Language: UR
حضرت سید احمد نور کابلی صاحب رضی اللہ عنہ نے اپنی قادیان ہجرت کے بعد حضرت صاجزادہ سید عبداللطیف شہید رضی اللہ عنہ کے متعلق چشم دید واقعات مرتب کئے جن کو قادیان سے ضیاء الاسلام پریس نے 26دسمبر 1921ء میں دو حصوں میں حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی ؓپرنٹر پریس کے زیر اہتمام شائع کیا تھا۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن میں قریبا 60 صفحات پر یہ دونوں حصے مکمل ہیں جن سے شہید مرحوم کے عظیم الشان دینی، علمی اور سیاسی مقام کا بھی پتہ چلتا ہے، ان کے قیام قادیان سے لیکر افغانستان واپسی، کابل کے دربار میں ہونے والی گفتگو، مباحثے، قید خانے کے حالات اور بالآخر شہید مرحوم کے مقام شہادت پر سرفراز ہونے اور بعد میں شہید مرحوم کے اہل وعیال کی قربانیوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کتاب کے بالکل بےتکلف بیان سے قارئین کو اُس زمانے کے افغانستان کے معروضی سیاسی، قومی اور ملکی حالات کا بھی علم ہوتاہے۔ اس کتاب کی تصنیف و طباعت مکمل ہونے پر حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے فرمایا: <blockquote>’’سید احمد نور صاحب نے حضرت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم کے حالات لکھے ہیں جس سے احمدیت پر ایمان میں ترقی ہوتی ہےاور یہ ایسی کتاب ہے کہ چاہیے کہ اس کو ہر شخص پڑھے اور اپنے ایمان میں ترقی کرے۔‘‘</blockquote>
ميل جزاده عبداللطيف چشمدید واقعات
شَاتَانِ تُذْبَحَانِ هر زمانه قتل تازه بخواست غازه روئے اودم شہدا است حصہ اوّل و حصہ دوم شهید مرحوم کے چشم دید واقعات حضرت مولنا صا حبزادہ سید عبد اللطیف صاحب رئیس اعظم خوست علاقہ کائل رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤلف سید احمد نور کا بلی مہاجر دار الامان قادیان نے شائع کیا ۲۶ دسمبر ۱۹۲۱ء ضیاء الاسلام پر لیس قادیان میں عبد الرحمن قادیانی پرنٹر کے اہتمام سے چھپا
بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم جو حالات میرے چشم دید ہیں اور جو آپ کی مجلس میں بیٹھ کر میں نے معلوم کئے اُن کو میں قلم بند کرتا ہوں.وبالله التوفيق.حضرت مولانا صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک خوست شمل دریا کے کنارہ پر ایک گاؤں کے جس کا نام سید گاہ ہے رہنے والے تھے.آپ قوم کے سید تھے.آپ کے تمام آباؤ اجداد اپنے ملک میں رئیس اعظم تھے اور آپ کی عمر قریباً ساٹھ اور ستر کے درمیان تھی.آپ بڑے مہمان نواز تھے.آپ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت محبت اور دلچسپی رکھتے تھے چنانچہ ہم آپ کے مہمان خانہ میں تمہیں چالیس آدمی رہتے تھے ہر وقت دین کی باتوں میں مشغول رہتے تھے کھانے وغیرہ کا انتظام بھی آپ کی طرف سے ہوتا تھا.آپ کی ایک مردانہ بیٹھک تھی جس میں قریباً سو دو سو آدمی آ سکتے تھے اور یہ بیٹھک مسجد کے پہلو میں تھی.پہلے لوگ نماز کے لیے جو جمع ہوتے تو اس بیٹھک میں قیام ہوتا اور دین کے متعلق باتیں ہوا کرتی تھیں.جس وقت نماز کا وقت آجا تا لوگ جمع ہو جاتے تو تمام لوگ مسجد میں آجاتے.نماز کے بعد لوگ پھر اپنے گھر چلے جاتے.مسجد میں نماز سے پہلے اور بعد کوئی بات چیت نہ ہوتی تھی.مسجد کے احاطہ میں حجرے بنے ہوئے تھے جن میں آپ کے شاگر درہا کرتے تھے مسجد کے پاس شمال کی طرف مغرب سے مشرق کو ایک نہر تھی جو آپ کے گھر کے صحن میں سے ہو کر گزرتی تھی.آپ کے رہنے کی جگہ کوسید گاہ کہا جاتا تھا جو معروف بہ سید گاہ ہے.کبھی ملک میں قحط سالی آتی تو اپنے تمام غلہ کو فروخت کر کے غریب لوگوں کی امداد میں لگا دیتے.خوست میں مختلف چند گاؤں تھے جن کے آپ
مالک تھے بہت زمین بنوں میں انگریزوں کی حکومت میں بھی تھی.آپ نے تعلیم ہندوستان میں حاصل کی تھی تمام علوم مروجہ کے عالم تھے ہر وقت قرآن شریف اور احادیث کا درس آپ کے یہاں جاری تھا.کئی ہزار حدیثیں آپ کو از بر یاد تھیں.چنانچہ امیر عبدالرحمن والنٹی کا بل بھی قائل تھا کہ ہمارے ملک میں ایک عالم باعمل خص ہیں جن کو اتنی حدیثیں یاد ہیں جو بھی کابل کا گورنرخوست کے لئے مقرر ہوتا آپ کا تابعدار اور آپ کے پہلو میں بچہ کی طرح ہوتا.آپ بندوق چلانے کے بہت مشاق اور خوب ماہر تھے.آپ کو گیارہ سور روپیہ سرکار کی طرف سے سالانہ ملتے تھے.امیر نے آپ کو گورنر کے ساتھ سرحد پاڑہ چنار اور خوست کی تقسیم میں انگریزوں کے ساتھ مقرر کیا تھا اکثر اوقات کیلیے انگریزوں سے تقسیم میں شامل ہوتے تھے.امیر عبدالرحمن خان نے اپنی اخیر عمر میں آپ کو کابل شہر میں اہل وعیال کے ساتھ بلا لیا تھا وہاں چند سال رہائش کی.قرآن شریف اور حدیث شریف کا درس حسب معمول جاری رہا.میں بھی آپ کے ساتھ کابل میں تھا.ایک دفعہ طالب علموں نے عرض کی کہ آپ جب کچھ فرماتے ہیں تو احمد نور کی طرف کیوں مخاطب ہوتے ہیں اور ہماری طرف کبھی بھی مخاطب نہیں ہوتے آپ فرماتے رفیق ہمارا ہے اور یہ درس محمد حسین خان ( جو بڑا گورنر امیر عبدالرحمن خاں کا تھا) کی مسجد میں ہوا کرتا تھا.اور آپ نے یہ بھی طلباء سے فرمایا کہ احمد نور کی یہ حالت ہے کہ جب بخاری شریف شروع کی جاتی ہے تو یہ ایک وادی کی شکل بن جاتا ہے اور حدیث پانی کی طرح اسکے اندر چلی جاتی ہے اسلیئے میں اسکو مخاطب کرتا ہوں.امیر عبدالرحمن خان صاحب جب فوت ہو گئے تو ان کے بیٹے حبیب اللہ خان تحت کے وارث ہوئے.جب تمام لوگ امیر کی بیعت کے لئے آئے تو حضرت صاحب زادہ موصوف کو بھی بلا بھیجا کہ میری بیعت کرو.آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ شریعت کے خلاف کچھ نہیں کریں گے.آپ کو شاہی دستار باندھنے کے لیے تبرکاً
بلا یا گیا تھا.جب دستار کے دو تین پیچ باندھنے رہ گئے تو قاضی القضاۃ نے عرض کیا کہ کچھ بیچ میرے لیئے بھی باقی رکھے جائیں تا کہ میں بھی کچھ برکت حاصل کرلوں سوایسا ہی ہوا کہ کچھ پیچ دستار کے قاضی صاحب نے باندھے.پھر کچھ مدت کے بعد آپ نے اپنے اہل و عیال کو خوست بھیجا اور مجھے بھی اُنکے ساتھ بھیجد یا.دو تین ماہ کے بعد آپ نے امیر سے حج کے لیئے جانے کی اجازت مانگی امیر نے خوشی سے آپ کو اجازت دی اور کئی اونٹ اور گھوڑے آپ کے ساتھ کیئے اور بہت نقد بھی دیا.آپ خوست آکر حج کی نیت سے بنوں کے راستہ سے ہندوستان کی طرف آئے.اٹک کے پر بے لگنی مقام پر ایک آدمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں گفتگو ہوئی.وہ آدمی صاحب علم تھا اُس کے بشرہ سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا ہے اور ایک قسم کی خوشی اُس نے ظاہر کی.اس خبر اور اس خوشی کو محسوس کر کے شہید مرحوم نے اپنی سواری کا گھوڑا اسکو بخش دیا.شہید مرحوم جس وقت انگریزوں کے ساتھ سرحد کی تقسیم میں مصروف تھے ایک شخص آیا اور آپ کو ایک کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دبی آپ وہ کتاب لیکر بہت خوش ہوئے اور کچھ انعام جیب سے نکال کر دیا.جب آپ نے وہ کتاب پڑھی تو بہت پسند کی اور اپنے مہمان خانہ میں آپ نے خاص آدمیوں کو سنا کر فرمایا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے انتظار میں دنیا لگ رہی تھی.اور اب وہ آگیا ہے.اور فرمایا کہ میں نے ہر طرف دیکھا کہ زمانہ کو صلح کا ہے لیکن مجھے کوئی مصلح نظر نہ آیا تو میں نے اپنی حالت کو دیکھا کہ تمام قرآن شریف اپنے حقائق و معارف مجھ پر ظاہر کرتا ہے اور کبھی کبھی مجسم بن کر مجھے اپنے معنی بتاتا ہے تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ شاید خدا تعالیٰ مجھے ہی مصلح کر کے کھڑا کرے گا لیکن اس کتاب کے دیکھنے سے میں نے معلوم کیا کہ خدا نے مصلح بھیج دیا ہے اور جس کی تقدیر میں تھا.وہ ہو چکا ہے.یہ وہی شخص ہے کہ جس کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت
کی کہ جہاں بھی نازل ہو اسکی طرف دوڑو.اور سلام بھی بھیجا تھا.لہذا میں زندہ ہوں گا یا مردہ لیکن جو میری بات مانتا ہے اُس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ ضرور اس شخص کی طرف جائے.چند بار اپنے طلباء کو شوق دلایا کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھیں کہ کہاں ہیں اور کیا حال ہے.جن میں مولوی سید عبد الستار صاحب جو آجکل قادیان شریف میں مہاجر کی حیثیت سے رہتے ہیں.کئی بار آتے.اور طلباء جو قادیان شریف آکر واپس گئے تو اُنھوں نے کچھ شکوک بیان کئے تو شہید مرحوم نے ان کے شکوک کو رفع کیا اور بتلایا کہ یہ شخص سچا ہے اور تم غلطی پر ہو.اسکے بعد مولوی عبد الرحمن شہید مرحوم کو جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد تھے اور ان کو امیر کی طرف سے دو سو چالیس روپے ملتے تھے اور منگل قوم کے تھے چند اپنے شاگردوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف بھیجا اور اپنی بیعت کا خط بھی دیا اور میں نے بھی اپنی بیعت کا خط دے دیا اور آپ نے انکو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ خلع میں تحفہ کے طور پر دیں کہ یہ آپکی خدمت میں پہنچا دو.پس مولوی صاحب موصوف مرحوم بیعت کے خطوط اور ضلع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنیکے بعد کچھ روز ٹھہرے.اس کے بعد کچھ تصانیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہید مرحوم کیلئے لیجا کر اپنے مقام پر جو منگل میں ہے چلے گئے.اس اثناء میں امیر عبدالرحمن خان کے پاس کسی نے رپورٹ کی کہ مولوی عبدالرحمن جو منگل قوم کے ہیں اور جو آپ سے دوسو چالیس روپیہ پاتے ہیں کسی غیر ملک میں چلے گئے ہیں.امیر عبدالرحمن خان کی طرف سے گورنر خوست کے نام حکم پہنچا کہ مولوی عبد الرحمن کو گرفتار کیا جاوے.گورنر نے شہید مرحوم کو اطلاع دی کہ ایسا حکم امیر کی طرف سے آیا ہے.جب مولوی عبد الرحمن کو معلوم ہوا تو وہ چھپ گئے اس کے بعد دوبارہ حکم ہوا کہ اسکامال واسباب ضبط کیا جاوے اور اس کے تمام اہل و عیال کو یہاں بھیج دیا جاوے جب مال و اسباب ضبط ہو گیا اور اہل وعیال کا بل بھیجا گیا تو عبدالرحمن شہید خود امیر کے پاس چلا گیا.امیر نے
پوچھا کہ تم بغیر علاقہ میں کیوں گئے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ سرکار کی خدمت کے لئے قادیان گیا تھا اور جس شخص نے دعوئی مسیحیت کا کیا ہے اس کی کتابیں آپ کے لئے اپنے ساتھ لایا ہوں.امیر نے ان سے کتابیں لے کر انکو قید میں بھیج دیا.اس کے بعد کچھ معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گئے اور کیا حال ان کا ہوا یا اندر ہی غائب ہو گئے.اللہ ہی بہتر جانے والا ہے.اور افواہ اس کی یہ ہے کہ ان کے منہپر تکیہ رکھ کر ان کا سانس بند کر کے مار دیا گیا.امیر کو خبر پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ جب شہید مرحوم کو حضرت اقدس مسیح موعود کی کتاب ملی تو شہید مرحوم نے تمام افسروں اور حاکموں اور چھوٹوں بڑوں کو خبر کر دی کہ اس طرح قادیان میں مصلح آیا ہے چنانچہ ان پر بڑے بڑے کفر کے فتوے بھی لگ گئے.شہید مرحوم کا قادیان آنا شهید مرحوم چند احباب کے ساتھ قادیان آئے.ان میں سے ایک کا نام مولوی عبد الستار صاحب ہے دوسرے کا نام مولوی عبد الجلیل صاحب اور تیسرے کو وزیر یوں کا مولوی کہا جاتا تھا.میں ان دنوں کچھ روز کے لیئے اپنے گھر چلا گیا تھا وہاں معلوم ہوا کہ شهید مرحوم حج کو چلے گئے ہیں.میرا گھر سید گاہ سے شمال کی طرف تمیں کوس کے فاصلہ کرم کی سرحد پر ہے.میرے والد صاحب کا نام اللہ نور ہے یہ سنتے ہی میں وہاں سے چل پڑا چونکہ مجھے علم تھا کہ شہید مرحوم پہلے قادیان ضرور ٹھہریں گے.اس لئے یہ سنتے ہی میں بھی جلد روانہ ہو گیا اور ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ شہید مرحوم کے قادیان پہنچنے کے بعد آ پہنچا جب میں شہید مرحوم کے کے پاس پہنچا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس لے گئے اور فرمایا کہ چلو تمہاری بھی بیعت کرا آئیں.جب مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا تھوڑے دن ٹھہر جاؤ تو شہید مرحوم نے عرض کیا کہ اس آدمی کے ٹھہرنے کی ضرورت نہیں آپ اس کی بیعت لے لیں سو اسوقت میری بھی
بیعت لی گئی.شہید مرحوم کئی ماہ یہاں ٹھہرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جب ہم سیر کو جایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس آکر گھر میں داخل ہوتے تو شہید مرحوم اپنے کپڑے گردو غبار سے صاف نہیں کرتے تھے جب تک ذرا ٹھہر نہ جائیں اور اندازہ نہ لگالیں کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے اپنے کپڑے جھاڑ لئے ہوں گے اور کہا کرتے کہ یہ محمد علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جو کہ مرزا صاحب کے وجود میں آئے ہیں انکے اور محمد علیہ الصلوۃ والسلام میں کوئی فرق نہیں ہے جو کوئی فرق کرتا ہے اس نے انکو بالکل نہیں جانا اور نہ پہچانا ہے.شہید مرحوم کو الہام اور بکثرت صحیح کشف بھی ہوتے تھے.ایک روز مہمان خانہ میں سوئے ہوئے تھے کہ یک لخت اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ مجھ پر محمد علی اللہ چادر کی مانند بچھائے گئے اور ایسے اندر گھسے کہ بالکل جدا نہیں ہو سکتے تھے اور یہ الہام ہوا کہ جسْمُهُ مُنَوَّرٌ مُعَمَّرٌ مُعَطَّرٌ يُضْنِى كَالْكُولُوءِ الْمَكْنُونِ نُورٌ عَلَى نُورِ.اور یہ بھی کہا کہ یہ نور ہمارے اختیار میں ہے.چنانچہ ایک روز مولوی عبدالستار صاحب کو کہا کہ میرے چہرہ کی طرف دیکھو اور جھک گئے.مولوی صاحب دیکھنے لگے تو نہ دیکھ سکے آنکھیں نیچی ہو گئیں.پھر جب شہید مرحوم سیدھے ہو گئے تو مولوی صاحب نے دیکھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھنا شروع کیا.وزیریوں کے مولوی صاحب نے کہا کہ تم نے کیا دیکھا ہے مولوی صاحب ہنسے اور کہا کہ بہت کچھ دیکھا ہے اور یہ بھی کہا کہ جب میں نے آپ کے چہرہ کی طرف دیکھا تو انکے چہرہ کی چمک نے جو کہ سورج کی مانند تھی میری نظر کو چوندھیا دیا اور نیچے کر دیا پھر جب انہوں نے سر اٹھایا تو میں دیکھنے کے قابل ہوا اور دیکھا.شہید مرحوم نے وزیریوں کے مولوی صاحب کو کہا کہ تم میں تقوی کم ہے اسلئے تم نے نہیں دیکھا.شہید مرحوم پر عجیب و غریب احوال ظاہر ہوتے تھے.ایک روز بہشتی مقبرہ کی طرف جاتے ہوئے ساتھیوں کو فرمایا کہ تم رہ گئے ہو میرے ساتھ ملنے کی کوشش کرو.میرے حالات اب اتنے باریک ہو گئے ہیں کہ بیان کرنا مشکل ہے رسول اللہ کے برکات و
انوار میرے بہت اختیار میں ہیں.پھر مولوی عبدالستار صاحب کو فرمایا کہ میرے چہرہ کی طرف ذرا دیکھو.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سورج جو کہ کافی اونچا ہے میں اس کی طرف دیکھ سکتا تھا لیکن شہید مرحوم کی جبین کی طرف دیکھنا مشکل تھا آپ کے چہرہ سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں کہ سورج سے کئی درجہ بڑھ کر تھیں.قریبا تین مہینے شہید مرحوم نے قادیان میں قیام کیا.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جاتے شہید مرحوم ساتھ ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید مرحوم سے از حد محبت رکھتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کو تشریف لے جا رہے تھے اور شہید مرحوم اور چند ایک آدمی اور بھی ساتھ تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس گھر چلے آئے تو شہید مرحوم نے ہمیں مہمان خانہ میں آکر اور مخاطب ہو کر فرمایا آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے کہ جنت سے ایک حور اچھے خوبصورت لباس میں میرے سامنے آئی اور کہا کہ آپ میری طرف بھی دیکھیں میں نے کہا کہ جب تک مسیح موعود السلام میرے ساتھ ہیں انکو چھوڑ کر تیری طرف میں نہیں دیکھوں گا تب وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو جارہے تھے پھر جب واپس گھر آئے تو شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ تم نے اپنے والد صاحب کو دیکھا میں نے کہا کہ نہیں آپ نے فرمایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ ساتھ اور حضرت مسیح موعود کے پیچھے آرہے تھے.حالانکہ میرے والد صاحب کئی برس پہلے گزر چکے تھے.شہید مرحوم کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں دوزخ کا شور وغوغا سنتا ہوں اگر لوگ سنیں تو وہ بھی کھانا نہ کھا ئیں ایک دفعہ عجب خان تحصیل دار جو ہمارے یہاں آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود سے گھر جانے کی اجازت لیکر شہید مرحوم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی ہے لیکن مولوی نورالدین صاحب سے نہیں لی
شہید مرحوم نے فرمایا کہ مولوی صاحب سے جا کر ضرور اجازت لینا کیونکہ مسیح موعود کے بعد یہی اول خلیفہ ہوں گے.چنانچہ جب شہید مرحوم جانے لگے تو مولوی صاحب سے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھنے اور ہم سے فرمایا کہ یہ میں نے اس لئے پڑھے ہیں کہ تامین بھی ان کی شاگردی میں داخل ہو جاؤں حضرت صاحب کے بعد یہ خلیفہ اول ہوں گے.اریانا شہید مرحوم امیر کابل سے چھ ماہ کی رخصت لیکر آئے تھے.جب روانگی کا وقت آیا تو شہید مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہوانے کی اجازت مانگی یہ حضرت نے فرمایا کہ جب آپ کو دوسرے سال حج کے لئے جانا ہے تو آپ پہلیں ٹھہر جاویں پھر آئیندہ متان حج کو روانہ ہو جانا بعد میں گھر بھی چلے جانا شہید مرحوم نے عرض کیا کہ نہیں حج کے لئے پھر آجاؤں گات جب شہید مرحوم روانہ ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں کچھ لوگ قریبا ڈیڑھ میل تک چھوڑ نے کے لئے گئے.جب رخصت ہونے لگے تو شہید مرحوم منی میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کے قدموں پر گرانے اور دونوں ہاتھوں سے قدم پکڑ لیے اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرما ئیں.تو حضرت صاحب نے فرمایا کہ اچھا تمہاد کے لئے دعائیں کرتا ہوں تم میرے پاؤں کو چھوڑ دوں انہوں نے پاؤں نہ چھوڑنے پر اصرار کیا حضرت صاحب نے فرمایا الامر فوق الادب میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ چھوڑ دو.جب شہید مرحوم نے پاؤں چھوڑتے.حضرت صاحب واپس چلے آئے کہ مین اور مولوی عبد البستان صاحب مہا جو قادیان شہید مرحوم کے چند شاہ گردوں کے ساتھ چلے گئے کہ تمام راستہ میں شهید مرحوم تر آن تحریف کی تلاوت کراتے تو ہے التمور پہنچ کر میان چراغ الدین صاحب کے پرانے مکان کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد نے اپنی میں تین چار وان بھمبر ہے کہ کچھ کتابیں خرید کر انکی جلد بندھوائیں اور دوستوں کے میاں گھر تھے مگر چونکہ آپ کو تنہائی پسند تھی.اس لئے مسجد میں اتر ہے.ایک سات چکڑالوی لوگ آپ کے پاس آئے اور حضرت سیچ
موعود علیہ السلام کے بارہ میں پوچھا آپ نے فرمایا کہ یہ احمد ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ تو کہتے ہیں کہ میں غلام احمد ہوں اور آپ کہتے ہیں کہ وہ احمد ہیں.شہید مرحوم نے کہا کہ تم این طرح نہ کہتا.کیونکہ جب تم غلام احمد کہو گے پھر تو سید بن جا وینگے کیونکہ سید القوم خادھم یہ تو پھر رسول اللہ اللہ سے بھی درجہ بلند کر دو گے اسلئے تم صرف اتنا کہو کہ یہ احمد ہیں تب وہ لوگ چپ ہو گئے.پھر ان لوگوں نے چکڑالی عقیدہ پیش کیا اور کہا کہ ایسے آدمی کے حق میں آپ کیا کہتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ایسا آدمی اگر قصداً ایسی باتیں کرتا ہے تو کافر ہے ور نہ مجنون ہے.ایک روز میاں معراج الدین صاحب آئے اور شہید مرحوم سے کہا کہ کھانا تیار ہے کھانے کے لئے تشریف لے چلئے.جب ہم سب اٹھے تو وہ ہمیں کسی اور کے گھر لے گئے وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے.لوگ اٹھ کر کہنے لگے کہ یہاں بیٹھئے یہاں بیٹھیئے.تب شہید مرحوم نے میاں معراج الدین مصاحب کو غصہ سے کہا کہ تم نے ہمیں خیرات خود سمجھا ہے کہ یہاں لے آئے ہیں.یہ کہہ کر شہید مرحوم با ہر نکل آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ نام نکلے آیات ہمارے ساتھ کوئی واقف آدمی نہ تھا کہ ہمیں مسجد کا راستہ بتلائے جب شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ تم آگے ہو جاؤ تو میں یونہی نا واقعی کی حالت میں چل پڑا خدا نے ہمیں مسجد میں پہنچا دیا بجب تمام کتا ہیں مجلد ہو گئیں تو ہم لاہور سے چل پڑے.تمام راستہ میں شہید مرحوم ریل گاڑی میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے آخر کو ہات میں ہم اتر ہے.وہاں سے تم کرایہ کر کے شہر میں پہنچے.شہر میں آکر یکہ خانہ میں بنوں جانے کے لئے ایک ٹمٹم والے کو سائی کا ایک رو پید یکرم کی مجب صبح ہوئی تو ایک سرکاری آدمی آیا تو اس ٹمٹم والے کو زبردستی لے گیا اور کہا کہ ایک سرکاری ضروری کام ہے.جب ٹمٹم والے کو آنے میں دیر ہوئی تو شہید مرحوم نے مجھے ٹمٹم والے کی طرف بھیجا میں وہاں سے چل پڑا اور تلاش کرتے ہوئے آخر میں ٹمٹم والے کے پاس زیادہ کہنے لگا کہ میں نہیں آ سکتا مجھے سرکاری آدمی لے آیا ہے.
