Yad-eMahmood

Yad-eMahmood

یادِ محمود ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانیؓ

کسی زمانہ کا منظوم کلام بھی اس زمانہ کی تاریخ سمجھا جاتا ہے۔ وہی بات یا واقعہ جو نثر میں طول چاہتا ہے نظم میں چند اشعار میں ادا کردیا جاتا ہے۔ ملت کے فدائی حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کی یاد میں جماعت احباب و خواتین نے اشعار کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کیا جن میں آپ ؓ کے اوصاف، آپ کے جماعت پر احسانات، آپ کے متعلق پیش گوئیاں، آپ کے کارہائے نمایاں اور آپ کی سیرت کا تذکرہ کیا ہے۔ جنہوں نے آپ کو دیکھا، آپ کی صحبت نصیب ہوئی، آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا ، آپ کے احسانات سے حصہ پایا، ان کے دل سے آپ کی حسین یادیں محو نہ ہوسکیں۔ الغرض مختلف جماعتی اخبارات و رسائل سے منظوم کلام جمع کرکے اس  کوکتاب کی صورت میں شائع کرکے ایک ایسا قیمتی مجموعہ تیار کردیا گیا ہے جو نظم میں ہونے کی وجہ سے جلد یادہوجانے والا، اورذہن پر ایک نہ مٹنے والا اثر چھوڑتا ہے۔ نیز جس سے آپ کی سیرت کے ہر پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور آپ کے حالات زندگی اور پاکیزہ سیرت کے حسین نقوش سے واقفیت پیدا کی جاسکتی ہے۔ احمدی مردو خواتین نیز غیر از جماعت  احباب کے اردو، عربی  اور فارسی کلام پر مشتمل یہ مجموعہ ٹائپ شدہ ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1965ء میں سامنے آیا تھا، اب تک اس کو متعدد دفعہ شائع کیا جاچکاہے۔


Book Content

Page 1

یاد محمود مرتبه حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ مدظلہ العالی

Page 2

ياد محمود ایڈیشن اول ایڈیشن دوم ایڈیشن سوم $1965 $2013

Page 3

= نمبر شمار حمد پیش لفظ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 مندرجات نام کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک شعر حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ دام ظلها مکرم ثاقب صاحب زیروی مکرم شیخ روشن دین صاحب تنویر مکرم نسیم سیفی صاحب مکرم عبدالرشید صاحب تبسم مکرم قاضی ظہور الدین صاحب المل مکرم میر اللہ بخش صاحب تسنیم لا مکرم عبدالمنان صاحب ناہید مکرم سعید احمد صاحب اعجاز حمد مکرم مبشر خورشید صاحب مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ مکرم شبیر احمد صاحب مکرم دامن اباسینی صاحب مکرم اختر صاحب گوبند پوری صفحہ 2.1 4.3 5 7.6 8 تا10 12.11 18013 19 23021 32024 38033 40.39 42.41 52043 56053 58.57 59

Page 4

60 62.61 63 66064 68.67 70.69 72.71 75.73 76 78.77 79 80 82.81 84.83 85 87.86 88 89 90 91 92 93 18 مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر 19 مکرم شیخ سلیم الدین صاحب سیف 20 د مکرم صاحبزاہ مرزا خلیل احمد صاحب 21 یا مکرم چوہدری عبد السلام صاحب اختر 22 مکرم نذرحسین صاحب لالیاں ( ایک غیر احمدی) 23 24 25 ی مکرم مبارک احمد صاحب عابد مکرم پرویز پروازی صاحب مکرم ڈاکٹر محمودالحسن صاحب ایمن آبادی 26 د مکرم اکبر حمیدی صاحب 27 مکرم آفتاب احمد صاحب بسمل 28 مکرم حکیم سید عبدالہادی صاحب بہاری 29 مکرم فضل الرحمن صاحب بی اے بی ٹی 30 مکرم میجر عبدالحمید صاحب 31 مکرمہ شاکرہ بیگم صاحبہ 32 ا مکرم پروفیسر نصیر احمد خان صاحب 33 مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ابد 34 35 مکرم قاصد ظریف صاحب مکرمہ رضیه در دصاحبه 36 مکرم شاہد اعظمی صاحب گوجرہ 37 مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب 38 مکرم حکیم محمد صدیق صاحب 39 ا مکر مہ امۃ القدیر ارشاد صاحبہ

Page 5

96.95.94 97 102098 103 104 105 106 107 108 1110109 112 114.113 115 116 117 119.118 120 1230121 124 125 127.126 V 40 مکرم عبدالحمید صاحب شوق حمد مکرم را شد چوہدری صاحب 41 42 مد مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری 43 مکرم سرفراز علی صاحب علی 44 مکرمه منصوره تحسین صاحبه 45 مکرم سید عباس علی شاہ صاحب 46 مکرم مبشر طاہر صاحب 47 مکرم شرقی بن شائق صاحب ( غیر احمدی) 48 49 50 51 ا مکر مہ صالحہ صولت صاحبه ا مکرم محمد ابراہیم صاحب شاد مکرم مرزا محمود احمد صاحب کبیر والا مکرمه سیده منیره بخاری صاحبہ 52 مکرم سید جگر کاظمی صاحب 53 د مکرم چوہدری علی محمد صاحب بی اے بی ٹی 54 55 56 حمد مکرم امین اللہ خان صاحب سالک مکرمہ مومنہ فرحت صاحبه مکرمہ طیبہ صدیقہ صاحبہ 57 مکرم عزیز الرحمن صاحب منگلا ( عربی نظم) 58 مکرمہ صادقہ قمر صاحبہ 59 مکرم فضل الرحمن صاحب بسمل قطعات تاریخ وفات 60

Page 6

1 بسم الله الرحمن الرحيم اعوذ بالله من الشيطن الرجيم ونحمده ونصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود هو الناصر خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ پیش لفظ کسی زمانہ کا منظوم کلام بھی اس زمانہ کی تاریخ سمجھا جاتا ہے.وہی بات یا واقعہ جو نثر میں طول چاہتا ہے نظم میں چند اشعار میں ادا کر دیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد آپ کی یاد میں احباب جماعت نے جن میں خواتین بھی شامل ہیں اشعار کے ذریعہ اپنے جذبات کا اظہار کیا جن میں آپ کے اوصاف، آپ کے جماعت پر احسانات، آپ کے متعلق پیشگوئیاں، آپ کے کار ہائے نمایاں اور آپ کی سیرت کا تذکرہ کیا ہے.جنہوں نے آپ کو دیکھا، آپ کی صحبت نصیب ہوئی.آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا.آپ کے احسانات سے حصہ پایا.ان کے دل سے آپ کی حسین یاد محو نہیں ہوسکتی.لیکن نئی نسل کے بچوں جنہیں حضرت مصلح موعود کی لمبی علالت کے باعث آپ سے فیضاب ہونے کا موقع نہیں ملا کے علم کیلئے ضروری ہے کہ ایسا لٹریچر ہو جس میں آپ کی سیرت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا جائے تا وہ ان کو پڑھ کر حضرت مصلح موعودؓ کے حالات زندگی اور آپ کی سیرت کے حسین نقوش سے واقف ہوں.اسی غرض کے پیش نظر میں نے ان تمام نظموں کو جو آپ کی یاد میں کہی گئی ہیں اور مختلف اخباروں اور رسالوں میں شائع ہو چکی ہیں جمع کر کے کتاب کی صورت میں پیش کیا ہے.نظم جلد یاد ہو جاتی ہے.مختصرسی عبارت میں بہت سے مضامین آجاتے ہیں.اور ذہن پر ایک نہ مٹنے والا اثر چھوڑتی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش سے بھی بہت عرصہ قبل اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ ان ان اوصاف کا مالک بیٹا اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا.اس پیشگوئی میں جو ہماری جماعت میں پیشگوئی مصلح موعود کے نام سے مشہور ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش سے وفات تک کا نقشہ کھینچا ہے.دنیا نے دیکھا اور تاریخ نے گواہی دی کہ آپ کی زندگی کا محور یہی پیشگوئی رہی.اور دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا قادر ہے اور ہر ایک

Page 7

2 قوت کا مالک ہے اور وہ ان کیلئے جو ا سکے ہوتے ہیں بڑے بڑے عجائبات دکھلاتا ہے.بیشک آج وہ مسیحا نفس ہم میں موجود نہیں لیکن جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت اور رحمت کا نشان کہا تھا.جسے فضل واحسان کی کلید قرار دیا تھا اور جس سے قوموں نے برکت اور اسیروں نے رہائی پائی اس کے احسانات اپنوں اور غیروں پر اس قدر ہیں کہ جب تک زمین و آسمان قائم ہیں ان کی یاد بھی دلوں میں زندہ رہے گی.اس مجموعہ میں تبر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعائیہ اشعار کو بھی شامل کر لیا گیا.جن کا ایک ایک لفظ اپنے اپنے وقت پر پوری شان کے ساتھ پورا ہوا اور جس نے ثابت کر دیا کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو اپنے پیاروں کی دعاؤں کوسنتا اور شرف قبولیت عطافرماتا ہے.ہزاروں رحمتیں اور سلام ہوں محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روح پر کہ جس کا صرف نام ہی محمود نہ تھا بلکہ اس کی زندگی کا ہر دن محمود تھا اور جس کی یاد بھی ہمارے لئے محمود ہے جو ہمارے دلوں کو تو سوگوار بنا گیا لیکن ایک مٹھی بھر جماعت کو اپنی قیادت میں ترقی دیتا ہوا ایک ایسے محفوظ اور پر امن مقام تک پہنچا گیا جس کے سایہ تلے قو میں بسیرا کریں گی اور ہمیشہ اپنی دعاؤں میں اس فدائی ملت کو بھی یا درکھیں گی.اخبار الفضل اور رسالوں میں سے تمام نظموں کو ڈھونڈ نے اور نقل کرنے میں عزیزہ امتہ المالک ایم اے سلمہا اللہ تعالیٰ نے میرا ہاتھ بٹایا.میں ان کی شکر گزار ہوں.اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے اور اسلام کی خدمت کی بیش از پیش توفیق عطا فرمائے.آمین یاد محمود کا پہلا ایڈیشن احباب جماعت نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور جلسہ سالانہ کے اختتام کے ساتھ ہی ساری شائع شدہ کتب ختم ہوگئی.بہنوں اور بھائیوں کے اصرار پر دوسرا ایڈیشن شعبہ اشاعت لجنہ اماءاللہ مرکز یہ شائع کروا رہا ہے.بہت سی نظموں میں غلطیاں رہ گئی تھیں.کچھ غلطیاں باوجود احتیاط کے کتابت کی ہوگئی تھیں.تمام نظموں پر نظر ثانی مکرمی محترمی جناب نسیم سیفی صاحب نے کی ہے.اللہ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.کتاب کی ترتیب میں بھی تبدیلی کی گئی ہے ایک ایک شاعر کی سب نظمیں اکٹھی کر دی گئی ہیں.خدا کرے کہ دوسرا ایڈیشن بھی حسب سابق مقبولیت حاصل کرے.خاکسار

Page 8

3 کلام سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ تین جو پسر ہیں تجھ سے ہی یہ ثمر ہیں یہ میرے بارو بر ہیں تیرے غلام در ہیں تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں روز کر مبارک سبحان من سیرانی کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت روز کر مبارک سبحان من میرانی اے میرے بندہ پرور ! کر ان کو نیک اختر رتبہ میں ہوں یہ برتر اور بخش تاج وافسر تو ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہے ہمسر روز کر مبارک سبحان من برانی شیطاں سے دور اپنے حضور رکھیو رکھیو اپنے جاں پر ز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو روز کر مبارک سبحان من بیرانی میری دعائیں ساری کریو قبول باری میں جاؤں تیرے واری کر تو مدد ہماری ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری روز کر مبارک سبحان من بیرانی لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا روز کر مبارک سبحان من بیرانی

Page 9

+ اس کے ہیں دو برادر ان کو بھی رکھیو خوشتر تیرا بشیر احمد تیرا شریف اصغر کر فضل سب پہ یکسر رحمت سے کر معطر روز کر مبارک سبحان من برانی یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر دوران سے یارب دنیا کے سارے پھندے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے روز کر مبارک سبحان من میرانی اے میرے دل کے پیارےاے مہرباں ہمارے کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے فضل کر کہ ہوویں نیکو گہر سارے روز کر مبارک سبحان من برانی اے میرے دل کے جانی اے شاہ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے بخت جاودانی اور فیض آسمانی روز کر مبارک سبحان من سیرانی ثانی سن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری اپنی پسنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری روز کر مبارک سبحان من میرانی اے واحد یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا روز کر مبارک سبحان من برانی (در مشین)

Page 10

LO بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسجان الذى اختری الا عادی ( کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے ( کلام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ )

Page 11

حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا کلام میں سید نا حضرت بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفہ انتاج الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کے خیال میں کھوئی ہوئی تھی.گزری ہوئی یادوں نے تازہ ہو کر تصور میں آکر مجھے زمانہ ماضی میں پہنچا دیا تھا.دل در دفراق سے بے چین و بے قرار ہو رہا تھا کہ خود بخود بغیر کسی شعر کہنے کے ارادے کے حسب ذیل مصرعہ قلب میں گزرا.اس پر چند اشعار ہو گئے.وو مبارک آمدن رفتن مبارک بشارت دی مسیحا کو خدا نے تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی گی دلوں کو شادمانی ملے گا ایک فرزند گرامی عطا ہو بصد اکرام شاه رو جهانی وہ آیا ساتھ لے کر «فضل» آیا مٹا کر اپنی ہستی راہ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی زندگی با کامرانی یہی مد نظر تھا ایک مقصد P برائے دین احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شامل حال گزاری ہمیں داغ جدائی آج دے کر ہوا حاضر حضور واصل جو اس نے ”نور“ بھیجا تھا جہاں میں ہوا وہ جس کے قلب وروح و تن مبارک مبارک آمدن رفتن مبارک : یار جانی رت جاودانی

Page 12

از حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مدظلہ العالی عرش پر نور سے لکھا گیا نام محمود میرے محمود نے پایا ہے مقام محمود انے ان کی خدمت میں خدا نے اسے پہنچایا ہے جن کو ہر وقت پہنچتا تھا سلام محمود سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام آنحضرت ﷺ کے عاشق و غلام

Page 13

خبر وصال آخری دیدار جنازه کون کہہ رہا تھا وہ محبوب چل بسا جس کی نگاہ لطف کا لبریز جام زیست موت اس کی بزم ناز میں کیونکر پہنچ گئی جس کا وجود باعث صد احترام زیست در گھلے کے پٹ کھلے ہوئے ہیں دیار حبیب پیش عشق کو وہ غم افروز شام ہے آواز دے رہا ہوں رقیبوں کو ہر طرف اے دلفگارو دورو دیدار عام ہے ہونٹوں آه سرد جبینوں پہ غم کی دھول آنکھوں میں سیل اشک چھپائے ہوئے چلا دن ڈھل گیا تو درد نصیبوں کا قافلہ آفتاب اٹھائے ہوئے چلا کاندھوں انتظار تاریخ پھر کھڑی ہے دوراہے وقت کے بیتاب دل کو کسی محسن کا انتظار ہے جو اس کے ہر ورق میں سموئے نظر کا نور اور تشنہ جدولوں میں بھرے روح کا نکھار ( ثاقب زیروی)

Page 14

0 تو نے کی مشعل احساس فروزاں پیارے دل کھلا کیسے کھلا دے ترا احساں پیارے روح پژمردہ کو ایماں کی جلائیں بخشیں اور انوار سے دھو ڈالے دل و جاں پیارے ولولوں نے ترے ڈالی مہ وانجم پہ کمند تو نے کی سطوتِ اسلام درخشاں پیارے اب وہی دین محمد کی قسم کھاتے ہیں تھے جو مشہور کبھی دشمن ایماں پیارے پہلے بخشا میرے بہکے ہوئے نغموں کو گداز پھر مری روح پہ کی درد کی افشاں پیارے مجھ کو بھولے گی کہاں وہ تری بھر پور نگاہ جگمگا اٹھتا تھا جب فکر کا ایواں پیارے اب نگاہیں تجھے ڈھونڈیں بھی تو کس جا پائیں جانے کب پائے سکوں پھر دل ویراں پیارے کون افلاک پہ لے جائے یہ روداد الم تیرا متوالا ابھی تک ہے پریشاں پیارے بھٹکتی ہوئی ویرانوں میں روح پھرتی دل ہے نیرنگی افلاک ہے حیراں پیارے شکر ایزد تیری آغوش کا پالا آیا اپنے دامن میں لئے دولت عرفاں پیارے فکر میں جس کی سرایت تیری تخییل کی ضو گفتگو میں بھی وہی حسن نمایاں پیارے جس کی ہر ایک ادا نافلہ لک کی دلیل جس کی ہر ایک نوا درد کا عنواں پیارے کر اس کو لگی دل کی بجھا لیتا ہوں آنے والے پہ نہ کیوں جان ہو قرباں پیارے تیری اس شمع کا پروانہ صفت ہوگا طواف تیرے ثاقب کا ہے اب تجھ سے یہ پیماں پیارے ( ثاقب زیروی)

Page 15

10 10 22 نومبر 1965ء کی رات کو خواب میں اپنے نمکدہ میں حضرت اصلح الموعود کے ورود مسعود کے جمال افروز نظارے سے متأثر ہوکر آیا یہ کون خوش خرام مثل نسیم مشکبار غمکده حیات میں بس گئی نزہت بہار قصر تصورات میں دوڑ گئیں تجلیاں دیده و دل چمک اٹھے دیکھ رہا ہوں حسن یار مائل التفات ہے کون ادائے خاص سے ورد ہوا سکون زا.روح کو مل گیا قرار غرق جمال ہوگئی ساری فضائے کائنات اے میرے ذوقِ انتظار.کون ہے تجھ سا کامگار قلب ونظر کے روبرو آج وہی ہیں ہو بہو شکل وہ ماہتاب سی اور وہی چشم سحر کار آئینه جمال صدق.مظہر حق و العلاء جور و جفا کے دام میں آئے ہوؤں کا رستگار دین ہدی کے درد مند اور وہ پسر ارجمند ہارے ہوؤں کا دستگیر روندے ہوؤں کا غمگسار کس کی مجال دیکھ پائے میکی نگہ سے اس طرف جیتے جی اس کے کر سکے دین محمدی پہ وار کس نے چرا لیا مگر دل کا سکون سرمدی نا گہاں رک گئی ہے کیوں نکہت ونور کی پھوار ہاے وہ منظر حسیں.آہ وہ جلوہ ءِ جمال ظلمت پاس بڑھ چلی.ٹوٹ گئے نظر کے تار آنکھ جو کھل گئی تو تھا لب مصرعه حزین آہ وہ آنکھ پھیر دی جس نے عنان روزگار (ثاقب زیروی) چمنستان دین احمد میں کاش کچھ پھول اور بهل سکتے میری عمر روال کے بدلے میں تجھ کچھ سال اور مل سکتے ( ثاقب زیروی)

Page 16

11 زندگی سکتہ میں ہے جان جہاں تیرے بغیر سرد ہے یہ شعلہء نبض تپاں تیرے بغیر ہو گیا ہے منجمد تن میں مرے دوران خوں تھم گئی ہے گردش چرخ دواں تیرے بغیر مُوْتُوا قَبْلَ أَن تُمُوتُوا کا ہوا ہے راز فاش آمدو رفت نفس بھی ہے گراں تیرے بغیر مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے جو ہے کچھ بھی نہیں ہے یہ ہستی محض ہستی کا نشاں تیرے بغیر اے مرے مہر درخشاں ہوچکا جب تو غروب ہو بھی تو تنویر باقی ہے کہاں تیرے بغیر وشن دین تنویر )

