Wasaal-eIsa

Wasaal-eIsa

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وصال

Author: Other Authors

Language: UR

UR
اختلافی مسائل و اعتراضات
وفات مسیح ناصری

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر انکشاف فرمایا کہ بنی اسرائیل کی طرف بھیجے گئے مسیح ابن مریم  رسول اللہ کی وفات ہوگئی ہے اور اللہ تعالیٰ  نے مرزا غلام احمد قادیانی کو ہی مسیح موعود اور ابن مریم بنایا ہے۔ اس پر آپ علیہ السلام نے ہر طرح کی مخالفت اور دشمنی سے بے پروا ہوکر مثالی لٹریچر تصنیف فرمایا، اور بعد تحقیق قرآن کریم کی آیات، احادیث نبویہ،سلف صالحین کی کتب کے حوالوں،مشرق و مغرب کی قدیم و جدید  کتب تاریخ اور طب سے عقلی اور نقلی دلائل کے انبار لگادیئے اورمخالفین کی طرح طرح کی غلط فہمیاں دور کرکے اور بےجا اعتراضات کا رفع کرکے بتا دیا کہ حامل انجیل مسیح ناصری علیہ السلام کی جان واقعہ صلیب میں معجزانہ طور پرمحفوظ رہی، ان کو ہندوستان کی طرف کامیاب سفر کی توفیق ملی اور وہ اپنا مشن مکمل کرکے کشمیر میں وفات پاکرمدفون ہوئے اور دیگر انبیاء کی طرح  داخل جنت ہوچکے ہیں۔ اس مختصر کتابچہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصال کے موضوع پر اساسی مواد باحوالہ اور یکجا موجود ہے۔


Book Content

Page 1

بسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد علیہ السّلام نے ۱۸۸۹ء کے ماہ مارچ میں بمقام لرحیا نہ الہامات ربانی کے ماتحت جماعت احمدیہ کی بنیاد ڈالی اور آپ نے سعید روحوں کو بعیت کی دعوت دی.آپ کی اسلامی خدمات اور تقوی اور نیکی کی بنیاد پر کثرت سے نیک لوگوں کا آپ کی طرف رجوع ہونا شروع ہوا.اس زمانہ میں مسلمانوں کی مذہبی فضا کافی حد تک آپ کی تائید میں تھی کہ یکایک ۱۸۹۰ء کے اواخر میں خدا تعالی کی طرف سے آپ پر یہ انکشاف ہوا.-۱ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے.اے ٣ - جَعَلْنَاكَ المَسيحَ ابْنَ مَريم له یعنی ہم نے تجھ کو ابن مریم بنایا.اس امر کو جب آپ نے دنیا کے سامنے پیش کیا.تو دنیا آپ کی مخالفت پر تل گئی خصوصاً مسلمان علماء نے تو آپ پر اور آپ کی جماعت پر کفر کے فتو سے تک لگائے.اس زمانہ کے علماء نے آپ کے مقابلہ پر حیات مسیح ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن آپ نے تخدی کے ساتھ اس مسئلہ کو پیش کیا اور لکھا کہ آخر دنیا کے لوگ وفات مسیح کے مسئلہ کو ماننے پر مجبور ہوں گے.کیونکہ اسلام کی زندگی اسی میں ہے کہ مسیح ناصری کی وفات کو ثابت کیا : انزالہ اوہام صف روحانی خزائن جلد نمبر ۳ شمار - ه: - ازاله او نام ۲۳.روحانی خزائن جلد نمبر ۳ ۶۱۹۸۵ ص - -

Page 2

جائے.اور آپ نے اعلان کیا کہ مسلمانوں کا یہ رسمی عقیدہ کہ مسیح ناصری حضرت عیسی آخری زمانہ میں آسمان سے بجسد عنصری اتریں گے.اس سے مراد یہ تھا کہ امت محمدیہ کا ایک فرد بسیجی صفات سے کر دُنیا میں آئے گا.اور اس کے ذریعہ سے اسلام دنیا میں ترقی کرے گا.اور وہ ہیں ہوں اور عیسٹی کا نفس نفیس دوبارہ دنیا میں آنا ایک امر محال ہے.وہ تو وفات پاچکے ہیں.آپ نے قرآن و احادیث، عقل و نقل اور اندر دئے تاریخ دلائل تحریر فرما کہ نہ صرف وفات مسیح کو ثابت فرمایا.بلکہ حضرت مسیح کا مدفن بھی کشمیر میں ثابت کر دیا.وفات و حیات مسیح ناصری کے عقیدہ کی اہمیت اور ضرورت مسئلہ وفات و حیات سیٹے کو دو لحاظ سے اہمیت حاصل ہے.اول اس لئے کہ چونکہ مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا ہے اس لئے جب تک پہلے مسیح کی وفات نہ ثابت کی جائے آپ کا دعوی قابل قبول نہیں ہو سکتا.کیونکہ جس منصب کا مرزا صاحبت کا دعویٰ ہے جب تک اس کی کرسی خالی نہ ہو حضرت مرزا صاحب کی سچائی کے متعلق دل مطمئن نہیں ہو سکتا.لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس روگ کو دور کیا جائے.دوسرا اس لحاظ سے کہ دنیا کا بیشتر حصہ عیسائی مذہب کا پیروکار ہے اور وہ بیج ناظری کو خُدا کا بیٹا جانتے ہیں اور ان کا اعتقاد ہے کہ حضرت مسیح چند سال دنیا میں گزارنے کے بعد پھر آسمان پر واپس چلے گئے.اور وہاں زندہ موجود ہیں اور خُدا کی خدائی میں شریک ہیں.ادھر مسلمانوں کا حیات مسیح کا رسمی عقیدہ بھی عیسائیوں کی امداد کرتا تھا.لہذا الوہیت مسیح کے بطلان کے لئے بھی ضروری ہے کہ مسیح کی وفات ثابت کی جائے.ان دو وجوہ کی بناء پر ضروری ہے کہ قرآن و حدیث عقل و نقل کی رُو سے اس مسئلہ کو صاف کر کے مخلوق خدا کی ہدایت کا سامان مہیا کیا جائے اور عیسائیت کے مقابلہ میں اسلام کا بول بالا ہو.

Page 3

ہم یہاں تو آیات قرآنی اور چار احادیث نبویہ اور پانچ امت کے اکابر کی شہارات پیش کرتے ہیں.جن کی رو سے وفات مسیح کا مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے.اور آخر میں اس مسئلہ کے سمجھنے میں جو شبہات اور رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں ان کا ازالہ بھی کریں گے.قرآنی دلائل پہلی آیت :.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :- وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمُ (ال عمران : ۱۳۵) ترجمہ :.اور نہیں محمد مگر رسول.یقیناً فوت ہو گئے آپؐ سے پہلے تمام رسول کیا پس اگر وہ مرگئے یا قتل ہو گئے تو تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے ؟ استدلال :.یہ آیت صاف طور پر بتاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذرے :- ہوئے سب نبی فوت ہو چکے ہیں اور ظاہر ہے کہ مسیح ناصری بھی ایک رسول تھے جو چھ سو سال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مبعوث کئے گئے تھے.پس لامحالہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ بھی اس آیت کی رو سے فوت ہو چکے ہیں.سوال :- اگر کوئی اعتراض کرے کہ لفظ قد خَلَتْ کا ترجمہ ہے گزر گئے نہ کہ قوت ہو گئے، تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ لغت عربی کی مستند کتاب تاج العروس میں لکھا ہے کہ خَلافُلَانُ : إِذا مات یعنی فلاں شخص گذر گیا کا معنی ہے وہ فوت ہو گیا.(دوسرا) مرزا صاحب سے پہلے مسلمان بزرگوں نے بھی اس کے معنے وفات دینے ہی کے کئے ہیں.چنانچہ مشہور عالم دین حافظ محمد صاحب لکھو گے والے اپنی تفسیر محمدی میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :.

