Language: UR
یہ مختصر کتاب ایک بہت ہی عمدہ اور خوبصورت گلدستہ سیرت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ہےجو مصنف نے ایک قلمی مسودہ کے طور پر تیار کیا تھا اور قریبا ربع صدی بعد کتابی شکل میں ڈھال کر شائع کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں درج کردہ یادیں اثر انگیز اور دلچسپ ہیں اور تعلیمی و تربیتی اغراض اور تعمیر کردار کے لئے خاطر خواہ مواد موجود ہے۔ اس کتاب میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ سیرت پر دلکش، نایاب، مفید اور نایاب غیر مطبوعہ روایات کو جمع کیا گیا ہے،اس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے علاوہ تربیت اولاد کے متعلق حضرت مصلح موعود ؓ کی سیرت کے نمونہ بھی موجود ہیں نیز تقسیم ملک، نئے مرکز کے قیام، فرقان بٹالین، 1953 کے فسادات، سفر یورپ سمیت متفرق موضوعات پر قیمتی مواد موجود ہے۔
صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ہے یادوں کے دریچے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد
یادوں کے دریچے 2 نام کتاب یادوں کے دریچے مصنف سن اشاعت طبع تعداد اول ایک ہزار صاحبزادہ مرزا مبارک احمد 27 رمئی 2014ء
یادوں کے دریچے بسم الله 1 الله الرحمن الرَّحِيم پیش لفظ گزشتہ سے پیوستہ برس قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد احمد یہ مرکزی لائبریری کی نئی شاندار عمارت دیکھ کر دل مسرور ہو گیا جہاں اپنے شوق کے مطابق کتب سیرت نسبتا زیادہ دلچسپی سے دیکھ رہا تھا کہ ایک رجسٹر نما کتاب پر نظر پڑی.یہ قلمی مسودہ تھا سیرت و سوانح حضرت مصلح موعود مؤلفہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا.89 فل اسکیپ صفحات پر مشتمل اس تالیف کو انہوں نے یادوں کے دریچے سے موسوم کیا تھا.سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے نہ ربوہ واپسی پر صرف اس کا نسخہ تلاش کرنے کا وعدہ کیا بلکہ از راہ ملاطفت چند ماہ میں یہ مہیا بھی کر دیا.یہ یادیں اتنی دلچسپ اور اثر انگیز تھیں کہ چند ہی نشستوں میں پڑھ ڈالیں.بعد مطالعہ اسے تعلیمی وتربیتی اغراض و تعمیر کی طرف سے شائع کرنے کی پر زور تحریک دل میں پیدا ہوئی.یہی کردار کی خا خواہش مکر کی بھی تھی.اب کی اجازت اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی منظوری کے مراحل تھے.اس بارہ میں خاکسار نے براہ راست بھی حضور کی خدمت میں مفصل عرضداشت پیش کی اور حسب ضابطہ نظارت اشاعت میں بھی مجلس کی طرف سے اجازت کے لئے تحریر کیا.یه تعجب ضرور تھا کہ اب تک ان نہایت مفید اور قیمتی یادوں کی اشاعت کیوں معرض التواء میں رہی.اس کا عقدہ کتاب کے ” حرف آخر میں جا کر کھلا.جہاں صاحبزادہ صاحب موصوف نے خود لکھا ہے کہ مجھے بوجوہ اس کو طبع کروانے میں تامل تھا کبھی سوچتا کہ شائع کرنا ضروری بھی ہے اور فرض بھی کیونکہ یہ ایک امانت ہے جو دوسروں تک پہنچانی ضرور ہے.اس کشمکش میں دیر ہوتی چلی گئی.اس کے بعد آپ نے اپنی اس خواب کا ذکر کیا کہ پھر ایک رات صبح کی نماز سے قبل خواب میں دارا مسیح قادیان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنے گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا.جنہوں نے آپ کو مبارک کہہ کر بلایا اور فرمایا تمہارے ابا جان تم سے بہت خوش ہیں.مجھے اس قدر خوشی ہوئی کہ آنکھ کھلنے پر بھی اس کا لطف اٹھا رہا تھا اس کے بعد کسی ہچکچاہٹ کا سوال نہ رہا
یادوں کے دریچے 2 یہ بابرکت رویا علم میں آنے کے بعد کتاب کی اشاعت ایک تمنا بن گئی.الحمد للہ کہ نظارت اشاعت کے توسط سے حضرت خلیفہ اُسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت چند اصولی ہدایات کے ساتھ یادوں کے دریچے شائع کرنے کی اجازت عطا فرمائی ہے.فجزاه الله احسن الجزاء اور یوں مجلس لو مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سابق صدر انصار اللہ کا یہ قلمی مسودہ کوئی ربع صدی بعد شائع کرنے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے.جہاں تک ان مختصر یادوں کا تعلق ہے نہایت دلکش ، مفید اور نایاب غیر مطبوعہ سیرت کے عمدہ مواد پر مشتمل ہیں.جس میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کے علاوہ تربیت اولاد کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ کی سیرت کے چند حسین نمونوں کی عمدہ جھلک موجود ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک نہایت نادر اور قیمتی خط چودہ صفحات اور اٹھارہ ہدایات پر مشتمل اس کتاب میں شامل ہے جو آپ نے اپنے اس فرزندار جمند و تعلیم کے لئے مصر روانہ ہوتے ہوئے لکھا تھا.تقسیم ملک کے وقت حضرت مصلح موعود اور آپ کی اولاد کی مرکز قادیان کی حفاظت کے لئے قربانی کا بھی اس میں تذکرہ ہے.نیز اس تاریخی موقع پر صاحبزادہ صاحب موصوف کے زیر کمان فرقان فورس کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو خدمت وطن کی جو توفیق ملی اس کا کچھ ذکر خیر ہے.تقسیم ملک سے پہلے حضور کے ڈلہوزی وغیرہ کے سفر اور تقسیم کے بعد یورپ کے سفروں کا دلچسپ ذکر ہے.غیر از جماعت با اثر خاندانوں اور سیاسی رہنماؤں سے حضور کے روابط اور حسن سلوک اور ان کے تاثرات کے علاوہ تقسیم ملک کے بعد حضور کی پاکستان کی ترقی کے لئے بعض مفید تجاویز اور خدمات اور غیروں کے اعتراف کا خوبصورت بیان ہے.1953ء کے فسادات کے بعض واقعات بھی درج ہیں.جز اور ان کے خاندان کا شکر یہ ادا کرتے ہوئے ان کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے درخواست دعا کرتا ہے نیز مصنف کتاب مکرم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کے لئے مغفرت اور بلندی درجات کے لئے بھی دعا کی التماس ہے.الغرض یہ مختصر کتاب ایک بہت ہی عمدہ اور خوبصورت گلدستہ سیرت حضرت مصلح موعوددؓ کا ہے.بانی انصار اللہ کی مبارک سیرت پر آپ کے صاحبزادہ اور سابق صدر انصار اللہ کی مرتبہ اس کتاب کی اشاعت مجلس انصار الله کے لئے باعث اعزاز ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مفید اور نافع الناس بنائے.آمین
یادوں کے دریچے 3 عرض ناشر تاریخ انصار اللہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلس انصار اللہ (مرکزیہ ) کی طرف سے ٹریکٹس اور پمفلٹس کی اشاعت کا سلسلہ اکتوبر 1956 ء سے اس وقت شروع ہوا جب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نہایت معرکۃ الآراء کتاب کشتی نوح میں بیان تعلیم المعروف "ہماری تعلیم " چار ورقہ بروشر کی صورت میں پاکیزہ تعلیم کے نام سے شائع ہوئی.اس کے کچھ عرصہ بعد 1963ء میں مکرم مسعود احمد خاں صاحب دہلوی قائد اشاعت کی دو تحریر میں بعنوان " ختم نبوت کی حقیقت کا مہتم بالشان اظہار " اور "غلبہ اسلام کی آسمانی سکیم " رسالوں کی صورت میں شائع ہوئیں.قیادت اشاعت کے تحت با قاعدہ طور پر پہلی بار 1966ء میں کتاب " اطاعت اور اس کی اہمیت " منظر عام پر آئی.تاریخ انصاراللہ جلد اول صفحہ 135) اس کے بعد قیادت تربیت ، قیادت اصلاح و ارشاد اور قیادت اشاعت کی طرف سے چھوٹے چھوٹے دو ورقہ ، چار ورقہ بروشر نما پمفلٹس اور خطبات خلفاء عظام کی اشاعت کا سلسلہ جاری رہا.قیادت اشاعت کے تحت 1983 ء تک 22 پمفلٹس کا ریکارڈ تاریخ انصاراللہ جلد اول صفحہ 135-137 ، جلد دوم صفحہ 268 اور جلد سوم صفحہ 636 میں محفوظ ہے.1980ء کی دہائی، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا دور صدارت تاریخ مجلس انصار اللہ (مرکزیہ ) حال پاکستان کا وہ اہم موڑ ہے جہاں دیگر کتب کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا.دوقمری صدیوں کے سنگم کی کتاب ” چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم“ شائع کرنے کی سعادت ملی، 1987ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی تحریر ” ذکر حبیب“ کی اشاعت کی توفیق ملی.اس طرح مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے تحت 12 کتب اور 22 بروشر ز شائع ہوئے.ان میں بعض کے تراجم بیرون پاکستان انصار کے استفادہ کے لئے انگریزی میں شائع کروائے گئے.3 نومبر 1989ء کو حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے ذیلی تنظیموں میں ملکی صدارت کا نظام جاری فرمایا تب سے اب تک انصار کی تعلیم و تربیت اور دعوت الی اللہ کے لئے 49 کتب کی اشاعت ہو چکی ہے.جن میں سے صرف 20 کتب مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب سابق صدر مجلس کے دور
یادوں کے در بیچے 4 میں شائع ہوئیں.اور اتنی ہی تعداد میں کتب Reprint ہوئیں.لو ایک نہایت اہم کتاب بانی مجلس انصار اللہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ( جو صدر مجلس بھی رہے) کی سیرت و سوانح پر مجلس انصاراللہ کے ایک سابق صدر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی تحریر کردہ یادوں کے دریچے پہلی بار کتابی صورت میں منظر عام پر لانے کی توفیق مل رہی ہے.خاکسار نے اس کتاب کا اصل مسودہ بالاستیعاب اور بعد ازاں پروف ریڈنگ کی غرض سے پڑھا.یہ کتاب انشاء اللہ جماعت کے تمام طبقہ کے افراد بالخصوص نوجوان نسل کے لئے مفید ثابت ہوگی.اس میں اولاد کی تربیت و تعلیم کے وہ اچھوتے و نرالے رنگ ملیں گے جو سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی اولاد کے لئے اختیار کئے اور وہ ہمارے لئے بھی مشعل راہ ہیں.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تمام احمدی احباب کے لئے نافع بنائے.آمین قارئین کی آسانی کے لئے مسلسل لکھے گئے مسودہ میں ذیلی عناوین لگائے گئے ہیں تا مطالعہ کے دوران دلچپسی قائم رہے اور مضمون یا تقریر کی تیاری میں سہولت رہے.اس کتاب کی اشاعت پر ہم جہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے ہیں وہاں خاکسارا رشاد نبوی من لَّا يَشْكُرُ النَّاسَ لَا يَشْكُرُ الله کے تحت ان تمام خدمت گزاروں کا شکر یہ ادا کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس علمی، روحانی اور اخلاقی مائدہ کی تیاری میں قیادت اشاعت کے ساتھ تعاون فرمایا ہے.فجزاهم الله تعالی
5 کچھ مصنف کے بارے میں حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب سابق صدر مجلس انصاراللہ مرکز بی، سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثانی کے فرزندار جمند ہیں.آپ حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحب المعروف اُمّم ناصر کے بطن سے 1914 ء میں پیدا ہوئے اور 21 جون 2004 ء کو فعال خدمت دین سے بھر پور زندگی گزار کر 90 سال کی عمر میں اپنے مولا حقیقی کو جاملے.آپ کی شادی محترمہ آمنہ طیبہ صاحبہ بنت حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب سے ہوئی.بطور واقف زندگی مختلف خدمات کے بعد آپ تحریک جدید میں وکیل الزراعت مقرر ہوئے.بعد ازاں وکیل الصنعت ، وکیل التجارت، وكيل الديوان، وكيل التبشير ، وکیل اعلیٰ اور صدر مجلس تحریک جدید کے عہدوں پر بھی فائز رہے.تنظیمی سطح پر صدر مجلس انصار اللہ مرکز یہ جیسے اہم عہدے پر فائز رہ کر لمبا عرصہ جلیل القدر خدمات بجالانے کی توفیق ملی.مجلس انصاراللہ میں آپ کی خدمات کا آغاز 1957ء میں بطور قائد اصلاح وارشاد ہوا.1959ء میں قائد خدمت خلق و ایثار رہے اور 1960ء سے 1968 ء تک حضرت مرز ناصر احمد صاحب صدر مجلس کے بطور نائب صدر مجلس انصاراللہ خدمات بجالاتے رہے.حضرت خلیفۃ اسیح الثالث رحمہ اللہ نے مسند خلافت پر فائز ہونے کے بعد 1969ء میں آپ کو صدر مجلس نامزد فرمایا اور آپ نے یہ اہم ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی سے 1978 ء تک نبھائی.تاریخ انصار اللہ جلد اول صفحہ 312-319) آپ کے دور صدارت میں مجلس انصار اللہ کی تنظیم نو ہوئی.کام بڑھنے کے پیش نظر بعض نئی قیادتیں بھی قائم ہوئیں.آپ نے انصار کی تنظیم و تعلیم وتربیت کے لئے اندرون اور بیرون پاکستان دورے کر کے اہم کردار ادا کیا.آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے بیرون پاکستان سے آنے والے مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس انصار اللہ کی تعمیر کروائی.تاریخ انصار اللہ جلد اول صفحہ 288-289) آپ کے دور میں قیادت اشاعت بھی فعال ہوئی.1969ء میں آپ نے انصار بھائیوں کے نام
6 پیغام میں ماہنامہ انصار اللہ کی کمزور مالی حالت کے پیش نظر مالی اعانت کی خاص تحریک کی.اس سلسلہ میں آپ کا دوسرا اہم کام تاریخ انصار اللہ کی تدوین ہے جس کی جلد اول آپ کے دور میں 1978ء کو طبع ہو کر منصہ شہود پر آگئی تھی.تاریخ انصار اللہ جلد اول صفحہ 6) آپ ایک صاحب قلم اور عمدہ مقرر تھے.سالانہ اجتماعات کے موقع پر آپ کو اصلاحی وتربیتی تقاریر کرنے کی سعادت ملی.آپ ایک نفیس طبع اور بہترین منتظم تھے.آپ کی ادبی تحریر کا اندازہ " " سے خوب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات قبول فرمائے اور آپ کے درجات بلند کرے.آمین حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات پر خطبہ جمعہ مورخہ 25 جون 2004ء میں فرمایا: - حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دوسرے بیٹے تھے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سفروں میں کافی رہے ہیں اور پھر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.یو نیورسٹی سے گریجوایشن کی اور اس کے بعد آپ نے زندگی وقف کر دی اور تحریک جدید میں حضرت مصلح موعود نے ان کو لگایا تھا اور آپ نے بڑا لمبا عرصہ خدمت سلسلہ کی توفیق پائی خطبات مسرور جلد 2 صفحہ 441)
7 کچھ مصنف کی طرف سے کافی سال گزرے ایک عزیز نے خواب میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی لمصلح الموعود کو دیکھا اور آپ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا کہ ” جماعت نے مجھے اتنی جلدی بھلا دیا یہ خواب سن کر میرے دل کی جو حالت ہوئی اس کو بیان نہیں کر سکتا.دل خون کے آنسور دور ہا تھا پر زبان گنگ تھی.چند سال قبل فضل عمر فاؤنڈیشن کی طرف سے جو حضرت مصلح موعودؓ کی سوانح کی ایک جلد طبع ہو چکی ہے.اس پر مجھے خیال آیا کہ کسی شخص کی سوانح بالعموم اس کے تاریخی کارنامے ، دینی ہلی اور قومی خدمات وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے.اس کی گھریلو زندگی اور اس کے شب و روز اور بعض دیگر پہلو جو باہر کے لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں سوانح کا حصہ نہیں بن سکتے اور ایک خلاء رہ جاتا ہے.اس خلاء کو کسی حد تک پورا کرنے کے لئے میں نے قلم اٹھایا ہے.اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ کسی طبع شدہ مواد سے نہیں لیا گیا سوائے چند ایک تاریخی واقعات کے نہ ہی ایسا ممکن ہے.میں نے جو کچھ سنا ، جو کچھ دیکھا ، جو گزرا اپنی یادداشت کے مطابق پیش کر رہا ہوں.جو اپنے ایک عظیم محسن کے احسانوں کے شکریہ کا اظہار ہے اور بس.یہاں یہ وضاحت بھی ضروری معلوم دیتی ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ کوئی تاریخ نہیں کہ ماہ و سال کا لحاظ رکھا جاتا.لکھتے لکھتے جو یاد آیا لکھ رہا ہوں.اس لئے اس تحریر کا عنوان میں نے یادوں کے در بیچے تجویز کیا ہے.اپنے بچپن کا ایک واقعہ محض اس غرض سے لکھ رہا ہوں کہ پڑھنے والے تسلی پاسکیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچپن سے ہی میری قوت حافظہ بہت اچھی ہے اور مجھے اس بارہ میں اپنے اوپر پورا بھروسہ ہے.واقعہ یوں ہے کہ میں آٹھ نو سال کا تھا کہ ایک دن میں نے اپنی والدہ سے پوچھا کہ جس خاتون نے مجھے دودھ پلایا تھا آپ نے کبھی اس کے بارہ میں مجھے نہیں بتایا.نہ کبھی یہ بتایا کہ وہ خاتون اب کہاں ہیں؟ کس حال میں ہیں؟ کبھی ان سے مجھے ملا یا نہیں.جس کی وجہ سے میرے دل لے نوٹ : ریویو کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب تھے جو بعد میں لاہور جا کر امیر غیر مبائعین بنے.
8 میں ایک خلش سی رہتی ہے.میری والدہ نے یہ کہ کر ٹالنے کی کوشش کی کہ تمہیں کیا کسی نے دودھ پلایا تھا.تمہاری پیدائش کے بعد میں بیمار ہو گئی تھی اس لئے مجبوراً دایا کا انتظام تمہارے ابا نے کیا تھا اس نے اڑھائی سال تمہیں دودھ پلایا تھا اور مزید چھ ماہ ہمارے پاس رہ کر اپنے شہر چلی گئی.اتنا ہی بتا کر کوئی اور بات شروع کر دی.میں نے بات کاٹ کر والدہ صاحبہ سے عرض کیا کہ میں آپ کو بتا تا ہوں کہ میری دایا کی شکل وصورت کیسی تھی.یہ بتا کر میں نے سوال کیا کہ جو کچھ میں نے بیان کیا ہے کیا یہ درست ہے یا نہیں ؟ میری والدہ کے چہرہ پر اس وقت سخت حیرانگی کے آثار تھے.تھوڑی سی خاموشی کے بعد فرمانے لگیں کہ تم نے جو کچھ کہا ہے درست کہا ہے.مجھے اپنی غفلت اور سستی کا اعتراف بھی کرنا ہے.چند سال ہوئے ایک مخلص دوست (جو وفات پاچکے ہیں ) جو د نیوی حیثیت بھی رکھتے تھے اور علمی میدان میں بھی بلند پایہ شخصیت تھے ہمارے ر تشریف لائے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی زندگی کے متعلق انہوں نے مجھ سے بعض سوالات کئے.میں نے چند ایک واقعات بیان کئے تو فرمانے لگے کہ آپ یہ پیارا خزانہ اپنے دل میں کیوں دفن کئے بیٹھے ہیں؟ آپ ضبط تحریر میں لائیں یہ بھی جماعت کی ایک خدمت ہوگی.سالوں گزر گئے اور میں اپنی خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوا.آج بیٹھے بیٹھے دل میں ایک ہوک سی اٹھی اور یہ شعر گنگنانے لگا : غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا اور اس کے ساتھ ہی کسی ساز کے نہیں دل کے تار ہلنے لگے اور اس محبوب کی یاد نے تڑپا دیا جو میری اس عمر رفتہ کی یاد ہے.جو اس کے ساتھ گزری جس کی یا دمیرا سرمایہ حیات ہے.مرزا مبارک احمد
9 پیشگوئی مصلح موعود میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں اس کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا.سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو سنا اور اپنی رحمت سے بہ پایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے تیرے لئے مبارک کر دیا ہے.سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے.فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے.فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے.اے مظفر ! تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تاوہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے رسول پاک محمد مصطفی " کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے.سو بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا.ایک ز کی غلام تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنموا ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ جس سے پاک ہے.وہ نوراللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکتوں سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدائی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و نہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے ) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ.فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَا كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاء - جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيًّا “ (اشتہار 20 رفروری 1886 ء از مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 95)
یادوں کے در بیچے 10 خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ کا تاریخی پس منظر اور پیدائش 669 قبل اس کے کہ میں ” حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق اپنے کانوں سنا اور آنکھوں دیکھا حال بیان کروں پیشگوئی مصلح موعود کا تاریخی پس منظر ، حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش ، جوانی اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے آپ کے متعلق ارشادات کا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں.1- حضرت مسیح موعود علیہ السلام 22 جنوری 1886ء کو ہوشیار پور تشریف لے گئے اور شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیار پور کے مکان کی بالائی منزل پر قیام فرمایا اور لگا تار چالیس دن عبادت اور دعاؤں میں صرف فرمائے.اسی دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر پیشگوئی مصلح موعود کا نزول ہوا جو آپ نے 20 فروری 1886ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ شائع کروادی.-2 حضرت مصلح موعودؓ کا یوم پیدائش 12 / جنوری 1889ء ( بمطابق 9 1 جمادی الاوّل 1306ھ ) بروز ہفتہ ہے.3 حضرت مسیح موعود کا وصال بتاریخ 26 رمئی 1908 ء بروز منگل ( بمطابق 24 / جمادی الثانی 1326 ھ ) بوقت ساڑھے دس بجے صبح لاہور میں بر مکان حضرت ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب ہوا.اسی روز اڑھائی بجے بعد دو پہر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور پونے چھ بجے شام نعش مبارک کو بذریعہ ریل گاڑی لاہور سے بٹالہ لے جایا گیا.گاڑی رات 10 بجے بٹالہ ریلوے اسٹیشن پر پہنچی.بٹالہ سے احباب نعش مبارک اپنے کندھوں پر اٹھا کر قادیان 27 رمئی 1908ء صبح 8 بجے پہنچے.اسی روز یعنی 27 رمئی 1908 ء قادیان میں موجود احباب نے حضرت حکیم مولا نا نور الدین صاحب" کو آپ کا جانشین اور خلیفہ اسے منتخب کیا اور حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر احباب جماعت نے بیعت کی.اور خلیفہ اسیح نے بعد نماز عصر نماز جنازہ
11 پڑھائی اور قادیان میں موجود احباب نے حضور کا آخری دیدار کیا اور شام 6 بجے حضور کا جسدِ مبارک بہشتی مقبرہ قادیان کی خارک مقدس کے سپرد کر دیا گیا.-4 حضرت خلیفہ اسیح الاوّل 13 / مارچ 1914 ء بروز جمعہ سوا دو بجے بعد دو پہر قادیان میں فوت ہوئے اور بروز ہفتہ 14 مارچ 1914 ء حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی منتخب ہوئے اور آپ نے دو ہزار احمدیوں کے ساتھ حضرت خلیفتہ اسیح الاول حکیم مولانا نورالدین صاحب کی نماز جنازہ پڑھائی اور سوا چھ بجے شام حضرت خلیفتہ امسیح اول اپنے آقا کے پہلو میں دفن ہوئے.حضرت خلیفہ اول کے آپ کے متعلق ارشادات رض 5- حضرت خلیفہ انبیع الاول کا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد (خلیفة المسیح (ثانی) کی علمی ار این مواد الثانی کی قابلیت ، تقوی اور آپ پر کامل اعتماد کے اظہار کی چند ایک مثالیں لکھ رہا ہوں :.(1) حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل نے اپنی علالت کے دوران حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کو امام الصلوۃ مقرر فرمایا.اس پر مولوی محمد علی صاحب نے حضرت حافظ روشن علی صاحب کے ذریعہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو پیغام بھجوایا کہ ”جماعت کے بڑے بڑے جید عالم موجود ہیں ان کی موجودگی میں میاں صاحب کو امام مقرر کرنا مناسب نہیں.“ اس پر حضور نے فرمایا ”اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنقَكُمُ مجھے محمود جیسا ایک بھی متقی نظر نہیں آتا.پھر فرمایا کیا میں مولوی محمد علی صاحب سے کہوں کہ وہ نماز پڑھایا کریں.“ الفضل 19 جنوری 1940ء) (ب) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی موجودگی میں آپ کے ارشاد پر پہلی دفعہ نماز جنازہ 29 / جولائی 1910ء کو پڑھائی (اس وقت آپ کی عمر 21 سال تھی ) اور خطبہ جمعہ میں آیت إِنَّ اللَّهَ يَا مُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ کی ایسی لطیف تفسیر بیان فرمائی کہ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بہت ہی محفوظ اور مسرور ہوئے اور بڑے پیار سے فرمایا: میاں صاحب نے لطیف سے لطیف خطبہ سنایا وہ اور بھی الطف ہو گا اگر تم غور کرو گے.میں اس خطبہ کی بہت قدر کرتا ہوں اور یقیناً کہتا ہوں کہ وہ خطبہ عجیب عجیب نکات اپنے اندر رکھتا ہے (اخبار الحکم 28 /اکتوبر 1911ء)
12 نیز ایک اور موقعہ پر جبکہ ایک دوست نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل سے کسی آیت کی تفسیر سمجھنا چاہی تو اس پر آپ نے فرمایا جا کر میاں محمود سے پوچھ لو وہ تمہیں سمجھا دیں گے“ ( ج ) حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے اپنی ایک تقریر کے دوران جو آپ نے احمد یہ بلڈنگز لا ہور میں جون 1912ء میں فرمائی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے متعلق فرمایا: میاں محمود بالغ ہے.اس سے پوچھ لو کہ میرا سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ میرا سچا فرمانبردار نہیں.مگر نہیں ، میں خوب جانتا ہوں کہ وہ میرا سچا فرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں.“ 66 اخبار بدر قادیان 28 جون 1912ء) (1) حضرت مسیح موعود کی وفات پر دشمنوں نے بہت اعتراض شروع کر دیئے تو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اس کا جواب ایک کتابی شکل میں دیا.اس کتاب کا نام آپ نے ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے رکھا.اسے پڑھ کر حضرت خلیفتہ اسیح الاول نے مولوی محمد علی صاحب سے فرمایا: مولوی صاحب ! حضرت مسیح موعود کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی.مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے“ اس جگہ مولوی محمد علی صاحب کا مختصر تعارف بھی ضروری ہوگا.کیونکہ جماعت کے بہت کم نو جوانوں اور نئے احمدی احباب کو اس کا علم نہیں ہو گا.مولوی محمد علی صاحب نے جو یکے از رفقاء مسیح موعود تھے خلافت ثانیہ کے انتخاب کے بعد بیعت نہیں کی اور قادیان چھوڑ کر لا ہور چلے گئے تھے اور اپنی علیحدہ جماعت بنالی تھی.کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کے بڑے بیٹے جو خلیفہ ثانی منتخب ہوئے تھے کو خلیفہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.نہ صرف یہ بلکہ حضرت مسیح موعود کے مقام سے بھی منحرف ہو گئے تھے اور آپ ک مجد دیا مجد داعظم کے لقب سے پکارنے لگے.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے متعلق حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے مندرجہ بالا چند ایک فرمان (جو پہلے پیرایہ میں درج ہیں ) اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ہی اس گروہ نے خلافت احمد یہ اور خصوصاً حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے متعلق ریشہ دوانیاں شروع کر دی تھیں.اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل خوب جان گئے تھے کہ ان لوگوں میں سے
یادوں کے دریچ 13 کسی کو بھی جماعت نے خلیفہ منتخب نہیں کرنا.حضور کی زندگی میں ہی ان لوگوں نے خفیہ خطوط اور دیگر ذرائع سے جماعت میں انتشار پھیلانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں.نیز حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل پر یہ تاثر پیدا کرنے کی بھی کوشش کرتے رہے کہ گویا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب آپ کے فرمانبردار نہیں ہیں.اسی کا رڈ حضرت خلیفہ اسیح اول نے احمد یہ بلڈنگز لا ہور میں اپنی تقریر میں کھول کر کر دیا.( جو ج“ پر درج ہے) الفضل کا اجراء حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد سے متعلق حضرت علینہ امسیح الاول سے ان ارشادات سے واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسی الاول پر انکشاف فرما دیا تھا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی پسر موعود ہیں.اس فتنہ سے جماعت کو بچانے کے لئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد نے مختلف ذرائع سے کوششیں شروع کر دیں اور آپ نے محسوس کیا کہ کسی اخبار کا جاری کرنا ضروری ہے.اس کے بغیر ملک میں پھیلی ہوئی جماعتوں کو حالات سے باخبر نہیں رکھا جا سکے گا اور صحیح معنوں میں مرکز اور جماعت کے مابین رابطہ قائم نہیں ہو سکتا.اس شدید ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے آپ نے جون 1913ء میں اخبار الفضل کا اجراء فرمایا.اس بارہ میں آپ کا اپنا بیان درج ذیل ہے.آپ فرماتے ہیں : اس لئے بموجب ارشاد حضرت خلیفہ اُسیح اول تو کل علی اللہ اس اخبار کو شائع کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے.اخبار بدر اپنی مصلحتوں کی وجہ سے ہمارے لئے بند تھا.اخبار الحکم اول تو ٹمٹماتے چراغ کی طرح کبھی کبھار نکلتا تھا اور جب نکلتا بھی تھا تو اپنے جلال کی وجہ سے لوگوں کی طبیعتوں پر جو اس وقت بہت نازک ہو چکی تھیں بہت گراں گزرتا تھا.ریویو ا یک بالا ہستی تھی جس کا خیال بھی نہیں کیا جا سکتا تھا لے میں بے مال وزر تھا.جان حاضر تھی مگر جو چیز میرے پاس نہ تھی وہ کہاں سے لاتا.اس وقت سلسلہ کو ایک اخبار کی ضرورت تھی جو احمدیوں کے دلوں کو گرمائے ان کی سستی کو جھاڑے.ان کی محبت کو اُبھارے.ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور یہ اخبار ثریا کے پاس
14 ایک بلند مقام پر بیٹھا تھا.اس کی خواہش میرے لئے ایسی ہی تھی جیسے ثریا کی خواہش.نہ وہ ممکن تھی نہ یہ.آخر دل کی بیتا بی رنگ لائی.امید رآنے کی صورت ہوئی.اللہ تعالیٰ نے میری بیوی کے دل میں اسی طرح تحریک کی جس طرح خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں رسول کریم ﷺ کی مدد کی تحریک کی تھی.انہوں نے اس امر کو جانتے ہوئے کہ اخبار میں روپیہ لگانا ایسا ہی ہے جیسا کنویں میں پھینک دینا اور خصوصاً اس اخبار میں جس کا جاری کرنے والا محمود ہو.جو اس زمانہ میں شاید سب سے زیادہ مذموم تھا.اپنے دوز یور مجھے دے دئے کہ میں ان کو فروخت کر کے اخبار جاری کروں.اس حسنِ سلوک نے نہ صرف مجھے ہاتھ دیئے جن سے میں دین کی خدمت کرنے کے قابل ہوا اور میرے لئے زندگی کا ایک نیا ورق الٹ دیا.بلکہ ساری جماعت کی زندگی کے لئے بھی ایک بہت بڑا سبب پیدا کر دیا.میں حیران ہوتا ہوں کہ اگر اللہ تعالیٰ یہ سامان پیدا نہ کرتا تو میں کیا کرتا اور میرے لئے خدمت کا کون سا دروازہ کھولا جاتا اور جماعت میں روز مرہ بڑھنے والا فتنہ کس طرح دور کیا جا سکتا.“ الفضل کے اجراء کے لئے اپنا زیور دینے والی میری والدہ حضرت ام ناصر کو حضرت مسیح موعود نے اپنے بڑے بیٹے سے شادی کے لئے منتخب فرمایا تھا.
15 اب میں اللہ کا نام لے کر اس سے مدد اور تائید کی التجا کرتے ہوئے اپنا بیان شروع کرتا ہوں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد حضرت اماں جان بہت غم زدہ اور خاموش رہنے لگی تھیں.تینوں لڑکے اور دونوں لڑکیاں اپنے اپنے طریق پر حضرت اماں جان کی اس کیفیت کو دور کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے مگر خاطر خواہ نتیجہ نظر نہ آتا تھا.آپ کے بڑے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ( یہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کی بات ہے مجھے اس بارہ میں یقینی علم نہیں ) نے پیشگوئی میں مذکور اپنے سخت ذہین و فہیم ہونے کا ثبوت اس طرح پیش کر دیا کہ آپ نے اپنے بڑے فرزند صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کو جن کی عمر اس وقت چھ سات سال کے لگ بھگ تھی ہماری والدہ کے گھر سے اپنے ہاتھ میں ان کی انگلی پکڑے حضرت اماں جان کی خدمت میں جا کر ، حضرت اماں جان کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ دے کر عرض کیا کہ آج سے یہ آپ کا بیٹا ہے.آپ کے پاس ہی رہے گا.ایک چھوٹی عمر کے بچہ کی طرف ماؤں کو کتنی توجہ دینا پڑتی ہے.ان کا کھانا پینا ، کپڑے، نہلا نا دھلا نا تعلیم و تربیت خاصا وقت چاہتا ہے.اور طبعا اپنی طرف سے توجہ ہٹ کر بچے کی طرف مبذول ہو جاتی ہے.یہاں بھی یہی نتیجہ نکلا اور حضرت اماں جان کی وہ کیفیت جو بیان کر چکا ہوں دور ہوتی گئی اور آپ بشاش اور خوش رہنے لگیں.حضرت مصلح موعودؓ کے سفروں میں معیت میں آگے جو کچھ لکھوں گا اس سے ذہنوں میں ایک سوال پیدا ہو سکتا تھا جس کا جواب یہیں دینا مناسب سمجھا.جہاں تک مجھے یاد ہے 1924 ء کے بعد سے شائد ہی کوئی آپ کا ایسا سفر ہو گا کہ مجھے ساتھ نہ لے گئے ہوں.قادیان میں رہائش تو آپ کے ساتھ تھی ہی سفروں میں بھی آپ کی معیت میری نگرانی اور تربیت کا ذریعہ بنی.اور یہی سبب ہے اس امر کا کہ میں آپ کے متعلق بعض ایسے واقعات وشواہد لکھنے کے قابل ہوا جن میں سے اکثر ضبط تحریر میں نہیں لائے جا سکے.
