Language: UR
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جانثار اور دیندار خادم حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کے بیٹے، حضرت سیدہ مریم النساء بیگم (ام طاہر)کے بھائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ماموں تھے۔ آپ کی زندگی کے ابتدائی سال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں قادیان میں گزرے، اور آپ کے 78 سالہ عرصہ حیات میں 65 سال خدمات دین حق اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں گزرے۔ بلادعربیہ میں علمی میدانوں میں نمایاں مقام پایا، تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے محاذوں پر کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ علوم قرآن و حدیث اور ادب عربی کے موضوع پر یادگار تحریریں چھوڑیں۔ سیاسی و انتظامی شعبہ جات اور بالخصوص اہل کشمیر کی آزادی کی مہم میں آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔ آپ کے دینی و دنیاوی کارناموں کو زندہ رکھنے کے لئے آپ کے حالات زندگی کو یکجا کرکے کتابی شکل دی گئی ہے تا قارئین ایسے بزرگ وجودوں کے حالات معلوم کرکے اپنے معیاروں کو خدمت دین کے لئے بلند سے بلندتر کرسکیں کیونکہ یہی حقیقی زندگی ہے۔
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 216 نام کتاب: حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب طبع: پہلا ایڈیشن تعداد.....ایک ہزار
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب وو اب نورالدین کی شاگردی اختیار کریں“ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں: وو ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے مجھ سے فرمایا: جتنی انگریزی ھمیں ضرورت هے اُتنی آپ نے پڑ ھ لی ھے.اب نورالدین کی شاگردی اختیار کریں.جس راستے پر نور الدین چلائے گا.اس میں آپ کیلئے کامیابی ہے“.(خود نوشت سوانح حیات صفحه ۲ )
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے اُذْكُرُوا مَوْتَكُمْ بِالْخَيْرِ یعنی حیات ابدی کا جام پینے والوں کا ذکر خیر کر کے ان کے اخلاق کو زندہ رکھا کرو.اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو بزرگان کے سوانح اور حالات زندگی جمع کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اس امر کی طرف بھی متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ سمندر کی تہہ میں بغیر مقصد کے اپنی لاشیں بچھانے والے گھونگوں کی پہلی نسل اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ اس کی آئندہ نسلیں ضرور فتح یاب ہونگی اور وہ نسل سب سے بڑی فتح پانے والی ہے جو سب سے پہلے ترقی کے سلیقے سکھاتی ہے.پس اپنے ان بزرگوں کے احسانات کو نہ بھولیں جو خدا کی راہ میں اپنی جانیں بچھاتے رہے جن پر احمدیت کی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوئیں اور یہ عظیم الشان جزیرے اُبھرے.وہ لوگ ہماری دعاؤں کے خاص حق دار ہیں.اگر آپ اپنے پرانے بزرگوں کو ان عظمتوں کے وقت یادرکھیں گے جو آپ کو خدا کے فضل عطا کرتے ہیں تو آپ کو حقیقی انکساری کا عرفان نصیب ہوگا.تب آپ جان لیں گے کہ آپ اپنی ذات میں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے.میں نے افریقہ کے دورے میں ایک یہ ہدایت دی تھی کہ اپنے بزرگوں کی نیکیوں اور احسانات کو یادرکھ کے ان کیلئے دعائیں کرنا.یہ ایک ایسا اچھا خلق ہے کہ اس خلق کو ہمیں اجتماعی طور پر نہیں بلکہ ہر گھر میں رائج کرنا چاہئے ان کے حالات کو زندہ رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکو گے.اس سلسلہ میں میں نے ایک ملک غالباً کینیا میں ایک کمیٹی مقرر کی تھی.چنانچہ اس کمیٹی نے بڑا اچھا کام کیا اور
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ایک عرصہ تک ان کا میرے ساتھ رابطہ رہا اور بعض ایسے بزرگوں کے حالات اکٹھے کئے گئے جو نظروں سے اوجھل ہو چکے تھے.اس لئے ہر خاندان کو اپنے بزرگوں کی تاریخ اکٹھا کرنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.ان کی بڑائی کیلئے شائع کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے آپ کو بڑائی عطا کرنے کیلئے ، ان کی مثالوں کو زندہ کرنے کیلئے ان کے واقعات کو محفوظ کریں اور پھر اپنی نسلوں کو بتایا کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تمہارے آباؤ اجداد تھے اور کس طرح وہ لوگ دین کی خدمت کیا کرتے تھے.بعض ایسے بھی ہونگے جن کو یہ استطاعت ہوگی کہ وہ ان واقعات کو کتابی صورت میں چھپوا دیں...میں امید رکھتا ہوں کہ اگر اس نسل میں ایسے ذکر زندہ ہوں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کے ذکر کو بھی بلند کرے گا اور آپ یا درکھیں گے کہ اگلی نسلیں اسی طرح پیار اور محبت سے اپنے سر آپ کے احسان کے سامنے جھکاتے ہوئے آپ کا مقدس ذکر کیا کریں گی اور آپ کی نیکیوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی“.(روز نامہ الفضل ربوہ ۱۷.مارچ ۱۹۸۹ء) اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہزاروں جانثار اور دین سے محبت رکھنے والے وجود عطا فرمائے.ان جانثاروں میں حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کا نام ایک خاص امتیاز رکھتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت شاہ صاحب کی عاجزانہ دعاؤں کے ثمرات نسلاً بعد نسل ان کا سرمایہ حیات ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو شریف، پارسا اور صالح اولاد سے نوازا.آپ کی اولاد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے علوم و معارف حاصل کرنے کی سعادت پائی.زیر نظر کتاب میں حضرت شاہ صاحب کے فرزند حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے حالات زندگی پیش کئے جارہے ہیں.آپ حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ (اُمّم طاہر ) کے بھائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ماموں تھے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب iv حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی زندگی کے ابتدائی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں قادیان میں گذرے جب کہ آپ حصول تعلیم کیلئے مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں تھے.آپ کے ۷۸ سالہ عرصہ حیات میں سے ۶۵ سال خدمات دین حق وسلسلہ عالیہ احمدیہ میں گذرے.بلاد عربیہ میں علمی میدانوں میں آپ نے نمایاں خدمات سرانجام دیں.تعلیم و تربیت اور دعوۃ الی اللہ کے محاذوں پر آپ نے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں.علوم قرآن و حدیث اور ادب عربی کے موضوع پر آپ نے کئی یادگار تحریریں چھوڑیں.سیاسی اور انتظامی امور نیز اہل کشمیر کے لیے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں.آپ کے کارناموں کو زندہ رکھنے کے لئے آپ کے حالات زندگی شائع کرنے کی ایک حقیرسی کوشش کی گئی ہے.تا خدام احمدیت اپنے بزرگوں کے حالات معلوم کر کے اپنے معیاروں کو خدمت دین کے لئے بلند سے بلند کر کے دکھا دیں کہ یہی دراصل حقیقی زندگی کا نام ہے.بع خدمت دین کو اک فضل الہی جا نو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب V دیباچه الحمد للہ کہ شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کو بزرگان سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سیرۃ و سوانح حیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفقائے کرام ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.زیر نظر کتاب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رفیق حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے حالات زندگی پر مشتمل ہے.جسے مکرم احمد طاہر مرزا صاحب نے تالیف کیا ہے.فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء اس کتاب کو مجموعی طور پر چھا ابواب میں ترتیب دیا گیا ہے.پہلے باب میں آپ کا سوانحی خاکہ پیش کیا گیا ہے.دوسرے باب مین آپ کی غیر مطبوعہ خود نوشت سوانح حیات شامل ہے جو آپ نے مکرم و محترم مولانا دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت کی درخواست پر جولائی ۱۹۶۱ء میں تحریر فرمائی تھی.یہ خود نوشت سوانح حیات پہلی بار شائع کی جارہی ہے.تیسرے باب میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرۃ کی بابت روایات پیش کی گئی ہیں.چوتھے باب میں آپ کے بارہ میں احباب کرام کے تاثرات پیش کئے گئے ہیں.پانچویں باب میں آپ کے علمی اور قلمی کارناموں کا اجمالی جائزہ پیش کیا گیا ہے.جب کہ چھٹے باب میں آپ کی مرتب کردہ وہ دعائیں پیش کی جارہی ہیں جو پہلی بار وصیت حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب“ کے ضمیمہ کے طور پر ۱۹۳۷ء میں شائع
vi حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ہوئی تھیں.
صفحہ نمبر ΙΔ ۲۱ ۲۳ ۲۴ ۲۷ ۲۹ ۳۱ ۳۵ ۴۲ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نمبر شمار پیش لفظ دیباچه vii فہرست مضامین فهرست مضامین باب اول سوانحی خاکہ اک نظر میں باب دوم خودنوشت سوانح حیات ابتدائی حالات خاندان وقف زندگی عناوین حضرت خلیفہ اسیح الاول کے مکتب میں صلاح الدین ایوبیہ کالج میں بطور پروفیسر سلسلہ عالیہ احمدیہ میں خدمات علامہ المغربی علمی خدمات دمشق میں خدمات ایک بوڑھا فسیس ایک ایمان افروز واقعہ
کام کے لئے ۴۳ ۴۹ ۵۱ ۵۲ کو ملا 8 ۷۲ ۷۳ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نمبر شمار ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ ۱۷ > ۱۸ کشمیر کمیٹی میں خدمات پتھر مسجد کا جلسہ کشمیریوں کیلئے جد وجہد viii عناوین حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف شیخ عبداللہ سے آخری ملاقات مظالم کی سرگذشت سرداران پونچھ کی قید و بند حضرت امام جماعت احمدیہ کی کشمیریوں کیلئے خدمات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی استجابت دعا کے نمونے قادیان میں خدمات خدام الاحمدیہ کی تربیت ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی دعوۃ الی اللہ کے اثرات ۷۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا پاک تبدیلی پیدا فرمائی مکتوبات بنام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ باب سوم ذکر حبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام گھر میں امام مہدی کے دعوی کا تذکرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان حضرت اقدس کی سیر کی کیفیت ۸۳ ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۲۶ ۲۸ ۲۹
۹۳ ۹۴ ۹۴ ۹۶ ۹۷ ۹۹ 1+1 ۱۰۲ 1+4 ۱۰۸ = ۱۱۳ ۱۱۴ ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۵ ix حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نمبر شمار بچوں سے شفقت و محبت کچی معرفت عناوین فرمودات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسداری ۱۹۰۷ ء کے جلسہ سالانہ پر آپ کا خطاب دمشق کی ایک مجلس حضرت اماں جان کی خدمت میں سونے کا ہار پیش کر دیا ۱۲۹ صحبت صالحین کے ثمرات ۳۲ ٣٣ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ E ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء باب چهارم کچھ یادیں، کچھ تاثرات آپ کے کارناموں کا تذکرہ تاثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی یاد میں دیار عرب میں کارنامے قرار داد تعزیت نذرانہ عقیدت حضرت سیدہ سیارہ حکمت صاحبه باب پنجم علمی کارنامے ۴۵ ۴۳ کے حرام کام لے لے کے ۴۷
اله ۱۳۶ 6 ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۸ ۱۵۲ ۱۵۵ ۱۵۶ ۱۵۷ ۱۶۱ ۱۶۶ ۱۶۸ ۱۷۲ ۱۷۴ ۱۷۸ ۱۷۸ ۱۸۴ ۱۸۵ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نمبر شمار ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲ ۵۳ 우우우 ۵۴ 8 X عناوین آپ کی بعض کتب کا تعارف شرح جامع مسند صحیح بخاری تعارف وصیت حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب فہرست تقاریر و مضامین باب ششم مناجات ولی اللہ ( دعائیں ) استغفار لیلۃ القدر کی دعا تو کل علی اللہ تزکیه نفس اقرار عبودیت با برکت ہجرت سلامتی اور مغفرت علم حاصل کرنے کی دعائیں دعائے صحت اہل وعیال کیلئے دعا ئیں حفاظت الہی برکات خداوندی معرفت قرآن کریم ۵۶ ۵۷ ۵۸ ۵۹ ۶۰ ۶۱ ۶۲ ۶۳ ۶۴ 3
۱۸۵ ۱۹۰ ۱۹۲ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹۴ 100 ۱۹۹ ۲۰۱ ۲۰۴ ۲۰۵ ۲۰۹ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۲ ۲۱۵ 늘은 نمبر شمار حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب xi عناوین ۶۶ طلب نعمت ۶۷ نیک تمنائیں ۶۸ نعماء الہیہ کے حصول کیلئے حصول اولا د کیلئے دعائیں آسمانی مائدہ کی دعا خاتمہ بالخیر کی دعا حصول ایمان کی دعائیں عجز وانکسار کیلئے پیغام صلح غم سے نجات کیلئے عذاب قبر سے بچنے کیلئے تائیدات سماویہ کی دعائیں فتنہ سے بچنے کی دعائیں اُمت محمدیہ کیلئے دعا ئیں احباب جماعت کیلئے دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آڑے وقت کی دعا ۶۹ 4.اے ง ۷۳ ۷۴ ۷۵ 24 22 ZA ΔΙ > > ۷۹ ۸۰
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 1 سوانحی خاکه...باب اوّل سوانحی خاکہ اک نظر میں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 2 سوانحی خاکه..حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب پیدائش : ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ ء بمقام سیہالہ چوہدراں تحصیل کہوٹہ ضلع روالپنڈی ۱۸۹۵-۹۶ء میں اپنے والد ماجد واہل خانہ کے ہمراہ رعیہ (موجودہ تحصیل وضلع نارووال ) میں آکر آباد ہو گئے.آپ نے ابتدائی تعلیم رعیہ سے، بعد ازاں مشن سکول نارووال سے پرائمری تک تعلیم حاصل کی.۱۹۰۳ء میں جب کہ آپ جماعت ششم میں تھے، حصول تعلیم کے لئے مدرسہ احمدیہ قادیان میں داخل ہوئے.۱۹۰۳ء سے مئی ۱۹۰۸ ء تک آپ قادیان میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے.(خود نوشت سوانح حیات ولی اللہ ) ۱۹۰۷ ء کے جلسہ سالانہ سے ایک روز قبل ۲۵ دسمبر ۱۹۰۷ء کو انجمن تشحیذ الاذہان کا اجلاس ہوا.اس اجلاس کی صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کی.اس اجلاس میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے ( جو کہ اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کے طالبعلم تھے ) اپنا مضمون پڑھا.( تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۵۰۳) ۱۹۰۸ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان سے میٹرک پاس کیا.۱۹۰۸ء میں FSc کیلئے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے.۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو وقف زندگی کا عہد کیا.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 3 سوانحی خاکہ..اوائل 1911 ء میں ایک تعلیمی کلاس کا اجراء ہوا جس میں خطبہ الہامیہ، دروس النحویہ، قصیدہ بانت سعاد اور بعض اور کتب پڑھائی جاتی تھیں.اس کلاس میں آپ بھی شامل ہوئے.تاریخ احمدیت جلد ۳ صفحه ۳۷۴) ۱۹۱۰ء سے ۱۹۱۲ ء تک آپ حضرت خلیفہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ کے مکتب میں قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کرتے رہے.۲۶ جولائی ۱۹۱۳ء کو بلا دعر بیہ کا پہلی بار سفر کیا.جولائی ۱۹۱۳ ء میں آپ عربی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے قاہرہ روانہ ہوئے.(الفضل قادیان ۳۰ جولائی ۱۹۱۳ء ) مدرسہ احمدیہ قادیان میں عربی علوم کی تدریس کیلئے چوٹی کے عربی اساتذہ کی ضرورت تھی.چنانچہ اس خلا کو پُر کرنے کیلئے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو مصر بھیجا گیا ۲۶ جولائی ( ۱۹۱۳ء) کو قادیان سے روانہ ہوئے.سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نور اللہ مرقدہ نے انہیں الوداع فرمایا.) تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۰۷ ، الفضل قادیان ۳۰ جولائی ۱۹۱۳ صفحہ۱ ) ۱۹۱۴ ء میں آپ کو قوم عاد اور ثمود کے علاقوں سے گذرنے کا موقع ملا جب کہ آپ سلطان صلاح الدین ایوبی کالج میں ادیانِ قدیمہ کے پروفیسر تھے.جامع صحیح مسند بخاری ترجمه وشرح جز ۱۳ صفحه ۲۲۵) اپریل ۱۹۱۴ء میں دارالعلوم بیروت میں آپ نے قرآن مجید کے عنوان پر تقریر کی.( الفضل قادیان ۱۳ مئی ۱۹۱۴ء ) ۲۷ اپریل ۱۹۱۴ء میں بیروت میں پہلا جلسہ ہوا جس میں آپ نے خطاب کیا.الفضل قادیان ۲۳ مئی ۱۹۱۴ ء صفحه ۵)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سوانحی خاکه...اگست ۱۹۱۷ ء میں جنگ عظیم اول کے دوران آپ نے مرحوم نمیر نابلسی کے ہاں ملک شام میں قیام کیا.( ترجمه و شرح جامع مسند بخاری جزءا ا صفحه ۱۱۹) O اکتوبر ۱۹۱۸ء کے آخر میں سیاسی قیدی کی حیثیت سے اوّلاً قاہرہ اور ثانیا مئی ۱۹۱۹ء میں لاہور لائے گئے.بعد ازاں حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کی کوششوں سے آپ قید سے رہا ہوئے.(خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ صاحب) ۱۹۱۸ ء میں مصر میں چند ماہ قیام کے بعد آپ قاہرہ چھوڑ کر حلب چلے گئے.آپ بیت المقدس میں اپنے تعلیمی امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہوئے.یہاں آپ صلاح الدین ایوبیہ کالج میں وائس پرنسپل مقرر ہوئے بعد ازاں سلطانیہ کالج میں پرنسپل مقرر ہوئے.( خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ صاحب) فروری ۱۹۲۰ء میں بطور کارکن تصنیف قادیان میں خدمات بجالاتے رہے.یکم مئی ۱۹۲۰ ء سے یکم اپریل ۱۹۲۱ ء تک بطور نائب ناظر خدمات بجالاتے رہے.۱۹۲۰ء میں قائمقام ناظر امور عامہ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.( خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ ) ۲۰ نومبر ۱۹۲۰ء میں آپ کا نکاح ایک ہزار روپے حق مہر پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے مکرمہ مہر النساء بیگم صاحبہ بنت حضرت امیر محمد خان صاحب کے ساتھ پڑھایا.(الحکم قادیان ۲۱ نومبر ۱۹۲۰ء صفحه ۹) یکم مئی ۱۹۲۳ء سے ۱۶/ ۱اپریل ۱۹۲۴ ء تک آپ نے ناظر دعوۃ و تبلیغ کے طور پر
