Language: UR
حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جولائی 1960ء میں ایک احمدی خاتون کے خط کی معلومات کی بناء یہ مختصر مگر پراثر رسالہ تحریر فرمایا تھا جس میں درد بھرے انداز میں اس بابت اسلامی تعلیم کی گہرائی اور اور حکمتیں بتا کر سمجھایا کہ یہ نہ صرف شریعت کا حکم ہے جس کی بجاآوری موجب ثواب ہے بلکہ اس حکم کی تعمیل سراسر رحمت اور انصاف ہے۔ اس بابت یاد دہانی کی وقتاً فوقتاً ضرورت رہتی ہے کیونکہ یہ قابل افسوس اور قابل ملامت روش آج بھی مشاہدہ میں آتی ہے کہ کس طرح بعض لوگ اور خصوصاً زمیندار اپنی لڑکیوں کو جائیداد سے حصہ نہیں دیتے ہیں بلکہ نہایت ہوشیاری سے لڑکیوں کا حصہ لڑکوں کی طرف منتقل کردیتے ہیں۔
1 (صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے) ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ نہ صرف شریعت کا حکم بلکہ سراسر انصاف و رحمت ہے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ایم.اے یکے از مطبوعات
2 اعوذ بالله من الشيطن الرجيم يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُو اللَّهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّـهُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِيْمِ (الانفال : 30) اے ایمان والو! اگر تم متلی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کیلئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تم میں اور غیر میں فرق رکھ دے گا اور فرق یہ ہے کہ تم کو ایک ٹور دیا جائے گا جس نُور کے ساتھ تم اپنی راہوں پر چلو گے یعنی وہ نُور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آ جائے گا تمہاری عقل میں بھی نور ہو گا تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت و سکون میں نُور ہو گا اور جن راہوں میں تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی.آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 177-178)
3 رکھ پیش نظر وہ وقت بہن! جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیواریں روتی تھیں، جب دنیا میں تو آتی تھی کیا تیری قدر و قیمت تھی؟ کچھ سوچ! تری کیا عزت تھی تھا موت سے بدتر وہ جینا قسمت ت سے اگر بچ جاتی تھی عورت ہونا تھی سخت خطا تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جاتا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذبات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یاد تو کر ترکہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے ظلموں ان چھڑوا تا ہے بھیج اس درود محسن تو دن میں سو سو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار صَلَّ ءَ مُحَمَّدٍ کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ
پیش لفظ مارچ 2006ء کی مجلس مشاورت میں لڑکیوں کو وراثت کے حق دینے کے بارے میں قرآن کریم احادیث مبارکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے کرام کے ارشادات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کی ضرورت پر زور دیا گیا.اس موضوع پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد نے ایک پُر مغز مضمون لکھا تھا جو افادہ عام کے لئے شائع کیا جا رہا ہے.اس پیشکش سے ہم حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی سعادت بھی حاصل کریں گے کہ شوری کی نمائندگی مستقل نوعیت کی ہوتی ہے اور فیصلوں پر عمل درآمد کرانے کیلئے مسلسل کوشاں رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم ہمیشہ خلیفہ وقت کے ہر معروف حکم پر