Page 17

12 تضرعات مسیحا کا ہے ثمر کہ نہیں؟ ملا ہے ومصلح موعود سا پسر کہ نہیں؟ پڑھو سوانح عمری کو اور بتلاؤ اسی کی ذات میں سچی ہوئی خبر کہ نہیں؟ اک ارمغان مسیح الزمان تھا محمود خدائے پاک کا زندہ نشان تھا محمود غلام صاحب لولاک تھا وہ سرتا پا نئی زمین نیا آسمان تھا محمود سُنو یہ محبت کی بات ہے لوگو آب حیات ہے لوگو اٹھو اٹھو کہ صدائے ورا ہوئی ہے بلند چلو چلو کہ راہ نجات ہے لوگو (تنویر)

Page 18

13 که قلب و نظر کے ضبط کا پھر امتحاں ہے آج مثل موجۂ آب رواں ہے آج بوجھل ہوئے کچھ ایسے رہ عشق میں قدم منزل تو کیا تصویر منزل گراں ہے رک سی گئی ہیں وقت کی نبضیں مرے لئے خوابیدگی میں وہ نگہ راز داں ہے آج سود آج و زیان مرگ وحیات آج کچھ نہیں کس کو دماغ بیش و کم این و آں ہے آج جو تھی وصال حضرت احمد کیفیت انبوہ مومنیں کا وہی تو سماں ہے آج ہر لمحہ زندگی کا فدائے رسول تھا ہر ایک قول و فعل خدا کو قبول تھا ہر ہر قدم نصرت رب جلیل تھی ہر آن تجھ رحمت حق کا نزول تھا تیری ہر ایک بات تھی معیار راستی قرآن کا اُصول ہی تیرا اُصول تھا

Page 19

14 دی تو نے دین مصطفوی کو حیات نو حق تجھ سے پُر نشاط تھا باطل ملول تھا جو تیرے ساتھ تھا بنا فخر کارواں وہ جو تجھ سے کٹ گیا وہی رستے کی ڈھول تھا تو میر کارواں ہی نہیں کارواں تھا تو ہر مقصدِ حیات کا زندہ نشاں تھا تو ہر تعبیر زندگی لمحہ تیری زیست کا 6 اپنے ہر ایک کام میں یوں کامراں تھا تو تھی تیرے دم سے رونق بستان احمدی کی اک جہاں سچ تو ہے الله روح رواں تھا تو رے تیرا خدمت دین متیں کا شوق گویا که مثل تندی سیل رواں تھا تو تیری ہر ایک بات تھی لطف و کرم کی بات دنیا کے مہربانوں کا اک مہرباں تھا تو اے جانے والے تجھ درود و لحظه تیری روح کا اونچا مقام سلام ہو ہو (نسیم سیفی)

Page 20

15 باطل کے دھندلکوں اک لمحہ مسلط ہر وہ جلوہ صد رشک قمر یاد رہے گا ذروں کو کیا انجم افلاک کس کو نہ ترا حسن یاد رہے گا تھی تیری مسیحا نفسی دہر میں مشہور گا اب تیری دعاؤں کا اثر یاد رہے مجلس عرفاں میں تری نکتہ نوازی وہ ہر بات تھی ناسفتہ گہر ، یاد رہے گا بھولے گی نہ خطبوں میں تری سحر نوائی گا تقریر کا وہ رنگ دگر یاد رہے شمشیر برہنہ تھا قلم کفر کے سر پر اسلام کے حق میں تھا سیر 2 سپر یاد رہے گا بیدار کیا خدمت اسلام کا جذبہ کو تو نے غم دین محمد کی لگا دی دل کو دیا جرات بیباک کا تحفہ ہر آنکھ میں امید کی اک جوت لگا دی ہر

Page 21

16 معترض آیه قرآن قرآں کی اُسے تو نے جو تفسیر سنا دی ہر ملک کو تبشیر کا میدان بنایا توحید کی خطہ میں کی تو نے منادی بات ہر تری حامل افضال ہر لحظہ تڑپتی ہوئی روحوں جدائی ہمیں یوں تیری جدائی جانے نہ تجھے دیں الہی کو غذا منظور مقدور نہیں نہیں وی ہے ملل دین اسلام کی راه ہموار کر زندگی کی نئی دل مومن کو بھر امنگوں گیا تو ہے گیا تو ہے تیری ہر بات یاد آئے گی! روح میں یوں آنکھ ڈھونڈے گی کون ول کچھ تو جانے کدھر ہی دل میں نیم اس دل کو کر گیا ہے تو گی تو اتر گیا ہے اور دل تو (نسیم سیفی) (نسیم سیفی)

Page 22

17 نشان رحمت باری تھے مصلح موعود خدا کے دین پہ واری تھے مصلح موعود ہر ایک رنگ میں ادیان باطلہ کیلئے بس ایک ضربت کاری تھے مصلح موعود نکھار دی ہے گلستان احمدی کی فضا چمن میں بادِ بہاری تھے مصلح موعود دلوں میں اپنے محتبوں کے جاگزیں لیکن عدو کے ذہن یہ طاری تھے مصلح موعود مسیح و مهدی دوراں کے حسن کا نقشہ نزول رحمت باری تھے مصلح موعود زمیں جیسے اتر آئے صاحب افلاک سمجھ سکا ہے یہی کچھ نسیم کا ادراک (نسیم سیفی)

Page 23

18 مزار مبارک پر یہاں رحمت ایزدی کی بہاروں کا جو بن نکھرتا چلا جارہا ہے دل ناصبور اضطراب محبت میں چشم تصور پر اترا رہا ہے نظر اس پہ رکھتے ہیں شمس و قمر بھی فرشتوں کا پہرہ ہے اس خاکداں پر تقدیر اس خطہ ارض کی آج لاریب ہفت آسماں پر بکتی ہے فضاؤں ہے طاری ہے روح لطافت تقدس کا ماحول مہکا ہوا مری آرزوئیں ہیں جنت بداماں مرا جوش احساس بہکا ہوا ہے ترے لمحے لمحے کی یاد آرہی ہے تجھے آج بھی جیسے میں دیکھتا ہوں اگر ناگوار طبیعت نہ ہو تو بصد شوق اک بات کہنے لگا ہوں جلائی تھی جو تو نے شمع محبت مرے دل میں وہ آج خو دے رہی ہے تپش جذ به خدمت دین احمد ہر اک سمت بڑھ بڑھ کے کو دے رہی ہے تری بات بات آج اک مشعل راہ بن کر دکھاتی ہے منزل کا جادہ ترے علم کے بحر مواج سے شرق اور غرب کرتے ہیں آج استفادہ تری اک نظر نے جو دی تھی جلا ہر پرستار وحدت کے ذوق نظر کو اسی سے ملی زندگی اہل حق کو اسی نے جلایا ہے باطل کے گھر کو ترے ہر فدائی نے دین محمد یہ دل اور جاں یوں نچھاور کئے ہیں کہ بغض وعداوت کے تھے وار جتنے وہ سب اپنے دل اور جگر پر لئے ہیں ہوں نسیم اپنے پروردگارِ دو عالم سے اس لمحہ میں اک دعا مانگتا ازل سے چمکتی ہوئی بجلیوں کی فقط اک کرن کی ضیاء مانگتا ہوں (نسیم سیفی)

Page 24

19 میں سمجھا تھا تمہاری زندگی فانی نہیں ہوگی اجل سے تاقیامت ایسی نادانی نہیں ہوگی اگر سارا جہاں مرتا ہے تیرے بعد مرجائے کسی کی موت پر مجھ کو پریشانی نہیں ہوگی ترا ہر سانس اک موج بہار علم و عرفاں تھا وہ موج اب ضامن گلہائے عرفانی نہیں ہوگی کبھی مغرب کو للکارا کبھی مشرق کو للکارا نبردِ کفر و دیں میں تجھ سی جولانی نہیں ہوگی گدایان محمد کو کیا یوں تو نے صف آرا کہ اب ان کے مقابل شان سلطانی نہیں ہوگی تری تربت اے سالار! آئی ہیں تری فوجیں رجز خوانی کریں گی، مرثیہ خوانی نہیں ہوگی تجھے ہر دور کے تاریخ داں ڈھونڈیں گے دنیا میں تری وہ شخصیت اُبھرے گی جو فانی نہیں ہو گی جدھر نکلیں گے دیوانے تمہارے نقش پا ہوں گے کوئی وادی جنوں خوانوں میں انجانی نہیں ہوگی

Page 25

20 20 جنوں کے ہاتھ سے آئے گی پھر شامت گریباں کی مگر اس طور سے اب چاک دامانی نہیں ہوگی کئی خورشید ابھریں گے ابھی آفاق مشرق پر مگر ان میں تیرے ماتھے کی تابانی نہیں ہوگی بہت بکھریں گے گیسو خوبروؤں کی جبینوں پر تمہاری زلف سی ان میں پریشانی نہیں ہوگی اسی محفل سے اٹھیں گے کئی آتش نوا، لیکن کسی کے نطق میں یہ شعلہ سامانی نہیں ہوگی تری آه شرر افشاں ستارے کر گئی پیدا ب غم اب اندھیروں کی فراوانی نہیں ہوگی شب فصیل شہر تک تو کھینچ لایا مہر تاباں کو گلی کوچوں میں ہے جو رات طولانی نہیں ہوگی بلا تخصیص کے بٹتی تھی تیرے دور میں ساقی کہیں رندوں کی قسمت میں یہ ارزانی نہیں ہوگی ہے نکل جاؤ تبسم ! جانب صحرا دل وحشی کی اب تم نگہبانی نہیں ہوگی (عبدالرشید تقیسم ایم اے)

Page 26

21 21 مصلح ربانی امت وہ رخصت ہوگئے رہنماؤ ہادی ملت وہ رخصت ہو گئے وہ جو تھے اللہ کی رحمت وہ رخصت ہو گئے وہ جو تھے اللہ کی قدرت وہ رخصت ہو گئے چار سو جس نے دیا اسلام کو اتنا عروج جس کی ہے اکناف میں شہرت وہ رخصت ہو گئے جو ثریا سے ہمیں ایمان لا کر دے گئے دعوت وتبلیغ کی حجت وہ رخصت ہو گئے کارنامے مشرق و مغرب میں ہیں ان کے عیاں کچھ نہیں تفصیل کی حاجت وہ رخصت ہو گئے مرحبا صد مرحبا ہے اس وصال پاک پر مل گئی دنیا ہی میں جنت وہ رخصت ہو گئے ( قاضی محمد ظہور الدین اکمل )

Page 27

22 22 میں بے نصیب رہ گیا پیچھے وہ چل بسے فرقت کے صدمے سہنے کو رونے کو دور سے بپتا پڑی ہے سر پہ یہ کیا وامصیبتا! واحسرتا کہ خاک شده آرزو سے پھر سے چلے نیم، یہ گلشن ہو پُر بہار نغمے ہزار گائے یہ ویرانہ پھر بسے بیمار و ناتواں ہیں سہارا تو دل کو ہے موجود بالشہود ہیں ہم میں وہ خیر سے ناصر تمہارا حافظ و ناصر رہے خدا امیدوار فضل کریم است ہر گئے ( قاضی محمد ظہور الدین اکمل )

Page 28

23 23 چودھویں کا چاند ہے پر چاندنی خالق الانوار نے جب ماند کی قدرت ثانی کا یا رب ہو نزول سب جماعت کی دعائیں کر قبول ہو چکا ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الأَوَّلِين اور اب ہے ثُلَّةٌ مِّنَ الاخرين بے امامت کے تو رہ سکتے نہیں صدمہء فرقت تو سکتے نہیں حامی و ناصر خدائے پاک ہو جلوه نور نور شد لولاک ہو پڑھتے ہیں اِنّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْن تائبون و آئبون حامدون دین محمد کی طلب قدرت ثانی کا ثالث منتخب ( قاضی محمد ظہور الدین اکمل )

Page 29

24 24 وہ جو تھا روح الامیں کا ہم زباں جاتا رہا آہ بزم قدسیاں کا رازداں جاتا رہا حامی دین متیں اٹھ گیا بزمِ جہاں سے امت خیر رسل کا پاسباں جاتا رہا طائر بام حرم عرصہ پھر اسے ہوا خاموش تھا کر دے زبان نغمہ خواں جاتا رہا کردیا جس نے کلیساؤں کو توحید آشنا آہ وہ شیریں سخن، شیریں زباں جاتا رہا دیر کو وحدت کے نغموں سے شناسا کردیا بتکدوں کو دے کے گلبانگ اذاں جاتا رہا رونق بستان احمد چھین لی ہے موت نے باغ ہادی بیگ کا سرو رواں جاتا رہا لٹ گئی ابنائے فارس کی متاع بے بہا گنج شائیگاں گوہر یکتائے گنج شائیگاں جاتا رہا جو حصارِ عافیت تھا درد مندوں کے لئے مرجع عالم تھا جس کا آستاں جاتا رہا منتظر رہتی تھی جس کی دید کی ہر ایک آنکھ آه وہ وہ محبوب ہر پیر و جواں جاتا رہا علوم ظاہری و باطنی سے پُر تھا جو علم و عرفاں کا وہ بحر بیکراں جاتا رہا

Page 30

25 25 مدتوں اپنے لہو سے جس نے سینچا تھا اسے گلشن اسلام کا وہ باغباں جاتا رہا کھول کر عقدے دکھائے جس نے سب تفسیر کے آہ وہ قرآن خواں قرآن داں جاتا رہا آه جس نے کر دیں زندگی کی راحتیں دیں پر نثار ہو کے آخر کامگار و کامران جاتا رہا مہدی موعود کا لخت جگر فضل عمر اور نور نور دیده نصرت جہاں جاتا رہا آج سونی ہو گئی ہے محفل صدق و صفا تھا جو بزم زہد کی روح رواں جاتا رہا کون اب منزل کی جانب لے کے نکلے گا ہمیں چھوڑ کر حیرت میں میر کارواں جاتا رہا مصدر انوار حق جس کا ضمیر پاک تھا منبع عرفاں تھا جس کا دل کہاں جاتا رہا مدتوں زینت رہا جو مجلس عرفان کی رونق ربوه نگار قادیاں جاتا رہا لوٹ لی ہے موت نے اپنی متاع زندگی دل سے اب اندیشہ سود و زیاں جاتا رہا موت ہر انساں پہ آتی ہے مگر افسوس ہے لے کے دل میں حسرت دارالاماں جاتا رہا

Page 31

26 کی درد آه چاره گری کی التجا کس سے کریں جب چارہ گر درد نہاں جاتا رہا زخم کاری اک جدائی کا دلوں کو بخش کر چھوڑ کر احباب کو محو فغاں جاتا رہا روح حق کی برکتوں سے دے کے بہتوں کو شفا وہ دم عیسی و یار داستاں جاتا رہا کے ظلمت کدوں کو جس نے بخشی روشنی وہ رخشاں لٹا کر کہکشاں جاتا رہا آسمانی نقطہء نفسی کی جانب اٹھ گیا طائر سدره نشیں سوئے جناں جاتا رہا رستگاری کا تھا باعث جو اسیروں کے لئے بیکسوں کا دستگیر و پاسباں جاتا رہا جاتا رہا پاک لڑکا نام تھا جس کا عنموائیل بھی مهدی موعود کا وہ میہماں وہ مظفر جس خود اللہ نے بھیجا سلام قدرت ورحمت کا، قربت کا نشاں جاتا رہا پھونک کر سینوں میں اک نشوونما کی تازگی دے کے ہر دل کو امید نوجواں جاتا رہا کون کر سکتا اندازہ ہمارے کرب کا ہے جن کی بزم زیست کا روح رواں جاتا رہا

Page 32

27 کی عطا جس نے جوانی ازسر نو دین کو جس نے بخشی ناتوانوں کو تواں جاتا رہا جس کو اپنی روح سے حق نے مشرف تھا کیا آسماں سے آکے سوئے آسماں جاتا رہا پا کے شہرت وہ کناروں تک زمین کے چل دیا مظهر حق و علا کا رازداں جاتا رہا کتنا سادہ ہے بشر کتنی غلط امید ہے جس کے جانے کا نہ تھا وہم وگماں جاتا رہا چاره گری شیوہ تھا جس ہمدرد کا درد کی چارہ دوستوں کو دے کے دردِ جاوداں جاتا رہا اے ہماری روح کی تسکیں کہاں پنہاں ہے تو اے ہمارے دل کی ٹھنڈک تو کہاں جاتا رہا کیا محبت کا صلہ اس کے سوا کچھ بھی نہیں ے کے ہم کو داغ دل اشک رواں جاتا رہا دیکھ کر جن کو مصیبت میں تڑپ جاتا تھا تو سے اب کیوں ان کو کر کے نیم جاں جاتا رہا تو ہنساتا تھا جنہیں وہ آج روتے ہیں تجھے روٹھ کر کیوں ہم سے اے جانِ جہاں جاتا رہا آج اپنے دردِ پنہاں کا گلہ کس سے کریں آر ہی جب سننے والا مہرباں جاتا رہا ستم گر موت تجھ کو موت آجاتی کہیں آه تو اللہ کے پیاروں بھی ملتی نہیں

Page 33

80 28 جس سے کرسکتے تھے شکوہ ہم ستمگر موت کا چل گیا ہے آہ اب اس پر بھی چکر موت کا کیا ستم ہے موت کے خالق کے جو محبوب ہیں ان کے سینہ میں بھی گھس جاتا ہے خنجر موت کا اس کی چیرہ دستیوں کا کوئی شنوا ہی نہیں کیا حق و انصاف سے بالا ہے ہو کے رہ جاتا آخر لشکر موت کا بے بسی میں سرنگوں ہے سایه گستر جس پہ ہو جاتا ہے شه حقیقت میں ہر انسان دست آموز فنا زندگی پاتا ہے دروازہ گزر کر موت کا سر جھکاتا ہے اجل کے سامنے ہر ناتواں ہو کے رہتا ہے شکار آخر تو نگر موت کا پر موت کا موت کے خطرے سے بے پروا ہیں مردانِ خدا آپ وہ کرتے ہیں استقبال بڑھ کر موت کا وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا سے جو ہیں آشنا غالب آسکتا نہیں صیاد ان پر موت کا بے ثباتی اپنی گھل جاتی ہے ہر انسان پر جب رگِ جاں میں اتر جاتا میں اتر جاتا ہے نشتر موت کا راکھ ہو جاتی ہے جل کر کائنات آرزو جب درونِ دل چمک اٹھتا ہے اخگر موت کا فائدہ کچھ بھی نہیں ہے نالہ و فریاد سے مداوا ہی نہیں اے دیدہ تر موت کا موت پر اپنے عزیزوں کی عبث روتے ہیں ہم کتنے ناداں ہیں جو خوننابہ فشاں ہوتے ہیں ہم ( میر اللہ بخش تسنیم )

Page 34

29 29 مغموم ہے ہر جان تو ہر قلب تپاں ہے روتی ہوئی آنکھوں میں لہو دل کا عیاں ہے ناپید ہوئی بزم سے یوں روح طرب کی زندہ ہیں جو آج ان یہ بھی مردوں کا گماں وہ ہے آنکھ جو رہتی تھی تیری دید سے سیراب اس آنکھ کو آ دیکھ کہ خوں نابہ فشاں ہے تاریک ہوئے غم سے شب و روز ہمارے اے شمع سرا پرده تسکین کہاں ہے ممکن نہیں اشکوں سے کسی رنگ میں اظہار اس درد کے طوفان کا جو دل میں نہاں ہے ملکتے ہیں تو انصار ہیں بے تاب مغموم جدائی میں تیری پیر و جواں ہے خدام ڈر ہے کہیں رفتار ہی رک جائے نہ دل کی ناگاہ پڑا ہے رنج کا وہ بار بار گراں تو زندہ ہے مرنا تیرا ممکن ہی نہیں تھا اب تک دل ناداں کو کچھ ایسا ہی گماں محفل میں تیری کیف میں ڈوبی ہوئی تقریر تازہ ابھی آنکھوں میں وہ پُر لطف سماں ہے محروم تماشا ہوئیں بے تاب نگاہیں اب بعد تیرے کانوں پہ ہر نغمہ گراں ہے ہے