16 بڑے بھائی تو حضرت اماں جان کی گود میں چلے گئے اور اب باقی بچوں سے (اپنی بڑی ہمشیرہ کے بعد ) بڑا لڑکا میں تھا.اور یہ میری خوش بختی ہے کہ بچپن سے ہی اس عظیم انسان کے زیر تربیت آگیا جس کو آگے چل کر مصلح موعود کا مقام ملنے والا تھا.تربیت کے مختلف طریق ، مختلف ذرائع اور مختلف جہات ہوتی ہیں.ہر انسان معصوم پیدا ہوتا اور زندگی کے ابتدائی سال ماحول کی آلودگیوں سے پاک ہوتے اور اس کی سلیٹ بالکل صاف ہوتی ہے.اس لئے بچپن سے ہی اگر بچوں پر کڑی نظر رکھ کر ان کی زندگی کو صحیح خطوط پر ڈھالنے کی کوشش کی جائے تو نقش اچھا جمتا ہے.آپ کا یتامی سے حسن سلوک اور عدل و انصاف دار مسیح کے جس حصہ میں حضرت مسیح موعود کی رہائش تھی اس سے ملحق جو مکان کا حصہ تھا اس میں ہماری والدہ اور بچے رہتے تھے.اس کے صحن میں بچے بعض گھر یلو کھیلیں شام کو کھیلتے تھے.اسی طرح کی ایک کھیل ہم شام کو کھیل رہے تھے ایک لڑکی جو میری ہم عمر تھی ( اس وقت میری عمر آٹھ نو سال کی ہوگی ) اس نے کوئی ایسی بات کی جس پر مجھے غصہ آگیا اور میں نے اس کے منہ پر طمانچہ مارا.عین اس وقت ابا جان صحن میں داخل ہو رہے تھے.انہوں نے مجھے طمانچہ مارتے ہوئے دیکھ لیا تھا.سیدھے میری طرف آئے.مجھے اپنے پاس بلا کر کھڑا کیا اور اس بچی کو بھی پاس بلایا اور اسے کہا کہ اس نے تمہیں مارا ہے تم بھی اس کے منہ پر طمانچہ مارو.لیکن پھر بھی اسے جرات نہ ہوئی.اس کے بعد غصے میں اور جوش میں مجھے مخاطب ہو کر کہا کہ اگر تم یہ مجھتے ہو کہ اس کا باپ نہیں ہے اس لئے تم جو چاہو اس سے سلوک کر سکتے ہو تو اچھی طرح سن لو کہ میں اس کا باپ ہوں.اور اب اگر تم نے اس پر انگلی بھی اٹھائی تو میں تمہیں سخت سزا دوں گا.( مجھے بعد میں علم ہوا کہ یہ بچی ایک سید خاندان کی یتیم بچی تھی جو ابا جان نے اپنے زیر سایہ لے لی تھی.) بیتامی کی خبر گیری ، ان سے اپنے بچوں کی طرح محبت اور شفقت کا سلوک ، ان کی مدد اسلامی تعلیم کا ایک بڑا پیارا حکم ہے.یہ تو ایک یتیم بچی کے متعلق واقعہ ہے لیکن گھر کے جملہ ملا زم گھر کے افراد کی طرح ہی سمجھے جاتے تھے اور یہی ہمیں سمجھایا جاتا تھا.ہماری مجال نہیں تھی کہ کسی ملازم سے تو نڑاک کریں.سب گھروں میں بہت سادگی کا طریق آپ نے رکھا ہوا تھا.نہ کوئی خاص فرنیچر نہ زیبائش
یادوں کے دریچ 17 کی اشیاء ، نہ فرشوں پر قالین.عام اور ستی دریاں بچھی ہوتی تھیں.فرش پر ہی دستر خوان بچھا دیا جاتا اور در یوں پر ہی بیٹھ کر سب کھانا کھاتے تھے.گھروں میں سادگی کے متعلق لکھتے لکھتے یاد آیا کہ حضرت ابا جان اپنی بیگمات کو ان کے ذاتی اخراجات اور گھر یلو اخراجات کے لئے جو رقوم ادا فرماتے تھے وہ اس قدر قلیل رقم ہوتی تھی کہ مہینہ کے اخراجات آنے آنے پر نگاہ رکھ کر ہی پورے کئے جا سکتے تھے.گھر کے جملہ افراد کی تعداد کے مطابق فی کس خرچ ناپ تول کر ہی دیا جاتا تھا.اگر کسی بیوی کے گھر کوئی مہمان آتے تو مہمانوں کے قیام کے دنوں کے مطابق ان کا خرچ ادا فرما دیتے.اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ آپ کو خوب اندازہ تھا کہ جو خرچ میں دیتا ہوں اس میں مہمانوں کی آمد کی وجہ سے مہینہ پورا نہ کیا جا سکے گا.بچوں کی نشو ونما کا خیال بیویوں کی باریاں مقرر تھیں.اس لئے ابا جان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا جو ہر تیسرے چوتھے روز دو کھانے ہوتے تھے ہم بچوں کے لئے بڑی مشکل کا وقت ہوتا تھا.خود تو بہت کم کھاتے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دو پہر کے کھانے کے وقت جبکہ ابھی کھانا شروع ہی کیا ہوتا تھا پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے آپ کو ڈاک کا تھیلا آ جاتا تھا.ابھی ایک لقمہ ہی منہ میں ڈالا ہوتا تھا کہ ڈاک کا تھیلا موجود.کھانے کے دوران دستر خوان پر بیٹھے بیٹھے تھیلا کھولتے ، قلم جیب سے نکالتے اور خط پڑھنے شروع کر دیتے اور ساتھ ساتھ ان پر ہدایات بھی لکھتے جاتے.اور ڈاک پڑھتے ہوئے کبھی کبھی منہ میں نوالہ بھی ڈال لیتے.ادھر ڈاک ختم کی اور اُدھر اٹھ کھڑے ہوئے.بعض دفعہ خیال آتا تھا کہ اتنی تھوڑی خوراک پر یہ کیسے زندہ ہیں.لیکن کھانے کے دوران ہم بچوں پر نگاہ ہوتی تھی کہ کھانا دائیں ہاتھ سے ڈش سے نکالا ہے.اپنے سامنے جو کھانا ڈش میں ہے اُس طرف سے نکالا ہے.اتنا ہی نکالا ہے جو کھانا ہے.کھاتے وقت منہ کھلا تو نہیں رکھتے.کھاتے وقت مچاکوں کی آواز تو نہیں نکالتے.کھانے سے پہلے ہاتھ دھوئے یا نہیں.کھانے کے بعد ہاتھ دھوئے ، گھی کی کہ نہیں.اس گہری نظر کا ایک واقعہ میں نہیں بھولتا.مجھے ایک دفعہ خیال آیا کہ میں بھی کم کھانا شروع کروں.چنانچہ میں نے نصف پھل کا کھانا شروع کر دیا ( ہمارے ہاں پھل کا بار یک چپاتی جو بہت کم
18 آٹے کی بنائی جاتی ہے کو کہتے ہیں ) ابھی تین ہفتے ہی گزرے تھے.ہم کھانے پر بیٹھے تھے میں نے اسی طرح نصف پھل کا لے کر کھانا شروع کیا تو ابا جان نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ میں تین ہفتے سے دیکھ رہا ہوں کہ تم آدھا پھل کا کھا کر کھانا ختم کر دیتے ہو.میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.تمہاری نشو و نما کی عمر ہے اس میں مناسب غذا بچوں کو کھانی چاہئے ورنہ قولی کمزور ہو جائیں گے.پھر آئندہ زندگی کے بوجھ کیسے اٹھا سکو گے.پھر فرمایا سالن اور روٹی اور لو اور میرے سامنے کھاؤ اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا.یہ تو ہوئی آپ بیتی.بچوں کی صحیح نشو ونما کی طرف توجہ صرف اپنی اولا د تک محدود نہیں تھی جماعت کے سب بچے آپ کے بچوں کی طرح ہی تھے.اس کی دو مثالیں جو میرے علم میں ہیں لکھے دیتا ہوں: جماعت کے ایک دوست جن کا حضرت مصلح موعودؓ سے بہت پیار کا تعلق تھا.ایک دن وہ اپنے بڑے لڑکے کو اپنے ساتھ قادیان لائے.مغرب کی نماز کے بعد جب حضرت صاحب واپس گھر جانے لگے تو حسب معمول دوستوں نے گھر کے دروازے تک قطار بنالی.یہ نو جوان بھی قطار میں کھڑا تھا.گزرتے گزرتے حضرت صاحب کی نظر اس کم عمر بچے پر پڑی تو آپ رُک گئے اور اس کا نام لے کر پاس بلایا اور کہا تم مجھے کمزور لگے ہو.تمہارے ابا تمہارے مناسب کھانے کا معلوم ہوتا ہے انتظام نہیں کرتے.ان سے کہنا کہ کل صبح مجھے دفتر آکر ملیں.اگلے روز وہ دفتر میں حضور سے ملے تو آپ نے ان کو فر مایا کہ مجھے بہت رنج ہوا ہے آپ کے لڑکے کو دیکھ کر.صحت کمزور لگی ہے.اب آپ نے اس کی غذا کا خاص خیال رکھنا ہے اور ایک ماہ کے بعد اس کو ساتھ لا کر مجھے ملانا ہے تا میری تسلی ہو جائے کہ بچے کی پرورش صحیح طریق پر کی جارہی ہے.یہ کہ کرفرمایا کہ صرف آپ کا بچہ نہیں جماعت کا ہر بچہ میرا بچہ ہے اور میں اپنی آئندہ نسل کو جسمانی لحاظ سے بھی کمزور نہیں دیکھ سکتا.دوسری مثال بھی ایک مخلص دوست جن کا حضرت ابا جان سے بہت پیار کا تعلق تھا.ان کے صاحبزادے جو ڈا کٹر ہیں اور امریکہ میں مقیم ہیں انہوں نے اپنا واقعہ لکھ کر ارسال کیا ہے.لکھتے ہیں : حضور کی سیرت کا ایک رُخ اور بھی ہے جس سے ان کے محبت کرنے والے آگاہ نہیں ہیں.اور یہ عشق کا تقاضا ہے کہ انسان جس سے محبت کرتا ہے اس کی ہر بات سے آگاہ ہونا چاہتا ہے.بہر حال ایک محبت کرنے والے کا جدائی پر آنسو بہانا طبعی امر ہے اور ایسی ہستیاں لاکھوں سال بعد پیدا ہوتی ہیں.حضور نے نہ صرف یہ فقرہ فرمایا تھا کہ تم
19 بہت کمزور ہو گئے ہو بلکہ میری بہن جب ملنے گئی تو اسے بھی یہی فرمایا اور فرمایا کہ اپنے ابا جان سے کہو کہ طاہر کی صحت کا بہت خیال رکھیں اور بار بار میری صحت کے متعلق پوچھواتے.اس قسم کے واقعات ہزار ہا لوگوں کے ساتھ ہوئے ہوں گے اور شاید ہر آدمی سمجھتا ہو گا کہ حضور نے مجھ سے خاص سلوک کیا تھا.شائد مجھ سے خاص محبت تھی.ہر دیوانہ خود ہی کو مجنوں سمجھتا رہا ہے اور اسی میں لذت ڈھونڈتا رہا ہے.“ جماعت کے غرباء سے محبت 66 میں اپنے گھروں میں سادگی کے بارے میں بات کر رہا تھا ایک واقعہ یاد آ گیا جس کا اثر اب تک باقی ہے.کافی عرصہ کے بعد ابا جان نے یو.پی کے ایک گاؤں سے جہاں قالین کھڈیوں پر بنائے جاتے تھے اور بہت معمولی قسم کے موٹی اور کھردری اُون کے اور سستے ہوتے تھے.ان قالینوں کے معمولی اور سستے ہونے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ فی قالین قیمت تقریباً چالیس روپے تھی منگوا کر سب گھروں میں ایک ایک قالین دے دیا.ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ قادیان کے پڑوس کے ایک گاؤں میں ایک احمدی معمر خاتون کھتر میں ملبوس، ننگے پاؤں مٹی سے لت پت ابا جان سے ملنے آئیں.اس وقت آپ اس کمرہ میں ہی بیٹھے تھے جہاں قالین بچھا ہوا تھا.وہ بے تکلف سیدھی کمرہ میں داخل ہوئیں.اتنے میں گھر میں سے کسی نے اس کا بُرا منایا کہ قالین پر مٹی سے بھرے ہوئے پاؤں لے کر آگئی ہیں.منہ سے کسی نے کچھ نہیں کہا تھا لیکن وہ گہری نگاہیں فورا تاڑ گئیں کہ اس حرکت کو بُرا منایا گیا ہے.آپ اسے برداشت نہ کر سکے.آپ نے ایک ملازمہ کو بلا کر کہا کہ یہ قالین فوراً یہاں سے لے جا کر باہر پھینک دو.اور فرمایا کہ جو قالین میرے اور میری جماعت کے غرباء کے راستے میں حائل ہے وہ میرے گھر میں نہیں بچھایا جاسکتا.ہمیں ہمیشہ نصیحت کرتے کہ جماعت کے غرباء سے خاص طور پر عزت اور احترام کا سلوک کرنا اور ہمیشہ ان کو اپنے سے بہتر اور معزز جاننا ہے.جب بھی کوئی ملنے آجاتا تو کھڑے ہو کر استقبال کرتے اور یہی ہمیں سکھایا.اور نگرانی بھی فرماتے کہ یہ سبق بچے یا درکھتے ہیں یا نہیں.تربیت کے ضمن میں چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی نظر انداز نہیں فرماتے تھے.
بچوں کی تربیت 20 20 آپ کے ناک کی جس بہت تیز تھی.اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھینس یا گائے کے دودھ کا ایک گھونٹ لے کر بتا دیتے تھے کہ جانور نے کون سا چارہ کھایا ہے.کسی قسم کی بد بو برداشت نہیں تھی.غالباً اس لئے آپ عطر کا استعمال عموما کرتے اور اسی وجہ سے خود عطر بنانے کا شوق بھی فرماتے.اپنے اور عزیزوں کے استعمال کے لئے جب کوئی نیا عطر بنتا تو اپنی بیویوں اور بچیوں کو بھی سنگھاتے اور پوچھتے کہ یہ عطر کیسا ہے.ایک دفعہ کوئی نیا عطر بنایا تو آپ نے ہماری بڑی بہن کو بلا کر کہا کہ ہاتھ آگے کرو میں یہ عطر تمہیں لگاتا ہوں پھر بتانا کہ کیسا ہے؟ ہماری ہمشیرہ نے اپنی ہتھیلی آگے کی تو فرمایا کہ اس طرح نہیں اپنا ہا تھ الٹا کر کے میرے سامنے کرو.پھر عطر لگایا اور فرمایا کہ سیدھا ہاتھ آگے کرنے سے مانگنے کی عادت پڑ سکتی ہے جو میں اپنی اولاد میں برداشت نہیں کر سکتا.ایک چھوٹی سی بات میں کتنا بڑا اسبق دے گئے.تربیت کی طرف توجہ صرف اپنے گھر تک محدود نہیں تھی.ساری جماعت کو ہی اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیم پر عمل کے اعلیٰ معیار پر دیکھنا چاہتے تھے.صرف اپنے زمانہ کی ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی جس مقام پر دیکھنے کی آرزو تھی وہ آپ کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دردمندانہ التجا اور دعا ایک نظم ” نو نہالانِ جماعت سے خطاب کے چند چیدہ چیدہ اشعار سے ظاہر ہے جو لکھے دیتا ہوں.نونهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو جب گزر جائیں گے ہم تم پر پڑے گا سب بار سستیاں ترک کرو طالب آرام نہ ہو خدمت دین کو ایک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہوسوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز فقط نام نہ ہو سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ برق غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پہ کبھی دُشنام نہ ہو خیر اندیشی احباب رہے مدنظر عیب چینی نہ کرو مفسد و تمام نہ ہو رغبت دل سے ہوں پابندِ نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکرِ مسکیں رہے تم کو غم ایام نہ ہو
یادوں کے دریچ 21 24 ہو عادت ذکر بھی ڈالو کہ یہ ممکن ہی نہیں دل میں ہو عشقِ صنم لب پہ مگر نام نہ ہو غیر ہو ئیسر ہو تنگی ہو کہ آسائش کچھ بھی ہو بند مگر دعوتِ اسلام نہ ہو تم نے دنیا بھی جو کی فتح تو کچھ بھی نہ کیا نفسِ وحشی و جفا کیش اگر رام نہ ہو من و احسان سے اعمال کو کرنا نہ خراب رشتہ وصل کہیں قطع سر بام نہ ہو گامزن ہو کے رہ صدق و صفا پر گر تم کوئی مشکل نہ رہے گی جو سرانجام نہ ہو ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو اس ضمن میں آپ نے جو کوشش اور کاوش کی وہ سوانح مصلح موعود میں یقینا آجائے گا.نیز آنے والے زمانوں کے تاریخ دان اور علماء اور فلسفی اس پر بہت کچھ لکھیں گے.میں صرف ایک واقعہ جو میرے سامنے ہوا بیان کرتا ہوں: ابا جان گھر کے بعض افراد کے ساتھ ڈلہوزی پہاڑ پر گرمیاں گزارنے گئے ہوئے تھے.انہی دنوں ایک مبلغ سلسلہ انگلستان کے لئے روانہ ہونے والے تھے.وہ حضرت صاحب سے الوداعی ملاقات اور ہدایات لینے کے لئے ڈلہوزی تشریف لائے.جب روانہ ہونے لگے تو ابا جان ان کو لاری کے اڈہ تک چھوڑنے آئے.ابھی بس کی روانگی میں چند منٹ باقی تھے.سب احباب آپ کا گھیرا کئے ساتھ کھڑے تھے جن میں ناظر صاحب تعلیم و تربیت بھی تھے اور ان کا ایک چھوٹا بھائی جو ڈلہوزی ان کے ساتھ آیا ہوا تھا.وہ بھی کھڑا تھا وہ داڑھی مونڈ تا تھا.بس ایک نظر کی ضرورت تھی اس کی طرف نگاہ اٹھی اور مڑ کر ناظر صاحب سے مخاطب ہو کر فرمایا ” کیا تعلیم و تربیت صرف دوسروں کے لئے ہے ؟ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہا مگر اس ایک فقرہ میں بہت کچھ کہہ گئے.یہ حقیقت ہے کہ کوئی وعظ ونصیحت دوسروں پر اثر نہیں کر سکتی اگر اپنے گھر کی اصلاح کی طرف توجہ نہ ہو.اسلامی تعلیم میں مختلف انداز میں اس طرف توجہ دلائی گئی ہے.عمل کی ضرورت ہے.ایک اور واقعہ بھی جو مجھ پر گز را پیش کرتا ہوں.میری عمر بمشکل نو سال کی تھی.صبح کی نماز کے وقت میری آنکھ نہ کھلی نہ ہی مجھے کسی نے جگایا.میں بستر پر سویا ہوا تھا.ابا جان مسجد سے صبح کی نماز پڑھا کر گھر میں داخل ہوئے.مجھے سویا ہوا دیکھا.بازو پکڑ کر مجھے جگایا اور پوچھا کہ نماز کے لئے کیوں نہیں اٹھے؟ میں نے جواب میں کہا کہ میری آنکھ نہیں کھلی.کہنے لگے کیوں نہیں کھلی ؟ اگر تمہیں
22 یادوں کے در بیچے نماز کا فکر ہوتا تو آنکھ ضرور کھل جاتی.پھر مُڑ کر میری والدہ سے کہا کہ اس کے کپڑے کسی بکس میں رکھ دو، یہ میرے گھر نہیں رہ سکتا اس کو میں بورڈنگ میں بھجوا دیتا ہوں.لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے معاف بھی کر دیا اور ساتھ انتباہ بھی کی کہ آئندہ میں ایسی کوتا ہی برداشت نہ کروں گا.اپنے بچوں کی مزاج شناسی باپ کا اپنی اولاد کے مزاج کا شناسا ہونا نہایت ضروری ہے.ہر ماں باپ کی اولا دمختلف مزاج رکھتی ہے.جیسے شکل وصورت ، رنگ وقد وغیرہ مختلف ہوتے ہیں مزاج بھی مختلف ہوتے ہیں.پسند اور نا پسند میں بھی فرق ہوتا ہے.اسی لئے ہر بچہ کے مزاج کے مطابق اس کی تربیت کا طریق اختیار کرنے سے ہی خاطر خواہ نتیجہ کی امید کی جاسکتی ہے.کوئی بچہ بغیر حیل و حجت بات مان لیتا ہے کوئی چاہتا ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ اس کو جو کرنے کے لئے کہا جا رہا ہے کیوں اور کس لئے کرے.میرا مزاج بھی کچھ دوسری قسم کا تھا.اگر کسی بات کو صحیح نہ جانتا تو اس کا اظہار ضرور کر دیتا تھا.قادیان کے قریب ہمارا ایک آبائی گاؤں نواں پنڈ تھا.جہاں ابا جان نے ٹینس کورٹ بنوایا ہوا تھا اور کبھی کبھی عصر کی نماز کے بعد وہاں ٹینس کھیلنے جاتے تھے.پیدل جاتے تھے.مغرب سے قبل جتنا وقت میسر ہوتا تھا ٹینس کھیل لیتے تھے اور یہی ایک ورزش تھی جو چوبیس گھنٹوں میں میسر آتی تھی.آپ کے ٹینس کے ساتھی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب، عبدالرحیم در د صاحب اور مولوی عبدالمغنی صاحب تھے.ابا جان اور ڈاکٹر صاحب ایک طرف اور درد صاحب اور مغنی صاحب دوسری طرف.یہ سلسلہ خلافت کے پہلے چند سال تک جاری رہا پھر کام کی کثرت نے اتنی ورزش سے بھی محروم کر دیا.جب میں اس قابل ہوا کہ ٹینس کا ریکٹ پکڑ کر کچھ کھیل سکتا تو ٹینس کھیلنے کے لئے مجھے بھی ساتھ لے کر جانے لگے اور ہمارے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب بھی کبھی کبھی کھیلنے ساتھ چلتے تھے.ان دنوں انگلستان کا بنا ہوا ایک ریکٹ جس کا نام DOHERTY تھا آپ استعمال فرماتے تھے.کچھ سال بعد آپ نے ڈو ہرٹی ریکٹ لاہور سے منگوا کر ہمارے بڑے بھائی کو دے دیا.مجھے جب اس کا علم ہوا تو میں نے ایک ملازمہ کے ہاتھ ابا جان کو ایک رقعہ لکھ کر بھجوایا کہ آپ نے بھائی کو ریکٹ دیا ہے اور مجھے نہیں دیا الله اور یہ اسلامی تعلیم کے منافی ہے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے ایک مرتبہ اپنے ایک صحابی کو جس نے
یادوں کے دریچ 23 23 الله اپنے ایک لڑکے کو غلام خرید کر دیا تھا اور دوسروں کو نہیں.آنحضرت ﷺ کے دریافت فرمانے پر کہ کیا ہر لڑکے کو غلام دیا ہے؟ نفی میں جواب سن کر آپ نے ان صحابی کو ارشاد فرمایا کہ اس سے بھی غلام واپس لے لو.اسی طرح کی ایک اور روایت ہے جس میں حضرت النعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے مجھے عطیہ دیا.جب آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے بیان فرمایا کہ کیا باقی سب بچوں کو عطیہ دیا ہے؟ کہا نہیں.اس پر آپ نے فرمایا فَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْدِلُوا بَيْنَ اولادِكُم “ میری اس حرکت کا یہ نتیجہ بھی نکل سکتا تھا کہ میری گوشمالی کی جاتی.ناراضگی کا اظہار ہوتا.لیکن ایسا نہیں ہوا.کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا.جب ملا زمہ واپس آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ ابا جان نے کیا کہا ہے؟ تو اس نے بتایا کہ آپ نے رقعہ پڑھ کر رکھ لیا ہے.کہا کچھ نہیں.دو تین روز ہی گزرے تھے کہ ایک صبح کے وقت آپ ہاتھ میں ڈو ہرٹی ریکٹ پکڑے میرے پاس آئے اور مجھے دے کر فرمایا کہ یہ لوتمہارا ریکٹ.میں نے تمہارے لئے لا ہور سے منگوایا ہے.آپ کی طبیعت میں نہ بخل تھا نہ فضول خرچی.قرآن کریم میں بیان فرمودہ حکم لَا تَجْعَلُ يَدَكَ مَغْلُولَةٌ إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْط ( بنی اسرائیل: 29) کا عملی نمونہ تھے.گھر والوں کی جائز ضرورت بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کم سے کم جائز ضرورت کو تو ضرور پورا کر دیتے مگر کسی جہت سے بھی فضول خرچی کو برداشت نہ کرتے تھے.اگر کبھی تنگی کا وقت ہوتا یا رقم پاس موجود نہ ہوتی تو چھوٹے سے چھوٹے خرچ سے بھی انکار فرما دیتے.ایک واقعہ جو میرے ساتھ گزرا اس پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہوگا.میں جامعہ احمدیہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور جامعہ کی ہاکی ٹیم کا کپتان تھا.ہماری ٹیم مختلف شہروں کے کلبوں اور کالجوں سے ہاکی میچ کھیلنے جایا کرتی تھی.خالصہ کالج امرتسر سے ٹیم نے میچ کھیلنے جانا تھا.تین روپے فی کھلاڑی خرچ کا اندازہ لگا کر ہمارے ٹیوٹر نے سب کھلاڑیوں کو کہا کہ یہ رقم لا کر جمع کروا دی جائے.میں نے ابا جان کی خدمت میں لکھا کہ ہم نے امرتسر میچ کھیلنے جانا ہے اس کا خرچ تین روپے مقرر ہوا ہے وہ مجھے دے دیں.اس کا جواب یہ ملا کہ میرے پاس رقم نہیں ہے اس لئے تم نہیں جا سکتے.میں نے غلطی کی اور دوبارہ لکھ دیا کہ تین روپے تو ایک معمولی رقم ہے اس لئے یہ رقم عطا فرمائیں تا میں میچ کھیلنے جاسکوں.اس کا تحریری جواب صرف انکار تک محدود نہیں تھا جو کچھ اور لکھا اس کا ذکر کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں.اس کو پڑھ کر جو شرمندگی اور دکھ مجھے ہوا اس دکھ کا احساس آج تک نہیں بھولا.
24 یادوں کے در بیچے بچوں کی تربیت میں ایفائے عہد کی طرف بھی توجہ رہتی تھی.چھوٹی سے چھوٹی بات بھی ہو نظر انداز نہ فرماتے.ابا جان جلسہ سالانہ کے بعد چند روز کے لئے تفریح اور دریائی پرندوں کے شکار کے لئے دریائے بیاس کے قریب ایک گاؤں ” پھیر و پیچی‘ تشریف لے جایا کرتے تھے.مجھے بھی ساتھ لے جاتے.دریا پر شکار کے لئے جاتے تب بھی مجھے ساتھ رکھتے.میری عمر کے لحاظ سے میرے لئے 16 بورڈبل بیرل بندوق خریدی تھی.یہ 12 بور کی نسبت ہلکی وزن کی تھی.ایک دن آپ کی طبیعت ناساز تھی.آپ نے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو کہا کہ آپ شکار کے لئے چلے جائیں اور مبارک کو بھی ساتھ لے جائیں.ہم کشتی پر دریا میں شکار کے لئے نکلے ہی تھے کہ دو قاز اڑتے ہوئے ہماری طرف آئے.میں نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ آپ ان دونوں کو گرا لیں تو میں آپ کو ایک رو پید انعام دوں گا.ڈاکٹر صاحب نے دونوں قا ز مار گرائے.ہم شام کو واپس کیمپ میں آگئے.میں تو بھول گیا کہ میں نے ڈاکٹر صاحب سے انعام کا وعدہ کیا تھا ڈاکٹر صاحب بھولنے والے نہ تھے.دو روز کے بعد ڈاکٹر صاحب نے کہیں ابا جان سے اس وعدہ کا ذکر کر کے کہا کہ ”میاں“ نے وعدہ پورا نہیں کیا.ابا جان اندر تشریف لائے تو مجھے بلا کر کہا کہ تم نے ڈاکٹر صاحب سے وعدہ کیا تھا اور پورانہیں کیا یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.آئندہ ایسا کبھی نہ کرنا.اگر وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو.یہ کہہ کر اپنی جیب سے ایک روپیہ نکال کر میرے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ ابھی جا کر ڈاکٹر صاحب کو دے کر آؤ.بچوں کی تربیت کا ایک انوکھا طریق نسبتا چھوٹی عمر میں بچے کہانیاں سنے کا شوق رکھتے ہیں.آپ نے بچوں کی تربیت کے لئے یہ طریق بھی اپنایا.ایک مرتبہ آپ نے ان بچوں کو جو شعور کی عمر کو پہنچ چکے تھے ایک کہانی سنانا شروع کی جو عشاء کی نماز کے بعد ہمیں سناتے.تقریباً ایک گھنٹہ روزانہ جو کئی ہفتے جاری رہی.یہ کہانی کسی قصے کہانیوں کی کتابوں سے اخذ نہیں کی گئی تھی بلکہ آپ نے از خود مختلف تربیتی امور سے تعلق رکھنے والی اسلامی تعلیم پر روشنی ڈالنے کے لئے کہانی کا رنگ دے کر اس کو اس قدر دلچسپ بنا دیا کہ ہم سارے جو اس مجلس میں جمع ہوتے تھے.اگلے دن شام کا انتظار کرتے.بچوں کی تربیت کا یہ انوکھا اور فلسفیانہ طریق تھا.اس کے علاوہ آپ نے گھر میں درسِ قرآن شروع کیا جو کئی ماہ تک جاری رہا.اس درس
یادوں کے در یح 25 میں آپ نے قرآن کریم کی مختلف سورتوں سے وہ حصے جو اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات ، رسول کریم کا مقام اور شان اسلام کی اخلاقی اور تمدنی تعلیم پر مشتمل تھے کی تفسیر بیان فرمائی.اور ہم میں سے جو لکھ سکتے تھے وہ نوٹس لکھتے جاتے تھے.اسی طرف آپ نے اس خط میں اشارہ فرمایا ہے جو مصر کے سفر کے وقت مجھے دیا تھا.جس میں آپ نے لکھا ہے کہ ” درس کے ان نوٹس سے بھی استفادہ کر سکتے ہو جو تم نے لکھے تھے، جماعت کے بہت سے احباب مجھ سے پوچھتے رہے ہیں کہ حضرت صاحب کے اوقات کا رکیا تھے.میرا جواب یہی ہوتا تھا اور اب بھی یہی ہے کہ میں اس قابل تو نہیں کہ تفصیل سے اس بارہ میں کچھ عرض کر سکوں.البتہ اپنے مشاہدہ کے دو واقعات عرض کر دیتا ہوں.جب میرے سالانہ امتحان میں دو تین ماہ باقی رہتے تو میں رات کا اکثر حصہ اپنے اسباق کی دوہرائی میں صرف کرتا تھا.عموماً رات دو بجے تک پڑھتا رہتا.ابا جان نماز عشاء کے بعد اپنے دفتر میں تشریف لے جاتے.میرا کمرہ ان کے دفتر کی طرف سے جانے والے راستہ کی طرف ہی تھا.جب میں پڑھائی ختم کر کے سونے کی تیاری کرنے لگتا تو آپ کے پاؤں کی چاپ مجھے سنائی دیتی.جس سے مجھے معلوم ہو جا تا کہ اب آپ سونے کے لئے واپس گھر کی طرف آرہے ہیں.اس سے ظاہر ہے کہ یہ آپ کا معمول تھا.جیسا کہ لکھ چکا ہوں کہ میں تعلیمی سال کے آخر میں ہی زیادہ توجہ سے پڑھائی کرتا تھا.ہمارے یو نیورسٹی کے امتحان ان دنوں مارچ اپریل میں ہوتے تھے.جنوری میں ابا جان دریائے بیاس تشریف لے جاتے اور مجھے ساتھ لے کر جاتے.میرا مولوی فاضل کا امتحان تھا میری طبیعت میں بڑی گھبراہٹ تھی کہ یہ امتحان بڑا سخت ہوتا ہے اور پڑھائی پر میرا سارا زور سال کے آخر میں ہی ہوتا ہے.اگر اس مرتبہ بھی ساتھ لے گئے تو میری پڑھائی کا حرج ہوگا.مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ ابا جان نے اس مرتبہ مجھے ساتھ چلنے کا نہیں کہا.آپ کو گئے ابھی دو روز ہی گزرے تھے کہ ایک ملازم ابا جان کا ایک خط میرے نام لے کر آیا.کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ ٹانگہ بھجوا رہا ہوں تم اس ملازم کے ساتھ پھیر و پیچی آجاؤ.میری طبیعت پر یہ اس لئے گراں گزرا کہ یہ میری خاص پڑھائی کے دن تھے لیکن حکم عدولی کی ہمت کس کو تھی.میں نے اپنے نصاب کی کچھ کتب صندوق میں بند کر کے ساتھ لیں اور روانہ ہوا.پھیر و پیچی پہنچا، جا کر سلام کیا تو فرمانے لگے چلو تمہیں تمہارا خیمہ دکھا دوں ( بچے خیموں میں رہائش رکھتے تھے کیونکہ چھوٹا سا کچا مکان تھا جس میں ابا جان اور ہماری مائیں اور بہنیں رہائش رکھتی تھیں ) خیمہ.
