Language: UR
چودھویں صدی ہجری کا اختتام اور على السّلام ظهور امام مہدی سی مرقبه مولوی محمد اعظم اکسیرم بی الت اشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب چودھویں صدی ہجری کا اختتام اور ظہور امام مہدی علیہ السلام مولوی محمد اعظم اکسیر مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ طبع دوم طبع سوم طبع چہارم طبع پنجم $1988: $1991: $1995 : $2000 : تعداد 3000 تعداد 2000 تعداد 3000 تعداد 2000 تعداد 1000 حالیہ اشاعت : 2013ء مطبع ناشر فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت صدر انجمن احمد یہ قادیان، ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا -143516 ISBN: 978-81-7912-295-2 The End of the Fourteenth Century and ADVENT OF THE IMAM MAHDI (Peace be upon him) By: Muhammad Azam Ekseer
حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ علیہ السلام کا دعوى مجھے خدا تعالی کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اُس کی طرف سے سے مسیح موعوداور مہدی معہود اور اندرونی و بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.( اربعین نمبر صفحه (۴)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ هوال وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ پیش لفظ اصير یکم محرم الحرام ۱۴۰۱ ہجری بمطابق ۱۰ نومبر ۱۹۸۰ء سے پندرھویں صدی ہجری کا آغاز ہو چکا ہے جس پر سارے عالم اسلام نے بڑے اہتمام کے ساتھ اس نئی صدی کے استقبال کا جشن منایا.اور اب پندرھویں صدی ہجری کے بھی قریباً آٹھ سال گزرنے والے ہیں.قرآن مجید، احادیث نبویہ اور اقوال بزرگانِ سلف کی روشنی میں مسلمان گزشتہ چودھویں صدی کے آغاز سے ہی اس صدی کے مجد د، امام مہدی اور مسیح موعود کے ظہور کے منتظر تھے.چنانچہ اس صدی کے شروع میں بہ اذنِ الہی حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانئی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے دعوای فرمایا کہ آپ ہی اس صدی کے مجدد، امام مہدی اور مسیح موعود ہیں.حضور تحریر فرماتے ہیں: (1) ” جب تیرھویں صدی کا آخر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجد ہے.“ (کتاب البریۃ صفحہ ۱۶۸) (ب) ” مجھے خدا تعالیٰ کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اُس کی 66 طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی و بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.“ (اربعین نمبر صفحه ۴)
(ج) میں اُس خدائے تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں وہی مسیح موعود ہوں جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث صحیحہ میں خبر دی ہے.جو صحیح بخاری اور مسلم اور دوسری صحاح ستہ میں درج ہے.وکفی بِاللهِ شَهِيداً.“ (ملفوظات جلد اول صفحه ۳۱۳) چنانچہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے متذکرہ بالا دعاوی کی صحت پر خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اور زمینی و آسمانی نشانوں نے مہر تصدیق ثبت کی اور سعادت مند بھائیوں کو اس مامور ربانی کی جماعت میں شامل ہو کر دنیا میں خدمت دین اور اشاعتِ اسلام کی توفیق مل رہی ہے مگر عوام مسلمان اور ان کے علماء از رو تکذیب وانکار اپنے زعم اور اعتقاد کے مطابق تاحال اس چودھویں صدی کے مجد داور امام مہدی اور مسیح موعود کے نزول وظہور کے منتظر ہیں.قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں مذکورہ علامات بے شک پوری ہو چکی ہیں.مگر اُن کے خیال میں ابھی تک ان کا کوئی موعود ظاہر نہیں ہوا جبکہ وہ اب پندرھویں صدی میں بھی داخل ہو چکے ہیں.انتظار شدید کے بعد اب مسلمان مایوس و نا اُمیدی کا شکار ہو رہے ہیں.اس مایوسی کی وجہ سے بعض تو اس امر کا اظہار کر رہے ہیں کہ ظہور امام مهدی و مسیح موعود کی احادیث ہی صحیح نہیں.لہذا مسیح اور مہدی کا انتظار ہی فضول ہے.جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا.مینارِ دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ اب انتظار مهدی و عیسی بھی چھوڑ دے.اور ایسا ہی شورش کا شمیری ایڈیٹر چٹان لاہور نے لکھا تھا کہ :- رہا مہدی موعود کا عقیدہ تو یہ زبوں کا روں اور بے ہمتوں کے کارخانے کا مضروب ہے.چٹان لاہور ، ۲ مئی ۱۹۶۲ء) 66
اور بعض یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلی دے رہے ہیں کہ یہ کہیں لکھا ہوا نہیں تھا کہ امام مہدی کا ظہور چودھویں صدی میں ہی ہوگا.اور بعض بھائی یہ کہہ کر مطمئن ہو رہے ہیں کہ اب چودھویں صدی ختم ہی نہیں ہوگی.حالانکہ بعض اسلامی ممالک پندرھویں صدی ہجری کا استقبال بھی کر چکے ہیں.اے کاش! ہمارے مسلمان بھائی اب خلوص قلب اور سنجیدگی سے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے دعوای پر غور کریں جنہوں نے بروقت فرمایا نیز فرمایا اسْمَعُوا صَوْتِ السَّمَاء جاء المسيح جاء المسيح نیز بشنو از زمین آمد از زمین آمد امام کامگار آسمان بارد نشاں الوقت میگوید زمیں این دو شاہد از پے من نعرہ زن چوں بیقرار وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا! اور اس مامور ربانی کی آواز پر لبیک کہہ کر اور آپ کی جماعت میں شامل ہو کرنا امیدی و مایوسی کی حالت سے نکل کر ایک زندہ اور قومی جذبہ سے خدمت اسلام کی سعادت حاصل کریں.اور اپنے روشن مستقبل کی طرف قدم بڑھا ئیں.یہ مضمون مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر مربی سلسلہ احمدیہ نے ظہور امام مہدی علیہ السلام کے بارے میں مرتب کیا ہے جس میں آیات قرآنیہ، احادیث نبویہ اور بزرگانِ سلف کے اقوال کو جمع کیا گیا ہے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور چودھویں صدی ہجری میں ہی ہونا مقدر تھا.اور ان بشارتوں کے موافق ایسا ہی ظہور میں آیا.اور یہ
سب علامات حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مبارک وجود میں پوری ہو چکی ہیں.نظارت نشر و اشاعت قادیان افادہ عام کے لئے اس مضمون کو کتابی شکل میں شائع کر رہی ہے کہ یہ وقت کا تقاضا ہے.اللہ تعالیٰ مکرم مولوی محمد اعظم صاحب اکسیر مربی سلسله احمدیہ کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کے علم میں برکت دے اور اُن کو خدمت دین کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے اور اس رسالہ کو نافع الناس بنائے.آمین خاكسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر واشاعت قادیان {
بسم ابنة الرحم الرحم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حکم رسالت مآب سید نا وسید الرسل، خاتم النبین حضرت محمد مصطفے احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کو اپنے والدین ، بچوں اور تمام عزیز و اقارب سے زیادہ محبوب ہیں.مسلمانوں کے دل میں اطاعت رسول سکا انتہائی جذبہ موجزن ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم اسلام کے تنزل واد بار کے وقت اپنے عظیم روحانی فرزند جلیل کے آنے کی بشارت دی کہ وہ احیائے دین اور قیام شریعت یا اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا مشن لے کر کھڑا ہوگا.خدا اس کے ذریعہ تمام ملتوں کو ہلاک کر کے روئے زمین پر اسلام کو غلبہ بخشے گا.اس عظیم الشان عالمگیر مقصد کے لئے آنے والے موعود کی تائید و نصرت کرنا ہر مسلمان کے لئے انتہائی ضروری تھا.اس لئے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :.فَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَبَايِعُوْهُ وَلَوْ حَبُوا عَلَى الثَّلْجِ فَإِنَّهُ خَلِيْفَةُ اللَّهِ الْمَهْدِى (ابوداؤد جلد ۲ باب خروج المهدی) ( بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۱.ابن ماجہ مطبع فاروقی دہلی صفحه ۳۱۰ سطر ۴ باب خروج المهدی) کہ اے مسلمانو ! جب تمہیں اس کا علم ہو جائے تو فورا اس کی بیعت کرو خواہ تمہیں برف پر سے گھٹنوں کے بل جانا پڑے.کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا.اسی طرح آنحضرت صلعم نے فرمایا کہ جوا سے پہچان لے :.{^ )
266 فَلْيَقْرَتُهُ مِنِي السَّلَامَ.اُسے میری طرف سے سلام کہے! (در منثور جلد ۲ صفحه ۴۴۵، بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۸۳ مطبوعه ایران) مخفقه عقیده شیعہ اور سنی کتب کی رُو سے امت محمدیہ کا ہمیشہ سے یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ جب وہ مَوْعُود ظاہر ہو تو مسلمان پر اس کی بیعت کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے سلام پہنچانا از حد ضروری ہے.امت محمدیہ کی امت موسوی سے مشابہت کے باعث اس موعود کا تیرھویں صدی ہجری کے آخر یا چودھویں صدی ہجری کے سر پر عیسی ابن مریم کے رنگ میں ہو کر آنا مقدر تھا تا اسلام کو ادیانِ عالم پر غالب کر دیا جائے جس کا وعدہ قرآنی آیت:.هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (سورة الصف ) میں کیا گیا.صلحائے امت آنے والے موعود کو اسی آیت کا مصداق قرار دے کر مختلف ناموں سے ذکر کرتے رہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا مسیح، مہدی ، امام یا قائم آلِ محمد در حقیقت ایک ہی وجود ہے.(۱) تفسیر ابن جریر میں لکھا ہے : " هذَا عِنْدَ خُرُوجِ الْمَهْدِي “.کہ اس آیت میں مذکور غلبہ اسلام مہدی کے زمانے میں ہوگا.(ب) تفسیر جامع البیان جلد ۲۹ میں ہے:.وَذُلِكَ عِنْدَنُزُولِ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ “.کہ یہ غلبہ عیسی ابن مریم کے نزول پر ہوگا.(ج) شیعہ حضرات کی معروف کتاب بحارالانوارجلد ۱۳ صفحہ ۱۳ پر لکھا ہے:.( 9 }
نَزَلَتْ فِي الْقَائِمِ مِنْ الِ مُحَمَّدٍ “ " کہ یہ آیت القائِم کے متعلق نازل ہوئی ہے.(د) ایک اور معتبر شیعہ کتاب غایۃ المقصو دجلد ۲ صفحہ ۱۲۳ میں ہے:.مراد از رسول در بین جا امام مهدی موعود است کہ اس آیت میں رسول سے مراد امام مهدی موعود ہیں.مسیح اور مہدی احادیث و روایات میں آنے والے موعود کے مختلف صفات کے لحاظ سے کئی نام بیان ہوئے ہیں.لیکن زیادہ تر دو نام مسیح اور مہندی مذکور ہیں.از روئے احادیث یہ بھی واضح ہے کہ مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.(۱) ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ 66 کہ سوائے عیسی ابن مریم کے اور کوئی المہدی نہیں.( ابن ماجہ باب شدة الزمان صفحہ ۲۵۷ مصری.کنز العمال جلد ۷ صفحہ ۱۵۶) (۲) ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں موعود بھیلی ابن مریم کو امام مہدی قرار دیتے ہوئے فرمایا:."يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيا.یعنی قریب ہے کہ تم میں سے جو زندہ ہو عیسی ابن مریم سے ملاقات کرے اس کے امام مہدی ہونے کی حالت میں.( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۱۱ مصری) (1• }
(۳) شیعہ حضرات کی کتاب بحار الانوار میں حضرت ابوالڈ رداء کی روایت " اشبهُ النَّاسِ بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ “ کہ مہدی سب لوگوں سے بڑھ کر عیسی ابن مریم کے مشابہ ہوگا.نزول کا مفہوم ہے: احادیث میں عیسی ابن مریم کی آمد کے لئے لفظ ”نُزُول“ استعمال ہوا ہے جس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ شاید وہ آسمان سے نازل ہوں گے.حالانکہ اس طرح کوئی نازل نہیں ہوا کرتا بلکہ کسی گزرے ہوئے بزرگ کا نزول اگر ممکن ہے تو محض بروزی وظلی رنگ میں..امام سراج الدین ابن الوردی اپنی کتاب خریدة العجائب وفريدة الرغائب کے صفحہ ۲۱۴ پر لکھتے ہیں :.وَقَالَتْ فِرْقَةٌ مِنْ نُزُولِ عِيسَى خُرُوجُ رَجُلٍ يَشْبَهُ عِيسَى في الْفَضْلِ وَالشَّرْفِ كَمَا يُقَالُ لِلرَّجُلِ الْخَيْرِ مَلَكَ وَلِلشَّرِ يُرِ شَيْطَانٌ تَشْبِيْهَا بِهِمَا وَلا يُرَادُ الْأَعْيانُ.یعنی ایک گروہ نے کہا کہ نزول عیسی سے ایک ایسے آدمی کا ظہور مراد ہے جو فضل وشرف میں حضرت عیسی کے مشابہ ہو.جیسے کہ ایک نیک آدمی کو فرشتہ اور شریر آدمی کو شیطان کہہ دیتے ہیں مگر اس سے فرشتہ اور شیطان کی ذات مراد نہیں ہوتی..اسی طرح شیخ المشائخ جناب محمد اکرم صابری اپنی کتاب ”اقتباس الانوار کے صفحہ ۵۲ پر لکھتے ہیں :.روحانیت کمل گاہے برار باب ریاضت چناں تصرف سے نماید کہ فاعل افعالِ { "" }
شاں مے گردد و ایں مرتبہ راصوفیاء بروز می گویند.بعضے برآنند که روح عیسی در مهدی بروز کند و از نزول عبارت ہمیں بروز است مطابق ایں حدیث کہ لا الْمَهْدِئُ إِلَّا عِيسَى یعنی کاملین کی روحانیت کبھی ارباب ریاضت پر ایسا تصرف کرتی ہے کہ وہ ان مرتاضین کے افعال کا فاعل بن جاتی ہے اور اس مرتبہ کے پانے کو صوفیاء بروز قرار دیتے ہیں.بعض کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی روح مہدی میں بروز کرے گی اور نزول عیسی سے مراد یہی بروز ہے ، مطابق اس حدیث کے کہ ھیٹی کے سوا کوئی المہدی نہیں.شیخ المتصو فین حضرت محی الدین ابن عربی فرماتے ہیں:.وجب نزوله في آخِرِ الزَّمانِ يَتَعَليهِ بِبَدَنِ أَخَرَ ( تفسیر عرائس البیان جلد ۱ صفحه ۲۶۲ مطبع نولکشور ) یعنی لازم ہے کہ آخری زمانے میں مسیح عیسی ابن مریم کا نزول کسی دوسرے بدن کے ساتھ ہو..شیعہ مسلک کی کتاب غایۃ المقصود دصفحہ ۲۱ پر ہے:." میبدی در شرح دیوان آورده که روح عیسی در مهدی علیه السلام بروز کند و نزول عیسی عبارت ازیں بروز است“.کہ علامہ میبذی شرح دیوان میں فرماتے ہیں کہ میٹی کی روح مہدی علیہ السلام میں بروز کرے گی اور نزول عیسی سے مراد بھی ظہور مہدی ہے.
مقام امام مہدی علیہ السلام : حضرت امام مہدی علیہ السلام جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام اور عظیم روحانی فرزند جلیل ہونے کے سبب در حقیقت تمام انبیاء اور بزرگوں کے نام پانے کے مستحق ہیں.اسی لئے حضرت الشیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:."إِنَّ الْمَهْدِقَ الَّذِي يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ يَكُونُ جَمِيعُ الْأَنْبِيَاءِ تَابِعِينَ لَهُ فِي الْعُلُومِ وَالْمَعَارِفِ لِاَنَّ قَلْبَهُ قَلْبُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ 66 عَلَيْهِ وَسَلَّمَ “.(شرح فصوص الحکم صفحه ۳۵) کہ آخری زمانہ میں مہدی ظاہر ہوگا تو تمام انبیاء علوم و معارف کے لحاظ سے اس کے تابع ہوں گے.کیونکہ اس کا دل در حقیقت قلب محمدی ہوگا.لِاَنَّ بَاطِنَهُ بَاطِنُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَليْهِ وسَلَّمَ ( عبد الرزاق الكاشانی علی فصوص الحکم ) کے الفاظ بھی آئے ہیں.کہ اس کا باطن در اصل باطن مصطفی ہو گا..حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے فرمایا: يَزْعَمُ الْعَامَّةُ أَنَّهُ إِذَا نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ كَانَ وَاحِدًا مِنَ الْأُمَّةِ كَلَّا بَلْ هُوَ شَرحُ لِلْاِسْمِ الْجَامِعِ الْمُحَمَّدِي وَنُسْخَةٌ مُنْتَسِخَةٌ مِنْهُ فَشَتّان بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحَدٍ مِنَ الْأُمَّةِ“.الخير الكثير صفحہ ۷۲ مطبوعه بجنور مدینہ پریس) یعنی عوام کا خیال ہے کہ مسیح جب زمین کی طرف نازل ہوگا تو وہ محض ایک امتی ہوگا.ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ تو اسم جامع محمدی کی پوری تشریح ہو گا.( گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل ظلت و بروز ہو گا) اور آپ کا ہی دوسرا نسخہ ( یا ٹرو کاپی ، یعنی آنحضرت کی ہی
بعثت ثانی ہو گا ) پس اس کے مقام اور محض ایک امتی کے مقام میں بڑا فرق ہے.پھر فرمایا حَقٌّ لَهُ أَنْ يَنْعَكِسَ فِيْهِ انْوَارُ سَيّدِ الْمُرْسَلِينَ.یعنی مسیح موعود امام مہدی کا حق یہ ہے کہ اس میں سید المرسلین کے انوار منعکس ہوں.شیعہ بزرگ امام حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی روایت ہے کہ جب امام مہدی ظاہر ہوں گے تو کعبہ سے ٹیک لگا کر لوگوں کو کہیں گے:.أَلَا مَنْ أَرَادَ أَنْ يَنْظُرَ إِلى مُحَمَّدٍصَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ آمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ صَلَوتُ اللهِ عَلَيْهِ فَهَا آنَاذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ آمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَلاَ وَمَنْ اَرَادَ أَنْ يَنظُرَ إِلَى الْأَعْمَةِ مِنْ وُلْدِ الْحُسَيْنِ فَهَا آبَاذَا الْأَئِمَّةُ أَجِيْبُوالِي مَسْتَلَتِي فَإِنِّي أُنَبِّئُكُمْ يمَانُتِئْتُمْ بِهِ وَمَالَمْ تُنَبِّئُوا بِهِ (بحار الانوار جلد۱۳ باب ما يكون عند ظهوره صفحه ۲۰۲) کہ اے لوگو! سنو جو چاہتا ہے کہ آدم وشیث کو دیکھے سو دیکھے وہ میں ہوں.سنو! جو چاہتا ہے کہ نوح اور اس کے بیٹے سام کی طرف دیکھے سو وہ میں ہوں.سنو! جو چاہتا ہو کہ ابراہیم و اسمعیل کو دیکھے ، پس میں ہی ابراہیم اور اسمعیل ہوں.سنو! جو موتی اور یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے ، پس میں ہی موسی اور یوشع ہوں.سنو! جو چاہتا ہے کہ عیسی اور شمعون کو دیکھے وہ مجھے دیکھے ، میں ہی عیسی اور شمعون ہوں.سنو! جومحمد صلی اللہ علیہ وسلم اور امیر المؤمنین کو دیکھنا چاہتا ہے سو میں ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہوں اور امیر المؤمنین بھی.سنو! جو ائمہ کو دیکھنا چاہتا ہے جو حسین کی اولاد میں سے ہیں سو وہ سب میں ہی ہوں.میری دعوت قبول کرو کیونکہ میں تمہیں ایسی باتوں کی خبر دیتا ہوں جن کی تمہیں خبر دے دی گئی تھی اور جن کی تمہیں خبر نہیں دی گئی تھی.
