Yadon Ke Naqoosh

Yadon Ke Naqoosh

یادوں کے نقوش

مجموعہ مضامین
Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

یادوں کے نقوش مجموعہ مضامین ناصر احمد ظفر

Page 2

صرف احمدی احباب کیلئے دکھ یادوں کے نقوش ( مجموعہ مضامین مکرم ناصر احمد ظفر) یادوں کے نقوش مجموعہ مضامین مکرم ناصر احمد ظفر نام کتاب: ایڈیشن: تعداد سن اشاعت: طبع اول 300 $2014

Page 3

بسم الله الرحمن الرحیم انتساب اپنے پڑدادا حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام جن کی بدولت ہمارے خاندان کو احمدیت جیسی نعمت عظمی نصیب ہوئی.اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَهُ وَارحَمُهُ

Page 4

i نمبر شمار فهرست عناوین 1 تلاوت قرآن کریم عنوان 2 سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی دلگد از یادیں پہلی زیارت 1947ء پہلی ملاقات 1953ء کی گرفتاری اور خادموں سے شفقت مکرم مہر سکندر حیات صاحب لالی کے تاثرات ناممکن کو ممکن بنا دیا وفا اور دوستی کا حق ادا کرنے والا وجود 1964 ء.احمد نگر میں آمد تعلق باللہ کا ایک عظیم الشان نشان ایفائے عہد سرا پا شفقت وجود قولوا قولا ً سديداً آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی نمبر شمار ii عنوان غریبوں اور ہمسایوں سے حسن سلوک کی تلقین صفحہ جب ضروری رپورٹ ہو.آ جایا کریں ربوہ کا بابرکت ماحول 1 7 7 9 11 12 18 21 27 له الله 29 32 34 36 دلداری کا اہم واقعہ سوہنا پیر بڑا مرد ہے صفح 38 40 41 44 45 46 قومی اسمبلی میں حضور کے خطاب پر ایک ایم این اے 48 کے تاثرات عدل وانصاف کی نادر مثال اصول پرستی تعلق پروری ایک مشورہ.ایک پیشگوئی قانون کا احترام احسان کا بدلہ احسان ما حول ربوہ کے زمینداروں کی بہبود کا جذبہ دلداری اور شفقت کا اظہار حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات آخری ملاقات اور آپ کی شفقت 49 اي 52 54 55 56 59 63 63 64

Page 5

نمبر شمار := iii عنوان 3 بستی مند رانی کے چند قدیم رفقاء 4 حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب جرات و بہادری خدام سے ہمدردی جماعتی مفاد امانت و دیانت مظلوم کی ہمدردی غریب پروری 5 حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر آپ کے والد صاحب کا قبول احمدیت بستی مندرانی کا تعارف ابتدائی حالات جماعتی خدمات غیر معمولی حافظه شاگردوں سے دوستانہ تعلق دعاؤں میں تاثیر قول سدید آپ کا تو کل علی اللہ iv صفحہ نمبر شمار عنوان صفحہ 67 73 تو کل کا پھل 98 اطاعت نظام کا درس قرآن کریم سے عشق 75 76 77 78 79 82 85 85 87 88 89 91 92 93 95 97 رشتہ ناطہ میں صاف گوئی واپسی قرضہ کی عمدہ مثال حروف مقطعات پر تحقیق آپ کی شاعری واحد غزل بعض فی البدیہہ اشعار سفر آخرت حضرت خلیفہ المسح الثالث کی غیر معمولی شفقت اور دلداری 6 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری 101 102 105 106 107 108 110 113 114 116 117 احمد نگر میں بیت الذکر کا قیام مہاجرین کی آبادکاری احمد نگر میں مسلم لیگ کی صدارت سماجی خدمات مهمان نوازی 118 118 118 120 122

Page 6

vi V عنوان حضرت مولانا حکیم خورشید احمد صاحب شاد ابتدائی حالات طبابت کا پیشہ ازدواجی زندگی جامعہ احمدیہ میں ایک دلچسپ تقریری مقابلہ علم حدیث میں تخصص تبویب مسند احمد بن حنبل اعلیٰ اخلاق مظلوموں کی امداد رفقاء کار سے شفقت سرکاری انتظامیہ کے افراد سے شفقت کا تعلق جماعت اور خلافت سے قلبی لگاؤ خلیفہ وقت کی شفقت صفحہ عنوان صفحہ ڈش انٹینا کے ذریعہ خدمت 125 127 128 130 133 133 134 135 135 136 138 140 143 بلال مارکیٹ شادی ہال کی تعمیر 150 151 152 جدا گانہ طرز انتخاب اور احمدیوں کے ووٹوں کا بوگس اندراج 155 جدا گانہ طرز انتخاب کے نتائج دوسرا بلدیاتی انتخاب 1983ء مقدمات وسعت علمی تین اعزاز سفر آخرت 156 156 158 162 163 164 حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے محبت و عقیدت 143 مرد میدان خدمات سلسلہ 145 147 محترم ماسٹر خان محمد صاحب (سابق امیر ضلع ڈیرہ غازیخان) 169 آپ کے والد صاحب کا قبول احمدیت قبول احمدیت کے بعد آپ کے والد صاحب کی مخالفت ماسٹر خان محمد صاحب کی پیدائش و تعلیم اعلیٰ کردار کی غیر معمولی مثال جرات مند داعی الی اللہ گل گھوٹو سے احمد پور تک مقدمات کی تفصیل 169 170 172 173 174 174 175 نمبر شمار

Page 7

نمبر شمار vii عنوان نصرت الہی کا غیر معمولی واقعہ نافع الناس وجود نا قابل فراموش غیرت ایمانی جماعتی خدمات ایک خاندان اور پانچ مقدمات قابل فخر سزا آخری ملاقات مکرم بشیر احمد خان صاحب مند رانی بلوچ ہم مکتبوں سے ہمدردی طلبہ سے شفقت ماتحت پروری فرائض کی ادائیگی میں لگن عجز وانکسار امانت و دیانت مخالفین کا اعتراف خدمت والدین کی قابل تقلید مثال مثالی فرض شناسی صفح 176 177 177 178 179 180 181 183 184 184 185 185 186 186 187 187 188 viii عنوان صفحه مخلوق خدا سے ہمدردی 188 مهمان نوازی نماز تہجد انفاق فی سبیل اللہ ایفائے عہد جماعتی خدمات 10 محتر مہ اقبال بیگم صاحبہ حالات زندگی شادیوں پر تحائف تربیت اولاد 11 شریک حیات محتر مد رشیدہ بیگم صاحبه 189 191 191 192 193 195 195 197 197 199 12 محترمہ بی بی غلام سکینه صاحبه حالات زندگی حصول علم کے لئے سفر کی صعوبت بحیثیت معلمہ ازدواجی زندگی خدمت قرآن 211 211 211 212 212 213

Page 8

X صفحہ 214 214 215 216 216 218 221 227 235 237 ix نمبر شمار شوہر کی وفات اپنے سسر کی خدمت تربیت اولاد انفاق فی سبیل اللہ آپ کی وفات عنوان آپ کی بستی مندرانی میں احمدیت کا آغاز 13 مکرم مہر جمیل احمد صاحب طاہر 14 مکرم مولوی مبارک احمد صاحب طور 15 عزیزم فرقان اللہ صاحب خلیل 16 مکرم چوہدری علی شیر صاحب

Page 9

xii xi لفظ پیش لـ 1956 ء کی بات ہے گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان کے ایک احمدی طالب علم فیض محمد خان صاحب کی درخواست پر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے جماعت احمدیہ ضلع ڈیرہ غازی خان کے جلسہ سالانہ کے لئے ایک روح پرور پیغام ارسال فرمایا.جس کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا.میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص.....قرآنی حکم کے مطابق کہ جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان (53) قرآن کے ذریعہ ساری دنیا سے عمل کروائے تا کہ آپ کا ضلع سے معنوں میں ڈیرہ غازی خان ہو جائے.“ تاریخ احمدیت جلد 18 صفحه 95-396) حضور کی اس مبارک خواہش کو پورا کرنے کے لئے ڈیرہ غازی خان سے بہت سے مخلص اور فدائی خاندانوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا تک پہنچانے کا علم بلند کیا.ان میں سے ایک مکرم مولا نا عبدالرحمن صاحب مبشر فاضل سابق امیر جماعت ڈی جی خان تھے.جن کو حضور کا احباب جماعت ڈیرہ غازی خان کے نام مندرجہ بالا مبارک پیغام جلسہ سالانہ پر پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے اسلام اور احمدیت کا غیروں کو پیغام دینے اور اپنوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مختلف عناوین پر 32 معرکۃ الآراء کتب تصنیف کیں.جن میں ایک قرآن کریم کا لفظی اور معنوی ترجمہ ہے جو بہت بڑا کارنامہ ہے.سرائیکی خطہ سے ایک بزرگ مکرم مولا نا خان محمد صاحب سابق امیر ضلع ڈیرہ غازی خان تھے جن کو مکرم رفیق احمد صاحب نعیم کے ساتھ مل کر سرائیکی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی.اسی طرح ایک خاندان ( جس کا تعلق اس کتاب سے ہے جس کے بارہ میں مجھے کچھ لکھنے کو کہا گیا ہے ) حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے.جس کے افراد نے آج تک قرآنی جہاد کے علم کو بلند رکھا اور اسے بلند سے بلند تر کرنے کے لئے سعی پیہم میں مشغول ہے.حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی کو ان کے استاد حضرت میاں رانجھا خان صاحب نے حضرت امام مہدی کے آنے کی اطلاع کر دی تھی اور کہا تھا کہ اب علم کے نور سے روشنی ہوتی ہے.چنانچہ حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی کو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی آمد کا علم ہونے پر 1901ء میں بیعت کا شرف حاصل ہوا.آپ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ ایک جید عالم اور عربی ، فارسی، اردو اور سرائیکی زبانوں کے ماہر تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تائید میں فارسی منظوم کلام میں کتاب بھی لکھنے کی توفیق ملی.آپ بیت الذکر مندرانی میں احباب جماعت کو قرآن کریم کا ترجمہ بھی پڑھاتے رہے اور دینی باتوں سے روشناس بھی کراتے رہے.احمدیت کی تائید میں مناظرے بھی کئے اور جماعت کی خاطر مخالفت بھی برداشت کی.آپ کو مختلف لالچ دے کر احمدیت ترک کرنے کو بھی کہا گیا مگر سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے آپ نے صاف الفاظ میں کہا.میں اب جس مرشد کا مرید بن گیا ہوں اس کے بعد مجھے کسی اور مرشد کی ضرورت نہیں رہی.“ (روز نامہ الفضل 10 فروری 2012ء) اس خاندان کے ایک چشم و چراغ آپ کے بیٹے حضرت مولانا ظفرمحمد صاحب ظفر فاضل تھے.آپ کو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ امسیح الثالث ) کا ہم مکتب اور ہم جماعت ہونے کا شرف بھی حاصل ہے.جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ کچھ عرصہ بطور مربی سلسلہ خدمات بجالاتے رہے.بعد ازاں ایک

Page 10

xiv xiii لمبا عرصہ مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد کام کیا.آپ فاضل عربی ہونے کے علاوہ ادیب فاضل اور منشی فاضل بھی تھے.آپ کو بھی سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں قرآنی علم کے حکم کو اپنے قلم سے بلند کرنے کا موقعہ ملتارہا.آپ کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیشتر کتب کا عربی ترجمہ کرنے کی سعادت کے علاوہ پانچ کتب بھی تصنیف کرنے کی توفیق ملی جن میں معجزات القرآن ، قرآن زمانے کے آئینہ میں اور ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان ، بہت نمایاں ہیں.آپ کو حروف مقطعات سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کے خلیفہ ہونے کا نتیجہ اخذ کرنے کی توفیق بھی ملی.نیز سورہ نمل میں لفظ طد حد سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ پندرھویں صدی میں جماعت احمدیہ کا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن بھی ہوگا.(روز نامہ الفضل 2 ستمبر 2004ء) حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی کی احمدیت کی خاطر علمی و قلمی کاوشوں کا سلسلہ نسل در نسل جاری ہے.آپ کے پوتے مکرم ناصر احمد صاحب ظفر جو اپنے نام ناصر کی مناسبت سے ہمیشہ صف اول میں حضرت احمد کے جانثار، مددگار کے طور پر ظفر کی مناسبت سے کامیاب ہوئے.آپ بے پناہ خوبیوں کے مالک تھے.آپ کے اندرا نتظامی صلاحیتوں کے علاوہ ادبی اور قلمی صلاحیتیں بھی موجود تھیں.جدا گانہ طرز انتخاب میں مشورہ لینے کا معاملہ ہو یا بلدیہ ربوہ کا انتخاب آپ کی معاونت نمایاں رہی.آپ لوکل انجمن احمد یہ ربوہ کے پہلے سیکرٹری امور عامہ تھے آپ صائب الرائے تھے.ایک دفعہ آپ کے ابا جان نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ سے کسی معاملہ میں مشورہ طلب فرمایا اور ساتھ اپنے بیٹے ناصر احمد صاحب ظفر کا خط بھی بھجوا دیا.جس پر پرائیویٹ سیکرٹری نے تحریر فرمایا کہ نیز حضور فرماتے ہیں کہ عزیز ناصر احمد کی رائے صائب ہے“ زیر نظر کتاب مرحوم ناصر احمد صاحب ظفر کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو آپ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ اذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْرِ يَا أَذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوْتَاكُمْ کے تحت حضرت خلیفہ اسیح الثالث بزرگان سلسلہ اور رشتہ داروں کی یاد میں تحریر کئے اور روز نامہ الفضل کی زینت بنتے رہے.خاکسار نے جب ان مضامین کا مطالعہ کیا تو لا ریب یہ مضامین جہاں ازدیاد علم کا باعث بنے وہاں ازدیاد ایمان کا بھی موجب ہوئے.اس تحریر کے ابتداء میں دیئے گئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کے پیغام پر بھی پورا اترنے والے ثابت ہوئے اور علامہ علی بن سلطان محمد القاری نے مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں خَيْرُكُم خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ وَاَنَا خَيْرُكُمْ لاَ هُلِي وَإِذَامَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعَوْهُ کے تحت حديث أذْكُرُوا مَوْتَاكُمُ بِالْخَيْر درج کی ہے.اس کے حاشیہ میں آپ نے وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل سے مراد ازواج عزیز واقارب، بلکہ اجنبی اور پرائے لوگ بھی مراد ہیں کیونکہ وہ اس زمانہ کا حصہ ہیں جس میں آپ رہ رہے ہیں.اس لئے زندوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور مُردوں کے اخلاق و محاسن کا ذکر کیا کرو.( مرقاة المصابيح شرح مشکوۃ المصابیح کتاب النکاح باب عشرة النساء ومالكل واحدة من الحقوق ) اس تناظر میں اگر اپنے مرحوم بھائی کے مضامین کو دیکھا جائے تو آپ نے اس حدیث پر عمل کو خوب نبھایا.اور جہاں تک ہوسکا اپنے ذہن میں موجود کونوں کھدروں سے باتیں نکال کر ضبط تحریر میں لائے اور تا قیامت ان عظیم مرحوم بھائیوں اور بہنوں کے لئے مخلوق کی دعاؤں کو جذب کرنے کا موجب بنے.اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے.آمین چونکہ یہ تمام کاوشیں مرحوم بھائی کی سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ

Page 11

xvi XV کے پیغام کہ ڈیرہ غازی خان کا ہر شخص قرآنی حکم جَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا قرآن کے ذریعہ ساری دنیا سے عمل کروائے کے تحت ہیں اس لئے مرحوم کا ایک مضمون تلاوت قرآن کریم کو آغاز میں رکھا گیا تا معلوم ہو کہ مرحوم نے قرآنی تعلیم کو اجاگر کرنے کے لئے بھی جہاد کیا ہے.یہ وصف اب آپ کے ہونہار بیٹے برادرم عزیزم آصف احمد ظفر میں بھی موجود ہے.آپ نے اپنے پڑدادا حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی کی سیرت پر قلم اٹھا کر ان کے اخلاق کو تا ابد محفوظ کر لیا.اسی طرح آپ اپنے ابا مرحوم کے مضامین کو کتابی شکل میں شائع کروا کر خاندان کے مرحوم بزرگان و عزیز واقارب کی خوبیوں کو زندہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں تا کہ ہماری نسلیں اپنے آباؤ اجداد کو یاد رکھیں اور ان کی خوبیوں کو اپنا ئیں اور یوں آپ حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ اور حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل ارشادات پر بھی عمل پیرا ہو کر اپنے بزرگوں کو زندگی بخشنے کا موجب بن رہے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور بہتوں کے لئے زندگی بخش اور اپنے اخلاق درست کرنے کا موجب بنے آمین اللهم آمين حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:.گزشتہ چند سالوں میں میں نے جماعتوں کو بار بار نصیحت کی کہ وہ سارے خاندان جن کے آباء واجداد میں رفقاء یا بزرگ تابعین تھے ان کو چاہئے کہ اپنے خاندان کا ذکر خیر اپنی آئندہ نسلوں میں جاری کریں....سب سے زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہئے کہ آنے والی نسلوں کو اپنے بزرگ آباء و اجداد کے اعلیٰ کردار اور اعلیٰ اخلاق کا علم ہو، ان کی قربانیوں کا علم ہو.“ (خطبه جمعه فرموده 30 را پریل 1993ء مطبوعه روزنامه الفضل 27 اکتوبر 1993ء) اسی طرح حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ایسے مخلصین کی اولادوں کو چاہئے کہ اپنے ایسے بزرگوں کے واقعات قلمبند کریں اور جماعت کے پاس محفوظ کروائیں اور اپنے خاندانوں میں بھی ان روایتوں کو جاری کریں اور اپنی نسلوں کو بھی بتاتے رہیں کہ ہمارے بزرگوں نے یہ مثالیں قائم کی ہیں اور ان کو ہم نے جاری رکھنا ہے.جہاں ہم ان بزرگوں پر رشک کرتے ہیں کہ کس طرح وہ قربانیاں کر کے امام الزمان کی دعاؤں کے وارث ہوئے وہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ آج بھی ان دعاؤں کو سمیٹنے کے مواقع موجود ہیں.آئیں اور ان وفاؤں ، اخلاص، اطاعت تعلق اور محبت کی مثالیں قائم کرتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں.یادرکھیں جب تک یہ مثالیں قائم ہوتی رہیں گی زمینی مخالفتیں ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتیں.“ خطبات مسرور جلد اول صفحه 413) حنیف احمد محمود

Page 12

xviii xvii عرض ناشران یا دوں کے نقوش“ ہمارے والد محترم مکرم ناصر احمد صاحب ظفر مرحوم کے تحریر کردہ نا قابل فراموش یادوں اور ذکر خیر پر مبنی ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً روز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوتے رہے.اب ان کو کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے تا کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے.محترم والد صاحب نے اپنی یادوں کو جو کہ تاریخی معلومات سے معمور ہیں محفوظ کر کے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اور ضروری تھا کہ ان کو یکجا کر کے کتابی شکل میں شائع کرایا جاتا.الحمد للہ اس فرض کو ادا کرنے کی ہمیں توفیق مل رہی ہے.والد محترم کو خدا تعالیٰ کے فضل سے تین خلفاء احمدیت کی صحبت اور شفقت نصیب رہی.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعه فرموده 7 اکتوبر 2011ء مطبوعه روزنامه الفضل 29 نومبر 2011ء میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.تیسرا جنازہ ناصر احمد ظفر صاحب ابن مکرم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب کا ہے.یہ بھی گوسرکاری ملازم تھے لیکن مختلف موقعوں پر ان کو جماعتی خدمات کرنے کی توفیق ملی اور ریٹائر منٹ کے بعد مستقل وقف کی طرح انہوں نے جماعت کی خدمات انجام دی ہیں اور علاقے کے لوگوں کے ساتھ ان کا اچھا میل جول تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث بھی، خلیفہ اسیح الرابع بھی، اور ان کے بعد میں بھی مختلف لوگوں سے تعلق کی وجہ سے ان کو مختلف کاموں کے لئے بھیجتا رہتا تھا.علاقے کے ایک اچھے سوشل ورکر بھی تھے اور تعلقات بھی ان کو رکھنے آتے تھے.اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور ہمت عطا فرمائے“ حضور انور نے اپنے تعزیتی مکتوب مرسلہ 18 اکتوبر 2011ء میں فرمایا.”انہوں نے علاقے میں احمدیت کی خوب نمائندگی کی ہے احباب جماعت سے ہم اپنے والد محترم کی بلندی درجات اور مغفرت کیلئے دعا کی درخواست کرتے ہیں.نیز یہ کہ خدا تعالیٰ آپ کی علمی و قلمی کاوشوں کو شرف قبولیت بخش کر اسے ہر لحاظ سے مفید اور مبارک کرے.آمین آخر میں ہم مکرم و محترم ملک خالد مسعود صاحب ناظر اشاعت، مکرم حنیف احمد محمود صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکز یہ مکرم ریاض محمود صاحب باجوه مربی سلسلہ نائب ایڈیٹر ماہنامہ انصاراللہ ربوہ کرم مرزا خلیل احمد صاحب قمر، مکرم رفیق احمد صاحب نعیم مکرم عبدالمالک صاحب نائب آڈیٹر صدر انجمن احمد یہ اور اپنے چا زاد بھائی مکرم ناصر الدین صاحب بلوچ کا تہہ دل سے شکر یہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں ہماری معاونت اور راہنمائی کی نیز اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا.فجزاهم الله خيراً في الدنيا والاخرة مبشر احمد ظفر ، طارق احمد ظفر ، آصف احمد ظفر 15 مارچ 2014ء

Page 13

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب (2011-1934)

Page 14

“ 1 “ 2 تلاوت قرآن کریم قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا وہ پاک کلام ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا.یہ سب سے افضل اور آخری کتاب ہے اس کی حفاظت کا خدا تعالیٰ خود ذمہ دار ہے.ارشاد خداوندی ہے.اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ ( الحجر :10) بعض دفعہ ہم ایک معمولی سی کتاب کو صرف اس لئے توجہ سے پڑھتے ہیں.تاکہ ہمارے علم میں کچھ اضافہ ہو جائے.اگر ہم قرآن کریم کو جو تمام دینی اور دنیاوی کتابوں سے افضل اور اعلیٰ ہے.پورے غور و خوض اور تدبر سے پڑھیں تو اس کے نتیجہ میں ہم اپنی زندگی کو دین اور دنیا میں کامیاب اور کامران بنا سکتے ہیں.اس کو سوچ کر پڑھنا بہت بڑی برکت کا باعث ہے.تلاوت قرآن کریم کی اہمیت خود قرآن کریم میں مذکور ہے اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل : 79) صبح کے وقت خاص طور پر قرآن شریف کی تلاوت کیا کرو کیونکہ صبح کا وقت حضور قلب کا وقت ہوتا ہے اور اس وقت قرآن کریم پڑھنے میں خوب دل لگتا ہے.انسان رات بھر آرام کے بعد صبح تازہ دم ہو کر اٹھتا ہے تو اس وقت کی خوشگوار اور پُرسکون فضا میں دل و دماغ تروتازہ ہوتا ہے.اس میں سوچنے اور سمجھنے کی قوت زیادہ ہوتی ہے اور وہ ہر بات پر صحیح طریق سے غور کر سکتا ہے چونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی اور مطالب پر غور کرنا بھی ضروری ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اپنے بے نظیر اور مقدس کلام کی تلاوت کیلئے صبح کا وقت زیادہ موزوں اور مناسب قرار دیا ہے.پھر فرمایا ہے.کتب اَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ مُبَرَكَ لِيَدَّبَّرُوا ايته وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الْأَلْبَابِ ( ص: 30) یعنی اے نبی ! جو کتاب ہم نے تیری طرف اُتاری ہے بڑی برکت والی ہے.لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور جو عقل رکھتے ہیں اس سے نصیحت حاصل کریں.تلاوت قرآن کریم کی ایک یہ بھی برکت ہے کہ اس کے ذریعہ دلوں کو تقویت اور سکینت حاصل ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: 29) یعنی دل کا اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر سے حاصل ہوسکتا ہے.مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے.اس کی تلاوت سے غمگین اور رنجیدہ دلوں کو سکون اور طمانیت مل سکتی ہے.انسان مایوس نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کر کے اس کی رحمت و برکت کی امید رکھتے ہوئے دنیاوی کاروبار میں مصروف رہتا ہے.دنیا کی کوئی ناکامی اور نامرادی اس کا حوصلہ پست نہیں کر سکتی.کیونکہ اس کی نگاہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے.تلاوت قرآن کریم کی ایک اور فضیلت قرآن کریم کے الفاظ میں یہ ہے کہ وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (بنی اسرائیل : 83) یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایسی باتیں اُتاری ہیں.جو ایمان والوں کی روحانی بیماریوں کا علاج اور ان کے لئے رحمت کا موجب ہیں.گویا قرآن شفا بھی ہے اور رحمت بھی.روحانی بیماریوں سے مراد وہ بیماریاں نہیں ہیں.جن کا اثر جسم پر ہوتا ہے.مثلاً بخار، در دو غیرہ.بلکہ انسانی روح کی بیماریاں ہیں.جیسے کوئی بات اپنی خواہش اور مرضی کے خلاف پا کر اس کا الزام خدا پر رکھنا.خدا کی وحدانیت اور اس کی صفات میں کسی قسم کا شک کرنا اور خدا کو اپنا آقا اور مالک مانتے ہوئے اس کے احکام کی تعمیل نہ کرنا.قرآن کریم کی تلاوت سے ان مرضوں سے بھی مریض کو شفا ملتی ہے.

Page 15

“ 3 مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں اس طرح اپنی نشانیوں کا ذکر کیا ہے.کہ پھر اس کی ذات اور صفات میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا.مومنوں کے ایمان میں کوئی کمزوری پیدا نہیں ہوتی.اور جب یہ چیز پیدا ہو جاتی ہے تو پھر خدا ان کو اپنی رحمتوں سے نوازتا ہے اور وہ دنیا کی عزت اور آخرت میں بھلائی حاصل کر لیتے ہیں.پھر تلاوت کرنے والے تو رہے ایک طرف تلاوت سننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے محروم نہیں رکھا.اس نے ان کیلئے بھی رحمت کا وعدہ فرمایا ہے.چنانچہ ارشاد ہے وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَاَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف: 205) یعنی جب قرآن کریم پڑھا جائے تو اسے بہت توجہ کے ساتھ سنو اور خاموش رہو.تا کہ اس کی برکت سے تم پر رحم کیا جائے.تلاوت قرآن کریم کے متعلق ہمارے صلى الله آقا سرور دو جہاں سید ولد آدم حضرت محمد علیہ فرماتے ہیں.أَفْضَلُ عِبَادَةِ أُمَّتِي تِلَاوَةُ الْقُرْآنِ.ترجمہ: میری امت کیلئے سب سے بہترین عبادت تلاوت قرآن کریم ہے.پھر فرماتے ہیں.خَيْرُ كُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.یعنی تم میں سے بہتر وہ شخص ہے.جو خود قرآن کریم کا علم پڑھے اور دوسروں کو سکھائے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی تلاوت ایسے ذوق و شوق اور محبت اور محویت سے کرتا ہے.کہ اسے اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے دعا کرنے کی بھی خبر نہیں رہتی.تو اللہ تعالیٰ اس کو دعامانگنے والوں سے زیادہ انعام دیتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ لوہے کی طرح دل کو بھی زنگ “ رض 4 لگ جاتا ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ کس چیز سے اس زنگ کو دور کیا جاسکتا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کریم کی تلاوت سے.جہاں متذکرہ بالا آیات اور احادیث سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں بہت بڑی برکت ہے.وہاں یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہئے کہ صرف الفاظ کی تلاوت گوموجب ثواب تو ہے.لیکن اس تلاوت سے ہماری زندگی میں وہ عظیم الشان تغیر پیدا نہیں ہوسکتا.جو انسانی تخلیق کی علت غائی ہے.عربی زبان ہماری مادری زبان نہیں ہے.اس لئے ہمیں بلاد عر بیہ کے مقابلہ میں دگنی محنت کی ضرورت ہے.پہلی محنت جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کے الفاظ کے معنی سمجھ سکیں.بلا د عر بیہ کے مسلمان اس محنت کے زیادہ محتاج نہیں ہیں.کیونکہ ان کی مادری زبان عربی ہے.اور وہ ایک حد تک قرآن کریم کے معنی سمجھتے ہیں.دوسری محنت جس کے ہم اور وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی ہے.برابر کے محتاج ہیں وہ یہ ہے کہ قرآن شریف سے صوری اور معنوی اعراض نہ ہو.صوری اعراض تو یہ ہے کہ قرآن شریف کی تلاوت کی ہی نہ جائے اور معنوی اعراض یہ ہے کہ تلاوت سے کماحقہ استفادہ نہ کیا جائے.یہ ہر دو اعراض خطر ناک ہیں.اللہ تعالیٰ نے اور بنی اکرم ﷺ نے بھی ان سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَّعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيِّضْ لَهُ شَيْطَنَّا فَهُوَ لَهُ قَرِيْنٌ (الزخرف: 37) یعنی جو رحمن کے ذکر سے یعنی قرآن سے آنکھیں بند کرے گا.ہم اس کے ساتھ شیطان کو لگا دیں گے کہ وہ اس کا رفیق ہوگا.اس سلسلہ میں رسول کریم ﷺ کی ایک حدیث بھی درج کی جاتی ہے.

Page 16

“ 5 عَنْ زِيَادِ بنِ لَبِيهِ قَالَ : ذَكَرَ النَّبِيُّ الا الله شَيْئًا فَقَالَ : " ذَاكَ عِندَ أَوَان ذَهَابِ الْعِلْمِ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَ نَا وَيُقْرِثُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَ هُمْ، إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: تَكِلَتُكَ أُمَّكَ، زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لأراكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ، لَا يَعْلَمُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا؟» (سنن ابن ماجہ ابواب الفتن باب ذهاب القرآن والعلم ) ترجمہ:.زیاد بن لبید سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ نے ایک چیز کا ذکر کیا، فرمایا کہ یہ علم کے چلے جانے کے وقت وقوع پذیر ہوگی.میں نے کہا.یارسول اللہ ! علم کس طرح جا سکتا ہے.جبکہ ہم قرآن مجید پڑھتے ہیں اور اسے اپنی اولاد کو پڑھائیں گے اور آگے ہمارے بیٹے اپنی اولاد کو تا قیامت پڑھاتے رہیں گے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا.اے زیاد! تیری ماں تجھ کو کھوئے.میں تو تجھے اس شہر میں بہت سمجھدار انسان سمجھتا تھا.کیا یہود اور عیسائی تو ریت اور انجیل نہیں پڑھتے.لیکن وہ اس کے مفہوم اور مطلب کو بالکل نہیں سمجھتے.اس حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے تصور میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی.کہ مسلمانوں پر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے.کہ قرآن کریم کے ہوتے ہوئے بھی مسلمان اس کے علم سے بے بہرہ ہو جائیں گے اور وہ قرآنی علوم کے نور سے محروم رہ کر یہود و نصاری کے مشابہ ہو جائیں گے لیکن اب ہماری حالت واقعی قابل رحم ہے.کیونکہ اول تو مسلمان قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہی نہیں.اگر کبھی تلاوت کر بھی لیں.تو پھر قرآن کریم کے الفاظ ان کے گلے سے نیچے نہیں اُترتے.اور صحیح معنوں میں آنحضرت ہی ہے کے اس قول کے مصداق بن رہے ہیں کہ مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت تو کریں گے لیکن “ 00 6 قرآن کریم کے الفاظ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کریں گے.غرض ہمارے لئے از بس ضروری ہے.کہ ہم قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے معانی اور مطالب پر بھی غور کرتے جائیں.سادہ قرآن شریف پڑھنے والے کی ایسی مثال ہے کہ جیسے کوئی مریض کسی حکیم سے اپنی بیماری کا نسخہ لکھوائے اور اس کے بعد بجائے اس کے کہ اس کے مطابق اشیاء خرید کرے اور ان کی دوا بنا کر استعمال میں لائے اس کو طوطے کی طرح رٹنا شروع کر دے.(روز نامه الفضل 3 / جون 1954 ء)

Page 17

سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی کبھی نہ بھولنے والی دل گداز یاد میں پہلی زیارت 1947ء 7 اگر چہ میری پیدائش فیروز پوری کی ہے مگر میں بچپن میں ہی آبائی وطن ڈیرہ غازیخان چلا گیا.جہاں سے میری واپسی 1945ء کے لگ بھگ ہوئی.دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ اگست 1947ء میں آزادی کا بنگل بج گیا اور ہندوستان کے بٹوارے کا عمل شروع ہو گیا.ہندوستان بھر میں فتنہ و فساد کی لہریں پھوٹ پڑیں جو علاقے ہندوستان میں رہ گئے ان میں بسنے والے مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا.فساد کی آگ تیزی سے قادیان کی طرف بڑھ رہی تھی.اس وقت قادیان سے نکلنا تو کجا اپنے گھروں سے نکلنا بھی جان کی بازی لگانے کے مترادف تھا.ملکی تقسیم اور پھر خدا کی تقدیر داغ ہجرت کے تابع ہمیں بھی حضرت مسیح موعود کی بستی سے ہجرت کرنا تھی.ذرائع آمد و رفت کی کمی اور کئی دیگر اقسام کے تقاضوں کے پیش نظر جماعتی فیصلہ یہ قرار پایا کہ پہلے صرف بچوں، عورتوں، اور ضعیف افراد کو پاکستان پہنچایا جائے.چنانچہ قادیان سے روانہ ہونے والے غالبا دوسرے قافلہ میں خاکسار بھی اپنے والدین کے ہمراہ تھا.اس وقت میری عمر کوئی 13 سال کے لگ بھگ ہو گی.شدید بارش کے باعث راستہ بہت ہی خراب تھا اور پھر قدم قدم پر سکھوں ، ہندوؤں کے علاوہ ڈوگرہ وو لے الفضل میں چھپنے والے مضمون میں غلطی سے قادیان لکھا گیا ہے.“ 8 سکھ ملٹری کے حملہ آور ہونے کا خدشہ بھی بڑھتا جا رہا تھا.ہمارا یہ قافلہ قادیان سے روانگی کے قریباً 2-3 گھنٹوں میں بمشکل تین میل کی مسافت طے کرنے کے بعد قتلے والی نہر کی پڑی پر پہنچ کر قدرے صاف راستہ میسر آنے کی وجہ سے نسبتا رفتار پکڑ ہی رہا تھا کہ اچانک تمام قافلہ جو قریباً25-26 ٹرکوں اور بسوں پر مشتمل تھا، روک دیا گیا.ہر شخص پریشانی کے عالم میں مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگا کہ صاف راستہ آجانے کے باوجود قافلہ کو کیوں روک دیا گیا ہے.ہم لوگ ایک ٹرک کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے.اچانک ہمارے ٹرک کے قریب ایک انتہائی خوبصورت نوجوان موٹی آنکھیں ، کشادہ پیشانی ،سرخ و سفید رنگت، چہرہ گلاب کے پھول کی طرح روشن، متناسب قد و قامت آکھڑا ہوا.اس نوجوان کے حسن و جمال اور خوبصورتی کی عکاسی کسی حد تک یہ شعر کرتا ہے.آنکھیں کہ جیسے نور کی ندی چڑھی ہوئی ہو چہرہ کہ جیسے پھول کھلا گلاب کا اس نوجوان نے گرجدار اور بارعب آواز میں خاکسار کے والد محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر سے استفسار فرمایا ” ظفر محمد صاحب ! آپ کدھر؟ یعنی منشاء یہ تھا کہ قافلوں میں تو صرف عورتیں، بچے اور ضعیف لوگ جارہے ہیں.آپ تو جوان ہیں آپ کس طرح جار ہے ہیں.اس پر والد صاحب مرحوم نے ایک جماعتی خط دکھایا جس پر لکھا تھا کہ ان کو ضروری جماعتی فریضہ کی ادائیگی کے لئے بھجوایا جا رہا ہے.اس خط کو پڑھتے ہی آپ نے متبسم چہرہ کے ساتھ جانے کی اجازت عطا فرما دی.جب وہ خوبصورت اور حسین نوجوان ہمارے سے پچھلے ٹرک کی چیکنگ کے لئے گئے تو خاکسار نے اپنے والد صاحب سے دریافت کیا کہ یہ نوجوان کون صاحب تھے.اس پر والد صاحب محترم نے فرمایا یہ

Page 18

9 “ 10 صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب ہیں.جو قافلہ کی حفاظت کے نقطہ نگاہ سے قادیان سے ہی قافلے کے آگے پیچھے جیپ پر ساتھ آرہے ہیں.حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی یہ پہلی زیارت تھی جس نے میرے دل میں ان کی غیر معمولی جرات اور احباب جماعت سے والہانہ محبت کے انمٹ نقوش چھوڑے.جو تا زیست زندہ و تابندہ رہیں گے.آج میں سوچتا ہوں تو حضرت میاں ناصر احمد صاحب کی بہادری اور دلیری پر حیران ہوتا ہوں کہ اس پر آشوب دور میں جب کہ قدم قدم پر موت منہ کھولے کھڑی تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب کس جرات ، اطمینان اور تسلی سے جیپ پر سوار ہو کر قافلوں کی نگرانی فرمارہے تھے.پہلی ملاقات تعلیم الاسلام کالج کی لاہور سے ربوہ منتقلی کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کالج اور دیگر جماعتی مصروفیات کے باوجود ربوہ کے اطراف کے غیر از جماعت احباب سے ذاتی رابطہ اور تعلق کو بھی خصوصی اہمیت دیتے تھے.1959ء میں جب بنیادی جمہوریت کے انتخابات ہوئے تو ربوہ سے باہر حضرت میاں صاحب کی زیادہ تر توجہ کا مرکز احمد نگر تھا.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے احمد نگر ربوہ کا صدر دروازہ ہے.جسے ہر لحاظ سے مضبوط ہونا چاہئے.اسی پس منظر میں احمد نگر کے حلقہ سے حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مرحوم کو بنیادی جمہوریت کے انتخابات میں حصہ لینے کی ہدایت کی اور ان کی کامیابی کے لئے خصوصی توجہ بھی کی گئی.چنانچہ حضرت مولانا احمد نگر کی یونین کونسل کے بی ڈی ممبر منتخب ہو گئے.بعد میں تعلقات کی وسعت حضرت صاحبزادہ صاحب کی اس علاقہ کے لوگوں کی سماجی، اخلاقی اور روحانی تربیت کی طرف توجہ مرکوز کرنے کا باعث بن گئی.چونکہ جماعت احمدیہ خالصتاً مذہبی جماعت ہے اس لئے آپ کا اس علاقے کی سیاست سے تو کوئی سروکار نہیں تھا.لیکن علاقہ کے معززین کا سماجی تعلق حضرت صاحبزاہ صاحب سے دن بدن بڑھتا گیا.یہاں کے سرکردہ لوگوں سے آپ کے قریبی روابط تھے.آپ ان لوگوں سے ہمیشہ مخلصانہ اور مشفقانہ ہمسائیگی کا حق ادا کرنے کی سعی فرماتے تھے.حضرت میاں صاحب چاہتے تھے کہ ربوہ کے ہمسایہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ یہ لوگ بھی زندگی کے ہر میدان میں ترقی پائیں.اس پس منظر میں حضرت میاں صاحب کے نافع الناس وجود نے اپنی گونا گوں تعلیمی و دینی مصروفیات کے باوجود رابطہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی فرمائی اور ایسے لوگوں کی دلداری تا دم آخر فرماتے رہے.آپ ہر معاملہ میں خالصتاً دینی اور اخلاقی نقطہ نظر سے ان لوگوں کی عمومی فلاح و بہبود کے لئے کوشاں رہتے.1960ء کی بات ہے کہ آپ نے اپنی غیر معمولی مصروفیات کے پیش نظر مکرم چوہدری محمد ابراہیم صاحب آف دفتر انصار اللہ ، جو اُن دنوں احمد نگر میں مقیم تھے، سے کہا کہ آپ مجھے کسی ایسے مخلص ، سوشل اور سماجی ذہن رکھنے والے احمدی نوجوان کے بارہ میں بتا ئیں جو اس علاقہ اور ماحول سے بھی واقفیت رکھتا ہو اور وہ میری ہدایات کے مطابق اس علاقہ کے لوگوں سے رابطہ اور تعلق کا فریضہ بھی بخوبی انجام دے سکے.یہ میری خوش قسمتی تھی کہ موصوف نے اس کام کے لئے خاکسار کا نام پیش کیا.جس پر آپ نے فرمایا اس کو کل گیارہ بجے میرے پاس کالج کے دفتر میں بھجوا دیں.خاکسار حسب ارشاد وقت مقررہ پر حاضر خدمت ہوا.حضرت صاحبزادہ صاحب چونکہ میرے والد محترم کے شفیق اور مہربان دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ہم مکتب بھی تھے اس لئے آپ نے خصوصی شفقت فرمانے کے علاوہ اس علاقہ اور

Page 19

11 “ 12 ماحول کے بارہ میں عموماً اور احمدنگر کے بارہ میں خصوصاً گفتگو فرمائی اور یہ بھی فرمایا کہ میں چونکہ کافی مصروف رہتا ہوں.آپ اس علاقہ کے لوگوں سے متواتر رابطہ رکھیں.نیز اس علاقہ کے لوگوں کے مسائل سے مجھے آگاہ کرتے رہیں.اس دن سے لے کر مئی 1982 ء تک خاکسار کو مسلسل حضور کی زیر ہدایات خدمت سرانجام دینے کی توفیق اور اعزاز ملتا رہا.اس کے علاوہ بے شمار مواقع ایسے بھی نصیب ہوئے کہ حضور کے ساتھ علاقہ کے غیر از جماعت معزز دوستوں کے ہمراہ ملاقات کا شرف حاصل ہوتا رہا.آپ منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل اس علاقہ کے بااثر مقامی راہنماؤں کی خواہش پر ان کی رہنمائی فرماتے رہے.آپ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد بھی ان معززین کو آپ کی شفقت اور رہنمائی حاصل ہوتی رہی.علاقہ کے ان سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ملاقات کے دوران حضور با وجود اپنی انتہائی دینی و جماعتی مصروفیات کے، ان لوگوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی اور دلداری کا سلوک فرماتے رہے.علاقہ بھر کے مخالف اور موافق سرکردہ راہنما سیاسی لحاظ سے با ہم مخالف ہونے کے باوجود آپ پر اعتما در کھتے اور آپ کی رائے اور آپ کے مشورے کا بے حد احترام کرتے تھے.آپ کا ان کے ساتھ نہایت بے لوث اور غیر جانبدارانہ تعلق تھا.1953ء کی گرفتاری اور خادموں سے شفقت 1953ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو گرفتار کر لیا گیا.سلسلے میں حضور فرمایا کرتے تھے کہ میرا لاہور میں قیام تھا.گھنٹی بجی میں باہر آیا دیکھا تو پولیس اور انتظامیہ وغیرہ کھڑے ہیں.انہوں نے کہا ہم آپ کو لینے آئے ہیں.میں نے بلا توقف کہا.دو منٹ میں آیا.میں نے کپڑے بدلے اور ان کے ساتھ چل دیا.جیل میں پیشل کھانے کا انتظام کیا گیا تھا.میں نے کہا میں قیدی ہوں اس لئے میں خوشی سے وہی کھانا کھاؤں گا جو دیگر قیدی بھائی کھاتے ہیں.البتہ اگر ممکن ہو تو پودینے کے چند پتے ساتھ دے دیا کریں.حضور انتہائی غریب پرور تھے.جس سے ایک دفعہ تعلق قائم ہو گیا اس کو عمر بھر نبھایا.جیل میں حضرت میاں صاحب کا جو مشقتی تھا وہ آپ کی بہت خدمت کرتا تھا.حضور نے رہائی کے بعد نہ صرف اس سے رابطہ رکھا بلکہ ہمیشہ اس کی دلداری کے اسباب فرماتے رہے.اس کی وفات کے بعد اس کی اولاد پر بھی دست شفقت رکھا.حضور کی اپنے ملازمین پر شفقت کا اظہار اس طرح بھی ہوا کہ حضور کی احمد نگر کی زرعی زمین پر جو غیر احمدی ملازم تھے تنخواہ کے علاوہ ان کی خوشی غمی میں مکمل سر پرستی فرمائی حتی کہ ایک دیرینہ خادم کو مستقل رہائش کی سہولت فراہم کی اس کی بیٹی کی شادی پر غیر معمولی تعاون فرمایا.ایک دفعہ حضور نے ایک اہم کام کی تکمیل کا ارشاد فرمایا.اس سلسلہ میں جو وفد تھا اس نے واپسی پر حضور کی خدمت میں رپورٹ عرض کی اور اجازت لے کر نیچے آئے تو مکرم بہادر شیر صاحب مرحوم دوڑے آئے اور کہا کہ حضور کا ارشاد ہے افطاری کا وقت ہے.سب دوست روزہ کھول کر جائیں.حضور نے افطار کا پُر تکلف سامان اپنے کچن سے بھجوایا الہ اللہ! یہ محبت اور یہ شفقت اپنے خادموں کے ساتھ !! مکرم مهر سکندر حیات صاحب لالی کے تاثرات میری دلی خواہش تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب جنہوں نے ایک لمبا عرصہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں بطور پرنسپل خدمات جلیلہ سرانجام دی ہیں.جس کی بدولت اس کالج نے باوجود انتہائی نامساعد حالات کے ملک بھر میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں ان کے شاگردوں کے تاثرات قلمبند کئے جائیں.چنانچہ ایک دن مہر سکندر حیات صاحب جو چیئر مین

Page 20

13 مارکیٹ کمیٹی بلد یہ لالیاں رہے سے سر راہ ملاقات ہوئی جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگردوں میں سے ہونے کے علاوہ اس علاقہ کے انتہائی معزز اور بااثر خاندان کے چشم و چراغ بھی ہیں.میں نے ان سے انٹرویو کی خواہش کا اظہار کیا کہ اس سلسلہ میں میں لالیاں کب حاضر ہوں؟ لالی صاحب بلا توقف فرمانے لگے میں تو اپنے آپ کو اس قابل قطعاً نہیں سمجھتا کہ اس محسن اور شفیق استاد کی عظیم تعلیمی خدمات کے بارہ میں کچھ عرض کروں لیکن اگر آپ مجھے یہ عزت بخشنا چاہیں تو اس سے بڑی سعادت میرے لئے اور کیا ہوسکتی ہے لیکن ایک شرط کی آپ کو پابندی کرنی ہوگی.میں نے دریافت کیا وہ کون سی.فرمانے لگے وہ یہ کہ اس سلسلہ میں آپ لالیاں نہ آئیں بلکہ میں خود ربوہ حاضر ہوں گا.کیونکہ میرے ساتھ میرے عظیم استاد محترم کی جو خصوصی شفقت تھی اس کا حق یہ ہے کہ میں خود چل کر آپ کے پاس ربوہ آؤں جہاں سے میں نے اپنے پیارے استاد کا پیار اور شفقت پائی.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ اگر مجھے اس سلسلہ میں سینکڑوں مرتبہ بھی ربوہ آنا پڑے تو پھر بھی میں یہی کہوں گا کہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا.ان کا خلوص اور اصرار میری درخواست پر غالب آیا.چنانچہ وہ اس سلسلہ میں ایک بار نہیں متعدد مرتبہ غریب خانہ پر ربوہ تشریف لائے لیکن سوء اتفاق سے ہماری ملاقات نہ ہو سکی.ایک دن جناب لالی صاحب نے صبح سویرے ہی آ پکڑا اور فرمانے لگے کہ آج میرا چھا پہ کامیاب رہا ہے.آئیے ہم اپنے شفیق استاد کا ذکر خیر کریں جنہوں نے اس پس ماندہ علاقہ میں ناصرف علم کی شمع روشن کی بلکہ یہاں کے لوگوں کی لا متناہی سماجی خدمات بھی سرانجام دی ہیں.فرمانے لگے.گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینه را وہ یہ باتیں بڑے خلوص ،محبت اور پرانی یادوں میں ڈوب کر کہہ رہے تھے اور “ 14 میں سوچ رہا تھا کہ میرا فرض اور خواہش یہ تھی کہ لالی صاحب کا انٹرویو کیا جائے لیکن ادھر لالی صاحب نے اپنے خلوص کے باعث معاملہ بالکل برعکس کر دیا ہے.میں نے ان کے خلوص، عالی ظرفی اور وسیع النظری کی داد دینی چاہی تو فرمانے لگے یہ سب کچھ میرے استاد محترم کی مقناطیسی شخصیت اور پیار کا نتیجہ ہے.اس کے بعد خاکسار نے ان سے اپنے تاثرات ریکارڈ کرانے کے بارہ میں عرض کیا تو فرمانے لگے مجھے تو ان کی ہمہ صفت اور انتہائی ارفع و اعلیٰ شخصیت کی وجہ سے یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ میں ان کا ذکر خیر کہاں سے شروع کروں.لہذ آپ سوالوں کی صورت میں میری اعانت کریں تاکہ میں اس کے مطابق اپنا مافی الضمیر کما حقہ ادا کر سکوں چنانچہ میں نے سلسلہ گفتگو کا آغاز یوں کیا:.ظفر :.آپ تعلیم الاسلام کالج میں زیر تعلیم رہے ہیں اور آپ کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی شاگردی کا اعزاز بھی حاصل رہا ہے.آپ بطور پرنسپل کیسے تھے؟ لالی صاحب:.میں واقعی خوش قسمت ہوں کہ مجھے محترم صاحبزادہ صاحب کے وقت میں کالج میں زیر تعلیم رہنے کا اعزاز حاصل رہا بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ مجھے تو مزید یہ شرف بھی حاصل رہا کہ میں آپ کے منظور نظر شاگردوں میں شمار کیا جاتا تھا.( نہایت بے انصافی ہوگی اگر میں اس وقت اپنے قابل صد احترام ماموں جان مہر محمد اسماعیل صاحب لالی کا ذکر نہ کروں کہ جن کے باعث حضرت صاحبزادہ صاحب کی شفقت میں مزید اضافہ ہوا.) جہاں تک آپ کا بطور پرنسپل تعلق ہے اس سوال کو اگر اس علاقہ میں ربوہ کے نئے قیام اور خصوصاً 1953ء کے حالات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو ان حالات میں آپ کی کامیابی معجزے سے کم نہیں.یہ محض آپ کی خدا داد صلاحیت کا نتیجہ تھا کہ چند سال میں اس کالج کا مقام پاکستان میں نمایاں ہو گیا نہ صرف تعلیم بلکہ کھیل کے میدان میں بھی نمایاں پوزیشنیں حاصل کیں.

Page 21

15 ثلا کشتی رانی میں پاکستان ونر، کبڈی، فٹ بال میں زونل چیمپئین اور باسکٹ بال میں تو اس کی کارکردگی ہمیشہ منفر در ہی.لیکن ان تمام باتوں سے بڑھ کر آپ کی بطور پرنسپل یہ نمایاں خوبی تھی جو کسی اور میں دیکھنے میں نہیں آئی کہ آپ اپنے آپ کو صرف کالج اوقات میں پرنسپل نہیں سمجھتے تھے بلکہ چوبیس گھنٹے ہر طالب علم کی تعلیمی ، اخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف نگاہ رکھتے تھے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ کالج میں دینیات کا مضمون لازمی تھا جب کہ بورڈ میں یہ مضمون تھا ہی نہیں اور ایسے ہی آپ اس امر کی طرف خصوصی توجہ دیتے کہ ہر طالب علم با قاعدگی سے اپنے اپنے عقائد کے مطابق نماز ادا کرے.اس سے ان کی دین سے عقیدت اور طلباء کی روحانی ترقی کا واضح ثبوت ملتا ہے.ایک امر جس سے میں نے بے حد اثر لیا وہ یہ کہ کالج میں آپ کی ہر جہت سے ہر چیز پر مضبوط گرفت تھی لیکن کسی بھی طالب علم کو گھٹن کا احساس نہیں ہوتا تھا.آپ کے حسن انتظام ہی کا یہ ثمرہ تھا کہ طلبہ اور اساتذہ میں مکمل ہم آہنگی تھی.ظفر:.جیسا کہ آج کل کالجوں میں دھڑا بندی اور بدمزگی دیکھنے میں آتی ہے کیا آپ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا؟ لالی صاحب:.ہمارے وقت میں کبھی بھی کسی قسم کی مذہبی، سیاسی ، لسانی، گروہی کوئی بھی بدمزگی پیدا نہیں ہوتی تھی.حتی کہ یونین کے انتخاب کے دوران بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آتا تھا حالانکہ طلباء مختلف مذہبی فرقوں سے تعلق رکھتے تھے.لیکن انتخابی مہم کبھی بھی مذہبی بنیادوں کے گرد نہیں چلتی تھی.نہ ہی کالج کے اساتذہ کرام کے رویہ سے کبھی اس کا اظہار ہوتا تھا.ان تمام کامیابیوں کا مکمل سہرا اس مقتدر، بارعب لیکن ہر دلعزیز نورانی شخصیت حضرت صاحبزادہ صاحب کے سر تھا.ظفر :.لالی صاحب آپ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے بارہ میں مقتدر اور بارعب کے جو الفاظ استعمال کیے ہیں.کیا یہ رعب اور اقتدار پرنسپل صاحب اور “ طلباء کے درمیان حائل تو نہیں تھا ؟ 16 لالی صاحب:.آپ شاید بھول گئے ہیں کہ میں نے اس کے ساتھ ہر دلعزیز کا لفظ بھی استعمال کیا ہے اور اب بھی میں یہ کہوں گا کہ وہ انتہائی بارعب ہونے کے باوجود انتہائی ہر دلعزیز بھی تھے.آپ طلباء میں ہمیشہ گھل مل کر رہنے کو پسند فرماتے تھے بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ آپ کی محبت اور شفقت کے نتیجہ میں طلباء آپ سے ادب کے دائرہ میں رہتے ہوئے مزاح بھی کر لیتے تھے جسے آپ برامحسوس نہیں فرماتے تھے ایک واقعہ مجھے آج تک یاد ہے کہ محترم میاں صاحب کی ایک پرانے ماڈل کی مورس کا رہوا کرتی تھی.ہمارے کالج میں ایک مشاعرہ ہوا.اس مشاعرہ میں آپ بنفس نفیس رونق افروز تھے.ایک طالب علم نے ایک نظم پڑھی جس کا عنوان تھا، ہمارے میاں صاحب کی پھٹ پھٹ پھٹ، ایک شعر ملاحظہ ہو: چلتی ہے ایک میل کھاتی ہے دو من پٹرول ہمارے میاں صاحب کی پھٹ پھٹ پھٹ جب یہ اشعار پڑھے جارہے تھے اس وقت میاں صاحب کے چہرے پر پھولوں کی سی مہک اور حقیقی مسکراہٹ جو ہم نے دیکھی وہ ہمیں تازندگی نہیں بھولے گی.ظفر :.لالی صاحب آپ اپنے کالج کے دوران کا کوئی نا قابل فراموش واقعہ سنا سکتے ہیں؟ لالی صاحب: کالج کے دوران بے شمار واقعات ایسے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا.لیکن ایک واقعہ ایسا ہے جسے میں کبھی فراموش نہیں کر سکتا.اور وہ یہ ہے کہ کالج میں چنیوٹ کی والی بال اور ٹی.آئی کالج کی ٹیم کا میچ ہو رہا تھا.محترم میاں صاحب کھلاڑیوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے.میاں صاحب میچ دیکھنے کے لئے پہنچ گئے.سوئے اتفاق سے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان تلخی پیدا ہو گئی اور

Page 22

17 اچانک نوبت لڑائی تک پہنچ گئی.محترم میاں صاحب نے بآواز بلند اپنے لڑکوں سے کہا کہ لڑنا نہیں.میاں صاحب کی فوری مداخلت پر لڑائی ختم ہوگئی.اس لڑائی میں زیادتی ربوہ کے کھلاڑیوں کی بجائے چنیوٹ کے دو تین نوجوانوں کی تھی جو تماشائی تھے.محترم میاں صاحب چنیوٹ کے کھلاڑیوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے معذرت کی اور ان کی ہر طرح سے دلجوئی فرمائی.اس اثناء میں ایک غیر ذمہ دار نوجوان نے کہا ہم پر چہ دیں گے اور قانونی کارروائی کریں گے.محترم میاں صاحب نے کمال شفقت اور ہمدردی کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو قانونی کارروائی کا حق حاصل ہے.آپ بے شک کریں لیکن ٹی آئی کالج آپ کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کرے گا کیونکہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں.میاں صاحب کے ان الفاظ کے بعد چنیوٹ کے کھلاڑیوں کا تمام غصہ کا فور ہو گیا اور کشیدگی محبت کی فضا میں بدل گئی.ظفر :.آپ اس علاقہ کے معروف اور بااثر لالی خاندان کے فرد ہیں.کیا آپ اس امر پر بھی روشنی ڈالنے کی پوزیشن میں ہیں کہ محترم صاحبزادہ صاحب کالج کے علاوہ اس علاقہ کے عوام وخواص سے بھی روابط و تعلق رکھتے تھے؟ لالی صاحب محترم میاں صاحب کی کالج میں لامتناہی مصروفیات کے با وجود آپ کے اس علاقہ کے خاص و عام سے ذاتی مراسم تھے اور وہ ہمیشہ اس علاقہ کی فلاح و بہبود، اقتصادی و سماجی ترقی میں کوشاں رہتے تھے.اس ضمن میں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ان کے سماجی روابط کسی ایک شخص کے گرد نہیں گھومتے تھے بلکہ وہ تمام طبقوں اور گروپوں سے مساوی رابطہ رکھتے تھے.ان کے روابط اتنے مخلصانہ اور روادارانہ ہوتے تھے جس کے باعث علاقہ بھر میں ایک ایسا غیر متعصبانہ ماحول پیدا ہوا جس نے نفرت اور تعصب کی سوچ کو مکمل طور پرختم کر دیا جس کا بین ثبوت یہ ہے کہ کبھی بھی فرقہ “ 18 وارانہ کشیدگی کا مرکز ربوہ کا گردو نواح نہیں بنا بلکہ اگر کبھی بدقسمتی سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی بھی تو ربوہ کے نواح کے لوگوں نے مجموعی طور پر شر پسندی کی بجائے امن پسندی اور مثبت رد عمل کا اظہار کیا جس کی اصل وجہ صاحبزادہ صاحب کے ہر طبقہ کے لوگوں سے ذاتی روابط تھے.ظفر :.میں آپ کا بے حد ممنون ہوں کہ آپ نے کافی وقت دیا ہے.اب جمعہ کی نماز کا وقت ہے اس لئے مجبوراً یہ گفتگو ختم کرنی پڑ رہی ہے.اگر زندگی ہوئی تو پھر مزید باتیں ہوں گی.انشاء اللہ لالی صاحب :.آپ میرا شکریہ ادا کر رہے ہیں حالانکہ شکریہ تو مجھے ادا کرنا چاہئے تھا جنہوں نے مجھے اپنے محسن استاد اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے ) کا ذکر خیر کرنے کا موقعہ فراہم کیا ، شکریہ.ناممکن کو ممکن بنا دیا (ماہنامہ خالد ربوہ سیدنا ناصر نمبر صفحہ 285 تا288) (روز نامہ الفضل 18 اگست 2001ء) سابق صدر ایوب خان نے جب 1962ء میں ملک میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو علاقہ کے متعدد قابل ذکر سیاسی و سماجی رہنما حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے شروع ہوئے اور آپ سے انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کے سلسلہ میں رہنمائی کے طالب ہوئے.حضرت صاحبزادہ صاحب کی عظیم شخصیت اور غیر جانبداری نے ایک ناممکن کام کو ممکن کر دکھایا.وہ یہ کہ علاقہ کے متحارب گروپوں کے سرکردہ جن کے باہمی شدید اختلافات تھے اور اب بھی ہیں، اور جو کبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوئے تھے.وہ آپ کی بصیرت، غیر جانبداری اور خدا دا در ہنمائی کی صلاحتیوں کے باعث ایک پلیٹ

Page 23

19 فارم پر جمع ہوئے.چنانچہ علاقہ کے معروف رہنماؤں کے اصرار پر آپ نے انہیں وقت دیا جس میں متحارب گروپوں کے سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی.ان میں درج ذیل بڑے بڑے عمائدین شامل تھے.جھنگ کی نامور شخصیت کرنل عابد حسین صاحب مرحوم، مہر دوست محمد صاحب لالی سابق ایم پی اے و سابق ممبر وفاقی مجلس شوریٰ ( جنرل ضیاء دور ) ملک محمد ممتاز صاحب نسو آ نہ ایڈووکیٹ سابق ایم پی اے وسابق وائس چیئر مین ڈسٹرکٹ کونسل جھنگ،مہر غلام حیدر بھروانہ مرحوم سابق ایم این اے سردار صغیر احمد صاحب مرحوم سابق چیئر مین بلد یہ چنیوٹ و سابق صوبائی وزیر سید ریاض حسین شاہ صاحب سابق چیئر مین یونین کونسل بخش والا ، مہر غلام عباس صاحب لالی ، ملک محمد نواز صاحب نسو آنہ کا نڈی وال سابق وائس چیئر مین ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع جھنگ، اور مہر احمد یار صاحب رمانہ سیال، ڈسٹرکٹ کونسلر حلقہ بھوانہ وغیرہ قابل ذکر ہیں.مذکورہ بالا تمام افراد نے علاقہ کی مجموعی فلاح و بہبود کیلئے ایک آزاد گروپ“ تشکیل دیا.جس کا مقصد علاقائی سیاست کو قدیم علاقائی اور خاندانی بندھنوں سے آزاد کرا کے تعمیری سوچ دینا تھا.اور علاقہ کی خدمت و نمائندگی کا حق چند مخصوص اور محض رئیس گھرانوں تک محدود رکھنے کی بجائے اس خدمت میں تعلیم یافتہ روشن خیال، اہل اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو بھی آگے لانا تھا.چنانچہ اس مثبت سوچ اور اتحاد کے باعث پہلی مرتبہ علاقہ کے معروف رؤساء کے مقابلہ میں آزاد گروپ کی طرف سے ملک محمد ممتاز خان نسو آنہ بی.اے ایل ایل بی ،صوبائی امیدوار اور مہر غلام حیدر بھروانہ مرحوم قومی اسمبلی کے امیدوار نامزد ہوئے.ان دونوں اصحاب کی آزاد گروپ میں شامل تمام افراد نے بھر پور تائید کی جس کے نتیجہ میں قومی اسمبلی میں آزاد گروپ کے امیدوار مہر غلام حیدر بھروانہ جیت گئے.جب بھروانہ صاحب کی کامیابی کا اعلان “ 20 20 چنیوٹ کے پولنگ اسٹیشن سے کیا گیا.تو وہ سب سے پہلے شکریہ ادا کرنے کے لئے آزاد گروپ کے ہمراہ ربوہ تشریف لائے.حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب اتفا قار بوہ میں موجود نہ تھے.چنانچہ وہ سیدھے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شکر یہ ادا کیا.آپ نے انہیں قیمتی نصائح سے نوازا.صوبائی امید وارا اگر چہ جیت تو نہ سکے لیکن یہ اتحاد اور انتخاب علاقہ میں آزاد اور تعمیری سوچ رکھنے والے متوسط طبقہ کے لوگوں کو ایک مخصوص بندھن سے آزاد کرانے کے لئے سنگ میل ثابت ہوا.یہ ابتدائی کوشش تھی جو انجام کار اس طرح کامیاب ہوئی کہ سال 1977ء میں ملک محمد ممتاز صاحب حضور کی تائید و حمایت سے ایم پی اے منتخب ہو گئے.اس کے بعد تا حال ہر انتخاب میں اس علاقہ کے متوسط طبقے کے افراد جو آزاد گروپ سے منسلک تھے ان میں سے کوئی نہ کوئی منتخب ہوتا چلا آرہا ہے.حضور کی زندگی کے آخری ایام تک ان سرکردہ رہنماؤں کا حضور سے قریبی رابطہ رہا اور وہ ہر کٹھن مرحلہ پر حضور کی رہنمائی حاصل کرتے رہے اور حضور بھی باوجو دخلافت کی عظیم ذمہ داریوں کے، علاقہ کے اجتماعی مفاد اور بھلائی کے پیش نظر ان لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنے قیمتی لمحات عطا فرماتے رہے.حضور سے خاکسار کی تین آخری ملاقاتیں جو ماہ مئی 1982ء میں ہوئیں ان میں ایک ملاقات میں حضور نے اس گروپ کا ذکر کرتے ہوئے ایک سرکردہ رکن کے بارے میں بعض ہدایات عطا فرمائیں.بھروانہ صاحب کی وہ جرات جو انہوں نے ایک مرحلے پر جماعت احمدیہ کی تائید میں دکھلائی اس کے پیچھے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا ان کے ساتھ خلوص اور شفقت تھی.حضرت صاحبزادہ صاحب کو ان کی وفاداری کا مکمل احساس تھا.چنانچہ جب بھروانہ صاحب موصوف نے 1970ء میں جمعیت العلمائے پاکستان کے ٹکٹ پر جھنگ کے حلقہ سے انتخاب لڑا تو