5 کمانہ عمل کی توفیق پاتے رہیں.آمین اللھم آمین شعبہ اشاعت کی جشن تشکر کے سلسلہ کی کتب میں یہ پچاسی ویں (85) کتاب ہے ناظر صاحب اشاعت کی اجازت سے شائع ہو رہی ہے.شعبہ اشاعت کی ٹیم ہماری دعاؤں کی مستحق ہے اللہ تعالیٰ ان کو ہمیشہ بیش از بیش خدمات دینیہ کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین اللھم آمین
ایک احمدی خاتون جنہوں نے غلط میں اپنا نام ظاہر نہیں کیا لکھتی ہیں کہ جماعت کے ایک حصہ میں اور خصوصاً زمینداروں میں لڑکیوں کو حصہ نہ دینے یا ہوشیاری کے ساتھ لڑکیوں کا حصہ لڑکوں کی طرف منتقل کر دینے کی بدعادت ابھی تک چل رہی ہے.چنانچہ اس خاتون نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ میرے والد صاحب جو کہ خدا کے فضل سے بظاہر بہت مخلص اور دیندار ہیں اور صاحب جائیداد بھی ہیں بلکہ بہت معقول جائیداد رکھتے ہیں مگر انہوں نے مجھے اور میری بہنوں کو حصہ نہیں دیا.بلکہ ہمارے حصہ کی قیمت کے مطابق ہم سے روپے کی رسید لکھا کر ہمارے بھائیوں کے نام پر روپیہ جمع کرا دیا ہے وغیرہ وغیرہ.اگر یہ شکایت درست ہے ( اور میں یہ بات اگر کے لفظ کے ساتھ ہی کہہ سکتا ہوں گو بظاہر یہ شکایت درست معلوم ہوتی ہے واللہ اعلم) تو بہت قابل افسوس اور قابل ملامت ہے کیونکہ لڑکیوں کو ورثہ سے محروم کرنا نہ صرف شریعتِ اسلامی کے ایک صریح اور تاکیدی حکم کے خلاف اور گناہ ہے بلکہ حکومت کا بھی مُجرم ہے جس نے کچھ عرصہ سے یہ قانون بنا رکھا ہے کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنی لڑکیوں کو شریعت کے مطابق حصہ دیں.بیشک
7 زمینداروں کو اپنی زمین بہت محبوب ہوتی ہے بلکہ اکثر زمیندار تو زمین کے ساتھ ایک گونہ عشق کا رنگ رکھتے ہیں اور جائز حد تک مال ہر شخص کو ہی پیارا ہوتا ہے.مگر کیا ( دین حق ) اور احمدیت ہی نعوذ باللہ ایسی ناکارہ چیزیں ہیں کہ ان کے پیار کو ہر دوسری چیز کے پیار پر قربان کر دیا جائے؟ قرآن تو فرماتا ہے کہ:- الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ یعنی جو لوگ سچے مسلمان ہیں انہیں اپنے خدا اور خدا کے احکام کے ساتھ ہر دوسری چیز کے مقابل پر زیادہ محبت ہونی چاہئے.“ اور دنیا کے مال اور اولاد کے متعلق فرماتا ہے:.اَلْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَاج وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَيْرٌ اَمَلاه (الكهف : 47) د یعنی مال اور لڑکے (جن کی خاطر تم لڑکیوں کا حق مارتے ہو) محض اس ورلی دُنیا کی عارضی زینت ہیں مگر دائم اور قائم رہنے والی نیکی وہ ہے جو خدا کے حضور ثواب کا موجب اور اگلے جہان کی اُمید گاہ ہے.“ پس اگر احمدیوں نے (دین حق ) کو سچا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ
8 وآلہ وسلم کے دین کو خدا کی آخری اور کامل و مکمل شریعت سمجھ کر مانا ہے اور احمدیت کو خدا کی ایک رحمت یقین کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے.تو ان کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے یہ دُنیا ایک فانی چیز ہے.کیا وہ اس کی چند روزہ زینت کی خاطر اور اس عارضی زندگی کی نمائش کی چمک کی وجہ سے خدا کی ابدی رحمت کو جواب دے دیں گے؟ خدا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ:.يُحى الدين و يقيم الشريعة (تذكره) دد یعنی ہمارا یہ مسیح دین کے مٹے ہوئے نشانوں کو زندہ کرے گا اور ترک شدہ شرعی احکام کو پھر دوبارہ دُنیا میں قائم کر دے گا.