نوٹ : عربی متن میں ابتدائی حصہ چھوڑ دیا گیا تھا لیکن ترجمہ سارے حصے کا ہے.نیز کعبہ سے ٹیک لگا کر بات سے مراد علم تعبیر الرؤیا کے مطابق اسلام پر قائم ہونا ہے..اسلامی ہند کے بلند پایہ شاعر حضرت ناسخ نے سچ کہا.دیکھ کر اُس کو کریں گے لوگ رجعت کا گماں یوں کہیں گے معجزے سے مصطفے پیدا ہوا رسالت مآب سرور کائنات حضرت محمد مصطفے احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل آخری زمانے کے مجد داور مسیح و مہدی یا قائم آل محمد کے خالی اور بروزی طور پر بے شمار نام احادیث و روایات نیز صلحائے امت کے بیانات میں مذکور ہیں.آئندہ صفحات میں ہم اس موعود اقوام عالم یا جرى الله في خلل الانبیاء کا ذکر زیادہ تر امام مہدی علیہ السلام کے نام سے کریں گے.امام مہدی اور وحی الہی حضرت امام مہدی علیہ السلام کے عالی مقام اور ارفع شان سے ظاہر ہے کہ اس کا زندہ خدا کے ساتھ یا عرش الہی سے ایک زندہ رابطہ قائم ہو.اُسے وحی والہام سے مشرف کیا جائے.اور ملائکہ مقربین اس کے پاس آیا کریں اور اس کا دعوی و عمل وحی الہی کی روشنی میں ہو.(۱) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أوحى الله إلى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ “.کہ خدائے عرش اُس کی طرف وحی نازل کرے گا.(مسلم جلد ۲ صفحہ ۴۲۱۱ مشکوۃ صفحہ ۴۷۳) (ب) علامہ ابن حجر اہتیمی رحمتہ اللہ علیہ سے دریافت کیا گیا:.{ 10 }
جب مسیح موعود ( امام مہدی ) آئے گا تو کیا اس پر وحی نازل ہوگی ؟ فرمایا: نَعَمُ يُوحَى إِلَيْهِ وَحَى حَقِيقِي كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِمٍ ہاں ! خدا تعالیٰ ان پر وحی حقیقی نازل کرے گا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے.نیز فرمایا: وَذَلِكَ الْوَحْنُ عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ إِذْ هُوَ السَّفِيرُ بَيْنَ اللَّهِ تَعَالَى وَأَنْبِيَائِهِ کہ یہ وحی اس کی طرف جبرائیل ہی لے کر آئیں گے کیونکہ انبیاء کی طرف خدا کی وحی لانے کے لئے وہی مقرر ہیں.(روح المعانی جلدے صفحہ (۶۵) (ج) نواب صدیق حسن خان صاحب نے حدیث مسلم کی روشنی میں لکھا ہے:.مسیح موعود (امام مہدی ) پر جبرائیل خدا کی طرف سے وحی لائے گا.“ (د) شیعہ کتب میں حضرت ابو جعفر سے روایت ہے:.(حج الكرامه صفحه ۴۳۱) وَيُوْحَىٰ إِلَيْهِ فَيَعْمَلُ بِالْوَحْيِ بِأَمْرِ اللَّهِ کہ امام مہدی علیہ السلام کی طرف وحی ہوگی پس وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس وحی پر عمل کرے گا.(النجم الثاقب جلد ۱ صفحہ ۶۶) (ھ) حضرت امام جعفر صادق سے ایک روایت ہے :- فَإِذَا نَامَتِ الْعُيُونُ وَغَسَقَ اللَّيلُ نَزَلَ إِلَيْهِ جِبْرِيلُ وَمِيكَائِيلُ وَ الْمَلِئِكَةُ صُفُوفًا فَيَقُولُ لَهُ جِبْرِيلُ يَا سَيِّدِى قَوْلُكَ مَقْبُولٌ وَ أَمْرُكَ جَائِزَ فَيَمْسَحُ يَدَهُ عَلَى وَجْهه.(بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۰۲) پس جب آنکھیں سو جایا کریں گی اور رات ڈھانپ لیا کرے گی تو اس ( مہدی ) کی طرف جبرائیل اور میکائیل اور دوسرے فرشتے صفوں میں نازل ہونگے.پس جبرائیل {17 }
اُسے کہے گا ، اے میرے سردار! تیری بات مقبول ہے اور تیرا کام جائز ہے.پس وہ آپ کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے مسح کرے گا ( یعنی اُسے برکت دے گا ) مندرجہ بالا روایت کے بعد بڑی تفصیل سے آگے یہ روایت درج ہے کہ :.امام مہدی آکر سب نبیوں کے صحیفے سنائے گا تو لوگ کہیں گے ، خدا کی قسم ! یہی سچے صحیفے ہیں.ہم نہیں جانتے تھے.اسی طرح وہ (مہدی) قرآن پڑھے گا.پس مسلمان کہیں گے خدا کی قسم! یہی سچا قرآن ہے جسے اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اتارا تھا اور جو ہم سے ساقط ہو گیا تھا.( بحارالانوارجلد ۱۳ صفحہ ۲۰۳) بہر حال شیعہ وسنی لڑیچر کی رو سے امام مہدی علیہ السلام پر وحی کا نازل ہونا اور عرشِ الہی سے اس کا زندہ تعلق قائم ہونا ظاہر ہے.وقت ، علاقہ اور علامات سرور کائنات رسالت مآب حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مہدی علیہ السلام کا صرف مقام ہی بیان نہیں کیا بلکہ امتیوں کی راہنمائی کے لئے اشارات اور پیشگوئیوں کے ذریعے: ظہور امام مہدی کا وقت کے ظہور امام مہدی کا علاقہ اور ظہور امام مہدی کی علامات و نشانیاں بھی بیان فرما دیں.ان پیشگوئیوں اور اشارات کے مطابق حضرت امام مہدی کے ظہور کا وقت تیرھویں صدی ہجری کا آخر یا چودھویں صدی ہجری کا آغاز تھا.اس کا علاقہ مشرق یا ہندوستان کہا گیا.اہم علامتوں میں سے چاند سورج کا رمضان میں گرہن، عالم اسلام کا {1}
دور انحطاط ، غلبہ صلیب، زمین و آسمان کے نئے نئے علوم کی دریافت اور نئی سے نئی ایجادات سے زندگی کی نئی کروٹ لینا شامل تھیں.امام مہدی ہونے کا دعوای ظہور مہدی علیہ السلام کے وقت.علاقہ اور نشانیوں پر تفصیلی دلائل سے پہلے ہم جملہ بشارتوں اور پیش خبریوں کے مطابق سارے عالم اسلام کو خوشخبری سناتے ہیں کہ عین مقررہ وقت پر مقررہ علاقہ میں تمام نشانیاں پوری ہو چکی ہیں اور وہ موعود امام مہدی قادیان ضلع گورداسپور میں ۱۲۵۰ ہجری میں پیدا ہوا.۱۲۹۰ ہجری میں شرف مکالمہ و مخاطبہ یا نعمت وحی و الہام سے مشرف ہوا.وہ ہے سیدنا مرزا غُلام احمد قادیانی عَليْه الصلوۃ والسلام آپ نے اعلان فرمایا: ا.جب تیرھویں صدی کا آخیر ہوا اور چودھویں کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعے سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجد د ہے“.۲.خدائے عرش نے بذریعہ وحی آپ کو مخاطب کیا: (کتاب البریہ صفحہ ۱۶۸ حاشیه ) جَعَلْنَاكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ کہ ہم نے تمہیں مسیح ابن مریم بنادیا ہے.(ازالہ اوہام صفحہ ۶۳۲) ۳.خدا نے آپ کو فرمایا: مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو گیا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.وَكَانَ وَعْدُ اللهِ مَفْعُولاً (ازالہ اوہام صفحه ۵۶۱) ۴.آپ نے فرمایا:.۱۸
مجھے خدا کی پاک اور مطہر وحی سے اطلاع دی گئی ہے کہ میں اس کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی معہود اور اندرونی و بیرونی اختلافات کا حکم ہوں.یہ جو میرا نام مسیح اور مہدی رکھا گیا ہے ان دونوں ناموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مشرف فرمایا اور پھر خدا نے اپنے بلا واسطہ مکالمہ سے یہی میرا نام رکھا اور پھر زمانے کی حالت موجودہ نے تقاضا کیا کہ یہی میرا نام ہو.وحی الہی پر یقین تام ( اربعین حصّہ اوّل صفحہ ۳) حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے منجانب اللہ ہونے اور اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی الہی پر قلبی یقین تھا.آپ نے حلفا فرمایا: " مجھے اس خدائے کریم کی قسم ہے جو جھوٹ کا دشمن اور مفتری کا نیست و نابود کرنے والا ہے کہ میں اُسی کی طرف سے ہوں اور اس کے بھیجنے سے عین وقت پر آیا ہوں اور اس کے حکم سے کھڑا ہوا ہوں اور میرے ہر قدم میں میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا اور نہ میری جماعت کو تباہی میں ڈالے گا جب تک وہ اپنے تمام کام کو پورا نہ کر لے جس کا اس نے ارادہ کیا ہے.( اربعین حصہ سوم صفحه ۲) ے دیں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا پھر اسحاق سے اور اسماعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی.§ 19 ✈
ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا.مگر یہ شرف مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا.اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا ور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ نہ پاتا.( تجلیات الهیه صفحه ۲۴) اجنحہ ملائکہ پر اس عاجز کے دونوں ہاتھ ہیں اور غیبی قوتوں کے سہارے سے علم لدنی کھل رہے ہیں“.(ازالہ اوہام صفحہ ۶۹۸).قسم ہے مجھے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے...ایک غیب میں ہاتھ ہے جو مجھے تھام رہا ہے اور ایک پوشیدہ روشنی ہے جو مجھے منورکر رہی ہے اور ایک آسمانی روح ہے جو مجھے طاقت دے رہی ہے.پس جس نے نفرت کرنا ہے کرے تا مولوی صاحب خوش ہو جائیں.بخدا! میری نظر ایک ہی پر ہے جو میرے ساتھ ہے اور غیر اللہ ایک مری ہوئی کیری کے برابر بھی میری نظر میں نہیں.کیا میرے لئے وہ کافی نہیں جس نے مجھے بھیجا ہے.میں یقیناً جانتا ہوں کہ وہ اس تبلیغ کو ضائع نہیں کرے گا جس کو میں لے کر آیا ضمیمہ ازالہ اوہام حصہ دوم صفحه ۱۴ بار اوّل) میں اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اُس نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اُسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اُس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں.جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں.(تتمہ حقیقة الوحی صفحه ۶۸) ہوں.( ۲۰
کامیابی پر یقین تام جس شخص کو خدا خود کھڑا کرے اور تازہ بہ تازہ وحی سے اس کو مشرف کرے، ملائکہ اس کے پاس مسلسل آتے ہوں، اُسے کسی لمحہ نا کامی کا خوف و خطر نہیں ہوسکتا.اسے اپنی اور اپنے مشن کی کامل ومکمل کامیابی پر یقین تام حاصل ہوتا ہے.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام اسی کیفیت میں فرماتے ہیں: دنیا مجھ کو نہیں پہچانی مگر وہ مجھ کو جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک میرے ساتھ وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں، یہاں تک کہ سجدہ کرتے کرتے تمہارے ناک گھس جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہرگز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک کہ وہ اپنے کام کو پورا نہ کر لے.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے منہ اور ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو فیصلہ کے بغیر نہیں چھوڑتا.جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور منکرین میں ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اب بھی فیصلہ کرے گا......خدا کے مامورین کے آنے کے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقینا سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو.یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳)
اگر چہ ایک فرد بھی میرے ساتھ نہ رہے اور سب چھوڑ چھاڑ کر اپنا اپنا راہ لیں ، تب بھی مجھے کچھ خوف نہیں.میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ میرے ساتھ ہے.اگر میں پیسا جاؤں اور ایک ذرے سے بھی حقیر تر ہو جاؤں اور ہر ایک طرف سے ایذا اور گالی اور لعنت دیکھوں تب بھی میں آخر فتحیاب ہوں گا.مجھ کوکوئی نہیں جانتا مگر وہ جو میرے ساتھ ہے.میں ہرگز ضائع نہیں ہوسکتا.دشمنوں کی کوششیں عبث ہیں اور حاسدوں کے منصوبے لا حاصل.اے نادانو ! اور اندھو! مجھ سے پہلے کون صادق ضائع ہوا ، جو میں ضائع ہو جاؤں گا.کس سچے وفادار کو خدا نے ذلت کے ساتھ ہلاک کر دیا جو مجھے ہلاک کرے گا ؟ یقیناً یاد رکھو اور کان کھول کر سنو! کہ میری روح ہلاک ہونے والی روح نہیں اور میری سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.مجھے وہ ہمت اور صدق بخشا گیا ہے جس کے آگے پہاڑ پیچ ہیں.میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا.میں اکیلا تھا اور اکیلا رہنے پر ناراض نہیں.کیا خدا مجھے چھوڑ دیگا ؟ کبھی نہیں چھوڑے گا.کیا وہ مجھے ضائع کر دے گا ؟ کبھی نہیں ضائع کرے گا.دشمن ذلیل ہوں گے اور حاسد شرمندہ ،اور خدا اپنے بندہ کو ہر میدان میں دے گا.میں اُس کے ساتھ وہ میرے ساتھ ہے.کوئی چیز ہمارا پیوند نہیں تو ڑسکتی اور مجھے اُس کی عزت اور جلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیا اور آخرت میں اس سے زیادہ کوئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اُس کے دین کی عظمت ظاہر ہو.اس کا جلال چمکے اور اس کا بول بالا ہو کسی ابتلاء سے اُس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں.اگر چہ ایک ابتلاء نہیں کروڑ ابتلاء ہوں.ابتلاؤں کے میدان میں اور دکھوں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے.من آنستم که روز جنگ بینی پشت من
آں منم کاندرمیانِ خاک و خوں بینی سرے پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تو مجھ سے الگ ہو جائے.مجھے کیا معلوم ہے کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل اور پر خار بادیہ در پیش ہیں جن کو میں نے طے کرنا ہے.پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اُٹھاتے ہیں.جو میرے ہیں وہ مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے.نہ مصیبت سے، نہ لوگوں کے سب وشتم سے.نہ آسمانی ابتلاؤں اور آزمائشوں سے ، اور جو میرے نہیں وہ عبث دوستی کا دم مارتے ہیں.کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اور اُن کا پچھلا حال اُن کے پہلے سے بدتر ہوگا.کیا ہم زلزلوں سے ڈر سکتے ہیں؟ کیا ہم اپنے پیارے خدا کی کسی آزمائش سے جدا ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں ہو سکتے.مگر اُس کے فضل اور رحمت سے.پس جو جدا ہونے والے ہیں جدا ہو جا ئیں.اُن کو وداع (انوار الاسلام صفحہ ۲۱، ۲۲) یہ سلسلہ آسمان سے قائم ہوا ہے.تم خدا سے مت لڑو تم اس کو نابود نہیں کر سکتے.اس کا ہمیشہ بول بالا ہے.اپنے نفسوں پر ظلم مت کرو.اور اس سلسلہ کو بے قدری سے نہ دیکھو جو خدا کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے پیدا ہوا.اور يقيناً سمجھو کہ اگر یہ کاروبار انسان کا ہوتا اور کوئی پوشیدہ ہاتھ اس کے ساتھ نہ ہوتا تو یہ سلسلہ کب کا تباہ ہو جاتا اور ایسا مفتری جلد ہلاک ہو جاتا کہ اب اُس کی ہڈیوں کا بھی پتہ نہ چلتا.اپنی مخالفت کے کاروبار میں نظر ثانی کرو.کم از کم یہ تو سوچو کہ شاید غلطی ہوگئی ہو اور شاید یہ لڑائی تمہاری خدا سے ہو“.(اربعین نمبر ۴ صفحہ ۲۷) آسمانی نشان اور برکات اور پرمیشور کے شکتی کے کام صرف اسلام میں ہی پائے جاتے ہیں.اور دنیا میں کوئی ایسا مذہب نہیں کہ ان نشانوں میں اسلام کا مقابلہ کر کا سلام“.۲۳
سکے.اس بات کے لئے خدا تعالیٰ نے تمام مخالفین کو ملزم اور لاجواب کرنے کے لئے مجھے پیش کیا ہے اور میں یقیناً جانتا ہوں کہ ہندوؤں اور عیسائیوں اور سے سکھوں میں ایک بھی نہیں جو آسمانی نشانوں اور قبولیوں اور برکتوں میں میرا مقابلہ کر سکے.یہ بات ظاہر ہے کہ زندہ مذہب وہی مذہب ہے جو آسمانی نشان اپنے ساتھ رکھتا ہو اور کامل امتیاز کا نور اُس کے سر پر چمکتا ہو.سو وہ اسلام ہے.کیا عیسائیوں میں یا سکھوں میں یا ہندوؤں میں کوئی ایسا ہے کہ اس میں میرا مقابلہ کر سکے؟ سومیری سچائی کے لئے یہ کافی حجت ہے کہ میرے مقابل پر کسی قدم کو قرار نہیں.اب جس طرح چاہوا پنی تسلی کرلو کہ میرے ظہور سے وہ پیشگوئی پوری ہوگئی جو براہین احمدیہ میں قرآنی منشاء کے موافق تھی اور وہ یہ ہے."هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَق لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله".( تریاق القلوب صفحه ۵۴) یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کام ہے...اسلام کے لئے پھر اُسی تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے.لیکن ابھی ایسا نہیں.ضرور ہے کہ آسمان اس کو چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں.اور ہم سارے آراموں کو اس کے ظہور کے لئے نہ کھودیں.اور اعزاز اسلام کے لئے ساری ذاتیں قبول نہ کر لیں.اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ چاہتا ہے وہ کیا ہے؟ ہمارا اسی راہ میں مرنا.یہی موت ہے جس پر اسلام کی زندگی ، مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تحیلی موقوف ہے.اور یہی وہ چیز ہے جس کا دوسرے لفظوں میں اسلام نام ہے.اسی اسلام کا زندہ کرنا اب خدا تعالیٰ چاہتا ہے“.(فتح اسلام صفحہ ۱) ۲۴
پانچ اہم باب ا ظہور امام مہدی علیہ السلام کا وقت؟ ۲.ظہور امام مہدی علیہ السلام کا علاقہ؟ - ظہور امام مہدی علیہ السلام کی نشانیاں؟.ظہور امام مہدی علیہ السلام کا انتظار ! امام مہدی علیہ السلام کے چند اعلانات و ارشادات! ( ۲۵
باب اوّل ظہور امام مہدی علیہ سلام کا وقت تیرھویں صدی ہجری + چودھویں صدی ہجری قرآن کریم پر غور و تدبر ، احادیث نبویہ کے مطالعہ، بزرگان اُمت کے رؤیا، کشوف اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام ( جو مسیح موعود بھی ہیں ) کے ظہور کا وقت و زمانہ تیرھویں صدی ہجری کا آخری حصہ یا چودھویں صدی ہجری کا ابتدائی حصہ ہے.(1) قرآن کریم پر غور و تدبر سے زمانہ مہدی کی تعیین : يُدَابِرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ( سورة السجده ع ١ ) یعنی اللہ تعالیٰ آسمان سے زمین کی طرف تدبیر امر کرتا رہے گا.پھر ایک عرصہ کے بعد وہ دین آسمان کی طرف چڑھ جائے گا، جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے.
