Zareen Hidayaat 1

Zareen Hidayaat 1

زرّیں ہدایات (جلد اوّل برائے مبلغین۔1915ء تا 1930ء)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

زریں ہدایات (برائے مبلغین) *1930 1915 جلد اول از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدالمصلح الموعود خلیفہ اسیح الثانی

Page 2

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) جلد اول از حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ Zarreen Hidayaat (Baraei Muballigheen) Vol-1 (A Selection of essays and lectures delivered between 1915 and 1930) By Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad Khalifatul-Masih II Present Urdu Edition: UK 2020 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey UK, GU9 9PS United Kingdom Printed and bound by: No part of this book may be reproduced or used in any form or by any means graphic, electronic or mechanical, including photography, recording, copying or information storage and retrieval systems without permission of the publisher.ISBN: 978-1-84880-215-5 (Vol.1-4 Set)

Page 3

زریں ہدایات (برائے مبلغین) فهرست عناوین جلد اول نمبر شمار 1 مبلغین کے لئے ہدایات عنوان تحریری ہدایات بنام مکرم قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی مبلغ انگلستان 3 نصائح مبلغین حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مکرم مولوی عبید اللہ سندھی صاحب کی ولایت روانگی 5 حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی یورپ سے آمد 6 مبلغین کو ہدایات 7 حضرت قاضی امیر حسین صاحب کا مدرسہ احمدیہ سے تبادلہ 8 صفحہ 1 152 12 34 18 41 53 97 تحریری ہدایات برائے حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ نائیجیریا 101 و بے نفس مبلغین کیلئے دعا 10 حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے کی الوداعی پارٹی 11 تحریری ہدایات برائے حضرت محمد دین صاحب بی اے مبلغ امریکہ 12 دشمن کی شرارت کا مقابلہ نہ کروماریں کھاؤ اور ہاتھ نہ اٹھاؤ 13 آگرہ جانے والے تیسرے تبلیغی وفد کو ہدایات 107 108 115 128 132

Page 4

زریں ہدایات (برائے مبلغین) نمبر شمار 14 ہدایات برائے مبلغین اسلام 15 احمدی مجاہدین سے خطاب عنوان 16 مجاہدین علاقہ ارتداد کے درود قادیان پر حضور کا خطاب 17 مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب 18 مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب 19 میدان ارتداد میں مبلغین کی اشد ضرورت 20 دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ 21 حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کی آمد 22 حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت 23 لندن مشن کے متعلق ہدایات جلد اول صفحه 141 155 164 172 181 189 197 208 214 221 24 خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والے نوجوانوں سے خطاب 229 25 مبلغین اور احمد یہ مشن لندن کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور پکار 26 مجاہدین شام کی الوداعی دعوت میں تقریر 27 | تبلیغ کے متعلق نصائح 28 حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب 29 بلادِ مغربی میں تبلیغ احمدیت.حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کی مراجعت 232 235 247 257 263 30 حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت 268 31 حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت چائے 272

Page 5

زریں ہدایات (برائے مبلغین) جلد اول صفحہ نمبر شمار عنوان 32 حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں ٹی پارٹی 284 33 دمشق میں تبلیغ احمدیت کی اہمیت 34 طالبات مدرسہ خواتین کے جلسہ دعوت میں تقریر دمشق اور سماٹرا کے مبلغین کے لئے دعا 36 خانصاحب منشی فرزند علی صاحب کی انگلستان روانگی 7 امریکہ اور ماریشس کے مبلغین کے اعزاز میں دعوت 38 مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے اعزاز میں دعوت 39 حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت 40 احمدی مبلغ اپنے کام نمایاں رنگ میں پیش کیا کریں 41 جامعہ احمدیہ کے طلباء کو تحقیقی مضامین لکھنے کی تلقین 42 حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت چائے 43 احمدی مبلغین کی خدمات اور احمدی نوجوانوں سے خطاب 44 مکرم جناب سیٹھ ابوبکر ایوب صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سماٹرا کی قادیان سے سماٹرا کے لئے روانگی 45 مرکزی مبلغین کی طرف سے مکرم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سائرا اور حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ مغربی افریقہ کی دعوت 46 دین کی خدمت خدا کے لئے کرو نہ کہ بندوں کے لئے 294 308 314 318 326 335 341 351 359 368 375 384 390 394

Page 6

زریں ہدایات (برائے مبلغین) نمبر شمار عنوان 47 طلباء کو نصیحت.مبلغین کے لئے ضروری صفات.ممالک غیر میں 48 تنبلیغ اسلام کی اہمیت مبلغین سماٹرا و جا و مکرم مولوی رحمت علی صاحب اور مکرم مولوی محمد صادق صاحب کو نصائح 49 مبلغین سماٹرا اور جادا کو نصائح جلد اول صفحہ 406 424 429

Page 7

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 1 جلد اول بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مبلغین کے لئے ہدایات مبلغین احمدیت حیدر آباد دکن حضرت مولانا مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت مولانا حافظ روشن علی صاحب کے نام حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جو ہدایات پر مشتمل مکتوب تحریر فر ما یاوہ درج ذیل ہے:.د مگر می مفتی صاحب و حافظ صاحب السَّلَامُ عَلَيْكُمُ.آپ کے خط ملے.حافظ صاحب کا اپنا لکھا ہوا خط دیکھ کر مجھے نہایت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ لکھ سکتے ہیں.دعاؤں پر بہت زور دیں.میرے رسالہ القول الفصل“ پر مولوی محمد علی صاحب نے ایک رسالہ لکھا ہے اور اس کا جواب میں نے بھی لکھا ہے جو چھپ رہا ہے قریباً ڈیڑھ سو صفحہ کا رسالہ ہوگا نبوت کی حقیقت پر میں نے لکھا ہے اور اصولی بحث کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا پہلوسمجھایا ہے کہ ان لوگوں کے سب حوالے ایک ہی جواب سے حل ہو جاتے ہیں چھپنے پر انشاء اللہ بھیج دیا جائے گا.آپ اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس بات کو مدنظر رکھیں کہ بات گول مول نہ ہو بلکہ صاف اور واضح ہو اور ایسی نہ ہو کہ بعد میں حقیقت بیان کرنے سے دل ہچکچائے اور مشکل پیش آوے.اگر کوئی شخص مثلاً سوال کرے کہ آپ ہمیں کیا خیال کرتے ہیں تو اس کی کو بجائے یہ جواب دینے کے کہ جو کسی کو کافر کہے وہ خود کا فر ہوتا ہے اور اس طرح بجائے اسے اور اپنے آپ کو ابتلاء میں ڈالنے کے اسے یہ سمجھایا جاوے کہ سعید الفطرت انسان کا کام یہ نہیں کہ یہ پوچھے کہ آپ ہمیں کیا سمجھتے ہیں بلکہ اسے چاہئے کہ یہ دیکھے کہ حق کس طرف

Page 8

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 2 جلد اول ہے.اگر مرزا صاحب بچے تھے تو اس حق کو قبول کرنا چاہئے خواہ ہم کسی کو کیا ہی سمجھیں.اگر اس طریق پر فیصلہ ہوتا تو کیا اسلام پھیل سکتا ؟ کبھی نہیں.اسلام تو سب باقی مذاہب کو جھوٹا قرار دیتا ہے.پھر کیا کوئی اسلام کو قبول کرتا ؟ صداقت دیکھنی چاہئے.صداقت کے لئے ہر ایک چیز کی قربانی کرنی چاہئے.اگر مرزا صاحب بچے ثابت ہو جائیں اور ان کا خدا کی طرف سے ہونا معلوم ہو جائے تو اب اگر ان کو ماننے کیلئے ہر ایک چیز کو چھوڑنا پڑے تو بتاؤ کیوں نہ چھوڑا جاوے.آج مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے مگر ذلیل ہیں.پہلے کم تھے مگر معزز تھے.پس یہ نہ خیال کرو کہ فرقہ بندی سے اسلام کمزور ہو جاتا ہے بلکہ جس قدر لوگ خدا کے بنائے ہوئے فرقہ میں آئیں گے اسی قدر جلد اسلام کی ترقی ہو گی.نہ اسلام نے پہلے مسلمانوں کی کثرت سے ترقی کی نہ اب کرے گا.پہلے بھی خدا کے فضل سے کی اب بھی خدا کے فضل سے کرے گا.پس اگر مرزا صاحب بچے ثابت ہو جائیں تو ان کو ماننے والی چھوٹی جماعت دنیا کو فتح کرے گی اور ان کی خاطر دنیا کو چھوڑنے والا ہی کامیاب ہو سکتا ہے اور وہی خدا کا پیارا.پس پہلے یہ تحقیق کر لو کہ مرزا صاحب کا دعوی سچا تھا یا نہیں.اگر وہ سچا ثابت ہو جائے تو پھر خدا کے حکم کے ماتحت ہر ایک قسم کی قربانی ضروری ہے.اور کیا خدا تعالیٰ کو اسلام کے لئے فکر نہ تھی کہ اس نے ایک نیا فرقہ بنایا؟ خدا نے ایک نیا فرقہ بنایا اور اسے دوسروں سے الگ کیا اور وہی اس کو بڑھائے گا جیسا کہ اس کا وعدہ ہے.اس مضمون کو آپ وسیع کر سکتے ہیں، سجا سکتے ہیں.اس کو اگر عمدگی سے ادا کیا جائے تو کسی کو گنجائش نہیں رہتی نہ اسے برا لگتا ہے.اور اس طرح ان لوگوں کی مخالفت بھی کم ہو جائے گی جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب اچھے آدمی تھے ان کے ماننے کی کیا ضرورت ہے.اگر کوئی صاحب غیر مبائعین میں سے خود گھر پر آئیں تو ان سے شریفانہ برتاؤ کریں.جھگڑا کے متعلق بات چیت کرنا چاہیں تو کہہ دیں کہ یہ بات ہو چکی ہے اگر چاہیں تو ایک جگہ سب جماعت مل کر فیصلہ ہو جائے اور نہیں تو آپ قادیان جا کر فیصلہ کریں.اور اگر کوئی صاحب اس خیال کے پھیلانے کی کوشش کریں کہ سب کو مل کر کام کرنا چاہئے

Page 9

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 3 جلد اول آپ اس خیال کو رد کریں اور بتائیں کہ اگر خدا کے قرنا کی آواز آ چکی ہوتی تو مل کر کام کرنا واجب تھا.لیکن جبکہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بگل بجایا ہے تو اس کی آواز کے مقابلہ میں ہر ایک شخص کا اپنی حالت پر کھڑے رہنا ایک خطر ناک جرم ہے، ایک گناہ عظیم ہے جس کی سزا میں اسلام کی ترقی رکے گی نہ کہ ہو گی.غرض پورے زور سے ان کے خیالات کا قلع قمع کریں اور ہر گز نہ ڈریں.اگر حیدرآباد میں حق بات کہنے میں روک ہو تو اس شہر کی خاک اپنے پیروں سے جھاڑ کر واپس آ جائیں کہ پھر اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور حق کو چھپانے سے بہتر ہے کہ حیدر آباد کو اس کی قسمت پر چھوڑ دیا جائے.یہ ہیں میری ہدایات جن کو آپ دونوں صاحبان اچھی طرح سے سمجھ لیں اور مولوی محمد سعید صاحب، حافظ صاحب محمد اسحاق اور میر بشارت علی صاحب کو واقف کر دیں.جن سرکاری ملازمین کو اس میں خطرہ ہو وہ بالکل الگ رہیں.بات ہمیشہ نرم ہو.لطیف پیرا یہ میں ہو.میں نے حضرت صاحب کو دیکھا ہے سخت سے سخت بات کو عمدہ پیرا یہ میں بیان فرماتے جو بری نہ لگے.اسی کا نام حکمت ہے.نہ اس کا نام کہ حق کو چھپایا جاوے یا ایسے الفاظ میں ادا کیا جاوے کہ موقع مل جائے اور سننے والا اصلی مطلب سمجھ نہ سکے.پس ان باتوں کو یاد رکھیں.یہ خدا کا کام ہے نہ ہمارا.یہ اس کی امانت ہے جو اس کی امانت میں خیانت کرتا ہے اور اس کے حکم پر اپنے خوف یا اپنی ہر دلعزیزی کو مقدم رکھتا ہے وہ خدا کا مجرم ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مجرموں کو اگر وہ تو بہ نہ کریں چھوڑتا نہیں.صحابہ نے دین کے لئے جانیں دی ہیں کم سے کم گالیاں سننے سے تو ڈرنا نہیں چاہئے.افسوس اس مرید پر جس کے کانوں نے وہ گالیاں نہیں سنیں جو اس کے پیر کو ملیں اور افسوس اس متبع پر جس نے اس تکلیف کو برداشت نہ کیا جسے اس کے پیر نے برداشت کیا.کام بہت ہے اور زندگی کم معلوم ہوتی ہے ہم نے کیا دیکھنا ہے اور ہمارے بعد کے لوگ کیا دیکھیں گے لیکن جن پھولوں پر وہ خوش ہوں گے یہ کانٹے ان سے بہتر ہیں اور جن موتیوں پر وہ نازاں ہوں گے یہ آنسوان سے لاکھوں درجہ بڑھ کر ہیں.ہمیں تو خدا نے اس لئے پیدا کیا ہے تادین

Page 10

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 4 جلد اول کے لئے دکھ اٹھا ئیں تا یہ ہمارے قصوروں کا کفارہ بنے.مگر میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ انسان خواه خواہ لوگوں کو بھڑکائے.جو اپنے جمق کی وجہ سے لوگوں کو بھڑکا دیتا ہے وہ اس نقصان کا جو دین کو اس کے وجود سے پہنچتا ہے ذمہ دار ہے.اگر کوئی آتا ہے تو آنے دو.قرآن پر زیادہ غور اور تدبر سے کام لو.اگر دس ہزار مخالف بھی آپ کے مقابلہ پر ہو گا اور دنیا کے کل فلسفوں اور سائنسوں کا واقف اور فصاحت میں بے نظیر ہو گا تو آپ کا مقابلہ نہ کر سکے گا کیونکہ اگر ہمارا کام بناوٹ یا ہماری اپنی طاقت پر ہوتا تو آج مجھے آپ کو خط لکھنے کا موقع نہ ملتا.بلکہ ہمارے جسم خاک کے نیچے مدفون ہوتے اور ہمارا کام ناکامی کی مجسم تصویر ہوتا.آپ کو ابھی جلدی آنے کی ضرورت نہیں میں خود لکھوں گا.میری طبیعت نسبتاً اچھی ہے.الحَمدُ لِلهِ.مگر اچھی بری کا کوئی خیال نہیں دل چاہتا ہے کہ زندگی میں کوئی کلمہ حکمت لوگوں تک میری معرفت بھی پہنچ جائے اس سے زیادہ کوئی خواہش نہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد الفضل 23 فروری 1915ء)

Page 11

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 5 جلد اول تحریری ہدایات بنام حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی مبلغ انگلستان مکرم حضرت قاضی محمد عبد اللہ صاحب بی اے بی ٹی 6 ستمبر 1915 ء کو ولایت کے لئے روانہ ہوئے.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے جو ہدایات تحریر فرما کر اپنے دست مبارک سے انہیں دیں وہ درج ذیل ہیں :.أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ ـ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ میں آپ کو اس خدا کے جو ایک اور صرف ایک ہی خدا ہے نہ جس کا بیٹا نہ جو رو سپرد کرتا ہوں.وہ آپ کا حافظ ہو ، ناصر ہو، نگہبان ہو، ہادی ہو، معلم ہو، رہبر ہو.اَللّهُـ امِيْنَ ثُمَّ آمِينَ آپ جس کام کے لئے جاتے ہیں وہ بہت بڑا کام ہے بلکہ انسان کا کام ہی نہیں خدا کا کام ہے.کیونکہ دلوں پر قبضہ سوائے خدا کے اور کسی کا نہیں.دلوں کی اصلاح اسی کے ہاتھ میں ہے.پس ہر وقت اس پر بھروسہ رکھیں اور کبھی نہ خیال کریں کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں.دل محبت الہی سے پُر ہو اور تکبر اور فخر پاس بھی نہ آئے.جب کسی دشمن سے مقابلہ ہو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے آگے گرا دیں اور دل سے اس بات کو بالکل نکال دیں کہ آپ جواب دیں گے بلکہ اس وقت یقین کر لیں کہ آپ کو کچھ نہیں آتا.اپنے سب علم کو بھلا دیں لیکن اس کے ساتھ ہی یقین کر لیں کہ آپ کے ساتھ خدا ہے وہ خود آپ کو سب کچھ سکھائے گا.دعا کریں اور ایک منٹ کے لئے بھی خیال نہ کریں کہ آپ دشمن سے زیر

Page 12

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 6 جلد اول ہو جائیں گے بلکہ تسلی رکھیں کہ فتح آپ کی ہوگی.اور پھر ساتھ ہی خدا تعالیٰ کے غنا پر نظر رکھیں.خوب یاد رکھیں کہ وہ جو اپنے علم پر گھمنڈ کرتا ہے وہ دین الہی کی خدمت کرتے وقت ذلیل کیا جاتا ہے اور اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا.لیکن ساتھ ہی وہ جو خدمت دین کے وقت دشمن کے رعب میں آتا ہے خدا تعالیٰ اس کی بھی مدد نہیں کرتا.نہ تو گھمنڈ ہو نه فخر ، نہ گھبراہٹ ہو نہ خوف.متواضع اور یقین سے پُر دل کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں.پھر کوئی دشمن اللہ تعالیٰ کی نصرت کی وجہ سے آپ پر غالب نہ آ سکے گا.اگر کسی ایسے سوال کے متعلق بھی آپ کا مخالف آپ سے دریافت کرے گا جو آپ کو نہیں معلوم تو بھی خدا کے فرشتے آپ کی زبان پر حق جاری کریں گے اور الہام کے ذریعہ سے آپ کو علم دیا جائے گا.یہ یقینی اور سچی بات ہے اس میں ہر گز شک نہ کریں.آپ جس دشمن کے مقابلہ کے لئے جاتے ہیں وہ وہ دشمن ہے کہ تین سو سال سے بلکہ اس سے بھی زیادہ عرصہ سے اسلام کی لہروں نے اس سے سر ٹکرایا ہے.لیکن سوائے اس کے کہ واپس دھکیلی گئیں کوئی نتیجہ نہیں نکلا.اس دشمن نے اسلام کے قلعے ایک ایک کر کے فتح کر لئے ہیں.پس بہت ہوشیاری کی بات ہے لیکن مایوسی کی نہیں.کیونکہ جس اسلام کو اس نے زیر کیا ہے وہ حقیقی اسلام نہ تھا بلکہ اس کا ایک مجسمہ تھا.اور اس میں کیا شک ہے کہ رستم کے مجسمہ کو بھی ایک بچہ دھکیل سکتا ہے.آپ حقیقی اسلام کے حربہ سے ان پر حملہ آور ہوں وہ خود بخود بھاگنے لگے گا.یورپ اس وقت مادیات میں گھرا ہوا ہے، دنیاوی علوم کا خزانہ ہے، سائنس کا دلدادہ ہے.اسے گھمنڈ ہے کہ جو اس کا خیال ہے وہی تہذیب ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے بد تہذیبی ہے ، وحشت ہے.اس کے علم کو دیکھ کر لوگ اس کے اس دعوئی سے ڈر جاتے ہیں اور اس کے رعب میں آجاتے ہیں حالانکہ یورپ کے علوم اس علم کا مقابلہ نہیں کر سکتے جو قرآن کریم میں ہے.اس کے علوم روزانہ بدلنے والے ہیں اور قرآن کریم کی پیش کردہ صداقتیں نہ بدلنے والی صداقتیں ہیں.پس ایک مسلم جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو ایک

Page 13

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 7 جلد اول سیکنڈ کے لئے بھی ان کے رعب میں نہیں آ سکتا.اور جب وہ قرآن کریم کی عینک لگا کر ان کی تہذیب کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ تہذیب در حقیقت بدتہذیبی نظر آتی ہے اور چمکنے والے موتی سیپ کی ہڈیوں سے زیادہ قیمتی ثابت نہیں ہوتے.پس اس بات کو خوب یاد رکھیں اور یورپ کے علوم سے گھبرائیں نہیں.جب ان کی عظمت دل پر اثر کرنے لگے تو قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کا مطالعہ کریں.ان میں آپ کو وہ علوم ملیں گے کہ وہ اثر جاتا رہے گا.آپ اس بات کو خوب یا درکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے.اس کے دعوؤں سے ڈریں نہیں کہ ان کے دعوؤں کے نیچے کوئی دلیل پوشیدہ نہیں.یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں.مگر یاد رکھیں کہ آنحضرت ﷺ کا حکم ہے بَشِرُوا وَلَا تُنفِرُوا 1 یعنی لوگوں کو بشارت دینا، ڈرا نا نہیں.ہر ایک بات نرمی سے ہونی چاہئے.میرا اس سے یہ مطلب نہیں کہ صداقت کو چھپائیں.اگر آپ ایسا کریں تو یہ اپنے کام کو تباہ کرنے کے برابر ہو گا.حق کے اظہار سے کبھی نہ ڈریں.میرا اس سے یہ مطلب ہے کہ یورپ بعض کمزوریوں میں مبتلا ہے اگر عقائد صحیحہ کو مان کر کوئی شخص اسلام میں داخل ہونا چاہتا ہے لیکن بعض عادتوں کو چھوڑ نہیں سکتا تو یہ نہیں کہ اسے دھکا دے دیں.اگر وہ اسلام کی صداقت کا اقرار کرتے ہوئے اپنی غلطی کے اعتراف کے ساتھ اس کمزوری کو آہستہ آہستہ چھوڑنا چاہے تو اس سے درشتی نہ کریں.خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں.لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں.جو حق ہو اسے لوگوں تک ضرور پہنچا ئیں اور کبھی یہ خیال نہ کریں کہ اگر آپ حق بتائیں گے تو لوگ نہیں مانیں گے.اگر لوگ نہ مانیں تو نہ مانیں.لوگوں کو ایماندار بنانے کے لئے آپ خود بے ایمان کیوں ہوں.کیسا احمق ہے وہ انسان جو ایک زہر کھانے والے انسان کو بچانے کے خیال سے خود زہر کھا لے.سب سے اوّل انسان پر اپنے نفس کا حق ہے.پس اگر لوگ صداقت کو سن کر قبول نہ کریں تو آپ نفس کے دھوکا میں نہ آئیں کہ آؤ میں قرآن کریم کو

Page 14

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 8 جلد اول ان کے مطلب کے مطابق بنا کر بتاؤں.ایسے مسلمانوں کا اسلام محتاج نہیں.یہ تو مسیحیت کی فتح ہوگی نہ کہ اسلام کی.جس نقطہ پر آپ کو اسلام کھڑا کرتا ہے اس سے ایک قدم آگے پیچھے نہ ہوں اور پھر دیکھیں کہ فوج در فوج لوگ آپ کے ساتھ ملیں گے.وہ شخص جو دوسرے کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے حق چھوڑتا ہے دشمن بھی اصل واقعہ کی اطلاع پانے پر اس سے نفرت کرتا ہے.کھانے، پینے، پہننے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں بے شک خلاف دستور بات دیکھ کر لوگ گھبراتے ہیں لیکن جب ان کو حقیقت معلوم ہو اور وہ سمجھیں کہ یہ سب اتقا کی وجہ سے ہے نہ کہ غفلت کی وجہ سے تو ان کے دل میں محبت اور عزت پیدا ہو جاتی ہے.ایسا جانور جو گردن پر تلوار مار کر مارا گیا ہو یا جو دم گھونٹ کر مارا گیا ہو کھانا جائز نہیں 2 قرآن کریم منع کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود سے جب ولایت جانے والوں نے پوچھا تو آپ نے منع فرمایا.پس اسے استعمال نہ کریں.ہاں اگر یہودی یا عیسائی گلے کی طرف سے ذبح کریں تو وہ بہر حال جائز ہے.خواہ تکبیر سے کریں یا نہ کریں.آپ بِسمِ اللہ کہہ کر اسے کھا لیں.یہودی ذبح کرنے میں نہایت محتاط ہیں.ان کے گوشت کو بے شک کھائیں.لیکن مسیحی آجکل جھٹکہ کر کے یادم کھینچ کر مارتے ہیں اس لئے بغیر تسلی ان کا گوشت نہ کھائیں.ان کا پکا ہوا کھانا جائز ہے.مچھلی کا گوشت جائز ہے.شکار کا جو بندوق سے ہو گوشت جائز ہے.کسی مسیحی کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا پڑے تب بھی جائز ہے.انسان ناپاک نہیں.ہاں ہر ایک ناپاک چیز سے ناپاک ہو جاتا ہے.عورتوں کو ہاتھ لگانا منع ہے.احسن طریق سے پہلے لوگوں کو بتا دیں.حضرت مسیح موعود سے جب ایک یورپین عورت ملنے آئی تو آپ نے اسے یہی بات کہلا بھیجی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عورتوں کا ہاتھ پکڑ کر بیعت لینے کا سوال ہوا تو آپ نے اس سے منع فرمایا.3 یہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ ہے اس میں عورتوں کی ہتک نہیں.کیونکہ جس طرح مرد کے لئے عورت کو ہاتھ لگا نامنع ہے اسی طرح عورت کے لئے مرد کو ہاتھ لگانا منع ہے.پس اگر ایک

Page 15

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 9 جلد اول عورت کی ہتک ہے تو دوسرے کی بھی ہتک ہے لیکن یہ ہتک نہیں بلکہ اسلام گناہ کو دور کرنے کے لئے اس کے ذرائع کو دور کرتا ہے.یہ نفس کی چوکیاں ہیں جہاں سے اسے حملہ آور دشمن کا پتہ لگ جاتا ہے.ہمیشہ کلام نرم کریں اور بات ٹھہر ٹھہر کر کریں.جلدی سے جواب نہ دیں اور ٹالنے کی کوشش نہ کریں.اخلاص سے سمجھائیں اور محبت سے کلام کریں.اگر دشمن سختی بھی کرے تو نرمی سے پیش آئیں.ہر ایک انسان کی خواہ کسی مذہب کا ہو خیر خواہی کریں حتی کہ اسے معلوم ہو کہ اسلام کیسا پاک مذہب ہے.جو لوگ آپ کے ذریعہ سے ہدایت پائیں (انشاء الله ) ان کی خبر رکھیں.اور جس طرح گڈریا اپنے گلہ کی پاسبانی کرتا ہے ان کی پاسبانی کریں.ان کی دینی یا دنیاوی مشکلات میں مدد کریں اور ہر ایک تکلیف میں برادرانہ محبت سے شریک ہوں.ان کے ایمان کی ترقی کے لئے دعا کریں.انگریزی زبان سیکھنے کی طرف خاص طور پر توجہ کریں اور چودھری صاحب کے کہنے کے مطابق عمل کریں وہ آپ کے امیر ہوں گے.جب تک وہاں ہیں ان کی تمام باتوں کو قبول کریں.جہاں تک اسلام آپ کو اجازت دیتا ہے محبت سے ان کا ساتھ دیں اور ان کے راستہ میں روک نہ ثابت ہوں بلکہ ان کا ہاتھ بٹائیں.تحریر کا کام آپ کریں تا ان کی آنکھوں کو آرام ملے آپ دونوں کی محبت کو دیکھ کر وہاں کے لوگ حیران ہوں.قرآن کریم اور احادیث کا کثرت سے مطالعہ کریں.حضرت مسیح موعود کی کتب سے پوری طرح واقفیت ہو.مسیحی مذہب کا کامل مطالعہ ہو.فقہ کی بعض کتب زیر مطالعہ رہیں کہ وہ نہایت ضروری کام ہے.آخر وہاں کے لوگوں کو آپ لوگوں کو ہی مسائل بتانے پڑیں گے.جماعت احمدیہ کی وحدت اور اس کی ضرورت لوگوں پر آشکارا کریں.اسلام اور احمدیت کو جو اس زمانہ میں دو مترادف الفاظ ہیں صفائی کے ساتھ پیش کریں اور ایک مذہب کے طور پر پیش کریں.اور لوگوں کے دلوں سے یہ خیال مٹائیں کہ یہ بھی ایک سوسائٹی ہے.خدا تعالیٰ کی مرضی کے مقابلہ میں اپنی مرضی کے چھوڑ دینے کی تعلیم

Page 16

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 10 جلد اول اہل یورپ کو دیں.اب تک وہ خدا تعالیٰ پر بھی اعتراض کر لینا جائز سمجھتے ہیں اور اپنے خیال کے مطابق مذہب کو رکھنا چاہتے ہیں.ان کو بتائیں کہ سب دنیا پر حکومت کرو مگر خدا کی حکومت کو اپنے نفس پر قبول کرو.اس بات کی پرواہ نہ کریں کہ کس قدر لوگ آپ کی بات مانتے ہیں.بلکہ یہ خیال رکھیں کہ کیسے لوگ آپ کو مانتے ہیں.اسلامی سادگی ان کی لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کرو اور لفظوں سے کھینچ کر روحانیت پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں.آپ تو ایک گھوڑے پر بھی سوار نہیں ہو سکتے لیکن ایک شیر پر سوار ہونے کے لئے جاتے ہیں.بہت ہیں جنہوں نے اس پر سوار ہونے کی کوشش کی لیکن بجائے اس کی پیٹھ پر سوار ہونے کے اس کے پیٹ میں بیٹھ گئے ہیں.آپ دعا سے کام لیں تا یہ شیر آپ کے آگے اپنی گردن جھکا دے.ہر مشکل کے وقت دعا کریں اور خط برابر لکھتے رہیں.میرا خط جائے یا نہ جائے آپ ہر ہفتہ مفصل خط جس میں سب حال بالتفصیل ہو لکھتے رہیں.اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں.اگر کوئی بات کرنی ہو اور فوری جواب کی ضرورت ہو خط لکھ کر ڈال دیں اور خاص طور پر دعا کریں.تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا نہ پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے.خدا کی قدرتیں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے.اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں.کم خوردن، کم گفتن ، کم خفتن عمدہ نسخہ ہے.تہجد ایک بڑا ہتھیار ہے.یورپ کا اثر اس سے محروم رکھتا ہے کیونکہ لوگ ایک بجے سوتے اور آٹھ بجے اٹھتے ہیں.آپ عشاء کے ساتھ سو جائیں تبلیغ میں حرج ہو گا لیکن یہ نقصان دوسری طرح خدا تعالیٰ پورا کر دے گا.ان کو سننے والے لوگ آپ تک کھینچے چلے آئیں گے.چھوٹے چھوٹے گاؤں میں غریبوں اور زمینداروں کو اور محنت پیشہ لوگوں کو جا کر تبلیغ کریں.یہ لوگ حق کو جلد قبول کریں گے اور جلد اپنے اندر روحانیت پیدا کریں گے.کیونکہ نسبتاً بہت سادہ ہوتے ہیں اور گاؤں کے لوگ حق کو مضبوطی سے قبول کیا کرتے ہیں.کسی چھوٹے گاؤں میں کسی سادہ علاقہ میں لندن سے دور جا کر ایک دو ماہ رہیں اور دعاؤں سے کام لیتے ہوئے تبلیغ کریں.

Page 17

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 11 جلد اول پھر اس کا اثر دیکھیں.یہ لوگ سختی بھی کریں گے لیکن جب سمجھیں گے خوب سمجھیں گے.ان کی سختی سے گھبرائیں نہیں.بیمار کبھی خوش ہو کر دو انہیں پیتا.ہمیشہ بڑے کام مجھ سے پوچھ کر کریں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور ہر ایک شر سے اور وہاں کے بداثر سے محفوظ رکھے اور اعمال صالحہ کی توفیق دے.زبان میں اثر پیدا کر دے.کامیابی کے ساتھ جائیں، کامیابی سے رہیں اور کامیابی سے واپس آئیں.ہاں یا د رکھیں کہ اس ملک میں آزادی بہت ہے.بعض خبیث الفطرت لوگ گورنمنٹ برطانیہ کے خلاف منصو بے کرتے رہتے ہیں ان کے اثر سے خود بچیں اور جہاں تک ہو سکے دوسروں کو بھی بچائیں.وَأَخِرُ دَعُونَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.66 چودھری صاحب کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ دیں اور سب نو مسلموں کو اور سیلون کی جماعت کو بھی اور بھی جو احمدی ملے.كَانَ اللهُ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ آمِينَ " ( الفضل 14 ستمبر 1915ء) 1:بخارى كتاب العلم باب ما كان النبى الله يتخولهم (الخ ) صفحہ 17 حدیث نمبر 69 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2: المائدة:4 3: بخارى كتاب الطلاق باب اذا اسلمت المشركة (الخ) صفحه 945 حدیث نمبر 5288 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 18

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 12 جلد اول نصائح مبلغین 12 مار 1916ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مبلغین کو نصائح کرتے ہوئے ایک پر حکمت لیکچر دیا جو بعد میں نصائح مبلغین" کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا.وہ لیکچر حسب ذیل ہے.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ ہو سب سے پہلے مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تزکیہ نفس کرے.صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں 1 کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے.قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا.اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جا کر حال دریافت کرے.جاسوس نے آکر بیان کیا مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پاسکتا.ہمارے سپاہی لڑکے آتے اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش بھی نہیں رہتی.لیکن مسلمان با وجود دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں.خدا کے حضور گرتے ہیں.یہ وہ بات تھی جس سے صحابہ نے دین کو قائم کیا.باوجود اپنے تھکے ماندے ہونے کے بھی اپنے نفس کا خیال رکھا.بعض دفعہ انسان اپنے تبلیغ کے فرض میں ایسا منہمک ہو جاتا ہے کہ پھر اسے نمازوں کا بھی خیال نہیں رہتا.ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہر ایک چیز اپنے اپنے موقع اور محل کے مطابق اور اعتدال کے طور پر ہی ٹھیک ہوا کرتی ہے.لوگوں کی بھلائی کرتے ہوئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اپنی بھلائی سے بے فکر ہو جائے.پس ضروری ہے کہ وہ اپنا تزکیہ نفس کرے.قرآن شریف کا مطالعہ کرے.پھر اپنے نفس کا مطالعہ کرے.تبلیغ بہت عمدہ کام ہے مگر تبلیغ کرنے میں بھی

Page 19

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 13 صلى الله صلى الله جلد اول انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے.کبھی اگر تقریر اچھی ہوگئی ، اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کرا دیا تو دل میں غرور آ گیا.اور کبھی اگر تقریر اچھی نہ ہوئی ، لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہوگئی.اور کبھی یہ ایک دلیل دیتا ہے دل ملامت کرتا ہے کہ تو دھوکا دے رہا ہے.اس قسم کی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو آپ استغفار پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ آپ اعلیٰ درجے کے انسان تھے اور آپ کی مجلس میں بھی نیک ذکر ہوتا تھا.یہ اس لئے تھا کہ آپ ﷺ ہمارے لئے ایک نمونہ تھے.یہ ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ہم ایسا کیا کریں کہ جب کسی مجلس میں بیٹھیں تو استغفار کرتے رہیں اس لئے کہ کسی قسم کا ہمارے دل پر زنگ نہ بیٹھے.اس لئے ذکر الہی پر زیادہ زور دینا چاہئے.نماز وقت پر ادا کرنی چاہئے.ہاں اگر کوئی ایسا ہی خاص موقع آ جائے تو اگر نماز جمع کرنی پڑے تو کرے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں لوگ جھٹ نماز جمع کر لیتے ہیں.یہ مرض نماز جمع کرنے کی بہت پھیلی ہے ایسا نہیں چاہئے.اگر کوئی تمہاری باتیں کرتے ہوئے اٹھ کر نماز پڑھنے پر برا مناتا ہے تو منانے دو، کوئی پرواہ نہ کرو اور نماز وقت پر ادا کر لو.قرآن شریف میں يُقِيمُونَ الصَّلوةَ 2 آیا ہے اس لئے کہ وقت پر نماز پڑھنی چاہئے.جب اس کے اپنے نفس میں کمزوری ہوگی تو پھر اس کے جذب میں بھی کمزوری ہوگی.تہجد کی نماز تجد کی نماز مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے.قرآن شریف میں آتا ہے ياَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ فقُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيْلًا نِصْفَةَ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيلًا اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلان 3 دن کے تعلقات سے جو زنگ آتے ہیں وہ رات کو کھڑے ہو کر دعائیں مانگ مانگ کر ، خشوع و خضوع کر کے دور کرنے چاہئیں.روزه روزہ بھی بڑی اچھی چیز ہے اور زنگ کے دور کرنے کے لئے بہت عمدہ آلہ ہے.صحابہ بڑی کثرت سے روزے رکھتے تھے.ہماری جماعت میں بہت

Page 20

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 14 جلد اول سے لوگ ہیں جو روزہ رکھنے میں سستی کرتے ہیں.روزہ انسان کی حالت کو خوب صاف کرتا ہے جہاں تک توفیق مل سکے روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض ایسے مواقع تلاش کرے جن میں کسی سے کلام نہ کرے.خاموش ہو کر بیٹھے.خواہ یہ وقت پندرہ ہیں منٹ ہی ہو.بہت وقت نہ سہی مگر کچھ وقت ضرور ہونا چاہئے تا کہ خاموشی میں ذکر کرے.تبلیغ سے ذرا فراغت ہوئی تو ذکر الہی کرے.اس کے لئے یہ بہت مفید وقت ہے.سورج نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے بعد.پھر سورج ڈوبنے کے قریب.پھر نماز عشاء کے بعد اور 9 بجے دن سے لے کر دس بجے دن تک کسی وقت کر لینا چاہئے.یہ تو اپنے نفس کی اصلاح ہے.تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع چاہئے.بعض دفعہ اجڑ گنوار آدمی آ کر کچھ سناتے ہیں اور وہ بہت لطیف بات ہوتی ہے.سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ رہے.حضرت صاحب کی کتا ہیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فوراً حوالہ ذہن میں آ جائے.ایک مرض مولویوں میں ہے.یاد رکھو مولوی کبھی کتاب کتابیں اپنی خرید و تمہیں خریدتے.اس کو لھو یا اسراف کجھتے ہیں.شاذ و نادر زیادہ سے زیادہ مشکوۃ رکھ لی اور ایک کا فیہ رکھ لیا.لیکن انسان کے لئے جہاں وہ اور بہت سے چندے دیتا ہے کتاب خرید نانفس کے لئے چندہ ہے.کچھ نہ کچھ ضرور کتاب کے لئے بھی نکالنا چاہئے خواہ سال میں آٹھ آنہ کی ہی کتاب خریدی جائے.یہ کوئی ضروری تو نہیں کہ لاکھوں کی ہی کتابیں خریدی جائیں بلکہ جس قدر خرید سکو خریدو.یہ اس لئے کہ خریدنے والا پھر اسی کتاب کا آزادی سے مطالعہ کر سکے گا اور اس طرح اس کے علم میں اضافہ ہوگا فراست بڑھے گی.بعض جگہ ہمارے مولوی جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی کتابیں لیتے ہیں لیکن جب وہاں سے چلنے لگتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کتابیں لاؤ پھر دینی پڑتی ہیں.تو دوسری بات اپنی کتابیں خریدنے سے یہ ہوتی ہے کہ آزادی پیدا ہوتی ہے احتیاج نہیں ہوتی.

Page 21

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 15 جلد اول سوال و خوشامد کی عادت نہ ڈالو پھر نفس کے لئے لجاجت، خوشامد ،سوال کی عادت نہیں ہونی چاہئے.یہ بھی علماء میں بڑا بھاری نقص ہے کہ وعظ کیا اور بعد میں کچھ مانگ لیا.اور اگر کوئی ایسا گرا ہوا نہ ہوا تو اس نے دوسرے پیرایہ میں اپنی ضرورت جتادی.مثلاً ہمارا کنبہ زیادہ ہے گزارہ نہیں ہوتا یا کسی دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنا دیا کہ کچھ روپے کی یا کوٹ وغیرہ کی ضرورت ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ پر توکل چاہئے.اسی سے مانگنا چاہئے.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا کہ تیرے پاس ایسا مال لایا جائے گا کہ مال لانے والوں کو الہام ہوگا کہ مسیح موعود کے پاس لے کر جاؤ.پھر وہ مال آتا تھا.کوئی کہتا تھا کہ حضور مجھے فلاں بزرگ نے آکر خواب میں کہا اور کوئی کہتا تھا حضور مجھے الہام ہوا.اللہ پر توکل کرو وہ خود تمہارا کفیل ہوگا میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب ضرورت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے بھیج دیتا ہے.خدا تعالیٰ خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے.جو دوسروں کا محتاج ہو پھر اس کے لئے ایسا نہیں ہوتا.ہاں اللہ تعالیٰ پر کوئی بھروسہ کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اس کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.حضرت مولوی صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے کچھ ضرورت پیش آئی.میں نے نماز میں دعا مانگی مصلیٰ اٹھانے پر ایک پونڈ پڑا تھا.میں نے اسے لے کر اپنی ضرورت پر خرچ کیا.تو خدا تعالیٰ خود سامان کرتا ہے.کسی کو الہام کرتا ہے.کسی کو خواب دکھاتا ہے اس طرح اس کی ضرورت پوری کرتا ہے.لیکن کبھی اس طرح پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت ہی نہیں رہتی.ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ اس کی ضروریات ہی نہیں بڑھتیں اور اگر ضروریات پیش آتی ہیں تو پھر ایسے سامان کئے جاتے ہیں کہ وہ مٹ جاتی ہیں.مثلاً ایک شخص بیمار ہے اب اس کے لئے دوائی وغیرہ کے لئے روپوں کی ضرورت ہے.دعا کی ، بیمار ہی اچھا ہو گیا تو اب روپوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئی.تو ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ ضرورت پیش ہی نہیں آتی.

Page 22

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 16 جلد اول پہلی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگوں کا محتاج ہی نہیں ہوتا.دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہو جاتا ہے خدا خود لوگوں کے ذریعے سے سامان کراتا ہے.ہمارے سلسلے اور دوسرے مولویوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو ان کو لوگ خود نذر پیش کرتے ہیں اور مولوی ما نگتے پھرتے ہیں.ایک پیر تھا وہ ایک اپنے مرید کے گھر گیا.وہ مرید ا سے جب وہ آتا تھا ایک روپیہ دیا کرتا تھا.اس دن اس نے ایک اٹھنی پیش کی.پیر نے لینے سے انکار کیا اور کہا کہ میں تو رو پیدلوں گا.غرض وہ اٹھنی دیتا تھا وہ روپیہ مانگتا تھا.بہت تکرار کے بعد اس مرید نے کہا جاؤ میں نہیں دیتا.تمام رات وہ پیر باہر کھڑا رہا.رات کو بارش ہوئی تھی اس میں بھیگا.صبح کہنے لگا کہ اچھالا ؤ اٹھنی.تو یہ حالت ہوتی ہے جو دوسروں کے محتاج ہیں.زلزلے کا ذکر ہے.باہر باغ میں ہم ہوتے تھے.حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی.فرمانے لگے قرض لے لیں.پھر فرمانے لگے قرضہ ختم ہو جائے گا تو پھر کیا کریں گے.چلو خدا سے مانگیں.نماز پڑھ کر جب آئے تو فرمانے لگے ضرورت پوری ہو گئی.ایک شخص بالکل میلے کچیلے کپڑوں والا نماز کے بعد مجھے ملا.اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کر کے اس نے ایک تھیلی نکال کر دی.اس کی حالت سے میں نے سمجھا کہ یہ پیسوں کی تھیلی ہوگی.کھولا تو معلوم ہوا کہ دو سو روپیہ ہے.تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی حاجات کو جو اس پر تو کل رکھتے ہیں اس طرح پورا کیا کرتا ہے.تم کبھی دوسرے پر بھروسہ نہ رکھو.سوال ایک زبان سے ہوتا ہے اور ایک نظر سے.تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو.پس جب تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ خود سامان کرے گا.اس صورت میں جب کوئی تمہیں کچھ دے گا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپر سمجھے گا.مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ لوگوں سے تعلقات حیثیت رکھے.لوگوں نے یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت

Page 23

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 17 جلد اول نقصان اٹھایا ہے.بعض نے سمجھا کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے.یہ مراد نہیں اس غلط نہی کی وجہ سے ملا نے پیدا ہوئے جن کے کام مردے نہلا نا ہوا کرتا ہے.کوئی بیماری ہو جائے تو کہتے ہیں بلاؤ میاں جی کو وہ آکر اس کی خدمت کریں.کھیتی کاٹنی ہو تو چلو میاں جی.گویا میاں جی سے وہ نائی ، دھوبی جس طرح ہوتے ہیں اس طرح کام لیتے ہیں.دوسری صورت پھر پیروں والی ہے.پیر صاحب چار پائی پر بیٹھے ہیں کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چار پائی پر بیٹھ جاوے.حافظ صاحب سناتے تھے ان کے والد بھی بڑے پیر تھے لوگ ہمیں آکر سجدے کیا کرتے تھے.تو میں نے ایک دفعہ اپنے باپ سے سوال کیا کہ ہم تو مسجد میں جا کر سجدے کسی اور کے آگے کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں سجدے کرتے ہیں.اس پر میرے والد نے ایک لمبی تقریر کی.تو ایک طرف کا نتیجہ میاں جی پیدا ہوئے جو جھوٹی گواہی دینی ہوئی تو چلو میاں جی.اور اگر انکار کریں تو کہہ دیا کہ تمہیں رکھا ہوا کیوں ہے.آپ قیامت کے دن کیا خاک کام آئیں گے جو اس دنیا میں کام نہ آئے.اور دوسری طرف پیر صاحب جیسے پیدا ہو گئے.تو دونوں کا نتیجہ خطر ناک نکلا.یہ بڑی نازک راہ ہے.مبلغ خادم ہو اور ایسا خادم ہو کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو.خدمت کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے.ڈاکٹر پاخانہ اپنے ہاتھوں سے نکالتے ہیں لیکن کوئی انہیں بھنگی نہیں کہتا.ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دوائی بھی پلاتے ہیں لیکن کوئی انہیں کمپونڈ رنہیں کہتا.وہ بیمار کی خاطر داری بھی کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں ان کا خادم نہیں کہتا.یہ اس کی شفقت سمجھی جاتی ہے.اس لئے جب تم میں بھی تو کل ہوگا اور تم کسی کی خدمت کسی بدلے کے لئے نہیں کرو گے تو پھر تمہاری بھی ایسی ہی قدر ہو گی.وہ شفقت سمجھی جائے گی وہ احسان سمجھا جائے گا.اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی تشفی دینے والا ہمارا مبلغ ہو.کوئی بیوہ ہو تو حسب ہدایات شریعت اسلامیہ اس کا حال پوچھنے والا ، اس کا سودا وغیرہ لانے والا اور اس کے دیگر کاروبار میں اس کی مدد کرنے والا ہمارا مبلغ ہو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ان کے دلوں میں دو چیزیں پیدا ہوں گی.ادب ہوگا اور محبت ہوگی.تو کل کا نتیجہ ادب ہوگا اور خدمت کا نتیجہ محبت ہوگی.مبلغ

Page 24

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 18 جلد اول کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگر ان میں دنائت نہ ہو تو دوسری طرف متکبر بھی نہ ہو.لوگ نوکر اس کو سمجھیں گے جو ان سے سوال کرتا ہو.جو سوال ہی نہیں کرتا اس کو وہ نوکر کیونکر سمجھیں گے.اگر وہ اس کے پاس آئیں گے تو تو کر سمجھ کر نہیں بلکہ ہمدرد سمجھ کر.اگر اس سے کچھ پوچھیں گے تو ہمدرد سمجھ کر.اس وقت پھر مبلغ کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں تو کر نہیں.انہوں نے تو اسے نو کر نہیں سمجھا وہ تو ا سے ہمدرد سمجھ کر آئے ہیں.تو یہ دور رنگ ہونے چاہئیں کہ اگر سب سے بڑا خادم ہو تو ہمارا مبلغ ہوا اور اگر لوگوں کے دلوں میں کسی کا ادب ہو تو وہ ہمارے مبلغ کا ہو.اس کے لئے وہ اپنے مال قربان کرنے کے لئے تیار ہوں.اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں.پھر مبلغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہے دعائیں کرتے رہو کہ الہی ! میں ان لوگوں کو ناراستی کی طرف نہ لے جاؤں.جب سے خلافت قائم ہوئی ہے میں یہی دعا مانگتا ہوں.ایک امام کی نسبت ایک لطیفہ ہے کہ بارش کا دن تھا.ایک لڑکا بھاگتا چلا جا رہا تھا.امام صاحب نے کہا لڑ کے دیکھنا کہیں گر نہ پڑنا.لڑکا ہوشیار تھا بولا آپ میرے گرنے کی فکر نہ کریں میں گرا تو اکیلاگروں گا آپ اپنے گرنے کی فکر کیجئے.اگر آپ گرے تو ایک جماعت گرے گی.امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھ پر اس بات کا بہت ہی اثر ہوا.تو مبلغ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر وہ گرے گا تو اس کے ساتھ اس کا حلقہ بھی گر جائے گا.دیکھو مولوی گرے مسلمان بھی گر گئے.یہ دو باتیں ہر وقت مد نظر رہنی چاہئیں.اول کوئی تو ایسی بات نہ کرے جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو.دوم دعا کرتا رہے کہ الہی ! میں جو کہوں وہ ہدایت پر لے جانے والا ہو.اگر غلط ہو تو الٰہی ! ان کو اس راہ پر نہ چلا.اور اگر یہ درست ہے تو الی ! توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں.جو بدی کسی قوم میں ہواس کی اپنے عمل دیکھتا رہے.کبھی ستی نہ کرے.لوگوں کو ان کی غلطی سے روکے.ایسا نہ تردید میں جرات سے لیکچر دو ہو کہ اللہ تعالی کے قول کے نیچے آئے.

Page 25

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 19 جلد اول لَوْلَا يَنْههُمُ الرَّيْنِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَاَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَصْنَعُوْنَ - 4 کیوں انہوں نے نہ روکا.تو یہ فرض ہے.بمبئی کے مولویوں کی طرح نہ ہو.وہی لیکچر ہونا چاہئے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو.یہی بات ہمارے اور لاہوریوں کے درمیان جھگڑے کی ہے.وہ مرض بتا نا نہیں چاہتے اور ہم مرض بتانا چاہتے ہیں.ان باتوں پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں جو اچھی باتیں ان میں ہیں یا جو بدیاں ان میں نہیں ہیں.اگر وہ لڑکیوں کو حصہ نہ دیں تو اس پر لیکچر دو.روزے نہ رکھیں تو اس پر دو.نماز نہ پڑھیں تو اس کی پر دو.زکوۃ ادا نہ کریں تو اس پر دو.صدقہ و خیرات نہ دیں تو اس پر دو.لیکن جو باتیں ان کے میں ہیں ان پر نہ دو.غریبوں پر اگر وہ ظلم کرتے ہیں، شریفوں کا ادب نہیں کرتے ، چوری کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں ان پر لیکچر دو.لیکن چوری ان میں نہیں ہے اس پر نہ دو.مرضیں تلاش کرو اور پھر دوا دو.کبھی کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ ہو.میں اپنا طریقہ بتا تا ہوں.میں نے جب کبھی کسی کی مرض کے متعلق بیان کرنا ہو تو میں دو تین مہینے کا عرصہ درمیان میں ڈال لیتا ہوں تا کہ وہ بات لوگوں کے دلوں میں بھول جائے.تو اتنا عرصہ کر دینا چاہئے.اگر موقع ملے تو اس شخص کو جس میں یہ مرض ہے علیحدہ تخلیہ میں نرم الفاظ کے ساتھ سمجھاؤ.ایسے الفاظ میں کہ وہ چڑ نہ جائے.ہمدردی کے رنگ میں وعظ کرو.ایک طرف اتنی ہمدردی دکھاؤ کہ غریبوں کے خدمت گا رتم ہی معلوم ہو.دوسری طرف اتنا بڑا بنو کہ تمہیں دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو.دو فریق بننے نہ دو.دو شخصوں کے جھگڑے کے متعلق کسی خاص کے ساتھ تمہاری طرف داری نہ ہو.کوئی مرض پاؤ تو اس کی دوا فور ادو.کسی موقع پر چشم پوشی کر کے مرض کو بڑھنے نہ دو.ہاں اگر اصلاح چشم پوشی ہی میں ہو تو کچھ حرج نہیں.لوگوں کو جو تبلیغ کرواس میں ایک جوش ہونا چاہئے.جب تک تبلیغ میں ایک جوش نہ ہو وہ کام ہی نہیں کر سکتا.سننے والے پر اثر ڈالو کہ جو تم کہہ رہے ہو اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہو.اور یہ جو

Page 26

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 20 جلد اول کچھ تم سنا رہے ہو یہ تمہیں ورثے کے طور پر نہیں ملا بلکہ تم نے خود اس کو پیدا کیا ہے.تم نے خود اس پر غور کیا ہے.(2) ٹھٹھے باز نہیں ہونا چاہئے.لوگوں کے دلوں سے ادب اور رعب جاتا رہتا ہے.ہاں مذاق نبی کریم ﷺ بھی کر لیا کرتے تھے اس میں حرج نہیں.احتیاط ہونی چاہئے.سنجیدہ معلوم ہو.(3) اور ہمدردی ہونی چاہئے.نرم الفاظ ہوں.سنجیدگی سے ہوں.سمجھنے والا سمجھے میری زندگی اور موت کا سوال ہے.تمہاری ہمدردی وسیع ہونی چاہئے.احمدیوں سے بھی ہو غیر احمدیوں سے بھی ہو.ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے ہوا کرتے ہیں.ایک فریق کہتا ہے ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں دوسرے کہتے ہیں ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں.لیکن اگر تمہاری ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ ہو تو دونوں فریق کے تم ہی مولوی ہو گے.اور پھر انہیں کسی اور مولوی کے بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ تمہیں اپنا مولوی سمجھیں گے.پھر تبلیغ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہونی چاہئے.(4) آج تک ہمارے مبلغوں کا زور غیر احمدیوں پر ہی رہا ہے.کثرت سے ہندو آباد ہیں ان میں بھی تبلیغ ہونی چاہئے.بہت سی سعید روحیں ان میں بھی ہوتی ہیں.تمہاری ہمدردی ان کے ساتھ بھی ویسی ہی ہونی چاہئے جیسے مسلمانوں اور احمدیوں کے ساتھ تاکہ تم ان کے بھی پنڈت ہو جاؤ.اسلام کی تبلیغ ہندوستان میں اسی طرح پھیلی ہے.حضرت معین الدین چشتی کوئی اتنے بڑے عالم نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ، دعاؤں کے ساتھ ، ہمدردی کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمان بنایا.اس لئے تم اپنی تبلیغ غیر احمد یوں سے ہی مخصوص نہ کرو بلکہ ہندوؤں عیسائیوں میں بھی تمہاری تبلیغ ہو.اور ان سے بھی تمہارا ویسا ہی سلوک ہو.مجھے ہندو یہاں دعا کے لئے لکھتے ہیں ، نذریں بھیجتے ہیں.ان میں بھی سعید روحیں موجود ہیں.اگر ان کو صداقت کی طرف بلایا جائے اور صداقت کی راہ دکھائی جائے تو وہ صداقت کو قبول کر لیں.

Page 27

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 21 جلد اول مبلغ کا فرض ہے کہ ایسا طریق اختیار نہ کرے کہ کوئی قوم اسے اپنا دشمن سمجھے.اگر یہ کسی ہندوؤں کے شہر میں جاتا ہے تو یہ نہ ہو کہ وہ سمجھیں کہ ہمارا کوئی دشمن آیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا پنڈت ہے.اگر عیسائیوں کے ہاں جائے تو سمجھیں کہ یہ ہمارا پادری ہے.وہ اس کے جانے پر ناراض نہ ہوں بلکہ خوش ہوں.اگر یہ اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرے تو پھر غیر احمدی کبھی تمہارے کسی شہر میں جانے پر کسی مولوی کو نہ بلائیں گے، نہ ہندو کسی پنڈت کو اور نہ عیسائی کسی پادری کو.بلکہ وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بڑے بڑے لوگوں کو جو کسی مذہب میں گزر چکے ہوں گالیاں دینے سے روکا ہے.اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ تمام دنیا کے لئے نبی آئے اور انہوں نے اپنی امتوں میں ایک استعداد پیدا کر دی پھر بتایا کہ اسلام تمام دنیا کے لئے تبلیغ کرنے والا ہے..تبلیغ میں یہ یاد رکھو کہ کبھی کسی شخص کے قول سے گھبراؤ نہیں اور نہ قول پر دارد مدار رکھو.دلیل اور قول میں فرق ہے.دلیل پر زور دینا چاہئے.لوگ دلیل کو نہیں سمجھتے.مسلمان آریوں سے بات کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں قرآن میں یوں آیا ہے.آریوں کے لئے قرآن حجت نہیں.تم رویہ دلیل کو پیش کرنے کا اختیار کرو تا جماعت احمدیہ میں یہ رنگ آ جائے.دلائل سے فیصلہ کرو.عقلی دلائل بھی ہوں اور نقلی بھی.دلیل ایسی نہ ہو کہ حضرت مولوی نور الدین اتنے بڑے عالم تھے وہ بھلا مرزا صاحب کو ماننے میں غلطی کر سکتے تھے.پس چونکہ انہوں نے مرزا صاحب کو مان لیا اس لئے حضرت صاحب بچے ہیں.ایسی دلیل نہیں ہونی چاہئے.بلکہ دلیل سے بات کرو تا کہ جماعت میں دلائل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو.اگر جماعت میں دلائل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو جائے تو پھر وہ کسی شخص کے جماعت سے نکلنے پر گھبرائیں گے نہیں.کچی اتباع پیدا کرو.جھوٹی اتباع نہ ہو.آریوں کے سامنے قرآن شریف دلیل کے طور پر پیش کرو.اس طرح پیش نہ کرو کہ تم مانتے ہو.ایک اور دھوکا بھی لگتا ہے کہ بعض پھر دعوی کے لئے بھی دلیل مانگتے ہیں.دعوئی پڑھو

Page 28

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 22 جلد اول تو کہتے ہیں دلیل دو.جہاں دعوئی کا اثبات ہو وہاں دعوئی خود دلیل ہوتا ہے.مثلاً حضرت صاحب کی نسبت کوئی پوچھے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟ تو ہم دعویٰ پڑھ دیں گے اور اس کی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے دعوئی مانگا ہے.لاہور یوں اور ہمارے درمیان حضرت صاحب کا دعویٰ ہی دلیل ہے.جب بحث کرو تو مد مقابل کی بات کو سمجھو کہ وہ کیا کہتا ہے.مثلاً تناسخ کی بات شروع ہوئی ہو تو فورا تناسخ کے رد میں دلائل دینے نہ شروع کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے مسئلہ میں بھی اختلاف آتا ہے.اب اگر تم اس کے برخلاف دلیلیں دینے لگ پڑو اور آخر میں وہ کہہ دے کہ آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں تو تقریر بے فائدہ جائے گی.اس کی بات سمجھو کہ آیا وہ وہی تو نہیں کہتا جو تمہارا بھی عقیدہ ہے.بغیر خیالات معلوم کئے بات نہ کرو.تناسخ کے متعلق بات کرو تو پوچھو کہ تمہارا تناسخ سے کیا مطلب ہے.اس کی ضرورت کیا پیش آئی.غرض ایسے سوالات کر کے پہلے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو اور پھر بات کرو.اس طرح اول تو اس کے دعویٰ میں ہی اور نہیں تو پھر دلیلوں میں ہی تمہیں آسانی پیدا ہو جائے گی.کوئی گورنمنٹ اپنے دشمن کو اپنا قلعہ نہیں دکھاتی.قانون بنے ہوئے ہیں.اگر کوئی کوشش کرے تو پکڑا جاتا ہے.کیونکہ کمزور موقع معلوم کر کے پھر اس پر آسانی سے حملہ ہو سکتا ہے.اس لئے پہلے کمزور موقع معلوم کرو اور پھر حملہ کرو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گر ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرتا ہے.انسان محنت کرتا ہے اور ایک وائسرائے بھی.مزدور آٹھ آنے روز لیتا ہے وائسرائے ہزاروں روپیہ روز.کیا وجہ ؟ وہ تھوڑے وقت میں بہت کام کرتا ہے.اسی کا نام لیاقت ہے.دوسرا طریق دوسروں سے کام لینے کا ہے.بڑے بڑے عہدے دار خود تھوڑا کام کرتے ہیں دوسروں سے کام لیتے ہیں.وہ تو خوب تنخواہیں پاتے ہیں لیکن ایک محنتی مزدور آٹھ آنہ ہی کماتا ہے.یہ لیاقت کام کرنے کی لیاقت سے بھی بڑی ہے.پس جتنی لیاقت کام کروانے کی ہو

Page 29

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 23 جلد اول گی اتنا بڑا ہی عہدہ ہو گا.محمد رسول اللہ ﷺ کو کیوں سب سے بڑا درجہ ملا ہے؟ محنت کرنے میں تو لوگ جو سالہا سال غاروں میں رہتے تھے آپ سے بڑھے ہوئے تھے.آپ میں کام لینے کی لیاقت تھی.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان میں ایک طاقت رکھی ہے.بہت جگہ سیکرٹری ہوتے ہیں، خود محنتی ہوتے ہیں ، لوگوں سے کام لینا نہیں جانتے.پھر لکھتے ہیں لوگ مانتے نہیں.دوسری جگہ سیکرٹری ہوتا ہے وہ خود تھوڑا کام کرتا ہے لیکن لوگوں سے کام لیتا ہے اور خوب لیتا ہے تمام انتظام ٹھیک رہتا ہے.ہمیشہ اپنے کاموں میں خود کام کرنے اور کام لینے کی طاقت پیدا کرو.ایسے طریق سے لوگوں سے کام لو کہ وہ اسے بوجھ نہ سمجھیں.بہت لوگ خود محنتی ہوتے ہیں جب تک وہ وہاں رہتے ہیں کام چلتا رہتا ہے لیکن.جب وہاں سے ہٹتے ہیں کام بھی بند ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے سلسلے جو ہوتے ہیں جب نبی مرجاتا ہے تو وہ سلسلہ مٹتا نہیں بلکہ اس کے آگے کام کرنے والے پیدا ہو گئے ہوتے ہیں.یہ اس لئے کہ نبی ایک جماعت کام کرنے ا والی تیار کر جاتا ہے.پس تمہارے سپر د بھی یہی کام ہوا ہے.یہ ایک مشق ہوتی ہے خوب مشق کرو.لوگوں میں کام کرنے کی روح پھونک دو.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں صحابہ میں کام کرنے کی ایک روح پھونکی گئی تھی.ہر دو مہینے کے بعد کوفے کا گورنر بدلتا تھا.حضرت عمر فرماتے تھے اگر کوفے والے مجھے روز گورنر بدلنے کے لئے کہیں تو میں روز بھی بدل سکتا ہوں.ایسے رنگ میں کام کرو کہ لوگوں کے اندر ایک روح پھونک دو.کبھی مت سمجھو کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے نہیں.عرب کی زمین کیسے شریروں کی تھی پھر کیسے شریفوں کی بن گئی.یہ بات غلط ہے کہ وہ مانتے نہیں.تم ایک دفعہ سناؤ دو دفعہ سناؤ آخر مانیں گے.یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہوتی ہے جو کہتا ہے مانتے نہیں.ہمیشہ اپنے کام کی پڑتال کرو.کیا کامیابی اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو ہوئی.تمہارے پاس ایک رجسٹر ہونا چاہئے.اس میں لکھا ہوا ہو کہ فلاں جگہ گئے.وعظ فلاں مضمون پر کیا.اس اس طبقے کے

Page 30

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 24 جلد اول لوگ شامل ہوئے.فلاں فلاں وجوہات پر مخالفت کی گئی.فلاں فلاں بات لوگوں نے پسند کی.یہ رجسٹر آئندہ تمہارے علم کو وسیع کرنے والا ہو گا.تم سوچو گے کیوں مخالفت تم ہوئی.اہم مسائل کا تمہیں پتہ لگ جائے گا ان پر آئندہ غور کرتے رہو گے.اگر تم وہاں سے بدل جاؤ گے تو پھر تمہارے بعد آنے والے کے کام آئے گا.آجکل اس بات کو نہ سوچنے کی وجہ سے مسلمان گرے ہوئے ہیں.ایک استاد تمام عمر فلسفہ پڑھاتا ہے وہ کبھی ان باتوں کو نوٹ نہیں کرتا کہ فلاں بات پر فلاں لڑکے نے سوال کیا اس کا اس طرح جواب ہوا.فلاں بات کی اس طرح تجدید یا تردید ہونی چاہئے.وہ جتنا تجربہ حاصل کر چکا ہوتا ہے جب مرجاتا ہے تو پھر دوسرے کو جو اس کی جگہ آتا ہے از سرنو وہ تجربہ کرنا پڑتا ہے.یورپ کے علوم کی ترقی کا باعث یہی بات ہوئی کہ ایک کچھ نئی معلومات حاصل کرتا ہے اور انہیں نوٹ کرتا ہے.اس کے بعد آنے والا پھر وہی معلومات حاصل نہیں کرتا وہ ان نوٹوں سے آگے فائدہ اٹھاتا ہے.تم بھی اس طرح کرو کہ ہر سال کے بعد نتیجہ نکالو.کون سی نئی باتیں پیدا ہوئیں کون سی باتیں مفید ثابت ہوئی ہیں.جب یہ رپورٹ دوسرے مبلغ کے ہاتھوں میں جائے گی تو وہ اپنی بناء زیادہ مضبوط کرے گا.کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے.یہ خیال کر کے کہ اگر یہ یوں نہیں مانتا تو و استقلال اس طرح مان لے گا.اس میں وہ تو نہ ہارا تم ہار گئےکہ تم نے اپنی بات کو ناکافی سمجھ کر چھوڑ دیا.تم نے اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کو منوا بھی لیا تو کیا فائدہ.بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ غیر احمدی وفات مسیح پر چڑتے ہیں.چلو وفات مسیح چھوڑ کر اور باتیں منواتے ہیں یہ غلط ہے.وفات مسیح مان جائیں تو پھر آگے پیش کرو.ترتیب سے پیش کرو ملمع سازی سے پیش نہ کرو.ملمع سازی سے پیش کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جب اس پر بات کھلے گی تو یا وہ تم سے بدظن ہوں گے اور یا پھر تمہارے مذہب سے.جن جن باتوں پر خدا نے تمہیں قائم کیا ہے ان کو پیش کرو.اگر لوگ نہ مانیں تو تمہارا کام پیش کرنا ہے منوا نا نہیں وہ اللہ کا کام ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذَكَرُ

Page 31

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 25 إنَّمَا انْتَ مُذَكِّرُ - لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِى جلد اول جماعت میں کیا کیا احساس پیدا کر و جماعت میں ایک احساس پیدا کرو.وہ احمدیوں کی محبت پر دوسرے رشتہ داروں کی محبت کو قربان کر دیں.ایسی محبت احمدی لوگوں سے ہونی چاہئے کہ رشتہ داری کی محبت سے بھی بڑھ جائے.حق کی تائید ہونی چاہئے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کے مقابل میں رشتہ دار آ گیا ہے تو رشتہ دار کی طرف داری اختیار کر لی جائے.ہماری قوم ہماری جماعت احمدیت ہے.پھر اس بات کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ دین کا اب سب کام ہم پر ہے.جب یہ کام ہم پر ہے تو ہم نے دنیا کے کتنے مفاسد کو دور کرنا ہے.پھر اس کے لئے کتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے.اس بات کو پیدا کرو کہ ہر ایک آدمی مبلغ ہے.صحابہ شسب مبلغ تھے.اگر ہر ایک آدمی مبلغ ہو گا تب اس کام میں کچھ آسانی پیدا ہوگی اس لئے ہر ایک احمدی میں تبلیغ کا جوش پیدا کرو.پھر مالی امداد کا احساس پیدا کر و.اگر چہ ہماری جماعت کا معیار تو قائم ہو گیا ہے کہ فضول جگہوں میں جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے مثلاً بیاہ شادیوں میں وہ اب دین کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے.لیکن یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ضروریات کو کم کر کے بھی دین کی راہ میں روپیہ خرچ کیا جائے.جماعت کا اکثر ئے.حصہ ست ہے.کچھ لوگ ہیں جو بہت جوش رکھتے ہیں.لیکن یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آخر میں سارا بوجھ ان ہی لوگوں پر پڑ کر ان لوگوں میں ستی آنی شروع ہو جائے گی.تو ایک حصہ پہلے ہی ست ہوا دوسرا پھر اس طرح ست ہو گیا تو یہ اچھی بات نہیں.اس لئے چاہئے کہ جماعت کو ایک پیمانہ پر لایا جائے.جماعت کی یہ حالت ہے کہ اخبار میں چندے کے متعلق نکلے تو کان ہی نہیں دھرتے.ہاں علیحدہ خط کی انتظار میں رہتے ہیں.لیکن اگر کسی شخص کا لڑکا گم ہوا ہو اور اخبار میں نکل جائے تو جس کے ہاں ہوتا ہے وہ اسے وہیں روک لیتا ہے خط کی انتظار نہیں کرتا.ان کے دلوں میں ایسا جوش پیدا کرو کہ جو نہی یہ دین کے لئے آواز سنیں فوراً دوڑ پڑیں.پہلے مبلغ اپنی زندگی میں یہ احساس پیدا کریں.

Page 32

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 26 جلد اول مسائل کے متعلق غور کرو جب کوئی اعتراض پیش آدے پہلے خود اس کے مل کرنے کی کوشش کرو.فوراً قادیان لکھ کر نہ بھیج دو.خود سوچنے سے اس کا جواب مل جائے گا.اور بیسیوں مسائل پر غور ہو جائے گی.جواب دینے کا مادہ پیدا ہو گا.ہم سے پوچھو گے تو ہم تو جواب بھیج دیں گے لیکن پھر یہ فائدے تمہیں نہ ملیں گے.اس لئے جب اعتراض ہو خود اس کو حل کرو.جب حل کر چکو تو پھر تبادلہ خیالات ہونا چاہیے اس سے ایک اور ملکہ پیدا ہوگا.جو آپ ہی سوچے اور پھر اپنے سوچے ہوئے پر ہی بیٹھ جائے اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے.لیکن تبادلۂ خیالات سے ذہن تیز ہوتا ہے.ایک بات ایک نے نکالی ہوتی ہے ایک اور دوسرے نے اس طرح پھر سب اکٹھی کر کے ایک مجموعہ ہو جاتا ہے.دو مبلغ جہاں ملیں تو لغو باتیں کرنے کی بجائے وہ ان مسائل پر گفتگو کریں.خدا تعالیٰ سے تعلق ہو ، دعا ہو ، تو کل ہو.لوگوں کو قادیان بار بار آنے کے لئے اور قادیان آنے کی تاکید کرتے رہو تعلق پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہو.جب تک کسی شاخ کا جڑ سے تعلق ہوتا ہے وہ ہری رہتی ہے.لیکن شاخ کا جڑ سے تعلق ٹوٹ جانا اس کے سوکھ جانے کا باعث ہوتا ہے.موجودہ فتنے میں نوے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اسی وجہ سے کہ ان کا تعلق قادیان سے نہ تھا فتنے میں پڑے.بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ قادیان میں کچھ کام نہیں رہا.روپیہ جاتا ہے اور وہ لوگ بانٹ کر کھا لیتے ہیں.اس لئے لوگوں کو قادیان سے تعلق رکھنے کے لئے کوشش کرتے رہو.اپنے کاموں کی رپورٹ ہر سہ ماہی پر بھیجو.اس کے دوسری طرف میں نے زائد نوٹ لکھوا دیئے ہیں ان کے متعلق بھی لکھو.یہ بھی یاد رکھو کہ شہروں میں بھی ہماری جماعت میں وفاداری کا اثر لاہوریوں کی دیکھا دیکھی کم نہ ہو جائے.ہمیشہ جہاں جاؤ ان کے فرائض انہیں یاد دلاتے رہو.سیاست میں پڑنا ایک زہر ہے.جب آدمی اس میں پڑتا ہے دین سے غافل ہو جاتا ہے.سیاست

Page 33

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 27 جلد اول میں پڑنا امن کا محل ہوتا ہے اور امن کا نہ ہونا تبلیغ میں روک ہوتا ہے.میں لاہوریوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا کہ میں سیاست میں پڑنے سے ڈرتا ہوں.سیاست صداقت کے خلاف، احسان کے خلاف، شریعت کے احکام کے خلاف ہے.یہ ایسا زہر ہے کہ جس جماعت میں اس زہر نے اثر کیا ہے پھر وہ ترقی نہیں کر سکی.اس پر بڑا زور دو.اس وقت سیاست کی ایک ہوا چل رہی ہے.یہ تبلیغ میں بڑی رکاوٹ ہے.بعض لوگ اس سلسلے میں اس لئے نہیں داخل ہوتے کہ اس نے وفاداری کی تعلیم دی ہے.پس تم سیاست میں پڑنے سے لوگوں کو روکو.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تعلیم دو.تقویٰ کے حصول کے ذرائع ( حضرت مصلح موعود ظا یہ اسیح الثانی کی تقریر سے لئے ہوئے نوٹوں کی بناء پر تار کیا گیا.اکمل ) اللہ تعالیٰ سورۃ مائدہ میں فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا تقویٰ کی تعریف وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ 6 اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اچھی طرح پر اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اور اللہ نا فرمان لوگوں کو کامیاب نہیں کرتا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ تقوی فرمانبرداری کا نام ہے.اور فرمانبرداری محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے یا فرمانبرداری کس طرح پیدا ہو خوف کی وجہ سے.محبت حسن و احسان کے مطالعہ سے پیدا ہوگی اور خوف جلال کے مطالعہ سے.چونکہ انسانی فطرت میں بھی دو باتیں ہیں اس لئے سورۃ فاتحہ میں ان دونوں سے کام لیا گیا ہے.فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّT NANON NNOUN یہ تمام احسان یاد دلا کر کہ ایک پہلو سے یہی حسن بھی ہے لوگوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف متوجہ کیا ہے.چونکہ بعض طبائع بجز خوف دلانے کے فرمانبرداری نہیں کرتیں اس لئے ان کے لئے فرما یا مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ : یعنی جزا و سزا کا بھی میں مالک ہوں.

Page 34

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 28 جلد اول تقویٰ انبیاء کی بعثت سے الغرض فرمانبرداری کامل محبت یا کامل خوف پر ہے اور اس کے لئے اللہ نے دو سامان مقرر کئے ہیں.ایک آسمانی ایک زمینی.آسمانی سامان جس سے لوگوں میں فرمانبرداری یا تقویٰ پیدا ہو وہ انبیاء کی بعثت ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ تقویٰ کی روح دنیا سے گم ہو چلی ہے تو انہوں نے اپنے مولیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِ منْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَ.اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ والے ہمارے رب! ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث کر جوان پر تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناوے اور ان کو کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے.تحقیق تو عزیز و حکیم ہے.یہ دعا قبول ہوئی اور ایک رسول مبعوث ہوا جس نے اکھڑ سے اکھڑ قوم میں فرمانبرداری کی روح پیدا کر دی.انبیاء کا ہاتھ خدائے قدوس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے جو اُن سے تعلق پیدا کرتا ہے وہ بھی پاک کیا جاتا ہے.ان کی مثال بجلی کی بیٹری سی ہے کہ جس کا ذرا بھی تعلق اس کے ساتھ ہوا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہا.کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہزاروں ٹمپرنس سوسائٹیاں (Temperance Societies) 10 اتنے سالوں الله سے کام کر رہی ہیں ان کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے دربار سے ایک آواز اٹھتی ہے اور تمام بلا استثناء شراب کے مٹکے لنڈھا دیتے ہیں.مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ دنیا کے ادنی نفع کے لئے دین کو متاخر کرنے پر تیار ہیں مگر انہی مسلمانوں میں سے عبداللطیف ایک نبی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا ہے اور پھر دین پر اپنی جان تک قربانی کر دیتا ہے.امیر کابل کی طرف سے ایماء ہوتا ہے کہ صرف ظاہر داری کے لئے کہہ دو میں مرزا کو مسیح نہیں مانتا مگر وہ سنگسار ہونا پسند کرتا ہے اور یہ کلمہ زبان پر نہیں لاتا.ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ وہ آسمانی ذریعہ سے پاک کیا گیا.دوسرا ذریعہ زمینی ہے جس سے مراد انسان کا اپنی طرف سے مجاہدہ ہے.اس وقت روح انسانی کی حالت اس گھوڑے کی طرح ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ سدھایا جاتا ہے.

Page 35

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 29 جلد اول اس لئے فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا 11 جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم انہیں رستے دکھا دیتے ہیں.ان مجاہدات میں سے چند کا ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے.اول صحبت صادقین.صادقین کی صحبت ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان پاک کیا جاتا ہے.صحبت کا اثر ایک مانی ہوئی بات ہے.لوگ اکسیر کو تلاش کرتے پھرتے ہیں میرے نزد یک دنیا میں اگر کوئی اکسیر ہے تو صحبت صادقین.مبارک وہ جو اس سے فائدہ حاصل کریں.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ أَمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِینَ 12 یعنی اے مومنو! تقویٰ اختیار کرو.اور اس تقویٰ کے حصول کا ذریعہ کیا ہے؟ یہ کہ تم صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.صادقوں میں ایک برقی اثر ہوتا ہے جس سے گناہوں کے جراثیم مارے جاتے ہیں.صادق خدا کے حضور ایک عزت رکھتا ہے.اس کے طفیل صادق سے تعلق رکھنے والا بھی باریاب ہو جاتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ اپنے ایک بھانجے پر اس لئے ناراض ہوئیں کہ وہ ان کے بہت صدقہ کرنے کا شا کی تھا.آپ نے حکم فرما دیا کہ ہمارا بھانجہ بھی ہمارے گھر میں نہ آئے.ایک روز چند صحابہ کبار نے باریابی کی اجازت چاہی جو انہیں دی گئی.ان میں صدیقہ کے بھانجے بھی شامل تھے اور وہ بھی اندر چلے گئے.13 دیکھا صادقوں کی صحبت نے کیا فائدہ دیا.اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ اچھی جنس کے ساتھ ادنی جنس مل کر بک جاتی ہے.دوسرا ذریعہ نفس کا محاسبہ ہے.یعنی ہر روز تم اپنے کاموں پر ایک تنقیدی نظر کرو اور دیکھو کہ تمہاری حرکت دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف ؟ اور آیا کوئی کام اللہ کی نافرمانی کا تو نہیں کیا؟ اور پھر اس کی اصلاح کرو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 14 اے مومنو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اور وہ تقویٰ یوں حاصل ہو گا کہ ہر جان نظر کرتی رہے کہ اس نے کل کے لئے کیا کیا.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کر واللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خبر رکھنے والا ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا نگران حال ہے اور اپنے

Page 36

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 30 جلد اول اعمال پر نظر ثانی کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ میں نے روز فردا کے لئے کیا تیار کی ہے وہ.متقی بن جاتا ہے.تیسرا ذریعہ گناہوں پر پشیمانی یعنی تو یہ ہے اَلسَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ له - 15 جو شخص اپنے گناہوں پر پشیمانی کا اظہار کرتا ہے وہ ان کے بدنتائج سے محفوظ رہتا ہے.اور آئندہ کے لئے نیکی و تقومی کے واسطے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے اور شیطان کے مزید حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.حضرت معاویہ کی نماز فجر قضا ہوگئی.اس پر ان کو اس قدر پریشانی ہوئی اور اس قدر وہ خدا کے حضور روئے اور چلائے کہ انہیں ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب ملا.دوسرے روز کسی نے انہیں اٹھایا.پوچھا تو کون؟ کہا میں تو شیطان ہوں.انہوں نے تعجب کیا کہ نماز کے لئے شیطان بیدار کرے.اس نے کہا اگر میں نہ اٹھاؤں تو آپ ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب پائیں.16 غرض تم اپنی کسی لغزش پر اس قدر پشیمانی ظاہر کرو کہ تمہارا شیطان مسلمان ہو جائے.چوتھا ذریعہ تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا رہے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات بھر سوچتا رہے اور پھر کہے کہ ابن عمر میرا کام کر دے گا تو خواہ مخواہ میری توجہ اس طرف ہوگی.اس طرح جو انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا ہر امر میں ٹھہراتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر خاص توجہ کرتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ کی توجہ ہو وہ کیوں فرمانبردار نہ بنے گا.پانچواں ذریعہ حصول تقویٰ کا استخارہ ہے.یعنی ہر روز اپنے کاموں کے لئے استخارہ کرے اور اپنے مولیٰ سے دعا کرے کہ جو کام نیک اور تیری مرضی کے مطابق ہیں ان کی تو فیق عطا ہو.اور جو تیری مرضی کے موافق نہیں ان سے مجھے ہٹالے.اگر ہر روز ایسا نہ کر سکے تو ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ہی کرے.چھٹا ذریعہ یہ کہ دعاؤں میں لگا ر ہے.جو شخص اپنے اللہ سے دعا کرتا رہے اللہ اسے اپنی رضا مندی کی راہیں دکھاتا ہے اور گمراہ ہونے سے بچاتا ہے.ساتواں ذریعہ وَلَبِنُ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ 17 سے ظاہر ہے کہ جس

Page 37

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 31 جلد اول نعمت باری تعالیٰ پر ہم شکر کریں گے وہ بڑھ بڑھ کر دی جائے گی.پس انسان اگر کوئی نیکی کرے تو اسے چاہئے کہ بہت بہت شکر بجالائے تا کہ اور نیکیوں کی توفیق ملے اور وہ متقی بن جائے.سهی آٹھواں ذریعہ سُبحَانَ الله وَالحَمدُ لِلهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَالله اَكْبَرُ پڑھتار ہے.اس میں یہ سر ہے کہ جو کسی کی تعریف کرے وہ ممدوح چاہتا ہے کہ یہ بھی ایسا ہی بن جائے.نبی کریم یا اللہ نے لا الہ الا اللہ پر زور دیا.اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک ثابت کیا تو خدا نے فرمایا اے نبی ! ہم نے تجھے بھی دنیا میں فرد بنا دیا.جو اللہ اکبر کہہ کر خدا کی دل و جان اور اپنے عمل سے بڑائی بیان کرے اسے اللہ بڑا بنا دے گا.اور جو اس کی تسبیح کرے گا خدا اسے پاک بنا دے گا.اور جو اس کا حامد بنے گا وہ محمود ہو جائے گا.نواں ذریعہ نمازوں سے اپنی اصلاح کرے.کیونکہ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ 18 نماز نا پسند کاموں سے روکتی ہے.نماز معراج المؤمنین یعنی مؤمنوں کو ترقیات روحانی دینے والی ہے.پس نمازیں بہت پڑھو تا کہ تقویٰ حاصل ہو اور تم میں فرمانبرداری کی روح پیدا ہو جائے.دسواں ذریعہ اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کا معائنہ کرتا رہے.جلال کے متعلق فرماتا ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمُ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِنهم إنَّ فِي ذلِكَ لايت أَفَلَا يَسْمَعُونَ 19 یعنی کیا یہ بات ان کو ہدایت نہیں دیتی کہ اس پہلے کئی سنگتوں کو ہم نے ہلاک کیا اور یہ ان کے مکانوں کے کھنڈروں میں چلتے پھرتے ہیں.اس میں بہت سے نشان ہیں کیوں نہیں سنتے.جب تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کے نافرمانوں کا انجام یہ ہو گا اور جس ساز و سامان دنیوی کے لئے خدا کو ناراض کیا اس کا انجام یہ ہے تو لا محالہ فرمانبرداری کی طرف توجہ ہوگی.اور جمال یعنی انعامات کے متعلق اس کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ 20 کیا نہیں غور کرتے کہ ہم

Page 38

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 32 جلد اول پانی کو خشک زمین کی طرف بہاتے ہیں.پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں جس سے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں.کیا بصارت سے کام نہیں لیتے.آدمی انعامات الہی کا مطالعہ کرے.اور اس کے احسانات اپنے رونگٹے رونگٹے پر دیکھے تو اپنے مولی و محسن پر قربان ہونے کو جی چاہے.تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ “ ناشر محمد عنایت الله احمدی بد و ملوی مالک نصیر بک ایجنسی قادیان مطبوعہ کریمی پریس لاہور ) ،، 1 فتوح الشام للواقدی مترجم حکیم شبیر احمد انصاری صفحہ 286 مطبوعہ مئی1986ء ادارہ اسلامیات 190 انار کلی لاہور 2 البقرة : 4 3: المزمل: 2 تا 5 4: المائدة:64 5 الغاشية: 22، 23 6 المائدة: 109 :::7: الفاتحة : 32 8 الفاتحة: 4 2: البقرة: 130 10: ٹمپرنس سوسائٹیاں : معاشرہ میں شراب نوشی کے خلاف کام کرنے والے گروہ :11: العنكبوت: 70 :12: التوبة: 119 :13 بخارى كتاب الادب باب الهجرة صفحه 1060 حديث 6073 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 14: الحشر : 19 15 ابن ماجه ابواب الزهد باب ذكر التوبه صفحه 619 حدیث 4250 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الأولى

Page 39

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 33 جلد اول 16 مثنوی مولوی معنوی مولانا جلال الدین رومی دفتر دوم صفحه 63 تا 67 مطبوع کانپور 17: ابراهيم: 8 18: العنكبوت : 46 19: السجدة: 27 20: السجدة: 28

Page 40

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 34 === حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مکرم مولوی عبید اللہ سندھی صاحب کی ولایت روانگی 5 مارچ 1917ء کو بعد از نماز عصر طلباء مدرسہ احمدیہ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور مکرم مولوی عبید اللہ سندھی صاحب کو ان کے عازم سفر ولایت ہونے کے موقع پر دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر آپ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے.در مفتی صاحب نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی طرف سے سنایا ہے کہ ایسے موقع میں تقریر نہیں کی جاتی لیکن میرے خیال میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی دعوت دینے کا یہ ایک ایسا موقع ہے جس کا تقریر سے ضرور جوڑ ہے کیونکہ وہ مبلغین کو دعوت دے رہے ہیں اور خود مبلغ بننے کے امیدوار ہیں اور مبلغ کا کام ہے کہ اسے جو موقع بھی ملے حق سناوے.پھر ہمیں اہل یورپ کی تقلید کرنے کی ضرورت نہیں.رسول کریم یا ل ا ل کو طریق تھا کہ جب آپ کسی دعوت میں جاتے تو کھانے کے بعد دعا مانگتے ! یہ بھی ایک عبادت ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ ہر ایک کام میں دین کا حصہ بھی رکھتے تھے.ٹی پارٹی اگر صرف چائے پینے کے لئے ہوتی ہے تو اس سے گو پیٹ بھر جائے گا لیکن روح کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا.لیکن مومن کا تو یہ فرض ہے کہ اس کے ہر ایک کام میں دین کا حصہ بھی ہو اس لئے اس موقع پر کوئی تقریر کرنا بے محل نہیں بلکہ ضروری ہے.ضا الله.مفتی صاحب جس غرض کے لئے ولایت جا رہے ہیں وہ ایک ایسی مبلغ کی مشکلات غرض ہے جس کا تعلق انسان سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ.سے ہے.جلد اول

Page 41

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 35 جلد اول حضرت خلیفہ امسیح الاول فرمایا کرتے تھے ہر ایک پیشہ والا اپنے کام کے متعلق کوئی نہ کوئی بات یقینی طور پر کہہ سکتا ہے مگر طب ایک ایسا پیشہ ہے جس کے کرنے والا کچھ نہیں کہہ سکتا.لیکن میرے نزدیک طبیب بھی کسی نہ کسی حد تک کہہ سکتا ہے.البتہ مبلغ کچھ نہیں کہہ سکتا.کئی علاج ایسے ہوتے ہیں جنہیں طبیب کو یقین ہوتا ہے کہ یہ نتیجہ نکلے گا اور ایسا ہی ہوتا.لیکن کوئی مبلغ ایک شریف سے شریف انسان کے متعلق بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں ضرور اسے ہے.حق منوالوں گا.بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک شخص کو نیک ، غیر متعصب ، نفسانی جوش خالی اور سچی تلاش کرنے والا سمجھا جاتا ہے لیکن وہ ہاتھ سے اس طرح نکل جاتا ہے جس طرح سانپ کینچلی سے اور حق کے پیش کرنے پر اس طرح بھاگ جاتا ہے جس طرح کسی زہریلی چیز سے.پھر ایک شخص کے متعلق سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ کبھی حق قبول نہیں کرے گا اور اس کے حالات بھی یہی رائے قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں لیکن وہ حق پالیتا ہے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ایک وقت حق کی بڑی مخالفت کرتے اور لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر وہی دوسرے وقت میں صداقت قبول کر لیتے ہیں.ہم میں سے جو لوگ الگ ہوئے ہیں ان میں سے بعض ایسے لوگوں کو چھوڑ کر جن کے حالات اور واقعات سے پتہ لگتا تھا کہ انہیں ٹھوکر لگے گی باقیوں کو نیک اور متقی ہی سمجھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ ان میں نفس ہے ہی نہیں.لیکن بعد میں معلوم ہو گیا کہ ان کا نفس بڑا سرکش تھا.اس کے مقابلہ میں بعض لوگ ایسے ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے جنہوں نے بڑی بڑی دشمنیاں کی تھیں اور کی احمدیوں کو بہت تکلیف پہنچائی تھی.پچھلے ہی جلسہ پر کسی نے مجھے سنایا کہ ایک طرف سے ایک جماعت کے لوگ آئے اور دوسری طرف سے دوسری کے.اور وہ ایک دوسرے کے گلے مل کر چیچنیں مار کر رونے لگ گئے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ ایک جماعت کے لوگ پہلے احمدی ہو گئے تھے اور دوسروں نے ان کو احمدی ہونے کی وجہ سے اس قدر تنگ کیا تھا کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ جا آباد ہوئے تھے.لیکن بعد میں دوسرے بھی احمدی ہو گئے اب جبکہ انہوں نے ایک دوسرے کو قادیان میں دیکھا تو تنگ کرنے والوں کو

Page 42

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 36 جلد اول اپنی بات یاد آ گئی اور احمدی ہونے کی وجہ سے ان سے دکھ اٹھانے والوں کو اپنی.اس لئے بے اختیار ہو کر ایک دوسرے کے گلے مل گئے.تو کوئی مبلغ کسی کے متعلق نہیں کہہ سکتا کہ میں اس کو حق قبول کرالوں گا.کیونکہ دل کسی کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ خدا کے قبضہ میں ہوتا ہے.اور دل کا صاف کرنا خدا ہی کے اختیار میں ہوتا ہے.اس لئے مبلغ سے بڑھ کر اور کوئی انسان ایسا نہیں ہوتا جو بظاہر اپنی کوشش کی بنیاد کمزوری پر رکھتا ہے.مبلغ ایک کام کے لئے جاتا ہے مگر نہیں جانتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.چاروں طرف اس کی مخالفت کرنے والے ہوتے ہیں.پھر وہ نہیں جانتا کہ اس کی مخالفت میں شیطان کیا تدابیر کرتا ہے کیونکہ شیطان کا کام دلوں میں وساوس پیدا کرنا ہوتا ہے اور دل کا حال سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی جان نہیں سکتا.اس لحاظ سے مفتی صاحب کا کام ایسا مشکل ہے کہ ہماری جماعت کو ان کے لئے خاص طور پر دعائیں کرنی چاہئیں.یہ تو میں نے ان کے لئے کہا ہے جو اس دعوت کے دینے والے یا جو اس میں شریک اور جن کو ان کے ذریعے یہ بات پہنچے گی.اب میں مفتی صاحب کو کہتا ہوں کہ وہ اس بات کو مفتی صاحب سے خطاب خوب یاد رکھیں کہ ان کا کام لوگوں کو حق منوانا اور قبول کروانا نہیں بلکہ حق پہنچانا ہے.اللہ تعالیٰ ظالم نہیں اس لئے وہ اپنے بندوں کو ایسا کام سپردنہیں کرتا جسے وہ کر نہیں سکتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں آیا کہ تم لوگوں کو مسلمان بناؤ بلکہ یہی آیا ہے کہ ان تک حق پہنچا دو 2 اور یہی ہر ایک مبلغ کا فرض ہے.وہ مبلغ جو یہ سمجھتا ہے کہ میں نے لوگوں کو مسلمان بنانا اور اپنا ہم عقیدہ کرنا ہے وہ یا تو بالکل نا کام اور نا مر اور بہتا ہے یا اپنا ایمان بھی کھو بیٹھتا ہے.چنانچہ وہ لوگ جو اس خیال کو لے کر یورپ میں گئے کہ ہم وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا ئیں گے نہ یہ کہ ان تک حق پہنچائیں گے ان کو دوسری بات پیش آئی.جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اصل اسلام کو

Page 43

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 37 جلد اول قبول کرنے سے رکتے اور مسلمان نہیں بنتے تو انہیں ان کے خیالات کے مطابق ایک نیا اسلام بنانا پڑا.لیکن اگر وہ یہ غرض لے کر جاتے کہ ہمارا کام اسلام پہنچانا ہے نہ کہ مسلمان بنانا تو اگر کوئی ایک شخص بھی اسلام قبول نہ کرتا تو کامیاب سمجھے جاتے.اور ان کے لئے خوش ہونے کا مقام تھا کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا لیکن چونکہ انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم مسلمان بنائیں گے اس لئے وہ دوسروں کو مسلمان بناتے بناتے اپنا اسلام بھی چھوڑ بیٹھے.حالانکہ قرآن مجید نے یہ نہیں کہا کہ تم لوگوں کو مسلمان بناؤ.دیکھو قرآن کریم اور حدیث شریف سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ جس کے ذریعہ کسی کو ہدایت ملی ہوا سے بھی ثواب عظیم حاصل ہو گا 3 لیکن یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ حق کا منوانا اور قبول کروانا کسی کا فرض ہے اور جو ایسا کرے گا اسے اجر ملے گا.بلکہ جہاں دوسروں کو حق پہنچانے کا ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی اس بات سے جھاڑ بتلا دی گئی ہے کہ تم کون ہو کسی کو منوانے والے.یہ کام خدا کا ہے 4 پس جو لوگ اس خیال کو لے کر تبلیغ کے لئے جاتے ہیں کہ ہم دوسروں کو اسلام منوائیں گے ان کے حسب حال یہ قصہ ہے.کہتے ہیں ایک دھوبی تھا وہ ایک دن گھر والوں سے ناراض ہو کر اپنے بیل کو لے کر گھر سے باہر جا بیٹھا اور اس بات کا منتظر رہا کہ گھر والے مجھے منوانے آئیں گے.لیکن گھر والے بھی اس سے تنگ آئے ہوئے تھے اس لئے اسے منوانے کے لئے کوئی نہ گیا.جب اس نے دیکھا کہ شام ہو گئی ہے اور بھوک لگ رہی ہے اور منوانے کوئی آیا نہیں تو بیل کو گھر کی طرف چلا کر خود اس کی دم پکڑ کر لڑھکتا ہوا چل پڑا اور کہتا جاتا کہ نہیں میں نہیں گھر جاتا.مجھے نہ لے جاؤ.اس طرح وہ یہ ظاہر کرتا کہ گو میں تو گھر نہیں جانا چاہتا مگر بیل مجھے لے جا رہا ہے.یہی حال ان لوگوں کا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کو مسلمان بنا رہے ہیں اور انہیں اسلام منوا ر ہے ہیں حالانکہ وہ خود ان کی باتیں مان رہے ہوتے ہیں اور ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسا کہ چلتی گاڑی میں بیٹھا ہوا کوئی کہے کہ میں تو کھڑا ہوں

Page 44

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 38 جلد اول اور درخت وغیرہ چل رہے ہیں.حالانکہ وہ خود چل رہا ہوتا ہے اور درخت کھڑے ہوتے ہیں.ہمارے مبلغین کا یہ ارادہ اور نیت ہے یت ہر گز نہیں ہونی چاہئے بلکہ یہ ہونی چاہئے کہ ہم دوسروں کو اسلام منوانے نہیں بلکہ پہنچانے جا رہے ہیں.اور صداقت وحق کو پہنچا کر اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں.کیونکہ یہ اسی کے اختیار اور قبضہ میں ہے کہ کسی کے دل کو حق کے قبول کرنے کے لئے کھول دے.یہی نصیحت میں نے قاضی عبد اللہ صاحب کو چلتے وقت کی تھی اور بعد میں بھی بار بار ان کو یہی لکھتا رہا ہوں کہ تم حق پہنچا دو.یہی تمہارا کام ہے.منوانا اور قبول کرانا تمہارا کام نہیں ہے.یہی نصیحت میں اس وقت مفتی صاحب کو بھی کرتا ہوں پس ہمارے م ے مبلغین کا مقصد اور مدعا یہی ہونا چاہئے.مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو خطاب اب میں دعوت دینے والوں کو جو خود مبلغ بننے کی خواہش اور نیت رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کو خوب ذہن نشین کرلیں کہ ایک کام جس کا نتیجہ ایک گھنٹہ تک قائم رہتا ہے اس کی نسبت اس کام کی طرف جس کا نتیجہ دو گھنٹہ تک برقرار رہتا ہے زیادہ توجہ کی جاتی ہے اور دنیا میں جو کام ہو رہے ہیں وہ ایسے ہی ہیں جو یا تو خود فنا ہونے والے ہیں یا جن کے نتائج فنا ہو جاتے ہیں یا جن کے نتائج کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ بہتر اور عمدہ ہی نکلیں گے لیکن تبلیغ ایک ایسا کام ہے جس کے متعلق یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کا نتیجہ ضرور ہی اچھا اور ہمیشہ قائم رہنے والا نکلے گا.دیکھو اگر ایک ڈاکٹر کسی کی آنکھوں کا علاج کرتا ہے اور وہ اچھی ہو جاتی ہیں تو یہ اس نے بہت اچھا اور عمدہ کام کیا ہے لیکن اس کے اس کام کا نتیجہ اس انسان کی زندگی تک ہی محدود ہے اور ممکن ہے کہ انہیں آنکھوں کے ذریعہ نیک کام کرے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ برا کام بھی کرے تو برائی کا احتمال بھی ساتھ لگا ہوا ہے.اسی طرح اگر ایک

Page 45

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 39 جلد اول شخص کسی غریب کو ایک روپیہ دے تو یہ ایک اچھا کام ہے وہ اس روپیہ کو لے کرا ضروریات کو پورا کرے نہ کہ کسی ناجائز جگہ خرچ کر دے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اسی روپیہ کی شراب لے کر پی لے.اسی طرح ایک شخص کسی کو ایک عہدہ پر مقرر کرتا ہے جو بہت اچھی بات ہے ممکن ہے وہ اس عہدہ پر دیانت اور امانت سے کام کرے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ وہ ظلم وستم کا مرتکب ہو.تو ہر قسم کے کاموں میں نیکی کے ساتھ برائی کا احتمال بھی لگا ہوا ہے.لیکن تبلیغ ایک ایسا کام ہے کہ نیکی ہی نیکی ہے کیونکہ صداقت برے طور پر استعمال ہی نہیں ہو سکتی.اور اگر کوئی اسے بگاڑ کر پیش کرتا ہے تو وہ صداقت نہیں ہے اس لئے اس کا نام تبلیغ نہیں رکھا جا سکتا.تو صداقت کبھی اپنی اصلی حالت میں برائی کے طور پر استعمال نہیں کی جاسکتی.لیکن باقی چیزیں اپنی اصلی حیثیت میں بھی برائی کی جگہ استعمال ہو سکتی ہیں.پس تبلیغ ہی ایک ایسا کام ہے جس کا نتیجہ یقینی طور پر بہتر نکلتا ہے اور جو بہت دیر پا ہوتا ہے اس لئے وہ بچے جو مدرسہ احمدیہ میں پڑھتے ہیں یا اور وہ لوگ جو تبلیغ کے فرائض ادا کرتے ہیں ان کو اس کام کی اہمیت ہر وقت مد نظر چاہئے کیونکہ جب تک کسی کام کی اہمیت مد نظر نہ ہو اس وقت تک اس کے کرنے کا پورا پورا شوق بھی پیدا نہیں ہوتا.چونکہ تبلیغ کا کام ایک ایسا کام ہے جو بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے اس لئے مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں کو چاہئے کہ نہایت محنت اور کوشش سے اس کو کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس بات کو خود یا درکھیں کہ جتنا بڑا کوئی کام ہوتا ہے اس کے لئے اتنی ہی بڑی قربانی کرنی پڑتی ہے.مدرسہ احمدیہ میں پڑھنے والے بچوں میں سے شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ ہم پڑھنے کے بعد کھائیں گے کہاں سے اور کس طرح اپنی ضروریات کو پورا کریں گے.اگر کسی کے دل میں ایسا خیال ہو تو وہ بہت جلدی اس کو دور کر دے.اور اگر دور نہیں کر سکتا تو پڑھنا چھوڑ دے تا کہ ایک نیکی کے کام کے ساتھ اس کے دل میں یہ برا خیال پیدا ہو کر اس کی نیکی کو بھی برباد نہ کر دے.لیکن سب کو یا د رکھنا چاہئے

Page 46

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 40 جلد اول کہ خدا تعالیٰ جب ان لوگوں کی ضروریات کو پورا کرتا ہے جو اس کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی اطاعت سے اپنے آپ کو نکالتے ہیں تو پھر کیا انہیں کی ضروریات کو پورا کرتا اس پر بوجھل ہو گا جو اس کا نام پھیلانے کے لئے کھڑے ہوں گے؟ ہر گز نہیں.خدا تعالیٰ ضرور ان کے لئے سامان پیدا کر دے گا.“ (الفضل 10 مارچ 1917 ء ) 1: بخارى كتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه (الخ) صفحه 972 حدیث نمبر 5458 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الثانية 2 بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ (المائدة: 68) 3 : بخارى كتاب الجهاد والسير باب فضل من اسلم على يديه رجل (الخ) صفحہ 497 حدیث نمبر 3009 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية 4: إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ (القصص : 57)

Page 47

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 41 جلد اول حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی یورپ سے آمد 31 مئی 1919 ء بعد نماز مغرب بورڈران تعلیم الاسلام ہائی سکول نے بورڈنگ ہاؤس میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی یورپ سے آمد کی خوشی میں ایک دعوت کی جس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر آپ نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو تقریر فرمائی وہ درج ذیل ہے :.ایسے موقعوں پر جیسا کہ آج کا موقع ہے لوگوں میں یہ طریق نہیں ہے کہ صدر جلسہ کوئی تقریر کرے یا ان غلطیوں اور فروگزاشتوں کی تصحیح کرے جو ایسے موقع پر بولنے والوں سے سرزد ہوئی ہوں لیکن ہمارے ہاں یہی سنت ہے کہ صدر تقریر کرے.چنانچہ حضرت خلیفہ اول ضرور تقریر کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ شاید تم کو امید نہ ہو کہ میں کچھ کہوں گا لیکن میں آجکل کے پریزیڈنٹوں کی طرح کاٹھ کا الو بننا پسند نہیں کرتا.تو چونکہ ایسے موقع پر بولنا پہلے سے سنت چلی آتی ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اسی میں فائدہ ہے اس لئے بجائے اس کے کہ میں اس طریق کو اختیار کروں جو یورپ میں جاری ہے اور جس کی اس ملک میں تقلید کی جاتی ہے اسی سنت پر عمل کرتا ہوں جو ہم میں جاری ہے.تلاوت قرآن کریم کے متعلق نصیحت سب سے پہلے تلاوت کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.افسوس ہے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے لڑکوں کی طرف سے اس تقریب پر جو حلاوت کی گئی ہے کیا وہ قرآن کو دیکھ کر کی گئی ہے.رسول کریم ہے تو امی تھے اس لئے کبھی آپ نے دیکھ کر قرآن کریم نہیں پڑھا.لیکن نماز میں قرآن کریم زبانی ہی پڑھا جاتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ

Page 48

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 42 جلد اول نماز پڑھتے وقت قرآن کھول کر سامنے رکھ لیا جائے اور کوئی لمبی سورۃ پڑھنی شروع کر دی جائے کیونکہ کوئی ضرورت نہیں کہ ہم قرآن کریم کا کوئی خاص حصہ کسی خاص موقع پر تلاوت کرنے کے لئے چنیں.جبکہ اس کا ہر ایک حصہ ایک ہی ایسا با برکت اور مفید ہے.پس اگر کوئی تلاوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اسے کوئی لمبی سورۃ یا قرآن کریم کا کوئی اور حصہ یاد نہیں ہے تو وہ سورۃ اخلاص ہی سنادے.اس کا زبانی سنانا اس سے بہتر ہے کہ دیکھ کر ایک سیپارہ سنایا جائے.تم اچھی طرح یاد رکھو کہ خدا نے جو شریعت ہمیں دی ہے وہ ایسی آسان اور مختصر ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لئے جن باتوں کے یاد کرنے کی ضرورت کی ہے وہ بآسانی یاد کی جاسکتی ہیں اور یہ اس شریعت کی ایسی خصوصیت ہے جو دنیا کی کسی اور شریعت میں ہرگز نہیں پائی جاتی.دیکھو قرآن کریم جہاں تمام دنیا کی کتابوں سے زیادہ مکمل ہے وہاں سب سے چھوٹا بھی ہے.میں نے سارا قرآن دو ورق پر لکھا ہوا دیکھا ہے اور اس سے بھی کم جگہ پر لکھا ہوا سنا ہے.اس کے مقابلہ میں انجیل کیا ہے.چند مثالیں اور کہانیاں ہیں لیکن وہ بھی حجم میں قرآن سے بڑی ہے اور بائیل جو اصل کتاب ہے وہ تو بہت ہی بڑی ہے.اور اس میں ایسے رنگ میں ایک ہی قسم کی باتوں کو بار بار دہرایا گیا ہے کہ اسے یا تو وہی پڑھ سکتا ہے جسے اس کا امتحان دینا ہو یا وہ جو مذہبی طور پر اس کے پڑھنے کے لئے مجبور ہو یا وہ جو عیسائیت کے متعلق لکھنے یا بولنے والا ہو ورنہ اس کے پڑھنے پر طبیعت ہی نہیں لگتی.لیکن ہمیں جو کتاب ملی ہے وہ ایسی مختصر اور عمدہ ہے کہ اس کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد کر لینا کوئی مشکل بات نہیں ہے.اول تو خدا تعالیٰ جن کو توفیق دے وہ سارا ہی قرآن یاد کرنے کی کوشش کریں.مگر چونکہ قرآن کو مختلف حصوں میں بھی تقسیم کر دیا گیا ہے اس لئے معمولی حافظہ والا بھی کچھ نہ کچھ یاد کر سکتا ہے.چنانچہ بعض سورتیں اتنی چھوٹی اور مختصر ہیں کہ جو نہایت آسانی سے یاد کی جاسکتی ہیں.پس اس بات کو یا درکھو کہ جب کبھی تمہیں کسی تقریب پر تلاوت کا موقع ملے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ تم قرآن کھول کر کوئی بڑا رکوع سنانا شروع کر دو بلکہ جو حصہ تمہیں یاد ہو وہی سنا دو.اور اگر سورۃ اخلاص یاد

Page 49

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 43 جلد اول ہے تو اسی کے پڑھنے سے شرم نہ کرو.اور اگر سورۃ کوثر یاد ہے تو وہی پڑھ کے سنا دو.کیونکہ قرآن کریم کا کوئی حصہ چھوٹا نہیں بلکہ ہر ایک ہی حصہ بڑا اور متبرک ہے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کا جتنا حصہ سناؤ وہ ایسا صحت کے ساتھ یاد ہونا چاہئے کہ مجالس میں سنا سکو.عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہمارے بچے عربی الفاظ کو صحت کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے.میں یہ نہیں کہتا کہ عربوں کی طرح اور انہیں کے لہجے میں الفاظ ادا کئے جاویں.بعض حروف تو ایسے ہیں کہ ان کو اس ملک کے علماء بھی عربوں کی طرح ادا نہیں کر سکتے چنانچہ عرب کی تعریف ہی یہ کی جاتی ہے کہ ض“ بول سکے.پس جو رض، صحیح طور پر بول سکے وہ عرب ہوتا ہے.تو تمہارا اس طرح حروف کو ادا کرنا مشکل ہے مگر پھر بھی تمہیں کوشش کرنا چاہئے کہ صحیح تلفظ ادا کر سکو اور عربی لہجہ سے مشابہت پیدا کر لو.ہمارے شیخ عبد الرحمن صاحب ”ق“ کوک‘ بولتے ہیں مگر وہ معذور ہیں.کیونکہ بڑی عمر میں ہندو سے مسلمان ہوئے ہیں مگر پھر بھی بہت لوگوں سے اچھا پڑھتے ہیں.افسوس ہے کہ جو لوگ دوسرے مذاہب سے آئیں وہ تو عربی الفاظ کا ادا کرنا سیکھ لیں مگر وہ بچے جو مسلمانوں کے گھر پیدا ہوں اور تعلیم الاسلام سکول میں پڑھیں وہ نہ پڑھ سکیں.پس میں ذمہ دار لوگوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ طلباء کو صیح الفاظ پڑھنے سکھائیں اور طلباء صحیح پڑھنے کی کوشش کریں.نظم خوانی کے متعلق نصیحت اس کے بعد نظم کے متعلق میں نصیحت کرنا چاہتا ہوں.نظمیں عام طور پر پڑھی جاتی ہیں میں بھی نظم کو بہت پسند کرتا ہوں اور خود شاعر ہوں.مگر اب نہ صرف کوئی شعر کہتا ہی نہیں بلکہ کہہ ہی نہیں سکتا.پہلے تو یہ حالت تھی کہ ایک دفعہ عصر سے لے کر مغرب تک 100 شعر کہہ لئے تھے.لیکن اب اگر کبھی ایک مصرعہ منہ سے نکل جاتا ہے تو دوسرا بنا مشکل ہو جاتا ہے.جس سے میں نے سمجھ لیا ہے کہ اس طرف سے میری طبیعت ہٹ گئی ہے لیکن اس سے پسندیدگی کے مادہ میں کوئی کمی نہیں ہوئی.تو میں خود شاعر ہوں یا شاعر تھا شعروں کو پسند کرتا ہوں اور

Page 50

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 44 جلد اول مجھے رویا میں بتایا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کی علامتوں میں سے ایک علامت شعر گوئی بھی ہے.اور میں اپنی جماعت کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم شعر کہا کرو.یہی وجہ ہے کہ سالانہ جلسہ پر نظمیں پڑھنے کے لئے بھی وقت رکھا جاتا ہے تو میں نظم کو پسند کرتا ہوں - شعر کہتا رہا ہوں اور رویا میں مجھے بتایا گیا ہے کہ اپنی جماعت کے لوگوں کو شعر کہنے کی تحریک کروں.مگر ان ہی باتوں کی وجہ سے مجھے یہ بات سخت نا پسند ہے کہ اشعار ایسے طریق سے پڑھے جائیں کہ زبان خراب ہو.ہمیں اس بات کے لئے بڑی غیرت رکھنا چاہئے کہ ہماری ملکی زبان خراب نہ ہو.اب تو یہ بات کم ہوتی جاتی ہے لیکن کچھ عرصہ پہلے یہ حالت تھی کہ نو تعلیم یافتہ لوگ اردو بولتے ہوئے بہت کثرت سے انگریزی الفاظ بولتے تھے مثلاً کہتے ہمارے فادر ان لا (Father in Law) آئے ہیں یا یہ کہ ہماری مد رال (Mother ill) پڑی ہیں.یہ ایک بُری بات تھی جو عام طور پر پھیلی ہوئی تھی اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ چونکہ لوگوں کو اپنی زبان سے محبت نہیں رہی اس لئے وہ اسے نہیں بولتے اور دوسری زبان کے الفاظ عام طور پر بولتے ہیں.گو یہ مرض اب کم ہوتا جاتا ہے مگر ابھی ہے.اسی لئے اردو میں اعلیٰ مضامین لکھنے والے بہت کم ہوتے جاتے ہیں.علاوہ ازیں عام لوگ کیوں سیدھے راستہ سے بھٹک رہے ہیں اور وہ جو ان کے لیڈر کہلاتے ہیں ان کی باتوں کا ان پر کیوں کوئی اثر نہیں ہوتا ؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں ایسے لوگ نہیں ہیں جو زبان کے ذریعہ ان پر قابو پاسکیں اور انہیں اپنے قبضہ اور اقتدار میں رکھ سکیں.اور یہ بات اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اپنی زبان سے خاص محبت اور الفت نہ پیدا ہو اور اس کو محنت اور کوشش سے نہ سیکھا جائے.اب تو جو شخص ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے وہ کہتا ہے میں اردو جانتا ہوں یہ تو ہماری مادری زبان ہے حالانکہ کوئی زبان صحیح طور پر بغیر سیکھے نہیں آسکتی.وو ولایت میں ایک مشہور ناول نویس ہے اور ناول نویسی کی وجہ سے ہی اسے "سر" کا خطاب ملا ہے.وہ لکھتا ہے ایک کتاب کو میں نے اتنا پڑھا اتنا پڑھا کہ باوجود اس کے کہ 6

Page 51

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 45 جلد اول میں بہت احتیاط سے رکھتا تھا پھر بھی جہاں میں انگوٹھا رکھ کر پڑھا کرتا تھا وہاں سے گھس کر بالکل پھٹ گئی اس پر بھی میں اسے پڑھتا ہی رہا کہ ایک دن جبکہ میں دریا کے کنارے بیٹھا پڑھ رہا تھا میرے ہاتھ سے گر کر دریا میں جا پڑی اور ضائع ہو گئی.تو چونکہ کوئی زبان صحیح طور پر بغیر سیکھے نہیں آسکتی اس لئے تمہارا بھی فرض ہے کہ اردو سیکھنے کے لئے خاص کوشش کرو اور عربی و انگریزی جن کا سیکھنا ضروری ہے ان کے ساتھ ہی اردو بھی سیکھو.کیونکہ جب تک کسی زبان پر قبضہ اور تصرف حاصل نہ ہو اُس وقت تک انسان دوسرے پر اثر نہیں ڈال سکتا.اور زبان پر قبضہ حاصل ہونا گویا جادو ہاتھ آنا ہوتا ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں مخالفین جب کوئی جواب نہ رکھتے اور آپ کے دلائل کی تردید بھی نہ کر سکتے تو کہتے کہ ان کی زبان میں جادو ہے.واقعہ میں انبیاء کو جو زبان دی جاتی ہے وہ خاص اور معجزہ کے طور پر ہوتی ہے.تو تمہارے لئے اردو کا سیکھنا بھی بہت ضروری ہے.اکثر لوگ اردو لکھنے اور بولنے میں بہت غلطیاں کرتے ہیں جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اردو جانتے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے اور انہیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے.پس تم اس کو پوری کوشش کے ساتھ سیکھو کیونکہ جب تک تمہیں اس پر قبضہ نہ حاصل ہوگا اُس وقت تک اپنے ملک کے لوگوں پر تم اثر نہیں ڈال سکتے اور اپنے دلائل سے انہیں مؤثر نہیں کر سکتے.چونکہ الفاظ سے بڑھ کر اور کسی چیز کی کہ تلوار کا بھی اثر نہیں ہو سکتا اس لئے اگر الفاظ اچھے اور موزوں ہوں تو دل میں گڑ جاتے ہیں.اور اگر تی کرخت اور بے ترتیب ہوں تو نہ کوئی انہیں سننا پسند کرتا ہے اور نہ ان کا کچھ اثر ہوتا ہے اس لئے زبان کا سیکھنا بہت ضروری ہے.ہمارے بچوں کو اس کے لئے خاص کوشش کرنی چاہئے.کالج کے متعلق اپیل کا جواب اب رہی اپیل کہ سکول کو کالج بنا دیا جائے میں ان جذبات کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں جو بچوں نے اپنی آئندہ تعلیم کے متعلق ظاہر کئے ہیں کہ وہ بھی سلسلہ کے انتظام کے ماتحت ہی

Page 52

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 46 جلد اول ہو.مگر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کا موقع آ جائے گا.اس میں شک نہیں کہ مومن جس کام کو ہاتھ ڈالتا ہے وہ اگر خدا کی منشاء کے ماتحت ہو تو ہو جاتا ہے مگر ہمیں یہ نہیں چاہئے کہ خدا کا امتحان کریں.پھر جن لوگوں کے سپرد کام ہیں ان کو خود اس قسم کی باتوں کا بہت خیال ہے اور ایسی ضروریات سے واقف ہیں مگر ہر ایک کام کے لئے وقت ہوتا ہے جب وہ وقت آ جائے تو سامان خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں.دیکھو ایک وقت تو ہماری جماعت پر وہ تھا کہ ایک شخص حاجی ریاض احمد آیا اور اس نے حضرت خلیفہ اول سے پوچھا کہ سرسید اور مرزا صاحب میں کیا فرق ہے؟ حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے میں نے اسے کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے جو جماعتیں قائم ہوتی ہیں ان کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اول اول ان میں بڑے لوگ داخلی نہیں ہوتے.اب دیکھو حضرت مرزا صاحب نے جو جماعت قائم کی ہے اس میں بڑے لوگ نہیں ہیں مگر سرسید کے ساتھ بڑے بڑے نواب، رئیس اور جاگیر دار شامل ہو گئے ہیں اس سے ظاہر ہے کہ سرسید کو جو کامیابی ہوئی تو دنیوی اسباب کی وجہ سے ہوئی لیکن حضرت صاحب کو جو ترقی ہو رہی ہے وہ خدائی سامانوں کے ذریعہ ہو رہی ہے.تو اُس وقت ہماری جماعت کی یہ حالت تھی.پھر حضرت خلیفہ المسیح کے زمانہ میں دو ایسے آدمی داخل سلسلہ ہوئے جو دنیاوی لحاظ سے اچھی حیثیت رکھتے تھے اور اب تھوڑے ہی عرصہ میں پندرہ کے قریب ایسے شخص داخل ہو چکے ہیں.اسی طرح ایک وقت تھا کہ اگر کوئی ایک سور و پیہ چندہ دیتا تو بڑا امیر سمجھا جاتا.پھر وہ زمانہ آیا کہ ایک شخص نے پانچ ہزار روپیہ چندہ دیا.اور اب یہ پہلا سال ہے کہ پندرہ ہزار روپیہ ایک شخص نے دیا ہے.اس تھوڑے سے عرصہ میں باحیثیت اور بااثر لوگوں کا جماعت میں داخل ہونا دراصل میرے ایک رؤیا کی تعبیر ہے جو میں نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کو سنایا تھا.میں نے ایک لمبی دعا کی تھی جس میں یہ بھی کہا تھا مٹی نصر الله 1 اس پر مجھے چودھری نصر اللہ خان صاحب دکھلائے گئے.اسی میں میں نے یہ دعا بھی کی تھی کہ ہمارے سلسلہ میں امراء داخل نہیں ہیں.الہی ! ان کے دلوں کو کھول دے اور انہیں حق کے قبول کرنے کی توفیق بخش.اس کے بعد جلد ہی

Page 53

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 47 جلد اول کئی اصحاب داخل ہوئے.اور حال ہی میں ایک خان بہادر اور آنریری مجسٹریٹ نے بیعت کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ ہمارا سلسلہ خدا کے فضل سے دن بدن بڑھ رہا اور ہر طرح سے اس میں ترقی ہو رہی ہے.لیکن پھر بھی ہمیں تا حال اسی بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کے دلوں میں حق اور صداقت کی عمارتیں کھڑی کریں اور اینٹوں کی عمارتیں جن کا کالج کے لئے ہونا ضروری ہے ان کو ابھی رہنے دیں.اس میں شک نہیں کہ ہم ایسی عمارتوں کے لئے اگر روپیہ جمع کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ اس وقت جس قدر بھی روپیہ جمع ہو سکے اسے دلوں میں عمارتیں بنانے پر خرچ کیا جائے نہ کہ اینٹوں اور پتھروں کی عمارتوں پر لگایا جائے.عمارتیں بنانے کے متعلق حضرت مسیح موعود کا بھی یہی عمل تھا.چنانچہ یہاں عمارتیں بنانے کے لئے جب آپ سے کہا گیا کہ آپ چندہ کے لئے تحریک کریں یا وفد بھیجنے کی اجازت دیں تو آپ نے نا پسند کیا.پھر وفد کے مجوزین نے میرے ساتھ بھیجنے کے لئے کہا مگر آپ نے مجھے بھی نہ بھیجا.اس پر بھی وہ باز نہ آئے اور آپ کو یہ کہہ کر وفد لے گئے کہ ہم اصل میں لنگر وغیرہ مدات کے لئے چندہ جمع کرنے جاتے ہیں ان کے متعلق تحریک کرنے کے بعد عمارت کے لئے کہہ دیا کریں گے مگر جب وفد واپس آیا تو معلوم ہوا کہ جن اصل اغراض کو پیش کر کے انہوں نے وفد کی اجازت لی تھی ان کے لئے تو بہت تھوڑا روپیہ لائے اور جس کے متعلق کہتے تھے کہ اس کے لئے ضمنی طور پر تحریک کر دیا کریں گے اس کے لئے کئی ہزار لائے.میرے خیال میں یہی وجہ ہوئی کہ اس روپیہ کو جس کام میں انہوں نے خرچ کیا وہ ان کے لئے با برکت نہ ہوا.البتہ ہمارے لئے بابرکت ہو گیا.چونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کی مرضی کے خلاف کیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے جہاں وہ روپیہ خرچ ہوا وہاں سے انہیں نکال باہر کر دیا.لیکن چونکہ وہ جماعت کا روپیہ تھا اس لئے ضائع نہ گیا بلکہ ہمارے کام آ کر بابرکت ہو گیا.تو جو تحریک اس وقت کی گئی ہے اس قسم کی تحریکیں اپنے وقت کو چاہتی ہیں اور جب وقت آ گیا اُس وقت سب کچھ ہو جائے گا فی الحال جو کچھ کیا گیا ہے اسی سے فائدہ اٹھانا

Page 54

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 48 جلد اول چاہئے.عربی میں مثل ہے مَا لَا يُدْرَكُ كُلُّهُ لَا يُتْرَكُ كُلُّه که اگر ساری چیز نہ ملے تو ساری چھوڑ بھی نہیں دینی چاہئے.یعنی جتنی ملے اتنی لے لینی چاہئے.ہم نے اس وقت اپنی جماعت کے ان بچوں کی نگہداشت کے لئے جو اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں بہت سا خرچ برداشت کر کے لاہور میں ایک ہوٹل کھولا ہوا ہے مگر افسوس اس کے چلنے میں اگر روک ہوئے ہیں تو وہی لڑکے جو یہاں سے پڑھ کے گئے ہیں.اپنے کالج کے متعلق تمہاری خواہش کچی، تمہارے جذبات قابل تعریف ، تمہاری آرزو لائق ستائش لیکن میں کہتا ہوں جو کچھ تمہیں فی الحال دیا گیا ہے اسی کی قدر کرنا تمہارا فرض ہے اور جب ہم دیکھیں گے کہ تم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہو تو اس سے زیادہ کا انتظام کر دیں گے.لیکن اگر تمہاری طرف سے روکیں ڈالی جائیں اور تم اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرو تو پھر تم ہی بتاؤ تمہاری کالج کی تحریک پر کیونکر توجہ کی جاسکتی ہے.ہاں اگر تم پوری سعی اور کوشش کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھاؤ اور ہم پر ثابت کر دو کہ اس انتظام کی تم نے قدر کی ہے تو پھر اس سے آگے بڑھانے کے لئے تمہارے ایڈریسوں اور اپیلوں کی ضرورت نہیں ہے خدا تعالیٰ خود پکڑ کر ہم سے تمہارے لئے انتظام کرا دے گا.سید ولی اللہ شاہ صاحب کی آمد اب رہی میرے عزیز سید ولی اللہ شاہ صاحب کی آمد پر خوشی.بے شک تمہیں ان کے آنے پر خوشی ہوئی ہے مگر تمہیں اس قدر خوشی ہو ہی نہیں سکتی جتنی مجھے ہے.لیکن تمہارا صرف خوشی کا اظہار کرنا کوئی فائدہ نہیں رکھتا جب تک تم اس سے سبق نہ حاصل کرو.میں پوچھتا ہوں تمہیں ان کے آنے پر خوشی کیوں ہوئی.ان کے علاوہ ہماری ہی جماعت کے اور کئی ایسے لوگ ہیں جو مدتوں کے بعد واپس آئے ہیں اور پھر ایسے بھی ہیں جو دوسرے ممالک میں مارے گئے ہیں.تم نے کیوں مرنے والوں کی جدائی کو محسوس نہیں کیا اور آنے والوں کی آمد پر خوشی کا اظہار نہیں کیا.وہ احمدی بھی ہیں.ان میں سید بھی ہیں.ہمارے مدرسہ کے طالب علم بھی ہیں.غرضیکہ جتنی باتیں سید ولی اللہ شاہ میں پائی جاتی ہیں وہ فردا فردا

Page 55

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 49 جلد اول ان میں بھی پائی جاتی ہیں پھر ان کے آنے پر تمہیں کیوں خوشی نہ ہوئی.اگر کہو ان کا آنا ہمیں معلوم نہیں تھا تو میں ابھی ان کے نام لئے دیتا ہوں مگر ان کو سن کر بھی تمہیں خوشی نہیں ہوگی جتنی سید ولی اللہ شاہ کے آنے پر ہوئی ہے.اصل باعث تمہاری خوشی کا یہ ہے کہ تم نے خیال کیا ہے کہ ان کے ذریعہ ہمارے سلسلہ کو فائدہ پہنچے گا.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہارا یہ خیال پورا ہو گا یا نہیں اور ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے پورا کرے لیکن تم نے اس امید اور خیال پر خوشی کا اظہار کیا ہے کہ یہ سلسلہ کے خادم ہوں گے.انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے وہ تمہاری اور تمہارے بھائیوں کی ترقی کے لئے خرچ کریں گے.اور ان کے ذریعہ ایسے لوگ حق کو قبول کریں گے جنہوں نے ابھی تک قبول نہیں کیا.چونکہ تمہیں ان سے یہ امید میں ہیں اس لئے ان کی آمد تمہارے لئے خوشی اور مسرت کا باعث ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے یہ امیدیں پوری ہوں گی یا نہ اور اسی کو معلوم ہے کہ ان کی کتنی زندگی ہے.پھر ہمیں معلوم نہیں ان کے متعلق الی منشا کیا ہے.یہ آئندہ ان اصول کو تسلیم کریں گے یا نہیں جو خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کی ترقی کے لئے مقرر فرمائے ہیں.چونکہ یہ سب غیب کی باتیں ہیں اس لئے تمہاری خوشی کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ وہ محض وہم اور خیال کی بناء پر ہے حقیقت پر نہیں.اب تم سے میرا سوال ہے کہ اگر اس سے بڑھ کر تمہارے لئے خوشی کا سامان پیدا ہو سکے تو کیا اس کے لئے تم کوشش اور سعی کرنے کے لئے تیار ہو یا نہیں؟ دیکھو جبکہ تمہیں ایک دوسرے شخص کے متعلق صرف امید اور خیال کی بناء پر اس قدر خوشی ہو سکتی ہے تو اگر وہی بات فی الواقع تم میں پائی جاوے تو تمہیں کس قدر خوشی ہوگی.سید ولی اللہ شاہ تم سب کے رشتہ دار نہیں اور بہت سوں کے تو واقف بھی نہیں مگر ان کے آنے پر تم خوش ہو رہے ہو اور محض ایک امید موہوم کی بناء پر خوش ہو رہے ہو.لیکن اگر وہ بات جس کی تم نے ان کے متعلق امید باندھی ہے تم میں واقعی طور پر پائی جائے تو بتلاؤ پھر تمہارے لئے کس قدر خوش ہونے کا موقع ہوگا.تم یہ مت خیال کرو کہ تم میں وہ بات پیدا نہیں ہو سکتی.دیکھو سید ولی اللہ شاہ اسی طرح پیدا نہیں ہوئے تھے جس طرح کہ اب تمہیں معلوم ہو رہے ہیں.