Page 35

30 بارش کی طرح آنکھوں سے آنسو ہیں برستے تصویر بنا ابر کی آہوں کا دھواں ہے دل لاکھوں یہاں تیری جدائی میں ہیں پریاں تو آپ مگر رونق بستان جناں ہے آرام کی دنیا میں لیا تو نے بسیرا چھوڑا ہے جہاں ہم کو وہ صدموں کا جہاں ہے کیا لطف ہے اے جانِ جہاں جینے کا تجھ بن مشہور ہے یہ بات کہ جاں ہے تو جہاں ہے تھا سود و زیاں تجھ ہی سے وابستہ ہمارا اب سود کی پرواہ ہے نہ کچھ خوف زیاں ہے جس شان سے تو سینہ سپر تھا وہ تھی کچھ اور اولاد نری مانا کہ حق کی نگراں ہے قرآن کی تفسیر کے میداں میں ہمیشہ پاکنده درخشنده ترا حسنِ بیاں ہے فیض تری ہمت و کوشش کا یہ سارا آباد صنم خانوں میں گلبانگ اذاں ہے مشرق میں ترے عزم کی قائم قائم ہے تجلی مغرب میں نمایاں تری ہمت کا نشاں ہے ہر دیس میں اُلفت کے دیئے تو نے جلائے ملک میں اک پیار تیرا نور فشاں ہے ہر

Page 36

31 امت تری کوشش سرافراز ہوئی پھر اسلام ترے فیض سے تازہ ہے جواں ہے ہر روک ترے عزم کے طوفاں نے ہٹا دی دریا تری ہمت کا زمانے میں رواں ہے کر دیتی تھیں بے چین تجھے جن کی تکالیف ہر اک وہ فدا کار ترا محو فغاں ہے لیتا رہا دل تو مخالف کا ہر اک تیر پر ہر ظلم کی سہتا رہا سینہ سناں ہے حوصلگی تیری اعدا کو بلند حوصلگی مسلّم احباب پہ جاں دینے کا شیوہ تو عیاں ہے طوفانوں کے منہ موڑ کے دکھلا دیئے تو نے جرات کا بسالت کا تیری زیست نشاں ہے بیوائیں تجھے روتی ہیں روتے ہیں یتامیٰ دے ان کو تسلی میرے آقا تو کہاں ہے؟ کے تو نے تجھے یاد ہے اے موت ہے چھینا ظالم جگر گوشه ماموره چل جائے تیرا تیر کسی پر تجھے کیا غم بے رحم شب و روز کھیچی تیری کماں ہے زینت تھا کبھی تاج خلافت کے لئے جو کم بخت بتا وہ در شہوار کہاں ہے مامور زماں ہے

Page 37

32 ہے روح تیری تابہ ابد زندہ دلوں میں گو جسم ترا خاک کے پردے میں نہاں ہے دنیا میں جو پائندہ ترا کام رہے گا گا مر جائیں گے پر زندہ ترا نام رہے گا ترا میخانه عرفاں آباد رہے گردش میں لگاتار یونہی جام رہے گا چھوڑیں گی نہ ساتھ اپنا دعائیں تری اب بھی اک انعام رہے گا ہر لمحہ نیا ہم پہ بر آئی ہیں بر آئیں گی سب تیری مرادیں ہے دشمن ترا ناکام رہے گا نا کام ہے ہر ملک میں چشمے ہیں ترے فیض کے جاری ہر دیس میں روشن ترا پیغام رہے گا موت آئی ہے ہم کو نہ کبھی آئے گی جب تک تو زندہ دلوں میں سحر و شام رہے جال مست و باده و عرفان رہے گا دل محو تماشائے لب بام رہے تجھ سے تو خود موت بھی شرمندہ کہ اس پر ہے گا تا حشر تیری موت کا الزام رہے گا پر دیس میں زندہ کیا اسلام کو تو نے پہنچا دیا اللہ کے پیغام کو تو نے ( میر اللہ بخش تسنیم )

Page 38

33 33 میرے محبوب میں نے دیکھا وہ نظارہ کہ جس کی تاب سسکیوں، کا ہجوم آہوں، آنسوؤں کیا بتاؤں کہ دل کیا گزری اے کہ عزم آفریں تھی ذات تری Jay 3 √ 33 GIGG شیریں تھی بات بات تری سعی پیہم ناشناس رات نتری مشقت خاتم دین و تھے تھی سکوں حسن سلسبيل ساز ދ محمود بھر تو نے حمن تیری بستی جڑے ނ کوثر پھوٹ پڑے الهام زباں تیری حسن تاثیر تھا بیاں تیرا رابطه فرش وعرش میں دیکھا واسطه ایک درمیاں تیرا ނ بار بار سنے نے خطبات والتنشين تیرے مجبور دور دل ہمیشہ رہے قریں دور سہی تیرے

Page 39

34 آج کیا ہے کہ تیرے تیرے دیوانے تیری بستی میں بھی میں بھی پریشاں ہیں تجھ کو جی بھر کے دیکھ بھی نہ سکے اپنی محرومیوں نالاں ہیں اعلائے دین مصطفوی وقف پیری تری شباب ترا دے خدا اجر ہے حساب تجھے ہم احساں ہے بے حساب ترا (عبدالمنان ناہید) سازِ عشرت کی صدا خاموش ہر طرف اک مہیب باند میں میں چاندنی نہیں باقی نور خورشید ہو بار خاطر ہیں دھڑکنیں دل کی جان ناشاد غم کے بوجھ سے چور جھک گئے عشق کے عزائم بھی زندگانی کی بے بسی کے حضور جاده غم زندگی مجبور تاریکی گیا آج میری آنکھ کا نور گیا مستور کیسی تنہائی تنہائی کا ہوا احساس کوئی ساتھی نہیں قریب نہ دور میرے محبوب تو نے چھوڑ دیا جاده زیست پر تنہا ہے کہ تو نہیں باقی اب کوئی میں گھومتا مگر مجھ کو ماحول کا نہیں احساس یا مرے کوئی آرزو نہیں ہوں خواہش رنگ ནི نہیں باقی باقی

Page 40

35 زندگی اس صحبت دل طرح ہوئی ویراں کوئی بھی اس طرح یار مہرباں رہی وہ چوٹ آج کھائی ہے لذت گفتگو تو چیر دو تمام ماه بزم صبح وشام رونق لے گیا ساتھ تو مرے محبوب شان محبوبی ہوئی ہوئی بدو نہیں باقی نہیں باقی لہو نہیں باقی آئیں گے اور بھی شہ خوباں کہاں تیرا حسن پر دلآرائی و رعنائی اور بھی میر کارواں ہوں گے پر کہاں تیری بھی دل زخم کھا کے آیا ہے آئی تری شان دارائی مسیحائی بھی اپنا جہاں ہوا تاریک ہم نے تجھ منزل ہر قدم تیرا سینکڑوں سال جب کہیں تجھے و جاتے ނ لوگ آتے ہیں رخصت اے دل کے مالک و مختار رخصت اے میرے قافلہ سالار میں بھی تھا تیری رہگزر کا فقیر میں بھی تھا زیر سایه دیوار عزم کی سے ہی روشنی پائی کارفرمائی ہیں دل تھا نا آشنا خزاں سے مرا تو گیا رونق حیات گئی اپنی منزل کو جالیا تو تیرے دم سے تھی زندگی میں بہار گئی میری حسرت دیدار ره نے میں ہوں اور میرے راستے کا غبار مجھ کو اکسیر خاک راه تیری دل مرا تیرے نقشِ پا ނ جھیں وقت کے تھپیڑوں گے چراغ چراغ الفت ނ کے شار میرے محبوب تیرے بعد بھی میں تیری عظمت کے گیت گاؤں گا تو نے جو لا زوال درد دیا میں اسے حرز جاں بناؤں گا

Page 41

36 راہ ڈھونڈوں گا تجھ ملنے کی انتظار حشر تک منتظر خود بھی روؤں گا یاد کرکے تجھے ساتھ اوروں کو بھی رلاؤں گا جو بھی آئے گا نقش ! ترے اپنے دل میں اُسے بٹھاؤں گا میں نے جو عہد بھی عہد بھی کیا تجھے جان دے کر اُسے نبھاؤں گا ނ ہر قدم پر دیئے جلاؤں گا اس طرح کروں گا ترا ترا رہوں گا الله الحمد میکده میں ترے قافلہ یوں رواں دواں ہے ترا خدمت دین بسته تیرے رندوں کے اب بھی پُر ہیں ایاغ جیسے منزل کا مل گیا ہو داؤد کے ہیں چشم و چراغ سراغ آل خوش نوایان انجمن میں ترے اب نہ باقی کوئی زغن ہے نہ زاغ تو نے روشن جو کی تھی شمع وفا اب بھی روشن ہیں اس سے قلب و دماغ ہاں مگر آنکھ اب پر ہے ہے دلوں ترے فراق کا داغ ہر ڑی تیری یاد آئے گی تیری یاد اپنے ساتھ جائے گی یاد آئے گا تیرا ہمیں 12 احسان یاد آئے گا ہر قدم پر تیری محبت کا عہد و پیمان یاد آئے گا رونق شام جلس عرفاں درس قرآن یاد آئے گا تیرے فرمان یاد آئے گا خطبات تیری تقریریں آئے گا جب بھی کوئی شعلہ بیاں اس جمال و جلال کے صدقے کٹ تو میری جان یاد آئے گا تو ہر آن یاد آئے گا گیا دور کامیاب تیرا عید زریں تھا لا جواب تیرا ہے میرے محبوب قوم شاہ تیری رحمت کی تیری شفقت کی

Page 42

37 337 تو نے ہر ایک پر عنایت کی کرۂ ارض کے کناروں تک ثمر ہے تری ہی محنت کا پر ہر قدم ترے خدا نے بھی تیری دن رات کی رات کی دعاؤں کو ان تو نے ہر ایک سے محبت کی تو نے توحید کی اشاعت کی سلامت قبا قبا خلافت کی کی حفاظت تری جماعت کی گئی روشنی روشنی اجابت اجابت کی ہے سن لیا اس دعاؤں کو سن نے تیرے ناصر کو چن لیا اس نے دہرایا عہد بیعت کو آج ناصر کے ہاتھ پر نے ہمیں اسجدوا کا حکم پھر وفاؤں کو استوار کیا سوز دل سے اپنی کشتی کو آج ڈالا جھکایا ہے اپنا سر ہم نے ہے تازہ لہروں بے خطر ہم نے نے یوں در یار گرے آکر پر سر بنایا ہے سنگ در ہم نے اب کہاں ائی کو ہے جائے اماں یوں سمیٹے ہیں بحر و بر بر ہم نے و پیمان رسم الله ہائے دیار یار سے دور عہد میرے محبوب خوں رلاتی رہی کون سمجھے گا کون جانے گا خوشی جو وہ بھی جائیں گے کوئے یار کو ہم ساتھ جائے گی یاد بھی تیری جب کئے گی دوری منزل لے کے دارالاماں میں جائیں گے جو منتظر امانت دل کو اک سوز جستجو دیں وصیت ہوگی وہ گھڑی تیری ہے دی ہوئی تیری گے تری نہ بھولیں گے و راہ کیا گواه کیا میں بے کلی تیری زندگی کس طرح کئی تیری ہوسکی تیری

Page 43

38 کتنا تیرے پیاروں کو تیرے نام کے ساتھ چلنا پھرنا فقط امام کے ساتھ ہم چلے تیرے ہر خرام کے ساتھ پر پورے اہتمام کے ساتھ عشق کامل کا حسن تام کے ساتھ میرے محمود ہم نے سیکھا ہے بیٹھنا اٹھنا آج رکنا پڑا ہمیں ورنہ جا فرشتے ہیں منتظر تیرے عرش بعد کے اتصال ہوا مدت تو کہ خود بھی ”نشان رحمت تھا جا ملا رحمت تمام کے ساتھ خلد میں اپنے آشیاں کو گیا کو گیا آسماں نقطہء (عبدالمنان ناہید) بھی نہیں گلستاں ہے وہی رونق وہ یار مہرباں گلستاں غم نہیں دل کا کچھ زیاں بھی نہیں رونق گھر زندگی صحن ہے اپنا کہ دست غربت ہے آشیاں ہے ہے میان بیم رجا ہے بھی بھی آشیاں اس قدر گراں بھی بھی نہیں نہیں نہیں نہیں بھی تیری موجودگی کا ہے احساس اور تو اپنے درمیاں تیرے حسن کا عکس فرق دونوں کے درمیاں بھی نہیں بھی نہیں آستاں اس کا آستاں ترا گرچہ وہ تیرا آستاں بھی نہیں ہے تیرا ناصر ہے قافلہ تیری راہ پر ہے رواں اور تو اپنے ہم عناں ہوک اک دل میں کسمسائی ہے آج پھر تیری یاد آئی ہے ( عبد المنان ناہید)

Page 44

39 مجھے یہ فکر نہیں آسماں رہے نہ رہے مه و نجوم کا یہ کارواں رہے نہ رہے مجھے یہ فکر نہیں آفتاب بجھ جائے مجھے یہ فکر نہیں کہکشاں رہے نہ رہے مجھے تو فکر تھی تیری ہی زندی کی فقط مجھے یہ فکر نہیں یہ جہاں رہے نہ رہے مجھے تو جان بہاراں فقط تھا تیرا خیال یہ اضطراب نہیں گلستاں رہے نہ رہے تیرے درود سے رہیں تھا آشیانِ حیات تو آشیاں میں نہیں آشیاں رہے نہ رہے مرے زمان ومکاں سے کیا ہے تو نے سفر مرے لئے یہ ” زمان ومکاں رہے نہ رہے تیری حکایت ہستی کا باب ختم ہوا کسی کی زیر فلک داستاں رہے نہ رہے خموش ہو گئی تیری زبان نکته کشا کسی فصیح کے منہ میں زبان رہے نہ رہے ترے غلام ترے آستاں پہ شاداں تھے جہاں میں اور کوئی آستاں رہے نہ رہے اب اور منزل ہستی میں دلکشی کیا ہے؟ ترے بغیر یہ عمر رواں رہے نہ رہے ترے بغیر منور ترے بغیر مکمل ره حیات نہیں! کائنات نہیں! ترے وجود سے اوج وقار باقی تھا تری بہار سے ناز بہار باقی تھا اگر چہ تیری علالت سے فکر مند تھے ہم دعائے دل پر ہمیں اعتبار باقی تھا مگر کچھ اور تھی رب جلیل کی مرضی دعا کے بعد اسے اختیار باقی تھا جوارِ عرش بریں میں بلایا ہے مجھ تجھ کو ترے لئے یہی فرمان یار باقی تھا خوشا وہ وقت کہ سالار کارواں تھا تو ترا خرام سر را بگزار باقی تھا خوشا وہ وقت کہ تھاما تھا تیرے دامن کو خوشا وہ وقت کہ تیرا کنار باقی تھا خوشا وہ وقت کہ سونپی تھی زندگی تجھ کو جہانِ دل ترا اختیار باقی تھا خوشا وہ وقت کہ اندیشہ گزند نہ تھا تری نگاہِ کرم کا حصار باقی تھا خوشا وہ رُت کہ شگوفے دلوں کے کھلتے تھے خوشا وہ وقت کہ دور بہار باقی تھا

Page 45

40 نشان خوشا وہ وقت کہ ربوہ کی پاک بستی میں رحمت پروردگار باقی تھا خوشا وہ وقت کہ بیتابیوں میں سلیں بھی غم حیات میں اک غمگسار باقی تھا کیا تھا ناز ترے دور پر رسولوں نے خوشا وہ وقت کہ افتخار باقی تھا خوشا کہ شاد تھیں تیرے جمال سے آنکھیں سکون دل تھا میسر قرار باقی تھا آرزو تھی در و بام قادیاں دیکھیں تری نگاہ کو یہ انتظار باقی تھا بتائیں شفیق باپ انتظار تھا باقی کہ تھک نمود صبح صبح سے گئیں آنکھیں پہلے جھپک گئیں آنکھیں تو سو گیا ہے تجھے ہوشیار کون کرے جو دل پہ بیت گئی آشکار کون کرے درد کے غیر غمگسار نہیں وقار عشق کو خود شرمسار کون کرے جنہیں نصیب تھی تیرے کنار کی راحت کہاں وہ جائیں انہیں ہمکنار کون کرے کی تصویر تھی تری ہستی جو لاڈلے تھے ترے ان سے پیار کون کرے ترے دیار میں آئے تھے تیرے شیدائی نظر اداس ہے سیر دیار کون کرے جہان دل سے ہوئی ہے تری بہار وداع جہان دل کی خزاں کو بہار کون کرے ترا سفینہ نگاہوں سے ہو گیا او جھل تسلی نگہ اشکبار کون کرے ابھی تو دل میں نہاں تھے ہزار ہا ارماں ہجومِ حسرت دل کا شمار کون کرے ترے ملاپ کی ٹھہری ہے بات محشر یہ فاصلے تیری فرقت کے پار کون کرے میں انتظار کروں گا ترا قیامت تک مگر علاج دل بے قرار کون کرے وہ سوز و ساز محبت یه درد و داغ فراق یہ داستاں ہے دراز اختصار کون کرے ابھی تھا مرحلہ شوق میں جہاں اپنا! پر خدا پہ چھوڑ گیا ہے تو کارواں اپنا! ( سعید احمد اعجاز )

Page 46

41 جو لب چور رہتے تھے خوشی ނ نہیں ہیں وہی آشنا اب بنی ނ جو ہونٹوں رہتے تھے ہر آن رقصاں وہی قہقہے اب ہوئے اجنبی ނ یہ کیوں چھا گئے ہیں گھٹاؤں کے بادل؟ ہوئے ہم یہ محروم کس روشنی سے؟ زمانے کی تھیں رونقیں کس کے دم سے؟ ہوا یہ جہاں سونا کس کی کمی سے ؟ ہر اک قلب مضطر ، اک آنکھ پُر نم ہر نہیں رنج و غم تیرا بڑھ کر کسی ستاتی تھی ہر دم انہیں یاد جس کی وہ ملنے گئے ہیں بس اب اس نبی زندہ تھے وہ - زندہ ہیں زندہ رہیں گے حیات ان کی وابستہ - ہر احمدی ހނ (مبشر خورشید راولپنڈی)

Page 47

42 سوچی نہ تھی جو ہم نے کبھی ہم نے کبھی بات ہوگئی کیسی آج گردش حالات ہوگئی شاید کہ بادلوں میں ہی پانی نہ تھا رہا آنکھوں سے آنسوؤں کی جو برسات ہوگئی دن بھی گزارنا ہمارے لئے کٹھن ہے مشکل سے جو کٹے گی وہی رات ہوگئی اللہ کی رضا شکایت نہیں ہمیں کوئی خطا ہی باعث آفات آفات ہوگئی اُن کی خورشید نصیحتوں سمجھو ہمارا ہو گر عمل ان ملاقات ہوگئی (مبشر خورشید)

Page 48

43 نجیں افسردہ ہیں شامیں ویران ہیں گلیاں خاموش ہیں کوچے سنسان ہیں دیکھتے دیکھتے رونقیں رونقیں کیا کیا ہوئیں؟ آج ربوہ کے لوگ حیران ہیں دی آج شجر ہر ہر حجر آج افسردگی کو ہساروں دل کس قدر بے ہے سرنگوں ہے ہے شق آنکھ ہے خونچکاں سوگواروں چاندنی ماند ہے چاند بھی ماند وہ چمک ༡ ہے چمک بھی ستاروں میں باقی نہیں باغ سے نے وہ پھول توڑا ہے شحم دلکشی اب بہاروں میں باقی نہیں ہے چل دیا آج وہ انسانیت جس کی ہستی انسان کو ناز تھا وہ پرائے کا غم خوار تھا جو اپنے وہ جو اپنے پرائے کا دمساز تھا وہ کہ مُردہ دلوں میں جو دم پھونک کر زندگی کے ترانے سناتا رہا جو سدا صبر کا درس دیتا رہا جو مصائب میں بھی مسکراتا رہا