۱۲ میں نے اس سے سائی کا روپیہ مانگا کہ روپیہ دید و اس نے روپیہ دینے سے انکار کیا اس اثناء میں تحصیل دار آ گیا میں نے تحصیلدار سے کہا کہ یا تو ٹمٹم والے کو میرے ساتھ کر دو کہ آپ سے پہلے میں نے ٹم کروانیہ پر لی ہوئی تھی اور یا سائی کا روپیہ واپس کرا دیں اس نے کہا نہیں سرکاری کام کرنا ضروری ہے میں آدمی نہیں دے سکتا میں نے کہا کہ میں بھی تو سرکاری آدمی ہوں آخر کچھ جھگڑنے کے بعد روپیہ واپس کر دیا.چونکہ جھگڑنے میں مجھے بہت دیر لگ گئی تھی اس لئے ہمارے ساتھیوں نے تنگ آکر شہید مرحوم سے عرض کیا کہ منم والا بھی نہ آیا اور ہمار آدمی بھی نہ لوٹا وہی واپس آجا تا تو ہم چلنے والے بنتے.روپیہ تو ملے گا نہیں اور نہ ہی ٹمٹم والا آئے گا.شہید مرحوم نے فرمایا کہ نہیں میں نے ایسا آدمی پیچھے بھیجا ہے کہ یا تو ٹمٹم والے کو لے آئیگا اور یا روپیہ واپس لائے گا.اور وہ ایسا آدمی ہے کہ اگر اسے پہاڑ کے سامنے کھڑا کر دیں تو ضرور ہے کہ پہاڑ کو پھاڑ کر دوسری طرف نکل جائے.اتنے میں میں آکر حاضر ہو گیا تو شہید مرحوم فرمانے لگے کہ دیکھا جو میں نے کہا تھا کہ یہ بڑاز بر دست آدمی ہے سوالیسا ہی نکلا.ریل گاڑی میں جب ہم کو ہاٹ کی طرف آرہے تھے تو شہید مرحوم فرمانے لگے کہ میرا مقابلہ ریل کے ساتھ ہے ریل کہتی ہے کہ میں تیز رفتار ہوں میں کہتا ہوں کہ میری رفتار پڑھنے میں تیز ہے.آپ کا یہ فرمانا تھا کہ ریل کی رفتار کم ہوگئی اور آہستہ آہستہ چلنے لگی.گارڈ نے بہت کوشش کی وقت بھی تنگ تھا لیکن گاڑی آخر کار کھڑی ہو گئی.تمام لوگ اتر پڑے اور شور برپا ہو گیا کہ گدھا کھڑا ہو گیا گدھا کھڑا ہو گیا.خیر صبح ہوتے ہوئے بتوں کو جانے کیلئے اور ٹمٹم کرائی ٹیم میں بھی آپ قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو نماز اتر کر پڑھی اس اثناء میں بہت سخت بارش ہوئی لیکن شہید مرحوم نے بارش کی کوئی پروانہ کی اپنے مزہ سے خوب ہمیں نماز پڑھائی.ایک جگہ حرم نام راستہ میں آئی رات کو سرائے کے آدمی سے بکری منگا کر ذبح کی اور پکا
۱۳ کر ہم سب نے کھانا کھایا اور ان لوگوں کو بھی کھلایا.آخر ہم بتوں پہنچے وہاں ایک دو روز کے قیام کے بعد خوست کو چل پڑے راستہ میں دوڑ ایک جگہ ہے وہاں تک ٹمٹم میں گئے.یہاں کے نمبر دار نے ہماری آمد کی بہت خوشی ظاہر کی اور ایک بکری ذبح کی اور کھانا کھلایا.شہید مرحوم نے کچھ وعظ بھی اسے کیا.صبح ہوتے ہوئے سید گاہ سے آدمی گھوڑوں پر استقبال کیلئے آئے وہاں سے آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور ہم سب پیدل تھے گھر تک پہنچ گئے.راستہ میں آپ سنایا کرتے تھے کہ ہمیں یہ الہام ہوتا ہے.کہ اِذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ.اس وقت کابل کا امیر حبیب اللہ خان تھا.جب اپنی جگہ پر پہنچے ادھر ادھر سے رؤساء خوشی خوشی ملنے کے لئے آئے کہ صاحبزادہ صاحب حج سے واپس آگئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں حج تک نہیں پہنچا بلکہ ہندوستان میں قادیان ایک جگہ ہے.وہاں ایک آدمی نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ اس کا فرمان ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے.میرا آنا خدا اور سول کے فرمان کے مطابق ہے.میں مقررہ وقت پر بھیجا گیا ہوں.میں نے اسے دیکھا ہے اور حالات بھی معلوم کئے ہیں اس کے اقوال اور افعال اور دعویٰ قرآن اور حدیث کے مطابق ہے.تمہیں چاہئے کہ تم اس کو مانو تمہیں فائدہ ہوگا اگر نہ مانو تمہارا اختیار ہے.میں نے تو مان لیا ہے.لوگوں نے عرض کیا کہ یہ باتیں نہ کرو ان ہی باتوں سے تو امیر کابل نے برا منایا تھا.اور عبد الرحمن کو شہید کر دیا تھا.شہید مرحوم نے فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں جتنا خدا سے خوف ہونا چاہیے اتنا تم امیر سے کرتے ہو.کیا میں خدا کی بات اور حکم کو امیر کی خاطر نہ مانوں.کیا قرآن سے تو بہ کروں یا حدیث سے دست بردار ہو جاؤں.اگر میرے سامنے دوزخ بھی آجائے تب بھی میں تو اس بات سے نہیں ملوں گا.چنانچہ خوست کے گورنر نے حاضر ہو کر بہت عرض کیا کہ یہ باتیں نہ کرو.تمام عزیز واقارب نے بیزاری کے خطوط لکھے لیکن آپ نہ ٹلے.اور ان باتوں سے بالکل پیچھے نہ ہٹے.باوجود ایسے وقت نازک ہونے کے آپ نے
۱۴ پانچ خط بادشاہ کے درباریوں کو لکھے.ایک ان میں سے گورنر مرزا محمد حسین خان کو لکھا.ایک مرزا عبدالرحیم خان دفتری کو لکھا ایک شاہ ناشی عبد القدوس خان کو اور ایک حاجی باشی کو جو بھی امیر کے ملک سے حاجی آتے ہیں اس کی اجازت سے آتے ہیں.ایک اور بڑا آدمی تھا نا لیا قاضی القضاۃ تھا.ان خطوں میں یہ مضمون تھا کہ میں حج کی خاطر روانہ ہوا تھا لیکن ہندوستان جا کر قادیان ایک جگہ ہے وہاں گیا.قادیان میں ایک آدمی نے جس کا نام مرزا غلام احمد ہے.یہ دعوی کیا ہے کہ میں خدا کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں.اور میں خدا کے کلام قرآن شریف اور احادیث کے مقرر کردہ وقت پر آیا ہوں.اور میرا دعوئی خدا اور رسول کے قول کے مطابق ہے.مجھے خدا اور رسول نے خود مقرر کر کے بھیجا ہے میں محمد اللہ کے دین کی خدمت کیلئے آیا ہوں تا کہ میں اپنے آقا کے دین کی اس مصیبت کے وقت میں خدمت کروں.تب میں نے قادیان میں چند مہینے گزارنے.اس کے تمام چال و چلن کو دیکھا.دعوے کو بنا اور اور اقوال و افعال غور ہے دیکھے تو میں نے اُس کو اور اس کے تمام حالات کو قرآن وحدیث کے مطابق پایا.اور اُس کے ملنے سے نہیں خدا اور سول کا قرب حاصل ہوا.سو میں آپ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں کہ وہ خدا تعالی کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اور یہ وہی شخص ہے جس کی حضرت محمد مصطفیٰ ے نے آئندہ زمانہ کے لئے پیش گوئی کی تھی.اور یہ وہی شخص ہے جس کا انتظار ہم لوگ کرتے تھے.میں نے اسے مان لیا ہے.تمہیں چاہیے کہ اسے مان لو تا کہ خد کے عذاب سے بچ جاؤ اور تمہاری بہتری ہو.آگے اب آپ لوگوں کو اختیار ہے.مجھ پر تو صرف پیغام پہنچانا فرض تھا اور میں پیغام پہنچا کر سکدوش ہوتا ہوں.جب یہ خطوط لکھے گئے تو آپ نے اپنے ایک آدمی کو فرمایا کہ یہ خطوط کامل لے جاؤ اور ان لوگوں کو دے دو جنکے نام یہ خط ہیں تب اس آدمی نے عرض کی کہ کپڑے وغیرہ لے لوں کہ سردی کا موسم ہے.آپ بہت ناراض ہوئے اور کاغذ واپس لے لیئے اور فرمایا کہ تم اس
لائق نہیں ہو.انہیں میں سے ایک آدمی عبد الغفار صاحب برادر مولوی عبد الستار صاحب مہاجر قادیان نے جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اس مجلس سے اٹھ کر عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ خوش ہو گئے اور اسے تمام خطوط دے دیئے.اس وقت سردی کا موسم تھا تمام برف پڑی ہوئی تھی.اس نے کاغذ لے جا کر جنکے نام خطوط تھے دیدئے.یہ عبد الغفار ان لوگوں سے جن کے نام خطوط تھے شہید مرحوم کی وجہ سے خوب واقف تھے جب مولوی عبد الغفار صاحب نے ان سے جواب مانگے تو مرزا محمد حسین خان صاحب گورنر نے جواب دیا کہ تم ابھی چلے جاؤ بعد میں ڈاک کے ذریعہ مولوی صاحب کو جواب پہنچ جائے گا.پس وہ تمام خطوط بادشاہ کے یہاں پیش ہوئے.بادشاہ نے تمام اپنے معتبر مولویوں کو بلایا اور کہا کہ ان خطوط کے بارہ میں کیا جواب دیتے ہو.مولویوں نے عرض کیا کہ یہ دعوی کرنے والا شخص آدھا قرآن شریف مانتا ہے اور آدھا نہیں مانتا اور کافر ہے.جو اس کو مانے وہ بھی کا فر اور مرتد ہے.اگر صاحبزادہ صاحب کے کلام کو ڈھیل دی جاوے گی تو بہت لوگ مرند ہو جاویں گے.تب امیر نے گورنر خوست کو حکم بھیجا کہ صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کے ساتھ یہاں بھیج دو.کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ کوئی ملنے کیلئے آئے نہ یہ کسی کومیں اور نہ کسی سے کلام کریں.مولوی عبدالغفار صاحب نے واپس آکر صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ مجھے تو کوئی جواب نہیں ملا مگر محمد حسین خان صاحب نے یہ کہا ہے کہ تم جاؤ جواب ڈاک میں آجائے گا مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو خطرہ معلوم ہوتا ہے.اس نظرہ کے ہوتے ہوئے بھی صاحبزادہ صاحب نے کوئی پروانہ کیا.جواب کے آنے میں قریباً تین ہفتے گزر گئے.ایک روز میں اور صاحب زادہ صاحب اور ایک اُن کے خادم عبدالجلیل صاحب سیر کو جارہے تھے کہ صاحبزادہ صاحب اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تم ہتھکڑیوں کی طاقت رکھتے ہو ؟.اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جب میں مارا جاؤں گا تو میرے مرنے کی اطلاع مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دینا.یہ سن کر
14 میرے آنسو نکل آئے اور میں نے عرض کیا کہ جناب میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں.میں کب جدا ہوں گا.آپ نے فرمایا کہ نہیں نہیں.جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا تھا کہ میں قادیان سے باہر نہیں جا سکتا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ان کے ساتھ جاؤ اور تم واپس آجاؤ گے اس لئے تمہارے بارہ میں تو مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ واپس آجاؤ گے میرے بارہ میں تو نہیں فرمایا.اس اثناء میں کہ جواب نہیں آیا تھا بہت سے دوستوں نے عرض کیا کہ اگر آپ نے جاتا ہے تو ہم آپ کو لے جائیں گے تمام عیال کے ساتھ ہوں چلے جائیں اس وقت موقعہ ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں میں ہرگز نہیں جاؤں گا مجھے حکم ہوتا ہے کہ اِذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ.اس لئے اگر میں مارا بھی گیا تو میرے مرنے پر بھی تم کو بہت مدد ملے گی اور فائدہ پہنچ جائے گا اس لئے میں بالکل نہیں جاؤں گا.اس روز جس روز کہ پچاس سواروں نے آنا تھا آنے سے پیشتر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا جسمیں تمام واقعات جو خطوں کے بارہ میں ہوئے تھے لکھے اور جو اس خط میں القاب تھے وہ بہت شیریں اور بڑے اعلیٰ القاب تھے.مجھے پسند آئے.میں نے عرض کیا کہ یہ خط مجھے دے دیں نقل کر کے میں واپس دے دونگا.آپ نے وہ خط اپنی جیب میں ڈال لیا اور فرمایا کہ یہ خط تمہارے ہاتھ میں آوے گا.عصر کا وقت قریب آیا کہ یکے بعد دیگرے پچاس سواروں میں سے لوگ آنے لگے.جب نماز کا وقت آیا تو شہید مرحوم نے آگے ہو کر نماز پڑھانی شروع کی نماز کے بعد ان سواروں نے عرض کیا کہ آپ سے گورنر صاحب عرض کرتے ہیں کہ مجھے آپ سے ملاقات کرنی ہے آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہو جاؤں.آپ نے فرمایا نہیں.وہ ہمارے سردار ہیں میں خود چلتا ہوں.آپ نے گھوڑے کو زین کرنے کا حکم دیا لیکن سواروں میں ایک سوار اترا اور آپ کی سواری کے لئے گھوڑا خالی کیا.جب آپ گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو خط آپ نے جیب
سے نکال کر میرے حوالہ کیا اور کچھ نہ فرمایا.میں آپ کے ساتھ ہولیا.جب گاؤں سے نکلا تب آپ نے فرمایا کہ پہلے پہل جب آپ مجھے ملے تھے تو میں بہت خوش ہوا اور دل میں خیال کیا کہ ایک باز میرے ہاتھ میں آیا ہے.اس بارہ میں میرے ساتھ لمبی گفتگو کی جب بہت دور تک میں ساتھ ساتھ گیا تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب گھر چلے جاؤ میں نے عرض کیا کہ میں آپ کے ساتھ خدمت کے لئے چلتا ہوں.فرمانے لگے کہ تم میرے ساتھ مت جاؤ.تمہارا میرے ساتھ جانا منع ہے اور فرمایا ولا تُلْقُوا بِايْدِ يْكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو.اور فرمایا کہ اس گاؤں سے اپنے گھر چلے جاؤ.میں رخصت ہو گیا اور آپ سواروں کے ساتھ خوست کی چھاؤنی میں چلے گئے.اور گورنر نے حکم سنایا کہ یہ حکم آپ کے متعلق آیا ہے کہ نہ کوئی آپ کو ملے اور نہ آپ کسی سے نہیں اور نہ کلام کریں اس لئے آپ کو علیحدہ کو بھی دی جاتی ہے لہذا انہیں علیحدہ کوٹھی رہنے کے لئے مل گئی اور پہرہ ان پر قائم ہو گیا.لیکن گورنر نے یہ رعایت ان کے لئے رکھی کہ ان کے عزیز رشتہ دار وغیرہ ان کے ملنے کے لئے آجاتے اور مل لیتے تھے.جب ان کے مرید ملنے کے لئے آئے تو اس وقت بھی انہوں نے عرض کیا کہ ہم آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو نکال لے جائیں گے یہ لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے ہم تعداد میں زیادہ ہیں لیکن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم نے اس موقعہ پر بھی یہی فرمایا کہ اب مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھ سے دین کی خدمت ضرور لے گا تم یہاں کوئی منصوبہ نہ باندھنا تا اس کوٹھی میں بھی ہم سے زیادتی نہ ہو.خوست میں آپ کو اس لئے رکھا گیا تھا کہ گورنر کو خوف تھا اور خیال کرتا تھا کہ اگر سردست انکو کابل لے گئے تو ایسا نہ ہو کہ راستہ میں ان کے مرید ہم پر حملہ کر دیں اور ہم سے چھڑالے جائیں.اس لئے دو تین ہفتہ کے بعد جب گورنر کو معلوم ہو گیا کہ یہ خود ہی لوگوں کو اس مقابلہ سے منع کرتے ہیں تو تھوڑے سے سوار ساتھ کر کے صاحبزادہ صاحب کو
کا بل بھیج دیا.ان سواروں سے روایت ہے جو ان کے ساتھ تھے.خدا جانے کہاں تک صحیح ہے کہ جب ہم کا ہل جا رہے تھے تو دو بار صاحب زادہ صاحب بیٹھے بیٹھے ہم سے گم ہو گئے پھر جب دیکھا تو پھر ویسے ہی بیٹھے ہوئے ہیں.پھر انہوں نے فرمایا کہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ تم مجھے زبردستی نہیں لے جاسکتے بلکہ میں ہی جاتا ہوں تب انہوں نے کہا کہ ہم بہت احتیاط اور ادب کے ساتھ کا بل لے گئے.جب ہم کابل پہنچ گئے تو پھر حبیب اللہ خان کے بھائی امیر نصر اللہ خان کے سامنے پیشی تھی.اس نے بغیر کسی قیل وقال کے حکم دیا کہ اس کا تمام مال و اسباب چھین لوپس تمام احباب اور زادراہ اور گھوڑ اوغیرہ سب چھین لیا گیا.پھر حکم ہوا کہ ارگ کے قید خانہ میں لے جاؤ جہاں بڑے لوگ قید کئے جاتے ہیں.وہاں آپ کو بہت تکلیف پہنچائی.لیکن آپ کو دیکھا جاوے تو آپ اس وقت اور اس حالت میں بھی اپنے خدا کو یاد کرتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے.آپ قید خانہ میں تقریباً تین چار ماہ قید رہے.ایک بار آپ نے کسی ذریعہ سے خبر بھیجی کہ مجھے خرچ بھیج دو.اس وقت انہی کے گاؤں میں میں تھا.آپ کے بال بچوں نے کہا کہ لتا نے خرچ مانگا ہے کوئی لے جانے والا نہیں مجھ سے کہا کہ آپ لے جائیں گے.میں نے کہا کہ ہاں لے جاؤں گا.سردی کا موسم تھا.پہاڑی راستہ تھا.میں تن تنہا چل پڑا منگل کے پہاڑ پر کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سخت بارش آئی ہے مجھے خوف معلوم ہوا کہ موسم اور راستہ خطر ناک ہے بارش بخت ہے کہیں سردی سے نہیں مر نہ جاؤں میں نے بارش کو مخاطب ہو کر دعا کی اور کہا کہ آج میچ موعود علیہ السلام کے اصحاب یہاں آئے ہیں ایک تو قید خانہ میں ہے اور ایک اس کے لئے خرچ لے جا رہا ہے تم بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہو اور ہم بھی اپکی کے بندے ہیں تم ٹھہر جاؤ مجھ پر نہ برسنا.اگر برسنا ہے تو میرے پیچھے پیچھے پر ہو.جب میں آگے آگے اور بارش میرے پیچھے پیچے تھی اپنے طور سے کہ قریباً اٹھارہ میں قدم کے فاصلہ پر بارش برس رہی