Page 56

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 50 جلد اول ابھی مجھے ان کے متعلق ایک واقعہ یاد آ گیا ہے ہم چھوٹے چھوٹے اکٹھے کھیلا کرتے تھے.میرے پاس چھوٹی سی بندوق تھی جو چودہ آنہ کو آئی تھی اس کے لینے کے لئے یہ میرے پیچھے پڑ گئے اور جب میں نے انہیں دی تو اس قدر خوش ہوئے کہ شاید اتنی خوشی انہیں اب علم پڑھ کے آنے پر بھی نہ ہوئی ہوگی.تو یہ پیدا ہی ایسے نہ ہوئے تھے تمہاری طرح ہی کے تھے اور تم میں سے ہی تھے لیکن سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے باہر گئے کوشش کی تو مکرم معظم ہے گئے.اب اگر تم بھی کوشش کرو تو تم علم حاصل کر سکتے ہو.ہو تمہارے سپر نٹنڈنٹ صاحب نے کہا ہے کہ میں تمہارے لئے دعا کروں کہ تم سید ولی اللہ شاہ جیسے ہو جاؤ.لیکن میرے خیال میں نبی کے سوا کسی کی مشابہت حاصل کرنے کی دعا کرنا ٹھیک نہیں.کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ جس کی مشابہت کے لئے دعا کی جائے گی اس کا اندرونہ کیسا ہے.علاوہ ازیں میں تو حضرت ابوبکر اور سید عبد القادر جیلانی ایسے بزرگوں کی مشابہت کے لئے دعا کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتا.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس سے بڑھ کر دینے کی طاقت رکھتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ دیا جو اس امت میں اور کسی کو نہیں دیا گیا.پس جب خدا تعالیٰ اب بھی روحانیت کے اعلیٰ سے اعلیٰ مدارج عطا کر سکتا ہے اور کرتا ہے تو پھر کسی ایسے شخص سے جو نبی نہ ہو مشابہت کی دعا کرنے والے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی فقیر کو ایک ڈپٹی نے پیسہ دیا تو اس نے اس کے لئے دعا کی کہ خدا تمہیں تھانیدار بنائے حالانکہ یہ اس کے لئے دعا نہ تھی بلکہ بددعا تھی کہ ڈپٹی سے تنزل ہو کر تھانیدار بن جائے.پس کسی کے لئے ہم یہ کیوں کہیں کہ خدا اسے ولی اللہ شاہ کی طرح بنا دے.کیا خدا اس سے بڑھ کر نہیں بنا سکتا یا نہیں بناتا؟ اگر بناتا ہے تو پھر ہم اس کے فضل کو محدود کیوں کریں.پس میں ان بچوں کے لئے دعا تو کروں گا مگر یہ نہیں کہ انہیں سید ولی اللہ شاہ جیسا بنا دے بلکہ یہ کہ اس امت کے لوگوں کے لئے جس قدر در جے ملنے ممکن ہیں وہ دے.ہمیں درجوں کے نام لے کر دعا کرنے کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ

Page 57

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 51 جلد اول خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو کس قدر درجے دے سکتا ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود 23 سال اپنے درجے کے متعلق لوگوں کو سمجھاتے رہے ہیں لیکن اخیر میں لکھ دیا کہ تم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ خدا کے نزدیک میرا کیا درجہ ہے.پھر آپ نے لکھا ہے کہ جو بھی تعریفی کلمات میرے متعلق کہے جائیں وہ سچ ہیں جھوٹ نہیں ہو سکتے.پس جب اس امت کے لئے ایسے ایسے مدارج کا رستہ کھلا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ کسی سے نسبت دے کر ہم دعا کریں بلکہ ہمیں یہ دعا کرنا چاہئے کہ جس قدر بھی درجات حاصل ہو سکتے ہیں وہ حاصل ہوں.سید ولی اللہ شاہ صاحب کے لئے دعا اس موقع پر صرف لڑکوں کے لئے دعا کرنے کی تحریک کی گئی ہے لیکن میرے نزدیک ولی اللہ شاہ کے لئے یہ دعا کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ جو علم حاصل کر کے آئے ہیں انہیں اس سے فائدہ اٹھانے کی خدا تعالیٰ توفیق دے.اس میں شک نہیں کہ یہ بہت کچھ پڑھ کے آئے ہیں.لیکن کہتے ہیں العِلمُ حِجَابُ الأَكْبَرِ بعض اوقات علم بہت بڑا حجاب بھی ہو جاتا ہے تو ان کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہو جائیں جو نا درست ہوں.پس جہاں لڑکوں کے لئے اس دعا کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں دین و دنیا کا علم دے وہاں ان کے لئے اس دعا کی ضرورت ہے کہ انہیں علم سے کام لینے کی توفیق بخشے.کیونکہ یہ ایسے نازک مقام پر کھڑے ہیں کہ جہاں سے شیطان بآسانی پھسلا سکتا ہے.اس میں شک نہیں کہ انہوں نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ پڑھا ہے مگر اس سے انہیں اسی وقت تک فائدہ ہو سکتا ہے جب تک کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے ماتحت رہ کر کام کریں اور اگر اس نے علیحدہ ہو کر چاہیں کہ اس سے کام لیں تو یہ ان کے لئے بھی موت ہوگی اور جو اس سے متاثر ہوں گے ان کے لئے بھی.اس لئے ہم سب کو دعا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ انہیں تو فیق دے کہ انہوں نے جو کچھ سیکھا ہے اسے خدا کی منشا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم کے مطابق خرچ کریں.پس میں جہاں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ تم صرف ان کے علم سیکھنے پر خوشی کا اظہار "

Page 58

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 52 جلد اول کرنا کافی نہ سمجھو بلکہ خود بھی علم سیکھنے کی کوشش کرو وہاں یہ بھی کہتا ہوں کہ ان کے لئے در دولت سے دعا کرو کہ خدا تعالیٰ انہیں سیکھے ہوئے علم سے کام لینے اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی (الفضل 13 جون 1919ء) توفیق بخشے.1: البقرة: 215

Page 59

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 53 جلد اول مبلغین کو ہدایات 26 جنوری 1921 ء بعد نماز عصر بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں حضرت کی خلیفہ المسیح الثانی نے مبلغین جماعت احمدیہ ، مبلغین کی کلاس کے طلباء، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسران صیغہ جات کے سامنے حسب ذیل تقریر فرمائی.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تبلیغ کے طریقوں پر غور کرنا ہم چونکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اور ذمہ داریوں کے علاوہ اس ذمہ داری کا اٹھانا بھی ضروری قرار دیا ہوا ہے کہ ساری دنیا کو ہدایت پہنچائی جائے اور ہر مذہب ، ہر ملت، ہر فرقہ اور ہر جماعت کے لوگوں کو ہدایت کی جائے اس لئے ہمارے لئے تبلیغ کی ضروریات پر غور کرنا اور اس کے لئے سامان بہم پہنچانا نہایت ضروری معاملہ ہے.اور خصوصیت کے ساتھ اس معاملہ پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کہ تبلیغ کن ذرائع سے کرنا زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہے اور کن طریقوں کو کام میں لانے سے اعلیٰ نتائج نکل سکتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ میں سال سے زیادہ عرصہ ہمارے سلسلہ کو تبلیغ شروع کئے ہوئے ہوا ہے مگر اس وقت تک وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے جن کے پیدا ہونے کی امید اُن صداقتوں کی وجہ سے کی جاسکتی ہے جو ہمارے پاس ہیں.مفید اور اعلیٰ نتائج دو ہی طرح پیدا ہوا کرتے ہیں.یا تو طاقتور ہاتھ ہوں، مضبوط بازو ہوں یا اعلیٰ درجہ کے اور مضبوط ہتھیار ہوں ، اور اعلیٰ درجہ کا نتیجہ اسی طرح نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حاصل ہوں ورنہ اگر طاقتور ہاتھ ہوں لیکن ہتھیار ناکارہ اور کمزور ہوں تو بھی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا.اور اگر

Page 60

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 54 جلد اول ہتھیار اعلیٰ درجہ کے ہوں لیکن ہاتھوں میں طاقت نہ ہو تو بھی بہتر نتیجہ نہیں رونما ہو سکتا.مثلاً اگر ایک کمزور شخص ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تلوار لے کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے تو ما رہی کھائے گا.یا طاقتور انسان ہو مگر خراب اور ناقص بندوق لے کر کھڑا ہو جائے تو بھی شکست ہی کھائے گا.پس مفید اور اچھا نتیجہ اس صورت میں نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں حاصل ہوں.ہاتھوں میں طاقت اور قوت بھی ہو اور کام کی مشق ہو اور ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے ہوں.متوقع نتائج کیوں نہیں نکل رہے؟ اب میں دیکھنا چاہئے کہ جس نتیجہ کے نکلنے کی ہمیں امید ہو سکتی ہے وہ اگر نہیں نکلتا تو ان دونوں چیزوں میں سے کون سی چیز ہے جس میں کمی ہے.آیا ہمارے پاس ہتھیا را ایسے ناقص ہیں کہ ان سے کام نہیں لیا جا سکتا ؟ یا ہتھیار تو اعلیٰ درجہ کے ہیں مگر ہم ایسے نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکیں ؟ یا دونوں باتیں نہیں ہیں ؟ ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں اور ہم بھی اس قابل نہیں کہ کام کر سکیں.جب ہم غور کرتے ہیں تو اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ہتھیار تو ہمارے پاس اعلیٰ درجہ کے ہیں کیونکہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل ہمارے پاس ہیں وہ بہت مضبوط اور زبردست ہیں.خصوصاً حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو دلائل اور براہین ہمیں پہنچے ہیں ان کی قوت اور طاقت کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں.اس بات کی موجودگی کی میں اور پھر اس بات کے ہوتے ہوئے کہ ہم شواہد اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے پھر اعلیٰ درجہ کے نتائج کا نہ نکلنا بتاتا ہے کہ ہم میں ہی نقص ہے ورنہ اگر ہم ان ہتھیاروں کو عمدگی کے ساتھ چلانے والے ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اعلیٰ درجہ کے نتائج نہ پیدا ہوں.پس یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیار چلانے والے اچھے نہیں ہیں اور انہیں ہتھیار چلانے کا فن نہیں آتا.چونکہ نیا سال شروع ہو رہا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ دوستوں کو جمع کر کے میں اس مضمون پر کچھ بیان

Page 61

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 55 کروں کہ کس طرح تبلیغ کے عمدہ نتائج نکل سکتے ہیں.جلد اول مخاطبین اس مجلس میں میں نے ایک تو ان لوگوں کو بلایا ہے جو تلخ کا کام کرتے ہیں اور دوسرے ان کو بلایا ہے جو آئندہ مبلغ ہونے والے ہیں تا کہ ابھی سے ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں اور ان کے دلوں پر نقش ہوں.رسول کریم ﷺ نے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان کہنے کا ارشاد فرمایا ہے.تاکہ پہلے دن ہی اس کے کان میں خدا کا نام پڑے.تو میں نے اس لئے کہ جو مبلغ ہونے والے ہیں ان کے دلوں میں ابھی سے یہ باتیں بیٹھ جائیں ان کو بھی بلایا ہے یہ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں.پھر میرے مخاطب منتظمین ہیں جنہوں نے مبلغین سے کام لینا ہے.کیونکہ جب تک انہیں ان باتوں کا علم نہ ہو وہ کام نہیں لے سکتے.تو اس وقت میرے مخاطب تین گروہ ہیں.اول وہ جو کام کر رہے ہیں.دوسرے وہ جو اس وقت تو کام نہیں کر رہے لیکن دو تین سال کے بعد کام کرنے والے ہیں اور تیسرے وہ جنہوں نے کام لیتا ہے.مخاطبین کی پہلی قسم پھر اس وقت میرے سامنے تین قسم کے لوگ ہیں.ایک تو وہ جن کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے جیسے طالب علم جو آئندہ کام کرنے والے ہیں ان کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے.اور ان کی مثال ایسی ہے جیسی کہ کنویں کے مینڈک کی ایک مثال بیان کی جاتی ہے کہ کوئی کنویں کا مینڈک تھا وہ سمندر کے مینڈک سے ملا اور پوچھا بتاؤ سمندر کتنا بڑا ہے؟ سمندر کے مینڈک نے کہا بہت بڑا ہوتا ہے.اس نے کہا کیا کنویں جتنا؟ کہا نہیں بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ لگائی اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے؟ اس نے کہا نہیں یہ کیا ہے وہ بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے دو تین اکٹھی چھلانگیں لگا کر پوچھا اتنا بڑا ؟ اس نے کہا یہ کیا بیہودہ اندازہ لگاتے ہو سمندر تو بہت بڑا ہوتا ہے.کنویں کے مینڈک نے کہا تم بہت جھوٹے ہو اس سے بڑا کیا ہو سکتا ہے.میں تم جیسے جھوٹے کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا.تو طالب علموں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.ان کو اگر ایک بات بھی مل جاتی ہے اور استاد سے کوئی ایک دلیل

Page 62

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 56 جلد اول بھی سن لیتے ہیں تو کہتے ہیں اسی دلیل کو لے کر کیوں لوگ نہیں نکل جاتے اور ساری دنیا کو کیوں نہیں منوا لیتے.اس کی کیا تردید ہو سکتی ہے اور کون ہے جو اس کو تو ڑ سکتا ہے.حالانکہ مختلف طبائع مختلف دلائل کی محتاج ہوتی ہیں اور مختلف لیاقتوں کے دشمنوں کے مقابلہ میں مختلف ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے.اگر ایک دلیل ایک قسم کے پانچ دس آدمیوں کے لئے مفید ہوتی ہے تو سینکڑوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ بعض اور قسم کے دلائل کے محتاج ہو رتے ہیں.پس مبلغ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے.تو بعض لوگوں کے خیالات بالکل محدود ہوتے ہیں وہ ایک دلیل کو لے لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا اور یہ سب کے لئے کافی ہے.حالانکہ ایسا نہیں ہے.پھر یا ایسے لوگوں کی مثال ان بچوں کی سی ہے جو گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیریوں کے درختوں کے سرے سے بیر کھا چھوڑے یا جانوروں کے لئے چارہ لے آئے یا جانوروں کو باہر چرا لائے.انہوں نے نہ کبھی کوئی شہر دیکھا ہوتا ہے نہ ریل اور تار سے واقف ہوتے ہیں اور جب کوئی ان کے متعلق انہیں باتیں سناتا ہے تو وہ اس طرح سنتے ہیں جس طرح کہانیاں سنی جاتی ہیں.اس سے زیادہ دلچسپی ان کو نہیں ہوتی اور نہ کوئی اثر ان پر پڑتا ہے.ان بچوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کے قلب پر یہ اثر پڑتا ہے کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو ان چیزوں کو دیکھیں گے ورنہ سب ان باتوں کو سن کر اسی طرح مطمئن ہو جاتے ہیں جس طرح قصوں اور کہانیوں کے سننے کے وقت ہوتے ہیں.کہانیاں سن کر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ جن باتوں کا ان میں ذکر ہے ان کو ہم دیکھیں اور معلوم کریں.یہی حال طالب علموں کا ہوتا ہے.اور ایسے ہی لوگوں کا جن کے خیال وسیع نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک نکتہ سے وہ سب مباحثات میں فتح پالیں گے.وہ حیران ہوتے ہیں کہ دشمن کی فلاں دلیل کو تو ڑنا کون سی مشکل بات ہے.ہمارے استاد نے یا فلاں مولوی صاحب نے جو بات بتائی ہے اس سے فورا اسے رد کیا جا سکتا ہے اور دشمن کو اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کیا جا سکتا

Page 63

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 57 جلد اول ہے.وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک وعظ اور نادرست بات بھی ایسے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ عوام کو درست ہی معلوم ہو یا ایک ایک بات میں اعتراض کے کئی ایسے پہلو نکالے جا سکتے ہیں جن کی طرف پہلے ان کا خیال بھی نہیں گیا ہوتا.دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نظر تو محدود نہیں ہے، وہ دنیا میں پھرے ہیں دوسری قسم لوگوں سے ملے ہیں، مخالفین کے اعتراضات سنے کا انہیں موقع ملا ہے مگر ان کی نظر کی وسعت عرض کے لحاظ سے ہے عمق کے لحاظ سے نہیں.میں نے عورتوں کو کئی دفعہ بڑی حیرت سے یہ کہتے سنا ہے کہ لوگ خدا کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں.بھلا خدا کی ہستی کا بھی انکار کیا جا سکتا ہے؟ مگر ان کو دنیا کاعلم نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتیں کہ دنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو حیرت سے پوچھتے ہیں کہ دنیا خدا کو مانتی کیوں ہے؟ بھلا اس کے ماننے کے لئے بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے.ان عورتوں نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر یہ سمجھا کہ خدا کا انکار کوئی کر ہی نہیں سکتا.لیکن اگر ان کی نظر وسیع ہوتی اور وہ دنیا کے لوگوں کی حالت سے آگاہ ہوتیں تو پھر وہ حیرت کے ساتھ یہ نہ کہتیں.تو ہمارے مبلغوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو عرض کے لحاظ سے تو وسعت حاصل ہے مگر ان کے اندر حق نہیں ہے.وہ یہ جانتے ہیں کہ لوگوں میں مذہبی مسائل میں کتنا اختلاف ہے مگر یہ نہیں جانتے کہ کیوں ہے؟ کیوں پیدا ہوا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کنویں میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس میں پانی ہے اور اتنی جگہ میں ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ کتنی گہری زمین سے جا کر پانی نکلا ہے اور کس طرح نکلا ہے.تو یہ لوگ دنیا کے اعتراضات سے واقف ہیں، دنیا کے خیالات سننے کا انہیں موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں دہریت پیدا ہورہی ہے، انہیں علم ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو مذاہب کے پیروؤں کو حقیر جانتے ہیں اور مذاہب پر ہنسی اڑاتے ہیں.مگر وہ

Page 64

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 58 جلد اول یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں.کیوں لوگوں میں ایسے خیالات پیدا ہو رہے ہیں.کیوں وہ مذاہب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.تیسری قسم تیسرا گروہ وہ ہے جس کو یہ تینوں باتیں حاصل ہیں.اس کی نظر بھی وسیع ہے ، وہ لوگوں کے خیالات کے عرض سے بھی واقف ہے اور ان کے عمق علم رکھتا ہے یعنی ان خیالات کے پیدا ہونے کے جو اسباب ہیں ان سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ اس ظاہری تغیر کے پس پردہ کیا طاقتیں کام کر رہی ہیں.تینوں قسم کے لوگوں کو مخاطب کرنے کی غرض اس وقت جو باتیں میں کہوں گا وہ ان تینوں گروہوں کو مد نظر رکھ کر ہوں گی اور گو بعض کے لئے ان کا سمجھنا مشکل ہوگا لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک گروہ یعنی طلباء کو سنانے کی یہی غرض ہے کہ اس کے کان میں اس قسم کی باتیں پڑتی رہیں اور اس کے دل میں نقش ہوتی رہیں.دوسرے دو طبقوں کے لوگ جو اپنی واقفیت اور تجربہ کی وجہ سے ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں ان کو سنانے کی یہ غرض ہے کہ اگر انہیں معلوم نہ ہوں تو اب واقف ہو جائیں.اور اگر معلوم ہوں تو ان پر اور غور و فکر کریں اور ان سے اچھی طرح فائدہ اٹھا ئیں.اس تمہید کے بعد میں اس امر کے متعلق کچھ بیان مبلغ کے معنی اور اس کا کام کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغ کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا کام ہے؟ مبلغ کے معنی ہیں پہنچا دینے والا.مگر جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خواہ وہ کچھ پہنچا دے اس کو مبلغ کہا جائے گا.بلکہ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسا شخص جو دوسروں کو اسلام کی تعلیم پہنچائے.آجکل کے مبلغ تو ظلی مبلغ ہیں.بعض لوگ نبوت ظلی پر ہی بحث کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سبھی کچھ مل ہی حل ہے.ایمان بھی خالی ہے، تبلیغ بھی ظلی ہے.کیونکہ پہلے اور اصلی مبلغ تو رسول کریم ہی ہی ہیں.ان کی وساطت اور ذریعہ سے ہی دوسرے لوگ مبلغ بن سکتے ہیں.اسی

Page 65

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 59 جلد اول طرح اگر کوئی حقیقی اور اصلی مومن ہے تو رسول کریم ﷺ ہی ہیں.ہم سب ظلی مومن ہیں کیونکہ ہم نے مومن بننے کے لئے جو کچھ لیا ہے رسول کریم والے سے ہی لیا ہے.تو حقیقی مبلغ رسول کریم ہی ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کس بات کا حکم دیا ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم ﷺ کو فرماتا ہے بَلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبَّكَ 2 جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے.اس کو مد نظر رکھ کر اسلامی مبلغ کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ سول کریم ﷺ پر اتارا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دے اور اگر اس میں کو تا ہی کرے تو مبلغ نہیں کہلا سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے بَلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ پہنچا دے جو اتارا گیا ہے تجھ پر تیرے رب کی طرف سے.وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ 3 اور اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو تب خدا کا پیغام نہ پہنچایا.اس کے اگر یہ معنی کئے جائیں کہ تو نے خدا کا کلام اگر نہ پہنچایا تو کلام نہ پہنچایا تو کلام بے معنی ہو جاتا ہے.مثلاً کوئی کہے کہ اگر تو نے روٹی نہیں کھائی تو نہیں کھائی.یا پانی نہیں پیا تو نہیں پیا.تو یہ لغو بات ہوگی.کیونکہ جب روٹی نہیں کھائی تو ظاہر ہے کہ نہیں کھائی.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں کھائی.یا پانی نہیں پیا تو ظاہر ہے کہ نہیں پیا.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں پیا.اس لئے وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر تو نے خدا کا کلام نہیں پہنچایا تو کلام نہیں پہنچایا.بلکہ یہ ہیں کہ مَا أُنْزِلَ اِلَيْكَ میں جو وسعت رکھی گئی ہے اس میں سے اگر کوئی بات نہیں پہنچائی ، اس کا کوئی حصہ رہ گیا ہے تو تجھے جو کچھ پہنچانا چاہئے تھا اسے تو نے گویا بالکل ہی نہیں پہنچایا.کیونکہ وہ کلام بتمام و کمال پہنچانا ضروری تھا.پس مبلغ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ رسول کریم ﷺ پر نازل ہوا وہ سارے کا سارا دنیا میں پہنچا دے اور جو حصہ جس کے متعلق ہے اسے پہنچائے.یہ نہیں کہ کسی اور کا حصہ اور ہی کو دے آئے یا بعض کو ان کا حصہ پہنچا دے اور بعض کو نہ پہنچائے.اگر وہ اس طرح کرے گا تو اپنے فرض سے سبک دوش نہ ہو گا.بلکہ اس کا فرض ہے کہ جس جس کا حصہ ہے اس تک پہنچا دے.مثلاً گھروں میں حصے بٹتے ہیں.لوگ نائنوں کو حصہ دیتے ہیں کہ

Page 66

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 60 جلد اول فلاں فلاں گھروں میں دے آؤ.اب اگر نائن کو دس حصے پہنچانے کے لئے دیئے جائیں اور وہ ان میں سے آٹھ تو پہنچا دے مگر دو نہ پہنچائے تو وہ یہ نہیں کہہ سکتی آٹھ جو پہنچا آئی ہوں اگر دو نہیں پہنچائے تو کیا ہوا؟ پس جس طرح اس کا آٹھ حصے پہنچا دینا دو کے نہ پہنچانے کے قصور سے اسے بری الذمہ نہیں کر سکتا اسی طرح مبلغ اگر ہر ایک کو اس کا حصہ نہیں پہنچا تا بلکہ بعض کو پہنچا دیتا ہے تو وہ بری الذمہ نہیں ٹھہر سکتا.اس لئے مبلغ کا فرض ہے کہ اسے جس قدر اور جس کے لئے جو کچھ دیا گیا ہے اسے پہنچا دے.یہ بھی نہیں کہ سارے کا سارا ایک ہی کو پہنچا دے.مثلاً اگر ایک شخص کے گھر کے پاس جو آدمی رہتا ہو وہ اسے عیسائیوں، دہریوں، آریوں وغیرہ کے رد کے دلائل پہنچا دے لیکن جن عیسائیوں، دہریوں یا آریوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہوا انہیں یونہی چھوڑ دے تو اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے پہنچا دیا.کیونکہ اس کا فرض ہے کہ دہریوں کے رد کے دلائل دہریوں کو بتائے ، عیسائیوں کے رد کے دلائل عیسائیوں کو بتائے اور آریوں کے رد کے دلائل آریوں کو پہنچائے.تو جس طرح کوئی شخص اگر وہ ساری چیزیں نہ پہنچائے جو اسے پہنچانے کے لئے دی جائیں اور یا ان سب کو نہ پہنچائے جن کے لئے دی جائیں بری الذمہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح مبلغ ساری باتیں نہ پہنچائے اور جس جس کے لئے ہیں اس کو نہ پہنچائے تو وہ مبلغ ہی نہیں ہو سکتا.مثلاً کوئی اس طرح کرے کہ عیسائیوں میں جائے اور جا کر ان کی تو تعریف کرے اور ان میں یہودیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے.یا ہندوؤں میں جائے اور ان کی تو تعریف کرے لیکن عیسائیوں کے خلاف تقریر شروع کر دے.یا غیر احمدیوں میں جائے اور ان کے بگڑے ہوئے عقائد کے متعلق تو کچھ نہ کہے مگر مجوسیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ وہ اپنے فرض سے سبک دوش سمجھا جائے گا.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیغامی ہم سے الگ ہوئے ہیں.ان کے لیکچراروں کا طریق تھا کہ غیر احمد یوں میں گئے تو عیسائیوں کے نقص بیان کرنے شروع کر دیئے.ہندوؤں میں گئے تو کسی دوسرے مذہب کی برائیاں بیان

Page 67

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 61 جلد اول کرنے لگ گئے اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جو ان کے سامنے ہوتے تعریف کرتے جاتے.گویاوہ کسی کی ٹوپی کسی کو دیتے اور کسی کی جوتی کسی کو پہنچا دیتے.اس کا جو کچھ نتیجہ ہوا وہ ظاہر ہی ہے.جب تک جس قوم میں جو کمزوریاں اور نقائص ہوں وہ اسے بتائے نہ جائیں اُس وقت تک کوئی مبلغ نہیں کہلا سکتا.کیونکہ بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت ضروری ہے کہ یہودیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو بتائے جائیں ، عیسائیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو سنائے جائیں.غیر احمدیوں میں جو نقص ہوں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے اور اپنی جماعت میں جو کمزوریاں ہوں وہ اپنے لوگوں کو بتائی جائیں.ہاں جو مبلغ بنانے اور تیار کرنے والے ہوں ان کا کام ہے کہ ایک ایک شخص کو یہ سب باتیں بتا ئیں.لیکن جو شخص تبلیغ کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جس قوم میں جائے اس کی کمزوریاں اور نقائص است تک پہنچائے.اگر اس کے سامنے کسی دوسری قوم کی کمزوریوں کا ذکر کرے گا تو یہ باج مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت نہ ہوگا.پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ساری صداقتیں پہنچا دینی اور جو جس کا مستحق ہے اس کے پاس وہی پہنچانا مبلغ کا کام ہے.اگر کوئی شخص کسی کو پوری پوری صداقت نہیں پہنچاتا تو وہ مبلغ نہیں ہو سکتا.اور اگر کسی کے کام آنے والی صداقت کسی اور کو پہنچا دیتا ہے تو بھی مبلغ نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ پہنچا نا نہیں ہوتا بلکہ پھینکنا ہوتا ہے.مثلاً اگر چٹھی رساں کسی کا خط کسی کو دے آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خط پہنچا آیا بلکہ یہی کہیں گے کہ پھینک آیا ہے.غرض مبلغ کے لفظ نے بتا دیا کہ جس کے کام آنے والی صداقت ہو اسی کو پہنچانا ضروری ہے اور مَا أُنْزِلَ إِلَیک نے بتا دیا کہ ساری کی ساری پہنچانی چاہئے نہ کہ اس کا کچھ حصہ پہنچادیا جائے.اس چھوٹے سے فقرے میں مبلغ کا سارا کام بتا دیا گیا ہے.تبلیغ کی تقسیم آگے پہنچانا دوطرح کا ہوتا ہے.ایک اصول کا پہنچا نا، دوسرے فروع کا پہنچا نا.غیر مذاہب کے لوگوں کے لئے تو اصول کی تعلیم

Page 68

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 62 جلد اول پہنچانا ضروری ہے اور جو ماننے والے ہوں ان کے لئے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں بات کس طرح کرنی چاہئے اور فلاں کس طرح.اس لحاظ سے تبلیغ کی موٹی تقسیم یہ ہوئی کہ ایک تو ان لوگوں کو تبلیغ کرنا جو اسلام کو نہیں مانتے.ان کو اصولی باتیں بتانی چاہئیں.اور دوسرے ان کو تبلیغ کرنا جو مسلمان تو کہلاتے ہیں مگر اسلام کی باتوں کو جانتے نہیں یا جانتے ہیں تو ان پر عمل نہیں کرتے.ان کو اصول کے علاوہ فروع سے بھی آگاہ کرنا.غرض دو طرح کی تبلیغ ہوتی ہے.ایک ظاہر کے متعلق اور ایک باطن کے متعلق.وہ لوگ جو ابھی اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے ان کے تو قفل لگے ہوئے ہیں.جب تک پہلے وہ نہ کھلیں ان کے باطن میں کوئی چیز داخل نہیں ہو سکتی اس لئے ان کی بیرونی اصلاح کی ضرورت ہے.انہیں اصولی باتیں سمجھائی جائیں.مگر جو اپنی جماعت کے لوگ ہیں ان کے تو قفل کھلے ہوئے ہیں ان کی اندرونی اصلاح کی جاسکتی ہے.ان میں روحانیت، تقومی ، طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مبلغ کے کام کی اہمیت یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مبلغ کا فرض بہت بڑا ہوتا ہے.لوگ کسی ایک بات کو بھی آسانی سے نہیں مانتے.لیکن مبلغ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں باتوں کو منوائے.پھر ایک آدمی سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ ساری دنیا کو منوایا جائے.انتظام کے طور پر اور کام چلانے کے لئے خواہ مبلغوں کے لئے علاقے تقسیم کر دیئے جائیں مگر اصل بات یہی ہے کہ جو ضلع گورداسپور میں تبلیغ کرتا ہے وہ اسی ضلع کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے.اسی طرح ضلع لاہور میں جو تبلیغ کرتا ہے وہ لاہور کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے کیونکہ مبلغ کے لئے کوئی خاص علاقہ مقرر نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کریم میں یہی بتایا گیا ہے کہ مبلغ کا علاقہ سب دنیا ہے.غرض مبلغوں کا کام بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ حکومتیں بھی اس کام کو نہیں کر سکتیں.حکومتیں زور سے یہ باتیں منواتی ہیں کہ چوری نہ کرو قتل نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالو گران

Page 69

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 63 جلد اول باتوں کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتیں.حکومتیں یہ تو کر سکتی ہیں کہ مجرم کو پھانسی پر چڑھا کر مار دیں لیکن یہ نہیں کر سکتیں کہ جرم کا میلان دل سے نکال دیں.مگر مبلغ کا کام دل سے غلط باتوں کا نکالنا اور ان کی جگہ صحیح باتوں کو داخل کرنا ہوتا ہے.پس مبلغ کا کام ایسا مشکل ہے کہ حکومتیں بھی اس کے کرنے سے عاجز ہیں اور باوجود ہتھیاروں ، قید خانوں، فوجوں ، مجسٹریٹوں اور دوسرے ساز وسامان کے عاجز ہیں.مبلغ کے مددگار جب مبلغ کا کام اس قدر وسیع اور اس قدر مشکل ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کیونکر کر سکتا ہے؟ اس کے متعلق یا د رکھنا ہئے کہ وہ خدا جس نے یہ کام بندوں کے ذمہ لگایا ہے اس نے ان کو بے مددگار نہیں چھوڑا.اگر مبلغ بے ساتھی و مددگار کے ہوتا تو اتنے بڑے کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ کر سکتا.مگر خدا تعالیٰ نے مبلغ کو دو مددگار دیئے ہیں جن کی امداد سے وہ تبلیغ کر سکتا اور کامیاب ہو سکتا ہے.اس کے راستہ میں روکیں آتی ہیں ، مشکلات پیدا ہوتی ہیں مگر ان دو مددگاروں سے کام لے کر وہ سب روکوں کو دور کر سکتا ہے.وہ مددگار کون سے ہیں؟ ان میں سے ایک کا نام تو عقل ہے اور دوسرے کا نام شعور.جب مبلغ ان دو مددگاروں کی مدد حاصل کر سکتا ہے تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.آگے چل کر میں تشریح کروں گا کہ عقل سے میری کیا مراد ہے اور شعور سے کیا.اس جگہ اتنا ہی بتاتا ہوں کہ یہ مبلغ کے مددگار ہیں.جب کوئی تبلیغ کے لئے جائے تو ان کو بلا لے اور جب ان کی مدد سے حاصل ہو جائے گی تو وہ وہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں.عقل کی مدد سے مراد ہر ایک انسان میں خدا نے عقل بھی پیدا کی ہے اور شعور بھی.عقل سے میری مراد وہ مادہ اور انسان کے اندر کی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان دلائل کے ساتھ معلوم کرتا ہے کہ فلاں بات درست ہے یا غلط.بے شک بعض دفعہ انسان ضدی بن جاتا ہے اور ایک بات کو صحیح اور درست

Page 70

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 64 جلد اول جانتا ہوا اس کا انکار کر دیتا ہے.لیکن یہ حالت بہت گند اور بہت دیر کی گمراہی کے بعد پیدا ہوتی ہے ورنہ کثیر حصہ لوگوں کا ایسا ہی ہے کہ عقل کے فیصلہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب اس کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر صحیح ثابت ہوں تو وہ ان کا انکار نہیں کر سکتا.جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو عقلی لحاظ سے ایک مبلغ معقول اور مدلل سمجھتا ہے ان کو دوسرے لوگ بھی معقول سمجھتے ہیں بشرطیکہ اندھے کی بصارت کی طرح ان کی عقل بالکل مردہ نہ ہو گئی ہو اور وہ اس کو بالکل مار نہ چکے ہوں.مگر جس طرح اندھے بہت کم ہوتے ہیں اسی طرح عقل کے اندھے بھی کم ہی ہوتے ہیں اور عموماً لوگ عقل کو مارتے نہیں.کیونکہ انہیں اس سے دنیاوی کام بھی کرنے ہوتے ہیں.پس لوگ عقل سے ضرور کام لیتے ہیں.اور جب ان کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر معقول ہوں تو وہ عقل سے کام لے کر ان کو تسلیم کر لیتے ہیں.اور چونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کے بہت سے دروازے رکھے ہیں اس لئے کسی نہ کسی دروازہ سے حق اندر داخل ہو ہی جاتا ہے.اس لئے ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ اس سے ضرور کام لے یعنی لوگوں کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے.اس ذریعہ سے وہ بہت جلدی دوسروں سے اپنی باتیں منوا لے گا اور وہ کام کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں.ابھی دیکھ لو کچھ لوگوں نے غلط طور پر عام لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھا دیا ہے کہ گورنمنٹ سے اہل ہند کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ نقصان پہنچ رہا ہے.گورنمنٹ کے پاس طاقت ہے، سامان ہے مگر وہ روک نہیں سکتی کہ یہ خیال لوگوں کے دلوں میں نہ بیٹھے.وجہ یہ کہ اس خیال کو بٹھانے والے تو عقلی دلائل سے کام لے رہے ہیں لیکن گورنمنٹ ان سے کام نہیں لے رہی اس لئے اس کا کچھ اثر نہیں ہو رہا.تو عقلی دلائل سے کام لینے پر بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج نکل سکتے ہیں.شعور کی مدد سے مراد اس سے بڑھ کر شعور ہے مگر جہاں عقل کی نسبت زیادہ نتیجہ خیز ہے وہاں خطر ناک بھی ایسا ہے کہ جس طرح بعض اوقات

Page 71

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 65 جلد اول ڈائنامیٹ چلانے والے کو بھی ساتھ ہی اڑا کر لے جاتا ہے اسی طرح یہ بھی کام لینے والے کو اڑا کر لے جاتا ہے.لوگوں نے شعور کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر میری اس سے مراد اس جس سے ہے جو فکر اور عقل کے علاوہ انسان کے اندر رکھی گئی ہے اور جس کا تعلق دلائل عقلیہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کی اندرونی جوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جسے ہم جذبات کہہ سکتے ہیں.جیسے محبت ہے ، غضب ہے، شہوت ہے، خواہش بقا ہے.بہت دفعہ عقلی دلائل سے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے سے اس قدر اس کی طرف میلان یا اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی مگر ان جذبات کو ابھار دینے سے انسان فورا بات کو قبول کر لیتا ہے اور ان احساسات کو ابھار کر بڑے بڑے کام لئے جا سکتے ہیں اور لئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک گھڑی میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھا ہوگا کہ کہیں بحث ہو رہی ہے جب مولوی دیکھے کہ میں ہارنے لگا ہوں تو وہ کہہ دے گا مسلمانو! تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم سے کی ہتک ہو رہی ہے تم خاموش بیٹھے سن رہے ہو.یہ سن کر سب کو جوش آ جائے گا اور وہ شور ڈال دیں گے.چاہے ہتک ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو جذ بات جس وقت ابھر جاویں تو غلط اور صحیح کی بھی تمیز نہیں رہتی اور ایک روچل پڑتی ہے جس میں لوگ بہنے لگ جاتے ہیں.غلط طور پر اس سے کام لینا جائز نہیں.لیکن جب عقل اس کی تائید کرتی ہو اور حق اور صداقت کے لئے حق اور صداقت کے ساتھ کام لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے بلکہ بسا اوقات ضروری ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریق سے بہت کام لیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود نے بھی اس سے خوب ہی کام صلى الله لیا ہے.آپ وفات مسیح کے متعلق دلائل لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ رسول کریم ہے تو زمین میں دفن ہوں اور حضرت عیسی آسمان پر بیٹھے ہوں ایک مسلمان کی غیرت اس کی بات کو کس طرح گوارا کر سکتی ہے.یہ وفات مسیح کی عقلی دلیل نہیں لیکن ایک روحانی دلیل ہے اور اس سے جذبات بھی ابھر آتے ہیں.اور اس کا جس قدر دلوں پر اثر ہوتا ہے ہزار ہا دلیلوں کا نہیں ہوگا.کیونکہ اس کے ذریعہ سے وہ میلان طبعی جو نسلاً بعد نسل اسلام

Page 72

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 66 جلد اول سے تعلق رکھنے کے سبب سے ایک مسلمان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی نسبت ہے وہ خود بخود جوش میں آ جاتا ہے اور کسی بات کو سامنے نہیں آنے دیتا.حضرت صاحب کی تمام کتابوں میں یہی بات ملتی ہے.اگر عقلی دلائل اور شعور سے کام لینے کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو دونوں پائے جاتے ہیں.اور اگر صرف عقلی دلائل کو مدنظر رکھیں تو ساری کتب میں عقلی دلائل ہی نظر آتے ہیں.اور اگر جذبات کے پہلو کو مدنظر رکھ کر دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ جذبات کو تحریک کی گئی ہے.ہر ایک شخص کی کتاب میں یہ بات نہیں پائی جاسکتی.اور یہ حضرت صاحب کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے.آپ نے عقلی دلائل اور جذبات کو ایسے عجیب رنگ میں ملایا ہے کہ ایسا کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے.لیکن گوہر ایک اس طرح نہیں کر سکتا مگر یہ کر سکتا ہے کہ ان سے الگ الگ طور پر کام لے.عقلی دلائل سے الگ کام لے اور جذبات سے الگ.حضرت صاحب نے ہر موقع پر جذبات کو ابھارا ہے اور کبھی محبت کبھی غضب کبھی غیرت کبھی بقائے نسل کے کبھی حیا کے جذبات میں حرکت پیدا کی ہے.چنانچہ آپ نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ کیا تم لوگ مسیح کی نسبت صلیب پر مرنے کا عقیدہ رکھ کر اسے ملعون قرار دیتے ہو؟ اس پر غور کرو اور سوچو.اس طرح ان کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت کے جذبات کو پیدا کر دیا گیا اور اس جائز محبت کے جذبات کے ذریعہ اس نا جائز محبت کے جذبات کو کہ انہوں نے مسیح کو خدا سمجھ رکھا ہے کاٹ دیا گیا.غرض خدا تعالیٰ نے مبلغ دونوں مددگاروں سے اکٹھا کام لینا چاہئے کو یہ مدگار اور ہتھیار دیئے ہیں.(1) دلائل عقلی پیش کرنا (2) جذبات کو صحیح اور درست باتوں کے متعلق ابھارنا.ان میں سے اگر کسی ایک کو چھوڑ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو کامیابی نہیں ہو سکتی.اگر صرف جذبات کو ابھارنا شروع کر دیا جائے اور دلائل دینے چھوڑ دیئے جائیں تو

Page 73

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 67 جلد اول بہت نقصان ہوگا.کیونکہ جب لوگ عقلی دلائل کو چھوڑ دیں گے تو پھر ایسی حالت ہو جائے گی کہ وہ ہمارے کام کے بھی نہ رہیں گے.اور اگر خالی دلائل سے کام لیا جائے تو ہمارے مبلغ صرف فلاسفر بن جائیں گے دین سے ان کا تعلق نہ رہے گا اور اس طرح بھی نقصان ہوگا.پس اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے گئے ان دونوں دریوں سے کام لینا ضروری ہے مگر یہ بھی اسی وقت کام دے سکتے ہیں جبکہ انسان خود نمونہ کے طور پر بن جائے.تم دلائل عقلی پیش کرو مگر تمہاری اپنی حالت ایسی نہ ہو کہ دیکھنے والے الجھیں کہ عقلاً تم جس بات پر قائم ہو اس سے تم کو فائدہ نہیں ہے تو ان پر کبھی ان دلائل کا خاص اثر نہ ہوگا کیونکہ اگر تم پر ان دلائل نے کوئی اثر نہیں کیا تو خوب یاد رکھو کہ تمہاری کوئی دلیل دوسروں پر بھی کوئی اثر نہ کرے گی.تم جو دلائل دو پہلے اپنے آپ کو ان کا نمونہ بناؤ.اپنے اوپر ان کا اثر دکھاؤ اور پھر دوسروں سے ان دلائل کے تسلیم کرنے کی توقع رکھو.اسی طرح جذبات کا حال ہے.جذبات کو ابھارنے والی وہی تقریر اثر کرے گی کہ جس وقت انسان تقریر کر رہا ہو اس کے اپنے دل میں بھی ایسے ہی جذبات پیدا ہور ہے ہوں کیونکہ دوسروں کے جذبات اس وقت تک نہیں ابھر سکتے جب تک ظاہری الفاظ کے ساتھ اندرونی جذبات بھی نہ ہوں.اس کے لئے اپنے دل میں بھی ان جذبات کا پیدا کرنا ضروری ہے.ورنہ ایسی تقریر کا کوئی اثر نہ ہو گا.اسی طرح عقلی دلائل اس وقت تک اثر نہ کریں گے جب تک ان کے ماتحت انسان خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کرے گا.اگر انسان خود توان دلائل کے ماتحت تبدیلی نہ کرے اور دوسروں کو کہے تو وہ ہرگز اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی لومڑ کی دم کٹ گئی تھی.اس نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے تجویز کی کہ سب کی ڈمیں کٹانی چاہئیں.اس نے دوسرے لومڑوں کو بتایا کہ دم کی وجہ سے ہی ہم قابو آتے ہیں اس کو کٹا دینا چاہئے تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں.یہ سن کر سب کٹانے کے لئے تیار ہو گئے کہ ایک بوڑھے لومڑی

Page 74

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 68 جلد اول نے کہا ذرا تم خود تو دکھاؤ کہ تمہاری دم ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو ہم سب کٹانے کے لئے چلیں.اور اگر تمہاری پہلے ہی کئی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم ہماری بھی کٹوانی چاہتے ہو.باقی یونہی باتیں ہی باتیں ہیں.تو عقلی دلائل کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا جب تک کہ خود دلیل دینے والے میں اس دلیل کا ثبوت نہ پایا جاتا ہو.ایسی صورت میں لوگ یہی کہیں گے کہ بے شک دلیل تو معقول ہے مگر یہ بتاؤ اس کا نتیجہ کیا نکلا اور تم نے اس سے کیا فائدہ اٹھایا ؟ اگر نتیجہ کچھ نہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر کیوں ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے مذہب کو قبول کریں اور خواہ مخواہ نقصان اٹھا ئیں.اسی طرح جذبات ابھارتے وقت اگر صرف الفاظ استعمال کئے جاویں اور ان کے ساتھ روح نہ ہو تو وہ الفاظ بھی اثر نہیں کرتے.یہی وجہ ہوتی ہے کہ بہت لوگ جو بڑے زور شور سے تقریریں کرنے والے ہوتے ہیں ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا.مگر جن مقرروں کے اپنے جذبات ابھرے ہوئے ہیں خواہ کسی کچی وجہ سے یا جھوٹی وجہ سے ہی ان کے الفاظ اثر کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ مجھے دکھ پہنچا ہوا ہے حالانکہ دراصل ایسا نہ ہو تو بھی اس کا اثر اس کی آواز میں پایا جائے گا اور پھر سننے والوں پر ہوگا.اس کے بالمقابل اگر کسی کو فی الواقع کوئی تکلیف پہنچی ہو لیکن اس کا قلب اسے محسوس نہ کرتا ہو تو کوئی اس کی باتوں سے متاثر نہ ہوگا.پس دوسروں کے جذبات ابھارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب انسان بول رہا ہو تو اس کے اپنے جذبات بھی ابھرے ہوئے ہوں.مثلاً جب کوئی مبلغ مسلمانوں میں تقریر کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ رسول کریم ﷺ پر کسی کو فضیلت نہ دینی چاہئے.ان کی صلى الله عزت ، ان کا رتبہ، ان کا درجہ سب انبیاء سے اعلیٰ ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم ہوتا ہے کی محبت اس کے دل میں بھی موجزن ہونی چاہئے اور اس کے دل سے بھی جذبات کی لہر اٹھنی چاہئے.تب دوسروں پر اثر ہوگا.مسمریزم کیا ہے؟ یہی کہ جذبات کو ابھارنا اور شعور

Page 75

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 69 جلد اول کا دل سے کام لینا.اس کی بڑی شرط یہی ہے کہ جس شخص کو سلانا ہو اس کے سامنے کھڑے ہوکر انسان یہ یقین کرے اور اس حالت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائے کہ وہ سو گیا ہے.جب یہ کیفیت کسی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے تو دوسرا آدمی فوراً سو جاتا ہے.اسی طرح اپنے قلب میں جو کیفیت بھی پیدا کر لی جائے اس کا اثر دوسروں پر ضرور ہو جاتا ہے.غرض تبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں کہ وہ عقلی دلائل کا ظاہری نمونہ بھی ہوں اور پھر جذبات بھی ان میں موجود ہوں.یوں تو ہر وقت ہی ہوں مگر تقریر کرتے وقت خاص طور پر ابھرے ہوئے ہوں.یہ جو باتیں میں نے بتائی ہیں یہ تو اصولی ہیں.اب میں کچھ فروعی باتیں بتا تا ہوں جو ہر ایک مبلغ کو یاد رکھنی چاہئیں.پہلی ہدایت سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مبلغ بے غرض ہو اور سننے والوں کو معلوم ہو کہ اس کی ہم سے کوئی ذاتی غرض نہیں ہے.ورنہ اگر مبلغ کی کوئی ذاتی غرض ان لوگوں سے ہوگی تو وہ خواہ نماز پر ہی تقریر کر رہا ہو گا سنے والوں کو یہی آواز آ رہی ہوگی کہ مجھے فلاں چیز دے دو.فلاں دے دو.مسلمانوں کے واعظوں میں یہ بہت ہی بری عادت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ اپنے وعظ کے بعد کوئی غرض پیش کر کے امداد مانگنا شروع کر دیتے ہیں.اس سے سننے والوں کے ذہن میں یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ وعظ کرنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا چاہئے اور اسے ایک فرض سمجھا جاتا ہے.یہ ایسی بری رسم پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی واعظ وعظ کر رہا ہو تو سننے والے حساب ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم اس میں سے کس قدر مولوی صاحب کو دے سکتے ہیں اور کتنا گھر کے خرچ کے لئے رکھ سکتے ہیں.اس رسم کی وجہ یہی ہے کہ عام طور پر مولوی وعظ کر کے پیچھے مانگتے ہیں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیا جائے.اس کا بہت برا اثر ہو رہا ہے.کیونکہ واعظ کی باتوں کو توجہ اور غور سے نہیں سنا جاتا.پس واعظ کو بالکل مستغنی المزاج اور بے غرض ہونا چاہئے.اگر کسی وقت شامت اعمال

Page 76

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 70 جلد اول سے کوئی طمع یا لالچ پیدا بھی ہو تو وعظ کرنا بالکل چھوڑ دینا چاہئے اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور جب وہ حالت دور ہو جائے پھر بے غرض ہو کر کھڑا ہونا چاہئے.اور وعظ کے ساتھ اپنے اندر اور باہر سے لوگوں پر ثابت کر دینا چاہئے کہ وہ ان سے کوئی ذاتی فائدہ اور نفع کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان سے اپنی ذات کے لئے کچھ چاہتا ہے.جب کوئی مبلغ اپنے دوسری ہدایت آپ کو ایسا ثابت کر دے گا تو اس کے وعظ کا اثر ہوگا ورنہ وعظ بالکل بے اثر جائے گا.اسی طرح دوسرے وقت میں بھی سوال کرنے سے واعظ کو بالکل بچنا چاہئے.سوال کرنا تو یوں بھی منع ہے اور کسی مومن کے لئے پسندیدہ بات نہیں ہے.لیکن اگر واعظ سوال کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وعظ اسی وجہ سے ہی کرتا ہے.پس یہ نہایت ہی نا پسندیدہ بات ہے اور واعظوں کو خاص طور پر اس سے بچنا چاہئے ورنہ ان کے وعظ کا اثر زائل ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا.دوسری بات واعظ کے لئے یا د ر کھنے کے قابل یہ ہے کہ دلیر ہو.جب تک واعظ دلیر نہ ہو اس کی باتوں کا دوسروں پر اثر نہیں پڑتا اور اس کا دائرہ اثر بہت محدود رہ جاتا ہے کیونکہ وہ انہی لوگوں میں جانے کی جرات کرتا ہے جہاں اس کی باتوں کی واہ واہ ہوتی ہے.لیکن اگر دلیر ہوتا تو ان میں بھی جاتا جو گالیاں دیتے ، دھکے دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح اس کا حلقہ بہت وسیع ہوتا.ہماری جماعت کے مبلغ سوال کرنے سے تو بچے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت میں غناء کی حالت بھی پائی جاتی ہے.مگر یہ کمزوری ان میں بھی ہے کہ جہاں اپنی جماعت کے لوگ ہوتے ہیں وہاں تو جاتے ہیں اور وعظ کرتے ہیں لیکن جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں نہیں جاتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل میں مخفی طور پر واہ واہ سننے کی عادت جاگزیں ہوتی ہے.وہ دورے کرتے ہیں اور میں نہیں دفعہ جاتے ہیں مگر انہی مقامات پر جہاں پہلے جاچکے ہیں اور جہاں احمدی ہوتے ہیں.اور جس جگہ کوئی احمدی نہ ہو وہاں اس خیال سے کہ ممکن ہے کوئی گالیاں دے یا مارے نہیں جاتے.حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت

Page 77

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 71 جلد اول انہی مقامات پر جانے کی ہوتی ہے جہاں کوئی احمدی نہ ہو.کیونکہ جہاں بیج ڈال دیا گیا ہے وہاں وہ خود بڑھے گا اور جہاں ابھی بیج ہی نہیں پڑا وہاں ڈالنا چاہئے.اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کسی ایک جگہ ساری کی ساری جماعت نہیں ہوتی بلکہ متفرق طور پر ہوتی ہے.اسی قادیان میں دیکھ لو یہاں کے سارے باشندوں نے تو حضرت مسیح موعود کو نہیں مان لیا بلکہ اشد ترین مخالف یہاں ہی ہیں مگر بٹالہ کے کچھ لوگوں نے آپ کو مان لیا.پھر وہاں بھی سب نے نہیں مانا بلکہ اکثر مخالف ہی ہیں.پھر لاہور میں کچھ لوگوں نے مان لیا.اسی طرح کچھ نے کلکتہ میں مانا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بیج کی طرح صداقت کو بویا ہوا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ صداقت کے مقام اور چھاؤنیاں بناتا جاتا ہے تا کہ ان کے ذریعہ اردگر داثر پڑے.پس یہ خیال بالکل نادرست ہے کہ فلاں جگہ کے سب لوگوں کو احمدی بنا لیں تو پھر آگے جائیں.اگر ایسا ہونا ضروری ہوتا تو قادیان کے لوگ جب تک سب کے سب نہ مان لیتے ہم آگے نہ جاتے.لیکن ایسا نہیں ہوا.اور نہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ دس ہیں دن میں مان جاتی ہیں، بعض اس سے زیادہ عرصہ میں بعض دو تین سال میں اور بعض دس پندرہ سال میں اور ہر جگہ ایسی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں.اب اگر ان لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے لمبے عرصہ کے بعد ماننا ہے دوسری جگہ نہ جائیں گے تو وہاں کے ایسے لوگوں کو جو جلدی ماننے والے ہیں اپنے ہاتھ سے کھو دیں گے اور ان کو اپنے ساتھ نہ ملاسکیں گے.مگر ہمارے مبلغوں نے ابھی تک اس بات کو سمجھا نہیں اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو صداقت کو قبول کرنے سے ابھی تک محروم ہیں.اگر سب جگہ ہماری جماعت کے مبلغ جاتے تو بہت سے لوگ مان لیتے.چونکہ ہر جگہ ایسی طبیعتیں موجود ہیں جو جلد صداقت کو قبول کرنے والی ہوتی ہیں اس لئے ہر جگہ تبلیغ کرنی چاہئے.یہاں ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص ان کو ریل میں ملا معمولی گفتگو ہوئی اور اس نے مان لیا اور پھر وہ یہاں آیا.صرف تین روپے اس کی تنخواہ ہے اور روٹی کپڑا اسے ملتا

Page 78

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 72 جلد اول ہے مگر اس میں بڑا اخلاص ہے اور اخبار خریدتا ہے.تو صرف ایک دن کی ملاقات کی وجہ سے وہ احمدی ہو گیا.ہمیں دائرہ اثر وسیع کرنے کی ضرورت ہے.مگر مبلغین کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتا.مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے.اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مبلغ کی دلیری اور جرأت کا بھی دوسروں پر اثر پڑتا ہے اور لوگ اس کی جرات کو دیکھ کر ہی مان لیتے ہیں.کئی ہندو اور مسلمان اسی لئے عیسائی ہو گئے کہ انہوں نے پادریوں کی اشاعت میسحیت میں دلیری اور جرات کو دیکھا اور اس سے متاثر ہو گئے.تو مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے اور کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے اور ایسے علاقوں میں جانا چاہئے جہاں تاحال تبلیغ نہ ہوئی ہو.دلیری اور جرات ایسی چیز ہے کہ تمام دنیا میں اکرام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور مبلغ کے لئے سب سے زیادہ دلیر ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن کر جاتا ہے.اگر مبلغ ہی دلیر نہ ہو گا تو دوسروں میں جو اسے اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں دلیری ا کہاں سے آئے گی.ہمارے مبلغوں میں اس بات کی کمی ہے اور وہ بہت سے علاقے اسی دلیری کے نہ ہونے کی وجہ سے فتح نہیں کر سکتے ورنہ بعض علاقے ایسے ہیں کہ اگر کوئی جرات کر کے چلا جائے تو صرف دیا سلائی لگانے کی ضرورت ہوگی آگے خود بخو د شعلے نکلنے شروع ہو جائیں گے.مثلاً افغانستان اور خاص کر سرحدی علاقے ان میں اگر کوئی مبلغ زندگی کی پرواہ نہ کر کے چلا جائے تو بہت جلد سارے کے سارے علاقہ کے لوگ احمدی ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی حالت عربوں کی طرح کی ہے.وہ جب احمدی ہوں گے تو اکٹھے کے اکٹھے ہی ہوں گے.عام طور پر متمدن ممالک میں قوانین کے ذریعہ بہت کام چلایا جاتا ہے.مثلاً اگر یہاں کسی کو کوئی دشمن قتل نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کہ زید یا بکر کے دوست اور اس کے ہم قوم اس کا مقابلہ کریں گے بلکہ اس لئے قتل نہیں کرتا کہ قانون اسے پھانسی دے گا.اس لئے ایسے ممالک میں جو متمدن ہوں قانون کے ڈر کی وجہ سے لوگ ظلم سے رکتے ہیں.لیکن جہاں تمدن نہ ہو وہاں ذاتی تعلقات بہت زوروں پر ہوتے ہیں..کیونکہ ہر ایک شخص اپنا بچاؤ اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں کی جنبہ داری کرے تا وہ بھی

Page 79

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 73 جلد اول بوقت ضرورت اس کی جنبہ داری کریں اور اس طرح ان ممالک میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا.جو حال یہاں گھرانوں کا ہوتا ہے وہ ان ممالک میں قوموں کا ہوتا ہے.اور اگر ان ممالک میں پندرہ ہیں آدمی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلے جائیں اور کچھ لوگوں کو بھی احمدی بنا لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ارد گرد کی قو میں ان پر ظلم کریں گی اور قومی جنبہ داری کے خیال سے ان کے ہم قوم بھی احمدیت کو قبول کر لیں گے اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں تھیں چالیس لاکھ آدمی سلسلہ میں داخل ہوسکتا ہے..افریقہ کے لوگ اسی طرح عیسائی ہوئے.پہلے پہل ان میں ایک عورت گئی جو علاج وغیرہ کرتی تھی اس وجہ سے وحشی لوگ اسے کچھ نہ کہتے.لیکن ایک دن انہیں غصہ آ گیا اور کی اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا گئے.اس عورت کا ایک نوکر تھا جسے اس نے عیسائی کیا ہوا تھا.اس نے تین سو میل کے فاصلہ پر جا کر جہاں انگریز موجود تھے بتایا کہ وہ عورت ماری گئی ہے.وہاں سے ولایت تار دی گئی اور لکھا ہے کہ جب ولایت میں اس عورت کے مرنے کی تار شائع ہوئی تو جس مشن سے وہ عورت تعلق رکھتی تھی اس میں صبح سے لے کر شام تک بہت سی عورتوں نے درخواستیں دیں کہ ہم کو وہاں بھیج دیا جائے.چنانچہ بہت سے مبلغ اپنے خرچوں پر وہاں گئے اور سارے یوگنڈا علاقہ کے لوگ عیسائی ہو گئے.وہ عورت سات سال تک اکیلی وہاں کام کرتی رہی اور جب وہ ماری گئی تو اس کی دلیری اور جرات کی وجہ سے سب میں جرات پیدا ہوگئی اور انہوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں جانے کی درخواستیں دے دیں.پس مبلغ کی جرات بہت بڑا کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں میں بھی جرات پیدا ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے خوشی سے سنایا کہ پیغامیوں کے مبلغوں کو ایک جگہ مار پڑی ہے.وہ تو خوش ہو کر سنا رہا تھا مگر میں اس وقت افسوس کر رہا تھا کہ وہاں ہمارے مبلغ کیوں نہ تھے جنہیں مار پڑتی اور دلیری اور جرات دکھانے کا انہیں موقع ملتا.گو افسوس ہے کہ پیغامی مبلغوں نے بزدلی دکھائی اس موقع کو ضائع کر دیا مگر ان کا مار کھانا

Page 80

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 74 جلد اول خود کوئی ہتک کی بات نہ تھی.بلکہ اگر وہ دلیری سے کام لیتے تو یہ ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا.ہمارے واعظ حکیم خلیل احمد صاحب کو جب مدراس میں تکلیف پہنچی اور ان پر سخت خطر ناک حملہ کیا گیا اور ان کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے اس خبر کو اخبار میں شائع کرایا جس پر ایک دوست نے سخت افسوس کا خط لکھا کہ اخبار والوں کو منع کیا جائے کہ ایسی خبر نہ شائع کیا کریں.حالانکہ وہ خبر میں نے خود کہہ کر شائع کرائی تھی.اور منجملہ اور حکمتوں کے ایک یہ غرض تھی کہ اس خبر کے شائع ہونے سے جماعت میں غیرت پیدا ہو اور ان میں سے اور لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کریں.یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ میرا یہ منشاء نہیں کہ خود بخود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو.بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی جگہ کی تبلیغ اس لئے مت ترک کرو کہ وہاں کوئی خطرہ ہے.اور نہ میرا یہ منشاء ہے کہ لوگ بے شک تکلیف دیں اس تکلیف کا مقابلہ نہ کرو.بے شک قانوناً جہاں ضرورت محسوس ہو اس کا مقابلہ کرو.مگر تکالیف اور خطرات تمہیں اپنے کام سے نہ روکیں اور تمہارا حلقہ کا ر محدود نہ کر دیں.میں نے اخلاق کے مسئلہ کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ ستر فیصدی گناہ جرات اور دلیری کے نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں.اگر جرات ہو تو اس قدر گناہ نہ ہوں.پس دلیری اپنے اندر پیدا کرو تا کہ ایک تو خود ان گناہوں سے بچو جو جرات نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تمہاری کوششوں کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں.ہاں اس کے ساتھ یہ بات بھی یادرکھو کہ اپنی طرف سے ہر قسم کے فساد یا جھگڑے کے دور کرنے کی کوشش کرو اور موعظہ حسنہ سے کام لو.اس پر بھی اگر کوئی تمہیں دکھ دیتا ہے، مارتا ہے، گالیاں نکالتا ہے یا برا بھلا کہتا ہے تو اس کو برداشت کرو اور ایسے لوگوں کا ایک ذرہ بھر خوف بھی دل میں نہ لاؤ.تیسری ہدایت تیسری بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں لوگوں کی ہمدردی اور ان کے متعلق قلق ہو.جس جگہ گئے وہاں ایسے افعال

Page 81

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) چوتھی ہدایت 75 جلد اول کئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ہمارا ہمدرد ہے.اگر لوگوں پر یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر مذہبی مخالفت سرد ہو جائے کیونکہ مذہبی جذبات ہی ساری دنیا میں کام نہیں کر رہے.اگر یہی ہوتے تو ساری دنیا مسلمان ہوتی.پس مبلغ کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں پر ثابت کر دے کہ وہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے.جب لوگ اسے اپنا خیر خواہ سمجھیں گے تو اس کی باتوں کو بھی سنیں گے اور ان پر اثر بھی ہوگا.چوتھی بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیا وی علوم سے جاہل نہ ہو.اس سے بہت برا اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک شخص پوچھتا ہے کہ جاوا کہاں ہے؟ گو اس کا دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی نہ جانتا ہو تو اس کے مذہب میں کوئی نقص نہیں آ جائے گا مگر جب ایک مبلغ سے یہ پوچھا جائے گا اور وہ اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکے گا تو لوگ اسے حقیر سمجھیں گے کہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ جاوا کہاں ہے جہاں تین کروڑ کے قریب مسلمان بستے ہیں.تو مبلغ کو جنرل نالج حاصل ہونا چاہئے تا کہ کوئی اسے جاہل نہ سمجھے.ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک علم کا عالم ہی ہو.لیکن کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور ہونی چاہئے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ ایک بیمار کو دیکھنے کے لئے گئے وہاں ایک اور طبیب صاحب بھی بیٹھے تھے.آپ نے اہل خانہ سے پوچھا کہ تھرما میٹر لگا کر بیمار کو دیکھا ہے یا نہیں؟ طبیب صاحب نے کہا اگر آپ نے انگریزی دوائیاں استعمال کرتی ہیں تو میں جاتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا تھرما میٹر کوئی دوائی نہیں بلکہ ایک آلہ ہے جس سے بخار کا درجہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس قدر ہے.اس نے کہا آلہ ہو یا کچھ اور ہر ایک انگریزی چیز گرم ہوتی ہے اور بیمار کو پہلے ہی بہت زیادہ گرمی ہے.تو اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں عام باتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا اور مجلسوں میں سخت حقیر سمجھے جاتے ہیں.مبلغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ علم مجلس سے واقف ہو اور کسی بات کے متعلق ایسی لاعلمی کا اظہار نہ کرے جو بیوقوفی کی حد تک پہنچی

Page 82

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 76 جلد اول ہوئی ہو.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے ایک بادشاہ تھا جو کسی پیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو.وزیر چونکہ اس کی حقیقت جانتا تھا اس لئے ٹلاتا رہتا.آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا.پیر صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا بادشاہ سلامت ! دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے.سکندر بادشاہ نے دین اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے.یہ سن کر وزیر نے کہا دیکھئے حضور! پیر صاحب کو ولایت کے ساتھ تاریخ دانی کا بھی بہت بڑا ملکہ ہے.اس پر بادشاہ کو اس سے نفرت ہوگئی.حضرت صاحب یہ قصہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ علم مجلس بھی نہایت ضروری ہے.جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے.اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.مثلاً ایک مجلس مشورہ کی ہو رہی ہو اور کوئی بڑا عالم ہو مگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر بہت برا اثر پڑے گا.پس یہ نہایت ضروری علم ہے اور مبلغ کا اس کو جاننا بہت ضروری ہے.ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ وہ جغرافیہ، تاریخ، حساب، طب، آداب گفتگو، آداب مجلس وغیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو جتنی مجلس شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے.اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہو سکتی ہے اس کے لئے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پھر واقعات حاضرہ سے واقفیت ہونی چاہئے مثلاً کوئی پوچھے کہ مسٹر گاندھی کون ہے؟ اور مبلغ صاحب کہیں کہ میں تو نہیں جانتا.تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور اسے حقیر سمجھیں گے اس لئے ایسے واقعات سے جو عام لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں اور روزمرہ ہور ہے ہوں ان سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے.پانچویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ غلیظ نہ ہو.ظاہری علامت پانچویں ہدایت کے متعلق بھی خاص خیال رکھا گیا ہے.چنانچہ رسول کریم میے

Page 83

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 77 جلد اول نے فرمایا ہے کہ مسجد میں کوئی تھوکتا ہے تو یہ ایک غلطی ہے اس کا کفارہ یہ ہے کہ تھوک کو دفن کرے.4 حضرت صاحب کی طبیعت میں کتنی بردباری تھی مگر آپ نے اس وجہ سے باہر لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا کہ ایک شخص نے کئی چیزیں ساگ ، فرنی، زردہ ، شور با وغیرہ ملا کر کھایا.فرماتے تھے کہ اس سے مجھے اتنی نفرت ہوئی کہ قے آنے لگی.اس کے بعد آپ نے باہر کھانا کھانا چھوڑ دیا اور اس طرح لوگ اس فیض سے محروم ہو گئے جو آپ کے ساتھ کھانا کھانے کے وقت انہیں حاصل ہوتا تھا.پھر حضرت صاحب فرماتے اور میری طبیعت میں بھی یہ بات ہے کہ اگر استرے سے سر کو منڈوا کر کوئی سامنے آئے تو بہت برا لگتا ہے اور مجھے تو اسے دیکھ کر سر درد شروع ہو جاتی ہے.تو ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہے تا کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو.اور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں.مگر ظاہری صفائی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کالر اور نکٹائی وغیرہ لگانی چاہئے اور بال ایک خاص طرز کے بنائے جائیں.ان میں سے بعض باتوں کو تو ہم لغو کہیں گے اور بعض کو نا جائز.مگر جو ضروری صفائی ہے یعنی کوئی غلاظت نہ لگی ہو یا کوئی یو دار چیز نہ لگی ہو اس کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.ہاں یہ بھی نہ کرے کہ ہر وقت کپڑوں اور جسم کی صفائی میں لگا رہے کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو پھر کام خراب ہو جائے گا.چھٹی بات مبلغ کے لئے یہ ہے جس میں بہت کوتا ہی ہوتی ہے کہ جو مبلغ چھٹی ہدایت دورے پر جاتے ہیں وہ خرچ بہت کرتے ہیں.میرے نزدیک مبلغ کے لئے صرف یہی جائز ہے کہ وہ کرایہ لے، کھانے کی قیمت لے یا رہائش کے لئے اسے کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ لے.گویا میرے نزدیک قوت لا يَمُوتُ یا ایسے اخراجات جو لازمی طور پر کرنے پڑیں ان سے زیادہ لینا ان کے لئے جائز نہیں ہے.مثلاً مٹھائی وغیرہ یا اور کوئی مزہ کے لئے چیزیں خریدی جائیں تو ان کا خرچ اپنی گرہ سے دینا چاہئے.ہماری تو

Page 84

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 78 جلد اول حالت اور ہمارے کام کی حالت کی وجہ سے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے اخراجات فنڈ پر ڈالے جائیں.میں نے مولوی صاحب کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ دو دفعہ سفر کیا ہے.مگر میرے نزدیک دوستوں کی جو زائد چیزیں تھی ان کا خرچ اپنے خرچ سے دیا اور خود اپنا خرچ تو میں لیا ہی نہ کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ کئی آدمیوں کے بنارس تک کے خرچ پر صرف ستر روپے خرچ آئے تھے.پس جہاں تک ہو سکے مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے.کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہے دوسروں کے لئے.اگر یہی اسراف کرے گا تو لوگ معترض ہوں گے.اگر ایک تنخواہ دار اپنی تنخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کر سکتا ہے لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح کا مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں.اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں.اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ ساتویں ہدایت چندہ میں سستی کریں گے.ساتویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں خودستائی نہ ہو.بہت لوگوں کی تباہی کی یہی وجہ ہوئی ہے.خواجہ صاحب اپنے لیکچروں کی تعریف خود لکھتے اور دوسروں کی طرف سے شائع کروانے کی کوشش کیا کرتے تھے.ایک دفعہ مولوی صدر الدین صاحب خواجہ صاحب کے ایک لیکچر کی رپورٹ حضرت خلیفہ اول کو سنا تھے کہ مولوی صاحب نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا.اس کی پشت پر لکھا ہوا تھا کہ جہاں جہاں میں نے اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میں نے یہ کہا یا میری نسبت یہ کہا گیا وہاں خواجہ صاحب لکھ کر شائع کر دیا جائے.حضرت مولوی صاحب نے وہ خط پڑھ کر مجھے دے دیا اور میں نے اس کی پشت پر یہ ہدایت لکھی ہوئی دیکھی.اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ظاہر ہے.پس مبلغ کو کبھی اس بات پر زور نہ دینا چاہئے کہ فلاں جگہ میں نے یہ بات کہی اور اس کی اس طرح تعریف کی گئی یا اس کا ایسا نتیجہ نکلا کہ مخالف دم بخود ہو گیا.بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سنائیں ہم نے یہ بات کہی اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ لوگ عش عش

Page 85

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 79 جلد اول کرنے لگے.اس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ تعریف کریں.اس میں شک نہیں کہ اپنے کام کا نتیجہ اور کامیابی سنانا بھی ضروری ہوتا ہے جس طرح حضرت صاحب سنایا کرتے تھے مگر یہ انتہائی مقام کی باتیں ہیں ابتدائی حالت کی نہیں.پس مبلغوں کو چاہئے کہ اپنے لیکچروں اور مباحثوں کی خود تعریفیں نہ سنایا کریں اور صرف اتنی ہی بات بتائیں جتنی ان سے پوچھی جائے اور وہی بات بتائیں جو انہوں نے کہی.آگے اس کے اثرات نہ بیان کیا کریں.یہ بتانا ان کا کام نہیں بلکہ اس مجلس کا کام ہے جس میں وہ اثرات ہوئے.وہ خود بتاتے پھریں.کسی مبلغ کا یہ کہنا کہ میں نے فلاں مخالف کو یوں پکڑا کہ وہ ہکا بکا رہ گیا اور اس کا رنگ فق ہو گیا جائز نہیں.یہ تم نہ کہو بلکہ وہ لوگ کہیں گے جنہوں نے ایسا ہوتے دیکھا.تمہارے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے تمہاری خوبی ظاہر ہوتی ہو.تم صرف واقعات بیان کر دو اور آگے اثرات کے متعلق کچھ نہ کہو.یہ بات نوجوان اور مبتدی مبلغوں کے لئے نہایت ضروری ہے اور جو استاد ہو جائیں انہیں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بیان کرنا بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے.آٹھویں بات یہ ہے کہ عبادات کے پابند بنو.اس کے بغیر نہ تم دنیا آٹھویں ہدایت کو فتح کر سکتے ہو اور نہ اپنے نفس کو.فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہے لیکن ان کے لئے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے.صحابہ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے حالانکہ روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے تہجد اور نوافل پڑھنے ضروری ہیں.دوسرے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہیں مگر مبلغ کے لئے تو بہت ہی ضروری ہیں.پس اگر زیادہ نہیں تو کم ہی پڑھ لے.آٹھ کی بجائے دو ہی پڑھ لے.اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو یہاں تک کر لے کہ نماز سے پہلے پانچ منٹ لیٹے لیٹے استغفار پڑھ لے اور آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا جائے.اس کے علاوہ ذکر الہی اور دوسری عبادتوں کا بھی شغل رکھنا چاہئے کیونکہ ان کے بغیر روح کو جلاء نہیں ہوتا.فرائض تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو ادا نہ کرے تو مبلغ رہتا ہی نہیں اور فرائض

Page 86

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 80 جلد اول تو ادا کئے ہی جاتے ہیں.کیونکہ اگر مسجد میں نہ آئے تو وہ سجھتا ہے کہ لوگ کہیں گے اچھا مبلغ ہے.لیکن قرب الہی حاصل کرنے کے لئے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے نوافل پڑھنے ضروری ہیں اور دیگر از کار کی بھی بہت ضرورت ہے.نویں چیز مبلغ کے لئے دعا ہے.دعا خدا کے فضل کی جاذب ہے.جو نویں ہدایت شخص عبادت تو کرتا ہے مگر دعا کی طرف توجہ نہیں کرتا اس میں بھی کبر ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کے انعام کی ضرورت نہیں سمجھتا.حالانکہ موسی جیسا نبی بھی خدا تعالیٰ سے کہتا ہے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ 5 کہ جو کچھ تیری طرف سے مجھ پر بھلائی نازل ہو میں اس کا محتاج ہوں.پس جب حضرت موسی نبی ہو کر خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں تو معمولی مؤمن کیوں محتاج نہ ہوگا.ہر ایک مبلغ کو دعا سے ضرور کام لینا چاہئے اور اس کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑ نا چاہئے.دسویں چیز مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں انتظامی قابلیت ہو.دسویں ہدایت اگر اس میں یہ قابلیت نہ ہوگی تو اس کا دائرہ عمل بہت محدود ہوگا اور اس کی کوششوں کا دائرہ اس کی زندگی پر ہی ختم ہو جائے گا.اس لئے اسے اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ جس کام کو اس نے شروع کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہی ختم نہ ہو جائے بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہے.اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے قائم مقام بنائے.دیکھو رسول کریم ﷺ مبلغ تھے مگر آپ مبلغ گر بھی تھے.ہمارے مبلغوں کی اس طرف قطعاً توجہ نہیں ہے.وہ یہ کوشش نہیں کرتے کہ جہاں جائیں وہ اپنے قائم مقام بنا ئیں اور کام کرنے والے پیدا کریں تا کہ انتظام اور ترتیب کے ساتھ کام جاری رہے.یہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مبلغ جن لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ لائق دیکھیں اور جو شوق رکھیں ان کو مختلف مسائل کے دلائل سکھائیں اور ہر بار ان میں اضافہ کرتے رہیں اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے پہلے دلائل کو یاد کر لیا ہے یا نہیں.اور پھر انہیں یہ بھی کہیں کہ ہمارے بعد تم تبلیغ کرنا اور اس کے متعلق ہمیں اطلاع دیتے رہنا.میں نے تالیف واشاعت کے صل التمر

Page 87

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 81 جلد اول دفتر کو اس کے متعلق تاکید کی تھی کہ ہر جگہ تبلیغ کرنے والے مقرر کئے جائیں اور اس نے نیم مردہ سی تحریک بھی کی جو اسی حالت میں رہی.کئی جگہ تبلیغی سیکرٹری مقرر ہی نہیں ہوئے اور کسی جگہ مقرر ہوئے تو انہوں نے کچھ کیا نہیں.دراصل ان کو پہلے خود زندہ ہونا چاہئے اور زندگی کی علامات ظاہر کرنی چاہئیں تا کہ دوسروں کو زندہ کر سکیں.لیکن جبکہ وہ خود مردہ حالت میں پڑے ہیں تو ان سے کسی کام کی کیا امید ہو سکتی ہے ہے.غرض جہاں مبلغ جائیں وہاں دوسروں کو تبلیغ کرنا سکھائیں اور بتائیں کہ اس طرح بحث کرنی چاہئے.بحث کرنا اور بات ہوتی ہے اور لیکچر دینا اور.اس لئے بحث اور دوسرے مذاہب کے متعلق گفتگو کرنے کے گر سکھانے چاہئیں تا کہ ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جو ان کے بعد کام کرتے رہیں.(بعد از نماز مغرب) میں نے پہلے دس باتیں بیان کی تھیں.اب گیارھویں بات بتا تا ہوں.گیارھویں بات جس کا یا درکھنا مبلغ کے لئے ضروری ہے وہ گیارھویں ہدایت نازک امر ہے بہت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں رکھتے اس لئے بعض دفعہ زک پہنچ جاتی ہے.میں نے اس سے خاص طور پر فائدہ اٹھایا ہے اور یہ ان باتوں میں سے ہے جو بہت سہل الحصول ہیں.مگر تعجب ہے کہ بہت لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے.اور وہ یہ ہے کہ دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھو اور اس کے ساتھ ہی کبھی یہ خیال اپنے دل میں نہ آنے دو کہ تم اس کے مقابلہ میں کمزور ہو.مجھے مباحثات کم پیش آتے ہیں اس لئے میں اس معاملہ میں کم تجربہ رکھتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نہایت کم علم اور معمولی سے آدمی نے ایسا اعتراض کیا ہے کہ جو بہت وزنی ہوتا ہے اور کئی دفعہ میں نے بچوں کے منہ سے بڑے بڑے اہم اعتراض سے ہیں.اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا مد مقابل کم علم اور جاہل انسان ہے اور اس

Page 88

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 82 جلد اول کی ہمیں کیا پرواہ ہے.بلکہ یہی مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ بہت بڑا دشمن ہے.اور اگر بچہ سامنے ہو اور اس کا رعب نہ پڑ سکے تو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ ممکن ہے میرا امتحان ہونے لگا ہے.پس ایک طرف تو خواہ بچہ ہی مقابلہ پر ہو اس کو حقیر نہ سمجھو بلکہ بہت قوی جانو.اور دوسری طرف اس کے ساتھ ہی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم حق پر ہیں ہمیں کسی کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.گویا نہ تو مد مقابل کو حقیر سمجھنا چاہئے اور نہ مایوس ہونا چاہئے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ پر اعتماد ہو تو اس کی طرف سے ضرور مدد آتی ہے اور خدا ہی کی مدد ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمن کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتا ہے.ورنہ کون ہے جو سب دنیا کے علم پڑھ سکتا ہے.پھر کون ہے جو سب اعتراضات نکال سکتا ہے اور پھر کون ہے جو ان کے جوابات سوچ سکتا ہے.ہر انسان کا دماغ الگ الگ باتیں نکالتا ہے اس لئے خدا پر ہی اعتما درکھنا چاہئے کہ وہ ہی ہماری مدد کرے گا اور ہم کامیاب ہوں گے.اور ادھر دشمن کو حقیر نہ سمجھا جائے.جب یہ دو باتیں ایک وقت میں انسان اپنے اندر پیدا کرے تو وہ کبھی زک نہیں اٹھا سکتا.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ جب ایک دو دفعہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اچھا بولنے لگتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کون ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے.ایسا نہیں ہوتا چاہئے دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھنا چاہئے بلکہ بہت بڑا سمجھنا چاہئے.ہاں ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد ہونا چاہئے کہ اگر دشمن قوی ہے تو میرا مددگار بھی بہت قوی ہے.اس لئے دشمن میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکے گا.جب یہ دو باتیں انسان میں پیدا ہو جائیں تو اول تو خدا اس کے دشمن کی زبان پر کوئی اعتراض ہی جاری نہیں کرے گا اور اگر کرے گا تو اس کا جواب بھی سمجھا دے گا.ایک دفعہ یہاں ایک انگریز پادری آیا.والٹر (Walter ) اس کا نام تھا.احمدیت کے متعلق ایک کتاب بھی اس نے لکھی ہے.اب مر گیا ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن انجیل اور توریت کی تصدیق کرتا ہے مگر ان میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے.اگر چہ میں قرآن میں تصدیق کرنے کے اور معنے کیا کرتا ہوں اور میرے نزدیک جب ایسے موقع پر لام صلہ

Page 89

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 83 جلد اول آئے تو اس کا اور ہی مطلب ہوتا ہے مگر اُس وقت میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ کہو ہاں تصدیق کرتا ہے اور بتایا گیا کہ وہ کوئی اختلاف پیش ہی نہیں کر سکے گا.اس نے کہا کہ ان میں تو اختلاف ہے پھر تصدیق کے کیا معنی؟ میں نے کہا کوئی اختلاف پیش تو کرو.اس پر وہ خوب قہقہہ مار کر ہنسا اور کہا ایک اختلاف؟ اختلاف تو بیسیوں ہیں.میں نے کہا ایک ہی پیش کرو.یہ باتیں میرے منہ سے خدا ہی کہلوا رہا تھا ورنہ اختلاف تو فی الواقع موجود ہیں.گو اس قسم کے اختلاف نہیں ہیں جس قسم کے اس کی مراد تھی.وہ پادری تھا اور انجیل کا ماہر.اگر کوئی اختلاف پیش کر دیتا تو بات لمبی جا پڑتی.مگر چونکہ میرے دل میں ڈالا گیا تھا کہ وہ کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکے گا اس لئے میں نے زور دے کر کہا کوئی اختلاف تو پیش کرو.اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا قرآن کریم میں لکھا ہے کہ مریخ پرندہ پیدا کیا کرتا تھا انجیل میں اس طرح نہیں لکھا.میں نے کہا پادری صاحب! آپ تو سمجھدار آدمی ہیں اور تاریخ نویسی کا ارادہ رکھتے ہیں آپ بتائیں کیا اگر ایک مؤرخ کچھ واقعات کو اپنی کتاب میں درج کر دے اور دوسرا ان کو درج نہ کرے تو یہ کہا جائے گا کہ ان کتابوں کا آپس میں اختلاف ہے؟ یہ سن کر اس کے ساتھ جو دو انگریز تھے ان کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور انہوں نے کہا فی الواقع یہ تو کوئی اختلاف نہیں.اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا.پس جب انسان خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر لیتا ہے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دشمن پر خواہ اس کا دشمن کتنا ہی قوی ہو کا میاب کر دیتا ہے.بارھویں بات جس کا میں نے بارہا تجربہ کیا ہے اور کبھی ایسا نہیں بارھویں ہدایت ہوا کہ میں نے اسے استعمال کیا ہو اور اس کا فائدہ نہ دیکھا ہو یہ ہے کہ جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو ذہن میں جتنے علوم اور جتنی باتیں ہوں ان کو نکال دے اور یہ دعا کر کے کھڑا ہو کہ اے خدا! جو کچھ تیری طرف سے مجھے سمجھایا جائے گا میں وہی بیان کروں گا.جب انسان اس طرح کرے تو اس کے دل سے ایسا علوم کا چشمہ پھوٹتا ہے جو بہتا ہی چلا جاتا ہے اور کبھی بند نہیں ہوتا.اس کی زبان پر ایسی باتیں

Page 90

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 84 جلد اول جاری ہوتی ہیں کہ وہ خود نہیں جانتا.اس گر کا میں نے بڑا تجربہ کیا ہے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں پانچ پانچ منٹ تقریر کرتا چلا گیا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں لگا کہ کیا کہہ رہا ہوں.خود بخود زبان پر الفاظ جاری ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کس امر پر تقریر کر رہا ہوں.پچھلے ہی دنوں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے خطبہ نکاح کے وقت ایسا ہی ہوا.جب میں کھڑا ہوا تو پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنے لگا ہوں.مگر کچھ منٹ بول چکا تو پھر بات سمجھ آئی کہ اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں.یہ بات بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہر ایک شخص کو حاصل نہیں ہو سکتی.لیکن چونکہ یہاں ہر طبقہ کے آدمی ہیں اور دوسرے بھی جب اعلیٰ درجہ پر پہنچیں گے تو اس کو سمجھ لیں گے اس کے لئے میں اسے بیان کرتا ہوں.جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہو اور اسی بات پر اسے بھروسہ ہو کہ جو کچھ خدا بتائے گا وہی بیان کروں گا.یہ تو کل کا ایک ایسا مقام ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے اسے بھی بھول جاتا ہے.ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے سامنے ہوتے ہیں حتی کہ اپنا نام تک بھول جاتا ہے.اور جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے.مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو.ان الفاظ کو تو سمجھتا ہے اور ان کا مطلب بھی جانتا ہے مگر یہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیوں کہا ہے اور کس مضمون کے بیان کرنے کے لئے میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہیں.جب وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے تو پھر یکدم اس پر کشف ہوتا ہے کہ یہ بات ہے جس کو تو بیان کرنے لگا ہے.مگر یہ بات پیدا ہوتی ہے اپنے آپ کو گرا دینے سے.جب کوئی انسان اپنے آپ کو بالکل گرا دیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ اسے اٹھاتا ہے.لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ میرے پاس علم ہے، میں خوب لیکچر دے سکتا ہوں ، مجھے سب باتیں معلوم ہیں ان کے ذریعہ میں اپنا لیکچر بیان کروں گا تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی.

Page 91

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 85 جلد اول کہا جا سکتا ہے کہ اگر لیکچر کے لئے کھڑے ہوتے وقت بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہونا چاہئے تو پھر لیکچر کے لئے نوٹ کیوں لکھے جاتے ہیں؟ اس کے متعلق یا د رکھنا چاہئے کہ جس طرح لیکچر کے وقت میں نے بتایا ہے کہ باکل خالی الذہن ہونا چاہئے اسی طرح جن لیکچروں کے لئے جوابوں کی کثرت یا مضمون کی طوالت یا اس کی مختلف شاخوں کے سبب سے نوٹ لکھنے ضروری ہوں ان کے نوٹ لکھتے وقت یہی کیفیت دماغ میں پیدا کرنی چاہیئے اور پھر نوٹ لکھنے چاہئیں.میں ایسا ہی کرتا ہوں.اور اس وقت جو کچھ خدا تعالیٰ لکھاتا جاتا ہے وہ لکھتا جاتا ہوں.پھر ان میں اور باتیں بڑھالوں تو اور بات ہے.اسی سالانہ جلسہ پر لیکچر کے وقت ایک اعتراض ہوا تھا کہ فرشتوں کا چشمہ تو خدا ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے اور وہ اس چشمہ سے لے کر آگے پہنچاتے ہیں.مگر شیطان کا چشمہ کیا ہے؟ اس اعتراض پر دس پندرہ منٹ کی تقریر میرے ذہن میں آئی تھی اور میں وہ بیان ہی کرنے لگا تھا کہ یک لخت خدا تعالیٰ نے یہ فقرہ میرے دل میں ڈال دیا کہ شیطان تو چھینتا ہے نہ کہ لوگوں کو کچھ دیتا ہے اور چھینے والے کو کسی ذخیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ ایسا مختصر اور واضح جواب تھا کہ جسے ہر ایک شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا.لیکن جو تقریر کرنے کا میں نے ارادہ کیا تھا وہ ایک تو لمبی تھی اور دوسرے ممکن تھا کہ علمی لحاظ سے وہ ایسی مشکل ہو جاتی کہ ہمارے دیہاتی بھائی اسے نہ سمجھ سکتے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ڈالا جاتا ہے وہ بہت جامع اور نہایت زود فہم ہوتا ہے اور اس کا اثر جس قدر سننے والوں پر ہوتا ہے اتنا کسی لمبی سے لمبی تقریر کا بھی نہیں ہوتا.پس تم یہ حالت پیدا کرو کہ جب تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو تو بالکل خالی الذہن ہو اور خدا تعالیٰ پر تمہارا سارا مدار ہو.اگر چہ یہ حالت پیدا کر لینا ہر ایک کا کام نہیں ہے اور بہت مشکل بات ہے لیکن ہوتے ہوتے جب اس کی قابلیت پیدا ہو جائے تو بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.تیرھویں ہدایت تیرھویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے بلکہ سب کے ساتھ اس کا ایک جیسا ہی تعلق

Page 92

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 86 جلد اول ہو.یہ بات صحابہ میں بھی ہوتی تھی کہ کسی کو کسی سے محبت اور کسی مناسبت کی وجہ سے زیادہ تعلق ہوتا تھا اور وہ دوسروں کی نسبت آپس میں زیادہ تعلق رکھتے تھے اور ہم میں بھی اسی طرح ہے اور ہونی چاہئے لیکن جو بات بری ہے اور جس سے مبلغ کو بالا رہنا چاہئے یہ ہے کہ وہ کسی فریق میں اپنے آپ کو شامل کر لے.ہر ایک مبلغ رسول کریم ﷺ کا حل ہے اور ظل وہی ہو سکتا ہے جس میں وہ باتیں پائی جائیں جو اصل میں تھیں.رسول کریم کے ایک دفعہ نکلے تو دیکھا کہ دو پارٹیاں آپس میں تیر اندازی کا مقابلہ کر رہی ہیں.آپ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک کے ساتھ ہو کر تیر مارنے لگے.اس پر دوسری پارٹی نے اپنی کمانیں رکھ دیں اور کہا ہم آپ کا مقابلہ نہیں کریں گے.اس پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا اچھالو میں دخل نہیں دیتا 6 چونکہ آپ سب کے ساتھ ایک ہی تعلق رکھتے تھے اس لئے آپ کو مد مقابل بنانے کے لئے صحابہ تیار نہ ہوئے اور اس بات کو رسول کریم یا یا اللہ نے تسلیم کی کے دخل دینا چھوڑ دیا.یہ چونکہ جنگی لحاظ سے ایک مقابلہ تھا اس لئے آپ الگ ہو گئے ورنہ ایسی باتیں جو تفریح کے طور پر ہوتی ہیں ان میں آپ شامل ہوتے تھے.چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ گھوڑ دوڑ میں آپ نے بھی اپنا گھوڑا دوڑایا.اس قسم کی باتوں میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں تھا.غرض مبلغ کو بھی ایسی باتوں میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے جو مقابلہ کے طور پر ہوں اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ اس کے نزدیک دونوں فریق ایک جیسے ہی ہیں.چودھویں ہدایت چودھویں بات یہ ضروری ہے کہ کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میراعلم کامل ہو گیا ہے.بہت لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا علم مکمل ہو گیا ہے اور ہمیں اور کچھ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.مگر اس سے زیادہ جہالت کی اور کوئی بات نہیں ہے کیونکہ علم کبھی مکمل نہیں ہوسکتا.میں تو علم کی مثال ایک رستہ کی سمجھا کرتا ہوں جس کے آگے دور ستے ہوجائیں.پھر اس کے آگے دو ہو جائیں اور پھر اس کے آگے دو.اسی طرح آگے شاخیں ہی شاخیں نکلتی جائیں اور اس طرح کئی ہزار

Page 93

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 87 جلد اول رستے بن جائیں.یہی حال علم کا ہوتا ہے.علم کی بے شمار شاخیں ہیں اور اس قدر شاخیں ہیں جن کی انتہا ہی نہیں.پس علم کا خاتمہ شاخوں کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اس کا خاتمہ جڑ کی طرف ہے کہ وہ ایک ہے اور وہ ابتدا ہے جو جہالت کے بالکل قریب ہے.بلکہ جہالت کو سے بالکل ملی ہوئی ہے ورنہ آگے جوں جوں بڑھتے جائیں اس کی شاخیں نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں.اگر کسی نے ایک شاخ کو ختم کر لیا تو اس کے لئے دوسری موجود ہے.غرض علم کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ بھی ختم نہیں ہو سکتا.اور روحانی علوم کی تو قطعاً کوئی حد ہے ہی نہیں.ڈاکٹری کے متعلق ہی کس قدر علوم دن بدن نکل رہے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہو رہا ہے.پس کوئی علم ختم نہیں ہو سکتا.اور جہاں کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ علم ختم ہو گیا ہے وہاں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ علم کے درخت سے اتر کر جہالت کی طرف آ گیا ہے.پس کبھی یہ مت خیال کرو کہ ہمارا علم کامل ہو گیا.کیونکہ ایک تو یہ جھوٹ ہے کوئی علم ختم نہیں ہوسکتا.دوسرے اس سے انسان متکبر ہو جاتا ہے اور اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.لیکن اگر انسان ہر وقت اپنے آپ کو طالب علم سمجھے اور اپنے علم کو بڑھاتا رہے تو اس کے دل پر زنگ نہیں لگتا.کیونکہ جس طرح چلتی تلوار کو زنگ نہیں لگتا لیکن اگر اسے یوں ہی رکھ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو زنگ لگ جاتا ہے.پس ہر وقت اپنا علم بڑھاتے رہنا چاہئے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا.پندرھویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ باغ میں کہا گیا ہے کہ پہنچا دے.اور جس کو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہ بھی کوئی وجود ہونا چاہئے جو معین اور مقرر ہو.ورنہ اگر کسی معتین وجود کو نہ پہنچانا ہوتا تو یہ کہا جاتا کہ پھینک دو یا بانٹ دو.مگر اللہ تعالیٰ نے پہنچا نا فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معین وجود ہیں جن کو ان کا حصہ پہنچانا ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ 7 اس میں عموم کے لحاظ سے سب انسان آ گئے.ان کو پیغام الہی پہنچانا ہمارا کام ہے.پس کسی قوم اور کسی فرقہ کوحقیر اور ذلیل نہ سمجھا پندرھویں ہدایت

Page 94

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 88 جلد اول جائے.مبلغ کا کام پہنچانا ہے اور جس کو پہنچانے کے لئے کہا جائے اسے پہنچا نا اس کا فرض ہے.اسے یہ حق نہیں کہ جسے ذلیل سمجھے اسے نہ پہنچائے اور جسے معزز سمجھے اسے پہنچائے.مگر ہمارے مبلغوں میں یہ نقص ہے کہ وہ ادنی اقوام چوہڑوں چماروں میں تبلیغ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ بھی خدا کی مخلوق ہے اسے بھی ہدایت کی ضرورت ہے.ان کو بھی تبلیغ کرنی چاہئے اور سیدھے رستہ کی طرف لانا چاہئے.عیسائیوں نے ان سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اور اس سے زیادہ ہندوستان میں ایسی اقوام کے لوگوں کو عیسائی بنا لیا ہے جتنی ہماری جماعت کی تعداد ہے اور اب ان لوگوں کو کونسل کی ممبری کی ایک سیٹ بھی مل گئی.ہے.ہمارے مبلغ اس طرف خیال نہیں کرتے.حالانکہ ان لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہے.ان کو ان کی حالت کے مطابق بتایا جائے کہ دیکھو تمہاری کیسی گری ہوئی حالت ہے اس کو درست کرو اور اپنے آپ کو دوسرے انسانوں میں ملنے جلنے کے قابل بناؤ.اس قسم کی کی باتوں کا ان پر بہت اثر ہوگا اور جب انہیں اپنی ذلیل حالت کا احساس ہو جائے گا اور اس سے نکلنے کا طریق انہیں بتایا جائے گا تو وہ ضرور نکلنے کی کوشش کریں گے.ان کو کسی مذہب کے قبول کرنے میں سوائے قومیت کی روک کے اور کوئی روک نہیں ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی.ہمارے ہاں جو چو ہڑیاں آتی ہیں تبلیغ کرنے پر کہتی ہیں ہم مسلمان ہی ہیں مگر ہم اپنی قوم کو کیونکر چھوڑ دیں.یہ روک اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ دس پندرہ میں گھر اکٹھے کے اکٹھے مسلمان ہو جائیں اور ان کی قوم کی قوم بنی رہے جیسا کہ یہ لوگ جب عیسائی ہوتے ہیں تو اکٹھے ہی ہو جاتے ہیں.پس ان میں تبلیغ کرنے کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.اگر ہم ساری دنیا کے لوگوں کو مسلمان بنالیں مگر ان کو چھوڑ دیں تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چوہڑے چمار تھے اس لئے ہم نے ان کو مسلمان نہیں بنایا.خدا تعالیٰ نے ان کو بھی آنکھ، کان، ناک، دماغ ، ہاتھ ، پاؤں اسی طرح دیتے ہیں جس طرح اوروں کو دیئے ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے انہیں خراب کر لیا ہے.

Page 95

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 89 جلد اول اگر ان کی اصلاح کرلی جائے تو وہ بھی ویسے ہی انسان بن سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے.چنانچہ مسیحیوں میں بعض چوہڑوں نے تعلیم پا کر بہت ترقی کر لی ہے.ان کے باپ یا دادا عیسائی ہو گئے اور اب وہ علم پڑھ کر معزز عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں.پس اگر ان لوگوں کی اصلاح کرلی جائے تو یہ بھی اوروں کی طرح ہی مفید ثابت ہو سکتے ہیں.ہمارے مبلغوں کو اس طرف بھی خیال کرنا چاہئے اور ان لوگوں میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے.سولہویں ہدایت جانتا ہو.بہت لوگ اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس سے کام سولہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے ملنا جلنا نہیں لیتے.لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور اس طرح بہت اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں.رسول کریم ﷺ ابتدا میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور تبلیغ کرتے تھے.وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں وہ عام لیکچروں میں نہیں آتے ان کے گھر جا کر ان سے ملنا چاہئے.اس طرح ملنے سے ایک تو وہ لوگ باتیں سن لیتے ہیں دوسرے ایک اور بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.اور وہ یہ کہ اگر کبھی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی تو اگر یہ لوگ ظاہری مدد نہیں دیں گے تو خفیہ ضرور دیں گے کیونکہ ملنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے ایک ذاتی تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ لوگ جن میں شرافت ہوتی ہے اس کا ضرور لحاظ رکھتے ہیں.ہمارے مسٹر محمد امین سابق ساگر چند صاحب میں ملنے کی عادت ہے.وہ لارڈوں تک سے ملتے رہے ہیں اور اب تک خط و کتابت کرتے رہتے ہیں.تو ملنے جلنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے انسان بہت سی باتیں سنا سکتا ہے جو کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں سنا سکتا.اس لئے ہمارے مبلغوں کو اس بات کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.سترھویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں ایثار کا مادہ ہو.جب تک یہ نہ سترھویں ہدایت ہولوگوں پر اثر نہیں پڑتا.جب ایثار کی عادت ہو تو لوگ خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں.کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایثار کس طرح کریں؟ کون سا موقع ہمارے

Page 96

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 90 جلد اول لئے ایثار کا ہوتا ہے؟ مگر اس کے بہت موقعے اور محل ملتے رہتے ہیں.مثال کے طور پر ہی کی دیکھ لو کہ ریل پر سوار ہونے والوں کو قریباً ہر اسٹیشن پر وہ لوگ سوار ہونے سے روکتے ہیں جو پہلے بیٹھے ہوتے ہیں.سوار ہونے والا ان کی منتیں کرتا ہے ، خوشامد میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کھڑا ہی رہوں گا لیکن اسے روکا جاتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر جو سوار ہونے کے لئے آتا ہے اسے سب سے آگے بڑھ کر وہی روکتا ہے اور کہتا ہے یہاں جگہ نہیں ہے ہمارا دم پہلے ہی گھٹ رہا ہے.اسی طرح ہر جگہ ہوتا رہتا ہے.ایسے موقع پر مبلغ ان کا افسر بن کے بیٹھ جائے اور نرمی و محبت سے کہے آنے دیجئے کوئی حرج نہیں.بیچارہ رہ گیا تو نہ معلوم اس کا کتنا نقصان ہو.اور اگر کہیں جگہ نہ ہو تو کہہ دے میں کھڑا ہو جاتا ہوں یہاں بیٹھ جائے گا.جب وہ اس بات کے لئے تیار ہو جائے گا اور اس قدر ایثار کرے گا تو اس کا لوگوں پر اتنا اثر ہو گا کہ سب ایثار کے لئے تیار ہو جائیں گے اور تھوڑی تھوڑی جگہ نکال کر آنے والے کو بٹھا دیں گے.اس طرح اسے اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑنی پڑے گی اور بات بھی پوری ہو جائے گی.اس قسم کی باتوں سے مبلغ لوگوں کو ممنونِ احسان بنا سکتے ہیں.ایک مبلغ جن لوگوں کو گاڑی کے اندر لائے گا وہ تو اس کے شکر گزار ہوں گے ہی ، دوسرے بھی اس کے اخلاق سے متاثر ہوں گے اور اس کی عزت کرنے لگیں گے.اور اس طرح انہیں تبلیغ کرنے کا موقع نکل آئے گا.لیکن اگر اس موقع پر اسی قسم کی بداخلاقی دکھائی جائے جس طرح کی اور لوگ دکھاتے ہیں تو پھر کوئی بات سننے کے لئے تیاری نہ ہوگا اور نہ تمہیں خود جرآت ہو سکے گی کہ ایسے موقع پر کسی کو تبلیغ کر سکو.ایک سفر میں ایک شخص گاڑی کے اس کمرہ میں آداخل ہوا جس میں ہمارے آدمی بیٹھے تھے.اس کے پاس بہت سا اسباب تھا.جب وہ اسباب رکھنے لگا تو بعض نے اسے کہا کہ یہ سیکنڈ کلاس ہے اس سے اتر جائیے اور کوئی اور جگہ تلاش کیجئے.لیکن وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا.اور جب اسباب رکھ چکا تو سکینڈ کلاس کا ٹکٹ نکال کر ان کو دکھلا دیا.اس پر وہ سخت نادم ہو کر بیٹھ گئے.مجھے سخت افسوس تھا کہ ان لوگوں نے اس قسم کی بداخلاقی کیوں دکھائی.جب

Page 97

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 91 جلد اول میں نے اس کا جواب سنا تو میرے دل کو بہت خوشی ہوئی.جس سے اس طرح پیش آئے تھے وہ لوگ تبلیغ کر سکتے تھے اور وہ ان کی باتوں سے متاثر ہو سکتا تھا ؟ ہرگز نہیں.تو ایثار کے موقع پر ایثار کر کے لوگوں میں اپنا اثر پیدا کرنا چاہئے تاکہ تبلیغ کے لئے راستہ نکل سکے.اس قسم کی اور بیسیوں باتیں ہیں جن میں انسان ایثار سے کام لے سکتا ہے.اٹھارھویں بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دلائل دو قسم کے اٹھارھویں ہدایت ہوتے ہیں.ایک عقلی اور دوسرے ذوقی.عقل تو چونکہ کم و بیش ہر ایک میں ہوتی ہے اس لئے عقلی دلائل کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے لیکن ذوقی دلیل ہوتی تو سچی اور پکی ہے مگر چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ مناسبت ذاتی کے بغیر اس کا سمجھنا ناممکن ہوتا ہے اس لئے اس کا مخالف کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں ہوتا.کیونکہ اگر اس میں بھی ذوق سلیم ہوتا اور اس کا دل اس قابل ہوتا کہ اس بات کو سمجھ سکے تو وہ احمدی کیوں نہ ہو گیا ہوتا اور کیوں الگ رہتا.اس کا تم سے الگ رہنا بتاتا ہے کہ اس میں وہ ذوق سلیم نہیں ہے جو تمہارے اندر ہے.اور ابھی اس کا دل اس قابل نہیں ہوا کہ ایسا ذوق اس کے اندر پیدا سکے.اس لئے پہلے اس کے اندر یہ ذوق پیدا کرو اور پھر اس قسم کی دلیلیں اسے سناؤ.ورنہ اس کا الٹا اثر پڑے گا.کئی مبلغ ہیں جو مخالفین کے سامنے اپنی ذوقی باتیں سنانے لگ جاتے ہیں اور اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے.کیونکہ مخالف اس کا ثبوت مانگتا ہے تو وہ دیا نہیں جا سکتا اور اس طرح زک اٹھانی پڑتی ہے.پس مخالفین کے سامنے ایسے دلائل پیش کرنے چاہئیں جو عقلی ہوں اور جن کی صحت ثابت کی جاسکے.ہو انیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کوئی موقع تبلیغ کا جانے نہ دے.انیسویں ہدایت اسے ایک دھت لگی ہو کہ جہاں جائے ، جس مجلس میں جائے ، جس مجمع میں جائے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لے.جن لوگوں کو باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر ایک مجلس میں بات کرنے کا موقع نکال لیتے ہیں.مجھے باتیں نکالنے کی مشق نہیں ہے اس لئے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹہ گھنٹہ بیٹھے رہنے پر بھی کوئی بات نہیں کی جاسکتی.

Page 98

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 92 جلد اول حضرت مسیح موعود عام طور پر باتیں کر لیتے تھے مگر پھر بھی بعض دفعہ چپ بیٹھے رہتے تھے.ایسے موقع کے لئے بعض لوگوں نے مثلاً میاں معراج الدین صاحب اور خلیفہ رجب الدین صاحب نے یہ عمدہ طریق نکالا تھا کہ کوئی سوال پیش کر دیتے تھے کہ حضور مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں.اس پر تقریر شروع ہو جاتی.تو بعض لوگوں کو باتیں کرنے کی خوب عادت ہوتی ہے اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں چپ کرانا پڑتا ہے.مبلغوں کے لئے باتیں کرنے کا ڈھب سیکھنا نہایت ضروری ہے.میر صاحب ہمارے نانا جان کو خدا کے فضل سے یہ بات خوب آتی ہے.میں نے ان کے ساتھ سفر میں رہ کر دیکھا کہ خواہ کوئی کسی قسم کی بھی باتیں کر رہا ہو وہ اس سے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لیتے ہیں.بیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ بیہودہ بحثوں میں نہ پڑے بلکہ اپنے کام بیسویں ہدایت سے کام رکھے.مثلا ریل میں سوار ہو تو یہ نہیں کہ ترک موالات پر بحث شروع کر دے.میں نے اس کے متعلق کتاب لکھی ہے مگر اس لئے لکھی ہے کہ میرے لئے جماعت کی سیاسی حالت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور سیاسی طور پر اپنی جماعت کی حفاظت کرنا بھی میرا فرض ہے.اگر میں صرف مبلغ ہوتا تو کبھی اس کے متعلق کچھ نہ لکھتا کیونکہ مبلغ کو ایسی باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے.اسے ہر وقت اپنے کام کا ہی فکر رکھنا چاہئے.اور اگر کہیں ایسی باتیں ہو رہی ہوں جو اس کے دائرہ عمل میں داخل نہیں ہیں تو وہ واعظانہ رنگ اختیار کرے اور کہے کہ اتفاق و اتحاد ہی اچھا ہوتا ہے اور و وہی طریق عمل اختیار کرنا چاہئے جس میں کوئی فساد نہ ہو، کوئی فتنہ نہ پیدا ہو اور کسی پر ظلم نہ ہو.اس کے سوا کیا ہو یا کیا نہ ہو اس میں پڑنے کی اسے ضرورت نہیں ہے.بلکہ یہی کہے کہ ہر ایک وہ بات جو فساد، فتنہ اور ظلم و ستم سے خالی ہو اور حق و انصاف پر مبنی ہوا سے ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو بات حق و صداقت پرمبنی ہوا سے ہم ہر وقت ماننے کے لئے تیار ہیں.اکیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کو اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہئے اکیسویں ہدایت کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں.مبلغ کوا -

Page 99

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 93 جلد اول اخلاق درست رکھنے بھی نہایت ضروری ہیں.مگر اس کے اخلاق کا اثر مخالفین پر اتنا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کے اخلاق پر ہوتا ہے جو ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں.مبلغ تو ایک آدھ دن کے لئے کسی جگہ جائے گا اور مخالفین اس کے اخلاق کا اندازہ بھی نہ لگا سکیں گے.ان پر تو وہاں کے احمدیوں کے اخلاق کا ہی اثر ہو گا.لیکن اگر ان احمدیوں کے اخلاق اچھے نہیں جو ان میں رہتے ہیں تو خواہ انہیں کوئی دلیل سناؤ ان کے سامنے وہاں کے لوگوں کے ہی اخلاق ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں دلیل کا کچھ بھی اثر ان پر نہ ہوگا.پس مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں کے متعلق دیکھے کہ ان کے روحانی اور ظاہری اخلاق کیسے ہیں اور ان کے اخلاق اور عبادات کو خاص طور پر دیکھے اور ان کی نگرانی کرتا رہے.جب بھی جائے مقابلہ کرے کہ پہلے کی نسبت انہوں نے ترقی کی ہے یا نہیں.یہ نہایت ضروری اور اہم بات ہے.اور ایسی اہم بات ہے کہ اگر اخلاق درست نہ ہوں تو ساری دلیلیں باطل ہو جاتی ہیں.اور اگر اخلاق درست ہوں تو ایک آدمی بھی بیسیوں کو احمدی بنا سکتا ہے.کیونکہ دس تقریریں اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا اثر ایک دن کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ کرتا ہے.کیونکہ یہ مشاہدہ ہوتا ہے اور مشاہدہ کا اثر دلائل سے بہت زیادہ ہوتا ہے.دیکھو اگر ذلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ 8 کا اثر بذریعہ کشف دل پر ڈال دیا جائے تو اس کا اتنا اثر ہوگا کہ سارے قرآن کے الفاظ پڑھنے سے اتنا نہ ہوگا.کیونکہ وہ مشاہدہ ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا ہے کہ ایک آیت پر عمل کرنا بہتر ہے بہ نسبت سارا قرآن پڑھنے کے.اس کا غلط مطلب سمجھا گیا کہ ایک ہی آیت کو لے لینا چاہئے اور باقی قرآن کو چھوڑ دینا چاہئے.حالانکہ اس سے مراد وہ اثر ہے جو کسی آیت کے متعلق کشفی طور پر انسان پر ہو.تو اخلاق کا نمونہ دکھانا بڑی تاثیر رکھتا ہے.اسی کے متعلق قرآن میں آیا ہے رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ و کفار مسلمانوں کے اخلاق کو دیکھ کر خواہش کرتے کہ کاش ہم بھی ایسے ہو جائیں.یہ اخلاق ہی کا اثر ہو سکتا ہے کہ

Page 100

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 94 جلد اول کا فر بھی مومن کی طرح بننے کی خواہش کرتا ہے.اور جب کوئی سچے دل سے خواہش کر.تو اس کو خدا ان لوگوں میں داخل بھی کر دیتا ہے جن کے اخلاق اسے پسند آتے ہیں.بائیسویں ہدایت بائیسویں بات مبلغ کے کامیاب ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایک حیات اور حرکت ہو.یعنی اس میں چستی، چالا کی اور ہوشیاری پائی جائے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تا کہ لوگ جاگیں اور تمہاری باتیں سنیں.پس چاہئے کہ مبلغ کے اپنے جسم میں ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا ہو جائے کہ جو زلزلہ کی طرح اس کے جسم کو ہلا دے اور وہ دوسروں میں زلزلہ پیدا کر دے.مبلغ جس گاؤں یا شہر میں جائے وہ سو نہ سکے بلکہ بیدار ہو جائے.مگر اب تو ایسا ہوتا ہے کہ کبھی مبلغ ایک ایک مہینہ کسی جگہ رہ کر آ جاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی آیا تھا.ان ہدایات پر عمل کرو یہ بائیں موٹی موٹی باتیں ہیں مگر اس لئے نہیں کہ ان کوسنو اور کان سے نکال دو بلکہ اس لئے ہیں کہ ان پر عمل کرو.ہماری ترقی اسی لئے رکی ہوئی ہے کہ صحیح ذرائع سے کام نہیں لیا جا رہا.اخلاق اور چیز ہے لیکن کام کو صحیح ذرائع اور طریق سے کرنا اور چیز.دیکھو اگر کوئی شخص بڑے اخلاص کے ساتھ مسجد کے پیچھے مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کی طرف بیٹھ رہے اور کہے کہ میں اخلاص کے ذریعہ مسجد میں داخل ہو جاؤں گا تو داخل نہیں ہو سکے گا.لیکن اگر کسی میں اخلاص نہ بھی ہو اور وہ مسجد میں آنے کا راستہ جانتا ہو تو آ جائے گا.ہاں جب یہ دونوں باتیں مل جائیں یعنی اخلاص بھی ہو اور صیح طریق پر عمل بھی ہو تب بہت بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.پس یہ ہدایتیں جو میں نے بتائی ہیں ان پر عمل کرو تا کہ تبلیغ صحیح طریق کے ماتحت ہو.ہدایتیں دفتر تالیف میں محفوظ رہیں گی اور ان کے مطابق دیکھا جائے گا کہ کس کس مبلغ نے ان پر کتنا کتنا عمل کیا ہے.

Page 101

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 95 جلد اول صلى الله یہ ٹھیک بات ہے اور میں نے بارہا اس پر زور دیا ہے کہ مبلغ کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ پہنچانا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ مانتے ہی نہیں.رسول کریم ہے پہنچاتے ہی تھے منواتے نہ تھے مگر لوگ مانتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعوڈ پہنچاتے ہی تھے منواتے نہیں تھے مگر لوگ مانتے تھے.کیوں؟ اس لئے کہ صحیح ذرائع کے ماتحت پہنچانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مان لیتے ہیں.پس ہمارے مبلغ بھی جب صحیح ذرائع پر عمل کریں گے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ نہ مانیں.اگر ہم ان باتوں کو جو میں نے بیان کی ہیں اپنی جماعت کے ہر ایک آدمی میں پیدا کر دیں تو ہر سال ہماری جماعت پہلے کی نسبت دگنی ہو جائے.کیونکہ کم از کم ایک شخص ایک کو تو احمدی بنا لے اور اگر اس طرح ہونے لگ جائے تو تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری جماعت کس قدر ترقی کر سکتی ہے.ہمیں پچیس سال کے اندر اندر دنیا فتح ہو سکتی ہے.اس وقت اگر ہم اپنی جماعت کو بطور تنزل ایک لاکھ ہی قرار دیں تو اگلے سال دو لاکھ ہو جائے اور اس سے اگلے سال چار لاکھ، پھر آٹھ لاکھ ، پھر سولہ لاکھ.اس طرح سمجھ لو کہ کس قدر جلدی ترقی ہو سکتی ہے.مگر یہ تو خیالی اندازہ ہے.اگر اس کو چھوڑ بھی دیا جائے اور حقیقی طور پر اندازہ لگایا جائے تو دس پندرہ سال کے اندر اندر ہماری جماعت اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ سیاسی طور پر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیں رہ جاتا.مگر افسوس ہے کہ مسیح ذرائع اور اصول تبلیغ سے کام نہیں لیا جاتا.اگر ان سے کام لیا جائے اور ان شرائط کو مد نظر رکھا جائے جو میں نے بیان کی ہیں تو قلیل عرصہ میں ہی اتنی ترقی ہو سکتی ہے کہ ہماری جماعت پہلے کی نسبت ہیں گنے ہو جائے.اور جب جماعت بڑھ جاتی ہے تو وہ خود تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے.اگر اس وقت ہماری جماعت ہیں لاکھ ہو جائے تو ہزاروں ایسے لوگ جو چھپے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہو کر ہمارے ساتھ مل جائیں گے.پس ایک انتظام اور جوش کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور اس سال ایسے جوش سے کام کرو کہ کم از کم ہندوستان میں زلزلہ آیا ہوا معلوم ہو.اور اگر تم اس طرح کرو گے تو پھر دیکھو گے کہ کس قدر ترقی ہوتی ہے.“

Page 102

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 96 جلد اول ناشر قاسم علی ایڈیٹر فاروق 7 /اگست 1921ء) 1 ترمذی کتاب الاضاحي باب الاذان فى اذن المولود صفحه 368 حدیث 1514 مطبوعہ ریاض 1999 ء الطبعة الاولى 2 : المائدة : 68 3 : المائدة : 68 4 بخارى كتاب الصلواة باب كفارة البراق فى المسجد صفحه 72 حدیث 415 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 5 القصص : 25 6 بخارى كتاب الجهاد والسير باب التحريض على الرمي وقول الله تعالى.الخ صفحہ 479 حدیث 2899 مطبوعہ ریاض 1999ء الطعبة الثانية 7 آل عمران: 111 8 البقرة : 3 9 الحجر : 3

Page 103

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 97 جلد اول حضرت قاضی امیر حسین صاحب کا مدرسہ احمدیہ سے تبادلہ حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے مدرسہ احمدیہ سے تبادلہ پر 20 جون 1921ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ نے ان کی الوداعی دعوت کی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی از راہ شفقت شامل ہوئے.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے:.’ولایت میں قاعدہ ہے کہ کسی جدا ہونے والے کو الوداع کہتے ہوئے اس سے تعلق رکھنے والے پرانے واقعات کو بیان کرتے ہیں.اس وقت میں بھی قاضی صاحب کے متعلق چند باتیں بتا تا ہوں.میں نے ان سے مدرسہ احمدیہ میں تو نہیں البتہ ہائی سکول میں تعلیم پائی ہے اُس زمانہ کے متعلق میں ایک بات بتاتا ہوں جو میرے تجربہ میں آئی اور جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ دوسروں کے لئے مفید ہوسکتی ہے.شروع شروع میں جب مدرسہ بنا تو یہ عمارتیں وغیرہ کچھ نہ تھیں بازار کے قریب کے چار پانچ کمرے تھے لڑکے ٹاٹ پر بیٹھا کرتے تھے.اب تو کہا جاتا ہے کہ زمین پر بیٹھنے سے لڑکوں کی صحت خراب ہو جاتی ہے.بیچ اور ڈلیک چاہئیں مگر اُس وقت ٹاٹ ہی بینچ اور ڈلیک ہوتے تھے.میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا.اُس وقت کی یہ بات مجھے خوب یاد ہے اور اب تک اس کا اثر میرے قلب پر پڑتا ہے.اس زمانہ میں تعلیم کی طرف مجھے رغبت نہ تھی اور پھر عموماً میں بیمار بھی رہتا تھا اس لئے نافھے ہو جاتے تھے.ایک دفعہ جب میں ناغہ کے بعد پچھلے سبق دیکھنے لگا.جو سبق قاضی صاحب سے پڑھے ہوئے تھے وہ تو یاد

Page 104

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 98 جلد اول تھے اور جو دوسروں سے پڑھے ہوئے تھے وہ بھول گئے تھے.میں نہیں سمجھتا تھا اس کی کیا وجہ ہے مگر یہ معلوم ہے کہ قاضی صاحب کو جوش اور خواہش ہوتی تھی کہ طلباء کو جو کچھ پڑھائیں وہ یاد کرا دیں.اس کا یہ اثر ہوتا تھا کہ ان کا پڑھایا ہوا یا درہتا تھا.ہر ایک آدمی کے بولنے کا طریق الگ ہوتا ہے بعض اپنی تقریر کو بہت سجا کر اور فصاحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور بعض سادہ طریق سے سادہ الفاظ میں.قاضی صاحب بھی بہت سادہ طور پر بولتے ہیں اور ان کے جو شاگرد ہیں وہ اس بات کو جانتے ہیں مگر میں نے یہ بات محسوس کی ہے اور دوسرے لوگ جن سے میں نے پوچھا ہے انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ قاضی صاحب کا پڑھایا ہوا سبق خوب یا درہتا ہے.یہ میرے اپنے تجربہ کی بات ہے اس لئے میں نے بیان کی ہے اور اس لئے بھی کہ دوسرے استاد جو اس وقت یہاں موجود ہیں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بعض اساتذہ ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد کورس پورا کر ا دینا ہوتا ہے یہ خواہش نہیں ہوتی کہ طلباء کے قلب پر تعلیم کا اثر چھوڑیں.اس لئے خواہ وہ کتنے ہی زور اور محنت سے پڑھائیں اور کیسی عمدہ تقریریں کریں طلباء کے دل پر ایسا اثر نہیں ہوتا جیسا ہونا چاہئے.قاضی صاحب اب چونکہ سکول سے الگ ہونے والے ہیں اس لئے ایک اور بات کے بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں اور وہ یہ کہ مجھے یاد ہے طالب علموں سے قاضی صاحب کا رویہ سخت سمجھا جاتا تھا.یعنی طلباء سمجھتے تھے کہ قاضی صاحب پڑھائی میں سختی کرتے ہیں مگر باوجود اس کے لڑکوں کو ان سے محبت تھی اور یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ طالب علم سمجھتے تھے کہ قاضی صاحب کی سختی کسی بغض کی وجہ سے نہیں ہوتی تھی بلکہ خیر خواہی کی وجہ سے ہوتی تھی.یہ بات بھی جو قاضی صاحب کو حاصل تھی بہت کم استادوں کو حاصل ہوتی ہے.مجھے یاد ہے کہ لڑ کے قاضی صاحب کی سختی کو اپنی مجلسوں میں یاد کر کے ہنسا کرتے تھے اور خوش ہوتے تھے.یہ وہ اثرات ہیں جو اُس وقت جب میں پڑھا کرتا تھا مجھ پر اور میرے ساتھیوں پر

Page 105

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 99 جلد اول ہوا کرتے تھے اور اس وقت میں نے ان کو اس لئے دہرایا ہے کہ یہاں استاد بھی بیٹھے ہیں جو فائدہ اٹھا سکتے ہیں.استادوں کو اپنے شاگردوں سے ایسا سلوک کرنا چاہئے کہ جس سے ان کے دل میں محبت پیدا ہو.یہ نہ ہو کہ نفرت کرنے لگ جائیں اور نہ یہ ہو کہ خراب ہی ہو جائیں.اس وقت بھی شکائیتیں آتی تھیں اور اب بھی آتی ہیں.اور چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق آتی ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ استاد طلباء کے دل میں محبت پیدا نہیں کرتے.اگر ایسا کر لیں تو طلباء ان کی سختی کو بھی خوشی سے برداشت کر لیں.اسی طرح وہ اثر جو پڑھاتے وقت ہوتا ہے اسی طریق سے ہو سکتا ہے کہ استاد کی خواہش ہو کہ طلباء کو میں یہ سکھا دوں نہ یہ کہ اپنا وقت پورا کر کے چلا جاؤں.میں کبھی کبھی چھوٹی عمر کے پڑھے ہوئے سبق پڑھا کرتا ہوں.مجھے قاضی صاحب کے پڑھائے ہوئے اسباق کے الفاظ تک یاد ہیں.اسی طرح ایک اور استاد کی بات مجھے یاد ہے انہوں نے مجھے ایک موقع پر نصیحت کی تھی.میں ایک لڑکے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا انہوں نے علیحدہ لے جا کر کہا کہ ایسی بے تکلفی اچھی نہیں ہوتی.اُس وقت ہم جس جگہ کھڑے تھے وہ جگہ، وہ حالت کہ ہم نقشہ دیکھ رہے تھے ، جس طرف منہ تھا ، جس طرح مخاطب کیا گیا یہ سب باتیں مجھے یاد ہیں.اسی طرح اور کئی باتیں اس وقت کی ایسی ہیں جو ہو بہو یاد ہیں.اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ایسے ذرائع ہوتے ہیں جن سے اگر کام لیا جائے تو باتیں یاد رہتی ہیں اور یاد کرانے کا یہی طریق نہیں ہے کہ بار بار پڑھائی جائیں.تاریخ کے متعلق ہی میں نے دیکھا ہے کہ میں آنکھوں کی تکلیف کی وجہ سے خود نہیں پڑھ سکتا تھا ماسٹر عبدالرحمن صاحب مجھے سناتے جاتے تھے اور میں سنتا تھا.اس بات کو سترہ سال کے قریب ہو گئے ہیں مگر اُس وقت کے مجھے فقرے کے فقرے ابھی تک یاد ہیں.یہ باتیں اس نتیجہ پر پہنچاتی ہیں کہ استاد اگر توجہ اور کوشش سے کام لے تو طلباء کے بہت زیادہ اوقات کو بچا سکتا ہے اور تھوڑے وقت میں بہت کچھ سکھا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طلباء کی زندگی آئینہ کی طرح ہوتی ہے جو نقش چاہیں

Page 106

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 100 جلد اول اس پر جما سکتے ہیں.اگر استاد یہ سمجھ کر پڑھائے کہ طلباء کو فلاں بات سکھا دینی ہے تو چاہے وہ اچھی طرح بول بھی نہ سکتا ہو اور خواہ کتنی ہی سادہ زندگی بسر کرتا ہو اس کا پڑھانا بہت زیادہ مفید اور بااثر ہوگا.یہ باتیں میں نے قاضی صاحب کے متعلق خود تجربہ کی ہیں اس لئے بتادی ہیں.“ الفضل 30 جون 1921 ء )

Page 107

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 101 جلد اول تحریری ہدایات برائے حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ نائیجیریا 23 جنوری 1922ء کو بعد از نماز فجر بیت مبارک قادیان میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے جو ہدایات رقم فرما کر نائیجیر یا جانے والے مبلغ حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب کو دیں وہ درج ذیل ہیں :.عزیز من! اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ ہو، ناصر ہو ، مددگار ہو، ہادی ہو، رہنما ہو.اس کے فضل کا سایہ آپ پر رہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے ترقی کرو.یاد رکھو! خدا ایک ہے.اپنی ذات کے لحاظ سے، اپنی صفات کے لحاظ سے، اپنے کاموں کے لحاظ سے، اس کا کوئی شریک نہیں.سب کچھ جو کچھ اس کے سوا ہے اس کی مخلوق ہے.خواہ بڑا ہو خواہ چھوٹا.وہ سب خوبیوں کا منبع ہے.سب فضلوں کا سرچشمہ ہے.اس کے سوا کوئی راحت نہیں اور چین نہیں.اس کے ملے بغیر دنیا کا سب آرام اور سب راحت محض دھوکا ہے.اور جہنم سے کم نہیں.اس کے پائے کے بغیر کوئی کامیابی نہیں.جو اس سے جدا رہا وہ ساری دنیا میں رہ کر بھی اکیلا رہا اور جو اس سے ملا وہ سب سے جدا رہ کر بھی پھر اکیلا نہیں بلکہ اپنے دوستوں میں رہتا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اس کا محافظ ہوتا ہے اور اس کی نگہبانی کرتا ہے اور اس کا ساتھ دیتا ہے اور اسے تسلی دیتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے.اور جب اس کا دل جدائی کا صدمہ محسوس کرتا ہے وہ اس کے پاس آتا اور اس کی جدائی کے صدمہ کو دور کرتا ہے اور اس کے دل میں آکر رہتا ہے اور جنگل میں اس کے لئے منگل بنا دیتا ہے.پس اگر راحت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس سے ملو، اس سے محبت کرو، اس پر تو کل رکھو.

Page 108

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 102 جلد اول محمد ﷺ اس کے رسول ہیں اور اس کے بھیجے ہوئے ہیں.جو تعلیم آپ لائے وہ اب ہمیشہ قائم رکھی جائے گی اور مٹائی نہیں جائے گی.کیونکہ وہ مکمل ہے اور مکمل شے کو کوئی نہیں مٹاتا.قیامت تک کوئی شخص قرآن کریم کی اطاعت کا جو ا اپنی گردن پر سے اتار کر پھینک نہیں سکتا خواہ اعلیٰ درجہ کا انسان ہو خواہ ادنی محمد رسول اللہ کی محبت سے انسان خدا تعالیٰ کا قرب پاتا ہے.آپ سے تعلق اللہ تعالیٰ کے تعلق کے مضبوط کرنے کے ذرائع میں سے ایک اعلیٰ ذریعہ ہے.کیونکہ جو آپ سے محبت رکھتا ہے وہ اس کلام سے بھی محبت رکھتا ہے جو آپ کے ذریعہ سے دنیا کو پہنچا.سو آپ کی محبت پیدا کرو اور آپ کی اطاعت کی کوشش کرو.قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - 1 حضرت مرزا غلام احمد صاحب رسول کریم اللہ کے نائب اور شاگرد ہیں اور آپ کی نیابت میں اور اطاعت میں آپ نے رسالت کا مرتبہ پایا ہے.آپ مستقل رسول نہیں ہیں اور آپ کی رسالت محمد رسول اللہ ﷺ کی رسالت سے جدا نہیں ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ رسول نہیں.آپ فی الواقع رسول اور اللہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور جو ان کی نبوت اور رسالت کا انکار کرتا ہے ایک سخت گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.آپ کی محبت کے سوا اب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا.صرف یہی کھڑ کی اب اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کی کھلی ہے.کیونکہ جو نائب کا انکار کرتا ہے وہ اصل کا انکار کرتا ہے.اور جو اصل کا انکار کرتا ہے وہ اس کا انکار کرتا ہے جس نے اسے پیدا کیا.خلافت کا سلسلہ ایک رحمت ہے.اور خدا تعالیٰ کی رحمت کی ناشکری کرنی دکھ میں ڈالتی ہے.انسان خواہ کس قدر بھی ترقی کر جائے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے مستغنی نہیں ہو سکتا.پس خلافت سے مسلمان کسی وقت بھی مستغنی نہیں ہو سکتے.نہ اب نہ آئندہ کسی زمانہ میں.اللہ تعالیٰ کی بہت سی برکات اس سے متعلق اور وابستہ ہیں.اور اُس سے جو خلافت سے دور ہو جاتا ہے دور ہو جاتا ہے اللہ اُس سے.جو اُس سے تعلق کرتا ہے اپنا تعلق مضبوط کرتا ہے.اس کے لئے میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ نیکی اور تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش

Page 109

103 جلد اول زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) کرو.عبادات الہی ایک سیڑھی ہیں جن کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے.پس ان پر خاص نگاہ رہے اور جہاں تک ہو سکے نوافل اور ذکر کا موقع نکالو.کیونکہ دیا بغیر تیل کے جل نہیں سکتا اور عبادت وہ نل ہے جس کے ذریعہ سے انسان کے اندر معرفت کا تیل آتا ہے پس اس نل کو کھلا رکھوتا معرفت کا تیل آتار ہے اور ایمان کا دیا بجھ نہ جائے.اخلاق ایک نہایت ہی ضروری جز ایمان کا ہیں اور ان کے بغیر ایمان کا دعوی کرنا ایسا ہی ہے جیسے یہ کہنا کہ برتن کے بغیر پانی رہ سکتا ہے.اعلیٰ اخلاق کے پیدا کرنے کی کوشش کرو اور دوسروں میں پیدا کرو.اسلام کے ضعف کی اصل وجہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اخلاق کی کمزوری ہے.اسی وجہ سے دین میں فتنہ پڑا اور اسی وجہ سے دنیا ہاتھ سے گئی.پس اخلاق کو مضبوط پکڑو.اخلاق کی تلوار سے زیادہ کاٹنے والی اور کوئی تلوار نہیں.دشمن بھی اس تلوار کا رعب مانتا ہے اور اپنوں کے اندر یہ ایسی مضبوطی پیدا کر دیتی ہے کہ ان کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور ان کی امیدیں بہت بڑھ جاتی ہیں.تبلیغ میں اپنے وقت کو صرف کرو اور محنت سے اس کام کو کرو.اور یا درکھو کہ ہم نے اگر تھوڑے ہی عرصہ میں اس حق کو نہ پہنچا دیا جو ہمیں ملا ہے تو پھر اس کا پہنچانا مشکل ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ میں نے اس کو تبلیغ کرنی ہے یا اُس کو.بلکہ یہ سمجھو کہ سب دنیا کو تبلیغ کرنا میرا فرض ہے.اس لئے جلد جلد ایک علاقہ کو صاف کروتا دوسرے کی طرف توجہ کر سکو.ہر ایک مومن کا فرض ہے کہ وہ ساری دنیا کو اپنی کھیتی سمجھے اور تمام انسانوں کو اپنا گلہ.کیونکہ وہ خدا کا نائب ہے اور کوئی چیز اس کی نگرانی سے باہر نہیں.پس اپنے حوصلوں کو محدود نہ کرو اور اپنی نگاہوں کو کوتاہ نہ کرو.خدا تعالیٰ سے دعائیں بہت کرو کہ دعا ایک بڑا ہتھیار ہے.اس سے ناممکن کام ممکن ہو جاتے ہیں.اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور سلسلہ کے لئے بھی اور سلسلہ کے کارکنوں کے لئے بھی اور ان لوگوں کے لئے بھی جو آپ کے ہاتھ سے دین میں داخل ہوں.اور ان کے لئے بھی جو ایمان نہیں لائے مگر آپ کی توجہ کے نیچے ہیں.اطاعت ایک اعلیٰ جو ہر ہے اسے پیدا کرنے کی کوشش کرو.اور جو آپ کا افسر ہو اس کو

Page 110

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 104 جلد اول کی اطاعت کرو.اور اپنے نفس کو اپنے پر غالب مت آنے دو.اگر کسی بات پر اعتراض ہو تو اس سے خلیفہ وقت کو اطلاع دو.خود ہی اس پر فیصلہ نہ دو.کیونکہ تفرقہ طاقت کو توڑ دیتا ہے اور یہی کھڑکی ہے جس میں سے آدم کا دشمن اس کے گھر میں داخل ہوا کرتا ہے اور اس کو اس کے عزیزوں سمیت جنت میں سے خارج کر دیا کرتا ہے.ہمیشہ خلیفہ وقت سے تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے رہو.اور خط و کتابت میں کبھی سستی نہ کرو.وہ لوگ جن کو آپ کے ذریعہ سے ہدایت ہو ان کو بھی ان سب نصائح پر عمل کرنے کی تحریک کرو جو اوپر بیان ہوئیں یا بعد میں آپ تک پہنچتی رہیں.دینی لٹریچر سے آگاہ رہنے کی ہمیشہ کوشش کرو.قرآن کریم کے متعلق تو مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں وہ تو مومن کی جان ہے.مگر حدیث اور کتب مسیح موعود کا مطالعہ بھی ضروری ہے.ان سے غافل نہ ہو.کوئی نہ کوئی اخبار قادیان کا جس میں مرکز اور سلسلہ کے حالات ہوں ضرور زیر مطالعہ رہنا چاہئے کہ یہ ایمان کو تازہ کرتا ہے اور اس کی تاکید وہاں کے لوگوں کو بھی کریں جن میں آپ تبلیغ کر رہے ہوں.اور پھر خلفاء کے اعلانات اور ان کی کتب کا مطالعہ بھی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ اپنی مرضی کو ظاہر کرتا ہے اور انسان کے لئے ان کا کلام بھی بمنزلہ دودھ کے ہوتا ہے.آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کا قدم ہدایت پر رکھے اور آپ کا محافظ ہو.اور آپ کو ایسے کاموں کے کرنے سے بچائے کہ جن سے لوگوں کو ٹھوکر لگے.بلکہ آپ کا نمونہ ایسا بنائے کہ دوسرے اس کو دیکھ کر دین کی طرف رغبت کریں اور اسلام کو ایک قابل قبول مذہب سمجھیں اور اس سے دوری کو ہلا کت جانیں.اور ایسا ہو کہ وہ آپ کے کلام میں برکت دے اور آپ کے دل کو مضبوط کرے اور اس کی محبت آپ کے دل میں گڑ جائے.اور اس کا قرب آپ کو عنایت ہو اور اس کا سایہ آپ پر رہے.اور وہ اپنی مرضی آپ پر ظاہر کرے اور آپ کے ذریعہ سے قوموں کو ہدایت ہو.اور آپ کو دنیا میں نیکی

Page 111

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 105 جلد اول قائم کرنے میں ایک حصہ وافر ملے تا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی جزا سے بھی حصہ وافر ملے.والسلام خاکسار میرزا محمود احمد ( الفضل 30 جنوری 1922ء) مندرجہ بالا تحریری ہدایات کے علاوہ حضور نے زبانی ہدایات بھی فرمائیں جو درج ذیل ہیں:.ایک مبلغ کو نصائح (1) وہاں کی زبان سیکھنے کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر تبلیغ نہیں ہوسکتی.(2) جن لوگوں میں آپ تبلیغ کریں ان سے نہایت محبت اور پیار اور حکمت سے کام لیں اور ایک انتظام کے ماتحت ان کو رکھیں.مثلاً مختلف آدمی مقرر کئے جائیں جو ان کی نگرانی کریں.نمازوں میں باقاعدگی کے متعلق بھی انتظام کیا جائے.(3) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے.اور جب نصیحت کریں تو علیحدگی میں کریں تا کہ وہ بھی اپنی ہتک نہ سمجھیں.ہاں الگ ہو کر دونوں گروہوں کو ذہن نشین کرانے کی کوشش کریں کہ مذہبی طور پر ان کا سردار وہی ہے جو ہما را آدمی ہو گا.(4) چونکہ ان لوگوں کے دماغ ابھی بہت موٹے ہیں بار یک باتوں کو ابھی نہیں سمجھ سکتے مثلاً یہی کہ جنت میں انعامات جو ہوں گے تو مثلاً نمازیں متمثل ہو کر پھلوں کی شکل میں ملیں گی اس لئے ان کے لئے یہی کافی ہوگا کہ دوزخ ایک ایسی چیز ہے جہاں خدا کی نافرمانی سے انسان جاتا ہے اور جہاں سخت عذاب ہوتے ہیں.اور جنت وہ چیز ہے جہاں اس انسان کو جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کو بجالائے بڑی بڑی راحتیں اور آرام ملتے ہیں.اس سے یہ مطلب نہیں کہ ان کو اعلیٰ تعلیم دی ہی نہ جائے بلکہ پہلی بات ذہن نشین ہونے کے بعد تدریجا بتا ئیں.(5) انسان کو سست کبھی نہ ہونا چاہئے ، ہمیشہ چست رہے اور اس کے لئے کچھ ورزش کرتے رہنا چاہئے.مثلاً چلنا پھرنا ہی سہی.اس کا روح سے بہت تعلق ہوتا ہے.

Page 112

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 106 جلد اول انبیاء کبھی ست نہیں ہوتے.(6) اپنا کام کرتے وقت کبھی یہ خیال دل میں مت لاؤ کہ لوگ میرا کام کر دیں گے.کسی دوسرے پر نگاہ مت رکھو.ہاں اگر کوئی دوسرا شخص اس نیت سے کام کر دے کہ مجھے اس کا کام کرنے سے ثواب ہو گا تو اس کی نیت کا بھی لحاظ رکھیں.(7) اخلاق کا خاص خیال رکھیں.جہاں تک ہو سکے اخلاق کی درستی پیدا کریں.حکام سے معاملہ کرتے وقت بھی مناسب ادب سے پیش آئیں اور اپنی تعلیم کی حقیقت سے ان کو بھی آگاہ کرتے رہنا چاہئے.ان لوگوں کے اختیار میں بھی کچھ ہوتا ہے.خواہ مخواہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان کو چڑانا نہیں چاہئے.(8) پھر جن لوگوں میں آپ تبلیغ کریں گے ان میں آجکل یہ خیال خاص طور پر جوش سے پھیلا ہوا ہے کہ دنیا ہمیں حقیر جانتی اور ہم سے نفرت کرتی ہے اس لئے ان سے محبت سے معاملہ کریں اور یہ بات ان پر ظاہر نہ ہونے دیں اور ان کو ذہن نشین کرائیں کہ دنیا جو ان سے نفرت کرتی ہے اس کی وجہ عدم ایمان ہے.اس لئے ان کو قوموں سے نفرت نہیں کرنی چاہئے بلکہ ان کے مذہب کو حقیر جائیں.ان میں آجکل اس بات کی وجہ سے اس قدر جوش پھیلا ہوا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ ساری دنیا کو تباہ کر کے ان کی نسلیں آباد ہو جائیں اور اس جوش کو دیکھ کر مجھے خیال آتا ہے کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ مکہ پر ایک حبشی حملہ کرے گا تو اس کا کہیں یہی مطلب نہ ہو.(9) اپنی عادات میں ، لباس میں، کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مدنظر رہے.کفایت سے انسان کو شکر کی عادت پیدا ہوتی ہے اور شکر کے بعد بڑی بڑی نعمتیں ملتی ہیں.ایک انسان جس کو کفایت کی عادت نہ ہوا سے اگر بڑی بڑی نعمتیں بھی مل جائیں تو وہ یہی کہتا ہے کہ میرا حق تھا مجھے کیا ملا.پس جو کفایت شعار نہیں ہوتا اس کے دل سے شکر کبھی نہیں نکلتا.“ الفضل 20 مارچ 1922ء) 1 آل عمران: 32

Page 113

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 107 جلد اول بے نفس مبلغین کیلئے دعا 27 دسمبر 1922ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنے خطاب میں بے نفسی سے کام کرنے والے مبلغین کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا: میں خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بے نفسی سے کام کرنے والے آدمی دیئے ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں اور ترقی دے اور اور ایسے ہی آدمی دے.اس کے ساتھ ہی میں آپ لوگوں سے بھی چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو اور کام کرنے کی توفیق دے.دیکھو گجرات یا گوجرانوالہ کے علاقہ میں جو مبلغ گیا اس کا یہ فرض نہ تھا کہ تبلیغ کرتا بلکہ ہمارا بھی یہ فرض تھا کہ ہم بھی تبلیغ کے لئے جاتے اس لئے احسان فراموشی ہوگی اگر ہم ان مبلغوں کی قدر نہ کریں اور ان کے لئے دعا نہ کریں کہ خدا تعالیٰ ان کی تبلیغ کے اعلیٰ ثمرات پیدا کرے.اللہ تعالیٰ ایسے لوگ ہمیں کثرت سے دے اور اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کے مخلص اور بے نفس انسان اس مقصد کے لئے پیدا ہوں.نجات حصہ اول مطبوعہ 1956 ء.الناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمٹیڈ ربوہ )

Page 114

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 108 جلد اول حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے کی الوداعی پارٹی مورخہ 6 جنوری 1923ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے اساتذہ و طلباء نے حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے مبلغ سلسلہ کو الوداعی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.اس موقع پر آپ نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.دنیا میں الوداعی پارٹیاں بھی دی جاتی ہیں اور ایڈریس بھی پڑھے جاتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت میں جس بچے رنگ سے الوداعی پارٹیاں دی جاسکتی ہیں اور دی جاتی ہیں ویسی اور کسی جگہ نہیں دی جاتیں.اس لئے کہ بالعموم جو پارٹیاں دی جاتی ہیں وہ زمانہ کے حالات کے ماتحت اور لازمی تغیر کے وقت دی جاتی ہیں.مثلاً ڈپٹی کمشنر ضلع کو چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے یا گورنر صوبہ کو چھوڑ کر جاتا ہے وہ خوش ہوتا ہے کہ میں جا رہا ہوں اور لوگ بھی جانتے ہیں کہ وہ جانے پر خوش ہے.پھر اس کا جانا ملک کے لئے نہ مضر ہوتا ہے نہ مفید بلکہ وہ ایک قانون کے ماتحت آتا اور اسی کے ماتحت چلا جاتا ہے.لیکن باوجود اس کے الوداعی پارٹی دینے والے اس کے جانے پر غم و رنج کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی کہتا ہے مجھے آپ لوگوں سے جدا ہونے کا رنج ہے لیکن ہماری جماعت میں جو پارٹیاں دی جاتی ہیں وہ بالکل اور رنگ کی ہوتی ہیں.پھر وہاں جو پارٹیاں دی جاتی ہیں وہ اور حالات کے ماتحت ہوتی ہیں اور یہاں جو دی جاتی ہیں وہ اور حالات کے ماتحت.وہاں تو اس لئے دی جاتی ہیں کہ ایک شخص اپنا کام ختم کر کے آرام کی زندگی گزارنے کے لئے جا رہا ہوتا ہے لیکن یہاں اس لئے نہیں کہ کوئی آرام کی زندگی کے لئے کام ختم کر رہا

Page 115

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 109 جلد اول ہوتا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ دین اسلام کی خدمت کے لئے جارہا ہوتا ہے.پھر جس کوئی پارٹی دی جاتی ہے اس کے خیالات اور جذبات کی مثال اس کی مانند نہیں ہوتی جو ہندوستان میں اپنی ملازمت کا زمانہ ختم کر کے انگلستان جارہا ہوتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھے آپ لوگوں سے جدا ہونے کا بہت غم ہے حالانکہ اس کا دل اپنے وطن اور اپنے گھر جانے پر بہت خوش ہو رہا ہوتا ہے بلکہ یہاں تو وطن والا اپنے وطن کو چھوڑ کر تبلیغ کے لئے جارہا ہوتا ہے.وہ کام ختم کر کے اپنے اہل کے پاس نہیں جارہا ہوتا بلکہ وہ اپنے اہل کو چھوڑ کر کام کرنے کے لئے غیر ملک میں جا رہا ہوتا ہے اس لئے اس کے دل میں سچے جذبات ہوتے ہیں اور ان کے ماتحت جو خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں وہ اپنے اندر صداقت اور سچائی رکھتے ہیں.جو ایڈریس طلباء اور اساتذہ کی طرف سے ماسٹر محمد دین صاحب کو دیئے گئے ہیں میں سمجھتا ہوں ان میں دلی خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے اور ان میں بہت اعلیٰ درجہ کے خیالات ظاہر کئے گئے ہیں.خصوصاً اس میں جو عزیزی عبد السلام نے پڑھا ہے اس کا طرز بہت اعلیٰ ہے اور اس میں سچے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے.البتہ ایک نقص مجھے نظر آیا اور وہ یہ کہ مضمون اور آواز میں مطابقت نہ تھی.شاید خاندانی اثر کی وجہ سے آواز کی یہ حالت ہو.مضمون کا طرز بیان تو وہ تھا جو ہمارے خاندان کا ہے کہ پُر جوش ہوتا ہے مگر لہجہ مولوی صاحب ( حضرت خلیفہ اول) کا تھا.اور مولوی صاحب کہا کرتے تھے کہ ہمارے خاندان کے لوگوں کے اعصاب کمزور ہیں.آواز کی نا مطابقت کی وجہ سے مضمون کے اثر میں کمی آجاتی ہے اس لئے عبد السلام کو کوشش کرنی چاہئے کہ یا تو لہجہ کو مضمون کے مطابق بنائے یا مضمون کو لہجہ کے مطابق.مضمون اگر شان و شوکت والا ہو تو اس کو ایسی آواز سے نہیں پڑھنا چاہئے جس میں لجاجت پائی جائے بلکہ اس کا رنگ اور ہونا چاہئے.حضرت مسیح موعود اور حضرت مولوی صاحب کے طرز کلام میں چونکہ فرق تھا اس لئے مضمون بھی علیحدہ علیحدہ رنگ کے ہوتے تھے اور اپنے اپنے رنگ میں مؤثر ہوتے تھے.

Page 116

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 110 جلد اول ماسٹر محمد دین صاحب نے جو خیالات ظاہر کئے ہیں وہ دونوں ایڈریسوں سے اعلیٰ ہیں.وہ قلبی جذبات کا فوٹو اور اساتذہ اور طلباء کے لئے سبق آموز ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ جو کچھ انہوں نے کہا انکسار کے ساتھ کہا کیونکہ سچا مومن جب بھی ایک کام کو چھوڑ کر دوسرے کو اختیار کرے گا تو یہی خیالات اس کے ہوں گے اور سچے دل سے یہی آواز اس کے منہ سے نکلے گی.من نه کردم شما حذر بکنید دیکھو حضرت عمر جیسا انسان جس نے دنیا کو ہلا دیا اور یورپ کے مصنفین نادانی سے صلى الله ان کے کارناموں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ عمر محمد (ع) سے بھی بڑا انسان تھا اور ظاہری حالات ہی ایسے تھے کہ دنیا یہی سمجھتی لیکن دنیا یہ کیوں بھول گئی کہ یہی شخص کئی سال رسول کریم کی مخالفت کر کے تو اپنا کچھ بھی اثر اور رسوخ نہ پیدا کر سکا.ہاں جب آپ کی غلامی میں آیا تو یہی عمر جو پہلے اونٹوں کے لالچ میں بے گناہ کو قتل کرنے پر آمادہ ہو گیا تھا جب محمد کی غلامی میں آیا تو اس نے دنیا کو ہلا دیا.بہر حال ان کی فتوحات کو دیکھ کر یورپین مصنف یہ کہتے ہیں کہ عمرمحمد (ﷺ) سے بھی بڑا تھا.مگر جب آپ فوت ہونے لگتے ہیں تو ان کی زبان سے یہی نکلتا ہے لَا عَلَيَّ وَلَا لِی - 1 میں کچھ مانگتا نہیں کہ میں نے یہ کام کیا یا وہ کیا اس کا مجھے بدلہ دیا جائے بلکہ میری یہی درخواست ہے کہ مجھ سے جو غلطیاں ہوئی ہیں وہ معاف کی جائیں.علوم تو سچا مومن اور ایماندار شخص یہی کہتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا اور نہ کر سکتا ہوں خدا کے فضل سے ہی ہوگا جو کچھ ہو گا اور سچے دل سے یہ کہتا ہے.میرے نزدیک یہ کہنے کا ہر شخص کے لئے موقع آتا ہے مگر ہر شخص اس موقع سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھاتا جس طرح اٹھانا چاہئے اور ہر شخص اپنی طاقتوں کو پورے طور پر استعمال نہیں کرتا.اگر سب انسان خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہر طاقت کو اسی طرح استعمال کریں جس طرح کرنا چاہئے اور اس میں کوئی کو تا ہی نہ ہونے دیں تو محمد اللہ ہی کیوں نہ بن جائیں.مگر محمد اللہ جیسا کسی اور کا نہ بننا ہی

Page 117

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 111 جلد اول بتاتا ہے کہ سب خدا داد طاقتوں کا صحیح صحیح استعمال نہیں کیا جا تا اور اس کمال تک استعمال نہیں کیا جاتا کہ کوئی محمد بن سکے اسی وجہ سے تفاوت مدارج ہے.لیکن باوجود اس کے ضرورت ہے اس بات کی کہ جب انسان کام سے فارغ ہو اور کام میں کامیابی نصیب ہو تو اس وقت بھی اس کے دل میں یہی جذبات ہوں جو کام کے ابتدا میں ہوتے ہیں.یہی خیالات ہوں جو کامیابی سے پہلے ظاہر کئے جاتے ہیں.کام شروع کرتے وقت تو اس قسم کے خیالات سب لوگوں میں ہوتے ہیں حتی کہ دہریہ بھی یہی کہتے ہیں ہم کمزور ہیں ہم سے یہ کام نہیں ہو سکے گا.لیکن جب کام ختم ہو جائے اور پینشن کا زمانہ آ جائے اس وقت بھی یہی خیالات ہوں.یہی جذبات ہوں، یہی احساسات ہوں تب خوشی کی بات ہے.لیکن اگر اس وقت نہ ہوں اور اکثر لوگوں میں نہیں ہوتے تو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا کو دھوکا دینے کے لئے اور اپنے آپ کو بڑا بنانے کے لئے ابتدا میں ایسے خیالات ظاہر کئے گئے تھے.یہی جذبات جو ماسٹر محمد دین صاحب نے ظاہر کئے ہیں انہی کو لے کر لوگ اٹھتے ہیں لیکن جب کام ختم کر لیتے ہیں تو اس وقت کہتے ہیں ہم نے یہ کیا اور ہم نے وہ کیا.پہلے و خدا کو دھوکا دینے کے لئے عاجزانہ طور پر اس کے آگے گر کر کہتے ہیں ہم کچھ نہیں ہم بہت کمزور ہیں تو ہی کرے گا تو یہ کام ہو گا.لیکن جب ان کے گرنے پر خدا تعالیٰ کی طرف سے رحمت آتی ہے اور اس کا فضل کام کر دیتا ہے تو کہتے ہیں ہم نے یہ کام کیا مگر قوم نے ہماری قدر نہ کی.ہم نے یہ کام کیا مگر جماعت نے ہماری عزت نہ کی.ہم نے دکھ اٹھا کر کامیابی 09.حاصل کی لیکن اس کا بدلہ کچھ نہ ملا.یہ خیال ایسے انسانوں کو ضائع اور برباد کر دیتے ہیں.میں افسوس سے کہتا ہوں کہ ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو کہنے کو تو کہتے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں اللہ کے لئے کرتے ہیں اور جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے ہی فضل سے ہوتا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اور جب آپ یہ کہتے ہیں تو واقعہ میں اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھتے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ کر سکتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کے تذلیل کو دیکھ کر ان کی مدد اور نصرت کرتا ہے اور دنیا دیکھتی ہے کہ ان کے ذریعہ تغیر عظیم پیدا ہو جاتا ہے.

Page 118

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 112 جلد اول لیکن جب ایسا ہوتا ہے اور بوجہ اس کے ایسا ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے نفس کو گرایا اور خدا تعالیٰ کا فضل آیا تو اس وقت انہیں یاد نہیں رہتا کہ ہم نے کام شروع کرتے وقت یہ اقرار کیا تھا کہ ہم ناقابل ہیں اور فی الواقع وہ نا قابل تھے.وہ ماضی پر نگاہ کر کے کہتے ہیں ہم نے یہ کام کیا مگر وہ اس سے پہلے زمانہ کو بھول جاتے ہیں جب سچے دل سے وہ اپنی نالائقی کا اقرار کرتے تھے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انہیں کامیابی ہوئی تھی.اس وقت وہ امیدوار ہوتے ہیں کہ انہیں اعلیٰ مدارج حاصل ہوں.اس وقت ان کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں جماعت پر حکومت حاصل ہو.اس وقت وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کے سروں کو اپنے سامنے جھکا ئیں.اور اگر یہ باتیں انہیں حاصل نہیں ہوتیں تو بلعم باعور 2 کی طرح ہو جاتے ہیں اور اس وقت اگر ان پر موت آجائے تو قریب ہے کہ جہنم میں ڈالے جائیں.اس وقت بھی یہی احساسات ہونے چاہئیں جو ابتدا میں ہوتے ہیں.دیکھو نبیوں کی کیا حالت ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :.کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار3 یہ آپ نے اس وقت کہا جب آپ کام ختم کر کے فاتح جرنیل کی طرح جارہے تھے.تو درحقیقت یہ خیالات ہر شخص کے دل میں ہونے چاہئیں اور ہماری جماعت کے لوگوں میں جب تک یہ خیال نہ ہوں گے کامیابی نہ حاصل ہو سکے گی.دیکھو ہماری مثال بھی یہی ہے جیسے چودھری فتح محمد صاحب نے اپنی چھوٹی لڑکی کے متعلق سنایا کہ ایک دن وہ کہنے لگی ابا مجھے بھی کنویں پر لے چلو.چودھری صاحب نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگی میں بھینس کو اٹھاؤں گی.اسے کہا گیا وہ تو بہت بڑی ہوتی ہے کس طرح اٹھاؤ گی؟ کہنے لگی اگر بھینس کو نہیں تو اس کے بچے کو اٹھاؤں گی.یہ تو ہنسی کی بات تھی.مگر ہمارا یہ خیال کہ ہم نے دنیا کو فتح کرتا ہے اور کفر کو مٹانا ہے حالانکہ ہمارے اندر ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے خیالات سے متاثر ہو جاتے ہیں.ایسے لوگ ہیں جو یورپ کے فلسفہ سے متاثر ہو جاتے ہیں.ایسے

Page 119

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 113 جلد اول لوگ ہیں جو دین کے مقابلہ میں دنیا کو ترجیح دیتے ہیں.ایسی حالت میں دنیا کو فتح کرنے کا ہمارا خیال بچہ کے بھینس کو اٹھانے کے خیال سے بھی بہت بڑا خیال ہے اور ایسا ہی ہے جیسا کہ سورج سے کھیلنے ، چاند کو پکڑنے کا خیال ہو.جس طرح یہ ناممکن ہے اور جنون کی علامت ہے اسی طرح ہمارا یہ خیال بظا ہر نظر آتا ہے کہ ہم دنیا کو فتح کرلیں گے اور پھر تلوار سے جسموں کو نہیں جیسا کہ بادشاہ کر لیا کرتے ہیں بلکہ دلوں کو ، رسوم کو ، خیالات کو ، تمدن کو ، معاشرت کو بدل دیں گے.حالانکہ یہ تو ساری دنیا کے بادشاہ بھی مل کر نہیں کر سکتے.کجا ہم ماتحت لوگ یا بالفاظ دوسرے لوگوں کے انگریزوں کے غلام کریں.پس ہمارا یہ دعویٰ بہت بڑا دعویٰ ہے اور ہماری کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت بڑا دعویٰ ہے.اس صورت میں اگر ہم سے کچھ کام ہو جائے، ہمیں کوئی کامیابی حاصل ہو جائے تو یہی سمجھنا چاہئے کہ یہ ہماری کمزوری ہمارے انکسار کا نتیجہ ہے یا ہماری کمزوریوں پر خدا نے رحم کیا ہے.لیکن جب کام ہو جائے اور سمجھا جائے کہ ہم نے خود کیا ہے تو ہم سے زیادہ احسان فراموش کوئی نہیں ہو گا.مگر کہنا پڑتا ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو ایک حد تک کام کرتے ہیں اور جب کچھ کام ہو جاتا ہے تو اپنی قدر و منزلت کی امید رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لوگ اس کام کی وجہ سے ان کے آگے جھکیں.اس وقت ان کے سینہ سے ایمان نکل رہا ہوتا ہے اور نہایت خطر ناک مرحلہ پر پہنچے ہوتے ہیں.میں دعا کرتا ہوں ایسے لوگوں کے لئے اور دوسروں کے لئے بھی کہ ان میں ہر وقت یہی احساسات رہنے چاہئیں کہ ہم کمزور اور ناطاقت ہیں ہم سے کچھ نہیں ہوا.جو کچھ ہوا خدا کے فضل سے ہوا.اور یہ احساسات تمہارے مرنے تک رہنے چاہئیں.اگر اسی حالت میں مرو تو یقیناً ایمان دار مرو گے.پس یہ جذبات صحیح جذبات ہیں اور ہر انسان میں پیدا ہوتے ہیں مگر ضرورت ان کے قائم رکھنے کی ہے.تم ان جذبات کو قیمتی ہیروں کی طرح سمجھو اور پوری طرح حفاظت سے رکھو.تمہارے ہاتھ کٹ جائیں، دانت ٹوٹ جائیں مگر کوئی چیز ان کو تمہارے ہاتھ سے نہ چھڑا سکے.جس طرح ماں بچہ کو خطرہ کے وقت اپنے سے جدا نہیں ہونے دیتی اسی طرح تم

Page 120

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 114 جلد اول ان کی حفاظت کرو.ایک جنگ کا ذکر ہے کہ ایک جھنڈا بردار کا ایک ہاتھ کٹ گیا تو اس نے دوسرے میں پکڑ لیا.دوسرا کٹ گیا تو گھٹنوں میں پکڑ لیا اور اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک اس کی گردن نہ کاٹ دی گئی.4 تم ان جذبات کو اس جھنڈے سے زیادہ مضبوطی ، زیادہ احترام ، زیادہ زور اور زیادہ کوشش کے ساتھ پکڑو اور ایسا پکڑو کہ کبھی نہ چھوٹیں.کیونکہ اگر چھوٹ جائیں تو سوائے تحت الثریٰ کے اور کہیں ٹھکانا نہیں.اور اگر پکڑے رہو گے تو ہر جگہ اور ہر میدان میں کامیاب رہو گے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ماسٹر صاحب کی مشکلات کو دور کرے اور ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے.“ ( الفضل 15 جنوری 1923ء) 1 : اسد الغابۃ جلد 3 صفحہ 455 مطبوعہ بیروت 2006 ء الطبعة الاولى 2 بلعم باعور : حضرت موسی علیہ السلام کے وقت کا ایک ناقص ولی جس نے مخالفین کے اکسانے پر حضرت موسیٰ کے خلاف بددعا کی جس سے اس کا ایمان جاتا رہا.( تفسیر کبیر فخرالدین رازی جلد 8 صفحہ 52،51 مطبوعہ قاہرہ 2012ء) 3: براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 127 ایڈیشن 2008 ء 4: سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 1170 مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 121

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 115 جلد اول تحریری ہدایات برائے مکرم ماسٹر محمد دین صاحب بی اے مبلغ امریکہ 7 جنوری 1923ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مکرم ماسٹر محمد دین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کو ان کی امریکہ روانگی کے موقع پر حسب ذیل ہدایات رقم فرما کر عنایت فرمائیں:.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دد مگر می ماسٹر صاحب! اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو خود آپ کے فرائض پر آگاہ کرے.مگر میں بھی اپنا فرض ادا کرنے کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر دیتا ہوں جو خدا کرے مفید اور با برکت ثابت ہوں.اسلام کی حقیقت اسلام ایک سوسائٹی کا نام نہیں بلکہ ایک مذہب ہے.اور سلسلہ احمد یہ ایک انجمن نہیں بلکہ ایک خدا کی قائم کردہ جماعت ہے.پس اس پر کسی اور چیز کو قیاس نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے دوسری چیزوں پر قیاس کیا جا سکتا ہے.آپ ایسے ملک میں جاتے ہیں جہاں کے لوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتے.ان کے نزدیک کچے مذہب کی علامت یہ ہے کہ ضرورتِ وقت کے مطابق تبدیل ہو سکے.اور اسلام کے نزدیک سچا مذ ہب وہ ہے جو فطرت کا صحیح رہنما اور راست باز آئینہ ہو پس اس سے بدلنا بیماری ہے نہ کہ صحت.اس امر کو وہ لوگ تنگ خیالی اور جہالت خیال کرتے ہیں.پس سب سے زیادہ اس دشمن کے حملوں کو آپ نے دور کرنا ہے اور اس کے پنجوں سے لوگوں کو چھڑانا ہے.مذہب کی حقیقی عظمت ثابت ہو چکنے کے بعد پھر راستہ بالکل آسان ہوتی

Page 122

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) جاتا ہے.116 جلد اول تبلیغ کے دو پہلو یاد رکھیں کہ تبلیغ کے دو پہلو ہوتے ہیں اپنوں کے لئے اور غیروں کے لئے.جب تک ان دو پہلوؤں کو آپ نہ سمجھیں گے آپ کا کام مکمل نہ ہو گا.اس وقت تک جو مبلغ گئے ہیں انہوں نے اس پہلو کو سمجھا ہے جو غیروں کے لئے ہے اور اس کو نظر انداز کر دیا ہے جو اپنوں کے لئے ہے.بے شک اگر ان لوگوں کے سامنے جو ابھی اسلام کو جھوٹا سمجھتے ہیں ہم اس امر پر زور دیں کہ اسلام کے سب حکموں کو ماننا چاہئے تو ضرور ہے کہ ان کے دل پر یہ اثر پڑے کہ ہم ان کو مسیحیوں کی مانند ہر ایک بات کو بلا ثبوت ماننے کی تعلیم دیتے ہیں لیکن اگر ہم ان لوگوں کے سامنے جو اسلام کو سچا تسلیم کر چکے ہیں اس امر پر بار بار اور موثر طریق سے زور نہیں دیتے کہ وہ کلام جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ثابت ہو جائے اس کے احکام اور اس کی جزئیات پر اسی قدر احتیاط سے عمل کرنا ضروری ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جس قدر کہ ایک ڈاکٹر کی ہدایات پر تو وہ عمل میں کمزور رہ جائیں گے.جو لوگ بچوں کو اس وجہ سے تعلیم نہیں دیتے کہ ابھی یہ بچہ ہے ان کے بچے نہایت بد اخلاق ہوتے ہیں.صرف انہیں کے بچے اخلاق فاضلہ کو حاصل کرتے ہیں جو استقلال اور اصرار سے گو حکمت عملی اور محبت سے بچوں کو اخلاق فاضلہ کے حصول کی تعلیم دیتے رہتے ہیں.جس طرح انسانی زندگی کا بہترین حصول علم کا وقت بچپن ہے اسی طرح ایک نو مسلم کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا بہترین وقت اس کے اسلام لانے کے قریب کا زمانہ ہے.جس طرح بڑے ہو کر بچہ کے سیکھنے کا وقت نکل جاتا ہے اسی طرح کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد نو مسلم کے اندر تغیر پیدا کرنے کی قابلیت کمزور ہو جاتی ہے.اس کا تازہ جوش سرد پڑ جاتا ہے اور ٹھنڈے لو ہے کو کوٹنے سے کچھ نہیں بنتا.پس ایک جلسہ خاص نو مسلموں کے لئے کر کے اس میں اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی طرف توجہ دلانی چاہئے اور ایک جلسہ عام تبلیغ کا ہونا چاہئے جس میں عام وعظ ہو.

