعلیم ہوا کرتی ہے مگر اس میں ایک زائد غرض بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنے مستقبل کو خطرات سے بچایا جائے.ور نہ اگر مغربی ممالک میں اسلام پھیلتا چلا جائے اور اس کے مسائل مشتبہ ہوتے جائیں تو ڈر ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والے عیسائی اسی طرح اسلام کو بگاڑ دیں جس طرح انہوں نے عیسائیت کو بگاڑا.پس ضرورت ہے کہ مغربیت اور اسلام کے درمیان ایسی دیوار حائل کر دی جائے جیسے ذوالقرنین نے دیوار بنائی کہ جس کے اوپر سے چڑھ کر کوئی مخالف نہ آسکے.ہاں اس کے دروازوں سے اجازت لے کر صحیح راستہ سے آنا چاہے تو آجائے.یعنی مغرب کا کوئی شخص اسلامی احکام سے بغاوت نہ کر سکے اور نہ اس کے احکام کو بگاڑ سکے بلکہ اسلام کے متعلق جو کچھ کہے اور جس تعلیم کو وہ قرآن کریم کی طرف منسوب کرے اس کے کہنے اور منسوب کرنے کی شریعت اسے اجازت دیتی ہو.اس اہم کام کے لئے مولوی صاحب جا رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے قادیان میں ان کے بہت سے شاگرد ہیں، ناظروں میں سے بھی ایک دو کو چھوڑ کر باقی سب ان کے شاگرد ہیں اور جو دوسرے محکموں والے ہیں وہ بھی اکثر ان کے شاگرد ہیں.بیرونی جماعتوں میں بھی بہت سے ان کے دوست اور شاگرد ہیں.پس فکر کی کوئی بات نہیں صرف صحت کی کمزوری کا خیال ہے.مگر دعا ئیں انسانی کاموں میں بہت مد ہوتی ہیں اور جب مولوی صاحب کے لئے اتنے کثیر آدمیوں کی طرف سے دعائیں ہوں گی تو یقیناً ان کے لئے بہت آسانی ہوگی.پھر بیماریوں کا مقابلہ اس طاقت سے بھی ہوتا ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ جس کام کے

Page 145

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 140 جلد دوم لئے وہ جارہا ہے وہ کتنا اہم ہے.میں نے بتایا ہے کہ مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں.لیکن اگر علاوہ مبلغین کے کثرت سے ہماری جماعت کے احباب ان ممالک میں جائیں تو ان کے ذریعہ بھی ان مشکلات کا ازالہ ہو سکتا ہے.کیونکہ مبلغ کے لئے یہ دقت ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے مجالس میں اگر عورتوں سے مصافحہ نہ کیا جائے تو لوگوں سے ملنے ملانے میں بڑی دقت ہوگی.یا تعدد ازدواج کے متعلق جب تک معذرت نہ کی جائے تبلیغ نہیں ہو سکتی.یا پردے کا ذکر جب تک ترک نہ کیا جائے لوگ اسلامی مسائل کی طرف توجہ نہیں کرتے.اس وجہ سے وہ خیال کرتا ہے کہ میں ان مسائل کے متعلق خاموشی اختیار کرلوں اور اسلام کے دوسرے احکام کا لوگوں کو قائل کرتا چلا جاؤں تا لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگ جائیں کہ اسے اتنا عرصہ اس ملک میں تبلیغ کے لئے گئے ہو گیا مگر اس نے کام کچھ نہیں کیا.اس وجہ سے وہ اپنا پہلو بدل لیتا ہے.لیکن دوسرے لوگ جو اپنی تجارت وغیرہ کے سلسلہ میں ان ممالک میں جائیں وہ صحیح اسلام لوگوں کے سامنے پیش کریں گے کیونکہ انہیں اس سے کوئی واسطہ نہ ہو گا کہ وہ لوگ مسلمان ہوتے ہیں یا نہیں بلکہ وہ احمدیت کی صحیح تعلیم انہیں بتائیں گے چاہے وہ مانیں یا نہ مانیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ان ممالک میں کثرت سے ہماری جماعت کے لوگوں کا جانا مفید ہوگا.لیکن قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیری نوٹ یہ ایک مستقل چیز ہیں اور نہ صرف انگلستان بلکہ امریکہ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے اور اسلام کی صحیح تعلیم سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں.چاہے وہ مسلمان ہوں یا نہ ہوں.پھر یہ ترجمہ ہمارے مبلغوں کو بھی ایسی طرف نہیں جانے دے گا جو سلسلہ کے لئے خطرات کا موجب ہو.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگوں نے ابھی تک پوری طرح احمدیت کی حقیقت کو نہیں سمجھا.اللہ تعالیٰ نے میری خلافت کے شروع زمانہ میں مجھ سے ایک کام لیا اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے عقیدہ کو تفصیلی طور پر خدا تعالیٰ نے

Page 146

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 141 جلد دوم میرے ذریعہ جماعت میں قائم کیا.بے شک لوگ پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کے قائل تھے اور مسئلہ اجرائے نبوت کو مانتے تھے مگر اس کی تفصیلات اور تشریحات معین صورت میں لوگوں کے سامنے نہیں آئی تھیں.غیر مبایعین اعتراض کرتے ہیں کہ نبوت مسیح موعود کا مسئلہ بعد میں بنا لیا گیا ہے مگر یہ بالکل جھوٹ ہے.ہم نے کوئی نیا مسئلہ نہیں بنایا.ہم میں سے ہر شخص جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ اُس وقت بھی اس کے یہی عقائد تھے اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نبی سمجھتا تھا.مگر اس مسئلہ کی تشریح، تفصیل اور اس کے تمام پہلوؤں کا ذہن میں مستحضر ہونا یہ بالکل جدا گانہ چیز ہے.جیسے قرآن مجید میں سب باتیں موجود ہیں مگر بحث مباحثہ کے بعد اس کی آیتوں کی جو کیفیت معلوم ہوتی ہے وہ پہلے ذہن میں نہیں ہوتی.لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آیتیں نئی بنائی گئی ہیں.قرآن مجید کی آیتیں تو وہی ہوتی ہیں صرف ایک تشریح پہلے ذہن میں مستحضر نہیں ہوتی اور وہ دوسرے وقت ہو جاتی ہے.اسی طرح نبوت کے مسئلہ کے متعلق پوری وضاحت کہ اسلام میں نبوت کس رنگ میں جاری ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نبوت کیسی ہے اور اس نبوت میں کیا کیا استثنا ہے یہ باتیں گو مجملاً پہلے موجود تھیں مگر تفصیلا نہیں تھیں.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے یہ کام مجھ سے کرایا اور اب میں دیکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا اس پر قیام ہو گیا ہے.دوسری جنگ جو ابھی باقی ہے اور جس میں اگر خدا تعالیٰ نے مجھ سے کام لینا ہے تو مجھے نہیں تو کسی اور کو کام کرنا پڑے گا وہ مغربیت سے جنگ اور اس کو کچلتا ہے.میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم میں ایک طبقہ ایسا ہے بلکہ محسوس کیا مجھے معلوم ہے کہ ہم میں ایک طبقہ ایسا ہے جو مغربیت کے اثر کے نیچے ہے اور جب بھی اسے موقع ملا وہ مغربیت کو اسلام کا جامہ پہنا کر ہم میں داخل کرنے کی کوشش کرے گا اور ہمیں اس سے عظیم الشان جنگ کرنی پڑے گی.جس طرح شیطان دوست بن کر اندر داخل ہوتا ہے ، جس طرح وہ ہمارے ہی

Page 147

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 142 جلد دوم بھائی بند تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کو چھپانے اور آپ کے درجہ کو کم کرنے کی کوشش کی اسی طرح ہمارے ہی وہ بھائی بند ہوں گے بلکہ ہیں جنہوں نے مغربیت کی تعلیم کو ہمارے اندر مختلف پیراؤں میں داخل کرنا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ پیشتر اس کے کہ سانپ اپنا سر اٹھائے اسے کچل دیں.میرا یہ مطلب نہیں کہ ان آدمیوں کو کچلا جائے کیونکہ ہمارے دشمن آدمی نہیں بلکہ شیطان ہے.اور میں کہتا ہوں ہمارا فرض یہ ہے کہ پیشتر اس کے کہ وہ تعلیم بلند ہوا سے کچل دیں اور اس کے اور اسلام کے درمیان ایک ایسی دیوار حائل کر دیں جس کے بعد مغربیت کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہ رہے کہ وہ اجازت لے کر اندر داخل ہو.بغیر اجازت اندر داخل نہ ہو سکے.بالکل ممکن ہے ذوالقرنین کے دیوار حائل کرنے سے مراد مغربیت اور مشرقیت میں دیوار حائل کرنا مراد ہو.اور دو قوموں سے مراد دوستم کے جذبات اور قومی خیالات و افکار ہوں.اور بالکل ممکن ہے جس دیوار کو ہم نے تیار کرنا ہے اس سے مراد قرآن کریم کی خدمت ہو بلکہ غالب ہے کہ وہی ہو.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ حصہ پنجم میں لکھا ہے کہ دیوار سے وہ قرآنی دلائل مراد ہیں جو مسیح موعود کو دیے گئے.بہر حال میں اس موقع پر جماعت کے لوگوں کو عموماً اور نوجوانوں کو خصوصاً بتا دینا چاہتا ہوں کہ مغربی تاثرات کو دیکھ کر مت ڈرو.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے دور بین نگاہ دی ہے انہیں نظر آ رہا ہے کہ مغرب تباہ ہو گیا.مغرب تباہ ہوتا جا رہا ہے اور مغرب تباہ ہو جائے گا.کوئی طاقت اس کو تباہ ہونے سے روک نہیں سکتی اور نہ اس کو مٹنے سے باز رکھ سکتی ہے.لیکن جن کو یورپ کی تباہی نظر نہیں آرہی اور وہ اس سے مرعوب ہو رہے ہیں ان کی حالت اس شخص کی سی ہے جو اُس وقت دریا کی سیر کے لئے جاتا ہے جس وقت اس کا کنارہ گر رہا ہو.جو سیر کرنا چاہتے تھے وہ سیر کر کے آچکے اب جو اس دریا کی سیر کرنے کے لئے جاتا ہے وہ اپنے ہاتھوں اپنی تباہی کا سامان کرتا ہے کیونکہ وہ اس کے کنارہ پر

Page 148

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 143 جلد دوم جب پہنچے گا وہ کنارہ گر جائے گا اور سیر کرنے والا ڈوب جائے گا.پس یا د رکھو اس وقت تم میں سے کسی کا ان تاثرات سے متاثر ہونا صرف حماقت ہی نہیں بلکہ قومی غداری بھی ہے.ایک زمانہ ہوتا ہے جب لاعلمی کی وجہ سے کسی کام کا کرنا حماقت کہلاتا ہے لیکن جب اس کی برائیاں ظاہر ہو جائیں اور قوم پر اس کے جو زہر یلے اثرات پڑ سکتے ہوں وہ نمایاں ہو جائیں اُس وقت ان کا موں کو اختیار کرنا قومی غداری کی اور غفلت مجرمانہ ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ دنیا میں پھر دوبارہ اسلام کو قائم کرنا چاہتا ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کہ جس تعلیم کو اس نے پیش کیا اور جس تعلیم کا عملی نمونہ رسول کریم ﷺ نے دکھایا اس میں کوئی تغیر و تبدل ہو سکے.ہمارے لئے اب یہ گنجائش نہیں رہی کہ ان احکام کی وہ تاویلات کریں جو اسلام کے منشاء کے خلاف ہوں.کیونکہ شریعت رسول کریم یا لال لال ہے ختم ہوگئی اور سنت بھی رسول کریم ﷺ پر ختم ہوگئی اب اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا.خواہ کوئی نبی ہو یا غیر نبی.پس وہ چیز جسے رسول کریم ﷺ نے دنیا میں قائم کیا اگر ہم اسے قائم کرتے ہیں تو رسول کریم ﷺ کی بعثت کی صداقت کا ثبوت دیتے ہیں.اور اگر ہم ان احکام میں تبدیلی جائز سمجھتے یا تبدیلی کو قبول کر لیتے ہیں تو نہ صرف رسول کریم ﷺ کی بعثت کی غرض وغایت کو مفقود کرتے ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد بعثت کو بھی فراموش کر دیتے ہیں.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربیت کا مقابلہ کریں.دیکھو جاپان اس وقت بنیادی لحاظ سے مغرب کا مقابلہ کر رہا ہے اور بعض امور میں وہ عمدگی سے اسے شکست دے رہا ہے.اگر جاپان بغیر مذہب کے مغربیت کو شکست دے سکتا ہے، اگر جاپان کے نوجوان مارکس کے فلسفہ کو پڑھتے ہوئے اس لئے اسے ٹھکرا دیتے ہیں کہ وہ جاپان کی ترقی میں روک ہے، اگر جاپان کے مزدور انگلستان کے سوشلزم کو اس لئے پرے پھینک دیتے ہیں کہ اگر وہ بھی ویسے ہی مطالبات کریں گے تو جاپان کی ترقی میں روک ثابت ہوں گے تو میں نہیں سمجھتا کیوں احمدی نوجوان مغربیت کو ٹھکر انہیں سکتے جب ان کے پاس مغربیت سے بہت زیادہ اعلیٰ اور مفید تعلیم ہے اور وہ کیوں اس امر کو نہیں سمجھ سکتے کہ

Page 149

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 144 جلد دوم مغربیت دراصل چمکتا ہوا پیتل ہے مگر ان کے اپنے گھروں میں سونا موجود ہے اور سونے کے بدلے پیتل لینا ہر گز دانائی نہیں کہلا سکتا.جاپان کے پاس سونا نہیں اس کے پاس بھی پیل ہے اور مغرب والوں کے پاس بھی پیتل ہے مگر جاپان اس بات کے لئے تیار نہیں کہ وہ اپنے پینل کو ایک دوسرے پیتل سے تبدیل کرے.لیکن ہمارے گھر میں تو سونا ہے ہم اس سونا کو چھوڑ کر مغربیت کا پیتل کیوں لیں.پس یاد رکھو ہمارا کام یہ نہیں کہ ہم مغربیت کی نقل کریں بلکہ ہمارا فرض ہے کہ ہم مغربیت کا سر کچلیں اور اسے اسلام کا غلام بنا کر اسلام میں داخل کریں.اگر ہم ایسا نہیں کرتے بلکہ اہل مغرب کی نقل شروع کر دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا مصلح مسیح موعود نہیں بلکہ مصلح یورپین فلاسفر ہیں.اور اگر انہی کے خیالات نے دنیا کی اصلاح کرنی تھی تو پھر وہ اس بات کا حق رکھتے تھے کہ انہیں اصلاح عالم کے لئے کھڑا کیا جاتا اور جانسن اور دوسرے لوگوں کو مسیح موعود بنایا جاتا.مگر خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو مصلح نہیں بنایا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اصلاح عالم کے لئے کھڑا کیا ہے.پس اگر ہم کسی وقت مغرب کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں تو مسیح موعود کا جبہ اتار کر آپ کے دشمنوں کو پہنا دیتے ہیں.اور شاید اسی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رؤیا کا اشارہ ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ آپ کے چوغہ کو ایک چور اتار کر لے گیا اور پھر اسے واپس لیا گیا 4 اگر ہم اسلام میں مغربیت کو داخل کر لیتے ہیں تو یقیناً مسیح موعود کا جبہ اتار کر مغرب والوں کو پہناتے ہیں.پس میں نوجوانوں کو خصوصاً ہوشیار کرتا ہوں کہ وہ اس فتنہ کی حقیقت کو سمجھیں.وہ زمانہ گزر گیا جب اہل مغرب کی طرف سے ایک بات اٹھتی اور دنیا اسے فوراً صحیح تسلیم کر لیتی تھی.اب مسیح موعود کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ مغربیت کے رعب کو مٹا دے.بے شک ابھی لوگوں کو مغربیت کا رعب متا نظر نہیں آ رہا اور جب تم اسلامی احکام ان کے سامنے پیش کرو گے تو وہ ہنسیں گے اور کہیں گے ان مسائل پر دنیا کہاں عمل کر سکتی

Page 150

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 145 جلد دوم ہے.تم پردہ کا مسئلہ پیش کرو گے تو وہ نہیں گے.تعدد ازدواج کے مسائل بیان کرو گے تو ہنیں گے.سود کی مخالفت کرو گے تو نہیں گے.عورتوں سے مصافحہ کی مخالفت کرو گے تو ہنسیں گے.مگر تم انہیں بننے دو اور کہو دن کے پہلے حصے میں تم ہنس لو لیکن جب شام آئے گی تو تم بننے کے قابل نہ رہو گے.اور پھر جب صبح نکلے گی تو خدا تعالیٰ نے ان کی بجائے تمہیں حکومت دی ہوگی.کیونکہ ان کے پاس وہ خیالات ہیں جو آج کے ہیں اور تمہارے پاس کی وہ خیالات ہیں جو کل کے ہیں.اگر کل کے خیالات جاننے والا آج کے خیالات والوں سے مرعوب ہو جاتا ہے تو وہ احمق ہے.اور جس وقت کل کا دن چڑھے گا دنیا اس بیوقوف پر ہنسے گی.جس وقت یورپ نے وہ باتیں کہیں جو آج وہاں رائج ہیں اُس وقت بھی لوگ ہنسا کرتے تھے مگر اُس وقت یورپ کے خیالات گل کے تھے اور ہننے والوں کے خیالات گل کے نہیں تھے.ایک زمانہ تھا جب انگریز داڑھی رکھتے.بادشاہ کا حکم تھا کہ داڑھی نہیں رکھنی چاہئے مگر لوگ اس حکم کو نہ مانتے.وہ حکومت کی طرف سے سزائیں برداشت کر لیتے مگر داڑھی رکھنا نہ چھوڑتے کیونکہ کہتے یہ مرد کا نشان ہے اسے ترک نہیں کیا جا سکتا.لیکن اب کی وہ زمانہ آ گیا ہے کہ اگر کوئی داڑھی رکھتا ہے تو اس پر تمسخر اڑایا جاتا ہے اور اس کے متعلق فوراً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یا تو یہ رومن کیتھولک پادری ہے یا پاگل ہے.یا پھر بادشاہ کی داڑھی ہوا کرتی تھی اور شاید وہ بھی نہیں رہی کیونکہ موجودہ بادشاہ پرنس آف ویلز ہونے کی حالت میں داڑھی نہیں رکھتے تھے.اس پر اخبارات میں بخشیں ہوئیں اور لکھا گیا کہ یہ محض ایک رواج ہے.اگر بادشاہ چاہے تو داڑھی رکھ لے نہ چاہے تو نہ رکھے.اس پر کوئی پابندی نہیں عائد کی جاسکتی.بہر حال ایک زمانہ تھا جب یورپ داڑھی رکھنا ضروری سمجھتا اور اب یہ زمانہ ہے کہ داڑھی رکھنا عیب سمجھا جاتا ہے.اسی طرح جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت تھی تو ہندو جسے پہنا کرتے تھے مگر اب جبہ پوش مولوی بھی کوٹ پتلون پہنتے ہیں.زمانہ کے ان تغیرات کو دیکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر رائج الوقت خیالات

Page 151

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 146 جلد دوم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے فیصلہ کر لیا جائے کہ پانچ فٹ لمبا کلاہ سر پر رکھنا چاہئے تو گو دنیا آج اس پر ہنسی اڑائے لیکن اگر خیالی طور پر وہ دیکھنا چاہے تو اسے نظر آ سکتا ہے کہ ایک زمانہ کے بعد وہی لوگ جواب ننگے سر رہنا فیشن سمجھتے ہیں پانچ پانچ فٹ لمبے کلاہ پہنا فیشن سمجھ رہے ہوں گے.غرض یہ تمام چیزیں خارجی اثرات کے ماتحت ہوتی ہیں لیکن حقیقی چیز وہی ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ قائم کرنا چاہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے مذہب کے ہر ایک حکم پر مضبوطی سے قائم رہیں اور مغربیت کا اس عمدگی سے مقابلہ کریں کہ دشمن کی ہنسی رونے میں اور ہمارا دکھ خوشی میں تبدیل ہو جائے.آخر میں میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مولوی صاحب کا حافظ و ناصر ہو اور جس کام کے لئے وہ جارہے ہیں اس کو جلد سے جلد سر انجام دے کر وہ خیر و عافیت سے واپس آئیں.“ الفضل 29 فروری 1936ء) 6:00:1 2:سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحہ 312 مطبوعہ دمشق 2005 ءالطبعة الاولى 3: النور : 36 4: تذکرہ صفحہ 567،566 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 152

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 147 جلد دوم احمدیت کا حقیقی مقصد سمجھو اور مغربیت کو کچل کر اسلامی تعلیم کا دوبارہ احیاء کرد 25 فروری 1936ء حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ولایت تشریف لے جانے اور مولوی اللہ دتا صاحب کی بلاد عربیہ سے واپسی پر ان کے اعزاز میں مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ کے اساتذہ و طلباء کی طرف سے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں دعوت چائے دی گئی.جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ مبلغوں کے باہر جانے اور آنے کا سلسلہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا اور شاید یہ سلسلہ کسی وقت اس کثرت کو پہنچ جائے کہ اس قسم کی پارٹیوں کو فضول سمجھتے ہوئے ایک بوجھ قرار دینا پڑے.وہ جماعت جو دنیا کے تمام افراد کو مخاطب کرتی اور اپنی صداقت کا ان سے اعتراف کراتی ہے اس کے لئے وہ دن کچھ بعید نہیں جب بغیر کسی ناغہ کے غیر ممالک کو مبلغین صبح و شام روانہ ہوں اور ان ایام میں صبح و شام پارٹیاں دینا اچھے بھلے آدمیوں کو پاگل بنا دینے کے لئے کافی ہوگا.اس کا علاج آخر وہی ہوگا جو اس قسم کی پارٹیوں کا اصل مقصد اور منشا ہے یعنی ان دعاؤں پر اکتفا کی جایا کرے گی جو مومنوں کے دلوں سے خدامِ دین کے لئے نکلا کرتی ہیں.ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو نئے سے نئے درس اور نئی سے نئی تعلیم دیتا ہے چنانچہ اس زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو پڑھانا چاہتا ہے اور نئے سے نئے درس اور

Page 153

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 148 جلد دوم نئی سے نئی تعلیم اسے سکھانا چاہتا ہے.درسوں اور تعلیموں کو سیکھنے والے دو طرح کے طالب علم ہوتے ہیں.ایک وہ جنہیں ترقی کرنے کی عادت ہوتی ہے اور ہر نئے سبق پر خوشی محسوس کرتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھاتے ہیں.اور ایک وہ طالب علم جنہیں ترقی کرنے کی عادت نہیں ہوتی اور ہر نئے سبق پر اپنے دلوں میں بوجھ محسوس کرتے ہیں.ایسے طالب علم ہمیشہ ناکام رہتے ہیں.ان دونوں قسم کے طالب علموں میں فرق یہ ہوتا ہے کہ ترقی کرنے والے طلباء کو ان کے اساتذہ نئی تعلیمیں اور نئے درس دیتے ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں.مگر وہ طلباء جو نا کام رہتے ہیں اور ہر نئے سبق اور نئی تعلیم پر اپنے دلوں میں بوجھ محسوس کرتے ہیں ایک وقت آتا ہے کہ ان سے استاد بھی بے تو جہگی سے کام لینے لگ جاتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ مومنوں کو نئے سے نئے درس اور نئی سے نئی تعلیم دیتا ہے.وہ درس کبھی تو خدا تعالٰی کی طرف سے ابتلاؤں کے رنگ میں اور کبھی انعام کے رنگ میں ہوتے ہیں.اور وہ قوم جسے خدا تعالیٰ ترقی کی انتہائی منازل پر پہنچانا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے رستہ میں الہی سنت کے ماتحت روکیں پیدا ہوں اور ان کا ابتلاؤں کے ذریعہ امتحان کیا جائے.مگر وہ لوگ جو کم حوصلہ ہوتے ہیں وہ معمولی سا ابتلاء دیکھ کر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں.وہ اس شور کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی لغزشوں کو چھپانے کے لئے مختلف قسم کے عذرات تراشتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو دوسروں سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں.وہ دور کی نگاہ سے بے پرواہ ہو کر قریب کی نگاہ پر شور مچاتے ہیں اور اُس جوش کھانے والی ہنڈیا کی مانند جس پر جھاگ آ جاتی ہے اپنے جوش کا اظہار کرتے ہیں.وہ نادان اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ تھوڑی دیر کے بعد جھاگ بیٹھ جائے گی اور جوش ختم ہو جائے گا.پس ابتلاؤں کے وقت مومنوں اور غیر مومنوں کے درمیان امتیاز ہو جاتا ہے.مومن ان مشکلات کو دیکھ کر صبر سے کام لیتے ہوئے اپنا قدم آگے کی طرف بڑھاتا ہے اور غیر مومن مشکلات کو دیکھ کر گھبراتا اور شور مچانے لگ جاتا ہے.وہ اس طریق کے اختیار کرنے میں

Page 154

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 149 جلد دوم اپنی فطرت کی بزدلی کا اقرار نہیں کرتا بلکہ اسے چھپانے اور مخفی رکھنے کے لئے دلیلیں دیتا ہے.دنیا میں مجرم اپنے جرم کا کبھی اقرار نہیں کرتا.إِلَّا مَا شَاءَ اللہ کوئی نیک اور متقی ہو تو وہ اپنے جرم کا اقرار کر لیتا ہے مگر منافق کبھی اپنے جرم کا اقرار نہیں کرتا.وہ ہمیشہ اپنے جرم کو چھپانے کے لئے عذر پیش کرتا ہے.چنانچہ قرآن مجید میں آتا ہے قیامت کے دن کفار خدا تعالیٰ کے سامنے کہیں گے مَا كُنَّا مُشْرِکین 1 کہ ہم مشرک نہ تھے حالانکہ قیامت وہ دن ہو گا جبکہ تمام اسرار کھل جائیں گے، عدالت قائم ہوگی اور آخری فیصلہ کی گھڑی آ جائے گی.مگر کفار عالم الغیب خدا کے سامنے اپنے جرم کو چھپانے کے لئے صاف کہہ دیں گے کہ ہم پر اتہام لگایا گیا ہے ہم نے تو کبھی شرک نہیں کیا.تو منافق اپنے جرم کو مخفی رکھنے کے لئے قیامت کے دن بھی عذر پیش کرے گا.اور بعض دفعہ تو منافق ایسے رنگ میں عذر پیش کرتا ہے کہ وہ بظاہر معقول نظر آتا ہے اور اسے سن کر ایک مخلص آدمی کا دل گداز ہو جاتا ہے.جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کا یہ عذر بیان فرمایا ہے اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ 2 کہ ہم تو اصلاح کرتے ہیں فساد تو دوسرے لوگ کرتے ہیں.اس زمانہ میں بھی جبکہ سلسلہ احمد یہ ابتدائی حالت میں سے گزر رہا ہے بعض لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے لئے عذر تر اشتا رہتا ہے.پھر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو وسعت نظری کے نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ زمانہ کو دیکھتے ہوئے اپنے آئندہ پروگرام کو نہیں سمجھتا اور نہ ہی وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے حالانکہ ہر سمجھدار انسان قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی طاقتوں پر نظر ڈالے اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات پر غور کرے تو اسے ان الہامات میں سے ہی موجودہ زمانہ اور آئندہ زمانہ کے لئے پروگرام مل جائے گا.ان الہامات کو پڑھ کر انسان اپنے نفس میں سوچے کہ ان میں خدا تعالٰی کے جو وعدے نظر آتے ہیں ان کے لئے مجھے کتنی قربانی کرنی چاہئے اور میں کہاں تک قربانی کر رہا ہوں.آیا میری قربانی ان ارادوں اور وعدوں کے ساتھ مطابقت بھی کھاتی ہے یا نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کئے گئے.

Page 155

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 150 جلد دوم پس ہر احمدی ان الہامات کو دیکھے اور اپنے دل میں غور کرے کہ کیا میرا اقدم الہی منشاء کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے یا نہیں.مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم میں بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو ابتلاؤں کے وقت گھبرا جاتے ہیں اور اُس کا رک کی طرح کا مینے لگ جاتے ہیں جو دریا کی لہروں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے.بظاہر کا رک جدو جہد کرتا نظر آتا ہے مگر وہ جد و جہد کسی آزادی کے لئے نہیں ہوتی بلکہ وہ اُس وقت بحالت مجبوری کا نپتا اور لرزتا ہے کیونکہ کارک کی حرکت اس کے اپنے تابع نہیں ہوتی بلکہ لہروں کے تابع ہوتی ہے.ہم میں سے بھی اکثر افراد ایسے ہیں جن کی حرکات اختیاری نہیں بلکہ غیر اختیاری ہیں اور وہ اپنے مقصود کو جو بہت بعید ہے اس چھوٹے بچے کی طرح جو چاند کو دیکھ کر پکڑنے کی کوشش کرتا ہے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ اس بعد اور دوری کے سمجھنے کی جستجو ہی نہیں کرتے جو ان کے اور ان کے مقصد کے درمیان حائل ہے.اور اگر وہ سمجھنے کی کوشش کریں تو ان کے لئے تمام وہ باتیں جنہیں وہ ناممکن خیال کرتے ہیں ممکن الحصول بن جائیں.موجودہ زمانہ میں ہمارا کام لوگوں کے قلوب کو بدلنا ہے، دنیا کے غلط نظاموں کو بدلنا ہے، تعلیم اور تمدن کو بدلنا ہے.غرض کہ دنیا کے سارے رنگوں کو بدل کر نیا رنگ قائم کرنا ہے اور یہ کوشش ہماری اُس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ساری دنیا نئی شکل اختیار نہ کرلے.دنیا میں اگر ایک طرف یورپ کا فلسفہ تزئین اور مغربیت ہے تو دوسری طرف مشرقیت اور اس کی رسوم ہیں.اگر ایک طرف مایوسی کا عالم ہے تو دوسری طرف دنیا کی تمام لذات حاصل کرنے والے ہیں.اور ان دونوں کے درمیان یعنی مشرقیت اور مغربیت کے درمیان ہماری مثال ایک کارک کی سی ہے جو لہروں کے درمیان کا نپتا اور لرزتا ہے.آپ لوگوں میں سے اکثر احباب جنہوں نے اس قسم کا نظارہ دیکھا ہوگا وہ جانتے ہوں گے کہ کارک کو لہریں گھنٹوں اوپر نیچے کرتی رہتی ہیں مگر جب لہریں اٹھنی بند ہو جاتی ہیں تو کا رک وہاں کا وہاں ہی ہوتا ہے.اس کی تمام جدو جہد سے اسے کسی قسم کا فائدہ نہیں ہوتا.اس کی تمام سعی لا حاصل ہوتی ہے اور اس تمام جد و جہد اور سعی سے کسی قسم کا

Page 156

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 151 جلد دوم تغیر پیدا نہیں ہوتا.اس کی کوشش اور جدوجہد میں بظا ہر ترقی کا قدم نظر آتا ہے مگر دراصل وہ سکون ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کی وہ حرکت اندرونی نہیں ہوتی بلکہ بیرونی ہوتی ہے.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو ابتلاؤں کے وقت گھبراہٹ کا اظہار کرتے اور شور مچاتے ہیں.ان کی یہ حرکت دنیا میں کسی قسم کا تغیر پیدا نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی یہ حرکت کوئی نیک نتیجہ پیدا کر سکتی ہے.اس قسم کی حرکت صرف ایک مجنونانہ فعل ہوتا ہے.جو حرکت دنیا میں تغیر پیدا کرتی اور نیک نتیجہ برآمد کرتی ہے اس کے لئے سب سے پہلے یقین ہوا کرتا ہے.یعنی انسان یہ سمجھے کہ یہ میرا کام ہے اور میں یہ کام کر کے رہوں گا.جب تک اس عظیم الشان مقصد کے لئے جو ہمارے پیش نظر ہے پختہ یقین حاصل نہ ہو اُس وقت تک ہم اپنے کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے اور نہ ہی کوئی دنیا میں تغیر پیدا کر سکتے ہیں.پس ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم میں وہ یقین موجود ہے جو کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے اور جس کے نیک نتائج رونما ہوا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے متعلق یہ کہہ دینا کہ خدا تعالیٰ انہیں خود پورا کرے گا یقین نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ نفس کا ایک بہانہ ہے اور نفس کا جد و جہد کرنے سے عذر پیش کرنا اور اجتناب کرنا ہے.ورنہ یقین کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے مطابق کوشش بھی کی جائے اور یہ سمجھ کر کوشش کی جائے کہ مجھے کامیاب ہونے کا یقین ہے.جب یہ حالت انسان میں پیدا ہو جاتی ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس پر وہ انعامات نازل کرتا ہے جن کا وعدہ اپنے نبی کے ذریعہ اس نے کیا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ نے تو اپنے وعدے پورے کرنے ہی ہیں مگر وہ قوم جس میں یقین کا مادہ نہیں ہوتا اس کے ذریعہ پورے نہیں کرتا بلکہ بعد میں آنے والی نسلوں کے ذریعہ پورے کرتا ہے.رسول کریم سے اللہ تعالیٰ نے جو وعدے کئے تھے صحابہ کرام نے ان کے متعلق یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ خدا تعالیٰ خود انہیں پورا کر دے گا بلکہ انہوں نے اپنے تمام اوقات اور لمحات اس کام کے لئے صرف کر دیئے اور اپنے یقین کو عملی رنگ دے کر جد و جہد شروع کر دی تھی.مگر ہم

Page 157

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 152 جلد دوم میں سے کتنے ہی یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ جو خدا کے وعدے ہیں وہ خود ان کو پورا کرے گا ہمیں ان کے لئے جدو جہد کی کیا ضرورت ہے.دراصل اس قسم کا یقین یقین نہیں کہلا تا بلکہ ایک مجنونانہ بڑ ہوتی ہے.صرف زبان سے ایک بات ماننا اور اپنے ہاتھوں سے کام نہ کرنا یقین نہیں کہلاتا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ وہ احمدیت کے ذریعہ تمام وہ عمارتیں جو اسلام کے مقابل پر بنائی گئی ہیں تو ڑ دے گا اور ہم جب تک اپنی کوششوں سے ان عمارتوں کو توڑ نہ دیں اُس وقت تک ہم لوگوں کے دلوں میں اسلام کی قدر و عظمت نہیں بٹھلا سکتے.مغربیت ایک عمارت ہے جو اسلام کے مقابل پر بنائی گئی.مشرقیت جس میں رسوم اور بدعات آگئی ہیں یہ بھی ایک عمارت ہے جو اسلام کے مقابل پر ہے.مگر ہم میں سے کتنے ہیں جو ان کو بے سود سمجھتے ہیں.بعض لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ یہ عمارت ہمارے ہاتھ میں آجائے مگر اس طرح عمارت کی شکل تبدیل نہیں ہو سکتی.میرے ہاتھ میں آ جانے کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ یہ چیز میری ہو جائے اور میں اس کا مالک کہلاؤں.مگر ہمارا مقصد پہلی عمارت کو توڑنا اور اس کی جگہ اصلی اسلامی عمارت کو قائم کرنا ہے.یعنی پہلا حمل تو ڑ کر گرا دیا جائے اور اس کی جگہ ایک نیا محل کھڑا کر دیا جائے.لیکن اگر محل تو ڑا نہ جائے صرف ایک کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں چلا جائے تو اس صورت میں عمارت تو وہی رہی فرق اتنا ہوا کہ ایک کے ہاتھ سے نکل کر دوسرے کے ہاتھ میں آ گئی.مگر کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ وہ رسوم اور بدعات جو اسلام کی شکل کو چھپائے ہوئے ہیں تم میں آجائیں اور تم بھی انہی برائیوں کے مرتکب ہونے لگ جاؤ جن کے دوسرے مرتکب ہو رہے ہیں.ہمارا مقصد جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے وہ ان عمارتوں کی شکلوں کو تبدیل کرنا ہے اور ان کی جگہ پر اسلامی احکام کا عمل جاری کرنا ہے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ان عمارتوں کو جو اسلام کے مقابل پر ہیں تو ڑا جائے.اور جب تک پہلی چیز توڑی نہ جائے اس کی جگہ دوسری چیز نہیں بن سکتی.موجودہ زمانہ کے لحاظ سے جب تک اس کا

Page 158

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 153 جلد دوم تمدن تو ڑا نہ جائے اُس وقت تک اسلامی تمدن کہاں رائج ہوسکتا ہے.اسلامی تمدن کو قائم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے موجودہ تمدن کی عمارت کو توڑا جائے.اور جب یہ عزم اور یہ روح تم میں پیدا ہو جائے اُس وقت نہ تو تمہیں خطبات دینے کی ضرورت ہوگی اور نہ لمبی تقریریں کرنے کی حاجت ہوگی کیونکہ تم میں خود کام کرنے کی ہمت پیدا ہوگئی ہو گی.اور جب تک یہ حالت نہ ہو اُس وقت تک خطبات اور تقریریں بھی ایسی ہیں جیسے کوئی بھینس کے آگے بین بجائے.پس میں اس وقت ان طالب علموں کو جنہوں نے ایڈریس پیش کیا ہے توجہ دلاتا ہوں کہ وہ احمدیت کا مقصد سمجھیں اور یہ سمجھ کر کہ یہ کام ہو کر رہے گا اس کے لئے جد و جہد اور کوشش کریں.یاد رکھو جب یہ حالت تم میں پیدا ہو جائے گی اور ایک نظام کے ماتحت جد و جہد شروع کرو گے تو پھر تمہیں ہدایتیں دینے کی ضرورت نہیں رہے گی تم خود بخود کام کرتے چلے جاؤ گے.نپولین کا ایک واقعہ ہے جب بھی میں اس کو پڑھتا ہوں میرے دل پر اس کا گہرا اثر ہوتا ہے.لکھا ہے کہ نپولین نے اپنی فوج میں سے چند بہادر سپاہیوں کو چن کر اپنا باڈی گارڈ بنایا ہوا تھا.واٹر لو کی جنگ میں جب نپولین کی فوج کو شکست ہوئی تو ایک شخص باڈی گارڈ سپاہیوں کے پاس سے گزرا.اس نے دیکھا کہ وہ دشمن کی فوج سے جن کے پاس کافی گولہ بارود تھا صرف تلواروں سے لڑ رہے ہیں، انہیں مخاطب ہو کر کہنے لگا تم تلواروں سے کیوں لڑتے ہو؟ انہوں نے کہا ہمارے پاس گولہ بارود ختم ہو گیا ہے.اس پر اس شخص نے کہا جب تمہارا گولہ بارود ختم ہو گیا ہے تو لڑائی کس طرح کی جاسکتی ہے.انہوں نے کہا کہ نپولین نے ہمیں لڑنا ہی سکھایا ہے میدان سے بھاگنا نہیں سکھایا اور یہ کہہ کر وہ باڈی گارڈ سپاہی ایک ایک کر کے ڈھیر ہو گئے مگر میدان جنگ سے نہ بھاگے.اس طرح نپولین کی شکست فتح سے تو نہ تبدیل ہو سکی لیکن جو روح ان میں پیدا ہوگئی تھی اور جس کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے جانیں دیں اس نے ان کی قوم کو زندہ کر دیا اور وہ آج تک ان

Page 159

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 154 جلد دوم مرنے والوں پر فخر کرتی ہے.پس ہر وہ قوم جس میں کام کرنے کی ایسی روح پیدا ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھتی ہے پیچھے ہٹنا نہیں جانتی.نپولین انگریزوں کے ہاتھ میں قید ہو گیا اور اسی قید کی حالت میں مر گیا مگر اس کی شہنشاہیت اس کی گرفتاری اور موت کے بعد ختم نہ ہوگئی بلکہ فرانس میں متحکم ہوگئی.اور وہ روح جو نپولین کے سپاہیوں میں موجود تھی کہ ہم کو لڑنا سکھایا گیا ہے میدانِ جنگ سے بھاگنا نہیں سکھایا گیا اسی نے فرانس کی شہنشاہیت کو قائم کر دیا.اور اب بھی جب کوئی فرانسیسی ان واقعات کو پڑھتا ہے تو اس کی چھاتی تن جاتی اور فخر سے اپنی گردن اونچی کر کے وہ کہتا ہے میں ان کی اولاد ہوں جن کو لڑنا سکھایا گیا تھا اور جو بھاگنے کے نام سے ناواقف تھے.پس جس قوم میں کام کرنے کی روح پیدا ہو جاتی ہے وہ مر کر بھی زندہ قوم کہلاتی ہے.اس لئے تم لوگوں کو کام کرنے کی روح پیدا کرنی چاہئے.اس کے بعد نظام کو دیکھا جاتا ہے.اگر صرف نظام ہو اور کام کرنے کی روح نہ ہو تو اس سے بھی کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا.آجکل مسلمانوں کی کئی انجمنیں بنی ہوئی ہیں مگر ان کو کام کرنے کی چونکہ عادت نہیں اس لئے مسلمان اپنے اس نظام سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتے.کہیں مسلم لیگ قائم ہے، کہیں مسلم کانفرنس ہے، کہیں انجمن حمایت اسلام ہے.مگر ان انجمنوں میں صرف پریذیڈنٹ اور سیکرٹری علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں باقی لوگوں کی شکلیں ایک ہی ہوتی ہیں.جو شکلیں انجمن حمایت اسلام کے جلسہ میں نظر آتی ہیں وہی مسلم لیگ اور مسلم کا نفرنس میں نظر آتی ہیں.گویا ایک نظام تو ہے مگر اس سے اب تک مسلمانوں نے اس وجہ سے فائدہ حاصل نہیں کیا کہ ان میں کام کرنے کی روح نہیں.پس دونوں چیزوں کی ضرورت ہے.کام کرنے والی روح کی بھی ضرورت ہے اور نظام کی بھی ضرورت ہے.اور ان کی دونوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دماغ اور ہاتھ ہوتے ہیں.جب تک دماغ کے ماتحت ہاتھ کام کرنے والا نہ ہو اُس وقت تک دماغ کی تدابیر سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا.اسی طرح ہاتھ تو ہوں لیکن دماغ نہ ہو تب بھی کام صحیح طریق پر نہیں کیا جا سکتا.پس

Page 160

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 155 جلد دوم پہلی چیز کام کرنے کی روح ہے.نظام کا درجہ اس کے بعد ہوتا ہے.اور جس قوم میں یہ دونوں باتیں پیدا ہو جائیں اس کی ترقی لازمی ہوتی ہے.کثرت وقلت کا سوال اس قوم کے لئے جس میں کام کرنے کی روح ہو اور ایک نظام کے ماتحت ہو کچھ حقیقت نہیں رکھتا.تاریخ کے مطالعہ سے یہ امر ثابت ہے کہ تھوڑے بہتوں کا سوال کام کرنے والی قوموں کی راہ میں کبھی روک ثابت نہیں ہوا.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةِ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً 3 كى چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہیں.لیکن علاوہ مذہب کے ہم دنیاوی لحاظ سے بھی دیکھتے ہیں کہ کام کرنے والی چھوٹی جماعتیں بڑی بڑی جماعتوں پر جن میں کام کرنے کی روح نہیں ہوتی غالب آجاتی ہیں.پس تم اپنے اندر اسلام کو دنیا میں دوبارہ قائم کرنے کا مستحکم ارادہ پیدا کرو اور یہ یقین رکھتے ہوئے کہ تم نے ہی اس کام کو کرنا ہے اور یہ ہو کر رہے گا کام میں لگ جاؤ.تم وہ ایمانی طاقت پیدا کرو کہ اگر دریا سے کہو کہ تم جاؤ تو وہ تھم جائے.اور اگر پہاڑ سے کہو کہ ہٹ جاؤ تو ہٹ جائے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مادی پہاڑ کو کہو تو وہ تمہارے آگے سے ہٹ جائے گا یا ظاہری دریا سے کہو تو وہ تھم جائے گا بلکہ یہ مطلب ہے کہ اگر تم میں حقیقی ایمان ہے تو تم پہاڑوں جیسی مشکلات کو دور کر لو گے اور دریاؤں کو عبور کر جاؤ گے.اس وقت میری نصیحت چونکہ بچوں یعنی مدرسہ احمدیہ اور جامعہ کے طلباء کو ہے اس لئے میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے اندر اس روح کو پیدا کریں.اب باتیں کرنے کا نہیں بلکہ کام کرنے کا وقت آ گیا ہے.تمہیں چاہئے کہ یہ نعمت جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں ملی ہے اس کے اپنے آپ کو مستحق ثابت کرو.اس کے بعد سارے کام آسان ہو جائیں گے.ورنہ دوسرے لوگ آ کر یہ کام کریں گے اور تم ان انعامات سے محروم رکھے جاؤ گے جن کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے.آخر میں میں دعا کرتا ہوں ان کے لئے بھی جنہوں نے ایڈریس پیش کیا اور ان کے

Page 161

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 156 جلد دوم لئے بھی جو اس تقریب میں شامل ہوئے اور ان کے لئے بھی جو باہر جانے والے اور باہر سے آنے والے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کے شامل حال ہو اور ان سب کا حافظ ومددگار ہو." (الفضل 15 مارچ 1936ء) 1: الانعام: 24 2: البقرة : 12 3: البقرة : 250

Page 162

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 157 جلد دوم مغربی ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ سرانجام دینے والے احمدی مبلغین کو نہایت ضروری اور اہم ہدایات 21 /اکتوبر 1936ء کو دو مبلغین سلسلہ جو امریکہ بھجوائے جا رہے تھے کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا انعقاد کیا گیا.اس موقع پر حضرت خلیفتہ مسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.آج ہمارے دو عزیز خدمت دین کے ارادہ سے قادیان سے باہر جا رہے ہیں اور آج غالباً پہلا موقع ہے کہ تحریک جدید کے طلباء کے ایڈریس میں مجھے شامل ہونے کا موقع ملا ہے.ہر ملک اور ہر قوم کے خطرات الگ الگ قسم کے ہوا کرتے ہیں.جس ملک میں ہمارے یہ عزیز جا رہے ہیں وہاں جان کا کوئی خطرہ نہیں بلکہ ہندوستان کی نسبت جان وہاں زیادہ محفوظ ہے.پھر اس جگہ انسانی آرام اور آسائش میں کسی قسم کی کمی کا خوف نہیں بلکہ ہماری نسبت وہاں ہزاروں گنے زیادہ آرام اور زیادہ آسائش کے سامان لوگوں کو حاصل ہیں.اس جگہ سوشل اور تمدنی تعلقات کے خراب ہونے کا بھی کوئی خوف نہیں کیونکہ وہاں اس ملک کی نسبت زیادہ تعلیم یافتہ ، زیادہ با مذاق اور موجودہ زمانہ کی روش کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ روشن خیال لوگ موجود ہیں.اسی طرح سفروں کی تکالیف کا بھی وہاں کوئی ڈر نہیں کیونکہ یہاں کی پکی سڑکیں وہاں کی کچی سڑکوں کے مقابلہ میں شاید ردی اور خراب ہی کہلائیں.غرض دنیوی تمدن ، دنیوی آرام و آسائش اور جسمانی ضروریات کے لحاظ سے وہ ملک ہمارے ملک کے مقابلہ میں ہزاروں گنے زیادہ آرام اور زیادہ آسائش

Page 163

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 158 جلد دوم کے سامان مہیا کرنے والا ہے.بیسیوں لوگ ایسے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کو دیکھیں.وہ خود روپیہ خرچ کر کے جاتے ہیں.وہ انہی تکالیف میں سے گزرتے ہیں جن تکالیف میں سے ہمارے مبلغ گزر سکتے ہیں اور بعض کو تو اپنی روٹی کمانے کیلئے وہاں جاتے کر کام بھی کرنا پڑتا ہے اور اس کیلئے بعض کو بڑی بڑی محنتیں کرنی پڑتی ہیں.میں جب انگلستان میں گیا تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں بیرسٹری کی تیاری کر رہا تھا.دو سال سے اسے گھر سے خرچ نہیں آیا تھا مگر وہ کام کر کے روپیہ کماتا اور اس کے ساتھ ہی تعلیم بھی حاصل کرتا.اب وہ بیرسٹر ہے اور ہندوستان میں ہی کام کرتا ہے.غالباً جہلم یا گجرات مجھے صحیح یاد نہیں مگر ان میں سے کسی ایک جگہ وہ کام کرتا ہے اور کبھی کبھی مجھے بھی اس کا خط آ جاتا ہے.تو لوگ ان تکلیفوں سے زیادہ تکلیفیں اٹھا کر جو ہمارے مبلغین کو پہنچتی ہیں یا پہنچ سکتی ہیں محض اس لئے کہ یورپین زندگی خوش آئند ہے اور ان کی طبائع کو بھاتی ہے وہ اس ملک میں جاتے اور اس زندگی کو اس زندگی پر ایسی ترجیح دیتے ہیں کہ بعض دفعہ اپنے ماں باپ یا دوسرے عزیزوں اور رشتہ داروں کی بیماری اور موت کی خبریں بھی انہیں ملتی ہیں تو وہ وہاں سے آنا پسند نہیں کرتے.پس ان امور کو مد نظر رکھتے ہوئے وہاں جانا کسی قسم کی قربانی نہیں سوائے اس کے کہ جانے والے کے اپنے دل میں کمزوری ہو کیونکہ بعض لوگ ہوم سک (HOMESICK) میں مبتلا ہوتے ہیں یعنی گھر کی محبت جلدی ان پر غال آ جاتی ہے اور وہ اداس اور غمگین ہو جاتے ہیں.اس مرض کے مریضوں کو چھوڑ کر کہ اس قسم کے لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے اور ان کے لئے سفر واقعی ایک قربانی ہوتی ہے کیونکہ جو چیز دوسروں کی نگاہ میں عیش اور لذت کا سامان ہو وہ اُن کیلئے دکھ اور مصیبت کا باعث ہوتا ہے.وہ دن کی گھڑیوں میں اس دکھ اور درد سے کراہتے اور رات کی تنہائی کی گھڑیوں میں آنسو بہاتے اور روتے ہیں.چنانچہ ہمارے بچے جو ولا بیت گئے ہوئے ہیں ان میں سے ایک کے متعلق چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ سال تک روزانہ رات کو روتا تھا اور جب اس سے پوچھا جائے کہ تم کیوں روتے ہو؟ تو وہ کہتا میں قادیان کی یاد

Page 164

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 159 جلد دوم میں رو رہا ہوں.تو ایسی طبائع بھی ہوتی ہیں جن پر افسردگی اور غم کی گھڑیاں آتی رہتی ہیں.وہ تعیش اور آرام کی زندگی کو بھول جاتے اور سہولت اور آرام کے تمام ذرائع کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں کی یاد میں آنسو بہانے لگ جاتے ہیں.بعض پر یہ گھڑیاں کسی کسی وقت آتی ہیں ، بعض پر آتی ہی نہیں اور بعض ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو درمیان میں ہی ولایت کی تعلیم محض اس لئے چھوڑ کر آگئے کہ گھر کی جدائی ان سے برداشت نہ ہو سکی حالا نکہ آرام وہاں بہت زیادہ ہے.تو بے شک اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں.اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ استثنائی رنگ میں بعض ایسے بھی لوگ ہوں جن پر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کی محبت اتنی غالب ہو کہ انہیں اس ملک میں جا کر بھی تکلیف محسوس ہو.لیکن انہیں نظر انداز کرتے اور اس قسم کی طبیعت والوں کو مستقی کرتے ہوئے جن کو خواہ کیسی ہی آرام کی جگہ لے جایا جائے اگر وہاں ان کے اقرباء اور رشتہ دار نہ ہوں تو وہ ان کی جدائی کبھی برداشت نہیں کر سکتے اور جو زیادہ سے زیادہ دو تین فیصدی ہوتے ہیں باقی 97، 98 فیصدی ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی نظر دنیا پر ہوتی ہے اور وہ ان ملکوں میں جانے کو ایسا ہی پسند کرتے ہیں جیسے مومن جنت میں جانے کو.میں نے دیکھا ہے سال میں دو تین چٹھیاں بعض غیر احمدیوں کی طرف سے ضرور است قسم کی آجاتی ہیں کہ آپ ہمارے لئے صرف چند مہینوں کے خرچ کا انتظام کر دیں ہم اپنی ساری زندگی تبلیغ اسلام کیلئے وقف کرنے کیلئے تیار ہیں بشرطیکہ ہمیں اسلام کی تبلیغ کیلئے امریکہ یا انگلینڈ بھیجا جائے.میں ہمیشہ ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ امریکہ یا انگلینڈ ہی صرف ایسے ملک نہیں ہیں جن میں تبلیغ اسلام کی ضرورت ہو بلکہ اور بھی کئی ایسے ممالک ہیں جن میں اسلام کی تبلیغ کی ضرورت ہے.اگر آپ آئیں اور تبلیغ کا طریق سیکھ لیں تو میں آپ کو چین، جاپان یا کسی دوسرے ملک میں تبلیغ اسلام کیلئے بھیج سکتا ہوں.اگر آپ ان کے ممالک میں جانے کیلئے تیار ہوں تو مجھے اطلاع دیں.امریکہ یا انگلینڈ میں ہم آپ کو نہیں بھیج سکتے کیونکہ وہاں ہمارے مبلغ موجود ہیں.میں نے دیکھا ہے اس جواب کے بعد

Page 165

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 160 جلد دوم دوبارہ ان کی طرف سے کبھی درخواست نہیں آئی.تو سال میں دو تین درخواستیں بعض گریجوایٹس کی طرف سے اس قسم کی آ جاتی ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو پوری طرح قربان کرنے کیلئے تیار ہیں اور اس بات کیلئے بالکل آمادہ ہیں کہ اسلام کیلئے اپنی جان دیدیں بشرطیکہ ان کے گلے پر چھری امریکہ میں پھیری جائے یا انگلینڈ میں.تو اس قسم کی قربانی کی در حقیقت ان حالات میں کوئی قربانی نہیں بلکہ ان ممالک میں قربانی کا نقطہ نگاہ بالکل اور ہے.ان ممالک میں قربانی جان کی نہیں بلکہ ان ممالک میں قربانی جذبات کی ہے.ایک امریکہ یا انگلینڈ میں جانے والا ہمارا مبلغ اپنی روٹی کی قربانی ہر گز نہیں کر رہا، وہ اپنے مال کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا، وہ اپنی جان کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا، وہ اپنے تمدن کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا ، وہ اپنے سوشل تعلقات کی قربانی ہرگز نہیں کر رہا.وہ جو قربانی کر سکتا ہے اور جو اُس کیلئے مشکل ہے وہ یہ ہے کہ وہ وہاں کے اثرات اور وہاں کے غالب خیالات پر چھا جانے کی کوشش کرے اور اُس رو کے مقابلہ میں کھڑا ر ہے جو اسلام کے خلاف اس جگہ جاری ہے.وہ بے شک جنسی برداشت کرے، وہ بے شک تمسخر سنے مگر اسلام کے ان مسائل پر مضبوطی سے قائم رہے جن مسائل پر آج مغرب ہنس رہا ہے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو وہ قربانی کرتا ہے.اور اگر وہ نہیں کرتا تو اس کی قربانی کے تمام دعوے محض دھوکا، محض فریب اور محض تمسخر ہیں.وہ احمدیت کیلئے قربانی نہیں کر رہا بلکہ احمدیت کو مغرب کی رو کے مقابلہ میں قربان کر رہا ہے.میں ایک سال کے اندر اندر ایک ہزار ایسے آدمی پیش کر سکتا ہوں نہ صرف احمدیوں سے بلکہ غیر احمد یوں میں سے جو اس بات کیلئے بالکل تیار ہیں کہ احمدیت کیلئے اپنی جان قربان کر دیں بشرطیکہ ان کے گلے پر چھری امریکہ یا انگلینڈ میں پھیری جائے.پس اس قربانی کیلئے جس کیلئے غیر بھی اپنے آپ کو پیش کر سکتے بلکہ پیش کرتے رہتے ہیں اپنے آپ کو تیار کرنا کوئی خوبی اور کمال نہیں.ایک شخص تو پچھلے دنوں چھ مہینے تک متواتر یہاں آتا رہا اور اس نے کئی سفر کئے.وہ بار بار یہ کہتا کہ مجھے خواب آئی ہے کہ میں اپنے آپ کو خدمت اسلام کیلئے پیش کر دوں.پہلے تو جب ہم نے اسے کہا کہ ہم

Page 166

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 161 جلد دوم احمدی مبلغ ہی باہر بھیجتے ہیں اور وں کو نہیں بھیجتے تو کہنے لگا میں حاضر ہوں میری بیعت لے لیجئے.مگر مجھے خواب آچکی ہے کہ آپ نے مجھے باہر بھیجا ہے اس لئے مجھے باہر بھیج دیجئے.میں نے کہا مجھے تو کوئی خواب نہیں آئی.جس دن مجھے آئی میں بھیج دوں گا.خواب کے معنے تو صرف اتنے ہی ہیں کہ آپ مجھ سے مشورہ لیں.سو میں آپ کو مشورہ دے دیتا ہوں کہ آپ چلے جائیں لندن میں یا چلے جائیں ،جرمنی، فرانس یا امریکہ میں.کہنے لگا نہیں میں تو سلسلہ کیلئے اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا آپ تو اپنے آپ کو وقف کرتے ہیں مگر میں تو آپ کو لینے کیلئے تیار نہیں.وہ بیچارہ چھ مہینے تک یہاں آتا رہا اور بار بار خطوں میں بھی لکھتا کہ مجھے خواب آئی ہے مگر میں نے اسے نہ بھیجا.وہ اپنے دل میں یہی کہتا ہوگا کہ بیعت کر کے بھی کیا فائدہ حاصل کیا.تو جس قسم کی قربانی ہمارے امریکہ یا انگلینڈ جانے والے مبلغ کرتے ہیں ان طبائع کو مستی کرتے ہوئے جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور جس کے ماتحت ہمارے مبلغوں میں بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں جو دو فیصدی میں شامل ہوں اور جو گھر سے باہر نہیں رہ سکتے بلکہ اپنی دماغی بناوٹ کے نتیجہ میں گھر سے باہر رہنا موت سمجھتے ہیں، اُن کی قربانی حقیقی قربانی نہیں کہلا سکتی.اور جن دو فیصدی کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی قربانی بھی مخصوص قربانی ہوگی اور محض ان کے نفس کیلئے ہوگی.پس عام حالات میں امریکہ یا انگلینڈ جانے والا مبلغ کسی چیز کی قربانی نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ بیمار ہو جائے یا سوائے اس کے کہ اس کے جذبات بہت نازک ہوں جو سو میں سے بمشکل دو کے ہوتے ہیں.جس چیز کی امریکہ یا انگلینڈ جانے والا مبلغ قربانی کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ وہاں کے مذاق کا مقابلہ کر کے اسلامی تعلیم کو ان لوگوں میں قائم کرے.اگر وہ ایسا کرے تو میں تسلیم کرتا ہوں کہ وہ قربانی کرتا ہے.اور اگر وہ نہیں کرتا تو اس کی قربانی کا دعویٰ محض جھوٹ اور محض فریب ہے.وہ ہمارے ملک کے مکانوں سے بہتر مکانوں میں رہتا ہے، وہ ہمارے ملک کی ریلوں سے بہتر ریلوں میں سفر کرتا ہے، وہ ہمارے ملک کی سوسائٹی سے بہتر سوسائٹی بلکہ دنیوی نقطہ نگاہ سے زیادہ روشن خیال لوگوں میں رہتا ہے،

Page 167

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 162 جلد دوم ان حالات میں کونسی قربانی ہے جو وہ کر رہا ہے.پس ہمارے ان مبلغین کو جو اس وقت جارہے ہیں اور ان مبلغین کو بھی جو انگلستان میں موجود ہیں یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ انگلستان اور امریکہ میں اگر کوئی قربانی ہے تو یہ کہ اسلامی تعلیم پر وہاں کے تمسخر کو برداشت کیا جائے اور اسلامی اصول پر مضبوطی سے اپنے آپ کو قائم رکھا جائے.اگر کوئی شخص ان کے تمسخر کو برداشت نہ کرتے ہوئے اسلامی اصول پر قائم نہیں رہتا تو ہرگز وہ کسی قسم کی قربانی نہیں کرتا.لیکن ایک مبلغ کی بے شک یہ قربانی ہوگی اگر وہ کسی مجلس میں جاتا ہے اور اس مجلس میں عورتیں آتی ہیں مگر وہ ان سے مصافحہ نہیں کرتا.عورتیں اس پر ہنستی ہیں اور کہتی ہیں اولڈ فیشن ، گدھا ایشیائی ، بیوقوف ہندوستانی مگر وہ ان تمام باتوں کو سنتا ہے اور کہتا ہے بے شک مجھ پر ہنس لومگر میرا مذہب مجھے یہی کہتا ہے کہ عورتوں سے مصافحہ نہ کرو.اسی طرح اگر کسی مجلس میں اس سے سوال کیا جاتا ہے کہ کیا اسلام میں ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنا جائز ہے؟ اور وہ بجائے اس رنگ میں جواب دینے کے کہ اصل میں اس کی بعض وجوہ ہیں یہ جواب دیتا ہے کہ بے شک اسلام کا یہ مسئلہ ہے اور تم اگر آج ان باتوں کو نہیں مانتے تو تمہیں گل ان باتوں کو ماننا پڑے گا اور لوگ اس پر ہنسی کرتے اور اس کی کی باتوں پر تمسخر اڑاتے ہیں.کہتے ہیں کیا عورتوں کے جذبات نہیں ہوتے ؟ کیا عورتوں میں قدرت نے احساسات نہیں رکھے؟ یہ کس قسم کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے ؟ مگر وہ اس تمام تمسخر کو برداشت کرتے ہوئے کہہ دے کہ خواہ تم کچھ کہو ٹھیک بات وہی ہے جو اسلام نے پیش کی.تو بے شک وہ قربانی کرتا ہے.اسی طرح اگر کسی موقع پر سود کا مسئلہ آ جاتا ہے اور وہ دلیری سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتا ہے اور باوجود ہر قسم کے اعتراضات کے ان کی ہاں میں ہاں نہیں ملاتا تو بے شک ہم کہیں گے وہ قربانی کرتا ہے.اسی طرح ورثہ کا مسئلہ ہے، انشورنس کا مسئلہ ہے، اسلامی طریق حکومت کا مسئلہ ہے اور اور ہزاروں ایسے مسائل ہیں خصوصا دہ مسائل جو عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں جیسے پردہ ہے یا تعدد ازدواج ہے یا عورتوں سے میل جول یا مصافحہ کرنا ہے یا کھانے پینے کے مسائل ہیں یہ چیزیں ایسی ہیں جن پر

Page 168

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 163 جلد دوم مغرب کے لوگ ہنستے ہیں.اگر ہماری طرف سے جانے والا مبلغ مغربی لوگوں کے اس تمسخر اور اس استہزاء اور اس ہنسی کو برداشت کرتا ہے اور مضبوطی سے اسلامی تعلیم پر قائم رہتا ہے تو وہ بے شک قربانی کر رہا ہے.لیکن اگر وہ کمزوری دکھاتا ہے تو وہ کوئی قربانی نہیں کر رہا بلکہ ایک تکلیف دہ جگہ سے نکل کر آرام والی جگہ میں بیٹھا ہوا ہے اور اس آرام اور آسائش کو اپنے لئے قربانی قرار دیتا ہے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کوئی پاگل بادشاہ تھا.اس کے دل میں یہ خیال بیٹھ گیا کہ میری بیٹی کی اب اتنی بڑی شان ہوگئی ہے کہ اس کی شادی آسمان کے کسی فرشتہ سے ہی ہو سکتی ہے دنیا کے کسی انسان سے نہیں ہو سکتی.اتفاقاً ایک دن بگولے میں اڑتا ہوا ایک پہاڑی آدمی اس کے محل کے قریب آ گیا.لوگوں نے فوراً بادشاہ کو خبر پہنچائی.بادشاہ سن کر کہنے لگا یہی فرشتہ ہے جو آسمان سے اترا ہے میں اس سے اپنی بیٹی کی شادی کروں گا.وہ پہاڑی آدمی تھا، نہ کھانا جانتا تھا نہ پینا مگر ز بر دستی بادشاہ نے اپنی لڑکی کی اس سے شادی کر دی.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ اجازت لے کر اپنے ملک کو واپس گیا تو اس کی ماں اور دوسرے رشتہ دار جو عرصہ سے اس کے منتظر تھے اسے دیکھ کر رونے لگ گئے جیسا کہ ہمارے ملک میں عام دستور ہے.وہ کہنے لگا میں تجھے کیا بتاؤں مجھ پر کیا کیا ظلم ہوئے.اسے کھانے کیلئے صبح وشام پلاؤ دیا جاتا تھا وہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا کہ مجھے صبح و شام کیڑے پکا پکا کر کھلائے جاتے تھے اور اس طرح مجھ کو دکھ دیا جاتا.پھر بادشاہ کے ملازم اسے صبح و شام نرم گدیلوں پر لٹا کر چونکہ دبایا بھی کرتے تھے اس لئے کہنے لگا ماں مجھ پر صرف اتنا ہی ظلم نہیں ہوا بلکہ وہ صبح وشام میرے اوپر نیچے موٹے موٹے کپڑے ڈال کر مجھے کوٹنے لگ جاتے تھے.یہ سن کر ماں نے بھی زور سے چیخ ماری.وہ پھر بھی کہنے لگا اے ماں ! مجھ پر اتنے ظلم ہوئے مگر میں پھر بھی نہیں مرا.اس مثال میں پہاڑی آدمی نے اپنی جس قربانی کا ذکر کیا ہے اس سے زیادہ مغربی ممالک میں جانے والوں کی قربانی کی کوئی حیثیت نہیں.اگر وہاں کوئی قربانی ہے تو ان باتوں میں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اور اگر کوئی شخص ان باتوں میں تو قربانی

Page 169

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 164 جلد دوم نہیں کرتا اور دعویٰ یہ کرتا ہے کہ میں قربانی کر رہا ہوں تو وہ اپنے دعوئی میں جھوٹا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.ایک نامرد اگر کہے کہ میں عفیف ہوں تو اس کا دعوی کعفت کوئی حقیقت نہیں رکھے گا.یا ایک نابینا شخص اگر کہے کہ میں کبھی کسی غیر محرم پر نگاہ نہیں ڈالتا تو یہ اس کی کون سی خوبی ہے.خوبی اور قربانی اس وقت ہوتی ہے جب کسی شخص کے سامنے کوئی ناجائز بات پیش کی جائے اور وہ طاقت رکھنے کے باوجوداللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس میں حصہ نہ لے.پس محض انگلینڈ یا امریکہ میں چلے جانا کوئی قربانی نہیں.میں احمدیوں میں سے ایسے کئی پیش کر سکتا ہوں جو وہاں جانے کیلئے تیار ہیں بلکہ دو تین احمدی تو گزشتہ دنوں یہاں تک کہتے تھے کہ ہمیں آپ صرف سرٹیفکیٹ دے دیں ہم امریکہ میں مفت تبلیغ کرنے کیلئے تیار ہیں.اور میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال دو تین آدمی ایسے ضرور آ جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نہ تنخواہ مانگتے ہیں نہ سفر خرچ بلکہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں صرف سرٹیفکیٹ دے دیں تا امریکہ میں ہمیں داخل ہونے کی اجازت مل جائے اور وہاں کی جماعت کو کہہ دیا جائے کہ وہ ذرا ہمارا خیال رکھے.ہم نے اپنے اخراجات کا بھی انتظام کر لیا ہے آپ صرف اتنا کریں کہ ہمیں سرٹیفکیٹ دے دیں.پس خالی انگلینڈ یا امریکہ میں جانا کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ انسان اس روح اور اس ارادہ سے جائے کہ میں نے وہاں سچا اسلام پیدا کرنا ہے.مجھے افسوس ہے کہ مغربی ممالک میں اب تک سچا اسلام پیدا کرنے میں ہمیں پوری کامیابی حاصل نہیں ہوئی اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مبلغین صرف یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ دس ہیں یا پچاس سو آدمی ہمیں مسلمان دکھا دیں.وہ اس بات کی کوشش نہیں کرتے کہ ایک سچا اور صاف مسلمان خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کریں.حالانکہ ہمارے سامنے سو مسلمان پیش کر دینا کوئی بات نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے سامنے ایک سچا مسلمان پیش کرنا بہت بڑی بات ہے.پس مغرب میں جانے والے مبلغین میں سے ہم اسی کو صحیح قربانی کرنے والا سمجھ سکتے ہیں جو مغرب کی رو کا مقابلہ کرے.جو شخص اس روکا

Page 170

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 165 جلد دوم مقابلہ نہیں کرتا اسے حقیقی قربانی کرنے والا ہم ہر گز نہیں کہہ سکتے.یہ خواہش ہزاروں لوگوں کے دلوں میں پائی جاتی ہے کہ وہ امریکہ یا انگلینڈ جائیں اور سوائے ان دو فیصدی کے جن کے نزدیک وہاں کے تمام آرام و آسائش کے سامان گھر کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتے وہ یہاں ہل چلانا پسند کر لیں گے مگر امریکہ کی بجلی کو جس سے وہاں پر کام ہوتا ہے نا پسند کریں گے.اس قسم کے لوگوں کیلئے بے شک وہاں جانا بھی قربانی ہے مگر ہمارے پانچ سات مبلغوں میں سے کوئی ایک ایسا ہوگا ورنہ میچارٹی ایسے لوگوں کی نہیں ہے.میجارٹی ایسے ہی لوگوں کی ہے جو دنیوی آرام و آسائش والی جگہ میں جا کر قلیل آرام والی جگہ کو بھول جاتے ہیں.پس ان مبلغین کا استثناء کرتے ہوئے جن کی طبائع ایسی نازک واقع ہوتی ہیں اور جن کا مغربی ممالک میں جانا بھی ایک قسم کی قربانی ہے خواہ یہ جذباتی قربانی ہی ہے مادی نہیں کیونکہ ایسے شخص کو بہر حال وہاں کا آرام پہنچ رہا ہوتا ہے گو اس کے جذبات اور ہوں.اصل اور حقیقی قربانی یہ ہے کہ مغربی رو کا مقابلہ کیا جائے.اگر ہم اس رو کا مقابلہ نہیں کرتے تو یقینی طور پر ہم اس مقصد میں ناکام رہتے ہیں جس مقصد کے پورا کرنے کیلئے ہمیں بھیجا جاتا ہے یا جس مقصد کے پورا کرنے کیلئے ہم نے اپنے آپ کو پیش کیا تھا.پس اس امر کا کوئی سوال نہیں کہ وہاں ایک شخص مسلمان ہوتا ہے یا دو.اس امر کا کوئی سوال نہیں کہ تمہاری کوششوں کا نتیجہ اچھا نکلتا ہے یا برا.نتیجہ کے تم ذمہ دار نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ 1 اگر تم اسلام پر قائم رہتے ہو تو خواہ ساری دنیا اسلام پر قائم نہیں رہتی خدا تم سے یہ نہیں پوچھے گا کہ تم نے کیوں اس قدر کوشش نہ کی کہ وہ اسلام لانے پر مجبور ہو جاتی.لیکن اگر تم گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہو تو پھر خدا تم سے ضرور مواخذہ کرے گا.پس جو شخص وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنانے یا ان کو مسلمان کہلانے کے شوق میں اسلامی تمدن اسلامی احکام اور اسلامی اصول میں سے ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کو بھی نظر انداز کرتا ہے وہ خدا کیلئے لوگوں کو مسلمان نہیں بناتا بلکہ اپنے نام اور اپنی شہرت کیلئے ፡

Page 171

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 166 جلد دوم انہیں مسلمان بناتا ہے.پھر اگر اس راہ میں وہ مر بھی جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے حضور کسی اجر کا مستحق نہیں ہو سکتا.تاریخوں میں آتا ہے رسول کریم ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا جو جنگ میں کفار سے بڑے زور سے لڑ رہا تھا.مجھے صحیح یاد نہیں کہ احد کی جنگ تھی یا کوئی اور ، بہر حال ایک جنگ میں ایک شخص نہایت جوش سے لڑائی کر رہا تھا اور کفار کو قتل کر رہا تھا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اگر کسی شخص نے دنیا کے پردہ پر چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس شخص کو دیکھ لے.صحابہ نے جب یہ سنا تو وہ سخت حیران ہوئے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو شخص اس وقت سب سے زیادہ اسلام کیلئے قربانی کر رہا ہے وہ دوزخی ہو.ایک صحابی کہتے ہیں بعض لوگوں کے چہروں پر تر ڈر کے آثار دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس شخص کو نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا انجام نہ دیکھ لوں.چنانچہ وہ اس کے ساتھ ہو لئے یہاں کی تک کہ اسی لڑائی میں وہ زخمی ہوا.جب اسے میدانِ جنگ سے الگ لے جایا گیا تو شدید کرب کی حالت میں وہ اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکالتا جن میں خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور اس کے متعلق اظہار شکوہ ہوتا.لوگوں نے جب دیکھا کہ اس کی حالت نازک ہے تو انہوں نے اس کے پاس آنا شروع کیا اور کہنے لگے ابشِرُ بِالْجَنَّةِ } تجھے جنت کی بشارت ہو.مگر وہ اس کے جواب میں کہتا مجھے جنت کی بشارت نہ دو بلکہ دوزخ کی بشارت دو کیونکہ میں خدا کیلئے نہیں لڑا تھا بلکہ اپنے نفس کیلئے جنگ میں شامل ہوا تھا.اور کفار کا میں نے اس لئے مقابلہ کیا تھا کہ میں نے بعض پرانے بدلے ان سے لینے تھے.آخر جب درد کی شدت زیادہ ہو گئی تو اس نے زمین میں ایک نیزہ گاڑا اور اس پر اپنا پیٹ رکھ کر خود کشی کر لی.وہ صحابی جو اس شخص کا انجام دیکھنے کیلئے اس کے ساتھ لگے ہوئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ اس نے خود کشی کر لی تو وہ رسول کریم ﷺ کے پاس آئے.رسول کریم میں ہے اس وقت صحابہ میں لیٹے ہوئے تھے.اس صحابی نے آتے ہی بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کی کہ آپ اس کے رسول ہیں.رسول کریم ﷺ نے بھی فرمایا میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ

Page 172

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 167 جلد دوم خدا ایک ہے اور یہ کہ میں اس کا رسول ہوں.پھر آپ نے دریافت فرمایا تم نے یہ کلمہ شہادت کیوں پڑھا ہے؟ اس نے عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! جب آپ نے ایک شخص کے متعلق آج یہ کہا تھا کہ اگر کسی نے دنیا کے پردہ پر چلتا پھرتا دوزخی دیکھنا ہو تو وہ اس کو دیکھ لے تو مجھے محسوس ہوا کہ بعض لوگوں کے دل میں تر ڈر پیدا ہوا ہے.اس وجہ سے میں اس کے ساتھ ہی رہا تا کہ میں اس کا انجام دیکھوں.چنانچہ میں اب بتانے آیا ہوں کہ حضور کی بات درست نکلی اور اس نے خود کشی کر لی ہے.2ے تو دنیا میں انسان ادنیٰ سے ادنی چیز کیلئے بھی قربانیاں کر لیتا ہے.دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ وہ قربانی کس مقصد کیلئے کی جا رہی ہے.جب قربانی کسی اعلیٰ مقصد کیلئے کی جارہی ہو تو وہ قابل قدر ہوتی ہے.لیکن وہی قربانی جب اونی مقاصد کیلئے کی جائے تو اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں رہتی.ہجرت دیکھ لو کیسی اعلیٰ چیز ہے.مگر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ مہاجر بھی ایک درجہ کے نہیں ہوتے بلکہ لوگ کئی چیزوں کیلئے ہجرت کرتے ہیں.کوئی کسی عورت کیلئے ہجرت کرتا ہے، کوئی کسی کیلئے کوئی کسی کیلئے مگر فر ما یا اصل ہجرت وہی ہے جو خدا تعالیٰ کیلئے کی جائے.3 اس کے مطابق دنیا کے پردہ پر دیکھ لو عورتوں کی خاطر قربانیاں کرنے والے ملتے ہیں یا نہیں؟ ہائیکورٹ کے جوں کے فیصلے پڑھ کر دیکھ لو.بیسیوں کیس شائع ہوتے ہیں جن میں لوگ ایک دوسرے کا محض اتنی سی بات پر سر پھاڑ دیتے ہیں کہ فلاں عورت سے میں شادی کروں گا تم شادی نہیں کر سکتے.تو جذبات کی شدت میں انسان بعض دفعہ عورت کیلئے بھی اپنی جان قربان کر دیتا ہے.پھر کیا فرق ہے ان قربانی کرنے والوں میں اور اُن قربانی کرنے والوں میں جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کے دائیں بائیں اپنی جان دی.فرق صرف یہی ہے کہ ایک نے سفلہ جذبات کیلئے قربانی کی اور دوسرے نے اعلیٰ جذبات کے ماتحت قربانی کی.اسی طرح اگر کوئی دکھاوے کیلئے لوگوں کو نام کے مسلمان بنا تا اور محض تعداد پوری کر کے ہمیں دکھا دیتا ہے اور یہ کوشش نہیں کرتا کہ ان کے اندر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہو تو یہ بالکل جھوٹ ہوگا اگر ہم کہیں کہ وہ اسلام کیلئے قربانی کر رہا ہے کیونکہ جو کچھ اس نے پیدا کیا

Page 173

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 168 جلد دوم وہ اسلام چاہتا ہی نہیں.اسلام نے کب یہ کہا تھا کہ وہ ایسے لوگ پیدا کرے جو نام کے لحاظ سے تو مسلمان کہلائیں مگر اعمال کے لحاظ سے اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو نہ صرف یہ کہ وہ کوئی قربانی نہیں کرتا بلکہ اسلام کی فتح کو پیچھے ڈالتا ہے اس لئے کہ جو غلط راہ پر چلے ہوئے لوگ ہوں گے وہ آئندہ کیلئے اسلام کے راستہ میں روک بن کر کھڑے ہو جائیں گے.یہی وجہ ہے کہ میں آجکل اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ جو منافق ہیں ان کے متعلق لوگوں کو میرے پاس رپورٹ کرنی چاہئے تا کہ میں انہیں جماعت سے الگ کر دوں کیونکہ جو قادیان میں منافق ہیں یا بیرونی جماعتوں میں وہ مخلصین کے راستہ میں روک بن جاتے اور انہیں بھی قربانیوں سے پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں.پس چونکہ منافق آدمی اور لوگوں میں زہر پیدا کرتا اور مخلصوں کی جماعت کوست بنانے کے درپے ہوتا ہے اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے متعلق جماعت کو علم ہو اور وہ اس کے فتنہ سے محفوظ رہے.اسی طرح ایسی تبلیغ جس کے نتیجہ میں اسلامی تعلیم پر عمل نہیں ہوتا وہ اسلام کی فتح کو قریب نہیں کرتی بلکہ دور ڈال دیتی ہے.پس میں اپنے ان مبلغوں کو جو اس وقت امریکہ جا رہے ہیں اور ان کی مبلغوں کو بھی جو انگلینڈ میں کام کر رہے ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ اگر واقعہ میں مغرب کو جاتے ہوئے کوئی قربانی ہے تو وہ یہی ہے کہ صحیح اسلام کو وہاں قائم کیا جائے.ممکن ہے مبلغین میں سے بعض جذباتی آدمی ہوں اور اپنے گھر کو چھوڑنا پسند نہ کرتے ہوں اور میں نے جیسا کہ بتایا ہے دو فیصدی اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں، مگر پھر بھی ان کی قربانی جسمانی جذبات سے تعلق رکھنے والی ہوگی بیرونی دنیا سے تعلق رکھنے والی نہ ہوگی.اور ان کی قربانی بھی تبھی اصلی قربانی ہوگی جبکہ وہ اس رو کا مقابلہ کریں گے جو وہاں اسلام کے خلاف جاری ہے اور اسلام کو صحیح طریق پر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے.اگر وہ اسلام کی صحیح تعلیم پیش کرنے کی کے نتیجہ میں مسلمان نہیں ہوتے تو نہ ہوں مگر انہیں کھلے بندوں کہہ دیا جائے کہ سچی تعلیم یہی ہے.اور اگر وہ مسلمان ہونے کیلئے تیار ہوں تو پھر بھی انہیں صاف طور پر بتا دیا جائے کہ

Page 174

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 169 جلد دوم انہیں اسلام کی ان ان تعلیموں پر عمل کرنا پڑے گا.میں یہ تو نہیں کہتا کہ جب تک پہلے دن ہی کوئی شخص اسلام کی تمام تعلیموں پر عمل نہ کرنا شروع کر دے اسے احمدیت میں داخل نہ کرومگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ انہیں صاف طور پر کہہ دو کہ گو آج تم میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں مگر تمہیں ان باتوں کو چھوڑنا پڑے گا.اول تو ہم تم سے یہی امید کرتے ہیں کہ تم آج ہی کی ان باتوں کو چھوڑ دو گے لیکن اگر آج نہیں چھوڑ سکتے تو مہینہ، دو مہینے ، تین مہینے تک چھوڑ دو اس سے زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا.پس انہیں صاف طور پر کہہ دیا جائے کہ تم اسلام کی تعلیم کو اگر بچے طور پر ماننے کیلئے تیار ہو تو مانو ورنہ نہ مانو.اگر اس طرز پر کام کیا جائے اور دس سال تک بھی کوئی شخص مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں.ہمیں سال تک بھی کوئی مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں.تمہیں سال تک بھی کوئی مومن نہ ملے تو کوئی حرج نہیں.لیکن اگر اس قدر وضاحت سے اسلام کو پیش کر دینے کے بعد تمیں سال کے لمبے انتظار کے بعد تمہیں ایک مومن بھی مل جاتا ہے تو پھر وہاں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ شخص خود وہاں کے کیلئے معلم ، ہادی اور راہنما کا کام دے گا.لیکن اگر اس قسم کا ایک آدمی پیدا نہیں کیا جاتا اور نام کے ہزاروں مسلمان پیدا کر دیئے جاتے ہیں تو ان ہزاروں آدمیوں کی موجودگی میں بھی وہاں سے واپس آنا خطرہ سے خالی نہیں ہو سکتا.ہمارے مبلغوں کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں میں آج جس قدر فرقے پائے جاتے ہیں ان میں سے ہر فرقہ کسی نہ کسی کمزور مبلغ کی تبلیغ کا نتیجہ ہے.اس نے تبلیغ کی مگر تبلیغ میں کمزوری دکھائی اور بعض باتوں کو صحیح رنگ میں پیش نہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ اس کے گرد جمع ہو گئے اور ان لوگوں کے اثر سے اور لوگ پیدا ہو گئے اور ہوتے ہوتے وہ ایک فرقہ بن گیا.اس طرح اس فرقہ پر جس قدر سلامت ہوتی ہے اس کا ایک حصہ اس مبلغ کو بھی ملتا ہے جس کی کمزوری کے نتیجہ میں وہ فرقہ پیدا ہوا.آخر کوئی نہ کوئی کمزور مبلغ تھا جس نے بعض باتوں میں کمزوری دکھائی اور لوگوں کو ڈھیل دے دی.اس نے سمجھا کہ یہ معمولی بات ہے مگر لوگوں کیلئے اس کی کمزوری مہلک ثابت ہوئی اور وہ ایک

Page 175

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 170 جلد دوم نئے فرقہ کے رنگ میں رونما ہو گئی.آج جتنے شقاق مسلمانوں میں نظر آتے ہیں یہ بعض مبلغین کی کمزوری کا ہی نتیجہ ہیں.اسی طرح جو شقاق آج ہندو مذہب میں نظر آتا ہے یہ بھی کسی ہندو مبلغ کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو ہندو مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا.جو شقاق آج عیسائیت میں نظر آتا ہے یہ بھی کسی عیسائی مبلغ کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو عیسائی مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا.جو شقاق آج بدھوں میں نظر آتا ہے یہ بھی کسی بدھ مبلغ کی کی کمزوری کا نتیجہ تھا گو بدھ مذہب آج سچا نہیں مگر کسی وقت سچا تھا.غرض ان تمام فرقوں کی لعنتیں ان کمزور مبلغوں پر بھی پڑتی ہیں جو اس شقاق اور تفرقہ کے موجب ہوئے کیونکہ صال اس تفرقہ اور شقاق کی بنیاد انہی کے ہاتھوں سے پڑی.رسول کریم ﷺ نے اسی وجہ سے فرمایا ہے کہ جس شخص سے کوئی ہدایت پاتا ہے اس کی نیکیوں کا ثواب جس طرح اس شخص کو ملتا ہے جو نیکی کر رہا ہو اسی طرح ایک حصہ ثواب کا اس شخص کو بھی ملتا ہے جس کے ذریعہ اس نے ہدایت پائی ہو.اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جس شخص کے ذریعہ کوئی دوسرا شخص گمراہ ہوتا ہے اس کی گمراہی اور ضلالت کا گناہ جس طرح اسے ملتا ہے اسی طرح اس شخص کو بھی گناہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ گمراہ ہوا ہو.4 محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات میں یہ بات ہمارے لئے موجود ہے.اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 5 تمہارے لئے رسول کریم ﷺ کے وجود میں نمونہ پایا جاتا ہے.آپ نے تبلیغ شروع کی.چند لوگوں نے آپ کی تبلیغ سے متاثر ہو کر آپ کو قبول کر لیا مگر باقیوں نے انکار کر دیا.نہ مانا، نہ مانا، نہ مانا یہاں تک کہ سال گزر گیا، دوسرا سال گزر گیا، تیسرا سال گزر گیا ، چوتھا سال گزر گیا حتی کہ دس سال گزر گئے ، گیارہ سال گزر گئے اور لوگ انکار کرتے چلے گئے.ایک ظاہر بین شخص کی نگاہ میں اس کا مایوسی کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا مگر رسول کریم کے مایوس نہ ہوئے.تب اسی حالت میں مکہ کے لوگوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) بعض باتوں میں نرمی کر دیں تو ہم ان کے ساتھ مل جاتے ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ

Page 176

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 171 جلد دوم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) شرک کریں، ہم یہ نہیں کہتے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنا مذہب چھوڑ دیں.ہم صرف اتنا کہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال نہ کریں اور ان کی تحقیر اور تذلیل نہ کریں.کیا یہی وہ چیز نہیں جو مغرب میں ہمارے مبلغین کے سامنے پیش کی جاتی ہے؟ مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کیا جواب دیا ؟ یہی کہ باوجود اس کے کہ گیارہ سال کی لمبی مایوسی کے بعد امید کی جھلک دکھائی دی تھی ، گیارہ سال کی لمبی تاریکی کے بعد روشنی کی ایک شعاع نکلی تھی اور کفار صرف اتنی سی بات پر آپ سے ملنے کیلئے تیار تھے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کہنا اور انہیں برا بھلا کہنا چھوڑ دیا جائے کیونکہ اس سے ان کی ہتک ہوتی ہے.اور باوجود اس کے کہ اس تجویز کو پیش کرنے کیلئے انہوں نے ذریعہ بھی وہ اختیار کیا جو ہمارے مبلغوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا وہ ایک ایسے شخص کے پاس جاتے ہیں جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سب سے زیادہ محسن ہے.محمد ﷺ کی بچپن کی زندگی کے لمحات اس کے ممنونِ احسان ہیں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا ایک معتد بہ حصہ اس کے گھر سے کھائی ہوئی روٹیوں سے غذا حاصل کرتا رہا ہے اور محمد اے کا جسم سالہا سال تک اس کے دیئے ہوئے کپڑوں سے اپنے آپ کو ڈھانکتا رہا ہے.پھر کی نبوت کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ مذہبی طور پر وہ محمد ﷺ سے متفق نہ ہوا، ہر تکلیف میں وہ آپ کا ساتھ دیتا اور ہر مشکل میں وہ آپ کا ہاتھ بٹاتا، محمد اللہ کے ایسے محسن کے پاس وہ لوگ جاتے اور اسے کہتے ہیں کہ اب تک تو تم نے یہ خطر ناک غلطی کی کہ تم محمد کا ساتھ دیتے رہے اور اپنی قوم کی جڑیں کٹوانے میں تم اس کی مدد کرتے رہے مگر اب ہم اس کی باتوں کی برداشت نہیں کر سکتے.ہم اس بات کیلئے بالکل تیار ہیں کہ اس کے ساتھ مل جائیں مگر یہ ہم سے نہیں دیکھا جاتا کہ وہ ہمارے بتوں کو گالیاں دے.پس اگر وہ اس بات کو منظور کرے کہ ہمارے بتوں کو گالیاں نہ دے تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے.لیکن اگر وہ نہ مانے اور آپ بھی اس سے اپنا تعلق منقطع نہ کریں تو پھر آپ سے بھی ہمارے عليم تعلقات جاتے رہیں گے.

