Zainab Bint Jahash

Zainab Bint Jahash

حضرت زینب ؓ بن جحش

اُمّ المؤمنین
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صدسالہ خلافت احمدیہ جوہلی أم المؤمنين رضی اللہ حضرت زینب بنت جحش لجنہ اماء الله

Page 2

حضرت زينب بنت جحش

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت زینب 1 حضرت زینب رضی اللہ تعالی عنھا بنت جحش پیارے بچو! جب سے خدا تعالیٰ نے اس دنیا کو بنایا ہے تو اسی وقت سے اللہ تعالی نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے نبیوں کو بھی بھیجنا شروع کر دیا.تا کہ اللہ تعالی کے پیارے نبی اس دنیا کے لوگوں کو نیک کام کرنے سکھائیں سکھا ئیں اور بُرے کاموں سے بچائیں.اور پھر اللہ تعالی نے اپنے پیارے نبیوں کو نیک بخت ہیویاں بھی عطا فرمائیں جو اپنے شوہروں کی رہنمائی میں اللہ کے بنائے ہوئے رستے پر چلتی رہیں.ویسے تو ہر قوم اور ہر مذہب میں کئی مشہور اور نیک بخت عورتیں گزری ہیں لیکن ہمارے مذہب اسلام میں جتنی نیک بخت بیبیاں پیدا ہوئیں اور جس طرح تاریخ میں ان کا ذکر محفوظ ہے اس طرح کسی اور مذہب یا قوم کی عورتوں کا ذکر نہیں ملتا.اگر چہ ہر دور میں مسلمان عورتوں نے مذہبی ، اخلاقی اور معاشرتی کارنامے سرانجام دیئے ہیں مگر ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 5

حضرت زینب 2 نیک بخت بیویوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیٹیوں اور دوسری نیک اور بزرگ صحابیات کی حیثیت ایسی ہے کہ جو آج بھی ہمارے لیے فخر کا باعث ہے.صحابیات ان عورتوں کو کہتے ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی اور پھر آپ پہلے کی باتوں پر عمل کیا اور دین اسلام کو صلى الله پھیلانے میں آپ ﷺ کی مددگار بنیں.ہم نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ نبیوں کی بیویاں بھی نیک اور پاک عورتیں ہوتی ہیں اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کی بیویاں تو بہت ہی زیادہ نیک اور پاک عورتیں تھیں کیونکہ خدا تعالی نے اپنی پیاری اور پاک کتاب قرآن مجید میں خود ان کے نیکی میں بلند مقام کا ذکر کیا ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بُنِسَاءَ النَّبِيِّ نَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ (سورہ الاحزاب :۳۳) یعنی : اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح ہر گز نہیں ہو ( بلکہ تمہارا مقام بہت بلند ہے).ایک اور بات ہم آپ کو بتا ئیں کہ جس طرح نبی مومن لوگوں کا روحانی باپ ہوتا ہے اس طرح نبی کی بیویاں مومن لوگوں کی روحانی مائیں

Page 6

حضرت زینب 3 ہوتی ہیں.اسی لئے انہیں " امہات المؤمنین کہا جاتا ہے یعنی مومنوں کی مائیں.کیونکہ مذہب اسلام نے عورت کو جو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے اور پھر اس کی روشنی میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی جو تربیت کی اُس میں ہماری پیاری اُمہات المؤمنین کا بھی بہت حصہ ہے.وہ اس طرح کہ چونکہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہونے کی حیثیت سے ہر وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتی ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کا علم سیکھتی ہیں اور پھر وہ علم دوسری عورتوں کو سکھاتی ہیں.اور اس وجہ سے خدا تعالیٰ نے ازواج مطہرات یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیویوں کو مومنوں کی مائیں بنادیا اور اپنے پاک کلام میں فرمایا وَازْوَاجَةٌ أُمَّهُتُهُمْ (الاحزاب : - ) اور اس ( حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویاں اُن ( مومن مسلمانوں) کی مائیں ہیں.امہات المؤمنین بہت ہی نیک عور تیں تھیں اور نیک کام کرتی تھیں اگر ہم بھی آج اُن کے نمونہ پر چل کر نیک کام کریں تو ہم دین و دنیا یعنی دونوں جہانوں میں کامیاب ہو سکتے ہیں اور اللہ کے پیارے بندوں میں

Page 7

حضرت زینب شامل ہو سکتے ہیں.4 آج ہم آپ کو اپنے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنھا بنت جحش کے حالات زندگی اور سیرت کے متعلق بتا ئیں گے.حضرت زینب بنت جحش ان خوش نصیب عورتوں میں سے تھیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بننے کا اعلیٰ رتبہ ملا.آپ اُن نیک بخت خواتین میں سے ایک تھیں کہ جن کے ساتھ نکاح کا حکم خود خدا تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا.ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پاک زوجہ کا نام زینب تھا کئیت ( یعنی جس نام سے پکاری جاتی تھیں ) ام احکیم.قبیلہ قریش کے خاندان اسد بن خزیمہ سے تعلق رکھتی تھیں.قریش اُس قبیلہ کا نام ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.یہ قبیلہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا.عربی زبان میں قریش کے ایک معنی اکٹھا کرنے کے ہیں اور چونکہ قصی بن کلاب جو اس قبیلے کا ایک بڑا بزرگ تھا اُس نے قبیلہ قریش کے مختلف خاندانوں کو جمع کر کے مکہ میں آباد کیا تھا.تو اس وجہ سے اس کا نام قریش