Page 4

یعنی جویں پیغمبر گذر سے زندہ رہیا نہ کوئی تیویں محمد ہے نہ دائم موت ہند سے سر ہوئی اسے د تیسرا اس آیت میں خود اللہ تعالیٰ نے خلا کے معنوں کی تعیین کر دی ہے جیسا کہ فرمایا : آفَانْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ یعنی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طبعی موت سے مر جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو گویا اس جگہ لفظ خَلَتْ کے معنی لازمی طور پر ان دو صورتوں میں سے ایک ہونے چاہئیں یعنی یا تو یہ کہ وہ طبعی موبت سے سرگئے اور یا وہ قتل ہوئے.الفاظ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ صاف مبتلا سے ہے ہیں کہ گذشتہ انبیاء کا گذر جانا دو صورتوں میں ہوا یا قتل سے یا طبعی موت ہے.اب جبکہ حضرت مسیح کے بارے میں خُدا تعالے نے دوسری جگہ وَمَا قَتَلُوهُ " فرما کر فیصلہ کر دیا کہ و قتل نہیں ہوئے لہذا ایک ہی صورت رہ گئی کہ وہ طبعی موت سے مرگئے.وفات سینے پر صحابہ کا اجماع (چوتھا، اس آیت کے معنے اور بھی زیادہ واضح ہو جاتے ہیں جب ہم اس کو ایک مشہور تاریخی واقعہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں.بخاری شریف میں لکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت عمرض ابھی تک آپ کو زندہ ہی سمجھ رہے تھے اور کہتے تھے آپ پھر واپس آجائیں گے اور کفار اور منافقین کا قلع قمع کریں گے وہ اپنے اس خیال پر اس قدر مجھے ہوئے تھے کہ انہوں نے تلوار کھینچ کر اعلان کرنا شروع کیا.کہ جو کوئی بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت شدہ کہے گائیں اس کی گردن اڑا دوں گا.اس وقت حضرت ابو بکر صدیق نہ کھڑے ہو گئے اور صحابہ کے سامنے یہی آیت پڑھی کہ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ - له تفسیر محمدی ۳ منزل اول حافظ الصمد بن عارف مطبع محمدی واقع التهور : ہے :- آل عمران : ۱۴۵ :

Page 5

یعنی محمد تو صرف ایک رسول تھے ان سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ سب فوت ہو چکے ہیں.الخ.لکھا ہے کہ حضرت عمرہ پر اس بات کے سننے سے اس قدر غم طاری ہوا کہ وہ زمین پر گیر گئے.کیونکہ انہوں نے اس وقت محسوس کر لیا کہ یہ وفور عشق کا کرشمہ تھا کہ وہ رسول اللہ کو زندہ سمجھے رہے تھے ورنہ انکے پیارے آقا بھی اللہ کے صرف ایک رسول تھے جنہوں نے گزشتہ انبیاء کی طرح عورت کے دروازے سے گزرنا تھا.اے اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی گذشتہ نبی اس وقت تک زندہ ہوتا تو حضرت ابو بکر کے اس استدلال پر کہ چونکہ پہلے سب نبی فوت ہو چکے ہیں.طبعا سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی فوت ہونا چاہیئے صحابہ کرام ضرور اعتراض کرتے اور خصوصا حضرت عمر اور انکے ہم خیال لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی تک زندہ تصور کر رہے تھے وہ ضرور چل اٹھتے کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہو ؟ کیا مسیح ناصری زندہ نہیں ؟ ہذا ہمارا نبی بھی زندہ ہونا چاہیے.مگر سب صحابہ خاموش ہو گئے گویا صحابہ کا سب سے پہلا اجماع اس بات پہ ہوا کہ گذشتہ انبیاء تمام کے تمام فوت ہو چکے ہیں.غور کا مقام ہے کہ مسیح ناصری کی وفات پر یہ کیسی صاف اور واضح دلیل ہے.دوسری آیت - آجکل دنیا کا ایک بڑا حصہ مسیح کو خدا مانتا ہے اس لئے اس حیثیت میں بھی قرآن مجید ان کی وفات کا ذکر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ احْيَاءٍ وَ مَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ نه : - بخاری جلد اول، کتاب المناقب باب قول النبی نوكنت متخذا خليلاً - له : - النحل رکوع ۲ آیت :۲۲,۲۱ -

Page 6

ترجمہ :.اور جن معبودوں کو یہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے.بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں وہ مردے ہیں نہ کہ زندہ اور وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ کب اُٹھائے جائیں گے.استدلال :.دنیا میں جن لوگوں کی عبادت کی گئی اور ان کو خُدا کا شریک بنایا گیا.ان میں حضرت مسیح کا نمبر پہلے درجہ پر ہے.لہذا اس آیت کی رو سے جہاں سب بزرگ جن کو خدائی کا درجہ دیا گیا وفات یافتہ ثابت ہوتے ہیں وہاں حضرت مسیح پہلے نمبر پہ وفات یا فتہ ثابت ہوتے ہیں.کیونکہ جتنی پوجا ان کی کی گئی اتنی پو جا خدا کے مقابل پر کسی دوسرے انسان کی نہیں کی گئی.لہذا وہ اَمْوَاتُ غَيْرُ اختیار میں پہلے نمبر پر داخل ہیں یعنی وہ مردہ ہیں نہکہ زندہ اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا بعث کب ہوگا ؟ سوال :.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے ثبت مراد ہیں.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ ان معبودوں کے متعلق یہ مذکور ہے وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ یعنی وہ اتنا بھی نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے.اب ظاہر ہے کہ بعث یعنی اٹھایا جانا پتھر کے بتوں کا نہیں ہوا کرتا بلکہ انسانوں کا ہی موت کے بعد بعث ہوگا.لہذا اس آیت میں انسانوں کا ذکر ہے.(دوسرا) یہاں" الذين" کا لفظ استعمال ہوا ہے جو عربی قواعد کی رُو سے ذوی العقول یعنی عقل رکھنے والے جانداروں کے لئے استعمال ہوتا ہے.لہذا یہاں پتھر مراد نہیں ہو سکتے.تیسری آیت - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ تَبْلِكَ الْخُلْدَ.آنان متَ

Page 7

فَهُمُ الْخُلدون - الا نبیاء ع آیت : ۳۵) ترجمہ :.اور ہم نے تجھ سے پہلے اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کسی انسان کو خلود یعنی غیر طبیعی ملی زندگی نہیں دی.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ تو فوت ہو جائے اور وہ زندہ رہیں ؟ استدلال : دیکھو اللہ تعالیٰ کسی قدر غیرت سے فرماتا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ تو جو انْفَعُ لِلنَّاسِ ہے دُنیا سے رحلت کہ جائے اور کوئی تجھ سے پہلے کا انسان زندہ ہو.پس ثابت ہوا.حضرت مسیح تمام انسانوں کی طرح جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گذرے وفات پاگئے.چوتھی آیت.قرآن مجید فرماتا ہے :." يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ دَرَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ القِيمة : (ال عمران نے آیت : ۵۶) (OY ترجمہ :.اسے عیسی میں تجھے تیری طبعی موت سے وفات دُوں گا.اور تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے پاک کروں گا ان لوگوں سے جنہوں نے کفر کیا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکرین پر غالب رکھوں گا.استدلال :- اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح کی سخت مخالفت کی اور ان کو مارنا، در قتل کرنا چاہا اور قسم قسم کی تکالیف دینا شروع کیں تو اللہ تعالیٰ نے مسیح ناصری سے چار وعدے کئے جو ایک خاص ترتیب میں واقع ہوئے ہیں.یعنی را) وفات (۲) رفع (۳) تظہیر (۴) غلیہ -