Page 24

21 بظاہر ان کا تعلق مولویوں کی جماعت سے تھا اس کے باوجود حضور نے ان کی کامیابی کے لئے دعا اور امداد فرمائی اور موصوف کامیاب ہوئے.دراصل بھروانہ صاحب خود تو مولوی نہ تھے مگر سیاسی گروہ بندیوں میں وہ اس جماعت سے اشتراک کرنے پر مجبور ہو گئے.ان کی مجبوریوں کا حضرت صاحب نے قطعاً برانہ منایا بلکہ ان کی پہلے ہی کی طرح تائید وحمایت کی.وفا اور دوستی کا حق ادا کرنے والا وجود حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خدمت میں جب بھی غیر از جماعت معززین ملاقات کے لئے تشریف لاتے اور آپ سے تعلق مستحکم کرنے اور دوستی کو کما حقہ نبھانے کا تاثر دیتے تو آپ انہیں اکثر و بیشتر فرماتے کہ ہم جب کسی سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو پہلے کبھی ہاتھ واپس نہیں کھینچتے.حضور بعض مثالیں بیان کر کے اپنے تعلق دوستی کی وضاحت فرماتے مثلاً یہ کہ حضرت بانی سلسلہ کا ارشاد ہے کہ اگر میرا دوست شراب کے نشہ میں دھت بازار میں پڑا ہو تو میں اسے کندھے پر اٹھا کر لانے سے کبھی عار محسوس نہیں کروں گا اور یہ کبھی نہیں سوچوں گا کہ لوگ کیا کہیں گے.دوسری مثال حضور اس عرب کی پیش فرمایا کرتے تھے جس کا بیٹا ہر کس و ناکس کو دوست بنالیا کرتا تھا لیکن وہ مشکل کے وقت اس کے کام نہ آتے تھے.ایک دن وہ اپنے بیٹے کو وفادار دوست کی عملی مثال دینے کی خاطر آدھی رات کے وقت اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر اپنے ایک دوست کے گھر گئے.دونوں نے مکان پر جا کر دستک دی اور آواز دے کر بتایا کہ ہم آپ سے ملنے آئے ہیں اندر سے جب کچھ دیر تک جواب نہ آیا تو لڑکے نے کہا ابا! آپ کے دوست نے باہر آنا تو کجا آپ کی آواز کا جواب تک نہیں دیا.اس پر اس کے والد نے کہا بیٹا انتظار کرو.“ 22 تھوڑی دیر کے بعد گھر کا دروازہ کھلا اور صاحب خانہ اس حالت میں برآمد ہوا کہ وہ زرہ پہنے ہوئے تھا اس کے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے ہاتھ میں اشرفیوں کی تھیلی تھی.آتے ہی کہا کہ آپ آدھی رات کے وقت آئے ہیں اس لئے میں تیار ہو کر آیا ہوں.اگر آپ کو کسی دشمن کا سامنا ہے تو آئیے چل کر مقابلہ کرتے ہیں.اگر مالی پریشانی ہے تو یہ اشرفیوں کی تھیلی حاضر ہے.یہ صورت حال دیکھ کر بیٹا مخلص دوست کی اہمیت اور پہچان سمجھ گیا.کہ واقعی دوست ایسا ہی ہوتا ہے جو مشکل وقت میں کام آئے.اسی تعلق پروری کی نادر مثال ملاحظہ فرما ئیں.جب حکومت نے حضرت مسیح موعود کی کتاب "سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب ضبط کی تو حضرت صاحب نے مکرم مولا نا احمد خان صاحب نسیم اور خاکسار کو ارشاد فرمایا کہ مہر غلام حیدر صاحب بھروانہ ایم این اے سے رابطہ کریں.گرمیوں کا موسم تھا.بھروانہ صاحب مرحوم اطلاع ملتے ہی سخت گرمی میں دو پہر کے وقت ربوہ تشریف لائے محترم مولانا احمد خان صاحب نسیم نے اپنا مدعا بیان کیا.چند لمحات کے بعد ہی بھروانہ صاحب بولے.عجیب زیادتی ہے کہ پاکستان میں اسلام کے خلاف لکھنے میں آزادی ہے لیکن کوئی ان کے خلاف جواب دے تو وہ ضبط کر لیا جائے.ساتھ ہی کہا کہ چند سفید کاغذ دیں.کاغذ ملتے ہی ہر کاغذ کے نیچے بلا توقف دستخط کرتے چلے گئے اور کہا کہ اس پر آپ جو چاہے احتجاجی بیان لکھیں اور پریس کو دے دیں.نیز افسران بالا کو بھی میری طرف سے یہ بیان بھجوا دیں.میں ہر جگہ اور ہر پلیٹ فارم پر اس کی توثیق اور تائید کروں گا.بلکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں گورنر کے پاس جا کر بھی احتجاج کروں گا.یادر ہے کہ اس وقت مغربی پاکستان کے گورنر ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ جیسے سخت گیر شخص تھے.چنانچہ انہوں نے گورنر صاحب کے پاس جا کر احتجاج کیا.گورنر نواب

Page 25

23 23 آف کالا باغ نے پوچھا آپ کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے.انہوں نے کہا کہ میں ایم این اے خدا کے فضل کے بعد جماعت احمدیہ کے تعاون سے بنا ہوں.میرا فرض ہے کہ ان کے جائز حقوق کی پاسداری کروں اور ان کی ہر ممکن حمایت کروں.نواب آف کالا باغ کو بھروانہ صاحب کی طرف سے حکومتی پالیسی کے برعکس یہ جرات اور مداخلت ایک آنکھ نہ بھائی.چنانچہ اس کے بعد جب انتخابات کا وقت آیا تو گورنر نے بھروانہ صاحب کو ٹکٹ سے محروم کر دیا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ان تمام حالات سے باخبر تھے اور آپ نے بھروانہ صاحب کی وفا کا جواب بھر پور وفا سے دینے کا عزم کر رکھا تھا.آپ نے فرمایا کہ بھروانہ صاحب کو ہماری حمایت کی سزا دی گئی ہے.قارئین کرام ! یہ بات کسی معجزہ سے کم نہیں ہے کہ جماعت احمدیہ کی تائید و حمایت کرنے کے بعد بھروانہ صاحب جہاں سے اور جس حلقہ سے بھی انتخاب میں کھڑے ہوئے خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور حضرت خلیفۃ الثالث کی دعاؤں کے طفیل اور جماعتی تعاون کے باعث ہر دفعہ کامیاب و کامران ہوئے ایک بھی الیکشن میں شکست نہیں کھائی.حتی کہ 1970ء میں ان کا مقابلہ ایک ملکی سطح کے نامور سیاستدان سابق وزیر محترم کرنل سید عابد حسین سے تھا اور یہ الیکشن بھروانہ صاحب نے غیر معمولی ووٹوں کی برتری کے ساتھ جیتا.یہ اعتماد اور وفا کا تعلق جانبین نے خوب نبھایا.حضرت میاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت خوبصورت اور دلکش دل عطا فرمایا تھا جو اپنے کارکنوں اور خادموں کی محبت اور دلداری سے لبریز رہتا تھا.ایک واقعہ پیش ہے.بات کتنی معمولی ہے اور محبت کا بے ساختہ اظہار کتنا دل نشیں ہے.1964ء کی بات ہے خاکسار میاں صاحب کے کسی ارشاد کی تعمیل میں ربوہ سے باہر گیا ہوا تھا.شام کو واپسی ہوئی تعلیم الاسلام کالج میں جہاں حضورمسند خلافت پر فائز “ 24 ہونے سے پہلے بطور پرنسپل مقیم ہوتے تھے، ملاقات کے لئے حاضر ہوا.کوٹھی میں غالباً کوئی جماعتی اجلاس ہورہا تھا.جماعت کے بڑے بڑے بزرگ عہدے داران تشریف فرما تھے.(حضرت صاحبزادہ صاحب نے جو اُن دنوں میاں ناصر احمد کہلاتے تھے ) جالی میں سے مجھے دیکھ لیا اور فرمانے لگے.ناصر اندر آجاؤ.خاکسار حسب ارشاد اندر حاضر ہو گیا.اس اثناء میں گھر سے چائے آگئی.حضور فرمانے لگے ناصر چائے بناؤ.خاکسار نے چینی ڈالنے کے لئے ابھی چہ اٹھایا ہی تھا کہ حاضرین میں سے ایک صاحب نے فوراً میرے ہاتھ سے پیچ لے لیا اور خود چائے بنانا چاہی حضرت میاں صاحب نے جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.فوراً فرمایا اچھا یہ صاحب اپنی چائے خود بنالیں اور میری چائے ناصر بنائے گا.حضرت میاں صاحب کے ان الفاظ پر ان صاحب نے فوراً پیچ مجھے واپس تھما دی.ساتھ ہی حضرت میاں صاحب فرمانے لگے آپ جانتے ہیں، میری طرف اشارہ کر کے ) یہ کون ہیں؟ بعض بزرگ جانتے تھے انہوں نے میرا نام بتایا.حضرت میاں صاحب فرمانے لگے اس کا تعارف میں کرواتا ہوں.فرمانے لگے یہ وہ مخلص نوجوان ہے جس کی رپورٹ صحت کے لحاظ سے معیاری ہوتی ہے.ان تعریفی کلمات کے بعد خاکسار نے یہ عہد باندھ لیا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے اس حسن ظن کو تاحیات نبھاؤں گا.چنانچہ حضور کی وفات ( جون 1982ء) تک مجھے جو بھی ذمہ داری سونپی گئی اسے اپنے اس عہد کے مطابق نبھانے روزنامه الفضل 30 اگست 2001ء) کی کوشش کرتا رہا.1964 ء.احمد نگر میں آمد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خواہش تھی کہ احمد نگر کی جماعت فعال منتظم، متحد اور روحانی و سماجی لحاظ سے ممتاز اور منفرد ہو کیونکہ یہ ربوہ کا صدر دروازہ

Page 26

“ 25 25 ہے.اسے انتہائی مضبوط اور مربوط ہونا چاہئے.اسی وجہ سے ماحول سر بوہ میں احمد نگر آپ کی توجہ سے فیضیاب ہوتارہا اس ضمن میں ایک واقعہ یاد آ رہا ہے.جن دنوں خاکسار احمد نگر کی مجلس خدام الاحمدیہ کا قائد اور عزیزم مکرم محمد افضل بٹ صاحب ناظم اطفال تھے ہم نے اطفال اور ناصرات کے الگ الگ علمی اور ورزشی مقابلہ جات کروائے.ہم سب کی دلی خواہش تھی کہ تقسیم انعامات کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے درخواست کی جائے.چنانچہ خاکسار حاضر ہوا اور درخواست کی تو فرمایا کہ مصروفیت تو بہت ہے میں آنے کی کوشش کروں گا.اس وعدہ کے بعد ہم نے اس تقریب تقسیم انعامات کا خصوصی اہتمام کیا جس میں نمایاں بات کثیر تعداد میں غیر از جماعت معززین کی حاضری تھی.وقت مقررہ پر خاکسار حضرت صاحبزادہ صاحب کو لینے کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا میں تو آج بے حد مصروف ہوں.خاکسار نے ادب واحترام کے جملہ تقاضے ملحوظ رکھتے ہوئے بچوں کی طرح اصرار کیا حضرت میاں صاحب خاموش رہے.جب ہم نے عرض کیا کہ خاصی تعداد میں غیر از جماعت دوست بھی چشم براہ ہیں تو پاس بیٹھے ہوئے حضرت مولوی احمد خان صاحب نسیم کو فرمایا اب تو مصروفیت کے باوجود ہمیں جانا چاہئے.چند لمحات میں مولوی صاحب کی مشہور و معروف جیپ پر حضرت میاں صاحب کی قیادت میں ہم احمد نگر روانہ ہوئے.راستہ میں میں نے عرض کیا، میاں صاحب آپ کے گلے میں صرف غیر احمدی معززین ہار ڈالیں گے.اس طرح سے آپ کو اس تعارف کی ضرورت نہیں رہے گی کہ کون کون سے غیر از جماعت شرفاء تقریب میں موجود ہیں.حضرت میاں صاحب کی جیپ جب احمد نگر پہنچی تو نواب علی صاحب پٹواری اما حول ربوہ سے مرادر بوہ کا گردونواح ہے.“ 26 46 والی سڑک جو سر گودھا روڈ سے ملتی ہے وہاں سے دونوں طرف پختہ سڑک سے لے کر احمد نگر کی آبادی دیہہ تک دو طرفہ خور دو کلاں نے پُر جوش خیر مقدمی نعروں سے حضرت میاں صاحب کا استقبال کیا جس سے فضا پُر مسرت ارتعاش سے گونج اٹھی.میاں صاحب کی جیپ رکی تو سڑک کے دائیں طرف غیر از جماعت معززین ہار لئے کھڑے تھے جن کی قیادت سید کرم حسین شاہ صاحب مرحوم سکنہ قاضی والا حال احمد نگر کر رہے تھے.علاقہ چک جھمرہ و چنیوٹ میں اپنی جرات و بے باکی کے باعث ان کا شمار معروف ترین سیاسی و سماجی شخصیات میں ہوتا تھا.شاہ صاحب نے حضرت میاں صاحب کے گلے میں پہلا ہار ڈالا اور پھر دیگر غیر از جماعت معززین ہار ڈالتے چلے گئے یہاں تک کہ جب حضرت میاں صاحب احمد نگر کی بیت الذکر تک پہنچے تو حضرت میاں صاحب کا مقدس چہرہ گلاب کے سرخ پھولوں میں چھپ چکا تھا اور صرف آنکھیں نظر آ رہی تھیں.اس دوران مکانوں کی چھتوں سے بچیاں اور مستورات بلا امتیاز عقیدہ حضرت میاں صاحب پر گل پاشی کرتی رہیں.بیت الذکر میں پہنچ کر حضرت میاں صاحب نے بچوں اور بچیوں کی تقاریر اور نظمیں سنیں.اس موقع کے لئے خاکسار کے والد محترم حضرت مولوی ظفر محمد صاحب ظفر نے خصوصی طور پر یہ ترانہ لکھا.هم احمدى بنات هي..........یہ ترانہ چند معصوم بچیوں نے انتہائی خوش الحانی سے سنایا.تقسیم انعامات کے بعد حضرت میاں صاحب نے انتہائی شاندار اور مختصر خطاب فرمایا جس سے غیر از جماعت دوست بے حد متاثر ہوئے.آخر میں آپ نے اطفال الاحمدیہ احمد نگر کے لئے مبلغ 50 روپے سالانہ اعزازی انعام کے طور پر دینے کا اعلان فرمایا.تقریب کے بعد حضور کی خدمت میں عصرانہ پیش کیا گیا جس میں بیسیوں غیراز جماعت معززین کے علاوہ احمد نگر کے احباب جماعت نے بھی شمولیت کا اعزاز پایا.

Page 27

تعلق باللہ کا ایک عظیم الشان نشان 27 277 ایوب خان کے دور میں وطن عزیز میں انتخابات ہوئے.تحصیل چنیوٹ ( ماحول ربوہ) میں قومی اسمبلی کی نشست کے لئے ایک ایسے شخص کو گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان کی وساطت سے ٹکٹ ملا جسے علاقہ کے غریب اور متوسط لوگوں کی اکثریت پسند نہیں کرتی تھی.چنانچہ اس حلقہ کی انتہائی بااثر سیاسی شخصیت جو بلدیہ کے چیئر مین اور صوبائی وزیر بھی رہے تھے، انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو فون کیا اور کہا کہ ظلم ہو گیا ہے فلاں ظالم کو مسلم لیگ کا ٹکٹ مل گیا ہے.براہ کرم آپ کوشش فرمائیں کہ ٹکٹ اس سے بہتر کسی مسلم لیگی کومل جائے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا اللہ فضل فرمائے گا.رات کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے دعا کی کہ اے اللہ ! ہم تو تیری جماعت ہیں.ہمیں تو کوئی خطرہ نہیں.ہمیں تو کسی سے دشمنی نہیں لیکن تیرے غریب بندوں پر اس شخص کو ٹکٹ ملنا.غریب شہریوں پر زیادتی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعا قبول فرمائی اور آپ کو بتادیا کہ یہ شخص قطعاً کامیاب نہیں ہو گا.چنانچہ صبح حضرت مولوی احمد خان صاحب نسیم مرحوم اور خاکسار کالج میں کوٹھی پر حضرت صاحبزادہ صاحب سے ملنے کے لئے گئے تو آپ نے فرمایا کہ جس شخص نے مجھے فون کر کے کہا تھا کہ اس ٹکٹ کو منسوخ کرانے کی کوششیں کریں.اس کو بتا دیں کہ جس شخص کو مسلم لیگ نے ٹکٹ دیا ہے وہ نہیں جیتے گا.نیز یہ بھی فرمایا کہ آپ کوشش کریں کہ اس ٹکٹ ہولڈر کے مقابلہ پر کوئی نہ کوئی آدمی ضرور کھڑا ہو جائے.اور اگر کوئی بھی شخص حکومت کے ٹکٹ ہولڈر کے سامنے کھڑا ہونے کی جرات نہ کرے تو آپ کسی احمدی کی درخواست دلوا کر اسے کھڑا کر دیں.“ 28 کیونکہ بہر حال مسلم لیگ کا یہ ٹکٹ ہولڈر قطعا نہیں جیتے گا اس کا بے شک اعلان عام کر دیں.ہم ابھی وہیں بیٹھے تھے کہ ٹکٹ منسوخ کرانے کے خواہش مند کا دوبارہ فون آیا کہ ٹکٹ کی منسوخی کی او پر بات ہوئی ہے یا نہیں.اس پر حضور نے فرمایا ہاں بات ہوگئی ہے.آپ فکر نہ کریں اور ٹکٹ سے مت گھبرائیں وہ ختم ہو چکی ہے.ان صاحب نے وضاحت چاہی کہ کس سطح پر بات ہوئی ہے یعنی گورنر یا صدر یا کسی اور بڑی شخصیت میں سے کس سے بات ہوئی ہے؟ کیونکہ یہ لوگ تو دنیاوی سہاروں کے محتاج ہوتے ہیں.جب کہ حضرت صاحب افسران بالا سے ایسی باتیں حتی الامکان کیا ہی نہیں کرتے تھے.آپ نے فرمایا فکر نہ کریں بات بہت ہی اونچی سطح پر ہو چکی ہے.انشاء اللہ یہ ٹکٹ نہیں رہے گا.اب دیکھئے خدا کی قدرت کہ بنا بنا یا کام کس طرح ٹوٹ جاتا ہے.بغیر کسی رابطہ کے گورنر ملک امیر محمد خان جیسے سخت گیر اور مضبوط شخص کا پیغام حکومت کے ایک اہم منصب پر فائز قابل احترام شخصیت کے توسط سے موصول ہوا کہ گورنر صاحب کہتے ہیں مسلم لیگ کا ٹکٹ ہولڈر بے شک وہ شخص ہے.مگر اب وہ ہمارا امیدوار نہیں رہا.اب ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے.یہ پیغام مکرم میاں ناصر احمد کو پہنچادیں.ادھر اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ جب صاحب مذکور کو مسلم لیگ کا ٹکٹ ملا تو دوسرے دن وہ مجھے ملے اور بڑے فخریہ انداز میں کہنے لگے کہ جناب اب تو مجھے گورنمنٹ نے ٹکٹ دے دیا ہے.اب دیکھتے ہیں آپ کے پرنسپل صاحب (حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) مجھے ووٹ کیسے نہیں دیتے ؟ اب ان کے اصول کا پتہ چلے گا؟ خاکسار کو حضرت صاحبزادہ صاحب کی طبیعت اور اصول پرستی کا علم تھا کہ وہ نہ غیر منصفانہ اختلافات کے قائل تھے اور نہ ہی کسی کی خوشامد کے قائل تھے.کسی قیمت پر آپ کی شخصیت اصولوں پر سودا بازی کرنے والی نہ تھی.اس لئے میں نے اس

Page 28

“ 29 29 ملاقات میں کئی دوستوں کی موجودگی میں انہیں کہہ دیا کہ جناب اگر محض ٹکٹ کے بل بوتے پر آپ حضرت صاحبزادہ صاحب سے ووٹ لے جائیں تو واقعی آپ کی بات ٹھیک ہوگی کہ پرنسپل صاحب کا کوئی اصول نہیں ہے.اور اگر ٹکٹ کے باوجود آپ کو جماعت احمدیہ کے ووٹ نہ ملیں تو پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب انتہائی با اصول انسان ہیں.چنانچہ اللہ کے برگزیدہ بندے کو اللہ تعالیٰ نے جو بات بتائی ہوئی تھی وہ پوری ہوئی اور یہ صاحب جن کو مسلم لیگ کا ٹکٹ ملا ہوا تھا مسلم لیگ کا ٹکٹ ہولڈر ہونے کے باوجود کامیاب نہ ہو سکے اور ان کے مد مقابل حضرت صاحبزادہ صاحب کی دعاؤں اور تعاون کی برکت سے جیت گئے.یہ واقعہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے تعلق باللہ اور خلق خدا سے ہمدردی کا روشن نشان ہے اور اصول پرستی کی واضح مثال ہے.ایفائے عہد 1965ء میں وطن عزیز میں جب دوسری دفعہ بنیادی جمہوریت کے چیئر مینوں کے انتخابات کا اعلان ہوا تو ایک غیر از جماعت دوست چیئر مین شپ کے امیدوار تھے.اس یو نین کونسل کے ایک ممبر احمدی تھے.چیئر مین شپ کے امیدوار نے خاکسار سے رابطہ قائم کیا.اس کی وجہ یہ تھی کہ احمدی ممبر بڑے مہربان دوست تھے.لہذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ میرے تعاون کے ذریعے اس احمدی دوست کا ووٹ حاصل کیا جائے.جب انہوں نے یہ بات کی تو میں نے عرض کیا کہ میں تو اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ کسی احمدی ممبر کا ووٹ دلواسکوں.میں تو اپنا ووٹ بھی اپنے پیارے امام سے رہنمائی حاصل کئے بغیر استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا.اس صورت حال میں کسی اور احمدی کو ووٹ کے لئے کس طرح عرض کر سکتا ہوں.میرے اس “ 30 30 جواب پر صاحب موصوف نے کہا کہ اچھا مجھے حضرت صاحب سے ملادیں.چنانچہ خاکسار نے ملاقات کی درخواست کی.اور اجازت ملنے پر ہم دونوں شرف ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.بوقت ملاقات ان صاحب نے اس احمدی ممبر کے ووٹ کی درخواست کی جو حضور نے از راہ شفقت قبول فرمائی.اس پر ان صاحب کو مزید حوصلہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ خاکسار مزید کچھ عرض کرنا چاہتا ہے.حضور سے اجازت ملنے پر وہ کہنے لگے کہ آپ سے درخواست ہے کہ آپ نے اپنی سابقہ روایات کے مطابق جس طرح فلاں فلاں امیدواروں سے خلوص و ہمدردی کا اظہار فرمایا ہے میرے ساتھ بھی ویسا ہی حسن سلوک فرما کر ممنون فرمائیں.اس پر حضور نے خاکسار کو حکم دیا کہ ان کی خواہش کے مطابق ان کی امداد کا انتظام کر دیا جائے.نیز فرمایا کہ جب تک انتخاب نہیں ہو جا تا انہیں اپنے ساتھ رکھیں اور ان سے تعاون اور رابطہ جاری رکھیں.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں خاکسار نے ان سے ہر ممکن تعاون کیا.راتوں رات ہم اس علاقہ کی ایک معروف صاحب اثر شخصیت کے گاؤں پہنچے.یہ صاحب اثر شخصیت بھی حضور سے عقیدت رکھنے والے ایک صاحب تھے.ان کا تعاون حاصل کیا گیا.چنانچہ چیئر مین شپ کے امیدوار نے مطلوبہ اکثریت حاصل کر لی اور اس طرح سے حضور کی رہنمائی اور دعا سے کامیابی حاصل ہوگئی.یہ صاحب جب حضور سے ملنے آئے تو انہوں نے ایک اور درخواست بھی کی.انہوں نے کہا میری مخالف پارٹی بڑی بااثر ہے اور صاحب حیثیت ہے.نیز وہ لوگ آپ سے بھی دیرینہ تعلق رکھنے والے ہیں.ایسا نہ ہو کہ جب وہ میری مخالفت کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں تو ان سے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے آپ اپنے فیصلے پر نظر ثانی فرمالیں.اس بات کا حضور نے جو جواب دیا وہ ایک چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے اور

Page 29

ہمارے لئے مشعل راہ ہے.فرمایا:.31 اگر ہماری 18-19 سالہ ربوہ کی تاریخ میں ایک مثال بھی آپ بد عہدی کی پیش کر دیں تو آپ کا خدشہ بجا ہو گا.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے حضور نے ایک عجیب پیشگوئی فرمائی کہ آپ چیئر مین بننے کے بعد فلاں فلاں لوگوں کے ساتھ مل جائیں گے جن کو آپ اس وقت ان کی طرف سے چیئر مین شپ کا عہدہ نہ ملنے کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں.حضور کی قبل از وقت کہی ہوئی یہ بات بعد میں لفظ بلفظ پوری ہوئی.اس کی تفصیل کی یہاں چنداں ضرورت نہیں.اب حضور کی وعدہ وفائی کا یاد گار اظہار ملاحظہ فرمائیں.ان صاحب کے مخالفوں کو جب علم ہوا کہ احمدی ممبر کا ووٹ ہمارے مخالف کو مل رہا ہے تو وہ انتخاب سے چند گھنٹے قبل خاکسار کو آکر ملے اور کہا کہ ہم ایک شاندار تجویز لے کر آئے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم چاروں ممبران نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ احمدی ممبر کو چیئر مین بناتے ہیں.میں نے عرض کیا کہ حضور نے فلاں صاحب کو احمدی ممبر کا ووٹ دینے کا وعدہ فرمالیا ہے اس لئے اب تو مشکل ہے! دنیا دار سیاست کے عادی ان افراد نے کہا کہ ہم کو حضور سے ملوا دیں.ان کے دل میں تھا کہ اب جب کہ ہم احمدی ممبر کو چیئر مین بنانے پر تیار ہیں تو امام جماعت احمدیہ فوراً اپنے سابقہ وعدہ سے انحراف کر کے اپنے آدمی کو چیئر مین بنانے پر راضی ہو جائیں گے.سیاست کے میدان میں ایسی قلابازیاں روز کا معمول ہیں.اور گویا سیاست دانوں کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہیں.ان صاحبوں کے نظریات کو بھانپ کر میں نے عرض کیا کہ میری تو مجال نہیں کہ حضرت صاحب کے وعدے کے بعد کسی قسم کی مداخلت یا عرض کرنے کی جسارت کروں اس لئے میں تو ساتھ نہیں جاسکتا.بلکہ میرا آپ کو بھی یہی مشورہ ہے کہ آپ “ 32 بھی اس سلسلہ میں قطعاً نہ جائیں.لیکن قدرت کو یہی منظور تھا کہ یہ لوگ ضرور حضور کی خدمت میں حاضر ہوں تا کہ دنیاوی سیاسی لوگوں اور امام جماعت احمدیہ کی شان اور مقام میں جو زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے وہ ان پر واضح ہو جائے.اور یہ لوگ حضور کے ایفائے عہد کا خود مشاہدہ کرلیں.چنانچہ چار افراد پر مشتمل یہ گروپ جس پر حضور پہلے ہی شفقت فرماتے تھے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور احمدی ممبر کے چیئر مین بنانے کی تجویز پیش کی اور تعاون کی التجا کی.حضور نے فرمایا پانچواں ممبر کون ہے؟ وہ کہنے لگے وہ جو احمدی ممبر ہیں.حضور نے فرمایا احمدی ممبر کے ووٹ کا تو وعدہ ہو چکا ہے.وہ تو فلاں امید وار کا ووٹ ہے.وہ تو اپنا ووٹ اپنے آپ کو بھی نہیں دے گا.اس جواب پر یہ دوست لا جواب ہو کر واپس آگئے اور کہنے لگے: حضرت صاحب تے گل دے بڑے پکے نیں یعنی حضرت صاحب تو اپنے وعدہ کے بڑے پکے ہیں.جماعت احمدیہ کے امام کے منصب کو سامنے رکھیں تو یہ واقعہ شاید ایک عام بات لگے.لیکن دنیاوی سیاست کو سامنے رکھیں تو ہر سیاست دان اس واقعہ کوسن کر دانتوں تلے انگلی د بالے گا.سیاسی دنیا میں ایسی مثالیں کہاں ملتی ہیں کہ اصولوں پر اقتدار کو قربان کر (روز نامہ الفضل 13 ستمبر 2001ء) دیا جائے !! سرا پا شفقت وجود 1969ء میں خاکسار نے اپنڈے سائٹس (Appendicitis) کا آپریشن کروایا.آپریشن کامیاب رہا لیکن بعد میں طبیعت خراب ہوتی چلی گئی.اور بیماری کا

Page 30

“ 33 33 یہ سلسلہ طویل ہو گیا.ایک دن کسی نے بتایا کہ آج حضرت خلیفۃ المسیح الثالث احمد نگر اپنی اراضی پر تشریف لائے تھے.وہاں کسی دوست نے شکایت کی کہ حضور آپ کی اراضی کے سلسلہ میں ناصر ظفر کی انگیخت پر شفعہ ہو رہا ہے یا ہو چکا ہے.وغیرہ وغيره.مجھے جب اس خبر کا علم ہوا تو مجھ پر تو جیسے بجلی گر پڑی اتنا ہولناک الزام اتنا جھوٹ ! بیماری کی تکلیف اور غم تو جیسے بھول ہی گیا.اس کر بناک الزام سے رات بھر ایک لمحہ کے لئے سونہ سکا.ساری رات دعا اور بے چینی میں کئی.کیونکہ جس امر کے بارے میں حضور کی خدمت میں شکایتا عرض کی گئی تھی اس معاملے کا مجھے علم تک بھی نہیں تھا.پھر یہ احساس کہ حضور مجھ سے ناراض ہوں گے، مجھے بے موت مار رہا تھا.بیماری کی تکلیف کی وجہ سے یہ بھی ہول اٹھ رہا تھا کہ اگر اس بیماری کے دنوں میں ہی حضور کی ناراضگی کے عالم میں اس جہان سے کوچ ہوا تو خدا کو کیا جواب دوں گا....گرمی کا موسم تھا.دن کے دو بجے تھے جب گھر والے آرام کر رہے تھے.مجھے خدشہ تھا کہ میں نے کسی کو بتایا کہ میں ربوہ جا رہا ہوں تو گھر والے میری بیماری کے پیش نظر مجھے ہرگز نہ جانے دیں گے.لہذا میں نے اس وقت کا انتظار کیا پھر خاموشی سے آہستہ آہستہ بس سٹاپ کی طرف روانہ ہوا جو میرے گھر سے تقریباً ایک فرلانگ پر واقع تھا.راستہ میں ار دفعہ بیٹھ کر سانس لیا.کیونکہ پیٹ پر آپریشن کا زخم تھا اور دل کی تکلیف اس کے علاوہ تھی لیکن حضور کی ناراضگی کے خوف نے سب بیماریوں کے احساسات کو ختم کر دیا تھا.بس پر سوار ہوا اور تین بجے قصر خلافت پہنچا.اطلاع بھجوائی.میرے محسن اور شفیق آقا کو خاکسار کی آمد کا علم ہوا تو اپنے آرام کی پرواہ کئے بغیر تشریف لائے اور ایک معمولی اور ادنیٰ خادم کو شرف ملاقات سے نوازا.حضور نے صحت کے بارہ میں استفسار فرمایا لیکن شدت جذبات اور نقاہت کے باعث منہ سے آواز نہ نکل سکی.حضور 34 میری حالت کو سمجھ رہے تھے آپ نے شفقت اور پیار سے مزید تسلی و تشفی دی.آخر بڑی مشکل سے ایک بات منہ سے نکلی حضور.پانی ! قربان جاؤں اپنے شفیق آقا کے.حضور خود اٹھے اندر سے ٹھنڈا مشروب لائے.پینے کے بعد کچھ عرض کرنے کی پوزیشن میں ہوا.جب قدرے بات کا آغاز ہوا تو پیارے اور مشفق آقا نے از راہ ہمدردی دریافت فرمایا آپریشن پر تمہارا کس قدر خرچ آیا ہے.مجھے احساس ہوا کہ حضور کا یہ خیال ہے کہ شاید طویل بیماری کے باعث مقروض ہے، اس لئے پریشان ہے.میں نے عرض کیا حضور میں بیماری کے اخراجات کے سلسلہ میں خود کفیل ہوں.حضور صحت کے لئے دعا کی درخواست ہے آخر میں حرف مدعا زبان پر لایا کہ حضور میرے علم میں آیا ہے کہ حضور کی خدمت میں میری شفعہ وغیرہ کے سلسلے میں کسی نے شکایت کی ہے جس کے باعث یہ تکلیف اور غم میری بیماری سے بھی زیادہ تکلیف دے رہا ہے.جبکہ مجھے سرے سے ایسی کسی بات کا علم ہی نہیں.لہذا حضور مجھے معاف فرما دیں.خاکسار کے ان چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ کے بعد میری آواز بھرا گئی اور پھر بولنے کی بھی سکت نہ رہی.میری بات سن کر حضور کی محبت کا دریا جوش میں آیا.اس کے بعد حضور نے جتنی شفقت کا اور جس پیار کا سلوک فرمایا اس کے اظہار کے لئے میرے پاس الفاظ بالکل نہیں.قُولُوا قَوْلاً سَدِيدًا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث علاقہ کے غیر از جماعت دوستوں سے ہمیشہ شفقت سے پیش آتے اور اہم معاملات میں ان کی دلجوئی اور رہنمائی فرماتے لیکن حضور کا ہمیشہ یہ طریق رہا کہ آپ ہر معاملے میں نہایت پیار سے مگر بالکل کھرے انداز میں صاف بات ارشاد فرماتے.آپ کا طرز عمل قرآنی حکم قُوْلُوْا قَوْلاً سَدِيدًا

Page 31

“ 35 35 “ 46 36 کی عملی تصویر ہوا کرتا تھا.1970ء کے انتخابات سے قبل حضورا یبٹ آباد میں قیام فرما تھے.خاکسار نے لالیاں اور ربوہ کے صوبائی حلقہ کے متوقع امید واران، ان کی وابستگیاں، پس منظر اور ان کی کارکردگی کے بارے میں تفصیلی رپورٹ ارسال کی.جس پر حضور نے ایک صاحب کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ الیکشن میں کھڑے ہو جائیں.چنانچہ خاکساران صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو حضور کے ارشاد سے آگاہ کیا.چنانچہ وہ صاحب بطور آزاد امیدوار صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں کھڑے ہو گئے.حضور ان صاحب کی شرافت اور نیک شہرت کی وجہ سے ان کو پسند فرماتے تھے.اور متعدد بار ان کے بارہ میں فرمایا کرتے تھے کہ وہ میرے دوست ہیں.چنانچہ انتخاب سے قبل حضور کی دعوت پر وہ صاحب اور خاکسارا یبٹ آباد حاضر ہوئے.حضور نے از راہ شفقت ان صاحب کو ذاتی مہمان کے طور پر الگ بخارا ہوٹل میں چند یوم ٹھہرایا.حضور جب ربوہ واپس تشریف لائے تو ان صاحب کے مد مقابل امید وار اور ان کی برادری کے معزز اراکین اور ان کے سپورٹر جو تقریباً 8-10-افراد تھے حضور کی خدمت اقدس میں الیکشن کے سلسلے میں ووٹ مانگنے آئے.جب تمام احباب تشریف رکھ چکے.اور ابھی آنے والے احباب بات کرنے کا موڈ بنا ہی رہے تھے کہ حضور نے حسب معمول نہایت محبت بھرے لہجہ میں اور مسکراتے ہوئے فرمایا: پہلے میری بات سن لیں.پھر میں آپ کی باتیں سنوں گا.سب نے کہا بالکل بجا ہے.پہلے آپ فرما ئیں.حضور نے نہایت صاف اور واضح الفاظ میں لیکن نہایت ہی پیارے اور متبسم لب ولہجہ میں فرمایا.اگر تو آپ صوبائی نشست کے لئے ووٹ مانگنے آئے ہیں تو میں (فلاں) صاحب سے وعدہ کر چکا ہوں.ہاں اگر آپ قومی اسمبلی میں کھڑے ہونا چاہیں تو کل شام تک آپ سوچ کر مجھے بتائیں تو میں آپ کی امداد کے لئے تیار ہوں.حضور کے اس دوٹوک اور واضح فیصلہ سے جو قول سدید کی عملی تصویر تھا.آنے والے رفقاء کو زبردست دھچکا لگا اور مایوسی ان کے چہروں پر واضح طور پر نظر آنے لگی.ان میں سے ایک صاحب جو حضور کے مقام اور مرتبہ کو صیح طور پر نہیں پہچانتے تھے اپنے سادہ اور مخصوص انداز میں حضور سے ان کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی.لیکن ان کے ساتھ آئے ہوئے ایک اور صاحب نے جو حضور کے پسندیدہ بھی تھے اور حضور کو زیادہ اچھے طور پر جانتے تھے اور حضور کے اصولوں سے قدرے واقف بھی تھے، اس درخواست پر کہنے لگے ہماری تو یہ مجال نہیں کہ ہم اب یہ عرض کریں کہ حضور نظر ثانی فرما ئیں.ملاقات سے اٹھنے سے پہلے وفد کے ایک سرکردہ صاحب نے جو دعا کی فلاسفی سے ناواقف تھے اور جنہوں نے محض دعا کا نام سن رکھا تھا، اپنی سادگی میں کہا کہ: اچھا ہمارے لئے دعا ہی فرما دیں.اس پر حضور نے پھر قول سدید کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہماری امداد اور دعا میں اختلاف ہو.حضور کی اس صاف گوئی کا ان سب احباب پر گہرا اثر پڑا.چنانچہ بجائے کسی قسم کی ناراضگی کے اس کے بعد بھی یہ سر کردہ احباب حضور سے اپنے تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے.آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی 1970ء میں ملک میں عام انتخابات ہونے والے تھے تحصیل چنیوٹ کے حلقہ سے قومی اسمبلی کے لئے ایک آزاد امیدوار کی درخواست پر حضور نے اس کی حمایت کا وعدہ کیا تھا.اس کے بعد ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے حضور سے تعاون کی درخواست کی گئی.حضور نے فرمایا کہ ہمارا کسی سیاسی جماعت سے

Page 32

37 تعلق نہیں البتہ آپ کے نامزد کردہ اچھی شہرت کے حامل امید واروں کی ہم حمایت کریں گے.اس کے بعد اس سیاسی جماعت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ جس آزاد امیدوار کی آپ حمایت کر رہے ہیں، اسے کہا جائے کہ وہ ہماری سیاسی جماعت میں شامل ہو جائے.درحقیقت اس سیاسی جماعت کا ملک کے دیگر حصوں میں تو بہت شہرہ تھا لیکن اس ضلع میں اس پارٹی کی کوئی خاص حیثیت نہ تھی اور وہ سیاسی جماعت اس آزاد امیدوار کو اپنی پارٹی میں شامل کر کے اس علاقے میں بھی اپنا اثر ورسوخ قائم کرنا چاہتی تھی.اس پارٹی کے سربراہ نے اس درخواست کے ساتھ ساتھ دھمکی کا انداز بھی اختیار کیا اور کہا کہ اگر وہ امیدواران کی پارٹی میں شامل نہ ہوئے تو ہم اپنا امیدوار کھڑا کر دیں گے اور امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے امیدوار کی تائید اور حمایت کریں گے.حضور اس وقت ایبٹ آباد میں قیام فرما تھے.خاکسار حسب ہدایت ہنگامی طور پر یہ پیغام لے کر پہنچا.حضور نے فرمایا ان کو کہہ دیں ہم آزاد امیدوار کو ووٹ دینے کا وعدہ کر چکے ہیں.ہم اپنے وعدہ کی قطعاً خلاف ورزی نہیں کریں گے اور نہ اپنے ووٹوں کے بدلہ میں یہ شرط لگا ئیں گے کہ وہ آپ کی پارٹی میں شامل ہو جائیں کیونکہ ہم نے اسے غیر مشروط طور پر ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا.ہاں آپ اپنی کوشش سے ان کو اپنی پارٹی میں شامل کر لیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.حضور نے مزید فرمایا کہ اس پارٹی کو بتاؤں کہ اگر آپ نے چنیوٹ میں آزاد امیدوار کے مقابلے میں اپنا امیدوار نامزد کیا تو ہم نہ صرف چنیوٹ میں بلکہ پورے ملک میں آپ کے امیدواروں کی مخالفت کریں گے.حضور نے مجھے ہدایت فرمائی کہ فورا واپس جا کر یہ پیغام متعلقہ پارٹی اور اس کے سربراہ کو پہنچا دیں.مجھے فرمایا کہ آپ ذاتی طور پر اس آزاد امید وار سے رابطہ رکھیں لیکن یہ خیال رکھیں کہ میری طرف سے قطعاً ان کو اس سیاسی پارٹی میں شمولیت “ 38 کے لئے نہ کہیں.خاکسار کو حضور نے ہدایات فرمائی کہ ایک لمحہ ضائع کئے بغیر فوراً واپس پہنچیں کا ر بھی لینی پڑے تو حاصل کریں.خاکسار نے ربوہ پہنچ کر حضور کا پیغام پہنچا دیا اور خود اس آزاد امیدوار کے پاس پہنچ گیا تا کہ ان سے رابطہ رہے.حضور کا ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان جب متعلقہ سیاسی پارٹی کے سربراہ تک پہنچا تو وہ دنگ رہ گئے اب ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ از خود اس امید وار کے پاس جا کر رابطہ کریں.چنانچہ وہ خود مورخہ 25 ستمبر 1970ء کو اس امیدوار کے گاؤں پہنچے وہاں رات قیام کیا.امیدوار کو منایا اور اس امیدوار کو اپنی جماعت میں شامل کر لیا.حضور نے ایک لمحہ بھی اپنے عہد سے انحراف نہ فرمایا اور اس امید وار سے جو وعدہ فرمایا تھا اس کو نبھانے کی خاطر ملک کے ایک بڑے سیاستدان کو بھی صاف جواب دے دیا.اور وہ بھی آپ کی اصول پرستی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو گیا.روزنامه الفضل 19 ستمبر 2001ء) غریبوں اور ہمسایوں سے حسن سلوک کی تلقین 1970ء کا ذکر ہے.عام انتخابات ہونے والے تھے قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے انتخابات لڑنے کے ایک خواہش مند امید وار ووٹ مانگنے کے لئے تشریف لائے.اس وقت تک کسی امیدوار کے حق میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے کوئی فیصلہ نہ فرمایا تھا.ان صاحب کو حضور محض اس لئے نا پسند فرماتے تھے کہ وہ غریب عوام اور ہمسایوں سے حسن سلوک نہیں کرتے.آپ نے بڑی صاف گوئی سے لیکن بڑے موثر انداز میں فرمایا کہ آپ پانچ سال کے بعد ووٹوں کے لئے آجاتے ہیں.جب کہ درمیانی عرصہ میں اچھے ہمسائے اور دوستی کے فرائض بھول جاتے ہیں.اس لئے آج آپ اچھے ہمسایہ اور دوستی کے فرائض نبھانے کا عہد کریں.آنے والے انتخاب تک

Page 33

“ 39 آپ کو دوستی کا حق ادا کرنا چاہئے اور آپ ہمیں اس حق کی ادائیگی میں کبھی پیچھے نہ پائیں گے.اگر آپ دوستی کے معیار میں پورے اُترے تو آئندہ انتخاب پر آپ کو ہم سے ووٹ مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی بلکہ ہم آپ کو اس طرح ووٹ دیں گے جس طرح ایک امیدوار کا نام لے کر فرمایا ) ان کو جنہوں نے ہم سے ووٹ نہیں مانگے بلکہ ہم نے ان کو کہا ہے کہ ہم آپ کو ووٹ دیں گے.کیونکہ وہ اچھے اور شریف دوست اور اچھے ہمسائے ہیں.میں داد دیتا ہوں اس جواں ہمت اور جواں فکر امید وار کو جو حضور کے ان الفاظ کے بعد اپنی نشست سے اٹھے.حضور کی خدمت میں آگے بڑھ کر مصافحہ کیا اور عہد کیا کہ وہ اچھے دوست اور ہمسائے کے فرائض نبھائیں گے.وہ صاحب حضور کے اس موثر اور مخلصانہ مشورہ سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ آئے تو وہ ووٹ لینے تھے مگر وفاداری بشرط استواری کا عہد باندھ کر روانہ ہوئے.ان کی روانگی سے قبل حضور نے ایک ایسی بات بیان فرمائی جس کی مثال سیاسیات میں بہت ہی کم ملتی ہے.آپ نے ان کی موجودگی میں ہی پہلی بار اس سیٹ کے لئے ووٹوں کا فیصلہ فرما لیا.اور ان صاحب کو نہایت صاف گوئی سے بتا بھی دیا کہ ہم نے آپ کے دو حریفوں میں سے آپ کے اصل اور بڑے حریف کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے.قارئین شاید اس پر حیران ہوں.اصل بات یہ ہے کہ یہ طریق حضور نے عمدا اختیار فرمایا تھا.حضور کو تجربہ اور علم تھا کہ امیدوار، ان کے سپورٹرز اور وٹ وغیرہ آخری دم تک دو عملی کی پالیسی اختیار کئے رکھتے ہیں جو ایک مومن کی شان کے قطعی منافی ہے.اس لئے حضور نے ایسے کسی قسم کے ابہام سے بچنے کے لئے جس کی امداد کرنی تھی اس کو اپنے فیصلے سے آگاہ کرنے سے قبل اس کو، جس کو ووٹ نہیں دینے تھے، اپنے فیصلے سے آگاہ فرما دیا.تا کہ یہ صاحب اس سلسلہ میں دھوکے میں نہ رہیں اور دوسرے امیدوار جس کو ووٹ دینے ہوں اس کو بھی قطعی “ 40 اطمینان ہو جائے کہ جماعتی فیصلے واضح دوٹوک اور غیر مبہم ہوتے ہیں.جب کہ سیاست کے اس دور میں جہاں لوگ آخری دم تک دوسروں کو دھو کہ میں رکھتے ہیں، یہ طرز عمل ، قرآن کریم کے حکم ، قول سدید کی عملی تصویر نظر آتا ہے.بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی.اس امید وار نے جس نے عہد دوستی کیا تھا آئندہ آنے والے زمانے میں حتی المقدور اپنے عہد کو نبھایا.چنانچہ اللہ کے قائم کردہ خلیفہ نے جو الفاظ خلوص دل سے کہے تھے، اور جو وعدہ کیا تھا اس کو اس طرح پورا کیا که آمدہ عام انتخابات میں انہی صاحب کی امداد اور تائید اور دعا بھی کی.جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ صاحب بفضلہ تعالیٰ صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے.جب ضروری رپورٹ ہو.آجایا کریں حضور اکثر غیر از جماعت دوستوں کی بہتری اور بھلائی کے لئے خاکسار کو بعض ہدایات عطا فرمایا کرتے تھے.ایک دفعہ انتخاب خلافت کے تھوڑی دیر بعد ہی ملاقات کے لئے حاضر ہوا.ملاقات کا وقت نہ ہونے کے باعث دفتر نے اطلاع دینے سے معذوری کا اظہار فرمایا جو مبنی بر حقیقت تھا.دوسرے دن ملاقات کے لئے حاضر ہوا تو فرمایا کل نہیں آئے ! عرض کیا کہ حاضر ہوا تھا لیکن ملاقات کا وقت نہیں تھا جس کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی.اس پر حضور نے فرمایا آپ جب ضرورت ہو جایا کریں.چنانچہ بعد میں ایسے ہی ہوتا رہا.حضور کی اس انتہائی شفقت کے باوجود خاکسار بھی بلاضرورت اور بے وقت حاضر ہونے سے گریز کرتا.لیکن حسب ضرورت ایک دفعہ صبح کی نماز سے قبل حاضر ہوا.حضور اُسی وقت تشریف لائے اور امر متعلقہ کے بارے میں رپورٹ عرض کی جس پر حضور نے از راہ شفقت خوشنودی کا اظہار فرمایا.خلافت ثالثہ کے آخری چند سالوں میں حضور کی اجازت سے یہ طریق اختیار

Page 34

41 “ 42 کیا گیا کہ نمازوں کی ادائیگی کے بعد جب حضور بیت الذکر سے واپس تشریف لے جاتے تو خاکسار کے سلام کرنے پر حضور از راہ شفقت بلا لیتے.راستہ میں ہی امر متعلقہ میں فوری رہنمائی فرما دیا کرتے.اگر کوئی اہم معاملہ ہوتا تو حضور اندر ساتھ لے جاتے اور بیٹھ کر تفصیل سے ہدایات ارشاد فرماتے.ربوہ کا بابرکت ماحول ماحول ربوہ کا سب سے قریبی اہم اور قدیمی قصبہ لالیاں ہے.جولالی قوم کا مرکز ہے.لالی قوم ماحول ربوہ میں سب سے زیادہ بااثر مثالی کا شتکار، اور سیاسی و سماجی لحاظ سے معروف ہونے کے علاوہ ان کی اکثریت نیک شہرت اور مثبت سوچ کی حامل ہے.کافی عرصہ کی بات ہے کہ ایک دن خاکسار ربوہ کے ایک قریبی شہر میں ایک سڑک پر پیدل جا رہا تھا کہ اچانک ایک کار قریب آکر ر کی دیکھا تو علاقہ کے سب سے بڑے زمیندار، سیاسی سماجی اثر و رسوخ کے حامل، جن کے بزرگ اسمبلیوں کے رکن رہے.وہ کار سے اُترے مصافحہ اور معانقہ کیا.معالقہ سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کی آنکھوں میں آنسو تیرتے دیکھے.چند لمحات کے توقف کے بعد انہوں نے کہا آپ کو علم ہے کہ میرا جواں سال لڑکا سخت بیمار ہوا اسے فوری لاہور لے جایا گیا.لیکن وہ جانبر نہ ہو سکا آپ تعزیت کے لئے بھی تشریف لائے تھے اور میری بڑی دلداری بھی کی تھی.میں نے عرض کیا کہ مجھے سب یاد ہے.انہوں نے کہا کہ جب سے اب تک میں سخت پریشان ہوں اور دعا کے لئے حضرت صاحب سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ میں کب حاضر ہوں.میں نے عرض کی کہ میں تو قطعی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ از خود وقت کا تعین کرسکوں.البتہ آپ کی خواہش اور درخواست پہنچا دوں گا جو ارشاد ہوا عرض کر دوں گا.ربوہ جا کر میں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی تو حضور نے فرمایا مصروفیت تو بہت ہے.لیکن چونکہ وہ ہمارے معزز ہمسایہ ہیں اور غم زدہ ہیں.ان کو فلاں تاریخ کو بعد نماز عصر لے آئیں.خاکسار نے ان صاحب کو وقت اور تاریخ بتادی کہ فلاں وقت دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچ جائیں.وقت مقررہ پر جب میں پہنچا تو مجھ سے پہلے صاحب موصوف پہنچ چکے تھے اور دفتر کے باہر ٹہل رہے تھے.خاکسار نے حضور کی خدمت میں اطلاع بھجوائی کہ ہم دونوں حاضر ہیں.حاضری کی اجازت ملی.میں اس ملاقات کا منظر تا زیست نہ بھلا سکوں گا.یہ معزز مہمان اعلی تعلیم یافتہ اپنی قوم کے چیف تھے.ان کے بزرگ ممبر اسمبلی وغیرہ منتخب ہوتے رہے.قریباً 40 مربع اراضی کے واحد مالک تھے.لاہور، سرگودھا ، ایبٹ آباد میں اپنے مکانات تھے.1970ء کے عام انتخابات میں جماعت نے ان کے حریف کو ووٹ دیئے تھے اور یہ صاحب محض جماعتی ووٹوں سے محرومی کے باعث کامیاب نہ ہو سکے.اس پس منظر کے باوجود حضور کی روحانی شخصیت کا ان پر غیر معمولی اثر تھا.یہ واقعہ ان کی حضور سے عقیدت اور اعتماد کا منہ بولتا ثبوت ہے محترم مہمان کمرہ ملاقات میں داخل ہوئے اور بلا توقف دونوں ہاتھ حضور کے گھٹنوں کی طرف بڑھائے.حضور نے از راہ شفقت اور ہمدردی ان کے ہاتھ تھام لئے.مہمان کو سینہ سے لگایا اور صوفہ پر تشریف رکھنے کا ارشاد فرمایا.مہمان موصوف خاموشی سے انتہائی ادب و احترام اور معجز و انکسار سے حضور کے سامنے قالین پر بیٹھ گئے.حضور نے فرمایا یہ طریق دین کی تعلیم کے خلاف ہے.مجھے جو بھی ملنے آتا ہے.چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب ہم سب اکٹھے بیٹھتے ہیں.آپ ادھر صوفہ پر تشریف رکھیں.لیکن وہ غم زدہ مہمان شدت غم اور حضور کے غیر معمولی احترام کے باعث بولنے کی کوشش کے باوجود نہ بول سکے.ان کی آنکھیں آبدیدہ ہو گئیں.حضور کے مشفقانہ اصرار پر وہ صوفہ پر بیٹھ تو گئے لیکن چند ہی لمحوں کے بعد یکدم

Page 35

43 “ 44 نیچے اترے اور قالین پر بیٹھ گئے.اور کہنے لگے میں آپ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا.حضور مجھے یہیں بیٹھنے کی اجازت دیں.ان کے اصرار پر حضور خاموش ہو گئے.معزز مہمان نے بڑے ادب سے محتاط انداز میں عرض کیا کہ میرا جواں سال بیٹا قریبی شہر میں بیمار ہوا اور لاہور میں فوت ہو گیا.جس کے باعث ان دونوں شہروں میں میں اپنے بچے تعلیم کے سلسلہ میں نہیں رکھنا چاہتا.انہوں نے کہا کہ اس پریشانی کے عالم میں میں نے اللہ کے حضور دعا کی کہ خدایا میری رہنمائی فرما اور تسکین کے اسباب پیدا کر.چنانچہ دعا کے بعد ایک رات خواب میں میرے والد مرحوم تشریف لائے اور مجھے فرمایا کہ پریشان کیوں ہوتے ہو.حضرت صاحب سے جا کر ملو صبح جب میری آنکھ کھلی تو میں پریشان ہوا کہ کون سے حضرت صاحب کے پاس حاضر ہوں.آج کل تو حضرت کا لفظ عام مولوی ، چھوٹے بڑے وغیرہ سب کے ساتھ استعمال ہوتا ہے.اس پریشانی میں دوسری رات پھر خواب میں دیکھتا ہوں کہ والد صاحب تشریف لائے ہیں اور ناراضگی میں فرمایا حضرت صاحب سے ملو اور بچے ربوہ داخل کراؤ.اتنا کہہ کر معزز مہمان پھر شدت غم سے مغلوب ہو گئے.قدرے سنبھلنے پر فرمایا حضور میرے سکون کیلئے دعا کریں اور مجھے جس قدر جلدی ہور بوہ میں رہائش کی اجازت دے دیں.حضور نے نہایت محبت اور شفقت سے فرمایا فکر نہ کریں.اللہ تعالیٰ پر تو کل رکھیں صبر سے کام لیں.ربوہ میں آپ بخوشی بچے داخل کرا ئیں.انشاء اللہ مکان کا انتظام بھی کرا دیا جائے گا.حضور سے ملاقات کے بعد اور حضور کے ارشادات سننے کے بعد ان کی پریشانی سکینت میں بدل گئی.دوسرے دن وہ دفتر امور عامہ تشریف لائے اور درخواست کی کہ میں نے ربوہ میں رہائش رکھ کر بچوں کو تعلیم دلوانی ہے تا حال مجھے کوئی موزوں مکان نہیں مل سکا اس سلسلے میں میری مدد کی جائے.اگر مکان نہ مل سکے تو مجھے ربوہ میں خیمہ لگانے کی اجازت مرحمت فرما دیں.تاہم بعد میں دفتر کے تعاون سے انہیں دارالصدر غربی میں مناسب مکان مل گیا.چنانچہ انہوں نے مع فیملی ربوہ میں رہائش اختیار کرلی.ایک دن میں انہیں ملنے گیا تو انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک روز ہم اپنی بیٹی کو کالج لانے کے لئے کار نہ بھجوا سکے.میری بیٹی چھٹی ہونے پر گھر میں روتی ہوئی اور پریشانی کے عالم میں داخل ہوئی.جس پر ہم سب پریشان ہو گئے.اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ میں جب پیدل آرہی تھی تو راستہ سنسان تھا کوئی فرد نظر نہ آیا میں سنسان سڑک پر ڈرتی ہوئی گھر پہنچی ہوں.وہ کہنے لگے کہ بیٹی کو تو میں نے تسلی دلائی مگر بیٹی کی اس شکایت سے میں بے حد مطمئن اور خوش ہوا.کہ دیگر شہروں میں تو یہ شکایت ہوتی ہے کہ چھٹی کے بعد آوارہ لڑکے لڑکیوں کے کالج کے باہر منڈلاتے پھرتے ہیں اور آوازے کستے اور گھٹیا حرکات کرتے ہیں جب کہ ربوہ میں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے.اس کے بعد ہم ربوہ کے ماحول سے مزید مطمئن ہو گئے.دلداری کا اہم واقعہ مکرم مہر محمد یار سپرا صاحب مرحوم ربوہ کے قریب کے ایک گاؤں ٹھٹھہ چندو کے ایک چھوٹے سے احمدی زمیندار تھے انتہائی مخلص وجود تھے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے فوراًبعد حضور کی ملاقات کے لئے مع بچگان حاضر ہوئے.پرائیویٹ سیکرٹری نے ملاقات کرانے سے معذرت کر دی.ان کا موقف یہ تھا کہ جلسہ کے ایام ہیں.جو احباب دور دراز کراچی وغیرہ سے سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں آئے ہیں اس وقت ملاقات کے منتظر ہیں.انہیں نظر انداز کر کے آپ کی ملاقات کس طرح کروا دی جائے؟ آپ قریب کے رہنے والے ہیں چند دنوں کے بعد آجائیں.

Page 36

45 “ 46 نہ معلوم کس طرح حضور کو اس کا علم ہو گیا.آپ نے ملاقاتیں روک دیں اور اس ساده، ناخواندہ لیکن انتہائی مخلص اور فدائی احمدی کو نہ صرف شرف ملاقات بخشا بلکہ اس کو گلے سے لگایا اور اس کے ساتھ آئے ہوئے بچوں کو تحفوں سے نوازا اور اس طرح سادہ اور مخلص احمدی کی دلداری کی قابل قدر مثال قائم فرما دی.سوہنا پیر ایک مرتبہ مہر غلام حیدر بھروانہ صاحب سابق ایم این اے اپنے دو دوستوں (مہر احمد یار صاحب سیال ممبر ڈسٹرکٹ کونسل اور ایک حافظ قرآن اور صاحب علم دوست ) بشمول خاکسار حضور سے شرف ملاقات کے لئے حاضر ہوئے.حضور بھروانہ صاحب موصوف سے ہمیشہ شفقت و محبت سے پیش آتے تھے.ملاقات کے دوران حضور نے فرمایا کھانے کا وقت ہے کھانا کھا کر جائیں.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ہم سب نے حضور کے ہمراہ کھانا کھایا.حضور سے ملاقات کے بعد جب باہر آئے تو بھروانہ صاحب کے ساتھ آنے والے حافظ قرآن دوست نے جو پڑھے لکھے بھی تھے بے ساختہ اور بے اختیار پنجابی میں یہ الفاظ کہے: کوڑے نیچے واعلم رب کول اے پر میں ایڈا سوہنا پیر کدی نہیں دیکھیا اے! بڑا سوہنا اے یعنی حضور کے بارے میں اس نے کہا کہ یہ بچے ہیں یا جھوٹے ہیں اس کا علم تو خدا کے پاس ہے لیکن اتنا خوبصورت پیر میں نے کبھی نہیں دیکھا.پھر کہنے لگے، بڑا سوہنا اے، بڑا سوہنا اے“ یعنی آپ بے حد خوبصورت ہیں.بہت خوبصورت ہیں.بڑا مرد ہے اگست 1974ء کے ہنگامہ خیز دنوں کی بات ہے کہ لالیاں شہر میں احمدی دوستوں کو پولیس نے محض اپنی ذمہ داری سنبھالنے سے بچنے کے لئے اور فی الحقیقت جماعت کو تنگ کرنے کے لئے ربوہ پہنچا دیا.اس بات کا علم جب مکرم مہر حبہ سلطان صاحب لالی اور مکرم مہر محمد اسماعیل صاحب لالی کو ہوا تو یہ دونوں احباب خاکسار سے ملے اور حضور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی خاکسار نے عرض کیا کہ ملاقات کی درخواست کر کے دیکھتا ہوں.وجہ یہ تھی کہ ان دنوں حضور بے حد مصروف تھے.خاکسار نے حضور سے عرض کی تو حضور نے ازراہ شفقت باوجود انتہائی مصروفیات کے شرف ملاقات سے نوازا.جماعت پر سختی اور تنگی کے شدید حالات تھے ہر طرف احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا.کئی احمدی راہ مولا میں قربان ہو چکے تھے.بے شمار احمدیوں کے گھر اور مال و متاع لوٹے جاچکے تھے.ہراحمدی دکھی اور پریشان تھا.ان حالات میں معزز دوستوں کا تاثر ملاقات سے قبل کچھ اور ہی تھا.لیکن حضور کے چہرہ کی مسکراہٹ اور کا چمک دمک سے یہ احباب حیران ہو کر رہ گئے.اور حضور کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوئے.حضور سے ملاقات کے دوران مہر صاحبان نے بار بار موجودہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا اور اپنی اخلاقی ہمدردی کا اظہار کرتے رہے.مہر محمد اسماعیل صاحب جب حالات کی خرابی کا ذکر کرتے ہوئے کسی بات کے متعلق پوچھتے تو حضور مختصر اور تسلی بخش جواب دے کر ان کے مزاج کے مطابق گفتگو فرماتے ، مثلاً چونکہ علاقہ بھر کے مثالی کاشت کار ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین گھوڑے رکھتے تھے ان سے حضور گھوڑوں اور فصلوں کے بارے میں استفسارات فرماتے اور اچھے گھوڑوں

Page 37

“ 47 کے بارے میں اپنی وسیع معلومات سے نوازا تو وہ حیران ہو کر رہ گئے کہ ایک خالص دینی رہنما ہونے کے باوجود آپ کو ان موضوعات پر غیر معمولی عبور حاصل ہے.ان صاحبان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے بارے میں دریافت فرماتے.مہر محمد اسماعیل صاحب نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ لالیاں سے احمدی گھرانوں کو پولیس نے ڈرا دھمکا کر ربوہ پہنچا دیا ہے.اللہ تعالیٰ کا فضل ہے لالیاں کے لوگ شر پسند نہیں ہیں اور وہاں حالات ٹھیک ہیں اور جب تک ہم زندہ ہیں لالیاں میں انشاء اللہ کسی احمدی پر زیادتی نہیں ہوگی.آخر میں مہر صاحب موصوف نے عرض کیا کہ آپ کے نزدیک یہ کشیدگی کب تک جاری رہے گی.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ زیادہ سے زیادہ چار پانچ ماہ تک اور چلے گی.اس خوشگوار ملاقات کے اختتام بر جب ہم باہر نکلے تو مہر محمد اسماعیل لالی جو اس علاقہ کے نہایت معروف ، بااثر اور اہم سیاسی و سماجی شخصیت تھے، وہ جب اوپر کی منزل سے نیچے آنے کے لئے سیڑھیاں اتر رہے تھے تو اوپر سے نیچے آنے تک ایک ہی فقرہ دوہراتے رہے:.66 ” بڑا مرد ہے، بڑا مرد ہے ، بڑا مرد ہے.یعنی بہت بہادر اور جرات مند شخص ہے.بہت ہی بہادر شخص ہے.یعنی باوجود اس کے کہ سارے ملک میں جماعت پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور آپ کو اپنی جماعت سے بے پناہ محبت بھی ہے.لیکن چہرہ پر رائی بھر بھی پریشانی یا گھبراہٹ کے آثار نہیں خداداری چه غم داری.محترم مہر حبیب سلطان صاحب جو معروف زمیندار اور سماجی حیثیت کے باعث علاقہ بھر میں اہم مقام رکھتے ہیں.وہ بھی اپنے خسر محترم کی تائید کر رہے تھے.یہ دونوں احباب حضور کی اولوالعزمی ، جرأت اور توکل علی اللہ سے بے حد متاثر ہوئے.جس کا ذکر وہ تا دم واپسیں کرتے رہے.آخر میں خاص بات یہ کہ حضور کی “ 48 اجازت سے مہر محمد اسماعیل صاحب نے محترم مولوی عبدالعزیز صاحب بھا مبری کے تعاون سے ربوہ میں لائے گئے لالیاں کے احمدی احباب سے رابطہ کیا اور راتوں رات ان کو اپنے ٹریکٹر ٹرالیوں میں مع سامان واپس لالیاں لے گئے.روزنامه الفضل 26 ستمبر 2001ء) قومی اسمبلی میں حضور کے خطاب پر ایک ایم این اے کے تاثرات 1974ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں حضرت خلیفہ امسیح الثالث تشریف لے گئے اور کئی دن تک مخالف علماء کے سوالوں کے جواب عطا فرماتے رہے.ابتداء میں حضور نے ایک معرکتہ الآراء خطاب فرمایا اور اس کے بعد دیگر کارروائی ہوئی.قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں حضور ہمیشہ فرماتے تھے کہ چونکہ وہ صیغہ راز میں ہے اس لئے اس سلسلہ میں کچھ کہنا مناسب نہیں.حضور نے مجھے 3 ستمبر 1974ء کو ایک کام کے سلسلے میں اسلام آباد جانے کا ارشاد فرمایا.خاکسار حسب حکم اسلام آباد گیا وہاں جا کر خیال آیا کہ چلو ایم این اے ہوسٹل میں ممبران قومی اسمبلی سے مل کر اسمبلی کی کارروائی کے بارہ میں ان کے تاثرات کا جائزہ لیا جائے.چنانچہ خاکسار جھنگ کے ایم این اے مہر غلام حیدر بھروانہ سے ملا.ان کے پاس اس وقت بعض اور ایم این اے اور سینیٹرز وغیرہ تشریف فرما تھے.دوران ملاقات بھروانہ صاحب نے از خود اسمبلی میں حضور کے خطاب کے بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان فرمائے.آپ نے اسمبلی میں جس طرح خطاب فرمایا ہے یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں تھی.بھروانہ صاحب کہنے لگے کہ کتنی عجیب بات ہے کہ سوال کرنے والے تو تیاری کرنے کے بعد سوالات کرتے تھے لیکن جواب دینے والی شخصیت موقع پر ہی جواب دے رہی تھی.بھروانہ صاحب مزید کہنے لگے کہ آپ جب جواب دیتے تھے تو

Page 38

“ 49 “ 50 50 آپ کے ساتھ جو اصحاب تشریف لائے ہوئے تھے ان میں سے جب کوئی پیچھے سے کتاب یا نوٹ دینے کی کوشش کرتا تو آپ اشارہ کر کے فرماتے کہ رہنے دیں اور خود ہی نہایت تشفی سے تسلی بخش طریق پر زبانی اور فی البدیہ جواب دیتے چلے جاتے آپ کے جوابات اور نورانی شخصیت سے ممبران اسمبلی بے حد متاثر ہوئے.بھروانہ صاحب نے فرمایا کہ آپ کی مقناطیسی شخصیت اور نورانی چہرہ سے ممبران اسمبلی بے حد متاثر ہوتے جارہے تھے.آپ جب آتے سڑکوں پر یوں محسوس ہوتا کہ کوئی وائسرائے تشریف لا رہے ہیں.اور جب اسمبلی ہال میں داخل ہوتے دونوں ہاتھ اٹھا کر بآواز بلند السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتے تو ممبران میں بعض بے ساختہ کھڑے ہو جاتے.آپ کے نورانی چہرے اور ٹھوس دلائل سے مخالف ممبران سخت پریشان ہوتے گئے.بھروانہ صاحب نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ بعض ممبران آپ کی شخصیت اور دلائل سننے کے بعد جماعت احمدیہ کے حق میں مائل ہوتے جارہے تھے.بھروانہ صاحب کی باتوں کی دیگر موجود ممبران توثیق کرتے رہے.عدل وانصاف کی نادر مثال یہ امر تسلیم شدہ ہے کہ دنیا میں اختلافات کا بنیادی سبب عدل اور انصاف کا فقدان ہے.اگر عدل قائم ہو جائے تو یہ دنیا امن آشتی اور پیارو محبت کا گہوارہ بن جائے.میرے پیارے آقا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ہر معاملہ میں عدل و انصاف کو قائم رکھتے تھے.اس کا ایک نادر واقعہ ایک مثالی اور یاد گار لمحہ میری یادوں میں محفوظ ہے.ایک مفلس لیکن مخلص احمدی بھائی جو خاکسار کے عزیز تھے، کے گھر معمولی سی چوری ہوگئی جس کی تلاش دیہاتی رواج کے مطابق جاری تھی.ایک دوست نے چور کو چوری شدہ چیز سمیت دیکھ لیا گویا رنگے ہاتھوں پکڑ لیا.انہوں نے ہمیں اطلاع دی.پتہ چلا کہ وہ چور ہمارے ایک معزز اور انتہائی صاحب حیثیت اور با اثر احمدی بھائی کا ملازم ہے.ہم احمد نگر کے چار پانچ معززین جن میں مکرم چوہدری عبدالرحمن صاحب کونسلر بھی شامل تھے اس احمدی بھائی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کا ملازم (جو غیر از جماعت تھا) ہمارا چور ہے.مہربانی فرما کر ہماری حق رسی فرمائیں.وہ صاحب ہماری بات ماننے کے لئے ایک لمحہ کے لئے بھی تیار نہ ہوئے کہ ان کا ملازم چوری کر سکتا ہے.ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ ہمارے ساتھ تعاون کریں لیکن ناکامی ہوئی آخر نظارت امور عامہ سے رجوع کیا.ان صاحب نے بدقسمتی سے امور عامہ سے بھی بے رخی برتی اور عدم تعاون کیا.اس پر نظارت نے پولیس کارروائی کا مشورہ دیا جس کی تعمیل میں پولیس چوکی میں درخواست دی گئی.وہاں بھی ان صاحب نے اپنے ملازم کو مکمل تحفظ دینا شروع کیا.اس پر معاملہ امور عامہ کی طرف سے حضور کے علم میں لایا گیا.حضور نے ارشاد فرمایا کہ متعلقہ مسل اور فریقین کو مورخہ 3 اگست 1970ء کو ساتھ لے کر حاضر ہوں.حسب ارشاد فریقین کے علاوہ محترم چوہدری عبدالعزیز صاحب بھامبڑی محتسب بھی مسل لے کر حاضر ہو گئے.حضور نے مسل ملا حظہ فرمائی.فریقین کا موقف سنا اور پھر دوسرے فریق کو جو مجھ ناچیز کے مقابلہ میں نہایت بااثر شخصیت تھے مخاطب ہو کر فرمایا ، آپ دولت کے بل بوتے پر غریب احمدی کے انصاف میں حائل ہیں.پولیس کے پاس بھی گئے ہیں انہوں نے ڈر کے مارے انکار کر دیا تو حضور نے محتسب صاحب سے رپورٹ طلب فرمائی انہوں نے بتایا کہ پولیس میں گئے ہیں اور دباؤ بھی ڈلوایا ہے.اس پر حضور نے مزید سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا.حضور کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھے تو وہ صاحب جو اتنے دنوں سے اڑے ہوئے تھے یکا یک معذرت اور معافی پر اتر آئے.میں ان صاحب کے اخلاص