Page 8

حضرت زینب 5 رکھا گیا تھا اور یہ قبیلہ قریش عرب کا ایک عزت والا قبیلہ سمجھا جاتا تھا.(1) حضرت زینب کے والد کا نام بخش بن رباب تھا اور والدہ کا نام امیمہ تھا جو حضرت عبدالمطلب کی بیٹی تھیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ستگی پھوپھی تھیں اس طرح سے حضرت زینب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن بھی تھیں.جب ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے خبر پاکر اسلام کا اعلان کیا تو مکہ کے وہی لوگ جو ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو صادق یعنی بچے اور امین یعنی امانتدار کے نام سے پکارتے تھے آپ لے کے سخت دشمن ہو گئے لیکن ان حالات میں بھی خدا کے کچھ نیک بندے ایسے تھے جنہوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو یچ مانا اور آپ ﷺ کی دعوت اسلام کو قبول کر کے اپنے رب کی رضا حاصل کر لی.الله ان ہی بابرکت لوگوں میں عبد اللہ بن جحش ( جو کہ حضرت زینب کے سگے بھائی تھے ) نے اسلام کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ماموں زاد بھائی یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی.ان کے ساتھ ہی ان کے خاندان نے بھی اسلام قبول کر لیا.جن میں ان کی بہن

Page 9

حضرت زینب 6 زینب بنت جحش بھی ایمان لاکر السابقون الاَوَّلُونَ (پہلے ایمان لانے والے لوگوں ) میں شامل ہو گئیں.تاریخ کی کتب میں لکھا ہے کہ آپ كَانَتْ قَدِيمَةُ الْإِسْلَام تھیں ( یعنی اول دور میں اسلام لانے والی خاتون تھیں ).(2) الم المؤمنین حضرت زینب بنت جحش ایسی نیک اور بزرگ ہستی تھیں کہ اُن کے اندر نیکی کے بہت سے پہلو جمع تھے.آپ کو سب سے بڑی فضیلت اور شرف تو یہی حاصل تھا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ افضل شخص حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے ماموں زاد اور شوہر تھے.حضرت زینب کے ایک بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش وہ خوش نصیب انسان تھے جن کے ہاتھ سے سب سے پہلے اسلام کا جھنڈا لہرایا گیا.پھر آپ کے دوسرے بھائی ابو احمد بن جحش اسلام کے نامور شاعروں میں شمار ہوتے تھے.پھر حضرت زینب کی بہن حضرت حمنہ بھی اسلام قبول کرنے والے پہلے لوگوں میں شامل تھیں حضرت زینب کی والدہ محترمہ امیمہ بنت عبد المطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی تھیں.

Page 10

حضرت زینب 7 جب شروع شروع میں مکہ کے نیک صفت لوگوں نے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اسلام کو قبول کر لیا اور خدا تعالی کی رضا اور خوشنودی کو پانے کے لئے دن رات خدا تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں پر عمل کرنے لگے یعنی بُرے کاموں کو چھوڑ کر ہر نیک کام کرنے لگے اور پانچ وقت کی نمازیں پڑھنے لگ گئے ، قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگ گئے ، جھوٹ کو چھوڑ کر سچ بولنے لگے ،شراب پینا چھوڑ دی ، جو اکھیلنا چھوڑ دیا ، لغو گانے گانے اور سننے چھوڑ دیئے اور ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھ کر نیک باتیں سننے اور کرنے لگ گئے.مکہ کے لوگ جو جھوں کی پوجا کرتے تھے اور ایک خدا کو نہیں مانتے تھے اور دنیا کی ہر برائی کو وہ اپنے لئے جائز سمجھتے تھے ان کو مسلمانوں کی یہ بات پسند نہ آئی کہ وہ اپنے باپ دادا کی جاری کردہ رسمیں اور بُرائیاں چھوڑ دیں.مکہ کے کافروں کے سرداروں نے اس میں اپنی بے عزتی محسوس کی کہ لوگ اُن کی بات نہ مانیں بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانیں.لیکن چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی قریش کے ایک سردار کے ہی بیٹے اور پوتے تھے اس لئے سردارانِ ملکہ شروع شروع میں الله آپ ﷺ کو زیادہ تنگ نہیں کرتے تھے.لیکن آپ میے کے ماننے والوں کو

Page 11

حضرت زینب 8 انہوں نے خوب ستانا شروع کر دیا ، اور بعض اوقات تو غریب مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کرتے.یہاں تک کہ کسی غریب مسلمان کو چھپتی ریت پر گھسیٹا جاتا اور کبھی کسی کمزور مسلمان کو چٹائی میں لپیٹ کر دُھواں دیا جا تا کہ بندے کا سانس ہی گھٹ کر بند ہو جائے.اسی طرح اور بھی بہت سے مظالم تھے جو وہ ان کمزور اور غریب مسلمانوں پر کرتے تھے.جب مسلمانوں پر ظلم بہت بڑھ گئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی.ہجرت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شہر، کسی گاؤں یا کسی بستی میں کسی کو سکھ نہ ملے اور بندہ ہر وقت پریشان رہنے لگے یہاں تک کہ خدا کی عبادت بھی سکون سے نہ کر سکے تو ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے مومنوں کو یہ آسانی دے رکھی ہے کہ ایسے حالات میں وہ کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں ان کو سکون ملے اور وہ آسانی سے خدا کی عبادت کر سکیں.الغرض جب مکہ میں قریش نے بہت زیادہ ظلم مسلمانوں پر کرنے رظلموں شروع کر دیئے تو حضرت زینب کا خاندان بھی مکہ کے کافروں کے کا شکار ہونے لگا.اس وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پھوپھی زاد بہن بھائیوں سے فرمایا کہ وہ لوگ حبشہ ہجرت کر جائیں.حبشہ ملک کا