Page 8

پس اسی ترتیب کے مطابق اللہ تعالے نے پہلے حضرت عیسی کو وفات دی پھر ان کا رفع کیا.پھر متر آن کے ذریعہ یہودیوں نے آپ پر جو الزامات لگائے تھے ان سے آپ کو پاک کیا پھر چوتھے وعدہ کے مطابق میچ کے تابعداروں کو یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کو آپ کے منکرین یعنی یہود پر قیامت تک غلبہ دیا جو ترتیب اللہ تعالے نے قرآنی الفاظ کی رکھی ہے اسی کے مطابق جب پچھلے تین وعدے مسلمہ طور پر پورے ہو چکے ہیں.تو ضرور ماننا پڑتا ہے کہ پہلا وعدہ جو مسیح کی وفات سے متعلق تھا وہ بھی پورا ہو چکا ہے.سوال : بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں جو لفظ مُتَوَفِّيكَ کا آیا ہے اس کا مصدر ہے تونی اور تونی کے معنے قبض روح یعنی وفات کے نہیں بلکہ اس کے معنے ہیں سارے کا سارا اُٹھا لینا.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ قرآن شریف کے ۲۳ مقامات میں لفظ توئی قبض روح کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.اوّل سے آخر تک سارا قرآن پڑھ لو.کہیں قبض روح کے بغیر اس لفظ کا استعمال نہیں ہوا.لہذا یہ ہٹ دھرمی ہے کہ تونی کا لفظ جب کسی اور انسان ، رسول حتی کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال ہو وہاں اس کے معنے قبض روح کے لئے جائیں اور جنب مسیح ناصری کے لئے استعمال ہو وہاں سارے کا سارا اٹھا لینا مراد لیا جائے.یہ کیسا انصاف ہے ؟ دوسرا جواب یہ ہے کہ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عباس جو جلیل القدر صحابی ہیں انہوں نے اس کی تشریح کی ہے :.قَالَ ابْن عَبَّاسِ مُتَوَنِيْكَ أَنْ مُمِيتُكَ له : صحيح بخاري الجز الثاني كتاب التفسير باب مَا جَعَلَ الله من بعيرة

Page 9

یعنی متونیت کے معنے مميتكَ ہیں.یعنی میں تجھے وفات دوں گا.تیسرا اگر متو نيك كا معنی سارے کا سارا اٹھانا ہے تو اس آیت میں کرا فعلت کا لفظ مہمل اور بے فائدہ ماننا پڑتا ہے.چوتھے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے لفظ توئی پر ایک چیلنج شائع کیا ہے اور اس پر بھاری انعام مقرر کیا ہے.جس کا جواب آج تک دنیا کا کوئی عالم نہیں دے سکا.اور وہ یہ ہے:." جب خدا فاعل ہو اور صرف انسان مفعول بہ ہو تو تونی کے معنے سوائے قبض روح کے ہر گز اور کوئی نہیں ہو سکتے.اے پانچویں آیت : - اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :.وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ أنتَ الرَّحِيْبَ عَلَيْهِم (سورہ المائده ع ۱۶ آیت (۱۸) ترجمہ : اور تھائیں ان پر گواہ جب تک ان کے اندر رہا.پس جس وقت تو نے مجھے وفات دی تو پھر تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا.استدلال :- یہ ٹکڑا ایک لمبی آیت کا ہے اس سے پہلے یہ مضمون ہے کہ اللہ تعالے قیامت کے دن عیسی بن مریم سے پوچھے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ تم مجھے اور میری ماں کو دو خدا مانو اللہ کے سوا ؟ تو اس پر حضرت عیسیٰ جواب دیں گے ” پاک ہے تیری ذات مجھے زیبا نہیں کہ کہوں وہ بات جس کا مجھے کوئی حق نہیں.اگر میں نے کوئی ایسی بات کہی ہے تو تو اُسے جانتا ہے.تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے لیکن میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے ے ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد ۲ :

Page 10

تو بے شک سب نمیسوں کا جاننے والا ہے.میں نے ان کو اس بات کے سوا حبس کا تو نے مجھ کو حکم دیا تھا اور کچھ نہیں کہا.اور وہ یہ کہ عبادت کرو اس کی جو میرا اور تمہارا دونوں کا پرور دگار ہے اور میں ان پر نگران رہا.جب تک کہ میں ان کے درمیان رہا.لیکن اسے خُدا! جب تو نے مجھے وفات دیدی تو پھر تو تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا.اور تو ہر ایک چیز پر نگران ہے؟ یہ آیت مسیح کی وفات پر دلیل کا ایک سورج چڑھا دیتی ہے.یہاں مسیح صرف دو زمانوں کا ذکر کرتے ہیں.پہلا زمانہ وہ جس میں سیٹ ان کے اندر موجود تھے.اور دوسرا زمانہ وفات کے بعد کا زمانہ میسیج کہتے ہیں کہ میری قوم میں شرک کا دور میری وفات کے بعد شروع ہوا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی کئی صدیوں سے شرک میں گرفتار چلے آتے ہیں.اور مسیح اقرار کرتے ہیں کہ شرک میری وفات کے بعد شروع ہوا.پس معلوم ہوا کہ مسیحی مدت سے وفات پاچکے ہیں.دوسرا استدلال یہ ہے کہ اگر بالفرض مان لیا جائے کہ مسیح اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں، اور آخری زمانہ میں قیامت سے پہلے زمین پر نازل ہونگے تو لا محالہ وہ سب عیسائیوں کا شرک اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے اور اپنی امت کے بگاڑ سے پورسے واقف ہو جائیں گے اور انہیں معلوم ہو جائے گا.کہ میری اُمت مجھ کو خُدا بنا رہی ہے تو اس صورت میں وہ کس طرح اپنی نا واقفیت کا اظہار کر سکتے ہیں.یقین مسیح کی طرف سے یہ نعوذ باللہ ایک غلط بیانی ہوگی.اگر وہ باوجود علم رکھنے کے پھر لاعلمی کا اظہار کریں حدیث میں اس آیت کی تفسیر حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ لوگ جہنم کی طرفت چلائے جائیں گے.حضور فرماتے ہیں میں ان کو دیکھ کر چلا اٹھوں گا " أَصَيْحَانِي - أَصَيْحَابِی " یہ تو میرے صحابہ ہیں.یہ تو میر سے صحابہ ہیں.اس پر فرشتے کہیں گے:.

Page 11

" آپ نہیں جانتے یہ لوگ تو آپ کے بعد اپنی ایڑیوں کے بل پھر گئے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پیش کرئیں وہی کہوں گا جو ایک نیک بندے عیسی بن مریم نے کہا : - كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ : له یعنی جب تک میں ان کے درمیان رہا ئیں ان کی نگرانی کہ تارہا.لیکن جب اے خُدا تو نے مجھ کو وفات دے دی تو پھر تو ہی ان کو دیکھنے والا تھا.دیکھئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی الفاظ اپنے متعلق استعمال کئے جو حضرت عیسی نے کئے تھے.اب یہ ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آسمان پر نہیں اُٹھائے گئے.بلکہ موت نے ہی آپ کو اپنے متبعین سے الگ کیا تھا.یہی معنے عیسی کے متعلق لینے چاہئیں.چھٹی آیت : - قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے فرماتا ہے :.فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَفِيْهَا تَمُوتُونَ : (الاعراف رکوع ۲ آیت : ۲۶) ترجمہ :.تم اپنی زندگی کے دن زمین پر ہی کاٹو گے اور زمین پر ہی تمہیں موت آئیگی " استدلال : اس آیت میں اللہ تعالیٰ وضاحت کے ساتھ فرماتا ہے کہ انسانوں کے لئے یہ مقدر ہو چکا ہے کہ وہ زمین پر ہی زندگی کے دن گزاریں گے اور زندگی کے دن گزارنے کے بعد جب موت کا وقت آئے گا تو ان کی موت بھی زمین پر ہی ہو گی.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت عیسی با وجود ایک انسان ہونے کے کس طرح مجسم عنصری آسمان پر جا بیٹھے کیا سی کو زندہ آسمان پر پہنچاتے ہوئے (نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ اپنے اس فیصلہ کو بھول گیا.1- ما ه - الصحيح البخاري الجز الثاني كتاب التقصير باب قول ما جعل الله من بحيرة ولا سابئة -