26 یادوں کے در بیچے میں گئے تو میں نے دیکھا کہ خیمہ میں چار پائی کے ایک طرف میز اور کرسی رکھے ہوئے تھے.میز پر ٹائم پیس رکھا ہوا تھا.مٹی کے تیل کا لیمپ مع دیا سلائی کے پڑے تھے.کوئلوں کی انگیٹھی دہک رہی تھی.مجھے دکھا کر واپس تشریف لے گئے.میں نے اپنی کتابیں نکالیں اور میز پر رکھ دیں.رات کے کھانے اور نماز عشاء سے فارغ ہو کر میں اپنے خیمہ میں آگیا اور پڑھائی شروع کر دی.رات چار بجے تک پڑھتا رہا اور پھر سو گیا.ایک گھنٹہ ہی سویا تھا کہ ایک ملازم نے مجھے جگا کر کہا کہ حضرت صاحب ناشتہ پر بلا رہے ہیں.میں جلدی سے اُٹھ کر گیا تو فرمانے لگے کہ ناشتہ کر کے جلدی سے شکار پر جانے کے لئے تیار ہو جاؤ.اس جگہ آپ کے لباس جو آپ شکار پر جاتے ہوئے پہنتے تھے کا ذکر بھی کردوں.آپ پر جیس“ اور چھوٹا کوٹ اور سر پر لنگی جو ہلکے بادامی رنگ کی ہوتی تھی پہنا کرتے تھے.شکار کے لئے دریا پر ایک بڑی کشتی جس میں عملہ سوار ہوتا تھا اور کھانا وغیرہ رکھا جاتا تھا اور ایک چھوٹی کشتی جو خاص طور پر دریائی پرندوں کے شکار کے لئے بنوائی ہوئی تھی.جس میں حضرت ابا جان، ان کے پیچھے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور ان کے پہلو میں میں بیٹھتے تھے.کشتی کے سامنے کی طرف کچھ خشک جھاڑیاں لگی ہوتی تھیں تا پرندے یہ سمجھیں کہ دریا میں کوئی جھاڑی بہتی ہوئی آرہی ہے اور خوف زدہ نہ ہوں.جب کشتی اور پرندوں کا درمیانی فاصلہ تھوڑا رہ جاتا جو کچھ پانی میں کچھ دریا کے کنارے ریت پر بیٹھے ہوتے تھے تو سب اپنی اپنی بندوق سنبھالے لیٹ جاتے تھے تا پرندے اڑ نہ جائیں.میں چونکہ تقریباً ساری رات پڑھتا رہا تھا کشتی میں سوار ہوتے ہی لیٹ کر سو گیا.جب فائر کر نے کا وقت آیا تو ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے جگانے کی کوشش کی تاکہ میں بھی فائر کر سکوں.ابھی پوری آنکھ نہ کھلی تھی کہ میرے کانوں میں ابا جان کی آواز آئی ڈاکٹر صاحب اس کو نہ جگائیں سوتا رہنے دیں یہ ساری رات پڑھتا رہا ہے.واضح ہے کہ جو شخص خودساری رات کام میں مصروف رہا ہو اس کو ہی یہ علم ہو سکتا تھا کہ میں ساری رات پڑھتا رہا ہوں.دن کے وقت اگر کچھ تفریح آپ کر لیتے تھے تو رات کا بیشتر حصہ روزانہ آمدہ ڈاک، نظارتوں کی رپورٹیں ، ان پر احکامات و فیصلے علمی کام وغیرہ پر ہی صرف ہو جاتا تھا.مجھ سے جو احباب یہ سوال کرتے رہے ہیں اور کرتے ہیں کہ حضرت مصلح الموعودؓ کے اوقات کا ر کیا تھے اس کا جواب تو ان دو ذاتی مشاہدات میں آ گیا ہے.میرا موٹا اندازہ ہے کہ 17 سے 18 گھنٹے روزانہ کام آپ کا معمول تھا.یہ لکھتے لکھتے مجھے حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی ایک نظم کا وہ شعر یاد آ گیا جس میں آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کی آخری
یادوں کے دریچ 27 بیماری کے ایام میں جماعت کو مخاطب کر کے حضور کے لئے خاص دعا کی تحریک فرمائی تھی.وہ شعر یہ ہے : قوم احمد جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں ب علمی کے زمانہ کی باتیں یاد آرہی ہیں پہلے وہی لکھ دوں.مولوی فاضل کا امتحان دیا ، گرمیوں کا موسم شروع ہوا لیکن ابھی نتیجہ نکلنے میں کچھ وقت باقی تھا کہ ابا جان پالم پور پہاڑ پر چند ماہ کے لئے تشریف لے گئے.حسب معمول مجھے بھی ساتھ لے گئے.وہیں پر نتیجہ کی اطلاع بذریعہ تار ملی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں بہت اچھے نمبر لے کر پاس ہوا اور ابا جان کو اس خبر سے بڑی خوشی ہوئی.بار بار فرماتے کہ حیرت ہے ناصر احمد جو بہت با قاعدگی سے پڑھنے والا تھا وہ پہلے سال فیل ہو گیا اور مبارک پاس ہو گیا اور وہ بھی اتنے اچھے نمبر لے کر.اس خوشی میں کل سب عملہ اور وہ احباب جماعت جو مختلف شہروں سے آپ کو ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے اور ملازمین اور گھر والے پکنک کے لئے باہر جائیں گے.کھانے کے لئے باورچی کو خود ہدایات دیں کہ فلاں فلاں کھانا پکایا جائے.چائے کا سامان علیحدہ منگوایا.اگلے دن صبح میری والدہ نے بتایا کہ تمہارے ابارات گئے تک کھانا پکانے کی خود ہی نگرانی کرتے رہے ہیں.اگر ماں باپ کی طرف سے اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو ان کی تربیت کا یہ ایک بالواسطہ طریق ہے.اس طرح بچوں میں بھی غیرت پیدا ہوتی ہے کہ وہ کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو والدین کی تکلیف کا باعث بنے.دینی تعلیم مکمل ہونے پر میٹرک کی تیاری شروع کی.میٹرک کا امتحان شروع ہونے سے قبل ابا جان نے بعض ہدایات لکھ کر دیں.وہ ہدایات اس غرض سے نقل کر رہا ہوں کہ جماعت کے طالب علم ان سے استفادہ کرسکیں.نقل درج ہے: امتحان کے ایام میں اس امر کا خیال رکھنا کہ ہمیشہ کچھ کھا کر جانا چاہئے گو زیادہ پیٹ نہ بھرا ہو اور پرچہ کے وقت سے نصف گھنٹہ پیشتر گھر سے روانہ ہونا چاہئے.جولڑ کے اس خیال سے کہ کافی وقت ہے گھر سے دیر کر کے نکلتے ہیں بعض دفعہ اتفاقی حادثات کی وجہ سے پر چھ سے رہ جاتے ہیں.پر چہ کو ہمیشہ دو تین دفعہ پڑھ کر جواب دینا شروع کرے اور پہلے آسان سوال کرے پھر مشکل.اور اتنا وقت پہلے پرچہ ختم کرے کہ اسے دوبارہ اچھی طرح
28 پڑھ کر اصلاح کر سکے.دوبارہ دیکھنے سے کئی اصلاحیں ہو جاتی ہیں اور نمبر زیادہ ہو جاتے ہیں.رول نمبر کے لکھنے میں احتیاط کرے.کئی لڑکے نمبر لکھنا یا ہدایات کی پیروی کرنا بھول جاتے ہیں.گھر سے دعا کر کے جانا چاہئے اور پر چہ سے پہلے دل میں دعا کر لینی چاہئے.امتحان کے دنوں میں رات کو زیادہ جا گنا نہیں چاہئے تا دماغ تھکا ہوا نہ ہو میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد ابا جان نے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروا دیا.ابھی ہوسٹل میں چند دن ہی گزرے تھے کہ ابا جان کا خط مجھے ملا جو اس نیت سے درج کر رہا ہوں کہ قارئیں اندازہ لگا سکیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کو اپنی اولاد کی اسلامی اقدار اور اسلامی تعلیم پر عمل اور اس کا ٹھیٹھ نمونہ پیش کرنے کی کتنی فکر تھی.اس خط میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ تم کو دین کی خدمت کی اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے.اپنی اولا د ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے لیکن ہر مومن کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اپنی اولاد، جان، مال، عزت ہر اک شے سے زیادہ پیار کرے.اس لئے تم لوگ مجھے اس وقت تک عزیز ہو اور اسی نسبت سے جس نسبت سے کہ دین کی خدمت کا خیال تمہارے دل میں ہوا اور جس نسبت سے کہ تم لوگ دین کے لئے قربانی کے لئے تیار رہو.“ خاکسار مرزا محمود احمد ان دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں اکثر طلباء امراء اور راجوں مہاراجوں اور نوابوں کے بچے ہوتے تھے جو چیفس کالج لاہور سے اپنی تعلیم مکمل کر کے گورنمنٹ کالج میں داخل کئے جاتے تھے.انگریز کا زمانہ تھا اس لئے ظاہر ہے کہ اکثریت انگریزی لباس میں ملبوس ، ہر قسم کے فیشن کے دلدادہ.مجھ سے بھی غلطی ہوئی کہ کالج میں داخل ہوتے ہی سوٹ سلوائے اور پہننا شروع کر دئے.دو تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ ابا جان کی خدمت میں ایک احمدی دوست جن کا سائیکلوں کا کاروبار نیلہ گنبد میں تھا جو ہمارے کالج کے راستہ میں تھا انہوں نے مجھے یوروپین لباس میں دیکھ کر ابا جان کو خط لکھا کہ مجھے اس لباس میں ان کو دیکھ کر بہت تکلیف ہوئی ہے.یہ خط قادیان پہنچا اور ابا جان نے پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کلرک کے ہاتھ مجھے خط بھجوایا.میں نے کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ مجھے تمہاری شکایت پہنچی ہے کہ تم
یادوں کے دریچ 29 کوٹ پتلون پہنتے ہو.میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا.اس لئے سب سوٹ اس آدمی کے ہاتھ فوراً مجھے بھجوا دو کیونکہ میں نے ان کو جلانا ہے.اس خط کو پڑھ کر میرارڈ عمل جو ہوا وہ لکھے دیتا ہوں.میں نے جواب میں لکھا کہ کالج میں آنے سے قبل آپ نے مجھے دینی تعلیم مکمل کروائی.جس حد تک میراعلم ہے لباس کے متعلق اسلام نے کوئی پابندی نہیں لگائی کہ ایک مسلمان ایسالباس پہن سکتا ہے، ایسا نہیں پہن سکتا.قرآن کریم میں صرف ایک لباس کا ذکر ہے اور وہ ہے لباس تقوی.اس لئے آپ بحیثیت خلیفہ مجھے کسی خاص لباس کے پہنے یا نہ پہنے کا حکم تو نہیں دے سکتے البتہ باپ کا حکم ماننا ہر بچے کا فرض ہے اور میں باپ کے حکم کی تعمیل من وعن کروں گا اور آج سے یہ لباس نہیں پہنوں گا.رہا سوال سوٹ بھجوانے کا اور آپ کا ان کو جلانے کا تو مجھے اس سے اتفاق نہیں.کئی احمدی طالب علم کالجوں میں ہیں جو سوٹ پہنتے ہیں.ان میں سے کچھ میرے دوست بھی ہیں ان کو یہ دے دوں گا وہ پہن لیں گے.یہ خط لکھ کر بند کر کے میں نے اس کلرک کو دے دیا کہ میں نے جواب لکھ دیا ہے اب تم واپس جا سکتے ہو.یہ کالج کے ابتدائی سال کا واقعہ ہے.سال گزرتے گئے.1955ء میں ابا جان یورپ علاج کے لئے تشریف لے گئے.(اس سفر برائے علاج کی ضرورت اس وجہ سے پیدا ہوئی کہ ایک بد بخت معاند نوجوان نے نماز پڑھاتے ہوئے حضرت صاحب کی گردن میں پھر اگھونپا تھا جو مین شہ رگ کے قریب تک پہنچ گیا تھا.پھرے کا ایک ٹکڑا بھی اندر ٹوٹ گیا تھا ) اپنے اس سفر میں جن اہلِ خانہ اور بچوں کو آپ ساتھ لے جانا چاہتے تھے ان میں میرا نام بھی تھا.میں نے عرض کر کے اجازت لے لی کہ میں اپنے خرچ پر جانا چاہتا ہوں.ابا جان نے اجازت دے دی.انگلستان پہنچنے کے چند دن بعد ہم یورپ کی سیر کے لئے روانہ ہو گئے.ہماری لندن روانگی سے قبل حضرت صاحب نے مجھے ایک خط دیا جولندن کی ایک کار فروخت کرنے والی کمپنی کے مینیجر کے نام تھا.اس میں لکھا تھا کہ میرا لڑکا یہ خط لے کر آئے گا اس کے لئے میں نے ایک کارآپ سے خریدی ہوئی ہے وہ اس کے حوالے کر دیں.یہ کار HILLMAN MINX“ تھی.حضرت صاحب نے پاکستان روانگی سے قبل تین کاریں ریز رو کروائی ہوئی تھیں.یہ کار جو میرے لئے تھی ان میں سے ایک تھی.نئی کا تھی.رجسٹریشن ، انشورنس کمپنی نے کروا چھوڑی تھی.غرض یورپ کے سفر اور انگلستان میں قیام کے لئے یہ کار ہمارے لئے ہی تھی.اپنے خرچ پر جانے کا
30 پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ ہمیں ٹرانسپورٹ مل گئی اور ہم یورپ کی سیر کے لئے روانہ ہو گئے.حضرت صاحب ان دنوں برائے علاج زیورک ( سوئٹرز لینڈ ) میں مقیم تھے اور میڈیکل سپیشلسٹ پروفیسر روسیئے“ کے زیر علاج تھے.اپنے اس سفر میں باقاعدگی سے میں حضرت صاحب کو اپنے اگلے دنوں کے پروگرام جس جگہ جانا ہوتا تھا اس کا نام ، ہوٹل کا نام وغیرہ تفصیلاً لکھ دیتا تھا.ہمارے سفر کے دوران حضرت صاحب چند ہفتوں کے لئے یورپ کے دو ملکوں میں تفریح کے لئے روانہ ہو گئے.جن دنوں آپ ہیگ (ہالینڈ) میں تشریف رکھتے تھے ہمارا بھی اُدھر جانے کا پروگرام تھا.حضرت صاحب کو میں نے فون پر اطلاع دی.آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے پاس ہی ٹھہر نا ( ہیگ میں ایک دو منزلہ کوٹھی کرایہ پر لی گئی تھی ) یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ مکرم چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب حضور کے سارے سفر میں ہم رکاب تھے اور چوہدری صاحب نے حضرت صاحب کو کوئی بے آرامی یا فکر یا پریشانی نہ ہونے دی.بڑی تفصیل سے حضرت صاحب کے آرام اور سفر سے لطف اندوز ہونے کا اہتمام کرتے.ہم ہیگ پہنچے، حضرت صاحب سے ملنے گئے تو مجھے مل کر فرمایا کہ الگ کمرہ تو کوٹھی میں نہیں ہے.تمہیں مع بیوی اور بچی بہنوں کے ساتھ گزارا کرنا پڑتا اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تم ہوٹل میں ٹھہر و ، آرام رہے گا.اس وقت چوہدری صاحب بھی حضور کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.آپ نے چوہدری صاحب کو فرمایا کہ آپ مبارک کو کار میں لے جائیں اور کسی مناسب ہوٹل میں ان کے لئے کمرے کا انتظام کر دیں.اخراجات کی رقم میں ادا کروں گا.چوہدری صاحب مجھے لے کر روانہ ہو گئے.ہیگ کے نواح میں ایک مشہور سیر گاہ بھی ہے اور ایک بہت مشہور ہوٹل بھی ہے جو کسی زمانے میں DUKE کا محل تھا جو کافی بڑے رقبہ میں ہے.اس میں ایک جھیل بھی ہے.موٹر بوٹس ہوٹل کے مہمانوں کے لئے میسر ہوتی ہیں.وہاں جا کر چوہدری صاحب مجھے لے کر اندر RECEPTION میں گئے.کمرہ ریز روکر وایا.پہلے تو میں خاموش رہا لیکن پھر میں نے وہاں کھڑے کھڑے چوہدری صاحب سے کہا کہ اس قدر رقم خرچ کر کے یہاں رہنا مناسب معلوم نہیں دیتا.کسی ستی جگہ لے چلیں یہ منسوخ کروادیں.چوہدری صاحب نے مسکرا کر کہاں ”میاں میں نے آپ کے لئے یہ کام نہیں کیا.آپ کے یہاں رہنے سے حضرت صاحب تفریح کے لئے یہاں شام کو آجایا کریں گے.شام کی چائے جھیل کے کنارے کرسیاں لگوا کر ہوٹل کے ملازم سر و (Serve) کریں گے.حضور پسند کریں تو تھوڑی دیر موٹر بوٹ میں جھیل کی سیر بھی کر سکیں گے.اس ہوٹل میں مقیم مہمانوں کے علاوہ اس احاطہ میں اور کوئی نہیں آسکتا.البتہ ہوٹل میں رہائش
یادوں کے در یح 31 پذیرا اپنے مہمانوں کو بلا سکتے ہیں.اس طرح دو چار دن جب تک آپ یہاں مقیم ہیں حضرت صاحب کوسیر کی بہترین جگہ مل جایا کرے گی.جب ہم واپس حضرت صاحب کی رہائش گاہ پہنچے اور چوہدری صاحب نے پہلے تو یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کمرہ بک کر دیا ہے.پھر حضرت صاحب کو اس ہوٹل کا مختصر سا تعارف کروا کے آمادہ کر لیا کہ اس شام سے ہی وہاں سیر کا پروگرام بنایا جائے.( اس ہوٹل کا نام OUD CASTSEEL / OLD CASTLE ہے ) چنانچہ ہمارے اس جگہ قیام کے دوران ابا جان شام کو سیر کے لئے تشریف لاتے رہے.زیورک میں مزید چند ہفتے علاج کے بعد حضرت صاحب لندن تشریف لے آئے.لیکن ہم ابھی یورپ میں ہی گھوم رہے تھے اور پھرتے پھراتے دوبارہ ہالینڈ میں تھے کہ مجھے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کا خط ملا کہ حضور نے امریکہ، افریقہ اور یورپ کے انچارج مبلغین کی کانفرنس طلب فرمائی ہے جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک لندن میں ہوگی.اور حضور نے فرمایا ہے کہ بحیثیت وکیل التبشیر آپ کی شمولیت ضروری ہے اس لئے وقت پر واپس لندن پہنچ جائیں.کانفرنس سے ایک روز قبل میں لندن پہنچ گیا.جولباس شائستہ ہو وہ مسلمان پہن سکتا ہے کالج کے زمانہ میں اس حکم کے بعد جس میں یوروپین لباس نہ پہنے کاحکم تھا میں نے کبھی یورو چین لباس نہیں پہنا تھا.یورپ کے اس سفر میں بھی میں نے اچکن ہی پہن رکھی تھی.لندن پہنچ کر ابا جان سے ملنے ان کے کمرہ میں گیا.اوپر نظر اٹھائی اور دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی سوٹ نہیں ہے؟ میں خاموش کھڑا رہا تو فرمایا کہ تمہارے دماغ میں اپنے کالج کا زمانہ آرہا ہو گا جب میں نے سوٹ پہنے کی ممانعت کی تھی.تمہاری بات درست تھی کہ اسلام نے کسی خاص لباس پہنے کی کوئی تعلیم نہیں دی.جو لباس شائستہ ہو وہ مسلمان پہن سکتا ہے.میرا حکم اس لئے تھا کہ وہ انگریز کا زمانہ تھا.انگریز حاکم تھا اور حاکم کے لباس کو اپنا نا غلامانہ ذہنیت کی دلیل ہے اور میں اپنی اولا د میں غلامانہ ذہنیت برداشت نہیں کر سکتا.اب انگریز ہمارے ملک کا حاکم نہیں ہے اب اس لباس کے پہننے میں کوئی حرج نہیں.یہ کہہ کر اپنی چیک بک اٹھائی اور میرے نام چیک لکھ کر مجھے دیا اور فرمایا کہ بنے بنائے سوٹ
32 بھی اچھے سٹوروں میں دستیاب ہیں نیز نیو بانڈ سٹریٹ میں درزیوں کی دکانیں بھی ہیں جہاں ماپ دے کر سوٹ سلوا سکتے ہو.فی الحال بنے بنائے ایک دوسوٹ خرید لو ، ساتھ میچ کرتی ہوئی ٹائیاں ، قمیض وغیرہ بھی خرید واور وہ پہنو.اس دن کے بعد سے میں نے حسب ضرورت سوٹ پہنا شروع کر دیا.یہ ایک طرح کی مجبوری بھی ہے غیر ملک کے سفروں میں شلوار میض نہیں چل سکتی ، نہ یہ کپڑے دھلوائے جا سکتے ہیں، نہ ستھرے رہ سکتے ہیں، نہ دھلائی کے اخراجات برداشت کئے جاسکتے ہیں.حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کی بیعت بچوں کو حفظ مراتب کی تربیت دینے کے متعلق کچھ لکھنے سے قبل خود آپ کا نمونہ لکھنا ضروری ہے.ہمارے تایا جان حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو حضرت مسیح موعود کی پہلی زوجہ محترمہ کے بطن سے تھے نے آپ کی بیعت نہ کی تھی.آپ نے حضرت مصلح موعودؓ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اس تمہید کے بعد بیعت کا واقعہ لکھ رہا ہوں جس کا میں خود شاہد ہوں.جب حضرت تایا جان نے بیعت کرنا چاہی تو حضرت مصلح موعودؓ خود تایا جان کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر بیعت لی.یہ بڑے بھائی کے احترام کی وجہ سے تھا.خلافت کا مقام اپنی جگہ اور بڑے بھائی کا احترام اپنی جگہ.اس سے بڑھ کر حفظ مراتب کی شان کہاں مل سکتی ہے.ہمیں بچپن سے ہی حفظ مراتب سکھایا جاتا اور نگرانی بھی کی جاتی کہ بچوں کو یہ سبق یاد ہے یا نہیں.ہم بھائی بہن کئی ماؤں کی اولاد ہیں اس لئے بعض بھائی بہنوں میں سال دو سال کا عمر کا فرق ہے.لیکن اتنے تھوڑے فرق سے بھی کسی بچے کی مجال نہیں تھی کہ اپنے بڑے کی عزت اور احترام میں کوتا ہی نہ کرے.ابا جان کی زندگی میں سگے سوتیلے کی کوئی دیوار ہم بھائی بہنوں میں کھڑی نہ کی جاسکی.اس ضمن میں مجھ سے جو ایک غفلت ہوئی اس کا ذکر بھی کر دیتا ہوں.غیرت دینی کا واقعہ ہمارے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب کو قرآن کریم حفظ کروانے کا فیصلہ ابا جان نے کیا.ایک حافظ صاحب کو اس کے لئے مقرر فرمایا.ہماری رہائش والے مکان کے صحن میں بھائی کھڑے
33 یادوں کے دریچ تھے.میں برآمدہ میں تھا.میں نے ان کو او حافظ کر کے پکارا.ابا جان نے سن لیا.سخت غصے میں میرے پاس آئے اور ایک طمانچہ رسید کیا اور فرمانے لگے تمہیں شرم نہیں آتی قرآن کریم حفظ کرنے والے اور پھر بڑے بھائی کو تم نے اس طرح مخاطب کیا ہے.اسی وقت پرائیویٹ سیکرٹری کے ایک کارکن کو بلا کر کہا کہ اسی وقت ہائی سکول جا کر اس کا نام وہاں سے کٹوا دو اور کل سے یہ ہائی سکول کی بجائے احمد یہ سکول میں تعلیم حاصل کرے گا.( احمد یہ سکول جماعت کا دینی مدرسہ تھا ) بظاہر تو مجھے سزا دی گئی لیکن اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر بھی ادا کروں کم ہوگا کہ اس سزا کے پیچھے میرے لئے ایک بہت بڑی برکت چھپی ہوئی تھی.مجھے بعد میں والدہ صاحبہ سے معلوم ہوا کہ پہلے میرے متعلق ابا جان کا ارادہ ڈاکٹری تعلیم دلوانے کا تھا.کہاں ڈاکٹری اور کہاں خدمتِ دین کی توفیق پانا.جب بھی اس کا خیال آتا ہے میرا دل ، سر آستانہ الہی پر شکر سے جھک جاتا ہے.خاندان کے جو بزرگ تھے ان کی عزت و احترام میں کسی غفلت اور کوتاہی کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.صحابہ حضرت مسیح موعود ہوں یا دوسرے احمدی احباب، امیر ہوں یا غریب، غیر از جماعت ہوں یا غیر مسلم ، سب کی عزت و احترام کا خیال رکھنا ہمارے دماغوں میں کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا.ہمیں یہ سبق بار بار دیا جاتا کہ ہر انسان معزز ہے خواہ امیر ہو یا غریب ،ساتھ ہی عزت نفس کو سمجھنے اور اس پر عمل کی تلقین بھی ابا جان کرتے رہے.
یادوں کے در بیچے 34 == حضرت مصلح موعود کا بیش قیمت نصائح پر مشتمل خط میں اپنے بچپن اور طالب علمی کی کچھ یادیں بیان کر رہا تھا.گورنمنٹ کالج سے بی.اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ابا جان نے مجھے مصر بھجوانے کا فیصلہ فرمایا.سفر پر روانگی سے قبل آپ نے نہایت بیش قیمت نصائح ایک خط کی صورت میں مجھے لکھ کر دیں.جونو نہالان جماعت کی تعلیم و تربیت کے لئے مشعل راہ ہیں.اس خط کا عکس میں اس لئے بھی شامل کر رہا ہوں کہ آپ سے محبت رکھنے والے آپ کے بابرکت ہاتھوں کی تحریرا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.خط کا عکس اگلے صفحہ پر ملاحظہ فرمائیں)
35 55 حضرت مصلح موعودؓ کے ایک مکتوب کے پہلے اور آخری صفحہ کا عکس QAQIAN-MO زیز) بارک الله سلک رو اور تائها الرسم عليكم ورحمة الله وبرکاتہ.الہ تھائی فریت کے لے جاتے اور غیریت سے لائے.امر دینی رضا مندی گه ده ی این کارتنی یاد تبار رسانه ای دارد از راست کا قیم اور تر تا اتے ہے لیکن چھوٹے سفری و باریک سفر کو نہیں ہونا چاہئے جو پراسان کے درپیش ہے جبور نبال بریکوں نا مه برسه برون کا بادشاه بادشامیوں کا حالات میں بین کرتے تھا کہ اپنے مشرووں کے حالات سے فائدہ دکھائیں اگرآج لوگ اہل بیت نوری 2018 مالات کا تھا اور کھو تب پیسے کی ٹھوکروں کے محفوظ ہو جاؤ انسان کا بدلہ استلاقی پانیوں کے مطابق ہوتا ہے رسول کرتا میں اس نیند کی فرماتے ہیں یہ نہ ہو گا کہ لوگ تو قیامت کا دن دریغ علی لیکر آئیں استعم
یادوں کے در بیچے 36 36 ون ما را به روی و اداری کی بات کی زبان ا ا ا ا ورا اندر کی ود این ماتمتر آن کریں اگا نے وجود کا کیا کیا لکھ مارا ہے اور ان کی شده سیوی تغییر دکور او کمی آئی ہے یہ علوم زیبانی اس کا نہیں تھے.بڑے سے بڑا تھا کربلا ان ما برتر با کوشتیم کریگا اور انشاء امه لله سود مدوح کا مصدقی ہوگا.۱۷- ایک نہیں.منامه العرية الحمد كتاب و النجوم نقد و کمد دال بین رامسر سلامیہ کرتے جاؤ.کیو کے لیے عرصہ تک مطالبہ نہ رکھنے کا وجہ کے زبان کی بیست بعضی آجاتا ہے.JA وہ شریک کر رہے یہاں بھی ایک کا زیار او در این این میر کے ایک کوک ایر تور کریس تانه ی سایت اشتند و هریک الله و کاناله ها یک اینما نیست و در اسلام کاستاند که اکسو و بعد
37 خط کا متن عزیزم مبارک احمد سلمك الله تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ خیریت سے لے جائے اور خیریت سے لائے اور اپنی رضا مندی کی راہ پر چلنے کی توفیق دے.تمہارا سفر تو عربی اور زراعت کی تعلیم اور ترقی کے لئے ہے لیکن چھوٹے سفر میں اس بڑے سفر کو نہیں بھولنا چاہئے جو ہر انسان کو در پیش ہے.جرنیل جرنیلوں کے ، مدبر مدبروں کے ، بادشاہ بادشاہوں کے حالات پڑھتے رہتے ہیں تاکہ اپنے پیشروؤں کے حالات سے فائدہ اٹھائیں.اگر تم لوگ اہلِ بیت نبوی کے حالات کا مطالعہ رکھو تو بہت سی ٹھوکروں سے محفوظ ہو جاؤ گے.انسان کا بدلہ اس کی قربانیوں کے مطابق ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں یہ نہ ہوگا کہ لوگ تو قیامت کے دن اپنے عمل لے کر آئیں اور تم وہ دنیا کا مال جو تم نے دنیا میں حاصل کیا ہے.اے میرے صحابہ ! تم کو بھی اپنے اعمال ہی لا کر خدا کے سامنے پیش کرنے ہوں گے.اہلِ بیت نبوی کو جو عزت آج حاصل ہے وہ رسول کریم ﷺ کی اولاد ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی ذمہ داری کو سمجھ کر جو قربانیاں کی ہیں ان کی وجہ سے ہے.1 - تم اب بالغ جوان مرد ہو.میرا یہ کہنا کہ نماز میں با قاعدگی چاہئے ایک فضول بات ہوگی.جو خدا تعالیٰ کی نہیں مانتا وہ بندے کی کب سنتا ہے.اگر تم میں پہلے سے با قاعدگی ہے تو میری نصیحت صرف ایک زائد ثواب کا رنگ رکھے گی اور اگر نہیں تو وہ ایک صدا بہ صحراء ہے.مگر پھر بھی میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ نماز دین کا ستون ہے.جو ایک وقت میں بھی نماز کو قضاء کرتا ہے دین کو کھو دیتا ہے.اور نماز پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ باجماعت ادا کی جائے.اچھی طرح وضو کر کے ادا کی جائے.ٹھہر کر ، سوچ کر اور معنوں پر غور کرتے ہوئے ادا کی جائے اور اس طرح ادا کی جائے کہ توجہ کلی طور پر نماز میں ہوا اور یوں معلوم ہو کہ بندہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم سے کم یہ کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے.جہاں دو مسلمان بھی ہوں ان کا فرض ہے کہ باجماعت نماز ادا کریں بلکہ جمعہ بھی ادا کریں اور نماز سے قبل اور بعد ذکر کرنا نماز کا حصہ ہے.جو اس کا تارک ہو وہ نماز کو اچھی طرح پکڑ نہیں سکتا اور اس کا دل نماز
38 میں لگ نہیں سکتا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا نمازوں کے بعد تینتیس تینتیس دفعہ سبحان الله الحمد للہ پڑھا جائے اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر.یہ سو دفعہ ہوا.اگر تم کو بعض دفعہ اپنے بڑے نماز کے بعد اٹھ کر جاتے نظر آئیں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ذکر کرتے نہیں بلکہ وہ ضرور تا اٹھتے ہیں اور ذکر دل میں کرتے جاتے ہیں.الا ماشاء الله - تہجد غیر ضروری نماز نہیں نہایت ضروری نماز ہے.جب میری صحت اچھی تھی اور جس عمر کے تم اب ہو اس سے کئی سال پہلے سے خدا تعالیٰ کے فضل سے گھنٹوں تہجد ادا کرتا تھا.تین تین چار چار گھنٹہ تک اور رسول کریم ﷺ کی اس سنت کو اکثر مد نظر رکھتا تھا کہ آپ کے پاؤں کھڑے کھڑے سوج جاتے تھے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مسجد میں نماز کا انتظار کرتا اور ذکر الہی میں وقت گزارتا ہے وہ ایسا ہے جیسے جہاد کی تیاری کرنے والا.2.اللہ تعالیٰ کسی کا رشتہ دار نہیں وہ ہستی وَلَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ہے.اس کا تعلق ہر ایک سے اس احساس کے مطابق ہوتا ہے جو اس کے بندے کو اس کے متعلق ہو.جو اس سے سچی محبت رکھتا ہے وہ اس کے لئے اپنے نشانات دکھاتا ہے اور اپنی قدرت ظاہر کرتا ہے.دنیا کا کوئی قلعہ ، کوئی فوج انسان کو ایسا محفوظ نہیں کر سکتا جس قدر کہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی امداد.کوئی سامان ہر وقت میسر نہیں آسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی حفاظت ہر وقت میسر آتی ہے.پس اس کی جستجو انسان کو ہونی چاہئے.جسے وہ مل گئی اسے سب کچھ مل گیا جسے وہ نہ ملی اسے کچھ بھی نہ ملا.3- زیادہ گفتگو دل پر زنگ لگا دیتی ہے.رسول کریم ﷺ جب مجلس میں بیٹھتے ستر دفعہ استغفار پڑھتے.اس وجہ سے کہ مجلس میں لغو باتیں بھی ہو جاتی ہیں اور یہ آپ کا فعل امت کی ہدایت کے لئے تھا نہ کہ اپنی ضرورت کے لئے.جب آپ اس قدر احتیاط اس مجلس کے متعلق کرتے تھے تو جو اکثر ذکر الہی پر مشتمل ہوتی تھی تو اس مجلس کا کیا حال ہو گا جس میں اکثر فضول باتیں ہوتی ہوں.یہ سب امور عادت سے تعلق رکھتے ہیں.میں دیکھتا ہوں ہمارے بچے جب بیٹھتے ہیں لغو اور فضول باتیں کرتے ہیں.ہم لوگ اکثر سلسلہ کے مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے اس وجہ سے بغیر پڑھتے ہی سب کچھ آتا تھا.انسان کی مجلس ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں شامل ہونے والا جب وہاں سے اٹھے تو اس کا علم پہلے سے زیادہ ہو.نہ یہ کہ جو علم وہ لے کر آیا ہو اسے بھی کھو کر چلا جائے.4.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی یا اسلام کی تبلیغ کرنا دوسروں کا ہی کام نہیں ہمارا بھی
39 کام ہے اور دوسروں سے بڑھ کر کام ہے.یعنی سفر میں ، حضر میں تبلیغ سے غافل نہ ہوں.رسول کریم فداه جسمی و روحی فرماتے ہیں تیرے ذریعہ سے ایک آدمی کو ہدایت کا ملنا اسے سے بڑھ کر ہے کہ ایک وادی کے برابر مال تجھ کومل جائے.5- بنیادی نیکیوں میں سے سچائی ہے.جس کو سچ مل گیا اس کو سب کچھ مل گیا.جسے سچ نہ ملا اس کے ہاتھوں سے سب نیکیاں کھوئی جاتی ہیں.انسان کی عزت اس کے واقفوں میں اس کے سچ کی عادت کے برابر ہوتی ہے.ورنہ جو لوگ سامنے تعریف کرتے ہیں پس پشت گالیاں دیتے ہیں.اور جس وقت وہ بات کر رہا ہوتا ہے لوگوں کے منہ اس کی تصدیق کرتے لیکن دل تکذیب کر رہے ہوتے ہیں.اور اس سے زیادہ برا حال کس کا ہے کہ اس کا دشمن تو اس کی بات کو رڈ کرتا ہی ہے مگر اس کا دوست بھی اس کی بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتا.اس سے زیادہ قابلِ رحم حالت کس کی ہوگی.اس کے برخلاف بچے آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ اس کے دوست اس کی بات مانتے ہیں اور اس کے دشمن خواہ منہ سے تکذیب کریں لیکن ان کے دل تصدیق کر رہے ہوتے ہیں.6- انسانی شرافت کا معیار اس کے استغناء کا معیار ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَمُدَّنَ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجاً مِنْهُمْ کبھی دوسروں کی دولت پر نگہ نہ رکھے اور کبھی کسی کا حسد نہ کرے.جو ایک دفعہ اپنے درجہ سے اوپر نگہ اٹھاتا ہے اس کا قدم کہیں نہیں نکلتا.اگلے جہان میں تو اسے جہنم ملے گی ہی وہ اس جہان میں بھی جہنم میں رہتا ہے.یعنی حسد کی آگ میں جلتا ہے یا سوال کی غلاظت میں لوٹتا ہے.کیسا ذلیل وجود ہے وہ کہ اکیلا ہوتا ہے تو حسد اس کے دل کو جلاتا ہے اور لوگوں میں جاتا ہے تو سوال اس کا منہ کالا کراتا ہے.انسان اپنے نچلوں کو دیکھے کہ وہ کس طرح اس سے تھوڑا رکھ کر قناعت سے گزارا کر رہے ہیں اور اس پر شکر کرے جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا ہے اور اس کی خواہش نہ کرے جو اس کو نہیں ملا.اس کے شکر کرنے سے اس کا مال ضائع نہیں ہوتا.ہاں اس کے دل کو سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے اور طمع کرنے سے دوسرے کا مال اسے مل نہیں جاتا.صرف اس کا دل جلتا اور عذاب پاتا ہے.جس طرح بچہ بڑوں کی طرح چلے تو گرتا اور زخمی ہوتا ہے اسی طرح جو شخص اپنے سے زیادہ سامان رکھنے والوں کی نقل کرتا ہے گرتا اور زخمی ہوتا ہے اور چند دن کی جھوٹے دوستوں کی واہ واہ کے بعد ساری عمر کی ملامت اس کے حصے میں آتی ہے.انسان کو ہمیشہ اپنے ذرائع سے کم خرچ کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے کیونکہ اس کے ذمہ دوسرے بنی نوع انسان کی
40 ہمدردی اور امداد بھی ہے.ان کا حصہ خرچ کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ کل کو اس کا کیا حال ہوگا.7 جفاکشی اور محنت ایسے جو ہر ہیں کہ ان کے بغیر کسی انسان کی اندرونی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں.اور جو شخص اس دنیا میں آئے اور اپنا خزانہ مدفون کا مدفون چھوڑ کر چلا جائے اس سے زیادہ بدقسمت کون ہوگا..ہر شخص جو باہر جاتا ہے اس کے ملک اور اس کے مذہب کی عزت اس کے پاس امانت ہوتی ہے.اگر وہ اچھی طرح معاملہ نہ کرے تو اس کی عزت نہیں بلکہ اس کے ملک اور مذہب کی عزت بر باد ہوتی ہے.لوگ اسے بھول جاتے ہیں لیکن عرصہ دراز تک وہ یہ کہتے رہتے ہیں ہم نے ہندوستانی دیکھے ہوئے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں ، ہم نے احمدی دیکھے ہیں وہ ایسے خراب ہوتے ہیں.9.مسافر کو جھگڑے سے بہت بچنا چاہئے.اس سے زیادہ حماقت کیا ہوگی کہ دوسرا شخص تو جھگڑا کر کے اپنے گھر چلا جاتا ہے اور یہ ہوٹلوں میں جھگڑے کے تصفیہ کا انتظار کرتا ہے.مسافر تو اگر جیتا تب بھی ہارا اور اگر ہارا تب بھی ہارا.پس جھگڑا اور لڑائی تو ہر صورت میں بری ہے مگر سفر میں بری بھی ہے اور حماقت بھی.10 - غیر ملکوں کے احمدی ہزاروں بار دل میں خواہش کرتے ہیں کاش ہمیں قادیان جانے کی توفیق ملے کہ وہاں کے بزرگوں کے تقویٰ اور اچھے نمونہ سے فائدہ اٹھا ئیں اور خصوصاً اہلِ بیت کے ساتھ ان کی بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں.وہ اپنے گھروں کو ایمان کے حصول کے لئے چھوڑنا چاہتے ہیں اور ہمارے پاس آنا چاہتے ہیں.سخت ظلم ہو گا اگر ہم ان کے پاس جا کر ان کے ایمانوں کو ضائع کریں اور ان کی امیدوں کو سراب ثابت کر دیں.ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ سمجھیں کہ ہماری امید سے بڑھ کر ہمیں ملا نہ یہ کہ ہماری امید ضائع ہو گئی.11- ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے کی چغلیاں کرتے ہیں.مومن کو چغلی سننے سے پر ہیز چاہئے اور سن کر یقین کرنے سے تو کمی اجتناب واجب ہے.جو دوسروں کی نسبت عیب بغیر ثبوت کے تسلیم کر لیتا ہے خدا تعالیٰ اس پر ایسے لوگ مسلط کرتا ہے جو اس کی خوبیوں کو بھی عیب بتاتے ہیں.مگر چاہئے کہ چغلی کرنے والے کو ڈانٹے نہیں بلکہ محبت سے نصیحت کرے کہ اگر آپ کا خیال غلط ہے اور بدظنی کے گناہ سے آپ کو بچنا چاہئے اور اگر درست ہے تو اپنے دوست کے لئے دعا کریں
یادوں کے دریچ 41 تا اسے بھی فائدہ ہوا اور آپ کو بھی اور عفو سے کام لو کہ خدا تمہارے گناہ بھی معاف کرے.12 - تم کو مصر، فلسطین اور شام کے احمدیوں سے ملنا ہو گا.ان علاقوں میں احمدیت ابھی کمزور ہے کوشش کرو کہ جب تم لوگ ان ممالک کو چھوڑو تو احمدی به لحاظ تعداد کے زیادہ اور بہ لحاظ نظام کے پہلے سے بہتر ہوں اور تم لوگوں کا نام ہمیشہ دعا کے ساتھ لیں اور کہیں کہ ہم کمزور تھے اور کم تھے فلاں لوگ آئے اور ہم طاقتور بھی ہو گئے اور زیادہ بھی ہو گئے.اللہ ان پر رحم کرے اور انہیں جزائے خیر دے.مومن کی مخلصانہ دعا ہزاروں خزانوں سے قیمتی ہوتی ہے.13- جمعہ کی پابندی جماعت کے ساتھ خواہ کس قدر ہی تکلیف کیوں نہ ہو ادا کرنے کی اور دن میں کم سے کم ایک نماز اجتماعی جگہ پر پڑھنے کی اگر وہ دور ہو ورنہ جس قدر زیادہ تو فیق مل سکے کوشش کرنی چاہئے اور جماعتوں میں جمعہ کی اور ہفتہ وار اجلاسوں اور نماز با جماعت کی خاص تلقین کرنی چاہیئے.14 - رسول کریم ہر اجتماع کے موقع پر دعا فرماتے تھے.صل الله اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْأَرْضِيْنَ وَمَا أَقْلَلْنَ وَ رَبَّ الشَّيَاطِيْنِ وَمَا أَضْلَلْنَ وَرَبَّ الرِّيَاحِ وَ مَاذَرَيْنَ فَإِنَّا نَسْأَلُكَ خَيْرَ هَذِهِ الْقَرْيَةِ وَ خَيْرَ أَهْلِهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَ نَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ أَهْلِهَا وَشَرِّ مَا فِيْهَا - اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْهَا اللَّهُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاهَا وَحَتِبْنَا إِلَى أَهْلِهَا وَ حَبِّبْ صَالِحَ أَهْلِهَا إِلَيْنَا.(مستدرک حاکم جلد 1 ص614 معجم الاوسط طبرانی جلد 5 صفحہ 379) ترجمہ: اے اللہ ! سات آسمانوں اور جس پر ان کا سایہ ہے اُن کے رب ! سات زمینوں اور جو کچھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے اُن کے ربّ ! اے شیطانوں اور جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے اُن سب کے رب ! اے ہواؤں اور جو کچھ وہ اڑاتی ہیں اُن کے رب ! ہم تجھ سے اس بستی اور اس کے رہنے والوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کی خیر اور بھلائی کی دُعا کرتے ہیں اور ہم اس بستی اور اس کے باشندوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کے نشتر سے تیری پناہ میں آتے ہیں.اے اللہ ! ہمارے لئے اس بستی میں برکت رکھ دے.ہمیں اس بستی میں برکت بخش.ہمارے لئے اس بستی میں برکت کے سامان مہیا کر دے.اے اللہ ! ہمیں اس کے پھلوں سے رزق دے اور اس کے باشندوں کے دلوں میں ہماری محبت ڈال اور اس بستی کے نیک بندوں کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کر دے.