Page 39

51 555 اور خلافت کی اطاعت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.وہ بار بار حضور سے معافی مانگتے رہے.جب حضور نے محسوس فرمایا اب ان صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے تو خلیفہ وقت کا مقام تو باپ کا ہوتا ہے.لہذا فرمایا کہ آپ امور عامہ کے توسط سے مدعی فریق کو مبلغ ایک ہزار روپیہ ہر جانہ ادا کریں اور جس سے زیادتی کی ہے اس سے معافی مانگیں.حضور محترم مولوی بھامبڑی صاحب سے فرمانے لگے شام تک اس فیصلہ کی تنفیذ ہونی چاہئے.جس کی رپورٹ مجھے آنی چاہئے.یقین جانئے میری اپنی حالت غیر ہو چکی تھی.چند منٹ الگ نیچے بیٹھنے کے بعد استغفار کرتا ہوا احمدنگر پہنچ گیا.میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ بات نہ تھی کہ میں نے ایک ہزار روپے جو اس زمانے کے حساب سے ایک بہت بڑی رقم تھی ، لینے ہیں یا معافی منگوانی ہے.میں گھر پہنچا ہی تھا کہ نظارت امور عامہ کا بلاوا آ گیا کہ فور دفتر آئیں تا کہ بعد از تنفیذ حضور کی خدمت میں رپورٹ بھجوائی جاسکے.امور عامہ کے حکم کی تعمیل میں دفتر پہنچا.کانپتے ہاتھوں سے رقم پکڑی.دو دن نہایت اضطراب میں گزرے کہ ہمارے چھوٹے سے معاملے کی وجہ سے حضور کو کس قدر کوفت اٹھانی پڑی حضور کا کتنا قیمتی وقت ضائع ہوا.اور اس احمدی دوست کو بھی (چاہے اپنی نادانی کی وجہ سے ہی ) کتنی تکلیف اٹھانی پڑی.وقت گزرنے کے ساتھ میری پریشانی اور اضطراب بڑھتا گیا.آخر مجھ سے رہا نہ گیا.حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.قارئین محترم! میں آپ کو اپنے دل کی بات بتاتا ہوں.جب بھی کبھی میں دنیاوی مسائل سے پریشان ہوتا تو حضور کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دعا کے لئے عرض کرتا.شرف زیارت حاصل کر لیتا اور میری تمام پریشانیاں کا فور ہو جاتیں.چنانچہ میں نے حاضر ہو کر حضور کا شکریہ ادا کیا کہ ہمارے معمولی سے معاملے میں حضور نے اپنا قیمتی وقت عطا کر کے غریب احمدی کو انصاف دلایا.پھر ڈرتے ڈرتے عرض کی 52 52 حضور کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے ایک ہزار روپے وصول کر لئے ہیں.اب اگر حضور اجازت مرحمت فرما ئیں تو میں یہ رقم متعلقہ احمدی دوست کو واپس کر دوں.حضور نے میری دلداری کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کا نقصان ہوا ہے آپ رقم رکھیں.میں نے پھر عرض کیا کہ اگر حضور مجھے دلی طور پر اجازت عطا فرما دیں تو یہ بات میرے لئے باعث سکینت ہوگی.حضور مسکرائے اور فرمایا اچھا اپنا نقصان رکھ لو اور زائد رقم واپس کر دو.میں نے ہمت کر کے تیسری بار جسارت کی اور عرض کیا کہ حضور میر انقصان اور ہر جانہ تو اسی دن ادا ہو گیا تھا جس دن حضور نے باوجود لامتناہی مصروفیات کے غیر معمولی شفقت محبت اور انصاف کا اعلیٰ مظاہرہ فرماتے ہوئے خاکسار کے عزیز کے حق میں فیصلہ صادر فرمایا تھا.بالآخر حضور نے از راہ شفقت بخوشی اجازت عنایت فرما دی اور فرمایا کہ رقم واپس دے آؤ لیکن واپسی پر مجھے ان صاحب کے رد عمل کی رپورٹ دے کر جانا.یہ واقعہ رات سات بجے کا تھا.سردیوں کے دن تھے.جو نہی حضور نے اجازت عطا فرمائی میرا بوجھ ہلکا ہو گیا.اسی وقت ایک دوست مکرم خواجہ مجید احمد صاحب کو ساتھ لے کر سیدھا ان کے گھر دارالرحمت میں حاضر ہوا.اطلاع دی.انہوں نے اندر بلایا.میں نے معذرت کے ساتھ رقم واپس کر دی.انہوں نے بغیر کسی رد عمل کے رقم لے لی.چند منٹوں میں ہم واپس آگئے.مجھے پریشانی سے نجات ملی.حسب ارشاد واپسی پر رات آٹھ بجے کے قریب رپورٹ حضور کی خدمت میں عرض کر دی.اصول پرستی و تعلق پروری سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی ان گنت خوبیوں میں سے ایک نمایاں خوبی یہ بھی تھی کہ آپ انتہائی تعلق پرور شخصیت تھے.جماعت سے آپ کی محبت تو کسی تعارف کی محتاج نہیں.حضور کا یہ عظیم ارشاد تھا کہ جماعت اور خلیفہ ایک وجود کے دونام

Page 40

ہیں.یہ ارشاد حضور کی ساری زندگی کی عملی تفسیر تھا.53 احباب جماعت کے علاوہ حضور کے ساتھ جس غیر از جماعت دوست کا ایک دفعه تعلق پیدا ہو جاتا تو حضور قطع نظر اس سے کہ وہ دوست امیر ہے یا کوئی غریب ترین دوست ہے.ہمیشہ اس تعلق کو نبھاتے اور اس دوستی کی لاج رکھتے.آپ کی دوستی نبھانے کی بے شمار مثالیں ہیں.جب بھی کبھی کسی دوست اور تعلق دار کی امداد کا موقعہ میسر آیا تو آپ نے بڑی بشاشت اور خوشی سے تعلق پروری کا ثبوت فراہم کیا.1962ء میں جب ربوہ میں ایک آزاد گروپ کی تشکیل دی گئی تو اس گروپ کے ایک سرگرم رکن ملک محمد ممتاز خان صاحب نسو آنہ بھی تھے.گروپ کے فیصلہ کی تعمیل میں ملک صاحب موصوف نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.حالانکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ وہ جس شخصیت کے مقابلہ میں انتخاب لڑنے کے لئے میدان میں اترے تھے اس کے مقابلہ میں کامیابی کی کوئی امید نہ تھی وجہ یہ تھی کہ وہ خاندان عرصہ دراز سے علاقہ میں سیاسی اور سماجی طور پر با اثر تھا اور خصوصاً اقتصادی لحاظ سے نہایت مضبوط تھا.لیکن محض گروپ کے فیصلہ کا احترام کرتے ہوئے ملک ممتاز نسوآنہ نے انتخاب میں حصہ لیا اور حسب توقع نا کام بھی رہے.1977ء میں ملک ممتاز نسوآنہ صاحب دوبارہ صوبائی اسمبلی کا انتخاب لڑنے کے خواہشمند تھے.وہ اس سلسلہ میں حضور سے ملاقات کر کے مشورہ اور اعانت کے طلب گار ہوئے.حضور نے ملک صاحب کے بارے میں فرمایا کہ ملک صاحب کی امداد ہم نے ضرور کرنی ہے.اس لئے کہ انہوں نے 1962ء میں محض آزاد گروپ کے کہنے پر انتخاب لڑا تھا.اس وقت انہوں نے گروپ کی خاطر قربانی دی تھی.اب ہمارا فرض ہے کہ ان کی اس قربانی کا بدلہ چکایا جائے.چنانچہ حضور نے ملک صاحب کی بھر پور امداد کی.جس کی وجہ سے انہوں نے بفضلہ تعالیٰ صوبائی اسمبلی کا انتخاب جیت لیا “ 54 حالانکہ ان کے مد مقابل امید وار بھی نیک شہرت رکھنے والے اور جماعت احمدیہ کے مخلص دوستوں میں شمار ہوتے تھے.ایک مشورہ.ایک پیشگوئی حضور کو اللہ تعالیٰ نے جہاں بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا ان میں حضور خوبی بھی منفر داہمیت کی حامل تھی کہ حضور کا مشورہ ہمیشہ صائب ہوتا تھا.جب بھی احمدی یا غیر احمدی دوست مشورہ طلب کرتے تو حضور ان کو جو صیح اور واضح مشورہ دیتے اس کی اصابت کی تصدیق آنے والے واقعات و حالات کر دیتے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے آپ کا ہاتھ آنے والے وقت کی نبض پر ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا حضور پر خاص فضل واحسان تھا.ایک دفعہ تو آپ نے ایک ایسا مشورہ دیا جو پیشگوئی بن گیا جوئی بار پوری ہو چکی ہے.1977ء میں فوجی حکومت نے انتخابات کروانے کا اعلان کیا تو حضور کی خدمت میں دیرینہ تعلق رکھنے والے ایک غیر از جماعت دوست قومی اسمبلی کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے مشورہ کے لئے حاضر ہوئے اس ملاقات میں خاکسار بھی حاضر تھا.ابتدائی خیریت دریافت کرنے کے بعد موصوف نے انتہائی احترام سے عرض کیا کہ حضور میں مشورے کے لئے حاضر ہوا ہوں.میں نے حج کے لئے درخواست دی ہوئی ہے.اور ساتھ ہی انتخابات بھی سر پر ہیں.پارٹی کا فیصلہ اور اصرار ہے کہ میں قومی اسمبلی کا انتخاب لڑوں.اس سلسلہ میں مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں.اس پر حضور نے بلا توقف فرمایا آپ حج پر تشریف لے جائیں.انتخاب کے بارہ میں بالکل نہ سوچیں.مزید حضور نے فرمایا کہ حالات بتارہے ہیں کہ انتخابات نہیں ہوں گے.آپ تسلی رکھیں.جس کی حضور نے اس وقت کئی وجوہات بھی بیان

Page 41

“ فرمائیں.جن کے ذکر کی اس وقت چنداں ضرورت نہیں.55 حضرت خلیفہ الثالث کا یہ طریق تھا کہ آپ انتخابات سے قبل ووٹ مانگنے کے لئے آنے والے امیدواروں کو بار بار آنے کی زحمت نہیں دیا کرتے تھے بلکہ ایک دو ملاقاتوں میں ہی اپنا واضح فیصلہ صادر فرما دیا کرتے تھے لیکن 1977ء کے انتخابات میں ووٹ مانگنے والوں کو اپنے فیصلے سے آگاہ نہیں فرماتے تھے.حضور اس کی وجہ یہ بیان کرتے تھے کہ جب انتخابات ہی نہیں ہونے تو ہم کیوں بلا وجہ فیصلہ کریں.قانون کا احترام خاکسار کی موجودگی میں ایک دفعہ ایک (ڈی.ایف او) فاریسٹ آفیسر احمدی نے کہا میرے علاقے میں جو جنگلات ہیں ان میں تیتر آجکل بہت ہیں.حضور شکار کے لئے تشریف لائیں حضور نے دریافت فرمایا کہ کیا تیتر کے شکار کی آج کل حکومت کی طرف سے ممانعت تو نہیں ؟ انہوں نے عرض کیا کہ ممانعت تو ہے.مگر میں ڈویژنل فاریسٹ آفیسر ہوں.جنگلات کے محکمے کا تمام عملہ میرے ماتحت ہے.کسی کی باز پرس یا مداخلت کا کوئی امکان نہیں.حضور نے مسکراتے ہوئے فرمایا آپ کا جنگل اور آپ پاکستان سے باہر ہیں یا پاکستان میں ہیں؟ پھر فرمایا قانون کے احترام کا تقاضا ہے کہ ممانعت کے ایام میں شکار قطعاً نہ کھیلا جائے.حضور اپنے غیر از جماعت دوستوں کو قانون کے احترام کی اکثر نصائح فرمایا کرتے تھے.اس سلسلے میں فرمایا جب ہمیں کبھی نہر کی پڑی پر سفر کرنا ہوتا ہے تو جب تک ہم محکمہ نہر کی طرف سے اجازت نامہ حاصل نہیں کر لیتے تب تک ہم قطعاً اس پر سفر نہیں کرتے.قانون کے احترام کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ بلدیہ ربوہ کے چیئر مین اور وائس چیئر مین نے حضور سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی.ملاقات ہوئی تو دونوں نے درخواست کی کہ ہماری رہنمائی کی جائے کہ ہم کس طرح اہل ربوہ کی بہترین خدمت “ 56 کر سکتے ہیں.حضور نے دیگر باتوں کے علاوہ سلسلہ کے ایک معاند کے بارے میں فرمایا.ربوہ کی بلدیہ کے جو حقوق آپ کے ذمہ ہیں آپ نے اس شخص (معاند ) کے حقوق بھی ادا کرنے ہیں.اگر یہ منصفانہ کر دار آپ نے اپنا یا تو کوئی مسئلہ پیش نہیں آئے گا.(روز نامه الفضل یکم اکتوبر 2001ء) سید نا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث کی غیر مطبوعہ روح پرور یادوں کا سلسلہ اگر چہ لامتناہی ہے بلکہ ” دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار والا معاملہ ہے.چند مزید غیر مطبوعہ واقعات ہدیہ قارئین ہیں.احسان کا بدلہ احسان ہجرت کے بعد ربوہ میں نئ نئی آمد، غیر معمولی مسائل اور وسائل کی کمی کے باوجود ہمارے با ہمت، اولوالعزم اور پیارے امام حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے 15, 16, 17 اپریل 1949 ء کو ربوہ میں جلسہ سالانہ کے انعقاد کا فیصلہ فرمایا.با وجود نامساعد حالات کے یہ جلسہ اپریل میں منعقد ہو رہا تھا.اور ماہ اپریل میں عموماً تو بڑے بڑے زمینداروں کے گھروں سے بھی گندم دستیاب ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے.لیکن اس جلسہ کے لئے گندم کا انتظام کیسے، کس طرح اور کس خوش نصیب کے تاریخی تعاون سے ہوا.اس کا ذکر درج ذیل واقعہ میں ہے.جو حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے کئی مرتبہ خود سنایا.آپ نے فرمایا:.جب ربوہ نیا نیا آباد ہو رہا تھا تو میرے پاس ایک غیر از جماعت صاحب تشریف لائے.اور اپنا تعارف یوں کروایا.

Page 42

57 میرا نام مسو ہے میں کانویں والا کالا لی ہوں اور آپ کا ہمسایہ ہوں.اگر چہ آپ میرے جیسے معمولی زمیندار کے تعاون کے محتاج تو نہیں ہیں مگر اس کے باوجود اگر میرے لائق کوئی خدمت یا حکم ہو تو آپ مجھے تعاون کرنے والا پائیں گے.نیز فرمایا: یہ ان کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی جس نے میرے دل و دماغ پر گہرے نقوش چھوڑے اور مجھے ان کے اندر چھپی قائدانہ صلاحیتوں کا تاثر ملا.اس ملاقات کا ذکر فرماتے ہوئے آپ نے پوچھا آپ کو پتہ ہے یہ صاحب کون تھے.پھر خود ہی اس کی وضاحت یوں فرمائی.یہ کا نویں والا کے انتہائی با اثر معروف سماجی اور سیاسی راہنما مہر محمد محسن لالی صاحب تھے جو کہ ممبر اسمبلی بھی رہے ہیں.جب ربوہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے لئے گندم کی فراہمی مشکل نظر آئی تو میں نے سید سعید احمد شاہ صاحب کو ( جو غالباً ناظم سپلائی تھے) سے کہا کہ آپ مہر محمد محسن صاحب کے پاس کانویں والا جائیں.اگر چہ میری ان سے ایک ہی ملاقات ہوئی ہے لیکن اس ملاقات نے گہرے مخلصانہ نقوش چھوڑے ہیں.آپ ان سے قیمتاً گندم کی فراہمی کے سلسلہ میں تعاون کی بات کریں.ساتھ ہی یہ قطعی ہدایت فرمائی کہ اگر وہ گندم فراہم کرنے کا عندیہ دیں تو ان سے ریٹ دریافت کرنے کی بجائے انہیں منہ مانگی قیمت ادا کریں اور رعایت کا قطعی تقاضا نہ کریں.چنانچہ شاہ صاحب نے کانویں والا جا کر مہر صاحب سے ملاقات کی اور میرا پیغام ان تک پہنچایا جس پر مہر صاحب نے بلا توقف کہا کہ جتنی چاہیں گندم فراہم کرادوں گا اور ٹھیٹھ ، مقامی دیہاتی زبان میں کہا کہ آپ فلاں تاریخ کو لدے لے آئیں.یعنی ٹرک وغیرہ مقررہ تاریخ پر شاہ صاحب چند کارکنان کے ہمراہ ٹرک وغیرہ لے گئے.جب گندم کا وزن ہو گیا تو شاہ صاحب نے رقم کی ادائیگی کا ذکر کیا.جس پر مہر صاحب “ 58 نے جلالی لہجے میں کہا کہ آپ کے پاس رقم زیادہ ہے میں خو در بوہ حاضر ہو کر میاں صاحب سے رقم لے لوں گا.آپ گندم لے جائیں.لیکن شاہ صاحب کو میں نے واضح طور پر کہا ہوا تھا کہ منہ مانگی رقم دے کر آنا مگر ادھر صورت حال بالکل الٹ ہو چکی تھی.اور شاہ صاحب اس کیفیت میں تھے کہ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن.جب محترم شاہ صاحب نے گندم لے جانے میں قدرے تاخیر تذبذب سے کام لیا تو مہر صاحب نے سنجیدگی سے فرمایا.شاہ صاحب گندم لے جائیں بصورت دیگر میں اپنے ڈرائیور کوحکم دوں گا کہ وہ ٹرک ربوہ لے جائے.مہر صاحب کے ان دوٹوک الفاظ اور غیر لچکدار رویہ پر محترم شاہ صاحب گندم لے آئے اور سارا ماجرا کہہ سنایا.غیر معمولی تعاون کا یہ انداز حضرت میاں صاحب کی طبیعت پر بہت گراں تھا.میاں صاحب نے 32 مرتبہ رقم بھجوائی.کبھی مہر صاحب نہ ملتے اور جب ملتے بڑے ادب سے کہتے مصروفیت کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکا میاں صاحب کی خدمت میں میر اسلام عرض کر دیں میں رقم لینے کے لئے جلد حاضر ہوں گا مگر اس کے باوجود وہ تشریف نہ لائے.حضرت میاں صاحب پر رقم کی ادائیگی بوجھ بنی ہوئی تھی.کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ مہر محسن صاحب بیمار ہیں اور علاج کے سلسلے میں لاہور میں مقیم ہیں.حضرت میاں صاحب نے فرمایا:.جب مجھے مہر صاحب کی بیماری کا علم ہوا تو جہاں ان کی صحت یابی کے لئے دعا کی توفیق پائی وہیں فوراً میں نے ایک وفد کو مہر صاحب کی عیادت کے لئے لاہور بھجوایا.ان کے ہاتھ گندم کی قیمت سے زائد رقم بھجوائی.وفد کو ہدایت کی کہ مہر صاحب کو میری طرف سے سلام اور عیادت کا پیغام پہنچانے کے بعد بطور عیادت جسے جھنگ کی زبان میں ” چھنی“ کہتے ہیں.ان کے تکیہ کے پاس رکھ دیں.چنانچہ وفد نے ایسا

Page 43

“ 59 “ 60 60 ہی کیا.جس پر مہر صاحب نے دلی شکریہ کے ساتھ رقم رکھ لی اور صحت یابی کے لئے دعا کی درخواست بھی کی.اس طرح حضرت میاں صاحب نے احسان کا بدلہ احسن رنگ میں چکا کر ہی دم لیا جبکہ محترم مہر صاحب کی اعلیٰ ظرفی اور اس غیر معمولی تعاون کو نہ صرف یا درکھا بلکہ متعدد مواقع پر حتی کہ مہر صاحب کی وفات کے بعد ا کثر اس واقعہ کا ذکرفرماتے رہے.ما حول ربوہ کے زمینداروں کی بہبود کا جذبہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب باوجود لامتناہی ، جماعتی اور تعلیمی مصروفیات کے ماحول ربوہ کے غیر از جماعت احباب سے ذاتی رابطے اور تعلق کو خصوصی اہمیت دیتے تھے.آپ فرماتے تھے ماحول ربوہ کے غریب سادہ عوام خصوصی توجہ اور ہمدردی کے مستحق ہیں.یہ لوگ نسلاً بعد نسل تحصیل چنیوٹ کے چند جاگیر داروں کے بندھن میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ باوجود جو ہر قابل ہونے کے انہیں ابھر نے ترقی کرنے خصوصا تعلیمی سہولتوں کے فقدان نے دوسرے درجہ کا غلام شہری بنارکھا ہے.جب کبھی علاقہ کے متوسط لیڈر ملنے کے لئے آتے تو آپ فرماتے آپ خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے زیر اثر چند صد یا چند ہزار ایسے افراد ہیں کہ جو انتخابات میں ہماری رائے کے تابع ووٹ دیتے ہیں.یا جو ہم کہیں وہ کر گزرتے ہیں.آپ استفسار فرماتے کہ ان میں سے کتنے لوگ تعلیم یافتہ ہیں؟ جب یہ جواب ملتا کہ نہ ہونے کے برابر آپ دریافت فرماتے کیا وہ لیڈر زیادہ بااثر اور کامیاب تصور کیا جائے گا جو ناخواندہ افراد کا لیڈ ر ہو یاوہ لیڈ رجو تعلیم یافتہ افراد کا قائد ہو.اس قسم کی مثبت مثالیں دے کر آپ ان کو اس طرف توجہ دلاتے کہ اپنے اپنے حلقہ اثر کے عوام خصوصاً نئی نسل کو تعلیمی سہولتیں مہیا کریں تا کہ یہ لوگ نہ صرف اپنے علاقہ بلکہ وطن عزیز کے لئے بھی مفید ترین شہری بن سکیں.صدر ایوب خان نے جب سال 1959ء میں بنیادی جمہوریت کے پہلے انتخابات کروائے تو آپ نے ربوہ کے قرب و جوار میں رہنے والے ووٹر ان میں سے مثبت شعور رکھنے والے افراد کو انتخابات میں کھڑا ہونے کا حوصلہ عطا فرمایا اور ان کی بھر پور راہنمائی و سماجی معاونت کی جس کے نتیجہ میں ہرل برادری جو ماحول ربوہ میں کثیر تعداد میں آباد ہے ان میں سے مہر احمد خان صاحب ہرل سکنہ کھڑ کن کا نام قابل ذکر ہے جو بطور ممبر یونین کونسل منتخب ہوئے.مہر احمد خان صاحب کا مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم سے تادم واپسیں مستقل رابطہ رہا.احمد نگر سے استاذی المکرم حضرت مولانا ابو العطاء صاحب بطور بی.ڈی ممبر کامیاب ہوئے.1.احمد نگر 2 پیلو وال سیداں.3 پٹھان والا.4 مل سپر اوغیرہ تقریباً چار دیہات پر مشتمل مشتر کہ ایک حلقہ انتخاب تھا.جس کی کل نشستیں 2 تھیں جبکہ چار امیدوار انتخابی اکھاڑے میں آمنے سامنے تھے.چاروں دیہات میں سے احمدی ووٹر اس وقت صرف احمد نگر تک محدود تھے.جبکہ اکثریت غیر از جماعت ووٹران پر مشتمل تھی.احمد نگر کی انتخابی فہرست کے مطابق احمدی ووٹر تیسرا حصہ بھی نہ تھے.ان حالات میں مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کی کامیابی بظاہر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھی.حضرت میاں صاحب نے مذکورہ دیہات کا جائزہ لیا تو احمد نگر کے بعد سب سے زیادہ ووٹ موضع مل سپرا کے تھے.آپ نے موضع مل سپرا کے ووٹوں اور خاندانوں کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ اس گاؤں میں ایک با اثر قبیلہ کے لوگ جو مانک کے سپرا کہلاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی بنیادی جمہوریت کا الیکشن نہیں لڑ رہا.آپ نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو فرمایا کہ اگر اس قبیلہ میں کوئی تعلیم یافتہ نوجوان ہے تو اس کو میرے پاس

Page 44

“ 61 لائیں.میں چاہتا ہوں کہ اس علاقہ کے کسی نوجوان کو اوپر لایا جائے تا کہ انہیں سماجی لحاظ سے ابھرنے کا موقعہ ملے.چنانچہ جائزہ کے بعد مکرم مولوی صاحب نے مہر خورشید احمد صاحب سپرا کا نام تجویز کیا.مہر خورشید احمد صاحب کی فیملی احمد نگر کے احمدی زمینداروں خصوصاً عبدالرحمن صاحب اور عبدالکریم صاحب نمبردار کے بھی زیر اثر تھی.مہر خورشید احمد صاحب کے مختصر انٹرویو کے بعد آپ نے فرمایا کہ آپ الیکشن میں براہ راست حصہ نہیں لے رہے ہیں مگر میں چاہتا ہوں کہ نئی نسل کے پڑھے لکھے نو جوان آگے آنے چاہئیں.میں محترم مولانا ابوالعطاء صاحب کی سفارش کے باعث آپ کو تحصیل کونسل چنیوٹ میں بطور ممبر نامزد کراؤں گا.انشاء اللہ.یہ بات ان کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی کہ تحصیل کی سطح پر پسماندہ اور عرصہ سے جاگیر دارانہ نظام کے تحت دبے ہوئے معمولی نوعمر زمیندار کا تحصیل کونسل میں نامزد ہونا بظاہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آرہا تھا.چنانچہ اس قبیلہ نے محترم مولانا صاحب کو الیکشن میں کامیاب کرانے میں بھر پور کردار ادا کیا جس سے مکرم مولانا صاحب غیر معمولی ووٹوں سے کامیاب ہوئے.الیکشن کے دوران مخالفین نے اس پیشکش کو وقتی سیاسی حربہ قرار دیا اور کہا ایسے عام شخص کو تو یونین کونسل میں بھی کسی نے نامزد نہیں ہونے دینا تحصیل کونسل میں تو نامزدگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے.مکرم مولا نا صاحب کی کامیابی کے بعد حضرت میاں صاحب نے اپنے وعدہ کے مطابق تحصیل کونسل چنیوٹ میں مکرم مہر خورشید صاحب کو ممبر نامزد کروایا.انتہائی بے انصافی ہوگی اگر اس موقع پر مکرم مہر خورشید احمد صاحب مرحوم کا ذکر خیر نہ کیا جائے جنہوں نے تحصیل کونسل میں نامزدگی کے بعد تادم واپسیں کمال اخلاص سے ہر حال میں جماعت کے ساتھ عُسر ئیسر میں تعلقات کو استوار رکھا.“ 29 62 خصوصاً 1974ء میں جب ربوہ کے بے شمار بے گناہ معصوم شہریوں کے خلاف مقدمات قائم کر کے پابند سلاسل کیا گیا.کئی ماہ کے بعد ان کی ضمانتوں کی امید پر خاکسار کو یہ فریضہ سونپا گیا کہ کم از کم یک صدایسے ضامنوں کا انتظام کروں جو زرعی زمین کے مالک ہوں وہ اپنی اراضی کی فرد ملکیت کے ہمراہ ربوہ تشریف لاویں.اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تعاون مکرم مہر خورشید احمد صاحب اور ان کی سپر ابرادری نے کیا.جو صبح ربوہ تشریف لاتے اور عدالتوں کے اوقات تک ہمارے ہمراہ دارالضیافت کے سامنے والے پلاٹوں میں درختوں کے سائے تلے انتظار کرتے جب علم ہوتا کہ عدالت نے آج ضمانت نہیں لی کل کی تاریخ ڈال دی ہے تو یہ لوگ واپس چلے جاتے.مخلص ہمسائے بلا امتیاز عقیدہ کئی دن مسلسل تشریف لاتے رہے اور اس وقت کی متعصبانہ مخالفت کی آندھی سے مکمل بے نیاز حق دوستی و ہمسائیگی کمال اخلاص سے نبھائی جب تک اسیران راہ مولیٰ کی ضمانتیں منظور نہ ہوئیں.مکرم مہر خورشید احمد صاحب کی وفات کے بعد اس قبیلہ کے افراد نے جماعت سے رشتہ اخوت و عقیدت قائم رکھا ہوا ہے.یہ سب کچھ ماحول ربوہ میں سید نا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی بصیرت اور دوراندیشی کا کرشمہ تھا.مکرم مہر صاحب کی اس نامزدگی سے علاقہ بھر میں جماعت کی ایفائے عہد اور اثر و رسوخ کا اس قدر نیک اثر ہوا کہ ماحول ربوہ کے خاص و عام نہ صرف اپنے مسائل کے حل کے سلسلہ میں حضرت میاں صاحب سے رابطہ اور تعلق بڑھانے کے سلسلہ میں کوشاں رہنے لگے بلکہ آنے والے انتخابات میں بھی آپ کی راہنمائی اور مشورہ و اعانت کو کامیابی کی کلید تصور کرنے لگے.

Page 45

دلداری اور شفقت کا اظہار 63 حضرت ماریہ اصبح الثالث کی احمد نگر میں زرعی زمین تھی جب گندم کی کٹائی شروع ہوئی تو حضور جائزے کی غرض سے زمینوں پر تشریف لے گئے.وہاں پر حضور کے ایک انتہائی قریبی عزیز پہلے سے ہی نگرانی پر مامور تھے.حضور جب بعد از جائزہ واپس تشریف لے جانے لگے تو اپنے اس عزیز سے کہا کہ آج آپ کے لئے کھانا ناصر ظفر اپنے گھر سے لائے گا.آپ شام تک نگرانی کریں یہ بات میرے لئے غیر معمولی عزت افزائی اور دلداری کا باعث تھی.چنانچہ گھر پہنچا وقت کی قلت کے باعث جو کھانا لے کر حاضر ہوا اس میں ساگ کی بھی ڈش تھی.ابھی ہم کھانا کھا ہی رہے تھے کہ حضور اچانک وہاں تشریف لے آئے جہاں ہم کھانا کھا رہے تھے.آپ نے اس عاجز کی عزت افزائی کی خاطر ایک لقمہ ساگ کا تناول فرمانے کے بعد جس محبت اپنائیت اور ستائشی نظر سے خاکسار کی طرف دیکھا اس کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات حضرت خلیفہ المسح الثالث نے سیدہ منصور بیگم صاحبہ کی وفات (3 دسمبر 1981ء) کے بعد خاکسار کو یاد فرمایا اور یہ ہدایت دی کہ ماحول ربوہ سے آنے والے غیر از جماعت دوست جو تعزیت کے لئے تشریف لائیں تو آپ دفتر سے ایک رجسٹر لے لیں اور آنے والے احباب کی موسم اور وقت کی مناسبت سے ضیافت کے علاوہ ان کے نام کوائف درج کرتے رہیں.ایسے احباب سے مزید روابط اور تعلقات ضروری ہیں اور آنے والے وقت میں ان کی خوشی و غمی میں جماعتی نمائندگی کا اہتمام ضرور کرنا ہوگا.“ 64 چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل میں ماحول ربوہ سے آنے والے بہت سے معزز احباب کے کوائف ریکارڈ کئے گئے.حضور کے اس ارشاد پر کہ آنے والے وقت میں ان احباب کی غمی و خوشی میں شامل ہونا ضروری ہے“ کے تناظر میں ایک غیر از جماعت دوست جو ممبر اسمبلی بھی رہے اور حضور سے رابطہ رکھتے تھے.ان کی والدہ کی وفات پر حضور نے مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم اور خاکسار کو یہ ہدایت دی کہ میری طرف سے مہر صاحب کے پاس جا کر تعزیت کریں.ساتھ ہی یہ بھی ارشاد فر مایا کہ چونکہ اس علاقہ کے رواج کے مطابق قریبی تعلق والے احباب جب افسوس کے لئے جاتے ہیں تو گھی ، بکرے، گندم وغیرہ ساتھ لے جاتے ہیں.کیونکہ لوگ کثیر تعداد میں تعزیت کے لئے آتے ہیں اور ان کی ضیافت کا اہتمام کرنا کافی مشکل ہوتا ہے.اس لئے متاثرہ خاندان سے اظہار ہمدردی کے طور پر یہ روایت کافی اچھی ہے.اس لئے آپ میری طرف سے دو بکروں کی اوسط قیمت مہر صاحب کو دے دیں.چنانچہ حسب ارشاد حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی.آخری ملاقات اور آپ کی شفقت ہمارے والد محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر 23 را پریل 1982ء کو وفات پاگئے.آپ کو حضور کے ہم مکتب ہونے کا اعزاز وشرف بھی حاصل تھا.حضور نے اسلام آباد جانے سے ایک یوم قبل مورخہ 22 مئی 1982ء کو از راہ شفقت ہمارے تمام اہل خانہ کو یا دفرمایا.جس میں ہماری والدہ صاحبہ کے علاوہ ہم تین بھائی اور ہمارے اہل وعیال شامل تھے.ملاقات کے کمرہ میں سب لوگ بیٹھ گئے مگر جگہ کی کمی کے باعث خاکسار کھڑا رہا.جب حضور رونق افروز ہوئے تو سلام کرنے کے بعد فوراً فرمایا کہ ناصر ظفر

Page 46

65 آپ میرے پاس آکر بیٹھیں.اس غیر معمولی عزت افزائی کے بعد خاکسار کی والدہ محترمہ کو مخاطب ہوکر فرمایا.بہن جی مولوی صاحب کی وفات کا بہت افسوس ہے اللہ تعالیٰ درجات بلند فرمائے اس کے بعد ذکر خیر کے طور پر مزید تعزیتی تعریفی اور ہمدردی کے کلمات کہے اور پھر ایک ایک بچے کا نام دریافت فرمایا.یہ سلسلہ تقریباً نصف گھنٹہ جاری رہا.اس دوران دو دفعہ حضور کے ایک صاحبزادہ نے آکر اطلاع دی کہ کھانا لگ چکا ہے آپ نے فرمایا انتظار کریں اور ہمیں وقت عطا کئے رکھا.ی تھی اپنے جان سے عزیز پیارے حسن آقا سے خاکسار کی آخری ملاقات.سیدنا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثالث کی روح پر ور اور ایمان افروز عنایات اور غیر از جماعت احباب سے شفقتوں اور ملاقاتوں کا جو سلسلہ 1960 ء سے عاجز کی موجودگی میں شروع ہوا تھا وہ 22 مئی 1982 ء تک جاری و ساری رہا.اس کے بعد حضور اسلام آباد تشریف لے گئے.جہاں دل کے جان لیوا حملے میں مورخہ 8/9 جون 1982ء کی درمیانی شب رات ایک بجے اپنے خالق حقیقی سے جاملے.مورخہ 9 جون 1982 ء کو آپ کا جسد مبارک ربوہ لایا گیا اور اپنے پیارے آقا کا آخری دیدار نصیب ہوا.(روز نامہ الفضل 13 / جولائی 2002ء) “ 66

Page 47

دائیں سے بائیں پہلی قطار 1 مکرم نا صراحد اللہ صاحب 2- مکرم سید احمد صاحب 3- حضرت مایہ اصبح الثالث رحمہ اللہ 4 - مکرم مولا نا احمد خان صاحب نسیم چھلی پکار 21-3- مکرم چو ہدری ظہور احمد باجوہ صاحب 5- مکرم صوبیدار عبد المنان صاحب

Page 48

بستی مند رانی کے چند قدیم رفقاء 67 20 حضرت مسیح موعود کے چند رفقاء کا تذکرہ پیش خدمت ہے.جن کے حالات آج تک زاوية الخمول میں رہے.ضلع ڈیرہ غازی خان تحصیل تونسہ شریف میں رود کوہی سنکھر (Roudkohi Sanghr) کے دائیں جانب دامن کو ہ سلیمان میں ایک چھوٹی سی بستی مندرانی واقع ہے.جس کے باشندوں کی اکثریت بلوچ قوم پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود کی آمد سے پہلے اس بستی میں ایک بزرگ میاں رانجھا خان صاحب رہتے تھے.جو ایک خدا رسیدہ اور صاحب کشف و کرامات انسان تھے اور اس بستی کی مسجد کے پیش امام تھے.جواب احمد یہ بیت الذکر کے نام سے موسوم ہے وہ اپنے مقتدیوں سے کہتے تھے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام اب ظاہر ہونے والے ہیں.اس لئے ان کی امداد کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اسی مقصد کے پیش نظر انہوں نے خود بھی ایک تلوار خرید رکھی تھی.جب انہوں نے تلواخر یدی تو اس وقت وہ عمر رسیدہ تھے.اور امن کا زمانہ تھا.لوگوں نے کہا کہ اب تو امن کا زمانہ ہے آج کل تلوار خریدنے کا کیا فائدہ تو آپ نے جواب دیا کہ حضرت امام مہدی آنے والے ہیں.اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جونہی ان کی آواز میرے کانوں تک پہنچے میں بلا حیل و حجت ان کے انصار میں داخل ہو کر ان کی امداد کر سکوں.نیز فرماتے اگر کوئی شخص ان کی آواز سن لینے کے بعد اپنے گھر چادر لینے کے لیے بھی جائے گا.تو وہ ان کی قبولیت کی سعادت حاصل کرنے سے مرحوم رہ جائے گا.( ہمارے ہاں چادر سنبھالنے کے اے کوہ سلیمان سے نکلنے والے نالے کا نام ہے.“ 880 68 معنے تیاری سفر کرنے کے ہیں ) میاں رانجھا صاحب بستی کے ایک عالم آدمی تھے.اس بستی کے نوجوان ان سے علوم قرآنیہ اور مثنوی رومی اور دیگر کتب دینیہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے.ان نوجوانوں میں سے حافظ سردار فتح محمد خان صاحب اور نور محمد خان صاحب اور حافظ محمد خان صاحب نے نمایاں تعلیم حاصل کی.انہی ایام میں اس بستی کے ایک شخص جن کا نام محمد ولد محمود تھا.حصول تعلیم کی خاطر کسمپرسی کی حالت میں پھرتے پھراتے راولپنڈی پہنچے اور حکیم شاہ نواز صاحب کے ہاں مقیم ہوئے.وہاں حضرت مسیح موعود کا نام سنا اور یہ واقعہ قریباً 1901 ء کا ہے.اس پر وہ فورا راولپنڈی سے قادیان چلے گئے اور وہاں جا کر شرف بیعت حاصل کیا اور حضرت خلیفہ مسیح الاول نور اللہ مرقدہ کے درس میں شامل ہو کر تعلیم حاصل کی.یہی صاحب ہیں جو بعد میں قادیان میں مولوی محمد شاہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے اور حضرت خلیفہ امسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے انہیں مبلغ بنا کر کشمیر بھیج دیا.موضع آسنور میں انہوں نے شادی کی جن کے ایک صاحبزادے عبداللہ صاحب اب بھی زندہ موجود ہیں جو کہ مولوی فاضل ہیں.مولوی محمد شاہ صاحب وہیں کشمیر میں ہی فوت ہوئے اور وہاں مدفون ہیں.مولوی محمد شاہ صاحب نے اپنے احباب کو 1901ء میں اطلاع دی کہ امام مہدی آگئے ہیں اور ساتھ ہی حضرت مسیح موعود کا کچھ منظوم کلام بھی بھیجا.بستی کے خواندہ لوگ مسیح موعود کی آمد کے لئے پہلے ہی چشم براہ تھے.انہوں نے لکھا کہ وہ بذات خود تشریف لا کر جملہ حالات سے آگاہ کریں.چنانچہ 1901ء میں مولوی صاحب موصوف حضرت صاحب کی کچھ کتب ہمراہ لے کر وہاں پہنچے.ان کے آنے کے بعد مندرجہ ذیل بزرگوں نے بیعت کے خطوط حضرت صاحب کی خدمت اقدس میں بھیج دیئے.حضرت حافظ فتح محمد خان لاب وفات پاچکے ہیں.س الفضل میں چھپنے والے مضمون میں غلطی سے 1902 لکھا گیا ہے.

Page 49

10 70 “ 69 صاحب اور ان کے برادر کلاں نور محمد خان صاحب اور نور محمد خان صاحب ثانی اور بخشن خان صاحب اور حافظ محمد خان صاحب اور میاں محمد صاحب و گوہر علی صاحب برادر کلاں مولوی محمد شاہ صاحب.اس تحریری بیعت کے بعد مولوی صاحب موصوف واپس قادیان تشریف لے گئے.مارچ 1903ء میں حضرت مسیح موعود پر کرم دین بھیں نے مقدمہ چلایا ہوا تھا.انہی دنوں میں نور محمد خان صاحب ثانی ( والد محمد مسعود خان صاحب ) اور حافظ محمد خان صاحب اور میاں محمد صاحب خود قادیان گئے.وہاں پہنچے تو حضرت مسیح موعود گورداسپور مقدمہ کی پیروی کیلئے تشریف لے گئے تھے.یہ بزرگ وہاں ٹھہرے رہے.حضور واپس تشریف لائے تو ان بزرگوں نے حضور کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی سعادت حاصل کی.بیعت کے بعد یہ بزرگ ہفتہ عشرہ قادیان مقیم رہے.اور جملہ حالات سے آگاہی حاصل کی.اور حضور کی صحبت سے مستفید ہوتے رہے.اور جب یہ بزرگ واپس تشریف لائے اور باقی لوگوں کو تمام حالات سنائے تو کچھ اور لوگوں نے بھی تحریری بیعت کر لی.اور اس طرح یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک مضبوط جماعت قائم ہوگئی.1903ء میں حافظ سردار فتح محمد خان صاحب، عثمان خان صاحب و بخشن خان صاحب قادیان دارالامان روانہ ہوئے.وہاں جا کر انہوں نے بھی حضور کی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.اور پندرہ بیس دن تک برکات صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے.اور ساتھ ہی ریویو بھی اپنے نام پر جاری کروا آئے.1907ء میں پھر مولوی محمد شاہ صاحب دوبارہ تشریف لائے اور ماہ دسمبر 1907ء نور محمد خان صاحب اول یعنی برا در حافظ فتح محمد خان صاحب و محمد مسعود خان صاحب ولد نورمحمد خان صاحب ثانی و میاں محمد صاحب مولوی محمد شاہ صاحب کی معیت میں قادیان تشریف لے گئے اور محمد مسعود خان صاحب اور نور محمد خان صاحب اول نے بھی دستی بیعت کا شرف حاصل کیا اور میاں محمد صاحب نے دوبارہ بیعت کا شرف حاصل کیا.اور یہ سب جلسہ سالانہ 1907ء میں شریک ہوئے.مندرجہ بالا تفصیل سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس چھوٹی سی بستی کے مندرجہ ذیل آٹھ بزرگوں کو حضرت مسیح موعود کی صحبت کے شرف سے بہرہ ور کیا.حضرت حافظ محمد خان صاحب مندرانی ، حضرت میاں محمد صاحب ( حجام ) ، حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی، حضرت بخشن خان صاحب مندرانی ، حضرت محمد عثمان خان صاحب مندرانی ، حضرت نور محمد خان صاحب مندرانی ، حضرت نور محمد خان صاحب مچھرانی، حضرت محمد مسعود خان صاحب مچھرانی یہ سارے بزرگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت مخلص اور احمدیت کے رنگ میں رنگین تھے.حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب ایک جید عالم اور فارسی کے اعلیٰ پایہ کے شاعر تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود کی تائید میں ایک فارسی کی منظوم کتاب بھی لکھی تھی.مگر افسوس کہ وہ قبل اشاعت ہی ضائع ہوگئی.اس کتاب کا پہلا شعر ان کے صاحبزادے مولوی ظفر محمد خان صاحب ظفر پروفیسر جامعہ احمدیہ کو یا دتھا.ان کا کہنا تھا کہ حضرت والد صاحب کی کتاب کی پہلی نظم کا عنوان ” سلام بنام امام مہدی علیہ السلام تھا، جس کا پہلا شعر یہ تھا.السلام السلام اے اے یوسف نوح کشتی کنعان بان ما سوائے میاں محمد صاحب کے باقی سب بزرگ تعلیم یافتہ تھے اور محمد صاحب اگر چہ تعلیم یافتہ نہ تھے.لیکن حضور کے عشق اور محبت میں نمایاں درجہ رکھتے تھے.ان کے حالات الفضل 27 اکتوبر 1951ء میں شائع ہو چکے ہیں.ایک دفعہ وہ قادیان

Page 50

“ 71 میں کھانا کھا رہے تھے کہ اس اثنا میں حضور کو دیکھا کہ سیر کو تشریف لے جا رہے ہیں.فوراً وہیں کھانا چھوڑ کر ساتھ ہو گئے.اکثر حضور کے ذکر پر رو پڑتے تھے.غریب آدمی تھے.مخالفین نے بائیکاٹ کر دیا نہایت استقلال سے تکالیف کو برداشت کیا.انہیں حضرت مسیح موعود کے پاؤں دبانے کا بھی شرف نصیب ہوا.چونکہ یہ اکثر بزرگ خواندہ تھے.اس لئے ان کی تبلیغی کوششوں اور نیک نمونہ سے بستی بزدار اور کوٹ قیصرانی میں بھی احمد یہ جماعتیں قائم ہو گئیں.اس وقت صرف دو بزرگ زندہ ہیں.یعنی محمد عثمان خان صاحب اور محمد مسعود خان صاحب یہ دونوں بزرگ اس وقت بہت بوڑھے ہو.ہو چکے ہیں.یہ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت فتح محمد خان صاحب و حافظ محمد خان صاحب اور ان کے بھائی نور محمد خان صاحب و میاں محمد صاحب جس قبرستان میں دفن ہیں اس کا نام پہلے سے ہی قبرستان صحابہ تھا.کیونکہ مشہور ہے کہ اس میں حضرت بنی کریم ﷺ کے دو صحابہ کی قبریں موجود ہیں.ان صحابہ کرام کے کوئی تاریخی حالات تو معلوم نہیں ہیں.اس علاقہ میں متعدد مقامات پر ایسی قبریں پائی جاتی ہیں جو اصحاب کی قبریں کہلاتی ہیں.مقامی لوگ انہیں لال اصحاب کہتے ہیں اور اغلب لال کا لفظ شہید کے لفظ کے مترادف ہے.اور یا پھر لال پیارے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.واللہ اعلم بالصواب.حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب و حافظ محمد خان صاحب و نور محمد خان صاحب کی قبریں صحابہ کرام کی قبروں کے ساتھ ساتھ ہیں.اور جب ان قبروں کو اکٹھا دیکھا جاتا ہے تو آیت اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ فوراً سامنے آجاتی ہے.اور لَمَّا يَلْحَقُوا کا مفہوم قَدْ لَحَقُو ابهِمُ ( کہ وہ ان سے مل گئے ) کے مفہوم لے دونوں بزرگ اب وفات پاچکے ہیں.“ سے بدل جاتا ہے.72 اللہ تعالیٰ ان سب بزرگوں پر ہزار ہزار رحمتیں نازل فرمادے.اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے آمین ثم آمین روز نامہ الفضل 2 فروری 1955ء)

Page 51

حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب صدقے جاں انہاں اچیاں توں جنہاں نیویاں نال نبھائی 73 یہ شعر گجرات کے مشہور و معروف صوفی منش پنجابی شاعر میاں محمد بخش صاحب کا ہے.پیارے میاں صاحب کے بارے میں مجھ ناچیز خادم کے دل میں جو جذبات محبت و عقیدت ہیں یہ شعر بھی ان کی کما حقہ ترجمانی کرنے سے قاصر ہے.محترم میاں صاحب نے نہ صرف ”نیویاں نال نبھائی بلکہ آپ نے اپنے امام و آقا کے ساتھ بھی خوب نبھائی اور ایسی نبھائی جو حضرت مسیح موعود کی جسمانی و روحانی اولا دسب کے لئے ایک ایسا نمونہ ہے جس پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے.آپ بے پناہ خوبیوں اور اوصاف حمیدہ کے مالک تھے.آپ کی شخصیت کا ہر پہلو قابل تقلید نیک نمونہ تھا.عاجز کو 1970ء سے آپ کی شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا اعزاز حاصل رہا ہے جب آپ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ہمراہ احمد نگر میں زرعی فارم پر تشریف لائے تھے.حضرت صاحب کے قافلہ میں شامل احباب میں سب سے آخر میں آپ ہوتے.جو نہی بلائے جاتے تیزی سے حاضر ہوتے.بعد از مشورہ انتہائی متانت اور وقار کے ساتھ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ جاتے.حضرت میاں صاحب کا اپنے آقا کے ساتھ باوجود انتہائی قابل احترام رشتہ میں منسلک ہونے کے ) عقیدت و احترام کا یہ انداز آج تک خاکسار کے دل پر نقش ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور پھر خلیفہ وقت کے ساتھ آپ نے زندگی بھر جس استقلال اخلاص، انکساری اور خلافت کیلئے جس غیرت “ 74 کا ثبوت دیئے رکھا وہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف میں رقم ہو گا.آپ کی خلیفہ وقت کے ساتھ اطاعت و احترام کی یہ غیر معمولی صفت حضرت خلیفہ اسیح الرابع کے ساتھ تو مزید نکھر کر سامنے آئی.آپ کی ان خوبیوں کا ہی یہ ثمر ہے کہ حضور نے آپ کی وفات پر آبدیدہ اور گلو گیر آواز کے ساتھ جن الفاظ میں آپ کا ذکر فرمایا اس کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے:.وو وہ بادشاہ آیا کی ( خدائی خبر ) کے متعلق فرماتے ہیں.فرمایا دوسرے نے کہا ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے یعنی اس الہام کے ساتھ یہ آواز بھی آئی.قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں قاضی وہ ہوتا ہے جو تائید حق کرے اور باطل کو رد کر دے.یہ خوبی بھی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب میں غیر معمولی طور پر پائی جاتی تھی.باطل کو رد کرنے کے معاملے میں انتہائی بہادر انسان میں نے اور شاذ ہی دیکھے ہوں گے.مگر جو میں نے دیکھے ہیں ان میں سے ان سے زیادہ جرأت کے ساتھ باطل کو رد کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا.“ الفضل انٹر نیشنل 30 جنوری 1998ء) واقعی آپ خلافت کے لئے غیرت کا کوہ گراں انکساری اور اطاعت کا ایک بحر بیکراں تھے.این سعادت بزور بازو نیست یہ نافع الناس ہمدرد غریب پرور وجود دشمن کے مقابلہ میں فولاد سے بھی سخت تھا.جبکہ اپنوں، بے کسوں، غریبوں ، ماتحتوں ، ملازموں کے لئے بلا امتیاز ریشم کی طرح نرم تھا.آپ کی زندگی صحیح معنوں میں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کا عملی نقشہ تھی.آج

Page 52

“ 75 محترم میاں صاحب کی صفات حسنہ کی چند یادیں جو ذاتی دید و شنید کے زمرہ میں آتی ہیں.اس کا ذکر خیر کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں.جرات و بہادری سال 1987ء میں آپ کے خلاف تھا نہ ربوہ میں پرچہ درج ہوا جس سے ربوہ میں عمومی طور پر گھبراہٹ کی کیفیت تھی اور ہر مخلص دوست حضرت میاں صاحب پر مقدمہ بنے پر فکر مند اور پریشان تھا اگر چہ پرچہ سو فیصد جھوٹ پر مبنی تھا لیکن حالات ناموافق اور انصاف عنقا ہو تو ان حالات میں خلیفہ وقت کے نمائندہ جن کا فعال اور بابرکت وجود پاکستان کے احباب کے لئے ڈھال سے کم نہ تھا مقدمہ پر پریشانی و تشویش کا ہونا لازمی امر تھا.اس وقت کے نظام سلسلہ کے انتہائی ذمہ دار صاحب حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے (حسن اتفاق سے خاکسار اس وقت موجود تھا اور خوش قسمتی سے خاکسار بھی اس مقدمہ میں یکے از ملزمان میں تھا ) موصوف نے عرض کیا کہ محترم میاں صاحب افسوسناک خبر ہے کہ آپ کے خلاف مقدمہ درج ہو گیا ہے آپ نے آرام سے فرمایا تو پھر کیا ہوا آپ کیوں پریشان ہیں؟ آپ مطمئن رہیں انشاء اللہ کچھ بھی نہیں ہوگا.اس افسوسناک اور تکلیف دہ اطلاع پر آپ کے چہرہ پر رائی برابر بھی تشویش کے آثار دیکھنے میں نہ آئے.البتہ قدرے تامل کے بعد فرمایا.کہ اگر میرے خلاف پرچہ کی وجہ سے ایک بھی احمدی کا مورال ڈاؤن Moral Down) ہوا تو آپ جوابدہ ہوں گے.حضرت میاں صاحب کے اس جرات مندانہ رد عمل پر اطلاع دینے والے صاحب کی تشویش سکینت میں بدل گئی.“ 76 حضرت میاں صاحب کو جب بھی عدالت کی طرف سے حاضری کی اطلاع آتی تو عدالت میں حاضر ہونے سے قطعاً گریز نہ کرتے کبھی اس خواہش کا اظہار نہ فرماتے کہ میری حاضری معاف کروائی جائے.عدالت کے اندر یا باہر جب بھی کرسی پیش کی گئی آپ قبول نہ فرماتے بلکہ اپنے دیگر احمدی ملزمان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہنے کو ترجیح دیتے.اللہ اللہ واقعی خدا داری غم داری چه چنانچہ انجام کار پرچہ خارج ہوا اور محترم میاں صاحب باعزت بری ہوئے بقول شاعر وہ تھا ہمالہ حوصلہ فولاد کے اعصاب تھے وہ یقیناً جرات و ہمت کی آب و تاب تھے خدام سے ہمدردی اس کے برعکس اپنے خدام سے ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ وفات سے چند یوم قبل جب خاکسار گھر آیا تو اطلاع ملی کہ حضرت میاں صاحب نے فوری یاد فرمایا ہے.یہ پیغام سن رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی رسیور اٹھایا تو برادرم چوہدری رشید احمد صاحب نظارت امور عامہ گویا ہوئے کہ فوراً آئیں محترم میاں صاحب نے ہم دونوں کو فوری یا د فرمایا ہے.حاضر ہونے پر فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ مجلس مقامی کا ایک خادم پولیس کی حراست میں ہے فوری پولیس سے رابطہ کریں اگر وہ بے گناہ ہے تو اس کو رہائی دلوا کر مجھے اطلاع کریں.حسب ارشاد بعد از تحقیق متعلقہ افسر سے رابطہ کر کے خادم کو رہائی دلوا کر رپورٹ عرض کی تو فرمایا کہ کوئی خرچ ہوا ہے تو بتا دیں.عرض کیا کچھ نہیں ہوا.متعلقہ افسر نے انصاف سے کام لیتے ہوئے تعاون کیا ہے.

Page 53

“ 77 “ 78 آپ نے ایک عام خادم کے بارہ جس تشویش و ہمدردی کا اظہار کر کے فوری رہائی دلوائی اس سے آپ کی خدام سے بے پناہ محبت اور ہمدردی کا نمایاں پہلو بھر کر سامنے آتا ہے.جماعتی مفاد آپ نے ذاتی آرام وسکون کو ہمیشہ جماعت کے اجتماعی و انفرادی مفاد پر قربان کئے رکھا با وجود پیرانہ سالی کے دن ہو یا رات کا وقت ہو یا بے وقت ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میرے جیسا ادنیٰ خادم بھی ملنے گیا ہو تو ملاقات سے محروم رہا ہو ملاقات کرنے والا مشکل سے مشکل مسئلہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ مختصر الفاظ میں فوری انتہائی صائب اور جامع مشورہ سے نوازتے.آپ کی گفتگو اور آپ کا مشورہ ہمیشہ ماقل و دل کے عین مطابق ہوتا.ضیافت کا یہ عالم تھا جب بھی اطلاع ملی تو فوراً دروازہ کھول کر اندر بٹھایا.آپ کی آمد سے قبل موسم کے مطابق مشروب کا آنا یقینی ہوتا تھا.حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے احمد نگر زرعی فارم سے یکے بعد دیگرے دولا ئیتی گائیں چوری ہوئیں تو فرمایا.یہ چوری ہمارے لئے چیلنج ہے اگر ہم اپنے امام کی عدم موجودگی میں ان کے اموال کی حفاظت نہیں کر سکتے تو اس سے زیادہ ہماری کمزوری بے اعتنائی اور کیا ہو سکتی ہے.لہذا ہرممکن کوشش کر کے چور ٹریس (Trace) کر کے مال مسروقہ واپس کروا ئیں.اس سلسلہ میں مکرم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کی سرپرستی میں کوشش و تلاش کا حکم ہوا.چنا نچہ کئی ماہ کی مسلسل جدو جہد کے بعد ملزمان کا سراغ لگا کر مال مسروقہ وصول کیا گیا.مال مسروقہ چوروں سے واپس لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے لیکن یہ مسلسل حضرت میاں صاحب کی ذاتی توجہ دیچیپسی جرات و نگرانی کے باعث ہی ممکن ہوا.امانت و دیانت آپ کی زرعی اراضی رام والا احمد نگر کے پڑوس میں دو غیر از جماعت غیر زراعت پیشہ انتہائی مفلس افراد کی ڈھاری ہے.انہوں نے چوروں کے ڈر سے اپنی دو بھینسیں حضرت میاں صاحب کے ڈیرہ پر باندھ رکھی تھیں کہ یہاں محفوظ رہیں گی.اتفاق سے محترم میاں صاحب کے ڈیرہ سے دونوں بھینسیں چوری ہو گئیں.حضرت میاں صاحب نے بلا کر فرمایا ان غریب ہمسایوں نے ہمیں مضبوط امین تصور کرتے ہوئے اپنی بھینسیں باندھی تھیں اب ہر حالت میں ان کی اصلی بھینسیں ہی واپس ہونی چاہئیں.اس سلسلہ میں محترم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب کو بھی فرمایا کہ آپ بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے بھینسوں کی واپسی کی ہر ممکن کوشش کریں تقریب ڈیڑھ ماہ کی مسلسل کوشش اور محترم میاں صاحب کی دعا ، توجہ اور مکرم مرزا مسرور احمد صاحب کی مکمل سر پرستی اور اثر ورسوخ سے ہم اصل دونوں بھینسیں چوروں کے نرغہ سے نکالنے میں کامیاب ہوئے.الحمد الله علی ذالک یہ امر قابل ذکر ہے بھینسوں کی تلاش سراغ رسانی اور واپسی تک کے تمام اخراجات سے محترم میاں صاحب نے غریب مالکان کو بے نیاز کئے رکھا.اس طرح آپ کے عمل نے ثابت کر دیا کہ آپ کا بابرکت وجود بلا امتیاز نافع الناس اور امانتوں کی حفاظت کرنے والا تھا.حضرت میاں صاحب کی طبیعت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ بھی ہے جو اپنے اندر بالکل انوکھا رنگ رکھتا ہے.محترم میاں صاحب کے ایک ملازم مکرم محمد یوسف صاحب جو میاں صاحب کو بچوں کی طرح پیارا تھا، نے بتایا کہ آپ کا جب کبھی زرعی فارم سے کوئی ذاتی نقصان ہو جاتا تو ہم گھر اوغیرہ رواں کرتے اور تلاش کی کوشش کرتے.تو آپ فرماتے ” جانے دیں کوئی غرض مند لے گیا ہو گا ممکن ہے اس طرح اس کی کوئی

Page 54

79 ضرورت پوری ہو جائے.چھوڑ دیں کھرا اور تلاش کی کوئی ضرورت نہیں ہے.“ اپنے ذاتی نقصان کی رائی برابر بھی فکر نہ کرتے اور نہ ہی اس کو کوئی اہمیت دیتے جب کہ ایک غریب بے کس کی بھینسوں کیلئے تمام ذرائع استعمال کروائے.واقعی آپ نے ہمیشہ خلوص اور ہمدردی سے ”نیویاں نال نبھائی اور خوب نبھائی.مظلوم کی ہمدردی آپ کے زرعی فارم کے تمام ملازمین تقریباً غیر از جماعت تھے جو آپ کو بے حد عزیز اور پیارے تھے.ان کی تکلیف پر آپ تڑپ اٹھتے تھے.ایک دفعہ آپ کے ملازم مکرم نور محمد صاحب پنجوانہ اور اس کی برادری کے چند افراد کو مخالفین نے ایک بہت بڑے افسر کی اشیر باد سے ایک جھوٹے مقدمہ میں تھانہ لالیاں میں پکڑوا دیا.مکرم حضرت میاں صاحب کے فرمان کی تعمیل میں ایک ہفتہ مسلسل کوشش سے انہیں رہائی نصیب ہوئی.جب تک یہ بے گناہ پولیس حراست میں رہے حضرت میاں صاحب ان کی رہائی کے لئے مضطرب اور پریشان رہے.دوران حراست و تحقیق و تفتیش انہیں ہر قسم کی سہولت فراہم فرماتے رہے.حضرت میاں صاحب کا اپنے ملازموں کے ساتھ مثالی حسن سلوک کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ حضرت میاں صاحب کے جسد خاکی کی زیارت کے وقت خاکسار نے انہیں بچشم خود دھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا ہے.اپنے تو اپنے غیر از جماعت میں سے جو ایک دفعہ آپ سے شرف ملاقات کر جاتا وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا.آپ کی وفات پر ربوہ اور ماحول ربوہ کے غیر از جماعت خاص و عام بکثرت تعزیت کے لئے حاضر ہوتے رہے.ربوہ میں مقیم ایک انتہائی بااثر تعلیم یافتہ غیر از جماعت دوست جن کا خاندان ضلع بھر میں سیاسی سماجی اور اقتصادی لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے جب افسوس پر تشریف لائے تو مجھے بتایا کہ جس “ 80 80 دن حضرت میاں صاحب کی وفات ہوئی اسی شام میں نے حضرت میاں صاحب کے جسد خاکی کی زیارت کی تھی آپ کے چہرہ مبارک پر نور دیدنی تھا.جماعت کے ایک کٹر مخالف کی زبانی جب میں نے مرزا صاحب کی تعریف سنی تو میں حیران رہ گیا میں نے کہا کہ آپ اور میاں صاحب کی تعریف اس پر اس نے کہا مخالفت اپنی جگہ پر میری معلومات کے مطابق وہ صحیح معنوں میں عظیم انسان تھے.انفرادی ہمدردی کے بے شمار واقعات احباب جماعت کے زبان زدعام ہیں جب کبھی بھی کسی مستحق کا معاملہ پیش ہوتا تو آپ فراخ دلی سے اس کی معاونت فرماتے.ایک دفعہ خاکسار کے پاس ایک عزیز تشریف لائے جو 9 بچوں کے واحد کفیل تھے آمدنی انتہائی محدود جبکہ بیٹیاں بڑی اور 2 بیٹے چھوٹے تھے اور تقریباً سب کے سب زیر تعلیم تھے.اس دوست نے بتایا بڑی بیٹی کے رخصتانہ میں دو یوم باقی ہیں حسب توفیق معمولی تیاری تو کر چکا ہوں لیکن بارات کو کھانا دینے کے لئے قطعاً گنجائش نہیں ہے یہ آخری الفاظ انہوں نے بھرائی آواز میں بمشکل ادا کئے اور پھر خاموش ہو گئے.خاکسار اس عزیز کے حالات سے پہلے ہی بخوبی واقف تھا.وقت اور حالات کے تقاضا کے پیش نظر حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آیا.حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کیسے آئے ہو.جھجکتے جھجکتے صورت حال عرض کی تو فرمایا کتنے مہمان متوقع ہیں عرض کیا کہ 40/50 افراد کے کھانے کا بندوبست ہو جائے تو گزارہ ہو جائے گا.آپ نے فرمایا.ایسے موقعہ پر اتنی تعداد تو لڑکی والوں کے گھر کی ہو جاتی ہے تو کیا اس کے بعد یم ستحق دوست کسی اور کے سامنے دست سوال دراز کریں گے.چنانچہ آپ نے اس دوست کی توقع سے زیادہ معقول رقم کا فوراً انتظام فرمایا.حضرت میاں صاحب کا اندازہ بالکل درست ثابت ہوا.مہمانوں کی تعداد 100 سے بڑھ گئی لیکن آپ نے جو