Page 12

حضرت زینب 9 نام ہے، جس کا بادشاہ نجاشی ایک رحم دل انسان تھا.اُن سے پہلے بھی پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم چند مسلمانوں کو حبشہ کی طرف بھیج چکے تھے چنانچہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ کی طرف جانے لگا تو حضرت زینب اپنے سارے خاندان کے ساتھ اپنے بھائی عبد اللہ بن جحش کی سرکردگی میں حبشہ کی طرف ہجرت کر گئیں.اس ہجرت میں حضرت زنیب کے تین بھائی ابواحمد، عبید اللہ، عبد الله بن حمنہ اور عبید اللہ کی بیوی ام حبیبہ بنت ابو سلیمان بھی شامل تھیں.حبشہ میں رہائش کے دوران حضرت زینب کے ایک بھائی عبید اللہ و ہیں فوت ہو گئے.اس دوران سب نے سُنا کہ اب مکہ کے حالات بہتر ہوگئے ہیں اس لئے اب واپس مکہ چلنا چاہئے.دوسرے ملک میں یا دوسرے کے گھر میں چاہے کتنی ہی سہولتیں ہوں.پھر بھی اپنا ملک اور اپنا گھر ہی سب کو اچھا لگتا ہے چنانچہ مکہ سے جو لوگ ہجرت کر کے حبشہ گئے تھے انہیں اپنے وطن کی یاد ہر وقت ستاتی تھی اور وہ اپنے گھروں کو واپس جانے کے لئے بے چین رہتے تھے.اس لئے جو نہی انہوں نے سُنا کہ اب مکہ میں حالات بہتر ہیں تو حضرت عبداللہ بن جحش اپنے خاندان کو لے کر واپس مکہ آگئے لیکن واپس آ کر انہیں یہ دیکھ کر

Page 13

حضرت زینب 10 بہت دُکھ اور مایوسی ہوئی کہ مکہ کے حالات میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی.اُس وقت آج کل کی طرح کی سہولیات تو نہیں تھیں کہ فون پر ساری خبر میں لے لیں یا پھر ٹی.وی پر ساری دنیا کی خبر میں دیکھ لیں.بلکہ بڑے مشکل حالات اور مشکل سفر ہوتے تھے.لوگ پیدل یا اونٹوں پر سفر کرتے تھے اور اس طرح تھوڑا سا فاصلہ بھی طے کرنے کے لئے کئی کئی دن لگ جاتے تھے اور بعض اوقات صحیح خبریں بھی نہیں پہنچتی تھیں.چنانچہ جب حضرت عبداللہ بن جحش نے یہ دیکھا کہ مکہ کے حالات تو پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کے لئے اب اس شہر میں رہنا ممکن نہیں تو انہوں نے پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے اپنے سارے خاندان کو ساتھ لیا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے.وہاں کے جن لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا انہوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تھی کہ ہمارے شہر میں امن ہے اس لئے آپ ﷺ اور آپ لے کے ماننے والے مومن مسلمان مدینہ آجائیں تو سکون سے رہیں گے.جب حضرت زینب کے بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش اپنے سارے خاندان کے ساتھ مدینہ پہنچے تو مدینہ کے ایک مخلص مسلمان حضرت

Page 14

حضرت زینب 11 عاصم بن ثابت بن ابی اصلح انصاری نے ان کے سارے خاندان کو اپنا مہمان بنایا اور جب پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے ان دونوں کے درمیان انکوات" یعنی بھائی چارے کا رشتہ الله قائم کر کے ان کو بھائی بھائی بنا دیا.مذہب اسلام نے جہاں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کرنے اور ہر برائی سے بچنے کی تاکید کی ہے وہاں اسلام کا ایک اور بھی بہت بڑا مقصد تھا اور وہ یہ تھا کہ اُس وقت لوگوں کے درمیان جو جاہلیت کے زمانے کی باتیں اور رسمیں تھیں ان کو بھی ختم کرنا چاہیے.مثلاً اُس وقت لوگوں میں غریبی ، امیری، ذات پات، رنگ ونسل اور خاندانوں کی اور بیچ بیچ کی بڑی اہمیت تھی.لیکن جب ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے آ کر لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلایا اور نیکی اور بدی کا فرق سمجھایا اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنقُكُمُ (الحجرات : ۱۴) یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت دار وہ ہے جو متقی ہے.منتقی" کا مطلب ہے پر ہیز گار اور پر ہیز گار کا مطلب ہے خدا تعالی سے ڈرنے والا اور خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والا.یعنی بند و وہ کام

Page 15

حضرت زینب 12 کرے جس کے کرنے کا اللہ تعالی حکم دے اور اُس کام سے رُک جائے جس کام کو کرنے سے خدا تعالیٰ منع کرے گویا ہر نیک کام کرنے والا اور بُرے کام کو چھوڑنے والا متقی کہلائے گا.ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے تقویٰ کے لحاظ سے لوگوں کے درمیان عملی طور پر برابری کا رشتہ قائم کرنے کا سوچا اور پھر عمل کر کے دکھلایا بھی.اس زمانے میں عرب میں غلام رکھنے کا رواج بہت تھا جس طرح ہم لوگ گھروں میں نو کر کام کے لئے رکھ لیتے ہیں اور انہیں تنخواہ بھی دیتے ہیں اور کھانا بھی ،مگر وہ اپنی مرضی کا مالک ہوتا ہے جس دن دل چاہے کام کرتا ہے دل نہ چاہے تو نہیں کرتا.لیکن اُس زمانے میں امیر لوگ غلام خرید لیتے تھے.غریب لوگ اپنے بچوں کو پیسوں کی خاطر بیچ دیتے تھے اور پھر وہ ساری زندگی اپنے خریدار کے غلام بن جاتے تھے.انہیں کوئی تنخواہ نہیں ملتی تھی.صرف روٹی ، کپڑا تھوڑا بہت مل جاتا تھا اور اگر ان کی اپنی مرضی نہ بھی ہو تب بھی انہیں اپنے مالک کا کام کرنا ہوتا تھا.لیکن ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ فرماتے تھے کہ تمام انسان اللہ کی مخلوق