یادوں کے در بیچے 42 یہ دعا نہایت جامع اور ضروری ہے.ریل میں داخل ہوتے وقت ، کسی شہر میں داخل ہوتے وقت ، جہاز میں بیٹھتے اور اترتے وقت خلوص دل سے یہ دعا کر لینی چاہئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر شرارت سے حفاظت کا موجب ہوتی ہے.15.مصری، انگریزی اور فرانسیسی کا عام رواج ہے.مگر تم عربی سیکھنے جارہے ہو.پورا عہد کرو کہ عرب سے سوائے عربی کے اور کچھ نہیں بولنا خواہ کچھ بھی تکلیف کیوں نہ ہو ور نہ سفر بے کا رجائے گا.ہاں وہاں کی خراب عربی سیکھنے کی ضرورت نہیں.اگر غیر تعلیم یافتہ طبقہ سے زراعت کی اغراض یا کسی اور غرض سے گفتگو کی ضرورت ہو تو خود بولنے کی ضرورت نہیں ساتھ تر جمان رکھ لیا.عربی تم پڑھ تو چکے ہی ہو تھوڑی سی محنت سے زبان تازہ ہو جائے گی.16 - اپنے ساتھ قرآن کریم ، اس کے نوٹس جو درس میں تم نے لکھے ہیں اور میری شائع شدہ تفسیر رکھ لو، کام آئے گی.یہ علوم دنیا میں اور کہیں نہیں ملتے.بڑے سے بڑا عالم ان کی برتری کو تسلیم کرے گا اور انشاء اللہ احمدیت کے علوم کا مصدق ہوگا.17- ایک منجد، کتاب الصرف اور کتاب النخو ساتھ رکھو اور جہاز میں مطالعہ کرتے جاؤ کیونکہ لمبے عرصہ تک مطالعہ نہ رکھنے کی وجہ سے زبان میں بہت نقص آ جاتا ہے.18- شریعت کا حکم ہے جہاں بھی ایک سے زیادہ آدمی رہیں اپنے میں سے ایک کو امیر مقرر کریں تا فتنہ کا سد باب ہو.اَسْتَودِ عُكَ اللهُ وَكَانَ اللهُ مَعَكَ أَيْنَمَا كُنتَ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد
43 اپنے نفس پر قابو پا کر کام کرنے کی تلقین مصر کے قیام کے دوران میں نے ابا جان کی خدمت میں خط لکھ کر یورپ جانے کی خواہش کا اظہار کیا اس خط کا جو جواب ملا اس کے متعلقہ حصص درج ذیل ہیں : 10 اگست 1938 ء عزیزم مبارک احمد سلمکم الله تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ تمہارا خط یورپ کے سفر کے متعلق ملا ہے.اب تم کو سوچنا چاہئے کہ: 1- ایک طرف تمہارا بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے.پہلے جانے میں دیر ہوگئی پھر عدن ٹھہر گئے وہاں جا کر بیمار ہو گئے.وو 2- روپیہ اندازہ سے زیادہ خرچ ہو گیا ہے.بے شک جوانی کی عمر میں امنگیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہم بھی بوڑھے پیدا نہیں ہوئے تھے.اسی عمر میں میں بھی مصر گیا.ہزاروں جوانی کی خوا ہیں دیکھتا ہوا وہاں پہنچا.راستہ میں جوش آیا کہ علم بے شک اچھی شے ہے لیکن دیار محبوب کی زیارت کو کہاں پہنچ سکتی ہے.ارادہ کر لیا کہ حج کروں گا اور اسی سال کروں گا.پورٹ سعید پہنچا تو رات کو خواب میں دیکھا حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں " مصر سے کل کا جہاز آخری ہے.حج کو جانا ہے تو اس میں جاؤ“.لوگوں نے بہت زور دیا کہ مصر آکر قاہرہ اور اسکندریہ نہ دیکھے تو اس میں زیادہ حماقت نہ ہوگی.ابھی کئی جہاز اور جائیں گے ایک ہفتہ یہ شہر دیکھ لو.مگر ایک نہیں سنی دوسرے دن جہاز پر سوار ہو کر حج کو روانہ ہو گیا.بعد میں مصری حکومت کا جہاز والوں سے جھگڑا ہو گیا اور آئندہ جہاز گئے ہی نہیں.تم تو قاہرہ ، اسکندریہ اور پورٹ سعید دیکھ آؤ گے جو دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں.ہم نے پورٹ سعید بھی پھر کر نہ دیکھا تھا.اب تم اپنے نفس پر قابو پا کر اس کام کے لئے کوشش کرو جس کے لئے گئے ہو.عربی کی مشق اور تجدید کرو کہ دین میں ترقی ہو.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد
44 اس خط کے ملنے کے بعد میں نے ابا جان کی خدمت میں اپنی غلطی کی معافی کے لئے خط لکھا.اس کا جو جواب ملا وہ بھی نقل کر رہا ہوں : پیارے مبارک احمد سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ تمہارا خط ملا.اس وقت جو جنگ کی حالت ہے شاید اس خط سے پہلے تم کو وہاں سے روانہ ہونا پڑے.میں ناراض نہیں میں تو تمہاری اصلاح چاہتا ہوں اور یہ کہ تمہاری قربانیاں اور زندگی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذمہ واریوں کے مطابق ہو.اللہ تعالیٰ سلامتی سے لائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد مستقبل کی ذمہ داریوں کی تیاری کی طرف توجہ مصر کے سفر سے واپس آنے کے بعد عملی زندگی کا آغاز ہوا.سفر سے واپس آنے کے معا بعد ابا جان نے مجھے نظارت بیت المال صدر انجمن احمدیہ میں خان صاحب فرزند علی صاحب ناظر بیت المال سے دفتری کام سیکھنے پر مقرر فرما دیا.ان دنوں آپ قادیان سے باہر چند دن کے لئے تشریف لے گئے تھے.ابھی میں نے خان صاحب کے پاس کام سیکھنے کے لئے جانا شروع نہ کیا تھا کہ ابا جان کا خط ملا.جس میں بعض ہدایات تھیں ، نصائح تھیں اور آئندہ زمانوں میں آنے والی ذمہ واریوں کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.ہمارے احباب اپنے لڑکوں کی صحیح خطوط پر تربیت کے لئے اس سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں.خط کی نقل درج ہے.عزیزم مبارک احمد سلمکم اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ تمہاری تا رمل گئی تھی.میں آتے ہوئے خان صاحب کو کہہ آیا تھا کہ تم کو دفتر کا کام سکھا دیں.تم جانتے ہو کہ کام بغیر ماتختی کے نہیں آ سکتا.یورپ میں بادشاہوں کے لڑکے بھی
یادوں کے دریچ 45 معمولی سپاہیوں سے کام شروع کرتے ہیں تب کام آتا ہے.تم جب تک کلر کی کا کام نہ سیکھو نگرانی نہیں کر سکتے.خان صاحب نے وعدہ کیا ہے کہ دو تین ماہ میں کام سکھا دیں گے تم ان کے دفتر میں جانا شروع کرو لیکن یاد رکھو کہ با قاعدہ جاؤ اور پورا وقت دو.یہ سوال نہ ہو کہ میں کوئی نوکر تو نہیں.باقاعدگی اور تنظیم کے بغیر کام نہیں آتا.اور بنیاد کچی ہو تو ساری عمر وقت رہتی ہے.میں نے خان صاحب کو سمجھا بھی دیا تھا اور اب خط بھی لکھ رہا ہوں وہ ان کو دے دو.لاہور جانا ہو تو باقاعدہ چھٹی لے کر جاؤ.بیماری ہو تب بھی رخصت لو.غرض بے تنخواہ کا ملازم اپنے آپ کو سمجھو.یہاں کے بعد اپنے دفتر میں تم کو ٹریننگ دینے کا ارادہ ہے تا کہ جو کام تمہارے سپر د ہو تم اس کو اچھی طرح اور سمجھ کر کر سکو.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد یہ خط ملنے کے دوسرے دن صبح دفتر کھلتے ہی میں خان صاحب کے دفتر کے دروازہ پر پہنچا.چک اٹھائی اور اندر داخل ہو گیا.خان صاحب نے ایک قہری نگاہ میری طرف اٹھائی اور فرمایا کہ بغیر اجازت لئے کیوں اندر آئے ہو.باہر چلے جاؤ اور پھر ا جازت لے کر اندر آؤ.میں باہر چلا گیا ، باہر جا کر اجازت طلب کی.اندر بلا لیا.اندر جا کر کھڑا ہو گیا اور بیٹھنے کی جرات نہیں کی.کہا کہ بیٹھ جاؤ اور مجھے ہدایات دیں کہ فلاں کلرک کو میں نے سب کچھ سمجھا دیا ہے اس کو جا کر رپورٹ کرو اور کام شروع کر دو.ان کے اس طریق سے میں سمجھ گیا کہ ابا جان نے خان صاحب کو میرے متعلق خط میں کیا ہدایات دی ہیں.خان صاحب کی طبیعت میں بڑی سختی تھی اور نظم وضبط کی پابندی تھی.تین ماہ کے بعد مجھے بلا کر کہا کہ اب تم کو مزید آنے کی ضرورت نہیں میں حضرت صاحب کی خدمت میں خود اطلاع دے دوں گا.اسی روز دو پہر کے بعد ابا جان نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ خان صاحب نے تمہارے متعلق مجھے جور پورٹ دی ہے اس سے مجھے خوشی ہوئی ہے.تمہاری بڑی تعریف کی ہے کہ بہت ذمہ داری سے کام سیکھا ہے.ایک دن بھی ناغہ نہیں کیا ، کوئی رخصت نہیں لی.پھر مسکرا کر فرمایا کہ خان صاحب کی طبیعت میں سختی ہے اسی لئے میں نے ان کے سپر د تمہاری ٹرینگ کی تھی.وہ تھوڑے کیئے کسی کی تعریف کرنے والے نہیں.اس ٹریننگ کے بعد مجھے ابا جان نے سندھ اراضیات کی نگرانی کے لئے
46 بھجوا دیا.میرے لئے یہ ایک نیا تجربہ تھا.نہ مجھے زراعت کا علم نہ طبیعت کا رجحان لیکن قدم قدم پر ابا جان کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی میرے کام آئی.چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق بھی خط لکھ کر رہنمائی کی گزارش کرتا.فوری جواب ملتا.ایک مرتبہ متعد د خطوط کا جواب نہ ملنے پر میں نے کچھ شکوہ کے رنگ میں آپ کی خدمت میں لکھا.مجھے علم نہیں تھا کہ ان دنوں آپ بیمار ہیں.اس خط کے جواب میں مجھے لکھا: پیارے مبارک احمد سلمکم اللہ تعالی السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ تمہارے خط ملتے رہے ہیں.دفتر ی طور پر جواب بھی جاتے رہے ہیں.میری طبیعت گزشتہ ایام سے سخت خراب تھی اس لئے خود خط نہیں لکھ سکا.آج بھی مفصل نہیں لکھ سکتا.میری تو صحت بھی خطرناک طور پر بگڑ گئی ہے اور اعصاب میں تحلل شروع ہو گیا ہے جو نہایت مہلک مرض ہے.میں ابھی اس کا اظہار نہیں کر رہا تا کہ جماعت میں پریشانی نہ ہو اور نہ گزشتہ ایام میں میری صحت خطرناک طور پر گر گئی ہے اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی صحت ہو سکتی ہے.ایسی صورت میں مزید پریشانیوں سے مرض کے شدت پکڑ جانے کا ڈر ہے اور صحت کی امید بالکل جاتی رہتی ہے.باقی باتوں کا جواب پھر.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد چھوٹی چھوٹی باتوں پر دھیان نہ دینے کی نصیحت سندھ کی اراضیات کی نگرانی کا افسر اعلیٰ ایجنٹ کہلاتا تھا.اس کے ساتھ ایک اسسٹنٹ ایجنٹ مقرر تھا.مختلف فارمز میں مینجر وغیرہ.مجھے جب بھجوایا گیا تو میرا عہدہ جائینٹ ایجنٹ مقرر فرمایا.آپ نے ایک ماہوار رقم میرے اخراجات کے لئے مقرر فرما دی.پہلے ماہ کا ہی اکا ؤنٹنٹ نے جو ہل بنایا اور مجھے وصولی کے دستخط کرنے کے لئے کہا تو میں نے دیکھا کہ اس مقررہ رقم کے آگے تنخواہ کا لفظ
یادوں کے در یح 47 لکھا ہوا ہے.مجھے یہ بہت بُرا لگا اور میں نے ابا جان کی خدمت میں خط لکھ کر اس کا اظہار بھی کر دیا.اس خط کے جواب میں ابا جان نے جو خط لکھا اس کا متعلقہ حصہ لکھے دیتا ہوں.آپ نے لکھا: تمہارے خط میں ہے کہ نوکری کے نام سے مجھے نفرت ہے.لیکن میں نہیں سمجھا کہ نوکری کا سوال کس طرح پیدا ہوا.زمین میری ہے کسی اور کی نہیں.ہر بچہ آدم کے وقت سے اپنے والدین کے خرچ پر ہی پلتا ہے اور ان کی جائیداد کا وارث ہوتا ہے.نوکری کا سوال کب پیدا ہوا.اگر کسی وقت کسی پل پر تنخواہ کا لفظ لکھا گیا ہو تو یہ تو میرے ساتھ بھی ہوتا رہا ہے.سالہا سال تک عملہ کے نیچے انجمن میں میرا نام ہوتا تھا.لوگوں نے اعتراض کیا تو رُکا.میں نے ایسی بات پر سوال اٹھانے کی اس سے پہلے ضرورت نہیں سمجھی.ایسی چھوٹی باتوں کی طرف دھیان نہیں کرنا چاہئے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد اس خط میں میری تسلی بھی کر دی سمجھا بھی دیا تعلیم بھی دے دی کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے.نگاہ اونچی رکھنی چاہئے.لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے میرے جذبات اور عزت نفس کا بھی خیال رکھا.آپ نے ہی اکا ؤنٹنٹ کو ہدایت بھجوائی ہوگی کیونکہ اس کے بعد سے اکاؤنٹنٹ وصولی پر دستخط کروانے آتے تھے تو میرے نام کے آگے ” جیب خرچ “ لکھا ہوتا تھا.اور خود بھی جب اخراجات کی رقم میں زیادتی فرماتے تو جیب خرچ ہی لکھتے.فارمز پر قیام میں ابھی تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا کہ خط ملا : وو چونکہ تمہارا سب وقت اسی کام پر لگتا ہے.اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آیا اس لئے میرا ارادہ ہے کہ 66 واپس بلا کر تم کو دینی کام پر لگا دوں.سو تم اپنے کام کو اب اس طرح رکھو کہ جلد واپس آسکو “ ملازمین سے درگزر اس خط کے ملنے کے چند دن بعد ہی ابا جان کا خط ملا کہ : دو ہفتہ تک ہم سندھ کے لئے روانہ ہوں گے.اس دفعہ میرا ارادہ ہے کہ تفصیل سے
یادوں کے در بیچے 48 حسابات کو چیک کروں اور انتظام کو بہتر بنانے کے لئے بھی غور کروں.تم عملہ کو ہدایت دے دو کہ جملہ امور کی فوری تیاری کر لیں.“ 66 ناصر آباد فارم پہنچنے کے دوسرے دن ہی عشاء کی نماز کے بعد میٹنگ بلائی.جس میں ایجنٹ ، اسٹنٹ ایجنٹ مینیجر ناصر آباد فارم اور مجھے شمولیت کا حکم دیا.ایک لطیفہ بیان کرنے کے لئے یہ لکھ رہا ہوں.میٹنگ شروع ہوئی.ابھی رات کے ساڑھے بارہ بجے تھے کہ ہمارے اسٹنٹ ایجنٹ کرسی پر ہی گہری نیند سوئے ہوئے خراٹے لینے لگے.تھوڑے عرصہ کے بعد مینجر صاحب اور کچھ اور وقت گزرنے کے بعد ایجنٹ صاحب بھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے.اباجان نے مزید چند منٹ مجھے سے کام کے متعلق گفتگو فرمائی.پھر مجھے کہنے لگے کہ آؤ خاموشی سے اٹھ کر گھر چلے جاتے ہیں ان کو اسی طرح سوتا چھوڑ کر.اس وقت رات کا ڈیڑھ بجا تھا.اگلے روز ان تینوں کارکنوں نے معافی کے خطوط لکھے.کوئی ناراضگی تو نہیں تھی ، کارکنان کو اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر تنبیہ تھی.ابا جان نے ان کی تسلی کر دی کہ میں ناراض نہیں صرف توجہ دلانا مقصود تھا کہ کام کے وقت چوکس اور ہوشیار رہنا چاہئے.تمام بچوں کو دین کی راہ میں وقف کی خواہش چند ہفتوں بعد ابا جان نے مجھے قادیان واپس بلالیا اور اسی دفتر میں کام پر لگا دیا جس کی آپ خود براہِ راست نگرانی فرماتے تھے.اس دفتر میں کام کرتے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ مولوی عبدالرحمن انور صاحب جو ان دنوں تحریک جدید کے انچارج تھے اور واقفین زندگی کی نگرانی وغیرہ کا کام بھی انہی کے سپر دتھا کی طرف سے مجھے خط ملا کہ آپ واقف زندگی ہیں اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے سر کے بال مغربی طرز پر کئے ہوئے ہیں.آپ فوراً اپنی حجامت بنوائیں.سر کے آگے اور پیچھے ایک جیسے بال ہونے چاہئیں.خط ملتے ہی میں نے جوابا لکھا کہ : آپ کو کس نے بتایا کہ میں واقف زندگی ہوں.واقفین کے لئے ضروری ہے کہ وہ تحریراً اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں.میری کوئی تحریر آپ کے پاس ہے تو اس کی نقل مجھے بھجوائیں ورنہ آئندہ آپ مجھے مخاطب نہ کریں.“ ان کی طرف سے دوبارہ کبھی مجھے کوئی خط نہ ملا.حضرت مصلح موعودؓ کی وفات کے کچھ عرصہ بعد
49 ایک دن وہ میرے دفتر میں تشریف لائے اور کہنے لگے کہ آج آپ کو اپنے اس خط کے بارے میں اصل بات بتانے آیا ہوں.میں نے آپ کو جو سر کے بالوں کے بارہ میں خط لکھا تھا یہ دراصل حضرت مصلح موعودؓ کے حکم سے لکھا تھا از خود نہیں لکھا تھا.جب آپ کا جواب ملا تو آپ کا خط لے کر حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کا خط پیش کیا.آپ نے پڑھ کر مجھے مخاطب ہو کے فرمایا آپ آئندہ مبارک کو کچھ نہ لکھیں.اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے کہ ابا جان جب کبھی یہ فرماتے تھے کہ میرے سب بچے دین کی خدمت کے لئے وقف ہیں تو میں خود آپ کی خدمت میں لکھ دیتا کہ میں نے تو کبھی وقف نہیں کیا.ایک دن میری والدہ نے مجھے بلا کر کہا کہ تم کیوں ایسے خط اپنے ابا جان کو لکھ دیتے ہو.ان کو اس سے رنج ہوتا ہے اور اس کا اظہار بھی انہوں نے کیا ہے.رنج کا اظہار تو آپ نے فرما دیا لیکن کبھی کوئی سرزنش نہیں فرمائی.( کتنا حوصلہ تھا اس شخص میں ، کتنا بڑا دل سینے میں دھڑک رہا تھا ) ایک خط میں یہاں تک لکھ گیا کہ میں نے تو کبھی وقف نہیں کیا آپ یہ اعلان تو فرما سکتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میرے سب لڑکے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوں.بیٹیوں کی واقفین سے شادی کی خواہش یہ تو نرینہ اولاد کے متعلق تھا.اپنی بیٹیوں کے متعلق بھی آپ نے کسی تقریر میں فرمایا کہ میں اپنی سب بچیوں کی شادی واقفین زندگی سے ہی کروں گا.لیکن ایک بیٹی کی شادی کے بعد جن کے ہونے والے شوہر واقف زندگی نہیں تھے آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں اپنے شدید رنج کا اظہار فرمایا.یہ خطبہ سن کر مجھے اپنے کئے پر شدید ندامت کا احساس ہوا اور وہیں عہد کیا کہ تین دن استخارہ کے بعد ابا جان کی خدمت میں اپنی زندگی وقف کرنے کا خط لکھ دوں گا.گھر آکر میں نے اپنی بیوی آمنہ طیبہ بیگم صاحبہ سے ذکر کیا اور ان کو بھی کہا کہ وہ دعا اور استخارہ کریں کیونکہ میرے نزدیک کوئی بھی واقف زندگی پوری دلجمعی اور وقف کی روح کے مطابق خدمت نہیں کر سکتا جب تک اس کی بیوی بھی اس قربانی میں شرح صدر کے ساتھ شامل نہ ہو.میری بیوی نے بھی دعا اور استخارہ کے بعد مجھے کہا کہ میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں.تین روز کے بعد میں نے ابا جان کی خدمت میں خط لکھ دیا کہ دعا کے بعد پورے شرح صدر سے دین کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرتا ہوں.قبول فرمائیں.اس کا جو تحریری جواب مجھے ملا لکھ رہا ہوں :
50 عزیزم مبارک احمد سلمہ اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ تمہارا خط ملا.اللہ تعالیٰ تمہاری اس نیت کو قبول کرے.دراصل یہی راستہ ہمارے خاندان کی کامیابی کا ہے.جبکہ اسلام کی لڑائی کا وقت ہے اس وقت ہمارے آدمیوں کا اور کام کرنا اول درجہ کی غداری ہے اور ایسا گناہ جو شاید کبھی نہ بخشا جائے.مجھے تمہارے اس خط سے بے انتہا خوشی ہوئی ہے اور..جو زخم تھے ان کا اند مال تو نہیں ہو سکا مگر ان کی جلن میں اس نے کمی کر دی ہے.کسی کے قبول اسلام پر تقریب کا انعقاد والسلام خاکسار مرزا محمود احمد جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں.گرمیوں کے موسم میں ابا جان چند ماہ کے لئے کسی پہاڑ پر تشریف لے جاتے تھے.پہاڑ پر جانے کا مقصد کوئی سیر و تفریح نہ تھی بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ شدید گرمی میں اتنا کام نہ کر سکتے تھے جو کرنا چاہتے تھے.ابا جان، خاندان کے چند افراد اور اپنے عملہ کے ہمراہ ڈلہوزی پہاڑ پر مقیم تھے کہ انگلستان سے ایک انگریز کے قبول اسلام کی اطلاع بذریعہ تار ملی.آپ کو اس اطلاع سے بے حد خوشی پہنچی.آپ نے باہر کہلا بھجوایا کہ اس خوشی میں کل ”دیان کنڈ ( ڈلہوزی سے چند میل کے فاصلہ پر ایک خوبصورت پہاڑی تھی ) پکنک کے لئے چلیں گے.وہاں پہنچ کر آپ نے فرمایا کہ آج اس خوشی میں جملہ دوست کچھ اشعار کہیں اور یہ انعامی مقابلہ ہوگا.جس کے اشعار اول قرار دیئے گئے ان کو میں دس روپے انعام دوں گا.فیصلہ کے لئے حج مقرر فرمائے جن میں آپ خود، عبدالرحیم درد صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب مقرر کئے.لیکن ساتھ ہی اعلان کر دیا کہ انعام کے لئے مجھے زیر غور نہ لایا جائے گا.غرض سب نے بشمول ابا جان فی البدیہہ اپنی اپنی نظم یا رباعی سنانا شروع کی.قافلہ کے افراد میں آپ کے ایک پہرے دار عبدالاحد خان
یادوں کے دریچ 51 صاحب بھی تھے.یہ دوست چھوٹی عمر سے افغانستان سے ہجرت کر کے قادیان آگئے تھے.باوجود لمبا عرصہ قادیان میں قیام کے ان کو اردو بولنی بھی ٹھیک طرح نہ آتی تھی.حتی کہ مذکر اور مؤنث کا فرق بھی نہ سمجھنے پائے.( مثلاً نماز جمعہ کے بعد بعض اوقات جنازہ غائب کا اعلان جب آپ کرتے تو کہتے اب جنازہ کھڑا ہوتی ہے جب ابا جان نے ان کو کہا کہ عبدالاحد خان اب آپ کی باری ہے.عبد الاحد خان کو جب بھی ابا جان مخاطب کرتے آپ " قربانت شوم“ کہہ کر جواب دیتے تو یہی کہہ کر انہوں نے معذرت کی کہ میں تو اس قابل نہیں مجھے منتفی کیا جائے.ابا جان نے کہا کہ آج کوئی استثناء نہیں ہو گا آپ کو چند اشعار بنا کر سنانا ہوں گے.انہی دنوں ضلع گورداسپور کے انگریز ڈپٹی کمشنر جو نئے تعینات ہو کر آئے تھے اور قادیان ابا جان سے ملنے بھی آئے تھے ( قادیان کے زمانہ میں جب بھی کوئی ڈپٹی کمشنر تبدیل ہوتا اور دوسرا آتا تو لازماً قادیان ابا جان کو ملنے آتا ) ان کا قد چھوٹا تھا اور جسم بھاری.عبدالاحد خان صاحب جو ابا جان کے پہریداروں میں شامل تھے اس لئے انہوں نے بھی ان کو دیکھا ہوا تھا.ابا جان کے مجبور کرنے پر عبد الاحد خان صاحب نے جواشعار بنا کر سنائے.درج ذیل ہیں :.ڈپٹی کمشنر قد آور چاہئے چاہئے مسیح موعود کا غلام در نے پہنایا ہے اس کو کوٹ پتلون اس کو تو تو پالان خر چاہئے اب ججوں نے اپنا فیصلہ سنایا کہ عبدالاحد خان صاحب اول آئے ہیں اور انعام کے مستحق.یہ واقعہ لکھنے سے میری غرض اس امر کا اظہار ہے کہ ہمارے آقا ومطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود و الله سلام بھیجنے والوں میں ایک فرد کی ایزادی بھی آپ کے لئے بے انتہا خوشی ومسرت کا موجب ہوتی تھی.یہ حقیقت ہے کہ ابا جان کے شب و روز صرف اور صرف اعلائے کلمۃ اللہ اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے وقف تھے.اللہ تعالٰی ، اس کے رسول حملے اور اس کے دین کے لئے بے انتہا غیرت رکھتے تھے.چھوٹی کو تا ہی ہو یا بڑی اس کو برداشت نہ کرتے خواہ بھائی ہوں یا بہنیں ، بیویاں ہوں یا بچے یا جماعت کے احباب.جس کی ایک مثال جو میری دید اور میری شنید ہے لکھ رہا ہوں :
52 اسلامی اصطلاحات پر غیرت 1929ء میں کشمیر تشریف لے گئے.قیام کے دوران دو تین روز کے لئے ایک تفریحی مقام پر تشریف لے گئے.خیموں میں قیام تھا.اس جگہ سے چند میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑ تھا جو برف سے ڈھکا ہوا تھا.ایک دن وہاں سیر پر جانے کا پروگرام بنایا.چند گھوڑے کرایہ پر لئے گئے تا خواتین اور بچے بھی سیر کے لئے جاسکیں.آپ سب اہلِ خانہ کو خو د سوار کروا رہے تھے.سب سوار ہوکر روانہ ہونا شروع ہوئے.صرف ایک گھوڑا مع سوار کھڑا رہ گیا.آپ نے سوار کی طرف منہ کر کے کہا کہ چلتے کیوں نہیں؟ جواب ملا کہ گھوڑا استخارہ کر رہا ہے.یہ فقرہ سنا تھا کہ غصہ سے آپ کا منہ سُرخ ہو گیا.گھوڑے سے فوری اُترنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دین سے استہزاء میں برداشت نہیں کر سکتا اس لئے واپس اپنے خیمہ میں چلے جاؤ.میں اپنے ساتھ لے جانے کے لئے تیار نہیں.چنانچہ قافلہ کے اس فرد کو وہیں چھوڑ کر ہم سب پکنک کے لئے روانہ ہو گئے.کئی روز تک آپ اس حرکت کے مرتکب سے ناراض رہے.جسمانی نشو ونما کی طرف توجہ اور ورزشی مقابلہ جات جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں ابا جان کو جماعت کی روحانی نشو ونما کے ساتھ ساتھ جماعت کے جملہ افراد کی جسمانی صحت اور نشوونما کی طرف بھی توجہ تھی.چنانچہ اس غرض سے قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ کا انعقا د فرمایا جو سال میں ایک مرتبہ منعقد کیا جاتا تھا.ٹورنامنٹ کے دنوں میں خود بھی میچ دیکھنے تشریف لاتے ، انعامات دیتے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت کے نوجوانوں میں کھیل کے ہر میدان میں سبقت لے جانے کا شوق اور ولولہ پیدا ہو گیا.ایک مرتبہ آپ نے ہاکی کے ایک میچ کے لئے فیصلہ فرمایا کہ مغل ٹیم اور باقی کھلاڑیوں کی ٹیم کے درمیان میچ کھیلا جائے اور آپ خود بھی دیکھنے آئیں گے.مجھے کیپٹن مقرر فرمایا.بڑی مشکل سے ٹیم کے لئے گیارہ مغل لڑکوں کی تعدادمل سکی.وہ بھی ایسی کہ ہمارے گول کیپر اور ایک ہاف بیک وہ تھے جنہوں نے کبھی ہا کی پکڑی ہی نہ تھی.غرض سارا قادیان ہی میچ دیکھنے کے لئے موجود تھا.حضرت ابا جان ، خاندان کے دیگر بزرگ مع
یادوں کے در یح 53 بزرگانِ سلسلہ سب تھے.پہلے ہاف میں ہم دو گول سے ہار رہے تھے لیکن دوسرا ہاف شروع ہونے سے قبل میں نے سب ساتھیوں سے کہا کہ حضرت صاحب بھی میچ دیکھنے آئے ہیں.مجھے تو شرم آ رہی ہے کہ مغل ٹیم ہار جائے.غرض دوسرے ہاف میں ہم نے تین گول مخالف ٹیم پر کئے اور اس طرح ہم ایک گول سے جیت گئے.ایک خاص بات جو میں لکھے بغیر نہیں رہ سکتا یہ تھی کہ مغل خاندانوں کے بچوں کے عزیز رشہ دار ہماری ٹیم کو شاباش دے رہے تھے اور قادیان کے باقی جملہ احباب دوسری ٹیم کو.اس وقت ” خلیفہ یا جماعت کے دیگر افراد میں کوئی فرق نہیں سمجھا جار ہا تھا.یہ تھا اسلامی مساوات کا حسین اظہار.اس زمانہ میں قادیان کی ٹیمیں برصغیر ہندوستان کی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھیں.ملک کے ایک حصہ سے دوسرے حصہ تک اخبارات قادیان کی ٹیم کے کھیل کی تعریف کرتے ( جس میں STATESMAN ، سول لینڈ ملٹری گزٹ ، ہندو مدراس شامل ہیں ) کھیلوں کے مقابلوں کے لئے متعدد مرتبہ قادیان کی ٹیمیں ٹور (Tour) پر جاتیں اور نمایاں کامیابیاں حاصل کرتیں.ایسے ٹورز کا ایک خاص پہلو یہ بھی تھا کہ جس شہر میں بھی ہم جاتے ، دن کو تو ہم میچ کھیلتے اور رات کو جلسہ کا انعقاد کیا جاتا جس میں کھلاڑی بھی تقاریر کرتے.لوگ بڑے متاثر ہوتے کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں که اگر دن کے وقت میچ کھیلتے ہیں تو رات کو مذہب اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں.گرمیوں کے موسم میں متعدد مرتبہ نہر پر سارے دن کا ایک ٹرپ کیا جا تا تھا.جس میں تیرا کی کے مقابلے وغیرہ ہوتے تھے اور ابا جان خودان مقابلوں میں شرکت فرماتے.مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ ابا جان نے نہر پر ٹرپ کے موقع پر اعلان کروایا کہ آج تیرا کی کا لمبے فاصلہ کا مقابلہ ہو گا اور خود بھی اس مقابلہ میں شامل ہوئے.مقابلہ شروع ہوا.شرط یہ تھی کہ زمین پر پاؤں لگائے بغیر مسلسل تیرنا ہوگا.تیرنے والے تو نہر میں تیر رہے تھے اور باقی سب احباب کنارے کنارے ساتھ چل رہے تھے.تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد مقابلہ میں شامل احباب جھڑ نے شروع ہوئے اور آخر میں صرف ابا جان اکیلے ہی تیرنے والے رہ گئے.مجھے یاد ہے کہ تقریباً ایک میل لگا تار تیرنے کے بعد آپ نہر سے باہر آئے.گو یا مقابلہ میں اول پوزیشن آپ کی ہی تھی.کئی مرتبہ اظہار فرمایا کہ کسی مسلمان کو کسی میدان میں بھی غیر مسلموں سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے.اپنے ایک خطبہ میں جو 29 / اپریل 1939 ء کے الفضل میں شائع شدہ ہے اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت اسماعیل شہید کا
54 یادوں کے در بیچے ایک واقعہ بیان فرمایا.وہ یہ کہ ایک حضرت اسماعیل شہید ایک مرتبہ دریائے جہلم کے کنارے کشتی کے انتظار میں کھڑے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ ایک سکھ اور ایک مسلمان کے درمیان تیرا کی کا مقابلہ ہو رہا ہے اور ہر بارسکھ جیت جاتا ہے.آپ نے یہ دیکھ کر اپنا سفر ملتوی کر کے تیرا کی کی مشق کی اور سکھ سے مقابلہ کر کے جیت کر سفر پر روانہ ہوئے.آپ نے خدام الاحمدیہ کی تنظیم کا جب انعقاد فر مایا تو نونہالان جماعت کی تربیت کے لئے جو ذمہ واریاں اس تنظیم کے سپرد فرما ئیں ان میں سے ایک وقار عمل کی تحریک بھی تھی.قادیان میں بہت باقاعدگی کے ساتھ وقار عمل منعقد کیا جاتا جس میں حضرت اباجان خود بھی شمولیت فرماتے اور خلیفہ کی تتبع میں جماعت کے دیگر بزرگ اور بڑی عمر کے افراد بھی.مجھے ایک نظارہ نہیں بھولتا.قادیان کے مغرب کی طرف کا ایک حصہ بہت گندا تھا اور گاؤں کی غلاظت اس طرف پھینکی جاتی تھی.یہ حصہ نشیب بھی تھا اس لئے بارش کا پانی کھڑا رہتا تھا.جس سے تعفن پیدا ہوتا تھا اس جگہ جب وقار عمل کیا گیا تو حضرت ابا جان نے بھی باقی افراد کے ساتھ اس کی صفائی اور جگہ ہموار کرنے کے لئے ہاتھ میں کدال پکڑے ،مٹی کھود کر ، ٹوکرے میں بھر کر اس طرف ڈالنے کے لئے قدم بڑھایا ہی تھا کہ ایک صاحب نے آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ سے یہ کہہ کر ٹو کرا لینے کی کوشش کی کہ حضور ہم خدام موجود ہیں، آپ یہ تکلیف کیوں فرماتے ہیں.آپ نے ان کو ٹوکر انہیں پکڑایا اور کہا جیسے باقی سب ہیں ویسا ہی میں ہوں اور لگا تار سارا وقت اسی طرح اپنے ہاتھ سے کام کرتے رہے.یہ تھا آپ کا کردار.اس حقیقت کا کون انکار کر سکتا ہے کہ اگر اپنا نمونہ نہ ہو تو محض وعظ ونصیحت بے اثر بھی ہے اور بے کا ر بھی.کارکنان کی دلجوئی کارکنان اور ملازمین پر شفقت اور ان کی دلداری کا بے حد خیال رکھتے.متعدد واقعات احباب جماعت پر گزرے ہوں گے یہاں صرف تین واقعات بطور مثال درج کر رہا ہوں : سندھ میں جب لائیڈ بیراج سندھ کی تعمیر مکمل ہوئی تو حکومت نے اراضیات کی فروخت کا فیصلہ کیا جو اس وقت تک بنجر علاقے تھے.پانی نہ ہونے کی وجہ سے زراعت مفقود تھی.اباجان نے اپنے ایک خواب کی بناء پر اراضیات خریدنے کا فیصلہ کیا.تحریک جدید اور انجمن احمدیہ کے لئے بھی اراضی