Page 49

44 شفقتیں دشمنوں پر بھی کرتا رہا وہ محبت کا اک بحر زخار تھا ڈانٹتا بھی رہا تربیت کے لئے اس کے غصے میں بھی ایک اک پیار تھا وہ مرقع تھا علم اور عرفان کا اک فراست، ذہانت کا پیکر تھا وہ معرفت کے خزانے تھے حاصل اسے بحر روحانیت کا شناور تھا وہ اس نے اپنی ذرا بھی تو پرواہ نہ کی اس کے دل میں تو بس اک یہی تھی لگن ہو خزاں کا تسلط گلزار پر لہلہاتا رہے دین حق کا چمن وہ کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کیا کہ جماعت دنیا میں پھولے پھلے رحمت حق رہے اس سایه چشمہ فیض حق اس میں میں جاری جاری رہے کر کے نظر اہل دنیا کی حالت وہ کہ اشکوں کے موتی پروتا رہا وہ کہ سجدے میں گر کے بلکتا رہا اور جہاں چین کی نیند سوتا رہا

Page 50

45 شق ہو پتھر کا سینہ بھی سن کر جنہیں مبر ނ ایسی باتیں وہ سنتا رہا رہے خار دامن سے اس کے اُلجھتے وہ ہمارے لئے پھول چنا چتا رہا اُس کو اپنے پرائے ستاتے رہے پر ہمیشہ وہ حق بات کہتا رہا آنچ آنے نہ دی اس نے اسلام پر سینہ ہر وار سہتا رہا لطف و کرم اور اخلاق اخلاق سے وہ زمانے کو کو تسخیر کرتا رہا خون جگر پنے وہ اسلام کا نیا دور تحریر کرتا رہا دین احمد کی اس نے بقا کے لئے مال اپنا دیا اپنی جاں پیش کی اپنی اولاد کو وقف اُس نے کیا اپنے افعال اپنی زباں پیش کی تشنگی حالت رہی عمر بھر وہ شراب محبت ہی پنتا رہا اس کی ہر سانس تھی بس خدا کے لئے وہ محمد کی خاطر ہی جیتا رہا

Page 51

46 46 خدمتیں دین کی بھی وہ کرتا رہا ہجر کی تلخیاں بھی وہ سہتا رہا دل نگاراں روانه ہوا لے کے آخر میں نذرانہ جان و سوئے کوئے اس کے دم سے اجالا تھا چاروں وہ وو گیا تو یہاں تیرگی چھا گئی گئی.چاند روشن اب بھی افق ہے میرے سورج کو کس کی نظر کھا ( صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب)

Page 52

47 +7 شراب محبت پلا ساقیا وہی جام گردش میں لا ساقیا نگاہوں کے پردے اٹھا ساقیا احوال نظروں میں لا ساقیا تصور میں ہیں آج وہ واقعات ہے وابستہ جن سے جہاں کی حیات اٹھارہ سے اوپر چھیاسی تھے سال که گویا ہوا یوں شر ہوا یوں شہ ذوالجلال مبارک ہو تجھ کو فخر رسل کہ ملتا ہے تیری دعاؤں کا پھل بہت بڑھ گیا جبکہ درد نہاں کہ تیری صداقت ہے سب پر عیاں کہ تیری جماعت یہ پھولے پھلے زمانہ حق کا ہی سکہ چلے ترے تیری دعاؤں کو میں نے سنا اس سفر کو مبارک کیا سُن اے ابن مریم سخن دلپذیر کہ بیٹا میں دوں گا تجھے بے نظیر نشاں ہے جو فضل اور احسان کا بہت مرتبہ ہے اس انسان کا وہ فرزند دلبند ہے ارجمند خلائق کا ہوگا بہت دل پسند مبارک ہو فتح و ظفر کی کلید ہے تیرے لئے خوشی کی نوید وہ آئے گا مُردوں میں دم پھونکنے نجات ان کو دلوائے گا موت سے جو قبروں میں ہیں باہر آئیں گے وہ وہ وہ بہت ہی ذہین و فہیم وہ ہوگا که عطر رضا سے جو ممسوح ہے وہ ہے وہ دین اسلام کو پھیلائے گا کلمہ تمجید، دل کا حلیم سارے زمانے کا ممدوح ہے حسن واحساں میں تیرا نظیر کشادہ جبیں اور روشن روشن ضمیر علوم اس میں ہیں ظاہری باطنی وہ دنیا میں پھیلائے گا روشنی وہ ہوگا اسیروں کا بھی رستگار ہے ان کے لئے مژده کردگار

Page 53

48 مبارک کہ وہ نور آتا ہے نور ہو جس سے جلال خدا کا ظہور شکوه فضل خدا اس ہے عظمت کا حامل مگن سایه وہ روح زمانہ وہ فخر زمن ہے وہ اور زمانے میں شہرت وہ یا جائے گا آپ اپنی عظمت کو منوائے گا وہ ہماری محبت کے قابل ہے وہ مبارک ہو تجھ کو غلام زکی جو ہو گا یقیناً تری نسل ہی مبارک ہو لڑکا یہ پاک و وجیہہ جو ہو گا سراسر تری ہی نواسی میں آخر بفضل خدا جو موعود بچه تولد ہوا لگا جلد بڑھنے وہ عدد ماه مبین جو سب پیشگوئیاں تھیں پوری ہوئیں ہوئی جب مسیح خدا کی وفات تو نظروں میں اندھیر تھی کائنات کو شماتت کا موقع ملا شریروں کا بھی غنچہ دل کھلا سمجھے جماعت یہ مٹ جائے گی نشاں بھی نہ اس کا پائے گی جماعت بھی تھا وقت گراں ہر اک دل تھا زخمی نظر خونچکاں وہ تھا تھی ہر آدمی بس اسی فکر میں خدا جانے ہر یکایک سمت رہیں رہیں نہ آتی نظر تھی کہیں روشنی چھائی ہوئی تیرگی کرن اک ہویدا ہوئی چمک سی نگاہوں میں پیدا ہوئی جو ظلمت کے بادل تھے چھٹنے لگے نگاہوں سے پردے بھی ہٹنے لگے مبدل ہوئیں ظلمتیں نور میں چلا پھر ہوئی جلوہ طور میں وہ ایک کمسن جواں ہمت شجاعت کا کوہ گراں کہ گویا ہوا یوں اٹھا عزم سے جماعت پہ موقع تھا تم یہ جاں گسل ہے مجھے اے مقدس وجود وہ فخر رسل ورور بیٹھوں گا میں بخدائے

Page 54

49 49 J.تک دنیا تجھے جان لے تھا انیس خلیفہ تیری وہ پہچان لے اور چوده کا سن ہوا وہ تو خلافت کی جب اس نے پہنی قبا جو تھے دوست وہ وہ بھی عدد بن گئے و سمال , آستان شد فخر زمن سارا زمانه مخالف ہوا سب اپنے پرائے مخالف ہوئے محمد علی.مستری غرض اور اس طرح کے سازشی بڑھے اس کی عظمت کو للکارنے بڑھے دوست بن کر اسے مارنے“ اکیلا تھا وہ راہ پر پیچ تھی تھی راہوں چھائی ہوئی تیرگی کوئی بھی تو اس کا سہارا نہ تھا کہیں درد کا اس کے چارہ نہ تھا ذوالمنن کہ جا کے جہاں کم ہو دل کی جلن اسی آستانے وہ جھک گیا وہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کیا وہ سجدے میں گر گر کے روتا رہا وہ اشکوں کے موتی پروتا رہا میں مجبور ہوں وہ ہے بااختیار نہیں مجھ میں طاقت اٹھاؤں یہ بار تو دل کو مرے ہمتیں بخش دے که باطل شکن جراتیں بخش دے لگا رات دن کام کرنے وہ ماہ کہ تھی اس کے دل میں محمد کی چاہ جرنیل تھا جم گیا نہ کی اس نے پرواہ عدد کی ذرا اولوالعزم وقف جديد یہ لجند، یہ تحریک و وقف یہ خدام واطفال اسکول کالج قدیم و جدید ناصرات اسی کا ہے مرہون ان کا ثبات یہ ہیں اس کی ہی محنتوں کے ثمر تھا درد اس کے دل میں جو اسلام کا جہاں مختلف دیں کی تصویر جو مسلم کی حالت یہ کرتا نظر ا.صہبا اختر کراچی جو پودا لگایا ہوا بارور راسته کام کا معین کیا وہیں اس نے مسجد بھی بھی تعمیر کی تو کرتا تھا خون اپنے قلب و جگر

Page 55

50 50 اسیروں کا ناجی مسیح کا پسر محبت خدا ހނ محمد ނ تھی تھا ضعف و نقاہت سے اٹھنا محال خدمت سدا تھا انیس گیا سب اٹھا آزادی کاشمر رہ دیں میں ہی زندگی کٹ گئی نہ آرام کا پھر بھی آیا خیال تلقین کرتا رہا عمل کی دین کرتا رہا وہ سو اور پینسٹھ کا سال ہوا جبکہ اس شیر دل کا وصال کو روتا ہوا چھوڑ کے وہ دنیائے فانی سے منہ موڑ کے نہ اب وہ یہاں لوٹ کر آئے گا اپنا حسین چہرہ دکھلائے گا دعا ہے رہے اپنا حامی خدا ہیں راضی کہ جس میں ہو اس کی رضا صاحبزادی امتہ القدوس بیگم بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب)

Page 56

51 لو آج ابن مهدی مهدی مسعود چل دیا محبوب میرا وہ میرا محمود چل دیا اہل وفا کو عشق کی راہوں ڈال کر رہنما وہ وہ مصلح موعود چل دیا رفتار وقت روکتے رکتی بھی ہے کبھی ناداں تھا دل جو ایسے گماں ނ بہل گیا سوئے ہوئے تھے چین سے غفلت کی نیند میں آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ سورج بھی ڈھل گیا یوسف بھی دیکھ کے ہو دیکھ کے ہو مجل ایسا حسن تھا نکھار وہ رنگ وہ وہ چہرے کے خدوخال تبسم کی جھلکیاں معصومیت بلا کی، کی، تبسم آنکھوں کی دلکشی، لب و رخسار کا جمال گزرا ہے وقت کب ہمیں احساس نہ ہوا بچے بڑھے جوانوں کا ڈھلنے لگا شباب آواز آئی تو سبھی چونک گئے ނ نکلا وہ چاند چرخ ڈوبا وہ آفتاب

Page 57

52 52 محمود نام ہے ہر ہر کام نام ہے ترا، ہر عمل، تیرا ہر فعل، تیری تمام زندگی تقوی کی ༑ ༔ گام خیر ہے ہے مثال ہے ہے آغاز خیر تھا تیرا انجام «فضل عمر“ کے عہد کی وہ قیمتی کتاب جس کا خدا نے آپ ہی لکھا تھا انتساب اک عمر جس کو پڑھ کے مسرت ملی ہمیں لو آج ختم ہو گیا وہ زرنگار باب اے جانے والے تیرے تصور میں رات دن قلب حزیں سے آتی ہے بس ایک ہی صدا تیرا فراق ہم کو گوارا : تھا مگر ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا صاحبزادی امتہ القدوس بیگم بنت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب)

Page 58

53 53 عظیم شان کا حامل تھا دور فضل عمر نزول رحمت یزداں تھا ہم پہ شام و سحر وہ کارواں کہیں رکتا تو کس طرح رکتا امیر جس کا رہا خود کلید فتح و ظفر تمام عمر گزاری جہاد اکبر میں رہا وہ کفر کے لشکر کے آگے سینہ سپر ہزار بار اٹھے تیز وتند طوفاں بھی ڈرا سکے نہ ہمارے وہ ناخدا کو مگر ضیاء نور محمد جگمگا اٹھی وہ سرز میں کہ جہاں ڈالی اس نے ایک نظر خدا کے گھر کی بنا اس نے ہر جگہ رکھ دی احد احد کی صدا دی بتانِ غرب کے گھر فضل عمر سے ہے عمر سے ہے آج رشک قمر بھی نگاه خدا کی شان کہ تاریک براعظم چمن کے حسن میں ہوتا ہے باغباں کا لہو سبق یہ دے گئے ہم کو جناب فضل عمر مبادا غم تجھے شبیر بے عمل کر دے کمر بخدمت قرآن ببند بار دگر الحاج چوہدری شبیر احمد وکیل المال اول تحریک جدید ) آٹھ تاریخ تھی نومبر کی سال پینسٹھ تھا عیسوی سن کا دین احمد کا اک فدائی جب اپنے مولیٰ کو ہو گیا پیارا ہائے افسوس اپنے محسن کو دوسرے دن بروز سہ شنبہ اپنے سینوں پر رکھ کے سل ہم نے اپنے ہاتھوں سپرد خاک کیا جانے والے تری جدائی کا پھر بھی دل کو یقیں نہیں آتا

Page 59

54 تیرے کوچہ میں تیرے دیوانے اپنے سینوں میں لے کے درد نہاں تیرے دیدار آخری کے لئے پہنچے آنکھوں میں لے کے سیل رواں ان کے سینے تھے کس قدر چھلنی ان کے چہروں سے ہو رہا تھا عیاں وقتِ رخصت کا دل گداز سماں اپنی آنکھوں سے ہم نے دیکھا تھا جانے والے تری جدائی کا پھر بھی دل کو یقیں نہیں آتا بے سہاروں کا تو حصار رہا اور اسیروں کا رستگار رہا کے ماروں کا غمگسار رہا بے نواؤں کا شہر یار رہا بیوگان و یتیم و بے کس کا تیری شفقت پہ انحصار رہا آج سارے ہیں نوحہ خواں تجھ پر ذرہ ذرہ اداس ہے گویا جانے والے تری جدائی کا پھر بھی دل کو یقیں نہیں آتا پرو تیری عظمت کا دے رہی ہے پتہ تیری آباد کی ہوئی بستی اس کی ہر اینٹ سے ہویدا ہے تیری جرات تری اولوالعزمی پہنچے سارے به پایۂ تکمیل تیرے ذمہ تھے کام جتنے بھی یوں مقدر تھی واپسی تیری پیشگوئی میں یونہی لکھا تھا جانے والے تری جدائی کا پھر بھی دل کو یقیں نہیں آتا تیرا آنا نشان رحمت تھا تیرا جانا مگر قیامت ہے اس کی جنت میں تیرا مسکن ہو اب خدا کی یہی مشیت ہے آسمان وزمیں کے خالق سے شکوہ کرنے کی کس کو جرات ہے خوب معلوم ہے تجھے شبیر سب پر حاوی ہے مرضی مولیٰ جانے والے تری جدائی کا پھر بھی دل کو یقیں نہیں آتا ( الحاج چوہدری شبیر احمد بی اے )

Page 60

55 حال دل کس کو کہیں ہر ایک ہی دلگیر ہے جانے والا کس قدر محبوب عالمگیر ہے ہائے وہ مہتاب جس کو دیکھ کر کہتے تھے ہم حس و احساں میں مسیح وقت کی تصویر ہے مطمئن ہونے نہ پائے تھے کہ وہ رخصت ہوا ہم تہی دستوں کی کتنی دل شکن تقدیر ہے آج شور قیامت کوچه محمود میں ہے مضطرب ہر مرد ہر زن ہر جواں ہر پیر ہے کون سی وہ آنکھ ہے جس سے نہیں آنسو رواں آج ہر مومن کے سینہ میں لگا اک تیر ہے جانے والے خدا کی رحمتیں ہوں بے حساب زخم ہی کاری عرش جس کی رحلت اہل جنت کے لئے تبشیر ہے پہنچا صبر کی طاقت نہیں اتنا ہے 6 ہوا جو ناله شبیر (الحاج چوہدری شبیر احمد بی اے )

Page 61

56 56 اے جانے والے تو میری آنکھوں کا نور تھا پیارے حبیب تو مرے دل کا آغوش والدین بھی مجھ کو نہ دے ایسا سرور تھا سکون جیسا کہ تیرے حضور تھا رحمت کا تو نشان تھا قربت کا تو سبب جو تجھ وہ خدا سے بھی سے دور تھا دور تھا ہر لحظہ تو مظفر و منصور ہی رہا میدان کارزار میں تیرا ظہور تھا کرتے تھے تیری دید سے تاریکیوں کو دور مضطر دلوں کے واسطے اک تو ہی طور تھا اب تیرے بعد زندگی کیا زندگی رہی اس شمع زندگی کا فقط تو ہی نور تھا شبیر تیرے درد کی ہے بس یہی ترک مرضی خدا رضائے خویش لئے مرضی دوا ( الحاج چوہدری شبیر احمد وکیل المال )

Page 62

57 57 نظم ایک غیر از جماعت صاحب کی لکھی ہوئی ہے.اپنے مکتوب گرامی میں جو انہوں نے محترمی ایڈیٹر صاحب روز نامہ الفضل کے نام لکھا.رقمطراز ہیں.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا سانحہ ارتحال صرف جماعت احمد یہ کیلئے جگر خراش نہیں ہے بلکہ ان بے شمار ار باب نظر کیلئے بھی پیغام درد ہے جو ان کے افکار و اعمال سے ذہنی وروحانی فیضان حاصل کرتے تھے.یقین کیجئے میں ایک غیر احمدی ہوں مگر ریڈیو پر حضور کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر چونک پڑا.فرط جذبات سے فراموشی کا عالم طاری ہو گیا.اس وقت ایک شاعر پر کیا گزرتی ہے اسے آپ کا دل جانتا ہوگا.سازِ روح کے تار جھنجھنا اٹھے.ڈوبی ہوئی کے میں ایک ٹوٹا پھوٹا نغمہ ابھرا.نذر عقیدت کے طور پر ارسال کر رہا ہوں.نیاز آگیں دامن ابا سینی گلار چی براسته بدین ضلع حیدرآباد ) ذرے ذرے میں انتشار ہے آج روح کونین بے قرار ہے گئی کیا امانت کبری؟ قوم کی قوم سوگوار ہے چھن گیسوئے امل آج آج ہیں؟ گل کی آنکھوں میں اشک شبنم ہیں چاند تارے شریک ماتم ہیں راز من فکاں فطرت کا ترجماں روزگار برہم آسماں تک اداس ہیں، کویا شور ہے، میر کارواں اٹھا محفل ذکر و فکر ویراں ہے دین عشق رسول رکھتا تھا میشی ریک نظر کا تارا تھا ثانی تھا تجبت نئے تھا، روح عزم চ عمل کا فتویٰ ہے دانا روشن ایک کارواں کو خدا امیر ما کارواں کا ཨ དསེ, ', · བྷ, عام کے اُصول رکھتا قبول حسن رکھتا کی نشانی 5 5 is اٹھا اٹھا تھا تھا تھا دور کا بانی تھا رہا رہا 223:2 چھوڑ گیا وہ (دامن اباسینی )

Page 63

58 ترے تصور بشر بشر کو نفس تا زمانہ افق افق روشنی ملے گی میں نئی نئی زندگی ملے گی حریم ربوه کا ذره ذره زبان فطرت سے سے کہہ کہہ رہا ہے بھی آؤ!! گلی گلی میں خدا ملے گا خودی ملے گی 10 سراپا سواد علم یقیں ہے گویا قدم نظر کو حسیں حسین آگہی ملے گی لذت کا ذائقہ ہے!! پوچھ حقیقی خوشی ملے گی حدیث یکھیں تری ملے گی فراق کیا ہے؟ میرے غم کو گلے لگا لے جو تیرے دیکھیں کتاب نبی کا ارشاد بھی ملے گا شخص تیرے قریب ہوگا امامت کا باب باب دیکھیں خدا کی تائید بھی ملے وہ شخص عرفاں نصیب نصیب ہوگا میں اتنی کمی ملے گی بے دھڑک سنا دو جو تجھ ނ جتنا بعید ہوگا اسی خلافت حق کے منکروا کو سنا اور رو ازل ނ نوع بشر کو نعمت نہ لائیں محبت نہ دیں دلیلیں یہی ملی ہے یہی ملے ملے گی ہیں بنام خرد کی دیوانگی ނ مسیح پی لیں جنوں کی فرزانگی ملے گی تکیں گے محشر میں بے بسی مری طرف قہر کے فرشتے!! کہ تیرے کوچے کی خاک مولی مرے لفن میں بھی ملے گی (دامن اباسینی )