Page 177

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 172 جلد دوم رسول کریم ﷺ کے چچا جن کا اس واقعہ میں میں ذکر کر رہا ہوں ان کا نام ابوطالب تھا انہوں نے آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے! تجھے معلوم ہے کہ میں نے تیری خاطر اپنی قوم سے لڑائی کی.پھر تجھ کو معلوم ہے کہ تیری تعلیم سے تیری قوم کتنی متنفر اور کس قدر بیزار ہے.آج اس قوم کے بہت سے معزز افراد مل کر میرے پاس آئے تھے اور وہ کہتے تھے کہ تو صرف اتنی سی نرمی کر دے کہ بتوں کے متعلق سخت الفاظ کا استعمال چھوڑ دے.اگر تو اس بات کیلئے تیار نہ ہو تو پھر وہ کہتے ہیں کہ ہم ابو طالب سے بھی اپنے تعلقات منقطع کر لیں گے.تجھ کو معلوم ہے کہ میں اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ اپنے تعلقات اس سے منقطع کر سکتا ہوں.پس کیا تو میری خاطر اپنی تعلیم میں اتنی معمولی سی کمی نہیں کرے گا؟ یہ مطالبہ ایسے منہ سے نکلا تھا کہ یقیناً دنیوی لحاظ سے اس کا رڈ کرنا نہایت مشکل تھا.ہمارے مبلغ جو مغرب میں تبلیغ اسلام کیلئے جاتے ہیں ان کے سامنے اس قسم کی جذباتی تقریر کرنے والا کوئی صلى الله نہیں ہوتا.پس ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اُس وقت رسول کریم ﷺ کے کیا جذبات تھے.ایک طرف آپ کا یہ عقدِ ہمت تھا کہ زمین و آسمان مل سکتے ہیں مگر میں وہ تعلیم نہیں چھوڑ سکتا جس کی اشاعت کیلئے خدا تعالیٰ کی طرف سے میں مبعوث کیا گیا ہوں.اور دوسری طرف ابوطالب جو آپ کا نہایت محسن اور آپ کا چا تھا ، اس کے جذبات آپ کے سامنے تھے اور آپ چاہتے تھے کہ اس کے ان احسانوں کا جو اس نے آپ پر کئے اور اُن قربانیوں کا جو اس نے آپ کی خاطر کیں کسی نہ کسی صورت میں بدلہ دیں.لیکن خدا تعالیٰ کی تعلیم کے مقابلہ میں بندوں کا احسان کیا حقیقت رکھتا ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جاتی.ان جذبات کے تلاطم نے رسول کریم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہا دیئے اور آپ نے اپنے چچا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا میرے چا! میں آپ کیلئے ہر قربانی کرنے کیلئے تیار ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی تعلیم کی اشاعت میں میں کسی فرق اور امتیاز کو روا نہیں رکھ سکتا.اے چا! آپ کی تکلیف مجھے تکلیف دیتی ہے اور آپ کا دکھ مجھے دکھ دیتا ہے لیکن اس معاملہ میں اگر آپ کی قوم آپ کی مخالفت کرتی ہے اور آپ میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو مجھے چھوڑ الله

Page 178

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 173 جلد دوم دیجئے.باقی رہی نرمی کرنی سو خدا کی قسم ! اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر رکھ دے تو میں اس تعلیم کے پھیلانے میں کسی قسم کی کمی نہیں کروں گا صلى الله جو خدا نے میرے سپرد کی ہے.6 کتنی مایوسی کی گھڑیوں میں رسول کریم ﷺ کے سامنے ایک بات پیش کی گئی اور کس رنگ میں آپ سے ایک مطالبہ کیا گیا مگر رسول کریم می نے کتنا شاندار جواب دیا کہ معمولی حالات نہیں اگر کفار زمین و آسمان میں بھی تغیر پیدا کر دیں اور حالات ان کے ایسے موافق ہو جائیں کہ سورج پر بھی ان کا قبضہ ہو جائے اور نہ صرف مکہ میں یہ مجھے پناہ نہ لینے دیں بلکہ آسمان کے ستارے بھی ان کے ساتھ مل جائیں اور یہ سب مل کر مجھے کچلنے اور مجھے تباہ وبرباد کرنے کیلئے اکٹھے ہو جائیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کے حکم کو چھوڑنے کیلئے تیار نہیں.یہ وہ ایمان تھا کہ جب محمد عہ سے اس کا خدا تعالیٰ نے مظاہرہ کرایا تو اس کے بعد آپ کو حکم دیا کہ جاؤ ایک نئی زمین ہم نے تمہارے لئے تیار کر دی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاؤ.وہ زمین مدینہ تھی جہاں خدا تعالیٰ نے ایک ایسی جماعت کھڑی کر دی جس نے اسلام کیلئے اپنے آپ کو قربانیوں کیلئے پیش کیا اور اپنے دعوئی کو نباہا.یہ چیز ہے جس کی اس وقت بھی ضرورت ہے.میں نے مدتوں دیکھا مگر خاموش رہا، میرے کانوں نے سنا مگر میری زبان نہیں ہلی مگر ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ وقت آ گیا کہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اسلام کی اشاعت کیلئے کسی مداہنت اور کسی کمزوری کی قطعاً ضرورت نہیں.آج تم کو مغربیت کو کچلنے کیلئے کھڑا کیا گیا ہے نہ کہ مغربیت کی تقلید کرنے کیلئے.اگر تم مغربیت کو کچل نہیں سکتے تو بہتر ہے کہ تم اپنی شکست تسلیم کر لو.تم سے ایک بالا ہستی موجود ہے اس کی طرف اپنی نگا ہیں اٹھاؤ اور اس سے کہو کہ ہم ہار رہے ہیں تمام فتح اور کامیابی تیرے ہاتھ میں ہے تو آپ اپنے فضل سے ہمیں کامیابی عطا فرما.رسول کریم ﷺ کا نمونہ تمہارے سامنے ہے.آپ اپنی قوم کو منوانے کیلئے ہر گز تیار

Page 179

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 174 جلد دوم نہ ہوئے بلکہ آپ نے کہا تو یہ کہ بے شک زمین و آسمان میرے مٹانے کیلئے تل جائیں میں مداہنت نہیں کر سکتا.اسی وجہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیم دنیا میں قائم رہی اور با وجود اس کے کہ مسلمان بگڑ گئے آپ کی تعلیم آج تک محفوظ ہے.لیکن اور کسی قوم کی تعلیم مکمل طور پر محفوظ نہیں.کتنی چھوٹی سی بات ہے جس میں عیسائیوں نے تبدیلی کی کہ ہفتہ کی بجائے انہوں نے اتوار کو اپنا مقدس دن بنا لیا لیکن چونکہ ان کا قدم حضرت عیسی علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم سے منحرف ہو گیا اس لئے پاؤں پھسلنے کی دیر تھی کہ پھر ان کا کہیں ٹھکانا نہ رہا.آج ایک تعلیم کو انہوں نے چھوڑا تھا تو کل دوسری کو چھوڑ دیا اور پرسوں تیسری کو.بالکل اُسی طرح جس طرح رسہ کشی کا جب مقابلہ ہوتا ہے تو ایک فریق میں سے کسی کا پہلے چھوٹا سا انگوٹھا ہلتا ہے.اس انگوٹھے کے ہلنے کی دیر ہوتی ہے کہ یکے بعد دیگرے ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کے تمام قدم اکھڑنے شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک بھی ان میں سے رسہ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا.پس جس طرح ایک انگوٹھے کی جنبش کی وجہ سے ساری ٹیم کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں اسی طرح دینی امور میں بعض دفعہ ایک چھوٹی سی جنبش نہایت خطرناک نتائج پیدا کر دیا کرتی ہے اور در حقیقت وہی جنبش اصل چیز ہوتی ہے.بظاہر وہ ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے اور جسم کے قلیل حصہ کی جنبش ہوتی ہے مگر ساری دنیا کا نقشہ بدل دیتی ہے.یہی حال ہماری کوششوں کا ہے ہم میں سے بھی ایک شخص کی معمولی سی لغزش بسا اوقات اسلام کی فتح کو بہت پیچھے ڈال سکتی ہے اور اُس کی جنبش صرف اس کی ذات کیلئے ہی نقصان دہ نہیں بلکہ دین کیلئے بھی نقصان رساں ہو سکتی ہے کیونکہ ساری ٹیم اس کے پیچھے بھاگتی چلی جائے گی.پس وہ شکست اُس کی نہیں ساری قوم کی شکست ہوگی اور اس کا پھسلنا صرف اس کا پھسلنا نہیں ہو گا بلکہ ساری قوم کا پھسلنا ہوگا.پس میں اس وقت ان مبلغوں کو بھی جو امریکہ جا رہے ہیں اور ان مبلغین کو بھی جو مغرب میں موجود ہیں بغیر کسی خاص مبلغ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ مغرب

Page 180

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 175 جلد دوم میں تبلیغ اسلام کیلئے جانے والا اگر اپنے فرائض میں کوتاہی کرتا ہے تو میرے نقطۂ نگاہ سے وہ کوئی قربانی نہیں کر رہا اِلَّا مَا شَاءَ الله - اور إِلَّا مَا شَاءَ اللہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جن کے ذاتی حالات ایسے ہوں کہ وہ باہر جانا پسند نہ کرتے ہوں.ایسے لوگوں کو مستی کرتے ہوئے کہ وہ بہت ہی کم ہوتے ہیں عموماً یورپین ممالک میں جانے والوں کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ قربانی کر رہے ہیں.یوں تو انسان جب اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے طبعی طور پر تھوڑی دیر کیلئے اسے تکلیف ہوتی ہے.کانووکیشن دربار میں جب بادشاہ اپنے سر پر تاج رکھوانے کیلئے جاتے ہیں تو بعض کی آنکھوں میں اُس وقت بھی آنسو آ جاتے ہیں مگر وہ آنسو عارضی ہوتے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ ہشاش بشاش ہو جاتے ہیں.پس سوال ان آنسوؤں کا نہیں ہوتا جو روانگی کے وقت کسی شخص کی آنکھ سے ٹپکیں بلکہ سوال یہ ہوتا ہے کہ اس کے بعد اس کی کیا حالت ہوتی ہے..لڑکیوں کی جب شادی ہوتی ہے تو عموماً گھر سے روتی ہوئی جاتی ہیں مگر کیا کوئی کہ سکتا ہے کہ وہ قربانی کر رہی ہیں.صرف اس لئے کہ اُس وقت ان کے غم کے جذبات ہیں.جس وقت لڑکیوں کے آنسو بہہ رہے ہوتے ہیں ان آنسوؤں کے پیچھے ایک تسلی بھی موجود ہوتی ہے.اسی طرح جب کوئی مبلغ گھر سے روانہ ہو گا قدرتی طور پر اسے اپنے والدین اور رشتہ داروں کی جدائی کا غم ہو گا مگر یہ صدمہ اور غم بھی زیادہ تر اسی جگہ جانے میں ہوتا ہے جہاں جان کے متعلق کسی قسم کے خطرات ہوں.لیکن جہاں جان کے متعلق کوئی خطرہ نہ ہو وہاں یہ صدمہ اور غم بھی بہت ہلکا ہوتا ہے اور محض اس کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ شخص قربانی کر رہا ہے.غرض جہاں جہاں ہمارے مبلغ اس اصول کے ماتحت تبلیغ کریں گے انہیں گوا بتدا میں تکلیف ہوگی اور لوگوں سے اپنے عقائد منوانے مشکل ہوں گے مگر آخر وہ اپنا دبدبہ اور رعب قائم رکھنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور جو جماعت ان کے ذریعہ قائم ہوگی وہ صحیح اسلامی جماعت ہوگی.اور اگر کسی ملک کا ہدایت پانا اللہ تعالیٰ کے حضور مقدر ہی نہیں تو ہم کون انہیں ہدایت دینے والے ہیں.پس جو مبلغ اس وقت جا رہے ہیں ان کو بھی اور جو

Page 181

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 176 جلد دوم پہلے سے وہاں موجود ہیں ان کو بھی میں کہتا ہوں کہ اگر وہ اسلام کی تبلیغ کرنے کیلئے مغربی ممالک میں جاتے ہیں تو انہیں اسلام کی تعلیم پر وہاں عمل کرنا چاہئے اور اسلامی عقائد ان لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنے چاہئیں.اور اگر وہ اسلامی تعلیم کی تبلیغ نہیں کر سکتے تو پھر انہیں آنے بہانے بنانے کی ضرورت نہیں.وہ اپنے نفس کیلئے جارہے ہیں.لذت اور سرور حاصل کرنے کیلئے جارہے ہیں.اور یہ منافقت ہوگی اگر وہ کہیں کہ ہم اسلام کی تبلیغ کیلئے جا رہے ہیں.مومن صاف دل اور صاف گو ہوتا ہے اسے ہمیشہ سچی بات کہنی چاہئے اور سچی بات ہی دوسروں سے سنی چاہئے.پھر جو آئندہ ہماری طرف سے غیر ممالک میں مبلغ جائیں خصوصاً وہ جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں تربیت حاصل کر رہے ہیں ان کو بھی یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہاں سے جب بھی وہ نکلیں اس روح کو لے کر نکلیں کہ مغربیت کا مقابلہ کرنا ان کا فرض ہے.اگر وہ یہاں سے تعلیم حاصل کر کے جاتے ہیں لیکن مغربیت کے مقابلہ میں کمزوری دکھا دیتے ہیں اور بجائے مغربیت کو کچلنے کے اس کا اثر خود قبول کر لیتے ہیں تو ان کی مثال بالکل اس شخص کی سی ہوگی جسے اپنے متعلق خیال ہو گیا کہ میں بہت بڑا بہادر ہوں اور پھر اس نے چاہا کہ اپنے بازو پر شیر کی تصویر گدوائے تا کہ اس کی نسبت عام طور پر سمجھا جائے کہ وہ بہادر ہے.جب نائی نے شیر کی تصویر گودنے کیلئے اس کے بازو پر سوئی ماری اور اسے درد ہوا تو کہنے لگا کیا گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا کہ شیر کی دم گود نے لگا ہوں.اس نے کہا اچھا اگر شیر کی دم نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا رہتا کیوں نہیں.وہ کہنے لگا اچھا تو دم چھوڑ دو اور کوئی اور حصہ گودو.پھر جو اُس نے سوئی ماری تو اسے پھر درد ہوا.کہنے لگا اب کیا گودنے لگے ہو؟ کہنے لگا دایاں کان.اس نے پوچھا؟ اگر شیر کا دایاں کان نہ ہو تو آیا شیر رہتا ہے یا نہیں ؟ وہ کہنے لگا رہتا کیوں نہیں.اس نے کہا اچھا اسے بھی چھوڑ دو اور کوئی اور حصہ گودو.پھر اس نے بایاں کان گود نا چاہا تو پھر اس نے روک دیا.سرگودنا چاہا تو اسے روک دیا، یہاں تک کہ نائی نے سوئی رکھ دی اور کہنے لگا ایک حصہ نہ ہو تو شیر رہ سکتا ہے لیکن جب کوئی حصہ بھی نہ بنے تو شیر کی تصویر کس طرح بن

Page 182

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 177 جلد دوم سکتی ہے.تو بعض لڑکے جنہیں ان کے ماں باپ نے اس نیت اور اس ارادہ سے اس جگہ داخل کیا تھا کہ وہ اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کریں وہ اس روح سے چل نہیں سکے.اور بعض ماں باپ بھی اس روح سے کام نہیں لے سکے جس روح سے کام لینا ان کیلئے ضروری تھا.مگر یہ کوئی عجیب بات نہیں.ہرنئی چیز سے دو نظارے پیدا ہوا کرتے ہیں.بعض لوگ پہلے اس میں شامل ہو جاتے ہیں اور پھر نکل جاتے ہیں.اور بعض پہلے چیختے ہیں لیکن پھر خوشی سے شامل ہو جاتے ہیں.یہ دونوں ناقص روح رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں.کامل روح والے وہ ہوتے ہیں جو شروع سے ہی خوشی سے شامل ہو جاتے ہیں اور بالکل ناقص وہ ہوتے ہیں جو کبھی حصہ نہیں لیتے.پس کچھ لوگ جہاں ایسے ہوتے ہیں جو شروع میں ہی ساتھ شامل ہو جاتے اور چلتے چلے جاتے ہیں وہاں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پہلے شامل ہو جاتے اور پھر آہستہ آہستہ نکلنا شروع کر دیتے ہیں اور اسی قسم کا مظاہرہ بعض والدین اور بعض طالب علموں نے کیا ہے.پس میں تحریک جدید کے طلباء کو بھی اس طرف توجہ دلاتا ہوں اور انہیں نصیحت کرتا کی ہوں کہ ان کو اپنے سامنے ہمیشہ وہ مقصد رکھنا چاہئے جو اسلام کا منتہی ہے اور جس کیلئے تحریک جدید جاری کی گئی ہے.میں اس یقین اور وثوق پر اب قائم ہو چکا ہوں.ایسا ہی کی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جیسے دنیا میں کوئی مضبوط ترین چٹان قائم ہو کہ دنیا کا واحد علاج اس وقت مغربیت کا کچلتا ہے.جب تک ہم مغربیت کو کچل نہیں سکتے اُس وقت تک دنیا میں روحانیت قائم نہیں ہو سکتی.یہ ناسور ہے جو دنیا کو ہلاک کر رہا ہے اور جب تک اس ناسور کو کاٹ کر الگ پھینک نہیں دیا جائے گا دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا.منافقت اس سے ترقی کرتی ہے، کفر اس سے ترقی کرتا ہے، نافرمانی اس سے ترقی کرتی ہے، شرک اس سے ترقی کرتا ہے، مداہنت اس سے ترقی کرتی ہے، اباحت اس سے ترقی کرتی ہے، دہریت اس سے ترقی کرتی ہے.غرض یہ ساری بیماریوں کی جان ہے اور اس کے کسی ایک حصہ کو بھی باقی رہنے دینا ایسا ہی ہے جیسے طاعون یا ہیضہ کے بہت سے کیڑے تو مار دیئے جائیں مگر

Page 183

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 178 جلد دوم ہیضہ اور طاعون کے کچھ کیڑے محفوظ رکھ لئے جائیں.پس تحریک جدید کے طلباء کو یہ امر ہمیشہ اپنے مدنظر رکھنا چاہئے کہ ان کا مقصد مغربیت کی روح کو کچلتا ہے.بے شک بعض طالب علموں کے ماں باپ کے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خدمت دین کیلئے وقف کر دیں گے لیکن اصل قربانی یہ ہے کہ انسان ان ممالک میں تبلیغ کیلئے جائے جن ممالک میں جانا ہر قسم کے خطرات اپنے ساتھ رکھتا ہے.لیکن چونکہ جانا اپنے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ امام جہاں بھیجے وہاں جانا ضروری ہوتا ہے اس لئے دل میں ارادہ یہ رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کیلئے ہم ہر قسم کے خطرات قبول کرنے کیلئے تیار رہیں گے.خصوصیت سے جب کوئی مبلغ مغرب میں جائے تو اس کو ہمیشہ یہ امر اپنے مد نظر رکھنا چاہئے کہ مغربیت کو کچلنا اس کے فرائض میں داخل ہے.اگر وہ اس فرض کو ادا نہیں کرتا تو وہ اسلام سے تمسخر کرتا اور ہم کو بیوقوف بنانا چاہتا ہے لیکن ہم بیوقوف نہیں ہیں.بچپن میں ایک ہمارے استاد ہوا کرتے تھے.انہوں نے جس روز دیکھنا کہ ہم گھر سے مٹھائی لے کر نکلے ہیں تو دور سے ہی ہمیں دیکھ کر کہنا شروع کر دینا کہ میں مٹھائی نہیں کھایا کرتا.بچپن کی عمر تھی جب ہم ان کے منہ سے یہ الفاظ سنتے تو اچھل کر استاد صاحب سے چمٹ جاتے اور کہتے کہ ہم تو آپ کو مٹھائی کھلا کر ہی رہیں گے.جب ہم زیادہ اصرار کرتے تو انہوں نے اور زیادہ زور سے کہنا شروع کر دینا کہ نہ نہ میں نہیں کھاتا اور اپنے منہ کو خوب زور سے بھینچ لیتے اور کہتے خبر دار! جو میرے منہ میں مٹھائی ڈالی.ہم اس پر اور زیادہ زور سے مٹھائی ان کے منہ میں ڈال دیتے.انہوں نے تھوڑی سی مٹھائی کھا کر پھر منہ بھینچ لینا اور کہنا میں مٹھائی نہیں کھایا کرتا اور ہم نے پھر ان کے منہ میں مٹھائی ڈالنی شروع کر دینی.یہاں تک کہ وہ اس طریق سے ہماری ساری مٹھائی کھا جاتے اور بچپن کی عمر کے لحاظ سے ہم سمجھتے کہ ہم نے بڑا کا رنامہ کیا ہے.تو مغرب میں جانے والا مبلغ اگر مغربی روح کا مقابلہ نہیں کرتا تو اس سے زیادہ اس کی قربانی کی کوئی حقیقت نہیں جتنی قربانی مٹھائی کھاتے وقت ہمارا وہ استاد کیا کرتا تھا.میں نے جیسا کہ ابھی کہا ہے میں غیر احمدیوں میں سے ایک ہزار آدمی ایسے پیش

Page 184

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 179 جلد دوم کر سکتا ہوں جو اس قسم کی قربانی کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں.اگر تجربہ کرنا ہو تو تین چار دفعہ ”الفضل“ اور ”انقلاب میں اشتہار دے کر دیکھ لو اور لکھ دو کہ ہمیں امریکہ ، انگلینڈ یا جرمنی اور فرانس میں تبلیغ اسلام کیلئے مبلغ درکار ہیں.تمہیں چند ہی دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ اس کیلئے تمہارے پاس کتنی درخواستیں پہنچتی ہیں."1 مثل مشہور ہے کوئی پور بیا مر گیا اور اس کے بچوں کو سنبھالنے والا کوئی نہ رہا.اس کی بیوی نے بین ڈالنے شروع کئے کہ ہائے میرا خاوند مر گیا.اس نے فلاں سے ساٹھ روپے لینے تھے اب وہ کون لے گا؟ فلاں سے سو روپے لینے تھے وہ کون لے گا ؟ جب اس نے ئین ڈال کر اس طرح کہنا شروع کیا تو ایک پور بیا کو دکر آگے آ گیا.اور جب اس نے کہا ہائے فلاں شخص سے میرے خاوند نے ساٹھ روپے لینے تھے وہ کون لے گا ؟ تو وہ کہنے لگا اری ہم ری ہم.پھر وہ رونے لگی کہ فلاں سے سوروپیہ اس نے لینا تھا وہ کون لے گا ؟ وہ پھر کہنے لگا’ داری ہم ری ہم.عورت پھر کہنے لگی فلاں زمین اس کی تھی اب اس پر قبضہ کون کرے گا ؟ وہ کہنے لگا ”اری ہم ری ہم.پھر وہ عورت کہنے لگی اس نے فلاں کا دوسو روپیہ دینا تھا وہ کون دے گا؟ یہ سن کر پور بیا کہنے لگا کہ ارے بھئی ! میں ہی برادری میں سے بولتا جاؤں یا اور بھی کوئی بولے گا.تو اس قسم کی قربانی کوئی چیز نہیں.قربانی وہ پیش کرو جو حقیقی ہو.تحریک جدید کا مقصد ہی یہ ہے کہ تمہارے اندر قربانی کی روح پیدا کی جائے اور اعلیٰ قربانیوں کیلئے تمہیں تیار کیا جائے.لیکن چونکہ اعلیٰ قربانیوں کا یکدم مطالبہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے آہستہ آہستہ قربانیوں کا معیار بڑھایا جا رہا ہے تا کہ تمام جماعت ایک سطح پر آ جائے.عقلمند انسان ہمیشہ ربانی ہوتا ہے.اس لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ب كُونُوا رَبينَ 7 ربانی کے معنی ایسے شخص کے ہی ہیں جو پہلے چھوٹے سبق پڑھاتا ہے اور پھر بڑے.بعض نادان اور منافق کہا کرتے ہیں کہ جن قربانیوں کا تم دعوی کی کرتے ہو ان قربانیوں کو تم کر کے کیوں نہیں دکھاتے ؟ ان نادانوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ جن قربانیوں کی جماعت کو ضرورت ہے اور جن کے بغیر الہی سلسلے دنیا میں ترقی نہیں کیا

Page 185

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 180 جلد دوم کرتے انہی قربانیوں کی طرف تو میں اپنی جماعت کو لا رہا ہوں.جو شخص کہتا ہے کہ میں تمہیں چھت پر چڑھا دوں گا اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ پہلے پہلی سیڑھی پر چڑھائے اور پھر دوسری اور پھر تیسری سیڑھی پر.جو شخص ابھی پہلی سیڑھی پر ہے اسے چھت نظر نہیں آسکتا.لیکن اگر وہ ان سیڑھیوں پر چڑھتا چلا جائے گا تو آخر ایک دن چھت پر پہنچ جائے گا.جو کام اس کے وقت ہمارے سپرد کیا گیا ہے یہ کام ایک دن ہو کر رہے گا اور کسی کی طاقت نہیں کہ اس میں روک بن کر حائل ہو سکے.اگر احمدیت سچی ہے اور یقیناً کچی ہے تو جو کچھ تحریک جدید میں مخفی ہے یا ظاہر وہ ایک دن دنیا پر رونما ہو کر رہے گا.کئی باتیں تحریک جدید میں ابھی ایسی ہیں جو مخفی ہیں اور لوگ انہیں اس وقت پڑھ نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تحریک تفکر اور تدبر کے نتیجہ میں نہیں کی گئی بلکہ خدا تعالیٰ کے ایک مخفی الہام اور القائے ربانی کے طور پر یہ تحریک ہوئی ہے اور اس کے اندر ایسی ہی وسعت موجود ہے جیسے خدا تعالیٰ کے اور الہاموں میں وسعت موجود ہوتی ہے.پس جوں جوں جماعت قربانیوں کے میدان میں اپنے قدم آگے بڑھاتی چلی جائے گی خواہ میری زندگی میں اور خواہ میرے بعد اس میں سے ایسی چیزیں نکلتی آئیں گی جو جماعت کیلئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نیا قدم ہوں گی.اصول سب تحریک جدید کی سکیم میں بیان ہو چکے ہیں البتہ تفصیلات اپنے اپنے وقت پر طے ہو سکتی ہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے یونیورسٹی ایک کورس مقرر کر دیتی ہے اور اس کا کام ختم ہو جاتا ہے.آگے یہ طالبعلموں کا کام ہے کہ وہ جتنا جتنا کورس یاد کرتے جائیں اتنے اتنے امتحان میں وہ کامیاب ہوتے جائیں.اسی طرح اب ایک مکمل کورس جماعت کیلئے تیار ہو چکا ہے، ایک کامل سیکیم تمہارے سامنے پیش کر دی گئی ہے، ایسا مکمل کورس اور ایسی کا مل سکیم کہ جَفَّ الْقَلَمُ عَلَى مَاهُوَ كَائِنَّ قلم نے جو کچھ لکھنا تھا وہ لکھ دیا اور اس کی سیاہی سوکھ چکی.پس اب خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے جو راستہ مقرر کر دیا ہے اسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے سوا اب گمراہی کا راستہ تو ہے مگر ہدایت کا کوئی راستہ نہیں.

Page 186

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 181 جلد دوم ہے اسلام کے قیام کا اس زمانہ میں جو واحد ذریعہ ہے وہ اس تحریک میں آچکا ہے.اس میں عارضی تحریکیں بھی ہیں اور مستقل تحریکیں بھی.عارضی تحریکیں مختلف موقعوں پر تبدیل ہوتی چلی جائیں گی اور اس کے اصول بھی اس تحریک میں بیان ہو چکے ہیں.مثلاً ممکن.قادیان میں مکانات بنانے کی سکیم کا حصہ ہمیشہ کیلئے ویسا نہ رہے جیسے اس زمانہ میں ضروری ہے.یا امانت فنڈ کی تحریک ویسی نہ رہے جیسی اس وقت ہے.بالکل ممکن ہے آج سے دس پندرہ یا بیس سال کے بعد ان تحریکوں کی ضرورت بالکل جاتی رہے یا بہت حد تک کم ہو جائے.یا ممکن ہے کسی وقت ان حصوں کو بالکل بند کرنا پڑے اور پھر کسی دوسرے وقت خطرہ ہونے کی صورت میں دوبارہ ان حصوں کو شروع کر دیا جائے.ایسا ہو سکتا ہے لیکن بہر حال اس تحریک کے جو اصولی حصے ہیں وہ ہمیشہ قائم رہیں گے.پس تم جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم ہو یا د رکھو کہ تم تحریک جدید کے سپاہی ہو اور سپاہی پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.تمہارے نگرانوں کا فرض ہے کہ وہ تمہارے سامنے متواتر لیکچر دے کر تحریک جدید کی اغراض تمہیں سمجھائیں اور بتائیں کہ تحریک جدید کے بورڈنگ میں تمہارے داخل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ تم تحریک جدید کے حامل ہوا اور تمہارا فرض ہے کہ تحریک جدید پر نہ صرف خود عمل کرد بلکہ دوسروں سے بھی کراؤ.اس کی روح کو قائم رکھنا تمہارے فرائض میں داخل ہے.اور چونکہ تم ابھی بچے ہو اس لئے تمہارے نگرانوں کا فرض ہے کہ تمہیں وہ تمام باتیں بتا ئیں اور مسلسل لیکچروں کے ذریعہ تمہارے ذہن نشین کریں.مجھے یقینی طور پر معلوم ہے کہ سکول کے بعض افسر اس تحریک میں روک بنتے ہیں.لیکن تم کو یہ امر ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر تمہارا باپ بھی اس کے خلاف کوئی بات کہتا ہے یا تمہاری ماں بھی اس کے خلاف کوئی بات کہتی ہے تو جب تک تم احمدیت پر ایمان رکھتے ہو تمہیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس شخص کی زبان پر شیطان بول رہا ہے کیونکہ تم نے بیعت خلیفہ کی کی ہے اپنے باپ یا اپنی ماں یا اپنے استاد کی نہیں کی.اگر تم اس تحریک پر قائم نہیں رہ سکتے تو تمہیں سنجیدگی کے ساتھ اپنے ماں باپ کی

Page 187

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 182 جلد دوم سے کہہ دینا چاہئے کہ ہم اس تحریک پر عمل نہیں کر سکتے اور بورڈنگ سے اپنے آپ کو الگ کر لینا چاہئے.لیکن جو طالب علم اس تحریک پر قائم رہیں اور اپنے ماں باپ کی بات مان لیں اور سمجھیں کہ جب ان کی مرضی یہ ہے کہ ہم اس تحریک کے ممبر بنیں تو ہمیں اس تحریک پر عمل کرنے میں کوئی عذر نہیں تو پھر اس روح کے ساتھ کام کرنا چاہئے جس روح کا تحریک جدید پر عمل کرتے وقت اختیار کرنا ضروری ہے.اساتذہ کو بھی چاہئے اور انہیں بھی جولڑکوں کے نگران ہیں کہ متواتر ہفتہ میں ایک دو ایسے دیا کریں جن میں تحریک جدید کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے اور مختلف رنگوں میں اس کی وضاحت کی جائے.اسلام پر جو مصائب اس وقت آئے ہوئے ہیں، سلسلہ کیلئے جن قربانیوں کی اس وقت ضرورت ہے ان تمام باتوں کا ذکر کیا جائے اور پھر منافق جو اعتراض کرتے ہیں ان کا بھی ازالہ کیا جائے کیونکہ بچے کئی جگہ سے دھوکا کھا جاتے ہیں.ان لیکچروں اور تقاریر کے سلسلہ کو جاری رکھا جائے یہاں تک کہ جب طلباء اپنی تعلیم سے فارغ ہو کر یہاں سے جائیں تو خواہ وہ مبلغ ہوں یا نہ ہوں تحریک جدید کو قائم رکھنے والے ہوں.اب مجھے جو تحریک جدید کے متعلق مسلسل کئی خطبات ، کئی لیکچر اور کئی تقریریں کرنی پڑتی ہیں یہ در اصل اصول کے خلاف ہے.سال کے خطبات میں سے ستر استی فیصدی خطبات میرے ایسے ہی ہوتے ہیں جو تحریک جدید کے متعلق ہوتے ہیں اور یہ حالت اسی وجہ سے ہے کہ جماعت خود توجہ نہیں کرتی ورنہ اصل چیز تو یہ ہے کہ خلیفہ وقت جو نہی ایک بات کہے جماعت فوراً اس پر عمل کرنا شروع کر دے.پس تحریک جدید کے متعلق مجھے خطبات کہنے کی اس لئے ضرورت پیش آتی رہتی ہے کہ میں چاہتا ہوں اس تحریک کو جاری کرنے اور اس کو قائم رکھنے میں دوست میرے نائب بنیں اور وہ دنیا کے خواہ کسی حصہ میں رہتے ہوں اس تحریک کو زندہ اور قائم کرتے چلے جائیں.جس وقت ہماری جماعت میں اس قسم کے لوگ پیدا ہو گئے وہ دن ہماری کامیابی کا دن ہو گا.اور اگر ہم پورے زور سے اس تحریک کی اہمیت ، اس کے مقاصد اور

Page 188

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 183 جلد دوم اس کی اغراض لوگوں کے ذہن نشین کرتے چلے جائیں تو آج جو ہمارے سامنے بچے بیٹھے ہوئے ہیں انہی کے دلوں میں کل تحریک جدید کے متعلق اس قدر جوش اور اتنا ولولہ ہوگا کہ انہیں چین اور آرام نہ آئے گا جب تک کہ وہ اپنے دوستوں ، اپنے رشتہ داروں اور اپنے ہمسایوں کو بھی اس تحریک کا قائل نہ کر لیں.اور وہی دن ہوگا جو احمدیت کی فتح کیلئے قومی اور اجتماعی جد و جہد کا دن ہوگا.اس وقت تک ہماری جد و جہد ایسی ہے جیسے اسے دستے آدمی کی جدو جہد ہوتی ہے.قومی جدو جہد ہم اسے نہیں کہ سکتے.قومی جد و جہد ہماری اُس وقت شروع ہوگی جب تحریک جدید کے ماتحت ہماری جماعت کے تمام افراد کی زندگیاں آجائیں گی اور جب جماعت احمد یہ اُس چٹان پر قائم ہو جائے گی جس چٹان پر قائم ہونے کے بعد زندگی اور موت، امارت اور غربت کے تمام امتیازات مٹ جاتے ہیں.یاد رکھو قوموں کے احیاء اور قوموں کی زندگی میں انفرادی قربانی کوئی چیز نہیں بلکہ قوموں کی زندگی کیلئے جماعتی قربانی کی ضرورت ہوا کرتی ہے.بیرونی ممالک کے مبلغین میں سے اگر کسی مبلغ نے خطرات برداشت کئے اور اپنے نفس پر مصیبتیں جھیلیں تو بے شک ہم کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو ہمارا بہادر سپاہی مصائب اور خطرات کے اوقات میں بھی کیسا ثابت قدم نکلا.مگر اس کی جرات اور بہادری کو دیکھ کر ہمیں یہ کہنے کا حق ہرگز حاصل نہیں کہ دیکھو ہماری بہادر قوم.کیونکہ اس کی بہادری اس کے نفس سے تعلق رکھتی ہے، قوم کا حق نہیں کہ وہ مجموعی حیثیت سے اپنی طرف اسے منسوب کرے.لیکن بہادر سپاہی کامیابی حاصل نہیں کیا کرتے بلکہ بہادر قومیں کامیابی حاصل کیا کرتی ہیں.پس جب تک قومی لحاظ سے اپنی بہادری کا مظاہرہ نہ ہوا اور شاندار مظاہرہ نہ ہو اُس وقت تک قومی فتح حاصل نہیں ہو سکتی.فتح کا دن وہی ہو گا جب وہ طالب علم جو اس وقت ہمارے سامنے بیٹھے ہیں ان کے سامنے ان کے استاد اور ان کے نگران ان کے فرائض دہراتے رہیں اور انہیں یہ سبق پڑھاتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان سب میں قربانی کی روح پیدا ہو جائے.اور تحریک جدید ہی ان کا اوڑھنا ہو، تحریک جدید ہی ان کا بچھونا ہو،

Page 189

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 184 جلد دوم تحریک جدید ہی ان کی دوست ہو اور تحریک جدید ہی ان کی عزیز ہو، جب رات اور دن انہیں کسی پہلو بھی چین نہ آئے ، جب تک نہ صرف ان کے بلکہ ان کے رشتہ داروں ، ان کے دوستوں اور ان کے ہمسایوں کے کام کاج بھی تحریک جدید کے ماتحت نہ آجائیں.اور جب تک وہ اس یقین پر قائم نہ ہو جائیں کہ احمدیت تحریک جدید ہے اور تحریک جدید احمدیت ہے اُس وقت تک قومی فتح کا زمانہ نہیں آ سکتا.ہاں انفرادی فتح کا زمانہ آ سکتا ہے مگر انفرادی فتح یا انفرادی قربانی کوئی چیز نہیں.ہارنے اور شکست کھانے والی قوموں میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے انفرادی لحاظ سے بہت بڑی جرات اور بہادری دکھائی.ٹیپوسلطان مارا گیا کیونکہ اُس کی قوم نے اُس سے غداری کی لیکن اُس کا نام آج تک زندہ ہے.جس وقت وہ اسلام کی حکومت کے قیام کیلئے انگریزوں سے لڑ رہا تھا اُس نے نظام حیدر کو لکھا کہ میں تمہارے ماتحت ایک سپاہی کی حیثیت میں کام کرنے کیلئے تیار ہوں آؤ اور ہم دونوں مل کر انگریزوں کا مقابلہ کریں مگر نظام نے انکار کر دیا اور اُس نے خیال کیا کہ مجھے انگریزوں سے لڑائی کرنے کی کیا ضرورت ہے.پھر اُس نے حکومت ایران کو لکھا.پھر اُس نے ترکوں کو لکھا کہ بے شک ہندوستان ایک غیر ملک ہے لیکن یا درکھو! اگر ہندوستان سے اسلام مٹا تو تمہاری حکومتیں بھی مٹ جائیں گی.مگر انہوں نے بھی انکار کر دیا.تب وہ اکیلا انگریزوں سے لڑا.اور جب وہ انگریزوں سے لڑ رہا تھا تو اُس کے اپنے بعض جرنیلوں نے پیچھے سے قلعہ کے دروازے کھول دیئے اور انگریز اندر داخل ہو گئے.اُس کا ایک وفادار جرنیل دوڑتا ہوا آیا اور کہنے لگا انگریز قلعہ کے اندر داخل ہو گئے ہیں.وہ اُس وقت دو فصیلوں کے درمیان لڑ رہا تھا ، بھاگنے کا کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ باہر بھی انگریزی فوج تھی اور اندر بھی.وہ ابھی آپس میں بات ہی کر رہے تھے کہ اتنے میں انگریزی افسر آ پہنچا اور اس نے فصیل کی دوسری طرف سے آواز دی کہ ہمیں اپنے ہتھیار دے دو، ہم تم سے عزت کا سلوک کریں گے.اُس وقت ٹیپو نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ اُس نے تلوار سونت لی اور یہ کہہ کر انگریزوں پر ٹوٹ پڑا کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے شیر کی

Page 190

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 185 جلد دوم ایک گھنٹہ کی زندگی بہتر ہے اور مارا گیا.بے شک اس سے ٹیپو کی بہادری اور جرآت ظاہر ہوتی ہے مگر اس میں ٹیپو کی قوم کی کوئی عزت نہیں.بے شک میسور کی عزت اس واقعہ سے بلند ہوگئی مگر مسلمانوں کا وقار کھویا گیا.بے شک ٹیپو ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گیا مگر کیا ٹیپو کے زندہ ہونے سے مسلمانوں یا ہندوؤں کو کوئی فائدہ پہنچا ؟ اگر آج میسور کے لوگ ٹیپو کے کارنامہ پر اپنا فخر جتائیں، اگر آج ہندوستان کے باشندے ٹیپو کے کارنامہ پر اپنا فخر جتائیں تو ان سے زیادہ بے غیرت اور کوئی نہیں ہوگا کیونکہ وہ خود اُس کی فتح کے راستہ میں حائل بنے.انہوں نے اُس سے غداری کی اور اُسے دشمنوں کے نرغہ میں اکیلا چھوڑ دیا.پس بے شک ٹیپو سلطان کیلئے یہ ایک فخر کی بات ہے مگر ہندوستانیوں کا اس میں کوئی فخر نہیں ، مسلمانوں کا اس میں کوئی فخر نہیں اور میسور کے لوگوں کا اس میں کوئی فخر نہیں.اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ نے جو قربانیاں کیں وہ صرف اُن لوگوں کیلئے ہی باعث فخر نہ تھیں جنہوں نے قربانیاں کیں بلکہ ساری قوم اس فخر میں شریک تھی کیونکہ وہ ساری قوم ان قربانیوں کیلئے تیار تھی.قرآن کریم خود شہادت دیتا اور فرماتا ہے مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ ؟ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنے والے مر گئے مگر یہ نہ سمجھو کہ وہ مر گئے تو باقی قوم یونہی رہ گئی بلکہ وہ قوم بھی موت کا انتظار کر رہی ہے اور دیکھ رہی ہے کہ کب خدا تعالیٰ کی راہ میں اسے اپنی قربانی پیش کرنے کا موقع ملتا ہے.یہ وہ چیز ہے جس پر کوئی قوم فخر کر سکتی ہے اور عزت سے اپنی گردن اونچی کر سکتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کو اختیار کرنے کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے.اگر قوم صرف انہی لوگوں کی قربانیوں سے زندہ رہ سکتی جنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں جائیں دیں تو صرف مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ ہی کہا جاتا اور وَمِنْهُم مَّنْ يَنْتَظِرُ کا فقرہ کبھی نہ کہا جاتا.مگر منْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ کے ساتھ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ کے الفاظ کا آنا بتا تا ہے کہ قوم مرنے والوں سے زندہ نہیں رہتی بلکہ اُن زندہ رہنے والوں سے زندہ رہتی ہے جو ہر وقت مرنے کیلئے تیار ہوں.پس حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید

Page 191

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 186 جلد دوم ہماری زندگی کا ثبوت نہیں، مولوی نعمت اللہ صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت نہیں.مولوی عبدالرحمن صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ، مولوی عبدالحلیم صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ، قاری نور علی صاحب شہید ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ، اسی طرح ہندوستان کے وہ بہت سے لوگ جو مخالفین کے مختلف مصائب کے نتیجہ میں شہید ہوئے ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ، مصر میں یا اور بعض علاقوں میں جو لوگ ہماری جماعت میں سے مارے گئے یا زخمی ہوئے وہ ہماری زندگی کا ثبوت نہیں.ہماری زندگیوں کا ثبوت اُن کی وہ روح ہے جو ہمارے زندوں میں پائی جاتی ہو.اگر افغان قوم میں وہ روح ہے جو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید نے دکھائی تو افغان قوم زندہ ہے اور اگر افغان قوم میں وہ روح نہیں تو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت صاحبزادہ عبداللطیف کی زندگی کا ثبوت ہے مگر ہماری زندگی کا ثبوت نہیں ہو سکتی.ہاں ! ہمارا اسی قسم کی قربانیوں کی خواہش کرنا، اس قسم کی قربانیوں کیلئے تلملانا اور اضطراب دکھانا ہماری زندگی کا ثبوت ہوسکتا ہے اور صحابہ کی زندگی کا ثبوت بھی یہی روح تھی.پس اسلام اور مسلمانوں کی زندگی مِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَةُ کے مصداق وجودوں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں کے وجود سے تھی جو وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ کے مصداق تھے.؟ اگر مرنے والے مر جائیں اور پیچھے منافق اور کمزور ایمان والے رہ جائیں تو یہ اُس قوم کی موت کی علامت ہو گی زندگی کی علامت نہیں ہوگی.اگر ان بہادروں کا وجود ہی زندگی کی علامت ہوتا جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان پر کھیل گئے تو خدا تعالیٰ انہیں کیوں مرنے دیتا.آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نبیوں کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے.کیا اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے سے ڈرتے ہیں؟ یا نبیوں کے خلفاء میں سے بعض کیوں ایسے ہوتے ہیں جنہیں طبعی موت دینے کا اللہ تعالیٰ وعدہ دیتا ہے.کیا اس لئے کہ وہ بزدل ہوتے ہیں؟ نہیں بلکہ اس لئے کہ اُن کی زندگی میں قوم کی زندگی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ صفحہ ھذا کی سطر 1 تا 6 میں لفظ ” ہیں" کی جگہ نہیں“ کا اندراج بمطابق الفضل 28 فروری 1961 ء کیا گیا ہے.(مرتب)

Page 192

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 187 جلد دوم جانتا ہے کہ یہ ٹیکے ہیں جن کے لگنے سے قوم کے جسم سے بیماری دور ہوتی ہے.اور اگر یہ لوگ مر گئے تو دنیا بھی مر جائے گی.پس مرنے والے کسی قوم کی زندگی کا ثبوت نہیں ہوتے بلکہ وہ زندہ رہنے والی قوم کی زندگی کا ثبوت ہوا کرتے ہیں جو ہر وقت مرنے کیلئے تیار ہوں.تحریک جدید کو جاری کرنے کی غرض بھی یہی ہے کہ تم میں زندگی پیدا ہو.مرنے والے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دیں اور جو باقی رہیں وہ وَمِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ کا مصداق - بنتے چلے جائیں.جس دن ہم اس قسم کے زندہ لوگ پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے و ہی دن ہماری زندگی کا دن ہوگا ورنہ اگر مرنے والا مر گیا اور اُس نے انفرادی طور پر جان دے دی تو اس سے قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پس یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری تحریک جدید کے افسروں اور اس کے باقی کارکنوں پر ہے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک جماعت نے اس تحریک کی اہمیت کو نہیں سمجھا.ممکن ہے ایک دو فیصدی سمجھے ہوں لیکن جماعت پر ایک عام نظر ڈالنے سے مجھے یہ نظر آتا ہے کہ اس تحریک کو 5 ، 6 فیصدی لوگوں سے زیادہ نے نہیں سمجھا حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ سو فیصدی لوگ اسے سمجھنے والے موجود ہوتے.بعض نے تو یہ سمجھا کہ مخالفت کی چونکہ اُس وقت ایک زبر دست رو اٹھی تھی اس لئے اُس کے مقابلہ کے لئے ایک عارضی سکیم جاری کی گئی تھی.حالانکہ وہ تو خدا تعالیٰ نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے ایک وقت پیدا کیا تھا.ہر نئی چیز کو پیش کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ ہو ا کرتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مدینہ گئے تو اس لئے نہیں کہ کفار کو ان کے کئے کی سزا دیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے ازل سے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ آپ مدینہ جاتے اور پھر کفار سے لڑائیاں ہوتیں اس لئے آپ کو خدا تعالیٰ نے مدینہ جانے کا ارشاد فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا کہ ابھی کئی باتیں ایسی ہیں جو میں تم پر ظاہر نہیں کر سکتا مگر جب وقت آئے گا تو تم پر ظاہر ہو جائیں گی بالکل اسی طرح جس طرح حضرت مسیح نے کہا.وہ وقت آیا مگر پھر بھی بہت سے نادانوں نے اسے نہیں سمجھا.کئی پاگل اور مجنون ابھی تک ایسے ہیں جو قدرت ثانیہ

Page 193

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 188 جلد دوم کے منتظر ہیں اور انہوں نے نہیں سمجھا کہ قدرت ثانیہ تو آ چکی.اور قدرت ثانیہ کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ وہ ہمیشہ آیا کرتی ہے.کیا خدا تعالیٰ کا سورج ایک دفعہ چڑھتا ہے اور پھر نہیں چڑھتا ؟ پھر کیسا نادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ میں ابھی سورج کے چڑھنے کا منتظر ہوں.جب تک کل والا سورج نہیں چڑھے گا میں آج کے سورج کے وجود کو تسلیم نہیں کر سکتا.کیا جس چیز کیلئے انتظار کا لفظ استعمال کیا جائے وہ دوبارہ نہیں آیا کرتی ؟ قرآن کریم ہمیشہ بتاتا ہے کہ کوئی چیز دائمی نہیں، خدائی سلسلہ اور روحانیت بھی دائمی نہیں ہوتی.خدا تعالٰی کا نام قابض اور باسط ہے.پس قبض کا آنا بھی ضروری ہے اور بسط کا آنا بھی ضروری ہے جیسا کہ رات کا آنا بھی ضروری ہے اور دن کا آنا بھی ضروری ہے.اگر سورج نے ایک ہی دفعہ چڑھنا ہوتا تو پھر ہمیشہ کیلئے تاریکی ہو جاتی لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا بلکہ وہ بار بار سورج چڑھاتا ہے.مگر وہ شخص جو سورج کی موجودگی میں کسی اور سورج کا انتظار کرتا ہے وہ بیوقوف ہے.اسی طرح وہ شخص جو اس وقت قدرت ثانیہ کا انتظار کرتا ہے وہ کی احمق اور گدھا ہے.قدرت ثانیہ آئی اور اس کا ظہور ہوا مگر افسوس کئی لوگ ہیں جنہوں نے اس کو شناخت نہیں کیا.میں دنیا کے ہر مقدس سے مقدس مقام پر کھڑے ہو کر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ قدرت ثانیہ کا جو ظہور ہونا تھا وہ ہو چکا اور وہی ذریعہ ہے آج احمدیت کی ترقی کا.میں بتا چکا ہوں کہ اس اسکیم میں بعض چیزیں عارضی ہیں.پس عارضی چیزوں کو میں بھی مستقل قرار نہیں دیتا لیکن باقی تمام اسکیم مستقل حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ محض اللہ تعالیٰ کے القاء کے نتیجہ میں مجھے سمجھائی گئی ہے.میں نے اسکیم کو تیار کرنے میں ہر گز غور اور فکر سے کام نہیں لیا اور نہ گھنٹوں میں نے اس کو سوچا ہے.خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ تحریک پیدا کی کہ میں اس کے متعلق خطبات کہوں.پھر ان خطبوں میں میں نے جو کچھ کہا وہ میں نے نہیں کہا بلکہ اللہ تعالیٰ نے میری زبان پر جاری کیا کیونکہ ایک منٹ بھی میں نے یہ نہیں سوچا کہ میں کیا کہوں.اللہ تعالیٰ میری زبان پر خود بخود اس اسکیم کو جاری کرتا گیا اور

Page 194

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 189 جلد دوم میں نے سمجھا کہ میں نہیں بول رہا بلکہ میری زبان پر خدا بول رہا ہے.اور یہ صرف اس دفعہ ہی میرے ساتھ معاملہ نہیں ہوا بلکہ خلافت کی ابتدا سے خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ یہی معاملہ ہے.میں نے قرآن شریف کی شاید پانچ ، سات یا دس آیات پر ان کے معانی معلوم کرنے کیلئے ایسا غور کیا ہوگا جسے لوگ غور" کہتے ہیں ورنہ ان آیات کو مستقلی کرتے ہوئے میں نے قرآن کریم پر کبھی غور نہیں کیا.اور اگر قرآن کریم کے مطالب معلوم کرنے کیلئے اس پر غور کرنا نیکی ہے تو میں اس نیکی سے قریباً محروم ہی ہوں کیونکہ قرآن کریم کی آیات کے معانی کے متعلق ہمیشہ مجھ پر القاء ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا مفہوم مجھ پر کھول دیتا ہے اور جس چیز کو میں خود نہیں سمجھ سکتا اللہ تعالیٰ آپ ہی آپ مجھے سمجھا دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ اب یوں کہو اور اب یوں کہو.غرض قرآنی معارف کے متعلق مجھے کبھی غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی.لیکن کئی نادان ہیں جو اس پر بھی اعتراض کر دیا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ مجھے آپ قرآن کے معارف سمجھاتا ہے.اس پر بعض لوگ اعتراض کرتے کہ پھر آپ لغت کیوں دیکھتے تھے؟؟ اور ممکن ہے کہ میرے متعلق بھی بعض لوگ یہ اعتراض کریں اس لئے یہ بتا دینا ضروری ہے که لغت قرآنی معارف معلوم کرنے کے لئے نہیں دیکھی جاتی بلکہ مختلف معانی معلوم کرنے کیلئے دیکھی جاتی ہے اور اصل چیز معارف ہیں نہ کہ معانی.پس قرآنی معارف کے لئے یا اس کی آیات میں ترتیب معلوم کرنے کے لئے مجھے کبھی غور نہیں کرنا پڑا.اِلَّا مَا شَاءَ اللهُ - جن آیات پر مجھے غور کرنا پڑا ہے وہ بہت ہی محدود ہیں.اسی طرح اس موقع پر بھی اللہ تعالٰی نے میرے ساتھ یہی سلوک کیا اور اسی وجہ سے میں کہتا ہوں کہ جس صداقت کا اس اسکیم کے ذریعہ میں نے اظہار کیا ہے وہ میرا کام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور اس کا فخر مجھ کو نہیں بلکہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہے جنہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ تک پہنچایا.یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہے جو پھر ہمیں اس کے دروازہ تک لے گئے.اور اگر میں نے اس پر کچھ وقت خرچ کیا تو وہ ایسا ہی ہے جیسے ایک پیغامبر ہو جو کسی دوسرے کا پیغام لوگوں تک پہنچا دے.

Page 195

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 190 جلد دوم میں نے بھی ایک پیغامبر کی حیثیت میں آپ لوگوں تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے.آسمان سے فرشتے اتر کر مجھ پر ایک بات ظاہر کر دیتے ہیں.اور وہی چیز جو دنیا کے لئے عقدہ لا نخل ہوتی ہے میرے لئے ایسی ہی آسان ہو جاتی ہے جیسے شیریں اور لذیذ پھل کھانے میں کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.بسا اوقات القائی طور پر مجھے آیات بتلائی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اس آیت کو فلاں آیت سے ملا کر پڑھو تو مطلب حل ہو جائے گا.اسی طرح تحریک جدید بھی القائی طور پر خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھائی ہے.جب میں ابتدائی خطبات دے رہا تھا مجھے خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ میں کیا بیان کروں گا.اور جب میں نے اس اسکیم کو بیان کیا تو میں اس خیال میں تھا کہ ابھی اس اسکیم کو مکمل کروں گا اور میں خود بھی اس امر کو نہیں سمجھ سکا تھا کہ اس اسکیم میں ہر چیز موجود ہے مگر بعد میں جوں جوں اس اسکیم پر میں نے غور کیا مجھے معلوم ہوا کہ تمام ضروری باتیں اس اسکیم میں بیان ہو چکی ہیں اور اب کم از کم اس صدی کیلئے تمہارے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب اس میں موجود ہیں.سوائے جزئیات کے کہ وہ ہر وقت بدلی جاسکتی ہیں.پس جماعت کو اپنی ترقی اور عظمت کیلئے اس تحریک کو سمجھنا اور اس پر غور کرنا نہایت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ جس طرح مختصر الفاظ میں ایک الہام کہہ دیتا ہے اور اس میں نهایت بار یک تفصیلات موجود ہوتی ہیں اسی طرح اس کا القاء بھی ہوتا ہے.اور جس طرح الہام مخفی ہوتا ہے اسی طرح القاء بھی مخفی ہوتا ہے بلکہ القاء الہام سے زیادہ مخفی ہوتا ہے.یہ تحریک بھی جو القائے الہی کا نتیجہ تھی پہلے مخفی تھی مگر جب اس پر غور کیا گیا تو یہ اس قدر تفصیلات کی جامع نکلی کہ میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ہمارے زمانہ کیلئے اس میں اتنا مواد جمع کر دیا ہے کہ اصولی طور پر اس میں وہ تمام باتیں آگئی ہیں جو کامیابی کیلئے ضروری ہیں.پس ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو تحریک جدید کو خود بھی سمجھیں اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھائیں اور اس بات کو مد نظر رکھیں کہ تحریک جدید کو مضبوطی سے قائم رکھنا ان کا

Page 196

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 191 جلد دوم فرض ہے.اس بارہ میں افسروں کی ذمہ داری نہایت اہم ہے اور ان کا فرض ہے کہ وہ طلباء کو بار بار اس تحریک کی اغراض اور اس کے مقاصد سمجھا ئیں.جس دن اس تحریک کو پوری طرح سمجھ کر ہمارے طلباء باہر نکلے اور اس روح کو لے کر نکلے جو تحریک جدید کے ذریعہ ان میں پیدا ہونی ضروری ہے یہ قومی طور پر ہمارا پہلا چیلنج ہو گا کہ اگر دنیا میں کوئی قوم زندہ ہے تو وہ ہماری زندہ قوم سے مقابلہ کر لے.آج اگر لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے تو کیا ہوا.جس دن نپولین سکول میں پڑھ رہا تھا کون سمجھ سکتا تھا کہ وہ کس چیز کیلئے تیار ہو رہا ہے.جس دن ہٹلر اور مسولینی اپنی قوموں میں نہایت چھوٹے درجہ پر ٹریننگ حاصل کر رہے تھے کوئی سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت جرمنی اور اٹلی کی قسمت کا سوال حل ہو رہا ہے؟ اسی طرح اگر تم اس تحریک کی اہمیت کو سمجھ لو تو گو دنیا اس بات کو نہ سمجھے مگر تمہارے اندر اسلام کی آئندہ فتوحات کا حل نظر آئے گا.اور اگر تمہارے ٹیوٹر، تمہارے سپرنٹنڈنٹ، تمہارے انچارج اور تمہارے استاد تقومی شعار ہوں اور وہ حکمتوں کو سمجھنے والے ہوں تو وہ تمہارے ذریعہ لڑکے پیدا نہیں کریں گے بلکہ بدری صحابہ کی طرح زندہ موتیں پیدا کریں گے اور تم اسلام کیلئے ایک ستون اور سہارا بن جاؤ گے.کتنا عظیم الشان کام ہے جو تمہارے سامنے ہے.تم جو اتنی معمولی سی بات پر خوش ہو جاتے ہو کہ فلاں جگہ کبڈی کا میچ تھا جس میں ہم جیت گئے یا فٹ بال کے میچ میں اگر اچھی تک (Kick) لگاتے ہو تو اسی پر پھولے نہیں سماتے.ذرا خیال تو کرو کہ تم جن کو یہ کہا جاتا ہے کہ سادہ زندگی بسر کرو ، جن کو کہا جاتا ہے کہ نہ اچھا کھانا کھاؤ نہ اچھا کپڑا پہنو، تمہیں اس بات کیلئے تیار کیا جارہا ہے کہ تم کفر اور مداہنت کی ان زبر دست حکومتوں کو جنہوں نے اسلام کو دبایا ہوا ہے پل کر رکھ دو، تم فلسفہ اور اباحت اور منافقت کی ان حکومتوں کو جنہوں نے خدائی الہام کو مغلوب کیا ہوا ہے ریزہ ریزہ کر دو.کیا تم نہیں سمجھ سکتے یہ کتنا عظیم الشان کام ہے جو تمہارے سپرد کیا گیا ہے.بچپن میں قوت واہمہ چونکہ زیادہ تیز ہوتی ہے اس لئے تم اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر کبھی اتفاقاً شام کے وقت تم دودھ پینے کیلئے نکلو، تمہیں دودھ کی دکان پر یہ نظارہ نظر آئے کہ ایک

Page 197

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 192 جلد دوم مشہور ڈاکو کسی آدمی کو مار رہا ہے ، فرض کرو جسے مارا جا رہا ہے وہ تمہارا بھائی ہے یا کوئی اور رشتہ دار تم چھوٹے سے بچے ہو آٹھ یا دس سال تمہاری عمر ہے اور وہ مضبوط اور علاقہ میں مشہور ڈاکو ہے جب تم دیکھتے ہو کہ وہ تمہارے کسی عزیز پر حملہ آور ہے تو تم جوشِ محبت میں اس پر حملہ کر دیتے ہو اور تمہارے چھوٹے سے بازوؤں میں اُس وقت ایسی طاقت آجاتی ہے کہ تم اس ڈاکو کو مار لیتے ہو.تو غور کرو اُس وقت تمہارے دل میں کتنا فخر پیدا ہو گا اور تم کس طرح لوگوں کو جگا جگا کر یہ نہ بتاؤ گے کہ فلاں ڈاکو کو آج ہم نے مار دیا.پھر تم سوچو کہ اگر ایک ڈاکو کے مارٹے پر تم اس قدر فخر کر سکتے ہو تو اُن لاکھوں ڈاکوؤں کے مارنے پر جو اسلام کی متاع پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں، اُن فلسفیوں کی فلسفیت کو کچلنے پر، ان اباحت والوں کی اباحت اور اُن مداہنت والوں کی مداہنت کو صفحۂ عالم سے نابود کرنے پر جو اسلام ایسے قیمتی عزیز کے کمزور جسم کو دبا رہے اور اُس کے گلے کو گھونٹ رہے ہیں تمہارے دل میں کس قدر فخر پیدا ہو گا اور کس خوشی اور سرور سے تم اپنی گردن اونچی کر کے کہو گے کہ آج ہم نے شرک اور کفر کو نابود کر دیا.یہ چیز ہے جس کو اپنے سامنے رکھنا تمہارا فرض ہے.تم پور ڈار نہیں بلکہ تم خدا تعالی کے سپاہی ہوا اور تمہیں اس لئے تیار کیا جا رہا ہے کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جانیں دو.اگر تم سلسلہ اور اسلام کیلئے اور خلافت اور نظام سلسلہ کیلئے اپنی جانیں نہ دو گے تو تم بھی محض باتیں کرنے والے ٹھہرو گے.پس تم اسلام کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والے بنو اور منافقوں کی ہاں میں ہاں مت ملاؤ بلکہ انہیں کچلنے والے بنو.خواہ منافقانہ بات تمہارے باپ کے منہ سے نکلے یا تمہارے بھائی یا کسی اور عزیز کے منہ سے.صحابہ کے زمانہ میں ہمیں اس قسم کا نظارہ نظر آتا ہے.مدینہ میں ایک منافق نے جب یہ بات کہی کہ مہاجرین نے یہاں آ کر فتنہ و فساد مچا دیا ہے تو اُس شخص کا لڑکا رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا مجھے یہ بات سننے میں آئی ہے کہ میرے باپ نے کوئی ایسی بات کہی ہے جس سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے.