Page 12

4 i ۱۲ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.الَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ لِفَاتَاهُ اَحْيَاء وَأَمْوَاتَاهُ السلات : ۲۶۲).یعنی ہم نے اس زمین کو ایسا بنایا ہے کہ وہ زندوں اور مردوں کو اپنے پاس رکھنے والی ہے.اس آیت نے گویا پہلی آیت کی تشریح کر دی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے زمین کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ نہ ندوں اور مردوں کو اپنے ساتھ لگائے رکھتی ہے اور انسانی جسم کو باہر نہیں جانے دیتی یہ آیت بھی مسیح کے آسمان پر جانے کو غلط ثابت کر رہی ہے.ساتویں آیت : جب کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو ہمیں آسمان پر پڑھ کر دکھائیں پھر ہم مان لیں گے.تو اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے آپ کو حکم دیا کہ اے رسول تو ان کو جواب دے :- قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إِلَّا بَشَرًا وَسُوْلاً ربنی اسرائیل غا آیت : ۹۴) یعنی پاک ہے میرا رب میں تو صرف ایک انسان رسول ہوں.استدلال : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا ہے کہ ایک بشر کا زندہ آسمان پر جانا خُدا کی سنت اور وعدہ کے خلاف ہے اور خُدا اس بات سے پاک ہے کہ خود اپنے فیصلوں کو توڑ سے نور کا مقام ہے کہ کفار عرب نبی کریم صلی اللہ علی وسلم جیسے عظیم الشان انسان سے آسمان پر جانے کا معجزہ طلب کرتے ہیں اور اس قسم کا معجزہ دیکھنے پر ایمان لانے کا وعدہ کرتے ہیں بیکن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاف جواب دیتے ہیں کہ میں تو صرف ایک بشر ہوں اور کوئی بشر آسمان پر زندہ نہیں جاسکتا.اس آیت کے ہوتے ہوئے اگر ایک عیسائی اس بات کے کہنے کی جرائت کرے تو کر سے کر مسیح آسمان پر چلا گیا.مگر ایک مسلمان کہلانے والا انسان جو ٹیم کو ایک انسان اور

Page 13

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درجہ میں بہت چھوٹا انسان یقین کرتا ہے وہ ایک لمحمد کے لئے بھی اس بات کو قبول نہیں کر سکتا کہ حضرت مسیح ناصری اپنے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جابیٹھے ہیں.غیرت کی جا ہے عیسی زندہ ہو آسمان پر مدفون ہو زمیں میں شاہ جہانی ہمارا آٹھویں آیت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.رو وَمَا الْمَسِيحُ بْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلُ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاللَّهُ صِدِّيقَة كَانَا يَا كَلانِ الطَّعَامَ المائده في آيت (4) ترجمہ.اور نہیں سیح بن مریم مگر رسول تحقیق گذر چکے پہلے اسے کئی رسُول.اس کی ماں ایک پاک اور سچی عورت تھی.وہ دونوں ماں بیٹا کھانا کھایا کرتے تھے.استدلال : اس آیت سے ثابت ہے کہ مسیح اور ان کی والدہ کھانے کے محتاج تھے.اور ان کا بادی جسم بغیر کھانے کے بہ قرار نہ رہ سکتا تھا.اورالہ تعالی کا بطور ماضی استمراری یہ بیان کرنا کہ وہ کھانا کھایا کرتے تھے.صاف دلالت کرتا ہے کہ اب وہ کھانے کے محتاج نہیں.لہذا ثابت ہوا کہ اب وہ دونوں وفات پاچکے ہیں.سوال : اگر کوئی اعتراض کرے کہ میٹی کا جسم کھانے کے بغیر ہی زندہ اور برقرار ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں محکم طور پر ہمیں یقینی خبر دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء کے اجسام طعام کے بغیر قائم رہنے والے نہ تھے.چنانچہ اللہ تعالئے فرماتا ہے :."وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَا كُنُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ (الفرقان ع - آیت :٢١) یعنی ہم نے اسے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھ سے پہلے رسول نہیں بھیجے.مگر وہ کھانا

Page 14

کھایا کرتے تھے.اور بازاروں میں پھرا کرتے تھے.راسی طرح ایک اور آیت اس مسئلہ کا قطعی فیصلہ کرتی ہے کہ کسی نبی کا جسم بغیر کھانے کے قائم رہنے والا نہیں اور وہ یہ ہے :.وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خلدين : (الانبیاء ع - آیت : 9) اور ہم نے ان نبیوں کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے جو کھانا نہ کھاتے ہوں، اور نہ تھے وہ ہمیشہ رہنے والے.نویں آیت : - اللہ تعالی فرماتے ہیں :- " وَأَوْصَانِي بِالصَّلوةِ وَالزَّكَوةِ مَا دُمْتُ حَيَّا از مریم راه آیت ۳۲۶) ترجمہ :.عیسی نے کہا.اللہ تعالے نے تجھے تاکیدی حکم دیا ہے کہ جب تک میں زندہ رہوں نماز پڑھتا رہوں اور نہ کواۃ ادا کرتا رہوں.استدلال :- یہ آیت فیصلہ کرتی ہے کہ اپنی زندگی کے زمانہ میں حضرت عیسائی نما نہ پڑھنے تھے اور زکواۃ بھی دیا کرتے تھے اب چونکہ وہ وفات پاچکے ہیں.اور دارالعمل میں نہیں رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے پاس جنت میں ہیں.لہذا اب ان پر نہ نماز فرض ہے نہ زکواۃ.جیسا کہ ہر انسان پر شریعیت کی تکلیف زندگی میں ہوتی ہے نہ کہ مرنے کے بعد.دوسرا اگر وہ آسمان پر زندہ مرض کئے جائیں اور ان احکام کی پابندی ان پر اب بھی ضروری تجویز کی جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ انکے پاس آسمان پر روپیہ بھی ہو اور زکوۃ وصول کرنے والوں کا ایک گردہ بھی موجود ہو اور یہ باتیں بالبہداہت محال ہیں.اسی طرح اگر حضرت عیسی اب بھی آسمان پر نمانہ پڑھتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسی نماز پڑھتے ہیں.اسلامی نمازہ یا اسرائیلی نماز.اگر کہا جائے اسرائیلی تو وہ قرآن کے بعد منسوخ

Page 15

۱۵ ہو چکی اگر کہا جائے اسلامی نمازہ تو اس کی ان کو خبر کیسے ہوئی.بہر حال یہ آیت بھی حضرت میٹی کی وفات پر دلالت کرتی ہے.وفات مسیح از رو نے احادیث یہاں ہم صرف چار احادیث پیش کرتے ہیں جو سٹیج کی وفات کو ثابت کرتی ہیں :.(1) انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :.ان عيسى بْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةً سَنَةٍ - یعنی عیسی بن مریم ایک سو بین سال زندہ رہے.لہ یہ حدیث میے کی عمر کی تعین کر کے صاف طور پر ان کی وفات پر دلالت کرتی ہے.(۲) حضور صل اللہ علیہ سلم فرماتے ہیں :.تَوَكَانَ مُوسَى و عِيسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِي له یعنی اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اطاعت کے بغیر چارہ نہ ہوتا.یہ حدیث صاف فیصلہ کرتی ہے کہ نہ موسیٰ زندہ ہیں نہ عیسی زندہ ہیں.معراج کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.جب میں دوسر سے آسمان پر گیا.توئیں نے وہاں یحیی اور عیسی کو دیکھا " سے ه : کنز العمال عبد من ان الامر لا والدين على ملتقى مطبوع حیدر آباد ، مستدرک حاکم من (1) زرقانی جلد ۲ - -i) تفسیر ابن کثیر اردو جلد اول - آل عمران مثه از نور محمد کارخانه تجارت آرام باغ کراچی ان، تفسیر ابن کثیر برما شیر تفسیر فتح البیان جلد ۲ - ۱ الیواقیت والجواہر اند امام عبد الوہاب شعرانی جلد منت به ھے :- الخصائص الکبری جلد اول مثلا از جلال الدین عبد الرحمن مطبوعہ حیدر آباد دکن :

Page 16

14 اب یہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ یحیی فوت ہو چکے ہیں اور ان کی روح جسم عنصری سے الگ ہے.اس لئے ثابت ہوا میسیج بھی فوت شدہ ہیں.کیونکہ مردوں میں وہی شخص رہتا ہے جو خود فوت شدہ ہو.دم) - (اختلاف خکلیتین) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مسیحوں کا الگ الگ حلیہ بیان فرمایا ہے آپ نے مسیح اسرائیلی کا حلیہ معراج کی رات یوں بیان کیا : - فَا مَّا عيسى أَحْمَرُ جَعْدٌ له کر عیسی شریخ رنگ اور گھنگریا سے بالوں والے تھے اور جہاں آپ قاتل دقبال مسیح کا صلیہ ذکر کرتے ہیں.تو فرماتے ہیں :- ترجل أَدَهُ سَبْطُ الشَّعْرِ له کہ وہ گندم گوی کھلے بالوں والا تھا.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دو مسیحوں کا الگ الگ حلیہ بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیلی مسیح اور ہے اور محمدی مسیح دوسرا شخص ہے.:- حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں : 8 سید جدا کند ز مسیحائے احمرم سے کہ میرا آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم مجھے سُرخ رنگ کے مسیح سے جدا کرتا ہے.شہادات اکابر امرتے بعض لوگ کہتے ہیں کہ حیات مسیح پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے.لہذا احمدی جماعت ه بخاری جلد اول کتاب الانبياء باب وا ذكر فى الكِتب مَرْيَمَ إِذَا نَتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا.ه : در تمین فارسی ص ۲۳ ، ازاله او یام ما ۱۵.