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی پہلی تین صدیوں کو خیر القرون قرار دیا ہے.یقیناً یہی وہ عرصہ ہے جس کے بعد دین آسمان کی طرف چڑھنا تھا پھر پورا ایک ہزار سال گزرنے پر از سر نو تدبیر امر ہونا مقدر تھی.واقعاتی رنگ میں یہ حقیقت ہے کہ تیرہ صدیاں گزرنے پر وہ وقت آگیا کہ ادیان عالم کے پیرو مصلح آخر الزمان کے منتظر ہوئے.درحقیقت یہی وقت تھا اسلام کے غلبہ اور نشاۃ ثانیہ کا جس کے لئے حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہوا.۲.معروف اسمعیلی عالم جناب ڈاکٹر زاہد علی حیدر آباد دکن کالج میں عربی کے پروفیسر اور وائس پرنسپل تھے.انہوں نے سے ۱۳ ہجری ۱۹۵۴ء میں ایک کتاب ”ہمارے اسمعیلی مذہب کی حقیقت اور اُس کا نظام شائع کی.اس میں متعدد حوالے شامل کر کے انہوں نے بتایا ہے کہ قَائِمُ الْقِيِّمَةِ (امام مہدی کا ظہور ساتویں ہزار کے آغاز پر ضروری ہے.مثلاً لکھا ہے: "إِنَّ الْأَدْوَارَ سِتَّةُ أَوَّلُهَا دَوْرُ ادَمَ....وَالثَّوْرُ السَّادِسُ دَوْرُ مُحَمَّدٍ...وَالدَّوْرُ السَّابِعُ دَوْرُ الْقَائِمِ....سَابِعُهُمُ الْمَهْدِيُّ الَّذِي يَخْتِمُ الدُّنْيَا وَتَنْفَتِحُ الْآخِرَةُ “ یعنی دور چھ ہیں.پہلا دور آدم ہے.چھٹا دور محمد اور ساتواں دور قائم ہے جو آدم سے ساتواں مہدی ہے جس سے ایک دنیا ختم اور آخرت کا افتتاح ہوگا.(كتاب الْأَدِلَّةِ وَالشَّوَاهِد (جعفر بن حسین ) بحوالہ کتاب مذکور فصل نمبر 6) چھے ادوار کی تفصیل در اصل قرآن کریم سے لی گئی ہے.چنانچہ لکھا ہے :- اصحاب تاویل گفته اند که این شش روز که در قرآن مے آید آسمان و زمین را دریں مدت آفریده اندیشش دور پیغمبر مرسل را مے خواہد.ہر دورے روزے و ہر ۴۲۷
روزے ہزار سال انّ يَوْماً عِندَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مَمَّا تَعُدُّونَ.( روضته التسلیم ( فارسی ) از خواجہ نصیر الدین طوسی متوفی ۷۲ ھ صفحہ ۱۳۳) که اصحاب تاویل کہتے ہیں چھ روز، جو قرآن کریم میں آئے ہیں کہ آسمان وزمین کو ان میں پیدا کیا گیا ہے.پیغمبر و مرسلین کے چھ ادوار کو چاہتے ہیں.ہر دور ایک دن کا اور ہر دن ایک ہزار سال کا ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے، ایک دن ، تیرے رب کے نزدیک تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے.قرآن کریم سے ماخوذ اس تشریح کے مطابق ساتویں ہزار کا امام جو قائم القیمہ یا مہدی ہے، حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی صورت میں ظاہر ہوا.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۵۴، لیکچر سیالکوٹ) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ (سورة الفاتحه) اس آیت کی تفسیر میں علامہ امام السید محمود الالوی مفتی بغداد لکھتے ہیں: الْمُرَادُ بِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ الْيَهُودُ وَبِالضَّالِّينَ النَّصْرُى “.(روح المعانی جلد اول صفحه ۸۲ یعنی مغضوب علیہم سے یہودی اور الضالین سے نصاری مراد ہیں ، یہی معنے امام احمد بن حنبل ، ابن حبان ، ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کئے ہیں.اور میرے علم کے مطابق مفسرین نے ان معنوں سے اختلاف نہیں کیا.(ایضا ) ظاہر ہے کہ یہود اور نصاری کا امتیاز حضرت مسیح ابن مریم کی آمد سے ہوا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد تیرھویں صدی کے آخر میں آئے.اس لئے ضروری تھا کہ امت محمدیہ کا مسیح بھی اسی طرح تیرھویں صدی کے آخر میں ظاہر ہوتا جبکہ مولانا حالی، ابوالخیر نواب ۴۲۸
نور الحسن خان صاحب نواب صدیق حسن خان صاحب اور علامہ اقبال کے بقول یہ کیفیت یہودو نصاری پیدا ہوگئی جسے دیکھتے ہوئے علامہ نے کہا وضع میں تم ہو نصاری تو حمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود - إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًاه (المزمل ع ١ ) کہ اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسا رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے اسی طرح جس طرح فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.گو یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسی ہیں اس لئے موسوی سلسلہ کی طرح محمدی سلسلہ میں بھی تیرھویں صدی گزرنے پر مسیح موعود (امام مہدی کا آنا ضروری تھا.۵ - وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (سورۃ النورع ۷ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے اعمالِ صالحہ بجالانے والے مومنوں سے وعدہ کر رکھا ہے کہ انہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا جس طرح کہ اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.اس آیت کو بیان کر کے حضرت علی بن حسین نے فرمایا کہ: نَزَلَتْ فِي الْمَهْدِي کہ یہ آیت امام مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے.اسی طرح ابو عبد اللہ سے مروی ہے کہ مہدی اور اُس کی جماعت مراد ہے.(بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۳) مهدی، مسیح موعود ہی کا دوسرا نام ہے اور اس آیت میں اس کا آنا خدا تعالیٰ نے پہلے مسیح (۲۹
سے لازمی مشابہ قرار دیا ہے.گویا جس طرح وہ اپنے سلسلہ میں تیرھویں صدی گزرنے پر آیا.اسی طرح مہدی یعنی امت محمدیہ کا مسیح بھی تیرھویں صدی ہجری گزرنے پر آئے گا..وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهَمُ “.(سورة الجمعة ع١) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں آنے والے ایسے لوگوں میں بھی مبعوث ہوئے ہیں جو ابھی صحابہ سے نہیں ملے.بخاری شریف کتاب التفسیر میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض صحابہ کے استفسار پر آنحضرت صلعم نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ جب ایمان زمین سے اٹھ کر ثریا ستارے پر چلا جائے گا ، تب بنو فارس میں سے کوئی کھڑا ہو کر دوبارہ ایمان کو قائم کرے گا.اس آیت کی مقدار بحساب جمل ۱۲۷۵ بنتے ہیں.جس سے اشارہ ملتا ہے کہ آنے والا موعود تیرھویں صدی کے آخری حصہ میں ظاہر ہوگا.(ب) احادیث نبویہ سے امام مہدی کے زمانہ کی تعیین : ا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "الأيات بعد اليأتني" (مشکوۃ مجتبائی صفحہ ۲۷۱ ، ابن ماجہ و مستدرک حاکم عن ابی قتاده) یعنی امام مہدی کی نشانیاں دو خاص صدیاں ( ہجرت نبوی کے بعد ہزار سال چھوڑ کر) گزرنے پر ظاہر ہوں گی.نشانیوں کا ظاہر ہونا خود امام مہدی کے ظہور کی تعیین ہے.یعنی تیرھویں صدی ہجری گزرنے پر.۲ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَضَتْ أَلْفُ وَمِأْتَانِ 66 وَارْبَعُونَ سَنَةً يَبْعَثُ اللَّهُ الْمَهْدِيَّ “ (النجم الثاقب جلد ۲ صفحه ۲۰۹) ۴۳۰
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایک ہزار دوسو چالیس سال گزر جائیں گے تو اللہ تعالیٰ مہدی کو مبعوث فرمائے گا.إِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ تُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا ( مشکوۃ مطبع نظامی دہلی صفحه ۱۴ کتاب العلم و ابو داؤد جلد ۲ صفحه ۲۱۲ کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة مطبع نولکشور ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ اس اُمت کے لئے ہرصدی کے سر پر مجد دین مبعوث کرتا رہے گا.تیرہ صدیوں کے مجددین کی کئی فہرستیں شائع شدہ ہیں.اس حدیث کے مطابق علماء امت یقین رکھتے تھے کہ چودھویں صدی کے سر پر آنے والے مجد دامام مہدی ہوں گے.چنانچہ تیرہ صدیوں کے مجددین کی ایک فہرست دے کر حج الکرامہ میں لکھا ہے: بر سر مائنہ چہار دہم کہ دہ سال کامل آن را باقی است اگر ظہور مہدی علیہ ال نزول عیسی صورت گرفت پس ایشاں مجد دو مجتهد باشند السلام و نج الکرامه صفحه ۱۳۹ مطبوعه ۱۲۹۱ھ ) یعنی چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں.اگر اس میں مہدی عیسی کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجد دو مجتہد ہوں گے.ه- رساله انجمن تائید اسلام بابت ماہ اپریل ۱۹۲۰ میں لکھا گیا: حدیثوں میں مریم و ابن مریم آیا ہے کہ وہ صدی کے سر پر آئے گا اور چودھویں صدی کا مجد د ہوگا.
۴.حضرت ابو جعفر بن محمد سے مروی ہے: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ تَهْلِكُ أُمَّةٌ أَنَا أَوَّلُهَا وَ اِثْنَا عَشَرَ مِنْ بَعْدِى مِنَ السُّعَدَاءِ وَ أُولِي الْأَلْبَابِ وَالْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ أُخِرُهَا “ (اکمال الدین صفحہ ۱۵۷) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ اُمت کیسے ہلاک ہو سکتی ہے جس کی ابتداء میں میں ہوں اور میرے بعد بارہ نیک اور عقلمند شخص ہوں اور مسیح ابن مریم اس کے آخر در میں ہوں.یہ روایت معتبر شیعہ لٹریچر میں بیان ہوئی ہے اور شیعہ لٹریچر میں اُمت محمدیہ کے خلفاء کی مشابہت امت موسوی کے خلفاء سے ضروری تسلیم کی گئی ہے.(نور الانوار صفحہ ۵۶) موسوی سلسلہ کے بارہ خاص خلفاء کے بعد چودھویں صدی کے سر پر مسیح ابن مریم آئے.اُمت محمدیہ کے آخر میں آنے والے کا نام بھی مسیح ابن مریم رکھا گیا ہے اور اُس کی آمد بھی بارہ سُعداء کے بعد بیان ہوئی ہے.جس سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کا مسیح ابن مریم یعنی امام مہدی علیہ السلام بھی چودھویں صدی کے سر پر آنا مقدر تھا.۵.صاحب 'دبستانِ مذاہب مطبوعه ۱۳۲۴ هجری فرقہ اسمعیلیہ کے عقائد کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: و گفته اند مهدی آخر الزماں عبارت از محمد بن عبد الله است و از مخبر صادق روایت کنند که فرمود على رأس آلْفٍ وَ ثَلَكِ مِائَةٍ تَطْلُعُ الشَّمْسُ مِنْ 66 مَغْرِبها - گویند لفظ شمس در ایں حدیث کنایه از محمد بن عبد الله است.“ دبستان مذاهب فارسی صفحه ۳۵۵ از جناب دوست محمد خان) یعنی کہتے ہیں کہ مہدی آخر الزمان کی تعبیر محمد بن عبد اللہ سے ہے.اور مخبر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : تیرھویں صدی پر سورج مغرب سے طلوع کرے
گا.کہتے ہیں کہ اس حدیث میں طلوع شمس سے مراد امام مہدی کا ظہور ہے.دراصل تیسری صدی ہجری میں اسمعیلیوں نے مذکورہ بالا تعبیر حدیث سے لفظ الف حذف کر کے کی.حالانکہ یہ حض عجلت بازی تھی.اصل الفاظ تو تیرھویں صدی پر طلوع ہونے کے ہیں.۶.احادیث میں جو علامتیں بیان ہیں اُن کے مطابق امام مہدی (مسیح) نے غلبہ عیسائیت کے وقت آنا تھا کیونکہ اُس کا کام يَكْسِرُ الصَّليب بتایا گیا تھا.اور عیسائیت کا یہ غلبہ تیرھویں صدی ہجری میں اپنی انتہاء کو پہنچ گیا.لہذا ان حدیثوں کا تقاضا ہے کہ امام مہدی علیہ السلام تیرھویں صدی کے اخیر یا چودھویں صدی ہجری کے آغاز پر ظاہر ہوتے.******** ( ج ) علماء و بزرگانِ اُمت کے رویا، کشوف اور بیانات کی رو سے ظہور امام مہدی علیہ السلام کے وقت کی تعیین ! ا.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ مجد دصدی دوازدہم نے فرمایا:.عَلَّمَنِي رَبِّ جَلَّ جَلَالُهُ أَنَّ الْقِيْمَةَ قَدِ اقْتَرَبَتْ وَالْمَهْدِئَ تَهَيَّاً لِلْخُرُوج " (تفهيمات الهیه جلد ۲ صفحه ۱۲۳) یعنی میرے رب بڑی عظمت والے نے مجھے بتایا ہے کہ قیامت قریب ہے اور
مہدی ظاہر ہونے کو تیار ہے.۲.نواح دہلی میں قریباً آٹھ سو سال پہلے ایک باکمال اور صاحب کشف و کرامات بزرگ نعمت اللہ ولی گزرے ہیں.اُن کے مشہور فارسی قصیدہ میں آخری زمانہ کے حالات مذکور ہیں.انہوں نے ”غ." یعنی بارہ سو سال ہجری کے بعد اہم واقعات رونما ہونے کا ذکر کر کے فرمایا مهدی وقت و عیسی دوراں ہر دو راشہسوار بینم کہ مہدی وقت اور عیسی دوراں کو میں شہسوار دیکھتا ہوں.اربعین فی احوال المہد بین مطبوعہ ۱۳۲۸ ہجری.حضرت نعمت اللہ ولی کا اصلی قصیدہ مکتبہ پاکستان لاہور ).مشہور اہل سنت امام حضرت ملا علی القاری نے حدیث الا يَاتُ بَعْدَ الْمِأَتَيْنِ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا:.وَيَحْتَمِلُ اَنْ يَكُونَ اللَّامُ فِي الْمَأْتَيْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ وَهُوَ وَقْتُ " ظُهُورِ الْمَهْدِي.“ (مرقاة شرح مشکوۃ جلد ۵ صفحه ۱۸۵ مشکوۃ مجتبائی صفحه ۲۷۱) یعنی اس حدیث میں ماً تین پر الف لام ظاہر کرتا ہے کہ یہ دو صدیاں ہجرت نبوی سے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد شمار کی جائیں گی.گویا بارہ سو سال بعد نشانات ظاہر ہوں گے اور وہی ظہور مہدی کا وقت ہے.۴.نواب صدیق حسن خان صاحب نے اسی حدیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ دوسوسال ہجرت کے ایک ہزار سال بعد مراد ہے.جیسا کہ بعض اہلِ علم نے اس کی یہی تشریح کی ۴۳۴
ہے.چنانچہ نبی الکرامہ صفحہ ۳۹۳ پر ہے:- حج مراد بایں دوصد سال از الف ہجرت بود.چنانکه بعض از اہل علم تاویل ظہور الآيت بعد الباترن ہم چنین کرده اند ۵.حضرت حافظ برخوردار ساکن چٹی شیخاں ضلع سیالکوٹ نے اپنی کتاب انواع کے باب نزول عیسی میں لکھا ہے.چھے اک ہزار دے گزرن ترے سو سال حضرت مہدی ظاہر ہوسی کرسی عدل کمال.جناب قاضی ارتضی علی خان نے اپنے رسالہ ”مہدی نامہ“ کے صفحہ ۲ پر امام مہدی کا زمانہ تیرھویں صدی ہجری سے پندرھویں صدی ہجری قرار دیا ہے.۷.مولوی حکیم سید محمد حسین مرحوم رئیس امروہہ نے بھی مہدی کے ظاہر ہونے کا زمانہ ۳۰۰ ہجری لکھا ہے.( کواکب ڈریۃ صفحہ ۱۵۵).جمال پور کے مشہور صوفی مجزوب حضرت گلاب شاہ نے اے ! ہجری میں خبر دی کہ عینی جو آنے والا تھا وہ پیدا ہو گیا ہے.‘“ ( نشان آسمانی صفحہ ۲۱) ۹.حضرت خواجہ حسن نظامی دبیر حلقہ نظام المشائخ دہلی نے ایک کتا بچہ ” شیخ سنوسی اور ظہور مهدی آخر الزمان کے نام سے شائع کیا تھا.انہوں نے لکھا کہ تمام عالم عرب اس زمانہ میں امام مہدی علیہ السلام کا انتظار کر رہا ہے.اور سب کے اندازے یہی ہیں کہ چودھویں صدی کے سر پر ہی ظاہر ہوں گے.اپنے عربی ممالک کے دورہ کے دوران بعض علماء عرب سے اپنی ملاقات کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :.کیا عجب ہے کہ یہ وہی وقت ہو اور ۱۳۳۰ ہجری میں سنوسی کی خبر کے مطابق حضرت امام مہدی کا ظہور ہو جائے.اور اگر وہ وقت ابھی نہیں آیا تو یہ ہجری تک ۴۳۵
تو ظہور بالکل یقینی ہے.کیونکہ متعدد بزرگوں کی پیشگوئیوں کو ملایا جائے تو ۴۰ ہجری تک سب کا اتفاق ہو جاتا ہے.(کتاب مذکور آخری صفحہ ) ۱۰ گویند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تاریخ ظہور او در لفظ چراغ دین یافته و بحساب جمل عدد وے ایک ہزار دوصد شصت و هشت می شود ( حج الکرامہ فی آثار القیامه صفحه ۳۹۴) کہ حضرت شاہ ولی اللہ نے امام مہدی علیہ السلام کی تاریخ ظہور لفظ چراغ دین میں بیان فرمائی ہے جو کہ حروف ابجد کے لحاظ سے ایک ہزار دوسواڑسٹھ (۲۶۸ ہجری ) ہوتے ہیں.۱۱.مولوی ابوسعید محمد حسین بٹالوی نے اپنے رسالہ اشاعت السنہ جلد ۶ نمبر ۳ صفحه ۶۱ پر ظہور عینی و مہدی کو چودھویں صدی میں تسلیم و بیان کیا ہے.۱۲.ابوالخیر نواب نورالحسن خان صاحب نے لکھا:.ظہور مہدی علیہ السلام کا تیرھویں صدی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ صدی پوری ہو گئی تو مہدی نہ آئے.اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آتی ہے......شاید اللہ تعالیٰ 66 اپنا فضل و عدل و رحم و کرم فرمائے.چار چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جائیں.“ (اقتراب الساعه صفحه ۲۲۱) ۱۳.نواب صدیق حسن خان صاحب والٹی بھو پال نے بہت تحقیق سے تمام پیشگوئیوں علامات اور نشانات کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی کتاب میں لکھا ہے :.بعض از مشائخ واہل علم گفته اند که خروج او بعد از دوازده صد سال از ہجرت شود ورنه از سیزده صد تجاوز نه کند ( حج الکرامه صفحه ۳۹۴) کہ بعض مشائخ اور اہل علم کے نزدیک امام مہدی کا ظہور بارہ سو سال ہجری کے بعد ہوگا لیکن تیرہ سو سال سے تجاوز نہیں کرے گا.۱۴.علامہ الشعرانی المتوفی ۷ ہجری نے اپنی کتاب ”الیواقیت والجواہر“ میں تحریر فرمایا
ہے: مَوْلِدُهُ لَيْلَةَ النَّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ سَنَةً خَمْسِينَ وَ مِئَتَيْنِ بَعْدَ الْأَلْفِ نور الابصار في مناقب آل بيت النبي المختار للشيخ الشبكنجي) کہ امام مہدی علیہ السلام کی پیدائش ۲۵۰ ہجری میں ہوگی.۱۵.حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی المتوفی ۲۳۹ ہجری اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریه کے باب ہفتم در امامت میں فرماتے ہیں کہ اہل سنت مہدی کے ظہور کو ہزار برس سے قبل ہرگز نہیں مانتے کیونکہ ان کے نزدیک ظہور آیات قیامت بارہ سو برس ہجری گزرنے کے بعد ہوگا.۱۲.امام مہدی کے نشان چاند اور سورج گرہن کے متعلق ضلع ملتان کے ایک بزرگ عالم حضرت شیخ عبدالعزیز پہاروی کا مشہور شعر ہے.درسن غاشی دو قرآن خواهد بود ازی مهدی و دقبال دو نشان خواهد بود کہ ”غاشی" کے عدد یعنی اس! ہجری میں یہ دو گرہن ہوں گے جو مہدی اور دجال کے ظہور کا نشان ہوں گے.( حلفیہ بیان احمد خان صاحب خاکوانی افغان پسر عبد الخالق خان خاکوانی ملتانی ).( بدر ۱۴ / مارچ ۱۹۰۷ نیز دیکھیں حقیقت الوحی ) ۱۷.حضرت شیخ محی الدین ابن عربی المتوفی ۲۸ ہجری نے فرمایا: وَ يَكُونُ ظُهُورُهُ بَعْدَ مَضِي خ ف ج بَعْدَ الهِجْرَةِ “ مقدمه ابن خلدون صفحه ۳۵۴ تر جمه از مولا ناسعد حسن خان صاحب یوسفی فاضل الہیات اصبح المطابع ، کراچی) ۴۳۷
یعنی امام مہدی کا ظہور ہجرت کے بعد خ ف ج کے گزرنے پر ہوگا.ہجرت کے حروف ( ھ + + +ت) = ( ۲۰۰۳۵ + ۴۰۰) کی مقدار ۶۰۸ اور خ + + ج = ۶۰۰ + ۸۰ +۳) کی مقدار ۶۸۳ بنتی ہے.گو یا مہدی کا ظہور + ۶۸۳ = ۲۹۱۶۰۸ ہجری میں ہوگا.۱۸.حضرت شیخ عبد القادر جیلانی المتوفی ۵۷۱ ہجری کا ایک اہم کشف ہے: ایک دن عالم جن و انس کی پیشوائی میں حضرت سید عبد القادر جیلانی کسی جنگل میں مراقبہ فرمائے بیٹھے تھے.نا گہاں آسمان پر ایک عظیم نور ظاہر ہوا، جس سے تمام عالم نورانی ہو گیا.یہ نور ساعةً فساعةً بڑھتا اور روشن ہوتا گیا، اس سے اُمت مرحومہ کے اوّلین و آخرین اولیاء نے روشنی حاصل کی.حضرت نے تامل فرمایا کہ اس مثال میں کسی صاحب کمال وجود باجود کا مشاہدہ کرایا گیا.القاء ہوا کہ اس نور کا صاحب تمام امتوں کے اولیاء اولین و آخرین سے افضل تر ہے.پانچ سوسال بعد ظہور فرما ہو کر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی تجدید کرے گا.جو اُس کی صحبت سے فیضیاب ہوگا وہ سعادت مند ہوگا.اس کے فرزند اور خلیفہ بارگاہ احدیت کے صدر نشینوں میں سے ہیں.“ ( حدیقه محمودیه ترجمه روضه قیومیه صفحه ۳۲) حدیقہ محمودیہ میں اس کشف کو حضرت مجد دالف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے متعلق قرار دیا گیا ہے.مگر اس کشف میں پانچ سوسال کے بعد ظاہر ہونے والے مجد ددین کو تمام امتوں کے اولین و آخرین سے افضل قرار دیا گیا ہے.یہ مقام ہمارے نزدیک خاتم الخلفاء حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ہی ہو سکتا ہے نہ کہ مجددالف ثانی کا.۱۹.صاحب بیج الکرامہ نے جملہ اندازوں کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہونے کا قومی احتمال بیان کیا ہے:.