Page 16

حضرت زینب 13 ہیں کسی کو کسی پر کوئی بڑائی یا فوقیت حاصل نہیں ہاں اللہ کے حکم سے بڑائی نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے ہے.یہی وجہ تھی کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت خدیجہ نے شادی کے بعد اپنا سارا مال اور اپنے سارے غلام تحفتةً دے دیئے تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا تمام غلاموں کو آزاد کر دیا.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی منشاء کے مطابق یہ غلام و آقا والا فرق ختم کیا.اس پر عمل کرنے کے لئے سب سے پہلے آپ ﷺ نے اپنے ہی گھرانے اور خاندان کو منتخب کیا.چنانچہ تقویٰ کو بنیاد بناتے ہوئے آپ ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش کو اپنے چہیتے غلام حضرت زید سے نکاح کا پیغام دیا.حضرت زیڈ پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ غلام تھے جن کو حضرت خدیجہ نے خرید کر اپنے شوہر نامدار سرور دو جہاں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تحفتہ پیش کیا تھا اور پھر حضرت زید بن حارثہ اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے حُسنِ سلوک سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ ﷺ سے بے حد پیار کرنے لگے.اور یہ

Page 17

حضرت زینب 14 پیار اس قدر بڑھ گیا کہ جب حضرت زید کے والد اور چچا اُن کو واپس لینے کے لئے آئے تو انہوں نے اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے الگ ہونا گوارہ نہ کیا اور اپنے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا.پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم حضرت زید کی اس محبت سے اس قدرخوش ہوئے کہ اس وقت کے دستور کے مطابق آپ ﷺ نے حضرت زیڈ کو کھوٹی ، یعنی منہ بولا بیٹا بنا لیا.یہ وہی زید بن حارثہ تھے جن کے ساتھ نکاح کا پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش کو دیا تھا.لیکن حضرت زینب کو بعض وجوہات سے یہ رشتہ پسند نہیں تھا کیونکہ بہر حال آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تھیں اور دینی و دنیاوی لحاظ سے بھی آپ کے خاندان کو اعلیٰ مقام حاصل تھا کیونکہ حضرت زینب ایک بزرگ اور باعزت بنو ہاشم کے خاندان سے تھیں جن کو خانہ کعبہ کی تولیت بھی حاصل تھی.خانہ کعبہ کی تولیت کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے نظام کی ساری ذمہ داری جو خاندان سنبھالتا ہے اس کو متوتی کہا جاتا تھا.خاص طور پر حج کے دنوں میں حاجیوں کو پانی پلانا ، ان کو کھانا کھلانا اور اس کے علاوہ خانہ

Page 18

حضرت زینب 15 کعبہ کی حفاظت اور صفائی ستھرائی کے کاموں کا ذمہ بھی متولی خاندان کا ہوتا تھا ( اور خانہ کعبہ کا متولی ہونا بڑا فخر کا باعث سمجھا جاتا تھا) جب تک حضرت اسماعیل علیہ السلام زندہ رہے وہ خود کعبہ کے متولی تھے اور پھر ان کے بعد ان کے بیٹے متوتی ہوئے اور پھر مختلف خاندانوں سے ہوتے ہوتے ایک لمبے عرصے کے بعد دوبارہ خانہ کعبہ کی تولیت قصی بن کلاب کے پاس آگئی جو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے تھے اور یہ قصی بن کلاب ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا کے دادا تھے.خانہ کعبہ کی اس تو لیت کی وجہ سے ہی قریش عزت والا قبیلہ مانا جاتا تھا.حضرت زید ایک آزاد کردہ غلام تھے اس لئے حضرت زینب نے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا.لَا أَرْضَاهُ لِنَفْسِي (3) کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرانفس اس بات پر راضی نہیں ہوتا.لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس نکاح میں بہتری سمجھتے تھے اور حقیقت میں اس نکاح سے آقا و غلام کا فرق مٹا کر اسلامی برابری کی تعلیم کی شروعات کرنا چاہتے تھے.حضرت زینب کو پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کا بہت احترام تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے رسول

Page 19

حضرت زینب 16 صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے یہ آیت نازل کر دی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ :.وو 66 اور کسی مومن مرد یا مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ جب اللہ اور اس کا (رسول صلی اللہ علیہ وسلم ) کسی معاملہ میں کوئی فیصلہ کر دیں تو وہ (پھر بھی ) اپنے معاملے کا اپنی مرضی سے فیصلہ کریں اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کرتا ہے وہ کھلی کھلی گمراہی میں پڑ جاتا ہے.( الاحزاب :۳۷) جب حضرت زینب نے خدا کا یہ حکم سنا تو ان کو تو اب صرف اور صرف خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کی تمنا تھی اور ان کو اپنی خواہش سے زیادہ خدا اور محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پیاری تھی.چنانچہ آپ نے رضا مندی ظاہر کر دی اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کا نکاح حضرت زیڈ سے کر دیا.حضرت زینب با وجود اس کے کہ وہ اس رشتہ کو پسند نہیں کرتی تھیں اور صرف اور صرف اپنے رب کی رضا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر ان سے شادی کر لی تھی اور پوری دیانتداری سے اُس کو نبھانے کی کوشش بھی کر رہی تھیں لیکن دونوں کے مزاج اور

Page 20

حضرت زینب 17 طبیعت میں بہت فرق تھا اور اس مزاج کے مختلف ہونے کی وجہ سے آئے دن دونوں میں اختلافات ہونے لگے.یہاں تک کہ حضرت زید نے محسوس صلى الله کیا کہ اب ان کا اکٹھے گزارہ نہیں ہوسکتا تو انہوں نے پیارے آقا سے جا کر طلاق کی اجازت مانگی لیکن پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو نبھانے اور طلاق نہ دینے کا مشورہ دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کی وجہ یہ تھی کہ اول تو اصولاً آپ طلاق کو نا پسند فرماتے تھے.چنانچہ ایک موقع پر فرمایا.ساری حلال چیزوں میں سے طلاق خدا تعالیٰ کو زیادہ نا پسند وو ہے.‘ (4) مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو تقوی کی نصیحت کر کے طلاق دینے سے منع فرمایا اور آپ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کے سامنے سر جھکا کر گھر واپس آگئے.مگر اکھڑی ہوئی طبیعتوں کا ملنا مشکل تھا اور جو بات نہ بنی تھی نہ بنی اور کچھ عرصہ کے بعد حضرت زید نے طلاق دے دی.(5) طلاق کے بعد جب حضرت زینب کی عدت ختم ہو چکی تو اُن کی شادی کے متعلق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر وحی نازل ہوئی کہ آپ کے