Page 64

59 59 بھی تیرا سانحہ اے گردش ایام ہے موت کی وادی کا منظر حشر کا ہنگام ہے پاک طینت راہرو اور ایک انبوہ کثیر سوگواروں کی جبیں آنسوؤں کا سیل آہیں، دمیدم اک اضطراب اور اک غم کی لکیر ہے قلق، عناصر اور ان میں ڈوبتا اک آفتاب سب سسکیاں، فریاد رنج و غم، کہہ رہے ہیں مل کے داستاں باب عدم میں داستاں گو رہ گئے جس قدر سختی مقدر نے عطا کی ہاں سہر گئے فضل آه و فغاں عمر کی داستاں مگر پیغام ان کا ہم بھلا سکتے نہیں مکتب اسلام ان کا ہم بھلا سکتے نہیں ނ درس جو ہم کو ملے اس زندگی کے طور زندہ جاوید ہیں فضل عمر کے نور سے ناشر انوار ہر اک پیام زندگی نور لیتی ہے کہیں سے صبح وشام زندگی مہر روشنی موجود ہے هم به صدق دل کریں گے جانشیں کا احترام اور بھی مضبوط ہو گا زندگانی کا نظام چھپ گیا ہے کے زندہ رہنے کے لئے اک زندگی موجود ہے ہم عقیدت مند ہیں اے اختر ثابت قدم خدمت اسلام غافل کبھی ہوں ا حضرت فاریہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی گے (اختر گوبند پوری)

Page 65

60 60 آقا ترے مزار پر جاتا ہوں بار بار کہ سیل اشک سے دل کا دُھلے غبار شاید آنکھوں کے سامنے بھی ہے ہے آنکھوں سے دور بھی گویا ہے لطف ہر بات یاد آ کے ستاتی ہے اس قدر دن میرے بے قرار ہیں راتیں ہیں غم اثر ہر لمحہ دل میں رنج و بعید و حضور بھی ہے اثژدہام اکثر تصورات میں ہوتا ہوں ہم کلام تیری نگاہ جود و کرم کا وہ التفات ہے جس کی یاد چشم و دل و جاں کی کائنات ہم غم زدوں کو مل نہ سکے گی وہ عمر بھر ٹکرا کے آسمان سے لوٹ آئے گی با مراد تھا خلافت کا سلسلہ لیکن خدا کا شکر تو ہے مضبوط کر گیا ہے جو نافله ملا تھا مسیح الزمان کو پہنچا ہے وہ بفضل خدا اپنی شان کو اس کو خدا نے دی ہے خلافت کی اب قبا وہ دیں کی تمکنت ہے دلوں کا ہے آسرا و ظفر کا دور ہے اس شاہ دیں کا دور ادیان باطلہ کے بدلنے لگے بدلنے لگے ہیں طور ہر آن اس سایه پروردگار ہو اس کی ہر ایک بات تری یاد گار ہو ( غلام محمد اختر )

Page 66

61 دل تڑپ اٹھا میری آنکھوں میں آنسو آگئے ساکت و جامد نظاروں میں نظر بھٹکی رہی آسماں خاموش، ویراں چاند، افسرده نجوم روح حیراں جسم میں لرزاں رہی ٹھٹھکی رہی گلشن امید کے گلہائے رنگیں بے بہا آنکھ پُر نم اور دل مضطر پریشاں بیقرار ایک غم تھا جو مرے قلب و جگر پر چھا گیا ایک طوفاں تھا ہوا جس سے فضا میں انتشار وہ مجاہد جس کے دم سے کارواں آگے بڑھا ناخدا جس نے لگائی کشتی امید پار جس کے ہاتھوں سے شفا بیمار و بے بس پا گئے ذاتِ اقدس جو اسیروں کے لئے تھی رستگار ہوگئے رخصت جہاں سے رحمتوں کے درمیاں ہو گئے ہم سے جدا وہ عظمتوں کے درمیاں کتنی بالا شان تھی حور و ملائک ساتھ تھے جانب منزل خدا کی شفقتوں کے درمیاں

Page 67

62 تیری عظمت بیکراں، تیرے عزائم پر وقار ساری دنیا میں ترے اقبال کی تشہیر چاند نے پائی چمک سورج کو رنگینی ملی ہے جگمگائی جس سے دنیا وہ تری تنویر ہے تیرے گلشن میں رہے شام و سحر رنگیں بہار تیرے اہل بیت پر ہو مہرباں پروردگار تا ابد قائم رہے تیرے جیالوں کا وقار تیری چاہت میں رہیں آنکھیں ہمیشہ اشکبار السلام و الوداع رہبر انسانیت حضرت محمود تیرا نام پائندہ رہے کی شمع کی تو نے جو روشن ملت اسلام ہے کی وہ شمع پائندہ رہے سیف کی ( شیخ سلیم الدین سیف)

Page 68

63 63 باغ احمد آبیار گیا کا شہوار گیا تھی احمدیت چاند تھا چودھویں کا چودھویں تھی کرامت قلم، علم وہ رخصت ہوا نہار گیا زباں اعجاز حکمت کی آبشار گیا برکتیں پائیں جس سے قوموں نے تھا وو وہ اخص اور وہ نامدار ازل ނ یہی مقدر یار کے پاس اس کا یار رحمت حق تھا حق کے پاس گیا با مراد اک جنازے اک گیا ہے دیکھ کر وقت خصتی اس کا جو وہ چھوڑ آیا اتنا جم غفیر کہ اک ہزار گیا ہو تھا باعث سکون کر ہم کو کامگار گیا کے دشمن بھی شرمسار گیا , رواح سوگوار گیا بوقت صبح جب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا (صاحبزادہ مرزا خلیل احمد )

Page 69

64 ملت کا آسماں ہے درخشندہ آج بھی ہر فرد کی نگاہ ہے تابندہ آج بھی کہتا ہے کون زیر زمیں چُھپ گیا ہے چاند! فضل عمر ہیں زندہ مومن ہے اب کافر ہے و پائندہ آج بھی بھی جذبہ شاداں لئے ہوئے دل گرفته شرمندہ آج بھی و یہ ساقی ازل کی ہے سنت کہ بزم میں آب بقا بھی ملتا ہے جام فنا کے بعد تسیکس کی آبشار ہے ہر موج اضطراب برکھا برس ہی جاتی ہے کالی گھٹا کے بعد بھول ملت احمد کا اختر نہ بھول أصول اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد ( عبد السلام اختر ایم اے)

Page 70

65 59 برسوں یہ نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا محمود! تیرا نام بھلایا آہوں سے تیری یاد کو سینچیں گے دل مگر تیرا مقام پا کر تجھے اک جائے گا آہوں سے دل کا داغ مٹایا نہ جائے گا سکے گی نگاہِ شوق! تیرا نظیر پھر کبھی لایا لایا نہ جائے گا بھولے تھے مجھ جیسے کم خیال جو کھو گیا پایا نہ جائے گا معبود! وہ بھی آدم خاکی تھا جو سدا اک تازه فکر و نظر کو طلعت خورشید بخش کر قطروں کو دے کے قلزم طغیان زندگی شاہراہ بناتے ہوئے گیا تاروں کو گرد راہ بناتے ہوئے گیا ذروں کو مہر و ماہ بناتے ہوئے گیا اک وادی حقیر میں آیا مگر اسے اک جنت نگاه بناتے ہوئے گیا ( عبدالسلام اختر ایم اے)

Page 71

66 99 اس دہر کا ہر پیر وجواں یاد کرے گا اے فضل فضل عمر! تجھ کو جہاں یاد کرے گا پائے گا وہ خود اپنی زباں میں بھی لطافت جو بھی ترا انداز بیاں یاد کرے گا اے صاحب اعجاز قلم! تجھ کو ہر اہلِ نحن عالم تک لہو دل میں رواں یاد کرے گا ہے و فکر بیاں یاد کرے گا اہل تفکر نظر، اہل ایل حسن اے کوہ وقار ! عظمت انسان کے پیکر! عظمت کو تری کوہ گراں یاد کرے گا القصہ تیرے فیض تیرے جود و کرم کو جو مية جہاں ہوگا وہاں یاد کرے گا (چوہدری عبد السلام اختر ایم اے)

Page 72

67 ایک غیر از جماعت کے قلم سے) راقم امام جماعت احمدیہ سے ایک ملاقات کے دوران ان کے بلند اخلاق سے بہت متاثر ہوا اور ان کی بزرگانہ شخصیت کے ماتحت ان سے ایک دنیوی الجھن کے متعلق طالب دعا ہوا.ان کی دعا سے وہ عقدہ ملا نیل سمجھ گیا.ان کی وفات پر اس نظم میں اپنے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے.(نذرحسین اور ٹی.لالیاں) کس لئے وقف الم ہے آج ربوہ کی زمیں ناصبور و محو غم ہے آج ربوہ کی زمیں کس لئے نالہ بدم ہے آج ربوہ کی زمیں نوحہ خواں با چشم نم آج ربوہ کی زمیں ہے ہیں زبانیں دم بخود اظہار کی طاقت نہیں حکم قدرت سے مگر انکار کی طاقت نہیں ہے کہاں جو سیر روحانی کراتا تھا ہمیں اور معارف دین و دنیا کے بتاتا تھا ہمیں بہر تالیف قلوب اکثر بلاتا تھا ہمیں نصرت اسلام کے خطبے سناتا تھا ہمیں وادی ارواح میں خود آج محو سیر ہے ہر نشان زندگی جس کا نشان خیر ہے

Page 73

88 68 تو نے اے فضل عمر ہم کو دیا درس حیات سیف حق تیری زباں تیرا قلم شاخ نبات جوئے کوثر ہر سخن سلک ڈار ہر ایک بات تھی سرایا تیری ہستی پیکر عزم و ثبات فیض صحبت سے تری کھلتے تھے اسرارِ نہاں تھیں گریزاں تیرے دم سے جہل کی تاریکیاں جب تلک ہوگی صدا تہلیل اور تکبیر کی جب تلک محتاج ہوگی ہر دعا تاثیر کی جب تلک سنت ادا ہوگی یہاں شبیر کی اور محو سجدہ پیشانی جوان و پیر کی کارنامے تیرے پائندہ رہیں گے دہر میں تیرے فرمودات بھی زندہ رہیں گے دہر میں (نذرحسین او.ٹی.لالیاں)

Page 74

69 69 اے فضل عمر تیرے اوصاف کریمانہ یاد آکے بناتے ہیں ہر روح کو دیوانہ ڈھونڈیں تو کہاں ڈھونڈیں پائیں تو کہاں پائیں سلطان بیاں تیرا انداز خطیبانہ قدرت نے جو بخشا تھا اک نور سکونِ دل آنکھوں سے ہے اب اوجھل وہ نرگس وہ نرگس مستانہ شمن بھی پکار محمود اٹھے اسلام کی خاطر ہی نے دکھلائی جانبازی پروانه اسلام کی مشعل کو دنیا میں کیا روشن پھر تو نے اُجاگر کی سرگرمی فرزانہ ہاں! علم و عمل میں تھا اک پیکر عظمت تو اسلام کا شیدائی - اللہ کا دیوانہ تیری ہی دعاؤں نے بخشے ہیں ہمیں ناصر ربوہ کی فضا پر ہے پھر لطف کریمانہ عابد حاصل ہے دعا دعا میری اس تیری نشانی کو رہے مولیٰ کی ہر نصرت شاہانہ (مبارک احمد عابد )

Page 75

70 روح الم کا سلسلہ چودہ رجب کی رات کتنے غموں کا سایہ ނ تھی یہ بھی عجیب رات تھیں جس باغ حسن محمد میں رونقیں وہ عندلیب لے گئی یہ غم نصیب رات محمود جو کہ آنکھوں میں کانیتے ہوئے اشکوں کو ہے تلاش ملتا نہیں آج اسیروں کو رستگار ہے فتح جو رہا ہر گام پر سدا صد حیف! چھپ وہ مرد کامگار گیا کہیں علم و عمل کا تھا قافلہ وہ قافلہ بھی کی وادی میں کھو گیا وہ نکته سنج گفتگو وہ شاہ خوش بیاں اے موت! تیری گود میں چپکے سے سو سو گیا اے جانے والے! ہم احسان ہے ترا تو نے خدا کے کر دیا از حد ہمیں قریب سر اٹھایا تو للکار کر اٹھا باطل نے مصطف دین اسلام کا نقیب تو شیر جاں تک شار کر گیا تو دین کے لئے بھولے گا جہاں نہ کبھی تیرے نام کو عابد لہو سے اپنے جلائے گا اب چراغ ہر طرح پورا کرے گا وہ تیرے کام کو (مبارک احمد عابد ر بوه)

Page 76

71 چاند ڈوبا زمانہ ہار گیا دین احمد کا شاہسوار گیا ہوک سی قلب ناتواں ނ دل کے آر →" اٹھی گیا غیرت اشکبار گئی نازش سوگوار گیا عمر بھر بھر جس نے پھول برسائے آج وہ ابر تو بہار گیا شمع جنت کی روشنی ہے فزوں کون پروانه جان ہار !! گیا!! العلاء بن کر الحق و مظہ کامگار آیا ساری دنیا اسیر درد وہ اسیروں کا رستگار وہ دلوں روح پرویز ہوئی گیا سنوارنے کامگار سنوار والا گیا گیا (پرویز پروازی)

Page 77

72 ہر ایک چیز ترے حسن کی امیں یہ سرزمیں تری یادوں کی سرزمیں نکلی رہا نہ فرق گریبان و جیب و دامن میں لو آج ہر ایک ذرہ ترے درد حسرت و دامان آستیں نکلی سے فگار ہوا ہر ایک شے میں تری یاد جاگزیں نکلی تمہارے بعد اسے حرز جاں بنایا ہے جو نہیں نکلی ایک حسرت دیدار وہ غم فراق میں رونا تو در کنار ہوا بس ایک آہ تھی وہ بھی کہیں کہیں نکلی وہ بات جس کے تصور سے جی لرزتا تھا وہ بات تیرے تصور سے بھی قریں نکلی جو آنکھ تیری علالت میں آب آب رہی وہ آنکھ تیری جدائی میں آتشیں نکلی سے چھو کے مگر این ابن مریم کے خاک ربوہ بھی خاک فلک نشیں نکلی (پرویز پروازی) قدم

Page 78

73 بھی تری ،تلاش ترا انتظار ہے اب کہ بے قرار دل بے قرار ہے اب بھی وہ کے جو تو نے پلائی تھی اپنے ہاتھوں اُسی کا ذہن میں باقی خمار ہے اب اب بھی ترے لبوں سے ہمیشہ جو پھول جھڑتے تھے انہی سے اپنے چمن میں بہار ہے اب بھی ترے ہی سوز دروں کا اک کرشمہ که شمع دین ہدی تابدار ہے اب ترا ہی منظر دید اے شه ترا غلام را بگزار اب خوباں بھی ہے بھی (ڈاکٹر محمود الحسن محمود ایمن آبادی)

Page 79

74 عجیب سلسلہء دور روزگار ہے آج کہ آسماں کی طبیعت بھی پر غبار ہے آج کون جانب فردوس ہو گیا رخصت کہ کائنات کی ہر چیز دلفگار جسے بھی دیکھیں ہے یکسر ملال کی صورت ہے آج ہے دل میں حشر بپا روح بیقرار ہے آج گلوں میں رنگ فضاؤں میں بو نہیں باقی کچھ اس طرح سے لٹی رونق بہار ہے آج چمن سے وہ گل رعنا چنا ہے رعنا چنا ہے کیں نے کہ پھول پھول پریشاں ہے اشکبار ہے آج طلوع صبح میں وہ بانکپن نہیں موجود غروب شام کی تقریب سوگوار ہے اگر چہ اگری مہر سکوت آج رواں الم زدہ آنکھوں آبشار ہے آج لگی ہوئی لبوں پر ہے اگر چه ان ہزاروں کا اگری جدا ہوا ہے ہجوم اداس ربوہ کی ہر ایک رہ جگر گوشہ مسیح زماں ہے وصال عاشق عاشق آقائے فرشتے خلد بریں میں ہوئے ہیں صف بستہ گزر ہے آج نامدار ہے آج ہے آج انہیں وہاں میرے آقا کا انتظار کچھ اس ادا اچانک وہ باوقار گیا کہ اس کو چھوڑ نے خود موسمِ بہار گیا ( ڈاکٹر محمودالحسن محمود ایمن آبادی)

Page 80

75 نسرین و سمن، نرگس و ریحاں کی طرح ہے وہ چہرہ شاداب گلستاں کی طرح ہے مشتاق نگاہوں سے بھی ہو جاتا ہے دھندلا وہ جسم کہ جو ماہ درخشاں کی طرح ہے تم تھے تو بیاباں میں بھی رونق تھی مگر اب کہتے ہیں جسے گھر وہ بیاباں کی طرح ہے تھے تو دل زار بھی فردوس صفت تھا فردوس بھی اب قریہ ویراں کی طرح ہے تم تھے تو مری آنکھ تھی اک نور کی مشعل تم اب آنکھ مری روزنِ زنداں کی طرح ہے تھے تو شب تار بھی روشن تھی مگر کہتے ہیں جسے دن شب ہجراں کی طرح ہے رشتہ ہے محبت کا بھی کیا قدرتی رشتہ گاتا میں جسم کی مانند ہوں تو جاں کی طرح ہے جو محمود ترے عشق کی دھن میں ہے وہ زمزمہ پریوں کے دبستاں کی طرح ہے (ڈاکٹر محمود الحسن محمود ایمن آبادی)

Page 81

76 دہر میں اسلام کا پھر بول بالا کر دیا زندگی کا تو نے نصب العین پورا کردیا مادیت کی موت سے تو نے جہاں کو دی نجات کس قدر مایوس بیماروں کو اچھا کردیا تو نے ذروں کو اٹھایا اور مہر و مہ کیا تو نے قطروں پر نظر کی اور دریا کر دیا تو نے صحراؤں کے دل میں دھڑکنیں بیدار کیں تو نے پھر مُردہ لبوں کو نغمہ پیرا کر دیا اک نئے اندز سے کی تو نے تفسیر حیات زندگی کا اک نیا مفہوم پیدا کر دیا کھو گئے خود اس طرح اس حسن کے انوار میں اپنی ہر جانب اسی کو جلوہ آراء کر دیا تو جو نکلا مشعل فرقان ہاتھوں میں لئے تاریک دنیا میں اجالا کر دیا تیره , (اکبر حمیدی فیروز واله)

Page 82

77 خبر ملی ہے کہ میرا آقا رفیق اعلیٰ سے جا ملا ہے ایسی وحشت اثر خبر ہے کہ دل مرا خون ہوگیا ہے وہ میرا آقا وہ میرا پیارا ہوں میرے ماں باپ جس پہ قرباں یتیم کر کے جو عاجزوں کو وہ آج ہم سے جدا ہوا ہے وہ ابنِ پاک مسیح دوراں مثیل مہدی وہ نورِ پیکر چھپا کے چہرہ جو عاشقوں سے پھر میں چپکے سے سو گیا ہے ہے چشم گریاں کلیجہ بریاں جگر ہے چھلنی شکستہ دل ہے چھپا ہے جب سے وہ چاند میرا اندھیرا آنکھوں میں چھا گیا ہے وہ جس نے دنیا کے گوشے گوشے میں سکہ اسلام کا بٹھایا علوم قرآں کی معرفت کا خزانہ جس نے لٹا دیا ہے وہ خدمت دین حق میں جس نے گزار دی اپنی عمر ساری جلا کے سینوں میں شمع ایماں وہ اپنے خالق سے جاملا ہے وہ کلمۃ اللہ رضائے مولیٰ کے عطر سے جو ہوا تھا ممسوح خدا کے سائے میں نفسی نقطہء آسماں پر چلا گیا ہے