Page 17

14 وفات مسیح مان کر اجماع امت کے برخلاف چلتی ہے.تو اس کے جواب میں یا د رکھنا چاہیئے کہ جب قرآن و حدیث نبویہ سے وفات مسیح ثابت ہو گئی تو قرآن و حدیث کے مقابلہ میں کو نسا اجماع پیش ہو سکتا ہے.قرآن نے مسیح کو مار دیا.احادیث سے وفات ثابت ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوت ہو کر ثابت کر دیا کہ تمام نبی وفات پاگئے ہیں.سے بدنی گر کسے پائندہ بودے ابوالقاسم محمد زندہ بودے صحابہ کا پہلا اجماع جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں اس بات پر ہوا کہ تمام انبیاء وفات پاگئے ہیں.پس چند مولویوں کا اجماع کہ عیسی آسمان پر زندہ ہے قرآن وحدیث اور صحابہ کے اجماع کے مقابلہ میں کوئی وقعت نہیں رکھتا.باقی یہ کہنا کہ اس مسئلہ پر تمام امت کا اجماع ہے غلط ہے.ہمارے پاس امت محمدیہ کے بزرگوں کی بیسیوں شہادتیں موجود ہیں جو وفات مسیح کے قائل تھے حضرت مرزا صاحب کے دعوئی سے پہلے کے لوگوں اور آپ کے دعویٰ کے بعد کے لوگوں کی بھی.بہر حال ہر زمانہ میں ایسے محقق مسلمان ہوتے چلے آئے ہیں جو وفات مسیح کے قائل تھے اور آج کے زمانہ میں بھی جماعت احمدیہ سے باہر ایسے محقق مسلمان موجود ہیں جو علی الاعلان وفایت میح کو مانتے ہیں لہذا یہ کہنا کہ حیات مسیح پر اجماع ہے غلط دعویٰ ہے.ہم یہاں چندا کا بر امت کی شہادات پیش کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ حیات مسیح پر ہر گز امت کا اجماع نہیں ہوا.ا - حضرت عبد اللہ بن عباس نی صحابی :- انہوں نے لفظ مُتَوَفِّيْكَ کا معنیٰ مُمِيتُكَ بیان کر کے اپنا عقیدہ صاف ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک میخ فوت ہو چکے ہیں.اے ه: - بخاری الجوالثاني كتاب التغير باب قوله مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن نَّحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ -

Page 18

A ۲ - حضرت امام مالک :- ائمہ اربعہ میں سے حضرت امام مالک وفات مسیح کے قائل ہیں.چنانچہ مجمع البحار میں سکھا ہے کہ وقال مالك مات کہ امام مالک فرمایا کرتے تھے کہحضرت عیسی قوت ہو چکے ہیں لیے امام ابن حزام کمالین حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے :- وَتَمَسَّكَ ابْنُ حَرْمٍ بِظَاهِرِ الآيَةٍ وَقَالَ بِمَوْتِهِ - لَه کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کر کے بیٹے کی وفات بیان کی ہے.:- ۴ - مفتی مصر :- مصر کے مشہور متبحر عالم الا پر یونیوسٹی کے شیخ علوم محمود شلتوت سکھتے ہیں." قرآن مجید اور سنت مطہرہ میں کوئی ایسی سند نہیں ہے جسے اس عقیدہ پر دل کش ہو سکے کہ حضرت عیسی اپنے جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں.اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں زمین پر آئیں گے" تھے مفسر حجازه :- موجودہ زمانہ میں سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبد الرحمن سعدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :.وَمِنْهَا مَا اكْرَمَ اللهُ بِهِ عِيسَى أَنِ اسْتَشَرَ أَصْحَابُهُ فِي الْآفَاقِ سی في حَيَاتِهِ وَبَعْدَ مَمَاتِهِ - : مجمع بحار الانوار جلد منت : کے :- جلالين مع كمالين مننا في المطبع المجتبائى الدبلوى - : الفتاوی از محمود شلتوت مده مطبوعہ دسمبر منشاء جامع الازہر.

Page 19

یعنی عیسے کو اللہ تعالیٰ نے یہ عزت دیا کہ آسیب کے اصحاب دنیا میں پھیل گئے ان کی زندگی میں اور ان کی موت کے بعد.متفرق شبہات کا ازالہ ایک عقلمند اور خدا ترس انسان کے سامنے وفات مسیح پر اتنے دلائل کافی ہوں گئے قرآن محدیث پکار پکار کر گواہی دے رہے ہیں کہ مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں.بزرگان امت کے حوالہ جات اس کی تائید میں ہیں.سنت اللہ یہی ہے کہ جو شخص سرجاء سے وہ زندہ دوبارہ دنیا میں نہیں آتا.لہذا ہم انہیں دلائی پر اکتفا کرتے ہیں اور چند شبہات کا یہاں ازالہ کرنا ضروری جانتے ہیں جو اس مسئلہ کے سمجھنے میں روک بنتے ہیں.حیات مسیح کا عقید اسلام میں کہاں سے آیا ؟ ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر حضرت مسیح فوت ہو گئے تھے تو عوام الناس مسلمانوں نے حیات مسیح کا عقیدہ کہاں سے لے لیا ہے سو اس کا جواب یہ ہے کہ جب اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا.اس وقت عیسائی لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اور یہ ایک فطری تقاضا ہے کہ انسان اپنے خیالات کو آہستہ آہستہ چھوڑتا ہے.مثل مشہور ہے کہ رام رام نکلتے ہی نکلے گا.اور رحیم کا نام داخل ہوتے ہوتے ہی داخل ہو گا ان لوگوں کے دلوں سے مسیح ناصری کی بے جا محبت شرک کے مقام سے تو بے شک نیچے گر گئی تھی.لیکن ابھی کئی طور پر دل سے نہ نکلی تھی.عیسائی مذہب میں پہلے سے مسیح کی آمد ثانی کی پیش گوئی موجود تھی انہوں نے اسلام میں بھی مسیح کی آمد ثانی کی خبر پائی.جب سے فوراً انہوں نے یہ خیال کیا کہ یہ وہی خبر ہے جو عیسائیت میں موجود ہے.پس انہوں نے اعتقاد کر لیا کہ پہلے مسیح خود دوبارہ آئیں گے اور وہ آسمان پر