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب خدمات سرانجام دیں.5 سوانحی خاکه...۲۷ دسمبر ۱۹۲۳ء کو آپ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر بیت نور قادیان میں تقریر کی.(الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۲۴ء) ۱۱۶ اپریل ۱۹۲۴ء سے ۱۵ جون ۱۹۲۵ ء تک آپ ناظم تعلیم و تربیت رہے.(خود نوشت سوانح حیات ولی اللہ ) ه ۱۹۲۴ء میں شام و دمشق کے مشہور عالم علامہ شیخ عبد القادر المغربی سے سید نا حضرت مصلح موعو دنور اللہ مرقدہ کے دوستی کے تعلقات تھے.۱۹۲۴ء میں جب حضور دمشق تشریف لے گئے تو علامہ المغر بی آپ سے بڑے ادب و احترام سے ملے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے بھی علامہ شیخ المغربی سے ان کے علمی ، ادبی اور دینی مزاج کی مناسبت سے گہرے دوستانہ مراسم تھے.آپ کی ان سے پہلی ملاقات ۱۹۱۶ء میں ہوئی.ایک دفعہ علامہ المغربی نے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب سے کہا کہ آئیے ہم دونوں تصویر بنوائیں اور دوستی کا اقرار قرآن مجید پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا.تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۴۱۷.۴۱۸) آپ مع حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب بغرض دعوۃ الی اللہ ۲۷ جون ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷ جولائی ۱۹۲۵ء کو دمشق پہنچے.الفضل قادیان ۳۰ جون، ۱۸/اگست ۱۹۲۵ء) ۱۵ جون ۱۹۲۵ء سے اپریل ۱۹۲۶ ء تک آپ بطور (مربی) بلاد شام اور عراق میں خدمات سلسلہ بجالاتے رہے.۱۰ مئی ۱۹۲۶ ء کو آپ دمشق سے بغداد پہنچے اور امیر فیصل سے ملاقات کی.اسی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 6 سوانحی خاکه...ملاقات کے بعد جماعت احمدیہ پر دعوۃ الی اللہ کی پابندیاں اٹھالی گئیں.۱۰مئی ۱۹۲۶ء کو آپ عراق سے ہوتے ہوئے قادیان وا پس تشریف لائے.الفضل قادیان ۱۳ ۱/۳۰ پریل ۱۴۰ مئی ۱۹۲۶ء) جون ۱۹۲۶ء میں جب آپ عراق سے واپس تشریف لائے تو ایک موقع پر سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا.”میرے نزدیک (سید زین العابدین ولی اللہ ) شاہ صاحب نے اس سفر ( دمشق و عراق ) میں بڑا کام کیا ہے.یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں.اس سے یہ سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے.پس شاہ صاحب نے بہت بڑی خدمت کی ہے.الفضل قادیان ۱۸ جون ۱۹۲۶ ، صفحه ۶،۵) ۱۹۲۶ء میں بطور ناظر تجارت خدمات بجالاتے رہے.۱/۲۸ اکتوبر ۱۹۲۶ء سے ۲۲ جنوری ۱۹۳۱ ء تک آپ بطور رکن نظارت تالیف و تصنیف میں بحیثیت مصنف ترجمہ و شرح بخاری خدمات بجالاتے رہے.(خود نوشت سوانح حیات ولی اللہ ) ۲۶ دسمبر ۱۹۲۶ء کو جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کا صلیب سے بچ کر مشرق کی طرف آنا “ کے موضوع پر تقریر کی.( الفضل قادیان ۳۱ دسمبر ۱۹۲۶ء) ه نوراللہ سیدنا وامامنا حضرت خلیفہ اسی الثانی نور اللہ مرقدہ کا آغاز خلافت سے یہ خیال تھا المسیحاله کہ جماعت احمدیہ کی عالمگیر ( دعوۃ الی اللہ ) کی ضروریات کیلئے مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر ایک عربی کالج تک پہنچانا ضروری ہے.اسی مقصد کی تکمیل کیلئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے ۱۹۱۹ء میں پہلا قدم یہ اٹھایا کہ حضرت
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 7 سوانحی خاکه...صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے، حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب، حضرت سید میر محمد الحق صاحب، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب، حضرت مولا نا محمد دین صاحب اور بعض دوسرے احباب پر پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد ایک سکیم تیار کی.اس سکیم کے مطابق عملی اقدام کرے.رپورٹ جلسہ سالانه صدرانجمن احمد بی قادیان ۱۹۲۰ صفحه ۵۹) چنانچہ اس سکیم کے مطابق حضور نے ۱۹۲۴ء میں صدر انجمن احمدیہ کو ہدایت فرمائی کہ وہ (الفضل قادیان ۱۴/اگست ۱۹۲۸ء) چنانچہ کئی مراحل طے ہونے کے بعد صدرانجمن نے ۱۱۵ اپریل ۱۹۲۸ء کو جامعہ احمدیہ کے م سے ایک مستقل ادارہ کے قیام کا فیصلہ کیا جس کے مطابق مدرسہ احمدیہ کی مولوی فاضل کلاس کو اس عربی کالج کی پہلی دو جماعتیں قرار دے دیا گیا.رپورٹ مجلس مشاورت قادیان ۱۹۲۹ صفحه ۲۱) ۲۳ جون ۱۹۳۲ء کو حضرت میر قاسم علی دہلوی صاحب اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب موضع گوڑے تحصیل نکو در ضلع جالندھر کے احمد یہ جلسہ پر گئے.جہاں سے ۲۷ جون کو واپس آئے.اس جلسہ کی روئیداد فاروق کے جولائی ۱۹۳۲ء میں شائع ہوئی.(فاروق قادیان ۲۷ جولائی ۱۹۳۲ ء صفحه ۲) جولائی ۱۹۳۲ ء میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کشمیر کمیٹی کے کام کیلئے حسب ہدایت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ ریاست کشمیر میں گئے.(فاروق ۱۴ جولائی ۱۹۳۲ صفحہ۱) اگست ۱۹۳۲ء میں آپ بطور نمائندہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی سری نگر میں خدمات بجا الفضل قادیان ۱۶/اگست ۱۹۳۲ ء صفحه ۹) لاتے رہے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 8 سوانحی خاکہ..0 ستمبر ۱۹۳۲ء میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے کشمیر کمیٹی کی خدمات سرانجام دیتے ہوئے کشمیر کا دورہ کیا اور نہایت تکلیف دہ اور تھکا دینے والے بارہ دن کے سفر کے بعد سری نگر پہنچے.فاروق قادیان ستمبر ۱۹۳۲ ء صفحه ۷۱) ے نومبر ۱۹۳۲ء کو آپ اور حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحب آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے شاندار خدمات سرانجام دینے کے بعد واپس قادیان تشریف لائے.اسٹیشن پر آپ کا استقبال کیا گیا.(الفضل۱۰ نومبر ۱۹۳۲ء صفحه۱ ) آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ہمراولا ہور تشریف لے گئے اور کیم دمبر ۱۹۳۲ ء کو واپس تشریف لائے.الفضل قادیان ۴ دسمبر ۱۹۳۲ ، صفحه ۱ ) دسمبر ۱۹۳۲ء میں ضلع گجرات کے احمدیوں پر جبر و تشدد کرنے اور اس پر پولیس کی افسوسناک غفلت پر آپ نے تحقیقات پیش کیں.الفضل قادیان ۸ دسمبر ۱۹۳۲ء صفحه ۲ ) ۲۴ فروری ۱۹۳۳ ء کو آپ کشمیریوں کی خدمات اور بعض ضروری امور کی انجام دہی کیلئے لاہور ، جموں اور کرنال تشریف لے گئے.الفضل قادیان ۲۸ فروری ۱۹۳۳ء صفحها ) ۱۲ مارچ ۱۹۳۳ء کو آپ بعض اہم امور کیلئے قادیان سے لا ہور تشریف لے گئے.الفضل قادیان ۲۳ مارچ ۱۹۳۳ء صفحها ) ۳۰ مارچ ۱۹۳۳ء کو لاہور سے واپس قادیان تشریف لائے.الفضل قادیان ۱۲ اپریل ۱۹۳۳ صفحه ۱ )
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 9 سوانحی خاکه..۱۷ اپریل ۱۹۳۳ء کو کشمیریوں کی خدمات کیلئے جموں و کشمیر تشریف لے گئے.۱۳ اپریل ۱۹۳۳ء کو جموں سے واپس تشریف لائے.الفضل قادیان ۱۶.اپریل ۱۹۳۳ء صفحها ) ۲۷ مئی ۱۹۳۳ء کو آپ کے زیر صدارت قادیان کے محلہ دارالرحمت کی ( بیت ) میں تربیتی جلسہ ہوا.(الفضل قادیان ۳۰ مئی ۱۹۳۳ء صفحها ) ۳۰ مئی ۱۹۳۳ء کو آپ سید نا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے ارشاد پر پونچھ ( کشمیر ) تشریف لے گئے.( الفضل قادیان یکم جون ۱۹۳۳ صفحها ) ه اگست ۱۹۳۳ء میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب پونچھ وغیرہ کے سفر سے واپس قادیان آئے.اخبار فاروق قادیان ۱/۲۱اگست ۱۹۳۳ صفحه۱) ۲۷ دسمبر ۱۹۳۴ ء کو آپ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر اسمہ احمد“ کے عنوان پر تقریر کی.(الفضل یکم جنوری ۱۹۳۵ء) ۲۶ دسمبر ۱۹۳۵ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول ہے ، کے عنوان پر تقریر کی.(الفضل قادیان ۲۹ دسمبر ۱۹۳۵ء) کشمیریوں کیلئے خدمات ان خدمات کا آغاز حضرت خلیفہ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کی راہنمائی اور ہدایات کے مطابق آپ نے جون ۱۹۳۱ء سے شروع کیا جو ۱۹۳۶ ء کے آخر تک
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جاری رہیں.10 سوانحی خاکه..۱۴ فروری ۱۹۳۷ ء سے ۱۴ ستمبر ۱۹۴۷ء تک آپ ناظر امور عامه و خارجه قادیان خدمات بجالاتے رہے.۱۴ / اپریل ۱۹۴۱ ء کو مہاراجہ دوندر سنگھ مہندر بہادر مہاراجہ آف ریاست پٹیالہ بذریعہ کار قادیان تشریف لائے اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ و خارجہ نے احمدیہ کور کے رضا کاروں کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا.مہاراجہ صاحب نے حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی ” بیت الظفر “ میں قیام کیا.(الفضل قادیان ۱۶.اپریل ۱۹۴۱ء صفحها ) مارچ ۱۹۴۶ء میں شیر کشمیر شیخ عبداللہ سے دہلی میں آخری ملاقات کی.فسادات میں اسیر راہ مولیٰ کا اعزاز اگست ستمبر ۱۹۴۷ ء کے فسادات میں متعد د احمدیوں کو قادیان اور اس کے ماحول سے گرفتار کیا گیا.ان اسیران میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بھی شامل تھے.گرفتار شدگان کو گورداسپور اور جالندھر کی جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں.تاہم سید نا حضرت مصلح موعود کے رویا کے مطابق کہ ”سید ولی اللہ شاہ آئے ہیں اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئے ہیں“ اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کی مبشر رؤیا کے مطابق جلد رہائی کے سامان پیدا ہو گئے.احباب اسیران اپریل ۱۹۴۸ء کو رہا کر دیے گئے.روزنامه الفضل لاہور ۱۷ اکتوبر ۱۹۴۷ ۱/۱۰۶اپریل ۱۹۴۸ء صفحه ۲) آپ یکم ستمبر ۱۹۴۸ء سے ۲ اکتوبر ۱۹۴۸ ء تک قائمقام ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمات
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 11 سوانحی خاکه...سرانجام دیتے رہے.احمدی وفد مؤتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں فروری ۱۹۴۹ء میں مؤتمر عالم اسلامی کا قیام کراچی میں عمل میں آیا.اس کا دوسرا اجلاس ۹ تا ۱۳ فروری ۱۹۵۰ء کو کراچی میں ہوا.سیدنا حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے ارشاد کے مطابق مرکز احمدیت سے ایک احمدی وفد نے اس میں شرکت کی.اس وفد کے امیر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تھے.جماعت احمدیہ کراچی نے اس موقع پر حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کی ۱۹۵۰ء کی کراچی کی پریس کانفرنس کو عربی و انگریزی زبانوں میں شائع کیا جو بیرونی ممالک کے مندوبین میں سے ایک معتد بہ حصہ کو دیا گیا.امیر وفد حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنے ایک مفصل بیان میں موتمر عالم اسلامی کو عالم اسلام میں وحدت اور اتحاد پیدا کرنے کی مبارک تحریک قرار دیا اور اپنے ایک مفصل بیان میں اس کی سرگرمیوں کو خراج تحسین پیش فرمایا.(روز نامہ الفضل ربوہ ۱۷ مارچ ۱۹۵۱ء صفحه ۶) بنیادی حقوق کی کمیٹی میں خدمات پاکستان میں دستور سازی کی جو مہم قیام پاکستان کے وقت سے جاری تھی اس نے ۶/اکتوبر ۱۹۵۰ء کو ایک معین صورت اختیار کر لی.یعنی ملک کی دستور ساز اسمبلی نے بنیادی حقوق کی کمیٹی کی عبوری رپورٹ منظور کر لی.اس رپورٹ کے سارے پہلوؤں پر غور وفکر کیلئے حضرت مصلح موعود کے ارشاد کے مطابق ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں گیارہ علمائے کرام سلسلہ شامل تھے.سب سے اول نام حضرت سید
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 12 سوانحی خاکه...زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب پروفیسر تاریخ الادیان کلیۃ صلاح الدین ایوبی بیت المقدس شامل تھا.اسیر راه مولی ( تاریخ احمدیت جلد ۹ صفحه ۲۹۹) اپریل ۱۹۵۳ء کے فسادات میں جماعت احمدیہ کے خلاف کئی فتنوں نے جنم لیا اور کئی احباب جماعت بلا وجہ قید کئے گئے.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب جو اس وقت ناظر دعوۃ و تبلیغ تھے آپ کو گرفتار کیا گیا تاہم بعد میں ضمانت پر آپ کو رہا کر دیا گیا.ه یکم اپریل ۱۹۵۳ء کو قصر خلافت ربوہ کی تلاشی کے دوران آپ کو گرفتار کیا گیا.اس بات کا چرچا قومی اخبارات میں بھی آیا.چنانچہ نوائے وقت لاہور نے یہ خبر شائع کی.(نوائے وقت لا ہور۴/اپریل ۱۹۵۳ء صفحہ۱) ۲۳ فروری ۱۹۵۳ء کوئی آئی ہائی سکول ربوہ میں جماعت دہم کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا انعقاد ہوا جس کی صدارت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے کی.(روز نامہ الفضل لا ہور ۲۷ فروری ۱۹۵۳ ء صفحه ۶) ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ ۱۹۵۲ء سے یکم دسمبر ۱۹۵۳ء، آپ ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.یکم جون ۱۹۵۴ ء کو صدرانجمن احمد یہ کی ملازمت سے ریٹائر ہو گئے.خودنوشت سوانح حیات ولی اللہ شاہ صاحب)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 13 بطور مربی بلا د عرب میں دوبارہ تقرر سوانحی خاکه...حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب دسمبر ۱۹۵۵ء کو دعوۃ دینِ حق کیلئے روانہ ہوئے.آپ کے اعزاز میں ۴ دسمبر ۱۹۵۵ء کو جامعتہ المبشرین کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے ایک تقریب منعقد کی گئی جس میں حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے آپ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش فرمایا:.اس مرتبہ بھی جب میں دمشق گیا تو میں نے دیکھا کہ اب بھی وہاں لوگوں کے دلوں میں شاہ صاحب کا بہت احترام ہے.وہ ان کی بہت تعریف کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے پیشِ نظر يَدْعُونَ لَكَ ابدالُ الشام وَعِبَادُ اللهِ مِنَ العَرَب (مکتوبات احمد یہ جلدا مرتبہ حضرت عرفانی الکبیر صفحہ ۸۶) وہاں جماعت اور زیادہ ترقی کرے.اس لئے میں نے شاہ صاحب کو ایک مرتبہ پھر وہاں بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے.گواب شاہ صاحب کی عمر بڑی ہے لیکن میں نے سوچا کہ انسانوں کا کام تو چلتا ہی رہتا ہے.خدا اور اس کے دین کا کام بہر حال مقدم رہنا چاہئے.چنانچہ میرے کہنے پر اس جذبہ کے ماتحت شاہ صاحب تیار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس الہام میں اہلِ شام کا ایک بہت بڑا مقصد بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی دعاؤں کے ساتھ احمدیت کو ترقی دینی ہے“.روزنامه الفضل ربوه ۶ دسمبر ۱۹۵۵ صفحه ، ۸) ۲۲ نومبر ۱۹۵۶ء کو جامعتہ المبشرين ربوہ کے اساتذہ اور طلباء کی طرف سے حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولوی عبد القدیر شاہد صاحب (مربی) افریقہ کے اعزاز میں ایک تقریب دریائے چناب کے کنارے منعقد کی گئی.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے بھی اس تقریب میں شمولیت فرمائی.اس موقع
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 14 سوانحی خاکه..پر آپ نے مجاہدین احمدیت کو خراج تحسین پیش کیا.( تاریخ احمدیت جلد ۱۹ صفحه ۲۵۰) ۱۹۵۶ء میں خلافت احمدیہ کی تائید میں آپ نے کئی تحقیقی مضامین لکھے.جولائی ۱۹۵۶ء کو آپ دمشق کیلئے سہ بارہ روانہ ہوئے اور دو ماہ بعد واپس تشریف لائے.الفضل ربوہ ۱۲ جولائی ۱۹۵۶ء صفحه ۱ ) مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے نام ہمدردی کا پیغام ه یکم نومبر ۱۹۵۶ء کو برطانیہ اور فرانس نے مصر پر متحدہ بحری اور فضائی حملہ کر دیا اور قاہرہ، اسماعیلہ، پورٹ سعید اور دوسرے بڑے بڑے شہروں میں بمباری کی.اس نازک موقع پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے مصر کے صدر جمال عبد الناصر کے نام ہمدردی کا پیغام بھجوایا.یہ پیغام ۳ نومبر ۱۹۵۶ء کو ارسال کیا گیا جس کا جواب ۱۹ نومبر ۱۹۵۶ء کو موصول ہوا.اس کے جواب میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ۲۶ نومبر کو دوبارہ خط ارسال کیا.جس کا جواب ۱۷ دسمبر ۱۹۵۶ء کو موصول ہوا.الفضل ربوه ۲۴ نومبر ۱۲٬۶۱۹۵۶ جنوری ۱۹۵۷ء صفحه ۳) اپریل ۱۹۶۱ء کو آپ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات مکمل کی.۱۱۰ اکتوبر ۱۹۶۲ء کو آپ بیماری کے بعد صحت یاب ہوئے.اظہار محبت (روز نامہ الفضل ۱۱.اکتوبر ۱۹۶۲ء) ۱۴ اکتوبر ۱۹۶۳ ء کو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی یاد آوری پر حضرت سید ولی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 15 سوانحی خاکہ..اللہ شاہ صاحب نے حضور سے ملاقات کا شرف حاصل کیا.دوران گفتگو حضرت مصلح موعود دنور اللہ مرقدہ نے شرح صحیح بخاری کے متعلق بہت سی قیمتی ہدایات دیں.اس موقعہ پر محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب برادر اصغر حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت سیدہ مہر آپا حرم حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ بھی موجود تھے حضور نے حضرت شاہ صاحب سے ملاقات فرما کر محبت میں خوشی کا اظہار فرمایا.روزنامه الفضل ربوہ ۷/اکتوبر ۱۹۶۳ء) ۱۵ اور ۶ امئی ۱۹۶۷ء کی درمیانی شب بمقام ربوہ بعمر ۷۸ سال آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷مئی ۱۹۶۷ء صفحه۱ ) 4 مئی ۱۹۶۷ء کو بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.(روز نامه الفضل ربوه ۱۸ مئی ۱۹۶۷ ء صفحه ۱) اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ دنیا بھی اک سرا ھے بچھڑے گا جو ملا ھے گر سو برس رها هے آخر کو پھر جدا ہے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 16 خود نوشت حالات زندگی باب دوم خودنوشت سوانح حیات
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 17 خود نوشت حالات زندگی سم الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود ابتدائی حالات خاندان حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اپنی خود نوشت سوانح حیات میں تحریر فرماتے ہیں:.” میرے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور خاندانِ سادات کے فرد تھے.اُن کے والد سید باغ حسن شاہ صاحب صوفی منش ( اور ) تارک الدنیا بزرگ تھے.پیری مریدی سے نفرت، اپنے اقرباء کو دنیا داری میں منہمک دیکھ کر کلر سیداں سے موضع سیہالہ چوہدراں میں جو آج کل اسٹیشن ہے چلے آئے تھے.اس کے قریب ہی ایک گاؤں ناڑا سیداں میں ان کے مالکانہ حقوق تھے.طبابت بھی کرتے تھے.اس لئے صورتِ معاش خاطر خواہ تھی.سلطنت مغلیہ کے ایام میں کلر سیداں ایک مشہور قلعہ تھا جس کے تحت سترہ چھوٹے بڑے قلعہ جات مضافات میں تھے.ایک وسیع علاقہ تھا جس کا انتظام سادات کے سپر دتھا.پانی پت کی تیسری لڑائی میں سادات کلر کی فوج اور کہوٹہ کے لگھڑوں کی فوج نے مرہٹوں کی فوج کے دانت کھٹے کئے تھے.لے سکھوں کی عمل داری میں رنجیت سنگھ نے سادات کلر کے ساتھ عہد موالات قائم کیا ہوا تھا اور چیلیانوالی ( کی) مشہور لڑائی میں انگریزی کے خلاف سکھوں کی مدد کی گئی تھی جس میں سکھوں اور اُن کے مددگاروں کو شکست فاش ہوئی.انگریزوں نے کلر سیداں) کا قلعہ تو دہ خاک بنادیا اور تمام مملوکہ دیہات سادات سے محروم کر دیئے گئے.بجز قصبہ کلر اور چند مواضع کی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 18 خود نوشت حالات زندگی اراضی کے جس میں موضع ناڑہ سیداں بھی شامل تھا جہاں مرحوم سید باغ حسن شاہ کے مالکانہ حقوق قائم رہے.پیدائش وابتدائی حالات میری پیدائش موضع سیہالہ چو ہدراں میں ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں ہوئی اور پرورش رعیہ ضلع سیالکوٹ میں جو پہلے تحصیل تھی (اب رعیہ کی تحصیل وضلع نارووال ہے.مرتب ) اور جہاں حضرت والد صاحب ( ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) شفاخانہ کے تقریباً ستائیس اٹھائیس سال انچارج ڈاکٹر رہے اور ۱۹۲۱ء میں آپ نے پنشن حاصل کرنے پر قادیان کی خدمت اختیار کی اور شفاخانہ نور قادیان میں انچارج ڈاکٹر رہے.میری تعلیم قادیان میں قادیان میں آپ نے مجھے اور بھائی سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے کو ۱۹۰۳ء میں تعلیم حاصل کرنے کیلئے روانہ کیا.اس وقت (ہم ) نارووال کے مشن سکول میں تعلیم حاصل کر رہے تھے.میرے بھائی (سید حبیب اللہ شاہ صاحب ) سپیشل کلاس میں اور میں جماعت ششم میں تھا.قادیان میں ہمیں ۱۹۰۳ء سے ۱۹۰۸ ء تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضانِ صحبت سے استفادہ کا موقع ملا.اس اثناء میں مجھے یہ اجازت بھی ہیڈ ماسٹر صاحب کی طرف سے تھی کہ میں حضرت مسیح موعود دعلیہ السلام کے ساتھ نمازیں پڑھوں.بورڈ رز.کے طلباء کے ) ساتھ ( بیت ) اقصیٰ میں جانے سے میں مستقٹی کیا گیا.گورنمنٹ کالج لاہور میں گورنمنٹ کالج میں ۱۹۰۸ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد داخل ہوا.والد صاحب کا خیال تھا کہ میں ڈاکٹری پاس کروں اس لئے FSC ( میں ) میڈیکل کا کورس لیا.اُن دنوں میڈیکل کالج کا ایک سال کا کورس FSc کے ساتھ شامل کیا گیا تھا اور میڈیکل کالج کی ڈگری