Page 55

81 “ 82 82 وہ امداد فراہم کی تھی اس میں تمام مہمانوں کی باعزت ضیافت مکمل ہوئی.اس طرح حضرت میاں صاحب کی شفقت سے ایک غریب کو اپنی بیٹی کو باعزت رخصت کرنے کی توفیق میسر آئی، اس کا غم اور فکر تشکر اور حمد کے جذبات میں بدل گیا.حضرت میاں صاحب کی فیاضی کا یہ وصف تو خاص طور پر منفر د تھا جس مستحق کی امداد فرماتے آپ کی یہ خواہش نہ ہوتی کہ وہ شخص کون ہے کہاں ہے میرے سامنے آئے.نہ امداد کرتے وقت یہ کوشش ہوتی اور نہ ہی امداد کے بعد اس قسم کی خواہش کا کوئی امکان ہوتا وہ جو کام اور امداد کرتے وہ محض اللہ سرانجام دیتے جس میں دکھاوا اور خودنمائی کا تو شائبہ تک کبھی بھی دیکھنے میں نہ آیا.آپ جو کام بھی کرتے اس میں خلق خدا کی ہمدردی اور رضائے الہی پیش نظر ہوتی.مکرمی قدسی صاحب نے آپ کی سخاوت کے بارہ میں خوب فرمایا.سخاوت جو ہے طرہ خاندان پاک کا اس سخاوت کی وہ جیتی جاگتی تصویر تھا سخاوت دلداری ہمدردی کا یہ رنگ بھی قابل ذکر ہے.ایک احمدی خاتون جو انتہائی مخلص لجنہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں.وہ جب کراچی گئیں تو ان کی عدم موجودگی میں چور گھر کا صفایا کر گئے حتی کہ روز مرہ کے پار چات دیگر بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی چور لے گئے.محترمہ کے خاوند کی آمدنی انتہائی قلیل تھی.اس خاتون کے نقصان کی اطلاع جب حضرت میاں صاحب کو ہوئی تو آپ نے مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کوارشاد فرمایا:.کہ محترمہ کی چوری کا سراغ لگوائیں نیز اس قدر نقد امدادفرمائی کہ جس سے وہ گھر کی بنیادی اشیاء خرید سکے حضرت میاں صاحب کی اس دلداری اور ہمدردی سے اس خود دار مخلص خاتون کی پریشانی اور تکلیف کا باعزت ازالہ ہوا.غریب پروری غریب لوگوں کی تکلیف پر آپ تڑپ اٹھتے تھے.وفات سے چند ماہ قبل کی بات ہے کہ خاکسار کو بلوایا اور فرمایا کہ میرے علم میں آیا ہے کہ فلاں رکشہ ڈرائیور کو پولیس نے پکڑ لیا ہے فوری رابطہ کر کے تحقیق کریں اگر رکشہ ڈرائیور کا قصور ہو تو اس کا جرمانہ حرجانہ جو نقصان مدعی کا ہوا ہے میں اس کی ادائیگی کر دوں گا آپ اس کو رہائی دلوائیں.چنانچہ حسب ارشاد تھانہ میں جا کر بغیر جرمانہ کے معاملہ رفع دفعہ کروا کر ڈرائیور کو رہائی دلوائی.اس طرح حضرت میاں صاحب کی ذاتی توجہ اور احساس کے نتیجہ میں اس غریب محنت کش کو رہائی نصیب ہوئی جو آپ کی غریب پروری کی مثال ہے.اس عاجز کے ساتھ ہمیشہ شفقت سے پیش آتے.سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا بہلانے پر حاضر ہوا تو فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ ریٹائر ہو گئے ہیں عرض کیا جی ہاں فرمایا.آپ نے کہیں نوکری وغیرہ نہیں کرنی میرے ساتھ رابطہ رکھیں چند ماہ تسلسل سے رابطہ رکھا حسب ارشاد جماعتی امور کی تکمیل کی سعادت ملتی رہی.اس دوران حضرت میاں صاحب جس محبت شفقت سے دلجوئی اور دلداری فرماتے رہے اس کا نقشہ الفاظ میں بیان کرنے سے بالکل قاصر ہوں.چند ماہ بعد حاضر ہوا عرض کیا خاکسار کو نظارت امور عامہ میں ملازمت کا موقعہ میسر آ رہا ہے اگر اجازت ہو تو باقاعدہ ملازمت کرلوں بڑی خوشی سے فرمایا کہ میری خواہش بھی یہی تھی کہ آپ ربوہ میں ہی لوکل انجمن احمد یہ میں یا نظارت امور عامہ میں کام کریں.آپ سرا پا شفقت تھے آپ کی کس کس شفقت کا تذکرہ کیا جاوے اور کس کس کو چھوڑا جائے کیونکہ محدود وقت میں تو محدود با تیں ہی کہی اور لکھی جاسکتی ہیں.مزید

Page 56

“ 33 83 نظر کرم کا صرف ایک واقعہ قارئین کرام کی نظر ہے.خاکسار کی بیٹی کا رخصتانہ تھا حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا رخصتانہ کی دعا کے لئے تشریف لانے کی درخواست کی فرمایا کب اور کس جگہ تفصیل عرض کی فرمایا آؤں گا.آپ تاریخ اور وقت مقررہ پر تشریف لائے خاکسار کے ہاتھ میں نکاح فارم دیکھ کر مجھے بلایا کہ ابھی نکاح ہونا ہے عرض کیا جی فرمایا جو نکاح پڑھے گا وہی دعا کرائے گا میں دعا میں شامل ہو جاؤں گا.ادب کے تحت سن کر خاموش ہو گیا اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ نکاح پہلے پڑھوا لیا ہوتا تو شرمندگی بھی نہ ہوتی کہ میں نے حضرت میاں صاحب کا اتنا وقت بھی لیا اور دعا کرانے کی سعادت سے بھی اپنی غلطی کے باعث محروم رہا.لیکن حضرت میاں صاحب کی بے نفسی اور اعلی ظرفی ملاحظہ فرمائیے کہ آپ نے ذرہ برابر بھی محسوس نہ کیا.محترم مولوی سید احمد علی شاہ صاحب نے نکاح کے بعد دعا کرائی.آپ نے دعا میں شمولیت فرمائی اور جاتی دفعہ بچی کے لئے تحفہ بھی عنایت فرمایا.آپ نے اس وقت نہ بعد میں ناراضگی کا اظہار فرمایا بلکہ میری غلطی کی بر وقت اصلاح فرما کر مجھے سمجھایا تاکہ میں نکاح کے بعد مجلس میں حضرت میاں صاحب سے دعا کی درخواست کی غلطی نہ کروں اور آئندہ کے لئے اصلاح بھی فرما دی.واقعی آپ عظیم بے نفس محسن اور سرا پا شفقت تھے.خاکسارا اپنے اس مضمون کو حضرت میاں صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کے اس دعائیہ اقتباس پر ختم کرتا ہے جو آپ نے 12 دسمبر 1997ء کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمائے."پس اس ذکر خیر میں اگر چہ طول ہو گیا ہے لیکن یہ ذکر خیر ہے ہی بہت پیارا اب میں ساری جماعت کو حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے لئے دعا کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور بعد میں مرزا مسرور احمد صاحب کے متعلق بھی کہ اللہ تعالیٰ ان “ 84 کو بھی صحیح جانشین بنائے.تو ہماری جگہ بیٹے کا مضمون پوری طرح ان پر صادق آئے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ان کی حفاظت فرمائے اور ان کی اعانت فرمائے.آمین ثم آمین (روز نامہ الفضل 17 نومبر 1998ء)

Page 57

حضرت مولانا ظفر محمد صاحب ظفر 85 والد محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کا ذکر خیر کرنے سے قبل مناسب ہوگا کہ خاکسار کے دادا حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی بلوچ کے بارے میں کچھ لکھا جائے تاکہ ان حالات سے آگاہی ہو جن سے گزر کر حضرت حافظ صاحب کو حضرت مسیح موعود کے رفقاء کرام میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت دادا جان اپنے علاقہ کے معروف زمیندار تو تھے ہی لیکن آپ کی نیک شہرت اور مقبولیت کا اصل سبب آپ کی طبعی شرافت، زہد و تقویٰ اور اس زمانہ میں عربی اور فارسی زبان کا علم رکھنا تھا.آپ فارسی میں اشعار کہتے تھے.آپ کا ایک قلمی مجموعہ بھی تھا مگر افسوس کہ وہ ضائع ہو گیا.آپ نے حضرت مسیح موعود کی تائید میں فارسی کی ایک منظوم کتاب بھی لکھی تھی جس کی پہلی نظم کا عنوان ” سلام بنام امام مہدی تھا جس کا پہلا شعر یہ تھا.اے السلام السلام یوسف نوح کشتی کنعان بان جب آپ قرآن پاک یا مثنوی رومی کا خوش الحانی سے درس دیتے تو بیت الذکر کے پاس سے گزرنے والے لوگ رک جاتے.آپ کے شاگردوں میں جواں سال ، سفید ریش بزرگ پٹھان اور بلوچ بھی شامل ہوتے.آپ کے والد صاحب کا قبول احمدیت ہمارے علاقہ میں اس وقت ایک صاحب کشف و کرامت بزرگ حضرت حافظ میاں رانجھا صاحب تھے جو حضرت دادا جان کے استاد تھے.وہ علاقہ بھر میں “ 86 پیر و مرشد کا درجہ رکھتے تھے.ہمارے دادا جان بھی ان کے معتقد اور معتمد مرید تھے.ایک دن آپ نے اپنے مریدوں کی موجودگی میں دادا جان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.فتح محمد میری بات یا درکھنا کہ میں اس دار فانی سے گزر جاؤں گا آپ زندہ ہوں گے، آپ کی زندگی میں امام مہدی کا ظہور ہوگا انکار نہ کرنا.اس وقت یہ عام تاثر تھا کہ جب امام مہدی کا نزول ہوگا تو وہ جہاد بالسیف کا اعلان کریں گے.اسی وجہ سے آپ نے اس وقت ایک تلوار خریدی، ساتھ ہی کندھے پر ہمیشہ چادر کھتے تھے تا کہ جونہی امام مہدی جہاد کے لئے پکاریں گے تو میں فوری لبیک لبیک کہتے ہوئے ان کے انصار میں شامل ہو جاؤں گا.حسن اتفاق سے ہماری بستی کے ایک احمدی شخص جن کا نام مکرم محمد صاحب ولد محمود صاحب تھا جو بعد میں قادیان میں محمد شاہ کے نام سے معروف ہوئے ، حصول تعلیم کی خاطر راولپنڈی گئے اور حکیم شاہ نواز صاحب کے ہاں مقیم ہوئے.(اس وقت میاں رانجھا صاحب اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے تھے ) وہاں انہوں نے 1901ء میں حضرت مسیح موعود کا نام اور قادیان کا ذکر سنا تو فوراً قادیان چلے گئے کیونکہ انہیں اپنے پیرومرشد کی پیشگوئی اور حکم کہ انکار نہ کرنا یا تھا.جاتے ہی بیعت کا شرف پایا.کچھ عرصہ قیام کے بعد وہاں سے حضرت مسیح موعود کی چند کتب و تصاویر بھی وطن واپس لائے.ان کتب کا مطالعہ اور تصاویر دیکھتے ہی بستی مندرانی کی آٹھ نیک فطرت سعید روحوں نے والد صاحب محترم کی روایت کے مطابق پہلے تحریری اور بعد میں دستی بیعت کا شرف پایا.خاکسار کے دادا جان اور دیگر دو مخلصین کی تحریری بیعت کا الحکم 24 ستمبر 1901ء صفحہ 12 پر اس ترتیب سے ذکر ہے.1.حافظ فتح محمد صاحب ساکن مندرانی ضلع ڈیرہ غازی خان 2 عیسی خان صاحب ساکن مندرانی ضلع ڈیرہ غازی خان -3 فتح محمد صاحب کلاں ساکن مندرانی ضلع ڈیرہ غازی خان

Page 58

48 87 نوٹ: (از ناقل) نمبر 2, 3 کا ایڈریس بستی مندرانی لکھا ہے.یہ کون تھے والله اعلم بالصواب.والد صاحب محترم فرمایا کرتے تھے کہ ان کے والد صاحب نے 1903ء میں دستی بیعت کا شرف پایا.قادیان میں 2015 دن تک برکات صحبت سے فیضیاب رہے.واپسی پر اپنے نام رسالہ ریویو جاری کروایا.بستی مندرانی میں بیعت کی سعادت پانے والے دیگر سعید فطرت رفقاء کی تفصیل حسب ذیل ہے.1 - مکرم نور محمد خان صاحب برادر کلاں حافظ فتح محمد خان صاحب ، 2.مکرم میاں نور محمد خان صاحب ثانی والد مکرم محمد مسعود خان صاحب، 3.مکرم محمد مسعود خان صاحب ابن مکرم میاں نور محمد صاحب ثانی ، 4 مکرم بخشن خان صاحب ،5.مکرم کرم خان صاحب مٹھوانی ، 6 مکرم میاں محمد صاحب ، 7 - مکرم عثمان خان صاحب.مذکورہ افراد جنہوں نے اپنے پیرو مرشد کی پیشگوئی کو پہلے باندھ رکھا تھا حضرت مسیح موعود کے ظہور کی خوشخبری ملتے ہی کتب اور آپ کی شبیہ مبارک کو جو نہی دیکھا ان کا قلب صافی مزید تحقیق اور دلائل کا محتاج نہ رہا.پہلے تحریری اور پھر جوں جوں موقع ملا دستی بیعت کا شرف بھی پاتے رہے.واقعی یہ بات ٹھیک ہے کہ صاف دل کو کثرتِ اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار بستی مندرانی کا تعارف حضرت حافظ فتح محمد صاحب کا مولد ومسکن سلسلہ ہائے کوہ سلیمان کے دامن میں واقع بستی مندرانی تھا.یہ بستی دریائے سندھ کے مغربی کنارے تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے اور عام قبائلی رواج کے مطابق اس بستی کا نام ایک “ 88 بڑے قبیلے نتکانی کی مندرانی شاخ سے موسوم ہے.چند سال قبل تک تو نسہ شریف سے بستی مندرانی تک کا فاصلہ (جو قریباً 10 کلومیٹر ہے ) یا تو پا پیادہ طے کرنا پڑتا تھایا پھر بذریعہ اونٹ.یہ تمام علاقہ مذہبی رواج و اطوار کا حامل ہے.یہیں سے وہ سعید فطرت انسان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب اور آپ کے برادر حقیقی حضرت نور محمد خان صاحب اور دیگر رفقاء دولت ایمان سے مالا مال ہوئے جو ظہور امام الزمان کی خبر پاکر صحراؤں اور جنگلوں کو عبور کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح قادیان پہنچے.حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب کے چھ بیٹے تھے جن میں سب سے چھوٹے بیٹے عبدالکریم خان تو صغرسنی میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ باقی پانچ بیٹے مکرم قا در بخش خان صاحب اور مکرم غلام محمد خان صاحب ایک اہلیہ سے تھے جبکہ آپ کی دوسری زوجہ محترمہ سے مکرم علی محمد خان صاحب خاکسار کے والد محترم ظفر محمد خان صاحب اور سب سے چھوٹے مکرم عبدالرحیم خان صاحب تھے.یہ پانچوں بھائی بفضل اللہ تعالیٰ مخلص احمدی تھے ( آخر الذکر دونوں بھائیوں کے سوا باقی تینوں بھائی اپنے آبائی علاقہ میں ہی مدفون ہیں ) اور ان سب کی اولا د در اولاد نہ صرف سلسلہ سے وابستہ ہے بلکہ اپنے اپنے دائرہ میں حتی المقدور دعوت الی اللہ اور خدمت سلسلہ کی سعادت بھی پارہی ہے.ابتدائی حالات حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب اور محترمہ سردار بیگم صاحبہ کے ہاں 9 را پریل 1908ء کو والد صاحب محترم کی ولادت ہوئی آپ اپنے بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھے.ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی حاصل کی اور مزید تعلیم کے سلسلہ میں قادیان چلے گئے.آپ 22 مارچ 1921ء کو قادیان پہنچے.1922ء

Page 59

“ 89 سے 1929ء تک آپ کو حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفۃ المسح الثالث) کے ہم جماعت رہنے کا شرف حاصل ہوا.1929ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.1930ء 1931ء میں جامعہ احمدیہ میں مربیان کورس کرتے رہے جہاں نمایاں کامیابی حاصل کی.اسی عرصہ میں آپ نے جامعہ احمد یہ رسالہ کے دو شمارے مرتب کئے جن میں ایک سالانہ نمبر تھا.یہ رسالے بے حد مقبول ہوئے.اسی دوران والدین کا انتقال ہو گیا اور پھر آپ مستقل قادیان کے ہو گئے.جماعتی خدمات جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بہاولپور میں بطور مربی مقرر کئے گئے.جہاں آپ نے کچھ عرصہ کام کیا یہاں تک کہ آپ کو مدرسہ احمدیہ میں بطور استاد متعین کیا گیا.آپ نے تدریسی فرائض 1935 ء تک سرانجام دیئے.1934ء میں آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری رہے.1937ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی زیر نگرانی انچارج کار خاص رہے.1938ء میں نصرت گرلز ہائی سکول قادیان میں بطور معلم کام کیا.اس دوران آپ بطور قاضی سلسلہ بھی فرائض سرانجام دیتے رہے.مارچ1939ء سے مارچ 1944 ء تک اپنے وطن میں قیام پذیر رہے جبکہ اس دوران آپ نے ادیب فاضل منشی فاضل اور ایف اے کے امتحان پاس کئے.1944ء میں آپ کو جامعہ احمدیہ میں پروفیسر لگا دیا گیا جہاں 1956 ء تک تدریسی خدمات سرانجام دیں اور بالآخر آنکھوں کی تکلیف کے باعث جامعہ احمدیہ سے ریٹائرڈ ہو گئے.تاہم 1964 ء تا 1966ء کا عرصہ چوہدری احمد مختار صاحب کی خواہش پر “ 90 90 کراچی گئے اور حضرت اقدس مسیح موعود کی بعض عربی کتب کا ترجمہ کیا.حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے آپ کو طالب علمی کے زمانہ میں ہی قاضی مقرر کر دیا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک دفعہ مدرسہ احمدیہ ہائی سکول اور جامعہ احمدیہ کے طلباء نہر پر گئے وہاں جا کر لڑکوں میں کچھ کشمکش ہو گئی.اس کی تحقیق کے لئے ایک لڑکا ہائی سکول سے ایک جامعہ احمدیہ سے اور آپ کو مدرسہ احمدیہ سے لیا گیا.آپ کو اس سہ رکنی کمیشن کا صدر مقرر کیا گیا.آپ نے تحقیق کے بعد جو فیصلہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں پیش کیا حضور اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ کوئی قاضی اس سے بہتر فیصلہ نہیں دے سکتا.یہی وجہ تھی جس کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے آپ کو مستقل قاضی مقررفرما دیا.ایک دفعہ بٹالہ کے دو دوستوں کا قضیہ قادیان دارالامان میں آیا.پہلے.عرصہ دفاتر میں چلتا رہا پھر قضاء میں آیا.پہلے ایک قاضی نے فیصلہ کیا پھر دو قاضیوں نے فیصلہ کیا پھر تین قاضیوں کے بورڈ میں پیش ہوا جس میں آپ بھی شامل تھے.دفاتر کا اور جملہ قاضیوں کا فیصلہ مدعی کے حق میں تھا لیکن آپ نے ان سب فیصلوں سے اختلاف کیا اور الگ اپنا فیصلہ لکھا.اس پر حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں اپیل ہوئی حضور نے اسی ضمن میں شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کو جو بعد میں ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے لاہور سے بلوایا اور آپ کا فیصلہ دکھایا محترم شیخ صاحب نے آپ کے دیئے ہوئے فیصلہ کو نافذ فرما دیا.اس فیصلہ کے پڑھنے کے بعد محترم شیخ صاحب موصوف نے فرمایا کہ میں اس نوجوان کو دیکھنا چاہتا ہوں چنا نچہ آپ جب شیخ صاحب موصوف سے ملے تو انہوں نے آپ کو مبارکباد اور داد دی.

Page 60

غیر معمولی حافظه 91 اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی حافظہ عطا کر رکھا تھا.آپ نے ابتدائی تعلیم کے وقت ایک سال میں دو دو جماعتوں کا امتحان پاس کیا اور آپ کے حافظے کا یہ عالم تھا کہ آپ جو کچھ پڑھتے تھے وہ آپ کو یاد ہو جاتا.1929ء میں آپ بیمار پڑ گئے.آپ کو اساتذہ کرام نے مشورہ دیا کہ آپ اس سال مولوی فاضل کا امتحان نہ دیں.آپ نے جوابا عرض کیا کہ آپ مجھے اجازت دیں میں انشاء اللہ پاس ہو جاؤں گا.سو اجازت ملنے پر آپ امتحان میں شامل ہوئے.جامعہ احمدیہ قادیان کی طرف سے اس امتحان میں کل پندرہ طلباء نے شرکت کی تھی.جن میں سے صرف سات پاس ہوئے جبکہ آپ نے دوسری پوزیشن حاصل کی اور اول حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ) قرار پائے.( بحوالہ احمد یہ گزٹ 19 جولائی 1929ء) آپ فرمایا کرتے تھے امتحان پاس کرنا تو معمولی بات ہے ہاں البتہ امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنا اور پوزیشن لینا یقینا محنت طلب کام ہے.حماسہ و متنیتی عربی نظموں کی دو ضخیم کتا بیں ہیں جن کے مجموعی صفحات سینکڑوں کے لگ بھگ ہیں.آپ اپنے شاگردوں سے فرماتے کہ آپ ان دونوں کتابوں میں سے کوئی مصرعہ پڑھیں.اس کا دوسرا مصرعہ میں آپ کو زبانی سناؤں گا.آپ نے جتنی بھی نظمیں اور نعتیں کہیں آپ کو نہ صرف وہ بلکہ اپنے اردو، عربی ، فارسی کلام کے علاوہ دیگر شعراء کرام کے اشعار بھی ہزاروں کی تعدا میں از بر تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تو شیر خوارگی کا زمانہ بھی نہیں بھولا.اس وقت کے بعض واقعات آپ ہمیں سناتے تھے.“ شاگردوں سے دوستانہ تعلق 92 آپ اپنے شاگردوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی مخلصانہ ہمدردانہ اور دوستانہ تعلق رکھتے تھے.کافی عرصہ تک آپ کی رہائش بطور ٹیوٹر ہوٹل اور سپرنٹنڈنٹ مدرسہ احمدیہ، احمد نگر میں ہی رہی تعلیمی اوقات کے علاوہ صبح و شام رات گئے جہاں بھی کوئی طالب علم اپنے کورس سے متعلق کوئی مسئلہ لے کر آتا آپ بخوشی وقت دے کر عقدہ کشائی کرتے.بحیثیت انچارج ہوسٹل آپ صبح کی نماز سے قبل طلباء کو بیدار کرنے کے لئے ایک ایک طالب علم کے پاس جا کر ان کو جگانے کی بجائے ہوٹل کے صحن میں نہایت خوش الحانی سے بلند آواز میں قرآن پاک اور عربی اور اردو کے اشعار پڑھتے جس سے طلباء اٹھ کھڑے ہوتے.یہ انداز انتہائی دلکش اور پرکشش ہوتا.ایک دفعہ موسم گرما کی تعطیلات کا اعلان ہو چکا تھا.تمام طالب علم خوشی خوشی رخت سفر باندھ کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو رہے تھے.شام کو جب والد صاحب ا محترم ہوٹل تشریف لائے تو ایک طالب علم مسعود احمد جو حیدرآباد (دکن) بھارت سے حصول تعلیم کے لئے آئے ہوئے تھے سے استفسار کیا ، مسعود احمد آپ نہیں گئے.اس نے آبدیدہ ہو کر جواب دیا میں نے کہاں جانا ہے؟ والد صاحب محترم نے اس دبلے پتلے سیاہ فام لڑکے کو جس کی زبان میں لکنت بھی تھی گلے لگا کر کہا کہ آپ تیار ہو جائیں میں آج اپنے وطن ڈیرہ غازی خان جارہا ہوں.آپ میرے ساتھ چلو گے.مہربان شفیق اور ہمدرداستاد کی زبان سے یہ سنتے ہی اس کی پریشانی خوشی میں بدل گئی.چنانچہ والد صاحب اس کو گرمیوں کی تعطیلات میں اپنے ساتھ منگر وٹھہ غربی تحصیل تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خان لے گئے جہاں انہوں نے اسے اپنے بچوں کی طرح

Page 61

93 رکھا.اسی طرح ایک طالب علم جو ضلع راولپنڈی کا رہنے والا تھا وہ مولوی فاضل کے امتحان میں کامیاب نہ ہو سکا.اسی اثناء میں موسم گرما کی تعطیلات ہو گئیں.سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے ان دنوں والد صاحب کی رہائش احمد نگر میں تھی.والد صاحب جب ہوٹل گئے تو دیکھا کہ تقریبا سب لڑکے جاچکے ہیں جبکہ یہ افسردگی اور پریشانی کی حالت میں چار پائی پر بیٹھا ہوا ہے.پوچھنے پر جواب دیا کہ میں فیل ہو گیا ہوں کس منہ سے گھر جاؤں گا اور اگر چلا بھی جاؤں تو وہاں مجھے کون پڑھائے گا.والد صاحب نے اسے گلے لگایا اور کہا بس اتنا سا مسئلہ ؟ ٹھیک ہے تم تعطیلات یہیں گزارو میں تمہیں امتحان کی تیاری کروا دوں گا.مذکورہ طالب علم نے احسان مند نگاہوں سے دیکھا اور زیر لب کچھ کہنے کی کوشش کی.والد صاحب نے اس کی پریشانی کو اس کی وضاحت سے قبل ہی بھانپتے ہوئے کہا آپ کھانے کی فکر نہ کریں آپ اور میرا بیٹا ناصر ا کٹھے کھانا کھایا کریں گے.چنانچہ بھی وہ مخلص دوست غریب خانہ پر تشریف لے آتے اور کبھی میں کھانا لے کر ہوسٹل چلا جاتا اور ہم دونوں بھائی اکٹھے کھانا کھاتے.والد صاحب باقاعدگی سے مذکورہ طالب علم کو وقت دیتے رہے جس کے نتیجہ میں اس نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کرنے کی توفیق پائی.الحمد للہ دعاؤں میں تاثیر والد صاحب کی دعا میں اللہ تعالیٰ نے ایک عجیب تاثیر رکھ چھوڑی تھی.آپ کی کہی ہوئی باتوں میں بھی ایک اثر تھا.موضوع مذکور کے حوالے سے یوں تو ان گنت واقعات ہیں لیکن یہاں نمونہ کے طور پر صرف دو واقعات پر ہی اکتفا کروں گا.جب خاکسار کی ولادت ہوئی تو والد صاحب نے اخبار الفضل قادیان دارالامان مورخہ 6 مارچ 1934 ء کے شمارہ میں جو اعلان ولادت شائع کروایا اس “ 94 میں خاکسار کے لئے ” نافع الناس“ وجود ہونے کے حوالے سے درخواست دعا کی تھی.اب یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ باوجود اس حقیقت کے کہ خاکسار بالکل بے علم و ہنر تھا اور ہے لیکن اس پہلو سے ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی کسی خاص حکمت اور مصلحت کے تحت ایسے ایسے اسباب پیدا کئے کہ میرے چاہنے نہ چاہنے کے باوجود بھی مجھے مذکورہ دعا کا مصداق بنے کی توفیق ملی.الحمد للہ حالانکہ اس میں میرا کوئی کمال نہ تھا اور محض اللہ تعالیٰ کا فضل اور والد صاحب کی دعاؤں کا اثر اور صلہ ہے.اسی طرح والد صاحب نے عزیزم طاہر احمد ظفر کی پیدائش پر ایک نظم لکھی جو چار اشعار پر مشتمل تھی.اس دعائیہ نظم کا ایک ایک لفظ عزیزم طاہر پر صادق آتا ہے.اس نظم میں ایک جگہ آپ نے فرمایا ع اسلام کی سٹیج کا تو شہسوار ہو یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ عزیزم طاہر شروع جوانی میں ایک آزاد منش انسان تھا مگر اس دعا کے زیر اثر آہستہ آہستہ اس کی ایسی کایا پلٹی کہ وہ واقعی اس دعا کا مصداق نظر آنے لگا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے جرمنی میں سو بیوت کی تحریک جاری فرمائی تو مذکورہ با برکت تحریک کے تحت جرمنی میں سب سے پہلے جو بیت الذکر کی تعمیر ہوئی وہ بیت حمد تھی اور اس کی تعمیر کی سعادت بحیثیت ریجنل امیر عزیزم طاہر ظفر کے حصہ میں آئی.(ایں سعادت بزور بازو نیست) یہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے علاوہ اس کے اخلاص ہگن، محنت اور بشمول مالی قربانی کا ثمر ہے.الحمد للہ اس طرح جرمنی کے علاوہ دیگر قریبی ممالک میں بھی عزیزم طاہر ظفر کو خدمت دین و دعوت الی اللہ کی توفیق میسر آ رہی ہے.الحمد للہ عزیزم طاہر ظفر کو 1993 ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی سعادت

Page 62

“ 95 55 نصیب ہوئی.مکرم امیر صاحب جرمنی نے جو جلسہ سالانہ پر جرمن زبان میں تقریر کی اس کے اردو ترجمہ کی توفیق عزیزم طاہر ظفر کے حصہ میں آئی.اس طرح (احمدیت ) کے اسٹیج پر پہنچنے کی والد صاحب محترم کی دلی دعا کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا.الحمد للہ قول سدید 66 قرآنی تعلیم کے عین مطابق آپ ہمیشہ صاف اور سیدھی اور سچی بات کرتے مگر انداز بیاں کچھ ایسا دلنشیں اور ہمدردانہ ہوتا کہ آپ کی ہر بات دل میں اتر جاتی گویا دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے والا معاملہ ہوتا.دینی فرائض کی بجا آوری کے علاوہ ہمیں بچپن میں ہی یہ تین نصائح کچھ ایسے رنگ میں کیں کہ وہ لوح حافظہ پر ہمیشہ ہمیش کے لئے ثبت ہو کر رہ گئی ہیں.پہلی یہ کہ ہمیشہ سچ بولنا، دوسری یہ کہ گالی نہ نکالنا اور تیسری یہ کہ خیانت نہ کرنا اور بفضل اللہ تعالیٰ والد صاحب بزرگوارم کی مذکورہ تینوں نصائح پر عمل پیرا ہونے کی ہم حتی المقدور توفیق پیار ہے ہیں.ہمارے گاؤں بستی مندرانی میں والد صاحب کے ایک انتہائی قریبی عزیز کو رات کو سوتے میں کسی نامعلوم شخص نے تیز دھار آلہ سے شدید ضرب لگائی جس سے چہرہ تقریبا دو نیم ہو گیا اور زندہ بچنے کی بظاہر کوئی امید نہ رہی.میڈیکل رپورٹ پر تھانہ تونسہ شریف میں نامعلوم ملزم کے خلاف ارادہ قتل کا مقدمہ درج ہو گیا.پولیس نے مشتبہ اور مخالف عناصر کو حراست میں لے کر تشدد اور تفتیش کا سلسلہ شروع کر دیا.والد صاحب محترم ان دنوں ڈیرہ غازی خان میں مقیم تھے.اطلاع ملتے ہی فوراً تونسہ شریف پہنچے.پہلے اپنے بھائیوں اور عزیزوں سے الگ الگ ملاقات کی تو یہ عقدہ کھلا “.96 کہ ملزم بھی اپنا ہی عزیز ہے نہ کہ کوئی مخالف.چنانچہ حقیقت حال سے آگہی کے بعد آپ فوراً تھا نہ تشریف لے گئے جہاں چند بے گناہ اور مخالف عناصر کو دوران تفتیش تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا.آپ نے متعلقہ تفتیشی افسر کو بعد از تعارف زیر تفتیش افراد کی موجودگی میں فرمایا کہ یہ لوگ تو قطعی بے گناہ ہیں.مضروب اور ملزم دونوں ہی میرے عزیز ہیں.میں آپ کو اصل ملزم پیش کرتا ہوں آپ انہیں رہا کر دیں تفتیشی افسر آپ کی اس صاف گوئی سے بے انتہاء متاثر ہوا اور فوری اپنے گھر گیا اور پینے کے لئے مشروب اور پنکھا وغیرہ بھی لایا اور کہا کہ میں نے آپ جیسا صاف گو شخص کم ہی دیکھا ہے.آپ نے میری مشکل حل کر دی ہے.چنانچہ مذکورہ افسر نے آپ کی اس صاف گوئی پر کہ چونکہ فریقین کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے، مدعی اور گواہان کے بیان اور تعاون کی روشنی میں مقدمہ خارج کر دیا جبکہ دوسری طرف وہ بے گناہ افراد جو ناکردہ گناہ کی سزا بھگت رہے تھے وہ اور ان کے لواحقین آپ کی اس صاف گوئی سے اتنے متاثر ہوئے کہ وہ سب عمر بھر آپ کے گرویدہ اور ممنون احسان رہے.1979 مئی کی بات ہے کہ ہمارا چھوٹا بھائی عزیزم طاہر احمد ظفر جرمنی کے لئے رخت سفر باندھ رہا تھا اور اس سلسلہ میں ساری تیاری تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہوگئی اور بالآخر 28 مئی کا و لمحہ روانگی بھی آن پہنچا تو بجائے اس کے کہ عہد پیری میں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے سے جدائی کے جذبات سے مغلوب ہو کر افسردہ خاطر ہوتے ، وقت رخصت بڑی طمانیت سے فرمانے لگے طاہر بیٹا مجھ سے اچھی طرح مل لو شاید ہم دوبارہ نہ مل سکیں گے.حالانکہ آپ اس وقت صحت مند تھے اور پھر واقعہ ایسا ہوا کہ آپ پیارے بیٹے طاہر سے دوبارہ نہ مل سکے.اپنی علالت کے آخری دنوں میں اس کا ذکر خیر ضرور کرتے رہے مگر وہ بھی اس ترتیب سے کہ پہلے میرے بڑے بیٹے یعنی اپنے بڑے پوتے مبشر احمد ظفر جو اس سے پہلے جرمنی جا چکا تھا

Page 63

98 “ 97 اور پھر عزیزم طاہر احمد ظفر کا ذکر کرتے.عزیزم طاہر والد محترم کے سفر آخرت میں شامل نہ ہونے کے صدمہ کا ذکر بار بار تکلیف سے کرتا ہے.آپ کا تو کل علی اللہ آپ انتہائی متوکل اور صابر و شاکر اور قانع طبع تھے.عسر و یسر ہو کوئی ابتلا ء ہو آپ ہمیشہ راضی برضار ہے اور کبھی پریشان و نا امید نہ ہوئے.آپ کی عملی زندگی اس شعر کی جیتی جاگتی تصویر تھی.ھے کتنا راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو اور اس رضا کا اظہار آپ نے اپنے ایک شعر میں یوں فرمایا: خوش نصیب ظفر آج تک جسے ہے دنیا کے حادثات پریشاں نہ کر سکے آپ کی صبر واستقامت اور آپ کی متوکلا نہ فکر کی چند ایک مثالیں پیش ہیں.جب آپ کوٹ چٹھہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں رہائش پذیر تھے اور ذریعہ معاش بھی بڑا قلیل تھا.انہی دنوں آپ کی چھوٹی بیٹی مبارکہ جو اپنی صورت و سیرت اور اپنی ذہانت آمیز عادات کی وجہ سے والد صاحب کو حد درجہ پیاری تھی.اپنے تو اپنے غیر بھی اسے دیکھ کر بے حد پیار کرتے تھے.اچانک وہ چاندی بیٹی بیمار پڑ گئی.والد صاحب نے باوجود مالی تنگی کے ہر ممکن علاج معالجہ کی کوششیں جاری رکھیں مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اور بالآخر چند ہی یوم میں اللہ کو پیاری ہوگئی.اس قصبہ میں کوئی احمدی نہ تھا آپ نے خود ہی جنازہ پڑھایا اور جنازہ میں بھی صرف ہم دونوں بھائی یعنی خاکسار اور برادرم منصور احمد ظفر شامل تھے.یہ 1942ء کی بات ہے جب ہم دونوں ابھی چھوٹے بچے تھے.مجھے اچھی طرح یاد ہے بعد از تدفین جب ہم گھر واپس لوٹ رہے تھے تو والد صاحب نے ایک گوشت کی دکان سے گوشت لیا “ اور گھر داخل ہوتے ہی مسکراتے چہرے کے ساتھ ہماری والدہ محترمہ کو سلام کہا اور فرمایا کہ ہم نے اپنی تدبیر کی اپنی بساط کے مطابق انتہاء کر دی لیکن تقدیر غالب آئی اب اس صدمہ کو قطعاً دراز نہیں کرنا.گوشت روٹی پکائیں اور سب کھائیں.اللہ تعالیٰ غیر معمولی صبر دے گا.الغرض آپ نے اس حالت میں جس غیر معمولی صبر و شکر اور توکل کا اظہار فرمایا وہ آپ کے اس شعر کا مکمل خلاصہ تھا.تدبیر بھی ہے قبضہ مولی تجھے مقام تو کل کا پھل تقدي تو گل عطا میں ظفر کرے قادیان میں جب آپ بطور طالب علم بورڈنگ میں رہتے تھے تو گھر سے کچھ عرصہ تک رقم نہ آنے کے باعث سپر نٹنڈنٹ صاحب نے آپ کا کھانا بند کر دیا.آپ نے یہ عہد کر لیا کہ ارشاد خداوندی کے تحت کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کروں گا.آپ تین دن اور دوراتیں بھو کے رہے شام کو ہوٹل میں طلباء گولہ پھینک رہے تھے.آپ بفضلہ تعالیٰ فولادی اعصاب کے مالک اور جسمانی لحاظ سے بھی طاقتور تھے.آپ نے گولہ پھینکا تو وہ دوسرے طلباء کے مقابلے میں زیادہ فاصلے پر جا گرا.اس پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے استفسار فرمایا کہ ظفر آج تم کیا کھا کر آئے ہو.اس پر آپ نے مودبانہ انداز میں کہا وہی جو آپ کھلا رہے ہیں اس پر فوری طور پر سپرنٹنڈنٹ صاحب نے آپ کا کھانا دوبارہ جاری کر دیا.نیز از راہ شفقت مزید فرمایا کہ آج رات کا کھانا میرے گھر کھانا.چنانچہ والد صاحب نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کے فرمان کی تکمیل کی برکت سے نہ صرف میرا کھانا جاری ہوا بلکہ سپرنٹنڈنٹ صاحب نے انتہائی پر تکلف کھانا خاکسار کو کھلایا جو میں نے قبل از میں ہوٹل میں نہ کھایا تھا.اس طرح

Page 64

99 99 تو کل اور صبر کا میٹھا پھل قرآن پاک کی تعلیم پر عمل کرنے کے باعث نصیب ہوا.الحمد للہ قیام پاکستان کے موقع پر قادیان کے گردونواح میں بھی جب قتل و غارت کا بازار گرم تھا تو مرکز نے آپ کو کسی کام کے سلسلہ میں ملتان ڈویژن جانے کا حکم دیا.ان پر خطر حالات اور مالی تنگدستی کے پیش نظر آپ ساری رات دعاؤں اور نوافل میں مصروف رہے جب صبح کی نماز کا وقت قریب ہونے کو تھا تو آپ کو سجدہ میں زور سے آواز آئی هو الذي احياكم و یعنی خدا نے تجھے موت کے بعد زندگی بخش دی.چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپ نے اپنے اہل خانہ سے کہا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم بخیریت پاکستان پہنچ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ زادراہ کی مشکلات کا بھی انتظام فرما دے گا.انشاء اللہ.آپ کے پاس اتنی رقم بھی نہ تھی کہ آپ ملتان پہنچ پاتے جبکہ مرکز سے کرائے وغیرہ کی بات کرنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا.چنانچہ اس اثناء میں دروازہ پر دستک ہوئی آپ نے باہر جا کر دیکھا تو ایک شخص اس پیغام کے ساتھ 50 روپے لئے حاضر تھا کہ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سفری اخراجات کے سلسلہ میں آپ کی طرف بھجوائے ہیں اور ساتھ ہی فرمایا کہ مزید رقم کی ضرورت ہو تو بتا دیں.والد صاحب مزید رقم لئے بغیر جس قافلہ کے ساتھ قادیان سے لاہور پہنچے وہ تمام بفضلہ تعالیٰ بخیریت اپنی منزل پر پہنچ گیا.یہ وہ قافلہ تھا جو بوجہ شدید بارش رات بٹالہ کیمپ میں رہا.جب آپ 14, 15 سال کی عمر کے تھے اور آپ ایک سنسان ویرانے میں سے گزر رہے تھے کہ خانہ بدوش قوم کا ایک خونخوار کتا دو فرلانگ سے بھاگتا اور غرا تا ہوا آپ کی طرف لپکا.کتے کے مالک نے دور سے آواز دی بھاگ جاؤ بھاگ جاؤ ور نہ یہ تمہیں کاٹ کھائے گا.جبکہ بھا گنا بے سود تھا.آپ نے خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے زیر لب دعائیں کرنی شروع کر دیں اور بھاگنے کی بجائے کتے کی طرف منہ “ 100 کر کے کھڑے ہو گئے.کتا جب عین آپ کے قریب پہنچا تو یکدم رک گیا اور والد صاحب کی طرف دیکھ کر زور زور سے غرا تا اور گھورتا رہا آپ نے بھی اسے بغیر آنکھ جھپکائے دیکھنا شروع کر دیا.ایک دومنٹ کے بعد کتے کی چیخ نکلی اور پیچھے جا گرا اور پھر گھر کی طرف واپس بھاگ گیا.اس طرح آپ کے توکل اور قوت ارادی کے باعث آپ کو بفضلہ تعالی کوئی گزند نہ پہنچی.یہ لاہور کا واقعہ ہے کہ آپ ایک دفعہ بذریعہ یکہ دہلی گیٹ (بیت الذکر ) کی طرف جارہے تھے.اور اتفاق یہ کہ نہ یکہ بان کو معین جگہ کا پتہ تھا اور نہ ہی آپ کو.ان دنوں عزیزم طاہر ظفر وہاں ٹھہرا ہوا تھا.اور آپ اسے ہی ملنے جارہے تھے.آپ نے دعا کی کہ یا اللہ میری مدد فرما.ابھی آپ نے بمشکل تمام یہ دعا مانگی ہوگی کہ اچانک سامنے سے طاہر نمودار ہو گیا اور اس نے آواز دی ”ابو جی اور یوں اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر آپ کی یہ مشکل حل فرما دی.مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمد یہ احمد نگر نے جامعہ کے پروفیسر صاحبان کو فرمایا کہ مناسب ہو گا آپ اچکن وغیرہ پہن کر آیا کریں.نامساعد حالات میں نئی اچکن /شیروانی وغیرہ سلوانا خاصہ مشکل تھا.والد صاحب کے ایک ہم منصب جو بچپن میں ہم مکتب بھی تھے، مشورہ دیا کہ سنا ہے کہ خدام الاحمدیہ ربوہ کے دفتر میں کوٹ آئے ہوئے ہیں وہاں سے لے آتے ہیں.والد صاحب نے حکمت سے مشورہ کو ٹال دیا کیونکہ یہ مشورہ آپ کے مزاج کے مطابق نہ تھا.آپ نے دعا شروع کر دی کہ اے خدا ! تو غیبی امداد فر ما تا کہ مکرم پرنسپل صاحب کے حکم کی تعمیل ہو جائے اور دست سوال بھی نہ پھیلانا پڑے.دوسرے دن ڈا کیئے نے ایک پارسل والد صاحب کو آکر دیا.جب کھولا گیا تو اس میں گرم کپڑے کے علاوہ ایک خط بھی تھا.آپ نے پہلے خط کھولا تو معلوم ہوا کہ یہ خط ان کے ایک

Page 65

101 کلاس فیلو مکرم غلام حسین صاحب ایاز مربی سلسلہ سنگا پور جو تقریباً15, 16 سال سے ہجرت کے نامساعد حالات سے وہاں مقیم تھے اور کبھی رابطہ بھی نہ ہوا تھا کا ہے.انہوں نے خط میں لکھا کہ برادرم ظفر صاحب عرصہ دراز کے بعد آپ کو یاد کر رہا ہوں جس کی وجہ یہ بنی کہ میں آج اپنے لئے بازار سے اچکن کا کپڑا لینے گیا تو مجھے یہ کپڑا پسند آیا میں نے آپ کے لئے بھی خرید لیا جو بطور تحفہ بھجوار ہا ہوں.اطاعت نظام کا درس خاکسار کے والد نظام سلسلہ کی غیر معمولی و غیر مشروط اطاعت کے قائل تھے.اس سلسلہ میں وہ کسی قسم کی دلیل ، تاویل وغیرہ کو قطعاً قبول نہ کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے اصل اطاعت یہ ہے کہ سچے ہو کر بھی جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.“ یہ غالباً 1950ء کا واقعہ ہے کہ جامعہ کے ہوٹل میں خدام الاحمدیہ کا اجلاس قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کی زیر صدارت ہورہا تھا.میرے ساتھ بیٹھے ہوئے خادم نے قائد صاحب کی تقریر کے دوران کوئی ایسی بات کی جس سے قائد صاحب ڈسٹرب ہوئے.آپ نے استفسار فرمایا کہ کون بولا ہے میرے ساتھ بیٹھے ہوئے خادم نے میرا نام لے دیا جو سو فیصد غلط تھا.اس پر قائد صاحب نے میرے لئے اجلاس سے نکل جانے کی سزا تجویز کی.میرے لئے یہ سزا قابل قبول نہ تھی.ایک تو میں صد فی صد بے گناہ تھا دوسرے ایک غلط فہمی یہ بھی تھی کہ ”میرے والد صاحب پروفیسر ہیں.مجھے چاہئے تو یہ تھا کہ باوجود بے گناہ ہونے کے اطاعت کامل کا نمونہ پیش کرتے ہوئے فوراً اجلاس سے نکل جاتا لیکن میں نے اس کے برعکس اپنی بے گناہی پر احتجاج کرتے 66 “ 102 ہوئے کہا کہ میں اجلاس سے نہیں جاؤں گا.میرے اس غلط رویہ پر قائد صاحب محترم نے خاکسار کی شکایت محترم مولانا ابوالعطا ء صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ کی خدمت میں بھجوادی.مکرم پرنسپل صاحب نے خاکسار کے لئے جو سزا تجویز کی اس کی تعمیل کا وقت بعد از نماز مغرب بیت الذکر احمد نگر مقرر ہوا.مذکورہ تاریخ پر خاکسار بیت الذکر حاضر ہوا.مکرم پرنسپل صاحب نے تجویز کردہ سزا سنا کر مجھے تعمیل کے لئے طلب فرمایا.میں نے کھڑے ہو کر نہایت ادب سے عرض کیا کہ خاکسار خانہ خدا میں کھڑے ہو کر حلفاً عرض کرتا ہے کہ میں بے گناہ ہوں.سزا قبول کرنے سے گریز کرنے کی طرف مائل ہوا ہی تھا تو خاکسار کے والد صاحب محترم نے جو بیت الذکر میں تشریف فرما تھے.گرج دار آواز میں فرمایا ”ناصر فوری تعمیل کرو.خاکسار کو جس سہارے کی امید تھی ان کے واضح حکم کے بعد میرے لئے اب عدم تعاون ناممکن تھا.چنانچہ خاکسار نے فوراً مکرم پرنسپل صاحب کی خدمت میں حاضر ہو کر تجویز کردہ سزا قبول کی اس طرح والد صاحب محترم نے اپنے نیک عمل سے خاکسار کو اطاعت نظام کا ایسا سبق سکھایا جو تازیست یادر ہے گا.انشاء اللہ قرآن کریم سے عشق آپ کو قرآن شریف کے ساتھ عشق بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ جنون کی حد تک پیار تھا آپ نے اپنے بچپن میں خواب دیکھا کہ قرآن کریم میرے سینہ میں چمک رہا ہے.آپ کا سارے کا سارا عرصہ حیات اس خواب کی روشنی میں اور اس کی عملی تعبیر کی تلاش اور سعی میں ہی گزر گیا.قرآن شریف کی مدح میں نہ صرف آپ نے بزبان عربی اپنے جذبات کا اظہار کیا بلکہ اس سلسلہ میں آپ نے اردو میں بھی ” میری آرزو" کے عنوان سے ایک جاندار نظم کہی.قرآن شریف کے ساتھ اس غیر معمولی لگن

Page 66

“ 103 کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر ایسے جذبات پیدا کئے کہ حضرت مسیح موعود کے ارشاد کے مطابق آپ کا بیشتر وقت قرآن پاک پر تدبر اور غور و فکر کرتے ہی گزرا.جس کے نتیجہ میں آپ پر نئے نئے مضامین کھلتے چلے گئے.آپ اگر چہ قرآن پاک کے با قاعدہ حافظ تو نہ تھے لیکن کثرت مطالعہ اور مسلسل غور و فکر سے آپ کو قرآن مجید کا فی حد تک از بر ہو چکا تھا.آپ اکثر اپنے طلباء اور عزیزوں کو یہ فرمایا کرتے آپ قرآن پاک میں سے کسی آیت کا ترجمہ پڑھیں میں قرآن پاک کی اصل آیت آپ کو سنا دوں گا.جب عہد پیری میں بینائی کافی کمزور ہوگئی تو آپ نے اپنے اس جذبہ عشق کی تسکین کے لئے قرآن پاک کی مکمل آڈیو کیسٹیں خرید کر سنی شروع کر دیں.والد محترم کے علم قرآن اور عشق قرآن کا یہ عالم تھا کہ آپ نے یکم اگست 1978ء کو حضرت خلیفۃ اسیح الثالث کی خدمت میں لکھا کہ ایک دن جب خاکسار حضور کی خدمت میں حاضر تھا تو لفظ ھدھد کے لغوی معنی پیش کرنے کے بعد عرض کیا کہ پندرھویں صدی هدهد میں جماعت احمدیہ کے پاس اپنا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن ہوگا کیونکہ لفظ حد ھد سورۃ نمل میں آیا ہے اور اس سورۃ کا تعلق پندرھویں صدی سے ہے.اس پر قدرے تامل کے بعد حضور نے فرمایا کہ ” آپ نے سب کچھ اپنے دل میں ہی رکھا ہوا ہے.1974ء کے پر آشوب حالات اور پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے 7 ستمبر والے فیصلہ کے بعد جب معاندین احمدیت کی طرف سے جماعت پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیا جاتا تھا.ان حالات میں یہ بات وہم وگمان میں بھی نہ آسکتی تھی کہ 1978ء میں والد محترم کی علم قرآن کی روشنی میں کہی گئی بات MTA کی شکل میں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ یوں پوری ہوگی.حضور کی اس حوصلہ افزائی کے بعد آپ ے مذکورہ خط اب بھی ہمارے پاس محفوظ ہے نیز اس موضوع پر روز نامہ الفضل 14 دسمبر 1958ء کی اشاعت میں آپ کا تفصیلی مضمون شائع شدہ موجود ہے) 66 “ 104 نے معجزات القرآن ( جو حال ہی میں برادرم مبارک احمد ظفر صاحب کی طرف سے شائع ہوئی ہے) اور دو دوسری کتب ( غیر مطبوعہ ) ”ہمارا قرآن اور اس کا اسلوب بیان اور تیسری ” قرآن زمانے کے آئینہ میں ترتیب دیں جو انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع ہوں گی.معجزات القرآن کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب، حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب، حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر سابق امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد، حضرت مرزا عبدالحق صاحب صوبائی امیر جماعت احمدیہ پنجاب نے اپنی گراں قدر آراء سے نوازا.یہ بات قابل ذکر ہے کہ معجزات القرآن کی اشاعت سے قبل والد محترم کے علم قرآن کے بارہ میں سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الرابع نے 15 مارچ 1994ء کولندن میں ایم ٹی اے کی ایک مجلس میں فرمایا ”مولوی ظفر محمد صاحب مرحوم کا میرے ساتھ اگر چہ طالب علمی اور استاد کا رشتہ تو نہ تھا لیکن مجھ سے تعلق بہت گہرا تھا.قرآن کریم کے اوپر عبور تو کسی کو نہیں ہوسکتا مگر قرآنی مطالب کو سمجھنے کا شوق بہت تھا اور کئی دفعہ بڑے اچھے نکلتے نکال کر لاتے تھے ایک عجیب درویش انسان تھے.معجزات القرآن کے مسودہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے یہ تبصرہ فرمایا:.نمکرم کے مرسلہ مسودہ بنام "معجزات القرآن“ کا خاکسار نے گہری دلچپسی کے ساتھ بالاستیعاب مطالعہ کیا.آپ نے قرآن کریم کی معجزانہ شان کے جس پہلو پر قلم اٹھایا ہے.یہ علم قرآن کی ایک ایسی شاخ ہے جس پر آج تک بہت کم لکھا گیا ہے.اس مسودہ کے مطالعہ سے یہ دیکھ کر طبیعت میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے کہ علوم قرآن کی کائنات میں اس پہلو سے بھی تحقیق اور دریافت کا کتنا بڑا جہان کھلا پڑا ہے.اور اہل فکر کو جستجو کی دعوت دے رہا ہے.اس مطالعہ سے مجھے بہت کچھ حاصل ہوا کئی

Page 67

105 نے علمی نکات سے لطف اندوز ہوا.تحقیق کی کئی نئی راہوں کی طرف توجہ مبذول ہوئی اور دل میں اس خیال سے شکر و امتنان کے جذبات پیدا ہوئے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کو آپ کے غلاموں کے حق میں مقبول فرمارہا ہے.اور علم ومعرفت میں ترقی کے نئے نئے دروازے ان پر کھول رہا ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ یہ کتاب چونکہ گہری اور بار یک مضامین پر مشتمل ہے.نیز ایسے پہلو بھی رکھتی ہے جن میں مزید تحقیق اور اختلاف رائے کی گنجائش ہے.لہذا اس کی اشاعت سے صرف علمی ذوق در موز رکھنے والا محدود طبقہ ہی استفادہ کر سکے گا.بنابریں اگر اس کی اشاعت مقصود ہو تو سر دست محدود اشاعت بہتر رہے گی.تجزیہ کی روشنی میں آئندہ وسیع تر اشاعت کا انتظام کیا جاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو بیش از پیش خدمت دین کی توفیق بخشے اور علم و عرفان کی لازوال دولت عطا فرمائے.آمین ( بحوالہ معجزات القرآن صفحه 9,10) حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد نے تحریر فرمایا:.محترم مولوی ظفر محمد صاحب نے ایک بہت دقیق رسالہ تصنیف کیا ہے جس میں قرآنی علوم کو ابجد کے لحاظ سے نئے پیرائے میں بیان کیا ہے اور بہت سے نکات اس میں بیان کئے ہیں یہ رسالہ بہت بار یک مضامین پر مشتمل ہے اور اہل ذوق اس سے مستفیض ہو سکتے ہیں.محترم مولوی صاحب نے بڑی محنت اور دقیقہ رسی سے کام لیا ہے.بعض جگہ قاری کو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن بہت کم موقعوں پر ایسا ہوسکتا ہے ورنہ رسالہ مفید اور جدید تحقیق پر مبنی ہے.(بحوالہ معجزات القرآن صفحہ 13 ) رشتہ ناطہ میں صاف گوئی 1932ء میں خاکسار کے والد محترم نے محلہ دارالفضل میں اپنی تعلیم کے “ 106 سلسلہ میں کمرہ کرایہ پر لے رکھا تھا.یہ کمرہ مکرم ومحترم حضرت ڈاکٹر ظفر حسن صاحب رفیق بانی سلسلہ کی ہمسائیگی میں واقع تھا.میرے والد محترم کی سادگی ،شرافت اور نیک شہرت سے متاثر ہو کر ایک روز حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنے اہل خانہ کے مشورہ سے انہیں اپنے گھر چائے پر بلایا.ابتدائی تعارف میں محترم والد صاحب نے ڈیرہ غازی خان اپنا آبائی وطن بتایا.ذریعہ معاش کے استفسار پر آپ نے فرمایا:.زرعی زمین ذریعہ معاش ہے لیکن رقبہ چونکہ بارانی ہے اگر بارش ہو جائے تو گز راوقات ہو جاتا ہے“.آپ کی اس صاف گوئی اور جامعہ احمدیہ میں تعلیم کے باعث بغیر کسی مزید تحقیق کے مکرم و محترم حضرت ڈاکٹر صاحب نے اپنی دختر نیک اختر محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ کا رشتہ محترم والد صاحب کے ساتھ طے کر دیا.جو زندگی بھر مثالی رفاقت سے گزرا.واپسی قرضہ کی عمدہ مثال حتی الامکان والد محترم کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ اپنی آمد میں ہی گزراوقات کی جاوے.اگر کبھی اشد مجبوری کے باعث قرض لینا ناگزیر ہو جاتا تو پھر وعدہ کے مطابق قرض کی واپسی کو یقینی بناتے.ایک دفعہ والد محترم نے انتہائی ضرورت کے پیش نظر اپنے ایک مخلص دوست محترم مولانا محمد سلیم صاحب مربی سلسلہ سے جو غالباً اس وقت کلکتہ میں خدمات سرانجام دے رہے تھے اور ان دنوں قادیان تشریف لائے ہوئے تھے، مبلغ 20 روپے قرض حسنہ لئے.واپسی کی تاریخ سے قبل ہی والد صاحب خاکسار کو ہمراہ لئے مکرم و محترم مربی صاحب کے گھر گئے.والد صاحب نے مبلغ 22 روپے لفافہ میں بند کئے جو قرض سے 2 روپے زائد تھے.اس طرح قرض خواہوں کے لئے نیک مثال چھوڑی.

Page 68

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ کے ہمراہ بر موقع جلسہ سالانہ جرمنی 2001ء

Page 69

“ حروف مقطعات پر تحقیق 107 حضرت خلیفۃ امسیح الرابع نے 10 جنوری 1987 ء کو ایم ٹی اے پر والد محترم کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا.ایک احمدی سکالر مکرم مولوی ظفر محمد صاحب تھے جو حروف مقطعات کی تحقیق کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور بڑی محنت سے ان پر تحقیق کیا کرتے تھے انہوں نے مقطعات کی رو سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسح الثالث ہوں گے.چونکہ خلیفہ وقت کی زندگی میں کسی اور کی خلافت کے بارہ میں سوچنا یا نام لینا منع ہے.انہوں نے اپنی تحقیق کو لکھ کر بند کر کے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو دے کر یہ استدعا کی کہ میری وفات کے بعد اس کو کھولا جائے یا جب میں آپ سے درخواست کروں.بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ پیشگوئی صحیح تھی.مولوی ظفر محمد صاحب ایک دن میرے پاس تشریف لائے.اس وقت میں وقف جدید میں خدمات سرانجام دے رہا تھا.مولوی صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے چوتھے خلیفہ کا نام بھی معلوم کر لیا ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گا نہیں ( جبکہ اپنی ڈائری میں انہوں نے لکھ لیا تھا).جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت عطا کی تو ان کی وفات اس سے قبل ہو چکی تھی تو میں نے ان کے بچوں خصوصاً ان کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ڈائری کا وہ صفحہ تلاش کریں کہ کس قرآنی سورۃ سے انہوں نے یہ اخذ کیا ہے.ان کے بڑے بیٹے نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک ڈائری تھی جو اپنے پاس رکھا کرتے تھے وہ اب ہمیں مل نہیں رہی.میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ کس سورۃ اور کون سے حروف مقطعات سے انہوں نے اخذ کیا ہے کہ چوتھے خلیفہ کون ہوں گے.“ 108 فرمایا جب میں ماضی کے واقعات پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ جب وہ میرے پاس آئے تو ان کی آنکھوں میں ایک چمک تھی ایک روشنی تھی وہ مجھے خلیفہ رابع کے بارہ میں بتانا چاہتے تھے اس کے باوجود انہوں نے اظہار نہ کیا.مزید فرماتے ہیں: اس سے میرا نظریہ تقویت پکڑتا ہے کہ واقعی اس میں آنے والے زمانہ کے لئے بھی پیشگوئیاں ہیں جو اپنے وقت پر پوری ہوتی ہیں، حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ ان حروف مقطعات کو مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں سجھنے کی کوشش کی ہے اور مختلف نتائج اخذ کئے ہیں.حضرت مسیح موعود کی تعلیمات اور ارشادات کا غیر خواہ کچھ ہی مطلب نکالیں لیکن احمدی اپنے ظرف اور بساط کے مطابق ان تعلیمات سے فیض پاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ ظفر محمد صاحب نے حروف مقطعات کے بارہ میں ایسا طریق اخذ کیا جس سے مذکورہ بالا دو باتیں قبل از وقت بتا ئیں جو صحیح ثابت ہوئیں.آپ کی شاعری اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے سے قبل آپ کے دواشعار پیش خدمت ہیں جو اس پہلو سے ان کے شاعرانہ فکر کا احاطہ کرتے ہیں.مشاعرے کو نہ رب یا جب تک دماغ لے کے نہ ہے تائید سود شاعری میں نہ دین حق میں اپنا قدم مضمون لو اپنا گھسے قلم ہمارا قلم چلے اگر چہ آپ بفضلہ تعالیٰ قادر الکلام شاعر تھے.نہ صرف اردو بلکہ عربی اور فارسی زبان میں بھی آپ کو فن شعر گوئی کا ملکہ حاصل تھا.ہر سہ زبانوں میں آپ کا کلام سلسلہ ء حقہ کے رسائل و اخبارات میں بھی بکثرت شائع ہوتارہا ہے اور ہوتا رہتا

Page 70

“ 109 ہے.آپ کا شعری مجموعہ کلام ظفر“ کے نام سے آپ کی زندگی میں ہی شائع ہو چکا ہے.آپ کی شعری استعداد کے حوالہ سے آپ کے زمانہ طالب علمی کا ایک واقعہ بڑا قابل ذکر ہے.حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب مربی سلسلہ 7 سال دیارا فریقہ میں خدمات دینیہ سرانجام دینے کے بعد جب واپس اپنے وطن تشریف لائے تو جامعہ احمدیہ قادیان نے ان کو ایک استقبالیہ پارٹی دی.حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ بھی اس تقریب میں تشریف فرما تھے.حضور کی موجودگی میں جب والد صاحب محترم نے اپنی پہلی عربی نظم مذکورہ تقریب میں پڑھی تو حضور نے یہ نظم سن کر ایک طویل تقریر فرمائی جس میں بے حد خوشی کا اظہار فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمارے جامعہ کا کوئی طالب علم اتنی فصیح و بلیغ نظم بھی کہہ سکتا ہے.تقریب کے خاتمہ پر جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کو حاضرین نے بہت مبارکباد دی.( بحوالہ کلام ظفر صفحہ 236 طبع دوم ) آپ کی شاعری کے بارہ میں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا تبصرہ جو فی الواقعہ ایک سند کی سی حیثیت رکھتا ہے ہدیہ قارئین ہے.میں نے شروع سے آخر تک یہ تمام کلام پر لطف اور پر مغز پایا ہے.ممکن نہیں کہ انسان اس پر محض سرسری نظر ڈالتے ہوئے گزر جائے.کئی مقامات پر ٹھہر کر اطمینان سے اسی طرح لطف اندوز ہونا پڑتا ہے جیسے حسین قدرتی مناظر انسان کے قدم تھام لیتے ہیں.ایک بھی نظم ایسی نہیں جو بے مقصد شاعری یعنی شاعری برائے شاعری کے ضمن میں آتی ہو اور حقیقت اور خلوص سے عاری ہو.زبان بھی نہایت سلیس اور ہلکی پھلکی ہے سوائے اس کے کہ معانی کا وفور مشکل عربی اور فارسی کے الفاظ کے استعمال پر مجبور کر رہا ہو.طرز بیان نہایت دلنشین.فارسی اردو اور عربی پر برابر “ 110 دسترس.ماشاء اللہ یہ مجموعہ کلام علم وفضل کا ایک مرقع اور ایک خوشنما پھولوں کا گلدستہ ہے جسے آپ کے خلوص اور ایمان نے ایک عجیب تازگی اور مہک عطا کر دی ہے.“ ( بحوالہ کلام ظفر صفحه ب طبع دوم ) حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر نے تحریر فرمایا: محترم مولانا ظفر محمد صاحب اردو کے بہت خوش گو شاعر ہیں.علاوہ ازیں انہیں عربی اور فارسی نظم لکھنے کا بھی ملکہ ہے اور یہ بات خاکسار نے خاص طور پر دیکھی که با وجود ایک اعلیٰ شاعر ہونے کے وہ سراپا عجز وانکسار ہیں اور نام و نمود سے بے نیاز.محترم ظفر محمد صاحب کا اسلوب کلام ، سلاست اور روانی.محاورہ اور بندش کی خوبی اور فن شاعری کے لحاظ سے ایک قابل قدر تصنیف ہے اور بہت سی نظمیں اپنی خوبی کے لحاظ سے سہلِ ممتنع ہیں.یہ مجموعہ سلسلے کے لٹریچر میں ایک قیمتی اضافہ ہے اور احباب اس مجموعے کو انشاء اللہ دلکش اور مفید پائیں گے.نظموں میں دینی پہلو کو مدنظر رکھنا اور بے جا مبالغہ سے بچنا جماعت کے شعراء کا ایک امتیاز ہے جو اس مجموعے میں بھی نمایاں ہے.“ واحد غزل ( بحوالہ کلام ظفر صفحه ج طبع دوم ) والد صاحب غزل گو شاعر نہ تھے کیونکہ آپ کی شاعری برائے شاعری نہ تھی.وہ با مقصد اور حسب ضرورت اشعار کہتے تھے.1966ء میں جب آپ کراچی میں مقیم تھے تو مکرم برکت اللہ محمود صاحب (مربی سلسلہ ) کی ترغیب اور خواہش کے پیش نظر اپنی زندگی کی یہ واحد فی البدیہہ غزل کہی.یہ غزل 19 جنوری 2000ء کے روز نامہ الفضل میں شائع ہوئی.مکرم ایڈیٹر صاحب الفضل نے اس پر یہ نوٹ دیا کہ یہ آپ کی واحد غزل ہے.جب

Page 71

111 حضرت خلیفۃ اسیح الرابع نے یہ نوٹ پڑھا تو آپ نے ناظر صاحب اشاعت کو لکھا کہ یہ واحد غزل کیسے ہوگئی؟ میرے علم کے مطابق تو وہ ایک بڑے پر مغز اور اعلیٰ درجہ کے شاعر تھے.اردو میں بھی کہتے تھے اور عربی میں بھی.اگر یہ ان کی واحد غزل ہے تو پھر ساری نظمیں اور ان کا دیوان کہاں گیا.اس پر محترم ایڈیٹر صاحب نے وضا حنا لکھا کہ مولانا ظفر صاحب غزل گو شاعر نہ تھے.غزل کے لحاظ سے یہ ان کی واحد غزل ہے اس کے بعد حضور نے از راہ شفقت بچوں کی کلاس میں اپنی موجودگی میں ایک بچہ سے یہ غزل MTA پرسنی.اس کے اختتام پر حضور نے والد محترم اور ان کے کلام کا تعریفی رنگ میں ذکر کیا.خصوصاً اس آخری شعر پر کہ یاد میں اُس کی جو شیریں سے بھی شیریں ہے ظفر زندہ پھر قصہ فرہاد کروں یا نہ کروں یوں تبصرہ فرمایا کہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے.مزید تعریفی کلمات فرماتے ہوئے شیریں فرہاد کے قصہ پر روشنی ڈالی.اس سے قبل احمدی شعراء کا MTA پر ذکر خیر کرتے ہوئے خاکسار کے والد محترم کے بارے میں اور ان کی شاعری کے بارے میں تعریفی کلمات فرماتے ہوئے یہ کہا کہ مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کے کلام کا بھی MTA پر ذکر آنا چاہئے.پاکستان کے ایک معروف حکیم سابق وفاقی شوری کے رکن پاکستان طبی بورڈ کے صدر محترم حکیم نیر واسطی صاحب ستارہ خدمت ، والد صاحب کے ساتھ والہانہ عقیدت رکھتے تھے.حکیم صاحب آپ سے اپنے شعروں کی اصلاح لیتے اور با قاعدہ خط و کتابت بھی رکھتے.محترم والد صاحب اگر کسی حاجت مند مریض کو حکیم صاحب کے نام کوئی خط دیتے تو وہ اس سے رقم تک وصول نہیں کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ والد صاحب کسی کو رقعہ دینے سے قبل تامل سے کام لیتے تھے.ایک مرتبہ حکیم صاحب نے “ 112 والد صاحب کے ساتھ اپنے تعلق خاطر کا اظہار بذریعہ خط اس شعر کی صورت میں کیا.کہہ دو کوئی ظفر سے کہ اے شاہ علم و فن اک بے نوا فقیر نسبت ہے آپ کی درس و تدریس کے سلسلہ میں 1964 ء سے 1966 ء تک آپ کو کراچی میں رہنے کا اتفاق ہوا.اس عرصہ کے دوران ایک بار مصر کے صدر مرحوم جمال عبدالناصر کراچی تشریف لانے والے تھے.کراچی کی انتظامیہ ان کی آمد پر سرکاری ہدایت کے مطابق بزبان عربی قصیدہ کی صورت میں صدر محترم کو خوش آمدید کہنا چاہتی تھی.کسی ذریعہ سے کمشنر کراچی کو والد صاحب کے تبحر علمی کی درک لگ گئی.چنانچہ وہ آپ کے پاس پہنچے اور قصیدہ لکھنے کی خواہش کا اظہار کیا.لہذا آپ نے ان کی خواہش کے پیش نظر صدر کی آمد سے قبل عربی میں ایک قصیدہ لکھ کر دے دیا.مگر ساتھ اس کا ترجمہ نہ کیا وہ لوگ قصیدہ لے گئے تو آپ فرمانے لگے میرا خیال ہے یہ دوبارہ ترجمہ کروانے واپس آئیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ قصیدہ بغرض ترجمہ واپس آ گیا.قصہ کوتاہ اس قصیدے کو بہت ہی پسند کیا گیا.اسی طرح جب عراقی صدر عبدالسلام عارف کی کراچی آمد ہوئی.تب بھی مقامی انتظامیہ نے حسب سابق آپ کو ہی اس عزت افزائی کے قابل سمجھا.فروری 1974 ء کو لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کا نفرنس کے موقع پر بھٹو حکومت ایک دوست ملک کے سربراہ کو اپنے ذاتی مراسم کی وجہ سے بھی عربی میں ہی سپاسنامہ پیش کرنا چاہتی تھی.چنانچہ اس سلسلہ میں اس وقت کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کی خواہش پر محترم والد صاحب نے لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کی اسلامی ملی اور ملکی خدمات نیز فلسطینی مسئلہ پر ان کی جرات مندانہ پالیسیوں کی نسبت سے ایک پر مغز قصیدہ لکھا جسے وفاقی وزیر نے بہت سراہا.اظہار تشکر کے طور پر موصوف نے بخوشی والد صاحب کو بند لفافے میں کچھ رقم دینا چاہی تو آپ نے شکریہ کے ساتھ یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ میں کوئی پیشہ ور شاعر نہیں