Page 21

حضرت زینب 18 انہیں خود اپنے عقد یعنی نکاح میں لے لیں.اور اس خدائی حکم میں تین حکمتیں تھیں.ایک تو یہ کہ اس طرح حضرت زینب کی دلداری ہو جائے گی اور دوسری یہ کہ طلاق یافتہ عورتوں کے ساتھ شادی کرنا مسلمانوں میں بُرا نہ سمجھا جائے گا.اور تیسری حکمت یہ تھی کہ اگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ بیوی سے شادی کر لیں گے تو اس بات کا مسلمانوں میں عملی اثر ہو گا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور نہ اس پر حقیقی بیٹوں والے احکام جاری ہوتے ہیں.اور پھر اس کی وضاحت خود اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں اس طرح کر دی فرمایا:.نہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ تھے نہ ہیں نہ ہوں گے.لیکن اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النعیقین ہیں.“ 66 (الاحزاب : ۴۱ ) گویا خدا تعالیٰ نے یہ وضاحت کر دی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حقیقی بیٹا نہیں اور حضرت زیڈ چونکہ منہ بولے بیٹے ہیں اس لئے ان کو حقیقی بیٹے والی حیثیت حاصل نہیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے عرب کی جاہلانہ رسم کو پورے طور پر مٹانے کے لئے فرمایا:.

Page 22

حضرت زینب وو 19 جب زید نے زینب سے قطع تعلق کر لیا تو ہم نے زینب کی شادی تیرے ساتھ کر دی تا کہ مؤمنوں کے لئے اپنے منہ بولے بیٹوں کی طلاق یافتہ بیویوں کے ساتھ شادی کرنے میں کوئی روک نہ رہے بعد اس کے کہ وہ منہ بولے بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ تعلق توڑ لیں اور خدا کا یہ حکم اسی طرح پورا ہونا تھا.‘ ( الاحزاب : ۳۸) ( ترجمه از سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے) الغرض اس خدائی وحی کے نازل ہونے کے بعد جس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی خواہش اور خیال کا قطعاً کوئی دخل نہیں تھا پﷺ نے زینب کے ساتھ شادی کا فیصلہ فرمایا اور پھر زیڈ کے ہاتھ ہی زینب کو شادی کا پیغام بھیجا.(6) چنانچہ جب حضرت زیڈ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام حضرت زینب کو دیا تو آپ نے جواب دیا کہ میں بغیر استخارہ کئے کوئی رائے قائم نہیں کرتی.اور پھر استخارہ میں تسلی ہونے کے بعد ہاں کر دی.حضرت زینب کی یہ شادی ۵ ہجری کو ان کے بھائی ابو احمد بن جحش نے کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 400 درہم اُن کا مہر باندھا اور اس طرح یہ نیک بخت خاتون پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم میں داخل

Page 23

حضرت زینب ہوکر " ام المؤمنین کا لقب پا گئیں.20 20 شادی کے دوسرے دن پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے ولیمہ کا اہتمام کیا.اس ویسے میں روٹی سالن کا انتظام تھا.انصار میں حضرت ام سلیم نے جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ میں خالہ تھیں اور حضرت انسخ کی والدہ تھیں انہوں نے مالید و ( ایک خاص قسم کا حلوہ ) بھیجا تھا.غرض سب چیزیں جمع ہو گئیں تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس کو لوگوں کو بلانے کے لئے بھیجا.300 آدمیوں نے دعوت ولیمہ میں شرکت کی.کھانے کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس دس آدمیوں کی ٹولیاں کر دی تھیں.لوگ باری باری آتے اور کھانا کھا کر واپس جاتے تھے.اس دعوت ولیمہ کے موقع پر ہی اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیات نازل کیں.اور اس کی وجہ یہ بنی تھی کہ لوگ ویسے کا کھانا کھا کر وہیں بیٹھ کر ادھر اُدھر کی باتوں میں لگ گئے اور کسی کو اُٹھنے کا خیال ہی نہ آیا اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم مروت میں انہیں اُٹھنے کے لئے نہیں کہتے تھے اور بار بار اندر آتے اور باہر جاتے.اسی مکان میں حضرت زینب بھی دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھی تھیں.جب بہت دیر ہو گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم

Page 24

حضرت زینب 21 کو بہت تکلیف ہوئی تو اس پر اللہ تعالیٰ نے پردہ کی آیات نازل کرتے ہوئے فرمایا:.اے مومنو! نبی کے گھروں میں سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے بلایا جائے ، ہرگز داخل نہ ہوا کرو.وہ بھی اس شرط سے کہ کھانا پکنے کے انتظار میں نہ بیٹھے رہا کرو اور نہ باتیں کرنے کے شوق میں بیٹھے رہا کرو.ہاں جب تم کو بلا یا جائے تو پھر ضرور چلے جایا کرو.یہ امر ( یعنی بے فائدہ بیٹھے رہنا یا پہلے آ جانا ) نبی کو تکلیف دیتا تھا مگر وہ ( تمہارے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ) تم کو منع کرنے سے حیا کرتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کچی بات بیان کرنے سے (لوگوں کے خیالات کی وجہ سے ) باز نہیں رہتا اور چاہیئے کہ جب تم ان (یعنی نبی کی بیویوں) سے کوئی گھر کی چیز مانگو پردے کے پیچھے سے مانگا کرو.یہ بات تمہارے دلوں اور ان کے لئے بہت اچھی ہے.“ (الاحزاب :۵۴) اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روازے پر پردہ لٹکا دیا اور لوگوں کو گھر کے اندر آنا منع ہو گیا.یہ واقعہ ہجرت کے پانچویں سال کا ہے.(7)

