Language: UR
زیر نظر کتابچہ میں محترم مؤلف نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیان فرمودہ مبارک اور پاکیزہ ملفوظات کی مختلف جلدوں میں سے پُرحکمت اور سبق آموز واقعات کا انتخاب کرکے پیش کیا ہے۔ قریباً چالیس مختصر واقعا ت کا یہ انتخاب جہاں قارئین کی علمی و اخلاقی تربیت کے سامان کررہا ہے وہاں ملفوظات کی جلدوں میں سے مکمل اقتباسات اور علم وحکمت سے بھرپور پاکیزگی بخشنے والی تحریرات کے مطالعہ کا شوق بھی ابھارتا ہے۔
واقعات سيرين بیان فرموده حضرت مرزا غلام احمد قادیانی
واقعات شیریں بیان فرمودة حضرت مرزا غلام احمد علویانی بانی سلسله احمد
پیش لفظ محترم مولانا سیم سیفی صاحب وکیل التعليم تحریک جدید و ایڈیٹر ماہنامہ تحریک جدید ربوہ عزیزم مکرم مرزا خلیل احمد قمر ہمارے سلسلہ کے ایک ذہین تو جوان ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم سے تالیف و تصنیف کا خاص ملکہ عطا فرمایا ہے.اور وہ اپنے اس ملکہ کو صحیح خطوط پر کام میں لا کر سلسلہ کی قابل قدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں.زیر نظر کتابچہ میں مکرم قمر صاحب نے حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے روحانی خزائن میں سے واقعات جمع کر کے احباب کی خدمت میں پیش کیے ہیں.ہماری خواہش ہے کہ یہ کتابچہ ہر احمدی تک پہنچے اور مکرم قمر صاحب اس سلسلہ کو جاری رکھیں.اللہ تعالی انہیں بیش از پیش توفیق عطا فرمائے اور ان کی اس خدمت کو اپنے فضلوں سے قبول فرمائے.آمین نیک اعمال پوشیدہ طور پر بجالاؤ " تذکرۃ الاولیاء میں ہے کہ ایک شخص چاہتا تھا کہ وہ لوگوں کی نظر میں بڑا قابل اعتماد بنے اور لوگ اسے نمازی اور روزہ دار اور بڑا پاکباز کہیں اور اسی نیت سے وہ نماز لوگوں کے سامنے پڑھنا اور نیکی کے کام کرنا تھا مگر وہ میں گلی میں جانا اور جدھر اس کا گزر ہوتا تھا لوگ اسے کہتے تھے کہ یہ دیکھو کہ یہ شخص بڑا ریا کار ہے اور اپنے آپ کو لوگوں میں نیک مشہور کرنا چاہتا ہے.پھر آخر کار اس کے دل میں ایک دن خیال آیا کہ میں کیوں اپنی عاقبت کو برباد کرتا ہوں خدا جانے کس دن مر جاؤں گا کیوں اس لعنت کو اپنے لیے تیار کر رہا ہوں میں نے خدا کی نماز ایک دفعہ بھی نہ پڑھی.اس نے صاف دل ہو کر پوے صدق وصفا اور سچے دل سے توبہ کی اور اس وقت سے نیت کر لی کہ میں سارے نیک اعمال لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ کیا کروں گا اور کبھی کسی کے سامنے نہ کروں گا.چنانچہ اس نے ایسا کرنا شروع کر دیا اور
یہ پاک تبدیلی اس میں بھر گئی.نہ صرف زبان تک ہی محدود رہی.اس کے بعد لکھا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو بظاہر ایسا بنا لیا.کہ تارک صوم و صلواۃ ہے اور گندہ اور خراب آدمی ہے مگر اندرونی طور پر پوشیدہ اور نیک اعمال بجا لاتا تھا.پھر وہ جدھر جاتا اور جد حصر اسکا گزر ہوتا تھا لوگ اور لڑکے اسے کہتے تھے کہ دیکھو یہ شخص بڑا نیک اور پار سا ہے یہ خدا کا پیارا اور اس کا برگزیدہ ہے.عرض اس سے یہ ہے کہ قبولیت اصل میں آسمان سے نازل ہوتی ہے اولیاء اور نیک لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو پوشیدہ رکھا کرتے ہیں وہ اپنے صدق وصفا کو دوسروں پر ظاہر کرنا عیب جانتے ہیں.ہاں بعض ضروری امور کو جن کی اجازت شریعت نے دی ہے یا دوسروں کو تعلیم کے لیے اظہار بھی کیا کرتے ہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم ص ۲۴ - ۲۵۰ ) مصائب و شدائد ایک مجلس میں با یزید” وعظ فرمارہے تھے.وہاں ایک مشائخ زادہ بھی تھا جو ایک لمبا سلسلہ رکھتا تھا اس کو آپ سے اندرونی بغض تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ خاصہ ہے کہ پرانے خاندانوں کو چھوڑ کر کسی اور کو لے لیتا ہے.جیسے بنی اسرائیل کو چھوڑ کر بنی اسمعیل کو لے لیا کیونکہ وہ لوگ عیش وعشرت میں پڑ کر خدا کو بھول گئے ہوتے ہیں وَتِلْكَ الأَيَّامُ نُدَوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (سورة آل عمان : (۱۲) اور باوجود اور یہ دن ایسے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کے درمیان نوبت یہ نوبت پھراتے رہتے ہیں.سواس شیخ زادے کو خیال آیا کہ یہ ایک معمولی خاندان کا آدمی ہے.کہاں سے ایسا صاحب خوارق آگیا کہ لوگ اس کی طرف جھکتے ہیں اور ہماری طرف نہیں آتے.یہ باتیں خدا تعالیٰ نے حضرت بایزید پر ظاہر کیں تو انہوں نے ایک قصہ کے رنگ میں یہ بیان شروع کیا کہ ایک جگہ مجلس میں رات کے وقت ایک لیمپ میں پانی سے ملا ہوا تیل جل رہا تھا تیل اور پانی میں بحث ہوئی.پانی نے تیل کو کہا کہ تو کثیف اور گندہ ہے و کثافت کے میرے اوپر آتا ہے میں ایک مصفا چیز ہوں اور طہارت کیلئے استعمال کیا جاتا ہوں.لیکن نیچے ہوں.اس کا باعث کیا ہے ؟ تیل نے کہا کہ جس قدر صعوبتیں میں نے کھینچی ہیں.تو نے وہ کہاں جھیلی ہیں.جس کے باعث یہ بلندی مجھے نصیب ہوئی.ایک زمانہ تھا.جب میں بویا گیا زمین میں مخفی رہا.خاکسار ہوا پھر خدا کے ارادہ سے بڑھا بڑھنے نہ پایا کہ کاٹا گیا.پھر طرح طرح کی مشقتوں کے بعد صاف کیا گیا کو لہو میں پیسا گیا.پھر تیل بنا اور آگ لگائی گئی کیا ان مصائب کے بعد بھی میں بلندی حاصل نہ کرتا ہے یہ ایک مثال ہے کہ اہل اللہ مصائب کے بعد درجات پاتے ہیں “ ( ملفوظات جلد اول در ۲۶۰۲۵)