“ پس آے ہمارے بھٹکے ہوئے بھائیو! اگر آپ میں سے کسی کو اپنے ایمان کی شرم نہیں تو کم از کم اپنے مقدس امام اور سلسلہ احمدیہ کے بانی کو تو خدا کے حضور شرمندہ ہونے سے بچاؤ ( کیونکہ بعض صورتوں میں خدا کے مرسلوں کو بھی اپنے متبعین کی بعض غلطیوں کے لئے جواب دہ ہونا پڑتا ہے) میں جانتا ہوں کہ خدا کے فضل سے جماعت کا بہت بڑا حصہ دین سے محبت رکھنے والا اور احکام شریعت کو شوق و ذوق سے ادا کرنے والا ہے مگر کہتے ہیں کہ ایک مچھلی سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے.پس جب تک آپ اپنے میں سے ہر فرد کو دینِ حق ) کے احکام پر پختہ طور پر قائم نہیں کر دیتے یا کم از کم جب تک
9 جماعت کی بھاری اکثریت اس مقام کو حاصل نہیں کر لیتی اس وقت تک آپ کی اجتماعی ذمہ داری ہرگز ادا شدہ نہیں سمجھی جا سکتی اور لڑکیوں کو اُن کے جائز حق اور شرعی ورثہ سے محروم کرنا تو صرف ایک گناہ ہی نہیں بلکہ کم از کم.سنگین گناہوں کا مجموعہ ہے.سب سے اول نمبر پر یہ شریعت کا گناہ ہے کیونکہ اس میں خدا تعالیٰ کے ایک واضح اور صریح اور قطعی حکم کی نافرمانی لازم آتی ہے.قرآن فرماتا ہے اور کن زور دار الفاظ میں فرماتا ہے کہ:- لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْاَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَط نَصِيبًا مَّفْرُوضًان (النساء : 8) د یعنی لڑکیوں کے لئے ان کے والدین اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے ترکہ میں سے خدا تعالیٰ نے معین حصہ مقرر کر رکھا ہے خواہ یہ تر کہ زیادہ ہو یا کہ کم ہو.اور یہ خدا کی طرف سے فرض کیا ہوا حق ہے جو بہر حال لڑکیوں کو ملنا چاہئے.“ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کو اولاد کے معاملہ میں انصاف کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے ایک لڑکے کو ایک گھوڑا ہدیہ دیا اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس
10 سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے اپنے دوسرے بچوں کو بھی ایسے ہی ہدیے دیے ہیں؟ اور جب اس نے نفی میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کے ساتھ فرمایا "جاؤ میں اس ظلم کی کارروائی میں گواہ نہیں بنتا.حالانکہ یہ ہدیہ دینے والے کی زندگی کا واقعہ تھا جب کہ وہ بعد میں اس کی تلافی بھی کر سکتا تھا مگر مرنے والے کے فعل کی تو کوئی تلافی ممکن نہیں.دوسرے نمبر پر یہ حکومت کا مجرم بھی ہے.کیونکہ کچھ عرصہ سے نمبر پاکستان کی حکومت نے یہ قانون پاس کر رکھا ہے کہ لڑکیوں کو ان کے والدین کے ترکہ میں سے (اور بیویوں کو ان کے خاوندوں کے ترکہ میں سے ) شریعت کے مطابق حصہ ملنا چاہئے.اور چونکہ حکومت کے قانون کی پابندی اولی الامر کے اصول کے مطابق شریعت کی رُو سے بھی لازمی ہے اس لئے یہ گویا دوہرا مجرم بن جاتا ہے.شریعت کا بھی اور حکومت کا بھی.تیسرے نمبر پر یہ جماعت احمدیہ میں اپنے امام اور خلیفہ وقت کے ساتھ بدعہدی بھی قرار پاتی ہے کیونکہ چند سال ہوئے حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جلسہ سالانہ کے موقع پر حاضرین جلسہ سے یہ عہد لیا تھا کہ جماعت کے لوگ شریعت کے مطابق لڑکیوں کو حصہ دیا کریں گے.اور اس موقع پر جملہ حاضرین نے جو ہزارہا تھے کھڑے ہو کر اپنے امام کے ساتھ اور امام کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے ساتھ یہ عہد کیا تھا کہ وہ آئندہ لڑکیوں کو ضرور حصہ دیں گے.