Page 198

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 193 جلد دوم يَا رَسُولَ اللہ ! آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اپنے باپ کا سرکاٹ کر آپ کی خدمت میں لے آؤں تا ایسا نہ ہو آپ کسی اور شخص کے ذریعہ اسے مروا دیں تو کسی مسلمان کے متعلق میرے دل میں برائی پیدا ہو جائے تو تم سے پہلے لوگوں نے اس قسم کا نظارہ دکھایا تو ہے اور قربانی کی شاندار مثالیں پیش کی ہیں.پس تمہیں بھی اگر سلسلہ کیلئے اس قسم کی غیرت کا مظاہرہ کرنا پڑے تو تمہیں اس قسم کی غیرت کے اظہار میں کسی قسم کا دریغ نہیں کرنا چاہئے.چونکہ تم میں ایسے کئی بچے ہوں گے جو گیارہ سال کی عمر رکھتے ہوں گے یا گیارہ سال کے قریب قریب ان کی عمر ہوگی اس لئے ممکن ہے تم کہو ہم اتنی چھوٹی عمر میں دین کیلئے کیا قربانی کر سکتے ہیں اس لئے میں تمہیں ایک گیارہ سالہ بچے کا واقعہ سناتا ہوں.رسول کریم ﷺ نے جب دعوی نبوت کیا اور لوگوں نے آپ کی باتوں کو نہ مانا تو آپ نے یہ تجویز کی کہ ایک دعوت کی جائے جس میں مکہ کے رؤسا کو اکٹھا کیا جائے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کی جائے.چنانچہ اس کے مطابق ایک دعوت کا انتظام کیا گیا جس میں مکہ کے رؤسا اکٹھے ہوئے مگر جب کھانا کھانے کے بعد آپ نے فرمایا کہ میں آپ لوگوں کے کو بعض باتیں سنانی چاہتا ہوں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں فرصت نہیں اور سب ایک ایک کرکی کے اٹھ گئے.اس پر رسول کریم ﷺ نے دوبارہ ایک دعوت کا انتظام کیا اور اب کی دفعہ یہ تجویز فرمایا کہ پہلے ہم انہیں اپنی باتیں سنائیں گے اور بعد میں دعوت کھلا ئیں گے.چنانچہ رو سا آئے اور بیٹھ رہے.رسول کریم ﷺ نے اس وقت ایک وعظ کیا جس میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے فرمایا خدا تعالی کی طرف سے ایک نعمت آئی ہے اور اس کو پھیلا نا میرا فرض ہے.کیا آپ لوگوں میں سے کوئی ہے جو اس انعام کا حصہ دار بنے اور کیا آپ لوگوں میں سے کوئی سعید روح ہے جو میرا ہاتھ بٹائے ؟ ان رؤسا نے جب یہ سنا تو خاموش رہے.مگر ایک گیارہ سال کا بچہ بھی وہیں بیٹھا تھا اس نے اپنے دائیں بھی دیکھا تو رؤسا کو خاموش پایا، پھر اُس نے اپنے بائیں دیکھا تو اس طرف کے رؤسا کے منہ پر بھی اس نے مہر سکوت دیکھی.اس نے دیکھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک آواز آئی اور دنیا

Page 199

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 194 جلد دوم میں سے کسی نے اسے قبول نہیں کیا اور اس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی آواز بغیر کسی جواب کے رہے.وہ ایک چھوٹا بچہ تھا مگر اس نظارہ کو دیکھ کر وہ برداشت نہ کر سکا.وہ کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں اپنے آپ کو اس خدمت کیلئے پیش کرتا ہوں اور اس تعلیم کے پھیلانے میں میں آپ کی مدد کروں گا.رسول کریم ﷺ نے اسے بچہ سمجھتے ہوئے اس کی بات کی طرف زیادہ توجہ نہ کی اور پھر انہیں ترغیب دی تا ان کی میں سے کوئی شخص مدد کیلئے اُٹھے.آپ نے پھر ان مردہ دلوں میں زندگی کی روح پھونکنے کی کوشش کی.پھر اسلام کے متعلق تقریر کی اور جب اپنی تقریر کو ختم کر چکے تو آپ نے پھر فرمایا کیا کوئی ہے جو خدا تعالیٰ کی آواز کو پھیلانے میں میری مدد کرے؟ پھر وہ تمام لوگ ساکت رہے اور پھر اس گیارہ سالہ بچہ نے دیکھا کہ مجلس میں کامل خاموشی ہے اور کوئی خدا تعالی کی آواز پر لبیک کہنے کیلئے تیار نہیں اس لئے پھر اس کی غیرت نے برداشت نہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی آواز بغیر جواب کے رہے.وہ گیارہ سالہ بچہ پھر کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا يَا رَسُولَ اللَّهِ! میں ہوں.آخر رسول کریم ﷺ نے جب دیکھا کہ وہی بچہ خدا تعالیٰ کی آواز کے جواب میں کھڑا ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا.یہ خدا تعالیٰ کی دین ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے اس سے محروم رکھتا ہے 10 ممکن ہے تم میں سے وہ بچے جو ابھی گیارہ سال کی عمر کو نہیں پہنچے بلکہ اُن کی سات یا آٹھ سال عمر ہے وہ اس واقعہ کو سن کر کہیں کہ ابھی تو ہم اس عمر کو نہیں پہنچے جس عمر میں قربانی کرنا انسان کیلئے واجب ہوتا ہے اور شاید وہ قربانی کرنا ان لڑکوں کا حق سمجھیں جو بڑی عمر یا کم از کم گیارہ سال عمر رکھتے ہوں اس لئے میں ایک ایسے بچے کا بھی تمہیں واقعہ سناتا ہوں جو اُسی عمر کا تھا جس عمر کے تم میں سے اکثر بچے ہیں.اس بچے کا باپ اپنی عمر کے نوے برس گزار چکا تھا کہ اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا.جب وہ لڑکا پانچ چھ سال کی عمر کو پہنچا تو اس کے باپ نے رویا دیکھا کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر رہا ہوں.اس لڑکے کے باپ کو خدا تعالیٰ کی باتوں پر بڑا یقین تھا اور اس نے اکثر خدا تعالیٰ

Page 200

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 195 جلد دوم کا کلام اترتے اور اسے سچا ہوتے دیکھا تھا.اس رؤیا کی بھی تعبیر تھی اور اس کا اصل مطلب در حقیقت کچھ اور تھا.مگر وہ خدا تعالیٰ پر بڑا یقین رکھنے والا انسان تھا اور اس نے کہا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے خواب میں ایک نظارہ دکھایا ہے میں اسی طرح کروں گا.اور اگر خدا تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے تو وہ آپ اس سے آگاہ کر دے گا.مگر اس نے سمجھا کہ یہ میری قربانی نہیں بلکہ میرے بچے کی قربانی ہے اور میرے اکیلے کا حق نہیں کہ میں آپ ہی اس پر عمل شروع کر دوں.بہتر ہے کہ میں اپنے بچے کے سامنے بھی اس کا ذکر کر دوں.وہ بچہ پانچ چھ سال کی عمر کا تھا ، جب باپ چلتا تو وہ دوڑ کر اس کے ساتھ قدم ملا سکتا تھا، معمولی رفتار کے ساتھ قدم نہیں ملا سکتا تھا، اس باپ نے اپنے بچے کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹے ! میں نے خواب دیکھا ہے اور وہ یہ کہ میں تجھ کو خدا تعالیٰ کیلئے ذبح کر رہا ہوں.اب تو بتا تیری کیا صلاح ہے؟ اس بچہ نے آگے سے یہ نہیں کیا کہ زور سے چیخ مار کر اپنی ماں سے چمٹ گیا ہو اور اُس نے کہنا شروع کر دیا ہو کہ میرا باپ پاگل ہو گیا ہے.اُس بچہ نے یہ نہیں کہا کہ ہاتھ جوڑ کر باپ کے آگے کھڑا ہو گیا ہو اور رونے لگ گیا ہو کہ ابا ! مجھے نہ مارو مجھے ڈر لگتا ہے.وہ دہشت کے مارے بے ہوش نہیں ہو گیا.اُس کے چہرے کا رنگ زائل نہیں ہوا بلکہ اُس نے یہ بات سن کر نہایت وقار اور نہایت متانت سے جواب دیا کہ يَابَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ 11 اے باپ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو حکم دیا گیا ہے اُس کے کرنے میں دیر کیا ہے اور مجھ سے پوچھنے کا سوال کیا ہے میں حاضر ہوں آپ مجھے ذبح کر دیں ، آپ دیکھیں گے کہ میں کوئی گھبراہٹ ظاہر نہیں کروں گا اور آپ آرام سے میرے گلے پر چھری پھیر لیں گے.باپ اُس کو جنگل میں لے گیا اور اُسے لٹا کر چاہا کہ اُس کے گلے پر چھری پھیر دے.اُس زمانہ میں بچوں کی قربانی دینے کی عام رسم تھی اور کی ایک مقصد اللہ تعالیٰ کا یہ حکم دینے سے یہ بھی تھا کہ بچوں کی قربانی کی رسم کو مٹادیا جائے کیونکہ اُس زمانہ میں قوموں میں یہ رواج تھا کہ وہ کبھی کبھی خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے اپنے بچوں میں سے کسی کو ذبح کر دیتے لیکن اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس رسم کو مٹائے.پس اُس باپ نے

Page 201

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 196 جلد دوم جب اپنے بچے کو لٹایا اور چھری نکال کر اس کے گلے پر اپنا ہاتھ رکھ کر چاہا کہ چھری چلا دے تو اللہ تعالیٰ نے معا اپنا دوسرا کلام نازل کیا اور فرمایا اے ابراہیم ! تو نے اپنی بات پوری کر دی.جا اور اب اپنے بیٹے کی جگہ ایک بکرا قربان کر دے کیونکہ اس بیٹے کو خدا تعالیٰ تیرے ہاتھ سے کسی اور طرح قربان کرانا چاہتا ہے.جانتے ہو وہ کیا قربانی تھی؟ وہ قربانی جو بعد میں ظاہر ہوئی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ جا اسماعیل اور اُس کی والدہ ہاجرہ کو مکہ کے میدان میں چھوڑ آ کیونکہ خانہ کعبہ کی حفاظت اور اُس کی عظمت کا کام اللہ تعالیٰ ان سے لینا چاہتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل اور اُس کی ماں ہاجرہ کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں مکہ کی جگہ چھوڑ آئے.اُس وقت وہاں کوئی آبادی نہ تھی ، ریت کا ایک میدان تھا جس میں میلوں تک نہ کھانے کیلئے کوئی چیز نظر آتی تھی اور نہ پینے کیلئے پانی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مشکیزہ پانی کا اور کھجوروں کی ایک تھیلی اُن کے پاس رکھی اور وہاں انہیں بٹھا کر واپس لوٹ آئے.جب آپ واپس آ رہے تھے تو اپنی بیوی اور بچے کی قربانی کو دیکھ کر ابراہیم کے جذبات میں جوش پیدا ہوا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے.بیوی کو چونکہ انہوں نے بتایا نہیں تھا کہ وہ انہیں ہمیشہ کیلئے اس بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑے جارہے ہیں، جب انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو وہ سمجھیں کہ یہ جوش جو پیدا ہو رہا ہے یہ دائی جدائی کا پیش خیمہ ہے.چنانچہ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہا ابراہیم ! تم ہمیں کہاں چھوڑے جا رہے ہو؟ یہاں تو نہ پینے کیلئے پانی ہے نہ کھانے کیلئے غذا، بے یار و مددگار، بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ کر جس میں نہ پینے کی کوئی چیز ہے نہ کھانے کی کوئی چیز تم ہمیں چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام جذبات کے وفور کی وجہ سے کوئی جواب نہ دے سکے.حضرت ہاجرہ نے پھر اصرار کیا اور پوچھا کہ بتاؤ تم کہاں جا رہے ہو؟ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام پھر کوئی جواب نہ دے سکے.آخر حضرت ہاجرہ نے کہا تم ہمیں کیوں چھوڑے کی جار ہے ہو ؟ کیا خدا کے حکم سے تم ایسا کر رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس کا بھی

Page 202

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 197 صل الله جلد دوم کوئی جواب نہ دے سکے.صرف انہوں نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں میں خدا کے حکم کے ماتحت ہی تمہیں یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں.حضرت ہاجرہ نے جب یہ دیکھا تو فوراً بول اُٹھیں اِذًا لايُضَيِّعُنَا 2 1 اگر یہی بات ہے تو خدا ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.یہ بچہ جس کی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربانی کی وہی اسمعیل ہیں جن کی نسل سے محمد رسول اللہ سے پیدا ہوئے اور وہی اسمعیل ہیں جن کی نسل نے خانہ کعبہ کی حفاظت اور اُس کی تقدیس کیلئے اپنی عمر میں وقف کر دیں.پس یہ چھ سال کا بچہ تھا جس نے خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کر دیا.پھر اگر تم میں سے کوئی ایسا ہے جو چھ سال سے بھی کم عمر رکھتا ہے تو مجھے اپنے ایک بچے کا واقعہ یاد ہے.اُس کی عمر کوئی پانچ سال کی تھی.وہ ایک دفعہ مکان میں ایک جگہ کھڑا تھا اور میں دوسرے کمرہ میں تھا کہ مجھے آواز آئی کہ لڑکے اکٹھے ہو کر اسے چھیڑ رہے ہیں اور ڈرانے والی باتیں کر رہے ہیں.وہ اسے کہہ رہے تھے کہ اگر رات کا وقت ہو اور تمہیں ایک ایسے جنگل میں سے گزرنے کیلئے کہا جائے جس میں شیر، چیتے اور بھیڑیئے رہتے ہوں تو کیا تم ڈرو گے نہیں ؟ وہ کہنے لگا ہاں ڈروں گا.پھر لڑکوں نے مختلف لوگوں کے نام لئے کہ اچھا اگر فلاں کی کہے تو تم وہاں ٹھہرو گے یا نہیں ؟ وہ کہے نہیں.آخر ایک نے کہا اگر تمہارے ابا تمہیں کہیں کہ اس جنگل میں رات کو ٹھہر و تو کیا تم ٹھہرو گے یا نہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں.آخر ایک نے کہا اگر خدا کہے تو ؟ مجھے خوب یاد ہے اُس نے آگے سے یہی جواب دیا کہ اگر خدا کہے تو پھر ٹھہر جاؤں گا.تو چھوٹے چھوٹے بچوں میں بھی قربانی کا مادہ ہوتا ہے جسے اگر قائم رکھا جائے تو اس سے نہایت مفید تغیرات پیدا ہو سکتے ہیں.پس اگر تم پانچ چھ سال عمر کے بچے ہو تو تم بھی دین کی اعلیٰ خدمات سرانجام دے سکتے ہو.صرف اتنا ہونا چاہئے کہ تمہارے اندر سمجھنے کی قابلیت ہو اور تمہیں سمجھانے والے خاص توجہ سے کام لیں.اب بھی تم میں سے چھوٹے سے چھوٹے بچے اپنے دل میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم نے بڑے ہو کر خدا تعالیٰ کے دین کا کام کرتا ہے.اور اگر وہ اپنے دل میں فیصلہ

Page 203

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 198 جلد دوم کر لیں تو خدا تعالیٰ اس کے مطابق انہیں کام کرنے کی توفیق بھی دے دے گا.اس وقت نہ میری صحت مجھے اجازت دیتی ہے کہ میں اور تقریر کروں اور نہ وقت اس کی اجازت دیتا ہے ورنہ میں انبیاء علیھم السلام کو مستی کرتے ہوئے عام بزرگانِ دین کی اولا دوں کے ایسے نمونے بیان کر سکتا تھا جنہوں نے نہایت اعلیٰ دینی خدمات سرانجام دی ہیں.اور دنیوی لوگوں میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ہدایت نہ ملی دنیوی لحاظ سے انہوں نے نہایت شاندار کام کئے.مگر جو مثالیں میں نے بیان کی ہیں ان میں بھی تمہارے لئے اسوہ حسنہ اور اعلیٰ تعلیم موجود ہے.صرف توجہ اور عمل کی ضرورت ہے.پس میں پھر تم کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تمہارے اساتذہ، بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ، ٹیوٹروں اور تحریک جدید کے دوسرے تمام کارکنوں سے کہتا ہوں کہ یہ کام کوئی معمولی کام نہیں ایک عظیم الشان کام ہے جو ہمارے سامنے ہے.جس وقت انسان کوئی نیا کام شروع کرتا ہے ناواقف لوگوں کے ذریعہ شروع کرتا ہے جو آہستہ آہستہ اپنے کام میں اکسپرٹ (EXPERT) ہو جاتے ہیں.میں نے بھی تحریک جدید کا کام نا تجربہ کار ہاتھوں سے شروع کیا ہے اور ہم اس کام کے نتیجہ میں اکسپرٹ اور کام کے ماہر پیدا کرنا چاہتے ہیں.اگر کارکن اس بارے میں مستعدی اور ہوشیاری سے کام نہیں لیں گے اور اپنے فرائض تندہی سے ادا نہیں کریں گے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں سے محروم ہو جائیں گے.لیکن یہ کام بہر حال ہو کر رہے گا.خدا تعالیٰ کی باتیں دلوں پر اثر کئے بغیر نہیں رہتیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کام کو خوش اسلوبی سے کیا جائے اور ہم ناکام ہوں.اگر ہم ناکام ہوں تو یہ ہماری بد دیانتی اور ستی اور غفلت کا ثبوت ہو گا.اس امر کا ثبوت نہیں ہو گا کہ یہ کام خدا کی طرف سے نہیں تھا کیونکہ یہ کام یقیناً ہو سکتا ہے، ہو رہا ہے اور ہوتا چلا جائے گا.پس میں ان طالب علموں کو جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں داخل ہیں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں اور کارکنان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انہیں پوری طرح تیار کریں.یہاں تک کہ یہاں سے جو پود نکلے وہ مِنْهُم مَّن يُنْتَظِرُ والی جماعت ہو.جو

Page 204

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 199 جلد دوم مِنْهُم مَّنْ قَضى نَحْبَهُ والی جماعت کی قربانیوں کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے قابل ہو.اگر تم اس بات میں کامیاب ہو گئے تو یاد رکھو تم ضرور جیت کر رہو گے.خواہ میری زندگی میں یہ دن آئے یا میری موت کے بعد.مگر وہی دن اسلام کیلئے خوشی کا دن ہو گا ، وہی دن دشمنوں کی شرمساری کا دن ہو گا اور وہی دن مغرب سے سورج کے طلوع کرنے کا حقیقی دن ہو گا.جس دن اسلام نئے سرے سے دنیا پر غالب آئے گا، جس دن مغربیت پوری طرح کچل دی جائے گی ، جس دن اسلامی تہذیب اور اسلامی تمدن کی فوقیت دنیا پر ثابت ہو جائے گی.تب وہی منافق جو آج مغربیت سے ڈر رہے ہیں ، وہی منافق جو آج قربانیوں سے جماعت کے افراد کو روکتے اور یہ کہتے ہیں کہ جماعت کو تباہی کی طرف لے جایا جا رہا ہے وہی سب سے زیادہ شور مچائیں گے اور کہیں گے کہ مغربیت سے زیادہ بری اور کوئی چیز نہیں کیونکہ منافق لڑائی میں سب سے پیچھے رہتا ہے اور فخر میں سب سے آگے ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ میں تو پہلے ہی یہ کہا کرتا تھا اور اس طرح جھوٹ بول کر اپنی پچھلی حرکتوں پر پردہ ڈالنا چاہتا ہے.وہ کمزور طبائع جو آج مغربیت سے ڈر رہی ہیں اور وہ منافق جو جماعت پر دن رات اعتراض کرتے رہتے ہیں میں زندہ رہوں یا نہ رہوں مگر تم یاد رکھو ان لوگوں کو تم دیکھو گے کہ وہی جو آج یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مغرب کا مقابلہ کرنا کیسی نادانی ہے، جو آج یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جماعت کو ایک غلط راستہ پر چلایا جارہا ہے وہی احمدیت کی فتح کیلئے سب سے زیادہ شور مچائیں گے اور کہیں گے کہ ہم بھی ہمیشہ سے مغربیت کے مخالف تھے.اُس دن تم کو محسوس ہو گا کہ مومن اور منافق میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے.مومن قربانی کرتا اور پھر فخر کرنے سے اجتناب کرتا ہے اور منافق قربانی سے بھاگتا اور فتح کے وقت شور مچانے والوں میں سب سے آگے ہوتا ہے.پس میں پھر طلباء کونصیحت کرتے ہوئے اپنی اس تقریر کو جو لمبی نہیں ہونی چاہئے تھی کیونکہ مجھے کھانسی کی زیادہ تکلیف تھی لیکن جوش کی وجہ سے لمبی ہو گئی ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے امریکہ میں جانے والے مبلغین کو اور اُن مبلغوں کو بھی جو

Page 205

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 200 جلد دوم پہلے سے مغرب میں موجود ہیں صحیح رنگ میں اسلام کی خدمت کی توفیق دے اور وہ اسلامی تعلیم کا سچا نمونہ ہوں.بجائے دشمنوں کے اثر سے متاثر ہونے کے انہیں اسلام کی خوبیوں اور اس کے کمالات کے قائل کرنے والے ہوں اور ان کے ذریعہ جو لوگ وہاں اسلام میں داخل ہوں وہ ایسے ہوں جنہوں نے صدق دل سے اسلام کو قبول کیا ہو اور اُس کی خوبیوں کو دیکھ کر اپنے اعمال کو اسلامی رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں.اسی طرح وہ طالب علم جو تحریک جدید کے بورڈنگ میں ان آرزوؤں کے ساتھ داخل ہیں کہ انہیں خدمت احمدیت کی توفیق ملے اللہ تعالیٰ ان کی آرزوؤں کو بھی پورا کرے اور ان کے ماں باپ کو بھی اس تحریک کا صحیح مقصد سمجھنے کی توفیق دے.اور طالب علموں کو ہمت دے، توفیق دے اور عزم دے کہ وہ دین کی خدمت کر سکیں.اسی طرح وہ کا رکنوں کو بھی ہدایت دے اور انہیں سمجھ دے کہ وہ اس تحریک کو جاری کرنے کی اغراض سے واقفیت پیدا کریں.انہیں ہر قسم کی بددیانتی اور کوتا ہی عقل سے بچائے.ان کی کوششوں میں برکت ڈالے اور ان کی مساعی کو بار آور کرے تا وہ ایک ایسی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں جو خلیفہ وقت کی مددگار ہو اور جس کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس وقت اسلام کی زندگی وابستہ ہے.“ الفضل 19 ، 22 تا 26، 28 فروری 1961ء) 1 المائدة : 106 2 بخاری کتاب الجهاد والسير باب إِنَّ الله لَيُؤَيِّدُ الذِيْنَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِر صفحه 507،506 حدیث نمبر 3062 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :3 بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي صفحه 1 حدیث نمبر 1 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :4 مسلم كتاب العلم باب مَنْ سَنَّ سُنّةً حسنةً (الخ) صفحہ 1165 حدیث نمبر 6804 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 5 الأحزاب: 22

Page 206

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 201 جلد دوم 6: سيرة ابن هشام الجزء الاوّل صفحہ 284 285 مطبع مصطفی البابی مصر 1936ء 7 ال عمران : 80 8 الاحزاب : 24 9: السيرة الحلبية الجزء الثاني صفحه 306 مطبوعہ مصر 1935ء (مفہوماً) 10 تاريخ الامم والملوك لابي جعفر محمد بن جریر الطبرى المجلد الثانی صفحہ 403 تا 405 دارالفکر بیروت 1987ء 11: الصفت: 103 :12 بخاری کتاب احاديث الانبياء باب يزفون النسلان في المشي صفحه 561 حدیث نمبر 3364 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 207

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 202 جلد دوم دنیا کی تمام زبانیں سیکھو اور خدمت اسلام میں بڑی سے بڑی قربانی کو بیچ سمجھو 17 جون 1937ء کو بورڈ نگ تحریک جدید میں جمعیۃ فتیان الاحمدیہ کی طرف سے مکرم مولوی ناصرالدین عبداللہ صاحب مولوی فاضل کے اعزاز میں (جو ساڑھے سات سال کے عرصہ کے بعد کلکتہ اور بنارس سے کا دیہ تیر تھے اور دید بھوشن کی اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر کے واپس آئے ) دعوت دی گئی.جس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی شرکت کی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.بھی مولوی عبد اللہ صاحب نے آپ کے سامنے اپنے واقعات بیان کئے ہیں اور بتایا ہے کہ کس طرح اسلام کی خدمت کے ارادہ سے انہوں نے اپنے وطن کو چھوڑا، اپنے عزیز واقارب کو چھوڑا اور ساڑھے سات سال تک وطن سے باہر رہ کر سنسکرت اور دیدوں کی تعلیم حاصل کی.یہ عرصہ گو اپنی ذات میں لمبا نہیں دنیا میں اس سے بہت زیادہ لیے عرصہ تک باہر رہنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں لیکن جس صحت کی حالت میں انہوں نے یہ کام کیا اور جن مشکلات میں انہوں نے یہ کام دیا اور جس مالی تنگی میں انہوں نے یہ کام کیا اس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے اپنے ہم عمروں اور ہمجولیوں کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ مثال قائم کی ہے.اگر ہمارے دوسرے نو جوان بھی اس بات کو مد نظر رکھیں کہ آرام طلبی اور باتیں بنانے سے کچھ نہیں بنتا بلکہ کام کرنے سے ہی حقیقی عزت حاصل ہوتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں مختلف زبانوں کے ماہر نہایت

Page 208

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 203 جلد دوم سہولت کے ساتھ مہیا ہو سکتے ہیں.ہماری جماعت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت ہے جو مثیل مسیح ہیں.اور مسیح ناصری کے متعلق انجیلوں میں آیا ہے کہ ان کا بڑا معجزہ یہ تھا کہ ان کے پیروؤں اور حواریوں کو مختلف زبانیں بولنی آگئی تھیں.انجیل میں اس معجزہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ایک جلسہ میں حضرت مسیح کے چند حواری بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ اچانک وہ مختلف زبانوں کے فقرات بولنے لگ گئے اور ایک دوسرے سے مختلف زبانوں میں باتیں کرنے لگے.1 لیکن مختلف زبانوں کا جان لینا کوئی بڑی بات نہیں اور نہ اس سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے جب تک کہ انہیں تبلیغ کے لئے استعمال نہ کیا جائے.ان لوگوں نے اس پیشگوئی کا مطلب بھی یہی سمجھا.چنانچہ وہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور مسیح کی تعلیم کو دور دراز تک پہنچانے کے لئے انہوں نے مختلف زبانیں سیکھیں.پس یہی وہ معجزہ ہے جس کی پہلوں کو ضرورت تھی اور یہی وہ معجزہ ہے جس کی ہم کو ضرورت ہے.ہمیں ضرورت ہے کہ ہمارے نوجوان مختلف ملکوں میں نکل جائیں اور وہاں جا کر مختلف زبانیں سیکھیں.ہم دیکھتے ہیں کہ صرف ہندوستان ہی میں کئی سو مختلف زبانیں ہیں.اور اگر تمام ملکوں کی زبانوں کو شمار کیا جائے تو ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ جاتی ہے.جب تک یہ تمام زبانیں ہمارے نوجوان نہیں سیکھ لیتے اس وقت تک تمام ملکوں میں تبلیغ نہیں کی جاسکتی.میرا مقصد تحریک جدید سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے نوجوان دنیا کی تمام زبانیں سیکھیں تا کہ ہر ملک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی جا سکے.گو اس وقت بھی یہ مقصد ایک حد تک پورا ہو رہا ہے مثلاً چین میں ہمارے آدمی ہیں جو چینی زبان سیکھ رہے ہیں، جاپان میں ہمارے مبلغ جاپانی زبان سیکھ رہے ہیں ، جاوا میں ہمارے مبلغ وہاں کی زبان سیکھ رہے ہیں، اسی طرح سٹریٹ سیٹلمنٹ ، ہنگری، اٹلی ، سپین، امریکہ کے ایک حصہ ارجنٹائن اور افریقہ کے بعض حصوں میں ہمارے آدمی موجود ہیں جو ان ملکوں کی زبانیں سیکھ رہے ہیں.لیکن ابھی ہمارا بہت سا کام باقی ہے اور بیسیوں ملک ابھی رہتے ہیں.اس

Page 209

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 204 جلد دوم وقت تک ہم نے جو کچھ کیا ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں ایک چلو کے برابر ہے.اور ابھی بہت سے ملک ایسے موجود ہیں جن میں ہماری تبلیغ نہیں ہو رہی.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مبلغ ان ممالک کی زبانیں نہیں جانتے اور ہمارے پاس اتنے آدمی بھی نہیں کہ ان ملکوں میں چلے جائیں اور وہاں جا کر زبانیں سیکھیں اور تبلیغ کریں.پس میں جماعت کے نو جوانوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو جوش اور ولولہ مولوی عبد اللہ صاحب نے سنسکرت کی تعلیم کے حصول کے لئے دکھایا ہے اسے وہ بھی اپنے اندر پیدا کریں.پھر میں یہ دعا بھی کرتا ہوں کہ مولوی عبد اللہ صاحب نے نہایت کمزور صحت کی حالت میں جو تعلیم حاصل کی ہے وہ دوسروں کے لئے بھی مفید ہو اور صدقہ جاریہ کا کام دے.کیونکہ کسی کام کا ثواب اسی صورت میں حاصل ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی اس سے مستفیض کیا جائے.خالی کسی علم کا سیکھنا کچھ فائدہ نہیں دیتا.وہ شخص بڑا ہی خوش قسمت ہے جو دوسروں کو اس قابل بنائے کہ وہ اوروں کے لئے مفید ثابت ہو سکیں.پس مولوی صاحب کو چاہئے کہ وہ اپنا علم دوسروں کو سکھانے کے لئے بھی ویسی ہی محنت اور جانفشانی سے کام لیں جو انہوں نے اس علم کے سیکھنے میں دکھائی ہے.یہ نہایت ہی خوشی کی بات ہوگی اگر وہ اپنی زندگی میں اس علم کو دوسروں تک پہنچا دیں.اس کے بعد ان بچوں اور نو جوانوں کو مخاطب کرتا ہوں جن کی طرف سے آج یہ مہمان نوازی کی گئی ہے.مہمان نوازی سے میری مراد پانی اور شربت وغیرہ نہیں.ہمارے مہمان نواز وہ بچے ہیں جو اس وقت یہاں موجود ہیں اور مہمان نوازی سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے مکان میں آ کر ٹھہرے ہیں.یعنی میرے مخاطب بورڈ نگ تحریک جدید کے زیر انتظام تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہیں جو اپنے والدین کو چھوڑ کر یہاں آئے ہوئے ہیں.کچھ دن ہوئے بورڈ نگ تحریک جدید کے چند چھوٹے بچے میرے پاس آئے.میں نے ان سے پوچھا یہ تو بتاؤ تمہارے بورڈنگ تحریک جدید میں داخل ہونے کا مقصد کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہاں آنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم دین سیکھیں.میں نے کہا یہ تو

Page 210

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 205 جلد دوم تم اپنے گھروں میں بھی سیکھ سکتے تھے.اس پر انہوں نے کہا یہاں رہ کر تعلیم حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ دین کی تعلیم حاصل کریں.میں نے کہا یہ تمہارے ماں باپ بھی تمہیں سکھا سکتے تھے.غرض میں نے کئی ایک سوال ان سے کئے بالآ خر انہوں نے کہا آپ ہی بتائیے کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد کیا ہے.میں نے انہیں کہا کہ آپ اس کے متعلق اپنے دوسرے ساتھیوں اور سپرنٹنڈنٹوں سے پوچھ کر بتا ئیں.کچھ دنوں کے بعد جب وہ دوبارہ مجھ سے ملے تو انہوں نے کہا کہ ہمارے سپر نٹنڈنٹ صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد مساوات پیدا کرنا ہے.چونکہ امیر اور غریب لڑکے سب مل کر ایک رنگ میں یہاں رہتے ہیں اس لئے جو مساوات یہاں پیدا ہو سکتی ہے وہ گھر میں رہنے سے نہیں ہوسکتی.میں نے کہا گو یہ بھی درست ہے لیکن مساوات تبھی قائم ہو سکتی ہے جب تمہاری ہر بات مساوی ہو لیکن ابھی تمہارے کھانے میں اختلاف ہے، کپڑوں میں اختلاف ہے.بعض بچے ہر روز دودھ پیتے ہیں اور بعض ایسے ہیں جنہیں بہت کم دودھ میسر آتا ہے.غرض اختلافات ابھی موجود ہیں اور امتیاز کی دیوار ابھی تک نہیں مٹ سکی.میں یہ ضرور کہوں گا کہ جو جواب انہیں سکھایا گیا وہ معقول ہے کیونکہ مساوات جو وہ یہاں رہ کر حاصل کر سکتے ہیں گھروں میں رہ کر انہیں حاصل نہیں ہو سکتی.مگر اس کے علاوہ بھی اور چیزیں ہیں جو بورڈ نگ تحریک جدید کے قیام کی اغراض میں داخل ہیں.میں چاہتا تھا کہ سپرنٹنڈنٹ اور ٹیوٹروں کو توجہ دلاؤں کہ آخر وہ کون سی چیز ہے جو بچوں کو گھر پر میسر نہیں آسکتی اور جس کے حصول کے لئے انہیں یہاں لایا گیا ہے.اور وہ کون سی تعلیم ہے جس کا حاصل کرنا وہاں آسان نہیں.لیکن میں اس موقع پر تو بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وقت تھوڑا ہے.اس کے متعلق کبھی پھر یہاں آ کر بیان کروں گا.اس وقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سلسلہ کے نوجوانوں کو بورڈنگ تحریک جدید میں اس لئے داخل کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے بچے خادم بنیں اور سلسلہ کی تعلیم ان کے اندر گھر کر جائے.وہ اسلامی تعلیم کا زندہ نمونہ ہوں تا کہ جہاں جہاں وہ جائیں لوگ ان سے متاثر ہوں اور ان کے اسوہ کی

Page 211

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 206 جلد دوم تقلید اپنے لئے فخر سمجھیں.مگر یاد رکھو منہ کی باتوں سے کچھ نہیں بنتا.ہم نے دیکھا ہے کہ جماعت کے لوگوں میں سے بھی بعض نے اور دوسروں میں سے بھی بہتوں نے بڑے بڑے زبانی دعوے کئے.میری عمر اس وقت سینتالیس سال کی ہوگی.میں نے اپنی عمر میں بہت لوگوں کو باتیں کرتے ہوئے دیکھا ہے.وہ دعوے کرتے کہ بہت قربانیاں کریں گے.ان کا دعویٰ تھا کہ وہ خدا کے راستہ میں اپنی جانیں دے دیں گے لیکن جب ان کے دعوی کو عملی رنگ میں دیکھنے کا وقت آیا تو وہ تقویٰ میں بھی کچے ثابت ہوئے اور قربانی کے موقع پر بھی کچے ثابت ہوئے.پس ہمیں ایسے لوگوں کی ضرورت نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو ا زندگیوں کو عملی طور پر اسلام کے سانچے میں ڈھال لیں اور اسلام میں غرق ہو جائیں.ان کی قربانیاں کسی شرط کے ساتھ مشروط نہ ہوں کیونکہ ایمان وہ شے ہے جس میں کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے آپ سے بہت محبت ہے.اتنی محبت جتنی مجھے اپنی جان سے ہو سکتی ہے.اس پر رسول کریم ہو نے فرمایا عمر ! تم ابھی ایمان میں کامل نہیں ہوئے اور تمہارا ایمان اُس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک تم مجھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ محبت نہیں کرتے.حضرت عمر کے دل میں ایمان تھا وہ اُسی وقت بول پڑے یا رسول اللہ ! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں.یہی وہ ایمان ہے جو حقیقی ایمان کہلا سکتا ہے.شرطوں والا ایمان کوئی ایمان نہیں اور نہ وہ خدا کے نزدیک قبول ہوتا ہے.پس میں بچوں سے کہتا ہوں کہ ان کی یہاں آنے کی غرض یہ ہے کہ ان کے اندر اسلام کی محبت جاگزیں ہو جائے.وہ اسلام کے لئے ہر قربانی کرنے کو عین راحت اور ہر تکلیف کو آرام سمجھیں.کیونکہ ہم نے ہر ایک قربانی کر کے اسلام کو پھیلاتا ہے.پس کوئی قربانی ایسی نہ ہو جو تمہاری نظروں میں بیچ نہ ہو اور کوئی کام نہ ہو جو تمہیں بڑا نظر آئے.

Page 212

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 207 جلد دوم تمہیں صرف ایک چیز کی دھن ہو اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانا ہے.اس راستے میں تمہارے لئے کوئی مشکل مشکل نہ رہے اور کوئی مصیبت مصیبت نہ رہے.تم تمام تکالیف اور تمام مشکلات پر حقارت سے مسکرا دو.کیونکہ مومن کی نظر ان تمام چیزوں سے بالا تر ہوتی ہے.تمہارے دعوے محض زبان تک محدود نہ ہوں بلکہ تمہارے دلوں میں اسلام کی محبت جاگزیں ہو.تمہارے لئے کوئی تکلیف تکلیف نہ رہے اور تمام آگیں تمہارے لئے ٹھنڈی ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک دفعہ ایک نہایت سنگین مقدمہ میں مبتلا کیا گیا.یہ مقدمہ مشہور مارٹن کلارک عیسائی پادری کی طرف سے قتل کا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ اس قسم کے واقعات میں بچوں کو بھی دعا کے لئے فرما دیا کرتے تھے مجھ سے بھی کہا کہ دعا کرو.میں نے دعا کی اور انہی ایام میں ایک رؤیا دیکھا.ہمارے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا جس کی تنگ سی سیڑھیاں تھیں.میں نے رویا میں دیکھا کہ میں باہر سے آ رہا ہوں.جب میں گھر کے پاس آیا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے سامنے چند پولیس والے کھڑے ہیں اور مجھے اندر جانے سے روکتے ہیں.میں نے باہر سے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اندر بیٹھے ہیں اور پولیس کے آدمی آپ کے ارد گرد اوپلوں کا ڈھیر لگا رہے ہیں اور وہ ڈھیر اس قدر اونچا ہو گیا ہے کہ حضور اس کے پیچھے اوجھل ہو گئے ہیں.پھر وہ اس ڈھیر کو دیا سلائی سے آگ لگانا چاہتے ہیں لیکن میں چاہتا ہوں کہ آگ کو بجھاؤں.ایک سپاہی نے دیا سلائی جلائی مگر وہ جلی نہیں.اس نے پھر جلائی لیکن پھر بھی نہیں جلی.پھر جلائی پھر بھی نہیں جلی.غرض وہ یہ کوشش کر رہے ہیں کہ آگ لگا ئیں اور میں اس کوشش میں ہوں کہ بجھاؤں.اس کے بعد یکدم میری نظر ایک فقرہ پر پڑی جو یہ تھا خدا کے پیاروں کو کون جلا سکتا ہے.مجھے اب یاد نہیں رہا کہ پیاروں تھا یا ماموروں.بہر حال ان میں سے ایک لفظ تھا.جونہی یہ فقرہ میں نے پڑھا اُسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر نکل آئے اور میری آنکھ کھل گئی.

Page 213

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 208 جلد دوم پس مومن مصیبتوں سے نہیں ڈرا کرتے اور نہ مصیبتیں ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں.خدا تعالیٰ جب مومن کو ابتلا میں ڈالتا ہے اور وہ اسے بخوشی جھیلنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کا صلہ اس جہان میں یا اگلے جہان میں ضرور دیتا ہے.لیکن وہ جو جھوٹا ہوتا ہے اور جس کے دل میں ایمان نہیں ہوتا وہ نہ اس جہان میں کامیاب ہوتا ہے اور نہ اگلے جہان میں اسے کوئی صلہ ملتا ہے.یہ ضروری نہیں کہ قربانیوں کا صلہ اس جہاں میں ملے.پس جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس نے فلاں فلاں قربانیاں کی ہیں مگر اسے اس جہان میں اس کا صلہ نہیں ملا وہ حقیقی ایمان سے محروم ہے.وہ قربانیاں کرتا ہے لیکن وہی دن جس کی شام کو اس کے لئے جنت کے دروازے کھلنے والے ہوتے ہیں اپنے اوپر بند کر لیتا ہے.کس قدر بد بخت ہے وہ انسان کہ جب اس کی محنتوں کے پھل لانے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ضائع کر دیتا ہے.خدا کی راہ میں ہمیشہ وہی شخص کامیاب ہوتا ہے جو ہر قسم کے ڈر اور خوف - سے بالا ہو اور جو یہ فیصلہ کر لے کہ خواہ اسے اس دنیا میں صلہ ملے یا نہ ملے اور خواہ وہ دکھ سہتے سہتے مر جائے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں تکالیف برداشت کرنے سے ہر گز منہ نہیں موڑے گا.کتنا نادان ہے وہ شخص جو یہ بجھتا ہے کہ اس دنیا میں اسے بدلہ ملنا چاہئے.اگر ایک شخص یہاں تمام عمر تکلیف اٹھاتا ہے لیکن آخرت میں اسے نہایت عمدہ صلہ مل جاتا ہے تو یہاں کی تکلیف اس صلہ کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی اور وہ شخص گھاٹا پانے والا نہیں.پس اپنے اندر استقلال کی روح پیدا کرو کیونکہ استقلال کے بغیر صلہ سے بے پروائی ممکن نہیں.اگر اس دنیا میں بدلہ کا ملنا ضروری ہوتا تو کیا تم سمجھتے ہو کہ رسول کریم ﷺ کے چا حضرت حمزہ جن سے آنحضرت ﷺ کو انتہائی محبت تھی اور جنہوں نے جوانی کی عمر میں رسول کریم ﷺ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کیں اور اسی عمر میں شہید ہو گئے صلہ سے محروم رہے.پھر کیا حضرت عثمان بن مظعون صلہ سے محروم رہے جو کہ اسلام کی محبت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ ایک دفعہ جب ایک مجلس میں ایک دشمن اسلام نے ان کے

Page 214

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 209 جلد دوم چہرے پر تھپڑ مارا جس سے ان کی ایک آنکھ نکل گئی اور ایک شخص نے ان سے کہا میں نے نہیں کہا تھا کہ تم میری حفاظت میں آجاؤ مگر تم نے نہ مانا اور اپنی آنکھ ضائع کرائی.اس پر انہوں نے کہا اگر اسلام کی راہ میں میری دوسری آنکھ بھی ضائع ہو جائے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں.2 انہوں نے اسلام کی فتح کا ایک دن بھی نہیں دیکھا تھا.لیکن کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ خدا کے فضل سے محروم رہے اور انہیں کوئی صلہ نہیں ملا؟ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے وارث ہوئے.پس یہ مت خیال کرو کہ اس دنیا کی کامیابیاں حقیقی کامیابیاں ہیں.مومن کا کام یہ نہیں کہ وہ اس دنیا کے صلہ کی طرف نگاہ رکھے.اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ رکھتا ہوا کام کرتا چلا جائے.پس جاؤ اور اس یقین سے کام کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں تمہارے کاموں کا صلہ ضرور دے گا.اس دنیا کی کامیابیوں کی طرف نگاہ مت کرو.اگر تم پچاس سال تک کوشش کرتے رہو اور ناکام رہو یہاں تک کہ مرجاؤ تو مت سمجھو کہ تم نا کام رہے ہو.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اگلے جہان میں اس کا صلہ دے گا.ہمارا خدا رحیم اور کریم خدا ہے اس پر بدظنی مت کرو.بلکہ ہمیشہ اس پر یقین رکھو کہ وہ بدلہ کے دن ضرور بدلہ دے گا.پس خدا پر شک لائے بغیر قربانی کرو.بالکل ممکن ہے کہ تمہاری قربانیوں کا اس جہان میں صلہ نہ ملے لیکن خدا تعالیٰ کے وعدہ پر شبہ نہ کرو.تمہاری قربانیاں محض خدا تعالیٰ کے لئے ہوں اور تم خدا تعالیٰ سے سودا کرنے والے مت بنو.جب تمہاری ہر چیز اسی کی دی ہوئی ہے تو اس سے زیادہ بے حیائی کیا ہوگی کہ تم اسے کہو کہ آ اور ہمارے ساتھ سودا کر.جو شخص ایسا کرے گا خدا تعالٰی اسے دھتکار دے گا کیونکہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے دروازے سے راندہ جاتا ہے جو اس پر کسی قسم کا شبہ کرتا ہے اور اس سے سودا کرنا چاہتا ہے.لیکن جو شخص ایسا نہیں کرتا وہ یا تو اس دنیا میں بھی بدلہ پالیتا ہے یا پھر آخرت میں یقیناً پالیتا ہے.اگر وہ اس دنیا میں بدلہ نہیں پاتا تو آخرت میں اسے مل جاتا ہے.پس تمہیں چاہئے کہ بچے مومن بن جاؤ تاکہ تمہاری زندگی اسلام کے کام آنے والی ہوا اور خود تمہارے

Page 215

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) لئے بھی با برکت ثابت ہو.“ 210 ( الفضل 23 جون 1937ء) جلد دوم 1: رسولوں کے اعمال باب 2 آیت 1 تا 13 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور 2011ء 2 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 421 422 مطبوعہ دمشق 2005ء الطبعة الاولى

Page 216

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 211 جلد دوم مدرسہ احمدیہ کو نہایت ضروری نصیحت 13 جولائی 1937ء کو اساتذہ اور طلباء مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ کی طرف سے محترم مولوی عبد الرحمن صاحب مولوی فاضل کے اعزاز میں جو دعوت دی گئی اس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نیتشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو تقریر فرمائی اور ابھی تک غیر مطبوعہ تھی وہ حسب ذیل ہے:." آج جو پارٹی دی گئی ہے وہ ہماری شاخ دینیات کے طلباء کی طرف سے ہے اور میں سمجھتا ہوں چونکہ ان ایام کا سب سے اہم مبحث مدرسہ احمدیہ کے ہیڈ ماسٹر کا خروج ہے اور چونکہ قدرتی طور پر طلباء کے قلوب پر اس کا خاص اثر ہونا چاہئے اور ہو گا خواہ موافق ہو یا مخالف ، اس لئے اس وقت میں طلباء کو مخاطب کرتا ہوں.یہ قدرتی امر ہے جب کوئی کی شخص کسی محکمہ سے متعلق ہوتا ہے تو اس کے اچھے یا برے فعل کو اس محکمہ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھتی ہیں.خیالات اس کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں محکمہ سے یا فلاں مدرسہ سے تعلق رکھنے والے کی یہ حالت ہوئی اور اس کے نتیجہ میں نیک یا برا اثر پڑتا ہے.اگر نیک بات ہوئی تو نیک اثر ہوگا اور اگر بری بات ہوئی تو برا اثر ہوگا.اس مدرسہ کے طلباء کے لئے یہ بات جو واقعہ ہوئی ہے کسی صورت میں بھی ہوا ہم ہے.خواہ اس لحاظ سے کہ شیخ عبد الرحمن مصری کو اتنا لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں کام کرنے کا ملا خواہ اس لحاظ سے کہ انہوں نے کیسے اثرات طلباء کے قلوب پر چھوڑے.بعض اثرات ایسے باریک ہوتے ہیں کہ ہو سکتا ہے آج طلباء ان کو محسوس نہ کریں اور پھر کسی

Page 217

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 212 جلد دوم وقت ان کے نتائج نکلیں.کیونکہ اثرات کی بعض صورتیں مخفی اور بعض پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں.نہ ان کا وسعت علم ہوتا ہے اور نہ ان کا ازالہ کرتے ہیں.اس وجہ سے لوگوں کے قلوب پر قائم رہتے ہیں اور ایک عرصہ کے بعد ان کے نتائج رونما ہوتے ہیں.کل ہی مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے مجھے ایک خط لکھا جس میں بیان کیا ہے کہ ہم عرصہ سے محسوس کری رہے تھے کہ شیخ عبد الرحمن مصری میں تغیر آ رہا ہے.اس کی انہوں نے مثالیں بھی دی ہیں اور وہ ان کی زیر کی ظاہر کرتی ہیں.چنانچہ لکھا ہے شیخ صاحب سلسلہ کے بزرگوں کی کوئی نیک بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے.مثلاً مہت پور میں مباحثہ ہوا اس کے متعلق جب ان سے کہا گیا کہ مولوی اللہ دتا صاحب بہت کامیاب ہوئے تو انہوں نے یہ بحث شروع کر دی کہ مباحثہ میں کامیابی نہیں ہوئی.اسی طرح وہ اس بات پر بہت زور دیتے تھے کہ خلیفہ سے اختلاف رکھنا جائز ہے.مگر یہ ان کی بات ایسی ہی تھی جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے كَلِمَةُ حَقَّ أُرِيدَ بِهَا الْبَاطِلُ 1 طلباء کہاں کے مجتہد تھے کہ ان کے سامنے یہ بات پیش کی جاتی.خود اپنی ذات میں اختلاف ایک وسیع المعانی لفظ ہے.پھر اختلاف رکھنا بھی وسیع امر ہے.اور طالب علم چھوڑ کئی عالم بھی بسا اوقات اسے نہیں سمجھ سکتے.طالب علموں سے یہ بات کہنے کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتا تھا کہ ان کی نظروں سے خلیفہ کی اہمیت گرائی جائے.بچوں میں یہ بات نہیں ہوتی.لیکن اگر وہ یہ کہتے کہ استاد سے بھی اختلاف جائز ہے، جہاں وہ بٹھائے وہاں نہیں بیٹھنا چاہئے بلکہ دوسری جگہ جا بیٹھنا چاہئے ، جو کچھ پڑھائے وہ نہیں پڑھنا چاہئے بلکہ جو جی چاہے وہ پڑھنا چاہئے تو ان کو پتہ لگ جاتا کہ استاد سے ہی اختلاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ خلیفہ سے بھی نہیں کرنا چاہئے.یا لکھا ہے وہ حدیث جس میں آیا ہے کہ ہر نبی دوسرے نبی سے نصف عمر پاتا ہے اس کے متعلق پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے اور اسے غیر مبایعین کے مقابلہ میں کسی طرح پیش کیا جاتا ہے؟ تو جواب دیا کہ میرا یہ طریق ہے کہ جب پیغامیوں سے گفتگو کرتا ہوں تو خلیفتہ امسیح کی باتوں کو الگ رکھ دیتا ہوں.کیونکہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 218

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 213 جلد دوم کی کتابوں سے نبوت کا مسئلہ سیکھا ہے اور ہم انہی سے اس کا ثبوت پیش کریں گے.بے شک یہ درست ہے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے ہی آپ کی نبوت کا مسئلہ سیکھا ہے مگر ابھی وہ لوگ موجود ہیں جو جانتے ہیں کہ جب خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پر حملہ کیا تو ادھر ادھر چھپتے پھرتے تھے.اُس وقت میں نے ہی اس مسئلہ پر بخشیں کیں اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کو توجہ دلائی کہ اگر اس وقت ہم نے اس مسئلہ کی اہمیت نہ سمجھی تو بعد میں بہت مشکلات پیش آئیں گی.اس پر آپ نے مجھے اجازت دی کہ تم بھی کہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو.اور 1910ء میں میں نے اس پر تقریر کی.اُس وقت میں نے دیکھا کئی مخلص میرے پاس آئے اور انہوں نے آ کر کہا کہ اب کیا ہوگا.اور جب میں ان کو بتاتا کہ آج اگر اس مسئلہ کو نہ اٹھایا گیا اور اس کی اہمیت ثابت نہ کی گئی تو پھر مشکل ہوگی تو وہ نئے نور ایمان سے بھر کر جاتے.اُس وقت سوائے میرے اس مسئلہ پر کس نے قلم اٹھایا ؟ جب کام ہو جائے اُس وقت یہ کہنا کہ ہم نے یہ کیا وہ کیا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.سوال تو یہ ہے کہ یہ کہنے والے اُس وقت کہاں تھے جب نبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر حملہ ہوا تھا.غرض جب ہم یہ بحث کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نبی ہوں اور یہ آپ کی کتابوں میں موجود ہے.مگر کتابوں میں سے نکال کر جس نے پیش کیا وہ سوائے میرے کون ہے؟ خدا تعالیٰ نے یہ کام جس سے کرانا تھا اسی سے کرایا.کولمبس سے کسی نے کہا کہ امریکہ کا دریافت کر لینا بھی کوئی بڑی بات ہے.ہم اگر ادھر چلے جاتے تو ہم دریافت کر لیتے.اس پر اس نے ایک مجلس منعقد کی اور ایک انڈا نکال کر میز پر رکھ دیا اور سب سے کہا کہ کوئی اسے سیدھا کھڑا کر دے.اس کے لئے سب نے زور لگا یا مگر کوئی کھڑا نہ کر سکا.آخر کولمبس نے جیب میں سے سوئی نکالی اور اس سے انڈے میں سوراخ کیا اور جو لیس نکلی اس سے انڈے کو چپکا کر میز پر کھڑا کر دیا.یہ دیکھ کر سب کہنے لگے کہ یہ تو ہم بھی کر سکتے

Page 219

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 214 جلد دوم تھے.کولمبس نے کہا اس کا تو تمہیں موقع مل گیا تھا پھر تم نے کیوں نہ کیا.پس یہ کہنا کہ نبوت کا مسئلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں ہے اور ہم انہی سے پیش کرتے ہیں اس کے متعلق سوال یہ ہے پہلے کیوں نہ پیش کیا گیا اور اُس وقت کیوں میرے قلم اور میرے منہ کی طرف دیکھتے رہے؟ چاہئے تھا کہ خود سامنے آتے.شیخ صاحب اُس وقت کوئی چھوٹی عمر کے بچے نہ تھے.مگر کیا وہ سامنے آئے؟ ہر گز نہیں.یہ خدا کی دین ہوتی ہے وہ جس کو دے اسی کو ملتا ہے.پھر اگر اس حدیث کو لیں تو اس کے متعلق بھی سیدھی بات ہے.پیغامیوں کی طرف سے جب یہ حدیث پیش کی گئی تو میں نے جواب دیا کہ اگر یہ بات ہر نبی کے لئے ہوتی تو کس طرح درست ثابت ہو سکتی ہے.الفضل میں میں نے اس کے متعلق مضمون لکھا ہوا ہے اور ہم اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ خاص قسم کے دو نبیوں کی آپس میں یہ نسبت اور تعلق ہے یعنی ہر دو نبیوں کے درمیان یہ بات آئے گی اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں اور نہ اعتراض پڑ سکتا ہے.اسی طرح اور کئی باتیں اس طالب علم نے لکھی ہیں کہ اس قسم کے خیالات شیخ مصری صاحب سنایا کرتے تھے.ان کے علاوہ ممکن ہے بعض باتیں ایسی ہوں جو بچوں نے محسوس ہی نہ کی ہوں اور وہ خیالات ان کے دلوں میں رہ جائیں جو راسخ ہو جائیں اور بعد میں وہ سمجھیں کہ وہی سلسلہ کی تعلیم ہے اور انہیں پتہ بھی نہ ہو کہ یہ سلسلہ کی تعلیم نہیں بلکہ مصری صاحب کے خیالات ہیں اس لئے اس کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.یہ آزمائش خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے کہ کسی ادارہ کو کسی ایسے شخص کے ماتحت رکھا جائے جس کے خیالات اس جماعت کے خیالات کے خلاف ہوں جس نے وہ ادارہ قائم کیا ہو.اس وقت دیانت داری یہی ہے کہ جب اختلاف پیدا ہو جائے تو اس ادارہ سے الگ ہو جائے.ہم شیخ عبد الرحمن صاحب مصری سے اس لئے ناراض نہیں کہ وہ کیوں جماعت سے الگ ہو گئے بلکہ ہماری ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود انہوں

Page 220

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 215 جلد دوم نے علیحدگی اختیار نہ کی.جماعت نے اپنے بچے دین سیکھنے کے لئے ان کے پاس بھیجے.خود میں نے اپنے بچے بھیجے.اگر ان کے ان خیالات کا ہمیں پتہ ہوتا تو میں کیوں ان کے پاس اپنے بچے بھیجتا.اور بھی کوئی ماں باپ نہ بھیجتے.ہم نے تو دین سیکھنے کے لئے بھیجے.اگر کسی استاد کو دینی طور پر ہم سے اختلاف ہے اور پھر بھی وہ نوکری کرتا ہے تو ہر وہ پیسہ جو وہ ہم سے لیتا ہے حرام کا لیتا ہے اور حرام خوری کرتا ہے.اس بات کا ہمیں غصہ ہے اور اسی کی ہم سزا دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ہمیں دھوکا دیا ہم سے تنخواہ لے کر ہمیں نقصان پہنچایا.اسی طرح ڈاکٹر اسماعیل کو سزا دی گئی تھی کیونکہ وہ مخفی طور پر سرکاری افسروں سے ملتا اور ہمیں نقصان پہنچاتا.اس کے متعلق اس کی اپنی دستی تحریر موجود ہے.پس ہم ایسوں کو بائیکاٹ کی سزائیں دیتے ہیں کیونکہ بظاہر وہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں مگر خفیہ طور پر جماعت کو نقصان پہنچاتے ہیں.وہ ظاہر کچھ کرتے ہیں اور ان کے اندر کچھ اور ہوتا ہے.شیخ عبد الرحمن صاحب مصری کو جب اختلاف پیدا ہوا تھا تو ان کا فرض تھا کہ ہمیں اطلاع دیتے کہ تم نے مجھے بچوں کو دینی تعلیم دینے کے لئے مقرر کیا ہوا ہے اب مجھے یہ یہ اختلاف پیدا ہو گیا ہے.اگر اس اختلاف کے باوجود مجھے رکھنا چاہتے ہیں تو رکھیں میں یہی کچھ سکھاؤں گا اور اگر نہیں رکھنا چاہتے تو جواب دے دیں.مگر انہوں نے ایسانہ کہا اور اختلافات رکھنے کے باوجود بچوں کو تعلیم دیتے رہے.کیا یہ دیانت داری ہے؟ اگر دیانت داری ہے تو کیا وہ تیار ہیں کہ اپنے چھوٹے بچے ہمارے سپرد کر دیں؟ وہ تو تنخواہ لے کر بچوں کو پڑھاتے رہے ہم ان کے بچوں کا خرچ بھی خود دیں گے.لیکن اگر وہ اس کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے اپنے فعل سے اپنی بددیانتی پر مہر کر دی.بھیٹر بن کر بھیڑیے والا کام کرتے رہے.اس بات کے ہوتے ہوئے کون کہ سکتا ہے کہ وہ عالم ربانی ہیں.کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوسرے مسلمانوں سے نمازیں الگ کر کے تفرقہ ڈال دیا.مگر یہ دیانت داری اور ایمانداری کا تقاضا تھا تا کہ کوئی احمدی جہاں جائے وہاں کے لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ یہ احمدی ہے اور اس طرح ان کو معلوم ہو جائے کہ اس کے

Page 221

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 216 جلد دوم خیالات سے انہیں اختلاف ہے.مگر جہاں نماز علیحدہ پڑھنے کا حکم نہ ہو وہاں پتہ نہیں لگ سکتا.شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کہتے ہیں میں آپ کے پیچھے نماز پڑھ لیتا تھا مگر پھر جا کر دہرا تا تھا.یہ کتنا بڑا فریب ہے اور کتنا بڑا دھوکا ہے.ہم نے ان کے سپر د بچوں کو دین سکھانے کا کام کیا ہوا تھا.اگر کوئی شخص بچوں کو دین سکھانے کے لئے مقرر کیا جائے لیکن وہ اندر ہی اندر عیسائیت کی تعلیم دیتا رہے تو جب پتہ لگے گا سب کہیں گے کہ یہ بڑی بد دیانتی ہے.ایسا ہی ایک دینی مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر ہوتے ہوئے اور خیالات میں اختلاف رکھتے ہوئے دانستہ نادان اور چھوٹے بچوں کو وہ باتیں سکھا نا جن کا ان کے ماں باپ کو علم ہو جاتا تو ایک منٹ کے لئے بھی وہ گوارا نہ کرتے ، اس سے بڑھ کر بد دیانتی اور کیا ہو سکتی ہے.ہم جن کو احمدیت کی باتیں سکھاتے ہیں یہ کہہ کر سکھاتے ہیں کہ ہم انہیں سکھائیں گے.جب میں نے تحریک جدید کے ماتحت بچوں کی تعلیم شروع کی تو پٹنہ کی طرف سے ایک چٹھی آئی جس میں لکھا تھا کہ میں بھی اپنا لڑ کا قادیان بھیجنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق میں نے ایک احمدی افسر کو لکھا یا کہ ہم ان کے بچے کو مذہبی تعلیم نہ دیں گے.لیکن اگر ہماری باتیں اس کے کان میں پڑیں تو آپ ہم سے یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہم باتیں بند کر دیں.اس طرح اگر باتیں سن سن کر اس لڑکے پر اثر ہوا تو پھر آپ ہم سے یہ شکوہ نہ کریں کہ ہم نے اسے احمدی بنا لیا ہے.اس کا جواب یہ آیا کہ اس کی ذمہ داری آپ پر ہر گز نہ ہوگی اور نہ میں آپ پر الزام دوں گا.ہماری تو یہ حالت ہے کہ جو شخص احمدیت سے تعلق نہ رکھتا ہو اپنی خوشی سے اپنے بچے کو تعلیم پانے کے لئے ہمارے پاس بھیجتا ہے اسے ہم کہہ دیتے ہیں کہ اگر باتیں سن سن کر اس پر احمدیت کا اثر ہو جائے تو اس کی ذمہ داری ہم پر نہ ہو گی.مگر اس کے مقابلہ میں ایک شخص ہم سے تنخواہ لیتا ہے اور ہمارے بچوں کو ہمارے عقائد کے خلاف تعلیم دیتا ہے پھر عالم ربانی کہلاتا ہے.اب وہ طالب علم جو شیخ مصری صاحب سے پڑھتے رہے اور ان کی باتیں سنتے رہے کیا معلوم کہ انہیں کون سی بات یاد رہی اور کیسے خیالات نے ان کے قلوب پر اثر کیا.اس لئے تم کو

Page 222

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 217 جلد دوم بہت استغفار کرنا چاہئے اور دعائیں کرنا چاہئیں کہ انہوں نے ہمارے قلوب پر جو گندہ اثر چھوڑا ہے خدا تعالیٰ اسے دور کر دے.اور یاد رکھو کہ تقویٰ اور دیانت داری کے بغیر کوئی ترقی حاصل نہیں ہوتی.تمہارے ایک افسر نے نہایت گندہ نمونہ پیش کیا ہے اور دیانت داری کے بالکل خلاف عمل کیا ہے.وہ اور اس کے بیوی بچے سالہا سال تک حرام خوری کرتے رہے.جب کہ ایک مذہبی مدرسہ سے یہ ظاہر کر کے تنخواہ حاصل کرتے رہے کہ ہمیں کوئی اختلاف نہیں حالانکہ وہ بہت بڑا اختلاف رکھتے تھے.یہ ماحول ایسا رہا ہے کہ اس سے بچوں کے قلوب پر زنگ لگ سکتا ہے.اور میں نے دیکھا ہے دینیات کے طالب علم آیات اور احادیث سے مذاق کرنے سے دریغ نہیں کرتے.یہ مرض عام طور پر غیر احمدیوں میں پایا جاتا ہے.مگر میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے مولویوں میں نہیں.لیکن یہ نہایت سنگدلی اور شقاوت کی علامت ہے اس سے ہمیں بھی بچنا چاہئے.اب تمام امور میں سنجیدگی اختیار کرنی چاہئے.اس فتنہ کے متعلق میرا ایک خواب 1935 ء کے الفضل میں شائع ہو چکا ہے.میں نے دیکھا کہ دو فریق کبڈی کھیلنا چاہتے ہیں جن میں سے ایک کہتا ہے کہ خلافت ہونی چاہئے.دوسرا کہتا ہے کہ نہیں ہونی چاہئے.وہ اس شرط پر کبڈی کھیلنے لگے ہیں کہ جو جیت جائے اس کی بات مان لی جائے.مگر میں نے انہیں کہا کہ دین کے متعلق سنجیدگی ہونی چاہئے اور تمہاری ایسی گفتگو بغیر اجازت کے ناجائز تھی.یہ خواب چھپا ہوا ہے اور اس میں یہ بھی ذکر ہے کہ اس پر جو خلافت کی تائید میں تھے وہ بھی روٹھ کر چلے گئے کہ ہماری ہتک کی گئی ہے.اس میں خدا تعالیٰ نے بتایا کہ جو شخص سچائی پر سنجیدگی سے قائم نہ ہو وہ ٹھوکر کھا جاتا ہے.پس سچائی کو سچائی کی خاطر اختیار کرو.ہر بات میں سنجیدگی سے کام لو.اپنے دلوں میں خشیت اللہ پیدا کرو.“ غیر مطبوعه مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 1 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 170 مطبوعہ بیروت 2009ء الطبعة الاولى

Page 223

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 218 جلد دوم احباب جماعت اور اپنی اولاد سے ایک اہم خطاب 11 نومبر 1938ء کو مدرسہ احمدیہ، جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے مدرسہ احمدیہ کے صحن میں حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولوی عبدالرحیم درد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ، حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی ولایت سے کامیاب مراجعت پر ان کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.” سب سے پہلے میں بھی مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله 1 کے مطابق تینوں اداروں کے اساتذہ وطلباء کا اس تقریب کے پیدا کرنے اور ان جذبات کی وجہ سے جو اس تقریب کے پیدا کرنے کے محرک تھے شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کو وہی تحفہ اسلامی جو ایسے مواقع پر پیش کیا جاتا ہے اور جو بہترین اور مبارک تحفہ ہے پیش کرتا ہوں یعنی جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ تینوں ایڈریس جو اس وقت پیش کئے گئے ہیں وہ گوتین مختلف اداروں کی طرف سے ہیں لیکن تینوں نے اپنے اپنے رنگ میں اتحاد کی صورت پیدا کر لی ہے اور وہ راہ نکال لی

Page 224

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 219 جلد دوم ہے جو تعلقات کو ان لوگوں سے وابستہ کرتی ہے جن کی آمد پر یہ ایڈریس پیش ہوئے ہیں.مینوں ایڈریس سنتے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ان ایڈریسوں میں ان کی وہی حیثیت بیان کی گئی ہے جو حضرت بابا نانک رحمتہ اللہ علیہ کی ہے.یعنی ہندو انہیں ہندو کہتے ہیں اور مسلمان مسلمان.مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ نے ان کو جوڑ تو ڑ کر اپنے اندر شامل کر لیا تو ہے اور تعلیم الاسلام ہائی سکول نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ یہ سب خوش ہو گئے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس حقیقی روح کو سمجھیں جو احمدیت نے ہم میں پیدا کی ہے تو پھر کسی قسم کی علیحدگی ہم میں نہیں رہتی اور یہ سارے ادارے اور کارخانے ایک ہو جاتے ہیں.جب کسی شخص کے ہاتھ کو اندھیرے میں کوئی دوسرا شخص چھوٹے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ کہے گا میں ہوں.یا اس شخص کی ٹانگ کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ یہی کہے گا کہ میں ہوں.یا اس شخص کے سر کو کوئی ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ میں کسے ہاتھ لگا رہا ہوں؟ تو وہ کہے گا کہ مجھے.یا اس کی پیٹھ پر ہاتھ لگائے اور پوچھے کہ تم کون ہو؟ تو وہ پھر بھی یہی کہے گا کہ میں ہوں.گویا ان سب سوالات کے پیچھے ایک ہی جواب ہو گا.اسی وجہ سے رسول کریم ہے نے فرمایا ہے کہ مومن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی شخص کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو جسم کے باقی اعضاء کو بھی تکلیف ہوتی ہے 2 بے شک رقابت اچھی چیز ہے قرآن مجید نے بھی ہمیں حکم دیا ہے کہ فاستبقوا الخيرات 3 کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو.مگر ہر امر میں رقابت کا حکم نہیں صرف خیرات یعنی نیکیوں میں رقابت کا سبق دیا گیا ہے.گویا خیرات کہہ کر اللہ تعالیٰ نے مسابقت کی ایک نرالی شکل بنا دیا ہے.ہر وہ مسابقت جو اپنی ذات میں برائی رکھتی ہے اس حکم سے نکل جاتی ہے.ہر وہ مقابلہ یا مسابقت جس میں حسد ہو یا عداوت ہو وہ فاسْتَبِقُوا الخَیرات میں داخل نہیں کی کیونکہ فاستبقوا الخیرات میں صرف نیکیوں میں مسابقت اور مقابلہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے.پس تمام وہ مسابقتیں اور وہ مقابلے جن کے نتائج میں حسد، عناد اور بغض پیدا صل الله

Page 225

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 220 جلد دوم ہوتا ہے اس حکم کے دائرے سے خارج ہیں.صرف وہی مسابقتیں اور مقابلے جائز اور درست اور مفید ہیں جن کے نتیجے خیر اور نیکی پیدا کرتے ہیں.پس گو یہ ادارے مختلف ہیں رحقیقت میں ایک ہی ہیں.یہ جماعت کی ضرورتیں ہیں جن کو مختلف شکلیں دی گئی ہیں.ایک ادارہ اگر جماعت کا سینہ ہے تو دوسرا پاؤں ہے.اسی طرح یہ سب ادارے جماعت کے لئے اعضاء ہیں.کوئی کان ہے، کوئی ناک، کوئی سر ہے تو کوئی آنکھیں.غرض یہ ساری چیزیں در حقیقت ایک جسم ہیں جن کے پیچھے ایک میں ہے جو بول رہی ہے اور وہ ” میں احمدیت ہے جو سب اداروں پر چھائی ہوئی ہے.ان میں سے کسی ادارہ کا نقص احمدیت میں نقص پیدا کرتا ہے اور ان میں سے کسی کا کمال احمدیت کا کمال ہوتا ہے.پس گو نام جدا جدا ہیں لیکن حقیقت ان کی ایک ہی ہے.مولوی شیر علی صاحب دو اڑھائی سال کام کرنے کے بعد واپس آئے ہیں.مولوی صاحب ایسے کام کیلئے باہر بھیجے گئے تھے جو اس وقت جماعت کے لئے بہت ضروری ہے.اس کام کا مشکل حصہ یعنی ترجمہ کا کام پورا ہو چکا ہے اب دوسرا کام نوٹوں کا ہے جو لکھے جارہے ہیں.گزشتہ دنوں یورپ میں جنگ کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ مولوی صاحب کو واپس بلا لیا جائے تاکہ وہ یہاں آکر کام کریں ایسا نہ ہو کہ جنگ کی صورت میں رستے بند ہو جائیں.پس دوستوں کی بہترین دعوت تو یہ ہے کہ مولوی صاحب جلد سے جلد اس کام کو ختم کریں تا کہ یہ ایک ہی اعتراض جو مخالفین کی طرف سے جماعت پر کیا جاتا ہے کہ اس جماعت نے ابھی تک ایک بھی قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ شائع نہیں کیا دور ہو جائے اور ہماری انگریزی تفسیر شائع ہو جائے.درد صاحب ایک لمبے عرصے کے بعد واپس آئے ہیں 1933ء کے شروع میں وہ گئے تھے اور اب 1938 ء کے آخر میں واپس آئے ہیں.ان دونوں سالوں کا درمیانی فاصلہ پونے چھ سال کا بنتا ہے اور پونے چھ سال کا عرصہ انسانی زندگی میں بہت بڑے تغیرات پیدا کر دیتا ہے.بعض دفعہ باپ کی عدم موجودگی میں اولاد کی تربیت میں نقص پیدا ہو جاتا

Page 226

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 221 جلد دوم ہے جس کی وجہ سے ان کے اخلاق پر برا اثر پڑ جاتا ہے.بعض دفعہ گھر سے ایسی تشویشناک خبریں موصول ہوتی ہیں جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہیں.عام لوگ ان مشکلات کو نہیں سمجھتے جو ایک مبلغ کو پیش آتی ہیں.بسا اوقات مبلغ کو ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو عام لوگ نہیں کر سکتے بلکہ اکثر اوقات اسے ایسی قربانیاں کرنی پڑتی ہیں جو دوسروں کے لئے ناممکن ہوتی ہیں.جماعت کے کئی آدمی ان قربانیوں کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے اعتراض کر دیتے ہیں.اگر وہ ان قربانیوں کی حقیقت کا اندازہ لگائیں تو وہ مبلغوں کے ممنون ہوں.کئی دفعہ ان کو اپنے گھروں سے پریشان کرنے والی خبریں ملتی ہیں اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق ہدایات بھی دیتے ہیں مگر چونکہ خطوط کے پہنچنے میں ایک ایک دو دو مہینے لگ جاتے ہیں ان کو فکر ہوتا ہے کہ ان کی ہدایات کے پہنچنے سے پہلے ان پر کیا گزرتی ہوگی.انہیں اپنے بھائیوں کا فکر ہوتا ہے، اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کا فکر ہوتا ہے.اس قدر لمبے فاصلہ کو جانے دو تم اتنے فاصلہ کا ہی اندازہ لگا لو جو محلہ دار الفضل اور مدرسہ احمدیہ کے درمیان ہے.اگر اتنے معمولی فاصلہ سے ہی تم میں سے کسی کو اپنے عزیز کے متعلق کوئی تشویشناک اطلاع ملے تو تم اس قدر گھبرا جاتے ہو کہ کسی سے بات تک کر نا پسند نہیں کرتے.اور اگر راستے میں کوئی شخص تم سے بات کرنا چاہے تو تم جھٹ اس کو روک دو گے اور کہو گے کہ مجھے ایک ضروری کام ہے میں اس وقت بات نہیں کر سکتا.اگر تمہاری یہ حالت اس تھوڑے سے فاصلہ پر ہو جاتی ہے تو پھر ان کا اندازہ کرو جو ہزاروں میل اپنے گھروں سے دور ہوتے ہیں.ان کے خاندان میں بھی وہی مشکلات پیش آتی ہیں جو تمہیں پیش آتی ہیں.ایسی پریشان کن خبریں ان کو بھی اپنے عزیزوں کی طرف سے ملتی ہیں جیسے تمہیں ملتی ہیں مگر تم چند منٹ کے فاصلہ پر ہونے کے باوجود کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے اور اگر کوئی راستہ میں تم سے بات کرنا چاہے تو تم اس کو روک دیتے ہو تو پھر ان کی کیفیت کا اندازہ لگاؤ جو ہزاروں میل کے فاصلہ پر ہوتے ہیں اور جو اپنی خانگی پریشانیوں کا کوئی علاج نہیں کر سکتے.

Page 227

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 222 جلد دوم غرض ہمارے مبلغ جو خدمت دین کے لئے باہر جاتے ہیں ان کا جماعت پر بہت بڑا حق ہے.نادان ہے جماعت کا وہ حصہ جو ان کے حقوق کو نہیں سمجھتا.یورپ کے لوگ ایسے لوگوں کو بیش بہا تنخواہیں دیتے اور ان کیلئے ہر قسم کے آرام و رہائش کے سامان مہیا کرتے ہیں.جب ان کے ڈپلومیٹ یعنی سیاسی حکام اپنے ملکوں میں واپسی آتے ہیں تو ملک ان کی تعریفوں میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہے.فرانس کے ایمبیسیڈر (AMBASSADOR ) کی تنخواہ وزیر اعظم کی تنخواہ سے زیادہ ہوتی ہے مگر جب وہ اپنے ملک میں آتا ہے تو اہل ملک اس کی قربانیوں کی اس قدر تعریف کرتے ہیں اور اس کے اس قدر ممنون ہوتے ہیں کہ گویا وہ فاقے کرتا رہا ہے اور بڑی مشکلات برداشت کرنے کے بعد واپس آیا ہے.اور دور جانے کی کیا ضرورت ہے ہندوستان کے وائسرائے کو دیکھو کہ اس کے کھانے اور آرام و آسائش کے اخراجات خود گورنمنٹ برداشت کرتی ہے اور میں ہزار روپیہ ماہوار جیب خرچ کے طور پر اسے ملتے ہیں.وہ پانچ سال کا عرصہ ہندوستان میں گزارتا ہے اور اس عرصہ میں بارہ لاکھ روپیہ لے کر چلا جاتا ہے صرف لباس پر اس کو اپنا خرچ کرنا پڑتا ہے یا اگر کسی جگہ کوئی چندہ وغیرہ دینا ہو تو دے دیتا ہے ورنہ باقی تمام اخراجات گورنمنٹ برداشت کرتی ہے.لیکن باوجود اس کے جب وہ اپنے ملک کو واپس جاتا ہے تو اس کی قربانیوں کی تعریف میں ملک گونج اٹھتا ہے اور ہر دل جذبه تشکر و امتنان سے معمور ہوتا ہے اور یہ جذبہ ان میں اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ گویا ان کے جذبات کا پیالہ چھلکا کہ چھلکا.یہی گر ہے قومی ترقی کا.جب کسی قوم میں سے کوئی فردا ایک عزم لے کر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری قوم میری قدر کرے گی.بے شک دینی خدمت گزاروں کو اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن اگر اس کی قوم اس کی قربانیوں کی پرواہ نہیں کرتی تو یہ اس قوم کی غلطی ہے.بے شک ایک کی مؤمن کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہونا چاہیئے اور پھر ایک ایسی قوم کا نمائندہ جو اپنے آپ کو نیک کہتی ہے وہ تو ان خیالات سے بالکل الگ ہوتا ہے.اس کو صرف اپنی

Page 228

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 223 جلد دوم ہی ذمہ داریوں کا احساس ہوتا ہے.مگر اسلام نے جہاں فرد پر ذمہ داریاں رکھی ہیں وہاں قوم پر بھی ذمہ واریاں رکھی ہیں.جس طرح کسی فرد کا حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پرواہ نہ کرے اسی طرح قوم کا بھی حق نہیں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی پرواہ نہ کرے.قوم کے فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ قوم نے میری قربانیوں کی کی پرواہ نہیں کی.اور اگر وہ یہ خیال اپنے دل میں لایا ہے تو دوسرے الفاظ میں وہ یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے لئے یہ کام کیا ہے خدا تعالیٰ کے لئے نہیں کیا.پس فرد کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں ہونا چاہئے اور نہ فکر کے کسی حصہ میں کہ قوم نے میری قربانیوں کی پرواہ نہیں کی یا جیسا کہ میری خدمت کرنے کا حق تھا وہ اس نے ادا نہیں کیا.ایسا آدمی اپنے کئے کرائے پر خود پانی پھیر دیتا ہے.مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرد پر ذمہ داریاں عائد کی ہیں اسی طرح قوم پر بھی ذمہ داریاں رکھی ہیں.اور وہ یہ کہ قوم اس فرد کی خدمات اور قربانیوں کی قدر کرے کیونکہ قوم بھی ویسے ہی اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہ ہے جیسے فرد.اسلام نے دونوں کی شخصیتیں تسلیم کی ہیں.وہ قوم کی بھی ایک قانونی شخصیت تسلیم کرتا ہے اور فرد کی بھی.اس زمانہ میں یورپ والے اس قسم کی شخصیتوں کے ثابت کرنے پر بہت نازاں ہیں چنانچہ حال ہی میں مسجد شہید گنج کو ایک قانونی حیثیت میں پیش کیا گیا ہے مگر ان کو معلوم نہیں کہ یہ امر آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے اسلام نے پیش کیا تھا.یہ وہی امر ہے جسے ہمارے فقہی فرض کفایہ کہتے ہیں.فرض کفایہ میں قوم کو ایک شخصی حیثیت دی جاتی ہے.اگر کسی قوم کے بعض افراد میں خوبی ہو تو وہ خوبی اس قوم کی طرف منسوب ہوتی ہے.اور اگر کسی قوم کے افراد میں کوئی عیب ہوتا ہے تو وہ عیب اس قوم کی طرف منسوب ہو جاتا ہے.یہ اس لئے کہ قوم افراد کے مجموعہ کا نام ہے.مثلاً زید صرف زید کے ہاتھوں یا پاؤں کا نام نہیں بلکہ اس کے اعضاء سر، آنکھیں ، ناک، کان ، منہ، سینہ، پیٹھ اور ٹانگوں کے مجموعہ کا نام ہے.

Page 229

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 224 جلد دوم غرض اسلام نے فرضِ کفایہ میں شخصیت قومی کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اس کی رو سے اسلام نے فرد پر بھی بعض حقوق رکھے ہیں اور قوم پر بھی بعض حقوق رکھتے ہیں.دوسرے ہے.جس طرح فرد ایک قانونی حیثیت رکھتا ہے ویسے ہی قوم بھی ایک قانونی حیثیت رکھتی.فرد بے شک حقیقی وجود بھی ہے اور قانونی وجود بھی.اور اس کے مقابل پر قوم صرف قانونی وجود ہے حقیقی وجود نہیں.مگر اس پر قانونی وجود کے لحاظ سے ویسے ہی حقوق ہیں جیسے قوم کے ایک فرد پر.اسلام نے بعض امور کے کرنے کا قوم کو حکم دیا ہے.اگر قوم کے افراد میں سے بعض نے وہ امور سرانجام دے دیئے تو اس صورت میں ساری قوم بری الذمہ ہو جائے گی.اور اگر کوئی فرد بھی وہ کام نہ کرے تو اس صورت میں ساری قوم پکڑی جائے گی.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے اور قرآن مجید کی آیات سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ جھوٹی قسم کھانے سے ملک برباد ہو جاتا ہے 4 حالانکہ جھوٹی قسم کھانے والا صرف ایک فرد ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہاں ملک کو قانونی وجود کے لحاظ سے تسلیم کیا گیا ہے قوم کا فرض ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی نگرانی کرے اور اگر وہ نگرانی نہیں کرتی تو اس صورت میں گویا وہ اپنے ملک کو آپ تباہی کی طرف لے جاتی ہے.ہماری شریعت نے بعض مقامات پر قتل یا اسی قسم کے بعض اور جرائم کی سزا جرمانہ کی صورت میں رکھی ہے.اگر کوئی ان جرائم میں سے کسی کا مرتکب ہو اور وہ جرمانہ ادا نہ کر سکے تو اس صورت میں وہ جرمانہ سب قوم سے وصول کیا جائے گا عملی طور پر بھی رسول کریم ﷺ نے ایسا کیا ہے کیونکہ فرد کا نقصان قوم کا نقصان ہے اور اس کی تلافی بہر حال کسی طرح ہونی چاہئے.اگر وہ فرد یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنے جرم کا بدلہ جرمانہ کی صورت میں ادا کرے تو پھر قوم کو اس کا جرمانہ ادا کرنا ہوگا کیونکہ قوم پر ہر فرد کے ایسے افعال کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.اگر قوم اس سے نقصان دلوا سکتی ہے تو دلوادے ورنہ قوم کو اس نقصان کی تلافی کرنی ہو گی.اگر کوئی شخص جرم کرے اور اس جرم کے عوض میں اس پر دس ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا جائے اور اس کی حیثیت صرف

Page 230

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 225 جلد دوم دو ہزار روپے کی ہو تو وہ باقی رقم کہاں سے ادا کرے گا.اس صورت میں شریعت اس فعل کی ذمہ داری اس کی قوم پر ڈالتی ہے جس کا وہ فرد ہے.اس کی قوم باقی روپیہ جمع کر کے اس کے نقصان کی تلافی میں ادا کرے گی.تو اسلام نے قانونی وجود کو بڑی وضاحت سے تسلیم کیا ہے.نادان لوگ کہتے ہیں کہ ہم پر کیا ذمہ داری ہے حالانکہ اسلام نے شخصی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے اور قانونی وجود کو بھی تسلیم کیا ہے.پس جب تک ہماری جماعت کے افراد میں اس کا احساس نہیں ہوتا وہ ان مبلغین کی قربانیوں کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتے.یہ کام سب افراد جماعت پر فرض ہے.مبلغین اس کام کو بطور فرضِ کفایہ کرتے ہیں وہ جہاں اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہیں وہاں قوم کی ذمہ داری کو بھی ادا کرتے ہیں.ہمارے سب مبلغین جو انگلستان، امریکہ، افریقہ، عرب اور دیگر ممالک میں تبلیغ کرتے ہیں وہ فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں اور ہماری طرف سے اس ذمہ داری کو جو اللہ تعالیٰ نے ہم پر عائد کی ہے ادا کرتے ہیں.اور جب وہ ہمارا کام کرتے ہیں تو ہم پر بھی واجب ہے کہ ہم ان کا حق ادا کریں.پس میں اپنی جماعت کے نو جوانوں کو خصوصاً اور دوسرے احباب کو عموماً یہ نصیحت کرتا کی ہوں کہ ملک اور قوم کے قانونی وجود کو سمجھیں.آرام سے بیٹھے رہنے اور اعتراض کرنے سے قو میں ترقی نہیں کرتیں.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں اور مبلغین کی قربانیوں کی قدر نہیں کرتے.ان کے نزدیک گویا یہ لوگ ان کے باپ دادوں کا قرضہ اتار رہے ہیں وہ اپنی نادانی سے یہ نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ ہمارا ہی کام کر رہے ہیں.ایسے لوگوں کی مثال اس عورت کی سی ہے جو ایک اور عورت کے گھر آٹا پینے کے لئے گئی.اُس نے اُس سے چکی مانگی گھر کی مالکہ نے اُسے چکی دے دی.تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل میں خیال آیا کہ یہ رات آٹا پیتے پیتے تھک گئی ہوگی اور اس کی مدد کروں.چنانچہ اُس نے اُسے کہا کہ بہن! تم تھک گئی ہوگی تم ذرا آرام کر لو میں تمہاری جگہ چکی پیستی ہوں.وہ عورت چکی پر سے اُٹھ بیٹھی اور اِدھر اُدھر پھرتی رہی.اچانک اُس کی نظر ایک رو مال پر جا پڑی جس میں روٹیاں تھیں.اُس نے وہ رومال کھولا اور گھر کی مالکہ کو کہا بہن !

Page 231

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 226 جلد دوم تو میرا کام کرتی ہے تو میں تیرا کام کرتی ہوں اور یہ کہہ کر اُس نے روٹی کھانی شروع کر دی.تو بعض لوگ اس قسم کی روح ظاہر کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ وہ مبلغ کا شکریہ ادا کریں اور اس کی قربانیوں کی قدر کریں وہ ان پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں گویا وہ مبلغ اُن کے باپ دادے کا قرض دار تھا اور اب وہ قرضہ ادا کر رہا ہے اور اگر اُس نے کی قرضہ کی ادائیگی میں ذرا بھی سنتی دکھائی تو اُس کے گلے میں پڑکا ڈال کر وصول کر لیا ؟ جائے گا.اس قسم کے اعتراضات کرنے والے بڑے بے شرم ہیں.وہ یہ دیکھتے ہی نہیں کہ یہ ہمارا حق ادا کر رہا ہے اور جس کام کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ہم پر رکھی ہے اسے یہ کی سرانجام دے رہا ہے.وہ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوتے ہیں اور اعتراض کرنا ا شروع کر دیتے ہیں.ایسے لوگ قومی شخصیت کی حقیقت کو نہیں سمجھتے صرف فردی شخصیت کو سمجھتے ہیں.پس ہماری جماعت کے ان لوگوں کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے اور اس کی اصل حقیقت سے واقف ہونا چاہئے.ان ایڈریسوں میں ہمارے بچوں کے آنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے.جسمانی طور پر بچوں کا آنا بے شک خوشی کا موجب ہوتا ہے اور اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.میں غلط بیانی کروں گا اگر کہوں کہ مجھے ان بچوں کے آنے کی خوشی نہیں ہوئی.دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ایسے موقع پر خوش نہ ہو.باپ یا بھائی یا بیٹے کے آنے کے علاوہ کسی کا کوئی دوست بھی آئے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس کے دل میں خوشی کے جذبات پیدا نہ ہوں لیکن جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھڑا کیا ہے اُس نے ہم میں ایسا ماحول پیدا کر دیا ہے کہ صرف جسمانی قرب ہمارے دلوں میں حقیقی راحت پیدا نہیں کر سکتا.بے شک ایسے مواقع پر انسان کو خوشی ہوتی ہے اور بہت سا اطمینان بھی انسان حاصل کر لیتا ہے لیکن پھر بھی درمیان میں ایک پر وہ حائل ہوتا ہے جو بعض دفعہ ہمارے قرب کو بعد میں تبدیل کر دیتا ہے.پس حقیقی خوشی ہمیں اُس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس پردہ کو بھی دور نہ کیا جائے.