Page 83

78 وہ جس نے آدھی صدی سے زیادہ ہماری فرمائی راہنمائی ہ مظہر حق وجود اقدس ہماری نظروں سے چھپ گیا ہے وہ سمجھ میں آتا نہیں کروں کیا میں روؤں چیخوں کہ سسکیاں لوں حواس قائم نہ ہوش باقی مرے الہی یہ کیا ہوا مشیت ایزدی کے آگے مگر نہیں ہے کسی کو یارا بلانے والا ہے سب سے پیارا جو اس نے چاہا وہی ہوا ہے ہے ہمیں ہے لازم کہ اپنے آقا کی اس نصیحت کو یاد رکھیں فروغ دینِ رسول برحق ہی وجہ خوشنودی خدا ہے کیا ہے پھر آج عہد ہم نے کہ دین دنیا پہ ہے مقدم خلیفہ ثالث کی کر کے بیعت ثبوت اسی عہد کا دیا ہے ہمارے پیارے امام جو بھی کریں گے ارشاد اس پہ ہم سب بشوق خاطر کریں گے لبیک اسکی اطاعت سے خوش خدا ہے الہی توفیق دے ہمیں تو کہ خدمت دیں میں عمر گزرے چلیں اسی راہ پر ہمیشہ کہ جس میں دیکھیں تری رضا ہے ( آفتاب احمد بسمل کراچی )

Page 84

12 79 طرح زندہ رہوں تو ہی بتا تیرے بغیر اے مسیحا مر رہا ہوں بے دوا تیرے بغیر رے دم سے تھی چمن میں ہر طرف اک تازگی گلشن دل کا شجر مرجھا گیا تیرے بغیر تیرے اخلاق کریمہ کے ہزاروں تھے اسیر کون پہنے گا یہاں زنجیر پا تیرے بغیر خُلق اور احسان میں اپنے پدر کا تھا نظیر ہر بشر مجروح دل اب ہوگیا تیرے بغیر آہ تیرے غم میں اب ہادی کا دل مجروح ہے کس طرح ہوگی بھلا اس کو شفا تیرے بغیر ( حکیم سید عبدالہادی بہاری)

Page 85

80 80 مکرر کلام رب جلیل الرحيل الرحيل ثم رحیل دل محمود آه بطل جلیل کر گئے کوچ دہر فانی مرزا جہاں تو گزشتنی ٹھہرا ذات باقی ہے جلیل موسی، عیسی، محمد اور احمد نے پائی تھی بس کہ عمر قلیل آہ رخصت ہوئے ہیں وہ ہم سے جن سے سے ملتی تھی ذات حق کی دلیل کیا کروں میں رقم سب اس کے وصف حق کا محبوب تھا حسین و جمیل و شریف اور اصیل اک تھا صاف اور نیک نژاد تھا نجیب عہد اپنے کا تھا وہ ذوالقرنین کھینچ دی گرد قلعہ دیں کے فصیل مسجدیں ہر جگہ ہیں بنوائیں ذکر باری کی خور خوب ہے اور تراجم ہوئے ہیں قرآن کے عام علماء دیکھ کر ہوئے حیراں تیری اس فضل پرچم دین عظیم کر مولی بلند کیا قصہء غم کہ تھا طویل و عریض ہو تغیر علم تا و کلام جدت قرب میں تیرے اس کی ہو سبيل جلیل میں تنزیل آفرین باد تجھ کو مرد جلیل ہم نے بل کہا ہاں سلام و درود ہو اس پر شافعی جو ہے اپنا روز بدیل ༤ حرف قليل ( فضل الرحمن بی اے بی ٹی بھیرہ)

Page 86

81 انگیز ہے کتنی ہوش جس نے کر دیئے زیر و زبر دل دھڑکتا زباں ہے چلتی نہیں تر آنسوؤں نے کردیا ہے جو خدا کا نور تھا جاتا ہو گئے تاریک رہا چھپ گیا دنیا و ނ اک بدر منیر رخ روشن ہوا ہے مستتر نور تھے وہ نور ނ جا کر ملے ہو گئے تاریک سارے بحر و پر کوئی بس چلتا چلتا نہیں میرے خدا موت ހނ کوئی نہیں جائے مفر ہو سکے کام صدیوں میں نہیں جو کر گئے لمحوں لمحوں میں عالی گبر وہ کہہ سکے گا کون اب منہ بولتا ہے وہ خدائے سے مرے مقتدر

Page 87

82 88 مرحبا اے مظہر الحق والعلاء مرحبا اسلام کے شیریں ثمر میرے جیسے عاصیوں کو ناز ہے جو ہوئے بادشاہوں کو وہ جس ނ گدا یاد کر ہم جیسے ایا میکہ گئے خاک نعمت کب ملی رض محمود ہیں بہرہ بھی دنیا ނ ایاز ( میجر عبدالحمید سابق مبلغ امریکہ ) در ضل عمر ور உ

Page 88

883 آه ! وہ فضل عمر سا رہنما جاتا رہا مظہر الحق ولعلاء معجز نما جاتا رہا نور سے جس کے منور ایک عالم ہوگیا وہ مجسم نور اور وہ مہ لقا جاتا رہا جس کی آمد تھی خدائے پاک کا کیا نزول و تعلیم و صاحب فہم و ذکا جاتا رہا وہ جس کی شہرت دور دنیا کے کناروں تک ہوئی لشکر تثلیث کا سب غلغلہ جاتا رہا جس نے قبروں سے نکالا زندگی قوموں کو دی وہ وه دم عیسی و محبوب خدا جاتا رہا طبقہء نسواں کو جس نے کی عطا تنظیم نو وہ مشرق ومغرب میں غالب کر دیا اسلام کو مدیر راہبر وہ ناخدا جاتا رہا عاشق دین محمد مصطفی جاتا رہا کر کے دورہ ختم اپنا ماہ کامل چھپ گیا ماہ ربوہ اور شاہ قادیاں جاتا رہا ہم سے رخصت ہو گیا ہے جب سے رحمت کا نشاں“ زندگی کا لطف جینے کا مزا جاتا رہا احمدیت کا خدا حافظ رہے ناصر رہے جب خدا پر کی نظر سارا گلہ جاتا رہا شاکرہ اہلیہ لطیف الرحمن صاحب دھرمپورہ لاہور )

Page 89

84 کہتا ہے کون باغ جہاں میں نہیں ہے تو گلشن میں تیرا رنگ ہے پھولوں میں تیری بو سر سبز ہے چمن تیرا ویسا ہی ہو بہو عنبر بکھیرتی ہے صبا اب بھی چار سو آواز تیری کان میں اب تک ہے گونجتی تیری شبیہہ پاک ہے آنکھوں میں گھومتی احسان وحسن سے ترے واقف ہیں بحر و بر ان کو دیا ہے تو نے معارف کا مال و زر پورا کیا جو مصلح موعود کا تھا کام باقی رہا نہ کچھ کہ کہیں جس کو ناتمام موتی دیئے کلام الہی کے رول کر چہرہ دکھایا شاہد معنی کا کھول کر دنیا نئی بسائی، سجائی، سنوار دی مردہ زمیں کو رونق فصل بہار دی کشتی بچائی اور تلاطم سے یار کی طاقت تمام راہ خدا میں شار کی تھی قصر زندگی کی اسی قول پر بنا اسلام چیز کیا ہے خدا کے لئے فنا“ ساقی وہی ہے جام وہی ہے وہی سبو لیکن ہر اک نگاہ کو ہے کس کی جستجو؟ ہم اہل کاروان تھے تو میر کارواں یوں قافلہ ہمارا بصد شوق تھا رواں پر تو نے اپنے نقطہء نفسی کو جا چھوا ہم دیکھتے ہی رہ گئے یہ کیا سے کیا ہوا وقت وصال حسرت و غم کا ہو کیا بیاں وہ انقلاب تھا کہ قیامت کا ہو گماں حکم خدا نے جب تجھے ہم سے جدا کیا فرقت کے غم کو ہم نے گلے سے لگا لیا جب آنکھ تیری دید کو بے حد ترس گئی دل سے اٹھی گھٹا تو پلک سے برس گئی مجھ پر کبھی یہ ہو نہ سکا آج تک عیاں رخصت سے تھی تیری یا ترے پیاروں کا امتحاں لے جنازہ اٹھنے کا وقت.رخصت‘ بطور اسم بھی استعمال ہوتی ہے ( شاکرہ بیگم لاہور )

Page 90

85 55 ہوئے ہیں رو سال اور رو دن خدا نے اسے بلایا وہ ایک ننھا سا پاک چشمه جو بڑ.بڑھتے تھا دریا بھرتا چڑھتا دریا کہ جس کے سیل رواں کے آگے سکا آج تک نہ کوئی مزاحمت کا حقیر تنکا! وہ اک گرجتا امڈتا طوفاں وہ کوند تا رعد و برق باراں جو کے برسا تو کشت دیں پھر سے ہو گئی سرسبز ہوا مگر ہے آنکھوں اپنی اوجھل ہے دل کے قریب تر یہ پتلیاں جن میں موہنی سی تمہاری تصویر گھومتی ہے یہ آشنا کان جن میں اب تک تمہاری تقریر گونجتی ہے کبھی ہواؤں کا زور اس میں کبھی سمندر کی وسعتیں تھیں کبھی تھی موجِ صبا کی شوخی کبھی تکلم کی سطوتیں تھیں زمانه مگر گو би رنگ وہ بدلے ہزار جھونکے نسیم صبح چمن کے آئیں وہ قلب و نظر کی ٹھنڈک جو تیری الفت کے مرغزاروں میں بس رہی ہے ( پروفیسر نصیر احمد خان)

Page 91

86 انا للہ چل بسے ہیں حضرت فضل عمر نائب حضرت مسیح خادم خیر البشر پسر موعود مسیح پاک وہ ثانی بشیر جس کو حق نے حسن و احساں میں بنایا تھا نظیر چل بسا فرزند دلبند اور گرامی ارجمند جس کے عزم وحوصلہ کی تھی ستاروں پر کمند رشک کرتے تھے فلک جس پر وہ مرد خوش نصیب قوم کی آنکھوں کا تارا اور مولی کا حبیب ملت بیضا کی عظمت کا جو تھا بطل جلیل ہے سہاروں کا سہارا بے نواؤں کا کفیل عمر فتح ونصرت نے سدا چوما کئے جس کے قدم جس کو ملتی تھی خدا کی عون و نصرت دمیدم بھر جو کفر کی یلغار سے لڑتا رہا بے نیاز بیش و کم ہو کر بھی جو بڑھتا رہا جس نے قرآن کے خزانوں کو بکھیرا ہر طرف گئیں دیکھا سویرا ہر طرف ظلمتیں

Page 92

87 880 جس کی تقریروں سے لرزہ کفر کے ایوان میں جس کی تحریریں نہیں رکھتی ہیں ثانی شان میں جو رضائے حق کے گویا عطر سے ممسوح تھا وہ بسوئے نقطہء خود مرکزی مرفوع تھا وہ جیا جب تک جیا اسلام کی خاطر جیا اس نے تن من دھن سبھی کچھ حق پہ قرباں کر دیا اس کی فرقت میں فقط آنسو شریک غم نہیں ارض ربوہ رو رہی خود اکیلے ہم نہیں ہے عہد کرتے ہیں ترے بالیں یہ تیرے سوگوار تیری روح پاک پر مولیٰ کی رحمت بے شمار ہر طرف پھیلائیں گے اسلام کی چمکار کو کند کر کے توڑ دیں گے کفر کی تلوار کو یاد رکھیں گے ابد ہم تیرے ہر پیغام کو اور غذا سمجھیں گے گے اپنی خدمت اسلام کو قریشی عبد الرحمن ابد)

Page 93

88 نفس نفس ہے پریشاں نظر نظر حیراں یہ کیسی آج قیامت گزر گئی ہے یہاں روش روش ہے فسردہ چمن چمن ویراں کلی کلی ہے یہاں آج جیسے نوحہ کناں دھواں دھواں نظر آتے ہیں رہگزر کے چراغ کہاں کہاں کوئی ڈھونڈے گا منزلوں کے نشاں اداس اداس ہے سارا جہاں نگاہوں میں ہر ایک شے ہے مرے دل پہ ایک بار گراں حیات موت کی آخر اسیر ہو کے رہی یہی ہے ریت زمانے کی کیا کرے انساں؟ کہاں ہے دل کو میسر سکون و صبر و قرار ترے جو تو نہیں تو مری زندگی ہے ایک فغاں وجود سے میری ہر ایک فکر جمیل ہے رعنائی خیال کہاں؟ جو تو نہیں تو ( قاصد ظریف کراچی)

Page 94

89 آنکھ ހނ اوجھل یکا یک چاند اپنا ہو گیا غم کی کٹیا میں غریبوں کا بسیرا ہوگیا آنکھ سے جاری ہیں آنسو دل سے اٹھتا ہے دھواں مصلح موعودؓ کو اب ڈھونڈنے جائیں کہاں جس کے دم سے تھی بہاراں باغ سے رخصت ہوا وہ مسیح پاک کا نور نظر رخصت ہوا ہیں عنادل آنکھ ނ مضمحل افسردگی ہے اب یہاں گل رعنا کہاں اوجھل ہوا ہے وہ بے کس و بیل ہیں اب تو رازداں جاتا رہا زندگی کا لطف ہی جاتا رہا جاتا رہا باغ عالم پر اداسی ہے اندھیرا ہر طرف ان کی شفقت ان کی الفت ڈھونڈیں اب ہم کس طرف صبر کر اے درد اس پر جو خدا نے ہے کیا جو تجھے منظور خاطر تھا خدایا ہو گیا خاطر تھا خدایا (رضیه در دایم اے ربوہ )

Page 95

90 90 عرفان کی شراب پلاتا رہا ہمیں ہمیں جنت کی راہ پر جو چلاتا رہا ہر فرق نیک و بد کا بتاتا رہا ہمیں کیا کیا کہوں کہ کیا کیا سکھاتا رہا ہمیں وہ جس نے علم وفضل کے دریا بہادئیے سائل گواہ ہیں کہ خزانے لٹا دیئے وہ جس نے کفر و شرک کے ایواں گرا دیئے چہرے پہ حق کے جتنے تھے پردے ہٹا دیئے محمود خود تھے ہم کو بھی محمود کر گئے گردش میں ہر ستارے کو مسعود کر گئے ملت سے کفر و شرک کو مفقود کرگئے باطل کو حق کے سامنے مسجود کر گئے عالم، ولی مقرر و زاہد حضور تھے عشق رسول رکھتے تھے عابد حضور تھے جس چاند کی ضیاء سے منور تھا اک جہاں کہتا ہوں سچ کہ ان دنوں روشن تھا آسماں اس روشنی میں چلتا تھا اپنا یہ کارواں محمود کاروان کے ہوتے تھے پاسباں ڈوبا وہ چاند اپنے ستاروں کو چھوڑ کر ہم بیکسوں کو درد کے ماروں کو چھوڑ کر ( شاہد اعظمی گوجرہ)

Page 96

91 ربوہ کے آسماں مرا ستارا پر ٹوٹا مرا ہائے کدھر گئے وہ کر کے مجھے اشارا تاریکیاں عموں کی بڑھنے لگیں فضا میں اب چاندنی کہاں کی جب چاند ہی سدھارا پسر غلام احمد ختم رسل کی خاطر جو خاک میں ملا تھا آقا تھا وہ ہمارا وہ پہنچ گیا ہے روحانی آسماں پر نقطہ وہی ہے جس عیسی نبی اتارا اللہ کی خلافت جاری ہے جو ازل سے اب ٹھہرو بھی رہے گی جاری اس کا نہیں کنارا وعدہ کیا جو اس نے ہو کر اللہ کی ہو نصرت ناصر ہے نصیر سننا کوئی پکارتا ہے آئی صدا کہاں سے کس نے تجھے پکارا رہے گا پورا وہ ہمارا اک تیرگی مٹا کر آنکھوں میں آگئے وہ آنکھوں میں جذب کر کے دل میں انہیں اتارا شیخ نصیرالدین احمد ایم اے سابق مبلغ نائیجیریا)

Page 97

92 92 مجھ کو یزداں کی قسم ہے تو وہی محمود تھا جو محمد اور خدائے پاک کا موعود تھا تھا حدیث پاک میں یولد له جس کے لئے ذات واحد کی قسم ہے تو وہی ”مولوڈ“ تھا جس کے آنے کے تھے شاہد انبیاء و اولیاء حق تعالیٰ کی قسم تو وہی مشہور تھا ہے جس کو دیکھا نعمت اللہ کی نگاہ پاک نے تو ہی پسر یادگار مہدی معہود تھا جس کے آنے کی خدا نے دی مسیحا کو خبر تو ہی اے فخر رسل وہ مصلح موعود تھا تو وہ رحمت کا نشاں تھا دین احمد کے لئے جو مسیحا کی دعائے خاص کا مقصود تھا پیشگوئی میں بیاں تھے جس قدر تیرے نشاں وہ نشاں ہر ایک تیری ذات میں موجود تھا رپ کعبہ کی قسم تو نے خدا کے نور کو غرب تک پھیلا دیا جو شرق تک محدود تھا توڑ ڈالے بت، مٹادی تو نے شان آذری ہر طرف گرچہ جہاں میں لشکر نمرود تھا کیا عجب تو نے خلافت کو ہے پائندہ کیا وہ بھی تحسیں کہہ اُٹھے جن کا تو محسود تھا غیر ممکن ہے بیاں ہوں تیرے اوصاف حمید تیری ہر تحریک احسن ہر عمل محمود تھا جانشیں بھی دے دیا موعود کو موعود ہی اے خدا فضل عمر کو نعمت موعود دے اللہ اللہ کیا لحاظ حرمت محمود تھا اپنے قرب خاص کا انعام لا محدود دے (شمس الاطباء حکیم محمد صدیق ربوہ )

Page 98

93 99 محمود که موعود پسر فضل عمر تھا مخلوق سے منہ موڑ کے خالق سے ملا ہے اسلام کی خدمت ہی میں عمر اپنی گزاری دشمن کے ہر اک وار کو سینہ پہ لیا ہے وہ جس کو سنوارا تھا خداوند نے خود ہی اس راہ میں جاں دے کے سبق ہم کو دیا ہے جو حسن میں احسان میں مہدی کا تھا ثانی ہر نور محمد کی غلامی سے لیا ہے افعال میں بے مثل تو افضال میں یکتا وہ زندہ ہے تابندہ ہے کو ہم سے جدا ہے ہر آنکھ ہے تر ہر رخ روشن ہے فسردہ یہ غم ہے کچھ ایسا کہ ہر اک غم سے سوا ہے اے موت تو بر حق ہے اہل ہے مجھے معلوم گلشن احمد کا حسیں پھول چنا ہے متلاشی نگاہوں کے تصور سے بہت دور اے جانِ بہاراں تو کہاں جا کے چھپا ہے ہر حال میں لازم ہے ہمیں شکر خدا کا محمود لیا اس نے تو ”ناصر“ بھی دیا ہے مسر قدیر ارشاد ہیڈ مسٹریس فضل عمر جونیئر ماڈل سکول ربوہ )