19 قریباً آٹھ کوس کا فاصلہ تھا کہ جہاں میرے ایک دوست کا گھر تھا میں نے گھر میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ بارش بہت زور و شور سے حد درجہ کی ہوئی.آخر میں نے رات تو وہیں گزاری جب صبح ہوئی تو پھر میں چل پڑا.غڑک ایک مقام ہے وہاں پہنچ کر میں نے دیکھا کہ کوچی لوگوں کا مال ( یعنی خانہ بدوش کا ) تمام ایک جگہ پر کہیں سوکہیں دوسو بکریاں بھیریں متفرق طور پر سردی اور بارش سے مری پڑی ہیں اور کہیں اونٹ مرے پڑے نظر آتے تھے.یہ سب کا رروائی برف اور سردی کی تھی.غڑک سے آگے ایک مقام خوشئے ہے وہاں مجھے پہنچنا تھا.لیکن غرس کی پہاڑی پر پہنچتے وقت شام ہوگئی سورج ڈوبنے کے قریب تھا پر جگہ یہاں ایسی تھی کہ یہاں سے منزل مقصود بہت دور تھی اور کوئی رہنے کی جگہ نہ تھی.یہاں بھی مجھ پر بارش ہوئی اور اولے پڑے میں دوڑ کر ایک غار میں چھپ گیا تھوڑی سی دیر کے بعد بادل پھٹ گئے اور سورج نکل آیا.اس وقت میں نے دعاء کی کہ اے میرے مولیٰ یا تو اس سورج کو جوڈوبنے والا ہے کھڑا رکھیو اور یا زمین کی طنابیں کھینچ لو کہ میں خوشے پہنچ جاؤں اور کوئی صورت میرے پہنچنے کی نہیں.تب خدا جانے کہ میری کونسی دعاء قبول ہوئی اور شام ہوتے ہوتے سورج ڈوبنے تک خوشے پہنچ گیا.الحمد لله على ذالك - رات کو ایک مسجد میں بسیرا کیا یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل تھا جو خدا نے مجھ سے طے کرایا.اسی روز میں کابل پہنچ کر حاجی باشی کے پاس دوروز تک رہا اور اس کے ذریعہ سے خرج صاحبزادہ صاحب کو پہنچا دیا.حاجی صاحب صاحبزادہ صاحب کے خاص دوست تھے.وہاں سے میں اپنے گھر واپس آیا جو قریبا تمیں کوس کے فاصلہ پر ہے یہاں کوئی تین ماہ کے بعد میں مسجد میں تلاوت قرآن شریف کرتا تھا کہ مجھے الہام ہو او عــقــروانــاقة لو تسوى بهم الارض لكان خيرا لهم يعنی خدا کی اونٹنی ان لوگوں نے ماردی ہے اگر زمین ان پر ہموار ہوتی اور یہ پیدا نہ ہوتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا مگر یہ انکی حرکت اچھی
نہ تھی.ساتھ ہی اس الہام کے یہ تقسیم ہوئی یہ ادنی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم ہیں بعض دوستوں کو میں نے خبر دی کہ مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ صاحب زادہ صاحب کو مار دیا گیا ہے.لیکن یہ لوگ یہی جواب دیتے رہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ایسے انسان کو مارا جائے.میرا مقام جو ہے وہ سرحد اریوب اور قوم یونی (یعنی دیوانہ ) گاؤں کدران دریا کے کنارے پر آباد ہے.میرے والد صاحب کا نام اللہ نور ہے اور قوم سے سید ہوں.میرے والد صاحب بھی بے نظیر انسان تھے.وہ اپنے وقت میں کہا کرتے تھے کہ یہ ملک ظلمت ہے تم مشرق کی طرف جاؤ وہاں آسمان سے ایک نور نازل ہوا ہے تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ گے کاش میں بھی اس وقت زندہ ہوتا تو میں بھی جاتا.اب پھر وہی مضمون جارتی ہے.شم خیل ایک مقام ہے وہاں کے تاجر عام طور پر کابل جایا کرتے ہیں وہاں میں معلوم کرنے کے لئے گیا.ان سے معلوم ہوا کہ صاحب زادہ عبد اللطیف صاحب سنگسار ہو گئے ہیں اور ایک درخت کی مانند ان پر پتھر کے ڈھیر پڑے ہیں.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ کوئی بات نہیں یا تو میں بھی انکی مانند سنگسار ہو جاؤں گا اور یا ان کو نکال لاؤں گا خواہ ایک کے بدلے دو درخت کی مانند پتھر ہوں.پھر میں نے کابل کی روانگی کا ارادہ کیا.جب شم خیل پہنچا تو وہاں کے حاکم نے مجھے حکم دیا کہ تم گھر چلے جاؤ ورنہ تمہیں سخت سزا ملے گی.میں نے کہا کہ میں نہیں جاتا.شب انہوں نے مجھے سے دو سور و پید کی ضمانت لی اور چھوڑ دیا.میں اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے کابل پہنچا.وہاں بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ میں اس کام کے لئے آیا ہوں اور کہا کہ صاحبزادہ صاحب مرحوم کی سنگساری کی جگہ کونسی ہے وہ لوگ بہت ڈرے اور مجھے کہا کہ ہندو سوزاں میں ہے جہاں ہندو مرتے وقت جلائے جاتے ہیں پس جگہ دیکھ کر میں واپس آگیا اور خیال کیا کہ میرے نکالنے پر اُستاد صاحب یعنی صاحب زادہ صاحب راضی ہیں یا نہیں.پھر میں نے رات کو دعا کی کہ اے مولیٰ کریم مجھے بتادے کہ میرا نکالنا صاحبزادہ صاحب مرحوم کو
۲۱ منظور ہے یا نہیں تب میں نے خواب میں دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب مرحوم ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں دروازہ کھولا اور مجھے اجازت دی کہ آجاؤ.میں پاس جا کر پیر دبانے لگا اور دیکھا کہ بہت نازک حالت میں زخمی ہو گئے ہیں جب نیند سے اٹھا تو میں نے معلوم کیا کہ آپ راضی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ انکو کس طرح نکالوں.آخر میں پلٹن میں ایک آدمی کو جو کہ صاحب زادہ صاحب شہید مرحوم کا دوست تھا ملا اور یہ حوالدار تھا میں نے اپنی آمد کا ذکر کیا اور اپنا منشاء شہید مرحوم کی نسبت ظاہر کیا.یہ بات سن کر وہ رو پڑا اور کہا کہ میں نے بھی بہت دفعہ ارادہ کیا تھا لیکن مجھ میں طاقت نہیں تھی اب آپ آئے ہیں اب ضرور انشاء اللہ میں اس کام میں مدد دوں گا.پھر میں نے اس سے کہا کہ آپ کچھ لوگ جتنے بھی مل سکیں رات کے بارہ بجے تک وہاں بھیجواد ہیں.کفن تابوت خوشبو وغیرہ سامان لے کر میں آتا ہوں.پھر میں ایک مزدور سے تابوت وغیرہ سامان اٹھوا کر اس جگہ کے پاس ایک قبرستان تھا لے گیا.اس اثناء میں کہ میں کابل گیا ہوں خدا کی قدرت بہت سخت ہیضہ کی بیماری پڑی ہوئی تھی اور اتنی میتیں اٹھی تھیں کہ کسی کو کسی کی کچھ سوجھتی نہ تھی.میں جب وہاں گیا تو میت پر میت آتی تھی اور لوگ دفن کرتے تھے لیکن مجھے کسی نے نہ پوچھا اپنی افراتفری میں لگے ہوئے تھے کسی کو خیال بھی نہ ہوا کہ تم یہاں کیسے آئے ہو اور اس تابوت میں کچھ ہے کہ نہیں.خیر آدھی رات کے قریب میں نے دیکھا کہ وہ آدمی معلوم نہیں ہوا تب میں نے ارادہ کیا کہ خود ہی نکالوں خواہ کچھ ہی ہو.تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ شخص بمعہ کچھ اور لوگوں کے آپہنچا اور میں بھی تابوت لے کر ہند و سوزاں پہنچا اول جب صاحبزادہ صاحب شہید کئے گئے تو اس جگہ پر تین روز تک پہرہ رہا بعد اسکے وہاں ایک میگزین ہے اسکے سپرد کیا کہ شہید مرحوم کو کوئی نکال کر نہ لے جائے احتیاط کے لئے ہم نے ایک آدمی کو پہرہ کے لئے مقرر کیا اور ہم باقیوں نے پتھر ہٹا کر صاف میدان کر دیا جب وہ ظاہر نظر آنے لگے تو اُن سے ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو آئی کہ ہماری خوشبو سے بدرجہا بہتر تھی.اس آدمی کے ساتھ کے آدمی
۲۲ کہنے لگے کہ شاید یہ وہی آدمی ہے جسکو امیر نے سنگ سار کیا تھا اسلئے ایسی خوشبو آ رہی ہے میں نے کہا کہ ہاں یہ ایسا شخص تھا کہ ہر وقت قرآن شریف کی تلاوت اور خدا کو یاد کرتا تھا یہ و ہی خوشبو ہے.جب ہم نے زمین سے اٹھا کر کفن میں ان کو رکھا تو مجھے کشف میں معلوم ہوا کہ پہاڑی کے پیچھے پچاس آدمی اور ایک سوار دورہ یعنی گشت پر آ رہے ہیں.اس زمانہ میں رات کے وقت پہرہ ہوتا تھا اور کسی کو باہر پھرنے کی اجازت نہ تھی اگر کوئی رات کو پکڑا جاتا تو بغیر پوچھ پاچھ کے مار دیا جاتا تھا.تب میں نے ان لوگوں کو کہا کہ ہٹ جاؤ لوگ سرکاری آرہے ہیں اور یہ چاندنی رات تھی جب ہم ہٹ گئے تو تھوڑی دیر کے بعد ایک سوار اور بہت سے لوگ اس سڑک پر آئے کہ جس سڑک سے راستہ میگزین کو جاتا ہے اس سڑک پر سے میگزین کو گئے اور کچھ دیر کے بعد اس راستہ سے واپس چلے گئے تب ہم شہید مرحوم کی لاش پر آگئے اور لاش کو تابوت میں رکھ دیا.لاش اتنی بھاری ہوگئی تھی کہ ہم اٹھا نہیں سکتے تھے.تب میں نے لاش کو مخاطب ہو کر کہا کہ جناب یہ بھاری ہونے کا وقت نہیں ہم تو ابھی مصیبت میں گرفتار ہیں کوئی اور اٹھانے والا نہیں آپ ہلکے ہو جائیں.اس کے بعد جب ہم نے ہاتھ لگایا تو لاش اتنی ہلکی ہو گئی تھی کہ میں نے کہا کہ میں اکیلا ہی اٹھا تا ہوں لیکن اس دوست نے کہا کہ نہیں میں اٹھاؤں گا.آخر اس نے میری پگڑی لے کر اور تابوت کو اس کے ذریعہ سے اٹھایا نزدیک ہی ایک مقبرہ تھا وہاں لاش رکھ کر میں نے انکو رخصت کیا کہ وہ سرکاری آدمی تھا.صبح ہوتے ہوئے میں نے مقبرہ میں ایک زیارت والے آدمی کو کچھ پیسے دے کر ساتھ کر لیا اور تابوت کو شہر کے اندر لائے شہر کے شمال کی طرف ایک پہاڑی بالا حصار نام کے دوسری طرف ایک قبرستان تھا جو انکے آباء واجداد کا تھا وہاں دفن کر دئے پھر میں ایک ماہ کابل میں ٹھہراتا کہ معلوم ہو جائے کہ اگر گرفتاری ہو تو مجھ پر ہو میرے اہل وعیال کو تکلیف نہ ہو.بعد اس کے میں گھر آیا اور میں نے گھر میں کہا کہ میں تو جاتا ہوں.لیکن اس اثنا میں
۲۳ کسی نے حاکم سے رپورٹ کی کہ یہ مرزا کے پاس قادیان جاتا ہے اور ظاہر یہ کرتا ہے کہ حج کو چلا ہوں.حاکم نے آدمی پکڑنے کو بھیجے.گھر میں میرا بھائی اور چھا کا بیٹا تو نہیں تھا لیکن مجھے اور میرے چچا کو لے گئے وہاں میں نے حاکم سے کہا کہ غرض تو میرے ساتھ ہے رپورٹ بھی میری ہوئی ہے میرے چا کو چھوڑ دو.چونکہ حاکم میرا دوست تھا میرے چچا کو چھوڑ دیا اور مجھے رکھ لیا.پھر میں نے کہا کہ اگر میں حج کو جاتا تو میں اپنی جائداد خرچ کے لئے بیچتا لیکن دریافت کرالیں کہ میری جائداد ویسی کی ویسی ہے اور زمین دار آدمی ہوں میرے پاس اتنی دولت کہاں ہے کہ بغیر جائداد بیچنے کے جاؤں.تب مجھے حاکم نے چار پانچ روز تک نظر بند کر لیا.کچھ آدمی میرے پاس آئے کہ ہم تمہارے ضامن ہو جاتے ہیں.میں نے کہا کہ نہیں تم میرے ضامن نہ بنو میں ضرور جاؤں گا آپ کو بے فائدہ تکلیف ہوگی.میرے گرداگر لوہے کی چار دیواری ہو تو وہ بھی مجھے راستہ دے گی اور میں انشاء اللہ تعالیٰ چلا جاؤں گا.اس طرح دھو کے سے اور کسی کو ضمانت میں پھنسا کر جانا نہیں چاہتا.کچھ روز بعد میں گھر گیا اور رات کے بارہ بجے جانے کا ارادہ کر لیا.تمام بال بچوں سے پوچھا تو سب نے رضا مندی سے جانیکی اجازت دی.رات کے وقت گاؤں کے نمبر دار وغیرہ میرے پاس آئے کہ نہیں ہم نہیں جانے دینگے یونہی ہم عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے.جب میں نے ارادہ روانگی کا کیا تو تمام ملک اور زمین وغیرہ میرے سامنے ہو گئے کہ کیا ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے تب میں نے کہا کہ اچھا میں وزن کروں گا کہ آیا اللہ تعالیٰ کا فضل بہتر ہے یا یہ ملک و دولت.اس خواہش کے ہوتے ہوئے اسی وقت تمام نظارہ غائب ہو گیا.پھر میں نے گاؤں کے نمبر دار وغیرہ کو کہا کہ میں نے اور میرے باپ دادوں نے آپ لوگوں کو خدا کا کلام سنایا اور لکھایا اور پڑھایا کیا تم چاہتے ہو کہ حاکم مجھے تکلیف دے.انہوں نے کہا کہ نہیں پھر کہا.کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سب گاؤں کو تکلیف پہنچے.میں نے کہا کہ تم نے تو اپنا فرض پورا کر لیا ہے حاکم کو آگاہ کیا اور میں حاکم کے پاس سے ہو کر آیا ہوں پھر تم پر کوئی
۲۴ تکلیف نہیں.پھر اس نے بہت اصرار کیا.آخر اس وقت مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ اگر میں زمین کو حکم دیتا کہ ان کو پکڑ لے تو ضرور پکڑ لیتی.میں نے ان نمبر داروں سے کہا کہ اچھا تم پکڑنے کے لیے راستہ میں بیٹھ جاؤ اور میں تمہارے پاس آتا ہوں اگر نہ آؤں تو میں اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہوں.اس کے بعد نمبر دار کو بھی میری حالت معلوم ہوئی اور میرے پاؤں پر گر پڑا کہ اس حالت میں ہمارے لئے بددعاء نہ کرنا ہمیں معاف کر دو میں نے کہا کہ معاف اس وقت ہوگا کہ تم اب مجھے سرحد سے پار چھوڑ آؤتب میں راضی ہونگا پس نمبر دار بمعہ آدمیوں کے مجھے اور میرے تمام بال بچوں کے ساتھ سرحد سے پار لے آئے.اور پھر میں نے ان کو وہاں سے واپس کر دیا اور ہم سب چل دئے.اور میں اپنے ساتھ شہید مرحوم حضرت صاحبزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب کے بال بطور نشانی کے اپنے ساتھ لایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر دیئے اور آپ اس سے بہت خوش ہوئے اور شیشی میں بند کر کے بیت الدعاء میں رکھ دیئے.صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم بڑے عالم انسان اور ذی عزت شخص تھے یہاں تک کہ آپ کو امیر کی طرف سے گیارہ سو روپیہ ملتے تھے.اور ویسے آپ بڑی جائکہ اور کھتے تھے اور اپنے علاقہ میں رئیس اعظم تھے.لیکن آپ نے حق کو نہ چھوڑا اور یک لخت تمام کی تمام عزت جاہ و جلال اور دولت و حشمت اور مال و مثال سب کچھ سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خدا کی راہ میں قربان کر دیا.یہاں تک کہ جان بھی جو بہت عزیز تھی وہ بھی قربان کر دی.آپ کی سنگساری کا واقعہ یوں گزرا کہ جب آپ کی قید خانہ میں میعاد پوری ہوئی تو آپ کو شریعت کی طرف بلایا گیا اور مولویوں کو امیر کی طرف سے حکم ہوا کہ ان پر سوال کئے جائیں اور یہ سوال نہ کرے اور جواب دے تب ان پر کئی ہزار سوال ہوئے اور آپ سب
۲۵۰ کے اچھی طرح جواب دیتے رہے.آخر یہ پوچھا کہ تم اس شخص کو جس نے مسیحیت کا دعویٰ کیا ہے کیا سمجھتے ہو آپ نے فرمایا کہ میں انکو سچا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور اور اس زمانہ کا مصلح سمجھتا ہوں اور وہ قرآن شریف کے مطابق نازل ہوئے ہیں.پھر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے بارہ میں سوال ہوا آپ نے جواب دیا کہ قرآن شریف ان کو مردہ فرماتا ہے لہذا میں انکو مردہ سمجھتا ہوں.تب انہوں نے کہا کہ یہ تو ملامت 1 ہو گیا ہے قرآن شریف مسیح کو زندہ ظاہر کرتا ہے اور یہ مردہ وفات شدہ مانتا ہے.پھر سب مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا کہ اس کو سنگسار کیا جاوے.امیر مولویوں سے ڈرتا تھا اور نئی نئی بادشاہی تھی اس لئے امیر نے مولویوں کے حوالہ کر دیا اور باہر شہر کے مشرق کی طرف ہند و سوزان ایک جگہ ہے اور وہاں سولی ہے لے گئے.راستہ میں بہت جلد جلد اور خوش خوش جارہے تھے.ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.راستہ میں ایک مولوی نے پوچھا.آپ اتنے خوش کیوں ہیں اور کیوں ایسی جلدی کر رہے ہیں.ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیٹیاں ہیں اور ابھی آپ سنگسار ہونے کو ہیں.آپ نے فرمایا کہ یہ ہتھکڑیاں نہیں ہیں بلکہ محمد مصطفیٰ اللہ کے دین کا زیور ہے.اگر چہ سنگسار ہونے کی جگہ دیکھ رہا ہوں لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولی سے مل جاؤں گا.جس وقت کچھ پتھر مارے گئے حاکم نے کہا اب بھی توبہ کر لو میں چھوڑ دوں گا.آپ نے فرمایا کہ تم شیطان ہو جو مجھے خدا کے راستہ اور حق سے روکتے ہو.پس پھر وہاں مولویوں نے پتھر مار مار کر سنگسار کر دیا.اس کے بعد ایسا ہوا کہ جب شہید مرحوم کو اپنے مقبرہ میں بعد سنگساری ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو میرو نام ایک ان کے شاگرد نے ارادہ کیا کہ انکو اپنے گاؤں میں لے جا کر دفن کیا جاوے چنانچہ اس نے پوشیدہ طور پر ان کی لاش کو انکے گاؤں میں لے جا کر دفن کر دیا ا مرقد