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 19 کی تعلیم بجائے پانچ سال (کے ) چار سال کر دی گئی تھی.اب نور الدین کی شاگردی اختیار کریں خود نوشت حالات زندگی ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) نے مجھ سے فرمایا:.جتنی انگریزی کی ہمیں ضرورت ہے اتنی آپ نے پڑھ لی ہے.اب نورالدین کی شاگردی اختیار کریں.جس راستے پر نور الدین چلائے گا اُس میں " آپ کیلئے کامیابی ہے.کم و بیش یہی آپ کے الفاظ تھے جو محبت سے بھرے لہجہ میں آپ کی زبان مبارک سے نکلے اور میرے دل میں گڑ گئے.قرآن مجید کا درس تو حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ) سے بار بار سنے کا موقع ملا.اس درس میں بھی حضور کی شفقت ہم طالب علموں پر خاص تھی.آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کو اور مجھے عربی ،صرف ونحو، ایک عربی کتاب اصول شاشی اور حضرت مولوی محمداسماعیل صاحب کو منطق پڑھانے کے لئے مقرر فرمایا.خود ( حضرت خلیفتہ مسیح الاول اللہ آپ سے راضی ہو ) موطا امام مالک پڑھانے کے بعد صحیح بخاری بھی درسا در سا پڑھائی.اس طرح فوز الکبیر ( از حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی.مرتب) بھی.طالب علمی کے زمانہ ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اکثر کتب پڑھنے کا مجھے موقع ملا.سلسلہ کی کتابیں پڑھنے کا مجھے بہت شوق تھا.وقف زندگی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدرسہ احمدیہ سے قائم کرنے کا ارادہ فرمایا تو اس سے کچھ دیر قبل ٹی.آئی ہائی سکول کے طلباء کو وقف زندگی کی تحریک فرمائی.میں نے وقف کی نیت کر کے اسی وقت سے دعائیں شروع کر دیں.اس وقف کے متعلق اقرار مجھ سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس وقت لیا جب آپ ہمیں اور میرے بھائی حضرت
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 20 20 خود نوشت حالات زندگی مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی زیارت کر کے اس کمرے سے باہر نکلے جہاں حضور کی لعش تدفین سے پہلے رکھی گئی تھی.میں بھی لاہور سے جنازے کے ساتھ ہی آیا تھا اور بھائی مرحوم ( حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب) قادیان کے اُن دوستوں میں سے تھے جو قادیان سے بٹالہ گئے اور حضور کی نعش مبارک اپنے کندھوں پر اٹھا کر لائے.جونہی حضور کی آخری زیارت کر کے ہم کمرہ سے باہر نکلے اور سامنے لوکاٹ کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے فرمایا کہ:.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخاطب کر کے یہ عہد کیا ہے کہ اگر ساری جماعت تجھے چھوڑ دے تو میں تیرے کام کی تکمیل کیلئے اپنی جان قربان کرنے ) سے دریغ نہ کرونگا“.اس مفہوم کے الفاظ تھے آپ نے متعدد بار ( کہہ کر ) اپنے اس عہد کا ذکر کیا.(آپ نے ) اس وقت مجھ سے فرمایا کہ میں بھی یہ عہد کروں.میں نے عرض کیا میں نے ( یہ عہد کر لیا ہے اور بھائی مرحوم سے بھی یہی فرمایا.غرض پہلے وقف کیلئے نیت اور دعا ئیں تھیں اور اب اس آخری الوداعی زیارت کے وقت پر اقرار وقف ! مجھے ہمیشہ ڈر رہتا کہ اس اقرار پر پورا آسکوں گا یا نہیں.ایک رؤیا انہی دنوں (میں نے ) ایک خواب دیکھا کہ قادیان کی وہ گلی جو کبھی گھماروں والی گلی کہلاتی (تھی) اس میں بیت فضل والے چوراہے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرسی پر تشریف فرما ہیں اور دائیں بائیں دو کرسیاں ہیں.دائیں کرسی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میں یہاں بیٹھ جاؤں (اور شیخ عبدالرحمن مصری صاحب سے بائیں کرسی پر بیٹھنے کیلئے اشارہ تھا.وہ بھدے طور سے جھٹ بیٹھ گئے ہیں جس سے مجھے کراہت محسوس ہوئی کہ حضور کی موجودگی میں اس پر بیٹھنا گستاخی ہے.) کرسی کا بازو میں نے پکڑ لیا اور آنکھیں میری شرم سے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 21 خود نوشت حالات زندگی نیچے ہیں اور میں عرض کرتا ہوں کہ حضور میں بیٹھ جاؤں گا.اس سے میں نے یہ تعبیر بھی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے خدمت دین لے گا اور اس طالب علمی کے زمانہ میں اس قسم کی بشارتیں ملیں.بلا دعر بیہ کی بابت رؤیا ان میں سے ایک خواب سی تھی کہ میں بلاد عر بیہ میں (دعوت الی اللہ ) کے لئے گیا ہوں اور مجھے وہاں کامیابی ہوئی ہے.وہ خواب عجیب و غریب ہے جس کا ذکر کرنے کا موقع نہیں.البتہ ایک خواب کا ذکر کرتا ہوں.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ میں ایک مکان تیار ہو رہا ہے.دیواریں اٹھائی جا رہی ہیں مشرقی دیوار پر حضرت مولوی سرور شاہ صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) اینٹیں چن رہے ہیں.اور مجھے بڑی خواہش ہے کہ میں بھی اس تعمیر میں شریک ہوں.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے میری طرف نظر کی اور فرمایا آپ کو بھی اس کی تعمیر میں شریک ہونے کا موقع دیا جائے گا.سہرورشاہ صاحب سے مراد امامِ وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے.جن دنوں حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے متعلق بعض اخبارات نے شائع کیا تھا کہ حضور فوت ہو گئے ہیں تو میں نے قبل از افواہ اُسی رات خواب میں دیکھا کہ چر چاہے کہ مولوی سرور شاہ صاحب فوت ہو گئے.صبح جب میں شہر میں آیا اور مکان نواب محمد علی خان صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) باہر والے دروازے کے سامنے کھڑا تھا تو امرتسر کے کسی اخبار میں یہ خبر شائع ہو کر قادیان میں یہ چرچا ہوا کہ حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ کی وفات کے بارے میں جھوٹی افواہیں پھیلائی گئی ہیں.خواب کی تعبیر مولوی سرور شاہ امام وقت سے تھی جو پوری ہوئی.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب نوراللہ مرقدہ کے مکتب میں حضرت خلیفتہ امسیح الاول ( نور اللہ مرقدہ) سے میں نے دو تین سال پڑھا.اس دوران میں حضور کی عیادت کا بھی مجھے موقع ملا.جب حضور گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے ہیں انہی دنوں کی بات ہے.شیخ تیمور احمد صاحب (جو) حضرت خلیفہ اول ( نور اللہ مرقدہ) کے شاگرد
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 22 خود نوشت حالات زندگی تھے ( سے آپ نے ) فرمایا کہ ولی اللہ شاہ کو وقف کی تحریک کی جائے اور ان سے میرے متعلق اچھی امید کا اظہار فرمایا.چنانچہ شیخ ( تیمور احمد ) صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ میں مخلص ہوکر دینی تعلیم حاصل کروں اور کالج کی تعلیم کا خیال چھوڑ دوں اور جب (حضرت ) خلیفہ اول (نوراللہ مرقدہ) نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی، حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیخ تیمور کو مفتاح العلوم کا سبق پڑھانے کا ارادہ فرمایا تو آپ نے مجھ سے بھی فرمایا کہ میں بھی شریک ہو جاؤں.مجھے عربی کا بہت معمولی علم تھا بلکہ نہ ہونے کے برابر.میں حیران ہوا بلکہ میرے ساتھی بھی حیران ہوئے لیکن حکم کی تعمیل میں دو تین سبقوں میں شریک ہوا.مجھے اپنی کمزوری کا نہایت درجہ احساس ہوا.حضرت حافظ صاحب سے سبق پڑھنے کیلئے جدوجہد کی.میرے دوست مرزا برکت علی صاحب بھی میرے ساتھ وہی سبق پڑھتے تھے جو میں پڑھتا تھا.( بیت ) مبارک میں ہمیں حافظ صاحب پڑھا رہے تھے ایک دن مجھ سے کہنے لگے.تہانوں نہیں عربی اونی میں نے ہنستے ہوئے کہا میرا بھی یہی خیال ہے.کون زیر زبر پیش کے ساتھ ساتھ ہر دفعہ آنکھیں اُونچی نیچی کرے.اگر یہ زیرز بر پیش نہ ہو تو پڑھنا ناممکن ہے.اسی ادھیٹر پن میں تھا کہ پڑھائی جاری رکھوں یا نہ رکھوں.ایک جمعہ کے دن ( بیت ) مبارک کے اُس حجرہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سرخی والا نشان دکھایا گیا تھا بیٹھا پڑھ رہا تھا.(اسی کمرہ میں میری رہائش تھی ) حضرت خلیفہ اسیح الثانی میرے پاس تشریف لائے اور ادھر ادھر کی باتیں رہاتی شروع کر دیں.دورانِ گفتگو میں مجھ سے فرمایا.کیا خیال ہے اگر آپ کو مصر بھیج دیا جائے تو آپ وہاں عربی پڑھیں.مدرسہ احمدیہ کے لئے بھی ہمیں ضرورت ہے.میں یہ بات مذاق سمجھا لیکن بار بار فرمایا.مذاق نہیں یہ اقرار کریں تو ابھی انتظام کیا جا سکتا ہے.آپ اُٹھے نہیں جب تک کہ مجھ سے پختہ اقرار نہیں لے لیا اور چند دنوں میں میری اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کے سفر کی تیاری ہوگئی اور حضرت خلیفہ اسیح
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 23 خود نوشت حالات زندگی الاول (نو راللہ مرقدہ) نے دعا کے ساتھ ہمیں الوداع کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) نے خوش خوش باہر شہر سے جا کر ہمیں یکے پر بٹھا کر رخصت کیا.یہ واقعہ ۱۹۱۳ء کا ہے.قاہرہ اور بیروت میں تعلیم قاہرہ میں قدیم طریقہ تعلیم سے میرا دل اچاٹ ہو گیا.ابھی چار ماہ گذرے تھے کہ اس تصرف سے بیروت دیکھنے کا مجھے موقع ملا اور میں نے شیخ (عبدالرحمن مصری صاحب ) کو قاہرہ چھوڑ (کر ) بیروت میں پڑھائی شروع کر دی.اتنے میں جنگِ عظیم اول شروع ہوگئی اور بیروت خطرہ میں تھا.میرے اساتذہ نے مجھے مشورہ دیا کہ میں حلب چلا جاؤں.چنانچہ میں حلب آیا اور یہاں اعلیٰ پایہ کے اساتذہ سے تعلیم حاصل کی.اسی اثنا میں مجھے سات ماہ ایک ترکی رسالہ میں بھی خدمت کا موقع ملا اور میری اس خدمت کے صلہ میں سفارش کی گئی کہ ترکی کے امتحان کی شرط سے مجھے مستثنیٰ کیا جائے.چنانچہ بیت المقدس میں میں نے امتحان دیا اور اچھے نمبروں پر پاس ہوا.صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس اور صلاح الدین ایوبیہ کالج بیت المقدس میں بطور استاد متعین ہو گیا اور یہاں عربی میں پڑھانے اور تعلیم جاری رکھنے کا سنہری موقع ملا.فنِ تعلیم و تدریس میں مقابلہ کے ایک امتحان کا اعلان ہوا جس میں کئی اساتذہ شریک ہوئے.(میں ) اس امتحان میں اول رہا اور مجھے...کا تمغ.....اور پچاس اشرفیاں انعام ملیں اور شام کی یونیورسٹی سے جوسند بہ دستخط وزیر تعلیم اور کونسل جاری کی گئی وہ بھی تعلیمی لحاظ سے میرے لئے بہت خوش کن تھی.اس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ایک قلیل عرصہ میں علوم آداب عربیہ کی ایسی قابلیت حاصل کر لینا ایک نادر بات ہے.(الحمد لله علی ذالک)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 24 خود نوشت حالات زندگی یہ میری تعلیمی جدوجہد کی مختصر سرگذشت ہے.(مشارالیہ سند مع قیمتی لائبریری ۱۹۴۷ء (میں) بوقت تقسیم لوٹ میں ضائع ہو گئی) صلاح الدین ایوبیہ کالج میں مجھے تاریخ ادیان انگریزی اور اُردو پڑھانے کا موقع ملا اور شام میں انگریزوں اور امیر فیصل کی افواج کے داخل ہونے کے بعد مجھے سلطانیہ کالج کا وائس پرنسپل منتخب کیا گیا اور یہاں علم النفس (Psychology) اور علم الاخلاق (Ethics) کے مضامین دیئے گئے.اسیری اور رہائی اکتوبر ۱۹۱۸ ء کے آخر میں جنرل ایلیٹ کے حکم سے جوڈیشل ملٹری نے مجھے حراست میں لیا اور بطور اسیر جنگی اور اسیر سیاسی قاہرہ لے گئے اور جنگ ختم ہونے کے بعد مئی 1919ء کے اواخر میں لاہور لایا گیا.بظاہر میں حکومت برطانیہ کا شاہی قیدی تھا لیکن حقیقت میں آسمانی اسیر تھا جس سے سلسلہ کے لئے کئی ایک خدمات لینا منشائے الہی تھا.یہاں حضرت خلیفہ مسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجھے آزاد کروایا.ان دنوں پنجاب کے گورنر ریڈ وائر (Redwire) تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور ( حضرت شیخ یعقوب علی) عرفانی صاحب وغیرہ ان کے پاس لاہور بھیجے گئے.اس تحریری ہدایت کے ساتھ کہ اگر پچاس ہزار روپیہ کی ضمانت بھی دینی پڑے دی جائے.غرض مجھے قادیان جانے کی اجازت دی گئی.اس پابندی کے ساتھ کہ اگر باہر کسی جگہ جانا ہو تو گورنمنٹ کو اطلاع دینا ضروری ہوگا اور یہ نگرانی دیر تک رہی.سلسلہ عالیہ احمدیہ میں خدمات قادیان میں سب سے پہلے جو خدمت میرے سپرد ہوئی وہ نظارت امور عامہ کی خدمت تھی.ان دنوں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ناظر امور عامہ تھے اور نظارتیں قائم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا.آپ نے تین ماہ کی رخصت لی اور حضرت خلیفتہ امسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) نے بطور تجربہ ان کی غیر حاضری میں مجھے قائم مقام مقرر فر مایا اور با قاعدہ خدمت
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 25 25 خود نوشت حالات زندگی ۱۹۲۰ء فروری میں بطور کارکن تصنیف کے مقرر ہوئی.حضور (خلیفہ مسیح الثانی نوراللہ مرقدہ) کا ایک رسالہ "ترکی کا مستقبل“ شائع ہوا جو بہت پسند کیا گیا اور میں نے اس کا عربی ترجمہ کیا.اسی طرح سیٹھ عبداللہ الہ دین کی فرمائش پر ان کے اُردو رسالہ بعنوان ” مسیح الموعود کا ترجمہ بھی شائع کیا لیکن ادارہ تصنیف میں تھوڑی دیر ہی کام کیا تھا کہ مجھے دوسری خدمت سپرد ہوئی.ان دنوں اس ( تالیف و تصنیف) کا نام ادارہ ترقی دین حق ) تھا.با قاعدہ نظارت بعد میں قائم ہوئی.مندرجہ ذیل کوائف سے میری خدمات کی مجمل صورت ظاہر ہے.نائب ناظر یکم مئی ۱۹۲۰ ء تا یکم اپریل ۱۹۲۱ء ناظر دعوة و تبلیغ یکم مئی ۱۹۲۳ء تا ۱۱۱۶اپریل ۱۹۲۴ء ناظر تعلیم و تربیت ۱۱۶ اپریل ۱۹۲۴ء تا ۱۵ جون ۱۹۲۵ء نام بطور (مربی) بلا دشام اور عراق عرب ۱۵ جون ۱۹۲۵ء تا آخرا پریل ۱۹۲۶ء ناظر تجارت یکم مئی ۱۹۲۶ء بطور رکن نظارت تالیف و تصنیف.بحیثیت مصنف ترجمه و شرح بخاری از ۱/۲۸ کتوبر ۱۹۲۶ء تا ۲۲ جنوری ۱۹۳۱ء ( اس عرصہ میں معتد بہ حصہ عملاً بطور قائم مقام ناظر امور عامه وغیرہ کام کرنا پڑا اور تصنیف کا کام ایک دو سال ہے) ، ناظر دعوۃ الی اللہ ) جنوری ۱۹۳۱ ء تا ۱/۱۰اکتوبر ۱۹۳۶ء ناظر تعلیم و تربیت از ۲۳ نومبر ۱۹۳۶ ء تا ۱۴ فروری ۱۹۴۷ء قائمقام ناظر اعلی.یکم ستمبر ۱۹۴۸ء تا ۲/اکتوبر ۱۹۴۸ء ناظر امور عامه و خارجه ۱۴ / فروری ۱۹۳۷ء تا ۴ استمبر ۱۹۴۷ء.نظر بندی حکومت ہند ناظر امور خارجه جون ۱۹۴۸ء تا یکم دسمبر ۱۹۵۳ء ایڈیشنل ناظر اعلی - ۲۳ جنوری ۱۹۵۳ء تا یکم دسمبر ۱۹۵۳ء، یکم جون ۱۹۵۴ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب پنشن یکم جون ۱۹۵۴ء ۱۴ دوبارہ ملازمت بحیثیت ناظر امور خارجه اله 26 26 خود نوشت حالات زندگی نظارت تصنیف، امور عامہ و خارجہ میں خدمات نظارت تصنیف میں بحیثیت کارکن تصنیف صحیح بخاری کا ترجمہ اور شرح بارشاد حضرت خلیفہ المسیح میرے سپرد ہوئی مگر جلد ہی میں نظارت ( دعوۃ الی اللہ ) میں منتقل کیا گیا اس ارشاد کے ساتھ کہ مجھے تصنیف کا کام بھی دفتری اوقات کے علاوہ جاری رکھنا ہوگا اور پانچ سال کے بعد جب نظارت امور عامہ اور امور خارجہ میرے سپرد ہوئی تو حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کا یہی ارشادد ہرایا گیا.اسی اثناء میں باوجود کثرت مشاغل اور قلت وقت ہر کام میں نے جاری رکھا اور اس وقت ترجمہ مکمل ہے.(۱۹۶۱ء کا ذکر ہو رہا ہے ) اور سولہویں پارہ کتاب المغازی کی شرح شروع ہے.وباللہ التوفیق ان میں سے دو پارے تقسیم سے قبل قادیان میں شائع ہو چکے تھے اور تیسرا پارہ زیر طبع ہے اور شائع ہونے والا ہے.(بعد ازاں یہ بھی شائع ہو گیا) بلاد عر بیہ میں بغرض تبشیر ۱۹۲۵ء میں (میں ) اور ( مولانا جلال الدین ) شمس صاحب بلاد عر بیہ کو ( دعوۃ الی اللہ کیلئے دمشق کے بھیجے گئے.اس بارہ میں حضور کا ارشاد الفضل گیارہ جولائی ۱۹۲۵ء میں شائع ہوا ہے.دمشق میں میں ”دعوت الی اللہ کے مرکز قائم کرنے کی غرض سے چھ ماہ کے قریب مقیم رہا.اس اثناء میں یہ ضرورت محسوس کر کے کہ زیر تربیت ) لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام دیکھنے کی خواہش ہے ”کشتی نوح کا ترجمہ کیا اور اس سے قبل اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ ہوکر شائع ہو چکا تھا لیکن ان ممالک میں اس کی اشاعت بہت محدود تھی اور اب دمشق میں اس کتاب کی بھی اشاعت ہوئی.علاوہ ازیں مسئلہ حیات مسیح سے متعلق ایک مبسوط کتاب بعنوان "حياة المسيح و وفاته من وجهاتها الثلاث “ شائع کی گئی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 27 خود نوشت حالات زندگی اور اس کے علاوہ ایک رسالہ بعنوان "الحقائق عن الاحمدية “ بھی شائع کیا گیا.جب حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ۱۹۲۴ ء لندن میں تشریف لے گئے ہیں تو آپ جاتے ہوئے دمشق میں بھی ٹھہرے ہیں.میرے ایک قدیم دوست شیخ عبد القادر المغر بی بھی حضور سے ملے.یہ ایک چوٹی کے ادباء میں سے تھے.حضور کی باتیں سن کر انہوں نے حضور سے عرض کیا کہ ان کا ملک دین سے خوب واقف ہے.عربی ان کی زبان ہے.یہاں آپ کی دعوۃ الی اللہ کا اثر نہیں ہوگا.بہتر ہے کہ افریقہ میں کوشش کی جائے.حضور نے اسی وقت پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ لندن سے واپسی پر اس کا جواب دمشق میں (مربی) بھیج کر دیا جائے گا.دمشق کے بارہ میں حضور کا ارشاد مبارک چنانچہ حضور نے مجھے اس سفر میں ہی اطلاع دی کہ میں تیار رہوں.ایک دن میں اور شمس صاحب ” دار الدعوۃ میں بعض دوستوں سے احمدیت کے بارے میں باتیں کر رہے تھے کہ شیخ عبد القادر المغربی مرحوم تشریف لائے اور بیٹھ کر ہماری باتیں سنیں.اثنائے گفتگو میں استخفاف سے اپنی سابقہ ملاقات کا ذکر کیا اور جو مشورہ حضور کو دیا تھا اسے دہرایا اور مذاقاً کہا کہ الہامات کی عربی عبارت بھی درست نہیں.میں نے خطبہ الہامیہ (تصنیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ان کے ہاتھ میں دیا اور کہا کہ پڑھیں کہاں عربی غلط ہے.علامہ المغربی کی عربی دانی.انہوں نے اونچی آواز سے پڑھنا شروع کیا اور ایک دو لفظوں سے متعلق کہا کہ یہ عربی لفظ ہی نہیں.(مولانا جلال الدین) شمس صاحب نے تاج العروس ( عربی لغت کی کتاب) الماری سے نکالی اور وہ لفظ نکال کر انہیں دکھائے.سامعین کو حیرت ہوئی اور میں نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے کہا.کہلاتے تو آپ ادیب ہیں لیکن آپ کو اتنی عربی بھی نہیں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 28 28 خود نوشت حالات زندگی آتی جتنی میرے شاگرد کو (شمس صاحب ان دنوں مجھ سے انگریزی پڑھتے تھے ) اس پر انہیں بڑا غصہ آیا اور یہ کہتے ہوئے اٹھے اور کمرے سے باہر چلے گئے اُرِيكَ عَـــدا نــجـــوم کل میں تمہیں ظہر کے تارے دکھاؤں گا.( یہ عربی زبان کا محاورہ ہے ) میں نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ سامعین میں سے (اس وقت) کچھ متاثر ہیں اُن سے کہا.یہ میرے پرانے دوست ہیں.صلاح الدین ایوبیہ کالج میں علیم ادب پڑھایا کرتے تھے اور سامعین کو علم تھا کہ میں بھی وہاں پڑھایا کرتا تھا.میں نے کہا انہیں خطبہ الہامیہ پڑھ کر ایسی رائے کا اظہار نہ کرنا چاہئے تھا.بجائے ناواقف ہونے کے انہیں حق بات مان لینی چاہئے تھی.جب دوست چلے گئے اور شام ہوگئی تو ( حضرت مولانا جلال الدین ) شمس صاحب نے مجھ سے کہا حضرت خلیفہ اسیح (نور اللہ مرقدہ) نے الوداع کرتے وقت آپ کو یہ نصیحت کی تھی کہ شیخ عبد القادر المغربی سے نہیں بگاڑنا.وہ آپ کے دوست ہیں اور ان کا شہر میں بڑا اثر ہے.میں نے شمس صاحب سے کہا.فکر نہ کریں.وہ میرے دوست ہیں.میں انہیں ٹھیک کرلوں گا.کل صبح ہم دونوں ان کے پاس جائیں گے.