نیکی کا اجر ضائع نہیں ہوتا " مجھے یاد آیا متذکرۃ الاولیاء میں میں نے پڑھا تھا.کہ ایک آتش پرست بڑھا تو سے برس کی عمر کا تھا.اتفاقاً بارش کی جھڑی جو لگ گئی تو وہ اس جھڑی میں کو تھے پر چڑیوں کیلئے دانے ڈال رہا تھا.کسی بزرگ نے پاس سے کہا کہ ارے بڑھے تو کیا کرتا ہے.اس نے جواب دیا کہ بھائی چھ سات روز متواتر بارش ہوتی رہی چڑیوں کو دانہ ڈالتا ہوں.اس نے کہا کہ تو عبت حرکت کرتا ہے تو کا فر ہے تجھے اجر کہاں.بوڑھے نے جواب دیا مجھے اس کا اجر ضرور ملے گا.بزرگ صاف فرماتے ہیں کہ میں حج کو گیا تو دور سے کیا دیکھتا ہوں کہ وہی بڑھا طوات کر رہا ہے.اس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا اور جب میں آگے بڑھا تو پہلے وہی بولا کہ میرا دانے ڈالنا ضائع کیا یا ان کا عوض ملا ؟ اب خیال کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کافر کی نیکی کا اجر بھی ضائع نہیں کیا تو کیا مسلمان کی نیکی کا اجر ضائع کردیگا " ( ملفوظات جلد اوّل صدا ) ایک بزرگ کی دعوت متقی ترک شہر کا مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے اور محسن افاضہ خیر کو چاہتا ہے میں نے اس کے متعلق ایک حکایت پڑھی ہے کہ ایک بزرگ نے کسی کی دعوت کی اور اپنی طرف سے مہمان نوازی کا پورا اہتمام کیا اور حق ادا کیا.جب وہ کھانا کھا چکے تو بزرگ نے کہا کہ میں آپ کے لائق خدمت نہیں کر سکا.مہمان نے کہا آپ نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ میں نے احسان کیا ہے کیونکہ جس وقت تم مصروف تھے میں تمہاری املاک کو آگ لگا دیتا تو کیا ہوتا " ( ملفوظات جلد اوّل ص۱۷) تین حج " مجھے.....ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لیے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیا دار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تقال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو ہم دوسرے حج میں لائے تھے.اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا.اس بزرگ نے فرمایا کہ تو تو بہت ہی قابلِ رحم ہے ان تینوں فقروں میں تو نے اپنے تین ہی حجموں کا ستیا ناس کر دیا.تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تو اس امر کا اظہار کرے کہ تو نے تین حج کیسے ہیں اس لیے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور نئے منی
" بے ہودہ بے موقع باتوں سے احتراز کیا جائے ، و ملفوظات جلد اول ص ۴۲۲) امام ابو حنیفہ کا عمل حضرت امام ابو حنیفہ " کے پاس ایک شخص آیا کہ ہم ایک مسجد بنانے لگے ہی آپ بھی اس میں کچھ چندہ دیں.انہوں نے عذر کیا کہ میں اس میں کچھ دے نہیں سکتا حالانکہ وہ چاہتے تو بہت کچھ دیدیتے.اس شخص نے کہا کہ ہم آ نے کہا کہ ہم آپ سے بہت نہیں مانگتے تبر کا کچھ دے دیجئے آخر انہوں نے ایک دوٹی کے قریب سکہ دیا.صرف ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا.اس نے اس سے پوچھا کہ بائیں جی کیا حال ہے.فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں اس کا حال کیسا ہوتا ہے ؟ اسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں.فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں تو گویا سب حاصل ہو گئیں.حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے لیکن جب قناعت کر کے سب کچھ و چھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملتا ہوتا ہے.نجات اور مکتی یہی ہے ر ملفوظات جلد سوم ص ۴۲۲) شام کے وقت وہ شخص دوئی لے کر واپس آیا اور کہنے لگا کہ حضرت چالیس چراغ یہ تو کھوٹی نکلی ہے وہ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا خوب ہوا دراصل میرا جی نہیں چاہتا تھا کہ میں کچھ دوں مسجدیں بہت ہیں اور مجھے اس میں اسراف معلوم ہوتا ہے " ) ملفوظات جلد دوم ص ۲۹۹ قناعت کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا راستہ ہیں ایک قصہ مشہور ہے ایک بزرگ نے دعوت کی اور اس نے چالیس چراغ روشن کیے.بعض آدمیوں نے کہا اس قدر اسران چاہیے.اس نے کہا جو چراغ میں نے ریاء کاری سے روشن کیا ہے اسے بجھا دو.کوشش کی گئی ایک بھی نہ بجھا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی فعل ہوتا ہے اور دو آدمی اس کو کرتے ہیں ایک اس فعل کو کرنے میں مرتکب معاصی کا ہوتا ہے اور دوسرا ثواب کا اور یہ فرق نیتوں کے اختلاف سے پیدا ہو جاتا ہے" ) ملفوظات جلد چهارم (۲۷)
ہے نیکی کی کشش شش پر انسان کے اندر نیکی اور بدی کی ایک کشش ہے.آدمی نیکی کرتا مگر نہیں سمجھ سکتا کہ کیوں نیکی کرتا ہے.اسی طرح ایک شخص بدی کی طرف جاتا ہے لیکن اگر اس سے پوچھا جاوے تو کدھر جاتا ہے تو وہ نہیں بتا سکتا.مثنوی رومی میں ایک حکایت اس کے لکھی ہے کہ ایک فاسق آقا کا ایک نیک غلام تھا.صبح کو جو مالک نوکر کونے کو بازار سودا خرید نے کو نکلا تو راستہ میں اذان کی آواز سن کر نوکر اجازت لے کر مسجد میں نماز کو گیا اور وہاں جو اسے ذوق اور لذت پیدا ہوا تو بعد نماز ذکر میں مشغول ہو گیا آخر آقا نے انتظار کر کے اس کو آواز دی اور کہا کہ تجھے اندر کس نے پکڑ لیا.تو کرتے کہا کہ جس نے تجھے اندر آنے سے باہر پکڑ لیا غرض ایک کشش لگی ہوئی ہے اسی کی طرف خدا نے اشارہ فرمایا ہے كُل يَعْمَلُ عَلَى شا کلتا ہے " دبنی اسرائیل: ۱۸۵) ہر ایک فریق اپنے اپنے طریق پال کرتا ہے (ملفوفات مبل مالا) ایک مومن کی وفات میں یہ یقین جانتا ہوں کہ جس کو دل سے خدا تعالیٰ سے تعلق ہے اسے وہ رسوائی کی موت نہیں دیتا.ایک بزرگ کا قصہ کتب میں لکھا ہے کہ ان کی بڑی دعا سمتی کہ وہ طوس کے مقام میں فوت ہوں.ایک کشف میں بھی انہوں نے دیکھا کہ میں طوس میں ہی مردوں گا.پھر وہ کسی دوسرے مقام میں سخت بیمار ہوئے اور زندگی کی کوئی امید نہ رہی تو اپنے شاگردوں کو وصیت کی کہ اگر میں مر گیا تو مجھے یہودیوں کے قبرستان میں دفن کرنا.انہوں نے وجہ پوچھی تو بتلایا کہ میری بڑی دعا سھتی کہ میں طوس میں مروں مگر اب پتہ لگتا ہے کہ وہ قبول نہیں ہوئی.اس لیے میں مسلمانوں کو دھوکا نہیں دینا چاہتا.اس کے بعد وہ رفتہ رفتہ اچھے ہو گئے اور پھر طوس گئے وہاں بیمار ہو کر مرے اور وہیں دفن ہوئے.اس طرح مومن بننا چاہیے.مومن ہو تو خدا رسوائی کی موت نہیں دیتا " ) ملفوظات جلد چہارم ص ۱۵۳) " نیست ایک کتاب میں لکھا ہے کہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ کو ایک دقعہ خیال آیا کہ سفر کو جانا چاہیے پھر سوچا کس واسطے جاؤں تو سمجھ میں نہ آیا کہ کسی ارادہ اور نیت سے جانا چاہتے ہیں اس لیے پھر ارادہ ترک کیا حتی کہ سفر کا خیال غالب آیا اور آپ جب اسے مغلوب