Page 72

ہوں.ملکی خدمت میرا فرض ہے یوں بھی.ع کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے 113 عالمگیر برکات مامور زمانه صفحه 74-75) مکرم میاں سراج الدین صاحب لاہور نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء پر مشتمل نظموں کے انعامی مقابلے کا اعلان بذریعہ ”الفضل“ شائع کروایا.جس پر والد صاحب کی نظم بعنوان ”خدا تعالی اول قرار پائی اور مقررہ انعام کی حقدار ٹھہری.بعض في البديهه اشعار والد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے موقع محل کے عین مطابق فی البدیہہ اشعار کہنے کا ملکہ بھی عطا کر رکھا تھا ایک دفعہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ نے تقریباً ابتدائی ایام میں مکرم ومحترم حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ فیصل آباد کو جامعہ احمدیہ احمد نگر میں تشریف لا کر طلباء جامعہ سے خطاب کرنے کی درخواست کی تو محترم امیر صاحب نے خطاب سے قبل یہ شعر پڑھا.دعوی بیاں کا جامعہ والوں کے سامنے ہو بوئے مُشک غزالوں کے سامنے چندلحات کے بعد والد صاحب نے فی البدیہہ یہ شعر لکھ کر محترم پرنسپل صاحب کی وساطت سے محترم شیخ صاحب کی خدمت میں بھجوایا.؎ ایسے ہیں آپ جامعہ والوں کے سامنے تمام ہلالوں کے سامنے یہ پہلی ملاقات محترم شیخ صاحب کے ساتھ مستقل تعلق کی ایسی بنیاد بنی جو تادم واپسیں اخوت ، عقیدت اور علم دوستی کے باعث بڑھتی چلی گئی.محترم شیخ صاحب جب بھی ربوہ تشریف لاتے والد صاحب محترم کو ضرور یاد فرماتے.( بحوالہ ماہنامہ انصار الله شیخ محمد احمد مظہر نمبر اپریل 1995 صفحہ 126-128 ) “ سفر آخرت کتنا دنیا 114 آپ کی شخصیت کے اس پہلو پر کچھ لکھنے سے قبل آپ کا ایک شعر یہاں درج کرتا ہوں جو آپ کی داخلی اور فکری کیفیات اور قانع طبع ہونے کی ٹھیک ٹھیک تر جمانی کرتا ہے.ہے خوش نصیب ظفر آج تک جسے کے حادثات پریشاں نہ کر سکے کوئی انسان خواہ کتناہی بہادر اور باہمت کیوں نہ ہو جب وہ بستر علالت پر ہوتا ہے اور یہ علالت بھی دم واپسی کی طرف بڑھ رہی ہو اور ساتھ ہی مریض عمر رسیدہ بھی ہو تو ان حالات میں مریض کا بے چین پریشان ہونالازمی امر ہے.ان جانگسل لمحات میں شاید و باید ہی ایسی مثالیں دیکھنے کوملی ہوں کہ مریض کا نفس مطمئنہ راضی بقضاء ہو.شروع جنوری 1982ء میں جب آپ فضل عمر ہسپتال ربوہ میں بستر علالت ہ تھے اور صحت تیزی سے گر رہی تھی اور بحالی صحت کے امکانات روز بروز معدوم پر ہوتے چلے جارہے تھے.عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا مگر آپ سب آنے والے احباب سے ملاقات کرتے ان کے مزاج اور طبیعت کے مطابق ان سے گفتگو بھی فرماتے.ایک روز مکرم ماسٹر ہارون خان صاحب تشریف لائے تو آتے ہی انہوں نے مریض کو حوصلہ دینے کے خیال سے عدم کا یہ شعر پڑھا.عدم متانت جواں گیسوؤں کی ނ کر بیمار ہو ہوا کھا رہے ہو والد صاحب نے شعر سن کر فوراً سنبھالا لیا اور مسکراتے ہوئے جواب دیا اور شاید یہ شعر بھی عدم ہی کا تھا کہ زندگی کی حسین ترکش میں رحم تیر ہوتے ہیں کتنے

Page 73

“ 115 فضل عمر ہسپتال ربوہ میں جب آپ کو افاقہ نہ ہوا تو پھر آپ کو الائیڈ ہسپتال فیصل آباد منتقل کر دیا گیا.ڈاکٹروں کی ٹیم نے آپ کا مکمل طبی معائنہ کیا اور اس دوران وہ باہم انگلش میں ہی گفتگو کرتے رہے تا ایک بوڑھے مریض کو اس کی علالت کی شدت کی خبر نہ ہو کہ وہ چراغ سحری ہے.اس پر والد صاحب بے ساختہ مسکرائے.جس پر ایک ڈاکٹر صاحب بولے بزرگو! بیماری کی اتنی شدت میں آپ ہنس رہے ہیں ما شاء اللہ آپ تو بہت باہمت ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ میں اسی پر ہنس رہا ہوں کہ آپ سمجھ رہے ہیں کہ میں ناخواندہ ہوں.اس لئے آپ مجھے پریشانی سے بچانے کی خاطر انگلش میں میری صحت کی بحالی کو ناممکن قرار دے رہے ہیں.اس بارہ میں عرض ہے کہ میں انگلش جانتا ہوں اور دوسری بڑی اور بنیادی بات یہ ہے کہ میں موت سے قطعا نہیں گھبرا تا.آپ بے شک کھل کر اور جس زبان میں چاہیں بات کریں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.میرے اعصاب اور میری صحت ایسی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے.ایک روز جبکہ بیشتر عزیز آپ کے پاس بیٹھے تھے اور آپ کی حالت میں بھی کوئی افاقہ نہ تھا، فرمانے لگے میرے ذہن میں ایک شعر آ رہا ہے اسے میری آخری آرامگاہ پر لکھ دینا وہ شعر یہ تھا.آئے مرے عزیز ہیں میرے مزار رحمت خدا کی مانگنے مشت غبار پر ނ انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو بالعموم دنیا چھورنے کے خیال اور بتقضائے فطرت کسی قدر آزردہ ہو جاتا ہے مگر آپ کو حق تعالیٰ نے اس قدر نفس مطمئنہ عطا فر مایا تھا کہ آپ ہر حال میں صابر و شاکر اور راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو“ کی عملی تفسیر تھے.آپ نے اپنی بیماری کے ایام جس صبر وتحمل سے گزارے ایسی مثالیں شاذ ہی ملیں “ 116 گی.مورخہ 23 اپریل 1982 ء الائیڈ ہسپتال میں صبح کی نماز کے لئے جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا تو آپ داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اپنے مولی حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی غیر معمولی شفقت اور دلداری خاکسار کے والد محترم کو حضرت خلیفہ امسیح الثالث" کے ہم مکتب ہونے کا شرف حاصل تھا.آپ کی وفات کے بعد حضور نے اسلام آبادروانگی سے ایک یوم قبل والد محترم کے جملہ اہل و عیال کو تعزیت اور دلداری کا خصوصی وقت عنایت فرمایا.خصوصاً خاکسار کی والدہ محترمہ سے ہمدردی اور تعزیت کا اظہار فرمایا جس سے افسردہ دلوں کو خصوصی سکینت نصیب ہوئی.حضور کی غیر معمولی شفقت توجہ اور انہماک کا یہ حال تھا کہ آپ کے منجھلے بیٹے نے وقفہ وقفہ سے آکر درخواست کی کہ کھانا لگ چکا ہے.اس کے باوجود حضور نے ہمیں قیمتی وقت دیئے رکھا.یہ حضور سے ہماری آخری ملاقات تھی.دوسرے دن آپ اسلام آباد تشریف لے گئے جہاں حضور کو ہارٹ اٹیک ہوا جس کے باعث وہیں وفات ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب صدر مجلس انصار اللہ کی طرف سے تعزیتی خط ماہنامہ انصار اللہ جون 1982ء میں شائع ہوا.آپ الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں عیادت کیلئے بھی تشریف لائے تھے.قارئین کرام سے درخواست دعا ہے کہ دادا جان مرحوم حضرت حافظ فتح محمد صاحب رفیق بانی سلسلہ جن کے طفیل ہم نے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت پائی اور والد صاحب جن کے سایہ میں تربیت پائی.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں ان کے نیک نقش قدم پر چلنے کی سعادت و توفیق ملتی رہے.(روز نامہ الفضل 3،2،1 ستمبر 2004ء)

Page 74

117 “ 118 حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری احمد نگر، ربوہ سے 3/4 کلومیٹر مغرب کی جانب سرگودھا روڈ پر واقع وہ خوش قسمت قصبہ ہے جہاں ہجرت کے بعد 1949ء میں جامعہ احمدیہ کا اجراء حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے زیر سایہ استاذی المکرم حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری کی بے لوث قیادت میں انتہائی بے سروسامانی میں ہوا.آغاز میں جو مشکلات اور نا مساعد حالات پیش آئے محض خدا تعالیٰ کے خاص فضل اور مخلص، بے نفس محنتی اور فرض شناس اساتذہ کرام کی دعاؤں اور انتھک محنت کے نتیجہ میں آسان ہوتے چلے گئے.حضرت مولانا صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ صلاحیتیں عطا کر رکھی تھیں.آپ جماعت میں منفرد مقام کے حامل تھے.یہ آپ کی صفات حسنہ کا ثمر تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے آپ کو خالد احمدیت“ کے لقب سے نوازا تھا.آپ نے اپنی زندگی میں جو عظیم الشان جماعتی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی وہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے رقم ہوں گی.آپ کی احمد نگر کے حوالہ سے چند یادیں سپرد قلم کرنے کی توفیق پارہا ہوں.آپ کا روح پر ور خطاب سننے والوں میں وقتی جذ بہ پیدا کرنے کی بجائے دوررس تبدیلی پیدا کرتا تھا.ہجرت کے بعد احمد نگر میں ابتدائی نامساعد حالات اور بنیادی ضروریات زندگی کے فقدان کے باعث نوعمر طلباء گھبرا گئے.آپ نے طلباء میں بڑھتی ہوئی پریشانی کو بھانپتے ہوئے صبح کی اسمبلی میں مختصر خطاب کرتے ہوئے انتہائی پر جوش اور موثر انداز میں فرمایا.موافق حالات میں تو ہر کوئی خوشگوار نتائج پیدا کر سکتا ہے.جواں مرد تو وہ ہے جو نامساعد حالات میں خوشگوار نتائج پیدا کرے.“ آپ کا یہ جامع فقرہ خاکسار کے ذہن میں ایسا نقش ہوا کہ جب بھی مشکل حالات سے دو چار ہوتا ہوں تو اپنے محسن اور محترم استاد کے یہ الفاظ ہمیشہ ڈھارس اور حوصلہ کا باعث بنتے ہیں.احمد نگر میں بیت الذکر کا قیام آپ نے احمدی احباب کے لئے بیت الذکر کا فوری عارضی انتظام کیا.بعد میں حالات کے مطابق اس میں توسیع کروائی.مہاجرین کی آباد کاری دوسرا سب سے اہم کام احمد نگر میں مہاجرین کی آباد کاری کا تھا.مرکز نے گورنمنٹ سے احمد نگر کی مترو کہ جائیداد مجموعی طور پر احمدی مہاجرین کے لئے الاٹ کرنے کی منظوری حاصل کی.اور احمد نگر کی جماعت کے اکابرین پر مشتمل الاٹمنٹ کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں آپ کا نام نمایاں تھا یہ کمیٹی محکمہ مال کے تعاون سے مترو کہ مکان مہاجرین کو الاٹ کرتی.یہ کام انتہائی کٹھن اور مشکل تھا.اس سلسلہ میں حضرت مولوی صاحب اور کمیٹی کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا لیکن آپ نے انتہائی صبر و تحمل سے اس فریضہ کو با احسن سرانجام دیا.آپ کے فیصلوں اور مشوروں کو متعلقہ سرکاری افسران واہلکار انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے کیونکہ آپ کے فیصلے استحقاق اور انصاف پر مبنی ہوتے.احمد نگر میں مسلم لیگ کی صدارت آغاز میں ہی مسلم لیگ جو پاکستان کی بانی جماعت تھی کی طرف سے احمد نگر میں مسلم لیگ کی تنظیم قائم کرنے کے سلسلہ میں اجلاس عام ہوا جس میں گاؤں کے تقریباً

Page 75

“ 119 سبھی خور دو کلاں نے شمولیت کی جس میں غالب اکثریت مقامی غیر از جماعت بھائیوں کی تھی.جن کی قیادت ، سادات خاندان اور مہر کرم علی صاحب سپر انمبر دار کا خاندان کرتا تھا.لیکن اس کے برعکس احمدی احباب کی تعداد تو بہت کم تھی لیکن استاذی المکرم کی مقناطیسی روحانی ،سماجی شخصیت اور آپ کے حسن و احسان کے باعث اہالیان احمدنگر بلا امتیاز عقیدہ آپ کے معتقد تھے.مسلم لیگی عمائدین جو انتخاب کروانے کے سلسلہ میں تشریف لائے ہوئے تھے جن کی طرف سے صدارت کے لئے رائے طلب کی گئی تو حاضرین نے بیک زبان حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب کا نام پیش کیا.اس طرح آپ احمد نگر میں مسلم لیگ کے پہلے متفقہ طور پر صدر منتخب ہوئے.ایک با اثر غیر از جماعت ابھرتے ہوئے نو عمر جو بڑا زمیندار ہونے کے ناطے صدارت کے خود امیدوار تھے انہوں نے بھی مولوی صاحب کی بلند پایہ شخصیت کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اٹھ کر مبارک باد دی.جس پر حضرت مولانا صاحب نے انہیں گلے لگایا اور فرمایا کہ مہر صاحب! آپ نے اچھی روایت قائم کی ہے جزاکم اللہ احسن الجزاء اس پر اس نوجوان نے کہا یہ سب کچھ آپ سے سیکھا ہے.وطن عزیز میں صدر پاکستان محمد ایوب خان نے 59-60ء میں بنیادی جمہوریت کے انتخاب کروانے کا اعلان کیا.نظام سلسلہ کی طرف سے آپ کو یونین کونسل احمد نگر کے بی.ڈی ممبر کا انتخاب لڑنے کا حکم ہوا.اس وقت (1) موضع احمد نگر (2) موضع مل سپر ا (3) موضع پٹھانے والا اور (4) پیلووال سیداں چار مواضعات پر مشتمل حلقہ انتخاب کی 2 نشستیں تھیں جبکہ امید وار چار تھے.ہم اس وقت نو عمر تھے ہمیں حضرت مولوی صاحب کی الیکشن مہم چلانے کا اعزاز حاصل تھا.استاذی المکرم نے چاروں دیہات کا طوفانی دورہ کیا آپ کے پہنچنے سے قبل ہم لوگ پہلے پہنچ جاتے.ذرائع ابلاغ اور رابطے کے لئے لاؤڈ سپیکر کی بجائے ہمارے پاس گھی کے “ 120 خالی ٹین ہوتے ہم ہر گاؤں میں ہر اول دستے کے طور پر پہلے پہنچ جاتے.مناسب مقام پر جا کر زور زور سے ٹین بجاتے لوگوں کو اکٹھا کرتے چند خوش الحان ساتھ ہوتے جو خوش الحانی سے نظمیں پڑھتے.لوگ اکٹھے ہو جاتے تو حضرت مولوی صاحب رفقاء کے ہمراہ جن میں مکرم مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مکرم چوہدری ظہوراحمد صاحب آڈیٹر قابل ذکر ہیں.آپ کبھی سائیکلوں پر اور کبھی تانگے پر پہنچ جاتے ان کے ساتھ ایک سائیکل پر چھوٹا لاؤڈ سپیکر ہوتا.تلاوت ونظم کے بعد حضرت مولوی صاحب امیدوار کی خصوصیات اور حالات کے مطابق ایسا عام فہم خطاب فرماتے جس سے حاضرین و سامعین بے حد متاثر ہوتے اور بے ساختہ مولوی صاحب کے حق میں تائیدی نعرے ہمارے ساتھ بلند کرتے.انتخاب کے روز پولنگ اسٹیشن پر انتہائی حیران کن بلکہ یہ خوش کن واقعہ پیش آیا.ایک ضعیف نابینا غیر از جماعت ووٹر کو پولنگ اسٹیشن پر لایا گیا.تو ہر امید وار نے اس کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کی جبکہ مولوی صاحب باوقار اور پر سکون تشریف فرما تھے.پریزائیڈنگ افسر نے ووٹر سے دریافت کیا کہ کس کو ووٹ دینا ہے تو اس نے کہا کہ مولوی صاحب کو.اس طرح حضرت مولوی صاحب کو احمدی ووٹر ان کے علاوہ کثیر غیر از جماعت ووٹران کی حمایت سے غیر معمولی ووٹوں سے کامیابی نصیب ہوئی.اس کامیابی کے پس منظر میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی بصیرت اور دوراندیشی کا غیر معمولی عمل دخل تھا.سماجی خدمات اپنے لامتناہی دینی فرائض کے علاوہ آنے والے ہر خاص و عام کی دستگیری اور راہنمائی بشاشت قلب اور مسکراتے چہرہ سے فرماتے.1950ء میں دریائے چناب میں شدید طغیانی آئی اور سیلابی ریلے نے دیکھتے ہی دیکھتے احمد نگر کو اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا.سب سے پہلے آپ نے

Page 76

“ 121 احمد نگر کے نشیبی گھرانوں کی مستورات اور بچوں کو چند خدام کے ہمراہ ربوہ پہنچایا.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ خاکسار اور برادرم ارشا د احمد شبیر صاحب جو طلباء جامعہ میں سے تقریباً سب سے کم عمر تھے، کی ڈیوٹی آپ نے استاد محترم ابوالحسن قدسی صاحب کی اہلیہ محترمہ اور ان کے چھوٹے بچوں کو ربوہ ہمراہ لے جانے کی لگائی.چنانچہ ہم نے ریلوے لائن کے راستہ ان کو پیدل ربوہ پہنچایا.استاد محترم حضرت مولانا نے فوری طور پر خدمت خلق کا جامع منصوبہ تشکیل دیا.اور طلباء جامعہ کو منظم طریق سے پانی میں گھرے ہوئے افراد، ان کے اموال اور مویشیوں کو نکالنے پر مامور کر دیا.تقریباً ایک ہفتہ خدمت خلق کا یہ سلسلہ جاری وساری رہا.جس سے اہالیان احمد نگر بے حد متاثر ہوئے.حکومت کی طرف سے بی.ڈی ممبران کے لئے پندرہ روز ٹرینگ لازمی قرار دی گئی تھی.یونین کونسل بخش والا اور یونین کونسل احمد نگر کا ٹریننگ سنٹر احمد نگر کی بجائے بخش والا پس پردہ محرکین نے افسران بالا سے منظور کرالیا.جس کی اصل وجہ یہ تھی کہ بعض محرکین حضرت مولانا کی علمی شخصیت سے اس قدر مرعوب تھے کہ وہ سامنا کرنے کی سکت نہ رکھتے تھے.دوسری وجہ یہ تھی کہ یونین کونسل بخش والا کے چیئر مین صاحب کافی معمر اور بہت بڑے جاگیر دار تھے ان کی طرف سے ممبران کے لئے طعام و قیام کی کشش جاذبیت کا موجب تھی.بعض حضرات کو یقین تھا کہ بخش والا جو احمد نگر سے 12,10 کلومیٹر کوٹ قاضی کی نہر سے بھی کافی آگے ہے اور اس وقت کچھی سڑک تھی.آمد ورفت کے ذریعے نہ ہونے کے برابر تھے.مولوی صاحب کا پہنچنا ناممکن ہے اور اس طرح اپنی غیر حاضری کی وجہ سے رکنیت سے محروم ہو جائیں گے.کیونکہ رکنیت برقرار رکھنے کے لئے ٹرینگ میں حاضری لازمی قرار دی گئی تھی.لیکن محترم مولانا صاحب کی اولوالعزمی اور فرائض سے لگن نے تمام ممبران اور افسران کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.آپ باقاعدگی سے “ 122 بر وقت روزانہ بخش والا اپنی سائیکل پر تشریف لے جاتے رہے.ٹریننگ دینے والے مکرم محمد اسلم ہاشمی صاحب اور افسران بالا جو لیکچر دیتے اگر چہ ان کا علم و مرتبہ مولوی صاحب کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھا لیکن استاد مکرم نے اپنی علمی برتری بلند پایہ شخصیت کے باوجود ٹریننگ کے پروگرام سے بے نیازی نہ فرمائی بلکہ فرض شناسی اور مرکز کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داری کو کمال توجہ اور انہماک سے نبھایا.اساتذہ جونوٹ بھی لکھواتے آپ باقاعدگی سے نوٹ فرماتے.پندرہ روزہ ٹریننگ کے بعد جب الوداعی پارٹی ہوئی تو انچارج ٹرینینگ مکرم محمد اسلم ہاشمی صاحب اور دیگر افسران نے حضرت مولوی صاحب کی فرض شناسی سو فیصد حاضری اور قابلیت کی دل کھول کر تعریف کی کہ ہم نے تحصیل چنیوٹ (حال ضلع چنیوٹ) کے تمام تربیتی مراکز کا جائزہ لیا ہے.حضرت مولوی صاحب نے جتنی دلچسپی سے ہم جیسے طفل مکتب لوگوں کے ساتھ تعاون فر ما یا وہ اپنی مثال آپ ہے.مهمان نوازی بحیثیت ممبر یونین کونسل اور پھر صدر جماعت احمد نگر آپ کے پاس سرکاری ملازمین پولیس افسران اور سادہ لوح دیہاتی بھائی آتے رہتے تھے.آپ ان کی سطح کے مطابق ان سے گفتگو فرماتے اور وقت کے مطابق ان کی ضیافت بھی ضرور فرماتے.آپ کی اصل جماعتی اور جامعہ کی مصروفیات لامتناہی تھیں.اس کے باوجود آپ کو نظام سلسلہ نے جو بھی ضمنی فرض سونپا آپ نے کمال توجہ اور لگن اور محنت سے اس فرض کو خوب نبھایا.آج بھی احمد نگر اور اردگرد کے ماحول کے غیر از جماعت بزرگ حضرت مولوی صاحب کا ذکر خیر انتہائی عزت واحترام سے کرتے ہیں.آپ کی شخصیت کا ہی اعجاز تھا کہ آپ کے وقت میں جماعتی اور ملکی سطح کے بلند منصب پر فائز شخصیات احمد نگر میں تشریف لاتی رہیں.جن میں سب سے عظیم

Page 77

“ 123 حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ اور حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحب تھے.آپ نہ صرف تشریف لاتے بلکہ اہالیان احمد نگر کو اپنے خطاب سے بھی نوازتے.خاکسار کے والد محترم کے ساتھ آپ کے انتہائی مخلصانہ روابط تھے.علم دوستی کے ساتھ بے تکلفی کا انداز بھی تھا.ایک دفعہ فرمایا.مولوی ظفر صاحب ! آپ بہت اچھی نظمیں کہتے ہیں.خصوصاً آپ کی حضرت خاتم الانبیاء کے بارہ میں یہ نظم لا كـذب انت النبی تولا جواب ہے.امید ہے یہ نظم آپ کی بخشش کے لئے آپ کی شفاعت کا کام کرے گی.انشاء اللہ والد صاحب نے آپ کی قابلیت ، تقریر، اور تحریر کو بے حد سراہا.ہنستے ہنستے دونوں بزرگوں میں یہ طے ہوا کہ اگر خاکسار کے والد صاحب پہلے فوت ہو گئے تو حضرت مولوی صاحب والد صاحب کے بارہ میں رسالہ الفرقان میں مضمون لکھیں گے اور اگر استاذی المحترم پہلے فوت ہوئے تو خاکسار کے والد صاحب ان کے بارہ میں نظم لکھیں گے.حضرت مولوی صاحب پہلے مولی حقیقی سے جاملے.جس پر میرے والد صاحب نے جو نظم لکھی اس کے چند اشعار بغرض اظہار عقیدت و دعا پیش خدمت ہیں.چھوڑ کر دنیا کو خالد جا بسا ہے خُلد میں اب چلائے حجت بُرہان کی شمشیر کون , کو کون دے گا دشمنان دیں اب مسکت جواب مجالس میں کرے گا دلر با تقریر کون ہمارے بو العطاء تجھ پر ہزاروں رحمتیں ترے منہ سے سُنے قرآن کی تفسیر کون (روز نامہ الفضل 30 جولائی 2002ء) “ 124

Page 78

125 “ 126 حضرت مولانا حکیم خورشید احمد صاحب شاد محترم حکیم خورشید احمد صاحب شاد سابق صدر عمومی کے ذکر خیر سے قبل خواہش اور کوشش تھی کہ اگر لوکل انجمن احمدیہ کا تاریخی پس منظر اور مرکز سلسلہ کے اس مقامی اور بنیادی ادارہ میں بطور صدر عمومی خدمات سرانجام دینے والے خوش قسمت حضرات کے اسماء اور کوائف میسر آ جائیں تو مناسب ہوگا.تا کہ قارئین کرام ان مخلصین کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھ سکیں.لیکن باوجود کوشش کے بوجوہ مستند تاریخیں تو میسر نہ آ سکیں البتہ اس سلسلہ میں بطور صدر عمومی خدمات سرانجام دینے والے احباب کے نام وکوائف کے حصول کے لئے سلسلہ کے دیرینہ خادم مکرم و محترم مولوی محمد صدیق صاحب ایم اے ( سابق لائبریرین و صدر عمومی) جنہیں بفضل اللہ تعالیٰ غیر معمولی عرصہ بطور صدر عمومی خدمات سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی، خاکساران کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے لوکل انجمن احمد یہ میں بطور صدر عمومی خدمات سرانجام دینے والے خوش نصیبوں کے کوائف اور عرصہ خدمات کے بارے میں معلومات مہیا کرنے کی درخواست کی تو آپ نے انتہائی شفقت سے فرمایا:.تاریخوں کا تعین تو مشکل ہے البتہ صدران کے کوائف مہیا کر سکتا ہوں.لوکل انجمن احمدیہ کا آغاز 1950ء میں ہوا.ابتدائی صدور کا یہ اعزاز اور اعجاز سلسلہ عالیہ کے دو خالد احمدیت کو یکے بعد دیگرے ملا.حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب پہلے اور حضرت مولانا ابوالعطا ءصاحب دوسرے صدر عمومی تھے.خاکسار نے 1958 ء تا 1972 ء بطور صدر عمومی خدمات سر انجام دی ہیں.میں نے 1972ء میں مکرم چوہدری بشیر احمد خان صاحب عقب فضل عمر ہسپتال کو ان کے صدر عمومی نامزد ہونے پر انہیں چارج دیا تھا.جب مکرم چوہدری بشیر احمد خان صاحب اور مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب بھامبڑی محتسب نظارت امور عامه گرفتار ہوئے تو دوبارہ مجھے صدارت عمومی کے فرائض سونپے گئے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مکرم چوہدری بشیر احمد صاحب اور مکرم مولوی عبدالعزیز صاحب بھا مسبری مورخہ 11 جون 1974ء کو گرفتار کئے گئے تھے.( بحوالہ روزنامہ نوائے وقت 12 جون 1974ء) اسیران سرگودھا کی رہائی کے بعد خلافت لائبریری میں صدران لوکل انجمن احمدیہ کا اجلاس ہوا جس میں مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب صدر محله دارالبرکات (سابق ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ) صدر عمومی منتخب ہوئے.ان کے بعد مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کا تقرر ہوا.آپ کو خدمت دین کا نہایت اہم موقعہ 1974ء کے بعد صدرعمومی کے عہدے پر تقرری سے ملا.ہمیں سال تک کا یہ عرصہ جماعتی ابتلاؤں کے لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا.“ مکرم مولوی محمد صدیق صاحب سابق صدر عمومی نے جن حالات اور بے سروسامانی میں خدمات سرانجام دیں.اس بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ :.میر ادفتر خلافت لائبریری میں تھا میرا صرف ایک مدد گار کارکن مکرم سلیم اللہ صاحب تھے جبکہ کوئی کلرک نہ تھا.البتہ سال 72-71 میں حسابات رکھنے کیلئے مکرم قریشی ذکاء اللہ صاحب کارکن جلسہ سالانہ کو عارضی طور پر کلرک مقرر کیا گیا تھا.اس استفسار پر کہ آپ نے صدارت عمومی کا چارج کن صاحب سے لیا تھا تو آپ نے

Page 79

127 فرمایا کہ مکرم سید زمان شاه صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ جہلم سے.مزید فرمایا کہ سید زمان شاہ صاحب سے قبل مکرم چوہدری فرزند علی صاحب صدر عمومی تھے جنہوں نے مکرم ماسٹر عبداللہ صاحب سے چارج لیا تھا.پھر آپ نے فرمایا کہ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے بھی کچھ عرصہ بحیثیت صدر عمومی خدمات سرانجام دی تھیں.لیکن ان کے عرصہ خدمت کا صحیح علم نہ ہے.“ محترم حکیم صاحب کی وفات کے بعد محترم کرنل (ر) ایاز محمود خان صاحب اور ان کے بعد محترم میجر (ر) شاہد احمد سعدی صاحب اور ان کے بعد 2003 ء تا فروری 2012ء محترم چوہدری اللہ بخش صادق صاحب اور اب مکرم آصف جاوید چیمہ صاحب یہ خدمت سر انجام دے رہے ہیں.ابتدائی حالات محترم حکیم خورشید احمد صاحب مورخہ 25 نومبر 1921ء کو مکرم شیخ کریم اللہ صاحب کے ہاں سکنہ پیل ضلع پسنی ریاست پٹیالہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد پٹواری تھے اپنی دیانتداری، نیکی اور شرافت کے باعث اپنے علاقہ میں مشہور اور معروف تھے.آپ کے والد محترم نے آپ کو تعلیم و تربیت کی خاطر جامعہ احمدیہ قادیان میں داخل کرایا جہاں آپ نے بہت محنت اور لگن سے دینی تعلیم حاصل کی.آپ انتہائی ذہین ، قابل اور محنتی تھے.دوران طالب علمی مقابلہ جات میں پوزیشنز حاصل کیا کرتے تھے.سال 1943ء میں جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کے امتحان میں بفضل اللہ تعالیٰ اول پوزیشن حاصل کی.جس کی وجہ سے گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرے.یہ آپ کے نہایت قوی حافظے اور غیر معمولی محنت کی دلیل تھی.“ 128 24 دسمبر 1944 ء بوقت ساڑھے آٹھ بجے شب بیت اقصیٰ قادیان میں طلباء جامعہ احمدیہ کے مابین عربی تقریر کا انعامی مقابلہ زیر صدارت حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری منعقد ہوا.انعام پانے والوں کا فیصلہ کرنے کیلئے تین حج (1) مکرم مولوی محمد سلیم صاحب (2) مکرم مولوی ظہور حسین صاحب (3) محترم مولانا ظفر محمد ظفر صاحب ( راقم کے والد ) مقرر ہوئے.عربی تقریری مقابلے کا عنوان ” الاسلام دین الفطرة‘ مقرر ہوا تھا.آٹھ طلباء اس مقابلہ میں شامل ہوئے.بعد از تقاریر جج صاحبان با ہمی مشورہ کیلئے علیحدہ ہوئے جس پر 15-20 منٹ صرف ہوئے اس عرصہ میں صدر مجلس نے عربی زبان سیکھنے کے متعلق عربی میں تقریر کی.حجز کے فیصلہ کے مطابق مندرجہ ذیل طلباء نے پوزیشنز حاصل کیں.1 محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب 2 محترم مولوی خورشید احمد شاد صاحب اول دوم 3 محترم مولوی جلال الدین صاحب اور مکرم عطاء الرحمن طاہر صاحب سوم (بحوالہ روزنامہ الفضل یکم جنوری 1945ء) طبابت کا پیشہ ایں سعادت بزور بازو نیست ذاتی لگن ، محنت اور غیر معمولی ذہانت کے باعث آپ نے جس کام کو بھی شروع کیا اس میں کامیابی حاصل کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دست شفاء عطا فرمایا تھا.آپ نے ایک دواخانہ کی بنیاد ڈالی اور خورشید یونانی دواخانہ کے نام سے کاروبار کا آغاز کیا.طب کی تعلیم آپ نے اپنے ذاتی شوق اور مطالعہ سے حاصل کی آپ چونکہ

Page 80

“ 129 “ 130 غیر معمولی ذہین اور محنتی تھے.تھوڑے ہی عرصہ میں خورشید یونانی دواخانہ کامیاب دواخانوں میں شمار ہونے لگا.اس کی ابتداء بہت معمولی تھی ، پہلے پہل دوا فروشی سے کام کا آغاز کیا اور پھر چند سالوں میں مریضوں کا چیک اپ اور امراض کی تشخیص میں آپ نے اپنا منفرد مقام بنا لیا.دور دراز سے مریض آپ سے ادویات لینے بڑی تعداد میں ربوہ آتے اور آپ کی آمد سے پہلے ہی دکان کے باہر منتظر ہوتے تھے اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مریضوں کو گھنٹوں انتظار کے بعد محترم حکیم صاحب کو دکھانا نصیب ہوتا اور آہستہ آہستہ آپ کے مریضوں کی لائن میں بڑے بڑے افسران اور زمیندار بھی شامل ہوتے گئے.ایک دفعہ چنیوٹ کا ایک بڑا افسر آپ کے پاس حاضر ہوا اس نے کہا میں اعصابی کمزوری کا شکار ہوں بہت علاج کرایا افاقہ نہیں ہوتا ، آپ نے پوچھا شادی شدہ ہیں؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا تو محترم حکیم صاحب نے دوائی مرحمت فرما دی.چند دن کے بعد وہی افسر دوبارہ ربوہ آیا اور حکیم صاحب کو بتایا کہ وہ اب بالکل ٹھیک اور تندرست ہے اور اس نے حکیم صاحب کا شکریہ ادا کیا.اس کے بعد مذکورہ افسر نے ایسی دوائی طلب کی جس کا نام سنتے ہی محترم حکیم صاحب انتہائی غصے میں آگئے اور اس افیسر پر برس پڑے کہ آپ مجھے بازاری حکیم سمجھتے ہیں اس قسم کی دوائی کی مجھ سے قطعاً توقع نہ رکھیں.محترم حکیم صاحب اپنا مطلب بازاری حکیموں کی طرح نہیں چلاتے تھے بلکہ ما ہر حکیم ہونے کے ساتھ ساتھ جرات مند، معاما فہیم اور صاحب حکمت بھی تھے.حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے محترم حکیم صاحب کی وفات کے ذکر خیر میں ان کے دست شفاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفاء دی تھی.بہت سے ایسے مریض جو حکومت کے ملازم ہوتے تھے یا علاقے کے بڑے زمیندار جن سے عموماً شر پہنچتا تھا وہ مولوی صاحب کی مخالفت نہیں کرتے تھے اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی حکمت اور طبابت کے نسخے بہت مفید ہوتے تھے.چنیوٹ سے بھی سلسلے کے مخالف یا تو بھیس بدل کر دوا لینے آتے یا کسی کو بھجوا دیتے اور درخواست کرتے کہ ہمارا نام نہ لیا جائے.“ (روز نامه الفضل 18 اگست 1994ء) آپ اپنے مطلب سے جماعت کے بزرگوں، پولیس افسران اور سول افسران کو گرمیوں میں خصوصاً شربت بادام اور دیگر شر بتوں کے علاوہ قیمتی دیسی ادویات بھی بلا معاوضہ دے کر غیر معمولی فیض عام کا سلسلہ جاری رکھتے.ازدواجی زندگی مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کو حضرت مولانا ابوالعطا ء صاحب جالندھری کی دامادی اور شاگردی کا شرف حاصل تھا.مکر مہ امتہ اللہ خورشید صاحبہ سابق مدیرہ ماہنامہ مصباح مولانا ابوالعطاء صاحب کی صاحبزادی تھیں اور محترم حکیم صاحب کی نیک بخت زوجہ تھیں اس طرح ان تینوں کا نام حصہ بقدر جثہ تاریخ احمدیت میں زندہ و تابندہ رہے گا.(انشاء اللہ تعالی ) ان کی وفات مورخہ 26 ستمبر 1960 ءسوا دس بجے شب ہوئی.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نے اپنی پیاری بچی کی وفات پر ماہنامہ الفرقان ربوه اکتوبر 1960ء میں دو صفحات کا نوٹ لکھا جس میں انہوں نے اپنی بیٹی کے اوصاف حمیدہ اور خدمت دین کا تذکرہ فرمایا.آپ نے لکھا.”میری بچی عزیزہ امتہ اللہ بیگم میری سب سے بڑی لڑکی تھی.میرے ماموں حضرت ڈاکٹر محمد ابراہیم صاحب آف سر وعہ کی نواسی تھی.میں ابھی مدرسہ احمدیہ قادیان کی ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ اس کی ولادت ہوئی.میں نے اس خوشی میں اپنے ساتھی طلبہ کو ایک پارٹی دی تھی.عزیزہ امتہ اللہ ایک ہونہار سعادت مند اور نہایت نیک بیٹی تھی.وہ ابھی

Page 81

“ 131 66 چھ سات سال کی تھی کہ اس کی والدہ محترمہ میری پہلی بیوی محتر مہ زینب بیگم صاحبہ وفات پا گئی تھیں.میرے تینوں بے ماں کے بچے اپنی دوسری والدہ ، میری موجودہ رفیقہ حیات محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ کی آغوش میں پروان چڑھے عزیزہ امتہ اللہ پندرہ سال تک جماعت کی مستورات کے واحد ماہنامہ مصباح کی مدیر رہی.اللہ تعالی نے عزیزہ کوتحریر کا ملکہ بھی بخشا تھا.بہت اچھے مضامین لکھتی تھی اس کو قوت گویائی بھی عطا فرمائی تھی.“ حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب مزید لکھتے ہیں.عزیزہ کی شادی میرے شاگر د مکرم حکیم خورشید احمد صاحب شاد مولوی فاضل سے 1945 ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تحریک سے ہوئی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میاں بیوی میں نہایت اچھے تعلقات تھے.ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا جس کا احساس ماحول کی وجہ سے بعض دفعہ خاص طور پر عزیزہ کو ہوتا تھا.بہر حال مشیت ایزدی اسی طرح تھی.“ آپ دونوں قابل احترام بزرگوں نے جب اپنے وقت میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان دیا تو ہر دو احباب نے پنجاب یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی.آپ کی دوسری شادی 1961ء میں محترمہ رضیہ سلطانہ صاحبہ دختر حضرت شیخ اللہ بخش صاحب ریٹائر ڈ انسپکٹر ایکسائز بنوں کے ساتھ ہوئی.مکرم حکیم صاحب کے سر حضرت شیخ اللہ بخش صاحب ان خوش نصیب رفقاء میں سے تھے جن کا ذکر خیر حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے مورخہ 27 اگست 2000ء کو جلسہ سالانہ جرمنی کے اختتامی خطاب میں فرمایا.جن رفقاء حضرت مسیح موعود کا ذکر حضور نے فرمایا، ان میں حضرت شیخ صاحب کا ذکر سب سے پہلے تھا.حضرت خلیفہ اسی الرائع نے حضرت شیخ صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.“ 132 آپ کو دسمبر 1905ء میں تحریری بیعت کی سعادت ملی.اپریل 1906ء میں دستی بیعت اور زیارت کی سعادت پائی.ان کے والد صاحب کی شادی کے بعد 12 سال تک کوئی اولاد نہ تھی.ایک روز انہوں نے بڑے خشوع وخضوع سے دعا کی اے خدا جس طرح تو نے حضرت ابراہیم کو بڑھاپے میں اولا وعطا کی.اسی طرح مجھے بھی نرینہ اولاد عطا کر “ تب حضرت اللہ بخش صاحب کی پیدائش ہوئی.آپ بتاتے ہیں کہ بچپن میں مجھے کوئی مذہبی تعلیم نہ ملی.چھوٹی عمر میں سکول میں داخل ہوا.جب انٹر میں پہنچا تو اس وقت میری عمر 17 سال تھی.قدرتا میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ اپنے مذہب کے متعلق کچھ واقفیت پیدا کرنی چاہئے.چنانچہ میں نے ایک مولوی صاحب سے قرآن شریف پڑھنا شروع کیا اور پھر مترجم قرآن شریف کا مطالعہ کرنے لگا.آخری الفاظ جو بانی سلسلہ سے عشق و محبت کا غیر معمولی اظہار ہے ملاحظہ فرمائیے.مکرم و محترم شیخ اللہ بخش صاحب کے الفاظ میں مجھے اس وقت سخت قلق ہوا جب بدر اخبار میں حضرت مسیح موعود کی وفات کی خبر پڑھی.مذکورہ تحریر فارسی کے اس شعر پرختم ہوئی.“ 66 حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شد خلاصہ خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع روزنامه الفضل 13 ستمبر 2000ء) حضرت حکیم خورشید احمد صاحب کتنے خوش قسمت و خوش نصیب تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے پہلے خالد احمدیت حضرت مولانا ابوالعطا صاحب اور پھر حضرت بانی سلسلہ کے عاشق اور رفیق حضرت شیخ اللہ بخش صاحب کی فرزندی کا اعزاز عطا فر مایا.

Page 82

“ جامعہ احمدیہ میں ایک دلچسپ تقریری مقابلہ 133 نظارت تعلیم و تربیت کی تجویز پر مورخہ 21 دسمبر 1948 ء بوقت دس بجے طلباء جامعہ احمدیہ اور مدرسہ احمدیہ کا ایک تقریری انعامی مقابلہ ہوا.جس کا مضمون یہ تھا کہ حکومت پاکستان کو شرعی قانون فوراً نافذ کر دینا چاہئے.طرفین نے مثبت اور منفی پہلوؤں کے متعلق بہت مفید تقاریر کیں.ہر فریق کے تین مقرر تھے.طلبہ کے بعد اساتذہ جامعہ و مدرسہ نے اسی موضوع کے دونوں پہلوؤں کے متعلق عربی زبان اور انگریزی زبان میں تقریریں کیں.اس تقریری مقابلہ میں عربی حصہ میں جوں کے فیصلہ کے مطابق مکرم مولوی ظفر محمد ظفر صاحب اول رہے اور مکرم مولوی خورشید احمد شاد صاحب دوم اور مکرم مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی سوم رہے.علم حدیث میں تخصص (خلاصہ رپورٹ روزنامہ الفضل 29 دسمبر 1948ء) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ بعض ذہین طلباء جامعہ حمد ی کوتعلیم سے فارغ ہونے پر ان کو مختلف علوم مثلاً، تفسیر ، فقہ، حدیث ، علم کلام اور مواز نہ وغیرہ میں تخصص کیلئے نامزد فرمایا کرتے تھے ان خوش قسمت طلباء میں سے مکرم خورشید احمد شاد صاحب بھی ہیں جنہیں حضور نے علم حدیث میں تخصص کے لئے دہلی بھجوا دیا.جہاں آپ نے دیو بند وغیرہ میں چوٹی کے علماء سے مزید علم حدیث حاصل کیا.آپ کی اور ! ذہانت اور علم کی وجہ سے آپ کے اساتذہ نے انہیں اپنے پاس ہی رہنے کو کہا لیکن یہ جماعت کا دیرینہ خادم وہاں کیسے رہ سکتا تھا.اپنا مقصد پورا ہونے پر آپ واپس تشریف لے آئے.آپ نے اس شعبہ میں بہت ترقی کی اور مطالعہ کے ذریعہ کمال “ 134 حاصل کیا.آپ کا درس حدیث بہت سے علمی نکات پر مشتمل ہوتا ، احباب محو ہو کے سنتے.آپ کی وفات کے بعد کئی دوستوں نے آپ کے درس حدیث کو سراہا اور تعریف کی.آپ کے ایک شاگرد مکرم بشیر احمد خان صاحب آپ کی وفات پر تعزیت کیلئے دفتر تشریف لائے.جہاں خاکسار ڈیوٹی پر موجود تھا.مکرم حکیم صاحب کا ذکر خیر کرتے کرتے جب آپ نے علم حدیث کا ذکر شروع کیا تو رکنے میں نہیں آتے تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1943 ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں جامعہ احمدیہ کی طرف سے شامل ہونے والے امیدوار مولوی خورشید احمد صاحب شاد پنجاب یونیورسٹی میں 488 نمبر لے کر اول رہے.جامعہ احمدیہ کی طرف سے دس طالب علم امتحان میں شریک ہوئے تھے.(خلاصہ رپورٹ روز نامہ الفضل 12 راگست 1943ء) تبویب مسند احمد بن حنبل آپ کے شاگر دمحمد ارشاد خان صاحب نے بتایا کہ امام جماعت احمد یہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے سب سے اہم اور سب سے وقیع ذمہ داری انہیں تبویب مسند احمد بن حنبل کی تفویض کی ، خدا تعالیٰ کا کرم ان پر اتنا بے کراں اور بے پایاں تھا کہ اس تاریخی اور بے مثال اور غیر معمولی ذمہ داری کو ادا کرنے میں سرخرو ہو گئے.مزید بتایا کہ شاہد کے تحقیقی مقالے میں میں نے مسند احمد بن حنبل کی تبویب پر خصوصی توجہ کی تو یہ حیرت انگیز اتفاق یا الہی مصلحت یا کوئی غیبی حقیقت سامنے آئی کہ خود حضرت امام احمد بن حنبل سے لے کر مولوی خورشید احمد صاحب شاد تک جس کسی نے کسی بھی جگہ کسی بھی دور میں تبویب مسند احمد بن حنبل کی کوشش کی ، اس پر قید و بند قتل وغارت زوال و اضمحلال کے دردناک ابتلاء آئے.غالباً شاید اسی وجہ سے مکرم صدر صاحب عمومی کے اوپر چار مقدمات بنے محض خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے تمام مقدمات میں باعزت بری ہوئے.

Page 83

اعلیٰ اخلاق 135 محترم حکیم صاحب انتہائی ملنسار ، فیاض اور مہمان نواز تھے جماعتی و دینی کاموں میں ذاتی گرہ سے بے دریغ خرچ کرنے والے وجود تھے اور بعض دفعہ تو آپ کا یہ جذبہ عروج پر پہنچ جاتا تھا.جماعتی کاموں میں دفتری گاڑی کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی گاڑی بھی ہمیشہ وقف رکھتے تھے.جبکہ خدمات بھی اعزازی کرتے تھے.مظلوموں کی امداد محترم حکیم صاحب کا معمول تھا کہ مخلص ، مفلس اور مظلوم بھائیوں کی ظالم افراد کے مقابلہ میں ڈٹ کر امداد اور حمایت فرماتے.مقابلہ میں خواہ کوئی کتنا ہی دنیاوی لحاظ سے مضبوط اور حسب و نسب ، سیاسی و سماجی اعتبار سے بااثر ہی کیوں نہ ہوتا.فریقین کی موجودگی میں آپ قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے حقائق کے مطابق کھری کھری سنانے سے قطعی دریغ نہ کرتے اور نہ جھجکتے.ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہہ کر مظلوم کا ساتھ دیتے.اس سلسلہ میں بعد از اجازت نظارت امور عامه خواہ پولیس حتی کہ عدالت تک بھی جانا پڑتا تو آپ بلا جھجک مظلوم کے ہمراہ جا کر ظالم کا سامنا کرتے.آپ اس وقت تک مظلوم کی امداد سے دستبردار نہ ہوتے جب تک ظالم ظلم سے دست کش ہو کر مظلوم کی حق رسی پر مجبور نہ ہوتا.آپ کے دور صدارت لوکل انجمن احمدیہ کے دوران ایسی بیسیوں مثالیں اور واقعات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوتے.ایک مرتبہ ایک کیس میں آپ نے ایک عام مظلوم بھائی کی حق رسی کے سلسہ میں سیشن کورٹ میں ظالم فریق کے مخالف اصالتاً پیش ہوئے اور حقائق کے مطابق بیان دے کر اس کی مقدمہ سے جان چھڑوائی.“ 136 حضرت خلیفہ المسیح الرابع نے آپ کی وفات پر آپ کی انہی خوبیوں کے پیش نظر فرمایا تھا کہ وو ایسے مشکل مواقع پر ربوہ کے عوام کی سر پرستی کرنے میں حضرت مولوی 66 صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا.(روزنامه الفضل 18 /اگست 1994ء) آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی آپ بے کسوں، غریبوں، ضرورت مندوں اور یتیموں سے بہت ہمدردی رکھتے تھے.ایک مرتبہ احمدنگر کی بیوہ خاتون جو ہر لحاظ سے بیکس اور مفلس تھی آپ کے پاس آئی.جب آپ کو اس خاتون کی حالت زار کا علم ہوا تو اس کی رہائش سمیت جملہ ضروریات فوری طور پر پوری کرا دیں اور بعد میں بیوت الحمد میں کوارٹر کا انتظام بھی کرا دیا.رفقاء کار سے شفقت آپ اپنے رفقاء کار اور ماتحتوں سے غیر معمولی شفقت اور ہمدردی کا نہ صرف زبانی اظہار فرماتے بلکہ عملاً ہمدردی اور تعاون کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے.اس سلسلہ میں بیشمار واقعات قابل ذکر ہیں.لیکن خوف طوالت کے پیش نظر صرف چند واقعات پر اکتفا کرتا ہوں.مکرم ماسٹر محمد حسین صاحب صدر محله ناصر آباد شرقی نے بتایا کہ ایک دفعہ ان کے بھتیجے کو باؤلے کتے نے کاٹ لیا.ماسٹر صاحب بچے کو ساتھ لے کر پریشانی کے عالم میں محترم حکیم صاحب کے پاس گئے اور مذکورہ تکلیف دہ صورتحال کا ذکر کیا تو انہوں نے فوراً اپنے ڈرائیور مکرم فرزند صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے) کو حکم دیا کہ اس بچے کو میری ذاتی کار میں فوراً ٹیکے لگوانے کیلئے چنیوٹ لے جائیں

Page 84

“ 137 اور ساتھ ہی کچھ پیسے بھی دیئے اور فرمایا خواہ فیصل آباد یالا ہور جانا پڑے جائیں اور ماسٹر صاحب کا کسی قسم کا خرچ نہیں کروانا.اور واپسی پر مجھے اطلاع دیں.چنانچہ چنیوٹ سے ہی ٹیکوں کی سہولت میسر آ گئی واپسی پر رپورٹ عرض کی تو اطمینان بھرے لہجے میں فرمایا.الحمد للہ خاکسار نے اپنی آنکھوں میں لینز Lens ڈلوایا لیکن بینائی پر درست اثر نہ پڑا.مختلف ڈاکٹروں سے بھی چیک کرایا لیکن امید کی کرن دکھائی نہ دی.محترم حکیم صاحب اس دوران مسلسل دریافت فرماتے رہے.ایک روز آپ اپنے گھر دارالصدر سے خاکسار کے گھر تشریف لائے اور آنکھ کی صورتحال پر ڈسکس (discuss) کرنے کے بعد فرمایا کل صبح آپ تیار ہو جائیں میں آپ کی آنکھ کا معائنہ لا ہور کی ایک معروف لیڈی ڈاکٹر سے کروانا چاہتا ہوں.خاکسار نے محترم حکیم صاحب کی غیر معمولی مصروفیت کے پیش نظر قدرے پس و پیش کا اظہار کیا.ویسے بھی محترم صدر صاحب عمومی کو تکلیف دینے اور ان کا قیمتی وقت لینے میں شرح صدر بھی نہ تھی لیکن انہوں نے خاکسار کی بات نہ مانی اور اگلی صبح وقت مقررہ پر اپنی کار میں مجھے لاہور لے گئے اور چیک کروایا.باوجود خواہش اور کوشش کے خاکسار کو کسی قسم کا خرچ نہ کرنے دیا.دوسرا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ سردیوں کے موسم میں جبکہ دھند کا راج تھا.راقم الحروف کو جماعتی کام کے سلسلہ میں چنیوٹ جا نا پڑا واپس آ کر جب صدر صاحب عمومی کو کام کے بارہ میں رپورٹ دی تو انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ آپ کو لقوہ ہو گیا ہے بعد میں ڈاکٹروں نے بھی اس کی تصدیق کی تو فرمانے لگے یہ ٹیکے لیں جو اسی مقصد کیلئے میں نے انڈیا سے منگوائے تھے.فوراً لگوائیں.وہ میں نے فوراً لگوائے اس سے مرض جاتا رہا.آپ کی یہ محبت و شفقت مجھے تازیست یادر ہے گی.انشاء اللہ “ 138 موسم سرما کی ایک خوبصورت شام کے وقت ہم چند ممبران مجلس عاملہ دفتر صدر عمومی میں مصروف کار تھے کہ اچانک محترم حکیم صاحب اپنے کندھے پر نئی سلی ہوئی اچکن ڈالے ہوئے تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ اچکن ابھی میں درزی کی دکان سے سلوا کر لایا ہوں جو مجھے ذرا تنگ ہے.مکرم ماسٹر مجید صاحب سابق صدر دارالعلوم شرقی کو فرمایا کہ آپ یہ اچکن پہن کر دکھا ئیں.اس پر محترم ماسٹر صاحب نے اچکن پہنی تو محترم حکیم صاحب نے فرمایا ما شاء اللہ یہ تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ناپ پر ہی سلی ہوئی ہے.آپ کو تو بہت ہی اچھی لگ رہی ہے.یہ میری طرف سے آپ کیلئے تحفہ ہے.خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو ہو گئیں سرکاری انتظامیہ کے افراد سے شفقت کا تعلق اکثر پولیس آفیسر اور جوان آپ کو اپنے بزرگوں کا رتبہ دیتے تھے.کبھی کبھار اگر آپ تھا نہ چلے جاتے تو ملازمین اور افسران بھاگم بھاگ آپ سے آ کر ملتے.اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ پولیس کو کوئی غلط کام نہیں کہتے تھے.اگر کسی احمدی نے کوئی غلط کام کیا ہوتا تو آپ قولِ سدید سے کام لیتے ہوئے اس کی غلطی کا اعتراف کرتے اور کبھی غلط سفارش نہ کرتے.صدر صاحب عمومی کی صاف گوئی پر پولیس از خود ایسے معاملات منصفانہ انداز میں نپٹا دیتی.یہ خوشگوار تعلقات دونوں اطراف سے جاری ساری رہتے.آپ بھی پولیس کی جائز ضروریات کا خیال فرماتے.ایک دفعہ مقامی S.H.O صاحب صدر صاحب عمومی کے مطب میں تشریف لائے.عمر کے لحاظ سے قدرے بڑے بھی تھے اور مکرم صدر صاحب عمومی کے گرویدہ بھی.جماعت کے ساتھ اپنے حسنِ اخلاق کے باعث تقریباً تین ، چار دفعہ ربوہ تھانہ

Page 85

“ 139 میں کبھی بطور S.H.O اور کبھی بطور انچارج سپیشل برانچ تعینات رہے.حکیم صاحب نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ چوہدری صاحب آپ کی وردی بہت بوسیدہ ہو چکی ہے.مطب کے ایک ملازم کو کہا کہ فلاں کپڑے کی دوکان کے مالک کو اور ان کی دکان کے درزی کو فوراً لے کر آؤ.دوسرے ملازم کو کہا چائے بنوا لا ؤ.جب دونوں مالک اور درزی تشریف لائے تو صدر صاحب عمومی نے کہا کہ S.H.O صاحب کی وردی کا ماپ لیں.بہترین کپڑے کی دو وردیاں تیار کر کے فوری چوہدری صاحب کو تھانہ پہنچا ئیں.S.H.O صاحب کے کپڑوں کی سلائی کی قیمت مجھ سے آ کرلیں جلد ہی S.H.O صاحب کا ربوہ سے تبادلہ ہو گیا.چند ماہ کے بعد ان کی ربوہ میں دوبارہ تعیناتی ہو گئی.خاکسار کا مکان تھانہ کے بالکل قریب ہے.دروازہ پر دستک ہوئی تو دیکھا کہ ایس ایچ او صاحب ہاتھ میں ایک درخواست لئے کھڑے ہیں.بیٹھک کھول کر ان کو بٹھایا.کہنے لگے فیصل آباد کے ایک مولوی نے کمشنر صاحب کو یہ درخواست دی ہے کہ ربوہ میں قادیانی نوجوان قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں.اس کا کمشنر صاحب کو مشورے سے جواب لکھنا ہے.چنانچہ میں نے S.H.O صاحب اور کمشنر صاحب کے مناصب میں غیر معمولی فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے محتاط تحر یکھنی شروع کی.مجھے فرمایا کھرا کھرا جواب دینا ہے محتاط جواب نہیں دینا.آپ نے کمشنر صاحب کو درج ذیل چند الفاظ میں جواب بھیجوا دیا.66 تھانہ ربوہ قادیانی بچوں نوجوانوں کی کھیل کود پر رکاوٹ نہیں ڈال سکتا.“ تھانہ میں ہر مزاج اور ہر قسم کے پولیس افسر آتے رہے.تقریباً سبھی محترم صدر صاحب عمومی کے ساتھ تعاون کرتے.پولیس کے چھوٹے بڑے افسر آپ کا احترام کرتے.اور اگر حکیم صاحب کبھی تھا نہ جاتے تو سبھی پولیس ملازمین خور دو کلاں بڑھ چڑھ کر آپ کا استقبال کرتے.“ جماعت اور خلافت سے قلبی لگاؤ 140 آپ کو خلافت سے بہت لگاؤ اور محبت تھی.ہر تحریک اور ارشاد پر پہلی فرصت میں لبیک کہتے.1984ء کے پر آشوب دور میں جب حضرت خلیفہ المسیح الرابع کو لندن ہجرت کرنا پڑی.ایک وقت تو ایسا آیا کہ یوں لگتا تھا کہ خلیفہ وقت سے رابطہ بالکل کٹ گیا ہو لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور حضرت خلیفتہ اسیح الرابع کے خطبات جمعہ کی آڈیو کیسٹس لندن سے آنا شروع ہوگئیں اور جماعت میں جیسے جان سی پڑ گئی.محترم حکیم صاحب نے اس دور میں حضور کے خطبات جمعہ کو ہر احمدی کو سنانے کا بیڑا اٹھایا اور اس میں حتی المقدور کا میاب بھی ہوئے.آپ نے حضور کے خطبات جمعہ کی آڈیو کیسٹس کی تقسیم نہ صرف محلہ جات میں بلکہ گھروں تک پہنچانے کا بھی انتظام فرمایا.اس سلسلہ میں آپ نے جب حضور کور پورٹ بھجوائی تو حضرت خلیفہ اسیح الرابع نے 26 ستمبر 1993ء کو اپنے ایک خط میں فرمایا.” مواصلاتی رابطوں سے استفادہ کے متعلق رپورٹس موصول ہوئیں.(جزاکم الله احسن الجزاء في الدنيا والآخرة ) ماشاء اللہ ساری رپورٹس بڑی خوش کن ہیں.الحمد للہ ثم الحمد للہ خلافت اور مجددیت سے متعلقہ میرے خطبات پر آپ کی طرف سے اور اہل ربوہ کی طرف سے کامل وفاداری پر بے حد شکریہ.(جزاکم اللہ احسن الجزاء) مجھے یقین ہے کہ جماعت ربوہ بے فاؤں میں نہیں بلکہ وفاداروں میں ہے.اللہ جماعت کو ہر فتنے سے کلیتا محفوظ و مامون رکھے.آمین اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا.“ جب آپ کا تقر ر بطور صدر عمومی ربوہ ہوا تو شہر کے حالات بہت خراب تھے.اس کے بارہ میں اگر یہ کہا جائے کہ اندھیر نگری اور چوپٹ راج تھا تو بے جانہ ہوگا بلکہ سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس اندھیرنگری کا صحیح نقشہ الفاظ میں نہیں کھینچا جا سکتا.اگر صبح

Page 86

141 گھر سے کوئی مزدور بچوں کی روٹی کمانے نکلا تو راستے میں اٹھالیا گیا ایسے ہی جو طالب علم سکول کالج جا رہے ہوتے ان کو بھی دبوچ لیا جاتا.یہی حال دکانداروں کا تھا اگر چوکی میں محبوس بھائیوں کیلئے کوئی چائے وغیرہ لے کر گیا تو اس کو بھی حراست میں لے لیا جاتا.جس طرح مکرم خواجہ مجید احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) جن کا گولبازار میں ہوٹل تھا 25-30 افراد کیلئے چائے وغیرہ لے کر پولیس اسٹیشن گئے چونکہ آپ کا اکثر پولیس میں آنا جانا رہتا تھا خواجہ صاحب ویسے بھی سوشل مزاج کے آدمی تھے.پولیس کے عملہ نے چائے تو فوراً آگے بڑھ کر لے لی اور خواجہ صاحب کو بازو سے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیا.اس طرح حالات بگڑتے گئے حتی کہ مورخہ 11 جون 1974 ء کو صدر عمومی مکرم و محترم چوہدری بشیر احمد خان صاحب اور مکرم عبدالعزیز صاحب بھامبڑی کو بھی گرفتار کر لیا گیا.ان کی گرفتاری کے معاً بعد مکرم مولوی محمد صدیق صاحب کو عارضی چارج ملا.چند دنوں کے بعد لائبریری میں صدران صاحب کا اجلاس ہوا جس میں صدران نے مکرم ملک حبیب الرحمن صاحب ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو صدر عمومی منتخب کیا موصوف انتہائی مخلص تجربہ کار بزرگ تھے.دن بدن لاقانونیت بڑھتی گئی.چونکہ محترم ملک حبیب الرحمن صاحب عمر رسیدہ بھی تھے.ان نامساعد حالات میں جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے محترم حکیم صاحب کولوکل انجمن احمدیہ کا صدر عمومی نامزد فرمایا تو کئی احباب حیران اور ششدررہ گئے.آپ کی اعصابی کمزوری کا یہ حال تھا کہ گولبازار میں اپنی چھوٹی سی حکمت کی دکان سے بیت مہدی آتے تو سر پر تولیہ رکھ کر تشریف لاتے کہ کہیں سخت موسم ان کے اعصاب پر اثر انداز نہ ہو جائے اور دوسری طرف آپ غیر معمولی عالم دین بھی تھے جن کی ساری زندگی حصول علم میں ہی گزری.لیکن بطور صدر عمومی ربوہ کے حالات سے نمٹنا اور انتظامیہ کے ساتھ حکمت سے معاملات طے کرنے جیسے کام آپ کی “ 142 شخصیت سے بظاہر متضاد لگتے تھے.آپ نے کبھی تھانہ دیکھا تھانہ ایسے معاملات سے آپ کو کبھی واسطہ پڑا تھا.لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا خدا کے خاص فضل اور امام وقت کی دعاؤں کے طفیل محترم حکیم صاحب کا ہر لمحہ اور ہر دن کا میابیوں اور کامرانیوں کی طرف بڑھتا ہی چلا گیا.وہ پولیس جس سے آپ کا کبھی بھی پالا نہیں پڑا تھا.اسی پولیس کو ہمہ وقت آپ کے مطب میں آتے جاتے دیکھا جانے لگا.نچلے طبقے سے لے کر اعلیٰ افسران تک محترم حکیم صاحب کی غیر معمولی فراست ، منصف مزاجی اور اعلیٰ شخصیت کے معترف ہوتے گئے.معاندین کی سازشیں آندھیوں کی طرح خس و خاشاک بن کر اڑ گئیں.واقعی حضرت خلیفہ اسیح الثالث " کا آپ کو صدر عمومی نامز دفرمانے کا فیصلہ وقت کی اہم ضرورت اور انتہائی مناسب تھا.ے خلافت ایک امامت ہے حصار عافیت ہے جو اس کے پانے والے ہیں وہ ہو جاتے ہیں لاثانی جو صالح اور مومن ہوں یہ دولت ان کو ملتی ہے لباس تقوی تن پر ہو تو ملتی ہے یہ سلطانی صدر عمومی کے عہدہ ملنے سے پہلے آپ حلقہ گولبازار کے صدر بھی تھے.آغاز میں بیت مہدی سیدھے سادے ایک لمبے کمرے پر مشتمل تھی جبکہ آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہو چکا تھا.آپ نے مسائل کے باوجود اس کی تعمیر و توسیع کی طرف خاص توجہ دی.گولبازار کی اہمیت اور اس کی مناسبت سے اس کی از سرنو تعمیر کا منصوبہ بنایا.جب جملہ وسائل مہیا ہو گئے تو آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کی خدمت میں بیت مہدی کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست پیش کی.مورخہ 18 فروری 1973ء کو بیت مہدی کی پختہ عمارت کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی.