بر ہر تقدیر ظہور مہدی، بر سر صد آئندہ احتمال قوی دارد ( حج الکرامه صفحه ۵۲) ۲۰.حضرت بابا گورونانک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آون اُٹھہتر سے جان ستانویں ہور بھی اُٹھ سی مرد کا چیلا‘ گرنتھ صاحب تنگ محلہ صفحہ ۱۳۷) یعنی مرد کامل ( محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم جو طہ ہیں ) کا ایک شاگرد رشید اٹھے گا.جب ۱۸۷۸ آئے گا اور ۱۸۹۷ گزر جائے گا یعنی ۱۸۲۱ ء سے ۱۸۴۰ کے درمیان آنے والے مرد کا چیلا آئے گا.۲۱ - اثنا عشری کے بعض لوگوں کا خیال ہے:.انیسویں یا بیسویں صدی کا آغاز ہی امام مہدی علیہ السلام کا زمانہ خروج ہے.۱۹۱۳ ء ایسا زمانہ ہے جو خدا کے جنگی قانون کے اجراء کا خواہاں ہے.اس وقت ایسی طاقت کی ضرورت ہے جو مشینوں کی خدائی کو توڑے، جسم پرستی کو نیست و نابود کرے.انسان کو جسم پرستی سے آزاد کر کے روحانیت کے میدان میں لائے...یہی طاقت اصطلاح اسلام میں جناب امام علیہ السلام ہے.“ (رساله برهان بابت نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۵۲،۴۷) زیر ادارت مولوی سید محمد سبطین صاحب سرسوی مولوی فاضل و نشی فاضل) ۲۲.شاہ عبد العزیز صاحب نے تحفہ اثنا عشریہ میں لکھا ہے کہ: ” بعد بارہ سو ہجری کے حضرت مہدی کا انتظار چاہئیے اور شروع صدی میں حضرت کی پیدائش ہے.“ ( اربعین فی احوال المهد تین مطبوعه مصری گنج کلکتہ ۲۲۸ ہجری مصنفہ حضرت سید اسمعیل شہید کا آخری حصہ) سیدا ۲۳.الشیخ علی اصغر البر وجروی جنہیں بڑے بڑے خطاب دیئے گئے ہیں اور جو بہت سی کتب کے مصنف ہیں ، اپنی کتاب ”نور الانوار میں ” کیفیات مہدی علیہ السلام کے
عنوان سے لکھتے ہیں :.اندر صرفی اگر بمانی زنده ملک و ملت و دیس برگردو (صفحه ۲۱۵) کہ سال صرفی میں اگر تو زندہ رہا تو ملک، بادشاہت اور ملت و دین میں انقلاب آجائے گا.صرفی کے اعداد بحساب ابجد ۱۲۹۰ ہجری ہوتے ہیں.۲۴.خواجہ حسن نظامی صاحب بیان کرتے ہیں کہ :- (امام مہدی کا ظہور صفحہ ۴۱۷) حضرت امام ابن عربی نے ۳۳۵ ہجری میں ظہور مہدی کی خبر دی ہے.“ (مہدی کے انصار اور ان کے فرائض صفحہ ۳۹) ۲۵.مولوی حمید اللہ صاحب ملا سوات لکھتے ہیں کہ : میں بحکم آیت وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ أَثِمٌ قَلْبُهُ.خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر لکھتا ہوں کہ حضرت صاحب کوٹھ والے ایک دو سال اپنی وفات سے پہلے یعنی ۲۹۲ ھ یا ۱۲۹۳ ہجری میں اپنے خواص میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہر ایک باب سے معارف اور اسرار میں گفتگو شروع تھی.ناگاہ مہدی معہود کا تذکرہ درمیان میں آگیا.فرمانے لگے کہ مہدی معہود پیدا ہو گیا ہے مگر ابھی ظاہر نہیں ہوا ہے.اور قسم بخدا کہ یہی اُن کے کلمات تھے.اور میں نے سچ سچ بیان کیا ہے.نہ ہوائے نفس سے اور بجز اظہار حق اور کوئی غرض درمیان نہیں.اُن کے منہ سے یہ الفاظ افغانی زبان میں نکلے تھے.چہ مہدی پیدا شوے دے.وقت ظہور ندے.“ یعنی مہدی موعود پیدا ہو گیا ہے لیکن ابھی ظاہر نہیں ہوا.‘ ( تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۷) ۴۴۰
۲۶.جناب سید میر عبدالحئی صاحب ”حدیث الغاشیہ میں فرماتے ہیں کہ :- امام مہدی علیہ السلام چودھویں صدی کے سال ہفتم میں ظاہر ہوں گے جو کہ ۱۳۰۷ ہجری بمطابق ۸۸۹اء ہے.“ ۲۷.خواجہ حسن نظامی صاحب نے ۱۹۱۲ ء میں کہا کہ :.آفتاب مہدویت اس قدر طلوع کے قریب آ گیا ہے کہ اس کی کرنیں نظر آنے لگی ہیں.“ (مہدی کے انصار اور اُن کے فرائض صفحہ ۲۰) ۲۸.صاحب نورالانوار نے لکھا کہ:.اب ۲۷۴ ہجری ہے کہ یہ تمام نشانیاں بکمال پوری ہو چکی ہیں.بلکہ کئی درجہ زیادہ (صفحه ۱۳۹) یعنی ظہور مہدی کی سب نشانیاں پوری ہوگئی ہیں.اور ۲۷۴ ہجری تیرھویں صدی کا اخیر ہے اس سے ظاہر ہے کہ اب وقت ظہور قریب ہے.۲۹.رسالہ انجمن تائید اسلام کے ایک مضمون میں لکھا گیا کہ :- حدیثوں میں مریم و ابن مریم آیا ہے کہ وہ صدی کے سر پر آئے گا.اور چودھویں صدی کا مجد دہوگا.(انجمن تائید اسلام اپریل ۱۹۲۰ صفحه ۱۲) ۳۰.حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ کے مشہور قصیدہ بنام "تحفة المهتدین فی بیان اسماء المجددین“ کی شرح میں شیخ محمد بن الجرجاوی المالکی نے ایک عربی قصیدہ لکھا.اس قدیم عربی قصیدہ پر مشتمل کتاب غیر مطبوعہ ہے اور حکومت مصر کی سرکاری لائبریری ودار الكتب المصر یہ القاہرہ میں محفوظ ہے.اس میں تیرہ صدیوں کے محمد دین کے ذکر کے بعد شیخ الجرجاوی نے چودھویں صدی کے بارے میں عجیب معنی خیز شعر لکھا ہے.۴۴۱
وَاخِرُ الْمِئَتَيْنِ فِيهَا يَأْتِي يُجَدِّدُ الدِّينَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عِيسَى رَسُولُ اللهِ ذُو الْآيَاتِ وَفِي الصَّلوةِ بَعْضُنَا قَدَامَةِ یعنی آخری صدی ( چودھویں ہجری ) میں عیسی رسول اللہ صاحب معجزات اس امت کے دین کی تجدید کرے گا.اور نماز میں ہم میں سے کوئی اس کے آگے کھڑا ہوگا.(امام مہدی کا ظہور صفحہ ۲۲۰) ۳۱.مذکورہ بالا مصرعوں میں سے نواب صدیق حسن خان صاحب نے حج الکرامہ صفحہ ۱۳۸ پر عِيسَى نَبِيُّ اللهِ ذُو الْآيَاتِ يُجَدِّدُ الدِّينَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ درج کیا ہے یعنی عیسی نبی اللہ نشانات و معجزات کے ساتھ ظہور فرمائیں گے.اور اس امت کے دین کی تجدید فرمائیں گے.۳۲ ” قاضی ثناء اللہ پانی پتی در سیف مسلول گفته ظہور او بظن و تخمین علماء ظاہر و باطن در اوائل سیز دہم از ہجرت گفته اند“ (حج الکرامه صفحه ۳۹۴) یعنی قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی نے اپنی کتاب سیف مسلول میں فرمایا ہے کہ امام مہدی کا ظہور علماء ظاہر و باطن کے اندازہ و خیال کے مطابق تیرھویں صدی کی ابتداء ہے.۳۳.سورۃ الصف کی آیت ہے:.يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِه یعنی وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھا دیں.اللہ اپنے ٹور کو ۴۴۲
پورا کرنے والا ہے.اس آیت کو بیان کر کے راوی نے فرمایا:.بِالْقَائِمِ مِنْ الِ مُحَمَّدٍ صَلَوتُ اللهِ عَلَيْهِمْ إِذَا خَرَجَ.کہ امام مہدی علیہ السلام قائم آل محمد کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر دے گا.النجم الثاقب جلد ا صفحه ۲۴ و بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۳) ہیں.اس آیت میں قائم آل محمد ( امام مہدی علیہ السلام کے ذریعہ اتمام ٹور کا ذکر ہے.اور ظاہر ہے کہ اتمام نور چاند کی چودھویں رات میں ہوتا ہے.اس سے واضح ہوتا ہے کہ امام مہدی چودھویں صدی ہجری میں آئے گا.کیونکہ ایک دن کی مثال ایک صدی سے عام ہے.(تحفہ گولڑویہ ) ۳۴.آیت کریمہ: وَإِنَّ يَوْماً عِنْدَرَتِكَ كَالْفِ سَنَةٍ مَا تَعُدُّونَ کی تشریح میں بعض عارفین کا درج ذیل قول شیعہ حضرات کی معتبر کتاب.غایۃ المقصو دجلد ۲ صفحہ ۸۱ پر بیان کیا گیا ہے:.مراد از ہزار سال انشاء اللہ تعالیٰ قوت سلطان شریعت است.تا تمام شدن ہزار آنگاه شروع می کند در اضمحلال تا آنکه میگردددین غریب.چنانچہ در ابتداء بود و می باشد.اول ایس اضمحلال از گذشتن سی سال از قرن یازدهم و دراں وقت مترتب است خروج مهدی علیه السلام یعنی ایک ہزار سے مراد شریعت کے غلبہ کی قوت ہے.ایک ہزار سال گزرنے پر دین اسلام میں کمزوری آنی شروع ہوگی.یہاں تک کہ آخر کار بہت کمزور اور غریب ہو جائے گا.اور اس کمزوری کی ابتداء گیارھویں صدی سے تیس سال گزرنے پر شروع ہوگی.اس وقت سے مہدی علیہ السلام کے مبعوث ہونے کا انتظار شروع ہوگا.
(1) بعض غیر مسلم حضرات کے اندازے ، عقائد اور بیانات: تمام اہل مذاہب آخری زمانے میں آنے والے ایک موعود کی خبر دیتے رہے ہیں.اکثر کا عقیدہ اگر چہ اپنے ہی امام.نبی یا مقتداء کی بعثت ثانی“ کے رنگ میں آنے کا تھا.تا ہم اُن کے نزدیک بھی اس موعود (بروزی رنگ میں مسیح ، کرشن وغیرہ) کے ظاہر ہونے کا وقت چودھویں صدی ہجری ہی بنتا ہے.عہد نامہ قدیم کی کتاب دانی ایل میں آخری زمانے کے متعلق حضرت دانی ایل کے مکاشفہ کا ذکر ہے.جس میں خدا نے کئی باتوں کا انکشاف کیا اور اس میں لکھا ہے: ایک ہزار دوسوتو ے (۱۲۹۰ ) دن ہوں گے.مبارک وہ جو انتظار کرتا ہے اور ایک ہزار تین صد پینتیس (۱۳۳۵) روز تک آتا ہے.( دانی ایل 9-12/12) مشہور مسیحی سکالر مسٹر ہے.بی.ڈمبل اپنی کتاب THE APPOINTED) (TIME مطبوعہ لندن ۱۸۹۶ صفحہ ۱۶ پر لکھتے ہیں:."THE NEW ERA ALL THE NINE METHODS IN BOTH DIAGRAMS IS 58961 OUR 18981 " ۱/۴ یعنی سب نوشتوں اور قاعدوں کی رو سے نیا دور ( آمد مسیح کا ) آدم سے ۵۸۹۶۱/۲ ہے جو ہمارے حساب سے ( سن عیسوی میں ) ۴ ۱۸۹۸ ء ہے..عیسائی محققین کا ایک بورڈ متعد دصحیفوں اور پیشگوئیوں پر غور کرتا رہا اور پھر ۸۸۴! ء میں مکمیل دان“ نامی کتاب شائع کی جس میں گہرے غور وفکر کے بعد مسیح موعود کا ظہور ۱۸۷۳ء میں قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ وہ ۱۹۱۴ء تک اپنے مقدسوں کو جمع کرتا رہے گا..ایک اور عیسائی اسکالر نے لکھا ہے:.۴۴۴
و کامل انسانوں کے بغیر سوسائیٹی معراج کمال تک نہیں پہنچ سکتی.......ہمیں 66 معلم بھی چاہیے اور پیغمبر بھی...غالبا میں ایک مسیح کی ضرورت ہے.(اقبال نامه صفحه ۴۶۲، ۴۶۳) مرتبہ شیخ عطاء اللہ صاحب ایم.اے شعبہ معاشیات ،علیگڑھ) ۵.بابا گورو نانک رحمتہ اللہ علیہ جن کو سکھ حضرات اپنے مذہب کا بانی سمجھتے ہیں ، آپ کا ارشاد مکرر درج ہے.فرمایا: 66 آون اُٹھہتر ے جاون ستانوے ہو ر بھی اُٹھ سی مرد کا چیلا.“ ( گرنتھ صاحب ، ننگ محله صفحه ۱۳۷) یعنی ۱۸۷۸ سے ۱۸۹۷ ایلا ۱۸۲ء سے ۱۸۴۰ ء تک کا درمیانی عرصہ وہ ہے جب ایک خاص مرد کا چیلا ظاہر ہوگا..مسلمان تو امام مہدی کی آمد چودھویں صدی ہجری کے آغاز پر مانتے ہیں.سوامی بھولا ناتھ جی اپنے موعود کو اسی وجود میں تسلیم کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :- ”ہندو کہتے ہیں کہ وہ پورن برہم نش کلنک اوتار دھارن کریں گے.مسلمانوں کا وشواس ہے کہ امام مہدی کا پرا در بھاؤ ہوگا.سکھوں کا وشواس ہے کہ کلکی اوتار ہوگا.اور عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ ایشور سے ایک ہو کر پدھاریں گے.پرنتو اب یہ جاننا شیش ہے کہ ساری ستائیں پر تھک پر تھک ہوں گی یا ایک ہی ! اس کا اثر یہ ہے کہ نہیں، یہ ایک ہی ہوں گی.ہندو اسے اپنی درشٹ سے دیکھیں گے.مسلمان اپنی سے سکھ یا عیسائی اسے اپنی درشٹ سے دیکھیں گے.“ (رسالہ ست یک ستمبر ۱۹۴۱ء صفحه ۱۳) تاں مرد نے پچھیا گورو جی! بھگت کبیر جیہا کوئی ہور بھی ہوئیا اے؟ سری گورونانک ۴۴۵
جی آکھیا ،مردانیاں ! اک جھیٹا ہوئی.پر اساں توں پیچھے سو برس توں بعد ہوئی.“ (جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی صفحہ ۲۵۱) (مطبوعہ مفید عام پریس منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز ) اساں توں بعد“ کے صیغہ جمع سے ظاہر ہے کہ سب گوروؤں کے سوسال بعد وہ موعود آئے گا.آخری گورو گوبند سنگھ اور نگ زیب عالمگیر کے زمانے میں آئے.اور ازاں بعد ٹھیک سو سال گزرنے پر چودھویں صدی ہجری میں امام مہدی کی آمد مقد رتھی..عیسائیوں میں بہت سی کتب شائع ہوئیں کہ مسیح کی آمد کا زمانہ انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کا شروع ہے.یعنی تیرھویں صدی ہجری کا آخر اور چودھویں صدی ہجری کا آغاز.کچھ کتابیں اور اخبار زیادہ مشہور ہیں.مثلاً (الف) : ”ہز گلور میں اپئیر نگ مطبوعہ لندن.ساری کتاب کا یہی موضوع ہے.(ب) : " کرائسٹس سیکنڈ کمنگ، مطبوعہ لندن صفحه ۱۵ (ج): ”دی کمنگ آف دی لارڈ مطبوعہ لندن صفحه ا (د): اور اخبار ”فری تھنکر لندن مؤرخہ ۷.اکتوب ۱۹۰ء ******* ۴۶
باب دوم ظہور امام مہدی علیہ السلام کا علاقہ مشرق : ہندوستان تیرھویں صدی ہجری کے دوران مذاہب عالم کا دنگل ہندوستان میں زوروں پر تھا.اس لئے ظہور مہدی کے لئے یہی علاقہ موزوں ترین تھا.جہاں دیگر ادیان کے علاوہ مسلمانوں کے تمام فرقے بھی موجود تھے.بحر و بڑ کے مفاسد انتہاؤں کو چھو رہے تھے جنہیں دُور کرنا فرائض مہدی میں شامل تھا.طبیب اسی جگہ آتا ہے جہاں بیمار ہوں.بہت سی احادیث ، پیشگوئیوں اور بشارتوں میں بھی آنے والے کا ظہور مشرق یا ہندوستان میں بتایا گیا:.١ - قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْمَا كَذلِكَ إِذْ بَعَكَ اللهُ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ فَيَنْزِلُ عِنْدَ الْمَنَارَةِ الْبَيْضَاءِ شَرْقِ دِمَشْقَ (مسلم جلد ۲ کتاب الفتن باب ذكر الدجال) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خروج دقبال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسی حالت میں اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریم کو بھیجے گا.وہ دمشق کے مشرق کی طرف سفید منارے کے پاس نزول فرمائیں گے.(۴۷
اس حدیث سے مراد دمشق کے مشرق میں نزولِ مسیح ہے.خاص دمشق نہیں.اسی لئے خاص جائے نزول کے بارے میں اختلاف رہا ہے.چنانچہ حافظ ابن کثیر نے فرمایا ہے کہ احادیث میں نزول مسیح کے لئے کئی مقامات کا ذکر ہے.( حاشیہ ابن ماجہ جلد ۲ باب فتنہ الدجال و خروج عیسی ) ۲ - عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِصَابَةُ تَغْرُو الْهِنْدَ وَهِيَ تَكُونُ مَعَ الْمَهْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک جماعت ہندوستان میں ( مخالفین اسلام سے ) جہاد کرے گی.اور وہ مہدی کے ساتھ ہوگی.اس مہدی کا نام احمد ہوگا.( رواه البخاری فی تاریخہ ) ٣- قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْرُجُ نَاسٌ مِنَ الْمَشْرِقِ فَيُوطِنُونَ الْمَهْدِي يَعْنِي سُلْطَانَهُ - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشرق سے ایسے لوگ نکلیں گے جو مہدی کے لئے جگہ بتائیں گے جو ان کا بادشاہ ہوگا.یعنی اس کی تائید کریں گے اور اس کے کام میں مدد دیں گے.(بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۱ وابوداؤد جلد ۲ باب خروج المهدی و ابن ماجہ مصری صفحه ۵۱۹) ۴- قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا اللهُ مِنَ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُوالْهِنْدَوَعِصَابَةٌ تَكُونُ مَعَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ.(مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحہ ۷۸ و نسائی جلد ۲ صفحہ ۵۲ باب غزوۃ الہند ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت کے دو گروہ ہیں ،جن ۴۴۸
کو خدا تعالیٰ نے آگ سے آزاد کر دیا ہے.اُن میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور ایک گروہ عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہوگا.اس حدیث میں دراصل ہندوستان میں ہونے والی دو جماعتوں کا ذکر ہے.غزوہ کرنے والی جماعت وہ پہلا اسلامی لشکر ہے جس کے ذریعہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے فتح کی بنیاد رکھی گئی تھی.اور دوسری جماعت کے مسیح موعود یعنی امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ ہونا بیان ہے جس کے لڑائی کرنے کا کوئی ذکر نہیں.۵- وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ وَفِي الْمَجْمَعِ عَنِ الْبَاقِرِ هُمُ الْأَعَاجِمُ وَمَنْ لَّا يَتَكَلَّمُ بِلُغَةِ الْعَرَبِ قَالَ وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قرءَ هَذِهِ الْآيَاتِ فَقِيلَ لَهُ مَنْ هَؤُلَاءِ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى كَتِفِ سَلْمَانَ وَقَالَ لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ فِي القُرَيَّا لَنَا لَهُ رِجَالٌ مِنْ هَؤُلاء.( تفسیر صافی زیر آیت مذکور سُورۃ الجمعہ و تفسیر مجمع البیان جلد ۳ صفحه ۴۲۵ و تفسیر عمدۃ البیان جلد ۲ صفحه ۵۶۵) یعنی آیت و آخرین منھم کے تحت مجمع البیان میں امام باقر سے روایت ہے کہ وہ ( آخرین ) عجمی لوگ ہیں اور وہ عربی زبان میں گفتگو نہیں کریں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے یہ آیت پڑھی تو پوچھا گیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے اپنا ہاتھ سلمان ( فارسی ) کے کندھے پر رکھا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی ہو تو کئی آدمی ان میں سے (اہل فارس سے ) اُسے پالیں گے.فارس کا علاقہ بھی مشرق ہے.سبحۃ المرجان از آزاد بلگرامی میں ہے کہ علامہ سیوطی ، ابن جریر ، حاکم بیہقی اور ابن عساکر کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:.”سب سے پاکیزہ اور خوشبودار مقام ہندوستان ہے کیونکہ یہاں آدم اُترے اور ۴۹