Page 232

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 227 جلد دوم اس ایڈریس میں مظفر احمد سَلَّمَهُ رَبُّہ کی آمد اور اس کی کامیابی کا بھی ذکر کیا گیا ہے.میں اس موقع پر انہیں ان کے ہی ایک قول کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا.پہلے وہ زبانی تھا اور اب اس پر عمل کرنے کا وقت آ گیا ہے.مظفر احمد جب آئی ہی.ایس میں کامیاب ہوئے اور انہوں نے یہ محسوس کیا کہ نوکری انہیں پسند نہیں تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ استعفیٰ دینے کے لئے تیار ہیں.مگر انہیں یا درکھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم یہ نہیں کہ ہم دنیا کو چھوڑ کر بزدلی سے ایک طرف ہو جائیں.ہم دنیا میں جس غرض کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اس کے لئے بحیثیت جماعت ہم پر فرض ہے کہ ہم دنیوی طور پر بھی سلسلہ کے اصولوں کی خوبیاں ثابت کریں.اور اگر ہم دنیا کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں تو پھر ہم اپنے اصولوں کی خوبیاں ثابت نہیں کر سکتے.پس ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اس رنگ میں بھی دنیا میں اپنے اصول کی خوبیاں ثابت کریں.ملازمت کرنا کوئی معیوب امر نہیں بلکہ اگر کوئی شخص بلا وجہ ملازمت کو ترک کر دیتا ہے تو ایسے آدمی کی قربانی کوئی بڑی قربانی نہیں کہلا سکتی.البتہ وہ شخص جسے سچ بولنے کی عادت ہو اور اُس کا طریق کار انصاف پر مبنی ہو ، اگر اُس سے ظلم کروانے اور جھوٹ بلوانے کی کوشش کی جائے اور ایسا شخص نوکری چھوڑ دے تو اس کی قربانی حقیقی قربانی ہوگی کیونکہ اُس نے تقویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے ملازمت کو ترک کیا ہے.ایک اور بات یہ بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جب کسی کو کوئی اعلیٰ ملازمت ملتی ہے تو اُس میں ایک قسم کا کبر پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک احمدی کو ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہماری جماعت میں کمزور لوگ بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.ترقی ملنے سے بعض لوگوں میں کبر اور غرور پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غریبوں سے ملنا عار سمجھنے لگ جاتے ہیں.ایسے لوگ در حقیقت انسانیت کی سے بھی جاتے رہتے ہیں.پس پہلی ذمہ داری جو ان پر عائد ہوتی ہے وہ احمدیت کی ہے.احمدیت کا کام ساری دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے.اور پھر ایک احمدی دوسرے احمدی کا

Page 233

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 228 جلد دوم روحانی رشتہ دار ہے اس لئے ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے.تم جب ایک احمدی سے ملو تو تمہیں ایسی ہی خوشی حاصل ہو جیسے اپنے بھائی سے ملتے وقت ہوتی ہے.لیکن چونکہ بعض ادنیٰ درجہ کے لوگ اخلاق فاضلہ کو چھوڑ کر نا جائز فائدہ کے حصول کی بھی کوشش کیا کرتے ہیں اس لئے میری نصیحت یہ ہے کہ ایسے مواقع پر ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو ملحوظ رکھو اور انصاف سے کام لو اور ایسی سفارشوں سے اپنے کانوں کو بہرہ رکھو.ایک اور بات ان کو یہ یاد رکھنی چاہئے کہ ہر قوم اپنے ماحول میں ترقی کرتی ہے دوسروں کے ماحول میں ترقی نہیں کر سکتی.جو شخص دوسروں کے ماحول کو لے کر ترقی کرتا ہے وہ ذلیل ہو جاتا ہے.حال ہی میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا آدمی چل بسا ہے یعنی کمال اتاترک.اس شخص نے اپنے وطن اور قوم کے لئے بڑی خدمات کی تھیں.کوئی آدمی بھی ایسا نہیں جو اس کی قربانیوں کو عظمت اور احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو.مگر ایک خطر ناک غلطی اس سے یہ ہوئی کہ اس نے اپنی قوم میں مغربیت کا اثر قائم کر دیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اُس نے ترکوں کو جسمانی آزادی دلا دی مگر ساتھ ہی ہمیشہ کے لئے ترکوں کو ذہنی غلام بھی بنا دیا.ہمیں یہ طریق اختیار نہیں کرنا چاہئے.ہم جن مقاصد کو لے کر کھڑے ہوئے ہیں ان میں سے ایک مقصد مغربی تمدن کو کچلنا بھی ہے.مغربی تمدن اس وقت دنیا کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے ہمیں اس سے کسی صورت میں بھی متاثر نہیں ہونا چاہئے.پھر مغربی تمدن بھی ایک نہیں.فرانس کا تمدن جدا ہے، جرمنی کا تمدن الگ ہے، انگریزوں کا تمدن اور ہے.فرانس والے چپ رہنا پسند نہیں کرتے اور انگریز بات کرنا پسند نہیں کرتے.میرے اپنے سفر کا ہی واقعہ ہے کہ جب میں روم سے سوار ہوا تو میرے ساتھ ایک یونانی تاجر بھی سوار تھا.وہ کپڑوں کا تاجر تھا اور مدت سے انگلستان میں رہتا تھا اس لئے اس کا تمدن اور بود و باش بالکل انگریزوں کی طرح تھی.ایک اور شخص فرانس کا رہنے والا تھا وہ ہمارے ساتھ ہی سوار ہوا.اُن دنوں جب میں واپس آ رہا تھا تو انگریزی اخباروں میں میری تصویر میں چھپ جایا کرتی تھیں اور میرے گزرنے کے پروگرام شائع

Page 234

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 229 جلد دوم ہو جاتے تھے.جب ہم ایک اسٹیشن پر پہنچے تو چند مستورات ہمارے کمرے میں داخل ہوئیں.وہاں بڑے آدمی کو پرنس یعنی شہزادہ کہتے ہیں مجھے اس کا علم نہیں تھا.ان مستورات نے مجھ سے پوچھا کہ پرنس جو ہندوستان سے آیا ہے وہ کہاں ہے؟ میں نے انہیں کہا مجھے تو علم نہیں.وہ عورتیں چلی گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آئیں اور کہنے لگیں آپ نے ہم سے دھوکا کیا ہے آپ ہی تو پرنس ہیں.میں نے انہیں کہا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں تھا.انہوں نے اخباروں میں مجھے میری تصاویر دکھائیں جن کے نیچے پرنس لکھا ہوا تھا.ان مستورات نے میرا لباس دیکھ کر ہنسنا شروع کیا تو وہ انگریز جو اصل میں تو یونانی تھا اور لمبے عرصہ سے انگلستان میں رہنے کی وجہ سے انگریزی تمدن اختیار کر چکا تھا اس کے منہ سے غصہ کی وجہ سے جھاگ نکلنے لگ گئی اور کہنے لگا کہ یہ لوگ کس قدر نالائق ہیں ان کو بات کرنی نہیں آتی.وہ غصہ میں اس قدر بڑھ گیا کہ قریب تھا کہ وہ اُن سے لڑ پڑتا.میں نے فرانسیسی کو جو میرے پاس ہی بیٹھا تھا کہا اس کو سمجھائیں کہ یہ مجھے دیکھنے آئی ہیں نہ کہ تمہیں، تمہیں کیوں اس قدر غصہ آتا ہے.تھوڑی دیر کے بعد اس فرانسیسی نے دو لفافے جن میں میوہ تھا نکالے اور کہا کہ کھائیے.اُس نے بہت اصرار کیا کہ ضرور کھاؤ.وہ انگریز پھر لالی سرخ ہو گیا کہ یہ کس قدر بد تہذیب ہے ایک تو واقف نہیں دوسرے بے وقت چیز کھاتا ہے.اسی طرح امریکہ اور یورپ کے دوسرے ممالک کا تمدن علیحدہ علیحدہ ہے.ہمارا تمدن ، اسلامی تمدن ہے اور وہی حقیقی تمدن ہے جسے رائج کرنا چاہئے.پھر میں ناصر احمد اور مبارک احمد کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے لئے ملازمت کرنے کے بغیر ہی دین کی خدمت کرنے کے مواقع موجود ہیں.انہیں ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور سب سے پہلی بات جو ان کو یا د رکھنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ان کا سب سے بڑارتبہ احمدی ہونے کا ہے.وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لوٹ لی ہے اور وہ لوگ بھی جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نواب زادے ہیں.یہ دونوں قسم کے لوگ جھوٹے ہیں.ہم نے کبھی کسی کا روپیہ نہیں کھایا اور نہ ہی ہم نواب زادے ہیں.پس

Page 235

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 230 جلد دوم تم احمدی ہونے کے سوا کسی اور وجہ سے کسی قسم کی فضیلت دوسروں پر نہیں رکھتے.جو دوسروں کا مارا ہوا شکار کھا تا ہے وہ معزز نہیں ہوتا.میرے کسی فعل کی وجہ سے یا جو عزت اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے اس کی وجہ سے صرف تمدنی طور پر تمہیں فائدہ ہو سکتا ہے ورنہ حقیقی طور پر اس میں تمہارا کوئی حصہ نہیں.یہ چیزیں حقیقی طور پر صرف میری ذات سے وابستہ ہیں.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے حقیقی طور پر عزت حاصل نہیں.وہ عزت تو تب ہوتی اگر میں اُن کی ماموریت میں شریک ہوتا.اور میں اُن کی ماموریت میں شریک نہیں اور نہ کوئی شریک ہو سکتا ہے.البتہ تمدنی حیثیت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹا ہونے کی وجہ سے لوگ مجھ سے محبت کرتے ہیں.پس لوگوں کے اندر اپنے متعلق جذبہ محبت پیدا کرنے کیلئے تم اپنے اندر کمال پیدا کرو.میرے اندر کوئی کمال ہے تو اس سے حقیقی طور پر تم فائدہ نہیں اٹھا سکتے وہ چیز تو فیلی ہے.ایک شخص جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت کرتا ہے ہماری بھی عزت کرے گا یا میری خلافت کی وجہ سے جن لوگوں میں جذبہ محبت پایا جاتا ہے وہ تم سے میری اولا د ہونے کی وجہ سے محبت کریں گے مگر یہ محبت اور یہ عزت طفیلی چیز ہے.یہ محبت اور عزت تو ایسی ہی ہے جیسے کسی بڑے افسر کے چپڑاسی کی عزت کی جاتی ہے.اس کا علم ان لوگوں کو ہوتا ہے جو افسروں سے ملتے ہیں.بڑے بڑے نواب افسروں کو ملنے جاتے ہیں تو چپڑاسی بہت بری طرح ان سے پیش آتے ہیں حالانکہ ان کی کوئی پوزیشن نہیں ہوتی اور خصوصاً چھوٹے افسروں کو تو وہ بہت ذلیل کرتے ہیں.جب کسی ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ماتحت افسر ملنے آتے ہیں تو چپڑاسی انہیں تنگ کرتے ہیں اور بعض دفعہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم کیا کریں، صاحب کام کر رہے ہیں یا سو رہے ہیں.اُس وقت ایک چپڑاسی بھی حکومت جتا رہا ہوتا ہے مگر تم جانتے ہو کہ وہ کس قدر حقیر بات کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کو کس قدر ذلیل سمجھ رہے ہوتے ہیں.پس ایسی عزت بھی جو دماغ پر برا اثر ڈالے کوئی عزت نہیں بلکہ لوگ ایسے شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.پس جیسے کسی

Page 236

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 231 جلد دوم بڑے افسر کے چپڑاسی کے خلاف جذبہ تنفر پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر تم نے بھی اپنے اندر کوئی کمال داخل نہ کیا تو تم بھی اسی جذبہ کے قابل ہو گے.ہم دنیوی لحاظ سے ایک معمولی زمیندار ہیں ہماری اس سے زیادہ حیثیت نہیں.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہم نے جماعت کی دولت لوٹ لی ہے وہ جھوٹے اور فریبی ہیں.جس چیز نے ہمیں روپیہ دیا ہے وہ احمدیت ہے.احمدیت سے قبل ہماری زمینوں کی موجودہ قیمتوں کے لحاظ سے کوئی قیمت نہ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے تو آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق یہاں کی آبادی بڑھی اور زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہو گئیں.باہر جن زمینوں کی سو دو سو روپیہ قیمت ہے یہاں اُس کی قیمت ہزار دو ہزار ہے.اور اگر یہ زمینیں مہنگی نہ ہوتیں تو تم تینوں اس قدر تعلیم بھی حاصل نہ کر سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے ماتحت قادیان کی آبادی بڑھی ، زمینوں کی قیمتیں زیادہ ہوئیں تو تم اس قابل ہو گئے کہ اس قدر اعلیٰ تعلیم حاصل کرو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پنجاب میں ہمارا خاندان بہت معزز تھا اس کا اقرار غیر احمد یوں اور غیر مسلموں کو بھی ہے.پرنس آف ویلز (Prince of Wales ) جب ہندوستان آئے تو میں بھی انہیں ملنے گیا تھا.جب ملاقات کا وقت آیا تو میں نے اپنی سوئی نیچے رکھنی چاہی.اس پر ایک سکھ نے جسے راجہ کا خطاب ملا ہوا تھا مجھے کہا کہ آپ بڑے آدمی ہیں اور پنجاب کے معزز خاندان سے ہیں آپ سوئی نہ رکھیں کیا ہوا اگر وہ شہزادہ ویلز ہے.تو پنجاب میں کوئی بھی پرانا اور معزز خاندان ہمارے خاندان کی طرح نہیں مگر روپیہ ہمارے پاس نہیں.پہلے ہمیں سکھوں نے لوٹا ، پھر انگریزوں نے لوٹا، ان دونوٹوں کی وجہ سے ہماری دنیوی حیثیت کم ہوگئی اور ایک معمولی زمیندار کی حیثیت پر آگئے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تشریف نہ لاتے تو ہماری ایک زمیندار سے زیادہ عزت نہ ہوتی.پھر زمیندار بھی ایسا جس کی زمینیں نہری نہیں ہیں.پس ان زمینوں کی قیمتیں صرف احمدیت کی وجہ سے بڑھیں.اس کے بعد تم اس قابل ہوئے کہ تم اعلی تعلیم حاصل کر سکو.اس لئے تم کسی احمدی

Page 237

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 232 جلد دوم کے ممنونِ احسان نہیں مگر احمدیت کے ضرور ممنونِ احسان ہو.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ تمہاری گردنیں کسی انسان کے سامنے نہیں جھک سکتیں مگر تمہیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہ سب کچھ تمہیں احمدیت کی وجہ سے ملا ہے.ایک اور بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ تمہیں ہمیشہ غرباء سے ملتے رہنا چاہئے.ہماری جماعت کا بڑا حصہ چونکہ غرباء پر مشتمل ہے اس لئے ان سے ملنا ضروری ہے.اگر تم ان میں مل کر رہو اور ان کی تربیت کا کام کرو تو تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو.ایاز ایک مشہور جرنیل محمود غزنوی کا تھا.لوگوں نے محمود کے پاس اس کی شکایتیں کیں.ایاز ایک غلام تھا مگر اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے ترقی کی اور بڑھتے بڑھتے جرنیل ہو گیا حتی کہ وہ فنانس منسٹر (وزیر خزانہ ) ہو گیا.لوگوں کو کچھ حسد تھا اس لئے انہوں نے محمود کے پاس شکایتیں کیں کہ وہ رات کو ہمیشہ اکیلا خزانے میں جاتا ہے اور قیمتی اشیاء وہاں سے چرا لیتا ہے.یہ شکایتیں محمود کے پاس اس کثرت سے پہنچیں کہ اسے ایاز پر کی بدظنی ہوگئی.ایک دن بادشاہ رات کے وقت خزانہ میں داخل ہو گیا اور باہر سے تالا لگوا دیا اور ایک پوشیدہ جگہ پر چھپ کر بیٹھ گیا.اس کے بعد ایاز آیا اور اندر داخل ہو گیا.بادشاہ کی کی بدظنی اور بھی بڑھ گئی اور سمجھا کہ لوگوں کی شکایتیں صحیح ہیں مگر اس نے اپنے دل میں کہا کہ ابھی دیکھنا چاہئے کہ یہ کیا کرتا ہے.ایاز نے ایک کنجی لی اور اس سے ایک ٹرنک کھولا ، پھر اس میں سے ایک اور صندوقچی نکالی اور اسے کھولا اور اس میں سے ایک بغچہ 5 نکالا جس کے اندر ایک پھٹی ہوئی گدڑی تھی.ایاز نے اپنا شاہی لباس اتارا اور وہ گدڑی پہن لی.اس کے بعد اس نے مصلی بچھایا اور نماز پڑھنی شروع کر دی.اور اس نے نماز میں رورو کر اللہ تعالیٰ سے کہا کہ اے خدا! میں اس گدڑی میں اس شہر میں داخل ہوا تھا اور آج تو نے اپنے فضل سے مجھے وزارت کا عہدہ عطا فرمایا ہے اور اتنی عزت دی ہے کہ اس جگہ پر آنے سے مجھے محمود غزنوی کے سوا اور کوئی نہیں روک سکتا.میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے فضل سے اس مقام پر پہنچایا ہے اور اے خدا! تو مجھے اس بات کی بھی توفیق

Page 238

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 233 جلد دوم عطا فرما کہ جس بادشاہ نے مجھ پر اتنا رحم کیا ہے اُس کی دیانتداری سے خدمت کروں.محمود نے جب ایاز کی یہ دعاسنی تو اس کے پاؤں سوسومن کے ہو گئے اور اُس نے دل میں کہا کہ میں نے کتنے قیمتی جو ہر پر بدظنی کی ہے.ایاز نماز پڑھ کر اور گدڑی کو پھر اسی جگہ رکھ کر اور اپنا لباس پہن کر چلا گیا.بعد ازاں محمود وہاں سے اٹھا اور واپس آیا اور اس نے پہرہ داروں کو کہا کہ خبردار! میرے آنے کا ایاز کو علم نہ ہو.مگر اس تمام تر خدمت کے باوجود ایاز غلام ہی کہلاتا ہے.اس کے مقابلہ میں تم اپنے آپ کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کسی بندے کا غلام ہونے سے بچا کر صرف اپنی غلامی بخشی.یہ کتنا بڑا احسان ہے اللہ تعالیٰ کا.اس کے بعد بھی اگر تم اپنے رب کو کوئی الگ وجود سمجھو تو تم سے زیادہ احمق اور جاہل کوئی نہیں ہوگا.ہماری سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ سے ہیں اور کوئی امتیاز ہم میں نہیں.بعض کاموں کی مجبوریوں کے لحاظ سے ایک افسر بنا دیا جاتا ہے اور دوسرا ما تحت ورنہ حقیقی امتیاز ہم میں کوئی نہیں.حقیقی بڑائی خدمت کرنے سے حاصل ہوتی ہے خاندان کی وجہ سے نہیں.ہمارا خاندان دلی کے شاہی خاندان سے بڑا نہیں گو ہم انہی میں سے ہی ہیں مگر وہ بہر حال بادشاہ تھے اور بادشاہ رتبہ میں بڑے ہوتے ہیں مگر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ دہلی کے شہزادے بازاروں میں لوگوں کو حقہ پلاتے پھرتے ہیں اور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ مرجانے کی صورت میں ان کے لئے کفن بھی مہیا نہیں ہوتا.ان کے ہمسائے گورنمنٹ کو لکھ دیتے ہیں کہ فلاں بادشاہ کا پوتا بغیر کفن کے مرا پڑا ہے اس کیلئے کفن دیا جائے.اور گورنمنٹ ان کیلئے کفن مہیا کر دیتی ہے.یہ بڑائیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اور جب وہ چاہتا ہے چھین بھی لیتا ہے.پس عزت کا جو چو نہ تم پہنو وہ دوسروں سے مانگا ہوا نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان میں سے ہونا یا میرا بیٹا ہونا یہ تو مانگا ہوا چوغہ ہے.تمہارا فرض ہے کہ تم خود اپنے لئے لباس مہیا کرو.وہ لباس جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے یعنی لباسُ التَّقْوى ذلك خير تقویٰ کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے.غرض تم احمدیت کے خادم بنو پھر

Page 239

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 234 جلد دوم اللہ تعالیٰ کی نظروں میں بھی تم معزز ہو گے اور دنیا بھی تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھے گی.کہتے ہیں ایک احمق اپنے باپ سے لڑ پڑا.باپ نے اس کو زجر کیا.بیٹے نے آگے سے کہا تم ایک غریب کے بیٹے ہو اور میں ایک نواب کا بیٹا ہوں حالانکہ اس کو وہ عزت اپنے باپ کی وجہ سے ہی ملی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو رتبہ اللہ تعالیٰ نے بخشا ہے اگر ہم صرف اسی کو اپنی عزت سمجھ لیں تو یہ عزت ہماری مانگی ہوئی ہوگی.حقیقی عزت تبھی ہو گی جب ہم اس میں اپنا کمال بھی ملا لیں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مردوں کیلئے خالص چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز نہیں لیکن اگر اس میں کوئی اور چیز ملالی جائے تو پھر اس کا پہنا جائز ہو جاتا ہے.اس طرح باپ دادے کی عزت حقیقی عزت نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں اپنا پیتل بھی شامل نہ کر لیا جائے.اسی طرح خالص ریشم پہنا بھی جائز نہیں مگر وہ ریشمی کپڑا جس میں ایک تارسوت کا بھی ہو اس کا پہننا جائز ہو جاتا ہے.تو باپ دادے کی عزت کو اپنی طرف منسوب کرنا حقیقی عزت نہیں جب تک اس میں انسان اپنا کمال بھی داخل نہ کرے.اللہ تعالیٰ نے تمہارے گھر سے وہ آواز اٹھائی جس کے سننے کیلئے تیرہ سو سال سے مسلمانوں کے کان ترس رہے تھے اور وہ فرشتے نازل ہوئے جن کے نزول کیلئے جیلانی ، غزائی اور ابن العربی کے دل للچاتے رہے مگر ان پر نازل نہ ہوئے.گو بے شک یہ بہت بڑی عزت ہے مگر اس کو اپنی طرف منسوب کرنا صرف ایک طفیلی چیز ہے.دنیا کے بادشاہوں کی اولاد اپنے باپ دادوں کی عزتوں کو اپنی عزت کہتے ہیں حالانکہ دراصل وہ ان کیلئے عزت نہیں ہوتی بلکہ لعنت ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ کون لوگ زیادہ اشرف ہیں؟ رسول کریم صلى ﷺ نے فرمایا جو تمہارے اندرا شرف ہیں بشرطیکہ ان میں تقوی ہو تو رسول کریم یا لی نے بھی پہلی قسم کی عزت کو تسلیم فرمایا ہے مگر حقیقی عزت وہی تسلیم فرمائی ہے جس میں ذاتی جو ہر بھی مل جائے.پس تم اپنے اندر ذاتی جو ہر پیدا کر و.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا

Page 240

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 235 جلد دوم خیال رکھو، خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فرد ہونے کی وجہ سے تمہیں کوئی امتیاز نہیں.امتیاز خدمت کرنے میں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدمت کی اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل نازل فرمایا.تم بھی اگر خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر بھی اپنا فضل نازل کرے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں منه از بهر ما کرسی که ماموریم خدمت را یعنی میرے لئے کرسی مت رکھو کہ میں دنیا میں خدمت کیلئے پیدا کیا گیا ہوں.اسی طرح تم بھی کرسیوں پر بیٹھنے کے متمنی نہ بنو بلکہ ہر مسکین اور غریب سے ملو.اور اگر تمہیں کسی غریب آدمی کے پاؤں سے زمین پر بیٹھ کر کانٹا بھی نکالنا پڑے تو تم اسے اپنے لئے فخر خود تقویٰ حاصل کرو اور جماعت کے دوستوں سے مل کر ان کو فائدہ پہنچاؤ اور جو علم تم نے سیکھا ہے وہ ان کو بھی سکھاؤ.مل کر میں نے اس لئے کہا ہے کہ انگریز بھی کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانیوں کو پڑھاتے ہیں.مجھے کئی دفعہ ان سے ملنے کا موقع ملا ہے جب وہ یہ کہتے ہیں تو میں ان سے کہتا ہوں کہ تم لوگ ہم میں مل کر نہیں پڑھاتے بلکہ اپنے آپ کو کوئی باہر کی چیز خیال کر کے ہماری تربیت کرتے ہو اس لئے اس کا ہم پر کوئی اثر نہیں ہوتا.پس میں تم کو مل کر تربیت کرنے کیلئے کہتا ہوں.جماعت میں بعض کمزور دوست بھی ہوتے ہیں ان میں اسلام کی حقیقی روح کا پیدا کرنا بہت ہی ضروری کام ہے.جماعت کو علوم دینیہ سے واقف کرنا ، عرفانِ الہی کی منازل سے آگاہ کرنا، خدمت خلق ، محبت الہی اور اسلام کی حکمتوں کا بیان کرنا بہت بڑا کام ہے.اسی طرح جماعت میں ایثار اور قربانی کی روح پیدا کرنا بھی ایک ضروری کام ہے.یہ ایسے کام ہیں جن سے تم لوگوں کی نظروں میں معزز ہو جاؤ گے.جماعت میں کئی آدمی اخلاق کے لحاظ سے کمزور ہیں ان کو اخلاق کی درستی کی تعلیم دو.اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق جو تحریک جماعت میں ہوتی ہے اس کو کامیاب بنانے کی کوشش کرو.بعض لوگ رسوم و رواج میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو ان رسوم سے چھڑانے کی کوشش کرو.بے شک

Page 241

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 236 جلد دوم اس کام کو سر انجام دینے میں بڑی مشکلات ہیں جیسے نئے بچھیرے پر زین باندھا جاتا ہے تو وہ بھاگتا ہے گو دتا ہے اس لئے کہ اس کو عادت نہیں ہوتی حالانکہ اس پر زین باندھنا اس کی خوبصورتی اور قیمت کو زیادہ کرنے کیلئے ہوتا ہے مگر چونکہ وہ اس کو سمجھتا نہیں اس لئے بھاگتا ہے.لیکن جب وہ عادی ہو جاتا ہے تو وہی گھوڑا جو سودوسو کا ہوتا ہے بعد میں پچاس پچاس ہزار بلکہ لاکھ دو لاکھ تک اس کی قیمت پہنچ جاتی ہے.ہماری جماعت کے جو لوگ رسم و رواج کے مرض میں گرفتار ہیں ان کو اس سے آزاد کرنا بالکل ایسا ہی ہے.پس تم پر بڑی ذمہ داریاں ہیں جن کو پورا کرنے سے تم حقیقی عزت حاصل کر سکتے ہو.مگر یہ عزت حاصل کرنا اس وجہ سے نہیں کہ تم میری اولاد ہو اور نہ اس وجہ سے کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے افراد ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جسمانی تعلق کے علاوہ رسول کریم ﷺ جو آپ کے آقا ہیں ان سے بھی جسمانی تعلق کسی کی حقیقی عزت نہیں کہلا سکتا.میں بچہ تھا کہ ہمارے گھر ایک عورت آئی اس نے پانی مانگا.اس کو حضرت اماں جان ) نے پانی دیا.اس نے کہا کہ تم جانتی نہیں میں سیدانی ہوں اور آل رسول ہوں مجھے تم امتیوں کے گلاس میں پانی پلاتی ہو.میں نے جب اس کے منہ کی سے یہ بات سنی تو میرے دل میں اس کے متعلق عزت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا بلکہ مجھے اس سے شدید نفرت پیدا ہوئی.پس تم رسول کریم ﷺ کے ساتھ بھی جسمانی تعلق کی وجہ سے حقیقی عزت حاصل نہیں کر سکتے ہاں یہ طفیلی عزت ضروری ہے.حقیقی عزت اُس وقت ہوتی ہے جب اس میں اپنا کمال بھی داخل کیا جائے.پس تم حقیقی عزت حاصل کرنے کی کوشش کرو، جماعت کی خدمت کرو.اگر تم اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کی خدمت کرو گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم دوہرے اجر کے مستحق ہو گے.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر تم اس دین کو قبول کر لو تو تم کو دوہرا اجر ملے گا اور اگر کی اعراض کرو گے اور اس دین کو رد کر دو گے تو پھر عذاب بھی دو ہرا ہے.پس تمہارا تعلیم کے بعد واپس آنا تم پر بہت بڑی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.تم لوگوں کو احمدیت کی تعلیم سے

Page 242

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 237 جلد دوم روشناس کرانے کی کوشش کرو اور لوگوں کو سچائی کی تلقین کرو اور جماعت سے جہالت دور کرو اور اپنے فرائض کی طرف جلد سے جلد توجہ کرو.میں اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے کسی کام نہیں آ سکتا صرف خدا کا رحم ہی ہے جو میرے کام بھی آ سکتا ہے اور تمہارے کام بھی آسکتا ہے.“ (الفضل 7 تا 9 را پریل 1961ء) 1 ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء فى الشكر لِمَن احسن الیک - صفحہ 454 حدیث نمبر 1955 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2 بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم صفحہ 1051 حدیث نمبر 6011 مطبوعه رياض 1999 الطبعة الثانية 3 البقرة: 149 :4 مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 235 مطبوعہ بیروت 1978ء 5 بغچه : گٹھڑی (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 206 مطبوعہ لاہور 2011ء) 6 الاعراف: 27 :7 بخارى كتاب المناقب باب المناقب صفحہ 588 حدیث نمبر 3490 مطبوعہ رياض 1999ء الطبعة الثانية

Page 243

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 238 جلد دوم مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کی اہمیت اور مبلغین اسلام کو نہایت ضروری اور ہم نصائح مورخہ 20 نومبر 1944ء کو بعد نماز عصر واقفین تحریک جدید کی طرف سے مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے تشریف لے جانے والے تین مبلغین کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی گئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک نوجوان پہلے جاچکے ہیں اور اب تین اور نوجوان جا رہے ہیں.ان میں سے ایک تو مولوی فاضل ہیں اور دوسرے دو میں سے ایک مدرسہ احمدیہ میں تعلیم پائے ہوئے ہیں اور ایک نے عربی تعلیم بہت ہی کم حاصل کی ہے.بہر حال جس نیت اور ارادہ سے یہ نوجوان جا رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہ اپنے ارادوں پر قائم رہیں اور اپنی نیتوں کو درست رکھیں تو اللہ تعالیٰ ان کو سکھانے اور پڑھانے کے کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا.مغربی افریقہ ایک ایسا علاقہ ہے جس میں خصوصیت کے ساتھ اسلام کا بیج بویا جا رہا ہے اور امید دلائی جاتی ہے کہ اگر وہاں اچھی طرح تبلیغ کی جائے تو لاکھوں لاکھ لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے عنقریب اسلام میں داخل ہو جائیں گے.ان میں قربانی کا مادہ بھی پایا جاتا ہے لیکن ان کی قربانی اس جہالت کی وجہ سے جو ابھی تک اس ملک میں قائم ہے بعض دفعہ ٹھوکر کا موجب بھی ہو جاتی ہے.لیکن پھر بھی عام طور پر وہ اچھی قربانی کرنے والے لوگ

Page 244

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 239 جلد دوم ہیں.چنانچہ ایک علاقہ کے متعلق میرے پاس رپورٹ پہنچی کہ اس نے سال بھر میں چھپیں ہزار روپیہ تبلیغ اور تعلیم پر خرچ کیا ہے.در حقیقت مغربی افریقہ کے تین ممالک یعنی سیرالیون ، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا ایسے ملک ہیں جو برطانوی ایمپائر میں ہندوستان کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں کیا بلحاظ علاقہ کی وسعت کے اور کیا بلحاظ مسلمانوں کی تعداد کے.ہندوستان میں آٹھ دس کروڑ کی تعداد میں مسلمان پائے جاتے ہیں.اور اس سے اتر کر انگریزی حکومت کے ماتحت صرف مغربی افریقہ میں ہی مسلمان آباد ہیں ایسے علاقہ کی اہمیت کا انکار کسی صورت میں بھی نہیں کیا جا سکتا.اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ صدائے بازگشت کے طور پر مغربی افریقہ کا یقیناً دوسرے ممالک پر بھی اثر پڑے گا.مزید خوبی اس جگہ کے رہنے والوں میں یہ پائی جاتی ہے کہ وہ جلد جلد بوجھ برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کر لیتے ہیں.یہ ایک وسیع علاقہ ہے جو کئی ہزار میل میں پھیلا ہوا ہے اور دو کروڑ کے قریب مسلمان اس میں پائے جاتے ہیں.ایسے وسیع علاقہ میں ہم تبلیغ کر رہے ہیں.مگر علاقہ کی اس قدر وسعت کے باوجود ہمارا خرچ بہت قلیل ہے.اور پھر جس رنگ میں ہمیں وہاں کامیابی حاصل ہو رہی ہے اس کا ثبوت اس امر سے مل سکتا ہے کہ اب تک ساٹھ ستر ہزار افراد پر مشتمل جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں پیدا ہو چکی ہے.بلکہ گزشتہ دنوں میں ایک سالانہ جلسہ کے موقع پر وہاں کئی ہزار صرف جماعتوں کے نمائندے ہی اکٹھے ہوئے.اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں ہماری جماعت خدا کے فضل سے کس قدر پھیلی ہوئی ہے.خرچ نہایت معمولی ہے.آئندہ کے متعلق بھی وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر ہمارے مبلغ جائیں تو صرف چھ ماہ تک ان کے اخراجات مرکز برداشت کرے چھ ماہ کے بعد جماعتیں ان کا بوجھ خود اٹھائیں گی.پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغی اخراجات کا بوجھ ہی برداشت نہیں کرتے بلکہ مختلف جگہوں پر انہوں نے اپنے خرچ سے مساجد بھی قائم کی ہیں اور اب تک تمیں چالیس کے قریب چھوٹی بڑی مسجد میں وہ قائم کر چکے ہیں.بلکہ ابھی پچھلے دنوں

Page 245

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 240 جلد دوم مجھے ایک تازہ خبر ملی جس سے مجھے بہت ہی خوشی ہوئی.اور وہ یہ کہ انہوں نے ایک علاقہ میں ایک مسجد بنانے کی تجویز کی جس پر پندرہ سو روپیہ کے قریب خرچ ہوتا تھا.وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ میں نے لندن میں مولوی جلال الدین صاحب شمس کو تحریک کی کہ وہ مسجد کے لئے وہاں کی جماعت سے چندہ جمع کر کے بھیجیں.انہوں نے انگلستان کی جماعت کے سامنے یہ تحریک پیش کی اور 80 یا 90 پونڈ انہوں نے جمع کر کے بھجوا دیئے.مجھے اس خبر سے بہت ہی خوشی ہوئی کہ ایک وہ وقت تھا کہ ہم لندن میں مسجد بنوانے کے لئے چندہ کی تحریک کرتے تھے اور اب یہ وقت ہے کہ یورپ کے لوگ خود دوسرے ممالک میں مسجد میں قائم کرنے کے لئے چندے دے رہے ہیں.غرض یہ ایک اہم علاقہ ہے جس میں تبلیغ کے بہترین نتائج نکل چکے ہیں اور اس سے بھی بہتر نتائج مستقبل قریب میں نکلنے کی امید ہے.اور گو اس ملک کے مبلغین کی خدمات ابھی نمایاں طور پر ہمارے سامنے نہیں آئیں مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے کئی ممالک سے اس جگہ تبلیغ زیادہ کامیاب رہی ہے اور اس جگہ کے مبلغین نے دوسرے کئی ممالک کے مبلغین سے بہت بڑھ کر قربانیاں کی ہیں.تبلیغ اسلام کے لحاظ سے در حقیقت اب تک ہمیں تین نہایت اہم ممالک حاصل ہوئے ہیں.ایک یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں کی تعداد میں جماعت پائی جاتی ہے اور وہ سب نہایت مخلص ہیں، مرکز سے خط و کتابت بھی رکھتے ہیں اور چندے بھی باقاعدگی سے دیتے ہیں.دوسرا علاقہ مغربی افریقہ کا ہے اور تیسرا انڈونیشیا کا.ہندوستان سے باہر یہ تین علاقے احمدیت کی تبلیغ کے لئے نہایت ہی بابرکت اور زرخیز ثابت ہوئے ہیں.یہاں صرف بیج پڑنے کی دیر تھی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یکدم کھیتی پیدا ہونے لگ گئی.ان تین میں سے ایک یعنی مغربی افریقہ میں اب یہ تین اور نوجوان تبلیغ احمدیت کے لئے جا رہے ہیں.پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ دوسرے مبلغین کے خلاف اس ملک میں جتنے بھی مبلغ بھیجے گئے ہیں سب نے آپس میں ایک دوسرے سے تعاون کیا اور پچھلوں کی خدمات کی تنقیص کرنے

Page 246

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 241 جلد دوم اور ان کو گرانے کی بجائے انہیں حقیقی قدر و عظمت کی نگاہ سے دیکھا.میں امید کرتا ہوں کہ یہ نو جوان بھی اسی روح کو قائم رکھیں گے.یہ ایک خطر ناک مرض ہے جو ہمارے ہاں پایا جاتا ہے کہ جب بھی ان میں سے کوئی کسی عہدے پر مقرر کر کے بھیجا جاتا ہے تو وہ پہلے کی تنقیص کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں آیا تو یہ خرابی تھی وہ خرابی تھی ، یوں گڑ بڑ ہو رہی تھی.میں نے آکر ان نقائص کو دور کیا اور خرابیوں کی اصلاح کی.پھر اس کے بعد جب کسی اور کو بھیجا جاتا ہے تو وہ اپنے سے پہلے شخص کے نقائص نکالنے شروع کر دیتا ہے.اور کسی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ میری اس تحریر کا احترام کون کرے گا اور میری ان باتوں کو وقعت کی نگاہ سے کون دیکھے گا.اگر میں دوسروں کے نقائص بیان کروں گا تو کل میرے بعد جو شخص آئے گا وہ میرے نقائص بیان کرنا شروع کر دے گا پھر میری عزت کیا رہ جائے گی.مگر اپنی حماقت اور نادانی سے ہر بعد میں آنے والا پہلے کی خرابیاں بیان کرتا چلا جاتا ہے.یہ ایک بہت بڑا نقص ہے جو یہاں پایا جاتا ہے اور جس کی اصلاح کی بے حد ضرورت ہے.یورپ کے لوگوں کو دیکھ لو انہوں نے اپنے پرانے فلاسفروں کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی ہیں مگر اس کے باوجود وہ ان کی تعریف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر وہ فلاسفر یہ رطب و یابس جمع نہ کرتے تو ہم ترقی کی طرف اپنا قدم نہ بڑھا سکتے.لیکن اس کے ساتھ ہی وہ فلسفیوں کی مذمت کرتے ہیں اور مسلمان بھی اپنی نادانی سے ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں.حالانکہ جتنی لغو اور پوچ باتیں یورپین فلسفیوں نے کی ہیں ان کا عشر عشیر بھی کسی مسلمان فلسفی کی باتوں میں نہیں پایا جاتا.مگر مسلمان ہیں کہ وہ اندھا دھند اپنے پرانے فلاسفروں کی تحقیر کے درپے رہتے ہیں.حالانکہ یہ محض جہالت اور بیوقوفی کی بات ہے.اگر مینار پر بیٹھا ہوا آدمی نیچے کی سیڑھی کی مذمت کرنے لگ جائے تو اسے کون عقل مند قرار دے گا.بے شک وہ اس وقت مینار پر ہے لیکن وہ مینار پر نہیں چڑھ سکتا تھا جب تک نیچے کی سیڑھی موجود نہ ہوتی.پس ضروری ہے کہ سابق مبلغین کی خدمات کی قدر کی جائے اور ان کو گرانے کی کوشش نہ کی

Page 247

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 242 جلد دوم جائے بلکہ ان کی مساعی کو قدر و عظمت کی نگاہ سے دیکھا جائے.دوسری چیز تعاون ہے.جانے والے مبلغین کا فرض ہے کہ وہ آپس میں بھی اور وہاں جو مبلغ کام کر رہے ہیں ان کے ساتھ پورا پورا تعاون کریں.اس وقت جتنے مبلغ وہاں گئے ہیں انہوں نے ایسی عمدگی کے ساتھ آپس میں تعاون کیا ہے کہ بے اختیار دل سے ان کے لئے دعائیں نکلتی ہیں.بعض جگہ آپ ہی آپ انہوں نے اپنے میں سے ایک کو افسر بنا لیا اور خود ان کے ساتھ رہ کر کام کرنا شروع کر دیا.غرض انہوں نے نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ آپس میں تعاون کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت کا وقار قائم ہو گیا ہے.وہاں پادریوں کا بہت زور ہے.ان تینوں ممالک کی تعلیم کا انتظام پادریوں کے ہاتھ میں ہے.بے شک وہاں گورنمنٹ سکول ہیں مگر گورنمنٹ جس قد ر امداد دیتی ہے سب پادریوں کے ہاتھ میں دے دیتی ہے اور پادریوں کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اسے جس طرح چاہیں خرچ کریں.ایسے ممالک میں جہاں پادریوں کا اس قدر اقتدار ہے ہمارے مبلغین نے ان کا مقابلہ کیا حالانکہ وہ زبان انگریزی بھی اچھی طرح نہیں جانتے.مولوی نذیر احمد صاحب تو انگریزی جانتے ہیں مگر حکیم فضل الرحمن صاحب کی تعلیم غالباً انٹرنس تک ہے.اسی طرح باقی مبلغ انگریزی کی بہت کم تعلیم رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے پادریوں کا بڑی کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر کے ان کو شکست دی.گورنمنٹ سے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا اور آخر گورنمنٹ نے ہماری جماعت کے قائم کردہ سکولوں کو تسلیم کیا اور ان کی مدد کی.صرف ایک مشکل ہے جس کا حل ابھی باقی ہے.اور وہ یہ ہے کہ گورنمنٹ سروس اس ملک میں اسی کو ملتی ہے جو لندن میٹرک کا امتحان پاس ہو.پادریوں کے زیر انتظام چونکہ وہاں کے ہائی سکول ہیں اور وہ دیر سے قائم ہیں اس لئے وہ ان سکولوں میں تعلیم پانے والوں کو یہ امتحان دلا دیتے ہیں اور انہیں ملازمتیں مل جاتی ہیں مگر ہمارے سکول صرف مڈل تک ہیں اس لئے ہمارے سکول کے پاس شدہ احمدی نوجوان ان ملازمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے.اس نقص کے ازالہ کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ یہاں سے بعض

Page 248

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 243 جلد دوم گریجوایٹ مبلغ بھجوائے جائیں جو وہاں ہائی سکول قائم کریں تا کہ احمدی نوجوان بھی ملازمت کے حصول کے لئے دوسروں سے پیچھے نہ رہیں.ہم یہ امید آپ لوگوں سے تو نہیں کر سکتے جو اس وقت وہاں تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں ہاں ہم یہ امید آپ سے ضرور کرتے ہیں کہ آپ بعد میں آنے والوں کے لئے ابھی سے میدان تیار کرنا شروع کر دیں گے اور ایسی جماعت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو قربانی کرنے والی ہو اور ہائی سکول کا بوجھ برداشت کرنے کے لئے تیار ہو.اگر ہم تین چار بی.اے پاس احمدی نوجوان یہاں سے بھجوائیں یا کسی ایسے نوجوان کو بھیجوائیں جو ولایت کا پاس شدہ گریجوایٹ ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اخراجات زیادہ ہوں گے اور اس کے لئے آپ لوگوں کی قربانی کی ضرورت ہو گی.آپ لوگ مالی لحاظ سے تو کوئی قربانی نہیں کر سکتے لیکن آپ یہ قربانی کر سکتے ہیں کہ تبلیغ کے لئے ویسی ہی جفاکشی کا نمونہ دکھائیں جیسے مغربی افریقہ میں مبلغین دکھا چکے ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جفاکش اور محنتی بنیں.انہوں نے ایسے ایسے جنگلوں میں پیدل سفر کئے ہیں جہاں خود اس ملک کے باشندے جاتے ہوئے ڈرتے ہیں.چنانچہ مغربی افریقہ میں ہمارے مبلغ ایسے ایسے پُر خطر جنگلات میں سے پیدل سفر کرتے ہوئے تبلیغ کے لئے گئے ہیں جہاں سپاہی بھی جانے سے گھبراتے ہیں.اور بعض جگہ تین تین چار چار سو میل لمبا سفر انہیں پیدل طے کرنا پڑا ہے.پھر وہ علاقہ ایسا گرم ہے کہ ہمارے ملک کی گرمی کی اس کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں.اندرون ملک میں پانچ پانچ ، چھ چھ سو میل لمبے علاقے ایسے ہیں جہاں لاریاں بھی نہیں چلتیں اور جہاں کھانے کے لئے بھی کوئی اچھی چیز میسر نہیں آتی.صرف اسی طرح گزارہ ہو سکتا ہے کہ کبھی گرم پانی میں جو یا مکئی کا آٹا بھگو کر کھا لیا اور کبھی درختوں کے چھوٹے چھوٹے پھل جو نہایت تلخ اور بدمزہ ہوتے ہیں کھا لئے.مگر ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارے مبلغین نے ہفتوں پیدل سفر کیا اور لوگوں کو پیغام حق پہنچایا.یہ معیار ہے جو ان مبلغین نے قائم کیا ہے.اس معیار کو نہ صرف قائم رکھنا بلکہ بڑھانا اور ترقی دینا آپ کا کام ہے.یورپین لوگ جو تعیش کے

Page 249

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 244 جلد دوم سامانوں کے دلدادہ ہوتے ہیں اور جن کی عمریں راحت اور آرام کے اسباب میں بسر ہوتی ہیں وہ بھی اس علاقہ میں اسی قسم کی قربانیوں سے کام لے رہے ہیں.بے شک انہیں ہمارے مبلغین سے کھانا زیادہ بہتر ملتا ہے، لباس زیادہ اعلیٰ ہوتا ہے اور سفر کے لئے لا ریاں موجود ہوتی ہیں مگر وہ لوگ جو لندن کی گلیوں میں موٹروں پر سفر کرنے کے عادی کی ہوں ان کے لئے لاریوں کا سفر بھی تو ایک مصیبت ہوتا ہے.لاری کے دھکے کھانا ان کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارے کسی آدمی کا ٹم ٹم یا گدھے پر سوار ہونا.پس بے شک انہیں اپنی سہولت اور آرام کے سامان ہم سے بہت زیادہ میسر ہیں مگر ان کے بلند معیار زندگی کو دیکھتے ہوئے اس قسم کی سہولتیں بھی ان کی قربانی کو کم نہیں کرتیں.اگر یورپ کے لوگ شرک کی اشاعت کے لئے ایک انسان کو خدا منوانے کے لئے ایسی ہمت دکھلا سکتے اور اس قدر قربانی کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں تو ہمارے مبلغین کو اپنی قربانی کا معیار کس قدر بلند چاہئے.یہ کوئی ایسی بات نہیں جسے وہ آسانی سے نہ سمجھ سکتے ہوں.اگر انگلستان یا م یا پرتگال میں رہنے والے عیسائی جو ناز و نعم میں پلے ہوئے ہوتے ہیں اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے اس قدر ہمت دکھلا سکتے ہیں تو ہمارے ملک کے آدمی جو پہلے ہی غریب اور کنگال ہیں اور اسی وجہ سے مشکلات کو برداشت کرنے کے عادی ہیں وہ کیوں ان سے اعلیٰ نمونہ نہیں دکھا سکتے.یقیناً وہ اپنی قربانی کا ایسا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جو بے مثال ہو.ضرورت صرف ایمان اور اخلاص کی ہے.پس میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ پہلوں سے زیادہ قربانی کا نمونہ دکھا ئیں گے اور وہ دن میرے لئے آنے نہیں دیں گے جب میں آپ میں سے کسی پر یہ الزام لگا سکوں کہ اس نے وہاں جا کر ایک اچھی فضا کو مکدر کر دیا اور تعاون کی روح کو مقابلہ کی روح سے بدل دیا یا دوسرے کے کام کی تعریف کرنے کی بجائے اس کی تنقیص شروع کر دی.آپ لوگوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے.گو آپ میں سے ایک مولوی فاضل ہیں مگر آپ میں سے کسی کو بھی تبلیغ کا تجربہ نہیں.اور تبلیغ میں کامیاب ہونے کے لئے سب سے ضروری چیز

Page 250

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 245 جلد دوم سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر کا مطالعہ ہے.اسی لئے میں نے متواتر اور بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوانوں کو سلسلہ کا لٹریچر ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہئے.خصوصیت سے تفسیر کبیر ایک ایسی کتاب ہے جس کو بار بار پڑھنا چاہئے.میرے نزدیک اس کے مضامین ایسے ہیں کہ پندرہ میں دفعہ جب تک تفسیر کبیر کو نہ پڑھا جائے وہ کی پوری طرح ذہن میں متحضر نہیں رہ سکتے.اس سے کم مطالعہ کر کے اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس نے دینی مسائل کو سمجھ لیا ہے تو الَّا مَا شَاء اللہ وہ بڑی غلطی کا ارتکاب کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتابیں بھی ایسی ہیں جو ایک دفعہ پڑھنے سے یاد نہیں ہوسکتیں.مثلاً براہین احمدیہ ہے.اگر کوئی شخص صرف ایک دفعہ پڑھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے براہین احمدیہ پڑھ لی ہے تو وہ شدید غلطی خوردہ ہے.براہین احمدیہ کو جب تک پانچ چھ بلکہ دس دفعہ نہ پڑھا جائے اس کے مضامین یاد نہیں ہو سکتے.اسی طرح کئی اور کتا ہیں ہیں جو مضامین کے تنوع کے لحاظ سے بار بار پڑھنے کی محتاج ہیں.جیسے ازالہ اوہام ہے یہ کتاب بھی ایسی ہے جسے بار بار پڑھنا چاہئے.بعض کتابیں بے شک ایسی ہیں جو ایک دو دفعہ پڑھ کر یا درہ سکتی ہیں.جیسے حقیقۃ الوحی ہے کہ اس میں زیادہ تر نشانات کا ذکر آتا ہے اور مضمون بھی ایسا ہے جو جلدی ذہن میں اتر جاتا ہے.مگر ازالہ اوہام یا آئینہ کمالات اسلام کے بعض حصے یا براہین احمدیہ یا مثلاً آریوں کے متعلق سرمہ چشم آریہ.یہ سب کتابیں ایسی ہیں جنہیں بار بار اور بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے.جب تک ان کتابوں کو بار بار نہ پڑھا جائے یہ کتا ہیں یاد نہیں ہو سکتیں.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ سلسلہ کا لٹریچر ہمیشہ اپنے مطالعہ میں رکھیں اور اسی کے مطابق لوگوں کو تبلیغ کریں اور ان کے اعتراضات کا جواب دیں.آپ لوگ ابھی اس قابل نہیں ہیں کہ اپنے پاس سے لوگوں کو جواب دینے شروع کر دیں.آپ لوگوں کا اولین فرض اس وقت یہ ہے کہ جو مضامین سلسلہ کی طرف سے شائع ہوتے ہیں یا جو لٹریچر سلسلہ کی طرف سے شائع ہو چکا ہے ان مضامین اور اس لٹریچر کو اپنے مدنظر رکھیں اور جب بھی کسی سوال کے جواب کی ضرورت ہوسلسلہ کے لٹریچر

Page 251

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 246 جلد دوم کی طرف رجوع کریں یا ان مضامین کو پڑھیں جو سلسلہ کی طرف سے شائع ہوتے ہیں اور جو جواب ان میں لکھا ہو صرف اس کو پیش کریں اپنی طرف سے کوئی نیا جواب دینے کی کوشش نہ کریں.ابھی آپ لوگ نئے جواب دینے کے اہل نہیں ہیں.تین چار سال کے بعد جب آپ لوگ واپس آئیں گے تو پھر آپ کو نئے سرے سے تعلیم دلا کر وہاں تبلیغ کے لئے بھجوایا جائے گا.اسی طرح ایک دو سفروں کے بعد آپ اس قابل ہو سکیں گے کہ نئے جواب بھی لوگوں کو دے سکیں بانٹے استدلال کر سکیں.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مبلغ نے بتایا کہ میں فلاں بات کے متعلق یوں استدلال کیا کرتا ہوں حالانکہ وہ استدلال خطر ناک طور پر غلط تھا.پس آپ لوگ یہ غلطی نہ کریں کہ اپنی طرف سے نئے نئے استدلال شروع کر دیں.ابھی آپ لوگوں کا یہی کام ہے کہ جو جوابات سلسلہ کی طرف سے شائع ہو چکے ہیں انہیں کو پیش کریں نیا استدلال کرنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ ابھی آپ لوگ اس کام کے اہل نہیں ہیں.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک بات کے متعلق خیال کرتا ہے کہ وہ ایک نیا نکتہ ہے جو اسے سوجھا ہے مگر در حقیقت وہ نکتہ نہیں ہوتا بلکہ ایک غلط استدلال ہوتا ہے.اس قسم کی غلطیوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ پہلوں کی نقل کریں نقل کریں اور پھر نقل کریں.اور اگر کسی سوال کا جواب بالکل سمجھ میں ہی نہ آئے تو قادیان سے اس کا جواب منگوایا جائے یا آپ لوگوں کے قریب ہی مولوی جلال الدین صاحب شمس رہتے ہیں ان سے دریافت کر لیا جائے.بے شک اس میں کسی قدر وقت ہو گی مگر سردست آپ لوگوں کے لئے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ پہلوں کی نقل کریں اور تعاون کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں.پہلے مبلغین ایک دوسرے کے ساتھ پوری طرح تعاون کرتے ہوئے اپنے افسر کی کامل اطاعت کرتے رہے ہیں.اگر کسی وجہ سے وہاں کے کسی مبلغ کو واپس بلا لیا جائے اور آپ لوگوں میں سے کسی کو افسر بنا دیا جائے یا کسی اور کی ماتحتی میں کام کرنے کی ہدایت دی جائے تو آپ لوگوں کو یا د رکھنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر کسی وقت تم پر کوئی حبشی افسر مقرر کیا جائے جو نسلاً بعد نسل حبشی ہو اور کم عقل ہو اتنا کہ اس کا

Page 252

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 247 جلد دوم سر انگور کے دانہ کے برابر ہو تب بھی تمہارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو.1 کسی شخص کی لیڈری کے لئے دو ہی باتیں ضروری ہوتی ہیں.یا تو وہ اعلیٰ درجہ کا حسب و نسب رکھنے والا ہو اور یا پھر وہ نہایت مدبر اور سمجھدار انسان ہو.رسول کریم ﷺ ان دونوں باتوں کی نفی کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر وہ نسلاً بعد نسل حبشی ہو اور پھر کم عقلی میں بھی وہ انتہائی درجہ رکھتا ہو تب بھی تمہارا فرض ہے کہ اس کی اطاعت کرو.در حقیقت ہر مبلغ کا پہلا فرض یہی ہے کہ وہ اپنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرے اور بالا افسر کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کا نمونہ دکھائے.اگر کوئی شخص بالا افسر کی اطاعت نہیں کر سکتا تو نہ صرف وہ تبلیغ کے قابل نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے حکم کے مطابق تو ایسا شخص مسلمان بھی نہیں.2 مسلمان اور پھر مبلغ کے لئے کامل اطاعت کا ہونا نہایت ضروری ہے.دوسری ہدایت جو اس موقع پر میں دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ گفتگو اور تقریرہ وغیرہ میں اس امر کو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ تلفظ صحیح طور پر ادا ہو.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اچھے بھلے عربی دان مبلغ بھی بعض دفعہ تلفظ کو ادا کرنے کے لحاظ سے نہایت فاش غلطیوں کا ارتکاب کر جاتے ہیں.مثلاً ابھی واقفین کی طرف سے ایڈریس پیش کیا گیا ہے جس کو پڑھنے والے ایک بی.اے.ایل.ایل.بی ہیں.انہیں پانچ سال عربی کی تعلیم حاصل کرتے گزر گئے ہیں مگر اتنے لمبے عرصہ کی تعلیم کے باوجود السَّلَامُ عَلَيْكُمُ صاف طور پر کہنے کی بجائے سَلامُ عَلَيْكُمُ کہہ کر وہ اس طرح دور ہی سے گزر گئے ہیں کہ گویا انہیں ڈر تھا کہ اگر آرام سے اور ٹھہر ٹھہر کر میں نے لفظ ادا کیے تو مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو جائے.حالانکہ پانچ سال کی تعلیم کے بعد ان کے اندر اتنی قابلیت پیدا ہونی ضروری تھی کہ وہ ٹھہر کر اور سکون کے ساتھ الفاظ کو ادا کر سکیں.جسے عربی اچھی طرح نہیں آتی اس کے اندر احساس ہو سکتا ہے کہ مجھے جلدی جلدی الفاظ سے گزر جانا چاہئے ایسا نہ ہو کہ مجھ سے غلطی ہو جائے.مگر جسے ایک لمبا عرصہ عربی کی تعلیم حاصل کرتے گزر گیا ہے اس کے کیا اندر یہ احساس کیوں ہو کہ مجھ سے کہیں غلطی نہ ہو جائے.ان کے ایڈریس پڑھنے کا طریق ایسا تھا

Page 253

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 248 جلد دوم جس کو دیکھ کر مجھے خواجہ کمال الدین صاحب یاد آ گئے.وہ بھی عربی الفاظ کو ادا کرتے وقت گھبرا جاتے تھے اور جس طرح دلدل میں پھنسا ہوا انسان نکلنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح ان کی یہ کوشش ہوا کرتی تھی کہ میں دور ہی نکل جاؤں.چنانچہ کئی الفاظ ایسے ہوا کرتے تھے جو ان کے ہونٹوں میں ہی رہتے تھے اور صرف گنگناہٹ کی آواز دوسروں کو سنائی دیتی تھی.ہمارے ان واقفین کو پانچ پانچ سال تعلیم حاصل کرتے گزر گئے ہیں اس قدر لمبی تعلیم تو مولویوں کو بھی حاصل نہیں ہوتی پھر نہ معلوم ان کے اندر ابھی تک احساس کمتری کیوں پایا جاتا ہے اور کیوں وہ ڈرتے ہیں کہ ہم نے اگر ٹھہر ٹھہر کر الفاظ ادا کئے تو ہم سے غلطی نہ ہو جائے.اسی طرح جانے والوں میں سے بھی بعض نے چھوٹی چھوٹی غلطیاں کی ہیں.مثلاً اشهد ان لا ا الا اللہ میں نون کو لام سے پہلے انہوں نے نمایاں طور پر پڑھا ہے حالانکہ کلمہ طیبہ ایسی چیز ہے جسے انسان روزانہ پڑھتا ہے اس قدر بار بار دہرائے جانے والے فقرہ میں غلطی کا ہونا اسی وجہ سے ہے کہ انسان سمجھتا ہے مجھے زیادہ غور کرنے کی ضرورت نہیں.جتنا مجھے آتا ہے اتنا ہی گزارہ کے لئے کافی ہے.گزارے کا خیال انسان کو بہت خراب کرتا اور اسے ترقیات سے محروم کر دیتا ہے.اگر ایسی غلطیاں اس شخص سے ہوں جسے عربی زبان کی تعلیم کا موقع نہ ملا ہو تو اور بات ہے لیکن جسے عربی زبان پڑھنے کا موقع ملا ہو وہ ایسی غلطیاں کیوں کرے.بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ روحانیت کا لفظوں سے کیا تعلق ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک روحانیت کا ظاہری الفاظ سے کوئی تعلق نہیں مگر ایک ان پڑھ اور پڑھے ہوئے شخص میں تو کوئی فرق ہونا چاہئے.وہ شخص جسے ظاہری اور رواجی درس و تدریس میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا وہ اگر روحانیت کی کوئی بات کہتا ہے اور اس کی زبان میں تلفظ کی غلطیاں پائی جاتی ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ روحانیت کا ظاہری الفاظ سے کوئی تعلق نہیں.مگر جو شخص درس و تدریس میں اپنی عمر گزار چکا ہو وہ یہ جواب نہیں دے سکتا.اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ظاہر کو بھی درست کرے اور روحانیت کو بھی بڑھانے کی کوشش کرے.

Page 254

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 249 جلد دوم غرض میں نے آج کی تقاریر سے یہ اندازہ لگایا ہے کہ ہمارے ان تینوں جانے والے نو جوانوں کو ابھی تقریر کے میدان میں بہت بڑی مشق کی ضرورت ہے.مجھ پر ان کی تقریریں سن کر یہ اثر ہوا ہے کہ انہوں نے اس رنگ میں تو تقریر کرنا سیکھ لیا ہے کہ بات کرتے جائیں اور وقت کو گزار دیں.خواہ وہ بات کیسی ہی بے جوڑ کیوں نہ ہو.مگر یہ بات ابھی تک انہوں نے نہیں سیکھی کہ جو کچھ کہنا ہوا سے صحیح طور پر مسلسل اور مربوط طریق پر بیان کریں اور اپنے مدعا اور مقصود کو واضح رنگ میں پیش کریں.اس کے لئے ابھی انہیں بہت بڑی مشق کی ضرورت ہے.اور چونکہ مغربی افریقہ میں پہنچتے ہی انہیں مختلف جگہوں پر مقرر کر دیا جائے گا اس لئے میں انہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں سوچ کر اور سمجھ کر گفتگو کرنے اور سوچ کر اور سمجھ کر تقریر کرنے کی عادت پیدا کرنی چاہئے.اور تقریری سے پہلے اپنے سامنے کوئی مضمون رکھ لینا چاہئے کہ فلاں بات ہم نے بیان کرنی ہے اور پھر اپنی تقریر کو اسی کے ارد گرد چکر دینے ہیں.بے شک ماہر فن ایک چھوٹی سی بات کو بھی بڑھا لیتا ہے اور کئی کئی رنگ میں اسے بیان کر سکتا ہے مگر شروع میں صرف اپنا مقصد سامنے رکھنا چاہئے اور اسی کو محفوظ الفاظ میں بیان کر دینا چاہئے.زائد باتیں بیان نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس طرح مطلب خبط ہو جاتا ہے.جب وہ اس فن میں ماہر بن جائیں گے تو رفتہ رفتہ وہ بھی اپنے مضمون کو بڑھا چڑھا کر بیان کر سکتے ہیں.جیسے گھوڑے کی سواری میں جو شخص ماہر ہو وہ مضبوطی سے اس کی پیٹھ پر بیٹھا رہتا ہے اسے خطرہ نہیں ہوتا کہ اگر میں نے بے توجہی کی تو گھوڑے سے گر جاؤں گا مگر جو شخص نیا نیا گھوڑا چلانا سیکھ رہا ہو وہ باگوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑنے کے باوجود گھوڑے کو قابو میں نہیں رکھ سکتا.پس بے معنے تقریر کرنے کی بجائے سوچ سمجھ کر تقریر کرنی چاہئے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ لمبی مگر بے جوڑ تقریر سے وہ تقریر بدر جہا بہتر ہوتی ہے جو گو مختصر ہو مگر اس میں اپنے مقصد کو پوری طرح بیان کر دیا گیا ہو.پس ابتدا میں انہیں مختصر مگر با معنی تقریر کرنے کی مشق کرنی چاہئے اور ایک معین مقصد اپنے سامنے رکھ لینا چاہئے.لفاظی یا تشریحات کی طرف نہ جائیں بلکہ اسی مقصد کو

Page 255

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 250 جلد دوم اپنے سامنے رکھ کر احتیاط کے ساتھ تقریر کر دیں.زبان کے چسکے کے لئے مثالوں یا قصوں کی بھی انہیں ضرورت نہیں ہے.سر دست وہ ان میں سے کسی بات کی طرف توجہ نہ کریں.جب انہیں آہستہ آہستہ فن تقریر میں پوری مہارت حاصل ہو جائے گی تو پھر مضمون کا گھوڑا ان کی رانوں سے نکل نہیں سکے گا.چنانچہ اس کے بعد وہ دوسرے کمالات کی طرف بھی توجہ کر سکتے ہیں.مثلاً لفاظی کی طرف یا اعلیٰ محاورات کی طرف یا امثال واقوال کی طرف.کیونکہ گھوڑا ان کے قابو آ چکا ہوگا اور یہ خطرہ نہیں ہو گا کہ وہ ان کو گرا دے.پس ہمیشہ یاد رکھو کہ تقریر کرنے سے پہلے مضمون کو اپنے سامنے رکھ لو اور پھر اس کے مطابق تقریر کرو.چاہے وہ پانچ منٹ کی تقریر کی ہو یا دس منٹ کی مگر بہر حال جو کچھ کہو وہ اپنے اندر معقولیت رکھتا ہو اور لوگوں کے لئے مفید معلومات مہیا کرنے والا ہو.ان نصیحتوں کے بعد میں ان تینوں مبلغین کو رخصت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو سادہ بنائیں گے اور دعا اور اخلاص کے ساتھ اس میدان میں قدم رکھیں گے اور ایسی قربانی اور ہمت سے تبلیغ احمدیت کا کام کریں گے کہ آج تو وہ صرف تین جارہے ہیں لیکن اگلے سال وہ ہمیں تاریں دیں کہ ہمیں تھیں مبلغوں کی ضرورت ہے.اور جب ہم وہ تیس مبلغ بھجوا دیں تو وہ ہمیں تاریں دیں کہ تین سو مبلغ بھیجا جائے.ادھر اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم ان تمام مطالبات کو پورا کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جلد سے جلد احمدیت نہایت مضبوطی کے ساتھ ان علاقوں میں قائم ہو جائے.اب میں دعا کر دیتا ہوں دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی میرے ساتھ دعا میں شامل ہوں.“ الفضل مورخہ 31 جنوری 3 فروری 1961ء) 1 : بخارى كتاب الاذان باب أمامة العبد والمولى صفحہ 114 حدیث 693 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية - :2 ترمذی ابواب الادب و ابواب الامثال باب ما جاء في مثل الصلوة والصيام والصدقة صفحه 644،643 حدیث 2863 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى

Page 256

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 251 جلد دوم جماعت احمدیہ کا ہر فر دزیادہ سے زیادہ سادہ زندگی اختیار کرے.نوجوان دیگر ممالک میں جانے والے مبلغین کی ایک لمبی اور کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بنا دیں.افریقہ جانے والے مبلغین محترم مولوی عبد الخالق صاحب، محترم ملک احسان اللہ صاحب اور محترم مولوی نذیر احمد صاحب کے اعزاز میں 22 نومبر 1944ء کو بورڈ نگ تحریک جدید کے سٹاف اور طلباء کی طرف سے دعوت چائے دی گئی.اس تقریب میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.”جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ واقفین جن کو الوداع کہنے کے لئے یہ اجتماع کیا گیا ہے کل روانہ ہو رہے ہیں اور آج صبح سیرالیون سے تار آیا ہے کہ پہلے جو واقف وہاں بھیجے گئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیریت سیرالیون پہنچ گئے ہیں.اب یہ دوسرا گروہ جا رہا ہے جس کے ایک یا دو ماہ بعد انشاء اللہ تیسر ا گر وہ جائے گا.جس ملک میں تبلیغ کے لئے یہ لوگ جا رہے ہیں وہاں کی حالت اس قسم کی ہے کہ ہندوستانی جو اپنے کو غلام کہتے ہیں اور ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت ہیں اگر اس ملک کو دیکھ لیں تو اپنی حالت پر رشک کریں.اس ملک کی حالت ایسی گری ہوئی ہے کہ وہاں بعض علاقے ایسے ہیں کہ جہاں لوگ اب تک ننگے پھرتے ہیں، ستر کو ڈھانکنے کے لئے صرف کھال وغیرہ کا استعمال

Page 257

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 252 جلد دوم کرتے ہیں.مکئی کا دلیا یا جنگلی درختوں کے پھل یا ایسی ہی دوسری چیزیں ان کو کھانے کے لئے میسر آتی ہیں.کھانے پینے کی اشیاء کی جو کثرت یہاں ہے وہاں نہیں ہے.اس کے علاوہ ملیر یا وہاں اس کثرت سے ہوتا ہے کہ شاید یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ وہ ملک ملیریا کا گھر ہے.پھر سینکڑوں میل کے کئی علاقے وہاں ایسے ہیں کہ جہاں سڑک وغیرہ کا نام تک نہیں اور جہاں سواری کا ملنا مشکل ہوتا ہے.آج ہی مجھے وہاں کے ایک مدرس کا خط ملا ہے اس نے دعا کے لئے لکھا ہے اور اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہاں جو مبلغ تبلیغ کا کام کرتے ہیں وہ ایسی قربانی کر رہے ہیں کہ مقامی لوگوں کو ان کی طرف دیکھ کر اپنی حالت پر افسوس آتا اور حسرت ہوتی ہے.ان کو سینکڑوں میل ایسے جنگلوں میں سفر کرنا پڑتا ہے کہ جہاں رستہ بھی نہیں ملتا اور ایسی غذا کھانی پڑتی ہے کہ جس کا کھانا بہت مشکل ہوتا ہے.اس نے مجھے لکھا ہے کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.یہ عجیب بات ہے کہ آج ہی یہ دونوں چیزیں مجھے ملی ہیں یعنی پہلے مبلغ کے بخیریت پہنچنے کی اطلاع اور ایک مقامی مدرس کا خط جبکہ نئے جانے والے مبلغوں کو یہ آخری پارٹی دی جارہی ہے اور وہ کل روانہ ہور ہے ہیں.احمدیت کے آج بہت مخالف ہیں اور یہ مخالف ہر جگہ پائے جاتے ہیں.یہ مخالف ہمارے ہر کام میں نقائص نکالتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں دیکھتے کہ حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے طفیل آج دنیا میں ایک ایسی جماعت پیدا ہو گئی ہے جو اسلام کی خاطر وہ تمام مصائب برداشت کر رہی ہے جو صحابہ نے کیں.مگر ابھی جماعت میں بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو قربانی کرنے میں ست ہے.اگر ایسے مصائب جو بیرونی ممالک کے مبلغین برداشت کر رہے ہیں ساری جماعت اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے تو ہم دلیری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہماری جماعت صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہے.اگر جماعت کے سب دوست دین کے لئے ویسی ہی قربانیاں کرنے اور ویسی ہی تکالیف برداشت کرنے

Page 258

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 253 جلد دوم کے لئے تیار ہو جائیں جیسی بیرونی ممالک کے مبلغین کرتے ہیں تو بہت جلد ساری جماعت میں صحابہ کا رنگ پیدا ہو سکتا ہے اور ہم مخالفین کو چینج کر سکتے ہیں کہ ہماری جماعت صحابہ کے رنگ میں رنگین ہے.لیکن ابھی بعض دوستوں میں ایسے نقائص ہیں کہ اگر ہم یہ بات پیش کریں تو مخالف وہ نقائص پیش کر کے ہمیں ساکت کر دے گا.ہماری جماعت کے نو جوانوں ، بچوں ، بوڑھوں، مردوں اور عورتوں سب کو چاہئے کہ خود بھی تحریک جدید پر عمل پیرا ہوں اور دوسروں سے بھی اس پر عمل کروائیں.اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ سادہ بنائیں، کھانے پینے ، پہنے میں سادگی پیدا کریں.اپنے ماحول کو سادہ بنائیں، اپنی گفتگو میں سادگی اختیار کریں.جب تک زندگی کے ہر شعبہ میں سادگی نہ اختیار کی جائے گی تبلیغ کما حقہ نہیں کی جاسکے گی.جس شخص کی زندگی سادہ نہ ہو، وہ سادہ تمدن رکھنے والے لوگوں سے خطاب بھی نہیں کر سکتا.وہ ان کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتا اور ان تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا.اور اس طرح ان کی ہدایت کا موجب نہیں بن سکتا.پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوا آدمی میدان میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے کس طرح خطاب کر سکتا ہے.آدمی انہی لوگوں سے بات چیت کر سکتا ہے جو اس کے سامنے ہوں.جو پہاڑ پر بیٹھا ہوا ہو اس کو نیچے کا گاؤں نظر تو آ سکتا ہے مگر وہ گاؤں کے لوگوں سے بات چیت نہیں کر سکتا.اسی طرح جن لوگوں کا تمدن بلند ہو، سادہ تمدن کے لوگوں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں رکھ سکتے جو تبلیغ کے لئے ضروری ہے.اور یہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ دوسروں کا تمدن بھی ویسا ہی بلند نہ ہو جائے یا اونچا تمدن رکھنے والے سادگی اختیار کر کے نیچے نہ آجائیں.اور جب تک ہم تمدنی لحاظ سے دوسروں کو اوپر نہیں لے جا سکتے اُس وقت تک ہم کو چاہئے کہ خود نیچے آجائیں.ہاں جب سب لوگ اوپر آجائیں تو ہم بھی اوپر آ سکتے ہیں.اسلام مساوات چاہتا ہے اور اس کی یہی صورت ہے کہ یا سادہ تمدن رکھنے والوں کو اوپر لایا جائے اور اگر یہ نہ ہو سکے تو دوسرے اور زیادہ سادگی اختیار کریں.اگر کوئی جماعت چاہتی ہے کہ معیار زندگی کو بلند کرے تو اسے کوشش کرنی چاہئے کہ دوسروں کا معیار زندگی بھی بلند ہو.اور جب

Page 259

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 254 جلد دوم تک یہ نہ ہو اپنا معیار بھی نیچے رکھے تا مساوات قائم ہو سکے اور باہم میل جول میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو.جب تک دنیا میں ایسی اقوام موجود ہیں جو ادنیٰ حالت میں ہیں اُس وقت تک ہمارے لئے کسی اونچی جگہ کا خواب دیکھنا بھی ممکن نہیں.اُس وقت تک ہمارے لئے ایک ہی رستہ ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ جو کچھ دے لے لیں اور پھر اسے دوسروں کی بہتری اور بھلائی کے لئے خرچ کریں اور دوسروں کو اوپر لے جانے کے لئے اسے کام میں لائیں اور جب دوسرے بھی اوپر آجائیں تو پھر خود بھی آئیں.صحابہ کرام نے بے شک دولتیں بھی کمائیں مگر انہیں اپنے آرام و آسائش پر خرچ نہیں کیا بلکہ دین کی راہ میں خرچ کرتے رہے.ابھی دنیا میں اربوں انسان ایسے ہیں کہ جن کے جسم بھی اور جن کی روحیں بھی انتہائی غربت کی حالت میں ہیں اور ان سب کی اصلاح ہمارے ذمہ ہے.جب تک ان کی اصلاح نہ ہو جائے ہمیں اپنے آرام کا خیال تک بھی نہ کرنا چاہئے.اور اپنی زندگیوں کو ایسا سادہ بنانا چاہئے کہ غرباء کے ساتھ بآسانی مل سکیں اور اپنی باتیں انہیں سنا سکیں.وہ ہمیں دیکھ کر دور نہ بھا گئیں بلکہ قریب آئیں اور ہماری باتوں کو سنیں.اگر ہمارے نوجوان اسی طرح غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے جاتے رہیں جس طرح اب یہ نوجوان جارہے ہیں تو یہ ایک ایسی خوشکن بات ہوگی جس پر رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ناز اور فخر کر سکتے ہیں اور ہم اس کام کی ابتدا کر سکتے ہیں کہ جو ہمارے سپرد ہے.اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ دوسرے نوجوانوں میں بھی یہ احساس پیدا ہو.وہ اپنے آپ کو پیش کریں.اسلام کی تبلیغ کے لئے بیرونی ممالک میں جانے پر خوشی کا اظہار کریں اور ان لوگوں کے پیچھے ایک لمبی اور کبھی نہ ٹوٹنے والی زنجیر بنائی جاسکے.ایک کے بعد دوسرا، دوسرے کے بعد تیسرا جانے کے لئے اپنے آپ پیش کرتا جائے.کیونکہ کروڑوں افراد کی آبادی رکھنے والے ممالک کے لئے ہزاروں مبلغین کی ضرورت ہے.افریقہ کے بعض علاقے ایسے ہیں کہ وہاں عمریں کم ہو جاتی ہیں.ہندوستان میں بھی گو عمر کی اوسط بہت کم ہے مگر وہاں اس سے بھی کم ہے.ایسے علاقوں کے مبلغین سے اتنا عرصہ

Page 260

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 255 جلد دوم کام نہیں لیا جا سکتا جتنا یہاں یا بعض اور علاقوں میں لیا جاسکتا ہے.ملیر یا وہاں بہت عام ہے.پھر غذا خراب ملتی ہے.اس لئے وہاں کام کا عرصہ زیادہ لمبا نہیں کیا جا سکتا.اور وہاں کام کرنے والے مبلغین کو ایک معین وقت کے بعد واپس بلانا ضروری ہوگا ورنہ آب و ہوا کے زیراثر ان کی صحت پر بہت برا اثر ہوگا اور ان کی زندگی بھی خطرہ میں پڑ جائے گی.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہمیں کافی تعداد میں مبلغین ملتے جائیں اور ایک کے بعد دوسرا جانے کے لئے تیار ہوتا جائے.میں خوش ہوں کہ ہمارے نوجوان زندگیاں وقف کر رہے ہیں اور ہائی سکول نے بھی اس بارہ میں اچھا نمونہ دکھایا ہے.میں کالج کے نو جوانوں کو بھی تحریک کرتا ہوں کہ وہ بھی اس طرف توجہ کریں.اگر کالج کے افسر یہاں موجود ہوں تو میں ان کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ طلباء میں اس کی تحریک کریں.بعض تو جوان جو ہائی سکول میں تعلیم پاتے وقت اگر چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکے تو وہ اب کریں تا کچھ عرصہ کے بعد ہمارے پاس مبلغین کی تعداد کافی ہو جائے اور ہم سہولت اور دلیری کے ساتھ انہیں دنیا میں تبلیغ کے لئے پھیلا سکیں.یہ موقع تفاصیل بیان کرنے کا نہیں.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کسی وقت بیان کروں گا کہ کم سے کم تبلیغ کے لئے ہمارے پاس کتنا سامان ہونا چاہئے اور کس کس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے.اس موقع پر میں صرف یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جن نوجوانوں کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اپنے والدین اور سر پرستوں سے مشورہ کرنے کے بعد اپنے آپ کو وقف کریں.کالج کے افسروں کو چاہئے کہ وہ اپنے طلباء میں اس کے لئے تحریک کریں.بعض نوجوان باہر سے نئے آ رہے ہیں.بعض ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جنہیں سکول میں تو اس کی توفیق نہیں ملی مگر اب بڑے ہونے کی وجہ سے ان میں یہ احساس پیدا ہو چکا ہو اور وہ اب اپنے آپ کو پیش کر دیں.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں جو مبلغ جا رہے ہیں وہ واقف سے مجاہد بن رہے ہیں.واقف وہ ہوتا ہے جس نے زندگی وقف کر دی ہو مگر ابھی جہاد میں شرکت کا موقع اسے نہ ملا

Page 261

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 256 جلد دوم ہو.اور مجاہد وہ ہوتا ہے جو عملی طور پر جہاد میں شریک ہو.جو نو جوان اس وقت تبلیغ کی تیاری کر رہے ہیں اور تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ واقف ہیں.وہ واقف کہلانے کے مستحق ہیں مجاہد کہلانے کے نہیں.ہاں جب کوئی واقف جہاد کے لئے روانہ ہو جائے تو چونکہ وہ عملی طور پر جہاد میں شریک ہو جاتا ہے اس لئے وہ واقف ہی نہیں رہتا بلکہ مجاہد بھی بن جاتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جانے والے مبلغین کے ساتھ ہو اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ان کے بعد جلدی جلدی اور مبلغین بھیج سکیں.یہاں تک کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور دنیا کی پسماندہ اور گری ہوئی اقوام میں نہ صرف دینی تبلیغ ہو جائے بلکہ دنیوی بھی.ان میں نہ صرف مذہبی تبلیغ ہو سکے بلکہ انہیں تمدنی ترقی بھی حاصل ہو سکے اور ان کا شمار دنیا کی اعلی تعلیم یافتہ ، ترقی یافتہ اور متمدن اقوام میں ہونے لگے.“ (الفضل 14 دسمبر 1944ء)

Page 262

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 257 جلد دوم اسلام نے فطرت کے ہر تقاضا کا لحاظ رکھا ہے اور اسے نہایت مفید رنگ میں پورا کیا ہے.شکار کرنے کا جذبہ بھی انسانی فطرت میں شامل ہے.اسلام نے اس جذبہ کو بھی نہایت اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا ہے.اللہ تعالیٰ کو وہ دل پسند ہیں جو سچائی اور ہدایت کے تیر سے شکار کئے گئے ہوں.16 فروری 1945 ء کو طلباء وفضل محمر ہوٹل قادیان نے مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ سیرالیون کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی از راه شفقت شمولیت کی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.اگر ہم غور سے کام لیں تو دنیا میں بہت سے جذبات جو بظاہر متخالف اور مغائر نظر آتے ہیں ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں.مثلاً انسانی فطرت میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ وہ بعض چیزوں کو رد کر دیتی ہے.بعض کھانے ہمارے سامنے آتے ہیں اور ہم ان کو رد کر دیتے ہیں.بعض پینے کی چیزیں ہمارے سامنے آتی ہیں اور ہم ان کو رد کر دیتے ہیں.بعض لباس ہمارے سامنے آتے ہیں تو ہم ان کے پہنے سے انکار کر دیتے ہیں.بعض بچے

Page 263

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 258 جلد دوم کہہ دیتے ہیں کہ ہم کرو نہیں کھاتے.اگر گھر میں کدو پکا ہوا ہو تو اس کے کھانے سے انکار کر دیتے ہیں اور روٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں.کوئی گو بھی نہیں کھاتا، کوئی گوشت نہیں کھاتا، کوئی دال نہیں کھاتا، کوئی شور با پسند نہیں کرتا.غرض بعض چیزوں کا رد کر دینا انسانی فطرت میں داخل ہے.اور ایسا کوئی نہیں ملتا جو کوئی نہ کوئی چیز رد نہ کرتا ہو.جس طرح یہ چیز کھانے پینے اور پہننے کے متعلق پائی جاتی ہے اسی طرح اخلاق کے متعلق بھی یہ چیز پائی جاتی ہے.جس کی طرح کھانے پینے اور پہنے کی بعض چیزوں کو ہم رد کر دیتے ہیں اسی طرح اخلاق میں بھی وہی جذبہ پایا جاتا ہے جسے ہم روزانہ استعمال کرتے ہیں کہ بعض باتوں کا ہم رد کر دیتے ہیں اور بعض کو رد نہیں کرتے.غرض فطرت وہی ہے دیکھنا صرف یہ ہے کہ آیا ہم نے اس کا صحیح استعمال کیا ہے یا نہیں.مثلاً فطرت انسانی میں شکار کا جذبہ پایا جاتا ہے.کوئی ملک ایسا نہیں جہاں کے لوگوں کے اندر یہ جذبہ نہ پایا جاتا ہو.جن لوگوں کو شکار کے بڑے بڑے مواقع نہ ملیں وہ چھوٹے چھوٹے شکار کر کے ہی اس جذبہ کو پورا کر لیتے ہیں.جیسے عورتوں کو جوئیں مارنے کا شوق ہوتا ہے.ایک دوسری کو کہتی ہے کہ لاؤ میں تمہاری جوئیں مار دوں.مرغابیاں کی نہیں مار سکتیں تو بیٹھے بیٹھے جوئیں یا کھٹمل مار کر ہی اس جذبہ کو پورا کر لیتی ہیں.چھوٹے بچوں میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے کہ لاؤ میں تمہاری جوئیں نکال دوں اور پھر جھوٹے ناخن مارتے ہیں اور اگر اتفاقا کوئی جوں مل جائے تو پھر دوسروں کو دکھاتے پھرتے ہیں کہ دیکھو میں نے جوں ماری.جس طرح ایک شکاری اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ میں نے دو مرغابیاں ماریں اسی طرح ایک بچہ اس بات سے خوش ہوتا ہے کہ میں نے دو جوئیں ماریں.یہاں قادیان میں ابھی ہائی سکول نہیں بنا تھا لوئر مڈل یا پرائمری سکول تھا اس میں میں داخل تھا.یہ سکول اُس گلی پر واقع تھا جو بازار سے ریتی چھلہ کی طرف جاتی ہے اور جس کے مغربی جانب پوسٹ آفس ہے.اب تو وہ سکول بند ہو گیا ہے اس کے صحن میں بڑ کا ایک درخت ہوا کرتا تھا.پتہ نہیں اب ہے یا نہیں.ایک آریہ ماسٹر اس بڑ کے نیچے ہمیں