۲۶ اور نا معلوم کی قبر بنائی.لیکن خان عجب خان صاحب تحصیل دار نے کہا کہ شہید مرحوم کی قبر کو اچھی طرح بنایا جائے شائد تحصیل دار صاحب موصوف الذکر نے اپنی طرف سے کچھ امداد بھی کی شہید مرحوم کے شاگردوں نے اپنی جگہ قبرسید گاہ میں ان کی لاش پر بنوائی.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ لوگوں میں مشہور ہوئی اور لوگ دور دور سے زیارت کے لئے آنے شروع ہوئے تب بادشاہ کی طرف رپورٹ ہوئی کہ اس آدمی کی لاش جس کو سنگسار کیا تھا یہاں پر لائی گئی ہے اور اس پر ایک بڑی قبر تیار ہوئی ہے لوگ بڑی بڑی دور سے دیکھنے اور زیارت کے لئے آتے ہیں اور اس پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں.تب امیر نصر اللہ خان نے جو بادشاہ کا بھائی تھا خوست کے گورنر کو حکم دیا کہ شہید مرحوم کی لاش کو نکال کر آگ یا دریا میں ڈال دیا جاوے اور ان کی لاش نکالنے والے کو سزادی جاوے جب گورنرخوست کو حکم پہنچا تو اس نے سرکاری آدمی بھیج کر شہید مرحوم کی لاش کی ہڈیاں نکال کر لے گئے بعض کہتے ہیں کہ ہڈیاں دریا میں ڈالی گئیں بعض کہتے ہیں کہ کسی مقبرہ میں دفن کر دی گئی ہیں.اس لاش کے نکالنے والے کا نام بتایا جا چکا ہے کہ میر و تھا.اس کا کالا منہ کر کے اور گدھے پر چڑھا کے تمام گاؤں میں پھرایا گیا اور لوگ کہتے گئے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اس کا فرضی لاش کو جسکو سنگسار کیا گیا تھا نکالا ہے دیکھو اسکی کیا سزا ہے.خیر خدا تعالیٰ نے شہید مرحوم کی قبر کو شرک کی ملونی سے پاک رکھا اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل و کرم کرے اور ہمیشہ اُن کو اپنے عرش کے سایہ میں رکھے.آمین ثم آمین.کچھ مصنف کا احوال میرے والد صاحب ہمیں کہا کرتے تھے کہ مشرق کی طرف آسمان سے ایک نور اترا ہے تم لوگ مشرق کی طرف چلے جاؤ.کاش میں اس وقت زندہ ہوتا تو میں بھی جاتا.میں بچپن سے ہی اللہ و رسول سے محبت رکھتا تھا میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجھے اپنا مرید بنالو
۲۷ کیونکہ اس وقت میرے والد لوگوں سے بیعت لیا کرتے تھے.والد صاحب نے فرمایا کہ تمہارا مر تبہ اس سے بلند ہے کہ مرید بنو.تم اپنے سبق میں مشغول رہو.قرآن شریف ایسی حالت میں میں نے ختم کیا تھا کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کس وقت پڑھا ہے.بہت سا علم میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے.کبھی کبھی وہ اچھی اچھی باتیں معرفت کی سنایا کرتے تھے.جب بڑا ہوا تو سفر کیا غز نین.کابل.تیراہ.پشاور وغیرہ مختلف جگہوں میں علم پڑھا آخر میں شہید مرحوم کے پاس گیا اور ان سے ملاقات ہوئی اور انکے ہاتھ پر بیعت کی.شہید مرحوم میرے ساتھ بہت محبت رکھتے تھے اور معرفت کی باتیں سنایا کرتے تھے.کسی نے میرے والد صاحب سے کہا کہ تمہارا بیٹا مولوی عبد اللطیف صاحب کے پاس گیا ہے اور ان سے بیعت بھی کی ہے انہوں نے کہا کہ اچھا ہے وہ سفید کپڑوں والا تھا اور سفید کپڑے والوں سے مل گیا.مسیح موعود علیہ السلام کی معرفت ایک بار میں ایک جگہ سبق پڑھتا تھا ایک حاجی میرے پاس مہمان کے طور پر ٹھہر اوہ حج کر کے آیا تھا میں نے اس سے حج اور مکہ معظمہ کی باتیں دریافت کیں اس نے بیان کرتے کرتے یہ کہا کہ ہندوستان میں ایک شخص ہے وہ دعوی کرتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور میں اس زمانہ کے لئے مامور ہو کے آیا ہوں.عیسی بن مریم ہونے کا دعوی بھی کرتا ہے او نیز نبی ہونے کا بھی مدعی ہے.تب میں نے حاجی صاحب کو کہا کہ آپ وہاں گئے تھے انہوں نے کہا کہ گیا تو نہیں سنا ہے.میں نے کہا کہ تم گواہ رہنا کہ اس پر ایمان لے آیا ہوں اور سچا یقین کرتا ہوں.حاجی صاحب نے کہا کہ واہ بھائی نہ تو آپ نے دیکھا ہے اور نہ تحقیق کی صرف سنکر ایمان لے آئے یہ کیا وجہ ہے.میں نے کہا کہ اس کا دعوی سچا ہے اگر پہاڑ یہ دعوی کرے اور حق دار نہ ہو تو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے.اگر تم نے سچا حج کیا ہے تو
٢٨ تم بھی مان لو گے اگر نہیں تو رہ جاؤ گے چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد اس نے بھی مان لیا.میں کبھی اکیلا ہوا کرتا تھا تو میں یہ شعر پڑھا کرتا تھا.چشم سوزم در فراقت یا محمد مصطفیٰ کے بہ بینم من جمالت یا محمد مصطفی ایک رات خواب میں میں نے دیکھا کہ میں آنحضرت علی اللہ کے پیش ہوا اور میں نے پہچان لیا میں نے پوچھا کہ میرے والد کہاں ہیں انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہا ابھی اس طرف گئے ہیں اور فرمایا درود بہت پڑھا کرو.پھر ایک دفعہ میں نے رسول اللہ ے کا جنازہ پڑھا اور آپ کی قبر مبارک پر جھنڈ الگا دیا.پھر ایک دفعہ میں رسول کریم لے کو مٹھیاں بھرتے بھرتے گلے ملانہ اس حالت میں میں دیکھتا تھا کہ کبھی آپ ہیں اور کبھی مسیح موعود علیہ السلام ہیں.آپ کے پاس شہد کی بوتلیں آئیں وہ کھولنے لگے تو میں نے کہا میں کھولتا ہوں آپ نے فرمایا میں کھولتا ہوں آخر آپ نے کھولیں کچھ آپ نے پیا اور کچھ میں نے پیا اس شیرینی سے میری آنکھ کھل گئی.ایک دفعہ میں نے رسول کریم ہے اور مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا لیکن اس حالت میں میں دیکھتا ہوں کہ وجود تو ایک ہے لیکن جلوے دو ہیں تب میں نے خیال کیا کہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ دو ایک نہیں ہو سکتے یعنی ایک وجود میں دو جمع نہیں ہو سکتے.پھر میں نے کہا کہ یہ باتیں لوگوں کے حق میں ہیں ورنہ خدا تعالی تو سب کچھ کر سکتا اور ایک وجود میں دو لا سکتا ہے.پھر ایک دفعہ میں نے مہمان خانہ قادیان کو دیکھا کہ مکہ معظمہ اور عرفات کے طور پر ہے.رسول اللہ اللہ نے اس میں نماز پڑھائی از نہ تاں جب کہ پیچھے کھڑا ہو گیا.میری آنکھ کھل گئی.اس وقت میں " دیان میں آیا.ہوا تھا.ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ میرا ایک تیرہ ہے اور رسول اللہ ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام اس میں نماز کے انتظار میں بیٹھے ہیں.جب تھوڑی دیر ہوگئی تو میں آگیا.میں نے عرض کیا کہ نماز کا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ تمہاری انتظار تھی.اذان دو.میں اس وقت انکا مؤذن تھا.میں نے اذان دی اور میری آنکھ کھل گئی.
۲۹ پوچھا ایک دفعہ میں سخت بیمار ہو گیا میں نے دیکھا کہ میں قبر میں سات دن تک دفن کیا گیا ہوں اور پھر مجھے زندہ کر کے واپس لایا گیا.پھر دیکھتا ہوں کہ ملائکہ مجھے لے گئے جنت اور دوزخ دونوں دکھلائے گئے.یہ ایک بازار کے شکل پر تھے ایک لائن تو دوزخ کی تھی تمام دروازے بند اور قفل لگے ہوئے تھے دوسری طرف جنت کے دروازے کھلے ہوئے تھے اور لوگ خوش خوش پھرتے تھے.بیچ میں بازار تھا.بازار کے لوگ اعراف کی مانند تھے جو دونو طرف سیر کرتے تھے.اس کے بعد مجھے اللہ تعالیٰ کے سامنے لایا گیا.اللہ تعالیٰ نے مجھ سے ھا کہ کیا کہتے ہو اور کیا مانگتے ہو تو میں نے کہا کہ بس آپ پر قربان ہو جاؤں تب میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی تمام مہربانیوں سے بڑھ کر تھی.اور اس کا جلال تمام جلالوں سے بڑھ کر تھا.ایک طرف اس کی مجھ پر مہربانی.اُلفت و محبت بے حد تھی دوسری طرف جلال رعب اور خوف بے حد تھا.تب میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے جلد یہ آیت پڑھی امن الرَّسُوْلَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلَّ آمَنَ بِاللهِ.....إلى آخرہ پھر میں دیکھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ رسول کریم اور مسیح موعود علیھما السلام ہیں ان کی طرف اللہ تعالیٰ مخاطب ہو کر فرمانے لگے اور مسکرائے کہ یہ مجھ پر قربان ہوتا ہے پھر مجھے سے پوچھا کہ اب کیا کہتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ آپ پر قربان ہو جاؤں اور یہ آیت پڑھی لَهُ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالاَرضِ پھر اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہوئے اور آسمان کی طرف لے گئے.میں نے عرض کیا کہ آپ کہاں جائیں گے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں آسمان کا بھی مالک ہوں.پھر مجھے آسمان کی طرف لے گئے.جب چلنے لگے تو ایک نظارہ دیکھا کہ ارد گرد سے تمام ملائک ایک دوسری طرف ہو گئے اور راستہ چھوڑ دیا.میں نے عرض کیا کہ یہ کیوں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بادشاہ ہوں ہر ایک طاقت نہیں رکھتا کہ بادشاہ کے سامنے ٹھہر سکے.آخر جو آسمان میں بڑے بڑے ستارے ہیں یہ ملائک کی شکل میں نظر آئے.پھر یہ نظارہ بدلا پھر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور مسیح موعود
علیہ السلام بھی ان کے پاس دیکھے.اللہ تعالیٰ نے پھر پوچھا کہ کیا کہتے ہو میں نے وہی کہا کہ آپ پر قربان ہو جاؤں اُس وقت اللہ تعالیٰ ایک حجرہ میں مجھے لے گئے وہاں ایک لیمپ اللہ تعالیٰ نے جلائی اور گرما گرم دودھ پلایا.مجھے کہا کہ دودھ پی لو گے میں نے کہا ہاں پی نوں گا تو پھر فرمایا کہ میں نے تجھے کہا تھا کہ درود بہت پڑھا کر.پھر جب چلنے لگے تو میں نے عرض کیا کہ لیمپ بجھ جائے گی.اندھیرا ہو جائے گا.فرمایا کہ یہ نہیں بجھے گا.پھر میں نے دیکھا کہ اس حجرہ میں رسول اللہ ﷺ اور مسیح موعود علیہ السلام کی چار پائی بھی ہے اور دو کرسیاں ہیں ایک خلیفہ ثانی کی ہے اور ایک ڈاکٹر حشمت اللہ کی جو خلیفہ ثانی کے خادم ہیں.اس حالت میں میں کچھ بیدار ہو گیا تو دیکھا کہ میں اپنے گھر میں ہوں لیکن پھر میں نے منہ ڈھانپ لیا کہ یہ نظارہ نہ جاوے جب اللہ تعالیٰ جانے لگے تو میں نے عرض کیا کہ میرے لئے کیا حکم ہے فرمایا کہ پانچ چھ روز تک آئے گا.اس کے بعد آنکھ کھل گئی.اور فورا مجھ پر دعا کی قبولیت طاری ہوگئی.اس حالت میں میرے کپڑے اور چار پائی وہی تھی اسی وقت سجدہ کیا اور دعائیں شروع کیں.میں نے رسول کریم اور مسیح موعود علیھما السلام اور اہل بیت اور تمام قادیان کے احمدی جن کو میں جانتا تھا ان کے لئے دعا کی اور تمام سلسلہ کے لئے دعاء کی.اس کے مشکلات کے حل ہونے کے لئے اور اُس کے چندوں کے مشکلات کے لئے دعائیں کیں.اپنے نفس اور عیال کیلئے دعاء کی اور اپنے حیات و ممات کے لئے دعا ئیں کیں.پھر میرا خیال اس طرف گیا کہ میں نے کہا کہ اے خدا تو نے مسیح موعود علیہ السلام کا گھر امن اور رحمت کا گھر بنایا ہے اور اس کے رہنے والوں کے لئے امن کی جگہ بنائی ہے.تو میرا گھر بھی آپ قادر مطلق ہیں اس الہام میں داخل کر دے جن الہاموں میں تو نے مسیح موعود علیہ السلام کا گھر داخل کیا ہے.تب میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر سے تاریں نکلیں نواب صاحب اور تمام گھروں سے اوپر اوپر آئیں اور میرے گھر کو لپیٹ کر حضرت صاحب کے
۳۱ گھر میں داخل کیا.تب میں خوش ہو گیا.الحمد لله على ذالك - یہ باتیں میں نے تحدیث بالنعمہ اور شکر کے طور پر لکھی ہیں کہ دیکھو ایک انسان جو ر مولوی عبد اللطیف تھا.جو ہا خدا انسان تھا.عالم و عارف تھا.اور قوم سے سید تھا.بہت سی بیویاں رکھتا تھا.جاگیردار.لوگوں میں پیشوا تھا..بادشاہ کے یہاں بھی عزت پانے والا تھا اور شاہی دربار میں اس کی کرسی تھی.یہ سب اس نے کس بات پر قربان کیا؟ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی پر قربان کیا مسیح موعود علیہ السلام ایسی دولت ملی کہ ہر ایک مصیبت کے پہاڑ میں اس نے استقامت دکھلائی.میں ایک جنگل کا رہنے والا آدمی ہوں.میرا ملک بھی پہاڑوں اور جنگلوں کے درمیان ہے مجھ کو مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے سے تیرہ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصحاب میں داخل کیا.اس لئے کہ حدیث شریف میں آیا ہے جو مسلمان محمد رسول اللہ علیہ کو خواب میں دیکھ لے تو وہ رسول اللہ کے اصحاب میں داخل ہوتا ہے.تو دیکھ لو کہ یہ تمام باتیں مجھے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں عطا کیں.میں مسیح موعود کی خدمت کرتا تھا.اور میں اس زمانہ تھیں لنگر کے واسطے بھی آٹا لانا تھا اور کبھی رات اور کبھی دن بٹالہ میں کام ہوتا تھا تو حضرت صاحب مجھے بھیجا کرتے تھے اور گورداسپور کے مقدمہ میں میں ساتھ جاتا تھا.حضرت صاحب نے مجھے گھر سے جگانے کے لئے اپنے خاص آدمی مفتی محمد صادق صاحب کو مقرر کیا تھا.جب میں آجاتا تھا تو حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ احمد نور آ گیا تو میں عرض کرتا کہ جی حضور آ گیا.ایک دفعہ گورداسپور میں حضرت صاحب ٹہلتے تھے اور میں آپ کے پیچھے تھا آپ جب پیشاب کے لیئے گئے تو لوٹا پانی کالا یا.آپ فرمانے لگے کہ میں کہیں جاؤں تو آپ میرے ساتھ رہا کریں وقت خطرہ کا ہوتا ہے تو بعض لوگ بھاگ سکتے ہیں آپ لوگ نڈر ہیں نہیں بھاگتے.پھر فرمانے لگے کہ تم میری خدمت کیا کرو.ہر وقت خدمت کا وقت نہیں ہوتا.میں نے عرض کیا کہ حضور میں اس ملک سے جناب کی خدمت کے لئے آیا
۳۲ ہوں.جب حضرت صاحب اور میں گورداسپور آتے جاتے تو میں پیدل یکہ کیسا تھ دوڑتا ہوا جاتا.اور دوڑتا ہوا آتا.جب حضرت صاحب دہلی.سیالکوٹ.لاہور وغیرہ کہیں جاتے تو مجھے اپنی جگہ پر امین کے طور پر حفاظت کے لئے چھوڑ جاتے.ایک بار حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ زلزلہ آنے والا ہے.حضرت صاحب اور سب دوستوں نے باغ میں ڈیرہ لگایا.میں رات کو آپ کے گھر کا پہرہ دیا کرتا تھا ایک بار حضرت صاحب نے دن کو مولوی عبد الکریم مرحوم اور خلیفہ اول مولوی نور الدین مرحوم کو اور اور بھی دوست موجود تھے حضرت صاحب نے فرمایا کہ آج الہام ہوا ہے کہ تمہارے گھر کا پہرہ ملائک دیا کرتے ہیں.میں نے عرض کیا کہ جناب میں بھی تو پہرہ دیا کرتا ہوں یا تو میں ملائک میں سے ہوں یا ان کے ساتھ ہوں.مولوی صاحب نے یہ بات حضرت صاحب علیہ السلام سے بیان کی تو آپ مسکرائے.سید احمد نور کا بلی تاجر مهاجر قادیان دارالامان ضلع گورداسپور محرم ۱۳۴۰
بسم الله الرَّحْمَنِ الرَّحِيم تَحْمَدَهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم حصہ دوم شہید مرحوم اس دوسرے حصہ میں وہ حالات درج ہیں جو کہ مولوی عبدالستار صاحب مہاجر قادیان نے حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ سے سنے ہیں یا اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور یہ الفاظ نقل با معنی ہے اور اکثر واقعات چھوڑے گئے ہیں کہ کتاب طول نہ پکڑے.ضروری ضروری باتیں درج کی جاتی ہیں.فرماتے ہیں کہ میرے باپ دادا اچھے عالم تھے اور لوگوں کو کتابوں کا سبق پڑھایا کرتے تھے.ان لوگوں میں سے دو قسم کے لوگ تھے.ایک وہ جو طالب علمی کی حالت میں تھے دوسرے وہ جو اچھے مولوی پڑھے لکھے تھے اور وہ شیخان کہلاتے ہیں.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ اچھے سفید کپڑے پہنے ہوئے کچھ نہ کچھ حیثیت رکھتے ہونگے.مجھے بھی طلب علم کا شوق ہوا.تب میں نے تعلیم پانے کے لئے باہر جانے کو کمر باندھی اور میں ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا کہ جن کا لگاؤ قادری سلسلہ سے تھا.آخر میں نے ایک مولوی صاحب کی شاگردی اختیار کی.اس نے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی ایسی تعریف میرے آگے بیان کی کہ مجھے ملنے کا شوق ہوا اور میں ان کے ملنے کے لئے چل پڑا.ابھی انکے پاس پہنچا نہیں تھا کہ ملمتون ایک مقام ہے وہاں کے ایک مولوی کا شاگرد بن گیا صاحبزادہ صاحب مرحوم کے پاس بہت لوگ تعلیم کے لئے آتے تھے اور ہر وقت خدا کا کلام اور حدیث کا بیان ہوا کرتا تھا.آپ بہت مہمان نواز تھے خواہ امیر ہو خواہ غریب.میں بھی
