Zainb Bint Muhammad

Zainb Bint Muhammad

حضرت زینب ؓ بنت محمد ﷺ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی صلى الله بنت محمد علي حضرت زینب رضی اللہ عنہا لجنہ اماء الله

Page 2

بنت محمد عصام الله عام عل وسام حضرت زینب رضی اللہ عنہا

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت زینب بنت حضرت محمد من الله 1 پیارے بچو! حضرت زینب بنت حضرت محمد والا الله حضرت زینب حضرت رسول اللہ علیہ اور حضرت خدیجہ کی سب سے بڑی بیٹی تھیں.آپ ان ماں باپ کی بیٹی تھیں جو ساری دنیا میں سب سے افضل والدین تھے.رسول کریم اللہ کے اس دنیا میں آنے سے پہلے لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے.اگر وہ بیچ بھی جاتیں تو ان کو بالکل پیار نہیں کرتے تھے، نہ ان کو کسی قسم کا انسانی حق دیتے تھے.جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے.رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا.آپ ﷺ نے آ کر عورتوں کو بہت احترام اور عزت دلوائی.آپ علیہ نے بتایا کہ بیٹیاں تو بہت پیاری ہوتی ہیں اور جو اپنی دو یا دو سے زیادہ بیٹیوں کی اچھی تربیت کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ایسے ہوگا جیسے میری یہ دو انگلیاں.حضرت زینب رسول کریم ﷺ کی نبوت سے 10 سال پہلے پیدا ہوئیں یعنی 30 میلا د نبوی میں آپ کی پیدائش ہوئی اس وقت رسول کریم نے کی عمر 10 سال تھی.

Page 5

حضرت زینب بنت حضرت محمد ملاله 2 والد محترم حضرت محمد مال سے آپ کا نسب نامہ اس طرح ہے.حضرت زینب بنت محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی.والدہ محترمہ حضرت خدیجہ الکبری کی طرف سے سلسلہ نسب یوں ہے.حضرت زینب بنت خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی.(1) آپ کی امی حضرت خدیجہ نے حضرت زینب کی بہت اچھی تربیت کی.حضرت خدیجہ بہت سمجھدار، بہت سلیقے والی ، بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون تھیں.رسول کریم ﷺ کی بہت ہی پیاری اور ہمدرد بیوی صلى الله تھیں.ہر دکھ اور تکلیف میں رسول کریم ﷺ کے شانہ بشانہ ان کا ساتھ دیا.پہلی اولا د ہونے کے ناطے حضرت زینب نے ماں باپ کی ڈھیروں خوبیاں اور پیار لیا.حضرت زینب کی شادی بعثت نبوی سے پہلے عربوں کے رواج کے مطابق کم سنی میں ہی ان کے خالہ زاد حضرت ابو العاص بن ربیع سے ہوئی.حضرت ابو العاص حضرت خدیجہ کی حقیقی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے.آپ سب سے بڑی بچی تھیں.قدرتی طور پر حضرت خدیجہ نے پہلی بچی کی شادی کے موقع پر اپنی بساط کے مطابق اپنی سب سے اچھی چیز ایک یمنی ہار جو عقیق کا بنا ہوا تھا.حضرت زینب کے جہیز میں دیا.