Page 99

94 بے امن و بے سکوں ہے مری جاں ترے بغیر اشک آفریں ہے دیدہ گریاں ترے بغیر محفل آنکھوں ہو گا ہر قریہء حیات پہ حسرت محیط ہے آبادیاں ہیں گویا بیاباں ترے بغیر زندگی باقی نہیں رہا اعتبار زندگی حیات ہے ویراں ترے بغیر تسکین قلب و روح کا ساماں نہیں رہا اس غم سے روز و.سے روز و شب ہوں پریشاں ترے بغیر سے آنسوؤں کی جھڑی ہے لگی ہوئی فرو کبھی طوفاں ترے بغیر ہر غمگین احمدی ہے تیرے اچانک وصال پر و دل گرفته و نالاں ترے بغیر کیونکر رکیں گے اشک غریب الدیار کے چھوٹا ہے اس سے صبر کا داماں ترے بغیر ہر درد کی دوا تو میسر ہے شوق کو اک تیرے ہجر کا نہیں درماں ترے بغیر ( عبدالحمید شوق)

Page 100

95 95 نور جان حضرت مهدی امام اتقیا مصلح موعود عالم صاحب فہم و ذکا فخر قوم و فخر ملت خادم دین متیں قادیاں کے بادشاہ حضرت امیر المومنیں اک نشان رحمت پروردگار کائنات لخت جگر مهدی موعود پاکیزه صفات ہر کہ و مہ کی زباں پر تیرا ذکر ضوفشاں ہوگئی حاصل تجھے واللہ حیات جاوداں عشق دین مصطفیٰ میں تو تڑپتا تھا مدام ذکر رب العالمیں تیری زباں پر صبح و شام عہد تیرا رحمت پروردگار بے چلوں کفر و باطل سامنے تیرے ہمیشہ سرنگوں تو نے دنیا میں کیا اسلام کا پرچم بلند ہوگئی ساری زمیں پر یورش شیطان بند نور سے بھر پور لے کر آستین زندگی گھس گئے ظلمت میں تیرے واقفین زندگی چل دیئے وہ ساتھ لے کے عشق رب ذوالمنن زندگی میں چھوڑ کر سود و زیان مال و تن جان کی بازی لگا کر غیر ملکوں میں گئے سینکڑوں رنج و مصائب ایک عرصے تک سہے احمدیت کا پیام جانفزا سب کو دیا ساری دنیا کو خدا کے نور سے روشن کیا کام تیرے تجھ کو زندہ تا قیامت کر گئے تیرے ذمہ ساری دنیا کی امامت کر گئے لطف گویائی کے مالک اے صحیح نکتہ داں آج بھی تڑپا رہا ہے تیرا انداز بیاں مرقد پر نور بھی دیکھی ہے مثل ماہتاب معمور تھی تیری حیات کامیاب عمر ساری یاد تیری دل سے جاسکتی نہیں موت تیرا نام دنیا سے مٹا سکتی نہیں لٹ گئی جب سامنے اپنے بہار زندگی نور ނ کس کو ہو گا شوق پھر اب اعتبار زندگی (عبدالحمید شوق)

Page 101

96 96 آؤ یارو! مهدی مسعود کی باتیں کریں ملت اسلام کے موعود کی باتیں کریں کر گیا جنگل کو منگل جس کا عزم آہنی دیکھ کر ربوہ کو اس محمود کی باتیں کریں خاک کے ذرّوں کو ہمدوش ثریا کر دیا معدن صد عز و شان و جود کی باتیں کریں ساری دنیا میں کریں تبلیغ دین دین مصطفی حضرت انسان کی بہبود کی باتیں کریں جس نے پروانوں کو بخشا سوز و ساز زندگی اس چراغ محفل مقصود کی باتیں کریں جس نے دی توفیق مہدی کی غلامی کی مجھے شوق اس قادر کی اس معبود کی باتیں کریں (عبدالحمید شوق)

Page 102

97 46 چھائی ہے کس لئے لئے یہ اداسی بہار میں کیوں نوحہ زن ہیں بلبلیں ہر شاخسار میں یارب شب فراق میں اشکوں کی یہ جھڑی غم کی گھٹائیں چھائی ہیں دل کے جوار میں کس کی تجھے تلاش ہے کیسی جستجو ہے کیا ڈھونڈتا ہے غمزدہ اب اس دیار میں مانا کہ صبر چاہئے لیکن مرے رفیق وہ کیا کرے نہ جس کا ہو دل اختیار میں راشد نہ چھیڑ ذکر ذکر وصال طوفان رنج غم آج دل بے قرار میں ہے را شد چوہدری ربوہ)

Page 103

98 پھر مجھے داغ جگر یاد پھر کوئی رشک قمر قمر یاد آیا خادم نوع آیا باعث یاد آیا مظهر حق علا ماحی مطلع نور سحر یاد آیا حسن و احسان میں مہدی کے مثیل اک سخی داتا کا ور یاد آیا بیٹھے مجھے اس پیارے کا سوئے فردوس سفر یاد آیا برکتیں پا گئیں قومیں جس ހނ وہ مسیحا کا پسر یاد اتل آیا برکت و قربت کا نشاں منبع و ہنر یاد آیا مصدر جود و راحت و جگر یاد سخا حلم و آیا

Page 104

99 جس نے بنجر کو بنایا کندن مجھ کو وہ کیمیاگر یاد آیا سنگ پارس تھا امت کے لئے وہ ضيا بار یاد آیا بدر کامل کا ہوا جب بھی طلوع جانے کیوں فضل عمر یاد آیا حالت غیر مری دیکھ کے غیر کہہ رہے ہیں اسے یاد آیا غیر کیا جانے کہ صدیق کو اک رشک خورشید قمر یاد آیا (مولوی محمد صدیق امرتسری سابق مبلغ سنگا پور )

Page 105

100 ملی ہے ربوہ سے یہ خبر جانکاہ یہاں کہ چل بسا ہے جہاں سے وہ رحمتوں کا نشاں ہمیشہ کام رہا جس کا خدمت انساں اٹھا رکھا تھا جماعت کا جس نے بار گراں کسے خبر تھی ہے نزدیک رحلت حضرت کیسے خیال تھا ہوجائیں گے وہ یوں رخصت وہ جس کے سر پہ سدا ظلتِ کردگار رہا جو روز و شب غم ملت میں بیقرار رہا ہر اک کا محسن وہ ہمدرد و غمگسار رہا الم نصیب اسیروں کا رستگار رہا وہ نور و رحمت رحماں بھی پا گیا رحلت خدا ہی جانے کہ مضمر ہے اس میں کیا حکمت رہا جو برسر پیکار کفر سے ہردم کیا بلند جہاں میں محمدی پرچم صلائے عام رہے جس کے فیض و حلم و کرم کیا نظام خلافت کو جس نے مستحکم وہ ظل شاہد و مشہور ہو گیا رخصت مسیح پاک کا محمود ہو گیا رخصت جلائیں شمعیں ہدایت کی کو بہ کو جس نے بنائیں مسجدیں دنیا میں چار سو جس نے بڑھائی دین محمد کی آبرو جس نے بسائی قوم مسیحا کنار جو جس نے وہ رہبر ره حق آہ ہو گیا رخصت نہ جانے مولیٰ کی مضمر ہے اس میں کیا حکمت لے شاہد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور مشہود حضرت نبی کریم ﷺ ہیں

Page 106

101 حضور والا کی برکات کون بھولے گا وه مهر و لطف و عنایات کون بھولے گا وہ گاہے گاہے ملاقات کون بھولے گا وہ سب سے عدل و مساوات کون بھولے گا غرض گوارا نہیں حضور کی فرقت ہے مگر خدا ނ گلہ کی بھلا کیسے جرات ہے مگر رونق بہار نہیں بہار تو چمن میں گل تو ہیں لیکن وہ گلعذار نہیں نشیمنوں میں عنادل کو بھی قرار نہیں وہ کون ہے جو گلستاں میں سوگوار نہیں کہ سُوئے خلدِ بریں باغباں ہوا رخصت بهار و رونق بزم جہاں ہوا رخصت خود اپنے خوں سے جو گلشن تھا آپ نے سینچا کبھی نہ وقت خزاؤں کا جس پر آنے دیا جسے تھا آپ کے عزم و عمل کا پانی ملا ہمیشہ آپ کی خوشبو سے جو مہکتا رہا بنا سجا کے اسے آپ ہوگئے رخصت ابھی ٹھہرتے، تھی اتنی بھی کونسی عجلت یہ کاروان مسیحا تو چلتا جائے گا قدم بفضل خدا اب نہ ڈگمگائے گا خیال آپ کا ہر دم دلوں مگر مگر رلائے گا اور عہد مصلح موعود یاد آئے گا پہ گرچہ ہے غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا مرضی مولی بھی از ہمہ اولی ہے مولوی محمد صدیق امرتسری سابق مبلغ سنگاپور )

Page 107

102 پھر کوئی غنیہ دہن یاد آیا نازش حسن چمن آیا یاد پھپھولوں میں جلن ہونے لگی پھر پھپھولوں پھر کوئی سیمیں بدن یاد آیا پھر وہی عاشق قرآن طن یاد خادم گلشن میں قدم رکھتے ہی ناگہاں دیکھ کر ہنستے ہوئے گل عہد تين یاد آیا ہر ان کا انداز سخن یاد آیا مهدی پاک کا پر موعود موعود زمن یاد آیا اور وہ جس کی تھی موت بھی ”موت حسن“ مجھ کو ہمدم وہ یاد آیا جس کی ہمت نے بسایا ربوه دیکھ کوه و دمن یاد آیا ( محمد صدیق امرتسری سابق مبلغ سنگا پور ) موتُ حَسَنٍ موتُ حَسَنٌ في وقتِ حَسَنٍ (الهام حضرت مصلح موعود )

Page 108

103 کیا بتاؤں دل پہ کیا گزری سنی جب یہ خبر ہو گیا رخصت مسیح پاک کا لخت جگر وہ کہ شہرت جس کی دنیا کے کناروں تک ہوئی وہ کہ جس سے برکتیں پاتے رہے لاکھوں بشر وہ کہ جس کو فکر دیں سے نیند بھی آتی نہ تھی وہ کہ جو مصروف رہتا رات دن شام وہ کہ جو عشق رسول پاک میں سرشار تھا وہ کہ جو کرتا رہا دیں کی اشاعت عمر بھر جو کہ علم و معرفت کا اک خزانہ دے گیا احمدی نازاں رہیں گے جس کی تصنیفات پر (سرفراز علی واہ چھاؤنی )

Page 109

104 سلام چشم مهدی آخر زماں تجھ کو سلام قوم کے اے پاسبان مہرباں تجھ کو تو ہمیشہ کے لئے نظروں اوجھل ہو گیا گویا دنیا کا چراغ زندگی گل ہو گیا اے شہنشاہ زماں جانِ جہاں تجھ کو سلام آہ وہ روشن جبیں چاند سا تابنده چهره درد میں ڈوبی ہوئی تیری صدائے دلنشیں اے رخ پُر نور اے شیریں زباں تجھ کو سلام تیرے جانے سے ہوا کیا حال دل میں کیا کہوں رات دن روتی ہوں تجھ پر ہو کے بے کل کیا کروں تیرے بن سونا ہوا سارا جہاں.مجھ کو سلام یوں اچانک تو جدا ہو جائے گا کیا تھی خبر اس دلِ بے تاب کو صبر آئے گا کس طور پر شفیق و غمگسار و مہرباں.تجھ کو تو نے دنیا بھر میں نام اسلام کا روشن کیا خدمت دیں کے لئے قربان تن من دھن کیا سلام قوم کے ہمدرد دیں کے نگہباں تجھ کو سلام کس طرح تیری صفات عالیہ کا ہو بیاں خوبیاں تیری رقم ہوں ہم میں یہ قوت کہاں علم اور عرفاں کے بحر بیکراں تجھ کو سلام ہو رحمت خدا کی دین کے اے پاسباں حامی و ناصر ہمارا بھی ہو رب دو جہاں ہم وہ بخشے سدا حفظ و اماں تجھ کو سلام (سیده منصوره تحسین بنت شاہ زمان علی صاحب لاہور )

Page 110

105 بیقرار جی بے طرح اداس ہیں ہر دل ہے اب بھی تمہاری یاد میں عالم ہے سوگوار ہے سونی پڑی ہوئی اک مجلس ہے ہر پھیکی پڑی ہوئی ہے ہر اک بزم کی بہار! ارتعاش اب بھی فضاؤں میں موجزن اجڑا ہوا ہے آج بھی تجھ بن ترا دیار آئیں گی تجھ سی رونقیں تجھ بن بھی اے حبیب؟ چپکے بھی بوستان میں تجھ سا کوئی ہزار ؟ پیالوں سے پیاس ان کی بجھے گی نہ ساقیا تا حشر بھی کریں گے بلانوش انتظار ٹکتے بھی ہیں نوشتہ تقدیر کے فسوں؟ عباس آئے بھی ہیں کبھی خُلد کے سوار؟ ( سید عباس علی شاہ بی اے )

Page 111

106 ساقی میخانه اخلاص و ترخم ہر دکھ کی دوا تھا تو ہر زخم کا اک مرہم تو اٹھ کے جو اس محفل ہستی سے گیا ہے میں سیه پوش ہیں مہر و و انجم وہ حشر بپا آج زمانے میں ہوا ہے شرمائے جسے دیکھ کے صد شورش شورش قلزم رونق ترے ہونے سے تھی اس بزم طرب کی میخانے ہر چند تری ذات تھی چھایا ہے عجب یاس کا عالم مخدوم ملائک نزدیک ترے خدمت انساں تھی مقدم - طاہر ہی نہیں درد ނ افسرده و حیراں ہر فرد ترے غم ނ ہے بادیدہ پرنم تربت تربت تری پھول عقیدت کے ہیں حاضر تری رحمت یزداں رہے ہر دم ( مبشر طاہر پسر ورضع سیالکوٹ )

Page 112

107 ایک غیر از جماعت مشہور شاعر کے قلم سے) اس کی تجلیوں سے ہی روشن حیات تھی شمع کائنات دل کائنات تھی اک رہنمائے اہل بصیرت کی موت وہ گزری جو میرے دل عجب واردات تھی کرتا که دست اجل نے سمیٹ لی ایک انجمن التفات باقی جو ایک مربوط تھا انہی میر ہست تھی و حادثہ ہوا تاریک اس قدر تو نہ صبح حیات تھی اک رشته قلوب سے ہر ملت کی راز دار وہی پاک ذات محتاج تبصرہ ہی نہیں ان کی زندگی مجموعہ صفات وہ جان صفات تھی ان کی نظر میں راہنمائی کا نور تھا ان کے لبوں رشد و ہدایت کی شام بات تھی زندگی تری تقدیر سو گئی اے صبح زندگی تری قسمت میں رات تھی لفظوں میں ڈھل سکا داغ مفارقت کتنی شدید شرح غم واقعات تھی یوں سہہ لیا ہے دل نے غمناک سانحہ جیسے سانحہ بھی مقدر کی بات تھی شرقی بن شائق لاہور )

Page 113

108 کر رہی ہوں رقم درد کھو گیا مجھ سے مقصود میرا کہاں کی داستاں یعنی وہ صاحب عظمت و عز و شاں میرا محبوب محمود شاه جہاں تیری یادوں سے دل میرا آباد ہے تیری فرقت میں دل میرا ناشاد ہے یاد آتی ہیں تیری وہ غمخواریاں تیری ہمدردیاں تیری دلداریاں غم میں ڈوبے ہوؤں سے عزاداریاں بے سہارا دلوں کا سہارا تھا تو جب بھی گردش میں سب نے کنارا کیا تیرے لطف کرم نے سہارا دیا تیری تعریف کیا ہو سکے گی بیاں نہ ہی زور تیرے آنے ނ گویا خدا آگیا قلم نہ ہی منہ میں زباں مظہر الحق کا تو ایک زندہ نشاں عظمت دیں تیرے دم سے قائم ہوئی عظمتوں کا تھا تو ایک کوہ گراں اب بھی حسرت سے جاں وقف آلام ہے سخت رنجور ہوں اور ہوں نیم جاں زخم دل کے مگر میں دکھاؤں کہاں تو ہی فریاد سن اے مسیح زماں مانگتی ہے دعا صولت نیم جاں کام آئیں رو دین میں جسم و جاں (صالحه صولت )

Page 114

109 اپنا دلستاں رخصت ہوا اپنا رازداں رخصت ہوا ماں سے بڑھ کر جو ہمیں کرتا تھا پیار وہ ہمارا رخصت مہرباں ہوا باغ ملت گل رعنا گیا روق بزم جہاں رخصت ہوا ہیں عنادل Jories افسرده ول وہ بہار گلستاں رخصت ہوا آو جس کے دم سے تھی فصل بہار باغ ނ وہ باغباں رخصت ہوا حسن , احساں میں مسیحا کا کا نظیر فضل و رحمت کا نشاں رخصت ہوا وقت کا لخت جگر لشکر وہ کے ہم کو نیم جاں رخصت ہوا کر کے بطل اسلام کا جلیل دین حق کا کفر کی یورش کو کر کے جری وہ وہ پہلواں رخصت پاسباں رخصت ہوا پائمال ہوا

Page 115

110 حضرت فضل عمر خضر خضر طریق راہنمائے سالکاں رخصت ہوا اپنے کاموں میں اولوالعزم و کامگار و کامراں فهیم رخصت ہوا ཐ و عقل و دانش و عرفاں کا بحر بیکراں رخصت ہوا حضرت محمود وہ ول کا حلیم افتخار خانداں رخصت ہوا بالیقیں وہ مصلح موعود تھا تاجدار عارفاں رخصت ہوا ہو چکا آباد ربوہ تو پھر یادگار قادیاں رخصت ہوا لا جرم وہ زندهء جاوید ہے گو سوئے باغ جناں رخصت ہوا تسکین تھی جس کی دعا ہاں وہی صاحب قرآں رخصت ہوا جن کی ہر اک بات تھی آب حیات ہم ނ وہ شیریں بیاں رخصت ہوا

Page 116

111 کارواں کو آبدیده چھوڑ خود امیر کارواں رخصت ہوا رحمت حق اس ہو نازل مدام مونس خورد کلاں رخصت ہوا زخم دل تازه رہے گا عمر بھر دے کے غم کی داستاں رخصت ہوا الله مل گیا نعم البدل ہوا غم کا اک بار گراں رخصت ناصر دین گیا غم کا سماں رخصت ہوا لک“ ہوا جلوه پذیر شاد اب خوف زیاں رخصت ہوا لے الہام حضرت مسیح موعود ( محمد ابراہیم شاد )

Page 117

112 ہے اک ستوں اور گرا دین کے ایوانوں کا اک چراغ اور بجھا دل کے شبستانوں کا روح کے عرش کا اک اور ستارا ٹوٹا ہو گیا خون مری قوم کے ارمانوں کا پھول وہ توڑا ہے تقدیر نے گلشن سے کہ بس تصور بھی نہ آئے گا گلستانوں کا آج قرآن کا وہ ہم سے مفسر چھوٹا سلسلہ کٹ گیا افسوس ان عرفانوں کا قادیاں تیری محبت میں تجھے یاد رہے لٹ گیا قافلہ پر دیس میں کچھ جانوں کا پھر سے کو شمع خلافت کی لرز اٹھی پھر سے حافظ ہے خدا شمع کے پروانوں کا احمدیت کے لئے پھر سے قیامت آئی امتحاں پھر سے ہے مقصود مسلمانوں کا پھر فدا کاری احباب کے چرچے ہیں یہاں پھر سے اک شور ہے عشاق کے افسانوں کا پھر سے مجلس میں خلافت کی ہیں برکات یہاں بزم میں ذکر ہے محمود کے احسانوں کا میری آنکھیں ہیں کہ دریا کی طرح انڈی ہیں قابل دید ہے چھلکا میرے پیمانوں کا شوق سے اپنے خداوند کے ہاں تم جاؤ تیرا اللہ ہے حافظ تیرے مستانوں کا ہاں ترے تخت خلافت کا ہے ناصر مولیٰ ہو نگہبان خدا دیں کے نگہبانوں کا میرے محمود ذرا کاش تو دم بھر دیکھے حال احباب کا عشاق کا دیوانوں کا یوں تو غم خانے آباد رہیں گے محمود لطف کیا آئے گا بن تیرے خمستانوں کا ( محمود احمد مرزا کبیر والہ ضلع ملتان)