یہاں کے درختوں میں جنت کی خوشبو کا اثر ہے.اس کے علاوہ لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ہندوستان کی طرف سے ربانی خوشبو آتی ہے.“ (ہندوستان کے عہد وسطی کی ایک جھلک از سید صباح الدین عبد الرحمن ایم.اے مطبوعہ ندوۃ المصنفین دہلی ۱۹۵۸ء) ے.شیعہ لٹریچر میں جن لوگوں نے امام مہدی کی زیارت اور ملاقات کا دعوی کیا ہے، ابوسعید خانم ہندی اُن میں سے ایک مشہور آدمی ہیں.انہوں نے کشف میں حضرت امام مہدی سے ملاقات کی.جنہوں نے ہندوستانی زبان میں کلام کیا اور حال دریافت کیا پورا کشف بیان کر کے آخر میں فرماتے ہیں :.كُل ذَلِكَ بِكَلَام الْهِنْدِ “ ( صافی شرح اصول کا فی کتاب الحجة ) ( باب مولد صاحب الزمان.جز ءسوم حصہ دوم صفحہ ۳۰۴) اس کشف سے بغیر تاویل کے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والا مہدی ہندوستان میں آئے گا.(امام مہدی کا ظہور صفحہ ۳۶۳).ایک روایت میں ہے کہ مھدی کا دعہ بستی سے نکلے گا.يَخْرُجُ الْمَهْدِى مِنَ الْقَرْيَةِ يُقَالُ لَهَا كَدْعَةٌ “ 66 جواهر الاسرار صفحه (۵۶) ۹.ایک روایت میں ہے کہ مہدی خراسان سے آئے گا.( مسند احمد بن حنبل، کنزل العمال جلد کے صفحہ ۱۸۶، حج الکرامہ صفحہ ۳۵۸) ۱۰.ایک روایت میں ہے کہ مہدی قحطان سے پیدا ہوگا.( کنزل العمال جلدے صفحہ ۱۸۸) مندرجہ بالا تینوں روایات مع حوالوں کے امام مہدی کا ظہور از قریشی محمد اسد اللہ
صاحب کا شمیری صفحہ ۱۵ پر درج ہیں.اور تینوں سے ایک مشترک بات ظاہر ہے کہ مہدی مشرق کی طرف سے ظاہر ہوگا.لَوْ كَانَ الْإِيمَانُ مُعلَّقاً بِالكُرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ اَور جَالٌ من هؤلاء.(بخاری کتاب التفسير - سورة الجمعة) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ایمان اُٹھ جائے گا تو دوبارہ قائم کرنے والا موعود اہل فارس میں سے آئے گا.یہ بھی درحقیقت فارس کے علاقہ یعنی جانب مشرق کی طرف اشارہ ہے.۱۲ - عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سلَّمَ يَخْرُجُ الْمَهْدِى مِنْ قَرْيَةٍ يُقَالُ لَهَا كَرْعَةَ ( بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۳) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی کرعہ نامی بستی سے ظاہر ہو گا.غالباً کرہ نہیں، دراصل کدعہ ہے اور کدعہ سے مراد قادیان (مشرقی پنجاب) ہے جو درحقیقت اسلام پور قاضی تھا.پھر کادی یا کا دیں کے نام سے معروف رہا.اس طرح کدعہ در اصل قادیان کا ہی معترب ہے.١٣ - ثُمَّ يَجِينُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ مِنَ الْمَغْرِبِ وَلَفْظُ الطَّبَرَانِي مِنَ الْمَشْرِقِ.(تفسیر در منثور جلد ۲ صفحه ۲۴۲) پھر عیسی ابن مریم مغرب سے ظہور فرمائیں گے.اور طبرانی میں مشرق سے“ کے الفاظ ہیں.۱۴.جمال پور کے مشہور صوفی بزرگ مجذوب حضرت گلاب شاہ نے ۲۷۸ ہجری میں خبر دی کہ عیسی جو آنے والا تھاوہ پیدا ہو گیا ہے اور قادیان میں ہے.“ ( نشانِ آسمانی صفحہ ۲۱) ۴۵۱
۱۵.حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار نہر نے کئی بڑے بڑے جلسوں میں بیان کیا کہ حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی نے فرمایا: کہ آسمان سے ایک نور قادیان پر گرا اور میری اولاد اس سے بے نصیب رہ گئی.“ (تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳) ۱۶.حضرت مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ نے مثنوی میں فرمایا ہے.گفت دانائے برائے داستاں که درختی هست در هندوستاں کہ ایک دانا نے تمثیل کے طور پر کہا کہ ہندوستان میں ایک ایسا درخت ہے جس کا میوہ کھانے والا نہ بوڑھا ہوتا ہے اور نہ اسے موت آتی ہے.بادشاہ یہ بات سن کر ہندوستان کے اس درخت پر عاشق ہو گیا.پھر بادشاہ کو ایک درویش ملا جس نے تشریح کی کہ درخت سے مراد علم ہے جو بہت بلند ، وسیع اور زندگی کا پانی ہے.تو بے خبر ہے جو صورت پر جاتا ہے اور معانی سے بے خبر ہے.کبھی اس کا نام درخت ہے نبھی سورج کبھی سمندر اور کبھی بادل.صد ہزاراں نام و آں یک آدمی صاحب ہر وصفش از وصفه عمی یعنی اگر چہ وہ اکیلا آدمی ہے لیکن اس کے لاکھوں نام ہیں.پھر مزید تشریح اور اس شخص کے اوصاف گنوا کر آخر میں درویش نے کہا: گفت خود خالی نبود است اُمتے از خلیفه حق و صاحب ہمتے کوئی اُمت خدا تعالیٰ کے خلیفہ اور اولوالعزم مرد خدا سے خالی نہیں.( مثنوی مولاناروم دفتر دوم صفحه ۱۸۱ - ۱۸۲) اس درخت سے مراد در اصل وہی امام مہدی ہے جس نے کہا ع ۴۵۲
اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے اور اپنے بے شمار ناموں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار ۱۷.ایک مشہور بزرگ حضرت صاحب کو ٹھ والے المتوفی ۱۲۹۴ ہجری نے ایک دن فرمایا:- ”مہدی آخرالزمان پیدا ہو گیا ہے.ابھی اس کا ظہور نہیں ہوا.اور جب پوچھا گیا کہ نام کیا ہے؟ تو فرمایا : کہ نام نہیں بتلاؤں گا.مگر اس قدر بتلاتا ہوں کہ زبان اس کی پنجابی ہے.“ یہ روایت حضرت صاحب کوٹھ والے کے بہت سے مخلص و معتبر متبعین نے بیان کی ہے.(تفصیل دیکھیں تحفہ گولڑویہ صفحہ ۳۸،۳۴) ۱۸.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا:.رَجُلٌ مِنْ الِ مُحَمَّدٌ يَظْهَرُ بِالْمَشْرِقِ وَ تُوْجَدُ رِيحُهَا بِالْمَغْرِبِ كَالْمِسْكِ يَسِيرُ الرُّعْبُ أَمَا مَهَا بِشَهْرٍ.یعنی آل محمد سے ایک مرد مشرق سے ظاہر ہوگا اور اس کی ہوا کستوری کی طرح مغرب میں پھیل جائے گی اور ایک ماہ اس کے آگے رعب چلتا ہوگا.بعض غیر مسلم بزرگوں کے حوالے بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۱۷۳) ا.بائیل میں قدیم سے ایک پیشگوئی ہے جس میں موعود کے مشرق سے ظاہر ہونے کا ذکر ہے:.۵۳
انْصُنِى إِلَى أَيَّتُهَا الْجَزَائِرُ وَلْتُجَدِّدِ الْقَبَائِلُ قُوَّةٌ لِيَقْتَرِبُوا ثُمَّ يَتَكَلَّمُوا لِنَتَقَدَّمَ مَعًا إِلَى الْمُعَاكَمَةِ مَنْ أَنَضَّ مِنَ الْمَشْرِقِ الَّذِي يُلَاقِيْهِ النَّصْرُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ.(عربی بائیبل یسعیاہ نبی کی کتاب 41/2-1 مطبوعہ اے ! ء آکسفورڈ ) کہ اے جزیرو! خاموش رہو.اور اُمتیں از سر نو قوت حاصل کریں اور نزدیک آکر عرض کریں.آؤ ہم مل کر عدالت کے لئے نزدیک ہوں.کس نے مشرق سے اُس کو بر پا کیا وہ کہ جس کے قدم مدد آ کر چومتی ہے.۲.انجیل میں ہے:.جیسے بجلی پورب سے آکر کوند کر ھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہوگا“.(متی باب ۲۴ آیت ۲۷) اس میں مسیح کی آمد ثانی کا ذکر ہے جو امام مہدی کی صورت میں ظاہر ہونا مقدر تھا.اور یہاں اس کا پورب یعنی مشرق سے ظاہر ہونا واضح ہے.۳.سکھ مذہب کے بانی حضرت بابا گورونانک رحمتہ اللہ علیہ کا ذکر ہے:.تاں مردا نے پچھیا گورو جی! بھگت کبیر جیہا کوئی ہور بھی ہوئیا اے؟ سری گورو نانک جی آکھیا مردانیاں ! اک جھیٹا ہوسی.پر اساں تو پیچھے سو برس توں بعد ہوسی.پھر مرد نے پچھیا ، جی ! کیبڑی تھا ئیں اتے ملک وچ ہوسی ؟ تاں گورو جی نے کہیا ،مردانیاں !وٹالے دے پر گنے وچ ہوسی.( جنم ساکھی بھائی بالا والی وڈی ساکھی صفحہ ۲۵۱ مطبع مفید عام پریس منشی گلاب سنگھ اینڈ سنز) اس میں موعود کے تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور مشرقی پنجاب میں آنے کا ذکر ہے.M for d
باب سوم ظہور امام مہدی علیہ السلام کی نشانیاں رسالت مآب سرور کائنات حضرت محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال رحمت سے آنے والے اپنے مہدی کی متعدد علامات یا نشانیاں بھی بیان فرمائی ہیں.جن پر غور و فکر سے ایک متلاشی حق اصل حقیقت بہ آسانی پاسکتا ہے.ایک نہایت واضح ، اہم اور روز روشن کی طرح عیاں نشان سورج اور چاند کا مقررہ وقت پر گرہن لگنا ہے.کسوف و خسوف کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَّمَضَانَ وَ تَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النّصفِ مِنْهُ سُنن دار قطنی صفحه ۸۸ ا باب صفة صلوة الخسوف والكسوف وهيئتهما - مطبع فاروقی ، دہلی) کہ ہمارے مہدی کی صداقت کے دو نشان ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے آج تک کسی کے لئے ظاہر نہیں ہوئے.یعنی ماہ رمضان میں چاند کو ( چاند گرہن کی راتوں سے ) پہلی رات کو اور سورج کو ( سورج گرہن کی تاریخوں میں سے ) درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا.
بعض لوگوں کا یہ خیال کہ اس نشان کے مطابق چاند کی پہلی تاریخ اور سورج کی درمیانی تاریخ کو گرہن لگے گا، درست نہیں ہے.کیونکہ حدیث میں قمر کو چاند گرہن لگنے کا ذکر ہے.اور از روئے لغت پہلی تاریخ کے چاند کو مر نہیں حلال کہتے ہیں دراصل قانون قدرت کی رو سے چاند اور سورج کے گرہن کی راتیں اور تاریخیں مقرر ہیں.جیسا کہ نواب صدیق حسن خان صاحب نے لکھا ہے:.اہل نجوم کے نزدیک چاند گرہن زمین کے سورج کے مقابل آنے سے ایک عام حالت میں سوائے تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں اور اسی طرح سورج گرہن بھی خاصی شکل میں سوائے ستائیسویں ، اٹھائیسویں اور انیسویں تاریخوں کے کبھی نہیں لگتا.‘ (حج الکرامہ صفحہ ۳۴۴) نشان کا ظہور امام مہدی علیہ السلام کی صداقت پر گواہ یہ عظیم الشان نشان ۱۸۹۴ ء میں اس! ہجری کے رمضان المبارک کی مقررہ تاریخوں تیرھویں اور اٹھائیسویں پر ظاہر ہوا.( اخبار آزاد ۴ مئی ۱۸۹۴ء) ( سول اینڈ ملٹری گزٹ ۱۶ پریل ۱۸۹۴ء) جب یہ غیر معمولی عظیم الشان نشان ظاہر ہوا اس وقت سید نا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کوئی مسیح اور مہدی ہونے کا مدعی نہیں تھا.اور بموجب فرموده رسول ممکن نہیں کہ مدعی کے بغیر ہی گواہ پیش ہو جا ئیں.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے اس نشان کے ظہور پر فرمایا :- ” مہدی موعود کی یہ بھی نشانی ہے کہ خدا اس کے لئے اس کے زمانہ میں یہ نشانی ظاہر کرے گا کہ چاند اپنی مقررہ راتوں میں سے پہلی رات میں گرہن پذیر ہوگا اور ۵۶
سورج اپنے مقررہ دنوں میں سے درمیانی دن میں کسوف پذیر ہوگا.اور یہ دونوں خسوف و کسوف رمضان میں ہوں گے.....نشان کے طور پر یہ خسوف وکسوف صرف میرے زمانہ میں میرے لئے واقع ہوا ہے.اور مجھ سے پہلے کسی کو یہ اتفاق نصیب نہیں ہوا کہ ایک طرف تو اس نے مہدی موعود ہونے کا دعوی کیا ہو اور دوسری طرف اس کے دعوی کے بعد رمضان کے مہینہ میں مقرر کردہ تاریخوں میں خسوف و کسوف بھی واقع ہو گیا ہو اور اس نے خسوف وکسوف کو اپنے لئے ایک نشان ٹھہرایا ہو.(چشمہ معرفت صفحہ ۳۱۴ حاشیہ) اسی طرح آپ کے دو شعر ہیں ؎ آسماں میرے لئے تو نے بنا یا اک گواہ چاند اور سورج ہوئے میرے لئے تاریک و تار یا رو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آپکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا یہ علامت یا نشانی حضرت امام مہدی علیہ السلام کی صداقت پر عظیم الشان آسمانی تصدیق ہے.بارہ تیرہ صدیوں میں یہ علامت بزرگانِ امت بیان کرتے رہے ہیں.بالآخر حضرت مہدی علیہ السلام نے خدا کی طرف سے علم پا کر قبل از وقت اعلان فرمایا.آخر کار یہ انسانی طاقتوں سے قطعی بالا نشان خاص خدائی تقدیر سے ۱۳۱۱ ہجری یعنی ۱۸۹۴ ء میں ظاہر ہو گیا.اس نشان کی اہمیت کے پیش نظر کچھ اور حوالے درج ذیل ہیں جن میں اس نشان کی مزید عظمت و تفصیل بیان ہے:.۱- الفتاوی الحدیثیہ.مصنفہ علامہ شیخ احمد شہاب الدین احمد حجر اہیمی.مطبوعہ مصر صفحہ ۳۱ حج الکرامہ فی آثار القیامہ - از نواب صدیق حسن خان صاحب والی بھوپال ، مطبوعہ ۴۵۷
۱۲۹۱ هجری صفحه ۳۴۴ ۳.عقائد اسلام.مصنفہ مولوی مولا نا عبد الحق صاحب محدث دہلوی ، مطبوعہ ۱۲۹۲ ہجری صفحہ ۱۸۲، ۱۸۳.۴.آخری گت.مصنفہ محمد رمضان صاحب حنفی ،مطبوعہ مجتبائی ۲۷۸ ہجری ۵.احوال الآخرة - از حافظ محمد صاحب لکھو کے.مطبوعہ ۱۲۰۵ ہجری صفحہ ۲۳ -۲- اقتراب الساعة - از ابوالخیر نواب نور الحسن خان صاحب، مطبوعہ ۳۰۱ ہجری صفحہ 1+2.107 ے.قیامت نامہ فارسی.( علامات قیامت اردو) مصنفہ شاہ رفیع الدین صاحب دہلوی ۸.اکمال الدین صفحہ ۳۶۸ ۹ مکتوبات امام ربانی مجد دالف ثانی.جلد ۲ صفحہ ۱۳۲ ۱۰ بحار الانوار جلد ۱۳ صفحه ۵۸ ۱۱.قصیدہ ظہور مہدی از مولوی فیروز الدین صاحب لاہوری صفحه ۴۱ ۱۲.حکمت بالغہ از مولوی ابوالجمال احمد مکرم صاحب عباسی رکن مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد دکن مطبوعہ دارالمعارف صفحه ۴۰۹ کسوف و خسوف (چاند سورج گرہن ) کا نشان امام مہدی کی صداقت پر ایک حتمی نشان ہے جو ہر طرح انسانی طاقتوں سے بالا.سراسر خدا تعالیٰ کی تقدیر وحکمت سے ظاہر ہوا.چودہ صدیوں کے علماء ربانی اور محدثین اسے بیان کرتے آئے.آخر کار خدا تعالیٰ نے فعلی طور پر اسے پورا کر کے حضرت مسیح موعود امام مہدی علیہ السلام کی صداقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی.اور آپ نے فرمایا ( ۵۸
اسْمَعُوا صَوْتَ السَّمَاء جَاءَ الْمَسِيحَ جَاءَ الْمَسِيحَ نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار حدیث مجددین کسوف و خسوف کی طرح ایک اور نہایت واضح ارشا در سالت مآب ہر صدی کے سر پر مجددین امت کی آمد سے متعلق ہے.تیرہ صدیوں میں مجددین آتے رہے اور چودھویں صدی کے سر پر آنے والے مجدد کے متعلق علماء ربانی کو یقین تھا کہ وہی امام مہدی علیہ السلام ہوں گے.حدیث میں ہے:.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا - (ابوداؤ د جلد ۲ صفحه ۲۱۲ كتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة مطبع نو لكشور، مشكوة صفحه ۱۴) یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر مجد دین مبعوث فرماتا رہے گا.تمام علماء اس حدیث کی صحت پر متفق ہیں اور واقعات نے اس کی تائید کر دی ہے کہ تیرہ صدیوں میں سے کوئی صدی ایسی نہیں گزری جس کے سر پر مجدد نہ آئے ہوں.چنانچہ مشہور کتاب حجج الکرامہ صفحہ ۱۳۵ تا۱۳۹ سے تیرہ صدیوں کے مجددین کی فہرست درج ذیل ہے :- ا.پہلی صدی ہجری کے مجدد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ.۴۵۹
۲.دوسری صدی ہجری کے مجدد حضرت امام شافعی + حضرت امام احمد بن حنبل.تیسری صدی ہجری کے مجدد حضرت ابو شرح و حضرت ابوالحسن اشعری.چوتھی صدی ہجری کے مجدد حضرت ابوعبید اللہ نیشا پوری وقاضی ابوبکر باقلد نی ۵.پانچویں صدی ہجری کے مجدد حضرت امام غزالی رحمتہ اللہ.۶.چھٹی صدی ہجری کے مجدد حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ.ے.ساتویں صدی ہجری کے مجدد حضرت امام ابن تیمیہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری..آٹھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی و حضرت صالح بن عمر.۹.نویں صدی ہجری کے محبد د حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمتہ اللہ علیہ ۱۰.دسویں صدی ہجری کے مجدد حضرت امام محمد طاہر گجراتی رحمتہ اللہ علیہ.۱۱.گیارہویں صدی ہجری کے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ مجدد علیہ.۱۲.بارہویں صدی ہجری کے حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمتہ محدد اللہ علیہ.۱۳.تیرھویں صدی ہجری کے مجدد حضرت سید احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ.
تیرہ صدیوں کے مجد دین کی تفصیل درج کرنے کے بعد لکھا ہے:.و بر سر مائنہ چہار دہم که ده سال آنرا باقی است - اگر ظہور مہدی علیہ السلام ونزول عیسی صورت گرفت پس ایشاں مجد دو مجہتد باشند.کہ چودھویں صدی شروع ہونے میں دس سال باقی ہیں ( تصنیف حجم الکرامر ۲۹ ہجری) اگر اس میں مہدی و عیسی کا ظہور ہو جائے تو وہی چودھویں صدی کے مجد دہوں گے.اسی طرح رسالہ انجمن تائید اسلام بابت ماہ اپریل ۱۹۲۰ ء نے لکھا:.حدیثوں میں مریم و ابن مریم آیا ہے کہ وہ صدی کے سر پر آئے گا اور چودھویں صدی کا مجد دہوگا“..تیرہ صدیوں کے مجد دین کی ایک فہرست علامہ عبدالحی صاحب مرحوم فرنگی محلی نے مجموعته الفتاوی جلد ۴ صفحہ ۶۷ پر بھی دی ہے.۱۴ (دیکھیں نور العینین علی تفسیر الجلالین.مصنفہ قاضی مجیب الرحمن الازہری ) چودھویں صدی کا اختتام اور مسجد دعصر کا اعلان ! چودھویں صدی ہجری کا اختتام ہو چکا ہے.اس صدی کے مجد د ( امام مہدی علیہ السلام) کو صدی کے شروع تک ظاہر ہو جانا چاہیے تھا.یہ ہرگز ممکن نہیں کہ فرمودۂ رسالت تاب باطل ہو.پس محجبد دعصر حضرت امام مہدی علیہ السلام یقینا ظاہر ہوچکے ہیں.البتہ ممکن ہے بعض لوگوں کو لاعلمی ، عدم پہچان ، عدم تلاش ، عدم غور و فکر یا دعا ئیں نہ کرنے کے سبب اسے قبول کرنے اور سلام رسول کے پہنچانے سے محروم ہوں.ہم قلبی ایمان اور دلی یقین کے ساتھ اظہار کرتے ہیں کہ وہ موعود محجبد دعصر امام مہدی عین اپنے وقت پر ظاہر ہوا.اس نے بار بار اعلان فرمایا:.