Page 6

حضرت زینب بنت حضرت محمد من الله 3 جب رسول کریم عملہ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو حضرت زینب فوراً ایمان لے آئیں.اس وقت ان کے شوہر حضرت ابو العاص تجارت کی غرض سے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے.انہوں نے دورانِ سفر ہی رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بارے میں خبریں سن لیں تھیں.مکہ آکر تصدیق بھی ہو گئی.حضرت زینب نے کہا میں نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ شش و پیچ میں پڑ گئے.انہوں نے کہا، اے زینب کیا تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر میں آپ ﷺ پر ایمان نہ لایا تو پھر کیا ہو گا؟ حضرت زینب نے جواب دیا، میں اپنے صادق اور امین باپ کو کیسے جھٹلا سکتی ہوں ؟ خدا کی قسم وہ بچے ہیں اور پھر میری ماں اور بہنیں اور حضرت علی بن ابو طالب اور ابوبکر اور تمہاری قوم میں عثمان بن عفان اور تمہارے ماموں زاد بھائی زبیر بن العوام بھی ایمان لے آئے ہیں اور میرا خیال نہیں ہے کہ تم میرے باپ کو جھٹلاؤ گے اور ان کی نبوت پر ایمان نہیں لاؤ گے.حضرت ابوالعاص نے کہا مجھے تمہارے والد پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور نہ میں ان کو جھٹلاتا ہوں بلکہ مجھے تو اس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے طریقے پر چلوں لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قوم مجھ پر الزام لگائے گی اور کہے گی کہ میں نے بیوی کی خاطر اپنے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ دیا چنانچہ انہوں نے اسلام قبول نہ کیا.(2)

Page 7

حضرت زینب بنت حضرت محمد مال الله لیکن وہ ایک شریف اور محبت کرنے والے شخص تھے حضور میلہ اکثر ان صلى الله دونوں کے اچھے تعلقات کی تعریف کرتے تھے.صلى الله جوں جوں اسلام کی ترقی ہوتی جا رہی تھی ویسے ویسے مکہ میں مخالفت بھی بڑھتی جا رہی تھی.رسول کریم مے کو تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع کفار اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.کبھی رسول کریم میلے کو جسمانی تکلیفیں دیتے.کبھی پہنی و قلبی پریشانیاں پیدا کرتے تھے.حضور پینے کے دعوی نبوت کے بعد آپ ﷺ کی صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت اُم کلثوم جن کا ابولہب کے دو بیٹوں سے نکاح ہوا تھا.باپ کے کہنے پر طلاق دے دی.(3) قریش کے چند سرداروں نے مل کر حضرت زینب کے شوہر حضرت ابو العاص کو بھی مجبور کیا کہ وہ حضرت زینب کو طلاق دے دیں.ان کی بجائے قریش کی کسی اچھی لڑکی صلى الله سے وہ ان کی شادی کروا دیں گے.تا کہ رسول کریم مے کو تکلیف پہنچے لیکن حضرت ابو العاص کا اپنی بیگم سے بہت پیار و محبت کا سلوک تھا.انہوں نے صاف انکار کر دیا.گو ہجرت مدینہ کے وقت تک انہوں نے اپنا آبائی مذہب ترک نہ کیا تھا پھر بھی رسول کریم ﷺ ان کو اچھا سمجھتے تھے اور ان کی تعریف کیا کرتے تھے.(4) رسول کریم ﷺ نے نبوت کے تیرھویں سال مکہ سے مدینہ

Page 8

حضرت زینب بنت حضرت محمد علی 5 ہجرت فرمائی تو حضرت زینب اپنی سسرال میں تھیں.مدینہ پہنچ کر جب 2 ہجری میں مسلمانوں کا پہلا غزوہ ، غزوہ بدر کفار مکہ سے ہوا تو حضرت ابوالعاص بھی مکہ والوں کی طرف سے مسلمانوں سے لڑے.(5) حضرت زینب مکہ میں ہی تھیں.جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی اور کفار مکہ قیدی بنائے گئے تو ان میں حضرت ابو العاص بھی شامل تھے ان گرفتاریوں کی خبر ملکہ پہنچی تو ان لوگوں کے گھر والوں نے قیدیوں کی رہائی کے لئے فدیہ بھیجا.حضرت زینب نے اپنے دیور کے ہاتھ یمنی عقیق کا ہار جو اُن کی والدہ نے شادی کے موقع پر دیا تھا بطور صلى الله فدیہ دے کر روانہ کیا.حضور علے اس ہار کو دیکھ کر غمزدہ ہو گئے.کیونکہ ان کی پیاری بیوی خدیجہ شعب ابی طالب کے واقعہ کے بعد وفات پا چکی تھیں.وہ ہار دیکھ کر حضور ﷺ کے دل میں حضرت خدیجہ کی یاد الله تازہ ہو گئی اسی لئے آپ ﷺ نے لوگوں کو کہا اگر تم لوگ مناسب خیال کرو تو زینب کے شوہر کو رہا کر دو اور اس کا ہار بھی واپس کر دو.چنانچہ وہ رہا کر دیئے گئے اور ہار بھی واپس کر دیا.چونکہ سب قیدی فدیہ پر چھوڑے گئے تھے اور یہ شانِ نبوت کے خلاف تھا کہ حضرت ابوالعاص صرف آنحضور ﷺ کے داماد ہونے کی حیثیت سے بغیر کسی فدیہ کے چھوڑ دیئے جائیں اس لئے حضرت ابوالعاص کا فدیہ یہ قرار پایا کہ وہ مکہ صلى الله