Page 118

113 حیراں ہیں جام و مینا کہو کون اٹھ گیا؟ ویراں ہے طور سینا کہو کون اٹھ گیا؟ بے نور ہو گئی ہے یہ کیوں شمع زندگی مشکل ہوا ہے جینا کہو کون اٹھ گیا؟ میری انجمن کا اجالا کدھر گیا وہ راتوں کو اٹھ کے جاگنے والا کدھر گیا جس کی صدا سے غلغلہ تھا کائنات میں وہ میر کارواں وہ جیالا کدھر گیا کس نے چرا لیا ہے مرے مہر کا سنگار کس نے کیا ہے آج ستاروں کو اشکبار زخمی ہے دل نظر ہے پریشاں جگر فگار سر کو پٹک رہی ہے یہ کیوں عندلیب زار تو فخر روزگار تھا تو قلب کائنات تو قوم کا وقار تھا سرمایہ حیات یہ شام، یہ سحر، شب و روز مهر و دنیائے دوں میں ہے بھلا کس چیز کو ثبات چمکے گا تا ابد تو یہاں بن کے آفتاب یہ موت کھو سکے گی نہ کچھ تیری آب و تاب ہم کو تمہارے نقشِ کفِ پا ہیں اس طرح تاریکیوں میں جیسے نکل آئے آفتاب کرتی اللہ کا تجھ ناز یوں ربوہ کی سرزمیں ہے رہبر ہے کہ تو میرا نصیب تھا عظیم تھا تو رہنمائے دیں مقصد ترکی حیات کا کتنا عجیب تھا

Page 119

114 دیکھے گی کس کو آ کے وہاں اب مری نظر ہیں کاٹنے کو آتے مجھے آج بام و در اب چشم انتظار کی صورت ہے انتظار کی صورت ہے تیرا گھر داماں گلوں کے چاک ہیں کلیاں بچشم تر تو دل کی روشنی تھا نگاہوں کا نور تھا تو فخر روزگار تھا حق کا ظہور تھا نیکی تری حیات کی تھی جزو اولیں دل تیرا نور عشق محمدؐ میں چور تھا کیونکر تری صفات کا دیواں رقم کروں جی چاہتا ہے آج منیرہ سر نیاز وہ پاکی بیان کہاں سے بہم کروں اس آستاں پہ جا کے عقیدت سے خم کروں تجدید دین لکھی تھی تیرے نصیب میں تو باریاب ہو گیا بزم حبیب میں (سیدہ منیره بخاری لاہور )

Page 120

115 یہ نظم ایک غیر از جماعت صاحب سید جگر کاظمی خاقانی سرحدی نے لکھی اور محترم مولوی چراغ الدین صاحب مربی سلسلہ پشاور نے اسے شائع کرایا.افتخار احمدیت نازش اسلامیاں صاحب علم و عمل اسلام را یک پاسباں یعنی آں مرزا بشیر الدین بشیر الدین محمود نکو ابن غلام احمد مسیحائے زماں نائب و ذوالفقار حیدر کرار بہر ارتداد بود آں سینہ سپر بہر دفاع کافراں در جہاں سم رخت بربسته ز دنیا ھند سُوئے باغ ارم بے شمار افراد را بدیک متاع بیکراں صد مساجد انجمن یک نیم ضدها حاصل سعی ازین مردِ خدا شد ہے در زبان ده و شتهر گماں دو شد ترجمه قرآن پاک پیغام حق از قیروان تا قیرواں ہشت از ماه نومبر صبح از دو شنبه بود گفت بسکے بق شد سوئے بستان جناں حق لیے پسماندگان روزی کند صبر جمیل حشر آن باشد بجنگ افتخار مرسلال تو اگر خواہی بیابی سال رحلت اے جگر یک بشیر الدین دوم گروه بشیر الدین محمود رفت محمود سوم رفت خواں (سید جگر کاظمی خاقانی سرحدی) 1385

Page 121

116 اے مثیل ابن مریم مهدی آخر زماں مصلح موعود اے پسر امام کامران اے مسیح پاک کے لخت جگر نور نبی اے گروہ اتقیا و اصفیا کے پاسباں حافظ دین متیں اے راز دار راہ حق واقف اسرار دیں اے رہنمائے سالکاں تو سدا زندہ رہے گا اپنے کاموں کے طفیل اک جہاں پر تیرے احسانوں کا ہے بارگراں عہد میں تیرے ہوئے ظاہر نشاں ہائے قدیر زیب دیتا ہے اگر تجھ کو کہوں قطب زماں وہ زمین شور تھی جو شورے سے یکسر سفید بن گئی ہے آج رشک گل باغ جناں وہ کیا کرامت ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے سے آج کر دیا جاری خدا نے چشمه آب رواں شوکت اسلام تیرے دم سے پھر قائم ہوئی ہو رہے ہیں اہل مغرب اب اسیر قادیاں یہ ترا اعجاز ہے دشت و جبل میں چار سو تیرے دیوانے ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں جاں ایک ہی مقصد ہے سب کا خدمت اسلام ہو پرچم اسلام لہراتا رہے باعز و شاں بٹتی ہے تشنہ لبوں میں یاں شراب زندگی مست ہو ہو جاتے ہیں ربوہ میں رندانِ جہاں عاشقوں پر کس قدر تیری جدائی شاق تھی تیرے غم میں ہورہا ہے تیرا سرور نیم جاں ( چوہدری محمدعلی سرور بی اے بی ٹی ربوہ )

Page 122

117 الله سدھارے الله پیارے اسلام کے وہ شیدا فضل عمر ہمارے دکھ درد میں وہ مونس نادار کے سہارے وہ نائب مسجا وہ دلارے دو اہل زمیں کے رہبر جو ان کا تھا پیارا مہدی کے چشم فلک کے تارے“ اس کے ہوئے وہ پیارے اپنی گریاں ہے آنکھ دل رنج ہے بریاں ( امین اللہ خاں سالک)

Page 123

118 اے مثیل مسیح مسیح زماں ہو کہاں چاند سا منه لئے چھپ گئے ہو کہاں دیکھ سونی ہے تجھ بن یہ بزم جہاں چار ٹو کیسے پھیلی ہیں خاموشیاں چُپ شجر ہیں تو ہیں برگ بھی نیم جاں آج اُجڑا سا لگتا ہے یہ آشیاں کتنے غمگین ہیں آج پیر و جواں چشم پرنم ہے اور کٹ گئی ہے زباں گئیں ختم تاروں کی تابانیاں پیڑ گئی پھیکی پھیکی سی یہ چپ ہیں ربوہ کی دھرتی کے کون ومکاں جس طرف دیکھو ہے ایک ہو کا سماں ہو رو رہا ہے تری یاد میں قادیاں کہہ رہا ہے مرا رازداں ہے کہاں تیرے ہی دم قدم سے تھا روشن جہاں اب مگر کہکشاں چھا گیا ہے اندھیرا یہاں خوبیاں اس کی کیسے کروں میں بیاں میں بتاؤں تو بن جائے گی داستاں جب وہ آئے تو چھٹنے لگیں بدلیاں بادہ خواروں پہ ذرہ گلستاں بن گیا گل فشاں احمدیت سے جو لوگ تھے بد گماں چھانے لگیں مستیاں بلبلوں کو بھی آنے لگیں شوخیاں خاک میں ان کی ملنے لگیں ہستیاں

Page 124

119 چشمہ اسلام کا کر دیا پھر رواں چلتے چلتے گیا تھا جو رُک ناگہاں مدتوں سے جو تھے راز ہم نہاں کر دیئے آکے اس نے وہ ہم پہ عیاں اس کی خاطر دکھائے گئے وہ نشاں کہ معاند بھی کہنے لگے الاماں آسماں اس کی تقریر میں تھیں وہ جولانیاں گردشیں بھول جاتا تھا اس کو دیں اس زمانے نے گو تلخیاں کم نہ ہر گز ہوئیں اس کی سرگرمیاں دکھائیں کے چاک اب دکھائیں اپنی حیرانیاں اپنی چاک دامانیاں ویرانیاں ہے دعا تجھ سے آخر میں رب جہاں سن تو نالے میرے اور میری فغاں اتنے اونچے ملیں اس کو درجے وہاں کوئی کر بھی نہیں سکتا جس کا گماں اے خدائے سمیع اے مرے مہرباں سُن کہ اشکوں سے تر ہوگیا آشیاں آگے بڑھتا رہے اس کا یوں کارواں شادماں شادماں کامراں کامران ( مومنہ فرحت بنت چوہدری عبدالقادر صاحب ایگزیٹوانجینئر تونسہ بیراج)

Page 125

120 60 آٹھ نومبر کا دن اب بن گیا ہے یاد گار یاد جس کی آکے کر دیتی ہے ہم کو سوگوار ہر طرف تھا اضطراب اور مضمحل تھی چاندنی رات کے پردے میں پوشیدہ تھیں چند آہیں مری چاند بھی افسردگی سے جھانکتا تھا غرب سے روشنی تاروں کی مدھم پڑ رہی تھی کرب سے آفتاب اس روز بھی نکلا تھا پر اتنا اداس کوئی افسردہ سی بیوہ، ٹوٹ جائے جس کی آس روٹھ کر جاتا رہا اس وقت وہ فضل عمر جس کے آنے کی خدا نے پہلے سے دی تھی خبر تو نے اپنے عہد کو کس شان سے پورا کیا عمر بھر تو دوسروں کے درد میں شامل رہا درد دل سے تو نے جتنی خدمت اسلام کی ساری یہ قربانیاں شاہد ہیں تیرے نام کی تو نے پھیلایا جہاں میں ہر طرف اسلام کو ہم بھلا سکتے نہیں تیرے کسی بھی کام کو ہر طرف افسردگی ہے ہر طرف ہے اضطراب ارض ربوہ اب تمہاری یاد میں ہے سوگوار چشم پر نم ڈھونڈتی ہے تجھ کو اے فضل عمر جستجو میں تیری بھٹکی ہر طرف میری نظر موت نے چھینا ہے ہم سے جسم خاکی بالیقیں چھین لے وہ یاد بھی تیری یہ ممکن ہی نہیں تیرے جانے سے تری یادیں تو جاسکتی نہیں کارنامے اب تو تاریخیں بھلا سکتی نہیں اے خدا محمود کو تو قرب سے اپنے نواز روح اس کی رحمتوں سے اپنی تو کر سرفراز اب عمل کی اور ہم کو صبر کی توفیق دے! درد کے ماروں کو دل پر جبر کی توفیق دے! طیبہ صدیقہ جامعہ نصرت ربوہ )

Page 126

121 رَنَاءُ الإِمَامِ الْمُصْلِح الموعود نور الله مَرْقَدَهُ (بقلم الاستاذ عزیز الرحمن منگلا) مِنْ أَى القَنَايَا طَالَعَتُنَا النَّوَائِبُ وَأَيُّ خَطِيئَتِنَا رَأَتْهَا الْمَصَائِبُ وَلَمَّا نَحْنُ نَـاسِينَ رُزُعَ بَشِيرِنَا وَشَرِيفِنَا حَتَّى أَتَانَا الرَّوَاسِبُ نُعِيْنَا إِمَامَ الْحَقِّ مِتْنَا أَمَامَهُ امِ الدَّهْرُ بِالْمُتَلَفِينَ يُلاعِبُ اَيَا لَيْلَةً كُنَّا نُكَابِدُ طُولَهَا وَ بِتُنَا بِرَبُوةَ وَالْعُيُونُ سَوَاكِبُ فَفِيْهَا فَقَدْنَا نُوْرَنَا وَضِيَاءَنَا وَبَاتَ الْأَنَاسِي سُجَّدًا وَّ الْكَوَاكِبُ سُلِبُنَا أَصَاحٍ تَلِيْدَنَا وَطَرِيفَنَا فَلَيْسَ لَنَا شَيْءٌ سَوَى الصَّبْرِ جَالِبُ فَلَوْ كَانَ لِلْمَوْتَى خِيَارُ تَبَادُلٍ فَدَيْنَاكَ يَا مَحْمُودُ الْفَا نُصَاحِبُ عَلَيْكَ نُحَاذِرُ يَا حَيَاةَ جَمِيعِنَا اے کاش ہم مر جاتے سے میت فَمَنْ شَاءَ فَلْيَهْلِكُ وَرَانَكَ غَائِبُ

Page 127

122 وَمِنْ مَذْهَبِى حُبُّ الْمَسِيحِ وَالِهِ وَلِلنَّاسِ مِمَّا يَعْشِقُوْنَ مَذَاهِـبْ وَمَا كَانَ إِلَّا سِرَّ أَحْمَدَ كَامِلا وَمَا كَانَ إِلَّا ابْنُهُ الْمُتَعَاقِبُ وَكَانَ مُحِيطًا لِلْعُلُومِ الظَّوَاهِرِ كَمَا كَانَ لِلْعِلْمِ اللَّدُنِي قَاصِبْ بَشَارَاتُ عِيسَى فِيهِ تَمَّتْ جُمَّةٌ هُوَ الْمُصْلِحُ الْمَوْعُوْدُ لَيْسَ يُشَارِكَ شَرِبْنَا مِنَ الْأَيَّامِ كَأْساً مَرِيرَةً لَوِ الدَّهْرُ سَالَمَنَا فَنَحْنُ نُحَارِبُ رَعَيْنَا بُدورَ الْأَرْضِ تَغُرُبُ فِي الدُّجى وَزُونَا اجِبَالَ الْأَرْضِ قَدْ تَتَسَارَبُ وَأَثْقَلُ مَحْمُولٍ عَلَى الْعَيْنِ دَمُعُهَا إِذَا بَانَ اَحْبَابٌ وَنَاحَتْ نَوَادِبُ وَأبْدِى التَّصَبُّرَ لِلْعَدُوِّ وَلَوْ دَرَى بتَحَرُّ قِي أَفْتَى بِــــانــي كَاذِبٌ مَنِ الَّذِي نَدْعُو وَ نَهْتِفُ بِاسْمِه إِذَا هَمَّ أَمْرٌ وَالتَّقَتْنَا الْكَرَائِبُ سمندر بادل

Page 128

ا لَا نُنَازِعُ 123 وَمَنْ لِكَلَامِ الــــــهِ يُظهِرُ قَدْرَهُ وَمَنْ فِي الْمَحَافِلِ يَحْضُرَنُ وَيُخَاطِبُ سَيَاتِي زَمَانٌ فِي الْبَرَايَاتُمَجَّدُ يُوَاسِيكَ أَهْلُ الشَّرْقِ ثُمَّ الْمَغَارِبُ وَصَلَّى عَلَيْكَ اللَّهُ مَا طَارَ طَائِرٌ وَمَا دَامَ دِينُ الْحَقِّ فِي الْأَرْضِ غَالِبُ بِكَ الْحَوْلُ يَا رَبَّ البَرَايَا وَ قُوَّةٌ فَوَقِّقُ لَنَا أَنْ نَصْرَنُ لا نُجَاذِبُ عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَأَنْتَ مَلَاذُنَا وَقَدْ مَسَّنَا ضُرِّ وَانْتَ الْمُغَالِبُ وَيَا رَبَّ صَلِّ عَلى نَبِيِّكَ دَائِماً الهى وَعَلَى مَسِيحِكَ عَبْدِكَ الْمُتَقَارِبُ ى بِوَجْهِ الْمُصْطَفَى وَ غُلَامِهِ تَحَنَّنْ عَزِيزاً يَوْمَ تُخْشَى لُعَوَاقِبُ

Page 129

124 تھی جن سے روشنی و وہ ستارے چلے گئے غم خوار و غمگسار ہمارے چلے گئے ٹوٹا وہ گل جو زینت باغ جہان تھا نصرت جہاں کے راج دلارے چلے گئے بیواؤں، بیکسوں کا سدا رکھتے تھے خیال بیواؤں، بیکسوں کے سہارے چلے گئے بلبل خموش، پھول پریشاں، چمن اداس گلشن کا رو.روپ رنگ نظارے چلے گئے آنکھوں میں اشک، لب پہ دعا، دل میں درد ہے ان کی ان کو پکارے چلے گئے تربت اشکوں نے غم کی آگ لگا دی جہان میں آہوں کے آسماں پر شرارے چلے گئے چھائی ہوئی ہے عالم ہستی تیرگی روشن ہوئے جو چاند ستارے چلے گئے یاد حزیں میں آج تڑپتے ہیں سوگوار جانے کہاں وہ جان سے پیارے چلے گئے اے شمع! بجھ گئی ہے جو کر کے ہمیں گداز پروانے تیرے ہجر کے مارے چلے گئے اشکوں میں ڈھل گئی ہے متاع دل قمر ایک ایک کر کے آنکھ کے تارے چلے گئے ( صادقہ قمر ایم اے ربوہ )

Page 130

125 آج اک کر سا محسوس مجھے ہوتا ہے چشم گریاں ہی نہیں دل بھی مرا روتا ہے بیقراری ہے مرے قلب حزیں کو لاحق پہلو بدلوں تو مجھے درد سوا ہوتا جس کا دم شمع شبستان تھا زمانہ کے لئے آه وہ ہے ماہ لقا زیر زمیں سوتا ہے ہجر کا داغ دیا فضل عمر نے افسوس غم جدائی میں بہت اس کی مجھے ہوتا ہے دیں کو قوت ملے ہر دم ہی یہی تھی کوشش وقف و تحریک یہ صاف عیاں ہوتا حضرت مصلح موعود ہوں لاکھوں سلام اب تو بتل کے یہی وردِ زباں ہوتا ہے ہے ( فضل الرحمن بسمل )

Page 131

126 قطعات تاریخ وفات حضرت خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ فواكه اے گرامی ارجمند اے قبلہ گاہ عارفاں تم سراپا نور دیں تھے اور رحمت کا نشاں“ طائر شیریں سخن اے خسرو ذی عزّ و شاں دو شمع دانش نیک خصلت“ علم وحکمت کے جہاں 1965 دل ہمارے خون بن کر آنسوؤں میں بہہ گئے عقل و دانش علم و حکمت بے سروپا ره گئے ( یعقوب امجد پبلک ہائی سکول کھاریاں) (ایک غیر از جماعت کے قلم سے) آج وہ آفتاب علم عمل در مفاک اجل غروب ہوا تابان آسمان کمال فاضلِ بے بے بدل غروب ہوا ہاتف نے ”آه را آسفا“ (1965) مہر برج عمل غروب ہوا ( کوکب تبریزی پشاور )

Page 132

127 ناگہاں کز بہر ہر مومن عیاں شد رنج و غم گریاں سینہ سوزاں یکجانے میں الم چشم آہ بشیر الدین محمود پیکرے فیض عمیم در جماعت پیشوائے ملک , ملت محترم زد قدم از دار فانی حسب فرمان خدا چوں بگوشش ارجعی آمد ندا مشهد یک قلم چوں سلف خوش یاد گارے بے بدل زیر فلک ہمنوائے پاکبازاں شد خراماں در ارم حسرتا از فرقش ماتم بپا شد سو به سو چشم تر خیلی شدند از هند تا عرب و ابر رحمت سائیاں بر عجم مضجعش شام و آمده کز قدسیاں کیں کلمہء نیکو فہم بے سر اندیشه از وصلش ضیاء اینک بگو ہمقر مین اولیاء در خلد بادا د میدم مفتی ضیاء الدین صاحب مفتی اعظم کشمیر ) ( تاریخ وفات 1385ھ آخری مصرعہ کے اعداد میں لفظ "اندیشہ کا سر یعنی الف کا عدد شامل کرنے سے برآمد ہوتی ہے.)

Page 132