نہ کر سکے تو اس کو ایک تحریک الہی خیال کر کے نکل پڑے اور ایک طرف کو چلے.آگے جا کر دیکھتے ہیں کہ ایک درخت کے تلے ایک شخص بے دست و پا پڑا ہے اس نے ان کو دیکھتے ہی کہا کہ اے جنید میں کتنی دیر سے تمہارا منتظر ہوں تو دیر لگا کر کیوں آیا تب آپ نے کہا کہ اصل میں تیری ہی کشش تھی جو مجھے بار بار مجبور کرتی تھی اسی طرح ہر ایک امر میں ایک کشش قضاء و قدر میں مقدر ہوتی ہے وہ پوری نہ ہو تو آرام نہیں آتا.....سفر کریں تو دین کی نیت سے کریں ( ملفوظات جلد چهارم ۳۰-۳۰۷) شیطان کے حملوں سے ہوشیار رہو " چنانچہ ایک ولی اللہ کا تذکرہ لکھا ہے کہ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کا آخری کلمہ یہ تھا کہ ابھی نہیں ابھی نہیں.اُن کا مرید یہ کلمہ سن کر سخت متعجب ہوا.اور رات دن رو رو کر دعائیں مانگنے لگا کہ یہ کیا معاملہ ہے.ایک دن خواب میں ان سے ملاقات ہو گئی.دریافت کیا کہ یہ آخری لفظ کیا تھا اور آپ نے کیوں کہا تھا ؟ آپ نے جواب دیا کہ شیطان چونکہ موت کے وقت پر ایک انسان پر حملہ کرتا ہے کہ اس کا نورِ ایمان آخیر وقت پر چھین لے اس لیے وہ حسب معمول وہ میرے پاس بھی آیا اور مجھے مرتد کرنا چاہا اور میں تسحب اس کا کوئی وار چلنے نہیں دیا تو مجھے کہنے لگا کہ تو میرے ہاتھ سے بچے نکلا اس لیے میں نے کہا.ابھی نہیں ابھی نہیں.یعنی جب تک میں مر نہ جاؤں مجھے تجھ سے اطمینان حاصل نہیں ، ( ملفوظات جلد پنجم ص۳۰) " ایک فرانسی بات تکبر اور شرارت بری بات ہے.ایک فدا سی بات سے منتر برس کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں.لکھا ہے کہ ایک شخص عابد تھا وہ پہاڑ پر رہا کرتا تھا اور مدت سے وہاں بارش نہ ہوئی تھی.ایک روز بارش ہوئی تو پتھروں اور روڑیوں پر بھی ہوئی تو اس کے دل میں اعتراض پیدا ہوا کہ ضرورت تو بارش کی کھیتوں اور باغات کے واسطے ہے یہ کیا بات ہے کہ پتھروں پر ہوئی یہی بارش کھیتوں پر ہوتی تو کیا اچھا ہوتا.اس پر خدا تعالیٰ نے اس کا سارا ولی پن چھین لیا.آخر وہ بہت ساغمگین ہوا اور کسی اور بزرگ سے استمداد کی تو آخر اس کا پیغام آیا کہ تو نے اعتراض کیوں کیا تھا.تیری اس خطا پر عتاب ہوا ہے.اس نے کسی سے کہا کہ ایسا کو کہ میری ٹانگ میں رسہ ڈال کر پتھروں پر گھسیٹتا پھر.اس نے ایسا کیوں کروں ؟ اس عابد نے کہا کہ جس طرح میں کہتا ہوں اسی طرح کرو آخر اس نے ایسا ہی
کیا یہاں تک کہ اس کی دونوں ٹانگیں پتھروں پر گھسٹنے سے پھل گئیں تب خدا نے فرمایا کہ اب لبس کہ اب معاف کر دیا......انسان کو پاک اور خبیث لوگ چاہیے کہ کبھی خدا تعالیٰ پر اعتراض نہ کرے “ " " ( ملفوظات جلد ششم منه ) عاجزی انکساری جو لوگ اپنے رب کے آگے انکسار سے دعا کرتے رہتے ہیں کہ شاید کوئی عاجزی منظور ہو جاوے تو ان کا اللہ تعالیٰ خود مددگار ہو جاتا ہے.کوئی شخص عابد بہت دعا کرتا تھا کہ یا اللہ تعالیٰ مجھ کو گناہوں سے آزادی دے اس نے بہت دعا کرنے کے بعد سوچا کہ سب سے زیادہ عاجزی کیونکر ہو.معلوم ہوا کہ کتے سے زیادہ ناجر کوئی نہیں تو اس نے اس کی آواز سے رونا شروع کیا کسی اور شخص نے سمجھا کہ مسجد میں کتا آگیا ہے.ایسا نہ ہو کہ کوئی میرا ترین لید کر دیوے تو اس نے آکر دیکھا تو عابد ہی تھا.کتا کہیں نہ دیکھا.آخر اس نے پوچھا کہ یہاں کتا رو رہا تھا اس نے کہا کہ ہمیں ہی کہتا ہوں پھر پوچھا کہ تم ایسے کیوں رو رہے تھے ؟ کہا خدا تعالیٰ کو عاجزی پسند ہے اس واسطے میں نے سوچا کہ اس طرح میری عاجزی منظور ہو جاوے گی " ( ملفوظات جلد ششم ص) ا متقیوں کو اللہ تعالیٰ خود پاک چیزیں بہم پہنچاتا ہے اور خبیث چیزیں خبیث لوگوں کیلئے ہیں....ایک بزرگ کی کسی بادشاہ نے دعوت کی اور بکری کا گوشت بھی پکایا اور خنزیر کا بھی.اور جب کھانا رکھا گیا تو عمداً سور کا گوشت اس بزرگ کے سامنے رکھ دیا اور بکری کا اپنے اور اپنے دوستوں کے آگئے.جب کھانا رکھا گیا اور کہا کہ شروع کرو تو اللہ تعالیٰ نے اس بزرگ پر بذریعہ کشف اصل حال کھول دیا.انہوں نے کہا ٹھہرو تقسیم ٹھیک نہیں اور یہ کہہ کر اپنے آگے کی رکا بیاں ان کے آگے اور ان کے آگے کی اپنے آگے رکھتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے الخبيثت اللخبيثين (تور : ۲۷) خبیث باتیں خبیث مردوں کیلئے ( ملفوظات جلد ششم ص ۷۳ - ۷۴) دوست کا انتخاب ایک کتاب میں ایک عجیب بات لکھی ہے کہ ایک شخص سڑک پر روتا چلا جارہا تھا راستہ میں ایک ولی اللہ اس سے ملے انہوں نے پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرا دوست مر گیا ہے.اس نے ا جواب دیا کہ تجھ کو پہلے سوچ لینا چاہیے تھا.مرنے والے کے ساتھ
14 14 دوستی ہی کیوں کی ہے ( ملفوظات جلد ہفتم ص۲) غیبت کیوں کی ؟ " ایک صوفی کے دو مرید تھے ایک نے شراب پی اور نالی میں بے ہوش ہو کر گیا.دوسرے نے صوفی سے شکایت کی.اس نے کہا تو بڑا بے ادب ہے کہ اس کی شکایت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہیں لاتا وہ اسی وقت گیا اور اسے اٹھا کر لے چلا.کہتے تھے کہ ایک نے تو بہت شراب پی.لیکن دوسرے نے کم پی کہ اسے اٹھا کر لے جا رہا ہے.صوفی کا مطلب یہ تھا کہ تو نے اپنے بھائی کی غیبت کیوں ( ملفوظات جلد ہفتم مث) کی ، " ابتلا میں کامیابی ثمنوی میں ایک قصہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ کے پاس ایک دفعہ کھانے کو نہ تھا وہ بزرگ اور اس کے ساتھی سب بھوکے تھے اتنے میں ایک لڑکا حلوہ بیچتا ہوا وہاں سے آگزرا ، اس بزرگ نے اپنے آدمیوں سے کہا کہ اس سے حلوہ چھین لو چنانچہ آدمیوں نے ایسا کیا اور وہ حلوہ بزرگ نے اور اس کے ساتھیوں نے کھا لیا.