دوسرے دن صبح سویرے ہم دونوں ان کے مکان پر گئے.دستک دی تو مغربی صاحب تشریف لے آئے اور آتے ہی مجھ سے بغلگیر ہوئے اور مجھے بوسہ دیا اور کہا کہ آپ سے معافی مانگتا ہوں.میں آپ کی طرف آنا ہی چاہتا تھا.اندر تشریف لے آئیں.قہوہ پئیں اور میں آپ کو دکھاؤں کہ میری رات کیسے گذری.ہم اندر گئے تو انہوں نے رسالہ ”الحقائق عن الاحمدیہ “ کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ رسالہ میرے ہاتھ میں تھا اور غصہ میں باہر آیا اور پختہ ارادہ کیا کہ اس رسالہ کا رڈ شائع کروں.میں نے حدیث اور تفاسیر کی کتب جو میرے پاس تھیں وہ میز پر رکھ لیں اور عشاء کی نماز پڑھ کر رڈ لکھنا شروع کر دیا.ادھر سے رسالہ پڑھتا اور رڈ لکھنے کے لئے کتابیں دیکھتا.ایک رڈ لکھتا اس میں تکلف معلوم ہوتا.اسے پھاڑا پھر ایک اور رڈلکھتا اور اسے بھی پھاڑا اور اسی طرح رات بہت گذر گئی.بیوی نے کہا رات بہت گزرگئی آرام کر لیں.میں نے کہا سید زین العابدین نے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 29 29 خود نوشت حالات زندگی وعده مجھے بہت ذلیل کیا ہے اور میں یہ رڈ لکھ کر سوؤں گا.چنانچہ صبح کی اذان ہوئی اور میں ردّ لکھنے کے بعد اس طرح کا غذ پھاڑتا جاتا اور چمنی کی طرف اشارہ کیا کہ وہ دیکھو ڈھیر.جب اللہ اکبر کی آواز میرے کان میں پڑی تو میرے نفس نے مجھے کہا.صداقت بہت بڑی شئے ہے اور تمہارا اس طرح بناوٹ سے رڈ کرنا درست نہیں اور میں آپ سے وعد کرتا ہوں کہ اب ایک کلمہ مخالفت کا مجھ سے نہیں سنیں گے.آپ کے خیالات سراسر اسلامی ہیں اور آپ آزادی سے ( دعوۃ الی اللہ ) کریں اور پوچھنے والوں سے میں آپ کے حق میں اچھی بات ہی کہوں گا لیکن میں آپ کے فرقہ میں داخل نہیں ہوں گا کیونکہ فرقہ بندی سے مجھے نفرت ہے.ہمیں یہ سن کر خوشی ہوئی حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) نے فرمایا تھا کہ شیخ عبدالقادر صاحب المغربی کا جواب اپنے (مربیان ) کے ذریعہ سے دوں گا.چنانچہ یہ جواب دیا گیا اور مغربی مرحوم آخر دم تک جماعت کی تعریف ہی کرتے رہے اور کوئی کلمہ ہمارے خلاف نہیں کہا بجز اس کے کہ فرقہ بندی سے متعلق اُن کا جو پرانا خیال تھا کہ ان فرقہ بندیوں نے اسلام کو تباہ کیا ہے.الگ فرقہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں.الحمد للہ کہ بلاد عر بیہ کی ( دعوۃ الی اللہ ) کیلئے ایک مرکز دمشق میں قائم ہوا اور دوسرا فلسطین میں.شمس صاحب نے اور دیگر ( مربیان) نے جو خدمات انجام دیں وہ ہمارے اخبارات (الفضل، بدر، الحکم، فاروق وغیر ہم.مرتب ) میں مذکور ہیں.دیگر علمی خدمات و تراجم کتب مذکورہ بالا کتب کے علاوہ عربی زبان میں احمدیت یعنی حقیقی (دین) سے ہو چکا ہے لیکن وہ ابھی طبع نہیں ہوا.اسی طرح در دصاحب کی تقریر ” بانی سلسلہ احمدیہ اور انگریز کا عربی ترجمہ بھی مکمل ہے.مجھے دونوں کتابوں کی فکر تھی کیونکہ عربی ممالک ابھی تک جماعت احمدیہ سے متعلق غلط نہی میں مبتلا ہیں اور وقت کا تقاضا ہے کہ ایسی کتابوں کی ان کیلئے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 30 30 خود نوشت حالات زندگی اشاعت ہو.مذکورہ بالا کتابوں کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتابوں میں جو حصے اُردو زبان میں ہیں وہ بھی وکالت تبشیر کی سفارش پر ان کا ترجمہ کرنے کی توفیق مجھے ملی ہے.ایسی سات آٹھ کتابیں ہیں ان ترجمہ کردہ کتابوں کے مسودے ادارہ تصنیف تحریک جدید کے حوالے کر دیئے گئے ہیں.(حضرت مولا نا عبدالرحیم ) در دصاحب کی کتاب حال ہی میں طبع ہو چکی ہے.دمشق کے بارہ میں عظیم الشان رویا ۱۹۳۴ء میں جب کہ حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لندن میں تھے میں نے دیکھا کہ دمشق شہر میں ایک بلند مکان کی چھت پر کھڑا اذان دے رہا ہوں.میری آواز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی آواز کی طرح ہے.تمام اطراف شہر میں گونج رہی ہے جس سے لوگ بیدار ہو گئے.بیدار ہونے والوں میں سے بعض خوش ہیں اور بعض ناراض اور میں اذان دیتے وقت مولوی صاحب مرحوم کی طرح بحالت وجد چکر لگا رہا ہوں.اذان میں نے معا اس وقت شروع کی ہے.آسمان سے اذان کی آواز.اللہ اکبر اللہ اکبر ہوتے ہی وہ آواز منقطع ہو گئی تو فور امیں نے اذان دینا شروع کر دی.یہ خواب میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) قائمقام ناظر اعلی کو الگ الگ سنایا اور دونوں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ مجھے وہاں ( دعوۃ الی اللہ ) کا موقع ملے گا.یہ خواب مفصل ہے اور باقی حصے بھی اس وقت پورے ہوئے جب میری شادی کی وہاں تحریک ہوئی اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اجازت دی.شام کے ملک ( کی طرف) تیسری بار سفر کا تعلق ایک مکاشفہ سے ہے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 31 خود نوشت حالات زندگی دمشق میں خدمات کی سہ بارہ توفیق تیسری بار جولائی ۱۹۵۶ء میں دمشق بھیجا گیا.جہاں مجھے تین ماہ قیام کا موقع ملا اور دمشق میں ایک مضبوط جماعت دیکھ کر میرے جسم کا رواں رواں متاثر ہوا.(حَتَّى بَلَّ دَمْـعِـي مسجدی ) ۱۹۴۵ء میں مجھے ایک خارق عادت مفصل عجیب مکاشفہ کا مشاہدہ ہوا تھا جس کی تفصیلات نو سال کے عرصہ پر ممتد ہیں اور جس طرح دکھایا گیا واقعات ہو بہو اس طرح ظہور (پذیر) ہوتے رہے.میں نے اس مکاشفہ میں دیکھا کہ (۱) پنجاب میدانِ کارزار بنا ہوا ہے.(۲) سکھوں کی یلغار ہے (۳) تاریکی چھائی ہوئی ہے.(۴) میں کار میں ہوں.(۵) میری اہلیہ حکمت میرے ساتھ ہے.(۶) سکھ میرا پاسپورٹ چھیننا چاہتے ہیں.(۷) میں ایک رقعہ پر طرح دے کر ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہوں.(۸) اس کے بعد معا رات ایک کمرہ میں گزارتا ہوں.(۹) بارش ہورہی ہے.(۱۰) اور اسی اثناء میں اپنے تئیں جیل کی کوٹھری میں دیکھتا ہوں.(۱۱) ایک نشیمن ہے.(۱۲) اس پر قبلہ رخ ہو کر نماز پڑھتا ہوں.(۱۳) کبھی میں امام ہوتا ہوں (۱۴) اور کبھی ایک اور شخص ہے (۱۵) جس کے پیچھے میں نماز پڑھتا ہوں اور اس نشیمن میں میری ایسی کیفیت ہے (۱۶) کہ میں دنیا سے بالکل منقطع دیکھتا ہوں اور تبتل الی اللہ کی سی کیفیت ہے.(۱۷) اسی اثناء میں میں کیا دیکھتا ہوں کہ میاں منصور احمد صاحب ( ابن صاحبزادہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب) میرے دائیں طرف کھڑے میرے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں (۱۸) اور پھر دیکھتا ہوں کہ میاں مبارک احمد صاحب (ابن حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ بھی ہیں (۱۹) اور وہ بھی نماز میں ہیں.اتنے میں جیل کی کوٹھڑی کا دروازه خود بخو دکھلتا ہے (۲۰) وہاں سے نکل کر میں نے دوڑ نا شروع کر دیا.(۲۱) دور ایک شہر دیکھتا ہوں (۲۲) اس شہر کے رہنے والے مجھ سے محبت رکھتے ہیں ( ۲۳ ) اور مجھے بھی ان
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 32 خود نوشت حالات زندگی سے محبت ہے.(۲۴) وہ میری انتظار میں ہیں کہ کب آتا ہوں.(۲۵) دوڑتے دوڑتے کیا دیکھتا ہوں کہ فضا میں پرواز کر رہا ہوں (۲۶) اور اس شہر میں اترتا ہوں.(۲۷) جو نبی میرے قدم زمین سے چھوتے ہیں تو اپنے سامنے استقبال کرنے والوں کو پاتا ہوں (۲۸) اور میری زبان پر یہ الفاظ ہیں.جنتكُمْ لا بَلَغَ ، جنتكُمْ لا بَلَغَ ، جِئْتُكُمْ لا بَلَغَ.(یعنی میں آپ کو دعوۃ الی اللہ کرنے کیلئے آیا ہوں ) جنہیں میں دُہراتا ہوں.اس وقت دارالانوار ( قادیان) کی (بیت) سے شیریں آواز اذان سنائی دے رہی ہے اور میری اہلیہ جو قریب ہی بچوں کے ساتھ سوئی ہوئی ہوتی ہیں پوچھتی ہیں.کیا ہے؟ کس سے باتیں کر رہے ہیں اور میں نے ان کو وہ سارا ماجرا سنایا جو ان لمحات میں شروع ہوئے جو سحری کے آخری لمحات) تھے.میں اس ماجرہ سے حیران تھا کہ یہ میدانِ کارزار کیا ہے کیونکہ ۱۹۴۵ ء میں جنگ عظیم دوم ) ختم ہوئی.رویا کی تعبیر کا ظہور اس وقت پنجاب کی تقسیم کا کوئی سوال نہ تھا اور نہ ہنگامہ آرائی کا کوئی خیال.یہ نظارہ اس دن دیکھا جب ہم نے جنگ عظیم کے خاتمہ پر شکریہ کے تعلق میں ایک جلسہ کیا.یہ جلسہ (بیت) اقصیٰ ( قادیان) میں ہوا تھا.اسی رات سحری کے آخری وقت میں یہ نظارہ دکھایا گیا.اس مکاشفہ سے متعلق اور بھی بعض تفصیلات ہیں جن کا ذکر کرنے کا موقع نہیں لیکن عجیب بات ہے که ۳ ستمبر ۱۹۴۷ء کو جب قادیان کی پولیس نے مجھے گرفتار کرنا چاہا تو مجھے رات کو صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب ( پسر حضرت مصلح موعود اللہ نور اللہ مرقدہ) کے کمرہ میں سونے کا مشورہ دیا گیا اور میں وہیں سویا.اُس رات بارش ہو رہی تھی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب امیر جماعت قادیان بعض دوستوں سے یہ مشورہ کر رہے تھے کہ میرے متعلق کیا تدبیر اختیار کی جائے.بارہ اور ایک بجے کے درمیان مکرم مرزا عبد الحق صاحب (سلمہ اللہ تعالیٰ ) اور میرے مرحوم بھائی سید محمود اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) اس اطلاع کے ساتھ میرے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 33 خود نوشت حالات زندگی پاس بھیجے گئے کہ ہم نے اچھی طرح مشورہ کر لیا ہے.کوئی محفوظ راہ نہیں بجز اس کے کہ پولیس کے حوالے اپنے آپ کو کر دیا جائے.میں صبح دارالانوار اپنی کوٹھی پر چلا جاؤں اور وہاں پر مرزا عزیز احمد صاحب کی کار آئے گی اور مرزا عبدالحق صاحب (اطال اللہ عمرہ) بھی میرے ساتھ ہوں گے اور اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کر دوں.یہ کہہ کر دونوں چلے گئے اور میں اطمینان سے جیسے پہلے سویا ہوا تھا سو گیا.چودہ تاریخ تک وصیت کر دیں تہجد کے وقت میں نے ایک وصیت لکھی.صاحبزادہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب کے وہ وصیت سپرد کی اور (بیت) مبارک میں نماز صبح پڑھنے سے قبل انہیں بتایا کہ ایک ہفتہ قبل کشف میں آپ میرے پاس آئے ہیں اور نہایت ہی غمگین ہیں اور مجھ سے فرمایا کہ چودہ تاریخ تک وصیت کر دیں اور واپس ہوتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ یہ تقدیر معلق بھی ہو سکتی ہے.آپ بہت ہی مغموم ہیں.سو اس مکاشفہ اور سابق مفصل مکاشفہ کے سارے حصے پورے ہوئے.میرے قید کے ساتھی جانتے ہیں کہ میں نے کوٹھری کی چکی پر اپنا نشیمن بنالیا تھا.اسی پر نماز پڑھتا اور اس پر سوتا.پہلے میں نماز پڑھاتا رہا کہ میری کوٹھڑی کا رُخ قبلہ کی طرف تھا اور جب کوٹھڑیاں تبدیل ہوئیں تو مرحوم چوہدری فتح محمد صاحب سیال (اللہ آپ سے راضی ہو) ہمیں نماز پڑھاتے تھے کہ اس تبدیلی سے ان کی کوٹھڑی کا رُخ قبلہ کی طرف تھا اور ( رؤیا کا ) آخری حصہ جنتُكُمْ لا بَلغَ اس وقت پورا ہوا جب جولائی ۱۹۵۶ء میں بذریعہ ہوائی جہاز حضرت خلیفتہ المسیح ( نور اللہ مرقدہ) کی نوازش = اور آپ کی دعاؤں کے ساتھ دمشق پہنچا.يَا قَلْبِيَ اذْكُرُ أَحْمَدَا مرحوم عیسی خوری کے ہاں جو بہت بڑے ادیب اور مورخ تھے قیام کیا.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 34 خود نوشت حالات زندگی بڑے گرجے کے نگران قسیس تھے.خوری صاحب اس سے قبل بمعہ تین عیسائی ادباء کے مجھ سے دمشق ملنے آئے تھے کہا کہ وہ تحقیق کی غرض سے آئے ہیں.اخباروں میں میرے بعض مقالات پڑھتے ہیں.دوران گفتگو عیسی خوری نے بتایا کہ مصر کے کسی رسالے یا اخبار میں دیر ہوئی انہوں نے پڑھا تھا کہ اصل میں عالم تو نورالدین ( حضرت خلیفۃ ابیح الاول اللہ آپ سے راضی ہو ) ہیں جنہوں نے حجاز میں تعلیم حاصل کی اور خود بانی سلسلہ احمدیہ کی تعلیم معمولی ہے.یہ کہہ کر انہوں نے ہم سے پوچھا کہ ان دونوں کا کوئی کلام عربی میں ہے جسے دیکھ کر وہ اندازہ کر سکیں.( حضرت مولانا جلال الدین) شمس صاحب نے قصیدہ خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) جو براہین احمدیہ کی تعریف میں ہے انہیں دیا.چند شعر پڑ کر انہوں نے کہا اس میں وزن کے لحاظ سے فلاں فلاں نقص ہے.میں نے يَا قَلْبِيَ اذْكُرُ أَحْمَدَا کا قصیدہ ان کے سامنے رکھا اور بتایا کہ یہ قصیدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہے انہوں نے شعر پڑھنے شروع کئے اور پڑھتے چلے گئے حتی کہ وجد میں آگئے بے اختیار کہنے لگا یہ تو اعلیٰ درجہ کی عربی ہے.ملاقات کے آخر میں عیسی خوری صاحب اور ان کے ساتھیوں نے باصرار دعوت دی کہ میں حمص آؤں.عیسی خوری صاحب نے کہا میں ان کا مہمان ہوں گا.چنانچہ انہوں نے پانچ دن ٹھہرایا.کثرت سے عیسائی مرد اور عورتیں ملاقات کیلئے آتے.دلچسپی سے میری باتیں سنتے.عیسیٰ خوری صاحب میری شائع شدہ کتابیں (۱) الخــطــاب الجليل ، (۲) التعلیم، کشتی نوح کا ترجمہ ) (۳) کتاب حیات المسیح و وفاته اور (۴) الحقائق عن الاحمدیہ اپنے ساتھ لے گئے تھے.ہفتے کی شام کو میں حمص پہنچا تھا.اگلی صبح وہ مجھے اپنے ساتھ اپنے گرجے میں لے گئے جو فتح حمص سے قبل عیسائیوں کے قبضہ ہی میں رہا.اُن کی عورتیں بھی ساتھ تھیں جنہوں نے اسلامی طرز کا پردہ کیا ہوا تھا.عیسی خوری صاحب عبادت کے بعد مراقبہ کے لئے الگ ایک حجرہ میں گئے.میں ایک طرف کھڑا تھا کہ عربی طرز کے لباس میں خوش پوش خوش شکل چند نو جوان میرے پاس آئے اور مجھ سے پوچھا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 35 35 خود نوشت حالات زندگی وَحَضْرَتُكَ اَيُضَامِنُ أَتْبَاعِ الْمَسِیح ) کیا آپ بھی مسیح کے ماننے والے ہیں؟ ) میں نے کہا ای نَعَمُ امَنْتُ بِالْمَسِيحِ الاَوَّلِ وَ الْمَسِيحِ الثَّانِی (جی ہاں میں مسیح اول اور مسیح ثانی دونوں پر ایمان لاتا ہوں ) تو ان میں سے ایک نے کہا وَحَضْرَتُكَ مِنَ الْأَحْمَدِ تین ( کیا آپ احمدی ہیں؟ میں نے کہا اَنَا اَحْمَدی (میں احمدی ہوں ) اور ان سے پوچھا.آپ جانتے ہیں کہ احمدی کون ہیں؟ کہنے لگے ہاں ان کے دو مربی دمشق میں آئے ہوئے ہیں اور ہمارے عیسی خوری صاحب ان سے مل کر آئے ہیں اور ان کی کتابیں بھی لائے ہیں اور وہ کتابیں ہمیں درسا پڑھ کر سنائی ہیں.میں نے پوچھا کہ ان کتابوں کے متعلق ان کی کیا رائے ہے وہ کہنے لگے باخدا باتیں تو بالکل سچی ہیں اور ان میں ہماری کتابوں ہی کے حوالے ہیں (یعنی انجیل وغیرہ کے ) اور عیسی خوری صاحب احمدیوں کے خیالات کی تعریف کرتے ہیں.ان میں سے ایک نوجوان نے کہا.کیا آپ سید زین العابدین کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا میں اسے جانتا تو ہوں.ایک بوڑھا قسیس جب پانچویں دن عیسائیوں کے ایک مدرسہ میں میری تقریر کا انتظام ہوا تو وہ نوجوان بھی مجھے ملے اور ہنس کر کہا جواب تو آپ نے ٹھیک دیا تھا کہ آپ سید زین العابدین کو جانتے ہیں.اس سے گذشتہ رات عیسی خوری صاحب کے ہال میں جو بہت وسیع کمرہ تھا عیسائی عورتیں اور مرد جمع ہوئے اور اتفاق سے اس رات ایک بجے تک بارش ہوتی رہی اس لئے گفتگو کرنے کا بڑا موقع ملا.سب نے اطمینان سے سوالات کئے اور اطمینان سے جوابات سنے.ان کا آخری سوال الہام اور وحی سے متعلق تھا اور دوران گفتگو میں ان میں سے ایک نے پوچھا کہ وہ کلمات الہام“ جو حضرت احمد پر نازل ہوئے تھے وہ سنائیں.مجھے کافی یاد تھے اور میں نے سنانے شروع کئے.سامعین میں میرے قریب ہی ایک بہت ہی بوڑھے قسمیس (پادری) سفید ریش
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 36 36 خود نوشت حالات زندگی بیٹھے تھے.کمر کمان کی طرح، پادریوں میں ان کا منصب بہت بڑا تھا جیسا کہ ان کے عصا اور کمر کی ڈوری اور نشانات سے ظاہر تھا.ان کے ابرو جھکے ہوئے ،شکل متبرک انسان کی سی ، وہ اپنے عصا کا سہارا لیتے ہوئے اٹھے اور دائیں بائیں سامعین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہنے لگے هَؤُلَاءِ بِنَاتِي وَأَبْنَائِي يَعْلَمُونَ جَيِّدًا أَنِّي لَمْ أَدَاهِنُ فِي حَيَاتِي قَطُّ فَهَا إِنَّى أَشْهَدُ هَؤُلَاءِ جَمِيعًا فَإِنِّي مَنْتُ بِالْمَسِيحِ الثَّانِي كَمَا آمَنُتُ بِالْمَسِيحِ الْاَوَّلِ ( یہ میرے بیٹے اور بیٹیاں بخوبی جانتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی مداہنت نہیں کی.پس میں آج ان تمام لوگوں کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ جس طرح میں مسیح اوّل پر ایمان لاتا ہوں ایسا ہی مسیح ثانی پر بھی ایمان لاتا ہوں.مرتب) اور یہ کہہ کر بڑے وقار اور خاموشی سے بیٹھ گئے اور ہال میں سناٹا چھا گیا.بارش مدھم ہو چکی تھی اور ایک کونے میں ایک صوفی منش بزرگ مسلمان ہماری باتیں سن رہے تھے.عیسی خوری صاحب نے ان کی طرف اشارہ کیا کہ یہ عالم اور صوفی ہیں اور ان کے بچپن کے دوست اور کہا.آپ کی کتابیں میں نے ان کو پڑھا دی ہیں یہ آپ کے خیالات سے متفق ہیں اور آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی جماعت میں داخل ہونے کی کیا شرائط ہیں.میں نے مکرم شمس صاحب (حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب) کا پتہ دیا اور آخر اُن کے ذریعہ وہ جماعت میں داخل ہو گئے.دوسرے دن ہم تقریر کرنے کے بعد معہ اہلیہ اور برادرنسبتی بغداد کی طرف روانہ ہوئے.راستے میں آسوری قبائل میں گذر ہوا.انہیں پیغام احمدیت پہنچاتے ہوئے تربیتی رسالہ الـحـقــائـق (عن الاحمديه) تقسیم کرتے ہوئے دسویں دن ہم بغداد پہنچے.بغداد میں میرے قدیم دوست اور نہایت ہی محب دوست مرحوم رستم حیدر تھے جو صلاح الدین ایوبیہ کالج میں ناظم الدروس تھے اور تاریخ عام کے پروفیسر تھے.یہ سور بون یو نیورسٹی (فرانس) کے تعلیم یافتہ اور بہت قابل تھے.زبان عربی کے بھی ادیب تھے.اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں میری