Page 123

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 117 جلد اول اسلامی اخلاق اور ان کی پابندی اس امر پر خاص زور دینا چاہئے کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں اور ان کی پابندی مسلم کے لئے اعلیٰ روحانی مدارج کے حصول کے لئے ضروری ہے.اخلاق روحانیت نہیں ہیں لیکن وہ روحانیت کے حصول کی پہلی سیڑھی ہیں.اور اگر ہم اسلام لا کر بھی خدا تعالیٰ سے اپنا کوئی تعلق محسوس نہیں کرتے تو گو ہم ایک آگ سے نکل آتے ہیں مگر اس مقصد کو ہم نے ہر گز حاصل نہیں کیا جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں صرف آگ سے بچنے کے لئے پیدا کیا ہے.اگر یہی بات تھی تو ہم اپنی پیدائش سے پہلے آگ سے محفوظ تھے ہمیں آگ سے بچنے کے لئے نہیں بلکہ ابدی راحت اور ابدی زندگی اور ابدی قرب الی اللہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اس کا حصول ہمارے لئے ضروری ہے.ہمارا بچے مذہب کو مان لینا تو صرف ایسا ہی ہے جیسے اس امر کو معلوم کرنا کہ فلاں مرض کی فلاں دوا ہے.جب تک اس دوا کو ہم استعمال نہیں کر لیتے اس وقت تک ہمیں اس سے کچھ فائدہ نہیں.نو مسلموں کا مرکز سے تعلق پیدا کرنا یاد رکھیں جب ایک سلسلہ کے مرکزی سے انہیں ایسا ہی تعلق پیدا نہیں ہوتا جس طرح کہ یہاں کے لوگوں کو ہے اس وقت تک ان کا ایمان محفوظ نہیں.پس ان کے ایمان کی حفاظت کی فکر کریں اور خلیفہ وقت اور قادیان سے ان کو ذاتی تعلق پیدا کرانے کی کی کوشش کریں.ان کے اچھی طرح ذہن نشین کریں کہ قادیان کے باشندے کوئی خصوصیت نہیں رکھتے.وہ تو مختلف جہات سے جمع ہونے والے مخلصین ہیں.مرکز کے معنے احمدیت کے لحاظ سے یہ نہیں ہیں کہ کوئی خاص جماعت حکومت کرے.بلکہ اس سے مراد وہ خاص لوگ ہیں جو اسلام کے محافظ ہوں اور اس کے مخلص خادم ہوں.امریکہ کے لوگ ہوں خواہ یورپ کے خواہ کسی اور ملک کے وہ اسی طرح سلسلہ کی خدمت کا حق رکھتے ہیں جس طرح اہل ہند.ہاں شرط یہ ہے کہ وہ اسلام اور سلسلہ کو صحیح طور سے پڑھیں.اگر وہ تو

Page 124

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 118 جلد اول اس طرح تفقہ حاصل کریں تو کوئی امتیاز ان کو اس روحانیت سے نہیں روک سکتا جو اس وقت ان کو حاصل ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بسر کر کے ان سے علم دین کو حاصل کیا اور اس پر بصدا خلاص عامل ہوئے.یا درکھیں کہ کوئی قوم بحیثیت قوم جمع نہیں رہ سکتی جب تک کہ اس کو جمع عاشقانه ایمان کرنے والی رسی مضبوط نہ ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہی خواہی اور دنیا کی خاطر تکالیف کے اٹھانے کے واقعات بتا بتا کر ان لوگوں کے دل میں آپ کی اور سلسلہ کی محبت کو ایسا مضبوط کریں کہ فلسفی ایمان سے نکل کر وہ عاشقانہ ایمان پر قائم ہو جائیں کہ اس ایمان کے بغیر نجات نہیں.نو مسلموں کو تعلیم دینے کا طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ قرآن کریم اور حدیث کے ساتھ جاری رکھیں اور کبھی کبھی آپ کی کتب سے خاص احمدیوں کے جلسوں میں لیکچر دیا کریں تا کہ ان کو ان سے دلچسپی پیدا ہو.اسی طرح میرے خطبوں میں چونکہ واقعات حاضرہ کو مد نظر رکھا جاتا ہے ان سے بھی مضامین لوگوں کو سناتے رہا کریں.قربانیاں کرنے کی تعلیم یہ یاد رکھیں کہ جس طرح بعض لوگ قربانیوں سے بھاگ جاتے ہیں بعض لوگ قربانیوں سے مضبوط ہو جاتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کو خدا پسند بھی کرتا ہے پس لوگوں کو ہمیشہ سلسلہ کے لئے قربانیاں کرنے کی تعلیم دیتے رہا کریں اور تحریک جاری رکھا کریں.اس سے آہستہ آہستہ لوگ مضبوط ہو جائیں گے.اخلاقی اصلاح کے لئے ایک نکتہ میں نے اخلاق پر پہلے زور دیا ہے اس کے متعلق ایک بات کو یاد رکھیں کہ ایک محاورہ کثرت سے استعمال کریں اور نا معلوم طور پر نو مسلموں میں اس کے استعمال کو رائج کریں.اس سے عظیم الشان فوائد حاصل ہوں گے اور دنیا ایک عجیب پلٹا کھائے گی.اور ان

Page 125

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 119 جلد اول وہ اسلامی اخلاق کا محاورہ ہے.جب کسی بدی کا ذکر کریں تو کہیں یہ غیر اسلامی خلق ہے.اور جب نیکی کا ذکر کریں تو کہیں یہ اسلامی شعار اور خلق ہے.اور مثلاً کسی قوم کی تباہی کا ذکر کریں تو کہیں کہ اگر وہ اسلامی اخلاق کی پابندی کرتی تو کیوں تباہ ہوتی.اس نکتہ کو یاد رکھیں فوائد عظیمہ حاصل ہوں گے انشاء اللہ.جو لوگ اس نصیحت پر عمل کریں گے اگلی نسلیں ان کے احسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گی اور ان کے لئے دعا کریں گی.انشاء اللہ.دعا کی تاکید دعاؤں پر زور دیں اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دیں.یہ چیز دل کے لئے عجیب تسکین وہ ہے.دل دعا سے مضبوط ہوتا ہے اور ایمان سیراب ہوتا ہے.ایمان کا پہلا ثمرہ دعا ہے اور دعا کا پہلا ثمرہ ایمان ہے.جس طرح ہر بیج درخت سے پیدا ہوتا ہے اور ہر درخت بیج سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح دعا ایمان سے پیدا ہوتی ہے اور ایمان دعا سے پیدا ہوتا ہے اور پھر نہیں کہہ سکتے کہ کون کس سے پیدا ہوا.کالے گورے سب برابر ہیں ہمارے لئے سب قومیں برابر ہیں.پس حبشیوں اور سفید رنگ والوں کو یکساں سمجھیں مگر لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے.جس طرح جسم کو تکلیف دینی منع ہے دل کو تکلیف دینی بھی منع ہے.پس جب تک اسلام یا ایمان یا اخلاق یا جماعت کے فوائد کو نقصان نہ پہنچتا ہو لوگوں کے احساسات کا خیال رکھیں مگر چاہئے کہ نو مسلموں میں سے قومی منافرت کے دور کرنے کی کوشش کریں.مبلغ کی سیاست سے علیحدگی مبلغ کے لئے سیاست سے الگ رہنا ضروری ہے پس اس مسئلہ کے متعلق خواہ دل میں کس قدر ہی جوش کیوں نہ پیدا ہو خاموش رہیں.اور صرف اخلاقی پہلو پر زور دیں اور ہر فریق کو زیادتی سے روکیں اور اس کے بعد اپنے کام کو ختم سمجھیں.جس طرح یہ سچ ہے کہ قیصر کا حق قیصر کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو.1 اسی طرح یہ بھی حق ہے کہ زید کا کام زید کے سپر د کرو اور اپنا کام خود کرو.جو ڈاکٹر ایک فریق کو سانس دلاتے ہوئے اپنے کام کو چھوڑ کر ایک

Page 126

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 120 جلد اول مزدور کے سر پر گھانس رکھوانے کے لئے چلا جاتا ہے اس سے زیادہ احمق کوئی نہیں.بے شک وہ ایک اچھے کام کے لئے گیا اور دوسرے کی مدد کے لئے گیا مگر اس وقت کیا جب اس سے اہم اور اس سے مقدم فائدہ پہنچانے میں وہ مشغول تھا پس اس نے اپنی زندگی کو دنیا کے فائدے کے لئے نہیں بلکہ نقصان کے لئے خرچ کیا.مبلغ کا استقلال چاہئے کہ قرآن کریم پر تدبر کرتے رہیں اور یورپ کے خیالات کی رو میں بہنے سے بچیں.انسان بہت دفعہ غیر معلوم طور پر اثر قبول کرتا ہے اور یہی خطرناک ہوتا ہے.مبلغ کو ایک چٹان ہونا چاہئے جس پر لوگ آ کر نجات حاصل کریں نہ ایک گھانس کا گٹھا جو نہ دوسروں کو پناہ دے اور نہ خود اس کا کوئی مقام ہو.چاہئے کہ اپنے ایمان کو خدا کے نور سے مضبوط کرتا رہے اور اس کا طریق یہ ہے کہ وہ ہر ایک امر کو منفردانہ طور پر نہ دیکھے بلکہ اس طرح دیکھے کہ کیا یہ اسلامی روح کے مطابق ہے.اس طرح غور کرنے سے اسے کئی باتیں جو چھوٹی نظر آتی تھیں بڑی نظر آنے لگیں گی اور وہ ٹھوکر سے بچ جائے گا.اور پھر بھی جو بات سمجھ میں نہ آوے اس کے متعلق مرکز سے دریافت کرنا چاہئے کیونکہ اس بات کا صحیح اندازہ مرکز سے ہی لگ سکتا ہے کہ حقیقت اور روح کیا ہے.عورتوں سے مصافحہ کرنا عورتوں سے مصافحہ کرنے کی رسم کو اب چھوڑ نا چاہئے اور خود عورتوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنا چاہئے کہ وہ اس سے بچیں.جب عورتوں کی ایک جماعت ایسی تیار ہو جائے گی تو وہ خود دوسروں کو سنبھال لے گی.یاد رکھیں کہ عورتوں کے اندر ایمان کی ایک خاص مناسبت ہے.ایک دو مخلص عورتوں کو خوب سمجھا کر وہ باتیں جو عورتوں سے متعلق ہیں ان کے دلوں میں خوب رچا دیں پھر دیکھیں کہ وہ کس طرح سیف مسلول بن کر دوسری عورتوں کو اپنا ہم خیال بنا لیتی ہیں.یہ کام بغیر عورتوں کی مدد کے نہ ہوگا.اور اگر عورتوں کی غیرت کو بھڑکا دیا جائے اور ان کو بتایا جائے کہ بعض وہم اسلام کے راستہ میں کس قدر روک ہیں (اور یہ کام صرف

Page 127

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 121 جلد اول انفرادی طور پر ہو سکتا ہے ) تو پھر دیکھیں وہ خود کس طرح دوسروں کو سیدھا کر لیتی ہیں اور آپ کا بوجھ ہلکا کر دیتی ہیں.لغو کاموں سے پر ہیز ایسے تمام مواقع سے بچیں جو تہمتوں کا موجب ہوں اور ایسی تمام مجالس سے بچیں جو لغو کاموں پر مشتمل ہوں کہ یہ تبلیغ کے کاموں میں روک ہو جاتے ہیں.سادہ اور بے تکلف زندگی اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف بنائیں اور اپنی موجودہ زندگی کو یاد رکھیں.انسان جب دوسروں کو دیکھتا ہے تو بھول جاتا ہے کہ وہ پہلے کس طرح رہتا تھا اور یہ چیز اس کے لئے پہلی ٹھو کر ہوتی ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ وہاں کے ان سامانوں کو استعمال نہ کریں جو کام کے لئے مفید ہوں اور ان کے ذریعہ سے کام کی وسعت میں مدد ملے مگر میرا یہ مطلب ضرور ہے کہ صرف اس خیال سے کہ لوگ میرا رعب نہیں مانیں گے ایسی زندگی بسر نہ کریں جو یہاں کی رہائش کے مقابلہ میں عیاشانہ اور آرام طلبی کی زندگی کہلا سکتی ہے.چاہئے کہ اپنا لباس اسلامی بس میرا مطلب اسلامی لباس سے وہ لباس ہے جسے خدا کے مقدسوں نے پسند کیا یعنی لمبے کوٹ اور نماز میں سہولت پیدا کرنے والا لباس.پادریوں میں بھی اس لباس کا رواج بتاتا ہے کہ مسیح علیہ السلام بھی ایسا ہی لباس پہنتے تھے.پس یورپین فیشن کو اختیار نہ کریں.کوٹ کی جگہ ہماری طرز کا ہی کھلا کوٹ بلکہ چونکہ وہاں سردی زیادہ ہوتی ہے عبا کی طرز کا کوٹ ہو.پتلون کی بجائے اونی ڈرائرز (Drawers) اور اوپر شلوار یا ایسا دیسی لباس جس سے نماز میں آسانی رہتی ہے.انگریزی ٹوپی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت نا پسند تھی گو حرام نہیں مگر ہمیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے.پس یا پگڑی باندھیں یا ترکی ٹوپی کا استعمال کریں.پگڑی قریب تر اسلامی شعار ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہایت پسند تھی ایسے لباس بجائے تبلیغ میں روک ہونے کے اس کے لئے ایک محرک ہو جاتے ہیں اور ظاہری طرز کے نہ بدلنے سے دل کو بھی وہ تقویت حاصل ہوتی ہے جس.

Page 128

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) وہ بھی نہیں بدلتا.122 جلد اول پہلے مبلغین کی خدمات کا اعتراف مفصل رپورٹیں بھیجتے رہیں اور ان ہدایات کو مدنظر رکھ کر ان کے مطابق رپورٹیں بھیجیں اور یاد رکھیں کہ پہلے کارکنوں کے راستہ میں جو روکیں اور مشکلات تھیں وہ آپ کے راستہ میں نہ ہوں گی.پس جو آپ کو کامیابی ہو وہ خدا کے فضل سے ان کی کوششوں کے نتیجہ میں ہوگی.پس ان کے کاموں میں عیب نکالنے کی طرف مائل نہ ہوں بلکہ ان کی خدمات کا دل اور زبان اور قلم سے اعتراف کریں کہ احسان فراموشی اور ناشکری خطرناک جرائم سے ہے.ہر ایک میں نقص ہوتے ہیں اگر ان میں کوئی نقص نظر آویں تو اسی طرح آپ میں بھی ضرور نقص ہوں گے.پس ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے میں عمر کو ضائع نہ کریں بلکہ ایک دوسرے کی مدد سے عیبوں کو دور کرنے کی کوشش کریں.مومن ، مومن کے لئے بمنزلہ آئینہ ہوتا ہے پس چاہئے کہ اس میں اپنی شکل کو دیکھے نہ کہ آئینہ پر حرف گیری کرے.خلیفہ کی اطاعت زندگی کا اعتبار نہیں اس امر کو خوب یاد رکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں خدا کے بندے ہیں.جو شخص بھی اور جب بھی مسند خلافت پر بیٹھے اس کی فرمانبرداری کو اپنا شعار بنائیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں.اسلام تفرقوں سے تبہ ہوا اور اب بھی سب سے بڑا دشمن یہی ہے.کاش ! انسان اس دل کو نکال کر پھینک دیتا جو اسے نفسانیت کی وجہ سے سلسلہ کے مفاد کو قربان کرنے کی تحریک کرتا ہے.گو بعض دفعہ نیکی کے رنگ میں بھی یہ تحریک ہوتی ہے مگر مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَلَيْسَ مِنَّا - 2 سابقون کا ایک حق ہوتا ہے اس حق کو ہماری جماعت نے بالکل نہیں ہے سابقون کا حق سمجھا.خدا اس کی سزا سے اس کو بچائے.پیغامیوں کے جدا ہونے سے خیال کر لیا گیا ہے کہ ہر ایک جو بڑا ہے اسے چھوٹا ہو جانا چاہئے.یہ ایک مرض ہے

Page 129

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 123 جلد اول نہ معلوم اس کا انجام کیا ہو؟ اللہ رحم کرے، اللہ رحم کرے، اللہ رحم کرے.بجائے پکڑنے کے آنکھیں دے اور بجائے گرفتار کرنے کے اصلاح کی توفیق دے.جب تک قدیم لوگ جنہوں نے انیس سو سے پہلے کے زمانہ میں دین اور سلسلہ کی خدمت کی ہے عظمت اور قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھے جائیں گے اور جب تک وہ اپنے ایمان پر قائم ہیں ان کی کمزوریوں کے باوجود ان کا ادب اور احترام نہ کیا جائے گا.وہ روح جماعت میں نہ پیدا ہو گی جو مسیح موعود علیہ السلام نے پیدا کرنی چاہی تھی.نئے لوگ شاید انتظام اچھے کر دیں گے مگر وہ دل اچھے نہیں کر سکیں گے جو پہلوں کو نکال کر خود ان کی جگہ لینا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ صبر نہیں کرے گا جب تک ان کو وہ نہ نکال لے اور یہ خوف کا مقام ہے.پس سابقون کی محبت کو اپنے دل میں پیدا کریں اگر ایمان کی لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں.کیا لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں کہ وہ اس وقت خدا کے رسول کی تائید کر رہے تھے جب وہ اس کو جھوٹا سمجھتے تھے یا کم از کم اس کی مدد سے دست کش تھے ؟ ہم اپنے بچہ کی جان کو بچانے والے کو اپنا سب کچھ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے لیکن خدا کے رسول کی حفاظت کرنے والے کے لئے کسی قربانی کے لئے تیار نہیں.یقیناً یہ بے ایمانی کی علامت ہے.یہ کھلی اور صاف دنیا داری ہے.میں اس امر پر زور دے رہا ہوں کیونکہ آپ وہاں جا رہے ہیں جہاں خدا کے رسول کا ایک پرانا خادم کام کر رہا ہے.جس نے اس وقت اس کا ساتھ دیا جس وقت آپ کے دل میں اس کی کوئی قدر نہ تھی.میں اسے اس لئے جلد بلوانا چاہتا ہوں کہ ایک ایک کر کے وہ پرانی صورتیں میرے سامنے سے ہٹ گئی ہیں یا ہٹا دی گئی ہیں.کچھ باقی ہیں مگر میری پیاس بجھانے کے لئے وہ کافی نہیں.میں تو انہیں شکلوں کو دیکھ کر جینا چاہتا ہوں جنہوں نے مسیح موعود کے چہرہ میں اُس وقت راست بازی کے آثار پائے جب دنیا اس کے چہرے کو جھوٹوں کا چہرہ قرار دیتی تھی.لوگ میری طرف دیکھتے ہیں حالانکہ میں تو اصلاح کے مقام پر کھڑا ہوں.اور کون ہے جو مجھ سا دل رکھتا ہے.پہلے میرے جیسا بے کینہ دل لائے پھر میری طرح دوسروں کے نقص پر گرفت کرے.پہلے میرے مقام پر کی

Page 130

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 124 جلد اول کھڑا ہو پھر کسی کے عیب کو پکڑے.میں تو جو کچھ کرتا ہوں محبت سے کرتا ہوں.میرا خو بھی محبت ہے اور میری ناراضگی بھی محبت ہے اور میری خفگی بھی محبت ہے.کیونکہ میں رحمت میں پلا اور رحمت میں پرورش پائی اور رحمت مجھ میں ہوگئی اور میں رحمت میں ہو گیا.انسانی ہمدردی خوب یا درکھیں کہ ایمان بلا ہمدردی نہیں لیکن ہمدردی بلا ایمان کے ہو جاتی ہے.پس مبلغ کا قدم نہایت نازک مقام پر ہے.وہ بلا ہمدردی ایمان سے محروم رہا جاتا ہے اور ایک بے ایمان شخص ہمدردی کی وجہ سے ایمانداروں میں شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح پر دہرا نقصان اٹھا رہا ہے.خود ایمان سے محروم ہوتا ہے اور لوگوں کو ایمان سے محروم کرا دیتا ہے کیونکہ لوگ اس کی روش کو دیکھ کر اس کو ایمان سے کو را سمجھ لیتے ہیں.اور ایک دوسرے کو مذہب میں ہمدردی کا مادہ پا کر اسے ایماندار خیال کر لیتے ہیں.پس چاہئے کہ مبلغ اسلام نہایت ہمدرد ہو.صرف نام سے نہیں بلکہ کام سے.اس کے الفاظ اور اس کے کام بلکہ اس کی آنکھیں اس کی ہمدردی کو ظاہر کر رہی ہوں.یہ نہ خیال کریں کہ معاملہ خدا سے ہے وہ دل کو جانتا ہے.بے شک خدا دل کو جانتا ہے مگر خدا نے انسان کی بعض صفات کو ایسا بنایا ہے کہ جب تک ان کا اظہار نہ ہو ان سے لوگ فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اور جب لوگ فائدہ نہیں اٹھا سکتے تو پھر ان کا فائدہ کیا.پس یہ خیال ایک شیطانی خیال ہے اور جس طرح پریا ایک گناہ ہے اسی طرح ان صفات کو عملاً اور قولاً اور شکالا ظاہر نہ کرنا گناہ ہے جن کے اظہار کے بغیر دنیا کو تکلیف پہنچتی ہے یا دنیا حقیقی محبت اور مواسات سے محروم رہ جاتی ہے.انسان ہر بات سیکھ سکتا ہے یہ کبھی خیال نہ کریں کہ فلاں بات مجھ میں نہیں ہے.کوئی بات نہیں جس کا سیکھنا انسان کے لئے ضروری ہو اور وہ اسے سیکھ نہ سکے.بے شک کمی یا زیادتی کا فرق ہوگا مگر ہر ایک جذبہ ہر ایک انسان میں موجود ہے اور وہ کوشش سے ترقی کر سکتا ہے.یہ وسوسہ کہ فلاں بات مجھ میں نہیں یہ ایک شیطانی وسوسہ ہے جس کے ذریعہ سے وہ اسے نیکی سے محروم رکھنا چاہتا ہے.

Page 131

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 125 جلد اول سچائی اور اس کا اظہار یاور ھیں کہ سچائی ایک ایسی خوبی ہے جو بھی بدی کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتی مگر یہ بھی یادرکھیں کہ ہر ایک صداقت کا اظہار ضروری نہیں ہوتا.ایک لنگڑے کو لنگڑا کہ دینا سچائی ہے مگر اس صداقت کا اظہار گناہ ہے.جھوٹ کہنے اور ہر سچائی کے ظاہر کرنے میں فرق ہے.وہ سچائی جس کا اظہار دین کی بھلائی کے لئے ضروری نہیں بلکہ اس کے اظہار سے دوسروں کے احساسات کو صدمہ پہنچتا ہے اس کے ظاہر کرنے کی ہر گز ضرورت نہیں.بلکہ اس کا اظہار گناہ ہے.اس لئے نہیں کہ اس نے سچ کیوں کہا.بلکہ اس واسطے کہ جہاں اسے کچھ نہیں کہنا چاہئے تھا وہاں یہ بول پڑا.پس محض اس یقین پر کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں سچ ہے مت بول پڑا کریں.بلکہ یہ بھی سوچ لیا کریں کہ کیا اس سچ کو اس وقت بیان کرنا مفید ہے؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کے نہ بیان کرنے میں نقصان نہیں لیکن بیان کرنے میں کسی اور شخص کو تکلیف ہوتی ہے ؟ اگر ایسا ہو تو اپنی زبان کو روک لیں کیونکہ وہ گناہ کی مرتکب ہونے لگی ہے.اخراجات کا حساب رکھنا حسابات کے رکھنے میں اور اپنے کام کے سیکھنے میں محنت سے کام لیں.حساب کا رکھنا بے اعتباری کی علامت نہیں.بلکہ اعتبار کے مضبوط کرنے اور بے اعتباروں کو بھی اعتبار سکھانے کا ذریعہ ہے.اور کام بلا غور اور محنت کے نہیں آتے.خالی اخلاص انسان کو کام نہیں سکھا دیتا بلکہ وہ شخص جو یہ خیال کرے کہ اس کا اخلاص اسے سب کچھ سکھلا دے گا در حقیقت اخلاص سے خالی ہے.کیونکہ اگر اس کے اندر اخلاص ہوتا تو وہ ستی کیوں کرتا اور کیوں ایک مصیبت میں پھنسے ہوئے شخص کی طرح کام کے سیکھنے میں نہ لگ جاتا.کیا ماں کی محبت بچے کو مرض سے بچالیتی ہے یاماں کی محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے بچے کو مرض سے شفا دلانے کے لئے پوری کوشش کرنے لگتی ہے.اخبار کو ایڈٹ کر نا او لیکچر کی تیاری اخبار کو ایڈٹ کرنے کا وہ طریق بہترین ہے جو مفتی صاحب نے

Page 132

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 126 جلد اول اختیار کر رکھا ہے.چھوٹے چھوٹے مضامین ہوں اور دل کو لبھانے والے ہوں.لیکچر میں بھی وہاں یہی طریق اختیار کریں، لمبا نہ ہو.پہلے کافی طور پر اس پر غور کیا ہوا ہو.اور چاہئے کہ واقفیت کے بڑھانے کی عادت ڈالیں.اس کے بغیر مبلغ کامیاب نہیں ہو سکتا.ہر راستہ چلتا شخص آپ کا دوست بن جائے تب آپ کامیاب ہو سکتے ہیں.مرکزی کارکنوں کا احترام یہاں کے کارکنوں کی تحریروں کا احترام اور ان کا احترام ضروری ہے.وہ مرکزی عہدہ دار ہیں.اگر آپ کے خلاف مرضی بھی کام کریں تو ان کے ادب کو ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے اور نہ کبھی مایوسی کو پاس بھٹکنے دینا چاہئے.مایوس انسان کبھی کامیاب نہیں ہوتا.وہی شخص کا میاب ہوتا ہے جو تلوار کے نیچے بھی اپنی آئندہ کوششوں پر غور کر رہا ہو.دعا اور احمدیان امریکہ کو پیغام ایک بج چکا ہے اور صبح آپ نے جاتا ہے اور پسلیوں کا درد اس وقت مجھے بے تاب کر رہا ہے اس لئے وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 3 کے حکم کے ماتحت ختم کرتا ہوں.خدا کرے آپ کے لئے اور دوسرے مبلغوں کے لئے یہ چند حروف مفید ہوں بلکہ جماعت کے لئے نفع بخش ہوں.وہاں کی جماعت کو میرا اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہ دیں اور کہہ دیں جسم دور ہیں لیکن دل آپ کی محبت سے سرشار ہیں اور میں آپ کو اپنے جسم کا حصہ سمجھتا ہوں اور مجھے آپ لوگ اسی طرح عزیز ہیں جس طرح یہاں کے لوگ.ہاں چاہتا ہوں ان کی طرح بلکہ ان سے بڑھ کر کیونکہ مومن کو ایمانی معاملات میں بڑھ بڑھ کر قدم مارنا چاہئے آپ لوگ دین کے سیکھنے میں کوشش کریں اور دین کی خدمت میں حصہ لیں اور اسلام کو اس کی روشن شکل میں دیکھیں اور دوسروں کو دکھا دیں.كَانَ اللَّهُ مَعَكَ اَيْنَ مَا كُنتَ وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ درمیانی شب 6, 7 جنوری 1923ء) خاکسار

Page 133

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 127 مرزا محمود احمد جلد اول (الفضل 25 جنوری 1923ء) 1 متی باب 22 آیت 21 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 2 مسلم كتاب الامارة باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين (الخ) صفحه 829 تا 831 حدیث نمبر 4784 تا 4793 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية 3:بخارى كتاب الصوم باب من اقسم على اخيه (الخ) صفحہ 316 حدیث نمبر 1968ء مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 134

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 128 جلد اول دشمن کی شرارت کا مقابلہ نہ کرو ماریں کھاؤ اور ہاتھ نہ اٹھاؤ 24 مارچ 1923ء کو جو دوسرا وفد علاقہ ارتداد کی طرف روانہ ہوا اس کو رخصت کرتے ہوئے موٹر پر سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: " کہتے ہیں کہ ے جب خدا دیتا ہے تب دیتا ہے چھپر پھاڑ کر انسان کوشش کرتا ہے مگر اس کو کچھ نہیں ملتا مگر جب اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو اپنے فضل.چھپر پھاڑ کر دیتا ہے.ابھی میں نے جب سورۃ فاتحہ کی تلاوت کی تو میرے دل میں ڈالا گیا کہ تم ہی مستحق ہو جو کہو کہ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ 1 جو لوگ آج سے پہلے ہمیں کہتے تھے کہ تم جہاد کے منکر ہو وہ جہاد سے محروم ہیں اور ی اللہ تعالیٰ نے ہمیں جہاد کا موقع دے دیا.وہ خدا کو ناراض کر کے جہاد کرنا چاہتے تھے محروم رہے.ہم خدا کے لئے اس جہاد کے منکر تھے جس کے وہ قائل تھے ہمیں اللہ تعالیٰ نے موقع دیا.اگر لوگوں کو زبردستی مارنا اور تلوار کا استعمال کرنا اسلام میں جائز ہوتا اور اس سے خدا خوش ہوتا تو میں خدا کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ ہمیں اپنی جان کی کچھ بھی پرواہ نہ ہوتی اور اگر سچائی کے خلاف ظالمانہ عمل خدا کو نعوذ باللہ پسند ہوتا تو ہم ضرور کرتے مگر ہمارے خدا کو یہ پسند نہ تھا اس لئے ہم وہ کرتے تھے.ہاں اب ہمیں اس قسم کے جہاد کا

Page 135

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 129 جلد اول موقع دیا گیا ہے کہ خدا کے دین کی حفاظت کی کوشش کریں اور وعظ ونصیحت سے دین پھیلائیں.جولوگ اس کام کے لئے جاتے ہیں اور ان کو اس خدمت کا موقع ملا ہے وہ خوش قسمت ہیں.یہ مت سمجھو کہ تم کسی خطرے میں جاتے ہو یا تم پر کوئی بوجھ ڈالا گیا ہے یا تم کوئی قربانی کرتے ہو.یہ اللہ ہی کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں یہ موقع دیا ہے اور ایسے مواقع خوش قسمتی سے نصیب ہوتے ہیں.جن کے دل میں یہ خواہش ہے وہ خوش نصیب ہوتے ہیں.ہم سے جو کام ہوتا ہے اس میں ہماری بڑائی نہیں یہ اللہ کا فضل ہے.آج وہ بھی تو لوگ ہیں جن کو حکومت کی اور لیڈری کی فکر ہے.ہم بھی انہی میں سے ہیں، ان کے بھائی بند ہیں، رشتہ دار ہیں.ان کے دلوں میں یہ بات نہیں جو تمہارے دلوں میں ہے.یہ محض اللہ کے فضل ہیں جنہوں نے ہمیں کو نواز دیا ورنہ ہم بھی وہی ہیں جو وہ ہیں.پس خدا کے حضور دعائیں کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اس کام کے لئے جاؤ یہ موقعے ہر روز نہیں ملا کرتے.میں نے پہلے بھی کہا ہے اب پھر کہتا ہوں کہ افسروں کی اطاعت کرنا خواہ کیسے سخت احکام ہوں اور تکلیف ہو.ایک صحابی کو رسول کریم ﷺ نے ایک جگہ بھیجا انہوں نے وہاں جا کر کہا کہ میں جو حکم دوں گا وہ کرنا ہوگا.جہاں جہاں جو افسر ہوں ان کی اطاعت ضروری ہے.بھائی جی ( حضرت مولوی شیخ عبدالرحیم صاحب) راستہ میں امیر ہیں.راستہ میں ہر ایک کام ان کے حکم کے ماتحت کرو.وہاں چودھری صاحب ہیں اور پھر ضرورت کے مطابق جس کو وہ مناسب سمجھیں گے افسر اور ماتحت بنائیں گے.تمہارا فرض ہوگا ہر ایک افسر کی اطاعت کرو.اس افسر کے حکم کو میرا حکم سمجھو اور میرا حکم خدا کا حکم سمجھو کیونکہ میں جو کچھ کہتا ہوں خدا کے دین کی خدمت کے لئے کہتا ہوں اپنے نفس کے لیے نہیں کہتا.پس افسروں کی پوری اطاعت کرو.جوشوں کو قابو میں رکھو.اگر تمہارے راستہ میں تکالیف آئیں تو نہ گھبراؤ تمہیں مخالف

Page 136

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 130 جلد اول ماریں یا جو چاہیں تکلیف پر تکلیف دیں تم صبر سے کام لو کہ اسی میں تمہاری فتح ہے.دشمن کی سختی کا نرمی سے جواب دو.ہمارے دل میں قانون کا ادب ہے اگر وہ لوگ فساد کریں گے تو ممکن ہے حکام کو دخل دینا پڑے اور پھر ہمارے لئے وقت ہو.ان لوگوں کیلئے وقت نہیں کیونکہ وہ وہاں کے رہنے والے ہیں، ان کی آبادی وہاں 80 فیصدی ہے.پس اگر وہاں فتنہ فساد ہو تو آریوں کے حق میں مفید ہوگا.ان کے آدمی وہیں کے ہیں وہیں رہیں گے.اس لئے تم ماریں کھاؤ صبر کرو.تم ماریں خدا کے لئے کھاؤ اور جواب نہ دو پھر خدا تمہاری مدد کرے گا.یہ چیز ہے جس سے فتح ہوتی ہے.روس کے ایک بادشاہ نے دربان کو حکم دیا کہ کسی کو اندر نہ آنے دو.ایک امیر جو بہت بڑا عہدہ رکھتا تھا آیا اور اس نے اندر جانا چاہا.دربان نے اسے روکا کہ بادشاہ کی طرف سے داخلہ کی ممانعت ہے.اس نے کہا تم مجھے جانتے ہو میں کون ہوں؟ دربان نے جواب دیا ہاں میں جانتا ہوں آپ فلاں ڈیوک ہیں.اس نے کہا کہ پھر کیوں روکتے ہو؟ اس نے جواب دیا اس لئے کہ بادشاہ کا حکم ہے.ڈیوک نے اسے مارنا شروع کیا.وہ مار کھاتا رہا.مار کر کہا ہٹ جاؤ.وہ ہٹ گیا.ڈیوک داخل ہونے لگا وہ دروازہ میں کھڑا ہو گیا.ڈیوک نے پھر مارنا شروع کیا.غرض تین چار دفعہ ایسا ہوا.بادشاہ نے یہ سب ماجرا دیکھا آخر کہا کہ یہ کیا ہے؟ ڈیوک نے غصہ سے بادشاہ کو کہا کہ دربان مجھ کو اندر آنے سے روکتا ہے.بادشاہ نے اس سے پوچھا تم جانتے ہو یہ کون ہے ؟ جواب دیا ہاں.پوچھا تو تم نے روکا ؟ عرض کیا ہاں.کیوں روکا؟ اس لئے کہ حضور کا حکم تھا اور بادشاہ کا حکم سب سے بڑا ہے.بادشاہ نے ڈیوک سے پوچھا اس نے کہا تھا کہ میں بادشاہ کے حکم سے روکتا ہوں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے تم اس کو مارو.ڈیوک نے کہا یہ نہیں مارسکتا کیونکہ مجھے فلاں فوجی عہدہ حاصل ہے.بادشاہ نے اس کو وہ عہدہ دے دیا اور کہا مارو.اس نے کہا کہ میں نواب ہوں محض ایک عہدیدار مجھے نہیں مارسکتا.بادشاہ نے کہا کونٹ ٹالسٹائے اسے مارو.

Page 137

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 131 جلد اول غرض اگر ایک دربان بادشاہ کا حکم ماننے کے باعث تھوڑی دیر مار کھانے سے معمولی دربان سے امیر اور نواب بن سکتا ہے تو کیا اگر ہم خدا کے لئے کوڑے کھائیں اور دشمنوں سے دیکھ دیئے جائیں اور پھر مقابلہ نہ کریں تو خدا ہمیں اجر نہیں دے گا ؟ ضرور دے گا.پس ماریں کھاؤ اور مارنے والوں کے لئے دعائیں کرو سختی کا جواب سختی سے نہ دو کہ یہ ہمارے اغراض کے منافی ہے.لوگوں میں روحانیت اور محبت سے اشاعت کرو، اللہ پر بھروسہ کرو، دعائیں کرو.دعا استخارہ داخلہ شہر میں پہلے بتا چکا ہوں.بھائی جی لکھ دیں گے جن کو یاد نہیں.اس دعا کا مفہوم یہ ہے کہ اے خدا! جو سات آسمانوں اور سات زمینوں کا رب ہے اور ان کا جو ان کے نیچے اور اوپر ہیں ہمیں یہاں کے شروں اور فقتوں سے بچا.یہاں نیکیوں کی محبت ہمارے دل میں ڈال اور ہماری محبت ان کے دل میں ڈال.یہاں کی کی برکتوں سے ہمیں حصہ دے.یہ مبارک اور جامع دعا ہے جس کا بارہا تجربہ ہوا.یہ دعا نہایت مفید ہے اس لئے اس دعا کو خاص طور پر پڑھا کرو.جب شہر میں داخل ہو علاوہ اپنے کام کے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کرو جو دیگر ممالک میں تبلیغ کر رہے ہیں اور ان کے لئے جو کسی مجبوری کے باعث فی الحال نہیں جا سکے.جو کمزور ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریاں دور کرے.قاعدہ ہے کہ جب عزیز جدا ہوں تو تحفہ دیا جاتا ہے.میں نے سوچا کہ کیا تحفہ ہونا چاہئیے ؟ میرے خاندان کے لوگوں نے 43 روپے بطور صدقہ دیئے ہیں جو راستہ میں خیرات بھی کئے جائیں اور وہاں کی بعض خاص دینی ضروریات میں بھی صرف کئے جائیں.“ اس پر موجودہ احباب نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس میں حصہ لیا.یہ رقم دوسو روپیہ کے قریب ہو گئی جو امیر وفد کے سپر د کر دی گئی.(الفضل 2، اپریل 1923ء) 1: الفاتحة : 2

Page 138

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 132 جلد اول آگرہ جانے والے تیسرے تبلیغی وفد کو ہدایات 14 اپریل 1923ء کو آگرہ جانے والے تیرے تبلیغی وفد کو حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے بوقت رخصت جو ہدایات فرمائیں وہ درج ذیل ہیں.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہمیشہ مامور و مرسل ایسے لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو ادنی اور کمزور سمجھے جاتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے.وہ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ لوگ کہیں کہ فلاں مذہب کو فلاں بادشاہ کی وجہ سے ترقی مل گئی.اگر انبیاء علیہم السلام بادشاہوں میں سے ہوتے تو لوگ کہتے کہ ان کی وجہ سے اور ان کے اثر سے لوگ مان گئے اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی قدرت نمائی نہ ہوتی.اسی طرح انبیاء علیهم السلام کی جماعتوں کی ترقی بھی غیر معمولی سامانوں سے ہوتی ہے.جس وقت دنیا سمجھتی ہے کہ اب یہ تباہ ہوئے اب برباد ہوئے وہی وقت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے سامان پیدا کرتا ہے.ابھی تھوڑے دن ہوئے کہ خلافت کا شور زور پر تھا.لوگ ہم کو کہتے تھے کہ نادانی سے مخالفت کرتے ہیں اور ساری دنیا سے لڑتے ہیں جلد تباہ ہو جائیں گے اور جب ان لوگوں کی مخالفت حد کو پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کر دیئے اور سب لوگوں کی توجہ ایک ایسے کام کی طرف پھیر دی جس میں سوائے ہمارے اور کوئی اتر ہی نہیں سکتا.تقریریں کرنا اور ہے اور اخلاص سے کام کرنا اور ہے یہ کام مامور کی جماعت کے سوا اور کوئی نہیں کر سکتا.خدا کے مامور روح پھونکتے ہیں ہمت پیدا ہوتی ہے ، اس میں شبہ نہیں

Page 139

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 133 جلد اول کہ لوگ دنیا کے لئے بھی قربانی کرتے ہیں.اس کی بہت سی مثالیں ہیں.لوگ قید ہوتے ہیں، مال چھوڑتے ہیں تا کہ لیڈر کہلائیں.جو بات اللہ کی جماعت میں ہوتی ہے وہ اخلاص ہوتا ہے جس کے سبب سے ان کے کام میں برکت ڈالی جاتی ہے اور وہ تھوڑے ہو کر غالب ہو جاتے ہیں.وہ تھوڑی قربانی کرتے ہیں مگر چونکہ اخلاص سے کرتے ہیں اس کے لئے اللہ تعالیٰ اس کو شمر ور بنا دیتا ہے.دنیا میں چھوٹی جماعتیں اگر بڑی قربانی کرتی ہیں تو گو وہ مقابلہ کے وقت دنیا پر اپنی دھاک بٹھا دیتی ہیں مگر فنا ہو جاتی ہیں.صرف نام پیدا کر لیتی ہیں کام نہیں کر سکتیں.لیکن مامور کی جماعت تھوڑے کام سے کامیاب ہوتی ہے.رسول کریم ﷺ کے صحابہ قربانی کرتے تھے تو اس کے نتیجے بہت بڑے بڑے نکلتے تھے.ان کے ساتھ جو مد دتھی وہ اللہ سے تھی.ہماری جماعت سے جو قربانیاں ہوتی ہیں گو بڑی ہیں مگر دشمن کے مقابلہ میں کچھ حیثیت نہیں رکھتیں.ہم میں سے اگر ہزار کا ہزار بھی قربانی کرتا ہے اور ان میں سے سو میں سے ایک تب بھی وہ زیادہ ہوتے ہیں.غیر احمدیوں کے مولوی ہزاروں ہیں.اگر صرف مولوی ملاں ہی جمع کئے جائیں تو ان کی تعداد ہماری جماعت سے کہیں بڑھ کر ہو.ہمارے سب مل کر بھی خواہ وکیل ہوں، بیرسٹر ہوں ، ڈاکٹر ہوں یا دوسرے لوگ ان کی تعداد کو نہیں پہنچ سکتے مگر پھر بھی ان کی خدمات کا وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو ہمارا نکلتا ہے کام سارے کرتے ہیں.امریکہ میں مسلمان لاکھوں ہیں.عرب ہیں جن کی زبان میں قرآن کریم نازل ہوا جن میں رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے وہ کام کرتے ہیں ان کا کوئی اثر نہیں کوئی غلبہ نہیں.لیکن اکیلا مفتی محمد صادق چلا جاتا ہے تو تمام امریکہ میں شور پڑ جاتا ہے.اگر کوئی کہے کہ مفتی صاحب سارا وقت لگاتے ہیں.وہ سارا وقت نہیں خرچ کرتے.لیکن وہ تو لاکھوں ہیں اگر ایک ایک منٹ بھی صرف کریں تو بھی مفتی صاحب کے وقت سے کہیں بڑھ کر بن سکتا ہے.پس یہ وجہ نہیں کہ وہ کام نہیں کرتے کام تو کرتے ہیں مگر اخلاص نہیں.گو کام زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ ایک مفتی کو ان پر فوقیت مل جاتی ہے.

Page 140

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 134 جلد اول ا صلى الله اصل بات یہ ہے کہ خدا کے فضل سے کام ہوتے ہیں خدا تعالیٰ کی مدد ہو تو کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکتا.جب کام خدا کی رضا کے لئے ہو تو خدا تعالیٰ نصرت کرتا ہے اور باوجود دشمن کے طاقتور ہونے کے انسان غالب آجاتا ہے.رسول کریم مہ جب مدینہ تشریف لے گئے اور ابھی آپ کے پاس حکومت نہ تھی جو کہ بعد میں ایک رنگ کی حکومت تھی اس وقت کسری کے پاس آپ کی شکایت کی گئی کہ یہ شخص ایران کو تباہ کر دے گا.وہ بادشاہ ظالمانہ خیال کا تھا اس نے فورآئین کے گورنر کے نام حکم لکھا کہ پیشتر اس کے کہ یہ شخص ترقی کرے اور ہمیں تکلیف ہو اس کو میرے حضور حاضر کر دو.گورنر نے چند سپاہی مدینہ کو روانہ کئے اور ان سے نبی کریم ﷺ کے پکڑ لانے کے لئے کہہ دیا.وہ لوگ آئے اور آ کے دیکھا کہ نہ وہاں کوئی بادشاہ ہے اور نہ بادشاہت کے نشان بلکہ یہ شخص تو ہر وقت خدا پرستی میں لگا ہوا ہے.انہوں نے اپنے بادشاہ کا پیغام پہنچا دیا.آپ نے فرمایا کہ کل جواب دوں گا.وہ چلے گئے دوسرے دن آئے اور کہا کہ کیا جواب ہے؟ آپ نے فرمایا تم کس کے پاس مجھے لے جانا چاہتے ہو چلے جاؤ ! میرے خدا نے تمہارے خدا کو آج رات قتل کر دیا ہے.انہوں نے کہا ہم آپ کو بطور نصیحت کہتے ہیں کہ ایسا نہ کریں ورنہ تمام عرب کی شامت آ جائے گی اور یہ اچھا نہ ہو گا، آپ چلے چلیں.آپ نے فرمایا نہیں بس میرا یہی جواب ہے تم جاؤ اور یہ پیغام پہنچا دو.وہ واپس گئے گورنر کو اطلاع دی کہ اس نے یوں جواب دیا ہے.گورنر نے کہا کہ یہ بات تو کامل وثوق سے کہی گئی ہے اگر ایسا ہی ثابت ہوا تو میں اس کے پر ایمان لے آؤں گا.اور اگر نہیں تو میں ڈرتا ہوں کہ کیا انجام ہو.انتظار کرو کیا ہوتا ہے.تھوڑی مدت گزری تھی کہ ایک جہاز ایران سے آیا ( درمیانی علاقہ چونکہ ایران کے ماتحت نہ تھا اس لئے ان کے یمن سے تعلقات بذریعہ جہاز تھے ) اور گورنر کے نام ایک خط لایا.اس نے مہر دیکھی تو اور ہی تھی.کھولا تو اس کے اندر لکھا تھا کہ میرے باپ نے عرب کے ایک شخص کی نسبت ظالمانہ حکم دیا کہ اس کو گرفتار کر لو.اور اسی طرح اس کی اور ظالمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہم نے اس کو قتل کر دیا ہے اب ہم بادشاہ ہیں تم کو بحال

Page 141

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 135 جلد اول رکھتے ہیں تم سب لوگوں سے ہماری اطاعت کا اقرار لو.جب اس کے قتل کی تاریخ دیکھی گئی تو وہی رات تھی جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا.1 ایران کے مقابلہ میں عرب کچھ بھی نہ تھا اس میں شبہ نہیں کہ اگر وہ بادشاہ زندہ رہتا تو حل الله آنحضرت مہ کے ساتھیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.مگر خدا تعالیٰ کا مقابلہ تھا جس کے مقابلہ میں وہ بادشاہ ایک مچھر یا پٹو کے برابر بھی نہ تھا لہذاوہ ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا.جن کے ساتھ نصرت ہوتی ہے کوئی نہیں جو ان کا مقابلہ کر سکے.جو صداقت پر یقین رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کے لئے اپنے کرشمہ دکھلاتا ہے اور ہر میدان میں ان کی نصرت کرتا ہے.وہ کبھی بزدل نہیں ہوا کرتے.بہت ہیں جو ایمان کا دعوی کرتے ہیں مگر وقت پڑنے پر بزدلی دکھا جاتے ہیں.یاد رکھو ایمان اور بزدلی کبھی جمع نہیں ہو سکتی.جس طرح دن اور رات جمع نہیں ہو سکتے.دن اور رات تو صبح یا شام کے وقت مل جاتے ہیں مگر ایمان اور بزدلی اس طرح بھی نہیں مل سکتے.مومن بزدل نہیں ہوتا.مومن کسی میدان سے نہیں ڈرتا.اگر مارا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟ یہی تو ہوتا ہے کہ ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جایا جاتا ہے.ضرار بن از ور ایک بہادر جرنیل تھے.خالد کے بعد ان کا درجہ ہے.ان کا نام اتنا مشہور نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اکثر خالد کی سپہ سالاری میں تلوار چلایا کرتے تھے.لیکن بہت جرار تھے اور خالد ان کو اپنا دایاں بازو سمجھا کرتے تھے.ایک عیسائی جرنیل سے مقابلہ ہو رہا تھا اس نے بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا تھا ( اس زمانہ میں پہلے ایک ایک کی لڑائی ہوتی تھی پھر فوج کی ) جب آپ اس کے مقابلہ میں گئے تو فوراً بھاگ کر خیمہ میں چلے گئے.عیسائیوں نے تالیاں بجانا اور نعرے لگانا شروع کیا کہ اتنا بڑا جرنیل بھاگ گیا.مسلمانوں میں ماتم پڑ گیا اور صحابہ گھبرا رہے تھے کہ کیا ہو گیا.ایک صحابی ضرار کے پیچھے گئے خیمہ میں چونکہ عورتیں تھیں اس لئے وہ صحابی باہر کھڑے رہے.ضرار باہر نکلے تو

Page 142

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 136 جلد اول ان کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی.صحابی نے کہا ضرار ! آج کیا ہوا تھا تم نے اسلام کی بہت ہتک کرائی ہے.ضرار نے جواب دیا عام طور پر میں ننگے بدن لڑا کرتا ہوں لیکن آج اتفاقاً میں نے دو زرہ پہنی ہوئی تھیں.میں جو میدان میں گیا تو دل نے کہا اے ضرار ! کیا تو نے اس کا فر کو بہا در دیکھ کر دوز رہیں پہنی ہیں؟ کیا تو خدا کی ملاقات سے ڈرتا ہے؟ اس لئے میں بھاگتا ہوا آیا اور زرہ اتار کر اب لڑنے جارہا ہوں.- دیکھو ان لوگوں میں اتنی خشیت تھی حالانکہ جان کر نہیں پہنا تھا مگر پھر بھی اتنی احتیاط تھی.ان لوگوں میں ایسے ایسے کمزور بھی ہوتے تھے کہ یوں دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے.آنحضرت ﷺ کے کاتب وحی بہت دبلے آدمی تھے.اگر کوئی ہاتھ پکڑ لے تو کچھ نہیں کر سکتے تھے.مگر بہادر ایسے کہ صفوں کی صفیں الٹ دیتے تھے اور دشمنوں کو تہ تیغ کر دیتے تھے.دل کے لحاظ سے جو طاقت ہوتی ہے وہ اصل طاقت ہوتی ہے.مومن اگر مر گیا تو بھی خدا تعالیٰ کا انعام پا گیا اور اس کی رحمت کا وارث ہو گیا اور اگر جیتا رہا تو کامیاب بھی ہوا اور خدا کا انعام بھی حاصل کر لیا.منافق لوگ مومنوں کی موت کی خواہش کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم احدی الْحُسْنَيَنِ 2 کی امید کرتے ہو.کامیاب ہوئے تب بھی حسنی اور مارے گئے تب بھی حسنی.نیکی ہی نیکی ہے.تیسری کوئی چیز مومن کے لئے نہیں ہوتی.یا کامیابی یا موت.آپ لوگ جو تبلیغ کو جارہے ہیں تو یاد رکھیں کہ دشمن زیادہ ہیں.تعداد کے لحاظ سے ان کے سو کے مقابلہ میں ہمارا ایک آدمی آتا ہے.وہ سختی کریں گے کیونکہ تم ان کے گھروں میں جا رہے ہو.اور بار بار کہیں گے کہ ہم تمہاری بات نہیں سنتے اور نہ یہ بات ہم پر اثر کرتی ہے.مگر یا درکھو کہ مومن ایسی باتوں سے ڈر نہیں جاتا.اگر بے دین اور گمراہ لوگوں کے ایسے قول کچھ حیثیت رکھتے تو رسول کریم سے جس دن مبعوث ہوئے تھے اسی دن سے تبلیغ چھوڑ دیتے اور گھر میں بیٹھ رہتے.کیونکہ کفار نے بڑے زور سے کہہ دیا تھا کہ ہم تیری باتیں سننے کے لئے ہرگز تیار نہیں.لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ نے ایسا نہیں کیا اور باوجود ان کے انکار پر اصرار

Page 143

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 137 جلد اول کے آپ نے اپنے کام کو نہیں چھوڑا.یہی وجہ ہے کہ ایک دن وہ سب گردنیں جھکا کر آگئے.عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ ایک زمانہ وہ تھا کہ جب مجھے رسول کریم ہی ہے.کر قابل نفرت اور آپ سے زیادہ بدتر کوئی نظر نہ آتا تھا.میں نہیں چاہتا تھا کہ ایک چھت مجھے اور آپ کو جمع کرے.میں پسند نہیں کرتا تھا کہ میں اور آپ ایک زمین پر رہیں.اور میں آپ کے چہرہ کو بسبب نفرت دیکھ نہ سکتا تھا.لیکن پھر ایک وہ زمانہ آیا کہ مجھے آپ جیسا محبوب ہی کوئی نظر نہ آتا تھا.اور آپ کی محبت کا رعب اتنا تھا کہ میں آپ کو نظر بھر کر دیکھ نہ سکا.اب آج اگر کوئی مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھے تو میں ہر گز بتا نہیں سکتا.3 دیکھو اتنی عداوت والا انسان کس قدر محبت میں ترقی کرتا ہے کہ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا تو کیا ہوسکتا ہے کہ جو تم کو ایک دفعہ کہہ دے کہ ہم تمہاری بات نہیں سنتے تم اس کو چھوڑ دو؟ ہر گز نہیں.تم جبر سے سناؤ ( ڈنڈے، سونے کا جبر نہیں) اور اپنے دل میں ان کی محبت پیدا کرو تا ان کی اندرونی محبت جوش مارے اور وہ تم سے آ کر لپٹ جائیں.لبید ایک بڑے شاعر تھے ساری عمر آپ نے عورتوں کے حسن کی تعریف اور اونٹنیوں کی کی تعریف میں ہی لگا دی تھی لیکن جب قرآن کریم کو پڑھا اور اس کی محبت دل میں پیدا کی ہوئی تو ایسی کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کسی افسر کو لکھا کہ اپنے علاقہ کے شاعروں کا کلام بھیجو ( حضرت عمرؓ کو شعر بہت پسند تھے ) اس علاقہ میں ایک لبید اور ایک اور شاعر تھے.افسر نے دونوں کو بلایا اور خلیفہ کا حکم سنا کر کہا کہ اپنا اپنا کلام پیش کرو.دوسرے شاعر نے تو ایک قصیدہ تیار کیا.لبید پہلے تو انکار کرتے رہے جب اس نے بہت اصرار کیا تو آپ نے کہا اچھا لو سنو.الم ذلِكَ الْكِتُبُ 4 الخ اس نے کہا یہ کیا ؟ یہ تو قرآن کریم ہے تم شعر سناؤ.انہوں نے کہا بس مجھے تو یہی کلام آتا ہے، یہی شعر ہے، یہی نثر ہے.اس نے کہا خلیفہ کا حکم ہے تم کو سنانا ہوگا.انہوں نے پھر وہی پڑھ دیا.دو تین دفعہ جب ایسا ہوا تو اس نے کہا کہ سناؤ ورنہ میں تمہارا وظیفہ کاٹ دوں گا.انہوں نے کہا بے شک کاٹ دو.مجھے اب اور کلام آتا ہی نہیں صرف یہی آتا ہے.انہوں نے ان کا وظیفہ کاٹ دیا اور

Page 144

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 138 جلد اول دوسرے کے نام کر دیا اور حضرت عمرؓ کو سارا واقعہ لکھ دیا.آپ نے افسر کو ڈانٹا اور لکھا کہ تم نے بڑا ظلم کیا ہے جو کچھ اس نے سنایا تھا وہی اصل کلام تھا.چاہئے تھا کہ تم اس کے عشق کی قدر کرتے کہ ساری عمر تو شعروں میں گنوائی مگر کلام حق سے سب کچھ جاتا رہا.تم اس کا وظیفہ بحال کر دو اور اس کے اخلاص کی قدر کرو.5 جب ایسے واقعات ہوتے ہیں تو یہ مت خیال کرو کہ جو لوگ کہیں کہ ہم تم سے نفرت کرتے ہیں، تمہاری بات نہیں سنتے وہ کبھی تمہاری نہیں مانیں گے.یاد رکھو کوئی جماعت ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس میں وہ لوگ شامل نہ ہوں جو اس جماعت کو بدترین جماعت سمجھتے ہوں اور نفرت کرتے ہوں کیونکہ جتنے وہ عداوت میں بڑھے ہوئے ہیں اتنے ہی اخلاص میں ترقی کریں گے اور خدمت دین کے لئے بھی اتنی ہی ہمت دکھلائیں گے.دشمن کی باتیں سنو گھبراؤ نہیں ، ہمت نہ ہارو کیونکہ دشمن آخر مغلوب ہو گا.تم اپنے افسر کی پوری اطاعت کرو اور اس کا حکم مانو.مجھے تمہارے متعلق کبھی خبر نہ پہنچے کہ تمہیں کسی جگہ لگایا گیا اور تم وہاں سے آگئے.لوگوں کو جبر اسناؤ.ان کے آگے پیچھے پھرو.ماریں کھاؤ اور سناؤ.منہ پھیر لیں دوسری طرف سے ہو کر سناؤ.اور سناؤ یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جو پاک فطرت ہیں اور حقانیت کو پورے طور پر قبول کر لیں.لوگوں کی مخالفت سے نہ ڈرو.خدا تعالیٰ کو سامنے رکھو تم ہی فاتح ہو گے.آخر کار دشمن کا دل جھک جائے گا.دیکھو برسات کا ٹھنڈا پانی گرم معدہ میں جا کر کیا ٹھنڈک پہنچاتا ہے اور یہی پانی پہاڑوں میں غاریں بنا لیتا ہے.جتنی غاریں تمہیں نظر آتی ہیں یہ سب پانیوں نے بنائی ہیں اور ان کے راستے ہیں.تو کیا خدا کا کلام ہی ایسا ہے جو اپنا رستہ نہ بنائے گا.اگر واقعہ میں تم خدا کے لئے جاتے ہو اور خدا کے کلام کے حامل ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ تمہاری باتیں اثر نہ کریں.اور کلام الہی ان لوگوں کے دلوں کو مصفانہ کر دے.ہمت و استقلال.کام کرو اور دعاؤں میں لگ جاؤ.ان نصائح پر عمل کرو جو میں نے چودھری فتح محمد صاح

Page 145

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 139 جلد اول کو لکھ کر دی ہیں ان کو روزانہ پڑھا کرو اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو.اگر ان کے مطابق عمل کرو گے تو کلام میں اثر اور کام کے اعلی نتائج نکلیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.اس کے بعد دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور جو ان سے پہلے گئے ہیں اُن کے بھی ساتھ ہو.خدا ان کے اخلاص میں اور اخلاق میں، کام میں ، ہمت میں برکت ڈالے اور ان کو کامیاب اور مظفر و منصور کرے.آمین.“ دعا کے بعد فرمایا:.” میں نے پچھلے دوستوں کو بھی نصیحت کی تھی آپ کو بھی کرتا ہوں کہ گاؤں میں داخل ہونے کی دعا یاد کرو اور شہر میں داخل ہونے سے پہلے کم از کم تین دفعہ پڑھ لیا کرو.ریل میں بھی پڑھ لو کیونکہ وہ بھی ایک قسم کا شہر ہی ہوتا ہے.ہر ایک چیز کی مشق ہوتی ہے تم اپنے کام کی ریل سے ہی مشق کرنی شروع کر دو.اخلاق سے کام ہوتا ہے اس لئے ہر ایک سے خوش خلقی سے پیش آؤ.کھانے پینے کی توقع نہ کرو.ان سے محبت کرو.اور محبت کو لے کر ان کی تبلیغ کے لئے جاؤ.تب ان میں بھی محبت جوش مارے گی اور وہ تمہاری باتیں سنیں گے اور تمہارے اخلاق کے تیروں سے گھائل ہو جائیں گے اور تمہاری محبت ان میں محبت پیدا کرے گی.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ ایک نہایت ہی خوبصورت بچہ ہے جو سنگ مرمر کے اوپر کھڑا ہے اور ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے ہے.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ پریوں کی طرح کی ایک عورت ہے جو اوپر سے آ رہی ہے اور آ کر اس بچے کو جو حضرت عیسی ہیں اور وہ مریم ہیں بڑی محبت سے اپنے ساتھ لگا لیتی ہے.تو اس وقت بے اختیار میرے منہ پر جاری ہوا Love creats love پس تم جب کسی جگہ داخل ہو تو فلاسفر کی طرح داخل نہ ہو بلکہ ایک دردمند دل لے کر جاؤ اور اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی حالت پر رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہو کر شہر میں داخل ہو.فلسفیانہ رنگ کو چھوڑ کر جاؤ.دل اخلاص سے پُر اور زبان محبت اور خوش خلقی سے تر ہو.ہزار دلیل کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا محبت کی ایک بات کا ہو جاتا ہے.

Page 146

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 140 جلد اول بچہ ماں باپ کے کہنے سے ہندو مذہب اختیار کر لیتا ہے کیونکہ اس کے دل میں ان کی محبت اور ان کے دل میں اس کی محبت ہوتی ہے.لیکن تم ہزار دلیل بھی ہندو مذہب کے جھوٹا ہونے کی دو وہ تمہاری نہیں مانیں گے.محبت سے کلام میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور لوگ پھر ان کی سننے لگتے ہیں.انبیاء کے دلوں میں لوگوں کی محبت بہت ہوتی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 6 پس تم کسی گاؤں میں جاؤ تو تمہارے دل ان کی محبت سے بے تاب ہوں اور تم کو چین نہ آئے تب پھر تمہاری بات اثر کرے گی.رستہ میں ، ریل میں خوش خلقی سے پیش آؤ.کوئی بوڑھا مسافر ہے تکلیف میں ہے جگہ نہیں تم اس کو جگہ دے دو تا کہ یہیں سے تم کو مشق ہو اور ایثار کرنے کا مادہ پیدا ہو.لوگ ایک دوسرے مسافر پر سختی کرتے ہیں ان کو سمجھاؤ اور ہر طرح لوگوں کو فائدہ پہنچاؤ تا خدا کی نصرت تمہارے ساتھ ہو اور تم ہی کامیاب اور کامران ہو.راستہ میں بابو جمال الدین صاحب پنشنز امیر ہوں گے.وہاں چودھری فتح محمد صاحب ہیں وہ جہاں لگائیں وہیں لگنا اور پوری فرمانبرداری کرنا.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو.(الفضل 12 را پریل 1923ء) آمین.1: تاریخ طبری جلد 3 صفحہ 247 تا 249 مطبوعہ بیروت 1987ء 2: التوبة : 52 3: مسلم کتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله (الخ ) صفحه 65،64 حدیث نمبر 321 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 4: البقرة : 32 5 : اسد الغابہ جلد 4 صفحہ 132 مطبوعہ بیروت 2006 ء الطبعة الاولیٰ میں اس واقعہ کا اجمالی ذکر ہے.6: الشعراء: 4

Page 147

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 141 جلد اول ہدایات برائے مبلغین اسلام 21 / اپریل 1923ء کو انسداد ارتداد کے جہاد میں شامل ہونے والوں کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 52 زریں ہدایات رقم فرما ئیں جو بعد میں ایک ٹریکٹ کی شکل میں شائع کی گئیں.وہ ہدایات حسب ذیل ہیں :.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ـ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مکرمی ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چونکہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ انسداد فتنہ ارتداد کے لئے وقف کیا ہے میں چند ہدایات اس کام کے متعلق آپ کو دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے افسروں کے احکام کے ماتحت پوری طرح ان ہدایات پر عمل کریں گے.وہ ہدایات یہ ہیں.(1) اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے نیک نیت اور محض اِبْتِغَاءَ لِوَجْهِ اللهِ اس کام کا ارادہ کریں.(2) گھر سے نکلیں تو دعا کرتے ہوئے اور رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ قَ أَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَ اجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا 1 کہتے ہوئے نکلیں اور بہت استغفار کرتے جائیں کہ خدا تعالی کمزوریوں پر پردہ ڈال کر خدمت دین کا کوئی حقیقی کام لے لے.(3) سورۃ فاتحہ اور درود کا بہت درد رکھیں.نمازوں کے بعد تشبیح تجمید اور تکبیر ضرور کریں اور

Page 148

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 142 جلد اول کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ذکر الہی کریں کہ ایسے اوقات میں یہ نسخہ نور قلب پیدا کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے.(4) الف.بھاشا کے الفاظ سیکھنے اور ان کے استعمال کرنے کی طرف خاص توجہ کریں کہ تبلیغ کا آلہ زبان ہے.زبان نہ آتی ہو تو تبلیغ بے اثر ہو جاتی ہے.پس بھاشا جوان لوگوں کی زبان ہے اس کے سیکھنے کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے.اس میں جس قدر کوشش کریں گے اسی قدر تبلیغ زیادہ مؤثر ہوگی اور جس قدر تبلیغ مؤثر ہوگی اسی قدر ثواب کا موقع ملے گا.ب.اسی طرح جس قوم سے مقابلہ ہو اس کے مذہب اور طریق سے پوری واقفیت نہ ہو تو مقابلہ مشکل ہوتا ہے.پس اگر آریوں کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو مرکز سے ان کے متعلق ضروری معلومات اور حوالوں کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کر لیں اور اسلام پر ان کے اعتراضوں کے جواب بھی اور ان کو بار بار پڑھ کر یاد کرتے رہا کریں.(5) راستہ میں لوگوں سے ہر گز فخریہ طور پر باتیں نہ کرتے جاویں.فخر انسان کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے اور سیاستا بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے.دشمن کی توجہ اس طرف پھر جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتا ہے.(6) اگر پہلے سے آپ کی جگہ مقرر ہے تو جو جگہ مقرر ہے اس جگہ جا کر مبلغ سے چارج با قاعدہ لے لیں اور اس سے سب علوم ضرور یہ حاصل کر لیں.اور اگر جگہ مقرر نہیں تو پھر مرکز میں جا کر افسر اعلیٰ سے ہدایات حاصل کریں.(7) جس قصبہ میں داخل ہوں جس وقت وہ نظر آوے مندرجہ ذیل مسنون دعا کم سے کم تین دفعه خشوع اور خضوع سے پڑھیں نہایت مجرب اور مفید ہے.اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا اَظْلَلْنَ وَرَبَّ الْأَرْضِينَ السَّبْعِ وَمَا أَقْلَلْنَ وَرَبِّ الشَّيَاطِينَ وَمَا أَضْلَلْنَ وَرَبِّ الرِّيَاحِ وَمَا ذَرَيْنَ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ

Page 149

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 143 جلد اول خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَخَيْرَ أَهْلِهَا وَخَيْرَ مَا فِيْهَا وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِ هذِهِ الْقَرْيَةِ وَشَرِّ أَهْلِهَا وَ شَرِّ مَا فِيهَا.اَللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا وَارْزُقْنَا جَنَاهَا وَحَبِّيْنَا إِلَى أَهْلِهَا وَحَبِّبُ صَالِحِى أَهْلِهَا إِلَيْنَا آمِين - كم سے کم تین دفعہ سمجھ کر یہ دعا مانگو.رسول کریم اللہ سے یہ مروی اور میرا اس کے متعلق وسیع تجربہ ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.اے اللہ ! جو سات آسمانوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن پر یہ سایہ کئے ہوئے ہیں.اور جو ساتوں زمینوں کا رب ہے اور ان کے کا بھی جن کو یہ اٹھائے ہوئے ہیں اور شیطانوں کا بھی اور ان کا بھی جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں اور ہواؤں کا بھی اور ان چیزوں کا بھی جن کو وہ اڑاتی ہیں ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی طلب کرتے ہیں اور اس کے باشندوں کی بھلائی بھی طلب کرتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی بھی جو اس میں پائی جاتی ہے.اور ہم اس بستی کی ہر ایک برائی سے پناہ مانگتے ہیں اور اس بستی میں رہنے والوں کی برائی سے بھی پناہ مانگتے ہیں اور بستی کی ہر ایک بری شے سے پناہ مانگتے ہیں.اے خدا! اس بستی میں ہمارے قیام کو با برکت کر اور اس کی نعمتوں اور بارشوں سے ہمیں متمتع کر.اور ہماری محبت اس جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈال اور ہمارے دل میں اس جگہ کے نیک لوگوں کی محبت پیدا کر.(8) سفر سے نکلتے ہی اپنے پاس ایک پاکٹ بک رکھیں جس میں سب ضروری امور لکھتے چلے جاویں.کم سے کم دو کارڈ اور ایک لفافہ اور پنسل و چاقو بھی ہر وقت ساتھ رہیں.(9) جس حلقہ میں کام کرنا ہے وہاں پہنچتے ہی ان امور کو دریافت کریں.(1) وہ کسی ضلع میں ہے.(2) کسی تحصیل میں ہے.(3) وہ کس تھانہ میں ہے.(4) اس کا ڈاک خانہ کہاں ہے.(5) اس میں کوئی مدرسہ بھی ہے یا نہیں.(6) اس میں کوئی شفا خانہ بھی ہے یا نہیں.(7) اس ضلع کا ڈپٹی کمشنر کون ہے اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیسا ہے.(8) اس تحصیل کے تحصیل دار، نائب تحصیل دار کون ہیں اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں.(9) اس تھانہ میں تھانیدار

Page 150

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 144 جلد اول اور اس کے اوپر انسپکٹر کون ہے.اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں.(10) اس گاؤں میں اگر پولیس مین مقرر ہے تو وہ کون ہے اور اس کے اخلاق اور اس کا معاملہ کیسا ہے.(11) اس کے پوسٹ آفس کا انچارج کون ہے اور چٹھی رساں کون ہے.اور ان کا طریق اس تحریک شدھی میں کیسا ہے.(12) ڈاک وہاں کتنی دفعہ دن یا ہفتہ میں آتی ہے.(13) مدرس کون لوگ ہیں اور وہ اس تحریک میں کیا حصہ لیتے ہیں.(14) ڈاکٹر کون ہے اور اس تحریک میں کیا حصہ لیتا ہے.(15) اس میں کوئی مسجد ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو امام ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ (10) حلقہ کا افسر ڈپٹی کمشنر سے تحصیل کا انچارج تحصیلدار سے، تھانہ کا انچارج تھانہ دار سے ملنے کی کوشش کرے اور بغیر اپنے کام کی تفصیل بتائے اس کی دوستی اور ہمدردی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.مذکورہ بالا دوسرے لوگوں سے بھی اپنے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کرے.یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر نقصان یا فائدہ چھوٹے لوگوں سے جیسے پولیس مین، چٹھی رساں وغیرہ سے پہنچ سکتا ہے اس قدر بڑے لوگوں سے نہیں پہنچ سکتا.(11) جس گاؤں میں جائے اس کے مالک اور نمبردار اور پٹواری کا پتہ لے.اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے اور ان سے مدد کی درخواست کرے.مگر یہ بات صاف صاف کہہ دے کہ مدد سے مراد میری چندہ نہیں بلکہ اخلاقی اور مشورہ کی مدد ہے تا کہ وہ پہلے ہی ڈر نہ جائے.اگر کوئی شخص مالی مدد دینا بھی چاہے تو شروع میں مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ابھی آپ مجھ سے اور ہمارے کام سے واقف نہیں.جب واقف ہو کر اسے مفید سمجھیں گے اور ہم لوگوں کو دیانتدار پاویں گے تب جو مدد اس کام کے لئے آپ دیں گے اسے ہم خوشی سے قبول کر لیں گے.اگر وہ غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے تعلقات دنیا وی پیدا کی

Page 151

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 145 کرنے کی کوشش کرے کہ میل ملاقات کا بھی ایک لحاظ ہوتا ہے.جلد اول (12) کوئی مالی مدد دے تو اسے اپنی ذات پر نہ خرچ کرے بلکہ اس کی رسید با قاعدہ دے اور پھر اصل رسید مرکزی حلقہ سے لا کر دے تا لوگوں پر انتظام کی خوبی اور کارکنوں کی دیانتداری کا اثر ہو.(13) سادہ زندگی بسر کرے اور اگر کوئی دعوت کرے تو شرم اور حیا سے کھانا کھا دے.کوئی چیز خود نہ مانگے اور جہاں تک ہو سکے دعوت کرنے والوں کو تکلف سے منع کرے اور سمجھا دے کہ میری اصل دعوت تو میرے کام میں مدد کرنا ہے.مگر مستقل طور پر کسی کے ہاں بلا قیمت ادا کرنے کے نہ کھاوے.(14) دورہ کرتے وقت جو جو لوگ اسے شریف نظر آویں اور جن سے اس کے کام میں کوئی مددل سکتی ہے ان کا نام اور پتہ احتیاط سے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کرے تا بعد میں آنے والے مبلغوں کے لئے آسانی پیدا ہو.(15) جن لوگوں سے اسے واسطہ پڑتا ہے خصوصاً افسروں ، بڑے زمینداروں یا اور دلچسپی لینے والوں کے متعلق غور کرے کہ ان سے کام لینے کا کیا ڈھب ہے.اور خصوصیت سے اس امر کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرے کہ کس کس میں کون کون سے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں جن کے ابھارنے سے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.(16) جن لوگوں سے کام لیتا ہے ان میں سے دو ایسے شخصوں کو کبھی جمع نہ ہونے دو جن میں آپس میں نقار ہو.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ہوشیاری سے دریافت کر لو کہ ان معززین کی آپس میں مخالفت تو نہیں؟ اگر ہے تو کس کس سے ہے؟ جن دو آدمیوں میں مقابلہ اور نقار ہو ان کو اپنے کام کے لئے کبھی جمع نہ کرو.بلکہ ان سے الگ الگ کام لو.اور کبھی ان کو محسوس نہ ہونے دو کہ تم ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ تعلق رکھتے ہو.تمہاری نظر میں وہ سب برابر ہونے چاہئیں.اور کوشش کرو کہ جس طرح ہو سکے ان کا نقار دور کر کے ان کو کلمہ واحد پر

Page 152

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) اسلام کی خدمت کے لئے جمع کردو.146 جلد اول (17) جس جگہ جاؤ وہاں کے لوگوں کی قوم ، ان کی قومی تاریخ اور ان کی قومی خصوصیات ، ان کی تعلیمی حالت، ان کی مالی حالت اور ان کی رسومات کا خوب اچھی طرح پتہ لو اور پاکٹ بک میں لکھ لو.اور جہاں تک ہو سکے ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھو کہ جن باتوں کو وہ نا پسند کرتے ہیں وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہ آویں.(18) جس قوم میں تبلیغ کے لئے جاؤ اس کے متعلق دریافت کر لو کہ اس میں سے سب سے زیادہ مناسب آدمی کون سا ہے جو جلد حق کو قبول کر لے گا.اس سے پہلے ملو.پھر اس سے اس رئیس کا پتہ لو جس کا لوگوں پر سب سے زیادہ اثر ہے.پھر اس سے ملو اور اسی کی معرفت پہلے قوم کو درست کرنے کی کوشش کرو.(19) جب کسی قوم میں جاؤ تو پہلے یہ دیکھو کہ اس قوم کو ہندو مذہب سے کون کون سی مشارکت ہے اور اسلام سے کون کون سی مشارکت ہے اور ان کو اپنی کاپی میں نوٹ کر لو.پھر ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر جو ان میں اسلام کی ہیں ان میں اسلام کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان اسلامی مسائل کی خوبی پر خاص طور پر زور دو جن پر وہ پہلے سے کار بند ہیں اور جن کے وہ عادی ہو چکے ہیں.(20) جب ایسی جگہ پر جاؤ جہاں کے لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جو اسلام کی کھلی تبلیغ کو بھی سننا پسند نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو جاتے ہی کھلے طور پر تبلیغ نہ کرنے لگو بلکہ مناسب ہو تو اپنا مقصد پہلے ان پر ظاہر ہی نہ کرو.اگر کوئی پوچھے تو بے شک بتا دو مگر خود اپنی طرف سے کوئی چر چا نہ کرو کیونکہ اس طرح ایسے لوگوں میں ضد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.(21) الف.اردگرد کے مسلمانوں کو یہ باتیں سمجھانے کی کوشش کرو کہ مسلمانوں کی عدم ہمدردی اور سختی سے یہ لوگ تنگ آکر اسلام کو چھوڑ رہے ہیں.اسلام کی خاطر آپ لوگ اب ان سے اچھی طرح معاملہ کریں اور خوش اخلاقی اور احسان سے پیش آدیں.اور

Page 153

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 147 جلد اول سمجھا ئیں کہ ان کا ہندو ہونا نہ صرف ہمارے دین کے لئے مضر ہوگا بلکہ اس کا یہ نتیجہ بھی ہوگا کہ ہندو آگے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کو سخت نقصان | پہنچا ئیں گے.ب.یہ بھی سمجھا ئیں کہ اس فتنہ کو سختی سے نہیں روکا جا سکتا اور سختی سے روکنے کا فائدہ بھی کچھ نہیں.پس چاہئے کہ محبت کی دھار سے ان کی نفرت کی کھال کو چیرا جائے اور پیار کی رسی سے ان کو اپنی طرف کھینچا جائے.(22) وہ لوگ غیر تعلیم یافتہ ہیں.پس کبھی ان سے علمی بحثیں نہ کرو بالکل چھوٹی موٹی باتیں ان سے کرو.موٹی موٹی باتیں یہ ہیں.آریہ مذہب کے بانی نے کرشن جی کی (جن کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں اور ان سے شدید تعلق رکھتے ہیں ) جو بڑے بزرگ تھے ، ہتک کی ہے.نیوگ کا مسئلہ خوب یاد رکھو اور ان کو سمجھاؤ کہ تم راجپوت ہو کر ایسی تعلیم کے پیچھے جا سکتے ہو.مرکز میں ستیارتھ پرکاش رہے گی اگر حوالہ مانگیں تو دکھا سکتے ہو.ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے آباء واجداد کو ز بر دستی مسلمان کر لیا گیا تھا.ان سے کہو که راجپوت تو کسی سے ڈرتا نہیں.یہ بالکل جھوٹ ہے اس بات کو ماننے کے تو یہ معنے ہوں گے کہ تمہارے باپ دادا راجپوت ہی نہ تھے.کیا اس قد رقوم راجپوتوں کی اس طرح دھرم کو خوف یا لالچ سے چھوڑ سکتی تھی ؟ کہو کہ یہ بات برہمنوں نے راجپوتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بنائی ہے.پہلے ان لوگوں نے تمہاری زمینوں کو سود سے تباہ کیا اب یہ لوگ تمہاری قومی خصوصیت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں.یہ بنے تو اپنے ایمان پر قائم رہے اور تم راجپوت بہادر ہو کر بادشاہوں سے ڈر گئے ؟ یہ جھوٹ ہے.تمہارے باپ دادوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا تھا.ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی قوم سے آملو.ان کو سمجھاؤ کہ لاکھوں راجپوت مسلمان ہو چکے ہیں.پس اگر ملتا ہے تو یہ ہند و مسلمان ہو کر تم سے مل جاویں.اور یہ ملاپ کیسا

Page 154

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 148 جلد اول ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر دور کے تعلق والوں سے جاملو.ان کو بتاؤ کہ کرشن جی کی ہم مسلمان تو مہما کرتے ہیں اور ان کو اوتار مانتے ہیں لیکن آریہ ان کی ہتک کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں.تمہارے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور الگ کچھ اور کہتے ہیں.ان کو یہ بتاؤ کہ ہند و تو تم کو ہندو کر کے بھی چھوت چھات کرتے ہیں اور کریں گے.چند لوگ لالچ دلانے کو تمہارے ساتھ کھا پی لیتے ہیں ورنہ باقی قوم تم سے برتاؤ نہیں کرے گی.چاہو تو چل کر اس کا تجربہ کر لولیکن مسلمان تم کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں.ان کو بتاؤ کہ یہ آریہ جو آج تم کو چھوت چھات کی تعلیم دیتے ہیں دوسری جگہوں میں جا کر نیچ قوموں میں شدھی کرتے اور چماروں کو ساتھ ملاتے ہیں.اس کے حوالے یاد رکھو.( جیسے جموں میں شدھی ہو رہی ہے ) لیکن ایسی طرز پر بات نہ کرو کہ گویا تم چھوت چھات کے قائل ہو بلکہ اس بات کا اظہار کرو کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں.ان کو بتاؤ کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں.اس کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ سود کی شرح محدود کر دی جائے اور قانون انتقال اراضی پاس کیا جائے مگر ہندو اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں ان دونوں قانونوں کو اچھی طرح سمجھ لو ) ان دونوں باتوں کا ان کو فائدہ سمجھاؤ اور کہو کہ ان کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو آریہ یا ہند و آئے اسے کہو کہ اگر تم سچ مچ ہمارے خیر خواہ ہو تو یہ دونوں قانون پاس کر اؤ پھر ہم سمجھیں گے کہ تم ہمارے خیر خواہ ہو.(23) اپنے دل کو پاک کر کے اور ہر ایک تکبر سے خالی کر کے بیماروں اور مسکینوں کے لئے دعا کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور سنے گا انشاء الله - میں بھی اِنْشَاء الله تمہارے لئے دعا کروں گا تا خدا تعالیٰ تمہاری دعاؤں میں برکت دے.(24) اپنی زبان کو اس بات کا عادی بناؤ کہ ان بزرگوں کو جن کو فی الواقع ہم بھی بزرگ ہی

Page 155

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 149 جلد اول سمجھتے ہیں ایسے طریق پر یاد کر و جوادب اور اخلاص کا ہو.(25) کھانے پینے ، پہننے میں ایسی باتوں سے پر ہیز کرو جن سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے.الگ جو چاہو کرو لیکن ان کے سامنے ان کے دل کو تکلیف دینے والی بات نہ کرو کہ علاوہ تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے یہ بداخلاقی بھی ہے.(26) ہر ایک کام تدریجی طور پر ہوتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ وہ ایک دن میں پکے مسلمان ہو جائیں گے.جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوں گے.پس یک دم ان پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں.تین چار ماہ میں خود ہی درست ہو جائیں گے.پہلے تو صرف اسلام سے محبت پیدا کرو اور نام کے مسلمان بناؤ.مگر یہ بھی نہ کرو کہ اسلام کی کوئی تعلیم ان سے چھپاؤ کیونکہ اس سے بعد میں ان کو ابتلا آوے گا یا وہ ایک نیا ہی دین بنالیں گے.(27) لباس وغیرہ ان کے جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دو اور ابھی چوٹیاں منڈوانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.یہ باتیں ادنیٰ درجہ کی ہیں.جب وہ پکے مسلمان ہو جائیں گے خود بخود ان سب باتوں پر عمل کرنے لگیں گے.(28) جس جگہ پر جاؤ وہاں خوش خلقی سے پیش آؤ اور بے کسوں کی مدد کرو اور دکھیاروں کی ہمدردی کرو کہ اچھے اخلاق 100 واعظ سے بڑھ کر ہوتے ہیں.(29) جس جگہ کی نسبت معلوم ہو کہ وہاں کسی شخص کو مناسب مدد دے کر باقی قوم کو سنبھالا جاسکتا ہے تو اس کی اطلاع افسر حلقہ کو کر دمگر یاد رکھو کہ اس طرف نہایت مجبوری میں توجہ کرنی چاہئے.جب کوئی چارہ ہو ہی نہیں اسی صورت میں یہ طریق درست ہو سکتا ہے.مگر خود کوئی وعدہ نہ کرو نہ کوئی امید دلاؤ.امداد کس رنگ میں دی جا سکے گی؟ یہ افسروں کی ہدایت میں درج ہوگا اس معاملہ کو افسر حلقہ کے سپر در ہنے دو.(30) کھانے پینے ، پہننے میں بالکل سادہ رہیں اور جس جگہ افسر حلقہ مناسب سمجھے وہاں کا مقامی لباس پہن لیں.اور جس جگہ وہ مناسب سمجھے ایک چادر ہی پہن لو.اگر

Page 156

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 150 جلد اول ضرورت ہو تو گیر دارنگ دلوالو.یادرکھو کہ لباس کا تغیر اصل نہیں.لباس کا تغیر اسی وقت برا ہوتا ہے جب انسان ریاء کے لئے یا کسی قوم سے مشابہت کی غرض سے پہنتا ہے.تمہارا تغیر لباس تو عارضی ہو گا اور جنگ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہو گا.پس تمہارا طریق قابل اعتراض نہیں ہوگا کیونکہ تم سادھو یا فقیر یا صوفی کہلانے کے لئے ایسا طریق اختیار نہیں کرو گے اور چند دن کے بعد پھر اپنا لباس اختیار کر لو گے.اس لباس کی غرض تو صرف دشمن اسلام کے حملہ کا جواب دینا ہوگی.(31) کبھی اپنے کام کی رپورٹ لکھنے اور پھر اس کو دفتر حلقہ میں بھیجنے میں ستی نہ کرو.یاد رکھو کہ یہ کام تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے.جب تک کام لینے والوں کو پورے حالات معلوم نہ ہوں وہ ہرگز کام کو اچھی طرح نہیں چلا سکتے.پس جو شخص اس کام میں ستی کرتا ہے وہ کام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے.(32) دشمن تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کی تدابیر کو اختیار کرے گا.تمہاری ذراسی بے احتیاطی کام کو صدمہ پہنچا سکتی ہے.پس فتنہ کے مقام سے دور رہو اور ایسی مجلس میں نہ جاؤ جس میں کوئی تہمت لگ سکے.کسی شخص کے گھر میں نہ جاؤ جب تک تجربہ کے بعد ثابت نہ ہو جائے کہ وہ دشمن نہیں دوست ہے.کھلے میدان میں لوگوں سے باتیں کرو.(33) غصہ کی عادت ہمیشہ ہی بری ہے مگر کم سے کم اس سفر میں اس کو بالکل بھول جاؤ.کسی وقت غصہ میں آکر ایک لفظ بھی سخت تمہارے منہ سے نکل گیا یا تم کسی کو دھمکی دے بیٹھے یا کسی کو مار بیٹھے تو اس کا فائدہ تو کچھ بھی نہیں ہو گا مگر آریہ لوگ اس کو اس قدر شہرت دیں گے کہ ہمارے مبلغوں کو ان کے حملوں کے جواب دینے سے فرصت نہ ملے گی اور سلسلہ کی سخت بدنامی ہوگی.پس گالیاں سن کر دعا عملاً دو.اور جوش دلانے والی بات کو سن کر سنجیدگی سے کہہ دو کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم تمہیں اس کا جواب دینے سے مانع ہے.تم پھر بھی اس کے خیر خواہ ہی رہو.اپنے مخالف سے بھی کہو کہ

Page 157

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 151 جلد اول تم اس کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم باوجود اس کی عداوت کے اس کے خیر خواہ ہو کیونکہ تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر فرمایا ہے.اگر کوئی مار بھی بیٹھے تو اس کی پرواہ نہ کرو.یاد رکھو کہ لوگ بزدل کو حقیر جانتے ہیں اور وہ فی الواقع حقیر ہے.لیکن تکلیف اٹھا کر صبر کرنے والا اور اپنے کام سے ایک بال کے برابر نہ ہٹنے والا بزدل نہیں وہ بہادر ہے.بزدل وہ ہے جو میدان سے بھاگ جاتا یا اپنی کوششوں کوست کر دیتا ہے.جو مار کھاتا اور صبر کرتا اور اپنے کام کو جاری رکھتا ہے وہی درحقیقت بہادر ہے.کیونکہ بہادری کا پتہ تو اسی وقت لگتا ہے جب اپنے سے طاقتور کا مقابلہ ہو اور پھر بھی انسان نہ گھبرائے.(34) میں نے بار بار آہستگی کی تعلیم دی ہے.اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مہینوں اور برسوں میں کام کرو بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم بقدم چلو.جب قدم مضبوط جم جائے تو پھر دوسرے قدم کے اٹھانے میں دیر کرنا اپنے وقت کا خون کرنا اور اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے.اگر گھنٹوں میں کام ہوتا ہے تو گھنٹوں میں کرو.اگر منٹوں میں کام ہوتا ہے تو منٹوں میں کرو.صرف یہ خیال کرلو کہ اس کی رفتار ایسی تیز نہ ہو کہ خود کام ہی خراب ہو جائے یا آئندہ کام پر اس کا بداثر پڑے.(35) ایسے علاقوں میں رات نہ گزارو جہاں فتنہ کا ڈر ہو.اگر وہاں رات بسر کرنی ضروری ہو تو شہر میں نہ رہو.شہر سے باہر کسی پرانے مکان یا کسی جھونپڑے میں یا پاس کے کسی گاؤں میں رہو.صبح پھر وہیں آ جاؤ.یہ بزدلی نہیں حکمت عملی ہے.(36) اس عرصہ میں اگر پرانے ہندوؤں کو تبلیغ کر سکو تو اس موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دو.مگر سوائے ان لوگوں کے جن کا کام بحث کرنا مقرر کیا گیا ہے دوسرے لوگ بحث کے کام میں حصہ نہ لیں بلکہ فردا فردا اور الگ الگ تبلیغ کریں.(37) ارد گرد کے ہندوؤں کے خیال معلوم کر کے جو شدھی کے برخلاف ہوں ان میں بھی غیر معلوم طور پر اس تحریک کے خلاف جوش پیدا کرنے کی کوشش کرو.

Page 158

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 152 جلد اول (38) یہ کوشش کرو کہ شدھی ہونے والے راجپوتوں پر ثابت ہو جائے کہ ہندو قوم بحیثیت قوم ان کے ساتھ اپنے لوگوں والا برتاؤ کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اور کسی تدبیر سے ایسے لوگوں کو جو اس بات کو دیکھ کر شدھی کی بے ہودگی کو سمجھ سکیں ان لوگوں سے ملا ؤ جو شدھی شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار نہیں.(39) ان ظلموں اور شرارتوں کی یا جبر کی خوب خبر رکھو جو آریہ لوگ شدھی کے لئے کرتے ہیں.اور جہاں جہاں ایسی مثالیں معلوم ہوں ان کا پورا حال معلوم کر کے گواہوں اور مخبروں کے نام سمیت اپنے حلقہ کے دفتر میں ضرور اطلاع دو.اس سے اس کام میں بہت مددمل سکتی ہے.اگر کسی جگہ کے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہاں آریوں نے بندوقیں اور تلوار میں لے کر جمع ہوتا ہے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس کی اطلاع ضرور قبل از وقت دفتر کو دو تا کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے.(40) راجپوت یا دیگر اقوام جن میں شدھی ہو رہی ہے ان میں سے اسلام کا در درکھنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ ان سے دوستی اور تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے رہو.(41) محنت سے کام کرو اور وقت کو ضائع نہ ہونے دو.دن میں کئی کئی گاؤں کی خبر لے لینی چاہئے.چلنے پھرنے کی عادت ڈالو اور کم ہمتی کو پاس نہ آنے دو.(42) ہدایت زریں میرا لیکچر تبلیغ کے طریق پر ہے.وہ حلقوں میں اور صدر میں رکھا ہوا ہو گا اس کو خوب اچھی طرح پڑھ لو کیونکہ اس میں تبلیغ کے متعلق بعض عمدہ گر جو اس جگہ درج نہیں ہیں ملیں گے.(43) بعض شعر جن میں آریہ مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی اور بعض نظمیں مسائل کے متعلق اپنے پاس رکھو اور گاؤں کے چند نو جوان لوگوں کو یاد کرا دو.پھر بار بار ان سے بلند آواز سے پڑھوا کر وہ سنو.اس سے ان میں جوش پیدا ہوگا.(44) اصل چیز جوار تداد سے روک سکتی ہے وہ روحانیت ہے.پس ان میں سنجیدگی اور قناعت

Page 159

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 153 جلد اول کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ اس کے بغیر سب کوششیں رائیگاں ہیں.(45) جہاں تک ہو سکے ان کو زائد وقت میں تعلیم دینے کی کوشش کرو.لفظ لفظ پڑھ کر بھی انسان کچھ عرصہ میں پڑھ جاتا ہے.وہ اردو جانے لگیں تو اس سے بھی اس فتنہ کا بہت حد تک ازالہ ہو جائے گا.(46) ایسے تمام علاج جو مقامی واقفیت سے ذہن میں آویں ان سے اپنے حلقہ کے افسر کو اطلاع دو تا کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.(47) ایسے نوجوان جو ذہین ہوں اور تعلیم کا شوق رکھتے ہوں اور تعلیم کی خاطر چند دنوں کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہوں ان کی تلاش رکھو اور پتہ لگنے پر ان کے نام اور کی پتہ اور جملہ حالات سے افسر حلقہ کو اطلاع دو.(48) جس بات کو مخفی رکھنے کے لئے کہا جائے اس کو پوری طرح مخفی رکھو.حتی کہ بلا اجازت اپنے آدمیوں پر بھی ظاہر نہ کرو کہ ایسا کرنا بد دیانتی اور سلسلہ کی خیانت ہے.(49) آریوں کے طریق عمل اور ان کے مبلغوں کی نقل و حرکت اور ان کے انتظام کا نہایت ہوشیاری اور غور سے مطالعہ کرو.اور جب کوئی بات اس کے متعلق معلوم ہو تو فوراً اس کے متعلق افسر حلقہ کو اطلاع دو.اس امر میں ستی تبلیغ کے لئے مضر اور اس میں کوشش تبلیغ کے لئے بہت مفید ہوگی.(50) مجھے خط براہ راست آپ لکھ سکتے ہیں مگر یہ خط رپورٹ نہیں سمجھا جائے گا.رپورٹ وہی سمجھی جائے گی جو افسروں کے توسط سے مجھ تک آئے گی.(51) اس عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت کیا تھا یا اب اس تحریک کے وقت کیا ہے.اور ان ہدایات کو بار بار پڑھتے رہیں اور پوری طرح پہلا سر مو کے فرق کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ اس میں آپ کا مددگار ہو.(52) جب دوسرے بھائی کو چارج دیں تو ان تمام لوگوں سے اس کو ملا دیں جو واقف ہو چکے

Page 160

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 154 جلد اول ہیں اور جن سے کام میں مدد ملنے کی امید ہے.اور ان لوگوں سے آگاہ کر دیں جن سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے.اور سارے علاقہ کی پوری خبر اس کو دیں اور اپنی نوٹ بک سے وہ سب باتیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں اس کو نقل کروا دیں تا کہ وہ بغیر محنت کے کام کو آگے چلا سکے.اور ایک دفعہ ساتھ مل کر اس کو دورہ کرا دیں.پھر دعاؤں پر زور دیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا واپس آ جاویں.اور آنے سے پہلے اپنے حلقہ کے مرکز میں آ کر رپورٹ کریں کہ میں فلاں شخص کو چارج دے چکا ہوں اور جو معلومات وہ چاہیں ان کو بہم پہنچا کر اور ان کی اجازت سے مع الخیر واپس ہوں.خدا آپ کے ساتھ ہو.والسلام خاکسار میرزا محمود احمد خلیه اسیح الثانی قادیان دارالامان ضلع گورداسپور.21 اپریل 1923ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس ربوہ 25 دسمبر 1964ء) 1 بنی اسرائیل: 81

Page 161

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 155 جلد اول احمدی مجاہدین سے خطاب 20 جون 1923 ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے احمدی مجاہدین کو جن زریں ہدایات سے نوازاوہ حسب ذیل ہیں.تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.آج سے تین مہینہ پہلے ہم لوگ اسی راستہ پر اس پہلے وفد کو چھوڑنے آئے تھے جو علاقہ ملکانہ میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوا تھا.ان لوگوں کی کیا حالت تھی اور کیا ہوئی ، ان پر کیا گزری ، انہوں نے کیا کام کیا اس کے متعلق چند ہدا یتیں دینے کے بعد ذکر کروں گا.پہلے چند ہدایتیں دینا چاہتا ہوں جن کا یا درکھنا آپ لوگوں کے لئے ضروری ہے.پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ کوئی ہدایت مفید نہیں ہو سکتی جب تک اس پر عمل نہیں کیا جاتا.قرآن کریم میں ساری ہدا یتیں ہیں لیکن اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے مفید نہیں بلکہ قرآن نقصان دہ ہو رہا ہے.اس لئے نہیں کہ قرآن میں کوئی نقص آ گیا ہے بلکہ اس لئے کہ لوگ خراب ہو گئے اور اس کی طرف توجہ نہیں رہی.مصر کے ایک عالم نے لوگوں کی حالت پر تمسخر کرتے ہوئے اور یہ بتانے کے لئے کہ لوگ کس طرح قرآن شریف کو مانتے ہیں لکھا ہے کہ یورپ کے لوگ کہتے ہیں قرآن کا کوئی فائدہ نہیں مگر ان کو کیا معلوم ہے قرآن کے بڑے فوائد ہیں.دیکھو یہ فائدہ کیا کم ہے کہ ساری عمر قرآن نہ پڑھو لیکن جب مرجاؤ تو قبر پر قرآن پڑھا جاتا ہے.پھر یہ کیا کم فائدہ ہے کہ اسے خوبصورت غلافوں میں لپیٹ کر زینت کے طور پر گھر میں رکھا جاتا ہے اور جب کوئی شخص کسی غلط بات کو نہ مانتا ہوں تو اس کو جھوٹی بات کا یقین دلانے کے لئے قرآن کو ہاتھ میں لے کر یقین دلایا جاتا ہے.تو کی اس طرح قرآن با وجود مفید ہونے کے لعنت کا طوق ہو گیا.یہ بہترین چیز تھی مگر اس کے غلط

Page 162

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 156 جلد اول استعمال سے نقصان ہو رہا ہے.اسی طرح دیکھو رسول کریم نے بشارت عظمیٰ تھے مگر کن کے لئے ؟ ان کے لئے جو مانتے ہیں مگر ابو جہل کے لئے تو بشارت نہ تھے اس کے لئے آپ انذار تھے.پس ہدایت وہی مفید ہو سکتی ہے جو عمل میں آئے لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ نصائح مزے لینے کے لئے پڑھتے ہیں اور اس پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ان نصیحتوں کو کس طرح اپنی روزانہ زندگی پر وارد کر سکتے ہیں.آپ لوگوں کو کچھ ہدایتیں مطبوعہ دی گئی ہیں ، کچھ زبانی سنادی گئی ہیں یا سمجھا دی جائیں گی ان سب کے مطابق اپنی زندگی بناؤ.اگر تم ان ہدایتوں کے مطابق کام کرو گے تو انشاء اللہ کامیاب ہو گے.بہت سے لوگ الفاظ کو پڑھتے ہیں اور ان پر سے یونہی گزر جاتے ہیں غور نہیں کرتے کہ ان کے نیچے کون سے معنے ہیں.وہ الفاظ کو دیکھتے ہیں مگر ان کے معنوں کو نہیں دیکھتے.تم الفاظ کو پڑھو، ان کے مطلب کو سمجھو اور ان مطالب کو اپنی زندگی کے اوپر حاوی کرو.بہت سی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں مگر اپنے اندر بہت سے معانی رکھتی ہیں اور ان کے بڑے اثرات ہوتے ہیں.میں جب چھوٹا بچہ تھا تو یہ پڑھ کر حیران ہوتا تھا کہ نیوٹن 1 نے جو کام کیا ہے اسے بڑا کیوں کہا جاتا ہے.نیوٹن نے کشش ثقل معلوم کی تھی.وہ باغ میں بیٹھا ہوا تھا کہ اس نے دیکھا ایک سیب شاخ سے گرا ہے.اس نے غور کیا کہ یہ سیب اوپر جانے کی بجائے نیچے کی طرف کیوں آیا ہے؟ اسی امر پر غور کرتے کرتے اس نے کشش ثقل کا پتہ لگا لیا.مجھے جب بڑے ہو کر معلوم ہوا کہ اس دریافت سے علوم میں لا انتہاء ترقی ہوئی ہے تو نیوٹن کی دریافت کی قدر معلوم ہوئی.اس بات کی دریافت سے علوم کی ترقی ہزاروں گنی ہوگئی ہے.دیکھو بات معمولی تھی مگر اس کے اثرات کتنے اہم ثابت ہوئے.دوسری ہدایت یہ ہے کہ مومن بزدل نہیں ہوتا چونکہ ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ فساد نہ کرو اس لئے خیال آتا ہے کہ بعض لوگوں میں بزدلی نہ پیدا ہو جائے.یاد رکھو کہ مومن وسط میں رہتا ہے.ایک ہوشیار عورت وہ نہیں جو خاوند کے یہ کہنے پر کہ آج کھانے میں نمک زیادہ ہے دوسرے وقت بالکل پھیکا کھانا پکا لائے.اس پر تو وہ ضرور یہ کہے گا کہ کھانا پھیکا

Page 163

جلد اول زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 157 ہے اور اس وقت عورت کا یہ کہنا فضول ہوگا کہ پہلے کہتے تھے نمک زیادہ ہے اب کہتے ہیں کم ہے.کیونکہ خاوند نے جب زیادہ نمک معلوم کیا تو زیادہ کہا اور جب کم معلوم کیا تو کم کہا.پس جس طرح عورت کا اعتراض غلط ہے اسی طرح ” فساد نہ کرو.“ کی تعلیم سے یہ نتیجہ نکالنا کہ بزدلی اختیار کرو غلط ہے.فساد نہ کرو“ کے صرف یہ معنے ہیں کہ بلا وجہ لڑائی میں نہ پڑو لیکن اگر دین کے لئے جان دینے کی بھی ضرورت ہو تو اس وقت جان دینا ذلت اور فساد نہیں ہوگا.کیا صحابہ فسادی تھے کہ ضرورت کے وقت جان دے دیتے تھے ؟ نہیں.پس یا د رکھو کہ چونکہ ایثار و قربانی کے بغیر کبھی ترقی حاصل نہیں ہو سکتی.اس لئے کبھی کسی خطرے اور کسی بڑی سے بڑی قربانی سے نہ ڈرو.آپ کبھی فساد نہ کھڑا کر وہاں اگر ایسے سامان ہو جائیں کہ جان کا خطرہ ہو تو جان کی پرواہ بھی نہ کرو.ایسی حالت میں اپنی جگہ سے نہ ہٹنے پر خدا تمہاری حفاظت کرے گا.بعض حالات میں غلطی سے لوگوں سے ایسا فعل سرزد ہوا ہے جس کا خواہ وہ کچھ نام رکھیں مگر وہ بزدلی نظر آتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے.یاد رکھو بہادری کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نکلتا ہے اور بزدل کوئی کام نہیں کر سکتا.کسی جماعت اور کسی قوم نے ترقی نہیں کی جب تک اس نے بزدلی کو چھوڑ کر بہادری سے کام نہیں لیا.انگریزوں کو دیکھو جنگلوں اور پہاڑوں میں بیس بیس سال گزار دیتے ہیں.ایک امریکن نے ہمیں سال جنگل میں اس لئے گزار دیئے کہ وہ بندروں کی زبان دریافت کرے اور یہ معلوم کرے کہ آیا ان کے محض اشارے ہوتے ہیں یا ان اشاروں کے کچھ معنی بھی ہوتے ہیں.چنانچہ میں سال بندروں میں رہنے سے اس نے دریافت کیا کہ بندروں کی بھی زبان ہے.جب ایک می ہیں سال محض اس غرض کے لئے جنگلوں اور بندروں میں گزار دیتا ہے کہ ان کی زبانی دریافت کرے تو کیا ہم خدا کے دین کی حفاظت اور تبلیغ کے لئے تین ماہ جنگلوں میں بسر نہیں کر سکتے.وہ لوگ خواہ کچھ بھی ہوں مگر بندروں سے زیادہ تو غیر جنس نہیں.خص تیسری نصیحت یہ ہے کہ تم اپنے افسروں کی کامل اور مکمل فرمانبرداری اختیار کرو خواہ تم اپنے آپ کو افسر سے اعلیٰ سمجھو لیکن اس کی اطاعت اسی طرح کرنی ہوگی جس طرح ایک

Page 164

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 158 جلد اول بادشاہ کی ایک چوڑھا اور چمار کرتا ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کرو کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اس کی پرواہ نہ کرو کہ افسرادنی ہے اور تم اعلیٰ ہو یا جو کام تمہیں دیا گیا ہے وہ ادنی ہے کیونکہ جو کام خدا کے لئے کرتا ہے اس کی شان نہیں کم ہوتی بلکہ خدا اس کو اٹھاتا ہے.پس کسی کام کو دنیا نہ سمجھو اور کبھی افسر کی اطاعت سے منہ نہ موڑو یہاں تک کہ اپنی مدت گزار کر واپس آ جاؤ.وہاں رہو، اطاعت کرو اور ہر ایک کام کرو جس کا تمہیں افسر حکم دے.چوتھی نصیحت یہ ہے کہ لوگوں سے باتیں کرنے اور ملاقات کرنے کی عادت ڈالو.یہ نہ ہو کہ ایک مقام پر مہینوں پڑے رہو اور وہاں کے لوگوں سے ملاقات بھی نہ کر سکو.بعض دوست جو بہت لائق تھے مخلص بھی تھے اور دین سے واقف بھی تھے محض کم گوئی کے باعث لوگوں سے میل جول نہ بڑھا سکے.اس کے مقابلہ میں یہاں کے ایک مستری ہیں جو پڑھے لکھے تو واجبی ہیں مگر ان کو یہ فن آتا ہے کہ ایسے طریق پر آریوں وغیرہ سے گفتگو کرتے ہیں کہ دشمن خاموش ہو جاتا ہے.ایک مقام پر ہمارے ایک دوست مقیم تھے وہاں ایک مولوی صاحب گئے اور جس مسجد میں ہمارے دوست مقیم تھے اس کے مصلے پر کھڑے ہو گئے کہ نماز پڑھائیں.ہمارے دوست نے ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی.اس پر مولوی صاحب نے شور مچا دیا کہ یہ کافر ہے اس نے ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھی.دوسرے گاؤں میں جب ہمارے ان مستری صاحب کو معلوم ہوا تو انہوں نے نہایت معقولیت سے موٹے طریق پر اس بات کو اس طرح لوگوں کے ذہن نشین کر دیا کہ مولوی صاحب کو حق ہی نہ تھا کہ وہ اس مسجد میں آکر نماز پڑھاتے جب کہ اس جگہ کا امام موجود تھا.اسی طرح جس گاؤں میں وہ مقیم ہیں وہاں کچھ آریہ پر پچر (preacher) بھی گئے وہ کسی ضرورت سے گاؤں سے باہر گئے ہوئے تھے.جب آریوں نے گفتگو کرنی چاہی تو گاؤں والوں نے کہا کہ ہمارے ایک بھائی ہیں جو باہر گئے ہوئے ہیں وہ آلیس جو وہ فیصلہ کریں گے اسی کے مطابق ہم عمل کریں گے.ادھر گاؤں والوں نے ان کو بلوایا.انہوں نے آکر پہلے تو کھانے وغیرہ کے متعلق آریوں سے پوچھا اور پھر گفتگو کرنی چاہی.

Page 165

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 159 جلد اول آریوں نے کہا کہ مولوی صاحب! یہ برادری کا معاملہ ہے آپ ہی ان کو سمجھائیں کہ مان جائیں.ان کا ایک بھائی باہر گیا ہوا ہے وہ آئے تو ہم اپنی برادری کو ملالیں گے اور ہم ان سے اس بات کی معافی لیں گے کہ آج تک ہم نے ان کو اپنے سے علیحدہ رکھ کر ان پر ظلم کیا.مستری صاحب نے ملکانوں کو کہا کہ وہ آپ کے بھائی صاحب کہاں گئے ہیں ان کو بلاؤ تا کہ پنڈت جی کی بات پر غور کریں.ملکانوں نے کہا وہ بھائی تو آپ ہی ہیں اور اس پر انہوں نے صحیح فیصلہ کیا.آگے بحث لمبی ہے اس کے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.غرض یہ میل ملاپ کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے ملکانوں پر یہ اثر پیدا کر لیا ہے خواہ وہ کتنے ہی دور بھاگنے والے لوگ ہوں ان کو آہستہ آہستہ میل ملاپ کے ذریعہ درست کر لیا جا سکتا ہے.پانچویں نصیحت یہ ہے کہ بار بار مرکز کو نہ چھوڑو.اجنبیت یا لوگوں کی بے رخی وغیرہ سے گھبرانا فضول ہے.ساری عمر میں سے یہ صرف 90 دن ہیں جو دین کے لئے وقف کئے گئے ہیں.اگر ان کو بھی یونہی کھو دو گے تو پھر یہ فعل کس طرح پسندیدہ ہو سکتا ہے.ہاں جو پاس کے گاؤں ہوں ان میں ضرور جاؤ لیکن بغیر خاص حکم یا نہایت اشد ضرورت کے اپنے مرکز کو ہرگز نہ چھوڑو.میری چھٹی نصیحت یہ ہے کہ جس گاؤں میں تم متعین ہو اس کے اردگرد کے گاؤں کو بھی اپنا ہی علاقہ سمجھو.ہمارے پاس اتنے آدمی نہیں کہ ہر ایک چھوٹے بڑے گاؤں میں ایک ایک مبلغ لگا دیں اس لئے تم جس مرکزی گاؤں میں مقیم ہو اس کے اردگرد علاقوں میں ضرور جاؤ.اگر اس گاؤں میں کوئی کام نہ ہو تو سیر کے لئے ہی چلے جاؤ اور وہاں کے متعلق واقفیت بہم پہنچاؤ.ساتویں نصیحت یہ ہے کہ چونکہ وہاں پر آریوں کے ایجنٹ ہیں جو مبلغوں کو غفلت میں ڈال کر اپنا کام کرنا چاہتے ہیں اس لئے ان سے بالخصوص ہوشیار رہو.تم کسی پر اگر خدا کے لئے شبہ کرو گے تو ثواب کے مستحق ہو گے اور وہ شخص اگر بدنیت نہیں ہوگا نیک ہوگا تو اس کو اس لئے ثواب ہوگا کہ اس پر خدا کے لئے شبہ کیا گیا.

Page 166

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 160 جلد اول میری آٹھویں نصیحت یہ ہے کہ دعاؤں پر خصوصیت سے زور دو جو کام دعا سے ہوسکتا ہے وہ اور کسی ذریعہ سے نہیں ہو سکتا.دوست و آشنا جدا ہوں گے مگر خدا جدا نہ ہوگا.ایک میاں اور بیوی خواہ ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے ہوں اور بیوی کے پیٹ میں قولنج کا درد ہو تو قبل اس کے کہ وہ اپنے خاوند کو اطلاع دے اس کی دعا کو خدا سنے گا اور اس کی تکلیف کو دور کر دے گا.کیونکہ وہ علیم ہے.اس نے اپنے علم سے وہ سامان کر رکھے ہیں جو اس مرض کو دور کر سکتے ہیں.پس خدا سے دعا کرو اور اسی پر بھروسہ کرو.سامان بھی اسی کے فضل سے میسر آتے ہیں.نویں نصیحت یہ ہے کہ مؤمن ہوشیار ہوتا ہے.مخالف کو وہ جواب دو جو مخاطبوں کے لئے مفید ہو.ایک جگہ ملکانوں میں آریوں نے اعتراض کیا کہ اسلام تو وہ مذہب ہے جو بہن بھائی کی شادی کرا دیتا ہے ( چاتایا کے بچوں کی ) اب اگر ایسے موقع پر علمی طور پر بحث کی جائے تو کم مفید ہوگی اس لئے ہمارے دوستوں نے اللہ کے فضل سے یہ جواب دیا کہ اسلام میں تو بہن بھائیوں کی شادی نہیں ہوتی البتہ ہندو مذہب میں ہوتی ہے کیونکہ تناسخ میں ممکن ہے بہن یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ا گلے جنم میں بیوی بن جائے.پس وہ بات کرو جو مخاطب کے لئے مفید ہو ، غلط نہ ہو ، اسلام کے مطابق ہومگر ہوایسی عام فہم کہ سننے والوں کے لئے مفید ہو.دسویں نصیحت یہ ہے کہ ہمدردی سے جو کام ہو سکتا ہے وہ بغیر ہمدردی کے نہیں ہو سکتا لیکن ہمدردی کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تم ان میں آئندہ کے لئے کوئی لالچ پیدا کر دو.بلکہ یہ ہیں کہ ان کی ضرورت کے وقت جس قدر تم مدد کر سکتے ہو کر و.جسمانی طور پر امداد دو.اور اگر تمہارے پاس کچھ ہو تو جس طرح اپنے وطن میں غرباء کی امداد ضرورت کے وقت کرتے ہو ان کی بھی کرو.آئندہ کے لئے کوئی وعدہ نہ کرو کہ ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے کیونکہ لوگوں نے ان کو لالچ دے کر خراب کر دیا ہے.اگر ہم بھی وعدہ دیں گے اور اس سے ان میں لالچ پیدا ہو گا تو ان کی اصلاح مشکل ہو جائے گی.

Page 167

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 161 جلد اول گیارھویں نصیحت یہ ہے جو کام کرو اس کی یاد داشت رکھو اور افسر کو باقاعدہ اطلاعات دو.خواہ روزانہ خواہ ہفتہ وار.اس نوٹ بک کا فائدہ آئندہ کام کرنے والے مبلغوں کو بھی ہوگا.اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ ہمارے جو بھائی پہلے گئے وہ کس حال میں گئے تھے، انہوں نے وہاں کیا کام کیا اور کس طرح انہوں نے آریوں کی سولہ سالہ محنتوں کا مقابلہ کیا.جب ہمارے آدمی گئے ہیں تو وہ ایسا وقت تھا جب کہ شردھانند صاحب نے علی الاعلان کہا تھا کہ ملکا نہ لوگ پیاسے پرند کی طرح چونچ کھولے بیٹھے ہیں کہ ان کے منہ میں کوئی پانی چوائے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جائیں اور ان کو ہندو دھرم میں ملا لیں.اس وقت مسلمانوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ملکانوں کی آبادی کہاں کہاں ہے.صرف ہدایت الاسلام کو چند دیہات کا علم تھا اور وہ اس کو چھپائے بیٹھی تھی.مسلمانوں کو نہیں معلوم تھا کہ کن کن ضلعوں میں ان کی آبادی ہے اور ریلوے کہاں تک ہے اور راستے کیا ہیں.حالانکہ وہ بہت وسیع علاقہ تھا.ملکا نہ علاقہ اسی طرح ہے جیسے جالندھر، لاہور، راولپنڈی وغیرہ کی کمشنریوں کو ملا دیا جائے.پھر یو.پی کی آبادی بھی پنجاب سے زیادہ پھیلی ہوئی ہے.پچاس میل کے علاقہ میں وہ پھیلے ہوئے ہیں.اس کی مثال ایسی ہی سمجھو کہ اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چا ہے کہ پنجاب میں سید کہاں کہاں ہیں تو اس کے لئے کتنا مشکل کام ہے.بعض علاقوں میں ریل کم ہے یا نہیں ہے.ایسی حالت میں ہمارے بھائی وہاں گئے اور ان میں سے بعض نے ستر ستر میل کا پیدل سفر طے کیا.گویا وہ ہیں ہیں گھنٹے چلتے رہے ہیں.اور پھر جب وہ گئے تو بعض علاقوں میں ان کو ڈاکو خیال کیا گیا.بعض میں خیال کیا گیا کہ یہ ان کے بچے بھگا لے جائیں گے.اس حالت میں وہ ان کی بات کب سن سکتے تھے.وہ بجائے ان کی بات سننے کے ہر وقت ان کی حرکات پر ہی نظر رکھتے ہوں گے.پھر اجنبیت وغیرہ کی وجہ سے بعض مقامات سے ہمارے مبلغوں کو نکال بھی دیا گیا.وہ کئی کئی دن سڑکوں پر پڑے رہے اور ان کو فاقے کرنے پڑے.بعض کو

Page 168

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 162 جلد اول مہینہ مہینہ بھر چنے چبا کر گزارہ کرنا پڑا.رمضان کے مہینہ میں لوگ کس طرح اپنے گھروں میں سامان کرتے ہیں مگر اس مہینہ میں ہمارے مبلغوں کو ستوؤں پر گزارہ کرنا پڑا.وہ لوگ چھوت چھات کرتے تھے ان کا کھانا پکانے کے لئے بھی تیار نہ تھے اور ہماری تاکید تھی کہ ان سے مت مانگو.اور لحاظ میں بھی ان سے کوئی خدمت نہ لو.پھر ادھر آریوں کی کوششیں تھیں ادھر علماء دیو بند وغیرہ بھی ہماری مشکلات میں اضافہ کر رہے تھے.وہ لوگوں کو کہتے تھے کہ ان کے ساتھ ملنے سے بہتر ہے کہ آریہ ہو جاؤ.غرض ایسی ایسی بے شمار مشکلات تھیں جن میں وہ لوگ گئے اور انہوں نے ان مشکلات میں کام کیا.انہوں نے جو کام کیا ہے اور جن حالات میں کیا ہے ان کو پڑھ کر اور ان کی قربانی کو دیکھ کر رقت آتی ہے.انہوں نے اصل مشکلات کا مقابلہ کیا ہے.اب اگر تم کو فتح حاصل ہو تو اس فتح کی بنیاد انہوں نے ہی رکھی ہے اور اس فتح کا سہرا اصل میں ان ہی کے سر ہو گا.اس لئے ضروری ہے کہ تم ان کے کام کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ چاہئے کہ تم ان کے شکر گزار ہو کہ ابتدائی مشکلات کو انہوں نے تمہارے لئے صاف کر دیا ہے.آتا ہے مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشُكُرِ الله 2 جو لوگوں کا شکر گزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا بھی شکر گزار نہیں ہو سکتا اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم ان کا شکر ادا کرو.میں تو بے تعلق کی طرح ہوں میرے لئے جیسے وہ ہیں ویسے ہی تم ہو.میرا تم سب سے ایک جیسا رشتہ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تمہارے ذریعہ جو کامیابی ہوگی اس میں وحصے ان کے ہوں گے اور ایک حصہ تمہارا کیونکہ وہ ان کے تمام ابتدائی مشکلات کو حل کر چکے ہیں جو ابتدا میں ہوا کرتی ہیں.پس تمہارے لئے اب وہ مشکلات نہیں ہوں گی.انہوں نے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان کو تم استعمال میں لاؤ اس لئے جس جگہ جاؤ ان کے کام کی قدر کرو.ان کے لئے دعا کرو اور اپنے لئے اور اس کام کے لئے بھی دعا کرو.اس کے بعد میں نصائح کو ختم کرتا ہوں.پہلے جو وفود کو صدقہ کی رقوم دی جاتی تھیں اس میں علاوہ راستہ میں خیرات کرنے کے وہاں کے خیراتی امور کے لئے بھی رقم فراہم ؟ ہو

Page 169

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 163 جلد اول جاتی تھی مگر اس کے لئے اب ہم نے علیحدہ انتظام کیا ہے اس لئے اب جو صدقہ دیا جاتا ہے وہ تھوڑا ہے اور صرف اس لئے ہے کہ راستہ میں وفد کی طرف سے صدقہ کیا جائے.“ اس پر حضور نے اپنے گھر کی طرف سے کچھ رقم بطور صدقہ دی اور دوسرے احباب نے بھی کچھ نقدی پیش کی اور فرمایا.یہ صدقہ راستہ میں فقراء ومساکین وغیرہ میں تقسیم کر دیا جائے.“ دعا کے بعد فرمایا:.” خدا کرے اب آئندہ جو دفد جائیں وہ ملکانوں کو ارتداد سے بچانے کے لئے نہیں بلکہ ان کی تربیت کرنے کے لئے جائیں.“ (الفضل 3 جولائی 1923ء) 1 نیوٹن، سر آئزک in Isaac Newton (1642ء-1722ء) انگریز ماہر طبیعات، ریاضیات و فلسفہ.اس نے روشنی کا جسیمی (یا خروجی ) نظریہ قائم کیا.انعکاسی دور بین ایجاد کی.حرکت کے کلیوں کی بھی تدوین کی.(The New Encyclopaedia Britannica, Micropaedia vol.Vll, p.305) :2 ترمذی ابواب البر والصلة صفحه 454 حديث 1955 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الاولى

Page 170

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 164 جلد اول مجاہدین علاقہ ارتداد کے ورود قادیان پر حضور کا خطاب 2 جولائی 1923ء کو مبلغین کا وہ وفد جو علاقہ ارتداد میں اپنا عرصہ ختم کر چکا تھا 9 بجے کے قریب قادیان پہنچا.قصبہ سے باہر مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء مع اساتذہ اور دیگر اصحاب بڑی تعداد میں جمع تھے جنہوں نے اھلاً و سھلاً کے بلند نعروں کے ساتھ وفد کا استقبال کیا.وفد آگے آگے اور باقی سب اصحاب ان کے پیچھے قصبہ میں داخل ہوئے.ارکان وفد سیدھے مسجد مبارک میں آئے اور وضو کر کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حضور پیش ہوئے.حضور نے ہر ایک سے مصافحہ کیا.اس کے بعد آنے والے اصحاب نے دو دو رکعت نماز ادا کی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کر کے حسب ذیل تقریر فرمائی.وو ” وہ وفد جو اس وقت کے حالات کے ماتحت پہلا وفد تھا کہ گو اس سے بھی پہلے بعض جماعتیں ملکانوں کی طرف جا چکی تھیں یہ وفد اس لحاظ سے پہلا تھا کہ جو پہلے وفد گیا تھا اس کے متعلق خیال تھا کہ موقع اور محل کی تحقیق کرے گا.اس وفد کے متعلق میں نے اسی جگہ تقریر کی تھی اور کہا تھا کہ جو آج ہی جانا چاہے وہ روانگی کے لئے تیار ہو جائے.اُس وقت جس قدر آدمیوں کی ضرورت تھی اس سے زیادہ نے اپنے آپ کو پیش کیا اور پیشتر اس کے کہ اس دن کی شام ہوتی ان کو ہم نے یہاں سے روانہ کر دیا.جانے والے لوگ جس نیت اور جس ارادہ سے گئے اور جس رنگ میں انہوں نے خدا کے دین کی خدمت کے لئے کام کیا اس کا بدلہ تو اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے اور اسی سے یہ معامله تعلق رکھتا ہے.نہ تو ہم میں سے کسی کی طاقت ہے کہ ان کے اخلاص کا اندازہ لگائے اور نہ یہ طاقت ہے کہ اس کی قیمت ادا کر سکے کیونکہ اخلاص کی قیمت سوائے اس کے جس سے

Page 171

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 165 جلد اول جھکتا اخلاص ہو کچھ نہیں ہوسکتی.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا حضرت مسیح ایک نہایت سفید چبوترے پر اس طرح کھڑے ہیں کہ ایک پاؤں اوپر کی سیڑھی پر ہے اور ایک چلی پر.اور آسمان کی طرف اس طرح ہاتھ پھیلائے ہیں گویا کچھ مانگ رہے ہیں.اُس وقت آسمان سے ایک شکل اترنی شروع ہوئی جو عورت کی شکل تھی.اس کے لباس کے ایسے ایسے عجیب رنگ تھے جن میں سے بعض دنیا میں کبھی دیکھے ہی نہیں گئے.اس کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ حضرت مریم ہیں.جب وہ نیچے پہنچی تو اس نے حضرت مسیح کے اوپر اپنے بازو پر کی طرح پھیلا دیئے اور جیسے ماں بچہ کے سر پر پیار سے ہاتھ رکھتی ہے اسی طرح اپنے ہاتھ حضرت مسیح کے سر پر رکھ دیئے اور پیار سے بے مثال محبت کے ساتھ اس کی طرف جھک گئی اور حضرت میسیج بھی اس کی طرف اس طرح جھک گئے جس طرح بچہ پیار لینے کے لئے ماں کی طرف ہے.وہ نظارہ ایسا لطیف اور قلب پر اثر کرنے والا تھا کہ میرے سارے جسم کے روم روم میں اثر کر گیا اور اُس وقت یہ فقرہ میری زبان سے جاری ہو گیا Love Creates love محبت کا بدلہ محبت ہی ہے یعنی محبت کی قیمت یہی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس کے دل میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.وہ مریم کیا تھی میرے نزدیک وہ محبت کی وہ تمثال تھی کہ جب انسان کے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے تو اس کے لئے آسمان سے نازل ہوتی ہے اور مسیح ہر وہ انسان ہے جو خدا تعالیٰ کی خاطر اور اس کے دین کی خدمت کے لئے گھر سے نکلتا ہے.چونکہ محبت کا بدلہ خود وہی وجود ہوتا ہے جس سے محبت کی جاتی ہے اس لئے جو شخص خدا کے لئے اخلاص کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے اس کو کوئی بندہ کس طرح بدلہ دے سکتا ہے.بندہ تو اسے خواہ اپنا سب کچھ بھی دے دے تو بھی حق ادا نہیں کر سکتا.پس کوئی انسان نہ تو کسی کے اخلاص کا اندازہ لگا سکتا ہے اور نہ اخلاص کا بدلہ دے سکتا ہے.لیکن ایک بات ہم کر سکتے ہیں اور وہ یہ کہ جو لوگ خدمت دین کے لئے نکلے ان کے لئے دعائیں کر سکتے ہیں اور اس طرح ان کے کام میں شریک ہو سکتے ہیں.رسول کریم وہ ایک دفعہ جب جنگ کو جارہے تھے تو

Page 172

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 166 جلد اول فرمایا سنو کسی وادی میں سے تم نہیں گزرتے کہ کچھ ایسے لوگ ہیں جو مدینہ میں رہتے ہوئے تمہارے ساتھ نہیں ہوتے، کسی لڑائی میں تم شامل نہیں ہوتے کہ وہ اس میں شریک نہیں ہوتے اور تمہارے لئے کوئی اجر نہیں جس میں ان کا حصہ نہ ہو.صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کس طرح؟ فرمایا اس لئے کہ وہ لوگ عذر اور مجبوری کی وجہ سے پیچھے رہتے ہیں ورنہ ان کے دل تمہارے ساتھ ہوتے ہیں.1 پس وہ جو کسی عذر کی وجہ سے پیچھے رہ گئے وہ ان کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں جو میدان میں کام کرنے کے لئے گئے جبکہ ان کے دل ان کے ساتھ شریک ہوں وہ ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں جبکہ دعا ئیں ان کے ساتھ پھر رہی ہوں.اس لئے ایک نصیحت تو میں ان لوگوں کو جو نہیں جا سکے یہ کرتا ہوں کہ جانے والوں کو کے لئے دعائیں کرتے رہیں.دوسرے آنے والوں کی مثال دے کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش نہیں کیا ان میں سے کئی ایسے ہوں گے جو سمجھتے ہوں گے کہ شاید ہم یہ کام کرسکیں یانہ اور خود ان میں سے بھی بعض کو یہی شک ہوگا جو واپس آگئے ہیں مگر جب وہ گئے اُس وقت سے اب بہتر حالت میں آئے ہیں.اس تین ماہ کے عرصہ میں اگر وہ یہاں رہتے تو آج جو حالت ان کی ہے اس کی بجائے کیا ہوتی.اس میں کوئی فرق نہ ہوتا.مگر آج جبکہ وہ واپس آئے ہیں اُس حالت سے ان کی حالت بہتر ہے.کیونکہ اگر نہ جاتے تو ان کی حالت یہ ہوتی کہ خدا کے وعدہ کو پورا کرنے کے منتظر ہوتے مگر اب ایسے ہیں کہ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ 2 جنہوں ن نے خدا کے وعدہ کو پورا کر دیا ہے.اگر نہ جاتے تو ان کی حالت میں کچھ فرق نہ ہوتا اور اگر گئے تو دنیاوی لحاظ سے ان کا کوئی ایسا نقصان نہیں ہوا جو نا قابل تلافی ہو.مگر جانے پر خدا تعالیٰ کی رضا زائد حاصل ہوگئی جو اگر یہاں رہتے تو حاصل نہ ہو سکتی.اس بات کی طرف توجہ دلا کر میں اُن لوگوں کو جو ابھی جانے کے لئے تیار نہیں ہوئے بلکہ سوچ رہے ہیں کہتا ہوں دیکھ لو جانے والوں کو کیا نقصان پہنچا ؟ کچھ بھی نہیں.ہاں ثواب کے مستحق ہو گئے.بہت لوگ ہوتے ہیں جو بزدلی اور تردد کی وجہ سے ثواب کے ނ

Page 173

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 167 جلد اول محروم رہ جاتے ہیں.وہ اسی خیال میں پڑے رہتے ہیں کہ ابھی اور سوچ لیں، دیکھ لیں کیا ہوتا ہے اسی تردد میں وقت گزر جاتا ہے.پس میں ان لوگوں کو مخاطب کر کے دو باتیں کہتا ہوں جو گئے نہیں اور نہ جانے کیلئے تیار ہوئے ہیں مگر ہماری جماعت میں شامل ہیں.اول یہ کہ اگر وہ کسی عذر کی وجہ سے مثلاً خرچ نہ ہونے کی وجہ سے یا بیمار ہونے کے باعث یا یہاں کسی ایسی خدمت کے سپرد ہونے کے سبب کہ وہ بھی دین کا ہی کام ہے اور اس سے فراغت نہیں ہو سکتی جو لوگ نہیں جاسکتے وہ بھی جانے والوں کے ساتھ ثواب میں شامل ہیں.ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داماد کو جنگ پر جانے سے اس لئے روک دیا کہ آپ کی بیٹی بیمار تھی اور اس کی خبر گیری ضروری تھی.یہ بات اس کو شاق گزری تو آپ نے فرمایا تم بھی ثواب میں ایسے ہی شریک ہو جیسے جنگ پر جانے والے 3 گو یہ دنیاوی کام تھا جس کی وجہ سے اسے پیچھے رہنا پڑا لیکن چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت تھا اس لئے وہ بھی ثواب میں شریک سمجھا گیا.اسی طرح وہ لوگ جو ہمارے حکم سے رہ رہے ہیں ان کو بھی ایسا ہی ثواب ملے گا جیسا وہاں جانے والوں کو.کیونکہ در حقیقت ثواب اطاعت میں ہے نہ کہ اپنی مرضی کے ماتحت کوئی کام کرنے میں.دوسرے یہ کہ جنہوں نے ابھی تک اپنے آپ کو پیش نہیں کیا اور غفلت سے رہ گئے ہیں وہ دیکھیں کہ ان میں اور ان میں جو وہاں کام کر کے واپس آئے ہیں کیا فرق ہے.کیا وہ کنگال ہو گئے ہیں اور یہ مالدار بن گئے ہیں؟ کیا ان کی جائیدادیں ضائع ہو گئی ہیں اور انہوں نے اپنی جائیدادیں بڑھالی ہیں ؟ کیا وہ کمزور اور نحیف ہو گئے ہیں اور یہ طاقتور اور زور آور بن گئے ہیں؟ کچھ بھی نہیں ہوا.دنیاوی لحاظ سے وہ بھی ویسے ہی ہیں جیسے یہ مگر دینی لحاظ سے خدا کے خاص فضل کے وارث ہو گئے ہیں اور دوسروں کو نہ دنیا کا فائدہ ہوا نہ آخرت کا.اور ان کی مثال وہی ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اب میں ان کو مخاطب کرتا ہوں جو واپس آئے ہیں اور ان کو بتاتا ہوں کہ بعض کام

Page 174

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 168 جلد اول ایسے ہوتے ہیں جن کے کرنے سے پچھلی کو تا ہیاں معاف ہو جاتی ہیں.ان کاموں میں سے ایک جہاد بھی ہے.جو شخص خدا کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتا ہے خدا تعالیٰ اس کے پچھلے قصور اور کوتاہیاں معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ جب خدا کے لئے اپنا وطن ، اپنے عزیز اور اپنا آرام چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی پہلی خطاؤں کو معاف کر دیتا ہے.اگر چہ ہمارا جہاد وہ جہاد نہیں جیسا کہ پہلوں نے کیا.اسی وجہ سے مجھے رقت آگئی تھی.ہماری مثال تو اس بچہ کی سی ہے جو مٹی کا گھر بنا کر کہتا ہے یہی حل ہے.رسی کمر میں باندھ کر کہتا ہے کہ میں فوجی افسر ہوں.چھوٹی سی سوٹی پکڑ کر کہتا ہے کہ یہ تلوار ہے.میلے کچیلے کپڑوں میں سٹول پر بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے میں بادشاہ ہو گیا.ہماری مثال بھی ایسی ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے کہ بعض ہندو جو گوشت نہیں کھاتے وہ بوٹیوں کی شکل کی بڑیاں بنا کر کھاتے اور انہیں بوٹیاں سمجھتے.مجھے اس بات پر رونا آتا ہے کہ ہمیں وہ جہاد میسر نہیں جو پہلوں نے کیا مگر اپنے دلوں کو خوش کرنے کے لئے چھوٹی باتوں کا نام جہا درکھ لیا ہے.لیکن اگر ہمارے دلوں میں اس جہاد کا شوق ہے جو پہلوں نے کیا ، اگر ہمارے دلوں میں اس بات کی تڑپ ہے کہ ہم دین کے لئے قربانی کریں اور کسی قسم کی کمزوری نہ دکھا ئیں تو وہ خدا جوان سامانوں کو مہیا کرنے والا ہے جن کے نہ ہونے کی وجہ سے ہم وہ جہاد نہیں کر سکتے اس نے چونکہ ہمارے لئے وہ سامان مہیا نہیں کئے اس لئے ہمیں اس ثواب سے محروم نہ رکھے گا جو جہاد کا سامان ہونے کی وجہ سے ہوسکتا تھا.تو جہاد کے لفظ نے اپنی کوتاہ عملی اور اپنے دائرہ عمل کی تنگی کو میرے سامنے لا کر کھڑا کر دیا جس سے میرا دل پگھل گیا مگر بہر حال بچہ بھی تو بادشاہ بن کر خوش ہو ہی لیتا ہے چلو نام کی مشارکت کی وجہ سے ہی ہم بھی خوش ہو لیں اور لہو لگا کر شہیدوں میں مل جائیں.پس اس کو بھی ہم جہاد کہہ سکتے ہیں گو وہ ایسا جہاد نہ ہو جیسا کہ پہلوں نے کیا.اور جو جہاد کے لئے نکلیں ان کے لئے خدا کی سنت ہے کہ ان کے پچھلے گناہوں اور کوتاہیوں کو معاف کر دیتا ہے.کہتا ہے انہوں نے جب میری خاطر سب کچھ چھوڑ دیا تو میں بھی ان کے

Page 175

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 169 جلد اول گناہوں کو چھوڑتا ہوں.آپ لوگ بھی چونکہ جہاد پر گئے تھے اس لئے خدا نے آپ کا نیا حساب کھولا ہے اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ایک قلم سے تمہاری پچھلی تمام کو تا ہیوں اور ستیوں کو مٹا دیا ہے اسی طرح میں بھی تمہیں ایک ہی بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ اب تمہارا نیا حساب شروع ہوا ہے پیچھے جو کچھ خدا تعالیٰ کا تمہارے ذمہ تھا وہ مٹ گیا اور بالکل سفید کاغذ ہو گیا اب تم اس کو ذراسی احتیاط اور کوشش سے ہمیشہ کے لئے صاف رکھ سکتے ہو.کسی میں بے جا خود پسندی ہوتی ہے، کسی میں بے جابز دلی ہوتی ہے، کسی میں بے جانتی کرنے کی عادت ہوتی ہے، کسی میں بے جا تکبر ہوتا ہے، کسی میں دوسروں کا حق مارنے کی بد عادت ہوتی ہے، کسی میں اور بے جا خواہشات ہوتی ہیں ان سب بے جا باتوں کو خدا نے ایک ہی بجا سے مٹا دیا ہے اب تمہارے لئے موقع ہے کہ دوبارہ کوئی ایسی بات نہ ہونے دو.دیکھو اگر کوئی سوار گھوڑ دوڑ میں پیچھے رہ جائے اور آگے نکل جانے والے سوار ٹھہر جائیں تو اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ مل جائے اسی طرح تمہارے لئے موقع ہے کہ تم روحانیت میں تیزی کے ساتھ بڑھ جاؤ.تم خدا کیلئے اپنے گھروں سے نکلے تھے خدا نے تمہارے حساب کو جو اس کا تمہارے ذمہ تھا مٹا دیا اور تم ایسے ہی ہو گئے جیسے کوئی انسان نہا کر میل کچیل سے صاف ہو کر نکل آئے.اس بات سے تم فائدہ اٹھاؤ اور آئندہ کے لئے احتیاط کرو کہ اب تم پر کسی قسم کی نا پاک چھینٹیں نہ پڑیں.پس تمہارے لئے میری یہی مختصر سی نصیحت ہے اور یہی سب باتوں کی جامع ہے.تم نے جو کچھ کیا اس کا تو بدلہ خدا تعالیٰ ہی دے گا ہاں میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے دل تمہارے ساتھ تھے جب تم گئے اور ہمارے دل تمہارے ساتھ تھے جب تم وہاں رہے اور ہمارے دل تمہارے ساتھ ہیں جب تم واپس آئے.اسی طرح ہماری دعائیں تمہارے ساتھ تھیں جب تم گئے ، ہماری دعائیں تمہارے ساتھ تھیں جب تم رہے اور ہماری دعائیں تمہارے ساتھ ہیں جب تم آئے.ہر گھڑی اور ہر قدم پر ہم تمہارے ساتھ شریک تھے اس لئے خدا سے امید ہے کہ ہمیں بھی ثواب سے محروم نہ رکھے گا کیونکہ ہم اس لئے یہاں رہے کہ یہاں رہ کر

Page 176

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 170 جلد اول وہاں جانے کی نسبت زیادہ خدا کے دین کی خدمت کر سکیں.تم نے اپنے عمل سے کام کیا جس کو ہم نے اپنی نیت سے کیا اس لئے ہم سب ایک ہی میدان میں کھڑے تھے.انسانی دعائیں اور تدبیریں جو ہم کر سکتے ہیں کیں اور انسان جس قدر بلند کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اتنا کیا لیکن ہمارے لئے اصل خوشی کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ اب خدا نے تم سے نیا حساب شروع کر دیا ہے اس لئے اس نئی کاپی کو صاف رکھنے کی کوشش کرو تا کہ مرنے کے وقت تمہاری حالت ویسی ہو جیسے ایک عربی شاعر نے کہا ہے.انْتَ الَّذِي وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيًا وَالنَّاسُ حَوْلَكَ يَضْحَكُوْنَ سُرُوْرًا فَاحْرِضْ عَلَى عَمَلٍ تَكُوْنُ إِذَا بَكُوْا فِي وَقْتِ مَوْتِكَ ضَاحِكًا مَسْرُورًا 4 شاعر کہتا ہے اے انسان! تو وہ ہے کہ جب پیدا ہوا تھا تو تو رو رہا تھا اور لوگ خوشی سے ہنس رہے تھے کہ ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے.اب تم کو چاہئے کہ لوگوں سے اس کا بدلہ لے اور مومن شریفانہ بدلہ لیتا ہے پس تو اس طرح بدلہ لے کہ ایسے عمل کر کہ جب مرنے لگے تو تو ہنس رہا ہو کہ میں اپنی ذمہ داری کو پورا کر کے چلا ہوں اور لوگ رور ہے ہوں کہ ایسا نفع رساں انسان ہم سے جدا ہو رہا ہے.پس تم اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایسے ہی بن جاؤ یہی ساری نصائح کی جڑھ اور سب کا میابیوں کا گر ہے.اب میں دعا کرتا ہوں دوسرے احباب بھی کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو آئندہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی توفیق دے اور جن کو تا ہیاں ہو گئی ہیں ان کی کوتاہیاں معاف کرے اور جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے نہیں جا سکے ان کی نیتوں کے مطابق ان سے سلوک کرے.“ (الفضل 6 جولائی 1923) 1 : ابن ماجه ابواب الجهاد باب من حبسه العذر عن الجهاد صفحه 399 حدیث 2764 ، 2765 مطبوعہ ریاض اپریل 1999ء الطبعة الأولى

Page 177

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 2: الاحزاب : 24 171 صلى الله جلد اول 3 بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي عل باب مناقب عثمان بن عفان صفحه 621 حدیث نمبر 3699 مطبوعہ ریاض مارچ 1999 ء الطبعة الثانية ( مفهومًا ) 4 مجانى الادب في حدائق العرب الباب الثاني في التوبة الجزء الثاني صفحہ 43 مطبعة الآباء اليسوعيين بيروت میں یہ اشعار اس طرح ملتے ہیں.يَا ذَالَّذِيْ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ بَاكِيًا وَالنَّاسُ حَولَكَ يَضْحَكُوْنَ سُرُوْراً اخرضْ عَلَى عَمَلٍ تَكُونُ بِهِ مَتَى يَيْكُوْنَ حَوْلَكَ صَاحِكًا مَسْرُوراً

Page 178

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 172 جلد اول مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب 10 جولائی 1923ء کو علاقہ ارتداد کے لئے روانہ ہونے والے وفد کے اراکین کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے شرف ملاقات بخشا اور تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل نصائح فرمائیں.پچھلا طریق یہی رہا ہے کہ جو دوست ملکانہ کے علاقہ میں تبلیغ کے لئے جاتے رہے ہیں ان کو گاؤں سے باہر جا کر وداع کیا جاتا رہا ہے.آج بھی یہی ارادہ تھا لیکن ظہر کی نماز کے بعد مجھے بخار کی تکلیف ہو گئی گو کونین کھانے سے اس وقت کچھ افاقہ ہے کیونکہ مجھے بہت تیز بخار ہوا کرتا ہے اور اب اتنی تیزی نہیں ہے لیکن احتیاطاً یہی مناسب سمجھا گیا کہ اس مسجد میں ہی دعا کر کے جانے والوں کو رخصت کر دیا جائے.اس میں شبہ نہیں سنت طریق یہی ہے کہ باہر جا کر رخصت کیا جائے.مجھے رسول کریم کے متعلق تو اس وقت کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ رخصت کرنے کے لئے آپ باہر تشریف لے گئے ہوں مگر خلفاء کے متعلق یاد ہے کہ وداع کرنے کے لئے باہر جاتے تھے اور کوئی عجب نہیں کہ رسول کریم ﷺ کا بھی کوئی واقعہ معلوم ہو جائے.یہ ایک ضروری اور با برکت امر ہے.مگر میں سمجھتا ہوں آج باہر نہ جانے سے جو کمی ہوگی وہ اس مسجد کی برکت سے پوری ہو جائے گی کیونکہ حضرت مسیح موعود کا اس مسجد کے متعلق الہام ہے کہ جو کام اس میں کیا جائے گا وہ بابرکت ہو گا.1 اس لئے باہر جا کر رخصت کرنا جو صحابہ اور خلفاء کی سنت ہے اس پر آج عمل نہ کرنے سے جو کسر رہ جائے گی وہ اس مسجد میں وداع کرنے کی برکت سے دور ہو جائے گی.