وہ لڑکا وہ بہت رویا اور پھیلایا آدمیوں نے سوال کیا کہ اس میں کیا حکمت تھی کہ بچہ کا حلوہ چھین لیا.فرمایا کہ یہی اس بچہ کی پونجی بھی بہت درد کے ساتھ رویا ہے اور اس کا رونا موجب کشائش اور فتوح کا ہوا ہے جو ہماری دعائیں نہیں ہو سکتی تھیں.چنانچہ اس بچہ کو اس کے حق سے بہت زیادہ دیگر راضی کیا گیا.اسی طرح بعض ابتلا صرف اس واسطے آتے ہیں کہ انسان اس رتبہ کو جلد حاصل کرلے جو اس کے واسطے مقدر ہیں." ( ملفوظات جلد ہفتم ص۳۶۳-۳۶۴) ہنوز دلی دور است مشکلات کے وقت دعا کے واسطے پورا جوش دل میں پیدا ہوتا ہے کوئی خارق عادت امر ظاہر ہوتا ہے کہتے ہیں دہلی میں ایک بزرگ تھے.بادشاہ وقت اس پر سخت ناراض ہو گیا.اس وقت بادشاہ کہیں باہر جاتا تھا حکم دیا کہ واپس آکر تم کو ضرور پھانسی دوں گا اور اپنے اس حکم پر قسم کھائی جب اس کی واپسی کا وقت قریب آیا تو اس بزرگ کے دوستوں اور مریدوں نے غمگین ہو کر عرض کی کہ بادشاہ کی واپسی کا وقت اب قریب آگیا ہے.اس نے جواب دیا ہنوز دلی دور است - جب بادشاه
14 ایک دو منزل پر آگیا تو انہوں نے پھر عرض کی مگر اس نے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است - یہاں تک کہ بادشاہ عین شہر کے پاس آگیا اور شہر کے اندر داخل ہونے لگا یا داخل ہو گیا ہے.مگر پھر بھی اس بزرگ نے یہی جواب دیا کہ ہنوز دلی دور است - اسی اثناء میں خبر آئی کہ بادشاہ دروازہ شہر کے نیچے پہنچا تو اوپر سے دروازہ گرا اور بادشاہ ہلاک ہو گیا معلوم ہوتا ہے اس بزرگ کو کچھ منجانب اللہ معلوم ہو چکا تھا ، ( ملفوظات جلد ہشتم صد ۳-۳۷) " تیری خاطر انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اس پر کامل یقین رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں.ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ ایک جہاز میں سوار تھے.سمندر میں طوفان آگیا قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا.اس کی دعا سے بچا لیا گیا اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا “ ( ملفوظات جلد دہم ص ۱۳) وو بادشاہ پر عتاب الہی جیسا اثر دعا میں ہے ویسا کسی اور نئے میں نہیں.....شیخ نظام الدین کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ بادشاہ کا سخت عتاب ان پر ہوا اور حکم ہوا کہ ایک ہفتہ تک تم کو سخت سزادی جائے گی.جب وہ دن آیا تو وہ ایک مرید کی ران پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے.اس مرید کو جب بادشاہ کے حکم کا خیال آیا تو وہ رویا اور اس کے آنسو شیخ پر گرے جس سے شیخ بیدار ہوا اور پوچھا کہ تو کیوں روتا ہے.اس نے اپنا خیالی عرض کیا اور کہا کہ آج سزا کا شیخ نے کہا کہ تم غم مت کھاؤ ہم کو کوئی سزا نہ ہو گی میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ ایک مارکھنڈ گائے مجھے مارنے کے واسطے آئی ہے میں نے اس کے دونوں سینگ پکڑ کر اس کو نیچے گرا دیا ہے.چنانچہ اسی دن بادشاہ سخت بیمار ہوا اور ایسا سخت بیمار ہوا کہ اس بیماری میں مر گیا.یہ تصرفات الہی ہیں جو انسان کی سمجھ میں نہیں آتے “ ( ملفوظات جلد ہشتم می ۳) فقیر کی موت " موت انہی کی اچھی ہوتی ہے جو مرنے کیلئے ہر وقت آمادہ
۲۱ رہتے ہیں.فرید الدین عطاء رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ عطاری کی دوکان کیا کرتے تھے.ایک دن صبح ہی صبح جب آ کر انہوں نے دوکان کھولی تو ایک فقیر نے آکر سوال کیا.فرید الدین نے اس سائل کو کہا کہ ابھی بوسنی نہیں کی.فقیر نے ان کو کہا اگر تو ایسا ہی دنیا کے دھندوں میں مشغول ہے تو تیری جان کیسے نکلے گی.فرید الدین نے اس کو جواب دیا کہ جیسے تیری نکلے گی.فقیریہ سن کر وہیں لیٹ گیا اور کہا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحمد رسُول اللہ اور اس کے ساتھ ہی اسکی جان نکل گئی.فرید الدین نے جب اس کی یہ حالت دیکھی تو بہت متاثر ہوا.اسی وقت ساری دکان لٹا دی اور ساری عمر یاد الہی میں گزار دی.“ ظاہر پر نظر نہ کرو " ( ملفوظات جلد هشتم صداه) ذوالنون مصری ایک باکمال شخص تھا اور اس کی شہرت باہر دور دور تک پہنچی ہوئی تھی.ایک شخص اس کے کمال کو سن کر اس کے ملنے کے واسطے گیا اور گھر پر جا کر اسے پکارا تو اسے جواب ملا کہ خدا جانے کہاں ہے کہیں بازار گیا ہوگا وہ جب بازار میں ان کی تلاش کرتا ہوا پہنچا تو وہ بازار میں معمولی طور پر سادگی سے کچھ سودا خرید رہا تھا.لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ ذوالنون ہے.اس نے دیکھا کہ ایک سیاہ رنگ پست قامت آدمی ہے.معمولی سا لباس ہے.چہرہ پر کچھ وجاہت نہیں معمولی آدمیوں کی طرح بازار میں کھڑا ہے.اس سے اس کا سارا اعتقاد جاتا رہا.اور کہا یہ تو ہماری طرح ایک معمولی آدمی ہے.ذوالنرون نے اس کو کہا کہ تو کس لیے میرے پاس آیا ہے جبکہ تیرا ظاہر پر خیال ہے.ذوالنون نے اس کے مافی الضمیر کو دیکھ لیا تھا اس لیے کہا کہ تیری نظر ظاہر پر ہے تجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا.ایمان تب سلامت رہتا ہے کہ باطن پر نظر رکھی جاوے “ ( ملفوظات جلد ہشتم صدا کرامت کا معیار " میں نے تذکرۃ الاولیاء میں ایک لطیفہ دیکھا کہ ایک شخص یک بزرگ کی نسبت بد گمانی رکھتا تھا کہ یہ مکار ہے اور فاسق ہے ایک دن ان کے پاس آیا اور کہا کہ حضرت کوئی کرامت تو دکھاؤ فرمایا میری کرامت تو ظاہر ہے.باوجودیکہ تم تمام دنیا کے معاصی مجھ میں بتاتے ہو.مگر پھر دیکھتے ہو کہ خدا تعالیٰ مجھے عرق نہیں کرتا.لوط کی بستنی تباہ ہوئی.عاد و ثمود وغیرہ تباہ ہوئے مگر