۳۴ اپنے اُستاد کے ساتھ ایک دو جمعہ صاحبزادہ صاحب کے پاس درس سننے کیلئے جاتا رہا.ان کے وعظ اور کلام نے میرے دل میں ایسا اثر پیدا کیا کہ میں اُستاد کی اجازت کے بغیر ان کے پاس رہنے لگا.کچھ دنوں کے بعد میرے اُستاد کا مجھے حکم آیا کہ تم میرے پاس سے بغیر اجازت گئے ہو میں تم سے بہت ناراض ہوں.ہر گز نہیں بخشوں گا.اسوقت میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ میرا اُستاد ہے کہیں بددعا نہ دے.ایک طرف تو صاحب زادہ صاحب سے الگ ہونے کو دل نہیں چاہتا تھا دوسری طرف اُستاد کا خوف رہتا تھا.آخر میں نے صاحبزادہ صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ ایک مولوی کی اگر کوئی شاگردی اختیار کرلے تو اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ بس غلام ہی ہو گیا ہے.جہاں آپ کا دل چاہتا ہے تعلیم پائیں.اگر آپ یہاں رہنا چاہتے ہیں بیشک آپ یہاں ٹھہریں اور دینی تعلیم پائیں.پس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں رہ کر بہت سے حقائق اور معارف سنتا رہا.اور میرے دل میں بہت اثر ہوا.اس ملک خوست میں شیخان قوم کے لوگ بہت ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے پیر کو آسمان کی مخلوق اور دریاؤں کا علم ہے اور جو زمین کے نیچے ہے ان کا بھی علم ہے بلکہ یہاں تک کہ جو آسمان پر دریا اور ان میں کنکر پتھر وغیرہ ہیں سب کا علم ہے.چونکہ میں بھی اس عقیدہ پر تھا میں نے اس کے ہار میں صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا انہوں نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط ہے.پیر ومرشد جو ہوتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے بندے اور اس کے حکم کے پابند اور اس کے رسولوں کے قدم بقدم چلتے ہیں بزرگی یا دلایت قطبیت و خوشیت یہی ہے.دوسرے مولویوں اور صاحبزادہ صاحب کے کلام میں بہت فرق تھا.جب ان سے کسی حکم یا مسئلہ کی بابت پوچھو تو جواب ملتا تھا کہ میرے خیال میں تو یہ اس طرح سے ہوگا لیکن اگر صاحبزادہ صاحب سے پوچھا جاتا تو فرماتے کہ یہ حکم اس طرح پر ہے.یعنی اور لوگ گمان سے کہتے تھے لیکن صاحبزادہ صاحب یقین سے جواب دیا کرتے تھے کہ یہ حکم اس
۳۵ طریق پر ہے.تب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سچا آدمی ہے تو یہی ہے.آخر جب شر ندل خان جو کہ امیر عبدالرحمن صاحب کا چچا زاد بھائی تھا گورنر خوست مقرر ہوا.اس نے جب صاحب زادہ عبد اللطیف صاحب کا پُر اثر کلام سنا اور علم اور عمدہ بیان اور مہمان نوازی کی شان و شوکت دیکھی اور ان کے مریدوں کی کثرت اور تقویٰ نے ان کے دل پر اثر کیا تو یہ دل میں شوق پیدا ہوا کہ صاحبزادہ صاحب کو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں اور جہاں میں جاؤں یہ میرے ساتھ ہوں ان امیدوں کو لئے ہوئے صاحبزادہ صاحب سے ذکر کر کے اپنے پاس رکھا.جہاں گورنر جایا کرتا آپ کو بھی گھر سے بلا کر لے جا یا کرتا.گورنر کو آپ کی ایسی محبت ہوگئی کہ اُس کو آپکے بغیر چین نہ آتا اور بہت سے انعام واکرام سے سلوک کرتا.جب امیر عبدالرحمن خان کو خبر ملی تو اُس نے بھی انعاما آپ کے لئے گیارہ سو روپیہ مقرر کر دیا.صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بڑے بڑے حاکموں اور گورنروں سے بہت نفرت ہے کہ یہ لوگ ظلمت میں رہتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں.میں اگر شر ندن خاں گورنر کے ساتھ رہتا ہوں تو محض اس لئے کہ یہ غریب لوگوں پر ظلم کرتا ہے.میں ان غریبوں کو اس کے ظلم و ستم سے بچاتا ہوں تا کہ یہ لوگ اسکے پنے علم کے نیچے نہ آجا دیں.صاحبزدہ صاحب ایک ایسے پر حکمت انسان تھے کہ گورنر کو آپ سے یہ بہت بڑا فائدہ پہنچا کہ منگل - جدران - تی.یہ تین قومیں ایسی زبر دست تو میں تھیں کہ کبھی رعایا بن کر نہیں رہتی تھیں.لیکن آپنے ایسی حکمت سے کام لیا کہ بلا چون و چرایہ تمام قو میں رعایا بنا کر گورنر کے حوالہ کردیں.بعض وقت ایسا ہوتا تھا کہ کہیں لڑائی میں کسی قسم کا حکم فوج کو دینا منظور ہوتا تو گورنر حیران ہو جاتا کہ اس موقعہ پر کیا حکم ہو.اس وقت صاحب زادہ صاحب فوج کو فوراً موقع کے مطابق حکم دیتے کہ گورنر کی عقل حیران رہ جاتی.
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک موقعہ پر ایک تنگ درہ پر گورنر کی فوج اتری ہوئی تھی.ایک روز جدران قوم نے بہت بڑی تعداد میں اکٹھی ہو کر گورنرکو معہ اس کی فوج کے گھیر لیا.جہاں بھی روشنی دیکھتے.فائر کر کے کچھ نہ کچھ زخمی کر دیتے.یہاں تک نوبت پہنچی کہ تمام روشنی بجھا دی گئی گورنر حیران اور پریشان ہو گیا کہ اب کیا کیا جاوے.اور جدران قوم لوٹنے کو تیار تھی.اردگرد آگئی.صاحبزدہ صاحب نے فوراً ارد گرد تو ہیں لگوادیں اور فائر کرنے کا حکم دید یا.جدران قوم ایسی بدحواس ہوئی کہ چھپنے کوجگہ نظر نہ آئی آخر اس قوم نے بھاگنے کا راستہ لیا اور گورنر کی فوج صحیح و سلامت رہ گئی.گھیر نے پر ہی جو نقصان ہوا سو ہوا.یہ خبر سنگر امیر عبدالرحمن خان کو بہت خوشی ہوئی کہ وہ قو میں جو کبھی بھی رعایا بنکر نہ رہتی تھیں گورنر نے صاحبزادہ صاحب کی مدد سے انکو فتح کیا اور.سو آپ کو بہت سا انعام دیا گیا.اس اثناء میں امیر کابل نے انگریزوں کے ساتھ ملک تقسیم کرنے کا گورنرخوست کو حکم دیا.نقشہ پہلے ہی تیا رتھا.جب صاحبزادہ صاحب نے دیکھا کہ نقشہ میں امیر عبدالرحمن خان کی رعایا کا قریباً کئی سومیل کا حصہ انگریزوں کے قبضہ میں آیا ہوا ہے.انھوں نے اس نقشہ پر زمین کو تقسیم کرنے سے انکار کیا.ایک نیا نقشہ تیار کرنے کا وعدہ انگریزوں سے لے لیا جس میں وہ زمین امیر کابل کے قبضہ میں کردی چونکہ گورنر میں غصہ بہت تھا اور صاحبزادہ صاحب نرم آدمی تھے اسلئے صاحبزادہ صاحب اکیلے ہی سرحد کی تقسیم پر جایا کرتے تھے جب تقسیم ختم ہوگئی تو گورنر نے کہا کہ جب تک ہمیں نیا نقشہ نہیں ملے گا ہم اس زمین کے قابض نہیں ہو سکتے.کیونکہ پھر پرانے نقشہ پر جھگڑا ہوگا.اس لئے صاحب زادہ معہ کچھ سواروں کے کرم پاڑہ چنار انگریز افسر کے پاس آئے اپنے آپ کی بہت عزت کی اور نیا نقشہ تیار کرا کر دیدیا.اس زمین کی تقسیم میں ایک شخص آیا اور صاحب زادہ صاحب سے عرض کی کہ میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے.لیکن اس کتاب کا مجھے پتا نہیں چلتا ایک آدمی نے مسیح زمان اور نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے آپ اس کتاب کو پڑھ کر دیکھیں.میں نے اس کا کچھ رد لکھا ہے آپ
اچھا جانتے ہیں اور بڑے عالم و فاضل میں آپ اسکا جواب لکھ سکیں گے.آپ نے فرمایا کہ مجھے یہاں کام ہے گھر جا کر کتاب کو دیکھوں گا.صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا شجرہ نسب تو جل گیا ہوا ہے لیکن ہم نے اپنے باپ دادا سے ایسا سنا ہے کہ ہم علی ہجویری گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں.اور ہمارے دادا د ہلی کے بادشاہ کے قاضی تھے.کتابوں کی ایک لائبریری تھی جو نو لاکھ روپیہ کی تھی.ہمارے باپ دادا نے نادانی کی جو حاکم بن گئے حکومت پسند کرنے پر انھوں نے تعلیم کی پروانہ کی.تمام کتابیں ضائع ہو گئیں.میرا اپنا یہ حال یہ ہے کہ مجھے باپ دادا سے جائیدادور ثہ میں ملی ہے اس کو رکھنے پر مجبور ہوں.میرا دل دولت کو پسند نہیں کرتا.صاحبزادہ صاحب علم مروجہ کے بڑے عالم تھے.ہر ایک قسم کا علم رکھتے تھے بہت سے شاگرد بھی آپ سے تعلیم پاتے تھے.ایک دفعہ آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہندوستان بھی جانا چاہئے یہ گورنر کے حاکم ہونے سے پہلے کا واقعہ تھا.سو اس ارادہ سے آپ بنوں آئے یہاں پر آپ کی بہت بڑی جائکہ او ہے.یہاں کے نمبر دار آپ کے پاس آتے اور نیزہ بازی وغیرہ کھیلتے تھے.ایک دفعہ آپ نے نمبر داروں سے فرمایا کہ میں ہندوستان جانے ارادہ رکھتا ہوں انہوں نے جواب میں کہا کہ برسات کا موسم ہے یہ گذر لینے دیں.لیکن آپ نے برسات کا خیال نہ کیا اور چل پڑے وہاں کے نمبر دار آپ کو کچھ فاصلہ پر چھوڑنے کے لئے ساتھ آئے.اور آپ بہت سے کپڑے اور روپیہ لیکر گھوڑے پر سوار ہو گئے.جس وقت کرم دریا پر پہنچے.تو دریا بہت چڑھا ہوا ہے اور پانی نہایت گدلا.صاحبزادہ صاحب کو تیر نا نہیں آتا تھا.آپنے کپڑے اتار کر گھوڑے کی زمین پر رکھ کر تہ بند باندھا اور گھوڑا دریا میں ڈالد یا دوسرے لوگوں کے گھوڑے تو پار ہو گئے لیکن آپ کا گھوڑا پانی نے اوپر اٹھا لیا.اور گھوڑا بے طاقت ہو گیا.آپ گھوڑے سے دریا میں کود پڑے اور دریا میں غوطے کھانے لگے اور یہ کہتے رہے کہ یارحیم یا رحیم یارحیم.آخر خدا نے فضل و رحم کر کے
۳۸ انہیں پار لگا دیا.روپیہ اور کپڑے سب دریا میں بہ گئے.آپ نے اسکی کچھ پروانہ کی اور نمبر داروں کے آدمیوں نے گھوڑے کو دریا سے نکال لیا.پاس ہی ایک گاؤں تھا اس میں ایک مولوی جان گل رہتے تھے اور آپ سے واقف تھے اُنکے گھر چلے گئے آپ نے مولوی جان گل سے کہا کہ میرا ہندوستان جانے کا ارادہ ہے.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ میں بھی ساتھ چلتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک تہ بند رکھتا ہوں ملنگ کے بھیس میں جاؤں گا اگر تم میرے ساتھ جانا چاہتے ہو تو صرف بہ بند رکھنا ہوگا اور ملنگ بن کر چلنا ہوگا.آخر آپ اور مولوی صاحب نے تہبند باندھا فقیری کے بھیس میں امرتسر آئے.صاحبزادہ صاحب کو ننگا سینہ برا معلوم ہوتا تھا.ایک رومال سینہ پر لٹکا لیا.جب امرتسر پہنچے کشمیری محلہ میں ایک حنفی مذہب کا مولوی تھا ا سکے پاس اتر پڑے.اس مولوی کے پاس کتابوں کی لائبریری تھی.آپنے خیال کیا کہ اس کے پاس بہت سی کتابیں ہیں انہیں سے فائدہ اٹھا ئیں گے اور کتابوں کا مطالعہ کیا کرینگے رات دن کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے.شام سے صبح تک کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے اسی گمنامی کی حالت میں رہے کہ نہ تو کوئی آپ کا واقف بنا اور نہ آپ کسی سے واقف ہوئے.صرف کبھی کبھی ملنگ فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے اس ڈیرہ کے لوگوں کو بہت خوش کیا کرتے تھے.کیونکہ صاحبزادہ صاحب دولتمند آدمی تھے.آپ کو پیچھے سے خرچ آیا کرتا تھا.اسلئے آپ لوگوں کو بہت کچھ دیا کرتے تھے.اور آپ نے جامہ ملنگی زیب تن رکھا.آپ پر عجیب و غریب حالات گزرتے تھے.ایک روز فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے جو مدینہ منورہ میں ہے امرتسر میں ایسی خوشبو آتی تھی کہ جیسے بار یک رومال میں کوئی خوشبو اپنے پاس رکھی ہوئی ہوتی ہے.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک راز میں نے معلوم کیا کہ جان گل مجھ سے روحانیت میں کتنا دور ہے تب مجھے معلوم ہوا کہ بہت دور ہے.فرمایا کہ میں نے جان گل سے دریافت
۳۹ کیا کہ جان گل تو مجھ سے کتنا دور ہے اس نے بالشتوں سے ماپ کر کہا کہ تین بالشت میں نے کہا کہ نہیں.تمھارا اور میرا آسمان اور زمین کا فرق ہے.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے سوچا کہ اس امرتسر کے مولوی سے ہمیں یہی فائدہ کافی ہے کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اگر کوئی بات پوچھنی ہوتو پوچھ لیا کرینگے.ایک روز اہلحدیث کی طرف سے دہلی سے ایک رسالہ اس مولوی کے پاس آیا رسالہ کا نام ضرب النعال على وجه عدو الله الدجال.اور لکھا تھا کہ اس کا جواب دو جب یہ مولوی اس رسالہ کا جواب نہ دے سکا تو وہ مولوی اہلحدیث دہلی سے امرتسر اس مولوی کے پاس مباحثہ کے لئے آئے اس مولوی نے صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ اہلحدیث دہلی کا یہ رسالہ آیا تھا اب وہ بحث کے لئے یہاں آنے لگے ہیں کیا کیا جاوبے صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ تم مجھے اپنا وکیل بنا دینا میں خود ہی جواب دے لوں گا جب یہ مولوی بحث کے لیئے آئے تو آپ جواب کے لئے تیار ہو گئے.انہوں نے کچھ سوال کیئے آپ نے ایسے جواب دیئے کہ وہ حیران ہو گئے.پھر دوبارہ انہوں نے کچھ اور سوال پیش کئے یہ جب دوسری دفعہ جواب دیا گیا تو وہ مولوی چپ ہو کر واپس دہلی چلے گئے.یہ سب سوال و جواب تحریری تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب قریباً تین سال کے بعد واپس خوست اپنے اسی لباس مولویانہ میں تشریف لے گئے.خوست میں تین قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو حاکم تھے دوسرے مولوی اور تیسرے شیخان جو قادری سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے.آپ نے ہر ایک فرقہ کو خد اور رسول کے خلاف پایا.حاکموں کو دیکھا کہ بہت ظالمانہ طریق پر لوگوں سے روپیہ وغیرہ لیتے ہیں.مولویوں کو دیکھا کہ یونہی ہر ایک سے جھگڑاتے اور جھوٹے فتوے لگاتے ہیں اور شیخان لوگوں کو دیکھا تو انکے پاس بڑی بڑی تسبیحیں رہتی ہیں.صاحبزادہ صاحب نے سوچا کہ حاکمانہ لباس تو ہمیں باپ دادا سے حاصل ہے اور مولویا نہ لباس خدا تعالیٰ نے
۴۰ مجھے خود عطا کیا ہے.اب شیخان کو دیکھنا چاہئیے کہ یہ بہت پھیلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں.فرمایا کہ میں نے جب دیکھا کہ مختلف قسم کے لوگ میرے پاس آتے ہیں تو میں نے شیخان لوگوں سے نرمی و محبت کا تعلق رکھنا شروع کیا.یہ سب لوگ جو آتے تھے تو آپ ایک طرف تو دعوت شروع کر دیتے اور دوسری طرف قرآن وحدیث کا بیان کرتے.تب ان شیخان میں سے ایک مولوی نے کہا کہ مٹر کی کی کے مولوی جو سوات صاحب کے موذن ہیں ان کے پاس جانا چاہیے وہ بہت اچھا اور بڑا مولوی ہے.تب آپ اس کی طرف روانہ ہوئے.جگہ جگہ پر مٹر کی کے مولوی کے شاگرد تھے انہوں نے آپ کی بہت عزت کی اور بڑے خوش ہوئے کہ صاحبزادہ عبداللطیف اتنا بڑا آدمی بھی ہمارے پیر کا شاگرد ہونے آیا.اور آپ اسلئے جارہے تھے کہ تا معلوم کریں کہ آیا شیخان لوگوں کے مولویوں کی طرح یہ بھی تعلیم دیتا ہے یا کوئی اچھا آدمی ہے.پس آپ اُسکے پاس پہنچ گئے آپ کے ساتھ مختلف قسم کے لوگ منٹر کی کو آئے.یہ شیخان بہت سی قرآن اور حدیث کے خلاف تعلیم دیتے تھے.قریبا ڈیڑھ سو ایسے مسائل تھے جن میں سے کچھ یہ ہیں کہ پیٹے رکھنے حرام ہیں یعنی سر کے بال اور نسوار سونگھنی حرام ہے.جس زمین میں نسوار کا درخت بویا جائے وہ پلید ہے.دو تین سال تک اس کی فصل بھی حرام ہے نسوار لینے والے کی عورت بغیر طلاق کے مطلقہ ہو جاتی ہے.آپ فرمانے لگے کہ میں اسلئے اس پیر کے پاس آیا ہوں کہ تا کہ معلوم کرلوں کہ آیا یہ غلط فتوی دینے والے نہیں یا نہیں.اور فرمانے لگے کہ جب میں اس پیر کے پاس آیا تو معلوم ہوا کہ یہ آدمی تو اچھا ہے یہ فتوی وہ خود نہیں بناتا کیونکہ اس کے منہ سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو شیخان مولویوں سے سنی جاتی تھی.تب مجھے اس پر نیک گمان ہوا.چند روز کے بعد صاحبزادہ صاحب اپنے ملک خوست واپس چلے آئے.جب آپ گھر پہنچے تو آپ کے پاس پہلے سے زیادہ لوگ آنے شروع ہوئے لوگ خیال کرتے تھے کہ صاحب زادہ صاحب منٹر کی صاحب سے آئے ہیں آپ سے سنی