Page 87

143 سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثالث نے آپ کی درخواست پر بعد نماز عصر خود بنیادرکھنے کا وعدہ فرمایا.مگر علالت طبع کے باعث حضور تشریف نہ لا سکے.حضور کے ارشاد پر حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب نے سنگ بنیاد رکھا اور دعا کروائی.اس تقریب کی رپورٹ اور فوٹو الفرقان ربوہ مارچ 1973 میں شائع ہوئی تھی.خلیفہ وقت کی شفقت ایک مرتبہ سیدنا حضرت خلیفہ المسح الرائع نے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی عدم موجودگی میں محترم حکیم صاحب کو امیر مقامی نامزدفرمایا.خاکسار حکیم صاحب کے ساتھ کسی معاملہ میں مشورہ کے لئے بیٹھا تھا کہ اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور جماعت کی دو معزز شخصیات محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کمرے میں تشریف لائے.محترم حکیم صاحب نے فوراً کہا آپ نے مجھے آنے کا حکم کیوں نہ دیا.انہوں نے فرمایا حضور نے آپ کو امیر مقامی نامزد فرمایا ہے اور آپ کے منصب کا تقاضا ہے کہ ہم نے جو مشورہ اور بات کرنی ہے آپ کے پاس آ کر کریں.حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب سے محبت و عقیدت محترم حکیم صاحب انتہائی بہادر اور جرات مند انسان تھے اور بہت فہم وفراست سے معاملات کو حل کیا کرتے تھے.باوجود نامساعد حالات کے خاکسار نے ان کو کبھی پریشان ہوتے نہیں دیکھا.بلکہ آپ کا معاملہ تو اس مصرعہ کے مصداق تھا کہ بع مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں سوائے ایک موقع پر جبکہ آپ کی غیر معمولی پریشانی دیدنی تھی اور یہ پریشانی صرف اس لئے تھی کہ اس میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و “ 144 امیر مقامی کی تکلیف اور صعوبت کا خیال تھا جو آپ کو پریشان کئے دے رہا تھا.ہوا یوں کہ ایک دفعہ ربوہ کے مجسٹریٹ نے آپ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے یہ خوشخبری سنائی اور فون پر بتایا کہ حکیم صاحب! میں نے کوشش کر کے آپ کا نام پولیس میں پرچہ درج ہونے سے قبل ہی کٹوا دیا ہے.محترم حکیم صاحب نے استفسار فرمایا کیسا پر چہ اور کن کن کے خلاف درج ہوا ہے جواباً مجسٹریٹ نے بتایا کہ مرزا منصور احمد اور فلاں فلاں کے خلاف یہ مقدمہ درج ہوا ہے.آپ نے یہ سنتے ہی مجسٹریٹ کا شکر یہ ادا کرنے کی بجائے انتہائی پریشان کن لہجہ میں شکوہ کیا کہ آپ کی یہ بات سن کر مجھے تکلیف ہوئی ہے اگر آپ نے میرا نام اس مقدمہ سے نکلوانا ہی تھا تو پھر میری جگہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کا نام نکلواتے.اس صورتحال پر آپ بہت پریشان تھے اور بار بار یہ ذکر فرما رہے تھے کہ میرا نام مقدمہ سے خارج ہونے کی وجہ سے میں ایک بہت بڑے اعزاز سے محروم ہو گیا ہوں بلکہ گروہ منافقان میں شامل ہونے کے مترادف بنا دیا ہے.اور پھر جب تک حضرت میاں صاحب کا مقدمہ ختم نہیں ہوا آپ مسلسل بے کل و بے قرار رہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ نمبر 80 مورخہ 6 مئی 1987ء بجرم 298c تھا نہ ربوہ میں درج ہوا.جس میں حضرت میاں صاحب کے علاوہ دیگر 12 احباب جماعت شامل تھے اور ان خوش نصیبوں میں خاکسار کا نام بھی تھا.پیار و محبت اور احساس کی ڈور میں بندھی اس تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیے.جب محترم حکیم صاحب کی وفات کی اطلاع حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی تک پہنچی تو انہوں نے خاکسار کو اپنے پاس حاضر ہونے کو کہا.جب میں ان کے پاس پہنچا تو مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے حکیم صاحب کی وفات کا مجھے دلی صدمہ ہوا ہے اور میرے دل پر اس نا گہانی خبر کا بہت اثر ہے اور آپ

Page 88

145 “ 146 نے خاکسار کو بعض ہدایات دیں کہ محترم حکیم صاحب کا جسد خا کی اسلام آباد سے ربوہ پہنچنے سے قبل ہی ان کی رہائش گاہ پر شامیانے اور کرسیاں وغیرہ لگوادیں تا کہ تعزیت کیلئے آنے والوں کو کسی قسم کی دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے.پھر فرمایا ان کے اہل خانہ تک میرے دلی جذبات ہمدردی پہنچا دیں.تیسری اور آخری ہدایت آپ نے خاکسار کو یہ دی کہ اس عبوری وقت میں دفتر صدر عمومی کی کارکردگی متاثر نہ ہونے پائے تا کہ اہل ربوہ کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.نیز دفتری معاملات اور حالات پر بھی نظر رکھیں.علاوہ ازیں صدران محلہ کے ذریعہ ہر گھر تک وفات اور تدفین کی اطلاع پہنچا دیں اور میرے ساتھ بھی رابطہ رکھیں یہ تھا اس وقت کے محترم ناظر اعلیٰ وا میر مقامی کا اظہار محبت ، ہمدردی اور لگاؤ، جو ان کے دل میں محترم حکیم صاحب کی خدمات دینیہ اور دیرینہ خادم کیلئے تھا.مرد میدان آپ انتہائی جرات مند نڈر اور بے خوف وخطر شخصیت کے مالک تھے.اس پہلو سے بیشمار واقعات ہیں لیکن یہاں صرف ایک واقعہ پیش ہے.ہمارے ایک محلہ کے صدر ماسٹر محمد حسین صاحب جو انتہائی متحرک اور فعال تھے اور ہیں.ایک روز عالم پریشانی میں بھاگم بھاگ آئے محترم حکیم صاحب اپنے مطب کے سامنے کھڑے تھے.آتے ہی موصوف نے کہا کہ فلاں جاگیردار ہمارے محلہ کی ایک شارع عام پر ناجائز دیوار جس کی چوڑائی 20 فٹ اور لمبائی تقریباً 150 فٹ تھی تعمیر کروارہا ہے.گلی کے ایک کو نہ میں کمرہ کھڑا کر لیا ہے اور چھت ڈلوا کر دو سطح پہرے دار کھڑے کر دیئے ہیں.جس سے گلی کے مکینوں کا راستہ بند ہو جائے گا.صدر صاحب محلہ کی بات سنتے ہی آپ نے اپنے کیشیئر سے کہا کہ میں صبح سے تمہیں چوڑیوں کا ڈبہ کہ رہا ہوں آپ لاتے نہیں“ کیشیئر بیچارہ تو اس بات کو نہ سمجھ سکا.صدر صاحب فوراً بولے اب چوڑیوں کی ضرورت نہیں رہے گی.حکیم صاحب نے فرمایا صدر صاحب میرے دست و باز و تو آپ ہیں.آپ نے خشت اول کے وقت ہی اپنا بنیادی حق دفاع کیوں استعمال نہیں کیا.آپ لوگ چاہتے ہیں کہ حکیم صاحب سے ہر معاملہ کی اجازت لینا ضروری ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اگر اچھا کام ہو گیا تو کہا ہم نے کیا ہے اگر کوئی گڑ بڑ ہوئی تو کہا مولوی صاحب نے حکم دیا تھا.خاکسار کو جو ساتھ ہی کھڑا تھا مخاطب کرتے ہوئے فرمایا آؤ موقع پر چلیں ، جائے وقوعہ پر پہنچتے ہی آپ نے راج مزدوروں کوللکارا کہ خبردار اگر ایک اینٹ بھی مزید رکھی محترم حکیم صاحب کی شخصیت کا بفضلہ تعالیٰ ہر خاص و عام احمدی اور غیر از جماعت افراد پر بھی نیک اثر تھا.چنانچہ مولوی صاحب کے ان فقرات کے بعد راج مزدوروں نے اپنے اپنے کام سے ہاتھ روک لیا.اس پر محترم حکیم صاحب نے انہیں حکم دیا کہ یہ ناجائز تعمیر از خود فی الفور گرا دیں.اس پر مستری اور مزدوروں نے دست بستہ عرض کیا کہ ہم شاہ صاحب کی رعایا ہیں ہم سے دیوار نہ گروا ئیں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مزید ایک اینٹ بھی نہیں لگائیں گے.آپ مہربانی فرما کر تعمیر کرنے والوں سے معاملہ طے کر لیں.اس دوران محترم صدر صاحب محلہ بھی ہمارے پیچھے وہاں پہنچ گئے.آپ نے صدر محلّہ سے فرمایا کہ یہاں نہ صرف تعمیر نہیں ہونے دینی بلکہ حسب سابق اور نقشہ کے عین مطابق راستہ بحال رہنا چاہئے.حکیم صاحب نے فرمایا کہ سارا ملبہ اٹھا لیں ماسٹر صاحب کہتے ہیں کہ اہل محلہ نے عشاء کی نماز کے بعد سب کچھ اٹھا لیا.آج تک ہم سے ملبے کے سامان کے بارے میں نہیں پوچھا گیا.اس طرح محترم حکیم صاحب کی جرات اور دلیری کے نتیجہ میں نہ صرف ناجائز قبضہ کے آثار ختم ہوئے بلکہ آج تک وہ راستہ جاری و ساری ہے.واپس آنے سے قبل محترم حکیم صاحب نے یہ ہدایت بھی فرمائی

Page 89

147 کہ اگر اس سلسلہ میں کوئی باز پرس یا بات کرے تو میرا حوالہ دیں.میں انہیں جواب دوں گا.فریق ثانی نے محترم حکیم صاحب کا براہ راست سامنا کرنے کی بجائے مسلسل کئی ماہ تک آپ کے خلاف پولیس کارروائی کی ہر ممکن کوشش کی.لیکن آپ کے اصولی اور مبنی بر حقیقت مؤقف کے باعث ان کی کوئی کوشش بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئی.الحمد لله على ذالک حضرت حکیم صاحب کے دور صدارت میں شاید ہی کوئی ناجائز قبضہ کرنے میں کامیاب ہوا ہو.خدمات سلسلہ اس سے قبل بھی ذکر آ چکا ہے کہ محترم حکیم صاحب کا تقرر بطور صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ ربوہ میں جون 1974ء میں ہوا.آپ اس اہم عہدہ پر 20 سال تک فائز رہے اور یہ عرصہ جماعتی ابتلاؤں کے لحاظ سے غیر معمولی تھا.جس میں قدم قدم پر نت نئے مسائل سامنے آتے رہے.آپ نے ان کا مردانہ وار اور حکمت کے ساتھ جرات و بہادری سے مقابلہ کیا اور ہر میدان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہے.دو خلفاء سلسلہ کا اعتماد اور محبت و اطاعت کا رشتہ قائم رہا.اس کے ساتھ ساتھ آپ مجلس افتاء مجلس کار پرداز ، قضاء کے رکن اور قاضی بھی رہے.آپ کی خدمات کے چند واقعات ہدیہ قارئین ہیں.جب آپ نے اس عہدہ پر خدمات کا سلسلہ شروع کیا تو لوکل انجمن احمد یہ کا کوئی باقاعدہ دفتر نہ تھا نہ صرف دفتر بلکہ بقول مکرم مولوی محمد صدیق صاحب (سابق صدر عمومی و سابق لائبریرین ) کوئی کلرک تک بھی نہ تھا.یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ لوکل انجمن احمدیہ کا صحیح معنوں میں تعارف اور افادیت عام آپ ہی “ 148 کے عہد میں روز بروز اجا گر اور واضح ہوتی چلی گئی تو غلط نہ ہوگا.جس کا بنیادی مقصد یہ بھی تھا کہ مرکز سلسلہ کے مرکزی دفاتر کا قیمتی وقت بچایا جائے تا کہ پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی تمام جماعتوں کی خدمت اور تعلیم و تربیت پر کماحقہ مذکورہ دفاتر اپنی توجہ مرکوز رکھ سکیں.ان حالات میں محترم حکیم صاحب نے صحیح معنوں میں حضور اور مرکز سلسلہ کی راہنمائی میں اہل ربوہ کی خدمت اور ان کے مسائل حل کرنے میں موثر اور مخلصانه تاریخی کردار ادا کیا.جو ہمیشہ یادرکھا جائے گا.حضور کے ارشادات ہدایات احکامات اور تحریکات کو ہمہ وقت سرفہرست رکھتے.زیادہ تر بذات خود ہی اہل ربوہ کی خدمت پر کمر بستہ رہتے تھے.اگر چہ ابتدائی دور میں روزمرہ کے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل کیلئے دو مصالحتی بورڈ قائم تھے نیز بیسیوں مخلصین بھی لوکل انجمن احمدیہ میں خدمت سلسلہ کا اعزاز پارہے تھے.اس زمانے میں حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے آپ کو فرمایا کہ آپ قواعد کے مطابق با قاعدہ اپنی مجلس عاملہ کی منظوری نظارت علیاء سے حاصل کریں.اس کی تعمیل میں محترم حکیم صاحب نے مجلس عاملہ بنائی اور اس کی منظوری کی درخواست حضرت ناظر صاحب اعلیٰ کی خدمت میں پیش کی.اس مجلس عاملہ کی تین سال کیلئے منظوری زیر نمبر 2337 مورخہ 24 /اکتوبر 1992ء کو دی گئی.یہ سہ سالہ منظوری 30 جون 1995ء تک دی گئی تھی.اس طرح محترم حکیم صاحب کے دور کی یہ پہلی اور آخری مجلس عاملہ تھی جسے آپ کے ساتھ خدمت سلسلہ کی سعادت نصیب ہوئی.مجلس عاملہ کی تفصیل درج ذیل ہے.1 - مکرم ریاض محمود صاحب مربی سلسلہ سیکرٹری اصلاح وارشاد و دعوت الی اللہ 2 مکرم ماسٹر اختر جاوید صاحب تقسیم کیسٹس وغیرہ مکرم صو بیدار صلاح الدین صاحب // // //

Page 90

“ 149 “ 150 4 کرم پروفیسرمحمد اسلم صابر صاحب سیکرٹری تعلیم 5 مکرم ماسٹر عبدالرب صاحب سیکرٹری مال 6.خاکسار ناصر احمد ظفر سیکرٹری امور عامه 7 مکرم بشیر احمد سیفی صاحب آڈیٹر سیکرٹریان تحریک جدید اور وقف جدید کے بارے میں لکھا کہ متعلقہ ادارہ جات سے ہر دو کی منظوری حاصل کریں.ان کے علاوہ دیگر دوستوں کی منظوری آپ خود دے سکتے ہیں.محترم حکیم صاحب نے بیت مہدی کے پہلو میں پہلے مرحلہ کے طور پر ایک با قاعدہ خوبصورت اور جدید طر ز خمیر کا حامل دفتر صدر عمومی تعمیر کروانے کی توفیق پائی.جس کا باضابطہ افتتاح 1983ء میں حضرت خلیفہ امسیح الرائع نے اپنے دست مبارک سے فرمایا.محترم حکیم خورشید احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جب مجھے بطور صدر عمومی خدمات کے فرائض سونپے گئے تو اس وقت میرے دفتر میں چند لکڑی کی کرسیاں ایک میز اور چند رجسٹر تھے.اگر دفتر لوکل انجمن احمدیہ کی عمارت ، اس کے شعبہ جات اور عملہ کی تعداد کا اس کے ماضی قریب سے موازنہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کا نظارہ سامنے آجاتا ہے.بے پناہ وسعت بے پناہ ترقی (الحمد للہ علی ذالک) مکرم مولوی محمد صدیق صاحب جنہیں لمبا عرصہ بطور صدر عمومی خدمت کرنے کی توفیق ملی ، آغاز میں آپ کے پاس صرف ایک مددگار کار کن تھا وہ بھی جز وقتی.بعد میں ایک کلرک ملا.جبکہ حکیم خورشید احمد صاحب کے سال 1994ء میں دو کلرک تھے تین مددگار کا رکن تھے اور محلہ جات کی تعداد 35 تھی.موجودہ دور میں محلہ جات کی تعداد 70 ہو گئی ہے.جبکہ کارکنوں کی مجموعی تعداد تقریباً 60 ہے.اور مختلف شعبہ جات جن میں دفتر جنرل سیکرٹری ، شعبہ عمومی ، ہے.شعبہ خدمت خلق ، شعبہ امور عامہ ، شعبہ ڈاک کیلئے الگ الگ دفاتر کا انتظام جبکہ صدر صاحب عمومی کی مجلس عاملہ میں تقریباً 25 ارکان ہیں.اَللَّهُمَّ زِدُ فَزِدُ اب نہ صرف لوکل انجمن احمدیہ میں بلکہ مرکز سلسلہ ربوہ کے تمام دفاتر میں وس مکانک کا روح پرور نظارہ نظر آتا ہے.ڈش انٹیا کے ذریعہ خدمت ایم ٹی اے انٹر میٹنل کی نشریات کا آغاز نہیں ہوا تھا تو خطبہ جمعہ کی آڈیو کیسٹس ہر محلہ میں باقاعدگی سے بھجواتے اور سنے کا انتظام کرواتے اور پھر جب ڈش انٹینا کا دور شروع ہوا تو ربوہ میں زیادہ سے زیادہ ڈش انٹینا کی تنصیب کو یقینی بنانے کیلئے آپ پر ایک دھن سوار تھی.اس سلسلہ میں آپ نے مختلف مارکیٹوں میں اور صاحب فن افراد سے مشاورت کی اور رابطے جاری رکھے تاکہ کم سے کم قیمت میں زیادہ سے زیادہ ڈش انٹینا کی سہولت اہل ربوہ کو مہیا کی جاسکے.آپ نے سرگودھا کے ایک ماہر سے رابطہ بھی کیا جنہوں نے بہت ارزاں قیمت پر ڈش تیار کر کے بھجوائے اور وہ خود بھی ربوہ آ کر تعاون فرماتے رہے.محترم حکیم صاحب ان کے اس تعاون پر بہت ہی متاثر تھے.ایک دفعہ وہی صاحب محترم حکیم صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی بیٹی کی رخصتی کے سلسلہ میں ایک لاکھ روپے قرض حسنہ کی فراہمی کی درخواست کی جسے محترم حکیم صاحب نے بلا تامل قبول کرتے ہوئے ادائیگی کر دی.جماعتی خدمت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت برکتوں سے نوازا.خدمات سے قبل آپ کی صحت اور کاروبار دونوں واجبی سے تھے.آپ جیسے جیسے جماعتی دینی خدمات اور انفاق فی سبیل اللہ میں بڑھتے

Page 91

“ 151 “ 152 گئے ایسے ہی خدا تعالیٰ نے انہیں اپنے فضلوں سے نوازا.حضرت مسیح موعود کا یہ شعرے ز بذل مال در راہش کے مفلس نے گردو خدا خود مے شود ناصر اگر ہمت شود پیدا صحیح معنوں میں آپ پر چسپاں نظر آتا ہے.ذالک فضل الله یوتیہ من یشاء بلال مارکیٹ بلد یہ ربوہ کی عمارت اور ریلوے پھاٹک اقصی روڈ کے مابین بلد یہ ربوہ کے بعض اہل کار خالی پلاٹ پر بلدیہ کے سہارے اپنا قبضہ اور تصرف قائم کرنے کا ابھی منصوبہ بنا ہی رہے تھے کہ محترم حکیم صاحب نے مرکز سلسلہ سے خصوصاً حضرت مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی کے مشورہ اور منظوری سے مذکورہ پلاٹ پر دکانیں وغیرہ تعمیر کرنے کے لئے نقشہ جات منظور کروائے اور ان کی تعمیر کے اخراجات اپنی مدد آپ کے تحت ان مخلصین جماعت سے حاصل کئے جنہیں بعد میں بغرض کاروبار کا نہیں الاٹ کرنا مقصود تھا.اس بروقت منصوبہ بندی اور کارروائی کے نتیجہ میں یہ غیر معمولی کروڑوں روپے کے پلاٹس قبضہ گروپ کے ہاتھوں میں جانے سے محفوظ رہے جس کے بعد مخلص احمدی کا روباری بھائیوں کو مذکورہ دکانیں الاٹ کی گئیں جس کے نتیجہ میں انہیں روزگار کی باعزت سہولتیں میسر آئیں.مکرم حکیم صاحب نے اپنی نگرانی میں 26 دکانیں تعمیر کروائیں جبکہ بقیہ خالی جگہ پر مزید دس دکانوں کی بنیادیں بھی بھروائیں.اس طرح اب تک کل 36 دکا نہیں بن چکی ہیں.مکرم صدر صاحب عمومی کی دور اندیشی کے نتیجہ میں یہ پلاٹ نہ صرف محفوظ ہوا.بلکہ اس کا بلا شرکت غیرے جماعتی تصرف میں آنا اقصیٰ روڈ کو آنے والی کئی قباحتوں سے محفوظ کر گیا.( الحمد للہ علی ذالک ) شادی ہال کی تعمیر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے مکرم صدر صاحب عمومی کو ہدایت فرمائی کہ بیت مہدی گولبازارر بوہ سے ملحقہ پلاٹ جو گولبازار میں دل کی حیثیت رکھتا ہے پر عمارت کی تعمیر کیلئے ہنگامی بنیادوں پر با قاعدہ بلد یہ ربوہ سے نقشہ منظور کروا کر اسے رفاہ عامہ کے مصرف میں لایا جائے.سو بفضل اللہ تعالیٰ 2 ستمبر 1992ء کو نقشہ منظور کروایا گیا.اس سلسلہ میں اس وقت کے بلدیہ کے چیئر مین مکرم سید محمد نواز شاہ صاحب کا غیر معمولی تعاون حاصل رہا.نقشہ کی منظوری کے بعد کچھ عرصہ بوجوہ مالی وسائل کی کمی کے باعث خاموشی رہی.بعد ازاں مکرم ناظر صاحب اعلیٰ کا ارشاد موصول ہوا کہ مذکورہ پلاٹ پر فوری چار دیواری تعمیر کروائی جائے.جس کی تعمیل میں 12, 13 نومبر 1992ء کو بنیادوں کی کھدائی وغیرہ کا کام شروع کروایا گیا.جب 14 نومبر کو کام شروع ہوا تو بعد دو پہر معاندین کے دباؤ کے تحت مقامی آرایم صاحب ربوہ نے فون کیا کہ آپ غیر قانونی تعمیر کروا رہے ہیں.اسے فور روک دیں.ساتھ ہی پولیس پارٹی بھی موقع پر بھجوادی.جس پر محترم حکیم صاحب نے اصولی اور زور دار موقف اختیار کیا کہ ہم منظور شدہ نقشہ کے مطابق تعمیر کر رہے ہیں.ساتھ ہی نقشہ کی کاپی بھی بھجوادی اور کام کو جاری رکھا.آرایم صاحب نقشہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معترضین نے مجھے غلط اطلاع دی ہے.بعد از ملاحظہ نقشہ آرایم صاحب نے اعتراف کیا کہ آپ کی تعمیر با ضابطہ اور قانونی ہے.لیکن معاندین نے حسب عادت حقیقت واضح ہو جانے کے باوجود انتظامیہ پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا کہ کسی نہ کسی طرح کل تک تعمیر رکوا دیں.تا کہ وہ حکم امتناعی حاصل کر سکیں.رات دس بجے تک تقریباً 1/3 کام مکمل ہو گیا.افسران بالا کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر

Page 92

“ 153 یہ حکمت عملی مرتب کی گئی کہ دو گھنٹے کیلئے کام بند کر دیا جائے.ساتھ ہی جملہ میٹیریل اکٹھا کر لیا جائے.ایک دو دفعہ پولیس آئی.محترم صدر صاحب عمومی کی موجودگی میں علیک سلیک کے بعد کسی قسم کی مداخلت کے بغیر چلی گئی.سیلاب کے باعث ربوہ اور گردونواح میں خشت بھٹہ اور سیمنٹ نایاب تھا.چنانچہ راتوں رات دو ٹرالیاں خشت سالار والا سے اور سیمنٹ چک 46 سے منگوایا گیا.ان حالات میں جن مخلص احمدیوں کے زیر تعمیر مکان کے پاس اینٹیں سیمنٹ تھا سبھی نے رابطہ کرنے پر پیش کر دیا.(جزاکم الله احسن الجزاء) اس مختصر سے وقفہ میں حسب ضرورت تعمیراتی سامان اور افرادی قوت جمع کر لی گئی.چنانچہ رات کے بارہ بجے کام دوبارہ شروع ہوا.کام شروع ہونے پر محترم صدر صاحب عمومی سے آرام کرنے کی درخواست کی گئی اور یقین دلایا گیا کہ انشاء اللہ نماز فجر تک تعمیر مکمل کر لی جائے گی.چنانچہ محترم حکیم صاحب گھر تشریف لے گئے لیکن ایک گھنٹہ بھی نہ گزرا تھا کہ محترم حکیم صاحب دوبارہ میدان عمل میں تشریف لے آئے.آتے ہی فرمایا ”آپ سب کام کر رہے ہیں.میرے لئے گھر جا کر سو رہنا ناممکن ہے چنانچہ مسلسل تعمیر شروع رہی.جس میں 98 مخلصین جماعت نے جوش و خروش سے حصہ لیا.اس ہنگامی اور اجتماعی و قار عمل کے نتیجہ میں نماز فجر سے قبل مطلوبہ 459 فٹ لمبی اور 6 فٹ اونچی دیوار کی تعمیر محترم صدر صاحب عمومی کی موجودگی میں تکمیل پذیر ہوئی.(الحمد للہ علی ذالک) اور یہ ہنگامی وقار عمل صبح 5 بجے دعا پر ختم ہوا.بعد از دعا نماز فجر سب نے بیت مہدی میں باجماعت ادا کی.یہ بات قابل ذکر ہے کہ رات جب کام شروع ہوا تو ویڈیو کیسٹ کا انتظام بھی کیا گیا تھا.جملہ مخلصین جماعت نے دست با کار دل بایار کے مصداق جس محنت جذ بہ اور بشاشت “ 154 کے ساتھ یہ خوشگوار فریضہ ادا کیا.کیمرہ کی آنکھ نے بھی اسے ہمیشہ کیلئے محفوظ کر لیا.کام کے دوران خاص و عام خصوصاً اعلیٰ تعلیم یافتہ خدام کا جذ بہ شوق قابلِ دید اور قابل رشک تھا.کام کی تعمیل کے بعد محترم صدر صاحب عمومی نے 19 نومبر 1992ء کو حضور کی خدمت میں جو تفصیلی رپورٹ ارسال فرمائی اس کے چند فقرات تحدیث نعمت کے طور پر پیش ہیں، آپ نے لکھا:.سیدی! ہماری کاوش اور منصوبہ بندی سے ہمارا یہ انتہائی قیمتی پلاٹ حکم امتناعی اور ہر قسم کی غیر قانونی پیچیدگی رکاوٹوں ، شرارتوں سے محفوظ ہو گیا.اس ہنگامی خدمت میں بشاشت بگن ، جوش و جذبہ سے کام کرنے والے جملہ مخلصین کیلئے خصوصی دعا کی درخواست ہے.ان میں ناصر احمد ظفر صاحب ، مکرم بشیر احمد سیفی صاحب ، مکرم ماسٹر عبدالمجید صاحب صدر محلہ مکرم ماسٹر جاوید اختر صاحب، مکرم خواجہ مجید احمد صاحب ( اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے) مکرم منظور احمد باجوہ صاحب مکرم مبشر احمد صاحب ڈھلوں اور جملہ کارکنان دفتر صدر عمومی خصوصی دعا کے مستحق ہیں.ایسے ہی گولبازار ،، ربوہ اور ر بوہ کے دوسرے خدام نے ساری رات نہایت جوش و جذبہ سے کام کیا.“ ( والسلام حضور کا ادنی غلام ) دستخط صدر عمومی 19 نومبر 1992ء شادی ہال کی چار دیواری کی تعمیر کے بعد آپ نے بہت بڑا ہال، گیلریاں، کمرے، باتھ رومز، اور لان وغیرہ تعمیر کروائے.اس طرح کروڑوں روپے کی مالیت کے ایک شاندار اور بر موقع جماعت کے پلاٹ کو محفوظ کرنے کی توفیق پائی.(الحمد لله علی ذالک)

Page 93

“ 155 جداگانہ طرز انتخاب اور احمدیوں کے ووٹوں کا بوگس اندراج جماعت احمد یہ بفضل اللہ تعالیٰ مذہبی جماعت ہے.دنیاوی لالچ عہدے اور ممبریاں وزارتوں وغیرہ کی مخلصین جماعت کی نگاہ میں پر کاہ کی بھی اہمیت نہیں اور بقول بانی سلسلہ عالیہ مُجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جُدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار جداگانہ طرز انتخاب کے تحت غیرت مند مخلص احمدی بھائیوں کے سامنے حضرت خاتم الانبیاء کے قدموں سے جدائی کے عوض بڑے سے بڑا سیاسی منصب پر کاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.نظام جماعت کو جب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ رجوعہ چنیوٹ شہر اور تحصیل کے مختلف دیہات میں کسی نے احمدی احباب کے نام غیر مسلموں کی فہرست میں درج کروائے ہیں اور جب اس امر کی باقاعدہ تحقیق کی گئی تو مذکورہ اطلاع درست ثابت ہوئی.ووٹوں کے اخراج کی ذمہ داری محترم صدر صاحب عمومی کو سونپی گئی کہ فوری جائزہ لیں کہ متعلقہ مقامات پر فی الواقع احمدی گھرانے رہائش پذیر ہیں اور یہ کہ ووٹوں کا اندراج انہوں نے از خود کروایا ہے یا کسی خفیہ ہاتھ کی کارستانی ہے.بصورت دیگر ایسے جعلی ووٹوں کو حرف غلط کی طرح انتخابی فہرست سے باضابطہ خارج کروایا جائے جو مجموعی طور پر جماعت کے اصولی اور بنیادی مؤقف کے صریحاً خلاف بلکہ متصادم ہے.محترم صدر صاحب عمومی نے ایسے ووٹوں کے اخراج کی ڈیوٹی خاکسار سیکرٹری امور عامہ کے ذمہ لگائی.محترم سیال صاحب آرایم ربوہ جو اسسٹنٹ رجسٹریشن آفیسر بھی تھے.ان کے ہمراہ تحصیل چنیوٹ کے سات آٹھ دیہات میں جا 156 کر تفصیلی جائزہ لینے اور وہاں کے معززین کی اس تصدیق پر کہ ہمارے دیہات میں کوئی احمدی نہ ہے، اس طرح بفضل اللہ تعالیٰ صدر صاحب عمومی کی بروقت توجہ اور نگرانی سے بوگس ووٹوں کے اخراج کا کام اختتام پذیر ہوا.مذکورہ کام کی بطریق احسن تکمیل کے بعد محترم صدر صاحب عمومی نے حضور کو ایک تفصیلی رپورٹ بغرض دعا لکھی.اس پر حضور نے حوصلہ افزا دعائیہ جواب سے نوازا.الحمد للہ علی ذالک جدا گانہ طرز انتخاب کے نتائج جداگانہ طرز انتخاب کے تحت پہلی مرتبہ وطن عزیز میں بلدیاتی انتخابات 1979-80ء میں ہوئے مذکورہ انتخاب میں قلت وقت کے باعث کما حقہ کا رروائی تو نہ ہو سکی لیکن محدود وقت میں جس مستعدی اور سبک رفتاری سے خدا تعالیٰ نے لوکل انجمن احمدیہ کو مثبت نتائج حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی اس کے نتیجہ میں چیئر مین اور وائس چیئر مین بلد یہ سمیت وہ تمام کونسلر حضرات بھی جو جماعت کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھتے تھے.بفضل اللہ تعالیٰ لوکل انجمن احمدیہ کی مناسب حکمت عملی کے باعث کامیاب ہوئے.یہاں پر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لوکل انجمن احمدیہ کی اس کامیاب حکمت عملی اور معتدل روابط کے باعث امیدواروں کے دونوں متحارب دھڑے انتخاب سے قبل اور بعد میں بھی اپنی اپنی کامیابی کا راز لوکل انجمن احمدیہ کی حمایت اور نظام سلسلہ کے ساتھ وابستگی میں ہی خیال کرتے تھے.دوسرا بلدیاتی انتخاب 1983ء 1983ء میں دوسرے جدا گانہ طرز انتخاب کا اعلان ہو چکا تھا ، سابقہ تجربات کے پیش نظر بلدیہ ربوہ کی حلقہ بندیوں اور فہرست ووٹران کی ابتدائی اشاعت سامنے

Page 94

157 آتے ہی معاندین سلسلہ کے منفی عزائم کی تفصیلات کی ایک رپورٹ خاکسار ( ناصر ظفر) نے 22 اگست 1983ء مکرم صدر صاحب عمومی کی وساطت سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی خدمت میں بھجوائی.مکرم صدر صاحب عمومی نے رپورٹ پڑھ کر یہ نوٹ لکھا.سیدی ! "محترم ناصر ظفر صاحب نے حالات کی رپورٹ لکھی ہے جو بالکل ٹھیک ہے خاکسار خود حضور کی خدمت میں لکھنا چاہتا تھا.اس رپورٹ پر حضور کی راہنمائی کی ضرورت ہے.حضور کا ادنی غلام صدر عمومی لوکل انجمن احمد یہ حضور کی بلد یہ ربوہ کے انتخاب سے دلچسپی اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور نے اس پر ایک انتہائی اعلیٰ سطح کی کمیٹی نامزد فرمائی.جس میں مکرم و محترم امیر صاحب مقامی محترم ناظر صاحب امور عامه، محترم صدر صاحب عمومی کے ساتھ خاکسار ناصر ظفر کو بھی اس کمیٹی میں شامل فرمایا.اس کے ساتھ ہی انتخابی حلقوں انتخابی فہرستوں میں دھاندلی ، قانونی بے ضابطگیوں کو متعلقہ عدالت میں چیلنج کرنے کی ہدایت فرمائی.عدالتی امور کی تکمیل ونگرانی کیلئے مکرم بریگیڈئیر (ر) وقیع الزمان صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے) کو نامزدفرمایا.چنانچہ محترم صدر صاحب عمومی اور خاکسار محترم بریگیڈئیر صاحب سے لاہور جا کر ملے.بریگیڈئیر صاحب کی مشاورت اور راہنمائی میں متنازعہ معاملات کو متعلقہ عدالت میں چیلنج کیا گیا.اگر چہ وقت کی کمی کے باعث عدالت سے کماحقہ نتائج تو برآمد نہ ہو سکے البتہ ہماری اس جماعتی کاوش کے نتیجہ میں معاندین جماعت کے منفی عزائم ناکام رہے.اس طرح حکیم خورشید احمد صاحب کے وقت میں ہونے والے تیسرے بلدیاتی انتخاب 1987ء میں ہوئے اور پھر چوتھے بلدیاتی انتخاب 1991ء میں ہوئے.1991ء میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلہ میں علیاء کمیٹی کے ایک اجلاس ے حضور اُس وقت مشرق بعید کے دورہ پر تھے.“ 158 میں تین افراد پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی جس میں (1) مکرم حکیم خورشید احمد صاحب (2) مکرم شاہد احمد سعدی صاحب (3) اور خاکسار ( ناصر احمد ظفر ) شامل تھے.اس کام کی تکمیل کیلئے چھ افراد پرمشتمل معاونین کی ایک کمیٹی بھی مقرر کی گئی.اس کی ہفتہ وادر پورٹ مکرم محترم ناظر صاحب اعلی صدر علیاء کمیٹی کو مورخہ 5 را کتوبر 1991ء کو محترم حکیم صاحب نے بھجوائی.ان چاروں انتخابات میں لوکل انجمن احمدیہ کی موثر اور مربوط حکمت عملی کے باعث لوکل انجمن احمدیہ کے حمایت یافتہ امیدوار کافی حد تک کامیاب ہوئے.حکیم صاحب اگر چه درویش صفت اور بنیادی طور پر ایک عالم دین تھے جن کا سیاست اور سیاسی داؤ پیچ سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا.لیکن آپ کی صاف گوئی دعا تو کل اور یقین کے ساتھ معتدل پالیسی کے باعث اللہ تعالیٰ ان کے فیصلوں میں برکت عطا فرماتا رہا.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.”میں تاں کرداں کولیاں رب کردائے سولیاں“ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آپ ہر معاملہ میں مرکز سلسلہ سے عملی مشاورت کو یقینی بناتے تھے.مورخہ 30 جنوری 1992ء کومحترم صدر صاحب عمومی نے بلدیاتی انتخابات 28 دسمبر 1991ء کی ایک تفصیلی رپورٹ حضور اقدس کو لکھی اس پر حضور نے حوصلہ افزاء دعائیہ جواب سے نوازا.(الحمد للہ علی ذالک) مقدمات بلندی پر کھڑے ہیں یہ اسیران رہ مولا اور قامت میں بڑے ہیں یہ اسیران رہ مولا معاندین کی طرف سے جماعت پر یا کسی فرد جماعت پر جب بھی مشکل آتی محترم حکیم صاحب مردانہ وار حکمت اور جرات سے اسے نا کام کر کے رکھ دیتے.جب

Page 95

“ 159 معاندین مخالفین نے دیکھا کہ حکیم صاحب ہمارے تمام حربے نا کام کئے جا رہے ہیں.ہم انہیں جتنا دبانے کی کوشش کرتے ہیں یہ اتنا ہی اُبھر کر سامنے آ جاتے ہیں.تب انہوں نے حکیم صاحب کے خلاف بے بنیاد اور بے سروپا مقدمات کا سلسلہ شروع کر دیا.تاہم پولیس پر آپ کا غیر معمولی نیک اثر تھا.جتنے بھی مقدمات آپ پر قائم کئے گئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو باعزت بری فرمایا.آپ کو اسیر راہ مولی ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا.مورخہ 16 اگست 1994ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے ایم ٹی اے کے پروگرام میں محترم حکیم صاحب کے انتقال پر جو تفصیلی ذکر خیر فرمایا.اس میں ان کے مقدمات کے بارے میں حضور نے یوں فرمایا.وو....مقدمات میں پڑ کر اور سنگین صورت حالات میں حضرت مولوی صاحب کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجاتی تھیں.محترم حکیم صاحب کے خلاف چند مقدمات کا ذکر پیش ہے.(1) مورخہ 6 اپریل 1982ء کو آپ اور جماعت کے دیگر معززین کے خلاف مقدمہ نمبر 43 بجرم A-295 چاک ہوا.جس میں جملہ معزز نامزد ملزمان 14اکتوبر 1989 ء کو ہائیکورٹ سے باعزت بری ہوئے.(2) مورخہ 26 جون 1984ء کو مقدمہ نمبر 84/ 122 بجرم 148/149,307/323,342 تھا نہ ربوہ چاک ہوا.جس میں مورخہ 27 جون 1984ء کو محترم حکیم صاحب کے علاوہ محترم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ مکرم خواجہ مجید احمد صاحب ، مکرم مبارک احمد سلیم صاحب اور مکرم وسیم احمد انور صاحب گرفتار ہوئے.مذکورہ مقدمہ میں مکرم عبد العزیز صاحب بھامبڑی بھی 10 اگست 1984 ء کو گرفتار ہوئے.مکرم وسیم احمد انور صاحب اور مکرم مبارک احمد سلیم صاحب کے خط کے “ 160 جواب میں مورخہ 10 راگست 1984ء کو حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے فرمایا.آپ دونوں کا خط ملا اور اسیران احمدیت کی یاد میرے زخموں کو تازہ کر گئی دن میں کئی کئی بار اور رات کو تو اور بھی زیادہ ذہن مکرم باجوہ صاحب، حکیم خورشید احمد صاحب، خواجہ مجید احمد صاحب اور آپ دونوں کی طرف منتقل ہوتارہتا ہے.اب تو سنا ہے کہ مولوی عبدالعزیز بھامبڑی صاحب بھی آپ سے آملے ہیں.آج لکھو مہا مظلوم دوسرے انسانوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں.بعض اذیتیں سہہ کر گمنامی کی حالت میں دم توڑ رہے ہیں.بعض کے مقدر میں عمر بھر کی ہولناک قید تنہائی لکھ دی جاتی ہے لیکن کون ہے دنیا میں جو ان کے درد سے پر اس طرح تڑپے اور بے قرار ہو جس طرح آج آپ کیلئے لکھو مہا بندگان خدا بے قرار ہیں اور تڑپ رہے ہیں.پھر یہ ایک دو نسل کی باتیں نہیں.قیامت تک آپ کا نام آسمان احمدیت پر ستارے بن کر چمکتا رہے گا.پیارے برادران باجوہ صاحب ، حکیم خورشید صاحب، خواجہ صاحب اور آپ دونوں کو میرا نہایت محبت بھر اسلام اور پیار اس وقت میرے تصور کی آنکھ بڑی محبت سے مگر سخت بے بسی کے حال میں آپ سب کو دیکھ رہی ہے.خدا حافظ.“ پہلے محترم حکیم صاحب محترم باجوہ صاحب محترم خواجہ صاحب کو تھانہ بھوانہ کی حوالات میں محبوس رکھا گیا.تھانہ بھوانہ کے علاوہ ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں.اس عرصہ میں نہ صرف سینکڑوں قیدی بلکہ جیل افسران بھی آپ کے مفت علاج سے شفایاب ہوئے بلکہ اس کار خیر کا نیک اثر رہائی کے بعد بھی محترم حکیم صاحب کی زندگی تک قائم رہا.اور ان لوگوں کے محترم حکیم صاحب کے ساتھ روابط سرسبز و شاداب رہے.محترم حکیم صاحب کے پولیس میں نیک اثر اور ان کی اور ان کے ساتھیوں کی

Page 96

161 بیگناہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک روز ایک سینئر پولیس افسر خود تھا نہ بھوانہ تشریف لائے.اور محترم حکیم صاحب سے ہمدردانہ آواز میں یوں مخاطب ہوئے حکیم صاحب مجھے آپ کی بے گناہی کا مکمل یقین ہے لیکن یہ پر چہ حکومتی پالیسی کا نتیجہ ہے.جس میں میں بے بس ہوں.اس کے ساتھ ہی قریب کھڑے ایس ایچ او سعید اختر تتلہ صاحب کو حکم دیا کہ یہ میرے ذاتی مہمان ہیں انہیں ہر قسم کی سہولت مہیا کی جائے.19 جولائی 1984ء کو معاندین کی کوشش کے نتیجہ میں مذکورہ مقدمہ ڈپٹی مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کو بھجوایا گیا لیکن مارشل لاء انتظامیہ نے اسے ناقابل سماعت قرار دے کر واپس بھجوا دیا.مورخہ 3 ستمبر 1984ء آپ اور آپ کے معزز رفقاء ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہا ہوئے.اس طرح آپ نے دو ماہ سے زائد عرصہ قید و بند میں گزار کر اسیر راہ مولی کا اعزاز پایا.مذکورہ مقدمہ کے ملزمان کو 10 فروری 1991ء کو بعدالت مجسٹریٹ دفعہ 30 سرگودھا نے باعزت بری کر دیا.(3) آپ کے خلاف تیسرا مقدمہ نمبر 144 مورخہ 22 مئی 1989ء بجرم C/298 چاک ہوا.اس مقدمہ میں آپ کے علاوہ مکرم قاضی منیر احمد صاحب، مکرم چوہدری رشید احمد صاحب ( معاون ناظر امور عامہ ) اور مکرم چوہدری مبارک احمد طاہر صاحب کو بھی نامزد کیا گیا تھا.جو کافی عرصہ زیر کارروائی رہا.محترم حکیم صاحب کے خلاف دوران صدارت 4 مقدمات بنائے گئے.مخالفین کی طرف سے مقدمات کا اندراج اور قید و بند آپ کے پائے استقلال میں رائی برابر بھی کمی نہ کر سکے.یہ امر قابل ذکر ہے.مذکورہ چاروں مقدمات میں محترم صدر صاحب عمومی کے ساتھ جماعت کے انتہائی قابل احترام بزرگ بھی شامل تھے.محترم حکیم صاحب کے علاوہ دو صدران عمومی نے بھی اسیران راہ مولیٰ کا اعزاز پایا.جس میں مکرم “ 162 چوہدری بشیر احمد خان صاحب جو 11 جون 1974ء کو گرفتار ہوئے.دوسرے مکرم و محترم کرنل ایاز محمود خان صاحب تھے.آپ کو 30 اپریل 1999 ء کو گرفتار کیا گیا اور آپ کی ضمانت 10 مئی 1999ء ایس ایچ او چناب نگر نے آرایم چناب نگر کو درخواست بمراد ڈسچار جنگی چار کس ملزمان دی.جس میں B-295 حذف کر کے دفعہ MPO-16 لگا دی.آرایم چناب نگر نے مذکورہ بالا درخواست کی بنیاد پر ملزمان کو بری کر کے ڈسٹرکٹ جیل جھنگ سے رہا کر دیا.مکرم محترم کرنل (ر) ایاز محمود خان صاحب خوش قسمت ہیں جنہیں حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہمراہ اسیر راہ مولیٰ کی سعادت ملی.وسعت علمی بقا کی منزلیں ہیں یہ اسیران رہ مولا دعا کی رفعتیں ہیں یہ اسیران رہ مولا مکرم مولا نا محمد صدیق صاحب گورداسپوری لکھتے ہیں :.د مکرم و محترم مولانا خورشید احمد صاحب ہمارے حدیث کے استاد مقرر ہوئے.آپ نے جس محنت لگن اور محبت کے ساتھ یہ مضمون پڑھایا وہ قابل داد ہے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو علوم حدیث پر خوب عبور حاصل ہے.روایت در روایت کے اصول.مختلف احادیث میں باہمی تطبیق اور ان کے حل کے طریق.اسماء الرجال اور جرح و تعدیل وغیرہ علوم پر گھر سے با قاعدہ نوٹس تیار کر کے لاتے اور طلباء کو لکھواتے.جواب تک میرے پاس موجود ہیں.اور حدیث کے مالا وما علیہ پر خوب روشنی ڈالتے.جس سے حدیث کا مفہوم اچھی طرح سمجھ آ جاتا.میں جب 1984 ء میں آخری بار سیرالیون سے واپس آیا.تو آر

Page 97

مکرم ناصر احمد ظفر صاحب محترم صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی ربوہ کے ساتھ (1999ء)

Page 98

“ 163 اس وقت صدر عمومی جیسے اہم اور جان جوکھوں میں ڈالنے والے عہدہ پر فائز تھے.خاکسار کو کوارٹرز تحریک جدید کا صدر محلہ منتخب کیا گیا تو ایک بار پھر آپ کے ساتھ اور آپ کی نگرانی میں کام کرنے کا موقعہ مل گیا.میں نے دیکھا کہ آپ اپنے دواخانہ کی پرواہ کئے بغیر سلسلہ کے کاموں میں ہم تن مصروف رہتے.جماعتی طور پر ان دنوں حالات سخت خراب اور نا مساعد تھے.بلکہ متواتر ایسے ہی حالات میں آپ کو کام کرنا پڑا.مگر آپ نے سب حالات کا بڑی جرأت اور دلیری اور کامل عزم و ہمت کے ساتھ مقابلہ کیا اور جماعتی مفادات کا دفاع کیا.اس طرح آپ کامل وفاداری اور جان نثاری کے ساتھ سلسلہ کے کاموں میں مصروف عمل رہنے اور محنت اور احساس ذمہ داری کی طویل داستان اپنے پیچھے چھوڑ کر اپنے مولی حقیقی کے پاس حاضر ہو گئے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت میں بلند مقام عطا فرمائے.تین اعزاز (بحوالہ روز نامہ الفضل 8 نومبر 1994 ءصفحہ 3) بحیثیت صدر عمومی آپ کی مخلصانہ خدمات کے صلہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین اہم اعزازات سے نوازا.1.1989ء میں حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ نے کچھ عرصہ کیلئے آپ کوامیر مقامی ربوہ مقرر فرمایا.2.آپ نے اسیران راہ مولیٰ میں شمولیت کا اعزاز پایا.3.آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کی تدفین قطعہ خاص ( علماء کرام ) میں ہوئی.جو قابل ذکر خدمات سرانجام دینے والے احباب کی تدفین کیلئے مخصوص ہے.یہ اعزاز خلیفہ وقت کی طرف سے ہی ملتا ہے.نیز حضور نے آپ کی وفات کے بعد حضرت کے لقب سے ملقب فرمایا.ذالک فضل الله يوتيه من يشاء “ سفر آخرت 164 محترم حکیم صاحب اگست 1994ء کے دوسرے ہفتہ میں بغرض استراحت چند یوم کے لئے اسلام آباد تشریف لے گئے.تا کثرت کار کی وجہ سے کسی قدر دینی، جسمانی اور اعصابی لحاظ سے فراغت کے کچھ لمحات میسر آ سکیں.لیکن وہاں جاتے ہی آپ کو عارضہ قلب کی شکایت محسوس ہوئی.ابتداء تو آپ حسب معمول تقویت قلب کی اپنی دیسی ادویات استعمال کرتے رہے مگر جب تکلیف بڑھنے لگی تو فوری طور پر ہسپتال میں داخل ہونا پڑا.لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ، بالآخر اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی ، آپ 16 اگست 1994ء کی درمیانی شب بوقت اڑھائی بجے ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں بعمر 73 سال اپنے خالق حقیقی سے جاملے.انا للہ و انا الیه راجعون.آپ کا جسد خاکی راولپنڈی سے اگلے دن صبح آٹھ بجے روانہ ہوا.روانگی سے قبل راولپنڈی میں نماز جنازہ پڑھا گیا.سہ پہر چار بجے جب حضرت مولوی صاحب کا جنازہ ربوہ پہنچا تو اسے آپ کے گھر واقع دارالصدر شمالی میں دیدار عام کیلئے رکھ دیا گیا.اور اسی دن بعد نماز مغرب بیت مبارک میں محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مورخ احمدیت نے نماز جنازہ پڑھائی.جس کے بعد بہشتی مقبرہ قطعہ خاص ( علماء کرام) میں تدفین عمل میں آئی.قبر تیار ہونے پر محترم سید احمد علی شاہ صاحب نائب ناظر اصلاح وارشاد مرکزیہ نے دعا کرائی.اس موقع پر باوجود بارش کے ہزاروں احباب جماعت موجود تھے.سوگواروں کا ہجوم اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ ان کی راہنمائی کیلئے اور انہیں منظم رکھنے کے خیال سے خدام الاحمدیہ کے رضا کار با قاعدہ ڈیوٹیاں دے رہے تھے اور بہت سارے لوگ بوجہ بارش بہشتی مقبرہ میں بھی نہ پہنچ سکے.یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چیئر مین کونسلر، سرکاری وغیر سرکاری افسران اور

Page 99

“ 165 دیگر غیر از جماعت دوست و معززین بھی محترم حکیم صاحب کی بوقت تدفین حاضر رہے اور بعد از تدفین بھی مولوی صاحب کی تعزیت کیلئے گھر تشریف لاتے رہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے درجات بلند فرمائے.آمین حکیم صاحب کی وفات کے بعد ایک غیر از جماعت دوست سرکاری افسر نے حضور کی خدمت میں تعزیتی خط لکھا.جس کے جواب میں مورخہ 18 راگست 1994ء کو حضور نے فرمایا.مکرم حکیم خورشید احمد صاحب کی وفات پر آپ کی طرف سے دلی تعزیت کا خط ملا.جزاکم الله تعالى احسن الجزاء.واقعی مرحوم بہت ہمدرد، نیک دل، نافع النفس وجود تھے.انا للہ و انا اليه راجعون.اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے آپ نے جن نیک جذبات کا اظہار کیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے غیر معمولی فضلوں سے نوازے.“ محترم حکیم صاحب کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ وامیر مقامی نے بہت غم اور دکھ کا اظہار کیا.محترم حکیم صاحب کی وفات سے اگلی صبح جب خاکسار ( راقم الحروف ) دفتر صدر عمومی میں موجود تھا تو حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کا ڈرائیور آیا اور کہا کہ آپ کو فوری طور پر حضرت میاں صاحب نے بلایا ہے اور مجھے آپ کو لینے کیلئے بھیجا ہے.خاکسار اس کے ساتھ حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.خاکسار کو دیکھتے ہی حضرت میاں صاحب نے فرمایا محترم مولوی صاحب کی وفات کا غیر معمولی دکھ اور صدمہ ہوا ہے.اس کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل ہدایات سے نوازا.(1) دفتر لوکل انجمن احمد یہ کھلا رہنا چاہئے جہاں ڈیوٹی پر ذمہ دار افراد موجود ہوں.(2) محترم حکیم صاحب کے گھر میری طرف سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار “ 166 کریں.(3) تعزیت کے سلسلہ میں آنے جانے والے افراد کیلئے پانی، شامیانے اور کرسیوں وغیرہ کا انتظام کرا دیں.(4) گھر والوں اور باہر سے آنے والوں کے کھانے کا انتظام دارالضیافت سے کرائیں.حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ ٹیلی ویژن کے پروگرام ملاقات میں مورخہ 16 راگست 1994ء میں فرمایا اور آپ کو حضرت مولوی خورشید احمد صاحب“ کہہ کر اپنے قلبی جذبات سے اور اس قدرومنزلت سے احباب کو مطلع کیا جو آپ ایک خادم سلسلہ حضرت مولوی حکیم خورشید احمد صاحب کیلئے اپنے قلب صافی میں رکھتے تھے.حضور نے فرمایا.”مولوی صاحب نے جماعت کی بہت خدمت کی ہے.وہ بہت گہرے عالم تھے.حدیث کا ٹھوس علم حاصل تھا.جامعہ میں میرے استاد بھی رہے.بہت ہی گہرا علم اور وسیع نظر تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے آپ کو دیو بند بھیج کر حدیث کا علم دلوایا.دوسری خوبی ان کی یہ تھی کہ بڑی انتظامی صلاحیت کے مالک تھے.جب بڑے مشکل اوقات میں جماعت کے خلاف شدید دشمنی کا اظہار کیا گیا.ایسے مشکل مواقع پر ربوہ کے عوام کی سر پرستی کرنے میں حضرت مولوی صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفاء دی تھی.بہت سے ایسے مریض جو حکومت کے ملازم ہوتے تھے یا علاقے کے بڑے زمیندار جن سے عموماً شر پہنچتا تھا وہ مولوی صاحب کی مخالفت نہیں کرتے تھے.اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کی حکمت اور طبابت کے نسخے بہت مفید ہوتے تھے.چنیوٹ سے بھی سلسلے کے مخالف یا تو بھیس بدل کر دوا لینے آتے یا کسی کو بھجوا دیتے اور درخواست کرتے کہ ہمارا نام نہ لیا جائے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مقدمات میں پڑ کر اور سنگین صورت حالات

Page 100

“ میں حضرت مولوی صاحب کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجاتی تھیں.“ 167 روزنامه الفضل 18 /اگست 1994ء) احباب جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح آپ کی زندگی میں آپ سے محبت کا سلوک کیا.اسی طرح آخرت میں بھی شفقت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور سلسلہ عالیہ اور خلافت کے ساتھ جو وفا کا شعار زندگی بھر آپ نے اپنائے رکھا.اس کو ہمیں بھی اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را آخر میں میں اپنے بیٹے عزیزم آصف احمد ظفر کا بطور خاص شکر گزار ہوں جس نے اس مضمون کی تیاری کے سلسلہ میں بڑی محنت سے خاکسار کو متعلقہ حوالہ جات تلاش کر کے دیئے.اللہ تعالیٰ اسے جزائے خیر عطا فرمائے.(آمین ثم آمین ) ( نوٹ : اس مضمون کا بیشتر حصہ روزنامہ الفضل کے شمارہ مورخہ 14 و15 جون 2012ء کو دو اقساط میں شائع ہو چکا ہے.اب مکمل مضمون کتاب میں شامل کیا گیا ہے.) “ 168

Page 101

“ 169 “ 170 محترم ماسٹر خان محمد صاحب ( سابق امیر ضلع ڈیرہ غازی خان) برادرم مکرم خان محمد صاحب لسکانی بلوچ (مولوی فاضل ) محکمہ تعلیم سے وابستگی کے باعث ضلع بھر میں ماسٹر خان محمد صاحب کے نام سے موسوم و مشہور تھے.آپ کا ذکر خیر کرنے سے قبل مناسب ہو گا کہ ان کے خاندان کا مختصر تعارف احمدیت کے حوالہ سے ہو جائے.اس بارہ میں محترم ماسٹر صاحب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں کہ جب سورج اور چاند کو گرہن لگا تو آپ کے دادا سردار یار محمد خان صاحب اس وقت کے پیروں اور علماء کے پاس گئے کہ گرہن لگ چکا ہے امام مہدی کب آئیں گے؟ جواب ملا کہ امام مہدی پیدا ہو چکے ہیں چالیس سال کے بعد دعوی کریں گے.آپ کے والد صاحب کا قبول احمدیت مکرم ماسٹر صاحب کے والد صاحب مکرم سردار پیر بخش صاحب کے ذہن میں اپنے والد محترم کے حوالہ سے یہ بات نقش ہو چکی تھی کہ امام مہدی آنے والے ہیں.لیکن لمبے عرصے تک کوئی ذریعہ ایسا میسر نہ آیا کہ امام مہدی کی آمد کے بارہ میں کوئی علم ہو سکے.آخر کار کسی ذریعے سے 1934ء میں امام مہدی کے ظہور کا علم ہوا تو آپ اپنے مسکن و مولد گل گھوٹو ( حال احمد پور ) سے جوڈیرہ غازی خان شہر سے جنوب مشرق کی جانب 32 کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع دریائے سندھ کے کنارے لسکانی بلوچوں کا مسکن ہے.وہاں سے ملتان تک پیدل اور پھر بذریعہ ٹرین قادیان روانہ ہوئے جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کے دست مبارک پر بیعت کا شرف پایا.کچھ ایام قادیان میں قیام کے بعد اپنے گاؤں واپس آئے.اس کے بعد وہ کن حالات سے گزرے اس موقعہ پر اگر اس کا مختصر ذکر نہ کیا جائے تو زیر نظر مضمون تشنہ رہے گا.قبول احمدیت کے بعد آپ کے والد صاحب کی مخالفت مکرم مولا نا عبدالرحمن صاحب مبشر اپنی کتاب ”عالمگیر برکات مامور زمانه حصہ دوم کے صفحہ نمبر 262 میں لکھتے ہیں.سردار پیر بخش خان صاحب السکانی قبیلہ کے چیف تھے جو با کردار، ذہین ،نڈر، بہادر انسان تھے، نہ صرف اپنے علاقہ میں بلکہ دور دراز تک قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.جاذب نظر شخصیت لمباقد، جسیم ، دیانتدار پابند صوم وصلوٰۃ اور مہمان نواز تھے.موصوف جب بیعت کر کے گھر پہنچے تو اپنے چاروں بھائیوں کو بلا کر پیغام حق دیا.آپ کے دو چھوٹے بھائی سردار امیر محمد خان صاحب اور سردار غلام حیدرخان صاحب نے فوراً دعوت حق کو قبول کیا.جب کہ باقی دونوں بھائیوں نے مخالفت کا طوفان کھڑا کر دیا.جس کے نتیجہ میں قبیلہ کے متعصب لوگوں نے لاٹھیوں اور کلہاڑیوں اور تلواروں سے لڑائی شروع کر دی جس سے بستی میدان جنگ بن گئی.اس لڑائی میں مکرم سردار پیر بخش شدید زخمی ہوئے لیکن آپ کے پائے استقلال میں رائی برابر لغزش نہ آئی.آپ کی استقامت دیکھ کر آپ کے اہل وعیال کو خدا تعالیٰ نے جماعت میں شمولیت کی توفیق عطا فرمائی.جب تلواروں اور کلہاڑیوں سے سردار پیر بخش صاحب کا ایمان نہ ڈگمگا یا تو

Page 102

“ 171 “ 172 مخالفین نے ایک اور چال چلی اپنے بڑے پیروں اور فقیروں کو اکٹھا کیا اور ان سے بد دعا کرائی جس کے الفاظ درج ذیل ہیں جو ہزاروں افراد کی موجودگی میں کہے گئے.1.سردار پیر بخش نے اگر احمدیت نہ چھوڑی تو ذلت کی موت مرے گا.قبر کا نام ونشان باقی نہ رہے گا اور قبر کو خدائی آگ لگے گی.2.ہماری آنکھوں کے سامنے ذلت کی موت مرے گا.3.اس کی اولا دہم پیروں کے در پر پلے گی اور ذلت کی زندگی بسر کرے گی.4.اگر احمدیت نہ چھوڑی تو اس کی بستی کا نام ونشان مٹادیا جائے گا.بددعا کے یہ کلمات سن کر سردار صاحب نے بڑے جلال سے فرمایا: ”اے سجادہ نشینوں اور پیروسنو!“ آج بانی سلسلہ کا یہ ادنی غلام ساری قوم کو گواہ بنا کر کہتا ہے کہ جو کچھ تم نے میرے متعلق بددعا کی ہے یہ سب کچھ تمہارے ساتھ ہوگا اور یہ تمہارے اور میری قوم کے لیے حضرت بانی سلسلہ کی صداقت کی سب سے بڑی دلیل ثابت ہوگی.خدا کے مامور بانی سلسلہ کے ادنی غلام کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ جس شان و شوکت سے پورے ہوئے وہ آج تاریخ میں سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہیں....مثلاً 1 - عشرہ بھی نہیں گزرا تھا کہ جھکڑ امام شاہ میں جہاں بڑے بڑے سید پیروفن 3.پیروں اور سجادہ نشینوں کی بستی کا حال نہ پوچھو.دریائے سندھ بستی جھکڑ امام کو ہڑپ کر چکا ہے بڑے محلات و مکانات دریا برد ہو چکے ہیں.4.وہ سید جن کو اپنی گدیوں اور فقیری پر ناز تھا ان کی اولا دکو پناہ ملی تو صرف اور صرف سردار پیر بخش کے گھر میں.اپنا بچا کھچا اثاثہ اٹھا کر در بدر کی ٹھوکریں کھا کر آخر کارسردار صاحب.....کی بستی گل گھوٹو میں رہائش اختیار کر لی جب کہ سردار پیر بخش خان صاحب اور ان کی اہلیہ صاحب خاتون صاحبہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں اپنے آقا اور محسن کے قدموں میں دفن ہیں.آپ کی وفات پر ساری جماعت ڈیرہ غازی خان نماز جنازہ کے لئے اکٹھی تھی.وو جب آپ کو نہلایا گیا تو جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں زخموں کے نشان نہ ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نے آپ کی نماز جنازہ پڑھانے کے بعد آپ کے بیٹے سردار یار محمد خان صاحب کو فرمایا: آپ کے والد علاقہ میں روشنی کے مینار تھے آپ بھی ان کے نقش قدم پر چلیں مکرم سردار صاحب بھر پور کامیاب و کامران طویل عمر پا کر مولائے حقیقی کے پاس حاضر ہوئے.اب ان کے خاندان کے تقریباً 200 نفوس احمدیت کے نور سے فیض یاب ہورہے ہیں.جو حضرت مسیح موعود کی دعا اک سے ہزار ہوویں کے مصداق بن رہے ہیں.تھے اور پیروں کے آباؤ اجداد کی قبریں تھی ان قبروں کو آگ لگ گئی جس نے پورے ماسٹر خان محمد صاحب کی پیدائش و تعلیم قبرستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس واقعہ نے سجادہ نشینوں کو ہلا کر رکھ دیا.2.ایک ایک کر کے بڑے بڑے پیر اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے سردار پیر بخش صاحب کو اتنی لمبی عمر دی کہ سب بڑے پیران کی آنکھوں کے سامنے کوچ کر گئے.آپ 14 جون 1926 ء کو بمقام گل گھوٹو میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ڈیرہ غازیخان میں حاصل کی.مکرم حکیم عبد الخالق صاحب رفیق بانی سلسلہ کی رہنمائی پر مزید تعلیم کے لیے جلسہ سالانہ 1939 ء کے موقعہ پر اپنے والد محترم کے ساتھ قادیان

Page 103

“ 173 “ 174 گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے 1950ء میں احمد نگر میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.آپ کی شادی 1949ء میں ہوئی.اس کے بعد آپ نے محکمہ تعلیم میں بطور عربی مدرس ملازمت اختیار کر لی.آپ اپنی محنت شاقہ ، شاگردوں سے ہمدردی اور بہترین نتائج کے باعث قابل اور ہر دلعزیز اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے.ان کے شاگرد بعد میں جس جس محکمہ یا شعبہ جات میں گئے وہ آپ کی غیر معمولی عزت و تکریم کرتے رہے خصوصاً بطور امیر ضلع جب بھی کوئی مقدمہ مسئلہ اجتماعی یا انفرادی نوعیت کا سرکاری دفاتر میں گیا تو آپ کی وجہ سے مشکل سے مشکل مسئلہ آپ کے شاگردوں کے تعاون سے احسن رنگ میں حل ہو جاتا.اعلیٰ کردار کی غیر معمولی مثال آپ انتہائی جرات مند نڈر بے باک مرد میدان تھے.چیلنج اور اصولی موقف پر چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے.حق بات ڈنکے کی چوٹ پر کہنے کی صلاحیت رکھتے تھے.اس سلسلہ میں صرف ایک مثال ہدیہ قارئین ہے.آپ جب گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 ڈیرہ غازی خان میں تعینات تھے تو مخالفین اور معاندین نے آپ کو وہاں سے تبدیل کروانے کی سرتوڑ کوششیں کیں.جب بھی آپ کے کسی اور جگہ تبادلہ کے آرڈر آتے.آپ متعلقہ افسران بالا کے پاس براه راست حاضر ہو کر حکمت اور ادب کے تقاضوں کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ موقف اختیار فرماتے کہ اگر میرا تبادلہ میری ناقص کارکردگی کے باعث کیا گیا ہے تو مجھے قبول ہے اور اگر مذہبی تعصب کی بنا پر تبادلہ کیا گیا ہے تو یہ احکامات سراسر غیر منصفانہ اور غیر منطقی ہیں.اس پر جب آپ کے نتائج کا ریکارڈ سامنے آتا تو افسران بالا تبادلے کے احکامات منسوخ کرنے پر مجبور ہو جاتے.آپ اپنی محنت ، شاندار نتائج اور اصولی موقف کے باعث مسلسل 23 سال ایک ہی سکول میں تعینات رہے.جرات مند داعی الی اللہ آپ انتہائی بہادر انسان تھے.دور اندیشی اور حکمت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے جرات سے دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرنے کی توفیق پاتے رہے ہیں.آپ جب فاضل پور حال ضلع راجن پور میں تعینات تھے.اپنے رفقاء اور حلقہ احباب کو دعوت حق پہنچانے کا کوئی مناسب موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.بعض متعصب جب دلائل سے عاجز آگئے تو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت آپ کو شہر سے باہر لے گئے تا کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کی آواز کود بادیا جائے.آپ مخالفین کے ارادوں کو بھانپ گئے تھے لیکن انتہائی خود اعتمادی سے ان کے ساتھ ہنستے کھیلتے چلتے رہے.آپ جہاں دیدہ اور دور اندیش انسان تھے جہاں چند مخالف تھے وہاں بیسیوں غیر از جماعت آپ کے ساتھ مخلصانہ تعلق رکھتے تھے ان دوستوں کو کسی ذریعے سے جب علم ہوا تو وہ فوراً پہنچ گئے جس سے مخالفوں کے ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے.گل گھوٹو سے احمد پور تک حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب منصب امامت پر فائز ہونے سے قبل جب گل گھوٹو تشریف لائے تو آپ نے ماسٹر خان محمد صاحب سے استفسار کیا کہ واقعی آپ کی بستی کا نام گل گھوٹو ہے تو اثبات پر جواب ملنے پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جس بستی میں کثیر تعداد میں احمدی ہوں اور دیگر تعلیم یافتہ احباب بھی موجود ہوں تو ایسا نام قطعاً زیب نہیں دیتا.اس پر ماسٹر صاحب نے درخواست کی کہ آپ اس کا متبادل نام تجویز فرما دیں آپ نے بلا توقف فرمایا ” احمد پور