۲۲ مجھ پر غضب نہیں آتا کیا یہ تیرے لیے کرامت نہیں ہے “ ( ملفوظات جلد ہشتم ۳۹۵) اللہ کی قدرت نمائی کا نمونہ......" " اللہ تعالیٰ اپنی قدرت نمائی کا ایک نمونہ دکھانا چاہتا ہے...لوگوں کا خیال کسی اور طرف ہوتا ہے اور خدا تعالٰی کوئی اور بات کر دکھلاتا ہے جس سے بہتوں کے واسطے صورت ابتلا پیدا ہو جاتی لکھا ہے کہ ایک بزرگ جب فوت ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جب تم مجھے دفن کر چکو تو وہاں ایک سبز چڑیا آئیگی جس کے سر پر وہ پچڑیا بیٹھے وہی میرا خلیفہ ہوگا.جب وہ اس کو دفن کر چکے تو اس انتظار میں بیٹھے کہ وہ چڑیا کب آتی ہے اور کسی کے سر پر بیٹھتی ہے.بڑے بڑے پرانے مرید جو تھے ان کے دل میں خیال گزرا کہ چڑیا ہمارے ہی سر پر بیٹھے گی.تھوڑی ہی دیر میں ایک چڑیا ظاہر ہوئی اور وہ ایک بقال کے سر پر آ بیٹی جو اتفاق سے شریک جنازہ ہو گیا تھا.تب وہ سب حیران ہوئے لیکن اپنے مرشد کے قول کے مطابق اس کو لے گئے اور اس کو اپنے پیر کا خلیفہ بنایا ( ملفوظات جلد هشتم ص۴ - باپ کی نیکی کی برکت میرا تو اعتقاد ہے کہ اگر ایک آدمی با خدا اور سچا متقی ہو تو اسکی سات پشت تک بھی خدا رحمت اور برکت کا ہاتھ رکھتا اور ان کی خود حفاظت فرماتا ہے.ایک دفعہ حضرت موسیٰ وعظ فرما رہے تھے کسی نے پوچھا کہ آپ سے کوئی اور بھی علم میں زیادہ ہے تو انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں اللہ تعالیٰ کو یہ بات ان کی پسند نہ آئی ریعنی یوں کہتے کہ خدا کے بندے بہت سے ہیں جو ایک سے ایک علم میں زیادہ ہیں اور حکم ہوا کہ تم فلاں طرف پہلے جاؤ جہاں تمہاری مچھلی زندہ ہو جاوے گی وہاں تم کو ایک علم والا شخص ملے گا.پس جب وہ ادھر گئے تو ایک جگہ مچھلی بھول گئے.جب دوبارہ تلاش کرنے آئے تو معلوم ہوا مچھلی وہاں نہیں ہے.وہاں ٹھہر گئے تو ایک ہمارے بندہ سے ملاقات ہوئی.اس کو موسیٰ نے کہا کہ کیا مجھے اجازت ہے کہ آپ کیسا تھ رہ کر علم اور معرفت سیکھوں.اس بزرگ نے کہا کہ اجازت دیتا ہوں مگر آپ بد گمانی سے بچ نہیں سکیں گے.کیونکہ جس بات کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی اور سمجھ نہیں دی جاتی تو اس پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ جب دیکھا جاتا ہے کہ ایک شخص ایک موقعہ پر بے حمل کام کرتا ہے تو اکثر بدظنی ہو جاتی ہے.پس موسی نے کہا میں کوئی بدھتی نہیں کروں
۲۴۷ گا اور آپ کا ساتھ دوں.اس نے کہا کہ اگر تو میرے ساتھ پہلے گا تو مجھ سے کسی بات کا سوال نہ کرتا پس جب چلے تو ایک دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی وہ گرنے والی تھی اس کے نیچے خزانہ تھا لڑکے ابھی نابالغ تھے اس دیوار کے گرنے سے اندیشہ تھا کہ خزانہ ننگا ہو کر لوگوں کے ہاتھ آجائے گا وہ لڑکے بیچارے خالی ہاتھ رہ جاویں گے تو اللہ تعالیٰ نے دو نبیوں کو اس خدمت کے واسطے مقرر فرمایا کہ اس کی مرمت کریں وہ گئے اور اس دیوار کو درست کر دیا تاکہ جب وہ جوان ہوں تو اس خزانہ کو نکال کر استعمال کریں.کیا وجہ تھی کہ خدا کے ایسے دو عظیم الشان آدمیوں کو وہاں بھیجا اس کی وجہ یہی تھی و كان ابوهما صالحا یعنی ان لڑکوں کا باپ نیک کار مرد تھا.باپ کی نیکی اور صلاحیت کیلئے خضر اور موسے جیسے اولوالعزم ہیں نمبر کو مزدور بنا دیا......اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا جس کے واسطے ہم ان کے خزانہ کی حفاظت کی کہ جب وہ بڑے ہوں تو پھر کسی طرح ان کے ہاتھ میں وہ خزانہ آجاوے.اللہ تعالیٰ کے ایسا فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن دو لڑکوں کیلئے حضرت خضر نے تکلیف اٹھائی اصل میں وہ اچھے چال چلن کے ہونے والے نہیں تھے بلکہ غالباً وہ یہ چکن اور خراب حالت رکھنے والے علیم الہی میں تھے.لہذا خدا تعالیٰ نے بباعث اپنی ستاری کی صفت کے ان کے چال چلن کو پوشیدہ رکھ ۴ ان کے باپ کی صلاحیت ظاہر کردی اور ان کی حالت کو جو اصل میں اچھی نہیں تھی کھول کر نہ سنایا اور ایک خولیش کی وجہ سے دو بیگانوں پر رحم کر دیا.دیکھو کہاں یہ بات کہ اللہ تعالٰی نے اس شخص کے واسطے اس کی اولاد کا اس قدر خیال رکھا اور کہاں یہ کہ انسان غرق ہوتا چلا جاتا ہے.خدا تعالی کی پر واہ نہیں کرتا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ سے ہر حال میں تعلق رکھتے ہیں خدا تعالے ان کو ضائع ہونے سے بچا لیتا ہے دیہ واقعہ ملفوظات جلد سوئم ص ۳۳ ، جلد پنجم ص ۲۴۵ ، جلده م.اور مکتوبات احمد جلد ۲۵ ص۱۵ پر تفاصیل کے فرق سے درج ہے یہاں پر اس واقعے کی تفاصیل کو پیکجا کر دیا گیا ہے ) دعا کی شرط ! ۶۸ " "تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک بزرگ سے کسی نے دعا کی خواہش کی.بزرگ نے فرمایا کہ دودھ چاول لاؤ.وہ شخص حیران ہوا.آخر وہ لایا.بزرگ نے دعا کی اور اس شخص کا کام ہو گیا.آخر اسے بتلایا گیا کہ یہ صرف تعلق پیدا کرنے کیلئے تھا.ایسا ہی باوا فرید صاحب کے متذکرہ میں لکھا ہے کہ ایک
۲۷ شخص کا قبالہ گم ہوا.اور وہ دعا کے لیے آپ کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے حلوہ کھلاؤ اور وہ قبالہ حلوائی کی دوکان سے مل گیا “ ) ملفوظات جلد نہم ص ۲۳) " دعاؤں کا ہتھیار کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ کسی ملک پر چڑھائی کرنے کے واسطے نکلا.راستہ میں ایک فقیر نے اس کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا کہ تم آگے مت بڑھو ورنہ میں تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا.بادشاہ حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تو ایک بے سرو سامان فقیر ہے تو کس طرح میرے ساتھ لڑائی کرے گا لتی جو دعا کے واسطے ضروری ہے ایک صوفی کا ذکر ہے کہ وہ راستہ میں جاتا تھا کہ ایک لڑکا اس کے سامنے گرپڑا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی صوفی کے دل میں درد پیدا ہوا اور اس جگہ خدا تعالیٰ کے آگے دعا کی.اور عرض کی کہ اے خدا تو اس لڑکے کی ٹانگ کو درست کر دے ورنہ تو نے اس قصاب کے دل میں درد کیوں پیدا کیا ( ملفوظات جلد نهم ص(۴) تعلق محبت کا ایک ذریعہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص شیخ نظام الدین صاحب ولی اللہ کے پاس اپنے ذاتی مطلب کیلئے دعا کرانے کے واسطے گیا تو انہوں فقیر نے جواب دیا کہ میں صبح کی دعاؤں کے ہختیار سے تمہارے مقابلہ نے فرمایا میرے واسطے دودھ چاول لے آ.