Page 179

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 173 جلد اول میں نے وہاں کام کرنے والوں کے لئے کچھ ہدایات لکھی ہیں امید ہے کہ وہ آپ لوگوں کو مل گئی ہوں گی اور آپ ان پر عمل کریں گے.میں نے پچھلے وفد کو بتلایا تھا کہ بعض باتیں بہت معمولی معلوم ہوتی ہیں لیکن ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.اور بعض بڑی ہوتی ہیں اور ان کے نتائج بہت معمولی ہوتے ہیں.مگر بہت چھوٹی چھوٹی باتوں سے تو میں تباہ ہو جاتی ہیں اور بہت چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑھ جاتی ہیں.بعض دفعہ ایک لفظ منہ سے نکلا ہوا ایک قوم کو ترقی کے کمال پر پہنچا دیتا ہے اور بعض دفعہ ایک لفظ نکلا ہوا ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے.بعض دفعہ ایک خیال انسان کی نجات کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور ایک خیال اس کی تباہی کا باعث بن جاتا ہے.تو چھوٹی چھوٹی باتوں کے ثمرات بہت بڑے بڑے نکلتے ہیں.انسان سمجھتا ہے فلاں بات کا کیا نتیجہ نکلے گا یا سمجھتا ہے معمولی نتیجہ نکلے گا مگر نہ اس کا نتیجہ معمولی ہوتا ہے اور نہ وہ بے نتیجہ ہوتی ہے.پس کسی بات کے متعلق یہ خیال نہ کرو کہ معمولی ہے.میں نے بعض لوگوں کو حیرت سے کہتے سنا ہے اور مجھے ان کی حیرت پر حیرت آتی تھی مگر ان کے علم اور عقل کو دیکھ کر دور ہو جاتی تھی.وہ حیرت سے پوچھتے کہ ٹریننگ سکول میں کیا سکھلاتے ہیں؟ وہاں بچوں سے بعض خاص سلوک کرنے سکھائے جاتے ہیں.طرز تعلیم بتائی جاتی ہے.اس کے لئے بعض ایسی موٹی موٹی باتیں ہوتی ہیں کہ کوئی کہہ سکتا ہے ان سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے مگر وہ بہت مفید ہوتی ہیں اور ان سے بہت اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں.اسی طرح صحت کے متعلق ہم دیکھتے ہیں بہت چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے لئے سخت نقصان رساں ثابت ہوتی ہیں.مثلاً پنجابیوں کو اگر کہا جائے گھر میں ہر جگہ نہیں تھوکنا چاہئے تو وہ کہیں گے اس میں کیا حرج ہے.اور پنجابی میں تو ایک مثل بھی ہے جولوگوں کی پہلی حالت کا خوب نقشہ کھینچتی ہے.کہتے ہیں پر ایا گھر تھکنے دا بھی ڈر یعنی دوسرے کے گھر میں تھوکتے ہوئے بھی ڈر آتا ہے.گویا ان کے نزدیک یہ بہت معمولی بات ہے حالانکہ سائنس نے ثابت کر دیا ہے کہ تھوکنا سخت خطرناک ہے اور اپنے گھر میں بھی نہیں تھوکنا چاہئے.مگر ان کے خیال میں یہ تھا کہ اپنے گھر میں تو جتنا کوئی

Page 180

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 174 جلد اول چاہے پاخانہ بھر لے مگر دوسرے کے گھر نہیں تھوکنا چاہئے.کیونکہ ممکن ہے اس نہایت معمولی سی بات پر وہ ناراض ہو جائے حالانکہ تھوکنا نہایت خطرناک اور سخت مضر ہے.لاکھوں ایسے انسان ہوتے ہیں جن کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ مسلول ہیں اور نہ دوسروں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سل ہے مگر ان میں کیڑے ہوتے ہیں جو ان کی عمدہ صحت کی وجہ سے ان پر اپنا اثر نہیں کر سکتے مگر ان کے جسم سے نکل کر اوروں پر جو ان جیسے مضبوط نہیں ہوتے حملہ کر سکتے ہیں.قادیان میں ہی ایسے واقعات ہو چکے ہیں کہ ایک شخص کی ایک بیوی کو سل ہوئی وہ فوت ہو گئی.پھر دوسری آئی اس کو بھی سال ہو گئی.جہاں سے وہ آئی تھی وہاں کسی کو سل نہ تھی نہ اس کے خاندان میں کسی کو سل تھی مگر خاوند کے ہاں آ کر وہ مسلول ہوگئی اور مرگئی.پھر تیسری آئی اس کو بھی سل ہو گئی.ایسے لوگوں کو جر مزکیریر (Germs Carrier) کہتے ہیں.ان کی اپنی صحت تو اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ ان پر جرمز اثر نہیں کر سکتے مگر وہ تھوک کے ذریعہ دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں.اب یہ ایک چھوٹی سی بات ہے مگر نتائج ایسے خطر ناک نکلتے ہیں کہ لاکھوں جانیں اس سے ضائع ہوتی ہیں.پس بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں مگر ان کے نتائج بہت بڑے نکلتے ہیں.یہ ہدایات جو آپ لوگوں کو دی جاتی ہیں اس خیال سے دی جاتی ہیں کہ سب کو پڑھو اور یہ نہ دیکھو کہ ان میں سے چھوٹی کون سی ہے اور بڑی کون سی یہ سب ضروری ہیں.اگر کوئی ضروری نہ ہوتی تو درج ہی نہ کی جاتی اور پہلے ہی چھوڑ دی جاتی.یہ وہی رکھی گئی ہیں جن پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ کامیابی محال ہے.اس کے بعد میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری کامیابی کا ذریعہ دعا ہی ہے.ان ہدایتوں میں بھی اس کا ذکر ہے.مگر میں پھر کہتا ہوں کہ ہمارے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور ساری دنیا ہماری دشمن ہے.لوگ کہتے ہیں اگر ایک دشمن ہو تو اس کا مقابلہ کیا جائے ، دو ہوں تو ان کا کیا جائے دس بیس کا کس طرح کیا جا سکتا ہمارے ہزار دو ہزار آدمی دشمن نہیں بلکہ جتنی جماعتیں اور جتنے فرقے ہیں اتنے ہی ہے.

Page 181

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 175 جلد اول ہمارے دشمن ہیں.اپنے بھی دشمن ہیں اور پرائے بھی دشمن ہیں.اور ہماری مثال ایسی ہی ہے کہ ایک فوج جو دوسروں کی امداد کے لئے لڑائی پر جاتی ہے اس پر وہی لوگ حملہ شروع کر دیتے ہیں جن کی مدد کے لئے گئی تھی.اس وقت وہ مسلمان جن کی مدد کے لئے ہم علاقہ ارتداد میں گئے تھے وہ بھی ہم پر حملہ کر رہے ہیں اور جن کا مقابلہ در پیش ہے یعنی آریہ وہ بھی حملہ آور ہیں اور انہوں نے اس خیال سے کہ اگر احمدی مبلغ نہ آتے تو ہم بہت جلدی اور بڑی آسانی سے ملکانوں کو مرتد کر لیتے ، انہوں نے آ کر کیوں ہمارے راستہ میں رکاوٹیں ڈالنی شروع کر دی ہیں دوسرے مقامات پر ہمارے آدمیوں کو تکالیف پہنچانی شروع کر دی ہیں اور ایسے دفاتر سے جہاں آریوں کا قبضہ و تصرف ہے معمولی معمولی باتوں پر احمدیوں کو نکال رہے ہیں.غرض ہمارے چاروں طرف دشمن ہی دشمن ہیں اور اس وقت ہماری حالت اُحد کے مُردوں جیسی ہے جن کے متعلق ایک صحابی کہتے ہیں ہمارے پاس اتنا بھی کپڑا نہ تھا کہ جس سے ہم مردوں کو ڈھانپ سکتے.اگر سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور اگر پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگا ہو جاتا.2 ہماری حالت ایسی ہی ہے.اگر سر ڈھانپتے ہیں تو پاؤں ننگے ہو جاتے ہیں اور اگر پاؤں ڈھانپتے ہیں تو سرنگا ہو جاتا ہے.ہماری کوششوں میں بہت سے نقص صرف اس وجہ سے رہ جاتے ہیں کہ کافی سرمایہ نہیں ہے اور ہمارے پاس کافی سامان نہیں.دیکھنے والا تو کام کا نقص کہتا ہے کہ مگر کام کرنے کا نقص نہیں بلکہ سرمایہ کی کمی کا نقص ہوتا ہے.مثلاً ہمارے افسر کی حیثیت ایک سے زیادہ نہیں ہوتی.جب یہ حالت ہو تو وہ افسر کس طرح ان افسروں کی طرح تجاویز سوچ سکتا ہے جو خود کلرکوں کی نگرانی بھی نہیں کرتے.اس کے لئے نگران سپرنٹنڈنٹ اور ہوتے ہیں اور افسر بڑے بڑے معاملات پر غور کرتا رہتا ہے.پس ہمارے لئے اس قدر مشکلات ہیں کہ اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کی نصرت شامل حال نہ ہو تو ہم کچھ بھی نہ کر سکیں.ہم نے ہندوستان سے باہر جو تبلیغی کام شروع کر رکھے ہیں وہاں اس قدر خرچ ہو رہا ہے کہ اسی کے لئے خاص چندے کرنے پڑتے ہیں.مگر اب ملکا نہ تبلیغ

Page 182

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 176 جلد اول کے اخراجات اتنے کئے جا رہے ہیں کہ جو سب بیرونی تبلیغی کاموں سے زیادہ ہیں.سب نظارتوں کا تین ہزار کے قریب ماہوار خرچ کا اندازہ ہے.مگر اس اکیلے کام کا اتنا خرچ ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ حسابات کی بڑی سختی سے نگرانی کی جاتی ہے اور مبلغ آنریری ہیں.ادھر جماعت کی یہ حالت ہے کہ اس پر چندہ کا اتنا بار ہے کہ دنیا میں اس کی دوسری کوئی مثال نہیں پائی جاتی.دوسرے لوگ بھی چندہ جمع کرتے ہیں مگر مستقل طور پر اتنا چندہ دیں جتنا ہماری جماعت مستقل طور پر دیتی ہے اس کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی.مگر باوجود اس کے ہماری جماعت جتنا چندہ دے رہی ہے وہ ہمارے کاموں کے لئے کافی نہیں.اس کے لئے ہم جس قدر زور دے سکتے تھے دے چکے ہیں اس سے زیادہ جماعت میں برداشت کرنے کی طاقت نہیں.ایسی صورت میں اگر یہ انسانی کام ہوتا تو سوائے اس کے کہ جس طرح ایک چیز پر جب زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو وہ اپنی طاقت کی آخری حد پر پہنچ کر پھٹ جاتی اور ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہے یہی ہمارا حال ہو.مگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا کام نہیں بلکہ خدا کا کام ہے.اور ہمارے نقصوں ، ہماری کمزوریوں اور ہماری بے سامانیوں کی وجہ سے خراب نہیں ہوگا بلکہ جب یہی بے سامانیاں اپنی آخری حد کو پہنچ جائیں گی تو خدا تعالیٰ کی خاص مدد اور نصرت نازل ہوگی.کیونکہ خدا تعالیٰ جب دیکھے گا کہ ان کے پاس جو کچھ تھا انہوں نے دے دیا اور اب ان کے پاس کچھ نہیں تو میر اخزانہ جس میں کبھی کمی نہیں آسکتی اس کو ان کے لئے کیوں نہ کھول دوں.انہوں نے جب سب کچھ کھو کر دین کی خدمت کی ہے تو میں سب کچھ رکھ کر کیوں نہ ان کی مدد کروں.پس یہی وقت ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کی خاص مدد نازل ہوتی ہے.ہماری جماعت کے متعلق ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا جب تک خودی ، تکبر اور خودستائی نہ پیدا ہو گی اور جب تک ہم خدا کی رضا کے لئے کام کرتے رہیں گے.میری خلافت کے اس آٹھ نو سال کے عرصہ میں کیسے کیسے خطرناک حملے پیغامیوں اور غیر احمد یوں نے کئے مگر جب یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ اب تباہ ہو جائیں گے اُسی وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسی نصر

Page 183

177 جلد اول زریں ہدایات (برائے مبلغین ) نازل ہوئی کہ یہ معلوم ہونے لگا دشمن کا حملہ کچھ بھی نہ تھا.پس ہماری کامیابی کا رستہ ایک ہی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت ہے.مگر جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے اس کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی انتہائی طاقت خرچ کر دے.لیکن اگر ایسا نہ کرے اور پھر خدا کی مدد مانگے تو خدا تعالیٰ کی غیرت اس کے خلاف بھڑکتی ہے.دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک وہ جس میں اپنا بجز اور انکسار ہوتا ہے اور دوسرے وہ جس میں خدا کی رحمت کو جذب کرنا ہوتا ہے.قسم اول کی دعائیں تو انسان ہر وقت کر سکتا ہے کہ میرے رستہ میں کوئی روک نہ پیدا ہو، مجھے کامیابی نصیب ہو.مگر دوسری قسم ایسی ہے کہ اس وقت کی جاسکتی ہے جب اپنے پلے کچھ نہ رہے.دیکھو اگر ایک شخص یہ کہ کر کسی سے مانگے کہ میرے پاس کچھ نہیں لیکن اس کے پاس سے مال نکل آئے تو اس سے کیا سلوک کیا جائے گا.اسی طرح جو شخص اپنی پوری قوت اور ساری طاقت صرف کئے بغیر خدا کی نصرت اور مدد کا طالب ہوتا ہے اس سے یہی سلوک ہوتا ہے.وہ خدا کی نصرت حاصل کرنے کی بجائے اس کا غضب اپنے اوپر وار د کر لیتا ہے.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ ایک ہندوستانی عرب سے آ رہا تھا راستہ میں اس نے ایک عرب سے کہا مجھے کھانے کو کچھ دو مگر مجھ سے اجر کی امید نہ رکھو کیونکہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے.یہ سن کر عرب کا چہرہ متغیر ہو گیا وہ اٹھا اور اٹھ کر اپنے تربوزوں کے کھیت میں گیا.تربوز توڑے اور دیکھے، پھر توڑے اور دیکھے اور جو عمدہ نکلے وہ اس شخص کو کھلاتا جائے.جب اس کا پیٹ بھر گیا تو اس نے اس کے کپڑے اتروا کر تلاشی لی اور کہا اب جاؤ.اس نے اس کی وجہ پوچھی تو عرب نے کہا جب تو نے آ کر کہا میرے پاس کچھ نہیں ہے تو میں نے یہ کھیت جو میری بیوی بچوں کا سہارا تھا تیری خاطر برباد کر دیا اور جو بہتر سے بہتر تربوز تھا وہ تجھے کھلا یا اب ہمارا اللہ ہی حافظ ہے.اگر تیرے پاس سے ایک پیسہ بھی نکل آتا تو میں تجھے قتل کر دیتا کہ میں نے مہمان نوازی میں کسر نہیں رکھی تو نے کیوں جھوٹ بولا.تو جو شخص اپنے پاس کچھ رکھ کر خدا تعالیٰ سے کہتا ہے کہ میرے پاس کچھ نہیں وہ غضب

Page 184

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 178 جلد اول کا مستحق ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی خالی ہاتھ خدا تعالیٰ کے حضور جاتا ہے تو کبھی خالی نہیں آتا.اگر اس کی درخواست سنت اللہ کے خلاف نہ ہو اور اگر کوئی بات خدا تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے خلاف نہیں تو ناممکن ہے کہ خالی ہاتھ واپس آئے.اور ایسے شخص اگر ایک سونہیں ، ایک ہزار نہیں اگر ایک لاکھ بھی جائیں گے تو اپنی دعا قبول کر ا کر آئیں گے.پس تم دعاؤں پر زور دو مگر یہ بھی یا درکھو کہ دعائیں اسی وقت قبول ہوتی ہیں جب اپنی طرف سے پورے زور اور طاقت سے کام کیا جائے لیکن اگر تم محنت نہیں کرتے یا سوچ سمجھ کر کام نہیں کرتے تو تمہاری دعائیں قبول نہیں ہوں گی.دعا ئیں جب قبول ہوتی ہیں جب کوئی اپنے کام کے متعلق سوچے اور اپنی طرف سے پوری پوری محنت کرے.اس کے بعد جب کچھ نہ بنے تو خدا تعالیٰ غیب سے کامیابی کے سامان پیدا کر دیتا ہے.اور عین اس وقت کی جب انسان ناکامی کو دیکھتا ہے کامیابی کے بادل اسے سامنے سے لہراتے نظر آتے ہیں.سیہ دونوں باتیں کافی ہیں اگر تم ان پر عمل کرو گے.اس کے بعد میں وہ شرائط دہرا دیتا ہوں جو اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والوں کے لئے رکھی گئی تھیں.پہلے کچھ ایسے لوگ چلے گئے جن کے پاس کافی خرچ نہ تھا اور انہیں دفتر سے مانگنا پڑا.کچھ ایسے لوگ چلے گئے جنہوں نے وعدہ تو کیا تھا کہ ہر قسم کی تکالیف برداشت کریں گے مگر برداشت نہ کیں.پھر ایسے بھی گئے کہ جو ان کے پاس خود آ گیا اس کو تو پڑھا دیا اور جو نہ آیا اس کی انہوں نے خبر نہ لی اور نہ اس کے پاس گئے حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ روحانی معالج اور جسمانی ڈاکٹر کی حالت میں بڑا فرق ہے.جسمانی مریض تو خود ڈاکٹر کے پاس کو آتے ہیں اور روحانی ڈاکٹر کو خود ان کے پاس جانا اور ان کا علاج کرنا ہوتا ہے.پھر بعض نے اپنے افسروں کی فرمانبرداری پورے طور پر نہیں کی حالانکہ اقرار یہ ہے کہ فوجی سپاہیوں کی طرح فرمانبرداری کریں گے.اور جانتے ہو فوجی سپاہی کیسی فرمانبرداری کرتے ہیں؟ جنگ میں ایک توپ خانہ فوج کے پیچھے ہوتا ہے جس کی ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر اپنے سپاہی پیچھے بھا گئیں تو انہیں وہیں بھون ڈالے.میں نے ایک دوست سے

Page 185

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 179 جلد اول جو جنگ پر گئے تھے پوچھا کیا اب بھی بہادری ظاہر کرنے کا موقع ہوتا ہے؟ اس نے کہا وہاں تو یہی خیال ہوتا ہے کہ اگر ذرا پیچھے ہے تو اپنے توپ خانہ والے مار ڈالیں گے اس لئے اگر دشمن سے لڑتے ہوئے مریں گے تو پنشن تو ہو جائے گی جس سے بال بچوں کا گزارہ چل سکے گا اس لئے یہی بہتر ہے کہ دشمن کا مقابلہ کرتے رہیں اور جو کچھ ہوا سے برداشت کریں.اس وقت دلیری یا بزدلی کا سوال ہی نہیں ہوتا.ان سپاہیوں کا اگلے دشمن سے بچ جانا تو آسان ہوتا ہے مگر پچھلے توپ خانہ سے بچنا ناممکن.تو اس سختی کے ساتھ وہاں کام لیا جاتا ہے اور یہ لوگ پندرہ پندرہ ، بیس بیس روپے کے لئے کام کرتے ہیں.مگر جو لوگ خدا کے لئے نکلے ہوں ان کو کس قدر مشکلات برداشت کرنی چاہئیں.جب کوئی سپاہی پہرہ پر کھڑا ہو تو اس کو اتنی بھی اجازت نہیں ہوتی کہ کسی چیز سے ٹیک لگا لے.پھر کئی کئی وقت فاقے کرنے پڑتے ہیں.ابھی ایک جہاز ڈوب گیا ہے اس سے جو لوگ بچے انہیں میں دن تک فاقہ سے رہنا پڑا.اس سے معلوم ہوا کہ اس قدر فاقہ برداشت کرنے کی انسان میں طاقت ہے اور جب مجبوری میں اتنا فاقہ کیا جا سکتا ہے تو خدا کے لئے کیوں نہیں کیا جاسکتا.پس تم لوگ ایسی فرمانبرداری سے کام کرو جیسے فوجی سپاہی کرتے ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ایسی فرمانبرداری دکھاؤ جیسی صحابہ دکھاتے تھے کیونکہ فوجی سپاہی توپ خانے کے ڈر سے کام کرتے ہیں مگر صحابہ کو تو اس کا ڈر نہیں ہوتا تھا.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صحابی جن کا نام ضرار تھا جب دشمن کے مقابلہ میں نکلے تو بھاگے بھاگے واپس آگئے.جس کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلے تھے اس نے ہیں مسلمان مار دیئے تھے.سمجھا گیا کہ اس کے ڈر سے واپس بھاگ آئے ہیں.لیکن جب پھر گئے اور واپس آنے کی وجہ پوچھی گئی تو کہا میں بغیر زرہ کے لڑا کرتا ہوں مگر آج زرہ پہنی ہوئی ہے.جب میں مقابلہ پر گیا تو مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ اگر اس حالت میں میں مارا گیا تو سخت گرفت میں آؤں گا کہ آج کا فر سے ڈر کر میں نے زرہ پہن لی.اس لئے میں دوڑتا ہوا گیا اور اب اتار کر آیا ہوں.اور دشمن کو

Page 186

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 180 جلد اول انہوں نے قتل کر دیا.تو سپاہی کی لڑائی صحابی کی لڑائی کے مقابلہ میں نہیں آسکتی.سپاہی لالچ اور ڈر کے لئے لڑتا ہے لیکن صحابی خدا کے لئے لڑتا ہے.تمہاری اطاعت صحابہ جیسی ہونی چاہئے.اور ان کی اطاعت ایسی تھی کہ جو مخلص تھے وہ کسی حالت میں بھی نافرمانبرداری نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے مسجد میں لوگوں کو فر ما یا بیٹھ جاؤ.عبد اللہ بن مسعود گلی میں سے گزر رہے تھے ان کے لئے یہ حکم نہ تھا لیکن جب ان کے کان میں یہ آواز پڑی تو وہیں بیٹھ گئے اور بیٹھے بیٹھے چل کر مسجد میں آئے.3 ہر ایک مومن میں فرمانبرداری ایک نہایت ضروری امر ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس جماعت کے لئے جو چھوٹی ہو ورنہ لاکھ میں سے ایک بھی ایسا چانس نہیں کہ وہ کامیاب ہو سکے.پس تم لوگ اپنے افسروں کی کامل فرمانبرداری سے کام کرو اور اس بات کو خوب یا درکھو.میاں غلام رسول صاحب ریڈر پشاور جو یہاں پڑھتے بھی رہے ہیں اس وجہ سے سابق ہونے کے خیال سے اس وفد کا میں نے ان کو امیر مقرر کیا ہے.رستہ میں جس طرح کہیں اور جو انتظام کریں سب کو اس کی پابندی کرنی چاہئے اور وہاں پہنچ کر امیر وفد چودھری فتح محمد صاحب سیال ہیں ان کی اطاعت فرض ہے.پھر وہ جس کے سپرد کریں ان کی اطاعت ضروری ہے.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تم کو بھی اور جو دوست جاچکے ہیں ان کو بھی کامیابی کا سہرا عطا فرمائے.“ الفضل 20 جولائی 1923 ء ) 1 تذکرہ صفحہ 83 ایڈیشن چہارم 2004 ء 2 بخاری کتاب المغازی باب من قتل من المسلمين يوم أحد صفحہ 691 حديث 4082 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية 3 ابو داؤد کتاب الصلواة ابواب الجمعة باب الامام يكلم الرجل في الخطبة صفحہ 165 حدیث 1091 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الأولى

Page 187

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 181 جلد اول مجاہدین علاقہ ارتداد سے خطاب 14 ستمبر 1923ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجاہدین علاقہ ارتداد کو جانے والے تیسرے وفد کو ضروری نصائح فرمائیں.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا." آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ہماری جماعت کا تیسرا وفد یعنی تیسرے وقت کا وفد علاقہ ارتداد میں جا رہا ہے.کہتے ہیں کہ تین کا عدد مکمل ہوتا ہے اس لئے کہ وہ طاق بھی ہوتا ہے اور پھر اپنے اندر اتحاد بھی رکھتا ہے.طاق ہونے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی ذات سے اشتراک رکھتا ہے اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے 1 تین کا عدد دونوں کو جمع رکھتا ہے.تین وتر ہے اس لئے ایک سے مشابہ ہونے کی وجہ سے وحدانیت پر دلالت کرتا ہے.اور اس میں دو بھی ہیں اور ایک بھی اس لئے اجتماع پر دلالت بھی کرتا ہے.کیا تعجب ہے کہ اس تین پر ہی خدا تعالیٰ اس جنگ کا خاتمہ کر دے اور چوتھے وقت میں اس صورت میں وفد نہ بھیجنا پڑے.یہ فال کے طور پر کہا گیا ہے ورنہ مومن کبھی یہ نہیں کہ سکتا کہ جنگ ختم ہو جائے کیونکہ مومن جب تک زندہ ہے جنگ چلی ہی جائے گی.پس ہم یہ تو نہیں چاہتے کہ جنگ ختم ہو جائے اور کبھی بھی نہیں کہہ سکتے کہ جنگ ختم ہو گئی کیونکہ مسلمان کے لئے جنگ کے ختم ہو جانے کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ ہتھیار ڈالتا ہے ورنہ اس کی جنگ کبھی ختم نہیں ہو سکتی.وجہ یہ کہ مسلم کی جنگ شیطان سے ہے اور جب تک دنیا ہے شیطان بھی رہے گا.چنانچہ آتا ہے جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ 2 پس جب قیامت

Page 188

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 182 جلد اول تک کافروں پر غلبہ رہے گا تو معلوم ہوا قیامت تک کا فربھی رہیں گے اور جب کافر رہیں گے تو شیطان بھی رہے گا اس لئے اس سے جنگ بھی جاری رہے گی.اس میں شک نہیں کہ مسیح موعود کے متعلق آیا ہے کہ وہ شیطان کو قتل کرے گا مگر اس کے معنی یہ ہیں کہ مسیح موعود شیطان کا زور توڑ دے گا.عربی میں قتل کے معنے زور توڑ دینے کے بھی ہیں مثلاً شراب کو قتل کر دینے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس میں پانی ملا کر اس کے زور کو کم کر دیا.پس مسیح موعود کے متعلق جو آتا ہے کہ شیطان کو قتل کرے گا اس کا یہ مطلب ہے کہ عیسائیت کے زور کو توڑ دے گا، عیسائیت کی بنیاد کو اکھیٹر دے گا.اُس وقت عیسائی کہیں گے ہماری دنیاوی ترقی عیسائیت کی صداقت کا ثبوت ہے.چنانچہ اس زمانہ میں کہتے ہیں ایسی زبردست اور با حکومت قوم جو ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے مسیح موعود کا یہ کام ہوگا کہ اس کے زور کو توڑ دے گا ورنہ کفر تو قیامت تک رہے گا.پس ہم جنگ سے نہیں ڈرتے اور نہ ناممکنات کے لئے امیدیں لگاتے ہیں کیونکہ اس قسم کی امید رکھنا کفر ہے اس لئے ہم تو امید نہیں رکھتے کہ جنگ ختم ہو جائے بلکہ یہ امید رکھتے ہیں کہ جنگ کی نوعیت بدل جائے اور نوعیت بدلتی رہتی ہے جس سے اس میں حصہ لینے والوں کی ہمتیں بڑھتی رہتی ہیں.دیکھو ایک قسم کا کھانا بھی انسان روز نہیں کھا سکتا کیونکہ انسان اکتا جاتا ہے.اسی طرح ایک قسم کی جنگ بھی چونکہ اکتا دیتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ اس کی نوعیت بدلتا رہتا ہے.آج اگر اس قوم سے جنگ ہے تو کل اور سے.پس ہم امید رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس جنگ کی نوعیت کو بدل دے اور ہم اس علاقہ سے فارغ ہو کر کسی اور علاقہ میں جائیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جس کام کے لئے وہ چلے ہیں اس کے لئے اسی رنگ میں جب تک کوشش نہ کریں گے جو ضروری ہے اُس وقت تک کامیاب نہ ہوں گے.پہلے دیکھا گیا ہے کہ جانے والے یہاں سے ہدایات نوٹ کر کے لے گئے مگر وہاں جا کر ان پر پورا پورا عمل نہیں کیا گیا.میں نے سب سے ضروری نصیحت جانے والوں کو یہ کی تھی کہ جہاں اور جس مقام پر رہو وہاں کے لوگوں سے واقفیت

Page 189

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 183 جلد اول اور دوستانہ تعلقات پیدا کرو.مگر معلوم ہوا کہ بعض لوگ ایک گاؤں میں دو دو ماہ تک رہے اور جب انسپکٹر نے جا کر ان سے پوچھا تو کہہ دیا کہ یہاں کے چار پانچ آدمیوں سے واقفیت پیدا کی ہے.گویا وہ صرف چار پانچ آدمیوں کو ہی تبلیغ کرتے رہے اور باقی سب کو نظر انداز کر دیا.وہ مبلغ جو کسی گاؤں میں تبلیغ کے لئے مقرر کیا جاتا ہے وہاں کا اگر ایک آدمی بھی بلکہ ایک بچہ بھی ایسا رہ جاتا ہے جس کے ساتھ اس نے باتیں نہ کیں، واقفیت نہ پیدا کی تبلیغ نہ کی تو وہ کامیاب نہیں کہلا سکتا.جہاں جہاں مبلغ بھیجے جاتے ہیں وہ کوئی شہر تو نہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں اور اگر کوئی بڑا گاؤں ہو تو وہاں مبلغ بھی زیادہ رکھے جاتے ہیں اور اس طرح سو ڈیڑھ سو آدمی ایک مبلغ کے حصہ میں آتا ہے اتنے لوگوں سے جو شخص واقفیت نہیں پیدا کر سکتا وہ کام کیا کر سکتا ہے.دیکھو باہر کے جو لوگ یہ خیال کر کے آتے ہیں کہ قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ، آپ کے پاس رہے، دین کے لئے قربانیاں کر کے آئے اور سب کچھ چھوڑ کر خدمت کے لئے قادیان میں آبیٹھے ان سے ملیں اور تعارف پیدا کریں اور دو تین دن میں واقفیت پیدا کر کے چلے جاتے ہیں.کیوں؟ اس لیے کہ یہ نیت کر کے آتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے واقفیت پیدا کرنی ضروری اور فائدہ مند ہے.اگر مبلغ بھی اسی طرح نیت کر کے دیہات میں جائیں تو ایک ہفتہ کے اندر اندر واقفیت کیا دوستی بھی پیدا کر سکتے ہیں.یہ سخت غفلت ہے کہ ایک آدمی جائے ، اسے ہدایات دے دی جائیں جنہیں وہ لکھ لے یا یاد کر لے مگر وہاں جا کر ان پر عمل نہ کرے.اگر کوئی شخص وہاں جاتا اور خموشی سے اپنا وقت گزار کر آجاتا ہے تو اس کے جانے کا کیا فائدہ.پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ جو نصائح دی جائیں (امید ہے آپ لوگوں کو بھی ہدایات کی ایک ایک کاپی دے دی گئی ہوگی ) ان پر پورا پورا عمل کرو.ہر ایک شخص ا یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ سمجھ سکے کہ اسے کیا کام کرنا ہے اور کس طرح کرتا ہے.یہ کام کرانے والوں کا فرض ہے کہ اسے بتائیں اس طرح کام کرتا ہے اور کام کرنے والے کا

Page 190

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 184 جلد اول یہ فرض ہے کہ جو کچھ بتایا جائے اسے سمجھے اور اس کے مطابق کام کرے.پس سب سے بڑی نصیحت یہی ہے کہ جو ہدایات تمہیں دی گئی ہیں ان پر عمل کرو.اس کے بعد میں جانے والوں کو اور دوسروں کو جو بیٹھے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ دین کا معاملہ ایسا اہم معاملہ ہے کہ اس کے لئے مومن کسی قسم کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرتا.دیکھو جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا اور آج بھی خطبہ میں بیان کیا ہے علاقہ ارتداد میں ملکانوں کا سوال نہیں بلکہ اسلام کا سوال ہے.جس قد ر مرتد ہو چکے ہیں ان سے زیادہ تعداد میں مسلمان عیسائی ہو کر گمراہ ہو چکے ہیں مگر اس پر اس قدر حیرت اور استعجاب نہیں ہوا.وجہ یہ ہے کہ وہ افراد عیسائی ہوئے ہیں اور یہ ایک قوم مرتد ہورہی ہے جس سے يَدْخُلُونَ فِي دِینِ اللهِ أَفْوَاجًان کی بجائ يَخْرُجُونَ مِنْ دِيْنِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ ہے اور اس طرح وہ رعب جس کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرما یا نصِرْتُ بالرُّعْب 4 کہ مجھے رعب سے مدد دی گئی ہے اس کے مٹنے کا ڈر ہے.رسول کریم ﷺ کے رعب سے مراد آپ کے مذہب اور آپ کی امت کا رعب ہے نہ یہ کہ آپ کی ذات کا رعب.اگر یہ ہوتا تو آپ کا ذاتی رعب ہو جاتا اور ذاتی رعب تو اور لوگوں کو بھی حاصل تھا.کیا سکندر کا رعب اپنے زمانہ میں نہ تھا اور کیا اب انگریزوں کا رعب نہیں ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رعب سے مراد یہ تھی کہ آپ کو ایسا رعب دیا گیا جو آپ کی وفات کے بعد قائم رہے گا جو یہی ہے کہ آپ کے مذہب اور امت کا رعب ہے اور سوائے آپ کی ذات کے اور کونسا وجود ہے جو مر گیا ہو اور اس کا رعب قائم ہو.سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اور کسی کا نہیں.آج بھی آپ کی تعلیم اور آپ کے مذہب سے دنیا ڈر رہی ہے.یورپ اب بھی یہی کہتا ہے کہ بین اسلام ازم (Pan-Islamism) یعنی اتحاد اسلام سے ڈرنا چاہئے.تو اسلام کا رعب اب بھی قائم ہے اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے جو اسلام کی تائید میں دیا گیا ہے.لیکن اب اگر قوموں کی قومیں اسلام سے نکلنی شروع ہو جائیں تو یہ مفہوم ہو گا کہ مسلمانوں کی بداعمالی کی وجہ سے رعب مٹادیا گیا.

Page 191

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 185 جلد اول پس ہماری طرف آواز ملکانوں کی نہیں آرہی بلکہ اسلام کی آواز آرہی ہے اور اسلام ہمیں بلا رہا ہے کہ آؤ آکر میری حفاظت کرو.ہم نے یہ کام اس لئے نہیں شروع کیا کہ ملکا نا قوم کو بچانا ہے بلکہ اس لئے شروع کیا ہے کہ اسلام کو محفوظ کرنا ہے.اس لئے کوئی یہ نہ کہے کہ ملکا نے حریص اور لالچی ہیں اس لئے ان کی اصلاح مشکل ہے.خواہ یہ لوگ کتنے ہی حریص اور لالچی ہوں مگر ان بدوؤں سے تو زیادہ نہیں ہو سکتے جن کی اصلاح کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا.اور جنہوں نے ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ سے واپس آرہے تھے آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچا اور کہا ہمیں مال کیوں نہیں دیتے ؟ مگر میں نے کسی مبلغ سے یہ نہیں سنا کہ کسی ملکانہ نے اس کے گلے میں رسی ڈال کر اس لئے کھینچا ہو کہ روپیہ دو.پس اگر ان کے بدوؤں کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جان کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں، مسلمانوں کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں ، مسلمانوں کے اموال کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں تو ان ملکانوں کے لیے کیوں ہم اپنی جانوں اور مالوں کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتے.بدو خواہ کیسے ہی لالچی تھے مگر چونکہ اسلام کے لئے اجتماع اور مرکز بنا نا ضروری تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے چاہے کوئی اسلام کی ایک بات ہی سمجھے مسلمان سمجھا جائے ، آگے وہ خود سب کچھ سیکھ جائے گا نہ یہ کہ چونکہ وہ لوگ لالچی اور بہت گرے ہوئے تھے اس لئے آپ نے ان کی اصلاح کے لئے کوشش ہی نہ فرمائی.آپ نے کوشش کی اور محض لا اله الا الله محمد رَّسُولُ اللهِ سمجھنے پر ان کو داخل اسلام کر لیا.پس جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدوؤں کے لئے قربان کیا وہ ہم نہیں کر رہے بلکہ اس سے بہت ہی کم کر رہے ہیں.پھر اس سے بھی کوتاہی کرنا کس قدر افسوس ناک امر ہے.اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھو کہ یہ کسی قوم کا سوال نہیں نہ کسی قوم کی آواز ہے بلکہ اسلام کی آواز ہے اور اس کو سن کر کس طرح کوئی مومن خاموش رہ سکتا ہے.دیکھوا بھی یونان میں اٹلی والوں کے کچھ آدمی مارے گئے ہیں اس وجہ سے ساری اٹلی یونان کے خلاف کھڑی ہوگئی.اتحادیوں نے انہیں کہا کہ

Page 192

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 186 جلد اول اتنا غصہ نہ دکھاؤ ہم تصفیہ کر دیں گے لیکن انہوں نے کہا اس میں چونکہ ہماری ہتک کی گئی ہے اس لئے جب تک یونان والے ہماری شرائط نہ مانیں گے ہم نہیں چھوڑیں گے.اس میں شبہ نہیں کہ اٹلی والوں نے حد سے زیادہ تیزی دکھائی ہے مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ یہ ان کی زندگی کی علامت ہے اور انہوں نے یونان سے حسب منشاء شرطیں منوالی ہیں.اسلامی سلطنت کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے.معتصم باللہ کے زمانہ کا ذکر ہے.مسلمان عورت کو ایک عیسائی بادشاہ دکھ دے رہا تھا اور طنزاً کہہ رہا تھا کہ دیکھو معتصم باللہ ابلق گھوڑے پر سوار تمہاری مدد کو آرہا ہے.یہ بات ایک مسلمان نے سنی اور جا کر بادشاہ کو بتائی.اُس وقت اگر چہ بادشاہت کو تنزل تھا مگر بادشاہ نے کہا کہ میں ابھی اس عورت کو بچانے کے لئے جاؤں گا.آدمیوں کو چلنے کا حکم دے دیا اور کہا سب ابلق گھوڑوں پر سوار ہوں.اس کے اپنے گھوڑے کا رنگ ابلق تھا اسی کی طرف عیسائی نے اشارہ کیا تھا.بادشاہ نے کہا ابلق گھوڑوں پر ہی سوار ہو کر وہاں جائیں گے.پس لشکر گیا اور جا کر اس عورت کو چھڑالا یا.دیکھو ایک عورت کے لئے اور وہ بھی اُس زمانہ میں جب کہ مسلمان عیش و عشرت میں پڑے ہوئے اور تنزل میں گرے ہوئے تھے اس قدر غیرت دکھلائی تو کیا وہ قوم جو ایک نبی کی امت کہلاتی اور دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑی ہوئی ہے وہ ایک قوم کے لئے غیرت نہ دکھلائے گی ؟ ایک تازہ واقعہ ہوا ہے.ایک رپورٹ آئی ہے کہ ایک جگہ آریوں نے شدھی کا دن مقرر کیا اور وہاں گھی وغیرہ سامان پہنچا دیا.جن لوگوں نے مرتد ہونا تھا ان کے گھرانہ کی ایک عورت اس بات پر مُصر تھی کہ میں مسلمان ہی رہوں گی.جب سامان آ گیا تو مقررہ دن گھر والے گھبرائے کہ اگر یہ عورت مرتد نہ ہوئی تو ہماری بدنامی ہوگی.آگے کوئی کہتا ہے کہ وہ کچھ کھا کر مرگئی اور کوئی کہتا ہے کہ اسے ان لوگوں نے مار مار کر مار دیا.اگر وہ کچھ کھا کر مری ہے تو گو اسلام میں خودکشی گناہ ہے مگر اسی کے لئے جو اس بات کو جانتا ہو.وہ بیچاری کہاں جانتی ہوگی.پس اگر اس نے زہر بھی کھایا ہے تو بھی اس نے اسلام کے لئے

Page 193

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 187 جلد اول جان دی اور اگر مار مار کر مار دیا گیا تو بھی ان بہت سے مسلمانوں سے بہتر ہی رہی جو گھر بیٹھے رہے اور فتنہ ارتداد کے مقابلہ کے لئے نہ نکلے.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علاقہ ملکانہ میں ایسی روحیں ہیں جو اسلام کے لئے جان دے رہی ہیں اور ان کا بچانا ہمارا فرض ہے.اگر ایسی روح ایک بھی ہو مگر اب تو کئی ثابت ہو رہی ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ان کو بچائیں.پس دوستوں کو یہ بہت اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اسلام کا سوال ہے.اسی نظر سے اس کام کو دیکھنا چاہئے تاکہ اس کی اہمیت معلوم ہو.اگر یہ بات سمجھ لی جائے تو میرا خیال ہے فتنہ ارتداد بہت جلد رک سکتا ہے.اس کے بعد پھر میں ان دوستوں کو جو جانے والے ہیں کہتا ہوں کہ چونکہ یہ اسلام کا سوال ہے اس لئے اس کے لئے اسی رنگ میں قدم ڈالیں جو ضروری ہے اور ہر قسم کی کوتاہی سے بچیں کیونکہ ذراسی کو تاہی بھی بہت خطرناک نتائج پیدا کرتی ہے.آپ لوگ ہدایات کو پڑھیں اور بار بار پڑھیں اور خصوصیت سے دعاؤں پر زور دیں کیونکہ خدا تعالی دعا کرنے پر ایسے ایسے سامان کامیابی کے پیدا کر دیتا ہے جو انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے.چونکہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ سب سے بڑا ہے اس لئے کوئی طاقت اس کے سامنے کھڑی نہیں ہو سکتی جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ ہو.چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اس لئے وہ خود مددی کرے گا اور غیب سے ایسے سامان کر دے گا جو وہم میں بھی نہیں آسکتے.دیکھو! احمدیت کی اشاعت کے کیسے کیسے سامان خدا تعالیٰ کر رہا ہے.بخارا میں پتہ لگا کہ وہاں جماعت ہے.اب پتہ لگا ہے چین میں بھی احمدی جماعت ہے اور آج ایک جزیرہ کے متعلق خط آیا ہے کہ وہاں کا ایک آدمی آیا ہے جس نے بیان کیا کہ وہاں بڑی جماعت کی ہے مگر حکومت کے ڈر کی وجہ سے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتی.کوئی مدراسی اس جزیرہ میں گیا تھا جس کے ذریعہ احمدیت کا علم ان لوگوں کو ہوا اور وہ لوگ عقائد سے بھی خوب واقف ہیں ختی که مسئلہ نبوت کے متعلق جو اختلاف ہوا اس سے بھی گویا ان لوگوں کو جو آدمی ملاوہ پیغامی اختلاف کے بعد ملا.

Page 194

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 188 جلد اول پس جب خدا تعالیٰ کی طاقتیں بخارا، مصر، عرب، ایران، چین وغیرہ میں احمدیت کی تائید میں ظاہر ہورہی ہیں تو علاقہ ملکانہ میں کیوں نہ ظاہر ہوں گی.مگر ضرورت یہ ہے کہ جانے والے بچی کوشش کریں اور دعاؤں میں لگے رہیں.لیکن یا تو دعاؤں میں کوتاہی کی جاتی ہے یا کچی کوشش نہیں کی جاتی اس لئے دیر ہو رہی ہے یا پھر ممکن ہے کوشش بھی پوری کی جاتی ہو، دعائیں بھی عاجزی اور انکساری سے کی جاتی ہوں لیکن منشاء الہی یہ ہو کہ اس میدان میں ساری جماعت کے لوگوں کو لا کر ہوشیار کر دے.اس لئے نہ دعا نہیں سنتا ہو اور نہ کوششوں کا نتیجہ پیدا کرتا ہو.اگر ایسا ہے تو یہ اس کا رحم ہے اور فضل ہے.بہر حال ہمارا کام یہ ہے کہ دعائیں کریں.تم لوگوں کو چاہئے کہ دعائیں کرتے جاؤ اور اپنے افسروں کی پوری اطاعت کرو اور یہ نیت رکھ کر جاؤ کہ یہ کام ہمارے زمانہ میں ختم ہو جائے.ان ہدایات پر جن کا ایک حصہ اصل اور ایک ضمیمہ ہے پورا پورا عمل کرو.آگرہ تک چودھری حاکم علی صاحب کو امیر قافلہ مقرر کرتا ہوں.وہاں جا کر چودھری فتح محمد صاحب امیر ہوں گے.وہ جہاں جہاں لگائیں وہاں کام کرو اور جس کام پر لگایا جائے وہی کرو.اور جہاں تک تمہاری طاقت ہو کر و اس سے زیادہ کے لئے خدا بھی نہیں پوچھے گا.اس کے بعد دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر فتح دے.“ (الفضل 25 ستمبر 1923ء) 1 بخاری کتاب الدعوات باب الله تعالى مائة اسم غير واحدصفحه 113 حدیث 6410 مطبوعہ ریاض مارچ 1999ء الطبعة الثانية 2 ال عمران : 56 3: النصر: 3 :4 بخارى كتاب الصلواة باب قول النبي علم جعلت لى الارض مسجدًا و طهورًا صفحه 76 حدیث 438 مطبوعہ ریاض مارچ 1999ء الطبعة الثانية

Page 195

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 189 جلد اول میدان ارتداد میں مبلغین کی اشد ضرورت 5 نومبر 1923ء کو مبلغین کا ایک وفد علاقہ ارتداد کے لئے روانہ ہوا.اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل نصائح فرمائیں.اس دفعہ ملکانہ میدان کی طرف آپ لوگ جو جا رہے ہیں چوتھے وفد کے ہراول کے طور پر ہیں.تیسرے وفد کے بعض لوگ جن کی مد میں پوری ہوگئی ہیں یا ہونے والی ہیں آپ لوگ ان کے قائم مقام بن کر جا رہے ہیں اور اب گویا 9 ماہ کے قریب اس کام کو شروع کئے ہو گئے ہیں جو علاقہ ملکانہ میں کیا جا رہا ہے.پہلا وفد جب گیا تھا اُس وقت گو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بات بتادی تھی اور بارہا میں نے اس کو بیان بھی کر دیا تھا لیکن باقی جماعت میں اس کے متعلق احساس پیدا نہیں ہوا تھا کہ کب عظیم الشان طور پر ہمیں یہ کوشش کرنی پڑے گی اور اس کے لئے کتنی قربانیوں کی ضرورت ہوگی.اُس وقت بہت لوگ تھے جو سمجھتے تھے کہ پہلی سہ ماہی میں ہی ہمیں فتح حاصل ہو جائے گی اور بعض تو ایسے جلد باز تھے کہ انہوں نے علاقہ ارتداد میں جانے کے 20، 25 دن ہی بعد خط لکھنے شروع کر دیئے کہ ہمیں اتنے دن کام کرتے ہو گئے ہیں مگر ابھی تک یہ لوگ ارتداد سے واپس نہیں ہوئے.گویا وہ سمجھتے تھے کہ جاتے ہی ان کو مسلمان کر لیں گے اور اس میں کچھ بھی دیر اور وقت نہ لگے گا حالانکہ جو لوگ اپنا مذ ہب بدلتے ہیں وہ دو حالتوں کے بغیر نہیں بدلتے.اول تو یہ کہ یا تو ان کو یقین پیدا ہو جاتا ہے کہ فلاں مذہب سچا ہے اس لئے اس کو قبول کر لیتے ہیں.ایسے لوگ بحیثیت قوم اس وقت تک واپس نہیں لوٹ سکتے جب تک ان کے لئے پورا زور

Page 196

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 190 جلد اول نہ صرف کیا جائے اور ان کے شکوک اور شبہات کو دور نہ کر دیا جائے.دوسرے اپنا مذہب کوئی اس وقت چھوڑتا ہے جب تقویٰ و طہارت، عفت اور خوف خدا اس کے دل سے بالکل مٹ جاتا ہے اور طمع ولالچ ، حرص و ہوا اس کے دل پر پورا پورا قبضہ کر لیتی ہے اور وہ انسانیت سے خارج ہو کر درندہ بن جاتا ہے.پس ایسا انسان بھی جس کے سینہ سے ایمان نکل جاتا ہے اور لالچ و حرص کے سامان اس کو اپنی طرف بلا رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف وہ سامان بھی نہ ہوں تو وہ اس وقت تک واپس نہیں آ سکتا جب تک یا تو اس کی طرف سے بہتر لالچ اور طمع کے سامان اس کے لئے نہ مہیا کئے جائیں اور یا اس کے اندر ایمان نہ پیدا کر دیا جائے.بہر حال ملکانے ضرور اپنے پہلے دین کو برا سمجھ کر چھوڑتے تھے یا حرص اور لالچ کی وجہ سے چھوڑتے تھے دونوں صورتوں میں ان کا فور لوٹنا ناممکن تھا اس لئے جن لوگوں نے ان کے فور لوٹنے کی امیدیں لگائیں ان کی امیدیں چونکہ طبعی تقاضا کے خلاف تھیں اس لئے پوری نہ ہوئیں.پہلا وفد جس وقت گیا اس وقت مشکلات ہی مشکلات تھیں.پھر دوسرا وفد روانہ ہوا اس وقت بھی مشکلات تھیں گوان لوگوں سے کچھ نہ کچھ تعلقات پیدا ہو گئے تھے اور وہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ یہ لوگ ہمیں چھوڑ کر نہیں چلے جائیں گے جس طرح اور مولوی آتے اور چکر لگا کر چلے جاتے تھے اور یہی بات ان کو مرتذ کر رہی تھی.وہ کہتے تھے کہ جب ہمیں کوئی دین نہیں سکھاتا اور دنیا ہمارے پاس ہے نہیں اور ہندوؤں میں ملتی ہے تو ہم کیوں نہ ہندوؤں میں جاملیں.ہمارے مبلغوں نے بتایا کہ کئی لوگ مرتد ہوئے مگر روتے روتے.ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا دین تو اسلام ہی سچا ہے مگر ہم کو کسی نے نہیں سکھایا اور دنیا ہمیں ہندوؤں میں ملتی ہے اس سے کیوں روکتے ہو یہ تو لے لینے دو.گویا وہ اپنے آپ کو مجبوری میں پاتے تھے اس لئے کہ دین کا تو ہمارے پاس کچھ ہے ہی نہیں اور جو چیز ملتی ہے اس سے روکا جاتا ہے.مگر جب ہمارے آدمی گئے اور ان کو معلوم ہوا کہ اور لوگوں کی طرح یہ یونہی بھاگ جانے والے نہیں ہیں بلکہ مستقل رہنے والے ہیں تو ان کو خوشبو

Page 197

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 191 جلد اول آنے لگی کہ یہ لوگ ضرور دین سکھا دیں گے.جب یہ صورت پیدا ہوئی اور امید لگی کہ وہ اسلام قبول کر لیں گے تو اس وقت مولویوں کو فکر پڑی کہ آریہ ان لوگوں کو لے جاتے تو بھی ہمارے ہاتھ سے گئے تھے اب اگر احمدی لے جائیں گے تو بھی ہمارے ہاتھ سے گئے اس لئے وہ ہماری مخالفت میں کھڑے ہو گئے.وہ دین کی خاطر تو اس علاقہ میں گئے نہیں تھے اگر دین کی خاطر جاتے تو جب ملکانے ہمارے ذریعہ اسلام قبول کرنے لگے تھے وہ کہتے اگر یہ احمدیوں کے ذریعہ اسلام میں رہتے ہیں تو بھی رہیں، اور اگر ہمارے ذریعہ اسلام میں واپس آتے ہیں تو بھی آئیں.مگر چونکہ ان کے مد نظر اسلام نہ تھا اس لئے وہ ہمارے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.وہ دیہ بہ دیہہ گئے اور جا کر لوگوں کو کہا کہ احمدی تو آریوں سے بھی بدتر ہیں.ان کی باتیں سننے اور ماننے کی بجائے تمہارا آریہ ہو جانا اچھا ہے.گو ان لوگوں نے کہا کہ ہم تو ان میں کوئی بری بات نہیں دیکھتے اور نہ یہ ہمیں کوئی بری بات بتاتے ہیں مگر مولویوں نے کہا ان سے بات کرنا بھی کفر ہے اور یہ کفر بھی ایسا ہے کہ آریہ ہو جانے سے بدتر ہے اس لئے یا تو تم سب آریہ ہو جاؤ یا اگر اسلام پر قائم رہنا چاہتے ہو تو ان کو اپنے گاؤں سے نکال دو.اس طرح یہ دوسرا فتنہ ہمارے لئے پیدا ہو گیا.اس پر ہمیں ان لوگوں کو سمجھانا پڑا کہ ہم مسلمان ہیں ، خدا تعالیٰ کو ایک مانتے ہیں، رسول کریم ﷺ کی رسالت کے قائل ہیں، قرآن کو مانتے ہیں.پس پہلے وفد نے اگر ملکانوں کے دلوں سے یہ شبہات مٹائے کہ ہم تمہیں چھوڑ کر نہیں چلے جائیں گے تو دوسرے وفد نے یہ شکوک دور کئے کہ ہم تم لوگوں کو مسلمان بنانے آئے ہیں کا فر بنانے نہیں آئے.پھر تیسر ا وفد جس وقت گیا اس وقت موقع تھا کہ اس کی ضرب کا اثر پڑے اور نتیجہ نکلے یعنی وہ لوگ اسلام قبول کر لیں کیونکہ ایسے سامان خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیئے تھے.تیسری سہ ماہی کے وفد کے روانہ ہونے کے وقت میں نے جو تقریر کی تھی اس میں الله

Page 198

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 192 جلد اول اس طرف اشارہ بھی کر دیا تھا اور جانے والوں کو بتا دیا تھا کہ اگر تم پورے زور اور اخلاص سے کام کرو گے تو تمہارے لئے فتوحات کے دروازے کھل جائیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے میری بات پوری کر دی اور اس وقت تک دو بڑے گاؤں میں جن میں سے ایک اپنی شرافت کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے اور دوسرا آثار قدیمہ کی وجہ سے ملکانوں میں خاص رتبہ رکھتا ہے ان کا اکثر حصہ اسلام میں واپس آ گیا ہے.یعنی ایک تو آنور کا قصبہ جس کے قریب کرشن جی پیدا ہوئے تھے.وہاں ایک پہاڑی ہے جس کو مقدس سمجھا جاتا ہے.اس کے پاس دور دور سے لوگ آتے اور بعض لیٹ لیٹ کر اس کے گرد چکر لگاتے ہیں.تو ان آثار کو ملکا نے قدر اور عزت کی نظر سے دیکھتے ہیں.دوسرا گاؤں جس کے لوگ شرافت کے لئے اور فہمیدہ ہونے کے لحاظ سے عزت رکھتے ہیں اُسپار ہے.اس کا بھی بڑا حصہ اسلام کو قبول کر چکا ہے اور یہ اب عام رو چل گئی ہے.مگر اس کے ساتھ ہی دقتیں بھی پیدا ہو گئی ہیں اور وہ یہ کہ جو جماعتیں وہاں آریوں کے خلاف لڑ رہی تھیں ان میں مزید بھرتی کی طاقت نہیں رہی اور عین اس وقت جبکہ فتوحات ہو رہی ہیں ہمارے دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی لوگ ہٹنے شروع ہو گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ کام جنگی طریق سے ہو رہا ہے اور جس طرح جنگ میں لڑنے والے فوج کے دائیں اور بائیں سے ہٹنے والوں کی وجہ سے اس کو نقصان پہنچتا ہے اسی طرح یہاں ہمارے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں کیونکہ ان علاقوں کو جہاں دوسرے مولوی کام کر رہے تھے انہوں نے چھوڑ نا شروع کر دیا ہے.بعض نے تو اپنے آدمی کم کر دیئے ہیں.بعض جماعتوں کے آدمیوں کا کام صرف کھانا پینا یا ہنسی مذاق کر کے وقت گزار دینارہ گیا ہے.بعض جماعتوں کے اوپر کے کام کرنے والے تھک گئے ہیں اور وہ اپنا قدم پیچھے ہٹا رہے ہیں.اس طرح ہمارا دایاں بازو خالی ہو رہا ہے اور بایاں بھی.مگر ہم سمجھتے ہیں خدا کے فضل سے درحقیقت ہمارے لئے یہ مشکلات نہیں بلکہ کامیابی کے ذرائع ہیں کیونکہ جب اور لوگ تھک کر آجائیں گے اور اس کام کو چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ رہیں

Page 199

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 193 جلد اول گے تو اس وقت ہمیں جو کامیابی ہوگی وہ اور بھی نمایاں ہوگی.پس دوسرے لوگوں کا تھک کر پیچھے ہٹ جانا اور مشکلات سے گھبرا کر کام کو چھوڑ دینا ہمارے لئے گھبراہٹ کا موجب نہیں ہوسکتا.ہاں اگر گھبراہٹ ہو سکتی ہے تو یہ کہ جس قدر کام کرنے والوں کی ضرورت ہے اس قدر نہ مل سکیں اور میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اب پہلے کی طرح جوش و خروش کے ساتھ آگے نہیں بڑھتے.بعض تو کہتے ہیں یہ لمبا کام ہو گیا ہے ہم کب تک اسے کرتے رہیں گے مگر یاد رکھو مومن کا یہ حال نہیں ہوتا کیونکہ مومن کے لئے آرام کرنے کی کوئی صورت نہیں.مومن کا آرام اس کی موت کے بعد ہی ہے اور اسی کا نام مستعقر ہے.مومن کی منزل مقصود مرنے کے بعد ہی ہے.پس جب یہ صورت ہے تو خود سوچ لو کہ جو شخص منزل مقصود پہلے بیٹھ جاتا ہے وہ کب منزل تک پہنچ سکتا ہے.مثلاً ایک شخص نے بٹالہ جانا ہو مگر وہ وڈالہ جا کر بیٹھ رہے تو نا کام ہی رہے گا.ہاں جو شخص وڈالہ جانا چاہتا ہے وہ اگر وہاں جا کر بیٹھ جاتا ہے تو وہ منزل پر پہنچ گیا اور بٹالہ جانے والا وڈالہ پہنچ کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں جو یہاں پہنچ کر اپنے مقصد میں کامیاب سمجھا گیا تو مجھے کیوں نہ کامیاب سمجھا جائے کیونکہ اس کی منزل مقصود بٹالہ ہے نہ کہ وڈالہ.اسی طرح جب مومن کا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مل جائے اور وہ اس طرح مل سکتا ہے کہ انسان مرنے تک اس کے ملنے کے لئے کام کرتا جائے تو وہ شخص جو مرنے سے پہلے اس کام کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے وہ کس طرح خدا تعالیٰ کو مل سکتا ہے.پس یاد رکھو اور خوب یا د رکھو کہ مومن کے لئے یہ دنیا آرام کرنے کی جگہ نہیں اس کے لئے آرام کی جگہ وہی ہے جب اس کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ اسے بلا لیتا ہے کہ آ اور آ کر میرے فضل کے نیچے آرام کر.جو لوگ اس کام کے متعلق ست ہو رہے ہیں اور پیچھے ہٹ رہے ہیں انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ ان کے ایمان کی کمزوری ہے.نو کر کہا کرتے ہیں کہ کام ہی کرنا ہے جو کام ہو گا وہی کریں گے یہی مومن کا حال ہونا چاہئے.اگر خدا تعالیٰ ملکانوں میں ہی ہمیں فتح دے دے اور ان کو ہی ہمارے ذریعہ ہدایت ہو جائے تو ہمیں انہی لوگوں میں

Page 200

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 194 جلد اول علوسام صلى الله کام کرنے سے کیا عذر ہو سکتا ہے.ان لوگوں کو ہدایت خواہ اب ہو، خواہ ہماری نسلوں کے ذریعہ ہو ہم نے کام ہی کرنا ہے اور وہ کرتے جانا چاہئے.جو لوگ سست ہو گئے ہیں یہ ان کے ایمان کی کمزوری ہے.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہی کام کا اصل وقت ہے کیونکہ یہ خدا تعالیٰ کے ایک مامور کا زمانہ ہے.کئی لوگ اپنے دل میں یہ حسرت لے کر مر گئے کہ کاش! ہم رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو خدمات کرتے.مگر خدا تعالیٰ نے ہماری حسرتوں کو نکالنے کا ہمیں موقع عطا کر دیا ہے اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر ہم رسول کریم کا زمانہ پاتے تو یہ کرتے.کیونکہ ہمارے لئے حضرت مسیح موعود نے رسول کریم کا زمانہ آ کر دکھا دیا.اب بھی اسی طرح جہاد کا زمانہ ہے جس طرح رسول کریم کے کے وقت تھا، اب بھی اسی طرح دشمنوں کا مقابلہ در پیش ہے جس طرح اُس وقت تھا ، اب بھی اُسی قدر تکالیف موجود ہیں جس قدر اُس وقت تھیں، آج بھی ایسے ہی خطرات ہیں جیسے اُس زمانہ میں تھے ، اب بھی جان کی اُسی طرح قربانی کی جاسکتی ہے جس طرح اُس زمانہ میں کی جاتی تھی.کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں تبلیغ کرنے والوں کو جان کے خطرے ہیں ، اب بھی اسی طرح مال خرچ کرنے کا وقت ہے جس طرح اُس زمانہ میں تھا اور ایسے ہی اعلیٰ مقاصد میں خرچ کر سکتے ہیں جیسے مقاصد کے لئے رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں خرچ ہوتا تھا.پس خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے کامیابی کے دروازے کھول دیئے ہیں اور حسرتیں نکالنے کے سامان کر دیئے ہیں اب بھی اگر کوئی سستی کرتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے.جو دوست اس وقت جا رہے ہیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایسا کام ہے جس کے مقابلہ کا اور کوئی کام نہیں ہے.اور صرف ملکانوں میں ہی تبلیغ کے متعلق میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ جہاں بھی کوئی اس کام کے لئے جاتا ہے وہ ایسا ہی ہے.اگر کوئی امریکہ جاتا ہے جہاں کے لوگ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں تو اس کا درجہ اس مبلغ سے بڑا نہیں جو جاہل اور بے علم لوگوں میں جا کر تبلیغ کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے نزدیک اس مبلغ کا درجہ جو بادشاہوں کو صلى الله

Page 201

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 195 جلد اول تبلیغ کرنے کے لئے جاتا ہے اس مبلغ کے درجہ سے مساوی ہے جو غریبوں اور فقیروں کو تبلیغ کے لئے نکلتا ہے کیونکہ تبلیغ حق بیان کرنے کا نام ہے اور یہ جاہل کے سامنے بھی کیا جاتا ہے اور عالم کے سامنے بھی ، بادشاہ کے سامنے بھی اور گدا کے سامنے بھی.تو میری مراد ہر جگہ کی تبلیغ سے ہے.مگر علاقہ ملکانہ میں ایسی تبلیغ ہے جو جنگی تبلیغ ہے.اور یہ با برکت زمانہ ہے اس سے آپ لوگوں کو فائدہ اٹھانا چاہئے.آپ لوگ دعائیں کرتے جائیں اور بہت دعائیں کریں یہ فتوحات کا وقت ہے.اس وقت جس طرح بعض آسانیاں بھی ہیں اسی طرح بعض مشکلات بھی ہیں.آسانیاں تو یہ ہیں کہ تم سے پہلے لوگوں نے جو کام کیا ہے اس کی وجہ سے فتوحات کے دروازہ میں بآسانی داخل ہو سکتے ہو اور مشکل یہ ہے کہ تمہاری ذراسی سستی اور کوتاہی سے سارا کام خراب ہو سکتا ہے.پس گو تمہارا کام تو آسان ہے مگر ذمہ داری بڑھی ہوئی ہے.تم آسانی سے پہلے مبلغوں کی محنتوں کے پھل کھا سکتے ہو مگر ذرا سی غفلت سے سب کئے کرائے کو تباہ بھی کر سکتے ہو.تم خدا کے حضور عاجزی اور زاری کرتے ہوئے جاؤ اور بہت دعائیں کرو کہ خدا تعالی تم کو اس کام کا اہل ثابت کرے اور اپنی برکات سے مستفیض کرے.باقی ان ہدایات پر پورا پورا عمل کرو جو مطبوعہ تم کو دی گئی ہیں.مجھے یہ معلوم کر کے بہت افسوس ہوا کہ ایک شخص کئی ماہ ایک گاؤں میں رہتا ہے مگر جب انسپکٹر جا کر گاؤں کے آدمیوں کے نام اور حالات پوچھتا ہے تو وہ بتا نہیں سکتا.میرے نزدیک جو مبلغ کسی گاؤں میں رہتا ہے وہ اگر وہاں کے ایک آدمی سے بھی واقفیت پیدا کرنے میں سستی کرتا ہے اور چلا آتا ہے تو وہ ناکام ہے.اس کا کام سب سے اور ایک ایک فرد سے واقفیت پیدا کرنا ہے.سو ڈیڑھ سو کے قریب آدمیوں سے زیادہ سے زیادہ چار دن کے اندر اندر واقفیت پیدا کی جاسکتی ہے.آپ لوگ اس بات کو اپنا فرض سمجھیں اور جہاں مقرر کئے جائیں وہاں کے تمام لوگوں سے جلد جلد واقفیت پیدا کریں.پھر ایسے رنگ میں ان کو تبلیغ کریں کہ جس سے اخلاص اور محبت ٹپکے.ست انسان دوسرے کو بھی ست کر دیتا ہے اور چست دوسرے میں بھی چستی پیدا کر لیتا ہے.یہ ممکن نہیں کہ اخلاص

Page 202

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 196 جلد اول ہو ، جوش ہو ، تڑپ ہوا اور پھر تبلیغ کا اثر نہ ہو.کہتے ہیں افسرده دل، افسرده کند انجمن را اور یہ بالکل صحیح بات ہے.اگر رونی صورت والا کسی مجلس میں آ جائے تو دوسروں کو بھی ہے غمگین بنادے گا.اور اگر خوش طبع انسان غمگین مجمع میں آجائے تو ان کو بھی خوش کر دے گا.اسی طرح جو انسان اخلاص سے کام کرنے والا ہو وہ دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے.پس اگر وہ لوگ ایمان سے خالی بھی ہو گئے ہیں تو بھی اگر تم پورے جوش اور اخلاص سے کام کرو گے تو ان کے دلوں میں گرمی پیدا ہو جائے گی.پس آپ لوگ اخلاص سے کام کریں اور اپنے افسروں کی اطاعت کریں.کام میں کامیابی اسی وقت ہوسکتی ہے جب پوری پوری اطاعت کی جائے.ممکن ہے وہ افسر جو تم پر مقرر ہو علم میں تجربہ میں کم ہو.مگر انتظام میں یہ نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس میں اطاعت ضروری سمجھی جاتی ہے.پس اپنے افسروں کی اطاعت کرو، دعائیں کرو اور اخلاص سے کام کرو.چونکہ سورج ڈوب گیا ہے اس لئے اسی پر ختم کر کے دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.“ (الفضل 13 نومبر 1923ء)

Page 203

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 197 جلد اول دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ طلبائے مدرسہ احمدیہ نے مجاہد بخارا میاں محمد امین خان صاحب کی آمد کی خوشی میں دعوت چائے دی اور ایڈریس پیش کیا.خانصاحب موصوف نے اپنے سفر کے کچھ حالات سنائے.آخر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.وہ روح جس کے ساتھ مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے میاں محمد امین خان صاحب کو ان کی آمد کی خوشی میں ٹی پارٹی دی ہے اس کو میں پسند کرتا ہوں.لیکن میرے نزدیک اس دعوت کے پیچھے ان کے ارادے اگر اس کام میں مدد کے لئے کھڑے نہ ہوں جس کے لئے محمد امین صاحب گئے تھے اور جس کے لئے انہوں نے بیان کیا ہے کہ میں ہراول کے طور پر تھا اور جو کام انہوں نے کیا ہے جب اس کام کے لئے ہمارے طلباء اور مولوی تیار نہ ہوں اُس وقت تک یہ دعوت نہ صرف ہمارے لئے خوشی کا موجب نہیں بلکہ رنج کا باعث ہے.کوئی شخص جان کی بجائے چائے کی پیالی اور بسکٹ نہیں پیش کر سکتا اور جو کچھ آج پیش کیا گیا ہے وہ یہی ہے.مگر تم جانتے ہو کہ جس کام کے لئے تم تیاری کر رہے ہو اور جس کے لئے محمد امین صاحب گئے تھے اس کے لئے چائے کی قربانی کافی نہیں بلکہ اس کے لئے جان کی قربانی چاہئے.جس علاقہ میں محمد امین صاحب گئے وہاں انگریزوں کی رعایا کا جانا بہت مشکل کام ہے اور ہتھیلی پر سر رکھ کر جانے والی بات ہے.پھر پاسپورٹ لے کر جانا اور بات ہے.جن کے پاس یہ ہوتا ہے وہ کسی حد تک خطرات سے محفوظ ہوتے ہیں مگر ان کے پاس پاسپورٹ بھی نہ تھا.

Page 204

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 198 جلد اول اس لحاظ سے اور بھی خطرہ میں تھے.اور یہی وجہ ہے کہ جس قد ر عرصہ یہ اس علاقہ میں رہے اس کا زیادہ حصہ قید میں گزارا اور تھوڑا آزادی میں.میں سمجھتا ہوں دس دن میں سے 9 دن قید میں رہے ہیں اور ایک دن آزاد.باوجود ان حالات کے یہ اور بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بچا لیا.مگر خطرہ تھا کہ مارے جاتے.اگر اس علاقہ میں ان کے جانے کی جو غرض تھی یعنی یہ کہ وہاں جو احمدی ہیں ان کے حالات دریافت کریں یہ تو پوری نہ ہوئی تاہم ان کے ذریعہ ایک اور جماعت بن گئی.میری غرض ان کو وہاں بھیجنے کی یہ تھی کہ جو لوگ اس علاقہ میں احمدی ہو چکے ہیں ان کا پتہ لگائیں اور ان کے حالات دریافت کریں.گو اس میں ان کو کامیابی نہیں ہوئی.بوجہ اس کے کہ ان کو بہت زیادہ عرصہ قید میں رہنا پڑا.مگر ایک اور جماعت تیار کر آئے ہیں.یہ بھی ایک بہت بڑا اور بڑا اچھا کام کیا ہے اور اب ہم ان احمدی ہونے والے لوگوں کو کسمپرسی کی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے اور نہ ان کو جو پہلے کے احمدی ہیں چھوڑ سکتے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے مبلغ وہاں جائیں جو ان کی تلاش کریں اور سلسلہ کے ساتھ ان کا تعلق قائم کریں.لیکن چونکہ ہم انگریزوں کے وفادار ہیں اور دوسری حکومتیں ہمیں اور رنگ میں دیکھتی ہیں اس لئے جو کوئی ان ممالک میں جائے گا وہ اسی نیت اور ارادہ سے جائے گا کہ مجھے اگر جان بھی دینی پڑے گی تو بڑی خوشی سے دوں گا اور میں دین کی خاطر مرنے کے لئے جا رہا ہوں.چونکہ ہماری جماعت قریباً 90 فیصدی انگریزوں کے ماتحت ہے اور یہ ہمارا مذہبی فرض ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہیں اس کے قوانین کی پابندی کریں اس لئے زیادہ تر گورنمنٹ انگریزی کے معاملات کی تائید ہی کرتے ہیں اس سے دوسرے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں حالانکہ یہ غلط اور قطعاً غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہم جس بھی حکومت کے ماتحت ہوں اسی کے قوانین کی پابندی ہمارا فرض ہے.چونکہ ہم انگریزوں کے ماتحت ہیں اس لئے ان کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے قوانین کے

Page 205

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 199 جلد اول پابند ہیں نہ اس لئے کہ ہم ان کے ایجنٹ ہیں.اور وہ اصل جس کے ماتحت ہم اطاعت کرتے ہیں اس کے رو سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر کابل پر حملہ ہو تو ہم اپنی جماعت کے وہاں کے لوگوں کو تاکید کریں گے کہ اپنی حکومت کا ساتھ دیں اور خواہ انگریز ہی حملہ کریں ان کا مقابلہ کر کے جانیں دے دیں.اسی طرح اور ممالک کے احمدیوں کو کہیں گے اور یہ ان کا فرض ہوگا.اور دنیا میں امن اسی طرح قائم ہو سکتا ہے کہ ایک ملک کی رعایا اپنے ملک کی خاطر مرنے مارنے کے لئے تیار ہو جائے.جب کوئی قوم یہ ارادہ کر لے تو دشمن اس ملک کے کھنڈروں پر قبضہ کرنے کے لئے حملہ نہیں کرے گا.اگر دشمن کو یہ معلوم ہو جائے کہ سارا ملک تباہ ہو جائے گا اور تمام کے تمام لوگ اپنے ملک کے لئے جانیں دے دیں گے تب میں اس ملک میں داخل ہوسکوں گا تو کبھی کوئی کسی ملک پر حملہ کرنے کا خیال نہ کرے.مثلاً کا بل ہی ہے اگر انگریز چاہیں کہ اس ملک کی کانیں وغیرہ حاصل کرنے کے لئے اس پر حملہ کریں لیکن کابل کی ساری رعایا احمدیت کی اس تعلیم کے ماتحت اس ارادہ سے کھڑی ہو جائے کہ سارے کے سارے مر جائیں گے لیکن اپنے ملک میں کسی کو داخل نہ ہونے دیں گے تو انگریز حملہ کرنے کی کبھی جرات نہ کریں گے خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں.وجہ یہ ہے کہ جب اس طرح کوئی قوم جان شاری کے لئے تیار ہو جاتی ہے تو ساری دنیا کی ہمدردی حاصل کر لیتی ہے.کیونکہ لوگ دشمن کی بہادری کی بھی تعریف کرتے ہیں.تو ہمارا یہ اصول ہے اگر اس پر سب لوگ عمل کرنے لگ جائیں تو کبھی جنگ نہ ہو.اس وقت دنیا میں دو قسم کی حکومتیں ہیں.ایک پرانی قسم کی مثلاً انگریزوں کی حکومت اور ایک نئی قسم کی مثلاً روسی حکومت.مگر ہم ان دونوں طریق کو لغو سمجھتے ہیں.ہم نہ یہ پسند کرتے ہیں کہ ایک حصہ ملک کے ہاتھ میں ساری حکومت ہو اور نہ یہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کے ذاتی حقوق میں بھی دخل دیا جائے اور وہ بھی اڑا دیئے جائیں.جیسا کہ روسیوں کا طریق عمل ہے.اور یہ غلط اور تباہ کن طریق ہے.ذاتی ملکیت کے سوا ترقی نہیں ہو سکتی.تو

Page 206

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 200 جلد اول روس والوں نے غلطی کی ہے مگر باوجود اس کے ہم یہی کہیں گے کہ جو لوگ اس کی رعایا ہیں وہ اس کے قوانین کی پابندی کریں.اس وجہ سے ان کے ملک میں جماعت احمدیہ کا پھیلنا ان کے لئے کسی قسم کے خطرہ کا باعث نہیں ہو سکتا.مگر ابھی وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکتے اور جب کہ انگریز نہیں سمجھ سکے جن کے ماتحت ہم کئی سال سے ہیں اور جن کی وجہ سے ہم امریکہ، جرمنی ، مصر و غیرہ ممالک میں جا کر نقصان اٹھاتے اور مشکلات برداشت کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کی اپنے ملک میں جماعت نہ بننے دو ورنہ انگریزوں کے ذریعہ نقصان پہنچائیں گے.تو ہم ان نئے ممالک میں جو ہمارے اصول سے بالکل ناواقف ہیں کب امن سے رہ سکتے ہیں.ہم تو ابھی اس اپنے ملک میں بھی کئی قسم کے نقصان برداشت کر رہے ہیں.یہ اور بات ہے کہ کوئی انگریز افسر ذاتی خوبی اور سلسلہ کی صحیح واقفیت سے انفرادی معاملہ میں ہمارے ساتھ انصاف کرے.مگر بہ حیثیت حکومت انگریزوں سے ہمیں فائدہ نہیں پہنچا.ان کے ہاں یہ قاعدہ معلوم ہوتا ہے کہ غالب کو دیکھو اور اسی کی طرف جھکو.پس جب کہ ابھی تک انگریز بھی ہم پر مطمئن نہیں تو روسی کہاں مطمئن ہو سکتے ہیں.مگر ہم اس پر ناراض نہیں ہوتے اور چڑتے نہیں.کئی لوگ کہتے ہیں کہ جب انگریزوں کا ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہے تو ہم وفاداری کیسی کریں.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ ہم ان کے لئے وفاداری نہیں کرتے بلکہ اپنے اصل کے ماتحت کرتے ہیں اور اگر انگریز ہمیں ماریں گرفتار کر لیں تو بھی ہم اسی اصل پر قائم رہیں گے.غرض روسی ابھی ہم پر مطمئن نہیں ہو سکتے اور وہ اس میں معذور بھی ہیں.ہمیں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے اور انہیں اپنے عقائد و اصول سے آگاہ کرنا چاہئے.مگر جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم ان لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتے جو ان کے ملک میں احمدی ہو چکے ہیں.میں نے اپنی جماعت کو کئی بار بتایا ہے کہ ابھی مالی قربانی کا وقت ہے اس سے فائدہ اٹھا لو.مگر اس سے یہ نہ سمجھو کہ جانی قربانی نہیں کرنی پڑے گی.کرنی پڑے گی اور ضرورت کرنی پڑے گی.ایک خطبہ جمعہ میں میں نے کہا تھا کہ یہ مت سمجھو کہ ہم انگریزوں کی

Page 207

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 201 جلد اول حکومت میں رہتے ہیں جان دینے کا کہاں موقع ہے.بلکہ وہ وقت بھی آئے گا جب کہ جان کی قربانی کرنی ہوگی اور کوئی عجب نہیں کہ روس میں ہی ہمیں جانیں دینی پڑیں.روس کے متعلق جو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اور وہاں جلدی احمدیت پھیلے گی.میری بھی ایک رؤیا ہے کہ حضرت مسیح موعود کہیں سے تشریف لائے میں نے پوچھا آپ کہاں سے آئے ہیں آپ نے فرمایا میں امریکہ سے آ رہا ہوں اب بخارا جا رہا ہوں.امریکہ میں خدا کے فضل سے سات سو کے قریب عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں اور تین مسجدیں بن گئی ہیں.پھر ایک اور روچلی ہے.وہاں جو حبشی بستے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کو بھی قانو نا وہی حقوق حاصل ہوں جو سفید لوگوں کو حاصل ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہمیں مسلمان ہو جانا چاہئے.چنانچہ ان کی کانگریس کا جو اخبار ہے اس نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ پوری مساوات ہمیں تبھی مل سکتی ہے جب کہ ہم مسلمان ہو جائیں اور بہت سے مسلمان ہو بھی چکے ہیں اور ان پر احمدیت کا اثر ضرور ہو گا کیونکہ وہ لیگوس سے گئے ہوئے ہیں جہاں احمدیت پھیل رہی ہے.مگر وہاں بھی ہمیں یہی وقت ہے کہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ ہم مسلمان ہو کر سفید لوگوں کا مقابلہ کریں جو حاکم ہیں.اگر وہ سمجھ لیں کہ ایسا کرنے کے بغیر بھی حقوق مل سکتے ہیں تو وہ اڑھائی کروڑ کے قریب لوگ ہیں جو جلدی مسلمان ہو سکتے ہیں.غرض بخارا کے متعلق مسیح موعود علیہ السلام کی یہ رویا ہے کہ زار روس کا سونٹا آپ کو دیا گیا 1 اور خوارزم بادشاہ کی کمان آپ کے ہاتھ میں آگئی.یہ پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی.ایک دفعہ میں لاہور سے روانہ ہوا تو پر و فیسر سید عبد القادر صاحب ایم.اے اور کچھ کالج کے لڑکے سٹیشن پر ملنے آئے.گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر صاحب نے کہا آپ کہتے ہیں حضرت مرزا صاحب کی فلاں فلاں پیشگوئیاں پوری ہو گئیں کیا آئندہ کے متعلق بھی کوئی پیشگوئی ہے جو پوری ہوگی ؟ اس وقت میں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رؤیا ہے کہ زار روس کا سونٹا مجھے دیا گیا.اس کے مطابق زار کی حکومت

Page 208

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 202 جلد اول احمدیوں کے ہاتھ آئے گی.اور میں سمجھتا ہوں یہ اس رنگ میں ہوگا کہ بخارا جو روس کا حصہ ہے اور اس میں مسلمان آباد ہیں وہ پہلے احمدیت کو قبول کرے گا اور باقی ملک کے حصوں پر بھی قبضہ ہو جائے گا.اور چونکہ روسی عیسائیت سے سخت متنفر ہیں ، گرجے گرا رہے ہیں اور پادریوں کو پکڑ رہے ہیں گو ایک حصہ دل سے عیسائی ہے مگر کثرت سے متنفر ہو رہے ہیں اور ان کا دل عیسائیت کے نقوش سے صاف ہو رہا ہے اور وہ دہریت کی طرف جا رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ جب دل کی سختی صاف ہو تو اس پر لکھنا آسان ہوتا ہے.پس ان لوگوں کے دل چونکہ پرانی روایات کے اثر سے صاف ہو رہے ہیں اس لئے اسلام کی تعلیم ان پر آسانی سے لکھی جاسکتی ہے.بخارا کے علاوہ روس کی مغربی طرف سے احمدیت کو پھیلانے کے لئے میں نے جرمنی میں مرکز قائم کیا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان دونوں طرفوں سے روس میں تبلیغ اسلام کی جاسکتی ہے.مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ ہر قسم کی قربانی کے لئے کھڑے ہو جائیں.اگر ایک شخص مارا جائے تو دوسرا اس کی جگہ چلا جائے.اگر دوسرا مارا جائے تو تیسرا چلا جائے اور جب تک ایسی حالت رہے یہ سلسلہ ختم نہ ہو.پس جب تک قوم اس طرح قربانی کے لئے تیار نہ ہو اور موت کا ڈراپنے دل سے نہ نکال دے اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی.اب کیوں مسلمان ہر جگہ ذلیل ہو رہے ہیں؟ اس لئے کہ وہ بزدل ہو گئے ہیں خود کچھ نہیں کر سکتے اور دوسروں کے آگے عاجزی کرتے پھرتے ہیں.مگر تم یاد رکھو کہ کوئی قوم بہادر بنے بغیر کچھ نہیں حاصل کر سکتی.کسی قوم کے لوگ تھوڑے ہوں مگر بہادر ہوں تو کروڑوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن اگر کروڑوں ہوں مگر بزدل ہوں تو کچھ نہیں کر سکتے.صحابہ کرام کے حالات صحابہ کرام کے حالات پڑھ کر حیرت ہی آتی ہے.ایک صلى دفعہ رسول کریم ﷺ نے مردم شماری کرنے کا ارشاد

Page 209

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 203 جلد اول صلى الله الله فرمایا.مردم شماری ہوئی سارے مرد عورتیں بچے ملا کر سات سو مسلمان ہوئے.اس پر ایک صحابی نے رسول کریم ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں کیا اب بھی ہم تباہ ہو سکتے ہیں.2 ذرا ان کی ہمتیں اور حوصلے دیکھو.سات سو کی تعداد جس میں عورتیں بچے بوڑھے سب شامل ہیں اس پر کہتے ہیں کہ اب ہم کو دنیا نہیں مٹا سکتی.ہم ساری دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں.مگر آج دیکھو کروڑوں مسلمان ہیں.کوئی چالیس کروڑ بتا تا ہے اور کوئی ساٹھ کروڑ.ہمیں کروڑ ہی مان لو مگر کس طرح کانپ رہے اور سمجھ رہے ہیں کہ ہم آج تباہ ہوئے یا کل.پس یا درکھو کا میابی کثرت اور قلت تعداد پر نہیں ہوتی بلکہ جرات اور دلیری، بہادری اور جوانمردی پر ہوتی ہے.بہادر اور دلیر انسان اگر ایک بھی کھڑا ہو جائے تو کچھ کا کچھ کر کے دکھا دیتا ہے.دیکھو جب رسول کریم ﷺ دنیا کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو آپ نے کثرت تعداد سے دشمنوں کو مغلوب کیا اور فتح حاصل کی تھی ؟ ہرگز نہیں.پس یہ مت سمجھو کہ تعداد کی زیادتی فتح کر سکتی ہے اور یہ بھی مت خیال کرو کہ تم تعداد میں تھوڑے ہو.جو چیز فتح کر سکتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور ہمارے ارادے اور حوصلے ہیں.ہم اگر اس نیت سے کھڑے ہوں گے کہ اگر ساری دنیا بھی ہمارے مقابلہ پر آ جائے تو ہم کامیاب ہوں گے تو ضرور ہی خدا تعالیٰ ہمیں کامیاب کرے گا.دیکھو جو لوگ جھوٹ کے لئے کمر بستہ ہو کر کھڑے ہو جاتے ہیں وہ بھی کچھ نہ کچھ کر لیتے ہیں مگر جو حق کے لئے کھڑے ہوتے ہیں ان کو تو خدا اور اس کے ملائکہ کی مدد حاصل ہوتی ہے.وہ کیوں کا میاب نہ ہوں.پس میں اس وقت احمد یہ سکول کے لڑکوں اور دوسرے کالجوں کے لڑکوں کو جو یہاں آئے ہوئے ہیں کہتا ہوں یہ مت سمجھو کہ تم تھوڑے ہو.تعداد کی زیادتی کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر اس امر کی ضرورت ہے کہ ہر ایک چیز دین کے لئے قربان کرنے کو کھڑے ہو جاؤ.جب یہ بات تم میں پیدا ہو جائے گی تو پھر تمہارے رستہ میں کوئی چیز روک نہیں ہو سکے گی.یہ وقت ہے کہ اس وقت تم اٹھ کھڑے ہو.دنیا پکار پکار کر تمہیں بلا

Page 210

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 204 جلد اول رہی ہے.چاروں طرف گمراہی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ ان تک سچا دین پہنچے مگر ان میں سچے دین کے پر کھنے کی طاقت نہیں.اس طاقت کا پیدا کر نا تمہارا کام ہے.جب یہ طاقت ان میں پیدا ہو جائے گی تو وہ خود صداقت کو قبول کر لیں گے.ہاں کی صداقت کا پیش کرنا ضروری ہے.اس وقت تو ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی ہے کہ ہم جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ زہر آلود پانی ہے اس لئے اسے وہ رد کرتے ہیں.تمہارا یہ کام ہے کہ یہ ثابت کرو کہ یہ زہر آلود پانی نہیں بلکہ تریاق ہے اور اسی کے ذریعہ روحانی اور مذہبی زندگی قائم رہ سکے گی.جب تم یہ ثابت کر دو گے تو لوگ خود بخو د قبول کرلیں گے.پس میں پھر اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہم اس علاقہ کو خالی نہیں چھوڑ سکتے جہاں سے میاں محمد امین آئے ہیں.اور یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم ان سے قصے سن لیں اور خاموش ہو کر بیٹھے رہیں.میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کوئی کام شروع کر کے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ میں تو جس کام کو شروع کرتا ہوں اس کو جاری رکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور کامیابی حاصل کرنے کا یہی طریق ہے کہ کام کو شروع کر کے پھر چھوڑا نہ جائے.پس وہاں تبلیغی وفد جانا ضروری ہے.ایک شخص تو میں نے تجویز کر لیا ہے جس کا میں نام نہیں ظاہر کر سکتا.کیونکہ ہمارے لئے کئی قسم کی مشکلات ہیں.ممکن ہے اس کو بھی اسی طرح جانا پڑے جس طرح محمد امین صاحب گئے تھے.مگر اب ایک سے زیادہ آدمیوں کو بھیجنے کی ضرورت ہے.بعض تبلیغ کا کام کریں اور بعض خطوط لا کر ایران میں ڈالنے کے کام پر ہوں تا کہ ہمیں اطلاع ملتی رہے.ایران تک کا سفر لمبا بھی ہے اور خطر ناک بھی اس لئے ممکن ہے کہ سال بھر میں ایک آدمی ایک آدھ خط ہی لا سکے.اس وجہ سے کم از کم ایسے چار آدمیوں کی ضرورت ہے.اسی طرح کئی ایسے آدمی چاہئیں جو مختلف مرکزوں میں بیٹھ کر کام شروع کریں.پس اسی لئے میں نے پہلے بھی تحریک کی تھی اور اب پھر کرتا ہوں کہ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ اپنے آپ کو اس کام کے لئے آمادہ رکھیں اور اپنے نام دفتر تالیف واشاعت میں دے دیں.ان میں سے جو مناسب ہوں گے ان کو میں اطلاع دے دوں گا.پھر جیسی مصلحت ہوئی ظاہر یا پوشیدہ ان کو روانہ کر دیا

Page 211

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 205 جلد اول جائے گا.اس موقع پر میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ میاں محمد امین خان کا سفر نامہ ایسا دلچسپ ہے کہ اگر غور کیا جائے تو بہت سے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.بعد میں جانے والوں کو ان مشکلات کا علم اور ان کے حل کرنے کا طریق معلوم ہو سکتا ہے.میں چاہتا ہوں کہ سادہ الفاظ میں سفر نامہ لکھوا کر چھپوا دیا جائے.یوں بھی سفر نامے قصہ کے طور پر ہوتے ہیں مگر ان کا سفر تو بہت دلچسپ ہے.کیونکہ یہ بغیر خرچ کے گھر سے چلے.کہیں بھوکے رہے کہیں پیاسے کہیں جیل میں رہے کہیں گھروں میں.اس لئے ارادہ ہے کہ ان کا سفر نامہ چھپوا دیا جائے اور بچوں کو پڑھایا جائے تاکہ بچوں کے دلوں سے مشکلات اور تکالیف کا رعب مٹ جائے.یورپ کے متعلق میں نے پڑھا ہے کہ وہاں ابن بطوطہ 3 اور رابن سن کر وسو ( 4Robinson Crusoe کے قصوں کی نے جس طرح ان لوگوں کی ترقی میں مدد دی ہے اور کسی کتاب نے نہیں دی.ان کے قصے لڑکوں کو پڑھائے جاتے ہیں اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ انہوں نے مشکلات میں اس طرح مقابلہ کیا ، یہ حالات پیش آئے ، اس طرح کامیابی حاصل ہوئی تو ان کے دل میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی باہر جائیں اور کامیابی حاصل کریں، مشکلات پر غالب آئیں.مگر ہمارے ملک میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی افریقہ بھی جاتا ہے تو ماتم پڑ جاتا ہے حالانکہ یورپ والے لڑائی پر بھی جاتے ہیں تو کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.تو سفری قصوں سے ایک تو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ باہر جا کر سیر کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے دوسرے یہ کہ مشکلات سے آگا ہی ہوتی ہے اور ان پر غالب آنے کے طریق معلوم ہوتے ہیں.کہتے ہیں کوئی بے وقوف بادشاہ تھا.اس نے خیال کیا فوجوں پر خواہ مخواہ اتنا روپیہ صرف ہوتا ہے ان کے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ان کے بجائے قصائیوں سے لڑائی کے وقت کام لینا چاہئے.یہ خیال کر کے اس نے فوجوں کو موقوف کر دیا.یہ معلوم کر کے غنیم نے حملہ کر دیا جس کے مقابلہ کے لئے قصائیوں کو بھیج دیا گیا.مگر وہ جلد ہی بھاگ آئے.پوچھا کیوں بھاگے؟ تو کہنے لگے کہ وہ تو رگ دیکھتے ہیں نہ بیٹھا.بے تحاشا مارتے جاتے ہیں.یہ ہے تو قصہ مگر جس طرح اور قصوں کی ایک غرض ہوتی ہے اسی طرح اس کی بھی یہ

Page 212

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 206 جلد اول غرض ہے کہ جو لوگ کسی کام کا تجربہ نہیں رکھتے وہ وقت پر کچھ نہیں کر سکتے.پس مشکلات کے متعلق تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ کیا کرنا چاہئے.سفر ناموں کے مطالعہ سے یہ بھی فائدہ.حاصل ہوتا ہے اور ایک حد تک مشکلات کا علم ہو جاتا ہے جو تجربہ کی ایک شاخ ہے.تیسرے یہ کہ جو دقتیں پیش آتی ہوں ان کا حل معلوم ہو جاتا ہے گونئی مشکلات بھی پیش آ سکتی ہیں اور آتی ہیں مگر ان کو بھی اسی طرح دور کیا جا سکتا ہے جس طرح اور وں کو.پس میرا منشاء ہے کہ ان سے سفر نامہ لکھوایا جائے اور بچوں کو پڑھایا جائے تا کہ یہ ڈر اور ہیت جو ملک سے باہر جانے کے متعلق دلوں میں ہے بچوں کے دلوں سے نکال دی جائے.میں دعا کرتا ہوں کہ میاں محمد امین صاحب کو خدا تعالیٰ اور خدمت دین کرنے کی توفیق دے اور اگر قادیان سے دور رہنے کی وجہ سے ان کے دل پر کچھ زنگ لگ گیا ہو تو اسے دور کر دے.ان کی ایمانی ترقی کے سامان کرے.نیز یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ ہماری نسلیں تبلیغ کے لئے نکلیں اور ان کے دل سے ہر قسم کا ڈر اور خوف اور خطرہ نکل جائے اور خدا تعالیٰ انہیں کامیابی ونصرت اور فتح دے.“ (الفضل 16 نومبر 1923ء) 1 تذکره صفحه 378،377 ایڈیشن چہارم 2004 ء :2 مسلم کتاب الایمان باب جواز الاستسرار بالايمان للخائف صفحه 75 حدیث نمبر 377 مطبوعہ ریاض 2000 الطبعة الثانية 3: ابن بطوطہ: پیدائش 24 فروری 1304 ء وفات 1377ء.مسلمان سیاح، قرون وسطی کے کسی اور سیاح نے اتنی وسیع سیاحت نہیں کی.تمہیں سال کی مدت میں مسلسل سیاحتوں کے تحریر کرائے ہوئے حالات الجزائر پر فرانسیسی قبضے کے دوران دریافت ہوئے.اس کے سفر نامے قابل قدر ہیں کیونکہ ان سے بہت سے ملکوں کی گزشتہ تاریخ اور معاشرت پر بڑی دلچسپ روشنی پڑتی ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 48 مطبوعہ لاہور 1987ء) 4: رابن سن کر وسو: Robinson Crusoe) افسانوی کردار جس کی تخلیق ڈینئیل ڈیفور نے ایک غیر آباد جزیرے پر شکستہ کشتی کی کہانی میں کی.اس کہانی کا خیال جز ا اسکاٹش ملاح

Page 213

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 207 الیگزنڈ رسیلکرک کی مہم جوئی سے پیدا ہوا.جلد اول (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 643 مطبوعہ لاہور 1987ء)

Page 214

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 208 جلد اول حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کی آمد 5 دسمبر 1923ء کو طلباء مدرسہ احمدیہ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کی امریکہ سے قادیان واپسی پر دعوت کی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا :.یہ ایک قدرتی امر ہے کہ جب کوئی عزیز دوست عرصہ تک باہر رہے تو اس کی واپسی پر ایک عجیب حالت پیدا ہوتی ہے جو عام حالات سے علیحدہ ہوتی ہے.انسان کی دو حالتیں ہوتی ہیں ایک خوشی کی اور ایک رنج کی اور ان دونوں کے مختلف حالات ہوتے ہیں.لیکن بعض ایسے حالات ہوتے ہیں جو اپنے اندر خاص اثرات رکھتے ہیں.جب کوئی عزیز کسی بھی جدائی کے بعد واپس آتا ہے تو جذبات میں ایک ایسا ہیجان پیدا ہوتا ہے جو رنج اور خوشی سے الگ ہوتا ہے.خوشی کا نشان ہنستا ہے اور رنج کا آنسو بہانا.لیکن اس موقع پر خوشی بھی ہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بھی بہتے اور رقت کے نشان کو ظاہر ہوتے ہیں.دل کے ایک حصہ میں رقت ہوتی ہے اور دوسرے حصہ میں خوشی کی لہریں اٹھ رہی ہوتی ہیں.اس حالت کے ہونے کو تو ثابت کیا جا سکتا ہے مگر اس کی کیفیت کو بیان نہیں کیا جا سکتا.جب ایک عزیز جدائی کے بعد آتا ہے تو جہاں ایک کیفیت محبت کی دل میں پیدا ہوتی ہے وہاں اس کے سامنے ہونے سے درد کی کیفیات بھی ابھر آتی ہیں اور ان مشکلات کا تصور پیدا ہو جاتا ہے جن میں سے وہ عزیز گزرا ہوتا ہے.جو عزیز باہر سے آتا ہے وہ جن مشکلات میں سے گزرتا ہے ان میں اس کے پیش نظر

Page 215

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 209 جلد اول ایک عزم اور اپنے کام کو کامیابی سے سرانجام دینے کا خیال ہوتا ہے اور جب وہ ان مشکلات میں سے گزر کر اور اپنے کام کو ختم کر کے آتا ہے تو اسے ان مشکلات کی یاد آتی ہے جن میں اس کو خیال آتا تھا کہ اگر میرے عزیز میرے پاس ہوتے تو میری مشکلات میں کمی کا موجب ہوتے.جب وہ آتا ہے تو ان مشکلات کا تصور جو کام کرتے وقت مفقود یا کام کرنے کی دھن میں بھولا ہوا ہوتا ہے ایک دم سے ابھر پڑتا ہے اس لئے اس کی بھی رنج اور خوشی کی کیفیت ہوتی ہے.اسی طرح جن کا عزیز واپس آتا ہے اس کی غیر حاضری میں ان کے دل میں دو جذ بے ہوتے ہیں.ایک یہ کہ وہ آئے دوسرے یہ کہ کامیاب واپس آئے.لیکن جب وہ آتا ہے تو ان کے دل میں بھی ایک درد اور مسرت کی مخلوط کیفیت موجزن ہوتی ہے.دونوں کے دلوں کی تکالیف کے دبے ہوئے خیالات جو پہلے ایک گوشہ میں پڑے تھے اس وقت ان سے کہتے ہیں کہ اب ذرا ہمیں بھی ظاہر ہو لینے دو اور وہ ظاہر ہونے لگتے ہیں.در حقیقت یہ ایک محبت اور خوشی کا جذبہ ہوتا ہے مگر ایسا کہ چہرے ہنس رہے ہوتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں.جہاں وہ عزیز جو باہر تھا کام کی دھن میں مشکلات سے بے پرواہ ہوتا ہے وہاں اس کے وہ عزیز جو گھر پر ہوتے ہیں ان مشکلات کے حل ہونے کے لئے دعاؤں میں مصروف ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ جب مشکلات کا ہجوم ہو اس وقت انسان جزع فزع نہیں کیا کرتا.لیکن جب وہ ایک دوسرے کے سامنے ہوتے ہیں جدائی ختم ہو جاتی ہے تو دبے ہوئے درد کے جذبے ظاہر ہو جاتے ہیں اور مسرت کی لہریں اٹھنے لگتی ہیں.یہ کیفیات انسان پر طاری ہوتی ہیں جو کسی زبان میں ادا نہیں ہو سکتیں.کوئی فصیح و بلیغ ان کو ادا نہیں کر سکتا.قلب محسوس کرتا ہے چہرہ ظاہر کرتا ہے مگر زبان بیان نہیں کر سکتی.مفتی صاحب کے واپس آنے پر میری اور دوسرے احباب کی جو کیفیت ہے وہ یہی ہے.ان کو جو ایڈریس پیش کیا گیا ہے وہ بھی ان دونوں کیفیات کو ظاہر کرتا ہے.یہی وہ فطری جذبہ ہے جس کی طرف میں اوپر اشارہ کر آیا ہوں.کیونکہ جانبین میں جو جذبات

Page 216

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 210 جلد اول کئی سال سے دبے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ ہمارا بھی حق ہے کہ ظاہر ہوں.یہ کیفیت سرور ، لذت اور درد کا مجموعہ ہے.مگر یہ درد پیارا ہے کیونکہ اگر اس سے حصہ نہ لیا جائے تو مسرت کامل نہیں ہوتی.یہ درد ایسا ہی ہے جیسا پھوڑے کو سہلانے سے ہوتا ہے.پس یہ در دلطیف ہے اور یہ تکلیف مزے دار ہے.جو لوگ اس درد اور اس لذت سے خالی ہیں اور جن کے قلوب میں یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی وہ لذت اور مسرت سے ناواقف ہیں.کوئی مسرت سے واقف بول اس درد کی کیفیت کے قبول کرنے سے انکار نہیں کر سکتا بلکہ چاہتا ہے کہ یہ درد اور یہ کیفیت ہمیشہ طاری رہے.مفتی صاحب کا سفر انگلستان اور پھر سفر امریکہ اس میں حقیقی سفر امریکہ کا ہی ہے اور اس میں جو کامیابی ہوئی ہے وہ فتوحات کا دروازہ کھولنے والی ہے.انگلستان ( کی ) یہ حالت ہے کہ پہلے ہی آثار سے ثابت ہو رہا ہے وہ تبلیغ کے لئے سیڑھی تو ہو سکتا ہے لیکن مقصد نہیں ہو سکتا.کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جس ملک کے لوگ حاکم ہوں وہ اپنے آپ کو ماتحتوں سے معزز سمجھتے ہیں اور ان میں ایک قسم کا تکبر ہوتا ہے اس لئے انگلستان والے مسیح موعود کی عزت نہیں کر سکتے جب تک ہر طرف سے آواز نہ آئے کہ مسیح موعود آ گیا اور اس کو ماننا چاہئے.مگر امریکہ والوں کی حالت انگلستان والوں سے مختلف ہے.ہم ان کی رعایا کی حیثیت نہیں رکھتے.انگلستان والوں کے ذہن میں تو یہ بات نہیں آسکتی کہ کوئی ترقی ان کی رعایا کے لوگ ان سے بڑھ کر کر سکتے ہیں.ان کا تکبران کو اس بات کی اجازت نہ دے گا کہ وہ حاکم ہو کر مسیح موعود کے غلام بنیں.وہ اگر ہمارے مشن کی طرف توجہ کرتے ہیں تو تماشہ کے طور پر.جیسے دو بچے کھیل رہے ہوں اور دیکھنے والے دل بڑھانے کے لئے کہا کرتے ہیں واہ واہ بڑا بہادر ہے.حالانکہ اس بچے کو واقعی بہادر نہیں سمجھا جاتا.اسی طرح اگر وہ ہماری کسی خوبی کی تعریف کرتے ہیں تو صرف اس طرح کہ گویا وہ بچوں کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور دل بڑھانے کے لئے تعریف کرتے ہیں.پس اصل زمانہ مفتی صاحب کے کام کا وہی ہے جو امریکہ میں انہوں نے گزارا.

Page 217

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 211 جلد اول جب مفتی صاحب ساحل امریکہ پر پہنچے تو ان کو داخلہ ملک سے روکا گیا.ان کا داخلہ ایک خاص نشان ہے.میں نے ان دنوں سیالکوٹ میں تقریر کی جس میں کہا تھا کہ امریکہ کے پاس جہاز ہیں وہ سمجھتا ہے کہ یورپ کی طاقتیں اس سے ڈرتی ہیں پھر اس کو اپنی فوجوں پر ناز ہے مگر باوجود اپنے ان سامانوں کے وہ ہمیں داخلہ سے نہیں روک سکتا.ہم امریکہ میں داخل ہوں گے اور ضرور داخل ہوں گے.اس بات سے وہاں کے لوگ متعجب ہوئے اور بعض غیر احمدیوں نے کہلا بھیجا کہ یہ تو بڑی بات ہے جو انہوں نے کہی ہے مگر وہ ان باتوں سے واقف نہ تھے کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ مفتی صاحب امریکہ میں ضرور داخل ہوں گے.اس کے بعد میں ایڈریس کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.میری ہمیشہ سے یہ خواہش ہے کہ مدرسہ احمد یہ علمی ترقی کرے.میں ہمیشہ ایڈریسوں پر ریمارک اسی نیست سے کیا کرتا ہوں کہ ان میں اصلاح کی جائے.آج جو ایڈریس پڑھا گیا ہے وہ موقع کے مناسب ہے.اس کی عبارت اور مضمون بھی عمدہ ہے.اگر یہ کسی خاص فرد سے تعلق نہیں رکھتا تو یہ قابل تعریف ہے اور پہلے ایڈریسوں سے ایک نمایاں ترقی ظاہر کرتا ہے.میں ایڈریس پیش کرنے والوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنا فرض اتنا ہی نہ سمجھیں کہ ایڈریس پیش کر دیا اور خوش ہو گئے.بلکہ ان کا ایڈریس اس وقت اصل ایڈریس ہوگا جس وقت وہ اپنے آپ کو خدمت دین کیلئے پیش کریں گے اور ہمیں ان کے اس ایڈریس کے پیش کرنے سے یہی توقع ہونی چاہئے.یاد رکھو دین کی خدمت ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے اور وہی قوم زندہ رہتی ہے جس کا ہر ایک فرد قوم کے صحیح نظر یا پیش نظر کام کو اپنا مطح: فرض سمجھتا ہے.پس اگر تبلیغ کے متعلق ہم یہ خیال کر لیں کہ چند مبلغوں کا کام ہے ؟ انگریزی خواں سمجھیں کہ مولویوں کا اور مولوی سمجھیں کہ انگریزی خوانوں کا کام ہے تو ہماری جماعت زندہ نہیں رہ سکتی اور ہم اپنے کام میں کامیاب نہیں ہو سکتے.کیا وہ قوم زندہ کہلا سکتی ہے جس کے دس پندرہ افراد زندہ ہوں؟ ڈاکٹروں نے تحقیق کی ہے کہ انسان کی

Page 218

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 212 جلد اول کھال کا اگر بہت زیادہ حصہ جل جائے اور بہت تھوڑا باقی رہ جائے تو وہ انسان بچ نہیں سکتا.اسی طرح اگر کسی قوم کے زیادہ افراد قومی کام کو اپنا فرض خیال نہ کریں اور چند کریں یا بالفاظ دیگر چند زندہ ہوں اور باقی مردہ تو کیسے وہ قوم یا جماعت زندہ رہ سکتی ہے.پس میں اپنی جماعت کے نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ تبلیغ سب احمدیوں کا فرض ہے اور یہ فرض کفایہ نہیں کہ ایک نے کر دیا تو باقیوں کا فرض بھی ادا ہو گیا.بلکہ ہر ایک شخص کے خود کرنے کا کام ہے.اگر ہر ایک شخص خود اپنا کام نہیں کرے گا تو اس کا کام نہیں ہو گا.اگر تم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ احساس نہیں کہ تبلیغ اس نے کرنی ہے تو گویا تم نے اپنے ایڈریس میں صداقت سے کام نہیں لیا اور تم کامیابی بھی حاصل نہیں کر سکتے.اور نہ حضرت اقدس کی پیشگوئیاں تمہارے ذریعہ پوری ہوسکتی ہیں.گو وہ ضرور پوری ہوں گی مگر ان کے پورا کرنے والے تم نہ ہو گے کوئی اور ہو گا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تبلیغ فرض کفایہ نہیں.جس طرح نماز میں قائم مقامی نہیں ہو سکتی اسی طرح تبلیغ میں بھی قائم مقامی نہیں ہو سکتی اور مفتی صاحب کے آنے پر آپ کی خوشی بھی تبھی تسلیم کی جائے گی جب کہ آپ بھی وہی کام کریں جو مفتی صاحب نے کیا ہے.اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ آپ سب امریکہ ہی جائیں بلکہ جہاں بھی تبلیغ کی ضرورت ہے آپ تبلیغ کریں اور یہ خیال درست نہیں کہ اور جگہ کی تبلیغ آسان ہے.ہم کئی سال سے ایک جگہ کوشش کر رہے ہیں مگر ایک بھی شخص ان میں سے ابھی تک داخل اسلام نہیں ہوا.پس ہر ایک شخص سے خواہ وہ کتنا ہی گرا ہوا ہو اور اس کا مذہب کتنا ہی ادنیٰ درجہ کا ہو اس سے مذہب بدلوانا مشکل ہے.اور یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ لوگ جو دنیاوی لحاظ سے ادنی سمجھے جاتے ہیں ان کو ہم چھوڑ دیں.ان میں تبلیغ کرنا بھی ہمارا ایسا ہی فرض ہے جیسا یورپ اور امریکہ کے لوگوں میں تبلیغ کرنا.ایسے لوگوں میں ہم اپنے گھروں اور اپنے وطنوں میں رہتے ہوئے تبلیغ کر سکتے ہیں.ہاں اگر کہیں باہر جا کر تبلیغ کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اس وقت ہم اپنے بال بچوں کو دین کے لئے نہیں چھوڑ سکتے تو پھر ہم کسی

Page 219

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 213 جلد اول ثواب کے مستحق نہیں.اس لئے ہماری نیت اور ارادہ یہ ہونا چاہئے کہ جہاں بھی ضرورت ہوگی ہم خدمت دین کریں گے.اگر کسی مجبوری کے باعث نہ جاسکیں تو وہ علیحدہ بات ہے.اور ہماری وہ حالت خدا سے مخفی نہیں ہوگی اس لئے ہمیں ثواب ضرور ملے گا.چنانچہ حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک دفعہ لڑائی پر جاتے ہوئے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ تم کسی وادی سے نہیں گزرتے مگر وہ بھی تمہارے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کو اس کا پورا ثواب ملتا ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون لوگ ہیں ؟ ارشاد ہوا تمہارے وہ بھائی جو چاہتے ہیں کہ جس طرح تم نکلے ہو اسی طرح وہ بھی نکلیں مگر وہ مجبوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے.1 پس اگر تم ایسا ایڈریس پیش کرو جس کا یہ مطلب ہو کہ تم بھی دین کی خدمت کے لئے تیار ہو اور جہاں ضرورت ہو وہاں جانے کے لئے آمادہ تو یہی سچا اور حقیقی ایڈریس ہوگا اور عملی ایڈریس کہلائے گا.اس کے بعد میں دعوت دینے والے اور کھانے والے یعنی مفتی صاحب کے لئے بھی دعا کرتا ہوں.کھلانے والوں کے لئے یہ کہ ان کو بھی خدمت دین کی توفیق ملے اور مفتی صاحب کے لئے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے اور اس زنگ سے بچائے جو خدمات کے بعد قلب پر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ان کے اخلاص میں ترقی دے اور پھر ان کے لئے بھی جو دعوت میں شامل ہوئے ہیں میں دعا کرتا ہوں کیونکہ حدیث میں آتا ہے لَا يَشْقَى جَلِیسُهُمْ 2 خدا تعالیٰ ان کو بھی خدمت دین کی توفیق دے.“ (الفضل 18 دسمبر 1923ء) 1 بخارى كتاب الجهاد والسير باب من حبسه العذر عن الغزو صفحه 470 حدیث نمبر 2839 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية 2 بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله عز وجل صفحہ 1113،1112 حدیث نمبر 6408 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 220

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 214 جلد اول حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت 6 دسمبر 1923ء کو طلباء مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ امریکہ کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.اس وقت جو پروگرام ہے اس میں نہ مفتی صاحب کی تقریر کرنے کا وقت ہے نہ میرے لئے مگر چونکہ ذوالفقار علی خان صاحب نے بتا دیا ہے کہ بغیر وقت مقرر ہونے کے بھی وقت لیا جا سکتا ہے اور مفتی صاحب نے بھی وقت لے لیا ہے اس لئے ان دو نظیروں کے سے فائدہ اٹھا کر میں بھی وقت لیتا ہوں.گو پروگرام میں تو تلاوت نظم اور میاں عبد السلام کا ایڈریس ہی درج ہے مگر ہم لوگوں نے زبر دستی وقت لے لیا ہے.مفتی صاحب کی آمد پر جماعت کو خوشی ہے.یہ خوشی مدرسہ کے طلباء کو بھی ہے کیونکہ مفتی صاحب ایک زمانہ میں اس سکول کے ٹیچر تھے اور پھر ہیڈ ماسٹر.ایڈریس پیش کرنے والوں کو شاید معلوم نہیں اور مفتی صاحب نے بھی اپنی تقریر میں اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ ایک وقت میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں.مفتی صاحب نے طلباء کے ایڈریس کے جواب میں انگریزی میں تقریر کی ہے مگر یہ تقریر اس لئے نہیں کی کہ مفتی صاحب انگریزی بولنے والے ملک سے آئے ہیں بلکہ اس لئے کہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کو ان کے فرض کی طرف متوجہ کریں کہ اس سکول کے بچے بھی انگریزی میں تقریر کرنا سیکھیں.مشہور ضرب المثل ہے کہ سفید بھیڑوں میں

Page 221

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 215 جلد اول کالی بھیڑیں بھی ہوتی ہیں یعنی کمزور بھی ہوتے ہیں.اسی کے مطابق میرا خیال ہے کہ کئی طلباء نے اس تقریر کو نہیں سمجھا ہو گا مگر آئندہ ان کو اس طرف توجہ کرنا چاہئے اور انگریزی میں قابلیت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں نے یہ محاورہ برے معنے میں استعمال نہیں کیا بلکہ میرے کالی بھیڑ کہنے سے ایسے طلباء مراد ہیں جو اپنے کام کی طرف پوری توجہ نہیں کرتے.ایسے طلباء میں سے جو سکول میں نہیں پڑھا کرتے ایک میں بھی تھا جو پڑھتا نہ تھا.ایک دفعہ مفتی صاحب نے امتحان لیا.میں نے جواب لکھا.مجھے مفتی صاحب نے بلوا کر پوچھا ایک لفظ نہیں سمجھ میں آتا.تم نے کیا لکھا ہے؟ وہ لفظ To تھا جس کو میں نے ہر جگہ Tow لکھا تھا.جب کبھی ڈکٹیشن لکھوایا جاتا تھا مجھے یاد نہیں کہ کبھی سترہ غلطیوں سے کم غلطیاں نکلی ہوں.اس سے زیادہ ضرور ہوتی تھیں.مولوی شیر علی صاحب جن کو میری انگریزی کا بہت خیال رہتا تھا گڑھا کرتے تھے لیکن اس میں کچھ شبہ نہیں کہ سترہ سے کبھی کم غلطیاں نہیں ہوئیں گو میں نے اب انگریزی میں ترقی کر لی ہے مگر ہجے میں اب بھی کمزوری ہے.تاہم اس زمانے اور اُس وقت کی انگریزی میں زمین و آسمان کا فرق ہے.اور میں خدا کے فضل کے اظہار کے لئے کہتا ہوں کہ اب مجھے کئی گریجوایٹوں سے زیادہ انگریزی کے الفاظ اور محاورے آتے ہیں اور ان کا استعمال جانتا ہوں.اگر میرے جیسا طالب علم جس کی مثال او پر بیان کی گئی ہے اس قدر ترقی کر سکتا ہے تو وہ بچے جو محنتی ہوں ان سے کس قدر امید کی جاسکتی ہے.میں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ کا یہ واقعہ محض قصے کے طور پر نہیں سنایا بلکہ اپنے مخاطب بچوں کو ان کا فرض یاد کرایا ہے.وہ زمانہ جو میری طالب علمی کا زمانہ تھا اس میں تعلیم کا طریق وہ نہ تھا جو آج ہے.اُس وقت صرف ریڈر پر زور دیا جاتا تھا اور یہ نہیں بتایا جاتا تھا کہ وہ ریڈر کے علاوہ اور کس طرح علم زبان میں ترقی کر سکتے ہیں.گرامر کے قواعد حفظ کرائے جاتے تھے.یہ طریق نہ تھا کہ لڑکے انگریزی میں جواب دیں اور استاد انگریزی میں سبق پڑھائے.لڑکے

Page 222

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 216 جلد اول انگریزی بولیں اور انگریزی لکھیں اس لئے لکھنے کی قوت پیدا نہ ہوتی تھی.اگر اس وقت کوئی استاد جماعت میں جا کر انگریزی پڑھاتا تو الا مَا شَاءَ اللہ سبھی لڑکے منہ دیکھتے رہ جاتے کہ استاد نے کیا کہا ہے مگر اب تو پرائمری سے ہی انگریزی زبان پر زور دیا جاتا ہے.پس طلباء کو چاہئے کہ مفتی صاحب کی تقریر سے فائدہ اٹھا کر انگریزی لکھنے اور بولنے کی مشق پر زیادہ توجہ کریں.کیونکہ کوئی کام محض سیکھ لینے سے نہیں آتا بلکہ کرنے سے آتا ہے.میں اپنی نسبت کہتا ہوں اور ہر جگہ انکساری ضروری نہیں ہوتی اس لئے کہتا ہوں کہ میں انگریزی کے الفاظ کسی اچھے سے اچھے گریجوایٹ سے زیادہ جانتا ہوں اور ان کے طریق استعمال سے بھی واقف ہوں مگر بول نہیں سکتا.کیونکہ ابتدا سے میں نے ادھر توجہ نہیں کی.پس تم پڑھنے میں یہ بات مد نظر رکھو کہ انگریزی زبان لکھ سکو اور بول سکو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بنانے کی اصل غرض یہی تھی کہ یہاں ایسے آدمی تیار ہوں جو انگریزی ممالک میں جا کر بوقت ضرورت تبلیغی کام کریں.ان ممالک میں تبلیغ نہیں ہو سکتی جب تک ان کی زبان سے واقفیت اور ان کے علوم میں قابلیت نہ ہو.انگریزی ہی پر موقوف نہیں ہم فرانسیسی زبان بھی سکھلانے کی خواہش رکھتے ہیں.اسی طرح جرمنی، روسی وغیرہ تمام زبانیں سیکھنی ضروری ہیں لیکن فی الحال ان کا انتظام مشکل ہے.اگر ہمارے پاس سامان کی کمی نہ ہوتی تو ہم وہ تمام زبانیں اپنے بچوں کو سکھاتے جن کا جاننا ان ملکوں میں ضروری ہے جہاں اردو سے کام نہیں چل سکتا.اس سکول سے غرض یہ نہ تھی کہ اعلیٰ ملازمتوں کے لئے آدمی تیار کئے جائیں بلکہ یہ تھی کہ مبلغ تیار ہوں.اس لئے اس سکول کی ایسی حیثیت ہے جیسے ٹیری ٹوریل (Territorial) فورسز کی ہوتی ہے کہ سال میں ایک ماہ جا کر کام سیکھ آتے ہیں.کیونکہ فوج کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک ریگولر فوج اور دوسری ٹیری ٹوریل.اس طرح ایک ہمارے با قاعدہ مبلغ ہوتے ہیں اور ایک ٹیری ٹوریل فوج کی طرح.اور وہ یہ ہمارے ہائی سکول کے طلباء ہیں

Page 223

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 217 جلد اول کہ جب ہمیں ان کی ضرورت پڑے گی ان سے کام لیں گے.یہاں ان کو قواعد سکھائے جاتے ہیں اور جب کسی ملک میں ان کو بھیجنے کی ضرورت ہوگی وہاں بھیجے جائیں گے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ مشق کا ہر کام میں دخل ہوتا ہے اور اپنا ایک واقعہ بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ہمارا ایک مکان بن رہا تھا.مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹی کام کر رہے تھے.میں نے ان کو دیکھ کر نیشہ چلانا آسان کام سمجھا اور ان کے باہر جانے پر تیشہ لے کر چلایا جس سے میری انگلی زخمی ہو گئی.اس کی وجہ یہی تھی کہ مجھے مشق نہ تھی اور ظاہر ہے کہ بغیر مشق کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.پس اگر تم صرف انگریزی پڑھتے رہو گے اور بولنے اور لکھنے کی مشق نہ کرو گے تو اس زبان میں بذریعہ تحریر و تقریر تیم اظہار خیال نہ کر سکو گے.ہمارے سکول کے بچوں کو چاہئے کہ وہ اس میں مشق کریں اور اساتذہ ان کو موقع دیں.بہتر ہو کہ ایڈریس پیش کرنے کے موقع پر اسی زبان میں ایڈریس پیش کیا جائے جس وہ شخص تعلق رکھتا ہو.اگر کوئی صاحب انگریزی جانتے ہوں تو انگریزی میں اور نہ جانتے ہوں تو اردو میں.اور عربی جانتے ہوں تو عربی میں پیش کیا جائے.میں نے مجلس ارشاد اسی لئے قائم کی تھی مگر معلوم ہوتا ہے اس سے اب دلچسپی نہیں رہی.جب تک میں جاتا رہا لوگوں نے دلچسپی لی اور جب میں نے جانا بند کر دیا اور کہہ بھی دیا کہ میں دیکھنا چاہتا ہوں سے کہ خود کہاں تک لوگوں میں اس کا شوق ہے تو وہ بند ہوگئی.اب میں ایڈریس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مختلف بچوں کو بولنے کا موقع ملنا چاہئے.پہلے بھی ایک ایڈریس میاں عبد السلام نے پڑھا تھا اور آج بھی انہوں نے پڑھا ہے.ان کا یہ ایڈریس بھی بہت عمدہ اور قابل تعریف ہے.لیکن یہ طریق درست نہیں کہ اگر ایک شخص کی ایک موقع پر تعریف کی جائے تو آئندہ اس کے سوا دوسرا نہ بولے.بلکہ چاہئے کہ دوسرے بچے بھی بولنے کی مشق کریں کیونکہ مجمع میں بولنے کے لئے بھی مشق کی ضرورت ہوتی ہے.جن لوگوں کو مجمعوں میں بولنے کی مشق نہ ہو وہ ایسے موقع پر بول نہیں سکتے.ا میں نے دیکھا ہے کہ اگر مشق نہ ہو اور ایسے مجمع میں بولنے کی عادت نہ ہو تو اعصابی کمزوری کا اثر

Page 224

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 218 جلد اول ہیں ہوتا ہے.ہمارے مولوی جلال الدین اچھے بولنے والے ہیں لوگ ان کی تعریف بھی کرتے یں مگر ان کو دو دفعہ میرے سامنے بولنے کا موقع ملا ہے اور دو ہی دفعہ اچھی طرح نہ بول سکے.جب سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا آپ کے سامنے بولنے میں مجھے ڈر آ جاتا ہے.ان کو بوجہ عادت نہ ہونے کے میرے سامنے بولنے میں حجاب پیدا ہو گیا.پس چاہئے کہ مختلف بچوں کو بولنے کا موقع دیا جائے کہ وہ مجمعوں میں بولنے کے عادی ہوں.اس کے بعد میں اس مقصد کی طرف توجہ دلاتا ہوں جس کو پورا کر کے مفتی صاحب واپس آئے ہیں.کل بھی طلباء مدرسہ احمدیہ کی خوشی کے اظہار کے وقت کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں کہ اگر ایڈریس پیش کرنے والے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کرنے کے لئے تیار نہیں تو ان کا یہ اظہار خوشی درست نہیں.اس سے سمجھا جائے گا کہ وہ ظاہر میں خدمت دین کرنے والے کی عزت کرتے ہیں ورنہ در حقیقت اس کام کو ذلت سمجھتے ہیں اور اس شخص کے متعلق جن خیالات مسرت کو ظاہر کرتے ہیں وہ منافقت کے خیالات ہیں اور ان کے دل اس بات پر خوش نہیں جس پر ان کی زبان خوشی کا اظہار کرتی ہے.اچھے اچھے لوگوں کو دیکھا ہے اور میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں کہ جب ان کے کسی دوست نے خدمت دین کے لئے زندگی وقف کی تو انہوں نے طرح طرح سے اس کو روکا اور اس ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی.اگر وہ غریب ہے تو کہا کہ تمہارے والدین غریب ہیں تم ملازمت کر کے ان کی خدمت کرتے.اور اگر امیر ہے تو کہا کہ تمہارے رشتہ دار بڑے بڑے عہدوں پر تھے اور تمہارے لئے ترقی کا اچھا موقع تھا.گویا امیر اور غریب دونوں کو خدمت دین سے روکا.امیر کو ترقی کا لالچ دلا کر اور غریب کو ماں باپ کی حالت پیش کر کے.اب رہ گئی مڈل کلاس.جس کا فلسفیانہ وجود تو ہے مگر در حقیقت لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے.کیونکہ لوگ اپنے آپ کو یا تو امیر کہتے ہیں یا غریب.پس جب دونوں جماعتیں خدمت دین کے ناقابل ہوں تو پھر کون دین کی خدمت کرے گا.ایسے لوگ اگر مبلغین کے کام پر خوشی کا اظہار کرتے اور ان کی تعریفیں کرتے ہیں تو وہ منافق

Page 225

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 219 جلد اول ہیں.پس ایسے کام پر خوشی کا اظہار جس کو اپنے لئے موت سمجھا جائے باعث خوشی نہیں.اگر مدرسہ ہائی کے طلباء ایسے ابتلاء کے برداشت کرنے کے لئے خوشی سے تیار ہیں تو بڑی مسرت کی بات ہے اور ان کا ایڈریس سچا ایڈریس ہے.اور اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مفتی صاحب کو عزت ملی ہے اور مفتی صاحب کا یہ فعل ان کی دنیاوی ترقی میں روک نہیں ہوا تو آپ بھی اس پر تیار ہوں.رسول کریم ﷺ نے اسلام کے لئے ایک مثال بیان فرمائی تھی کہ اسلام کی کفر کے مقابلہ میں یہ حالت ہے جیسے ایک سفید رنگ کی گائے ہو اور اس کے چند کالے بال ہوں.یہ اُس وقت کی حالت ہے جب کہ نبی کریم ﷺ کو غلبہ حاصل ہو چکا تھا.لیکن احمدیوں کے پاس تو ابھی وہ سامان نہیں جو رسول کریم ﷺ کو حاصل تھے.اور مخالفین اسلام کی آبادی اب پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے اس لئے اب یہ مثال ہے کہ کالا بال ایک ہے باقی سب سفید ہیں.ہر طرف آدمیوں کی ضرورت ہے ہر ملک تبلیغ کا محتاج ہے مگر ہماری یہ حالت ہو کہ اگر ہمارے نوجوان یا ان کے مشیر یہی سمجھتے رہیں کہ تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کرنا مناسب نہیں یا باعث نقصان ہے یا ہماری شان سے نیچے ہے تو ایسے لوگوں کا کب حق ہو سکتا ہے کہ کسی مبلغ کی واپسی پر خوشی کا اظہار کریں.اس لئے میں اپنے بچوں کو جو کل جوان ہوں گے نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ابھی سے اپنے آپ کو خدمت دین کے لئے تیار کریں.اور اگر ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالے تو اس بارے میں اس کی بات نہ سنیں.اگر وہ اس کام کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور ان کے دل اس ایڈریس میں ان کے ساتھ نہیں ہوں گے تو اس کی خدا کے نزدیک اور بندوں کے نزدیک بھی کوئی قیمت نہیں.مگر میں اپنے ان بچوں سے امید کرتا ہوں کہ ان کے دلوں میں ضرور خدمت دین کا جوش ہو گا اور واقعی مفتی صاحب کی واپسی سے خوش ہوں گے.اور مفتی صاحب کے کام کو قابل قدر اور ایسا سمجھتے ہوں گے کہ خود بھی کریں.اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے ارادے پورے کرنے کی توفیق دے اور ان کو موقع عطا فرمائے کہ خدمت دین

Page 226

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 220 جلد اول کریں اور پھر ان کو کامیاب فرمائے اور مفتی صاحب کے لئے بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ان ابتلاؤں سے بچائے جو کامیابی کے بعد آتے ہیں.پھر میں سب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ سب کا خاتمہ بالخیر ہو اور ہمیں اسلام کے لئے مفید بنائے.آمین.“ (الفضل 25 دسمبر 1923ء)

Page 227

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 221 جلد اول لندن مشن کے متعلق ہدایات 14اکتوبر 1924 حضرت خلیفہ اسیح الثانی باند خدام کے ساتھ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے کو لندن مشن کی چابی عطا فرمانے کے لئے از راہ شفقت خود بینی تشریف لے گئے.پٹنی پہنچنے پر آپ نے لمبی دعا کروائی اور دعا کے بعد اپنے ہاتھ سے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو کلید عطا فرمائی اور اس موقع پر حسب ذیل ہدایات فرمائیں.”میاں غلام فرید صاحب! آپ نے مولوی صاحب کی اطاعت میں کام کرنا ہے.ساری ترقی اور برکات اپنے افسروں کی اطاعت میں ہیں.میں جانتا ہوں کہ طبائع میں اختلاف ہوتا ہے اور یہ قدرتی امر ہے اعلیٰ سے اعلیٰ محبت کے تعلقات میں بھی رنج پیدا ہو جاتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا با وجود اس محبت کے جو ان کو آنحضرت ملے سے تھی ایک دفعہ آپ سے ناراض ہو گئیں لیکن وہ ایسی ناراضی نہ تھی کہ اس سے نافرمانی پیدا ہوتی بلکہ ان کے اخلاص واطاعت میں زیادتی ہی ہوتی رہی.اس لئے اگر اختلاف بھی ہو تو بھی کبھی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان کی نافرمانی کی جاوے بلکہ محبت کے ساتھ اس الله کام کو کرنا چاہئے جو وہ سپر د کریں کیونکہ یہ کام خدا کا کام ہے نہ کسی انسان کا.دوسری بات یہ ہے کہ اطاعت کامل نہیں ہوتی جب تک اس میں نشاط نہ ہو.خدا تعالیٰ نے مومنین کی صفات میں یہ فرمایا ہے ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ ! یعنی آنحضرت ﷺ کے فیصلہ پر وہ راضی ہوتے ہیں اور اس فیصلہ پر ان کے قلب میں کوئی تنگی نہیں پیدا ہوتی بلکہ وہ خوشی اور نشاط کے ساتھ اسے تسلیم کرتے ہیں.یہ اصول بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کو اپنی زندگی میں اپنے افسروں کی اطاعت کس طرح کرنی چاہئے کہ اس الله

Page 228

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) اطاعت میں نشاط ہو.222 جلد اول تسلیم کامل جب ہی ہوتی ہے جبکہ اطاعت کے ساتھ نشاط اور شرح صدر ہو.اور یہ بات ایمان سے پیدا ہوتی ہے.غلطی کا امکان تو ہر شخص سے ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کے سوا اور کون ہے جس سے غلطی کا امکان نہ ہو.بشریت کے لحاظ سے یہ ہر شخص سے ممکن ہے.اور جہاں غلطی کا امکان ہو وہاں انسان اگر اطاعت کرتا ہے تو حقیقت میں ایمان کی وجہ سے ہی کرتا ہے اور وہ ایمان اس میں نشاط پیدا کر دیتا ہے.اگر سینہ میں تنگی ہو تو اپنی کمزوری ہے.آنحضرت ﷺ کو احد کی جنگ میں تکلیف ہوئی اور اس لڑائی میں منافقوں کے نے جو مشورہ دیا دراصل وہ صحیح ثابت ہوا.مگر صحابہ کی جو رائے تھی وہ اس کے خلاف تھی اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس موقع پر مجارٹی (Majority) کے فیصلہ کو ترجیح دے دی.آپ کے اس طرز عمل سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں.اول یہ کہ غلطی کا امکان ہر شخص سے ہے.دوم افسر یا مجارٹی جس بات کا حکم دیں اس کی تعمیل کی جاوے اور نشاط سے کی جائے.قرآن مجید اسی بات پر زور دیتا ہے اور کامیابی کی روح اسی سے پیدا ہوتی ہے.ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھو کہ انسان اپنے وطن اور عزیزوں سے دور آتا ہے، ہر قسم کی قربانی کرتا ہے پھر اس کی محنت اور کام کا کوئی نتیجہ نکلنا چاہئے.جو لوگ یہاں کام کرتے رہے ہیں ان سے بعض کوتاہیاں ہوتی رہیں اور اس وجہ سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مرکز میں پورا احساس نہ ہو.لیکن اب انشاء اللہ یہ نہیں ہوگا.مرکز میں احساس قدر تا اب بہت زیادہ ہوگا اس لئے اب یہ کام زیادہ نتیجہ خیز نہ ہو تو یہ مبلغین کی غلطی ہوگی اور وہ اس کے ذمہ دار اور جوابدہ ہوں گے اس لئے کہ یہ ممکن نہیں کہ صحیح طریق پر کوشش ہو اور کوئی نتیجہ نہ نکلے.مولوی عبد الرحیم صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جس کے ساتھ کام کرنا ہو اس کے جذبات کا خیال رکھیں.محبت کے ساتھ ان سے کام لیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بے جا طور پر کسی بات کو نظر انداز کر دیا جائے.یہ میں اس لئے کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ کا کام ہے.اگر اس میں ذرا بھی غفلت سے کام لیا جاوے تو بہت بڑا نقصان پہنچ جاتا ہے.اور میں یہ تو

Page 229

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 223 جلد اول جانتا ہوں کہ اگر کوئی بات آپ کے منشاء کے خلاف کرے تو آپ اس کو کہ نہیں سکتے.میں اس کو بزدلی کہتا ہوں یہ بات نہیں ہونی چاہئے.یہ ذاتی کام نہیں کہ اس میں انسان اگر نظر انداز کر دے تو کچھ بات نہیں مگر اس سے سلسلہ کے انتظام پر اثر پڑتا ہے.ذمہ داری یہ ہے کہ انسان کام لے.اخلاق کا کمال یہ نہیں کہ کام نہ ہوتا ہو اور افسر خاموش رہے.ایسے موقع پر یہی اخلاق ہے کہ اپنے ماتحت سے باز پرس کرے مگر اس میں اخلاق اور محبت کے پہلو کو ترک نہ کرے.اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اس کا کوئی نقص ہے اور وہ ماتحت کام نہ کرتا ہو تو اس کی اطلاع فوراً مرکز کو کرنی چاہئے اور بتانا چاہئے کہ کیا نقص ہے.یہاں کے انچارج ہمیشہ ایک غلطی کرتے رہے ہیں کہ اپنے آپ کو ایک مستقل چیز سمجھتے رہے ہیں.سلسلہ کو کبھی ایسی اطلاع نہیں دی جس سے معلوم ہو کہ کیا غلطی ہو رہی ہے.لکھا تو یہ لکھ دیا کہ فلاں سے غلطی ہوئی اللہ معاف کرے مگر یہ نہ بتایا کہ کیا غلطی ہوئی.گویا وہ خود ہی ایک مستقل چیز تھے.مرکز کے لئے ضروری نہیں کہ اس سے واقف ہو.یہ غلطی پہلوں نے کی ہے آئندہ نہیں ہونی چاہئے.مبلغ کا فرض ہے کہ ہر حالت کا اور ایک ایک بات کا نقشہ بھیجے خواہ مخالف کے متعلق ہو یا موافق کے.اور ان کا فرض ہے کہ اپنی موافق اور مخالف ہر قسم کی کوششوں کا علم رکھیں.رسول اللہ یہ اس قدر خیال رکھتے تھے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے بعض کا قول نقل کیا ہے کہ وہ کہتے تھے.هُوَ اذن 2 ب کریم و تو کان ہی کان ہیں.یہ امر صلى الله ظاہر کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کس قدر محتاط اور باخبر تھے اور آپ کا یہ نمونہ اسی لئے ہے کہ مومن اسی طرح ہوشیار اور باخبر رہے.لوگوں کو یہ کہہ دینا کافی نہیں ہوتا کہ یہ جھوٹ ہے غلط ہے وہ اس سے زیادہ چاہتے ہیں.سنی سنائی بات نہ ہو واقعات سے اس کی تائید ہو.غرض کوئی بات ہو مخالف ہو یا موافق وہ مرکز میں لکھنی چاہئے بغیر اس کے صحیح ہدایات نہیں مل سکتیں اور کام کا نقصان ہوتا ہے.پس پہلے اگر یہ غلطی ہوئی ہے تو آئندہ نہیں ہونی چاہئے.

Page 230

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 224 جلد اول مبلغ کے فرائض میں یہ بات بھی ہے کہ وہ سوشل ہو اور لوگوں سے اپنے تعلقات کو بڑھائے.اس معاملہ میں بھی اب تک مبلغین سے ایک غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے سوسائٹی کے اعلیٰ طبقہ کو چھوڑ دیا اور انہوں نے اس کی طرف توجہ ہی نہیں کی اور کوشش ہی نہیں کی کہ ان سے ملیں اور اپنے تعلقات کو بڑھائیں.کسی کام کی عمدگی کا اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کے کام کو کیا سمجھتے ہیں اور جس قسم کی سوسائٹی میں وہ کام کرتا ہے اس پر اثر پڑتا ہے.آنحضرت ﷺ نے دیکھا کہ ایک مسلمان دشمن کے سامنے اکڑ کر چلتا تھا.آپ نے فرمایا کہ اکڑ کر چلنا اچھا نہیں مگر اس کا چلنا خدا کو پسند ہے.3 بعض اوقات دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے.غرض تعلقات کے بڑھانے میں سوسائٹی کے اعلیٰ طبقہ کو چھوڑ نہیں دینا چاہئے.اعلیٰ سوسائٹی سے تعلق ہو تو انسان کے اثر کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور بارسوخ ہو کر کام زیادہ وسعت سے کر سکتا ہے اور ان تعلقات کا بڑھانا بھی کام سمجھا جائے گا.یہاں جولوگ پولیٹیکل یا سوشل حالت کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کے سمجھے جاتے ہیں اگر وہ ہمارے مبلغین کو بلائیں یا ان کے ہاں آئیں تو لوگ محسوس کریں گے کہ سوسائٹی پر ان کا رعب اور ادب ہے.خواہ وہ علم کے لحاظ سے ہو یا روحانیت کے لحاظ سے.اور پھر یہ لوگ خواہ مسلمان نہ ہوں لیکن ان کے ذریعہ سے مدد ملتی ہے.ہندوستان میں دیکھا ہے کہ جن بڑے شہروں میں با اثر ہندوؤں یا غیر احمدی مسلمانوں کے ہمارے لوگوں سے سوشل تعلقات ہیں وہاں ہماری جماعت کو لیکچروں کے متعلق آسانی ہوتی ہے اور لیکچر ہو جاتے ہیں.میری مراد اعلیٰ طبقہ سے چوٹی کا طبقہ ہے اس سے تعلقات پیدا کرو.ایک سوسائٹی کے آدمی ہوتے ہیں.انہوں نے کوئی ملکی یا علمی کام نہیں کیا ہوتا مگر وہ ہر سوسائٹی میں دخل رکھتے ہیں.بعض اوقات پولیٹیکل آدمیوں سے بھی زیادہ ان کا رسوخ ہوتا ہے.لوگوں کو ان کے اثر سے فائدہ پہنچتا ہے اور وہ فائدہ پہنچاتے ہیں اس لئے ان کے اثر کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا ہے.پس ایسے لوگوں سے تعلقات بڑھانا اپنے کام کو وسیع کرنا ہے.دوسرے درجہ

Page 231

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 225 جلد اول پر پولیٹکس والے ہیں.سوسائٹی میں گوان کا درجہ اول نہیں مگر ان کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے.تیسرے اخباری یا علمی مذاق کے لوگ ہیں جو مصنف ہوتے ہیں ان میں بھی چوٹی کے آدمی چن لئے جاویں.خبریں پہنچانے والی ایجنسیوں کے سوا سائیکلوجی اور دوسرے علم کے ماہرین سے تعلقات بڑھائے جائیں.چونکہ یہ علمی مذاق کے لوگ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں ان کے ذریعہ انسان ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں اس کے کام کو تقویت ہوتی ہے.سب سے قابل آدمی وہ ہے جو خوش مذاق ہو ، رونی شکل والا سوسائٹی میں مقبول نہیں ہو سکتا.علمی سوسائٹیوں میں ہیومر (Humour) ( زندہ دلی) کے بغیر انسان ترقی نہیں کر سکتا ہے.ایسی مجلسوں میں اختلاف ہوتا ہے.اپنی بات کہتا ہی جاوے اور دوسروں کی بھی بغیر کبیدگی اور کشیدگی کے سن لے.اس طرز پر بات ہو کہ چڑے نہیں اور ناراض نہ ہو اختلاف ہو تب بھی سنے.مبلغ جب مختلف سوسائٹیوں میں تعلقات کو بڑھاتا ہے تو اس کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ملاقاتوں میں ایسار ہے کہ لوگ اعتراض نہ کر سکیں اور وہ اپنے کریکٹر کو مضبوط رکھے اس کا آخر اثر ہوتا ہے.پھر جن باتوں پر یورپ اعتراض کرتا ہے بار بار ان کو پیش کیا جاوے.مثلاً کثرت ازدواج کا مسئلہ ہے.ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جو اس کے موید ہیں.بعض اخبارات میں فرضی نام سے مضمون لکھ دیتے ہیں ایسے لوگوں سے اسی اخبار کی معرفت خط و کتابت ہو سکتی ہے اور پھر تعلقات بڑھا کر ان کے پیچھے پڑو جو اس کے موید ہوں.ان سے اس قسم کی سوسائٹیاں بناؤ.ایسی سوسائٹیاں خود غلط فہمیوں کو دور کر دیں گی اور ان اصولوں کو توڑ دیں گی جو ہماری راہ میں روک ہو سکتے ہیں.مذہبی نقطہ خیال کو مدنظر رکھ کر عیسائیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ اگلے نبیوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی تھیں اور بعض قومی ضروریات اس کی مقتضی ہوتی ہیں.جب کچھ لوگ پیدا ہو جائیں گے تو وہ آپ دوسروں سے بحث کریں گے.