11 چوتھے نمبر پر لڑکیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنا بدترین قسم کا ظلم بھی ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے ایک کمزور جنس پر جو اپنی کمزوری اور شرم کی وجہ سے والدین اور بڑے بھائیوں کے سامنے زبان نہیں کھول سکتی ایک بھیانک قسم کا ظلم روا رکھا جاتا اور اسے اس کے مال سے محروم کر کے اس کا گلا گھونٹا جاتا ہے.پانچویں نمبر پر یہ اکل بالباطل اور گویا حرام خوری میں بھی داخل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے والدین اور لڑکیوں کے بھائی ایک ایسا مال کھاتے ہیں جو دراصل ان کا نہیں بلکہ اُن کی بیٹیوں اور بہنوں کا ہے اور وہ محض ٹوٹ مار یا دھوکے کے ذریعہ اس مال کے مالک بن جاتے اور جائز حقداروں کو محروم کر کے اُن پر قابض رہنا چاہتے ہیں.چھٹے نمبر پر یہ اپنے خون اور اپنی نسل کی جنگ بھی ہے کہ ایک باپ کے نطفہ سے پیدا ہونے اور ایک صلب سے نکلنے والی لڑکیوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا جاتا ہے کہ وہ گویا اپنے باپ کی بیٹیاں اور اپنے بھائیوں کی بہنیں ہی نہیں.اور انہیں عملاً نیچ ذات کی لونڈیوں کی طرح سمجھا جاتا ہے حالانکہ دینِ حق ) تو وہ مبارک مذہب ہے کہ سچ سچ کے غلاموں کے لئے بھی آزادی کا پیغام لے کر آیا ہے.الغرض لڑکیوں اور بیویوں کو ان کے جائز شرعی حق سے محروم کرنا ایک بہت بڑا گناہ بلکہ چھ گناہوں کا مجموعہ ہے اور بھاری ظلم میں داخل ہے.اور
12 میں تمام مخلص احمدی باپوں اور مخلص احمدی بھائیوں سے قرآنی الفاظ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ :- هَل انتم منتَهُونَ د یعنی کیا اب بھی تم اس ظلم سے باز نہیں آؤ گے؟“ کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں جہیز کی صورت میں بہت کچھ لے لیتی ہیں اس لئے اگر اُن کو باپ کے ورثہ میں سے کوئی حصہ نہ ملے تو یہ کوئی ظلم نہیں.لیکن اول تو نعوذ باللہ یہ خدائی شریعت پر ناپاک اعتراض ہے کہ خدا نے جہیز کا علم رکھتے ہوئے لڑکیوں کے لئے ورثہ میں حق مقرر کیا.علاوہ ازیں یہ ایک ایسا غذر ہے جو بدتر از گناہ ہے کیونکہ کیا لڑکوں کی شادی پر خرچ نہیں ہوتا؟ اور پھر کیا لڑکوں کی تعلیم پر لوگ ہزاروں روپیہ خرچ نہیں کرتے؟ بلکہ بعض والدین تو اپنے لڑکوں کو یورپ اور امریکہ بھجوا کر اپنی جائیدادیں ہی عملاً ختم کر دیتے ہیں.پس خدا را جھوٹے غذر بنا کر اپنے نفسوں کو دھوکا نہ دو.کیونکہ یقیناً تم قیامت کے دن اس کے متعلق پوچھے جاؤ گے.پھر کہا جاتا ہے کہ لڑکیوں کو حصہ دینے سے خاندان کی جائیداد دوسرے خاندان میں چلی جاتی ہے.میں کہتا ہوں کہ اگر سوچو تو مال دراصل خدا کا ہے اور انسان کا ترکہ جو وہ اپنی وفات کے وقت چھوڑتا ہے وہ تو خصوصیت سے خدا کا ہے.پس جب خود خدا اُسے ایک خاص رنگ میں تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے تو زید بکر عمر کو کیا حق ہے کہ اس تقسیم میں رخنہ ڈالے؟ اور