Page 9

حضرت زینب بنت حضرت محمد من الله 6 پہنچ کر حضرت زینب کو مدینہ بھیج دیں.(6) حضور علی نے حضرت ابو العاص اور حضرت زید بن حارثہؓ جو آپ کے منہ بولے بھائی تھے کو روانہ کیا کہ وہ مدینہ جا کر حضرت زینب کو لے آئیں اور ان کو ہدایت کی کہ وہ مکہ سے باہر بطن یا جج کے مقام پرڈک کر اُن کا انتظار کریں.جب حضرت زینب آجائیں تو ان کو اپنے ہمراہ لے کر مدینہ روانہ ہو جائیں.حضرت ابو العاص نے مدینہ پہنچ کر اپنے چھوٹے بھائی کو کہا کہ وہ حضرت زینب کو چھوڑ آئے.جب سامان سفر تیار ہو گیا تو حضرت زینب اپنے اونٹ پر سوار ہو کر روانہ ہوئیں ساتھ میں ان کے دیور کنانہ بن ربیع بھی تھے.چونکہ کفار مکہ سے خوف تھا کہ کہیں تنگ نہ کریں اس لئے آپ کے دیور نے اپنے ساتھ ترکش اور کمان بھی رکھ لیا.جب یہ روانہ ہوئیں اور بات کفار کو پتہ چلی تو قریش میں کھلبلی مچ گئی اور اہل مکہ ان کے پیچھے نکلے اور مکہ سے باہر ایک جگہ ذی طوئی میں ان دونوں کو گھیر لیا.اس جماعت میں ایک شخص ہبار بن اسود نامی تھا.اس نے اور ایک دوسرے شخص نے نیزہ سے حضرت زینب پر حملہ کیا.وہ کھڑے اونٹ سے زمین پر گر پڑیں اور بہت زور کی چوٹ ان کے پیٹ کے اندر تک لگی ، بہت خون نکلا ، اس پر ان کے دیور نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور کہا اب جو کوئی میرے قریب آئے گا

Page 10

حضرت زینب بنت حضرت محمد علی 7 وہ تیر کھائے گا ، کفار مکہ تھوڑی دیر میں اِدھر اُدھر ہو گئے.ابوسفیان سردار قریش آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ اپنے تیرو کو ہم تم سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں.کنانہ نے اپنے تیر واپس ڈال لئے اور پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس صلى الله نے کہا ہم کومحمد (رسول اللہ علے ) کے ہاتھوں تکلیف ، شکست ، مصیبت، رسوائی اور ذلت ملی ہے اب اگر محمد اللہ کی بیٹی کو اعلانیہ ہمارے سامنے الله لے جاؤ گے تو لوگ ہم کو کمزور اور بزدل کہیں گے ہم کو محمد ﷺ کی بیٹی کو روکنے کی کوئی ضرورت نہیں.ہمارا مقصد یہ ہے کہ ابھی تم واپس چلو.جب ذرا معاملہ ٹھنڈا ہو تو پھر کسی اور وقت لے جانا.کنانہ بن ربیع نے یہ بات منظور کر لی.اور چند دنوں بعد خفیہ طور پر حضرت زید بن حارثہؓ کے سپر د کر دیا جو حضرت زینب کو لے کر مکہ سے روانہ ہو گئے.(7A) حضرت زینب کو اتنی زور کی چوٹ لگی تھی کہ اس کے بعد وہ چند سال زندہ رہیں، جب تک وہ زندہ رہیں اس چوٹ کی وجہ سے بیمارر ہیں.صلى الله جب رسول کریم ﷺ کو اس بات کا پتہ چلا تو حضور ﷺ بہت الله افسردہ ہوئے.آپ ﷺ نے فرمایا :.وو یہ میری سب سے اچھی بچی تھی ، جو میری محبت میں ستائی گئی.“ حضرت ابو العاص حضرت زینب کے مدینہ چلے جانے سے بہت اُداس تھے کیونکہ آپ دونوں کے تعلقات بہت خوشگوار اور پیار و محبت کے