Page 264

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 259 جلد دوم پڑھایا کرتا تھا.وہ گوشت کے سخت خلاف تھا اور کہا کرتا تھا کہ گوشت کھانا بڑا پاپ ہے.اس کی اس قسم کی باتوں کی وجہ سے مسلمان لڑکے بھی گوشت کو برا سمجھنے لگ گئے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ سکول میں میرا کھانا گیا تو ایک مسلمان لڑکا جو بعد میں احمدی ہو گیا تھا وہ میرا کھانا دیکھ کر دانتوں میں انگلی دبا کر کہنے لگا آپ ماس کھاتے ہیں ماس؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا کہ ماس کیا ہوتا ہے؟ یہ ماس تو نہیں یہ تو کلیجی ہے.گویا اس آریہ ماسٹر کی باتوں کا اتنا اثر تھا کہ مسلمان لڑکے بھی گوشت کو برا سمجھتے تھے.میری آنکھوں کے سامنے اب تک وہ نظارہ ہے کہ اس آریہ ماسٹر نے سر منڈایا ہوا ہوتا تھا صرف درمیان میں کلفی کی طرح چند بال تھے جسے پنجاب میں بودی کہتے ہیں اور سر میں ہمیشہ تیل لگائے رکھتا تھا.اس نے لڑکوں کو پڑھاتے جانا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد جب اسے محسوس ہوتا تھا کہ لکھی آکر اس کے سر پر بیٹھنے لگی ہے تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ سر کے اوپر لے جا کر اس طرح مارنے جس طرح تالی بجاتے ہیں.اس طرح اسے لکھیاں مارنے کا اتنا شوق تھا کہ دن میں پندرہ ہیں لکھیاں مار کر بہت خوش ہوتا.مرغابی مارنے یا تیتر مارنے یا بٹیر مارنے کو وہ برا سمجھتا تھا لیکن مکھیاں مارنے کا اسے بھی شوق تھا.اسی طرح گائے کی قربانی کے خلاف تو ہندو بہت شور مچاتے ہیں لیکن آدمی کی جان جو گائے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے اور اس کا مارنا گائے کے مارنے سے بہت زیادہ خطر ناک ہے اسے ضائع کر دینا کوئی برا نہیں سمجھتے.پس شکار کرنا بھی انسان کی فطرت میں داخل ہے.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں مسلمانوں کو فرماتا ہے وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ 1 کہ تم بجائے مرغابیوں، تیتروں اور بٹیروں کا شکار کرنے کے آدمیوں کا شکار کیا کرو اور آدمیوں کے قلوب فتح کیا کرو.جس طرح تم مرغابیوں کا شکار کر کے خوش ہوتے ہو، جس طرح تم بٹیروں کا شکار کر کے خوش ہوتے ہو، جس طرح تم نیتروں کا شکار کر کے خوش ہوتے ہو اسی طرح تم انسانوں کے قلوب فتح کر کے انہیں خدا کے سامنے لایا کرو کہ اللہ میاں ! ہم آپ کے لئے

Page 265

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 260 جلد دوم انسانوں کا شکار کر کے لائے ہیں.مرغابیوں کا شکار یا بٹیروں کا شکار یا تیتروں کا شکار تمہارے ماں باپ کو پسند ہوتا ہے اور انسانوں کا شکار خدا تعالیٰ کو پسند ہے.اللہ تعالیٰ کو مرغابیاں پسند نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کو وہ دل پسند ہیں جو ہدایت کے تیر سے شکار کئے گئے ہوں.پس یہ لوگ جو تبلیغ اسلام کے بعد باہر سے واپس آئے ہیں یہ بھی شکاری ہیں.جس طرح مرغابیوں کے شکاری شکار سے واپس آتے ہیں تو محلہ والے اور دوست ان سے پوچھتے ہیں کیا مارا؟ اسی طرح جب کوئی مبلغ واپس آتا ہے تو ہم بھی پوچھتے ہیں کہ کیا مارا؟ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کتنے آدمیوں کو تمہارے ذریعہ ہدایت نصیب ہوئی.چیز وہی ہے جو فطرت انسانی میں داخل ہے.اسلام نے صرف یہ کیا ہے کہ اس فطرتی تقاضا کو بلند مقام پر پہنچا دیا ہے.اسلام فطرت کو کچلتا نہیں بلکہ اسلام کہتا ہے کہ اس فطرتی تقاضا کو تم پورا کرو مگر اس رنگ میں کرو جو اعلیٰ ہے.جیسے وہ ماسٹر جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے لکھیاں مارا کرتا تھا.حالانکہ شریف آدمی ! اگر تم نے جیو ہتیا کرنی ہے تو جاؤ شیر مارا کرو.جب شکار ہی کرنا ہے تو پھر اچھی چیز کا شکار کیوں نہ کیا جائے.اسی طرح ایک مبلغ مرغابیاں یا تیتر یا بیر مارنے والے شخص کو یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ میاں جاؤ اور مرغابیوں اور نیتروں کا شکار کرنے کی بجائے فلاں ملک میں جا کر انسانوں کا شکار کر کے دل خوش کرو اور اچھے شکاری بنو.جس طرح تم مرغابیوں کا شکار کر کے خوش ہوتے ہو اس سے ہزاروں گنا زیادہ تمہیں اس سے خوشی ہوگی جب تمہاری تبلیغ سے ایک بھولا بھٹکا انسان لا إِله إِلَّا اللہ پڑھے گا اور خدا کے دین میں داخل ہوگا اور نئی زندگی پائے گا.پس ہمارے مبلغ بھی شکاری ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ شکار کی روح جو ہر انسان میں پائی جاتی ہے اسلام نے اس کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ بجائے چھوٹی چھوٹی چیزوں کا شکار کرنے کے تم انسانوں کا شکار کیا کرو.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جیو ہتیا نہیں کرنی چاہئے شکار کا جذبہ ان کے اندر بھی پایا جاتا ہے اور وہ لکھیاں مار کر یا جوئیں مار کر اس جذبہ کو پورا کر لیتے ہیں.اور جو مرغابیوں یا تیتروں یا بٹیروں کا شکار کرتے ہیں وہ اس جذبہ کو ان کی سے اچھے طریق پر پورا کر لیتے ہیں مگر اسلام نے اس روح کو اس سے بھی زیادہ بلند کر دیا کہ

Page 266

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 261 جلد دوم تم انسانوں کا شکار کیا کرو.کوئی زمانہ ایسا تھا کہ لوگ کیسو کے پھول 2 یا سرکنڈوں میں سے گودا نکال کر اس کو چوس لیا کرتے تھے اور اس طرح میٹھے کی خواہش کو پورا کر لیتے تھے.پھر اس سے ترقی کی اور اسی سرکنڈے سے گنا پیدا کر لیا.پھر اس سے ترقی کی اور پونڈا پیدا کر لیا.اسی طرح یہ کہنے والے کہ جیو ہتیا کرنا پاپ ہے شکار کے جذبہ کو پورا تو کرتے تھے مگر مکھیاں اور جوئیں مار کر.مرغابیاں یا تیتر مارنے والے اس جذبہ کو ان سے احسن رنگ میں پورا کر لیتے تھے.رسول کریم یا اللہ نے آ کر اس جذبہ کو بہت بلند کر دیا اور بجائے لکھیاں یا تیتر اور بٹیر مارنے کے انسانوں کا شکار کرنا سکھایا.مگر لوہے کے تیروں کے ساتھ نہیں بلکہ روحانیت کے تیروں کے ساتھ.لکھیاں اور جوئیں مارنے والے ان کو خود بھی نہیں کھاتے.تیتروں اور بٹیروں کا شکار کرنے والے اس شکار کو خود تو کھاتے ہیں مگر خدا نہیں کھاتا.لیکن رسول کریم اللہ نے جو شکار کرنا سکھایا ہے وہ ایسا شکار ہے کہ اسے خدا تعالیٰ بھی کھاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلكِن يَنَالُهُ التَّقوى مِنْكُم 3 کہ دم اور کم خدا کو نہیں پہنچتا بلکہ اس کو وہ تقویٰ پہنچتا ہے جس کے ساتھ تم قربانی کرتے ہو.تو جس طرح سرکنڈے سے گنا اور گنے سے پونڈا بناکی اسی طرح کچھ آدمی تو جوئیں اور لکھیاں مار کر اس جذبہ کو پورا کر لیتے تھے اور کچھ تیتروں ، بٹیروں اور مرغابیوں کا شکار کرنے والے تھے.مگر اسلام نے شکار کے جذبہ کو ادفی حالت سے بلند کر کے اعلیٰ مقام تک پہنچا دیا.اور ہمارے مبلغین کو خدا تعالیٰ نے توفیق دے دی کہ وہ آدمیوں کا شکار کریں.مال خرچ کرنے کو ہی لے لیا جائے تو کوئی اپنا مال عیش اور تفریح کے لئے خرچ کرتا ہے مثلاً سینما، تھیٹر وغیرہ دیکھنے پر کوئی اپنا مال اپنے بیوی بچوں کے کھانے پینے اور تعلیم دلانے پر خرچ کرتا ہے.اسلام نے حکم دیا کہ تم اپنا مال دین کے لئے خرچ کیا کرو.غرض مال خرچ کرنے کی روح جو پہلے سے انسان کے اندر موجود تھی اسلام نے اس کو مٹایا نہیں بلکہ اس رو کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بدل دیا.اگر کوئی شخص آج دین کے لئے اپنا روپیہ

Page 267

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 262 جلد دوم خرچ کرتا ہے تو کیا وہ اس سے پہلے دوسرے کاموں پر اپنا روپیہ خرچ نہیں کرتا تھا ؟ ضرور کرتا تھا.فرق صرف یہ ہے کہ اب وہ دین کے لئے خرچ کرتا ہے اور اس سے پہلے وہ فضول کاموں پر خرچ کرتا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ دین کے لئے روپیہ خرچ نہیں کرتے ان لوگوں کا روپیہ کسی دن کنچنی کے ناچ پر خرچ ہو رہا ہوتا ہے، کسی دن سینما اور سرکس دیکھنے پر خرچ ہو رہا ہوتا ہے.کسی دن شہرت کی خاطر دعوتیں ہو رہی ہوتی ہیں.اگر غور کیا جائے تو ہم لوگ جو دین کی خاطر اپنا روپیہ خرچ کرتے ہیں ہم ان لوگوں سے زیادہ خرچ نہیں کرتے جتنا کہ وہ لوگ سینما، سرکس اور اس قسم کے دوسرے فضول کاموں پر خرچ کرتے ہیں.پس صرف روپیہ خرچ کرنے کی رو بدل دی گئی ہے.وہ لوگ سینما اور سرکس کے لئے روپیہ خرچ کرتے ہیں اور احمدی خدا کی رضا کے لئے اور اس کے دین کی خدمت کے لئے روپیہ خرچ کرتے ہیں.روپیہ خرچ کرنے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں.اسی طرح شکار کے لحاظ سے بھی اسلام نے اس جذبہ کو ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بدل دیا ہے کہ بجائے تیتروں اور بٹیروں اور مرغابیوں کا شکار کرنے کے تم انسانوں کا شکار کیا کرو جن سے خدا بھی خوش ہوتا ہے.پس اسلام انسان کی فطرت کو کچلنا نہیں چاہتا بلکہ فطرتی جذبہ کو بلند کرنا چاہتا ہے.یہاں قادیان میں کئی آدمی ہیں جن کا کام یہ ہے کہ جس دن چھٹی ہوتی ہے کنڈی لے کر دریا پر مچھلیاں پکڑنے چلے جاتے ہیں.بعض جن کے اندر اخلاص ہوتا ہے وہ جمعہ کی نماز سے پہلے واپس آجاتے ہیں اور بعض جمعہ بھی وہیں گزار دیتے ہیں.حالانکہ مچھلی کیا ہے.اگر نہ بھی کھائی جائے تو کوئی نقصان نہیں ہوتا.لیکن جو شخص بجائے مچھلی کا شکار کرنے کے انسان کا شکار کرتا ہے اور ایک بھولے بھٹکے انسان کو خدا کے دین میں لا کر داخل کرتا ہے وہ کتنا شاندار کام کرتا ہے.اگر مسلمان اس کام کی اہمیت کو سمجھتے اور خرگوشوں اور بلوں اور گیدڑوں کا شکار کرنے میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے وہ تبلیغ کرتے تو ہندوستان میں لاکھوں مسلمان شکاری ہیں.اگر یہی تعداد تبلیغ میں لگ جاتی تو آج ہندوستان میں ہندو مسلمان کا جھگڑا ہی مٹ جاتا.اگر اتنے لوگ سال میں دو دو چار چار ہندوؤں کو

Page 268

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) صلى الله 263 جلد دوم مسلمان بناتے تو سالانہ آٹھ دس لاکھ ہند و مسلمان ہو جاتے اور آج کوئی ہندو د یکھنے کو نہ ملتا.مگر یہ لوگ بیٹھے لکھیاں مارتے رہے اور کبوتروں اور بھیڑوں کا شکار کرتے رہے اور دین کی تبلیغ سے غافل ہو گئے.یہ جو تیتروں اور بٹیروں اور کبوتروں کا شکار کرنے والے ہیں ان کے شکار سے بھلا قوم کو کیا نفع پہنچ رہا ہے.اگر شکار کے جذبہ کی روکو رسول کریم کی اتباع میں اس طرف پھیر دیا جاتا کہ بجائے تیتروں اور بٹیروں کا شکار کرنے کے انسانوں کا شکار کیا جائے تو ہندوستان میں ہندو مسلمان کا جھگڑا ہی پیدا نہ ہوتا.ہندوؤں کے ایک لیڈر جو وائسرائے کی کونسل کے ممبر بھی تھے ایک دفعہ مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا.باتوں باتوں میں وہ کہنے لگے میں مسلمان بادشاہوں کا سخت مخالف ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسی قابل ہیں کہ ان سے دشمنی رکھی جائے.مگر میری دشمنی اور دوسرے ہندوؤں کی دشمنی میں فرق ہے.دوسرے ہندوؤں کی ان سے دشمنی کی وجہ تو یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں مسلمان بادشاہ ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان بناتے تھے.لیکن میری دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان کیوں نہ بنا لیا.اگر وہ اُس وقت سارے ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان بنا لیتے تو آج ہمیں محسوس بھی نہ ہوتا کہ ہمارے باپ دادوں کو زبر دستی مسلمان بنایا گیا تھا.ہم بھی دوسرے مسلمانوں کی طرح مسلمان ہوتے اور یہ سارا فساد اور ہندو مسلمان کا تمام جھگڑا مٹ جاتا.پس میری اور دوسرے ہندوؤں کی مسلمان بادشاہوں سے دشمنی میں یہ فرق ہے کہ وہ کہتے ہیں مسلمان بادشاہ ہندوؤں کو ز بر دستی مسلمان بناتے تھے اور میں کہتا ہوں کہ انہوں نے تمام ہندوؤں کو زبر دستی مسلمان کیوں نہ بنایا.حقیقت یہ ہے کہ زبردستی اور جبر تو اسلام میں جائز نہیں.لیکن اگر مسلمانوں کے اندر خدمت دین کا جذبہ ہوتا اور وہ اسلامی طریق کے مطابق تبلیغ کرتے تو آج سارا ہندوستان مسلمان ہوتا.اب پھر خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو موقع دیا ہے اگر احمدی صحیح رنگ میں تبلیغ کریں تو وہ دن دور نہیں جب پھر ہمارے ذریعہ سے خدا تعالی اسلام کو غلبہ دے گا.لوگوں کے قلوب میں تغیر پیدا ہو رہا ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے مولوی جلال الدین صاحب شمس

Page 269

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 264 جلد دوم کا خط آیا ہے کہ لندن کا ایک لارڈ جو پریوی کونسل کا حج تھا اور اب ریٹائر ہو چکا ہے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا واقف ہے میں اسے ملنے گیا تو وہ کہنے لگا مجھے اپنی گزشتہ زندگی پر افسوس آ رہا ہے اور مجھے وہ زندگی اب پیچ نظر آتی ہے.جس وقت میں جوان تھا اُس وقت میرے دل میں یہ امنگیں تھیں کہ میں کامیاب وکیل بنوں.جب میں وکیل بنا اور میری وکالت کامیاب ہوگئی تو پھر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے کوئی بڑا عہدہ مل جائے.چنانچہ مجھے عہدہ بھی مل گیا اور میں پریوی کونسل کا حج بنا.پھر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مجھے کوئی خطاب مل جائے.آخر میری یہ خواہش بھی پوری ہو گئی اور مجھے لارڈ کا خطاب ملا.لیکن اب جبکہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں یہ تمام چیزیں جو اُس زمانہ میں میرے مقاصد عالیہ میں شامل تھیں مجھے ذلیل اور حقیر نظر آتی ہیں.اور میں حیران ہوں کہ میں نے اپنی زندگی کو کیوں برباد کر دیا اور میں سوچتا ہوں کہ اب میں مرنے والا ہوں اگر مرنے کے بعد بھی اسی قسم کی زندگی ملے گی جیسا کہ عیسائیت نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ اگلی زندگی میں انسان کو پورے کا پورا اسی شکل میں اٹھایا جائے گا تو میری فطرت اس کو ماننے سے انکار کرتی ہے.میں نے اسے بتایا کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ مرنے کے بعد اسی شکل میں انسان کو اٹھایا جائے گا بلکہ اسلام مرنے کے بعد روحانی زندگی کا قائل ہے.کہنے لگا یہ تعلیم بے شک ایسی ہے کہ اس سے دل کو تسلی ہوتی ہے.چنانچہ ملنے کے بعد جب میں واپس آیا تو تھوڑے دنوں کے بعد اس کا خط ملا کہ مجھے آ کر اسلام کی اور تعلیم بتائیں.معلوم نہیں اس کی نیت مسلمان ہونے کی ہے یا نہیں.مگر اس کی طبیعت پر اس بات کا اثر ضرور ہے کہ اسلام کی تعلیم ہی فطرت کے مطابق اور انسان کی تسلی کا موجب ہے.در حقیقت انسان جوانی میں نیچے سے اوپر کی طرف دیکھتا ہے اور اسے اوپر کی چیزیں اچھی نظر آتی ہیں لیکن بڑھاپے میں اوپر سے نیچے کی طرف دیکھتا ہے اس لئے وہی چیزیں جو جوانی میں اسے شاندار نظر آتی تھیں بڑھاپے میں اسے حقیر نظر آتی ہیں.پھر جوانی میں انسان موت کو اتنا بعید سمجھتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی کے لئے کوئی تیاری نہیں کرتا

Page 270

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 265 جلد دوم اور اسی زندگی کو اچھا سمجھتا ہے.لیکن بڑھاپے میں جب انسان موت کو قریب دیکھتا ہے تو پھر اسے دنیا کی زندگی ذلیل اور حقیر نظر آتی ہے.بہر حال ہر ایک انسان دو باتوں میں سے ایک کا ضرور قائل ہوتا ہے.اگر وہ اس بات کا قائل ہے کہ مرنے کے بعد کوئی نئی زندگی ہے تو پھر بھی مرنے کے وقت وہ خوش نہیں ہوتا بلکہ اس کے دل میں افسوس پیدا ہوتا ہے کہ موت کے بعد کی زندگی کے لئے میں نے کوئی تیاری نہیں کی اور میں نے اپنی ساری زندگی دنیا کے کاموں میں ضائع کر دی.اور اگر وہ یہ سمجھتا ہے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی نہیں پھر بھی موت کے وقت اس کے دل میں حسرت پیدا ہوتی ہے کہ دنیا کی یہ زندگی میرے کس کام آئے گی.قرآن مجید میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کا فرحسرت کے ساتھ کہے گا کہ کاش! مجھے پھر دنیا میں جانے کا موقع دیا جائے تا کہ میں اچھے عمل کروں.خدا تعالیٰ اسے فرمائے گا کہ میں نے تمہیں موقع دیا تھا مگر تم نے اس کو ضائع کر دیا اب اور کوئی موقع نہیں دیا جائے گا.4 پس اسلام انسان کے اندرونی جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ جس طرح دریا میں سے نہریں نکال کر اس سے کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے، اس سے بجلیاں پیدا کی جاتی ہیں اور اسی طرح دوسرے فوائد حاصل کئے جاتے ہیں اسی طرح اسلام فطرت کے پانی کو صحیح نالی میں سے گزارتا اور فطرت کا صحیح استعمال سکھاتا ہے تا کہ انسان کی زندگی برباد نہ ہو اور موت کے وقت اسے یہ گھبراہٹ نہ ہو کہ میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی.“ ( الفضل 7 فروری 1961ء) 1: آل عمران : 105 2: کیسو کے پھول: ایک پھول جو پانچ پنکھڑیوں کا ہوتا ہے اور ہر پنکھڑی شیر کے ناخن کے مشابہہ ہوتی ہے.(اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 15 صفحہ 533 مطبوعه محیط اردو پریس کراچی) 3: الحج : 38 :4 قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ لَعَلَّى أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا (المومنون: 101،100)

Page 271

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 266 جلد دوم افریقہ کی سرزمین کا اسلام کی ترقی کے ساتھ نہایت گہرا تعلق ہے.ہمارا فرض ہے کہ وہاں پر جلد سے جلد خدائے واحد کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں 18 فروری 1945ء کو مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبلغ سیرالیون کے اعزاز میں ایک دعوت چائے اساتذہ وطلباء جامعہ احمدیہ کی طرف سے دی گئی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت کی.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا :.یہ زمانہ جس میں ہم دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے ہیں تہذیب اور تمدن کا زمانہ ہے.دنیا کے ایک بہت بڑے حصہ کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ترقی کے اعلیٰ معیار پر پہنچے ہوئے ہیں لیکن ان کے مقابلہ میں ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دنیاوی ساز وسامان کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں.ایسی صورت میں مہذب علاقوں میں تبلیغ اسلام کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک سخت چٹان کو کاٹ کر ریتی سے اس کا ذرا سا ٹکڑا علیحدہ کرنا.لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے حوصلوں کو بڑھانے کے لئے کیونکہ اعداد و شمار کی زیادتی سے بھی عزت حاصل ہوتی ہے بعض ایسے علاقے رکھ دیئے ہیں کہ اگر ہم ان میں اسلام کی تبلیغ کریں تو اتنی بڑی تعداد میں وہاں کے لوگ اسلام میں داخل ہو سکتے ہیں کہ متمدن علاقوں میں لاکھوں مبلغ ہزاروں سال میں بھی اتنی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے.

Page 272

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 267 جلد دوم یہ امر یا درکھو کہ تعداد کی زیادتی بھی اپنے اندر بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور قوموں کی ترقی کے ساتھ اس کا نہایت گہرا تعلق ہوتا ہے.اس وقت ہماری جماعت کی تعداد کم ہے.اگر ہم متمدن ممالک میں تبلیغ کر کے اپنی تعداد کو زیادہ کرنا چاہیں تو ہزاروں لاکھوں مبلغ بھیجوانے اور سالہا سال محنت کرنے کے بعد ان میں سے صرف ایک حصہ کو ہم اپنی کی طرف کھینچ سکتے ہیں.لیکن اگر ہم اندھے نہیں ہیں، اگر ہم پاگل نہیں ہیں ، اگر ہم دنیا کی تاریخ سے بالکل ناواقف اور جاہل نہیں ہیں تو ہمیں اس حقیقت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ تو میں کچھ عرصہ کے بعد اپنی طاقت کو کھو بیٹھتی ہیں.حتی کہ محمد رسول اللہ نے کی امت نے بھی ابتدائی زمانہ کے بعد آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو دی.موسی کی قوم نے بھی یہ طاقت کھو دی.عیسی کی قوم نے بھی یہ طاقت کھو دی.ابراہیم کی قوم نے بھی یہ طاقت کھودی اور نوح کی قوم نے بھی یہ طاقت کھو دی.پس یقیناً اس قانون سے کوئی بھی منتقی نہیں ہو سکتا.اگر ہم متمدن ممالک میں سینکڑوں سال تک تبلیغ کے لئے جدو جہد کرتے رہے تو اس عرصہ تک وہ اخلاص اور جوش جو آج ہماری جماعت کے دلوں میں پایا جاتا ہے ریت کے دریا میں خشک ہو جائے گا اور جماعت کا اپنی کامیابی کو حاصل کرنا نا ممکن ہو جائے گا.جب تک ہم قریب ترین عرصہ میں پوری کوشش نہ کریں گے اُس وقت تک ہم اپنے مستقبل کو کبھی بھی روشن صورت میں نہیں دیکھ سکتے.جس قسم کی متمدن دنیا میں ہم کو پیدا کیا گیا ہے اور جس قسم کے تعلیم یافتہ لوگوں سے ہمارا مقابلہ ہے اس لحاظ سے ہمارا کام اتنا مشکل ہے کہ آج تک دنیا میں کسی کو اتنا مشکل اور سخت ترین کام پیش نہیں آیا.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں جو لوگ تبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے وہ علوم میں ان لوگوں سے بہت اعلیٰ ہوتے تھے جنہیں تبلیغ کرتے تھے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فورا علم کے حصول کی طرف صحابہ کو متوجہ کر دیا تھا.چھ سات تو مکہ میں ہی تعلیم یافتہ صحابی تھے اور مدینہ میں تو سارے لوگ پڑھے ہوئے تھے اس وجہ سے جب عربوں کی آوازیں اٹھتی تھیں لوگوں کے دل مرعوب ہو جاتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ہم ادنی ہیں اور عرب اعلیٰ.ہم تعلیم میں پیچھے ہیں

Page 273

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 268 جلد دوم اور یہ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار ہیں.مگر ہم جن ممالک میں تبلیغ کے لئے جاتے ہیں وہ ہمیں علمی لحاظ سے نہایت ادنیٰ اور حقیر سمجھتے ہیں.ان حالات میں ہمارے لئے ایک ہی صورت ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے عین وقت پر مجھے سمجھا دی کہ ہم ساری دنیا پر نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کیا اس دنیا میں کوئی ایسا خطہ بھی ہے جہاں کے رہنے والوں کے دلوں میں صلى الله اسی طرح کی آگ لگی ہوئی ہو جیسی رسول کریم ﷺ کے وقت عربوں کے دلوں میں لگی ہوئی تھی کیا دنیا میں کوئی ایسے لوگ بھی ہیں جن کے دلوں میں عربوں کی طرح دبی ہوئی خواہشات موجود ہوں.پھر اگر ہمیں کوئی حصہ ایسا معلوم ہو تو پیشتر اس کے کہ ہم متمدن دنیا کو فتح کریں ، پیشتر اس کے کہ ہم متمدن دنیا پر اپنی طاقتوں کو خرچ کر دیں ان قوموں کو اپنے ساتھ ملا کر معروف اور کثیر التعداد قوم کی شکل میں دنیا کے سامنے آجائیں.تب دنیا صرف مذہبی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی لحاظ سے بھی ہمیں وقعت دینے لگ جائے گی.اس وقت متمدن قو میں ہمیں دو نقطہ ہائے نگاہ سے ذلیل سمجھتی ہیں.پہلا نقطہ نگاہ تو یہ ہے کہ ہم ان سے ادنیٰ ہیں علم میں اور ادنی ہیں مال میں.اور دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ ہم ان سے تعداد میں کم ہیں.اگر ہم ایک ذہنیت کو بدل دیں تو دوسری ذہنیت بھی آسانی سے بدلی جاسکتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روحانی علوم کے لحاظ سے دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتی.لیکن وہ روحانی علوم کو علوم قرار نہیں دیتی وہ صرف ظاہری علوم کو علوم سمجھتی ہے.لیکن بہر حال اگر ہم تعداد کے لحاظ سے زیادہ ہو جائیں اور ہمارے افراد کی تعداد بھی چار پانچ کروڑ تک پہنچ جائے تو یقیناً دنیا ہمیں عظمت دینے لگ جائے گی.چاہے علمی لحاظ سے وہ ہمیں پھر بھی عظمت نہ دے لیکن بہر حال دو کمزوریوں میں سے ایک کمزوری کو دور کر لینا بھی اچھی علامت ہے.غرض اس دنیا کے پر وہ پر اس وقت کروڑوں آدمی ایسے موجود ہیں جن کے دلوں میں وہی جذبات موجزن ہیں جو رسول کریم ﷺ کی بعثت پر عربوں کے دلوں میں موجزن تھے اور اگر ہم ذرا بھی توجہ سے کام لیں تو ان تمام علاقوں کو اسلام کے لئے فتح کر سکتے ہیں.

Page 274

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 269 جلد دوم افریقن ممالک میں بہت تھوڑے آدمیوں کے ذریعہ تبلیغ کی گئی ہے اور گو احمدیت میں داخل ہونے والوں میں سے کچھ مرتد بھی ہو گئے مگر پھر بھی اس وقت تک ساٹھ ہزار سے زیادہ آدمی وہاں احمدیت میں داخل ہو چکا ہے اور یہ صرف ایک دو مبلغوں کا کام ہے.اگر ہم سو دو سو مبلغ وہاں بھجوا دیں تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ قریب ترین زمانہ میں وہاں ایک علاقے کا علاقہ احمدی ہو جائے.اور یاد رکھو جب کوئی ایک ملک بھی ایسا پیدا ہو گیا جس کے متعلق دنیا کو معلوم ہو گیا کہ وہاں اسلام غالب ہے اور اس ملک کی اکثریت احمدیت میں داخل ہو چکی ہے تو پھر دنیا کا نقشہ بدل جائے گا.کیونکہ کوئی ملک نہیں جسے دنیا نظر انداز کر سکتی ہے.تجارتی لحاظ سے بھی اور قومی لحاظ سے بھی دنیا ہر ملک کی محتاج ہوتی ہے.خواہ وہ کتنا ہی چھوٹے سے چھوٹا ملک کیوں نہ ہو.جب دنیا کو معلوم ہو گیا کہ کسی ایک ملک میں بھی احمدیت کی اکثریت ہے اس کی نگاہیں ہماری طرف اٹھنی شروع ہو جائیں گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگی کہ احمدیت پر غور کرے.غرض خدا نے ان افریقن ممالک کو احمدیت کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے اور اسلام کی ترقی کے ساتھ ان کا نہایت گہرا تعلق ہے.ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ وابستہ ہے.افریقن ممالک میں دس پندرہ کروڑ کی آبادی ہے جو انہی حالات میں گزر رہی ہے جن میں سے رسول کریم ﷺ کی بعثت کے وقت عرب گزر رہا تھا.وہ خشک لکڑیاں ہیں یا سوکھے ہوئے پتوں کے ڈھیر ہیں جو میلوں میں مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں.مگر ضرورت ان ہاتھوں کی ہے جو دیا سلائی لیں اور ان خشک لکڑیوں اور پتوں کے ڈھیروں کو جلا کر راکھ کر دیں.ایسی راکھ جو دنیا کی نظر میں تو راکھ ہوگی لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں تریاق.جو ایسے کیمیاوی مادے اپنے اندر رکھتا ہو گا کہ نہ صرف ان لوگوں کی زندگی کا باعث ہوگا بلکہ ساری دنیا کو زندہ کرنے کا ذریعہ بن جائے گا.در اصل خدا تعالیٰ نے عین وقت پر مجھے اس طرف توجہ دلائی اور پھر اس نے محض اپنے فضل سے غیر معمولی ترقی کے دروازے اس ملک میں ہمارے لئے کھول دیئے.شروع میں مجھے وہاں تبلیغ کا خیال محض اس وجہ سے پیدا ہوا کہ ہمارے دو مبلغ جو انگلستان

Page 275

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 270 جلد دوم میں تھے ان کا آپس میں جھگڑا شروع ہو گیا.میں نے اس جھگڑے کو دور کر نے کا مناسب طریق یہ سمجھا کہ ان میں سے ایک کو افریقہ بھیجوا دیا.اس کا وہاں جانا تھا کہ خدا تعالیٰ نے یہ راز مجھ پر کھول دیا کہ یہ وہ ملک ہے جس میں ہمارے لئے غیر معمولی طور پر ترقی کے راستے کھلے ہیں اور جن کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ اس کے بعد دوسرا مبلغ بھیجا گیا اور پھر تیسرا اور پھر چوتھا.اب تک وہاں کئی مبلغ بھجوائے جاچکے ہیں اور تین چار اور جانے کے لئے تیار ہیں جن کو جلد ہی وہاں تبلیغ کے دائرہ کو وسیع کرنے کے لئے انشاء اللہ بھجوا دیا جائے گا.یا درکھو اب یہ ایک ہی کھیت ہے جو ہمارے لئے خالی پڑا ہے.اس کے سوا دنیا میں اور کوئی کھیت خالی نہیں.مگر باوجود اس کے کہ یہ کھیت اس وقت تک خالی پڑا ہے تم مت سمجھو کہ ہمارا بھائی جس نے دنیا کے تمام کھیتوں پر قبضہ کیا ہوا ہے یہ کہے گا کہ میرے پاس تو بہت سے کھیت ہیں اس ایک کھیت پر انہیں قبضہ کر لینے دو.بلکہ ہمارا بھائی ہمارے راستہ میں ہر قسم کی روکیں پیدا کرنے کی کوشش کرے گا کیونکہ ہمارا بھائی ہمارا حریف ہے.مسیح اول کی جماعت یہ نہیں کہے گی کہ یہ کھیت تم بے شک لے لو مسیح اول کی جماعت بہت سے کھیتوں پر قبضہ کر چکی ہے.بلکہ وہ ایک ایک قدم پر ہماری مخالفت کرے گی اور اب بھی وہ ہما را شدید مقابلہ کر رہی ہے.چنانچہ ابھی باتوں باتوں میں مولوی نذیر احمد صاحب نے بتایا کہ جہاں ان علاقوں میں ہماری تبلیغ پھیل رہی ہے وہاں قریب ہی عیسائیوں نے بھی بڑے زور سے اپنا تبلیغی کام شروع کر رکھا ہے اور وہ اب تک پندرہ بیس ہزار لوگوں کو عیسائی بنا چکے ہیں.گویا ہم جہاں بھی جاتے ہیں وہ ہمارا مقابلہ شروع کر دیتے ہیں.پس سمجھو کہ یہ بنجر کھیت یونہی پڑا رہے گا.ان پر قبضہ کرنے کے لئے ہمارا حریف تیار کھڑا ہے.اگر پہلے تم نے ہل چلا دیئے تو یہ کھیت تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم نے ہل نہ چلائے تو تمہارا حریف ان پر قابض ہو جائے گا.ان ملکوں کی مثال اونٹ کی سی نہیں بلکہ اس بکری کی سی ہے جس کے متعلق رسول کریم ﷺ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! اگر.

Page 276

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 271 جلد دوم جنگل میں کوئی آوارہ بکری مل جائے تو اسے لے لیا جائے یا نہ ؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لَكَ أَوْ لَا خِیكَ ذنب 1 وہ تیرے لئے ہے یا تیرے بھائی بھیڑیے کے لئے ہے.اگر تو اسے نہیں لے گا تو بھیڑیا آئے گا اور اسے چیر پھاڑ دے گا.پس مت خیال کردو کہ یہ بنجر کھیت یونہی پڑا رہے گا.دنیا کی نگاہیں اس کی طرف اٹھ چکی ہیں اور اب ہمارا اور اس کا مقابلہ شروع ہے.اگر ہمارے نوجوان جلد جلد اس ملک میں تبلیغ کے لئے نہیں جائیں گے اور قلیل سے قلیل عرصہ میں سارے علاقہ کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہمارے لئے ترقی کی کوئی صورت باقی نہیں رہے گی.خدا نے یہ علاقہ ہمارے لئے ہی رکھا ہے.مگر ہو سکتا ہے کہ ڈاکو آئیں اور اس علاقہ کو ہم سے چھین کر لے جائیں.اگر ایک بچہ اپنی ماں کی گود میں ہو اور ڈاکو اس بچہ کو چھیننے کے لئے آجائیں تو اُس وقت نہ صرف ماں ان ڈاکوؤں کا مقابلہ کرے گی بلکہ بچہ بھی اپنی ماں کی مدد کرے گا اور وہ نہیں چاہے گا کہ ڈاکو اس پر قبضہ کر لیں.اسی طرح اگر ہم کچھ بھی کوشش کریں تو چونکہ حق ہمارے ساتھ ہے اس لئے نہ صرف حق کے لحاظ سے ہمیں غلبہ حاصل ہو گا بلکہ افریقن فطرت بھی ہماری تائید کرے گی.اور یہ حریف پر ہمیں فضیلت حاصل ہوگی کہ وہ تو صرف طاقت کے زور سے چھیننا چاہے گا مگر ہمیں سچائی کی طاقت حاصل ہوگی اور افریقن فطرت بھی ہماری تائید کرے گی.اس لئے وہ قومیں بہر حال ہماری طرف آئیں گی ان کی طرف نہیں جائیں گی.دوسرا اگر کوئی انہیں لے جائے گا تو زبردستی لے جائے گا رضا مندی سے نہیں.پس اس وقت اگر ہم کچھ بھی طاقت اور زور بڑھائیں گے تو ہماری فتح زیادہ اغلب اور زیادہ یقینی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی جدو جہد کو اتنا بڑھا ئیں کہ افریقن فطرت اور ہماری طاقت مل کر حریف کا مقابلہ کرنے لگ جائے اور وہ اپنے ارادوں میں ناکام ہو جائے.پس ہمارے لئے یہ بہت بڑی ہوشیاری اور بیداری کا وقت ہے.انتہائی سرعت اور تیزی کے ساتھ کام کرنے کا وقت ہے.دنوں اور مہینوں کے اندر اندر ہمیں تمام افریقہ پر چھا جانا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ جنگ سے فارغ ہونے کے بعد عیسائی پادریوں کا سیلاب

Page 277

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 272 جلد دوم اس ملک کی طرف امڈ آئے اور ہمارے لئے اسلام کا پھیلا نا مشکل ہو جائے.ہمیں اُس دن سے پہلے پہلے سارے ملک کو فتح کر لینا چاہئے اور تثلیث کی بجائے خدائے واحد کی بادشاہت اس ملک میں ہمیشہ کے لئے قائم کر دینی چاہئے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے تمام نوجوانوں میں احساس بیداری پیدا کرے، ان کے دلوں میں جوش پیدا کرے اور انہیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس جھنڈے کو جسے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ کھڑا کیا ہے ہمیشہ قائم رکھنے اور دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچار کھنے کی کوشش کرتے رہیں، اے خدا! تو ایسا ہی کر." (الفضل 8 فروری 1961ء) 1 : بخارى كتاب في اللقطة باب ضالة الغنم صفحه 391،390 حدیث 2428 مطبوعه رياض 1999 ء الطبعة الثانية میں حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں " لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذَّنْبِ 66

Page 278

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 273 جلد دوم ایک واقف زندگی مبلغ کو ہدایات 13 جولائی 1945ء کو مکرم شیخ عبد الواحد صاحب سابق مبلغ ایران و چین کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جو ہدایات دی تھیں اور اب تک غیر مطبوعہ تھیں وہ حسب ذیل ہیں :.(1) وقف زندگی کا جو مقصد ہے اسے ہر وقت اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہئے.اگر ایک شخص زندگی وقف کرتا ہے اور وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے میں کو تا ہی سے کام لیتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے دہرا مجرم بنتا ہے:.(2) با قاعدہ اور تفصیلی رپورٹ ایسے رنگ میں آنی چاہئے کہ مرکز دور بیٹھے ہی اُس علاقہ کی ضرورتوں اور اس کے مقاصد اور اس کے علاجوں اور اس کے سیاسی ، اقتصادی، علمی ، اخلاقی اور مذہبی حالات کو سمجھ سکے.یہ کام کا اہم ترین جزو ہے.اور کسی واقف کے وقف توڑنے کے لئے یہ بہت کافی وجہ ہے کہ وہ اپنی رپورٹیں با قاعدہ اور وقت پر اور پھر صحیح طور پر نہیں بھیجتا خواہ وہ اپنے نقطہ نگاہ میں معین الدین چشتی یا قطب الدین بختیار کا کی ہی کیوں نہ ہو.اسلام کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ وہ فردی اصلاح کے علاوہ اجتماعی اصلاح کے لئے بھی آیا ہے.اور اجتماعی اصلاح اور ترقی بغیر نظام کے نہیں ہو سکتی.اور کوئی نظام بغیر اطاعت اور فرمانبرداری کے اور مرکز سے صحیح اور مکمل تعلق رکھے - بغیر نہیں چل سکتا.(3) زبانی تبلیغ بھی بڑی چیز ہے مگر اصلی تغیر اور اثر عملی نمونہ سے ہی پیدا کیا جا سکتا ہے.جب انسان کے اندر ایثار، صداقت اور جذبات پر قابو رکھنے اور دوسروں کے جذبات کے احترام کرنے کا مادہ نہ پایا جاتا ہو تو اس مبلغ کو ملنے والے اسے منافق اور

Page 279

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 274 جلد دوم مدا ہن تو سمجھ سکتے ہیں مگر مومن نہیں سمجھ سکتے.اگر یہ تبلیغ نہ کرتا تو لوگ اسے کمزور مومن سمجھتے.مگر اس کے تبلیغ کرنے کی وجہ سے لوگ اسے کمزور مومن بھی نہیں سمجھیں گے اور وہ اس میں حق بجانب ہوں گے.(4) مومن کی آنکھیں کھلی ہوتی ہیں.مبلغ کا صرف یہ کام نہیں کہ وہ کسی کے ساتھ مسائل پر گفتگو کرے.بلکہ مبلغ کا یہ کام بھی ہے کہ وہ وہاں کے سیاسی، تمدنی، اقتصادی، علمی اور اجتماعی حالات کو دیکھے اور ان سے صحیح نتیجہ نکالے.کیونکہ تبلیغ دماغی ماحول کو مد نظر رکھ کر ہی مؤثر ہو سکتی ہے.اور کسی قوم یا افراد کے دماغی ماحول کا علم اس قوم کے علمی ، اقتصادی، سیاسی اور اجتماعی تحریکات کے علم کے بغیر نہیں ہو سکتا.(5) وہاں جا کر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ دوسرے مبلغ کے آنے کے لئے راستہ کھلے.خواہ کسی تاجر سے مل کر تجارتی کام کے لئے اجازت لی جائے یا کسی اور رنگ میں کوشش کی جائے.بہر حال جس رنگ میں بھی ممکن ہو دوسرے مبلغ کے لئے کوشش کرنی چاہئے.(6) مختلف اقوام اور ان کی تاریخوں، ان کی تعداد ان کی قوت ، ان کے انفرادی اور اجتماعی حالات کے متعلق جلد سے جلد مرکز کو معلومات بہم پہنچائی جائیں.(7) مختلف غیر حکومتوں کے سیاسی نفوذ اور سیاسی جدو جہد کے متعلق بھی محتاط الفاظ میں اور ان مخصوص علاقوں کے متعلق جن میں وہ اپنا نفوذ پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں خبر دیتے رہنا چاہئے.(8) آپ کو وہاں تبلیغ کے علاوہ اس غرض کے لئے بھی بھجوایا جا رہا ہے کہ کمیونسٹ تحریک کے متعلق پوری پوری معلومات حاصل کریں اور مرکز کو بہم پہنچائیں.ایران کے کس کس علاقے میں کمیونسٹ اپنا اثر پیدا کر رہے ہیں اور ان کی اس تحریک کے ایرانی لیڈر کون کون ہیں اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت لٹریچر کے ذریعے کرتے ہیں یا زبانی ، کھلے بندوں کرتے ہیں یا مخفی طور پر.بخارا وغیرہ سے آنے والے لوگوں سے مل کر یہ معلوم کریں کہ بخارا کے مسلمانوں کی مذہبی حالت موجودہ گورنمنٹ کے ماتحت کیسی ہے.

Page 280

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 275 جلد دوم آیا حج کرنے کی پوری آزادی ہے یا نہیں ؟ آیا اتنے ہی لوگ حج کے لئے آتے ہیں جتنے پہلے آتے تھے ؟ اور اگر آتے ہیں تو کس راستے سے آتے ہیں؟ نہ ہبی تعلیم کے مدارس اب بھی موجود ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو بڑے بڑے مدارس کس کس شہر میں ہیں؟ اور کتنے کتنے طلبا ان میں پڑھتے ہیں؟ ان کے اساتذہ کو تنخواہیں کون دیتا ہے؟ آیا بخارا کے لوگوں کی روٹی، کپڑا، رہائش تعلیم اور علاج کی ذمہ دار حکومت ہے یا لوگ اپنے طور پر گزارہ کرتے ہیں؟ اگر حکومت ذمہ دار ہے تو کیا راشن کا طریق سارے ملک میں جاری ہے یا کوئی اور طریق ہے؟ اگر ایسا کوئی طریق جاری ہے تو فی کس کس حساب سے غلہ یا کپڑاگورنمنٹ دیتی ہے؟ آیا جس حساب سے بخارا میں غلہ یا کپڑا دیا جاتا ہے اسی حساب سے یورپین روس میں بھی دیا جاتا ہے یا کم و بیش ؟ علاج کے لئے حکومت نے کیا انتظام کر رکھا ہے؟ آیا ویسے ہی وسیع ہسپتال ایشیائی اسلامی علاقوں میں بنائے گئے ہیں جیسے یورپین ایشیا کی علاقوں میں؟ زمین زمیندار کی سمجھی جاتی ہے یا حکومت کی؟ زمیندار کے باپ کا ورثہ اولاد میں تقسیم ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر مرنے والے کی زمین کم ہو اور اولاد زیادہ ہو اور اولادزمین پر گزارہ نہ کر سکے تو حکومت نے اس کے لئے کوئی انتظام کیا ہے یا نہیں؟ تجارتیں بدستور افراد کے ہاتھ میں ہیں یا سب یا بعض تجارتیں حکومت کے قبضہ میں ہیں؟ کوئی بینک ان علاقوں میں جاری ہیں یا نہیں؟ اگر جاری ہیں تو وہ بینک افراد کے ہیں یا حکومت کے؟ اور اگر جاری نہیں تو کسی شخص کو اگر قرض لینے کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ اس کے لئے کیا انتظام کرتا ہے؟ کیا اس ملک میں گداگری جائز ہے یا نہیں ؟ آیا وہاں گدا گر پائے جاتے ہیں یا نہیں؟ اگر اب نہیں ہیں تو پہلے گدا گر کہاں گئے ؟ پانچ ، اندھے، مفلوج وغیرہ لوگ جن کے کوئی رشتہ دار نہ ہوں ان کے گزارہ کا کیا طریق ہے؟ آیا حکومت نے ان کے لئے کوئی انتظام کیا ہے یا شہر کے لوگ اپنے طور پر ان کے لئے کوئی انتظام کرتے ہیں یا وہ لوگ خود جہاں سے ہو سکے اپنا گزارہ کرتے ہیں؟

Page 281

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 276 جلد دوم (9) بہائی ازم کا کس حد تک ایران میں اثر ہے؟ اس کے بڑے بڑے مرکز کون کون سے ہیں؟ ان میں چندے کا باقاعدہ دستور ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو روپیہ کہاں جاتا ہے؟ آیا کوئی حصہ شوقی آفندی کے پاس بھی جاتا ہے یا نہیں ؟ حکومت کے افسروں میں کہاں تک اس مذہب کے لوگوں کا حصہ ہے؟ آیا یہ لوگ ایران میں اسلامی احکام کے مطابق عمل کرتے ہیں یا اپنی شریعت کے مطابق عمل کرتے ہیں؟ آیا ان کی کوئی تعلیمی درسگا ہیں ہیں یا نہیں ؟ کوئی قومی خدمت کا کام بھی یہ لوگ کرتے ہیں یا نہیں؟ (10) شیعیت کا اس ملک میں کہاں تک اثر ہے؟ آیا شیعیت اپنی تختی میں کم ہو رہی ہے یا ابھی تشدد پر قائم ہے؟ اکثریت حقیقی طور پر شیعہ ہے یا نام کے طور پر شیعہ؟ (11) سنی لوگ ایران میں کتنے فیصدی ہیں؟ خود دار الحکومت میں ان کی کیا تعداد ہے اور ان کا کیا اثر ہے؟ (12) ایرانی لوگوں میں عیسائی مشنریوں نے کس حد تک کامیابی حاصل کی ہے؟ عیسائیوں کے اس ملک میں کتنے کالج اور کتنے سکول ہیں ؟ اس ملک میں عیسائیوں کی کل تعداد کیا ہے؟ (13) ایران اور ہندوستان میں کون کون سی چیزوں کی تجارت جاری ہے؟ ہندوستان کے بڑے بڑے تاجر جو ایران میں رہتے ہوں ان کے نام اور پتے.اور ان ایرانی تاجروں کے نام اور پتے جو ہندوستان سے تجارت کر رہے ہیں.اور وہ ذرائع جن سے ہندوستان اور ایران کی تجارت کو بڑھایا جا سکتا ہے.اور وہ ذرائع جن سے ہندوستانی لوگ وہاں جا کر آسانی سے اپنا گزارہ پیدا کر سکیں.ان سے اطلاع دی جائے تا کہ زیادہ سے زیادہ مبلغ وہاں بھیجے جاسکیں.(14) ایرانی لٹریچر کے متعلق معلومات کا بہم پہنچانا.ایرانی زبان میں کن کن علوم کے متعلق لٹریچر شائع ہوا ہے؟ آیا طبع زاد لٹریچر ہوتا ہے؟ غیر زبانوں کے تراجم ہوتے ہیں؟ اگر غیر زبانوں کے تراجم ہوتے ہیں تو کن کن زبانوں کے تراجم کئے جاتے ہیں؟

Page 282

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 277 جلد دوم (15) ایران میں کون سی غیر زبانیں زیادہ مروج ہیں؟ اور غیر ملکوں میں سے کن کن ممالک میں زیادہ تر ایرانی لوگ پائے جاتے ہیں؟ (16) یہ امر ہمیشہ مدنظر رہے کہ شریف ایرانی نوجوان جن کی وسیع رشتہ داریاں ہوں اور وہ بارسوخ خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اگر قادیان تعلیم کے لئے بھجوائے جاسکیں تو انہیں بھجوایا جائے.پہلے صرف ایک یا دو طالب علم آئیں.اگر یہ تجربہ کامیاب ہو جائے تو مزید طلباء کے لئے انتظام کیا جاسکتا ہے.“ غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ )

Page 283

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 278 جلد دوم ولایت جانے والے واقفین کو اہم ہدایات مندرجہ ذیل ہدایات حضرت خلیفقہ اسیح الثانی نے محترم چودھری عبدالطیف صاحب بی.اے واقف زندگی کو 29 ستمبر 1945ء کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیں.جبکہ چودھری صاحب موصوف تعلیم کے لئے ولایت روانہ ہونے والے تھے:.(1) اللہ پر توکل کرتے ہوئے جاؤ.اس پر ایمان کو مضبوط کرو اور اس کی محبت کو بڑھاتے رہو.یہاں تک کہ دل کی آنکھوں، دماغ کی آنکھوں اور ماتھے کی آنکھوں سے وہ نظر آنے لگے اور دل و دماغ اور بیرونی کانوں سے اس کی آواز سنائی دینے لگے.(2) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے خادم ہیں.خادم کو آقا سے جدا نہ سمجھو.مگر آقا کو آقا کا اور خادم کو خادم کا مقام دو اور دونوں کی محبت میں سرشار رہو.(3) خدا تعالیٰ نے ہمیں خلیفہ ہی نہیں بنایا بلکہ اس زمانہ میں خدمت اسلام کا کام خاص طور پر ہمارے سپرد کیا ہے اور اسلام کی ترقی ہم سے وابستہ کی ہے اس لئے ہمارا مقام عام خلافت سے بالا ہے.ہمارا کام خدا تعالیٰ کے خاص ہاتھ میں ہے.ہماری ذاتی عظمت کوئی نہیں نہ ہم اپنے لئے کوئی خاص عزت چاہتے ہیں.مگر ہم اللہ تعالیٰ کی تلوار ہیں جو ہمارے سایہ میں لڑتا ہے وہ اپنے لئے جنت کا دروازہ کھولتا ہے.جو ہم سے ایک انچ بھی دور ہوتا ہے وہ اسلام سے دشمنی کرتا ہے اور اس کی ترقی میں روک ڈالتا ہے.اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور ہدایت بخشے.خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا.جس کے یہ معنے ہیں کہ خود اس کا وجود پیش کرنا بھی اس وقت اسلام کی ترقی کے لئے مفید ہے.

Page 284

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 279 جلد دوم (4) نمازوں کی پابندی، دعاؤں پر زور کو اپنا شعار بناؤ (5) اطاعت خواہ کوئی افسر ہو ایمان کا جزو ہے.خود افسر ہو تو نیک سلوک کرو.دوسرا افسر ہو تو اس کا اس قدر اعزاز اور احترام کرو کہ دیکھنے والے بغیر کہنے کے اس کا اعزاز کرنے لگیں.اسلام کی روح کو ہر ملک میں اور ہر زمانہ میں زندہ رکھنے اور وسیع کرنے کی کوشش کرو.“ مندرجہ ذیل ہدایات حضرت خلیفہ السیح الثانی نے چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی.اے.ایل.ایل.بی واقف زندگی کو 29 ستمبر 1945ء کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر عطا کیں.جبکہ چودھری صاحب موصوف تعلیم کے لئے ولایت کو روانہ ہونے والے تھے.(1) اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھیں اور اس پر تو کل کا ملکہ پیدا کریں.(2) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ذاتی تعلق اور کمال محبت.(3) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو نہ بھولیں.(4) امام وقت و خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس سے ذاتی تعلق روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے.(5) ہر واقف اور مجاہد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ستون سمجھے اور اپنے آپ کو سلسلہ کی روایات کے قیام کا ذمہ دار قرار دے.اس کے بغیر وقف کی نہ غرض پوری ہوتی ہے اور نہ روایات میں تسلسل پیدا ہوتا ہے جو ضروری ہے.اور (6) یا درکھیں کہ کام اور محنت سے ایک کام اور عقل سے کام کرنا اہم ترین فریضہ ہے.(7) علم کو وسیع کرو.“ (الفضل یکم اکتوبر 1945ء)

Page 285

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 280 جلد دوم مغرب سے طلوع شمس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی 16/اکتوبر 1946ء بعد نماز عصر جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کی انگلستان سے کامیاب مراجعت اور محترم منیر آفندی اٹھنی صاحب امیر جماعت احمد یہ دمشق کی تشریف آوری پر ایک دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو پُر معارف تقریر فرمائی وہ حسب ذیل ہے:.صلى الله چونکہ مغرب کی نماز کا وقت ہونے والا ہے اس لئے میں بہت مختصر تقریر کروں گا.میں اس وقت صرف ایک بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.باتیں تو کئی تھیں مگر چونکہ نماز کا وقت تنگ ہے اس لئے میں صرف اس امر کی طرف جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالٰی اور اس کے انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہوتے ہیں اور ہر بطن اپنے اپنے وقت پر پورا ہوتا ہے.رسول کریم نے قرآن کریم کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کے سات بطن ہیں اور سات بطنوں میں سے آگے ہر بطن کی الگ الگ تفاسیر ہیں.1 اسی طرح ایک ایک آیت سینکڑوں اور ہزاروں معانی پر مشتمل ہے.غلطی سے مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ قرآن کریم صرف چند تفسیروں میں محصور ہے.انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ہر معنے جو عربی زبان سے درست ثابت ہوتے ہیں، ہر معنے جسے عربی صرف ونحو برداشت کرتے ہیں اور ہر معنے جو قرآن کریم کی ترتیب سے نکلتے ہیں وہ درست اور صحیح

Page 286

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 281 جلد دوم ہیں.کیونکہ اگر وہ معنے خدا تعالیٰ کے مد نظر نہ ہوتے تو وہ ان معنوں کی ضرور تردید کرتا اور ایسے لفظ نہ بولتا جن سے نئے معنے تو پیدا ہوتے مگر وہ معنے اللہ تعالیٰ کے منشاء یا انسانی عقل کے خلاف ہوتے.بہر حال اس موقع پر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث میں اس زمانہ کے متعلق ایک اشارہ پایا جاتا ہے ( گو اس کے بعض اور معنے بھی ہیں ) رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مغرب سے سورج کا طلوع ہوگا اور جب یہ واقعہ ہو گا تو اس کے بعد ایمان نفع بخش نہیں رہے گا.2 الله 1934ء میں احرار نے ہمارے خلاف ایجی ٹیشن شروع کی اور انہوں نے دعوی کیا کہ ہم نے احمدیت کا خاتمہ کر دیا ہے.اور 1934 ء سے ہی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایک نئی زندگی بخشی اور اسے ایک ایسی طاقت عطا فرمائی جو اس سے پہلے اسے حاصل نہیں تھی.اس نئی زندگی کے نتیجہ میں ہماری جماعت میں قربانی کا نیا مادہ پیدا ہوا، ہماری جماعت میں اپنے نفوس اور اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کا نیا جوش پیدا ہوا اور ہماری جماعت میں دین اسلام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کے کلمہ کے اعلاء کے لئے باہر جانے کا نیا ولولہ اور نیا جوش موجزن ہوا.چنانچہ پہلے بیسیوں اور پھر سینکڑوں نو جوانوں نے اس غرض کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا اور میں نے خاص طور پر ان کی دینی تعلیم کا قادیان میں انتظام کیا تا کہ وہ باہر جا کر کامیاب طور پر تبلیغ کرسکیں.اس عرصہ میں جنگ کی وجہ سے ہمارے پہلے مبلغ با ہر رکے رہے اور نئے مبلغوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا.یہاں تک کہ جنگ کے خاتمہ پر ہم نے ساری دنیا میں اپنے مبلغ اس طرح پھیلا دیئے کہ احمدیت کی تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی.باقی مسلمانوں میں تو اس کی کوئی مثال تھی ہی نہیں.ہماری جماعت میں بھی جو قربانی کی عادی ہے اس قسم کی کوئی مثال پہلے نظر نہیں آتی.جب مبلغ تیار کر کے بیرونی ممالک میں بھیجے گئے تو خدا تعالیٰ کی مشیت اور رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے ما تحت ہما را جولشکر گیا ہوا تھا اس میں سے سب سے پہلے شمس صاحب مغرب سے مشرق

Page 287

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) کی طرف آئے.282 جلد دوم پس اس پیشگوئی کا ایک بطن یہ بھی تھا کہ آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ اسلام کی فتح اور اسلام کی کامیابی اور اسلام کے غلبہ اور اسلام کے استعلاء کے لئے ایسے سامان پیدا کرے گا جن کی مثال پہلے مسلمانوں میں نہیں ملے گی.اور اُس وقت سورج یعنی شمس مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا.ہمارے مولوی جلال الدین صاحب کا نام شمس ان کے والدین نے نہیں رکھا.ماں باپ نے صرف جلال الدین نام رکھا تھا مگر انہوں نے باوجود اس کے کہ وہ شاعر بھی نہیں تھے یونہی اپنے نام کے ساتھ ٹس لگا لیا تاکہ اس ذریعہ سے رسول کریم ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب شمس مغرب سے مشرق کی طرف آئے گا تو اُس وقت ایمان نفع بخش نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اُس وقت اسلام اور ایمان کے غلبہ کے آثار شروع ہو جائیں گے.اور یہی معنے صحیح اور درست ہیں.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب کوئی پیشگوئی پوری ہو تو اُسی وقت اُس کے تمام پہلو اپنی تکمیل کو پہنچ جانے چاہئیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا.تو رات اور بائیل سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ جب آپ ظاہر ہوں گے تو اُس وقت کفر بالکل تباہ ہو جائے گا.حالانکہ جب آپ ظاہر ہوئے تو آپ کے ظہور کے ساتھ ہی کفر تباہ نہیں ہوا.صلى الله در حقیقت اس پیشگوئی کا مطلب یہ تھا کہ رسول کریم ہے کے ظہور اور آپ کی بعثت کے ساتھ کفر کی تباہی کی بنیاد رکھی جائے گی.اسی طرح اس پیشگوئی کے بھی یہ معنے نہیں کہ جب شمس صاحب آجائیں گے تو اس کے بعد لوگوں کے لئے ان کا ایمان نفع بخش ثابت نہیں ہو گا.بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ اسلام کی خاص بنیا د رکھی جائے گی اور اُس وقت اسلام کو اتنا غلبہ حاصل ہو گا کہ لوگوں کا ایمان لانا اتنا نفع بخش نہیں ہوگا جتنا پہلے ہو سکتا تھا.پہلے تو اسلام کی آواز ایسی ہی ہوگی جیسے ایک وحید و طرید انسان کی آواز ہوتی ہے.مگر پھر دنیا کے چاروں طرف مبلغ پھیل جائیں گے.قرآن کریم کے تراجم شائع

Page 288

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 283 جلد دوم کر دیئے جائیں گے.لٹریچر شائع ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کے بعد ایک انسان اسلام کی آواز کو اس طرح نہیں سنے گا جیسے اجنبی آواز ہوتی ہے.بلکہ وہ اس آواز کو اس طرح سنے گا جیسے ایک شناخت شدہ آواز ہوتی ہے اور ایسی آواز کا انکار اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا ایک منفرد آواز کا انکار آسان ہوتا ہے.یہی معنی اس پیشگوئی کے ہیں کہ اُس کی وقت ایمان قبول کرنا اتنا مشکل نہیں رہے گا جتنا پہلے ہوا کرتا تھا.اُس وقت اسلام پھیلانے والے بڑی کثرت سے پھیل جائیں گے.لوگ اسلام کی تعلیم سے مانوس ہو جائیں گے اور اسلام قبول کرنا ان کے لئے پہلے جیسا دو بھر نہیں رہے گا.یہ مفہوم ہے جو اس پیشگوئی کا ہے.پھر وہ زمانہ بھی آجائے گا جب اس پیشگوئی کا دوسرا بطن پورا ہوگا اور مغرب سے اسلام کے مبلغ نکلنے شروع ہوں گے اور مغرب میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو بجائے اسلام کو مٹانے کے اسلام کی تبلیغ کے لئے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں گے.پھر وہ زمانہ بھی آئے گا جب اس دنیا پر صرف اشرار ہی اشرار رہ جائیں گے اور جسمانی سورج بھی مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع کرے گا اور دنیا تباہ ہو جائے گی.یہ سارے بطن ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.لیکن میں سمجھتا ہوں اس کا ایک بطن یہ بھی ہے جو شمس صاحب کے آنے سے پورا ہوا اور جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ہمارا اس وقت کا روحانی حملہ جارحانہ حملہ ہوگا جو زیادہ سے زیادہ قوی ہوتا چلا جائے گا.پس ہماری جماعت کے دوستوں پر بھی اور جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء پر بھی بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو یکے بعد دیگرے قوم کے نوجوانوں کو قربانی کی بھینٹ چڑھایا جاتا ہے.جب لڑائی نہیں ہوتی اُس وقت فوجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی.لیکن جب جارحانہ اقدام کا وقت آتا ہے تو جس طرح ایک تنور والا اپنے تنور میں پتے جھونکتا چلا جاتا ہے اسی طرح نو جوانوں کو قربانی کی آگ میں جھونکنا پڑتا ہے اور یہ پرواہ نہیں کی جاتی کہ ان میں سے کون بچتا ہے

Page 289

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 284 جلد دوم اور کون مرتا ہے.ایسے موقع پر سب سے مقدم ، سب سے اعلیٰ اور سب سے ضروری بھی ہوتا ہے کہ جیسے پروانے شمع پر قربان ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح نوجوان اپنی زندگیاں اسلام کے احیاء کے لئے قربان کر دیں.کیونکہ ان کی موت کے ساتھ ان کی قوم اور ان کے دین کی زندگی وابستہ ہوتی ہے.اور یہ قطعی اور یقینی بات ہے کہ اگر قوم اور دین کی زندگی کے لئے دس لاکھ یا دس کروڑ یا دس ارب افراد بھی مر جاتے ہیں تو ان کی پرواہ نہیں کی جاسکتی اگر ان کے مرنے سے ایک مذہب اور دین زندہ ہو جاتا ہے.پس ہمارے نوجوانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے.شمس صاحب پہلے مبلغ ہیں جو جنگ کے بعد مغرب سے واپس آئے.یوں تو حکیم فضل الرحمان صاحب بھی مغرب میں ہیں.مولوی محمد شریف صاحب بھی مغرب میں ہیں.صوفی مطیع الرحمن صاحب بھی مغرب میں ہیں اور ہو سکتا تھا کہ کوئی اور پہلے آ جاتا.ہم نے حکیم فضل الرحمان صاحب کو آج سے نو ماہ پہلے واپس آنے کا حکم دے دیا تھا مگران میں سے کسی کو واپس آنے کی توفیق نہیں ملی.توفیق ملی تو شمس صاحب کو ملی تا اس ذریعہ سے رسول کریم ﷺ کی یہ پیشگوئی پوری ہو کہ جب آخری حملے کا وقت آئے گا اُس وقت شمس نامی ایک شخص مغرب سے مشرق کی طرف واپس آئے گا اور اس کے آنے کے ساتھ اسلام کے جارحانہ اقدام اور اس کے حملہ عظیمہ کی ابتدا ہوگی اور نو جوان ایک دوسرے کے پیچھے قربانی کے لئے بڑھتے چلے جائیں گے.پروانہ کیسا بے حقیقت اور بے عقل جانور ہے مگر پروانہ بھی شمع پر جان دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.اگر پروانہ شمع کے لئے اپنی جان قربان کر سکتا ہے تو کیا ایک عقل مند اور باغیرت انسان خدا اور اس کے رسول کے لئے اپنی جان دینے کو تیار نہیں ہو گا ؟ اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اسلام کی خدمت کی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کا موقع دے تا کہ جب ہم خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوں تو ان مجرموں

Page 290

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 285 جلد دوم کی طرح کھڑے نہ ہوں جن کے ذمہ خدا تعالیٰ کا قرضہ باقی ہوگا.بلکہ ان لوگوں کی صف میں کھڑے ہوں جنہوں نے اس کا حق ادا کر دیا اور جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُه" (الفضل 29 جنوری 1961ء) 1 بخارى كتاب فضائل القرآن باب انزل القرآن على سبعة احرف صفحہ 895 حدیث 4992 مطبوعه رياض 1999ء الطبعة الثانية 2 ابو داؤد كتاب الملاحم باب امارات الساعة صفحه 606،605 حديث 4312 مطبوعه رياض 1999ء الطبعة الأولى 3 حبوق باب 3 آیت 3 تا 7.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 4: الاحزاب : 24

Page 291

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 286 جلد دوم مکرم مولوی نذیر احمد مبشر صاحب مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ کے اعزاز میں دعوت 13 جنوری 1947 ء بعد نماز عصر مدرسہ احمدیہ کے صحن میں وکالت تبشیر کی طرف سے مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ گولڈ کوسٹ افریقہ کے اعزاز میں دعوت چائے دی گئی جس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مختصر تقریر فرمائی جس کا مخص اپنے الفاظ میں درج ذیل ہے.حضور نے فرمایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی ان علامتوں میں سے جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں ایک علامت یہ بھی ہے کہ وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ 1 یعنی اُس وقت وحشی، غیر مہذب اور نا تعلیم یافتہ اقوام میں بھی بیداری پیدا ہو جائے گی.دنیا میں ہمیشہ ہی ہر زمانہ اور ہر دور میں کوئی نہ کوئی قوم بیدار ہوتی رہی ہے اور پستی سے نکل کر بام رفعت پر پہنچتی رہی ہے.مثلاً مغل ، عرب اور بر بری اقوام ایک وقت میں ذلت کے عمیق گڑھے میں تھیں مگر ان پر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ ساری دنیا پر چھا گئیں.پہلے زمانہ میں قومیں انفرادی طور پر بیدار ہوتی رہی ہیں.ایک وقت میں ایک عروج پر تھی تو دوسرے وقت میں دوسری بام رفعت پر تھی.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی زمانہ میں ساری قومیں بیدار ہو گئی ہوں.یہ نظارہ کہ بیک وقت ساری قوموں میں بیداری کی لہر دوڑ گئی ہو قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق صرف مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی دکھائی دیتا ہے.اسی زمانہ میں دنیا کی ساری قو میں شاہراہ ترقی پر گامزن ہوئیں اور پست سے پست

Page 292

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 287 جلد دوم اقوام میں بھی بیداری کے آثار پیدا ہوئے.سانسی آدباسی 2 اور دیگر ا چھوت اقوام جن کو کبھی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہ ملتی تھی اب حکومت میں کانگرس اور مسلم لیگ کی ہم جلیں ہیں اور ہر قوم خواہ ہندو ہو یا مسلمان یا عیسائی ان کو اپنے میں شامل کرنے کے خواہشمند ہیں اور انہیں بھائی بنانے کے آرزو مند ہیں..ہندوستان سے باہر افریقہ کا ہی ایک ایسا ملک ہے جو لاکھوں لاکھ برس سے تاریکی اور ظلمت کے عمیق گڑھے میں گرا ہوا تھا اور کبھی بھی اس میں بیداری پیدا نہ ہوئی تھی.مگر اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو تو فیق بخشی ہے کہ ان کو بیدار کرنے کی سعادت حاصل کریں اور وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت کی پیشگوئی کو پورا کرنے میں حصہ دار بنیں.عیسائیوں کے مقابل پر جو وہاں غلامی پیدا کرنا چاہتے ہیں ہم نے نہایت کمزور ذرائع کے باوجود غیر معمولی فتح حاصل کی ہے حتی کہ عیسائیت کی اشاعت ہی بند ہوگئی ہے.چنانچہ چرچ آف انگلینڈ کو سخت تشویش ہوئی اور اس نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے ایک وفد بھیجا جس نے یہ رپورٹ کی کہ عیسائیت کی اشاعت احمدی مبلغین کی مقبولیت کی وجہ سے رک گئی ہے.سو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں سب اقوام کی بیداری کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور ان میں بیداری پیدا کرنے کی ہمیں بھی توفیق بخشی اور وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ کی پیشگوئی کے پورا کرنے کا ہمیں بھی ذریعہ بنایا.حالانکہ وہ قو میں جن کی تعداد ہم سے کہیں زیادہ ہے انہیں یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی.اور مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی جس کو ہم نے وہاں قائم کرنا ہے.آپ نے سن لیا ہے کہ وہاں مبلغین کی کس قدر شدید ضرورت ہے مگر سر دست ہم سو ڈیڑھ سو مبلغ وہاں بھیجیں تب بھی ایک ایک علاقہ میں صرف ایک مبلغ رکھا جا سکتا ہے.پس میں نو جوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ ان فیوض میں شامل ہونے کی کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے راستہ کھول دیا ہے اور افریقن لوگوں کے ولوں کو اسلام کی طرف راغب کر دیا ہے اور عیسائیوں کی شان و شوکت اور ظاہری آرائش

Page 293

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 288 جلد دوم کے باوجود احمدی مبلغین کی طرف زیادہ توجہ دیتے اور اسلام کی باتوں کی طرف زیادہ دھیان دیتے ہیں.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس سعادت سے پورا پورا فائدہ حاصل کریں اور اپنی زندگی راہِ خدا میں وقف کر کے ہر سعادت سے بہرہ ور ہوں.“ (الفضل 15 جنوری 1947ء) 1: التكوير : 6 2 سانسی آدبای : بھارت کے شمال مشرقی ریاستوں میں آباد علاقہ کے اصل باشندے جو مختلف قبائل اور نسلی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں کوا دی واسی کہتے ہیں.ان کی تعداد 84 ملین ہے جو بھارت کی آبادی کا %8 بنتا ہے.تاریخی اعتبار سے ان کا روزگار اور جنگل کی پیداوار سے رہا ہے.ان میں سے کچھ افراد نے مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار کیا.ان مسلح گروہوں کو ماؤ باغی کہا جاتا ہے.( وکی پیڈیاز سر لفظ آدی واسی)

Page 294

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 289 جلد دوم محترم چودھری منیر احم صاحب واقف زندگی کاسفر انگستان اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایات مندرجہ ذیل ہدایات حضرت خلیفۃالمسیح الثانی نے محترم چودھری منیر احمد صاحب واقف زندگی کو ان کی 19 جنوری 1947ء کو انگلستان روانگی سے قبل لکھ کر عطا فرمائیں:.اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ آپ واقف زندگی ہیں ، تعلیم یافتہ ہیں، ایک فن جانتے ہیں.نوکری کرتے یا اپنا کام کرتے تو اپنی حد کے اندر دنیا کماتے ، رشتہ داروں کی ترقی کا موجب ہوتے.لیکن اب آپ نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے ارادوں کو قربان کر دیا ہے.یہ نازک مرحلہ ہے.ایک قدم ادھر سے اُدھر ہو کر قعر مذلت میں گرا سکتا ہے.اپنے عہد پر قائم رہیں تو دین و دنیا آپ کی ہے.اس میں ذراسی لغزش ہو تو تباہی اور بربادی ہے.آپ نے دین کے لئے زندگی وقف کی ہے لیکن آپ کو تجارت کے لئے بھجوایا جارہا ہے.یہ عجیب بات نہیں.ساری فوج لڑے تو شکست یقینی ہے.کچھ لوگ گولہ بارود بناتے ہیں، کچھ روٹی پکاتے ہیں، کچھ بندوقیں تیار کرتے ہیں، کچھ کپڑے، کچھ بوٹ، کچھ موٹر بناتے ہیں.اگر یہ لوگ اپنے کام پر خوش نہ ہوں اور جوش سے اور حسب ضرورت بلکہ زائد از ضرورت کام نہ کریں تو لڑائی میں شکست یقینی ہے.ان کے بغیر سپاہی قیدی ہے، مقتول ہے، فاتح اور غالب نہیں.پس آپ کا کام مبلغوں سے کم نہیں.مبلغ اپنی جگہ

Page 295

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 290 جلد دوم پر لڑتا ہے.آپ لوگ ساری دنیا میں تبلیغ پھیلانے کا ذریعہ بنیں گے.پس اپنے کام کو وسیع کریں.اپنے نفع کو کروڑوں، اربوں اور پھر کھربوں تک پہنچائیں تا کہ سینکڑوں سے ہزاروں، ہزاروں سے لاکھوں مبلغ مقرر ہوں.اور کروڑوں کے بعدار ہوں ٹریکٹ اور کتب ہر سال شائع اور تقسیم ہوں.اپنے حوصلہ کو بلند کریں.چھوٹی کامیابیوں پر خوش نہ ہوں.دنیا کی فتح اپنا مقصود بنالیں.دنیا کو دنیا نے اپنے لئے ہزاروں سال کمایا ہے اب کیوں نہ سب تجارت اور صنعت دین کے لئے فتح کر لی جائے تا کہ یہ ذاتی جھگڑے بالکل ختم ہو جائیں.کمیونسٹ قوم کے لئے لیتے ہیں اور اس طرح ذاتی لڑائی کو قومی لڑائی میں بدل دیتے ہیں اور چونکہ تو میں نہیں بدلتیں لڑائی کی بنیاد ہمیشہ کے لئے قائم کر دیتے ہیں.لیکن ہم اگر تجارت وصنعت کو مذہب کے لئے جیت لیں گے تو لڑائی کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا.کیونکہ مذہب بدل سکتا ہے.اور اسلام تبلیغی مذہب ہے.جب سب لوگ ایک مذہب کے ہو جائیں گے اور تجارت مذہب کے ہاتھ میں ہو گی تو دین و دنیا ایک ہی ہاتھ میں جمع ہو کر لڑائی کا خاتمہ کر دیں گے.مطالعہ وسیع کریں.صرف ایک تاجر نہیں ایک ماہر اقتصادیات کا درجہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.صرف ہندوستان اور انگلستان کے درمیان ہی تجارت وسیع کرنے کا سوال نہیں اپنے مغربی مشنوں سے تبادلہ خیالات کر کے وہاں تجارت کو وسیع کیا جا سکے تو اسے بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.ہماری غرض عقل کے ساتھ سوچ کر ساری دنیا کی تجارت پر قبضہ کرتا ہے اور کوشش کرنا ہے کہ تبلیغ اسلام اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے اس قدر روپیہ کما لیں کہ روپیہ اور مال کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ ہو.صرف سماوی آفات رہ جائیں ارضی آفات کا خاتمہ ہو جائے.اور سماوی آفات دل کی اصلاح سے دور ہوسکتی ہیں.ان کا دور کرنا آسان ہے.کیونکہ اس کا رو کنار حیم وکریم خدا کے ہاتھ میں ہے.افسروں کی اطاعت ، باقاعدہ رپورٹ کام کے اہم جزو ہیں.جو اس میں غفلت کرتا ہے اس کا سب کا م عبث جاتا ہے.دعا ، عبادت، دیانت، امانت ، محنت ، تعاون با ہمی ضروری امور

Page 296

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 291 جلد دوم ہیں.ان کے بغیر دین نہیں.دین کا چھلکا انسان کے پاس ہوتا ہے اور چھلکا کوئی نفع نہیں دیتا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) (الفضل 24 جنوری 1947ء)

Page 297

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 292 جلد دوم علمائے جماعت اور طلبائے دینیات سے خطاب 8 مئی 1950ء کو جامعتہ المبشرین کے احاطہ میں بیرونی ممالک سے آنے اور کچھ جانے والے مبلغین کے اعزاز میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی طرف سے ایک دعوت چائے کا انتظام کیا گیا.اس موقع پر تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے حسب ذیل خطاب فرمایا:.’ہمارے ہاں ایسے مواقع پر عموماً تین تقریروں کا رواج ہے.ایک تقریر داعی جماعتوں یا داعی جماعت کی طرف سے ہوتی ہے.دوسری تقریر آنے والے صاحب کی طرف سے ہوتی ہے اور تیسری تقریر سے متعلق مجھ سے امید کی جاتی ہے کہ میں آخر میں اپنے خیالات کا اظہار کروں.لیکن آج چونکہ میں ہی داعی ہوں اور پہلے اور پیچھے کی تقریریں کچھ بے معنی سی ہو کر رہ جاتی ہیں اور پھر مدعو دین اتنے ہیں کہ ایک ہی قسم کے خیالات کے تکرار سے بدمزگی پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا ہے اس لئے اس عام طریق کے خلاف میں نے یہی پسند کیا کہ صرف میں ہی اپنے خیالات کو ظاہر کر دوں.جہاں تک دعوت کرنے والوں کا یہ طریق ہے کہ وہ آنے والے کو خوش آمدید کہتے ہیں یا جہاں تک آنے والوں کا یہ طریق ہے کہ وہ دعوت کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرتے ہیں یہ محض ایک رسمی بات ہے.یہ صاف بات ہے کہ دعوت کرنے والا تبھی دعوت کرے گا جب وہ خوش ہوگا.اگر وہ خوش نہیں ہو گا تو دعوت کیوں کرے گا.پھر یہ بھی صاف بات ہے کہ جب کوئی شخص دعوت کرے گا تو کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھے گا اور دوسرا شخص بہر حال ممنون ہو گا.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص دعوت کرے اور دوسرا شکر یہ بھی ادانہ کرے.پس یہ طبعی تقاضے ہیں جن کو قدرتی طور پر انسان ہمیشہ ظاہر کرتا رہتا ہے.لیکن ہم

Page 298

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 293 جلد دوم جب اس قسم کی تقاریب میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں تو ہماری کچھ اور غرض ہوتی ہے.اور وہ غرض یہ ہے کہ ایسے مواقع پر جب آنے والوں کا اعزاز کیا جاتا ہے تو دوسرے نو جوانوں کے دلوں میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایک اچھا کام ہے جس میں ہمیں بھی حصہ لینا چاہئے.جب وہ دیکھتے ہیں کہ فلاں مبلغ جا رہا ہے یا آرہا ہے اور اُس کے لئے نعرے لگ رہے ہیں، مرحبا اور تحسین کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں تو نو جوان طبیعتیں جو ان باتوں سے بڑی جلدی متاثر ہوتی ہیں فورا یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں کہ اوہو! ہم تو محروم ہی رہ گئے.اگر ہم جاتے تو ہمارے لئے بھی نعرے لگتے اور ہمیں بھی مرحبا اور جَزَاكَ الله کہا جاتا.ان کا دماغ ابھی اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ وہ اس فعل کے روحانی نتائج پر نظر ڈال سکیں لیکن نعروں اور مرحبا اور تحسین کی آوازوں کا ان پر گہرا اثر ہوتا ہے اور یہ نعرے انہیں دینی خدمت کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل کرتے چلے جاتے ہیں.پس ان دعوتوں سے ایک تو ہماری یہ غرض ہوتی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں میں تحریک پیدا ہو اور وہ بھی اپنے آپ کو خدمت دین کیلئے پیش کریں.تم اسے نفسانیت کہہ لو مگر چونکہ اس سے ہماری ذات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ خدا اور خدا کے دین کو فائدہ پہنچتا ہے اس لئے یہ کوئی بری چیز نہیں.در حقیقت ہمارا یہ طریق ایسا ہی ہوتا ہے جیسے شکاری مچھلی کے شکار کے لئے کنڈی ڈالتا ہے تو اس کے ساتھ آٹا بھی لگا دیتا ہے تاکہ مچھلی آئے اور پھنس جائے.اس طرح یہ بھی نو جوانوں کو پھانسنے کا ایک ذریعہ ہوتا ہے مگر چونکہ وہ دین کیلئے پھانسے جاتے ہیں، خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے پھانسے جاتے ہیں اس لئے خواہ ننگے الفاظ میں اسے مچھلی کے شکار سے مشابہت دے لو بہر حال یہ شکار مبارک ہے کیونکہ یہ شکار اپنے لئے نہیں کیا جاتا، اپنے عزیزوں کے لئے نہیں کیا جا تا بلکہ خدا اور اُس کے رسول کے لئے کیا جاتا ہے.دوسرا فائدہ اس سے یہ ہوتا ہے کہ ہمیں آنے والوں اور جانے والوں کے لئے بعض خیالات جو مستقل حیثیت رکھتے ہیں ان کے اظہار کا موقع مل جاتا ہے.انسانی دماغ