13 پھر جب تم نے ( دینِ حق) کی شریعت کو سچا سمجھ کر اس کے نیچے اپنی گردنیں رکھ دیں اور احمدیت کی غلامی کو برضا و رغبت قبول کر لیا اور ( دین حق ) کو خدا کی ایک نعمت جانا تو پھر یہ اب کتنی شرم کی بات ہے کہ ایک صداقت کو مان کر اس پر عمل کرنے سے انکار کرو.یہ تو ایمان نہیں بلکہ منافقت ہے کہ منہ سے ایک بات کو مانو مگر اپنے عمل سے اسے دھتکار دو.قرآن فرماتا ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ یعنی تم منہ سے ایک ایسی بات کیوں کہتے ہو جس پر تم عمل کرنے کو تیار نہیں ؟“ بعض لوگ اس موقعہ پر یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اگر خود لڑکیاں اپنی مرضی سے جائیداد کی جگہ نقد روپیہ لینے کو تیار ہوں تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اگر نیک نیتی سے اور پاک و صاف دل سے ایسا کیا جائے اور اس میں کوئی پہلو دھوکے اور فریب کا نہ ہو اور نہ ہی جائیداد کی قیمت لگانے میں چالاکی سے کام لیا جائے اور لڑکیوں پر کسی قسم کا دباؤ بھی نہ ڈالا جائے تو بے شک فریقین کی کامل رضا مندی اور شرح صدر سے ایسا ہوسکتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا خوب فرمایا ہے کہ:- مگر مشکل یہی ہے درمیاں میں کہ گل بے خار کم ہیں بوستاں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ ایک احمدی نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا حضرت! میری بیوی نے اپنی خوشی سے مجھے
14 اپنا مہر معاف کر دیا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.”ہم ایسی معافی کو جائز نہیں سمجھتے.آپ اپنی بیوی کو مہر ادا کر دیں اور پھر اس کے بعد وہ اگر اپنی خوشی سے آپ کو مہر کی رقم واپس کر دے تو تب جائز ہو گا.یہ صاحب کہیں سے قرض لے کر دوڑے ہوئے اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کی جھولی میں مہر کی رقم ڈال دی.اور پھر چند سیکنڈ انتظار کرنے کے بعد بیوی سے کہا کہ تم نے تو مہر معاف کر دیا ہوا ہے.اب یہ رقم مجھے واپس کر دو.اس نے کہا.واہ! اب میں کیوں واپس کروں؟ میں تو سمجھتی تھی کہ آپ نے مہر دینا ہی نہیں اس لئے مفت احسان کیوں نہ رکھوں.لیکن اب جب آپ نے مہر دے دیا ہے تو یہ میرا حق ہے.میں اسے واپس نہیں کرتی.بس یہی بات میں ހނ والدین اور بھائیوں سے بھی کہتا ہوں کہ فرضی معافیوں اور فرضی ادائیگیوں اپنے نفسوں کو دھوکا نہ دو.یہ سب باتیں تقویٰ اور دیانت کے خلاف اور چالا کی اور ریا کاری میں داخل ہیں اور مومن کی شان سے کوسوں دور.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں.سنو اور غور کرو ا:- تم ریا کاری سے اپنے تئیں بچا نہیں سکتے.کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو؟ پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ.اگر ایک ذرہ تیرگی بھی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری
15 ساری روشنی کو دُور کر دے گی.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکہ دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آ جائے.نفسانیت کی فربہی کو چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بُلائے گئے ہو اس میں ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے جو ان باتوں کو نہیں مانتا جو خدا کے منہ سے نکلیں اور میں نے بیان کیں.بس اسی پر میں اپنے اس نوٹ کو ختم کرتا ہوں.جن کے کان ہوں گے وہ سُنیں گے اور جن کے دل ہوں گے وہ مانیں گے اور باقی خدا کے حوالے.واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین خاکسار مرزا بشیر احمد - ربوہ 28 جولائی 1960ء
16 نام کتاب ورثہ میں لڑکیوں کا حصہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد مصنف 85 اول 1000 شمارہ نمبر طبع تعداد "WIRSAH MEIN LARKIOON KA HISSA" Writer: Hazrat Sahibzada Mirza Bashir Ahmad (MA)