Page 25

حضرت زینب 22 پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر نیکی کا گہوارہ تھے.آپ منہ کی بیویاں آپ ماننے کی رفاقت پر ناز کیا کرتی تھیں اور آنحضور میا نے سے کچی اور بے پناہ محبت کیا کرتی تھیں ان کے اخلاق حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت آکر اور زیادہ اچھے ہو گئے تھے اور ان کی روحانیت بھی اور زیادہ بڑھ گئی تھی.حضرت زینب بھی اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتی تھیں اور اس بات پر فخر کرتی تھیں کہ اللہ نے ان کو آسمان سے الله آپ ﷺ کی زوجیت میں دیا ہے.(8) جس طرح حضرت زینب کو اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ محبت تھی تو پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی اُم المؤمنین حضرت زینب کا بڑا بلند مرتبہ تھا.اور ان کی بڑی قدرومنزلت تھی.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کے مجرے میں نمازیں بھی ادا فرمایا کرتے تھے اور یہ ایک بہت بڑی برکت تھی جو حضرت زینب کو حاصل تھی.اس کے علاوہ پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپ سے روزانہ عصر کی نماز ادا کرنے کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے

Page 26

حضرت زینب 23 تمام ازواج کے پاس تشریف لے جاتے اور دلجوئی کے لئے اُن سے گفتگو فرماتے.حضرت زینب کو یہ شرف حاصل تھا کہ پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے گھر میں جاتے کچھ دیر ٹھہر تے تو آپ کے ہاں سے شہد بھی نوش فرمایا کرتے تھے.(9) پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح آپ ﷺ کی تمام بیویاں بھی بہت سادہ زندگی بسر کرتی تھیں.اُم المومنین حضرت زینب بھی دنیا کی رنگینیوں ، مال و دولت یا کسی اور چیز کا شوق نہیں رکھتی تھیں بلکہ وہ اپنے ہاتھ سے کام کرتی تھیں اپنے ہاتھ سے ریشم کا اون بنا کر بچتی تھیں اور ساری آمدنی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتی تھیں.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کو اپنے لئے خوش قسمتی کا باعث سمجھتیں اور بہت ہی زیادہ محبت سے اور شوق سے آپ ﷺ کی خدمت میں لگی رہتیں.الم المؤمنین حضرت زینب تقوی و پاکیزگی اور پرہیز گاری میں اعلیٰ مقام رکھتی تھیں.دل کی بہت بھی تھیں.اور خود محنت کر کے جو مال

Page 27

حضرت زینب 24 کما تیں اُسے کھلے دل سے غریبوں اور مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے پر خرچ کر دیتیں.وہ مال خرچ کرنے میں جلدی کرتیں.اور اپنی ضروریات کی بالکل پرواہ نہ کرتیں.حضرت زینب کی دریا دلی اور سخاوت کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کسی نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا.یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم الله صلى الله میں سے سب سے پہلے کون وفات پا کر آپ ﷺ سے جا ملے گی آپ ملے نے ارشاد فرمایا:.66 تم میں سے جو سب سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے.(10) پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا لمبے ہاتھوں والی کہنے سے مطلب یہ تھا کہ جو غریبوں کی زیادہ مدد کرتی ہوگی اور اپنا مال سب بیویوں سے زیادہ اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتی ہوگی.لیکن ہوا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو نہ سمجھ سکیں حضو ر ہی ہے کی وفات کے بعد تمام ازواج کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اس قدر شوق تھا کہ موت کی کسی کو ہرگز کوئی پرواہ نہ تھی اور ہر ایک بیوی یہ چاہتی تھی کہ وہ اپنے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر سب سے پہلے ملے.

Page 28

حضرت زینب 25 چنانچہ ایک روایت ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ سردار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب ہم ازواج آپس میں کسی کے گھر پر جمع ہوتیں تو دیوار پر ہم اپنے ہاتھ خوب کھینچ کر رکھتیں اور 66 نا پا کرتیں تھیں.اس سے ہمیں انداز و ہوا کہ حضرت سودہ ہم میں سب سے زیادہ لمبی ہیں لہذا ان ہی کے ہاتھ بھی سب سے زیادہ لیے تھے.“ ام المؤمنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے حضرت سیدہ زینب بنت جحش کا انتقال ہوا تو اس وقت ہم نے سمجھا کہ لمبے ہاتھوں سے مُراد صدقہ و خیرات اور فیاضی تھی.جسمانی ڈیل ڈول نہ تھا.کیونکہ حضرت سیدہ زینب بہت دھان پان اور چھوٹے قد کی تھیں.66 حضرت زینب ایک دستکار تھیں اور اپنی محنت سے کما کر بے حد صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں.(11) ائم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ "زینب" سے بڑھ کر کوئی عورت میں نے نہیں دیکھی جو اپنی جان کو محنت میں کھپا کر مال کماتی اور صدقہ کر دیتی ہو اور اس کے ذریعہ سے اللہ کا قرب حاصل کرتی ہو.“ پھر حضرت عائشہ صدیقہ آپ کے صدق و صفا اور حق گوئی