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 37 خودنوشت حالات زندگی بہت ہی محبت اور عزت ڈال دی.انہیں بغداد میں میری آمد پر بڑی خوشی ہوئی.کئی دعوتیں انہوں نے کیں جن میں شہر کے معزز دوست مدعو کئے جاتے رہے.وہ وہاں وزیر دیوان تھے.وزراء حکام اور علماء سے تعاون ہوا.ملک فیصل مرحوم کےسوالات یہاں تک کہ ملک فیصل نے بھی مجھے دعوت دی اور اس دعوت میں بھی چیدہ لوگ مدعو تھے.دوران طعام رستم حیدر نے احمدیت کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا اور احمدیت کے متعلق ملک فیصل مرحوم نے سوالات کئے.جنگ عظیم کے دوران بھی ان کا تعارف مجھ سے ہو چکا تھا.جب دجال سے متعلق تفصیلی گفتگو ہوئی تو انہوں نے مجھ سے آیت لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ (سورۃ انعام : ۱۰۴ ) کا مفہوم دریافت کیا.میرے جواب دینے سے پہلے وہ اپنے بھائی علی سے مخاطب ہوئے اور کہا بھائی آپ بڑے عالم ہیں.آپ اس آیت سے کیا سمجھتے ہیں؟ تفاسیر میں جو انہوں نے پڑھا تھا وہ بیان کیا پھر ملک صاحب مرحوم مجھ سے مخاطب ہوئے کہ میں اس سے کیا سمجھتا ہوں.میں نے مفصل جواب دیا جس پر وہ اتنے خوش ہوئے کہ بے اختیار کہنے لگے کہ اگر اسلام کے لئے دوبارہ زندگی مقدر ہے تو وہ ان خیالات کے ذریعہ ہے جن کا میں نے اظہار کیا ہے.کھا ناختم ہوا میں نے فورا شکر یہ ادا کرتے ہوئے کہا:."آپ کی مملکت میں ہر مذہب کو تبلیغ کی آزادی ہے حتی کہ آریہ جیسے شدید دشمن اسلام کے لئے بھی اور اگر آزادی نہیں تو اس جماعت کیلئے نہیں جس کے 66 خیالات کے متعلق بادشاہ نے یہ داد دی ہے.میز سے اٹھتے ہوئے فرمایا آپ کو ان سے بڑھ کر آزادی ہوگی اور جب ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہو رہے تھے تو میرے دوست رستم مرحوم نے اپنا منہ میرے کان کے قریب کیا اور کہا وَانتَ تَدْرِى مِنْ اَيْنَ تُوُكِلُ الْكَتِفَ ) آپ جانتے ہی ہیں کہ کس طرح معاملہ نپٹا یا جاتا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 38 خود نوشت حالات زندگی ہے.مرتب) اور اس کے بعد جب رستم حیدر مجھے اپنے مکان پر لائے تو اپنے سیکرٹری سے ایک درخواست عربی میں ٹائپ کروائی جس پر میں نے دستخط کئے اور وہ درخواست بادشاہ کے سامنے پیش ہوئی جس پر انہوں نے مجلس کو غور کرنے کا حکم دیا اور اس طرح یہ درخواست تین ماہ تک دفتروں میں چکر لگاتی رہی اور کئی مایوسیوں کے بعد ایک شام مغرب کی نماز سے ہم دوست فارغ ہوئے تھے کہ سرکاری اردلی پیغامبر نے آ کر جعفر صادق مرحوم امیر جماعت احمد یہ بغداد کو ایک لفافہ دیا.وہ کھولا گیا.اس میں بادشاہ کی مہر کے ساتھ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ اطلاع تھی کہ بادشاہ کی طرف سے ان کا سابقہ حکم منسوخ کر دیا گیا ہے اور جماعت احمد یہ کومکمل ( مذہبی ) آزادی دی جاتی ہے.یہ الفاظ پڑھ کر جو دوست نماز مغرب میں حاضر تھے بے اختیار سر بسجو د ہو گئے کیونکہ ان کی مایوسی کی حالت آخری نقطہ یاس تک پہنچ چکی تھی.یہاں تک کہ اس سے ایک ہفتہ قبل شیخ منظور واحد حسین صاحب پولیس انسپکٹر مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے کہ جماعت احمد یہ بغداد سخت ابتلاء میں ہے.آپ نے ہر جمعہ میں کوئی نہ کوئی خواب سنائی ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور کامیاب کرے گا اور کامیابی یہ ہوئی ہے کہ حکومت نے جواب دے دیا ہے کہ ملک کے حالات ابھی سابقہ پابندی قائم رکھنے کے متقاضی ہیں بعد میں غور ہوگا.یہ جواب وزارت داخلہ کی طرف سے برطانوی مستشار داخلی کے مشورہ پر ایک ہفتہ قبل جماعت کو دیا گیا تھا جس سے وہ بہت مایوس تھی لیکن اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک کشتی میں سوار ہوں جو غرق ہو رہی ہے اور جو نبی کہ وہ پانی کے نیچے جانے لگی ہے آسمان سے ایک رسی پھینکی گئی جو میرے ہاتھ میں ہے اور اس آسمانی سہارے سے میری کشتی او پر آ گئی ہے اور سلامتی سے تیرتے ہوئے ان جہازوں کا رُخ کیا جو سمندر میں جا رہے ہیں اور میں سمجھا کہ اللہ تعالی خارق عادت مدد فرمائے گا.میں نے برطانوی ہائی کمشنر سر ہنری ڈولب (Sir Henry Dolb).ملاقات کا وقت مانگا تھا.اس خواب کے دوسرے دن ہی ان کا جواب آ گیا.میں شیخ منظور واحد صاحب پولیس انسپکٹر کو ساتھ لے گیا.انہیں تر ڈر تھا کہ وہ گورنمنٹ آفیشل ہیں.علاوہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 39 خود نوشت حالات زندگی ازیں ان کے لئے اجازت بھی طلب نہ کی گئی تھی.تائیدات الہیہ میں نے اندر جا کر ہائی کمشنر سے کہا میرے ساتھ مقامی جماعت کے سیکرٹری ہیں اگر اجازت ہو تو وہ بھی اندر آ جائیں.( مقامی جماعت کے سارے افراد وہی تھے جو ہندوستان سے کسی نہ کسی محکمہ میں مستعار خدمت پر لیے گئے تھے ) ہائی کمشنر نے اجازت دی اور میں نے ان سے گفتگو شروع کی اور کہا کہ عراقی حکومت نے جماعت احمدیہ پر پابندی عائد کی ہے اور اس تعلق میں جماعت احمدیہ کے دفتر نظارت خارجہ کی طرف سے گورنمنٹ آف انڈیا کے ساتھ کافی دیر سے خط و کتابت ہورہی ہے اور ہر دفعہ گورنمنٹ کی طرف سے یہی جواب دیا گیا ہے کہ حکومت عراق نے مقامی حالات کے پیش نظر یہ پابندی عائد کی ہوئی ہے اور وہ یہ پابندی منسوخ کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن یہاں آ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ حکومت عراق کو کوئی شکایت نہیں بلکہ وہ آزادی دینے کیلئے تیار ہے لیکن برطانوی مستشار نے یہ مشورہ دیا ہے کہ ہمیں (مذهبی) آزادی دینا مناسب نہیں.اس مستشار کا نام کارنولس (Cornwollis) تھا اور وہ مجھے دمشق سے جانتے تھے جب جنرل امین جے Allen) کے حکم سے نظر بند کر کے میں مصر لے جایا گیا.یہ اتنے متعصب تھے کہ جعفر صادق اور منظور واحد حسین وغیرہ ایک وفد کی صورت میں انہیں ملنے گئے اور دو تین گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ملنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں چند آدمیوں کی خاطر شہر میں فساد برپا کرنا مناسب نہیں سمجھتا.یہ دوست مجھے بھی ساتھ لے جانا چاہتے تھے لیکن جس دن یہ ان سے ملنے گئے اسی رات میں نے خواب دیکھا کہ میں مستشار کے کمرے میں داخل ہوا ہوں اور مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا مگر انہوں نے انکار کر دیا جس سے مجھے شدید غصہ ہے.دوسرے دن جب یہ دوست جانے لگے تو میں نے ان سے معذرت کر لی کہ میراجانا مناسب نہیں.میں نے ہائی کمشنر سے کہا کہ ہماری جماعت بڑی وفا دار ہے.یہ اس وفاداری کا نتیجہ بھگت رہی ہے کہ ہماری طرف غلط باتیں منسوب کی جاتی ہیں اور ہمیں بدنام کیا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 40 خود نوشت حالات زندگی جا رہا ہے اور ہماری جماعت کے شریف دوست اطاعت ووفا شعاری میں اپنی زبانیں رڈ (بند) کئے ہوئے ہیں.میں نے انہیں بعض باتیں بتائیں جو ہماری طرف منسوب کی جاتی تھیں اور ان سے کہا کہ آپ سرحد میں کمشنر رہ چکے ہیں اور ہمارے عقائد سے بھی واقف ہیں کیا یہی ہمارے خیالات ہیں.انہوں نے کہا نہیں.میں نے کہا آپ کی کتابیں پڑھی ہیں یہ باتیں بالکل غلط ہیں.میں نے اپنی ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا جو علماء وغیرہ سے ہو چکی تھیں اور بتایا کہ وزارت داخلہ ہمیں آزادی دینے کیلئے تیار تھی لیکن آپ کے برطانوی مستشار نے اسے روک دیا ہے اور میرے پاس اس کے متعلق یقینی معلومات ہیں.اب میں ہندوستان میں جا کر اپنے دوستوں کو حقیقت سے آگاہ کروں گا اور صورتِ حال اخبار کے ذریعہ سے عیاں کروں گا کہ وفا دار بنا نقصان دہ ہے.اس پر وہ گھبرائے اور کہنے لگے آپ ایسا نہ کریں.میں ابھی مستشار کو خط لکھ دیتا ہوں.آپ اس سے ملیں اور میرا خط لے جائیں میں نے کہا ہمارا وفدان سے ملنے گیا تھا اور یہ سیکرٹری صاحب بھی غالباً اس وفد میں تھے مگر انہوں نے ملنے سے انکار کر دیا تھا.کہنے لگے آپ اطمینان رکھیں اب وہ انکار نہیں کریں گے.چنانچہ دوسرے دن صبح میں اور شیخ صاحب موصوف گئے.وہ ناشتہ کر رہے تھے.ملازم میرا خط لے گیا اور جلدی واپس آیا کہ وہ ابھی آ رہے ہیں.چنانچہ وہ فورا ہی آگئے اور تجدید تعارف کے بعد باتیں ہونے لگیں.کہنے لگے آپ نمازیں تو پڑھتے ہیں جمعہ بھی ہوتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا آزادی چاہتے ہیں؟ میں نے کہا ہم نے نمازوں وغیرہ کے لئے تو کوئی اجازت نہیں مانگی تھی اور نہ حکومت ہماری عبادت کو روک سکتی ہے.کہنے لگے کیوں نہیں روک سکتی.بہائیوں کی عبادت گاہ مقفل کر دی گئی ہے.میں نے کہا کہ بہائیوں کے صدر نے مجھے دعوت دی اور میں نے ان کے مکان میں دیکھا کہ وہ اپنی نمازیں بھی پڑھتے ہیں تبلیغ بھی کرتے ہیں اور ان کا مجھ سے کافی دیر تک تبادلہ خیالات ہوتا رہا.کہنے لگے قرون مظلمہ میں بڑی سختی کی جاتی ہے.آپ تو تاریخ ادیان کے پروفیسر رہ چکے ہیں.حکومتوں نے بڑی بڑی سختیاں کی ہیں.میں نے کہا ہاں مگر باوجود ان سختیوں کے ایک
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 41 خود نوشت حالات زندگی مخلص عابد کوحکومتیں اس کی عبادت سے نہیں روک سکیں اور نہ ہم نے اس کے لئے حکومت سے اجازت مانگی ہے اور نہ اجازت کی ضرورت ہے.کہنے لگے اچھا میں سفارش کر دیتا ہوں کہ آپ کو اس شرط پر اجازت دی جائے کہ کسی کو احمدی نہ بنائیں جس طرح عیسائی کسی کو عیسائی نہیں بنا سکتے.میں نے کہا آپ کو احمدیت کے بارے میں بڑی غلط فہمی ہے.احمدی بنے کیلئے کسی بپتسمہ کی ضرورت نہیں بلکہ الفاظ کے معانی میں اختلاف ہے.جہاں کسی کو سمجھ آ گیا کہ لفظ توفی کے معنی موت ہیں وہ احمدی ہے.کہنے لگے میں اس شرط کے ساتھ سفارش کروں گا اور ہم واپس لوٹے.شیخ صاحب محترم نے یہ اثر قبول کیا کہ میں نے کھرے کھرے جواب دے کر اس کو ناراض کر دیا ہے اور کام بگاڑ دیا ہے اور بعض احمدیوں نے مجھے یہ بتایا کہ شیخ صاحب کا خیال ہے کہ میں نے معاملہ بگاڑ دیا ہے.میں نے کہا نہیں بلکہ میں نے سنوار دیا ہے.اپنے دوست رستم حیدر کو میں نے ساری سرگزشت سنائی اور جب مستشار داخلی کی سفارش مجلس کے پاس پہنچی تو وزارت داخلہ کو رنج ہوا اور بادشاہ کو بھی ان کی مشروط سفارش سے تکلیف ہوئی بلا قید و شرط ہماری ( مذهبی ) آزادی کا حکم صادر فرمایا اور سابقہ حکم منسوخ کر دیا.مقامی جماعت اس واقعہ سے اس قدر خوش تھی کہ حضرت خلیفتہ اسی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو بذریعہ تار اطلاع دی.اخبارات میں شائع کروایا اور میرے سفر کے لئے اپنے خرچ پر فرسٹ کلاس کمپارٹمنٹ ریز رو کروایا اور دعاؤں کے ساتھ بصرہ کی طرف مجھے الوداع کیا جہاں ایک مختصرسی جماعت تھی جس نے میرا استقبال کیا اور بصرہ میں میرے لئے ( دعوۃ الی اللہ ) کے مواقع بہم پہنچائے.ان میں سے جامع مسجد کے ایک شیعہ مجتہد کے ساتھ دودن میرا تبادلہ خیالات ہوا.مسجد بھری تھی.پہلے اجلاس میں اس نے مان لیا کہ مسیح فوت ہو گئے ہیں.دوسرے اجلاس میں مجتہد اس اقرار سے کچھ پیچھے ہٹنے لگا تو میں نے یہ بھانپ کر لوگوں کو مخاطب کرنا شروع کر دیا.مجتہد کہنے لگا آپ لوگوں کو کیوں مخاطب کرتے ہیں مجھ سے بات کریں.میں نے کہا اس لئے مخاطب کرتا ہوں کہ آپ حق پہچان کر انکار کی طرف مائل ہورہے ہیں.لیکن لوگ حق پہچان
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 42 خود نوشت حالات زندگی کر مجھ سے زیادہ سننے کے شوقین معلوم ہوتے ہیں.اس پر سب ہنس پڑے اور مجتہد صاحب بہت شرمندہ ہوئے.ایک ایمان افروز واقعہ اس الہی تائید کے تعلق میں ایک اور ایمان افروز واقعہ یہ ہے کہ جب میں بغداد پہنچا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ بغداد کے بعض اوباشوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بُرا بھلا کہا اور آپ کو اس قدرتنگ کیا ہے کہ آپ کو کہیں پناہ نہ ملی.ایک غیر آبادخشک کنوئیں میں آپ پناہ گزیں ہیں اور تیسرا دن ہے کہ نہ آپ نے کھایا ہے نہ پیا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے اس حالت میں دیکھا تو میں گھبرا گیا اور اس کنویں کے ارد گرد چکر لگانے لگا اور میں رورہا ہوں اور اس کوشش میں ہوں کہ کسی طرح نیچے پہنچوں اور حضور کے کھانے کا انتظام کروں اور اسی حالت گریہ وزاری میں بغداد کے لوگوں سے مخاطب ہوں.افسوس تم نے اپنے ایک خیر خواہ کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے.وہ تمہاری بھلائی کے لئے بھیجا گیا.عربی کے الفاظ تھے اور یہ الفاظ اور میرا رونا اس قدر بلند ہوئے کہ میرے برادر نسبتی سید محمد ابراہیم مرحوم اور ان کی ہمشیرہ جو میرے قریب ہی سوئے تھے چونک پڑے اور کہنے لگے.سید زین العابدین کیا ہے؟ میں نے انہیں ماجرا سنایا.ابراہیم بولے خدا کی قسم میں ابھی یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قبر سے نکلے ( ہیں ) اور آپ دوڑ کر ان سے بغلگیر ہوئے ہیں.(انہوں نے بیعت کر لی تھی) غرض میرا بغداد کی طرف جانا سراسر مشیت الہی کے تحت تھا اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان الفاظ میں میری حوصلہ افزائی فرمائی.جب ملک فیصل مرحوم کے سابقہ حکم کے منسوخ کئے جانے کی اطلاع ملی تو اس کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوا کہ پابندی پر تیسر ا سال گزر ہاتھا اور یہی مجھے خواب میں دکھایا گیا تھا کہ یہ تیسرا دن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کنویں میں پناہ گزیں ہیں اور کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا.میں نے جماعت احمد یہ بغداد کے امیر جعفر صادق مرحوم سے کہا کہ آپ کو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 43 خود نوشت حالات زندگی آزادی کی اجازت تو دلائی گئی ہے لیکن آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے.اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں نے منذر خواب دیکھا جس میں جعفر صادق مرحوم کو گھوڑے پر سوار کیا ہے اور ان کو الوداع کہتا ہوں اور سیدھا راستے پر جانے کو کہتا ہوں لیکن وہ سیدھا راستہ اختیار کرنے کی بجائے ایسا راستہ اختیار کر رہے ہیں جو دلدل والا ہے اور میرے دیکھتے دیکھتے اندھیرے میں وہ غائب ہو گئے.علاوہ ازیں میں جماعت کے افراد کو دیکھتا تھا کہ وہ بوجہ ملازمت سرکاری دعوۃ الی اللہ سے عام طور پر خائف تھے.مرحوم جعفر صادق سل سے بیمار ہو کر قادیان آئے اور الحمد للہ کہ مجھے ان کی تیمارداری وغیرہ خدمت کا موقع ملا.مرحوم نیک مخلص اور شریف طبع تھے.اللهم اغفر له وارحمه خدمات سلسلہ خدمات سلسلہ کے تعلق میں آپ ( مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمد بیت مراد ہیں.جن کی درخواست پر آپ نے یہ خود نوشت حالات رقم فرمائے.مرتب) کے استفسار کا ایک حصہ تشنہ کام رہے گا اگر کشمیر کی آزادی کے بارہ میں جو جد وجہد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمائی ہے اور اس ضمن میں خاکسار کو خدمت ادا کرنے کا موقع ملا ہے اس کا ذکر نہ کروں اور مجھے یہ دیکھ کر ہمیشہ تکلیف ہوئی کہ ہم عصر مؤرخین کی طرف سے آپ کی یہ اہم خدمات نظر انداز کی جا رہی ہیں ھے کشمیر کمیٹی میں خدمات کشمیر کمیٹی کی جدوجہد شروع کرتے وقت مسلمان لیڈروں نے بالاتفاق حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کو اس کیلئے صدر منتخب کیا تھا اور کشمیر کمیٹی قائم کی گئی.حضرت خلیفتہ امسیح ایدہ اللہ (نے) برطانوی حکام اعلیٰ کے ساتھ گفت و شنید کرنے کیلئے مرحوم (حضرت مولانا عبدالرحیم ) درد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) سے کام لیا اور جہاں اور کام کرنے والوں کو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 44 خود نوشت حالات زندگی جموں و کشمیر میں بھیجا، سیاسی نمائندگی کی خدمت مجھے تفویض فرمائی اور اپنی ہدایات کے ساتھ اس غرض سے جموں سری نگر وغیرہ مقامات میں بھیجتے رہے کہ شیخ محمد عبد اللہ صاحب شیر کشمیر کی سیاسی جدو جہد میں رہنمائی اور مدد کی جائے اور اس تعلق میں مجھے ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۶ ء کے آخر تک کام کر نا پڑا اور میرا قیام جموں وکشمیر میں ار پانچ ماہ تک ہوتا اور جو بی شیخ صاحب موصوف اپنی جدو جہد میں مایوس ہونے لگتے تو حضرت خلیفتہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) ان کی ہمت اور امید باندھتے.آپ نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ وہ آل جموں اینڈ کشمیر کا نفرنس کا انعقاد کر کے اپنی جدوجہد منظم کریں.یہ واقعہ ۱۹۳۲ء کا ہے اور میں ان کی امداد کیلئے بھیجا گیا.شیخ صاحب موصوف کا دفتر پتھر مسجد سے ملحق تھا حکومت کے رویے سے وہ سخت مایوس تھے اور اس بارے میں وہ حضرت خلیفتہ اسیح ایدہ اللہ کولکھ چکے تھے.جو نہی مجھے اطلاع ملی کہ حکومت نے ان کی درخواست متعلقہ اجازت انعقاد کا نفرنس رڈ کر دی ہے تو بغیر شیخ صاحب کو اطلاع دیئے میں مسٹر جارڈین پولیٹیکل منسٹر سے ملنے کیلئے گیا.وزراء کے ساتھ میرے بے تکلفانہ تعلقات تھے.خصوصا مسٹرل اتھر انسپکٹر جنرل پولیس سے.اسی طرح چیف جسٹس سر دلال سے بھی.مسٹر جارڈین نے گفتگو کے دوران میں مجھ سے پوچھا کہ ہندوستان میں انگریزوں کے مستقبل سے متعلق میری کیا رائے ہے.میں نے بے ساختہ کہا very dark یعنی ( بہت تاریک) کہنے لگے ان کی بھی یہی رائے ہے.اس بے تکلفانہ گفتگو کے (اثناء ) میں ان سے کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ کونسل نے شیخ محمد عبداللہ صاحب کی درخواست رڈ کر دی ہے اور انہیں کانفرنس کے قائم کرنے کی اجازت نہیں دی.کہنے لگے یہ درست ہے.میں نے کہا مجھے تعجب ہے کہ آپ جیسے مشیر سیاسی کی موجودگی میں یہ فیصلہ ہوا ہو.پوچھا کیوں اس میں کیا غلطی ہے.میں نے کہا:.Council has committed a very serious blunder this would mean to hurt the Kashmiri people into the very arms of mischief mongers.They would go to Sialkot and hold their conference there.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 45 خود نوشت حالات زندگی یعنی کونسل نے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ یہ لوگ سیالکوٹ جائیں گے اور وہاں کا نفرس قائم کریں گے اور اس طرح یہ اُن لوگوں کے ہاتھوں میں چلے جائیں گے جو فسادی اور فتنہ انگیز ہیں ( یعنی احرار ).اس پر کہنے لگے کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ ایسا کریں گے؟ میں نے کہا I am dead sure یہاں سے فارغ ہو کر میں شیخ عبداللہ صاحب کے پاس اس غرض سے گیا کہ یہ معلوم کروں کہ آیا ان کو بھی اطلاع مل چکی ہے یا نہیں.میرے جواب کا انہیں وہم بھی نہ تھا.جب میں وہاں گیا تو شیخ محمدعبداللہ صاحب اور عبدالرحیم صاحب ایم.اے کے سوا وہاں کوئی نہ تھا.پتھر مسجد کا جلسہ مفتی ضیاء الدین صاحب پونچھی اور دیگر کارکنان سب غائب.ان کا دفتر وغیرہ سنسان سا معلوم ہوا.سونے والے کمرہ میں گیا تو شیخ صاحب بستر پر لیٹے تھے اور انفلوئنزا سے بیمار.میں نے کہا شیخ صاحب خیر تو ہے.کہنے لگے کل رات بڑا فساد ہوا ہے.کونسل کے انکار کی وجہ سے یہاں کارکنان کے درمیان بڑی گالی گلوچ ہوئی کہ احمدیوں کے پیچھے لگ کر نظام کا احترام کرنے کی وجہ سے یہاں تک نوبت پہنچی کہ ایک جائز مطالبہ بھی ٹھکرا دیا گیا ہے اور مفتی ضیاء الدین صاحب نے اس بات پر بڑا اودھم مچایا اور بوریا بستر اٹھا کر یہاں سے چلتے بنے کہ وہ الگ کام کریں گے.میں نے کہا شیخ صاحب بالکل فکر نہ کریں اور انہیں مشورہ دیا کہ آج رات پتھر مسجد میں جلسہ ہو.جس پر انہوں نے کہا کہ وہ تو جلسہ کی صدارت نہیں کریں گے وہ کافی سن چکے ہیں بلکہ میں صدر بنوں.میں نے کہا مجھے منظور ہے.(حضرت مولانا ) عبدالرحیم صاحب ایم.اے (اللہ آپ سے راضی ہو ) جو قریب ہی ایک کمرہ میں تھے انہیں بلایا گیا جب انہیں میری تجویز کا علم ہوا تو وہ بہت خوش ہوئے اور میرے گلے لپٹ گئے.شام کو جلسہ ہوا اور میں صدر تھا.پتھر مسجد بڑی وسیع اور شاہی مسجد ہے.ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع تھے.ایک دو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 46 خود نوشت حالات زندگی تقاریر کے بعد میں بحیثیت صدر لوگوں سے مخاطب ہوا اور میں نے پُر امن رہنے کی تلقین کی اور زیادہ تر میری گفتگو اس موضوع پر تھی کہ حکومت کیلئے یہ شرط نہیں کہ ہندوؤں کی ہو یا مسلمانوں کی یا عیسائیوں کی ہو تو سبھی اس کے اغراض و مقاصد پورے ہوں.حکومت کا کسی خاص مذہب سے واسطہ نہیں بلکہ شرط یہ ہے کہ کارکن اہل ہوں اور بنی نوع انسان کے ہمدرد ہوں اس کی مثال دیں.میں نے کہا کہ ایک ہندو ڈاکٹر جب وہ ہمدردی سے لوگوں کی خدمت کرتا ہے تو سب لوگ ہندو عیسائی مسلمان اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں.اس طرح ایک مسلمان یا عیسائی کا حال ہے یہ انسانی فطرت کی شہادت ہے کہ وہ خدمت خلق کے تعلق میں کسی مذہب کا سوال نہیں اُٹھاتی اور اس تعلق میں تازہ واقعہ بیان کیا.سری نگر شہر میں فساد ہوا جس میں ایک دوسرے پر حملے ہوئے اور حکومت شہر کو بمبارڈ کرنے کی تیاری میں تھی میں نے مسٹر جارڈین سے شام تک مہلت مانگی اور شہر سری نگر کے محلہ میں کارکنان کے ساتھ چکر لگا کر لوگوں کا اشتعال ٹھنڈا کیا اور دو دن کے بعد امن بحال ہوا تو میں نے آخری چکر گھوڑے پر سوار ہو کر پنڈتوں کے محلہ میں لگایا.ان دنوں مہاراجہ کشمیر سری نگر نہ تھے اور کرنل کا لون وزیر اعظم بھی کہیں باہر گئے ہوئے تھے.مسٹر جار ڈین ان کے قائم مقام تھے.ان سے باصرار میں نے کہا کہ نہ پولیس بھیجیں نہ فوج.میں امن قائم کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں.جب میں جائزہ لینے کی غرض سے پنڈتوں کے محلہ میں جانے لگا تو لوگوں نے مجھے منع کیا.میں نے کہا میرے متعلق مطمئن رہیں.شیخ محمد عبداللہ صاحب نے دو کارکن میرے ساتھ بھیجے.چند پنڈت مجھے دیکھ کر شکر یہ ادا کرتے ہوئے میرے پاس آئے اور میری رکاب کی طرف منہ بڑھا کر میرے بوٹ کو بوسہ دیا.یہ انتہائی شکر کا اظہار تھا.ہر مذہب وملت سے تعلق رکھنے والے ہمدردان بنی نوع کی مثالیں دے کر تقاضہ فطرت بشریہ اور اصول حکومت بیان کئے اور سامعین کو پُر امن رکھنے کی تلقین کر کے میں بیٹھ گیا.میں نے یہ بھی کہا کہ حکام ہماری طرح انسان ہیں.غلطی کر سکتے ہیں جیسا ہم کر سکتے ہیں.بلکہ نا تجربہ کاری کی وجہ سے ہماری