Page 232

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 226 جلد اول عیسائی مذہب میں جو یہ فرقے یومیٹرین وغیرہ پیدا ہوئے ہیں یہ اسی طرح ہوئے ہیں.اگر اس طریق پر عمل ہو تو کچھ عرصہ کے بعد ہمارا سوشل رسوخ بڑھ جائے گا اور لوگ باتیں سننے لگیں گے.اسی طرح طلاق کا مسئلہ ہے.اس مسئلہ کے ماہر جو قانون دان ہیں یا قانون ساز کمیٹیوں کے ممبر ہیں ان سے ملو اور ان کو اسلام کی مکمل تعلیم مسئلہ طلاق کے متعلق بتاؤ.جب وہ اس مسئلہ کے سارے پہلوؤں کو دیکھیں گے تو اسلام کی تعلیم کو مکمل اور ہر طرح قابل عمل اور ضروری یقین کرنے لگیں گے.اس طرح پر جو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں وہ دور ہو جائیں گی اور جب ایک علمی اور قانون دان طبقہ کی طرف سے اس کی تائید اور تصریح ہوگی تو آسانی ہو جائے گی.غرض اپنے کام کے متعلق پہلے سے غور کرو کہ کس طرح پر وہ زیادہ مفید اور با اثر ہو سکتا ہے.کام کرنے والے کی نگاہ ایک طرف نہ ہو بلکہ اسے چاہئے کہ چاروں طرف نگاہ رکھے جرنیل کا یہی کام ہے.جو لوگ یہاں تحقیق، تعلیم یا تبادلۂ خیالات کے لئے آئیں ان کے متعلق اس امر کا خاص طور پر خیال رکھا جاوے کہ کوئی ایسی حرکت نہ ہو جس سے ان کو یہ احساس ہو کہ ہماری ہتک کی گئی ہے.بلکہ ان سے اخلاق اور تکریم سے پیش آؤ کہ یہ ہمارا فرض ہے.اگر کوئی بات ان کی ناپسند بھی ہو تو اپنے اخلاق سے اسے درست کرو.ظاہری صفائی کا خاص طور پر خیال رکھا جاوے اسلام اس کی ہدایت کرتا ہے.اور یہاں تو یہ حالت ہے کہ اس کا دوسروں پر اثر پڑتا ہے.ہمارے ملک میں تو جس قدر کوئی غلیظ ہولوگ اسے صوفی کہہ دیں گے مگر یہاں یہ بات نہیں.پنجاب میں ایک شخص کو تبلیغ کی جاتی تھی اور اسے کچھ توجہ بھی تھی مگر پرنس آف ویلز کے جانے پر جب کہ میں بھی لاہور گیا تو اس نے مجھے دیکھا اس کے بعد جب اس کو تبلیغ کی گئی تو اس نے کہا میں کیسے مان لوں کیونکہ اس نے تو بانات کا کوٹ پہنا ہوا تھا.(کوٹ تو

Page 233

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 227 جلد اول سرج کا تھا) اور اس نے یہی سمجھ لیا کہ ایسا کوٹ پہنے سے خدا سے تعلق نہیں ہوتا.بہت سے لوگ حضرت صاحب پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ پلاؤ کھاتے ہیں.قادیان میں ایک ہندو ڈ پٹی تھا اس نے حضرت خلیفہ اول کو کہا کہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات میں پوچھنا چاہتا ہوں.مولوی صاحب نے کہا پوچھئے تو اس نے کہا کہ سنا ہے مرزا صاحب با دام روغن استعمال کرتے ہیں.مولوی صاحب نے کہا کہ ہمارے ہاں حلال ہے.میرا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان کی حالت اور ہے.وہاں لوگ خدا پرستی اور کمال کا اندازہ ایسی چیزوں سے کرتے ہیں جن کا ان باتوں سے تعلق نہیں اور وہاں صفائی کا نہ ہونا معیوب نہیں سمجھتے.مگر یہاں یہ حالت نہیں اس لئے مکان کی اور باغ کی اور اپنی صفائی کا خیال رکھنا چاہئے.یہ صرف اسی لئے ضروری نہیں کہ یہاں ان باتوں کا اثر پڑتا ہے بلکہ اسلام نے خود اس کو ضروری قرار دیا ہے پس ان ظاہری امور کا خیال رکھو.اگر کسی امر میں افسر ماتحت میں اختلاف ہو تو ماتحت کا فرض ہے کہ وہ افسر کے احکام کی اطاعت اور تعمیل کرے.البتہ اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے اختلاف کے متعلق بطور اپیل پیش کرے.شکایت کے طور پر نہ ہو.جو بلا وجہ پیش کرتا ہے وہ غیبت کرتا ہے اس سے بچو.اسی طرح بعض اوقات افسر دیکھتا ہے کہ ماتحت با قاعدہ کام نہیں کرتا یا اس کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے کہ میں شکایت نہیں کرتا مگر وہ ایسا کرتا ہے یہ بزدلی کی بات ہے.صاف طور پر لکھنا چاہئے.ایسا ہی ماتحت جب لکھے تو وہ مثال اور واقعات کی بناء پر لکھے.یونہی کسی بات کا بلا وجہ معقول پیش کر دینا قابل غور نہیں ہوگا.افسر کو چاہئے کہ جرات سے کام لے.جب تک جرات سے کام نہ ہو وہ نہیں ہوسکتا.بزدلی سے یہی نہیں کہ کام نہیں ہوتا بلکہ خراب ہوتا ہے اور فساد بڑھتا ہے.باقی کام کی تفاصیل اور ہدایات بتا دی جائیں گی.مبلغ کا فرض ہوگا کہ ہمارے جو طالب علم آتے ہیں ان کو شریعت کی پابندی کرائے.دل نہ چرائے.چھوٹی سے چھوٹی بات کا بھی خیال رکھا جاوے.بعض وقت انسان پر ایسے

Page 234

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 228 جلد اول آتے ہیں کہ وہ بہت نرم ہوتا ہے اور اس پر اثر ہوتا ہے.دہریوں پر بھی ایسے وقت آ جاتے ہیں.اس لئے کبھی یہ خیال نہ کرنا چاہئے کہ یہ معمولی بات ہے یا کیا فائدہ ہوگا.ان کا محبت اور اخلاق سے مذہبی پابندی کا خیال رکھا جاوے.اس کے بعد لندن کے مبلغ کی موزونیت پر مِنُ وَجہ تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور حضرت اس کے متعلق ضروری فیصلہ فرماتے رہے اور مبلغین کو یہاں کے لوگوں سے کام لینے کے طریق پر مختصر ہدایات دیتے رہے.پھر نیچر کی تعریف کا سوال جو کانفرنس میں بھی اٹھا تھا پیش ہوا.حضرت نے فرمایا.نیچر وہ قانون ہے جس کے ذریعہ ہر چیز اپنی بناوٹ اور ساخت کے مطابق کام کرتی ہے.نیچر گورننگ چیز نہیں ہوتی.اگر ایسا ہوتا تو یہ سائنس دان خدا کی بھی کوئی نیچر بتاتے مگر ایسا نہیں ہے.لاء ( قانون ) اصل چیز کی بناوٹ سے پیدا ہوتا ہے.ہر چیز کے دوسری چیزوں سے مل کر جو افعال سرزد ہوتے ہیں وہ اس کی نیچر ہے.حضرت خلیفہ مسیح کو لا إِلهَ إِلَّا الله کے معنے یہ سمجھائے گئے تھے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی چیز کی حیثیت مستقل نہیں اور یہ درست ہے کہ دنیا کی ہر چیز دوسری چیز سے کوئی نہ کوئی نسبتی تعلق رکھتی ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے اسی اصول کو بتایا ہے وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ و جَيْنِ 4 اس میں اسی نسبتی تعلق کی طرف اشارہ ہے.غرض نیچر بذات خود کوئی گورننگ چیز نہیں ہے جنہوں نے ایسا سمجھا ہے غلطی کھائی ہے.“ (الفضل 11 نومبر 1924ء) 1 : النساء: 66 2 التوبة : 61 :3 تاریخ طبری جلد 2 صفحه 64 مطبوعه بيروت 2012ء 4: الذاريات: 50

Page 235

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 229 جلد اول خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والے نو جوانوں سے خطاب 27 نومبر 1924ء کو خدمت دین کے لئے زندگی وقف کرنے والے احمدی نو جوانوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی، آپ کے ہمرا بیان سفر اور دیگر معززین کو دعوت چائے دی.اس موقع پر زندگی وقف کنندگان کے ایڈریس کے جواب میں حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:.میں اپنی طرف سے اور اپنے ہمراہیان سفر کی طرف سے دین کے لئے زندگی وقف کنندگان کی جماعت کے اس ایڈریس پر جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ کہتے ہوئے اس خوبی کا اظہار کرنا چاہتا ہوں جو آج میرے سامنے ظاہر ہوئی ہے.کیونکہ یہ آج پہلا موقع ہے کہ مجھے اپنے نو جوان انگریزی تعلیم یافتہ بچوں سے صحیح قرآن کریم کی تلاوت سننے کا موقع ملا ہے.میں نے ہمیشہ نہایت افسوس سے اس امر کو محسوس کیا کہ اچھے اچھے تعلیم یافتہ قرآن کریم کے الفاظ کی صحت اور مخارج کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.بعض لوگ اچھی عربی جانتے ہیں مگر قرآن کریم کی تلاوت کے وقت الفاظ اس طرح بکھرے ہوئے ہوتے ہیں کہ نہ ان کا کوئی نظام ہوتا ہے نہ صحت مخارج کا لحاظ.ان کی آواز یوں معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کی عربی کو اردو کا جامہ پہنایا جا رہا ہے.لیکن ہمارے مولوی مطیع الرحمن صاحب بی.اے نے بہت ہی اچھا قرآن پڑھا ہے.گو وہ قاری نہیں ہیں اور بعض امور میں انہیں اصلاح کی ضرورت ہے مگر بہر حال اچھا اثر کرنے والا طریق ہے جس میں

Page 236

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) انہوں نے تلاوت کی ہے.230 جلد اول دوسری چیز میری خوشی کا موجب ایڈریس ہے.تقریر کرنا یا ایڈریس پڑھنا ایک مشکل کام ہے.عبارت آرائی بہت آسان ہے اور اس زمانہ میں خیالات کو عمدگی سے ظاہر کرنے میں بہت سی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں لیکن وہ چیز جو ہمارے ملک کے لوگوں کے لئے مشکل ہے وہ طریق ہے جس میں وہ اظہار خیالات کرتے ہیں.یا تو کسی مضمون کے پڑھتے وقت ان کی اس طرف ساری توجہ ہوتی ہے کہ اتنے زور سے بولیں کہ تمام پبلک کو آواز سنائی دے یا پھر اپنی عبارت آرائیوں میں اس طرح الجھے ہوتے ہیں کہ سامعین کی طرف توجہ ہی نہیں ہوتی.یا آواز میں ایسی خشونت ہوتی ہے کہ سننے والوں کے کانوں پر بوجھل معلوم ہوتی ہے.یا اس قدر لجاجت ہوتی ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے سننے والوں سے سوال کیا جا رہا ہے.یا جذبات اور احساسات کا اتنا زور ہوتا ہے کہ سننے والے اسے تماشا خیال کرتے ہیں.یا جذبات اور احساسات سے اتنی خالی ہوتی ہے کہ یہ معلوم نہیں ہوتا کوئی انسان پڑھ رہا ہے بلکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی مشین سے آواز آرہی ہے.مگر عزیز بدرالدین احمد نے جس رنگ میں ایڈریس پڑھا ہے وہ بہت قابل تعریف ہے.آواز کے ساتھ جذبات نکل رہے تھے اور قلبی احساسات میں ہر لفظ لپٹا ہوا تھا.مگر یہ چھلکا کسی بے وقوف مٹھائی بنانے والے کی طرح اتنا زیادہ نہ تھا کہ اصلی چیز گم ہو جائے اور میٹھا ہی میٹھا رہ جائے بلکہ اس انداز کا تھا کہ اصلی چیز کی خوبی اور بھی زیادہ نمایاں ہو.چونکہ زندگی وقف کنندگان نے اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اس لئے نہ صرف انہیں علم کی ضرورت ہے ، نہ صرف اخلاص کی ضرورت ہے بلکہ ان کے ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ انہیں وہ طریق بھی آئے جس سے لوگوں تک اپنے خیالات، اپنے احساسات اور اپنے جذبات پہنچا سکیں.اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان دونوں نوجوانوں نے جس طرح اپنے فرض کو ادا کیا ہے وہ میرے لئے نہایت ہی خوشی کا باعث ہے.میرے نزدیک جماعت کا ہر فرد دین کے لئے زندگی وقف کنندہ ہے.کیونکہ بیعت ا

Page 237

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 231 جلد اول کے معنی ہی وقف کرنے کے ہیں لیکن اس زمانہ میں حالات چونکہ ایسے ہیں کہ لفاظی بہت بڑھ گئی ہے اور حقیقت مخفی ہو گئی ہے اس لئے اس امر کی ضرورت ہے کہ بار بار دریافت کیا جائے کس نے وقف کی حقیقت کو سمجھا ہے.اس بات کے لئے مختلف طریق سے کسی انسان کے اندرونہ کو دریافت کرنے کی ضرورت ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کوئی خیال ظاہر کرتا ہے جسے دوسرا کسی اور طرح سمجھا ہے.اسے سمجھانے کے لئے اس خیال کو پھر اور طرح ظاہر کیا جاتا ہے.اگر اس پر بھی وہ نہ سمجھے تو پھر اور طرح سمجھایا جاتا ہے.اسی طرح وقف کنندگان کی اصطلاح ہے.ہر ایک شخص جو بیعت کرتا ہے وہ وقف کنندہ ہے.مگر ہر ا ایک اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا اس لئے مختلف طریق سے سمجھاتے ہیں اور اس طرح وہ سمجھتے ہیں اور آہستہ آہستہ ایسے لوگ نکلتے آتے ہیں جو صحیح طور پر مبائع کہلانے کے مستحق ہیں.پس میں وقف کنندگان کے اس ایڈریس کے جواب میں اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وقف کنندہ اپنی بیعت کے اقرار کو دہراتا ہے اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو قرآن کریم نے بیعت کرنے والے کی رکھی ہیں.اور جو مطیع الرحمن صاحب نے آیات قرآن کریم میں پڑھی ہیں ان کو یا د رکھنا چاہئے.لیکن اگر وقف کنندگان ان کو نہ سمجھیں تو یہ پہلے سے بھی زیادہ زیر مواخذہ ہوں گے.اس کے ساتھ ہی میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ انہیں بچے طور پر اپنی ذمہ داریوں کے مفہوم کو سمجھنے کی توفیق دے.دین کی خدمت کرنے کا موقع بخشے جس سے اسلام کو بھی فائدہ ہو اور ان کو بھی فائدہ پہنچے.اور یہ خدا کی رضا حاصل کرنے کے مستحق ہو جائیں.“ (الفضل 24 مارچ 1925ء)

Page 238

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 232 جلد اول مبلغین اور احمد یہ مشن لندن کے متعلق خدا تعالیٰ کے حضور پکار حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے وفیس (اٹلی) میں جہاز پر سوار ہونے سے چند گھنٹہ پہلے جو ہدایات حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد مبلغ لندن کی کاپی پر درج فرمائیں ان کے شروع میں ایک دعا بھی رقم فرمائی جو درج ذیل ہے:.اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيهِ - نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ اے خدا!! جس نے اپنے فضل سے اسلام کو انسان کی ہدایت کے لئے نازل کیا اور پھر جب لوگوں نے اسلام سے منہ پھیر لیا اور اس کی ہدایات کو بھلا دیا تو پھر ان کی آنکھیں کھولنے کیلئے اور ان کو نور بخشنے کے لئے مسیح موعود کو نازل فرمایا.میں تیری زبردست طاقتوں اور تیرے بے انتہاء رحم سے مدد مانگتے ہوئے تجھ سے عاجزانہ اور بے کسانہ طور پر عرض کرتا ہوں اور التجا کرتا ہوں کہ میری ان ہدایات میں برکت ڈال اور انگلستان کے مشن احمد یہ میں بعد اس کے کہ وہ ایک مردہ کی طرح تھا زندگی کی روح ڈال اور اس کے کارکنوں کو اپنے فرائض کی ادائیگی کی توفیق بخش اور ان کی سمجھ کو تیز فرماتی کہ وہ تیری مرضی کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں.ان کو محنت ، شوق اور عقل سے کام کرنے کی توفیق عطا فرما اور ان کی محنت کو قبول فرما خواہ وہ کتنی بھی حقیر کیوں نہ ہو.اور اس کے نیک ثمرات پیدا کر جو سب ملک بلکہ گردا گرد کے ملکوں کو بھی تیری برکتوں سے بھر دیں.اے میرے رب! ایسا کر کہ ان کا عمل اور ان کا قول اور ان کا فکر اور خیال بھی تیری مرضی اور

Page 239

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 233 جلد اول تیرے منشاء کے خلاف نہ ہو بلکہ ان کا عمل اور ان کا خیال اور ان کا قول تیرے ارادے اور تیرے حکم کے مطابق ہو.وہ اسلام کو سمجھیں اور اس کے مطابق عمل کریں اور اس کے مطابق لوگوں کو تعلیم دیں اور لوگوں کے خوف سے اسلام کے کسی حکم کو نہ چھپائیں.نہ اس کے کسی حکم کی شکل کو بدلیں.لیکن یہ بھی نہ ہو کہ وہ لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوں اور ان کو ایسی سختی میں ڈالیں جو ان کی برداشت سے بڑھ کر ہو اور بے ضرورت ہو اور تیری خوبصورت ہدایات کو جو انسانی دلچسپی کو اپنی طرف کھینچ لینے والی ہیں ایسی صورت میں پیش کریں کہ وہ لوگوں کو بری نظر آدیں اور ان کے دلوں میں داخل نہ ہوں بلکہ نفرت پیدا کریں.اے خدا! تو ان کو ایسے مخلصین کی جماعت عطا فرما جوان کے کاموں میں ان کی مددگار ہو اور ان کا ہاتھ بٹانے والی ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کے لئے مستعد ہو اور تیرے احکام کی تعمیل اور ان کی اشاعت میں دلی خوشی محسوس کرتی ہو.اور تو اس جماعت کو اسلام کی اشاعت کے کام میں ہمارے مبلغوں کے لئے دایاں بازو بنا.اور ان کی کوششوں میں برکت دے اور ان کے حق میں بھی وہ دعائیں سن جو میں نے مبلغوں کے حق میں کی ہیں.اے خدا! تو اس مسجد کو جس کا سنگ بنیاد میں نے لندن میں رکھا ہے با برکت کر اور اس کو جلد مکمل کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرما اور اس کی عمارت کے اپنے فضل سے سامان پیدا کر.وہ اعلیٰ درجہ کی برکات کی جگہ ہو اور لوگوں کو اس سے سچی نیکی اور سچی طمانیت حاصل ہو جس میں کوئی شائبہ بدی یا بے اطمینانی کا نہ ہو.اے میرے رب ! ہمارے مبلغوں کے متعلق لوگوں کے دل میں محبت اور اخلاص پیدا کر.اور ان سے تعاون کی خواہش پیدا کر اور ہمارے مبلغوں کے دلوں میں ان لوگوں کے متعلق جن میں وہ کام کرتے ہیں محبت پیدا کر اور اخلاص پیدا کر.ان کو ہر قسم کے الزامات سے پاک رکھ اور ان کی عزت کو محفوظ رکھ.

Page 240

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 234 جلد اول اے میرے خدا! مبلغوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نسبت بھی محبت کے جذبات پیدا کر.اور جن کی فرمانبرداری ضروری ہے ان کی فرمانبرداری کی ان کو توفیق دے اور جن کے احساسات کا خیال رکھنا مناسب ہے ان کے احساسات کا خیال رکھنے اور محبت اور نرمی کا سلوک کرنے کی ان کو تو فیق عطا فرما.اے میرے رب ! وہ اندر اور باہر سے ایک ہوں اور محبت اور پیارا اور یگانگت اور اتفاق مجسم ہوں.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے میرے رب ! میں پھر تیرے رحم اور تیرے فضل اور تیری قدرتوں کے واسطہ سے مدد مانگتے ہوئے تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میرے اس سفر کو با برکت فرما.اور اب ان ممالک میں نور اور ہدایت پھیلنے کے راستے کھول دے.اور اسلام کی اشاعت کے سامان اپنے پاس سے ہی کر دے.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اے خدا! میں تجھ سے یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ مجھے اور میرے بعد آنے والے خلفاء کو احمدی مبلغوں کے کام کی نگرانی اور ان کو صحیح ہدایات دینے کی بے نقص توفیق عطا فرما.اور اے خدا ! تو احمدی مبلغوں کے قلب کے اطمینان کے سامان پیدا کر.وہ اپنے عزیزوں اور اپنے دوستوں اور اپنے پیاروں کی حالت سے مطمئن رہیں اور ان کی اولادوں اور ان کی بیویوں اور ان کے دوسرے رشتہ داروں کا تو آپ ہی متکفل ہو اور آپ ہی ان کا 66 مربی ہو.اے خدا! تو ایسا ہی کر.اَللَّهُمَّ مِينَ اللَّهُمَّ مِيْنَ اللَّهُمَّ مِينَ (الفضل 30 اپریل 1925 ء )

Page 241

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 235 جلد اول مجاہدین شام کی الوداعی دعوت میں تقریر 25 جون 1925ء کو مجاہدین شام کی الوداعی دعوت کی گئی.اس موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی.آج ( 25 جون 1925ء ) جس غرض کے لئے ہمارے بچوں نے ٹی پارٹی دی ہے وہ وہ غرض وحید ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا اور جس غرض اور مقصد کو آج دنیا جنون اور پاگل پن خیال کرتی ہے.غیر مسلم تو الگ رہے مسلمانوں میں سے تعلیم یافتہ طبقہ کے وہ لوگ جن کی نظریں وسیع اور جن کے معلومات زیادہ ہیں میں سمجھتا ہوں ان میں سے 99 فیصدی یا اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ ہیں جو اپنے دلوں میں یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کا دنیا میں اس طریق سے رائج ہونا جس طریق پر پہلے رائج ہوئی تھی نا ممکن ہے.یورپ کی تعلیم ، یورپ کا طریق، یورپ کا فلسفہ، یورپ کی تہذیب، یورپ کا تمدن ان باتوں نے ان کے قلوب پر ایسا گہرا اثر کیا ہے اور اتنی گہری جڑھیں پکڑ لی ہیں کہ اس درخت کا اکھیڑ پھینکنا انسانی فہم و فراست میں نہیں آسکتا.دنیا میں دو قسم کے یقین ہوتے ہیں.ایک جہالت سے اور ایک علم.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والے لوگ ان دونوں قسموں میں منقسم ہوتے ہیں.دونوں کو قرآن پر یقین ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلمات ہیں.ان میں سے ایک تو بغیر علم قرآن کریم کا مطالعہ کرتا ہے.بغیر نئی معلومات رکھنے کے، بغیر فلسفہ کی واقفیت کے، بغیر قرآن کریم میں گہرا جانے کے پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا کا کلام ہے.اسے اس بات پر یقین ہوتا ہے مگر وہ یقین عرفان اور معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ جہالت کا یقین ہوتا

Page 242

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 236 جلد اول ہے.پھر جب کوئی شخص اس درجہ سے ترقی کرتا ہے اور قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کرتا ہے کہ جاؤ جا کر دنیا کو دیکھو.وہ جا کر دنیا کو دیکھتا ہے تو اس کے نظاروں کو قرآن کریم کے خلاف پاتا ہے.اس وقت اس کا دل شکوک اور شبہات سے بھر جاتا ہے.لیکن اس مرحلہ پر پہنچ کر جو شخص ہمت نہیں ہارتا بلکہ یقین رکھتا ہے کہ قرآن کریم بلاشبہ خدا کا کلام ہے اس وقت وہ اپنے ناقص علم سے قرآن کے خلاف فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس پر گہرا غور وفکر کرتا ہے تو قران کریم کے حقائق اور معارف کی کھڑکیاں اس پر کھولی جاتی ہیں.حتی کہ وہ ایسے دروازہ سے گزرتا ہے کہ اسے قرآن کریم میں نور ہی نور نظر آتا ہے.اس پر بڑے بڑے خزانے کھولے جاتے ہیں، باریک در باریک راز منکشف کئے جاتے ہیں اس وقت وہ دیکھتا ہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ قانون قدرت کے مطابق ہے.اس وقت اس کے دل میں بھی یقین داخل ہو جاتا ہے اور پھر کوئی علم ، کوئی مشاہدہ اس کے یقین کو باطل نہیں کر سکتا بلکہ اور زیادہ مضبوط کرتا ہے.یہ تین حالتیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک مومن گزرتا ہے.اس وقت نہ صرف عام مسلمانوں سے بلکہ احمدیوں میں سے بہت لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ اسلام دنیا میں پھیلے گا ان میں بھی بہت سے ایسے ہیں جو پہلے درجہ میں ہی ہیں.وہ ان مشکلات اور رکاوٹوں کو نہیں جانتے جو اشاعت اسلام میں حائل ہیں.وہ لوگوں کے عقائد اور خیالات اور حالات کے گہرے اثر سے واقف نہیں.وہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی وجہ نہیں دنیا اسلام کو نہ مان لے.ہم فلاں گاؤں میں گئے تھے وہاں یہ دلائل دیئے تھے جنہیں لوگوں نے مان لیا تھا.حالانکہ بات یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے ادنی تعلیم والے لوگوں کے سامنے دلائل پیش کئے ہوتے ہیں اور خواہ وہ ایم.اے ہی کیوں نہ ہوں حقیقی علوم سے ناواقف ہوتے ہیں.اگر ایسے لوگوں نے دلائل تسلیم کر لئے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری دنیا اسی طرح تسلیم کر لے گی اور وہ دنیا تسلیم کرلے گی جس کا یہ خیال ہے کہ اسلام کی پہلی تعلیم نے ہی مسلمانوں کو گرایا ہے اب نئی تعلیم کی ضرورت ہے جو ترقی کی طرف لے جائے.اس کے

Page 243

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 237 جلد اول لئے وہ کوئی دلیل نہیں دیتے بلکہ اس کی بنیاد ایسے مشاہدہ پر رکھتے ہیں جو حقیقت میں تو مشاہدہ نہیں مگر اس نے لمبے تاثر کی وجہ سے مشاہدہ کی شکل اختیار کر رکھی ہے اور نسلاً بعد نسل اثرات ڈالتا چلا آ رہا ہے.اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یورپ کے کسی علاقہ میں چلے جاؤ اور اسلام کی تعلیم پیش کرو.سننے والا ہاں میں ہاں ملاتا رہے گا لیکن جب کہو اس تعلیم پر عمل کرو تو کہے گا آپ مجھے پاگل بنانا چاہتے ہیں کہ میں اس اعلیٰ تمدن کو چھوڑ کر پرانے زمانہ کے تمدن کو اختیار کروں.وہ ہاں میں ہاں اس لئے ملاتا ہے کہ اس کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہیں ہوتا جو اسلامی مسائل کے متعلق دی جاتی ہیں مگر زمانہ حال کے اثرات اس پر اس قدر غالب آچکے ہیں کہ وہ ان مسائل پر عمل نہیں کرنا چاہتا اور کہ دیتا ہے یہ باتیں دل خوش کرنے کے لئے ہیں ہم لوگ ان سے عملاً فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ان حالات کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اسلام کا دنیا میں پھیلانا ناممکن ہے اور ایسا ہی ناممکن ہے جیسا بچے کے لئے آسمان سے ستارہ لانا بلکہ اس سے بھی زیادہ.کیونکہ ممکن ہے سائنس کا کوئی تجربہ ستاروں کو کھینچ کر زمین پر لے آئے.مگر یہ عقلاً ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ ان ذرائع کے ساتھ جو ہمارے پاس ہیں ہم یورپ کے تمدن کو اکھیڑ کر اس کی جگہ اسلامی تمدن قائم کر سکیں.ایسی حالت میں اگر کوئی چیز ہمیں تسلی دے سکتی ، ہماری ہمت بندھا سکتی ، ہمارے حوصلے قائم کر سکتی ہے تو وہ صرف اس انسان کا قول ہے جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا اور جس کی صداقت اور راستبازی پر ہم ایمان لائے.یعنی حضرت مسیح موعود کی علیہ الصلوۃ والسلام.اگر اس کے قول کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر کوئی چیز ایسی نہیں جو یقین دلا سکے کہ دنیا میں اسلام کا دور دورہ ہو جائے گا.صرف ایک ہی چیز ہے جو اس امر کو ناممکن سمجھنے سے روکتی ہے اور وہ اس انسان کا قول ہے جس کا قول ہر سچائی سے بڑھ کر سچا ہے اور وہ مسیح موعود ہے.چونکہ ہم نے اس میں ہو کر خدائی قدرتوں کا مشاہدہ کیا ہے اس لئے اس مشاہدہ کے بعد ہم قانون قدرت کو تو جھوٹا کہہ سکتے ہیں کیونکہ اس کا سمجھنا ہماری عقل پر منحصر ہے اور ہم نے عقل کو بار ہا ٹھوکریں کھاتے دیکھا ہے، ہم اپنے تجربہ کو جھوٹا کہہ سکتے

Page 244

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 238 جلد اول ہیں کیونکہ ہم سے کئی بار غلطیاں ہوتی ہیں مگر ہم اس کی باتوں کو جھوٹا نہیں کہہ سکتے جس نے خدا تعالیٰ سے کلام پا کر ہمیں سنایا.کیونکہ ہم نے اس کے کلام میں وہ صداقت دیکھی جس کا مقابلہ دنیا کی کوئی چیز نہیں کر سکتی.اور اگر سچ پوچھو تو ہمیں قرآن کریم پر رسول کریم ہے پر بھی اسی کے ذریعہ ایمان حاصل ہوا.ہم قرآن کریم کو خدا کا کلام اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کے ذریعہ آپ کی نبوت ثابت ہوتی ہے.ہم محمد ﷺ کی نبوت پر اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ اس سے آپ کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے.نادان ہم پر اعتراض کرتا ہے کہ ہم کیوں حضرت مسیح موعود کو نبی مانتے ہیں اور کیوں اس کے کلام کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں.وہ نہیں جانتا کہ قرآن پر یقین ہمیں اس کے کلام کی وجہ سے حاصل ہوا ہے اور محمد ﷺ کی نبوت پر یقین اس کی نبوت کی وجہ سے ہوا ہے.اگر حضرت مرزا صاحب کا وجود نہ ہوتا اور ہم آباؤ اجداد کی اندھی تقلید نہ کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا کلام اور محمد عدلیہ کو خدا کا رسول سمجھتے.یہ آپ ہی نے آکر بتایا اور ثابت کیا.تو ان حالات میں ایک چیز ہی ہے جو اس بات کا یقین دلاتی ہے کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا ورنہ ظاہری حالات سخت خلاف ہیں.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارا کتنا اہم اور مشکل کام ہے.اس کے متعلق ہمارا یہ خیال کہ ہم اسے اپنی سعی اور تدبیر سے کرلیں گے ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی کہے میں سرمار کر ہمالیہ گرا دوں گا یا ایک چلو سے سارے سمندر خشک کر دوں گا بلکہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہے.کیونکہ مادیات میں تغیر آسان ہوتا ہے به نسبت قلوب میں تغیر کرنے کے.ایسے عظیم الشان کام کے لئے جب ہم کھڑے ہوئے ہیں تو ضروری ہے کہ ایسی طاقت سے تعلق رکھیں جو تمام طاقتوں کا منبع ہے اور اسی پر بھروسہ رکھیں وہ ایک ہی ذات ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات ہے.اگر ہم نے حضرت مسیح موعود کی ذات میں کوئی نشان دیکھا، اگر آپ کے کلام میں معجزہ نظر آیا ، اگر آپ کی تحریر میں بے نظیر قوت دیکھی تو اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ اس انسان پر جس کا جسم ایسا ہی تھا جیسا کہ ہمارا جسم ہے.جس کی عقل ایسی ہی تھی جیسی ہماری ہے.جس کا علم ایسا ہی تھا جیسا کہ ہمارا ہے بلکہ

Page 245

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 239 جلد اول بہتوں سے کم ہو گا.اس پر جب خدا کا ہا تھ آ گیا تو اس میں ایسی طاقت پیدا ہو گئی کہ اس کا وجود خدا کا وجود ہو گیا.اب وہی دروازہ ہمارے لئے بھی کھلا ہے.اگر ہم کامیاب ہوں گے تو صرف اس لئے کہ خدا ہماری مدد کرے گا.اگر خدا تعالی مدد نہ کرے تو اپنے مدعا میں ہم کامیاب نہیں و سکتے اور یقیناً نا کا می ہمارے حصہ میں آئے.پھر یہی نہیں بلکہ ہماری مثال وہی ہو جو کسی شاعر نے بیان کی ہے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے کے رہے ساری دنیا سے ہم نے بگاڑ لی، دنیا ہمیں واجب القتل قرار دیتی ہے.اور نہ صرف اسے جائز فعل کہتی ہے بلکہ کارثواب سمجھتی ہے.چنانچہ ہم نے سنا ہے کابل میں ہمارے شہداء کے مارے جانے پر وہاں سے بعض لوگوں نے ہندوستان میں خط لکھے کہ ہم نے تمہارے نام پر ان پر تین تین پتھر پھینکے.یہ تو ہمارے وجود کی قیمت ہے.حکومتوں اور سلطنتوں سے ہمیں حفاظت حاصل نہیں.پس اگر ساری دنیا کو ناراض کر کے اور اپنے خلاف بھڑ کا کر خدا تعالیٰ کی مدد، نصرت اور فیضان بھی حاصل نہ ہو تو ہمارے جیسا بد بخت.اور کوئی نہ ہوگا.اس وقت میں تبلیغ پر جانے والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اندرا خلاص ، ایمان اور جذب پیدا کریں اور اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق جوڑیں کہ خدا تعالیٰ ان کے ہاتھوں، زبانوں، حرکات ، سکنات، خیالات، جذبات اور شعور میں داخل ہو جائے.ہر چیز جوان سے تعلق رکھتی ہے وہ خدا میں سے ہو کر ظاہر ہو اور ان کا وجود اس طرح مٹ جائے کہ اس کا پتہ ہی نہ رہے.اس کے لئے میں ان کو نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ اب تک ہماری جماعت سے ایک غلطی ہوئی ہے میں نے بار ہا اس سے روکا بھی ہے مگر اس جماعت نے جو اخلاص میں بے نظیر

Page 246

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 240 جلد اول ہے اور اپنا نمونہ نہیں رکھتی تا حال اس پر عمل نہیں کیا حالانکہ وہ میری طرف سے نہ تھی بلکہ مسیح موعود کی طرف سے ہی تھی.اور وہ یہ کہ مباحثات کو ترک کردو.میرے نزدیک وہ شکست ہزار درجہ بہتر ہو جو لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو بہ نسبت اس فتح کے جو لوگوں کو حق سے دور کر دے.کیونکہ اس قسم کی فتح میں نفس کی کامیابی ہو گی.مگر اس شکست سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہو گی.پس ایک دفعہ پھر جبکہ ہمارے مبلغ تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں انہیں اور دوسروں کو بھی نصیحت کرتا ہوں کہ مباحثات کو چھوڑ دیں اور ایسی طرز اختیار کریں جس سے دوسروں کے ساتھ ہمدردی ، خدا تعالیٰ سے خشیت اور ڈر ظاہر ہو.ان کے مد نظر ایک ہی غرض ہو اور وہ یہ کہ خدا کا جلال ظاہر ہو.اپنی نفسانیت کو بالکل ترک کر دیا جائے اور اپنے آپ کو مقدس رسول کا حلقہ بگوش ثابت کیا جائے مگر یہ بات بغیر نفس کو مارے اور شکست قبول کرنے کے پیدا نہیں ہو سکتی.اور جن لوگوں میں یہ مادہ نہیں کہ نفس کی خواہش کو خدا کے جلال کے لئے قربان کر دیں وہ خدا کی راہ میں قربانی کرنے والے نہیں کہلا سکتے.اگر کوئی شخص سو میں سے 99 باتوں میں قربانی کرتا ہے مگر ایک بات میں نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ اس کی نظر میں ان 99 باتوں کی کوئی قدر نہ تھی اور اس ایک بات کی تھی جسے اس نے قربان نہ کیا.پس جانے والے مبلغوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سفر اور حضر میں اس بات کو مد نظر رکھیں کہ ان کی تمام گفتگوؤں کا ایک ہی مقصد اور مدعا ہو.اور وہ یہ کہ خدا کا جلال اور اس کی شان ظاہر ہو نہ یہ کہ ان کے نفس کی فتح ہو.پھر میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس سلسلہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہم پر بڑے بڑے احسان کئے ہیں.شاید کبھی کسی کے دل میں خیال آیا ہو کہ ہم نے سلسلہ کے لئے کچھ قربانی کی ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو کہ اس سلسلہ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ان عزتوں کے سامان کئے ہیں جو اور ذریعہ سے حاصل ہی نہیں ہو سکتیں.عزت کسی بڑے جتھے کا نام نہیں، مال و دولت کا نام نہیں، عزت اس چیز کا نام ہے کہ کسی کے لئے کس قدر لوگ قربانیاں کرنے کے لئے تیار ہیں.اگر کسی شخص کے ساتھ ایک ہی آدمی ہے اور وہ

Page 247

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 241 جلد اول ایسا آدمی ہے کہ اپنے وجود کو اس کے لئے فتا کرنے کے لئے تیار ہے تو اسے ایسی عزت حاصل ہے جو بادشاہت سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ اگر کوئی بادشاہ ہومگر اسے یہ خطرہ ہو کہ شاید کوئی مجھے مار ڈالے یا میری بات نہ مانے تو وہ باعزت نہیں کہلا سکتا.باعزت وہی ہے کہ خواہ اس کے ساتھ ایک ہی آدمی ہو مگر اس کے لئے ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار ہو.یہ بات ہماری جماعت میں حاصل ہے.جنہوں نے اس میں شامل ہو کر دین کی خدمت کی ان سے اخلاص اور محبت رکھنے والی ایسی جماعت ہے جو ان کی خاطر اپنا آرام و آسائش قربان کرنے کے لئے تیار ہے.اس کے دل میں ان کا ادب ایسا راسخ ہو گیا ہے کہ کوئی چیز اسے نکال نہیں سکتی.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وجود کی برکت ہے.اگر حضرت مسیح موعود نہ آئے ہوتے تو ہم بھی انہی پراگندہ طبع اور پراگندہ خیالات لوگوں کے میں سے ہوتے جو مسلمان کہلاتے ہیں.ہم میں سے اگر کوئی مجسٹریٹ ڈپٹی یا گورنر بھی ہو جاتا تو بھی کیا ایسی عزت حاصل کر سکتا تھا جیسی احمدی ہو کر حاصل ہوئی ہے.کیا اس وقت اس کے ساتھ محبت اور پیار کرنے والے، اس سے اخلاص رکھنے والے اور اس کے لئے قربانی کرنے والے اسی طرح لوگ ہوتے جس طرح اب ہیں.اس صورت میں یہ حالت ہوتی کہ ظاہر میں تو اس کا ادب کرتے مگر دل میں گالیاں دیتے.یا اگر سیاسی لیڈر ہوتے تو اول تو یہ میدان اس قدر وسیع ہے کہ نہ معلوم ان کا ٹھر کا نا کہاں ہوتا.مگر فرض کر لو اس میدان میں کسی کو وہی درجہ حاصل ہو جاتا جو گاندھی جی کو حاصل ہوا تو پھر بھی کیا ہوتا.دیکھ لو آج ان کا کیا حال ہے.وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اب میرا اثر نہ مسلمانوں پر ہے اور نہ ہندوؤں پر.نہ مسلمان میری بات مانتے ہیں نہ ہندو.اس سے ظاہر ہے کہ سیاسی لیڈروں کو جو قوم ایک وقت تخت پر بٹھاتی ہے وہی دوسرے وقت لاتوں سے پکڑ کر نیچے گھسیٹ لاتی ہے.مگر تم حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ایسے تخت پر بٹھائے گئے ہو کہ جس سے کوئی گرانے والا نہیں ہے بلکہ دن بدن عزت اور توقیر بڑھ رہی ہے.اور تم اس طرح مطمئن ہو جیسے کوئی بڑے سے بڑا جرنیل اور بادشاہ بھی اپنی فوج میں مطمئن نہیں ہو سکتا

Page 248

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 242 جلد اول کیونکہ مسیح موعود کی وجہ سے تم آگے ہی آگے ترقی کر رہے ہو.دیکھو جتنے لمبے عرصہ سے تمہاری عزت قائم ہے کوئی بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر ایسا نہیں بلکہ یورپ کا بھی کوئی سیاسی لیڈر ایسا نہیں جسے اتنا عرصہ عزت حاصل رہی ہو.حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد جو لوگ ممتاز ہوئے ان کے امتیاز پر آج 17 سال گزر رہے ہیں.مگر یورپ کے لوگوں کو دیکھو مسٹر لایڈ جارج (GEORGE LLOYD ) آج سے چھ سال پہلے انگلستان میں اس قدر عزت اور شہرت رکھتا تھا کہ جس کی کوئی حد نہ تھی مگر آج وہ جو تیاں چٹخاتا پھرتا ہے اور کوئی پوچھتا نہیں.غرض کوئی ایک بھی مدبر اور سٹیٹسمین ایسا نہیں جس کی اتنا لمبا عرصہ عزت قائم رہی ہو.اپنے ملک کے لیڈروں کو ہی دیکھ لو.آج جسے سروں پر بٹھایا جاتا ہے کل اوندھے منہ گرا دیا جاتا ہے.مولوی عبد الباری صاحب فرنگی محلی کو ایک وقت مجدد کی حیثیت دی جاتی تھی حتی کہ مولوی محمد علی اور شوکت علی صاحبان نے بھی ان کی بیعت کر لی تھی مگر آج انہیں کوئی پوچھتا نہیں.آریوں میں لالہ منشی رام صاحب بڑی عزت رکھتے تھے مگر ان کے خلاف بھی بڑے بڑے اشتہارات شائع ہوئے اور ان پر طرح طرح کے الزام لگائے گئے مگر تم لوگ حضرت مسیح موعود کے طفیل ایسے مقام پر ہو کہ تمہیں اس قسم کی تشویش نہیں.یہ محض خدمت دین کے باعث ہے.اگر ہم اس کی قیمت کا اندازہ نہ لگائیں تو یہ ہماری سخت احسان فراموشی ہوگی.یہ خدا تعالیٰ کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے اور اس اطمینان کو غنیمت سمجھنا چاہئے اور خدا کے جلال کے لئے اپنی زندگی کی ہر گھڑی خرچ کرنی چاہئے.میں نے کل ایک دعوت میں بیان کیا تھا کہ اہل عرب کے ہم پر بہت بڑے احسان ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم تک اسلام پہنچا.ہما را رونگھا رونگھا ان کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہے.ان کا بدلہ دینے کے لئے ہمارے یہ مبلغ وہاں جا رہے ہیں.ان میں سے سید ولی اللہ شاہ صاحب پردہری ذمہ داری ہے کیونکہ انہوں نے علم بھی اس ملک سے حاصل کیا ہے.اب ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کو روحانی علم دیں.مگر ساتھ ہی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ

Page 249

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 243 جلد اول مبلغ کی حیثیت سے نہیں جار ہے بلکہ مدیر کی حیثیت سے جارہے ہیں.ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے.مبلغ کی حیثیت سے مولوی جلال الدین صاحب جا رہے ہیں ان کو اسی مقصد کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چاہئے تا کہ ان کے جانے کا مقصد فوت نہ ہو جائے.انہیں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہر کام کی نوعیت اپنے اثرات کے لحاظ سے اچھی یا ئمری ہوتی ہے.میں طبعی طور پر اپنے قلب میں محسوس کرتا ہوں که تبلیغ کا کام مجھے نہایت پسندیدہ ہے.بچپن میں اگر میرے دل میں آئندہ زندگی کے متعلق کوئی احساس تھا تو یہی کہ دنیا میں تبلیغ کے لئے نکل جاؤں گا.مگر باوجود اس خواہش کے خدا تعالیٰ نے ایسا کام سپرد کیا کہ مرکز میں رہوں اور سوائے کسی اشد ضرورت کے باہر نہ نکلوں.میں نے اپنے لئے یہی فیصلہ پسند کیا گو طبعی طور پر اس میں بعض ایسی باتیں ہیں کہ جو میری فطرت کے خلاف ہیں مگر یہ فیصلہ اس فیصلہ سے بے انتہا بہتر ہے جو ہماری عقل تجویز کرتی ہے.ہماری تمام ذلتیں ( ہماری سے مراد جماعت احمد یہ نہیں بلکہ سارے مسلمان ہیں ) ہماری تمام تباہیاں اور ہماری تمام بر بادیاں اس لئے ہیں کہ ہمیں یہ خیال نہیں کہ کوئی کام اس وقت تک عمدگی سے نہیں ہو سکتا تھا جب تک مضبوط مرکز نہ ہو.دراصل اس سے بڑی قربانی کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان اس کام میں لگ جائے جس کے بظاہر نتائج نہ نکلتے ہوں خواہ حقیقت میں اس کے نتائج بہت وسیع ہوں.مثلاً قادیان میں رہ کر جو لوگ کام کرتے ہیں ان کا کام مبلغوں کے کام کے مقابلہ میں نمایاں نہیں ہوتا اور بعض لوگ کہتے بھی ہیں کہ وہ کیا کرتے تھے.مگر حقیقت یہ ہے کہ قادیان میں خموشی سے کام کرنے والا اس شخص سے بہت زیادہ ذمہ دار ہے جو کسی ملک کو احمدی بنا رہا ہوتا ہے کیونکہ گھوڑے کی باگ اس کے ہاتھ میں ہے.اور مسلمانوں کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی ہے کہ ان کا کوئی مضبوط مرکز نہ رہا.اگر مضبوط مرکز ہوتا تو اس طرح تباہ نہ ہوتے اور اس طرح چیلوں اور گدھوں کی خوراک نہ بنتے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ جس کام کے لئے مقرر کیا گیا ہے گو وہ طبعی خواہش اور

Page 250

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 244 جلد اول ذاتی ذوق کے مطابق نہ ہو اور خواہش یہ ہو کہ دنیا کے گوشوں میں پھر کر تبلیغ اسلام کی جائے اور خاص کر جن کے احسان کا بار ان کے کندھوں پر ہے ان کا حق ادا کیا جائے لیکن پھر بھی انتظام کو مدنظر رکھتے ہوئے اب جو کام ان کے سپرد کیا گیا ہے وہی زیادہ اہم ہے.اگر بعض حکمتیں نہ ہوتیں تو میرے نزدیک ایسے کام کے لئے ایک مرکزی آدمی کو بھیجنا گناہ ہوتا.پس انہیں اپنے مقصد اور مدعا کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.آخر میں پھر میں اپنے عزیزوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ دنیا میں سب سے بڑھ کر خدا کا تعلق ہے.اگر ہم اپنے نفسوں کی اصلاح کر لیں تو دنیا کی سب چیزیں ہمارے قبضہ میں آ سکتی ہیں.حضرت مسیح موعود کا یہ شعر ہے جس کا دوسرا مصرعہ الہامی ہے کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے اگر تمہارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ، اس کی خشیت ہو تو تمہارا ہر کام ٹھیک ہوگا.پس تم اپنے قلوب میں خشیت اللہ اور ایمان پیدا کرو.اس کے بعد میں جانے والے عزیزوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ گوجسمانی طور پر وہ ہم سے جدا ہوں گے اور ایک عزیز تو لمبے عرصہ کے لئے جدا ہو رہا ہے مگر روحانی لحاظ سے وہ ہمارے قریب ہوں گے.اس وقت ان کے متعلق ان کے رشتہ داروں کے جو جذبات ہیں میں انہیں سمجھ سکتا ہوں.مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ رشتہ داروں کو جسمانی طور پر جو صدمہ ہو گا اس کے مقابلہ میں روحانی تعلقات ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے جسمانی تعلقات حقیر ہوتے ہیں.اور وہ ایسے جذبات ہوتے ہیں کہ قریبی سے قریبی رشتہ داروں میں بھی ویسا جذ بہ نہیں ہوتا.اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں ان کی جدائی سے فراق کا صدمہ اٹھانے والے وہی لوگ نہیں جو جسمانی تعلق رکھتے ہیں بلکہ اور جماعت بھی ہے جو روحانی تعلق رکھتی ہے.اور بعض حالتوں میں روحانی تعلق رکھنے والوں کو قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ تکلیف ہوتی ہے.ایسی حالت میں میں انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے عملی طریق

Page 251

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 245 جلد اول سے ثابت کریں کہ وہ مومن اور مخلص ہیں.اور ایسی باتوں سے مجتنب رہیں جو فتنہ کا موجب ہو سکتی ہیں.اور ایسے طریق اختیار کریں جو اسلام اور سلسلہ احمدیہ کہ دونوں ایک ہی چیز کے نام ہیں سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرنے والے ہوں.مسلمانوں کو تباہ ہی انشقاق اور افتراق نے کیا ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو آج یہ روز بد بھی نہ دیکھنا پڑتا.جب کوئی شخص کسی کام پر کھڑا ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے میری یہ رائے ہے اسی کے مطابق ہونا چاہئے.لیکن اگر وہ ایسی جگہ نہ کھڑا ہو کہ خدا نے اسے کھڑا کیا ہو تو اس وقت اسے عام رائے کو خدا کی طرف سے سمجھنا اور اپنی رائے کو اس کے مقابلہ میں قربان کر دینا چاہئے خواہ اپنی رائے کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو.پھر ان کا یہ کام ہے کہ ان کے ذریعہ جو جماعت خدا تعالی پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے.کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ترقی ہی موجب تنزل ہوگی اور وہی مصرعہ صادق آئے گا اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے اگر کوئی قوم ترقی کرے مگر اس میں اتحاد نہ ہو، مختلف ممالک کے لوگوں کے درمیان ایسا رشته و داد نہ ہو جو سب کو ایک وجود کی طرح نہ بنائے ، ان کے شعور اور افکار کو ایک سے نہ کر دے تو اس کا بڑھنا تنزل کا باعث ہوتا ہے.اور ایک ایک آدمی جو اس میں داخل ہوتا ہے اس کی خرابی کا باعث بنتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے پانی کے گلاس میں ایک تولہ پیشاب ڈال دیا جائے.اس سے بے شک پانی کا وزن بڑھ گیا مگر اس میں کیا شک ہے کہ سارا گلاس خراب ہو گیا.تو اس طرح کی ترقی کا نہ صرف کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہوتا ہے.کیونکہ اس طرح پہلے جو جماعت ہو وہ بھی ضائع ہو جاتی ہے.اگر مختلف ممالک کی مختلف جماعتوں میں اتحاد نہ ہو تو یہ ترقی تنزل کا پیش خیمہ ہوگی.پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح

Page 252

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 246 جلد اول.متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے.اگر شامی احمدی ہوں تو انہیں یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ ہم شامی احمدی ہیں.اسی طرح جو مصری احمدی ہوں ان کے دل میں یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ ہم مصری احمدی ہیں.یہی بات ہندوستانی احمدیوں کو یاد رکھنی چاہئے کیونکہ مذہب اسلام وطنیت کو مٹانے کے لئے آیا ہے اس لئے نہیں کہ جب وطن کو مٹانا چاہتا ہے.اسلام تو خود کہتا ہے جب وطن ایمان کی علامت ہے 1 مگر وہ وطن کو ادنی قرار دیتا ہے اور اس سے اعلیٰ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھو.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو وطن سمجھو.دنیا سے مراد تو وہ انسان ہوتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں مگر انسانیت سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو پہلے گزر چکے اور جو آئندہ آئیں گے.ایک مسلمان کا کام جہاں پہلوں کی نیکیوں کو قائم کرنا اور ان کے الزامات کو مٹانا ہوتا ہے وہاں آئندہ نسلوں کے لئے سامان رشد پیدا کرنا بھی ہوتا ہے.اس کے لئے انسانیت ہی مطمح نظر ہو سکتی ہے.پس ہمارے مبلغوں کو یہ مقصد مد نظر رکھ کر کھڑا ہونا چاہئے اور ہمیشہ اسی کو مد نظر رکھنا چاہئے.اس کے بعد میں دعا پر تقریر ختم کرتا ہوں اور دوستوں سے بھی چاہتا ہوں کہ جانے والے مبلغوں کے لئے اور جو پہلے جاچکے ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے.ہر میدان میں ان کا حامی اور ناصر ہو.خود ان کی عقلوں کو تیز کرے اور ان پر سچائیاں ظاہر کر دے تا وہ ایسی جماعت تیار کر سکیں جو دین کے جھنڈے کو بلند اور اسلام کو روشن کرے.“ ( الفضل 11 جولائی 1925ء) 1 : موضوعات ملاعلی قاری صفحہ 35 مطبوعہ دہلی 1315ھ

Page 253

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 247 جلد اول تبلیغ کے متعلق نصائح مکرم مولوی رحمت علی صاحب ( مولوی فاضل ) مبلغ سماٹرا و جاوا کو رخصت فرماتے ہوئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بعد از نماز صبح پنجابی زبان میں چند نصائح فرمائیں جن کا مفہوم اردو میں حسب ذیل ہے.تشہد، تعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اپنے کام کو محنت اور سرگرمی سے کرنا اور مباحثہ کا طریق اختیار نہ کرنا کیونکہ اس سے خرابی پیدا ہوتی ہے اور اکثر اوقات اس سے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے.پھر مباحثات سے لوگ مانا بھی نہیں کرتے.بے شک قرآن شریف میں چند باتیں ایسی پائی جاتی ہیں جن سے مباحثہ کا رنگ نظر آتا ہے مگر ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی مباحثہ ایسا نہیں ہوا جس کا نتیجہ یہ نکلا ہو کہ لوگ مان گئے ہوں.مثلاً فرعون کا قصہ ہے.اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ مباحثہ تھا مگر اس میں مباحثہ کا کوئی نمایاں رنگ نہیں.یہ تو صرف نشانوں کا مقابلہ تھا تاہم اس کا بھی کچھ اثر نہ ہوا اور فرعون نے نہ مانا بلکہ الٹا ضد پر قائم ہو گیا.پس جہاں تک ہو سکے مباحثات سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض لوگوں کو علم کا گھمنڈ ہوتا ہے ایسے لوگوں کے ساتھ الگ گفتگو کرنی چاہئے.وہ اگر بر سر عام مباحثہ کے لئے کہیں بھی تو انہیں کہہ دو کہ اس طریق سے مجادلہ پیدا ہوتا ہے.اور انہیں اچھی طرح سمجھا دو کہ چونکہ بعض دفعہ مد مقابل کی گفتگو کے نقائص بیان کرنے ہوتے ہیں، بعض دفعہ اس پر جرح کرنی پڑتی ہے، بعض دفعہ گفتگو الزامی جوابوں کا طریق اختیار کر لیتی ہے، بعض دفعہ عقائد پر تنقید شروع ہو جاتی ہے اور ان باتوں سے تحقیق حق جو که اصل مطلب ہوتا ہے انسان اس سے دور ہو جاتا ہے اس لئے میں یہ نہیں پسند کرتا کہ

Page 254

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 248 جلد اول اس طریق کو اختیار کر کے مجادلہ کا رنگ پیدا کر لیا جائے.پھر ایسے لوگوں کے ساتھ جن کو اپنے علم کا ناز ہوتا ہے عام مجمعوں میں گفتگو کرنے سے یہ نقصان بھی ہوتا ہے کہ وہ ضد پر آ جاتے ہیں.اور بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ خودضد پر نہیں آتے تو اردگرد کے تماشائی ان کے ضد پر آجانے کی وجہ بن جاتے ہیں.وہ جب دوسروں کی واہ واہ سنتے ہیں تو پھر اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ اتنے آدمی میرے ساتھ ہیں.پس بعض طبیعتیں اس سے متاثر ہو جاتی ہیں اور پھر وہ اپنی طبیعت سے نہیں دوسروں کے اثر سے اڑ جاتے ہیں اور ضد پر کھڑے ہو جاتے ہیں.ادھر انہیں علم کا گھمنڈ بھی ہوتا ہے اور اُدھر لوگوں کی واہ واہ بھی پیدا ہو جاتی ہے.ان دونوں کے ملنے سے وہ اپنے آپ کو کچھ مجھنے لگتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ضد پیدا ہو جاتی ہے.اور پھر یہ ضد ضد ہی نہیں رہتی بلکہ مجادلہ ومحاربہ تک پہنچ جاتی ہے پس اس سے حتی الوسع بچنا چاہئے.ایسا ہی جو علماء کہلاتے ہیں ان سے بھی علیحدگی میں گفتگو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اور انہیں عام مجمعوں میں گفتگو کرنے کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہئے.یہ ایک عام بات ہے کہ جب تبلیغ شروع کی جائے تو لوگ مخالف ہو جاتے ہیں اور جو ان میں شریر ہوتے ہیں وہ شرارت پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اس لئے تبلیغ کے کام کو آہستہ آہستہ کرنا چاہئے کہ تا ان شریروں کو شرارت اور مقابلہ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکے.سنت اللہ بھی اسی طرح جاری ہے کہ ہمیشہ تبلیغ کا کام ابتدا میں نہایت آہستگی کے ساتھ شروع کیا گیا.چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے بھی شروع شروع میں اسی طریق پر تبلیغ کی.اس طرح شریروں کو شرارت کرنے کا موقع کم ملتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے اسی طریق پر کام شروع کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ صلحاء کی جماعت پہلے پیدا ہوگئی اور شریروں کا گروہ بعد میں بنا.ان جزائر کے طالب علم غیر مبائعین کے ہاں بھی آئے ہوئے ہیں اور ان کا مبلغ بھی وہاں ہے اور بہ نسبت غیر احمدیوں کے مقابلہ کے ان کے ساتھ مقابلہ ذرا سخت ہے.یہ

Page 255

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 249 جلد اول مقابلہ اس لئے سخت نہیں کہ غیر مبائع اپنے عقائد کے لحاظ سے حق بجانب ہیں بلکہ اس لحاظ سے سخت ہے کہ بعض ناواقف لوگوں کے دلوں میں ان کے احمدی کہلا کر جھگڑنے سے طرح طرح کے ظن و گمان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اور پھر ان کے ساتھ اختلافی مسائل پر گفتگو کرنے کا بداثر بھی ہے.اور خاص کر ایسے علاقہ میں تو اور بھی زیادہ بداثر پیدا ہوتا ہے کہ جہاں کے لوگ ہندوستان والوں کی طرح مذہبی جھگڑوں کے عادی نہیں.کیونکہ ایسے لوگ جب ان اختلافی مسائل کو سنتے ہیں تو وہ پھر یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ سلسلہ ہی باطل ہے.حالانکہ اختلاف جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اختلاف ہو گیا تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد بھی اختلاف ہو گیا تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی اختلاف ہو گیا تھا.پس اگر اختلاف جھوٹا ہونے کی دلیل ہے تو پھر نعوذ باللہ جن جن انبیاء کے بعد ان کی جماعتوں میں اختلاف پید ہوا ان سب کو جھوٹا کہنا پڑے گا.مگر یہ لوگوں کی نا مجھی ہے کہ وہ ایسا سمجھتے ہیں تا ہم اس اختلاف سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.بحث مباحثہ کا رنگ ان کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے اور ایسی طرز پر کام لینا چاہئے کہ اظہار حق ہو جائے اور حکمت عملی سے ان کے خیالات کا ازالہ کیا جائے.جزیرہ جاوا کا ایک ہی طالب علم ہمارے ہاں ہے اور اس کی تعلیم ابھی ابتدائی ہے.زیادہ سماٹرا کے طلباء ہیں.جاوی طالب علم کو تو ابھی دیر لگے گی لیکن سماٹرا کے طالب علموں میں سے بعض سال دو سال میں انشاء اللہ تعالیٰ تیار ہو جائیں گے اور وہاں آ سکیں گے.لیکن جاوی طالب علم اگر مل جاویں تو ان کا ضرور خیال رکھنا.ملک میں ملکی آدمیوں کا بہت اثر ہوتا ہے.بعض دفعہ یہ اثر بڑے بڑے انقلاب اور نتائج پیدا کر دیتا ہے.یہ یاد رکھو لوگوں کی توجہ کھینچنے والی باہر کی بات ہوتی ہے لیکن منوانے والے اندر کے ہوتے ہیں.یعنی باہر کے لوگ اگر کچھ کر سکتے ہیں تو صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ لوگوں کے کانوں میں کسی نئی تحریک کو ڈال کر ان کو اس کی طرف متوجہ کر دیں.لیکن اگر وہ چاہیں کہ ان کو یہ تحریک منوا بھی

Page 256

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 250 جلد اول لیں تو وہ اس میں اس قدر کامیاب نہیں ہو سکتے جس قدر کہ اس ملک کے اندرونی آدمی اور وہ بھی بڑے بڑے.کیونکہ لوگ جب اپنے ملک کے بڑے بڑے آدمیوں کو کسی تحریک کو قبول کرتے دیکھتے ہیں تو آسانی سے اسے قبول کر لیتے ہیں.پس یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہاں کے بڑے بڑے آدمیوں میں تبلیغ ہو اور وہ احمدیت کو قبول کر لیں.اس کے میں کوئی شک نہیں کہ اکبر مُجْرِ مِنْهَا 1 کی سنت الہیہ بھی ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ا کا بر میں سے بھی ایک حصہ ہدایت کی طرف مائل ہو جاتا ہے.خواہ وہ اکابر علماء میں سے ہوں اور خواہ امراء سے.آنحضرت ﷺ کے وقت میں بھی ایسا ہی ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں بھی ایسا ہوا.اکابر علماء میں سے تو حضرت خلیفہ اول نے قبول کیا اور ا کا بر امراء میں سے نواب محمد علی خان صاحب داخل سلسلہ ہوئے.پس اللہ تعالیٰ ضرور چند ایک ایسے افراد کو سچائی قبول کرنے کی توفیق دے دیتا ہے جوا کا بر ہوتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ پھر وہ لوگ جو سچائی کے قبول کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ان اکابر کو جو سچائی قبول کر لیتے ہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی حضرت خلیفہ اول کو حقارت سے حکیم کہا کرتا تھا.تو بڑے لوگوں میں کوشش کرنی چاہئے کہ ان میں سے بھی مانیں مگر یہ نہ ہو کہ سارا زور ان پر ہی خرچ کیا جائے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے.اور نہ ہی یہ ہونا چاہئے کہ ان کو چھوڑ دیا جائے اور دوسروں کی طرف ہی ساری توجہ کر لی جائے.بڑے آدمیوں کو داخل سلسلہ کرنے سے ایک یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعے رسوخ بڑھتا ہے اور سلسلہ کی عظمت لوگوں کے دلوں میں بیٹھتی ہے.ہماری سیاسی پالیسی اس ملک میں یہ ہے کہ انگریزوں کی اطاعت کی جائے اور سیاست سے الگ رہا جائے لیکن چونکہ سماٹرا ہندوستان کا علاقہ نہیں اور ہماری جماعت ہندوستان کے علاوہ اور علاقوں میں بھی ہے اور ہمارے مبلغ خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں پھر رہے ہیں اس لئے اک ذرا سے تغیر کے ساتھ اسے یوں سمجھ لینا

Page 257

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 251 جلد اول چاہئے کہ جو گورنمنٹ بھی ہو اس کی وفاداری کی جائے اور سیاسی امور میں دخل نہ دیا جائے.بے شک اس سے اپنے حقوق مانگے جائیں لیکن کوئی شورش نہ ہو بلکہ امن کے ساتھ سب کا رروائی کی جائے.اور نہایت بردباری، تحمل اور استقلال کے ساتھ اپنے مطالبات اس کے آگے پیش کئے جائیں.ہماری جماعت کے متعلق لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں اور سمجھتے کیا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کے خوشامدی ہیں لیکن یہ ان کی نادانی ہے جو ہمارے متعلق ایسا کہتے ہیں.ہمارے نزدیک خوشامد کوئی اچھی چیز نہیں اور نہ ہی ہم خوشامد کرتے ہیں.ہمیں اگر کوئی ضرورت ہوتی ہے یا ہم نے اگر اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا ہوتا ہے تو ہم اسے شریفانہ طرز پر کرتے ہیں دوسرے لوگوں کی طرح شورش پیدا نہیں کرتے.اور چونکہ مطالبہ حقوق میں ہم ان کے پُرشور طریق کو اختیار نہیں کرتے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم خوشامد کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے.خوشامد ، نفاق اور بے ایمانی ہمارا کام نہیں.ہماری پالیسی اور مذہب یہ نہیں کہ ہم نفاق، غداری اور بغاوت کے طریق اختیار کریں بلکہ ہمارا اصول یہ ہے کہ امن، اتفاق اور ایمانداری سے ہر کام کو کریں اور خواہ کتنا ہی اہم ہمارا مطالبہ ہو اور خواہ کتنے ہی ضروری ہمارے حقوق ہوں ان کو طلب کرتے ہوئے یہ نہیں کہ شورش پیدا کی جائے بلکہ نہایت پُر امن طریق پر ان کی اہمیت بتا دی جائے اور پھر ان کا مطالبہ جاری رکھا جائے.ہمارا اصل مقصد تو یہ ہے کہ امن ہو کیونکہ اس سے دین اور دنیا دونوں درست رہتے ہیں اور اگر امن ہو تو انسان ہر قسم کی ترقی بھی کر سکتا ہے.امن کیا ہے؟ اگر مختلف حکومتوں اور پھر کسی خاص حکومت اور اس کی رعایا کے درمیان فساد نہ ہو تو اسے امن کہتے ہیں.کوئی سی بھی حکومت ہو، خواہ وہ ڈچ ہو خواہ چینی ، خواہ وہ برٹش حکومت ہو خواہ افغانی اگر اس میں نفاق ہے، اگر اس کی رعیت بے ایمانی سے کام کرتی ہے تو وہ پُر امن حکومت نہیں کہلا سکتی.اور پھر دوسری طرف یہ بھی درست نہیں کہ حکومت جو چاہے سو کرے کیونکہ اس سے بھی

Page 258

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 252 جلد اول امن قائم نہیں رہ سکتا.حکمران، رعیت کی طرف سے ایک قائم مقام کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ انتخاب کے ذریعہ کھڑا کیا جاتا ہے.چونکہ اسلام میں حکومت نیابتی ہوتی ہے اس لئے خدا نے خلافت کو بھی نیابتی کر دیا اور خلیفہ بھی انتخاب کے ذریعہ مقرر ہوتا ہے.پس ہمارے مطالبات بہت زیادہ ہیں حتی کہ گاندھی جی بھی اتنے مطالبات نہیں کرتے جتنے شریعت نے حکومت کے متعلق ہمارے لئے رکھے ہیں.لیکن ہمارے اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ وہ شور اور فساد سے کام لیتے ہیں اور ہم امن اور آرام کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے ہیں ورنہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ہم مطالبہ کرنے میں ان سے زیادہ ہیں.لیکن چونکہ شور نہیں بر پا کرتے اس لئے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خوشامدی ہیں.حالانکہ ہم خوشامد کو بہت ہی مذموم سے سمجھتے ہیں.اگر کسی جگہ کوئی پرانی حکومت ہو تو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اسے دور کیا جائے بلکہ اس کے حقوق تسلیم کئے جائیں گے.دیکھو ایک زمیندار بعض اوقات ثابت نہیں کر سکتا کہ زمین اس کی زرخرید ہے اور اس کی ملکیت کس طرح اس پر ہے.لیکن باوجود اس کے اسے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس کا مالک نہیں بلکہ اس کے حقوق تسلیم کئے جاتے ہیں.اور جوں جوں اسے قبضہ میں زیادہ عرصہ گزرتا جاتا ہے حقوق میں بھی مضبوطی پیدا ہوتی جاتی ہے.پس کوئی حکومت نئی ہو یا پرانی کیسی بھی ہو اپنے حقوق امن کے ساتھ اس سے لینے چاہئیں.باہم مل کر اتحاد کرنا چاہئے اور تعاون برتنا چاہئے.اس کام کے لئے یہ ضروری نہیں کہ کوئی خاص گورنمنٹ ہو تو اس کے ساتھ ہی یہ سلوک کیا جائے.ہر ایک حکومت کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے.تعاون اور اتحاد سب حکومتوں کے متعلق ہے اس میں کسی کی تفریق نہیں.یہ ضروری ہے کہ مبلغ سیاست سے بالا ر ہیں تا کہ وہ آزادانہ رائی اور رعیت کو مشورہ دے سکیں.انہیں چاہئے کہ وہ اپنے اصول سمجھا دیں کہ یہ ہمارے اصول ہیں اور پھر ان اصول پر کام بھی کریں.اصول کے متعلق یہی یا درکھنا چاہئے کہ حکومت کی فرمانبرداری ہو

Page 259

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 253 جلد اول اور اپنے حقوق کا مطالبہ نہایت نرم الفاظ میں کیا جانا چاہئے.شورش اور بغاوت کے خیالات سے الگ رہا جائے.حقوق مانگتے وقت مناسب الفاظ میں ان کی ضرورت اور اہمیت بھی بتا دینی چاہئے.رعیت کی بھی مدد کرنی چاہئے اور حتی المقدور راعی کی بھی اگر اسے مدد کی ضرورت پڑے.اگر ایک مبلغ ایسی پالیسی رکھے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ لوگ بھی اس کے خیر خواہ رہیں گے اور حکام بھی مدد کریں گے اور ان اصول پر چل کر وہ جہاں بھی جائے گا وہیں کا باشندہ ہو جائے گا اور لوگ اسے اپنا ہی آدمی خیال کریں گے.دینی لحاظ سے اس بات کا خیال رہنا چاہئے ہماری کوئی بہادری نہیں یہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا کی طرف سے ہو رہا ہے.دلائل بھی ہماری طرف سے نہیں وہ بھی خدا ہی کے ہیں.ہم تو نقال میں علم تو در حقیقت خدا ہی کا ہے جو نبی کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے.پس ہر حال میں اور ہر رنگ میں دعا کرنی چاہئے اور اسی کے آگے التجا کرنی چاہئے.وہی کچھ کر سکتا ہے ورنہ اس کے فضل کے بغیر اگر انسان ایک قدم بھی اٹھانا چاہے تو نہیں اٹھا سکتا.اور اگر اس کی مدد و نصرت شامل حال نہ ہو تو کسی بات کے کرنے کی توفیق ہی نہیں مل سکتی.پس ہر وقت دعائیں مانگو اور اس میں ہر گز غفلت نہ ہو.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے که قریب قریب کے لوگ نہیں مانتے اور دور دور کے لوگ مان لیتے ہیں اس لئے دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ ہر ایک کو قبول کرنے کی توفیق بخشے.رپورٹ ضرور بھیجنی چاہئے.کام کرنا اور رپورٹ دینا یکساں فرض ہیں.اگر کوئی کام نہ کرے اور جھوٹی رپورٹ دے دے تو جو نقصان اس سے ہوتا ہے وہی نقصان است سے ہوتا ہے جو کام کرتا ہے اور رپورٹ نہیں دیتا.رپورٹ مرکزی دفتر میں بھی بھیجنی چاہئے اور میرے پاس بھی آنی چاہئے.دفتر کو دینے والی رپورٹ بھی میرے لفافے میں ڈال دی جائے مخاطب دفتر ہو لیکن وہ آئے میرے نام کے لفافہ میں ہی.اس سے یہ بھی فائدہ ہوگا کہ میں بھی اسے پڑھ لوں گا اور پھر وہ اپنے متعلقہ محکمہ میں بھی چلی جائے گی.جہاں جماعت قائم ہو وہاں ضرور انجمن قائم کرنی چاہئے اور انجمن کو با قاعدہ کرنے

Page 260

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 254 جلد اول کے ساتھ ساتھ ان لوگوں میں تبلیغ کی عادت بھی پیدا کرنی چاہئے.بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام کتب نہیں پڑھ سکتے اور پھر جو پڑھتے ہیں ان میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جو حضرت صاحب کی کتابوں سے خاص خاص باتوں کو الگ نہیں کر سکتے.اور ان دلائل سے کام نہیں لے سکتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دعاوی کے ثبوت کے لئے دیئے ہیں.اس لئے ایسے دلائل کی ایک کاپی رکھنی چاہئے اور ہر ایک مسئلہ کے متعلق اس میں سے نئے احمدیوں کو نوٹ کرا دینے چاہئیں.اور ان کو تاکید کرنی چاہئے کہ ان کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں.شروع شروع میں اتنا ہی کافی ہوگا.پھر بعض مسائل اختلافی ہوتے ہیں اکثر اوقات ان کے سمجھنے میں بہت دقت پیدا ہو جاتی ہے ان مختلف فیہ مسائل کے متعلق بھی نوٹ کروا دینے چاہئیں.اس طرح آہستہ آہستہ کام کرنے والے آدمی پیدا ہو جائیں گے اور جیسے جیسے ان میں ترقی ہوتی جائے گی ویسے ویسے کام میں بھی آسانیاں پیدا ہوتی جائیں گی.خط و کتابت کے ذریعہ بھی تبلیغ کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اس سے بھی مفید نتائج پیدا ہوتے ہیں.اس کے لئے اپنے طور پر ضلع مقرر کر لینے چاہئیں اور چھوٹے چھوٹے حلقے بنا دینے چاہئیں اور مقامی لوگوں میں سے ہی بعض کو ان پر مقرر کر دینا چاہئے تا کہ وہ خط و کتابت کا سلسلہ شروع رکھیں اور ان کو جس قسم کی مدد اس کام کے لئے درکار ہو وہ دینی چاہئے.کام کرنے اور کام لینے سے اخلاص بڑھتا ہے اور جتنی کوئی شخص قربانی کرتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان بڑھتا ہے.ایمان خدا کے فضل سے ہی حاصل ہوتا ہے اور اسی کی طرف سے آتا ہے اور انعام کے طور پر ملتا ہے.کسب سے اگر ہوتا تو ہر انسان اسے لے سکتا.کسب کا تعلق زیادہ تر ظاہر کے ساتھ ہے لیکن اس کا محرک بھی باطن ہی پہلے ہوتا ہے اور باطن میں جو تحریک ہوتی ہے وہ من جانب اللہ ہی ہوتی ہے.لیکن یہ سمجھ کر کہ یہ خدا کے فضل سے ہے اور کسب سے نہیں حاصل ہو سکتا کسی انسان کو اس کی طرف سے منہ نہیں پھیر لینا چاہئے بلکہ چاہئے کہ اس کے پانے کے لئے کوشش کرے اور تدریجاً اس میں بڑھے.

Page 261

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 255 جلد اول قربانیاں بھی عام طور پر تدریجی ہوتی ہیں.وہ بہت ہی تھوڑی مثالیں ہیں جن کے متعلق یکلخت بڑی قربانی کرنا مشہور ہے.لیکن ان میں بھی اگر دیکھا جائے تو تدریجی حالت ہی ہوتی ہے جو ترقی کرتے کرتے اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ دنیا ان کی قربانی کو دیکھ کر یہ بھتی ہے کہ یہ قربانی یکلخت کی گئی ہے.پس تدریجا بڑھنا چاہیئے گو ابتدا میں کوئی نمایاں کام سرانجام پاتے نظر نہیں آئیں گے تاہم کچھ نہ کچھ ہوضرور رہا ہوگا.اور اگر متواتر اسے کیا جائے اور ترقی کی طرف قدم اٹھایا جائے تو ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ ان سب امور کے متعلق معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ یونہی نہیں تھے.پس چاہئے کہ ان لوگوں میں باقاعدگی پیدا کی جائے اور پھر مل کر سب کاموں کا انتظام کریں.چندے دیں، تبلیغ کریں.میں نے باہر کے ملکوں کے لئے چندہ کا یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ابتدائی حالات میں 3/4 وہ اپنے ہاں خرچ کریں اور 1/4 حصہ گُل زر چندہ کا مرکز میں بھیجیں.مثلاً 100 رو پیدا گر کسی جگہ کا چندہ ہوا ہے تو اس میں سے 75 روپیہ تو وہاں مقامی ضروریات پر خرچ کر لیں اور 25 روپیہ مرکز میں روانہ کر دیں.یہ نہیں کہ سارے کا سارا ہی وہاں رکھ لیا جائے یا سارے کا سارا یہاں بھیج دیا جائے.اس انتظام سے یہ فائدہ ہوگا کہ ایک تو ان لوگوں کا مرکز کے ساتھ تعلق قائم رہے گا اور ایک انس پیدا ہو جائے گا اور دوسرے مرکز نے چونکہ ان کی اور تمام دیگر ممالک کی نگرانی کرنی ہوتی ہے اور دنیا کی نظر مرکز پر ہوتی ہے اس لئے مرکزی اخراجات میں سب کا فرض ہے کہ حصہ لیں.کیونکہ اگر مرکز کمزور ہو جائے تو بجائے فائدہ کے نقصان پیدا ہونے کا احتمال ہو جاتا ہے.اس وجہ سے یہ انتظام کیا گیا ہے اور اس رنگ میں یہی انتظام ضروری بھی ہے اور انہی اغراض کے لئے 1/4 حصہ چندہ کا مرکز کے لئے رکھا گیا ہے اور آئندہ اسے اور بھی کم کرنے کا خیال ہے بڑھانے کا نہیں.پس یہ ضروری اور نہای ضروری ہے کہ 3/4 حصہ مقامی ضروریات کے لئے رکھا جائے اور 1/4 حصہ مرکز میں بھیج دیا جائے.

Page 262

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 256 جلد اول بعض دفعہ رقم قلیل ہونے کے باعث انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ اسے کیا مرکز میں بھیجیں.ایسا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ رقم کی طرف نہیں دیکھا جاتا بلکہ اخلاص کی طرف دیکھا جاتا ہے اور ایمان کی زیادتی پر غور کیا جاتا ہے.اگر کوئی شخص یا اگر کوئی جماعت صرف چار آنے مرکز میں بھیجتی ہے تو وہی چار آنے اس کے اخلاص اور اس کے ایمان کا باعث ہو جاتے ہیں.اور پھر اس کے اخلاص اور ایمان کو بڑھاتے بھی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آج اگر وہ چار آنے بھیجتا ہے تو کل اسے چار روپے بھیجنے کی تو فیق بھی مل سکتی ہے.پس الہی سلسلوں میں مال کی قلت و کثرت کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس میں ایمان اور اخلاص کو دیکھا جاتا ہے اور ایمان اور اخلاص کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سینکڑوں اور ہزاروں روپے ہی دیئے جائیں بلکہ اس کے لئے تو کوڑی بھی کافی ہوتی ہے.پس ان سب باتوں کو مد نظر رکھنا چاہئے اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں سستی ، کوتاہی اور غفلت نہ کرنی چاہئے.اپنی عزت اور وقار کو قائم رکھنا چاہئے اور پوری پوری مومنانہ شان دکھلانی چاہئے.ہمارے مبلغ جو باہر جاتے ہیں وہ نمونہ ہوتے ہیں.پس عمدہ نمونہ بنو تالوگ اس نمونہ کو دیکھ کر احمدیت کی حقیقت سمجھ سکیں.اب دعا بھی کر لو کہ ہمارے پاس اگر کچھ ہے تو یہی ہے کہ خدا سے ہی ہر کام میں مدد (الفضل 15 ستمبر 1925ء) چاہیں.1: الانعام: 124

Page 263

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 257 جلد اول حضرت قاضی امیرحسین صاحب کے اعزاز میں الوداعی تقریب حضرت قاضی امیرحسین صاحب کے اعزاز میں طلباء مدرسہ احمدیہ نے الوداعی تقریب کا انعقاد کیا جس میں حضرت خلیفۃ السیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی.شایدان چند لوگوں میں سے میں بھی ایک ہوں جنہوں نے اُس زمانہ میں قاضی صاحب کو مدرسہ میں پڑھاتے دیکھا ہے جب مدرسہ نہایت ابتدائی حالت میں تھا اس لئے میں سمجھتا ہوں شاید چند ہی اور آدمی ہوں گے شاید میں اس لئے کہتا ہوں کہ مجھے پتہ نہیں ہیں یا نہیں مجھے نظر کوئی نہیں آتا جو اس وقت کی تعلیمی کیفیات سے واقف ہوں.اُس وقت یہ عمارتیں ( بورڈنگ مدرسہ احمدیہ ) نہ تھیں بلکہ یہاں پانی ہوتا تھا اور اس جگہ لوگ نہایا کرتے تھے.صرف ایک عمارت تھی جس میں چند کلاسیں پڑھتی تھیں.اس میں بھی وہ دو کمرے جو راستہ کی طرف ہیں نہ تھے.صرف چار کمرے تھے جو کنویں کے سامنے ہیں.اب بازار کی طرف جو کمرے ہیں وہ بعد میں بنائے گئے.اُس وقت نہ بیچ ہوتے تھے نہ کرسیاں، نہ ڈیکس ہوتے تھے نہ میزیں، صرف تیڑ ( ٹاٹ ) ہوتے تھے.اور وہ بھی ایلیجن ملز کے بنے ہوئے نہیں بلکہ عام تپڑ جو چوہڑے چمار بنا کر بیچتے ہیں.وہ عرض میں اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اگر کوئی معمولی جسم والا انسان بھی ان پر بیٹھے تو اس کا آدھا جسم نیچے ہو.جانماز استاد کی جگہ ہوتی تھی اس طرح اس سکول کی بنیاد پڑی اور اُس وقت قاضی صاحب پڑھانے کے لئے آئے.جس وقت قاضی صاحب یہاں تشریف لائے ہیں اس سے پہلے غالباً امرتسر میں کام کرتے تھے.ان کی یہاں کی ابتدائی تنخواہ اتنی تھوڑی

Page 264

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 258 جلد اول تھی جواب چپڑاسی کی بھی نہیں.انہیں 9 یا دس روپے تب ملتے تھے اور چپڑاسی کو گیارہ روپے اُن دنوں ملتے ہیں.اس رنگ میں سکول شروع ہوا اور اس طرح قاضی صاحب نے کام کیا جو آج اپنی عمر کا بڑا حصہ تعلیم میں گزار کر کارکن سمجھے جاتے ہیں.اس زمانہ کے قریب ہی مگر قاضی صاحب سے بعد مولوی شیر علی صاحب آئے جو 20 یا 25 روپیہ تنخواہ لیتے تھے.یہ ذکر میں اس لئے کرتا ہوں کہ باہر کے کچھ لوگ کہتے ہیں قادیان والے باہر کے لوگوں کو کہتے ہیں دین کے لئے قربانی کرو مگر خود نہیں کرتے.حالانکہ یہاں کام کرنے والوں میں اب بھی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں کہ گریجوایٹ ہو کر 25 | 40،30، 50 روپیہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں.اس وقت قاضی صاحب اور مولوی صاحب جیسے کارکن تھے جو اتنا قلیل گذارہ لے کر کام کرتے تھے.اُس وقت کے متعلق مجھے یاد ہے ابتدا میں بہت تھوڑے طالب علم ہوتے تھے جو تیر کھینچ کر ادھر ادھر جہاں دھوپ ہوتی کر لیتے تھے.میری عمر اُس وقت گیارہ سال کے قریب ہو گی مگر اُس وقت کے نظارے مجھے ابھی تک یاد ہیں.جیسی کہ طالب علموں میں عادت ہوتی ہے جو عیب ہی ہے مگر یہ عیب پایا جاتا ہے اور میں سمجھتا ہوں ہمیشہ ہی ان میں رہے گا کہ استادوں کے لب ولہجہ کی نقل اتارتے ہیں مگر پس پشت.اسی طرح وہ لڑکے بھی کیا کرتے تھے مگر سارے کے سارے طالب علم اس بات پر متفق تھے کہ قاضی صاحب پڑھائی کا پورا وقت لے لیتے ہیں.لڑکے ان کے محاوروں کی نقل کرتے اور ہنتے تھے مگر یہ بھی کہتے تھے کہ قاضی صاحب وقت پورا لیتے ہیں.اور میرا تجربہ ہے اور میں نے کئی استادوں سے پڑھنے کے بعد جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ مجھے وہ باتیں بہت زیادہ یاد تھیں جو میں نے قاضی صاحب سے پڑھیں یہ نسبت اور استادوں کی پڑھائی ہوئی باتوں کے.میں مدرسہ کے وقت کے علاوہ بھی قاضی صاحب سے پڑھتا رہا ہوں.اس وقت قاضی صاحب ایک ایسی کوٹھڑی میں مع بیوی بچوں کے رہا کرتے تھے جس میں اب اگر کسی طالب علم کو بھی رکھا جائے تو شور مچادے.میں وہیں پڑھنے جایا کرتا تھا.اس کے آگے صحن نہ تھا اس کے

Page 265

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 259 جلد اول دروازہ کے سامنے قاضی صاحب چٹائی بچھا کر بیٹھ جاتے اور مجھے پڑھاتے ہوئے مدرسہ آنے کے لئے ناشتہ بھی کرتے جاتے تھے.اس زمانہ سے مجھے قاضی صاحب سے واقفیت ہے اور میں سمجھتا ہوں قاضی صاحب کی یہ بات قابل نقل اور نمونہ ہے کہ طلباء کو مقررہ کورس ضرور ختم کروایا کرتے تھے.چند ہی استاد اس بات کا خیال رکھتے ہیں.بعض میں یہ عیب ہوتا ہے کہ سارا زور پہلے صفحات پر دے دیتے ہیں اور باقی حصہ ختم نہیں ہو سکتا.دوسرے سال پھر اسی طرح ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکے پاس بھی ہو جاتے ہیں تو بھی ایک حصہ میں کمزور رہتے ہیں کیونکہ وہ انہوں نے پڑھا نہیں ہوتا.انہیں محیط واقفیت نہیں ہوتی حالانکہ سکول میں جس بات کی ضرورت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ طالب علم کتاب سامنے رکھ کر اس کا مطلب سمجھا سکے.اتنی قابلیت پیدا کر دینا استاد کا کام ہوتا ہے.اور یہ معمولی بات نہیں بلکہ لمبے تجربہ کے بعد حاصل ہوتی ہے.آجکل میں مستورات کو پڑھاتا ہوں.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جو بات کئی بار بتائی گئی جب اس کے متعلق پوچھا تو معلوم ہوا کچھ نہیں سمجھا.حالانکہ خواتین میں زیادہ ایسی ہیں جو پہلے پڑھی ہوئی ہیں.میں نے دیکھا ہے وقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ضمائر کا ترجمہ ضمائر میں ہی کیا جاتا ہے اس سے طالب علم کو یہ پتہ نہیں لگتا کہ مرجع کون ہے.اب میں نے اس طرح کرنا شروع کیا ہے کہ ترجمہ میں ضمیر نہیں بولنی اور فقرہ ادھورا نہیں چھوڑنا.جس کی طرف ضمیر پھرتی ہو اس کا نام لینا اور فقرہ پورا کرنا چاہئے.پس اگر طالب علم کتاب کا ترجمہ جان لے اور اسے لغت آ جائے تو وہ سارا علم جان سکتا ہے.میرے نزدیک سکول کا بہترین کام یہ ہے اور استاد کا کام یہ ہے کہ سارا کورس پڑھا دے اور شاگرد ساری کتاب کا مطلب سمجھ سکے.اس بارے میں قاضی صاحب کا جو طرز عمل تھا وہ دوسرے استادوں کے لئے قابل تقلید ہے.اس وقت طالب علموں نے قاضی صاحب کے ریٹائر ہونے پر جس افسوس کا اظہار کیا ہے وہ سچا ہے مگر میں سمجھتا ہوں قاضی صاحب پر ان کے نفس کا حق بھی ہے.بچوں کو

Page 266

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 260 جلد اول تعلیم دینا خواہ کتنا ہی اعلیٰ کام ہو مگر اپنے اندر نقائص رکھتا ہے اس لئے اس سے فارغ ہونا ضروری تھا.اول تو اس لئے کہ اب قاضی صاحب کے قومی مضبوط نہیں رہے.دوسرے اس لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے تعلقات بڑی عمر کے لوگوں سے ہوں.اور وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 1 بھی پورا ہو.میرے نزدیک ہر استاد جسے خدا تعالی لمبی عمر دے اسے ایک وقت میں پڑھائی کے کام سے علیحدہ ہو جانا چاہئے خواہ ابھی تک اس کے قومی اچھے ہی ہوں.ایک شخص جس نے ساری عمر پڑھانے میں صرف کر دی ہو وہ اس کام سے علیحدہ ہونے پر گھر میں بے کار نہیں بیٹھ سکتا ضرور وہ کچھ نہ کچھ کام کرے گا.فرق صرف یہ ہوگا کہ اس کا میدان عمل بدل جائے گا.پس لڑکوں نے قاضی صاحب کی جدائی پر جو افسوس کیا ہے وہ بجا ہے مگر میں سمجھتا ہوں اب ان کی عمر اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کا تعلق بچوں کی بجائے بڑوں سے ہونا چاہئے کیونکہ اب انہیں اس آرام کی ضرورت ہے جس میں چلنے پھرنے کی تکلیف نہ ہو.لڑکوں کو جو غم ہے وہ طبعی ہے جو جدائی سے ہوتا ہے مگر طالب علموں کو قاضی صاحب کی زندگی سے یہ نتیجہ نکالنا چاہئے کہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے کس طرح توجہ اور کوشش کرنی چاہئے.قاضی صاحب ہمیشہ وقت مقررہ پر مدرسہ میں آتے اور کورس ختم کراتے رہے ہیں.قاضی صاحب میں ایک چیز ان کا طبعی جوش ہے مگر میں نے دیکھا ہے جب بھی ان سے اس طریق سے بات کی گئی کہ اگر اس طرح نہیں تو آپ ہی بتائیں کس طرح کیا جائے تو ان کا جوش فوراً بیٹھ گیا.عام لوگ جن میں غصہ ہوتا ہے وہ اس طرح غصہ نہیں چھوڑ دیتے مگر ہر ایک شخص کو اس بات کے لئے تیار رہنا چاہئے کہ جب اسے اپنی غلطی معلوم ہو یا ایسے واقعات اور حالات معلوم ہوں جو اسے پہلے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے غصہ آ گیا ہو تو فور أغصہ اور جوش ترک کر دے.یہ بات میں نے قاضی صاحب میں دیکھی ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مشورہ ہو رہا تھا.قاضی صاحب کو ایک بات میں اختلاف تھا.کسی نے

Page 267

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 261 جلد اول مجھے بتا یا قاضی صاحب کو جوش آگیا ہے.میں نے کہا دیکھوا بھی میں ان کا جوش ٹھنڈا کر دیتا ہوں.میں نے قاضی صاحب سے کہا یہ حالات ہیں ایسی صورت میں آپ ہی علاج بتائیے.یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے پھر تو مجبوری ہے نا.اسی طرح ہر ایک کو اتفاق و اتحاد کا خیال رکھنا چاہئے اور کسی بات پر اڑے نہیں رہنا چاہئے.جماعت میں ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جن کی طبیعت نرم ہوتی ہے اور انہیں غصہ نہیں آتا مگر غصہ والے بھی ہوتے ہیں.ایک زمانہ میں پیر افتخار احمد صاحب اور مولوی عبد الکریم صاحب پاس پاس رہتے تھے.پیر صاحب کے بچے روتے اور اتنا روتے کہ سارا گھر سر پر اٹھا لیتے.جب حضرت مسیح موعود 1904 ء میں باغ میں رہنے لگے اور دوسرے لوگ بھی وہیں چلے گئے تو اتفاق سے پیر صاحب اور مولوی صاحب وہاں بھی پاس پاس ہی رہنے لگے.ایک دن مولوی صاحب نے پیر صاحب کو ہلا کر کہا اب میں بچوں کا اس قدر شور برداشت نہیں کر سکتا.آپ کو کبھی ان کے رونے پر غصہ بھی آتا ہے یا نہیں؟ اگر میرے بچے اس طرح روئیں تو میں ان کا بھرکس نکال دوں.پیر صاحب سب باتیں خموشی سے سنتے رہے آخر میں ہنس کر کہا مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ آپ کو غصہ آتا کیوں ہے.یہ کون سی غصہ کی بات ہے.مولوی عبد الکریم صاح حضرت خلیفہ اول کو آ کر سنانے لگے اب بتائیے کیا علاج کروں انہوں نے تو ہنس کر کہہ دیا کہ یہ غصہ کی بات ہی نہیں.پس دنیا میں دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں غصہ والے بھی اور نرمی والے بھی.مگر غصہ کو روکنا ارادہ سے تعلق رکھتا ہے.اگر یہ عادت ہو کہ ضرورت کے وقت غصہ آئے اور پھر دبا سکیں تو سب کام عمدگی سے ہو سکتے ہیں.اور یہی وہ روح ہے جس سے کام چلا کرتے ہیں.یہ روح قاضی صاحب میں نمایاں رہی اور اس سے میں نے انتظامی مدوں میں فائدے اٹھائے ہیں اور کسی کام میں خلل نہیں ہوا.خواہ اُس زمانہ میں جبکہ میں طالب علم تھا، خواہ اُس وقت جب برابری کا زمانہ تھا اور خواہ اُس وقت جب خدا نے خلیفہ بنایا.مجھے قاضی صاحب کے متعلق کبھی خیال نہیں آیا کہ کوئی بات ایسی ہو جو کینہ کے طور پر ان کے دل

Page 268

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 262 جلد اول میں جگہ پکڑے گی.کئی بار قاضی صاحب غصہ میں آگئے مگر مجھے اطمینان رہا کہ سمجھا لیں گے.چونکہ شام کا وقت ہو گیا ہے اس لئے میں زیادہ نہیں بول سکتا.میں بھی قاضی صاحب کا شاگرد ہوں اس لئے میں بھی اس ایڈریس میں شامل ہوتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ قاضی صاحب کو پہلے سے بھی زیادہ مفید بنائے اور ان کی اولا د کو ان سے بڑھ کر خدمت دین کرنے کی توفیق دے.یہ کہنا مومن کی ہتک ہے کہ اس کی اولاد کو اس جیسا بنائے اس لئے میں یہی کہتا ہوں کہ ان کی اولاد کو ان سے بڑھ کر بنائے.“ الفضل 22 دسمبر 1925 ء ) 1:بخاری کتاب الصوم باب من اقسم على اخيه ( الخ ) صفحہ 316 حدیث نمبر 1968 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية

Page 269

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 263 جلد اول بلاد مغربی میں تبلیغ احمدیت حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کی مراجعت 31 دسمبر 1925ء تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اولڈ بوائز کی ایسوسی ایشن نے حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کو ان کے امریکہ سے واپس تشریف لانے پر گارڈن پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا.” میں نے یورپ سے واپسی پر اس ایسوسی ایشن سے کہا تھا کہ انگریزی لیکچروں کا سلسلہ جاری رکھا جائے مگر نہ رکھا گیا اس لئے آج مجھے انگریزی میں تقریر کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے اور میں اردو میں تقریر کرتا ہوں لیکن اردو میں بھی بوجہ حلق کی تکلیف کے زیادہ نہیں بول سکوں گا.سب سے پہلے تو میں یہ کہتا ہوں کہ جسے ایڈریس دینا ہو اسے ایڈریس کی کاپی پہلے پہنچا دینی چاہئے تا کہ وہ اس کا جواب بھی دے سکے.ایڈریس دینے والوں کی طرف سے ایڈریس میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہنا چاہتا کیونکہ میں خود بھی اولڈ بوائز میں شامل ہوں مگر اس کا وہ جواب جو پروفیسر محمد الدین صاحب کی طرف سے دیا گیا ہے اس کے متعلق یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے اس سے اتفاق رکھتا ہوں کہ عیسائی ممالک میں جو تبلیغ ہم نے شروع کی ہوئی ہے اس کے متعلق ابھی کام یا عمل کا سوال ہی نہیں ہو سکتا بلکہ اصولی طور پر جو کچھ ہو رہا ہے ہو رہا ہے.یورپ اور امریکہ کے

Page 270

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 264 جلد اول لوگوں کی حالت کو مد نظر رکھ کر یہ خیال کر لینا کہ یورپ اور امریکہ جلد مسلمان ہو جائے گا خلاف عقل خواہش ہے.ہم فی الحال وہاں اس اصل کے ماتحت کام کر رہے ہیں کہ ہم آواز بلند کرتے رہیں تا خدا تعالیٰ کی طرف سے تائید اور نصرت کے سامان مہیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے بچہ جب روتا ہے تب ماں دودھ دیتی ہے.ہمارے امریکہ اور یورپ کے مشن بھی بچہ کی طرح رونا اور چیخنا ہے اور خدا تعالیٰ پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں اور ہم میں جس قدر طاقت ہے وہ ہم اپنی طرف سے صرف کرنے میں دریغ نہیں کر رہے اب تو ہی مدد فرما، تا یہ کام ہو.وہ کام خدا کی خاص نصرت اور تائید کے بغیر نہیں ہو سکتا.اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ محض رونا اور چلانا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اپنے ان مبلغین کے کام کی ہتک کرتا ہوں جو ان ممالک میں کام کر رہے یا کر چکے ہیں.ایک ایسا شخص جو ہر طرف سے نا امید ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور گرتا، اس کے آگے چیختا چلاتا اور اس سے مدد مانگتا ہے کوئی عقل مند نہیں کہہ سکتا کہ لغو کام کرتا ہے.یہ صحیح ہے کہ ظاہری اسباب پر نظر رکھنے والے لوگ کہیں گے یہ بے فائدہ کوشش ہے اس سے کیا ہو جائے گا.لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ لغو کام نہیں.اگر اس کے بظاہر فور نتائج نہیں نکلتے تو اسے ناکامی نہیں کہا جا سکتا ہے.کیونکہ اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ اگر جلد نہیں تو بدیر نتا ئج نکلیں گے.پس یورپ یا امریکہ میں جس مبلغ کو بھیجا جاتا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کے ذریعہ اپنی بے بسی اور بے سامانی کا مظاہرہ کرتا ہے تا خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت جوش میں آئے اور خدا خود کامیابی کے سامان پیدا کر دے.میرے نزدیک یہ بھی ایک کام ہے اور یہ بھی دین کی بہت بڑی خدمت ہے کیونکہ اس کے بغیر کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی.دیکھو رسول کریم ﷺ جب مکہ میں تبلیغ کرتے تھے تو کیا ابتدائی سالوں میں ظاہر بین کہہ سکتے تھے کہ کوئی کامیابی ہوگی.کئی سال تک یہی حالت رہی مگر یہ بنیاد تھی آئندہ کامیابیوں کی اور بعد میں جس قدر کامیابیاں حاصل ہوئیں اسی ابتدائی کام کی کوششوں کا نتیجہ تھیں.پس ہمارے مشن یورپ اور امریکہ میں جو کچھ کر رہے ہیں

Page 271

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 265 وہ معمولی کام نہیں بشرطیکہ اسے مسلسل جاری رکھا جائے.جلد اول ابھی چند دن ہوئے میرے پاس عدن سے خط آیا ہے کہ وہاں 34 سال سے عیسائیوں کا مشن قائم ہے جسے اس وقت تک کچھ بھی کامیابی نہیں ہوئی.عیسائیوں سے پوچھا جائے کہ پھر تم لوگ کیوں کوشش کرتے ہو؟ تو کہتے ہیں ہمارا کام سنانا ہے ہم سنائے جائیں گے.حالانکہ ان کے پاس حکومت ہے، سامان ہیں، آدمی ہیں مگر باوجود اس کے اتنے لمبے عرصہ میں ایک آدمی کو بھی عیسائی نہیں بنا سکے اور ہمت نہیں چھوڑی.عیسائی ہر جگہ اسی ہمت اور کوشش سے کام کرتے ہیں.ہمیں یورپ اور امریکہ میں اپنی بہت ہی محدود اور قلیل کوشش پر جو نو مسلم ملے ہیں انہیں خواہ نام کے مسلمان ہی کہا جائے تاہم میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عیسائیوں کو سالہا سال کی کوششوں اور بے شمار مال صرف کرنے کے بعد جیسے آدمی ملے ان سے ہمارے نو مسلم بہت اچھے ہیں.ہندوستان میں جن لوگوں کو عیسائی بنایا جاتا ہے ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک دفعہ والدہ صاحبہ سیر کو جا رہی تھیں.انہیں ایک دیہاتی عورت ملی جس سے پوچھا گیا تم کون ہو؟ اس نے کہا ہم عیسائی ہوتے ہیں.والدہ صاحبہ نے پوچھا عیسائی کون ہوتے ہیں؟ کہنے گی ہم اور انگریز بھائی ہوتے ہیں.قریباً یہی حالت ان سب لوگوں کی ہوتی ہے جنہیں عیسائی مشنری عیسائی بناتے اور جن پر بے شمار روپیہ صرف کرتے ہیں.اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ان کی کامیابی نہیں.اس سے عیسائیوں کو بہت فائدے پہنچ رہے ہیں اور آئندہ پہنچیں گے اگر عیسائیت کی اس رو کو نہ روکا گیا.ہندوستان کے 95 فیصدی عیسائی ہونے والے مذہبی لحاظ سے ان سے بہت ادنی درجہ پر ہیں جو یورپ اور امریکہ میں مسلمان ہو رہے ہیں.لیکن باوجود اس کے عیسائیوں کی کوششیں سرگرمی سے جاری ہیں.ان حالات میں ہمیں ان کی نسبت بہت زیادہ کامیابی کی امید ہے اور یقین ہے کہ اسلام ضرور ان ممالک میں قائم ہوگا.مگر اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری جماعت اپنی ہمت کو قائم رکھے اور خاص کر انگریزی تعلیم یافتہ طبقہ کو کوشش کرنی چاہئے.عام طور پر یہ لوگ ظاہری حالت کو دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں حتی

Page 272

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 266 جلد اول کہ بعض مبلغ بھی سمجھتے ہیں کہ کس طرح کامیابی ہوگی.حالانکہ میں ان سے بہت زیادہ اس کام کی حقیقت سے واقف ہوں مگر مجھے کبھی نا امیدی نہیں ہوئی.اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا تبلیغی کام عیسائیوں سے ہزار درجہ بڑھ کر عمدگی سے ہو رہا ہے اور ان کی نسبت ہزار درجہ زیادہ ہمیں کامیابی کا موقع ہے.میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چاہتا ہوں کہ اپنی جماعت کو بتاؤں کہ وہ بلا د مغربی میں تبلیغ کے نتائج پر نظر ڈالنے سے پہلے دیکھے کہ ہمارا کام کہاں اور کن حالات میں ہو رہا ہے.اب تو یہ حالت ہے کہ مبلغ بھی گھبرا جاتے ہیں کہ کس طرح کامیابی ہوگی کیونکہ ایک شخص آتا ہے، مسلمان ہو جاتا ہے، اخلاص ظاہر کرتا ہے مگر پھر باقاعدہ نمازیں نہیں پڑھتا.ہم جب ولایت گئے تو ایک نو مسلم آیا جس کے متعلق بتایا گیا کہ بہت مخلص ہے.وہ تین نمازیں پڑھتا تھا.ہم اسے کافی نہیں سمجھتے مگر میرے نزدیک یہ اتنا بڑ الغیر ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس قوم کی حالت اور اس ملک کی حالت کو مد نظر رکھ کر اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑا تغیر ہے.پس وہاں کی کامیابی کو اس طرح کی کامیابی نہ سمجھا جائے جو ہمیں ہندوستان میں حاصل ہو رہی ہے کہ دین پر جانیں قربان کرنے والے اور مال خرچ کرنے والے پیدا ہو رہے ہیں بلکہ وہاں کے لوگ اگر اپنے حالات میں اسلام کے مطابق کچھ بھی تغیر کرتے ہیں تو یہی کامیابی ہے.بعض لوگ جن کی نظر سطحی نتائج پر ہوتی ہے کہتے ہیں وہاں تو روپیہ ضائع ہو رہا ہے.مگر سچی بات یہ ہے کہ نہ تو روپیہ ضائع ہو رہا ہے اور نہ ایسی کامیابی حاصل ہو رہی ہے جیسی ہندوستان میں.ہاں ہندوستان میں عیسائیوں اور آریوں کو جس قسم کی کامیابی حاصل ہو رہی ہے اس سے بہت بڑھ کر ہمیں بلادِ مغرب میں کامیابی ہو رہی ہے.اور قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی قوموں کی اصلاح حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں آہستہ آہستہ ہوگی.اس موقع پر میں نے مناسب سمجھا کہ یورپ میں تبلیغ احمدیت کے متعلق اپنی جماعت پر حقیقت واضح کر دوں.باقی اس خوشی میں جو ماسٹر صاحب کی واپسی پر ہوئی ہے میں

Page 273

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 267 جلد اول نہ صرف اولڈ بوائے کی حیثیت سے شریک ہوں بلکہ اس لئے بھی کہ یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے سپرد ہے اور جو بھائی اس کام میں حصہ لیتے ہیں میں سمجھتا ہوں وہ میرا کام کرتے اور میرا ہاتھ بٹاتے ہیں.اس وجہ سے ماسٹر صاحب کی واپسی پر مجھے دہری خوشی ہے.جب کوئی آدمی باہر بھیجا جاتا ہے تو فکر ہی رہتا ہے کہ اگر فوت ہو گیا تو اس کے خاندان میں بہت بڑا تغیر آ جائے گا.اس لئے جب کوئی واپس آ جاتا ہے تو خوشی ہوتی ہے.اس وقت میں بھی دعا کرتا ہوں آپ لوگ بھی دعا کریں کہ ماسٹر صاحب کی واپسی بابرکت ہو.پھر جو دوسرے مبلغ باہر کام کر رہے ہیں ان کی کامیابی کے لئے بھی دعا کی جائے.“ (الفضل 15 جنوری 1926ء)

Page 274

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 268 جلد اول حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت 10 جنوری 1926ء کو ینگ مین احمد یہ ایسوسی ایشن نے حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کو ان کی امریکہ سے واپس تشریف لانے پر دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی رونق افروز ہوئے.اس موقع پر تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.” میرے حلق کی جو موجودہ حالت ہے وہ مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں زیادہ بیان کروں اس لئے مختصر طور پر چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں.میں اس امر پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں نے میری اس نصیحت پر عمل کیا ہے جو میں نے یورپ سے واپس آ کر انگریزی خوانوں کو کی تھی مگر اس کے ساتھ ہی میں افسوس بھی کرتا ہوں کہ جو لوگ اس بات کے زیادہ اہل تھے انہوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مجھے سفر یورپ میں انگریزی بولنے کی جو مشق ہو گئی تھی وہ کم ہو گئی ہے.اب گو میں انگریزی پہلے کی نسبت اچھی لکھ لیتا ہوں کیونکہ کبھی کبھی لکھتا رہتا ہوں لیکن بولنے کی مشق نہیں رہی کہ اس کے لئے کوئی موقع نہیں ملا.میں امید کرتا ہوں کہ اگر ہمارے نوجوانوں نے متواتر اپنی کوشش جاری رکھی تو ان میں ملکہ پیدا ہو جائے گا کہ بآسانی انگریزی میں اپنے خیالات ظاہر کر سکیں کیونکہ ہر چیز کوشش سے حاصل ہو سکتی ہے اور جو زبان بولنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس کی نسبت بہت

Page 275

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 269 جلد اول جلد سیکھ سکتا ہے جو صرف سننے پر اکتفا کرتا ہے.کوئی زبان کسی اور طریق سے اس عمدگی کے ساتھ نہیں آسکتی جس عمدگی سے بولنے کے ذریعہ آسکتی ہے.بچہ بولنے سے ہی زبان سیکھتا ہے اس کے مقابلہ میں عربی زبان کی تعلیم چونکہ بولنے پرمبنی نہیں اس لئے 12,12.13,13 حتی کہ 320,20 سال لوگ پڑھتے ہیں اور پھر بھی پوری طرح اس کے ذریعہ اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکتے.ایک حصہ تو حاصل کر لیتے ہیں کہ کوئی دوسرا عربی بولے تو سمجھ لیں لیکن ایک مبلغ قوم کے لئے یہی کافی نہیں کیونکہ اس کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچائے.پس وہ قوم جس کا کام دوسروں کو تبلیغ کرنا ہے اسے یہ بات کیا فائدہ دے سکتی ہے کہ اس کا کوئی آدمی کسی مجلس میں بیٹھ کر اس مجلس کی باتیں سمجھ سکے.اس کے لئے تو یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی باتیں دوسروں تک پہنچا سکے.میں سمجھتا ہوں گفتگو کے ذریعہ کسی زبان کو سیکھنے کی کوشش کرنا بہترین طریق ہے.اور اگر ہمارے نوجوانوں نے استقلال سے اس بات کو جاری رکھا تو امید ہے کہ صحیح زبان سیکھ سکیں گے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کوئی زبان بول لینے اور صحیح بولنے میں فرق ہے.میں نے انگلستان میں کئی انگریزوں کو دیکھا ہے جو غلط انگریزی بولتے ہیں.اسی طرح اردو کئی ایسے لوگ غلط بولتے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے.مگر ان کے مقابلہ میں کئی پنجابی ایسے ہیں جو صحیح اردو بولتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ انہوں نے صرف اردو بولنے کی مشق نہیں کی بلکہ کوشش کی کہ صحیح زبان بولیں.اسی طرح ہمارے نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ جب وہ انگریزی بولنے کی مشق کریں تو ان میں کوئی نہ کوئی انگریزی کا ماہر ہو جو ان کی غلطیوں کی اصلاح کرے اور صحیح زبان سکھائے.پس انہیں مشق ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے لیکچروں کے وقت ایسے آدمیوں کو پریزیڈنٹ چننا چاہئے جو صیح زبان بول سکیں.ایڈریس میں کام کی تعریف کی گئی ہے جس کی تعریف کی جائے اس کے لئے مشکل ہوتی ہے کہ کیا کہے.اگر وہ کہے میں اس کا مستحق نہیں ہوں تو دوصورتیں ہوں گی.یا تو یہ کہ غلط بیانی کرے گا یا پھر کسر نفسی ہو گی جو تکلف کے طور پر ہوگی اور اسے بھی ایک رنگ

Page 276

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 270 جلد اول میں اپنی تعریف ہی سمجھا جاتا ہے.مثلاً ایک شخص مہمان کی خاطر تواضع کرتا ہے اور پھر کہتا ہے افسوس میں آپ کی کچھ خدمت نہ کر سکا تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ میں نے خدمت کی ہے.اسی طرح جو شخص کہتا ہے میں نے کچھ نہیں کیا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کیا تو ہے مگر میں نہیں کہتا تم کہو کہ میں نے کیا ہے.اس کی مثال وہی ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو تھا جسے گوشت سے نفرت تھی مگر امیر آدمی تھا مزیدار کھانے کھانے کا شوقین تھا لیکن روز دال کہاں مزیدار بن سکتی ہے اس لئے جو باورچی رکھتا چند دن کے بعد اسے نکال دیتا.آخر ایک نوکر آیا جس نے یہ طریق اختیار کیا کہ مختلف طریق سے گوشت پکا کر اس کا مصالحہ دال میں ڈال دیتا اور اس طرح دال بہت مزیدار ہو جاتی.وہ ہندو اس کی بہت تعریف کرتا کہ بڑا اعلیٰ کھانا پکاتا ہے اس وجہ سے اسے انعام بھی دیتا.اس طرح جب اسے گوشت کھانے کی خوب عادت ہو گئی تو ایک دن اس نے کہا آج میں باورچی خانہ میں ہی بیٹھ کر گرم گرم کھانا کھاؤں گا.اس سے باورچی کو فکر ہوئی کہ میں گوشت کا مصالحہ دال میں نہ ڈال سکوں گا اس لئے اس نے بہتیرے بہانے بنائے کہ وہاں دھوئیں کی وجہ سے آپ کو تکلیف ہوگی میں گرم گرم کھانا آپ کو پہنچا تا رہوں گا مگر اس نے ایک نہ مانی اور باورچی خانہ میں جا کر کہنے لگا لا ؤ کھانا.نوکر جب مجبور ہو گیا تو اس نے آنکھ بچا کر دال میں گوشت کا مصالحہ ڈالنے کی کوشش کی.اس کے ڈالتے وقت ایک بوٹی بھی دال میں گرنے لگی جسے اس نے پھونکوں سے ہٹانے کی کوشش کی.یہ دیکھ کر وہ ہندو سمجھ گیا کہ یہ تو مجھے گوشت کھلاتا رہا ہے.کہنے لگا جو آپ آتی ہے اسے کیوں روکتے ہو آنے دو.تو بعض دفعہ تعریف آپ آتی ہے اُس وقت بہترین طریق یہی ہوتا ہے کہ جو آپ آتی ہے اسے آنے دے.یہ قدرتی بات ہے کہ جس کام سے کسی کو تعلق ہوتا ہے اسے جب کوئی پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے.مگر ہوتا یہ موقع نازک ہے ذراسی غلطی سے انسان اپنے آپ کو سبک بنا سکتا ہے اپنی تعریف کا اقرار کر کے اور

Page 277

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 271 جلد اول بعض دفعہ انکار کر کے بھی دونوں صورتوں میں یہی حالت ہوتی ہے.گویا یہ پل صراط ہوتی ہے جس پر سے گزرنا پڑتا ہے.اس لئے بہترین موقع یہی ہے کہ سمجھے جو تعریف آپ آ رہی ہے وہ آئے.بے شک تعریف ایسی بھی ہوتی ہے کہ ایک شخص نے کی تو رسول کریمی ﷺ نے فرمایا تو نے اپنے بھائی کو قتل کر دیا 1 مگر وہ تعریف وہ ہوتی ہے کہ کسی نے کچھ نہ کیا ہو اور پھر تعریف کی جائے یا اس تعریف کے کرنے میں قومی فائدہ نہ ہو.ورنہ جس کو خدا تعالی کام کرنے کی توفیق دے اس کی تعریف کرنی چاہئے.یہ بھی انعاموں میں سے ایک انعام ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ کو محد کہا گیا تو یہ بھی آپ کی تعریف ہے.اور رسول کریم نے فرمایا ہے جب انسان ترقی کرتا ہے تو اس کی تعریف پھیلائی جاتی ہے 2 اس لئے میں دعا کرتا ہوں کہ اگر ماسٹر محمد دین صاحب سے کچھ کام ہو گیا ہے تو ان کی تعریف میں زیادتی ہو اور اگر نہیں ہوا تو تعریف کے برے اثر سے بچائے.پھر میں ان لڑکوں کے لئے دعا کرتا ہوں جنہوں نے یہ دعوت دی ہے اور ماسٹر صاحب کے لئے بھی کہ ان کا آنا صلى القمر عليسة با برکت ہو.اس دعا پر جلسہ کو ختم کرتا ہوں.“ (الفضل 26 جنوری 1926ء) 1 ابو داؤد كتاب الادب باب فى كراهية التمادح صفحہ 680 حديث نمبر 4805 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الأولى 2 بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة (الخ) صفحہ 536 حدیث نمبر 3209 مطبوعہ ریاض 1999ءالطبعة الثانية

Page 278

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 272 جلد اول حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں دعوت چائے حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی.اے مبلغ امریکہ کو ان کے امریکہ سے واپس تشریف لانے پر طلباء مدرسہ احمدیہ نے دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.میں سمجھتا ہوں سب کے کام کا وقت آچکا ہے کیونکہ دس بجنے لگے ہیں.خواتین کے مدرسہ میں میرا جو وقت ہے وہ تو ختم بھی ہو چکا ہے جو 9 بجے سے شروع ہوتا ہے.لیکن چونکہ یہ ٹی پارٹی ایسے وقت میں رکھی گئی ہے جسے مدنظر رکھ کر اسا تذہ کو معلوم ہی ہوگا کہ مدرسہ کے شروع ہونے سے قبل ختم نہیں ہوگی اس لئے یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ بات ان کے ذہن میں تھی میں سمجھتا ہوں اسے جلد ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہے.جو کچھ آج میں نے سنا ہے اس کے متعلق اول تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر موقع کے مناسب حال بات ہو تو اچھی ہوتی ہے.شیعوں میں ماتم کے ایام میں مرثیے پڑھتے ہیں ان مرثیوں میں شاعر کا دل چاہتا ہے کہ طعن کروں، عیب جوئی کروں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب مرثیہ پڑھنے والا عیب چینی کرتا اور تمسخر اڑاتا ہے تو سننے والوں کو ہنسی آجاتی ہے.ایک جگہ مرثیہ گوئی کے لئے مجلس بیٹھی تھی.ایک شخص نے شعر پڑھا جس کا مطلب یہ تھا بھونکتا ہوا آیا اور دیکھتا ہوا بھا گا.اس پر سب لوگ ہنس پڑے.آخر شیعوں

Page 279

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 273 جلد اول نے یہ دیکھ کر کہ شعر تو رلانے کے لئے پڑھے جاتے ہیں لیکن لوگ ہنستے ہیں مرثیہ کا لفظ نکالا جس میں ہنسی مذاق کا حصہ رکھ دیا.تو ہر چیز کے مناسب حال بات ہونی چاہئے.بے شک قرآن کی تلاوت برکت کا موجب ہوتی ہے اور نظم خوانی خوش طبعی کا باعث مگر قرآن کریم کی آیات بھی ہر موقع کے مطابق اور نظمیں بھی ہر تقریب کے مناسب مل سکتی ہیں.قرآن کریم میں تبلیغ کے متعلق آیتیں موجود ہیں مبلغین کے کاموں پر اظہار خوشی اور ان سے انعام کے وعدے پائے جاتے ہیں.ایسے موقع پر انہی آیات کا پڑھنا موزوں ہو سکتا ہے ورنہ اگر ایک مبلغ کی آمد کی تقریب پر ان آیات کی تلاوت جن میں قیامت کا ذکر ہو کیا معنی رکھتی ہے.پس جیسا موقع ہو اس کے لحاظ سے تلاوت کے لئے آیات کا انتخاب ہونا چاہئے.جس سے معلوم ہو کہ پڑھنے والا دماغ سے کام لے رہا ہے.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ قرآن کریم کا جو حصہ یاد ہو وہی ہر موقع پر پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے.پس یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس قسم کا جلسہ ہو اس کے مناسب حال آیات کی تلاوت کرنی چاہئے.یہی بات میں نظموں کے متعلق بھی کہنا چاہتا ہوں.مجھے یہ بھی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود متواتر توجہ دلانے کے ابھی تک مدرسہ احمدیہ میں یہ احساس نہیں پیدا ہوا کہ ایسے طور پر بچوں کی تربیت کی جائے کہ وہ مجمع کے مطابق آواز کو بلند یا نیچا کر سکیں.آج جن صاحب نے نظم پڑھی ہے ان کی آواز بہت نیچی تھی.اپنے طور پر تو ہر ایک کو حق ہے کہ جس طرح چاہے اشعار پڑھے اور میں نے دیکھا ہے جن کی آواز بالکل نہیں نکلتی وہ بھی پڑھتے ہیں لیکن مجلس میں اس طرح پڑھنا چاہئے کہ ساری مجلس سن سکے.اشعار کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قلوب کو کھینچیں.اور دو ہی چیزیں یہ نتیجہ پیدا کر سکتی ہیں.ایک آواز کی بلندی اور دوسری آواز کی لہر.اگر آواز کی لہریں قلوب کی لہروں کے مطابق ہو جائیں تو جسمانی تغیر بھی پیدا کر دیتی ہیں اور بے جان چیزوں پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے.انگلستان کا ہی ایک واقعہ ہے ایک پل پر سے فوج گزر رہی تھی کہ وہ ٹوٹ گیا.

Page 280

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 274 جلد اول جب تحقیقات کی گئی تو معلوم ہوا فوج کے مارچ کرنے سے جو آواز پیدا ہورہی تھی اس کی لہر اور پل کی لہر مل گئی اور اس وجہ سے وہ ٹوٹ گیا ور نہ بوجھ کی وجہ سے وہ نہیں ٹوٹ سکتا تھا.در اصل تمام کام لہروں پر چل رہے ہیں اور خاص کر جذبات سے ان کا بڑا تعلق ہوتا ہے.شعر کی لہر جب قلوب کی لہر کے مطابق ہو جاتی ہے تو اس وقت لطف حاصل ہوتا ہے.اول تو ہر شخص کی آواز اونچی ہو سکتی ہے.یہاں ایک لڑکا فیروز دین ہوتا تھا جو فوت ہو گیا ہے.اس کی آواز اونچی نہ تھی اس نے پہلے دن اذان دی تو میں نے منع کر دیا کہ اذان کی غرض تو لوگوں کو سنانا ہے جب لوگوں تک آواز نہیں پہنچتی تو یہ اذان نہ دیا کرے.معلوم ہوتا ہے اس میں غیرت تھی اس نے باہر کھیتوں میں جا کر آواز بلند کرنے کی مشق کرنی شروع کی.چند ہی ماہ میں اس کی آواز بہت بلند ہو گئی اس میں سے ایسی گونج نکلتی جو بہت ہی قلب پر اثر کرتی تھی اور اس جیسا موذن ہمیں کم ہی میسر آیا ہے.تو آواز بلند کی جاسکتی ہے.میں عورتوں کو پڑھاتا ہوں.ہمارے ملک کی رسم کے مطابق وہ نیچی آواز سے پڑھتی ہیں اور ان میں جو میری رشتہ دار ہیں یا جو چھوٹی عمر کی ہیں انہیں اپنے سامنے دور کھڑا کر کے کہتا ہوں وہاں سے مجھے سبق سناؤ اس طرح ان کی آواز بلند ہوتی جاتی ہے.پس اساتذہ کا کام ہے کہ جن لڑکوں کی آواز نیچی ہو ان کی آواز بلند کرائیں.پھر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے ایڈریس کے نہ صرف مضمون اور عبارت پر مجھے اعتراض ہے بلکہ پڑھنے کے طریق پر بھی اعتراض ہے.ہمارے مدرسہ احمدیہ کے لڑکے اور فارغ التحصیل لڑکے کا لہجہ بہت اچھا ہونا چاہئے مگر پہلے ہی جب السَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کی آواز میرے کان میں پڑی تو میری روح کانپ گئی کہ "ک" کے ”ق“ بننے شروع ہو گئے.غلطیاں ہوتی ہیں اور مجھ سے بھی ض دفعہ الفاظ کے ادا کرنے میں ہو جاتی ہے اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ اس سے کبھی الفاظ کی غلطی نہیں ہوئی.ایک دفعہ یہاں لکھنو کا ایک شخص آیا.حضرت مسیح موعود نے اسے سمجھایا کہ ہم لوگ ”ق“ کو صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتے مگر وہ اسی بات پر بگڑ گیا اور کہنے لگا یہ عجیب بعض

Page 281

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 275 جلد اول مسیح موعود ہیں جوق بھی ادا نہیں کر سکتے.پس میں یہ امید نہیں کر سکتا کہ کوئی بھی غلطی ہمارے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نہ کریں کیونکہ تمام الفاظ کوئی عرب بھی صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا اور ہم بھی اردو کے تمام الفاظ صحیح طور پر نہیں بول سکتے.مگر غلطی اتنی برداشت کی جاسکتی ہے جو دوسرے الفاظ میں چھپی ہوئی ہو.اور سننے والوں کو گراں نہ گزرے.مگر میں نے دیکھا ہے اس ایڈریس کے وہ الفاظ جن کو صحت کے ساتھ ادا کرنے کی ضرورت تھی ان میں سے 75 فیصدی غلط پڑھے گئے اور ایسے موقع پر پڑھے گئے جبکہ مولوی محمد اسماعیل صاحب مدرسہ کے ہیڈ ماسٹر ہیں.جن کے سامنے اگر کوئی غلط لفظ بولے تو مجلس میں ہی ٹوک دیتے ہیں.میری زبان پر چند الفاظ غلط چڑھے ہوئے ہیں.میں جب ان الفاظ میں سے کوئی بولنے لگتا ہوں تو دیکھ لیتا ہوں مولوی صاحب تو سامنے نہیں ہیں.پس اس بات کی احتیاط ہونی چاہئے کہ لہجہ اور تلفظ صحیح ہو.پھر مجھے ایڈریس کے مضمون پر بھی اعتراض ہے.اس میں وہی طریق اختیار کیا گیا ہے جو آریوں اور عیسائیوں نے دیگر مذاہب کے مقابلہ میں اختیار کر رکھا ہے حالانکہ یہ ہمارے سلسلہ کی خصوصیت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا احسان ہے کہ آپ نے ہمیں سکھایا ہے کہ کسی کی تعریف کے لئے ضروری نہیں کہ دوسروں کی مذمت کی جائے.مگر اس ایڈریس میں ایسے الفاظ ہیں جن میں ماسٹر محمد الدین صاحب کے کام کی تعریف کرتے ہوئے دوسروں کی مذمت کی گئی ہے.یہ خلاف تہذیب بات ہے.یوں بھی طالب علموں کی کا یہ حق نہیں کہ بڑوں پر جرح کریں.کجا یہ کہ علی الاعلان ان کی مذمت کریں.اگر صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ آپ کا کام اپنے زمانہ میں اچھا رہا اور دوسروں کے کام سے بڑھا کر نہ پیش کیا جاتا تو بھی بات پوری ہو سکتی تھی.دوسروں کے زمانہ کا سوال ایسا ہے کہ پھر دوسرے بھی جواب دینے پر آمادہ ہو جائیں گے.ہر ایک کی تعریف کرنے والے کچھ نہ کچھ لوگ ہوتے ہیں اور جب کسی کی مذمت کرتے ہوئے دوسرے کی مدح کی جائے تو دوسرے اس کی مذمت پر اتر آتے ہیں.

Page 282

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 276 جلد اول پھر ایڈریس میں ماسٹر محمد الدین صاحب کی ہجو ملیح بھی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ امریکہ میں تبلیغ نہیں کرتے رہے بلکہ لوگوں کو پڑھاتے رہے ہیں.یہ بات اس طرح کہی گئی ہے گویا کہنے والے خود وہاں موجود تھے اور مجھے یہ بات معلوم نہ تھی جو اب بتائی گئی ہے.دراصل اپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلائے گئے ہیں.اگر یہ بات صحیح بھی ہو کہ ماسٹر صاحب وہاں لوگوں کو پڑھاتے رہے ہیں تو یہ غلط ہے کہ انہوں نے کسی اور طریق سے تبلیغ نہیں کی.اس کے بعد مجھے ماسٹر صاحب کی تقریر کی دو باتوں کی تشریح کرنے کی بھی ضرورت ہے.ایک تو انہوں نے یورپ کی رواداری کا ذکر کیا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ جب کوئی یورپ میں جاتا ہے تو اس پر یہی اثر ہوتا ہے جو ماسٹر صاحب پر ہوا.کیونکہ وہ لوگ بحث مباحثہ سے آگے نکل گئے ہیں.یہ اچھی بات ہے اس کی نقل کرنی چاہئے.مگر اس سے غلط نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے.میں بتاتا ہوں کہ ہماری بحث اور یورپ کی رواداری میں کیا فرق ہے.جب انسان سمجھتا ہے کہ خطرہ میں ہوں تو چڑ چڑا ہو جاتا ہے.چنانچہ یہ عام بات ہے کہ بیمار آدمی چڑ چڑے ہوتے ہیں.وجہ یہ کہ وہ سمجھتے ہیں ہم تکلیف اٹھا رہے ہیں اور رشتہ دار ہماری فکر نہیں کرتے.مگر تندرست آدمی ہشاش بشاش ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے میں خطرہ میں نہیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر بحث کی ہے اور میں نے گزشتہ سالانہ جلسہ کے موقع پر یہ بات بیان کی ہے کہ اخلاق کی خوبی عقل اور قدرت کی وجہ سے ہوتی ہے یہی چیز جانوروں میں عقل کے ماتحت نہیں آتی بلکہ طبعی تقاضے کے ماتحت آتی ہے.عام طور پر جتنے اخلاق نظر آتے ہیں ان کا اکثر حصہ انسانوں میں طبعی تقاضے کے ماتحت ہوتا ہے لیکن اس لئے کہ خدا نے انسان کو قدرت دی ہے اور ہم حسن ظنی کرتے ہیں کہ قوت فکر یہ سے کام لے کر انسان نے کام کیا ہے کہتے ہیں اس نے اخلاق سے کام لیا.ور نہ اگر حقیقت میں لوگوں میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہو جائیں تو وہ روحانی انسان بن جائیں.بات یہ ہے کہ ایشیا ترقی میں اس مقام پر نہیں پہنچا کہ یہاں کے لوگوں نے اپنے خیالات کی بناء تحقیق اور تدقیق پر رکھی ہو.وہ سمجھتے ہیں ہمارے خیالات آبائی ہیں اور ذرا

Page 283

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 277 جلد اول ان پر مخالف روشنی پڑی تو ان کے نقائص ظاہر ہو جائیں گے.لیکن قومی ، وطنی اور ورثے کا میلان انہیں مجبور کرتا ہے کہ ان خیالات کو چھوڑیں نہیں.اس وجہ سے جب وہ کوئی ایسی بات سنتے ہیں جس کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ہمیں آبائی خیالات سے ہٹانے والی ہے تو اس کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں.پس چونکہ عام طور پر ہمارے ملک کی مذہبی حالت فکر اور عقل کا نتیجہ نہیں بلکہ آبائی تقلید ہے اور لوگ دلوں میں محسوس کرتے ہیں گو زبانی اقرار نہ کریں اور ممکن ہے بعض دفعہ اپنے نفس میں بھی اقرار نہ کریں مگر بات یہی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں ہمارا عقیدہ ورثہ ہے.جب اس پر روشنی پڑی تو ضروری ہے کہ ہم اس کے چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں.اس احساس نے ان کو چڑ چڑا بنا دیا ہے.لیکن یورپ کے لوگوں نے علمی ترقی سے اپنا پہلا مذ ہب باطل قرار دے دیا ہے اور اعمال اور اصول کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے.اس طرح انہوں نے اپنے لئے وسیع رستہ بنا لیا ہے کہ عیسائی بھی کہلائیں اور عیسائیت کی کسی بات پر عمل بھی نہ کریں.انہوں نے اپنے تمدن کو توڑنے کے بغیر یہ تھیوری قائم کرلی ہے کہ کریڈ (Cread ) الگ چیز ہے اور دیلی جن الگ.ریلی جن کے معنی تو ہیں قربانی اور محبت.اور کریڈ یہ ہے کہ گر جا جاؤ، عبادت کرو اور احکام پر عمل کرو.یہ باتیں اگر بدلتی جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے.یورپ اور امریکہ کا عام مذہب یہی ہے.اس تحقیق کے بعد چونکہ ان کے ذہن نشین یہ بات ہوگئی ہے کہ جو بات ہم نے دریافت کی ہے بالکل صحیح ہے اور بوجہ اپنے ظاہری غلبہ کے سمجھتے ہیں جس بات پر ہم پہنچے ہیں وہی صحیح ہے اسی لئے ساری دنیا کو ہم نے فتح کر لیا ہے اور دنیا ہماری نقل کر رہی ہے اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی جگہ سے ہٹانا ناممکن.اور اس وجہ سے وہ چڑ چڑا پن نہیں دکھاتے.اس کی مثال اس بلی کی سی ہے جو چوہے کو پکڑ کر چھوڑ دیتی اور اطمینان سے بیٹھ رہتی ہے.اسے ہم با اخلاق نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جس وقت چاہوں گی چوہے کو پکڑ لوں گی وہ مجھ سے بیچ کر کہاں جا سکتا ہے اس وجہ سے وہ بے فکر ہو جاتی ہے.پس اہل یورپ و امریکہ

Page 284

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 278 جلد اول میں رواداری ہے مگر حقیقی رواداری نہیں ہے.حقیقی رواداری وہ ہوتی ہے جو انسان اس وقت برتے کہ وہ کوئی بات حق ثابت ہو جانے پر قبول کر لینے کے لئے تیار ہو.مگر یورپین رواداری اس طرح دکھاتے ہیں کہ اپنی جگہ کو نہیں چھوڑ نا خواہ کوئی کچھ ثابت کرے.ایسے لوگ اب ہندوستان میں بھی پیدا ہو رہے ہیں.ان سے کتنی باتیں کریں وہ ہنستے رہیں گے خوشی کا اظہار کریں گے تعریف بھی کریں گے مگر مانیں گے کچھ نہیں.یہ رواداری ظاہری حالت میں اچھی نظر آتی ہے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ کچھ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے.جب انہیں کوئی بات سمجھائی جائے تو کہتے ہیں اچھی بات ہے بہت عمدہ ہے مگر اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تمہارے لئے اچھی اور عمدہ ہے ہمارے لئے نہیں.اس وجہ سے یہ رواداری بھی ایسی ہی ہے جیسے ہندوستان کے لوگوں کی سیج بھی کیونکہ اس کا نتیجہ بھی یہی ہوتا ہے کہ میں تمہاری بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں خواہ وہ کیسی ہی معقول ہو.اس کے مقابلہ میں اسلام کی رواداری یہ ہے کہ مذہبی طور پر خواہ اختلاف ہو دنیاوی طور پر ہر طرح ساتھ دینے اور امداد کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے.ہمیں اس رواداری پر عمل کرنا چاہئے نہ کہ یورپ والی رواداری پر.کیونکہ وہ حق کے قبول کرنے سے محروم کر دیتی ہے.یہی وجہ ہے کہ یورپ والے یہ تو کہتے ہیں تمہاری باتیں اچھی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں ہمیں ضرورت نہیں کہ مانیں.ماسٹر صاحب کی تقریر سے شاید کسی کو ایک اور دھوکا بھی لگے اور وہ دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنے کے متعلق ہے.یہ ایسی بات ہے کہ میں خود اس کے متعلق زور دیا کرتا ہوں کیونکہ خود مطالعہ کرنے سے بہت سی باتیں ایسی نظر آتی ہیں جنہیں عام طور پر برا سمجھا جاتا ہے.مگر اصل میں وہ ٹھیک ہوتی ہیں.میں نے دیگر مذاہب کی کتب کے مطالعہ سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور اس سے مجھ پر یہ صداقت اور زیادہ وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو گئی ہے کہ تمام قوموں میں نبی آتے رہے ہیں.تو مطالعہ کرنا بہت مفید اور ضروری ہے.مگر ماسٹر صاحب نے کمپیریٹو ریلیجن(Comparative Religion) کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے اس

Page 285

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 279 جلد اول کی نسبت میں ہوشیار کرنا چاہتا ہوں.کمپیریٹو ریلیجن خود ایک مذہب ہے.بے شک اس مذہب کے پیروؤں نے کہا ہے کہ سب مذاہب میں سچائی ہے مگر وہ ایک خاص مقصد کے لئے یہ بات کہتے ہیں اور ان لوگوں کی کتابوں کے پڑھنے سے بھی کوئی آزاد رائے قائم نہیں کر سکتا.ان کی تھیوری یہ ہے کہ انسانی دماغ نے حالات اور تمدن کے ماتحت کچھ اصول تجویز کئے ہیں.اس وجہ سے ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ابتدائی صداقتوں اور سچائیوں کو مخفی کریں.وہ کہتے ہیں ابتدا میں سچائیاں نہ تھیں.مثلاً توحید کے متعلق زور دیتے ہیں کہ یہ ابتدا میں نہ تھی.کیونکہ اگر یہ مانا جائے کہ توحید پہلے تھی اور شرک بعد میں پیدا ہوا تو ان کی تھیوری کی بنیاد بالکل اڑ جاتی ہے کہ دماغ نے حالات کے ماتحت ترقی کر کے اصول تجویز کئے ہیں.ان کی کتب سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے تلاش اور جستجو کر کے ہر ملک کے مذہب کے حالات لکھے ہیں اور ہر ایک آدمی کو وہ سامان میر نہیں آسکتے.اس طرح ان کی کتابیں مفید بھی ہو سکتی ہیں.ان کی کتب کو بھی پڑھا جائے مگر اسے بھی علیحدہ مذہب قرار دے کر.ان کے بھی بہت سے اصول ایسے ہیں جو اسی طرح اسلام کے خلاف ہیں جس طرح عیسائیت اور آریہ مذاہب کے ہیں.پس مذاہب کی تحقیقات نہایت ضروری ہے اور میں نے کبھی کسی غیر مذہب کے متعلق کوئی بات نہیں مانی جب تک خود اس مذہب کی کتاب میں دیکھ نہ لوں.کیونکہ ہر مذہب کا حق ہے کہ اس کی اصل بات دیکھی جائے اور پھر اگر وہ قابل اعتراض ہو تو اعتراض کیا جائے.لیکن جس طرح کسی کو یہ حق نہیں کہ قرآن کریم کے متعلق کسی آریہ سے کوئی بات سن کریا کسی مولوی سے کوئی بات معلوم کر کے اس کے متعلق فیصلہ کر لے اسی طرح یہ بھی نہیں ہوتا چاہئے کہ جیکب سے سن کر کسی امر کا فیصلہ کیا جائے کیونکہ وہ بھی اپنا خیال رکھتا ہے.پس ہر ایک مذہب کا مطالعہ ضروری ہے اور غیر متعصبانہ طور پر مطالعہ ضروری ہے.اس سے کئی باتوں کے متعلق صحیح علم حاصل ہو جاتا ہے.میں نے اسی جلسہ کے موقع پر جو جمعہ آیا تھا اس کے خطبہ میں ایک ایسی بات عیسائیت

Page 286

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 280 جلد اول کے متعلق بیان کی تھی جس پر لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں اور اب بھی اگر اس کی تشریح نہ کی جائے تو قابل اعتراض ہی سمجھیں مگر اس کے اندر ایک اور حقیقت تھی.وہ بات حضرت من کی انجیر کے درخت پر لعنت کرنا ہے.یہ شام کے درختوں میں سے ایک درخت ہے اور خصوصیت سے اس علاقہ میں کثرت سے پایا جاتا ہے جس میں حضرت عیسی رہتے تھے.انہیں کوئی نبی نہ مانے مگر پھر بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان جیسا زیرک آدمی غیر موسم میں انجیر کے درخت کے پاس چلا جائے اور اس پر پھل تلاش کرے.اور جب کچھ نہ ملے تو اس پر لعنت کرنے لگے.کیا ہمارا ایک بچہ بھی اس موسم میں جبکہ آم کے ساتھ آم نہیں لگتے آم کے درخت کے پاس آموں کے لئے جائے گا ؟ اگر نہیں تو وہ کس طرح چلے گئے.دراصل اس سے مراد تمثیلی کلام ہے اور انجیر سے مراد یہودی قوم ہے.ایک پھلدار درخت کی قدر و قیمت اس کے پھل سے ہی ہوتی ہے.ایک آم کا درخت اگر پھل دیتا ہے تو آم کا درخت ہے ور نہ جلانے کے قابل لکڑی ہے.یہی بات یہود کو حضرت مسیح نے اس تمثیل میں سمجھائی کہ جب تک الہام کا سلسلہ یہود میں جاری رہا وہ زندہ قوم رہی اور جب یہ بند ہو گیا تو وہ کسی کام کی نہ رہی.انہوں نے انجیر کے درخت کی طرف دیکھا اور تمثیلی طور پر کہا دیکھو یہ پھل نہیں دیتا.اس وقت یہودیوں کا گروہ ان کے ساتھ تھا.انہیں بتایا کہ ایسی حالت میں تم لعنتی ہو.جب اپنے مذہب کا کوئی پھل نہیں مانتے.1 حضرت مسیح موعود نے بھی ان کے لوگوں پر لعنت کی ہے جو امت محمدیہ میں تمیں دجال تو مانتے ہیں لیکن ایک مسیح نہیں مانتے.تو یہ ان کا تمثیلی زبان میں کلام تھا.غرض ہر مذہب کی تعلیم کو اگر انسان اس نقطہ نگاہ سے دیکھے جس سے اپنے مذہب کی تعلیم کو دیکھتا ہے تو بہت سی باتوں کا حل اسے مل جائے.کئی لوگ دیگر مذاہب کی کتب است ڈر سے نہیں دیکھتے کہ شاید اس مذہب کی خوبیاں دل پر اثر کر جائیں.مگر میرے نزدیک یہ بزدلی ہے.میں ہر مذہب کی کتب کو بڑی دلیری اور جرات سے پڑھتا ہوں.کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اگر ان کتابوں کا ایک ایک لفظ بھی خوبی بن جائے تو بھی ان کی خوبیاں

Page 287

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 281 جلد اول قرآن کریم کی خوبیوں سے بڑھ نہیں سکتیں.میں کبھی کسی مذہب کی کتاب اس نیت سے نہیں پڑھا کرتا کہ اس پر اعتراض کروں بلکہ اس لئے پڑھتا ہوں کہ اس میں سے خوبی معلوم کروں.اس طرح قرآن کریم کی اور بھی زیادہ فضیلت ثابت ہوتی ہے.کیونکہ قرآن کریم کی خوبیاں ان کی خوبیوں کے مقابلہ میں بڑھ کر ہوتی ہیں اور بڑائی یہی ہے کہ دوسروں کی خوبیوں سے بڑھ کر خوبیاں ہوں نہ یہ کہ دوسروں میں نقص قرار دے کر اپنی خوبی بتائی جائے.ایک لولے لنگڑے کو گر الینا بہادری نہیں ہوتی بلکہ ایک طاقتور اور زور آور کو گرانا بہادری ہوتی ہے.میں نے دیکھا ہے انگریز گزشتہ جنگ میں جس مقام پر شکست کھاتے وہاں کی فوج کی بھی بڑی تعریف کرتے کہ بڑی بہادر قوم ہے.اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا تھا کہ ہم نے یونہی شکست نہیں کھائی ہمارے مقابلہ میں بڑی بہادر قوم تھی اور جس پر فتح پاتے اس کی بھی بہت تعریف کرتے.پس ہر مذہب کی کتب کو اس طرز سے پڑھنا چاہئے جس طرز پر اپنی کتب پڑھی جاتی ہیں.مثلاً قرآن کریم میں جہاں نمل کا ذکر آتا ہے وہاں ہم کہتے ہیں اس سے چیونٹی مراد نہیں بلکہ ایک قوم کا نام ہے.اسی طرح ویدوں کے منتروں کی بھی کوئی توضیح کی جائے تو اسے تسلیم کرنا چاہئے اور دیگر مذاہب کی خوبیاں تسلیم کر کے ان سے زیادہ اسلام کی خوبیاں ثابت کرنی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف قرآن کریم میں خوبیاں ہیں اور کسی مذہب میں نہیں.لیکن جب دیگر مذاہب والوں نے یہ دکھا دیا کہ جس طرح اسلام میں حکم ہے سچ بولو اسی طرح ہمارے مذہب میں بھی یہی حکم ہے تو یہ خوبی صرف اسلام میں نہ رہی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نقطہ نگاہ کو بدل دیا ہے اور بتایا کہ دیگر مذاہب میں بھی خوبیاں ہیں لیکن اسلام میں ان سے بڑھ کر ہیں.مثلاً آپ نے بتایا کہ اسلام اخلاق اس کو نہیں قرار دیتا جو تہذیب اور تمدن کی مجبوری کے ما تحت فعل کیا جائے.یہ تو طبعی تقاضا کے ماتحت ہوتے ہیں.اخلاق وہ ہے جو قوت فکر یہ

Page 288

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 282 جلد اول کے ماتحت ظہور میں آئے اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی مد نظر ہو کہ بنی نوع کی بھلائی ہو اور دوسرے کے مقابلہ میں اپنی قربانی کی جائے.بشرطیکہ انسان کی روحانیت کی قربانی نہ ہو.اس تعریف کے مقابلہ میں یورپ نے اخلاق کی جو تعریف کی ہے وہ ادنی رہ جاتی ہے.پہلے وہ کہتے تھے جس چیز سے زیادہ فائدہ پہنچتا ہو وہ اچھی ہوتی ہے.اب یہ کہتے ہیں کہ جس چیز سے زیادہ فائدہ ہو اور ساتھ ہی قومی فائدہ بھی ہو وہ اچھی ہے.مگر پھر بھی اسلام نے جو تعریف کی ہے اس سے یہ ادنی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نقطہ نگاہ کو بدل دیا ہے کہ صرف اسلام میں خوبیاں ہیں اور یہ اصل قرار دیا ہے کہ دوسروں کی خوبیاں تسلیم کرنی چاہئیں اور پھر قرآن کی خوبیاں اعلیٰ ثابت کرنی چاہئیں.اصول تفسیر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ ایک نکتہ بیان فرمایا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اعلیٰ ہوتی ہے.ایک غیر احمدی اگر قرآن کریم میں کوئی خوبی دیکھتا ہے تو اس بات پر اچھل پڑتا ہے کہ یہ کسی اور مذہب میں نہیں.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے کہ دوسرے مذاہب میں بھی خوبیاں ہیں اس لئے ہم ان کی خوبیوں سے بڑھ کر اسلام کی خوبیاں دیکھنے کے لئے گہرا مطالعہ کرتے اور اعلیٰ خوبیاں معلوم کر لیتے ہیں اس وجہ سے ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اعلیٰ ہوتی ہے.غرض قرآن کریم کے مطالعہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے گر اور سکتے بتائے ہیں کہ ان کی اتباع کرنے سے ایسے اعلیٰ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں جو مخالف کسی صورت میں پیدا کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ ان کا نقطہ نگاہ اور ہے اور ہمارا اور ہے.پس دوسرے مذاہب کا مطالعہ کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی زیادہ سے زیادہ خوبیاں معلوم ہوں تا کہ ان سے بڑھ کر قرآن کریم کی خوبیاں بتائی جاسکیں.اس سے میں نے اتنا فائدہ اٹھایا ہے کہ جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا.ارادہ تو یہ تھا آجکل پڑھانا بھی چھوڑ دوں کیونکہ گلہ پڑا ہوا ہے اور بولنے سے تکلیف

Page 289

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 283 جلد اول بڑھ جاتی ہے مگر مدرسہ کی جو کا یہ اثر معلوم ہوتا ہے کہ ماسٹر محمد دین صاحب یہاں زیادہ بولے اور میں بھی.<< (الفضل 9 مارچ 1926ء) 1 متی باب 21 آیت 18 تا 22 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء

Page 290

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 284 جلد اول حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے مبلغ امریکہ کے اعزاز میں ٹی پارٹی حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے کے امریکہ سے مراجعت پر ان کے اعزاز میں سٹاف اور طلباء ہائی سکول نے ٹی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.گو وقت کی تنگی اس وقت اجازت نہیں دیتی کہ کچھ زیادہ بیان کروں ( کیونکہ نماز مغرب کا وقت بالکل قریب تھا مگر اس کی ساری ذمہ داری نہ تو قانون قدرت پر رکھی جاسکتی ہے کیونکہ وقت کا مقرر کرنا ہمارے اختیار میں تھا اور نہ ساری ذمہ داری سکول کے منتظمین کے سر رکھی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے اپنے اندازہ سے ایسا وقت مقرر کیا تھا کہ مغرب سے پہلے یہ تقریب ختم ہو جائے گی.پھر یہ ذمہ داری نہ میرے سر رکھی جاسکتی ہے کیونکہ میں نے یہ وقت کسی اور کام میں صرف نہیں کیا بلکہ ایک جنازہ کی وجہ سے دیر ہو گئی ہے.بہر حال یہ ذمہ داری سب پر تقسیم ہو کر واقعہ یہ ہے کہ اب شام ہونے والی ہے.اول تو میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ اس وقت کی نظم خوانی، تلاوت قرآن اور ایڈریس پہلے کی نسبت بہتر تھے.گو میں اس بات پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تلاوت قرآن کریم جیسی پہلے یہاں ہوا کرتی تھی اور محمد عقیل ہی پڑھا کرتے تھے ایسی نہیں ہوئی.اب کے بھی یہ بارا نہی کے ذمہ ڈالا گیا ہے.مگر انہوں نے اپنی ذمہ داری کو پورے طور پر

Page 291

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 285 جلد اول ادا نہیں کیا.گواب بھی دوسری ایسی تقریبوں کی نسبت ان کی تلاوت اچھی تھی مگر پہلے کی طرح نہ تھی.البتہ نظم بہت اچھی پڑھی گئی.اس میں ایک خاص خوبی تھی اور وہ یہ کہ نظم کا مضمون جس طرح خیالات کو اوپر لے جانا چاہتا تھا اسی طرح میاں محمد جان ( نظم پڑھنے والالڑ کا ) اپنی آواز کو بلند کرتے تھے اور اس خوبی سے بلند کرتے تھے کہ جس کی نقل نہیں کی جا سکتی.مصرعہ کا آخری حصہ اس طرح اوپر اٹھتا تھا کہ روح کو بھی اوپر اٹھا کر لے جاتا تھا.ہر بار میں ہر شعر پر خیال کرتا کہ شاید اب کے اس رنگ میں مصرعہ ادا نہ ہو مگر شروع سے اخیر تک ایک ہی رنگ میں اٹھتا رہا.اس میں یہ خوبی تھی کہ شعر اس طرح پڑھے کہ مضمون کے ساتھ لہجہ میں بھی بلندی ہوتی تھی.میں سمجھتا ہوں ہمارے دونوں سکولوں سے یہ بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس قسم کے جلسوں میں سارا مجمع مل کر نظمیں پڑھے.اس سے جوش، بلند ہمتی اور امنگ پیدا ہوتی ہے.میں نے ولایت سے آنے پر دونوں سکولوں کو نصیحت کی تھی کہ آپ لوگ یہ انتظام کر سکتے ہیں کہ جلسہ سے پہلے جو نظم پڑھی جائے اسے سارا مجمع دہرائے.یہ عام رواج بھی ہے اور جائز بھی ہے کیونکہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے سامنے سارے صحابہ مل کر شعر دہراتے تھے.1 اس طرح ایک تو ان کی آواز بھی بلند ہو جائے گی جن کی نیچی ہے دوسرے اس سے جذبات میں ایسا ہیجان پیدا ہوتا ہے کہ ستی اور غفلت جو بعض پر چھائی ہوئی ہو دور ہو جاتی ہے.اور اس طرح اٹھنے والی لہر جو دوسرے ساتھیوں کے منہ سے نکلتی ہے سب پر اثر کرتی ہے.اس وقت تو دو لڑکوں نے مل کر نظم پڑھی ہے لیکن اگر ساری مجلس یا سکول کی جماعت کے سارے لڑکے مع استاد کے مل کر نظم پڑھیں تو میں سمجھتا ہوں اس طرح حوصلہ کی بلندی پیدا ہو کر آواز کو بھی بلند بنا سکتی ہے.اس کے بعد جو ایڈریس پڑھے گئے ہیں ان میں سے ایک بات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ امریکن مشن کی کامیابی میں یا جو کام وہاں ہوا ہے اس میں امریکہ کے مبلغین کی تعریف کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کسی حصہ کام کے متعلق میں بھی تعریف

Page 292

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 286 جلد اول جو کا مستحق ہوں مگر میں صفائی سے کہہ دوں امریکہ کے مشن کو جس طرح مجھے لیڈ (Lead) کرنا چاہئے تھا میں نہیں کر سکا.ایسی حالت میں اگر وہاں کامیابی ہوئی ہے تو اس کے مستحق وہ مبلغ ہیں جنہوں نے وہاں کام کیا.اور اگر نا کامی ہوئی ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر پڑتی ہے کہ کیوں میں نے ان لوگوں کی راہنمائی نہ کی.انگلستان کے مشن کو پہلے سے اور اب کچھ عرصہ سے مصر اور شام کے مبلغوں کو میں نے ہدایات دینی شروع کی ہیں مگر امریکہ کے متعلق یا تو یہ کہ دوسرے کاموں کی وجہ سے فرصت نہیں پائی یا یہ کہ وہاں کے حالات سے واقفیت نہیں تھی کہ اس مشن کو لیڈ کر سکوں اس لئے جو ہفتہ واری چٹھی دوسرے مبلغوں کو بھیجی جاتی ہے وہ وہاں نہیں بھیجی گئی.گو کبھی کبھی وہاں بھی خط لکھتا رہا ہوں مگر با قاعدہ نہیں اور اس طرح نہیں کہ میں نے ان کے کام کا پروگرام بنانے میں حصہ لیا ہو.میں سمجھتا ہوں باوجود اس کے کہ میں قادیان میں ہوں اور میں نے امریکہ نہیں دیکھا مگر اس علم کے ساتھ و اس شخص کو ملتا ہے جس پر خدا تعالیٰ کوئی ذمہ داری رکھتا ہے امریکن مشن کی محفوظ طریق پر یہاں بیٹھے بھی راہنمائی کر سکتا ہوں.گوسفر یورپ کے اس تجربہ سے جو ممکن ہے بعض کے نزد یک قلت وقت کی وجہ سے تجربہ کہلانے کا ہی مستحق نہ ہو میری اس رائے میں جو پہلے سے میں یورپ کے متعلق رکھتا تھا کوئی تغیر پیدا نہیں کیا.مگر اس سے اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ پہلے جو باتیں میں اپنے اندرونی علم کی بناء پر کہتا تھا اور مبلغ ان کی تصدیق نہ کرتے تھے اب میں وہی باتیں واقعات کی بناء پر کہتا اور مبلغوں کو قائل کر سکتا ہوں اور انگلستان کا کی موجودہ مشن کلی طور پر میری ہدایات پر کام کر رہا ہے.میں نے وہاں کام کرنے والوں سے کہہ دیا ہے خدا نخواستہ کوئی نقصان ہوا تو اس کا میں ذمہ وار ہوں گا.تمہارا کام صرف ان ہدایات کی پابندی ہے جو تمہیں اس کام کے لئے دی جائیں.مگر امریکہ کے متعلق یہ طریق اختیار نہیں کیا گیا اور نہ اب اختیار کیا جا سکتا ہے.کیونکہ وہاں اب کوئی باقاعدہ مبلغ نہیں رکھا گیا اور نہ کچھ عرصہ تک ارادہ ہے کہ رکھا جائے اس لئے نہیں کہہ سکتا کہ اس طریق کو وہاں کے لئے اختیار کر سکتا ہوں یا نہیں.