Page 11

حضرت زینب بنت حضرت محمد من الله 8 تھے.وہ ہر وقت مغموم رہتے تھے.ایک مرتبہ شام کے سفر پر گئے اور حضرت زینب بہت یاد آئیں تو انہوں نے یہ پُر در دشعر پڑھے:.” جب میں ارم کے پاس سے گزرا تو زینب کو یاد کیا اور بے ساختہ یہ دعا دی کہ اللہ اس کو تر و تازہ رکھے جو حرم میں سکونت پذیر سے امین ( محمد ملے ) کی لڑکی کو خدا تو نیک جزا دے اور ہر شوہر اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے." تقریبا چھ سال دونوں میاں بیوی کو جدائی کے صدمات سہنے پڑے.(78) حضرت ابو العاص ایک نہایت ایماندار اور کامیاب تاجر تھے.ایک دفعہ اہلِ قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام سے تجارت کر کے واپس آ صلى الله رہے تھے.حضور علی کو قافلے کے گزرنے کا پتہ چلا تو زید بن حارث کو 170 سواروں کے ساتھ ان کے تعاقب کے لئے روانہ کیا.چنانچہ مقام عیص میں مسلمانوں نے مشرکین کو گرفتار کر لیا.لیکن حضرت ابو العاص کو مسلمان پہنچانتے تھے اسی لئے ان کو کسی نے کچھ نہیں کہا.حضرت ابوالعاص نے جب قافلے کا یہ حشر دیکھا تو فوراً مدینہ پہنچے اور حضرت زینب سے پناہ طلب کی.عربوں میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی پناہ دیتا تھا تو پورے قبیلے کا اس کو پناہ دینا سمجھا جاتا تھا.اس وقت آنحضور ﷺ نماز فجر ادا کر رہے تھے.تو حضرت زینب نے بلند آواز

Page 12

حضرت زینب بنت حضرت محمد عل الله صلى الله 9 اللهعهم سے کہا " إني قد أجرت أَبَا العاص “ یعنی میں نے حضرت ابوالعاص کو پناہ میں لے لیا.رسول کریم عمل نماز سے فارغ ہوئے اور یہ بات سنی تو فرمایا ”لوگو! تم نے کچھ سنا !‘ لوگوں نے جواب دیا ہاں ! صلى الله یا رسول اللہ.جب حضور کے گھر تشریف لائے تو حضرت زینب آپ میلہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ الا اللہ حضرت ابو العاص اگر قریب ہیں تو خالہ کے بیٹے ، اگر دور ہیں تو میرے بچوں کے باپ ہیں اس لئے میں نے انہیں پناہ دے دی.(8) اس قافلے کے سربراہ کے طور پر حضرت ابوالعاص تھے ، براہ مہربانی ان کا مال و متاع ان کو واپس کر دیں.رسول کریم ﷺ نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ حضرت ابو العاص میرے رشتہ دار ہیں اگر آپ ان پر احسان کرتے ہوئے ان کا سامان واپس کر دیں گے تو میرے لئے خوشی کا باعث ہوگا ورنہ تمہیں اختیار ہے.سب نے کہا کہ ہم سارا سامان واپس کرتے صلى الله ہیں.رسول کریم میہ نے حضرت زینب سے کہا کہ آپ حضرت ابوالعاص کی خاطر مدارت، عزت و احترام میں کوئی فرق نہ آنے دیں لیکن جب تک وہ اسلام نہ لائیں آپ الگ گھر میں رہیں.الله اس کے بعد حضرت ابوالعاص اپنا مال و اسباب لے کر اپنے بچوں کو پیار کر کے اور ان کی ماں کو الوداع کہہ کر روانہ ہو گئے (9)