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 47 خودنوشت حالات زندگی غلطیوں کا زیادہ احتمال ہے اور غلطیوں کی اصلاح کا یہ طریق نہیں کہ ہندو کو ہٹاؤ، مسلمان لاؤ، سکھ یا بدھ حاکم کو لاؤ بلکہ مسیح طریق وہ ہے جو اسلام نے بتایا ہے.تَعَاوَنُوا عَلَى البِرِّ وَ التَّقْوى.(سورۃ مائدہ:۳) تعاون اور تقوی سے ایک دوسرے کی لغزشیں معاف کی جائیں اور دوستی کی جانی چاہئے.تقریر کا یہ لب لباب تھا جس سے سامعین نے ایک نیک اثر لیا.پولیس ڈائری نویس نے میری تقریر ضبط تحریر کر لی.میری صدارتی تقریر کے بعد آخر میں (حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب ایم.اے (اللہ آپ سے راضی ہو ) اُٹھے اور لوگوں سے کہا کہ جلسہ کی کارروائی سے علیحدہ ایک تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں اور اس کی مجھ سے اجازت مانگی اور پبلک سے مخاطب ہوئے کہ حکومت نے ان کی درخواست برائے انعقاد کا نفرنس ٹھکرا دی ہے اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ سیالکوٹ میں ایک آفس قائم کیا جائے اور وہیں کا نفرنس کی بنیاد ڈالیں.پبلک کی رائے طلب کی.چاروں طرف سے یہی آوازیں آئیں کہ ضرور ایسا کیا جائے.عبدالرحیم صاحب کی تقریر میں کافی جوش تھا.جس کا اندازہ میں نے پبلک کے جوش و خروش سے کیا اور اس وقت قریباً پندرہ میں ہزار روپیہ نقد اور بصورت وعدہ اس غرض کیلئے حاصل ہو گیا وہ کہرام کا منظر تھا.میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ کولکھ چکا تھا کہ حضور مطمئن رہیں آپ کی تجویز کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور روپیہ بھی یہیں سے اکٹھا ہو جائے گا.میں ان دنوں قاضی صلاح الدین صاحب پشاوری کی کوٹھی واقع سپر کار میں مقیم تھا.دن کے وقت ہاؤس بورڈ چنار باغ آکر دفتر کا کام کرتا جہاں ہمارا آفس تھا.مکرم شیخ بشیر احمد صاحب اور شیخ محمد احمد صاحب پلیڈر ان سیاسی مقدمات میں امداد کیلئے اسی ہاؤس بورڈ میں مقیم تھے.دوسرے دن شہر میں آیا تو جگہ جگہ مجھے اطلاع ملی کہ گورنر صاحب کی کارمیری تلاش میں ہے.آل جموں و کشمیر کا نفرنس کا قیام ان دنوں گورنر سردار عطر سنگھ صاحب تھے.آخران کا پیغامبر ہاؤس بورڈ میں مجھ سے ملا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 48 خود نوشت حالات زندگی اور میں اس کے ساتھ کار میں گیا.گورنر صاحب مسکراتے ہوئے مجھے تپاک سے ملے.کہنے لگے کہ کل شام آپ نے بہت عمدہ تقریر کی ہے جو رات ہی کو کونسل میں پڑھی گئی اور بتایا کہ کونسل کانفرنس قائم کرنے کی اجازت دیتی ہے بشرطیکہ میں تحریری ذمہ داری لے لوں کہ کوئی فساد نہیں ہوگا.چنانچہ مسودہ کی عبارت لکھی گئی اور میں نے دستخط کر دیئے اور شیخ محمد عبداللہ صاحب کو دوسرے تیسرے دن تحریری اجازت مل گئی.یہ وہ کانفرنس ہے جو بہ محاورہ انگریزی زبان Bone of contention بن گئی ہے لیکن اس کا نفرنس نے اپنے وقت پر بہت بڑا کام انجام دیا.اسی کے بل بوتے پر الیکشن کامیابی سے لڑا گیا اور اسمبلی قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی.مسٹر پیل آئی جی پولیس نے مجھے اس کے لئے سری نگر میں کام کرتے دیکھ کر بلایا اور مشورہ دیا کہ میں واپس پنجاب چلا جاؤں کیونکہ شیر پارٹی اور میر واعظ محمد یوسف پارٹی کے درمیان رسہ کشی ہے اور اشتعال بڑھ رہا ہے.گرفتاریاں ہوں گی اور ممکن ہے کہ حکومت کو مجھے بھی گرفتار کرنا پڑے.میں نے مسٹر پیل سے کہا کہ ہندوستان میں بھی الیکشن کی مہمیں جگہ جگہ لڑی جارہی ہیں اور غالباً وہاں کی کشمکش بھی میری طرف ہی منسوب کی جائے گی Give a dog bad کی مثال ہوگی اگر مجھے نکالا گیا اور میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گذشتہ سال بھی گورنر کے حکم سے مجھے نکلنے کا حکم پہنچا تھا.میں نہیں نکلنا چاہتا تھا لیکن بدقسمتی سے میرے ساتھ ایک مشیر قانونی ( مکرم شیخ بشیر احمد صاحب کی طرف اشارہ ) تھا لیکن اب میں name and kill it مشیر قانونی کے بغیر ہوں.آپ مقدمہ چلائیں یا ز بر دستی نکالیس از خود نہیں جاؤں گا.انہوں نے کہا پرائم منسٹر کی یہی خواہش ہے کہ میں چلا جاؤں.میں نے کہا انہیں میری طرف سے کہہ دیں کہ جب امن بحال کرنے کی ضرورت تھی یا کوئی مشکل پیش آئی تو مجھ سے مدد لی جاتی رہی ہے.میر پور میں بھی لی گئی، جموں میں بھی اور یہاں بھی.اب میر واعظ کی اشتعال انگیزی میری طرف منسوب کر کے مجھ سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں.انگریز دوست بہت خود غرض ہیں.مسٹر بیل نے میری موجودگی میں ہی فون کیا اور فون
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 49 خود نوشت حالات زندگی پر قہقہے کی آواز سنائی دی.مسٹر پیل بھی ہنسے اور مجھ سے کہا کہ اگر ہو سکے تو الیکشن کے دن میں شہر میں نہ رہوں.میں نے اپنی نوٹ بک نکالی اور انہیں بتایا کہ میں اس دن بانڈی پورہ میں ہوں گا.( کیونکہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چونکہ بانڈی پورہ کا محاذ انتخاب کمزور ہے.میں وہاں جا کر اس محاذ کو مضبوط کروں.یہ ہمارا مشورہ آپس میں طے پایا تھا کیونکہ سری نگر میں ہمارا موقف مضبوط ہو چکا تھا) چنانچہ مسٹر یل اور کرنل کالون وزیر اعظم مجھ سے متفق ہو گئے اور میں بذریعہ کشتی ایک دن قبل بانڈی پورہ ایک دوکارکنان کے ساتھ پہنچ گیا.2 کشمیریوں کے لئے جد و جہد اس جدو جہد میں شیخ عبداللہ صاحب کامیاب ہوئے اور بالآ خر اسمبلی کا انعقاد ہوا.میں نے اُن سے کہا کہ visitors gallery کا ایک ٹکٹ میرے لئے بھی لیتے آئیں.عصر کے وقت وہ آئے اور بتلایا کہ ٹکٹ ختم ہو چکے ہیں.میں نے کہا کوئی بات نہیں میں کارروائی آپ سے سن لیا کروں گا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) صدر کشمیر کمیٹی کو اطلاع بھیجتا رہوں گا.شام کو سیر کرتے ہوئے میں سرد لال چیف جسٹس پریذیڈنٹ اسمبلی سے ملنے گیا اور اُن سے اپنی ذاتی خواہش کا بھی اظہار کیا کہ میں کارروائی سننا چاہتا ہوں اگر Visitor پاس مہیا ہو جائے.تو فرمانے لگے آپ کو اس کی کیا ضرورت ہے آپ کی کرسی میں وزراء کے قریب رکھواؤں گا کیونکہ آپ نے بڑی محنت کی ہے.صبح پندرہ منٹ پہلے اسمبلی ہال میں پہنچ جائیں.میں کچھ متعجب ہوا لیکن اگلی صبح اسمبلی روم کے برآمدہ میں پہنچا تو مجھے دیکھ کر اُن کے سیکرٹری جو ایک پنڈت تھے اور تازہ سیندور ان کی پیشانی پر لگا ہوا تھا ہاتھ باندھتے ہوئے آگے بڑھے اور کہنے لگے حضور شاہ صاحب ! تشریف لے آئیں اور وزراء کی نشستوں کے اخیر دائیں طرف اشارہ کر کے بتایا کہ وہ میری کرسی ہے جس کے متعلق سر دلال نے مجھے ہدایت کی ہے.آپ وہاں تشریف رکھیں.میں نے اسمبلی کی کارروائی تین دن سنی اور حضرت خلیفتہ اسی ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اس کی کارروائی سے مطلع کرتا رہا.شیخ محمد عبداللہ صاحب visitors
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 50 خود نوشت حالات زندگی gallery میں تھے.مجھے دیکھ کر حیران ہو گئے.یہ ذکر میں نے اس لئے کیا ہے کہ حکومت نے جماعت احمدیہ کی جد و جہد کو سراہا اور اس کی قدر کی یہاں تک کہ اسمبلی کے آخر میں جب نیڈو ہوسٹل میں ارکان اسمبلی کی دعوت ہوئی تو میں بھی مدعو کیا گیا اور جو کارکنان کی طرف سے ایڈریس پڑھا گیا وہ بھی میرا ہی تیار کردہ تھا.مسٹر بیل مجھے دیکھ کر اپنی کرسی میرے قریب لے آئے اور کہنے لگے آج میں آپ کو Tea Serve کروں گا.اس کے بعد تقریباً تمام وزراء یکے بعد دیگرے میرا شکر یہ ادا کرنے کیلئے آئے.سر دلال چیف جسٹس صد را سمبلی مع اپنی فیملی آئے اور شکریہ ادا کیا.مسٹر مہتہ ریور یومنسٹر بھی مع اپنی فیملی آئے اور شکریہ ادا کیا اور جب کرنل کالون میری طرف آنے لگے تو میں ان کی طرف جانے کیلئے اٹھا.مسٹر بیل نے مجھے روکا اور کہا کہ یہ سوشل فنکشن ہے.انہیں یہیں آنے دیں.میں نے کہا وہ منصب اور عمر دونوں کے لحاظ سے بڑے ہیں.مجھے جانا چاہئے.چنانچہ میں نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا.مصافحہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا.Thank you Mr.Syed Zain ul Abedeen something you did and something me did our bit and me both deserve congratulations for the success achieved.آل جموں و کشمیر کا نفرنس کا انعقاد اس طرح حکومت کی طرف سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا بر سر عام اعتراف کیا گیا اور اس سے قبل جب آل جموں اینڈ کشمیر کانفرنس کے انعقاد کا پہلا موقعہ ہوا تو ارکان کانفرنس کی مہمان نوازی وغیرہ کیلئے بہت انتظام کرنا پڑا.دریائے جہلم کے کنارے ایک دو میل کے پھیلاؤ میں ہاؤس بوٹوں کا انتظام تھا اور جموں اور کشمیر کے چاروں اطراف سے نمائندے بلائے گئے تھے.میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کو لکھا کہ میں تھک گیا ہوں مکرم درد صاحب مرحوم میری امداد کیلئے بھیجے جائیں.چنانچہ حضور نے آں مرحوم کو مع
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 51 خود نوشت حالات زندگی چوہدری ظہور احمد صاحب موجودہ آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ.( اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے ) کو بھیجا.یہ ایک دو دن پہلے پہنچ گئے.کانفرنس میں تقریر کرنے کیلئے یہ پابندی عائد کی گئی تھی کہ بیرون از کشمیر اصحاب میں سے کسی کو تقریر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی.کانفرنس کی تنظیم شیخ محمد عبد اللہ صاحب نے میرے ہی سپرد کی تھی اور قواعد میں نے ہی مرتب کئے تھے.چنانچہ سید حبیب مرحوم ایڈیٹر سیاست اور ایڈیٹر زمیندار (مولوی ظفر علی خان.مرتب) وغیرہ پہنچے.انہیں تقریر کی اجازت نہ ملی اور دوسرے دن واپس پنجاب چلے آئے اور زمیندار نے لکھا کہ سری نگر کا نفرنس میں کسی کو بولنے کی گنجائش نہیں کیونکہ احمدیوں کا جنرل لارنس ( سید زین العابدین ولی اللہ شاہ ) وہاں کام کر رہا ہے.امام جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف میں ایک عرصہ سے ریاست پونچھ کی پبلک کو حقوق دلانے کیلئے جدوجہد کر رہا تھا راجہ پونچھ نے اُن حقوق کی منظوری ایسے وقت پر دی جب کہ کانفرنس ہو رہی تھی.میں نے مہاراجہ پونچھ سے کہا کہ اس موقعہ کو غنیمت سمجھیں لوگوں کے مطالبات مان لیں.آپ اعلان سے پبلک میں ہر دلعزیز ہو جائیں گے.انہوں نے میرا مشورہ قبول کیا اور مطالبات تسلیم کرتے ہوئے کاغذات پر دستخط کئے.ایک نقل اپنے دستخط سے میرے حوالہ کی اور مجھ سے چاہا کہ کانفرنس میں ان کا اعلان کر دیا جائے اور یہ اعلان کا نفرنس ہی کی مضبوطی اور ہر دلعزیزی کیلئے مفید تھا.کارکنان نے باصرار مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں ہی ان کا اعلان کروں.چنانچہ رات کے وقت ہزاروں سامعین کے سامنے میں نے یہ اعلان ایک مطالبہ کا ذکر کرتے ہوئے پڑھا اور ہر مطالبہ پر پنڈال میں آوازیں بلند ہوئیں.مرزا محمود زندہ باد کانفرنس زندہ باد اور خاکسار کا بھی نام اس دعا کے ساتھ لیا گیا.درد صاحب مرحوم اس وقت ہاؤس بورڈ میں تھے.میری آواز سن کر کچھ حیران ہوئے کہ شاہ صاحب نے اپنے مرتب کردہ قواعد کے خلاف کہ غیر از کشمیر تقریر نہیں کرے گا، تقریر شروع کر دی ہے.انہوں نے چوہدری ظہور احمد صاحب کو بھیجا.وہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 52 خود نوشت حالات زندگی بجلی کے ایک پول کے ساتھ بلب کے نیچے کھڑے ہو کر میری تقریر سننے لگے.ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا.بینڈ کی سریلی آواز کے ساتھ ایک ایک مطالبہ پر نعرے لگ رہے تھے.مرزا محمود زنده باد وغیرہ.غرض حکومت کے ذمہ دار کارکنان اور پبلک دونوں کی طرف سے حضرت امام جماعت احمدیہ کی خدمات کا اعتراف کیا گیا مگر آج کل کے مؤرخ حضور کو اپنی تصانیف میں نظر انداز کر کے ناکردہ خدمت کی داد اپنے بیٹے.ہیں.وائس بوالعجبی • شیخ عبداللہ سے آخری ملاقات جب شیخ محمدعبد اللہ کو یہ سوجھا بلکہ ان کوسو جھایا گیا کہ نیشنل کانفرنس کی بنیاد ڈالی جائے.یہ تحریک پنڈت جیالال کلم ایم.اے وغیرہ کی طرف سے تھی.یہ لوگ اپنی تجویز میں مخلص تھے اور کشمیری قوم و وطن کے ہمدرد بھی لیکن ایک عنصر موجود تھا جو کسی بھی وقت بہت خطرناک ثابت ہوسکتا تھا.حضور نے از راہ ہمدردی میرے ذریعہ انہیں یہ پیغام بھیجا کہ یہ راہ خطرناک ثابت ہوگی.میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہ قدم ابھی نہ اٹھایا جائے اور حضرت امام جماعت احمدیہ سے انہیں ملاقات کا مشورہ دیا.میری آخری ملاقات ان سے پنڈت جواہر لال نہرو کے مکان میں مارچ ۱۹۴۶ء میں ہوئی جب میں اس غرض سے دہلی بھیجا گیا تھا کہ کانگریس کے ممبران سے ملاقات کر کے ان پر واضح کیا جائے کہ جماعت احمدیہ ان سے صرف اسی صورت میں مطلوبہ اتحاد و تعاون کر سکتی ہے جب مجلس مشاورت جماعت احمدیہ کی پیش کردہ دو شرطیں قبول کر کے وہ بنیادی قواعد میں شامل کر لی جائیں.اس غرض کیلئے میں مرحوم ابوالکلام (آزاد) پریذیڈنٹ کانگریس، پنڈت جواہر لال نہرو اور گاندھی جی وغیرہ سے ملا.ملاقات کے وقت مولوی علی محمد صاحب اجمیری، مہاشہ محمد عمر صاحب اور ڈاکٹر لطیف بھی تھے.جس دن پنڈت جواہر لال نہرو سے میری ملاقات ہوئی تو شیخ محمد عبد اللہ صاحب سے اس وقت بھی میری گفتگو ہوئی وہ ان دنوں دہلی میں پنڈت صاحب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 53 خود نوشت حالات زندگی موصوف کے ہاں مقیم تھے.میں نے حضور کا سابقہ پیغام دُہرایا.انہوں نے مجھ سے میری اقامت گاہ کا پتہ نوٹ کیا اور کہا کہ الگ جا کر وہ اس بارہ میں گفتگو کریں گے).قادیان بذریعہ تار بتلایا گیا کہ مجلس مشاورت میں شریک ہوں.جب فارغ ہو کر دہلی دوبارہ آیا تو شیخ صاحب موصوف کشمیر واپس جاچکے تھے اور اُن سے ملاقات نہ ہو سکی.وہ ان سے آخری ملاقات تھی.حضور کے قیمتی مشورے کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے آج جو خمیازہ بھگت رہے ہیں وہ سب پر عیاں ہے.کشمیر میں غیر معمولی حالات میں خدمات جن خطر ناک حالات میں کشمیر میں کام کرتے وقت ہمیں سامنا ہوا وہ ہر کارکن جانتا ہے کہ حکومت کی طرف سے طویل جدوجہد کے اثناء میں جو جون ۱۹۳۱ء میں شروع ہوئی اور ۱۹۳۶ء کے آخر تک جاری رہی.ہمیں حکومت کشمیر کی طرف سے قدم قدم پر رکاوٹیں اور دھمکیاں دی گئیں بلکہ گرفتاری کے وارنٹ تک جاری ہوئے.چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ ( موجودہ ایڈیشنل کسٹوڈین) بھی ان کارکنوں میں سے ایک تھے جن کے گرفتاری کے وارنٹ مسٹر سالس بری پیشل آفیسر میر پور کے حکم سے صادر ہوئے اور وہ لاہور میں آچھپے.انہوں نے میر پور میں کام کیا تھا وہ دشوار گزار علاقے میں پیدل سفر کر کے مظلوموں کی مدد کو وہاں پہنچے جہاں چونی لال سب انسپکٹر نے نہایت ہی گندے ظلموں کا ارتکاب کیا تھا اور رام چند ڈی آئی جی پولیس نے ظالموں کو پناہ دی اور ہمارے کارکنوں کے خلاف جھوٹے مقدمے بنائے گئے.اس قسم کے ظالم حکام کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے میں بھیجا گیا اور واپس پہنچنے کیلئے مجھے بھی جموں وکشمیر اور پونچھ میں دور ونزدیک علاقہ جات کے پیدل اور گھوڑے پر سفر کرنے پڑے.ظالموں کی فہرستیں تیار کیں.مظلوموں کے بیانات سنے اور نقشے بنائے اور ہسٹری شیٹ تیار کی.اسی اثناء میں ایک دن جب کہ میں ہاؤس بوٹ میں تھا شیخ محمدعبداللہ صاحب عصر کے بعد آئے.سر ننگے، آواز میں گھبراہٹ تھی.بخشی غلام محمد صاحب ان کی حفاظت کیلئے پیچھے پیچھے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 54 خود نوشت حالات زندگی تھے جو ہاؤس بوٹ کے باہر رہے.شیخ صاحب نے مجھ سے کہا.شاہ صاحب ایک خطر ناک خبر ہے.میں نے کہا مجھے معلوم ہے.کہنے لگے کیا ؟ میں نے کہا ہمارے مروانے کا انتظام ہو گیا ہے.وہ یہ سن کر حیران ہوئے اور کہا کہ یہی خبر میں لایا ہوں.مہاراجہ کے محل کے فلاں کارکن نے بتایا ہے کہ کانگڑہ دہلی سے چار آدمی بلائے گئے ہیں اور ان کے سپرد یہ کام ہوا ہے کہ آپ کو اور مجھے مروا دیا جائے.میں نے کہا کہ اطلاع درست ہے.مجھ سے دریافت کیا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے.میں نے اپنے ذریعہ خبر رسانی بتانے سے معذرت کی.( دراصل یہ ایک کھلا بیداری کی حالت میں مکاشفہ تھا ور بلند آواز ، احتیاط کرنے کی ہدایت تھی اس لئے بنانے سے ہچکچایا ) انہوں نے کہا کہ کیا تجویز ہے.میں نے کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) کو اطلاع دی جانی چاہئے جو ایک آدمی کے ہاتھ بھیجنی مناسب ہے.چنانچہ چٹھی لکھی گئی کہ اگر ہم مارے گئے تو اس کی ذمہ داری مہاراجہ صاحب پر ہو گیا ور درخواست کی کہ یہ چٹھی بینک میں محفوظ کر دی جائے.چنانچہ شیخ صاحب نے بھی اپنی حفاظت کا انتظام کیا اور میں اپنی بندوق اپنی رانوں میں لیکر سوتا.ہر جگہ جہاں میں گیا اس حالت میں شب گزار تا اور مشہور ہو گیا کہ میں مسلح ہوتا ہوں.غرض ان پُر خطر حالات میں ہمیں کام کرنا پڑا.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میری کارروائی کے نتیجے میں مندرجہ ذیل افسر برخاست ہوئے.مسٹر سالس بری سپیشل آفیسر علاقہ میر پور ۲.رام چند ڈی آئی جی.جبری پنشن -۳ چونی لال سب انسپکٹر پولیس - سزائے قید.یہ جیل سے بھاگ گیا تھا اور اسے دوبارہ گرفتار کرانے کے بعد سزا دلوائی گئی.مسٹر لاتھر آئی جی پولیس سے میں نے کہا یہ کام محمد دین صاحب سب انسپکٹر (احمدی) کے سپرد کیا جائے اور اس کی دوبارہ گرفتاری کا میں ذمہ لیتا ہوں.چنانچہ وہ گرفتار ہوا اور اس نے سزا پائی.۴.رام رتن کپورتھلوی.ایم.اے.وزیر پونچھ.یہ بھی وزارت سے علیحدہ کئے گئے.۵.بڑو صاحب مجسٹریٹ درجہ اول پونچھ.بڑ وصاحب کو ملک بدر کیا گیا اور یہ قادیان