(0).جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے“.( کتاب البریہ صفحہ ۱۶۸ ، حاشیہ) (ب).”ہائے یہ قوم نہیں سوچتی کہ اگر یہ کاروبار خدا کی طرف سے نہیں تھا تو کیوں عین صدی کے سر پر اس کی بنیاد ڈالی گئی اور پھر کوئی بتلا نہ سکا کہ تم جھوٹے ہو اور فلاں سچا آدمی ہے“.(ضمیمہ اربعین نمبر ۳، ۴ صفحہ ۲) (ج).افسوس ان لوگوں کی حالتوں پر ، ان لوگوں نے خدا اور رسول کے فرمودہ کی کچھ بھی عزت نہ کی اور صدی پر بھی سترہ برس گزر گئے مگر ان کا مجد داب تک کسی غار میں چھپا بیٹھا ہے“.( اربعین نمبر ۳ صفحہ ۱۳).یہ اعلان حضرت مرزا صاحب علیہ السلام نے صدی کے سترہ برس گزرنے پر فرمایا.مگر اب تو چودھویں صدی اختتام پذیر ہو چکی اور پندرھویں صدی کے بھی قریباً آٹھ سال ختم ہورہے ہیں.!!!! زمانہ وظہور امام مہدی کی دیگر نشانیاں قرآن کریم اور آنحضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ اور ظہور مہدی علیہ السلام کے متعلق بیان فرمودہ ساری نشانیاں پوری ہو چکی ہیں.ان کا ذکر کرنا ضروری ہے.کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذات میں ایک زبر دست گواہ کی حیثیت رکھتی ہے.اونٹنیاں بے کار ہو چکی ہیں.نہریں کھودی گئیں.پہاڑ توڑے گئے.
جہاز ، ریل، موٹریں وغیرہ نئی سواریاں ایجاد ہوئیں.طاعون پھوٹی.زلزلے آئے.قحط پڑے.جنگیں ہوئیں.جھوٹ عام پھیل گیا.دمدار ستارہ نکلا.بدا خلاقیاں عروج کو پہنچیں.دخانی جہاز نکلے.چھاپہ خانے بکثرت بنے.ٹڈی دل آئے.نا گہانی موتیں ہونے لگیں.ماں باپ سے بدسلوکی ہونے لگی.اخلاقی و تمدنی بگاڑ ظاہر ہوا.مزدوروں کی طاقت منظم ہوئی.مشرق و مغرب کے تعلقات کا قیام ہوا.عربوں پر انتہائی مشکل ادوار آئے.دجال پوری تفصیل کے ساتھ ظاہر ہوا.یا جوج و ماجوج بصورت روس وامریکہ نکلے.مغربی اقوام روحانی آنکھ سے محروم ہو ئیں.
زمین نے اپنے خزائن اگلے.O) آسمان کی کھال اترنے لگی.مسلمانوں کے بہتر اے فرقے بن گئے.مخفی علوم ظاہر ہونے لگے.حج بیت اللہ سے روکا گیا.علماء کی حالت نا گفتہ بہ ہوگئی.بظاہر عالی شان مسجد میں بننے لگیں.اسلام کا فقط نام رہ گیا.قرآن کے فقط الفاظ باقی رہے.قرآن کی تجارت ہونے لگی.شراب عام ہوگئی.عورتوں نے مردوں کی ہمشکل بننا شروع کر دیا.مردوں نے عورتوں کا ہمشکل بننا شروع کر دیا.صلیب کا غلبہ ہواحتی کہ اہل صلیب خانہ کعبہ پر صلیب لہرانے کے خواب دیکھنے لگے.یہ ساری نشانیاں احادیث و روایات میں تفصیل کے ساتھ پائی جاتی ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے پوری ہو گئیں یا پوری ہورہی ہیں.اس لئے اس بارہ میں ثبوت کے لئے حوالے پیش کرنے کی ضرورت نہیں.یہ تمام پیش گوئیاں بحارالانوار جلد ۱۳ صفحہ ۱۵۲ اور اقتراب الساعتہ صفحہ ۳۸ سے صفحہ ۵۴ تک بیان ہیں.عام حوالے، ابونعیم ، ترمذی ، طبرانی ، احمد، ابن ابی الدنیا، ابن عساکر، الديلمي البیہقی، السلمی، ابن ابی حاتم ، اور کتب احادیث سے لئے گئے ہیں.اسی طرح امام مہدی کے نام.قوم اور دیگر ذاتی تفصیلات اس قدر { 40 }
اختلافات کے ساتھ بیان ہیں کہ علامہ ابن خلدون نے صاف کہا کہ سوائے قلیل الدخل کوئی تنقید سے خالی نہیں.( مقدمه ابن خلدون مطبوعه مصر صفحه ۱۹۱) تا ہم حکمت الہی سے سب باتیں کسی نہ کسی رنگ میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے وجود میں ثابت ہو چکی ہیں.اس لئے بلا شک و شبہ آپ ہی چودھویں صدی میں آنے والے محبت دعصر و امام مہدی ہیں.اسی لئے آپ فرماتے ہیں:.مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو.جس کسی کے کان سننے کے ہوں سنے.یہ خدا تعالیٰ کا کام ہے اور لوگوں کی نظروں میں عجیب“.( تحفہ گولڑویہ ) وقت تھا وقت مسیحا مجسم انتظار بنے لوگ قلبی تمنا رکھتے تھے کہ مجد دعصر، امام مہدی علیہ السلام جلد ظہور فرمائیں تو ہم حاضر ہو کر جناب رسالت مآب کا سلام پہنچا کر اس کی مدد و نصرت میں لگ جائیں.لیکن وقت آنے پر خود کو اصحاب علم و فضل سمجھنے والے علماء امام مہدی کے مخالف ہو گئے.یا تو وہ دن جب کہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دیں مہدی موعود اب جلد ہوگا آشکار کون تھا جس کی تمنا یہ نہ تھی اک جوش سے کون تھا جس کو نہ تھا اس آنے والے سے پیار پھر وہ دن جب آگئے اور چودھویں آئی صدی سب سے اول ہو گئے منکر یہی دیں کے منار پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسم یہود!
پھر مسیح وقت کے دشمن ہوئے یہ جبہ دار کیوں عجب کرتے ہوگر میں آ گیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار خدا را! بڑے فکر سے سوچئے کہ بچوں کے سردار رسالت مآب محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حسب فرمان چودھویں صدی میں آنے والا محبد دعصر اور مسیح و مہدی کیوں نہیں آیا؟ جب کہ ساری صدی ختم ہو چکی ہے اور تمام نشانیاں بھی پوری ہو گئیں.آنے والا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی صورت میں یقینا آچکا ہے.آج روئے زمین پر کوئی نہیں جو زندہ خدا سے کوئی تازہ اطلاع پا کر اس کی مخالفت کر رہا ہو.مخالفین محض انسانی اور بشری سوچ سے کام لے رہے ہیں.ہم فرمودۂ رسول سے ٹکرانے والی ان انسانی اور بشری آوازوں کو قبول نہیں کر سکتے.حقیقت یہی ہے کہ وقت ہو چکا ، نشانیاں پوری ہو گئیں.اور زمین و آسمان نے شہادت دے دی کہ آنے والا مجد دعصر، امام مهدی مسیح موعود اور قائم آل محمد ظاہر ہو چکا جس نے کہا وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ** **
باب چهارم ظہور امام مہدی کا انتظار تمام مذاہب کی رو سے آخری زمانہ میں ایک موعود کا ظہور مقدر تھا.قرآن کریم، احادیث نبویہ، بزرگانِ امت اور دیگر علماء ومحد ثین نیز مسلم اکابرین کے بیانات ،غور وفکر ، رو یا وکشوف اور الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی اصطلاح میں وہ موعود اقوامِ عالم ، امام مہدی بن کے ظاہر ہونے تھے.ان کے ظہور کا زمانہ تیرھویں صدی ہجری یا انیسویں صدی عیسوی کا آخر اور چودھویں صدی ہجری یا بیسویں صدی عیسوی کا آغاز نیز عمر دنیا کے چھٹے ہزار کا آخری اور ساتویں ہزار کا ابتدائی حصہ مقرر تھا.اس کی تمام علامتوں اور مشن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے عرب سے جانب مشرق ہندوستان میں ظاہر ہونا تھا.وہ عین وقت پر ملک ہندوستان کی بستی قادیان سے ظاہر ہوا جبکہ مسلم اور غیر مسلم اکابرین کو اس کے ظہور کا بشدت انتظار تھا.جو آہستہ آہستہ شدید تر ہوتا گیا.بطور نمونہ کچھ حوالے درج ذیل ہیں:.مسلم اکابرین کا شدت انتظار (۱).اہل سنت و اہل حدیث بزرگوں کے خیالات و بیانات : ۰۹۱ ۳ ہجری میں مولوی شکیل احمد صاحب سہسوانی نے کہا.دین احمد کا زمانے سے مٹا جاتا ہے نام قہر ہے اے میرے اللہ ! یہ ہوتا کیا ہے { "< }
کس لئے مہدی برحق نہیں ظاہر ہوتے دیر عیسی کے اترنے میں خدایا کیا ہے عالم الغیب ہے، آئینہ ہے تجھ پر سب حال کیا کہوں ملت اسلام کا نقشا کیا ہے رات دن فتنوں کی بوچھاڑ ہے بارش کی طرح گرنہ ہو تیری صیانت تو ٹھکانا کیا ہے الحق الصریح فی حیات اسیح صفحه ۱۳۳ مطبوعہ ۱۳۰۹ ہجری) ۲.ابوالخیر نواب نورالحسن خان صاحب نے ان ۳ ہجری میں لکھا:.امام مہدی کا ظہور تیرھویں صدی پر ہونا چاہیے تھا مگر یہ صدی پوری گزرگئی تو مہدی نہ آئے.اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے اس صدی سے اس کتاب کے لکھنے تک چھ ماہ گزر چکے ہیں، شاید اللہ تعالیٰ اپنا فضل و عدل و رحم وکرم فرمائے.چار چھ سال کے اندر مہدی ظاہر ہو جائیں.(اقتراب الساعۃ صفحہ ۲۲۱) ۳.اخبار اہل حدیث ۲۶ / جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ پر لکھا گیا :- ”خواجہ صاحب (حسن نظامی) نے لکھا ہے کہ ممالک اسلامیہ کے سفر میں جتنے مشائخ اور علماء سے ملاقات ہوئی ، میں نے ان کو امام مہدی کا بڑی بیتابی سے منتظر پایا.شیخ سنوسی کے ایک خلیفہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اسی ۳۳۰یاء میں امام ممدوح ظاہر ہو جائیں گے.۴.علامہ اقبال نے کہا یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا الله ( ضرب کلیم)
۵.نواب صدیق حسن خاں صاحب والی بھو پال نے بہت سے علماء کی مدد اور بڑی محنت سے مسیح و مہدی اور آثار قیامت کے متعلق تحقیق کی ہے.وہ بڑے پر یقین ہو کر منتظر تھے کہ مسیح و مہدی جلد آئیں اور وہ جناب رسالت مآب سکا انہیں سلام پہنچا ئیں.وہ لکھتے ہیں:.این بنده حرص تمام دارد که اگر زمانہ حضرت روح اللہ سلام اللہ علیہ را در یا بم اول کسے کہ ابلاغ سلام نبوی گند من باشم“.ج الکرامه صفحه ۴۴۹ مطبوعه ۱۲۹۱ هجری) کہ یہ بندہ بڑی خواہش رکھتا ہے کہ اگر زمانہ حضرت روح اللہ (عیسی علیہ السلام کا پاؤں تو پہلا شخص جو انہیں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائے وہ میں ہوں..لاکھوں مریدوں کے مرشد.لدھیانہ کے مشہور بزرگ حضرت صوفی احمد جان حضرت مرز اصاحب کے اعلان بیعت سے پہلے فوت ہو گئے.وہ زمانہ موجود کو مسیح و مہدی کا زمانہ یقین کرتے تھے.بلکہ اپنے علم و کشوف کی بناء پر سمجھتے تھے کہ حضرت مرزا صاحب ہی مسیح و مہدی ہوں گے.بارہا بیعت کی درخواست بھی کی.ایک دفعہ قصیدہ لکھا اور عرض کیے ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے ( تاریخ احمدیت ) ے.چودھری محمد حسین صاحب ایم.اے لکھتے ہیں :.سا ہوگا.یا رب ! ہمیں اتنی عمر دے کہ ہم اس رحمتہ للعالمین کے نائب کا زمانہ دیکھیں.یا رب ! ہم پر رحم فرما اور اُسے ابھی بھیج ، اگر یہ وقت اس کے ظہور کا نہیں ، تو اور کون بیا بیا ک نسیم بهار می گذرد * بیا که گل زرخت شرمسار می گذرد که بهارمی ۶۹
* بیا که فصل بهار است موسم شادی مدار منتظرم روزگار می گذرد ( کاشف مغالطہ قادیانی صفحه ۳۵).جناب سید ابو الاعلیٰ مودودی بانی جماعت اسلامی نے عام لوگوں کا شدت انتظار دیکھتے ہوئے کہا:.اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کے لئے کسی ایسے مرد کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک کے تصور کمال کا مجسمہ ہو.دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نبی کے طالب ہیں.اگر چہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں اور کوئی اجرائے نبوت کا نام بھی لے تو اس کی زبان گڈی سے کھینچنے کے لئے تیار ہو جائیں مگر اندر سے اُن کے دل ایک نبی مانگتے ہیں اور نبی سے کم کسی پر راضی نہیں.“ ترجمان القرآن دسمبر ۱۹۴۲ ء صفحه ۴-۶) فخر بند جناب مرزا رفیع سود آستونی ۱۹۵ ہجری نے آرزو کی.سودا کو آرزو ہے کہ جب تو کرے ظہور اس کی یہ مشتِ خاک ہو تیری صف نعال کلیات سود صفحه ۲۶۴ مطبع نولکشور لکھنو ۱۹۳۲ء) ۱۰.حضرت سید احمد بریلوی کے درباری شاعر جناب حکیم مومن خان مومن متوفی ۱۳۶۸ ہجری نے فرمایا زمانہ مہدی موعود کا پایا اگر مومن توسب سے پہلے تو کہیو سلام پاک حضرت کا ۱.مشہور ملہم حضرت مولوی عبد اللہ غزنوی نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے اپنے سے ایک پیشگوئی کی تھی کہ :- { < • }
ایک نور آسمان سے قادیان کی طرف نازل ہوا.مگر افسوس کہ میری اولا داس سے محروم ہوگئی.یہ روایت آپ کے ایک رفیق جناب حافظ محمد یوسف صاحب ضلع دار نہر نے کئی جگہ بیان کی.(ازالہ اوہام صفحہ ۴۹۷ ، روحانی خزائن جلد ۳) ۱۲.حضرت خواجہ غلام فرید صاحب آف چاچڑاں شریف کے سامنے ایک دفعہ حافظ گتوں نامی ایک شخص نے حضرت مرزا صاحب کے بارے میں کچھ نازیبا الفاظ کہنے کا آغاز کیا ہی تھا کہ آپ اس پر برس پڑے اور فرمایا :- اوصاف مهدی پوشیده و پنہاں ہستند - آنچناں نیست که در دلهاء مردم نشسته است - چه عجب کہ ہمیں مرزا صاحب قادیانی مهدی باشد ارشادات فریدی جلد ۳ صفحه ۱۲۳) یعنی مہدی کی صفات پوشیدہ و پنہاں ہیں وہ نہیں جو لوگوں کے دل میں بیٹھی ہوئی ہیں.یہ کونسی تعجب کی بات ہے کہ مرزا صاحب قادیائی ہی مہدی ہوں.۱۳.احناف کے مشہور و مستند عالم مولوی محمد رمضان شاہ صاحب نے ”آخری گت“ مطبوعہ مجتبائی ۲۷۸ ہجری میں لکھا ہے.کہے ہیں کہ اس سال رمضان میں سورج چاند کی گہن دونوں سنیں پہل تیرھویں چاند کا گہن ہو ستائیسویں گہن سورج کا ہو یعنی ظہور مہدی کی علامت کسوف و خسوف کی بناء پر امام مہدی علیہ السلام کا انتظار ہے
۱۴.پیشتر اس ماجرے کے اے ہمام ہو گا جو اس سال میں ماہ صیام اس میں ماہ مہر کا اے با وقوف ہوگا واقع یک خسوف و یک کسوف اور یوں آواز آوے گی وہاں وقت بیعت آسماں سے نا گہاں یعنی یہ مہدی خلیفہ حق کا ہے پس سنو تم بات اس کی جو کہے آثار محشر صفحه ۹ مطبوعه ۱۸۶۹ء) ۱۵.صاحب اقتراب الساعتہ نے ظہور امام مہدی علیہ السلام کی علامات کے بارے میں کہا ہے : اشاعتہ میں ہی ہے کہ كُلُّهَا مَوْجُودَةٌ وَهِيَ فِي التَّزَايُدِ يَوْمًا فَيَوْمًا وَقَدْ كَادَتْ أَنْ تَبْلُغَ الْغَايَةَ أَوْ قَدْ بَلَغَتْ یہ بات تو ہے ہجری میں کہی تھی.اب ان سا ہجری میں رہی سہی نشانیاں بھی ظاہر ہوگئیں.۱۶.اخبار وطن کا ایک شعر مشہور ہے.( اقتراب الساعه صفحه ۵۴) يا صاحب الزمان بظهورت شتاب گن عالم زدست رفت تو پادر رکاب گن ۱۷.ظہور مہدی کی اہم علامات میں سے دقبال اور یا جوج و ماجوج کی آمد تھی جن کے ظہور پر امام مہدی کا انتظار شدید تر ہو گیا.مولانا ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر زمیندار نے کہا
الہی ہستی مسلم کا اب تو ہما نگہباں ہے فرنگی لشکر دجال ہیں، یا جوج ہیں روسی! زمیندار ۱۶ نومبر ۱۹۳۳ ء زیر عنوان درد مایوسی) ۱۸.خواجہ حسن نظامی بیان کرتے ہیں :.امام آخر الزمان یعنی امام مہدی کا ظہور اُن کے (اہل مصر کے ) عقیدہ میں بہت جلد ہونے والا ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت امام مہدی دنیا کی تمام تاریکیوں کو دور کرنے والے ہیں“.( شیخ سنوسی اور ظہور آخر الزمان صفحہ ۷) ۱۹.خواجہ حسن نظامی صاحب نے اہل عرب اور اہل مصر کی امام مہدی کے شدید انتظار میں کیفیت بیان کرنے کے علاوہ خود بھی لکھا:.عنقریب وہ وقت آنے والا ہے کہ حضرت مہدی موعود علیہ السلام کی اصل شان نمایاں کرنے کے لئے ظاہر ہوں“.شیخ سنوسی اور ظہور مہدی آخر الزمان صفحہ ۷) ۲۰ - امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے لکھا:.مقام عزیمت و دعوت اور احیاء تجدید امت کی نسبت جو کچھ بلاقصد زبان قلم پر آ گیا تو اگر چہ اس کی تفصیل کا یہ موقعہ نہ تھا لیکن زیادہ تر یہ خیال باعث ہوا کہ شاید ان حالات و وقائع کا مطالعہ اصحاب اصلاح و استعداد کے لئے کچھ سود مند علم و عمل ہو کسی کے قلب بصیرت و دائرہ اعتبار کو ان مجددین ملت اور مصلحین حق کے اتباع و تشبہ کی توفیق ملے.شاید کوئی مرد کارآمد صاحب عزم وقت کی پکار پر لبیک کہے اور زمانہ کی طلب و جستجو کا سراغ بنے.آج اگر کام ہے تو یہی کام ہے اور ڈھونڈ ہے تو صرف اس کی“.( تذکرہ ۲۶۴ طبع دوم از کتابی دنیا.لاہور )
۲۱ - اخبار زمیندار میں ایک لمبی نظم ” ایک مصلح کی آمد کے عنوان سے شائع ہوئی تھی جس کے آخری شعر ہیں :.آنے والے آ، زمانے کی امامت کے لئے مضطرب ہیں تیرے شیدائی زیارت کے لئے اُٹھ دکھا گم گشتہ راہوں کو صراط مستقیم اک زمانے کو ہے میر کارواں کا انتظار ۲۲.جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :.( زمیندار ۹ مارچ ۱۹۲۵ء) عقل چاہتی ہے اور فطرت مطالبہ کرتی ہے، دنیا کے حالات کی رفتار متقاضی ہے کہ ایسا لیڈر پیدا ہو.خواہ اس دور میں پیدا ہو یا زمانہ کی ہزار گردشوں کے بعد پیدا ہو.اس کا نام الامام المہدی ہے، جس کے بارے میں پیشگوئیاں نبی کے کلام میں موجود ہیں.( تجدید و احیاء دین صفحہ ۵۳۰) ۲۳.امام الہند ابو الکلام آزاد اپنے زمانہ میں امام مہدی کے لئے شدید انتظار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.اگر ان میں سے کسی بزرگ کو چندلمحوں کے لئے قوم کی حالت زار پر بھی توجہ کبھی ہوتی تھی تو یہ کہہ کر خود اپنے اور اپنے معتقدین کے دلوں کو تسکین دے دیتے تھے کہ اب ہماری اور تمہاری کوششوں سے کیا ہو سکتا ہے؟ اب تو قیامت قریب ہے اور مسلمانوں کی تباہی لازمی.سارے کاموں کو امام مہدی کے نکلنے کی انتظار میں ملتوی کر دینا چاہیئے.اس وقت ساری دنیا خود بخو دمسلمانوں کے لئے خالی ہو جائے گی“.( تذکرہ طبع دوم صفحہ ۱۰) ۴۷۴