Page 29

حضرت زینب 26 (سچ بولنے کی عادت) کی بہت معترف تھیں کیونکہ ایک موقعہ پر ( واقعہ افک ) پر جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب سے حضرت عائشہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے صاف لفظوں میں کہا کہ "یا رسول اللہ ﷺ خدا کی قسم.میں عائشہ کے متعلق سوائے خیر ! و اور بھلائی کے کچھ نہیں جانتی.“ (12) حضرت زینب کو معلوم تھا کہ حضرت عائشہ میری سوکن ( یعنی اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہیں اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ حضرت عائشہ آپ ﷺ کو سب سے زیادہ پیاری ہیں.آپ چاہتیں تو اُس وقت کوئی کلمہ ایسا کہہ گزرتیں جو حضرت عائشہ صدیقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں میں گرانے کا سبب بن سکتا تھا لیکن ان کے صدق و تقوی نے اس کی بھی اجازت نہ دی کہ خاموشی اپنا لیں.بلکہ پختہ یقین کے ساتھ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم میں تو حضرت عائشہ میں خیر و خوبی اور بھلائی کے سوا کچھ نہیں جانتی.“ حضرت زینب نہایت قناعت پسند اور فیاض ( کھلے دل سے صدقہ خیرات کرنے والی ) تھیں.اپنے محبوب خاوند کی طرح یتیموں اور بیواؤں کی خدمت میں راحت ( آرام وسکون ) پاتی تھیں.آپ کی وفات پر

Page 30

حضرت زینب 27 مدینہ کے فقراء و مساکین میں سخت بے چینی پھیل گئی جس کا اظہار ہی پھیل گی جس کا اظہار حضرت عائشہ نے یوں فرمایا کہ:.وو وہ نیک بخت بے مثل خاتون چلی گئیں اور یتیموں اور بیواؤں کو بے چین کر گئیں." (13) حضرت عائشہ کو حضرت زینب کی وفات کا بے حد صدمہ ہوا.آپ حضرت زینب کے اوصاف یوں بیان کرتی ہیں کہ :.میں نے کوئی عورت زینب سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیز گار، زیادہ راست گفتار ( ہمیشہ سچ بولنے والی ) ، زیادہ فیاض ( کھلے دل سے غریبوں کی مدد کرنے والی ) مخیر ( بہت خیرات کرنے والی ) اور خدا کی رضا جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی.فقط مزاج میں ذرا تیزی تھی جس پر ان کو بہت جلد ندامت ( شرمندگی ) بھی ہوتی تھی." (14) حضرت عائشہ سے ہی ایک روایت ملتی ہے جس میں آپ فرماتی ہیں:.اللہ زینب بنت جحش پر رحم کرے.واقعی ان کو دنیا میں بے نظیر مرتبہ حاصل ہوا.اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کو بیاہ دیا اور اُن کے سبب سے قرآن کی بعض آیتیں اُتریں.(15)

Page 31

حضرت زینب 28 حضرت ام سلمی آپ کی تعریف میں فرماتی ہیں:.كَانَتْ صَالِحَةٌ، صَوَّامَةٌ، قَوَّامَةٌ (16) یعنی حضرت زینب بہت نیک خُو.روزہ دار اور بڑی عبادت گزار تھیں.(17) حضرت زینب بنت جحش عبادت میں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ مصروف رہتی تھیں نیز اپنے جسم اور نفس کو تکلیف میں ڈال کر بھی عبادت کرتی رہتی تھیں.یہاں تک کہ اپنی عبادت کی جگہ ایک رسی لٹکائی ہوئی تھی اور آپ جب عبادت کرتے کرتے تھک جاتیں تو اُس کا سہارا لے لیتیں.لیکن الله جب پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کو اس رسی کا علم ہوا تو آپ نے نے تھک کر عبادت کرتے رہنے اور سہارا لے کر عبادت کرنے سے منع فرمایا.( 18 ) لیکن پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کی عبادت گزاری کے معترف بھی تھے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک آپ سے بے حد مشفقانہ تھا.اس کا اظہار آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر بھی کیا.حافظ ابن حجر نے اصابہ میں لکھا ہے کہ:.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کی ایک جماعت

Page 32

حضرت زینب 29 29 میں مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے.حضرت زینب بھی اس موقع پر موجود تھیں.انہوں نے کوئی ایسی بات کہی جو حضرت عمر کو نا گوار گزری تو انہوں نے ذرا تلخ لہجے میں حضرت زینب کو دخل دینے سے منع کیا تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا:.ل الله دعُمر ان سے کچھ نہ کہو یہ آواۃ ہیں‘ (19) یعنی بڑی عبادت گزار اور خدا سے ڈرنے والی ہیں.حضرت زینب کوکئی وجوہات کی بناء پر دوسری ازواج مطہرات پر فوقیت حاصل تھی.کیونکہ آپ کو بہت اعزازات حاصل تھے.حضرت زینب کو پہلا اعزاز یہ حاصل تھا کہ پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں سے آپ وہ واحد بیوی تھیں جو بیوی ہونے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خونی رشتہ رکھتی تھیں یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سگی پھوپھی زاد بہن تھیں.دوسرا اعزاز یہ تھا کہ آپ ان خوش قسمت ازواج مطہرات میں سے ایک تھیں جن کے ساتھ نکاح کا حکم خود خدا تعالی نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا اور اس کے متعلق قرآن کریم میں آیات بھی نازل ہوئیں.تیسرا اعزاز یہ تھا کہ حضرت زینب کی حضرت زید کے ساتھ شادی

Page 33

حضرت زینب 30 50 کر کے اسلامی مساوات کا عظیم نمونہ پیش کیا گیا.اور اس عظیم الشان نمونے میں آزاد و غلام کی تمیز مٹ گئی.پھر چوتھا اعزاز حضرت زینب کو یہ ملا کہ حضرت زیڈ سے طلاق کے بعد آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہونے سے خدا تعالیٰ نے منہ بولے بیٹے کو اصل بیٹے کے برابر ہونے کی نفی کرنے کی آیات نازل کیں اور خاتم النبیین کی آیت بھی نازل ہوئی.ایک اور اعزاز یہ ملا کہ حضرت سیدہ زینب کے ولیمہ کے موقع پر ایسے حالات پیدا ہوئے کہ جن کی وجہ سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے پردہ کے احکام نازل فرمائے.ایک اعزاز آپ کو یہ بھی ملا کہ معجزانہ طور پر تھوڑا سا کھانا بہت سے آدمیوں کے لئے کافی ہو گیا اور سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا.حضرت زینب کو اپنی وفات کا پہلے ہی علم ہو گیا تھا کیونکہ ایک دفعہ حضرت عمر نے حضرت زینب کا سالانہ خرچہ بھیجا تو آپ نے اُس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور بز رو بنت رافع کو حکم دیا کہ میرے خاندانی رشتہ داروں اور یتیموں میں تقسیم کر دو.بزرہ نے کہا آخر ہمارا بھی کچھ حق ہے.انہوں نے کہا کپڑے کے نیچے جو کچھ ہے وہ تمہارا ہے.دیکھا تو 85 درہم نکلے.