یادوں کے دریچ 55 55 خریدیں.اس زمانہ میں جماعت کی مالی حالت بہت کمزور تھی.انجمن اور تحریک اس قابل نہ تھے کہ اراضیات کی آبادی کے لئے پورا سرمایہ مہیا کر سکیں اس لئے ابا جان نے یہ ذمہ واری بھی اپنے پر لے لی اور فیصلہ کیا کہ اراضیات کی ترقی وغیرہ کی خود نگرانی فرمائیں گے.اس غرض سے ایک دفتر کھولا.اس دفتر کے ایک کارکن کی کسی غلطی کی وجہ سے اس پر ناراض ہوئے اور ڈانٹ ڈپٹ بھی کی.کارکن سمجھتے تھے کہ ان کا کوئی قصور نہیں اس وجہ سے بہت دل برداشتہ تھے اور فیصلہ کر لیا کہ استعفیٰ دے دوں گا.ان کا بیان ہے کہ دفتر بند ہونے کے بعد شام کو جب گھر لوٹا.ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ باہر سے حضرت صاحب کے ایک باڈی گارڈ نے آواز دی میں سمجھا کہ حضور نے شاید بلایا ہے.میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ ان کے ہاتھ میں ایک ٹرے ہے اور ایک عمدہ کپڑے سے ڈھکی ہوئی ہے.اس نے کہا کہ حضور نے آپ کے لئے بھیجا ہے.خاکسار نے بڑے لی.دیکھا کہ اس میں کافی پھل اور مٹھائی ہے.حضور کی یہ شفقت دیکھ کر تمام کوفت اور پریشانی دور ہوگئی.بلکہ اس ناچیز پر حضور کی اس مہربانی کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو نکل آئے.حسب معمول گرمیوں کے چند ماہ گزارنے کے لئے آپ مری پہاڑ پر تشریف رکھتے تھے.صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے کوئی ضروری خط آپ کو ملا.آپ نے اس کے متعلق ہدایات لکھ کر نا ئب پرائیویٹ سیکرٹری کو دیں اور ہدایت کی کہ فوری طور پر یہ خط دفتر کے کسی ذمہ دار کا رکن کے ہاتھوں ربوہ بھجوا دیں.جو کارکن جائے اس کو ہدایت کر دیں کہ اس کا جواب لے کر فوری آئے.اگلے دن شام تک آپ کو کوئی اطلاع نہ ملی.مغرب کے قریب کا وقت تھا، موسلا دھار بارش ہو رہی تھی.آپ نے ایک ملازم کو کہا کہ نائب پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا لاؤ.ان کے آنے پر آپ نے دریافت فرمایا کہ ابھی تک میرے اس خط کا جواب ربوہ سے نہیں آیا.ان کا جواب تھا کہ حضور میں خط بھجوانا بھول گیا تھا اب ابھی بھجوا دیتا ہوں.آپ نے ان کو کہا کہ میں ایسے غیر ذمہ دار کارکن کو رکھنے کو تیار نہیں.آپ اسی وقت ربوہ واپس چلے جائیں.وہ یہ سن کر روانہ ہو گئے.اس وقت موسلا دھار بارش ہو رہی تھی.چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ شدید بارش کا خیال آتے ہی آپ نے اپنی برساتی اور چھتری ایک پہریدار کو دی اور ہدایت کی کہ فوری چلے جاؤ اور اس کا رکن کو برساتی اور چھتری دے کر میری طرف سے کہہ دو کہ واپس کوٹھی آجائیں.وہ واپس آئے ، اندرا اطلاع دی اور برساتی اور چھتری اندر بھجوائی تو آپ نے ملازمہ کے ہاتھ برساتی واپس بھجوا کر کہا کہ یہ میری طرف سے تحفہ ہے.پہاڑ پر ضرورت
یادوں کے در بیچے 56 پڑتی رہتی ہے.آپ واپس نہ جائیں.ایک دن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ سلسلہ کے ایک کارکن آپ سے ملنے آئے.بیٹھتے ہی کہنے لگے کہ آج حضور نے بہت ڈانٹا ہے اور بڑی خفگی کا اظہار کیا ہے.حالانکہ میری غلطی بہت معمولی قسم کی تھی اور اس وجہ سے مجھے بہت رنج ہے اور میں اس لئے آپ کی خدمت میں آیا ہوں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے مسکرا کر ایک نہایت لطیف نکتہ بیان فرمایا.آپ نے ان صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے شاید پیشگوئی مصلح موعود کا بغور مطالعہ نہیں کیا.الہام میں دل کا حلیم ہو گا “ کے الفاظ ہیں.صرف حلیم ہو گا کے الفاظ نہیں ہیں.آپ فکر نہ کریں، آپ دیکھیں گے کہ حضرت صاحب کی شفقت اور مہربانی آپ پر پہلے سے بھی زیادہ ہو گی.ایسا ہی ہوا اور اس واقعہ کے بعد متعدد مرتبہ انہوں نے حضور کی شفقت اور دلداری کے واقعات بیان کئے.یہ تین مثالیں آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کے وعدوں میں سے ایک کہ دل کا حلیم ہوگا“ کے ثبوت میں لکھ رہا ہوں ورنہ ہزاروں ہزار احمدی آپ کے اس خلق کے ذاتی شاہد ہیں.خوابوں کی تعبیر کی فراست تقسیم ملک کے اعلان کے بعد جو حالات پیدا ہوئے اور جن مصائب اور دکھوں کا مسلمانانِ ہند کو سامنا کرنا پڑا وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں.حضرت مصلح الموعود نے قادیان کے گردونواح کے مسلمانوں کی حفاظت وغیرہ کے متعلق جو ذمہ داری اٹھائی اس کے ذکر سے قبل اپنی ایک خواب کا لکھنا ضروری معلوم دیتا ہے.کیونکہ اس کا مصلح موعود کے ذہین و فہیم ہونے کے ساتھ براہ راست تعلق ہے.میں نے 33-1932ء میں خواب میں دیکھا کہ قادیان کے گردونواح میں شدید لڑائی ہو رہی ہے جو قادیان کے مختلف محلوں تک پہنچ گئی ہے.ظہر کا وقت ہے میں وضو کر کے بیت المبارک میں نماز کے لئے گیا ہوں کہ کیا دیکھتا ہوں کہ مولوی عبدالرحمن جٹ صاحب ( جو اس وقت مدرسہ احمدیہ میں ابتدائی کلاسوں کے استاد بھی تھے اور احمد یہ سکول کے بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ بھی.اس کے علاوہ ان کی کوئی نمایاں جماعتی حیثیت نہ تھی.ان دنوں تو حضرت مسیح موعود کے درجنوں رفقاء اور
یادوں کے دریچ 57 دیگر علماء قادیان میں رہائش رکھتے تھے ) امامت کے لئے محراب میں کھڑے ہوئے اور جملہ احباب سے خطاب کیا کہ اس وقت ہم سخت خطرہ کی حالت میں ہیں.ہتھیار بھی ہم نہیں رکھ سکتے اس لئے سب کو تحریک کرتا ہوں کہ کم از کم مضبوط ڈنڈے ہر شخص اپنے پاس ہر وقت رکھے.اس اعلان کے سننے کے بعد میں واپس دار مسیح میں آیا ہوں اور خاکی وردی میں نے پہن لی ہے اور ادھر اُدھر کافی شور اور بندوقوں کی آوازیں آ رہی ہیں.میں اس وقت دار مسیح کی نچلی منزل میں جس میں کنواں بھی ہے اس کے برآمدہ میں کھڑا ہوں اور دن رات ڈیوٹی دینے سے اتنا تھک چکا ہوں کہ ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا ہوں کہ کچھ تو آرام ملے گا.اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا شروع کی ہے کہ دار مسیح اور اس کے قریب کے گھر وغیرہ اگر ہمارے قبضہ میں رہیں تو پھر خیر ہے.اس خواب کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ کبھی خیال آتا کہ حضرت ابا جان کو اپنی خواب لکھوں.کبھی خوف آتا کہ میری کیا حیثیت ہے جو یہ جرات کروں.بہر حال لکھنے کا فیصلہ کر ہی لیا اور ایک ملازمہ کے ہاتھ خواب لکھ کر حضرت ابا جان کی خدمت میں بھجوا دی.ملازمہ واپس آئی تو میں نے پوچھا کہ ابا جان نے پڑھ لیا تھا ؟ کہنے لگی کہ پڑھ لیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہ بہت اہم خواب ہے میں اس کو اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتا ہوں.تفاصیل تو ایک طرف لیکن مولوی عبدالرحمن جٹ صاحب کا ناظر اعلیٰ و امیر جماعتہائے احمد یہ ہندوستان مقرر کیا جانا تو اس وقت کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا.ابا جان نے ایک نوجوان کی خواب کو (جس کی عمر اس وقت 18 سال تھی جو 1932 ء یا 1933ء میں آئی تھی اور بظاہر ایسے حالات پیدا ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا ) اہمیت دینا پیشگوئی مصلح موعود کے وہ الفاظ کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا کا ثبوت ہے.اس کے علاوہ ہزاروں مثالیں ہوں گی جو اپنوں اور غیروں کے مشاہدہ میں آئی ہوں گی.یہ تو دریا کا ایک قطرہ ہے.اس جگہ یہ بھی دیکھئے کہ سترہ سال بعد جب یہ خواب ظاہراً بھی پوری ہوئی تو اولاً آپ کو یہ خواب یاد تھی.دوئم آپ نے مولوی عبدالرحمن جٹ صاحب کو ہی ناظر اعلیٰ صدرانجمن احمد یہ اورامیر جماعتہائے ہندوستان مقررفرمایا." مسلمانوں کی جان اور عزت کی فکر تقسیم ہند کے معاً بعد جب قتل و خون کا بازار گرم تھا اور افراتفری کی حالت تھی اور مسلمانوں کی جان اور عزت کے سامان مفقود تھے.ابا جان نے اعلان کروایا کہ جو بھی مسلمان قادیان آسکتے ہوں
58 یادوں کے در بیچے آجائیں ، ہم ان کی رہائش ، خوراک اور حفاظت کی ذمہ داری لیتے ہیں.چنانچہ کئی ہزار مسلمان خاندان قادیان آگئے.ان کی رہائش اور کھانے کا انتظام جماعت کے سپر د تھا اور ان کو حفاظت سے پاکستان پہنچانے کی ذمہ داری بھی امام جماعت نے اپنے ذمہ لی.اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ جو لوگ بھی قادیان سے بھجوائے گئے سب کے سب بحفاظت پاکستان پہنچے.نیز احمدیوں کے خاندان کے افراد کو بھی پاکستان بھجوایا گیا.یہ کام مکمل کرنے کے بعد مردوں میں سے چند سو قا دیان کی حفاظت کے لئے پیچھے چھوڑے گئے.باقی سب مرد بھی پاکستان بھجوا دیئے گئے.پیچھے چھوڑے جانے والوں میں ابا جان کے فیصلہ کے مطابق ہم اکثر بھائی قادیان میں مقیم رہے.حالات دن بدن بگڑ رہے تھے.قادیان کے جملہ محلہ جات پر غیر مسلموں نے قبضہ کر لیا.صرف شہر کا اندرونی حصہ جس میں مسجد اقصیٰ ، مسجد مبارک اور دار مسیح، دفاتر اور قریب کے محلوں کے کچھ گھر وغیرہ تھے ہمارے قبضہ میں تھا.ظاہر حالات تو یہ تھے کہ اس حصہ سے بھی ہمیں جبر اقتل و غارت کر کے نکالنے کی سکیم ہے.جب حالات حد سے زیادہ بگڑ گئے اور چاروں طرف سے قادیان کا محاصرہ کر لیا گیا تو ابا جان کا خط ہم سب بھائیوں کے نام ملا.( ان دنوں جماعت کے نام خطوط اور ہدایات ہوائی جہاز کے ذریعہ ملتی تھیں.جماعت نے دو چھوٹے جہاز لاہور میں خریدے تھے.ایک عزیزم سید محمود احمد اور دوسرا عزیزم میاں لطیف لاہور سے پرواز کر کے قادیان آتے او دار مسیح کے عین اوپر چھتوں کے قریب آکر CRATES جہاز سے گرا دیتے تھے اور اس طرح ہمارا تعلق پاکستان سے قائم رہا) جس میں آپ نے لکھا: جہاں تک ظاہری حالات اور ہماری معلومات کا تعلق ہے ہندوستان کی فوج کی مدد سے سکھوں کے جتھے قتل عام شروع کرنے والے ہیں.جس کے نتیجہ میں تم سب بھی قتل کر دیئے جاؤ گے.میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم سب بھائی بشاشت سے اور ہنستے مسکراتے خدا کی راہ میں جان دینا.کسی قسم کا خوف تمہارے چہروں پر بھی نہ آئے.والسلام مرزا محمود احمد ابا جان کا یہ خط ہمارے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب نے ہم سب کو اکٹھا کر کے پڑھ کر سنایا.ہم سب کا رد عمل بھی ملاحظہ فرمائیے.مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خط ہم سب بھائیوں کو سنایا
66 59 جار ہا تھا تو کسی قسم کا خوف ہمارے دلوں میں یا ہمارے چہروں پر نہ تھا ، نہ کوئی گھبراہٹ یا پریشانی.بلکہ بلا استثناء ہم سب مسکرارہے تھے اور بشاشت سے دین کی راہ میں جان دینے کے لئے تیار تھے.اس خط کے ملنے کے چند دن بعد ہمیں ایک ذریعہ سے دشمن کے ارادوں کا پتہ چل گیا.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے وائرلیس کا انتظام مہیا فرما دیا تھا کہ جس کے ذریعہ سکھ جتھوں اور ہندوستانی فوج کی نقل و حرکت اور ان کے ارادوں کی اطلاع مل جاتی تھی.اطلاع یہ ملی کہ اگلے دن رات کے پچھلے پہر ہندوستانی فوج کا ایک دستہ دار مسیح کا محاصرہ کر کے تلاشی لے گا اور ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جس کسی سے بھی کوئی ہتھیار نکلے اس کو وہیں گولی مار دی جائے.تہجد کی نماز کے لئے جب ہم بیدار ہوئے تو دیکھا کہ ہمارے گھروں کی چھتوں پر ہندوستانی فوج کے سپاہی اسلحہ سے لیس متعین ہیں اور چاروں طرف گلی کو بھی محاصرہ میں لے لیا گیا ہے.اس دستہ کا انچارج ایک میجر تھا.نماز تہجد سے فارغ ہوکر جب گھر واپس آئے تو یہ میجر اور دوصو بیدار اور چند سپاہی جو سب مشین گنز اٹھائے ہوئے تھے گھر میں داخل ہوئے اور ہم سب کو حکم دیا کہ کمروں سے باہر آجاؤ ، تلاشی ہوگی.اور ساتھ ہی میجر نے اعلان کیا کہ جس فرد کے پاس کوئی ہتھیار نکلا اس کو یہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے گا.جیسا کہ ذکر کر چکا ہوں ہمیں اس کی اطلاع مل چکی تھی اس لئے ہم سب کو ہمارے بڑے بھائی مرزا ناصر احمد صاحب جو قادیان میں حفاظت کے جملہ امور کے نگرانِ اعلیٰ تھے نے ہمیں ہدایت کی کہ جملہ اسلحہ نکال دیا جائے.چنانچہ سب کمروں کی تلاشی کے بعد ہندوستانی فوجی ناکام و نامراد گئے اور ہمارے قتل کئے جانے کا کوئی بہانہ ان کو نہ مل سکا.انہی دنوں ابا جان کا ایک خط میرے نام آیا جو میرے ایک خط کے جواب میں تھا.جس میں میں نے شکوہ کیا تھا کہ دوسرے بھائیوں کے نام خط ملے ہیں میرے نام کوئی خط نہ تھا.شاید آپ مجھ سے ناراض ہیں : پیارے مبارک سلمک اللہ تعالیٰ السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ تمہارا خط ملا.اس بات کو معلوم کر کے سخت افسوس ہوا کہ تم کو میرے خطا نہیں ملے تم کو غالباً دو خط لکھ چکا ہوں.خدا کرے یہ خط مل جائیں تا تمہارے دل کا صدمہ دور ہو.میں تم
60 سے ناراض نہیں ہوں اور اللہ تعالیٰ سے تمہاری سلامتی کے لئے دعا کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ تم کو اپنے فرض کے ادا کرنے کی اعلیٰ توفیق بخشے اور تم کو ہر شر سے محفوظ رکھے.یہ امر یاد رکھو کہ سب سے بڑا گناہ خدا تعالیٰ کے وعدوں میں شک کرنا ہے.لَا تَايُقَسُوا مِنْ رَّوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَا يُمَسُ مِن رَّوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ (يوسف: 88) ہر احمدی کے دل میں یہ احساس پیدا کرو اور اپنی بشاشت اور یقین اور امید کی روح کو قائم رکھو.آخر اللہ تعالیٰ کا وجود تو تبھی ثابت ہوتا ہے جب انسانی تدبیروں کے ختم ہونے پر اس کی مدد آتی ہے.دوسرے وقت میں تو ہر شخص کو امید ہوتی ہے.بلکہ کافر مومن سے بھی زیادہ پُر امید ہوتا ہے.انتہائی خطرہ کے موقع پر ہی مومن امید اور یقین اور ایمان کا مظاہرہ کرتا ہے.حضرت مسیح موعود کے الہامات پڑھو اور پڑھاؤ اور لوگوں کو سناؤ اور ہر مجلس اور ہر پہرہ کے موقعہ پر ان کا تذکرہ کرو اور قرآن کریم کے وعدوں کا.ہاں یہ امر بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ خدا کی راہ میں موت عذاب نہیں رحمت ہے.اگر کسی فرد کی قسمت میں شہادت کی نعمت ہے تو اسے اس یقین کے ساتھ جان دینی چاہئے کہ دین بہر حال جیتے گا اور خدا تعالیٰ اس کے بیوی بچوں اور پس ماندگان کا خود اس کی نسبت زیادہ اچھا نگران اور محافظ ہے اور یہ کہ اگلے جہان کی زندگی اس دنیا کی زندگی سے زیادہ شاندار اور اچھی ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد قادیان میں قیام کے آخری دنوں میں میں بخار اور خونی پیچش سے بیمار ہو گیا.میں نے تو ابا جان کی خدمت میں اپنی بیماری کی اطلاع نہ دی.مجھے علم نہیں کہ کس نے میری بیماری کی اطلاع دے دی.خطوط تو آتے جاتے ہی تھے.ہم سب بھائی ابا جان کی خدمت میں خط لکھتے ہی تھے.میرے نام آپ کے ایک خط سے مجھے معلوم ہوا کہ ابا جان کو میری بیماری کی اطلاع ہو گئی ہے.اس اطلاع کے ملنے پر آپ نے میرے نام جو خط لکھا درج ہے:
یادوں کے دریچ 61 عزیزم مبارک احمد سلمک اللہ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ صحت بخشے.ان دنوں تو صحت درست رہنی چاہئے تا کہ اچھی طرح کام کر سکو.اللہ تعالیٰ تم لوگوں کا حافظ و ناصر ہو.میری تو ساری اولا دہی قادیان میں ہے اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کے ساتھ ان کا نگران ہو.وہ سب اسی کے بندے ہیں اس سے ہمیں فضل ہی کی امید ہے.بخشش اور فتح کی صورت میں دے تو اس کا احسان ہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد 13-9-47 قادیان میں قیام کے عرصہ میں لکھے گئے جو خطوط میرے پاس محفوظ ہیں ان میں یہ آخری خط ہے.اس خط سے دو باتیں اُبھر کر سامنے آتی ہیں.اول یہ کہ شدید خطرہ کی حالت میں بھی جماعت کو مقدم رکھا اور اپنی اولاد کو مؤخر.جو ان الفاظ سے واضح ہے ” میری تو ساری اولا دہی قادیان میں ہے.اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کے ساتھ ان کا نگران ہو.دوئم یہ کہ اپنی ساری اولاد کا دین کی راہ میں قربان ہونے کے امکان کا نہ کوئی خوف تھا اور نہ پریشانی.ہاں اللہ تعالیٰ سے اس قدر استد عا فرمائی کہ ” بخشش اور فتح کی صورت میں دے تو اس کا احسان ہے“.کھانے میں انصاف قادیان سے آنے والوں کے لئے لاہور میں رتن باغ کے وسیع احاطے میں خیمے وغیرہ لگا کر رہائش کا انتظام اباجان نے ذاتی طور پر کیا.رتن باغ کی کوٹھی میں ہی حضرت ابا جان اور خاندانِ حضرت مسیح موعود کے جملہ افراد کی رہائش تھی اور اڑھائی تین ہزار سے کم لوگ تو نہ ہوں گے.شاید زائد ہی ہوں مجھے صحیح تعداد کا علم نہیں.بہر حال جملہ افراد کے لئے رہائش اور کھانے کے اخراجات ابا جان نے اپنے ذمہ لئے.ان حالات میں اخراجات کے لئے رقم بھی محدود میسر تھی.ذرائع آمد
62 بھی عملاً مسدود تھے.اکثر دال یا آلو گوشت اور تندور کی روٹی ہی پکتی تھی اور فی کس راشن مقررفرما دیا.جو تھوڑ اسا سالن اور ایک روٹی پر مشتمل تھا.جس میں کوئی استثناء نہ تھی نہ اپنے لئے نہ کسی اور کے لئے.ایک دن آپ اوپر کی منزل میں برآمدہ میں ٹہل رہے تھے کہ عزیز انس احمد ابن مرزا ناصر احمد صاحب کے رونے کی آواز حضرت ابا جان کو آئی.آپ نے دریافت فرمایا کہ انس کیوں رورہا ہے.یہ معلوم ہونے پر کہ ایک روٹی سے اس کا پیٹ نہیں بھرتا اس لئے اپنا مقررہ کھانا ختم کر کے مزید کے لئے رورہا ہے جس کی اجازت نہیں.آپ نے فرمایا کہ جو میرا فیصلہ ہے اس میں تو کوئی استثناء نہیں کروں گا البتہ میرے حصہ کی جو ایک روٹی ہے اس کی نصف انس کو دونوں کھانوں کے وقت دے دی جائے.جس کی تعمیل کی جاتی رہی.تقسیم ملک کے بعد جب سارا خاندان مع سینکڑوں دیگر احمد یوں کے رتن باغ لاہور میں قیام پذیر تھا ان سب کے کھانے کا خرچ آپ برداشت کرتے رہے تھے اس کا ذکر پہلے کر چکا ہوں.ابا جان کو ہماری والدہ کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا بہت پسند تھا لیکن لاہور میں ان دنوں آپ خود بھی ایک روٹی اور شور بہ پر ہی گزارا کر رہے تھے جو باقی سب افراد کے لئے مقرر تھا.ہماری ایک چھوٹی بہن امتہ النصیر نے مجھ سے ذکر کیا کہ ایک دن امی جان نے اپنے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی چیز جو ابا جان کو پسند تھی ان کے لئے پکائی اور میرے ہاتھ روٹی سالن کے ساتھ ایک پرچ میں ڈال کر ابا جان کو بھجوا دی.ابا جان نے ڈھکنا اٹھا کر پوچھا کہ یہ کہاں سے آئی ہے.میں نے بتایا کہ امی جان نے یہ آپ کے لئے چولہے پر پکائی ہے.کھانے لگے تو مجھے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ کھاؤ.میں نے جوابا کہا کہ یہ اتنی تھوڑی سی چیز ہے آپ کھائیں.میں حسب معمول باقی بھائی بہنوں کے ساتھ کھانا کھالوں گی.اس پر آپ نے فرمایا کہ کیا تم مجھے ظالم سمجھتی ہو؟ میں کھاؤں اور بچی نہ کھائے.مجھے مجبور کر کے ساتھ کھلایا جو ایک چھوٹا سا ٹکڑا گوشت کا تھا.اپنے بچوں کی فرقان فورس میں بھرتی لاہور پہنچنے کے چند دن بعد ہی ابا جان کا پیغام ملا کہ مجھے آکر ملو.میں اسی وقت اٹھ کر اوپر کی منزل میں گیا جہاں ایک چھوٹے سے کمرے میں ابا جان کی رہائش تھی.جا کر سلام کیا.مجھے بیٹھنے کا ارشاد فرمایا.جب میں بیٹھ گیا تو فرمایا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر میں رضا کا رانہ
63 خدمت کرنے کی فرمائش کی گئی ہے.اس کے لئے احمدی رضا کا روہاں متعین ہوں گے میں چاہتا ہوں کہ تم اس کام کے انچارج ہو.ساتھ ہی فرمایا کہ میں حکم نہیں دے رہا.باقی بھائیوں کی طرح تم بھی قادیان میں رہے.تم بھی بغیر بیوی اور بچے کے وہاں رہے اب وہ سب اپنے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور تمہیں ایک مرتبہ پھر ایک خطرہ کی حالت میں بیوی اور بچے سے علیحدہ رہنا پڑے گا.اس لئے میں تمہیں حکماً یہ فرض ادا کرنے کے لئے نہیں کہہ رہا.ہاں میری خواہش ہے کہ یہ ذمہ داری تم اٹھاؤ آگے تمہاری مرضی پر چھوڑتا ہوں.میں نے ایک منٹ کے توقف کے بغیر عرض کیا کہ میں اس کے لئے تیار ہوں.کب روانہ ہوں آج رات کو ؟ فرما ئیں تو آج رات کو ہی چلا جاؤں گا.اس پر فر مایا کہ نہیں کل شام یا پرسوں روانہ ہونا ہوگا.کل تمہیں بتا دیا جائے گا.چنانچہ اگلی شام کو ہی میں اپنی ڈیوٹی کے مقام کی طرف روانہ ہو گیا.جو ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں ”معراجکے‘ میں تھا.لیکن چند ہفتوں کے بعد اس جگہ سے کشمیر کے محاذ پر منتقل کر دیا گیا اور باقاعدہ رضا کار بٹالین جس کا نام ” فرقان فورس تھا اور سو فیصد احمد یوں پر مشتمل تھی کا قیام عمل میں آیا.جنگ ختم ہو جانے کے بعد بٹالین کے وہاں قیام کا مقصد پورا ہو چکا تھا اس لئے کچھ عرصہ مزید قیام کے بعد جماعت کی درخواست پر فرقان بٹالین کو ختم کر دیا گیا اور حکومت کے انتظام کے ماتحت ایک سپیشل ٹرین سے ہم لوگ واپس ربوہ پہنچے.رمضان کا مہینہ تھا مگر روزہ رکھنے سے منع فرمایا کہ جہاد میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں.اس وقت ابا جان کو ئٹہ میں مقیم تھے.خود تشریف نہیں لا سکے لیکن عبدالرحیم در دصاحب کے ذریعہ خوش آمدید کا پیغام لکھ کر بھجوایا.جس میں اس امر کا اظہار بھی فرمایا کہ میری خواہش تھی کہ میں خود ربوہ آکر فرقان بٹالین کے مجاہدین کا استقبال کروں.لیکن طبیعت کی خرابی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا.آپ کا یہ پیغام ربوہ میں ایک جلسہ منعقد کر کے سنایا گیا.کشمیر کے محاذ پر جماعتی خدمات اور قربانی کی تاریخ لکھنا مقصود نہیں.یہ تاریخ احمدیت کا ایک سنہری باب ہے جو تاریخ لکھنے والے لکھتے رہیں گے.میں نے تو صرف ابا جان کے طریق عمل کے اظہار کے لئے ضمناً اس کا ذکر کیا ہے اور وہ یہ کہ ہر بات میں حکم نہ دیتے تھے.موقع اور محل کے لحاظ سے بچوں کو کبھی حکم کبھی خواہش کا اظہار، کبھی کسی بچے کی غلطی کے نتیجہ میں اس سے خاموش رہتے جس سے آپ کی ناراضگی کا اظہار ہو جاتا اور اصلاح کی طرف توجہ ہو جاتی.
اولاد کی رائے کا احترام 64 ربوہ واپس آنے پر مجھے آپ کا خط ملا کہ تم مع بیوی اور بچے کے چند ہفتوں کے لئے ایبٹ آباد چلے جاؤ.کیونکہ ایک لمبا عرصہ تم نے لگا تار کام کیا ہے تمہیں اب کچھ آرام کی ضرورت ہے.ایبٹ آباد سے واپس ربوہ آنے پر مجھے تحریک جدید میں بطور وکیل الزراعت مقرر فرمایا.ان دنوں سندھ اراضیات پر کپاس کی چنائی شروع تھی.مجھے دفتر میں کام کرتے چند دن ہی گزرے تھے کہ وکیل اعلیٰ صاحب تحریک جدید میرے دفتر کے کمرہ میں تشریف لائے اور ابا جان کا ایک خط جوان کے نام تھا مجھے لا کر دیا کہ اس کو پڑھ لیں.اس خط میں لکھا تھا کہ میں نے سلطان طاہر کلرک دفتر وکالت زراعت کو ہدایت دی تھی کہ ہر بدھ کے روز اس ہفتہ کی چنائی کپاس کی رپورٹ صبح 11 بجے تک مجھے بھجوا دیا کرے ، کل یہ رپورٹ مجھے نہیں ملی.اس لئے اس کو ایک ماہ کی تنخواہ جرمانہ کی جاتی ہے.میں نے خط پڑھ کر وکیل اعلیٰ صاحب کو یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میں نے خط پڑھ لیا ہے.ان کے جانے کے بعد میں نے ابا جان کی خدمت میں لکھا کہ وکیل اعلیٰ صاحب نے وکالت زراعت کے کلرک کو جرمانہ کرنے کے فیصلہ سے مجھے اطلاع دے دی ہے لیکن اس فیصلہ سے مجھے اتفاق نہیں.کیونکہ ہر دفتر کا افسر اعلیٰ جملہ امور کا نگران اور اس کی کارکردگی کا جواب دہ ہے.غلطی کی سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن یہ سزا کلرک کو نہیں مجھے ملنی چاہئے کیونکہ اصل ذمہ داری میری ہے.میرے اس خط کا جواب مجھے نہیں وکیل اعلیٰ صاحب کو یہ آیا کہ میرا یہ حکم کہ ہفتہ وار رپورٹ بھجوائی جائے مرزا مبارک احمد کے وکالت زراعت کا چارج لینے سے قبل کا ہے.اس لئے اس کا قصور نہیں کلرک کا ہی قصور ہے اس لئے کلرک کو جرمانہ کیا جائے.وکیل اعلیٰ صاحب یہ خط لے کر پھر میرے پاس آئے کہ حضور کا یہ حکم ملا ہے اس کی تعمیل کی جائے گی.میں نے دوبارہ ابا جان کی خدمت میں اپنی رائے کے اظہار کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ بالا افسر کو چھوڑ کر ماتحت کارکن کو دفتری غفلت کی وجہ سے سزا دی جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ افسر اپنے ماتحتوں سے تعاون حاصل نہیں کر سکے گا ، نہ وہ بشاشت سے کام کریں گے.اس لئے میری درخواست ہے کہ اس غلطی کی سزا تو ضرور دی جائے لیکن یہ سزا مجھے ملنی چاہئے نہ کہ کلرک کو.میرے اس خط کا جواب پھر وکیل اعلیٰ کے نام ہی آیا کہ غلطی کی سزا تو ضرور ملے گی اس لئے مرزا مبارک احمد کو
یادوں کے در یح 65 ایک ماہ کی تنخواہ جرمانہ کی جاتی ہے.مجھے اس فیصلہ سے بڑی خوشی ہوئی کہ حضور نے میرے مؤقف کو ایک طرح تسلیم کر لیا ہے.سزا اپنی جگہ اور میرے مؤقف کو تسلیم کرنا اپنی جگہ.میرے اس طریق کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں کسی خفگی یا نا راضگی کا اظہار نہیں فرمایا.تحریک جدید کے کام شروع کرنے کی ابتداء میں ہی اس واقعہ سے مجھے بڑا حوصلہ پیدا ہوا اور آنے والے سالوں میں متعد دمرتبہ جب کسی فیصلہ کی مجھے سمجھ نہ آتی تو بغیر کسی خوف یا تامل کے حضرت صاحب کی خدمت میں اپنی رائے ضرور پیش کر دیتا اور اس کے نتیجہ میں کبھی کسی خفگی یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا.کبھی تو سمجھا دیتے کہ ایسے فیصلے کی کیوں ضرورت پیش آئی اور اس کی تعمیل کا حکم دیتے، کبھی میری بات مان لیتے.بچوں میں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کا حکیمانہ طریق جیسا کہ پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ مجھے پہلے احمد یہ سکول میں داخل کروایا تھا.ان دنوں احمدیہ سکول میں انگریزی کی تعلیم ابتدائی کلاسز سے نہیں دی جاتی تھی.جب انگریزی کی تعلیم شروع کی گئی تو ایک دن ابا جان نے مجھے بلا کر کہا کہ جو انگریزی اخبار میں پڑھتا ہوں ( یہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور تھا ) یہ تم ہر روز مجھ سے لے لیا کرو اور پڑھا کرو.میں خاموش رہا.میرے چہرہ کے آثار دیکھ کر فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ ابھی تم اس قابل نہیں ہوئے کہ سارا اخبار پڑھ سکو یا سمجھ سکو لیکن تمہیں کھیلوں کا شوق ہے اس میں سے جو کھیلوں کے نتائج کا صفحہ ہوتا ہے وہ پڑھ لیا کرو.مثلا کرکٹ کے میچ کا ذکر ہوگا تو اس میں کھلاڑیوں کے نام کس نے کتنی دوڑیں بنائیں، کس نے آؤٹ کیا ، بال دینے والوں میں سے کس کس نے کتنی کتنی وکٹیں حاصل کیں وغیرہ کی رپورٹ ہو گی اور تم اس کو اچھی طرح سمجھ سکو گے.اس کے لئے کسی انگریزی دانی کی ضرورت نہیں.چنانچہ اس روز سے روزانہ اخبار پڑھنے کے بعد مجھے دے دیتے تھے.پھر کبھی کبھی یہ دیکھنے کے لئے کہ میں نے پڑھا ہے یا نہیں پوچھ لیتے کہ کل کے اخبار میں فلاں کھیل کی رپورٹ تھی مجھے اس کی تفصیل بتاؤ.کچھ ہفتوں کے بعد اگلا قدم اٹھایا اور حکم دیا کہ اب خبروں کی جملہ ہیڈنگ بھی پڑھا کرو.کچھ وقت اور گزرنے کے بعد پورا اخبار پڑھنے کا کہا.اس طرح اخبار پڑھنے کی چاٹ لگا دی.جب اس طرف سے تسلی ہو گئی تو ایک دن مجھے بلا کر فرمایا کہ اب انگریزی کتب کا مطالعہ بھی شروع کر دو.مجھ سے پوچھا کہ کس قسم کے ناول
66 پڑھنے میں دلچسپی ہوگی.میں نے جواب دیا کہ جاسوسی ناول میں.اسی وقت اپنے لائبریرین کو بلا کر کہا کہ کل سے یہ لائبریری آجایا کرے گا اور جاسوسی ناول لے جایا کرے گا ، پڑھنے کے بعد آپ کو کتاب واپس دے جایا کرے گا.مزید جو چاہے اس کو دے دیا کریں.جب لائبریری میں موجود جملہ جاسوسی ناول پڑھ چکا اور آپ کو تسلی ہو گئی کہ اب مدرسہ کے نصاب کے علاوہ بھی اس کو کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو چکا ہے تو دوسرے مضامین مثلاً جغرافیہ، تاریخ وغیرہ کی کتب پڑھنے کا ارشاد فرمایا اور مجھے نصیحت کی کہ شروع میں رات سونے سے قبل کم از کم ایک صفحہ کتاب کا ضرور پڑھنا ہے اور آہستہ آہستہ صفحات کی تعداد بڑھاتے جانا.اس طرح جنرل نالج میں اضافہ ہوگا اور اس کے بغیر کوئی شخص ہر مجلس میں اپنا اثر نہیں چھوڑ سکتا.اس حکیمانہ طریق نے مجھے پڑھنے کی ایسی عادت ڈال دی کہ بغیر کچھ پڑھے رات کو نیند نہ آتی.جیسا ذکر کر چکا ہوں ابتداء تحریک جدید میں تقر ر بطور وکیل الزراعت ہوا.تین سال کا عرصہ گزرنے پر 1953 ء میں مجھے بطور وکیل التبشیر مقرر فرمایا.وکالت تبشیر کی نگرانی سپر دفرمانے کے بعد ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر پیشگوئی میں مذکور الفاظ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا “ پر روشنی ڈالنے کے لئے بطور مثال درج ہے.ورنہ یہ حقیقت ہے کہ آپ کا ہر فیصلہ آپ کے سخت ذہین اور فہیم ہونے کی منہ بولتی دلیل ہے.معافی کے لئے خلیفہ وقت کا دروازہ کھلا ہے ہوا یوں کہ ایک ملک میں جماعت کے ایک پریذیڈنٹ نے اپنی ایک لڑکی کا بیاہ ایک غیر از جماعت سے کر دیا.اس پر جماعت کی مجلس عاملہ نے بشمول مبلغ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں ان کے اخراج از نظام جماعت کی سفارش کی.حسب قواعد یہ خط میری معرفت آیا تھا.میں نے بھی اس سے اتفاق کیا اور حضور کی خدمت میں اس سزا کی سفارش کر دی.اس کا جواب مجھے ملا کہ آپ اخراج از جماعت کر دیں ان الفاظ سے میں یہی سمجھا کہ میں نے سفارش کرنے میں غلطی کی ہے اور حضور نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے.کیونکہ اخراج از جماعت کی سزا دینے کا اختیار خلیفہ وقت کے علاوہ اور کسی کو نہیں.چنانچہ اسی وقت میں نے معافی کا خط آپ کی خدمت میں لکھا.