Page 20

زندہ ہیں اور عوام الناس نے انہیں سے یہ عقیدہ سن کر اپنے دلوں میں راسخ کر لیا.چنانچہ علامہ ابن کثیر رکھتے ہیں :.فَفِي زَادِ الْمَعَادِ لِلْحَافِظِ ابنِ القَيمِ رَحِمَهُ الله تعالى مَا يُذْكَرُ انَّ عِيسَى رُفِعَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاثٍ وَ عِشْرِينَ سَنَةٌ لا يُعْرَتُ بِهِ أَتْرُ مَتَصَل يَجِبُ الْمَصِيرُ إِلَيْهِ قَالَ الشَّافِي وَهُوَ كَمَا قَالَ فَإِنَّ ذَالِكَ إِنَّمَا يُرْوَى عَنِ النَّصَارِى له یعنی حافظ بن قیم کی کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسی ۳۳ سال کی عمر میں اٹھائے گئے اس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی.تاکہ اس کا مانا واجب ہو شامی نے کہا ہے کہ جیسا کہ ابن القیم نے فرمایا ہے.فی الواقعہ ایسا ہی ہے اس عقیدہ کی بنا حدیث رسول پر نہیں بلکہ یہ نصاری کی روایات ہیں.دوسرا شبہ :.بعض لوگ کہتے ہیں.مان لیا حضرت عیسے فوت ہو گئے ہیں.لیکن کیا اللہ تعالی قادر نہیں ہے کہ انہیں دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں لاو سے.اس کا جواب یہ ہے کہ مردوں کا زندہ ہو کر دوبارہ دنیا میں آنا اسلامی تعلیم اور سنت الہیتہ کے سراسر خلاف ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں " وَحَرَاهُ عَلَى قَرْيَةٍ اَ ريَةٍ أَهْلَكْنَاهَا ، أَنَّهُمْ لا يُرْجِعُونَ یعنی جن لوگوں کو ہم مار دیتے ہیں ان پر حرام ہے کہ وہ اس دنیا کی طرف واپس لوٹیں.پھر فرماتا ہے : وَمِن وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.ل یعنی جو لوگ مر جاتے ہیں ان کے اور اس دنیا کے درمیان ایک روک ہو جاتی ہے جو قیامت کے دن تک رہے گی.فتح البیان جلد ۲ ۲ از غلام ابن کثیر مطبوعه مصر ۱۳۰۰ ه : ے :.سورہ الانبیاء پاره ۱۷ آیت : ۹۶ : تے :.سورہ المومنورضيع أميت : 101 بين

Page 21

۲۱ یہ قرآنی آیات فیصلہ کرتی ہیں کہ جو شخص مر جاوے وہ قیامت سے پہلے دنیا ہی نہیں واپیس سکتا.پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث اس مسئلہ کو بالکل صاف کرتی ہے.جنگ اُحد میں حضرت جائزا کے والد شہید ہو گئے.حضور فرماتے ہیں کہ شہادت کے بعد جب ان کی روح خدا کے حضور پیش ہوئی.تو اللہ تعالیٰ نے پوچھا تم کیا مانگتے ہو تو انہوں نے عرض کی یا باری تعالیٰ میری یہ آرزو ہے کہ میں دوبارہ دنیا میں جاؤں اور پھر تیرے راستہ میں مقام شہادت حاصل کروں.خُدا تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا.سبَقَ الْقَوْلُ مِنِّي أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ : له یعنی ایسا نہیں ہو سکتا.کیونکہ میں پہلے سے اصولی فیصلہ کر چکا ہوں کہ جولوگ مر جاتے ہیں.وہ پھر اس دنیا میں واپس نہیں آئیں گے.تیسرا شبہ : ایک تیسرا براشیہ جو عام مسلمانوں کے ذہنوں میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ جب احادیث میں صریحا آتا ہے کہ تمہیں ان مریم آئیں گے یا نازل ہونگے تو ہم کیونکرنہ یہ سمجھیں کہ ابن مریم تو ایک ہی ہوئے ہیں اور وہ حضرت عیسی اسرائیلی نبی ہیں اور وہی بنفس نفیس دوبارہ دنیا میں آئیں گے لہذا وہ زندہ ہیں.جواب :.اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے تین امور پر غور کرنا ضروری ہے.اول یہ کہ احادیث کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ جو حدیث قرآن شریف یا احادیث صحیحہ کے برخلاف نظر آئے اس کے معنے کرتے وقت یہ اصول ذہن نشین کرنا پڑتا ہے کہ ایسے معنے کئے جائیں جو مشران اور احادیث صحیحہ کے برخلاف نہ ہوں.اس اصول کی بناء پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن عیسی کو وفات شدہ مانتا ہے اور احادیث صحیحہ گواہی دیتی ہیں کہ مسیحی فوت ہو گئے اور سنت اللہ بھی اسی کی تائید - تریدی عبد الثاني، كتاب التفسير باب ماجاء في الذي يفير القران برايا، ومن سرد ال عمران -.

Page 22

کرتی ہے.تو یہ حدیث جس میں مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی ہے لا محالہ اس کے یہی معنے کئے جائیں گے کہ ابن مریم سے مراد کوئی ایسا فرد ہے جو ابن مریم کی صفات اپنے اندر رکھتا ہو نہ کہ پہلے مسیح کیونکہ جب ثابت ہو گیا کہ پہلے سے فوت ہو گئے اور قرآن ہرگز اجازت نہیں دنیا کہ وفات یافتہ انسان دوبارہ دنیا میں آئیں تو ابن مریم سے مراد مثیل ابن مریم ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ خود استحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے پیش گوئی کی ہے انہوں نے ایسی کیا مراد لیا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن مریم کی جن احادیث میں پیش گوئی بیان کی گئی ہے وہاں ساتھ یہ الفاظ بھی تشریحی طور پر ند کو رہیں کہ آپ نے ساتھ یہ بھی فرمایاکہ وہ اِمَامُكُمْ مِنْكُم به گروه ابن مریم جو تم میں آئے گا وہ تمہارا امام ہوگا.اور اسے مسلمانو ! وہ تم میں سے ہو گا.غرض مسیح موعود کے متعلق اما مكُمْ منکم کے الفاظ فرما کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سار سے جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے.اور شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی کہ یہ مت سمجھنا وہ پہلے بیٹے ہیں.بلکہ وہ بیج محمد ٹی تم میں سے ہوگا.الغرض منم کا لفظ مسیح ناصری کے متعلق ساری امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے.تیسری یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے.کہ یہ سنت الہیہ ہے کہ جب کبھی کسی نبی کے متعلق اس کی آمد ثانی کی پیشگوئی کی جاتی ہے تو اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ خود دوبارہ دنیا میں آئے گا بلکه است مراد یہ ہوتا ہے کہ اس کا کوئی مثیل دنیا میں آئے گا.دیکھو اس کا ایک نمونہ ہمیں پہلے نبیوں کی تاریخ میں ملتا ہے.ملا کی نبی کی کتاب میں یہ وعدہ کیا گیا تھا.کہ مسیح ناصری سے پہلے الیاس یعینی ایلیا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا.تب مسیح آئے گا.اب اس پیشگوئی سے یہود یہی سمجھے کہ وہ ایلیا جو پہلے گزر چکا ہے وہی بذات خود نازل ہوگا اور اس کے بعد موسوی سلسلہ کا مسیح آئے گا.اس لئے جب حضرت عیسے نئے مسیحیت کا دعویٰ کیا تو یہود نے صاف انکار کر دیا.اور کہا کہ ہماری کتابوں میں :- بخاری جلد اول کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم -

Page 23

۳۳ تو یہ لکھا ہے کہ مسیح سے پہلے ایلیا نبی آسمان سے اُترے گا.چونکہ ایلیا ابھی تک نہیں آیا لہذا عیلی کا دعوی سچا نہیں ہو سکتا.اس کا جواب عیسی نے سنت اللہ کے مطابق یہ دیا کہ ایلیا کی جو پیش گوئی کی گئی تھی اس سے خود ایلیا کا آنا مراد نہیں تھا.بلکہ وہ استعارہ کے رنگ میں ایسے نبی کی خبر تھی جو ایلیا کی خو بو پر آئے گا.اور وہ آچکا ہے اور وہی یحیی ہے جس کی آنکھیں ہوں دیکھے.دمتی بابا) لیکن ظاہر پرست یہودی اس بات پر جمے رہ ہے کہ خود ایلیا کا دوبارہ آنا لکھا ہے اس لئے بیٹی کا آنا اس کا آتا نہیں ہو سکتا اور اس طرح وہ نجات سے محروم ہو گئے.اس مثال سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ پیش گوئیوں میں آئندہ آنے والے صلحین کے جو نام بتائے جاتے ہیں ان کو ہمیشہ ظاہر پر حمل کرنا سخت ہلاکت کی راہ ہے.پس ابن مریم کی پیشگوئی بھی اسی سنت الہیہ کے مطابق پوری ہوئی اور امت محمدیہ میں سے ایک ایسا فرد پیدا ہوا جس کا نام آسمان پر ابن مریم رکھا گیا.چوتھا شہہ :.ایک شبہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں صرف عیسی علیہ السّلام کے بار سے میں یہ ذکر ہے کہ بلْ تَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ او الفاء : ۱۵۹) کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسے کو اپنی طرف اُٹھا لیا.لہذا ثابت ہوا کہ عیسی آسمان پر اُٹھا لئے گئے اور وہ زندہ ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق رفع کا لفظ آتا ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ کس طرح اور کس طرف رفع ہوا.قرآن شریف کے الفاظ یہ ہیں :- بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (النساء : ۱۵۹) (104) یعنی اللہ تعالیٰ نے مسیح کو اپنی طرف اٹھا لیا.اب اگر خدا کی طرف اُٹھائے جانے کے معنے آسمان کی طرف اُٹھائے جانے کے کئے جائیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا تعالیٰ آسمان تک محدود ہے.کیا اسلامی تعلیم کی رو سے خُدا ہر جگہ حاضرو ناظر نہیں ! کیا وہ زمین پر موجود نہیں ؟