۲۴.مولاناسید ابوالحسن صاحب ندوی نے اپنی کتاب ”قادیانیت کے شروع حصے میں لکھا ”جب مرزا صاحب نے دعوی کیا اُس وقت عالم اسلام مسیح و مہدی کے انتظار میں تھا.“ ۲۵- شرف الشعراء جناب صوفی صدیقی میرٹھی ، امام مہدی علیہ السلام کے لئے سراپا انتظار ہوکر التجا کرتے ہیں.یا حبیب اللہ ! سن لیجئے خدا کے واسطے آئے ہیں ہم داستانِ غم سنانے کے لئے حضرت عیسی نہ آئے اب تو پھر کیا آئیں گے مذہب اسلام کا سکہ جمانے کے لئے ظلم و استبداد کی یا شاہ ! بس حد ہو چکی اب تو رہبر کی ضرورت ہے زمانے کے لئے (اخبار مدینه ۹ رمئی ۱۹۲۲ء) شیعہ صاحبان کے بزرگوں اور علماء کے بیانات اور شدت انتظار: ۱.شیعہ رسالہ برھان بابت ماہ نومبر ۱۹۱۲ء کے صفحہ ۳۷ پر مولوی نبی بخش نامی نے امام مہدی کو مخاطب ہو کر کہا.شب و روز ہے خلق کو انتظار دکھا دیجئے جلوہ عیاں السلام نہیں تاب ہے اب ہمیں صبر کی یہ غیبت ہے بار گراں السلام
ہماری دعا ہے یہ صبح و مسا تمہارا ہو ظاہر نشاں السلام ۲.مولوی سید محمد سبطین صاحب نے ۱۳۳۶ ہجری میں کہا:.بیا اے امام صداقت شعار که بگوشت از حد غم انتظار زروئے ہمایوں بینگن حجاب عیاں ساز رخسار چوں آفتاب بروں آئید از منزل اختفا نمایاں گن آثار مهر و وفا (غایۃ المقصو دجلد ۲ صفحه ۸۴ والصراط التوی فی احوال المهدی صفحه ۳۶۳) ۳.جناب سید محمد عباس قمر زیدی الواسطی لکھتے ہیں :.فطرت عالم مقتضی ہے اور عقل شہادت دیتی ہے اور احتیاج نوع انسانی بتاتی ہے کہ زمانے میں حجتہ اللہ کا وجود ضروری ہے خواہ بصورت نبی ہو یا بصورتِ امام......دنیا ہر گز وجود امام سے خالی نہیں رہ سکتی.اس لئے وجو د امام سے انکار دراصل نبوت و قانون قدرت ،صحیفۂ فطرت و آیات الہی سے انکار کر دینے کے مترادف ہے جو بلا تفریق مذہب وملت کسی عظمند کے لئے زیبا نہیں ہوسکتا.یہی وجہ ہے کہ اس دور کے عقلمند جرمن بھی کہتے ہیں کہ اب اصلاح عالم کے لئے سپر مین 66 ضروری ہے.آثار قیامت و ظهور حجت، مطبوعه ۱۹۵۲ ء صفحه ۱۸،۱۷) ۴.الشیخ علی اصغرا بہر وجروی کی کتاب میں آیت کریمہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّہ کی تفسیر میں لکھا ہے:.ایس آیت شریفہ دلالت بر ظہور مہدی عجل الله فرجه بالاشاره میکند........تا بحال که هزار و دو بست و هفتاد و پنجسال که از ہجرت آنحضرت صلی اللہ علیہ و
میگز ر ددین او غالب بر ہمہ دینها نشده است“.که خدا مہدی کو جلدی بھیجے، یہ آیت اس کے ظہور پر دلالت کرتی ہے.کیونکہ ابھی تک کہ ہجرت نبوی پر ۲۷۵! سال گزر گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین سب دینوں پر غالب نہیں آیا.پھر دوسرے ادیان کا ذکر کر کے لکھتے ہیں:.پس باید خداوند بزرگی از اہلِ اسلام و آلِ محمد بر انگیزند تا آنکه دینها را بیک دین محمد یه برگرداند و سائر ادیان را از میاں برادر......والا یا باید کذب لازم بیاید بر خدا وقول بایں کفر است“.یعنی چاہیے کہ خدا اہل اسلام اور آل محمد سے کسی بزرگ انسان کو کھڑا کر دے تا کہ سب دینوں کو یکجا کر کے دین محمدی پر لے آئے.اور تمام دینوں کو درمیان سے اُٹھائے ور نہ خدا پر جھوٹ لازم آتا ہے اور ایسا کہنا کفر ہے.(نورالانوار صفحہ ۱۸۰،۱۷۹) ۵.شیعہ صاحبان دعا کرتے ہیں :.عجلْ فَرَجَهُ وَ أَمْكِنَهُ مِنْ أَعْدَائِكَ وَ أَعْدَاءِ رُسُلِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ “.غاية المقصو دجلد ۲ صفحه ۱۹۲ از علامه علی حائری) یعنی اے خدا! مہدی کو جلد ظاہر فرما اور اسے اپنے اور اپنے رسولوں کے دشمنوں پر قدرت بخش..جناب عامر بن عامر بصری کہتے ہیں :.إِمَامَ الْهُدَى مَتَى أَنْتَ غَائِبُ فَمَنِ عَلَيْنَا يَا أَبَانَا بِأَوَبَةٍ الصراط السوی حصہ اول صفحه ۳۶۷) کہ اے امام ہدایت ( امام مہدی ) تو کب تک غائب رہے گا ہم پر اپنے ظہور سے احسان فرما.{
ے.ایک بزرگ امام شافعی حمو ینی جناب رضا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے تاسف سے فرمایا :- سَيّدِى غَيْبَتُكَ لَفَتْ رِقَادِي الصراط السوی حصہ اول صفحه ۵۳۴) کہ اے میرے سردار! تیری غیبت نے میری نیند کھو دی ہے اور دل کا چین چھین لیا ہے..میر سید عبد الحی صاحب الہ آباد ۳۰۱ ہجری کی مطبوعہ کتاب ”حدیث الغاشیہ صفحہ ۳۴۹ پر لکھتے ہیں :.پھر لکھا: زلزلے، خوف اور سخت فتنے علامات ظہور مہدی ہیں.اسی طرح اس سال اخیر صدی سیز دہم و آغاز سال چہار دہم ہجری میں بہت زلزلے آئے.بلاد مختلفہ میں ظاہر ہوئے آیات ارضی و سماوی و آفات کونی و مکانی بکثرت واقع ہوئے.یہ سب آفات و آیات و زلازل علامت قرب قیامت ہیں.( حدیث الغاشیہ صفحہ ۳۱۸) ۹.علامہ علی اصغرا بر وجروی نے علامات ظہور مہدی کے متعلق لکھا:.تمام بکمال پوری ہو چکیں“.( نورالانوار صفحہ ۳۹) ۱۹۲۰۱۰ء میں ایک اشتہار بعنوان "مژدہ.ذکر احوال ظہور حضرت صاحب الامر شائع ہوا جو ماہنامہ تشخیذ الا ذبان جولائی ۱۹۲۱ ء صفحہ ۱۷ پر نقل کیا گیا تھا.اس میں لکھا ہے :- امسال ۳۳۹ ہجری دہم ماہ محرم کو جمعہ تھا.....عجب نہیں کہ اسی رجب میں یا آئندہ آسمان سے وہ صدائیں آئیں جن کا منشاء یہ ہوگا کہ خلیفہ اللہ مہدی ابن حسن ہیں تم کس چیز میں جھگڑتے ہو“.امام مہدی کا ظہور از محمد اسد اللہ صاحب کا شمیری صفحه ۴۰۴)
- الصراط السوی فی احوال المهدی مطبوعہ ۱۳۳۶ ہجری میں شیخ عطار کی طرف منسوب دو شعر شائع ہوئے.صد ہزاراں اولیاء روئے زمیں از خدا خواهند مهدی را یقیں یا الہی! مهدیم از غیب آر تا جہاں عدل گردو آشکار (صفحه ۳۶۸) یعنی روئے زمین کے لاکھوں اولیاء خدا سے امام مہدی کا آنا چاہتے ہیں.یا الہی ! میرے مہدی کو غیب سے جلد ظاہر کرتا دنیا میں عدل وانصاف قائم ہو.- ۱۲.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:.آپ نے فرمایا کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام نے پہلی بار جب اس مقام پر نظر ڈالی جو قائم آل محمد ( امام مہدی ) کو عطا ہونے والا تھا تو عرض کی کہ اے الہی ! مجھے قائم آل محمد مقرار دے.جواب ملا قائم کا وجود احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ مقدر ہے.( ترجمہ از کتاب المهدی صفحہ ۱۱۲ مطبوعہ تہران ۱۹۶۶ء.مؤلفہ السید صدر الدین صدر ) ۱۳.شیعہ رسالہ ” معارف اسلام لاہور بابت نومبر ۱۹۶۸ء ” صاحب الزمان نمبر کے ٹائیٹل پیج پر خطاب به حضرت صاحب الزمان کے زیر عنوان حکیم مشرق اقبال کے فارسی اشعار درج ہیں.اے سوار اشہب دوراں بیا اے فروغ دیده امکاں بیا شورش اقوام را خاموش کن نغمه خود را بهشت گوش کن ( 29✈
باز در عالم بسیار ایام صلح جنگجو ہاں را بده پیغام صلح ۱۴.محترمہ ڈاکٹر سیدہ اشرف بخاری صاحبہ ایم.اے.پی.ایچ.ڈی.نے حقیقت منتظر پر نہایت محنت سے تحقیقی مقالہ سر قلم کیا ہے.درجنوں کتب کے حوالے دے کر آپ لکھتی ہیں:.زمانہ منتظر ہے کہ کب پردہ غیب سے ظہور فرمائیں.....ایسے انسان کا انتظار ہے جو امم سابقہ کے اولوالعزم پیغمبروں کا جانشین ہو.....آفتاب امامت.....مصلح عالم ، صہبائے محبت ایک ایسی حقیقتِ منتظر ہے، اقبال بھی جس کے لئے آرزومند تھے.( معارف اسلام - صاحب الزمان نمبر صفحه ۴۴) ۱۵.حضرت امام مہدی آخرالزمان د حبل اللہ تعالیٰ فرجہ کے حضور سید پاکنہاد آقائی الف شاہ اعلی اللہ مقامہ کا ہدیہ عقیدت و انتظارے اے مبشر در کتاب آسمانی السلام اے زنور اولین والے امام اے کہ بینی ملت اسلام در بے چارگی آخریں بے ہمہ چیزے جہاں جز طاعت مغرب زمیں مژده وصل تو بعد از انتظار قرنها حکم ابر رحمتے دارد بر تشنہ زمیں چہرہ بکشا تا بر یزد چشم من لعل و گہر در نثار مقدمت اے سرور دنیا و دیں ( معارف اسلام.صاحب الزمان نمبر صفحہ ۲۹) ۱۶.حضرت شمس تبریز کے خطاب بہ مہدی آخر الزمان پر مشتمل فارسی کلام منتخب از کلیاتِ
شمس تبریز صفحه ۹۰۶ طبع ۱۳۳۵ ہجری ، اپریل ۱۹۱۷ء در نولکشور عصا شگاف دریا کہ تو موسی کلیمی به در آں قبائے مہ را کہ تو نور مصطفائی به ز غلاف تن بروں آ کہ تو شیخ آبداری ز کمین گاہ بروں آ کہ تو نقد بس ردائی بشکن سبوئے خوباں کہ تو یوسف زمانی چو مسیح “ دم رواں کن کہ تو ہم ازاں ہوائی ( معارف اسلام.صاحب الزمان منمبر صفحہ ۳۰) ۱۷.” صاحب العصر“ کے عنوان سے قاضی وصیت علی کا کلام ؎ صاحب العصر عیاں ہو تو مزہ آجائے بت کدوں میں بھی اذاں ہو تو مزہ آجائے وصف ہے أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ میں اُس کا آیا اس سے پُر نور جہاں ہو تو مزہ آجائے جلوہ افروز ہو کرسی امام عالم رؤیت حق کا گماں ہو تو مزہ آجائے ( معارف اسلام - صاحب الزمان نمبر صفحہ (۳۱) ۱.تقریب ظہور حضرت صاحب العصر والزمان علیہ السلام رباعیات اثر ترابی سے نمونہ: (1) طور پر موسیٰ نہ لائے جس کی تاب وہ تخیلی آج ہوگی بے حجاب
آ گئے عیسی بھی شوق دید میں حضرت حجت الٹ دیجے نقاب (۲) حضور ! دید کی حسرت بھی اک قیامت ہے یہ واردات محبت بھی اک قیامت ہے ظہور حشر بداماں ہے آپ کا یہ بجا جناب! آپ کی نیت بھی اک قیامت ہے، ( معارف اسلام - صاحب الزمان نمبر صفحہ ۳۲) ۱۹.محترمہ ڈاکٹر سید اشرف بخاری صاحبہ ایم.اے.پی.ایچ.ڈی.کا مقالہ ”حقیقت منتظر کامل آٹھ صفحات پر مشتمل ہے جو ہر لحاظ سے امام مہدی کے لئے مجسم انتظار ہے.( دیکھیں معارف اسلام.صاحب الزمان نمبر صفحہ ۳۷ تا ۴۴) ۲۰.فدائے اہلِ بیت جناب اثر فرابخاری کا آئیے“ کے زیر عنوان نہایت قیمتی کلام اے جانشین احمد دین ورثه مختار آیئے دار حیدر کرار آئے خدا کے قافلہ سالار آئے دین نبی کے مونس و غم خوار آئے چوتھے فلک حضرت عیسی ہیں منتظر لے کر جلو میں عرش کے انوار آیئے پھر یورشیں ہیں ہم پہ یہود و ہنود کی پھر در پئے ستم ہیں یہ کفار آئے
گھیرا ہوا دل قوم کو فسق و فجور نے مٹنے کو اب ہیں دین کے آثار آئے حد سے بڑھ گئی ہیں مظالم کی سختیاں جتنا بھی جلد ہو سکے سرکار آئے اب انتظار کرتے ہوئے تھک گئے ہیں ہم ڈھلنے لگا ہے سایۂ دیوار آئے اب آبھی جائے گا مرے منتظر امام مدت سے منتظر ہیں عزادار آئے ارمان دید شوق زیارت لئے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں طالب دیدار آئے ( معارف اسلام.صاحب الزمان نمبر صفحہ ۳۶) ۲۱.خطاب بہ پروردگار کے عنوان سے سید اختر علی شاہ باقری کی رُباعی اب زمانے نے یہ اندھیر مچا رکھا ہے کفر و الحاد کو ایمان بنا رکھا ہے دیکھ ! اپنی تجھے توحید بچانی ہے اگر بھیج اُس کو جسے پردہ میں چھپا رکھا ہے ( معارف اسلام - صاحب الزمان نمبر صفحہ ۶۸) ل ۴۸۳
غیر مسلم اکابرین کے بیانات اور شدت انتظار امام مہدی علیہ السلام در اصل موعود اقوام عالم ہیں.اسی لئے مسلمانوں کی طرح دوسری اقوام کو بھی اپنے اپنے مقدس نبی کے نام پر اس کا شدید انتظار رہا.ا.ہندوؤں کے مشہور اخبار تیج دہلی نے ۱۱۸ اگست ۱۹۳۰ ء کی اشاعت میں ”بھگوان کرشن آؤ اور ہندوستان کو سری کرشن کی بڑی ضرورت ہے“ کے عنوان سے لکھا.بھگوان کرشن کے جنم کی مہا بھارت کے زمانہ سے بھی زیادہ ضرورت ہے.......گزشتہ ایک ہزار برس سے جو ہندوستان میں آفتیں نازل ہوئی ہیں ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی لیکن بیسویں صدی میں سوشیل زوال اور پولٹیکل گراوٹ انتہائی حالت کو پہنچ گیا ہے.اگر بھگوت گیتا میں بھگوان کا وعدہ سچا ہے تو اوتار کی سب سے زیادہ ضرورت آج کل ہے.اس لئے بھگوان کرشن آؤ، جنم لو، دنیا سے ناپاکی دور کرو، دھرم پھیلا ؤ“.( منقول از الامان دیلی ۲۳ اگست ۱۹۳۰ء) ۲.اخبار ہندو ۱۷ را پریل ۱۹۳۰ ء میں ایک نظم شائع ہوئی اب وقت مسیحائی ہے گوکل کے گوالے بمبار ترے نزع میں لیتے ہیں سنبھالے وعدہ پہ ترے زندہ ہیں اب تک ترے شیدائی کیا دیر ہے آغوش محبت میں بٹھالے مشہور عیسائی مسٹر جے.ایچ میور لکھتے ہیں.”ہمیں سچے نجات دہندہ کی ضرورت ہے.ہاں ایسے نجات دہندہ کی جو ہمیں ان ۴۸۴
بیٹریوں سے آزاد کر دے کہ جس میں ہم بچپن سے ہی جکڑے جاتے ہیں“.( کتاب علم الاخلاق اور تعلیم صفحہ ۹) ۴.عیسائی حضرات تو انتظار کرتے کرتے ہی تھک گئے ہیں حتی کہ اب وہ مسیح کی آمد شانی“ کے معنے کرنے لگ گئے ہیں کہ مراد اس سے کلیسا کا احیا ء کو ہے.وغیرہ.انتظار کرتے کرتے عیسائی محققین نے بہت اندازے لگائے اور بے شمار کتابیں لکھی ہیں.چند ایک حوالے اس مضمون کے حسب ذیل ہیں.(۱).ایک کتاب عیسائی سکالرز کے بورڈ نے گہرے غور وفکر کے بعد تصنیف کی اور اپنے اندازے بیان کرتے ہوئے شدت انتظار کا اظہار کیا.مسلمینل دان“ مطبوعہ ۱۸۸۴ء لندن.۲-THE APPOINTED TIME مطبوعہ لندن صفحه ۱۸۹۶ء ہر گلور میں اپیئر نگ ،مطبوعہ لندن.کرائسٹس سیکنڈ کمنگ ، مطبوعہ لندن صفحہ ۱۵.۵ دی کمنگ آف دی لارڈ ، مطبوعہ لندن صفحہ ا..اخبار فری تھنکر لندن، ۷ اکتوبر ۰ ۱۹۰ء.(ان کے حوالے تحفہ گولڑویہ میں بھی دئے گئے ہیں) ۵.ایک عیسائی اسکالر نے لکھا.د ہمیں معلم بھی چاہیے اور پیغمبر بھی....غالبا ہمیں ایک مسیح کی ضرورت ہے.۶.ایک ہندو شاعر جناب تصور ڈرامائٹسٹ لدھیانوی کی پکارے خواہش ہے تیری دید کی ہر جاں نثار کو روز تلاش تیری دل بے قرار کو ہے {10}
بس انتظار اب نہ اے موہن دکھائیے ہیں ت مدت غم تیرا ہی واسطہ تجھے دیتا ہوں آئے رسیدہ سینے سے اپنے لگائیے بگڑی ہوئی ہماری ہے حالت بنائیے ہوئی ہے دیدہ و دل وا کئے ہوئے اور اک فقط تمہاری تمنا لئے ہوئے پرتاپ کرشن نمبر ۱۲۰ اگست ۱۹۲۷ صفحه ۴) ے.آخری زمانے کے موعود (امام مہدی) کے بارے میں سب قوموں کو انتظار تھا.چنانچہ ہند و صاحبان نے بھی تسلیم وانتظار کیا.نهه کلنک اوتار آ،آ اے امام دو جہاں منتظر ہیں ہم کہ اب ہوتا ہے کب تیرا ظہور تو مسلمانوں کا مہدی ، تو نصاری کا مسیح تو شه سکان پستی ، تو شہنشاہ طیور از پریتم ضیائی، اخبار ویر بھارت.لاہور.کرشن نمبر اگست ۱۹۳۷ ء صفحہ ۱۶) بھگوان اپنے اناتھ (لاوارث ) بچوں کی پکار سن کر آئیے.جنم اشٹمی آگئی ، اور تم نہ آئے.“ سدرشن چکر کا کرشن نمبر - ۲۹/ اگست ۱۹۲۸ء صفحه ۲۵) ۹.آجکل کا زمانہ پیچ حیوانی زندگی کا نمونہ ہے......اور جنگ لوگوں کی ایسی خوفناک حالت سے مکتی کے لئے ایک اوتار کے آنے کی آرزو کر رہا ہے.اخبار انڈین کلکتہ ۱۴/ اکتوبر ۰ ۱۹۰ء)
۱۰.جناب لالہ رام رکھامل صاحب برق نے کہا ڈھونڈتے ہیں ہند کے دن رات تجھ کو مردوزن پھر ترستے ہیں ترے دیدار کو اہل وطن پھر مئے عرفاں پلا دے ساقی بزم کہن خون دل سے پینچ دیں تا بادہ کش اُجڑا چمن برق دل میں ہندوؤں کے پھر لگا ایسی لگن پرتاپ کا کرشن نمبر ۱۱ اگست ۱۹۲۵ صفحه ۳۲) ******
باب پنجم امام مہدی علیہ السلام کے چند اعلانات وارشادات ، اقوامِ عالم کو امام آخر الزمان کا چودھویں صدی ہجری کے سر پر شدید انتظار تھا.سارے مذاہب اور فرقوں کی پیشگوئیاں یہی وقت بتلا رہی تھیں.مذاہب عالم کی شدید ترین باہمی جنگ ہندوستان میں زوروں پر تھی.موعود آخر الزمان کی ساری نشانیاں ظاہر ہو گئیں.اندریں حالات امام مہدی علیہ السلام کا ہندوستان میں ظہور فرما ہونا آسمانی تقدیر تھا.چنانچہ عین وقت پر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے باذنِ الہی منجانب اللہ ہونے کا دعوی کیا.آپ نے فرمایا کیوں عجب کرتے ہو گر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ بادِ بہار وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا ابنِ مریم ہوں مگر اُترا نہیں میں چرخ نیز مہدی ہوں مگر بے تیغ اور بے کارزار * یہ عجیب امر ہے اور میں اس کو خدا تعالیٰ کا ایک نشان سمجھتا ہوں کہ ٹھیک ۱۲۹۰ ہجری میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ عاجز شرف مکالمہ مخاطبہ پاچکا تھا“.(حقیقتہ الوحی صفحہ ۱۹۹ نشان علا) * خطبہ الہامیہ میں فرمایا.