Page 299

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 294 جلد دوم کو خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ اسے نیا مضمون نکالنے کے لئے کسی نے محرک کی ضرورت ہوتی ہے.ایک بامذاق انسان جو ہنسی اور مزاح کی طرف اپنا میلان رکھتا ہے وہ بھی ہر وقت ہنسی اور مزاح کی باتیں نہیں کرتا بلکہ ان باتوں کے لئے اسے بھی کسی محرک کی ضرورت ہوتی ہے.ایک شاعر جو شعر کہنے کا عادی ہے وہ بھی ہر وقت شعر نہیں کہہ سکتا بلکہ اسے بھی کسی محرک کی ضرورت ہوتی ہے.برسات کا موسم ہوتا ہے ، آسمان پر بادل آئے ہوئے ہوتے ہیں، ٹھنڈی ہوا چل رہی ہوتی ہے تو اُس کے جسم میں حرکت اور خون میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کی طبیعت شعر کہنے کی طرف مائل ہو جاتی ہے.یا چمن میں گئے اور فوارے چلتے دیکھے تو طبیعت جس ڈگر پر چل رہی تھی اس سے بدل گئی اور شعر کی طرف مائل ہو گئی.یا چاندنی رات ہے، میدان میں سیر کے لئے نکلے تو چاند کی چاندنی سے متاثر ہوئے اور شعر کہنے لگ گئے.یا صبح کے وقت ٹھنڈی ہوا سے آنکھ کھل گئی دیکھا تو نیند پوری ہو چکی تھی اور طبیعت میں شگفتگی تھی اُس وقت صبح کی ٹھنڈی ہوا نے تحریک پیدا کر دی اور شعر گوئی کی طرف طبیعت کا میلان ہو گیا.تو کوئی نہ کوئی ذریعہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے.اگر وہ ذرائع اچھے ہوں اور طبیعت بھی اچھی ہو تو اچھے نتائج پیدا ہوتے ہیں.اور اگر ذرائع اچھے نہ ہوں یا طبیعت اچھی نہ ہو تو خوشگوار نتائج پیدا نہیں ہو سکتے.شاہ عالم بادشاہ سودا سے اپنے شعر درست کروایا کرتے تھے.ایک دفعہ بادشاہ نے اپنی ایک غزل سودا کو اصلاح کے لئے دی مگر ایک ہفتہ گزر گیا اور انہوں نے نظم واپس نہ کی.بادشاہ نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ طبیعت حاضر نہیں.اس پر پھر ایک ہفتہ گزر گیا.اگلے ہفتہ انہوں نے دوبارہ دریافت کروایا تو سو دانے پھر یہی جواب دیا کہ طبیعت حاضر نہیں.مجبوراً بادشاہ نے ایک اور ہفتہ انتظار کیا اور خیال کیا کہ شاید اب غزل واپس آجائے گی مگر پھر بھی نظم واپس نہ آئی.اور جب بادشاہ نے پوچھا تو انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ طبیعت حاضر نہیں.اس پر بادشاہ کو غصہ آیا اور اس نے کہا کہ آپ کی طبیعت بھی عجیب ہے کہ حاضر ہونے میں ہی نہیں آتی.ہم تو پاخانہ بیٹھے بیٹھے دو غزلیں کہہ دیا

Page 300

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 295 جلد دوم کرتے ہیں.سودا تیز طبیعت انسان تھے انہوں نے کہا حضور ! ان میں سے بو بھی تو ویسی ہی آتی ہے.معلوم ہوتا ہے بادشاہ کو قبض کی بیماری ہوگی اور چونکہ ایسا انسان بیٹھے بیٹھے مختلف خیالات میں مبتلا رہتا ہے اسی قسم کے خیالات اسے بھی سو جھتے ہوں گے اور وہ وقت گزارنے کے لئے غزل کہنے لگ جاتا ہوگا.مگر یہ ظاہر بات ہے کہ جب محرک برا ہوگا تو نتیجہ بھی برا ہوگا.وہ شخص جس کو شعر کہنے کی تحریک فوارے کرتے ہیں یا چاندنی راتیں کرتی ہیں یا برسات کا موسم کرتا ہے یا باغ کا نظارہ کرتا ہے اور وہ شخص جسے شعر کہنے کی تحریک قبض کرتی ہے ان دونوں کے شعر کبھی برابر نہیں ہو سکتے.کیونکہ ایک کا محرک اور ہے اور دوسرے کا محرک اور ہے.پس سو دانے جو کچھ کہا ٹھیک کہا مگر پھر ڈر کر بادشاہ کی ملازمت چھوڑ کر چلے گئے.تو خیالات کے اظہار کے بھی بعض مواقع ہوتے ہیں اور ان کے خیالات کے اظہار کے لئے بعض محرکات کی ضرورت ہوتی ہے.اس وقت بیسیوں مبلغ بیرونی ممالک میں کام کر رہے ہیں اور ان سے بعض دفعہ ا.کاموں میں غلطیاں بھی ہوتی ہیں.رپورٹیں آتی ہیں ہم انہیں پڑھتے ہیں تو ہم ان پر ایک آدھ نوٹ دے دیتے ہیں اور بات ختم ہو جاتی ہے.یہ نہیں ہوتا کہ میں اُس وقت تقریری شروع کر دوں.پھر چند دنوں کے بعد ان کی طرف سے دوسری رپورٹ آتی ہے اور ہمیں کوئی اور غلطی نظر آتی ہے جس کی طرف انہیں اختصار کے ساتھ توجہ دلا دی جاتی ہے اور بات ختم ہو جاتی ہے.لیکن ایسے مواقع پر جب مبلغین سامنے موجود ہوں اور محرک نظر آ رہا ہو تو ہمیں بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا موقع مل جاتا ہے اور کئی مضامین کسی محرک کے نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک بیان نہیں ہوئے ہوتے اس طرح بیان ہو جاتے ہیں اور لوگوں کو فائدہ پہنچ جاتا ہے.پس ایک طرف نوجوانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانا اور انہیں تحریک کرنا کہ وہ وہی طریق اختیار کریں جس پر ان کے پہلے بھائی چل چکے ہیں اور دوسری طرف آنے والوں کو توجہ دلانا کہ وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں اور اپنے کاموں میں مزید تقویت

Page 301

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 296 جلد دوم پیدا کریں، اپنے اندر جرات اور بہادری کا مادہ پیدا کریں اور غور اور فکر سے کام لینے کی عادت ڈالیں.یہ مقاصد ہیں جن کے ماتحت اس قسم کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں.ادھر جو کارکن ان سے کام لے رہے ہیں ان کے فرائض کی طرف بھی اس موقع پر انہیں توجہ دلا دی جاتی ہے اور اس طرح کام لینے والوں اور کام کرنے والوں دونوں کی اصلاح کی ہو جاتی ہے.یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ اتنی نوعیتوں کا حامل ہے اور اتنا پھیلا ؤ اپنے اندر رکھتا ہے کہ جب تک ہمارا دماغ اس کام کا ہر وقت جائزہ نہ لیتا ر ہے نہ وہ پوری طرح ہمارے ذہنوں میں آ سکتا ہے اور نہ ہم اس کے لئے تیاری کر سکتے ہیں.یہ ظاہر ہے کہ ہماری جماعت کی بنیاد ایک مامور کے ہاتھ سے رکھی گئی ہے.ہماری جماعت کوئی سوسائٹی نہیں جسے عام سوسائٹیوں کے طریق پر چلایا جائے.یہ ایک مذہب ہے اور مذہب بھی ایسا جس کا لوگوں کو سمجھانا بڑا مشکل ہے.مذہب کا کسی دوسرے کو سمجھانا یوں بھی بڑا مشکل کام ہوتا ہے مگر دوسرے مذاہب میں اور اسلام اور احمدیت میں ایک فرق ہے جس کی وجہ سے ہماری مشکلات ان سے بہت زیادہ ہیں.دنیا میں جب پہلا نبی آیا تو اُس کا کام بڑا مشکل تھا کیونکہ لوگوں کے سامنے نبوت کی پہلے کوئی نظیر موجود نہیں تھی.وہ نہیں جانتے تھے کہ الہام کیا ہوتا ہے ، نبوت کیا ہوتی ہے، خدا تعالیٰ سے تعلق کے کیا معنی ہوتے ہیں، لوگوں کا اس پر ایمان لانا کیوں ضروری ہوتا ہے.مگر جب اُس کی امت قائم ہو گئی تو اگلے نبی کا کام نسبتاً آسان ہو گیا.پھر تیسرا نبی آیا تو اس کا کام اور بھی آسان ہو گیا کیونکہ لوگ جانتے تھے کہ الہام کیا ہوتا ہے، کتاب کیا ہوتی ہے ، نبوت کیا ہوتی ہے.صرف ان کی طرف سے یہ سوال اٹھنے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں کسی نبی کی کیا ضرورت ہے یا ہم میں ایسے کونسے نقائص ہیں جن کی وجہ سے تم ہماری اصلاح کے لئے کھڑے ہوئے ہو.اس طرح سوالات محدود ہوتے چلے جاتے ہیں اور مشکلات کم ہوتی جاتی ہیں.لیکن اس کے خلاف ہمارے زمانہ میں یہ ایک نئی مشکل پیدا ہو گئی ہے کہ پہلے نبی جو

Page 302

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 297 جلد دوم آتے رہے وہ تو یہ کہتے تھے کہ پہلی شریعت منسوخ ہوگئی ہے یا ہم نے براہ راست نبوت حاصل کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے ، نہ آپ نے براہ راست نبوت کا مقام حاصل کیا ہے بلکہ قرآن کریم اور اسلام کے احکام ہمیشہ کے لئے واجب العمل رہیں گے مگر اس کے باوجود لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائیں.یہ چیز ایسی ہے جس کا سمجھنا ان کے لئے بڑا مشکل ہے.واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دنیا میں مبعوث ہو کر یہ نہیں فرمایا کہ میں قرآن کریم کو بدلنے آیا ہوں ، آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بدلنے آیا ہوں بلکہ آپ نے یہ فرمایا کہ میں تمہیں بدلنے کے لئے آیا ہوں.اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو سن کر کئی لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جب مرزا صاحب کوئی نئی چیز نہیں لائے تو ہم انہیں مانیں کیوں؟ میں نے دیکھا ہے کئی لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا مرزا صاحب کا کوئی نیا کلمہ ہے؟ میں کہتا ہوں نہیں.وہ کہتے ہیں کیا آپ نئی شریعت لائے ہیں؟ میں کہتا ہوں نہیں.وہ کہتے ہیں کیا آپ اسلام میں کوئی تبدیلی کرنے کے لئے آئے کی ہیں؟ میں کہتا ہوں نہیں.اس پر وہ عجیب قسم کی مسکراہٹ ظاہر کر کے کہتے ہیں کہ پھر ہم آپ پر کیوں ایمان لائیں؟ یہ ایک ایسی مشکل ہے جس کا مقابلہ کرنا ہماری جماعت کا فرض ہے.پس پہلے لوگوں کی مشکلات اور رنگ کی تھیں اور ہماری مشکلات اور رنگ کی ہیں ، اُن کے سامنے اور سوالات تھے اور ہمارے سامنے اور سوالات ہیں.پھر بڑی دقت یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں ایسی قومیں غالب ہیں جن کی اسلام کے ساتھ ایسی شدید دشمنی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم یہود کو اسلام کا شدید ترین دشمن پاؤ گے لیکن اس زمانہ میں اسلام کا شدید ترین دشمن عیسائی ہے.اگر یہودی دشمنی کرتا ہے تو وہ بھی عیسائی کی مدد سے ہی کرتا ہے.جب امریکہ کی مدد اس کے پیچھے ہوتی ہے، جب فرانس اور دوسرے ممالک کی تو ہیں عرب ممالک کا رخ

Page 303

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 298 جلد دوم کر لیتی ہیں تو عرب جانتا ہے کہ اب سوائے مونچھیں نیچی کر لینے کے میرے لئے اور کوئی چارہ نہیں.غرض ہمارے لئے قدم قدم پر مشکلات ہیں.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہماری کامیابی کے راستہ میں جو چیز سب سے زیادہ حائل ہے وہ یہ ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ اعتقا در رکھتے ہیں کہ آپ کوئی نئی چیز نہیں لائے.آپ اسلام کو ہی دوبارہ دنیا میں قائم کرنے کیلئے مبعوث ہوئے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر ہماری طرف سے کوئی نئی چیز پیش کی جاتی تب بھی لوگ مخالفت کرتے کیونکہ لوگوں کو مخالفت کیلئے کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے جو انہیں مل جاتا ہے.ہمارے ملک میں قصہ مشہور ہے ایک مالدار شخص تھا اس کی یہ عادت تھی کہ ادھر شادی کرتا اور اُدھر چند دنوں کے بعد ہی کوئی بہانہ بنا کر عورت کو طلاق دے دیتا اور اُس کے زیورات اور کپڑے وغیرہ خود رکھ لیتا.بہانے بنانے تو کوئی مشکل ہی نہیں ہوتے کسی کو کسی بہانہ پر اور کسی کو کسی وجہ سے طلاق دے دیتا.اس طرح اس نے یکے بعد دیگرے کئی عورتوں کو طلاق دی.آخر ایک ہوشیار لڑکی کی اُس سے شادی ہو گئی.اُس نے کوشش کی کی کہ کوئی بہانہ ملے تو اسے طلاق دے دوں مگر وہ کوئی موقع پیدا نہ ہونے دیتی.خود ہی کھانا پکاتی ، خود ہی کپڑے وغیرہ دھوتی اور خود ہی گھر کے اور کام کرتی.جب کئی دن گزر گئے اور طلاق دینے کا اُسے کوئی بہانہ نہ مل سکا تو تنگ آکر ایک دن وہ باورچی خانہ چلا گیا.اس کی بیوی روٹیاں پکا رہی تھی.اس نے جوتی اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور کہنے لگا کمبخت! تو روٹی تو ہاتھ سے پکاتی ہے تیری کہنیاں کیوں ہلتی ہیں اور اسے زدو کوب کرنا شروع کر دیا.لڑکی کہنے لگی میں آپ کی لونڈی ہوں آپ جتنا چاہیں مجھے مار لیں مگر اس وقت آپ اپنی طبیعت کو کیوں خراب کرتے ہیں.کھانے کا وقت قریب ہے آپ پہلے کھانا تو کھا لیں اور جتنا چاہیں مجھے مار لیں.میں آخر یہیں ہوں کہیں چلی تو نہیں جاؤں گی.اس نے بھی سمجھا بات درست ہے.چنانچہ اُس نے بیوی کو چھوڑ دیا.جب وہ کھانا کھانے کی بیٹھا تو ابھی اس نے ایک دو لقمے ہی منہ میں ڈالے تھے کہ بیوی نے اُس بڑھے کی داڑھی

Page 304

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 299 جلد دوم پکڑ لی اور کہنے لگی کمبخت ! کھانا تو تو منہ سے کھاتا ہے تیری داڑھی کیوں ہلتی ہے.پس مخالفت کا بہانہ بنانا کوئی مشکل چیز نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے تو لوگوں نے اور بہانہ بنا لیا.حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو لوگوں نے اور بہانہ (بنا) لیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا تلوار چلا ؤ تو لوگوں نے کہہ دیا کہ یہ نبی کیسا ہے یہ تو لڑائی کی تعلیم دیتا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے 2 اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ بھی کوئی تعلیم ہے کیا اس طرح دنیا میں گزارہ ہو سکتا ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ نے فرمایا کہ موقع محل کے مطابق کبھی سختی کرو اور کبھی نرمی.اس پر لوگوں نے کہا یہ تو دونوں مذہبوں سے گیا.یہ نہ مونٹی کے راستہ پر ہے اور نہ عیسی کے راستہ پر.اس کی تعلیم ہم کیوں مانیں.غرض لوگ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لینے کے عادی ہوتے ہیں.پس اگر ہماری طرف سے کوئی جدید چیز پیش کی جاتی تب بھی لوگوں کی مخالفت ضرور ہوتی مگر آجکل جو اعتراض شدت سے کیا جاتا ہے وہ یہی ہے کہ جب حضرت مرزا صاحب کوئی نئی چیز نہیں لائے تو ہم آپ پر کیوں ایمان لائیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض جاہل یہ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے نیا کلمہ بنا لیا ہے یا ان کا نیا قرآن ہے مگر تعلیم یافتہ طبقہ جانتا ہے کہ یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں.وہ جانتا ہے کہ ہم ختم نبوت کا انکار نہیں کرتے ، وہ جانتا ہے کہ ہم مرزا صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم سمجھتے ہیں ، وہ جانتا ہے کہ تبلیغ اسلام اس وقت صرف ہم لوگ ہی کر رہے ہیں، وہ جانتا ہے کہ معترض پاگل ہیں، وہ جھوٹ بولتے اور لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.مگر وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ جب تم قرآن کو ہی پیش کرتے ہو، جب تم حدیثوں کو ہی منواتے ہو، جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر ہی عمل کرواتے ہو تو ہم مرزا صاحب پر کیوں ایمان لائیں؟ اور در حقیقت یہی وہ اعتراض ہے جس کو اس زمانہ میں حل کرنے کی ضرورت ہے.ورنہ مخالف لوگ تو جو کچھ

Page 305

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 300 جلد دوم کہتے ہیں وہ محض جھوٹ ہوتا ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ اس حقیقت کو خوب سمجھتا ہے.مخالف اگر ہمارے خلاف شور مچاتے ہیں تو محض اس لئے کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ان کا اعزاز بڑھ جاتا ہے اور لوگ ان کی تعریفیں کرنے لگ جاتے ہیں ورنہ جس دن احمدیت کو کامیابی حاصل ہوئی تم دیکھو گے کہ اُس دن وہ بھی ادھر آجائیں گے.میں ابھی بچہ تھا کہ میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ کبڈی کا میچ ہو رہا ہے.جس میں ایک طرف احمدی ہیں اور دوسری طرف غیر احمدی.غیر احمد یوں میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی شامل ہیں.احمدی جب کبڈی کے لئے جاتے ہیں تو غیر احمدیوں کو ہاتھ لگا کر آ جاتے ہیں اور وہ سب مرتے چلے جاتے ہیں.یعنی جس کو ہاتھ لگ جاتا ہے اسے بٹھا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے صرف مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پیچھے رہ گئے.جب انہوں نے دیکھا کہ اب میں ہی اکیلا رہ گیا ہوں اور میرے سارے ساتھی بیٹھ چکے ہیں تو جس طرح بچے بعض دفعہ دیوار کے ساتھ منہ لگا کر آہستہ آہستہ چلنا شروع کر دیتے ہیں اسی طرح انہوں نے بھی قریب کی ایک دیوار کے ساتھ منہ لگا کر ادھر بڑھنا شروع کیا.جب وہ لیکر پر پہنچے تو کہنے لگے اب تو سارے ہی اِدھر آگئے ہیں لو میں بھی آجاتا ہوں اور یہ کہہ کر وہ بھی ہماری طرف آگئے.اس رویا میں مخالفین کی حالت کا یہی نقشہ کھینچا گیا ہے.پہلے وہ مخالفت کرتے ہیں مگر جب دیکھتے ہیں کہ سب لوگ مانتے چلے جا رہے ہیں تو وہ بھی آکر شامل ہو جاتے ہیں.بہر حال وہ دقت جو اس وقت ہمیں پیش آرہی ہے پہلے زمانہ میں مسیحیوں کو بھی پیش آئی تھی.حضرت مسیح آئے اور انہوں نے کہا یہ مت سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کے صحیفوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.3 اس پر یہودی مفکرین نے یہ سوال اٹھایا کہ اگر آپ انہی چیزوں کو قائم کرنے کے لئے آئے ہیں جو ہمارے پاس پہلے سے موجود ہیں تو پھر ہم آپ پر کیوں ایمان لائیں؟ جیسے اس زمانہ میں کہا جاتا ہے کہ جب مرزا صاحب انہی چیزوں کو قائم کرنے کے لئے آئے ہیں جو اسلام

Page 306

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 301 جلد دوم میں پائی جاتی ہیں تو ہم آپ کو کیوں مانیں ؟ اگر کہو کہ بعض عقائد میں تبدیلی پیدا ہو چکی تھی جن کی اصلاح ضروری تھی تو اس غرض کے لئے ہمارے مولوی کافی تھے مرزا صاحب پر ایمان لانا کہاں سے نکل آیا.یہی سوالات مسیحیوں کے سامنے آئے.اب بجائے اس کے کہ وہ اس لڑائی کو صبر اور استقلال اور دعاؤں سے فتح کرتے کچھ مدت کے بعد کمزور عیسائیوں نے گھبرا کر یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسیح خدا کا بیٹا تھا.وہ دنیا کے گناہوں کا کفارہ کی ہو گیا.اُس نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ شریعت لعنت ہے.جب اِس طرح ایک نئی چیزی لوگوں کے سامنے پیش کی گئی تو لوگوں نے عیسائیت میں داخل ہونا شروع کر دیا.یہی خطرہ ہمارے سامنے ہے.ہماری کامیابی میں بھی سب سے بڑی مشکل لوگوں کا یہی سوال ہے کہ حضرت مرزا صاحب کیا لائے؟ اگر تو ہم نے استقلال سے کام لیا تو کی آہستہ آہستہ ہم اس لڑائی کو انشاء الله فتح کرلیں گے.لیکن اگر ہم نے بھی گھبرا کر کوئی غلط قدم اٹھا لیا تو لوگ بے شک ہمارے اندر شامل ہو جائیں گے مگر ہم ایک نئی عیسائیت کی بنیاد رکھنے والے بن جائیں گے.پس یہ بھی ایک بڑی کٹھن منزل ہے جس کو ہم نے صبر اور استقلال اور دعاؤں سے طے کرتا ہے.اور یہ مشکل ایسی ہی ہے جیسے سانپ کے منہ میں کی چھپکلی.اُگل دے تو کوڑھی ہو جائے اور نگلے تو مر جائے.اگر ہم ان مشکلات کو قائم رہنے دیتے ہیں تو کامیابی کا حصول مشکل نظر آتا ہے.اور اگر ہم اپنا پینترا بدل لیتے ہیں تو آپ بھی بے دین ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی بے دین کرتے ہیں.پس ہمیں بہت زیادہ غور وفکر اور ہوشیاری سے کام لینے کی ضرورت ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلام کو ایسے رنگ میں قائم کریں کہ نہ اسلام بدلے، نہ اس کی تعلیموں میں کوئی تغیر ہو اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت اور آپ کے درجہ میں کوئی فرق آئے.یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے جس کے لئے ہمیں پہلوں سے بہت زیادہ ہوشیار اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے.وہ قومیں جن کو جلد ترقی اور حکومت مل جاتی ہے وہ پھر بھی حکومت کے سہارے ان مشکلات کا ایک حد تک مقابلہ کر سکتی ہیں.لیکن ہماری ترقی بتدریج اور آہستگی کے ساتھ

Page 307

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 302 جلد دوم مقدر ہے.پس جب ہماری فتح نے دیر سے آنا ہے اور آہستہ آہستہ آتا ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کی درستی کریں اور انہیں پہلوں سے زیادہ ہوشیار اور پہلوں سے زیادہ کارآمد وجود بنا ئیں.جب فتح جلدی آجائے تو انسان خیال کر سکتا ہے کہ اگلی نسل کی حکومت کے ماتحت خود بخود نگرانی ہوتی رہے گی لیکن جب فتح آہستہ آہستہ آنے والی ہو اور انسان جانتا ہو کہ میں مر گیا تو میری آئندہ نسل بھی اسی طرح مخالفین کے نرغہ میں گھری ہوئی ہوگی جس طرح میں گھرا ہوا ہوں تو اُس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ آئندہ نسل کی درستی کا خاص طور پر فکر کرے.اور چونکہ ہمارے سامنے یہی خطرہ ہے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے نو جوانوں کے معیار اخلاق اور ان کے معیارِ دین اور ان کے معیار تقویٰ کو زیادہ سے زیادہ بلند ترین اور ان کے اندر پہلوں سے زیادہ احساس قربانی پیدا کریں تا کہ اسلام دشمن پر غالب آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اس دنیا میں ہمیشہ کیلئے قائم ہو جائے.اس وقت ہمارے مشن قریباً ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ امر جہاں ہماری عظمت کا موجب ہے وہاں ایک رنگ میں ہمارے لئے خطرہ کا موجب بھی بن رہا ہے کیونکہ ہمارا مرکز کمزور ہے اور بیرونی ممالک میں جماعتیں ترقی کر رہی ہیں.اگر مرکز میں ہماری تعداد زیادہ ہوتی اور ہمارے اندر اتنی طاقت ہوتی کہ ہم بیرونی ممالک کے بوجھ کو برداشت کر سکتے تو یہ ترقی یقیناً ہماری عظمت کا موجب ہوتی.مگر اس وقت حالت یہ ہے کہ مرکز طاقتور نہیں اور ہر جگہ کے لوگ چلا رہے ہیں کہ مرکز ہماری مدد کرے.پس بجائے اس کے کہ یہ وسعت ہماری طاقت کا موجب ہوتی وہ ہماری کمزوری کا موجب بن رہی ہے.ہٹلر نے اپنے ابتدائی زمانہ میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ” میری جدو جہد تھا.اس کتاب میں اس نے یہ بحث کی ہے کہ عمارت کی اونچائی کا انحصار اس کی بنیاد پر ہوتا ہے.اگر بنیاد چوڑی اور مضبوط ہو تو اوپر کے حصہ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا.لیکن اگر بنیاد چھوٹی یا کمزور ہوگی تو وہ عمارت ہر وقت خطرہ میں گھری رہے گی اور پھر وہ زیادہ اونچی

Page 308

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 303 جلد دوم بھی نہیں جا سکے گی.اس اصول کے ماتحت اُس نے لکھا کہ جرمن قوم کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی ہیں (BASE) مضبوط ہو.پھر وہ جتنا پھیلے گی اُتنی ہی مضبوط ہوگی.لیکن اگر میں (BASE) مضبوط نہیں ہوگی تو اس کا پھیلاؤ اُس کے تنزل کا موجب بن جائے گا.یہ ایک دنیوی مثال ہے مگر الہی سلسلے بھی اس قانون سے مستی نہیں ہیں.اس وقت حالت یہ ہے کہ بیرونی جماعتوں کو ہم پوری طرح سنبھال نہیں سکتے.ہمارے آفس اُن کی پوری طرح نگرانی نہیں کر سکتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے نظم میں فرق آ جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کی طرف سے احکام کی پوری فرمانبرداری نہیں ہوتی یا فرمانبرداری تو ہوتی ہے مگر ناقص ہوتی ہے.اس طرح بعض دفعہ ترقی کے مواقع نکلتے ہیں تو ہم ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.مثلاً کسی جگہ سو یا پچاس مبلغوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہم بھجوا نہیں سکتے.یا مبلغ تو ہوتا ہے مگر لٹریچر کی اشاعت اور سفروں وغیرہ کے لئے اس کے پاس روپیہ نہیں ہوتا.مثلاً امریکہ میں ہی اگر ہم دس مبلغ رکھیں تو چونکہ وہ بہت مہنگا ملک ہے ان کے آنے جانے کے اخراجات، وہاں کی رہائش کے اخراجات اور سفروں اور لٹریچر وغیرہ کے لئے ہی دولاکھ روپیہ سالانہ کی ضرورت ہے مگر ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں.اور اگر ہم اتنا روپیہ صرف ایک مشن کو دے دیں تو باقی سب کام بند ہو جائیں.یا فرض کرد کسی غیر ملک میں ہم دینیات کا سکول نہیں کھول سکتے تو کم از کم ہمارے پاس اتنا روپیہ تو ہونا چاہئے کہ ہم وہاں سے لوگوں کو بلا کر تعلیم دے سکیں.اور اگر ہم ایسا نہیں کر سکتے تو لازماً ہماری ترقی میں نقص واقع ہو جائے گا.غرض ہمارے مشنوں کی وسعت ہمارے لئے ایک رنگ میں کمزوری کا موجب بن رہی ہے.اس کمزوری کو دور کرنے کا طریق یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں جماعت کو بڑھایا جائے اور تبلیغ کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ کی جائے اور ایسے مبلغین پیدا کئے جائیں جو موجودہ ضرورتوں کو سمجھنے والے اور نئے زاویوں اور نئے نقطۂ نگاہ سے موجودہ مسائل پر گہری نظر رکھنے والے ہوں.

Page 309

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 304 جلد دوم اب زمانہ بدل چکا ہے، خیالات تبدیل ہو چکے ہیں ، نئی پود نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی عادی ہے، وہ نئے انداز اور نئے پہلوؤں سے مسائل پر غور و فکر کرتی ہے مگر ہمارے بعض علماء ابھی تک ضَرَبَ يَضْرِبُ کی گردانوں میں ہی پھنسے ہوئے ہیں اور وہ مسائل جن کو آج دنیا سننے کے لئے بھی تیار نہیں اُنہی کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں.ہمارے علماء اٹھیں گے اور وفات مسیح کا مسئلہ پیش کر دیں گے حالانکہ ان کا مخاطب بعض دفعہ ایسا شخص ہے جو مسیح کو نبی بھی نہیں مانتا.ہمارا مبلغ کہتا ہے عیسی" مر گیا اور وہ کہتا ہے کہ میں تو اُسے نبی بھی نہیں مانتا تم مجھے کیا کہ رہے ہو.وہ حیران ہوتا ہے کہ میں کیا پوچھتا ہوں اور یہ کیا کہتا ہے.وہ سوال کرتا ہے کہ تم نے میری مادی ترقی کے لئے کیا کیا ہے میں چاہتا ہوں کہ میں ویسا ہی معزز بن جاؤں جیسے ایک امریکن معزز ہے یا ایک فرانسیسی معزز ہے اور یہ میری امنگیں ہیں.تم مجھے بتاؤ کہ تم نے مجھے ایک امریکن یا ایک انگریز جیسا معزز اور طاقتور بنانے کیلئے کیا کیا ہے.جب تک ہم اُس کے اس زاویہ نگاہ کو غلط ثابت نہ کر دیں، جب تک ہم اس کے خیالات کی روکو اور طرف نہ پھیر دیں اُس وقت تک ہمارا صرف وفات مسیح" اور ختم نبوت کی بخشیں کرنا بالکل فضول ہے.لیکن اگر ہمارا عالم ان باتوں کو جانتا ہی نہیں تو وہ ان سوالات کو سن کر زیادہ سے زیادہ یہی کہہ دے گا کہ لا حول وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کیسے بیہودہ خیالات ہیں مگر ان خیالات کی اصلاح اور درستی کے لئے وہ کوئی کوشش کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اُس نے ان باتوں پر کبھی غور ہی نہیں کیا.اسی طرح موجودہ زمانہ میں سب سے زیادہ شور اقتصادی مشکلات کی وجہ سے برپا ہے.لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بھوک دور ہو، اُن کی غربت دور ہو، اُن کے اقتصادی حالات اچھے ہوں اور وہ بھی دنیا میں باعزت زندگی بسر کرنے کے قابل ہوں اور چونکہ ان کے کانوں میں بار بار ڈالا جاتا ہے کہ کمیونزم ہی دنیا کی بھوک کا علاج ہے اس لئے وہ کی بھی کمیونزم کا شکار ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید یہی ہمارے دکھوں کا علاج ہو.اس فتنہ کا مقابلہ کرنا اس وقت ہماری جماعت کا اہم ترین فرض ہے.کچھ مسلمانوں نے تو یہ کہہ

Page 310

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 305 جلد دوم کر چھٹی حاصل کرلی ہے کہ کمیونزم عین اسلام ہے.انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اسلام زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے وہ صرف اپنی جان بچانا چاہتے ہیں اور اپنی جان کے بچاؤ کا طریق انہوں نے یہی سوچ رکھا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کمیونزم اور اسلام دونوں ایک ہی چیز ہیں.گویا ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے ہندوؤں نے پہلے بدھ مذہب کی شدید مخالفت کی مگر آخر میں آکر کہہ دیا کہ بدھ ہمارا ساتواں اوتار تھا.اسی طرح بعض مسلمانوں نے پہلے تو کچھ کمیونزم کا مقابلہ کیا مگر آخر تنگ آکر کہہ دیا کہ کمیونزم عین اسلام ہے.مگر ہم ایسا نہیں کر سکتے.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم کمیونزم کو بھی اسلام کے خلاف ثابت کریں اور پھر لوگوں کو یہ بھی بتائیں کہ اسلام دنیا کی بھوک کا کیا علاج کرتا ہے.روٹی کا سوال اس وقت ساری دنیا پر چھایا ہوا ہے اور اس سوال پر تم بھی کئی بار بخشیں کرتے ہو.آخر تم کہتے ہو یا نہیں کہ ہمیں کیا گزارہ ملے گا ؟ ہمارے بیوی بچوں کو کیا ملے گا؟ ہم باہر گئے تو ہمیں کتنا روپیہ بھجوایا جائے گا اور ہمارے بیوی بچوں کو کتنا دیا جائے گا ؟ یہ سوالات اگر تمہارے دلوں میں پیدا ہوتے ہیں تو اور لوگ ان پر کیوں بحث نہ کریں.مگر ہمارے علماء کا ایک طبقہ ان باتوں سے غافل ہے.وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا کہ اس بات پر غور کرے کہ کمیونزم کے خطرہ کا مقابلہ کس طرح کیا جا سکتا ہے اور کس طرح اسلام پر قائم رہتے ہوئے اس کو رد کیا جا سکتا ہے.اور لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ اگر کمیونزم ہم میں آ بھی گیا تو کیا ہوا ہم خدا اور اس کے رسول کو مانتے ہوئے کمیونسٹ ہو جائیں گے.مذہب اس میں روک ہی نہیں.وہ کبھی خیال ہی نہیں کرتے کہ بعض روئیں لازمی طور پر دوسرے خیالات کو رد کر دیتی ہیں اور سٹالن کے پیچھے اُسی وقت چل سکتے ہیں جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کر دیں.بے شک وہ کہتے ہیں کہ ہم باخدا کمیونسٹ ہو جائیں گے مگر سوال یہ ہے کہ کیا با خدا کمیونسٹ ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں ہوسکتا تو وہ ہوں گے کس طرح؟ یہ تو ویسی ہی احمقانہ بات ہے جیسے ملکہ فرانس کا قصہ مشہور ہے کہ وہ ایک دفعہ تو شکار سے واپس آ رہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ اس کے قلعہ کے پاس ہزاروں ہزار لوگ جمع

Page 311

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 306 جلد دوم ہیں اور وہ روٹی روٹی" کے نعرے بلند کر رہے ہیں.اس نے اپنے ماتحت افسران سے پوچھا کہ یہ لوگ کیوں جمع ہیں اور روٹی روٹی کیا نعرہ لگا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کھانے کو کچھ نہیں ملتا، ہمارے ملک میں قحط پڑا ہوا ہے ہمیں روٹی دی جائے تا کہ ہمارا پیٹ بھرے.اس پر وہ بے ساختہ کہنے لگی یہ لوگ بڑے بے وقوف ہیں اگر بھوکے ہیں تو کیک کیوں نہیں کھا لیتے.چونکہ اس کے اپنے گھر میں ہر چیز کی فراوانی تھی وہ یہ بجھتی تھی کہ اتنی چیزیں تو ہر شخص کے گھر میں موجود ہوں گی.یہی احمقانہ حالت بعض مسلمانوں کی ہے.وہ کہتے ہیں ہم باخدا کمیونسٹ ہو جائیں گے.وہ احمق اتنا بھی نہیں جانتے کہ بعض افکار میں خدا تعالیٰ کا خیال پنپ سکتا ہے اور بعض میں نہیں پنپ سکتا.جیسے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم پتھر پر گندم ہونا چاہو تو نہیں ہو سکتے.پس یہ کہنا کہ ہم متضاد افکار کو جمع کر لیں گے یہ بالکل غلط ہے.یہ چیزیں ہیں جو اسلام کی کامیابی کے راستہ میں زیادہ سے زیادہ روکیں پیدا کر رہی ہیں.یورپ کا آدمی اپنے ہتھیار پھینک کر اس کا مقابلہ کر سکتا ہے، امریکہ اپنی جگہ بدل کر کمیونزم کا مقابلہ کر سکتا ہے ، انگلینڈ اپنی جگہ بدل کر کمیونزم کا مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ ان کی جگہ معین نہیں لیکن ایک مسلمان ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی جگہ معین ہے اور اسلام نے اس کے لئے ایک حد مقرر کر دی ہے جس سے وہ ذرا بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتا.ایک انگریز یا ایک امریکن کمیونزم کے دباؤ کے ماتحت اپنی جگہ سے کتنا بھی ہل جائے میرے لئے ایک انچ بھی اِدھر اُدھر ہونا جائز نہیں کیونکہ میرے لئے اسلام نے ایک حد مقرر کر دی ہے.وہ کہتا ہے تم ایک انچ بھی اِدھر ہوئے تب بھی کافر ہو جاؤ گے اور ایک انچ اُدھر ہوئے تب بھی کافر ہو جاؤ گے.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کو بھی قائم رکھیں اور کمیونزم کے خطرہ کو بھی دور کرنے کی کی کوشش کریں.اور یہ چیزیں ایسی ہیں جن پر نئے زاویہ نگاہ سے غور کرنے کی ضرورت ہے.اس کے لئے نئے افکار اور نئی جدو جہد کی ضرورت ہے.اگر ہم اس غرض کے لئے اپنی کوششوں کو صرف نہیں کریں گے تو گو اسلام کی فتح پھر بھی یقینی ہے مگر ہماری شکست میں

Page 312

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 307 جلد دوم کوئی شبہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ بعض اور لوگوں کو کھڑا کر دے گا جو اس کے دین کے لئے قربانیاں پیش کریں گے اور ہم اس کی مدد اور نصرت سے محروم ہو جائیں گے.حالانکہ ایک مومن کے لئے جہاں یہ امر خوشی کا موجب ہوتا ہے کہ اس کا خدا جیت جائے وہاں اگر وہ پاگل نہیں اور اگر اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت پائی جاتی ہے تو وہ یہ بھی خواہش رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ میں بھی جیت جاؤں.پس یہ سوال نہیں کہ اسلام کو فتح حاصل کی ہوگی یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ میرے ہاتھ سے اسلام کو فتح ہو اور میرے ہاتھ سے کفر کی موت واقعہ ہو.اگر میرے ہاتھ سے کفر کے دیو شکست کھا جائیں اور اگر میرے ہاتھ سے اس کے بت ٹوٹ جائیں تو میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے.آج میں نے خصوصیت سے اس مقام پر یہ جلسہ اس لئے رکھا ہے تا کہ میں طلباء کو بھی اور اساتذہ کو بھی ان کے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں.میں تمہیں ہوشیار کرتا ہوں کہ اس کے وقت تک تمہارے بعض علماء نے اپنے پینترے نہیں بدلے، انہوں نے ابھی تک زمانہ حال کی ضروریات کے مطابق اپنے آپ کو نہیں ڈھالا، ان کی جد و جہد اس سے بہت کم ہے جتنی ہونی چاہئے ، اُن کے افکار اُس سے بہت کم ہیں جتنے ہونے چاہئیں.پس میں کہتا ہوں کہ تم زمانہ کی ضرورت کو سمجھو اور زمانہ کی ضرورت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالو.میں تمہیں مسیح ناصری کے الفاظ میں کہتا ہوں کہ : وہ در فقیہی اور فریسی جو کچھ کہتے ہیں وہ کر دمگر جو کچھ کرتے ہیں وہ مت کرو.4 تم اپنے اساتذہ کی باتوں کو سنو اور جو کچھ وہ کہیں اُسی طرح کرو مگر تم ان کے عمل کی طرف مت دیکھو.اُن میں وہ جدو جہد نہیں پائی جاتی جو ایک پاگل عاشق میں پائی جانی چاہئے ، نہ وہ ان راہوں کو نکالتے ہیں جن راہوں کے نکالے بغیر کامیابی کا حصول مشکل ہے.پس اس لئے کہ وہ عالم ہیں اور تم اُن کے شاگرد بنائے گئے ہو تم اُن کی باتوں کو مانو مگر جیسے مسیح ناصری نے کہا تھا تو کر جو فقیہی اور فریسی کہتا ہے مگر تو مت کر جو فقیہی اور فریسی کرتا ہے.تم بھی وہ کچھ کرو جو تمہارے اساتذہ تمہیں پڑھائیں مگر تم ان کے اعمال کو اپنے

Page 313

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 308 جلد دوم لئے نمونہ مت سمجھو.اُن میں یہ احساس ہی نہیں کہ وہ دین کیلئے جدو جہد کریں.وہ اُسی طرح کھاتے اور پیتے اور آرام سے سوتے ہیں جیسے ایک گاؤں کا بنیا کھاتا پیتا اور سوتا ہے.حالانکہ ایک گاؤں کے پینے کی زندگی اور نیو یارک یا لندن کے تاجر کی زندگی میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.وہ صبح و شام انگاروں پر کوٹ رہا ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرا کن سے مقابلہ ہے اور مجھے کس طرح ان سے فوقیت حاصل کرنی چاہئے.مجھے یاد ہے میں اپنے طالب علمی کے زمانہ میں ایک دفعہ لاہور گیا وہاں ایک بائیسکلوں کے تاجر مستری موسیٰ صاحب ہوا کرتے تھے جو اپنے کام میں بڑے ہوشیار تھے.وہ ایک دن دکان میں مجھ سے باتیں کر رہے تھے اور اوپر سے ڈاک والا آیا اور اس نے ایک تاران کے ہاتھ میں دے دیا.انہوں نے تار پڑھتے ہی فورا بائیسکل لیا اور اس پر سوار ہو کر بڑی تیزی کے ساتھ کہیں باہر نکل گئے.میں حیران ہوا کہ یہ تارکیسا آیا ہے کہ انہوں نے بات بھی پوری نہیں کی اور بائیسکل لے کر غائب ہو گئے ہیں.آدھ گھنٹہ کے بعد وہ واپس آئے اور کہنے لگے بڑا اچھا موقع تھا، ہیں ہزار کا آج نفع ہو جانا تھا مگر افسوس کہ کام نہیں بنا.پھر انہوں نے سنایا کہ بمبئی سے ابھی ہمارے ایجنٹ نے تار دیا تھا کہ ٹائروں کا ریٹ اتنا بڑھ گیا ہے.میں فوراً بائیسکل پر چڑھ کر بھا گا کہ فلاں دکان پر جتنا مال ہوگا وہ سب کا سب خرید لوں گا اور میرا خیال تھا کہ وہاں ڈا کیا اتنی دیر میں پہنچے گا کہ میں پہلے سودا کرلوں گا مگر ابھی میں اس سے سودے کے متعلق گفتگو ہی کر رہا تھا کہ اوپر سے ڈا کیا آگیا اور اسے بھی تارمل گیا کہ ٹائروں کا ریٹ اتنا بڑھ گیا ہے اور ہمارا سودا ہونے سے رہ گیا ور نہ آج ہمیں ہزار کا نفع ہو جانا تھا.اب دیکھو کہ یہ کس قسم کے جنون کی حالت ہے اور کتنا جوش اور فکر ہے جو اُن لوگوں میں پایا جاتا ہے.لیکن ایک گاؤں کے پینے میں کچھ بھی جوش نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے گاؤں والا مجھ سے ہی سودا خریدے گا.شہر میں بعض دفعہ ایک چیز آٹھ آنے پر فروخت ہورہی ہوتی ہے اور وہ چار آنے پر دے رہا ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک چیز شہر میں دو آنے کو مل رہی ہوتی ہے اور وہ چار آنے کو دے رہا ہوتا ہے اور

Page 314

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 309 جلد دوم گا ہک بھی اُس سے سودا خریدتا ہے خواہ اسے مہنگا ملے یا ستا.اسے کیا مصیبت پڑی ہے کہ دھیلے پیسے کی چیز کے لئے شہر کی طرف بھاگا پھرے.ہمارا عالم بھی اُسی رنگ میں چل رہا ہے جس رنگ میں ایک چھوٹے گاؤں کا بنیا ہوتا ہے.اسے احساس ہی نہیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور اسے کیا کرنا چاہئے.اس وقت مخالفت کے سمندر میں ایک جوش پیدا ہورہا ہے، اس کی لہریں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں، اس کی موجوں میں تلاطم آرہا ہے ، اس کا پانی دیہات اور شہروں اور باغات کی طرف بڑھ رہا ہے مگر وہ آرام سے سوئے ہوئے ہیں.گویا ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے انگریزی میں یہ ضرب المثل ہے کہ :.وو روم جل رہا تھا اور نیر و بانسری بجارہا تھا“ میں تم کو بتاتا ہوں کہ تم اپنے اندر تغیر پیدا کر و.اگر تم ان کے نقش قدم پر چلے تو سمجھ لو کہ تمہارے لئے موت ہے.ایمان کے لئے موت نہیں ، دین کے لئے موت نہیں، بچے مخلصوں کے لئے موت نہیں مگر جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں گے اُن کی یقیناً موت ہوگی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں ہماری فتح یقینی ہے کیونکہ خدا کا ہاتھ ہمارے ساتھ ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ علماء ہماری فوج ہیں اور جب فوج کے کسی حصہ کی میں غفلت پیدا ہو جائے تو یہ حالت بڑی خطرناک ہوتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے بعض کی نہ دین کی طرف توجہ ہے، نہ ان میں خدا تعالیٰ کے عشق کی گرمی ہے ، نہ قومی خدمت کا احساس ہے.بس سوائے اس کے اور کوئی کام ہی نہیں کہ درسی کتب لڑکوں کو پڑھا دیں اور آرام سے سوئے رہیں.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے پاس رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ بعض دفعہ ان سے سوالات کئے جاتے ہیں تو وہ ان کے جواب نہیں دے سکتے.اگر واقعہ میں ان کے دلوں میں دین کا درد ہوتا تو وہ پارہ کی طرح اُچھل رہے ہوتے مگر کسی میں کوئی گرمی ، کوئی حدت اور کوئی جوش مجھے نظر نہیں آتا.اسی طرح جو باہر سے آنے والے مبلغ ہیں ان کو میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اپنے علاقوں کا بادشاہ تصور نہ کیا کریں.میں نے بے شک اپنے علماء کی تنقیص کی

Page 315

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 310 جلد دوم ہے لیکن جماعت زندہ ہے اور جماعتی روح جسے دوسرے لفظوں میں خلافت کہتے ہیں وہ بھی زندہ ہے.تمہیں یا رکھنا چاہئے ایک مرکز ہے جس کے بنائے ہوئے قانونوں پر تمہیں پوری طرح عمل کرنا پڑے گا.اور اگر کوئی شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے جماعت کے میں سے خارج کر دیا جائے گا.پس بیرونی مبلغین بھی اپنے پہلے طریق کو بدل لیں.یہ کہ محکمہ کی کمزوری کی وجہ سے تم اپنے علاقوں میں حاکم بنے رہو اس کے یہ معنی نہیں کہ تمہیں جماعت سے نکالا نہیں جاسکتا.اگر تم دس ہزار میل پر بھی بیٹھے ہوا اور تمہیں اپنے علاقوں میں لاکھوں لوگ عقیدت مندانہ نگاہوں سے دیکھتے ہوں ، تب بھی مرکز کی نافرمانی کرنے پر تم جماعت میں سے نکال دیئے جاؤ گے.اس وقت تک اس بارہ میں کوتاہی سے کام لیا گیا ہے کیونکہ کام پر ایسے آدمی مقرر تھے جنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں تھا.مگر اب ہم مرکز کوایسا مضبوط بنانے والے ہیں کہ مرکز کے ہر لفظ کی اطاعت ضروری ہوگی اور اگر کسی قسم کی کو تاہی ہوئی تو ایسے شخص کو سخت سزا دی جائے گی.پس وہ من مانی کارروائیاں جو بیرونی مبلغین کر لیا کرتے تھے اب ان کو برداشت نہیں کیا جائے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تمہارے جاہلیت کے تمام خون میں اپنے پاؤں کے نیچے مسلتا ہوں.اب کسی شخص کے لئے ان کا بدلہ لینا جائز نہیں ہوگا.5 اسی طرح میں اپنے پہلے طریق کو اپنے پاؤں کے نیچے مسلتا ہوں.“ اس موقع پر حضور نے اپنے پاؤں کو زمین پر رگڑا اور بڑے پر جلال انداز میں فرمایا اب تمہیں مرکز کی کامل طور پر لفظاً لفظا ، قد ماقد ما اور شبراً شبراً اطاعت کرنی پڑے گی اور اگر اس بارہ میں کسی قسم کی غفلت کی گئی تو میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ایسے شخص کے خلاف جماعتی طور پر شدید ترین کارروائی کی جائے گی.تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لمبے عرصہ کے بعد پھر مسلمانوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا ہے اور اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لئے ہماری تمام کوششیں وقف رہنی چاہئیں.

Page 316

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 311 ا جلد دوم تم مت خیال کرو کہ تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو احمدیت کے رستہ میں روک بن سکتا ہے یا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جس کی وجہ سے احمد بیت کو مددمل رہی ہے.نہ احمدیت کے رستہ میں کوئی شخص روک بن سکتا ہے اور نہ حقیقی طور پر کسی کی مدد کے ذریعہ احمدیت ترقی کر رہی ہے.جب حضرت مولوی عبد الکریم صاحب فوت ہوئے تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ یہ بڑا بولنے والا انسان تھا اب یہ جماعت گئی.مگر جماعت آگے سے بھی بڑھ گئی.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو مولویوں نے کہا سلسلہ ختم ہو گیا.مگر جماعت آگے سے بھی بڑھ گئی.پھر لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ اصل میں تمام کام نورالدین کا تھا وہی مرزا صاحب کو سکھا یا کرتا تھا اب اس کی وفات پر یہ جماعت ختم ہو جائے گی.لیکن حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے اور جماعت نے پہلے سے بھی زیادہ ترقی کرنی شروع کر دی.پھر پیغامیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ایک پچیس سال کا لڑکا خلیفہ بن گیا ہے اب یہ جماعت کو تباہ کر دے گا.مگر آج 36 سال گزر چکے ہیں اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ جماعت تباہ نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بہت زیادہ ترقی کر چکی ہے.اس وقت جتنے ممالک میں ہمارے مبلغین موجود ہیں ان ممالک میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص بھی احمدی نہیں تھا اور کوئی بھی آپ کے نام کو نہیں جانتا تھا.نہ سوڈان والے آپ کو جانتے تھے، نہ انڈونیشیا والے آپ کو جانتے تھے، نہ جرمنی والے آپ کو جانتے تھے، نہ دوسرے ممالک میں کوئی احمدی موجود تھا.ان تمام ممالک میں میرے زمانہ میں ہی احمدیت کا نام پہنچا ہے.پس جب تک خدا کا ہاتھ ہمارے ساتھ ہے کوئی فرد ہمارے راستہ میں روک نہیں بن سکتا.بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہ ہم کتنی بھی عزت کریں ہمیں ماننا پڑے گا کہ جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہیں بنایا، ہمیں ماننا پڑے گا کہ جماعت کو خلیفہ اول نے نہیں بنایا، ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس جماعت کو خلیفہ ثانی نے بھی نہیں بنایا.اسی طرح کوئی شخص خواہ کتنی بھی پوزیشن رکھتا ہوا گر وہ احمدیت کے مقابلہ میں کھڑا ہوا تو وہ ایک مکھی کی طرح اس سلسلہ میں سے نکال دیا

Page 317

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 312 جلد دوم جائے گا اور وہ کچھ بھی اس سلسلہ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.اور جب تک یہ سلسلہ خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق پر چلتا چلا جائے گا اسے زیادہ سے زیادہ شان و شوکت حاصل ہوتی چلی جائے گی.لیکن جس دن خدانخواستہ یہ سلسلہ اس راستہ سے ہٹ گیا ( اور ابھی یہ بہت دور کی بات ہے ) تو پھر تم اٹھاؤ گے تو یہ نہیں اٹھے گا اور تم روکوں کو دور کرو گے تو وہ دور نہیں ہوں گی.پھر دفتر کی بدانتظامی کی وجہ سے جو مبلغین پہلے بیرونی ممالک سے آتے تھے وہ چھ چھ مہینے ، سال سال، دو دو سال تک فارغ بیٹھے رہتے تھے اور ان سے کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا.اب میں نے ہدایت دے دی ہے کہ مبلغین کو با قاعدہ رخصت دو اور پھر رخصت سے واپس آنے پر ریفریشر کورس انہیں دیا جائے اور جن کے لئے یہ ضروری نہ ہوا نہیں دفاتر میں کام پر لگایا جائے.اس طرح ان کی معلومات میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے اور ان کے ذریعہ سلسلہ بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے.مثلاً اگر ایسٹ افریقہ میں کام کرنے والے مبلغ کو ویسٹ افریقہ کی ڈاک کے کام پر لگا دیا جائے یا ویسٹ افریقہ کے مبلغ کو انڈونیشیا کی ڈاک کی کا کام سپرد کر دیا جائے اور وہ ان کی فائلیں وغیرہ دیکھتے رہیں اور مبلغین سے خط و کتابت کی کرتے رہیں تو تھوڑے عرصہ میں ہی وہ اُس ملک کے حالات سے باخبر ہو جائیں گے.اور پھر اگر اس مبلغ کو اسی ملک میں بھجوا دیا جائے تو وہاں وہ آسانی سے کام کر سکے گا.بہر حال وقت کو ضائع کرنا نا پسندیدہ امر ہے.اس سے دماغ کند ہو جاتا ہے اور انسان کی طاقتیں رائیگاں چلی جاتی ہیں.میں نے اب حکم دے دیا ہے کہ اگر نظارت کسی مبلغ کو فارغ رکھے گی اور اس سے کام نہیں لے گی تو اسے سزا دی جائے گی.اس کے بعد میں طالب علموں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں درسی کتب کے علاوہ مختلف علمی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتے رہنا چاہئے اور اس طرح اپنی معلومات کو زیادہ سے زیادہ وسیع کرنا چاہئے.تمہارے استاد تمہیں یہاں قرآن کریم پڑھاتے ہیں مگر تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ غیر احمدی مولوی قرآن کریم سے کیا نتیجہ نکالتے ہیں.تمہارے استاد

Page 318

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 313 جلد دوم تمہیں یہاں بخاری پڑھاتے ہیں مگر تمہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ مخالف علماء بخاری کے کیا معنی کرتے ہیں.اور پھر تمہارا فرض ہے کہ تم ان کے اعتراضات کا حل سوچو.قرآن کریم بے شک خدا کی کتاب ہے مگر اُس نے اپنی صداقتیں اس میں مخفی رکھی ہیں.اگر ہر صداقت کو اشاروں میں بیان کرنے کی بجائے تفصیلی طور پر بیان کیا جا تا تو اس کیلئے لاکھوں لاکھ مجلدات کی ضرورت تھی.پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ کے ماتحت تمام صداقتیں اس میں بیان تو کر دی ہیں مگر اس طرح اشاروں میں بیان کی ہیں کہ ان کو سمجھنے کے لئے بہت بڑے تدبر اور فکر کی ضرورت ہے اور تمہارا کام ہے کہ تم ان حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے اندر تدبر کا مادہ پیدا کرو.اسی طرح غور کرو کہ کمیونزم کا کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا ہے.سوشلزم کیا چیز ہے اور اس کے کیا اثرات ہیں اور تمہیں اس کے متعلق ہر قسم کا لٹریچر پڑھنا چاہئے.میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے تمام علوم کی کتابیں پڑھتا رہتا ہوں.اسی طرح اگر تم بھی ان کتب کا مطالعہ کرو اور اپنے اساتذہ سے سوالات دریافت کرتے رہو تو تمہارے استادوں کو بھی پتہ لگ جائے گا کہ دنیا کیا کہتی ہے اور اس طرح تم اپنے استادوں کے بھی استاد بن جاؤ گے.میرے پاس کمیونزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں، سوشلزم کے متعلق ہر قسم کی کتابیں موجود ہیں ، احمدیت کے مخالفین کا بھی لٹریچر موجود ہے اور میں نے یہ تمام کتابیں پڑھی ہوئی ہیں.میں نے بعض دفعہ ایک ایک رات میں چار چار سو صفحہ کی کتاب ختم کی ہے اور اب تک میں ہزار کے قریب کتابیں میں پڑھ چکا ہوں.دس ہزار کتاب تو قادیان میں ہی میری اپنی لائبریری میں تھی مگر مطالعہ کیلئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ کتاب کا غیر ضروری حصہ انسان چھوڑتا چلا جائے.مثلاً کمیونزم کے متعلق جو کتاب ہو گی عموماً اُس کے تین حصے ہوں گے.پہلا یہ کہ امریکہ اور انگلستان کا فرد اس کے دفاع کیلئے کیا کرتا ہے.دوسرا یہ کہ کمیونزم کے اصل خیالات کیا ہیں.تیسرے کمیونزم کے متعلق دشمنوں کے کیا اعتراضات ہیں.اب یہ سیدھی بات ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کہ امریکہ اور انگلستان اس کا کس طرح دفاع کرتا ہے.

Page 319

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 314 جلد دوم اسی طرح لوگوں کے اعتراضات کی بھی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہوگی.میں صرف یہ دیکھوں گا کہ کمیونزم کے اصل خیالات کیا ہیں اور اس طرح پانچ سو صفحہ کی کتاب میں سے بعض دفعہ پچاس ساٹھ صفحات ہی پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں.بہر حال کتب کا مطالعہ تم اتنا وسیع کرو کہ ہر طالبعلم دو سال کے بعد جب یہاں سے نکلے تو وہ دو دو، تین تین سو کتاب پڑھ چکا ہو اور اس کے دماغ میں اتنا تنوع ہو کہ جب وہ کسی مجلس میں بیٹھے اور کسی مسئلہ پر گفتگو شروع ہو تو وہ یہ نہ سمجھے کہ اس کے سامنے کوئی نئی چیز پیش کی جارہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھے کہ یہ تو وہی چیز ہے جو میں پڑھ چکا ہوں.میں اس موقع پر اساتذہ کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری زنجیر کا سب سے کمزور خانہ اس وقت وہی ہیں.انہیں اپنے اندر روحانیت پیدا کرنی چاہئے، اپنے اندر دینداری اور محبت باللہ کی روح پیدا کرنی چاہئے.ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو محض نو کر سمجھتے ہیں حالانکہ اگر ہمارا مقصد صرف لڑکوں کو پڑھانا ہوتا تو اس غرض کے لئے غیر احمدیوں کو بھی رکھا جا سکتا تھا.تمہارا کام صرف لڑکوں کو درسی کتب پڑھا دینا نہیں بلکہ تمہیں اپنے اندر روحانیت پیدا کرنی چاہئے اور تمہیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ اس وقت اللہ تعالی اسلام کو دنیا میں غالب کرنا چاہتا ہے.اس سکیم کے راستہ میں جو شخص بھی روڑ ا بن کر کھڑا ہوگا وہ مارا جائے گا اور اس کا ایمان ضائع چلا جائے گا.پس اپنے ایمان کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہیں سوچ لینا چاہئے کہ تمہارا انجام کیا ہو گا.آج بے شک تم اپنے ایمانوں کو مضبوط سمجھتے ہو لیکن اگر تمہارے اندر یہی بے حسی رہی تو کسی نہ کسی وقت تمہیں ٹھوکر لگ جائے گی کیونکہ جب تک انسان اپنے فرائض کو نہ سمجھے خدا تعالیٰ کی تلوار اُس کی گردن پر لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور اُس کا انجام خطر ناک ہوتا ہے.بے شک ہم تمہیں اس کام کے بدلہ میں کچھ گزارہ بھی دیتے ہیں مگر یہ گزارہ اصل چیز نہیں.اصل چیز یہ ہے کہ تمہیں یہ نظر آنا چاہئے کہ ہمیں جو کچھ دے رہا ہے خدا دے رہا ہے.ہاتھ بے شک بندوں کے ہیں لیکن اِن ہاتھوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی

Page 320

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 315 جلد دوم نصرت کام کر رہی ہے.اور یہی وہ نقطہ نگاہ ہے جو تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ روشن کر سکتا ہے.یوں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی لوگ ہی دیتے تھے مگر وجہ کیا ہے کہ وہ ہر تائید کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے اس کی وجہ یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما فرما دیا تھا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السَّمَاءِ کے مدد کرنے والے لوگ تیری مدد کریں گے اور تحائف پیش کرنے والے تیرے پاس تھے لائیں گے.مگر درحقیقت وہ نہیں دے رہے ہوں گے بلکہ ہم ان کی گردنیں پکڑ کر تیرے پاس لا رہے ہوں گے اور وہ جو کچھ تجھے دیں گے ہمارے حکم کے ماتحت دیں گے.دنیا میں دینے والا احسان کرتا ہے اور لینے والا ممنون ہوتا ہے مگر یہاں دینے والا ممنون ہوتا ہے اور لینے والا احسان کرتا ہے.یہ یدالعلیا خدا تعالیٰ کے مامور کا ہاتھ ہوتا ہے اور يَدُ الشغلی اُس شخص کا ہاتھ ہوتا ہے جو دے رہا ہوتا ہے.اسی طرح تمہیں بھی نظر آنا چاہئے کہ جو کچھ تمہیں مل رہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مل رہا ہے اور تمہارے اندر اتنی روحانیت ہونی چاہئے کہ تمہارا اٹھنا اور تمہارا بیٹھنا، تمہارا اوڑھنا اور تمہارا بچھونا ، تمہارا سونا اور تمہارا جاگنا، تمہارا بولنا اور تمہارا خاموش رہنا سب کچھ خدا کے لئے ہو.پس تم اپنے آپ کو اس جماعت کا صحیح معنوں میں فرد بنانے کی کوشش کرو جس جماعت کا عالم کہلانے کا اُس نے تمہیں موقع عطا فرمایا ہے.ورنہ اگر تمہاری دینی حالت کمزور رہے گی اور تمہارے اندر دین کی رغبت اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اسلام کی اشاعت کی ایک آگ اور سوزش نہیں ہوگی تو اللہ تعالیٰ ہی تمہارا انجام بخیر کرے تو کرے اس کے سوا تمہارے بچاؤ کی اور کوئی صورت نظر نہیں آتی.میں آخر میں دوبارہ طالبعلموں سے کہتا ہوں کہ کرو جو کچھ تمہارے اساتذہ کہتے ہیں نگرمت کرو جو وہ کرتے ہیں کیونکہ ان پر اس قسم کی سستی اور لا پرواہی چھائی ہوئی ہے کہ کیا اسے دیکھ کر دل لرز جاتا ہے.تمہارے اندر ایک آگ ہونی چاہئے.تمہارے اندر ایک

Page 321

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 316 جلد دوم جلن اور سوزش ہونی چاہئے جو ہر وقت تمہیں بے تاب رکھے.تم آگ کے ساتھ ایک عظیم الشان جنگل کو جلا کر راکھ کر سکتے ہو مگر تم منہ کی پھونکوں کے ساتھ ایک پتہ کو بھی نہیں جلا سکتے.اگر تم چاہتے ہو کہ دنیا کے خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر ڈالو تو تمہیں اپنے دل میں ایک آگ پیدا کرنی چاہئے.اور اگر تم چاہتے تو ہو کہ دنیا کے خس و خاشاک کو جلا ؤ لیکن تمہارے دل میں آگ نہیں ، تمہارے منہ سے شعلے نہیں نکلتے بلکہ تمہارے منہ سے گرم بھاپ بھی نہیں نکلتی تو تمہاری زندگی عبث ہے اور تم اپنا وقت رائیگاں کھو رہے ہو.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہم سب پر رحم کرے، ہماری غلطیوں کو معاف فرمائے اور ہمیں اسلام کی صحیح خدمت کی توفیق بخشے.آمین الفضل 9 ، 16 ، 23 جنوری 1963 ء ) 1 لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ أَمَنُوا الْيَهُودَ (المائدة: 83) 2 متی باب 5 آیت 39 پاکستان بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ 2011ء 3 متی باب 5 آیت 17 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن 1887ء (مفہوماً) :4 متی باب 23 آیت 2 ، 3 برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی لندن 1887ء (مفہوم) 5 البداية والنهاية جلد 5 صفحه 201 مطبوعہ بیروت 1966ء تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم 2004

Page 322

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 317 جلد دوم تعلیم الاسلام ہائی اسکول اور مدرسہ احمدیہ کے قیام و استحکام میں ایک نو جوان کا تاریخی کردار 16 مئی 1950ء بوقت شام 6 بجے تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے چنیوٹ میں بیرونی ممالک کے ان تمام مبلغین کے اعزاز میں دعوت طعام دی گئی جو اُس وقت ربوہ میں موجود تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس موقع پر تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.بات تو کئی دفعہ کہی ہوئی ہے لیکن پھر بھی کسی نے کہا ہے گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینه را سنی ہوئی باتیں پھر کئی دفعہ سنی جاتی ہیں اور کہی ہوئی باتیں بھی کئی دفعہ کہی جاتی ہیں.کبھی تو اس لئے کہ دل ان کی یاد سے خوش ہوتا ہے یا دل ان کی یاد سے اپنے غم کو تازہ کرنا چاہتا ہے اور کبھی اس لئے ایک کہی ہوئی بات جو نہایت ضروری ہوتی ہے باوجود اس کے کہ وہ کہی ہوئی ہوتی ہے اثر کرنے سے قاصر رہ جاتی ہے اس لئے اسے بار بار دہرانا ضروری ہوتا ہے تا وہ اثر انداز ہو.پس کوئی وجہ سمجھ لو مجھے آج پھر ایک پرانا قصہ دہرانا پڑ رہا ہے ہے.ہماری زبان میں دہرانا پڑ رہا ہے" کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنے نفس پر کی جبر کر کے وہ کام کر رہا ہے.میں نے ان معنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا ہے اور یہ فقرہ کی میرے منہ سے اتفاقی طور پر نہیں نکلا.مگر یہ چیز کسی جبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے ہی نفس کی طرف سے اور اپنی ہی پرانی یادوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے میرے دل میں پھر اپنا

Page 323

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 318 جلد دوم سر اٹھایا اور یہ باتیں باہر نکلنے کیلئے نہیں.اور انہوں نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں انہیں ان کے قفس سے آزاد کر دوں تا ایک دفعہ پھر وہ ہوا میں پھڑ پھڑ سکیں.شہد کی مکھیوں کو دیکھو شاید تمہیں نیچرل ہسٹری پڑھائی جاتی ہو تو تم نے پڑھا ہویا پڑھائی نہیں جاتی تو مطالعہ میں یہ بات دیکھی ہو کہ شہد کی مکھیاں ایک ملکہ کے ماتحت ہوتی ہیں.جب چھتہ شہد سے بھر جاتا ہے اور شہد تیار ہو جاتا ہے تو انسان جو اپنے آپ کو تمام مخلوقات کا مالک سمجھتا ہے شہد کے جمع کرنے اور اسے نکال لینے کے لئے چھتہ پر جاتا ہے اور اُس کے نیچے دھواں رکھ دیتا ہے تا شہد کی مکھیاں اُڑ جائیں یا سمٹ کر ایک طرف ہو جائیں.شہد کی مکھیوں کی نوجوان پو د وہ نئی پود جو اپنی عمر کو باقی سمجھتی ہے اور اس دنیا میں اپنا ایک زندہ مقصد قرار دیتی ہے وہ ملکہ کی سب سے بڑی بیٹی کو جو اُن کی آئندہ ہونے والی ملکہ ہوتی ہے یا انسانوں کی زبان میں وہ ان کی ولی عہد ہوتی ہے لے کر اُڑ جاتی ہیں اور پیشتر اس کے کہ شہد کا چھتہ تباہ کیا جائے اور اُس سے شہد نکال لیا جائے وہ نیا چھتہ بنالیتی ہیں اور نئے سرے سے اپنی زندگی کو شروع کر دیتی ہیں اور اپنے لئے ایک نیا مقام اور نیا مرکز بنانا شروع کر دیتی ہیں.یہ خدائی قدرت کا ایک بھاری معجزہ ہے کہ ایک چھوٹا سا جانور جس میں سوائے تھوڑی سی رطوبت کے کچھ بھی نہیں ہوتا ، نہ ہڈیاں ہوتی ہیں نہ فقرات ظھر ہوتے ہیں، نہ سانس لینے کے لئے سینہ ہوتا ہے، نہ جگر اور گردہ ہوتا ہے، اسے مارو تو کچک کر رطوبت نکل جاتی ہے اور تھوڑی سی کھال اور تھوڑے سے پر اور چند چھوٹی چھوٹی ہڈیوں کا مجموعہ جو صرف سر کی جگہ پر پائی جاتی ہیں باقی رہ جاتا ہے.بظاہر یہ چھوٹا سا کیڑا ہے لیکن کام اور عزم میں انسانوں کی بڑی بڑی سمجھدار اور مہذب قوموں سے بھی زیادہ تنظیم، استعداد اور عزم اپنے اندر رکھتا ہے.پس یہ قدرت کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے مگر اس میں صرف ایک بات پائی جاتی ہے.صرف ایک پہلو معجزہ کا ہمیں نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مکھیوں کی جوان نسل تباہی اور بر بادی کے آنے پر یہ فیصلہ کر لیتی ہیں کہ ہم مریں گی نہیں اور اپنی خزاں کو بہار سے

Page 324

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 319 جلد دوم بدل دیں گی.یہ عزم جونئی پود رکھتی ہے اور کسی حد تک یہ بات قدرتی نظر آتی ہے نو جوانوں کے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم تم میں ایک مکھی سے تو زیادہ عزم ہونا چاہئے.جب شہد کا چھتہ اجاڑا جاتا ہے تو نو جوان مکھیاں انسان کو چیلنج کرتی ہیں کہ تم نے ہمیں اجاڑا ہے لیکن تم ہمارے عزم کو نہیں اجاڑ سکتے ہم اس کے ساتھ ایک نیا چھتہ تیار کریں گی.اسی طرح ہم ہر مصیبت، ہر آفت ، ہر ابتلاء اور ہر امتحان کے موقع پر اپنی نسلوں اور اولادوں کو کہہ سکتے ہیں کہ اے اشرف المخلوقات کی نسلو! آفات اور مصائب سے گھبرانا نہیں تمہیں کم از کم اتنا عزم تو دکھانا چاہئے جتنا شہد کی مکھیاں دکھاتی ہیں.اسی طرح ہم اس مثال سے فائدہ اٹھا سکتے تھے اور فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہ مثال پیش کر کے نوجوانوں کی ہمتوں کو بلند کر سکتے تھے اور بلند کرتے ہیں لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کا منشاء کبھی اس سے بڑے معجزے بھی دکھا سکتا ہے تو ہمارا سر خدا تعالیٰ کے سامنے اور زیادہ شکر گزاری کے ساتھ جھک جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یہی سکول جو اب تعلیم الاسلام ہائی سکول کہلاتا ہے قائم ہوا.یہ سکول اُس وقت قائم ہوا تھا جب میں ابھی ۹ ۱۰ سال کا تھا.ہمارے بعض لڑکے آریہ سکول میں پڑھا کرتے تھے جو اُس وقت قائم ہو چکا تھا اور ابھی مڈل تک تھا اور بعض لڑکے گورنمنٹ پرائمری سکول میں پڑھتے تھے جس کا ہیڈ ماسٹر اتفاقی طور پر آریہ تھا اور وہ ہر وقت بچوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرتا رہتا تھا جس کی وجہ سے طلباء اپنے اپنے گھر جا کر اسی قسم کی باتیں کرتے تھے.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اب ہمارے لئے ضروری ہو گیا ہے کہ ایک سکول کھولا جائے.چنانچہ ایک پرائمری سکول قائم کیا گیا جو اُسی سال مڈل تک ہو گیا اور پھر کچھ عرصہ بعد ہائی سکول بن گیا.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی یہ سکول قائم ہو گیا تھا.پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مخالفین نے جماعت پر شدت سے حملے کرنے شروع کر دیئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اب ہمیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی جدو جہد کرنی چاہئے اور آپ

Page 325

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 320 جلد دوم نے ایک مجلس شوری بلائی تا جماعت مشورہ دے کہ اس فتنہ کے مقابلہ میں ہم کیا کر سکتے ہیں.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم بھی آئے ہوئے تھے انہوں نے سمجھا کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسی تحریک کر دی جائے جو ہماری کسی سکیم کے خلاف ہو.مناسب یہی ہے کہ ہم خود ہی یہ تحریک کر دیں کہ ہائی سکول کو توڑ دیا جائے اور اس کی بجائے علماء کی ایک جماعت تیار کی جائے.ہائی سکول اور بھی بہت ہیں اور ہمارے بچے ان کی میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں.اس وقت علماء کی ضرورت ہے اور ان کے تیار کرنے کے لئے ایک دینیات کے سکول کی ضرورت ہے ہائی سکول کی ضرورت نہیں.عجب یہ ہے کہ وہی لوگ جو انگریزی زبان کے حامی تھے وہی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ ہائی سکول تو ڑ دیا جائے.صرف حضرت خلیفہ مسیح الاوّل ایک ایسے شخص تھے جن کا خیال تھا کہ ہائی سکول کو توڑنا نہیں چاہنے ہائی سکول بھی قائم رہے اور دینیات کی تعلیم بھی دی جائے اور میرا خیال بھی یہی تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی عادت تھی کہ آپ اپنی بات کا زیادہ پرو پیگنڈا نہیں کرتے تھے ہاں ملنے جلنے والوں سے باتیں کر لیتے تھے لیکن یہ نہیں ہوتا تھا کہ عام لوگوں میں جا کر کوئی لیکچر دیں.آپ نے ایک مضمون لکھا تا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچ جائے اور آپ کے خیالات کا حضور کو علم ہو جائے.آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا میاں ! سنا ہے کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ میں نے کہا میں تو اس کا قائل نہیں.آپ نے فرمایا اللہ کا شکر ہے کہ ہم ایک سے دو ہو گئے.میں ساری رات سویا نہیں.میرے دل میں ایک بوجھ سا تھا کہ کوئی میرا ہم خیال نہیں اب تمہاری بات سے یہ خیال معلوم ہوا تو میں نے کہا الحمد للہ میں ایک نہیں رہا بلکہ دو شخص ایسے موجود ہیں جو ہم خیال ہیں.میں نے ایک مضمون لکھا ہے یہ چیز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لے جاؤ.میں وہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے پاس لے گیا.چنانچہ ایک جلسہ ہوا اور عام طور پر لوگوں نے یہی کہا کہ ہائی سکول کو جاری رکھنا فضول ہے.آخر دنیا میں اور ہائی سکول بھی موجود ہیں ہمارے بچے وہاں تعلیم حاصل کر سکتے

Page 326

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 321 جلد دوم ہیں.بعض افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے یہاں تک کہا کہ ہمیں دینیات کی بھی کیا ضرورت ہے.چنانچہ کوئٹہ کے تحصیلدار نذیراحمد صاحب نے یہی بات کہی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس بات کی تائید کی کہ ہائی سکول بھی قائم رکھا جائے.آپ نے فرمایا میرا یہ منشا ہر گز نہیں تھا کہ ہائی سکول کو توڑ دیا جائے اور دینیات کلاس کھولی جائے.پھر مدرسہ احمدیہ قائم ہوا 1906 ء یا 1907ء کی بات ہے.گویا مدرسہ احمدیہ کی بنیادی بھی نہایت چھوٹے پیمانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود رکھی.اس کے سال دوسال بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے.آپ کے فوت ہو جانے کے بعد وہی لوگ جنہوں نے یہ تجویز کی تھی کہ ہائی سکول توڑ کر دینی کلاس کھولی جائے انہوں نے یہ تجویز کیا کہ مدرسہ احمدیہ تو ڑ دیا جائے اور ہائی سکول کو قائم رکھا جائے اور لڑکوں کو وظیفے دے کر کالج کی تعلیم حاصل کرائی جائے.اب کی دفعہ یہ مد نظر رکھا گیا کہ یہ تجویز نا کام نہ ہو اور مجلس شوری کے قائم ہونے سے پہلے جماعتوں میں دورے کر کے اُن پر یہ اثر ڈال لیں تا جب یہ بات شوری کے سامنے پیش ہو تو پہلے ہی جماعتیں اس کی تائید کریں.چنانچہ صدرانجمن احمدیہ کے ایجنڈا میں یہ بات رکھی گئی کہ جلسہ سالانہ کے موقع پر مشورہ کر لیا جائے.میں بھی صدر انجمن احمدیہ کا ممبر تھا لیکن اتفاقاً یا ارادہ وہ تجویز مجھے نہ بھیجی گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے معلوم بھی نہ ہوا کہ کیا ہونے والا ہے.میں چھوٹی مسجد کے باہر کسی سے باتیں کر رہا تھا کہ کسی نے کہا اندر شورٹی ہورہی ہے اور آپ یہاں کھڑے ہیں.میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے.میں مسجد میں گیا ، کیا دیکھتا ہوں کہ مسجد کناروں تک بھری ہوئی ہے.میں نے آگے نکلنا چاہا لیکن جگہ نہیں تھی.اُس وقت چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ماموں چودھری عبد اللہ خان صاحب وہاں کھڑے تھے.ایک دھند کی ہی یاد پڑتی ہے کہ انہوں نے کہا اچھا ہوا کہ آپ آگئے.کنارے کے پاس ذرا آگے مجھے تھوڑی سی جگہ مل گئی اور میں وہاں کھڑا ہو گیا.میں نے دیکھا کہ ایک کے بعد دوسرا کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے کے بعد تیسرا کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے ہمیں اس سکول کی ضرورت ہی کیا ہے،

Page 327

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 322 جلد دوم ہر مسلمان عالم ہوتا ہے.جب کوئی ڈاکٹر بنے گا یا وکیل بنے گا اور اس کے پاس دینی تعلیم بھی ہوگی تو جتنی تبلیغ وہ کر سکے گا اُتنی مولوی نہیں کر سکتے.غرض ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا کھڑا ہوتا اور مدرسہ احمدیہ کے خلاف تقریر کرتا.غریب سے غریب آدمیوں نے بھی جب یہ سنا کہ لڑکوں کو وظیفے دیئے جائیں گے اور انہیں ڈاکٹر اور وکیل بنایا جائے گا تو ان کے منہ میں بھی پانی آنا شروع ہوا کہ کل ان کا لڑکا بھی ڈاکٹر یا وکیل بنے گا.انہوں نے بھی جوش میں آکر یہ کہنا شروع کر دیا یہ مبارک بات ہے ایسا ہی ہونا چاہئے.میں نے دیکھا کہ ایک آواز بھی ایسی نہیں تھی جو اس کی تائید میں ہو کہ مدرسہ احمد یہ جاری رکھنا چاہئے.تب میں نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.شاید بعض دوستوں کو اُس وقت معلوم ہوا کہ میں بھی مجلس میں آچکا ہوں.میری اُس وقت ۱۹ سال کی عمر تھی شاید بعض سٹوڈنٹس کی عمریں مجھ سے زیادہ ہوں.میں نے کہا میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.جماعت گوساری کی ساری اس بات پر متفق تھی کہ مدرسہ احمدیہ تو ڑ دینا چاہئے لیکن ان سب نے بیک آواز کہا کہ ہاں ہاں! آپ بو لیے.غالبا وہ سمجھتے تھے کہ میں اس بات پر اور زور دوں گا کہ وظیفے دیئے جائیں اور جماعت کے نوجوانوں کو ڈاکٹر اور وکیل بنایا جائے.خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم اُس وقت تقریر کر رہے تھے، وہ گھبرائے اور کہا کہ میں ذرا اپنی بات ختم کرلوں، پھر کہا آپ آگے آجائیں.میں نے کہا میں یہیں ٹھیک ہوں.میں نے کہا ہم حدیثوں میں پڑھا کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے پہلے مسلمانوں کی ساری جان نکال کر ایک لشکر تیار کیا.سارے نوجوان جولڑنے والے بالغ اور سمجھدار تھے ان سب کی ایک فوج بنائی.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ بھی اس لشکر میں شامل تھے کیونکہ روما نے حملہ کر کے بعض مسلمانوں کو مار دیا تھا.اس فوج پر آپ نے حضرت اسامہ کو افسر مقرر کیا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا میں اچھا ہوں گا تو اس لشکر کو خود باہر چھوڑنے کے لئے جاؤں گا مگر مشیت الہی کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بیماری سے شفایاب نہ ہوئے اور اُسی میں وفات پاگئے.آپ کی وفات کی خبر سنتے ہی