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 55 خود نوشت حالات زندگی حضرت خلیفہ مسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) سے معافی مانگنے کیلئے آئیاور روتے ہوئے آپ کے پاؤں پڑ گئے اس وقت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے اور محترم ( مولانا عبدالرحیم ) در دصاحب حضور کے پاس بیٹھے تھے..پنڈت بلکاک.وزیر وزارت (انت ناگ) اسلام آباد.جبری ریٹائرمنٹ.(یاڑی پورہ سے میری واپسی پر جس رات وہ مجھے اسلام آباد ملے اور اپنی غلطی کی معافی طلب کی تو اس (وقت) ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا بھی میرے ساتھ تھے اور ان کی مضطرا نہ حالت کے عینی شاہد ہیں.اس ملاقات کے موجب ہمارے دوست خواجہ غلام نبی گل کار تھے.انہوں نے مسلمانوں پر کافی مظالم توڑے تھے ) ایک انسپکٹر پولیس جس نے علاقہ ویری ناگ میں مظالم کئے تھے.اس کا چالان کرایا گیا اور میری موجودگی میں اس کے خلاف (مقدمہ ) چلا اور تحقیق کے بعد آخر اس نے سزا پائی.اس کا نام میرے ذہن سے اتر گیا ہے.یہ مسلمان تھا.مظالم کی سرگذشت کا ایک اور نمونہ علاقہ کھڑی ریاست میر پور کے تمام لوگ ظلم وستم سے تنگ آ کر جہلم میں ہجرت کر آئے تھے اور ریاست کے افسر انہیں واپس لانے میں نا کام ہو چکے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) ان دنوں دہلی میں تھے.میں صورت حال سے آگاہ کرنے اور مشورہ لینے کی غرض سے دہلی گیا.حضور نے اس موقعہ پر مظلومین کی مدد کرنے کیلئے ارشاد فرمایا.میں نے مسٹر سالس بری کو بذریعہ تار اطلاع کی کہ میں جہلم آرہا ہوں اور راجہ محمد اکبر صاحب کی کوٹھی پر ٹھہروں گا.آپ اگر وہاں تشریف لے آئیں تو مہاجرین کی واپسی کی تدبیر سوچیں.کھڑی کا سارا علاقہ خالی تھا.فصل کھڑی تھی اور جانوروں کا کوئی نگران نہ تھا.نہایت ہی ابتری کا عالم تھا.چنانچہ مسٹر سالس بری جہلم آئے اور میں نے ان سے گفتگو کی اور شرط یہ کی کہ میری موجودگی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 56 خود نوشت حالات زندگی میں مظلومین کی فریاد سنی جائی اور تحقیق کی جائے.چنانچہ علی وال صاحب کا بنگلہ اس غرض کیلئے مقرر ہوا اور میں نے یہ بھی شرط لگائی کہ کوئی پولیس افسر بوقت تحقیق موجود نہ رہے.چنانچہ مولوی ظہور حسین صاحب فاضل جہلمی یکے بعد دیگرے مظلومین کو لاری میں لاتے اور ایک ہفتہ تک واقعات کی چھان بین ہوتی رہی.میں نے اپنے کلرک کو سمجھا دیا تھا کہ ایک طرف بیٹھ کر وہ واقعات ایسے طور سے نوٹ کرے کہ کسی کو معلوم نہ ہو.چنانچہ مسٹر سالس بری کی بہت حد تک تسلی ہوئی اور انہیں یقین ہو گیا کہ اس علاقہ کے لوگ واقعی مظلوم ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری رام چند ڈی آئی جی اور ڈوگرا اسپر نٹنڈنٹ پر ہے جس کا نام غالبا رام رتن تھا.میں نے مہاجرین کو تسلی دی اور انہیں واپس کیا.دو ہفتہ تک جہلم کے مسلمانوں جن میں جماعت احمد یہ جہلم ( بھی شامل تھی ) نے مظلوم مہاجرین کی کھلے دل سے مدد کی.رپورٹ وزیراعظم کی خدمت میں رپورٹ مرتب کر کے میں نے جموں آ کر وزیر اعظم مسٹر کالون کے سامنے پیش کی.انہوں نے یہ رپورٹ انسپکٹر جنرل پولیس مسٹرل اتھر کو بھی اور جب یہ رپورٹ ان کو دی گئی تو میں ان کے پاس ہی تھا اور محمد یوسف صاحب سابق لیفٹینٹ " اپنی وردی میں ملبوس میری کرسی کے پیچھے کھڑے تھے.ان سے ایک عجیب حرکت صادر ہوئی.اگر کوئی مکھی میری طرف آتی تو اسے دور کرتے اور ایک دفعہ جھک کر میرے بوٹ سے بھی مٹی صاف کی.بعد میں میں نے پوچھا آپ نے یہ کیا حرکت کی.مجھے سخت شرم محسوس ہورہی تھی.کہنے لگے یہ اس لئے کیا تا آئی جی پولیس کو آپ کے مقام کا علم ہو.اس روح تواضع و بے نفس کے ساتھ ہمارے کارکن محاذ کشمیر میں کام کرتے رہے.مولوی ظہور احمد صاحب نے بہت محنت سے کام کیا اور اس طرح دوسروں نے بھی.جب مسٹر لاتھر میری رپورٹ پڑھ چکے تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں پنجاب واپس جا رہا ہوں.میں نے کہا آج جانے کا ارادہ ہے؟ کہنے لگے نہیں آپ ٹھہر
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 57 خود نوشت حالات زندگی جائیں.پرائم منسٹر ہمیں اور مسٹر جارڈین آج رات سیا لکوٹ جارہے ہیں.مسٹر لیٹیمر ریذیڈنٹ جموں اور کشمیر کے ساتھ مشورہ کرنا ہے اور مسٹر سالس بری کو بذریعہ تار بلوایا گیا ہے.کل نتیجہ سن کر جائیں.چنانچہ دوسرے دن میں صبح اُن کے ہاں گیا بتایا کہ سالس بری کو پنجاب واپس بھیجنے کا فیصلہ ہوا ہے اور رام چند ڈی.آئی.جی کو ریٹائرمنٹ ( دے دی گئی ہے ) میں نے حضرت خلیفتہ ایح ایدہ اللہ تعالیٰ کو اطلاع دی اور دوسرے دن اخباروں میں شائع ہو گیا.اس کے (بعد ) حضور (خلیفہ مسیح الثانی نور اللہ مرقدہ) نے مجھے پونچھ کے مظلومین کی امداد کیلئے بھیجا.جہاں مسٹر جارڈین کے پولیٹکل منسٹر جارہے تھے.حضور نے فرمایا.مظفر آباد میں مولوی عبدالواحد صاحب (مربی) جیل میں قید ہیں.ان کی صحت بہت گر گئی ہے انہیں آزاد کروایا جائے ان پر بھی یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پبلک میں فتنہ وفساد برپا کر رہے ہیں.چنانچہ پونچھ جاتے ہوئے میں مظفر آباد کے وزیر سے جو مسلمان تھے ملا.ان کا نام مجھے یاد نہیں.انہوں نے میرے لئے چائے کا انتظام کیا مگر میں نے اس بناء پر معذرت کی کہ میرا ایک عزیز جیل بھگت رہا ہے میں چائے پینا نہیں چاہتا.انہوں نے فائل منگوائی جس میں ان کے خلاف کچھ بھی نہ تھا.آخر انہوں نے مجھ سے اس ظلم کے ازالہ کا وعدہ کیا اور چائے پینے کے لئے کہا.اس کے بعد میں نے چائے پی اپنا وعدہ پورا کیا.اس کے بعد میں پونچھ گیا اور جب پونچھ سے سرینگر پہنچا تو مولوی عبدالواحد صاحب رہا ہو چکے تھے.ٹھا کر کرتا رسنگھ.ریو نیومنسٹر.وزارت سے تبادلہ.محمد امین خان.انسپکٹر پولیس کے خلاف مقدمہ میں کامیابی اور اس کے عہدہ میں تنزلی.سرداران پونچھ کی قید و بند اور ان کی نجات کیلئے کامیاب کوشش یہ چند ایک مثالیں ہیں جن کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے بڑی جدوجہد کرنی پڑی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 58 خود نوشت حالات زندگی علاقہ پونچھ میں جگہ جگہ فسادات ہوئے.ڈوگروں نے مسلمانوں پر ظلم توڑے اور ان کے بڑے بڑے آدمیوں کو قید میں ڈالا.علاقہ مینڈھر اور علاقہ سرن وغیرہ پر ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ جرمانے ڈالے گئے اور جرمانوں کو وصول کرنے کیلئے مسلمانوں پر سختیاں کی گئیں.الزام یہ تھا کہ ان لوگوں نے بغاوت کی ہے اور ہندوؤں کے مکانات جلا دیئے ہیں.تھکیالہ پڑاوا کے مسلمان رؤوسا بھی قید میں تھے.سردار فتح محمد خان ( کریلہ ) روپوش تھے.ان کے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف پھانسی کے احکام عدالت سے ہو چکے تھے اور ان کے والد اور رشتہ دارسب قید و بند میں تھے.چوہدری عزیز احمد صاحب باجوہ ایڈووکیٹ وغیرہ احمدی وکلا ءان کے مقدمات کی پیروی کیلئے بھیجے گئے تھے.میں بھی ان مظلومین کی مدد کیلئے بھیجا گیا.سب سے پہلے میں نے آنجہانی راجہ پونچھ (سکھ دیو) سے ملاقات کی.جب میں ملاقات کے کمرہ میں داخل ہوا تو کیا دیکھا کہ وزیر صاحب دروازے سے قریب دائیں طرف کی دیوار کے پاس کرسی پر سہمے بیٹھے ہیں اور میرے لئے پاس ہی ایک کرسی رکھی ہے اور راجہ صاحب سامنے کی دیوار کے قریب جو کافی فاصلے پر تھی، کے قریب میز لگائے کرسی پر بیٹھے ہیں.وزیر صاحب چاہتے تھے کہ صرف درشن کر کے میں واپس چلا جاؤں.میں نے اپنی کرسی اٹھائی اور مسکراتے ہوئے راجہ صاحب سے مخاطب ہوا کہ اتنی دور سے میں اس لئے آیا ہوں کہ قریب ہو کر آپ سے باتیں کروں تا آپ مجھے سمجھیں اور میں آپ کو.انگریزی کے الفاظ یہ تھے.Heart to Heart Talk ان کی دائیں جانب کرسی رکھ کر ان کے قریب بیٹھ گیا.ان سے مصافحہ ہوا ( میں نے سنا تھا کہ مسلمانوں سے مصافحہ کرنے سے کتراتے ہیں یا اگر مصافحہ کر لیتے تھے تو بعد میں اشنان کرتے لیکن وہ جلد ہی میرے ساتھ بہت بے تکلف ہو گئے اور میں نے ان میں کوئی ایسی ویسی بات محسوس نہ کی.شریف طبیعت تھے اور اس ملاقات کے ایک یا دو سال بعد حضرت خلیفۃ اسیح
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 59 خود نوشت حالات زندگی الثانی ( نور اللہ مرقدہ) سے بھی ان کی ملاقات ہندو ہوٹل میں ہوئی تھی ) بوقت ملاقات وزیر صاحب دور ہی وہیں کونے میں بیٹھے رہے.راجہ صاحب نے مجھے اجازت دی کہ میں خود فسادات کے مواقع دیکھوں اور حالات کی تحقیقات کروں.یہی میرا مقصد اس ملاقات سے تھا اور انہوں نے وزیر صاحب کو حکم دیا.وہ کورنش بجا لائے.ہم دونوں وزیر صاحب کے دفتر میں آئے.کیا دیکھا وہاں پر تکلف چائے کا انتظام تھا.فیصلہ ہوا کہ میں اگلی صبح سفر پر روانہ ہوں اور وہ اس بارہ میں متعلقہ علاقہ جات کے افسران کو پروانہ بھیج دیں گے کہ میرے لئے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں اور مجھے کہا کہ روانہ ہونے سے پہلے ان سے ملوں.میں نے اس کے لئے ان سے مدد نہیں مانگی تھی بلکہ میں چاہتا تھا کہ تنہا فساد زدہ علاقوں کا دورہ کروں.دوسری صبح جب ان کے ہاں گیا تو معلوم ہوا کہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور نو دس بجے جاگتے ہیں.یہ میں جانتا تھا اسی لئے عملاً صبح سویرے کا سفر اختیار کیا.سردار صاحب کو ساتھ بطور راہنما لیا اور عبدالرب خاں کلرک بھی میرے ساتھ تھے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہوا کہ ایک ہی ہفتہ میں علاقہ تھکیالہ پڑا وا، مینڈھر اور سرن کا دورہ مکمل کر لیا اور یہی علاقے فسادزدہ تھے.تھکیالہ پڑاوا کا سفر بہت ہی تھکا دینے والا تھا.راستے میں کہیں کھانے کیلئے کچھ نہ ملا.پہاڑی پر پگڈنڈیوں کا راستہ تھا.رات تاریک تھی.گھوڑے تھے مگر ان پر سفر محفوظ نہ تھا اور چڑھائی کی وجہ سے تکلیف دہ تھا ) اور رات بارہ ایک بجے کے درمیان پیدل کر یلا مقام پر پہنچا جہاں جنگل میں سردار فتح محمد صاحب روپوش تھے.وہ مجھے رات ہی کو ملے اور میں نے انہیں مشورہ دیا کہ یہاں سے چلے جائیں کیونکہ پھانسی کے احکام صادر ہو چکے ہیں.چنانچہ میں براستہ سرن پہاڑیوں اور ندیوں اور دیواروں کو عبور کرتا ہوا موسلا دھار بارش میں آدھی رات کو پو نچھ پہنچا.راستے میں تین چار دفعہ کپڑے تبدیل کرنے پڑے.راستہ میں ندی تھی.مدرسہ بیسی پونچھوں کی مدد سے ندی عبور کی اور انہیں معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ ان کے جرمانے معاف کرانے اور ظالموں کو سزا دلانے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 60 خود نوشت حالات زندگی کی غرض سے میرا یہ سفر ہے.امام جماعت احمدیہ صدر کشمیر کمیٹی کے اخلاق فاضلہ کا ایک نمونہ (میں نے ) دوسرے دن رپورٹ مرتب کی اور نقشہ جات مقامات فساد زدہ بھی تیار کئے.مسٹر جارڈین نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ان سے یہاں نہ ملوں.اسی دن وہ سرینگر چلے گئے.میں قادیان آیا.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کے سامنے رپورٹ پیش کی.آپ نے فرمایا کہ آپ کا پہلا اخلاقی فرض یہ ہے کہ رام رتن صاحب ایم.اے وزیر پونچھ کو خط لکھوں اور ان کو اصلاح حال کا موقع دوں اور اگر وہ اس موقع سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو پھر سرینگر جا کر حکام بالا کو صورت حال سے آگاہ کروں.چنانچہ میں نے مفصل خط لکھا جو حضور نے ملاحظہ کیا اور اس میں مناسب اصلاح فرمائی.خط میں انہیں ہفتہ عشرہ کی مہلت دی گئی.دراصل میرے نزدیک بغاوت کو ہوا دینے اور ظلم کروانے والے یہ اور بڑو صاحب تھے.( یہ دونوں بغاوت فرو کرنے کے بہانے سے اس لئے داد لینی چاہتے تھے کہ بڑا تیر مارا ہے) انہوں نے میرے خط کی پرواہ نہ کی بلکہ میرے خلاف کارروائی کرنے کیلئے سری نگر پہنچے.میں بھی سرینگر پہنچ گیا اور مسٹر لاٹھیہ آئی جی پولیس سے معلوم ہوا کہ میرے خلاف انہوں نے سخت رپورٹ کی ہے.میں دوسرے دن صبح ، یہ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ کس کس افسر سے ملے ہیں اور کیا باتیں کیں ہیں، ان کی کوٹھی پر چلا گیا اور باتوں باتوں میں سب کچھ معلوم کر لیا.اس ملاقات میں میرے ساتھ مرحوم ملک محمد حسین بیرسٹر نیروبی تھے جو ان دنوں سیر و سیاحت کیلئے سری نگر گئے ہوئے تھے.وزیر صاحب مجھے معانقہ کے ساتھ ملے اور اس طرح مجھے الوداع کیا ( معانقہ کا مفہوم میں سمجھتا تھا) اور مجھ سے گلہ کیا کہ میں پونچھ کا دورہ چپکے چپکے کر آیا ہوں اور علاقے کے متعلقہ افسروں کو خدمت کا موقع نہیں دیا ( میں اس خدمت کا مفہوم سمجھتا تھا) چنانچہ سرینگر میں میں وزیر اعظم مسٹر کالون سے ملا اور رپورٹ پیش کی اور اس کی کاپی مسٹر جارڈین محلہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 61 خود نوشت حالات زندگی پولیٹیکل وزیر کو بھی دی اور صورتِ حال سے انہیں پوری طرح آگاہ کیا.دونوں انگریز افسر میری رپورٹ سے پورے طور پر مطمئن اور متفق تھے.دوسرے یا تیسرے دن مجھے اطلاع ملی کہ محترم وزیر اور صاحب پونچھ ملازمت سے علیحدہ کئے گئے ہیں اور بڑو صاحب ریاست بدر.(کئے گئے ہیں) جعل سازی کا انکشاف پنڈت بیلکاک وزیر (انت ناگ ) اسلام آباد بھی مہا پاپیوں میں سے تھے ، جن کے ظلموں کی داستان لمبی ہے.لیکن سب سے بڑھ کر ظلم انہوں نے یہ کیا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی، شیخ محمد عبد اللہ صاحب ، میرے اور (مولانا عبدالرحیم ) درد صاحب وغیرہ کے جعلی دستخطوں سے چٹھیاں لکھوائیں یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ہم مہاراجہ کشمیر کو علیحدہ کرنے کی سازش میں مصروف ہیں اور مسٹر پیل آئی جی پولیس نے جب مجھے ریاست سے واپس جانے کیلئے کہا تو یہ بھی دھمکی دی کہ وہ ہماری سازش کو برسر عام لانے والے ہیں اور ہمارے خلاف سخت کارروائی ہوگی.میں نے مسکراتے ہوئے ان کی اس دھمکی کو قبول کیا اور کہا کہ وہ وقت بھی آئے گا کہ آپ ان الفاظ کے دھرانے سے شرم محسوس کریں گے.چنانچہ انہوں نے پنجاب سی آئی ڈی کی مدد سے اس جعلی خط و کتابت کی تحقیق کی اور ثابت ہوا کہ ان تمام چھٹیوں میں سے صرف ایک چھٹی کے دستخط اصلی ہیں.یعنی حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی چٹھی کے جو بحیثیت صدر کشمیر کمیٹی شیخ محمد عبد اللہ کولکھی گئی اور اس کا یہ مضمون تھا کہ مہاراجہ کشمیر بالکل مستثنیٰ رکھا جائے کیونکہ مظالم کے ذمہ دار حکام ریاست ہیں، یا ناقص قانون؟ نہ کہ مہاراجہ صاحب، ان کی اصلاح ہونی چاہئے.پہلے اس پر پنڈت بیل کاک کی علیحدگی کا فیصلہ ہوا یہ مسل پہلے مسٹر جارڈین کے دفتر سے غائب ہو گئی تھی لیکن وہ جلد ہی واپس قبضہ میں لے لی گئی انہوں نے مجھے پنڈت بیل کاک کے خلاف کارروائی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی یاددہانی کی.مجھے فائل کی گمشدگی کی تفصیل بھی بتلائی.پنڈت بیل کاک کو جب علم ہوا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے تو خواجہ غلام نبی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 62 خود نوشت حالات زندگی صاحب گلکار وغیرہ کی خوشامد میں شروع کر دیں اور مجھ سے ملاقات کی خواہش کی.گلکار صاحب نے انہیں اسلام آباد میں پیغام بھیجا کہ یاڑی پورہ کے سفر سے واپس آنے پر میں اسلام آبادان سے مل لوں گا اور آمد کی تاریخ سے اطلاع دے دی جائے گی.جب یاڑی پورہ سے (انت ناگ) اسلام آباد پہنچا تو بارش ہو رہی تھی.میرے ساتھ کار میں ہم سفر ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب آف موگا ( تھے ).جب بارہ بجے شب کے قریب ہم اسلام آباد پہنچے تو معلوم ہوا کہ پنڈت صاحب میرے انتظار میں ہیں چنانچہ میں ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملنے گیا وہ ماتھے پر سیندور لگائے فرش پر بیٹھے تھے ان کے سامنے صندوقچی تھی مجھ سے معذرت کرنے لگے.میں نے کہا آپ کو معلوم ہی ہے آپ نے کیا کچھ کیا ہے.وہ کچھ چھپنے.میں نے کہا میں اور باتوں کا ذکر نہیں کرتا آپ نے ہم پر ایک سنگین الزام لگایا.کہنے لگے ہاں لیکن میں کیا کرتا.کشمیریوں نے مجھے ایسے خطوط دکھائے جن سے مجھے یقین ہو گیا کہ آپ مہاراجہ کے خلاف کاروائی کر رہے ہیں میں نے کہا آپ ہم سے پوچھ لیتے اور اپنی تسلی کر سکتے تھے کہ واقعی وہ ہمارے خطوط ہیں یا نہیں.انہوں نے صندوقچی کھولی اور خطوط میرے سامنے رکھ دیئے میں نے ایک خط دیکھا اور انہیں بتایا کہ سب دستخط جعلی ہیں.کہنے لگے بے ایمانوں نے میرا تین سو روپیہ بھی کھالیا میں نے کہا نہیں چھ سو کھایا ہے.ہنس کر کہنے لگے تین سوحکومت کا تھا اور تین سو میرا ذاتی.دوسرے دن جب میں سری نگر پہنچا تو ہاؤس بوٹ میں جو دریائے جہلم میں تھا داخل ہو گئے.بمشکل ایک گھنٹہ گزرا ہوگا کہ ایک بھری کشتی پنڈت صاحبان کی اپنی طرف آتے دیکھی.مجھے تعجب ہوا کہ میرے واپس آنے کا انہیں کیسے علم ہو گیا.وہ ہاؤس بوٹ میں آئے اور بیٹھتے ہی ہاتھ باندھ کر مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ پنڈت بیل کا ک ہمارا رشتہ دار ہے یہ کالا ناگ ہے اس پر رحم کرنا تو بہت بڑا پاپ ہوگا اس کے لئے کسی قسم کی سفارش نہ کی جائے گی.مجھے بڑا تعجب ہوا کہ انہیں اس قدر جلد کس نے اطلاع دی.آخر گل کار صاحب سے صورتِ حال(peel) معلوم ہوئی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 63 خود نوشت حالات زندگی آئی جی ایواش صاحب مسٹر پیل نے مجھے دھمکی دی تھی انہوں نے دعوت میں میری دلداری کی وہ در حقیقت دل میں شرمندہ تھے اور اس لئے چائے کے دوران میٹھی میٹھی باتیں کرتے رہے.شریف طبع یہ واقعات اختصار سے میں نے اس لئے بیان کئے ہیں تا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کی نگرانی کے ماتحت ان کے بھیجے ہوئے کارکنان کے کام کی نوعیت معلوم ہو اور یہ کہ مظالم کشمیر کی کس طرح دادرسی کی گئی.چنانچہ علاقہ سران اور مینڈھیر کے جر مانے معاف ہوئے اور میری دوسری ملاقات میں مہاراجہ صاحب پونچھ نے میرے سامنے قید اور پھانسی کی سزاؤں میں پڑے ہوئے مسلمان سرداروں کی رہائی ہوئی.آخر ہماری کوشش سے سردار فتح محمد خان صاحب جو موت کے ڈر سے بھاگے پھرتے تھے وہ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اس تختہ دار پر کھنچے جانے والے انسان کے لئے کتنی بڑی خوشی ہے اور ستم رسیدہ لوگوں کی رہائی اور آزادی کتنی بڑی خدمت ہے جو حضور (خلیفہ المسیح الثانی نوراللہ مرقدہ) کے ہاتھوں سے ادا ہوئی آج اس خدمت کو فراموش کیا جا رہا ہے.میں نے جو کہا ہے کہ کشمیر کی خدمات کے نتیجے میں انگریز ہم سے بگڑے اور شدید بگڑے اس لئے کہا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) نے مجھے بذریعہ تار ہالم پور بلوایا اور فرمایا خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب شملہ میں ہیں میں وہاں جاؤں اور فارن سیکرٹری مسٹر یلین (Gallen) سے ملوں.خان صاحب کو میں نے ہدایت بھیج دی ہے.آپ اپنے طریق پر ان سے بات کریں اور کہیں کہ کشمیر میں کام کرنے سے اب ہمیں روکا جا رہا ہے یہ درست پالیسی نہیں ہے.نیز جن حالات میں مجھے اور شیخ بشیر احمد صاحب کو وہاں سے نکالا گیا ہے وہ بھی پیش کرو.چنانچہ میں اخبارات کے بہت سے تراشے لے گیا.مسٹر گیلن سی (Gallen-C) نے اثنائے گفتگو میں اپنا وہی فقرہ دہرایا.اتفاق سے ان دنوں چار انگریز جاسوس روس میں گرفتار کئے گئے تھے اور ملاقات سے ایک دن پہلے میں نے اخبار میں پڑھا که برٹش گورنمنٹ نے روس کو بمبارڈ کرنے کی دھمکی دی ہے میں نے کہا چار انگریز جاسوس