Page 24

تو جب خدا ہر جگہ موجود ہے تو مسیح کے رفع الی اللہ کا معنی یہ ہوا کہ وہ خدا کا مقرب بندہ تھا اور اس کی روح کا خدا کے ساتھ تعلق تھا.نہ یہ کہ وہ آسمان پر چلا گیا.تمام مقر بان الہی آسمان کی ہی طرف اٹھائے جاتے ہیں اس میں سیخ کی کوئی خصوصیت نہیں.یہ چند آیات اس معنیٰ کو واضح کرتی ہیں :.ہر نیک انسان کو خدا تعالی کہتا ہے :- يا يتهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبَّكِ - (الفجرآت : ۲۸) یعنی اسے اطمینان یافتہ نفس تو اپنے خُدا کی طرف لوٹ آ.حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بلعم باعور کی نسبت فرمایا.وَلَوْ شِتُنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَ لكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ (الاعراف: ١) یعنی اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا رفع کرتے لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا.- حضرت ابراہیم نے کہا.اني ذاهب إلى رتي - (سورة الصافات : 1٠٠) یعنی میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں.- ہر مسلمان اس کلمہ سے واقف ہے.- " إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.(سورة البقره: ۱۵۷) یعنی ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہم جائیں گے.ہاں کا فروں اور بدکاروں کے متعلق ہے کہ ان کی ارواح آسمان پر نہیں جاسکتیں.ان الذينَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتِّحُ لَهُمْ ابْوَابُ السَّمَاءِ (اعراف (۳۱) کہ مکڈ ہوں اور تکبروں کیلئے آسمان کے درواز سے نہیں کھیلتے.اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ حضور صل الل علیا کم نماز میں یہ دعا پڑھتے " وار فنی ، اے اللہ مجھے رفع عطا کر.الغرض یہ بات یقینی ه ابن ماجہ ابواب الصلوۃ باب ما يقول بين السجدتين.

Page 25

YA ہے کہ اللہ تعالے کے کلام میں اور نبیوں کی اصطلاح میں رفع سے مراد رفع روحانی ہوتا ہے نہ کہ رفع جسمانی اور ظاہر ہے کہ رفع روحانی میں مسیح ناصری کی قطعا کوئی خصوصیت نہیں ہے باقی یہ بات جاننی ضروری ہے کہ اس آیت میں مسیح کے رفع کا کیوں ذکر کیا گیا.تو آیت کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کے زعم میں سیخ صلیب پر مر گئے تھے اور توریت کی رو سے و وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جو نبی صلیب پر مرے وہ لعنتی اور جھوٹا ہوتا ہے لیے لہذا اس کی روح ناپاک ہوتی ہے.اور اس کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس کا رفع نہیں ہوتا.اس طرح بود سیح کا نعوذ باللہ ملعون اور کا ذب ہونا ثابت کرتے تھے ان کے اس دعوی کے جواب میں اللہ تعالٰے نے فرمایا :- وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِن شُبِّهَ لَهُمْ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِيْنَا بَلْ تَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ" (سورہ النساء : ۱۵۸) یہود نے نہ تو مسیح کو قتل کیا.اور نہ ہی صلیب پر لٹکا کر مارا بلکہ اصل میں واقعہ یہ ہوا کہ مسیح ان کی نظروں میں مشابہ بالمقتول والمصلوب بنا دیئے گئے...مگر وہ ہرگز مسیح کے مارنے پر قادر نہیں ہوئے بلکہ مسیح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا.یعنی اللہ تعالیٰ نے اُن کے جھوٹے عقیدہ اور غلط نتیجه کارت بیان کیا کہ تمہارا یہ خیال کہ مسیح صلیب پر سے لہذا ملعون ہوئے اور اُن کا رفع الی اللہ نہیں ہوا.غلط ہے میں ہرگز ملعون ہو کر صلیب پر نہیں میرے بلکہ وہ طبعی موت مرے اور انکی روح خدا کے مقرب بندوں کی طرح عربیت کے ساتھ اُٹھائی گئی.واقعہ صلیب یہاں قبل طور پر ہم عرض کئے دیتے ہیں کہ واقعہ لیہ کے متعلق بہت سا اختلاف چلا آتا ہے.له -: - گلتیون باب ۳ آیت ۱۳ (انجیل مقدس ).بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور :

Page 26

۲۶ {1} یہود کہتے ہیں مسیح صلیب پر مرے تھے لہذا وہ جھوٹے تھے.عیسائی کہتے ہیں واقعی مسیح صلیب پر کرے لیکن وہ دنیا کی نجات کے لئے کفارہ ہوئے اور وہ پیچھے تھے بلکہ خدا تھے.عام سلمان کہتے ہیں کہ جب مسیح اصیلہ کے کرہ میں لیجائے گئے خدا نے ان کو صحیح سالم آسمان پر اُٹھالیا.اور ایک دوسرا شخص مسیح کا ہم شکل بنایا گیا.اور یہود نے اس کو صلیب پر مار دیا.اور مسیح صلیب سے دو چار ہی نہیں ہوئے.(۴) لیکن جماعت احمدیہ کا عقیدہ اند روئے قرآن یہ ہے کہ میٹھے بیشک صلیب پر ٹکائے گئے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ملہ سے اُن کو صلیہ سے زندہ بچالیا.یہودی سمجھے سر مسیح مر گئے اور اُن کی لاش شاگردوں کے حوالہ کر دی گئی.حالانکہ اس وقت ان کی حالت مفتول اور مصلوب کے مشابہ ہوگئی تھی.شاگردان کو لے گئے اور ان کا علاج معالجہ کیا.اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا دی.اور پھر آپ ہجرت کر کے براستہ افغانستان کشمیر پہنچے اور ایک سو بیس سال کی عمر میں اپنی طبعی موت سے وفات پائی اور ان کی قبر کشمیر سری نگر محلہ خانیار میں موجود ہے اس کے دلائل دیکھتے ہوں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب مسیح ہندوستان میں میں ملاحظہ کیجئے.پانچواں شعبہ :- ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ حدیثیوں میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق نزول کا لفظ استعمال ہوا ہے لہذا نزول تب ہی ثابت ہو سکتا ہے جبکہ مانا جائے کہ مسیح آسمان پر موجود ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ کسی صحیح حدیث میں حضرت عیسی کے متعلق آسمان یا زندہ کا لفظ ہرگزہ نہیں پایا جاتا.بلکہ بانی جماعت احمدیہ کا یہ چیلنج دنیامیں شائع ہو چکا ہے.کہ اگر کوئی شخص ایک بھی مرفوع - روحانی خزائن جلد ۳ ص ۳۹ :