Page 104

“ 175 “ 176 چنانچہ اس دن سے بہتی گل گھوٹو احمد پور میں بدل گئی اور اب اسی نام سے یہ بستی معروف ہے.مقدمات کی تفصیل 1976ء میں ڈیرہ غازی خان شہر کے مخالفین کے چیلنج مناظرہ پر مناظرہ کا اہتمام ہوا.جماعت کی طرف سے مکرم سلمان صاحب مربی سلسلہ اور مکرم ماسٹر خان محمد صاحب فاضل پیش پیش تھے.جب کہ مکرم عبدالماجد خان صاحب صدر جماعت (موجودہ امیر ضلع ) کی معاونت اور رفاقت بھی شامل تھی.جب مخالفین دلائل اور براہین کے میدان میں پسپا ہونے لگے تو نقص امن کے حالات پیدا کر دیئے گئے.جس پر مخالفین کے دباؤ پر پولیس نے مکرم مولوی خان محمد صاحب اور مکرم عبد الماجد خان صاحب کے خلاف مقدمہ درج کیا اس پر دونوں مخلصین کو گرفتاری اور راہ مولا میں اسیری کی سعادت نصیب ہوئی.واقف حال کے بیان کے مطابق جب مکرم خان محمد صاحب کے ہاتھ میں ہتھکڑی پہنائی گئی تو آپ نے اسے بوسہ دیا اور بڑے پر اعتماد انداز میں فرمایا.ہم خوش نصیب لوگ ہیں کہ راہ مولیٰ میں لوہے کے کنگن پہنے کا اعزاز نصیب ہوا.یہ آپ کی پہلی گرفتاری تھی.آپ 1983ء میں امیر ضلع منتخب ہوئے.مقدمات کا یہ سلسلہ 1999 ءتک جاری وساری رہا.اپنی گرتی ہوئی صحت کے باعث آپ نے مکرم محترم جناب ناظر اعلیٰ صاحب سے درخواست کی کہ میری خرابی صحت کے باعث جماعت کے کاموں میں حرج ہورہا ہے میری جگہ کسی اور کو نامزدفرما دیں جس پر مورخہ 7 جولائی 1999ء کو آپ کی درخواست منظور کر لی گئی.اس طرح آپ قریباً 16 سال امیر ضلع ڈیرہ غازی خان ے آپ 2001 ء میں امیر ضلع ڈیرہ غازی خان تھے.رہے.آپ کے عرصہ خدمات بحیثیت امیر ضلع شروع ہوتے ہی 1984 ء کے دور ابتلاء کا آغاز ہوا جو مسلسل دراز ہوتا چلا گیا.جوں جوں ابتلاء بڑھتا گیا تو فیق ایزدی سے آپ کا حوصلہ جواں بلکہ آپ خود بھی جوانوں کے جوان ہوتے چلے گئے.آپ نے انتہائی جرات و فراست اور دوراندیشی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نامساعد حالات میں جس استقامت سے مقدمات اور قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے.آپ ان خوش نصیب احباب جماعت و عہدیداران میں سے ہیں جنہیں نہ صرف خود بلکہ ان کے پانچ بیٹوں میں سے تین بیٹوں کو بھی مقدمات و اسیری کی سعادت نصیب ہوئی.آئندہ سطور میں آپ کی استقامت در پیش مسائل مقدمات کا مختصر ذکر ہوگا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسلسل مقدمات کے باوجود جماعتی خدمات میں بفضلہ تعالیٰ آپ کا قدم آگے سے آگے ہی بڑھتا چلا گیا.نصرت الہی کا غیر معمولی واقعہ ایک دفعہ آپ اکیلے ریلوے روڈ پر جا رہے تھے.چند شر پسند نوجوانوں نے پیچھے سے آلیا اور آوازے کسنا شروع کر دیئے.جوں جوں ان کے شور شرابے میں اضافہ ہوتا چلا گیا آپ انتہائی وقار اور بے نیازی کے عالم میں اعتدال کے ساتھ زیر لب دعائیں کرتے ہوئے چلتے رہے نہ پیچھے مڑ کر دیکھا نہ ہی رفتار تیز کی.اچانک پیچھے سے ایک موٹر سائیکل سوار کی آواز سنائی دی جس نے آوازے کسنے والوں کو انتہائی جرات اور سخت الفاظ میں سرزنش کی.اس شخص کی تنبیہہ میں اتنی سختی اور رعب تھا کہ وہ سب مرعوب ہوکر منتشر ہو گئے.وہ فرشتہ صفت وجود کون تھا اس کو مکرم امیر صاحب نے نہ تو مڑ کر دیکھا اور نہ ہی

Page 105

177 اس نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا.یہ غیبی حمایت تھی جس کے بارہ میں بقول مکرم امیر صاحب آخری دم تک اس کا علم نہ ہو سکا اسے نصرت الہی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا.عدد بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں نافع الناس وجود جماعتی فرائض مقدمات کے ساتھ ساتھ آپ اپنے گاؤں اور علاقے میں بطور منصف ہمدرد صلح کن ہونے کے باعث معروف و مشہور تھے.جس کے باعث نہ صرف آپ کے گاؤں بلکہ علاقہ کے لوگ بلا امتیاز اپنے باہمی تنازعات کے تصفیہ کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوا کرتے تھے.آپ انتہائی ہمدردانہ اور منصفانہ انداز میں ان کے معاملے نپٹانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے.آپ ہمیشہ مفلس نادار افراد کی خوشی و غمی میں حاضر ہوتے اور حتی المقدور مالی اعانت بھی کرتے.ایسے ہی مستحق اور مفلس طلباء کی جماعتی ذرائع کے علاوہ ذاتی جیب سے بھی امداد کی تو فیق پاتے.لسکانی قبیلہ کے لوگ بجا طور پر آپ کو اپنا ہمدرد وسردار سلیم کرتے اور ہرا ہم مسئلہ میں ان سے رہنمائی کے طالب ہوتے.مظلوموں کی امداد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے.ان کے مقابل پر جابر طاقتور پارٹی یا شخصیت کے سامنے جرات سے عدل و انصاف کے تقاضوں کی تکمیل فرماتے.نا قابل فراموش غیرت ایمانی ڈیرہ غازی خان کے سٹی تھانہ میں مخالفین نے شکایت کی کہ ماسٹر خان محمد تبلیغ سے باز نہیں آتا.مسلسل آرڈنینس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کلمہ طیبہ قرآنی “ 178 آیات بیت الذکر میں بار بار لکھوا دیتا ہے.اس کے خلاف مقدمہ درج کیا جاوے.تھانہ میں ان کا شاگر د تھا اس نے پرچہ درج کرنے کی بجائے کوشش کی کہ فریقین کو بلا کر افہام و تفہیم سے معاملہ رفع دفع کروا دیا جائے.چنانچہ متعلقہ افسر نے علیحدگی میں آپ سے بات کی آپ مدعیان کے سامنے آئندہ محتاط رہنے کا معذرت کے رنگ میں وعدہ کر لیں تا کہ ہمیں آپ کے خلاف مقدمہ درج نہ کرنا پڑے.اس پر آپ نے قول سدید سے کام لیتے ہوئے فرمایا کہ وَالصُّلْحُ خَيْرٌ ہے لیکن اگر مدعی اور آپ یہ چاہتے ہیں کہ کلمہ طیبہ سے الگ ہونے کا وعدہ کروں تو یہ نا ممکن ہے یہ ناممکن ہے.اس پر آپ کے خلاف پرچہ چاک ہوا.پرچہ میں مخالفین نے لکھا کہ....اس نام نہاد عبادت گاہ کا متولی مسمی خان محمد امیر جماعت قادیانی ہے.مسمی خان محمد کے خلاف قبل ازیں بھی پرچے ہیں لہذا استدعا ہے کہ ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جاوے.جماعتی خدمات مکرم ماسٹر خان محمد صاحب کو خدا تعالیٰ نے شروع ہی سے جماعتی خدمات کی تو فیق عطا کر رکھی تھی.سب سے پہلے بحیثیت قائد مجلس خدام الاحمدیہ پھر صدر جماعت، نائب امیر اور آخر میں لمبا عرصہ بطور امیر جماعت احمد یہ ضلع خدمات کا سلسلہ کا اعزاز حاصل رہا.یہ آپ کے اخلاص اور اعلیٰ تربیت کا ہی ثمر ہے کہ خدمت کا سلسلہ مکرم ماسٹر صاحب کی ذات تک محدود نہیں رہا بلکہ ان کے سبھی افراد خانہ ہمہ وقت خدمت دین میں مصروف رہے.1.آپ کی اہلیہ محترمہ کو پہلے صدر لجنہ شہر اور پھر صدر لجنہ ضلع ڈیرہ غازی خان

Page 106

کے طور پر لمبا عرصہ خدمت کی توفیق میسر آئی.179 2.آپ کے پانچ بیٹوں میں سے مکرم حافظ فرقان صاحب ایڈووکیٹ کو بطور قائد ضلع اور پھر بطور قائد علاقائی خدمت کا اعزاز حاصل رہا.3 - مکرم برہان احمد صاحب کو بھی قائد ضلع اور پھر قائد علاقہ کے طور پر خدمت کا موقع ملا.4 مکرم سلطان محمد صاحب کو قائد خدام الاحمد بی ضلع کے طور پر خدمات کی تو فیق ملی.عزیزم لقمان محمد صاحب ایم اے اکنامکس سرکاری عہدہ پر فائز تھے.وقف کی درخواست منظور ہوتے ہی سرکاری منصب کو فوری خیر باد کہتے ہوئے زندگی سلسلہ کے لیے وقف کر دی.انہیں سیرالیون مغربی افریقہ میں تین سال بطور ٹیچر بعد میں چار سال یوگنڈا میں خدمات سرانجام دینے کی سعادت حاصل ہوتی رہی اور آج کل بفضل تعالیٰ بطور نائب وکیل المال اول ( حال وکیل المال اول ) خدمات سرانجام دے رہے ہیں.جب کہ آپ کی چھوٹی بیٹی زوجہ مکرم مبشر احمد خان ظفر اس وقت کیل جرمنی میں بطور صدر لجنہ اماءاللہ خدمات کی توفیق پارہی ہیں.نہایت بے انصافی ہوگی اگر اس موقع پر آپ کے سب سے چھوٹے فرزند عزیزم طیب عرفان کا ذکر نہ کیا جائے جو مقدمات کے نشانہ کے علاوہ محترم امیر صاحب کے ساتھ بطور معاون خاص ، ڈرائیور محافظ، زندگی بھر ہمسفر رہا لیکن افسوس کہ سفر آخرت کے وقت موجود نہ تھا جس کا عزیز کو شدت سے احساس ہے.ایک خاندان اور پانچ مقدمات جماعتی خدمات کا یہ اعزاز اور اعتراف ہے کہ مخالفین اور معاندین سلسلہ نے مکرم ماسٹر خان محمد صاحب اور ان کے خاندان کو ہٹ لسٹ پر رکھا ہوا تھا مکرم ماسٹر صاحب کے پانچ بیٹے ہیں جب کہ عجب حسن اتفاق ہے کہ 1984ء کے بعد انہیں “ 180 پانچ مقدمات اور قید و بند کی صعوبتوں نے تاریخ کا حصہ بنادیا.اس سے بڑھ کر ایوارڈ اور کیا ہو سکتا ہے.جب کہ 1976ء کا مقدمہ ان کے علاوہ تھا.،، مکرم ماسٹر صاحب کو اگر چہ بیک وقت کئی مقدمات کا سامنا تھا لیکن سب سے قابل فخر مقدمہ اور اسیری قرآن پاک کے سرائیکی ترجمہ پر نصیب ہوئی.آپ جب ڈسٹرکٹ جیل ڈیرہ غازی خان میں محبوس تھے تو پیارے آقا کی طرف سے جو دعائیہ خط محررہ 7 فروری 1992 ء موصول ہوا اس میں حضور نے تحریر فرمایا:.قرآن مجید کے ترجمہ کرنے کے جرم میں سزا جو یقینا قابل فخر سزا ہے اس کا اجر تو خدا تعالیٰ ہی دے گا مجھے اتنا پتہ ہے کہ قرآن مجید کی راہ میں تکلیف اٹھانے والے بڑے خوش نصیب ہیں اور یہ ان کے لیے بہت بڑا ایوارڈ ہے بدنصیب ہیں وہ جو نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ مرفوع القلم لوگوں کو خود سمجھائے.آپ اس دور کو دعاؤں سے گزاریں...پیارے آقا کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے شرف قبولیت بخشتے ہوئے نہ صرف عرصہ اسیری کم کیا بلکہ یہ سنگین مقدمہ جس کا مدعی سلسلہ کا اشد اور کٹر مخالف تھا.مخالفین کی تمام تر کوششوں کے باوجود دیگر مقدمات سے بھی پہلے بلکہ بہت پہلے ختم ہوا اور معزز و محترم ملزمان باعزت بری ہوئے.الحمد للہ علی ذالک.یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ مقدمہ مدعی نے ڈی سی صاحب ڈیرہ غازی خان کے توسط سے چاک کروایا تھا.حضور انور کے خطوط اور حوصلہ افزائی نے تو نہ صرف اسیران بلکہ ان کے جملہ اہل خانہ کے اندر ایسی روح پھونکی جس پر خدا کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے.اس وقت کے ناظر امور عامہ کے ارشاد کی تعمیل میں مجھے بھی ان کے ہمراہ D.G.K

Page 107

“ ڈسٹرکٹ جیل میں اسیران سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا.181 مکرم ماسٹر صاحب ہشاش بشاش تھے ان کے چہرے پر طمانیت قابل دید تھی فرمایا حضور اقدس کے دعائیہ خطوط کے بعد ہم ہر قسم کے تفکرات اور پریشانی سے بے فکر ہو چکے ہیں.سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا.کہ یہاں قیدیوں کو قرآن پاک پڑھانے کی سعادت کے علاوہ دعوت الی اللہ کا بھی نادر موقع ملا ہوا ہے.....جب ہم اسیران کے گھروں میں حاضر ہوئے تو سبھی کے چہروں پر طمانیت کے آثار واضح اور حوصلے بلند تھے.مسلسل مقدمات کے باوجود آپ نے نہ صرف اپنے فرائض کا سلسلہ جاری رکھا بلکہ آپ کا قدم آگے سے آگے بڑھتا رہا.یہ محض خدا کے فضل اور حضور کی دعاؤں اور حوصلہ افزائی کے باعث ہی ممکن ہوا.آخری ملاقات مکرم ماسٹر صاحب مورخہ 25 جون 2000ء کو نظارت امور عامہ تشریف لائے اور محترم مکرم ناظر صاحب اعلیٰ اور مکرم محترم ناظر صاحب امور عامہ سے ملاقات کے بعد از راہ شفقت حسب معمول خاکسار کے کمرہ میں تشریف لائے السر اور گھٹنوں کی دیرینہ تکلیف کے باوجود ان کے چہرہ پر چمک دمک اور آواز میں گھن گرج بدستور قائم تھی.سرائیکی روایات کے مطابق حال احوال کے بعد میرے استفسار پر فرمایا کہ بفضل تعالیٰ تمام مقدمات سے باعزت بری ہو چکے ہیں.اب صرف ایک آخری مقدمہ ہے ماحول اور حالات ناموافق ہیں اس لیے مرکز سے دعا اور راہنمائی کی درخواست کے لیے حاضر ہوا ہوں.جس پر مکرم ناظر صاحب امور عامہ نے مکرم شریف احمد صاحب ایڈووکیٹ ملتان کی خدمت میں مقدمہ کی پیروی کا خط دیا “ 182 ہے.آج لاہور جا رہا ہوں دو دن بڑی بیٹی کے پاس قیام کروں گا پھر مقدمہ کے سلسلہ میں ملتان جاؤں گا.یہ ان کا پروگرام تھا.لیکن تقدیر الہی کچھ اور ہی فیصلہ کر چکی تھی مورخہ 29 جون 2000ء کو عزیزم طیب عرفان کا صبح سویرے فون آیا.جس نے یہ المناک خبر سنائی کہ والد محترم سروسز ہسپتال لاہور میں فوت ہو گئے ہیں.آپ کی میت ربوہ لائی گئی مورخہ 30 جون 2000 ء کو مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے بیت المبارک میں نماز جنازہ پڑھائی اور بعد از تدفین مکرم حافظ صاحب نے ہی دعا کروائی.آپ کی وفات کے بعد عدالت نے آخری مقدمہ سے بھی جملہ ملزمان کو باعزت بری کر دیا.اس طرح بفضلہ تعالیٰ اور حضور انور کی دعاؤں کے باعث مکرم ماسٹر خان محمد صاحب اور ان کے خاندان کے افراد پانچوں مقدمات سے باعزت طور پر بری ہو چکے ہیں.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مخالفین کی طرف سے تمام تر مقدمات اور دباؤ کا نشانہ مکرم ماسٹر صاحب موصوف کی ذات تھی.مخالفین کے جملہ حربے مقدمات ایذارسانیاں آپ کے پائے استقلال میں رائی برابر بھی لرزش پیدا نہ کرسکیں.اور نہ ہی ایک لمحہ کے لیے آپ کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کر سکیں.آپ چٹان کی طرح ثابت قدم رہے.خدا رحمت کند این عاشقان پاک طینت را قارئین کرام سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مکرم ماسٹر صاحب کو اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے اور ان کی اہلیہ محترمہ (جواب وفات پاچکی ہیں اللہ تعالیٰ ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے.) اور بچوں کا حافظ و ناصر ہو اور ان کی اولا د اور خاندان کو اپنے بزرگوں کے نقش پا پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.( آمین ثم آمین ) (روز نامہ الفضل 17 مئی 2001ء)

Page 108

مکرم بشیر احمد خان صاحب مند رانی بلوچ 183 تونسہ شریف کا قصبہ جو ضلع ڈیرہ غازی خان میں واقع ہے محتاج تعارف نہیں ہے.وہ رود کو ہی ستگھرہ کے شمالی کنارے واقع ہے اس نسبت سے عرصہ دراز تک تحصیل تونسہ شریف تحصیل سکھر، کے نام سے موسوم و معروف رہی ہے.اس رود کو ہی کے جنوب مغربی کنارے دامن کوہ سلیمان میں مندرانی بلوچوں کا مسکن ہے جو بستی مندرانی کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہے.یہ بستی دنیاوی لحاظ سے عرصہ دراز تک زندگی کی ہر سہولت سے محروم رہی لیکن اس بستی کے چند سر کردہ افراد نے جو روحانی فیض پایا.اس سے وابستہ رہنے والے کسی بھی فرد نے بفضل تعالیٰ دنیاوی تشنگی محسوس نہیں کی.1901 ء میں حضرت بانی سلسلہ کی آواز پر اس بستی کے چند سر کردہ احباب کو لبیک کہنے کی سعادت نصیب ہوئی، ان میں ہمارے دادا جان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی کا نام قابل ذکر ہے.آج یہ عاجز اپنے تایا زاد بھائی مکرم بشیر احمد خان صاحب کے ذکر خیر کی سعادت حاصل کر رہا ہے.آپ مورخہ 4 اپریل 1931ء کو بستی مندرانی میں پیدا ہوئے.آپ کا بچپن طالب علمی جوانی اور پھر عرصہ ملازمت قابل رشک حد تک علاقہ بھر میں نیک نمونہ کے طور پر مشہور و معروف تھا.آپ نے تمام امتحانات اعزاز کے ساتھ پاس کئے آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ اپنے گاؤں کے پہلے شخص ہیں جو ایم.اے اردو، ایم.اے اسلامیات اور ایم ایڈ تھے اور سکیل 19 پر مثالی خدمات سرانجام دے کر ریٹائر ہوئے.آپ نے پرائمری کا امتحان اپنے گاؤں جب کہ میٹرک کا امتحان تونسہ شریف “ 184 سے پاس کیا.آپ حصول تعلیم کے سلسلہ میں 18 کلومیٹر کا سفر پیدل طے کرتے رہے.آپ انتہائی سادہ درویش صفت پابند صوم و صلوۃ کم گولیکن خوش گفتار اور راست باز نافع الناس شخصیت کے مالک تھے.ہم مکتبوں سے ہمدردی آپ جب پرائمری کے طالب علم تھے رخصت ہونے پر گھر آئے والدہ صاحبہ نے کھانا دیا تو آپ نے ایک ہاتھ سے کھانا شروع کیا جبکہ دوسرے ہاتھ کو کپڑے میں چھپائے رکھا.والدہ صاحبہ نے استفسار کیا کہ آپ کے ہاتھ کو کیا ہوا ہے.آپ نے اخفاء کی کوشش کی لیکن والدہ صاحبہ کے اصرار پر بتایا کہ لڑکے شرارتیں کر رہے تھے کہ اچانک ماسٹر صاحب آگئے.انہوں نے کہا کہ بشیر احمد تم ہمیشہ سچ بولتے ہو سچ سچ بتاؤ کہ کون کون شرارت کر رہا تھا.میں نے بتانے سے گریز کیا اور خاموش رہا جس پر مجھے ماسٹر صاحب نے مارا.والدہ صاحبہ نے کہا کہ بیٹا آپ بتا دیتے.اس پر بشیر احمد خان صاحب نے کہا اماں جی معصوم بچوں کو میری گواہی پر سزا ملتی.میں نے خاموش رہ کر خود مارکھانے کو ترجیح دی.آپ تعلیم کی تکمیل کے بعد محکمہ تعلیم سے وابستہ ہو گئے.اپنی ملازمت کے دوران آپ نے اپنی محنت اور طلباء سے ہمدردی اور ان کی فلاح و بہبود اور ماتحتوں سے ہمدردی کا جو نیک نمونہ قائم کیا وہ سرکاری و غیر سرکاری ملازموں کے لئے قابل رشک ہے.جس کی چند مثالیں عرض کرتا ہوں.طلبہ سے شفقت آپ جب بھی کسی کلاس میں جاتے تو طلبا کا یہ جائزہ لیتے کہ ان میں سے ب سے زیادہ مفلس کونسا طالب علم ہے.ایسا طالب علم آپ کی توجہ اور ہمدردی کا

Page 109

185 مرکز ہوتا.آپ پڑھانے کے لئے غریب طالب علم کی کتاب لیتے پڑھانے کے بعد اس میں کچھ نقدی رکھ دیتے.پہلی دفعہ طالب علم سمجھتا کہ غلطی سے ماسٹر صاحب کی رقم رہ گئی ہے.جب اس کو اپنی طرف آتا دیکھتے تو اس کو الگ لے جاتے پیار سے سمجھاتے کہ یہ تمہاری تعلیم کے اخراجات کے لئے ہیں.زندگی بھر جہاں پڑھایا غریب طالب علم ہمیشہ آپ کی ذاتی توجہ اور مالی اعانت کا مرکز رہا.ماتحت پروری آپ ایک سکول کے انچارج مقرر ہوئے.سکول کا ایک مددگار کار کن انتہائی غریب تھا.آپ گاؤں سے جب پڑھانے کے لئے سائیکل پر آتے.راستہ میں لکڑیاں اکٹھی کر کے سائیکل کے پیچھے باندھ کر سکول کے مددگار کارکن کے گھر پہنچا دیتے جس سے مفلس کا رکن نے حیران ہو کر عرض کیا سر آپ مجھے شرمندہ کیوں کرتے ہیں فرماتے آپ بڑے بھائی ہیں آپ کی آمدنی کم ہے جبکہ میرا اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا اس لئے آپ قطعا محسوس نہ کریں اور مجھے اس ثواب اور خدمت سے محروم نہ کریں.آپ نے بحیثیت استاد کسی طالب علم کو ٹیوشن کبھی نہیں پڑھائی اور نہ ہی کسی طالب علم یا ما تحت سے کسی قسم کا مفاد یا مراعات حاصل کیں.فرائض کی ادائیگی میں لگن آپ جب اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر تھے آپ کو کوہ سلیمان کے اندر کا علاقہ دیا گیا جہان شاذ ہی کوئی افسر جاتا تھا کیونکہ بیسیوں میل کی مسافت پیدل طے کرنا ہوتی.آپ کی تعیناتی کا علم جب ایک ایسے استاد کو ہوا جو آپ کا شاگر درہ چکا تھا اس نے تمام اساتذہ کو بتایا کہ بشیر صاحب انتہائی محنتی اور دیانتدار ہیں وہ ہر سکول تک پہنچیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ ہر سکول تک پہنچے.آپ کا ریکارڈ تھا کہ کسی ماتحت “ 186 یا طالب علم سے کھانا تک نہ کھاتے.آپ ہمیشہ اپنے ساتھ دال آٹا نمک اور بسکٹ وغیرہ رکھتے.حالات کے مطابق کہیں خود پکاتے یا ہوٹل سے استفادہ کرتے.دیانتداری کے ساتھ ساتھ مزاج میں خود نمائی کا شائبہ تک نہ ہوتا.اپنے ماتحتوں کو محبت اور پیار سے سمجھاتے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کی نصیحت فرماتے.عجز وانکسار آپ ایک سکول کے معائنہ کے لئے تشریف لے گئے.نماز کا وقت آیا آپ نماز ادا کر رہے تھے کہ استاد نے ایک طالب علم کو کہا کہ صاحب کی جوتی صاف کر دیں.آپ جب جوتی پہننے لگے تو جوتی کوصاف پا کر استفسار کیا کہ یہ کس نے صاف کی ہے بتایا کہ ریاض حسین نے صاف کی ہے.آپ نے اس طالب علم کو بلایا اور پیار سے فرمایا.آپ نے کیوں تکلیف کی ہے بیٹا آپ اپنی جوتی دیں میں آپ کی جوتی صاف کر دوں.آپ کے اس محبت بھرے رد عمل سے طلبا اور اساتذہ انتہائی متاثر ہوئے.ڈیرہ غازی خان کے سکول میں ہوٹل سپرنٹنڈنٹ تھے.ہوٹل کا ٹیوب ویل خراب ہو گیا.پانی نہ ہونے کے باعث طلبا سخت پریشان ہوئے.صبح سویرے جب طلباء اٹھے دیکھا کہ پانی کے تمام مشکے لبالب بھرے ہوئے ہیں.وہ حیران ہوئے کہ ٹیوب ویل تو خراب ہے پانی کہاں سے اور کون لایا ہے.ایک طالب علم نے بتایا کہ رات گئے جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں کہ مندرانی صاحب واپڈا کالونی کے ٹیوب ویل (جو ایک کلومیٹر کی مسافت پر ہے) سے تنہا کندھے پر گھڑے لا کر مٹکوں میں ڈال رہے تھے.امانت و دیانت آپ سے قبل ہوٹل میں طلباء کے کھانے کافی گس خرچ دو روپے آتا تھا.جب بطور سپرنٹنڈنٹ طلباء کے کھانے کی ذمہ داری آپ پر پڑی تو آپ کی محنت و دیانتداری سے فی کس خرچ چند آنوں تک پہنچ گیا تھا.آپ کا یہ ریکارڈ ضرب المثل رہا

Page 110

187 جسے بعد میں کوئی نہ توڑ سکا.آپ انتہائی دیانتدار اور امانتوں کی حفاظت کرنے والے تھے جو محکمہ تعلیم میں اپنی مثال آپ تھے.جب آپ ہوٹل سپر نٹنڈنٹ تھے تو طلباء اپنی سیکورٹی اور نقدی وغیرہ آپ کے پاس جمع کرواتے تھے.آپ ہر طالب علم کی نقدی الگ الگ لفافے میں ڈال کر اس پر طالب علم کا نام جتنی رقم ہوتی وہ لکھ دیتے.جب طالب علم واپس طلب کرتا تو اس کو بعینہ وہی رقم واپس کرتے جو اس نے جمع کروائی ہوتی.اس میں سے ایک پائی بھی عارضی طور پر خرچ نہیں کرتے تھے.مخالفین کا اعتراف آپ کی دیانتداری محنت ، طلباء سے ہمدردی کا چر چا زبان زد عام ہوا.اپنے تو اپنے بیگانے بھی آپ کے مداح تھے.ایک دفعہ ایک معروف مخالف معاند سلسلہ مولوی نے ہیڈ ماسٹر صاحب کو فون کیا کہ آپ کے تمام اساتذہ کام چور ہیں میں سب کا تبادلہ کر دوں گا ما سوائے ماسٹر بشیر احمد صاحب کا کہ وہ ہیں تو قادیانی لیکن ہیں انتہائی محنتی اور فرض شناس اَلفَضُلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْاَعْدَاءَ - آپ محض خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل اور اپنی دیانتداری محنت اور فرض شناسی کے باعث نہ صرف طلباء اسا تذہ بلکہ افسران بالا کی نگاہ میں بھی اپنی قابلیت اور بہترین نتائج کے باعث منفرد اور ممتاز مقام رکھتے تھے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ محکمہ پنجاب نے صوبہ میں سے دواسا تذہ کو پی.ایچ.ڈی کرانے کے لئے نامزد کیا جس میں ایک بشیر احمد صاحب تھے.خدمت والدین کی قابل تقلید مثال جب آپ کو محکمہ کی طرف سے اس کی باضابطہ اطلاع ملی اس پر آپ نے جو “ 188 جواب دیا وہ آپ کی والدین سے غیر معمولی عقیدت اور خدمت کی روشن مثال ہے.آپ نے لکھا کہ خاکسار والدین کا اکلوتا بیٹا ہے والدہ صاحبہ پہلے وفات پاچکی ہیں جبکہ میرے والد محترم صاحب فراش ہیں.مجھے ان کی خدمت اور عیادت کی سعادت مل رہی ہے.ان حالات میں پی ایچ ڈی کے لئے جانا ناممکن ہے.آپ کی عادت تھی رات کو سفر کرنے کو ترجیح دیتے.وسائل کی کمی کے باعث آپ اپنی ملازمت کے دوران جتنا پیدل چلے ہیں شائد ہی کوئی ملازم اتنا چلا ہو.مثالی فرض شناسی آپ جب واہوا میں تعینات تھے جو تونسہ شریف کے شمال کی جانب تقریباً 75 کلومیٹر پر واقع ہے سکول جانے کے لئے گاؤں سے پیدل تو نسہ پہنچے تو آخری بس وا ہوا جا چکی تھی.شام کے پانچ بج چکے تھے سکول سے غیر حاضری کا تو آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.احساس فرض نے انہیں پیدل سفر کرنے پر مجبور کر دیا.چنانچہ آپ نے اپنے معمول کے مطابق اپنے سامان کی گٹھڑی کاندھے پر ڈالی اور پیدل چل دیئے اور صبح نو بجے سکول پہنچ گئے.مخلوق خدا سے ہمدردی آپ نہ صرف انسان دوست تھے بلکہ ہر ذی روح کی تکلیف پر آپ کا دل تڑپ اٹھتا تھا.آپ کے ہمسائے تین یوم کے لئے کہیں باہر گئے تو بیرونی چابی آپ کو دے گئے.اچانک ہمسائے کے گھر سے بلی کے بلبلانے کی آواز میں آنے لگیں.آپ فور ا پنچے کیا دیکھتے ہیں کہ بلی اندر کمرہ میں بند ہے جبکہ کمرہ مقفل تھا.آپ تین دن صبح و شام بلی کو پلیٹ میں دودھ ڈال کر دروازے کے نیچے سے پلاتے رہے.آپ کا معمول تھا کہ صبح کی نماز اور تلاوت کے بعد باقاعدگی سے چڑیوں کو

Page 111

189 روٹی کے باریک باریک ٹکڑے کر کے ڈالتے.ہمیشہ صبح سویرے بے شمار چڑیاں چہچہاتی ہوئیں پہنچ جاتیں اور سیر ہو کر اڑ جاتیں.ایک دفعہ آپ جارہے تھے کیا دیکھتے ہیں ایک تانگہ گھوڑا نالے میں گرا پڑا ہے جبکہ کو چوان بے بسی کے عالم میں کھڑا ہے کوئی بھی اپنا کام چھوڑ کر وقت نہیں دے رہا.جب ہمارے بشیر بھائی پہنچے تو فورارک گئے.ہر آنے جانے والے کو محبت بھرے لہجہ میں درخواست کرنی شروع کر دی.جس کے نتیجہ میں بیسیوں افراد تعاون پر آمادہ ہو گئے اور چند لمحوں میں گھوڑے کو اذیت سے نجات دلائی جب گھوڑا تانگہ باہر نکل آیا تو تعاون کرنے والوں نے برادرم بشیر صاحب کو سمجھا کہ شاید یہ مالک ہیں کہنے لگے بابا مبارک ہو اب تو آپ خوش ہیں آپ نے فرما یا جزاکم اللہ میں آپ کا ممنون احسان ہوں.آپ کو قرآن پاک کا بہت سا حصہ زبانی یاد تھا.انتہائی خوش الحانی سے تلاوت کرتے اور بچوں کو قرآن پاک پڑھنے پڑھانے پر کافی توجہ اور وقت دیتے تھے.آپ عبادت گزار درویش ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی باذوق شخصیت کے مالک بھی تھے فارسی ، عربی ، انگلش اور اردو پر خاصہ عبور تھا.مهمان نوازی مہمان نوازی آپ کا طرہ امتیاز تھا.مرکزی مہمانوں کی تو بے حد عزت و تکریم فرماتے اور بیت الذکر مشن ہاؤس میں ان کے ساتھ سب سے زیادہ وقت دیتے.وفات سے کچھ عرصہ قبل محترم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظر بیت المال تونسہ شریف گئے.مکرم شاہ صاحب کی شخصیت سے آپ بے حد متاثر ہوئے.ان کی خدمت میں حاضر رہے.مرکزی وفد چونکہ ویگن میں تھا ان کی روانگی سے چند منٹ پہلے آپ بس سٹاپ پر پیدل پہنچ گئے.جب معزز مہمانوں کی گاڑی قریب پہنچی تو ہاتھ دے کر روکا “ 190 اور عرض کیا کہ الوداع کہنے آیا ہوں.ساتھ ہی سب مہمانوں کو تو نسہ کا مشہور سوہن حلوہ پیش کرتے ہوئے کہا تحفہ درویش قبول فرماویں.آپ کی زندہ دلی اور وسعت نظر کا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے سب کے لئے الگ الگ تحفہ پیش کیا.آپ کی وفات کا جب محترم شاہ صاحب کو علم ہوا تو باوجود والدہ محترمہ کی بیماری اور شدید گرمی کے دارالضیافت تشریف لائے.چہرہ دیکھا جو باوجود لمبی مسافت اور کافی وقت گزرنے کے بعد بھی پھول کی طرح کھلا ہوا تھا.آپ انتہائی متوکل انسان تھے.آپ ہمیشہ فرماتے خدا داری چہ غم داری.آپ کے تو کل علی اللہ کا صرف ایک واقعہ ہدیہ ناظرین ہے.لاہور میں ایم.ایڈ کی ٹرینگ کے سلسلہ میں گئے.بیت الذکر میں قیام تھا.شام کو مطالعہ کے لئے ایک پارک میں تشریف لے گئے.ایک کتاب میں مبلغ 700 روپے رکھے ہوئے تھے.مطالعہ میں مصروف تھے کہ تین نو جوان آپ کے پاس آگئے.مطالعہ کے بہانے ایک نے وہ کتاب اٹھالی جس میں آپ کی کل پونچی تھی.تھوڑی دیر کے بعد سب کے سب چلتے بنے.آپ کو جب رقم کی ضرورت پڑی چیک کیا تو رقم غائب تھی.آپ انتہائی خود دار اور متوکل انسان تھے کسی سے مانگنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.آپ نے دعا شروع کر دی.اے اللہ مجھے کسی کا محتاج نہ کرنا تو ہی مسبب الاسباب ہے تو ہی میری کفالت فرما.دوسرے دن دارالذکر میں ایک پولیس والا آیا اور کہا کہ آپ کو ایس ایچ او صاحب بلا رہے ہیں.آپ تھانہ تشریف لے گئے کیا دیکھتے ہیں وہ تینوں نوجوان پولیس کی حراست میں ہیں.SHO نے وہ کتاب جس پر ایڈریس لکھا ہوا تھا اور 700 روپے آپ کے حوالے کر دیئے جس پر آپ نے شکریہ ادا کیا.پولیس کی طرف سے اس قسم کا مثبت رویہ نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا.دراصل یہ آپ کے غیر معمولی تو کل کا ثمر تھا.

Page 112

نماز تہجد 191 آپ باقاعدگی سے نماز تہجد کے لئے دو بجے شب اٹھ کھڑے ہوتے اور نماز فجر کی اذان تک نوافل ادا کرتے.جب آپ کی صحت خراب ہوتی تو گھر والے آپ کو آرام کا مشورہ دیتے تو آپ فرماتے سفر بہت لمبا ہے وقت کم ہے.میرا آرام میرا سکون نمازوں میں ہی ہے.نماز تہجد میں با قاعدگی کے لئے آپ زیادہ آرام دہ بستر پر کبھی نہ سوتے تھے.آپ سر کے نیچے تکیہ کی بجائے بوری کو تہہ کر کے رکھ لیتے جبکہ چار پائی پر چٹائی بچھا کر اس پر سوتے.دوران سفر یا دوران ملازمت جس بیت الذکر کو غیر آباد پاتے اسے اپنی نمازوں سے آباد کرتے آپ ہمیشہ سفر آخرت کو یا در کھتے اور اکثر کہتے زندگی بلبلہ ہے پانی کا کیا بھروسہ ہے زندگانی انفاق فی سبیل اللہ کا آپ جماعت کی تمام مالی تحریکوں میں بشاشت سے حصہ لیتے.جب کوئی گھر میں بیمار ہو جاتا تو دعا کے ساتھ فوری سیکرٹری صاحب مال کی خدمت میں حاضر ہوتے.مریض کے نام کا صدقہ دے کر اس کی رسید حاصل کرتے.آپ کی وفات کے بعد آپ کے ریکارڈ میں سے بے شمار صدقات کی رسیدیں ملی ہیں رشتہ داروں میں یا غیروں میں کوئی بیمار یا غرض مند ہوتا تو آپ خاموشی سے اس کی مالی خدمت کرتے جس کا دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہونے دیتے.برادرم منیر احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مجھے بخار ہو گیا اور باوجود علاج کے مرض بڑھتا گیا.برادرم بشیر احمد خان صاحب میری عیادت کرنے والوں میں سب سے زیادہ آئے.ایک دفعہ دعا “ کے علاوہ معقول رقم دے گئے.192 میری معذرت پر بڑی محبت سے فرمایا بھائی آپ کی بیماری لمبی ہوگئی ہے.ނ علاج معالجہ پر کافی خرچ ہوتا ہے یہ قبول فرما کر مجھے ثواب کا موقع دیں.آپ کو علم ہوا کہ بستی مندرانی میں ایک غیر از جماعت غریب گھرانہ ہے جس کا واحد ذریعہ معاش اس کا اونٹ تھا جو مر گیا ہے.آپ فورا گھر پہنچے اظہار ہمدری کیا اور آتی دفعہ معقول رقم دی جس سے متاثرہ کنبہ حیران ہو کر رہ گیا کہ اس طرح کسی نے بھی ہماری مدد اور ہمدردی نہیں کی.اس کتبہ کو جب آپ کی وفات کا علم ہوا تو وہ تعزیت کے لئے آئے.خاتون خانہ ان کی اس نیکی اور حسن سلوک کا آبدیدہ ہو کر ذکر خیر کرتی رہی.آپ کے بھانجے عزیزم مکرم محمود احمد خان ایاز نے بتایا کہ آپ با قاعدگی.عید الاضحی پر نہ صرف خود قربانی کی توفیق پاتے بلکہ عید سے قبل تمام رشتہ داروں خصوصاً تنخواہ دار ملازمین کے پاس فرد فرد حاضر ہوتے اور قربانی کی ترغیب دیتے.جب وہ کہتے کہ قربانی تو ضرور کرنی ہے فی الحال تنخواہ نہیں ملی.آپ فرماتے تنخواہ کی وجہ سے قربانی کی سعادت سے محروم نہ ہوں میں ادا ئیگی کر دیتا ہوں.چنانچہ سب ملازم بھائی اور عزیز آپ کی پیشکش کے طفیل قربانی کرنے کی توفیق پاتے.ایفائے عہد امسال قربانی کے لئے گائے خریدنے کے سلسلہ میں تونسہ شریف سے 10/12 کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک گاؤں گئے.ایک گائے کا سودا طے پا گیا جب آپ گھر گائے لے کر چلنے لگے تو غریب فروخت کنندہ نے عاجزانہ رنگ میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ اگر چہ سودا طے ہو چکا ہے میرا حق تو نہیں بنتا اگر ممکن ہو تو قربانی کے بعد گائے کا رسہ اور اس کے گلے میں جو گانی ہے وہ اگر مجھے واپس کر دیں تو ممنون

Page 113

193 احسان ہوگا.آپ نے حامی بھر لی.قربانی کے دوسرے دن آپ 10/12 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے گائے کا رسہ اور گانی فروخت کنندہ کو دے کر آئے.جماعتی خدمات آپ جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے لیکن نمود و نمائش یا خود نمائی کا شائبہ تک کبھی بھی دکھائی نہ دیتا.آپ کافی عرصہ جماعت احمدیہ بستی مندرانی کے صدر رہے ہیں اور دم واپسیں تک آپ بطور زعیم انصار اللہ جماعت تونسہ شریف میں خدمات سرانجام دینے کی سعادت پاتے رہے.ایک سال آپ کو مجلس مشاورت میں اپنے علاقہ کی نمائندگی کا شرف بھی حاصل ہوا.جب ربوہ تشریف لائے تو ربوہ میں مقیم آپ کے جملہ رشتے داروں کی دلی خواہش تھی کہ ہمارا یہ بزرگ دعا گو در ولیش بھائی ہمارے گھر آئے اور قیام کرے تا کہ ان کی دعاؤں سے ہم فیض یاب ہوسکیں.خاکسار کو مجلس مشاورت کے دوران صدر انجمن احمدیہ کے بیرون گیٹ پر ٹل گئے.مصافحہ معانقہ بار بار کرنے کے بعد از خود بولے ناصر خان میں معذرت خواہ ہوں آپ کے گھر نہیں آسکا.یہ معذرت جس محبت اور دل آویز مسکراہٹ اور اپنائیت کے ساتھ کر رہے تھے میں شرمندہ ہو رہا تھا.میں نے عرض کیا بہر کیف ہم چشم براہ رہیں گے.فرمایا دل کی بات بتاؤں دارالضیافت کے قیام اور بیت المبارک سے قربت اور وابستگی میں جو سکون اور راحت میسر آ رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے.اگر خدا نے توفیق دی تو اب جب آیا تو تب ضرور رہوں گا.اس کے بعد مورخہ 26 جون 1999 ء کو ایسے آئے کہ تاقیامت ربوہ کے ہی ہو کر رہ گئے.آپ کی وفات پر جب دفتر وصیت نے آپ کا حساب چیک کیا تو بفضل تعالیٰ “ 194 کھاتے میں زائد رقم جمع کروا چکے تھے.آپ زندگی بھر دوسروں کے کام آتے رہے.خود کبھی بھی کسی پر بوجھ نہ بنتے.آپ نے وفات سے قبل اپنے کفن بکس اور تونسہ سے ربوہ تک کا کرایہ بس و دیگر اخراجات حساب کر کے الگ اپنے صندوق میں رکھے تھے.ساتھ ہی یہ وصیت لکھی ہوئی تھی کہ میرے سفر آخرت پر کسی پر بوجھ نہیں ڈالنا.چنانچہ ایسا ہی ہوا آپ کے سفر آخرت پر برادری بس لے کر آئی.سفر و حضر کے تمام اخراجات باوجود عزیزوں کی خواہش کہ ہم اپنے اس بزرگ بھائی کے سفر آخرت پر خرچ کرنے کی سعادت حاصل کریں کسی کو بھی خرچ کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی کیونکہ ان کی وصیت کا سب کو احترام تھا.آپ مورخہ 25 جون 1999 ء کو مختصر سی علالت کے بعد 68 سال کی عمر میں اپنے مولیٰ حقیقی سے جاملے.26 جون 1999ء کو ان کی نماز جنازہ دارالضیافت میں مکرم و محترم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظر بیت المال نے پڑھائی اور بہشتی مقبرہ میں بعد از تدفین مکرم شاہ صاحب نے ہی دعا کروائی.موصوف نے اپنے پیچھے سو گوار بیوہ دو بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑی ہیں.احباب سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے اور جملہ پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.(روز نامہ الفضل 15 نومبر 1999ء)

Page 114

“ محترمہ اقبال بیگم صاحبه 195 رشتہ میں اگر چہ وہ میری خالہ تھیں لیکن اپنی بے پایاں شفقت ،صلہ رحمی کے باعث آپ کا وجود ہمارے لئے مادر مہربان سے کم نہ تھا.آپ کی شفقت کا پہلو بھی خاندان کے لے انتہائی قابلِ تعریف اور قابلِ قدر تھا لیکن جماعتی و دینی نقطہ نگاہ سے آپ نے جو ایثار و قربانی.اخلاص و فدائیت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں.انہوں نے تو آپ کی شخصیت کو مزید چار چاند لگا دیئے تھے جو ہمارے لئے مشعل را ساراہ ہیں.حالات زندگی آپ 1910ء میں دھرم کوٹ رندھاوا ضلع گورداسپور میں حضرت صو بیدار میجر ڈاکٹر ظفر حسن صاحب (رفیق حضرت بانی سلسلہ ) کے ہاں پیدا ہوئیں.آپ ڈاکٹر صاحب کی بڑی بیٹی تھیں.آپ کی شادی مکرم شیخ محمد خورشید صاحب پسر مکرم شیخ محمد حسن صاحب صدر محلہ دار الفضل قادیان سے ہوئی.آپ کا وجود صحیح معنوں میں نافع الناس تھا.آپ کو اپنے ضعیف والدین اور خسر محترم کی مثالی خدمت کا شرف حاصل ہوا.تقسیم ملک کے بعد والدین کو لاہور میں اپنے قریب رکھا ور آخری دم تک ان کی انتھک خدمت کا سلسلہ جاری رہا.آپ کو خدا تعالیٰ نے سال 1944ء میں وصیت کی سعادت سے بھی نوازا.چندہ وصیت کے علاوہ دیگر چندہ جات بھی ادا فرماتی رہیں.آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو احسن رنگ میں نبھاتی رہیں.خصوصاً مالی قربانی کے مواقع کی تو آپ تلاش اور جستجو میں رہتی تھیں.حضرت امام جماعت کی طرف سے جو بھی کوئی “ تحریک پیش ہوتی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں.196 امداد طلباء جامعہ کے وظائف کی مد میں کئی سالوں سے مبلغ پانچ صد روپے ماہوارا دا فرمارہی تھیں.وفات سے کچھ عرصہ قبل اپنی کل جمع شدہ پونجی مبلغ پچاس ہزار روپے یکصد یتامیٰ فنڈ میں جماعت کو پیش کئے.جو صدرانجمن کی ملکیت رہیں گے جبکہ ان کے منافع سے بیتامی کو وظائف ملتے رہیں گے.ساتھ ہی مزید پچاس ہزار روپے کا وعدہ اس مد میں لکھوایا.جس میں مبلغ 28,29 ہزار روپے جمع کر چکی تھیں.لیکن زندگی نے وفا نہ کی.موصوفہ کی چونکہ مزید پچاس ہزار روپے کی ادائیگی کی نیک خواہش تھی ان کی اس نیک خواہش کی تکمیل آپ کے پسماندگان نے بقیہ رقم اپنی طرف سے ڈال کر مبلغ پچاس ہزار روپے ادا کر دی ہے.کار خیر اور نیکی کی تحریک و تلقین انتہائی حکمت عملی اور جرات سے موقع محل کے مطابق کرتیں.بات کرنے کا ایسا ڈھنگ تھا کہ متعصب سے متعصب خواتین بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہتی تھیں.خدمت خلق کا بڑا جذ بہ وشوق تھا.دکھی ، مجبور ،مقروض مریضوں کی خدمت کا کوئی موقعہ حتی المقدور ہاتھ سے نہ جانے دیتیں.آپ کی بہو عزیزہ صبیحہ اکرم صاحبہ لیڈی ڈاکٹر ہیں.وہ جن مریضوں کے بارہ میں آکر بتاتیں کہ فلاں فلاں مریضہ انتہائی مفلس ہے جبکہ اس کی زندگی بھی خطرہ میں ہے.ایسے مریضوں کے لئے خصوصی دعائیں کرتیں اور فرصت ملتے ہی ان کی عیادت کے لئے ہسپتال پہنچ کر عیادت کے علاوہ حسب توفیق ان کی مالی امداد بھی کرتیں.وعدہ پیش کرتیں تا کہ دیگر بہنوں پر تحریک کا خوشگوار اثر ہو.جماعتی کاموں کے ساتھ ساتھ محلہ کے سماجی کاموں میں بھی خوب حصہ لیتیں.صد سالہ جلسہ قادیان میں باوجود پیرانہ سالی کے بڑی ہمت کے ساتھ شمولیت کی سعادت حاصل کی.

Page 115

شادیوں پر تحائف 197 آپ ہر کام میں تربیتی و دینی پہلو کو مقدم رکھتی تھیں آپ کا خاندان وسیع تھا.اور آپ خاندان میں نہ صرف معمر ہونے کے ناطے بلکہ اپنی شفقتوں اور دعا گو ہونے کے باعث ہر دلعزیز و مقبول تھیں جب بھی خاندان میں کوئی شادی بیاہ کی تقریب ہوتی آپ سے ضرور شمولیت کی درخواست کی جاتی.آپ ہمیشہ اپنے عزیزوں کی دلجوئی فرماتیں اور بوقت شمولیت حسب توفیق کچھ نہ کچھ نقد رقم تحفہ کے طور پر دیتیں.تربیت اولاد نامساعد حالات اور نقل مکانی کے باعث بچوں کو اعلی تعلیم تو نہ دلوا سکیں البتہ اپنے تمام بچوں پر سلسلہ احمدیہ سے محبت و اخلاص اور خلافت احمدیہ سے محبت و وابستگی کے گہرے نقوش چھوڑے.آپ بڑی خوبیوں کی مالک تھیں خاندان اور خاندان سے باہر جہاں تک آپ کی دسترس تھی آپ ہر کمزور مفلس نادار کے لئے خاموش سہارا تھیں.خاندان کے جس فرد کے متعلق معلوم ہوتا کہ وہ مالی تنگدستی میں مبتلا ہے.اس کی معقول مالی امداد فرماتیں جس کا دوسرے کو علم تک نہ ہونے دیتیں.نہ صرف اپنے خاندان بلکہ رشتہ داروں کے آگے رشتہ داروں کی مالی امداد خصوصاً مفلس ومخلص اور ہونہار طالب علموں کو با قاعدگی سے تعلیمی وظائف دیتی تھیں.ان کی وفات کے بعد آپ کی اس خاموش مالی خدمت کا پہلو نمایاں طور پر سامنے آیا الغرض ھے خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والی میں آپ کی میت لاہور سے دارالضیافت لائی گئی اور بعد نماز عصر بیت مبارک “ 198 میں مولانا سلطان محمود صاحب انور ناظر اصلاح وارشاد نے نماز جنازہ پڑھایا.بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل الاعلیٰ نے دعا کروائی.پیاری خالہ جان نے اپنی زندگی میں جو کار خیر جاری کر رکھے تھے اور جن جن مالی تحریکوں میں حصہ لے رکھا تھا.آپ کے پسماندگان نے تمام تحریکوں کو جاری و ساری رکھنے کے سلسلہ میں اقبال بیگم ویلفیئر فنڈ قائم کر دیا ہے.جس میں پسماندگان نے حسب توفیق عطا یا دیئے ہیں.اس فنڈ سے انہوں نے اپنی والدہ کی جملہ تحریکوں کو زندہ و پائندہ رکھنے کا عہد کیا ہے کیونکہ ان کی روح کو ثواب اور ان کے ترقی درجات کے لئے یہ ایک اعلیٰ نیک طریق ہے.احباب جماعت سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالی پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرما دے اور آپ کی اولا د اور نسل کو ہمیشہ حضرت بانی سلسلہ کی دعاؤں کا وارث بنائے.آمین (روز نامہ الفضل 19 اکتوبر 1992ء)

Page 116

199 “ 200 شریک حیات محتر مہ رشیدہ بیگم صاحبه 7 نومبر 1995ء کی بات ہے کہ دفتر سے چھٹی ہونے پر جب گھر آیا تو میری بیوی ( رشیدہ بیگم ) نے یہ خوشخبری سنائی کہ عزیزم طارق سات دسمبر کو جرمنی سے پاکستان آ رہا ہے.اگر چہ یہ اطلاع ہمارے لئے انتہائی مسرت اور خوشی کا باعث تھی کہ بیٹا تقریبا پانچ سال بعد پہلی مرتبہ آرہا ہے.لیکن رشیدہ بیگم کے چہرہ پر وہ خوشی اور رونق ی تھی جو ہونی چاہئے تھی.یہ خبر سنانے کے بعد وہ قدرے خاموش ہو گئیں.معابعد مجھے اس کی آنکھوں میں آنسو تیرتے ہوئے نظر آئے.حیرانگی ہوئی کہ ایسا کیوں؟ خیال آیا شاید اظہار تشکر اور خوشی کے آنسو ہوں گے.میرے استفسار پر قدرے بھرائی آواز میں بولیں کہ مجھے پیارے طارق کی آمد کی بفضل تعالیٰ بے انتہا خوشی ہے.لیکن میرے دل و دماغ میں وہ وقت آ رہا ہے کہ جب بیٹا واپس جائے گا اس وقت اس کی اور پھر میری کیا کیفیت و پوزیشن ہوگی.اس کی واپسی اور پھر جدائی پر اس کو اور مجھے جو تکلیف ہوگی وہ اس خوشی پر مجھے بھاری اور بوجھل محسوس ہو رہی ہے.عزیزم طارق کی آمد آمد تھی گھر میں رنگ وروغن کا اہتمام کیا جارہا تھا.جو کافی عرصہ سے نہ ہوئے تھے.جوں جوں دن قریب آتے گئے.جانبین کی خوشی میں اضافہ ہوتا چلا گیا.دن بھر گھر کی صفائی سامان ادھر سے ادھر اٹھانا رکھنا اس کا معمول بنا رہا.اور شام کو بیٹے کی خاطر مدارت کے لئے ضرورت کی نئی نئی اور اچھی اچھی اشیاء خرید نے بازار چلی جاتیں.ساتھ ساتھ اکثر یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلتے رہے کہ نہ جانے دل کیوں بجھا بجھا سا رہتا ہے.جبکہ دل کے نام کی اس کو نہ کوئی بیماری تھی اور نہ ہی کوئی بنیادی عارضہ تھا.بفضل تعالیٰ ظاہری جسمانی اعصابی لحاظ سے انتہائی صحت مند و تو انا تھیں.مورخہ 26 نومبر 1995ء کو دن بھر مہمان آتے رہے.ان کی ضیافت کا سلسله زور شور سے جاری رہا.اپنی نواسی کو فون کیا کہ دو پہر کا کھانا میرے پاس آکر کھاؤ.تمام کھانے بڑے شوق سے خود پکائے.تقریباً چار بجے تمام مہمان چلے گئے.تو لاہور میں مقیم اپنی بیٹی کے لئے ساگ پکانا شروع کر دیا.ساتھ ساتھ گھر کے کام کاج بھی کرتی رہیں.مجھے ایک کام کہا کہ ادھر باہر سے گھنٹی ہوئی.میں نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کون ہے آکر کام کرتا ہوں.خاکسار باہر آیا تو گیٹ پر دو دوست کھڑے تھے.ان سے صرف دو تین منٹ بات کر کے واپس چلا آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میری بیوی فرش پر چت خاموش آرام سے سیدھی لیٹی ہوئی ہے.یہ صورت حال میرے چشم تصور کے قطعی برعکس تھی.میں نے سمجھا کہ پاؤں پھسل گیا ہے.میری انتظار میں ہے کہ میں آؤں اور اٹھاؤں.چنانچہ میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں.اٹھ کھڑی ہوں.لیکن جواب ندارد.دو تین آواز میں دی لیکن وہ خاموش رہیں.اس پر قدرے پریشانی ہوئی.قریب بیٹھ کر مزید دو تین آواز میں دیں لیکن بے اثر.میں گھر میں اکیلا تھا.فوری ہسپتال فون کیا چند منٹوں میں ایمبولینس آگئی.ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹر صاحبان نے فوری چیک اپ کیا.چند لمحوں کے بعد وہ مایوس نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے.اس وقت تک مجھے ایک فیصد بھی احساس نہ تھا کہ میری رفیقہ حیات اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملی ہے.ڈاکٹر صاحبان نے بتایا کہ ان کا تو موقعہ پر ہی دل فیل ہو گیا تھا.عجب تصرف الہی دیکھئے.کہ 26 نومبر کو مکرم نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر الفضل (جو احمدی شعرا کا کلام اکثر الفضل میں شائع فرماتے رہتے ہیں.عین اس وقت جب ہم غمزدہ تھے.آپ نے حسن اتفاق سے 27 نومبر کے الفضل میں والد محترم ظفر محمد صاحب ظفر کی نظم بعنوان مقام تو کل اور دعا شائع فرمائی جس کے صرف چند اشعار ملاحظہ فرمائیے.

Page 117

201 “ 202 میرے دردِ دل کی نہ کوئی دوا کرے ہاں دعا کرے لا درد دوا ہے مرا مبتلا طول آمل میں ہو راضی رہوں اسی جو میرا خدا کرے تدبیر بھی ہے قبضة تقدیر میں ظفر مقام عطا مولی تجھے تو گل کرے یہ اخبار 26 نومبر کی شام کو ہمارے لئے پیغام تو کل وصبر لایا.یہ نظم پڑھتے ہی عجیب ڈھارس اور حوصلہ عطا ہوا.ایسے معلوم ہوا کہ والد محترم کی روح ہمارے غم میں فوراً آشامل ہوئی ہے.تمام اہل خانہ بار بارا سے پڑھتے رہے اور نا قابل بیان حوصلہ پاتے.حضرت خلیفہ اسیح الرائع نے از راہ شفقت بوساطت منظوری صدر انجمن احمدیه مورخہ 3 مئی 1996ء کو جنازہ غائب بعد از جمعہ بیت الفضل لندن میں پڑھایا.خاکسار نے اہلیہ کی وفات پر حضرت صاحب کی خدمت میں جو خط لکھا تھا اس کا درج ذیل حصہ حضرت صاحب کے ارشاد پر الفضل انٹرنیشنل نے یکم مارچ 1996ء کی اشاعت میں شائع کیا.مکرم ناصر احمد صاحب ظفر کارکن امور عامد ربوہ اپنی اہلیہ رشیدہ بیگم صاحبہ کے متعلق لکھتے ہیں.خاکسار کی اہلیہ پابند صوم وصلوٰۃ، چندوں کی ادائیگی میں با قاعدہ سادہ مزاج خود دار مفتی ، مہمان نواز تھیں.زندگی بھر انہوں نے نہ زیورات کی تمنا کی اور نہ ہی قیمتی ملبوسات کی خواہش.اس کی دینداری کا یہ حال تھا کہ اس کا بیٹا عزیزم مبشر احمد ظفر جرمنی سے آیا.تو اس نے والدہ سے عرض کیا کہ امی میں آپ کو تحفہ لے کر دینا چاہتا ہوں.آپ کیا پسند کریں گی.نیک دل والدہ نے کہا کہ ایک تو مجھے تفسیر صغیر خرید دیں.دوسرا میری وصیت کا بقایا ادا کر دیں.چنانچہ سعید فطرت بیٹے نے فوری تعمیل کر دی.جب سے حضور کے خطبات ایم ٹی اے پر شروع ہوئے ہیں.خاکسار عینی شاہد ہے کہ اس نے حضور کا کوئی خطبہ ماسوائے سفر کے Miss نہیں کیا.ایک دن اس کے بیٹے نے جرمنی سے فون پر استفسار کیا کہ امی کوئی چیز چاہئے تو بھجوا دوں.اس پر اس کی والدہ نے کہا کہ بیٹا ایک سال سے لوگوں کے گھروں میں جا کر حضور کے خطبات سن رہی ہوں، گھٹنوں میں درد ہوتا ہے.چلا نہیں جاتا.کبھی کسی کے گھر اور کبھی کسی کے گھر جانے سے طبیعت پر بوجھ بھی پڑتا ہے.اگر تمہاری جیب اجازت دیتی ہے تو ایسا انتظام کر دو کہ گھر بیٹھی اطمینان سے حضور کے خطبات سن سکوں.سعید فطرت بیٹے نے فوری مطلوبہ رقم بھجوادی.جس سے گھر میں ہی حضور کے خطبات تادم واپسیں با قاعدگی سے سنتی رہیں.حضرت صاحب کی طرف سے اس قدر حوصلہ افزائی اور اظہار پسندیدگی پر احساس ہوا کہ کیوں نہ قدرے تفصیل سے اس کا ذکر خیر بغرض دعا الفضل میں شائع کر لیا جائے.خاکسار کی شادی 25 دسمبر 1953ء کو مکرم محمد یوسف صاحب بٹ کی صاحبزادی رشیدہ بیگم سے احمد نگر میں ہوئی.خاکسار کا تعلق بلوچ قبیلہ سے ہے جبکہ زوجه ام بٹ زادی تھیں.دونوں قوموں کے مزاج نظریات میں بعد المشرقین تھا.موصوفہ نے نہایت عقل مندی سلیقہ شعاری اور حسن تدبیر سے اس خلیج کو بغیر کسی اختلاف کے پاٹ لیا.دونوں خاندانوں کی اچھی روایات کو اپنے اندر ایسا سمویا کہ ہر دو خاندانوں میں انتہائی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی رہیں.سب سے نمایاں اور غالب رنگ دین داری کا تھا.شروع سے لے کر تادم واپسیں باقاعدگی سے عبادات کو التزام کے ساتھ سنوار سنوار کے پورے سوز کے ساتھ ادا کرتی تھیں.