یادوں کے دریچ 67 اس کا جواب ملا کہ ناراضگی نہیں اس میں حکمت ہے اور وہ یہ کہ اندرونِ ملک جماعت جماعت کے نظام اور طریق کار کو ساری جماعت بخوبی جانتی ہے.بیرونِ ملک جماعتیں ابھی پوری طرح نظام جماعت اور قواعد وغیرہ سے آگاہ نہیں.اگر میری طرف سے اخراج کا فیصلہ اور اعلان ہوا تو متعلقہ فرد کو یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ اب ان کے لئے معافی کے سب دروازے بند ہیں.تمہاری طرف سے اعلان ہوگا تو ان کو کسی قسم کی مایوسی نہ ہوگی.کیونکہ معافی کے لئے خلیفہ وقت کا دروازہ وہ کھلا پائیں گے.چنانچہ اس ہدایت پر عمل کیا گیا.چند ماہ تک وہ باقاعدگی سے معافی کے خطوط حضرت صاحب کی خدمت میں لکھتے رہے مگر حضرت صاحب کی طرف سے ان کو کوئی جواب نہ جاتا تھا.پھر معافی مانگنے کے لئے وہ خود تشریف لائے.ملاقات کی اور معافی کی درخواست کی.جس پر حضرت مصلح موعودؓ کی طرف سے ان کو معافی عطا کی گئی اور وہ خوش و خرم اپنے ملک واپس لوٹے.چند سال کے وقفہ کے بعد وہ دوبارہ اس ملک کی جماعت کے پریذیڈنٹ مقرر کئے گئے.استعدادوں کے مطابق کام کی ذمہ داری پوری کرنا کچھ سال بعد وکالت تبشیر کے علاوہ وکیل اعلیٰ اور پریذیڈنٹ تحریک جدید ( صدر تحریک جدید انجمن احمدیہ.ربوہ ) کے محکمہ جات میرے سپرد فرما دیئے.اتنی بڑی اور اہم ذمہ واریاں اٹھانا میرے بس کا روگ نہ تھا.نہ میں اس قابل تھا.لیکن قدم قدم پر آپ کی رہنمائی نے مجھے بہت سی لغزشوں سے محفوظ رکھا.آپ کے اتنے بڑے احسان نے بڑی گہری یادیں چھوڑی ہیں.آپ کے درجات کی بلندی کے لئے ہر دم دعا گو ہوں.یہ بات خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ یک دم سارے بوجھ نہ ڈالتے تھے.تھوڑی تھوری ذمہ داری ڈال کر کڑی نگاہ رکھتے کہ اس میں کوئی کارکن پورا اترتا ہے یا نہیں.اگر تسلی ہو جاتی تو پھر مزید ذمہ داری سپر دفرما دیتے.گویا قدم بہ قدم ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالتے جاتے.جس کا طبعی نتیجہ یہ ہوتا کہ اول آپ کو علم ہو جاتا کہ کون سا کارکن کس حد تک بوجھ اٹھانے کے قابل ہے اور دوئم کچھ عرصہ کی ٹرینگ کے بعد ہر کارکن کی استعدادوں کا علم بھی ہو جاتا.نیز یہ بھی کہ اس کا کس کام کی طرف زیادہ رجحان ہے اور کس حد تک ذمہ داری اٹھا سکتا ہے.صرف نظامِ جماعت سے منسلک کارکنان سے ہی نہیں جماعت کے دیگر افراد سے بھی آپ کا
یادوں کے در بیچے 68 انتخاب موقعہ اور محل کے مطابق ہوتا.جو ہر شناسی کا یہ ملکہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے.جو شخص جس کام کے اہل ہوتا اس کے سپر د کام کرتے.اس کی ایک مثال جو میرے علم میں ہے ذکر کر دیتا ہوں.کشمیر کمیٹی کے صدر ریاست جموں و کشمیر میں مسلمانوں پر بہت سے مظالم روا ر کھے جا ر ہے تھے اور مسلمانانِ کشمیر اپنے بنیادی حقوق سے بھی محروم تھے.بعض مسلمان زعماء نے کشمیر کمیٹی کا انعقاد کیا اور ابا جان کو اس کا صدر منتخب کیا.آپ نے فوری کام شروع کر دیا اور جماعت کے متعدد افراد کو اس مہم کو شروع کرنے کے لئے کشمیر بھجوا دیا.یہ احباب مختلف وفود کی شکل میں بھجوائے جاتے تھے.ایک وفد جو دو افراد پر مشتمل تھا ان میں سے ایک صاحب جماعت کے علماء میں سے تھے اور دوسرے ایک نو جوان.مولوی صاحب کے سپر د کشمیر میں احباب جماعت کو بڑھ چڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار کرنا تھا اور اس نوجوان طالب علم کے سپر د سیاسی نوعیت کا کام تھا.مولوی صاحب کو ابا جان نے اسلامی تعلیم کے مطابق امیر قافلہ مقرر فرمایا.سرینگر پہنچنے کے چند دن بعد ہی انہوں نے ابا جان کی خدمت میں خط لکھا کہ یہ نو جوان نمازوں میں سستی کرتا ہے اس کو واپس بلا لیں.یہ خط ملنے پر ابا جان نے ان کو ہدایت بھجوائی کہ آپ دونوں قادیان واپس آجائیں.ان کے قادیان پہنچنے پر دونوں کو دفتر بلا کر فرمایا اس وقت مسلمانان کشمیر پر ایک انتہائی دکھ کا دور ہے اور اس نوجوان نے بہت اچھا کام کیا ہے جس کے خوش کن نتائج نکل رہے ہیں یہ تو بہر حال کشمیر جائے گا اور کام جاری رکھے گا اور اس طالب علم کو مخاطب ہو کر فر مایا کہ تم فوری طور پر اپنے کام پر واپس چلے جاؤ.نیز فرمایا کہ نمازوں میں سستی ٹھیک نہیں آئندہ اس کا خیال رکھنا.اولوالعزمی لائل پور (فیصل آباد) کی بیت الذکر کی تکمیل پر جماعت فیصل آباد نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ بیت الذکر کا افتتاح فرمائیں.جو آپ نے منظور فرمائی ، تاریخ مقرر ہوگئی.جب غیر از جماعت لوگوں کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے جلسے جلوس کر کے اس کی مخالفت
69 کی.احرار اس مخالفت میں پیش پیش تھے اور اعلان کیا کہ ہم جماعت احمدیہ کے امام کوکسی صورت میں افتتاح نہیں کرنے دیں گے اور بہت خون خرابہ ہوگا.اس پر ڈپٹی کمشنر فیصل آباد نے جو انگریز تھا جماعت کے سرکردہ احباب کو بلا کر کہا کہ شدید مخالفت کی وجہ سے امنِ عامہ میں خلل کا امکان ہے اس لئے آپ فی الحال یہ افتتاح ملتوی کر دیں.جماعت کی طرف سے حضرت ابا جان کو جب اس امر کی اطلاع دی گئی تو آپ نے اسے قبول نہیں کیا اور جماعت فیصل آباد پر واضح کر دیا کہ مقررہ تاریخ پر ہی افتتاح کیا جائے گا اور میں خود آ کر افتتاح کروں گا.چنانچہ آپ فیصل آباد تشریف لے گئے اور بیت الذکر کا افتتاح فرمایا.یہ واقعہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ آپ کے اولوالعزم ہونے کی ایک مثال ہے ور نہ سینکڑوں بار جماعت نے آپ کی ذات والا صفات کا یہ رُخ دیکھا ہے.مردم شناسی آپ میں مردم شناسی کا غیر معمولی ملکہ تھا.اس کے ثبوت میں کسی فلسفیانہ دلیل کی ضرورت نہیں.آپ کی خلافت میں جماعت کا نظام جن مضبوط بنیادوں پر قائم ہوا وہ اس امر پر شاہد ہے.جماعتی اموال کی حفاظت اور سنبھال میں بڑے حساس تھے اور گہری نظر اور نگرانی رکھتے کہ جماعت کا ایک پیسہ بھی غیر ضروری اور غلط جگہ خرچ نہ ہو.نیز اپنی ذات پر یا اہل وعیال پر جماعتی اموال میں سے کسی بھی خرچ کو برداشت نہ کرتے.آپ کے ذاتی نمونہ کی چند مثالیں لکھ رہا ہوں.ایک مرتبہ ڈلہوزی پہاڑ پر موسم گرما کے چند ماہ گزارنے کے لئے قیام فرما تھے.یہاں پر انگریز فوج کا اڈہ تھا.اس کے کمانڈنگ آفیسر جو ایک انگریز جنرل تھے نے آپ سے ملاقات کی خواہش کی.آپ نے ان کو شام کی چائے کی دعوت پر مدعو کیا.کھانے پینے کا کچھ سامان جو بچ گیا وہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے ابا جان کی جس کو ٹھی میں رہائش تھی وہاں بھجوا دیا ( یہ ذکر بھی کر دوں کہ ان سفروں کے دوران جو بھی کوٹھی آپ اپنی رہائش اور اپنے خاندان کی رہائش کے لئے کرایہ پر لیتے اس کا جملہ خرچ خود ادا فرماتے تھے ) آپ نے اسی وقت وہ سب سامان واپس بھجوا دیا اور پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا کر ناراض ہوئے کہ جماعت کے روپیہ سے جو سامان خریدا گیا ہے وہ مجھے کیوں بھجوایا گیا.یہ عملہ کے افراد میں تقسیم کر دیں.
70 ذاتی اور جماعتی اخراجات میں تقویٰ کا معیار پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں ایک رجسٹر رکھا جاتا تھا جس میں روزانہ کے سائر اخراجات درج کئے جاتے تھے اور ابا جان دوسرے روز یہ رجسٹر آپ چیک کیا کرتے تھے.یہ دیکھنے کے لئے کہ کوئی خرج ضرورت سے زائد یا بلا ضرورت تو نہیں کیا گیا.ایک دن یہ رجسٹر آپ چیک کر رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک لفافہ کے ٹکٹ خرچ کے اندراج پر پڑی.یہ خط آپ نے اپنے ایک لڑکے کے نام لکھا تھا.آپ نے اسی وقت کلرک کو بلا کر سرزنش کی کہ یہ میرا ذاتی خط تھا یہ جماعت کے حساب میں کیوں درج کیا گیا.اسی وقت رجسٹر پر سے اس کو کاٹ کر رقم ادا کر دی.چند پیسے ہی ہوں گے مگر جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں آپ اپنی ذات پر یا اپنے خاندان پر جماعت کے ایک پیسہ کا خرچ بھی برداشت نہ کرتے.صرف اخراجات کے متعلق ہی نہیں اپنے بچوں کو جماعت کے کسی کارکن سے کام کروانے کی اجازت آپ نے کبھی نہ دی.مثال کے طور پر ایک واقعہ جو میری موجودگی میں ہوا لکھ رہا ہوں : آپ مع چندا فراد خاندان سندھ کی اراضیات کے دورہ پر تشریف لے گئے.ان دنوں میرا قیام ناصر آباد فارم میں ہی تھا.ایک روز نماز مغرب کے بعد آپ واپس گھر آئے ہی تھے کہ باہر سے ایک پہریدار نے ملازم کو آواز دے کر کہا کہ بوٹ پالش کر دیئے ہیں لے جاؤ.آپ اس وقت صحن میں ٹہل رہے تھے فوراً پوچھا کہ یہ کس کے بوٹ ہیں.ہماری ایک چھوٹی بہن جو کم سن تھی نے کہا کہ میرے ہیں ، میں نے پالش کرنے کے لئے دیئے تھے.یہ سن کر آپ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ پہریدار جماعت کے ملازم ہیں اور جماعت ان کو تنخواہ دیتی ہے.تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا.جماعت کے کارکن سے کام کروانے کا تمہیں کوئی حق نہیں.1924ء میں’The Conference of living Religions London“ میں شمولیت اور اسلام کی نمائندگی کرنے اور اسلام پر تقریر کرنے کے لئے کانفرنس کے کار پردازوں کی طرف سے دعوت نامہ ملا جو آپ نے قبول کر لیا اور انگلستان تشریف لے گئے.(اس سفر کی تفصیل ”سوانح فضل عمر میں یقیناً آچکی ہوگی ) آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اپنے اور اپنے دو ذاتی مددگاروں کے جملہ اخراجات خود برداشت کریں گے.جماعت کے سرکردہ احباب کی طرف سے درخواست بھی
71 کی گئی کہ یہ سفر اعلائے کلمتہ اللہ اور اسلام کی سربلندی کے لئے کیا جارہا ہے اس لئے اس کے اخراجات جماعتی فنڈ سے قبول فرما ئیں لیکن ایک نہ مانی اور اپنے خرچ پر ہی تشریف لے گئے.چونکہ فوری طور پر اخراجات سفر کے لئے رقم مہیا کرنے میں مشکلات تھیں اس لئے آپ نے ذاتی اخراجات سفر کے لئے بعض احباب سے قرض حاصل کیا.ان احباب میں سے ایک مخلص احمدی سیٹھ شیخ حسن صاحب تاجر یاد گیر بھی تھے.سیٹھ صاحب کے نام اپنے قلم سے ابا جان نے جو خط لکھا اس کا متعلقہ حصہ آپ کے الفاظ میں درج کر رہا ہوں : مکر می سیٹھ صاحب السلام علیکم آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ ولایت میں ایک مذہبی کا نفرنس ہونے والی ہے اس موقعہ پر مجھے بھی انہوں نے دعوت دی ہے.میں نے بھی مذہبی کا نفرنس کی خاطر نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ مغربی ممالک کی تبلیغ کا کام ، انتظام بغیر خود جا کر مشورہ کرنے کے نہیں ہوگا.یہ فیصلہ کیا ہے کہ خود جا کر حالات کا مطالعہ کروں اور تین چار ماہ کے دورے سے آئندہ کی تبلیغ کے متعلق پورے مشورے سے ایک مکمل سکیم تجویز کروں.میں نے اپنی پہلی عادت کے مطابق یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ گو جماعتہائے احمدیہ کے مشورہ سے اور ان کی تحریک پر میں جاتا ہوں اور تبلیغ کا یہ کام ہے مگر میں اپنی ذات کا بوجھ جماعت پر نہ ڈالوں اور اس کے لئے میں نے اپنی ایک جائیداد کے فروخت کرنے کے لئے کہا ہے مگر چونکہ اس کے فروخت کرنے میں کچھ دیر لگے گی میں نے یہ تجویز سوچی ہے کہ میں چھ سات دوستوں سے کچھ رقم بطور قرض لے لوں اور پھر اس کو ادا کر دوں.اگر آپ بھی ایک حصہ رقم کا بطور قرض دے سکیں ، مجھے بھیج دیں.انشاء اللہ ایک سال تک واپس کر دوں گا.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ قرض بھی آپ کے لئے موجب ثواب ہو گا.خاکسار مرز امحمود احمد
سفر کے لئے غیبی امداد 72 اس سفر کے اخراجات کے لئے ایک غیبی امداد کا ذکر آپ نے ان الفاظ میں فرمایا: ” جب میں 1924ء میں انگلینڈ گیا تھا تو ہندوستان کی مالی حالت بہت خراب تھی اور ہندوستانی جماعت اخراجات سفر برداشت نہیں کر سکتی تھی.مگر اللہ تعالیٰ نے افریقہ اور عرب کی جماعتوں کے اندر اس قد را خلاص اور ایمان پیدا کر دیا کہ سارے قافلے کے کھانے اور تبلیغ کا خرچ میں ادا کرتا تھا یا یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے ادا کرتا تھا.واقعہ اس طرح ہوا کہ میں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایسٹ افریقہ کے چند دوستوں کو لکھا کہ مجھے سفر کی ضرورتوں اور جماعت کے وفد کے اخراجات کے لئے کچھ انگریزی سکہ قرض کے طور پر دے دیں.( نوٹ : ایک حصہ قرض آپ نے اپنے ذاتی اخراجات کے لئے لیا تھا اور ایک وفد کے اخراجات کے لئے.جماعتی قرض جماعت نے واپس کیا تھا اور ذاتی قرض آپ نے ( مگر اس وقت ایک عجیب لطیفہ ہوا جو خدا کی قدرت کا نمونہ تھا.عراق میں ہمارے صرف ایک احمدی دوست تھے اور ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی.میں نے ان کو بھی خط لکھا.انہوں نے اپنے کسی اور دوست سے ذکر کر دیا.ایک دن لندن کے ایک بنک نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے نام اتنے سو پونڈ آیا ہے.میں نے سمجھا کہ قادیان نے مبلغین کے قافلہ کا خرچ بھجوایا ہے.لیکن دریافت کرنے پر بنک نے بتایا کہ قادیان یا ہندوستان سے وہ روپیہ نہیں آیا بلکہ عراق سے آیا ہے.میں نے بیت المال قادیان کو اطلاع دی کہ آپ لوگوں نے قرض کی تحریک کی تھی اور میں نے بھی اس کی تصدیق کی تھی اس سلسلہ میں روپیہ آنا شروع ہوا ہے.آپ نوٹ کر لیں کیونکہ بعد میں ادا کرنا ہے.عراق کا پتہ ان کو بتا دیا کہ یہاں سے اتنے سو پونڈ آیا.جب میں ہندوستان واپس آیا تو میں نے اس وقت کے ناظر صاحب بیت المال سے کہا کہ کیا اس روپیہ کا پتہ لیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم رجسٹریاں لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں
73 سارے احمدی انکاری ہیں کہ ہم نے روپیہ نہیں بھیجا.میں نے اس سعید غیر احمدی کو خط لکھنے شروع کئے کہ اتنا روپیہ آپ کی طرف سے ملا ہے.یہ غالباً اسی قرضہ کی تحریک کے نتیجہ میں ہے جو بیت المال کی طرف سے کی گئی تھی.آپ اطلاع دیں تا کہ سلسلہ اس کو اپنے حساب میں درج کرے.لیکن کئی ماہ مسلسل رجسٹری خطوط بھیجوانے کے بعد ایک جواب آیا اور وہ جواب یہ تھا کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ میں نے سلسلہ احمدیہ کو کوئی قرض دیا ہے.چھ سو یا آٹھ سو پونڈ انہوں نے لکھے کہ میں نے لنڈن بنک کے ذریعہ آپ کو بھجوائے تھے مگر وہ بیت المال کو قرض نہیں بھجوائے تھے بلکہ آپ کو نذرانہ تھے.اس خط کے وصول ہونے پر میری حیرت کی حد نہ رہی.مگر بہر حال چونکہ وہ سلسلہ کے لئے مدنظر تھا اور وہ بھیجنے والا غیر احمدی تھا اس لئے میں نے نوٹ کر لیا کہ یہ روپیہ سلسلہ کا ہے اور مسجد لنڈن کے حساب میں میں نے وہ رقم بنک میں جمع کرادی.بہر حال اس طرح میں بھی اپنے قرض سے سبکدوش ہوا اور خدا تعالیٰ نے خانہ خدا ، خانہ کفر میں بنوانے کی توفیق بخشی.اس نے وہ نذرانہ بھیج کر مجھ پر احسان کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں اس کے احسان کی قدر اس صورت میں ظاہر کروں کہ وہ روپیہ خانہ خدا کے بنانے پر خرچ ہو جائے.نیز فرمایا کہ ” جب 1924ء میں میں نے لندن کا سفر کیا تھا تو اس قدر مالی تنگی ہو گئی تھی کہ تبلیغ کے لئے جو وفد گیا تھا اس کا خرچ بھی مجھ کو ہی دینا پڑا تھا.“ سفر انگلستان اور یورپ ویمبلے ہال میں آپ کا یہ لیکچر غیر معمولی دلچسپی سے سنا گیا اور سارے انگلستان میں اس کا چرچا ہوا اور بڑی تعریف کی گئی.سلسلہ کے ایک بے لوث خادم اور خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت رکھنے والے بزرگ مولوی عبد الرحیم درد صاحب نے کانفرنس میں ابا جان کی تقریر کے بعد واپس جائے رہائش پر آ کر مجھے خط لکھا.یہ خط 1924-9-17 کا تحریر کردہ ہے جس کا متعلقہ حصہ درج ہے: ” ہم ابھی ہال سے واپس آئے ہیں.آج کا جلسہ بہت کامیاب ہوا ہے.الحمد للہ.میرے خیال میں سو کے قریب انگریز اس جلسہ میں آئے حالانکہ عام طور پر دس بارہ لوگ
74 شامل ہوا کرتے ہیں.پریذیڈنٹ نہایت ہی قابل لیکچرار تھا اور اس نے بھی تقریر کی اور حضرت صاحب کی اور سلسلہ کی بہت تعریف کی.“ 66 جلسہ کے پریذیڈنٹ جو ایک عیسائی تھے کے منہ سے نکلے ہوئے تعریفی الفاظ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ پیشگوئی مصلح موعود میں مذکورالہام ”اے مظفر تجھ پر سلام.خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اس جلسہ میں بھی پورا ہوا.آپ کا یہ سفر صرف انگلستان تک محدود نہ تھا.فرانس ، اٹلی وغیرہ بھی تشریف لے گئے.ان سفروں کی غرض ان یوروپین ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے مشنز کھولنے کے امکانات وغیرہ کا جائزہ لینا تھا.کوئی سیر و تفریح بھی مقصود نہ تھی.غرض سفر کے جملہ اخراجات اپنی رگرہ سے ادا کئے.انگلستان پہنچنے سے قبل آپ نے روم میں مختصر قیام فرمایا.آپ کی آمد کے متعلق متعدد اخبارات کے رپورٹر اور بعض ایڈیٹر اور نائب ایڈیٹر حضرت مصلح موعودؓ سے ملنے کے لئے ہوٹل آتے اور سوال جواب کرتے رہے.اٹلی کے ایک کثیر الاشاعت اخبار لاٹر بیونا“ جو دن میں تین مرتبہ شائع ہوتا تھا اور ساڑھے چار لاکھ اس کی اشاعت تھی.اس کے ایک ایڈیٹر نے حضرت صاحب سے ملاقات کی خواہش کی اور کہا کہ اگر دن کے وقت ان کی مصروفیات اجازت نہ دیں تو میں رات کے کسی بھی وقت آنے کے لئے تیار ہوں.چنانچہ رات سوا دس بجے وقت مقرر ہوا اور یہ انٹرویو جو اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر سوالات پر مشتمل تھا دو گھنٹے جاری رہا.حضرت مصلح موعودؓ نے 18 تا 20 /اگست تک روم میں قیام فرمایا.ایک خاص بات جو قابلِ ذکر ہے.وہ حضرت صاحب کی میسولینی وزیراعظم اٹلی سے ملاقات ہے.جو 9 راگست 1924 ء کو ہوئی اور ایک گھنٹہ تک جاری رہی.حضرت مصلح موعودؓ نے اٹلی کے وزیر اعظم کو اسلام کا پیغام پہنچایا.یہاں ایک لطیفہ بھی ہوا جو دلچسپی کا باعث ہوگا.ہوا یہ کہ عبد الرحیم در د صاحب بحیثیت سیکرٹری حضرت صاحب کے ہمراہ ملاقات کے لئے گئے تھے.گفتگو شروع ہوئی.میسولینی کے ساتھ ان کے عملہ کا ایک افسر جو انگریزی جانتا تھا ساتھ بیٹھا تھا.حضرت صاحب اردو میں درد صاحب کو جو کچھ کہتے درد صاحب اس کا انگریزی میں ترجمہ میسولینی کے ترجمان کو بتاتے ، وہ اٹالین زبان میں میسولینی کو آگاہ کرتا.تھوڑی دیر کے بعد ہی
یادوں کے در یح 75 حضرت صاحب نے جو چند فقرے در دصاحب کو ترجمہ کر کے آگے سنانے کے لئے کہے تو در دصاحب نے ایسا تر جمہ کیا جو صحیح مفہوم ادا نہ کرتا تھا.اس پر حضرت صاحب نے در دصاحب کوٹو کا کہ یہ ترجمہ صحیح نہیں کیا گیا اس کو درست کر کے آگے پہنچا ئیں.حضرت صاحب کا یہ کہنا تھا کہ میسولینی صاحب نے زور سے قہقہہ لگایا اور حضرت صاحب سے مخاطب ہو کر کہا کہ میں بھی انگریزی جانتا ہوں اور آپ بھی ، اب ان ترجمانوں کی ضرورت ہی کیا ہے.براہِ راست ہی بات کرتے ہیں.چنانچہ اس کے بعد ہر دو نے انگریزی میں گفتگو شروع کر دی.علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کی قبولیت کے نتیجہ میں جس موعود لڑکے کی بشارت عطا فرمائی اس کی صفات بھی اس پیشگوئی میں بیان فرما دیں.جن میں سے ایک یہ کہ علومِ ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا پر لکھنا تو سوانح نگار کا کام ہے.میں تو دو واقعات جس کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے اور ایک جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.تا پڑھنے والے پیشگوئی میں مذکور خدائی وعدہ کہ وہ موعود فرزند علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا‘‘ کی ایک جھلک یہاں بھی دیکھ سکیں.پاکستان بننے کے بعد ابا جان نے پاکستان کی صنعتی و اقتصادی ترقی کے لئے بعض تحریکیں کیں.جن میں پاکستان میں بینکنگ اور جہاز رانی کی ابتداء بھی تھی.بحری جہازوں کی کمپنی کے قیام کے لئے آپ نے سیٹھ اسمعیل صاحب ( جو احمدی نہیں تھے ) کو توجہ دلائی.انہوں نے اس پر آمادگی کا اظہار فرمایا اس شرط کے ساتھ کہ آپ خود بھی اور جماعت کی طرف سے بھی کمپنی میں کچھ حصص خریدیں.آپ نے منظور فرما لیا.کمپنی کی بنیاد ڈال دی گئی.دو چار سال گزرنے پر سیٹھ صاحب نے کمپنی کے سیکرٹری کو ابا جان کی خدمت میں کسی مشورہ کے لئے خط دے کر بھجوایا.یہ صاحب آئے اور آپ سے ملے اور واپس چلے گئے.کافی سال گزرنے کے بعد اس کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ کے بعد اس کمپنی کے ایک ڈائریکٹر جو سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں.مجھے مخاطب ہو کر فرمانے لگے کہ میں آپ کے بڑے بھائی سے ملا ہوں.آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے اور بڑے عالم ہیں.یہ سنتے ہی وہ صاحب جو پہلے کمپنی کے سیکرٹری تھے اور اب مینیجنگ ڈائر یکٹر ہو چکے تھے نے ان
76 عرب صاحب کو مخاطب کر کے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آپ ان کے والد صاحب سے نہیں مل سکے.ان کے علم میں اتنی وسعت اور اتنی گہرائی تھی کہ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے.میں اپنا ذاتی تجربہ آپ کو بتا تا ہوں.ہمارا چیرمین میرے ہاتھ ایک خط لے کر گیا اور انہوں نے مہربانی فرما کر مجھ سے ملاقات کی اور مجھ سے دریافت کیا کہ آپ نے جہاز رانی کے متعلق کوئی باقاعدہ تعلیم بھی حاصل کی ہے؟ میرے بتانے پر کہ انگلستان میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہے.آپ نے جہاز رانی میں کامیابی حاصل کرنے کے متعلق بڑی تفصیلی روشنی ڈالی اور ایسے ایسے امور بیان کئے جو میرے لئے بالکل نئے تھے.میں سنتا جا تا تھا اور سخت شرمندہ بھی ہو رہا تھا کہ کہاں میر اعلم اور کہاں اس شخص کا علم.مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں اس علم کی ابتدائی کلاس کا طالب علم ہوں.یہ تو تھا پاکستان میں جہاز رانی کی ابتداء کا واقعہ.اس کمپنی کا نام پاکستان سٹیم چپ کمپنی لمیٹڈ.ہے.دوسری تحریک پاکستان میں ہینکس قائم کرنے کی تجویز بھی جو حبیب بنک لمیٹڈ کی شکل میں سامنے آئی.اب ایک ایسے امر کا اختصار سے ذکر کر دیتا ہوں جو ملکی دفاع سے تعلق رکھتا ہے.حضرت مصلح موعودؓ کو ئٹہ تشریف لے گئے.پاکستان بننے کی ابتداء میں ہی یہ سفر اختیار کیا تھا.چند ماہ وہاں قیام بھی کرنا تھا.اس وقت سٹاف کالج کوئٹہ میں جنرل اختر ملک مرحوم بھی تھے ان کا اس وقت کا عہدہ مجھے یاد نہیں ) انہوں نے حضرت اباجان کی خدمت میں درخواست کی کہ آپ سٹاف کالج کو جو افسران پیشل کورسز کے لئے مقیم ہیں ان کو پاکستان کا دفاع کے موضوع پر خطاب کریں.شام کی چائے پر سب کو مدعو کیا جائے گا اس موقع پر آپ تقریر فرما ئیں.حضرت ابا جان نے پاکستان کے دفاع اور اس کے لئے مناسب اسلحہ وغیرہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی اور بعض تجاویز بھی پیش کیں.جن میں تینوں سروسز یعنی آرمی ، نیوی اور ائیر فورس کے متعلق مختلف زاویوں سے دفاع کی تفاصیل بیان فرمائیں.جنرل محمد ایوب خان صاحب ان دنوں سٹاف کالج میں کورس کر رہے تھے.بہر حال اختر مرحوم نے ایوب خان کو بھی دعوت نامہ دیا.انہوں نے معذرت کر دی کہ اس دن میں فارغ نہ ہوں گا اس لئے شامل نہ ہو سکوں گا.جنرل اختر ملک صاحب نے اپنے ایک دو مشتر کہ دوستوں سے کہا کہ آپ ایوب خان صاحب سے کہیں کہ وہ دوسرا کام چھوڑ کر تشریف لے آئیں.اس پر وہ رضا مند ہو گئے اور تقریب میں شمولیت کے لئے تشریف لے آئے.سب سے اگلی صف میں جو کرسیاں بچھی تھیں جنرل ایوب مرحوم انہی میں سے ایک سیٹ پر بیٹھے تھے.تقریب کے اختتام پر
یادوں کے در یح 77 چائے کی سروس شروع ہوئی.اختر مرحوم نے جنرل ایوب صاحب کا حضرت صاحب سے تعارف کروایا.کچھ دیر باتیں کرتے رہے اور بہت شکریہ ادا کیا کہ غیر معمولی علم کا حامل تھا آپ کا لیکچر.بعد میں اپنے دوستوں سے جنرل ایوب صاحب نے کہا کہ بڑا مشکور ہوں کہ مجھے وہاں آپ لوگ لے گئے.جب حضرت مرزا صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے خیال کیا کہ ایک مذہبی آدمی ڈیفنس کے متعلق کیا جانے ، مولویوں والی تقریر ہوگی.اس نے ہمیں کیا سکھانا اور کیا بتانا ہے.لیکن جیسے جیسے تقریر آگے بڑھتی گئی مجھے یوں لگ رہا تھا کہ ڈیفنس کے معاملہ میں میں ابھی طفلِ مکتب ہوں انہوں نے ایسی ایسی تجاویز بیان فرمائی تھیں کہ ہم لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے.وو چوتھا واقعہ جو آپ کے علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا کے الہامی الفاظ کی منہ بولتی صداقت ہے.یوں ہوا کہ 26 فروری 1919ء کو مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے زیر انتظام حبیبہ ہال میں آپ نے اسلام میں اختلافات کا آغاز“ کے موضوع پر تقریر فرمائی.اس جلسہ کے صدر مؤرخ اسلام جناب سید عبد القادر صاحب ایم.اے تھے.سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریب میں فرمایا: " آج کے لیکچر ا ر اُس عزت ، اُس شہرت اور اُس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب نا واقف ہوں.آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیا تھا.“ جلسہ کے صدر کی افتتاحی تقریب کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی الصلح الموعود نے حضرت عثمان کے دور خلافت میں عبداللہ بن سبا اور اس کے باغی اور مفسد ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر اتنی تفصیلی روشنی ڈالی اور تاریخ اسلام کی گمشدہ کڑیوں کو اس طرح منکشف اور واضح فرما کر سامنے رکھ دیا کہ سننے والے حیران رہ گئے.آپ کی تقریر ختم ہونے پر صدر مجلس جناب سید عبدالقادر صاحب ایم.اے نے فرمایا: حضرات ! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے معلوم ہے اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں.لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفلِ مکتب ہوں اور میری علمیت اور جناب مرزا صاحب
78 کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس ( میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف اشارہ کر کے ) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ (جو او پر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر ) کی روشنی سے ہے.حضرات ! جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہی کا حصہ ہے.“ ایک سال کے بعد آپ کا یہ لیکچر کتابی شکل میں شائع کیا گیا اس کی تمہید بھی جناب سید عبد القادر صاحب نے تحریر فرمائی.آپ لکھتے ہیں : ’ فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے.مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ مشھد بُد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مؤرخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصل وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں.حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوانِ خلافت مدت تک تنزل میں رہا.میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا.“ پاکستان بننے کے بعد آپ نے ملک کے استحکام کے لئے متعدد کوششیں کیں.وہ لوگ جو آج پاکستان کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں پاکستان بننے سے قبل اپنی تقریروں میں تو یہاں تک کہہ جاتے تھے کہ ہم پاکستان تو ایک طرف پاکستان کی پ“ بھی نہیں بننے دیں گے.نعروں میں ایک نعرہ پاکستان کو پلیدستان کہہ کر لگایا جاتا تھا.غرض کسی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سب کچھ تحریروں میں موجود ہے.ان پارٹیوں میں جو پاکستان بننے کے سخت خلاف تھیں ایک مجلس احرار بھی تھی ( جو ہندو کانگریس کے وظیفہ خوار تھے اور پاکستان بننے کے خلاف پیش پیش.جس کے بڑے رہنما چوہدری افضل حق ، مظہر علی اظہر اور حبیب الرحمن تھے ).بیڈن روڈ لاہور میں ایک حکیم محمود الحسن صاحب تھے جولدھیانہ کے رہنے والے تھے.ان کا مطب تھا.ہومیو پیتھک ذریعہ سے علاج کرتے تھے مگر کہلاتے حکیم تھے.عام طور پر لوگ ان کو
یادوں کے دریچ 79 مجذوب سمجھتے تھے ( احمدی نہیں تھے ) بہت نیک اور بے ضرر اور ہمدرد انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا رکھی تھی اس لئے ہمارے خاندان کے بعض لوگ بھی ان سے علاج کرواتے.ان کی نظر میں کوئی انسان بڑا نہ تھا اس لئے کسی کے گھر میں کبھی تشخیص کرنے نہ جاتے.جس نے علاج کروانا ہوتا ان کے مطب میں آتا.ایک دن میں اپنے لڑکے کے لئے دوا لینے گیا.وہ ہمیشہ اپنے مطب میں جو ایک بڑا ہال تھا میز کے ایک طرف کرسی پر بیٹھے ہوتے (اور مریض ہال کی دیوار کے ساتھ متعدد بچوں پر ) لیکن جب میں جاتا تو ان کا ایک ملازم مجھے دیکھتے ہی کرسی لا کر حکیم صاحب کے پہلو میں رکھ دیتا اور حکیم صاحب اس پر مجھے بٹھاتے.اس دن عام معمول کے خلاف ان کی میز کے دوسری طرف تین اصحاب کرسیوں پر بیٹھے تھے دینداری کا غازہ لگائے ہوئے.میں ان کو نہیں جانتا تھا نہ کبھی دیکھا تھا.میرے بیٹھتے ہی حکیم صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں ؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں میں ان سے کبھی نہیں ملا.اس پر ان کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ (۱) چوہدری افضل حق ( ب ) حبیب الرحمن ( ج ) مظہر علی اظہر ہیں جو احرار کے سرکردہ لیڈر ہیں اور میرے ساتھ دوستانہ مراسم ہیں.اخبار الفضل میں حضرت صاحب امام جماعت احمدیہ کا خطبہ میں نے پڑھا.اس خطبہ میں انہوں نے احرار کے متعلق بڑی تحدی کے ساتھ یہ الفاظ کہے کہ ” میں احرار کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھتا ہوں.میں نے جب پڑھا تو ان تینوں کو کہا کہ میں تمہیں کئی دفعہ سمجھا چکا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی دشمنی سے باز آ جاؤ مگر یہ سنتے ہی نہیں.اب امام جماعت احمد یہ کے یہ الفاظ پڑھ کر میں نے ان کو کہا کہ اب بھی تو بہ کر لو ورنہ تباہ ہو جاؤ گے.کیونکہ ان کے منہ سے جو الفاظ نکلتے ہیں ضرور پورے ہوتے ہیں.وہ تینوں بالکل خاموش بیٹھے رہے اور چند منٹ بعد اٹھ کر چلے گئے.میں نے حکیم صاحب سے پوچھا کہ آپ کو یہ الفضل کیسے ملا تو کہنے لگے میں الفضل با قاعدہ پڑھتا ہوں.حضرت مصلح موعودؓ کے اس اعلان کے بعد احرار کا وجود ختم ہونا شروع ہوا اور آج صرف نام ہی باقی ہے.ملک کی اکثریت شاید اس نام سے بھی اب واقف نہ ہو.یہ ایک غیر از جماعت نیک انسان کا یقین تھا.جماعت احمدیہ میں شامل لوگوں کو آپ کی ساری زندگی کی کاوشوں اور جماعت کی ترقی کے لئے کی گئی کوششوں کو کبھی فراموش نہ کرنا چاہئے.کیونکہ اس سے بڑی نا احسان شناسی اور کوئی نہیں ہوسکتی.
ملکی مفادات کا خیال 80 صوبہ سرحد میں عبد الغفار خان صاحب کانگریس کے سرگرم رہنما اور کٹر کا نگرسی لیڈر تھے.اس لئے عام طور پر لوگ ان کو سرحدی گاندھی کہتے تھے.تقسیم ملک کے بعد حضرت ابا جان صوبہ سرحد کے دورہ پر تشریف لے گئے.اصل مقصد عبد الغفار خان صاحب کو توجہ دلانا تھا کہ اب جبکہ ملک بن گیا ہے تو آپ پاکستان کی دشمنی ترک کر دیں اور قائد اعظم سے ملاقات کر کے اختلافات دور کریں اور پاکستان کے حق میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں.اس غرض کے لئے قائد اعظم سے ملاقات کا میں انتظام کر دوں گا.مگر وہ باوجود ہر ممکن کوشش کے قائد اعظم سے ملنے کے لئے تیار نہ تھے.بہر حال حضرت صاحب کی یہ ایک کوشش تھی جو کامیاب نہ ہوسکی.یہاں ایک بات جولکھ رہا ہوں وہ حضرت مصلح موعودؓ کے اعلیٰ مقام کے باوجود انکساری کی نشاندہی کرتی ہے.عبدالغفار خان اپنی رہائش گاہ ولی باغ چارسدہ میں رہائش پذیر تھے.حضرت صاحب نے جماعت سرحد کے سر کردہ اصحاب جو اونچے خاندان سے تعلق رکھتے تھے کو ہدایت فرمائی کہ وہ عبدالغفار خان صاحب سے مل کر وقت لے دیں تا میں ان کے گھر جا کر ان سے ملاقات کر سکوں.لیکن جماعت کے یہ احباب اس امر کو اپنی غیرت کے خلاف اور بے عزتی سمجھتے تھے کہ ان کا امام عبد الغفار خان صاحب کی رہائش گاہ پر جا کران سے ملے.اُدھر عبدالغفار خان صاحب کو اصرار تھا کہ وہ حضرت صاحب سے ان خوانین کے مکان پر جا کر نہیں ملیں گے جہاں حضرت صاحب ٹھہرے ہوئے تھے.حضرت صاحب کا قیام چارسدہ میں اکرم خان صاحب کی کوٹھی میں تھا.حضرت صاحب کا اصرار تھا کہ جو بھی ہو وہ خان عبدالغفار خان صاحب سے ضرور ملنا چاہتے ہیں.آخر ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو دونوں طرف کو منظور تھا اور وہ یہ کہ عبدالغفار خان صاحب کے بڑے بھائی ڈاکٹر خان صاحب اپنی کوٹھی میں جو چند میل کے فاصلہ پر تھی حضرت صاحب اور اپنے بھائی کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کرنے کے لئے تیار تھے.چنانچہ اس کے مطابق ڈاکٹر خان صاحب کی کوٹھی پر ملاقات ہوئی.عبدالرحیم درد صاحب حضرت صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.وہ جب ڈاکٹر خان صاحب سے دن اور وقت طے کرنے گئے تو مجھے بھی ساتھ لے گئے.ڈاکٹر خان صاحب کی بیگم ایک انگریز خاتون تھیں.ڈاکٹر صاحب سے درد صاحب
یادوں کے دریچ 81 نے میرا تعارف کروایا کہ امام جماعت احمدیہ کا یہ لڑکا ہے.یہ سن کر ڈاکٹر خان صاحب نے درد صاحب کو کہا کہ حضرت صاحب کی خدمت میں میری طرف سے درخواست کریں کہ کھانے پر ان کو بھی ساتھ لے آئیں.چنانچہ کھانے پر حضرت صاحب ، درد صاحب اور خاکسار گئے تھے.کھانے کے بعد مجھے تو واپس گھر بھجوا دیا گیا.یہ میٹنگ خاصی طویل تھی مگر خان عبدالغفار خان صاحب کسی صورت قائد اعظم سے ملنے کے لئے تیار نہ ہوئے.سرحد کے دورہ سے واپس آکر حضرت مصلح موعودؓ نے خان بہادرقلی خان صاحب جو ایک با اثر خاندان کے سربراہ تھے ، کوہاٹ میں رہتے تھے کے نام خط لکھا.جس میں ان کو پاکستان کے حق میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے اور پاکستان کے حق میں فضاء پیدا کرنے کی ترغیب دلائی تھی.یہ خط حضرت صاحب نے مجھے دیا کہ تم نے لے کر جانا ہے.نذیر ڈرائیور کو جو حضرت صاحب کے ذاتی ڈرائیور تھے حکم دیا کہ فوری طور پر مجھے کو ہاٹ لے جائیں.میں یہ خط لے کر جب کو ہاٹ پہنچا تو دو پہر کے تین بجے کے قریب کا وقت تھا.ان کے ملازم نے کہا کہ خان صاحب آرام فرما رہے ہیں.میں نے اس سے کہا کہ میں لاہور سے امام جماعت احمدیہ کا ضروری خط لے کر آیا ہوں جو ابھی پہنچانا ہے.چنانچہ وہ اندر گیا اور چار پانچ منٹ میں ہی خان صاحب با ہر اپنے بیٹھنے والے کمرہ میں تشریف لے آئے.میں نے حضرت صاحب کا خط ان کو دیا.بند لفافہ تھا.میں نے کہا یہ خط حضرت امام جماعت احمدیہ کا آپ کے نام ہے.یہ سن کر انہوں نے بڑے احترام سے خط وصول کیا اور مجھے کہا کہ آپ بیٹھیں میں ابھی جواب لکھ کر لاتا ہوں.چند منٹ بعد واپس آئے اور بند لفافہ حضرت صاحب کے نام مجھے دیا.پھر مجھ سے پوچھا راولپنڈی ٹھہر کر آئے ہیں؟ میں نے نفی میں جواب دیا اور ان کو بتایا کہ مجھے ہدایت تھی کہ سید ھے کو ہاٹ جا کر آپ کو یہ خط پہنچانا ہے.اس پر کہنے لگے کہ مجھے سخت شرمندگی ہو رہی ہے آپ نے کھانا بھی نہ کھایا ہو گا.کچھ دیر ٹھہریں میں کھانے کا جلد انتظام کروا دیتا ہوں.میں نے معذرت کی کہ حکم یہ ہے کہ فوری روانہ ہونا ہے.ان کا اصرار تھا کہ پھر چائے پیے بغیر تو میں جانے نہ دوں گا.چنانچہ چائے اور کچھ کھانے کی چیزیں میں نے اور نذیر ڈرائیور صاحب نے کھا ئیں اور روانہ ہونے لگے تو باہر کا ر تک چھوڑنے آئے اور مجھے کہا کہ خط میں تو میں نے لکھ دیا ہے لیکن میری طرف سے زبانی بھی حضور کی خدمت میں عرض کر دیں کہ آپ نے جو حکم دیا ہے وہ میں بہر حال پورا کرنے کی کوشش کروں گا.