چاہئیں جب آپ کے پاس مولوی صاحبان فتویٰ پوچھنے کے لئے آتے تو آپ کا فتویٰ سنکر کہتے کہ منٹر کی صاحب تو یوں کہتے ہیں لیکن آپ تو اُنسے بہت خلاف ہیں اس پر آپ کو خیال آیا کہ پھر معلوم کرنا چاہیئے کہ یہ جو غلط فتویٰ لوگ بیان کرتے ہیں یہ منٹر کی صاحب سکھلاتے ہیں یا انکی اپنی غلط بیانی ہے.آپ پھر دوبارہ منٹر کی صاحب کے پاس گئے.جب آپ وہاں پہنچے.وہاں ایک اور مولوی تھا جو سوٹے کے مولوی کے نام سے مشہور تھا.ان دونو کے درمیان بہت جھگڑا رہا کرتا تھا.ایک دفعہ ان دونوں کے درمیان کسی مسئلہ پر جھگڑا ہو گیا.اور قرار پایا کہ کسی تیسری جگہ جانا چاہیئے تاکہ معلوم ہو جاوے کہ کون سچا ہے اس اثنا میں صاحبزادہ صاحب وہاں پہنچ گئے.آپنے منٹر کی کے مولوی سے کہا کہ اپنے گھر میں ہی کتابوں سے دیکھ لو اگر ہے تو مانا پڑے گا نہیں تو اس جھگڑے کی کیا ضرورت ہے.صاحبزادہ صاحب نے بہت سی کتابیں پیش کیں لیکن یہ منٹر کی مولوی نہ مانا اور مقرر کردہ جگہ پر جو ایک طرف اٹھارہ ہزار آدمی تھے اور دوسری طرف تیرہ ہزار تھے.شیخان قوم کا ہر طرف سے یہ شور تھا لنگر کا خیال رکھو کہ ہماری ناک نہ کٹ جاوے.آخر جب ہر طرف سے یہی آوازیں اٹھیں تو میرا دل منٹر کی مولوی سے پھر گیا اور یقین ہو گیا کہ یہی جھوٹے فتوے لکھتا ہے خدا کے لئے کوئی کام نہ تھا صرف ناک کا خیال تھا.اس وقت گورنمنٹ انگریزی کو رپورٹ پہنچی کہ ایک بہت بڑا مجمع بنا ہے ضرور فساد ہوگا انتظام کیا جاوے گورنمنٹ نے فوراً جمگٹھا ہٹا دیا اور حکم ہوا کہ زیادہ مجمع نہ ہو وے بہت جلد فیصلہ ہو جانا چاہیئے اور سب مجمع کو منتشر کر دیا مولوی اپنی اپنی جگہ پر واپس چلے گئے اور منٹر کی صاحبزادہ صاحب کے ساتھ آگیا.صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے ان مولویوں کو مجلس میں بندروں کی شکل پر دیکھا.اور فرمانے لگے کہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ لوگ بالکل نہیں مانیں گے.پھر جب منٹر کی کے مولوی گھر پہنچے تو گھر پر بھی صاحبزادہ صاحب نے بہت سمجھایا لیکن وہ نہ سمجھا.خر آپ صبح وہاں سے اپنے ملک خوست کی طرف روانہ ہو گئے.راستہ میں تمام منٹر کی کے آخر
۴۲ شاگردوں سے مولوی کی غلط بیانیوں کا ذکر کرتے رہے.جب شہر پشاور پہنچے تو رات کو خواب میں آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ تو مبتدع میں انکو آپ نے یونہی کیوں چھوڑ دیا ہے.صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ صبح میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر واپس مولوی صاحب کے پاس اس غرض سے روانہ ہو گیا کہ اس دفعہ فیصلہ کر آؤں.فرمانے لگے وہ تو ملا نہیں ان کے ایک منتظم لنگر والہ کو میں نے تبھیجیں جو کہ مجھے دی گئی تھیں واپس کر دیں اور کہا کہ یہ تبیجیں مولوی صاحب کو جب آئیں دے دینا اور کہنا کہ میں تمھارے عقیدوں اور تمہاری تسبیحوں سے بیزار ہوں.یہ کہہ کر آپ اپنے گھر واپس چلے آئے اور راستہ میں لوگوں سے ان کی برائیاں بیان کرتے رہے.اور بعض جو لوگ ملتے یہی کہتے تھے کہ آپ کی بات تو بالکل درست ہے لیکن ان سے ایسا جھگڑا کرنا بہت بڑی دشمنی ہے کیونکہ یہ لوگ ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں.آپ جب گھر پہنچے تو اپنے طالب علموں کو قریبا ایک سو میں مسئلے لکھ کر دے دیئے اور کہہ دیا کہ یہ فلاں فلاں قوم کے لوگوں کو دے دو اور اس کا جواب لو.اگر غلط بیان اور جھوٹے فتوے لگائیں گے تو تم گواہ رہنا انکو بذریعہ عدالت گرفتار کرائیں گے.اور یہ لوگ صاحبزادہ صاحب کے شاگردوں کو بہت ستاتے تھے.آپ کے شاگرد جب لوگوں کے پاس گئے بعضوں نے تو چالاکی سے ان مسئلوں سے انکار کیا اور بعضوں نے تصدیق کی کہ ہمارے پیر کا یہی مسئلہ ہے.صاحبزادہ صاحب نے یہ سوالات لکھے تھے.کہ کیا نسوار حرام ہے.کیا سر کے بال رکھنا حرام ہیں.کیا نماز میں شہادت انگلی سے اشارہ کرنا حرام ہے.اور کیا جس زمین میں نسوار کا درخت بویا گیا ہو ا سکا حاصل کچھ برس تک حرام ہے.کیا تمہارے مولوی منظر کی کے یہ فتوے نہیں وغیرہ وغیرہ.
منٹر کی مولوی کا ایک شاگر د خوست میں بھی تھا جس کا نام الہ دین تھا.صاحبزادہ صاحب نے حاکم کے پاس رپورٹ کی کہ خوست میں الہ دین نام مولوی منٹر کی کا شاگرد ہے.جھوٹے فتوے دیگر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے.اسکا انتظام کیا جاوے اور ایسے فتووں سے روکا جاوے.صاحب زادہ صاحب علاوہ معززو نامی گرامی ہونیکے ایک فاضل اجل مانے جاتے تھے اسلئے آپ کی بات حکام میں بھی مانی جاتی تھی.حاکم نے جواب دیا کہ میں تو اسکو روکنے کی کوشش کروں گا لیکن اُمید نہیں کہ وہ میری بات پر عمل کرے اور اپنی حرکتوں سے باز آوے.اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ ان کے مرید بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ایسا نہ ہو کہ فساد ہو جاؤ ہے.اُدھر یہ جواب دیا ادھر ایک سرکاری آدمی کے ہاتھ اس مولوی کے نام ایک سمن بھیجا کہ مولوی الہ دین نیہاں آکر شریعت کے احکام کا فیصلہ کرے بعد فیصلہ کے ان احکام کو بیشک جاری کرے اگر سچے ہوں ورنہ جھوٹے مسائل سے رک جاوے.جب یہ حکم مولوی مذکور کے پاس پہنچا تو اس نے جواب دیا کہ سب ان مسائل سے خوب واقف ہوں مجھے کیا ضرورت ہے کہ انکو طے کروں.تب وہ سرکاری آدمی واپس حاکم کے پاس لوٹ آیا اور حاکم کو اسکے انکار کی خبر دی حاکم نے امیر عبدالرحمن خاں کو رپورٹ کی کہ ایک مولوی جھوٹے مسائل بیان کرتا ہے اور اس سے فساد کا اندیشہ ہے.حضور اس باب میں کیا حکم فرماتے ہیں.امیر نے جواب دیا کہ اس مولوی کو یہاں بھیج دو اگر انکار کر رہے تو زبردستی پایز نجیر جلد روانہ کرد.چونکہ اس مولوی کے بہت لوگ پیرو تھے اس لئے حاکم نے اپنی فوج کو شکار کے بہانے سے روانہ کیا.جب شکار کر کے واپس آنے لگے تو فوج کے بعض افسر نے عرض کیا کہ اس گاؤں میں جو مولوی ہے اس کے گھر میں ٹھہرنا چاہیے وہ بڑا بزرگ اور اچھا آدمی ہے.بزرگ اور اچھا آدمی ہے.حاکم کا تو پہلے ہی سے اُسکے پکڑنے کا ارادہ تھا مگر یہ ارادہ
لالي افسروں وغیرہ سے پوشیدہ تھا اسلئے بظاہر حاکم نے انکار کیا اور کہا کہ وہ فقیر آدمی ہے اسے کیا تکلیف دیں.آخر افسروں کے اصرار سے حاکم اسکے گھر کا راستہ لیا.اور پہنچنے پر اسکے مکان کو گھیر نے کا حکم فوج کو دے دیا.اور مولوی کو امیر کا فرمان گرفتاری دکھا کر کہا کہ اگر تجھ کو خوشی سے امیر کے پاس جاتا ہے تو چل ورنہ زبردستی پابز نجیر لیجانا پڑے گا.اس مولوی نے انکار کیا اور اسکے ایک شاگرد نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہمارے صاحب ہر گز نہیں جائینگے.حاکم نے صاحب کہنے والے کو تو نکلوادیا اور مولوی کو ہتھ کڑی لگا کر روانہ کیا.جب حاکم چھاؤنی کے پاس پہنچا تو راستہ میں مولوی کے کچھ شاگرد ملے انہوں نے عرض کیا کہ آج رات مولوی صاحب کو ہمارے گھر میں ٹھہرنے کی اجازت دی جاوے.کل چھاؤنی میں حاضر ہو جائیں گے حاکم نے ضمانت لیکر اجازت دے دی اور آپ چلے گئے.صبح ہوتے ہی حاکم کو خبر پہنچی کہ مولوی بھاگ گیا ہے.اندھیری رات تھی مولوی اونچے ٹیلہ پر بھاگ رہا تھا کہ ایک پتھر پر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی.حاکم نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس مولوی کو پکڑ کر لائے گا ایک سورو پہ انعام پائے گا.اس راستے جس پر مولوی لنگڑ پڑا ہو تھا کچھ چنگر خانہ پروری جاتی ہے تھے اپنے اونٹ پر سوار کر کے حاکم کے دربار میں لے آئے حاکم نے چھاؤنی میں مولوی کو قید کر دیا تو اُسکے تمام عزیز اور شاگرد حال پوچھنے کے لئے آیا کرتے تھے.اس حالت میں مولوی نے اپنے استاد منشور کی اور تمام اپنے ہم مشرب مولویوں کو اپنے قید ہونے کا حال لکھدیا.چونکہ اس کے بھی شاگرد اور ہم مشرب بہت تھے فوج بنکر چھاؤنی پر حملہ آور ہوئے.حاکم تو بھاگ کر منگل قوم باغی میں جاملا وہ چھاؤنی کو لوٹ کر مولوی کو چھیڑا لے گئے.جس وقت امیر عبدالرحمن بنیاں کو خبر پہنچی.شرندل خاں کو جو امیر کا رشتہ دار تھا مع فوج کثیر کے خوست بھیج دیا کہ وہ باغیوں کو رعایا اور مطیع بنائے ہے چنانچہ اس نے آکر بڑے رعب و دا سب سے تمام لوگوں کو حکومت میں.لے لیا اور با امن رہنے کا سامان ہوا.صاحبزادہ صاحب کی مجلس میں شرندل خاں آنے
۴۵ جانے لگا اور آپ کے منہ سے حقائق و معارف کو سنا تو اُسکے دل میں آپ کی بہت محبت پیدا ہوئی کبھی تو یہ صاحبزادہ صاحب کے پاس جاتا اور کبھی صاحبزادہ صاحب اُسکے پاس جایا کرتے.اس طرح بہت محبت پیدا ہو گئی اور شرمندل خان نے ایک بچہ کی طرح آپ کے پاس پرورش پائی.ان دنوں صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگر د حج کے لئے روانہ ہوئے.جب دہلی پہنچے تو کسی نے مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے متعلق بیان کیا اور تعریف و توصیف بھی کی تو ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ قادیان پہنچ کر تحقیق کرنی چاہیے.پس قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی اور کچھ باتیں کیں.تو الفا کے دل میں حضرت کی بڑی عزت و حرمت پیدا ہوئی اور فوراً بیعت کر لی.پھر جب واپس اپنے ملک کو جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک خط امیر عبدالرحمن کو پہنچانے کی آرزو کی.پہلے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا امیر ظالم اور نافہم ہے وہ یہ بات ماننے والا نہیں.آخر ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے خط لکھدیا.جو چھپ کر شائع ہو چکا ہوا ہے.خلاصہ لیا ہے.کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے ما مورد مصلح کر کے بھیجا ہے.وہ تمام باتیں جو میں کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتا ہوں اور میں مجدد اس زمانہ کا ہوں اور رسول اللہ نے کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہوں.ﷺ.الغرض اور بہت سی اچھی نصیحتیں تحریرفرما ئیں.جب یہ اپنے ملک میں پہنچا تو اسنے یہ محط صا حبزادہ صاحب کو دیا اور سب حال من وعن سنایا.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ یہ بات تو بڑی سچی ہے.اور یہ کلام ایک عظیم الشان کلام ہے لیکن بادشاہ اتن سمجھ نہیں رکھتا کہ وہ سمجھ لے اور مان لے.اسلئے آپ کا یہ خط دکھانا بے سود ہے.صاحبزادہ صاحب کے پاس یہ خط رہا.اور آپ نے کسی موقعہ پر یہ خط شرمندل خان کو دکھلایا تا کہ اسکے ذریعہ امیر کے پاس پہنچ جاوے.لیکن گورنر شرندل خان نے کہا کہ بات تو سچی ہے مگر اُمید نہیں کہ امیر مان
لے.اور یہ بھی کہا کہ ایک آدمی انگریزوں کی طرف سے سفیر بنگر امیر کے پاس آیا تھا جس وقت امیر قندھار گیا ہوا تھا.اس نے بہت سی باتیں سنائیں اور مرزا صاحب کا ذکر بھی کیا تو امیر نے ناراض ہو کر سفیر کو بے عزت کر کے رخصت کر دیا اور انگریزی افسر کو اطلاع دی کہ ایسا نالائق آدمی میری طرف کیوں بھیجا گیا جو مجھے دین سے برگشتہ کرتا ہے.گورنر نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ اس لئے میں یہ خط امیر کے پیش نہیں کر سکتا.کہیں ایسا نہ ہو کہ امیر آپ جیسے بزرگ سے ساتھ بھی بری طرح پیش آوے.یہ کہہ کر خط صاحبزادہ صاحب کو واپس دیدیا.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ آپ مجھے اجازت دے دیں کہ میں مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ہو آؤں.گورنر نے کہا کہ جس طرح میں اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دے سکتا اسی طرح آپ کو بھی اجازت نہیں دے سکتا ہوں کہ آپ بھی ویسے ہی بڑے آدمی ہیں جیسا کہ میں.امیر ہی اجازت دے تو دے میں اجازت نہیں دے سکتا.ایک روز گورنر نے صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا کہ ملک میں بہت بڑا فساد پڑا ہوا ہے لوگ شیطان سیرت ہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کا دشمن آپ کی رپورٹ امیر کے پاس کردئے اور آپ کو امیر بلائے اس لئے چاہیے کہ آپ پہلے ہی سے امیر کے پاس ہو آئیں تا کہ آئندہ کوئی رپورٹ آپ کی نہ کر سکے.دوسرے آپ ایک بڑی عزت اور بڑی پوزیشن کے آدمی ہیں آپ کو دیکھ کر امیر خود ہی بڑی عزت و توقیر سے پیش آئے گا اور آپ کی ملاقات سے خوشی ومسرت کا اظہار کریگا.صاحبزادہ صاحب کچھ آدمیوں کے ساتھ کابل تشریف لے گئے.کاہل میں امیر کا درباررات کو ہوا کرتا تھا.آپ چند دن وہاں ٹھہرے.جب دربار میں حاضر ہوئے تو امیر آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہا کہ رپورٹیں تو آپ کی بابت میرے پاس آئی تھیں مگر میں نے انکو نظر انداز کر دیا اور میں آپ کے آنے پر بہت خوش ہوا.صاحبزادہ صاحب نے کچھ اور لوگوں کے متعلق بیان کیا.امیر نے جواب دیا کہ ایسے
آدمی بالکل ملتے ہی نہیں.خیر آپ خاموش ہو گئے.صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب امیر سے ملاقات ہو چکی تو مجھے واپس گھر جانے کا خیال آیا لیکن اور جو معز ز لوگ دربار میں تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ امیز قابو میں نہیں.ایسا نہ ہو کہ آپ گھر پہنچیں بعد میں آپ کو بلانے کے لئے آدمی بھیجے جائیں اس سے بہتر ہے کہ آپ کا بل میں ہی ٹھہر ہیں.فرماتے ہیں تب میں نے امیر سے عرض کی کہ میں یہاں آپ کے پاس رہنا چاہتا ہوں.امیر بہت خوش ہوا اور کہا بہت اچھا.صاحبزادہ صاحب کو بہت شوق تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط کسی نہ کسی طرح امیر کو دکھاؤں لیکن کوئی موقعہ ایسا نہ نکلا کہ آپ وہ خط پیش کریں.اس عرصہ میں امیر بیمار ہو گیا اور اس جہان سے رخصت ہوا.اسکے بعد بیٹا امیر حبیب اللہ خان تخت نشین ہوا.مفصل جال اول حصہ میں بیان ہو چکا ہے.آخر صا حبزادہ صاحب نے امیر سے رخصت لی.امیر نے کہا کہ میرے والد آپ کی بڑی عزت کرتے تھے اسلئے میں بھی آپ کی عزت کرنی چاہتا ہوں.آپ ہمارے مہربان نہیں اور محسن ہیں.اسکے بعد امیر نے آپ کو رخصت کیا.آپ خوست آئے اور وہاں سے بنوں پہنچے اور وہاں ایک مقام لگتی ہے یہاں ایک تحصیلدار عالم فاضل تھا اور ایک اور مولوی تھا دونوں نے آپ کی بڑی عزت کی.اور چند روز ٹھہرانے کی آرزو کی.دوسرے مولوی نے چھ مسائل پیش کیے اور کہا کہ لوگ مجھے ان مسائل کی وجہ سے کافر کہتے ہیں آپ اس کاغذ پر دستخط کر دیجیئے کہ یہ مسائل بچے ہیں اور یہ مولوی سچائی پر ہے.آپ نے اسکو سچائی کا خط دیدیات حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحصیل دار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باتیں سنائیں تحصیل دار چونکہ صاحب اور نیک آدمی تھا سنکر بہت خوش ہوا اور کہا کہ واقعی یہ باتیں بہت درست اور صحیح ہیں اور کچھ حقیقت ضرور رکھتی ہیں.صاحبزادہ صاحب کو خیال