Page 118

“ 203 ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی کمر ہمت کس لیتیں.طبیعت میں جوش جذبہ قابل دید ہوتا.رمضان شریف کا چاند دیکھ کر اتنی خوشی کا اظہار کرتیں جس طرح بچے عید کا چاند دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہیں.گزشتہ ماہ رمضان میں باقاعدگی سے نماز فجر بیت مبارک میں جا کر ادا کرتیں رہیں.ماہ رمضان میں چار مرتبہ کلام الہی پڑھنے کی سعادت پائی.جبکہ سال بھر میں دو دفعہ با ترجمہ کلام الہی پڑھا کرتیں.وہ دن اس کے لئے انتہائی پریشان کن اور تکلیف دہ ہوتا جس دن بوجہ مہمان نوازی یا کثرت کا رعبادت بر وقت ادا نہ کر پاتیں.بار بار دکھ اور افسوس کا اظہار کرتیں کہ آج میں بر وقت عبادت ادانہ کر سکی.با امر مجبوری عبادات جمع کرنی پڑی ہیں.رات کو اگر بارہ بجے بھی سوتی تو صبح ہر حالت میں آخر شب کی عبادت کے لئے بیدار ہو جاتیں.اس کی شب خیزی کا یہ عالم تھا کہ خاکسار کا اور بچوں کا اس کے کمرے میں سونا ناممکن تھا.وہ اکیلی الگ کمرے میں سوتیں.اس کے سرہانے میز پر جائے نماز اور تفسیر صغیر ہوتی.اس کی مالی قربانی کا یہ عالم تھا کہ سال 1962ء میں وصیت کرنے کی سعادت پائی.چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدہ تھیں.تمام تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی.ایک دن گھر آیا تو بتایا کہ میں نے آج فلاں خاص تحریک میں مبلغ پانچ صد روپے کا وعدہ لکھوایا ہے.پاس ایک عزیزہ خاتون بیٹھی ہوئی تھیں.وہ کہنے لگی آپا آپ سے جتنا کوئی چندہ مانگتا ہے.آپ فوراوعدہ کر لیتی ہیں.اس پر زوجہ نے کہا کہ سب کچھ تری عطا ہے گھر سے تو کچھ نہ لائے پھر وضاحت سے خاتون کو بتایا احمدنگر میں آغاز میں ایک کمرہ میں ہم دو خاندان اکٹھے رہتے تھے.اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور سلسلہ کی برکت سے دو بچے جرمنی میں ہیں.ایک کی بجائے اللہ تعالیٰ نے دو مکان اور ضرورت کی ہر چیز عطا کر رکھی ہے.چندہ بیج ہے.پیج جتنا زیادہ ہو گا.اتنا ہی پھل زیادہ ملے گا.جس پر وہ خاتون خاموش “ 204 ہو گئی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ جوں جوں راہ مولیٰ میں خرچ کرتی چلی گئیں توں توں مالی تنگدسی فراخی میں بدلتی چلی گئی.اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ کے اس شعر کے مصداق اگر ہمت شود پیدا زبذل مال در راہش کے مفلس نے گردد خدا خود می شود ناصر خدا تعالیٰ حامی و ناصر ہوتا چلا گیا.خدا تعالیٰ نے متوکل اور صابر طبیعت دے رکھی تھی.خوشی میں ضرورت سے زیادہ خوشی اور غمی یا مشکل میں ضرورت سے زیادہ پریشان نہ ہوتیں.عسرویسر میں راضی برضا رہنا مشکل وقت میں صدقات اور دعاؤں سے کام لینا ان کا معمول تھا.بچوں کی تربیت میں سلسلہ سے محبت خود اعتمادی خود داری خلافت سے وابستگی کا درس نہ صرف زبانی بلکہ عملی طور پر دیتی رہتیں.جرمنی میں اپنے بچوں کو بذریعہ خطوط وفون بطور تاکید سوال کرتیں کہ نمازیں پڑھ رہے ہو.حضرت صاحب کے خطبات با قاعدگی سے سن رہے ہو.چندہ دیتے ہو.عزیزم طارق ظفر کو شعبہ صحافت سے لگاؤ ہے.اس نے جرمنی سے فون کیا کہ اگر ممکن ہو تو روز نامہ جنگ میرے نام لگوا دیں.میں نے حامی بھر لی فون کے بعد اس کی والدہ نے کہا روز نامہ جنگ اس کی خواہش پر روز نامہ الفضل ربوہ میری طرف سے اس کے نام لگوادیں.چنانچہ کافی عرصہ یہ دونوں اخبار بھجواتے رہے.بعض دفعہ مشکلات بھی پیش آتیں.لیکن اس کی والدہ کا اصرار رہا کہ الفضل بند نہیں کروانا حتی المقدور یہ سلسلہ چلتا رہا.جبکہ گھر میں اپنے لئے مصباح بیٹے کیلئے خالد اور خاکسار کیلئے ماہنامہ انصار اللہ لگائے رکھا.اخبار الفضل بھی آرہا ہے.مہمان نوازی کا تو اللہ تعالیٰ نے وافر جذ بہ عطا کر رکھا تھا.اپنے عزیزوں کی تو ہر کوئی خدمت کرتا ہے.اپنے ہوں یا غیر وقت ہو یا بے وقت ہمسکراتے چہرے خندہ

Page 119

205 پیشانی اور بشاشت قلب سے مہمانوں سے پیش آتیں.احمد نگر میں تو دن بھر ضیافت کا سلسلہ چلتا رہتا.خصوصاً سال 1970 ء سیلاب 1973ء اور ابتلا کے سال 1974ء اور 1984ء میں تو کوئی لمحہ بھی ضیافت سے خالی نہ ہوتا.مہمان نوازی میں سب سے زیادہ خوشی سلسلہ کے بزرگوں اور اپنوں وغیروں میں مفلس اور سادہ قسم کے مہمانوں کی ضیافت میں محسوس کرتیں.ربوہ میں ہمارا مکان ایک سرکاری ادارہ کے قریب ہے.حق ہمسائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر وقت بے وقت جب بھی جس چیز کی ضرورت ہوتی مہیا کرنے میں تکلیف محسوس نہ کرتیں.خاکسار کی چار بیٹیاں ہیں.جبکہ آمدنی محدود تھی اور خاکسار طبعا فکر فردا سے بے نیاز تھا.میرے وہم و گمان میں نہ تھا کہ محدود تنخواہ میں بچیوں کا جہیز بنایا جا سکتا ہے.جب بڑی بیٹی کے رشتہ کی بات چلی تو مجھے فکر ہوا کہ جہیز وغیرہ کیسے بنے گا.مجھے فکرمند دیکھ کر کہا کہ پریشان کیوں ہیں.میں نے بفضل اللہ تعالیٰ ماسوائے زیوارت اور فرنیچر کے ضرورت کی تمام چیزیں بنارکھی ہیں.وضاحت سے بتایا کہ بیٹی چند سال کی تھی کہ میں ہر ماہ کمیٹی ڈال کر اور کچھ پس انداز کر کے بیٹی کے جہیز کے لئے کچھ نہ کچھ خریدتی رہی ہوں.جہیز کا آغاز اس نے ہمیشہ جائے نماز کی خرید سے کیا اور اختتام تفسیر صغیر کی خرید پر ہوتا.اس طرح اس نے مجھے بغیر پریشان کئے اپنے محدود وسائل کو حکمت عملی سے بروئے کار لا کر سادہ بنیادی جہیز اپنی بیٹیوں کو دیا.خاکسار کی بیٹیاں اپنے بچوں کے ہمراہ جب بھی آتیں تمام بچوں کو بروقت عبادت کراتیں.کلام الہی سننے کے علاوہ بچوں کو اپنے ساتھ لٹا کر قصے کہانیاں سنانے کی بجائے چھوٹی چھوٹی دعائیں از بر کرواتیں.میں نے پوچھا کہ آپ نے اتنی دعائیں کب اور کیسے یاد کی تھیں.کہنے لگیں کہ میرے والد صاحب مجھے اسی طرح بچپن میں اپنے ساتھ سلا کر دعائیں یاد کرواتے تھے.“ 206 جرمنی میں مقیم اپنے بچوں کو جب تحائف بھجواتیں ان میں سر فہرست دینی کتب نماز با ترجمہ قاعدہ میسرنا القرآن دعاؤں کے کتابچے شامل ہوتے.طبیعت میں خود داری اور خود کفالت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا.تنگ دستی عسر ویسر ہر حال میں بشاشت قلب سے با ہمت رفیقہ حیات کی طرح ساتھ نبھایا.آغاز میں خاکسار جامعہ احمدیہ میں پڑھتا تھا 30 روپے ماہانہ وظیفہ ملتا تھا.ایک بیٹی بھی تھی.تنگ دستی کے باعث خاکسار نے کبھی قرض حسنہ حاصل کرنے کا اظہار کیا تو بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ قرض نہیں اٹھانا اللہ تعالیٰ اسی میں برکت دے گا.اس وقت بھی نہ تو مہمان نوازی سے ہاتھ کھینچا اور نہ ہی کسی حاجت مند کو خالی لوٹایا.آغاز میں احمد نگر میں ایک ہی کمرہ تھا.اس کی چھت گر گئی.آمدنی محدود تھی.بوسیدہ مکان کو گرا کر دوبارہ کھڑا کرنا کارے داد تھا.سوچتا رہا کیا کروں.کہنے لگیں آپ فکر نہ کریں.خود مزدوری کروں گی.آپ دو مزدور لگا کر بوسیدہ مکان گروا دیں.ہندوؤں کی بنی ہوئی عمارت تھی جس کی بنیاد میں ہزاروں اینٹیں تھیں.شام سے لے کر رات گئے تک بنیادوں سے سینکڑوں اینٹیں نکال کر راتوں رات ترائی کر کے تیار کر چھوڑتیں.صبح جب راج آتے تو حیرانگی سے دریافت کرتے کہ رات بھر کتنے مزدور لگے رہے ہیں.تنگ دستی اور اتنی محنت کے باوجود مزدوروں کی طے شدہ اجرت کے علاوہ ان کی با قاعدگی سے ہر روز چائے اور مشروب سے تواضع کرنا یقینی ہوتا.ربوہ میں مکان کی تعمیر قسطوں میں مکمل ہوئی.عزیزم آصف نے امی سے کہا کہ میری خواہش ہے کہ اس تھوڑے سے حصے میں سنگ مرمر لگایا جائے جس پر والدہ نے کہا کہ بیٹا مکان کو تصویر خانہ نہیں بنانا.خدا تعالیٰ نے ہماری حیثیت سے بھی زیادہ بچوں کے تعاون سے مکان بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ضرورت سے زیادہ نمائش مناسب نہیں.چنانچہ ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بیٹے نے سادہ پلستر پر ہی

Page 120

207 اکتفاء کیا.مستحقین رشتہ داروں میں سے ہوں یا غیر، ان کی امداد کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں.اس کی وفات کے بعد بیسیوں واقعات سامنے آئے جن کی وہ خاموش مالی امداد کرتی تھیں دو قریب ترین عزیز جو کثیر کنبہ کے واحد کفیل تھے ان کے استحقاق کے پیش نظر تو اس نے اپنی دعا اور جملہ وسائل ان کے لئے وقف کر رکھے تھے.مالی امداد کے ساتھ ساتھ حسب ضرورت قیمتی پار جات ادویات سال کی گندم مستقل طور پر مہیا کرتی رہیں.ایک دفعہ گول بازار گئیں واپسی پر ٹانگہ لیا ٹانگہ والے نے دس روپے مانگے کہا نہیں یہ زیادہ ہیں پانچ روپے کافی ہیں نزدیک ہی تو گھر ہے.اس نے کہا بیٹھ جاؤ راستہ میں ضعیف مفلس کو چوان نے کہا ”بی بی میرالر کا بیمار ہے اس کو ہفتہ میں ایک ٹیکہ یکصد روپے کا لگتا ہے میرے پاس آج رقم کم ہے.گھر پہنچ کر اس کو کہا ذرا ٹھہرو.اپنی دو بیٹیوں کو واقعہ سنا کر کچھ ان سے عطیہ لیا اور کچھ اپنی جیب سے نکال کر کرایہ کے علاوہ اس کو دے کر کہا کہ آئندہ جب بھی ٹیکہ کی رقم کم ہو یا علاج کے لئے تمہارے پاس رقم نہ ہو تو یہ میرا گھر ہے مجھ سے آکر لے جایا کرو.چنانچہ جب بھی اس کو ضرورت پڑتی وہ آکر مطلوبہ رقم لے جاتا.موصوفہ کی وفات کے بعد بزرگ ٹانگے والے کو جب وفات کا علم ہوا تو وہ بغرض تعزیت حاضر ہوا تو اس نے تعزیت کرتے وقت آبدیدہ ہو کر یہ واقعہ میرے ایک عزیز کو سنایا.موصوفہ کو قادیان کی زیارت کا بے حد شوق تھا.چنانچہ وفات سے چند ماہ قبل اس نے اپنا پاسپورٹ بنوانے کے لئے دیا.دلی خواہش اور تڑپ تھی کہ امسال اگر جماعتی سرکاری سطح پر کوئی امر مانع نہ ہوا تو قادیان ضرور جاؤں گی لیکن اس کی یہ حسرت دل ہی دل میں رہ گئی.اس کا پاسپورٹ اس کی وفات کے بعد جب بن کر آیا تو دیکھتے ہی بے ساختہ زبان سے نکلا.تو ملے یا نہ ملے ہے تقدیر کی بات تو تیری تصویر سے دل شاد کروں یا نہ کروں “ 208 ساس بہو کا رشتہ گھر یلوسکون کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے.خوش قسمت ہیں وہ گھرانے جن گھروں میں ساس بہو کے ہوتے ہوئے بھی ماحول مثالی اور پُر امن ہو.ماں اور بیٹی کے مقدس رشتہ کے علاوہ کسی قسم کی گنجائش نہ ہو.خاکسار کا گھر اس لحاظ سے بفضل تعالیٰ مثالی تھا.زوجہ ام ساس بھی تھی اور بہو بھی.اس کو دونوں کردار مثالی رنگ میں ادا کرنے کی توفیق حاصل رہی.جہاں اس کو میری والدہ محترمہ کی بے پناہ خدمت کی سعادت نصیب رہی.وہاں اس کو اپنی بہو جسے وہ ہمیشہ پیار سے بیٹی کہہ کر پکارتی تھیں.ہر سہ کا باہم رشتہ ماں اور بیٹی کے مقدس رشتہ میں رنگین رہا.اپنی ہر بہو کے ساتھ ہمیشہ غیر معمولی محبت ،حسن سلوک اور پیار کا رشتہ رہا.میری سب سے چھوٹی بیٹی ، دو بہوئیں ، ایک چھوٹی بھاوجہ جرمنی میں مقیم ہیں.میری اہلیہ نے جب بھی کسی تہوار پر یا کسی اور موقع پر تحائف بھجوائے وہ سب کے لئے یکساں ہوتے.یہ ناممکن تھا کہ وہ صرف اپنی بیٹی کو تحفہ بھیجتیں اور دیگر تینوں کو نظر انداز کر دیتیں.عزیزم مبشر ظفر کی شادی کو دس سال ہونے کو ہیں اس کا کافی سامان جہیز یہاں ربوہ میں پڑا ہے.جب بھی زیادہ مہمان آجاتے اس کے سامان میں سے ایک چیچی تک بھی نہ نکالتیں.کہتی تھیں یہ میری بیٹی کی امانت ہے.جب خیر سے آئے گی وہ خوداستعمال کرے گی.میری والدہ محترمہ کے ساتھ اس کی محبت اور خدمت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ جتنی میری والدہ محترمہ کو اس وقت اپنی بہو کی وفات کا صدمہ ہے وہ بیان سے باہر ہے.وہ ہر وقت اس کی خدمت، ضیافت ،سیرت اور عبادت کا ذکر خیر کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتی ہیں.دنیا دار لوگ بیٹیوں کی نسبت بیٹوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں.باوجود شرعی احکام کے بعض لوگ بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھتے ہیں.اگر چہ جماعت احمدیہ میں

Page 121

“ 209 ایسی حق تلفی کی مثالیں بہت کم ہیں.میری اہلیہ مجھے ہمیشہ کہتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو کچھ دیا ہے شرعی تقاضوں کے مطابق ہم نے اپنی بیٹیوں کو ضرور حصہ دینا ہے اور یہ بات جنون کی حد تک اس کے دل میں نقش تھی.خدا تعالیٰ نے اس کو خوش الحانی عطا فرمائی تھی.فجر کے بعد کلام الہی کی بآواز بلند تلاوت کرتیں.اس کا معمول تھا گھر میں کام کاج کے دوران کبھی زیر لب اور کبھی قدرے اونچی آواز میں مسنون دعائیں پڑھتی رہتیں.اردو نظموں میں یہ دو نظمیں تو اکثر خوش الحانی سے پڑھتی تھیں.پہلی حضرت بانی سلسلہ کی معرکۃ الآرا نظم.اک نہ اک دن پیش ہو گا تو فنا کے سامنے دوسری نظم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی بعنوان میدان حشر کے تصور میں جس کا پہلا شعر نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے کھلا تو ہے تری جنت کا باب جانے دے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس کی دلی آواز کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے اسے شتاب جانے دیا.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس نظم کے دوسرے دعائیہ اشعار کو بھی شرف قبولیت بخشتے ہوئے بے حساب جانے دے یعنی مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے بے حساب جانے دے مذکورہ نظموں کے علاوہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے یہ دود عا ئیں کرتیں تھیں کہ 1 - اللہ تعالیٰ مجھے اپنے سسرال اور میکے میں سے کوئی بھی غیر معمولی غم نہ “ دکھائے.میں خدا کے حضور سب سے پہلے حاضر ہوں.2.اے اللہ مجھے زندگی میں کسی کا محتاج نہ کرنا.210 خدا تعالیٰ نے اس کی یہ دونوں دعائیں لفظ بلفظ قبول فرمائیں اور کوئی غیر معمولی غم دیکھے اور ایک لمحہ کے لئے بھی کسی کی محتاج ہوئے بغیر اس کا انجام بخیر ہوا.قارئین کرام سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور جملہ پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.(روز نامہ الفضل 8 جون 1996ء)

Page 122

211 “ 212 محترمہ بی بی غلام سکینه صاحبه محترمہ بی بی غلام سکینہ صاحبہ رشتہ میں ہماری تایا زاد بڑی بہن تھیں.آپ بزرگی، آنتونی کے ساتھ اطاعت نظام کی خوگر تھیں اور خلافت سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں.سب کی خیر خواہ، ہمدرد اور دعا گو خاتون تھیں.آپ حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کی سب سے بڑی ہوتی تھیں.پیاری بہن کا وجود ہمارے خاندان کے لئے ما در مہربان سے کم نہ تھا.آپ فرمایا کرتی تھیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے دور فقاء حضرت مسیح موعود یعنی میرے دادا جان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب مندرانی بلوچ اور میرے ناناجان حضرت میاں اللہ بخش خان صاحب بزدار کی دعاؤں، راہنمائی اور تربیت کا فیض ملا اور میں اب جو بھی ہوں خدا تعالیٰ کے فضل کے بعد انہی کی دعاؤں کا ثمر ہوں.حالات زندگی آپ یکم جنوری 1926ء میں کوہ سلیمان کے دامن میں واقع بستی مندرانی جو مند رانی بلوچوں کا مسکن ہے، سردار غلام محمد خان صاحب ولد حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کے ہاں پیدا ہوئیں.سردار غلام محمد خان صاحب اپنی بستی اور علاقہ میں بلا امتیاز بچوں بچیوں کو قرآن پاک پڑھانے اور حاذق طبیب ہونے کے باعث عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.حصول علم کے لئے سفر کی صعوبت محترمہ غلام سکینہ صاحبہ نے 1947ء سے قبل ڈیرہ غازیخان میں جے وی ٹی کا کورس کامیابی سے مکمل کیا.بستی مندرانی سے ڈیرہ غازیخان شہر تقریباً80 کلومیٹر تھا.جبکہ سواری صرف اور صرف اونٹ کی ہوتی تھی.وہ بھی خوش قسمتوں کو میسر آتی جبکہ اکثریت پیدل سفر کرتی تھی.مذکورہ طویل سفر ایک دن اونٹ پر طے کرنا ناممکن تھا.بستی مند رانی سے صبح روانہ ہو کر ہماری بہن بی بی غلام سکینہ حصول علم کے لئے رات شادن لنڈ میں اپنے عزیز احمدی گھرانہ میں پڑاؤ کرتیں اور دوسرے روز شام ڈھلے ڈیرہ غازیخان پہنچتیں.بحیثیت معلمہ آپ بطور معلمہ جس جس سکول میں تعینات ہوتیں مثالی، ہمدرد استاد کی حیثیت سے اس گاؤں میں غیر معمولی نیک اثرات اور یادیں چھوڑ آتیں.ان کی سب سے بڑی خوبی بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ نصابی کورس کی تکمیل کے علاوہ انہیں قرآن پاک پڑھانا تھا.علاوہ ازیں طالبات اور دیگر خواتین کو اپنے والد محترم سے علم طب کا جو فیض آپ نے پایا.حسب ضرورت دواؤں کے ساتھ مستحقین کا مفت علاج اور ہمدردی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتیں.ہمارے دادا جان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کی اولا د در اولاد میں سے ہماری یہ بڑی بہن واحد خوش نصیب ہیں کہ جب دادا جان قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو اپنی اس خوش بخت معصوم پوتی بی بی غلام سکینہ کو اپنی گود میں لے لیتے.دوران تلاوت وہ اپنے دادا جان کی گود میں آپ کی غیر معمولی حسن قراءت کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتی رہتیں.دادا جان فرمایا کرتے تھے کہ میری اس پوتی (غلام سکینہ ) کو قرآن پاک سے بے انتہا عشق ہوگا.آپ کا یہ فرمان بعد میں من وعن پورا ہوا.ازدواجی زندگی آپ کی شادی اپنے ماموں کے اکلوتے بیٹے مکرم نور محمد خان صاحب بزدار

Page 123

“ 213 ولد فتح محمد خان صاحب ابن مکرم میاں اللہ بخش خان صاحب بز دار رفیق حضرت مسیح موعود سے 1940 ء میں ہوئی.برادرم نور محمد خان صاحب انتہائی شگفتہ مزاج باغ و بہار شخصیت کے مالک اور بہادر انسان تھے نور محمد خان صاحب کا خاندان اور بستی بزدار کے اہلیان بلا امتیاز عقیدہ وذات پات باہم شیر و شکر ر ہے.دونوں میاں بیوی بطور استاد نہایت فرض شناس تھے جس جس سکول میں تعینات ہوئے نصابی تعلیم کے ساتھ ساتھ طلباء اور طالبات کو قرآن پاک پڑھانا تو اپنا فرض اولین سمجھتے رہے.بطور استاد شاگردوں سے محبت، شفقت سے پیش آتے.بچوں سے حسن سلوک اور محنت سے پڑھانے کے باعث متعلقہ گاؤں کے مردوزن آپ کی بے پناہ عزت واحترام کرتے تھے اور ہر دو کو کبھی بھی تنگ نظری یا تعصب کا سامنانہ کرنا پڑا.خدمت قرآن گاؤں بستی بزدار کی آبادی تقریباً 25 ہزار نفوس پر مشتمل ہے.یہاں کے تمام رہائشی اس احمدی میاں بیوی کے شاگرد ہیں.اور جملہ غیر از جماعت خواتین کو ہمشیرہ نے قرآن پڑھانے کی سعادت پائی جن کی تعداد ہزاروں میں ہے.بستی بزدار بزدار قبیلہ کا مسکن ہے حضرت اللہ بخش خان صاحب بزدار رفیق حضرت مسیح موعود کا بھی یہ مسکن تھا.آپ اپنی برادری میں زہد و تقویٰ کے باعث ممتاز مقام رکھتے تھے.بز دار قوم انتہائی بہادر، سچے مومن، اعلیٰ ظرف ، مہمان نواز اور مثبت سوچ کی حامل ہے.“ 214 ہمارے دادا جان حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود نے ہماری بہن غلام سکینہ صاحبہ کے بارہ میں کہا تھا کہ میری اس پوتی کو قرآن پاک سے بے انتہاء عشق ورغبت ہوگی.بی بی غلام سکینہ کے بیٹے عزیزم محمود احمد ایاز بزدار بتاتے ہیں کہ بستی بزدار کم و بیش پچیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے یہاں کی آبادی جو والد صاحب اور والدہ صاحبہ کی شاگر د ہے یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور حضرت مسیح موعود کے عشق قرآن کا فیض ہے.شوہر کی وفات 1965ء میں آپ کے شو ہر مکرم نورمحمد خان صاحب بقضاء الہی وفات پاگئے یہ صدمہ جہاں ضعیف و نحیف والدین کے لئے ناقابل برداشت تھا وہاں ہماری مخلص بہن کے لئے دوہرے صدمہ کے مترادف تھا.بیک وقت بزرگ ترین (سرال) ماموں جان ممانی جان کی خدمت کے علاوہ معصوم اولاد کی تعلیم و تربیت کی بھاری ذمہ داریاں ہماری ہمشیرہ کے نحیف کندھوں پر آن پڑیں.ہماری صابرہ شاکرہ باہمت بہن نے بزرگ سسرال کی جو غیر معمولی خدمت کی سعادت پائی وہ اپنی مثال آپ ہے.سب سے چھوٹا بچہ 6 ماہ کا تھا اور بڑا بیٹا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم تھا.اپنے سسر کی خدمت مکرم حاجی فتح محمد خان صاحب جو غیر معمولی ضعیف اور صاحب فراش تھے جن کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی طویل بیماری کے علاوہ جواں سال اکلوتے بیٹے کی وفات کے غم نے تو نڈھال کر رکھا تھا خود اٹھنا بیٹھنا بھی ناممکن ہوتا جارہا تھا.جاں نثار بہو نے اپنا آرام اپنے بزرگ سسرال کی خدمت کیلئے قربان

Page 124

“ 215 کر رکھا تھا، جب رات کو سر محترم کے لئے چار پائی پر بیٹھنا بھی ناممکن ہوتا گیا تب اپنے سسر محترم جو آپ کے ماموں بھی تھے ان کے پاؤں کی طرف فرش پر پیٹڑی رکھ کر بیٹھ جاتیں جب بزرگ قدرے غنودگی میں ہوتے تو تب اپنا سر سسر محترم کے پاؤں کی طرف چار پائی کے پائے پر رکھ کر قدرے اونگھ لیتیں.محترم حاجی صاحب نیم بیہوشی کے باعث اپنے (فوت شدہ) بیٹے نور محمد خان کو جو نہی آواز دیتے تو آپ فوری جی جی ماموں جان کہتے ہی آپ کے کان کے قریب دریافت کرنے پر انہیں پانی پلاتیں.تھوڑے سے وقفہ کے بعد جونہی ماموں جان کی آواز دوبارہ محسوس ہوتی تو فوری ان کی خدمت میں پیش ہو کر تحمیل حکم کرتیں.اللہ اللہ ! کس عظمت والی باوفا بیوی اور جاں نثار بہن اور وفادار بہو تھیں.تربیت اولاد آپ نے جہاں زندگی میں اپنے رفیق حیات اور بزرگ ضعیف و نحیف سسرال کی غیر معمولی خدمت کی سعادت پائی ساتھ ہی باہمت ماں کی مامتا نے اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میں بھی کمی نہ آنے دی.سب سے پہلے آپ نے اپنے چاروں بیٹوں اور دو بیٹیوں کو خود قرآن پاک پڑھانے کی سعادت پائی.بچوں کی تربیت نگرانی کے ساتھ حضور کی خدمت میں دعائیہ خطوط لکھنے کی تلقین فرمائیں.حضور کے خطبات باقاعدگی سے بچوں کو سنوا تیں.جب مکرم محمود ایاز صاحب ان کے بیٹے اعلیٰ تعلیم کے بعد بطور ٹیچر تعینات ہوئے تو آپ نے اپنے لخت جگر کو یہ نصیحت فرمائی.بیٹا استاد اگر فرشتہ نہیں تو فرشتہ سیرت ضرور ہونا چاہئے.تم اپنے فرائض منصبی اسی اصول کو پیش نظر رکھ کر ادا کرنا تو تمہیں کبھی مشکل پیش نہیں آئے گی اور اللہ تعالیٰ رزق میں بھی برکت ڈالتا رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.پھر فرمایا کہ میں نے “ 216 ہمیشہ اپنے بچوں کو باوضو ہو کر دودھ پلایا.اللہ اللہ کس شان اور اعلیٰ مقام کی والدہ تھیں.ایسی مائیں تو قسمت والوں کو ہی نصیب ہوتی ہیں.آپ فارغ اوقات میں بچوں کو جماعت کے تاریخی اور ایمان افروز واقعات سنایا کرتیں اور جماعت سے وابستگی کا درس دیئے رکھتی تھیں.فرماتی تھیں کہ ھے پیوسته ره انفاق فی سبیل اللہ شجر امید بہار رکھ ہمشیرہ محتر مہغلام سکینہ بی بی صاحبہ زندگی میں حسب توفیق مالی قربانی کی سعادت پاتی رہیں.بستی مندرانی کی خواتین میں سے یہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے سب سے پہلے وصیت کی سعادت پائی.اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کے بعد مذکورہ سعادت ہماری خوش نصیب بہن کو دور فقاء بانی سلسلہ کی دعاؤں اور تربیت کا ثمر ہے.اس کے علاوہ دیگر چندوں،صدقات و خیرات کی توفیق بھی پاتی رہیں.آپ جوں جوں انفاق فی سبیل اللہ کی توفیق پاتی رہیں.اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی اولاد کو وافر رزق حلال سے نوازتا چلا آ رہا ہے.راہ خدا میں خرچ کرنے کے باعث بفضل اللہ تعالیٰ ہمشیرہ محترمہ کا گھرانہ اپنے ماحول میں غیر معمولی بہتر ہے.خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے آپ کے بچوں کو دین و دنیا کی حسنات سے نوازتا جارہا ہے.جبکہ تعلیم کا گراف بھی بڑھتا گیا.آپ کی وفات مورخہ 14 نومبر 2009ء کو صبح کی نماز اور حسب معمول تلاوت قرآن کے بعد بارہ بجے دن تک آپ کی صحت بفضل اللہ تعالیٰ معمول کے مطابق رہی.اچانک

Page 125

217 بارہ بجے دن کو طبیعت خراب ہوئی اور تقدیر الہی غالب آگئی تو پونے ایک بجے دن پندرہ منٹ کے انتہائی مختصر ترین وقت میں ہمشیرہ محترمہ نے اپنی جان نفس مطمعنہ کی طرح تقریباً 86 سال کی عمر میں جان آفرین کے سپرد کر دی.دعا گو بہن آخری لمحات میں زبان حال سے یہ کہہ رہی تھی کہ بلالیا.نہ روک راہ میں مولا شتاب جانے دے کھلا تو ہے تری جنت کا باب جانے دے مجھے تو دامن رحمت میں ڈھانپ لے یونہی حساب مجھ سے نہ لے بے حساب جانے دے سمیع و بصیر خدا تعالیٰ نے ہمشیرہ محترمہ کو چلتے پھرتے بغیر کسی لمبی بیماری کے اسی شام تونسہ شریف کی مقامی جماعت نماز جنازہ پڑھ کر 30 مخلص عزیز و اقارب کے ہمراہ بذریعہ بس مورخہ 15 نومبر 2009ء کو صبح محترمہ کے جسد خاکی کو دارالضیافت لائے.یہاں ربوہ اور احمد نگر کی برادری کے بیسیوں خواتین وحضرات اپنی بزرگ بہن کے جسد خاکی کے استقبال اور غمزدہ برادری کی دلداری اور تعزیت کے لئے دارالضیافت میں موجود تھے.تقریباً 10 بجے جسد خاکی کو دارالضیافت سے صدر انجمن احمدیہ کے لان میں لے جایا گیا جہاں صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر میں خدمات سرانجام دینے والے مخلصین بھی غیر معمولی تعداد میں نماز جنازہ میں شمولیت کے لئے پہنچے.محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر صاحب مقامی نے نماز جنازہ پڑھائی.“ 218 مرحومہ کا جسد خا کی تدفین کے لئے بہشتی مقبرہ لے جایا گیا.تابوت کو قبر میں اتار دیا گیا تو محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے ہی تشریف لا کر دعا کرائی.محترمہ غلام سکینہ بی بی اپنے فرشتہ سیرت بھائی مکرم بشیر احمد خان جو مورخہ 26 جون 1999 ء سے بہشتی مقبرہ میں آسودہ خاک ہیں سے جاملیں.دونوں بہن بھائی حضرت حافظ فتح محمد خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود کی دوسری نسل کے جملہ افرادو خواتین میں اپنے تقویٰ نیکی کے باعث مثالی وجود تھے.برادرم بشیر احمد خان مرحوم کا ذکر خیر روز نامہ الفضل میں مورخہ 15 نومبر 1999ء کی اشاعت میں آچکا ہے.خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را آپ کی بستی مندرانی میں احمدیت کا آغاز ذکر ہو بستی مندرانی میں احمدیت کا اور پھر بستی مذکور کی بی بی غلام سکینہ کی خواتین میں پہلی وصیت کا اعزاز پانے والی خاتون کا.تو ضروری ہے ذکر بستی مندرانی کے اس فرزند احمدیت کا جس نے سب سے پہلے حضرت مسیح موعود کی نہ صرف بیعت کا اعزاز پایا ہو بلکہ بستی مندرانی کے مردوں میں سے سب سے پہلے قادیان میں سلسلہ کی خدمت اور وصیت کی سعادت بھی پائی ہو اس بستی مندرانی کے مخلصین نے اس مخلص بزرگ کی دعوت الی اللہ کے باعث قبول احمدیت کی سعادت پائی.اس موقع پر ان کا ذکر خیر نہ کرنا انتہائی بے انصافی ہوگی.بزرگوارم محترم محمد شاہ صاحب والد مکرم محمود شاہ صاحب سکنہ بستی مندرانی جو رشتہ میں خاکسار کے والد محترم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر کے ماموں جان تھے.آپ کو اپنے پیرمیاں رانجھا صاحب کی یہ وصیت تھی کہ میں مرجاؤں گا میرے مرنے کے

Page 126

219 بعد امام مہدی تشریف لائیں گے آپ جہاں بھی ہوں لبیک کہتے ہوئے جا کر بیعت کرلیں.آپ کو جب حضرت مسیح موعود کی آمد کی اطلاع ملی تو یہ ایسا دور تھا کہ کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والوں کو پیدل ریت کے ٹیلوں اور پتھریلی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑا.سوائے اونٹ کے اور کوئی سواری نہ تھی ان حالات میں مشکل ترین ا طویل راستہ پیدل عبور کر کے بانی سلسلہ تک پہنچے.یـاتـون من كل فج عميق کے مصداق ہوتے ہوئے شرف بیعت پایا.صاف دل کو کثرت اعجاز کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گر دل میں ہے خوف کردگار حضرت مسیح موعود نے آپ کے ایک خط کے جواب میں تحریر فرمایا.( یہ خط غالباً غیر مطبوعہ ہے) انسان جب سچے دل سے خدا کا ہو کر اس کی راہ اختیار کرتا ہے تو خود اللہ تعالیٰ اس کو ہر یک بلا سے بچاتا ہے اور کوئی شریر اپنی شرارت سے اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہوتا ہے.سو چاہئے کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کو یا درکھو اور اس کی پناہ ڈھونڈ واور نیکی اور راست بازی میں ترقی کرو اور اجازت ہے کہ اپنے گھر چلے جاؤ اور اس راہ کو جو سکھلایا گیا ہے فراموش مت کرو کہ زندگی دنیا کی ناپائیدار اور موت در پیش ہے اور میں انشاء اللہ دعا کروں گا“.لے یہ خط ہمارے خاندان کے پاس آج بھی محفوظ ہے.والسلام خاکسار ( دستخط) مرزا غلام احمد یکم اپریل 1903ء “ 220 قادیان اور کشمیر میں دعوت الی اللہ کی توفیق ملنے کے ساتھ آپ نے وصیت کی سعادت بھی پائی.آپ کی وفات اگر چہ کشمیر میں ہوئی.گزشتہ سال عزیزم آصف ظفر کو قادیان جلسہ پر جانے کی سعادت نصیب ہوئی تو اسے بہشتی مقبرہ میں بار بار دعاؤں کی توفیق میسر آئی.وہاں میاں محمد شاہ صاحب کا یادگاری کتبہ نمبر 285 عمر 65 سال وفات 18 مارچ 1920ء جبکہ وصیت نمبر 819 درج ہے.نیک ناموں کے نشاں زندہ رہیں گے حشر تک ع (روز نامه الفضل 7 جون 2010ء)

Page 127

221 “ 222 مکرم مہر جمیل احمد صاحب طاہر 17 جولائی 1991ء کی ایک صبح بوقت چھ بجے دروازہ پر دستک ہوئی.باہر آیا تو احمد نگر کے ایک خادم نے یہ انتہائی المناک خبر سنائی کہ مکرم جمیل احمد صاحب طاہر ابھی ابھی کا لووال موڑ پر ایک تیز رفتار ٹرک کی زد میں آکر جاں بحق ہو گئے ہیں.دبلے پتلے لیکن فولادی جسم و عزم کے حامل پچپن سالہ مکرم طاہر صاحب ایک مثالی احمدی تھے.ایک دفعہ بیت الذکر احمد نگر میں تحریک جدید کے وعدے لئے جارہے تھے.جماعت احمد نگر کے ایک انتہائی مخیر اور متمول دوست نے سب سے زیادہ وعدہ لکھوایا.مکرم جمیل صاحب نے اپنا وعدہ اس دوست سے بھی زیادہ لکھوایا.اس پر مذکورہ دوست نے مزید اضافہ کر دیا.چنانچہ مسابقت فی الخیرات کا یہ سلسلہ جانبین میں شروع ہو گیا.آخر جمیل صاحب سے درخواست کی گئی کہ آپ جس آدمی کا مقابلہ کر رہے ہیں وہ تو صاحب حیثیت ہے جبکہ آپ مزدور آدمی ہیں چنانچہ نیکیوں میں آگے بڑھنے کا یہ ایمان افروز مقابلہ مساوی وعدہ جات پر اختتام پذیر ہوا.ایک بار حضور کی طرف سے عید کے موقع پر ایک خصوصی تحریک پیش ہوئی اور ساتھ ہی اعلان ہوا کہ مقررہ ٹارگٹ کے مطابق چندہ دینے والوں کی دعائیہ فہرست حضور کی خدمت میں پیش ہوگی.اس وقت آپ کی کل پونچی مقررہ ہدف سے صرف یکصد روپے زائد تھی جبکہ دوسرے دن عید بھی تھی موصوف نے کمال ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹارگٹ کے مطابق نقد چندہ کی ادائیگی کر دی اور گھر آ کر کہا کہ میرے پاس صرف ایک سوروپے ہیں.اس سے سارے خاندان کی عید ہوگی.چنانچہ گھر والوں نے بڑی بشاشت کے ساتھ اسی رقم میں ہی عید کی خوشیاں منائیں چونکہ اصل عید کی خوشیاں تو ہیں ہی اسی میں کہ انسان رضائے الہی کی خاطر اپنا تن من دھن قربان کر دے.مکرم جمیل صاحب محنت مزدوری کر کے رزق حلال سے اپنے کثیر کنبے کی کفالت کرتے تھے.جب انسان کی مالی حالت خستہ ہو تو اس کی دنیاوی نگاہ اولاد نرینہ پر ہوتی ہے کہ بیٹا جوان ہو کر میرا ہاتھ بٹائی گایا اس کو دنیاوی تعلیم دلوا کر کسی منفعت بخش منصب پر فائز کروا کر اپنی اقتصادی و سماجی حالت کو بہتر بنالوں گا لیکن مکرم جمیل صاحب کی سوچ اس کے برعکس تھی.ان کے بڑے بیٹے عزیزم شکیل احمد نے جب میٹرک پاس کیا تو ان کو معلوم ہوا کہ بیٹا تو کالج میں داخلے کا خواہاں ہے.جمیل صاحب نے اپنے بیٹے کو پاس بٹھا کر کہا کہ سنا ہے کہ تم کالج میں داخلہ لینا چاہتے ہو جبکہ میری خواہش ہے کہ تم زندگی وقف کر کے جامعہ میں داخل ہو جاؤ.اس کے بعد قدرے جذباتی اور آبدیدہ ہو کر کہنے لگے کہ اگر تمہیں میری خواہش عزیز نہیں اور تم ہر حالت میں کالج میں ہی داخلہ لینا چاہتے ہو تو پھر تمہارا اور میرا راستہ جدا جدا ہے.تمہارے کفیل ہونے کے ناطے محنت مزدوری کر کے تمہارے اخراجات پورے کرتا رہوں گا لیکن متضاد نظریات کے باعث ہم ایک ساتھ اکٹھے نہیں مل سکیں گے.باپ کے ان مخلصانہ جذبات اور نیک خواہشات پر سعید الفطرت بیٹے نے لبیک کہتے ہوئے زندگی وقف کر کے جامعہ میں داخلہ لے لیا اور آج بفضل تعالیٰ وہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں سلسلہ کی خدمات سرانجام دے رہا ہے.مکرم جمیل صاحب کا جذبہ ایثار و فدائیت اور سلسلہ سے اخلاص و محبت ایک بیٹے کے وقف سے تسکین نہ پاسکا.جب ان کا بیٹا عزیزم اسد پیدا ہوا تو انہوں نے ”وقف نو“ کا فارم منگوایا گھر میں بات کی کہ میں اسے وقف نو میں شامل کر رہا ہوں.جمیل صاحب نے جب اپنے گھر میں اپنے اس نیک جذبہ کا اظہار کیا تو گھر کے ایک فرد نے کہا کہ پہلے ایک بیٹے کو وقف کر چکے ہو.آگے وہ اپنی بات کو مکمل کرنا چاہتا تھا کہ جمیل صاحب نے ان کی بات کو قطع

Page 128

“ 223 کرتے ہوئے کہا کہ بس بس اس سے آگے کوئی بات نہ کرنا میں تو چاہتا ہوں کہ میری ساری اولا د سلسلہ کے لئے وقف ہو جائے.طاہر صاحب کی آمدنی قلیل تھی لیکن اس کے باوجود انہیں سب سے زیادہ فکر اپنے چندہ جات کی ادائیگی کا ہوتا تھا.وفات سے چند یوم قبل اپنے بیٹے عزیزم عقیل احمد بعمر تقریباً17 سال کو کہنے لگے کہ میں نے چندہ دینا ہے لیکن پیسے نہیں ہیں اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ ربوہ پہاڑی پر جا کر ہم دونوں مزدوری کرتے ہیں تا کہ چندہ کی ادائیگی کی جاسکے.مخلص بیٹے نے والد صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی تائید کی لیکن دوسرے دن پدری شفقت جوش میں آئی اور کہنے لگے کہ جب تک میں زندہ ہوں خود کما کر تمام چندے دوں گا تم اپنے فرائض سرانجام دیتے رہو.10 /اگست 1973ء کو احمد نگر میں دریائے چناب کے سیلاب کا قیامت خیز ریلا آیا تاحد نظر پانی ہی پانی تھا.احمد نگر کی تاریخ میں اس سے قبل ہم نے اتنا بڑا سیلاب کبھی نہیں دیکھا تھا.احمدنگر کی گردو نواح کی آبادی احمد نگر کے مرکزی بالائی حصہ جہاں زیادہ تر احمدی گھرانے آباد ہیں اکٹھی ہوگئی.ہم نے اپنے مکان جو قدرے محفوظ تھے بلا امتیاز اپنے مقامی بہن بھائیوں کے لئے پیش کر دیئے تھے اور بفضل تعالیٰ احباب جماعت اور خصوصاً خدام نے خدمت خلق کے لئے مسلسل اپنے آپ کو وقف کئے رکھا.گھروں میں جو تھوڑا بہت خوراک کا سامان تھا وہ تمام متاثرین سیلاب میں تقسیم کر دیا گیا تھا.اب سینکڑوں افراد کے خوردنوش کے لئے کچھ بھی نہ تھا.ان حالات میں مقامی جماعت کو یہ مکمل احساس تھا کہ تمام متاثرین کی خوراک کا فی الفور انتظام کیا جائے جس کا مقامی طور پر انتظام ناممکن تھا.اب صرف ایک ہی ذریعہ تھا کہ لنگر خانہ ربوہ سے تمام متاثرین کے لئے کھانا منگوایا جائے لیکن قیامت خیز طغیانی میں کون زندگی کی بازی لگا کر ربوہ پہنچے اور ان حالات کی اطلاع دے تاکہ ربوہ والے “ امداد بھیج سکیں.224 ان حالات میں پورے گاؤں میں سے مکرم جمیل احمد صاحب نے اپنے آپ کو پیش کیا آپ نے اپنے چھوٹے بھائی سلیمان صاحب کو تیار کیا جو دونوں بفضل تعالیٰ ماہر تیراک اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے.چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے جمیل صاحب اپنے بھائی کے ہمراہ سیلاب کی طوفانی لہروں سے نبرد آزما ہو گئے.انتہائی ناموافق حالات میں پانی کی مخالف سمت میں تیر کر آپ تقریبا نصف گھنٹہ میں پختہ سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ ربوہ کے خدام کشتیوں پر پہلے ہی سینکڑوں افراد کا کھانا لے کر پہنچ گئے.جمیل صاحب ان کے ساتھ بخیریت گاؤں پہنچ گئے لیکن جمیل صاحب کی قربانی و ایثار کا یہ واقعہ پورے گاؤں کی دعائیں حاصل کرنے کا باعث بن گیا.اس کے بعد کشتی کے ذریعے جمیل صاحب مسلسل 24 گھنٹے اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ متاثرین سیلاب کو کھانا پہنچانے ، ان کا قیمتی سامان نکالنے میں مصروف رہے چپو چلا چلا کر ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ چکے تھے.ایک رات وہ 11 بجے گھر پہنچے ہی تھے کہ میں نے جا کر دستک دی باہر آئے.عرض کیا کہ دو آدمی ٹھٹھہ غلام کے پاس پانی میں گھرے ہوئے ہیں اور چلا چلا کر آواز میں دے رہے ہیں کہ خدا کے واسطے ہمیں بچاؤ.اب ان کی امداد کے لئے پہنچنا ہے.یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مقام پر ریلوے لائن ٹوٹ چکی تھی.اور تمام پانی کا زبر دست بہاؤ اسی جگہ پر تھا وہاں پہنچنا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا.میری بات ابھی جاری تھی کہ جمیل صاحب نے فوراً چپوسنبھالا اور خدام کو ساتھ لے کر ان مصیبت زدگان کو بچانے کے لئے روانہ ہو گئے.تقریباً دو گھنٹے کی مسلسل جدو جہد کے بعد وہ دوفوجیوں کو جو حقیقی بھائی تھے اور موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا تھے معجزانہ طور پر بچا کر لے آئے.مکرم جمیل صاحب کے اخلاص کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ ان کی نماز جنازہ میں جس

Page 129

225 قدر احباب جماعت نے شمولیت کی اتنی بڑی حاضری احمد نگر میں بہت کم خوش نصیبوں کو نصیب ہوئی ہو گی.آپ کے سفر آخرت میں احمد نگر سے ربوہ تک بے شمار غیر از جماعت دوستوں نے بھی شرکت کی.موصوف اگر چہ موصی تھے لیکن حادثہ کے باعث جماعتی قواعد وضوابط کے مطابق عام قبرستان میں امانتا دفن کئے گئے تھے.چھ ماہ گذرنے کے بعد اب مورخہ 24 فروری 1992ء کو انہیں بہشتی مقبرہ میں منتقل کر دیا گیا ہے.ان کی وفات پر محترم مولانا سلطان محمود انور صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے بتایا کہ گذشتہ دنوں حضور کی طرف سے احمد نگر کی جماعت کی تربیت اور اصلاح احوال کے لئے جو کمیشن مقرر فرمایا گیا تھا.اس میں احمد نگر کی جماعت کے متعدد احباب نے پیش ہو کر اپنے بیانات اور تجاویز پیش کیں.کمیشن کے ممبران سب سے زیادہ مکرم جمیل صاحب کے مخلصانہ جذبات اور خیالات سے متاثر ہوئے.اللہ تعالیٰ موصوف کے درجات بلند کرے ان کی وفات سے جماعت احمدیہ احمد نگر اپنے ایک انتہائی قیمتی فرد سے محروم ہو گئی ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی بیوہ معصوم بچوں اور بزرگ وضعیف والدین کو صبر جمیل عطا کرے اور ان کا ہر آن حامی و ناصر ہو.“ (روز نامه الفضل 11 مارچ 1992ء) 226

Page 130

227 “ 228 مکرم مولوی مبارک احمد صاحب طور خوبرو اونچے لانے صحت مند و توانا صحیح معنوں میں جوانوں کے جوان انتہائی مخلص احمدی 68 سالہ میاں مبارک احمد صاحب طور سکنہ احمد نگر مقیم جرمنی مورخہ 13 جولائی 1993ء کو اچانک کھانا کھانے کے بعد چند ہی لمحات میں اپنے مولی حقیقی سے جاملے.موصوف بے شمار خوبیوں کے مالک تھے آپ نے ان گنت نہ بھولنے والی یادیں چھوڑی ہیں جماعتی نکتہ نگاہ سے آپ نے جو ایثار و قربانی اخلاص و فدائیت کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں.آج مختصراً ان کا ذکر خیر مطلوب ہے.آپ 1923ء میں مکرم میاں فضل حق کے ہاں چک نمبر 434 گ ب تحصیل جڑانوالہ میں پیدا ہوئے تھے.احمدیت آپ کو اپنے جد امجد مکرم میاں غلام محی الدین صاحب ( رفیق بانی سلسلہ ) کے طفیل ورثہ میں ملی تھی اب ان کی چھٹی نسل بفضل تعالیٰ احمدیت کی برکات سے فیض یاب ہوری ہے.ابتدائی تعلیم کے بعد 1945ء میں حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کی تحریک برائے شمولیت دیہاتی مربیان پر آپ کے والد محترم نے آپ کو وقف کر کے سلسلہ کے سپرد کر دیا تھا.سال 47-1946ء تک آپ مدرسہ احمدیہ میں زیر تعلیم رہے.سال 1947ء کے آغاز میں آپ کی تقرری بطور دیہاتی معلم ترگڑی ضلع گوجرانوالہ میں کر دی گئی تھی.چند ماہ کے بعد حفاظت مرکز کے سلسلہ میں قادیان واپس بلا لئے گئے.پھر اکتوبر 1947 ء میں پاکستان بھجوا دیئے گئے.مرکز نے انہیں دوبارہ ترگڑی میں ہی تعینات کر دیا.جہاں اپنے فرائض منصبی نہایت عمدگی اور لگن سے سرانجام دیتے رہے.وعظ و نصیحت کا نہایت عمدہ رنگ تھا.اچھے مقرر ہونے کے ساتھ اسلوب مناظرہ سے بھی خوب واقف تھے.آپ نے اپنی خود نوشت ڈائری میں اپنے دعوت الی اللہ کے بے شمار ایمان افروز واقعات قلمبند کئے ہوئے ہیں.جن کے پڑھنے سے آپ کے اخلاص ، قابلیت اور اپنے کام سے لگن اور عشق کا واضح احساس ہوتا ہے.آپ دعوت حق کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.اجتماعی اور انفرادی رابطوں کے علاوہ دیہات میں جہاں بھی کوئی میلہ لگتا تو یہ پیغام حق پہنچانے کے لئے فور اوہاں پہنچ جاتے.عیسائی پادریوں سے بھی خوب تبادلہ خیال کرتے آپ کی محنت خلوص اور دعا سے اللہ تعالیٰ نے انہیں کئی پھل عطا فرمائے جن میں سے اس وقت کئی خود شمر دار ہیں بلکہ وہ مزید پھل حاصل کرنے کی سعادت پارہے ہیں.ایس سعادت بزور بازو نیست آپ کے شوق اور رابطوں کے جنون کا یہ عالم تھا کہ انجمن نے واقفین کو کچھ عبوری امداد دی.آپ نے اس سے گھریلو ضروریات پوری کرنے کی بجائے دور دراز علاقوں کا دورہ کرنے کی سہولت کے پیش نظر سائیکل خرید لیا جس پر آپ گجرات تک دورے کرتے رہے.تر گڑی تعیناتی کے دوران آپ نے فرقان فورس / بٹالین میں نہ صرف خود شامل ہو کر جنگ کشمیر میں حصہ لینے کی سعادت پائی بلکہ قرب و جوار کی جماعتوں سے بھی بڑی تعداد میں رضا کا ربھجوانے کا ثواب حاصل کیا.سال 1967ء میں آپ مستقل احمد نگر میں آگئے اور پھر وہیں کے ہی ہو گئے.آپ جماعت احمد یہ احمد نگر کے انتہائی مخلص فعال اور نڈر کا رکن تھے.داعی الی اللہ کے کام میں تو صف اول کے احباب میں شمار ہوتے تھے.جماعت کے ہنگامی کاموں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے.دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے.خوددار باہمت مرد میدان تھے.اوائل میں جب بچے زیر تعلیم تھے کوئی معقول ذریعہ معاش نہ تھا مشکل وقت میں کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے کی بجائے اپنے بچوں کے ہمراہ گندم کی

Page 131

229 کٹائی کر کے اہل و عیال کے لئے رزق حلال مہیا کرتے رہے.کثیر عیالداری اور پھر مالی حالت خستہ ہونے کے باعث ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اپنے بڑے لڑکے مسرور احمد کی تعلیم کا سلسلہ ختم کروا کر اس کو کہیں کام پر لگوادیں.اس پر آپ نے بلا توقف فرمایا کہ ایسا ہر گز نہیں کروں گا.خود محنت کروں گا لیکن بچوں کی تعلیم کا سلسلہ منقطع نہیں ہونے دوں گا.آپ کے عزم اور ہمت اور محنت شاقہ کے باعث آپ کا وہی بیٹا آج بفضل تعالیٰ بنک میں مینیجر ہے.جب کہ دیگر بچوں کو بھی مناسب تعلیم دلوائی.آپ میں اگر چہ بہت سی خوبیاں تھیں لیکن ان کی یہ خوبی مثالی رنگ رکھتی تھی کہ ہمیشہ فنافی الخلافت اور تابع نظام سلسلہ رہے.عہد یداران جماعت کی اطاعت ذاتی پسند یا نا پسند سے ہمیشہ بال تھی جو بھی عہدیدار ہوتا اس سے تعاون اور اس کی اطاعت آپ کا طرہ امتیاز تھا.1984ء میں ایک احمدی بھائی کا غیر از جماعت شخص سے زرعی پلاٹ کا تنازعہ ہو گیا.معاملہ مقدمہ بازی اور پولیس تک پہنچ گیا.جسے فریق ثانی نے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی (اگر چہ معاملہ خالصتاً ذاتی نوعیت کا تھا) کشیدگی میں اضافہ ہوا تو پولیس آفیسر نے نقص امن کے اندیشہ کے پیش نظر انسدادی کارروائی کے سلسلہ میں فریق ثانی اور جماعت مقامی سے کہا کہ ہر فریق اپنی مرضی سے 15-15افراد گرفتاری کے لئے پیش کرے.خاکساران دنوں صدر جماعت تھا میں نے یہ معاملہ بغرض مشورہ احباب جماعت کے سامنے پیش کیا ہی تھا کہ سب سے پہلے مکرم طور صاحب نے رضا کارانہ طور پر گرفتاری کے لئے اپنا نام پیش کر دیا.ان کی اس جرات مندانہ پیشکش پر دیکھتے ہی دیکھتے بیسیوں خدام انصار بلکہ اطفال تک نے بڑھ چڑھ کر اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے.چنانچہ پولیس افسران کو صرف پندرہ نام پیش کئے گئے جن میں برادرم طور صاحب با اصرار شامل رہے.آپ نے انتہائی جرات اور “ 230 بشاشت و ہمت کے ساتھ چند روز قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سعادت پائی.آپ کی جرات کے باعث دیگر اسیران کے حوصلے قابلِ رشک حد تک بلند رہے.یہ امر قابل ذکر ہے کہ مکرم طور صاحب کا احمدی فریق سے نہ کوئی تعلق تھا نہ رشتہ داری ان کے پیش نظر تو صرف اور صرف الحب لله و البغض للہ تھا.سال 1974 ء اور پھر 1984 ء کے ہنگامہ خیز ایام میں تو آپ خدمت سلسلہ کے لئے چوبیس گھنٹے وقف رہتے.نامساعد حالات میں ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار آجاتا تھا.مخالفین سلسلہ اور افسران بالا سے بات کرتے وقت اسلوب بیان نہایت سچا سچا صاف شفاف ہوتا.حق بات بڑی جرات سے بغیر لگی پٹی ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے.مالی قربانی کے میدان میں تو آپ ہمیشہ (نیکیوں میں آگے بڑھو ) کا عملی نمونہ پیش کیا کرتے تھے.وصیت کرنے کی سعادت تو سال 1945ء میں ہی پالی تھی.آپ کے بیٹے عزیزم مشہود احمد صاحب مربی سلسلہ نے بتایا کہ آپ کا معمول تھا کہ شام کو جب دکان بند کرتے تو ہر روز کی آمدنی سے 1/10 حصہ حساب کر کے الگ نکال لیا کرتے تھے.تحریک جدید میں نہ صرف با قاعدگی سے خود حصہ لیتے رہے بلکہ پیارے امام کی تحریک پر اپنے وفات یافتہ بزرگوں کے وعدہ جات کو بھی زندہ رکھے ہوئے تھے.امید ہے کہ آپ کی مخلص اولاد اپنے والد محترم کی اس نیک روایت کو جاری وساری رکھے گی.چندہ جات وقف جدید خود بھی اور اپنے بچوں سے بھی با قاعدگی سے دلواتے تھے.اس کے علاوہ امام وقت یا مرکز سلسلہ کی طرف سے جو بھی مالی تحریک ہوتی برادرم طور صاحب کا اس میں حصہ لینا لازمی اور یقینی ہوتا.مقامی ضرورتوں تعمیر احمد یہ ہال نیز مرمت بیت الذکر میں بھی خوب حصہ لیتے.انفاق فی سبیل اللہ کے نیک عمل کے ثمرہ میں مکرم طور صاحب کے ابتدائی مالی تنگدستی کے ایام دیکھتے ہی دیکھتے فراخ دستی میں تبدیل ہوتے چلے گئے اور حضرت بانی سلسلہ کے شعر کی روشنی میں ؎

Page 132

“ زبذل مال در راہش کسے مفلس نے گردد خدا خود می شود ناصر اگر ہمت شود پیدا 231 آپ جوں جوں راہ خدا میں خرچ کرتے چلے گئے خدا تعالیٰ آپ کا کفیل و مدد گار ہوتا گیا.آپ کے اخلاص اور فدائیت کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ آپ کو جماعت احمدیہ احمد نگر کے زعیم انصار اللہ اور سیکرٹری اصلاح وارشادا اور پھر آخر میں خدا تعالیٰ نے انہیں بحیثیت صدر جماعت کے بھی خدمات سرانجام دینے کی سعادت عطا فرمائی.آپ 13 جولائی 1990ء کو جرمنی اپنے بچوں سلیم احمد ، بشارت احمد کے پاس تشریف لے گئے.وہاں بھی جاتے ہی جماعتی کاموں کی انجام دہی میں بجت گئے.آپ کے بیٹے سلیم احمد نے بتایا کہ آپ اپنے مقامی مرکز کے سیکرٹری تربیت مقرر ہوئے.دعوت الی اللہ کا تو کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.چندہ جات میں اس قدر با قاعدہ تھے کہ ان کی وفات کے بعد جب وصیت کا حساب ہوا تو ایک پائی بھی بقایا نہ تھا.بلکہ حصہ آمد اور حصہ جائیداد کی مد میں معین شدہ رقم سے بھی زائد اپنی زندگی میں جمع کروا چکے تھے.اللہ کی راہ میں خرچ کے بارے میں آپ کے بیٹے جو مربی سلسلہ ہیں، نے بتایا کہ آپ حضرت امام جماعت احمدیہ کے اس ارشاد کی تعمیل میں کہ عید کے موقع پر اپنے مستحق بہن بھائیوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا کریں، ہر عید سے قبل بذریعہ فون مجھے ہدایت فرماتے کہ احمد نگر میں فلاں فلاں یتیم نادار اور بیوہ کو اتنی اتنی رقم دے دیں.جس کی مجموعی رقم ہزاروں تک ہوتی آپ کی اس خاموش خدمت کا ان کی وفات کے بعد علم ہوا.احمدنگر کی جماعت سے جرمنی جا کر بھی آپ نے قلبی ذہنی اور عملی رابطہ قائم رکھا آپ کو یہ احساس تھا کہ احمد نگر کی جماعت بفضل تعالیٰ کافی بڑی ہے جب کہ بیت الذکر ضرورت سے کم ہے.انہیں بیت الذکر کو وسیع کرنے کا بہت احساس تھا.چنانچہ اس “ 232 سلسلہ میں آپ نے جرمنی میں ایک مخلص مخیر احمدی دوست جن کا احمد نگر سے گہرا تعلق تھا کو بیت الذکر کی توسیع کی ترغیب و تحریک کی تو اس مخلص دوست نے مبلغ دولاکھ روپے کا گراں قدر عطیہ بھجوا دیا.اللہ تعالیٰ انہیں احسن جزا عطا کرے.اس طرح نیکی کی ترغیب دلا کر آپ کی نیکی کرنے والے بھائی کے ثواب میں برابر کے شریک ہو گئے.آپ نے اپنی اولاد کی ( باوجود نامساعد حالات کے ) تعلیم و تربیت کی طرف کماحقہ توجہ فرمائی.آپ کے بیٹے جو مربی سلسلہ ہیں، نے بتایا کہ جب میں جامعہ احمدیہ میں زیر تعلیم تھا تو محترم پرنسپل صاحب نے میری ایک غلطی پر سرزنش فرمائی.نوعمری کی وجہ سے ان کی سرزنش طبیعت پر ناگوار گزری جس سے دل برداشتہ ہوکر احمد نگر آکر والد صاحب سے شکوہ کیا کہ معمولی سی بات پر پرنسپل صاحب نے سختی کی ہے.محترم والد صاحب نے میری شکایت پر توجہ دینے کی بجائے استفسار فرمایا کہ کیا آپ رخصت لے کر آئے ہیں میں نے عرض کیا کہ نہیں.فرمایا کہ رخصت کے بغیر کیوں آئے ہو.فوراً واپس جاؤ.والد محترم کی اس پر حکمت نصیحت کا مجھ پر گہرا اثر ہوا اور آئندہ زندگی کے لئے ایک کارآمد نصیحت ہاتھ آگئی.عجب اتفاق ہے کہ آپ نے مورخہ 13 جولائی 1990ء کو احمد نگر سے جرمنی کے لئے رخصت سفر باندھا تھا اور مورخہ 13 جولائی 1993ء کو ٹھیک تین سال بعد آپ نے داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سفر آخرت اختیار کیا.آپ کے اس سفر میں خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل شامل حال رہا کہ بغیر کسی رکاوٹ یا تاخیر کے آپ کا جسد خا کی مورخہ 17 جولائی 1993ء صبح ساڑھے پانچ بجے احمد نگر لایا گیا.جہاں صبح سات بجے کثیر تعداد میں احباب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی.اس کے بعد آپ کا تابوت دار الضیافت کے مخصوص کمرہ میں بغرض انتظار لواحقین رکھا گیا.اسی روز بعد نماز عصر بیت مبارک میں مکرم مولانا سلطان محمود انور صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے

Page 133

“ 233 نماز جنازہ پڑھائی جس میں غیر معمولی تعداد میں آپ کے عزیز و اقاب دوست و احباب اور مخلصین جماعت نے شمولیت فرمائی.بیت مبارک سے بہشتی مقبرہ تک آپ کے سفر آخرت میں بڑی تعداد میں احباب نے شمولیت کی.جس میں احمد نگر سے آئے ہوئے غیر از جماعت دوست بھی شامل تھے.موصوف کو تدفین کے بعد مزید یہ سعادت نصیب ہوئی کہ حضرت خلیفۃ امسیح الرابع نے لندن میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی.احباب جماعت سے درخواست دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مخلص بھائی کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان خصوصاً آپ کی بیوہ اور سات بیٹوں دو بیٹیوں اور دونوں بھائیوں اور ان کے جملہ اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور سب کا حافظ و ناصر ہو.آمین (روز نامہ الفضل 26 را پریل 1994ء) “ 234

Page 134

235 “ سے تر کر دیا.236 عزیزم فرقان اللہ صاحب خلیل برادرم مکرم امان اللہ خان بلوچ سکنہ واپڈا کالونی کوٹ ادو کا جواں سال بیٹا عزیزم فرقان الله خلیل بعمر 18 سال جو بفضل اللہ تعالیٰ نیک سیرت اور خوش شکل تھا.مورخہ 14اکتوبر 1996ء بروز جمعہ صبح ناشتہ کے بعد کرکٹ کھیلنے کے بعد گھر آیا اور والدہ کو کہا کہ میں نے جمعہ پڑھنے جانا ہے.ٹیوب ویل پر نہا کرا بھی واپس آتا ہوں.ٹیوب ویل بند تھا.چنانچہ کوٹ ادو کینال پر نہانے چلا گیا.چھلانگ لگاتے ہی پانی میں گم ہو گیا.عزیزم فرقان کوٹ ادو کالج میں فرسٹ ائیر کا طالب علم تھا.اپنے اعلیٰ کردارو نیک اطوار اور قابل تعریف نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں اور اپنے عمدہ اخلاق کی وجہ سے اپنے ہم مکتبوں میں ہر دلعزیز تھا.جب گھر میں عزیزم فرقان کے ڈوبنے کی خبر پہنچی تو نیک اور باہمت ماں اور صابر و شاکرہ بہنوں نے روایتی انداز میں چیخ و پکار رونے دھونے سینہ کوبی وغیرہ کی بجائے یہ صبر آزما اور کٹھن مراحل ادا ئیگی نوافل اور تلاوت کلام پاک میں گزارے.عزیزہ شاکرہ نے بتایا کہ میری امی اور بہنوں نے پہلے تو یہ دعا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے فرقان کو زندہ ملا دے.جب بارہ گھنٹے گزر گئے اور اس کی زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی تو ہم نے اپنی دعاؤں اور التجاؤں کا رخ اس کی زندگی بچانے کی بجائے سجدہ ریز ہو کر یہ دعائیں شروع کر دیں کہ اے اللہ ہمارے فرقان کی نعش مل جائے.ہم عہد کرتے ہیں کہ تقدیر الہی کو صبر وشکر سے قبول کریں گے اور ایک لفظ بھی ناشکری کا ہمارے منہ سے نہیں نکلے گا.مسلسل دعاؤں سے انہوں نے اپنی سجدہ گاہ کو آنسوؤں اللہ تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا اور مورخہ 16اکتوبر 1996 ء بوقت ساڑھے دس بجے صبح جس جگہ عزیز فرقان نے چھلانگ لگائی تھی.اسی جگہ سے معجزانہ طور پر فرقان اللہ کی نعش مل گئی.فرقان اللہ خلص اور فدائی خادم پابند عبادات تھا.دعوت الی اللہ کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا.مرکزی اور مقامی سطح کی تربیتی کلاسوں اور ورزشی مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا اور انعام پاتا رہا.اپنے جیب خرچ سے با قاعدگی دینا اس کا شعار تھا.صحت کے لحاظ سے اپنے تمام بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ صحت مند و توانا تھا.کبڈی اور کشتی کا بہترین کھلاڑی تھا.سرائیکی علاقہ میں کشتی کے کھیل کو بہت پسند کیا جاتا ہے.جس کیلئے بڑے بڑے دنگل لگتے ہیں.اس نے اپنی نوعمری کے باوجود 17 کشتیاں لڑیں سولہ جیتیں ایک میں برابر.خدام الاحمدیہ کے تحت ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے خدام کا کبڈی کا مقابلہ ہوا.اس مقابلہ میں حصہ لینے والوں میں سے صرف دو کھلاڑی مرکزی مقابلہ کے لئے منتخب کرنے تھے.چنانچہ ان دو میں سے ایک عزیزم فرقان منتخب ہوا.تعلیم کا یہ حال تھا کہ بغیر ٹیوشن کے میٹرک کا امتحان نمایاں پوزیشن میں پاس کیا اور فرسٹ ائیر میں بھی اپنے ہم مکتبوں میں بفضل تعالیٰ ممتاز تھا.آخر میں عزیز کے بلندی درجات کی درخواست دعا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو اپنی چادر رحمت میں ڈھانپ لے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے اور سب کا حافظ و ناصر ہو اور ہمیں آئندہ ایسے صدمات سے محفوظ رکھے.آمین (روز نامہ الفضل 21 اپریل 1997ء)

Page 135

237 “ 238 مکرم چوہدری علی شیر صاحب مورخہ 26 فروری 1972ء یعنی دس محرم کو جماعت احمد یہ احمد نگر کے مخلص و جاں نثار بزرگ چوہدری علی شیر صاحب نے داعی اجل کو لبیک کہا.انا للہ وانا الیہ راجعون آپ ہمو وال ضلع لدھیانہ کے رہنے والے تھے.1922ء کے قریب آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے ہاتھ پر شرف بیعت حاصل کیا.آپ کی اہلیہ محترمہ آپ کے احمدی ہونے سے قبل احمدیت قبول کر چکی تھیں.وہ بچپن میں حضرت منشی محمدعبداللہ صاحب سنوری سے قرآن شریف پڑھا کرتی تھیں اس لئے حضرت منشی عبداللہ صاحب کے قبول احمدیت کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی بیعت کر لی.چوہدری صاحب اپنی اہلیہ صاحبہ سے ان کے قبول احمدیت کی بناء پر سخت ناراض رہتے تھے.بسا اوقات انہیں طلاق دینے پر بھی آمادہ ہو جاتے تھے.بعض اوقات تو زدوکوب سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے.ان کی اہلیہ صاحبہ جب بھی اپنی تکلیف کا حضرت منشی عبداللہ صاحب سے ذکر کرتی تھیں تو آپ فرماتے:.صبر کرو اللہ تعالی علی شیر کو ہدایت دے دے گا.“ چنانچہ مولوی صاحب موصوف کا دعائیہ فقرہ تھوڑے ہی عرصہ بعد حقیقت بن کر سامنے آ گیا اور چوہدری علی شیر صاحب نے ایک خواب کی بناء پر احمدیت کو قبول کر لیا.قبول احمدیت کے بعد چوہدری صاحب کی مخالفت شدت اختیار کر گئی.آپ کا مکمل بائیکاٹ کیا گیا.قتل کرنے کے منصوبے بنائے گئے مگر آپ کے پائے استقلال میں کوئی فرق نہ آیا.آپ اگر چہ بالکل ناخواندہ تھے لیکن آپ کو تبلیغ احمدیت کا بہت شوق تھا.علم کی کمی کو پورا کرنے کے لئے علماء کرام کو قادیان سے بلواتے اور ان سے تقاریر کرواتے اور مسائل دریافت کرتے رہتے آہستہ آہستہ انہوں نے بے شمار مسائل ذہن نشین کر لئے اور پھر نہایت عمدہ پیرائے اور سادہ طریق پر تبلیغ کرتے رہتے.آپ حق گو اور حق پرست انسان تھے.مظلوم کو اس کا حق دلانے میں پوری کوشش سے کام لیتے تھے احمد نگر کے نہ صرف احمدی احباب بلکه بیشتر مقامی غیر از جماعت دوست بھی چوہدری صاحب کو اپنے تنازعات میں ہمیشہ حکم اور ثالث نامزد کرتے.آپ کو جب کبھی احمد نگر میں کسی لڑائی جھگڑے کا علم ہوتا تو آپ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک فریقین میں صلح نہ کروا لیتے.آپ کے فیصلوں کو لوگ دل و جان سے تسلیم کرتے.جب ہم چوہدری صاحب کے جنازہ سے فارغ ہوئے تو مجھے ایک مقامی غیر از جماعت دوست نے کہا کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں.ہمارا ہمدرداور شفیق باپ آج ہم سے جدا ہورہا ہے.فی الواقع آپ غریبوں اور مظلوموں کا سہارا تھے.آپ صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے.باوجود زمیندارہ شغل کے آپ باقاعدگی سے تمام نماز میں مسجد میں باجماعت ادا کرنے کی کوشش فرماتے تھے.وفات سے چند یوم قبل بھی جب کہ آپ بمشکل لاٹھی کے سہارے چند قدم چل سکتے تھے.آپ باقاعدگی سے مسجد پہنچتے رہے جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو ظہر کی نماز پڑھ کر مسجد میں ہی ذکر الہی میں مصروف رہتے اور عصر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد گھر تشریف لے جاتے.آپ خلیفہ وقت کی اطاعت اور نظام سلسلہ کی پابندی میں منفرد مقام رکھتے تھے.جب کبھی احباب جماعت میں کسی انتظامی معاملہ میں اختلاف رائے ہو جاتا تو درمیان میں آجاتے اور احباب جماعت کو مقامی تنظیم اور مرکز کی ہدایات کی تعمیل پر زور دیتے.آپ فرماتے کہ مقامی مرکزی عہدے داروں کے احکام کی تعمیل در اصل

Page 136

خلیفہ وقت کی اطاعت ہے.239 آپ نے تقریباً 78 سال عمر پائی.آپ نے بیوہ کے علاوہ دو بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے پیچھے یاد گار چھوڑے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ انہیں صبر جمیل عطا فرمائے اور آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین آپ کی نماز جنازہ پہلے احمدنگر میں مکرم مولانا ظفر محمد صاحب ظفر نے پڑھائی اور پھر دوبارہ ربوہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے ارشاد کی تعمیل میں مکرم مولانا عبدالمالک خان صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے پڑھائی جس میں سینکڑوں احباب نے شرکت فرمائی.مرحوم چونکہ موصی تھے اس لئے آپ کو بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کر دیا گیا.تدفین کے بعد محترم مولانا ابوالعطاء صاحب نے دعا کروائی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چوہدری صاحب مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور ان کی وفات سے جماعت احمد یہ احمدنگر میں جوخلاء پیدا ہو گیا ہے اسے اپنے فضل سے خود پورا فرمائے.آمین (روز نامہ الفضل یکم اپریل 1972ء) تمت بالخير “ 240

Page 137

Page 137