Page 328

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 323 جلد دوم سارا عرب باغی ہو گیا اور صرف مکہ اور مدینہ میں اسلامی حکومت باقی رہ گئی.حضرت ابو بکر پہلے خلیفہ مقرر ہوئے.آپ نے حکم دیا کہ یہ لشکر روما کی طرف روانہ ہو اور حضرت اسامہ سے صرف اتنا کہا کہ اگر اجازت دو تو عمرؓ کو میں اپنے پاس رکھ لوں تا وہ میرے مشیر کار ہوں.انہوں نے اجازت دے دی اور حضرت عمر مدینہ میں رہ گئے.روما کی حکومت اُس کی وقت آدھی دنیا پر حکمران تھی اور بظاہر حالات لشکر کا بیچ کر آ جانا ناممکن نظر آتا تھا.بعض صحابہ کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ سارا عرب باغی ہو چکا ہے اگر یہ لوگ بھی چلے گئے تو دشمن آگے بڑھتا چلا آئے گا اور اسے روکنے والا مدینہ میں کوئی شخص نہیں ہوگا.چنانچہ صحابہ کا ایک وفد حضرت ابو بکر کے پاس آیا اور کہا کہ آپ اس لشکر کو روک لیجئے پہلے یہ باغیوں اور مرتدوں کے ساتھ لڑے اور جب وہ انہیں شکست دے دے تو باہر بھیجا جائے.حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ کے رسول نے ایک لشکر تیا ر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں تندرست ہونے پر سب سے پہلا موقع ملنے پر اس لشکر کو روانہ کروں گا.پھر وہ فوت ہو گیا اور خدا تعالیٰ نے اس کی خلافت مجھے عطا فرمائی.اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں اُس کا خلیفہ اور قائم مقام ہو کر سب سے پہلا کام یہ کروں کہ اُس نے جو حکم دیا تھا اُسے منسوخ کر دوں ؟1 کیا یہ خلافت ہوگی یا تردید؟ صحابہ خاموش ہو گئے اور وہ لشکر روانہ ہو گیا.حضرت ابوبکر کو خدا تعالیٰ نے بغیر فوجوں کے فتح دی اور لشکر بھی کامیاب و کامران واپس آیا.میں نے کہا ہم حدیثوں میں یہ پڑھا کرتے تھے اب پھر خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کی بری حالت اور ان کی ناکامیوں اور نامرادیوں کو دیکھ کر اپنا ایک مامور مبعوث فرمایا اور وہ ما مور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شکل میں ظاہر ہوا.اس نے جماعتی مشکلات کو دیکھتے ہوئے مدرسہ احمد ہوئے مدرسہ احمدیہ قائم کیا او رخود ایک شوری بلا کر اس بات کا اظہار کیا اور دو بزرگوں مولوی عبدالکریم صاحب اور مولوی برہان الدین صاحب کی طرف اسے منسوب کیا کہ ان کی یاد گار قائم رکھنے کے لئے اس سکول کو قائم کیا گیا ہے تا ایسے لوگ آئندہ بھی جماعت میں تیار ہوتے رہیں.میں نے کہا ہم جن کی زبانیں یہ بات کہتے ہوئے خشک ہوتی

Page 329

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 324 جلد دوم ہیں کہ ہم صحابہ کے مثیل ہیں، ہم جن کی زبانیں یہ بات کہتے ہوئے خشک ہوتی ہیں کہ ہم نے خلافت کا احیاء کر دیا ہے اور اسلام کو دوبارہ قائم کیا ہے ہماری یہ حالت ہے کہ حضرت ابو بکر تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو منسوخ نہیں کر سکتا لیکن ہم اپنے اجلاس میں ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کیا تھا ہم اسے منسوخ کرتے ہیں.بے شک ڈاکٹری اور وکالت کی لالچ زیادہ ہے مگر ایمان کی لالچ اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے.اس پر وہی جماعت جو سرڈھن رہی تھی اور کہہ رہی تھی ٹھیک ہے ٹھیک ہے مدرسہ احمدیہ توڑ دیا جائے اور لڑکوں کو وظائف دے کر ڈاکٹر اور وکیل بنایا جائے یوں معلوم ہوا کہ وہ سوتے سوتے جاگ اٹھے ہیں.یا تو وہ اُن کی باتوں سے اتفاق کر رہے تھے یا ان کی آنکھوں سے شرارے نکلنے شروع ہوئے.خواجہ صاحب بڑے کا یاں آدمی تھے وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ اب اس مضمون کو بند کر دیا جائے.آئندہ تحریر کے ذریعہ معلوم کیا جائے کہ جماعت کی اس بارے میں کیا رائے ہے.چنانچہ خط میں بھی انہوں نے یہی مضمون لکھا اور مجھے یاد ہے کہ دو جماعتوں کے سوا باقی سب نے یہی کہا کہ مدرسہ احمدیہ کو نہ توڑا جائے.ہم تو شوریٰ کے موقع پر ہی یہ فیصلہ کر آئے تھے اب دوبارہ کیا ضرورت ہے.غرض ہماری جماعت پر نازک دور آئے اور بڑی عمر کے لوگوں نے سکول جاری رکھنے یا بند کرنے کے سوال پر ٹھو کر کھائی اور کہا اسے بند کر دو لیکن اشرف المخلوقات انسان کی نسل میں سے ایک نوجوان نے کہا ایسا ہر گز نہیں ہوگا.ہم سکول بند نہیں ہونے دیں گے اور جماعت کو نئے سرے سے مضبوط بنائیں گے.اور اُس نے ثابت کر دیا کہ انسانوں میں سے بھی ایسے لوگ ہیں جو شہد کی مکھی سے کم نہیں.اور پھر یہی نظارہ دوبارہ مدرسہ احمدیہ کے بند کرنے کے متعلق نظر آیا.پھر انسان نے چھتہ میں سے شہد نکال کر اُسے بیکار کرنے کی کوشش کی اور پھر مکھیوں کو بے گھر بنانے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھانا شروع کیا.پھر دوبارہ بنی نوع انسان

Page 330

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 325 جلد دوم میں سے ایک نوجوان کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ اس کی حفاظت کرے.اور اُس نے کہا کہ ہم اپنے اس گھر کو اجڑنے نہیں دیں گے بلکہ ہم اسے اور زیادہ مضبوط بنائیں گے.یہ تو مکھی والا معجزہ ہوا.لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی تھا کہ اگر ایک قوم کی نوجوان پود اسی قسم کے معجزے دکھانے پر قادر ہوئی تو کیا اُدھیڑ عمر والے یا اُدھیڑ عمر سے زیادہ عمر والے لوگ بھی اس قسم کا معجزہ دکھا سکتے ہیں جو وہ جوانی میں دکھا سکتے تھے.شہد کی مکھی نے ہمیشہ یہ معجزہ جوانی میں دکھایا ہے اور بہت سی قو میں یہ معجزہ دکھانے میں بھی نا قابل ثابت ہوئی ہیں.بہت کم نوجوان ایسے ہیں جنہوں نے انسانوں میں سے ایسا کام کر کے دکھایا ہے لیکن جماعت احمدیہ کے ایک فرد نے یہ معجزہ دو دفعہ دکھایا.مگر خدا تعالی یہ بتانا چاہتا تھا کہ وہ انسان جسے میں نے اشرف المخلوقات قرار دیا ہے شہد کی مکھی جیسا معجزہ نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بھی معجزہ دکھا سکتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا یہاں تک کہ مخالفین کا ہاتھ ایک دفعہ اور چھتہ کی طرف بڑھا اور اس دفعہ بڑی سختی کے ساتھ بڑھا.دشمن نے قادیان میں جمع ہوئی ہوئی مکھیوں کو تباہ کرنا چاہا اور ان کی کے چھتہ کو بیکار کرنا چاہا.قرآن کریم نے کلام الہی کو شہد سے تشبیہہ دی ہے.قادیان میں کلام الہی کی خاطر جمع ہونے والی مکھیوں کو دشمن نے ان کے چھتہ سے بے دخل کر دیا اور انہیں اڑا دیا.شہد کی مکھیوں کا یہ معجزہ ہے کہ ان کی ولی عہد یعنی ملکہ کی سب سے بڑی لڑکی اپنی رعایا میں سے بعض مکھیوں کو لے کر دوسرا گھر بنا لیتی ہے.وہ اپنا دوسرا مرکز قائم کر لیتی ہے مگر اب کی دفعہ انسان نے وہ معجزہ دیکھا جس کی مثال لکھی کا چھتہ نہیں دکھا سکتا.جماعت کے اُسی فرد نے جس نے نوجوانی کی حالت میں شہد کی مکھیوں والا معجزہ دکھایا تھا اُس نے اُدھیڑ عمر سے بھی گزر کر دشمن کو چیلنج کیا کہ ہم اپنا گھر اجڑنے نہیں دیں گے ہم اپنا نیا چھتہ بنائیں گے اور دکھا دیں گے کہ ہمارے عزم کا مقابلہ کرنے والی اور کوئی قوم نہیں.اور تم یہ نظارہ دیکھ رہے ہو، منزلیں گزرتی جاتی ہیں اور سفر ایک ہی پرواز میں طے

Page 331

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 326 جلد دوم نہیں ہوتا.ہم نے قادیان سے پرواز کی اور کچھ دیر لاہور ٹھہرے.پھر ایک پرواز کی اور کچھ آدمی احمد نگر چلے گئے اور کچھ چنیوٹ میں ہی ٹھہر گئے اور کچھ اُس جگہ کی تلاش میں گئے جہاں وہ اپنا نیا چھتہ بنائیں.اب ہم معماروں کی طرح نیا چھتہ بنا رہے ہیں اور اس امید میں ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کے ساتھ اسے شہد کے ساتھ بھر دیں گے اور کھیاں سمٹ کر دوبارہ یہاں آ بیٹھیں گی.تم طالبعلم اس انتظار میں ہو کہ چھتہ بن جائے تو ہم وہاں جابیٹھیں.احمد نگر والے اُس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب ہم معماروں کی طرح وہ چھتہ تیار کر لیں گے جس میں اُنہوں نے بیٹھنا ہے.یہ نشان جس طرح اسلام میں ظاہر ہوا ہے شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں ظاہر ہوا ہو.یہ چیزیں منفردانہ حیثیت رکھتی ہیں.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات نے باقی انبیاء کے مقابلہ میں اپنی منفردانہ حیثیت کو پیش کیا ہے آپ کے اتباع نے بھی اپنی منفردانہ حیثیت کو پیش کیا ہے.میں تاریخ کا بڑا مطالعہ کرنے والا ہوں.میں نے یہ مثال کہیں بھی نہیں دیکھی کہ ایک نوجوان نے اپنی نو جوانی میں ایک چھتہ قائم رکھا ہو اور پھر اسے بڑھاپے میں بھی اُسے قائم رکھنے کی توفیق ملی ہو.تم دیکھو گے کہ ایک شخص جوانی میں ایک چیز بناتا ہے اور پھر وہ بنتی چلی جاتی ہے.ایک شخص بڑھاپے میں ایک چیز بناتا ہے اور پھر وہ بنتی چلی جاتی ہے.مگر ایک شخص نے اپنی جوانی میں بھی ایک ایسے حملہ کا مقابلہ کیا جس نے جماعت کو تہہ و بالا کر لینے کا تہیہ کر لیا تھا.ابھی تو میں نے خلافت کا جھگڑا نظر انداز کر دیا ہے.جب میں صرف 25 سال کی عمر کا تھا اور دشمن نے ہمارا چھتہ اجاڑنے کی کوشش کی.غرض ایک شخص سے جوانی میں بھی یہ کام لیا گیا ہو اور پھر بڑھاپے میں اُس سے بھی زیادہ خطر ناک حالت میں اُس سے وہی کام لیا گیا ہو اور اُس نے جماعت کو پھر اکٹھا کر دیا ہو اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ایک بڑھیا بڑی محنتی تھی.اس نے سوت کات کات کر اُس کی مزدوری سے سونے کے کڑے بنائے لیکن ایک چور آیا اور ایک رات زبر دستی وہ کڑے چھین کر لے گیا.اُس بڑھیا نے چور کی شکل پہچان لی.سال دو سال بعد اُس

Page 332

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 327 جلد دوم بڑھیا نے پھر کڑے بنالئے.ایک دن وہ گلی میں بیٹھی اپنی سہیلیوں کے ساتھ چرخہ کات رہی تھی کہ وہ چور لنگوٹی پہنے پاس سے گزرا.اُس عورت نے اُس کی شکل پہچان لی اور آواز دے کر کہا بھائی ذرا بات سن جانا.وہ شخص چور تھا اور اسے معلوم تھا کہ میں نے اس گھر میں چوری کی ہے اُسے کھٹکا پیدا ہوا کہ کہیں مجھے پکڑوا نہ دیا جائے.وہ بھا گا.اُس عورت نے کہا میں تجھے پکڑواتی نہیں ہوں صرف ایک بات کرنی ہے.اُس عورت نے کچھ اس انداز سے یہ بات کہی کہ اس چور کا خوف دور ہو گیا اور وہ ٹھہر گیا.اُس عورت نے کہا میں نے تمہیں اتنا ہی بتا نا تھا کہ حلال وحرام میں کتنا فرق ہے.میں نے محنت مزدوری کر کے سونے کے کڑے بنائے تھے اور وہ تو لے گیا لیکن تمہاری اب بھی لنگوئی کی لنگوٹی ہے اور میرے پاس اب بھی کڑے موجود ہیں.ہمیں غیر مبائع کہا کرتے تھے کہ قادیان میں ہونے کی وجہ سے ان کو یہ قبولیت حاصل ہے اور لوگ ان کے کی طرف اس لئے آتے ہیں کہ ان کے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ مرکز ہے صرف اسی لئے ان کے گرد جماعت اکٹھی ہو رہی ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں وہاں سے نکال دیا اور مخالف کو یہ دیکھنے کا موقع ملا کہ قادیان سے نکلنے کے بعد بھی مخالف ہماری طاقت کو نقصان نہیں پہنچا سکا.ہم اس عورت کی طرح انہیں کہتے ہیں کہ تمہاری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے اور ہمارے پاس کڑے اب بھی موجود ہیں.ہم قادیان سے نکل کر بھی کمزور نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے ہم ایک ایک دود و مبلغوں کی دعوتیں کرتے تھے اور اب ہم درجنوں کی دعوتیں کرتے ہیں.کیونکہ اب مبلغوں کے رسالے باہر جانے شروع ہو گئے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب ایک ہی دفعہ مبلغوں کی بٹالین باہر جائیں گی.وہ دن دور نہیں جب مبلغوں کے بریگیڈ باہر جائیں گے.وہ دن دور نہیں جب مبلغوں کے ڈویژن تبلیغ اسلام کے لئے باہر جائیں گے انشاء الله تعالى (الفضل 11 / اپریل 1961ء) 1 تاريخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء

Page 333

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 328 جلد دوم موت آدمیوں کے مرنے کا نام نہیں بلکہ موت خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے دنیا میں قائم نہ ہونے کا نام ہے.جماعت احمدیہ کے مبلغین کو سمجھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نئی دنیا کا آدم بنایا ہے کیم جون 1951 ء بعد نماز عصر وکالت تبشیر نے مکرم جناب حافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی مبلغ ماریشس کے اعزاز میں ایک دعوت چائے دی.جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.دنیا میں لوگ آتے بھی ہیں اور جاتے بھی ہیں.دنیا کی مثال در حقیقت ایک اسٹیشن کی کی طرح ہوتی ہے.جب گاڑی آتی ہے تو کچھ لوگ اتر جاتے ہیں اور کچھ سوار ہو جاتے ہیں.اور اسٹیشنوں پر اِلَّا مَا شَاء اللہ اگر کوئی خاص واقعہ نہ ہو تو لوگ ہنستے ہنستے اترتے ہیں اور ہنستے ہنستے گزر جاتے ہیں.چینیں مار مار کر روتے ہوئے یا افسوس کے ساتھ ہاتھ ملتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا جاتا.سوائے اس کے کہ کسی کا کوئی اکلوتا بچہ کسی دور دراز ملک میں جا رہا ہو اور اس کی واپسی کا خیال نہ ہو.مگر وہاں بھی حوصلہ مند انسان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے.بہر حال عام طور پر جو اسٹیشنوں کی حالت ہوتی ہے وہی دنیا کی حالت ہے.کچھ لوگ آ رہے ہیں اور کچھ جا رہے ہیں.نہ جانے والوں سے دنیا کی آبادی میں کوئی کمی آتی ہے اور نہ آنے والوں سے اس کی آبادی میں

Page 334

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 329 جلد دوم کوئی خاص زیادتی ہوتی ہے.اگر اسی روح سے ہم دنیا کی زندگی کو دیکھیں تو شاید بہت سے امور جو اس وقت تشویش کا موجب ہو جاتے ہیں وہ ہمارے لئے یہ رنگ نہ رکھیں.لیکن مشکل یہ ہے کہ چونکہ وہ دنیا جہاں سے انسان آتا ہے اور وہ دنیا جس طرف انسان جاتا ہے نظر نہیں آتی اس لئے لوگوں کی نظروں سے وہ دن بھی اوجھل رہتا ہے جس دن انہوں نے دنیا سے جاتا ہے.اور وہ کیفیت بھی اوجھل رہتی ہے جو اس آنے جانے کے پیچھے ہوتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس طرح تیار نہیں ہوتے جس طرح سفروں کے لئے تیار ہوتے ہیں.اور آنے والے بھی دنیا کے لئے گھبراہٹ کا موجب بن جاتے ہیں اور جانے والے بھی دنیا کے لئے گھبراہٹ کا موجب بن جاتے ہیں.آنے والے کم اور جانے والے زیادہ.یا یوں سمجھ لو کہ دنیا کی مثال ایسی ہی ہے جیسے دفاتر میں آفیسر ز آتے جاتے ہیں.بعض دفعہ جب ایک افسر بدلتا ہے اور اس کے اعزاز میں لوگ پارٹیاں دیتے ہیں تو ان کی تقریریں سن کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس افسر کے جانے کے بعد دفتر بالکل اجر جائے گا اور اس کے بعد کوئی کام نہیں ہو سکے گا.لیکن پھر نیا افسر آتا ہے اور کام اسی طرح چلتا چلا جاتا ہے.بے شک بعض دفعہ کسی خاص حصہ میں کمی بھی آجاتی ہے لیکن پھر بھی کام رکتا نہیں اور وہ برابر ہوتا چلا جاتا ہے.اگر اسی چیز کو لوگ مد نظر رکھیں تب بھی وہ سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں اس دنیا کو اپنے لئے ایسا ہی سمجھنا چاہئے جیسے مختلف محکموں میں تبادلے ہوتے ہیں.کچھ لوگ اگلے جہان میں چلے جاتے ہیں اور کچھ نئے پیدا ہوتے ہیں.اگر اس معیار کو دنیا قائم رکھے تب بھی خرابی پیدا نہ ہو.مگر اس دنیا کے کاروبار میں خصوصاً اخلاقی اور مذہبی کا روبار میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی افراد کے ساتھ وابستگی بہت زیادہ نمایاں ہوتی ہے اور کام کے ساتھ وابستگی بہت کم ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ جب وفات پا گئے تو حضرت حسان بن ثابت نے کہا كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِـى عَلَى النَّاظِرُ

Page 335

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 330 مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ 1 جلد دوم اے محمد رسول اللہ ! تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا.آج تیرے مرجانے سے میری آنکھ اندھی ہوگئی.اب جو چاہے مرے میں تو تیری ہی موت سے ڈرتا تھا.ہم اس بات سے الله انکار نہیں کر سکتے کہ حضرت حسان رسول کریم ﷺ سے محبت رکھتے تھے.مگر اسی روح عالم کی وفات پر ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ 2 پھر وہ کہتا ہے مَنْ كَانَ مِنْكُمُ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَيٌّ لَّا يَمُوتُ 3 ایک کہتا ہے کہ یہ افسر چلا گیا اب سب کا رخانہ بگڑ جائے گا.دوسرا کہتا ہے خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں ایک افسر جاتا ہے اور دوسرا آتا ہے خدا تعالیٰ کی بادشاہت ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی.کون کہہ سکتا ہے کہ ابو بکر کی محبت حسان کی محبت سے کم تھی.ہمیں دیکھنا چاہئے کہ کیا ستان کو رسول کریم ہے صلى الله سے زیادہ محبت تھی یا ابو بکر کو رسول کریم ماہ سے زیادہ محبت تھی.ہم برا تو کسی نقطہ نگاہ کو نہیں کہہ سکتے لیکن اگر حسان کو رسول کریم ﷺ سے زیادہ محبت تھی تو پھر نقطہ نگاہ حسان کا صلى الله زیادہ اعلیٰ تھا.اور اگر ابو بکر کو رسول کریم ماہ سے زیادہ محبت تھی تو پھر نقطہ نگاہ ابوبکر کا زیادہ اعلیٰ تھا.اور میں سمجھتا ہوں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہو سکتا جسے اس فیصلہ میں تردد ہو کہ ان دونوں میں سے کس کا نقطہ نگاہ زیادہ اعلیٰ تھا.پس محبت اسی کی ہے جس کو اس کام سے محبت ہے جس کے لئے اس کا محبوب دنیا میں آیا.جس کو اس کام سے محبت نہیں بلکہ صرف شخص سے محبت ہے وہ جھوٹی محبت کرنے والا ہے.میں ایک دفعہ ایک جگہ گیا اور ایک ہندو رئیس مجھ سے ملنے کے لئے آیا.اس نے کہا یہ بات میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی کہ مسلمان ہمارے سامنے کیا پیش کرتے ہیں.ہم چاہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے حالات زندگی سنیں اور آپ کی خوبیاں اور فضائل کو

Page 336

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 331 جلد دوم معلوم کریں.مگر ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ آپ کا رنگ ایسا تھا ، آپ کا قد ایسا تھا ، آپ کی زلفیں ایسی تھیں، آپ کی آنکھیں ایسی تھیں حالانکہ ہمیں اس سے کیا کہ محمد رسول اللہ ہے صلى الله کا رنگ کیسا تھا.آپ کا قد چھوٹا تھا یا بڑا.یہ باتیں تو دنیوی محبتوں میں ہوا کرتی ہیں اور ہم دنیوی محبت کے لئے نہیں بلکہ روحانی فیوض کے حصول کے لئے جاتے ہیں.کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ہم کو آپ کے رسول کے متعلق ایسی معلومات کہاں سے حاصل ہو سکتی ہیں؟ میں نے اسے بتایا کہ ہم تو ان باتوں کے قائل ہی نہیں اور ہم تو دنیا کو وہی باتیں بتاتے ہیں جو تم چاہتے ہو.حقیقت یہ ہے کہ حکومت دنیا میں خدا تعالیٰ کی ہے اور انسان خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے دنیوی دفاتر میں ایک شخص چارج دیتا ہے اور دوسرا چارج لیتا ہے.جب تک حکومت زندہ ہوتی ہے کوئی شخص بھی چارج لے کام چلتا چلا جاتا ہے.اور جب حکومت مرجاتی ہے تو پھر بڑے سے بڑا اور لائق سے لائق آدمی بھی چارج لے تو کام نہیں چلتا.پس جب تک خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم رکھنے کی لوگ کوشش کرتے ہیں اُس وقت تک جہاں تک کام کے چلانے کا سوال ہے کسی آدمی کے آنے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.لیکن جب خدا تعالیٰ کی بادشاہت بنی نوع انسان کے گناہوں کی وجہ سے دنیا سے سمیٹ لی جاتی ہے جب خدا تعالیٰ کے سایہ کو پیچھے کھینچ لیا جاتا ہے اُس وقت یہ تغیر بڑا بھاری معلوم ہوتا ہے.لوگ کہتے ہیں وہ آدمی گیا اور یہ آیا اس لئے خرابی پیدا ہوئی.حالانکہ خرابی اس لئے پیدا ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے اپنی بادشاہت دنیا سے اٹھا لی.ایک پولیس مین اور دوسرے آدمیوں میں کیا فرق ہوتا ہے؟ سپاہی یا پولیس مین کو کوئی خاص طاقت حاصل نہیں ہوتی.صرف اس کے پیچھے یہ رعب کام کر رہا ہوتا ہے کہ حکومت اس کی پشت پر کھڑی ہے.ورنہ پچاس کے مقابلہ میں بعض دفعہ ایک آدمی بھی کھڑا ہو جائے تو وہ انہیں شکست دے دیتا ہے.لیکن اس کے سامنے ایک کمزور سا کانسٹیبل بھی آجائے تو وہ کانپنے لگ جاتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ حکومت کو مارنے کی اس میں طاقت نہیں.یہ مارا جائے گا تو دوسرا

Page 337

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 332 جلد دوم آجائے گا.دوسرا مارا جائے گا تو تیسرا آ جائے گا.غرض جب تک خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں رہتی ہے خدا تعالیٰ کی بادشاہت کی خدمت کرنے والوں کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا.اگر وہ مر جاتے ہیں یا کسی اور مصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو ان کی جگہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں کو کھڑا کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے جنگ میں سپاہی مرتے ہیں تو ان کی جگہ اور سپاہی آ جاتے ہیں.وہ مرتے ہیں تو اور سپاہی آ جاتے ہیں.پس موت آدمیوں سے نہیں ہوتی.موت خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے دنیا میں نہ ہونے سے ہوتی ہے.جب حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ کہا کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی آئے 4 تو ان کے حواریوں نے بھی بوجہ اس کے کہ انہیں وہ صلى الله عرفان حاصل نہیں تھا جو رسول کریم ﷺ کی وجہ سے ہمیں حاصل ہے اس فقرہ کے غلط معنے لے لئے ورنہ در حقیقت مسیح نے جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ سلسلہ اور وہ سچائی جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے وہ آسمان کی طرح ہوتی ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ آسمان پر تاریکی پیدا ہوئی ہو یا یہ کہا گیا ہو کہ اب کسی نئے جبرائیل کی ضرورت ہے، اب نئے اسرافیل کی ضرورت ہے ، اب فرشتے بوڑھے ہو گئے ہیں ، اب وہ کمر در اور نا طاقت ہو چکے ہیں ، اب ہمیں ان کے قائم مقام پیدا کرنے چاہئیں.آج بھی وہی جبرائیل ، وہی اسرافیل اور میکائیل ہیں جو آدم کے وقت تھے کیونکہ وہاں خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہے اور جب تک خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم رہے اس کے تسلسل میں کوئی وقفہ نہیں ہو سکتا.مسیح نے یہی کہا کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی آئے.یعنی میرے ماننے والوں اور میرے متبعین کو تو توفیق عطا فرما کہ وہ ہمیشہ ہمیش بغیر کسی وقفہ کے تیری بادشاہت کو دنیا میں پھیلاتے چلے جائیں اور تیری بڑائی اور جلال اور جبروت کا اظہار کرتے جائیں.یہ کتنا اچھا جذبہ تھا اور کتنی پاک تعلیم تھی جس کے غلط معنے لے لئے گئے.یہی وہ چیز ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی مانگی.مگر جس طرح عیسائیوں

Page 338

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 333 جلد دوم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا کے غلط معنے لے لئے اسی طرح مسلمان مفسرین نے بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کو نہ سمجھا.حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی یہی کہا کہ خدایا! تو مجھے وہ ملک دے جو مجھ سے پہلے اور کسی کو نہ ملا ہو.اس کا بھی یہی مطلب تھا کہ پہلی تعلیمیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئیں ان پر کچھ عرصہ تک تو لوگوں نے عمل کیا مگر آخر لوگوں میں خرابیاں پیدا ہو گئیں اور وہ اس تعلیم کو بھول گئے.اب خدایا ! میرا دل یہ کی چاہتا ہے کہ تو مجھے وہ بادشاہت بخش اور مجھے وہ سلسلہ عطا فرما جس میں کبھی کوئی خرابی پیدا نہ ہو.یہ بات کہ حضرت سلیمان نے ایک چیز مانگی اور انہیں نہ ملی یا یہ بات کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک چیز مانگی اور انہیں نہ ملی یہ اور بات ہے.دیکھنے والی بات یہ ہے کہ یہ جذ بہ کتنا بلند تھا.یہ خواہش کتنی اچھی تھی.یہ آرزو کتنی پاکیزہ تھی.دنیا میں اگر کسی شخص کو یہ چیز کسی رنگ میں ملی ہے تو وہ صرف رسول کریم ﷺ کا وجود ہے.آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ آپ کی شریعت کبھی تبدیل نہیں ہوگی اور آپ کی تعلیم کو بدلنے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا.گو ایک دوسرے رنگ میں خرابی بھی پیدا ہو گئی ہے یعنی تعلیم تو قائم رہی اور سلسلہ بھی اپنی ذات میں قائم رہا مگر زمانہ کے افراد میں خرابی پیدا ہوگئی.بہر حال وہ چیز جو کسی نبی کو پہلے نہیں ملی وہ اس رنگ میں صرف رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی.اور پھر آپ کے لئے ہی اس نے یہ اصول مقرر کر دیا کہ جب بھی آپ کی امت میں خرابی پیدا ہوگی اللہ تعالیٰ آپ کی امت میں سے ہی ایسے افراد کو کھڑا کرے گا جو پھر دنیا کو صداقت اور ایمان کی طرف کھینچ لانے میں کامیاب ہوں گے.لیکن مسلمانوں کی بدبختی کہ وہ چیز جو محمد رسول اللہ ﷺ کو باقی تمام انبیاء سے ممتاز کرنے والی تھی اس کا انہوں نے انکار کر دیا.بلکہ اس خوبی کو تسلیم کرنے والوں کو انہوں نے کافر قرار دیا.حالانکہ محض کسی کا نام قائم رہنا کوئی بڑی بات نہیں.آج دنیا میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام قائم ہے مگر کیا محض ان کے نام کے قائم ہونے سے ان کی بادشاہت بھی دنیا میں قائم ہے؟ آج دنیا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام قائم ہے.کیا یہودی یہ نہیں کہتے کہ موسیٰ

Page 339

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 334 جلد دوم کی حکومت اب بھی قائم ہے؟ مگر کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حکومت کا کوئی نشان دنیا میں پایا جاتا ہے؟ رام چندر اور کرشن کا نام دنیا میں قائم ہے.کیا ہندو یہ نہیں کہتے کہ ہم رام اور کرشن کی حکومت دنیا میں قائم کریں گے ؟ مگر کیا رائم اور کرشن کی حکومت واقعہ میں دنیا میں قائم ہے؟ اسی طرح اگر مسلمان بھی یہ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ علیہ کی حکومت قائم ہے کیونکہ آپ کا نام قائم ہے تو اس سے آپ کی باقی انبیاء پر کیا فضیلت ہوئی ؟ فضیلت تو وہی ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ کرامت گرچه بے نام و نشاں است بیا بنگر ز غلمان حکومت کی علامت یہی ہوتی ہے کہ جب اس کے ذمہ دار افسران پر یا اس کے قائم کردہ نظام پر کوئی شخص حملہ کرتا ہے تو وہ اس کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے.قید خانے پر اگر لوگ حملہ کر دیں اور قیدیوں کو چھڑانے لگیں تو فوراً پولیس اور فوج آجاتی ہے.کچہریوں پر حملہ کر دیا جاتا ہے تو فوج لوگوں کے مقابلہ کے لئے آ جاتی ہے.اسی طرح اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی روحانی زندگی کا سلسلہ قائم ہے اور قیامت تک قائم رہے گا.جب بھی کوئی قوم یا کوئی فرد اسلام پر حملہ آور ہوگا بیا بنگر ز غلمان محمد کے مطابق محمد رسول اللہ ﷺ کے غلاموں میں سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کوئی شخص اس کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جائے گا اور دشمن کو اس کے ارادوں میں ناکام بنا دے گا.یہی ایک زندہ حکومت کی علامت ہوتی ہے.حکومت اپنے محکموں کی حفاظت کے لئے فوراً پہنچ جاتی ہے.اور اگر کوئی حکومت اپنے محکموں کی حفاظت کے لئے نہیں پہنچ سکتی تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ حکومت مرچکی ہے.تم یونان کے پرانے کھنڈرات بڑی آسانی سے گرا سکتے ہو.تم سکندراعظم کے پرانے کھنڈرات کو تو توڑ پھوڑ سکتے ہولیکن تم دس میں ہزار کی

Page 340

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 335 جلد دوم ریاست کے ایک معمولی سے مکان کو بھی گرانے کی طاقت نہیں رکھتے.کیونکہ وہ ایک زندہ ریاست ہوتی ہے.تم نپولین کا مکان گرا دو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں.تم تیمور کے مکان کو گرا دو تو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں.لیکن تم ایک چھوٹی سے چھوٹی ریاست کی طرف بھی اپنی انگلی نہیں اٹھا سکتے.شملہ کے اردگرد بعض چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں جن کے وزیر اعظم پندرہ میں روپے ماہوار تنخواہ لیتے ہیں اور ساری ریاست کی آمدن سینکڑوں سے شمار کی جاسکتی ہے.پھر ایک ہی شخص وہاں وزیر اعظم ہوتا ہے.وہی انسپکٹر جنرل پولیس ہوتا ہے.وہی سپر نٹنڈنٹ پولیس ہوتا ہے اور وہی تھانیدار ہوتا ہے.میں ایک دفعہ شملہ گیا تو دوستوں نے سنایا کہ ریاست میں بعض لوگوں کی آپس میں لڑائی ہوگئی اور ان میں سے ایک فریق نے بعض ایسے لوگوں کے نام بھی گواہ کے طور پر لکھوا دیئے جو گورنمنٹ سروس میں کام کرتے تھے اور شملہ میں ملازم تھے.ریاست نے ان کے نام بھی سمن جاری کرایا اور انہیں ان سمنوں کی تعمیل کے لئے وہاں بار بار جانا پڑتا.ان کے افسر ناراض ہوتے کہ تم نے یہ کیا مصیبت مول لے لی ہے.دفتر میں کام نہایت ضروری ہے اور تم آئے دن باہر چلے جاتے ہو.مگر وہ بھی مجبور تھے گورنمنٹ کے معاہدہ کے مطابق انہیں جانا پڑتا تھا.آخر کسی نے انہیں بتایا کہ تم دو دو روپے راجہ کی نذر کر دو وہ تمہیں اس مصیبت سے نجات دلا دے گا.چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا.انہوں نے دو دو روپے راجہ صاحب کی نذر کئے اور اس نے انہیں گواہوں میں سے نکال دیا.غرض اتنی چھوٹی سی وہ ریاست تھی کہ اس کا راجہ دو روپے لے کر خوش ہو گیا.لیکن اس چھوٹی سی ریاست کی ایک چھوٹی سی عمارت کو گرانے کی بھی اگر کوئی شخص کوشش کرے تو ریاست کی پولیس اس کے مقابلہ کے لئے کھڑی ہو جائے گی.لیکن تیمور کا مکان اگر آج کوئی شخص گرا دے، سکندر کا مکان اگر کوئی گرا دے تو ان کی حفاظت کرنے والا کوئی شخص نہیں ہوگا.پس خدا تعالیٰ کی بادشاہت جب تک دنیا میں رہتی ہے اُس وقت تک اس کے آثار کی حفاظت کے لئے آسمانی فوجیں اتاری جاتی ہیں.اور جب وہ مٹ جاتی

Page 341

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 336 جلد دوم ہے تو کوئی فوج مقابلہ کے لئے کھڑی نہیں ہوتی.یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے مذہب کی سچائی دنیا میں قائم ہوتی ہے.اگر ہم اس مرکزی نقطہ کو سمجھنے کی کوشش کریں تو مذہب کے معاملہ میں ہم ہر قسم کی ٹھوکروں سے محفوظ رہ سکتے ہیں.ہر زندہ چیز اپنی زندگی کے آثار سے پہچانی جاسکتی ہے.اور زندگی کے آثار بدلتے نہیں.ایک مشین جو انسانی ہاتھوں سے بنائی جاتی ہے اس کے پرزے بدلتے رہتے ہیں لیکن انسانی مشین جو آدم کے وقت میں بنائی گئی آج بھی اسی طرح چلتی ہے جس طرح آدم کے وقت میں چلا کرتی تھی.اسی طرح جب تک کوئی مذہب زندہ ہے اُس وقت تک آدم سے لے کر محمد رسول اللہ یہ تک جو خصوصیات کسی زندہ مذہب میں پائی جاتی رہی ہیں وہ اس میں بھی پائی جائیں گی.اور جب تک وہ زندہ رہے گا اُس وقت تک اسے دشمن کے حملوں سے بچانے کے لئے خدا تعالیٰ کی فوجیں آسمان سے اترتی رہیں گی.اور اگر وہ مر جائے تو خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کی نصرت بھی ختم ہو جائے گی.بہر حال جب تک کوئی مذہب زندہ ہے کسی انسان کے لئے فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان تو بے شک مر جاتے ہیں مگر جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں چونکہ خدا تعالیٰ زندہ ہے اس لئے وہ بھی خدا تعالیٰ میں ہو کر زندہ ہو جاتے ہیں.تب ان پر بھی جو لوگ حملہ کریں خواہ وہ سویا ہزار سال کے بعد کریں خدا تعالٰی کی گرفت میں آ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺہے آج دنیا میں نہیں مگر چونکہ آپ خدا تعالیٰ کی ذات سے وابستہ ہو چکے تھے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ ہے اس لئے آپ کی ہتک کرنے والا آج بھی خدائی گرفت سے نہیں بیچ سکتا.جب آتھم کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقابلہ کیا تو اُس وقت آپ نے اسے یہی فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ تم پر عذاب نازل ہوگا کیونکہ تم نے رسول کریم ﷺ پر حملہ کیا ہے.حالانکہ اُس وقت رسول کریم ﷺ کی وفات پر تیرہ سو سال گزر چکے تھے مگر چونکہ آپ کا تعلق خدا تعالٰی سے تھا اس لئے آپ کبھی زندہ ہو گئے.اور

Page 342

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 337 جلد دوم زندہ وجود کی ہتک کرنے والوں کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کی فوج اترا کرتی ہے.دنیا کی نگاہ میں وہ وفات پاچکے تھے لیکن خدا تعالیٰ کی نگاہ میں وہ زندہ تھے، زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے.پس جو لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق رکھتے ہیں وہ وفات یافتہ ہو کر بھی زندہ رہتے ہیں.اور جو شخص اس تعلق کو سمجھ لیتا ہے اور خود بھی اسی راستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے وہ بھی زندہ رہتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کوئی زندگیاں چھوٹی ہوتی ہیں اور کوئی بڑی.رسول کریم کو جو زندگی ملی وہ ابو بکر کو نہیں ملی اور جو زندگی ابو بکر کو ملی وہ عمر کو نہیں ملی.مگر کوئی شخص جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا ہو وہ اس زندگی سے کلی طور پر محروم نہیں ہوسکتا.لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھ رکھا ہے کہ صرف تلوار سے مارا جانے والا شہید ہوتا ہے حالانکہ کسی شخص کا تلوار سے مارا جانا تو ایک علامت ہوتی ہے خدائی محبت کی.اصل شہید وہ لوگ ہیں جو خدا تعالی کی محبت میں مارے جاتے ہیں.اور وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی محبت میں مرتان ہے وہ مرنے کے باوجود کبھی نہیں مر سکتا.جس شخص نے خدا تعالیٰ کے لئے موت قبول کی ، چاہے تلوار کے ذریعہ کی چاہے دین کی اشاعت کرتے ہوئے کی ، چاہے دنیا کی مصیبتوں کے اور آفات کا مقابلہ کرتے ہوئے کی خدا تعالیٰ کی غیرت یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ جس نے اس کے لئے موت برداشت کی ہے وہ اسے مرا ر ہنے دے.وہ اسے زندگی دیتا ہے اور ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیتا ہے.پس اس روح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی تبلیغ کرو، اس ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے نکلو کہ اس نے اپنے دین کو قائم کرنے کے لئے صرف تم کو چنا ہے.تم بھول جاؤ اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور انسان بھی ہے، تم بھول جاؤ اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور بھی ملک ہے، تم بھول جاؤ اس بات کو کہ دنیا میں کوئی اور قوم بھی ہے.تم صرف ایک بات کو یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نے کام کرنا تمہارے سپرد کیا ہے.خدا تعالیٰ نے اس عظیم الشان منصب کے لئے تمہیں اور صرف تمہیں چنا ہے.جب تم اس حقیقت کو سمجھ لو

Page 343

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 338 جلد دوم گے تو دین تمام خطروں سے محفوظ ہو جائے گا.اور اگر کسی ایک جگہ دین کی شمع کو بجھایا جائے گا تو تم فوراً ایک دوسرے مقام پر اس شمع کو روشن کر دو گے.اگر شیطانی طاقتوں میں ایک زندگی پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مومنوں کے اندر اس سے بڑھ کر زندگی نہ ہو.میں نے ایک دفعہ رڈیا میں دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک سوراخ میں سے آگ کا ایک شعلہ نکلا.میں اسے بجھانا چاہتا ہوں تو معا دوسری جگہ سے ایک اور شعلہ نکلنا شروع کی ہو جاتا ہے.میں اس کی طرف دوڑتا ہوں تو تیسری جگہ سے آگ نکلنی شروع ہو جاتی ہے.آخر میں حیران ہو کر کھڑا ہو گیا کہ اب میں ان شعلوں کو کس طرح دباؤں.اُس وقت میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں اور آپ ایک سوراخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محمود ! تم اس جگہ کو دباؤ.میں نے اس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھا تو تمام شعلے خود بخود بجھ گئے.پس جب شیطان کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا مٹانا مشکل ہو جاتا ہے تو کیا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ میں ہی یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے آپ کو زندہ رکھ سکے؟ اس میں طاقت ہے مگر اس کے زندہ رہنے کی یہی صورت ہوتی ہے کہ مومن اپنے دل میں یہ ارادہ رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے کہ اگر مجھے یہاں مارا گیا تو میں وہاں زندہ ہو جاؤں گا.وہاں مارا گیا تو یہاں زندہ ہو جاؤں گا.جب یہ روح کسی جماعت میں پیدا ہو جاتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی.کیونکہ کوئی طاقت ایسی نہیں جو دنیا میں ہر جگہ پہنچ سکے.جب خدا تعالیٰ کا نور دنیا کے گوشے گوشے سے پھوٹ پڑنے کو تیار ہو ، جب مومن کا عزم اسے ہر جگہ پہنچنے کے لئے بے قرار کر رہا ہو ، جب موت اس کی نظروں میں ایک حقیر اور ذلیل چیز ہو کر رہ جائے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا اسے اپنا سب سے بڑا مقصد دکھائی دے تو شیطان مایوس ہو جاتا ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ میں اب کہاں جاؤں.یہاں جاؤں یا وہاں جاؤں.اس کو مٹاؤں یا اس کو مٹاؤں.دنیا کی کا چپہ چپہ اس روئیدگی کو اگانے کے لئے تیار کھڑا ہے.پہاڑوں کی چوٹیاں بھی اس

Page 344

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 339 جلد دوم روئیدگی کو پیدا کر رہی ہیں.وادیاں بھی اس روئیدگی کو پیدا کر رہی ہیں.نشیب بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں.چٹیل میدان بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں.ریتلے بیابان بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں.دریاؤں کی تہیں بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہی ہیں.شہر بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں.دیہات بھی وہی روئیدگی پیدا کر رہے ہیں.مشرق بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے.مغرب بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے.شمال بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے اور جنوب بھی وہی روئیدگی نکال رہا ہے.اب شیطان جائے تو کہاں جائے.خدائی طاقتیں اسے حاصل نہیں ہوتیں.وہ زور لگاتا ہے مگر نور کی وسعت اس کی دوڑ سے بہت آگے نکل جاتی ہے.اور آخر وہ مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے.کیونکہ جہاں بھی روئیدگی شیطانی حملوں سے بچ جاتی ہے وہیں سے وہ آگے بڑھ کر ساری دنیا میں پھیل جاتی ہے.یہی روح ہے جس سے قوموں کو فتح کیا جا سکتا ہے.یہی روح ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام نے اپنے ماننے والوں میں پیدا کرنی چاہی ، یہی روح ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے متبعین میں پیدا کرنی چاہی اور یہی روح ہے جو اسلام دنیا کے ہر فرد میں پیدا کرنا چاہتا ہے.جب تک ہمارے مبلغ یہ سوچتے رہیں گے کہ ایک مرکز ہے جو کام کر رہا ہے اُس وقت تک انہیں حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.مرکز ہے اور ضرور ہے مگر صرف اشارہ اور راہنمائی کے لئے ہے ، صرف کمزوروں کو سہارا دینے کے لئے ہے ورنہ مومن خود اپنی ذات میں مرکز ہوتا ہے اور اس کو کسی بیرونی مرکز کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ جانتا ہے کہ مرکز اس لئے نہیں بنایا گیا کہ سارا کام مرکز ہی کرے بلکہ وہ سمجھتا ہے کہ کام میں نے کرنا ہے مرکز صرف جماعت کے کمزوروں کی نگرانی اور رہنمائی کے لئے ہے.جب یہ روح لوگوں میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو مٹا نہیں سکتی.پس ہمارے مبلغوں کو جب بھی وہ کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے لئے جائیں اپنی اس حیثیت کو سمجھ کر جانا چاہئے کہ وہ ایک نئے آدم ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے دنیا میں پیدا کیا.

Page 345

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 340 جلد دوم جب آدم کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا تو پہلی نسلیں ساری کی ساری ختم ہو گئیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ جب آدم پیدا ہوا تو اُس وقت دنیا پر اور نسلیں بھی آباد تھیں.تم ان کا نام جن رکھ لو، بھوت رکھ لو، پریت رکھ لو، شیطان رکھ لو، ابلیس رکھ لو.بہر حال کوئی نہ کوئی مخلوق تھی جس نے آدم سے بحث کی.مگر آج وہ میرے ساتھ کیوں بحث نہیں کرتی.تمہیں مانتا پڑے گا کہ جب آدم پیدا ہوا تو آہستہ آہستہ وہ نسلیں جنہوں نے آدم کو نہیں مانا دنیا سے مٹ گئیں.کیونکہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو آدم کے لئے پیدا کیا تھا.جب مالک آ گیا تو غاصب بھاگ گیا.اب اس کا اس دنیا کے ساتھ کیا تعلق تھا.پس جب ایک مبلغ کسی ملک میں بھیجوایا جاتا ہے تو اسے اس یقین اور وثوق کے ساتھ اس ملک میں اپنا قدم رکھنا چاہئے کہ اسے اس ملک کے لئے آدم بنا کر بھیجوایا گیا ہے.اب ظلماتی طاقتیں اس ملک میں باقی نہیں رہ سکتیں.وہ مٹا دی جائیں گی ، وہ فنا کر دی جائیں گی اور صرف اس کی جسمانی یا روحانی نسل ہی اس ملک میں باقی رہے گی.جب اس نیت اور ارادہ کے ساتھ کوئی شخص جائے تو وہ کس طرح اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ چالیس یا پچاس آدمیوں نے بیعت کر لی ہے.وہ تو اُس وقت تک خوش نہیں ہو سکتا جب تک سارے ملک کو تہس نہیں نہ کر دے، جب تک چپے چپے پر آدم کی نسل کو نہ پھیلا دے.ورنہ وہ آدم کس طرح ہے؟ وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا بیج کس طرح ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے مبلغ یہ نیت اور ارادہ لے کر نہیں جاتے.یہ آگ اپنے سینہ میں لے کر نہیں جاتے کہ ہم نے دنیا کے ایک ایک فرد کو اپنے اندر شامل کرنا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں وہ گرمی پیدا نہیں ہوتی جو انسان کو کام کرنے پر آمادہ کر دیا کرتی ہے.جو کفر کو جلا کر بھسم کر دیا کرتی ہے.وہ تو اس پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے ذریعہ سے دس ہیں یا سو آدمی نجات پاگئے.حافظ بشیر الدین صاحب جو اس وقت ماریشس جا رہے ہیں جیسا کہ انہوں نے بتایا ہے ان کے والد اسی علاقہ میں کام کرتے رہے ہیں اور آخر کام کے دوران میں ہی وہ شہید ہو گئے.آج صبح جب یہ میری ملاقات کے لئے آئے تو میں نے انہیں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ

Page 346

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 341 جلد دوم نے ابتدا میں ہمیں اس جزیرہ میں بڑی کامیابی عطا فرمائی تھی.مگر اب ہمیں چھپیں سال سے وہ ترقی ختم ہو چکی ہے اور شاذ و نادر ہی کسی بیعت کی اطلاع آتی ہے.چنانچہ خود ان کے بیان کے مطابق 1923 ء سے لے کر اب تک صرف 19 بیعتیں ہوئی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ در حقیقت اس ذمہ داری کا احساس تازہ نہیں رکھا گیا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد کی گئی تھی.حالانکہ اس ذمہ داری کا احساس آدم میں ہی نہیں بلکہ آدم کی اولاد میں بھی ہونا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ مبلغ میں کمزوری پیدا ہوگئی تھی بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مبلغ کی روحانی اولاد میں کمزوری پیدا ہو گئی.انہیں کبھی یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ تم نے اس خطہ میں پھیلنا ہے، تم نے اس علاقہ کی دوسری نسلوں کو روحانی طور پر ختم کرنا ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی ترقی رک گئی.اب ان کو چاہئے کہ وہاں جا کر لوگوں کے اندر ایک نئی روح پیدا کریں.ماریشس ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کو فتح کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں ایک آگ پیدا کی جائے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے.اور ہر احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہم نے تمام علاقہ کو اسلام اور احمدیت کے لئے فتح کرنا ہے.پھر مبلغ کی بعض دفعہ بہت سی طاقت اس لئے بھی ضائع چلی جاتی ہے کہ عورتوں کی تبلیغ اور ان کی تعلیم کے سلسلہ میں اس کا کوئی ہاتھ بٹانے والا نہیں ہوتا.مگر خوش قسمتی سے ان کی بیوی جو ان کے ساتھ جا رہی ہیں وہ ایک مخلص اور علم والی عورت ہیں.پس اب کم سے کم ایک ایسا ہتھیار ان کے پاس موجود ہے جو ہمارے پہلے مبلغوں کے پاس نہیں تھا.حافظ صوفی غلام محمد صاحب کی بیوی بھی تعلیم یافتہ تھیں.بخاری تک انہوں نے پڑھی ہوئی تھی.مگر تبلیغ کا ان میں اتنا مادہ نہیں تھا اور پھر وہ تقریر بھی نہیں کر سکتی تھیں.ان کی طبیعت میں حیا کا مادہ زیادہ تھا.خواہ ہم اسے غلط ہی قرار دیں مگر حافظ بشیر الدین صاحب کو خدا تعالیٰ نے یہ ایک زائد طاقت بخشی ہے کہ ان کی بیوی علم بھی رکھتی ہیں اور اس کو بیان کرنے کا بھی انہیں شوق ہے.چنانچہ ان کے کئی اچھے اچھے مضامین چھپ چکے ہیں.یہ ایک زائد چیز

Page 347

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 342 جلد دوم ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نوازا ہے.شاید خدا تعالیٰ نے اب اس جزیرہ کی قسمت کو بدلنے کا فیصلہ کر دیا ہے.شاید خدا تعالیٰ اب اس مردہ زمین کو پھر زندہ کرنا چاہتا ہے.پس اس خدائی تدبیر کو انہیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہئے اور جلد سے جلد ہمیں یہ خبر پہنچانی چاہئے کہ ماریشس اسلام اور احمدیت کے لئے فتح ہو گیا ہے.پھر صرف ماریشس کا ہی سوال نہیں اس کے اردگرد کے جزائر کا بھی سوال ہے.ماریشس کی آبادی چار پانچ لاکھ کے قریب ہے ، مڈغاسکر کی آبادی پچاس لاکھ ہے، ری یونین (REUNION) کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے.اسی طرح اور کئی جزائر ہیں جو ماریشس کے اردگرد ہیں.اگر ان لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ اپنی زندگیاں خدا تعالیٰ کے دین کے لئے وقف کریں تو انہیں مختلف مقامات پر پھیلایا جاسکتا ہے.اور اس طرح انہیں اتنی بڑی طاقت حاصل ہو سکتی ہے جو صرف ماریشس ہی کو نہیں بلکہ اس کے اردگرد کے جزائر کو بھی درست کر سکتی ہے.شاید جوش میں میں کچھ زیادہ بول گیا ہوں.اب مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملیریا کا حملہ میرے جسم پر نئے سرے سے شروع ہونے والا ہے.کیونکہ متلی بھی ہو رہی ہے اور سر کے ایک طرف درد بھی شروع ہے اور یہ دونوں ملیریا کے حملہ کی علامتیں ہوتی ہیں.بہر حال چونکہ یہ ایک ضروری کام تھا اس لئے میں آگیا.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ حافظ صاحب کو خیریت سے لے جائے، خیریت سے پہنچائے اور جوش کے ساتھ اپنے کام کو کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر اللہ تعالیٰ انہیں اس بات کی بھی توفیق بخشے کہ وہاں ہماری جو جماعت موجود ہے اس کے اندر نیا اخلاص اور نئی روح پیدا کر کے اس علاقہ کو احمدیت کے لئے فتح کریں اور کامیابی کا منہ دیکھنا انہیں نصیب ہو.“ (الفضل 19 جون 1951ء) 1 شرح دیوان حسان بن ثابت صفحہ 165 مطبوعہ مصر 1929ء 2 آل عمران : 145

Page 348

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 343 صلى الله 3: بخارى كتاب المغازى باب مرض النبي علم ووفاته صفحه 757 حدیث 4454 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 4 متی باب 6 آیت 10 صفحہ 26 9 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء جلد دوم

Page 349

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 344 جلد دوم جامعتہ المبشرین کی سب سے پہلی فارغ التحصیل کلاس کے اعزاز میں الوداعی پارٹی 29 /اکتوبر 1951ء عصر کی نماز کے بعد جامعتہ المبشرین کی طرف سے سب سے پہلی کامیاب ہونے والی مبلغین کلاس کو الوداعی پارٹی دی گئی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ہے نے بھی از راه شفقت شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو تقریر فرمائی وہ حسب ذیل ہے:.دو مجھے آج گلے میں تکلیف تھی اور ساتھ ہی سردر د بھی تھی اس وجہ سے شاید میں یہاں آنے سے بچنے کی کوشش کرتا.لیکن اس مضمون نے جن پر دونوں فریقوں نے یعنی ایڈریس پیش کرنے والوں اور ایڈریس کا جواب دینے والوں نے زور دیا ہے مجھے بھی مجبور کر دیا کہ میں اس موقع پر یہاں آؤں.اور وہ وہی مضمون ہے جو ایڈریس پیش کرنے والوں نے پیش کیا ہے کہ آپ درخت کے پہلے پھل ہیں اور جواب دینے والوں نے بھی کہا ہے کہ ہم درخت کے پہلے پھل ہیں.اس موقع پر مجھے ایک پٹھان کے لڑکے کا قصہ یاد آ گیا جو ایک ہندو کو مارنے لگا تھا.وہ ہندو اپنی جان بچانے کے لئے بھاگا.پٹھان لڑکا بھی تلوار لے کر اس کے پیچھے بھاگا اور کہنے لگا تو کلمہ پڑھ لے اور مسلمان ہو جا اور یا پھر میں تجھے مار دوں گا.تا کہ میں جنت میں جاؤں.مولویوں کے نزدیک جنت میں داخل ہونے کے دو ہی ذرائع ہیں یا تو کسی کو کلمہ پڑھا دیا جائے اور یا جو کلمہ نہ پڑھے اس کو قتل کر دیا جائے.مگر اب پہلا حصہ متروک ہو گیا ہے صرف قتل کرنے والے حصہ پر عمل ہے.وہ

Page 350

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 345 جلد دوم ہند و عقیدہ کا پکا تھا وہ بھاگتا گیا.تھوڑی دیر کے بعد اس کی نظر پٹھان لڑکے کے باپ پر پڑی.وہ ہندو اس کی طرف بھاگا اور کہنے لگا دیکھئے خان صاحب ! آپ کا لڑکا مجھے مارنا چاہتا ہے.پٹھان لڑکے نے اپنے باپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا باپ ! میں اسے کہتا ہوں کہ تو کلمہ پڑھے ورنہ میں تجھے مار دوں گا.یہ سن کر اس کے باپ نے اس ہندو سے کہا ٹھہر جا! میرے بیٹے کا پہلا وار ہے خالی نہ جائے.میں نے بھی سمجھا ان کا پہلا وار ہے خالی نہ جائے.اگر چہ میرے گلے میں سوزش تھی اور سر میں درد تھا لیکن میں نے کہا یہ پہلی کلاس ہے میں وہاں چلا جاؤں.میں آج آپ لوگوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ہاں لوگ محنت کو غیر ضروری سمجھنے لگ گئے ہیں.بالعموم ہمارے طلباء اور دوسرے محنت کرنے والے لوگ وقت کی بہت کم قدر کرتے ہیں.اگر وقت کو کسی اور مفید کام میں لگا دیا جائے تب بھی ٹھیک ہے.مثلاً وہ وقت ورزش میں لگایا جائے تب بھی یہ سمجھا جائے گا کہ وہ وقت کام آ گیا ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت بھی محض گپوں میں صرف کیا جاتا ہے.طلباء نے ہاتھ میں کتاب پکڑی ہوئی ہوتی ہے لوگ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ پڑھ رہے ہیں لیکن وہ گئیں مار رہے ہوتے ہیں.کلرکوں نے کاغذ اور قلم سامنے رکھی ہوئی ہوتی ہے اور آپس میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں.اسی طرح آفیسر بھی کرسیوں پر بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں.غرض بے کار اور بے غرض کام کو نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے وقت ضائع ہوتا چلا جاتا ہے.مگر محنت کے لئے صحت کی بھی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس طرف بھی توجہ کم ہے.اور کچھ قصور اس حالت کا بھی ہے.کچھ دنوں سے میں اس بات پر غور کر رہا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ ہمارے مولویوں کی صحت بالعموم خراب رہتی ہے.آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کی وجہ غذا کا ناقص ہوتا ہے.بچپن کی عمر میں غذا بے شک ایسی ہونی چاہئے جو وحشی جذبات پیدا نہ کرے لیکن اس سے صحت میں ترقی تو ہونی چاہئے.ہم جب بچے تھے اُس وقت غذاؤں کا کوئی خاص خیال نہیں کیا جاتا تھا.مثلاً مجھے یاد نہیں کہ بچپن میں مجھے

Page 351

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 346 جلد دوم کبھی ناشتہ کا خاص احساس ہوا ہو یا ہم نے کھانا کھانے میں کبھی وقت کی پابندی کی ہو.کبھی دس بجے کھانا کھا لیا اور کبھی چار بچے کھانا کھا لیا.ہمیں اس بارہ میں وقت کی پابندی کا کوئی احساس نہ تھا.تو اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہم بہت بوجھ برداشت کر لیتے ہیں لیکن صحت اور جسم کی بناوٹ کمزور ہوگئی ہے.چند دن ہوئے مجھے ایک طالب علم ملنے کے لئے آیا.اس کی صحت دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی.میں نے جب اس کا مضبوط جسم اور لمبا قد دیکھا تو مجھے بہت اچھا لگا.میں نے کہا میاں ! تمہاری صحت اور قد تو بہت اچھا ہے، چہرے پر رونق بھی ہے مگر دوسرے طلباء کی صحت ایسی نہیں.تم بتاؤ اس کی کیا وجہ ہے؟ معلوم ہوتا ہے وہ لڑکا ذہین تھا وہ بغیر کسی تردد کے کہنے لگا غذا اچھی نہیں ملتی.اس لڑکے نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ایک سو طلباء کو پانچ چھٹانک گھی ملتا ہے.اب آپ حساب لگا لیں کہ اس کے نتیجہ میں صحت اور قد کیسے بڑھ سکتا ہے.اگر واقعہ یہی ہے تو اس لڑکے نے مبالغہ نہیں کیا.تو سو آدمیوں کے لئے پانچ چھٹا تک گھی کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص کو 1/4 تولہ گھی ملا.اور 1/4 تولہ گھی تو وہ نوکر عورت جو دودھ بلوتی ہے اور مکھن نکالتی ہے گھی ادھر ادھر کرتے ہوئے اپنے سر پرمل لیتی ہے.پس یہ ایک نہایت خطرناک چیز ہے.اس وقت ناظر صاحب تعلیم و تربیت بھی اس مجلس میں موجود ہیں.کوئی وجہ نہیں کہ دوسروں کے تجربات سے ہم فائدہ نہ اٹھائیں.یورپین لوگوں نے ہر چیز کے اندازے لگا رکھے ہیں کہ اگر اتنی ترکاری ہو تو اس میں اتنا گھی ڈالنا چاہئے.اسکول کے اساتذہ کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اس میں تبدیلی کرسکیں.لیکن ہمارے پاس اس کے متعلق کوئی قانون نہیں ہے.میں نے اس طالب علم سے دریافت کیا کہ تمہارے کھانے کا خرچ کیا ہے؟ اس نے کہا دس گیارہ روپے ماہوار خرچ ہے.میں نے کہا جس قسم کا کھانا تمہیں ملتا ہے میں وہ کھانا چار پانچ روپے میں مہیا کر سکتا ہوں.محکمہ تعلیم کو چاہئے کہ وہ چارٹ بنائے کہ اتنا گوشت یا ترکاری فی طالب علم چاہئے.اور اگر اتنی مقدار میں ترکاری ہو تو اس میں گھی کی نسبت اس قدر ہونی چاہئے.اسی طرح لکڑی وغیرہ

Page 352

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 347 جلد دوم کا اندازہ لگا لینا چاہئے.ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب کو اس بات کا شوق تھا.انہوں نے ہر چیز کے اندازے لگائے ہوئے تھے.مجھے ٹھیک طور پر تو یاد نہیں لیکن غالبا ان کا تجربہ یہ تھا کہ فی سیر گوشت کے پکانے میں دو سیر لکڑی خرچ ہوتی ہے.اور فی سیر آٹا سیر یا ڈیڑھ سیر لکڑی سے پک جاتا ہے.بہر حال وہ ہر چیز کا حساب رکھتے تھے.اگر اس قسم کے اندازے لگائے جائیں تو اخراجات میں تخفیف ہو جاتی ہے.اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی بتایا جائے کہ ایک لڑکے کے لئے اتنا گوشت، اتنا گھی ضرور ہو گا.ہفتہ میں اتنے وقت گوشت ہوگا اور اتنے وقت تر کاری ، اتنے وقت دال ، ناشتہ میں یہ یہ اشیاء ہوا کریں گی.پس آج میں ایک نصیحت تو یہ کرتا ہوں کہ طلباء کی صحت کا خیال رکھا جائے اور وہ اس کے مقابل پر محنت کا خیال رکھیں.دوسری اہم چیز جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ قرآن ہے.جامعہ احمدیہ کے استاد بھی یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں نے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو جامعہ احمدیہ کے لڑکوں کی نسبت اچھا قرآن پڑ دیکھا ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا کیوں ہے.ایک نوجوان نے ابھی قرآن کریم پڑھا ہے اس نے ہر جگہ غلطی کی ہے.زیر اور زبر کی غلطیاں تو الگ رہیں جہاں مر نہیں تھی اس نے وہاں مد بنائی ہے اور جہاں تھی وہاں اس نے مد نہیں بنائی.میں نے پرنسپل صاحب سے پوچھا یوں تو انہوں نے جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کی تعریف کی ہے اور ان کا شکر یہ ادا کیا ہے لیکن مجھ سے انہوں نے یہی کہا تھا کہ یہ لڑکا میرا نہیں.یہ ابھی ابھی جامعہ احمدیہ سے آیا ہے.آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ سارے استاد عربی جانتے ہیں ، قرآن کریم جا.ہیں ، لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ان کا شاگر د قرآن کریم پڑھتے ہوئے غلطی کر رہا ہے.لڑکے شروع سے عربی پڑھتے ہیں لیکن افسوس کہ قرآن کریم پڑھتے ہوئے وہ اس قدر غلطیاں کرتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.عربی زبان میں یہ خصوصیت ہے کہ اس کا ہر حرف الگ پڑھا جاتا ہے.جب تک ہر حرف کو الگ نہ پڑھیں تلفظ ٹھیک نہیں ہوتا.دوسری زبانوں

Page 353

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 348 جلد دوم میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کر دیتے ہیں لیکن عربی زبان میں ہم حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط نہیں کر سکتے.ہمارے حروف کو ایک دوسرے میں مخلوط کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ ان کے معنے کچھ نہیں بنیں گے.مثلاً ہمارے رسول اللہ ﷺ کا نام محمد ہے.عرب جب محمد کہے گا تو وہ م - حُمُ - مَد کہے گا.لیکن ہمارے ہاں اس کو محمد یا مهمند کہیں گے یا پھر ہزارہ کے لوگ ح“ کو ”خ“ پڑھیں گے اور محمد کہیں گے.اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم حروف کو الگ الگ کر کے نہیں پڑھتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ امریکہ کی کاک ٹیل پارٹی (COCKTAIL PARTY) کی طرح الفاظ کی ایک کاک ٹیل پارٹی بن جاتی ہے یعنی مختلف الفاظ آپس میں ملا دئیے جاتے ہیں.یہ دست درازی کم از کم قرآن کریم پر نہیں ہونی چاہئے.1300 سال سے مسلمانوں نے اس کو محفوظ رکھا ہے.تمہیں بھی اسے محفوظ رکھنا چاہئے اور قرآن کریم کی تلاوت پر خاص توجہ دینی چاہئے.جہاں مجھے ایک چیز سے خوشی ہوئی ہے کہ مولوی دوست محمد صاحب نے جو جواب ایڈریس پیش کیا ہے وہ گولکھا ہوا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے انہوں نے اردو کے تلفظ کو سیکھنے کی کوشش کی ہے اور تقریر کرنے کی انہیں مشق ہے وہاں محمد شفیع صاحب اشرف جو درجہ ثالثہ کے سیکر ٹری کی ہیں انہوں نے ایڈریس اتنی جلدی پڑھا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گو یا چناب ایکسر پس چل رہی ہے.یہ تیزی گھبراہٹ سے پیدا ہوتی ہے.جلدی کا بھی موقع ہوتا ہے اور وہ تقریر کا آخری حصہ ہوتا ہے.جب لیکچرار سامعین کے جذبات کو ابھارتے ابھارتے اس مقام پر لے جاتا ہے کہ اس کا ذہن اور سامعین کے ذہن ایک سطح پر آجاتے ہیں اُس وقت آہستہ بولنا بے وقوفی ہوتا ہے.پس تقریر میں اس بات کا لحاظ رکھنا چاہئے کہ گھبراہٹ پیدا نہ ہو.تقریر کرنے والا اس لئے کھڑا ہوتا ہے کہ سامعین کو کچھ بتائے اور انہیں وہ علم سکھائے جو انہیں پہلے نہیں آتا.اور جب یہ بات ہے تو پھر گھبرانے کی کیا وجہ ہے.سامعین تو اس سے علم میں بیچ ہیں اس لئے اگر تقریر کرنے والا وہ باتیں پیش کرتا ہے جو سامعین پہلے سے جانتے ہیں تو یہ بے وقوفی ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ ایک صاحب جحا تھے

Page 354

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 349 جلد دوم جن کی لطیفہ گوئی کی وجہ سے ان کی علمیت کا شہرہ ہو گیا تھا.ایک گاؤں والوں نے انہیں مجبور کیا کہ وہ جمعہ کا خطبہ پڑھیں.انہوں نے ٹالنے کی کوشش کی لیکن گاؤں والوں نے اصرار کیا.چناچہ وہ مان گئے اور کھڑے ہو کر کہنے لگے اے لوگو! تم سمجھ سکتے ہو کہ میں نے کیا کہنا ہے ؟ گاؤں والوں نے کہا نہیں.اس پر جحا نے کہا اگر تم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ میں نے کیا کہنا ہے تو پھر میرے تقریر کرنے سے کیا فائدہ ہے.گاؤں والوں نے اگلے جمعہ پھر مشورہ کیا کہ آج پھر انہیں خطبہ پر مجبور کیا جائے.لیکن اس دفعہ اگر وہ کہیں کہ بتاؤ تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے ؟ تو سب لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں معلوم ہے تا گزش جمعہ کی طرح وہ خطبہ چھوڑ نہ دیں.چنانچہ گاؤں والوں نے انہیں خطبہ دینے کے لئے پھر مجبور کیا اور وہ مان گئے.اس دفعہ انہوں نے کھڑے ہو کر پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے میں نے کیا کہنا ہے؟ سب نے کہا ہاں.وہ یہ جواب سنتے ہی منبر سے اتر آئے اور کہا کہ جب آپ کو معلوم ہی ہے تو مجھے کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے.گاؤں والوں نے پھر مشور کیا کہ جحا سے خطبہ ضرور کروانا چاہئے اور مشورہ یہ قرار پایا کہ اب کے نصف لوگ کہیں کہ ہاں ہمیں معلوم ہے اور نصف کہیں کہ ہمیں معلوم نہیں.شاید اس طرح جحا صاحب قابو میں آجائیں.چنانچہ پھر جحا پر زور دیا اور ان کو مجبور کر کے خطبہ کے لئے کھڑا کر دیا.وہ کھڑے ہوئے تو انہوں نے پھر وہی بات کہی کہ اے لوگو! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے کیا کہنا ہے؟ اس پر حاضرین میں سے بعض نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے اور بعض نے کہا ہمیں معلوم نہیں.اس پر وہ بولے جنہیں معلوم ہے وہ دوسروں کو بتا دیں.مجھے تقریر کرنے کی ضرورت نہیں.یہ تو ایک لطیفہ ہے.اصل حقیقت یہ ہے کہ جب ایک واعظ کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت وہ سامعین کو کچھ بتلانے کے لئے کھڑا ہوتا ہے.پس اسے ان لوگوں سے گھبرانے کی کیا وجہ ہے جو اس سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں.پس تقریر آہستگی کے ساتھ کرنی چاہئے.پھر آہستہ آہستہ کی جب سامعین کے دماغوں اور تقریر کرنے والے کے دماغ میں توازن قائم ہو جائے تو بے شک

Page 355

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 350 جلد دوم وہ اپنی آواز بلند کرے اور الفاظ بھی جوش سے ادا کرے.لیکن اگر وہ شروع میں ہی جلدی جلدی بولنے لگ جاتا ہے تو سامعین تاڑ جاتے ہیں کہ وہ ان سے ڈر رہا ہے اس لئے وہ اس کا اثر قبول نہیں کرتے.ایک اور بات جس کی میں کمی محسوس کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے طلباء مطالعہ کے لئے بہت کم وقت نکالتے ہیں.اپنے وقت میں سے ہمیشہ ایک حصہ زائد مطالعہ کے لئے بھی نکالنا چاہئے.ہمارا اندازہ ہے کہ ایک اچھا پڑھنے والا ایک گھنٹہ میں اوسطاً 30 صفحے پڑھتا ہے.عربی ٹائپ ذرا چھوٹا ہوتا ہے اور کتاب کے صفحات بڑے ہوتے ہیں اس لئے اگر آپ لوگ زائد مطالعہ کے لئے ایک گھنٹہ روزانہ بھی دیں تو اوسطاً دس پندرہ صفحات فی گھنٹہ پڑھے جا سکتے ہیں.اگر آپ ایک گھنٹہ روزانہ زائد مطالعہ کے لئے مقرر کر لیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ آپ ایک ماہ میں تین چار سو صفحات کا مطالعہ کر لیں گے.گویا ایک سال میں آپ امام رازی کی تفسیر کبیر ختم کر لیں گے.اور یہ اس صورت میں ہے کہ آپ ایک گھنٹہ روزانہ مطالعہ کے لئے دیں ورنہ دو اڑھائی گھنٹے بھی روزانہ مطالعہ کے لئے دیئے جا سکتے ہیں.اسی لئے میں نے عربی کتابیں منگوا کر دی ہیں جن میں علم ادب ، علم تاریخ، فلسفہ، منطق ، صرف و نحو، علم معانی اور دوسرے علوم پر لکھی ہوئی کتا بیں موجود ہیں.اور یہ کتب میں نے اس لئے منگوائی ہیں کہ طلباء انہیں پڑھیں اور ان کے علم میں اضافہ ہو.میرا منشاء یہی ہے کہ ایک دو سال میں دس پندرہ ہزار روپیہ صرف کر کے ایک لائبریری بنائی جائے جو کالج کے لحاظ سے مکمل لائبریری ہو.چنانچہ اس سلسلے میں میں نے انگریزی کی بعض کتابیں بھی منگوا کر دی ہیں.یہ کتابیں مختلف علوم کے متعلق ہیں.یورپین لوگوں میں سے بعض نے ہر علم کو ہر زبان میں لکھا ہے تا کہ جس زبان میں کوئی سیکھ سکے وہ علم سیکھ لے.اور تمام علوم کے متعلق جن میں سے بعض کا تمہیں علم بھی نہیں یورپین لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں اور میں یہ کتابیں جمع کر رہا ہوں تا کہ تم دوسری زبانوں کا بھی مطالعہ کر سکو.طلباء جو تھیسس (Thesis) لکھ رہے ہیں میرے نزدیک ان میں ایک غلطی ہے

Page 356

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 351 جلد دوم اور میں نے اس کے متعلق ایک ہدایت بھی بھجوائی تھی.انہوں نے یو نیورسٹیوں میں جو طریق رائج ہے اس کی نقل کی ہے.لیکن وہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایک لمبے عرصہ میں ترقی کر کے بعض روایات مقرر کر لی ہیں جن کی وجہ سے طلباء کو تھیسس لکھنے میں بہت آسانی ہوتی ہے.لیکن یہاں طلباء کو جو مضامین دیئے گئے ہیں ان کے متعلق جو کتا ہیں لکھی گئی ہیں وہ یہاں نہیں مل سکتیں.اور پھر اساتذہ کو بھی علم نہیں کہ یہ مضمون کون کون سی کتابوں میں مل سکتا ہے.ہمارے اساتذہ نے یہ کتابیں پہلے سال پڑھائی ہیں.اگر وہ پانچ چھ سال تک اور یہ کتابیں پڑھائیں تو ان کا علم موجودہ علم سے بہت زیادہ ہو گا اور وہ ان کتابوں کو زیادہ آسانی سے حل کر لیں گے بشرطیکہ وہ پڑھیں.پھر یو نیورسٹی میں کئی ہزار طلباء ہوتے ہیں جن میں سے صرف پچاس کے قریب ایسے طلباء ہوتے ہیں جو تھیسس لکھتے ہیں لیکن چھپتا تو ایک بھی نہیں.پھر آکسفورڈ اور کیمبرج میں بھی تھیسس بہت کم چھپتے ہیں کیونکہ وہ اس غرض کو پورا نہیں کرتے جو لوگ چاہتے ہیں.لیکن چونکہ ہمیں ضرورت ہے کہ ہمارا لٹریچر زیادہ ہو.تا ہماری اگلی نسلیں اس سے فائدہ اٹھائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کے سے فائدہ ہو اس لئے اس میں کوئی فائدہ نہیں کہ طلباء تھیسس لکھیں اور اساتذہ نگرانی کریں.میرے نزدیک اس کا طریق یوں ہونا چاہیئے تھا کہ وہ طلباء کو تھیسس دے کر بتاتے کہ وہ اس کے بطنی عنوان لکھیں.اور جب وہ بطنی عنوان لکھ کر لے آتے تو پانچ سات ماہرین بیٹھتے اور ان پر غور کر کے بتاتے کہ یہ بطنی عنوان تشنہ تکمیل ہیں.ان میں فلاں فلاں عنوان بھی شامل ہونا چاہئے.اور بحث کے بعد وہ بتاتے کہ ان کی ترتیب کیا ہونی چاہئے.بظاہر ایک آدھ غلطی ہوتی ہے لیکن اس ایک آدھ غلطی کی وجہ سے بڑی بڑی کتابیں خراب ہو جاتی ہیں.پچھلے ماہ خارش کی وجہ سے میں ایک رات جاگتا رہا.میں نے کہا چلو کسی کتاب کا مطالعہ ہی کر لوں.چنانچہ میں نے "فرقان" رسالہ اٹھایا.اس میں شیخ محمد احمد صاحب وکیل کا ایک مضمون تھا.میں نے اس مضمون کا مطالعہ کیا لیکن سارے مضمون میں سے بہت

Page 357

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 352 جلد دوم کم حصہ میری سمجھ میں آیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس کی بیک گراونڈ (background) خود ہی سمجھتے تھے.حالانکہ میں نے سنا ہے کہ ان کی بعض باتیں نہایت معقول ہیں اور میرا خیال تھا کہ اگر وہ اس مضمون پر کوئی کتاب لکھیں تو وہ مقبول ہو سکتی ہے.لیکن جس شکل میں انہوں نے وہ مضمون لکھا ہے کم از کم میں اسے سمجھ نہیں سکا.اس کی عبارت واضح نہیں اور ترتیب ٹوٹی ہوئی ہے اور اس سے اچھی سے اچھی کتاب خراب ہو جاتی ہے.ایک معمولی سی بات کو بھی عمدگی سے بیان کیا جائے تو یوں معلوم ہو گا جیسے کسی نے علم کے دریا بہا دیئے.اور اگر ایک اچھی بات کو بھی عمدگی سے بیان نہ کیا جائے تو وہ خراب ہو جاتی ہے.حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی پہلے پیغامی تھے.ان کے والد مخلص مبائع تھے اور ان کی دعاؤں کی وجہ سے حکیم صاحب نے بھی بیعت کر لی ہے.جب وہ پیغامی تھے تب بھی ان میں یہ خوبی تھی کہ انہیں مجھ سے انس رہا.حالانکہ پیغامیوں کو سب سے زیادہ میری ذات سے دشمنی ہے.میں جہاں کہیں تقریر کے لئے جاتا وہ وہاں آ جاتے تھے.چنانچہ میں ایک دفعہ فیروز پور گیا تو یہ بھی وہاں آگئے.مولوی عبد القادر صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے صحابہ میں سے تھے وہ بھی وہاں موجود تھے.مولوی صاحب کی قوت بیانیہ کمزور تھی.حکیم مرہم عیسی صاحب نے مجھ پر نبوت کے متعلق سوالات کرنے شروع کئے.چونکہ میں ان کی طبیعت جانتا تھا کہ وہ اکثر کج بحثی کرتے ہیں اس لئے میں نے کہا مولوی صاحب بیٹھے ہیں آپ ان سے بات کریں.چنانچہ مولوی عبد القادر صاحب نے ایک دلیل پیش کی.اس پر حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی نے اعتراض کیا.انہوں نے ایک اور دلیل پیش کی.حکیم صاحب نے پھر اعتراض کیا.انہوں نے پھر ایک اور دلیل پیش کی لیکن حکیم صاحب نے پھر اعتراض کیا.پھر ایک اور دلیل پیش کی لیکن حکیم صاحب نے پھر اعتراض کیا.تو مولوی صاحب نے ایک قہقہہ مارا اور کہا کہ تو بڑا چالاک ہے.تو ہر بات کو رد کر دیتا ہے.میں نے مولوی صاحب سے کہا آپ تو ہر میدان میں خود شکست تسلیم کر لیتے ہیں.اس پر وہ آپ ہی ایک قصہ سنانے لگے اور کہنے لگے کہ مجھے دراصل

Page 358

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 353 جلد دوم بات کرنی نہیں آتی.انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ ایک شخص میرے پاس آیا.اُن دنوں ازالہ اوہام چھپ چکی تھی.اس نے مجھے کہا کہ وفات مسیح کی ایک دلیل پیش کرو.میں نے کہا حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات 30 آیات قرآنیہ سے ثابت ہوتی ہے.اس نے کہا ایک دلیل بتاؤ.میں نے ایک دلیل پیش کی تو اس نے اس پر اعتراض کیا.میں نے ایک اور دلیل پیش کی اس نے پھر اعتراض کیا.پھر تیسری دلیل پیش کی لیکن اس نے پھر اعتراض کیا.اسی طرح میں دلیلیں پیش کرتا جاتا تھا اور وہ اعتراض کرتا جاتا تھا.یہاں تک کہ تمھیں کی تھیں آیات ختم ہو گئیں.غرض بولنے کا بھی طریق ہوتا ہے.مضمون ایسے رنگ میں بیان کرو کہ پڑھنے والا اسے سمجھ سکے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے بطنی عنوان مقرر کئے جائیں.پھر ماہرین کی ایک کمیٹی اس پر غور کرے اور اس کی ترتیب بھی بتائے.پھر لٹریچر بھی بنایا جائے کہ کون کون سی کتابوں میں یہ مضمون مل سکتا ہے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مضمون ہوتا ہے قرآن پر اور نکلتا ہے کسی جغرافیہ کی کتاب میں سے کوئی مضمون تھا جواب مجھے یاد نہیں رہا مجھے اس کے متعلق حوالے کی تلاش تھی لیکن حوالہ ملتا نہیں تھا.پرسوں میں کوئی سفر نامہ یا کوئی اور معمولی سی کتاب پڑھ رہا تھا کہ اس میں سے وہ حوالہ نکل آیا.وہ حوالہ میرے ذہن میں تھا لیکن اب پھر بھول چکا ہوں.غرض مطالعہ کرنے ولا شخص بتا سکتا ہے کہ فلاں مضمون کن کن کتب میں ہے.اس سے ہمارا اگلا قدم مضبوط ہو جائے گا اور آئندہ آنے والوں کو واقفیت ہو جائے گی.ورنہ یہ لوگ ایک دوکتا ہیں دیکھ کر تھیسس لکھ دیں گے اور خیال کریں گے کہ ہم نے بہت اچھی کتابیں لکھ دی ہیں.لیکن جن لوگوں کے پاس وہ کتابیں جائیں گی ان کے لئے وہ عمدہ کتابیں نہیں ہوں گی.ہم یورپین مصنفین کو دیکھتے ہیں کہ مضمون خواہ کتنا پامال ہو وہ جب اسے بیان کریں گے تو ی اس میں ایک نہ ایک بات ضرور نئی ہوگی.اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے کتابیں اتنے کے مطالعہ کے بعد لکھی ہوئی ہوتی ہیں کہ پڑھنے والے کو کوئی نہ کوئی نئی بات مل جاتی ہے.مثلاً اس فرقان میں میں نے ایک لڑکے کا مضمون پڑھا.وہ شاید انٹرنس پاس ہے لیکن جب بھی میں اس کا