Page 13

حضرت زینب بنت حضرت محمدعلم الله 10 مکہ پہنچ کر جس جس کا کوئی حساب کتاب دینا تھا وہ واپس کیا اور ایک روز اہل قریش کو جمع کر کے پوچھا اے اہل قریش ! اب میرے ذمہ کسی کا کوئی مطالبہ تو نہیں.انہوں نے جواب دیا.بے شک اب کوئی مطالبہ نہیں اور خدا تم کو جزائے خیر دے تم ایک باوفا اور کریم النفس شخص ہو.اس پر حضرت ابو العاص نے کہا ”سن لو ! اب میں مسلمان ہوتا ہوں یہ کہہ کر با آواز بلند کلمہ پڑھا اور کہا کہ خدا کی قسم مجھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے سے یہ بات روکے ہوئے تھی کہ تم یہ نہ سمجھو کہ میں تمہارا مال اور پیسے کھا گیا ہوں اس لئے بچنے کے لئے مسلمان ہو گیا ہوں اب جب کہ میں اس بوجھ سے فارغ ہو گیا ہوں تو اب مجھ کو مسلمان ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا.“ اس بات سے حضرت ابو العاص کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا پتہ چلتا ہے کہ وہ سب سے امین شخص کے داماد تھے اور ان سے رشتہ داری کا حق کتنا اچھا نبھاتے تھے.حضرت ابو العاص محرم 7 ہجری کو مسلمان ہوئے اور مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے جب آپ مدینہ پہنچے تو رسول کریم اللہ نے حضرت زینب کو ان کے ساتھ رخصت کر دیا.(10) حضرت زینب اپنے والد محترم حضرت محمد ﷺ اور اپنے میاں

Page 14

حضرت زینب بنت حضرت محمد مال الله 11 صلى الله حضرت ابو العاص سے بہت محبت کرتی تھیں.بہت اچھے کپڑے پہنتی تھیں.حضرت انس جو کہ رسول کریم میے کے خادم تھے انہوں نے آپ کو زرد دھاریوں والی ریشمی چادر اوڑھے دیکھا.حضرت زینب کے دو بچے تھے.بیٹے کا نام علی اور بیٹی کا نام امامہ تھا.علی ہجرت سے قبل مکہ میں پیدا ہوئے.آپ نانا حضور علے کو بہت پیارے تھے.رسول کریم ﷺ نے خود ان کی تربیت کی.فتح مکہ کے روز جب آنحضور میے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ رسول کریم ی ہے کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے.بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ جنگ یرموک جو حضرت عمر کے زمانے میں ہوئی تب تک زندہ رہے اور بعض روایات کہتی ہیں کہ آپ بلوغت سے پہلے ہی انتقال کر گئے.صلى الله حضرت زینب کی بیٹی حضرت امامہ کو رسول کریم علے بہت پیار صلى الله کرتے تھے.وہ ان کی پہلی نواسی تھیں.حضرت امامہ رسول کریم ملے کو اتنی پیاری تھیں کہ وہ آپ کو نماز کے اوقات میں بھی جدا نہ کرتے تھے.نماز پڑھتے وقت شانہ مبارک پر بٹھا لیتے ، جب رکوع و سجود میں جاتے تو اتار دیتے ، جب سر مبارک اٹھاتے تو پھر کندھے پر بٹھا لیتے ، اسی طرح پوری نماز ادا کرتے تھے.یہ بات رسول کریم نے کی بیٹیوں سے پیار کرنے کی انتہا کو ظاہر کرتی ہے.ایک دفعہ کہیں سے تحفہ میں ایک قیمتی ہار