اس شخص کے دل میں جنگ کروں گا.بادشاہ نے کہا میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا یہ کہ کہ میں خیال آیا کہ عجیب ولی ہے.میں اس کے پاس اپنا مطلب ہے وہ واپس چلا گیا “ ( ملفوظات جلد نهم ص (۲) کر آیا ہوں تو اس نے میرے آگے اپنا ایک مطلب پیش کر دیا ہے مگر وہ چلا گیا اور دودھ چاول پکا کرلے آیا جب وہ کھا چکے تو انہوں نے اس کے واسطے دعا کی اور اس کی مشکل حل ہو گئی.نب نظام الدین صاحب نے اس کو بتلایا کہ میں نے تجھ سے دودھ دعا میں درد اصولی دعا میں یہ بات ہے کہ جب تک انسان کو کسی کے حالات چاول اس واسطے مانگے تھے کہ جب تو دعا کرانے کے واسطے آیا کے ساتھ پورا تعلق نہ ہو تب تک وہ رقت اور درد اور توجہ نہیں ہو تھا تو میرے واسطے بالکل اجنبی آدمی تھا اور میرے دل میں تیرے
۲۹ واسطے کوئی ہمدردی کا ذریعہ نہ تھا اس واسطے تیرے ساتھ ایک تعلق محبت پیدا کرنے کے واسطے میں نے یہ بات سوچی تھی.“ ( ملفوظات جلد تهم منه ) قبولیت دعا کا ایک طریق اس قدر زور شور سے دعا مانگی کہ باوا غلام فرید کو شفاء ہوگئی ( ملفوظات جلد نہم ص ۲۳۲) حصول ثواب کی تڑپ عالمگیر کے زمانہ میں مسجد شاہی کو آگ لگ گئی تو لوگ دوڑے.دعا میں بعض دفعہ قبولیت نہیں پائی جاتی تو ایسے وقت اس دوڑے بادشاہ سلامت کے پاس پہنچے اور عرض کی کہ مسجد کو تو طرح سے بھی دعا قبول ہو جاتی ہے کہ ایک شخص بزرگ سے دعا آگ لگ گئی اس خبر کو سن کر وہ فوراً سجدہ میں گرا اور شکر کیا منگوائیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ اس مرد کی دعاؤں کو حاشیہ نشینوں نے تعجب سے پوچھا کہ حضور سلامت یہ کون سا ستے.....باوا غلام فرید ایک دفعہ بیمار ہوئے اور دعا کی مگر وقت شکر گزاری کا ہے کہ خانہ خدا کو آگ لگ گئی ہے اور مسلمانوں کچھ بھی فائدہ نظر نہ آیا تب آپ نے اپنے شنا گرد کو جو نہایت ہی نیک کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچا تو بادشاہ نے کہا میں مدت سے سوچتا مرد اور پار سا تھے ( شاید شیخ نظام الدین یا خواجہ قطب الدین) تھا اور آہ سرد بھرتا تھا کہ اتنی بڑی عظیم الشان مسجد جو بنی ہے دعا کے لیے فرمایا.انہوں نے بہت دعا کی مگر پھر بھی کچھ اثر نہ.اور اس عمارت کے ذریعہ سے ہزار ہا مخلوقات کو فائدہ پہنچتا ہے.یہ دیکھ کر انہوں نے ایک رات بہت دعا مانگی کہ اسے کاش کوئی ایسی تجویز ہوتی کہ اس کار خیر میں کوئی میرا بھی حصہ ہوتا میرے خدا اس شاگرد کو وہ درجہ عطا فرما کہ اس کی دعائیں قبولیت لیکن چاروں طرف سے میں اس کو ایسا مکمل اور بے نقص دیکھتا تھا کا درجہ پائیں اور صبح کے وقت ان کو کہا کہ آج ہم نے تمہارے کہ مجھے کچھ سوچھ نہ سکتا تھا کہ اس میں میرا ثواب کسی طرح ہو جائے لینے یہ دعا مانگی ہے.یہ سن کر شاگرد کے دل میں بہت ہی رقت سو آج خدا تعالیٰ نے میرے واسطے حصولِ ثواب کی ایک راہ نکال والله سميع عليم (بقرہ : ۲۲۵) اور اللہ خوب سننے والا اور پیدا ہوئی اور اس نے اپنے دل میں کہا کہ جب انہوں نے میرے دی لیے ایسی دعا کی ہے تو آؤ پہلے انہیں ہی شروع کرو اور انہوں بہت جاننے والا ہے." 16 ) ملفوظات جلد اول ص ۳۸)
! " ریار سے بچو اس بزرگ نے تو اسے روپیہ دے دیا مگر لوگوں نے بڑی لعن طعن کی اور کہا کہ اس کی اپنی بدنیتی ہے معلوم ہوتا ہے پہلے وعظ سن کر جوش میں آگیا اور روپیہ دے دیا اب روپیہ کی محبت نے مجبور کیا تو یہ عذر بنا لیا ہے غرض وہ روپیہ لے کر چلا گیا.یا تو لوگ اس کی تعریف کرتے تھے اور یا اسی وقت اس کی مذمت شروع کر دی کہ بڑا روپیہ لانے سے اوّل کیوں نہ ماں سے دریافت کیا ابے وقوف ہے روپیہ کسی نے کہا جھوٹا ہے روپے دے کر افسوس ہوا تو اب یہ بہانہ روپیہ کی ضرورت ہے مجھے ایک دینی ضرورت پیش آگئی ہے مگر اس سے بنا لیا وغیرہ وغیرہ اور وہ مجلس برخاست ہوئی مولوی صاحب بھی وعظ واسطے روپیہ نہیں ہے کوئی اس کی مدد کرے.ان کے وعظ اور ضرورت کو کے چلے گئے.مگر جب وقت گزر گیا اور رات کی سنسان گھڑیاں میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس مرد سے بڑھ کر مرد خدا نہ پاؤ گے جو نیکی کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ کسی پر ظاہر نہ ہو.میں نے تذکرۃ الاولیا میں دیکھا ہے ایک بزرگ کی حکایت لکھی ہے کہ اسے کچھ ضرورت تھی اس نے وعظ کیا اور دو بران وعظ میں بزرگ نے یہ بھی کہا کہ اس کو کچھ دینی کو دیکھ کر ایک بندہ خدا نے صالح سمجھ کر دس ہزار روپیہ اس کو دیا.اس بزرگ نے اٹھ کر روپیہ لے کر اس کی سخاوت اور فیاضی کی بڑی تعریف کی اور کہا کہ یہ شخص بڑا ثواب پائے گا.جب اس شخص نے ان باتوں کو سنا تو اس بات پر وہ رنجیدہ ہوا کہ جب یہاں ہے تعریف ہو گئی تو شاید ثواب آخر سے محرومیت ہو تو اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر بآواز بلند اس نے کہا کہ مولوی صاحب اس روپنے کے دینے میں مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی ہے وہ مال میرا نہ تھا بلکہ اصل میں یہ مال میری والدہ کا ہے اور میں اس کا روپیہ خود بخود دینے کا مختار نہ تھا اور میں اس کی بے اجازت لے آیا تھا جو تھیں تو رات کے دو بجے وہ شخص وہ رویہ لے کر اس بزرگ کے مکان پر چپکے سے گیا اور آکر انہیں آواز دی وہ سوئے ہوئے تھے انہیں جگایا اور وہی دس ہزار روپیہ رکھ دیا اور عرض کی کہ حضور میں نے یہ روپیہ اللہ تعالیٰ کے واسطے دیا تھا.یہ روپیہ اس وقت اس لیے نہیں دیا تھا کہ آپ میری تعریف کریں.آپ نے بر سر عام میری تعریف کر کے مجھے مرحوم ثواب آخرت کیا میری تو نیت اور تھی اس لیے میں نے شیطان کے وسوسوں سے بچنے کی یہ تدبیر کی تھی اور بہانہ کیا تھا.اب یہ روپیہ آپ کا ہے لیکن آپ کسی کے آگے نام نہ لیں نہیں اب میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ مرنے تک اسکا ذکر نہ کریں کہ فلاں نے یہ دینا نہیں چاہتی اب وہ مطالبہ کرتی ہے اس لیے وہ واپس دے دو دیا ہے.یہ سن کر وہ بزرگ رو پڑے اس نے پوچھا آپ رہنے کیوں؟
تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رونا اس لیے آیا کہ تو نے ایسا اتفا کیا کا ہے کہ جب تک یہ لوگ رہیں گے تجھے لعن طعن کریں گے کیونکہ کل جب اللہ چاہے ا واقعہ سب کو معلوم ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں کہ تو نے مجھے روپیہ واپس دیدیا ان کو اس حقیقت کی کیا خبر اور تم کہتے ہو کہ میرا نام نہ لینا اس نے کہا مجھے یہ لعنتیں منظور نہیں مگر ریاء سے بچتا چاہتا ہوں غرض وہ چلا گیا اور آخر اللہ تعالیٰ نے اس امر کو ظاہر کر دیا جو شخص خدا تعالیٰ سے پوشیدہ طور پر صلح کر لیتا ہے خدا تعالیٰ اسے عزت دیتا ہے ایک متقی تو اپنے نفس امارہ کے برخلاف جنگ کر کے اپنے خیال کو چھاتا ہے اور خفیہ رکھتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس خفیہ خیال کو ہمیشہ ظاہر کر دیتا ہے جیسا کہ بد معاش کسی بد چلنی کا مرتکب ہو کر خفیہ رہنا چاہتا ہے اسی طرح ایک متقی چھپ کر نماز پڑھتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے سچا متقی ایک قسم کا ستر چاہتا ہے تقویٰ کے مراتب بہت ہیں لیکن بہر حال تقوی کیلئے تکلف ہے اور منتقی حالت جنگ میں ہے اور صالح اس جنگ سے باہر ہے جیسے کہ میں نے مثال کے طور پر اوپر ریاء کا ذکر کیا ہے جس سے متقی کو آٹھوں پر جنگ ہے" یہ واقعہ ملفوظات جلد شتم در ۳۸ ۳۹۰ ، ۳۳۵۰ ، ۳۳۶ اور جلد اول ۲۲-۲۳ ۴۰۹ میں مختلف تفاصیل سے درج جلد دہم ہے یہاں ان تمام تفاصیلے کو یکجا کر دیا گیا ہے.مرتب ) خدا جب کسی کام کو کرانا ہی چاہتا ہے تو گردن سے پکڑ کر بھی کرا دیتا ہے.اس کے منوانے کے عجیب عجیب بننگ ہیں.چنانچہ ایک مسلمان بادشاہ کا ذکر ہے کہ اُس نے امام موسی رضا کو کسی سے قید کر دیا ہوا تھا.خدا کی قدرت ایک رات بادشاہ نے اپنے وزیر اعظم کو نصف رات کے وقت بلوایا اور نہایت سخت تاکید کی جس حالت میں ہو اسی حالت میں آ جاؤ حتی کہ لباس بد لنا بھی تم پر حرام ہے.وزیر حکم پاتے ہی ننگے سر ننگے بدن مجبوراً حاضر ہوئے اور اس جلدی اور گھبراہٹ کا باعث دریافت کیا.بادشاہ نے اپنا ایک خواب بیان کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک حبشی آیا ہے اور اس گنڈا سے کی قسم کے ایک ہتھیار سے مجھے ڈرایا اور دھمکایا ہے اس کی شکل نہایت ہی پر ہیبت اور خوفناک ہے اس نے مجھے کہا ہے کہ امام موسی کو ابھی چھوڑ دو ورنہ میں تمہیں ہلاک کر دونگا.اور اسے ایک ہزار اشرفی دے کر جہاں اس کا جی چاہے رہنے کی اجازت دو.سو تم ابھی جاؤ اور امام موسیٰ رضا کو قید سے رہا کردو.چنانچہ وزیر اعظم قید خانے میں گئے اور قبل اس کے کہ وہ اپنا عندیہ ظاہر کرتے امام موسی رضا
بولے کہ پہلے میرا خواب سن لو چنانچہ انہوں نے اپنا خواب یوں بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی کہ تم آج ہی قبل اس کے کہ صبح ہو قید سے رہا کیسے جاؤ گے." ( ملفوظات جلد دہم ص ۱۸) چوروں قطب بنایا ای " تقوی کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا.میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ جو بڑے اکا بر میں سے ہوئے ہیں ان کا نفس بڑا مظہر تھا ایک بار انہوں نے اپنی والدہ سے کہا کہ میرا دل دنیا سے برداشتہ ہے.میں چاہتا ہوں کہ کوئی پیشوا تلاش کروں جو مجھے - سکینت اور اطمینان کی راہیں دکھلائے.والدہ نے جب دیکھا کہ اب ہمارے کام کا نہیں رہا.تو ان کی بات کو مان لیا اور کہا کہ اچھا میں تجھے رخصت کرتی ہوں.یہ کہہ کر اندر گئی اور انٹی مہریں جو اس نے جمع کی ہوئی تھیں اٹھا لائی اور کہا کہ ان مہروں سے حصہ شرعی کے موافق چالیس مہریں تیری ہیں اور چالیس تیرے بڑے بھائی کی.اس لیے چالیس مہریں تجھے بمعہ اسدی دیتی ہوں یہ کہ کردہ چالیں مہریں ان کی بغل کے نیچے پیراہن میں سی دیں اور کہا کہ امن کی جگہ پہنچے کہ نکال لینا اور عند الضرورت اپنے صرف میں لانا - سید عبد القادر صاحب نے اپنی والدہ سے عرض کی مجھے کوئی نصیحت فرما دیں.انہوں نے کہا کہ بیٹا جھوٹ کبھی نہ بولنا.اس سے بڑی برکت ہوگی.اتنا سن کر حضرت سید عبد القادر ” جب گھر سے رخصت ہوئے تو پہلی منزل میں ایک جنگل میں سے ان کا گزر ہوا اتفاق ایسا ہوا کہ جس جنگل میں سے ہو کہ آپ گزرے اس میں چوروں اور قزاقوں کا ایک بڑا قافلہ رہتا تھا.جہاں ان کو چوروں کا ایک گروہ ملا.دور سے سید عبد القادر پر بھی ان کی نظر پڑی.قریب آئے تو انہوں نے ایک کمبل پوش فقیر سا دیکھا ایک نے ہنسی سے دریافت کیا کہ تیرے پاس کچھ ہے ؟ آپ ابھی اپنی والدہ سے تازہ نصیحت سن کر آئے تھے کہ جھوٹ نہ بولنا.والدہ کی آخری نصیحت پر غور کیا اور فوراً جواب دیا کہ ہاں میرے پاس ۴۰ اشرفیاں ہیں جو میری بغل کے نھے ہیں جو میری والدہ نے کیسہ کی طرح سی دی ہیں اس قزاق نے سمجھا کہ یہ ٹھٹھا کرتا ہے.دوسرے قزاق نے جب پوچھا تو اس.کو بھی یہی جواب دیا الغرض ہر ایک چور کو یہی جواب دیا.وہ چور یہ سن کو حیران ہوئے کہ یہ فقیر کیا کہتا ہے.ایسا راستباز ہم نے کبھی نہیں دیکھا وہ آپ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گئے اور سارا قصہ بیان کیا کہ بار بار یہی کہتا ہے.اس نے جب آپ سے سوال کیا تب بھی آپ نے وہی جواب دیا.امیر نے کہا.اچھا اس کا کپڑا دیکھو تو سہی جب تلاشی