Page 293

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 287 جلد اول اس کے بعد میں کچھ اور باتیں اس جواب کے متعلق کہنا چاہتا ہوں جو ماسٹر صاحب نے ایڈریسوں کا دیا ہے.میں نہایت حیران ہوا یہ بات سن کر کہ ایڈریس میں کسی موقع پر یہ کہا گیا ہے کہ مغربی لوگ اس قسم کے مردہ ہو گئے یا انسانیت سے خارج ہو گئے ہیں کہ مذہب اور روحانیت کی کوئی بات ان کے قلوب پر اثر نہیں کر سکتی.جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور ہندوستان کے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں.میں نے جب بھی یہ آواز اٹھتی دیکھی یا اپنے ان مشنریوں سے یا ان لوگوں سے جو مغرب میں رہے یہ شکایت سنی کہ ہمارے ہندوستانی بھائی بہت جلدی خیالی جنت بنا کر اس خوشی میں مست ہو جاتے ہیں کہ یورپ میں ہزار ہا اعلیٰ درجہ کے متقی، پرہیز گار، زکوۃ اور چندہ دینے والے، نمازیں پڑھنے والے نو مسلم موجود ہیں.وہ اس قسم کی خیالی عمارت کھڑی کر لیتے ہیں کہ لاکھوں کروڑوں یورپین لوگوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے اور خدائے واحد کے آگے سجدہ کرتے دیکھتے ہیں.مگر یہ خیال نہیں کرنا چاہئے.غرض میں نے مبلغین کی تحریروں اور زبانوں سے یا ان لوگوں کے مونہوں سے جو مغرب میں رہے اور جنہیں مغربی لوگوں سے معاملہ پڑا ہمیشہ اسی قسم کے مایوسانہ کلمات سنے.اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں ایڈریس دینے والوں نے یہ نئی بات کہی ہے اور ماسٹر صاحب کو اہل مغرب کے متعلق غلطی لگی ہے.جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ان میں مذہبی آدمی موجود ہیں مجھے ہمیشہ ہندوستانی بھائیوں کے خیالی جنت کو توڑنے اور مغرب سے آنے والے لوگوں کی خیالی مایوسی کو توڑنے کی کوشش کرنی پڑی ہے.اور میں دونوں کو وسطی طریق اختیار کرنے کے لئے کہتا رہا ہوں.ہندوستانیوں کو تو میں نے یہ بتایا کہ یہ مت خیال کرو وہاں کے نو مسلم تمہاری طرح کے مسلمان ہیں.ابھی ان کی بالکل ابتدائی حالت ہے.اور مبلغین اور دوسرے مغرب سے آنے والوں کو یہ بتایا کہ تم ان لوگوں کی طرف سے مایوس نہ ہو ان کی آہستہ آہستہ اصلاح ہوگی.وہ بعض ایسی رسوم کے پابند ہیں جنہیں اس وقت تک نہیں چھوڑ سکتے

Page 294

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 288 جلد اول جب تک ان کے اردگردان رسوم کو چھوڑنے والی جماعت نہ پیدا ہو جائے.کیونکہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کے کرنے کے لئے دوسروں کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے.اکیلا انسان انہیں سرانجام نہیں دے سکتا.ہمیشہ جب کبھی احمدی مغرب سے واپس آئے ان میں سے 90 فیصدی ایسے تھے جو مجھے کہتے کان میں ایک ضروری بات کہنی ہے اور جب میں کہتا بتاؤ کیا بات ہے تو وہ یہی کہتے کہ ولایت میں تبلیغ پر جو روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے وہ ضائع ہو رہا ہے.اگر وہاں مشن رکھنا ہی ہے تو ایک آدھ آدمی کو رکھ دیا جائے جو کچھ اور کام بھی ساتھ کرتا رہے اور مشن کو بھی قائم رکھے.یہ سن کر مجھے اس شخص کو سمجھانا پڑتا کہ ہر کام کی اہمیت کے مقابلہ میں اس کے اخراجات کو دیکھنا چاہئے اور جتنا بڑا کوئی کام ہو اتنی ہی بڑی رکاوٹیں اس کے کرنے میں حائل ہوتی ہیں.جب تک ان روکوں اور مشکلات کو مدنظر نہ رکھا جائے اس کام کے نتائج محسوس نہیں کئے جاسکتے.چنانچہ سب سے پہلی ٹی پارٹی جو ماسٹر صاحب کو ہائی سکول کے اولڈ بوائز کی طرف سے دی گئی اس میں میں نے یہی بتایا تھا کہ اس بات کو مد نظر رکھنا چاہیئے کہ ہمارے کام میں وہاں جس قدر مشکلات ہیں وہ ان مشکلات سے زیادہ نہیں جو عیسائیوں کو عیسائیت کی اشاعت میں یہاں ہندوستان میں درپیش ہیں.مگر وہ ہمت نہیں ہارتے اور استقلال سے کام کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ ان کو ہم سے زیادہ روپیہ خرچ کر کے اور زیادہ آدمیوں سے کام لے کر جو نتائج حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے نتائج کی نسبت بہت ہی کم ہیں.جن لوگوں کو وہ یہاں عیسائی بناتے ہیں وہ ہماری کوششوں کی نسبت سے تعداد کے علاوہ اپنی حالت میں تغیر پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی ان لوگوں سے کم درجہ پر ہیں جو یورپ میں مسلمان ہوتے ہیں.در حقیقت سچی بات وسطی ہے.باقی جو خیال کئے جاتے ہیں وہ اپنے اپنے رنگ میں اشاعت مذہب کی تڑپ کا نتیجہ ہیں.ہر شخص اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ یورپ مادیات میں مبتلا ہے.مگر وہاں ایک مذہب نکلا ہے جو ان کے لئے نیا ہے مگر ہمارے لئے نہیں.کیونکہ ہمارے پاس بہت پہلے

Page 295

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 289 جلد اول کی کتاب اس علم کی موجود ہے.وہ علم النفس ہے.اس کی وجہ سے اور دل کے باریک احساسات دیکھنے سے وہ دل کے اندر تاریک در تاریک گوشوں میں اس قسم کی امنگیں محسوس کرتے ہیں کہ ابھی ہم نے سب کچھ حاصل نہیں کر لیا.ان لوگوں کو اندرونی کی احساسات اور سائیکالوجی ( علم النفس ) نے اس طرح متوجہ کر دیا ہے کہ دنیا کمانے کے علاوہ کسی اور بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے مگر اس کا نام مذہب نہیں ہے بلکہ یہ ایک قسم کی پکار ہے.جس طرح ایک پیاسے کی پانی کے لئے پکار ، پانی نہیں کہلا سکتی اسی طرح یہ پکار بھی مذہب نہیں کہلا سکتی.ایک ایسے بچے کو جو نہیں جانتا کہ پانی کیا ہے اور غذا کیا ہے جس نے ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر ایک گھونٹ بھی پانی یا دودھ کا نہیں پیا تم اسے تڑپتا دیکھ کر اگر اس کے منہ میں ایک سیال چیز نہ ڈالو تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ اسے پانی کی پیاس ہے بلکہ وہ قانون قدرت کی پکار ہے جو دل سے نکلتی ہے اور جو یہ بات محسوس کراتی ہے کہ کسی اور چیز کی ضرورت ہے جو حاصل کرنی چاہئے.اسی طرح اہل یورپ میں جو احساس ہے وہ مذہب کی پکار اور مذہب کی بھوک اور مذہب کی پیاس تو کہلا سکتی ہے لیکن مذہب نہیں ہے.مذہب خدا تعالی کی آواز کو لبیک کہنے کا نام ہے مگر مغربی لوگوں کے دل سے آواز پیدا ہوئی ہے جو فطرت کی آواز ہے جو انسانیت کہلا سکتی ہے، جو اخلاق سمجھی جاسکتی ہے لیکن اسے مذہب نہیں کہہ سکتے.مذہب کی آواز وہ ہوتی ہے جو باہر سے آتی ہے اور کانوں کے ذریعہ اندر جاتی ہے اور انس کے مادہ سے مل کر جفت ہوتی ہے.پھر وہ مرد و عورت کی طرح مل کر بچہ پیدا کرتی ہے جسے روحانیت کہتے ہیں.پس اس میں شبہ نہیں کہ یورپ کے لوگوں میں وہ فطرت نمایاں ہے اور بعض لحاظ سے زیادہ نمایاں ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں میں تعلیم زیادہ ہے.ان کے دل کی تختیاں صاف ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے صاف سختی پر اچھا لکھا جاتا ہے.جب لوگ کہتے کہ عام لوگ لامذہب ہو رہے ہیں اور اپنے اپنے مذہبی عقائد کو ترک کر رہے ہیں تو فرماتے ایسے لوگوں کے دل کی تختیاں صاف ہو رہی ہیں ان پر صحیح عقائد

Page 296

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 290 جلد اول اچھی طرح لکھے جائیں گے.لامذہب ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے مذہب کی رسم و رواج کو چھوڑ دینا.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے ان رواجوں کو مٹنے دو.جب ان لوگوں کو کے دل کی تختیاں صاف ہو جائیں گی تو ان پر اچھا لکھا جائے گا.یورپ کے لوگوں کی تختیاں صاف ہو چکی ہیں.جو باتیں ہمارے ملک میں لوگوں کو سچے مذہب کے قبول کرنے سے روکتی ہیں وہ وہاں نہیں رہیں.مگر ان کے بجائے اور پیدا ہوگئی ہیں.اور وہ ان کے وہ اصول ہیں جو انہوں نے خود بنا لئے ہیں.جب کوئی انسان کسی بات کے لئے چیختا چلاتا ہے تو ہر جگہ یہ قانون قدرت جاری ہے کہ اس کا طبعی طور پر جواب موجود ہوتا ہے.انسان کے جسم کے اندر جو نبی بیماری پیدا ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی اس کا طبعی علاج بھی پیدا ہو جاتا ہے.اگر انسان کے جسم پر کہیں زخم لگتا ہے تو اس زخم کے اردگرد ایسے سامان جمع ہو جاتے ہیں جو اسے آگے بڑھنے سے روکتے ہیں.اسی طرح انسان جو نہی لامذہبیت کی طرف جاتا ہے فطرت کی پکار ا سے سنائی دینے لگتی ہے اور اس کے لئے اسی طرح سامان پیدا ہو جاتے ہیں جس طرح جب بخار چڑھتا ہے، ملیریا ہوتا ہے تو خون میں جو کیڑے ہوتے ہیں وہ اس کا مقابلہ کرتے ہیں اور جب وہ غالب آ جاتے ہیں تو بخار ٹوٹ جاتا ہے.لیکن ایک طبیب جانتا تھا کہ جب تک بیرونی امداد نہ ہو گی اُس وقت تک بخار پیچھا نہ چھوڑے گا اس لئے وہ دوا کے ذریعہ امداد پہنچاتا ہے.اسی طرح دہریت کی طرف جانے والے لوگوں کے ارد گرد خیالات کا ایک ایسا دائرہ پیدا ہو جاتا ہے جو دہریت سے ان کو بچانا چاہتا ہے اور جس طرح اور باتوں میں یہ قانون قدرت جاری ہے اسی طرح دہریت کے خیالات رکھنے والوں کے لئے بھی جاری ہوتا ہے جو ان کو لامذہبیت میں گرنے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے.اگر انسان عقل سے مذہب تیار کرے تو بے شک اس کا تیار کیا ہوا نہ ہب کئی باتوں میں مذہب سے مشابہ ہوگا مگر وہ مذہب نہ ہوگا.کیونکہ مذہب نام ہے خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہنے کا.فطرت کی آواز پر لبیک کہنا فطری علاج ہے نہ کہ مذہب.مذہب وحی کی آواز پر لبیک کہنے کا نام ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 297

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 291 جلد اول نے فرمایا ہے فطرت کا مذہب لعنت ہے.حالانکہ دوسری طرف آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ فطرت مذہب کی طرف انسان کو لے جاتی ہے.فطرت کا مذہب کیوں لعنت ہے؟ اس لئے کہ وہ چونکہ بہت کچھ مذہب کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اکثر اوقات تباہی کی طرف لے جاتا ہے.اصل مذہب کی جو غرض ہے اور جو مذہب کے لفظ سے ہی ظاہر ہے کہ خدا تک پہنچنے کا راستہ.اس کے لئے آسمان سے ہاتھ آتا ہے جو کھینچ کر اس راستہ تک انسان کو لے جاتا ہے.ورنہ خدا تعالیٰ کامل طور پر ہادی نہیں ہو سکتا تھا اگر فطرت کامل طور پر ہادی ہوتی.اس میں شبہ نہیں کہ فطرت خدا تعالیٰ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے اور ہدایت کی طرف راہنمائی کرتی ہے.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ صرف فطرت ہدایت پانے کے لئے کافی نہیں ہے.اگر کافی ہوتی تو خدا تعالیٰ کا صرف خالق ہونا کافی تھا اور وہ ہادی نہ ہوتا.کیونکہ فطرت کا مذہب خالقیت کے ماتحت آتا ہے اور باہر سے مذہب آنے والا ہادی ہونے کے ماتحت ہے.پس ان لوگوں کے دلوں میں تڑپ ضرور ہے اور میرا خیال ہے کہ ایشیائی لوگوں سے بھی زیادہ بعض کے دلوں میں حقیقی مذہب کے لئے تپش ہے اور بوجہ اس کے کہ ان کے دلوں کی زمین صاف ہے ممکن ہے وہ زیادہ جلدی الہام اور رؤیا کے قابل ہو سکے.یہ اثر مجھ پر یورپ کے سفر میں پڑا ہے.میں اس بات کا پہلے بھی قائل تھا مگر اب زیادہ وثوق ہو گیا ہے کیونکہ ان کے دل محبت الہی کی باتیں سن کر پگھل جاتے تھے.اور وہ انسان جو محبت کی لہروں کا وزن کرنے کی اہلیت رکھتا ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ ایشیائیوں کی نسبت ان کے دلوں میں بہت زیادہ اور جلدی محبت کی لہریں پیدا ہو جاتی ہیں.اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں اگر ان کی صحیح تربیت کی جائے تو آج نہیں تو کل ضرور اسلام کے سچے عاشق بن جائیں گے.جب ان کی روحانیت پرورش پائے گی تو سچاند ہب قبول کر لیں گے.اُس وقت ان کی یہ حالت ہو جائے گی کہ کہیں گے ہم بے کس و بے بس ہیں.خدا ہی ہمارا ہاتھ پکڑ کر بتائے کہ ہمیں کیا کرنا ہے.اُس وقت وہ ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو جائیں گے.خواہ وہ

Page 298

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 292 جلد اول بات کھانے پینے کے متعلق ہو یا تمدن کے متعلق، عبادت کے متعلق ہو یا رسوم کے متعلق.کیونکہ ان کی حالت اسی طرح ہوگی جس طرح مریض کی ڈاکٹر کے مقابلہ میں ہوتی ہے.مریض ڈاکٹر کی بہت سی باتوں کی حکمت نہیں سمجھ سکتا مگر جو بات ڈاکٹر کہتا ہے اسے مانتا ہے.اسی طرح اہل یورپ مبلغین اسلام کے مقابلہ میں کریں گے.اور یہی چیز مذہب ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو اس طرح ڈال دے کہ جو بھی تعلیم اس کی طرف سے ہوگی اس پر عمل کروں گا خواہ بظاہر اس میں نقصان ہی نظر آئے خواہ رسوم اور عادات کے خلاف ہی ہو.یہی مذہب اور فطرت میں فرق ہے.وہاں ہر قدم عقل کے ماتحت رکھا جاتا ہے لیکن مذہب میں اطاعت کے ماتحت کام ہوتا ہے.وہاں انانیت سے قدم اٹھایا جاتا ہے اور یہاں فنائیت سے.پہلے انسان میں انانیت آتی ہے جبکہ وہ عقل سے کام لیتا ہے اور مذہب کا سچا ہونا معلوم کرتا ہے اور جب وہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے ایک ایسی زبردست طاقت ہے جو مجھے چلا سکتی ہے تو وہاں اس کی انانیت ختم ہو جاتی ہے.اس وقت وہ یہ کہہ دیتا ہے جہاں چاہو لے چلو اب مجھے کوئی عذر نہیں ہے کیونکہ اب میری میں نہیں رہی تو ہی تو ہو گیا ہے.یہاں سے مذہب شروع ہوتا ہے.فطرت راہنمائی کر کے مذہب تک پہنچا دیتی ہے.آگے مذہب خدا تعالیٰ تک لے جاتا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا احساس تو فطرت پیدا کرتی ہے آگے جسے وصال کہتے ہیں وہ مذہب سے حاصل ہوتا ہے.پس میں یہ مانتا ہوں کہ فطرتی احساس تو ایشیا والوں سے بھی یورپ والوں میں زیادہ ہے مگر مجھے ماسٹر صاحب سے اس بات میں اختلاف ہے کہ اسی فطرتی احساس کا نام مذہب ہے.ہاں یہ ضرورت ہے کہ ہم اس احساس کا جواب ان کے سامنے رکھیں.جس طرح ایک پیاسے کو جب پانی ملے تو اس کی پیاس بجھ جاتی ہے اسی طرح ان لوگوں کو جب حقیقی مذہب معلوم ہو گا تو ان کی پیاس بھی بجھ جائے گی اور وہ حقیقتاً مسلمان ہو جائیں گے.بعض اوقات مذہب کے معنی ظاہری رسوم کے لئے جاتے ہیں اس لحاظ سے جس طرح ہم غیر احمدیوں کو مسلمان کہتے ہیں اسی طرح ان لوگوں کو بھی مذہبی

Page 299

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 293 جلد اول آدمی کہہ سکتے ہیں کیونکہ وہ مذہب کی تلاش میں ہیں.یا جس طرح ہندوؤں ، عیسائیوں اور آریوں وغیرہ میں سے جو شخص اپنے مذہب پر پختہ ہوا سے مذہبی آدمی کہا جاتا ہے اسی طرح وہ شخص جو فطرتی مذہب رکھتا ہے اسے بھی مذہبی آدمی کہہ سکتے ہیں لیکن اس خیال سے کہ کسی کو یہ دھوکا نہ لگے کہ یہ سچا مذ ہب ہے.اور چونکہ یہ نئی چیز ہے اس لئے امکان تھا کہ کسی کو یہ دھوکا لگے کہ ممکن ہے حقیقی مذہب کا اس میں حصہ ہو اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس پر روشنی ڈالوں کہ بے شک یہ مذہب کے مشابہ ہے مگر مذہب ایک ہی ہے جو الہام کے ذریعہ آیا ہے اور وہ اسلام ہے.باقی کسی کا نام رسماً یا مجاز امذ ہب رکھ لو تو اور (الفضل 26 مارچ 1926ء) بات ہے.“ 1 بخاری كتاب الجهاد باب التحريض على القتال (الخ) صفحہ 469 حدیث نمبر 2834 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية

Page 300

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 294 جلد اول دمشق میں تبلیغ احمدیت کی اہمیت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ان کے دمشق سے واپس تشریف لانے پر طلباء مدرسہ احمدیہ نے 14 مئی 1926ء کو دعوت چائے دی.اس موقع پر جو ایڈریس دیا اس کے جواب میں اول انہوں نے مختصر تقریر کی.پھر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد دمشق میں تبلیغ احمدیت اور مبلغین کے کام پر ریویو فر ماتے ہوئے حسب ذیل تقریر فرمائی:.اس قسم کے ایڈریس اور دعوتیں جیسی کہ آج کی دعوت تھی دو غرضوں سے دی جاتی ہیں.ایک غرض تو ان کے اندر یہ ہوتی ہے کہ کسی قومی خدمت کرنے والے کی خدمت کے ابتدا یا انتہا یا درمیان میں اس کے کسی خاص فعل کے متعلق ملک یا جماعت یا قوم کی طرف سے اظہار شکریہ کیا جائے تا کہ دوسرے لوگوں کے اندر اس طرح کام کرنے کے جذبات اور شوق پیدا ہو اور جس نے کوئی خدمت کی ہے اس کے قلب میں یہ خوشی پیدا ہو کہ اس کی خدمات کو قبولیت کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور اس کے افعال تحسین کی نظر سے خالی نہیں رہے.دوسری غرض جو سیاسی ممالک ہوتے ہیں ان میں یہ ہوتی ہے کہ ایسے موقع پر کسی ایسے شخص سے جو ملک یا قوم کی باگ اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے اس کام کے متعلق بعض آراء خودسٹنا یا دنیا کو سنوانا چاہتے ہیں.ان کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ اظہار عقیدت کریں.یہ بھی ہوتی ہے مگر اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کسی خاص واقعہ کے متعلق خاص شخص کی رائے معلوم کی کی جائے.سیاسی ممالک میں یہی غرض اہم سمجھی جاتی ہے اور جو آزاد حکومتیں ہیں ان میں موقع پیدا کیا جاتا ہے کہ کسی خاص بات کا ذکر کیا جائے.

Page 301

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 295 جلد اول میں اس تقریب سے آج زیادہ تر اسی قسم کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہوں.میں سمجھتا ہوں اظہار شکریہ جو کسی مبلغ کی واپسی پر جماعت میں پیدا ہوتا ہے یہ طبعی بات ہے اور یہ وہ پیمانہ ہے جس سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے قلوب میں تبلیغ کے متعلق کیا جذبات موجزن ہیں.بلکہ میں سمجھتا ہوں وہ بطور مقیاس کے ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اندر تبلیغ کے متعلق جوش بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے یا اپنی جگہ پر قائم ہے.پس طلباء مدرسہ احمدیہ نے شاہ صاحب کا جو شکریہ ادا کیا ہے یہ طبعی بات ہے اور اس کا جو شاہ صاحب نے جواب دیا ہے وہ بھی طبعی ہے.انسان نے خواہ کوئی کام کیا ہو یا نہ کیا ہو اس کی طرف سے ایک ہی جواب ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عجز کا اعتراف کرے اور اپنی کوتاہیوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تعریف کرنے والوں کا شکر یہ ادا کرے.بسا اوقات یہ تکلف سے ہوتا ہے اور بسا اوقات جذبات قلبی سے اس نے کام کیا ہوتا ہے اور مفید کام کیا ہوتا ہے مگر خیال کرتا ہے کہ تہذیب اور تمدن، اخلاق اور رسوم کے خلاف ہے کہ اس کا اعتراف وہ خود کرے.اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر اپنے کام کا اظہار میں خود کروں گا تو لوگ اس کا اظہار چھوڑ دیں گے لیکن اگر میں اظہار نہیں کروں گا تو دوسروں کے ذکر کرنے پر قند مکرر کا مزا آئے گا.میں اس طبعی جواب سے جو میں سمجھتا ہوں شاہ صاحب نے مومنانہ حیثیت سے قلبی اثرات کے ماتحت دیا ہے اس سفر کے حالات پر ریویو کرنے کا فائدہ اٹھاتا ہوں.دمشق کے متعلق حضرت مسیح کی ایسی پیشگوئیاں موجود ہیں اور خدا تعالیٰ نے اپنے ابتدائی کلام میں ایسے امور بیان فرمائے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ دمشق آخری زمانہ میں ایک خاص کام سر انجام دے گا.ان کاموں میں سے بعض کا وقت تو آ گیا ہے اور بعض کا آنے والا ہے.اس وجہ سے دمشق کی طرف جس شوق سے ہماری نگاہ اٹھ سکتی ہے دوسرے اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.ان پیشگوئیوں میں سے بعض کو پورا کرنے اور بعض کے پورا کرانے کی تحریک کرنے کی غرض سے جب میں سفر یورپ پر گیا

Page 302

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 296 جلد اول تو وہاں بھی گیا.اور انہی پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے میں نے شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کو وہاں بھیجا.ان کے جانے کے بعد جو دمشق میں تغیرات ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ دمشق کے متعلق جو کچھ میں نے سمجھا وہ صحیح تھا کیونکہ خدا تعالٰی کے فعل نے اس کی تصدیق کر دی.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک قوم جس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب آئے وہ حق رکھتی ہے کہ خدا پر اعتراض کرے.اگر اس کے پاس عذاب سے پہلے کوئی مبشر اور منذر نہ آیا ہو.اس سے بے شک یہ استدلال ہوتا ہے کہ نبی کے آنے کے بغیر عذاب نہیں آ سکتا.لیکن اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کسی قوم کے پاس مبشر پہنچ جائیں اور عذاب نازل نہ ہو تو معلوم ہوا خدا تعالیٰ کے نزدیک ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ اس قوم کو مخاطب کیا جائے اور ابھی وہ زمانہ نہیں آیا کہ اسے ہدایت قبول کرنے کی دعوت دی جائے.دنیا کے تمام علاقے ایسے نہیں ہوتے کہ ایک ہی وقت میں سب کو مخاطب کیا جائے.دنیا کے کئی حصے ایسے ہیں جہاں رسول کریم ﷺ کی بعثت کے تیرہ سو سال بعد نام پہنچا.پس اگر کسی قوم میں مبشر پہنچیں مگر اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا فعل ظاہر نہ ہو تو معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ قوم ابھی انداز اور تبشیر کی مخاطب نہیں سمجھی گئی.عام عذاب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے بعد دنیا میں رونما ہوئے وہ اس ملک میں بھی آسکتے ہیں جہاں آپ کا نام نہیں پہنچا.مگر اس کے علاوہ خاص عذاب ہوتے ہیں.دیکھو اگر جنگ کا اثر ساری دنیا پر پڑا تو ہندوستان بھی اس سے محفوظ نہ رہا.اگر زلازل ساری دنیا پر آئے تو ہندوستان میں بھی آئے.اگر انفلوئنزا ساری دنیا میں پھیلا تو ہندوستان میں بھی پھیلا.مگر باوجود اس کے ہندوستان پر علیحدہ عذاب بھی آئے کیونکہ دنیا کے علاوہ یہ سب سے پہلے مخاطب قوم سمجھی گئی.شاہ صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب کے جانے کے بعد دمشق پر جو عذاب آیا وہ بتاتا ہے کہ ہم نے جو دمشق کے متعلق سمجھا تھا کہ اس کے لئے انذار و تبشیر کا وقت آ گیا ہے وہ درست تھا.ادھر میں وہاں گیا پھر یہ مبلغ بھیجے گئے اس کے بعد وہاں ایسا

Page 303

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 297 جلد اول عذاب آیا کہ دشمن بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی.یہ اعتراف خاص اہمیت رکھتا ہے جس طرح زلزلوں کے متعلق یہ اعتراف اہمیت رکھتا ہے کہ جتنے اور جیسے خطرناک زلزلے گزشتہ میں سال میں آئے ویسے پہلے اتنی مدت میں کبھی نہیں آئے.دمشق پر جس قسم کا عذاب آیا اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس قسم کے حالات کے ماتحت کسی جگہ بھی کبھی ایسا عذاب نہیں آیا کہ ایک ایسا شہر ہو جسے حفاظت کرنے والے بھی مقدس سمجھتے ہوں اور اس پر حملے کرنے والے بھی مقدس قرار دیتے ہوں مگر باوجود اس کے اس شہر کو اس طرح تباہ و برباد کیا جائے.یہ عذاب استثنائی صورت رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک دمشق مخاطب ہو گیا ہے.اور یہ خیال کرنا کہ دمشق کی تبلیغ کا وقت ابھی نہیں آیا خدا تعالیٰ کے فعل کو عبث قرار دینا اور اس کی سخت ہتک کرتا ہے.اس کے بعد میں اس طریق عمل پر ریویو کرتا ہوں جو شاہ صاحب نے وہاں اختیار کیا.میرے خیال میں ان کی راہ میں ایسی مجبوریاں تھیں جن کا انہیں جاتے وقت و ہم بھی نہ تھا.شاہ صاحب وہاں اس امید پر گئے تھے کہ ان کے وہاں دوست ہیں جن کے ساتھ مل کر وہ کوئی عظیم الشان کام کریں گے.مگر جب وہاں پہنچے تو جنگ شروع ہو گئی اور ان کی امنگیں پوری نہ ہوسکیں.عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ اگر دو آدمی آپس میں لڑیں تو لوگ دکانیں بند کر کے اور پیشہ ور اپنا کام چھوڑ کر لڑائی کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور پھر کئی دن تک وہ بات لوگوں کی زبان پر جاری رہتی ہے.اور یہ طبعی بات ہے کہ اردگرد جو بات ہو اس کا نقش انسان کے دماغ میں قائم رہتا ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ اس کے متعلق مختلف باتیں سنیں.اس کی روایات پر اطلاع پائیں.پس جب دو آدمیوں کی لڑائی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے تو جہاں تمام آبادی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور مقابلہ گورنمنٹ سے ہو، بہت سے افراد اپنی جائیدادوں اور وطنوں کو چھوڑ کر اس خیال سے نکل کھڑے ہوں کہ ہم جنگل کے درندوں سے گزارہ کر لیں گے لیکن اس حکومت کے ماتحت نہیں رہیں گے اس قوم کو تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے.

Page 304

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 298 جلد اول میں ان دوستوں کے خیال پر تعجب کرتا ہوں جو کہتے ہیں شام میں تبلیغ مؤثر نہیں ہوئی.میں کہتا ہوں ان معترضین میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو ایسے مقام پر ان حالات میں رہنا پسند نہ کریں گے اور بیسیوں ایسے ہوں گے جن کے رشتہ دار شور ڈال دیں گے کہ ان کو وہاں کیوں رکھا گیا ہے جہاں دن دہاڑے چھاپے پڑھتے ہیں، کبھی کوئی حصہ شہر کا مورچہ بن جاتا ہے کبھی کوئی.اور گورنمنٹ کی یہ حالت ہے کہ اس نے امن قائم رکھنے کے لئے جو پولیس رکھی ہوئی ہے دشمن حملہ کرتا ہے اور پولیس کی وردیاں تک چھین کر لے جاتا ہے.ایسی حالت کا اندازہ لگاؤ اور پھر دیکھو کہ وہاں رہنا کس قدر مشکل ہے.جہاں کبھی دو تین پے در پے چوریاں ہو جائیں تو لوگوں کے چہروں سے فکر کے آثار نظر آنے لگتے ہیں حالانکہ چوریوں اور اس لڑائی میں بہت بڑا فرق ہے.چور روپیہ چرانے کے لئے آتے ہیں جان لینے کے لئے نہیں آتے.لیکن باغی روپیہ بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جان بھی لیتے ہیں.پھر چور رات کے وقت آتا ہے، اس کے آنے کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے کہ فلاں وقت تک لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں اس کے بعد آئے.پھر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ ایسی جگہ جائے جہاں سے کچھ مل سکے.ان باتوں کی وجہ سے اس کا دائرہ عمل محمد ود ہوتا ہے.مگر باغی کا چونکہ ایک ہی مقصد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرے تا کہ وہ حکومت سے بیزار ہو جائیں اور حکومت کا رعب مٹ جائے لوگ سمجھنے لگ جائیں کہ وہ ان کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتی.ان کے مدنظر میر بریزم (Terrorism) ہوتا ہے.خطرہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.وہ کسی کی جان اس لئے نہیں لیتے کہ ان کا دشمن ہوتا ہے بلکہ وہ بسا اوقات دوست کو بھی مارتے ہیں تا کہ لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بھی پیدا کر سکیں کہ حکومت اس کی حفاظت نہیں کر سکتی.پھر ایسی حکومت کا کیوں ساتھ دیں.ان حالات میں جو مشکلات ہمارے دمشق کے مبلغین کے راستہ میں تھیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ کثیر تعداد ایسے لوگوں کی ہوگی جو ایسے حالات میں ایسی جگہ ٹھہرنے کے لئے بھی تیار نہ ہوں گے چہ جائیکہ کوئی کام.

Page 305

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 299 جلد اول کرے.چنانچہ جنگ کے زمانہ میں جبکہ ہزار ہا جہاز چلتے تھے اور ایک فیصدی سے زیادہ نہ ڈوبتے تھے اس وقت کسی مبلغ کو یورپ بھیجنے کے لئے تیار کیا جاتا تو اس کے رشتہ دار کہہ اٹھتے کہ ایسے خطرہ کے موقع پر کیوں بھیجا جاتا ہے حالانکہ خشکی کی لڑائی کے مقابلہ میں سمندر میں بہت کم خطرہ تھا اور کجا یہ کہ عین جنگ میں کوئی شخص رہے.ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ اس حد تک تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا اور وقت کو خطرات کی وجہ سے ضائع نہیں کیا.پہلی خوبی تو ان کی یہ ہے کہ انہوں نے حالات کے اس قدر خطر ناک ہو جانے پر یہ نہ کہا کہ ہمیں تبلیغ کے لئے بھیجا گیا تھا نہ کہ میدان جنگ میں رہنے کے لئے اس لئے ہمیں واپس بلا لیا جائے.یہی ان کی خوبی دین اور سلسلہ سے محبت کی دلیل ہے.اور کئی ایک ایسے ہوتے جو کہ اٹھتے کہ ہمیں جان کا خطرہ ہے ہمیں واپس بلا لو.مگر اس سے بھی بڑھ کر ان کی خوبی یہ تھی کہ صبح کسی کے گھر ڈاکہ پڑ تا باغی مال و اسباب لوٹ کر اور اکثر اوقات قتل کر کے چلے جاتے اور شام کو ہمارے مبلغ اس گھر کے لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے ان کے ہاں پہنچ جاتے.مجھے ان کی اس جرات کے متعلق کوئی لفظ تو نہیں ملتا مگر عام لوگ اسے ڈھٹائی بلکہ بے حیائی کہیں گے کہ عجیب لوگ ہیں صبح کو اس گھر پر گولے برس رہے تھے، لوٹ مار ہو رہی تھی اور شام کو یہ آ کر کہتے ہیں ہماری تبلیغ سن لو.ایسے لوگوں کو تبلیغ کرنے کا اندازہ اس مثال سے ہو سکتا ہے کہ کسی کے ہاں کوئی مر گیا ہو، گھر والے اس کی کو دفن کرنے کے لئے لے جانے لگے ہوں، وہ اس کا جنازہ اٹھانے کو ہی ہوں کہ ایک مبلغ وہاں پہنچ جائے اور ان کا ہاتھ پکڑ لے کہ میری باتیں سن لو.حضرت مسیح موعود آگئے ہیں ان کو قبول کرو.ایسی حالت میں ان لوگوں کے احساسات کا اندازہ کر لوجن سے یہ کہا جائے گا.تو ایسے موقع پر تبلیغ کرنا اور بھی جرات اور دلیری کا کام ہے.اس کے لئے ہمارے دونوں مبلغ قابل تعریف ہیں اور انہوں نے وہ کام کیا ہے جو ایسے حالات میں اور بہت سے لوگ نہ کر سکتے.

Page 306

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 300 جلد اول پھر میں سمجھتا ہوں ایسے موقع پر اپنے کام میں توازن قائم رکھنا بھی بہت مشکل کام ہے.حکومت چاہتی ہے کہ اس سے ہمدردی کی جائے ، اس کی حمایت کی جائے اور ثوار چاہتے ہیں ان کی حمایت کی جائے.اور جب ایک وقت میں ایک فریق کی حکومت ہو جاتی ہے اور دوسرے وقت میں دوسرے کی تو ایسی حالت میں طرفین کو راضی رکھنا بہت مشکل کام ہے.بسا اوقات ایک فریق کی طرف انسان اس قدر جھک جاتا ہے کہ دوسرے فریق والے ایک گولی سے اس کا کام تمام کر سکتے ہیں.ہمارے مبلغین کا یہ بھی ایک کام اور خدمت ہے کہ انہوں نے فریقین میں توازن قائم رکھا اور ایسا رویہ اختیار کیا کہ نہ گورنمنٹ خلاف ہوئی اور نہ باغی مخالف ہوئے.یہ نفسی جرات اور نفسی بہادری کی علامت ہے اور ساتھ ہی عقلمندی کی بھی.مگر باوجود اس کے میں یہ کہوں گا کہ ہمارے مبلغین سے ایک غلطی بھی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ابتدائی دنوں میں انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا ہونے دیا جو علمی مشاغل رکھتے ہیں.بحث ومباحثہ ان کا مشغلہ بن چکا ہوتا ہے نہ کہ وہ کسی تحقیق حق کے لئے ایسا کرتے ہیں.یہ لوگ مذہب کے راستہ میں سب سے بڑی روک ہوتے ہیں.یہ روحانیت کے کیڑے ہوتے ہیں ان کے طرز عمل کو دیکھ کر بظاہر انسان یہ دھوکا کھا جاتا ہے کہ علمی تحقیق کر رہے ہیں مگر دراصل یہ ان کی عادت ہوتی ہے.اور جس طرح جب لکڑی کو گھن لگ جائے تو اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاتا کہ آرہ کشوں کی طرح کاٹ رہا ہے کیونکہ گھن کی غرض تو اس لکڑی کو کھا جانا ہوتی ہے.اسی طرح یہ لوگ بھی جو کام کر رہے ہوتے ہیں اس سے ان کی غرض حق کا حاصل کرنا نہیں ہوتی بلکہ اپنے شغل کو پورا کرنا ہوتا ہے.میرے نزدیک ہمارے مبلغوں سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے ایسے لوگوں کو اپنے گرد جمع ہونے دیا جن کے مشاغل یہی تھے کہ علمی بحثیں کرتے رہیں.مذہب بدلنا نہ ان کی غرض تھی اور نہ اس کے لئے تیار ہو سکتے ہیں اور اگر بدلیں تو اس لئے کہ دیکھیں دنیا کیا کہتی ہے.بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ ایک چیز کو خواہ مخواہ قبول کر لیتی ہیں تا کہ دنیا دشمن ہو جائے.وہ کسی بات کو سنجیدگی سے قبول نہیں کرتے بلکہ اس لئے قبول

Page 307

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 301 جلد اول کرتے ہیں کہ ان کو لڑائی میں مزہ آتا ہے.اب اگر لڑائی پیدا نہ ہو تو وہ قبول کر دہ بات کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلے جائیں گے.پھر بعض دفعہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ فلاں ނ جماعت میں ایسے خاص فوائد حاصل ہو سکیں گے جن کی خاطر اپنے پہلے رویہ کو بدل دینا چاہئے.ایسے لوگ اگر سلسلہ میں داخل بھی ہو جائیں تو قابل اعتبار نہیں ہوتے.ایسے لوگوں کو اردگرد جمع ہونے دینا اور ان میں مشغول ہو جانا غلطی تھی جس سے کام کو نقصان پہنچا.جو لوگ فائدہ اٹھا سکتے اور پھر فائدہ پہنچا سکتے ہیں وہ پیشہ ور ہیں ، تاجر ہیں ، مزدور ہیں.یعنی وہ لوگ جن کو روٹی کمانے سے اتنی فرصت نہیں ہو سکتی کہ علمی مشاغل میں پڑے رہیں وہ چونکہ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ اچھا کھا ئیں اور اچھا پہنیں اس لئے زیادہ وقت وہ کمانے میں خرچ کرتے ہیں.ان کی یہ حالت نہیں ہوتی کہ کھانا کہیں.کھالیں اور علمی باتوں میں پڑے رہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ہمارے مبلغ ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تو کامیابی ہوتی یا نہ ہوتی.ممکن ہے ان کو تبلیغ کا جو موقع ملا وہ اسی لئے ملا کہ ان کے ارد گرد جمگھٹا ہوتا رہا.مگر بہر حال اس طبقہ کی طرف ابتدا میں توجہ نہیں ہوئی.اس غلطی کا یہ نتیجہ ضرور ہوا کہ جن کو تبلیغ کی گئی ان میں سے بعض کے قلوب میں تبلیغ نے گہرا اثر نہ کیا اور جن پر اثر کیا وہ وہی لوگ ہیں جو جدھر کی ہوا ہو ادھر ہی جھک جاتے ہیں.بہر حال مبلغین نے جو کچھ ہو سکتا تھا کیا اور اب مولوی جلال الدین صاحب جس خطرہ میں کام کر رہے ہیں اس کی وجہ سے جماعت کو ان کی قدر کرنی چاہئے.کامیابی کے متعلق یہ غلط اندازہ ہے کہ وہاں کتنی جماعت پیدا ہوئی ہے.یا یہ کہ وہاں سے کتنا چندہ آتا ہے.میں بھی اس طرح اندازہ لگایا کرتا ہوں.مگر ہر بات کا موقع ہوتا ہے.مختلف حالات کے ما تحت مختلف طریق اندازہ کے ہوتے ہیں.اب تو معلوم ہوتا ہے کہ خدائی فعل اس رنگ میں ظہور پذیر ہو رہا ہے کہ ہمارے مبلغ کا وہاں ٹھہرنا ہی اس کی کامیابی ہے اور کچھ کام کرنا تو بڑی بات ہے.میرے نزدیک علاوہ اس اخلاص کے اظہار کے جو شام کے مبلغین نے کیا اور

Page 308

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 302 جلد اول عین گولہ باری کے نیچے تبلیغ کی.اس پر ہمارے دشمن بھی حیران ہیں.سفر میں اس بارہ میں بعض غیر احمدیوں سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے ہمارے مبلغین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کہا آپ ہی کے مبلغ اصل کام کرنے والے لوگ ہیں جو کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کرتے.مجھے تعجب ہوگا اگر غیر احمدی تو ہمارے مبلغین کی قدر کریں مگر احمد ی نہ کریں.میرے نزدیک شاہ صاحب نے اس سفر میں ایک بڑا کام کیا ہے گو وہ ہوا اتفاقی ہے.وہ عراق کے متعلق ہے.سیاستا یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو دور تک اثر رکھتا ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے تاریخ سے انس دیا ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ کوئی مورخ کون سے واقعات چنے گا.اور میں سمجھتا ہوں اگر کوئی مؤرخ ہمارے سلسلہ کے متعلق کتاب لکھے گا تو وہ ایسے واقعات تو چھوڑ دے گا جن کو اس وقت ہم لوگ اہم اور بڑے سمجھتے ہیں مگر اس واقعہ کو لے لے گا.بعض واقعات اس قسم کے ہوتے ہیں جو اپنے وقت میں بڑا شور برپای کرتے اور تہلکہ مچادیتے ہیں لیکن اگلی نسل کو ان کا خیال بھی نہیں آتا.یہی دیکھو اس وقت انگلستان میں جو سٹرائیک ہوئی ہے اس کی ایسی حالت ہے کہ ممکن ہے حکومت تباہ ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سٹرائیک ٹوٹ جائے.لیکن خواہ کچھ ہو ایک مورخ اس کا ذکر نہیں کرے گا لیکن لائڈ جارج کی تقریروں کا ضرور کرے گا.ان کے سفروں کا کرے گا.ہاں اگر اس سٹرائیک کا یہ نتیجہ نکل آئے کہ ملک میں بغاوت پھیل جائے تب اس کو بھی لے لے گا.تو کئی کام ایسے ہوتے ہیں جو اپنے وقت میں بڑے خطرناک ہوتے ہیں مگر مؤرخ کی میں کچھ حقیقت نہیں رکھتے.کیونکہ وہ دنیا میں کوئی تغیر نہیں پیدا کرتے یا ان سے اس قوم کا کیریکٹر نہیں بنتا.عراق میں تبلیغ احمدیت کا رکنا ایک عجیب بات تھی.کیونکہ ہماری ہی ایک ایسی جماعت تھی جس نے شریفی خاندان کی جائز امنگوں کی تائید کی مگر باوجود اس کے جب اس خاندان کا آدمی عراق میں حکمران مقرر ہوا تو باقی سب لوگوں ، آریوں اور عیسائیوں کو اپنے اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت تھی مگر ہمیں نہیں تھی.یہ بات دو وجہ سے

Page 309

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 303 جلد اول خالی نہیں تھی.اول یہ کہ جو خدمات ہم نے کی تھیں وہ ان لوگوں تک نہیں پہنچی تھیں.یا یہ کہ وہ جانتے تھے کہ ہم نے ان سے ہمدردی اور وفاداری کی ہے لیکن حالات اس قدر ہمارے خلاف تھے کہ وہ ہمارے بارے میں کچھ نہ کر سکتے.یہ دونوں صورتیں سیاسی نقطۂ نگاہ سے ہمارے لئے خطر ناک تھیں.کوئی قوم دنیا میں بغیر دوستوں کے زندہ نہیں رہ سکتی.رسول کریم ﷺ نے بھی مدینہ میں یہودیوں سے صلح کی.پس ہمارے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ جب ہم بعض قوموں سے حق کی خاطر لڑائی کرتے ہیں تو اگر بعض کو اس حق کے لئے دوست بنا سکتے ہیں تو ان کو دوست بنا ئیں.اس سے زیادہ مجرم اور کوئی قوم نہیں ہو سکتی جو اپنے لئے دشمن تو بناتی ہے مگر دوست نہیں بناتی.کیونکہ یہ سیاسی خود کشی ہوتی ہے.ہم نے شریفی خاندان کی حمایت کے لئے اپنے ملک کو دشمن بنالیا مگر اس خاندان کو بھی دوست نہ بنا سکے.لیکن اگر اس کو ہماری دوستی اور حمایت کا علم تھا اور پھر وہ مدد نہ کر سکتا تھا تو معلوم ہوا خطرناک زہر ہمارے خلاف پھیلا ہوا ہے جس کا ازالہ ضروری ہے.شاہ صاحب وہاں اتفاقی طور پر گئے.شروع میں ان کی اتنی غرض معلوم ہوتی ہے کہ وہاں جا کر تبلیغ کریں.ممکن ہے ان کے مدنظر اور مفاد بھی ہوں اور میں سمجھتا ہوں اور تھے مگر انہوں نے ذکر نہیں کیا.غرض وہ وہاں گئے.وہاں کے حالات ایسے ہیں کہ گو وہاں کی حکومت انگریزوں کے ماتحت ہے مگر باوجود اس کے کہ ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ کوشش کر چکے تھے مگر پھر بھی اجازت نہ حاصل ہوئی تھی.وہاں سے ہمارے کئی آدمی اس لئے نکالے جاچکے تھے کہ وہ تبلیغ کرتے تھے.اپنے گھر میں جلسہ کرنا بھی منع تھا.ان حالات میں کوشش کر کے کلی طور پر روک اٹھا دینا بلکہ وہاں ایسے خیالات پیدا ہو جانا جو ان کے دل میں ہمدردی اور محبت ثابت کرتے ہیں بہت بڑا کام ہے.شاہ صاحب نے بتایا ہے کہ وہاں ایک نیا کالج بنایا گیا ہے.اس کے متعلق انہیں کہا گیا کہ آپ پروفیسر بھیجیں جو اس کالج میں دینی تعلیم دیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ہماری وقعت پیدا ہو گئی ہے.اس سے بڑھ کر

Page 310

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 304 جلد اول اندازہ ایک تار سے ہو سکتا ہے.پچھلے دنوں بغداد میں جب طوفان آیا اور بہت سا نقصان ہوا تو ہم نے ہمدردی کا تار دیا تھا.اس کا جو جواب آیا اس میں میرے متعلق لکھا تھا کہ ہم ان کی خیریت کی خواہش کرتے ہیں.یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں.ایک تو یہ کہ اس سے سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے.مسلمانوں کے متعلق مخالفین نے کہا کہ ابتدا میں یہ لوگ نادان اور جاہل تھے مگر انہوں نے ایک قوم بنائی اور پھر اس میں سے عقلمند پیدا ہو گئے لیکن بعد کے لوگوں نے ایسے واقعات نکالے جن سے عقلمندی اور دور اندیشی کا ثبوت ملتا ہے.اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ حمد کے بہت بڑے دانا اور عقلمند تھے جنہوں نے ایسے آدمی پیدا کر دئیے جنہوں نے اتنے اتنے عالیشان کام کئے.تو واقعات سے اندازے لگائے جاتے ہیں کہ پہلے لوگوں نے کس رنگ میں کام کئے.ایک حکومت کا یہ حکم کہ احمدیوں کو تبلیغ کی اجازت نہیں ہے حتی کہ اگر کوئی ان کے خلاف بھی لکھے تو بھی اس کو جواب دینے کی اجازت نہیں ہے.جب اس کے متعلق تاریخ نویس دیکھے گا کہ اس بارے میں احمد یہ جماعت نے اپنی کوشش کو ترک نہیں کیا اور اُس وقت تک بس نہیں کی جب تک بدلوا نہیں لیا تو معلوم ہوگا کہ یہ قوم جاہلوں کی قوم نہ تھی بلکہ اپنے مفاد کے لئے تدابیر کرنا جانتی تھی اور حکومتوں کی رائے بدلوا سکتی تھی.مؤرخ یہ نہیں دیکھا کرتا کہ کوئی قوم کامیاب ہوگئی ہے اس لئے ضرور وہ عظمند قوم ہے بلکہ وہ کہتا ہے کامیابی بعض وقتی حالات اور اثرات سے بھی ہو جایا کرتی ہے.گو یہ غلط ہے مگر تاریخی پہلو سے یہی فیصلہ کیا جاتا ہے.اس لئے وہ قوم کے افعال اور اعمال کو دیکھتا ہے کہ ان کے ذریعہ جیتی یا اتفاقی طور پر.اگر اسے واقعات کی رو سے معلوم ہو جائے کہ وہ قوم سیاست سمجھتی تھی، صحیح تدابیر اختیار کر سکتی تھی تو پھر اسے یہ مانا پڑتا ہے کہ یہ قوم عقل اور تدبیر سے بڑھی ہے اور اس جماعت کے بنانے والوں کو قوم کے خیر خواہ اور ہمدرد کہتا ہے.تو سیاسی لحاظ سے یہ بہت بڑا کام ہے خصوصاً اس لحاظ سے کہ گورنمنٹ آف انڈیا کی

Page 311

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 305 جلد اول معرفت ہم نے اس بارے میں کوشش کی اور اس نے لکھا بھی کہ احمدیوں سے یہ پابندی دور ہونی چاہئے مگر اس کا کچھ اثر نہ ہوا.اور عجیب بات یہ ہے کہ رکاوٹ پیدا کرنے والا افسر انگریز تھا جس کے دل میں ہندوستانیوں نے یہ بٹھا رکھا تھا کہ ادھر احمد یوں کو تبلیغ کی اجازت ہوئی ادھر سارے ملک میں بغاوت ہو جائے گی.پس شاہ صاحب نے یہ بہت بڑی خدمت کی ہے گو اتفاق سے ہوئی ہے مگر یہ بھی یونہی حاصل نہیں ہو جاتا.یہ اسی اخلاص کا نتیجہ تھا کہ وہ خطرات میں رہے اور محض خدا کے دین کی خدمت کے لئے رہے.اس پر خدا تعالیٰ نے نہ چاہا کہ وہ کسی کامیابی سے محروم رہیں.اس لئے رستہ میں اس نے سامان پیدا کر دیئے.اور میں سمجھتا ہوں یہ کام اس رنگ کا ہے کہ اگر ہم اسے آئندہ کے لئے مثال قرار دیں اور ہوشیاری سے باتوں کو حل کریں تو کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ سبق ہے کہ عمدہ تدبیروں سے کام لیا جائے تو بہت سی روکوں کو دور کر سکتے ہیں.اس ریویو کے بعد میں اس تقریر کو ختم کرنے سے پہلے طلباء مدرسہ احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں اور وہ یہ کہ میں ان کے شکریہ کے جذبات کو قدر کی نظر سے دیکھتا ہوں.مگر نصیحت کرتا ہوں کہ کوئی قوم اُس وقت تک کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس کے افراد اپنے اخلاق خاص طرز پر نہ ڈھالیں اور وہ ہمدردی اور محبت کی تعلیم جو اسلام نے دی ہے اور کسی مذہب نے نہیں دی.ایک پنڈت اپنے پیروؤں کو کیا سکھاتا ہے؟ وہ صرف پھیرے دینا جانتا ہے.مگر اسلام نے جو تعلیم دی ہے وہ ملکی ، قومی، تمدنی فوائد اپنے اندر رکھتی ہے اور ان کا بیان کرنے والا مولوی ہے.اسی طرح عیسائی پادری کیا بیان کرتا ہے؟ یہی کہ مسیح گنہگاروں کو بچالے گا.کوئی ایسی تعلیم پیش نہیں کرتا جو روزانہ زندگی میں کام آ سکتی ہو.اس وجہ سے جو اثر ایک مولوی کی باتوں کا ہونا چاہئے اس کا ہزارواں حصہ بھی پادریوں کی باتوں کا نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ مولوی جو کچھ بیان کرتا ہے اس کا اثر روزانہ زندگی پر پڑتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ مولوی کی بہت زیادہ قدر ہو اور پادری کی نہ ہو.مگر اس کے الٹ نظر آتا ہے.یورپ مذہبی لحاظ سے دہر یہ ہو گیا ہے.مگر پادری جہاں بھی چلا

Page 312

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 306 جلد اول جائے لوگ اس کی باتوں پر کان دھریں گے.اسی سٹرائیک میں جو ولایت کے مزدوروں نے کر رکھی ہے آرچ بشپ آف کنٹر بری ( Archbishop of Canterbury) نے ایک اعلان سرکاری اخبار میں شائع ہونے کے لئے بھیجا جو نہ شائع کیا گیا.اس پر پارلیمنٹ میں سوال کیا گیا کہ کیوں اعلان شائع نہیں ہوا.آخر گورنمنٹ کو مانا پڑا کہ غلطی ہوئی ہے اور اب جلد شائع کر دیا جائے گا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ پادریوں کی کس قدر قدر کی جاتی ہے.بے شک لوگ ان کی مذہبی باتوں پر بنتے بھی ہیں مگر ان کی قدر بھی کرتے ہیں کہ ملک کو ترقی دینے اور اٹھانے میں حصہ لیتے ہیں.ابھی ہم جب ولایت مذہبی کا نفرنس کے موقع پر گئے تو بڑے بڑے لوگ پادریوں پر ہنتے تھے کہ وہ اس وجہ سے کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے کہ اس طرح لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ دنیا میں اور مذاہب بھی ہیں.مگر کیا ہم اندھے ہیں کہ یہ بات پہلے نہیں جانتے.اس طرح پادریوں پر ہنستے بھی ہیں.ابھی ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یورپ کے 70 فیصدی لوگ عیسائیت کے خلاف ہیں.مگر باوجود اس کے پادریوں کی قدر کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ تمدنی زندگی کی اصلاح کر رہے ہیں.اور اگر ان کو نکال دیا گیا تو حکومت کا سسٹم ٹوٹ جائے گا.وہ بات جو پادریوں کی قدر کراتی ہے یہ ہے کہ پادری روزانہ گھر سے نکلتا ہے.ایک علاقہ کا چکر لگاتا ہے.غریبوں کے گھروں میں جاتا ہے.ان کی حالت پوچھتا ہے.بیماروں کی بیمار پرسی کرتا ہے.کوئی بیوہ ہو، جسے خرچ کی تنگی ہوا سے لوگوں سے چندہ کر کے خرچ پہنچاتا ہے.مالدار لوگوں کو غرباء کی مدد اور ہمدردی کی طرف متوجہ کرتا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق کیا کوئی قوم برداشت کر سکتی ہے کہ ان کو نکال دیا جائے.وہ ان کی قدر کرتی ہے اور انہیں عزت کی نظر سے دیکھتی ہے.آپ لوگ بھی اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو اس طرح لوگوں کی ہمدردی حاصل کریں.محض مذہبی مباحثے کچھ حقیقت نہیں رکھتے.بے شک آج لوگ لڑائی جھگڑے پسند کرتے ہیں اس لئے مباحثوں کی قدر کرتے ہیں مگر کل ایسا نہیں ہوگا.آجکل پادری آدھ گھنٹہ لیکچر دے آتا ہے جو پانچی سویا آٹھ سو خو د لیتا ہے تو

Page 313

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 307 جلد اول کوئی اسے یہ نہیں کہتا کہ حرام خور ہے.لیکن ایک مولوی جو پانچ وقت نماز پڑھائے، مردے نہلائے اور اور کام جو کمین کرتے ہیں کرے تو بھی یہی کہتے ہیں حرام خور ہے کچھ نہیں کرتا.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ پادریوں کے کام کو تمدنی طور پر مفید سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کو کوئی نکما نہیں کہتا لیکن مولوی چونکہ تمدنی لحاظ سے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتے اس لئے ان کو نکما سمجھا جاتا ہے.ہماری جماعت کے مبلغین اور طالب علموں کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں سے تعلقات پیدا کریں.ان سے ہمدردی اور محبت پیدا کر کے انہیں اپنی طرف مائل کریں.اس کے بغیر کوئی مقامی مبلغ کامیاب نہیں ہو سکتا.سیاسی کام تو وہ کوئی کرتا نہیں اس لئے لوگ اس سے ایسے کام کی توقع رکھتے ہیں جو باتوں تک محدود نہ ہو بلکہ عملی زندگی پر اس کا اثر ہو.اس لئے ہمارے طالب علموں اور مبلغوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے اندر انکسار، بجز ، محبت، غرباء کی مدد کرنے کی قابلیت پیدا کریں.دوسرے لوگوں کو محتاج لوگوں کی امداد کی تحریک کر سکیں.یہ ایسے کام ہیں جن کے ذریعہ سلسلہ کو حقیقی فائدہ پہنچ سکتا ہے.اور یہ باتیں بچپن میں ہی پیدا کی جاسکتی ہیں.عیسائی پادری کی اٹھان ہی ایسی ہوئی ہے کہ وہ کسی کی خدمت کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرے.اس وقت میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا کہہ چکا ہوں اور دعا پر اس تقریر کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کے اخلاص کو قبول فرمائے اور مولوی جلال الدین صاحب کی حفاظت کرے.ان کے اخلاص میں برکت دے اور وہ طلباء جنہوں نے اس وقت اظہار اخلاص کیا ہے ان کو بھی اس برکت سے حصہ دے.“ (الفضل 18 جون 1926ء)

Page 314

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 308 جلد اول طالبات مدرسہ خواتین کے جلسہ دعوت میں تقریر J 14 مئی 1926ء کی شام طالبات مدرسہ خواتین نے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ سید اللہ صاحب مبلغ شام کے اعزاز میں دعوت کی.جس میں حضرت خلیفتہ لمسیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی.ہر ایک شخص جو اپنے ہاتھ سے کوئی پودا لگاتا ہے اسے اس پودے سے قدرتی طور پر انس اور محبت ہوتی ہے.خصوصاً ان پودوں سے جن کے متعلق اسے خیال ہوتا ہے کہ ہمیشہ اس کے لئے ذکر خیر جاری رکھ سکیں گے.جو لوگ درخت بھی اپنے ہاتھ سے لگاتے ہیں وہ انہیں پیارے ہوتے ہیں.حتی کہ جب ان کے درخت بعض حادثات یا دشمنوں کے ذریعہ کالے جاتے ہیں تو وہ روتے ہیں حالانکہ درخت بول نہیں سکتا اور ذکر خیر کو زبان کے ذریعہ جاری نہیں رکھ سکتا.گو درخت سے فائدہ اٹھانے والے کہہ دیا کرتے ہیں کہ جس نے لگایا خدا اس کا بھلا کرے.لیکن ایسے درخت جو علمی درخت ہوتے ہیں جو زبانیں رکھتے اور جن سے ذکر خیر قائم رہتا ہے ان سے دوسرے درختوں کی نسبت بدرجہا زیادہ تعلق ہوتا ہے.اس وجہ سے مجھے مدرسہ خواتین سے خاص طور پر محبت ہے اور میں اس مدرسہ کے لئے تڑپ رکھتا ہوں کہ جس غرض کے لئے جاری کیا گیا ہے وہ پوری ہو.یعنی ایسی استانیاں تیار ہوں جو آئندہ نسلوں کی تربیت کا اعلیٰ نمونہ پیش کر سکیں اور ہمارے مدرسہ کی نکلی ہوئی طالبات باقی تمام کو مات کر دیں.اسی محبت اور تعلق کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں مجھے حق ہے کہ مدرسہ کے متعلق ایسی ہدایات یا نصائح جو مفید ہوسکتی ہوں دوں.

Page 315

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 309 جلد اول مجھے اس بات پر نہایت خوشی ہے کہ طالبات اپنے فرائض کے ساتھ انس اور محبت رکھتی ہیں.اور اس بات کو بجھتی ہیں کہ تعلیم کے ذریعہ ان کی علمی اور روحانی ترقی ہوگی اور وہ جماعت کے لئے مفید بن سکیں گی.لیکن خالی احساس کام ہو جانے کے مساوی نہیں ہو جایا کرتا.کیسی ہی تڑپ ہو، کتنی ہی خواہش ہو جب تک صحیح ذرائع حاصل نہ ہوں اور ان پر عمل نہ کیا جا سکے اُس وقت تک کوئی شخص کامیاب نہیں ہو سکتا.دیکھو اگر کوئی سردی کے موسم میں ساری رات کنویں سے پانی نکالنے کی مشقت برداشت کرے تو اس طرح روٹی نہ پک جائے گی.کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے روٹی پکنے کے لئے جو قانون مقرر کیا ہے اس کی اتباع نہیں کی گئی.میرے نزدیک ہماری غرض تبھی پوری ہو سکتی ہے جب کام ان اصول کے ماتحت کیا جائے جو اس کام کے مفاد کے ساتھ وابستہ کئے گئے ہیں.میں سمجھتا ہوں سب سے اہم بات جس کی ان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کی آواز بلند ہو.اس میں نرمی اور ہچکچاہٹ نہ ہو.دلیری، ارادہ اور قوت پائی جائے.میرے نزدیک ہماری عورتیں کوئی کام کرنے میں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک ان کی آواز میں قوت اور شوکت ایسی نہ ہو جو پختہ ارادہ رکھنے والے اور کام کرنے والے لوگوں کی آواز میں ہوتی ہے.تقریر کی نصف سے زیادہ طاقت آواز میں ہوتی ہے.اگر آواز اس طرز پر نکلے کہ اس میں شبہ اور تر دو پایا جائے اور یہ خیال ہوتے کہ نہ معلوم سننے والے میری بات قبول کریں گے یا نہ کریں گے تو اس کا کچھ اثر نہ ہوگا.ہماری جماعت میں ایک مولوی صاحب ہوتے تھے جو بڑے عالم تھے.مگر اس طریق سے گفتگو کرتے تھے کہ گویا انہیں اپنی بات پر آپ شبہ ہے.جب وہ کسی کے سامنے کوئی دلیل پیش کرتے اور وہ اس پر اعتراض کرتا تو ڈر جاتے.ایک دفعہ یہ واقعہ ہوا کہ انہوں نے ایک شخص سے کہا حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات تمیں آیات سے ثابت ہوتی ہے.اس نے کہا آپ کوئی آیت پیش کریں.اس پر انہوں نے ایک آیت پڑھی.اس شخص نے کہا

Page 316

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 310 جلد اول اس پر تو یہ اعتراض پڑتا ہے.کہنے لگے اچھا اسے جانے دو.اور سنو.پھر دوسری آیت سنائی.اس پر بھی جب اس نے اعتراض کیا تو تیسری سنا دی.حتی کہ ساری آیتیں سنا کر ختم کر دیں.آواز میں رعب ہو تو اس کا خاص اثر ہوتا ہے.پس ضروری ہے کہ خواتین کو اس طرح بولنے کی عادت ہو کہ ان کی آواز میں شوکت اور رعب پایا جائے لیکن باوجود اس کے کہ میری یہ خواہش رہی ہے اور باوجود اس کے کہ میں نے اس کے لئے کوشش بھی کی ہے میں اس میں کامیاب نہ ہو سکا.اب میں یہ کام شاہ صاحب کے سپرد کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ وہ اس بارے میں خیال رکھیں گے.اگر چہ وہ پہلے خیال نہیں رکھتے تھے.مجھے معلوم ہوا ہے کہ بعض طالبات ایسی بھی ہیں جنہوں نے کبھی مدرس کے سوال کا جواب ہی نہیں دیا اور مدرس نے بھی مجبور کر کے ان سے جواب نہیں لیا.خالی تعلیم کوئی چیز نہیں.قرآن کریم نے اس کی مثال گدھے سے دی ہے 1 جب تک وثوق ، امنگ اور عزم نہیں تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.اور اس کے لئے بلند ، پر شوکت، دلیری اور رعب والی آواز ہونی چاہئے.میں امید کرتا ہوں کہ مدرسہ خواتین کے مدرس اس امر کا خیال رکھیں گے اور جرات سے بولنے، فوراً بولنے اور صحیح جواب دینے کی عادت ڈالیں گے.چونکہ میں نقائص کے دور کرنے پر بہت زور دیا کرتا ہوں جسے سختی سمجھا جاتا ہے اس لئے خواتین شاہ صاحب کے آنے پر خوش ہوں گی کہ اب میری سختی جاتی رہے گی.مگر جسے انہوں نے سختی محسوس کیا وہی دراصل ان کے لئے بہترین چیز تھی.بچپن میں ہم نے ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک ہنری بادشاہ ہوا ہے.لڑکپن میں وہ بہت شوخ تھا.ایک گاؤں میں اسے پرورش کے لئے بھیج دیا گیا.وہاں کسی معاملہ میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا تو اس نے اپنے آپ کو ولی عہد سمجھ کر مجسٹریٹ سے گستاخی کی.اس پر مجسٹریٹ نے سزا دے دی.آخر جب بادشاہ مرا اور ہنری خود بادشاہ ہوا تو اس نے مجسٹریٹ کو بلایا.مجسٹریٹ ڈرا کہ نہ معلوم مجھ سے کیا سلوک کرے گا.مگر اس نے بلا کر کہا اس واقعہ کا مجھ پر ایسا اثر ہے کہ میں آپ کو اپنی حکومت میں سب سے بڑا حج بنا تا ہوں.

Page 317

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 311 جلد اول اُس وقت اگر میں قانون کی پابندی کرنا نہ سیکھتا تو آج بادشاہ نہ بن سکتا.تو بعض باتیں تکلیف دہ ہوتی ہیں مگر ان کے نتائج اچھے لکھتے ہیں.خواتین کو اس قسم کی باتوں سے ہمت نہیں ہارنا چاہئے اور تکلیف برداشت کرتے ہوئے علمی ترقی کرنی چاہئے اور استادوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ تمام طالبات میں ایک قسم کی ہم آہنگی ہو.میں امید کرتا ہوں شاہ صاحب اس بات کو مد نظر رکھیں گے.بعض لڑکیاں جو ہوشیار اور ذہین ہوں وہ جلدی ترقی کر جاتی ہیں مگر جب جماعت بنائی جائے تو ضروری ہے کہ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جو کمزور ہوں ان کو بھی ترقی حاصل ہو.اور اس کا طریق یہی ہے کہ ان سے زیادہ سوال کئے جائیں اور ان کا زیادہ خیال رکھا جائے.میرے نزدیک ایک اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر ایک سے سوال کئے جائیں اور ہر ایک کو مجبور کیا جائے کہ جواب دے.مجھے یہ معلوم کر کے حیرت ہوئی کہ میری لڑکی نے کبھی سوال کا جواب نہ دیا تھا.جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے اسے بلا کر سختی سے کہا کہ ضرور جواب دینا چاہئے.شاہ صاحب کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ جو خواتین نہ بولتی ہوں انہیں بلوائیں اور جو پڑ اور جو پڑھائی میں کمزور ہوں ان کی طرف زیادہ توجہ کریں.میں نے عورتوں میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ وہ کمی کو بہت جلدی پورا کر لیتی ہیں اگر ان کی طرف خیال رکھا جائے.پھر ایک اور ضروری بات جس کا خیال رکھنا چاہئے یہ ہے کہ خواتین کو علم کے استعمال کی عادت پڑے.ہمارے لئے صرف نحو ایک ایسا حصہ ہے کہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اب کے کورس میں رکھ دیا ہے.طالبات عموماً کوشش کرتی ہیں کہ غیر زبان بولنے سے پیچھے ہیں.لیکن اگر شاہ صاحب عربی پڑھاتے ہوئے مجبور کریں گے کہ عربی میں جواب دیں تو امید ہے عربی میں جواب دینے لگ جائیں گی.اب ان کی تعلیم اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان سے باتیں کرائی جائیں.میں اس سال خواتین کی پڑھائی کے لئے زیادہ وقت نہیں دے سکا امید ہے کہ شاہ صاحب اس کمی کو پورا کریں گے اور طالبات سے بھی امید

Page 318

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 312 جلد اول ہے کہ وہ کوشش کریں گی.مجھے افسوس کے ساتھ معلوم ہوا کہ طالبات کو انگریزی کی طرف زیادہ توجہ ہے.گو انگریزی کے ماسٹر ( حضرت مولوی شیر علی صاحب) کہتے رہتے ہیں کہ عربی کی طرف زیادہ توجہ ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ انگریزی کی طرف زیادہ ہے.شاہ صاحب کو اس کا بھی خیال رکھنا ہو گا تا کہ دوسرا فریق زیادہ توجہ نہ لے جائے.میرا منشا ہے کہ اب سکول ٹائم زیادہ کر دیا جائے اور سوا گھنٹہ یاڈیڑھ گھنٹہ ہر استاد پڑھایا کرے اور گفتگو کرنے کی طرف زیادہ توجہ دی جائے.اگر خواتین موٹے موٹے فقرے بولنے لگیں تو ان کی توجہ خود بخود بڑھ جائے گی.عربی یا تو قواعد کے ذریعہ آتی ہے یا پھر بولنے سے.قواعد چونکہ مشکل ہیں اس لئے انہیں یاد کرتے ہوئے عام طور پر ہمت ٹوٹ جاتی ہے.اور انگریزی آسانی سے آسکتی ہے اس لئے ادھر زیادہ توجہ کی جاتی ہے.عربی مدرس کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ طالبات کی ہمت نہ ٹوٹے.میں نے خواتین سے عربی کے چھوٹے چھوٹے فقرے بنوائے.مثلاً یہ کہ کاپی کہاں ہے؟ کتاب کہاں ہے؟ کتاب کس نے اٹھائی؟ کی عربی بناؤ.آئندہ گھر کی بول چال، کھانے پینے کے متعلق فقرے اگر استعمال کرائے جائیں تو ان کے حوصلے بڑھ جائیں گے.یا اور کئی طریق زبان سکھانے کے ہوشیار استاد نکال سکتا ہے.سب سے ضروری یہی ہے کہ عربی کی طرف خاص توجہ ہو.یوں تو سارے ہی علوم ضروری ہیں لیکن عربی کے ساتھ چونکہ ہمارے مذہبی امور وابستہ ہیں اس لئے یہ سب سے ضروری ہے.مگر عربی میں طالب علم جلدی ہمت ہار دیتے ہیں اور ابتدائی مشکلات کی وجہ سے سمجھتے ہیں کہ ہم اسے حاصل نہیں کر سکیں گے حالانکہ یہ بہت تھوڑا سا رستہ ہوتا ہے.اسے اگر طے کر لیں تو پھر آسانی ہو جاتی ہے بشرطیکہ اردگرد عربی بولنے والے ہوں.اور اگر یہ نہ ہوں تو عالم بھی عربی بولنا بھول جاتے ہیں.طالبات کو ابتدائی مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے بلکہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس مقام پر پہنچ سکیں.زبان دان کہلا سکیں اور آسانی سے علمی کتابیں پڑھ سکیں.میں اس نصیحت کے ساتھ اس تقریر کو ختم کرتا ہوں.امید ہے شاہ صاحب بھی اس بات کی

Page 319

313 جلد اول زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) کوشش کریں گے کہ جو خواتین تعلیم میں کمزور ہیں وہ پیچھے نہ رہیں.اور خواتین بھی اس وجہ سے کہ کوئی استادز جر نہیں کرتا اس کے مضمون میں سستی نہ کریں گی.شرافت سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہئے.یادرکھو ہمارے سامنے اتنا عظیم الشان مقصد ہے کہ جس کے پورا کرنے کے لئے مردوں اور عورتوں سب کول کر کام کرنا چاہئے.عورتوں میں کام کرنے کا سچا جذ بہ ہوتا ہے مگر وہ ہمت جلدی ہار دیتی ہیں.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ استقلال کے ساتھ اپنی کوشش جاری رکھیں.چونکہ اذان (مغرب کی ) ہو چکی ہے اس لئے میں تقریر ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کیونکہ سنت ہے کہ جو دعوت کرے اس کے لئے دعا کی جائے اور چونکہ یہ دعوت خواتین کے مدرسہ کی طرف سے دی گئی ہے اس لئے یہ دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالی دعوت دینے والی خواتین کو علم حاصل کرنے کی توفیق دے اور اس سے اپنے دین کی خدمت کرنے کا موقع بخشے “ (الفضل 2 جولائی 1926 ء ) 1 مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ (الجمعة: 6)

Page 320

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 314 جلد اول دمشق اور سماٹرا کے مبلغین کے لئے دعا 24 دسمبر 1927ء حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو دو تار ایک دمشق سے اور دوسرا سماٹرا سے موصول ہوئے.دمشق کے تار میں حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس مولوی فاضل احمدی مبلغ کے کسی شقی القلب انسان کے ہاتھوں زخمی ہونے کی اطلاع تھی.حضور نے یہ اعلان کر دیا کہ احباب مسجد اقصی میں 12 بجے جمع ہوں جہاں مل کر دعا کی جائے گی.حضور ٹھیک 12 بجے مسجد میں رونق افروز ہو گئے اور ممبر پر کھڑے ہو کر تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل مختصر تقریر فرمائی.آج دو تاریں دو مختلف علاقوں کے مبلغوں کی طرف سے آئی ہیں چونکہ وہ ایک رنگ میں قومی اہمیت رکھتی ہیں اس لئے میں نے دوستوں کو اس جگہ جمع کیا ہے تا کہ انہیں سنائی جائیں اور احباب مل کر دعا کریں.ایک تار تو شام سے آیا ہے جس سے معلوم ہوا ہے کہ مولوی جلال الدین صاحب پر جو کہ ہمارے شام کے مبلغ ہیں کسی نے حملہ کیا ہے اور خنجر سے زخمی کر دیا ہے.ابھی یہ تفصیل معلوم نہیں ہوئی کہ انہیں کیسے زخم آئے ہیں معمولی ہیں یا سخت.لیکن بہر حال ایسے موقع پر جبکہ حملہ کرنے والے کی نیست قتل ہو یہی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنی طرف سے سخت زخمی کرنے میں کمی نہ کی ہوگی.پس گو تفصیل ابھی نہیں آئی اس لئے یہی خیال آتا ہے کہ زخم سخت ہوں گے.لیکن ممکن ہے زخم سخت نہ ہوں تا ہم جب جوش اور غضب کی آگ بھڑکی ہوئی ہو اور ایک حملہ اگر نا کام رہے تو دوسری دفعہ بھی خطرہ ہوتا ہے، چونکہ حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں اس لئے ہم ایسے حملوں کا اندفاع طاقت سے نہیں کر سکتے.ہمارے پاس صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے

Page 321

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 315 جلد اول حضور دعا کریں کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے مبلغین کی جانوں کی حفاظت کرے اور وہ دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رکھے.ایک عرصہ سے شام کے حالات مخدوش ہو رہے تھے اس وقت تک جو لوگ احمدی ہو چکے ہیں ان میں سے کئی ایک کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں.ہمارے ایک دمشق کے دوست جو اس مجلس میں بھی بیٹھے ہیں ( بر اور احسان حقی صاحب ) ان کے ایک بھائی جو بہت مخلص احمدی ہیں ان کے متعلق مولوی جلال الدین صاحب نے لکھا تھا کہ انہیں تین چار آدمیوں نے جن کے پاس خنجر ہے ایک دن شہر سے باہر روک لیا اور کہا یا تو احمدیت سے تو بہ کردو ورنہ قتل کر دیں گے.اسی طرح اور احمدیوں کے متعلق انہوں نے لکھا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں.پچھلے ہفتہ کی ڈاک میں جو خط آیا اس میں ذکر تھا کہ علماء نے کہا ہے گورنمنٹ احمدیوں کے متعلق کچھ نہیں کرتی ہمیں خود ان کا انتظام کرنا چاہئے اور ان کو قتل کر کے فیصلہ کرنا چاہئے.پہلے انہوں نے گورنمنٹ کو احمدیوں کے خلاف بہت کچھ کہا اور ملک سے نکال دینے کا مطالبہ کیا.مگر گورنمنٹ نے اس معاملہ میں دخل نہیں دیا.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ فرانسیسی گورنمنٹ ہے اسے ذاتی طور پر احمدیوں کے ساتھ احمدی ہونے کی وجہ سے کوئی دشمنی اور عداوت نہیں ہو سکتی.دوسرے وہاں پادری بھی اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں ان کے خلاف جب لوگوں نے گورنمنٹ سے شکایت کی تو گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کو نہ تو ملک سے نکالا جاتا ہے نہ تبلیغ سے روکا جاتا ہے.مسلمانوں کو ان کی باتوں کا جواب دینا چاہئے.جب گورنمنٹ پادریوں کے متعلق یہ فیصلہ کر چکی ہے تو اس کے لئے مسلمان کہلانے والے مبلغوں کو ملک سے نکال دینا مشکل امر ہے.مولوی جلال الدین صاحب کے خط میں ذکر تھا کہ مولویوں نے جب احمد یوں کو مارنے کا فتویٰ دیا تو لوگوں نے انہیں کہا پادریوں کے متعلق بھی یہی فتوی دیا گیا تھا مگر کسی نے کچھ نہ کیا اب کس طرح کر لو گے.انہوں نے کہا پادریوں کے متعلق مشکلات تھیں مگر

Page 322

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 316 جلد اول اب کر لیں گے.بات یہ ہے کہ پادری ایک تو مال دار ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت کے لئے بہت کچھ سامان کر سکتے ہیں.پھر پادری فرانسیسی ہیں ان کو مارنے کی وجہ سے یہ ڈر تھا کہ گورنمنٹ ناراض ہو جائے گی اور انتقام لے گی اس وجہ سے پادریوں پر ہاتھ نہ اٹھا سکے.غرض مولوی جلال الدین صاحب کی پچھلی رپورٹوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ مولویوں کی طرف سے ان پر قاتلانہ حملہ کی تجویز ہورہی ہے.دوسرا تار پڑانگ علاقہ سماٹرا سے آیا ہے.مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل وہاں تبلیغ کے لئے بھیجے گئے ہیں.وہاں ایک بہت بڑا مباحثہ قرار پایا ہے جو آج یا کل سے شروع ہو گا.کئی سو علماء سارے علاقہ سے اکٹھے ہوئے ہیں.خدا کے فضل سے وہاں جماعت قائم ہو گئی ہے.کئی بارسوخ اور مال دار لوگ داخل ہو چکے ہیں.جب مولویوں نے دیکھا کہ جماعت مضبوط ہو رہی ہے تو پہلے انہوں نے یہ کوشش کی کہ گورنمنٹ کو احمدیوں سے بدظن کریں.اس کے لئے انہوں نے احمدیوں پر گورنمنٹ کے باغی ہونے کا الزام لگایا اور کہا انہیں اس ملک میں رہنے کی اجازت نہیں ملنی چاہئے.مگر گورنمنٹ نے ان کی باتوں کی طرف توجہ نہ کی.اب انہوں نے بہت بڑا مباحثہ کا انتظام کیا ہے.اس مباحثہ میں یہاں کے لحاظ سے عجیب بات ہے شاید وہاں اسے عجیب نہ سمجھا جاتا ہو کہ گورنمنٹ کے آفیسر بھی اس مباحثہ میں شامل ہوں گے اور سرکاری طور پر جلسہ کی رپورٹ لکھی جائے گی.تین سو کے قریب علماء جمع ہوں گے اور پانچ دن تک مباحثہ جاری رہے گا.ایک دوسرے ملک میں نہ تو پوری کتب مہیا ہو سکتی ہیں اور نہ دوسرا سامان اور بعض اوقات مخالفین جب کثرت سے ہوں تو گھبرا بھی دیا کرتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے جب پہلے پہلے آپ اہلحدیث ہوئے تو ایک مسجد میں مولویوں سے مباحثہ قرار پایا.ایک حوالہ پر بحث ہو رہی تھی.مولوی اس کی صحت کا انکار کرتے تھے.فرماتے میں نے کتاب سے حوالہ نکال کر سامنے رکھ دیا.یہ دیکھ کر ایک بڑے مولوی نے بڑی ہمدردانہ شکل بنا کر مجھے کہا گھبرا کیوں گئے ہو ہم تمہیں کہتے کچھ نہیں.اس سے اس کا مطلب یہ تھا

Page 323

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 317 جلد اول کہ حضرت مولوی صاحب نے گھبرا کر کچھ کا کچھ حوالہ پیش کر دیا.اس پر مجمع میں شور پڑ گیا اور لوگ اٹھ کر چلے گئے.تو ایسی حرکات بھی مولوی کر لیا کرتے ہیں اور اکیلے آدمی کے لئے ایسے وقت میں بہت مشکل پیش آتی ہے.دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی کہا تھا الہی ! کوئی ایسا آدمی دے جو میری تصدیق تو کرے.اسی لئے حضرت ہارون کو ان کے ساتھ کیا گیا.مولوی رحمت علی صاحب وہاں اکیلے ہیں اور مولوی کئی سو جمع ہوں گے اس لئے مولوی صاحب کی کامیابی کے لئے خاص طور پر دعا کرنی چاہئے.وہ علاقہ ایسا ہے جہاں احمدیت کی ترقی کے لئے بہت کچھ گنجائش ہے.چار کروڑ مسلمان ہیں جو اس بات کے لئے تڑپ رکھتے ہیں کہ صداقت معلوم کریں.یہی وجہ ہے کہ وہاں بہت جلد ترقی ہوئی ہے اور کئی ایسے لوگ داخل سلسلہ ہوئے ہیں جو سلسلہ کی مالی مدد بھی کرنے والے ہیں.ان دونوں باتوں کے لئے احباب دعا کریں.ایک یہ کہ خدا تعالٰی مولوی جلال الدین صاحب کو شفا دے اور آئندہ محفوظ رکھے.دوسرے مولوی رحمت علی صاحب سے جو مباحثہ ہونے والا ہے اس میں خدا غلبہ عطا کرے.“ اس کے بعد حضور مسجد کے محراب میں قبلہ رو ہو کر بیٹھ گئے اور تمام مجمع قبلہ رو ہو گیا اور دعا کی گئی جو پندرہ منٹ تک جاری رہی.خدا تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمارے مبلغین کو اپنے حفظ وامان میں رکھے.آمین.“ (الفضل 3 جنوری 1928ء)

Page 324

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 318 جلد اول خانصاحب منشی فرزند علی صاحب کی انگلستان روانگی 21 اپریل 1928ء بعد نماز عصر طلباء مدرسہ احمدیہ نے مکرم منشی فرزند علی خان صاحب کے ولایت تشریف لے جانے کی تقریب پر ان کے اعزاز میں دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفہ المسح الثانی بھی بنفس نفیس شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی.و ایڈریسوں کا دیا جاتا تو ایک رسم ہے جو اس وقت ہمارے ملک میں جاری ہے لیکن میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے ایڈریس اپنے اندر ایک خصوصیت رکھتے ہیں.وہ خالی رسم و رواج کے ماتحت نہیں ہوتے بلکہ اپنے اندر حقیقت رکھتے ہیں.اس لئے کہ دنیا میں ایڈریس جن امور پر دیئے جاتے ہیں وہ ایسے ہوتے ہیں جو د نیوی لوگوں کی نگاہ میں عظیم الشان امر ہوتے ہیں اور دنیوی حالات کے لحاظ سے وہ مواقع خاص اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں ہمارے تمام کام دنیوی لحاظ سے اتنے کمزور اور اتنے حقیر نظر آنے والے ہوتے ہیں کہ ان پر کسی قسم کی خوشی ظاہری اسباب کے لحاظ سے ناممکن نظر آتی ہے.پس ہمارے ایڈریسوں میں یا خوشی کی ان مجالس میں جو کسی مبلغ کے آنے یا جانے کے موقع پر منعقد کی جاتی ہے جو چیز اصل محرک ہوتی ہے وہ وہی امید ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے ہم میں پیدا کر دیا ہے.ہم اس وقت اس حالت کو نہیں دیکھتے جس میں سے گزر رہے ہوتے ہیں بلکہ اس وقت ہماری آنکھوں کے سامنے وہ نظارہ ہوتا ہے جو ایمان کی آنکھ سے نظر آتا ہے.اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے جسمانی آنکھیں معذور ہوتی ہیں مگر روحانی آنکھوں.ں سے وہ دور ر مستقبل میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے.ہمیں اپنے کسی مبلغ کی

Page 325

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 319 جلد اول حرکت اور مقام میں اس کی حرکت اور مقام نظر نہیں آتا بلکہ دنیا کی حرکت اور دنیا کا مقام نظر آتا ہے.ہم جانتے ہیں اور خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری کوششیں اور ہماری تدابیر حقیر ہیں مگر اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے عظیم الشان نتائج نکالنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے.جب وہ نتائج نکلیں گے تو یہی تدابیر جو اس وقت حقیر نظر آتی ہیں دنیا کی نظر میں بڑی دکھائی دیں گی.دیکھو رسول کریم ﷺ کی فتوحات اسلامی تاریخ میں جو عظمت رکھتی تھیں اور دنیا پر جو اثر ڈال رہی تھیں وہ جرمنی کی گزشتہ عظیم الشان جنگ سے بھی بڑھ کر تھا.ایمانی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ دنیا میں تغیرات پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی بہت بڑا اثر ڈالنے والی تھیں.گزشتہ جنگ عظیم نے دنیا میں کیا تغیر کیا ؟ بے شک کچھ ملکوں کے نقشے بدل گئے ، بعض علاقے ایک سلطنت کے قبضہ سے نکل کر دوسری کے قبضہ میں چلے گئے ،مگر رسول کریم ہے کی چھوٹی چھوٹی جنگوں نے دنیا پر جو اثر کیا اس کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں.اُس وقت دنیا شرک اور بت پرستی میں ڈوبی ہوئی تھی.علوم کی طرف کوئی توجہ نہ تھی.حریت و آزادی کا کسی کو پتہ نہ تھا.عورت مرد کے حقوق کا کسی کو خیال نہ تھا.ظلم ، غلامی اور قیمو درسوم کی یا جہالت کی یا تمدن کی پائی جاتی تھیں.مگر ان چھوٹی چھوٹی جنگوں کے ذریعہ جن میں تین سو یا ہزار تک سپاہی لڑنے والے ہوتے تھے اور یہ اتنے تھوڑے تھے کہ گزشتہ جنگ میں اتنی تعداد کی لڑائی کی خبر بھی نہ دی جاتی ہوگی کیونکہ دو کروڑ کے قریب لڑنے والے جنگ میں مشغول تھے اور ایسی لڑائیوں کی خبریں شائع کی جاتی تھیں جن میں ہزاروں صلى الله لڑنے والے ہوتے تھے.دنیا میں جو تغیر ہوا تھا وہ اس بڑی جنگ سے نہیں ہوا.الله رسول کریم ﷺ کے وقت کی لڑائیاں جنگ کے لحاظ سے ایسی ہی تھیں جیسے کسی محلہ یا گاؤں کے لوگوں کی لڑائیاں ہوتی ہیں.اور میں سمجھتا ہوں میلوں میں جب کبھی لڑائی ہوتی ہے تو ان جنگوں سے زیادہ تعداد میں لڑنے والے ان لڑائیوں میں شریک ہو جاتے ہیں.مگر نتائج کے لحاظ سے وہ جنگیں بہت بڑی حیثیت رکھتی تھیں.اور یہ بات مسلمانوں کے

Page 326

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 320 جلد اول قلوب ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ کفار بھی محسوس کرتے رہے اور اب بھی محسوس کرتے ہیں.اسی طرح اس وقت ہمارے مبلغ جو کام کرتے ہیں دنیا کے لحاظ سے وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا.کیونکہ ان کے پاس نہ اسباب ہیں اور نہ مال مگر میں سمجھتا ہوں ہر ایک مبلغ جو کام کے لئے نکلتا ہے وہ ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالتا ہے.بلکہ میں یہ کہوں گا کہ نئی دنیا کی تعمیر میں حصہ لیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کشف ہے آپ نے نئی زمین اور نیا آسمان پیدا کیا.1 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہم سے نئے ملکوں کا ہی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ نئی دنیا بنانے یعنی موجودہ دنیا کو بدل دینے کا وعدہ فرمایا ہے.پھر نئی دنیا کا ہی وعدہ نہیں فرمایا بلکہ نیا آسمان بنانے کا بھی وعدہ فرمایا ہے.اس کے یہ معنی نہیں کہ شریعت بدل دی جائے گی.شریعت اب مکمل ہو چکی ہے اس لئے یقیناً اس کے اور معنی ہیں.اور وہ آسمان جس کا ذکر ہے وہ یہی ہے جو اس زمین پر ہے.اور اس الہام کا یہ مطلب ہے کہ حاکم اور محکوم دونوں میں تغیر کر دیا جائے گا اور اس طرح نیا آسمان اور نئی زمین ہو جائے گی.دنیا میں کئی تغیرات ہوتے ہیں جو صرف حاکموں سے تعلق رکھتے ہیں.اسی طرح کئی تغیرات ہوتے ہیں جو صرف محکوموں سے تعلق رکھتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں یہ بتایا گیا ہے کہ جتنے حکومت کرنے والے طبقے ہیں اور جتنے محکوم طبقے ہیں سب میں تغیر پیدا کر دیا جائے گا.اس ظاہری آسمان اور زمین میں تغیر تو نظر آ ہی رہا ہے مگر ہمیں جو نیا آسمان اور نئی زمین بنانی ہے وہ دینی لحاظ سے بھی ہے.یعنی دینی تغیرات بھی ہوں گے.پس ہمارے مبلغوں کا تبلیغ کے لئے جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ ایسی حرکت ہے جیسی زلزلہ کے وقت ابتدا میں ذراسی حرکت پیدا ہوتی ہے.زلزلہ کی پہلی حرکت بہت خفیف ہوتی ہے مگر بڑھتے بڑھتے اتنی پُر زور ہو جاتی ہے کہ زمین بل جاتی ہے اور شہروں کے شہر گر جاتے ہیں.اس لحاظ سے ہم مبلغین کے جانے اور آنے پر خوشی بھی کرتے ہیں اور جو روکیں ان کے رستہ میں پیدا ہوتی ہیں ان سے رنج بھی پہنچتا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی

Page 327

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 321 جلد اول مد نظر رکھنا چاہئے کہ ہم اس خوشی میں کس حد تک حصہ دار ہیں.میرے نزدیک اگر کوئی سمندر میں عمدگی سے تیر رہا ہو تو ہمیں کنارے پر بیٹھے اس کی تعریف کرنے پر مزا تو آتا ہے مگر میں نہیں سمجھتا یہ شریفانہ مزا ہے جب تک ہم خود اسی طرح تیرنے کی خواہش نہیں رکھتے اور تیرنا سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے.میں اس وقت ان بچوں سے جنہوں نے ایڈریس دیا ہے کہتا ہوں کہ جب تک وہ اپنی زندگی اور اپنے ارادوں میں ایسا تغیر نہیں دکھاتے جس سے معلوم ہو کہ وہ حقیقی طور پر اس خوشی میں شریک ہیں اُس وقت تک کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ خانصاحب کے تبلیغ کے لئے جانے پر انہیں حقیقی خوشی ہوئی ہے.جب تک خودان میں یہ خواہش نہ ہو کہ اسی طرح وہ بھی تبلیغ کے لئے جائیں اُس وقت تک ان کی خوشی حقیقی نہیں کہلا سکتی.سچی خوشی کی یہی نشانی ہے کہ جس بات پر انسان خوش ہو اس کے متعلق اس کے دل میں یہ خواہش بھی ہو کہ یہی نعمت اسے بھی ملے جبکہ اس کا موقع ہو اور جب اس کا ملنا مناسب ہو.اس وقت میں وقت کی تنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں دیکھ رہا ہوں سورج ڈوب رہا ہے یہی تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے بچوں کو خود اس نعمت کو حاصل کرنے کی خواہش رکھنی چاہئے جو مبلغوں کو حاصل ہو رہی ہے.میں نے کچھ عرصہ کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کو بند کر دیا تھا کیونکہ وقف کنندگان کی تعداد حالات کے لحاظ سے کافی ہو گئی تھی مگر اب پھر ضرورت پیدا ہو رہی ہے.ہم انگریزی دانوں کی نسبت عربی دانوں سے زیادہ توقع رکھتے ہیں.گو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں جب وقف کی تحریک بند کر دی گئی تو کئی انگریزی دانوں کی طرف سے تو یہ تحریک ہوتی رہی کہ ہم نے زندگی وقف کی ہوئی ہے ہمیں کسی کام پر لگایا جائے.چنانچہ اسی کا نفرنس کے موقع پر بھی دو اصحاب نے کہا کہ ہم اس وقت تک اپنا کام کر رہے ہیں.اور جہاں ملازمت کرتے ہیں اس محکمہ والے معاہدہ طلب کرتے ہیں اور معاہدہ نہ کرنے میں نقصان ہو رہا ہے.مگر ہم اس خیال سے معاہدہ نہیں کرتے کہ ہم نے اپنی زندگی دینی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی ہے.مگر مدرسہ

Page 328

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 322 جلد اول احمدیہ کے طلباء جنہوں نے زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں انہوں نے اس عرصہ میں یاد نہیں دلا یا.بلکہ ان میں سے کئی نے اپنے لئے اور مستقل کام تجویز کر لئے ہیں.میں یہ ملامت کے طور پر نہیں کہ رہا بلکہ جذبہ غیرت کو ابھارنے کے لئے کہہ رہا ہوں.رسول کریم ہے اس غرض کے لئے مقابلہ کرا دیا کرتے تھے.ایک دفعہ صحابہ تیراندازی کر رہے تھے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا لو میں بھی شریک ہوتا ہوں اور آپ ایک فریق میں شامل ہو گئے.اس پر دوسرے فریق نے یہ کہہ کر تیر ڈال دیئے کہ ہم آپ کا کس طرح مقابلہ کر سکتے ہیں 2 میرا اس وقت یہ مطلب نہیں کہ میں کسی کو ملامت کروں تم میں سے کئی ایسے ہیں جو اچھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں مگر میں کہتا ہوں انسان کو اپنا سر بلند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ جو اس کے ساتھ کام کر رہے ہوں ان سے پیچھے نہ رہے.خصوصاً اس مدرسہ کے طلباء کے لئے نہایت ضروری ہے جس کی غرض ہی یہ ہے کہ مبلغ تیار ہوں.میں اس بارے میں اعلان کرنے سے پہلے اس مدرسہ کے طلباء کو مطلع کرتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو دینی خدمت کے لئے وقف کریں.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں زندگی وقف کرنے والوں کے لئے اعلان کرنے والا تھا مگر گھر سے چلتے وقت ایک اور بات میرے سامنے پیش ہو گئی اور اس وجہ سے میں نے خطبہ کا مضمون بدل دیا.اس وقت میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہمیں اور آدمیوں کی ضرورت ہے.جنہوں نے پہلے اپنے آپ کو پیش کیا تھا مگر انہیں کسی خدمت پر نہیں لگایا گیا وہ یا اور جواب پیش کرنا چاہیں وہ متعلقہ دفتر میں اپنے نام دے دیں.آگے یہ کام لینے والوں کا کام ہے کہ جسے چاہیں لے لیں.بعض لوگ جو کام پر لگے ہوئے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو پیش کر دیتے ہیں.یہ بھی مبارک بات ہے مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے نئے بیعت کرنے والوں کے ساتھ دوسرے بھی بیعت کے لئے ہاتھ رکھ دیں.ضرورت ان نوجوانوں کی ہے جو تعلیم سے فارغ ہو رہے ہیں.اس طرح آپ لوگوں کو پہلے موقع مل گیا ہے اور آپ کے مدرسہ کی غرض بھی یہی ہے کہ دین کی خدمت کرنے والے پیدا ہوں.

Page 329

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 323 جلد اول گو میں مدرسہ ہائی کا طالب علم ہوں اس لئے مجھے قدرتی طور پر اس مدرسہ سے لگاؤ ہے مگر مدرسہ احمدیہ کو قائم رکھنے والا میں ہی ہوں.ہمارے پرانے دوست جنہیں میں تو اب بھی دوست ہی سمجھتا ہوں گو وہ اپنے آپ کو دشمن قرار دیتے ہیں انہوں نے اس امر کی کوشش کی کہ اس مدرسہ کو توڑ دیں.اُس وقت صرف میں ہی تھا جس نے کوشش کی کہ یہ مدرسہ قائم رہے اور خدا تعالیٰ نے میری بات میں اثر ڈالا.اُس وقت میری عمر چھوٹی تھی جبکہ خواجہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے تقریریں کر کے لوگوں کو اس بات کے لئے آمادہ کر لیا کہ مدرسہ احمدیہ تو ڑ دیا جائے.میں نے اُس وقت تقریر کرتے ہوئے کہا بے شک اس مدرسہ کو توڑ دیا جائے مگر سوال یہ ہے کہ اس مدرسہ کو حضرت مسیح موعود نے قائم کیا ہے.پھر کیا آپ کی وفات کے بعد ہمیں یہی کام کرنا چاہئے کہ آپ کا قائم کیا ہوا مدرسہ توڑ دیں؟ رسول کریم ﷺ کے وقت ایک لشکر بھیجنا تجویز ہوا تھا مگر وہ ابھی روانہ نہ ہوا تھا کہ آپ کی وفات ہو گئی.اُس وقت لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اب اس لشکر کو روک لیا جائے تاکہ منافقوں نے جو شر پیدا کیا ہے اسے روکا جا سکے.مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا ابو قحافہ کا بیٹا اس لشکر کو نہیں روک سکتا جسے رسول کریم ﷺ نے بھیجا تجویز کیا تھا.3 پس کیا ہمارے لئے یہ مناسب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وفات کے بعد پہلا کام یہ کریں کہ آپ کا قائم کردہ مدرسہ توڑ دیں؟ میری یہ تقریر مختصر سی تھی لیکن اسے سن کر سب لوگ توڑنے کے خلاف ہو گئے.یہ دیکھ کر خواجہ صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ غلط فہمی ہو گئی ہے ہمارا بھی یہی منشا تھا جو میاں صاحب نے بیان کیا ہے.پھر باہر چٹھیاں بھیجی گئیں اور اس طرح لوگوں کو اس مدرسہ کے توڑنے کے لئے تیار کرنا چاہا مگر خدا تعالیٰ نے میری تقریر کے ذریعہ جو بات ان کے دل میں ڈال دی تھی اسے نہ نکال سکے.اس طرح میں اس مدرسہ کا قائم رکھنے کا موجب ہوا.گو مجھے یاد آیا ہے کہ مدرسہ انگریزی کے قیام کا موجب بھی میں ہی ہوا.1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دریافت فرمایا کہ اس مدرسہ کو قائم کرنے

Page 330

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 324 جلد اول سے جو غرض تھی وہ پوری ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس پر سب اہل الرائے نے کہا نہیں پوری ہو رہی اور اسے توڑ دیا جائے.اُس وقت ایک حضرت خلیفہ اول اور ایک میں اسے قائم رکھنے کے حق میں تھے.اُس وقت اس مدرسہ کو توڑنے کے متعلق اس قدر جوش پیدا ہو گیا کہ بعض مخلصین نے میرے متعلق سخت الفاظ بھی استعمال کئے اور کہا یہ انگریزیت کا دلدادہ ہو گیا ہے.حضرت خلیفہ اول کو جب معلوم ہوا کہ میں ان کا ہم خیال ہوں تو مجھے اپنے پاس کی بلا کر باتیں سناتے اور فرماتے کہ میں وہ باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک پہنچا دوں.میں جاتا اور موقع دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں وہ باتیں عرض کر دیتا.بہر حال میں کہ سکتا ہوں کہ دونوں مدرسوں کے قیام میں میرا حصہ ہے.پس اس مدرسہ سے جسے میں نے آگ میں پڑنے سے بچایا اگر ایسے کارکن نہ پیدا ہوں جو سلسلہ کے عمود ہوں تو بہت رنج کی بات ہوگی.پس قطع نظر خلافت اور اس ذمہ داری کے جو مجھ پر عائد ہے اس لئے کہ میں نے ان مدرسوں کو قائم رکھنے کی کوشش کی میں اس وقت یہاں اعلان کرتا ہوں کہ ہمیں ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی زندگی دین کے لئے وقف کریں.میرا یہ مطلب نہیں کہ میں اس مدرسہ کے طلباء کو دنیا کی ترقی سے روکتا ہوں.یہ بھی حاصل کر سکتے ہیں.مگر جب دین کے لئے ضرورت ہو تو انہیں دین کو دنیا پر مقدم کرنا چاہئے.دنیا کی ترقی حاصل کرنا گناہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے متعلق فرماتے ہیں :.لفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أَكُلِى وَصِرْتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْأَهَالِي 4 ایک وقت تھا کہ میں دوسروں کے بچے ہوئے ٹکڑے کھاتا تھا مگر اب ہزاروں میرے دستر خوان پر کھاتے ہیں.تو دنیا کی ترقی حاصل کرنا گناہ نہیں مگر نیت یہ ہونی چاہئے کہ جب دین کے لئے ضرورت ہوگی اس وقت خدمت دین کے لئے حاضر ہو جاؤں گا.اس کے بعد میں دعا کرتا ہوں کہ خان صاحب جس کام کے لئے جارہے ہیں خدا تعالیٰ

Page 331

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 325 جلد اول اس میں انہیں کامیاب کرے.ان کو عمر اور تجربہ کے لحاظ سے جو بردباری اور تحمل حاصل ہے وہ پہلے مبلغوں سے زیادہ حاصل ہے.کیونکہ جو پہلے اس کام کے لئے گئے نو جوان تھے مگر میں انہیں بتاؤں گا کہ نو جوانوں میں جو چستی تھی وہ بھی ان میں ہونی چاہئے تا کہ ایک زائد چیز وہاں جانے پر دوسری رہ نہ جائے.اور وہی حالت نہ ہو جو احد کے مُردوں کے متعلق بیان کی جاتی ہے کہ اگر ان کے سر ڈھانپتے تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر ننگے ہو جاتے.کامیابی کے لئے سب باتوں کی ضرورت ہے.ایسا ہو کہ دنیا معلوم کرلے وہ کوئی تغیر پیدا کرنا چاہتے ہیں اور تغیر بغیر چستی کے پیدا نہیں ہوسکتا.“ (الفضل یکم مئی 1928ء) 1: تذکره صفحه 152 تا 154 ایڈیشن چہارم 2004 ء 2: بخارى كتاب الجهاد والسير باب التحريض على الرمي (الخ ) صفحه 479 حدیث نمبر 2899 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية :3 تاريخ الخلفاء للسيوطی صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء :4 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 596 ایڈیشن 2008 ء

Page 332

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 326 جلد اول امریکہ اور ماریشس کے مبلغین کے اعزاز میں دعوت 20 مئی 1928ء کو طلباء و اساتذہ ہائی سکول نے امریکہ اور ماریشس جانے والے مبلغین ( مکرم مولوی مطیع الرحمان صاحب ایم اے، مکرم حافظ جمال احمد صاحب اور مکرم خان محمد یوسف خان صاحب کے اعزاز میں ایک دعوت دی جس میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا.د گو اس وقت طبیعت کی خرابی کی وجہ سے بولنا تو الگ رہا میں کھڑے ہونے کی بھی طاقت نہیں پاتا لیکن چونکہ آج یا کل ہمارے چند عزیز اپنے کاموں پر یا تبلیغ کے لئے جا رہے ہیں اور چونکہ جدائی خواہ کیسے ہی اچھے کام کے لئے ہو پھر بھی اپنے اندر افسردگی اور رنج کا پہلو رکھتی ہے اور چونکہ جدائی اپنے نتائج کے لحاظ سے دونوں ہی پہلو رکھتی ہے یا پھر ملاقات ہوتی ہے یا نہیں ہوتی اس لئے ضروری سمجھتا ہوں کہ میں اس موقع پر کچھ نہ کچھ الفاظ بیان کروں.میں اپنے امریکہ کی طرف جانے والے عزیزوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میرے نزدیک اسلام کا مستقبل اور دنیا کا بھی بہت کچھ مستقبل امریکہ سے تعلق رکھتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ پرانی دنیا میں انگلستان کو خاص اہمیت حاصل ہے سیاسی بھی اور مذہبی بھی.سیاسی اس لحاظ سے کہ برطانیہ دنیا کے بہت بڑے حصہ پر قابض ہے.اور مذہبی اس لحاظ سے کہ خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے اسے چنا ہے.خواہ اس کی میں کتنی خرابیاں اور کتنی برائیاں ہوں میں یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ یہ حکومت

Page 333

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 327 جلد اول دنیا کی باقی حکومتوں سے بری ہے یا ان سے اچھی نہیں ہے.اگر اس سے اچھی کوئی اور حکومت ہوتی تو جبکہ اشاعت اسلام تلوار سے نہیں بلکہ تبلیغ سے ہوئی تھی اس کے سوا کسی اور کو خدا تعالیٰ چنا.خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جب ایسے اسباب پیدا کرنے ہوں کہ حق کی اشاعت کے لئے تلوار اٹھانے کی ضرورت ہو تو اس کے لئے بدترین حکومت کو چنتا ہے.اور اگر تبلیغ کے ذریعہ کرانی ہو تو اس زمانہ کی بہترین حکومت کو منتخب کرتا ہے.اس لحاظ سے اس زمانہ کے حالات ، اس زمانہ کی برائیوں اور عیبوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یقین رکھتے ہیں کہ تمام حکومتوں میں سے جو کہ ساری کی ساری خراب اور ساری کی ساری گندی ہیں انگریزوں کی حکومت بہتر ہے.بے شک کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ بھی ظلم کرتے ہیں.ہم کہتے ہیں کرتے ہیں مگر دوسروں سے کم کرتے ہیں.جس قدرا پمپیریل حکومتیں غیر ممالک میں حکومت کرنے کے لئے جاتی ہیں اور جو دوسروں کی غلامی اپنی مضبوطی کیلئے ضروری سمجھتی ہیں، جو تمدنی لحاظ سے دوسروں کو اپنے قبضہ میں رکھنا ضروری سمجھتی ہیں ان سب سے انگلستان کی حکومت بہتر ہے.جتنے نقائص اور عیوب اس میں پائے جاتے ہیں دوسری حکومتوں میں وہ بہت زیادہ پائے جاتے ہیں.مگر باوجود اس کے ایک خیال ہے جو میرے دل میں آتا ہے اور جو میرے نزدیک بہت اہمیت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں سورج مغرب سے نکلے گا.1 ہم اپنے پرانے خیال اور پرانے دستور کے مطابق جو ملک میں رائج ہے اور پرانے محاورہ کی وجہ سے جو مغرب - وابستہ ہے یورپ کو مغرب قرار دیتے چلے آئے ہیں.اور واقعہ میں یورپ مغرب ہے.مگر مغرب نسبتی امر ہے اور اب یہ بدلتا جاتا ہے.اس سے مراد امریکہ لیا جاتا ہے.یہ تغیر چند سال سے شروع ہوا 15 ، 20 سال سے زیادہ اس تغیر کی عمر نہیں ہے.مگر اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مغرب کا مفہوم بدلتا جا رہا ہے.یورپین اخبارات میں ممالک کے لحاظ سے مغرب کا لفظ اسی طرح استعمال کیا جاتا تھا جس طرح ہمارے ہاں استعمال کیا جاتا تھا.مگر اب وہ مغرب کا لفظ امریکہ کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور مغرب کی طرف سے

Page 334

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 328 جلد اول سورج نکلنے کا مطلب یہ تھا کہ ایسے ملک کو اسلام کی طرف توجہ کرنے کی توفیق ملے گی جس کا اثر ساری دنیا پر گہرا پڑ رہا ہو گا.اب دنیا پر سب سے زیادہ اثر رکھنے کا خیال بھی امریکہ کی طرف منتقل ہو رہا ہے.وہ لوگ جو اخبارات پڑھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جس طرح 15، 20 سال پہلے ایشیا کی حکومتوں کے افعال اُس وقت تک نظر انداز کر دیئے جاتے تھے جب تک یورپین حکومتیں ان کی تصدیق نہ کریں اور جب تک یورپین حکومتیں کسی کام میں دخل نہ دیں.پہلے کہا جاتا تھا یہ نہیں ہو سکتا اور ایشیائی حکومتوں کی باتوں کو ٹھکرا دیا جاتا تھا مگر ایشیا کی حکومتیں یورپین حکومتوں کی کسی بات کو ٹھکرا نہ سکتی تھیں.جس طرح ایشیائی حکومتوں کو یورپین حکومتوں کی تحریک کا ادب اور احترام کرنا پڑتا تھا.بعینہ یہی صورت اب امریکہ اور یورپ میں ہو رہی ہے.یورپ والے ایک آواز اٹھاتے ہیں جس پر امریکہ والے مسکرا کر کہہ دیتے ہیں یہ لغو بات ہے یہ نہیں ہوسکتا.مگر جب امریکن وزیر یا پریذیڈنٹ کوئی آواز اٹھاتا ہے تو سارے یورپ میں شور پڑ جاتا ہے اور کہا جاتا ہے سنو ! وہ کیا کہتے ہیں.پارلیمنوں میں سوال کئے جاتے ہیں.امریکہ نے فلاں نہایت اہم تحریک کی ہے ہماری حکومت نے کیوں ابھی تک اس کی طرف توجہ نہیں کی ؟ گویا سب یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ امریکہ کی آواز پر توجہ کرنا ان کے لئے ضروری ہے.اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی نہ کسی نامعلوم ذریعہ سے دولت اور سیاست کا پانسہ امریکہ کی طرف جھک رہا ہے اور امریکہ کا ترازو یورپ کے ترازو سے بوجھل ہو رہا ہے.اور جیسا کہ دستور چلا آیا ہے جو تراز و بوجھل ہو اسے دوسروں پر فوقیت حاصل ہو جاتی ہے.یہی حالت امریکہ کی ہو رہی ہے.ادھر امریکہ کو مغرب کہنے لگ گئے ہیں.تو اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت امریکہ مغرب کے لفظ کا زیادہ مستحق ہے.اور جب مغرب کہلانے کا امریکہ زیادہ مستحق ہے تو سورج چڑھنے کا بھی وہی زیادہ مستحق ہے.اگر وہ اس کا مستحق نہ ہوتا تو جب تک یہ پیشگوئی نہ پوری ہو جاتی امریکہ مغرب نہ کہلا سکتا اور فوقیت کا ترازو اس کی طرف نہ جھک سکتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جوں جوں اس

Page 335

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 329 جلد اول پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت قریب آتا جاتا ہے مغرب کا لفظ یورپ سے نکل کر امریکہ کی طرف جانے لگ جاتا ہے، دولت اس کی طرف جھک رہی ہے، سیاسی فوقیت اسے حاصل ہو رہی ہے.اس سے ماننا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی ہے کہ امریکہ سے ہی سورج چڑھائے.گو انگریز بھی اس سے حصہ لیں گے کیونکہ ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی ہے.مگر امریکہ کا اس میں بہت بڑا حصہ ہوگا.ہم آج سے 5 سال پہلے اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے تھے.میں نے اپنی ہوش میں اور یہ کوئی بڑا زمانہ نہیں ہے 18 سال کی عمر کو اگر بلوغت کی عمر قرار دیا جائے تو 21 سال بنتا ہے.انگلستان کے وزراء کی تقریریں پڑھی ہیں جن میں کہا جاتا تھا کہ ہمارا قانون ہے کہ اگر ساری دنیا کی بحری طاقتوں کے مجموعہ کی تعداد 200 ہو تو ہماری طاقت 210 ہونی چاہئے.مگر کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ پڑھا کہ دس کی زیادتی رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ساری دنیا کے برابر طاقت رکھنا کافی ہے.پھر پڑھا دنیا کی طاقتوں سے مراد وہ طاقتیں ہیں جن سے ہماری لڑائی ہو سکتی ہے اس لئے ہم امریکہ کو ان میں شامل نہیں کرتے بلکہ فرانس اور جرمنی مراد لیتے ہیں.ان کی بحری طاقت کے برابر ہماری طاقت ہونی چاہئے.پھر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایک بڑی سے بڑی حکومت کے مقابلہ میں 10 فیصدی طاقت کا زیادہ ہونا کافی ہے.مگر اب تو یہی انگلستان جو کہتا تھا کہ کوئی ہم پر بحری طاقت کے لحاظ سے برتری حاصل کرنے کا حق نہیں رکھتا یہ کہ رہا ہے کہ امریکہ کے متعلق ہم کچھ نہیں کہتے وہ مال دار ملک ہے جو چاہے کرے ہم اس کے مقابلہ کا بیڑا نہیں بنا سکتے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو 20 ،25 سال کے اندراندر رونما ہوا.کہاں یہ حالت کہ امریکہ مالدار ہے جو چاہے کرے اور کہاں یہ صورت کہ اُس وقت جب یہ کہا گیا کہ سب دنیا کی بحری طاقتوں سے 10 فیصدی کی زیادتی کو اڑایا جائے تو پارلیمنٹ میں شور پڑ گیا.مگر آج ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ امریکہ سے ہماری طاقت کمزور کیوں ہو.یہ عظیم الشان تغیر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں اس پیشگوئی کا ظہور یورپ سے زیادہ ممکن ہے.

Page 336

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 330 جلد اول جو دوست اب امریکہ جا رہے ہیں ان کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ امریکہ میں بہت بڑا میدان تیار ہے.اور وہ آج تیار نہیں ہوا بلکہ اس کے تیار ہونے کی اُس وقت خبر دی گئی تھی جبکہ امریکہ ابھی معلوم بھی نہیں ہوا تھا.اُس وقت رسول کریم اللہ نے پیشگوئی کی تھی کہ وہاں سے سورج نکلے گا.پس امریکہ کی مغربیت کو مد نظر رکھ کر اور اس کی اہمیت کو مد نظر رکھ کر یقین ہے کہ وہاں بہت بڑا میدان اسلام کی اشاعت کے لئے موجود ہے.میرا خیال ہے امریکہ میں اور خاص کر جنوبی ریاستوں میں اگر ہمارے آدمی قدم جما لیں تو بہت کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.کیونکہ وہاں ترقی کے بڑے رستے ہیں.مجھے یاد ہے کہ میری 17، 18 سال کی عمر تھی جب میں نے پڑھا تھا کہ ان ریاستوں میں سے کسی ایک میں ایک بنگالی جرنیل ہے.وہ بنگالی جنہیں یہاں فوج میں بھرتی بھی نہیں کرتے وہاں اس قدر ترقی کر گیا.اس کے یہ معنی ہیں کہ ہندوستانیوں کے لئے ترقی کرنے کا وہاں موقع ہے.اگر ہمارے مبلغ اس علاقہ میں تبلیغ کرنے کی طرف توجہ کریں تو بہت کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.وہاں کے لوگوں میں ایک قسم کی سادگی پائی جاتی ہے اور وہ مالی لحاظ سے بھی دوسروں سے کم نہیں ہیں.میں اپنے مبلغوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں.محمد یوسف صاحب کے بھائی کو بھی گو ان کی ناتجربہ کاری کی حالت ہے مگر وہ خیال کر سکتے ہیں کہ جب ان کا بھائی گیا تھا تو اُس وقت اس کی بھی یہی حالت تھی مگر اس نے کام کیا.ہر احمدی جو غیر ممالک میں جاتا ہے اسے ہم مبلغ سمجھتے ہیں خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا.اور امید رکھتے ہیں کہ وہ تبلیغ کرنے میں اپنی طاقت کے لحاظ سے کو تا ہی نہ کرے گا.امریکہ کی تبلیغ کا اثر یورپ پر بھی پڑے گا.اس بات کو مد نظر رکھ کر ہمارے مبلغوں کو امریکہ کا میدان فتح کرنا چاہئے.صحابہ کے وقت جب حضرت علی اور معاویہ میں جنگ ہوئی تو کئی صحابہ چین کی طرف چلے گئے اور وہاں انہوں نے اسلام کا بیج بویا.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان سے زیادہ وہاں مسلمان ہیں.حالانکہ ہندوستان میں ایک عرصہ

Page 337

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) تک مسلمانوں کی حکومت بھی رہی.331 جلد اول ہمارے مبلغوں کو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ روحانیت کا قیام قربانی سے وابستہ ہے.مغرب میں جانے والے مبلغ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قربانی اور روحانیت لازم و ملزوم ہیں.میں دیکھتا ہوں جو مبلغ مغربی ممالک میں جاتے ہیں وہ یہ خیال کر لیتے ہیں کہ اگر ہم وہاں کے لوگوں سے دین کی خاطر قربانی کرنے کا مطالبہ کریں گے تو وہ پیچھے ہٹ جائیں گے.اس میں شک نہیں کہ ان ممالک کی تمدنی حالت ایسی ہے کہ ان میں سے بہت پیچھے ہٹیں گے مگر جن میں قربانی کی عادت ڈالی جائے گی وہ آگے ہی آگے بڑھیں گے.اس وقت تک اس ڈر نے کہ ان ممالک کے لوگ قربانی نہ کر سکیں گے بہت نقصان پہنچایا ہے.اب اس کی اصلاح ہونی چاہئے.جو لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں انہیں کہنا چاہئے کہ وہ دین کے لئے وقت اور مال کی ضرور کچھ نہ کچھ قربانی کریں.جس طرح یہاں چندے لئے جاتے ہیں اسی طرح وہاں لینے چاہئیں خواہ تھوڑے ہی ہوں.جب تک اس طرح نہ کیا جائے گا وہ پختہ نہ ہوں گے.اور اگر ایک بھی پختہ ہو گیا تو وہ سینکڑوں کمزوروں سے اچھا ہوگا.میرا یہ مطلب نہیں کہ کسی کمزور کو لیا ہی نہ جائے.لئے جائیں مگر ان کی علیحدہ علیحدہ سو سائٹیاں بنائی جائیں.ایک وہ جو مسلمان نہ ہوں مگر اسلام سے دلچسپی لیتے ہوں ان کی سوسائٹی ہو.دوسرے وہ جو مسلمان تو کہلاتے ہوں مگر اسلام کے لئے بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوں.پھر احمد یہ ایسوسی ایشن ہو جس میں ان کو داخل کیا جائے جو چندہ دیں.اور چندوں کے متعلق یہ ہوا ہے کہ جہاں ہندوستانی مبلغ کام کرتے ہیں وہاں سے 25 فیصدی مرکز میں آئے اور 75 فیصدی وہاں خرچ ہو.جب مرکز کی حالت مضبوط ہو جائے تو 25 فیصدی سے بھی کم ہو سکتا ہے.دو تین فیصدی مرکزی ضروریات کے لئے کافی ہو سکتا ہے.باقی اسی ملک میں خرچ کیا جائے گا.جو چندہ مرکز میں آتا ہے وہ مرکزی نظام پر یا ایسی جگہ پر جہاں جماعت کمزور ہو یا بالکل نہ ہو وہاں خرچ کیا جاتا ہے.اگر اس طریق پر کام چلایا جائے تو گو شروع شروع میں وقتیں ہوں گی مگر.

Page 338

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 332 جلد اول جماعت ایسی مضبوط بن جائے گی کہ اس پر ہر طرح سے اعتبار کیا جا سکے گا.پھر ان لوگوں کا مرکز سے تعلق پیدا کرنا چاہئے.امریکہ اور یورپ میں ایسی آزادی پھیلی ہوئی ہے کہ وہ لوگ سمجھتے ہیں کسی مرکز اور کسی انسان سے تعلق رکھنا حریت کے خلاف ہے حالانکہ روحانی امور میں ایک نظام پر سارا کام چلتا ہے.جسمانیات میں نیچے سے اوپر کی طرف ترقی ہوتی ہے لیکن روحانیات میں اوپر سے نیچے کی طرف فیض پہنچتا ہے.اس لئے روحانیت میں نظام بہت بڑا تعلق رکھتا ہے.پس کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کا مرکز اور خلافت سے تعلق مضبوط ہو.ان کو یاد دلاتے رہنا چاہئے کہ مرکز میں خط لکھیں.سلسلہ کی طرف سے جو تحریکیں ہوں وہ سنائی جائیں.خطبات پڑھائے جائیں.مذہبی طور پر خلافت کے نظام کی اہمیت بتائی جائے اور بتایا جائے کہ خلافت مذہبی نظام کا جز ہے.ان تمام کاموں کے لئے سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ دعاؤں سے کام لیا جائے.صلى الله حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے.رسول کریم ہے نے فرمایا ہے یا جوج ماجوج کے مقابلہ کی کسی میں طاقت نہ ہوگی.لَا يَدَانِ لَاحَدٍ لِقِتَالِهِمْ 2 گویا ہا تھوں سے نہیں بلکہ دعاؤں سے اس کا مقابلہ کیا جائے گا.ایک دفعہ میں نے رویا دیکھی.میں نے دیکھا ایک اثر دھا ہے جو دوڑا چلا آتا ہے.جو اس کے سامنے آتا ہے اسے کھا جاتا ہے.وہ اس جگہ آیا جہاں میں کھڑا تھا اور میرے ساتھ کچھ اور دوست بھی کھڑے تھے.وہ ایک دوست کے پیچھے بھاگا.میں سونا لے کر اس پر حملہ آور ہوا کہ دوست کو بچاؤں مگر وہ اسے کھا گیا.میں نے جب اس پر حملہ کیا تو وہ میری طرف لوٹا اور حملہ کیا.دوست آگے بڑھے کہ اس کے حملہ کا جواب دیں.میں نے اُس وقت انہیں کہا میں نے حدیث میں پڑھا ہے لَا يَدَانِ لَاحَدٍ لِقِتَالِهِمُ.اس وقت ایک چار پائی ہے جو بنی ہوئی نہیں صرف لکڑیاں ہیں میں اس کے بازوؤں پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو گیا اور اثر دھا اس کے نیچے گھس گیا.اُس وقت میں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنی شروع کی اور وہ پگھلنے لگ گیا حتی کہ پانی پانی ہو گیا.تو حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ

Page 339

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 333 جلد اول دجال پکھل جائے گا.اثر دھا سے مراد وہی دجالی فتنہ ہے.اس کا مقابلہ سوائے دعا کے اور طرح نہیں ہوسکتا.پھر میں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ دعاؤں کے قبول ہونے کا یقین رکھ کر دعائیں کی جائیں اور خدا تعالیٰ پر یقین رکھیں کہ پوری کرے گا.دعا اسی وقت رد کی جاتی ہے جب بے ایمانی سے کی جاتی ہے.اس بے ایمانی کا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کا انکار کیا جائے یا رسول اللہ ے کی رسالت کو نہ مانا جائے بلکہ یہ یقین نہ ہو کہ دعا قبول ہوگی.جسے یقین نہیں ہوتا اس کی دعا خدا تعالیٰ قبول نہیں کرتا.جب تک کوئی شخص اس یقین کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا کہ ضرور اس سے حاصل کروں گا خالی ہاتھ نہیں آؤں گا اس وقت تک اسے کچھ نہیں ملتا.میں حافظ جمال احمد صاحب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہاں جا رہے ہیں جہاں احمدیت قائم ہو چکی ہے مگر وہاں ابھی نظام قائم نہیں ہوا جو ضروری ہے.وہاں کی جماعت ابھی تنگ مرکزی چندوں میں حصہ نہیں لیتی یا ماہواری چندہ با قاعدہ ادا نہیں کرتی.جب تک یہ بات قائم رہے گی اس وقت تک مرکز سے تعلق نہیں پیدا ہو گا.اس کے لئے ضروری ہے کہ مرکزی معاملات میں ان کو شریک کرنے کی کوشش کی جائے.ابھی تک چونکہ ان لوگوں کو مبلغوں کی ضرورت ہے اس لئے وہ ہماری طرف متوجہ ہوتے ہیں.اگر انہیں یہ ضرورت نہ ہو تو اتنا بھی تعلق نہ رکھیں.پس وہاں یہ قاعدہ لازمی طور پر جاری کر دیا جائے کہ ان سے چندہ لیا جائے.جس میں سے 25 فیصدی مرکز میں بھیجا جائے اور باقی 75 فیصدی وہاں خرچ کیا جائے.ہندوستان کا بہت سا روپیہ بیرون ہند میں خرچ ہوتا ہے.مگر یہاں کے لوگوں پر ذمہ داری بھی دوسروں کی نسبت زیادہ ہے.یہاں باہر سے آنے والے مہاجروں ، مبلغوں ، طلباء اور مہمانوں کا خرچ 40 فیصدی کے قریب ہو رہا ہے.اس لئے کہ ہندوستان پر ذمہ داری زیادہ ہے.خدا تعالیٰ نے ہندوستان میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.اور خدا تعالیٰ نے اس ملک کے لوگوں کو سب سے پہلے مخاطب کیا.اور جہاں پہلے مخاطب ہونے والوں کو انعام زیادہ دیے جاتے ہیں وہاں ان کی ذمہ داریاں

Page 340

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) بھی زیادہ ہوتی ہیں.334 جلد اول بہر حال 25 فیصدی ایسی رقم ہے جو ہر ملک کے لوگوں کو مرکز میں بھیجنی چاہئے.ماریشس کے لوگ یہ ادا نہیں کرتے یا ان سے ادا نہیں کرائی گئی.حافظ صاحب کا یہ بھی کام ہوگا کہ چندے ماہ بماہ وصول کریں.25 فیصدی یہاں بھیج کر باقی وہاں جماعت کی تعلیم پر تبلیغ پر یا جہاں جماعت مناسب سمجھے خرچ کی جائے.اگر اس طرز پر کام کیا جائے گا تو وہاں کے لوگوں میں جوش بھی پیدا ہو جائے گا.وہاں کچھ عرصہ سے ترقی رکی ہوئی ہے، نئے آدمی کم داخل ہو رہے ہیں اس کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.اور اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ لوگ لمبے عرصہ تک جماعت میں داخل ہونے سے رکے رہیں.ایسا ہو تو پھر لمبا وقفہ پڑ جاتا ہے.جنگوں میں دیکھو جب وقفہ پڑتا ہے تو لمبا وقفہ پڑتا ہے.جب فتح ہوتی ہے تو متواتر ہوتی جاتی ہے.اسی طرح انسانوں اور قوموں میں بھی ہوتا ہے.“ الفضل 29 مئی 1928 ء ) :1 ابو داؤد كتاب الملاحم باب امارات الساعۃ صفحہ 606،605 حدیث نمبر 4312 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 2 مسلم کتاب الفتن باب ذكر الدجال صفحه 1271 حدیث نمبر 7373 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية

Page 341

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 335 جلد اول مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے کے اعزاز میں دعوت 11 ستمبر 1928ء تعلیم الاسلام ہائی سکول اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کی طرف سے حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کے باغ میں مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم.اے کے اعزاز میں ایک ٹی پارٹی دی گئی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور کی تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا.” جب تک ہماری جماعت ان لوگوں کی قدر کرتی رہے گی جو دین کی خاطر قربانیاں کرتے ہیں اُس وقت تک اس کا کام ترقی کرتا جائے گا اور نتیجہ خیز اور بابرکت ہوگا.کیونکہ قربانی دراصل اپنی ذات میں ایک نعمت الہی ہے.در حقیقت کوئی انسان قربانی کر ہی نہیں سکتا جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے اسے توفیق حاصل نہ ہو.بعض لوگ سمجھتے ہیں قربانی انسان خود کرتا ہے حالانکہ قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قربانی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتی ہے اور جو قربانی انسان کے اپنے نفس سے پیدا ہوتی ہے وہ دراصل قربانی نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ 1 تو کہہ دے کہ میری عبادت، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ رب العالمین کے ہی لئے ہے.پھر قرآن میں ہم یہ بھی پڑھتے ہیں لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ 2 یعنی رسول کریم ﷺ ہمارے لئے نمونہ ہیں.پس جب رسول کریم کی قربانی رب العالمین کے لئے ہے تو قربانی وہی کہلا سکتی ہے جو آپ کے نمونہ کے مطابق ہو.لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ کے معنے صرف یہی نہیں کہ قربانی خدا کی خاطر ہے بلکہ یہ بھی ہیں

Page 342

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 336 جلد اول کہ خدا ہی اس کا پیدا کرنے والا اور مالک ہے.یہاں ”ل ملک کے لئے آیا ہے اور میں نے اس وقت اس کے یہی معنے لئے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے میری نمازیں خدا نے ہی مجھ سے ادا کروائی ہیں.میری قربانی خدا تعالیٰ نے ہی کروائی ہے.زندگی بھی اسی کی طرف سے ہے.اور میری موت بھی میں نے خود پیدا نہیں کی بلکہ یہ بھی اللہ ہی کی طرف سے ہے.پس قربانی وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے اور جو خدا کی طرف سے آئے وہ نعمت ہے.اور نعمت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لہن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ نَكُمْ 3 پس جب تک ہماری جماعت میں یہ احساس رہے گا کہ جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سلسلہ کی خدمت کی توفیق دے ان کی قدر کریں سلسلہ ترقی کرتا جائے گا.اور جب یہ قدرمٹ جائے گی یہ نعمت بھی چھن جائے گی.پس قومی ترقی کے لئے یہ امر نہایت ضروری ہے کہ ان لوگوں کے کام کی قدر کی جائے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا موقع دیا.ضرورت ہے کہ ہماری جماعت یہ محسوس کرے کہ یہ اللہ کا احسان ہے کہ بعض لوگوں کو خدمت کی توفیق ملے.میں اس وقت ملک صاحب کے جواب کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دو باتیں کہنی چاہتا ہوں.پہلی بات یہ ہے کہ انکسارا اپنی ذات میں بہت اچھی چیز ہے اگر ہم واقعی یہ احساس رکھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے ، جو کچھ ظاہر ہوا سب خدا کی طرف سے ہے تو ہم ایسے رستے پر گامزن ہیں کہ ہمیشہ خدا کی مدد اور نصرت ہمارے شامل حال رہے گی.لیکن انکسار تین قسم کا ہوتا ہے.دو قسمیں انکسار کی بری ہوتی ہیں اور ایک اچھی.اگر ایک شخص وثوق سے یہ یقین رکھتا ہے کہ میں کچھ چیز نہیں ہوں جو کچھ کام ہورہا ہے یہ سب خدا کا فضل ہے تو یہ انکسار خدا کی نصرت کا موجب ہوتا ہے.لیکن ایک انکسار یہ ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے کام کے متعلق نہیں بلکہ اصل کام کے متعلق ہی بدظنی ہو جاتی ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا اور یہ خطر ناک قسم کا انکسار ہے.اپنے کام کے متعلق تو یہ خیال کرنا کہ میری کوشش سے نہیں ہوا بلکہ خدا کے فضل سے ہوا بے شک خوبی ہے.لیکن کام کے متعلق یہ سمجھ لینا کہ مجھ سے نہیں ہو سکتا

Page 343

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 337 جلد اول سخت جرم ہے.مومن کو بھی یہ خیال بھی نہیں کرنا چاہئے کہ کوئی کام ہو نہیں سکتا یا فلاں کام بہت مشکل ہے اور ہماری کوشش اور محنت بالکل حقیر ہے.پس ہمارے مبلغین کو خاص خیال رکھنا چاہئے کہ انکسار کا یہ پہلو پیدا نہ ہو.ایک تیسری قسم انکسار کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کو صرف اپنی ذات پر ہی بدظنی نہیں ہوتی بلکہ اس کی آنکھ سے خوبی ہی مٹ جاتی ہے اور وہ دوسرے کی خوبی کو بھی نہیں دیکھ سکتا.یہ انکسار ایک وسوسہ ہوتا ہے حقیقت میں اس میں خوبیاں ہوتی ہیں اور دوسروں میں بھی ہوتی ہیں.لیکن اس کا نفس اپنے آپ کو ہی حقیر کر کے اس کے سامنے پیش کرتا ہے.ہماری جماعت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل چونکہ نیکی اور خشیت اللہ کے باعث انکسار زیادہ ہوتا ہے اس لئے ان کو انکسار کے اس پہلو سے بھی بچنے کی تاکید کرنا میں ضروری سمجھتا ہوں.دوسری بات جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ہے وہ کام کرنے والوں کے متعلق رائے کا اظہار ہے.در حقیقت جس صورت میں ہماری جماعت کے کام سر انجام پارہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے میں ہمیشہ کام کرنے والوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اپنے دل کو خدا تعالیٰ کے تشکر کے جذبات سے معمور پاتا ہوں.یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض اوقات انسان ایسے مقام پر کھڑا ہوتا ہے کہ وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار نہیں کر سکتا اور اس کی ذمہ داریاں اور ان لوگوں کی ہمدردی جن سے تعاون کر کے وہ کام ہوتے ہیں چاہتے ہیں کہ دلی جذبات کو چھپایا جائے.ہم نے ایک دفعہ ایک انجمن بنائی جس میں تقریریں کرنے کی مشق کی جاتی تھی اور اعلیٰ درجہ کی تقریر کرنے والوں کو انعام دیئے جاتے تھے.میں اس میں جب بھی تقریر کرتا حضرت خلیفة المسیح الاول اس پر ہمیشہ جرح اور نکتہ چینی کرتے.کچھ مدت تک اسی طرح ہوتا رہا.میرے نفس نے دھوکا دیا اور میں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب مجھ پر حد سے زیادہ سختی کرتے ہیں.میں نے ایک مضمون لکھا اور اپنے ایک اسکول فیلو (School fellow) کو جو تقریر کرنا نہیں جانتا تھا پڑھنے کے لئے دیا.جب اس نے مضمون پڑھا تو حضرت مولوی

Page 344

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 338 جلد اول نے اس کی از حد تعریف کی.اس پر میرے دل میں اور احساس ہوا کہ مولوی صاحب مجھ سے سختی کرتے ہیں.کچھ عرصہ بعد معلوم نہیں مولوی صاحب نے ہی مجھے بتایا یا خود ہی معلوم ہوا کہ انوری جو فارسی کا بہت مشہور شاعر گزرا ہے وہ شعر کہتا اور اس کا استاد اس کے اشعار سن کر کہہ دیتا تم طبیعت پر اچھی طرح زور دے کر نہیں کہتے.اور باقیوں کی تعریف کرتا.اس کے دل میں بھی یہی خیال پیدا ہوا کہ استاد مجھ سے نا منا سب سختی کرتا ہے.آخر ایک دن اس نے اپنے اشعار پرانے بوسیدہ کا غذات پر لکھے تا کہ وہ کسی پرانے شاعر کا کلام معلوم ہوں اور جا کر کہا مجھے یہ شعر ملے ہیں.استاد نے انہیں پڑھا اور خوب تعریف کی.تعریف سن کر انوری نے کہا یہ تو میرا اپنا ہی کلام ہے.یہ سن کر استاد نے کہا کہ اب تم ترقی نہیں کر سکو گے تمہارے کلام میں خوبی دیکھ کر میں نے چاہا تھا کہ تمہارے مخفی جو ہر ظاہر ہوں.لیکن اب کہ تمہیں معلوم ہو گیا ہے کہ تم میں قابلیت موجود ہے تم اس سے آگے ترقی نہیں کر سکتے.اور انوری نے لکھا ہے کہ میں نے واقعی اس کے بعد اپنے کلام میں کوئی ترقی نہیں کی.سو کبھی اخلاق کی درستی کارکنوں میں توازن قائم رکھنے اور دیگر کئی ایک وجوہ کے باعث کام لینے والے کو جذبات کو دبانا پڑتا ہے.لیکن یہ دبانے سے اور بھی تیز ہوتے ہیں.ہر وہ شخص جو دین کا کوئی بھی کام کرتا ہے گو وہ اپنا فرض ہی ادا کرتا ہے لیکن خلیفہ پر احسان بھی کرتا ہے کہ اس کی ذمہ داری خلیفہ پر ہے.اور میں اس احسان کو اچھی طرح محسوس کرتا ہوں.ایک اور بات بھی ہے خلیفہ کے تعلقات جماعت سے باپ بیٹے کے ہوتے ہیں اس کی لئے جہاں اسے مختلف موقعوں پر جذبات کو دبانا پڑتا ہے وہاں دوسروں کا فرض ہے کہ انہیں ظاہر کریں.خلیفہ نے چونکہ بہتوں سے کام لینا ہوتا ہے اس لئے اسے جذبات تو دبانے پڑتے ہیں لیکن دوسروں کو ضرور ظاہر کرنے چاہئیں.کیونکہ جذبات کے اظہار سے ظاہر کرنے والوں کی حقیقت اور میلان طبعی کا پتہ چلتا ہے.اور اگر ہر کوئی اپنے جذبات کو

Page 345

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 339 جلد اول دبائے ہی رکھے تو پھر کام لینا مشکل ہو جاتا ہے.لیکن ظاہر کرنے کے بعد کام لینے والے کے دل میں جو بھی خدا تعالیٰ ڈالے وہ اس کے مطابق کام لے سکتا ہے.پس دوسروں کو اپنے جذبات دبانے نہیں چاہئیں کیونکہ جذبات کا دبانا بعض اوقات ٹھوکر کا موجب بھی ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک مخلص خادم تھے.وہ حضور کی مجالس میں نہیں آتے تھے.اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ حضور کے رعب کے باعث جانے کی جرات نہیں ہوتی.آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا یہ بھی شیطانی وسوسہ ہے.حضرت ابو بکر اور دیگرا کا بر صحابہ رسول کریم ﷺ کی مجالس میں آتے تھے.ہماری مجلس میں کسی کا نہ آنا سخت غلطی ہے.اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ جذبات کو دبانا نہیں چاہئے.پیر مرید کا تعلق دراصل جذبات کا ہی تعلق ہوتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ب ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله 4 یہ بھی دراصل جذبات ہے کا ہی اظہار ہے.یہاں اتباع فرمایا.جس کے معنی ہیں پیچھے چلنا.یہاں حکم ماننا یا اطاعت کرنا نہیں فرمایا.بلکہ یہ فرمایا کہ جیسے بچہ اپنی ماں کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اسی طرح تم رسول کے پیچھے پیچھے اگر چلو گے تو خدا تعالیٰ تم سے اس کے نتیجہ میں محبت کرے گا.اور پیچھے چلنا محض جذبات کا تعلق ہے.اور خلیفہ بھی رسول کا ظل ہوتا ہے اس لئے وہ بھی جذبات سے ہی تعلق رکھنے والی چیز ہے.ایڈریس کے متعلق جو اس وقت پیش کیا گیا ہے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ اس لحاظ سے قابل قدر ہے کہ اس میں عام ایڈریسوں سے جو ایسے موقعوں پر پیش کئے جاتے ہیں ایک قدم آگے اٹھایا گیا ہے.یعنی اس میں محبت آمیز جرح بھی تھی.میرے نزدیک اپنے خیالات کو اس حد تک بیان کرنا کہ محبت اور ادب و احترام کا پہلو مد نظر رہے ایک خوشنما پہلو ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ آپ آئے اور بہت خوشی ہوئی اس میں کوئی زیادہ لذت نہیں ہوتی بلکہ اس میں تکلف پایا جاتا ہے.پس ایڈریس کے طریق بیان پر بھی میں

Page 346

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) اظہار خوشنودی کرتا ہوں.“ 1: الانعام: 163 2: الاحزاب:22 3: ابراهيم : 8 4: آل عمران: 32 340 جلد اول (الفضل 5 /اکتوبر 1928ء)

Page 347

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 341 جلد اول حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت 24 /اکتوبر 1928ء صبح نو بجے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی گئی.جس میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا:.” ہمارے مبلغین کے آنے یا جانے کے وقت جو ایڈریس دیئے جاتے ہیں میرے نزد یک انہیں جس قدر بھی زیادہ مفید بنایا جا سکے بنانا چاہئے اور کوشش ہونی چاہئے کہ ان میں وقت ضائع نہ ہو.جب ہم کسی کی دعوت کرتے ہیں یا کسی کے ہاں دعوت کھانے کے لئے جاتے ہیں تو اس وقت علمی یا روحانی حقائق بیان نہیں کرتے بلکہ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسے امور جو عام دلچسپی کا موجب نہ ہوں انہیں چھوڑ دیا جائے.اور یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ بعض اوقات وہ اپنی ذمہ داریوں کو بھلانا چاہتا ہے بلکہ میں کہوں گا کہ انسان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کو بھلا دے.رسول کریم ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں تو منافق ہوں.آپ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا جب میں حضور کی مجلس میں آتا ہوں تو دوزخ و جنت میرے سامنے ہوتے ہیں اور ان کا نظارہ میری نظروں کے آگے آجاتا ہے.لیکن جب میں یہاں سے جاتا ہوں تو یہ نظارہ نہیں رہتا.آپ نے فرمایا یہی تو ایمان ہے تا تو اپنی زندگی بھی قائم رکھ سکے.1 غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ بعض اوقات وہ

Page 348

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 342 جلد اول اپنی ذمہ داریوں کو بھلا دے.اور بعض اوقات کے الفاظ پر میں اس لئے زیادہ زور دیتا ہوں کہ انسانی طبائع کو خدا تعالیٰ نے گو پاک بنایا ہے مگر شاید تربیت کے نقص یا صحبت کی خرابی یا اور کسی وجہ سے کثرت ایسی ہے کہ وہ آسانی سے ان غفلت کے لمحوں کی طرف مائل ہو جاتی ہے جو اسے حقیقی کاموں سے روک دیتے ہیں.اس لئے میں بعض کے لفظ پر زور دوں گا کیونکہ انسان پہلے ہی اس کی حدود سے تجاویز کر چکا ہے.تو بعض لمحوں میں ضرورت ہوتی ہے کہ ہم ان خیالات کو یا ان کی حدت اور سختی کو کم کر دیں تا ہم میں وہ ہمت پیدا ہو جو فرائض کی ادائیگی میں مد ہو.عام دعوتوں میں کوشش کی جاتی ہے کہ ایسے طریق سے گفتگو ہو جس کا سننا شامل ہونے والوں کو بوجھ معلوم نہ ہو.لیکن جن دعوتوں کی غرض یہ ہو کہ کسی کارکن کی خدمت پر اظہار امتنان کیا جائے یا جس میں کسی آئندہ ہونے والی خدمت کے لئے امیدوں کا اظہار کیا جائے اور ان کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ ایسے رنگ میں ہوں کہ ان سے دعوت دینے والے اور دعوت کھانے والے دونوں کو فائدہ پہنچے.یہی وجہ ہے کہ ایڈریس دیئے جاتے ہیں ورنہ خالی اظہار تشکر تو چائے کی پیالی سے بھی ہو سکتا ہے.لیکن جب اس کے ساتھ ایڈر میں اور پھر اس کا جواب ہو تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم یہاں صرف کھانے کے لئے جمع نہیں ہوئے بلکہ مقصد کچھ اور ہے اور یہ محض ایک ذریعہ ہے.پس جب مدعا اس سے بالا ہوا تو ضروری ہے کہ اسے بہتر سے بہتر طریق پر پورا کیا جائے.اس لئے ایسی دعوتیں ایسے وقت پر ہونی چاہئیں کہ انسان زیادہ وقت دے سکے.اس کے بعد میں نے آج ایک بات کی ہے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں تا کوئی اس سے غلط اندازہ نہ لگا سکے.میں ان لوگوں میں سے ہوں جو سختی سے اس بات کے قائل ہیں کہ قومی امور میں سادگی ہونی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بارہا ہم لوگ مٹی پر بیٹھے ہیں اور اسی طرح حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں بھی.اور ایسے لوگ بیٹھتے رہے ہیں جن کی سلسلہ میں عظمت قائم ہو چکی تھی.لیکن میں نے جو بات نا پسند

Page 349

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 343 جلد اول کی ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے کوئی اس علم سے زمین پر بیٹھے کہ ہمارے بعض ساتھی تو فرش پر بیٹھے ہیں اور ہم زمین پر.زمین پر بیٹھنا بری بات نہیں.میں نے یورپ میں دیکھا ہے نہانے کے لئے بڑے بڑے لارڈ اور امرا اپنی بیویوں کے ساتھ ساحل پر لیٹے ہوتے ہیں.کسی کو غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے یہ زمین پر بیٹھنا نہیں جسے میں نے ناپسند کیا ہے.جو چیز بری ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایسا انتظام کریں جس میں ہمارے مدنظر یہ ہو کہ ہم میں سے بعض تو زمین پر بیٹھیں گے اور بعض کسی اور چیز پر.ہم اگر اپنی طرف سے پورا انتظام کرتے ہیں اور پھر لوگ زیادہ آجائیں اور وہ زمین پر بیٹھ جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں.اس سے خیالات میں دون ہمتی پیدا نہیں ہوتی بلکہ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ قومی معاملات میں ایسی باتیں برداشت کرنی چاہئیں.لیکن اگر یہ سمجھیں کہ ہمارے لئے تجویز ہی یہ کیا گیا ہے کہ ہم زمین پر بیٹھیں تو یہ اختلاف ہے.اگر آسانی سے یہ انتظام ہو سکتا ہے کہ سارے ہی بنچوں پر بیٹھیں تو یہ اچھی بات ہے.لیکن اگر ہمارے ذہن میں یہ ہو کہ کرسیاں تو ہیں اور ہم مہیا کر سکتے ہیں پھر بعض کو کرسیاں دیں اور بعض کو بیچ تو یہ بہت نامناسب بات ہو گی.جس حد تک ممکن ہوا اگر ہم کوشش کریں اور پھر اگر لوگ زیادہ آجائیں اور کسی کو جگہ نہ مل سکے اور وہ زمین پر بیٹھ جائے تو یہ قربانی ہے.لیکن جس چیز کو میں نے ناپسند کیا ہے وہ یہ ہے کہ بچے اس احساس کے ساتھ بیٹھیں کہ ہمارے لئے مدنظر ہی یہ رکھا گیا ہے کہ ہم زمین پر بیٹھیں.کام کے لحاظ سے تو میں اس بات کو پسند کرتا ہوں اور میری دیرینہ خواہش ہے کہ جہاں مہمان خانہ بنانے کی تجویز ہے اور جہاں بھرتی پڑتی ہے وہاں اپنے ہاتھ سے بھرتی ڈالیں تا ہاتھ سے کام کرنے کی روح ہم میں قائم رہے اور قومی امور میں اعزاز کا خیال ہمارے رستہ میں حائل نہ ہو.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ ہمارے مدارس میں جو زبانیں پڑھائی جاتی ہیں ان میں ایڈر میں نہ دیئے جائیں نہ میں یہ کہتا ہوں کہ عربی یا انگریزی میں لیکچر نہ ہوں.لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر ایک مفید چیز کا کچھ حصہ ضائع ہو جائے تو یہ امر تکلیف دہ ضرور ہے.