Page 15

حضرت زینب بنت حضرت محمد علم الله 12 آیا.آنحضور کے گھر تشریف لائے اور فرمایا یہ ہار میں اس کو دوں گا جو میرے اہل بیت میں سے مجھ کو بہت زیادہ محبوب ہوگا.سب نے سوچا الله شاید یہ ہار اُم المومنین حضرت عائشہ کو ملے لیکن حضور ﷺ نے وہ ہار حضرت امامہ کے گلے میں پہنا دیا.حضرت فاطمہ ( جو حضرت امامہ کی خالہ تھیں ) کے انتقال کے بعد حضرت فاطمہ کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ کا نکاح حضرت علی سے ہوا.(11) حضرت زینب حضرت ابو العاص کے اسلام لانے کے بعد سال سوا سال تک زندہ رہیں.آپ کی وفات کی وجہ آپ کے پیٹ کا وہی زخم تھا جو ہجرت کرتے وقت لگا تھا.اس طرح سے آپ راہ خدا میں شہید ہونے والوں کے دائرے میں آتی ہیں.8 ہجری کو آپ کا انتقال ہوا صلى الله رسول اکرم ﷺ نے بہار بن اسود کے لئے قتل کی سزا تجویز کی.لیکن فتح مکہ کے موقع پر اس نے معافی مانگی تو رسول کریم اللہ نے اپنی چہیتی بیٹی کے قاتل کو بھی معاف فرما دیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى محمدٍ.حضرت عطیہ ، حضرت اُم ایمن، حضرت سودہ ، حضرت ام سلمیٰ نے آپ کو غسل دیا.جب حضرت زینب کی میت کو غسل دیا جا چکا تو حضور ے کو

Page 16

حضرت زینب بنت حضرت محمد علی 13 اطلاع دی گئی آپ مہ نے اپنا تہہ بند عنایت فرمایا اور ہدایت کی کہ اسے کفن کے اندر پہنا دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.غسل کا طریق بتلاتے ہوئے حضور علیہ نے فرمایا پہلے ہر عضو کو تین بار یا پانچ بار غسل دو اور اس صلى الله کے بعد کافور لگاؤ اور یہ بھی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے ام عطیہ ؟ میری بیٹی کو اچھی طرح کفن میں پہیلینا.اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنانا اور اسے بہترین خوشبوؤں سے معطر کرنا.حضرت زینب نت رسول اللہ ہی اللہ کی نماز جنازہ خود حضور ﷺ نے پڑھائی خود قبر میں اترے اور انہیں جنت البقیع میں سپرد خاک کر دیا گیا.(12) صلى الله آپ ﷺ کے چہرے سے غم اور دکھ کے آثار نظر آتے تھے.رسول کریم ﷺ نے حضرت زینب اور ان کی تکالیف کو یاد کیا تو خدا سے دعا مانگی اے خدا! تو زینب کی مشکلات آسان کر اور اس کی قبر کی تنگی کو کشادگی میں بدل دے.“ صد الله حضرت زینب کے انتقال کے بعد حضرت ابوالعاص بہت افسردہ و مغموم رہنے لگے اور تھوڑے عرصے کے بعد آپ کا بھی انتقال ہو گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللہ تعالیٰ ان نیک و بزرگ ہستیوں کے درجات بلند کرے اور ہم کو ان کے نیک نمونہ پر عمل کرنے کی کرنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)

Page 17

حضرت زینب بنت حضرت محمد من الله 14 حوالہ جات کتاب ازواج مطہرات و صحابیات کے مندرجہ ذیل صفحات سے لئے گئے ہیں.(صفحہ 243) (صفحہ 245) (صفحه 247) (صفحه 247) (صفحه 247) (250-249) (1) (2) (3) (4) (5) (6) (7A) (صفحه 251) (7B) (صفحہ 252) (صفحہ 256) (صفحہ 254) (صفحہ 254) (صفحه 256) (8) (9) (10) (11) (256-255) (12)

Page 18

حضرت زینب (Hadrat Zainab") rdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 974 4

Page 18