Page 27

متصل صحیح حدیث ایسی پیش کرے جس میں میسج کے متعلق زندہ آسمان پر جانے یا زندہ آسمان سے اُترنے کے الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہوں تو اُسے انعام دیا جائے گا اور آج تک اس چیلنج کو کوئی نہیں توڑ سکا.لہند خواہ مخواہ نزول کے ساتھ آسمان یا زندہ کے الفاظ جوڑ نا محض دھینگا مشتی ہے.ہاں بے شک نہ دل کا لفظ موجود ہے لیکن نزول عربی زبان کا لفظ ہے.قرآن ، احادیث ، لغت عرب میں ہر گنہ اس کا مفہوم آسمان سے اگر نا نہیں لیا جاتا.بلکہ کبھی تو اعزاز کے لئے مہمان پر تنزیل کا اطلاق کیا جاتا ہے.اور اکثر ہر وہ چیز جو خدا تعالے کے حکم سے زمین پر پیدا ہو اس پر بھی نزول کا لفظ بولا جاتا ہے خود قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :- قَدْ أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكرَ الرَّسُولاً - الطلاق آيت : 1) یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف یاد کرا نے والا رسول بھیجا ہے " اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نزول کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.ہر کوئی جانتا ہے کہ آپ کا جسم آسمان سے نہیں اترا.(٢) وَانزَلْنَا الْحَدِيدَ - (سورة الحديد : ۲۶) یعنی ہم نے لوہا اتارا.حالانکہ لوہا کانوں سے نکلتا ہے.(٣) قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا - (سورہ الاعراف : ۲۷) یعنی ہم نے تم پر لباس اتارا.اس آیت میں لباس کے متعلق نزول کا لفظ استعمال ہوا.حالانکہ لباس تو روٹی وغیرہ سے زمین پر تیار کیا جاتا ہے.(٣) أَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الأنعام (سورة الزمر : ) ) (۴) یعنی خُدا نے تم پر چار پائے اتارہے.

Page 28

حالانکہ گھوڑے گدھے بیل سب زمین پر پیدا ہوتے ہیں پس ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ جو چیز خُدا تعالے کے آسمانی حکم سے زمین پر پیدا ہو.اس پر نزول کا اطلاق ہوتا ہے.پس لفظ نزول سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح آسمان سے نازل ہوں گے سخت غلط راہ ہے جیسی پر عقلمند کو پر ہیز لازم ہے.چھٹا شبہ : ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ اگر بر آسمان پر نہیں جاسکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی رات کس طرح آسمان پر پہنچے گئے اس کے جواب میں یاد رکھنا چاہیئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج جسم عنصری کے ساتھ نہیں ہوا تھا بلکہ وہ نہایت لطیف قسم کا کشف تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا.آپ کا مادی جسم ہرگز آسمان پر نہیں لے جایا گیا.دلائل ملاحظہ ہوں.۱- اگر حضور حسیم عنصری کے ساتھ آسمان پر جاسکتے تھے تو آپ نے کفار مکہ کو یہ جواب کیوں دیا که هل كُنتُ الَّا بَشَرًا رَسُولاً - (بنی اسرائیل : ۹۳) - -Y کہ میں تو بشر رسول ہوں آسمان پر نہیں جاسکتا.جس سورت میں معراج کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے تصریح کر دی ہے کہ معراج ایک رویا تھی.یعنی ایک کشف تھا جو آپ کو دکھلایا گیا.اللہ تعالے فرماتا ہے :- وَمَا جَعَلْنَا الرَّؤيَا التِي ارَيْنَاكَ إِلَّا فِتْنَةٌ لِلنَّاسِ - دبنی اسرائیل : ۶۱ ) یعنی ہم نے جو رڈیا تجھے دکھلائی ہے وہ لوگوں کے لئے ایک امتحان کے طور پر ہے.۳.پھر حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے.وہ فرماتی ہیں.خدا کی قسم حضور کاجسم زمین سے جدا نہیں ہوا تھا.راکشاف از علامہ محمد بن عمروز محشری ۳۳ زیر است سبحان الذي أسرى بعبده ليلا ) -.پھر بخاری جو حدیث کی کتابوں میں مسلمہ طور پر صحت کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے ہمیں لکھا ہے :.

Page 29

ثُمَّ اسْتَيْقَظَ وَهُوَفِي المَسْجِدِ الْحَرَامِـ یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج میں یہ سب نظارے دیکھنے کے بعد بیدار ہو گئے.اور اس وقت آپ مسجد حرام میں تھے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معراج ایک نہایت لطیف رڈیا تھا جو بصورت کشف دکھایا گیا.نہ کہ بصورت جسم عنصری - وعوالمراد - ساتواں شعبہ : ایک شبہ یہ کیا جاتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی والدہ کا نام تو مریم نہ تھا.پس آپ ابن مریم نہ ہوئے.اس کا جواب یہ ہے :.۱ که این مریم حضرت عیسی کا ایک لقب اور نام تھا وہی لقب اور نام استعارہ حضرت مسیح موعود کو دیا گیا اس لئے کہ آپ میں حضرت عیسی کی صفات پائی گئیں اور عربی زبان کا یہ قاعدہ ہے کہ اونی مناسبت کی بناء پر بعض کو بعض کا نام دیا جاتا ہے.بخاری شریف میں ہے کہ کفار مگر حضو؟ کو موحد سمجھ کر ابن ابی کیشہ کا لقب دیتے تھے حالانکہ ان کو یقین تھا کہ آپ ابی کبشہ کے بیٹے نہیں.ان کا مطلب یہ تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں باتوں کا پرچار کرتے ہیں جو پہلے زمانہ میں ابی کبشہ ایک موجد شخص کیا کرتا تھا.دوسری حکمت یہ ہے کہ جس طرح مسیح ابن مریم ناصری موسوی سلسلہ کے خاتم الحلفاء تھے.اسی طرح محمد می شیخ محمدی سلسلہ کا خاتم الخلفاء تھا اس لئے وہی نام ان کو دیا گیا.تیسری حکمت یہ ہے کہ چونکہ آخری زمانہ کے موعود کا ایک بڑا کام یہ تھا کر و لیبی مذہب.کیے ه : - بخاری جلد دوم کتاب التوحید باب قول الله وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسى تَكْلِيما - : - بخاری جلد اول کتاب - كيفَ كَانَ بَدأ الوحى إِلَى رَسُولِ الله -

Page 30

زور کو توڑے گا اس لئے حضرت عیسی کی ممانعت میں آنے والے کا نام عیسی اور ابن مریم رکھا گیا.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں : چول سرا حکم از سپنے قوم سیحی داده اند مصلحت را این میریم نام من بنهاده اند مسئلہ وفات مسیح کے متعلق ایک پیشگوئی اب ہم نوقت آنی آیات اور چارہ احادیث اور پانچ شہادات اکابر امت کے پیش کرنے کے بعد اور چند شبہات کے ازاد کے بعد اس مضمون کو ختم کرتے ہیں.اللہ تعالے پڑھنے والوں کو اور خاکسارہ کو اس سے نفع عطا کر ہے.آمین اور آخر میں حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک پیشگوئی مسئلہ وفات مسیح کے متعلق درج کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.ور مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا ہمارے سب مخالف ہو اسے زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کو نئے اتنے میں سے عیسی بن مریم کو آسمانے سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر ان کی اولاد جو باتیھ رہے تھے وہ بھی مرے گھے اور ان میں سے بھی کوٹھی آدھی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا.اور پھر اولا دکھے اولاد سرسے گھے اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان ۱- در تمین فاری ۲۲۰۰ به

Page 31

۳۱ سے اتر تے نہیں دیکھے گی.تجھے خُدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹے ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا سمجھے گزر گیا.اور دنیا دوسرے رنگ میں اگئی مگر مریمہ کا بیٹا عیسی اسے تک آسمان سے نہیں انتہا.ترجے دانشمند یک دفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے.اور ابھی تیسری صدی آج کے دانے سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کا انتظار کرنے والے کیا سمارنے اور کیا عیسائی سخت نومید اور بد ظرف ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑ دیں گے.اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک بھی پیشوا.سیکھے تو ایک سے تخم ریزی سے کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بو یا گیا.اور اسے وہ بڑھے گا اور بھٹوسے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے" نے 1 - تذكرة الشهار تير.روحانی خزائن جلد ۲۰ مت به

Page 31