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنّى أَنَا الْمَسِيحُ الْمُحَمَّدِيُّ وَأَحْمَدُ الْمَهْدِقُ “.کہ اے لوگو! میں ہی مسیح محمدی ہوں اور میں ہی احمد مہدی ہوں.* یہ وہ ثبوت ہیں جو میرے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے پر کھلے کھلے دلالت کرتے ہیں.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ایک شخص بشرطیکہ متقی ہو جس وقت ان تمام دلائل پر غور کرے گا تو اس پر روزِ روشن کی طرح کھل جائے گا کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.انصاف سے دیکھو کہ میرے دعوی کے وقت کس قدر میری سچائی پر گواہ جمع ہیں“.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۰۲) * ” بہت سے اہلِ کشف مسلمانوں میں سے جن کا شمار ہزار سے بھی کچھ زیادہ ہوگا اپنے مکاشفات کے ذریعے سے اور نیز خدا تعالیٰ کی کلام کے استنباط سے بالا تفاق یہ کہہ گئے ہیں کہ مسیح موعود کا ظہور چودھویں صدی کے سر سے ہرگز ہر گز تجاوز نہ کرے گا اور ممکن نہیں کہ ایک گروہ کثیر اہلِ کشف کا کہ جو تمام اولین و آخرین کا مجمع ہے وہ سب جھوٹے ہوں اور اُن کے تمام استنباط بھی جھوٹے ہوں.اس لئے اگر مسلمان اس وقت مجھے قبول نہ کریں جو قرآن اور حدیث اور پہلی کتب کی رُو سے اور تمام اہل کشف کی شہادت کی رُو سے چودھویں صدی کے سر پر ظاہر ہوا ہوں تو آئندہ ان کی ایمانی حالت کے لئے سخت اندیشہ ہے.کیونکہ میرے انکار سے اب اُن کا یہ عقیدہ ہو جانا چاہئے کہ جس قدر قرآن شریف سے مسیح موعود کے لئے علماء کبار نے استنباط کئے تھے وہ سب جھوٹے تھے.اور جس قدر اہلِ کشف نے زمانہ مسیح موعود کے لئے خبریں دی تھیں وہ خبریں سب جھوٹی تھیں اور جس قدر آسمانی اور زمینی نشان حدیث کے مطابق ظہور میں آئے جیسے رمضان میں عین تاریخوں کے مطابق خسوف و کسوف کا ہو جانا.زمین پر ریل کی سواری کا جاری ہونا اور ذوالسنین ستارہ کا نکلنا اور آفتاب کا تاریک ہو جانا، یہ سب نعوذ باللہ جھوٹے تھے.ایسے خیال کا نتیجہ ( 19 )
آخر یہ ہوگا کہ اس پیشگوئی کو ہی ایک جھوٹی پیشگوئی قرار دیں گے.اور نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دروغ گو سمجھ لیں گئے.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۴ - ۱۳۵) ظہور صیح و مہدی سے انکار جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارتوں کے مصداق اور آپ کے روحانی فرزند جلیل، مجد دعصر حضرت امام مهدی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا قرآن وحدیث اور بزرگانِ اُمت کے بیانات اور رؤیا وکشوف کے مطابق میں عین وقت پر خدا کی طرف سے آیا ہوں :.اس لئے اگر مسلمان اس وقت مجھے قبول نہ کریں.......تو آئندہ ان کی ایمانی حالت کے لئے سخت اندیشہ ہے کیونکہ میرے انکار سے.........نتیجہ آخر یہ ہوگا کہ اس پیشگوئی کو ہی ایک جھوٹی پیشگوئی قرار دے دیں گے.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۳۵) حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بر وقت تنبیہ بالکل درست ثابت ہوئی چنانچہ آج بزعم خویش بڑے بڑے روشن خیال ، علوم جدیدہ سے آراستہ اور علم وفضل میں بلند مقام پر فائز فی الواقع اس پیشگوئی ( ظہور مسیح و مہدی) کو جھوٹا قرار دے رہے ہیں.ان کے دو اہم طبقے ہیں: ا.ایک طبقے کے بڑے ترجمان طلوع اسلام کے مدیر جناب غلام احمد صاحب پرویز ہیں جو کھلے بندوں کسی آنے والے کے خیال کو مہلک ختم نبوت کے منافی اور جاہلانہ تصور بیان کرتے ہیں.یہ بڑے صاف لفظوں میں مسیح یا مہدی کے آنے کی تردید کرتے ہیں.۲.دوسرا طبقہ جو واضح انکار کی بجائے ایک نئی تاویل کرنے لگا ہے.اُن کے نزدیک ضروری {9• }
نہیں کہ ایسا کوئی شخص آئے جو امام مہدی ہونے کا دعوی کرے.نہ یہ ضروری ہے کہ لوگوں کو اس کے مہدی ہونے کا علم ہو.بلکہ عین ممکن ہے کہ اسے خود بھی معلوم نہ ہو کہ مہدی ہے.اور وہ بغیر کسی دعوی کے اپنے خدا کے حضور پہنچ جائے.البتہ اس کی وفات کے بعد اس کے کاموں اور کارناموں کو دیکھ کر لوگ سمجھ جائیں گے کہ وہی مہدی تھا.اس طبقہ و خیال کے بڑے ترجمان بانٹی جماعت اسلامی جناب سید ابوالاعلیٰ مودودی ہیں.پرویز صاحب کے صریح مخالفانہ اور صیح و مہدی کی آمد کے قطعی منافی خیالات و بیانات طلوع اسلام کی جلدوں کے علاوہ اُن کی تصنیفات خصوصا ” شاہکار رسالت اور تحریک احمدیت.ختم نبوت میں مذکور ہیں.اور جناب مودودی صاحب کے خیالات ان کی کتاب ” تجدید و احیاء دین سے واضح ہیں.اُن کے خیالات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ خود مقام مہدی پر فائز ہیں لیکن اس کا اعلان ضروری نہیں سمجھتے.البتہ اُن کی وفات کے بعد لوگ خود ہی سمجھ جائیں گے.وہ لکھتے ہیں :.نہ میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ اپنے مہدی ہونے کا اعلان کرے گا.بلکہ شاید اُسے خود بھی اپنے مہدی ہونے کی خبر نہ ہو اور اس کی موت کے بعد اس کے کارناموں سے دنیا کو معلوم ہوگا کہ یہی تھا خلافت کو منہاج النبوۃ پر قائم کرنے والا جس کی آمد کا مردہ سنایا گیا تھا“.(تجدید و احیاء دین صفحہ ۳۳) انکار کا سبب ظہور امام مہدی سے بالواسطہ اور بلا واسطہ انکار دونوں باطل نظریے ہیں.کیونکہ ظہور مہدی پر امت محمدیہ کا ہمیشہ اتفاق رہا ہے.اس انکار کا اصل سبب مایوسی ہے.کیونکہ ساری علامتیں پوری ہو جانے اور موعود وقت گزرنے کے باوجوداگر مہدی نہیں آئے تو پھر
کب آئیں گے؟ اندریں حالات لوگوں کو مطمئن“ یا خاموش کرنے کے دو ہی طریق ممکن تھے جن میں سے ایک پرویز صاحب نے اختیار کر لیا.اور دوسرا جناب مودودی صاحب نے.فَإِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ متفقہ عقیده جہاں تک امت محمدیہ کے مختلف فرقوں اور بزرگوں کا تعلق ہے.آخری زمانہ میں مسیح و مہدی کی شکل میں ایک موعود کی آمد پر جزوی اختلافات کے باوجود ہمیشہ اتفاق رہا ہے.ا.شیعہ رسالہ معارف اسلام لاہور کا نومبر ۱۹۶۸ ء بمطابق شعبان ۱۳۸۸ھ میں صاحب الزمان نمبر شائع ہوا.اس میں حقیقت منتظر“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ میں ثابت کیا گیا ہے کہ قرآن مجید سے پہلی کتابیں بھی ایک مدبر عالم مصلح کا ئنات کی منتظر ہیں“.نیز علماء اسلام نے بھی لکھا ہے کہ حضرت مسیح آسمان سے آئیں گے اور جناب مہدی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھیں گے.....تقریبا دو ہزار احادیث و اخبار آپ کے بارے میں ملتی ہیں جنہیں بہت سے ائمہ حدیث نے نقل کیا ہے.ترمذی.ابوداؤد ابن ماجہ - حاکم - طبرائی.ابوالعلی الموصلی.وغیرہ.یہ شیعہ سنی احادیث حضرت علی.حضرت ابن عباس.ابن عمر ابن مسعود - حذیفہ کمانی.ام سلمہ.ام حبیبہ.ثوبان - قرة ابن آیاس علی الہلالی.عبداللہ بن الحارث - ابو ہریرہ.انس.ابوسعید خدری سے مروی ہیں.شیخ مفید نے کتاب الغیبہ.شیخ صدوق نے کمال الدین و تمام النعمۃ شیخ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی نے البیان فی اخبار صاحب الزمان لکھا.ان کے بعد اس موضوع پر اکثر اہل قلم نے تحقیق کی اور تصنیفات و تالیفات کا سلسلہ جاری ہے“.(صفحہ ۴۱.۴۲)
۲.نواب ابوالخیر نور الحسن خاں صاحب نزولِ مسیح “ کے عقیدہ کو اُمت کا مسلمہ عقیدہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:.نزول مسیح علیہ السلام میں تو بال برابر کا بھی فرق نہیں ہے.عیسائی بھی ان کے آنے کے قائل ہیں منتظر....ابن مریم تو سب کے نزدیک ضرور ہی آئیں گے.اقتراب الساعۃ صفحہ ۱۴۸،۱۴۷، مطبوعه ۰۱ ۱۳ ہجری) ۳.سید سلیمان ندوی صاحب لکھتے ہیں :.” مجھے جہاں تک علم ہے نزول مسیح کا انکار کسی نے نہیں کیا.معتزلہ کی کتابیں نہیں ملتیں جو حال معلوم ہو.البتہ ابن حزم وفات کے قائل تھے ساتھ ہی نزول کے بھی“.( اقبال نامہ یعنی مجموعہ مکاتیب اقبال حصہ اول صفحہ ۱۹۶ حاشیہ مطبوعہ لاہور ) ۴.جناب سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب خود بھی لکھ چکے ہیں : د مسیح علیہ السلام کا نزول ثانی مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ مسئلہ ہے اور اس کی بنیاد قرآن وحدیث و اجماع امت پر ہے.....حدیث سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے اسی طرح مفسرین، محدثین کا بھی اجماع ہے کہ مسیح کی آمد ثانی کی خبر صحیح ہے“.( قادیانی مسئلہ اور اس کے سیاسی ، دینی ، تمدنی پہلو، صفحہ ۳۶،۳۳ مطبوعہ ۱۹۶۳ ءلاہور ) ۵.جناب عباد الله اختر صاحب مشاہیر اسلام میں لکھتے ہیں :.دد بعض علماء اسلام نے ان احادیث کو ضعیف به لحاظ روایت اور موضوع بہ لحاظ درایت قرار دے کر مسیح و مہدی کی آمد ثانی کا انکار کر دیا......لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اکثریت کا عقیدہ دوبارہ آمد ثانی بدستور ہے.مسیحی دنیا کو تو مسیح کی آمد ثانی کا انتظار ہے اور رہے گا.....اور اس میں تو کلام نہیں کہ مسلمان بھی مسیح و مہدی
کے منتظر ہیں“.(مشاہیر اسلام جلد اول صفحہ ۱۸ ، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور ) ۶ - شرح عقائد نسفی ، اہل سنت کی معتبر کتاب عقائد کے بارے میں ہے.اس میں تفصیل سے ظہور مہدی کے عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے مولا نا عبد العزیز صاحب لکھتے ہیں: "قَدْ تَوَاتَّرَتِ الْأَحَادِيثُ فِي خُرُوجِ الْمَهْدِي “.که امام مہدی کے ظہور کے بارے میں متواتر احادیث آئی ہیں.(نبراس ، شرح عقائد نسفی صفحه ۵۲۴) ے.علامہ ابن خلدون اپنی تاریخ میں عقیدہ ظہور مہدی و نزول مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.إِعْلَمُ أَنَّ الْمَشْهُورَ بَيْنَ الْكَافَّةِ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ عَلَى قَمَرِ الْأَعْصَارِ أَنَّهُ لَا بُدّ فِي آخِرِ الزَّمَانِ مِنْ ظُهُورِ رَجُلٍ مِنْ اهْلِ الْبَيْتِ يُؤَيَّدُ الدِّينَ وَيُظْهِرُ الْعَدْلَ.....وَيُسَمَّى بِالْمَهْدِي یعنی یا در ہے کہ باوجود ایک لمبا عرصہ گزرنے کے پھر بھی یہ عقیدہ مسلمانوں میں مشہور رہا ہے کہ آخری زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیعت میں سے ایک شخص ظاہر ہوگا جو دین کی تائید کرے گا اور عدل کو قائم کرے گا اور اس کو مہدی کہا جائے گا.( تاریخ ابن خلدون جلد اول صفحہ ۲۶۰ - الفصل الثالث ) الغرض قرآن کریم - تعامل امت.احادیث.اقوال مفسرین و محدثین اور بزرگان ملت اس پر شاہد ناطق ہیں کہ مسیح کی آمد ثانی اور ظہور امام مہدی کا عقیدہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے جو نہایت مستحکم بنیادوں پر مبنی ہے.اس لئے آج بھی ایک سچے مسلمان پر لازم ہے کہ وقت اور نشانیوں پر غور کر کے امام مہدی کو پہچانے اور اس کو جناب رسالت تاب محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچائے.ع گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں“ 497 4
امام مہدی کون اور کہاں ہے؟ عالم اسلام کے متفقہ عقیدہ کے مطابق ضروری تھا کہ بروقت نشانیاں پوری ہونے پر موعود امام مہدی ظاہر ہو جاتے.چنانچہ وہ ظاہر ہو چکے ہیں.آپ ہیں سیدنا حضرت مرز ا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام.آپ ۱۲۵۰ ہجری میں بمقام قادیان ضلع گورداسپور پیدا ہوئے.۱۳۶۸ ہجری میں جوان ہوئے.۱۲۹۰ ہجری میں بھر چالیس سال وحی و الہام سے مشرف ہوئے.چودھویں صدی ہجری کے آغاز پر امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا بموجب حکم الہی دعوئی فرمایا اس ہجری کے رمضان (۱۸۹۴ء) میں چاندو سورج گرہن کے عظیم آسمانی نشان نے آپ کی تصدیق کی.آپ دہریوں.ہندوؤں.عیسائیوں اور دیگر اقوام کے حملوں سے اسلام کے دفاع میں آسمانی تائید و نصرت سے فتح نصیب جرنیل کی طرح کامیاب و کامران ہوئے.آپ کی تائید میں ہزاروں ہزار آفاقی و نفسی نشانات ظاہر ہوئے.آپ نے دنیا کے کناروں تک تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا ایک مستقل اور مضبوط نظام قائم فرما یا مئی ۱۹۰۸ ء سے آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت ایک مضبوط نظام خلافت میں منسلک ہو کر کناف عالم میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کر رہی ہے.حضرت مولانا حکیم نور الدین خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعد ۱۹۸۲ء سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز چوتھے خلیفہ کی حیثیت سے آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے شاہراہ غلبہ اسلام پر آپ کی جماعت کی راہنمائی فرمارہے ہیں.آج دنیا بھر میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کے لئے ۳۵۵ مشن قائم ہیں.۲۰ زبانوں میں € 90 }
قرآن کریم کا ترجمہ ہو چکا ہے.۷۲۹ مساجد، ۱۷۱ مدارس اور ۲۵ ہسپتال قائم ہیں.مختلف زبانوں میں بیرون ہند و پاکستان ۳۵ رسائل واخبارات شائع ہوتے ہیں.ان تمام * مساعی کا مرکز ربوہ (پاکستان) ہے.مبارک وہ جنہیں غور وفکر اور خدا کے حضور دعاؤں کے نتیجہ میں صادق و مصدوق رسالت مآب محمد مصطفے احمد مجتنے صلی اللہ علیہ وسلم اور ہزاروں اولیاء و بزرگان امت کے رویا کشوف اور پیشگوئیوں کے مصداق حضرت امام مہدی علیہ السلام کی معرفت نصیب ہو.کیونکہ آنے والا آ چکا، اب دوسرا کوئی نہ آئے گا.چودھویں صدی ختم ہو چکی ہے اور سب نشانیاں پوری ہو گئیں.حضرت مرزا صاحب علیہ السلام فرماتے ہیں: وہ آیا منتظر تھے جس کے دن رات معمہ کھل گیا روشن ہوئی بات دکھا ئیں آسماں نے ساری آیات زمیں نے وقت کی دے دیں شہادات پھر اس کے بعد کون آئے گا ہیہات خدا سے کچھ ڈرو چھوڑ و معادات خدا نے اک جہاں کو شنادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ نوٹ: ہر اعداد و شمارسن 1988ء - ن 1988ء کے ہیں.اب الحمد اللہ سن 2013ء میں سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی روحانی قیادت میں 202 ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے قرآن مجید کے تراجم 71 زبانوں میں ہو چکے ہیں.اور حضورانور کی رہنمائی میں جماعت احمد یہ شاہ راہ غلبہ اسلام پر گامزن اور ترقی کے منازل طے کر رہی ہے.( ناشر ) (97)
کلاه حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام بانی سلسلہ عالیه احمدیه کیوں عجب کرتے ہوگر میں آگیا ہو کر مسیح خود مسیحائی کا دم بھرتی ہے یہ باد بہار آسماں پر دعوت حق کے لئے اک جوش ہے ہو رہا ہے نیک طبعوں پر فرشتوں کا اُتار آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مردوں کی ناگہ زندہ وار کہتے ہیں تثلیث کو اب اہل دانش الوداع پھر ہوئے ہیں چشمہ توحید پر از جاں نثار باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار آسماں سے ہے چلی توحید خالق کی ہوا دل ہمارے ساتھ ہیں گومنہ کریں بک بک ہزار اسمعوا صَوْتَ السَّماء جاء اسح جاء اسیج نیز بشنو از زمین آمد امام کامگار آسمان بارد نشاں الوقت میگوید زمیں ایں دوشاہد از پئے من نعرہ زن چوں بیقرار اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے وقت ہے جلد آؤ اے آوارگان دشت خار اک زماں کے بعد اب آئی ہے یہ ٹھنڈی ہوا پھر خدا جانے کہ کب آویں یہ دن اور یہ بہار ۹۷