ہوا کہ اگر یہ تحصیل دار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان گیا یہ معزز اور عالم ہے تو شاید ا سکے.مانے سے اور بہت لوگ مان جاویں.اس گمان سے آپ نے خوشی میں آکر ایک قیمتی گھوڑا اسکو دیا.اور پھر آپ لاہور پہنچے اور شاہی مسجد میں رسول اللہ ﷺ کی دستار مبارک تیر کا دیکھی اور وہاں سے قادیان دار لامن والامان پہنچ گئے اور حضرت مسیح موعود ہی اللہ علیہ 1 لصلوۃ والسلام کی زیارت و صحبت سے مشرف ہو کر صحابہ میں داخل ہوئے.یہاں آکر آپ بہت عجائبات ہمیں سنایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں جو باتیں لوگوں کو سناتا ہوں اس سے بہت کم درجہ کی باتوں پر لوگ مارے جاتے ہیں لیکن خدا کی قدرت میں اگر کوئی بات سناتا ہوں تو کوئی اعتراض مجھ پر نہیں کر سکتا ہے.پھر فرمایا کہ یادرکھو کہ جب خدا تعالیٰ کو میرا مار نا منظور ہوگا تو یہ حکمت مجھ سے چھینی جائے گی.ایک دفعہ فرمایا کہ میں اپنے گاؤں میں بیمار تھا تو میرے اور شیطان کے درمیان بڑا مقابلہ ہوا.ایسی حالت مجھ پر طاری ہوئی کہ اگر میں آنکھ جھپکتا تو مجھ پر الزام آتا تھا.آخر میں اتنی دیر تک ٹکٹکی لگائے دیکھتا رہا کہ میرے گھر والوں نے گمان کر لیا کہ اب اس کا سیانس قریب ہے کہ نکل جاؤ ہے.اس حال میں دیکھتا کیا ہوں کہ گویا آسمان مجھ پرٹوٹ کر گر نے والا ہے.اور زمین بھی پھٹنے والی ہے.پھر دیکھا کہ آسمان اور زمین مجھ پر گر گئے ہیں اور ایک آواز سخت مہیب پیدا ہوئی.پھر ایک نور کا ستون نکلا ہے ایک سرا اس کا آسمان میں ہے اور دوسراز مین میں دھنسا ہوا ہے.پھر اُس نے تمام آسمان اور زمین کو سب طرف سے پکڑ لیا ہے اور مجھے بال بھر بھی تکلیف نہ پہنچی.پھر یہ الہام ہوا لقد جعلت اور غیب سے یہ آواز آئی کہ ایک نے دوسرے سے کہا کہ عبادت تو کم تھی لیکن معرفت کامل تھی اسلئے پہنچایا گیا.اور دیکھتا ہوں کہ اس حالت سے میرا تمام وجودمیدہ ہو گیا ہے اور سرمہ سے بھی بڑھ کر ہے اور اللہ تعالیٰ مجھ میں سما گیا ہے.میرا تمام جسم خدا ہی خدا معلوم ہوتا ہے.اگر بولتا ہوں تو خدا کی آواز نکلتی ہے.جو بھی کرتا ہوں خدا کا کام ہوتا ہے.اور میر او جود بالکل کم ہو گیا ہے.خدا ہوتا
۴۹ چونکہ میں بیمار تھا میرے منہ سے ایسی باتیں نکلیں کہ گھر والوں نے گمان کیا کہ بیماری سے دماغ خراب ہو گیا ہے.میں نے اپنی ایک خادمہ کو کسی کام کے لئے کہا لیکن اُسنے انکار ظاہر کیا.میں نے کہا کہ عبداللطیف جو انسانوں میں سے ایک انسان تھا اُسکی بات سنکر کام نہیں کیا لیکن اب خدا خود حکم کرتا ہے تم کوئی پروا نہیں کرتے.اور فرمایا کہ یہ حالت مجھ پر بہت دنوں تک رہی اور میں نے اور بہت سے واقعات لکھے تھے مگر وہ کاغذ گم ہو گیا ہے.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کو پہچانا تھا اور یہاں تک کہ خدا کے دروازہ کی کنڈی (زنجیر ) بھی کھٹکھٹائی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں ترکیب کھٹکھٹانے کی بتلادی ہے آپ سے ہمیں یہ فائدہ ہو گیا ہے کہ کھٹکھٹانے کی طرز معلوم ہوگئی کہ اسطرح کھٹکھٹاؤ گے تو کھولا جائے گا.پھر ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ کبھی کبھی رسول کریم ﷺ کا بروز مجھ پر آیا کرتا تھا لیکن جدا ہو جایا کرتا تھا.مگر یہ مقدر تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کو جب ملوں گا تو پھر بالکل جدا نہیں ہوں گے سو اب بالکل جدا نہیں ہوتے.اور فرمایا کہ بہت دفعہ مجھے خیال آیا کہ میں اپنے بازو پر لکھوں کہ غلام ہوں کیوں میرا جسم بالکل مسیح موعود علیہ السلام کا بن گیا ہے.فرمایا بہت دفعہ میں جنت میں جاتا ہوں.میرا دل چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کیلئے میوے لاؤں چونکہ میں ابھی بالغ نہیں ہوا اس لئے مجھے میوے لانے کی اجازت نہیں ہوتی.میں ہزار ہا دفعہ آسمان پر گیا ہوں لیکن جس طرح لوگ آسمان کی نسبت خیال رکھتے ہیں ایسا نہیں ہے.آسمان اور آسمان ہیں.فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے ایسا پر نور حسن میں دیکھا ہے کہ ایسا کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا.فرمایا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہنسنا اور خدا تعالیٰ کے بننے کی آواز سنی ہے لیکن ان دونوں میں بالکل کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا.فرمایا کہ میں نے آسمان کے اوپر ایک چشمہ دیکھا اور وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کو تمام انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بیٹھے دیکھا جسوقت میری نظر آپ پر پڑی تو ایک بہت چمکدار شعلہ آپ کے چہرہ سے نکل پڑا اور میں نے آپ سے ملاقات کی.فرمایا کہ دوسری دفعہ جب میں ہندوستان کی طرف نکلا تو میں لکھنو میں ایک مسجد میں اتر پڑا.یہاں لوگ چڑھاوا چڑھایا کرتے تھے.میں چڑھاوے سے کوئی غرض نہیں رکھتا تھا اور نہ کسی چیز کو ہاتھ لگا تا تھا.مسجد کے مہتم کی میرے ساتھ محبت ہوگئی.اور بڑے اصرار سے ایک دن اس نے میری دعوت کی.اور جمعہ کی نماز کے بعد جس وقت میں وعظ کے لئے بیٹھا تو مجھ پر قرآن شریف کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے اور میں نے کھول کر بیان کیئے.میرے وعظ کا اتنا اثر ہوا کہ بہت سے لوگ روتے تھے لیکن ایک فقیر تھا اسکو کچھ پروا نہیں ہوئی اور نہ اس کے چہرہ پر اثر پیدا ہوا.میں نے اس فقیر سے کچھ باتیں کیں اور یہ حالت بیان کی.فقیر نے جواب دیا کہ ہاں کسی فقیر نے توجہ ڈالی ہوگی.تب میرے خیال میں خیال ہوا کہ یہی فقیر ہے اس نے توجہ کی ہوگی.اور میں نے بیعت کی آرزو ظاہر کی لیکن فقیر نے جواب دیا کہ اب نہیں پھر میں یہاں حاضر ہو جاؤں گا اور تیرے ساتھ میرا وعدہ ہے.فقیر جب باہر نکلا تو آپ بھی پیچھے چل پڑے لیکن اس کے بہت سے وعدے کرنے سے میں واپس لوٹ آیا.کچھ دن کے بعد وہ فقیر دوبارہ آیا.فقیر نقشبندی طریقہ کا تھا اور اور بہت سے طریقوں کی اُسکو اجازت تھی.جب میں نے فقیر کے ہاتھ پر بیعت کی تو اس نے کہا کہ مجھے ہر طریقہ کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن نقشبندی میں بیعت لیتا ہوں.اس کے بعد کچھ دنوں کے لئے فقیر چلا گیا اور آپ پر بہت سے اسرار کھلے.چند روز کے بعد تیسری بار وہ فقیر آیا.کچھ باتیں ہوئیں تو فقیر نے کہا آپ نے تو بہت ترقی کی کہ میں بالکل آپ کی طرف نہیں دیکھ سکتا.فقیر نے صاحبزادہ صاحب سے ٹوپی جو ان کے سر پر تھی تبرک کے طور سے لے لی اور اپنے پاس سے بھی کوئی کوئی چیز تبرک کے لئے دیدی اور بیعت لینے کی خلیفہ کر کے اجازت دے دی.فقیر نے آپ سے یہ بھی کہا کہ ایسالائق آدمی میں نے نہیں دیکھا.اور کہا کہ میں مولوی
عبدالئی کے پاس بھی گیا تھا لیکن میں نے اس میں ایسی جگہ نہیں پائی.آخر کچھ عرصہ کے بعد صاحبزادہ صاحب اپنے وطن خوست کو چلے آئے.حضرت صاحبزادہ صاحب سے احمد نور نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میرے ایک کان میں سورج چڑھتا ہے اور دوسرے میں غروب ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ مجھ میں سورج چڑھتا ہے اور کبھی غروب نہیں ہوتا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہی شخص ہے جسکی دنیا انتظار کر رہی تھی خدا کی طرف سے سچا اور لوگوں کو راہ راست پر لانے والا ہے.میں نے عرض کیا کہ اگر کسی نے نہ مانا آپ نے فرمایا کہ تعلیم پہنچنے پر بھی جو انکار کرے گا تو وہ کا فرقرار پائے گا.رسول کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے.فرمایا حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا بروز مجھ پر ہوتا ہے جو بالکل نہیں جاتا اور یہ الہام ہوا کرتا ہے.محمد ابن احمد غلام غلام احمدہ.فرمایا اے احمد نور تو نہیں جانتا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وزیر ہوں جس نے مجھے نہیں پہچانا اس نے صحیح موعود علیہ السلام کو بھی نہیں پہچانا.فرمایا قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درود شریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیت سے محبت رکھتا ہے.مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیرو بھی آسمان میں ہیں.جب منارة امسیح مکمل ہو جائے گا تب اللہ تعالیٰ کے تمام کمالات اور فیضان کا نزول ہوگا.ایک روز صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ ملائکہ نے میرے سبب سے بہت لوگوں کو قتل کیا ہے میں کیا کروں میں نے تو قتل نہیں کیئے.ایک دفعہ میں نے کسی روحانی مقام کے بارہ میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ مقام مقربوں کا ہے اور انبیاء کا مقام اس سے فوق ہے.اور میرا مقام انبیاء کا مقام ہے.آپ کے بارہ میں
۵۲ مجھے یہ الہام ہوا فی مقعد صدق عند مليك مقتدر ایک دفعہ ہم گھر جارہے تھے کہ صاحبزادہ صاحب شہید مرحوم سے کوہاٹ میں ایک آدمی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں گفتگو ہوئی اس نے انکار کیا آپ نے فرمایا تم اپنے شہر کا حال دریافت کرو کہ کیا حال ہوا ہے.ہمیں آپ سے دریافت کرنے کا موقعہ نہیں ملا.جہاں رات ہوتی قیام کرتے لوگ ملاقات کیلئے آتے تو آپ مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ضرور کرتے.جب اپنے ملک اور اپنے گاؤں سید گاہ کے قریب پہنچے تو تمام عزیز و اقارب اور شاگرد وغیرہ آپ کی ملاقات کے لئے گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے اور بڑی خوشی منائی کہ صاحبزادہ صاحب حج سے واپس آگئے.آپ نے فرمایا میں حج سے نہیں آیا بلکہ قادیان سے آیا ہوں جہاں ایک مقبول الہی مستجاب الدعوات اور مسیح موعود ہونے کا دھوئی رکھتا ہے آپ صاحبوں کو یہ خبر دینے آیا ہوں وہ سچا ہے صادق ہے تا کہ تم اس کا انکار نہ کر کے اقرار کر لو اور خدا کے عذاب اور قہر سے بچ جاؤ اور اسکی رحمتوں کے وارث و مورد بن جاؤ.اور بہت سی باتیں نصیحت کے طور پر فرما ئیں.آپ کے رشتہ دار بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کی بابت ہم کو یہ خبر ملی ہے کہ قادیانی نصف قرآن مانتا ہے.اور نصف کا انکار کرتا ہے.اور کافر ہے اس کا پیرو بھی کافر ہے اور قادیان جانا بھی کفر ہے.اگر یہ باتیں آپ کی امیر کے پاس پہنچیں گی اور وہ سنے گا تو ہم تمام قتل کئے جائیں گے اور تباہ کر دئے جائینگے آپ نے فرمایا کہ تم اس ملک کو چھوڑ کر بنوں چلے جاؤ وہاں بھی زمین ہے یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا اس سے کہ تم خدا کے مامور کا انکار کرو.ورنہ میں ایک ایسی بلا تمھارے پیچھے لایا ہوں کہ کبھی بھی تم بیچ نہیں سکو گے.اور میں تو اس بات سے ہرگز نہیں ملوں گا.یہ خدا کا فرمان ہے مجھے اس کا پہنچانا بہت ضرور ہے اور میں نے اپنا مال اور اپنی اولاد اور اپنا نفس خدا کی راہ میں دے دیا ہے.خدا نے نہیں لیا
۵۳ تھا.اب موقعہ آیا ہے کہ اس نے لے لیا اور تم دیکھ لو گے کہ میرا مال اور میر اہل وعیال اور میرا نفس کس طرح خدا کی راہ میں خدا ہوتا ہے.اور تم دیکھ لو گے کہ میں اپنی دولت اور عزت اور عیال کس طرح ایک چٹکی میں پھینکتا ہوں.آپ نے سید گاہ میں پندرہ ہیں روز گزارے ہوں گے بڑے بڑے عمائکہ آپ کے پاس آتے اور کہتے کہ اگر یہ باتیں آپ چھوڑ دیں تو بہت اچھا ہے.مگر آپ نے کوئی پروا نہیں کی.اور امیر کو خبر پہنچنے پر آپ کو کچھ سواروں کے ساتھ کا ہل ہلایا.اور آپ ارگ کے قید خانہ میں نظر بند کیئے گئے.آپ کی چار بیویاں اور اٹھارہ لڑکے لڑکیاں تھے.آپ کی موجودگی میں تین بیویاں اور چھ لڑکے لڑکیاں رہ گئے اور باقی گذر گئے.آپ کی شہادت کے بعد آپ کے اہل و عیال کو جلا وطن کر کے بلخ پہنچایا گیا اور تمام ملک ضبط کی گئی.چند سال کے بعد ان نظر بند قیدیوں نے امیر سے کہا کہ ہم کس قصور میں قید کئے گئے براہ مہربانی ہمیں ہمارے ملک میں واپس بھیجا جاوے پس وہ رہا کئے گئے اور وطن میں بھیجا گیا اور ضبط شدہ ملک بھی واپس دیدی گئی.پھر کچھ عرصہ کے بعد نظر بند کئے گئے اور جائداد ضبط ہوگئی.جب میر احمد گرفتار ہوا اور تشہیر اور سخت ذلت اٹھانے کے بعد رہا ہوا تو اُسنے بیان کیا کہ ایک شخص پر جن کا سایہ تھا مجھے یقین نہ آیا وہ کہا کرتا تھا کہ میں احمدی ہوں پھر بھی مجھے یقین نہ آیا مگر جب مجھے ایسے ایسے نشان بتائے جو مجھ پر گرفتاری کی حالت میں گزرے تھے تب مجھے یقین کرنا پڑا.اور اُسنے کہا کہ ہم بہت سے جن تمہاری گرفتاری کی حالت میں تمہارے ساتھ مقرر تھے ساتھ ساتھ رہتے تھے شہید مرحوم کے تمام حالات اور تمہارے بھی قلم بند کئے گئے ہیں اور ہم شہید مرحوم کے ساتھ رہتے تھے جب شہید مرحوم قید کئے گئے تو ہم انکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر جناب حکم دیں تو اس شہر کابل کو فنا و تباہ کردیں.صاحبزادہ صاحب یہ سنکر غصہ میں آئے اور فرمایا کہ تم کون ہوشیاطین ہو یا کیا
۵۴ بلا ہو جنات نے عرض کیا کہ ہم بلا اور شیاطین نہیں ہیں ہم جن ہیں اور احمدی ہیں آپ کی خدمت کے لئے آئے ہیں اور ہم ستر افسر ہیں اور ہر ایک کے ساتھ بڑا بھاری شکر ہے.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ ہاں میں نے سمجھ لیا ہے.ایک منزل ہے جو بہت مدت میں طے ہوتی ہے میرا جی چاہتا ہے کہ میں بہت جلد یہ منزل طے کروں اور اپنے پیارے سے جاملوں.شیخان لوگ اپنے مرشد کو عالم الغیب مانتے تھے.اور صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ انسان کو خواہ وہ کسی درجہ پر ہو عالم الغیب جاننا سراسر غلطی ہے عالم الغیب خدا ہے اور کوئی نہیں یہ رسول کریم ﷺ سے زیادہ کون ہے انکو بھی خدا یہ حکم دیتا ہے قل رب زدنی علماً وہ بھی کوئی بات بیان فرماتے تو وحی کے ذریعہ سے فرماتے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اولوالعزم رسول حضر سے علم سیکھنے کے لئے گئے.غیب کی باتیں معلوم نہیں ہوسکتیں خدا ہی ہر ایک چیز کا علم رکھنے والا اور غیب واں ہے.شیخان کہتے کہ ہمارے پیر غوث تھے.سات آسمان پر سات دریا ہیں ان میں ریت اور کنکر ہیں ان سب کی تعداد بھی معلوم ہے صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ یہ اہل کشف کی باتیں ہیں اہل کشف تو کہتے ہیں کہ غوطے ہر زمانہ میں ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں.جو مانتے ہیں ان کا قول ہے کہ عارفہ اور بزرگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور بزرگ متقی ہوتے ہیں شریعت کے پابند اور معرفت الہی رکھتے ہیں اور تم جو کہتے ہو کہ اکثر ہمارے پیر سے ایسا واقعہ ہوا ہے کہ چاندنی راتوں میں کو پھٹنے سے پہلے صبح کی نماز ادا کی اور معلوم ہونے پر نماز وقت پود ہوائی.استانی اسورج نظریہ آیا اور نماز میں غلطی ہوگئی وہ چیز جو سات آسمان کے اوپر ہے اور دریاؤں کی نہ نہیں ہے اسکی گنتی کیونکر نظر آوے.شیخان جواب دیتے کہ وہ اپنے آپ کو چھپاتے تھے.صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ جو قصد آنماز کو وقت سے پہلے پڑھے اس نے نماز کی جنگ کی اور یہ کفر ہے سو تم غوث کیا اس پر خود ہی کفر کا فتویٰ لگاتے ہو.