جوانی ہی سے ذمہ داریاں نبھانا 82 حضرت مسیح موعود کے وصال کے بعد آپ کے اس انیس سالہ نو جوان بیٹے نے سارے خاندان کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھالی.حضرت اماں جان کی ہرضرورت اور ہر خواہش کا پورا کرنا اپنا فرض جانا.کبھی کسی قسم کی کمی نہ ہونے دی.نیز اپنے بھائی بہنوں کا بھی ہر طرح خیال رکھا.ہر آڑے وقت میں ان کے کام آئے اور کبھی اس کا اظہار نہیں فرمایا.اپنے بھائی بہنوں کی اولا داور اپنی اولاد میں کوئی فرق نہیں کیا.ایک بظاہر چھوٹی بات جو بڑی باتوں کی طرف اشارہ کرتی ہے لکھے دیتا ہوں.عید کے روز آپ خاندان کے سب بچوں کو عیدی دیا کرتے تھے.اپنے اور اپنے بھائی بہنوں کے ہر بچے کو دو روپے اور باقی سب بچوں کو ایک ایک روپیہ.اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنے بچوں اور اپنے بھائی بہنوں کے بچوں میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی فرق نہیں کیا.گرمیوں میں پہاڑ پر جاتے تو اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے عزیزوں کے بچوں کو بھی حسب گنجائش ساتھ لے جاتے.اس قسم کے سلوک کا ایک واقعہ جو گو بالواسطہ تعلق رکھتا ہے لیکن تاریخی حیثیت بھی ہے اور آپ کے اعلیٰ اخلاق اور دیگر رشتہ داروں سے قرابت داری کا اعلیٰ نمونہ بھی.پڑھنے والوں کی دلچسپی کا موجب ہوگا.حضرت مسیح موعود کے ایک چچازاد بھائی مرزا نظام الدین صاحب شدید معاندین میں سے تھے.مخالفت کا کوئی حربہ نہ تھا جو انہوں نے استعمال نہ کیا اور آخر عمر تک مخالفت میں کوئی کمی نہ کی.آخر عمر میں جب زیادہ بیمار ہوئے اور ان کو احساس ہو گیا کہ اب آخری وقت آگیا ہے.انہوں نے حضرت ابا جان کو پیغام بھجوایا کہ آکر مجھے ملیں.حضرت ابا جان اسی وقت ان کی حویلی میں تشریف لے گئے جو حضرت مسیح موعود کی حویلی سے چند قدم کے فاصلہ پر ہی تھی.مردانہ کمرے میں پلنگ پر لیٹے ہوئے تھے.پلنگ کے ساتھ کرسی بچھوا دی تھی.ابا جان اندر داخل ہوئے تو پہلے ان کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا.پھر اپنے بیٹے مرزا گل محمد کا ہاتھ پکڑا اور ابا جان کے ہاتھ میں ان کا ہاتھ پکڑا دیا.منہ سے کچھ نہ کہہ سکے.آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ابا جان فوری سمجھ گئے کہ وہ مرزا گل محمد کو میرے سپر د کر رہے ہیں.کچھ گھنٹے یا دن کے بعد ان کی وفات ہوگئی.ابا جان نے اپنے چازاد بھائی کو اپنے بچوں کی طرح ہی پالا تھا.ان کی سب جائیداد کا خود انتظام سنبھالا اور کچھ عرصہ بعد ان کی جائیدادان
یادوں کے دریچ 83 کے سپرد کر دی.ہماری ایک خالہ سے ان کی شادی کروائی.گرمیوں میں پہاڑ پر جاتے تو اکثر ان کو ساتھ لے جاتے.ہم سب بچے ان کو چھوٹے چا کہہ کر پکارتے تھے.آپ کا فضل اور احسان صرف اپنے خاندان اور اپنی جماعت تک ہی محدود نہ تھا.سلسلہ کے شدید معاندین کی بھی ان کی تکلیف میں مدد کی.اور یہ وہی کر سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خاص مقام عطا کیا ہو.ایسے بہت سے واقعات کا مجھے علم ہے.لیکن جب ان کا اظہار آپ مناسب نہ سمجھتے تھے تو مجھے کچھ لکھنے کا حق نہیں.متفرق یادیں اب کچھ متفرق یاد میں لکھ رہا ہوں.متعدد غیر از جماعت معزز خاندانوں سے آپ کے ذاتی تعلقات تھے اور ان پر آپ کی بارعب شخصیت ، حسنِ سلوک اور اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے باوجود برابری اور اپنائیت کا گہرا اثر تھا.جس کا اظہار ان میں سے چند ایک نے مجھ سے کیا.دو باتیں لکھنا چاہتا ہوں.منہ بولے رشتوں کو نبھانا میر احمد علی صاحب تالپور جو سندھ کے ایک بڑے زمیندار اور سیاسی لیڈر بھی تھے نے ایک مرتبہ مجھ سے شکوہ کیا کہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد آپ لوگوں نے ہم سے تعلق نہ رکھا.پھر حضرت صاحب سے اپنے ذاتی تعلق کا واقعہ بیان کیا.کہنے لگے کہ حضرت صاحب جب بھی اپنے فارموں پر تشریف لے جاتے تو اکثر میری دعوت پر ہمارے گھر حیدر آباد ( سندھ ) دو پہر کے کھانے کے لئے قیام فرماتے تھے.میری بچی جو ابھی چھوٹی عمر کی تھی ، آپ سے بہت پیار کرتی تھی اور آپ بھی میری بچی کو ہمیشہ یہی کہتے کہ یہ تو میری بیٹی ہے.کہنے لگے جب وہ جوان ہوئی اور اس کی شادی کی تاریخ میں نے مقرر کی تو میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اپنا خط لکھ کر اپنے ایک ملازم کے ہاتھ بھجوایا اور آپ کو لکھا کہ آپ اس بچی کو ہمیشہ اپنی بیٹی کہتے رہے ہیں.اب اس کی شادی ہے آپ خود تشریف لا کر اس کو رخصت کریں.کہنے لگے کہ ملازم واپس آیا تو اس نے حضرت صاحب کا خط اور ایک بند ڈبہ مجھے دیا کہ انہوں نے یہ بھجوایا ہے.میں نے خط کھولا تو اس میں آپ نے مجھے لکھا کہ ان دنوں
84 بہت بیمار ہوں اس لئے شامل نہ ہوسکوں گا.مجھے شدید خواہش تھی لیکن مجبوری ہے.جب ڈبہ کھولا تو اس میں ایک لفافہ تھا جس میں ایک بڑی رقم نوٹوں کی شکل میں تھی اور چند عطر کی نہایت خوبصورت شیشیاں جن پر موتی اور خوبصورت مینا کاری کی ہوئی تھی اور میری بیٹی کے نام آپ کا خط تھا جس میں اس کو لکھا تھا کہ بوجہ مجبوری شامل نہ ہو سکوں گا.تمہارے لئے اپنے ہاتھ سے میں نے عطر کی شیشیاں بھری ہیں اور نقد تحفہ بھیجوار ہا ہوں.اللہ تعالیٰ تمہاری شادی بہت با برکت فرمائے.یہ سنا کر کہنے لگے کہ اس سے اندازہ کر لیں کہ آپ کے والد صاحب کے ہم سے کتنے گہرے اور پیار کے تعلقات تھے.بردباری اور تحمل ذاتی رائے اور صوابدید کے متعلق ایک دلچسپ واقعہ لکھ رہا ہوں.نواب محمد علی خان صاحب کا یہ عقیدہ تھا کہ رخصتانہ کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے اگر کھانا یا چائے کا انتظام ہو تو اس کا کھانا پینا نا جائز ہے.اور اس پر بڑی سختی سے عمل کرتے اور اپنے اہلِ خانہ سے عمل کرواتے.( حضرت نواب محمد علی خان صاحب ہمارے بڑے پھوپھا جان تھے.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے شوہر اور حضرت مسیح موعود کے بڑے داماد ) نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے بطن سے ان کے بڑے بیٹے محمد احمد خان صاحب کا رشتہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ( جو حضرت مسیح موعود کے دوسرے فرزند اور حضرت مصلح موعودؓ کے بھائی تھے ) کی دختر سے طے پایا تھا.1936 مئی کے مہینہ - میں رخصتانہ کے دن نماز عصر کے بعد حضرت نواب صاحب مع اپنے عزیزوں اور حضرت مسیح موعود کے ایک پرانے رفیق حضرت میر عنایت علی صاحب کو اپنی کوٹھی سے چلنے سے قبل ہدایت کی کہ کسی بھی فرد کو کچھ کھانے پینے کی اجازت نہیں اور جو بھی میری اس ہدایت کی تعمیل نہ کرے گا وہ میری کوٹھی میں قدم نہ رکھے.بارات پہنچی اور جس کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا اسی کے فرش پر دستر خوان بچھا ہوا تھا جس پر مختلف کھانے کی اشیاء اور چائے وغیرہ رکھی ہوئی تھی.حضرت مصلح موعود اور باقی گھر والوں نے کھانا شروع کیا مگر نواب صاحب اور بارات کے دیگر لوگ ہاتھ باندھے خاموش بیٹھے رہے.لیکن تھوڑی دیر بعد ہی حضرت میر عنایت علی صاحب نے پلیٹ اٹھائی اور کھانا شروع کر دیا.کھانے سے فارغ ہونے پر حضرت مصلح موعودؓ نے دعا کروائی اور رخصتانہ کی تقریب ختم ہوئی.جب فارغ
یادوں کے در یح 85 ہو کر حضرت نواب صاحب مع اپنے باراتیوں کے واپس جانے کے لئے باہر نکلے تو نواب صاحب نے میر صاحب کو مخاطب ہو کر کہا کہ میں نے ہدایت کی تھی کہ کوئی فرد جو میرے ساتھ بارات میں جا رہا ہے کچھ نہیں کھائے گا اور میری ہدایت کے خلاف عمل کرے گا وہ میری کوٹھی میں قدم نہ رکھے.اس پر میر صاحب نے بڑے نرم لہجے میں حضرت نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ نواب صاحب ہم تو خلیفہ کے تابع ہیں آپ کے نہیں.اسی لئے میں خود بھی آپ کے گھر واپس جانے کو تیار نہیں.میں یہیں سے حضرت مسیح موعود کے لنگر خانہ میں جارہا ہوں اور وہیں رہوں گا.اس واقعہ سے جو باتیں واضح ہو جاتی ہیں وہ اول یہ کہ ہر فرد کو ذاتی رائے ، حریت ضمیر اور صوابدید کا حق ہے.اس کی رائے خواہ خلیفہ کی رائے سے کتنی بھی مختلف ہو اس پر کوئی تعزیر عائد نہیں ہوتی.دوئم یہ کہ حضرت صاحب میں کس قدر رواداری ، حمل، برداشت ، درگزر اور آزادی عقائد کا پاس تھا.نواب صاحب کے اس طرز عمل پر نہ کوئی ناراضگی پیدا ہوئی نہ کسی ناپسندیدگی کا اظہار.جماعتی افراد کے احوال کا علم آپ کی یادداشت کا ایک بڑا دلچسپ واقعہ لکھتا ہوں.جلسہ سالا نہ میں باہر سے آنے والے احباب کی ضلع وار جماعتوں سے ملاقات ہوتی تھی جو رات گئے تک جاری رہتی.آپ کی بیماری کے آخری سالوں کا یہ واقعہ ہے.آپ کی بیماری کے پیش نظر ملاقاتوں کا وقت کم کر دیا گیا تھا.میں حضور کے پہرے کا انچارج تھا.آپ نے مجھے ہدایت کی کہ پہریداروں کو اچھی طرح ہدایت کر دو کہ وہ کسی شخص کو بھی جلدی جلدی آگے دھکیلنے کی کوشش نہ کریں، میں اس کو پسند نہیں کرتا.گوجرانوالہ کی جماعت کی ملاقات جاری تھی.ایک غریب احمدی دھوتی اور کھڈ ر کی قمیص میں ملبوس ضلع گوجرانوالہ کے کسی گاؤں کی جماعت کے فرد تھے.انہوں نے حضرت ابا جان سے مصافحہ کیا اور ہاتھ پکڑے رکھا.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے ”حضور مینوں بچھا تائیں‘ (حضور آپ نے مجھے پہچانا نہیں ) ابا جان نے فوری جواب دیا میں نے پہچان لیا ہے آپ فلاں گاؤں سے آئے ہیں اور گزشتہ تین سالوں سے آپ جلسہ پر نہیں آئے.یہ سننا تھا کہ گھبرا کر فرمایا کہ حضور ٹھیک فرمایا ہے.آئندہ غلطی نہیں کروں گا اور یہ کہہ کر آپ کا ہاتھ چھوڑا اور شرمندگی چہرے پر عیاں تھی.
سلف صالحین سے عقیدت 98 86 ابھی میں سکول میں ہی تھا کہ حضرت صاحب لاہور تشریف لے گئے اور حسب دستور مجھے ساتھ لے گئے.لاہور کے قیام کے دوران آپ نے مجھے چودھری علی محمد صاحب ( حضور کے ذاتی ملازم تھے ) کے ساتھ حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر دعا کرنے کے لئے بھجوایا.جہاں تک مجھے یاد ہے آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود نے مجھے بھی حضرت داتا گنج بخش کے مزار پر دعا کے لئے بھجوایا تھا.اس سفر میں ایک لطیفہ بھی ہوا.لاہور جاتے ہوئے امرتسر کے ریلوے اسٹیشن پر سپنسر ریسٹوران میں چائے وغیرہ پینے کے لئے کچھ دیر کے لئے رُکے.پلیٹ فارم میں داخل ہونے پر دیکھا کہ چوہدری سر شہاب الدین صاحب ٹہل رہے ہیں.انہوں نے بھی حضرت صاحب کو دیکھ لیا تھا اس لئے آپ کی طرف آگئے.ابا جان کے پوچھنے پر کہ کہاں جا رہے ہیں کہنے لگے کہ لا ہور جا رہا ہوں.آپ نے ان سے کہا کہ پھر میرے ساتھ کار میں چلیں.ریسٹوران سے فارغ ہو کر لاہور کے لئے روانہ ہوئے.آپ موٹر بہت تیز چلواتے تھے.لاہور پہنچنے پر چوہدری صاحب نے کہا کہ مجھے اب اتار دیں میں تانگہ لے کر چلا جاؤں گا.ابا جان نے فرمایا کہ میں خود آپ کو گھر چھوڑ نے جاؤں گا.ان کے گھر پہنچے ، چوہدری صاحب کار سے اترے تو حضرت ابا جان نے ان سے کہا کہ خیریت سے پہنچ گئے نا ؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا کہ حضور کی دعا سے ہی خیریت سے پہنچے ہیں ورنہ جس رفتار سے کار چلائی جارہی تھی مجھے تو بہت خوف تھا کہ کوئی حادثہ نہ ہو جائے.دوسروں کی رائے کا احترام حضرت مصلح موعودؓ کی اعلیٰ اخلاقی اقدار اگر چند لفظوں میں بیان کی جائیں تو میں اپنے مشاہدہ کی بناء پر پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آپ متحمل، بردبار اور بے تعصب تھے.آپ میں اپنائیت ، خودستائی اور خود بینی نام کو نہ تھی.آپ آزادی رائے کو نہ صرف جائز سمجھتے تھے بلکہ آزادی عقائد کی عملاً حمایت فرماتے.ایک دو مثالیں تو پہلے آچکی ہیں ایک اور واقعہ میرے علم میں آیا ہے جو
یادوں کے دریچ 87 لکھ رہا ہوں.سید حضرت اللہ پاشا صاحب ( جو حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل کے داماد ہیں ) نے لکھ کر بھجوایا ہے.آپ نے لکھا ہے حضرت مصلح موعودؓ جب 1955ء میں یورپ کے سفر سے لوٹے تو آپ نے احمد یہ ہال کراچی میں جماعت سے خطاب فرمایا.جس میں حضور نے فرمایا کہ: مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ یورپ کے ماہر سنگ تراش انسانی معاشرے کے لئے اپنے اس فن کی کیا افادیت سمجھتے ہیں.اس غرض کے لئے میں نے اٹلی کے مشہور بت ساز سے ملاقات کی اور اُس سے اس فن کے بارے میں گفتگو کی اور میں نے اس کو بتایا کہ اسلام نے کن وجوہ کی بنا پر سنگ تراشی کو منع فرمایا ہے.اس کے جواب میں اس ماہر سنگ تراش نے میری باتوں کو دلائل سے غلط ثابت کیا.اس کے ان دلائل کے نتیجہ میں مجھے احساس ہوا کہ جن وجوہات کی بنا پر میں سمجھا تھا کہ سنگ تراشی ممنوع ہے وہ تو درست معلوم نہیں دیتیں.اس پر مزید غور کی ضرورت ہے تا دلائل سے ثابت کیا جائے کہ سنگ تراشی کی ممانعت اسلام نے کن وجوہات کی بنا پر کی ہے.“ 66 اس واقعہ کو بیان کرنے سے حضور کا یہ منشاء ہو سکتا ہے کہ ہر چیز کو دلائل کی بنیاد پر پرکھنا چاہئے.عظیم شخصیتوں کی یہ ایک بنیادی خصوصیت ہوتی ہے.اس واقعہ سے حضرت مصلح موعودؓ کی عظمت ٹپکتی ہے.غیروں کی آپ سے عقیدت غیر از جماعت خاندانوں سے ذاتی تعلق کے بارے میں ایک اور بات بھی بڑی دلچسپ ہے.کراچی کے ایک بڑے امیر اور معزز خاندان کے فرد پیر محفوظ الحق صاحب جو بڑے زمیندار اور بہت سے کارخانوں کے مالک تھے نے ایک مرتبہ مجھ سے ذکر کیا کہ میرے والد بڑے نیک اور دعا گو تھے.ان کی آپ کے والد صاحب سے کسی دعوت پر ملاقات ہوئی اور وہ بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے آپ سے وعدہ لیا کہ جب بھی کراچی تشریف لائیں میری طرف سے ایک دعوت ضرور قبول فرمائیں.کہنے لگے کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں کالج کی چھٹیوں میں کراچی آیا ہوا تھا.انہی دنوں حضرت صاحب بھی کراچی تشریف لائے ہوئے تھے.میرے والد صاحب نے آپ کو دو پہر
88 کے کھانے پر مدعو کیا ہوا تھا اور مجھے ہدایت کی کہ تم نے گھر سے باہر نہیں جانا.جب میں بلاؤں تو بیٹھنے والے کمرہ میں آجانا.کھانے کے بعد جب میرے والد صاحب ، حضرت صاحب کو بیٹھنے والے کمرہ میں لے گئے تو ملازم نے مجھے کہا کہ پیر صاحب نے تمہیں بلایا ہے.کالج کا زمانہ تھا میں اندر جا کر صوفے پر بیٹھ گیا.میرے والد نے اشارہ کر کے مجھے پاس بلایا اور کہا کہ تم قالین پر ان کے قدموں کے پاس بیٹھ جاؤ.پھر ملا زم کو کہا کہ فوٹوگرافر کو بلا لو.فوراً فوٹوگرافر آیا ، تصویر اتاری.میں اس وقت آپ کے قدموں میں بیٹھا ہوا تھا.آپ کے جانے کے بعد میرے والد نے مجھے کہا کہ جن کے قدموں میں میں نے تمہیں بٹھا کر تصویر اتروائی ہے یہ بہت بزرگ اور بہت بڑی حیثیت کے مالک ہیں.ان کے قدموں میں بیٹھنے کی وجہ سے تمہیں اتنی دولت ملے گی جس کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.نیز مجھے ہدایت کی کہ احمدیت کی کبھی مخالفت نہ کرنا.کہنے لگے کہ مجھے اسی وجہ سے اتنی دولت ملی ہے.مذہبی رواداری آپ نے سکھ گوردواروں کی تعمیر میں چندہ بھی دیا ہے.” تاریخ احمدیت میں پٹنہ میں گوردوارہ کی تعمیر کے لئے چندہ دینے کا ذکر ہے.جہاں تک مجھے یاد ہے قادیان میں بھی سکھ گوردوارہ کی تعمیر نو میں آپ نے اپنی طرف سے چندہ دیا تھا.جیسا کہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بہت حد تک ذاتی یادوں کا نتیجہ ہے اس لئے لکھتے لکھتے جو بات یاد آئی لکھ دی.ابھی ایک واقعہ یاد آیا ہے جو پیشگوئی مصلح موعود میں آپ کے سخت ذہین و فہیم ہونے پر دلالت کرتا ہے.غیرت دینی کا ایک واقعہ مجلس احرار جن دنوں جماعت کی مخالفت میں پیش پیش تھی جلسے جلوس نکالے جاتے تھے.ان کے سرکردہ لیڈر اپنی تقریروں میں حضرت مسیح موعود کو نہایت فحش اور گندی گالیاں دیتے تھے.گوجرانوالہ بھی ان دنوں فحش کلامی کا ایک مرکز تھا.اس وقت کے امیر جماعت ایک دن
یا دوں کے در یح 89 حضرت ابا جان سے ملنے تشریف لائے اور ملاقات کے وقت عرض کیا کہ اب تو اتنا گند اچھالا جا رہا ہے کہ برداشت نہیں ہوتا.میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ حضور سے ہدایت لوں کہ ہم کیا کریں.آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی آپ کے باپ کو گندی گالیاں دیتا ہو تو کیا آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا کریں فتدبر ! اسی قماش کے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا: اسی زباں سے اسی منہ سے گند بگ بگ کر خدا کا نام نہ لو ظالمو! خدا کے لئے غریب احمدیوں کی دلداری مالی سہولت رکھنے والے احمدیوں سے ہی نہیں اپنے عزیز ترین احمدی بھائیوں سے بھی اخوت، دلداری اور مساوات کا سلوک آپ کے اخلاق حسنہ کا ایک دل موہ لینے والا پہلو تھا.جماعت کے دوستوں کے ساتھ بیٹھتے تو ایسے لگتا تھا جیسے چودھویں کے چاند کے اردگر دستارے ہالہ بنائے بیٹھے ہوں.یہاں ایک مثال جو مجھے یاد ہے لکھ رہا ہوں.قادیان میں دار مسیح کی طرف سے مشرق کی طرف سے ایک تنگ گلی جاتی تھی جو چند چھوٹے چھوٹے گھروں پر مشتمل تھی.تقریباً سب مکان کچے اور ایک ایک کمرہ کے ہی تھے.ان گھروں میں سے ایک میں ہمارے ایک نہایت غریب احمدی جن کا روزگا راُبلے ہوئے چنے فروخت کر کے اس کی 66199 آمد پر ہی تھا.تعلیم الاسلام ہائی سکول کا جو فٹ بال کھیلنے کا میدان تھا اس کے مغربی کو نہ کی طرف بید کا ایک بہت بڑا درخت تھا.جس کے ارد گرد پختہ اینٹوں کا ایک چبوترہ تھا.اس پر بیٹھ کر یہ اپنی چھا بڑی لگایا کرتے تھے اور سکول کے بچے چند پیسوں کے چنے ان سے خریدتے.جہاں تک میرا اندازہ ہے سکول کے وقت میں چند آنوں کے چنے ہی یہ فروخت کر سکتے تھے اور اسی آمد پر ان کا گزارہ تھا.اگر کوئی اور امداد ان کو ملتی ہو تو مجھے اس کا علم نہیں.بہر حال انہوں نے حضرت ابا جان کو.
90 دو پہر کے کھانے پر مدعو کیا.حضرت ابا جان نے دعوت قبول فرمائی.لیکن یہ شرط لگا دی کہ دال روٹی کے سوا اور کوئی چیز کھانے پر نہ رکھی جائے.کھانے پر حضرت ابا جان ، ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور خاکسار مدعو تھے.مجھے آج تک وہ نظارہ نہیں بھولتا.جب ان کے گھر پہنچے تو ان کے چہرہ پر جو خوشی اور مسرت تھی اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے.یوں لگتا تھا جیسے سارے جہان کی نعمتیں ان کی جھولی میں آ گئی ہیں.اس جگہ یہ ذکر بھی کر دوں کہ ابا جان کی عائد کردہ شرط کے مطابق ہی کھانا تھا یعنی روٹی اور دال.دال مٹی کے پیالوں میں ڈال کر ہر مہمان کے سامنے رکھی گئی.1953ء کے فسادات 1953ء میں لاہور میں جماعت کے خلاف سخت اشتعال انگیز تحریک چلائی گئی اور مولویوں کی مدد سے احمدیوں کو قتل کرنے ، ان کی املاک کو تباہ کرنے کی اس مہم کے پیچھے اس وقت کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ تھے جو دراصل پاکستان کے وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے تھے.ان کے نزدیک سب سے سستا اور آسان طریق چند مولوی خرید کر جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک چلا کر حاصل کیا جا سکتا تھا.غرض فسادات کے شعلے بلند ہونے لگے اور مجبوراً حکومت پاکستان کو لاہور میں مارشل لاء لگا نا پڑا.ممتاز دولتانہ صاحب کی ایک اور سکیم بھی تھی کہ حضرت مصلح موعودؓ کو گرفتار کر لیا جائے اس طرح جماعت میں شدید رد عمل ہو گا اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جائے گا اور اس طرح بھی دولتانہ صاحب کی راہ ہموار ہو گی.ان دنوں جماعت احمدیہ کراچی کے امیر چو ہدری عبداللہ خان صاحب تھے.حکومتِ پاکستان کا دار الحکومت بھی کراچی تھا اور جناب ملک غلام محمد صاحب پاکستان کے گورنر جنرل تھے.گورنر جنرل صاحب کو ان فسادات کی اطلاع پہنچی اور ساتھ ہی سی.آئی.اے کے ذریعہ اس امر کا علم ہوا کہ ممتاز دولتانہ کی نیت حضرت صاحب کو قید کرنے کی ہے تو گورنر جنرل صاحب نے فوری طور پر امیر جماعت کراچی چوہدری عبداللہ خان صاحب سے رابطہ پیدا کر کے ان سے کہا کہ آپ حضرت صاحب کو فوری کراچی لے آئیں ان کو یہاں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا.لیکن اس
یادوں کے دریچ 91 سے قبل اگر صرف چند گھنٹے کے لئے بھی انہوں نے مرزا صاحب کو ہتھکڑی لگا دی تو یہ ان کی بے عزتی کے مترادف ہوگا.جس کو برداشت نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ امیر صاحب کراچی نے اسی وقت کراچی کی جماعت کے تین احباب کو بذریعہ کار ربوہ روانہ کیا اور ہدایت کی کہ رستہ میں ایک منٹ رکے بغیر سیدھے ربوہ پہنچیں.یہ احباب حضرت صاحب کے نام ایک خط بھی لائے تھے.( مجھے یاد نہیں کہ یہ گورنر جنرل صاحب کا خط تھا یا امیر جماعت کراچی کا.کیونکہ یہ سر بمہر لفافہ تھا ) رات بارہ بجے کے قریب یہ لوگ ربوہ آئے.امیر صاحب کراچی کی ہدایت کے مطابق سید ھے ہمارے گھر آئے اور آنے کی وجہ بیان کر کے مجھے کہا کہ آپ ابھی یہ خط حضور کو پہنچا دیں.میں خط لے کر گیا ، آپ نے کھولا اور پڑھا.پہلے تو آپ نے مجھ سے پوچھا کہ آدھی رات کو پہنچے ہیں کیا ان کے کھانے کا تم نے انتظام کر دیا ہے.میں نے بتایا کہ طیبہ بیگم نے اسی وقت کھانا میز پرلگانا شروع کر دیا تھا.میرے واپس جانے تک وہ کھانے سے فارغ ہو چکے ہوں گے.فرمانے لگے فارغ ہو گئے ہوں تو انہیں لے آؤ.میرے ساتھ یہ احباب قصر خلافت پہنچے.ان سے مل کر فرمایا کہ واپس جا کر چوہدری صاحب کو کہہ دیں ” میری طرف سے گورنر جنرل صاحب پاکستان کا شکریہ ادا کر دیں.لیکن ربوہ چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاؤں گا.جو خدا کراچی میں ہے وہ یہاں بھی ہے.حضرت ابا جان پر جب ایک غیر احمدی نوجوان نے جو اپنے آپ کو احمدی ظاہر کر کے نماز میں پہلی صف میں جا کر بیٹھ گیا تھا اور نماز کے بعد آپ کی گردن پر چاقو سے حملہ کیا تھا.چاقو کی نوک شہ رگ کے قریب تک جا پہنچی تھی اور گو اس قاتلانہ حملہ کے چند سال بعد تک آپ زندہ رہے.لیکن چونکہ چاقو کی نوک شہ رگ کے قریب پہنچ کر اندر ہی ٹوٹ گئی تھی اس لئے آپریشن نہیں ہو سکتا تھا.بہر حال وفات کی وجہ یہی حملہ تھا.لاہوری جماعت کے لئے بردباری اور نرمی حضرت ابا جان کو حضرت مسیح موعود کے جملہ رفقاء سے انس بھی تھا اور ان کی عزت اور احترام بھی.باوجود اس کے کہ 1914ء کے انتخاب خلافت کے وقت جماعت میں تفرقہ پیدا ہو گیا اور حضرت مسیح موعود کے بیشتر ساتھی قادیان چھوڑ کر لاہور چلے گئے اور اپنی علیحدہ جماعت قائم کر لی.