Page 350

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 344 جلد اول ہماری مجالس عام طور پر مشترکہ مجالس ہوتی ہیں جن میں سب قسم کے لوگ شامل ہوتے ہیں.پس اس وجہ سے یہ امر قابل افسوس ضرور ہوتا ہے اگر ہم اس چیز کو جس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے محدود کر کے اس کے دائرہ کو تنگ کر دیں.در د صاحب نے اپنی تقریر میں اپنے تجربہ کا ایک واقعہ بیان کیا ہے.میں سمجھتا ہوں ہے.اس میں دو باتیں نہایت لطیف ہیں جن کا سمجھنا دوسروں کے لئے بھی بہت مفید ہو سکتا.ان کے علاوہ اور باتیں بھی ہیں جو سبق آموز ہیں.لیکن دو تو بہت ہی ضروری ہیں.میں نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے ہمسایوں کی طرف زیادہ توجہ دیں.آتے وقت میں نے انہیں کچھ ہدایتیں لکھ کر دی تھیں جن میں خصوصیت سے ہمسایوں سے تعلقات قائم کرنے کی تلقین کی تھی.کیونکہ میں سمجھتا ہوں اس کے بغیر کوئی مشن کا میاب نہیں ہو سکتا.میں نے دیکھا کہ ہمارے مبلغین ہمسایوں سے قطعاً نا واقف تھے اور میرے پوچھنے پر انہوں نے جواب دیا کہ لوگ ملنا پسند نہیں کرتے.لیکن میں نے انہیں بتایا کہ دنیا میں ایسا کوئی کام نہیں جس میں کچھ لوگ ایسے نہ مل جائیں جنہیں اس کام کی Hobby یا سودا2 نہ ہو.پس ایک مبلغ کی کامیابی کا یہ معیار ہر گز نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے ارد گرد چند ایسے لوگ جمع کرلے جنہیں مذہبی بحثیں کرنے کا سودا ہو.اور ایسے لوگوں کو تلاش کر لینا کوئی کامیابی نہیں سمجھی جاسکتی.یہ محض وقت گذارنا ہے.ایسے لوگوں کو جمع کر لینے سے کوئی شخص مبلغ کو کامیاب نہیں کہہ سکتا.لیکن اگر کوئی مبلغ اپنے ہمسایوں سے تعلقات پیدا کر لیتا ہے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے صرف مذہبی Hobby والوں کو اپنے اردگرد جمع کر لیا ہے.پس مبلغ کی لیاقت اور قابلیت اسی میں ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے تعلقات بڑھائے جن کے متعلق یہ خیال بھی نہ ہو کہ انہیں مذہبی امور سے کوئی دلچسپی ہے اور یہی اس کی کامیابی سمجھی جاسکتی ہے.دوسرے اس میں یہ ایک خطرناک نقص تھا کہ اگر کوئی شخص ہمسایہ میں رہے اور اس کے حالات سے لوگ واقف نہ ہوں اور ایک دوسرے سے تعلق نہ رکھتے ہوں تو وہ لوگ اسے Mysterious سمجھتے ہیں.ایک انگریز اگر اپنے انگریز ہمسایہ سے سالہا سال

Page 351

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 345 جلد اول تک پڑوس میں رہنے کے باوجود بھی تعارف پیدا نہ کرے تو وہ ایک دوسرے کو Mysterious نہیں سمجھیں گے اور اسے قومی کیریکٹر سے تعبیر کریں گے.لیکن اگر ایک ہندوستانی اپنے ہمسایہ سے تعلق نہ رکھے تو یہ اس کے قومی کیریکٹر پر محمول نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے ایک Mysterious آدمی سمجھا جائے گا.پس اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات جو لوگ ملاقات کے لئے آتے ہیں وہ صحیح دروازہ پر نہ پہنچنے کے باعث پڑوسیوں سے راستہ دریافت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.اور وہ پڑوسی چونکہ انہیں Mysterious سمجھتے ہیں اس لئے اگر چہ وہ زبان سے کوئی بات نہ بھی کہیں پھر بھی آنکھوں ہی آنکھوں میں یا اپنے لہجہ سے ہی ملنے والے کے دل میں شکوک پیدا کر دیتے ہیں اور ملنے والا یہ سمجھتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے جسے ہمسایہ چھپاتا ہے.اور بہت سے لوگ مشن میں آنے سے پہلے ہی متعصب ہو جاتے ہیں.سید محمود اللہ شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ ایک میم سے مشن کے مکان کا راستہ پوچھا وہ کہنے لگی کہ کیا تم وہاں جانا چاہتے ہو؟ اور میری طرف سے ہاں پر اس نے کہا You seem to be a gentleman اس سے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہاں کوئی gentleman نہیں جاتا.یہ اس نے محض اس وجہ سے کہا کہ وہاں غیر قوم کے لوگ رہتے ہیں.ہمیں معلوم نہیں وہ کون ہیں اور کیسے ہیں.تو اس وجہ سے میں نے مبلغین کو ہدایت کی تھی کہ ان کا پہلا فرض یہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمسایوں سے تعلقات پیدا کریں.وہ اگر نہ بھی ملیں تو یہ ضرور کوشش کرتے رہیں.اور اس کوشش سے بھی اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ اگر وہ ملاقات نہ بھی کریں گے تو کم از کم Mysterious بھی نہیں کہیں گے.بلکہ کہیں گے کہ اس نے تو call کیا تھا مگر ہم خود ہی نہیں مل سکے.اور اس طرح وہ ملاقات کے لئے آنے والوں پر برا اثر نہیں ڈال سکیں گے.بلکہ اگر شریف ہوں گے تو اخلاق کی تعریف کریں گے.اور اس طرح آنے والے کے دل سے تعصب نکل جائے گا اور مبلغ کے کام میں آسانی ہو جائے گی.

Page 352

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 346 جلد اول در دصاحب نے وہ طریق بیان کیا ہے کہ کس طرح انہوں نے ہمسایوں پر اثر ڈالا.یہ اپنی ذات میں ایک لطیفہ بھی ہے اور مبلغین اس سے بہت فائدہ بھی حاصل کر سکتے ہیں.لیکن ایک اور فائدہ جو سکول میں اس سے حاصل کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ درد صاحب نے اپنا تجربہ بیان کیا ہے کہ جو دل ایک بند قلعے کی طرح تھے جس میں کسی طریق سے ان کا داخلہ ممکن نظر نہیں آتا تھا، جس کے لئے تمام کوششیں ناکام رہیں ، جہاں تمام دعوتیں اور دیگر با تیں فضول ثابت ہوئیں ان میں وہ بچوں کے ذریعہ داخل ہو گئے.اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ماں باپ کے قلوب میں گھر کرنے کا آسان ذریعہ ان کے بچوں پر فتح پانا ہے.یہ ایک اتفاق تھا یا یوں سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاؤں کو سنا کہ کچھ لڑ کے سٹیمپ لینے کی خاطر ان کے پاس آگئے ممکن ہے وہ انہیں بنگال کا جادو گر ہی سمجھتے ہوں اور ان کا خیال ہو کہ یہ ہمیں اپنےmagic wand سے دور دراز ممالک کے سٹیمپ منگواد گا.اور اس وجہ سے وہ ان کے پاس آگئے.پھر درد صاحب نے ان دو بچوں کے ذریعہ ان کے ماں باپ کے قلوب پر فتح پائی.تو سکول کا انچارج جس کے پاس سینکڑوں kiddies( بچے ) ہوتے ہیں ان کے ذریعے سے وہ کتنے لوگوں کے قلوب کو فتح کر سکتے ہیں.جب درد صاحب نے دو بچوں کے ذریعہ محلہ کے بند دروازوں کو اپنے لئے کھلوا لیا اور ایسی قوم کے کئی گھروں کو مسخر کر لیا جو علیحدہ رہنے والی ہے تو جس کے پاس 500 دروازے ہوں وہ کتنے گھروں میں داخل ہو سکتا ہے.مگر قابل غور امر یہ ہے کہ کیا ہم ان دروازوں سے وہی کام لیتے ہیں؟ کیا ہم ان کے والدین کے قلوب کو مسخر کرتے ہیں؟ کیا ہزاروں گھر ایسے نہیں جن میں ہمارے لئے محبت کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں اور کئی کھڑکیاں ہمارے لئے ایسی کھل سکتی ہیں جن سے سرد ہوائیں آئیں؟ مگر غلط طریق کے باعث بجائے محبت کے جذبات کے انہیں کھڑکیوں سے ہمارے لئے دوزخ کی کوئیں آتی ہیں.اگر ایسا ہی ہے تو ہم ایک بہترین چیز سے بدترین کام لے رہے ہیں.درد صاحب کا تجربہ ہے کہ والدین کے قلوب فتح کرنے کا ذریعہ بچے ہیں.پس اس وجہ سے میں

Page 353

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 347 جلد اول اساتذہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہر بچہ ایک کھڑکی ہے جس سے تم اپنے سے خلوص رکھنے والے دل ملک میں مہیا کر سکتے ہو.اس موقع کو ضائع کر کے اگر آپ بجائے محبت کے نفرت کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوں تو یہ ناشکری ہوگی.اساتذہ کو چاہئے کہ اس سے سبق حاصل کریں اور بچوں سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں.بہترین طریق کسی کے دل کو مسخر کرنے کا اس کے بچے سے نیک سلوک ہے.ریل میں دیکھو.جب کمرے میں جگہ نہیں ہوتی اور ہر نئے آنے والے کو لوگ داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں اس وقت اگر کسی کے بچے سے ذرا سا بھی پیار کر دیا جائے تو وہ فورا سکڑ کر بیٹھنے کے لئے جگہ بنا دے گا.بچوں سے عام ہمدردی نہ ہونے کا ایک خطرناک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ سزا دینی مشکل ہو جاتی ہے.حالانکہ یہ نہایت ضروری چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے و شخص مامور ہونے کے قابل ہی نہیں جو سخت سے سخت سزا دینے کی اہلیت نہ رکھتا ہو.تو عام ہمدردی نہ ہونے کے باعث بچوں کو سزا دینی بھی مشکل ہو جاتی ہے.اگر نانوے بچے ایسے ہوں کہ وہ استاد کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہوں تو ایک کو سزا دینے پر کوئی نہیں کہے گا کہ یہ بغض یا کینہ سے دی گئی ہے.لیکن جب عام ہمدردی نہ ہو تو اگر شریر سے شریر کو بھی سزا دی جائے گی پھر بھی لوگ چلا اٹھیں گے کہ یہ بغض اور کینہ سے دی گئی ہے اور جو قوم سزا دینے کی قابلیت نہیں رکھتی وہ آج نہیں تو کل ضرور گرے گی.مجھے افسوس ہے کہ ابھی اس طرف توجہ نہیں کی گئی.دوسری بات جو میرے نزدیک لطیف ہے یہ ہے کہ طالب علم کی حفاظت کے لئے ہم اس کے کھیلوں کے اوقات میں اس کی حفاظت کریں.موجودہ طریق تعلیم میں اس پر خاص زور نہیں دیا جاتا.اصل بات یہ ہے کہ نگرانی کی ضرورت اسی وقت زیادہ ہوتی ہے جب ہم بچہ کے پاس نہ ہوں یا نہ ہو سکتے ہوں.اور یہ امر بھی بہت ضروری ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے بچہ کو اپنے سے جدا کیا جائے.اگر ہر وقت ہم اسے اپنی نظروں کے سامنے ہی رکھیں تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی.اس کے لئے ضروری ہے کہ کچھ عرصہ کے لئے

Page 354

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 348 جلد اول اسے علیحدہ کیا جائے تا اس میں اپنی ذات پر اعتماد کرنے کی اہلیت پیدا ہو.اور اس میں وہ مادہ پیدا ہو جس کے تحت انسان سختی نرمی برداشت کر سکتا ہے.یہ مادہ بغیر جدا کرنے کے پیدا نہیں ہو سکتا.بڑی نگرانی کی ضرورت یہ ہے کہ ہم اس کے غائب اوقات میں اس کی نگرانی کریں.درد صاحب نے اس کے لئے ایک طریق بتایا ہے کہ انہیں کوئی ایسا سودا لگا دیا جائے جس میں وہ مشغول رہ سکیں.کیونکہ جب کوئی شغل نہ ہو تو بچے آوارہ ہو جاتے ہیں ہمارے ملک میں اسی وجہ سے نوے فیصدی لوگ آوارہ ہوتے ہیں.یہ میرا تجربہ ہے اور آوارگی یہی ہے کہ فضول باتوں میں وقت ضائع کیا جائے.ہماری قوم میں یہ ایک رواج ہے کہ بے فائدہ باتوں میں وقت ضائع کیا جاتا ہے.گو یا وقت کا قتل کرنا ہماری گھٹی میں ہے.گھنٹوں بیٹھے ادھر ادھر کی فضول باتیں کرتے رہتے ہیں اس لئے ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت ایسے طریق پر کی جائے کہ وہ فارغ رہتے ہوئے بھی مشغول رہیں.یورپ میں یہ بات نہیں.وہاں بچوں کو ایسی عادات ڈالی جاتی ہیں کہ وہ فارغ رہتے ہوئے بھی مشغول رہتے ہیں.انہیں تیتریوں کے پکڑنے کا شوق لگا دیا جاتا ہے جن میں سے اکثر بہت خوبصورت ہوتی ہیں اور بچے چھینکے لئے انہیں پکڑتے پھرتے ہیں.اس طرح وہ دوڑنے کو دنے میں مشغول رہتے ہیں.یہ عادت نہایت مفید ہے اور اس کا بچوں کی میں پیدا کرنا اچھا ہے.درد صاحب نے فوٹو لینے کا بھی ذکر کیا ہے مگر میں اس کی تائید نہیں کرتا.کیونکہ اس میں خرچ ہوتا ہے اور ہمارا ملک بہت غریب ہے.ہاں ڈرائینگ اور پینٹنگ میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ اس میں چند پیسے ہی خرچ ہوتے ہیں.سٹیمپ جمع کرنا بھی اچھا ہے.غرضیکہ کوئی Hobby ہونی چاہئے جس میں بچے مشغول رہیں.لیکن اس میں ایک اور بات بھی قابل غور ہے.ان باتوں کے لئے بھی ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے.اور اس میں یہ مشکل ہے کہ اچھے ساتھیوں کا ملنا مشکل ہوتا ہے.کیونکہ یہاں اکثر بچے خراب ہوتے ہیں اس لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ماں باپ بچوں کے لئے دوست خود تجویز کریں اور اگر توجہ کی جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں ہے.اس طرح دوستوں کے

Page 355

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 349 جلد اول دائرہ کو تنگ کیا جا سکتا ہے.بچوں کو کہہ دیا جائے کہ تمہیں فلاں بچوں سے ہی کھیل کود کی اجازت ہے.ان سے خواہ لڑو، جھگڑ ومگر ان کے سوا کسی سے تمہیں ملنے کی اجازت نہیں.اگر یہ نگرانی کی جائے تو بہت مفید ہو سکتا ہے.اور اس کی زیادہ ضرورت صرف ایک نسل تک رہے گی اس کے بعد خود بخود بچوں کی اصلاح ہو جائے گی.دوسری بہترین Hobby نماز ہے.اگر ماں باپ اس امر کا لحاظ رکھیں کہ بچہ نماز میں ضرور حاضر ہو تو اس سے بھی بہت کچھ اصلاح ہو سکتی ہے.ہم نے تو جو کچھ سیکھا مسجدوں میں ہی سیکھا ہے.مسجدوں میں جاتے تھے تو ہمارے کان میں یہ آواز میں پڑتی تھیں کہ اسلام پر یہ مصیبت ہے اور اس وجہ سے سب لوگ ملول نظر آتے تھے.ہم بھی اس نظارہ سے متاثر ہوتے تھے اور اس کا ایک نشان ہمارے دل پر نقش ہو جاتا تھا اور دل میں خواہش پیدا ہوتی تھی کہ ہم بھی اسلام کی کوئی خدمت کریں اور اس مصیبت سے اسے نجات دلانے کی کوشش کریں.پھر کبھی دیکھتے تھے لوگ ہنس رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں کیونکہ اسلام کی فتح ہوئی ہے یا کوئی معجزہ یا نشان ظاہر ہوا ہے.اس پر ہمارے دل میں بھی یہ احساس ہوتا تھا کہ یہ بھی کوئی لذت اٹھانے والی چیز ہے.تو بچوں کو اپنے ساتھ مساجد میں لانا بہت ضروری ہے.وہ وہاں آ کر بے شک کھیلیں، کو دیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ صوفی مزاج اس پر برا بھی منائیں گے لیکن اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے.لیکن بچہ سے بھی میری مراد پیشاب کرنے والا بچہ نہیں بلکہ وہ بچہ ہے جس میں تمیز کا مادہ پیدا ہو چکا ہو اور وہ یہ سمجھ سکے کہ نماز میں شامل ہونا چاہئے.ایسے ہی بچوں کو ساتھ لانا چاہئے اس طرح بھی ان کا بہت سا وقت گزر جائے گا.یہ چیزیں ہیں جن سے بچوں کی عمدہ تربیت ہو سکتی ہے.نماز بھی ان کے لئے Hobby ہی ہے کیونکہ اس سے انہیں کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا.وہ بے شک اپنے ہمجولیوں سے باتیں کریں مگر نماز شروع ہو تو اس میں شامل ہو جائیں.اسی لئے شریعت کا حکم ہے کہ بچوں کو پیچھے بٹھا ؤ3 وہ بے شک آپس میں باتیں کریں اور کھیلیں لیکن نماز میں ضرور شامل ہوں اس سے لازماً ان کے قلوب پر اثر پڑے گا.جب تک

Page 356

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 350 جلد اول بچوں کی تربیت کے لئے ایسے ذرائع اختیار نہیں کریں گے آئندہ نسلیں خراب عادات یا ناقص تربیت کے خطرہ سے بچ نہیں سکتیں.پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بچوں کے لئے دوستوں کے انتخاب کا خاص خیال رکھیں اور انہیں نماز کی Hobby لگا ئیں کہ ( الفضل 6 نومبر 1928ء) یہ بہترین Hobby ہے.66 1: مسلم كتاب التوبة باب فضل دوام الذكر والفكر (الخ) صفحه 1191 حدیث نمبر 6966 مطبوعہ ریاض 2000ء الطبعة الثانية 2: سودا: عشق بگن ، دھن ، خبط ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 818 فیروز سنز لاہور مطبوعہ 2010ء) 3 بخاری کتاب الاذان باب وضوء الصبيان صفحہ 139 حدیث نمبر 860 مطبوعہ رياض 1999ءالطبعة الثانية

Page 357

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 351 جلد اول احمدی مبلغ اپنے کام نمایاں رنگ میں پیش کیا کریں 24 اکتوبر 1928ء افسران صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم.اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت طعام دی گئی جس میں حضرت خلیفة السیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا.”ہمارے ملک میں اور غیر ممالک میں بھی یہ ایک مثل ہے کہ دو پہر کے کھانے کے بعد آرام کرو اور شام کے کھانے کے بعد چہل قدمی کرو.اس کی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ دو پہر کے کھانے کے بعد آرام کرنا چاہئے.خصوصاً ان لوگوں کو جنہیں معدے کی تکلیف ہو اور خصوصاً مجھے جسے اسہال کی شکایت ہے.درد صاحب نے اس وقت جو کچھ بیان کیا ہے میں سمجھتا ہوں وہ بھی اسی مثل کے اثر کے ماتحت وضاحت سے بیان نہیں کر سکے حالانکہ تقریر کرنے کے لئے یہ نہایت عمدہ موقع تھا.ذاتی تعلقات قائم کرنا نہایت عمدہ چیز ہے اور ان کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے.تعلقات ذاتی دوستی کی بناء پر نہیں ہونے چاہئیں.ذاتی دوستی تو انسان اسی سے رکھتا ہے جس سے مزاج مل جائے.مگر کام لینے کے لئے ان لوگوں سے بھی تعلقات رکھنے پڑتے ہیں جن سے مزاج نہ ملے.بلکہ زیادہ انہیں سے رکھنے پڑتے ہیں جن سے مزاج نہیں ملتا.کیونکہ ایسے شخص سے اگر ذرا بھی بیگانگی برقی جائے تو وہ سمجھتا ہے میری طرف توجہ نہیں کی گئی.آج ہی مجھے ایک خط موصول ہوا ہے.ایک شخص نے جو باہر گیا ہوا ہے لکھا ہے قادیان میں میری ہمشیرہ فوت ہو گئی لیکن ناظر صاحبہ نے مجھے اطلاع نہیں دی.اور لکھا ہے اگر مجھ سے ان کے پہلے تعلقات ہوتے تو وہ ضرور

Page 358

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 352 جلد اول اطلاع دے دیتے.لیکن میرا خیال ہے اگر پہلے تعلقات بھی ہوتے تو بھی حالات ایسے تھے کہ وہ یقیناً اطلاع نہ دیتے لیکن اس صورت میں کوئی شکوہ بھی پیدا نہ ہوتا.کیونکہ شکوہ زیادہ تر اسی جگہ پیدا ہوتا ہے جہاں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھا نہ جا سکے.ان کے سب رشتہ دار یہاں موجود تھے.جس شخص کا کوئی رشتہ دار یہاں موجود نہ ہوا سے اطلاع دینے کا تو بے شک ناظر کو خیال پیدا ہو سکتا ہے لیکن جس کے تمام رشتہ دار یہاں موجود ہوں اس کے متعلق کیسے خیال ہو سکتا ہے.جب تمام اقرباء موجود ہوں تو ناظر یہ خیال ہی کیسے کر سکتا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی اطلاع نہ دی ہوگی.اور پھر جب باپ، بھائی، خسر اور دوسرے ایسے ہی قریبی ایسی اطلاع نہ پہنچائیں تو یہ کیسے امید کی جاسکتی ہے کہ دوسرے لوگ ضرور پہنچا دیں گے.بات یہ ہے کہ جہاں تعلقات گہرے ہوں وہاں اتنا شکوہ نہیں ہوتا.اس لئے میں دوستوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جو لوگ باہر کام کر رہے ہیں ان سے ضرور خط و کتابت کیا کریں اور خطوط ناصحانہ رنگ کی بجائے محبت آمیز لہجہ میں لکھے جائیں.اس کے علاوہ میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے جو دوست باہر سلسلہ کی خدمات کرتے ہیں ان کے کاموں کو اس رنگ میں نہیں دیکھا جاتا جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نقص کے لئے دونوں ذمہ دار ہیں.کارکن بھی اور کام لینے والے بھی.کام کرنے والوں میں تو یہ نقص ہے کہ وہ اپنے اندر ایسا انکسار محسوس کرتے ہیں جو دراصل ان میں ہوتا نہیں اور وہ اخلاق کا ایسا بلند نمونہ دکھانا چاہتے ہیں جو دراصل ان میں پایا نہیں جاتا.وہ اس الزام کو دور کرنے کے لئے کہ وہ نکھے بیٹھے ہیں کوئی کوشش نہیں کرتے اور اپنے کام کو نمایاں کر کے پبلک میں لانے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.لیکن جب اعتراض ہوتے ہیں تو پھر دل ہی دل میں کڑھتے ہیں اور اس بات سے تکلیف محسوس کرتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کو نظر انداز کر کے اعتراض کئے جاتے ہیں حالانکہ جب انہوں نے اپنے کام کو خود چھپایا تو لوگوں کو کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کیا کر رہے ہیں.جب انہوں نے خود اپنے لئے ایک رستہ تجویز کیا تو پھر اس کا

Page 359

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 353 جلد اول خمیازہ بھگتنا چاہئے.یہ بہت بڑا نقص ہے کہ کام کرنے والے اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پیش کرنے کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتے.میرا اپنا اندازہ یہی ہے کہ اگر ان رپورٹوں سے جو مبلغین کی الفضل میں شائع ہوتی ہیں ہمارے مبلغین کی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو ہمارے تمام مشنوں پر تین چار ہزار روپیہ سے زیادہ خرچ نہیں ہونا چاہئے.ہمارے مشن کئی ایک مقامات پر ہیں اور وہاں کام کرنے والے بڑی بڑی قربانیاں کر رہے ہیں لیکن اخبارات میں ان کا کوئی ذکر نہیں ہوتا.سماٹرا کے مبلغ کو دیکھ لو.اس کی ذاتی حیثیت سے ہم بخوبی واقف ہیں.بے شک وہ استاد تھا مگر دراصل طالب علم ہی تھا لیکن اس کے کام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے.اس کی کوشش سے بعض لکھ پتی اور بڑے بڑے گورنمنٹ آفیشل جماعت میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ کثرت کار اور محنت کے باعث اپنی صحت کھو چکا ہے.اور اب ایسا بیمار ہے کہ اکیلا کہیں جا آ نہیں سکتا.لیکن اسے گزارہ کے لئے نہایت قلیل رقم ملتی ہے جس پر وہ بسر اوقات کر رہا ہے.مگر احباب جماعت اس کی ان قربانیوں سے قطعاً واقف نہیں.وہ نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں میں رہ کر جن کی زبان ، اخلاق اور عادات سے ناواقفیت ہو اور ایسے مخالفین کے مقابل میں جو معمولی باتوں پر قتل کر دیتے اور فوراً چھرے نکال لیتے ہیں ہمارا ایک آدمی کس جرات اور استقلال اور خود فراموشی سے کام کر رہا ہے.شاید اگر کوئی کہہ دے کہ وہ وہاں بیکا رہی بیٹھا ہے تو نوے فیصدی جماعتیں اس بات کو صحیح مان لیں اور کہنے لگ جائیں کہ روپیہ ضائع ہو رہا ہے اور اسے وہاں رکھنا بڑی غلطی ہے.لیکن اگر انہیں معلوم ہو کہ وہاں پر وہ کیا کام کر رہا ہے اور اگر ہمارا ایک ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے تو پچاس ہزار کا کام ہو رہا ہے تو وہ بہت زیادہ جوش سے اس مبلغ کے لئے دعائیں کریں گے.اسی طرح ماریشس میں بھی ہماری جماعت سے سخت مقابلہ ہوا.وہاں جماعت کے ہاتھ سے جائیداد میں نکل گئیں.ایک مسجد جس پر انہوں نے بہت سا روپیہ خرچ کیا تھا ان کے ہاتھ سے نکل گئی.لیکن انہوں نے پھر ہزاروں روپے خرچ کر کے مکان خریدے اور

Page 360

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 354 جلد اول مساجد بنائیں.لیکن اگر جماعت کے لوگوں سے پوچھا جائے تو وہ سوائے اس کے کچھ نہیں جانتے کہ وہاں ایک جماعت ہے اور صوفی غلام محمد صاحب سالہا سال تک وہاں کام کرتے رہے ہیں.میں نہیں سمجھ سکتا کہ جس طرح مولوی جلال الدین صاحب مجھے خط لکھنے کے ساتھ ایک خط اخبار والوں کو بھی لکھ دیتے ہیں اگر دوسرے مبلغین بھی کوشش کریں تو وہ کیوں نہیں لکھ سکتے.سماٹرا کے متعلق تو میں سمجھتا ہوں وہاں بہت زیادہ کام ہے اس لئے وہاں کے مبلغ کو اس قدر فرصت ہی نہیں مل سکتی ہے لیکن دوسرے مشن بڑی آسانی سے اطلاع دے سکتے ہیں.لندن مشن اطلاع دے سکتا ہے خواہ وہ مختصر ہی ہو لیکن جب کوئی اطلاعات نہیں دیتے جائیں تو ایسے حالات میں اگر لوگوں کے دلوں میں بدظنی پیدا ہو تو وہ معذور ہیں.اور اگر اعتراض ہوں تو مشنری کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے کیوں اعتراض ہوتے ہیں کیونکہ یہ سب ان کے غلط انکسار کا نتیجہ ہے.اور یہ دراصل لغوی معنوں میں انکسار ہے جو ٹوٹ جانا ہیں.اگر وہ خود اس اصول پر کار بند نہ ہوتے تو پھر اعتراضات ہی کیوں ہوتے.اسی | طرح محکمہ والوں کا نقص بھی ہے.اخبار والے ہمیشہ شکائتیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں کوئی اطلاع نہیں دی جاتی اور جو کچھ اخبارات میں چھپتا ہے وہ بھی اصل سے بہت کم ہوتا ہے.ہر شخص صحیح صورت حالات سے واقف نہیں ہوتا.مثلاً انگلستان کے متعلق اگر کوئی کہے کہ فلاں رئیس سے ہم نے ملاقات کی یا وہ ہمارے مکان پر آیا تو ہمارے ملک میں اسے کوئی وقعت نہیں دی جائے گی.یا اگر ولایت کا مبلغ کہے کہ میں فلاں لارڈ سے ملا تو ہندوستانی اسے معمولی بات سمجھیں گے.لیکن جو شخص وہاں کے حالات سے واقف ہو اور جانتا ہو کہ وہاں کے لوگ کس طرح اجنبیوں سے ملنے سے بچتے ہیں اور وہاں کسی سے ملاقات کتنی مشکل ہے تو وہ اسے ضرور اہم قرار دے گا.وہاں لوگوں کا یہ حال ہے اور وہ اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ سینکڑوں خطوط جو ان کے نام آتے ہیں انہیں وہ پڑھ بھی نہیں سکتے.پس ایسی قوم کے افراد سے جو اس قدر مشغول رہتی ہے خواہ ان کی مشغولیت کسی سبب سے

Page 361

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 355 جلد اول بھی ہو اور ہمارے نزدیک وہ کس قدر بھی غیر ضروری کیوں نہ ہو ملنا کوئی آسان کام نہیں.ایک انگریزی اخبار میں ایک لطیفہ شائع ہوا تھا کہ ایک بوڑھا امیر آدمی اور اس کی بیوی ایک نہر کے کنارے سیر کے لئے گئے.ایک غریب آدمی آیا اور اس نے اس عورت کو مخاطب کرنا چاہا مگر وہ نہ بولی.اس نے پھر اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی مگر اس نے پھر حقارت سے اسے اشارہ کیا کہ ہٹ جاؤ.پھر تیسری دفعہ اس نے اسے مخاطب کرنے کی کوشش کی تو اس نے نہایت سختی سے اسے ڈانٹا کہ تم باز نہیں آتے.اس پر اس شخص نے کہا مجھے تم سے بات کرنے کی تو کوئی خواہش نہیں میں تو صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ تمہارا بڑھا نہر کی میں گرا پڑا ہے.ہمارے ملک میں چونکہ یہ رواج ہے کہ دیہاتوں میں امرا عام طور پر مکان کے باہر چار پائیاں بچھا کر بیٹھے رہتے ہیں اور ہر رہ گزران سے بات کر سکتا ہے اس لئے اگر کوئی مبلغ اخبار میں شائع کرائے کہ میں نے فلاں امیر سے گفتگو کی تو شاید لوگ کہیں یہ کتنا خود پسند آدمی ہے.اگر کسی امیر سے مل لیا تو کون سی بڑی بات تھی کہ اسے اخبار میں شائع کرایا.لیکن اگر اس کے ساتھ یہ بھی لکھا جائے کہ وہاں کی ملاقاتوں میں کس قدر مشکلات ہیں تو سب سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اہم بات ہے.پس میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمارے مشعوں کے حالات عمدگی سے لکھ کر شائع کئے جائیں تو اس قدر دلآویز ہوں کہ دوسرے اخبارات بھی انہیں نقل کریں اور دوسرے لوگوں پر بھی بہت اثر ہو.لیکن جب تک کسی کو کوئی کام نظر نہ آئے صرف یہ کہنے سے کہ ہم نے لندن میں مشن قائم کر رکھا ہے دوسروں پر کیا اثر ہو سکتا ہے.اثر ہمیشہ کام دکھانے سے ہی ہوتا ہے.مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ تصاویر دکھاتے ہیں کہ کس طرح حبشی بچے پہلے ننگے پھر رہے تھے اور اب ان کی یہ حالت ہے کہ اچھی طرح کپڑے پہنے ہوئے سکول میں بیٹھے پڑھ رہے ہیں.اس پر لوگ انہیں بنی نوع انسان کا خادم سمجھتے ہیں اور بڑے بڑے آدمی ان کے سامنے سرنگوں ہوتے ہیں اور خود ملاقات کا اشتیاق ظاہر کرتے ہیں.لیکن اگر صرف یہ کہا جائے کہ ہمارا ایک مبلغ افریقہ میں بھی ہے تو

Page 362

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 356 جلد اول لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے.وہ کہیں گے کہ کوئی آدمی فارغ ہوگا وہاں بھیج دیا.لوگوں کو چونکہ کوئی کام نظر نہیں آتا اس لئے نوجوانوں میں قربانی کا جوش بھی پیدا نہیں ہوتا.اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کام میں بعض مبلغین بھی روک بن رہے ہیں.کیونکہ وہ اپنے کام کی خود کوئی قدر نہیں کرتے.وہ خود اپنے کام کو حقارت سے دیکھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں چونکہ ہم پچاس ساٹھ اشخاص شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کے پایہ کے نو مسلموں میں پیدا نہیں کر سکے اس لئے ہمارا کام کوئی حقیقت نہیں رکھتا.اور یہ نہیں سوچتے کہ دین سے اس قدر غافل اور محمد رسول اللہ ﷺ سے اس قد رعنا د ر کھنے والی قوم میں اگر چند لوگ بھی ایسے پیدا ہو جائیں جو اسلام کی باتیں سننے پر آمادہ ہوں تو یہی اتنی بڑی بات ہے کہ میں اس کے لئے لاکھوں روپے خرچ کر دینا معمولی بات سمجھتا ہوں.یہی لوگ جو آج بات سننے کے لئے تیار ہوئے ہیں یہ خود بڑے بڑے بزرگ لوگ پیدا کریں گے.اس کے لئے وقت چاہئے.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کتنے بڑے نبی تھی لیکن انہوں نے کیا کام کیا.صرف بارہ حواری پیدا کئے جن کی حالت کو دیکھ کر آج بھی لوگ ہنستے ہیں.وہی پطرس جو باوجود اس وعدہ کے کہ اے خداوند ! میں تیرے لئے جان دے دوں گا.1 اور حضرت مسیح کے اس قول کو یا در کھتے ہوئے کہ تو مرغ کی آذان سے پہلے تین بار میرا انکار کرے گا.2 مسیح پر لعنت بھیجتا ہے.مگر پھر وہی پطرس روم جاتا ہے اور کہتا ہے میں یسوع کے نام پر عزت حاصل کرنے جاتا ہوں.اور وہ عزت کیا ہے؟ یہ کہ مجھے رویا میں دکھایا گیا ہے کہ وہاں مجھے صلیب پر لٹکایا جائے گا.گویا جس پطرس نے ایک عورت سے ڈر کر یسوع پر لعنت بھیجی وہی اس کے نام پر صلیب پر لٹکایا جانا اپنے لئے دنیا کی سب سے بڑی عزت یقین کرتا ہے.تو ان ممالک کے متعلق جن کی بابت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان کا فتنہ اتنا بڑا ہے کہ سب نبیوں نے اس کی خبر دی ہے.3 کوئی عظمند کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ ہم وہاں جائیں اور وہ فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو کر تقویٰ کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ جائیں.اس کے لئے تو صدیاں درکار ہوں گی.وہاں تو اگر ایک بھی ایسا شخص پیدا ہو

Page 363

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 357 جلد اول جائے جو محمد رسول اللہ کو دنیا کا ایک قابل قدر وجود تسلیم کرلے تو میں سمجھتا ہوں یہی بہت بڑا کام ہے.کیونکہ وہ ایک پیج ہے اس کا بیٹا یقینا ترقی کر کے آپ کو نبی ماننے لگے گا.تو ہر جگہ کے کام کی نوعیت الگ الگ ہوتی ہے.پس میں اس وقت کارکنوں، کام لینے والوں اور اخبار نویسوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مبلغین کے کام کو ایسے رنگ میں دنیا کے سامنے لائیں کہ لوگوں میں قربانی کا مادہ پیدا ہو.جب کسی کے ذہن میں کوئی کام ہی نہ ہو تو شوق کس بات کے لئے پیدا ہو گا.اگر لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ ایک خطر ناک جنگ ہو رہی ہے اور دشمن سے سخت مقابلہ ہے تو ہزاروں لوگ اس میں حصہ لینے کے لئے تیار ہو جائیں گے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سب لوگ بزدل نہیں ہوتے جو جنگ کے نام سے ڈر جائیں.بلکہ سینکڑوں ہزاروں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو متاثر ہی اُس وقت ہوتے ہیں اور جن کے دلوں میں جوش اُسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ دیکھیں کہ خطر ناک جنگ ہو رہی ہے.لیکن کام کو عمدگی سے پیش نہ کرنے کی وجہ سے یہ نقص پیدا ہورہا ہے کہ لوگوں میں تبلیغ کے لئے کوئی خاص جوش پیدا نہیں ہوتا.ایک مبلغ جب خط لکھتا ہے تو اختصار سے کام لیتا ہے اور جو باتیں پہلے بیان کر چکا ہے ان کی طرف صرف اشارہ ہی کر دینا کافی سمجھتا ہے.آگے یہ ہمارا کام ہے کہ اس سلسلہ کو ملا کر اور پہلی اطلاع شامل کر کے اسے مکمل کر کے حقیقی عظمت کے ساتھ اسے لوگوں کے سامنے لائیں.پس میں کارکنوں اور کام لینے والوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ستی کو ترک کر دیں اور مشنوں کے کام کو متواتر لوگوں کے سامنے لائیں.اس وقت ہمارے مختلف مقامات پر بارہ مشن ہیں لیکن اخبار میں کوئی خبر کسی کے متعلق نہیں ہوتی اور مدتوں کوئی خبر نہیں ہوتی حالانکہ کام بہت عظیم الشان ہو رہا ہے.اب پڑھنے والے کیا سمجھیں گے کہ کیا کام ہو رہا ہے.وہ تو یہی کہیں گے وہ بیکار بیٹھے ہیں.اور ان کی مشکلات اور قربانیوں اور ان ہزاروں خطرات سے جن سے انہیں گزرنا پڑتا ہے کسی کو آگا ہی نہیں ہو گی.پس میں اس وقت ان دونوں نقصوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ اخبارات ہمارے مشنوں کی رپورٹوں سے پر

Page 364

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) ہوا کریں گے.“ 358 (الفضل 13 نومبر 1928ء) 1 متی باب 26 آیت 35 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 2 متی باب 26 آیت 34 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء :3 بخارى كتاب الجهاد باب كيف يعرض الاسلام على الصبي 506،505 حدیث 3057 مطبوعہ ریاض 1999ء الطبعة الثانية جلد اول صفحہ

Page 365

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 359 جلد اول جامعہ احمدیہ کے طلباء کو تحقیقی مضامین لکھنے کی تلقین 25 /اکتوبر 1928 ء جامعہ احمدیہ کی طرف سے حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب ایم.اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثانی بھی اس تقریب میں رونق افروز ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے.اگر چہ اس وقت میرا انشاء نہیں تھا کہ کچھ بولوں کیونکہ میرے گھٹنے پر زخم ہے جس کی وجہ سے میں کھڑا نہیں ہوسکتا لیکن درد صاحب نے اس وقت جو بات بیان کی ہے وہ اس قدر لطیف اور دلچسپ ہے کہ میں مجبور ہو گیا ہوں کہ کچھ کہوں.جس خیال کو انہوں نے پیش کیا ہے وہ اگر چہ نیا تو نہیں یورپ میں عام ہے اور یہاں بھی ایک بار پہلے پیدا ہو چکا ہے اور مبلغین میں پیدا ہوا تھا لیکن اُس وقت یہ خیال کی حد تک ہی رہا.شاید پبلک میں بھی نہیں آیا.اب اس تقریب پر ان کے ذہن میں اس کا نام اس کی قیمت کو بڑھا دیتا ہے.اس میں شبہ نہیں کہ تھیسس (Thesis) ( تحقیقی مضمون ) کا لکھنا طالب علم کے ذہن کو آئندہ صحیح راستہ پر لگانے کا موجب ہوتا ہے.ہر چیز کی دو قیمتیں ہوتی ہیں.ایک اپنے وجود کے لحاظ سے اور دوسری اس لحاظ سے کہ آئندہ واقعات پر وہ کیا اثر ڈالتی ہیں.اور تھیسس کی قیمت ان دونوں لحاظ سے اعلیٰ ہوتی ہے.جب کسی طالب علم کی ڈگری کی بنیاد تھیسس پر رکھی جائے جیسا کہ یورپ میں ہے.وہاں اگر طالب علم کا لکھا ہوا تھیسس قبول ہو جائے تو اسے ڈگری مل جاتی ہے.اور اگر نہ ہو تو نہیں ملتی.تو ایسی صورت میں طالب علم مجبور ہوتا ہے کہ جس وقت سے وہ تعلیم شروع کرتا ہے اُس وقت سے اس خاص مضمون کے متعلق

Page 366

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 360 جلد اول معلومات بڑھاتا رہے یا نئے واقعات فراہم کرتا رہے یا طریق بیان میں ایسی ایجاد کرے کہ لوگوں کے لئے اس خاص مسئلہ کے سمجھنے میں آسانیاں پیدا ہو جائیں.دنیا میں دونوں قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.بعض تو ایسے ہوتے ہیں جو نئے مسائل تلاش کرتے ہیں اور بعض اس امر کی تحقیق میں لگے رہتے ہیں کہ کس طرح انسانی دماغ فلاں مسئلہ کے قریب پہنچ سکتے ہیں اور طرز بیان میں ایسی جدت پیدا کرتے ہیں کہ لوگ اسے آسانی سے سمجھ سکیں.یہ دونوں باتیں مشکل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات مسیح ثابت کرنے کے لئے فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِی 1 کی آیت پر بہت زور دیا کرتے تھے.اور اسے پیش کرتے ہوئے ایک خاص بات مدنظر رکھتے تھے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ننانوے فیصدی احمدی اسے پیش کرتے وقت اس کی طاقت کو ضائع کر دیتے ہیں.آپ فرماتے اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات سے پہلے نہیں بگڑے.چاہے اس کے معنے قیامت سے پہلے فوت ہونا کر دیا قیامت کے بعد فوت ہونا.آپ زور اسی بات پر دیتے کہ ان کی زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے.آپ نے خود اسے قیامت سے پہلے بھی لگایا ہے اور بعد بھی.مگر آپ زور اسی بات پر دیتے تھے کہ اسے کہیں چسپاں کرو یہ معنے ثابت ہیں کہ ان کی زندگی میں عیسائی نہیں بگڑے.اور اگر آج عیسائی بگڑ چکے ہیں تو یقین مانا پڑے گا کہ آج سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.مگر اب لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ قیامت کا ذکر ہے اور اس طرح اس دلیل کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں.تو طریق بیان سے بھی بہت بڑا اثر ہوتا ہے.اگر کوئی نیا طریق نکالے تو وہ بھی نفع رساں ہے.اور اگر کوئی نئی بات نکالے تو وہ بھی نفع رساں ہوتی ہے.پس تھیسس لکھنے والے کو ان دونوں میں سے ایک طریق ضرور اختیار کرنا پڑے گا.اگر کسی نے ایک مشکل بات کو اپنی کوشش سے عوام الناس کے لئے سمجھنا آسان کر دیا ہے تو ممتحن یہ سمجھ کر کہ اس نے دنیا کی خدمت کی ہے اس کو ڈگری کا مستحق قرار دے دے گا.اور اگر وہ کوئی نئی معلومات مہیا کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک نئی بات پیش کرتا ہے تو

Page 367

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 361 جلد اول اس صورت میں بھی وہ ڈگری کا مستحق سمجھا جائے گا.پس ان دونوں طرز پر تھیسس لکھنے والا دنیا کی ترقی میں مفید ہوتا ہے.اس کے علاوہ دو اور فائدے تھیسس کے ہیں.ایک لکھنے والے کی اپنی ذات کے لئے اور دوسرا دنیا کے علوم پر آئندہ اثر کے لحاظ سے.ذات کے لئے یہ کہ تحقیقات سے اس میں ایک خاص ملکہ پیدا ہو جاتا ہے کہ نئی باتیں کس طرح نکالی جاتی ہیں اور دنیا کے آئندہ علوم پر اس کا عمدہ اثر اس طرح پڑتا ہے کہ آئندہ تھیسس لکھنے والے کے لئے وہ مشکلات بھی اور آسانیاں بھی پیدا کر دیتا ہے.مشکلات تو اس طرح کہ آئندہ لکھنے والے کونئی باتیں ایجاد کرنی پڑیں گی.اور آسانیاں اس طرح کہ آئندہ لکھنے والے کے لئے وہ دائرہ کو محدود کرتا جائے گا.اور یہ دونوں باتیں مفید ہیں.طالب علموں کے لکھے ہوئے تھیسس علماء کی رائے ہے کہ بڑی بڑی بلند پایہ تصانیف ثابت ہوئی ہیں.آکسفورڈ یونیورسٹی پریس انہیں شائع کرتا رہتا ہے اور وہ بہت بلند درجہ رکھتی ہیں.علم الاخلاق پر تھیسس لکھنے والے ایک طالب علم کو وہیں پر و فیسر بنا دیا گیا تھا اور اس وقت وہ بہت بڑے پروفیسروں میں شمار کیا جاتا ہے.پس یہ ایک نہایت مفید چیز ہے اور اس کے ذریعہ طالب علم میں مطالعہ ، تحقیق اور وقار کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.کیونکہ اگر وہ نہ لکھے تو فیل ہوگا اور اگر پرانی باتیں لکھے گا جب بھی فیل ہی ہو گا.اس لئے وہ جب لکھے گا کوشش کرے گا کہ نئی نئی باتیں لکھے اور اس لئے وہ خوب مطالعہ اور تحقیق کرے گا.اور جب وہ نئی نئی باتیں دنیا کے سامنے پیش کرے گا تو ضروری ہے کہ ہر کوئی اس کی قدر کرے جس سے اس میں وقار پیدا ہوگا.لوگ یوں بھی رسائل اور کتب لکھتے ہیں مگر چونکہ وہ تھیسس نہیں ہوتے اس لئے لوگ ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے.لیکن تھیسس چونکہ محنت اور تحقیقات سے لکھا جائے گا اس لئے لوگ اسے اپنی لائبریریوں میں رکھنے پر مجبور ہوں گے.اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ لوگ ہماری جماعت کو علمی جماعت سمجھیں گے.ضروری نہیں کہ تھیسس مذہبی

Page 368

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 362 جلد اول ہی ہوں وہ نیم مذہبی بھی ہو سکتے ہیں.تاریخی اور اخلاقی بھی لکھے جاسکتے ہیں.فلسفہ پر بھی لکھے جا سکتے ہیں.مثلاً اسی پر تھیسس لکھا جا سکتا ہے کہ نئے اور پرانے فلسفہ میں کیا فرق ہے.اس کے لئے پہلے پرانے فلسفہ کی کتابیں پڑھنی پڑیں گی پھر نئے فلسفہ کی.پھر ان میں اشتراک دیکھا جائے گا.پھر یہ معلوم کرنا پڑے گا کہ نئے اور پرانے فلسفہ میں اختلاف کیا ہے.پھر یہ بحث کرنی پڑے گی کس کا عندیہ صحیح ہے.یا دونوں صحیح ہیں یا دونوں ہی غلط ہیں.غرضیکہ سب پہلو اختیار کئے جاسکتے ہیں.یہ سب مختلف نقطہ ہائے نگاہ ہیں.اس قسم کے مضامین دنیا کی نظروں میں بہت مقبول ہو سکتے ہیں.یہ نہ صرف ہماری جماعت کے لئے ہی مفید ہوں گے بلکہ دنیا بھی انہیں علمی تحقیقات سمجھ کر ان کی قدر کرے گی.ہماری جماعت کے نزدیک چونکہ علمی مسائل وفات مسیح یا صداقت مسیح موعود یا همچو قسم دیگر مسائل ہی ہیں اس لئے ممکن ہے ہماری جماعت ان کی اتنی قدر نہ بھی کرے.لیکن یہ چیزیں ہماری جماعت کا اعزاز دنیا میں بہت بڑھا دیں گی اور دنیا میں لاکھوں انسان ان کی قدرتی کریں گے.اور وہ پھر ترجمہ ہوکر سلسلہ وار یو یو آف ریلیجنز میں شائع ہو کر یورپ میں بھی ہماری جماعت کی شہرت کو دوبالا کرنے والی ثابت ہوں گی اور جامعہ احمدیہ کو بھی ان سے تقویت پہنچے گی.میں سمجھتا ہوں درد صاحب کے اس خیال کا موجب لندن کا وہ جلسہ تھا جس میں تقریر کرتے ہوئے سر ڈینسن راس نے کہا تھا کہ ایشیا میں بھی بہت سے لوگ لائق ہوتے ہیں مگر وہ تحقیقات سے نئی اور باریک باتیں معلوم کرنے کی کوشش کر کے علم میں زیادتی نہیں کرتے.اور ان کا یہ اعتراض صحیح تھا.ایشیا میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آتا.ایک ہی شخص نے تھیسس لکھا ہے اس کا نام طہ حسین ہے.اور اس نے فلسفہ اخلاق پر تھیسس لکھا ہے.اگر چہ اس نے بہت جگہ غلطی بھی کی ہے مگر چونکہ نئی طرز میں لکھا ہے اس لئے وہ اپنے ملک میں پروفیسر بنا دیا گیا اور یورپ نے بھی اس کی بہت قدر کی.بے شک وہ لائق ہے مگر اتنا نہیں کہ ساری دنیا میں مشہور ہو سکے.لیکن محض فلسفہ اخلاق پر تھیسس لکھنے کے باعث وہ ساری دنیا میں مشہور ہو گیا.تو یہ نہایت مفید چیز ہے.کوئی طالب علم امتحان

Page 369

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 363 جلد اول لیسس میں خواہ کتنے بھی نمبر حاصل کر لے کسی کو اس کی کیا قدر ہو سکتی ہے.لیکن اگر وہ کوئی تھیسس لکھ دے تو تمام دنیا اس کے لئے ہاتھ پھیلا دے گی اور طالب علم کی آئندہ زندگی قابل قدر ہو جائے گی.ہمارے ملک میں ابھی اس کے لئے بہت میدان ہے.یورپ میں کثرت مقابلہ کی وجہ سے یہ بات بہت مشکل ہو گئی ہے مگر ہمارے ملک میں ابھی پچاس سال تک اس ذریعہ سے ہزاروں کے لئے شہرت حاصل کرنے کا امکان ہے.بے شک ہمارے راستہ میں ابتدائی مشکلات بھی ہیں.یورپ میں چونکہ یہ طریق عام ہے اس لئے لکھنے والوں کے لئے دائرہ تنگ ہے اور وہ اس محدود دائرہ سے بہت سے مفید حوالے نکال لیتے ہیں.نیز آسانی سے یہ معلوم کر لیتے ہیں کہ کس طرح نئے نتائج اخذ کئے جاتے ہیں.جیسے زمین پر رینگنے والا جانور پاؤں پر چلنے والے کی طرح جہات نہیں سمجھ سکتا.کیونکہ جوں جوں انسان یا حیوان کوئی خاص پہلو اختیار کرتا چلا جاتا ہے اسے اس سے مناسبت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اس لئے اہل یورپ کے اندر تھیسس لکھنے کے لئے مناسبت پیدا ہوگئی ہے.مگر ہمارے ہاں یہ مشکلات ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ تھیسس کس طرح لکھا جائے.مثلاً ایک مثال ہے میں نے اخبار میں دیکھا ہے کہ ایک شخص نے ایک ناول لکھنے کی مشین ایجاد کی.بظاہر یہ ناممکن ہے مگر میں نے تجربہ کیا ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے.ہمارے ملک میں کہانیاں اسی طرز کی ہوتی ہیں کہ ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں اولاد نہیں تھی.اور انگریزی میں قصے اس قسم کے ہوتے ہیں کہ ایک مرد اور عورت میں محبت تھی مگر ان کی شادی نہیں ہو سکتی تھی.اب غور کرو ہر کہانی کی ایک ابتدا ہوتی ہے.پھر اس کے درمیانی واقعات ہوتے ہیں اور پھر انجام ہوتا ہے.ہر کہانی کا ڈھانچہ یہی ہے.باقی گوشت پوست اس کے لئے ہر عقل مند شخص خود بنا لیتا ہے اور معلوم کر سکتا ہے کہ وہ کون سا طریقہ اختیار کرے جس سے اس میں دلچسپی پیدا ہو سکے.اس شخص نے کئی ہزار سال کے قصے کہانیوں کی تحقیقات کر کے لکھا ہے کہ ان باتوں سے قصے شروع ہوتے ہیں اور ان کی ایک فلم تیار کر کے اسے مشین پر چڑھا دیا ہے.اب آگے قصے میں یہ ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ہوا یا نا کام.

Page 370

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 364 جلد اول اس لئے اس نے مختلف کہانیوں کے درمیانی واقعات کی بھی ایک فلم تیار کر کے مشین پر چڑھا دی ہے.اسی طرح اس نے ہزار ہا اقسام کے انجام کو اکٹھا کر کے ان کی بھی فلم بنا کر اسے بھی مشین پر چڑھا دیا ہے.اب ایک شخص جو ناول لکھنے کا ارادہ کرتا ہے وہ جب مشین کو چکر دیتا ہے تو اس کے سامنے مختلف واقعات کے آغاز آ جاتے ہیں.ان میں سے فرض کر و حضرت موسیٰ کا واقعہ آ جاتا ہے کہ ایک عورت کا بچہ تھا.بادشاہ اس قوم کے نوزائیدہ لڑکوں کو مروا دیتا تھا.اسے بھی مروانا چاہتا تھا مگر وہ لڑکا قتل ہونے سے اس طرح محفوظ رہا.اب اسے ناول کی ابتدا کرنے کے لئے ایک بات ہاتھ آگئی جس سے وہ اپنے قصہ کو چلا سکتا ہے.پھر اس کے سامنے مختلف واقعات کے درمیانی حصے آ جاتے ہیں.وہ ان میں سے کسی کو لے کر اپنے قصہ میں شامل کر سکتا ہے.اسی طرح پھر چکر دینے پر مختلف واقعات کے انجام اس کے سامنے آ جاتے ہیں جس سے وہ اپنے ناول کو ختم کر سکتا ہے.اور اس طرح بغیر کسی خاص محنت اور مشکل کے ناول ختم کر سکتا ہے.یہ ایک معمولی خیال ہے مگر اس سے کتنا فائدہ ہوگا.ہر ناولسٹ اس سے ہر ہفتہ ایک ناول لکھ سکتا ہے تو بعض اوقات | ایک معمولی خیال پیدا ہونے سے ایک مفید چیز پیدا ہو جاتی ہے.خیالات میں جدت پیدا کرنے سے بہت مضامین نکل آتے ہیں.جنگ کے متعلق ہمارے ہاں قاعدہ ہے کہ جب کوئی مضمون لکھنے بیٹھے گا وہ اس امر کی ضرور کوشش کرے گا کہ فلاں جنگ کی وجہ کیا تھی.نقطہ نگاہ کے لحاظ سے اس میں ایک چیز ہے جس پر مصنفین نے توجہ نہیں کی.وہ ہر جنگ کی وجہ معلوم کرنا چاہتے ہیں، بہت تحقیق کرتے ہیں کہ فتح مکہ کا سبب کیا ہوا.جنگ احد کیوں ہوئی.حالانکہ عرب کی لڑائیوں کے متعلق اس کی ضرورت نہیں.جو سپیشلسٹ ہو گا وہ یہ دیکھے گا کہ اُس وقت جنگوں کے طریق کیا تھے.اور اس کے لئے اسے نئے راستے تلاش کرنا پڑیں گے.دنیا کی تاریخ پڑھ کر معلوم کرنا ہوگا کہ اُس زمانہ اور موجودہ زمانہ کی جنگوں میں کیا فرق ہے.اُس زمانہ میں جنگوں میں ایک تسلسل ہوتا تھا.یعنی پرانی جنگوں کو رکھ چھوڑتے تھے.کئی کئی سال تک لڑائی ختم نہیں کرتے تھے.اس زمانہ میں ایسا نہیں.

Page 371

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 365 جلد اول الله عرب کے قبائل لڑتے لڑتے فصلوں وغیرہ کے سنبھالنے یا اور وجوہات کی بناء پر لڑائی عارضی طور پر بند کر کے چلے جاتے تھے.پھر جو پہلے تیار ہو جاتا وہ آ کر حملہ کر دیتا تھا.یہی سٹم رسول کریم ﷺ کے وقت میں تھا جو پہلے تیار ہو جاتا وہ آ کر حملہ کر دیتا.اس لئے اگر کوئی خالص اس مسئلہ کو لے لے تو اس کے لئے اسے سینکڑوں کتا بیں دیکھنی پڑیں گی جنہیں ایک مؤرخ نہیں دیکھ سکتا.تھیسس لکھنے والا ہی ان کو دیکھ سکتا ہے.اور وہ ان کتابوں کو دیکھ کر معلوم کرے گا کہ رسول کریم ﷺ کی جنگوں کے کیا اسباب تھے.بلکہ اس کو بھی محدود کر کے یہ پتہ لگائے گا کہ پہلی جنگ کے کیا اسباب تھے.یا یہ کہہ لو کہ ان جنگوں میں اشتراک کیا تھا.پس وہ جب اس مسئلہ کو لے لے گا تو مجبورا اسے عرب کے عادات ، عربی قبائل کے رسم و رواجات ، دنیا کی جنگیں مختلف زمانوں میں جنگوں کے طریقے کے متعلق معلومات حاصل کرنی پڑیں گی اور یہ کام تھیسس لکھنے والا ہی کر سکتا ہے.مورخ یا سوانح نویس نہیں کر سکتا.اس کے لئے سپیشلسٹ کی ہی ضرورت ہے.مؤرخ صرف مصالحہ جمع کر دے گا اس پر اعتراضات نہیں کر سکتا.کیونکہ اس صورت میں ممکن نہیں کہ وہ تحقیقات کو خوبصورتی سے پیش کر سکے.یہ کام سپیشلسٹ کا ہی ہے دوسرے کا نہیں.تو اس راستہ میں یہ مشکلات بے شک ہیں لیکن جب کام شروع ہو جائے تو آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں.میرے نزدیک قوم میں امنگ اور وقار پیدا کرنے کے علاوہ یہ طریقہ دوسروں میں بھی ہماری جماعت کی شہرت اور رعب قائم کرنے کا موجب ہوگا اور لکھنے والے کا بھی دنیا میں نام نکلے گا.ایسے تھیسس سلسلہ کی پراپرٹی سمجھے جائیں گے اور یہ سلسلہ کا کام ہو گا کہ انہیں ملک میں تقسیم کرے.غرضیکہ یہ ایک نہایت ضروری چیز ہے اس سے علماء کی وہ بد نامی بھی دور ہو جائے گی کہ علماء سلسلہ کی علمی ترقی کی طرف توجہ نہیں کرتے.اور اصل بات یہ ہے کہ علماء خود کر بھی نہیں سکتے وہ صرف ہدایات ہی دے سکتے ہیں.میں ایک دفعہ جارہا تھا کہ کسی نے بنایا یہ گانے کا بہت بڑا ماہر ہے مگر وہ آ آ ہی کر رہا تھا اور بڑے گانے والے ایسا

Page 372

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 366 جلد اول ہی کرتے ہیں.اسی طرح بڑے علماء بھی سکھا ہی سکتے ہیں.جس طرح گانے کے استاد اور ماسٹر صرف طرز ہی بتاتے ہیں.یہ آگے طالب علم کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس سے سیکھ کر شعر پڑھا کریں.اسی طرح علماء بھی صرف رستہ بتا سکتے ہیں.یہ طالب علموں کا کام ہے کہ وہ ان راستوں پر چل کر ترقی کریں.اگر ہمارے طالب علم تھیسس لکھیں تو اس طرح علماء ا کی بدنامی بھی دور ہو جائے گی.علماء کو چاہئے کہ آگے آئیں طلباء کو مدد دیں.انہیں نقطہ نگاہ بتائیں اور سمجھائیں کہ اس طرح تحقیقات کرو.اور چونکہ علماء خود یہ کام نہیں کر سکتے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اگر علماء طلباء کو مدد دیں تو اس میں ان کا بھی فائدہ ہے اس لئے انہیں اس میں ضرور دلچسپی لینی چاہئے.میرے نزدیک جس قدر جلد ممکن ہو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فلسفہ اخلاق لکھا ہے.اس موضوع پر میں نے اور بہت سی کتابیں پڑھی ہیں مگر سب اس سے نیچے ہیں.پس اگر کوئی احمدی تھیسس لکھے اور اس میں وہی حقائق پیش کرے جو آپ نے بیان کئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام بیچ میں نہ آنے دے اور اس مضمون پر مکمل بحث کر کے لکھے کہ میرے نزدیک یہ عندیہ بہت صحیح ہے اور بعد میں جب معلوم کرے کہ پڑھنے والوں پر اثر جم گیا ہے تو لکھ دے کہ اس کے لئے میں حضرت مرزا صاحب کا ممنون ہوں جنہوں نے یہ سب کچھ بیان کیا.اسی طرح زبان عربی پر یا فلسفہ لغت پر مضمون لکھے اور آخر میں ایک تھیوری ثابت کر کے لکھ دے کہ میں اس کے لئے مرزا صاحب کا ممنون ہوں کہ ان کی کتاب سے مجھے یہ مفید نکتہ ملا تو اس طرح بہت اچھا اثر ہو گا.عیسائی لوگ ایسا ہی کرتے ہیں.نہایت عالمانہ مضامین لکھتے ہیں اور آخر میں کہہ دیتے ہیں کہ یہ حضرت یسوع مسیح کی تعلیم سے اخذ کیا گیا ہے.اس طرح لوگوں کے اذہان قدرتاً اس طرف مائل ہوتے ہیں.اور ہمارے ایسا کرنے سے یقیناً دنیا حضرت مسیح موعود کی کتابوں کی محتاج ہو گی.اور جب لوگ محتاج ہوں گے تو ان کے قلوب میں جماعت کی بڑائی پیدا ہو گی اور وہ

Page 373

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 367 جلد اول سلسلہ کو بطور اپنے استاد کے دیکھنے لگیں گے.پس اگر طلباء جامعہ اس طرف توجہ کریں اور دنیا کے بڑے بڑے لوگوں میں اپنے علم کی دھاک بٹھا دیں تو دنیا میں سلسلہ اور حضرت مسیح موعود کی خود بخود عظمت پیدا ہوتی جائے گی.اور اس طرح ہماری ایک عظیم الشان ( الفضل 2 نومبر 1928ء) لائبریری بھی بن سکتی ہے.“ 1: المائدة : 118

Page 374

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 368 جلد اول حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب در دایم اے مبلغ انگلستان کے اعزاز میں دعوت جائے ورو یکم دسمبر 1928ء کو لجنہ اماءاللہ قادیان نے مکرم حضرت مولوی عبد الرحیم صاحہ ایم اے مبلغ انگلستان کی لندن سے واپسی پر دعوت چائے کی جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی شمولیت اختیار کی.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے.,, پہلے تو میں سمجھتا ہوں درد صاحب کی ایک ذمہ داری ہے جس کی طرف میں انہیں توجہ دلاؤں.گواب ان کے لئے بولنے کا موقع نہیں مگر دل میں اس فرو گذاشت کا اقرار کر سکتے ہیں جو انہوں نے اپنی تقریر میں عورتوں کو آدمیت سے خارج کرنے میں کی ہے.عورتیں بھی آدمیت کے مقام پر اسی طرح ہیں جس طرح درد صاحب ہیں یا ہم ہیں.اگر انسان آدم کی اولاد ہونے کی وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں تو درد صاحب کا یہ حق نہیں کہ خود آدمی بن جائیں اور عورتوں کو آدمیت سے خارج قرار دے دیں.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس میں عورتوں کا بھی دخل ہے.وہ کہا کرتی ہیں پردہ کر لو مرد آ گئے یا اس قسم کے اور فقرات بولتی ہیں.پس چونکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو آدمیت سے خارج کرتی ہیں اس لئے درد صاحب کو بھی غلطی لگ گئی.در د صاحب نے اس وقت جو باتیں بیان کی ہیں وہ مفید ہو سکتی ہیں.لیکن ایک چیز ہے جو اس قسم کی تحریکیں کرنے والے لیکچرار نظر انداز کر جایا کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ

Page 375

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 369 جلد اول ان کی نگاہ ہمیشہ ولایت کے اعلیٰ طبقہ پر پڑتی ہے ادنیٰ طبقہ یا غرباء کے طبقہ پر وہ نظر نہیں ڈالتے.اس میں شبہ نہیں کہ یورپ کے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ کی نسبت بہتر ہے مگر دوسرے طبقوں میں میں نے خود ایسے لڑکے لڑکیاں دیکھے ہیں جن کے بال بکھرے ہوئے اور چہرے میلے کچیلے تھے.ایسے بچے میں نے اٹلی میں بھی دیکھے اور انگلینڈ میں بھی.دراصل صفائی اور تربیت میں بہت کچھ دخل تعلیم اور مالی حالت کا بھی ہوتا ہے.ایک دوست جو مخلص تھے جب جرمنی گئے تو دہر یہ ہو کر واپس آئے.چونکہ ان کے کے دیرینہ تعلقات تھے اور دل میں محبت تھی ملنے کے لئے آگئے.انہوں نے چھوٹتے ہی مجھ سے کہا یہ بھی کوئی ملک ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور یہاں کے لوگ بھی کوئی آدمی کہلانے کے مستحق ہیں.وہاں بڑی صفائی ہوتی ہے.لوگ بڑے مہذب ہیں.پھر بڑی دلیری سے کہنے لگے (اُس وقت ہم مسجد کے پاس کے کمرہ میں بیٹھے تھے ) بے ادبی معاف! اسی کمرہ کی حالت دیکھ لیجئے.یہ بھی کوئی انسانوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے.میں نے یہ خیال کر کے کہ گر یہ کشتن روز اول کہا ” بے ادبی معاف“ کہنے کی ضرورت نہیں.ذرا اس مالی حالت کا بھی اندازہ لگا لیجئے جس میں یہاں اور وہاں کے لوگ رہتے ہیں اور پھر یہ بھی دیکھ لیجئے کہ اس ملک کا جہاں دن میں تین تین دفعہ آندھیاں آتی ہیں اُس ملک سے کیا مقابلہ ہے جہاں ہر موسم میں سردی ہوتی ہے اور کثرت سے بارشیں ہوتی رہتی ہیں.وہاں کے لوگ صدیوں سے ہم ایشیاؤں کو لوٹ لوٹ کر کھا رہے اور مال جمع کر رہے ہیں اس لئے ان کے ساتھ یہاں کے لوگوں کا مقابلہ کرنا غلطی ہے.یہاں گرمی میں مکان کی حالت اور ہوتی ہے اور سردی کے موسم میں اور.یہاں گرمی کے لئے اور لباس کی ضرورت ہوتی ہے اور سردی کے موسم میں اور کی.پھر یہاں کے لوگوں کی مالی حالت بہت کمزور ہے ان باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے.ہاں تعلیم و تربیت کا بھی نقص ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا.ہمارے ملک میں بچہ سے پیار کرنے کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسے نکما بنا دیا جائے.مگر ان ملکوں میں پیار کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ کارآمد بنایا جائے.یہ

Page 376

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 370 جلد اول ایک مرض ہے ہمارے ملک میں کہ ماں باپ کوشش کرتے ہیں کہ بچہ کو کوئی تکلیف نہ اٹھانی پڑے حالانکہ بچہ کو تربیت میں جو تکلیف اٹھانی پڑے وہ در حقیقت اس کے لئے راحت ہوتی ہے.کیونکہ آج اگر ہم بچہ میں کام کرنے کی عادت نہیں ڈالتے ، اچھے اخلاق اس میں پیدا نہیں کرتے تو اس کا لازماً یہ نتیجہ نکلے گا کہ بڑا ہو کر بچہ سخت تکلیف اٹھائے گا اور اس تکلیف میں ہم خود بھی حصہ دار ہوں گے.پس ہمیں ابتدا سے ہی بچوں کی تربیت اور ان میں اعلیٰ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.بے شک ہمارے مد نظر یہ بات بھی رہے کہ وہاں کے ملکی حالات کی وجہ سے بعض خصوصیات ان لوگوں کو حاصل ہیں لیکن جس حصہ میں ہماری غلطی اور کوتاہی ہو اس کی اصلاح ضرور کرنی چاہئے.مثلاً ہمارے ملک کے بچوں میں یہ ایک خطر ناک نقص ہوتا ہے کہ ہر ایک الگ الگ چیز لے کر کھانے کی کوشش کرتا ہے.اس طرح ایک تو چیز زیادہ خرچ ہوتی ہے دوسرے بچوں میں اسراف کی عادت پیدا ہوتی ہے.علاوہ ازیں ان کے معدے الگ خراب ہوتے ہیں.مگر علیحدہ کھانے کا ہمارے ملک میں اس حد تک رواج ہے کہ اگر کوئی کسی کی دعوت کرتا ہے تو اس کے آگے کھانا رکھ کر خود رفو چکر ہو جاتا ہے اور مہمان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا اس کی ہتک سمجھتا ہے.پھر گھروں میں اس طرح ہوتا ہے کہ عورت خاوند کے آگے دستر خوان بچھا کر اور اس پر کھانا رکھ کر خود اور کام کرنے چلی جاتی ہے اکٹھے بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے.اگر اکٹھے اور مل کر کھانا کھایا جائے تو بہت سا کھانا ضائع نہ ہو اور انتظام بھی قائم رہے.اس کے لئے تربیت کی ضرورت ہے لیکچروں سے یہ کام نہیں ہو سکتا.اس کے لئے ضرورت ہے کہ قوم کے لئے دستور العمل بنایا جائے.ایک کتاب تیار کی جائے جس میں لکھا جائے کہ عورتوں کو بچوں کی تربیت اس طرح کرنی چاہئے تا کہ عورتیں اسے پڑھ کر اس پر عمل کریں ورنہ یہ کوئی نہیں کر سکتا کہ الفضل‘ اور ریویو کے فائل اپنے پاس رکھ چھوڑے.جن کے ان مقامات پر نشان لگے ہوں جہاں تربیت وغیرہ کے متعلق مضامین درج ہوں اور ان کو پڑھ پڑھ کر عمل کرے.لیکن اگر ایسی باتیں ایک جگہ جمع

Page 377

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 371 جلد اول ہوں اور ایسی کتاب عورتوں کے کورس میں شامل ہو یا وہ اپنے طور پر پڑھ کر اس پر عمل کریں تو بہت مفید ہو سکتا ہے.مگر جب تک اس قسم کی کوئی کتاب نہ بنے عورتیں اپنے طور پر ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں.اس وقت تک اتنا تو ہوا ہے کہ ہم نے عورتوں کو تعلیم کی طرف توجہ دلائی ہے.اس کے بعد انشاء اللہ تربیت کی طرف بھی توجہ ہو جائے کی تعلیم حاصل کرنے پر انسان سمجھ سکتا ہے کہ اولا د کتنی قیمتی چیز ہے اور اس کی تربیت کرنے کی کتنی ضرورت ہے.میرا منشاء ہے کہ موجودہ گرلز سکول کو ہائی سکول بنا دیا جائے.اس کے لئے چندہ جمع ہو رہا ہے اور امید ہے کہ تین چار ماہ میں ہم گرلز ہائی سکول کے لئے زمین خریدنے کے قابل ہو جائیں گے.کچھ گورنمنٹ کی طرف سے ایڈ (Aid) مل جائے گی، کچھ اور چندہ جمع ہو جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو ہم 1929ء میں اس کی بنیا د رکھنے کے قابل ہو جائیں گے.اور لجنہ کی ممبر جوعورتیں تعلیم پارہی ہیں وہ سکول کی تعلیم میں تو مدددیں گی اگر فی الحال تربیت میں مدد نہ دے سکیں.میرے نزدیک ہمیں زیادہ توجہ جس طرف کرنی چاہئے وہ تعلیم ہے اور وہ بھی مذہبی تعلیم.یہی تعلیم ہماری اولاد کے ہوش و حواس قائم رکھ سکتی ہے.میں تو نو جوانوں کی موجودہ رو کو دیکھ کر ایسا بددل ہو گیا ہوں کہ چاہتا ہوں یورپ کی ہر چیز کو بدل دیا جائے.ہمارے ملک کے لوگ اس طرح دیوانہ وار یورپ کی تقلید کر رہے ہیں کہ اسے دیکھ کر شرم و ندامت سے سر جھک جاتا ہے.آج درد صاحب نے کہا ہے کہ یورپ جن باتوں کو تنگ آ کر چھوڑ رہا ہے ہمارے ملک کے لوگ ان کی بڑی خوشی اور شوق سے نقل کر رہے ہیں.مگر میں دس سال سے کہہ رہا ہوں کہ جن باتوں کے خلاف خود یورپ آواز اٹھا رہا ہے انہیں ہمارے ملک کے لوگ ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.وہاں سود کے خلاف شور برپا ہے مگر یہاں اسے رائج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اسی طرح وہاں کے لوگ شراب کی بندش پر زور دے رہے ہیں لیکن یہاں اس کا خاص شوق ظاہر کیا جاتا ہے.غرض یورپ کی تقلید میں لوگ بالکل اندھے ہو رہے ہیں.ہمیں نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ دوسروں کو بھی بچانے کی

Page 378

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 372 جلد اول کے لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ لوگوں کو محسوس کرائیں.ہمارا تمدن ناقص اور کمزور نہیں.نقص یہ ہے کہ اس کا استعمال درست طور پر نہیں کیا گیا.دیکھو ایک رنگ ایک خاص حد تک اچھا لگتا ہے.مثلاً تصویر میں ایک حد تک نیلا یا کالا رنگ استعمال کرتے ہیں اور آسمان کا نظارہ نظر آتا ہے.لیکن اگر نیلے یا سیاہ رنگ کی بوتل انڈیل دی جائے تو اس سے خوبصورتی نہ پیدا ہوگی بلکہ بدصورتی ہو جائے گی.اسی طرح تصویر میں سفید رنگ سے بادل دکھائے جاتے ہیں لیکن اگر کاغذ پر کوئی قلعی پھیر لے تو یہ اس کی نادانی ہوگی.پس ہم نے اپنے تمدن کو غلط طور پر استعمال کر کے نقائص پیدا کر لئے ہیں ورنہ اس میں نقص نہیں.مثلاً عورتوں کا پردہ ہے اس کے لئے خود رسول کریم ﷺ نے جہاں تک عورتوں کے لئے آزادی رکھی ہے اس پر اگر کوئی عمل کرے تو اس کے خلاف ایک شور برپا ہو جائے.آپ نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی سوار جا رہا ہو اور عورت پیدل چل رہی ہو تو اسے اپنی پیٹھ پیچھے بٹھا لے.اب اگر کوئی اس طرح کرے تو کتنا شور پڑ جائے حالانکہ رسول کریم ﷺ نے اسے صلى الله صدقہ قرار دیا ہے اور مرد کی ذمہ داری فرمائی ہے.غرض غلط استعمال نے نقائص پیدا کر دیئے ہیں اس کی اصلاح ہونی چاہئے.عورتوں کو اسلام نے جس حد تک آزادی دی ہے وہ دینی چاہئے.مثلاً وہ باہر نکلیں.کاموں میں حصہ لیں.مجلسوں میں شریک ہوں مگر اسی طریق سے جو اسلام نے بتایا ہے اور جس پر عمل ہوتا رہا ہے.یہاں اب اس قدر تو ہو گیا ہے کہ پردہ کو قائم رکھتے ہوئے ایڈریس پڑھے جاتے ہیں بے پردہ مسلمان عورتیں بھی ابھی اس قدر جرات نہیں کر سکتیں.تو عورتوں کو اس حد تک آزادی دینی چاہئے جو اسلام نے انہیں دی ہے اور وہی ان کے لئے بہترین اور مفید آزادی ہے.اس سے آگے انہیں قدم نہیں بڑھانا چاہئے.میں اس برقع کو پسند کرتا ہوں جو نئی طرز کا نکلا ہے اس میں عورت زیادہ آزادی سے چل پھر سکتی ہے.مگر بعض نے اس کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے.انہوں نے اسے کوٹ بنالیا ہے جس سے جسم کی بناوٹ نظر آتی ہے.اس طرح یہ ناجائز ہو گیا.شریعت

Page 379

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 373 جلد اول نے جلباب کا کیوں حکم دیا ہے؟ کیوں کرتہ ہی نہیں رہنے دیا ؟ اس لئے کہ جسم کی بناوٹ ظاہر نہ ہو.ڈھیلا ڈھالا کپڑا اوڑھا جائے.اب اس غلط استعمال سے اس برقع کو برا نہیں کہا جائے گا مگر جو نقص ہوا ہے اسے دور کرنا چاہئے.پس ضرورت ہے نقائص کی اصلاح کی کسی بات کی اندھا دھند تقلید نہ کی جائے.اسلام وہ ہے جو نہ شرقی ہے نہ غربی.اس لئے مسلمانوں کو نہ ایشیا کی نقل کرنی چاہئے نہ مغرب کی.اس لئے کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کرو.نہ یہ کہ جو ایشیا میں چونکہ پردہ رائج ہے اس لئے جس طرح کا رائج ہے اس کو جاری رکھنا چاہئے نہ یہ کہ یورپ چونکہ پردہ نہیں کرتا اس لئے ہمیں بھی نہیں کرنا چاہئے بلکہ افراط تفریط سے بیچ کر صحیح رستہ پر چلنا چاہئے.چند ہی دن ہوئے ایک صاحب ماسٹر محمد الدین صاحب کے ساتھ مجھ سے ملنے کے لئے آئے اور کہنے لگے کیا اتنی تباہیوں کے بعد جو مسلمانوں پر آئی ہیں یہی سمجھا جائے کہ الله اسلام ترقی کر سکے گا؟ میں نے ان سے کہا یہ جو کچھ ہوا یہ بھی محمد ﷺ نے بتایا تھا اور اُس وقت بتایا تھا جب کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتا تھا کہ اس طرح ہوگا.کیا بنوامیہ یا بنو عباس کے زمانہ میں کوئی ظاہر بین یہ خیال کرتا ہو گا کہ جن حدیثوں میں مسلمانوں کی تباہیوں اور بربادیوں کا ذکر ہے وہ صحیح ہیں؟ اس قسم کے لوگ انہیں بناوٹی کہتے ہوں گے مگر اب ہم انہیں اپنی آنکھوں سے صحیح ثابت ہوتا دیکھ رہے ہیں.جب یہ درست ثابت ہوگئی ہیں تو ان کا دوسرا حصہ بھی ضرور درست ثابت ہوگا کہ اسلام کا میاب ہوگا.پس یہ سخت نادانی ہوگی اگر ہم اہل یورپ کی دنیوی کامیابیوں کو دیکھ کر ان کی ہر ایک بات کے پیچھے اندھا دھند چلیں.ہمیں اسلام کے مطابق چلنا چاہئے.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے اسلام کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ مسلمانوں کے گھروں میں ہو رہا ہے وہ اسلام ہے.اسلام مسلمانوں کے گھروں سے بھی اسی طرح نکلا ہوا ہے جس طرح عیسائیوں اور ہندوؤں کے گھروں سے نکلا ہوا ہے.اسلام وہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے پیش کیا اور قرآن کریم میں موجود ہے.ورنہ اسلام نہ ہمارے گھر میں ہے نہ یورپ میں.جب میں

Page 380

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 374 جلد اول ހ ”ہمارے گھر“ کے الفاظ کہتا ہوں تو گو میں دینی لحاظ سے اپنی جماعت کو منتقی سمجھتا ہوں مگر رسم و رواج کے لحاظ سے ایک حد تک داخل بھی کرتا ہوں.احمدیوں کو اسلام کی ہر ایک بات پر عمل کر کے دکھانا چاہئے.جب ہماری جماعت ان باتوں پر عمل کر کے ترقی کی طرف قدم بڑھائے گی تو دنیا خود بخود ان باتوں کو اختیار کرنے لگ جائے گی.مثلاً عورتوں کی آزادی وغیرہ کے متعلق یورپ ہمارے طرز عمل کی تقلید کر سکتا ہے.یہ کہنا کہ حالات بدلیں گے نہیں غلطی ہوگی.حالات ضرور بدلیں گے اور اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا کے (الفضل 11 دسمبر 1928ء) 66 بیشتر حصہ پر قائم ہوگی..“

Page 381

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 375 جلد اول احمدی مبلغین کی خدمات اور احمدی نوجوانوں سے خطاب 15 نومبر 1929ء کو حضرت نواب صاحب کے باغ میں احمدیہ انٹر کالجیٹیٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے مکرم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا ( انڈونیشیا) کی ان کی سماٹرا سے واپسی پر دعوت کی گئی جس میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے.مجھے بیماری کی وجہ سے ان پارٹیوں میں شرکت کا موقع نہیں ملا جو مولوی رحمت علی صاحب کی آمد کی تقریب پر یا ان سماٹری احباب کے اعزاز کے طور پر دی گئیں جو ان کے ساتھ تشریف لائے ہیں اور یہ پہلا موقع ہے کہ ایک ایسی پارٹی میں شامل ہونے کا مجھے موقع ملا ہے.اب ایک طرف تو ہمارے ان عزیزوں کی یہ خواہش ہے کہ انہیں نصائح کروں جنہوں نے یہ پارٹی دی ہے اور دوسری طرف یہ امر ہے کہ اس قسم کی پہلی تقریب میں شمولیت کا موقع ملا ہے اس کے متعلق کچھ بیان کروں.اس لئے حیران ہوں کہ دونوں جذبات اور مطالبات میں سے کسے پورا کروں.تاہم میں کوشش کروں گا کہ اختصار کے ساتھ دونوں پہلوؤں پر کچھ کہہ سکوں.مولوی رحمت علی صاحب ان چند مبلغین میں سے ہیں جن کو ہندوستان سے باہر جا کر تبلیغ کا موقع ملا ہے اور جو انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں.ان میں سے بعض تو ایسے ہیں جنہوں نے سکول لائف یا کالج لائف میں معا بعد اس عظیم الشان کام کو شروع کر دیا جس کام کے کرنے سے مسلمان ہزار سال سے ہچکچاتے چلے آتے تھے.اور چند اس قسم کے ہیں جنہوں نے اپنی عمر کا ایک حصہ دوسرے کاموں میں گزار کر تجربہ حاصل کیا.جیسے مفتی محمد صادق صاحب

Page 382

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 376 جلد اول ماسٹر محمد دین صاحب، ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر.ان کے سوا باقی اس قسم کے ہیں جنہیں باہر کا تجربہ نہ تھا.جیسے چودھری فتح محمد صاحب، ملک غلام فرید صاحب ، صوفی عبد القدیر صاحب، ہمارے صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی ، مولوی جلال الدین صاحب، مولوی رحمت علی صاحب.اس میں شبہ نہیں ان میں سے بعض نے مدرسیاں یا بعض اور کام شروع کی کئے مگر وہ کسی ذمہ داری کے کام پر متعین نہ تھے مگر کس قدر خوشی کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں تجربہ نہ تھا اور ان کی عمریں کچی تھیں مگر ہر میدان میں اور ہر ملک میں خدا تعالیٰ نے انہیں کامیابی عطا کی.ہمارے حکیم فضل الرحمن صاحب افریقہ گئے اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر جیسے جہاں دیدہ اور تجربہ کار مبلغ کے بعد گئے.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں خوب کامیابی عطا کی.مشن کو پہلے سے زیادہ انہوں نے مضبوط بنایا.اسی طرح چودھری فتح محمد صاحب نے اس ملک میں مشن قائم کیا جس میں احمدیت کو زہر قرار دیا گیا تھا.اسی طرح صوفی مطیع الرحمن صاحب ہیں.گو انہوں نے ابتدا میں کچھ گھبراہٹ ظاہر کی مگر اب میں دیکھ رہا ہوں تبلیغ میں نہایت کامیابی سے کام کر رہے ہیں اور قریباً ہر ہفتہ ان کے ذریعہ بیعت کرنے والوں کے خطوط آ رہے ہیں.انہوں نے کئی مختلف شہروں میں جماعت قائم کی ہے.اور زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی جو ہزاروں کی تعداد میں وہاں رہتے ہیں ان میں سے کئی ایک نے بیعت کی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر یہ لوگ بکثرت احمدی ہو جائیں تو تبلیغ میں بہت مددمل سکتی ہے.اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب اور مولوی رحمت علی صاحب ہیں.ان کو بھی خدا کے فضل سے اچھی کامیابی ہوئی.یہ تو وہ مبلغ ہیں جنہیں اپنے طور پر کام کرنے کا موقع ملا اور ان کا کام نمایاں طور پر سامنے آ گیا.ان کے علاوہ وہ مبلغ جنہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کیا ان کا کام گو اس طرح سامنے نہ آیا مگر انہیں بھی کامیابی حاصل ہوئی.جیسے ملک غلام فرید صاحب اور صوفی عبد القدیر صاحب جنہوں نے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کیا اور اچھا کام کیا.میں سمجھتا ہوں ہمارے مبلغوں کی کامیابی ایک بہت بڑا نشان ہے ہر ایک شخص کے لئے جو احمدیت کے متعلق غور

Page 383

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 377 جلد اول کرے.آخر کیا وجہ ہے کہ ایک ایسے ملک کے لوگ جو مدت سے دوسروں کی غلامی میں جکڑے ہوں اور جس کے باشندوں کو کم حوصلہ اور کم ہمت کہا جاتا ہے اسی ملک کے لوگوں میں سے کچھ لوگ نکل کر اپنی عمر کے ابتدائی ایام میں اور ایسی حالت میں کہ کوئی خاص تعلیم انہوں نے حاصل نہ کی ، کیونکہ بی اے.ایم اے یا مولوی فاضل سینکڑوں چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں.تھوڑا ہی عرصہ ہوا میں نے پڑھا تھا بمبئی کے علاقہ میں گرد اور کی جگہ خالی ہوئی تو کئی گریجوایٹوں نے اپنی درخواستیں بھیج دیں.اسی طرح مولوی فاضل مدرسوں میں کام کرتے اور معمولی حیثیت رکھتے ہیں.اتنی معمولی حیثیت کہ دوسرے مدرس بھی انہیں کوئی وقعت نہیں دیتے.پس ہمارے مبلغ اگر بی اے یا ایم اے یا مولوی فاضل تھے تو یہ کوئی خاص حیثیت نہیں جو ان کو حاصل تھی.ہزاروں بڑی بڑی ڈگریوں والے بیکار بیٹھے ہیں اور اپنے آپ کو کچھ بھی مفید ثابت نہیں کر سکتے.اور ہزاروں میں سے چند کو تجربہ کے بعد کوئی خاص کام کرنے کا موقع ملتا ہے لیکن یہ احمدیت کی صداقت کا نشان ہے کہ ہماری جو کچھی پودنکلی جسے باہر کے ممالک کا تجربہ تو الگ رہا اپنے ملک کا بھی تجربہ نہ تھا اس نے بھی ایسے ممالک میں جا کر وہاں کے لوگوں کو قائل کیا جو ہمارے ملک کے فہیم سے فہیم آدمی کو بھی اپنے معمولی آدمی سے ادنی سمجھتے ہیں.پس ہمارے مبلغین کی کامیابی دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی کامیابی ہے.سماٹرا ہی کو دیکھ لو.ڈچ نے کئی سو سال سے ان لوگوں پر حکومت کرنے کے باوجود اپنے متعلق ان میں کوئی ہمدردی نہ پیدا کی.لیکن ہمارا مبلغ جاتا ہے اور بالکل بے سروسامانی کی حالت میں جاتا ہے مگر خدا تعالیٰ اعلیٰ طبقہ کو قائل کرنے کی کامیابی اسے عطا کر دیتا ہے.یہ صاحب جو یہاں آئے ہیں وہاں مسلمانوں کی سب سے بڑی انجمن کے پریذیڈنٹ تھے.اعلیٰ درجہ کے تاجر ہیں.لاکھوں کی تجارت کرتے ہیں.ان کے علاوہ بھی کئی لوگ ہیں.یہ جو دوسرے صاحب ہیں وہ اس سب سے اعلیٰ عہدہ پر فائز رہ چکے ہیں جو کسی سماٹری کو وہاں مل سکتا ہے.تو ممتاز ترین لوگوں کی جماعت ہمارے مبلغ کے ہاتھ آئی اور انہوں نے

Page 384

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 378 جلد اول انہیں احمدیت کی صداقت کا قائل کیا.مگر جو مبلغ وہاں گیا وہ کوئی بڑی عمر کا نہ تھا.بڑا تجربہ کار بھی نہ تھا.بڑی حیثیت کا بھی نہ تھا.پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت ہے کہ جو آپ کو قبول کرتا ہے اس میں مقناطیسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس طاقت کو لے کر جہاں جاتا ہے لوگ اس سے متاثر ہو جاتے ہیں.اس کے بعد میں نوجوانوں کی طرف مخاطب ہوتا ہوں اور اپنی بات اس تکلیف دہ فقرہ سے شروع کرتا ہوں جو لاہور میں پچھلے سفر کے دوران میں میرے کان میں پڑا.شاید میں اپنی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس تقریب میں بھی نہ آتا.کیونکہ آج ہی مجھے خطبہ جمعہ بھی پڑھنا پڑا.مگر میں اس فقرہ کی وجہ سے آ گیا.وہ اس لئے تکلیف دہ نہ تھا کہ نو جوانوں کی طرف سے کہا گیا مگر ان کے متعلق ضرور تھا.ایک شخص نے کہا آپ کے لاہور آنے پر مجھے بڑا تعجب ہوا.اس نے ایک تو اور بات بیان کی اور ایک یہ کہی کہ احمد یہ ہوٹل کی آپ نے جو دعوت قبول کی اس وجہ سے تعجب ہوا.یہ ایک ایسی بات تھی جس کے متعلق میں کوئی مزید بحث نہ کر سکتا تھا.یہ ایک فقرہ تھا جو ایک شخص کے منہ سے نکلا.ممکن ہے بے سوچے سمجھے نکلا ہو اور ممکن ہے اس نے جان بوجھ کر کہا ہو.اور ممکن ہے وہ چاہتا ہو کہ آگے بات چھڑے.مگر میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بات کو چھیڑوں.میرے لئے یہ فقرہ اس لئے تکلیف دہ ہوا کہ اس نے ہمارے نوجوانوں سے متعلق کوئی بدظنی کی.میں اس بدظنی کی تعیین نہیں کرنا چاہتا.ہزاروں قسم کی بدظنیاں ہو سکتی ہیں.اس لئے میں اسے جانے دیتا ہوں کہ کس چیز نے اس سے یہ فقرہ کہلوایا.لیکن یہ میں ضرور کہوں گا کہ کوئی بُری بات ہی تھی جو اس کے لئے اس فقرہ کے کہنے کی محرک ہوئی.ممکن ہے جو نو جوان یہاں بیٹھے ہیں ان میں سے بعض اس شخص کا مطلب سمجھتے ہوں لیکن میں نے نہیں سمجھا اور میں نہیں سمجھنا چاہتا.اس لئے کہ میں سمجھتا ہوں اس کا جو بھی مفہوم تھاوہ غلط فہمی یا غلطی یا دانستہ اتہام پر مبنی تھا اور میں ایسی بات سننا پسند نہیں کرتا.میں نے جماعت کے بڑوں اور چھوٹوں کو دیکھا.نو جوانوں اور بوڑھوں کو دیکھا.بچوں اور

Page 385

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 379 جلد اول نو عمروں کو دیکھا.اُس وقت بھی دیکھا جب میں بچہ تھا.اُس وقت بھی دیکھا جب میں جوانی کے قریب تھا.اُس وقت بھی دیکھا جب میں جوان ہوا.اور اس وقت بھی دیکھا تھا جب میں قومی کے لحاظ سے بوڑھا ہوں مگر عمر کے لحاظ سے ادھیٹر عمر کو پہنچنے والا ہوں.اور لغت کے لحاظ سے تو ادھیڑ عمر کو پہنچا ہوا ہوں.میں نے ان کو بھائی ، شاگرد، ماتحت اور افسر کی حیثیت سے دیکھا اور ہر حالت میں مجھ پر جو اثر ہوا وہ اچھا ہی اثر تھا.اور میں نے ان کو ہر حالت میں دوسروں سے ممتاز پایا.بحیثیت استاد کے اور بحیثیت اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ کام میرے سپرد کیا گیا کہ میں اپنی جماعت کے لوگوں کو ان کی غلطیوں کی طرف توجہ دلاؤں.میں انہیں غلطیوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور سختی سے بھی توجہ دلاتا ہوں.مگر کبھی میرے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں آیا کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کے مقابلہ میں کسی لحاظ سے گرے ہوئے ہیں یا ان کے برابر ہی ہیں.بلکہ میں نے ہمیشہ یہی پایا کہ ہماری جماعت کے لوگ دوسروں کے مقابلہ میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں اور ایسی حالت میں ہیں جو دوسروں میں نہیں پائی جاتی.اور ہمارے نو جوانوں کی بھی یہی حالت ہے.کیا بلحاظ دینی قربانیوں کے، کیا بلحاظ دینی کاموں میں حصہ لینے کے اور کیا بلحاظ نظام کا احترام کرنے کے.پس وہ فقرہ جو میں نے سنا اس لئے میرے لئے تکلیف دہ نہ تھا کہ اس کا کوئی مفہوم درست تھا.بلکہ اس لئے کہ اس شخص کو اس قسم کا فقرہ منہ سے نکالنے کی جرات کیوں ہوئی.میرے خیال میں اس کی وجہ وہ ذہول کے ایام تھے جو پچھلے چند سالوں میں گزرے کہ ہمارے نوجوانوں نے دینی کاموں میں پورے طور پر حصہ نہیں کیا.وہ دنیا جس میں ہم بستے ہیں ایسی ہے کہ جو چیز لوگوں کو نظر آئے اس کے وہ قائل ہوتے ہیں اور جو نظر نہ آئے اس کا انکار کر دیتے ہیں.غیر تو غیر میں نے احمدیوں سے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں کوئی خاص قربانی نظر نہیں آتی اور ایسے لوگوں کو کے مونہوں سے سنا جن پر غیر مخلص ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا.میں سمجھتا ہوں وہ مخلص ہیں مگر ان کی نگاہ اتنی محدود بلکہ ان کا نقطہ نگاہ اتنا متعصبانہ تھا کہ انہوں نے اپنے نزدیک

Page 386

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 380 جلد اول قربانی کے متعلق ایک نقطہ مد نظر رکھا اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ پا کر کہہ ہے آپ کی زندگی میں قربانی نظر نہیں آتی.یہ نہیں کہ ایسے لوگ سینکڑوں ہیں یا بیسیوں ہیں.لیکن اگر ایک بھی ہے تو اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ایک فدائی کی نگاہ سے بھی ایسی باتیں پوشیدہ رہ سکتی ہیں.وہ تعلق جو جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے اور وہ تعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جماعت سے ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے اگر ایک شخص بھی جس کے ایمان پر ہم الزام نہ لگا سکیں اور جس کے اخلاص پر حرف گیری نہ کر سکیں ، جسے شرارتی اور جھوٹا نہ کہہ سکیں ایسی بات منہ سے نکالتا ہے تو معلوم ہوا انسان کا زاویہ نگاہ ایسا ہے کہ نمایاں چیز بھی اس سے اوجھل ہو سکتی ہے.غرض دنیا اس طرح چلتی ہے کہ ہر شخص ہر چیز کونہیں دیکھ سکتا بلکہ ہر شخص ایک خاص دائرہ کے اندر دیکھتا ہے اور جو چیز اس دائرہ سے باہر ہو وہ اس کی نظر سے اوجھل رہتی ہے.گو یا لوگ اپنی اپنی ایجاد کردہ ٹیکرس کوپ سے دیکھنا چاہتے ہیں.جو چیز اس کے نیچے آ جائے اسے دیکھ لیتے ہیں اور جو نہ آئے اسے نہیں دیکھتے.اسی طرح بالکل ممکن ہے بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ اس شخص کی ٹیکرس کوپ کے سامنے کوئی بات آئی اور اس نے سارے نو جوانوں پر تھوپ دی.یا کوئی خاص خوبی اس نے مد نظر رکھی جو اسے نوجوانوں میں نظر نہ آئی یا نوجوانوں کے کاموں کی نمائش اس کے سامنے ایسے رنگ میں نہ ہوئی جو اسے پسند تھا.میں اسے اپنے الزام میں غلطی پر سمجھتا ہوں اور ایک منٹ کے لئے بھی یہ سمجھ نہیں سکتا کہ وہ صحت پر ہے.مگر باوجود اس کے میں یہ بھی کہتا ہوں کہ ہمارے نو جوانوں نے ایسے کاموں میں جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں پچھلے ایام میں کم حصہ لیا ہے.مجھے تمہارے اخلاص میں شبہ نہیں مگر کئی طبائع ایسی ہیں جو دل کے اخلاص کو نہیں دیکھ سکتیں بلکہ ان کی نظر ظاہر پر ہوتی ہے.اگر انہیں کم نظر آئے تو جھٹ فتوی لگا دیتی ہیں کیونکہ وہ محتاج ہیں اس بات کی کہ ان کی محدود نظر کے سامنے کوئی چیز لا کر رکھی جائے تب وہ دیکھیں.

Page 387

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 381 جلد اول اس دفعہ آپ لوگوں کا جمع ہو کر قادیان آنا اور مولوی رحمت علی صاحب کو دعوت دینا ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ لوگوں میں وہ زندگی پائی جاتی ہے جو احمدیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے.اور یہ زندگی موجود رہے گی.اگر میری آنکھوں کے سامنے کوئی ایسی چیز بھی آ جائے جس سے یہ ظاہر ہو کہ احمدیت میں زندگی نہیں رہی تو بھی میں یہ نہیں سمجھوں گا کہ جو کچھ مجھے نظر آ رہا ہے وہ درست ہے کیونکہ میں خود روز غلطیاں کرتا ہوں مگر خدا تعالیٰ کبھی غلطی نہیں کرتا.اور خدا تعالیٰ کہتا ہے یہ جماعت زندہ رہے گی اور بڑھے گی.پس دوسروں کی آنکھ کا مجھے کچھ دکھانا تو الگ رہا اگر اپنی آنکھ بھی مجھے خدا تعالیٰ کے وعدوں کے خلاف کچھ دکھائے تو میں اسے ماننے کے تیار نہیں ہوں.لیکن وہ جو دوسروں کی حالت کا اندازہ اپنی نظر سے کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی بشارتوں سے نہیں کرتے ان کے لئے ضروری ہے کہ اپنی حالت سے انہیں صحیح اور درست اندازہ لگانے کا موقع بہم پہنچایا جائے.اگر ہمارے نوجوان آئندہ بھی اسی طرح دین کے متعلق اپنی دلچسپی کا اظہار کریں تو یہی جواب کافی ہو گا ایسے لوگوں کے لئے جو اپنے دلوں میں کوئی غلط بات رکھتے ہیں.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ نوجوانوں کو توجہ دلائی ہے کہ جو نوجوان پہلے یہاں رہتے تھے وہ تبلیغ میں خوب حصہ لیتے تھے اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ لوگ حصہ نہ لیں.اس کے لئے جس قدر واقفیت کی ضرورت ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے حاصل ہو سکتی ہے.ان میں ایسی للہیت اور والہیت پائی جاتی ہے کہ ان کے پڑھنے والے کے دل میں عشق کا جذ بہ پیدا ہو جاتا ہے.میں مطالعہ کا بہت شوق رکھنے والا ہوں اور میں نے تمام ممالک کی کتابیں کئی اصل زبان میں اور کئی ترجموں کے ذریعہ پڑھی ہیں.میں نے روسیوں، فرانسیسیوں، جرمنوں، انگریزوں ، چینیوں ، جاپانیوں، امریکنوں کی کتابیں پڑھی ہیں.اور باوجود اس کے کہ میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں نے بڑی بڑی علمی تحقیقا تیں کی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک سادہ فقرہ جذبہ اور اللہ تعالیٰ کی محبت سے ایسا بھرا

Page 388

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 382 جلد اول ہوا ہوتا ہے کہ اس کے سامنے سب فلسفے اور سب تحقیقا تیں بیچ نظر آتی ہیں.اگر آپ لوگ تبلیغ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے علم کی ضرورت ہے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں مل سکتا ہے.وہ علم جس کی آپ لوگوں کو ضرورت ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں سے باہر نہیں.کیونکہ وہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں اور ہمارے لئے سارا علم کی قرآن میں ہے.مگر میں دیکھتا ہوں نو جوانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کی طرف اتنی توجہ نہیں جتنی ہونی چاہئے.میں نے دیکھا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب کی چند سطریں پڑھتا ہوں تو حقائق و معارف کے دریا بہنے لگ جاتے ہیں.اس وقت میں حیران ہو جا تا ہوں کہ ان معارف کو قلم بند کروں یا کتاب پڑھوں.میں کسی کتاب کے چند صفحے پڑھ کر ایک رو میں بہہ جاتا ہوں.کئی دفعہ مجھے اس بات پر خوشی ہوئی کہ میں نے کوئی نئی بات نکالی.مگر جب دیکھا تو وہ بات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی تحریر میں موجود پائی.گو وہ لوگوں کی نظر سے پوشیدہ تھی اور میری نظر سے بھی اس سے پہلے پوشیدہ تھی.دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں قرآن کریم کی طرح غیر محدود حقائق اور معارف رکھتی ہیں.میں قرآن کریم کی بھی بھی تلاوت نہیں کر سکتا.اپنے آپ کو مجبور کر کے رمضان میں کچھ لمبی تلاوت کر لیا کرتا ہوں.مگر بارہا ایسا ہوا ہے کہ میں نے تلاوت شروع کی تو ایک ہی آیت پر رُک گیا اور اسی کو دہرا دہرا کر اس کے حقائق اور معارف سے لطف حاصل کرتا رہا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہیں اگر نو جوان ان کی طرف توجہ کریں تو بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس ترتیب سے باتیں بیان فرماتے ہیں جو انسانی فطرت چاہتی ہے.فلسفیانہ طرز پر نہیں.عام طور پر نوجوان اس رنگ کو پسند کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دن رات جن کتابوں سے انہیں واسطہ پڑتا ہے وہ ایسی ہی ہوتی ہیں اور یہ طرز ان کی عادت میں داخل ہو چکی ہوتی ہے.مجھ پر امریکن کتاب بہت گراں گزرتی ہے کیونکہ میں نے ولایت کی انگریزی میں مطالعہ جاری رکھا ہے.امریکہ کے بڑے بڑے اعلیٰ پایہ کے رسالے منگائے

Page 389

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 383 جلد اول گئے مگر میں انہیں دلچسپی سے نہ پڑھ سکا.کیونکہ ان کی انگریزی جدا گانہ طرز کی ہوتی ہے جو شاق گزرتی ہے.ان کا طرز بیان اور ہوتا ہے اور مجھے اور طرز کی عادت ہے.چونکہ کالجوں میں ایک خاص رنگ ہوتا ہے اس لئے اس کے خلاف جو کچھ ہوا سے پسند نہیں کیا جاتا.کارلائل کے متعلق لکھا ہے اس نے رسول کریم ﷺ کی بہت تعریف کی.لیکن جب اس نے قرآن پڑھا تو کہہ دیا میں اپنی تعریف واپس لیتا ہوں کیونکہ قرآن میں کوئی ترتیب نہیں بکھری ہوئی باتیں ہیں.دراصل خدا تعالیٰ کی کتاب فطرتِ انسانی کے مطابق ہوتی ہے.جیسے جیسے جذبات ابھرتے اور جو راہ اختیار کرتے ہیں اسے مدنظر رکھتے ہوئے ان کا ذکر کیا جاتا ہے.چونکہ عام لوگوں سے یہ ترتیب جو فطرتی ہے دب گئی ہے اس لئے انہیں گراں گزرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی اصل فطرت کا لحاظ رکھا گیا ہے.جو شخص اصل فطرت ابھار کر انہیں پڑھے اسے عین فطرت کے مطابق ہر ایک بات نظر آئے گی.اس وقت میں اسی پر تقریر ختم کرتا ہوں کیونکہ مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا ہے اور امید ہے کہ آپ لوگوں کو کچھ اور سنانے کا موقع ملے گا.آپ لوگ چونکہ آئے ہیں اس لئے کوشش کروں گا اور موقع بھی دوں.اس وقت میں اسی بات پر ختم کرتا ہوں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ بات جو آپ سے کہی گئی ہے معمولی ہے دوسرے موقع پر کوئی زیادہ بڑی بات کہی جائے گی.اگر آپ لوگ اسی پر عمل کریں تو یہی بہت بڑی ہے.“ (الفضل 26 نومبر 1929ء)

Page 390

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 384 جلد اول مکرم جناب سیٹھ ابوبکر ایوب صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ سماٹرا کی قادیان سے سماٹرا کے لئے روانگی 10 جنوری 1930ء کو جناب سیٹھ ابوبکر ایوب صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ سماٹرا نے سماٹر اروانگی سے ایک دن قبل احباب سے ملاقات کی غرض سے ایک دعوت چائے کا انتظام کیا جس میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی بھی شامل ہوئے.مکرم ابوبکر صاحب کی تقریر کے بعد حضور نے تشہد ، تعوذ اور تلاوت سورۃ فاتحہ کے بعد جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے.گو میز بانی کا فرض تو ہم لوگوں کے ذمہ تھا لیکن چونکہ سیٹھا ابو بکر صاحب کی خواہش تھی کہ میں انہیں موقع دوں کہ وہ ان دوستوں کو جمع کر کے ان کا شکر یہ ادا کر سکیں جنہوں نے کسی نہ کسی رنگ میں ان کا یہاں آنا ان کے لئے مفید بنایا ان سے ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا اس لئے میں نے انہیں اجازت دے دی.اس وقت ابو بکر صاحب نے اپنی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور باوجود اس کے کہ ہم ان کی زبان نہ سمجھتے تھے اگر مولوی رحمت علی صاحب ان کی تقریر کا ترجمہ نہ کرتے تو بھی ان کے الفاظ نہایت قیمتی تھے.آپ لوگ جانتے ہیں ایک شاعر اپنی نازک خیالیوں کو کوئل کی کوکو میں پڑھتا اور اس کی آواز میں اپنے لئے پیغام سنتا ہے.وہ بلبل کی آواز میں ایک معنی پاتا ہے اور قمری کی صدا اسے ایسے مطالب کی طرف راہ نمائی کرتی ہے جو الفاظ میں ادا نہیں ہو سکتے.پھر شاعر کے بعد شاعر دنیا میں آتا ہے، غزل گو کے بعد غزل گو آتا ہے وہ سارے کے سارے اپنا

Page 391

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 385 جلد اول زور صرف کرتے ہیں باوجود اس کے کہ دوسرے انسانوں کی نسبت اعلیٰ درجہ کے لستان اور ادیب سمجھے جاتے ہیں جس قدر ہماری زبان کے الفاظ کے ذخائر ہیں وہ ان کے قبضہ میں ہوتے ہیں اور جس طرح ایک ماہر فنون جنگ آلات کو مناسب موقع پر استعمال کرتا ہے اسی طرح ایک شاعر اور غزل گو بھی الفاظ کے ذریعہ اظہار مطالب کرتا ہے.مگر تمام ترانوں اور تمام غزل گویوں کے بعد ہر ایک شاعر یہی کہتا ہوا گزر جاتا ہے کہ کوئل کی کوکو، قمری کی صدا اور بلبل کی آواز کا مفہوم ادا نہیں ہو سکا.اس سے ظاہر ہے کہ انسانی نفس کی گہرائیوں میں کسی تحریک سے جو خیالات اٹھتے ہیں ان کے اظہار کے لئے مروجہ الفاظ کافی نہیں ہو سکتے بلکہ ان کے ادا کرنے کی وہ بے تاب حرکتیں اور بے معنی صدائیں ہی متحمل ہو سکتی ہیں جو بغیر قبضہ اور تصرف کے آپ ہی آپ ظاہر ہوتی ہیں.پس اگر ایک شاعر طلیق اللسان ہوتے ہوئے، الفاظ کے استعمال کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہوئے ، باوجود گہرا مطالعہ رکھنے کے، باوجود طبیعت پر پورا پورا زور ڈالنے کے باوجود تنہائی اور خلوت میں کوشش کرنے کے باوجود ویرانوں اور جنگلوں میں اس مضمون پر غور کرنے کے پورے طور پر اسے ادا نہیں کر سکتا اور یہی کہتا ہوا گزر جاتا ہے کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا وہ نہ کہہ سکا تو مولوی رحمت علی صاحب یا کسی اور سے کس طرح ممکن تھا کہ ابو بکر صاحب کے جذبات اور احساسات کو پورے طور پر بیان کر سکتا.اور اس بات کی امید ہی کس طرح کی جا سکتی تھی لیکن ان کی آواز بے اثر نہ رہی اور نہ بے اثر رہ سکتی تھی.اگر کوئل کی کوکو ، بلبل کی صدا اور قمری کی آواز کوئی معنی اور مطلب رکھتی ہے اور سننے والے کے دل میں اثر پیدا کرتی ہے تو دور دراز سے آنے والے ایک بھائی کی آواز جس کے الفاظ خواہ ہم سمجھ نہ سکیں کیوں ہم پر اثر نہ کرے گی.گو مولوی رحمت علی صاحب نے ان کی تقریر کا ترجمہ کر دیا ہے مگر میں سمجھتا ہوں اس ترجمہ سے بہت زیادہ قیمتی تھی وہ وہ آواز، وہ لہجہ اور وہ تاثر جوابو بکر صاحب کے چہرہ سے ظاہر ہو رہا تھا.اور جو یادگار کے طور پر

Page 392

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 386 جلد اول قائم رہیں گے.اور ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے ایمان میں ان کی وجہ سے اسی طرح زیادتی ہوئی ہے جس طرح ان کے ایمان میں قادیان آنے کی وجہ سے ہوئی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قادیان ایک نبی کا قائم کردہ مرکز ہے، اس میں بھی شبہ نہیں کہ قادیان اس زمانہ کے مامور کا مولد اور مدفن ہے، اس میں بھی شبہ نہیں کہ دنیا کی آئندہ بہبودی کے لئے خدا تعالیٰ نے اسے منتخب کیا ہے.اس لئے یہاں اخلاص اور تقویٰ کی راہ سے ہر آنے والا اپنے ایمان میں زیادتی پاتا ہے.مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس کا آنا ہمارے لئے بھی جو قادیان میں رہتے ہیں ایمان کی زیادتی کا باعث ہوتا ہے.ہم نے ان تمام مدارج کو دیکھا جن میں سے قادیان آج تک گزرا.ہم نے اُس وقت بھی قادیان کو دیکھا جب یہ بہت اونی حالت میں تھا.اُس وقت بھی دیکھا جب لوگ یہاں آتے اور آ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آگے اس لئے گریہ وزاری کرتے کہ ہمارے علاقہ میں کوئی احمدی نہیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیغام حق کے پہنچانے کے لئے جو کوششیں کیں انہیں دیکھا.پھر ان جوابوں کو بھی دیکھا جو مخالفوں کی طرف سے آپ کو دیئے جاتے.پھر سب سے زیادہ اثر کرنے والی آواز کو جو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اٹھائی گئی تھی بے اثر ہو کر لوٹتے دیکھا.ہم نے اس صدا کو جو خدا تعالیٰ نے دنیا کو گونجا دینے کے لئے بلند کی ایک وقت اس طرح بے کار ہوتے دیکھا گویا وہ کسی نہایت ہی ادنی ہستی کی طرف سے بلند کی گئی ہے.مگر پھر اس آواز سے باریک ترنم کو دلوں میں جنبش کرتے بھی دیکھا.آہستہ آہستہ لوگوں کو اس کی طرف مائل ہوتے دیکھا.غرض ہر قدم جو ترقی کی طرف بڑھا اسے دیکھا.اور ہر آنے والے کل میں برکتوں اور رحمتوں میں ترقی دیکھی.حتی کہ ملکوں کے بعد ملک اور عالموں کے بعد عالم متاثر ہوتے دیکھے.مگر یہ ساری ترقیات ان کلمات کی برکات تھیں جو آج سے پچاس سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل ہوئے تھے کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا " 66 اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.1

Page 393

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 387 جلد اول.اب باہر سے یہاں آنے والوں کو یہ بات نظر آتی ہے کہ یہاں ترقیات اور رحمتوں کا خزانہ ہے مگر ہم نے اس خزانہ کو اپنی آنکھوں سے بڑھتے اور زیادہ ہوتے دیکھا.پس اس لذت کو ہمارے دل ہی جانتے ہیں.جب کسی غیر ملک سے کوئی شخص یہاں آتا اور اس بات کا امیدوار ہوتا ہے کہ ہمارے ذریعہ اپنے ایمان کو ترقی دے تو اس کے ایمان کی ترقی ہماری باتیں سننے اور یہاں کی حالت دیکھنے کے بعد ہوتی ہے مگر ہمارے ایمان کی ترقی اس کی شکل کو دیکھتے ہی ہو جاتی ہے.باہر سے آنے والا شخص سمجھتا ہے ہم اس کے استاد اور معلم ہیں.لیکن ہم اس کے معلم پیچھے بنتے ہیں اور وہ ہمارے لئے پہلے استاد بنتا ہے.جب ہم اسے اخلاص سے قادیان میں داخل ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ کلمات ہماری آنکھوں کے سامنے پھر جاتے ہیں جنہیں دنیا ناممکن قرار دیتی تھی.پس جب کوئی شخص پہلے یکہ سے اترتا تھا اور اب ریل گاڑی سے اترتا ہے تو اس کی شکل دیکھتے ہی وہ ہمارا استاد ہوتا ہے اور ہم اس کے شاگرد.اس کے بعد اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو ہم اس کے استاد بنتے ہیں اور وہ ہمارا شاگرد.گویا یہ استاد شاگرد کا تعلق با ہمی ہے.ہم ہی باہر سے آنے والے ހ کے استاد نہیں ہوتے بلکہ وہ بھی ہمارا استاد ہوتا ہے.ابوبکر صاحب نے جس اخلاص کا اظہار کیا ہے میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کے اس اخلاص کو قائم رکھے اور اسے ترقی دے اور ان کی ساری قوم میں پیدا کرے.وہ اپنی قوم کے لئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے رسول ہو کر جائیں.جس طرح پہلے مسیح کے رسول گئے تھے.بلکہ ان سے بہت بڑھ کر برکتوں اور نصرتوں کے ساتھ جائیں.کیونکہ ہمارا مسیح پہلے مسیح سے بہت بڑھ کر ہے.دنیا اس وقت کفر اور الحاد میں بھٹک رہی ہے.مذہب سے غفلت اور بے پرواہی پائی جاتی ہے.ہر طرف تاریک بادل رات کی ظلمت کی طرح چھائے ہوئے ہیں.محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور رحم ہی انہیں پھاڑ سکتا ہے.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ابوبکر صاحب اور دوسرے اصحاب کو جو سماٹرا سے یہاں آئے ہیں سورج کی طرح روشنی عطا کرے تا کہ وہ اپنے ملک کی تاریکی دور کر سکیں

Page 394

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 388 جلد اول اور ظلمت کے بادلوں کو پھاڑ دیں.میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ان کے دل کی محبت رائیگاں نہ جائے گی بلکہ نتیجہ پیدا کرے گی.ہندوستان کے بعد جو ملک جلد جلد اس بات کے لئے قدم بڑھا رہا ہے کہ احمدیت قبول کرے اور بحیثیت قوم اور ملک احمدیت کا جھنڈا بلند کرے وہ انہی کا ملک ہے.مبارک ہیں ان کی کوششیں جو امید دلاتی ہیں کہ اگر وہ جاری رہیں تو ہندوستان کے بعد ان کے ملک کا نمبر ہو گا جو احمدیت میں ترقی کرے گا.بے شک اور ممالک ایسے ہیں جہاں ان سے پہلے احمدیت پھیلی.مثلاً افغانستان ہے جہاں کے لوگوں نے احمدیت کے لئے بہت قربانی کی.پھر افریقہ کے بعض علاقے ہیں جہاں احمدیت پھیل رہی ہے.مگر جو چیز ان کے ملک میں نظر آتی ہے وہ اسے خاص طور پر ممتاز کر رہی ہے.افغانستان میں اس وقت تک بحیثیت جماعت ترقی نہیں ہوئی بلکہ انفرادی ترقی ہے.افراد چاہے ہزاروں ہوں یا لاکھوں لیکن افراد ہی ہیں.ابھی تک وہ ملکی مشکلات کی وجہ سے جماعت کی شکل نہیں اختیار کر سکے.اسی طرح افریقہ کے علاقوں میں بھی ترقی ہو رہی ہے مگر ابھی تک وہاں ایسا جوش نہیں پایا جاتا کہ وہاں کے لوگ اپنے پاؤں پر آپ کھڑے ہونے کی کوشش کریں.ان میں ابھی تک یہ بات نہیں پائی جاتی کہ مرکز سے تعلق پیدا کر کے ایسی قابلیت حاصل کریں کہ خود اپنے ملک کے لئے راہ نما بن سکیں.ابھی ان کی حالت چھوٹے بچوں کی سی ہے.ہم ان کی کوششوں کی قدر کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ بڑے ہو کر اپنا بوجھ آپ اٹھا سکیں گے.لیکن فی الحال کام کے لحاظ سے گو وہاں پہلے سے تبلیغ شروع ہے مگر سماٹرا اور جاوا ان سے آگے نکل رہے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں وہاں ہندوستان کی طرح جماعتیں قائم ہو جائیں اور مشرق بعید میں احمدیت پھیلانے کا موجب ہوں.میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کی کوششوں میں برکت دے اور جو کوششیں انہوں نے شروع کی ہیں انہیں بڑھاتا جائے.میں اپنے کل جانے والے بھائی کے لئے دعا کرتا ہوں اور انہیں یقین دلاتا ہوں کہ ہماری خواہش کوشش اور دعا ان کے ساتھ ہوگی.میں

Page 395

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 389 جلد اول دوستوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی میرے ساتھ مل کر ان کے لئے دعا کریں.“ (الفضل 17 جنوری 1930ء) 1: تذکرہ صفحہ 81 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 396

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 390 جلد اول مرکزی مبلغین کی طرف سے مکرم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا اور حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ مغربی افریقہ کی دعوت مکرم مولوی رحمت علی صاحب مبلغ سماٹرا اور حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مبلغ مغربی افریقہ کی قادیان آمد پر مرکزی مبلغین نے 28 جنوری 1930 ء کو ان کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا جس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے کی تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل خطاب فرمایا.نہ تو وقت اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی میرے گلے کی حالت ایسی ہے کہ کوئی لمبی تقریر کر سکوں مگر حکیم فضل الرحمن صاحب نے اس وقت جو ایک بات مبلغین سے کہی ہے کہ وہ وہاں جائیں اس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کچھ کہہ دینا مفید ہو گا.ہمارے مبلغین کے پاس نہ تو اتنا سرمایہ ہے کہ وہ آپ ہی آپ وہاں جاسکیں اور نہ ہی انہیں کوئی ایسے پیشے آتے ہیں جن کی مدد سے وہ وہاں رہ سکیں.اس طرح تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو باہر رہتے اور خاص خاص پیشے جانتے ہیں.باقی رہی سلسلہ کی حالت سو اگر چہ یہ ضروری ہے کہ ہم سب جگہ جائیں لیکن مقدم یہ ملک ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے.اس ملک کی ضروریات کو ایک حد تک پورا کرتے ہوئے اور کلی طور پر فی الحال ضرورتوں کو پورا کرنا تو بہت مشکل ہے ایک انسان کے لئے ایک معلم بلکہ ایک کے لئے کئی

Page 397

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 391 جلد اول معلموں کی ضرورت ہوتی ہے مگر بحصہ رسدی اس ملک کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے ابھی اتنی گنجائش نہیں کہ باہر زیادہ مبلغین بھیجے جاسکیں.سوائے اس کے کہ کسی ملک کے متعلق یہ امید ہو کہ وہ بہت جلد اپنا بوجھ اٹھانے کی قابلیت پیدا کر لے گا.اور اس وقت ایسے ممالک صرف جاوا اور سماٹرا ہی نظر آتے ہیں اس لئے سردست میں نے سماٹرا کے دوستوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ فی الحال ایک اور مبلغ انہیں دیا جائے گا، تا ایک مشن جاوا میں بھی قائم ہو سکے.اور ایک تیسرے کے لئے بھی جلد کوشش کی جائے گی.لیکن بقیہ ممالک میں ذاتی قابلیت پیدا ہونے یا پھر ہمارے اندر طاقت آجانے کے بعد ہی مشن کا کام بڑھایا جا سکتا ہے.ہاں ایک اور صورت جو مفید ہو سکتی ہے یہ ہے کہ وہاں کی جماعتیں کچھ نوجوان جو نہ تو اتنے بڑے ہوں کہ کسی کا اثر قبول ہی نہ کر سکیں اور نہ اتنے چھوٹے ہوں کہ یہاں آ کر اداس ہو جائیں بلکہ درمیانی عمر یعنی 16 ، 17 سال کے ہوں چندہ کر کے ان کے لئے کرایہ فراہم کر دیں.جس میں ہو سکتا ہے کہ اگر کمی رہے تو کچھ امداد ہم بھی دے دیں یہاں بھیجیں.وہ یہاں آ کر تعلیم حاصل کریں.یہاں کی زبان سیکھیں.تحریرات کا مطالعہ کریں.اخبارات خود پڑھ سکیں.پھر اس کے بعد اپنے ملک میں جا کر کام کریں.ایسے لوگ بھی اگر چہ ہمارے مبلغین کے قائم مقام تو نہیں ہو سکتے لیکن ان کا باز وضرور بن سکتے ہیں اور تبلیغ میں مدد دے سکتے ہیں.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں لوگ اپنوں کے منہ سے سن کر مانتے ہیں اور بعض غیر ممالک کے لوگوں سے سن کر مانتے ہیں لیکن یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ اس پر اپنے کی بات زیادہ اثر کرتی ہے.جبھی تو قرآن کریم نے بار بار رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے اندر سے تمہارے لئے رسول مبعوث کیا.باہر کا آدمی ممکن ہے کسی قوم کے لئے مفید ہو سکے مگر اتنا نہیں جتنا اپنا ہوسکتا ہے.بعض لوگ نادانی سے اجرائے نبوت پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ وہ سمجھتے نہیں کہ جب قرآن کریم نے تسلیم کیا ہے کہ انسان اپنے اندر والے کی بات زیادہ مانتا ہے اور ادھر

Page 398

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 392 جلد اول اسلام ساری دنیا کے لئے آیا ہے تو ضروری ہونا چاہئے کہ مختلف حصص عالم میں ایسے کل پیدا ہوں تا سب قوموں میں ان کا اپنا داعی ہو سکے.جب شریعت مکمل ہو چکی ہے تو صلى الله ظلی نبوت کا سلسلہ ضرور ہونا چاہئے تا مختلف قوموں میں رسول کریم ﷺ کے نائب پیدا ہوں کیونکہ لوگوں کو تسلی ہو کہ خدا کی باتیں براہ راست اپنی زبان میں ہم نے سن لی ہیں.اس پر کہا جا سکتا ہے کہ صرف ہندوستان میں ہی ظلی نبی کیوں آیا ؟ لیکن ابھی کیا معلوم ہے کہ دنیا میں کتنے تغیرات ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کے لحاظ سے کہ روحانی فیوض کے دروازے بند نہیں ہوئے کیا تعجب ہے کہ مختلف اوقات اور مختلف اقوام میں ایسے مامورین پیدا ہوں جن کا پیدا ہونا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے کئی اور سامان پیدا کر کے بھی مختلف ممالک کو مشرف کر دیا ہے.مِنْ أَنفُسِكُمْ کے صرف یہی معنے نہیں ہوتے کہ اس قوم سے ہی وہ ضرور ہو بلکہ حاکم یا ماتحت کے متعلق بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں.جیسے فرعون کی طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام مبعوث کئے گئے حالانکہ وہ اس کے ماتحت قوم سے تھے.اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کے لئے بھی ہیں اور ہندوستان کے لئے بھی ، پھر ترکی الاصل ہونے کے لحاظ سے ایرانیوں کے لئے اور ترکستان کے لئے بھی ہیں اور افغانستان کے لئے بھی.کیونکہ وہ دراصل ہندوستان کا ہی حصہ ہے.ان ممالک میں سے صرف ہندوستان کی آبادی 33 کروڑ ہے.اور باقی ممالک کو شامل کر لیا جائے تو قریباً نصف دنیا ہو جاتی ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ نصف دنیا کو مشرف کر دیا گیا.اس طرح دنیا کا تھوڑا حصہ باقی رہ جاتا ہے.اور ممکن ہے بعض آنے والے مامورین کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو پیشگوئیاں ہیں ان کے مطابق باقی دنیا میں مامور پیدا ہوں.پس اللہ تعالیٰ کے کلام سے مستنبط ہوتا ہے کہ کسی قوم میں اس کے اپنے آدمی کا خاص اثر ہوتا ہے.اس لئے اگر مختلف ممالک کے طالب علم یہاں آ کر تعلیم

Page 399

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 393 جلد اول حاصل کریں اور پھر ہمارے مبلغین کے لئے نائب بن کر کام کریں تو بہت مفید ہو سکتا ہے اور یہی ذریعہ ہے جس سے بیرونی ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں وگرنہ یہاں سے اتنے آدمی بھیجنے کے لئے بہت اخراجات درکار ہیں جنہیں فی الحال مرکز برداشت نہیں کر سکتا." الفضل 11 فروری 1930ء) 1: التوبة: 128

Page 400

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 394 جلد اول دین کی خدمت خدا کے لئے کرو نہ کہ بندوں کے لئے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ کو ان کی بیرون ملک سے آمد پر تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء کی طرف سے جو دعوت چائے دی گئی اس میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ حسب ذیل ہے:.انسانی دماغ کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے ہزاروں نہیں لاکھوں قسم کی نہریں چلائی ہوئی ہیں.وہ ایک جنت ہے اور اس آنے والی جنت کا نقشہ ہے جس کا مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے.اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ 1 جیسے نہریں ایک خاص رنگ میں چلتی ہیں پانی برستا تو سب جگہ ہے مگر جہاں ڈھلوان دیکھتا ہے ادھر جمع ہو کر چلا جاتا ہے اور اس طرح نالا پانی سے لبریز ہو کر بہنا شروع ہو جاتا ہے.بالکل اسی طرح انسانی خیالات کی رو کا حال ہوتا ہے.ہر قسم کی قابلیت انسان کے دماغ میں ہوتی ہے.ہر قسم کے مضامین دماغ میں موجود ہوتے ہیں.ہر قسم کے جذبات کا بیج اس میں رکھا ہوتا ہے.لیکن جس طرح گویا کسی نظم کے متعلق خاص تان اٹھاتا ہے اور نظم کے الفاظ اسی تان کے مطابق چلتے ہیں اسی طرح ماحول کے اثرات کے ماتحت انسانی دماغ اپنے اندر ایک اثر قبول کرتا ہے.اُس وقت اس کے لئے ایک ڈھلوان پیدا ہو جاتی ہے اور خیالات ایک رو میں اُدھر بہنے لگتے ہیں.یہاں تک کہ اور بارش ہو جاتی ہے اور وہ اپنے لئے اور ڈھلوان تجویز کر لیتی ہے.پھر خیالات اس طرف بہنے لگ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کوئی انسان خواہ وہ

Page 401

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 395 جلد اول کتنا بڑا عالم ہو کبھی کسی ایک مجلس میں بیٹھ کر اپنے سارے علوم اور سارے خیالات ظاہر نہیں کر سکتا.اس کے دماغ میں سارا علم موجود ہوتا ہے مگر اس کے لئے اس علم کا پکڑنا مشکل ہوتا ہے.جیسے ایک نہر میں بہتا ہوا انسان دوسری نہر میں بہتی ہوئی چیز کو پکڑ نہیں سکتا یہی حال انسان کا ہوتا ہے.خیالات کی ایک نہر میں بہتے ہوئے وہ دوسرے خیالات تک نہیں پہنچ سکتا.یہ بات سمجھنے کے لئے قرآن کریم کو ہی لے لو.خدا تعالیٰ نے ہم میں سے بہتوں کو اس کا علم دیا ہے مگر یہ کہ کوئی شخص قرآن کے سارے مطالب کسی ایک درس میں بیان کر دے یہ ناممکن ہے.ہم خواہ کتنا زور لگائیں پھر بھی ماحول سے متاثر ہو کر ایک ہی نہر میں بہنے لگیں گے اور وہی معارف بیان کر سکیں گے جو اس ماحول سے تعلق رکھیں گے.ہم بے شک موتی اور مرجان نکالیں گے مگر اسی نہر میں سے جس میں بہہ رہے ہوں گے دوسری نہروں تک ہماری رسائی نہ ہو گی.گو دوسرے معارف و حقائق بھی دماغ میں موجود ہوں گے یہی وجہ ہے کہ ایک انسان ، ایک وقت ایک مضمون بیان کرتا ہے اور وہی دوسرے وقت دوسرا اور تیسرے وقت ان دونوں سے الگ اور بیان کرتا ہے.اس لئے نہیں کہ اس نے یہ ارادہ کیا ہوتا ہے کہ فلاں وقت فلاں مضمون بیان کروں گا اور فلاں وقت فلاں.بلکہ جس وقت وہ بیان کرتا ہے اس کے مطابق جو رو اس کے دماغ میں چلتی ہے اس کے لحاظ سے بیان کرتا ہے.بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک مضمون جس وقت بیان کر رہا ہوتا ہے اس وقت قطعاً اسے یاد نہیں ہوتا کہ اس نے ان آیات کے کسی وقت اور معنی بھی بیان کئے تھے.یہی حال مضمون نویس کا ہوتا ہے.وہ بھی ماحول کے اثرات سے متاثر ہو کر مضمون لکھتا ہے اور جدھر اس وقت اس کے دماغ کی رو چلتی ہے ادھر ہی وہ بہتا ہے.یہ مادہ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے بطور رحمت ہے.اول اس لئے کہ اگر انسان کے سامنے اس کے سارے خیالات ، اس کے سارے علوم، اس کی ساری کیفیات ، اس کے سارے جذبات ایک ہی وقت میں آتے تو وہ پاگل ہو جاتا اور اس کی وہی مثال ہوتی

Page 402

زریں ہدایات (برائے مبلغین) جیسا کہ کہا گیا ہے 396 جلد اول ه شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ها کیونکہ انسان کے دل پر غم اور خوشی ، حسرت اور محبت ، امیدوں اور امنگوں کے اثرات مختلف پڑتے ہیں.جب ایک وقت خوشی کا اثر پڑتا ہے تو اس سے انسان لطفی محسوس کرتا ہے.اور جب دوسرے وقت نمی کا اثر پڑتا ہے تو غم محسوس کرتا ہے.اسی طرح دوسرے اثرات سے مختلف اوقات میں اثر پذیر ہوتا ہے.لیکن اگر یہ ساری کی ساری کیفیتیں ایک دفعہ پیدا ہو جائیں تو دماغ پاش پاش ہو جائے.انسان کو بیسیوں قسم کے رنج اور تکالیف پہنچتی ہیں.اگر ان سب کے اثرات دماغ پر قائم رہیں تو دماغ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.اسی طرح کئی رنگ کی خوشیاں اسے حاصل ہوتی ہیں.اگر خوشی ہی خوشی رہے تو بھی انسان نکما ہو جائے.کیونکہ اگر خوشی اور مسرت کے جذبات ہر وقت مسلط رہیں تو وقار اور سنجیدگی مٹ جائے.اور اگر غم ہر وقت رہے تو امید اور امنگ کا مادہ باقی نہ رہے.اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے دماغ کو سینما کے فلم کی طرح بنایا ہے.جس طرح فلم میں سارا واقعہ محفوظ ہوتا ہے لیکن لوگوں کے سامنے ایک ایک حصہ آتا ہے اسی طرح دماغ میں سب کچھ ہوتا تو ہے لیکن آنکھوں کے سامنے موقع اور محل کے مناسب ایک ایک ٹکڑا آتا ہے.اس وجہ سے جب اسے ناگوار حالات کا سامنا ہوتا ہے تو وہ رنج محسوس کرتا ہے اور جب خوشگوار حالات میں سے گزرتا ہے تو خوشی حاصل کرتا ہے.اور اس طرح اس کی حالت بدلتی رہتی ہے.ایک وقت اس پر خوشی کی حالت آتی ہے اور دوسرے وقت رنج کی.اور یہ باری باری آتی ہے جو ایک وقت انسان کو نا خوش کر دیتی ہے تو دوسرے وقت اسے خوشی پہنچا دیتی ہے.دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان پر مشکلات آتی ہیں تو اس کے حوصلہ کو بلند اور اس کی ہمت میں پختگی پیدا کرتی ہیں.اور جب خوشی کی حالت آتی ہے تو انسان میں امنگ اور امید پیدا کرتی ہے.