۳۷ ۳۶ لی گئی.آخر جب آپ کے پیراہن کے اس حصہ کو پھاڑ کر دیکھا گیا.تو واقعی چالیس مہریں بر آمد ہوئیں وہ حیران ہوئے کہ یہ عجیب آدمی ہے ہم نے ایسا آدمی کبھی نہیں دیکھا اس پر ان کے سردار نے آپ سے دریافت کیا کہ یہ کیا وجہ ہے کہ تو نے اس طرح پر اپنے مال کا پتہ بتا دیا ہے ؟ اس پر آپ نے اپنی والدہ صاحبہ کی نصیحت کا ذکر کر دیا کہ روانگی پر والدہ صاحبہ نے یہ نصیحت فرمائی تھی کہ جھوٹ کبھی نہ بولنا اور کہا کہ میں طلب دین کیلئے گھر سے نکلا ہوں.یہ پہلا امتحان تھا میں جھوٹ کیوں بولتا.اگر پہلی ہی منزل پر جھوٹ بولتا تو پھر کیا حاصل کرسکتا.اس لیے میں نے پہنچ کو نہیں چھوڑا.جب آپ نے یہ بیان فرمایا تو قزاقوں کا سردار چیخ مار کر رو پڑا اور آپ کے قدموں پر گر گیا اور کہا کہ آہ میں نے ایک بار بھی خدا تعالیٰ کا حکم نہ مانا چوروں سے مخاطب ہو کر کہا کہ اس کلمہ اور اس شخص کی استقامت نے میرا تو کام تمام کر دیا ہے میں اب تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا.اور اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی.اس کے کہنے کے ساتھ ہی باقی چوروں نے توبہ کرلی.کہتے ہیں کہ آپ کا سب سے پہلا مریدہ یہی شخص تھا.میں چوروں قطب بنایا ای اس واقعہ کو سمجھتا ہوں.الغرض سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت کرنے والے چور ہی تھے" دیہ واقعہ ملفوظات جلد اول میں.اور ۳۶۹-۳۷۰ تفاصیل کے فرق کیساتھ درج ہے.یہاں اس واقعہ کی تفاصیل کی یکجا کر دیا گیا ہے.مرتب) بادشاہ کا دلجوئی کرتا " ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا.ایک ملا نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے، بادشاہ نے اس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا جب وہ چلا گیا تو اس دائرہ کو کاٹ دیا جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا مگر نہیں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اس کی دلجوئی ہو جاوے دیکھواس نے بادشاہ ہو کر ایک غریب ملاں کا دل نہ دکھانا چاہا.“ ( ملفوظات جلد ششم صد ۳۴۲) " بدظنی میں جلدی نہ کرو انسان دوسرے شخص کی دل کی بات معلوم نہیں کر سکتا اور اس کے قلب کے مخفی گوشوں تک اس کی نظر نہیں پہنچ سکتی اس لیے دوسرے شخص کی نسبت جلدی سے کوئی رائے نہ لگائے بلکہ انتظار کرے.انسان ایک آدمی کو بد خیال کرتا ہے پھر آپ اس سے بدتر ہو جاتا ہے.کتابوں میں میں نے ایک قصہ پڑھا ہے کہ ایک بزرگ اہل اللہ تھے.انہوں نے ایک
دفعہ خدا تعالیٰ سے عہد کیا میں سب کو اپنے سے بہتر سمجھوں گا اور کسی کو اپنے سے کم تر خیال نہیں کروں گا.اپنے آپ کو کسی سے اچھا سمجھوں گا.اپنے محبوب کو راضی کرنے کیلئے انسان ایسی تجویز میں سوچتے رہتے ہیں.ایک دفعہ ایک دریا کے کنارے پہنچنے دیکھا کہ ایک شخص ایک جواں سال عورت کے ساتھ کنارے پر بیٹھا روٹیاں کھا رہا ہے.ایک بوتل اس شخص کے ہاتھ میں بھی اس میں سے گلاس بھر بھر کر پی رہا ہے اور اس عورت کو پلاتا ہے ان کو دور سے دیکھ کر اس نے کہا کہ میں نے عہد تو کیا ہے کہ اپنے کو کسی سے اچھا نہ خیال کروں.اس نے بدظنی کی اور خیال کیا کہ ان دونوں سے تو ہمیں اچھا ہی ہوں.اتنے میں زور سے ہوا چلی اور دریا میں طوفان آیا.ایک کشتی آرہی معنی مع سواریوں کے ڈوب گئی.وہ مرو جو کہ عورت کے ساتھ روٹی کھا رہا تھا اٹھا اور غوطہ لگا کر چھ آدمیوں کو نکال لایا.اور ان کی جان بچ گئی.پھر اس نے بزرگ کو مخاطب کر کے کہا تم اپنے آپ کو مجھ سے اچھا خیال کرتے ہو میں نے تو چھ کی جان بچائی ہے اب ایک باقی ہے اسے تم نکالو یہ سن کر وہ بہت حیران ہوا اور اس سے پوچھا کہ تم نے یہ میرا ضمیر کیسے پڑھ لیا اور یہ معاملہ کیا ہے.تب اس جوان نے بتلایا.خدا نے مجھے تیرے امتحان کیلئے بھیجا تھا اور تیرے دل کے ارادہ سے مجھے اطلاع دی.اس بوتل میں اس دریا کا پانی ہے شراب نہیں ہے اور یہ عورت میری ماں ہے اور میں ایک ہی اس کی اولاد ہوں.قومی اس کے بڑے مضبوط ہیں اس لیے جوان نظر آتی ہے.خدا نے مجھے مامور کیا تھا کہ میں اسی طرح کہ دن تاکہ تجھے سبق حاصل ہو.غرض انسان دوسرے کی نسبت جلد رائے نہ لگائے سوء ظن جلدی کرنا اچھا نہیں ہوتا.“ دیہ واقعہ ملفوظات جلد دوم ۲۳- ۲۴۹ اور ملفوظات جلد چہارم ۲۴۹-۲۴۸ و ص ۲۶۵ ۲۶۶ پر تفاصیل کے فرق کے ساتھ درج ہے.یہاں اس واقعہ کی تفاصیل کو یکجا کر دیا گیا ہے.مرتب ) " معرفت الہی سیر میں لکھا ہے کہ ابولحسن خرقانی کے پاس ایک شخص آیا.راستہ میں شیر ملا.اور کہا کہ اللہ کے واسطے پیچھا چھوڑ دے.شیر نے حملہ کیا.اور جب کہا کہ ابوالحسن کے واسطے چھوڑ دے تو اس نے چھوڑ دیا.شخص مذکورہ کے ایمان میں اس حالت نے سیاہی سی پیدا کر دی.اور اس نے سفر ترک کر دیا.واپس آکر یہ عقدہ پیش کیا.اس کو ابوالحسن نے جواب دیا کہ یہ بات مشکل نہیں اللہ کے نام سے تو واقف نہ تھا.اللہ کی سیچی ہیبت اور حلال تیرے دل میں نہ تھا اور مجھ سے تو واقف تھا اسلئے میری قدر تیرے دل میں تھی.پس اللہ کے لفظ میں بڑی بڑی برکات اور خوبیاں ہیں بشرطیکہ کوئی اس کو اپنے دل میں جگہ دے
اور اس کی ماہیت پر کان دھرے “ ( ملفوظات جلد اول ص ) استقامت " جو لوگ بے صبری کرتے ہیں وہ شیطان کے قبضہ میں آجاتے ہیں.ہم تنقی کو بے صبری کے ساتھ بھی جنگ ہے.بوستان میں ایک عابد کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب کبھی وہ عبادت کرتا تو ہاتف یہی آواز دیتا کہ تو مردود و مخذول ہے اب ایک دفعہ ایک مرید نے یہ آواز سن لی اور کہا کہ اب تو فیصلہ ہو گیا.ٹکریں مارنے سے کیا فائدہ ہوگا.وہ بہت رویا اور کہا کہ ہمیں اس جناب کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا.اگر ملعون ہوں تو ملعون ہی سہی.غنیمت ہے کہ مجھ کو ملعون تو کہا جاتا ہے.ابھی یہ باتیں مرید سے ہو رہی تھیں کہ آواز آئی کہ تو مقبول ہے.سو یہ سب صدق و صبر کا نتیجہ تھا جو متقی میں ہونا شرط ہے“ ( ملفوظات جلد اول ص ۲۳) نام کتاب : واقعات شیرین مص ف : حضرت مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ مرتبه و ناشر: مرزا خلیل احمد قمر دار النصر عربی ربوہ کتابت : محمود انور بی اسے مطبع : ضیاء الاسلام پریس ریوه قیمت : چار روپے