92 66 صرف یہی نہیں بلکہ حضرت ابا جان سے ذاتی بغض کا اظہار تحریر و تقریر میں موسم بے موسم ان کی طرف سے جاری رہتا.لیکن اس کے باوجود میرے باپ کے دل میں ان کے لئے کوئی غصہ یا انتقام کا جذبہ نہ تھا.آگے جو کچھ لکھ رہا ہوں وہ اس کے ثبوت میں ہے.گرمیوں میں حضرت ابا جان اکثر ڈلہوزی پہاڑ پر تشریف لے جاتے.کرایہ پر کوٹھی لی جاتی.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب امیر جماعت لاہور بھی ہر سال گرمیاں ڈلہوزی گزارتے تھے.ان کی اپنی کو ٹھی تھی.ڈلہوزی شہر کے اس حصہ کی طرف جس کو ” بکر وٹہ“ کہتے تھے.حصہ نسبتا اونچی پہاڑی پر تھا.اس حصہ شہر میں جماعت کے ایک متمول خاندان کے فرد اور حضرت مسیح موعود کے رفیق کی بھی کوٹھی تھی.ان کا نام شیخ میاں محمد تھا ( مجھے یہی یاد ہے ) انہوں نے تجویز کی کہ جماعت کے دونوں حصوں کے سر براہ اگر اکٹھے مل کر کوئی ایسا سمجھوتہ کر لیں کہ ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی نہ کی جائے.نہ اپنے اخبارات میں ایک دوسرے کے خلاف کچھ لکھا جائے بلکہ ہر دو جماعتیں اپنے اپنے اعتقاد کے مطابق تبلیغ کریں اور امام وقت کا پیغام لوگوں تک پہنچا ئیں.اس تجویز کو آگے بڑھانے کے لئے انہوں نے حضرت مصلح موعود اور جناب مولوی محمد علی صاحب کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا تا بالمشافہ گفتگو سے یہ معاملہ طے ہو سکے.حضرت صاحب ، درد صاحب بطور پرائیویٹ سیکرٹری اور میں اس کھانے پر مدعو تھے ( مجھے باوجود ذہن پر زور ڈالنے کے سمجھ میں نہیں آیا کہ میں بیچ میں کہاں سے آگیا.جو کچھ مجھے یاد پڑتا ہے کہ بکر وٹہ روڈ پر سیر کرتے ہوئے شیخ صاحب اتفاقا سرک پر مجھے ملے تھے اور مجھے کھڑا کر کے پوچھا تھا کہ تم کون ہو، کیا نام ہے، کس کے بیٹے ہو ) بہر حال جب ہم ان کی کوٹھی کی طرف روانہ ہوئے تو راستہ میں بارش شروع ہوگئی.حضرت ابا جان کی برساتی اور کچھ چھتریاں ساتھ تھیں جو دو پہریدا ر ا ٹھائے ہوئے تھے.حضرت ابا جان نے اپنی برساتی پہن لی اور باقیوں نے چھتریاں کھول لیں.جب شیخ صاحب کی کوٹھی پر پہنچے تو عین اسی وقت مولوی محمد علی صاحب بھی اندر داخل ہو رہے تھے.شیخ صاحب نے آگے بڑھ کر اپنے امیر کی برساتی اتاری اور ٹانگ دی اور حضرت ابا جان کی برساتی ایک پہریدار نے.مجھے یہ کچھ اچھا نہیں لگا کہ جماعت کے ایک حصہ کے امام جوصرف امام ہی نہیں حضرت مسیح موعود کے فرزند بھی ہیں میزبان نے ان کا احترام مد نظر نہیں رکھا.بہر حال یہ نظارہ ابھی تک آنکھوں کے سامنے ہے جب میں نے حضرت ابا جان کی طرف نظر ڈالی تو دیکھا کہ آپ نے مسکرا کر آگے بڑھ کر خود مولوی محمد علی صاحب کو السلام علیکم کہا.بیٹھنے والے
یادوں کے دریچ 93 کمرہ میں داخل ہوتے وقت حضرت ابا جان نے مولوی محمد علی صاحب کو پہلے اندر جانے کے لئے کہا.پھر بیٹھنے والے کمرہ میں گفتگو شروع ہوئی.کچھ کھانے سے پہلے اور کچھ کھانے کے بعد لیکن کسی نتیجہ پر پہنچے بغیر یہ ملاقات ختم ہو گئی.ایک بڑی دلچسپ بات اس ضمن میں یاد آ گئی کہ غیر مبائعین کے سرکردہ اصحاب میں سے ایک جو حضرت مسیح موعود کے رفقاء میں سے تھے اور بہت امیر آدمی تھے حضرت ابا جان کو دعا کے لئے باقاعدہ لکھتے رہتے تھے.ایک مرتبہ ابا جان نے ان کے خط کے جواب میں لکھا کہ آپ مولوی محمد علی صاحب کے مرید ہیں اور دعا کے لئے مجھے لکھتے ہیں.ان کا جواب آیا کہ اعتقاد تو ہمارے امیر صاحب کا ہی درست ہے لیکن دعا ئیں آپ کی قبول ہوتی ہیں.اس لئے آپ کو دعا کے لئے لکھتا ہوں.حضرت بانی سلسلہ کے رفقاء کے متعلق ایک اور واقعہ کا ذکر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا.دودوستوں کا واقعہ ہے جو بھائی بھائی بنے ہوئے تھے.ایک تو ملک غلام محمد صاحب مل اونر جو قصور میں رہتے تھے اور دوسرے شیخ عبدالرزاق صاحب بیرسٹر جن کے آباء لاہور میں رہتے تھے اور خود یہ لائل پور (فیصل آباد) میں پریکٹس کرتے تھے.یہ دونوں دوست جماعت غیر مبائعین میں شامل تھے لیکن کبھی قادیان بھی حضرت ابا جان سے ملنے کے لئے آجاتے تھے.اور ان کا آپس میں یہ معاہدہ تھا کہ جب بھی قادیان جانے کا پروگرام ہو تو دونوں اکٹھے جائیں گے.ہم میں سے کوئی اکیلا نہیں جائے گا.مسیحی انفاس جب بھی قادیان تشریف لاتے حضرت ابا جان ان کو ذاتی مہمان کے طور پر اپنے پاس ٹھہراتے ان کے لئے کھانا بھی اپنے گھر سے تیار کرواتے.ابا جان کے ان ہر دوا حباب سے کوئی ذاتی مراسم نہ تھے.یہ احترام اور سلوک محض اس لئے تھا کہ یہ دونوں حضرت بانی سلسلہ کے رفقاء میں سے تھے.وقت گزرتا گیا ایک روز ابا جان کو پرائیویٹ سیکرٹری کی طرف سے اطلاع ملی کہ شیخ عبدالرزاق صاحب تشریف لائے ہیں.فوری ان سے ملے اور پوچھا کہ ملک صاحب کہاں ہیں؟ جواب ملا کہ میں اکیلا آیا ہوں.دوپہر کا وقت تھا جب یہ قادیان پہنچے تھے.حسب سابق ابا جان نے ان کے کھانے کا فوری انتظام کروایا.ظہر کا وقت ہوا تو ابا جان نماز کے لئے تشریف لے گئے.نماز کے بعد
94 وہیں بیٹھ گئے.شیخ صاحب نے آگے بڑھ کر عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں.چونکہ حضرت ابا جان کو علم تھا کہ ان دونوں دوستوں کا معاہدہ ہے کہ جب بھی جائیں گے اکٹھے جائیں گے اور اگر بیعت کرنی ہوگی تو اکٹھے کریں گے.آپ نے فرمایا شیخ صاحب آپ کا تو ملک صاحب سے معاہدہ ہے کہ اگر بیعت کی تو اکٹھے کریں گے.اس پر شیخ عبدالرزاق صاحب نے بے ساختہ عرض کیا کہ حضور زندگی اور موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کون کہہ سکتا ہے کہ کب بلا وا آ جائے.یہ دین کا معاملہ ہے اس میں تاخیر مناسب نہیں.میں ابھی بیعت کرنا چاہتا ہوں.فیصل آباد سے روانہ ہونے سے قبل میں نے ملک صاحب کو خط لکھ دیا ہے کہ میں تو بیعت کرنے جا رہا ہوں آگے آپ کی مرضی.چند دنوں کے بعد ملک غلام محمد صاحب نے بھی بیعت کر لی.بیعت کرنے کے کچھ عرصہ بعد شیخ صاحب قادیان آئے تو حضرت ابا جان نے حسب سابق اپنے ذاتی مہمان کے طور پر ٹھہرانا چاہا.مگر شیخ صاحب نے معذرت کی کہ اب پہلے والی بات نہیں اب میں حضرت مسیح موعود کا مہمان ہوا کروں گا اور لنگر خانہ میں قیام اور وہیں کھانا کھاؤں گا.آپ کا بہت بہت شکریہ.اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ بیعت کے بعد شیخ صاحب کی حالت ایسی بدلی کہ پوری رات بیت المبارک میں گزارتے.رات کا بیشتر حصہ تہجد کی نماز میں مصروف اور اس قدر رقت اور درد سے دعائیں کرتے کہ لوگ کہتے تھے کہ شیخ صاحب کے نماز میں رونے کی آوازیں گلی میں سنائی دیتی ہیں.پیشگوئی میں مذکور الہاموں میں سے ایک کہ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکتوں سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا ہزار ہا اور لوگوں کے علاوہ شیخ صاحب کی ذات میں بھی پورا ہوا.پیشگوئی مصلح موعود میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو یہ بشارت بھی دی کہ: جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کا موجب ہوگا.نو ر آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا.وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی یہ الہامات بھی بڑی شان سے آپ کی ذات میں پورے ہوئے.مغربی افریقہ، مشرقی افریقہ، مشرق بعید ہندوستان وغیرہ متعدد ملکوں میں استعماری حکومتوں کے ماتحت ان ملکوں کے باشندے ہر
یادوں کے دریچ 95 قسم کی غلامی کا شکار تھے.خصوصاً ذہنی غلامی کے.جو سب غلامیوں سے بڑھ کر دکھ اور عزت نفسی کا گلا گھونٹنے کا باعث ہوتی ہے ان کے گلے کا پھندا تھا.حضرت مصلح الموعودؓ کے زمانہ میں ہی ان ملکوں میں آزادی کی رو چلی.نیز حضرت مصلح الموعودؓ نے ان ممالک کے رہنے والوں کو ان چنگلوں سے آزاد کروانے کی جو کوششیں کیں ان کے نتیجہ میں یہ سب ممالک بیدار ہوئے اور ان کے لئے آزادی کی مسجیں طلوع ہوئیں اور آزاد حکومت بنانے کے قابل ہوئے.دنیا کے مختلف ممالک میں مشرق ہو یا مغرب، شمال ہو یا جنوب ایسے مقامات ہیں جن کو زمین کا کنارہ کہا جاتا ہے.ان سب ممالک میں احمدیت کا پیغام اور آپ کا نام پہنچا اور آپ نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور قوموں نے آپ سے برکت پائی.خدائی وعدہ میں صرف ایک مصلح موعود کا ذکر ہے جو آیا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق وہ سب کام تکمیل تک پہنچا کر رخصت ہوا جو ان الہامی الفاظ میں ہیں کہ ” تب وہ نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا“.یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہماری نئی نسل کو مصلح موعودؓ کے مقام کا بہت کم علم ہے.حالانکہ پیشگوئی میں مذکور یہ الفاظ کہ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَا كَأَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ ، کسی مزید تشریح کے محتاج نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا نزول تو ایسا ہے جیسے ” خدا خود آسمان سے نازل ہوا ہے.اس کے بعد تو آپ کے مقام کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی.یہ حقیقت ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کا زمانہ حضرت بانی سلسلہ کے زمانہ کا تسلسل ہی تھا.خود حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے ایک الہام کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : أَنَا الْمَسِيحُ الْمَوْعُودُ وَ مَشِيلُه وخَلِیفَتُه جو کچھ خدا نے کہا وہ یہ ہے کہ مصلح الموعود کی پیشگوئی جو اس زمانہ کو انوار و برکات کے لحاظ سے ویسا ہی زمانہ ثابت کر رہی ہے جیسے کہ خود حضرت مسیح موعود کا زمانہ تھا.میرے ہی ذریعہ پوری ہوئی ہے اور نشانات اور علامات نے بھی بتا دیا کہ یہ پیشگوئی میرے ہی ذریعہ پوری ہوئی ہے“ الفضل 17 رفروری 1944ء) 66
جماعت سے محبت 96 اب پھر مجھے 1924 ء کے اس سفر کی طرف لوٹنا ہے جو ویمبلے کا نفرنس لندن میں اسلام پر لیکچر دینے کے لئے آپ نے اختیار فرمایا تھا.اس سفر نے آپ کا جماعت احمدیہ سے شدید محبت اور پیار اور جماعت احمدیہ کا آپ سے پیار اور عشق کا راز آشکار کر دیا.غیر ممالک کے سفر پر روانگی ایک عارضی جدائی کا رنگ رکھتی تھی.لیکن اتنی جدائی بھی آپ پر شاق آور دکھ کا باعث تھی.آپ کو جماعت سے جو شدید محبت اور پیار تھا اس کا اظہار اس خط سے جو آپ نے مؤرخہ 24-7-22 کو عدن سے جماعت کے نام لکھا واضح ہو جاتا ہے.اس خط کی نقل درج ہے.آہ ! وہ اپنے دوستوں سے رخصت ہونا ان دوستوں سے جن سے مل کر میں نے عہد کیا تھا کہ اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کروں گا اور خدا تعالیٰ کے نام کو روشن کروں گا.ہاں ان دوستوں سے جن کے دل میرے دل سے اور جن کی روحیں میری روح سے اور جن کی خواہشات میری خواہشات سے اور جن کے ارادے میرے ارادوں سے متحد ہو گئے تھے کیسا اندوہناک تھا.کیسا حسرت خیز تھا وہ دل جو اس محبت سے نا آشنا ہے جو احمدی جماعت کو مجھ سے ہے وہ اس حالت کا اندازہ نہیں کر سکتا اور کون ہے جو اس درد سے آشنا ہو جس میں ہم شریک ہیں کہ وہ اس کیفیت کو سمجھ سکے.لوگ کہیں گے جدائی روز ہوتی ہے اور علیحدگی زمانے کے خواص میں سے ہے.مگر کون اندھے کو سورج دکھائے اور بہرے کو آواز کی دلکشی سے آگاہ کرے.اس نے کب للہ اور فی اللہ محبت کا مزا چکھا ہے کہ وہ اس لطف اور اس درد کو محسوس کرے.اس نے کب اس پیالے کو پیا کہ وہ اس کی مست کر دینے والی کیفیت سے آگاہ ہو.دنیا میں ان کے لیڈر بھی ہیں اور ان کے پیرو بھی ، عاشق بھی ہیں اور ان کے معشوق بھی اور ان کے محبوب بھی مگر ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است.غرض کہ اس سفر نے اس پوشیدہ محبت کو جواحمدی جماعت کو مجھ سے تھی اور جو مجھے ان سے تھی نکال کر باہر کر دیا اور ہمارے چھپے ہوئے راز ظاہر ہو گئے.اے عزیز و ! میں آپ سے دور ہوں مگر جسم دور ہے روح نہیں.میرے جسم کا ذرہ ذرہ اور میری روح کی ہر طاقت تمہارے لئے دعا میں مشغول ہے.مندرجہ بالا خط تو عدن سے سپر د ڈاک کیا گیا.یورپ پہنچنے پر آپ نے جماعت کے نام جو خط
یادوں کے دریچ 97 لکھا وہ آپ کی اسی تڑپ کی عکاسی کرتا ہے جو آپ کو جماعت کے ہرفرد کو اس مقام پر دیکھنے کے لئے بے چین کر رہی تھی جس کو خدا رسیدہ انسان کہا جا سکتا ہے.خط کا متن درج ذیل ہے: اے کاش میں اپنی آنکھوں سے تم کو وہ کچھ دیکھ لوں جو میں دیکھنا چاہتا ہوں.اے کاش تمہارا ایمان اور تمہارا یقین اور تمہارا ایثار اور تمہارے اخلاق اور تمہارا تمدن اور تمہارا علم اور تمہارے عمل اور تمہاری قربانیاں ایسی ہوں بلکہ اس سے بڑھ کر جو میں دیکھنی چاہتا ہوں.خدا تعالیٰ تم میں ہمیشہ وہ لوگ پیدا کرتا رہے جن کے دل تمہاری خیر خواہی اور محبت کے جذبات سے پر ہوں اور جن کے افکار تمہاری بہتری کی تجاویز میں مشغول تم قیموں کی طرح کبھی نہ چھوڑے جاؤ اور سورج تم پر لاوارثی کی حالت میں کبھی نہ چڑھے.تم خدا کے پیارے ہو اور خدا تمہارا پیارا ہو.اے خدا تو ایسا ہی کر اور زندگی اور موت میں مجھے ایسا ہی دکھا.آسمان کی طرف اٹھایا جانا خاکسار.مرزا محمود احمد آخر وہ وقت بھی آ گیا جس کے خیال سے ہی ہر مخلص احمدی کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی تھی.ہر احمدی جو بھی مجھے آپ کے وصال کے بعد ملا کے منہ سے یہی الفاظ نکلتے تھے کہ حضرت صاحب کو سب سے زیادہ محبت مجھ سے تھی.کتنا گہرا اور وسیع تھا محبت کا یہ سمندر کہ ہزاروں ہزار جان نثاراس محبت کے چشمہ سے عمر بھر سیراب ہوتے رہے.ایک بات مجھے بھولتی نہیں بڑا گہرا اثر چھوڑ گئی ہے.میں صبح کے وقت اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا.سامنے سے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال تشریف لا رہے تھے.میں نے سلام کیا.آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑ کر بیت المبارک کی طرف چلنے لگے.گیٹ کے سامنے کھڑے ہو کر قصر خلافت کی طرف منہ کر کے کہنے لگے ” ایدے بعد میرے کولوں کسی ہور دا منہ نہیں دیکھیا جانا.انہوں نے پنجابی میں جو فقرہ کہا تھا وہ میں من وعن لکھ رہا ہوں.جو کچھ انہوں نے کہا اردو میں بھی لکھ دوں.وہ یہ کہ اس کے بعد مجھ سے کسی اور کا منہ نہیں دیکھا جا سکے گا.پھر مڑ کر مجھ سے کہا کہ میں ہر وقت دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان سے پہلے اٹھا لے.مجھے کہنے لگے میاں آپ بھی میرے لئے یہی دعا کریں.اس وقت ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ڈاکٹر نصیر احمد خان مرحوم کا ایک شعر ہر عاشق محمود کے دل کی دھڑکنوں کی آواز ہے.یہ
آواز آج احمدی احباب کو پھر سنانا چاہتا ہوں.98 ہم ہیں میخانہ محمود کے پینے والے وہی رس گھول ہمیں تو اسی انداز پلا یہ تھا وہ محمود جس کے ایک دو نہیں لاکھوں ایاز تھے.اے مظفر تجھ پر سلام مرزا مبارک احمد
99 99 حرف آخر اتنا کچھ ہی لکھ سکا تھا کہ مجھے بوجوہ اس کے طبع کروانے میں تامل تھا.کبھی سوچتا کہ شائع کرنا ضروری بھی ہے اور میرا فرض بھی.کیونکہ یہ ایک امانت ہے جو دوسروں تک پہنچانی ضروری ہے.اسی کشمکش میں دیر ہوتی چلی گئی.ابھی فیصلہ نہ کر سکا تھا کہ ایک رات صبح کی نماز سے قبل میں نے خواب میں دیکھا کہ : د میں اس چھتی ہوئی گلی میں سے گزر رہا ہوں جو دار مسیح میں داخل ہونے کے لئے ایک ڈیوڑھی جو مغربی جانب ہے اور مشرقی جانب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا رہائشی مکان اور مردانہ حصہ میں داخل ہونے کے دروازے بھی ہیں.ڈیوڑھی میں داخل ہونے میں ابھی چند قدم کا فاصلہ ہی تھا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اپنے گھر سے باہر نکلے ہیں اور مجھے مبارک“ کہہ کر ,, پکارا اور فرمایا کہ تمہارے ابا جان تم سے بہت خوش ہیں.“ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.اس خواب سے مجھے اس قدرخوشی محسوس ہوئی کہ آنکھ کھلنے پر بھی اس کا لطف اٹھا رہا تھا.اس کے بعد کسی ہچکچاہٹ کا سوال نہ رہا.مرزا مبارک احمد
یادوں کے در بیچے 100 حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی احباب جماعت کے نام وصیت أَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - ہم دوسرے انسانوں سے الگ قسم کے انسان نہیں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم عملے کے ذریعہ خبر دی کہ مسیح موعود شاہی خاندان میں پیدا ہوگا اور اس کے ذریعہ سے پھر اسلامی بادشاہت قائم ہو گی.اس کی وجہ سے باوجود نہایت نالائق ہونے کے ہم نے ایک لمبی سکھ کی زندگی بسر کی اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق شاہی خاندان میں پیدا ہوئے.ہماری اس میں کوئی خوبی نہیں تھی.ہم ذلیل تھے اس نے ہمیں دین کا بادشاہ بنا دیا.ہم کمزور تھے اس نے طاقتور کر دیا اور اسلام کی آئندہ ترقیوں کو ہم سے وابستہ کر دیا.محمد رسول اللہ ﷺ کی جوتیوں کے طفیل ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ علیہ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائیں.یہ وہ مشکل کام تھا جس کو بڑے بڑے بادشاہ نہ کر سکے لیکن خدا تعالیٰ نے ہم غریبوں اور بے کسوں کے ذریعہ سے یہ کام کروا دیا.اور اس بات کو سچا کر دکھایا کہ سُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْاعَادِی ( یعنی پاک ہے وہ خدا جس نے اسلام کے دشمنوں کو ذلیل کر دیا ) مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک اسلام کو برتری بخشتا رہے گا اور مجھے امید ہے کہ میری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو اونچا کرتی رہے گی اور اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی قربانی کے ذریعے سے اسلام کے جھنڈے کو ہمیشہ اونچا رکھے گی.اور محمد رسول اللہ اللہ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گی.میں اس دعا میں ہر احمدی کو شامل کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو اس مشن کو پورا کرنے کی توفیق دے.وہ کمزور ہیں لیکن ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوا سے انسانوں کی طاقت کا کوئی ڈر نہیں ہوتا.دنیا کی بادشاہتیں ان کے ہاتھ چومیں گی اور دنیا کی حکومتیں ان کے آگے گریں گی.بشرطیکہ نبیوں کے سردار محمد رسول اللہ ﷺ کے حقوق یہ لوگ نہ بھولیں اور اسلام کے جھنڈے کو اونچار کھنے کی کوشش کرتے رہیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ہمیشہ ان کی مدد کرتا رہے اور ہمیشہ ان کو
یادوں کے دریچ 101 سچا راستہ دکھا تا رہے.بے شک یہ کمزور ہیں تعداد کے لحاظ سے بھی اور روپے کے لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی لیکن اگر وہ خدائے جبار کا دامن مضبوطی سے پکڑیں گے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں ان کے حق میں پوری ہوں گی اور دینِ اسلام کے غلبہ کے ساتھ ان کو بھی غلبہ ملے گا.اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی.خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے اور قیامت کے دن نہ وہ شرمندہ ہوں نہ ان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود یا رسول اللہ سے شرمندہ ہوں.نہ خدا تعالیٰ شرمندہ ہو کہ اس نے ایسی نالائق جماعت کو کیوں چنا.یہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا آخری پودا ہے جو اس پودے کی آبیاری کرے گا خدا تعالیٰ قیامت تک اس کے بیج بڑھاتا جائے گا اور وہ دونوں جہان میں عزت پائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.اے عزیز و! 1914ء میں خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا بوجھ مجھ پر رکھا تھا اور میری پیدائش سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ میری خبر دی تھی.میں تو ایک حقیر اور ذلیل کیڑا ہوں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجھے نوازا اور میرے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کو قائم کیا.میں اسی خدائے قدوس کا دامن پکڑ کر اس سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو برتری بخشے اور محمد رسول اللہ ﷺ کو جو اگلے جہان میں ساری دنیا کے سردار ہیں اس جہان میں بھی ساری دنیا کا سردار بنائے.بلکہ ان کے خدام کو بھی ساری دنیا کا بادشاہ بنائے مگر نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نہ کہ ظلم کے ساتھ.توحید دنیا سے غائب ہے خدا کرے کہ پھر تو حید کا پرچم اونچا ہو جائے اور جس طرح خدا غالب ہے اس طرح اس کا جھنڈا بھی دنیا میں غالب رہے اور اسلام اور احمدیت دنیا میں تو حید اور تقویٰ اور اسلام کی عظمت پھر دنیا میں قائم کر دیں اور قیامت تک قائم رکھتے چلے جائیں.یہاں تک کہ وہ وقت آجائے کہ خدا کے فرشتے آسمان سے نازل ہو کر خدا کے بندوں کی روحوں کو بلند کر کے آسمان پر لے جائیں اور ان میں ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم کر دیں جو ابد تک نہ ٹوٹے.آمین ثم آمین.با دشاہت سب خدا کا حق ہے مگر افسوس ہے کہ انسان نے اپنی جھوٹی طاقت کے گھمنڈ میں اس بادشاہت کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے اور خدا کے مسکین بندوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.خدا تعالیٰ اس غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی اولا د اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو نیکی پر ہمیشہ قائم رکھے اور اعتدال کے راستہ سے پھرنے نہ دے.اس سے یہ بعید نہیں کہ گوانسان کی نظر میں یہ بڑی مشکل معلوم ہوتی ہے.میں اس کے بندوں کی باگ اس کے ہاتھ میں دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ان کا خیر خواہ ثابت ہوگا اور
یادوں کے در بیچے 102 قریب کی قیامت بلکہ دور کی قیامتوں کے موقعہ پر سچے مسلمانوں کی سرخروئی اور اعزاز کا موجب ہو گا.میں اپنے لڑکوں ، لڑکیوں اور بیویوں کو بھی اس کے سپرد کرتا ہوں.میری نرینہ اولا دموجود ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا انسان کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں اولاد در اولا د اور بیویوں اور ان کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں جس کی حوالگی سے زیادہ مضبوط حوالگی کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا: سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ہم نے اس الہام کی سچائی کو 51 سال تک آزمایا ہے اور خدا تعالی سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے آخر تک اسلام کی سچائی کو ظاہر کرتا رہے گا.اس کا کلام ہمیشہ سچا ہی ثابت ہوتا رہے گا.اصل عزت وہی ہے جو مرنے کے بعد انسان کو ملے گی.لیکن پھر بھی اس دنیا میں نیکی کا پیج قائم رکھنے سے انسان دعاؤں کا مستحق بن جاتا ہے اور اپنے پرائے اس کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.یہ خوبی کا مقام بھلایا نہیں جا سکتا اور میں اپنے خاندان کے مردوں ، عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ مقام ہمیشہ عطا ر کھے اور اسی میں میرے بھائیوں اور بہنوں کی اولا دکو بھی.محمد رسول اللہ علیہ سے بڑھ کر کوئی پیدا نہیں ہوا نہ آگے پیدا ہو گا.آپ کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں بھی سردار مقرر کیا ہے.خدا کرے آپ کی یہ سرداری تا ابد قائم رہے اور ہم قیامت کے دن درود پڑھتے ہوئے آپ کے نشان والا جھنڈا لے کر آپ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنے خدا سے بھی کہیں کہ اے خدا ! تو نے جس انسان کی عزت کو اپنی عزت قرار دیا تھا ہم اس کی عزت قائم کر کے آئے ہیں.ہم پر بھی رحم کر اور اپنے فضلوں کا وارث بنا.آمین ثم آمین.میری اولاد کے نام میری نعش میری اماں جان کی نعش اور میری بیویوں کی نعشوں کو قادیان پہنچانا تمہارا فرض ہے.میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی تم بھی میری خواہش پوری کرنا.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہواور تمہیں عزت بخشے.
103 میں ساری جماعت کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا اور رسول کے لئے وقف کریں اور قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ، ان کی مدد کرے اور اپنی بشارتوں سے ان کو نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یورپ کے نئے احمدی اپنی جان اور مال سے ایشیا کے پڑا نے احمدیوں کی مدد کریں گے اور تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے.اگر لینن کے متبعین نے چند سال میں اپنا سکہ جمالیا تھا تو محمد رسول اللہ ﷺ کے متبعین یہ کام کیوں نہیں کر سکتے.صرف عزم اور ارادہ کی پختگی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو.وہ کبھی ظلم نہ کریں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے بندوں کے سامنے عجز وانکسار کے ساتھ سر جھکا ئیں تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کی مدد اس کو ملتی رہے اور اسلام کا سر ہمیشہ اونچا رہے اور قیامت کے دن خدا کا آخری نبی بلکہ خدائے واحد خود نہایت شوق سے اپنے ہاتھ پھیلا کر ان کی ملاقات کے لئے آگے بڑھے اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا تعالیٰ کی برکات کے وارث ہوں.میں احمدیت اور اس کے آثار کو بھی خدا کے سپر د کرتا ہوں وہی ان کا بھی محافظ ہو اور ان کی عزت کو قیامت تک قائم رکھے.آمین ثم آمین.اے دوستو! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج بوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو تا خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور تم کو اس دنیا میں بھی اونچا کرے اور اس جہان میں بھی اونچا کرے.تا مرگ اپنے وعدوں کو پورا کرتے رہو اور میری اولا د اور حضرت مسیح موعود کی اولا د کو بھی ان کے خاندان کے عہد یاد دلاتے رہو.احمدیت کے مبلغ ، اسلام کے بچے سپاہی ثابت ہوں اور اس دنیا میں خدائے قدوس کے کارندے بنیں.کیا ہمارا خدا اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا جتنا کہ حضرت مسیح ناصری رکھتے تھے.مسیح ناصری تو ایک نبی تھے اور محمد رسول اللہ ﷺ تمام نبیوں کے سردار تھے.خدا تعالیٰ دونوں جہان میں ان کی سرداری کو قائم رکھے اور ان کے ماننے والوں کا جھنڈا کبھی نیچا نہ ہو اور وہ اور ان کے دوست ہمیشہ سر بلند ر ہیں.آمین ثم آمین.میں یہ فصیحتیں پاکستان سے باہر کے احمدیوں کو بھی کرتا ہوں.وہ بھی خدا تعالیٰ کے ایسے ہی محبوب ہیں جیسے پاکستان میں رہنے والے احمدی اور جب تک وہ اسلام کو اپنا مطمع نظر قرار دیں گے
104 خدا تعالیٰ ان کو بھی اور اسلام کو بھی دنیا میں بلند تر کرتا چلا جائے گا.انشاء اللہ.خدا کرے احمد یوں کے ذریعہ دنیا میں کبھی ظلم کی بنیاد قائم نہ ہو بلکہ عدل، انصاف اور رحم کی بنیاد قائم ہوتی چلی جائے اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے دائیں بھی کھڑے ہوں اور بائیں بھی کھڑے ہوں اور کوئی شخص ان کی طرف نیزہ نہ پھینکے جسے خدا تعالیٰ کے فرشتے آگے بڑھ کر اپنی چھاتی پر نہ لے لیں.آمین ثم آمین.آدم اول کی اولاد کے ذریعہ سے بالآخر دنیا میں بڑا ظلم قائم ہوا.اب خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کی اولاد کے ذریعہ سے یہ ظلم ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے.اور سانپ یعنی ابلیس کا سر کچل دیا جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح دنیا میں بھی قائم ہو جائے جس طرح آسمان پر ہے اور کوئی انسان دوسرے انسان کو نہ کھائے اور کوئی طاقتور انسان کمزور انسان پر ظلم اور تعدی نہ کرے.آمین ثم آمین.مرزا محمود احمد 17 رمئی 1959ء (مطبوعہ الفضل 20 رمئی 1959 ء و تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 333 تا 338)
105 وصیت حضرت مصلح الموعودة بسم الله الرّحمن الرّحيم مؤرخہ : 1947-8-30 جماعت احمدیہ واولا د کے نام الف: مجھ پر بہت سا قرض ہے.اکثر انجمن کی معرفت لیا ہوا ہے.قادیان کی جائیداد اس کے لئے بالکل کافی تھی.کئی گنا اس کی قیمت تھی.مگر نا معلوم ان فتنوں کے بعد اس جائیداد کی قیمت کیا ہو جائے.اس لئے جماعت سہولت سے یہ قرض وصول کرے اور اولا دخوشی سے یہ رقم ادا کرے.ب: اگر میرا کوئی بیٹا میری زندگی میں فوت ہو جائے تو اس کی اولا دمیری اولا د کی طرح وارث قرار دی جائے گی اور بچوں کے برابر بھتیجے اور پھوپھیوں کے برابر بھتیجیاں حصہ لیں گے اسی طرح میری بہوئیں بھی.بڑے داماد یا دوسرے رشتہ دار مل کر اس کے مطابق فیصلہ کرا دیں.ج : میری اولا دلڑ کے لڑکیاں دنیوی تعلیم حاصل نہ کریں.قرآن وحدیث کے پڑھنے اور اس پر عمل کرانے میں اپنی عمر گزار ہیں.د: مکرر.اگر انگوٹھی اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ محفوظ رہے تو وہ سلسلہ کو میری طرف سے دی جائے کہ سلسلہ خود اسے محفوظ رکھے.ایسی امانت کسی ایک شخص کے پاس نہیں رہنی چاہئے.مرزا محمود احمد لفافہ کے اوپر لکھا ہے: 17 مئی 1959ء وصیت بابت اولاد.بنام جماعت احمدیہ و اولا دشیخ بشیر احمد صاحب پڑھ لیں اور بحفاظت عزیزم مظفر احمد صاحب کو پہنچا دیں جو اسے ہر طرح اپنے پاس محفوظ رکھیں.نوٹ : میں ایک وضاحت کے لئے نوٹ لکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابا جان نے جملہ قرضہ جات خواہ کسی ذریعہ سے بھی لئے گئے ہوں اپنی زندگی میں ادا کر دیئے تھے.
یادوں کے در بیچے 106 فجزاهم الله احسن الجزاء اس کتاب کے جملہ اخراجات مجلس انصاراللہ علاقہ لا ہور نے ادا کئے ہیں.اللہ تعالیٰ مجلس علاقہ لاہور کے تمام انصار کی قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے بیش از بیش مقبول خدمات کی توفیق عطا فرمائے.انعامات و افضال سے نوازے اور ان کے نفوس و اموال میں برکت ڈالے.آمین
107 فہرست ٹریکٹس / بروشر ز قیادت اشاعت مجلس انصاراللہ نمبر شمار نام بروشر 1 2 تزکیہ نفوس اور ہماری ذمہ داری 3 4 تربیت اولاد کا طریق میری بعثت کا مقصد 5 نوع انسان کی ہمدردی و خیر خواہی کے متعلق اسلامی تعلیم 6 نماز با جماعت کے بارے میں اسلامی تعلیم 7 دعا کے متعلق اسلامی تعلیم 8 9 صلح و با ہمی محبت آداب گفتگو 10 اخلاق فاضلہ کے متعلق قرآنی تعلیم 11 صحبت صالحین 12 بھیج درود اس محسن پر دن سوسو بار 13 یتیم کی خبر گیری 14 : صفحات طبع 4 اول.اکتوبر 1956ء دوم.اکتوبر 1978ء سوم.11 جولائی 1982ء مارچ 1970ء اکتوبر 1970ء 4 4 $1971 4 مارچ 1971ء 4 4 4 4 4 4 4 4 4 4 اول مئی 1974ء دوم.اپریل 1975 ء اکتوبر 1975ء اکتوبر 1975ء مارچ 1976ء اکتوبر 1976ء اکتوبر 1977ء اکتوبر 1977ء اول.اکتوبر 1977ء دوم.1978ء اکتوبر 1977ء
15 برکات خلاف 16 لین دین سے متعلق اسلامی تعلیم 17 ہمسایہ کے حقوق 18 | بڑوں کے آداب 19 | زنده رسول 20 | زنده کتاب 21 | ہمارا مذہب 22 صداقت حضرت مسیح موعود 108 $ 1978 4 $ 1978 4 $ 1979 2 $1979 2 2 2 2 2 14 جنوری 1982ء 14 جنوری 1982ء اول - 14 جنوری 1982ء دوم.23 نومبر 1983ء اول.8 اگست 1982 ء دوم.11 جون 1983ء
نمبر شمار 109 فہرست مطبوعات قیادت اشاعت مجلس انصار الله نام کتاب صفحات طبع 1 ختم نبوت کی حقیقت کا مہتم بالشان اظهار 88 128اکتوبر 1963ء از مسعود احمد خاں صاحب قائد اشاعت 3 غلبہ اسلام کی آسمانی سکیم *196328 22 از مسعود احمد خاں صاحب اطاعت اور اس کی اہمیت 34 اول.اکتوبر 1966ء دوم.30 دسمبر 1981 ء ما 5 6 8 مقام خلافت اور اسکی عظمت واہمیت | 16 اپریل 1972ء تربیت اولاد از صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب انفاق فی سبیل اللہ اور انصار اللہ از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب 32 | جون 1973ء اول.یکم اگست 1979ء چودھویں اور پندرھویں صدی کا سنگم 64 اول - 1980ء از حافظ مظفر احمد صاحب دوم.1981ء جماعت سے خطاب از حضرت خلیفہ 15 اول.جولائی 1980 ء المسیح الثالث دوم.11 نومبر 1982ء 9 آیت خاتم النبین اور جماعت احمدیہ کا 56 7 جولائی 1981ء مسلک 10 وصال ابن مریم 84 | 7 فروری 1981ء از حضرت مرزا طاہر احمد صاحب
11 110 ذکر حبیب از مفتی محمد صادق صاحب 384 اول.7 اکتوبر 1987ء دوم.24 جنوری 1998ء سوم.2 جولائی 2000ء چہارم.18 جولائی 2003ء پنجم.8.اگست 2003 ء ششم.20 نومبر 2008 ء 12 ظہور امام مہدی اور چودھویں صدی 112 | اول.31 مارچ 1989ء از محمد اعظم اکسیر صاحب 13 حیات قدسی دوم - 12 مارچ 1991ء سوم 12 نومبر 1991ء چہارم.17 جولائی 1995ء پنجم.3 فروری 2000ء 688 اول.22 اپریل 1991ء از مولا نا غلام رسول را جیکی صاحب دوم.12 فروری 1996ء سوم.21 مئی 2000ء چہارم.29 اگست 2002ء پنجم.13 اگست 2004 ء ششم.14 جون 2008ء 14 پیارے رسول کی پیاری باتیں 174 اول.11 جولائی 1994 ء از حضرت میر محمد اسحاق صاحب دوم.4 جنوری 1998ء 15 سیرت حافظ روشن علی صاحب 103 | اول.12 ستمبر 1995ء از سلطان احمد پیر کوئی صاحب دوم.12 اگست 2000ء 16 سیرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی سوم.30 جون 2004 ء چہارم.5اکتوبر 2005ء $1997 -
111 17 رساله نوراحمد از نوراحمد صاحب احمدی 47 15 فروری 1998ء 18 تائید حق 19 سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب عرفانی صاحب 134 ٹیم جون 1999 ء 20056 639 20 نیک بی بی از مولانا منور احمد صاحب 22 | 2 جنوری 2001ء 21 | نماز اور اس کے آداب 104 اول.2 جولا ئی 2001ء دوم.6 مئی 2002ء سوم.یکم دسمبر 2004 ء چہارم.21 مارچ 2007 ء - 19 مارچ 2009ء 22 لاہور تاریخ احمدیت 636 اول 22 ستمبر 2001ء از عبدلقادر صاحب (سابق سوداگرمل) دوم - 5 دسمبر 2007 ء 23 دینیات کا پہلا رسالہ 36 اول.17 جنوری 2002ء 24 حیات نور دوم.16 مارچ2002ء سوم.7 مارچ 2004 ء چہارم.24 اگست 2005 ء پنجم.5 جولائی 2009ء 856 اول - 13 مارچ 2002ء از عبدالقادر صاحب (سابق سوداگرمل) دوم.18 اگست 2002ء سوم.13 اگست 2004ء چہارم.25 جنوری 2006ء جم 12 مئی 2007ء ششم.16 مئی 2012ء 25 حیات بشیر از عبدالقادر صاحب 588 اول.12 جولائی 2003ء (سابق سوداگر مل ) دوم.1 - 25 نومبر 2007ء
26 شہدا ء الحق از قاضی محمد یوسف صاحب 112 171 اول.17 جولائی 2003ء دوم.6 مئی 2006ء 27 شیخ عجم اور آپ کے شاگرد 404 | اول.22 نومبر 2003 ء 28 از سید مسعود احمد صاحب دوم.13 اگست 2004ء سوم.15اکتوبر 2005ء سیرت حضرت سیدہ نصرت جہاں 720 | اول.16 دسمبر 2003 ء بیلم صاحبہ - دوم - 28 جون 2004 ء از شیخ محمود عرفانی و یعقوب عرفانی سوم.15 اکتوبر 2006 ء چہارم.10 اکتوبر 2009 ء 29 | سیرت حضرت اماں جان 326 9 جنوری 2006ء از احمد طاہر مرزا 30 | بنیادی نصاب 309 اول - 17 نومبر 1983 ء از پروفیسر حبیب اللہ خان صاحب دوم.25 جون 1990ء سوم.24 فروری 1992ء چہارم.12 ستمبر 1993ء تم.30 جنوری 2004ء - 17 نومبر 2007ء ہفتم.7 مئی 2009 ء ہشتم.6 نومبر 2013 ء 31 بیسویں صدی کا علمی شاہکار 84 | 19 فروری 2006ء از مولا نا دوست محمد شاہد صاحب 32 سبیل الرشا دجلد اول خطبات حضرت خلیفہ اسیح الثانی 33 سبیل الرشاد جلد دوم خطبات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث 228 اول.11 جون 1996ء دوم.22 فروری 2009 ء 490 | 28 اگست 2006ء
113 34 تاریخ انصار اللہ جلد اول 323 12 اگست 1978 ء مرتبہ حبیب اللہ خان صاحب 35 تاریخ انصار اللہ جلد دوم 496 | 4 نومبر 2006 ء مرتبہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب 36 تاریخ انصار اللہ جلد سوم 1120 | 9 مئی 2010 ء مرتبہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب 37 اشکوں کے چراغ از چوہدری محمد علی صاحب 38 مضامین بشیر جلد اول ( مضامین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) 39 مضامین بشیر جلد دوم ( مضامین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) 40 اصحاب احمد جلد 1 از ملک صلاح الدین صاحب 41 | اصحاب احمد جلد 2 از ملک صلاح الدین صاحب 42 | اصحاب احمد جلد 3 از ملک صلاح الدین صاحب 43 | اصحاب احمد جلد 4 از ملک صلاح الدین صاحب 44 | اصحاب احمد جلد 5 از ملک صلاح الدین صاحب 580 | اول.15 نومبر 2006ء دوم.21 اپریل 2007 ء سوم.4 جنوری 2012 ء 671 4 جنوری 2007 ء 1098 | 25 ستمبر 2011 ء 294 | اول.15 مئی 2005 ء دوم.یکم نومبر 2008 ء 750 اول.یکم اگست 2005 ء دوم 9 ستمبر 2009ء 306 | اول.یکم اگست 2005 ء دوم 6 فروری 2010 ری پرنٹ 346 اول.یکم اگست 2005 ء دوم.6 فروری 2010ء 710 اول.4 دسمبر 2008 ء
45 | اصحاب احمد جلد 6 از ملک صلاح الدین صاحب 46 | اصحاب احمد جلد 7 از ملک صلاح الدین صاحب 47 | اصحاب احمد جلد 8 از ملک صلاح الدین صاحب 48 اصحاب احمد جلد 9 از ملک صلاح الدین صاحب 49 | اصحاب احمد جلد 10 از ملک صلاح الدین صاحب 50 اصحاب احمد جلد 11 از ملک صلاح الدین صاحب 51 313 اصحاب صدق وصفا از نصر اللہ خان صاحب ناصر 52 | حیات ناصر از شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب 53 | سفر یورپ (ڈائری حضرت عبدالرحمن صاحب قادیانی) 54 | خلافت احمدیہ از مجیب الرحمن ایڈوکیٹ 55 | اسوہ انسان کامل از حافظ مظفر احمد صاحب 114 158 اول.15 مئی 2005 ء دوم.6 فروری 2010ء 238 اول.30 جون 2006 ء دوم.6فروری 2007ء 186 دوم 2 جولائی 2007ء 472 16 فروری 2010ء 563 | 17 ستمبر 2009ء 201417 396 356 | اول 13 مئی 2007 ء دوم - 9 دسمبر 2012 ء 2008 16 104 528 | 20 دسمبر 2008ء 187 | 22 نومبر 2008ء 690 | اول.13 فروری 2011 ء دوم.17 مئی 2014ء
56 واقعات صحیحہ 57 مسیح اور مہدی از حافظ مظفر احمد صاحب 58 منتخب مسنون دعائیں از حافظ مظفر احمد صاحب 59 اہل بیت رسول الله علی از حافظ مظفر احمد صاحب 115 130 6 جولائی 2011 ء 120 | 6 ستمبر 2011ء 40 | اول.2 فروری 2013ء دوم.17 مارچ 2013ء 320 7 جولائی 2013 ء 60 براہین احمدیہ اور مولوی عبدالحق 212 | 25 جون 2013ء از عبدالمالک صاحب 61 از صاحبزاہ مرزا مبارک احمد صاحب 201427 104