Page 403

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 397 جلد اول تیسرا فائدہ ہم اس سے یہ اٹھاتے ہیں کہ ہم اس رو میں بہہ جانے سے دوسرے کے اثرات قبول کر لیتے ہیں.اگر ہر چیز ہمارے اندر سے ہی پیدا ہوتی تو دوسروں کی طرف ہم متوجہ نہ ہوتے.یہ جو خدا تعالیٰ نے رکھا ہے کہ ہم دوسرے کی رو میں بہہ جائیں تو ہم دوسرے کی رو میں بہہ کر اپنے لئے اچھے حالات پیدا کر سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کئی ایسے لوگ جو دین سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں لیکن جب ایک ایسی مجلس میں جاتے ہیں جہاں دین کا تذکرہ ہو رہا ہوتا ہے تو دین کی محبت سے ان کے دل بھر جاتے ہیں اور وہ یوں محسوس کرتے ہیں کہ دین کی خدمت کے لئے ساری عمر آمادہ رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں ہمارے مبلغوں کا آنا اور جاتا اس قسم کی کیفیات پیدا کرنے میں بہت ممد اور معاون ہوتا ہے.ان کا وہ کام جو عملی میدان میں کر کے آتے ہیں وہ تو مفید ہوتا ہی ہے لیکن جب وہ جاتے ہیں تو بھی اور جب آتے ہیں تو بھی ایک رو پیدا کر دیتے ہیں اور یہ اپنی ذات میں خود سبق ہے.جب کوئی مبلغ کسی دوسرے ملک میں تبلیغ کے لئے جاتا ہے تو بیسیوں طالب علم جن کی دین سے بے رغبتی کے متعلق ان کے سر پرستوں کو شکایتیں ہوتی ہیں ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی ہیں.ان کے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے.ان کے ہونٹ کا پنپنے لگتے ہیں.ان کے چہرے ٹمٹمانے لگ جاتے ہیں اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی اسی میدان میں جانے کے لئے بے تاب ہو رہے ہیں جس میں مبلغ جا رہا ہے.بعد میں چاہے ان کی حالت بدل جائے مگر ان کے قلوب پر اپنا گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے.اور کسی نقش کا مٹانا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے کوئی اور نہیں مٹا سکتا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے كَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا 2 پس کسی نقش کو خدا ہی مٹا سکتا ہے ورنہ انسان جتنا مٹائے گا نقش اتنا ہی گہرا ہوتا جائے گا.اور اس کی مثال ایک دلدل میں پھنسے ہوئے انسان کی سی ہوگی جو باہر نکلنے کے لئے جتنا زور لگاتا ہے اتنا ہی دھنتا جاتا ہے.کیونکہ باہر نکلنے کے لئے ٹیک کی ضرورت ہوتی ہے.اس لئے جب وہ ایک پاؤں کی ٹیک لے کر باہر نکلنا چاہے گا اور اس پر زیادہ زور ڈالے گا تو وہ پاؤں زیادہ ھنس جائے گا.پس جو یہ

Page 404

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 398 جلد اول کوشش کرتا ہے کہ کسی چیز کو بھلا دوں وہ گویا اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ اسے زیادہ یاد رکھوں.غرض کسی چیز کو مٹانا انسان کی طاقت میں نہیں ہے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں میں کوشش کر رہا ہوں کہ فلاں بات بھلا دوں مگر جو ایسا کرتے ہیں وہ اور زیادہ اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ در حقیقت کسی چیز کا مٹانا انسان کے اختیار میں نہیں ہے.انسان کسی بات کو مٹاتا نہیں بلکہ اپنی توجہ اور طرف مشغول کر لیتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے کہ اثرات کو مٹائے اور ایک جذبہ کے ساتھ ساتھ دوسرا جذ بہ نہ آنے دے.پس دوسرے کاموں میں پڑنے کی وجہ سے ایک جذبہ اوجھل ہو جاتا ہے مگر مٹتا نہیں.اسی طرح جب کوئی مبلغ آتا ہے تو ایک خاص جذبہ اور ایک نئی رو پیدا ہو جاتی ہے.جتنی دیر استقبال میں، دعوتوں اور مجلسوں میں لگتی ہے اس میں ہر نوجوان کے دل میں یہ خیال موجزن رہتا ہے کہ ایک وقت میں نے بھی خدمت دین کرنے کا عہد کیا تھا مگر میں نے اس کی طرف توجہ نہ کی اب ضرور کروں گا.اس طرح نئے سرے سے رو پیدا ہو جاتی ہے.جب اس پر کچھ عرصہ گزرتا ہے تو پھر دب جاتی ہے مگرمٹتی نہیں.اور جب ایسا ہی وقت آتا ہے تو تازہ ہو جاتی ہے.پس ایسی مجالس سلسلہ کے لئے بہت مفید ہیں.اسی خیال سے میں ان میں شامل ہوتا ہوں.ورنہ مبلغ کے آنے اور جانے کی تقریبوں میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ اگر اس قسم کا فائدہ نہ ہو تو گویا اس وقت کو ضائع کرنا ہے.میں ان مجالس میں اس لئے آتا ہوں کہ ان میں چائے اور کھانے کا سوال نہیں بلکہ نو جوانوں کے قلوب پر دین کے لئے قربانی کرنے کا نقش پیدا کرنے کا سوال ہے.اور یہ ایک عظیم الشان کام ہے.ایسا نقش جن کے قلوب پر جم جائے گا وہ آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں ، پرسوں نہیں تو کسی نہ کسی وقت ضرور ظاہر ہوگا.زندہ قوموں میں بہادری اور جوانمردی کے آثار اسی لئے قائم رکھے جاتے ہیں کہ ان سے نوجوانوں میں بہادری پیدا ہوتی ہے.انگلستان کی قوم تاجر قوم ہے اور اس کے نزد یک جان بہت پیاری ہے مگر جنگ کے وقت دیکھو کہ کس طرح دیوانہ وار نکل کھڑی

Page 405

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 399 جلد اول ہوتی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ملک اور قوم کی عزت کی حفاظت کے کام کو بہت اہم سمجھا جاتا اور اس کی اہمیت لوگوں کے دلوں میں جاگزیں کی جاتی ہے.میں طالب علموں سے کہتا ہوں جو شخص کسی بات کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جب وہ یاد رہتی ہے تو جسے یادرکھنے کی کوشش کی جائے وہ کیوں نہ یادر ہے گی.پس مبلغین کے آنے اور جانے کے موقع پر خدمت دین کی جو روان میں پیدا ہوتی ہے اسے قائم رکھنا چاہئے اور سمجھنا چاہئے کہ خدمت دین کسی انسان کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے.بہت لوگ ہیں جو کوئی خدمت کرتے ہیں تو بعد میں امید رکھتے ہیں کہ لوگوں کی طرف سے ان کی خدمت کا اعتراف ہوگا.اور اگر جس طرح کا اعتراف وہ چاہتے ہوں ویسا نہ ہو تو شکوے کرتے ہیں.اگر وہ خیال کریں کہ لوگ دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا اتنا ہی ہونا چاہئے اس سے زیادہ نہیں تو انہیں ٹھوکر نہ لگے.وہ سمجھ لیں جس نے جس رنگ میں اعتراف کیا یا بالکل نہ کیا اس کی سمجھ میں ایسا ہی آیا.اگر کوئی واقعہ میں سمجھتا ہو کہ فلاں نے کوئی دین کی خدمت نہیں کی یا جو کچھ اس نے کیا اس میں نقص رہ گیا اور اس کی تکمیل کی ضرورت ہے تو کیا اس سے یہ امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ جھوٹے طور پر اس کی خدمت کا اعتراف کرے.یہ اپنے بھائیوں کے متعلق بدظنی ہے.اسے سمجھنا چاہئے اگر کوئی خدمات کا اعتراف نہیں کرتا تو دیانت داری سے نہیں کرتا.لیکن جب وہ سمجھتا ہے کہ ایسا کرنا شرارت ہے یا شرارت کا نتیجہ ہے تو ٹھو کر کھاتا ہے.میں کہتا ہوں لوگوں سے دینی خدمات کے اعتراف کرانے کا سوال پیدا ہونا اللہ تعالیٰ پر اور خود اپنے نفس پر بدظنی ہے.خدا تعالیٰ پر تو اس لئے کہ جو خدا کے لئے خدمت کرتا ہے خدا اس کی خدمت کا اعتراف کرتا ہے.اور خواہ ساری دنیا اسے مٹانا چاہے وہ مٹ نہیں سکتا.لوگ اسے پیچھے رکھنا چاہیں تو خدا تعالیٰ خود ا سے آگے لاتا ہے.لوگ اسے گمنامی کے گڑھے میں پھینکنا چاہیں تو خدا تعالیٰ شہرت کے آسمان پر پہنچاتا ہے.لیکن جو خدا تعالیٰ پر بدظنی کر کے اپنے آپ کو خود بڑھانا چاہتا ہے وہ کبھی نہیں بڑھا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص خود

Page 406

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 400 جلد اول کوئی عہدہ طلب کرے اسے مت دو 3 تو یہ سمجھنا کہ خدمات کا اعتراف نہیں ہوا خدا تعالیٰ پر بدظنی ہے اور پھر اپنے نفس پر.جو خدا تعالیٰ کے لئے خدمت کرنے کے لئے نکلا اسے اپنی خدمات کا اعتراف اللہ سے طلب کرنا چاہئے.اور ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ اپنا اعتراف بندوں کی زبان سے ہی کرائے بلکہ وہ اپنا اعتراف اپنی وحی ، اپنی نصرت اور اپنی تائید سے ظاہر کرنے لگتا ہے.انسان کو اپنے نفس پر غور کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی اس سے کیا سلوک کر رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اپنی محبت ، اپنے کلام اور اپنی تائید سے اسے مشرف کرتا ہے تو اس سے بڑھ کر شرم کی کیا بات ہوگی کہ وہ سمجھے یہ سب کچھ تو بیچ ہے مجھے بندوں کی تعریف چاہئے.اگر کسی کی تعریف خدا تعالیٰ کے ہاں نہیں ہوتی تو بندوں کی تعریف اسے کیا فائدہ دے سکتی ہے.بندے غلط اور بے وجہ بھی تعریف کرنے لگتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں لگ سکتا.خدا تعالیٰ وہی تعریف کرتا ہے جو اسے نظر آتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کسی سے خاص سلوک نہیں کرتا ، اس پر اپنی نصرت نازل نہیں کرتا ، اس کے قلب میں اطمینان اور سکینت پیدا نہیں کرتا تو وہ سمجھے خدا کے حضور اس کی خدمات مقبول نہیں ہوئیں.جب وہاں مقبول نہیں ہوئیں تو دنیا کی مقبولیتیں تو وہاں سے ہی نازل ہوا کرتی ہیں وہ کس طرح نازل ہوں.ہم نے وہ زمانہ دیکھا ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بعض لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ دوسروں کے رستہ میں روکیں ڈالیں اور انہیں کوئی کام نہ کرنے دیں اور اگر کچھ کریں تو اس پر اعتراض کئے جائیں.اُس وقت جب میرے سپرد کوئی کام کرنے کا سوال ہوتا تو وہ کہتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کی ہتک.کہ اس سے کوئی کام کرایا جائے اور ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے.لیکن دوسرے موقع پر و ہی حضرت خلیفہ المسیح الاول کے پاس جا کر کہتے یہ کوئی کام نہیں کرتے.ایسی حالت تھی جس میں سے ہمیں گزرنا پڑا.مگر اُس زمانہ میں میں نے دیکھا کوئی ہفتہ خالی نہ جاتا کہ خدا تعالیٰ غیب کی خبریں نہ بتاتا اور بشارتیں نازل نہ کرتا.میں اپنے دوستوں سے بیان کرتا اور

Page 407

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 401 جلد اول پوری ہوتیں.تو خدا تعالیٰ پر جو نظر رکھتا ہے خدا اس کی تائید اور نصرت کرتا ہے.کبھی علوم کے ذریعہ.کبھی بشارتوں کے ذریعہ.کبھی فضلوں کے ذریعہ.میں نے کبھی باقاعدہ علم نہ پڑھا لیکن جب میں حج کو جانے لگا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول میرا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے اور علیحدگی میں فرمایا دیکھو میاں زندگی کا اعتبار نہیں پتہ نہیں تمہارے واپس آنے تک میں زندہ رہوں یا نہ رہوں اس لئے تمہیں بتاتا ہوں کہ تم میرے شاگرد ہو.مگر میں بھی تمہارا شاگرد ہوں.تمہارے خطبوں اور تقریروں سے میں نے قرآن کریم کی کئی آیتوں کے معنے سیکھے اور وہ مجھے بہت پسند آئے.غور کرو ایک طالب علم کے لئے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہو سکتی ہے کہ اس کے استاد نے بھی اس کے علم سے فائدہ اٹھایا.یہ ایک بہترین انعام ہے جو شاگرد کو استاد کی طرف سے حاصل ہوسکتا ہے.تو جب انسان خدا کے لئے خدمت کرتا ہے اور اس کی خدمت کی بنیا د روحانیت پر ہوتی ہے تو وہ ناکام نہیں رہتا.لیکن جب کوئی انسانوں پر نظر رکھتا ہے تو وہ کامیابی سے محروم رہتا ہے.انسان در اصل خدا کی بانسری ہوتا ہے.خدا جسے چاہتا ہے بجاتا ہے.لیکن جس انسان میں روحانیت نہ ہو وہ ٹوٹی ہوئی بانسری کے مانند ہوتا ہے.تو خدمت دین کی خواہش روحانیت پر ہونی چاہئے کیونکہ اس طرح کبھی انسان مایوس نہیں ہوتا.دنیا میں سب سے زیادہ وقتیں انہیں پیش آتی ہیں جنہیں سب سے زیادہ لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے.میں اپنا تجربہ بتاتا ہوں ایک شخص آتا ہے اور شکایت کرتا ہے فلاں نے مجھ سے یہ سلوک کیا ہے.ہم اسے تنبیہ کرتے ہیں مگر اس سے شکایت کرنے والے کی تسلی نہیں ہوتی.وہ سمجھتا ہے پوری سزا نہیں دی گئی.اور جسے سزا دی جاتی ہے وہ کہتا ہے مجھ پر ظلم کیا گیا ناحق سزا دے دی گئی.معمولی سی بات پر اتنی سختی کی گئی.گویا دونوں شکوہ کرتے ہیں.تو جس شخص کے جتنے تعلقات وسیع ہوتے ہیں اتنا ہی وہ زیادہ لوگوں کے نزدیک زیر الزام ہوتا ہے.اس صورت میں اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید نہ ہو تو دیانت دار آدمی ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتا.ایک انسان جو پوری دیانت داری سے کام کرے اور اس کا ملجا وما وای

Page 408

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 402 جلد اول انسان ہی ہوں وہ جس کی تائید کرے وہ بھی ناراض ہو اور جسے اس کے فعل کی سزا دے وہ بھی غصہ کا اظہار کرے تو ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکے.سوائے اس کے کہ حکومت کا رنگ ہو.وہ سمجھے جو مخالفت کرے گا اسے کچل دیا جائے گا.مگر اس طرح اسے اخلاقی موت قبول کرنا پڑے گی.اخلاقی حیات کو قائم رکھتے ہوئے زندہ نہیں رہ سکتا سوائے اس کے جس کی نظر خدا پر ہو اور جس پر خدا تعالیٰ اپنی تائید اور نصرت نازل کرے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے جس کے لئے میں نے کام کیا جب وہ خوش ہے تو مجھے کسی اور کی کیا پر واہ ہے.تو دین کے لئے قربانی کرنے کا خیال ہمیشہ یاد رکھنے والا خیال ہے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ مذہب کے لئے جو قربانی کی جائے وہ اپنا بدلہ خدا تعالیٰ سے لاتی ہے.تم اپنے اندر روحانیت پیدا کرو.آگے اس کے نتائج تمہیں خود حاصل ہو جائیں گے.روحانی درجے بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.بعض انسانوں کو خدا تعالیٰ اس قابل سمجھتا ہے کہ دنیا میں ان کی قبولیت ہو.ایسے لوگوں کی قبولیت پھیلا دیتا ہے.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں فَيُوْضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ - 4 دوسرا درجہ یہ ہے خدا تعالیٰ اپنے بندوں میں قبولیت نہیں پھیلا تا مگر اپنی رحمت کے روازے کھول دیتا ہے.ایسا انسان ولایت الہی کے اثرات محسوس کرنے لگ جاتا ہے.اس طرح بھی وہ سمجھتا ہے نا کام نہیں رہا کیونکہ وہ خدا کے فضل اور نوازش اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھ لیتا ہے.پس دین کی خدمت کرنا اور قربانی کے لئے تیار رہنا بہت بڑی بات ہے.مگر اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ خدمت اور قربانی خدا کے لئے ہو بندوں کے لئے نہ ہو.اور جب خدا کے لئے ہوگی تو انسان کی نگاہ روحانیت پر ہوگی اور وہ کامیاب ہو جائے گا.لیکن جو دنیا پر نظر رکھتا ہے اس کی نگاہ مادیات پر ہوتی ہے.اس پر خدا کے فیوض نازل نہیں ہوتے اور نہ وہ دنیا کے لئے مفید ہوتا ہے.لیکن روحانیت پر اپنی خدمات کی جو بنیا د رکھتا ہے اسے یا تو دنیا میں بھی قبولیت حاصل ہو جاتی ہے یا صرف خدا کی رحمتوں اور برکتوں کو

Page 409

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 403 جلد اول اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھتا ہے.پس خدمت اسلام کے ساتھ ساتھ یہ بھی مدنظر رکھنا چاہئے کہ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی برکات حاصل کرنا ہے اگر وہ حاصل ہو رہی ہوں تو سمجھو کہ قبولیت حاصل ہوگئی.اور اگر وہ حاصل نہیں ہوئیں تو پھر بندے کیا دے سکتے ہیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے بڑھ کر دین کی خدمت کی مگر غور کر و مخاطبین میں سے کتنوں نے آپ کی باتوں کو قبول کیا.لاکھوں میں سے ایک نے بھی قبول نہیں کیا.مگر کوئی ہے جو یہ کہہ سکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دینی خدمات خدا تعالیٰ نے رد کر دیں.خدا نے آپ کی خدمات کو قبول کیا.چنانچہ فرمایا.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.5 لوگ قبول کریں یا نہ کریں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس سے کیا کیونکہ جس نے آپ کو بھیجا تھا اس نے قبول کر لیا.پس جو شخص خدا کے لئے دین کی خدمت کرتا ہے اس کی بنیا د روحانیت پر ہوتی ہے اور اس کی روحانیت ترقی کرتی جاتی ہے.لیکن جو لوگوں پر نظر رکھتا ہے اسے روحانیت حاصل نہیں ہوتی.دنیا ہی دنیا اس کے لئے رہ جاتی ہے.مگر جنہیں روحانیت حاصل ہوتی ہے ان کے نزدیک دنیا کی کامیابی اور عزت تماشہ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی.پس یاد رکھو جب تک اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ساتھ نہ ہو کوئی خوشی خوشی نہیں بن سکتی اس لئے خدا پر ہی نظر ہونی چاہئے.غرض زندگی کو قربانی کی یاد سے تازہ رکھو مگر یہ بھی یاد رکھو کہ حقیقی قربانی اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہو.اور یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ سے تمہیں کتنا تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ خدا کو چھوڑ دو.مگر میں کس طرح چھوڑ دوں.جب ساری دنیا سوتی ہے اور عزیز سے عزیز بھی کچھ نہیں کر سکتے تو خدا تعالیٰ ہی تسلی دیتا ہے اور مدد کرتا ہے.تو دنیا اگر ساری کی ساری بھی مخالف ہو جائے لیکن اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہو اور وہ اپنی گود میں اٹھاتا ہو تو بتا ؤ ایسے انسان کو دنیا کی کونسی خواہش باقی رہ جاتی ہے.ہاں یہ

Page 410

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 404 جلد اول رنج ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ کیوں خدا سے دور اور اس کے فضلوں سے محروم ہیں.یہی غم انبیاء کو ہوتا ہے کہ لوگ ہدایت کیوں نہیں پاتے.میں مبلغوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان کے مدنظر ہمیشہ روحانیت ہونی چاہئے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی کی نظروں سے یہ پوشیدہ ہو جاتی ہے اور وہ ظاہری تعریفوں پر نظر رکھتے ہیں.انہیں یہ خواہش نہیں ہوتی کہ خدا سے تعلق پیدا کریں، اس کے فضل کی چادر میں اپنے آپ کو لپیٹ لیں اس لئے وہ خدا کے فیوض سے محروم ہو جاتے ہیں.کئی لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہمارے دل میں روحانیت حاصل کرنے کے لئے درد پیدا ہوتا ہے مگر ہمارے لئے کھڑ کی نہیں کھلتی.لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی میں سمجھتا ہوں ان کے کے سوز اور جلن میں کمی ہوتی ہے.اگر وہ سچے طور پر سوز پیدا کریں، خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی ان کے دل میں ایسی تڑپ پیدا ہو جائے جیسی کسی محبوب ترین دنیا وی چیز کی ہوتی ہے تو ابھی 24 گھنٹے نہ گزرنے پائیں کہ خدا کا فضل کسی نہ کسی رنگ میں ان پر نازل ہو.حضرت خلیفقہ اصبح الاول فرمایا کرتے تھے رات کا فاقہ اچھا نہیں ہوتا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے خدا تعالیٰ نے ظاہر اور باطن میں ایک تعلق اور مطابقت رکھی ہے اس لئے میں کہتا ہوں خدا تعالیٰ بھی اپنے بندہ کو رات کا فاقہ نہیں دیتا.جس طرح ماں پسند نہیں کرتی کہ اس کا بچہ رات کو بھو کا سوئے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کا بندہ روحانی طور پر بھوکا سوئے.جب تک اس کے سوز پر محبت کی پٹی لگا کر اسے آرام کی نہ پہنچائے اسے سونے نہیں دیتا.پس قربانی کے ساتھ اس چیز کو بھی مدنظر رکھو.اسی سے کام میں برکت اور طاقت پیدا ہوتی ہے.اسی سے خدا تعالیٰ کے فیوض نازل ہوتے ہیں اور اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی ساتھ ہے.اور جس کے ساتھ اللہ ہوا سے بندوں کی کیا پرواہ ہوسکتی ہے.میں امید کرتا ہوں ہر ایک سے تو یہ امید کرنا مشکل ہے کہ وہ ہر بات قبول کر لے گا مگر

Page 411

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 405 جلد اول جنہیں روحانیت اور خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی تڑپ ہے ان سے امید ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لیں گے.ساری برکتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہیں انہیں اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت ، تڑپ اور بے چینی یہاں تک پیدا کرنی چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا فضل انہیں ڈھانپ لے اور فیوض کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں.یہ صرف مبلغوں کے لئے ہی نہیں بلکہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ہے.خواہ وہ کوئی کام کر رہا ہو کیونکہ ہماری زندگی کا اصل مقصد یہی ہے.“ (الفضل 11 فروری 1930ء) 1: البقرة : 26 2: آل عمران : 194 3 مسلم كتاب الامارة باب النهى عن طلب الامارة (الخ) صفحہ 818 حدیث نمبر 4715 مطبوعہ ریاض 2000 ء الطبعة الثانية 4 بخارى كتاب التوحيد باب كلام الرب (الخ) صفحہ 1290 حدیث نمبر 7485 میں فَيُوْضَعُ کی بجائے وَ يُوضَعُ کے الفاظ ہیں.مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية تذکرہ صفحہ 81 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 412

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 406 جلد اول طلباء کو نصیحت مبلغین کے لئے ضروری صفات.ممالک غیر میں تبلیغ اسلام کی اہمیت طلباء مدرسہ احمدیہ نے حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ مغربی افریقہ کو ان کی آمد کی خوشی پر 30 جنوری 1930ء کو دعوت چائے دی جس میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی بھی تشریف لائے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد جو خطاب فرمایا وہ درج ذیل ہے :.میں نے متواتر سکول کے اساتذہ کو بھی اور طلباء کو بھی اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ایک مبلغ سب سے بڑا کام زبان سے لیتا ہے اس لئے زبان کا صحیح استعمال ضروری ہے.لیکن یہ شکایت قریباً ہمیشہ مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے متعلق پیدا ہوئی ہے کہ ان کا لہجہ اور تلفظ صحیح نہیں ہوتا.اور بعض اوقات تو اس حد تک گرا ہوا ہوتا ہے کہ کان اس کے سننے کی طاقت نہیں رکھتے.اور ایسی غلطیاں کی جاتی ہیں جو معمولی عدم توجہ کا باعث ہوتی ہیں اور معمولی سی توجہ کرنے سے دور ہو سکتی ہیں.خواہ ایسی غلطیاں استادوں کی عدم توجہ کی وجہ سے ہوں یا طلباء کی عدم توجہ کی وجہ سے.ہر حال میں قابل افسوس ہیں.گو طبعا مجھے یہ بات نا پسند ہوتی ہے کہ میں کسی کے نقائص پر زور دوں.خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ یہ معلوم ہو کہ کس کے نقائص کا ذکر کیا جا رہا ہے.لیکن طالب علموں کی حیثیت ایسی ہوتی ہے کہ انہیں ان کی غلطیاں بتائی جائیں اور اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے اس لئے میں ذکر کرتا ہوں.

Page 413

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 407 جلد اول " اس وقت جو ایڈریس پڑھا گیا ہے اس کے پڑھنے والے نے بعض الفاظ نہایت غلط پڑھے ہیں.مثلاً محتاج کو متاج پڑھا ہے.محتاج ایک عام لفظ ہے جو پنجابی بولنے والے عام طور پر اسی طرح بولتے ہیں جس طرح پڑھا گیا ہے مگر مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو جو اس کا صحیح تلفظ جانتے ہیں اور جنہیں ضرور جاننا چاہئے انہیں اس طرح نہیں پڑھنا چاہئے.اسی طرح مظفر کو مظفر ، مُراجعت کو مراجعت پڑھا گیا ہے اور بھی بہت الفاظ عربی اور اردو کے لحاظ سے غلط پڑھے گئے ہیں اور ایک کو تو ایسا بگاڑ دیا گیا کہ میں اسے سمجھے ہی نہیں سکا.غرض اس ایڈریس میں دو تین درجن الفاظ ایسے استعمال کئے گئے ہیں جن میں معمولی سی احتیاط کی ضرورت تھی اور وہ صحیح پڑھے جا سکتے تھے.مثلاً پھر کو فر پڑھا گیا ہے.بے شک یہ درست ہے کہ پنجابی حلق ہر ایک لفظ کو پوری طرح ادا نہیں کر سکتا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک شخص نے اعتراض کیا کہ یہ تو قرآن کا صحیح تلفظ عربی لہجہ میں ادا نہیں کر سکتا.ایسا شخص کہاں مسیح ہو سکتا ہے.اس کی یہ بات سن کر سید عبد اللطیف صاحبہ شہید نے اس پر ہاتھ اٹھایا مگر مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی انہیں روک دیا.تو بے شک بعض الفاظ کا عربی لہجہ میں تلفظ ادا کرنا اختیار سے باہر ہوتا ہے مثلاً اگر پنجابی تقریر کرتے وقت کوئی ضاد کو عربی لہجہ میں ادا کرنے کے پیچھے پڑے گا تو ایک طرف تو اس سے ضاد ادا نہ ہو سکے گا اور دوسری طرف اصل مضمون اس کے ہاتھ سے جاتا رہے گا.لیکن اس میں بھی شبہ نہیں کہ بعض الفاظ پرانے زمانے کی غلطی کے نتیجہ کے طور پر غلط بولے جاتے ہیں یا ان کے صحیح بولنے کی کوشش نہیں کی جاتی.ورنہ صحیح ادا کرنے کی قابلیت ہوتی ہے.مثلاف کی بجائے پچھ کا ادا کر نا کسی پنجابی کے لئے مشکل نہیں ہے.مگر چونکہ پنجابیوں میں چھ کی بجائے ف کو ادا کرنے کا رواج ہے اور عام طور پر پھر کوفر" کہتے ہیں اس لئے پڑھے لکھے بھی اسی طرح استعمال کرتے ہیں.اس قسم کے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی اصلاح کرنے میں کوئی مشکل نہیں پیش آتی صرف احتیاط کی کمی ہے.طلباء اور استادوں کے لئے ضروری ہے خصوصاً اس زمانہ میں

Page 414

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 408 جلد اول جبکہ ہر قوم کوشش کر رہی ہے کہ اس کی زبان ترقی کرے اور ہماری یہ کوشش ہے کہ اردو علمی زبان کہلائے صحیح تلفظ ادا کیا جائے.ایک عرب اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ جو الفاظ اس کی قوم میں استعمال ہوتے ہیں انہیں غلط استعمال نہ کرے.اسی طرح ایک تعلیم یافتہ انگر یز بھی اپنی زبان کے الفاظ غلط استعمال نہ کرے گا.ہم بھی اگر دوسری قوموں میں اپنی زبان کی عزت قائم کرنا چاہتے اور خود اپنی نظروں میں اسے عزت دیتے ہیں تو ہمارے لئے بھی لازمی ہے کہ ہم اپنی زبان کے صحیح الفاظ ادا کریں.سوائے اس کے کہ کبھی روانی تقریر میں کوئی لفظ غلط ادا ہو جائے اور ایسی غلطی بڑے سے بڑا مقرر کر سکتا ہے.میں نے مولوی شبلی صاحب اور مولوی ابوالکلام صاحب آزاد کی تقریریں سنی ہیں وہ بھی ایسی غلطی کر جاتے کہ جلدی اور روانی میں کوئی لفظ غلط منہ سے نکل گیا.اسے slip of the tongue یعنی زبان کا پھسل جانا کہتے ہیں.جیسے کوئی راستہ چلتے ہوئے پھسل جائے.یہ بات قابل معافی ہوتی ہے.لیکن اگر کوئی پاؤں کے بل چلنے کی طاقت رکھنے والا شاہراہ پر جا کر گھٹنوں کے بل چلنے لگے تو یہ اس کی غلطی ہوگی اور ناقابل معافی غلطی ہوگی.ایک دوڑتے ہوئے انسان کا پاؤں اگر پھسل جائے تو اس کا پھسلنا نظر انداز کر دیا جاتا ہے گو بچے اور دوسرے لوگ بھی اس کے پھسلنے پر ہنس پڑیں مگر یہ بنی شغل کے طور پر ہوگی اس کے فعل پر اظہار نفرت کے طور پر نہ ہو گی.میں پھر امید رکھتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ کے استاد اور طلباء ایسی غلطیوں کی اصلاح کی طرف زیادہ توجہ کریں گے.اس کے بعد میں حکیم فضل الرحمن صاحب کے کام کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.اگر چہ انہوں نے اپنے کام کے متعلق بعض باتیں بیان کر دی ہیں.اگر وہ انہیں بیان نہ کرتے تو میں خود بیان کرتا.مگر باوجود اس کے کہ انہوں نے وہ باتیں بیان کر دی ہیں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ میں بھی ان کے متعلق کچھ بیان کروں.میرے نزدیک دنیا میں بعض بہتر سے بہتر قابلیت رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں مگر ان کی

Page 415

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 409 جلد اول قابلیت ایسی قابل قدر نہیں ہوتی جتنی وہ ادنی قابلیت جو دوسری قابلیتوں کے مطابق آجاتی ہے.بسا اوقات اعلیٰ قابلیت خود ایسی قابلیت رکھنے والے کے لئے تباہی کا موجب ہو جاتی ہے اور دوسروں کے لئے بھی مصائب کا باعث بن جاتی ہے.ایک اکیلا انسان جو دوسروں سے الگ تھلگ رہتا ہو اپنے لئے جو چاہے رستہ تیار کر سکتا ہے اور اس پر صبر اور استقلال سے گامزن ہو سکتا ہے.لیکن جس نے دوسروں سے مل کر کام کرنا ہو وہ اگر یہ سمجھے کہ جو خیال اس کا ہو اسی کے مطابق کام کرے اور جس طرح کوئی بات وہ چاہے اسی طرح ہو یہ ناممکن ہے.یہ طریق اختیار کرنے والا لا ز ما یا تو خود نہ رہے گا یا وہ نہ رہیں گے جن کے ساتھ مل کر اسے کام کرنا چاہئے تھا.اس دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ گھس گھسا کر گولائی اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں.ریگستانوں میں ریت کے ذروں کو دیکھو اور پہاڑوں پر پتھروں کو دیکھو وہ گھتے اور گولائی پکڑتے جاتے ہیں کیونکہ دنیا کی ہر چیز میں رگڑ جاری ہے اس کے نتیجہ میں دو باتوں میں سے ایک ضرور اختیار کرنی پڑتی ہے.یا تو ٹوٹ | جانا یا پھر گھس جانا.اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا.اور یہی چیز ہے جو دنیا میں انسان کی کامیابی کا گر ہے اور یہی چیز ہے جو ایک دوسرے سے اتحاد اور تعاون پیدا کر رہی ہے.مگر میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے ان میں خاص قابلیتیں ہوتی ہیں لیکن ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کریں اور تعاون اور اتحاد سے کام لیں.اس لئے وہ خود بھی ناکام رہتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی تکلیف کا موجب بنتے ہیں.جب تعاون کا سوال ہو تو دوسروں کو اپنے خیالات کے ماتحت لانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر ایسا شخص افسر ہو تو بھی کام خراب ہوتا ہے اور اگر ما تحت ہو تو بھی.پس مبلغین کے لئے ضروری ہے کہ جہاں ان کے اندر ان کی شخصیت موجود نہ ہو وہاں انسانیت ضرور ہو.اللہ تعالیٰ نے انسان میں دو چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے ایک انسانیت ہے جو باقی انسانوں سے مل کر کام کرنے پر مجبور کرتی ہے.یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے تم کو ایک انسان سے پیدا کر کے آگے بڑھا دیا یعنی فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ

Page 416

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 410 جلد اول وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءَ 1 اس کا کیا مطلب ہے؟ یہ تو ہر انسان جانتا ہے کہ وہ ایک انسان سے پیدا ہوا ہے جو اس کا باپ تھا پھر وہ ایک انسان سے پیدا ہوا.اسی طرح یہ سلسلہ ایک آخری انسان تک جا پہنچتا ؟ ہے.پھر اس بات پر اسلام کے زور دینے کی کیا وجہ ہے؟ دراصل اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے.چنانچہ آگے اس کا ذکر بھی فرما دیا کہ وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ 2 کہ اس کے نتیجہ میں آگے تم کو ایک دوسرے سے تعاون کرنا پڑتا ہے اور تم ایک دوسرے کی مدد سے ترقی کرتے ہو.یا یہ کہ ایک دوسرے کے تعلقات کا لحاظ کرنا پڑتا ہے.اس کے دونوں معنی ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ ایک دوسرے کے تعلقات سے فائدہ اٹھایا جائے اس کا تم لحاظ رکھتے ہو.دوسرے یہ کہ اگر ایک طرف اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھو تو دوسری طرف انسانوں سے بھی صلح رکھو.اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.تو بہتر سے بہتر قابلیت کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کر سکتی جب تک دوسروں کے ساتھ مل کر کام نہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک کئی اعلیٰ قابلیتیں اس لئے ضائع ہو گئیں کہ ایسی قابلیتوں سے دوسری طبائع فائدہ نہ اٹھا سکتی تھیں.وجہ یہ کہ ایسی قابلیتیں رکھنے والوں میں یہ مادہ نہ تھا کہ دوسرے سے مل کر کام کریں.پس مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر انسانیت پیدا کرے.یعنی دوسروں سے مل کر کام کرنے کی اس میں اہلیت ہو.اتحاد اور تعاون سے کام کر سکے.دوسری چیز انسان کے لئے انانیت ہے اسی کا دوسرا نام تو حید ہے.انسان میں ایک تو انسانیت رکھی گئی ہے یعنی دوسرے انسانوں سے تعلق پیدا کرنا اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا.دوسرے انانیت ہے یعنی یہ سمجھنا کہ میرے اور میرے رب کے درمیان اور کوئی واسطہ نہیں.میرا اپنے رب کے ساتھ براہ راست تعلق ہے.یہ بھی بہت ضروری چیز ہے.اگر انسان اپنی عقل و خرد، حوصلہ اور ارادہ کو بالکل ماردے اور دوسرے کے ہاتھ میں اپنا سب کچھ

Page 417

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 411 جلد اول دے دے، اپنا کوئی ارادہ ، کوئی خواہش نہ رکھے تو یہ بھی بہت برے نتائج پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے کیونکہ کوئی ایک انسان دنیا کے تمام نقائص اور خرابیوں کا احاطہ نہیں کر سکتا.اسی طرح دنیا کی ساری خوبیوں کا بھی علم نہیں رکھ سکتا.اگر ایک شخص اس کے پیچھے اس طرح چل پڑتا ہے کہ جدھر وہ لے جاتا ہے ادھر جاتا ہے، جدھر سے روکتا ہے رک جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ وہی خرابیاں اسے معلوم ہوں گی جو دوسرا اسے بتائے گا یا وہی خوبیاں نظر آئیں گی جو اسے دوسرا دکھائے گا.خود اس میں خدا تعالیٰ نے خوبیوں کے جاننے اور خرابیوں کے معلوم کرنے کی جو قابلیت رکھی ہے اس کا اظہار نہ ہو گا.اس وجہ سے انانیت چاہتی ہے کہ خدا اور بندہ کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو بلکہ براہ راست خدا سے اس کا تعلق ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی انسانیت بھی ہے.اس میں شفقت علی خلق اللہ پائی جائے.اس حالت میں وہ نیچے کی طرف دیکھے کہ خدا تعالیٰ نے اور بھی انسان پیدا کئے ہیں جن سے مجھے وابستہ کیا ہے.ان میں کچھ ایسے ہوں گے جو اس سے زیادہ تیز چلنے والے ہوں گے.ان کے ساتھ چلنے کے لئے اسے اپنی رفتار تیز کرنی پڑے گی.اور کچھ ایسے ہوں گے جو اسے اپنے سے ست نظر آئیں گے انہیں اپنے ساتھ لینے کے لئے قدم کو روکنا ہو گا.کیونکہ اگر وہ تیز نہ چلے گا تو تیز چلنے والے اس سے آگے نکل جائیں گے.اور اگر قدم نہ روکے گا تو ست چلنے والے پیچھے رہ جائیں گے.اس لئے وہ کچھ قدم تیز کر کے اور کچھ روک کر دوسروں کے ساتھ چلنے کی کوشش کرے.پس ایک طرف تو اس میں ایسی انانیت ہو کہ وہ اپنے اور خدا کے درمیان کوئی واسطہ نہ سمجھے اور دوسری طرف ایسی انسانیت ہو کہ اپنے آپ کو سب انسانوں کے ساتھ وابستہ رکھنا ضروری سمجھے.جس میں دونوں صفتیں ہوں وہی کامیاب ہو سکتا ہے.لیکن جس میں ان میں سے کوئی ایک نہ ہویا دونوں نہ ہوں وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مصیبت ہوتا ہے.اگر اس میں انانیت نہیں تو اس نے اس جو ہر کو مٹادیا جو اللہ تعالیٰ نے اس میں رکھا تھا اور وہ بے کار ہو گیا جس طرح بنجر زمین بے کار ہوتی ہے.بلکہ بنجر زمین بھی اس سے اچھی ہوتی ہے.

Page 418

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 412 جلد اول اس کے متعلق تو پھر بھی خیال ہوتا ہے کہ اگر ہمارے زمانے میں اس نے کام نہیں دیا تو ہماری نسلوں کے زمانہ میں دے گی.مگر ایسا انسان ہمیشہ کے لئے بے کار ہو گیا کیونکہ جب وہ مر گیا تو پھر اس کے لئے کام کا بننے کے لئے کوئی موقع نہ رہا.اسی طرح اگر کوئی انسانیت کو کام میں نہ لایا بلکہ اسے ضائع کر دیا تو گویا وہ بیچ جو دوسروں سے اشتراک اور اتحاد کے نتیجہ میں حاصل ہوتا تھا اسے ضائع کر دیا.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بقاء کے لئے دو چیزوں کا ملنا ضروری ہوتا ہے.دیکھو مرد وعورت ملتے ہیں تو بچہ پیدا ہوتا ہے.لیکن اگر مرد مرد والی قابلیت نہیں رکھتا اور عورت عورت والی قابلیت نہیں رکھتی تو کوئی بچہ پیدا نہ ہوگا.یا اگر ان میں سے ایک اپنی قابلیت مار دے تو بچہ نہیں پیدا ہوگا.دونوں میں ذاتی قابلیت ہو اور پھر وہ ملیں تو بچہ پیدا ہوگا.اگر مرد نامرد ہو تو اس سے کوئی بچہ نہ پیدا ہو گا.اسی طرح اگر عورت بانجھ ہو تو اس سے بھی بچہ نہیں پیدا ہو گا.اور اگر دونوں بچہ پیدا کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں لیکن ملتے نہیں تو بھی بچہ نہ پیدا ہو گا.اپنی اپنی جگہ ان میں قابلیت ہو اور وہ ملیں تب بچہ پیدا ہو گا.اسی طرح اگر ایک افسر میں ماتحت سے مل کر کام کرنے کی قابلیت نہیں اور ماتحت میں انانیت نہیں تو ان کے تعاون سے کوئی نتیجہ نہ نکلے گا.یا اگر دونوں قابلیت تو رکھتے ہیں لیکن ملتے نہیں تو بھی کوئی نتیجہ نہ نکلے گا.اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں میں انانیت ہو اور دونوں انسانیت میں آ کر ا کٹھے ہو جائیں تب نتیجہ نکلے گا.تمام سلسلوں میں یہی بات چلتی ہے.یہ نیچر اور قانون قدرت ہے اور ہمارا سلسلہ اس قانون سے علیحدہ نہیں ہوسکتا.پس ہر انسان میں انانیت ہونی چاہئے یعنی اپنے طور پر غور کرے کہ جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اس میں بہتری کی کون سی صورت ہو سکتی ہے.اس کے متعلق وہ اپنی سکیم بنائے اور افسر کے سامنے پیش کر دے.افسر اپنے طور پر اس پر غور کرے.پھر اسے اپنی رائے سے ملائے اور سموئے.یعنی جو باتیں اس سکیم میں مفید ہوں وہ قبول کرے اور جو ایسی ہوں کہ گو اس کے نزدیک اچھی نہ ہوں لیکن ان سے کوئی نقصان نہ پہنچتا ہو تو کام کرنے والے کی بشاشت قائم رکھنے کے لئے ان سے بھی اتفاق

Page 419

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 413 جلد اول ظاہر کرے.لیکن جو عام پالیسی کے خلاف ہوں اور جن سے خطرہ ہو کہ نقصان ہو گا ان کا انکار کر دے.پھر ماتحت کا فرض ہو کہ وہ سمجھے کہ جو اس کی اچھی باتیں تھیں وہ قبول کر لی گئی ہیں اور وہ بھی قبول کر لی گئی ہیں جو گو اچھی نہ تھیں لیکن ان سے کسی نقصان کا احتمال نہ تھا.تو وہ باتیں جن میں افسر کے نزدیک نقصان کا احتمال تھا انہیں میں بھی چھوڑ دوں اور بشاشت قلب سے کام کروں.میں سمجھتا ہوں کاموں کے لحاظ سے ایک بات ایسی ہے جس کی طرف ابھی تک نظارتوں کی توجہ نہیں اور اس وجہ سے نقصان ہو رہا ہے.وہ سکیموں میں اختصار کی پالیسی ہے.جب کوئی سکیم پیش ہوتی ہے تو نظارت اس میں بعض ترمیمیں کر کے اپنی طرف سے پیش کر دیتی ہے اور ایک نئی سکیم بنا کر ماتحت کو دے دی جاتی ہے.اس پر وہ خیال کرتا ہے بنا پر کرتا یہ نظارت کی سکیم ہے.اسے یہ خیال نہیں آتا کہ اس نے جو سکیم پیش کی تھی وہ ہے.اس کی بجائے جیسا کہ گورنمنٹ کا طریق ہے یہ ہونا چاہئے کہ جو تجاویز ما تحت محکمہ کی طرف سے پیش ہوں ان میں سے جو درست اور مفید ہوں ان پر عمل کیا جائے اور جن میں تبدیلی کی ضرورت ہو ان میں تبدیلی کر کے بتایا جائے کہ فلاں بناء پر اس تبدیلی کی ضرورت ہے.اور جو نا قابل قبول ہوں ان کے متعلق لکھا جائے کہ ان وجوہات کی بناء پر انہیں رد کیا جاتا ہے.اگر اس طرح ہو تو جو کارکن دیانت دار ہو گا اور ہم سمجھتے ہیں خدا کے فضل سے ہمارے سارے کارکن دیانت دار ہیں کیونکہ انہوں نے خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کی ہوئی ہیں اسے تسلی ہوگی کہ اس کی بات مانی گئی اور وہ عمدگی سے کام کر سکے گا.اور اگر اسے اختلاف بھی ہوگا تو اس کی بشاشت دور نہ ہوگی.اور اگر ایسا ہو تو ریکارڈ موجود ہو گا.اگر وہ کہے گا کہ مجھ سے تعاون نہ کیا گیا تو اسے بتاسکیں گے کہ دیکھو تم نے مثلاً 15 باتیں پیش کی تھیں ان میں سے 10 افسر نے مان لیں اور پانچ نا منظور کر دیں.اگر افسر ہو کر وہ تمہاری دس باتیں مان سکتا ہے تو تمہیں ماتحت ہو کر پانچ میں افسر کی رائے ماننے میں کیا عذر ہو سکتا ہے.پس اگر ایسی سکیموں کے متعلق تفصیل سے لکھا جائے اس سے میری مراد یہی

Page 420

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 414 جلد اول نہیں کہ صفحے کے صفحے لکھے جائیں بلکہ تفصیل ایک فقرہ میں بھی ہو سکتی ہے.تو کام کرنے والوں میں بشاشت قائم رہ سکتی اور وہ عمدگی سے کام کر سکتے ہیں.جہاں تک میں نے غور کیا ہے سوائے ایک واقعہ کے جس کے متعلق ابھی دریافت کرنا ہے حکیم صاحب کو میں نے اس بارے میں نہایت عمدہ اور صحیح طریق پر پایا.وہ دوسروں سے تعاون بھی کرتے رہے.صحیح رپورٹیں بھی بھیجتے رہے.مشورے بھی طلب کرتے رہے اور مشوروں پر عمل بھی کرتے رہے.انہوں نے محسوس کیا کہ وہ ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں اور اس کے مطابق انہیں کام کرنا ہے.انہوں نے کبھی میرے پاس اپنے پیشرو کی شکایت نہیں کی اور ایسے طور پر کام نہیں کیا کہ افسروں سے تعاون میں کمی کی ہو.میں نے عام مبلغوں کو دوسروں کا شکوہ کرتے دیکھا.بعد میں جو مبلغ کسی کی جگہ کام کرنے کے لئے جاتا ہے وہ پہلوں پر نکتہ چینی شروع کر دیتا ہے کہ فلاں نے یہ غلطی کی فلاں نے یہ غلطی کی.90 فیصدی ایسے مبلغ ہیں جن کی طرف سے پہلوں پر اعتراض میرے پاس پہنچے.ایسی صورت میں میں تو یہی کہوں گا کہ ان میں تعاون کی قابلیت نہیں.بے شک ایک دوسرے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اختلاف رائے کے معنی غلطی نہیں ہوتے.میں سمجھتا ہوں اور تو اور اگر رسول کریم ﷺ کا زمانہ ہوتا اور کسی بات میں مشورہ طلب کیا جاتا تو بیسیوں دفعہ اختلاف ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہم نے دیکھا ہے آپ کوئی مشورہ دیتے تو بسا اوقات اس سے بعض کو اختلاف ہوتا.مگر اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ آپ غلطی کرتے تھے.مگر بسا اوقات ہم نے دیکھا کہ آپ اپنی رائے چھوڑ دیتے اور دوسروں کی قبول کر لیتے.مجھے خوب یاد ہے کہ ایک مسئلہ کے متعلق آپ نے فرمایا مجھے قرآن سے یہی معلوم ہوتا ہے.اس پر مولوی محمد احسن صاحب نے تو کہا ہاں حضور ! یہی درست ہے اور یہی قرآن سے ثابت ہے.لیکن حضرت خلیفہ اول نے فرمایا پہلے فقہاء نے ایسا نہیں لکھا.اس پر آپ نے فرمایا اچھا میں لوگوں کو ابتلا میں نہیں ڈالنا چاہتا جس طرح پہلے فقہاء نے لکھا ہے اسی طرح سمجھا جائے.گو اب بھی مجھے خیال آتا ہے اگر تحقیقات

Page 421

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 415 جلد اول کریں تو ممکن ہے اس مسئلہ میں بھی پہلے فقہاء میں اختلاف نکل آئے تو اختلاف رائے نقص کے یہ معنی نہیں کہ دوسرے کی بات کو غلط قرار دیا جائے.اختلاف رائے طبعی بات ہے اور اسے نقص قرار دینا اور غلطی سمجھنا بہت بڑان ہے.مگر میں 90 فیصدی کارکنوں میں یہ نقص دیکھتا ہوں.میں جب کسی مبلغ کو باہر بھیجتا ہوں تو اسے یہی نصیحت کرتا ہوں کہ پہلوں سے تمہیں اختلاف رائے ہوگا پہلے مبلغ کی بعض باتیں تمہیں ناپسند ہوں گی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس کی شکایتیں شروع کر دو.بلکہ تمہیں کوئی کام اسی طرح کرنا چاہئے جس طرح پہلا مبلغ کرتا رہا ہو.کیونکہ وہ تجربہ کار تھا تم غلا اور تم نئے نئے ہو گے اور جس کام کا تجربہ نہ ہو اس میں غلطی لگ جانا بڑی بات نہیں.ابھی کل میں چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے ذکر کر رہا تھا کہ پونڈ کی قیمت کم مقرر کرنے کے متعلق جو سوال تھا اس میں مجھے غلطی لگی تھی.میرا یہی خیال تھا کہ پونڈستا کر دیا جائے تو اہل ہند کو فائدہ رہے گا.مگر اب معلوم ہوا کہ اس سے ملک کو سخت نقصان ہو گا.اس غلطی کی وجہ یہ تھی کہ میں مالیات کا ماہر نہ تھا اور مالیات کے ماہروں سے گفتگو کی تو معلوم ہوا کہ پونڈ کی قیمت جب کم ہو جائے گی اور اس کی بجائے کم روپے ادا کرنے پڑیں گے تو اہل ہند انگلستان سے مال خریدیں گے.لیکن انگلستان والوں کو چونکہ ہندوستان سے پونڈ کے کم روپے وصول ہوں گے اس لئے وہ ہندوستان سے کوئی چیز نہ خریدیں گے بلکہ دوسرے ممالک سے خریدیں گے.تو تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے غلطی ہو جاتی ہے.اس لئے نئے مبلغ کو میں یہی کہتا ہوں کہ پہلے جس طرح پہلا مبلغ کام کر رہا تھا اسی طرح تم بھی کرنا.پھر اگر تجربہ کے بعد خرابی معلوم ہو تو یہ نہ کہو کہ پہلے نے غلطی کی بلکہ یوں کہہ سکتے ہو کہ پہلے اس طرح کام ہو رہا تھا میرے نزدیک اس کی بجائے اگر اس طرح ہو تو زیادہ مفید ہو سکتا ہے.اس طرح اس میں تغییر کرنے کی اجازت حاصل کر سکتے ہو.اس کی کیا ضرورت ہے کہ پہلے کی غلطیاں اور نقائص گنانے اور اس کے خلاف شکایت کرنے لگ جاؤ.پہلا شخص جس طرح کام کرتا تھا صحیح سمجھ کر ہی کرتا تھا.وہ دین کی خدمت کے لئے گیا تھا اسے کیا

Page 422

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 416 جلد اول ضرورت تھی کہ جان بوجھ کر دین کے کام میں خرابی پیدا کرتا.اس نے جو کچھ کیا دین کی خاطر کیا.اگر اس سے غلطی بھی ہوئی تو بھی اس کے کام پر اگر کوئی اعتراض کرتا ہے تو وہ صلى الله بے دینی کا مرتکب ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے.جب جنگ احد کے وقت مشورہ لیا گیا تو رسول کریم ﷺ کی یہی رائے تھی کہ مدینہ سے با ہر نکل کر نہیں لڑنا چاہئے.منافقین نے بھی یہی کہا کہ با ہر نہیں جانا چاہئے.مگر مخلص صحابہ کی رائے تھی کہ باہر جانا چاہئے.رسول کریم ﷺ نے ان کی رائے مان لی اور باہر چلے گئے 3 جس سے نقصان ہوا اور اس سے ظاہر ہو گیا کہ منافقین کی رائے صحیح تھی مگر رسول کریم ﷺ نے اس موقع پر جو کچھ کیا اس پر جنہوں نے اعتراض کیا انہیں منافق قرار دیا گیا اور مجرم ٹھہرایا گیا.در اصل اسلام میں اس بات کا توازن رکھا گیا ہے کہ کسی چیز سے زیادہ نقصان ہوتا ہے یا زیادہ نفع.اگر نفع زیادہ ہو تو خواہ اس میں غلطی ہو تو بھی اس کے متعلق اعتراض کرنے کی اجازت نہیں دی.مثلاً شریعت نے رکھا ہے کہ رسول کریم ﷺ بھی قضا میں غلطی کر سکتے ہیں 4 لیکن اس پر اعتراض کرنا گناہ قرار دیا ہے 5 وجہ یہ کہ قضا کی غلطی کا اثر ایک محدود دائرہ کے اندر پڑتا ہے لیکن فیصلہ کرنے والے پر اعتراض کرنے سے ساری قوم کے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں.غرض میں نے مبلغوں کو ہمیشہ یہ نصیحت کی ہے اور جب تک اس پر عمل نہ کریں گے کامیابی حاصل نہیں کر سکیں گے کہ ہر مبلغ کا پہلا فرض یہ ہے کہ اپنے پیشرو کی پالیسی اور طریق عمل پر چلے.اس میں اگر غلطی معلوم ہو تو یہ نہ کہے کہ پہلے نے کام خراب کر دیا بلکہ یہ کہے کہ پہلے اس طرح کام ہوتا تھا اب یہ کام اس طرح کیا جائے تو زیادہ مفید ہو سکتا ہے.اس طرح کہنے سے کسی کی شکایت بھی نہ ہوگی اور جس طرح اس کے نزدیک کام عمدگی سے ہو سکے گا اس طرح وہ کر بھی سکے گا.پھر یہ بات میرے سامنے ہی نہ کہے بلکہ سب کے سامنے یہی کہے.بعض مبلغ ایسے ہیں جو لوگوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ بیرونی ممالک

Page 423

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 417 جلد اول میں مشن فضول ہیں کوئی کام نہیں کر رہے.میں کہتا ہوں جن لوگوں سے ایسی باتیں کرتے ہیں کیا بیرونی مشنوں کا جاری رکھنا یا بند کرنا ان کے ہاتھ میں ہے؟ اگر نہیں تو ایسی باتوں سے سوائے بے چینی اور بد دلی پیدا کرنے کے اور کیا نتیجہ نکل سکتا ہے.میں انہیں بتاتا ہوں نہ سیاسی لحاظ سے ترقی ہو سکتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے کبھی کامیابی حاصل ہو سکتی.جب تک غیر ممالک میں تبلیغ نہ ہو.ہندوستانی اسی لئے مٹے اور ہمیشہ دوسروں کے ماتحت رہے کہ وہ اپنے ملک سے باہر نہ نکلے.اور چھوٹی چھوٹی قو میں ان پر حاکم بنیں کیونکہ وہ اپنے ممالک سے باہر نکلیں.پس جو قوم تبلیغی اور سیاسی لحاظ سے کامیاب ہونا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ باہر جائے اور دوسرے ممالک میں اپنی چھاؤنیاں بنائے.مگر وہ کہ جنہیں نہ سیاسیات پر عبور ہے نہ مذہب پر ، نہ روحانیت میں پر عبور ہے نہ مذہب پر ، نہ روحانیت میں مکمل ہیں نہ علم میں ، وہ کہتے ہیں بیرونی ممالک کی بجائے سارا زور ہندوستان میں لگانا چاہئے.میں کہتا ہوں ذرا غور تو کرو اگر یہاں موجودہ حالات بالکل بدل جائیں جو روز بروز سرعت سے بدل رہے ہیں تو ہمارے ہاتھ میں کیا رہ جاتا ہے.لیکن اگر بیرونی ممالک میں چھوٹی چھوٹی جماعتیں بھی قائم ہو جا ئیں تو خواہ ہندوستان میں سارے کے سارے احمدیوں کو مار دیا جائے تو بھی احمدیت کا جھنڈا نہیں گر سکتا.غرض کسی ایک ملک یا ایک نسل تک تبلیغ محدود رکھنے سے کام نہیں ہوسکتا.پھر جو تعلیم ساری دنیا کے لئے ہے اس میں ایسے مواد ہوتے ہیں جو ساری اقوام کے دماغوں سے تعلق رکھتے ہیں.اس میں مختلف قوموں کے احساسات، ان کے جذبات، ان کی قابلیتوں کی مطابقت پیدا کی گئی ہے اور اس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہیں کہ جب تک ساری تو میں نہ ملیں گی اُس وقت تک اس تعلیم کی تکمیل نہ ہوگی.انگریزی دماغ ایک خاص طرز پر چلتا ہے.فرانسیسی دماغ ایک خاص رنگ رکھتا ہے یہی حال دوسری اقوام کا ہے.اور جس طرح افراد جدا گانہ حیثیت رکھتے ہیں اسی طرح اقوام بھی جدا گانہ حیثیت رکھتی ہیں.فرانسیسی لوگ بعض باتوں میں ساری دنیا کے لوگوں سے مطابقت رکھیں گے لیکن بعض میں

Page 424

جلد اول زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 418 دو فرانسیسی بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے اور بعض میں ہر فرانسیسی دوسرے فرانسیسی سے اشتراک رکھے گا.اسی طرح جرمن بعض باتوں میں ساری دنیا سے مطابقت رکھیں گے لیکن بعض میں ہر جرمن دوسرے جرمن سے جدا ہو گا اور بعض میں تمام جرمن ایک دوسرے سے اشتراک رکھیں گے.پس ایک فرانسیسی یا ایک جرمن دماغ جس نقطۂ نگاہ سے کسی بات پر غور کرنے کا عادی ہے اگر وہ غور کرے گا تو ضرور ہندوستانی دماغ کی نسبت اس میں جدت نکالے گا.ایک موٹی مثال تصوف میں دیکھ لو.متصوفین کو پہلے لوگ تو رَجْمًا بِالْغَيْبِ 6 کے طور پر اولیاء اللہ سمجھتے تھے.لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ اولیاء اللہ تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود نے ہمیں بتایا ہے.مگر وہ تصوف جو ایران میں پھیلا اس کا اور رنگ تھا.جو مصر میں پھیلا اس کا اور رنگ تھا.جو عرب میں پھیلا اس کا اور رنگ تھا.اگر مصر کے تصوف کو عرب کے تصوف کے مقابلہ میں رکھا جائے تو ان میں صریح اختلاف نظر آئے گا.مصر کا تصوف اور لائن پر چلتا ہو گا اور عرب کا تصوف اور لائن پر اور ایران کا تصوف ان دونوں سے علیحدہ لائن پر.اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ ہر ملک کے لوگوں کے دماغی اثرات الگ الگ تھے.پھر حکومتوں کے تعلق کی وجہ سے تصوف میں فرق نظر آئے گا.جب حکومت حاصل تھی اُس وقت اس کا اور رنگ تھا اور جب حکومت میں تنزل آ گیا اُس جونم وقت اور رنگ ہو گیا.غرض جو مذہب ساری دنیا کے لئے ہے وہ محتاج ہے اس بات کا کہ اس کی وہ باتیں جو بندوں سے تعلق رکھتی ہیں اس میں انہیں آزاد چھوڑا جائے.اور ہر قوم کے دماغی اثرات ان میں اپنے اپنے رنگ میں ظاہر ہوں.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِن تُبْدَلَكُمْ تَسُؤْكُمْ 7 اگر یہ باتیں لوہاری یا ترکھانی پیشہ کے متعلق ہوتیں تو ان کا ظاہر ہونا کیوں بُر الگتا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ باتیں مذہب کے متعلق ہیں مگر ایک محدود دائرہ کے اندر رکھ دیتی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہر قوم اپنے رنگ میں

Page 425

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 419 جلد اول ترقی کرے اس لئے خدا تعالیٰ نے ہر قوم کے لئے میدان کھلا چھوڑ دیا.ہسپانیہ میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس میں صاف طور پر ہسپانوی دماغ کا اثر معلوم ہوتا ہے.مصر میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس میں مصری دماغ کا اثر نظر آتا ہے.حجاز میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس میں حجازی دماغ کا اثر دکھائی دیتا ہے.عراق میں مسلمانوں نے جو ترقی کی اس میں عراقی دماغ کا اثر ظاہر ہے.جو لوگ قضا کے ماہر ہیں انہیں امام مالک میں خالص عربی رنگ دکھائی دیتا ہے کہ سیدھی سادھی نیچر کی بات لے لی.امام شافعی چونکہ اپنے ملک سے باہر نکلے اس لئے ان کا پہلا رنگ بدل گیا اور مصری دماغ نے ان پر اثر کیا.ادھر عراق اور ایران کا اثر امام ابو حنیفہ پر ہوا اور امام حنبل پر شافعیت اور مالکیت دونوں کا اثر پڑا.اس لئے ان میں دونوں رنگ نظر آتے ہیں.تو تو جن باتوں میں اجازت ہے کہ دماغ اپنا رنگ اختیار کرے ان میں ہر ملک کا دماغ اپنے لئے علیحدہ رنگ اختیار کر لیتا ہے.غرض ساری دنیا سے جو مذہب تعلق رکھتا ہے ساری قوموں کا اس میں شامل ہونا ضروری ہے تا کہ وہ مختلف رنگ کے دماغوں کے ملنے سے ایسی صورت اختیار کر سکے کہ ساری قو میں اس پر چل سکیں.مگر بعض لوگ کہتے ہیں دوسرے ممالک اور دوسری قوموں میں تبلیغ کی کیا ضرورت ہے.ایسے لوگ گو یا کنویں کے مینڈک کی سی رائے رکھتے ہیں اور بہت لوگ چونکہ کنویں کے مینڈک ہی ہوتے ہیں انہیں یہ بات پسند آجاتی ہے.وہ سمندر کے مینڈک نہیں ہوتے اس لئے خیال کرتے ہیں ایسے لوگ بہت دانا ہیں.حالانکہ ان کو نہ تو تجربہ ہوتا ہے نہ ان میں روحانیت ہوتی ہے نہ اخلاص ہوتا ہے.ان میں سے جو جتنا پھدک سکتا ہے پھدک لیتا ہے اور پھر سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ پھد کنا مضر ہے.اس میں بعض مبلغین اور دوسرے لوگوں کا حصہ ہے جو کہتے ہیں دوسرے ممالک میں تبلیغ کرنا فضول کام ہے.اس لئے مجھے اس بات پر زیادہ زور دینے کی ضرورت محسوس ہوئی.ایسے لوگ خیال نہیں کر سکتے کہ مجھے ایسی باتوں سے کس قدر بے چینی اور تکلیف ہوتی ہے.میں

Page 426

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 420 جلد اول ساری عمر نہیں بھول سکتا اور میرے سامنے آتشیں حروف میں لکھا ہوا یہ فقرہ موجود ہے جو کسی نے مجھے سنایا کہ آپ کو امان اللہ کا انجام یاد نہیں.اس قسم کی باتوں کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو دوسروں میں بددلی اور مایوسی پیدا کرتے ہیں.یہ فقرہ کہنے والے یاد رکھیں امان اللہ کا جو انجام ہوا وہ میرا نہیں ہو سکتا.بلکہ ان کا ہوگا وہ اپنی فکر کریں.اس فقرہ کے کہنے سے انہوں نے اپنا انجام بگاڑ لیا.گو کہنے والے نے لکھ دیا ہے کہ اسے خواب آگئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی تائید خلیفۃ المسیح الثانی کے ساتھ ہے.میں نے بھی یہی کہا تھا کہ خدا کی تائید میرے ساتھ ہے.اب اس نے تو بہ کا خط لکھ دیا ہے.مگر جو لوگ ایسی باتیں نکلوانے کے محرک ہیں وہ ذمہ داری کے نیچے ہیں اور اس کی تو بہ کے متعلق بھی الله خدا ہی جانتا ہے کہ قابل قبول ہے یا نہیں.رسول کریم ﷺ کے سامنے انصار میں سے ایک نے کہا تھا خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال و دولت مکہ والے لے گئے ہیں.اس کے بعد اس نے تو یہ بھی کی 8 مگر آج تک انصار اس کا خمیازہ بھگتے چلے آتے ہیں.غرض مبلغ کے لئے پہلی بات تو یہ ضروری ہے کہ اس میں تعاون کی روح ہو.دوسرے یہ کہ کسی کی شکایت پر آمادہ نہ ہو.پہلے نے جو کچھ کیا اپنی دیانت کے لحاظ سے صحیح اور درست سمجھ کر کیا.اگر اس میں غلطی یا نقص ہو تو یوں کہا جا سکتا ہے اگر فلاں بات کی اصلاح ہو جائے تو اچھا ہے.یہ نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں نے فلاں کام خراب کر دیا اب میں صحیح طور پر کر رہا ہوں.جو لوگ اس قسم کی دوسروں کی شکائتیں کرتے ہیں اگر خودان کے متعلق کوئی یہی بات کہے تو وہ کہیں گے کیا دین کی خدمت ہم نے اسی لئے کی تھی کہ دین کے کام کو خراب کر کے اپنی آخرت تباہ کر لیں.میں کہتا ہوں یہی بات وہ دوسروں کے لئے کیوں نہیں کہتے.اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے.اور جب کسی طریق میں تبدیلی کی ضرورت محسوس ہو تو ایسے طرز پر اس کا ذکر کیا جائے کہ کسی کی شکایت نہ ہو.کسی قسم کا تفرقہ اور شقاق نہ پیدا کیا جائے.

Page 427

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 421 جلد اول اس کے بعد میں مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو ایک امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں.کچھ دن ہوئے بعض طلباء کی طرف سے شکایت آئی تھی کہ جامعہ کی پڑھائی ٹھیک نہیں رہی.میرے نزدیک ان کی شکایت بجا تھی.میں نے تحقیقات کی تو میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان کی پڑھائی ٹھیک نہیں ہوئی.مگر ایک بات جس پر ان میں سے بعض نے بہت زور دیا اور جو یہ ہے کہ ان کے لئے مولوی فاضل وغیرہ کے امتحان دینے کا موقع رکھ دیا جائے.اس کے متعلق میں صفائی سے کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جہاں میں ہر جائز شکایت کو دور کرنے کے لئے تیار ہوں اور قطعا کسی کی پرواہ نہ کروں گا، نہ اساتذہ کی ، نہ پرنسپل کی ، نہ نظارت کی.جو جائز شکایت ہو گی خواہ طلباء کی ہو یا کسی اور کی اسے دور کرنے کے لئے تیار ہوں وہاں ایک بات اچھی طرح سمجھا دینا چاہتا ہوں جس میں قطعاً کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو سکتی کہ مدرسہ احمدیہ کی غرض مبلغ پیدا کرنا ہے.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ اس کے تعلیمی کورس ایسے رنگ میں ڈھالیں کہ یہ غرض پوری ہو سکے.اگر کوئی خیال رکھتا ہے کہ اس کے کورس مولوی یا مولوی عالم یا مولوی فاضل کے امتحانات کے لحاظ سے رکھے جائیں تو یہ درست نہیں ہے.ان امتحانوں کا اگر ہم لحاظ رکھتے ہیں تو وہ ثانوی بات ہے کہ جن لوگوں کو ہم کام پر نہ لگا سکیں انہیں باہر ملازمت مل جائے.اور دوسروں کے لئے ان امتحانات کی یہ غرض ہے کہ وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کر سکیں اور بیرونی ممالک میں بطور مبلغ بھیجے جاسکیں.اگر یہ بات مدنظر نہ ہوتی تو ان امتحانوں کو ہم مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے لئے بالکل اڑا دیتے.ہماری اصل سکیم یہ ہے کہ سلسلہ کے ہر کام پر جامعہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لوگوں کو لگایا جائے.کلر کی کا کام بھی انہی کے سپرد ہو، مدرسہ ہائی سکول کی مدرسی بھی وہی کریں، دیگر کاموں پر بھی انہی کو لگایا جائے تاکہ ہمارے سارے کاموں میں ایک ہی قسم کی رو کام کر رہی ہو.عیسائیوں نے اس طریق سے بہت فائدہ اٹھایا ہے.ان کے جتنے کالج ہیں وہ پادریوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.اس کا یہ اثر ہے کہ باوجود دہریت کا شکار ہو جانے کے عیسائیوں میں

Page 428

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 422 جلد اول خشیت پائی جاتی ہے.ولایت میں میں نے دیکھا ایک دہریہ کو مصباح الدین صاحب لائے تھے.وہ پکا دہر یہ تھا.لیکن باوجود اس کے اس میں خشیت تھی.مگر ہندوستان میں ہم دیکھتے ہیں لوگ باوجود مذہب کے پابند کہلانے کے دہریت کی رو میں بہہ رہے ہیں.عیسائیوں کی اس حالت کے متعلق یہی معلوم ہوا کہ ان لوگوں کی ساری تعلیم مذہبی آدمیوں کے ہاتھ میں ہے.اگر کوئی مذہب سے باہر جاتا ہے تو بھی اس کی تربیت ایسے رنگ میں ہو چکی ہوتی ہے کہ مذہب کا احترام اس کے دل میں قائم رہتا ہے.تو ہمارے مدنظر یہی سکیم ہے کہ جامعہ کے طلبہ تعلیم حاصل کر کے جوں جوں ضرورت پیدا ہوتی جائے کام پر لگائے جائیں تا کہ ہمارا ہر ایک کارکن اس قابل ہو کہ جب چاہیں کسی کو تبلیغ کے لئے بھیج دیں.اس طرح ہم جامعہ میں بھی زیادہ طلباء لے سکیں گے کیونکہ ہم ان کے گزارہ کا انتظام کر سکیں گے.لیکن جب تک ایسے لوگ تیار نہ ہوں اس وقت تک دوسرے لوگ لینے پڑتے ہیں اور لینے پڑیں گے.پس یہ سکیم میرے ذہن میں ہے.لیکن یہ نہیں کہ ہم مولوی فاضل بنا ئیں.اب بھی موجودہ کورس میں جو نقائص ہیں وہ مولوی فاضل کا امتحان مد نظر رکھنے کی وجہ سے ہی ہیں.گو علماء کو اس سے اختلاف ہو لیکن میری رائے ہے کہ پرانا فلسفہ بلکہ نیا فلسفہ بھی جس رنگ میں پڑھایا جاتا ہے وہ فضول ہے.ہم ان سے بہتر کتا میں تجویز کر سکتے ہیں.بہر حال جو موجودہ کو رس ہے اس میں ہم نے اپنے خیال کی قربانی کر کے مولوی فاضل کی جس قدر کتا بیں رکھی ہیں ان سے زیادہ نہیں کر سکتے.وہ طلباء جو مولوی فاضل بننے کی خواہش سے داخل ہوئے ہوں میں انہیں مشورہ دوں گا کہ وہ اپنا کوئی اور انتظام کر لیں.ہم اس بارے میں ان سے تعاون نہیں کر سکتے.ان کے مبلغ بنانے اور قابل سے قابل مبلغ بنانے میں جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے کریں گے.اور جوں جوں قدرت ہوگی زیادہ بہتر اور اعلیٰ انتظام کرتے جائیں گے.لیکن مولوی فاضل بنانے کے لئے ہم اپنا اصل مقصد قربان نہیں کر سکتے.میرے نزدیک جامعہ کا جو موجودہ کورس ہے اگر استاد توجہ کریں تو بہت اعلیٰ ہے.اس کے مقابلہ میں مولوی ، مولوی عالم اور مولوی فاضل کے کورس میں بہت سی کتابیں

Page 429

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 423 جلد اول فضول ہیں.میں مولوی کا کورس پڑھاتا رہا ہوں.میری بیوی اور بچی پڑھتی تھیں.میں نے دیکھا کئی کتابیں ایسی ہیں جو کوئی مفید نتیجہ نہیں پیدا کرتیں.ہم دعا کرتے ہیں کہ جن بچوں کو ان کے والدین نے احمد یہ سکول یا جامعہ احمدیہ میں دین کا خادم بننے کے لئے داخل کیا ہے ان لڑکوں کے دلوں میں بھی اس بات کا شوق پیدا ہو کہ دین کی خدمت میں اپنے آپ کو لگا سکیں اور ان کا یہ شوق اسلام کے لئے بابرکت ہو.“ ( الفضل 7 فروری 1930 ء ) 1: النساء: 2 2: النساء: 2 3: السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 478 479 مطبوعہ بیروت 2012ء الطبعة الاولى :4 ابوداؤد كتاب القضاء باب فى قضاء القاضى اذا اخطأ صفحه 515 حدیث نمبر 3583 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الاولى 5: الاحزاب : 37 6 رجما با لغیب: بغیر سوچے سمجھے (فیروز اللغات اردو صفحہ 706 مطبوعہ لاہور 2010ء) 7: المائدة: 102 صل الله 8 بخاری کتاب فرض الخمس باب ما كان النبي علة يعطى (الخ ) صفحہ 523 حدیث نمبر 3147 مطبوعہ ریاض 1999 الطبعة الثانية

Page 430

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 424 جلد اول مبلغین سماٹرا و جا و مکرم مولوی رحمت علی صاحب اور مکرم مولوی محمد صادق صاحب کو نصائح 5 نومبر 1930ء بعد نماز عصر طلباء مدرسہ احمدیہ و جامعہ احمدیہ نے مکرم مولوی رحمت علی | صاحب مولوی فاضل اور مولوی محمد صادق صاحب مولوی فاضل مبلغین سماٹرا و جاوا کو دعوت چائے دی.جس میں حضرت خلیفۃ المسح الثانی نے بھی شمولیت فرمائی.اس موقع پر حضور نے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر کی :.,, جیسا کہ مولوی رحمت علی صاحب نے بیان کیا ہے وہ سماٹرا سے جب واپس آئے تو اپنے ساتھ وہاں کے کچھ دوستوں کو لائے تھے.اور اب پھر وہاں جاتے ہوئے بھی اپنے ساتھ ایک دوست کو لے جارہے ہیں.وہ پہلے مبلغ ہیں جن کے علاقہ کو ایسی اہمیت دی گئی ہے کہ نہایت ہی قریب کے عرصہ میں ایک مبلغ کی بجائے دو بھیجے جارہے ہیں.جو کام ان کے سامنے ہے میں جہاں تک سمجھتا ہوں اس کی اہمیت خود مولوی رحمت علی صاحب اور اس علاقہ کے دوسرے لوگ بھی نہیں سمجھتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب ابو عبیدہ کو شام میں جنگ کرنے کے لئے بھیجا تو انہیں ایک ایسا موقع پیش آیا کہ عیسائی اپنی ساری طاقت کے ساتھ مسلمانوں کے مقابلہ پر آگئے.اُس وقت ابو عبیدہ نے گھبرا کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے امداد کی درخواست کی.اُس وقت اتفاق ایسا ہوا کہ ایرانی لشکر کے ساتھ بھی مسلمانوں کا مقابلہ ہورہا تھا اس لئے جنگ کرنے کے قابل تمام کے تمام مرد، میدان جنگ میں جاچکے تھے اور مدینہ خالی پڑا تھا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد میں لوگوں کو جمع کیا اور جب آ کر

Page 431

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 425 جلد اول دیکھا تو وہ سارے کے سارے یا تو بوڑھے تھے یا بچے ، جنگ کے قابل نہ تھے.تا ہم آپ نے کہا آج شام میں مسلمانوں کو امداد کی ضرورت ہے اور انہوں نے آدمیوں کا مطالبہ کیا ہے اب بتاؤ میں کیا کروں؟ لوگوں نے کہا اب تو بوڑھے اور بچے ہی رہ گئے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا خواہ کچھ ہو مدد ضرور دینی ہے.اس پر آپ نے ایک صحابی کو بلا کر کہا میں تمہیں شام میں اسلامی لشکر کی امداد کے لئے بھیجتا ہوں تم تیاری کرو.اور ابو عبیدہ کی طرف خط لکھ دیا کہ میں امداد کے لئے ایک ہزار آدمی بھیج رہا ہوں اور وہ فلاں شخص ہے.جب لشکر کو یہ اطلاع پہنچی تو مسلمان اس صحابی کے استقبال کے لئے آئے اور ایسی خوشی کا اظہار کیا کہ گویا ان کے پاس ایک ہزار آدمی پہنچ گیا ہے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ جب خدا تعالی مددگار ہوتا ہے تو ایک آدمی سے ہزار آدمیوں کا کام لے لیتا ہے اسی وجہ سے وہ سخت خطرہ کے موقع پر صرف ایک آدمی کو دیکھ کر گھبرائے نہیں.نہ انہوں نے یہ سمجھا کہ ان سے ہنسی اور مذاق کیا گیا ہے.بلکہ دس لاکھ عیسائی لشکر کے مقابلہ میں مسلمانوں نے صرف دس ہزار ہوتے ہوئے بڑی مسرت سے ایک آدمی کا استقبال کیا.اسے اپنے لئے بہت بڑی امداد سمجھا.اس کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا اور نعرے لگائے حتی کہ اتنی خوشی کا اظہار کیا کہ عیسائیوں نے یہ معلوم کرنے کے لئے اپنے جاسوس بھیجے کہ معلوم کرو کس بات پر اتنی خوشی منائی جارہی ہے اور جب جاسوسوں نے جا کر بتایا کہ ایک آدمی کے آنے پر اتنی خوشی کی جارہی ہے تو عیسائیوں نے کہا یہ عجیب آدمی ہیں.غرض جب خدا تعالیٰ کی نصرت شامل حال ہو تو دنیا کے زبر دست قلعوں کو بھی فتح کیا جا سکتا ہے.اس وقت عیسائیت چین اور جاپان کی طرف سے ایشیا میں گھسنا چاہتی ہے.چنانچہ حال ہی میں خبر شائع ہوئی ہے کہ چین کا پریذیڈنٹ عیسائی ہو گیا ہے.اس کے عیسائی ہونے کا اثر دوسروں پر بھی پڑے گا.جس طرح انگلستان عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ایک مرکز ہے اسی طرح چین اور جاپان کی حفاظت کے لئے جاوا، سماٹرا اور بورنیو مرکز بن سکتے ہیں.ان جزیروں میں مسلمانوں کی کافی آبادی ہے.اگر وہاں اسلام کی

Page 432

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 426 جلد اول طاقت مضبوط ہو جائے، ان لوگوں میں اشاعت اسلام کا جذبہ پیدا ہو جائے اور وہ تبلیغ اسلام کے لئے کھڑے ہو جائیں تو جاپان اور چین کو عیسائیت کے پنجہ میں گرفتار ہونے سے بچا سکتے ہیں.بارہا ہم کہہ چکے ہیں کہ سیاسی طور پر ہم گورنمنٹ کے مددگار ہیں مگر مذہبی طور پر جتنی ہماری قوم عیسائیت کی مخالف ہے اتنی کوئی اور نہیں ہے.ہماری زندگی کا بہت بڑا مقصد یہ ہے کہ عیسائیت کو دلائل سے چل کر عیسائیت کے گھر میں اسلام پھیلا دیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنانے والوں کو اسلام کے شیدائی بنا دیں.غرض عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ایک مرکز مشرق میں قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ایک مغرب میں.مغرب میں ایسا مرکز انگلستان ہو سکتا ہے اور مشرق میں جاوا سماٹرا اور بور نیو کے جزائر.ان میں اسلام کی طاقت کو مضبوط کر کے ہم چین اور جاپان کی حفاظت کر سکتے ہیں.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے سامان بھی پیدا کر رکھا ہے اور وہ یہ کہ ان جزائر میں مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہے.اگر ان میں مذہب کا احساس پیدا کر دیا جائے ، اگر ان میں مذہب کی حفاظت کا جوش پیدا کر دیا جائے ، اگر انہیں اشاعت اور حفاظت اسلام کے لئے تیار کر لیا جائے تو وہ عیسائیت کا بخوبی مقابلہ کر سکتے ہیں.اس اہم کام کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے.اگر مسلمان اس میں ناکام رہے تو تھوڑے عرصہ میں دیکھیں گے کہ چین اور جاپان سے عیسائیت کی ایسی رو نکلے گی جس کا مقابلہ کرنا دوسرے عیسائی ممالک کے لئے مشکل ہو جائے گا.عرصہ سے میری یہ رائے ہے کہ ایشیا کو عیسائیت کے حملہ سے بچانے کے لئے سماٹرا، جاوا اور سٹریٹ سیٹلمنٹس (Straits Settlements ) میں مرکز قائم کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں جس طرح لکڑی کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے اس میں شگاف ڈال دیئے جاتے ہیں اسی طرح عیسائی مشنری ایشیائی ممالک کو چیرنے کے لئے ان میں اپنے مشن پھیلا رہے ہیں.اس سے ان کی غرض یہ ہے کہ چین، جاپان اور ہندوستان میں شگاف پیدا کر دیں.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے مقابلہ کے لئے سامان پیدا کر رکھے ہیں.اور یہ صاف بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے مقابلہ میں انسانی مشیت کچھ نہیں کر سکتی.

Page 433

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 427 جلد اول اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ اسلام کو دنیا میں غالب کرے گا اور مسلمانوں کی نصرت کے سامان پیدا کرے گا.لیکن اس اہمیت کی وجہ سے جو میں نے بیان کی ہے مبلغین کا کام بہت نازک ہو گیا ہے.بے شک فتوحات حاصل ہوں گی اور مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوگا لیکن جو فتح اپنے وقت سے ذرا پیچھے ہٹ جاتی ہے اس کی کوئی وقعت نہیں رہتی.ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی فتوحات جلد حاصل ہوں.مجھے ایک شخص کا ایک خواب ہمیشہ یاد آتا ہے اسے بحث و مباحثہ کی بہت عادت ہے.ایک دفعہ اس نے اس بات پر بحث کی کہ روزہ رکھنے کے لئے مقررہ وقت سے ذرا پیچھے سحری کھالی جائے تو کیا حرج ہے.یہ بحث کرتے کرتے اس نے ایک دن سحری پیچھے کھائی اور سو گیا.وہ قوم کا جولاہا ہے اسی لحاظ سے اسے خواب آیا.اس نے سنایا میں نے دیکھا میں تانی صاف کرنے کے لئے اسے پھیلا رہا ہوں.ایک طرف ایک کیلا گاڑ کر اس سے تانی باندھ دی ہے اور دوسری طرف کے کیلے سے دوسرا سرا باندھنا چاہتا ہوں لیکن رستہ دو انگل کم ہو گیا.میں تانی کو کھینچتا ہوں اور سارا زور لگا تا ہوں مگر کیلے تک نہیں پہنچتی.پھر میں لوگوں کو بلاتا ہوں اور کہتا ہوں صرف دو انگل کی کمی سے میری تائی خراب ہو رہی ہے.آخر مجھے خیال آیا جب دو انگل کی کمی سے تانی خراب ہو جاتی ہے تو مقررہ وقت سے تھوڑا سا پیچھے سحری کھانے سے کیوں روزہ خراب نہیں ہوگا.تو معمولی فرق سے بنا بنایا کام خراب ہو جاتا ہے.نپولین کی آخری شکست چند منٹ کے فرق سے ہی ہوئی تھی.جنرل گوش جسے مدد کے لئے دوسرے رستہ سے بھیجا گیا تھا چند منٹ بعد پہنچا جبکہ نپولین گرفتار ہو چکا تھا.اور جب وہ آیا تو اسے بھی گرفتار کر لیا گیا.اگر وہ چند منٹ پہلے پہنچ جاتا تو یورپ کا نقشہ ہی اور ہوتا.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ قبل اس کے کہ اسلام کے لئے ہر میدان تنگ ہو جائے اسے غالب کیا جائے.میں امید کرتا ہوں کہ ہمارے مبلغ اس کام کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے وہاں جائیں گے.اور اگر وہ اس اہمیت کو سمجھ لیں گے تو خدا تعالیٰ ضرور ان کی کوششوں میں برکت دے گا.

Page 434

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 428 جلد اول اپنے کام کی اہمیت نہ سمجھنے کی وجہ سے انسان اور فضول باتوں میں پڑ جاتا ہے.آپس میں جھگڑے اور اختلاف شروع ہو جاتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے.مگر جب اپنے کام کی اہمیت اور خطرہ کا پورا پورا احساس ہو تو پھر اس کی توجہ اپنے کام کی طرف ہی ہوتی ہے.دیکھو اگر کسی کے گھر پر دشمن حملہ کر دے تو کیا اُس وقت گھر والے اس بحث میں پڑیں گے کہ یہ سوٹا میرا ہے اور وہ تیرا ؟ وہ اُس وقت دشمن کو پسپا اور مغلوب کرنے کے لئے متحد ہو جائیں گے.پس جب کام کی اہمیت معلوم ہو جائے تو جنہیں وہ کام کرنا ہوتا ہے وہ آپس میں لڑتے جھگڑتے نہیں بلکہ کام میں کامیابی حاصل کرنا ان کے پیش نظر ہوتا ہے.مولوی رحمت علی صاحب جاوا، سماٹرا اور بور نیو تینوں جزیروں میں امیر تبلیغ ہوں گے.مقامی امیر وہاں ہی کے لوگ ہو سکتے ہیں اس میں ہم دخل نہیں دینا چاہتے.میں امید کرتا ہوں مولوی محمد صادق صاحب اس رنگ میں ان کی اطاعت کریں گے جو ایک مسلمان کی شان کے شایان ہے اور مولوی رحمت علی صاحب سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ محبت، شفقت اور راہنمایانہ طریق عمل سے یہ ثابت کر دیں گے کہ جسمانی باپ جو سلوک اپنی اولاد سے کرتا ہے یا جسمانی بھائی جو سلوک اپنے جسمانی بھائی سے کرتا ہے اس سے بہتر روحانی باپ روحانی اولاد سے اور روحانی بھائی روحانی بھائی سے کرتا ہے.اور میں یقین کرتا ہوں کہ اگر دونوں اصحاب تعاون اور محبت سے کام کریں گے تو خدا تعالیٰ ہر میدان میں انہیں فتح عطا کرے گا.اور وہ جنگ جس میں اس وقت ہم اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھی دکھ اٹھا رہے اور تکلیفیں جھیل رہے ہیں اس کے متعلق ایک دن آئے گا جب ان لوگوں کو خود تسلیم کرنا پڑے گا کہ ان کی جنگ ہمارے ساتھ درست نہ تھی اور یہ کام جو ہم کر رہے ہیں ان کا کام تھا.میں دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ ان عزیزوں کو اس فتح کے لئے ایک کافی حصہ کام کرنے کا عطا کرے.“ (الفضل 8 نومبر 1930ء)

Page 435

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 429 جلد اول مبلغین سماٹرا اور جاوا کونصائح 6 نومبر 1930 بعد نماز ظہر لاہور کے کالجوں کے احمدی طلباء کی ایسوسی ایشن نے مکرم مولوی رحمت علی صاحب اور مکرم مولوی محمد صادق صاحب کو، ٹی پارٹی دی جس میں حضرت خلیفۃ السیح الثانی بھی شامل ہوئے.اس موقع پر حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل خطاب فرمایا :.گو ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جو ایڈریس اس وقت پڑھا گیا ہے اس کا جواب مبلغین کی طرف سے دیا جاتا لیکن چونکہ وقت اس کی اجازت نہیں دیتا ( کیونکہ چار بجے کی گاڑی پر مبلغین روانہ ہونے والے تھے اور تین بج چکے تھے ) اس لئے میں ان کا وقت بچانے کے لئے جس میں انہیں گھر والوں سے بھی ملنا ہے اختصاراً چند نصائح کرتا ہوں.جس وقت مولوی رحمت علی صاحب پہلی دفعہ یہاں سے روانہ ہوئے تو میں نے انہیں ایک ہدایت دی تھی پہلے میں اسی کو دہراتا ہوں.وہ ہدایت یہ تھی کہ ہر چیز کی قدر و قیمت است کے مقابلہ کی چیز کی قیمت سے ہوتی ہے.دنیا میں ہر کام جو ہم کرتے ہیں اس کے کرنے پر بعض اور کاموں کو چھوڑنا پڑتا ہے.اور ہر چیز جو لیتے ہیں اس کے لینے کے لئے اور چیزوں کوترک کرنا پڑتا ہے.اور یہ نسبتی دور ہر وقت اور ہر کام میں چل رہا ہے.جب مبلغ کسی ملک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو انہیں دنیا کی ساری چیزوں سے نسبتی طور پر اسلام کو مقدم کرنا چاہئے اور جو چیز بھی اس میں روک ثابت ہوا سے قربان کر دینا چاہئے.یہی وہ روح ہے جو اس ملک کے لوگوں میں پیدا ہو جائے تو وہ ہماری تبلیغ میں کارآمد ہو سکتے ہیں.اور اگر نہ پیدا ہو تو وہ تبلیغ میں روک بن سکتے ہیں.

Page 436

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 430 جلد اول امریکہ کا ایک با اثر اور بارسوخ شخص مفتی محمد صادق صاحب یا مولوی محمد الدین صاحب کے زمانہ میں اسلام قبول کرنے کی طرف مائل ہوا.وہ حبشی النسل تھا اور حبشی لوگوں کا بہت بڑا لیڈر تھا.اس نے اسلام کی طرف رغبت کا اظہار کیا مگر وہ چاہتا تھا کہ سفید رنگ کے لوگوں کے خلاف جو تحریک حبشیوں میں چل رہی ہے اس میں ہمارے مشنری حصہ لیں.اس بات کو ہماری ہدایات کے ماتحت ہمارے مبلغوں نے نہ مانا اور اس نے قطع تعلق کر لیا.اگر اس کی بات مان لی جاتی تو بہت سے لوگوں کو اسلام میں داخل کر لیا جا سکتا تھا.مگر نتیجہ یہ ہوتا کہ ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے ایک طرف تو تبلیغ میں روک پیدا ہو جاتی اور دوسری طرف جو لوگ اس طرح داخل ہوتے وہ حقیقی مسلمان نہ بن سکتے.اس وقت جاوا اور سماٹرا کی حالت بھی ایسی ہی نازک ہے.وہاں کی حکومت با وجود یورپین حکومت ہونے کے اصولِ حکومت میں انگریزوں کے خلاف چلتی ہے.اس کا فرانسیسی طریق ہے.وہ ماتحت لوگوں سے ملیں گے ، ان سے تعلقات قائم کریں گے مگر سیاسی اختلافات کو برداشت نہیں کر سکتے.انگریز ماتحت لوگوں کو حقوق دیں یا نہ دیں ایک حد تک اختلاف برداشت کر سکتے ہیں لیکن فرانسیسی اختلاف برداشت نہیں کر سکتے.وہ ماتحت لوگوں سے انگریزوں کی نسبت زیادہ ملیں گے، ان کے ساتھ کھا پی بھی لیں گے، عام تعلقات بھی زیادہ رکھیں گے لیکن سیاسی امور میں اختلاف برداشت نہیں کریں گے.یہی حال ڈچ قوم کا ہے.وہ جس حد تک سیاسی طور پر آگے جاتی ہے اس سے آگے جانے کی آواز بھی سننے کے لئے تیار نہیں ہوسکتی.اس لئے ضروری ہے کہ ہم وہاں سیاسیات میں حصہ نہ لیں.وہاں بہت بڑی تعداد میں مسلمان آباد ہیں.ان میں آزادی کے جذبات ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی زیادہ ہیں کیونکہ ہندوستانی مسلمان تو سمجھتے ہیں کہ اگر اہل ہند کو حکومت ملی تو اس میں زیادہ اقتدار ہندوؤں کو حاصل ہوگا.مگر وہاں کے مسلمان سمجھتے ہیں مسلمانوں کی حکومت ہو گی.لیکن اگر ہم انہیں حقیقی کامیابی تک پہنچانا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ سیاسیات میں دخل نہ دیں.اور نہ صرف یہی کہ وہاں کی سیاسیات میں دخل

Page 437

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 431 جلد اول نہ دیں بلکہ حکام سے اچھے تعلقات رکھیں.کیونکہ وہاں کے لوگ ہمارے مخالف ہیں اور ہر طرح ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.اس وجہ سے حکام کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے ضروری ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگوں کے خلاف جاسوسی کی جائے یا لوگوں کے خلاف حکام کو بھڑ کا یا جائے.اسے ہم سخت معیوب اور ناجائز سمجھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کو ہمارے صحیح حالات کا علم رہے.پس جو مبلغ وہاں جائیں ان کے لئے نہایت ضروری ہے کہ حکام سے تعلقات رکھیں اور انہیں اصل حالات سے واقف کرتے رہیں اور بتائیں کہ ہم سیاسی امور میں دخل نہیں دیتے.ہم آزادی چاہتے ہیں اور ہر ملک کے لوگوں کے لئے اسے ضروری سمجھتے ہیں مگر اس کے لئے ایسے ذرائع اختیار کرنا جائز نہیں سمجھتے جو فتنہ و فساد پیدا کریں.اسی طرح مولوی رحمت علی صاحب کا م کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو سوسائٹی بھی ان کے خلاف کھڑی ہوئی وہ دب جاتی رہی ہے.علاوہ ازیں ڈچ حکومت کو ہمارے سلسلہ کے متعلق خاص توجہ پیدا ہوئی.چنانچہ اس حکومت کے دو کنسل 1 یہاں آئے.ایک اُن دنوں آئے جبکہ میں شملہ میں تھا اس لئے وہ قادیان سے ہو کر مجھ سے ملنے کے لئے شملہ گئے اور انہوں نے حالات معلوم کئے.یہ ہمارے مبلغ کے حکام کے ساتھ اچھے تعلقات کا ہی نتیجہ تھا.پس ہمیشہ ہمارے مبلغوں کے مد نظر یہ بات رہنی چاہئے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں.وہ تعاون نہیں جو قومی حقوق کو تلف کرنے والا ہو بلکہ اس حد تک کہ حکومت مخالفت پر نہ کھڑی ہو جائے.دوسری نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہر قوم کے رسم ورواج علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں اور مبلغ کے لئے ان کا سمجھنا ضروری ہوتا ہے.اس کے لئے میں انہیں اور خاص کر مولوی محمد صادق صاحب کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ وہاں جاتے ہی وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج کا مطالعہ کریں.نیز مذہب کے متعلق بھی واقفیت بہم پہنچائیں کہ وہ لوگ کیا عقا ئدر کھتے ہیں.کئی لوگ یونہی سمجھ لیتے ہیں کہ فلاں ملک کے لوگ حنفی کہلاتے ہیں اس لئے ان کے عقائد وہی ہوں گے جو ہندوستان کے حنفیوں کے ہیں.حالانکہ ان میں فرق ہوتا ہے.مثلاً ہندوستان کو

Page 438

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 432 جلد اول کے حنفی اور رنگ کے ہوں گے اور ایران کے اور رنگ کے.اسی طرح شافعی اور مالکی عقائد رکھنے والوں میں فرق ہوگا.تو جہاں کوئی مبلغ جائے وہاں کے لوگوں کے عقائد معلوم کرنے ضروری ہیں تا کہ ان کو مدنظر رکھ کر تبلیغ کر سکے.مثلاً ایک مسلمان حنفی کہلانے والا تعلیم یافتہ انگریزی پڑھا ہوا سیاستدان مذہب کے متعلق وہ خیالات نہ رکھے گا جو ایک مولوی کہلانے والا عربی دان رکھے گا.اول الذکر کے سامنے یہ پیش کرنا کہ دیکھو قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اس پر کوئی اثر نہ کرے گا.اس پر ایسی بات اثر کرے گی کہ دیکھو قوم کی تباہی کے کس قدر سامان پیدا ہو گئے ہیں اس کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا مرکز ہو جس کے ذریعہ مسلمانوں کو بچایا جائے.اگر وہ شخص اسلام کو بطور مذہب مانتا ہوگا تو اسے ماننا پڑے گا کہ بے شک اس بات کی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی انسان کھڑا ہو جو مسلمانوں کو ایک مرکز پر جمع کرے.اسی طرح اگر کوئی چکڑالوی خیالات کا ہو تو اسے یہ سنانے سے کہ حدیثوں میں یوں لکھا ہے اس پر کوئی اثر نہ ہو گا.اور اگر اہلحدیث کہلاتا ہو تو قرآن کی آیات پیش کرنے پر کہہ دے گا بے شک یہ آیات ہیں لیکن ان کی تشریح جو حدیثوں میں آئی ہے وہی مانی جاسکتی ہے.اس طرح وہ حدیثوں کو قرآن پر مقدم کرلے گا خواہ حدیث کتنی ہی کمزور ہو.پس ایک مبلغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ جن لوگوں میں اسے تبلیغ کے لئے بھیجا جائے پہلے ان کے عقائد، ان کے حالات اور ان کے رسم ورواج کے متعلق واقفیت حاصل کرے اور پھر کام شروع کرے.تیسری بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی موقع اور کسی حالت میں بھی جوش میں نہ آئے.بہت لوگوں کو ان کا بیجا جوش کامیابی سے محروم کر دیتا ہے.وہ تقریر اچھی کر لیتے ہیں، ان کے دلائل بھی زبردست ہوتے ہیں مگر جوش سے کام خراب کر دیتے ہیں کیونکہ لوگ انہیں چھچھورا سمجھ کر ان کی باتوں کی طرف توجہ نہیں کرتے.ہر ایک مبلغ کو اپنے نفس پر قابو پانے کی قابلیت پیدا کرنی چاہئے کیونکہ تبلیغ اور مباحثہ کے وقت اگر وہ جوش میں آ جاتا ہے تو لوگ یہی سمجھیں گے کہ وہ دلائل پیش نہیں کر سکتا.

Page 439

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 433 جلد اول پس ہمیشہ احسن طریق پر گفتگو کرنی چاہئے اس میں یہ تینوں باتیں شامل ہیں جو میں نے پہلے بیان کی ہیں.یعنی سیاسیات میں حصہ نہ لیا جائے.رسم و رواج اور خیالات و عقائد کو مد نظر رکھ کر گفتگو کی جائے.ایسے طریق سے گفتگو کی جائے کہ اس سے محبت ترقی کرے نہ کہ کم ہو.چوتھی بات یہ مد نظر رکھنی چاہئے کہ جب تک اپنے دل میں کسی بات کے متعلق پورا پورا یقین نہ ہوا انسان دوسرے کے دل میں یقین نہیں پیدا کر سکتا.ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خدا تعالیٰ دعا سے جو کچھ کر سکتا ہے وہ کسی اور طرح نہیں ہو سکتا.لیکن جب تک اپنے عمل سے یہ بات نہ دکھا ئیں اُس وقت تک اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.جب کوئی مشکل پیش آئے اُس وقت اگر ہم دعاؤں پر خاص زور نہ دیں تو دوسرے لوگ کس طرح مان لیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی طاقتوں اور قدرتوں پر ہمیں یقین ہے.اس قسم کی باتوں میں بہت سی ترقی عادت کی وجہ سے بھی ہوتی ہے.جو لوگ دعاؤں کی عادت ڈال لیتے ہیں میں دیکھتا ہوں ان میں سے بعض میں کئی بڑے بڑے نقائص اور کمزوریاں بھی ہوتی ہیں مگر ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ دعاؤں میں اس طرح پیچھے پڑ جاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ لے ہی لیتے ہیں.جس طرح اگر کسی انسان سے کوئی شخص کچھ مانگے اور وہ انکار کر دے تو پیچھے پڑ جانے پر وہ کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے اسی طرح جو دعاؤں میں خدا تعالیٰ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں انہیں خدا تعالیٰ بھی کچھ نہ کچھ دے دیتا ہے.چراغ دین جمونی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھانَزَلَ بِه جیز 2 کہ یہ کتے کی طرح آبیٹھا تو اسے ٹکڑا ڈال دیا گیا.اس میں بتایا کہ یہ الہام کے قابل نہ تھا مگر ہمارے دروازہ پر آ بیٹھا اس لئے اس پر الہام تو نازل کر دیا مگر وہ ایسا ہی تھا جیسے کتے کو ٹکڑا ڈال دیا جائے.چراغ دین تو مرتد ہو گیا کیونکہ جبیز کو اس نے اعلیٰ چیز سمجھ لیا اور اس پر اترانے لگا.لیکن اگر پیچھے پڑنے سے پہلے جبیز ہی نازل ہو اور انسان اس پر متکبر نہ ہو بلکہ دعاؤں میں لگا رہے تو اس کے لئے اعلیٰ چیز بھی نازل ہوگی.کئی لوگ ایسے

Page 440

زریں ہدایات (برائے مبلغین ) 434 جلد اول ہوتے ہیں جنہیں پہلے پہل معمولی چیز ملتی ہے لیکن جب تعلقات بڑھ جاتے ہیں اور دوستی ترقی کر جاتی ہے تو دعوتیں ہونے لگتی ہیں.پس اگر کسی کو خدا تعالیٰ خوان نعمت پر نہیں بلاتا اور دعوت نہیں دیتا تو بھی اسے کوشش جاری رکھنی چاہئے خواہ جبیز ہی مل جائے.ایک بھوکے کو اگر روٹی کا ایک ٹکڑا بھی مل جائے تو اسے کچھ نہ کچھ طاقت حاصل ہو جاتی ہے اور پھر وہ آگے ترقی کر سکتا ہے.پس دعاؤں کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے.پانچویں نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغوں میں اطاعت کا پورا پورا مادہ ہوتا چاہئے اور کسی عہدہ کی خواہش کو اپنے دل سے بالکل نکال دینا چاہئے.جو اس قسم کی خواہش کرتا ہے اسے عہدہ تو شاید مل جائے.رسول کریم ﷺ کی تو عادت تھی کہ ایسے شخص الله کو عہدہ نہ دیتے تھے.3 مگر ہر شخص رسول کریم ﷺ کا سا استقلال نہیں دکھا سکتا.اس لئے ممکن ہے کسی عہدہ طلب کرنے والے کو عہدہ مل جائے مگر اس کی روحانیت گر جائے گی.بعض لوگ نادانی سے حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال پیش کیا کرتے ہیں کہ انہوں نے عزیز مصر سے خود عہدہ مانگا تھا مگر ایسے لوگ قرآن کریم پر غور نہیں کرتے.قرآن سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ آپ کو چیف منسٹر بنانا چاہتا تھا اور سب کچھ ان کے سپر د کرنا چاہتا تھا مگر وہ کہتے ہیں غلہ وغیرہ کا انتظام میرے سپرد کر دیا جائے.گویا انہوں نے بڑے کام کو چھوڑ کر چھوٹے کام کی خواہش کی اور وزیر اعظم کی بجائے وزیر مال بننا چاہا.اس طرح انہوں نے کوئی عہدہ طلب نہیں کیا بلکہ انکسار کا اظہار کیا اور بڑے عہدے سے انکار کیا.میں سمجھتا ہوں اگر روحانی امور پر کام کی بنیاد ہو تو اسی راہ پر چلنے سے جس پر مقرر کیا جائے خدا تعالیٰ ترقی دے دیتا ہے.مگر جب سوال عہدہ اور درجہ کا آ جائے تو نتیجہ خراب نکتا ہے.ابھی چند روز ہوئے میں نے دیکھا ایک دوست کو کسی کام پر لگایا گیا تھا.اس نے مجھے لکھا مجھے کوئی ذمہ داری کا کام نہ دیا گیا اور نہ میں کام اچھی طرح سے کر سکتا تھا.جس ڈاک میں یہ چٹھی آئی اس میں ناظر صاحب اعلیٰ کی چٹھی تھی کہ فلاں عہدہ پر انہیں مقرر کیا

Page 441

زریں ہدایات (برائے مبلغین) 435 جلد اول جائے.حالانکہ اس دوست نے اپنی چٹھی میں ساری شکایت ناظر اعلیٰ کے متعلق ہی کی تھی اور سمجھا تھا کہ ناظر اعلیٰ نے اس پر بڑا ظلم کیا ہے.چونکہ ناظر اعلیٰ خود اس عہدہ پر مقرر نہ کر سکتا تھا اس کے لئے مجھ سے منظوری حاصل کرنے کی ضرورت تھی اور ناظر اعلیٰ نے میرے پاس سفارش کی.یہاں تو اس قسم کی حرکت کا انسداد کیا جاسکتا ہے کیونکہ تمام محکموں پر خلیفہ کی نگرانی ہے لیکن دوسرے ممالک میں اگر کوئی ایسی بات پیدا ہو تو اس کا انسداد مشکل ہوتا ہے.اس بارے میں میں مولوی محمد صادق صاحب کو اس بات کی خصوصیت سے نصیحت کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ ان جزائر کی تبلیغ کا چارج پورے طور پر مولوی رحمت علی صاحب کے سپرد کیا گیا ہے اور وہ کلی طور پر ان کے ماتحت ہیں.ہمارے اندر جب تک ماتحت کام کرنے کا پورا پورا مادہ نہ ہو اُس وقت تک ہمارے کسی کام میں برکت نہیں ہو سکتی.مولوی محمد صادق صاحب کا فرض ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب انہیں جو حکم دیں اس کی پوری پوری تعمیل کریں.وہ جہاں بیٹھنے کے لئے کہیں بیٹھیں.جہاں اٹھنے کے لئے کہیں اٹھیں.جہاں چلنے کے لئے کہیں چلیں.جہاں بولنے کے لئے کہیں بولیں.جہاں خموش رہنے کے لئے کہیں خموش رہیں.اگر مولوی رحمت علی صاحب ان سے کوئی غیر معروف معاملہ کریں گے تو اپنا ثواب کھو دیں گے.اور اس سے بھی زیادہ بختی کریں گے تو خدا تعالی کے عذاب کے نیچے آئیں گے.مگر بہر حال مولوی محمد صادق صاحب کا فرض ہے کہ جو بات سلسلہ کے لئے نقصان رساں اور عقل کے خلاف نہ ہو اس میں ان کی پوری پوری اطاعت کریں.ایک صوفی کہتے ہیں ایک دفعہ میرے گھوڑے نے میری اطاعت نہ کی تو میں نے سمجھا میں نے خدا تعالیٰ کی کوئی نافرمانی کی ہے.یہ بات مولوی محمد صادق صاحب کو اچھی طرح یا د رکھنی چاہئے.اگر وہ پوری طرح اطاعت نہ کریں گے تو جہاں جائیں گے وہاں کے لوگوں پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہو گا.انہیں پورے طور پر اطاعت کرنی چاہئے اور جیسا کہ میں نے کل کہا ہے مولوی رحمت علی صاحب کو اس طرح سلوک کرنا

Page 442

زریں ہدایات ( برائے مبلغین ) 436 جلد اول چاہئے جو بڑا بھائی اپنے چھوٹے بھائی سے کرتا ہے.ہر بات میں ان کے جذبات اور احساسات کا لحاظ رکھیں.میں امید کرتا ہوں اگر اس طرح کام کریں گے اور میری نصیحتوں کو یا درکھیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہیں کامیابی حاصل ہوگی.(الفضل 15 نومبر 1930ء) 66 1 کنسل قضل قونصل (Council) سفیر (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 965 مطبوعہ لاہور 2010ء) 2 تذکرہ صفحہ 347 ایڈیشن چہارم 2004 ء :3 مسلم كتاب الامارة باب النهى عن طلب الامارة (الخ) صفحہ 818 حدیث نمبر 4715 مطبوعہ ریاض 2000 ءالطبعة الثانية

Page 443

Page 444

انڈیکس مرتبہ: مکرم فضل احمد شاہد صاحب کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات 3 13 15 16 21 24

Page 445

Page 446

اطاعت 117 3 مضامین کی پہلی سیڑھی اصلاح اخلاق کے لئے ایک T آرام اپنے افسر کی اطاعت دو پہر کے کھانے کے بعد 118 119 کرو 158-157-129-103 آرام کرنا چاہئے 351 اچھے اخلاق 100 واعظ سے اعتدال آرید بڑھ کر ہوتے ہیں آریہ لوگوں کا ایک عورت کو مرتد I حسن سلوک کی تلقین کرنے کی کوشش کرنا 186 ، 187 اُردو کا سیکھنا بہت ضروری ہے آواز استاد آواز میں رعب ہو تو اثر ہوتا ہے 310 استادوں کو شاگردوں سے 149 ہر چیز اعتدال کے مطابق ٹھیک 45 ایک احمدی کے اعتراض کا جواب افسر اردو رہتی ہے اعتراض 12 379.378 99 222 222 227 413.412 109.108 199 اختصار استادوں کو ہدایات 259 افسر محبت سے کام لیں تحریر و تقریر مختصر ہونی چاہیے 125 126 استادوں کا ایک کام لڑکوں کی افسر ماتحتوں کے جذبات کا اختلاف آواز بلند کرانا 274 خیال رکھیں اختلاف رائے کو نقص قرار دینا اسلام افسر جرات سے کام لیں بہت بڑا نقص ہے 415 اسلام باقی مذاہب کو جھوٹا قرار افسر اور ماتحت کے کام کا اخلاق دیتا ہے اخلاق درست ہوں تو ایک آدمی اسلام نے بڑے لوگوں کو گالیاں بیسیوں کو احمدی بنا سکتا ہے 93 دینے سے روکا ہے اسلام کے ضعف کی وجہ اخلاق اسلام کی حقیقت میں کمزوری 2 طریق الوداع 21 ہماری اور دوسری الوداعی 115 پارٹیوں میں فرق 103 اسلام وہ ہے جو حضور نے پیش کیا 373 امن اخلاق ایمان کا ضروری جو اخلاق روحانیت کے حصول 103 اسلام مسلمانوں کے گھروں سے نکلا ہوا ہے دنیا میں قیام امن کا طریق 373

Page 447

4 انانیت بچے انانیت چاہتی ہے کہ خدا اور بندہ بچوں کے دوستوں کا انتخاب کے درمیان کوئی واسطہ نہ ہو 411 والدین کریں انبیاء 350.340 پرده کوسٹ برقع نا جائز ہے پڑتال بچے سے ہمدردی دوسروں کے کام کی پڑتال کرتے رہو جوانبیاء سے تعلق پیدا کرے دل مسخر کرنے کا ذریعہ پاک کیا جاتا ہے انکسار 347 پگڑی 372 23 28 بچوں کی تربیت کا ایک گر 347 پگڑی قریب تر اسلامی شعار ہے 121 بچوں کو مصروف رکھا جائے 348 انکسار کی تین اقسام 336 بچے کی تربیت نماز 349 پیر مرید کا تعلق جذبات کا تعلق انگریز ابتدا سے ہی بچوں کی تربیت کی انگریز ایک حد تک اختلاف کوشش کرنی چاہئے 370 ہے پیغامی برداشت کر سکتے ہیں 430 بچوں کی تربیت کے متعلق کتاب پیغامیوں کا طریق تبلیغ انگریزی انگریزی سیکھنے کے طریق ایڈریس ایڈریس کے بارہ میں 269 263 کی ضرورت بہادر 371.370 تبلیغ بہادر بنے بغیر کچھ نہیں حاصل تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل ہو سکتا 202 نہ ہوں بہادری بہادری کا نتیجہ ہمیشہ اچھا 339 61.60 13.12 ہندوؤں میں بھی تبلیغ ہونی چاہئے 20 تبلیغ کے طریقوں پر غور کرنا بہت ایک ہدایت ایمان ایمان اور بزدلی کبھی جمع نہیں ہو سکتے ایمان خدا کے فضل سے ہی حاصل ہوتا ہے باز پرس 135 254 نکلتا ہے بیعت 157 م ہے تبلیغ کی تقسیم بیعت کے معنی وقف کرنا 231 تبلیغ کے دو پہلو پادری تبلیغ سب احمدیوں کا فرض ہے پادریوں کی خدمت خلق 306 تبلیغ کا کام ابتدا میں آہستگی باز پرس میں اخلاق اور محبت کا پہلو پاور یوں کے کام کو تمدنی طور پر سے شروع کیا جائے ترک نہ کیا جائے 223 مفید سمجھا جاتا ہے 53 61 116 212 248 307 تبلیغ کا ایک ذریعہ خط و کتابت 254

Page 448

15 کسی ایک ملک یا ایک نسل تک تقریر تبلیغ محدودرکھنے سے کام نہیں تقریر کی زیادہ طاقت آواز میں تکبر سے بچنے کی تلقین 309 توکل ہو سکتا 417 ہوتی ہے تحریک تقوی انڈونیشیا کے لوگوں کو مرکز میں تقوی کی تعریف خدا پر توکل کی تلقین 27 اللہ پر توکل کرو تعلیم کی تحریک 391 تقوی فرمانبرداری کا نام ہے 27 تحقیق 5 15 تقومی کے حصول کے ذرائع 27 32 تہجد کی اہمیت تحقیق حق کا طریق 201 تقوی اور مجاہدہ تدبير عمدہ تدبیریں بہت سی روکوں کو 28 صحابہ کا تہجد کا شوق 10 12 تقومی انبیاء سے تعلق سے ہوتا تہجد کی نماز مبلغ کے لئے ضروری 13 28 دور کرتی ہیں 305 تربیت تربیت کے اصول 19 ہے محاسبہ کرنے والا متقی بن جاتا ہے تقومی کا ذریعہ.دعا 30.29 30 ترقی ج جانور حرام جانور جامعہ احمدیہ 8 ہر انسان کوشش سے ترقی کر سکتا تقومی کا ایک ذریعہ استخارہ 30 | جامعہ احمدیہ کے طلباء کو تحقیقی مضامین 124 ہے ایثار و قربانی کے بغیر بھی ترقی نہیں ہو سکتی 157 تعلقات کے جمال و جلال کا معائنہ ذاتی تعلقات عمدہ چیز ہے 351 تعلق باللہ تقوی کا ایک ذریعہ.توبہ تقوی کا ایک ذریعہ.شکر کام پر جامعہ کے فارغ التحصیل تقومی کے حصول کا ذریعہ.خدا کو لگائیں حصول تقویٰ کا ذریعہ.نماز 31 نو مسلموں کی تربیت کے لئے تقویٰ کا ایک ذریعہ توکل 30 لکھنے کی تلقین 3670359 30 ہماری سکیم یہ ہے کہ سلسلہ کے ہر 421 31 جلسه سب سے بڑھ کر خدا کا تعلق ہے 244 حصول تقویٰ کا ذریعہ.سُبحان اللہ جلسہ کا حکم 116 کاورد 31 جماعت تفرقه تفرقہ طاقت کو توڑ دیتا ہے حصول تقویٰ کا ذریعہ انعامات الہیہ جماعت میں ذمہ داریوں کا احساس 104 کا مطالعہ 32 | پیدا کرو 25 LO 5

Page 449

6 جماعت کی ترقی کا گر 335 خدمت دین خدا کے لیے ہوتی ہے 399 دعا قبول نہ ہونے کی وجوہات 188 جہاد خدمت دین کی برکات 399 تا 401 دعا سب سے بڑا ہتھیار 332 177 178 253 دعائیں دعائیں دو قسم کی ہوتی ہیں دعاؤں کی قبولیت کا ایک گر ہر وقت دعائیں مانگو 10 352 جو جہاد کے لئے نکلے اس کے پچھلے خطوط گناہ خدا بخشتا ہے 168 دعائیہ خطوط کی اہمیت چ باہر کام کرنے والوں کو محبت آمیز پستی لہجے میں خطوط لکھیں چستی کے بغیر تغیر نہیں پیدا ہوتا 325 حسابات خلافت.خلیفہ دعاؤں کی قبولیت کا گر.خلافت سے بہت سی برکات وابستہ ہیں اخراجات کا حساب رکھنا ضروری خلفاء کے ذریعہ خدا اپنی مرضی 125 ظاہر کرتا ہے ہے حکام خلیفہ کے تعلقات جماعت سے حکام سے اچھے تعلقات رکھیں 431 باپ بیٹے جیسے حکمت حکمت کی تعریف 3 خلیفہ رسول کا حل ہوتا ہے خواب ایک سبق آموز خواب خوشی حکومت جس حکومت میں رہیں اس کے قوانین کی پابندی ہمارا فرض ہے 198 سچی خوشی کیا ہے حلال و حرام 102 104 338 339 یقین دلیری ستر فیصد گناہ دلیری کے نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں دماغ 333 74 انسانی دماغ میں لاکھوں نہریں 394 دوست کوئی قوم دوستوں کے بغیر زندہ 303 14 نہیں رہ سکتی 427 ز 321 ذکر الہی ذکر الہی کے اوقات حلال و حرام سے بارہ میں دعا حضرت مسیح موعود کا فتویٰ دینا خدا کے فضل کی جاذب ہے 80 خ رپورٹ 103 کاموں کی رپورٹ ضرور بھیجتی دعا ایک بڑا ہتھیار ہے خدمت دین دعا ایمان کا پہلا شمرہ ہے 119 | چاہئے خدمت کرنے والوں کی قدر کی ایک خاص دعا اہمیت 336 دعا کامیابی کا بڑا ذریعہ 143.142 253.150.26 رواداری 174 یورپ کی رواداری حقیقی نہیں

Page 450

7 رکھتا ہے ہے 278t 276 سوال طبيب اسلامی رواداری کیا ہے 278 سوال کی عادت نہ ڈالو 15 ایک طبیب کا واقعہ روحانیت سیاست سیاست تبلیغ میں بڑی رکاوٹ روحانیت میں نظام بڑا تعلق 322 ش 75 طالب علم.طلباء 27 طالب علموں کا حق نہیں کہ بڑوں کہ پر جرح کریں 275 کست طلباء انگریزی بولنے کی مشق قربانی اور روحانیت لازم و ملزوم 331 روحانی در جے دو قسم کے ہیں 402 درجے نپولین کی آخری شکست چند منٹوں کریں 216 کے فرق سے ہوئی 427 طلباء اور اساتذہ کے لئے روزه روزہ زنگ دور کرنے کا بڑا آلہ شعر گوئی ضروری ہے کہ ان کی زبان شعر گوئی قومی زندگی کی علامت 44 ترقی کرے 408.407 13 ہے روزہ انسان کی حالت کو صاف کرتا ہے ز زبان 14 ص صادق صادق میں ایک برقی اثر ہوتا ہے ع عبادت عبادت اللہ تک پہنچنے کی سیڑھی 103 29 87 248 73 269 صادق خدا کے حضور عزت رکھتا زبان بولنے سے آتی ہے علم کی بے شمار شاخیں 29 س سابقون سابقون کی قدر کی تلقین 122 123 سادگی تھے ہے صحابه علماء علماء سے علیحدگی میں گفتگو صحابہ کثرت سے روزے رکھتے صحابہ کی ہمتیں اور حو صلے قومی امور میں سادگی ہونی چاہئے 342 سچائی ہر سچائی کا اظہار ضروری نہیں 125 سکول صحابہ مل کر شعر دہراتے صحبت صادقین سے انسان پاک پر ہیں ہوتا ہے تعلیم الاسلام ہائی سکول بنانے کی عورت.عورتیں 13 ایک عیسائی عورت کی قربانی 203 عورتوں سے مصافحہ روکنے کا 285 طریق صحبت عورتیں بھی آدمیت کے مقام غرض 29 b عورتوں کو جائز آزادی دینی 216 چاہئے 121.120 368 372

Page 451

8 قربانی سے ایمان بڑھتا ہے غ قرب الہی غیر مبائعین قرب الہی کے لئے نوافل اور کتب اپنی خرید و غیر مبائعین سے بات کا طریق 2 اذکار کی ضرورت ہے ف فتح 80 254 پہر تمام کام لہروں پر چل رہے ہیں 274 14 قربانی جو فتح وقت سے پیچھے ہٹ جائے روحانیت کا قیام قربانی سے شعر کی لہر جب قلوب کی لہر کے مطابق اس کی وقعت نہیں 427 فرمانبرداری فرمانبرداری کس طرح پیدا ہو 27 فوج وابستہ ہے قربانی نعمت الہی ہے ک کالج 331 335 ہو تو لطف حاصل ہوتا ہے مبلغ مبلغ کا سوال کا جواب دینے کا طریق 274 فوج کی دو قسمیں 216 کالج کے متعلق اپیل کا جواب 45 تا 48 مبلغ کا انداز گفتگو ق کام قابلیت بڑے کام کے لئے بڑی قربانی اعلیٰ قابلیت بعض اوقات تباہی کا کی ضرورت 39 مبلغین کو جامع نصائح مبلغ لوگوں سے خادمانہ حالت پیدا کرے 2.1 3 3212 16 409 ہر جگہ کے کام کی نوعیت الگ موجب ہو جاتی ہے قرآن الگ ہے 357 مبلغ کے خادم ہونے کا کیا مفہوم ہے تلاوت قرآن کے متعلق نصیحت 41 دوسروں کے ساتھ مل کر کام مبلغ جرات سے بدی کے خلاف قرآن مختصر اور عمدہ کتاب ہے 42 کرنے کی اہمیت 410.409 لیکچرد- قرآن کا ہر حصہ مفید اور مبارک 42 43 کام کی اہمیت نہ سمجھنے سے انسان مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کو معمولی حافظہ والا بھی یاد فضول باتوں میں پڑ جاتا ہے 428 دعا ئیں کرے کر سکتا ہے 42 کامیابی مبلغ کے لئے دو ضروری باتیں قرآن صحت کے ساتھ یاد ہونا کامیابی جرات اور دلیری پر مبلغ مرضیں تلاش کر کے لیکچر چاہئے 43 ہوتی ہے قرآن کریم میں ساری ہدایتیں کامیابی کے لئے دوضروری 203 دے 18.17 18 18 18 19 مبلغ کو ٹھٹھے باز نہیں ہونا چاہئے 20 ہیں 155 صفات 411

Page 452

9 مبلغ دلیل سے بات کرے 21 مبلغ میں مانگنے کی عادت نہ ہو 79،70 مبلغ کسی فرقہ کو حقیر نہ سمجھے مبلغ کی ہمدردی وسیع ہو 21،20 مبلغ دلیر ہو مبلغ بحث میں مد مقابل کی بات مبلغ میں لوگوں کی ہمدردی ہونی سمجھے 22 چاہئے مبلغ کے پاس ایک رجسٹر ہو 24 مبلغ دنیاوی لحاظ سے جاہل جماعت میں رشتہ دار سے بڑھ نہ ہو 70 تا 74 مبلغ چوہڑوں میں تبلیغ نہیں کرتے 75،74 مبلغ میں ایثار کا مادہ ہو مبلغ لوگوں سے ملنا جلنا جانتا ہو 75 مبلغین مخالفین کو ذوقی دلائل نہ 76 مبلغ کوئی موقع تبلیغ کا نہ جانے کر احمدیوں کی محبت پیدا کرو 25 مبلغ کو جنرل نالج آنا چاہئے 75 دیں مبلغ لوگوں کو قادیان آنے کی تاکید کرتے رہیں مبلغ مسائل کے متعلق خود خور کرے مبلغ غلیظ نہ ہو 26 مبلغ اسراف سے بچے 77 78 | دے مبلغ میں خودستائی نہ ہو 87 88 89 80 80 800 89 91 91 78 مبلغ بے ہودہ بحثوں میں نہ پڑے 92 26 مبلغ اپنے لیکچروں اور مباحثوں کی مبلغ جماعت کے اخلاق کی نگرانی مبلغ کو جو موقع ملے حق سنادے 34 تعریفیں خود نہ سنایا کریں 79 کرے 92 مبلغ کی مشکلات 34 35 مبلغ کے لئے تہجد پڑھنا بھی مبلغ اپنے اخلاق درست رکھے 93 مبلغ کا کام حق منوانا نہیں پہنچانا ضروری ہے ہے 79 مبلغ میں چستی اور ہوشیاری ہو 94 94 36 تا 38 مبلغ عبادات کے پابند ہوں 79، 80 مبلغ میں جوش اور ولولہ ہو مبلغ کے معنی اور اس کا کام 58 59 مبلغ میں انتظامی قابلیت ہو 80 مبلغ ورزش کرتار ہے مبلغ کے کام کی اہمیت 62 مبلغ اپنے قائمقام بنائے 80 ایک مبلغ کو تو نصائح مبلغ کا علاقہ سب دنیا ہے 62 مبلغ دعا سے ضرور کام لے 80 بے نفس مبلغین کے لئے دعا 63 مبلغ دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھے 81 مبلغ سیاست سے الگ رہے 252،119 مبلغ کے مددگار مبلغ عقلی دلائل سے کام لے 64 مبلغ کی کامیاب تقریر کا گر 84 مبلغ قرآن پر تدبر کرے مبلغ جذبات ابھارنے والا مبلغ اپنے آپ کو خدا کے سامنے مبلغ لباس اسلامی رکھے طریق اختیار کرے 65 66 گرادے مبلغ عقل اور شعور سے اکٹھا کام لے مبلغ کو تو کل کی تلقین 105 106-105 107 84 مبلغ اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف 84 بنائے 66 مبلغ پارٹی بازی سے بچے 85 مبلغ لغو کاموں سے بچے مبلغ بے غرض ہو 69 مبلغ کو ہر وقت علم بڑھانا چاہئے 87 مبلغ خلیفہ کی اطاعت کرے 120 121 121 121 122

Page 453

مبلغ پہلے مبلغین کی خدمات کا مبلغین کی تعریف اعتراف کرے 376 10 مجاہدین کو ہدایات 122 مبلغین کی کامیابی برانشان ہے 376 ہدایات پر عمل ہو مبلغین سابقون کی محبت اپنے دل مبلغ کے لئے زبان کا صحیح استعمال مجاہدین کو بہادر بننے کی میں پیدا کریں 123 ضروری ہے 406 تلقین 156.155 158.156 مبلغ نہایت ہمدرد ہو 124 مبلغ میں دوسروں سے مل کر کام مجاہدین افسروں کی کامل مبلغین مرکزی کارکنان کا احترام کرنے کی اہلیت ہونی چاہئے 410 اطاعت اختیار کریں 126 تجربہ کار مبلغ کے کام سے فائدہ مجاہدین لوگوں سے ملاقات کرنے اٹھانے کی تلقین 415 416 کی عادت ڈالیں 141،52 تا 154 ہر مبلغ اپنے پیشرو کی پالیسی پر مجاہدین مرکزی گاؤں کے 416 قرب وجوار میں بھی جائیں کریں مبلغین ملکانہ کو ہدایات مبلغ لوگوں سے تعلقات پڑھائے مبلغ طلباء کو شریعت کی پابندی کرائے چلے 224، 344،307 مبلغ کسی کی شکایت پر آمادہ نہ مجاہدین آریوں سے ہوشیار ہو 420 رہیں 157 158 159 159 227 مبلغ میں تعاون کی روح ہو 420 مجاہدین بار بار مرکز کو نہ چھوڑیں 159 مبلغین خدا سے تعلق جوڑیں 239 مبلغین کا کام نازک 427 مجاہدین دعاؤں پر زور دیں مجاہدین عام فہم بات کریں مبلغین مباحثات کو ترک کریں 240 مبلغین سائر او جاوا کو 160 160 160 مبلغین جماعت میں محبت پیدا جامع نصائح 429 تا 436 مجاہدین غرباء کی امداد کریں کرنے کی کوشش کریں 245 مبلغ کے لئے ملک کے رسم ورواج مجاہدین کام کی اطلاع افسر کو مبلغین کے لئے دعا کی تحریک 246 سمجھنے ضروری مبلغین کو مباحثہ سے بچنے کی تلقین 247 مبلغ کسی حالت میں جوش میں نہ مجاہدین ملکانہ کی قربانیاں 162،161 مبلغ کو دعاؤں کی تلقین 253 آئے 431 دیں 432 مجاہدین پہلے قربانی کرنے والوں مبلغ نو مبائعین کو دلائل نوٹ مبلغ کو دعا پر زور دینے کی تلقین 433 کی قدر کریں 254 مبلغ میں اطاعت کا پورا مادہ ہو 434 مجاہدین ملکانہ کے لئے دعا کی کروائے مبلغین شام کی تعریف 299 300 متصوفين مبلغین کے کام کو دنیا کے سامنے متصوفین اولیا ء اللہ تھے 418 تحریک 160 162 166 لائیں 3570351 مجاہدین

Page 454

11 مطالعہ دیگر مذاہب کا مطالعہ ضروری مقرر کی خصوصیات مدرسہ احمدیہ مسلمان نہ ایشیا کی نقل کریں نہ تو خدا نصرت کرتا ہے مدرسہ احمدیہ کے طلباء کو نصائح 38 تا40 | مغرب کی مدرسہ احمدیہ کی تاریخ 257 258 مذہب مذہب چھوڑنے کی دو وجوہات 190-189 373 جن کے ساتھ نصرت ہوتی ہے مسمریزم 134 کوئی نہیں جو اُن کا مقابلہ کر سکے 135 مسمریزم کیا ہے 68 69 نصرت الہی کا نمونہ خلافت ثانیہ مذہب خدا کی آواز پر لبیک ہے کہنے کا نام ہے مذہب وحی کی آواز پر لبیک کہنے 289 280 278 میں نصرت الہی کب نازل ہوتی ہے 176 177:176 نصرت الہی جذب کرنے کا طریق 336 230 نصرت الہی سے زبردست قلعوں مقرر ملاقات کا نام ہے 290 کو فتح کیا جا سکتا ہے 425 لوگوں سے ملاقات کی عادت محاسبه ڈالو ہر روز اپنے کاموں پر تنقیدی نظر 158 نظم کے متعلق نصیحت 43 مومن نماز کرو 29 مومن کا فرض ہے کہ ہر کام میں دین محبت نماز معراج المومنین ہے 31 ہزار دلیل کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا کا حصہ پیدا کرے محبت کی ایک بات کا 34 نماز نا پسندیدہ کاموں سے روکتی ہر مومن ساری دنیا کو اپنی کھیتی 31 139 ہے مجھے مومن وسط میں رہتا ہے 140 165 مومن بزدل نہیں ہوتا محبت سے کام میں تاثیر پیدا ہوتی ہے محبت کا بدلہ محبت ہے مرکز بار بار مرکز کو نہ چھوڑو مضبوط مرکز کے بغیر عمدگی سے کام 159 ہے مومن کا آرام موت کے بعد دس تقریریں اتنا اثر نہیں کرتیں 193 جتنا اثر ایک دن اعلیٰ اخلاق کا ن نہیں ہو سکتا مسلمان 243 نصرت الہی نصرت الہی کے حصول کا طریق 65 نو مبا تعین کا تعلق مرکز سے قائم مسلمانوں کو افتراق نے تباہ کیا 245 جب کام خدا کی رضا کے لئے ہو کریں 103 نماز میں پڑھتا تمہیں تقوی حاصل 156 156 31 ہو نمونه 93 نومیا ئعین 332.245

Page 455

12 نو مبائعین کو وقت اور مال کی قربانی دی جائے کی تلقین 331 نو مسلموں سے قومی منافرت دور نو مبائعین کے لئے جامع نصائح 332 کریں نو مبا تعین کو مرکزی معاملات میں شریک کیا جائے نومسلم نو مسلم کی زندگی میں تغیر پیدا کرنے کا وقت , 333 116 واعظ کو ہدایات واعظ 118 119 ہدایات تقریر وتحریر کے بارہ میں ہدایات مبلغ انگلستان کو ہدایات 1 1105 مبلغ نائیجیریا کو ہدایات 101 تا 106 19 ماسٹر محمد دین کو ہدایات 115 تا 127 تبلیغی وفد کو ہدایات نو مسلموں کا مرکز سے تعلق پیدا کرنا 117 تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا آگرہ جانے والے وفد کو 128 1400132 184 228 221 236-235 نو مسلموں پر اخلاق کی پابندی واضح سیکھو 22 ہدایات ہدایات پر عمل کرو کی جائے 117 لندن مشن کو ہدایات نومسلموں میں عاشقانہ ایمان پیدا وقف کریں 118 ہر بیعت کرنے والا واقف زندگی ی نو مسلموں کو تعلیم دینے کا طریق 118 ہے 231.230 یقین نو مسلموں کو قربانیاں کرنے کی تعلیم یقین کی دو اقسام

Page 456

93 141 140 80 الحجر رُبَّمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ (3) بنی اسرائیل رَبِّ ادْخِلْنِي (81) لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ 13 الفاتحة آیات قرآنیہ وَاتَّقُوا اللهَ (2) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ 410,27 221 418 (66) المائدة إِن تُبدَ لَكُمْ (2) 128.27 27 (2) ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ (4) البقرة الم ه ذَلِكَ الْكِتَابُ بَلَغُ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ (68) 59 الشعراء (3.2) 137 فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيُّ (118) 360 (4) ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ الانعام (3) يُقِيمُونَ الصَّلوةَ (4) جَنَّتٍ تَجْرِى (26) 93 13 394 القصص اَكْبِرَ مُجْرِمِيهَا (124) 250 رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَى رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمُ (130) 28 (163) قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي (25) 335 العنكبوت إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى (46) مَتَى نَصْرُ اللَّهِ (215) 46 التوبة 31 آل عمران إحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ (52) 136 وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا (70) 29 قُل إن كُنتُم تُحِبُّونَ ! هُوَ أُذُنٌ (61) 223 | السجدة (32) جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ 339،102 لَوْلَا يَنْههُمُ الرَّبَّا نِيُّونَ الرَّبَّانِيُّونَ أَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ (27) 31 (64) (56) كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (111) 87 18 19 أوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ (28) 31 181 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ( 119 ) 29 الاحزاب رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ كَفَرُ عَنَّا سَيِّاتِنَا (194) 397 (128) (22) 391 النساء يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا ابراهيم لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ 335 166 409 410 لَئِن شَكَرْتُمْ (8) 336،30 (24) (2)

Page 457

14 الذريت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا (50) الحشر يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (19) 29 فَذَكَّر ( 22، 23 ) المزمل النصر 25.24 228 يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ (2 تا 5) 13 يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا الغاشية (3) 184

Page 458

15 1 احادیث ن تم بھی ثواب میں شریک ہو 167 التَّائِبُ مِنَ الذَّنب 30 نُصِرْتُ بالرُّعْبِ 184 اللہ تعالیٰ وتر ہے بَشِرُوا وَلَا تُنفِرُوا 7 وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ 181 مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں 213 224 271 271 327 341 356 372 400 اکٹر کر چلنا اچھا نہیں 260-126 جب انسان ترقی کرتا ہے حدیث پا معنی تے بھائی کوقتل کردیا تو نے 402 ف فَيُرْضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الأرض ل ترتیب بلحاظ صفحات ) سورج مغرب سے نکلے گا لَا يَدَانِ لَاحَدٍ 332 مسجد میں تھوکنا غلطی ہے 77 یہی تو ایمان ہے لَا يَشْقَى جَلِيْسُهُمُ 213 میں دخل نہیں دیتا م مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ 86 اُن کا فتنہ بڑا ہے مکہ پر ایک حبشی حملہ کرے گا 106 اگر کوئی سوار جارہا ہو 122 کسی وادی میں سے نہیں 162 گزرتے جو عہدہ طلب کرے اُسے 166 | مت دو

Page 459

135 74 201 112 خالد بن ولید حضرت خلیل احمد حکیم خوارزم (بادشاہ) 356 16 بلعم باعور اسماء ابراہیم علیہ السلام حضرت 28 ابن بطوطه 205 | پطرس ابن عمر حضرت ابوالکلام آزاد 30 408 ابو بکرہ حضرت 339،323،50 ابوبکر ایوب سیٹھ ابو جهل 384 السٹائے ابوحنیفہ حضرت امام 156 جمال احمد حافظ 419 جمال الدین بابو で 130 333.326 140 ڈینیسن راس سر رد بن سن کر وسو رجب الدین خلیفہ 362 205 92 رحمت علی مولوی حضرت 247، 375 424 جلال الدین شمس حضرت مولانا ابو عبیدہ حضرت ابو قحافہ احسان حقی افتخار احمد پیر امان الله امیرحسین قاضی حضرت انوری (فارسی شاعر ) 307.301-296-243-218 323 376-354-315.314 315 261 آپ پر قاتلانہ حملہ کی تفصیل 420 چ 316 314 385 384 381.376 429 428 424.390 435.431 ان کا انڈونیشیا میں مشہور مباحثہ رستم پہلوان 99797، 257 تا 262 چراغ دین جمونی 433 روشن علی حافظ حضرت 338 حاکم علی چودھری 188 ریاض احمد حاجی ز 317-316 6 1 46 201 بدرالدین ( واقف زندگی ) ان کی حقبل حضرت امام 419 | زار روس طرز خطابت کی تعریف بشارت علی میر 230 3 خ

Page 460

17 295.280-249.165.139 426-387-366-360-309 232.222.221 46 عبدالرحیم در د حضرت 46 | مولوی 432 348-346-344-341 184.76 سر سید سرور شاہ حضرت 356 359،351 ، 368 آپ نے صرف بارہ حواری عبدالرحیم نیر حضرت مولوی پیدا کئے 46.45-22.9.8<2 غ غلام احمد قادیانی علیہ السلام حضرت مرنا.71.65.54.51.50.47 356.50 109-102-99.95<94.92 376 182.172.168.123.118 212-210-202.194.183 238-237-235-232-227 254.250-244-242 240 407.28 280-276-274-266-264 180 296-290-289-282-281 38.5 324.323-320.318.299 34 360-342-339.333.329 330 387.3800377.367.366 404-403-400-392-390 سکندر ش شافعی حضرت امام شیلی شردهانند شوکت علی شیر علی حضرت مولوی 419 408 161 242 عبد السلام میاں عبد القادر پروفیسر 376.355 217.109 201 عبد القادر جیلانی حضرت شیخ 312-258-215 ص عبدالقدیر صوفی عبدالکریم سیالکوٹی حضرت صدر الدین مولوی 78 مولوی 407.261 ض عبد اللطیف شہید حضرت صاحبزادہ ضرار بن از واژه حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ حضرت 180.179.136.135 عبد اللہ قاضی حضرت b عبید اللہ سندھی ل حسین 362 علی حضرت ع عمر حضرت 418.414:410.407 77 17 16 آپ کا توکل 424.138.137.23 110 137 عائشہ حضرت 221.29 عبدالباری فرنگی محل 242 فوت ہوتے وقت کیفیت عبد الرحمان شیخ 129 عمرو بن العاص حضرت عبد الرحمان ماسٹر 99 عیسی علیہ السلام حضرت 121،66 آپ کی نفاست آپ کی کتب کی

Page 461

18 129.110.95.86-68-66 376-188.140 3830381.66 اہمیت 318 143.137 136-134-133 392 180.172.166.165.156.202.194.191.184.181 414-408-394-390-376 224222-221-219-213 274 271.264.250-248-238 فضل الرحمان حکیم حضرت 101 فیروز دین موذن ق آپ کے بیان کردہ واقعات فرزند علی خان 270،76 | فرعون 102 112 121 261 319.304-303-296-285 119.12 335-333-332-330-323 282 365-357.356.341.339 383 416-414.399.383.372 192.147 434-420 آپ کا مجلس میں استغفار کرنا 13 134 کارلائل کرشن حضرت کیسری 378 آپ مستقل رسول نہیں آپ کا انکسار آپ کو پگڑی پسند تھی آپ کا باغ میں قیام آپ کے بیان فرمودہ اصول تفسیر آپ کی قبولیت سے مقناطیسی طاقت پیدا ہوتی ہے آپ کے الہامات دنیا میں ایک نذیر آیا 403،386 کمال الدین خواجہ 323.78 آپ میں کام لینے کی لیاقت تھی 23 گ آپ کو بڑا درجہ ملنے کی وجہ گاندھی 252،241،76 آپ کی ایک آواز کا اثر 23 28 گوش جنرل 427 آپ ہر کام میں دین کا حصہ رکھتے 34 اصل مبلغ آپ ہیں 58 80 86 89 102 433 201 320 180 نَزَلَ بِهِ جَبِيرٌ رویا و کشف زار روس کا سوشا ملنا كشف غلام رسول ریڈر غلام فرید ملک ایم اے 376،335 لائیڈ جارج 302،242 آپ مبلغ اور مبلغ گر تھے لبيد 137 آپ کا تیراندازی میں حصہ آپ لوگوں کے خیموں میں مالک حضرت امام 419 جاتے 221 354 غلام فرید میاں غلام محمد صوفی ف صلى الله فتح محمد سیال چودھری 112 138 محمد رسول اللہ حضرت خاتم الانبیا یا آپ کی اطاعت سے خدا کا قرب 65.59:55:41:24<8<7

Page 462

19 435-4310428-424 سیرت کسری کا آپ کی گرفتاری کا حکم اور اس کا انجام 134 135 محمد صادق حضرت مفتی نفاست کا واقعہ داماد کو جنگ پر جانے سے روکنا 167 | 1 تا 4 ، 34 36 38 ، 133 ، 208 تقریر کے لئے نوٹ لکھنے کا ایک بدو کا آپ کے گلے میں کپڑا ڈال کر کھینچنا 375،214 | طریق 185 محمد ظفر اللہ خان حضرت چودھری آپ کی محبت اور ناراضنگی آپ کا مردم شماری کرانا 202 203 | سر 415،34 جماعت سے محبت تیراندازی میں حصہ 322 محمد عقیل.ان کی تلاوت کی آپ کا پسندیدہ فعل تبلیغ آپ کی پیشگوئی 327 | تعریف محمد احسن امروہی محمد اسحاق حافظ محمد اسماعیل مولوی 284 آپ کی انکساری 77 85 124 126 243 286-285 308 414 محمد علی مولوی 1، 323،242 مدرسہ خواتین سے محبت 3 محمد علی خان حضرت نواب مدرسہ احمدیہ کو قائم رکھتے ہیں 275 250، 335 | کردار محمد الدین ( ماسٹر.مولوی) محمد یوسف خان 326 330 انگریزی سکول کے قیام میں 108 تا 111 ،263،115، 268 ، محمود احمد حضرت مرزا مصلح موعود کردار -283-276-275-272-271 430-376-373.284 محمد امین (مجاہد بخارا ) 221،92،4 کام کرنے والوں کی قدر بچپن اور تعلیم آپ کا عشق قرآن 323 324.323 337 382 میشہ چلانے سے انگلی کٹنا 217 | آپ کا شوق مطالعہ 381 تا 383 204،197،89 آپ کی تعلیم 215،98،97 | کتب مسیح موعود سے عشق 382 ان کا سفر نامہ دلچسپ ہے زمانہ طالب علمی کی یادیں 99 دیگر مذاہب کا مطالعہ 278 تا280 205 206 آپ کے استاد حضرت قاضی امیر حسین آپ کی نصرت الہی کا واقعہ محمد جان میاں نظم کی تعریف 285 صاحب 262 رفقاء حضرت مسیح موعود سے محمد حسین بٹالوی 250 آپ کی تقریر پر حضرت خلیفہ اول والہانہ تعلق محمد حسین شاہ محمد سعید مولوی 83 123 84 کی جرح 337 338 حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی 3 حضرت خلیفہ اول کا آپ کی امریکہ سے آمد پر جذبات 208 تا 211 محمد صادق سماٹری (مولوی) قرآن دانی کا اعتراف 401 آپ کا سفر دمشق 296-295

Page 463

20 <401-400-342-337.324|345 متفرقات محمود اللہ شاہ سید قادیان کے بارہ میں مریم علیہا السلام حضرت 139 ، 165 مشاہدات 387-386 مصباح الدین حضرت مسیح موعود کے بارہ میں مطیع الرحمان بنگالی 422 آپ کا تو کل آپ کے بارہ میں روایت 231،229، 326، 376 آپ کا بیان کردہ واقعہ 414.404 16 41 177 156 روایات 414،407،274،3 آپ کی دعائیں معاویہ حضرت 3890387-104 معتصم باللہ 330،30 | نیوٹن 186 اس نے کشش ثقل کیسے معلوم مبلغین اور احمد یہ مشن کے لئے معراج الدین میاں 92 | کی 232 234 معین الدین چشتی حضرت دعائیں دمشق اور سماٹرا کے مبلغین کے لئے منشی رام لالہ 20 242 317،314 | موسیٰ علیہ السلام حضرت خاص دعا آپ کے رویا 332-201-165-139:46-44 392-364-317.249.80 ن حضرت مفتی محمد صادق کے امریکہ ناصر نواب حضرت میر داخل ہونے کی پیشگوئی 211 نپولین 92 427 بیان کردہ واقعات 35، 112،90 نصر اللہ خان چودھری حضرت 46 نظام الدین سیالکوٹی مستری 217 265-261-260.156.130 بیان کردہ قصے بیان کرد و لطیفه 310-309 نورالدین حضرت حکیم مولوی والٹر 156 82 ولی اللہ شاہ سید حضرت 48،41 تا *297-296-294242.51 308.302 ہارون علیہ السلام حضرت ہنری ی 21، 46،35، 109،78،75 ، یوسف علیہ السلام حضرت 317.316.261.250.227 205-68-67.55.37 355 317 310 434

Page 464

21 مقامات 368.359.354-329-326 426.425.415.398.369 361 آکسفورڈ آگرہ 188 انگلستان کی حکومت سب سے بہتر جاپان آنور 192 ہے 327 جالندھر ایران 134 135 ،188، 204، جاوا ج 226-161 426-425 161 اٹلی *391.388.249.247.75 432.419.418 اسپار (ایک دیہات ) 362-328-292.276 369.232.186.185 192 430-428-426-425-424 425،373 426 جرمنی افریقہ 205،73، 376،355 ، 394،390،388، 406 | بٹالہ افغانستان 392،388،72 بخارا 193 | جموں چ 369.328-319.202.200 148 امرتسر امریکہ 115 ، 126،117، 133 بغداد 194، 200، 201 208 ،210 تا بمبئی 202-201.197.188-187 257 304 377.19 78 425-330-188 187 426 263،214،212 264 265 بنارس 272،268، 277 ، 284 286، بنگال 332330326 بور نیو امریکہ میں سات سو عیسائی مسلمان انڈونیشیا 201 375 پڑانگ انگلستان 232،210،109،5، شاور +302.286 273-269 حجاز 346 حیدر آباد 419 3.1 428.426.425 دمشق 294 تا 315،314،298 221 316 180 راولپنڈی 161 روس 130، 200، 201 202

Page 465

22 420-364-264.106 ✓ 381.351.286-258-243 358 195-189-155 193 232 419 روم س 431،390 | ملکانه سٹریٹ سیٹلمنٹس 426 | قادیان کی اہمیت 386 سماٹرا 247، 316،314،250 ک وڈالہ 199،28 ، 239 | وینس 377،375 ، 387،384، کابل 388 390 391 ، کلکتہ 71 430-428-426424 گ ہسپانیہ سماٹرا کے مبلغ کی قربانی 353 354 گجرات 107 ہندوستان <95.88.44.20 239.227.224.175.109 107 $278.266-265-250:249|62 سیالکوٹ سیلون 211 | گوجرانوالہ 11 گورداسپور ل شام 286،280،235، 298 | لاہور 315-314-308-301.299 424 425 لکھنو 333-330-296-288-287 $417.415-392-388-375 161-71.62:48 431.430.422 426 429378-226-201 274 134 161 10، 221 ،232،228 | یمن 431 | لندن 233، 354 368،362،355 یوپی 201 یورپ 6، 10،7 ، 24 ،36،34 شمله عدن 265 لیگوس عراق 419.302 ماریشس فرانس 329 مدراس قادیان 35،26،2، 104،71 *120-117.112.110.41 $225.212.205.184.155 353-334-326 264.242 263-237-235 74 282:277:276-268-266 416-303-213-134 299-292 289-288-286 424.332-3300327-306-305 286-200-188-155 363-362-359348-343 434.419.418 174.164.117.108.107 227.208.206.183.175

Page 466

186-185 73 یونان 23 369، 427،374،373،371 | یوگنڈا

Page 467

24 24 کتابیات بائبل 42 ریویو آف ريليجنز 362، 370 س الفضل (اخبار) القول الفصل 370.353 انجیل 83،82،42 | توربیت 1 ترک موالات.اس پر تبصرہ 92 ستیارتھ پرکاش 82 محلوة 147 14

Page 467