Page 34

حضرت زینب 31 جب تمام مال تقسیم ہو چکا تو دعا کی.د, خدایا اس سال کے بعد میں عمر کے عطیہ سے فائدہ نہ 66 اُٹھاؤں.‘ (20) چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی اور اسی سال آپ کا انتقال ہو گیا.حضرت زینب بنت جحش نے 53 سال کی عمر میں 20ھ میں وفات پائی.وفات کے وقت سوائے ایک مکان کے اور کچھ نہ چھوڑا جو ولید بن عبد المالک نے 50 ہزار درہم میں اُن کے رشتہ داروں سے خرید کر مسجد نبوی میں ملا دیا.امیر المؤمنین سیدنا حضرت عمر فاروق نے نماز جنازہ پڑھائی.حضرت عمر کی خواہش تھی کہ قبر میں میت اتارنے کی سعادت حاصل کریں لیکن امہات المؤمنین کا ارشاد تھا کہ انہیں قبر کے سپرد وہی افراد کریں گے جو زندگی میں ان کے پاس آتے جاتے تھے یعنی جن سے شرعاً پر دہ نہ تھا.چنانچہ اسامہ بن زید محمد بن عبد اللہ بن جحش ، عبد اللہ بن احمد محمد بن طلحہ بن عبداللہ نے حضرت زینب کو جنت البقیع میں قبر میں اُتارا.جب نعش قبر میں اُتاری جانے لگی تو کپڑا تان کر پردہ کر لیا گیا.آپ کی وفات کے دن شدید گرمی تھی اس لئے حضرت عمر فاروق، نے جہاں قبر گھر رہی تھی خیمہ

Page 35

حضرت زینب 32 لگوا دیا تھا.کہا جاتا ہے کہ یہ پہلا خیمہ تھا جو جنت البقیع میں کسی قبر پر نصب دیاتھا.کہا جاتاہےکہ یہ پیلانی تا البقیع میں کی قبرپر ہوا.خدا کی ان گنت رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی رہیں اُس عظیم عورت (حضرت زینب) پر جو قیموں، بیواؤں اور فقراء و مساکین کی مربی ) ( تربیت کرنے والی ) و دستگیر ( مدد کرنے والی تھیں اور رسول خدا یہ کی بے مثل زوجہ مظہر تھیں.

Page 36

حضرت زینب 33 حوالہ جات (1) (سیرۃ وسوانح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 11 از امتہ الرشید جمیل ) (2) اسد الغابہ جلد ۵ صفحه ۶۳ (3) (طبقات ج ۸ صفحه ۷۱ ) (4) ابوداؤ د کتاب الطلاق.سیرت خاتم النبيين از حضرت مرزا بشیر احمد ایم.اے) (5) سیرت خاتم النبین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (ایم اے) (6) مسلم کتاب النکاح باب ازواج زینب بن جحش سیرت خاتم النبین (7) مطہر عائلی زندگی صفحه 67 از امته الرفیق ظفر صاحبہ (8) مطہر عائلی زندگی صفحه 68 از امته الرفیق ظفر صاحبه (9) سیرت امہات المؤمنین صفحہ 660 از مولانامحمد عبد المعبود صاحب (10) بخاری جلد اوّل صفحه 191 از سيرة امہات المؤمنین صفحه 654 (11) بخاری جلد اوّل صفحہ 191 مسلم جلد دوم صفحہ 291 سیرت أمهات المؤمنین صفحہ 254 ،صفحہ 255 (12) صحیح بخاری جلد اول صفحہ 365 از سیرۃ امہات المؤمنین صفحہ 659

Page 37

حضرت زینب 34 (13) طبقات جلد 8 صفحہ 78 مطہر عائلی زندگی صفحہ 69 (14) مطہر عائلی زندگی صفحہ 70،69 (15) طبقات جلد 8 صفحہ 76 مطہر عائلی زندگی صفحہ 70 (16) اصابہ جلد 2 صفحہ 401 (17) مطہر عائلی زندگی صفحہ 70 (18) صحیح بخاری صفحه 143 (19) اصابہ جلد 2 صفحہ 602 عائلی زندگی 68 (20) طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 309 سیرت اُمہات المؤمنین صفحہ 657

Page 38

حضرت زینب 35 جن کتب سے استفادہ کیا گیا -1- تفسیر کبیر 2 تفسیر صغیر 3 صحیح بخاری 4 سیرت خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے 5.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جلد اول و دوم از شبلی نعمانی صاحب 6 ملفوظات از حضرت مسیح موعود علیہ السلام -7 مطهر عائلی زندگی از امته الرفیق ظفر صاحبه سیر الصحابیات از سید سلیمان ندوی صاحب 9.سیرت امہات المؤمنین از مولانامحمد عبد المعبود صاحب 10 - انوار العلوم از حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( حضرت خلیہ اسیح الثانی) 11 - حقائق الفرقان از حضرت خلیفة المسیح الاول

Page 39

حضرت نہ سب نت جحش (Hadrat Zainab Bint-e-Jahsh") Urdu Published in UK in 2007 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 949 3

Page 39