AA اور عوام جو خواندہ نہیں تھے آپ کے پاس تنازعوں اور جھگڑوں کے وقت آیا کرتے تھے اور آپ کی بات کو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا تو آپ انکو اس طور سے نصیحت کرتے تھے.آپ لوگوں کیلئے قیامت میں کوئی عذر نہ ہو گا کہ تم لوگ مباحثات کے وقت تو مجھ پر اعتماد رکھتے ہو اور عقیدہ میں مجھ پر اعتماد نہیں کرتے اور اپنے پیر کی جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہو.ہمارے تمہارے درمیان جن مسائل کا اختلاف ہے.ان کو تم بھی لکھ لو اور میں بھی لکھتا ہوں.دو شخصوں کو خرچ دے کر مکہ بھیجتے ہیں.اگر انہوں نے تمہارے کاغذ پر تصدیق کر کے مہر لگا دی تو تم بچے اور میں خاموش ہو جاؤں گا اور یہ سمجھ لوں گا کہ تمام جہان پر تاریکی پھیل گئی ہے اور اگر میرے کاغذ کی تصدیق کر کے مہر لگا دی تو تم کو تو بہ کر کے میری طرف لوٹ آنا چاہیے.اور بڑے حکام کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہم شریعت پر عدل کے ساتھ حکومت کرتے ہیں تو رعایا آپ سے ناراض کیوں ہے اور تنگ کس لئے ہے شریعت تو ایسی نرم ہے کہ اگر اس پر قائم رہو تو انگریزی حکومت کے ہندو اور تمام مذہبوں کے لوگ کہہ انھیں کہ کاش ہم پر یہ لوگ حکومت کرتے.برعکس اس کے تمہاری رعایا کہتی ہے کہ انگریزی حکومت ہم پر ہوتی تو اچھا ہے کیونکہ تم نہ شریعت کی پروا کرتے ہو اور نہ قانون کا خیال.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ نے بہت سے امور منکشف فرمائے.ایک دفعہ رات کے وقت نماز کو جارہا تھا کہ میرا پاؤں کیچڑ سے پھسل گیا.اور گر گیا اس سے میرا دل خراب ہو گیا اور میں گھر آ گیا یک لخت میری زبان پر جاری ہوا کہ درویشاں سنگ برمیدارند جو درویش ہوتے ہیں اگر ان پر اگر پتھر برسائے جائیں پروانہیں کرتے.ایک دفعہ زبان پر جاری ہوا فی مقعد صدق عند مليك مقتدر آپ کی شہادت کے بعد میرا دل گھبرا رہا تھا بوقت خواب میری زبان پر جاری ہوا.آتش عشق آمد و گرو جوار من بسوخت کابل کے بارہ میں قاتلهم الله قتلوہ.ایک دفعہ امیر حبیب اللہ خان کو میں نے خواب میں دیکھا تو میری زبان پر آیا انى لاظنك يا
۵۶ فرعون مشہوراً.اے فرعون میں تجھے ہلاک شدہ یقین کرتا ہوں.آپ کو ابھی شہید نہیں کیا تھا کہ یہ زبان پر جاری ہوا عقروا الناقة وعصوا الرسول لوتسوى بهم الارض لكان خيراً لهم کابل کے بارہ میں معلوم ہوا خربت الخيبر و هلكت الاعداء - فقشها ما غشی فبای آلاء ربك تتمارى.جب آپ کی لاش کو قبر سے نکالا گیا تو زبان پر جاری ہواو جاؤا بـامـر عـظـيـم فاغر قناهم اجمعین.یہاعث مختصر ہی کافی ہے.خدا نے چاہا تو پھر سہی.حضرت صاحبزادہ صاحب جب کبھی سرداروں اور حاکموں کے ساتھ جایا کرتے تو اپنا خرچ آپ اپنے ساتھ لے جاتے تھے.حاکم بہت زور دیتے کہ ہمارا کھانا کھا ئیں لیکن آپ بالکل اُنکے خرچ سے تعلق نہیں رکھتے تھے.حاکم رعایا سے ظلما لیتے تھے.ایک دفعہ گورنر مذکور نے بہت اصرار کیا کہ آپ اس کے ساتھ چائے پئیں اور کہا کہ ہندو لوگ ہمیں رضامندی اور خوشی سے چائے دیتے ہیں ہم زور وظلم سے نہیں لیتے اس لئے آپ کبھی کبھی چائے پی لیا کرتے تھے.ایک دفعہ گورنر نے ایک کوٹھی بنوائی آپ سے کہا کہ اس میں کوئی نقص بتادیں کہ آپ اس فن سے بھی واقف ہیں آپ کچھ دیر چپ رہے پھر فرمایا کہ میں کیا بتاؤں اگر نقص نکالوں تو آپ جیبر ا کسی نجار سے درست کر لینگے اگر نہ بتاؤں تو آپ اصرار کرتے ہیں کہ ضرور نقص بتاؤں (وہاں ہر صبح کاریگروں کو حاکم بیگار میں پکڑوا کر بلواتے ہیں ) اس وقت کئی نجار تھے ایک باہر کھڑا باتیں سن رہا تھا وہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نقص بتادیں میں خوشی سے درست کردوں گا تب آپ نے تمام نقص بتا دے.ایک بار ایک غریب آدمی کے ساتھ قاضی کا مقدمہ تھا گورنر نے صاحبزادہ صاحب کو فیصلہ کے لئے مقرر کیا.تاریخ پر حاضر ہو کر وہ آدمی عاجزی ظاہر کرنے لگا اور اسے خوف تھا که صاحبزادہ صاحب قاضی کے حق میں فیصلہ نہ کر دیں.صاحبزادہ صاحب جوش میں آگئے اور اسکو کہا کہ اگر ایک ہندو غریب کا گورنز سے مقدمہ ہو جاوے تو میں کسی کی طرف
داری یا رعایت نہیں کروں گا اس وقت ایک ہندو اور گورنر بھی موجود تھے گورنر کو خوف پیدا ہوا اور ہندو سے اپنے آپ کو سمیٹ کر بیٹھ گیا.ایک بار صاحبزادہ صاحب بھی دربار میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک آدمی کو سزا کے لئے بلایا گیا جس وقت وہ حاضر ہوا گورنر نے حکم دیا کہ اس کو لٹا کر بید مارے جائیں اور مجرم کو نہیں چھوڑا جاتا تھا جب تک کہ مرنے کے قریب نہ پہنچ جاوے.جب سزا مل رہی تھی صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ گورنر غصہ میں ہے سزا بند نہیں ہوگی اور وہ مجرم استقدر سزا برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ بوڑھا تھا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس پر ہاتھ کر دئے کنہ بید آپ کے ہاتھ پر لگیں اور وہ بچ جاوے.گورنر نے یہ دیکھ کر اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ باہر جا کر سزادی جاوے صاحبزادہ صاحب نہ دیکھیں بیٹے نے باہر لیجا کر چھوڑ دیا اس لحاظ سے که صاحبزادہ صاحب نے معاف کر دیا تھا.ایک دفعہ خوست کے جرنیل نے رعایا پر ظلم کیا اور اطراف میں لوگوں کے بہت سے ختنے کروادئے اور بہت رشوت کی اس سے فراغت پاکر سید گاہ کے قرب ڈیرہ آلگایا.جمعہ کے روز جرنیل نے ایک آدمی بھیجا کہ ہمارا انتظار کیا جاوے کہ ہم بھی نماز جمعہ میں شامل ہو جاویں.صاحبزادہ صاحب نے پروانہ کی اور نماز شروع کردی جرنیل خطبہ میں شامل ہو گیا.جرنیل نے صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ میں نے دین کی بڑی خدمت کی ہے کہ بہت لوگوں کا ختنا کرا دیا.آپ نے فرمایا کہ خدمت دین کی تو کیا ہوا.غریبوں کا تم نے چھڑا اتارلیا، ظلم کیا رشوت لی.تمہارا تمام لباس حرام کا ہے اس سے نماز نہیں ہوتی.جرنیل شرمندہ ہوا اور کچھ نہ بولا.ایک بار صاحبزادہ صاحب امیر عبدالرحمن خان کے دربار میں گئے وہ خوش ہوا آپ سے کہا کہ سوات کے لوگ یا تو انگریزوں کی رعا یار ہیں گے یا ہماری.درمیان میں ہر گز نہیں رہ سکتے.اور میں نے انکو بلا بھیجا تھا لیکن سوات کے مولوی کے بیٹے نے آنے سے منع کر دیا اور مسلمانوں کی سلطنت سے روکنا کافر ہو جاتا ہے یا نہیں آپ شکر چپ ہو گئے اور سوچا کہ
خدا جانے اس نے کس غرض سے منع کیا ہوگا.پھر دوبارہ امیر نے کہا لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا.تیسری بار عام لوگوں کو مخاطب کر کے کہا.تمام حاضرین نے شور مچادیا کہ ہاں صاحب وہ کافر ہو گیا لیکن صاحب زادہ صاحب نے پھر احتیاطاً سکوت کیا.ایک دفعہ جب مولوی عبد الغفار صاحب مرحوم مہا جر دارلامان کی والدہ فوت ہوئی تو آپ نے نماز جنازہ پڑھائی تو اس وقت زور کی بارش ہو رہی تھی آپ نے بڑی دیر تک دعا کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار صاحبزادہ صاحب کے حق میں منقول از تذکرۃ الشہادتین جوہر آخر آشکار دل ازیس فانی سرا پرداختند این بیابان حیا ہزاراں اژ و پایش ہزاران آتشی آسمان ہزاراں سیل خوشخواب زماں
صد وہ ہزاران فریخ تا کوئے یار دشت پر خار و بلاکش صد ہزار مگر این شوخی ازاں شیخ عجم ایس بیاباں کرد طی در یک قدم این چنین باید خدا را بنده ولدار خود افكندة بولعان از خود از مرده تریاق زہرے خورده بود کے رہائی باید از مرگ آپ نے زیر این موت است پنہاں صد حیات نوندگی خوابی بخور بخور جام حمات میں کہ ایس عبداللطیف پاک مرد چون اپنے حق خویشتن برباد کرد
جاں بصدق ولستانرا داده تاکنوں ور سنگیا افتاده است این بود رسم ودہ صدق صفا این بود مردان حق پنے آن زنده از خود فانی اند جاں فشاں پر مسلک ربانی ایک غلطی کا ازالہ حضرت مسیح موعود السلام نے اپنی کتابوں میں کسی جگہ تو یہ فرمایا ہے کہ میں نبی ہوں اور بعض جگہ فرمایا ہے کہ میں نبی نہیں ہوں.بات یہ ہے کہ عام نبی ورسول کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ نبی یا رسول وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ سے کتاب (نئی شریعت) لاتا ہے اور الہامات اس پر نازل ہوتے ہیں.سو ان معنوں کو لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود " فرماتے ہیں کہ رسول کریم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا کہ نئی کتاب یا شریعت لاوے اور قرآن شریف منسو خ ہو یہ کفر ہے ایسا نبی قیامت تک نہیں آسکتا اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود" بھی فرماتے ہیں کہ میں نبی نہیں ہوں.ایسا ہی حدیث میں بھی آیا ہے کہ لا نبی بعدی یعنی ایسا نبی جو میری کتاب کو منسوخ کر دے اور میرے دور ان کے ختم ہو جانے پر آوے اور میرے سے.فیض یافتہ نہ ہو بلکہ اور نبی ہو جسکے ساتھ نئی کتاب یا شریعت ہو کہ اس میں مہر نبوت ٹوٹ جاتی ہے جو خاتم النبیین کا اشارہ قرآن شریف میں آتا ہے.اسی طرف اشارہ کر کے مسیح موعود
نے فرمایا ہے من نیستم رسول دنیا اور دہ ام کتاب.یعنی میں ایسا رسول نہیں ہوں کہ میں قرآن کریم چھوڑ کر نئی کتاب لایا ہوں بلکہ اس قرآن اور اس رسول کریم کے دین کو واپس لایا ہوں جس کی طرف حدیث میں اشارہ ہے کہ مسیح موعود ثریا سے رسول کریم کا دین واپس لائے گا.سو ایک رسالت تو نبیوں کی اصطلاح میں ہوئی کہ نئی کتاب و شریعت لا دے اس سے آپ نے انکار کیا ہے اور ایک رسالت خدا تعالیٰ کی اصطلاح میں ہے جو کہ رسول وہ ہوتا ہے کہ خدا اسے رسول کہتا ہے اور امور غیبیہ کی خبر دیتا ہے اور کثرت سے مکالمہ مخاطبہ اس کے ساتھ کرتا ہے.اور اصلاح خلق کے لئے اسے مقرر و مامور کرتا ہے چاہے نئی کتاب لایا ہو چاہے نہ لایا ہو.جس طرح حضرت الحق علیہ السلام - یعقوب علیہ السلام - یوسف علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے بھائی ہارون علیہ السلام اور جیسے مسیح علیہ السلام اسی طرح اور ہزار ہانی جو نئی شریعت نہیں لائے ایسی رسالت کا مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دعوی کیا ہے جو حدیث میں بھی آیا ہے ابن مریم " تم میں آئیگا اس رسالت کا رسول کریم نے وعدہ دیا ہے اور ایسا ہی مسیح موعود نے فرمایا ہے: زمان منم محمد که کہ تعظیمی جو خطبہ الہامیہ میں لکھا ہے کہ میرے اور رسول کریم میں جس نے فرق کیا اس نے نہ تو مجھے دیکھا ہے اور نہ پہنچانا اور میرا انکار خدا کا اور قرآن کا اور تمام (انبیاء) کا انکار ہے.اور میری آمد تمام انبیاء کی آمد ہے خدا نے اپنے نشان دئے ہیں کہ رسول کریم اللہ کے سوا اور کسی نبی میں نہیں پائے جاتے اور فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یا نبی الله ما أعرفك سوایسے نبی ہمیشہ قیامت تک ہوتے رہیں گے مگر اسے مان کر نہ علیحدہ تا کہ
حضرت نبی کریم کی مہر نبوت قیامت تک جاری رہیگی اور قرآن شریف میں آیا ہے وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُو قِنُونَ.یعنی متقی وہ ہیں جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو تجھ پر اتارا گیا ہے اور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا اور اس پر یقین رکھتے ہیں جو تیرے بعد نازل کیا جائیگا خدا تعالیٰ نے تین زمانوں کا ذکر کیا ہے ایک وہ زمانہ جو رسول کریم کا اور ایک آپ سے پہلے ایک آپ کے بعد کا زمانہ ہے جو مسیح موعود کا زمانہ ہے اور ایک جگہ واخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم فرمایا سو وہ لوگ جو سیح موعود کی رسالت کا انکار کریں وہ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ میں داخل نہیں.سواے لوگو مسیح موعود علیہ السلام نے دعوائے نبوت کیا ہے کہ میں نبی ہوں اور خدا تعالیٰ نے بھی اس آیت سے آپ کی نبوت ثابت کی ہے جو لوگ آپ کو صرف محمدد اور محدث مانتے ہیں اور رسول نہیں مانتے جیسے لاہوری فرقہ جو اپنے آپ کو احمدی بھی کہتے ہیں انکو سیح موعود سے انکار ہے.الغرض اس نبوت کو جو قرآن شریف نے جائز رکھی ہے جس کا آپ اقرار کرتے ہیں.نبوت ظلی.بروزی عکسی اور رنگ کہتے ہیں قرآن شریف میں صبغہ یعنی رنگ کا ذکر آیا ہے لیکن تمام کا ایک ہی مطلب ہے.جہاں مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ میں رسول کریم ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام کا بروز ہوں.اس کا یہ مطلب ہے کہ میرا وجود حضرت محمد رسول اللہ کا وجود ہے.میرے حرکات و سکنات رسول کریم کے حرکات و سکنات ہیں میرا دین کی خدمت کرنا آپ ہی کا دین کی خدمت کرتا ہے میرا دعوئی آپ ہی کا دعوی ہے.مجھے قبول ہے.کرنا رسول کریم کو قبول کرتا ہے.میری عزت کرنا رسول کریم کی عزت کرنا ہے.میری بے عزتی رسول کریم " کی بے عزتی ہے.میرا نہ ماننا رسول کریم ﷺ کا نہ مانتا ہے.مجھے سے قطع تعلق کرنا رسول کریم سے قطع تعلق کرنا ہے اور مجھ سے ٹھٹھا کرنا رسول کریم پر ٹھٹھا th
کرنا ہے.یہ اس لئے ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود حضرت محمد مصطفی میں وجود ہے.ظاہر لوگوں کو یہی نظر آتا ہے کہ مسیح موعود قادیان کے رہنے والے ہیں اور حضرت محمد مصطفی نے تیرہ سو برس پہلے مدینہ منورہ میں مدفون ہو چکے ہیں یہ علیحدہ ہیں اور وہ علیحدہ مگر خدا تعالیٰ نے احمد قادیانی اور محمد مدنی علیهما الصلوۃ والسلام کا وجود ایک کیا ہے.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے روحانی بصیرت عطا کی ہے وہ دیکھتے ہیں کہ مسیح موعود اور رسول کریم کا وجود ہو بہو ایک ہی وجود ہے.چنانچہ میں بھی گواہی کے طور پر خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اور جو آسمان وزمین کا مالک ہے اور جو قادر مطلق خدا ہے کہ میں نے احمد قادیانی اور محمد مدنی علیھما الصلوۃ والسلام کو ایک وجود میں دیکھا ہے اور بار بار دیکھا ہے کہ کوئی فرق ان دونوں وجودوں میں نہیں پایا گیا.حضرت صاحبزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب شہید مرحوم نے بھی یہی فرمایا.اور یہ بھی فرمایا کہ میں خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں اتنا تا ہوں کہ اب میرے سے محمد مصطفیٰ ے کا وجود کبھی نہیں علیحدہ ہوتا.تمام شد حضرت خلیفہ اسیح ثانی کا ارشاد سید احمد نور صاحب نے حضرت مولوی عبد اللطیف مرحوم کے حالات لکھے ہیں جس سے احمدیت پر ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ ایسی کتاب ہے کہ چاہیے کہ اس کو ہر شخص پڑھے اور اپنے ایمان میں ترقی کرہے.