Page 359

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 354 جلد دوم مضمون دیکھتا ہوں اس میں کوئی نہ کوئی عمدہ حوالہ ضرور ہوتا ہے.معلوم نہیں اس نے کہاں کہاں سے رسائل جمع کر رکھے ہیں.پس تھیسس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے عنوان مقرر ہوں.اس کی ترتیب بتائی جائے اور پھر مشورہ دیا جائے کہ یہ مضمون فلاں فلاں کتاب سے مل سکتا ہے.پھر مضمون زیادہ لمبا نہیں ہونا چاہئے.ایم.اے میں جو تھیسس لکھے جاتے ہیں وہ بھی پچاس ساٹھ صفحات کے ہوتے ہیں.اگر مضمون چھوٹے ہوں گے تو خواہ لکھنے والا پہلے دو ماہ میں ایک سطر بھی نہ لکھے اور تیسرے ماہ وہ دس کالم روزانہ لکھے تب بھی وہ 300 کالم لکھ لے گا جو پچاس مطبوعہ صفحات کے برابر ہوگا.اور یہ کافی لمبا مضمون ہے.اس طرح مفید لٹریچر مل سکتا ہے اور تبلیغ میں آسانی پیدا ہو سکتی ہے.“ ( الفضل 7 دسمبر 1951ء)

Page 360

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 355 جلد دوم مبلغین مغربی افریقہ سے روح پرور خطاب غیر ممالک میں اشاعت اسلام کے متعلق بعض اہم اور ضروری ہدایات جامعتہ المبشرین اور محلہ الف (دار الصدر) کی طرف سے مغربی افریقہ میں تبلیغ کے فریضہ کی ادائیگی کے لئے جانے والے پانچ مبلغین ( مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر، مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب، مکرم چودھری محمود احمد صاحب شاہد، مکرم ملک خلیل احمد صاحب اختر اور مکرم قاضی مبارک احمد صاحب شاہد ) کے اعزاز میں 24 جنوری 1955ء کو ایک مشترکہ ٹی پارٹی دی گئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی از راہ شفقت شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.” میری کمر میں آج کچھ درد ہو رہی ہے اس لئے میں بیٹھے بیٹھے اپنے خیالات کا اظہار کروں گا.پہلی چیز تو اُسی بات کی تکرار ہے جو میں نے آج ملاقات کے موقع پر باہر جانے والے مبلغین سے کہی ہے اور چونکہ تم میں سے بھی بعض لوگ ایسے ہوں گے جو شاید اگلے سال تبلیغ کے لئے باہر روانہ ہوں اور ان کے سامنے بھی وہی کام آ جائے جو ان کے سامنے آیا ہے اس لئے میں اس بات کو دوبارہ بیان کر دیتا ہوں.میں نے آج مبلغین کو بتایا ہے کہ انسانی عادت ہے کہ جس ماحول میں وہ رہتا ہے اس کے اثر کو قبول کرتا ہے اور پھر اس اثر کو دیر تک اپنے ساتھ لے جاتا ہے.اور نئی چیز

Page 361

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 356 جلد دوم اس کے اندر یا تو آتی ہی نہیں اور اگر آتی ہے تو ایک لمبے عرصہ کے بعد جب موقع ضائع ہو جاتا ہے.میں نے مغربی افریقہ کے مبلغین کو کہا کہ مذاہب کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت کی جدو جہد کے بعد لوگ ان میں گروہ در گروہ شامل ہوئے.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت آئے گی تو لوگ اسلام میں فوج در فوج داخل ہوں گے.1 حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا.یا تو یہ کی صورت تھی کہ وہ بنی اسرائیل کو نصیحت کرتے تھے اور وہ رد کر دیتے تھے اور کہتے تھے کہ تیرے آنے سے بادشاہ ہم پر ناراض ہو گیا اور اس نے ہم سے سختی شروع کر دی ہے.اور یا پھر وہ وقت آیا کہ ساری قوم آپ پر ایمان لے آئی.اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام جب دنیا میں آئے تو ان کی جماعت میں بھی پہلے ایک ایک دو دو آدمی داخل ہوئے.قیام فلسطین میں صرف بارہ آدمی آپ پر باقاعدہ طور پر ایمان لائے تھے.اور تین چار سو آپ کے ہمدرد بن گئے تھے.باقی لوگ ایک عرصہ کے بعد آپ کی جماعت میں داخل ہوئے.لیکن دوسو یا اڑھائی سو سال کے عرصہ کے بعد ایک طرف روم اور دوسری طرف اناطولیہ اور مصر کے رہنے والے آپ پر ایمان لے آئے.اور پھر یہ لوگ آپ کی جماعت میں یکدم آئے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی یہی نظر آتا ہے.آپ کے دعوی کے پہلے 19 سال کے عرصہ میں مسلمان دس پندرہ ہزار تھے.لیکن آپ کے دعوئی کے آخری دو تین سالوں میں سارا عرب مسلمان ہو گیا.یا تو آپ ایک ایک شخص کے پاس جاتے تھے اور اسے تبلیغ کرتے تھے لیکن لوگ آپ سے بے التفاتی برتتے یا حقارت سے آپ کی بات رد کر دیتے.اور یا پھر وہی دلیلیں تھیں ، وہی باتیں تھیں ، آپ نے ایک ایلچی کو پیغام دے کر کسی قوم یا قبیلہ کی طرف بھیجا اور وہ سارے کا سارا مسلمان ہو گیا.یہی حال ہندوستان میں نظر آتا ہے.حضرت کرشن کی اپنے زمانہ میں کوئی غیر معمولی حیثیت نہ تھی لوگ صرف آپ کو ایک شہزادہ یا رئیس سمجھتے تھے.قبولیت کہیں نظر نہیں آتی تھی.لیکن اب سارا ہندوستان آپ کو ایک برگزیدہ تسلیم کرتا ہے.یہی حال حضرت رام چندر

Page 362

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 357 جلد دوم کا تھا.انہیں بھی پہلے تھوڑے سے لوگوں نے قبول کیا.لیکن بعد میں سارے لوگ آپ پر ایمان لے آئے.بدھ کی بھی یہی حالت تھی.ان کی اپنی زندگی میں انہیں بہت تھوڑے آدمی ملے.لیکن بعد میں لوگوں نے یکدم ان کی طرف رجوع کر لیا.ان کے مقابلہ میں ہماری جماعت میں ابھی گروہ در گروہ لوگ آنے شروع نہیں ہوئے بلکہ ایک ایک دو دو کر کے آ رہے ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں اور پہلے زمانوں کے حالات میں فرق ہے.اس زمانہ میں چاہے صحیح ہے یا غلط یہ بات ذہن میں راسخ ہوگئی ہے کہ ہم زیادہ تعلیم یافتہ ہیں اور قومی رو ختم ہو گئی ہے.اب قبائلی سسٹم کہیں نظر نہیں آتا بلکہ قبائلی طریق کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے.ایک رنگ میں یہ ہے بھی صحیح اور ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ہر شخص کو خود غور کرنے اور سمجھنے کا موقع دینا چاہئے.جاٹ ، ارائیں، گوجر، اعوان اور دوسری سب اقوام کسی زمانہ میں ایک لیڈر کے ماتحت ہوا کرتی تھیں اور وہ جو کچھ کہتا تھا اس کے پیچھے چل پڑاتی تھیں.لیکن نئی تعلیم نے ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کر دی ہے کہ تم خود فیصلہ کا حق رکھتے ہو.تمہیں خود مناسبہ غور اور سمجھ کے بعد ہر بات کا فیصلہ کرنا چاہئے.چنانچہ اب یہ حالت ہو گئی ہے کہ وہ کسی سیاسی لیڈر کے پیچھے تو لگ جائیں گے لیکن قومی لیڈر کے پیچھے نہیں لگیں گے.غرض ہمارا ایسے لوگوں سے واسطہ ہے جو انفرادیت کے قائل ہیں قومیت کے قائل نہیں.اور ایک ایک فرد کو جماعت میں داخل کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے.پہلے یہ حالت تھی کہ رسول کریم ﷺ کے پاس ایک آدمی آتا تو آپ اس سے سوال کرتے کہ کیا تم اکیلے آئے یا تمہارے پیچھے تمہاری قوم بھی ہے؟ وہ کہتا یا رسول اللہ ! میری قوم میر ہے.اور عملاً یہی ہوتا کہ کسی قوم سے کچھ لوگ ایمان لے آتے تو ساری قوم ان کے پیچھے آجاتی.ہمیں تاریخ سے ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کسی شخص نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ کہا ہو کہ یا رسول اللہ ! میری ساری قوم میرے پیچھے ہے اور پھر اس کی قوم اس کے پیچھے نہ آئی ہو.لیکن ہماری حالت اس کے برعکس ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے

Page 363

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 358 جلد دوم پاس بعض علماء آئے اور انہوں نے کہا حضور! ہمارے ہزار دو ہزار یا پانچ دس ہزار آدمی ہیں.لیکن آپ فرماتے یہ سب غلط ہے.جب تم احمدیت کو قبول کر لو گے تو بالکل اکیلے رہ جاؤ گے.چنانچہ ایسا ہی ہوتا.ساری جماعت میں صرف چند مثالیں ایسی ملتی ہیں کہ بعض لوگوں کے ساتھ چند اور لوگ بھی احمدیت میں داخل ہو گئے.مثلاً حضرت خلیفہ امسیح الاول نے جب بیعت کی تو آپ کی وجہ سے میں پینتیس اور دوست بھی جماعت میں داخل ہو گئے.مولوی برہان الدین صاحب اگر چه حضرت خلیفتہ امسیح الاول جتنا علم نہیں رکھتے تھے لیکن اہل حدیث ہونے کی وجہ سے آپ کا اہل حدیثوں پر اثر زیادہ تھا.آپ جب احمدیت میں داخل ہوئے تو آپ کی وجہ سے پانچ سات سو اور دوست بھی احمدی ہو گئے.مولوی نور محمد صاحب لودھی نگل والوں کی وجہ سے بھی پچاس ساٹھ آدمی احمدیت میں داخل ہوئے.غرض صرف چند دوست ایسے نکلیں گے کہ جن کی وجہ سے بعض اور لوگ بھی احمدیت میں داخل ہوئے.لیکن باقی سب ایسے تھے کہ جب وہ احمدی ہوئے تو سب لوگ ان کے مخالف ہو گئے.پس ہماری حالت پہلی اقوام سے بالکل مختلف ہے.اس زمانہ میں قومیت اور قبائلی سسٹم ختم ہو گیا ہے اور جہاں کہیں قومیت کا احساس ابھی پایا جاتا ہے وہ تعلیم کے رائج ہونے کے ساتھ ساتھ مٹتا جا رہا ہے.اس زمانہ میں ہر شخص کے اندر سوچنے اور غور کرنے کی عادت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے متعلق ہر فیصلہ آزادانہ طور پر کرتا ہے.قومیت سوچ اور فکر کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے.ہر شخص یہ خیال کرتا ہے کہ میرے پاس غور اور فکر کرنے کے لئے وقت نہیں اور نہ اتنی سمجھ ہے کہ ہر بات کا علم حاصل کر سکوں اس لئے فلاں شخص مان لے گا تو میں بھی مان لوں گا.لیکن جوں جوں تعلیم آتی جائے گی یہ چیز مٹتی جائے گی.بیٹا کہے گا کہ میں خود اپنا بھلا اور براسمجھ سکتا ہوں میں اپنے باپ کے پیچھے کیوں چلوں.اور باپ کہے گا اگر میرے بیٹے نے فلاں مذہب قبول کر لیا ہے تو میں اس کے مذہب میں کیوں دخل دوں.ہماری جماعت میں سینکڑوں مثالیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ باپ احمدی ہو گیا اور بیٹا احمدی نہیں ہوا.خاوند احمدی ہوا اور بیوی احمدی نہیں ہوئی.یا بیوی احمدی ہو گئی

Page 364

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 359 جلد دوم.لیکن خاوند احمدی نہیں ہوا.اور بعض اوقات یہ بات نہیں ہیں سال تک چلی گئی ہے کہ گھر کا ایک فرد احمدی ہو گیا لیکن دوسرے افراد احمدی نہیں ہوئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر شخص یہ سجھتا ہے کہ میں کسی کے پیچھے کیوں چلوں.میں اپنا نفع نقصان خود سمجھ سکتا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کے لوگ دوسروں سے جلد ایمان لے آتے ہیں لیکن ان کے لئے انفرادی جدو جہد کرنی پڑتی ہے.اور جو قو میں جاہل ہیں اور ان میں ظاہری علم کی کمی ہے ان میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ ہر بات پر خود غور نہیں کرتیں بلکہ اپنے لیڈر کے پیچھے چلتی ہیں.ان کے افراد سمجھتے ہیں کہ ہم میں خود سوچنے اور غور کرنے کی اہلیت نہیں اور نہ اتنی عقل ہے کہ خود سوچیں اور فکر کریں.چنانچہ وہ اپنے چودھری کی بات مان لیتے ہیں.جدھر وہ جاتا ہے ادھر قوم کے سب افراد جاتے ہیں.اس وقت اس قسم کی قومیت دنیا میں سوائے افریقہ کے اور کہیں نہیں پائی جاتی.یورپ میں تو باپ بیٹے کی بات نہیں مانتا اور بیٹا باپ کی بات نہیں مانتا.اور یہاں بھی یہی کیفیت ہے.بے شک بعض اوقات احمدی ہونے والوں کو تنگ بھی کیا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات یہ سمجھ کر کہ مذہب کے لحاظ سے ہر شخص آزاد ہے وہ جو مذہب چاہے اختیار کر سکتا ہے، اسے تنگ نہیں کیا جاتا.یہی حال امریکہ اور دوسرے ممالک عرب، مصر، انڈونیشیا، ایران اور عراق وغیرہ کا ہے.ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ اپنے متعلق وہ خود فیصلہ کرے گا.صرف فلسطین میں کہا بیر کے مقام پر ایسا ہوا کہ ایک شخص نے احمدیت کو قبول کر لیا تو اس کی وجہ سے پچاس ساٹھ اور آدمی بھی احمدیت میں داخل ہو گئے.لیکن افریقہ میں چونکہ تعلیم کم ہے اس لئے وہاں ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے ساتھ ہزار دو ہزار آدمی احمدیت میں داخل ہو جائیں.اگر اس قسم کے دس ہیں آدمیوں کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے تو سال میں بڑی آسانی سے لاکھ دو لاکھ آدمی احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں.یہی وجہ ہے افریقہ میں دوسرے ممالک کی نسبت کم عرصہ میں اور کم کوشش کے نتیجہ میں جماعت کو زیادہ ترقی ہوئی.گولڈ کوسٹ (مغربی افریقہ ) میں ایک وقت میں پچیس ہزار احمدی تھے.موجودہ مبلغ اس بات کو نہیں مانتے.وہ کہتے ہیں کہ

Page 365

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 360 جلد دوم اس وقت سترہ اٹھارہ ہزار احمدی ہیں.لیکن پرانے مبلغ مولوی نذیر احمد علی صاحب کو اس بات پر اصرار تھا کہ گولڈ کوسٹ میں چھپیں ہزار احمدی موجود ہیں.کوئی الفا ( وہاں الفا عالم کو کہتے ہیں ) یا رئیس احمدیت میں داخل ہو گیا تو اس کے ساتھ اس کی ساری قوم احمدیت میں داخل ہو گئی.اسی طرح جب نیر صاحب نائیجیر یا گئے تو لیگوس میں جاتے ہی چار ہزار آدمی ایک ہی دن میں احمدیت میں داخل ہو گئے.چونکہ افریقہ میں ابھی قبائلی سٹم پایا جاتا ہے اس لئے وہاں چیف زیادہ بااثر ہوتے ہیں.اگر یہ چیف جماعت میں داخل ہوتی جائیں تو ان کے ذریعہ دوسرے لوگ بھی احمدیت کو قبول کر لیں گے.اس وقت دو چیف احمدی ہو چکے ہیں لیکن ان کا احمدیت کو قبول کر لینا اتفاقی امر ہے.کسی خاص سکیم کے ماتحت انہیں احمدیت کی طرف نہیں لایا گیا.لیکن اب مبلغین کو ایک سکیم کے ماتحت چیفس اور با اثر لوگوں کو احمدیت کی طرف لانا چاہئے.ملاقات کے موقع پر میں نے انہیں کہا تھا کہ ہمارے پھیلنے کی یہی صورت ہے کہ ہمارے پاس جتھا ہو.اگر نائیجیریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون ہمارے پاس آجائیں اور ان کی اکثریت احمدیت قبول کر لے تو سب لوگ کہیں گے کہ یہ جماعت رد کرنے کے قابل نہیں.فلاں ملک کے سب لوگ اس میں شامل ہیں.اور جب وہ یہ خیال کریں گے کہ ہماری جماعت رد کرنے کے قابل نہیں فلاں ملک میں سب لوگ اس میں شامل ہیں تو سچائی ان کی سمجھ میں آجائے گی.بلکہ میں سمجھتا ہوں اگر ایک ملک کے لوگ بھی احمدی ہو جائیں تو دوسرے لوگوں کو فوراً ہماری طرف توجہ ہو جائے گی اور وہ سمجھیں گے کہ ہم حقیر نہیں.اگر ایسا ہو جائے تو لازما ہماری جماعت دنیا میں پھیل جائے گی.میں نے مبلغین کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنے طریق تبلیغ کو بدلیں.ہمارا پہلا طریق تبلیغ انفرادی رہا ہے اور انفرادی طریق تبلیغ سے کامیابی نہیں ہوسکتی.احادیث میں کئی جگہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے پاس کوئی شخص آیا اور اس نے کہا میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.آپ فرماتے پہلے تم اپنی قوم کے پاس جاؤ اور اسے سمجھاؤ اور قوم کے لوگوں کو الله

Page 366

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 361 جلد دوم ساتھ لے کر آؤ.میں نے مبلغین سے کہا ہے کہ تم بھی کسی چیف یا کسی الفا کو احمدیت کے مسائل سے روشناس کراؤ.جب وہ احمدیت کی تعلیم کو مان لے اور کہے مجھے جماعت احمدیہ میں داخل کر لو تو اسے کہو پہلے تم اپنی قوم کے پاس جاؤ اور اسے ساتھ لاؤ.جب اس کی ساری قوم احمدی ہو جائے تو اس کے لئے بھی اور تمہارے لئے بھی آسانی ہو جائے گی.تم اگر اس قوم کے افراد کے پاس جاؤ گے تو ان میں رقابت پیدا ہو جائے گی.لیکن اگر وہ کی چیف یا الفا جائے گا تو رقابت پیدا نہیں ہو گی.اگر وہ اپنی قوم کے پاس جائے گا تو وہ بڑی آسانی سے اس کے ساتھ مل جائیں گے.اگر ایک ایک چیف کے ماتحت ہیں میں گاؤں بھی ہوں اور ہم یہ طریق اختیار کریں تو بڑی آسانی سے سال بھر میں لاکھوں آدمی احمدیت میں داخل ہو سکتے ہیں.اب تک تو جہاں بھی ہمارا مبلغ گیا ہے وہ غرباء کے پاس جاتا ہے اور انہیں تبلیغ کرتا ہے مگر اب تم نے یہ نقطۂ نظر بدل کر جانا ہے اور تم نے کسی فرد کو تبلیغ نہیں کرنی.تمہیں قوم کے لیڈروں اور علماء کے پاس جانا چاہئے اور جب وہ احمدیت کی سچائی کا اقرار کر لیں تو انہیں اپنی اپنی قوم کے پاس بھیجو تا کہ وہ ساری قوم کو اپنے ساتھ لے کر آئیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کا شاہد لنے میں کچھ وقت ہوتی ہے لیکن اگر اس بات کی اہمیت کا احساس ہو جائے تو یہ کام آسان ہو جاتا ہے.تم کسی ذمہ دار شخص کو پکڑو اور اسے تبلیغ کرو.پھر ا سے اس م کے پاس بھیجو اور کہو تمہارے اکیلے آنے کا کوئی فائدہ نہیں.پہلے تم اپنی قوم کو ساتھ لاؤ.اس طرح تمہیں بھی آسانی رہے گی اور ہماری مشکلات میں بھی کمی ہو جائے گی.پس میں ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم ایسا طریق تبلیغ اختیار کرو کہ افریقہ میں لوگ قوم وار احمدیت میں داخل ہوں.اور تم لوگوں سے خطاب بھی قوم وار کرو.اب تو تمدن میں زیادہ ترقی ہو گئی ہے لیکن بہر حال ایک ایک گاؤں میں کئی کئی قومیں آباد ہوتی ہیں.فرض کرو تم ایک گاؤں میں جاتے ہو اور وہاں ایک قوم آباد ہے.اور اس کے علاوہ وہاں ب ج اور دقو میں بھی آباد ہیں.تمہیں معلوم ہوا ہے کہ (والے احمدیت میں داخل ہونے کے لئے تیار ہیں تو تم ان سے دریافت کرو کہ تمہاری قوم کہاں کہاں آباد ہے.اور پھر

Page 367

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 362 جلد دوم جہاں جہاں ان کی قوم آباد ہو وہاں انہیں بھیجو تا کہ وہ انہیں تبلیغ کریں اور احمدیت میں داخل کریں.پھر تم ب ج د میں سے کسی قوم کی طرف توجہ کرو اور انہیں تبلیغ کرو.اگر ان میں سے کچھ افراد تیار ہو جائیں تو انہیں اپنی اپنی قوم کے پاس بھیجو اور انہیں تاکید کرو کہ وہ اپنی قوم کو اپنے ساتھ لائیں ورنہ ان میں سے کسی کا ذاتی طور پر احمدیت میں داخل ہو جانا زیادہ مفید نہیں ہوسکتا.پھر ہمارے ہاں مسائل پر زیادہ بحث کی جاتی ہے لیکن ان کے ہاں مسائل کی بحث زیادہ نہیں.کوئی ایک مسئلہ لے لو اور انہیں سمجھا دو تو وہ سب مسائل کو درست ماننے لگی جائیں گے.یہاں تو پہلے وفات مسیح پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے اور اس کے بعد نبوت پر بحث ہوتی ہے اور پھر صداقت مسیح موعود پر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے.پھر کفر و اسلام کا مسئلہ آجاتا ہے.پھر حشر اجساد پر بحث شروع ہوتی ہے.غرض جب تک ایک شخص ساری انسائیکلو پیڈیا نہ پڑھ لے وہ اٹھتا نہیں.اس کے مقابلہ میں پہلے مسلمانوں کو دیکھ لو ان میں اس قدر مسائل کہاں تھے.ان کے پاس صرف لا إِلهَ إِلَّا اللهُ تھا اور اس میں زیادہ بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی.پس تم ان اقوام کی سٹڈی کرو اور کوئی ایک بات ایسی لے لو جس کے متعلق قومی احساس زیادہ ہو.مثلاً اس طرف زیادہ تر مالکی آباد ہیں.مالکی نماز میں ہماری طرح ہاتھ باندھتے نہیں ، وہ ہاتھ چھوڑتے ہیں.تم اس مسئلہ کو لے لو اور انہیں کہو کہ رسول کریم ہے نماز میں ہاتھ باندھتے تھے اور اس امر کو احادیث اور فقہ کی کتابوں سے ثابت کرو.جب اس قسم کی ایک روچل جائے گی تو وہ اپنا مذہب ترک کر کے اس رو کے پیچھے چل پڑیں گے.اور جب وہ یہ سمجھ لیں گے کہ ان کے علماء اس مسئلہ میں صحیح راستہ پر نہیں تو وہ دوسرے مسائل میں بھی ان پر اعتبار کرنا ترک کر دیں گے.یہ بات میں نے مثال کے طور پر بیان کی ہے.ویسے تم اپنی اپنی جگہ جا کر ان لوگوں کی سٹڈی کرو اور جس بات کے متعلق تمہیں معلوم ہو کہ ان میں اس کے متعلق زیادہ احساس ہے تم اسے لے لو.اس طریق میں کامیابی کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے.اول یہ کہ کون سے مسئلہ میں قومی احساس عليه

Page 368

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 363 جلد دوم زیادہ ہے.دوسرے یہ کہ ہم کس پہلو کو زیادہ آسانی سے ثابت کر سکتے ہیں.مثلاً ہو سکتا ہے کہ دو باتوں میں قومی احساس زیادہ ہو.لیکن ایک کو ثابت کرنا مشکل ہو.اور دوسری بات فطرت کو زیادہ اپیل کرتی ہو.تیسرے جس مسئلہ کو بھی اختیار کرو اپنی جماعت کو مجبور کرو کہ وہ اس کی پابندی کرے.چاہے اس کا دوسرا پہلو بھی جائز ہو.میں نے ہاتھ باندھنے کی مثال اس لئے دی ہے کہ بعض مبلغین نے لکھا ہے کہ بعض اوقات لوگوں سے ہاتھ باندھنے پر بحث ہو جاتی ہے.اور جب حوالے دکھا کر اپنا مسلک ثابت کیا جاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں ہمارے علماء تو غلط بات پیش کر رہے ہیں.پس اس قسم کا کوئی مسئلہ لے کر تم اس قوم کے لئے چڑ بنا دو.اور پھر اسی مسئلہ پر بحث کرو اور ان پر ثابت کرو کہ تم جس طریق پر عمل کر رہے ہو وہ درست نہیں.اور جب یہ بات ان پر ثابت ہو جائے تو اس مثال کو پیش کر کے تم ان سے کہو کہ علماء نے اسی طرح دوسرے مسائل میں بھی تمہیں غلط باتیں بتائی ہیں.تم جب کوئی مسئلہ لو گے مخالف علماء اس پر زیادہ زور دیں گے اور اپنے طریق کو درست ثابت کرنے کی کوشش کریں گے.اور جب اس پر کسی قوم میں زیادہ زور دیا جائے گا تو تمہارے لئے رستہ زیادہ آسان ہو جائے گا.تم حوالے پیش کر کے قرآن کی اور حدیث اور سنت سے اپنے طریق کو ثابت کرو اور جب وہ بات ان لوگوں پر واضح ہے جائے گی تو وہ علماء کو خود بخود غلطی خوردہ خیال کرنے لگ جائیں گے.تمہاری بات زیادہ توجہ سے سنیں گے.پس تم افریقہ میں قوم وار چلو، گاؤں وار تبلیغ کرو اور قبائل اور جتھوں کو خطاب کرو.پھر اگر کسی قوم میں سے کچھ لوگ تمہاری بات مان لیں اور بیعت کے لئے تیار ہو جائیں تو انہیں کہو تم اپنی قوم کے پاس جاؤ اور انہیں تبلیغ کر کے ساتھ ملا ؤ اور پھر بیعت کرو ورنہ تمہیں ایک دو افراد کی بیعت کا کیا فائدہ.چھوٹے چھوٹے قبائل کو بے شک علیحدہ علیحدہ بھی مخاطب کر لو میں اس سے منع نہیں کرتا.لیکن بڑے قبائل اور بڑی اقوام کو ہمیشہ قوم وار مخاطب کرو.ایک بات میں نے ان سے یہ بھی کہی ہے کہ دوسرے لوگ باہر جاتے ہیں تو وہ اپنے ہو

Page 369

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 364 جلد دوم وقار کا خاص خیال رکھتے ہیں لیکن ہمارے مبلغین کی اس طرف توجہ نہیں.مبلغین کو یہ بات ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ غیر ملکوں میں ان کی عزت زیادہ ہوتی ہے.مثلا تم میرے سامنے آتے ہو تو میں تمہیں تم تم کہہ کر مخاطب کرتا ہوں.اس کے علاوہ اگر کوئی تمہارا استاد سامنے آجاتا ہے تو اس کے سامنے بھی تم اس کے شاگرد ہوتے ہو لیکن باہر تم استاد ہوتے ہو اور دوسرے لوگ تمہارے شاگرد ہوتے ہیں.تمہیں باہر جا کر اس قسم کی ذہنیت کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ تم محض ” جی حضور یے“ بن کر نہ رہ جاؤ.تم کمشنروں اور گورنروں سے بے دھڑک ملو.یہاں تو تم ایک تحصیلدار سے بھی نہیں مل سکتے لیکن وہاں تمہاری پوزیشن اس قسم کی ہوتی ہے کہ تم بے دھڑک کمشنروں اور گورنروں سے مل سکتے ہو.انہیں کیا پتہ ہے کہ تم کس کے شاگرد ہو.تمہاری پوزیشن وہاں ایک سفیر کی ہوتی ہے.تم وہاں جا کر اپنی ذہنیت کو بدل لو اور ڈر اور خوف کو اپنے پاس نہ آنے دو.یہاں تم ماتحت ہو اور درجہ میں دوسروں سے نیچے ہو.اگر ہماری عمر میں ایک ہزار سال کی بھی ہوں اور تمہاری عمر 900 سال کی ہو جائے تب بھی تم ما تحت ہو گے اور تمہاری گردنیں ہمارے سامنے جھکی ہوں گی.لیکن جب تم باہر جاؤ گے تو تم ایک بڑی جماعت کے لیڈر اور نمائندہ ہو گے.اور دوسرے لوگ تمہاری اس پوزیشن کا لحاظ رکھیں گے.اس لئے جب تم باہر جاؤ تو کسی بڑے عہدیدار سے ڈرو نہیں.تم ان سے مساوی رنگ میں گفتگو کرو.تم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کو ہی دیکھ لو.انہوں نے گولڈ کوسٹ میں ایک مسجد بنائی اور اس موقع پر ملک کے وزیر اعظم کو بھی بلایا اور وہ آ گیا.اور پھر وہ صرف مسجد کے احترام کی وجہ سے آ گیا.گیسٹ آف آن کے طور پر اس قسم کے لوگ بے شک آجاتے ہیں لیکن عام مہمان کی حیثیت سے ان کا آنا مشکل ہوتا ہے.لیکن وہاں یہ حالت تھی کہ وزیر اعظم کو اس موقع پر صرف شمولیت کے لئے بلایا گیا اور وہ آ گیا.لیکن یہاں مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی پوزیشن ایک ماتحت کی ہے اور میرے سامنے تو ان کی پوزیشن ایک بچہ کی سی ہے اور پھر ان کے یہاں استاد بھی ہیں لیکن وہاں وہ کسی کے پاس جائیں تو وہ یہ سمجھے گا کہ ایک بڑی جماعت کا ہیڈ مشنری

Page 370

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 365 جلد دوم وو میرے پاس آیا ہے.پس باہر جا کر تمہاری پوزیشن ایک ایمبیسیڈر کی ہوتی ہے اور تمہیں اس پوزیشن کو برقرار رکھنا چاہئے.یہاں آؤ تو اپنے آپ کو ماتحت خیال کرو اور باہر جاؤ تو اپنے آپ کو ایمبیسیڈر خیال کرو اور اسی پوزیشن سے افسران کے ساتھ گفتگو کرو.یہاں جو لوگ ایمبیسیڈر بن کر آتے ہیں اپنے ملک میں ان کی پوزیشن زیادہ نہیں ہوتی.ان میں سے بعض معمولی تاجر ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے ملک کی طرف سے سفیر ہوتے ہیں اور بعض اوقات اس بات کا اقرار بھی کر لیتے ہیں.مثلاً شامی سفیر مجھے ملا تو اس نے مجھے علیحدہ ہو کر کہا کہ میں آپ کا بہت ممنون ہوں، میں نے اپنے ملک میں آپ کا لٹریچر پڑھا تھا اور اس کا مجھ پر بڑا اثر ہے.لیکن اب وہ یہاں سفیر بن کر آیا ہوا تھا.تمہاری حیثیت بھی بیرونی ممالک میں سفیروں کی سی ہے اس لئے تمہیں اس بات کو بھولنا نہیں چاہئے.پھر زبان دانی کی طرف بھی خاص توجہ کرو.اس وقت ہمارے مبلغ جہاں بھی گئے ہیں وہاں انگریزی غالب ہے.اگر ہمارے مبلغ انگریزی جانتے ہوں تو انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آ سکتی.کیونکہ ہمارا کوئی مبلغ ایسا نہیں جس کی انگریزی کی بنیاد اتنی نہ ہو کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد انگریزی زبان میں اپنے مافی الضمیر کو ادا نہ کر سکے.پس تم جہاں جہاں جاؤ انگریزی زبان کو دھڑلے سے استعمال کرو.چاہے تم غلط سلط انگریزی بولو لیکن دھڑلے سے بولو.اس طرح آہستہ آہستہ زبان خود بخود آ جائے گی.یہاں جو لوگ دوسرے ممالک سے آتے ہیں انہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہ بے دھڑک انگریزی بولتے ہیں اور گرائمر کی غلطیوں کی پرواہ نہیں کرتے.یہی وجہ ہے کہ جس بے تکلفی سے وہ انگریزی بولتے ہیں ہمارے گریجوایٹ بھی نہیں بول سکتے.پس مبلغین کو چاہئے کہ وہ جو جو زبانیں جانتے ہیں انہیں وسعت دیں.مثلاً مغربی افریقہ میں بعض شامی تاجر آباد ہیں جو عربی زبان جانتے ہیں.اگر تم ان سے عربی زبان میں گفتگو کرنے کی عادت ڈال لو تو تمہاری زبان صاف ہو سکتی ہے.اسی طرح انگریزی زبان بھی مغربی افریقہ میں ہر جگہ بولی اور -

Page 371

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 366 سمجھتی جاتی ہے اس میں بھی ترقی کی جاسکتی ہے.جلد دوم پھر میں نے مبلغین میں ایک نقص یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ رپورٹ بھیجنے میں کوتاہی کرتے ہیں اور یہ چیز درست نہیں.جب انہیں ڈانٹا جاتا ہے تو کہتے ہیں ہمیں اور بہت سے کام ہیں.دنیا میں حکومتوں نے ایڈ منسٹریشن کے لئے مختلف قانون بنائے ہیں اور یہ قانون بڑی بڑی ایمپائرز نے بڑے تجربہ کے بعد بنائے ہیں.ان قوانین میں سے ایک اہم قانون یہ ہے کہ کارکن اپنے کام کی رپورٹ ضرور دے.وہ کام بے شک چھوڑ دے لیکن رپورٹ بھیجنے میں کو تاہی نہ کرے.کام مقدم نہیں رپورٹ بھیجنا مقدم ہے.اگر تم رپورٹ بھیجتے ہو اور کام کچھ نہیں کرتے تو ہم تم سے جواب طلبی کریں گے.اور اگر رپورٹ نہیں بھیجو گے تو تم کام چاہے کتنا بھی کر دوہ کام ہماری نظروں میں بیکار ہوگا.اگر مرکز کو علم ہی نہیں کہ تم کیا کام کر رہے ہو تو وہ ہدایت کیسے بھیج سکتا ہے.رپورٹ بھیجو گے تو وہ تمہارے کاموں کا جائزہ لے سکے گا.اور اگر تم کوئی غلط کام کر رہے ہو تو وہ تمہاری اصلاح کر سکے گا.پس تمہارا کام سبھی مفید ہو سکتا ہے جب تم جہاں جاؤ اپنے کام کی رپورٹ باقاعدہ بھیجتے رہو.پھر رپورٹ اس قسم کی نہ ہو کہ میں فلاں سے ملا ، فلاں سے یہ گفتگو کی.فلاں کو میں نے اپنے پاس بلایا.بلکہ اپنی رپورٹ میں ملک کا جغرافیہ اور تاریخ لکھو.اس کے سیاسی حالات لکھو.پھر لکھو کہ ان حالات میں تبلیغ کا کام کیسے ہو رہا ہے.یہ نہیں کہ میں فلاں گاؤں گیا.وہاں ایک دن ٹھہرا.تقریر کی اور واپس آ گیا.بلکہ تمہاری رپورٹ میں مذکورہ بالا تمام پوائنٹس آنے چاہئیں کہ فلاں جگہ اس رنگ میں تقریر کی گئی اور فلاں پوائنٹ کی وضاحت کی گئی.اسی طرح مضامین لکھو اور ملک میں شور مچادو.قوم وار تبلیغ کرو اور اپنے کام کی با قاعدہ رپورٹ بھیجتے رہو.تا مرکز تمہاری رپورٹ کے مطابق تمہیں اپنی ہدایات بھیج سکے.“ (الفضل 5،4 فروری 1961ء) 1: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان (النصر : 2 ،3)

Page 372

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 367 جلد دوم کوشش کرو کہ دین کی خاطر وطنوں کو خیر باد کہنے اور روحانی نو آبادیاں قائم کرنے کا جذ بہ تمہارے اندر نسلاً بعد نسل زندہ رہے 14 جنوری 1956ء اساتذہ و طلباء جامعتہ المبشرین کی طرف سے مکرم مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین کی آمد اور مکرم مولوی محمد احمد جلیل صاحب استاذ جامعہ کی جامعہ سے دفتر تفسیر القرآن روانگی پر ان کے اعزاز میں دعوت دی گئی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرما یا اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے:.وو مولوی محمد شریف صاحب سالہا سال تک اپنے والدین اور عزیز و اقارب سے جداره کر غیر ممالک میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کرتے رہے ہیں.انہوں نے اپنے وطن ، گھر بار اور عزیز و اقارب سے یہ طویل جدائی خدمت دین کے لئے برداشت کی.جو حالات ان کو پیش آئے ہیں ان میں سے گزرنے کے لئے ہر ایک کو تیار رہنا چاہئے.کیونکہ ان چیزوں سے جدائی اختیار کئے بغیر دنیا میں دین کی اشاعت نہیں ہو سکتی.اس موقع پر حضور نے اپنا ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے بتایا کہ جو قوم دنیا میں باہر نکلنے اور نو آبادیاں قائم کرنے کا شدید اشتیاق رکھتی ہے وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی.حضور نے فرمایا اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک ہم میں یہ سپرٹ قائم رہے گی کہ ہم خدمت دین کی خاطر اپنے وطنوں کو خیر باد کہنے میں رضا بالقضاء کا نمونہ دکھائیں اور تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر کے دنیا میں روحانی نو آبادیاں قائم کرتے چلے جائیں اُس وقت تک خدا کی تائید و نصرت اور

Page 373

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 368 جلد دوم اس کی حفاظت ہمارے شامل حال رہے گی اور ہم دنیا میں ترقی کرتے چلے جائیں گے.حضور نے خطاب جاری رکھتے ہوئے فرمایا.دنیا میں جتنی بھی فاتح قو میں گزری ہیں انہوں نے پہلے اپنے وطنوں کو چھوڑا اس کے بعد ہی انہیں فتوحات نصیب ہوئیں.عربوں نے اپنے وطن کو چھوڑا، ترکوں نے چھوڑا، یہودیوں نے چھوڑا ، آرین نسل کے لوگوں نے چھوڑا اور وہ دور دور ملکوں میں پھیل گئے.اگر وہ اپنے وطنوں کو نہ چھوڑتے تو انہیں فتوحات نصیب نہ ہوتیں اور وہ نئے نئے ملکوں کے وارث نہ بنتے.پس اگر ہمیں بھی خدا کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے وطن چھوڑنے پڑیں تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں.قربانیوں کا تسلسل اس موقع پر حضور نے جامعتہ المبشرین کے طلبہ کوخصوصیت سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.ایک ہجرت قومی ہوتی ہے اور ایک ہجرت فردی ہوتی ہے.حکیم فضل الرحمن صاحب مرحوم ، مولوی محمد شریف صاحب، مولوی جلال الدین شمس صاحب اور اسی طرح ہمارے دوسرے مبلغوں نے اپنے وطن سے دس دس پندرہ پندرہ سال مهجوری اختیار کر کے دوسرے ممالک میں دین کی خدمت کا فریضہ ادا کیا وہ فردی ہجرت کا ہی ایک نمونہ ہے.ان سب کی مثالیں تمہارے سامنے ہیں.ان قربانیوں کے تسلسل کو قائم رکھنا تمہارا کام ہے.اگر قربانیوں کا یہ تسلسل جاری رہے تو پھر فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ ایسی قوم کبھی ضائع نہیں ہو سکتی.جو قوم قربانیوں کے تسلسل کو جاری رکھتی ہے یعنی اس میں قربانیوں کا سلسلہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتا چلا جاتا ہے تو پھر اس قوم کا ہر فرد بجائے خود ایک امت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے اور اس کو ایک طرح سے دائمی زندگی حاصل ہو جاتی ہے.کیونکہ افراد مر سکتے ہیں امتیں نہیں مرتیں.انہی معنوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا ہے اِنَّ اِبْرهِیمَ كَانَ أُمَّةً 1 کہ ابراہیم ایک امت تھا.یہی وجہ ہے کہ ابراہیم کا نام آج تک زندہ ہے اور ہم ان کے نام پر درود بھیجتے چلے آ رہے ہیں.اسی لئے میں نے وقف کی تحریک کے متعلق تمہیں کہا تھا کہ تم خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کو اپنی نسلوں

Page 374

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 369 جلد دوم میں جاری رکھو اور اس بات کا عزم کرو کہ تمہارے خاندانوں میں یہ تحریک چلتی چلی جائے گی اور ہر نسل میں ہر خاندان کا کوئی نہ کوئی فرد خدمت دین کے لئے ضرور آگے آتا رہے گا.اس طرح تم میں سے ہر شخص ایک امت کی شکل اختیار کر لے گا اور اس کا نام چلتا چلا جائے گا.کیونکہ امت کی عمر کو دائمی قسم کی زندگی کہتے ہیں.پس یہ عہد کر لو کہ تم اپنے اندر ہی نہیں بلکہ اپنی کی نسلوں میں بھی اس روح کو زندہ رکھو گے.اللہ تعالیٰ نے جہاں حضرت ابراہیم کو ان کی قربانی کی وجہ سے امت قرار دیا ہے وہاں ساتھ ہی ہم کو ان کی پیروی کرتے ہوئے اسی اسوہ پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے.جیسا کہ فرمایا اتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَهِمَ مُصَلَّى - 2 روحانی نو آبادیاں تقریر کے آخر میں حضور نے فرمایا.اسی طرح جہاں تم خود اپنے وطنوں کو خیر باد کہو وہاں باہر جا کر روحانی نو آبادی قائم کرنے کے اشتیاق کا پورا پورا مظاہرہ کرو.جہاں تمہارا اپنا وجود ایک امت کی طرح ہو وہاں تم ایک دو کو نہیں بلکہ امت کی امت کو اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں داخل کرو.باہر جا کر ایک یا دو کو احمدی بنانا کافی نہیں ہے بلکہ چاہئے کہ کروڑوں کروڑ انسان اور ملک کے ملک تمہارے ذریعہ قبول حق کی سعادت حاصل کریں.حضور نے فرمایا.پس تم میں سے ہر شخص کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ ایک امت بن جائے.وہ خود بھی خدمت دین کی روح کو زندہ رکھے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کے لئے تیار کرے تادین کے ایسے خادموں کی ایک امت کے بعد دوسری امت پیدا ہوتی چلی جائے یہاں تک کہ وہ زمانہ آ جائے کہ دنیا میں ہر طرف اسلام ہی اسلام ہو.اگر اس عزم کے ساتھ تم دین کی خدمت کرو گے اور کرتے چلے جاؤ گے تو خدا یقیناً تمہاری مدد کرے گا اور کامیابی ضرور تمہارے قدم (الفضل 17 جنوری 1956ء) چومے گی.“ 1: النحل : 121 2: البقرة: 126

Page 375

Page 376

انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات 3 11 12 13 18 21

Page 377

Page 378

ابتلا ابتلا کے وقت مومنوں اور غیر مومنوں کے درمیان امتیاز ہو جاتا ہے احمدی ہر احمدی حضرت مسیح موعود کے 148 3 مضامین احمدیت کی طرف لانے کیلئے وسیع اسلام انسان کی فطرت کو کچلتا نہیں سکیم 361 | چاہتا اسلام فطرت کا صحیح استعمال احرار 1934ء میں احرار کی ا کیٹیشن 281 سکھاتا ہے اراول اسلام اجتماعی اصلاح کیلئے بھی اراذل سے مراد وہ لوگ جو اپنی آیا ہے 262 265 273 الہامات کو دیکھے ایک احمدی دوسرے احمدی کا روحانی رشتہ دار ہے ہر احمدی سے محبت اور خوش خلقی سے پیش آنا چاہئے سب عزتیں احمدی ہونے کی وجہ 150 شوکت کھو چکے اردو 27 27 227 سیکھیں 227 اساننده اب اردو کے حامل احمدی ہوں گے 88 اردو حضرت مسیح موعود کی کتب سے دوسروں کی اصطلاحات سے 88 مرعوب ہونا بیوقوفی ہے اصطلاحات کیا ہیں ، باریک علوم کو سمجھنے کے اشارے اصطلاحات اسلامی اصطلاحات سے ہمارا گہرا تعلق ہونا چاہئے 100 126 126 سے ہیں 233 اساتذہ کے اعمال کو نمونہ نہ سمجھو اصلاح 308-307 احمدیت اربوں انسانوں کی اصلاح اساتذہ جامعہ اپنے اندر روحانیت سلسلہ احمدیہ کی بنیا دروحانیت پر ہے 11 پیدا کریں 314 احمدیت کی کامیابی کا طریق 22 تا 25 استقلال احمدیت کا کام ساری دنیا میں انصاف قائم کرنا ہے اپنے اندر استقلال پیدا کرو 208 227 ہمارے ذمہ ہے 254 اطراف اطراف دو انتہائی حدود کو کہتے ہیں 26 اعتراضات سلسلہ احمدیہ کی بنیاد مضبوط ہونا اسلام ضروری ہے اعتراضات کا جواب دینے کیلئے 303 اسلام اس لئے آیا کہ بنی نوع انسان دشمن کے خیالات کا علم ضروری ہے 8 میں محبت اور اخوت قائم کرے 208

Page 379

4 اللہ تعالیٰ.صفات جب خدا کسی پر نازل ہوتا ہے تو اسے تبلیغ پورا نور اور عرفان عطا کرتا ہے اعلیٰ خاندانوں کو تبلیغ.کامیابی کا دنیا کے سب تغیرات صفات الہیہ بہترین ذریعہ کا ظہور ہیں 12 تبلیغ کیلئے عمدہ اخلاق اور نرم لہجہ اللہ تعالی سے زیادہ صادق الوعد اور کون ہے 48 امانت کی ضرورت تبلیغ میں آسان باتیں بتا کر خشیت پیدا کرو امانت و دیانت لازوال دولت ہے 100 تبلیغ میں نرمی اور استقلال ہو انبیاء اچھا نمونہ بہترین تبلیغ انبیاء کے کلام کے کئی بطن ہیں 280 متمدن دنیا میں تبلیغ کا کام کرنا انسان بہت مشکل 27 28 55 91 91 267 تحریک جدید میں کئی باتیں مخفی ہیں تحریک جدید القائے ربانی سے ہوئی 180 190-188-180 اسلام کے قیام کا واحد ذریعہ تحریک جدید میں آ گیا 181 اساتذہ ہفتہ میں ایک دو لیکچر تحریک جدید کے متعلق دیں 182 تحریک جدید جاری کرنے کی غرض 187 خدا یہ سکیم میری زبان پر جاری کرتا گیا 189.188 جماعت کو اپنی ترقی کیلئے اس تحریک کو سمجھنا ضروری ہے 190 انسانوں کی دو اقسام 118 انفرادی طریق تبلیغ سے کامیابی تحریک جدید کی باتیں ایک صدی انگریزی نہیں ہو سکتی انگریزی کے بعد دوسری زبانیں قوم کے لیڈروں اور علماء کو احمدی 360 361 کیلئے ضروری ہیں 190 تحریک جدید کا مطالبہ.سادہ زندگی 253 تصنیف تصنیف کا کام مبلغین کا اہم کام 127 تعداد تعداد کی زیادتی کا قوموں کی ترقی سیکھنا آسان ہو جاتا ہے و بنانے کی تلقین تبلیغ میں کامیابی کے تین گر 363-362 بچوں کے ولولہ انگیز مختلف ممالک کا طرز تحریر جداگانہ واقعات 195193 بورڈنگ بورڈ نگ تحریک جدید میں بچوں پیدا کرنا کے داخلہ کا مقصد 205 تحریک جدید تحریک جدید کا مقصد قربانی کی روح 179 تعلق باللہ جو خدا سے سچا تعلق رکھتے ہیں وہ مرکز بھی زندہ رہتے ہیں 9 سے گہرا تعلق ہے 267 337

Page 380

5 تقریب جدائی خاندان مسیح موعود کے معزز بننے 48،47 کا طریق تقریر سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے 249 جدائی دو قسم کی ہوتی ہے تقریر کے متعلق ہدایات 348 تا 350 جماعت احمدیہ جماعت کا مغربی ممالک میں جانا تقوی مفید ہوگا تقوی کا لباس سب لباسوں سے بہتر ہے توکل 233 خدمت 235 حقیقی بڑائی خدمت سے حاصل 140 ہوتی ہے خاندان کی وجہ سے نہیں 233 جماعت کو مبلغین کی قربانیوں کی امتیاز خدمت کرنے میں ہے 235 قدر کرنے کی تلقین 220 226 | خدمات جماعت احمدیہ کا صحابہ کی طرح سابق مبلغین کی خدمات کی تمام کاموں کی بنیاد تو کل پر ہونی مصائب جھیلنا 242.241 252 قدر کریں چاہئے 68 جماعت کو تحریک جدید پر عمل پیرا خطره ج ہونے کی تلقین 253 جماعت کیلئے ایک بڑا خطرہ اور اس 1934ء سے جماعت کو ایک نئی کا علاج 302-301 جامعہ احمدیہ زندگی ملی 281 اساتذہ جامعہ احمدیہ کو خطرات جماعت احمدیہ کا ایک فرض ہر خوبی اور کمال کے ساتھ خطرات زبردست نصائح طلباء جامعہ کو نصائح 314 316.315 کمیونزم کا مقابلہ طلباء جامعہ کی صحت کا خیال 304 乙 ہوتے ہیں 15 رکھا جائے خلافت خلافت ثانیہ میں جماعت کی ترقی 44 347 جامعہ کے طلباء کے قرآن حقیقی حمد اور توصیف وہی ہے جو خلافت ناشیہ کی ابتدائی کمزور خدا کی طرف سے ہو 35 حالت اور نصرت 67.66 غلط پڑھنے پر افسوس 348.347 جامعہ کے طلباء کو زائد مطالعہ کیلئے خ خوبی ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خوبی ہوتی وقت نکالنا چاہئے 350 خاندان ہے 29 جامعہ احمدیہ کے طلباء کو مقالہ کے خاندان مسیح موعود کی ذمہ داریاں بارہ میں ہدایات 353،351 354 250 226

Page 381

6 دعائیں جس انسان کے پیچھے کثیر دعائیں کر دیا ہے جاسکتی ہیں جہاں وہ بولی جاتی ہے 21 شکار عرب ممالک نے زبان کو سخ فطرت انسانی میں شکار کا مادہ پایا 258 21 جاتا ہے ہوں اس کی مشکلات آپ حل شهد ہوتی ہیں 139 سائنس شہد کی مکھی کے فضائل 318 شہد کی مکھیاں ایک ملکہ کے ماتحت دنیا سائنس و مذہب میں کوئی تضاد نہیں 40 ہوتی ہیں 318 دنیا ہر ملک کی محتاج ہوتی ہے 269 سائنس خدا سے فعل کا نام ہے شهد الہام اس کا قول 125:40 اصل شہید وہ لوگ ہوتے ہیں جو ربانی سادگی خدا تعالیٰ کی محبت میں مارے ربانی کے معنی 179 عقلمند انسان ہمیشہ ربانی ہوتا ہے 179 زندگی کے ہر شعبے میں سادگی کی جاتے ہیں 337 رپورٹ رپورٹ کام کا اہم جزو ہے روحانیت اپنے اندر روحانیت پیدا کرد 13 سوال ضرورت 253 | شیطان سکول شیطان کو مایوس کرنے کا 273 طریق 339.338 سکولوں کے قیام کی اغراض 4538 روحانیت کے حصول کا طریق 13 سوالوں کے جواب دینے کا طریق 246 صحابہ ص کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ 13 ش روحانیت کا اظہار قلبی کیفیات سے ہو 13 شاعر روحانیت ہر انسان کیلئے مقدم ہے 17 شاعر کو شعر کہنے کیلئے کسی محرک کی صحابہ نے دوستیں کمائیں مگر دین کی راہ میں خرچ کرتے رہے صبر سنگدلی کا نام نہیں 254 47 138 274 روحانیت کے حصول کے تین ذرائع 18 ضرورت ز شرک زبان زبان کی باریکیاں اسی ملک میں سیکھی سمندری سفر کے بعد صحت شرک خفی کی ایک قسم 47 درست ہو جاتی ہے ہو جاتی

Page 382

7 345 زبان سیکھیں محنت کیلئے صحت کی بھی ضرورت ضروری ہے کہ عربوں کی موجودہ علماء کا فرض کمیونزم کا مقابلہ ہے 20 علماء کے کسی حصہ میں غفلت 305 قرآن کی عربی اور ہے اور عربوں b خطر ناک ہے 309 کی اور ہے 20 20 طالب علم طالب علم بھی بڑے آدمی کی طرح خدمت کر سکتا ہے 106 طالب علمی کے زمانہ کی چھوٹی عیسائی عیسائیوں نے ہمارے مقابلہ میں علم اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی صفات سے واقف ہونے کا نام ہے 12 پندرہ بیس ہزار افراد عیسائی بنالئے 270 قربانیاں بہت اثر رکھتی ہیں 107 طلباء العِلمُ حِجَابُ الاكبر كى تشريح 14 غ ہر علم کی کتابیں پڑھی جائیں اور ان غرباء سے فائدہ اٹھایا جائے 126 ہائی اسکول کے طلباء دنیوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم بھی سیکھیں 40 طلباء تحریک جدید کا مقصد یا درکھیں 177 ا علوم دینی اور دنیاوی علوم ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں علماء 10 7 غرباء سے ہمیشہ ملتے رہنا چاہئے 232 فتح ف دنیا کی فتح کو اپنا مقصود بنائیں 290 فرقه علماء کو زبا نہیں سکھانے کی سکیم 8 تا 10 فرقے کیسے بنے تحریک جدید کے طلباء کا مقصد مغربیت کی روح کو کچلنا 178 احمدی اور غیر احمدی علماء میں فرق طلباء مختلف علمی کتب کا مطالعہ کریں 312 طلباء جامعہ قرآن پر غور وند برکریں 313 طلباء غور کریں کمیونزم کا کیسے مقابلہ کیا جائے طلباء جامعہ کو سوشلزم کا لٹریچر پڑھنا چاہئے علماء اپنی تحریر و تقریب مسیح موعود کی 313 تحریروں کے مطابق بنائیں علماء کو روحانیت کا اظہار رفتار، گفتار، حرکات سے کرنا چاہئے 313 علماء تبلیغ کرنے والے لوگ پیدا ع عربی عربی سیکھنے کے طریق 20 | اردگرد فوج ہو کریں 11 | قرآن 12 ق قرآن کے الفاظ سہل اور دلائل میں سادگی ہے 113 قرآن کا انگریزی ترجمہ جلد شائع علماء آفیسرز کی طرح ہیں جن کے کرنے کی ضرورت 113 قرآن مجید کے بطون ہیں 169 54 135 136

Page 383

8 قربانی قربانی کی روح دلوں پر اثر ڈالتی ہے اصل اور حقیقی قربانی مغربی رو کا مقابلہ کیلئے اپنے اندر کمال پیدا کرو 230 سے تعلقات پیدا کریں کمیونزم 28 مبلغ کا کلام دل شکنی کا باعث نہ ہو 28 107 کمیونزم کا مقابلہ ہماری جماعت کا مبلغین میں تنگ دلی اور تنگ ظرفی اہم ترین فرض ہے 304 نہ ہو 165 کمیونزم اسلام کے خلاف ہے 305 مبلغین کیلئے عمل کرنا ضروری قوموں کی زندگی کیلئے جماعتی کمیونزم کا مقابلہ کرنے کیلئے ہے قربانی کی ضرورت 183 نئے افکار کی ضرورت 306 مبلغین کو ایک خطرہ کی نشاندہی میں مبلغین کی دعوت کرتا ہوں قربانیاں کمیونسٹ 2 29 30.29 32 64 مبلغین مسیح موعود کے ذریعہ ملنے والی کمیونسٹ تحریک سے متعلق پوری حقیقی قربانیوں کیلئے تیاری کی ضرورت تمام قربانیاں خدا کی رضا کیلئے ہونی چاہئیں کام ک کام کے اہم جزو.افسروں کی 23 معلومات حاصل کریں 72 ل لٹریچر جماعت کے نوجوانوں کولٹر پچر کا مطالعہ کرنا چاہئے 274 نعمت کی قدر کریں 80 مبلغین اپنے ارادوں کو بلند کریں 80 مبلغین دعاؤں پر زیادہ زوردین 91 مبلغین اپنے اوقات کی حفاظت کریں 245 مبلغین کو جماعت کی ہر بات کا خیال 114 115 اطاعت باقاعدہ رپورٹ انجمنیں بنانا آسان اور کام کرنا مشکل ہے 290 93 مبلغین مبلغین روحانیت کی طرف توجہ کریں 15 مبلغ اللہ سے تعلق بڑھانے کی 17 نوجوان مبلغین میں خشیت اللہ کی کمی 17 مبلغین ایسے رنگ میں کام کریں ہونا چاہیے مبلغین جماعت کی تربیت کی طرف توجہ کریں مبلغین کے کام 115 123 مغربی ممالک میں کام کرنے والے مبلغین کو ہدایات 157 تا200 مغرب کے مقابلہ میں مبلغ کامیابیاں کوشش کریں کامیابیاں تنزل کا پیج ضرور لاتی 119 ہیں کمال دوسروں میں جذبہ محبت پیدا کرنے کہ جھگڑے فساد کا شائبہ نہ ہو کی قربانی 163.162 28 مبلغین ماسٹروں اور طالب علموں مغرب میں جانے والے مبلغین مغربی رو کا مقابلہ کریں 164

Page 384

339 83 313 139 141 9 ہر فرقہ کسی نہ کسی کمزور مبلغ کی مبلغ کی دعوت دوسروں کے دلوں کی نگرانی کیلئے ہے تبلیغ کا نتیجہ ہے 169 170 میں احساس پیدا کرنا 293 مصیبت مغربی ممالک کے مبلغین کو اسلامی مبلغین کا رخصت کے بعد ریفریشر ہر مصیبت میں بھلائی کا پہلو بھی ہوتا تعلیم پر عمل کی تاکید 176 | کورس مبلغین کی مشکلات 312 ہے مبلغ ہر ملک کیلئے آدم 340 | مطالعه 221، 251 253 مبلغین کو ایک سکیم کے تحت با اثر کتاب کے مطالعہ کا طریق مبلغین، پہلے مبلغین کی خرابیاں لوگوں کو احمد بیت کی طرف احمدیت ربیت نہ بیان کریں 241 لانا چاہئے 360 مغربیت اور اسلام کے درمیان مبلغین ایک دوسرے سے مبلغین زبان دانی کی طرف توجہ دیوار بنانے کی ضرورت تعاون کریں 242 | کریں 365 ہم میں ایک طبقہ مغربیت کے اثر کے نیچے ہے مغربی افریقہ کے مبلغین مبلغین رپورٹ بھجوانے میں ہمارا فرض ہے کہ مغربیت کا مقابلہ کی تعریف 242 243 کوتا ہی کرتے ہیں مبلغین کی گفتگو، تقریر اور تلفظ مدرسہ احمدیہ 366 کریں 144.143 تم کو مغربیت کو کچلنے کیلئے کھڑا کیا درست ہو 247 مدرسہ احمدیہ کے قیام کی غرض گیا ہے 173 ہر مبلغ کا پہلا فرض اعلی اخلاق کا مذاق مغربیت ساری بیماریوں کی جان نمونہ دکھانا 247 آیات قرآنی، احادیث سے مذاق ہے 177 مبلغ چین اور ایران کو سنگدلی کی علامت 217 دنیا کا واحد علاج مغربیت کو ہدایات 273 تا 277 | مرکز کچلتا ہے 177 228 227 مبلغ کا کام یہ ہے کہ ملک کے مذہبی تبلیغ کیلئے مرکز کی ضرورت 112 ہمارا ایک مقصد مغربی تمدن کو سیاسی، تمدنی، اقتصادی حالات ہمارا مرکز کمزور ہے 247 مرکز کے ہر لفظ کی اطاعت دیکھے ایک مبلغ دوسرے کو اپنی جگہ لانے ضروری ہوگی کی کوشش کرے 274 مرکز صرف جماعت کے کمزوروں 302 کچلنا ہے ملازمت 310 اعلیٰ ملازمت سے کبر نہیں ہونا چاہئے

Page 385

10 منافق نسلیں منافقوں کے متعلق مجھے رپورٹ آئندہ نسلوں کی تربیت کا ایک وقت کو ضائع کرنا نا پسندیدہ امر ہے 312 302 کرنی چاہئے مومن 168 اہم پہلو نصرت الہی ہدایات مومن قربانی کرتا اور فخر سے نصرت الہی کے حصول کا طریق 66 ولایت جانے والے مبلغین کو اجتناب کرتا ہے 199 | نظام ہدایات 279.278 مومن مصیبتوں سے ڈرا نہیں میری طبیعت نظام کے بارے میں کرتے 208 | سخت ہے 61 مومن خود اپنی ذات میں مرکز یقین شمونه ہوتا ہے 339 اصلی تغیر نمونہ سے پیدا ہوتا ہے 273 نبی واقف زندگی ترقی کیلئے پہلی چیز یقین ہم ترقی کا یقین الہام کی بناء پر رکھتے ہیں یقین کیلئے ضروری ہے کہ کوشش 78 79 نبی اس وقت آتا ہے جب دنیا دین ہر واقف زندگی اپنے آپ کو بھی کی جائے سے ناواقف ہو نبی دنیا میں انقلاب پیدا کرنے 84 سالہ کا ستون سمجھے 279 کیلئے آتا ہے 85 151

Page 386

11 آیات قرآنیہ الاعراف الاحزاب لِبَاسُ التَّقْوى ذَلِكَ خَيْرٌ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي (27) 149 التوبة 233 رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ (22) 170 369 كَلِمَةُ اللهِ هِيَ الْعُلْيَا (40) 24 (24) 285-185-22 فَمِنْهُمْ مِّنْ قَضَى نَحْبَهُ الصفت يَابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ 195 133 67 70 286 26 (103) أَجَعَلَ الأَلِهَةَ الهَا وَاحِدًا 368 (6) الحديد هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ (4) 261 المجادلة كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ (22) التكوير البقرة إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (12) وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ (126) فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (149) 219 الرعد أحياء (155) 107 أَوَلَمْ يَرَوُا (42) بَشِّرِ الصَّبِرِينَ (156) 148 النحل كُمْ مِنْ فِئَةٍ (250) 155 إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّهُ آل عمران كُونُوا رَبَّنِينَ (80) (121) 179 الحج وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ لَن يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا 259:112 111 (105) (38) النور اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (36) 33 وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (6) 135 57 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (111) 112 وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ 330 المائدة (145) لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ (106) الانعام لَا شَرْقِيَّةٍ وَّلَا غَرُبِيَّةٍ (36) 165 الفرقان مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ (24) 149 هَبَاءُ مَّنْفُورًا (24)

Page 387

12 اذا لا يُضَيِّعُنا احادیث اگر کسی نے دوزخی دیکھنا ہو 166،71 جھوٹی قسم کھانے سے ملک بر باد 197 | اعمال نیت پر موقوف 72 ہو جاتا ہے إِنْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ 22 اگر سورج کو میرے دائیں ل 271 64 218 اشرف وہ ہیں جن میں 134 ،173 تقوی ہے مہاجر ایک درجہ کے نہیں 167 اگر حبشی غلام افسر ہو جس شخص سے کوئی ہدایت قرآن کے سات بطن پاتا ہے 224 234 246 280 170 مغرب سے سورج طلوع ہوگا 281 جس شخص کے ذریعہ کوئی گمراہ ہو 170 جاہلیت کے خون پاؤں تلے لَكَ أَو لَا حِيْكَ مَنْ أَطَاعَ أَمِيرِى مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ حدیث بالمعنى یہ خدا تعالیٰ کا دین ہے ہر انسان کا گھر جنت اور دوزخ ہر نبی دوسرے سے نصف عمر میں 15 آنسوؤں کا جاری ہونا طبعی امر 47 پاتا ہے مومن کی مثال ایسی ہے 194 مسلاتا ہوں تمہارا ایمان کامل نہیں ہو سکتا 206 قوم کے لوگوں کو ساتھ 212 219 لیکر آؤ 310 361.360

Page 388

13 اسماء آتھم حمه الله ان کا حضور ﷺ کو سمجھانا احسان اللہ ملک 172 251 ٹیپوسلطان ٹ 336 ارسطو آدم علیہ السلام حضرت 332،52 58 ٹیگور اسامہ.حضرت 322،14 323 ج 341 340 336 اسماعیل.ڈاکٹر 215 جانسن اسماعیل.حضرت جا 185.184 96 144 348 ابراہیم علیہ السلام حضرت 42:26 آپ کی قربانی 194 تا 196 جلال الدین شمس.حضرت 369 368.267 آپ کا اسماعیل کو ذبح کرتا آپ کا اسماعیل کو مکہ چھوڑنا 1960 194 197-196 ایاز ( محمود کا وزیر) اس کے شکر کا طریق 232 233 ایڈیسن مولانا <117.38.31.23.19 368-263-246-240 125 انکی قربانیوں کی تعریف 21 22 23 ایک زبردست پیشگوئی کے ابراہیم ( حضور ﷺ کے فرزند) 47 بدھ علیہ السلام.حضرت 357 | مصداق برکت علی منشی 111.46 285 280 乙 212،147،130 برہان الدین جہلمی.حضرت حسان بن ثابت.حضرت ابوالعطا مولوی ( اللہ دتہ ( 1 ، 19،9، ابوبکر حضرت <26.14 337.324322-110-27 مولوی بشیر احمد.حضرت مرزا 358،323،4 | حمزہ.حضرت 85 خ حضور کی وفات پر آپ کا خطبہ 330 بشیر الدین حافظ 340،328 خدیجہ - حضرت 24 ، 3 ، 36 ان کی اہلیہ کی تعریف 341 خلیل احمد اختر ملک ابو جہل ابوحیان 33.29.24 84 329 208 26 355 ابوطالب.حضرت تیمور 335 داس گپتا 96

Page 389

دوست محمد شاہد.مولانا انہیں تقریر کی مشق ہے دیانند 348 89.57 14 یر علی.حضرت مولوی 130 137 عبد اللہ خان.چودھری 218،147،138، 220 | عبد الواحد شیخ ع عائشہ حضرت رازگی امام - حضرت 350 عبد الحق ماسٹر راک فیلر رام چندر حضرت 107 عبدالحلیم.شہید | 334 366 عبدالرحمان - شہید روشن علی حضرت حافظ 69 عبدالرحمن مولوی 16 عثمان - حضرت 6 66 عثمان بن مظعون 186 حضرت علی.حضرت 186 علی شیر 321 273 33.24 27.26 209-208 212-26.8 102 ریڈنگ لارڈ ز زبیر حضرت س سالن سعد حضرت سکندراعظم سلیمان علیہ السلام 125 27.26 عبدالرحمن مصری عبد الخالق مولوی عبدالرحیم ورد.حضرت مولانا 211 <212.211 2160214 251 220.218.65.60 305 عبدالرحیم نیر.حضرت 26 | مولوی 334 335 | عبدالقادر مولوی عمر حضرت 27،14، 322،206 عمر الدین شملوی عمر و بن العاص.حضرت عیسی علیہ السلام حضرت 337-323 52 34 <10-3 187-174-85-80-79-42-17013 <300-299-270-267.203 360.99 333-332-307-304-301 352 339 عبد القادر ( شام کا ایک عالم (43:42 339،333،332 | عبدالکریم سیالکوٹی حضرت قیام فلسطین میں آپ پر صرف سودا (شاعر) ش شاہ عالم (بادشاہ) شوقی آفندی 295-294 294 276 33-24 مولانا عبد اللطیف چودھری 3233114 بارہ آدمی ایمان لائے عبداللطیف شہید حضرت مولوی عبداللہ.حضرت 278 186 185 غ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا 356 28-23-19-17.16.11.502 70 65.57 53.36.32.31 26

Page 390

15 86،7876، 89 ، 91، 97، 100 ، قادیان میں آپ کا بائیکاٹ ہوا 102 106، 108 تا 110 ، 113 ، 127، آپ کو سلطان القلم کا خطاب ملا 123 128، 135، 140 تا 144، 149، آپ پر مارٹن کلارک کا مقدمہ 207 لوط - حضرت ل 26 C212.203.184.164.151 <234.233.231.230.214 <278.254.252-245-236 301 297-286-282-279 338-336 327 323-311 357.353-352 آپ دنیا میں عظیم الشان تغیر کیلئے مبعوث ہوئے 1 آپ کا غیر احمدیوں سے نمازیں ونگ کرنا آپ کا ہائی سکول کھولنا 215 216 مارٹن کلارک 319 مارکس مارگولیتھ.پروفیسر 341 آپ نے مدرسہ احمدیہ کی بنیاد رکھی 321 غلام محمد صوفی ف مبارک احمد مرزا مبارک احمد شاہد 207 143 76.69 229-218 355 فرزند علی خان مولوی 60-74-76 محمد رسول اللہ ﷺ حضرت 6-10 آپ کی آمد سے فقہی جھگڑے مئے 6 فضل الرحمان حضرت حکیم آپ کی فقہ کے بارے میں رائے 7،6 بیان کرده واقعه آپ نے دنیا کو بتایا کہ خدا کا 12 ق 368-284-242 <47 42-36 33<27<14 <8887-77‹76×72‹71‹64 134 133 113.111.110 قول و فعل ایک ہیں 40،39 قطب الدین بختیار کا کی آپ کے الہامات ، زیاد کشوف 58:43 <315.278-84 85 *185.167:166.151.143 219.208.206.192.187 <247.246.236.234.224 273 ک کرشن.حضرت 356،334:58 کمال اتاترک 2716 267 263-261-254 <293 <284 <282-281-279 305.302.301.299.297 228 <334 331-326-324.310 +362.360.357.348.336 369 87 | کمال الدین خواجہ 109 ، 213 248 آپ کی آمد کی اغراض براہین احمدیہ سے پہلے اور بعد کی اردو میں فرق حضرت مسیح موعود کی تحریروں نے اردو پر خاص اثر ڈالا 87 کولمبس طلباء کے سامنے کتب حضرت گ مسیح موعود ماڈل ہیں 88 آپ کی کتب کا سکھ پر اثر 89 گاندھی 322.320 214.213.7 آپ ﷺ کی انگلی کا زخمی ہونا 22 آپ ﷺ پرابتدائی ایمان لانے والے 30 آپ ﷺ اور صحابہ کے طریق میں 26

Page 391

16 سوشل معاملات میں کوئی فرق نہ تھا 65 محمد صادق حضرت مفتی اہل مکہ کی تجویز کا حضور کی طرف محمد صادق مولوی سے جواب 1730170 آپ کا مداہت سے اجتناب 172 174 نسل اسماعیل سے پیدائش 197 حضور ﷺ کا طریق تبلیغ 193 194 چودھری 321.264-158.68 محمد ظفر اللہ خان سر حضرت محمد عبد اللہ (لڑکا) محمد علی باب سب نبیوں کا سردار 278 شملہ کا سفر محمد علی مولوی 137.99 کروار 3210319.109.108 117 مدرسہ احمدیہ کو قائم رکھنے کی کوشش 111 110 109 3270321 82 | جامعہ احمدیہ کے علمی معیار کو بلند کرنے کی کوشش 21 320-109 351.350 335 وفات سے قبل ایک لشکر کی تیاری 322 محمد علی خان نواب) حضرت 347 آپ کی وفات پر حسان کا سیرت محمد یار عارف مولوی 105،99،93،9،1 رو عمل 330.329 233-232 مطالعہ 336 محمود غزنوی آپ ﷺ کی شریعت کبھی تبدیل نہ ہوگی آپ کی ہتک کرنے والا خدائی گرفت سے نہیں بچ سکتا آپ کے دعوی کے 19 سال بعد 333 محمود احمد حضرت مرزا مصلح موعود 291 آپ کے پاس ہر قسم کی کتب موجود 313 میں دنیا کے تمام علوم کی کتابیں مقام پڑھتا ہوں ہمارا مقام عام خلافت سے بالا ہے 278 ہیں ہزار کتب کا مطالعہ 313 313 مسلمان دس پندرہ ہزار محمد احمد جلیل مولوی محمد احمد شیخ.ایڈوکیٹ محمد اسحاق صوفی محمد حسین بٹالوی مولوی محمد حسین حکیم مرہم عیسی محمد حسین شاہ سید 356 367 352-351 سوانح بچپن ایک رات میں چار سو صفحہ کی کتاب 313 میں تاریخ کا بڑا مطالعہ کرنے والا 355 حضرت مسیح موعود کی صداقت پر بچپن ہوں 326 محمد سلیم مولوی محمد سرور شاہ سید حضرت 300 352 109 117 83 سے ایمان تعلیمی حالت پروفیسر مارگولیتھ سے مان قات انگلستان میں لیکچر آپ کی تائی کی مخالفت 1 تعلق باللہ 67.66 آپ کی دعائیں مبلغین کیلئے دعائیں 272-200 256-89 77.76.69 96 102 رویا، کشوف والہامات.137.67 367-338-300-217.207 محمد شریف مولوی 367،284 368 محمد شفیع اشرف مولوی 348 ہائی سکول کے قیام میں نصرت الہی کے واقعات 70،89 آپ پر قرآن کریم کی آیات کے

Page 392

17 352 353 ان کا مقام 287 محمود احمد شاہد.چودھری 355 نعمت اللہ خان مولوی شہید 186،22 16 نوح حضرت 267:42 190-189 متفرقات معنی کا القاء مسیح موعود کی نبوت پر حملہ کا دفاع 140، 213-141 مریم مشتاق احمد باجوہ 279 نورالدین.حضرت مولوی 67،66،5، مصباح الدین 10 358-311-109.88 آپ کے کئی رشتہ دار احمدیت کی وجہ مطیع الرحمن 2846117 آپ کا ایک مولوی کے وعظ کا 102-101 سے منقطع ہو گئے آپ کے پانچ سالہ بچے کا خدا پر ایمان آپ کے بارہ میں مسیح موعود کو الهامات آپ کو افریقہ میں تبلیغ کا خیال کیسے پید اہور 197 278 270-269 آپ کا بیان کردہ لطیفہ 348 349 حضرت مسیح موعود کے بارہ میں مظفر احمد مرزا 227.218 معین الدین چشتی و 273 آپ کا بیان کردہ واقعہ منیر آفندی 280 ہائی سکول کے قیام میں منیر احمد چودھری کو ہدایات 289 تا 291 کردار موسٹی.حضرت 267،58،42،26 ، آپ کا بیان کردہ قصہ 333،299 356،334 نور علی قاری.شہید موسیٰ مستری تاجر بائیسکل لاہور 308 نور محمد مولوی مہدی حسین.میر حضرت نولڈ کے 89.88 103 321-320 327.326 186 358 00 8 21 196 26 302-191 109.66 روایات 4 6، 100،43،32،31، بیان کردہ قصے 86،62، 130 ، 131 ، ان کو ہدایات ن 176 ، 225،179 ، 298 299 ، ناصر احمد مرزا.حضرت 305 344،306 345 ناصر الدین عبداللہ بیان کردہ واقعات 14،7، 21،16، نانک (حضرت بابا ) 52،30،22 89،56،54، نپولین 92.91 229-218 204.202 219.58 335-191.154-153 101 103 ، 105 ، 131 153 ، نذیر احمد ( کوئٹہ کا ایک احمدی ) 3215 158 تا 161 ، 163 ، 178 ، 197 ، نذیر احمد مبشر مولوی 286 355، 364 213، 229، 234 236 258 ، نذیر احمد علی مولوی 264،263،259 ، 294 295 ، ( مبلغ افریقہ ) +346.335, 331-330-308 <242.82 360-270-266-257.251 ولی اللہ شاہ سید حضرت ہاجرہ.حضرت ہارون حضرت ہٹلر ی یعقوب بیگ ڈاکٹر

Page 393

آبادان آسٹریلیا آکسفورڈ اٹلی احمد نگر ارجنٹائن افریقہ 18 مقامات خدا نے افریقن ممالک کو احمدیت <240.228.225.179.168 92 کے لئے محفوظ رکھا ہوا ہے 269 269،244، 270، 287،280، 44 افریقہ میں تبلیغ کے متعلق خدا تعالیٰ.313-306-290.289 10، 351 نے عین وقت پر مجھے توجہ دلائی 269 ایران 184،91، 273 274 ، دنوں اور مہینوں کے اندر ہمیں 191 ، 203 | تمام افریقہ پر چھا جانا چاہئے 271 326 | افغانستان 22 بخارا <359.277.276 203 | امرتسر 38 بیتی 203،82،44، 225 ، امریکہ ،97،44،7، 137 ، 140 ، بنارس +270.254.249.239.238 164-162 159.157 199.179.174-168-165.356-355-312-287.286 افریقہ میں معمولی خرچ سے جماعت پھیلی *240-229-225-213-203 365-363-361359 348-313-306-303-297 +359 239 پاکستان پرتگال افریقن احمدیوں کے امریکہ میں ہزاروں مخلص احمدی 240 پنجاب کارنامے 239 240 | اناطولیہ افریقہ میں زیادہ لمبا عرصہ مبلغین انڈونیشیا نہیں رکھے جاسکتے 255 356.312.311.240 $359 275-274 308.125.38 202 244-105 303 216 244 259.231.95.65 ٹرینیڈاڈ 44 ج جاپان 203،159،144،143 جاوا <203.44 ہمارا مستقبل افریقہ کے ساتھ انگلستان 1 ، 9، 10، 44، 65،60، وابستہ ہے افریقہ میں ساٹھ ہزار افراد احمدی ہو چکے ہیں €97.96.95.93.74.67 269 143 140-129-117.99 جرمنی 311،191،179،9،8.165.164.162.159.158 269

Page 394

جہلم چنیوٹ مشق وہلی چ 19 158 عرب 326،317 | عراق 273-203.159 ع 359.225 کیمبرج گ 351-10 158.102 359 گجرات ف گولڈ کوسٹ (غانا) 239،82،44، فرانس 21 105 ، 154 ،161 ، 305-297-228-222-179 280.1 233،46 فلسطین 356،117،42، 359، لاہور 101 فیروز پور 317 275 | قادیان ق +367 364.360.359.286 ل.108.101.66.38 326-308 352،67 لندن 95،93،87،68،10، <242-240.161.106.97.308-264-244 رام پور ربوه روس روم س سٹریٹ سیٹلمنٹ 356.228.16 سین سماٹرا سوڈان 203 203 44 <46.43.42.38.4 102 100.95.69.64.63 158.157.139.137.130 246-231-216-181-168 لودھی منگل لیگوس 358 360 257 262،258، 277 ، 281 ، ماریشس 3420340-328 <187-173.111:110 327.326-325-313 311 قادیان کے درودیوار پر ایک سیرالیون 239 ، 257، 266، اینٹ نشان ہے سیرالیون میں مبلغین کی مشکلات ش 43 مڈغاسکر مصر 360 کیا پیر 359-21 252.251 کشمیر 82 مکہ کلکتہ 202.38 کونٹ 321،5 | بہت پور مام حمله 129.42.9 335.46 کوفه 14 ميسور <323.267.192 342 -356-186-105.9 $359.170.134 133.27 <323-267.196-173 212 185

Page 395

نائيجيريا نیویارک ی <124*76*42<9.8 یورپ 20 186 184 158.157.145 <239.231.229.222.203.360.239.44 $150-145.142.133.125 287-276-263-262-254 308.97 <240-229-223-222-220 356-303-290 359.306.244.241 203 اهنگری 348 ہزارہ ہندوستان 125،117،96،8، یونان 334

Page 396

آ آئینہ کمالات اسلام ازالہ اوہام 245 353.245 اسلام میں اختلافات کا آغاز 127 21 کتابیات بخاری 101،66 ،341،313 براہین احمدیہ تفسیر کبیر تورات الفضل 217.214.179 انجیل 105 ،203 | حقیقۃ الوحی 179 انقلاب بائبل 282 سرمه چشم آرید 245-142.87 245 300-282 245 245 طبری فرقان مثنوی رومی میری جد و جہد 128.127 b 353-351 66 302

Page 396