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 64 خود نوشت حالات زندگی پکڑے جائیں اور برٹش حکومت سارے ملک کو بمبارڈ کرنے کیلئے تیار ہو جائے ؟ یہ تو آپ کے لئے جائز اور لاکھوں کشمیری پامال ہوں اور ان کے بھائیوں کو یہ اجازت بھی نہ دی جائے کہ وہ ان کی جائز مدد کریں.یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اس پر وہ بگڑے اور خان صاحب سے کہنے لگے:.Well Moulvi Sahib, the gentleman is reflecting on the Britishers.یہ کہہ کر انہوں نے گھنٹی بجائی اور ہمیں رخصت کیا.میں نیچے آ کر خان صاحب سے ناراض ہوا کہ آپ نے جواب کیوں نہیں دیا.ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) نے انہیں خط میں یہ ہدایت کی ہے کہ میں نرم پالیسی پر رہوں اور شاہ صاحب اپنے طریق پر گفتگو کریں گے میں نے آکر ایک گرم گرم چٹھی انگریزی میں لکھی.خان صاحب پڑھ کر بہت خوش ہوئے اسی وقت ٹائپ کروائی اور مسٹر گیلن سی (Gallen-C) کو بھجوا دی.میں نے اس میں لکھا کہ یہ آپ کے اخلاق اور انصاف کا نمونہ ہے مجھے اتنی دور سے ملاقات کی اجازت دی اور پھر ٹھنڈے دل سے میری بات پر غور کرنے سے انکار کر دیا.خان صاحب مرحوم نے مجھے بعد میں بتایا کہ دوسرے دن ہی ان کو (Gallen-C) فون آیا اور گفتگو کا لب ولہجہ معذرت کا تھا.حضرت خلیفہ اُسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) نے مجھے انہی دنوں ہمارے کشمیر سے نکالے جانے کے اثر کو دور کرنے کی غرض سے پونچھ جانے کا حکم دیا اور میرے وہاں جانے سے ایک کام انجام پایا اور اس کے بعد کشمیر دوبارہ جانے کا راستہ کھل گیا.کیونکہ پارلیمنٹ میں ہمارے اخراج سے متعلق سوال اٹھا دیا گیا تھا.مذکورہ بالا فارن سیکرٹری مسٹر یلین کی (Gallen.C) وہی ہیں جو کشمیر کمیشن کے پریذیڈنٹ تھے.اس کمیشن کے ممبر مسٹر عباسی اور مسٹر عشائی بھی تھے.حضور ( نور اللہ مرقدہ) نے مجھے ہدایت فرمائی کہ اصلاحات کے مسودے میں ایسا نہ ہو کہ مسلمانوں کے حقوق (میں) کوئی ایسی ویسی شقیں داخل کر دی جائیں جن سے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 65 59 خودنوشت حالات زندگی کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو نقصان پہنچے.اس لئے ضروری ہے کہ مسلمان ممبروں کے دستخط سے پہلے وہ مسودہ اصلاحات حضور کی نظر سے گذر جائے.یہ کام بہت مشکل تھا کیونکہ مجھے معلوم ہوا کہ مسٹرگین سی (Gallen C) اور ان کی بیوی مسودہ اصلاحات خود ٹائپ کرتے ہیں اور اپنی صندوقچی میں اسے مقفل رکھتے ہیں.ممبران کو بلا کر تبادلہ خیال کرتے ہیں ان سے اپنے سامنے ہی دستخط کروائیں گے اور رپورٹ بالا بالا بھیج دیں گے.ان کا یہ طریق عمل میرے لئے مایوس کن تھا لیکن ایک سیدھی سادھی تدبیر سے بغیر اس کے کہ سرقہ کی صورت ہو تیار کردہ رپورٹ جس پر دستخط ہونے تھے آگئی.راتوں رات وہ ٹائپ کروائی اور وہ لیکر قادیان پہنچ گیا.حضور نے اس میں اصلاحات فرمائیں اور تیسرے دن میں اور ( حضرت مولانا عبدالرحیم ) درد صاحب مرحوم دونوں مسودوں کو جموں لے کر آئے.اصلاح کردہ مسودے کی دوکا پیاں ٹائپ کروائیں.ایک ایک کاپی دونوں کو دی گئی کہ ہم میں سے اگر ایک گرفتار ہو جائے تو دوسرا مسلمان ممبران کمیشن کو پہنچا دے اور مسٹر عباس اور مسٹر عشائی کو ضروری مشورہ دیا گیا.امام جماعت احمدیہ کی کشمیریوں کیلئے خدمات حضور (خلیفتہ امسیح الثانی نور اللہ مرقدہ) کو کشمیریوں کی بہبود کا فکر واہتمام تھا کہ مجھ سے فرمایا کہ مالیہ اور لگان کا اندازہ زمین کی نوعیت پر ہوتا ہے اس لئے راولپنڈی ، جہلم اور سیالکوٹ وغیرہ اضلاع کی زمینوں کے مالیہ کا اندازہ کیا جائے اور اس مالیہ کے پیش نظر کشمیر کی زمینوں پر مالیہ لگنا چاہئے.چنانچہ میں نے پٹواریوں ، قانون گوؤں وغیرہ کی مدد سے تمام ملحقہ علاقہ جات کا جائزہ لیا.مسلمانان ہند خصوصاً پنجابی (لوگ) آپ کی سعی بلیغ کشمیر کے کام میں پوری ہمدردی سے تعاون کرتے تھے.سارے ہندوستان میں ساز گار فضا پیدا ہو چکی تھی اور جب اصلاحات کے اس مخصوص حصہ کیلئے ایک انگریز ایکسپرٹ (ماہر ) جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا ولایت سے جموں بلوائے گئے اور مسٹر میڈلٹین ان دنوں اس تعلق میں جموں کشمیر میں متعین
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 66 خود نوشت حالات زندگی ہوئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) نے مجھے ان دونوں افسروں سے ملنے اور آپ کا مشورہ ان کے سامنے پیش کرنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ میں ان دونوں سے ملا اور وہ حضور کے مشورے سے بہت خوش ہوئے اور اسے قبول کیا اور اتنی قدر کی کہ مسٹر میڈلیٹن کے ساتھ تو میرے تعلقات بے تکلف ہو گئے اور ان سے بھی کشمیر کے کام میں مددملی.حضرت خلیفہ اسیح ( نوراللہ مرقدہ ) کو اصلاحات کشمیر کے بارہ میں اس قدر اہتمام تھا کہ ان کے اعلان ہونے پر فرمایا کہ مجھے ( زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ) دور ونزدیک کے علاقہ جات میں جا کر لوگوں سے براہ راست تعلق پیدا کرنا اور معلوم کرنا چاہئے آیا اُن کا نفاذ ہوا ہے یا کاغذ پر سیاہی کے حروف ہی ہیں؟ ہمالہ کی چوٹیوں پر چنانچہ گاندھڑ بل کے قومی دور کر مسٹر غلام قادر کو ساتھ لیا اور کشمیر ٹورسٹ گائیڈ Tourist) (Guide کی مدد سے دور دراز علاقوں میں گیا.سون مرگ، بالتل ، بلتستان، دراز یا پت وادی ریچھ والی وادی) شیطان کنڈ ، ترگ بل، بانڈی پورہ، بارہ مولا وغیرہ علاقوں کا دورہ کرتا ہوا دو تین ماہ بعد سری نگر پہنچا.اس سفر کے اثناء مجھے ہمالہ کی بلند چوٹیوں اور ان دشوار گزار جگہوں سے گذرنا پڑا جن سے متعلق ( ٹورسٹ ) گائیڈ (Tourist Guide) میں یہ ہدایت لکھی تھی.Tourist should not try this rout.It is precarious.(یعنی زائرین کو یہ راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے.یہ راستہ غیر محفوظ اور خطرناک ہے ) جب بانڈی پورہ پہنچا اور وہاں ڈاک بنگلے میں اترا اور آئینہ دیکھا تو اپنا چہرہ سیاہ فام دیکھ کر حیران اور فکر مند ہو گیا.شدت سردی کی وجہ سے رنگ بدل چکا تھا.میں راستہ میں غلام قادر صاحب کا سیاہ فام چہرہ دیکھ کر اُن سے مذاق کرتا تھا.مگر یہ معلوم نہ تھا کہ اپنا حال بھی اُن جیسا ہے.گھوڑے کی سواری سے پنڈلی کے بال جھڑ چکے تھے جواب تک صاف ہیں اور داڑھی کے بالوں میں سفیدی شروع ہو گئی تھی اور ان سفروں میں مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ منظور کردہ وہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 67 خود نوشت حالات زندگی اصلاحات نافذ ہیں.بکروال وغیرہ قبائل نے جولٹیرے مشہور ہیں میرا ہر جگہ خوشی سے استقبال کیا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کو دعائیں دیں کہ ان کے ٹیکس کم ہوئے.ریچھوں کی غار میں اس سفر کے اثناء میں بعض وقت مجھے ریچھوں کی غاروں میں رات گذار نا پڑی.ریچھ موسم گرما میں برفانی چوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور غار میں خالی ہوتی ہیں.موسم کی خرابی اور بارش کی وجہ سے ہمیں مجبور ا ر استے میں انہی غاروں میں سے ایک غار میں رات ٹھہر نا پڑا.غرض کشمیر کی مہم ایک عظیم الشان تاریخی مہم ہے جو آپ کی قیادت میں اسیروں کی رہائی کیلئے سر ہوئی.گو جماعت کو ایک لمبا عرصہ تک برٹش انڈین حکومت کی مخالفت مول لینی پڑی اور اس مخالفت میں احرار خاص طور پر انگریزوں کا آلہ کار بنے لیکن مشیت الہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) کے ساتھ تھی اور اسی مخالفت کا سد باب کرنے کیلئے مجھے بحیثیت ناظر امور عامه و ناظر امور خارجہ خدمت ادا کرنا پڑی.وہ بھی درحقیقت مشیت الہی ہی کا ایک انعکاس تھا جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کے قلب صافی پر ہوا.ہر موقعہ پر الہی راہنمائی مجھے اس کا تجربہ و مشاہدہ نہ ایک بار بلکہ ہر بار ہوا میں کسی مہم کیلئے نامزد کیا گیا ہوں اور اکثر اس سے قبل خواب میں نظارہ دکھایا گیا اور اس انعکاس مشیت الہی کے تعلق میں صرف ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.میں کشمیر میں تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مکان ہے جس کے بالا خانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد ہیں.او پر جانے کیلئے ایک لمبی سیڑھی ہے.میں سیڑھی چڑھتے ہوئے بطور پہرہ دار دروازہ پر کھڑا ہو گیا ہوں.اتنے میں دو شیطان (صورت) سادھوؤں کے، گیرورنگ کے کپڑے پہنے ہوئے اوپر سے آئے.ایک بڑا ہے جس کا رنگ گندمی ہے اور ایک پست قد سیاہ فام.بڑے کے چہرے پر پھولے ہوئے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 68 خود نوشت حالات زندگی دانے ہیں.پست قد کی آنکھیں خونخوار ہیں.یہ شیطان سیرت سادھو زنان خانہ میں داخل ہو گئے.جس سے شور برپا ہوا.میں نے آواز بلند کی اور وہ دونوں جلدی سے باہر نکل آئے.پست قد نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنا چاہا مگر دوسرے نے اشارہ کیا کہ یہ موقعہ خطا جائے گا اور وہ دونوں سیڑھیوں سے اتر کر واپس چلے گئے.یہ ایک لمبا خواب ہے جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے.میں نے دار مسیح کے میدان کے اردگرد تار یک وادی میں بندر ہو اور کچھ وغیرہ کو تے پھاندتے اور اودھم مچاتے بھی دیکھے.یہ خواب بھی سچا ہوا جب کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایده اللہ تعالیٰ نے مجھے بطور ناظر امور عامہ و خارجہ متعین فرمایا اور ۱۹۳۷ء سے ۱۹۴۷ء تک دس سال فتنہ پردازوں کا کامیابی کے ساتھ مجھے مقابلہ کرنے کا موقع ملا یہاں تک کہ آخر بوقت تقسیم ملک میں سکھوں کی یلغار وغیرہ کے تعلق میں خدمت کرتا ہوا بھارت کے ہاتھوں قید ہوا.فالحمد لله علی ذالک یہ عرصہ خدمت نظارت امور عامه و خارجہ دس سال تک ممتد تھا.اسی طرح مشیت الہی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) کے ارادے اور راہنمائی میں عملاً جلوہ گر ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی استجابت دعا کے نمونے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے استجابت دعا کا ایک واقعہ بیان کر کے اس داستان کو ختم کرتا ہوں.حضرت والد صاحب (ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب) کی یہ عادت تھی کہ ہر تین سال کے بعد تین ماہ کی رخصت لیکر مع اہل بیت استفادہ روحانی کی غرض سے قادیان تشریف لاتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو اپنے ہاں ٹھیراتے اور اس طرح ہمیں بھی دارا مسیح میں قیام کرنے کا موقع ملتا رہتا.گرمی کا موسم تھا، غالبا جون کا مہینہ.میرے دل میں یہ بڑی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب تنہا ہوں تو میں آپ کو پنکھا کروں.ایک دن میری بڑی ہمشیرہ صاحبہ مرحومہ نے جن کا نام زیب النساء (اللہ آپ سے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 69 خود نوشت حالات زندگی راضی ہو ) ہے مجھے اطلاع دی کہ حضرت اماں جان (سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ نور اللہ مرقد ہا) باہر سیر کیلئے تشریف لے جارہی ہیں اور وہ بھی ساتھ جائیں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام مشرقی صحن میں تنہا بیٹھ لکھ رہے ہیں.ہمشیرہ نے مجھے پنکھا دیا اور کہا کہ اب موقع ہے حضور کو پنکھا کر و.حضور چٹائی پر مشرق کی طرف منہ کئے بیٹھے لکھ رہے تھے.شمال مغربی جانب صحن کے دروازے پر جا کر میں آپ کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور آہستہ آہستہ پنکھا شروع کر دیا.آپ ایک بار یک قمیض پہنے ہوئے تھے.سرسے ننگے تھے.پنکھا کرنے سے سر کے بار یک بال قدرے لہرانے لگے.مجھے خیال آیا کہ یہ وہ لطیف سیدھے بال ہیں جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی.چاہا کہ ان بالوں کو چوموں.میں اسی خیال میں تھا کہ حضور نے مجھے دیکھا اور مسکرائے.ہاتھ سے پکڑ کر مجھے اپنے سامنے بٹھا لیا.فرمایا آپ تھک گئے ہیں.میں بہت کھلاڑی تھا.کبڈی کھیلتے میرے دائیں گھٹنے کا جوڑ ہل گیا تھا.کافی علاج کروائے گئے لیکن جوڑ اپنی جگہ پر بحال نہ ہوا اور میں پھاؤڑی کی مدد سے چلا کرتا ا تھا.حضرت والد صاحب وقتا فوقتا) میرے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کیلئے لکھتے رہتے تھے.حضور نے میٹھے تیل کا اور کافور کی مالش کرنے کا ارشاد فرمایا تھا اور فلاسفران دنوں بورڈنگ میں میرے پاؤں کی مالش کیا کرتے تھے.حضور نے پوچھا کہ اب پاؤں کا کیا حال ہے.میں نے عرض کیا کہ مالش کی جارہی ہے.ایسا ہی دو چار اور باتیں مجھ سے دہرائیں اور اس کے بعد میں چلا آیا.اسی ہفتہ میرے ہم جماعت فضل دین کھاریاں والے نے کھیلتے ہوئے میری پھاؤڑی توڑ دی.قادیان ان دنوں ایک معمولی سی بستی تھی.میں نے کوشش کی کہ بانس ملے اور پھاؤڑی بنائی جائے.ہمارے بورڈنگ کے سپرنٹنڈنٹ بھائی عبدالرحیم صاحب ھا تھے.انہوں نے مرحوم عبد الرحیم یکے والے کو دو آنے دیئے کہ بٹالہ سے بانس لائیں مگر وہ ہر دفعہ بھول جاتے اسی طرح ہفتہ عشرہ گزر گیا اور اسی اثنا میں مجھے دیوار کا سہارا لے کر بورڈنگ سے مدرسے کے کمرے میں آنا جانا پڑتا.میں نے دیکھا کہ میری ٹانگ سیدھی ہو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 70 خود نوشت حالات زندگی رہی ہے اور زمین پر پاؤں لگ رہے ہیں اور ٹانگ میں چلنے کی طاقت پیدا ہو گئی ہے.کئی دنوں بعد بانس آیا اور میں نے اس کی سوئی بنوائی اور پھاؤڑی کی ضرورت نہ رہی.استجابت دعا کی برکت سے آج تک بفضل تعالیٰ اسی پاؤں سے پہاڑوں کے دور دراز سفر کرنے پڑے اور جنگ عظیم اول میں ترکی رسالے میں خدمت کرنے کا موقع ملا.دعائیہ اعجاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی قسم کی اعجازی دعا کا ایک اور واقعہ ہے.ایک (دفعہ) ہم مدرسے میں تھے.ہمیں معلوم ہوا کہ امرتسر کا ایک وکیل جن کا نام محکم الدین ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تبادلہ خیال کرنے آیا اور حضور ( بیت ) مبارک میں بیٹھے اس سے باتیں کر رہے ہیں.میں بھی وہاں گیا اور ایک طرف بیٹھ گیا.حضرت مفتی محمد صادق اور شیخ یعقوب علی عرفانی ( اللہ ان سے راضی ہو ) اور بعض اور احباب وہاں بیٹھ گئے.آپ محکم الدین سے مخاطب تھے اور اس وقت یہ بیان کر رہے تھے کہ آپ کی صحبت کا اثر کیا ہے.چہرہ کا رنگ بدل گیا اور حضور پُر وقار آواز اور جوش سے فرمانے لگے کہ میری صحبت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اثر رکھا ہے کہ ایک بچہ بھی اگر میری صحبت میں ہفتہ یا کچھ دیر رہے تو وہ مشرق و مغرب کے مولویوں پر بھاری ہوگا.یا یہ فرمایا فوقیت لے جائے گا اور اس وقت حضور کی نظریں میری طرف تھیں اور میں دعا میں مشغول ہو گیا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ تو مجھے وہی بچہ بنا دے جو حضور کی صحبت سے فیض یاب ہونے والا ہو اور مجھے یقین کامل ہے کہ حضور کی دعا اور نظر عنایت کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ مجھے سلسلہ کی خدمت کا موقع ملا ہے.الحمد للہ علی ذالک انداری پیشگوئی ان دنوں کا ایک اور واقعہ ذکر کرتا ہوں کہ ہم دار مسیح میں ہی مقیم تھے کہ کسی نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام غشی میں ہیں میں بھی اس کمرے میں پہنچا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 71 خود نوشت حالات زندگی جہاں حضور چار پائی پر بے ہوش پڑے تھے.لحاف اپنے اوپر ڈالا ہوا تھا اور پاؤں دابے جا رہے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ( نور اللہ مرقدہ) آپ کے سرہانے کی طرف زمین پر پاؤں کے بل بیٹھے آپ کی نبض ہاتھ میں لئے ہوئے تھے.جون کا مہینہ تھا.تھوڑی دیر کے بعد ہوش میں آئے اور مدہم کمزور آواز میں کچھ فرمایا.مجھے اچھی طرح سنائی نہیں دیا.میں دہلیز میں تھا.بعد میں معلوم ہوا کہ آپ کوششی کی حالت وحی میں طاری ہوئی تھی اور آپ نے جو الفاظ فرمائے اس کا مفہوم ( یہ تھا ) کہ منذ روحی میں اطلاع دی گئی ہے کہ پنجاب میں ہیضہ ( عذاب الہی ) پھوٹے گا اور اسی ہفتہ پنجاب میں ہیضہ پھوٹا اور قادیان میں علی شیر جو آپ کے رشتہ داروں میں سے تھے اور سخت مخالف تھے ہیضہ سے فوت ہو گئے.یہ اتنے شدید دشمن تھے کہ جب ہم نئے نئے قادیان آئے اور باہر باغ دیکھنے کیلئے گئے تو ہمیں راستے میں ملے اور ہمیں فحش گالیاں دیں کہ آگئے ہیں سیر کرنے کیلئے.فوجی تربیت ( مجھے ) فوجی تربیت سے بڑا فائدہ پہنچا اور اس تربیت کے دوران میری تعلیم بھی جاری رہی.انگریزی فوجی لٹریچر جو برٹش کونسل بغداد کی لائبریری سے ترکوں کے ہاتھ آیا تھا.اس کے عربی ترجمہ کا کام بھی میرے سپرد کیا گیا.اس کے علاوہ ادارہ استطلاعات اور افتاء اور تعذیری خدمت بھی میرے سپرد تھی.اس تربیت نے مجھے اس قابل بنا دیا کہ سلسلہ کی انتظامی نوعیت کی خدمات بجالا سکوں.فوجی تربیت سے مجھے اس قدر شغف تھا کہ قادیان میں میں نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) سے بحیثیت ناظر (اصلاح وارشاد ) عرض کی کہ ہمارے مربیان فوجی تربیت کے محتاج ہیں.آپ نے میری اس بارہ میں پیشکش کی.تجویز منظور فرمائی اور لیفٹینٹ مرزا گل محمد مرحوم کی زیر نگرانی ان کی فوجی پریڈ شروع ہوئی.جب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 72 خود نوشت حالات زندگی ایک دو ماہ گزرے تو مرزا گل محمد نے مجھ سے کہا کہ ابھی کسر باقی ہے ان کی نظر میں ایک سکھ جمعدار ایک پنشنر ہے ان سے بطور انسٹرکٹر کام لیا جا سکتا ہے.ایک ماہ کے لئے ان کو ملازم رکھ لیا جائے تو بہت اچھا ہو گا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ہماری درخواست قبول فرمائی اس سکھ جمعدار نے (مربیان ) کی فوجی پریڈا کھٹر طریق سے کروائی اور ساری کسر نکال دی.آخری پریڈ حضرت صاحب نے بھی ملاحظہ فرمائیا اور آپ جمعدار کے آرڈر کے چست فقروں کو سن کر خوب ہنسے.رائٹ لیفٹ ، رائٹ لیفٹ ، قدم سے قدم ، سامنے دیکھ.ان فقروں کے ساتھ خود اس کے قدم بھی آگے پیچھے دائیں بائیں ( مربیان ) کے قدموں کے ساتھ ساتھ اٹھتے اور زمین پر پڑتے تھے.قدموں کی ہم آہنگی اور موزونیت ایک خوش کن منظر پیش کر رہی تھی.امید ہے ( مربیان ) یہ پریڈ نہیں بھولے ہونگے.قادیان میں خدمات اس کے بعد ۱۹۳۷ء میں جب نظارت امور عامہ کا چارج میں نے لیا تو ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) سے اجازت حاصل کر کے تمام کارکنان صدر انجمن احمدیہ کو فوجی پریڈ سکھنے کا حکم جاری کیا گیا.بڑی مشکل سے وہ اس سے مانوس ہوئی.ایک دن قدیم زنانہ جلسہ گاہ قادیان جہاں یہ مشق کی جاتی تھی میں ایک لاٹھی لے کر آیا اور کارکنوں سے کہا کہ آپ میں سے بعض مجھ سے ناراض ہیں کیونکہ میری طرف سے غیر حاضری پر جرمانے بھی ہوتے رہے ہیں اس وقت میرے ساتھ مقابلہ کر لو اور اپنا غصہ نکال لو.اس موقعہ پر میاں عطاء اللہ صاحب اور مرزا عبدالحق صاحب پلیڈران بھی موجود تھے.دوافراد نے جرات کی اور معافی مانگتے ہوئے یکے بعد دیگرے مجھ پر بڑے زور سے حملہ آور ہوئے.مگر میں نے دونوں کو مار بھگایا بعد میں میں نے کارکنوں کو خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ عمر اور جسمانی قوت و صحت کے لحاظ سے آپ مجھ سے زیادہ مضبوط اور جوان ہیں لیکن ایک فرق ہے مجھ میں شوق عمل ہے اور آپ میں نہیں.اس کے علاوہ انہیں اور نصائح بھی کیں.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 73 خود نوشت حالات زندگی کارکنوں کی دیکھا دیکھی درسگاہوں میں بھی فوجی تربیت شروع ہو گئی اور خدام احمدیت نے لاٹھی چارج کام سیکھنے کیلئے اپنا ایک اکھاڑہ بنالیا اور دوسرے لوگوں نے ہماری ریس میں فوجی ٹریننگ شروع کر دی.۱۹۳۹ ء کے شروع میں گورنمنٹ ہند نے حکما یہ ٹر ینگ ممنوع قرار دے دی).خدام الاحمدیہ کی تربیت جب دوسری جنگ عظیم کا زمانہ آیا تو میں نے بحیثیت ناظر امور عامہ حضور سے اجازت طلب کی کہ مجھے اپنے جوانوں کو بھرتی کرانے کی اجازت دی جائے.آپ نے نہ صرف اجازت دی بلکہ اس کے بارے میں ایک خطبہ جمعہ مخصوص فرمایا اور احمدی نوجوانوں کو پُر زور الفاظ سے ترغیب دلائی کہ وہ فوج میں بھرتی ہوں.چنانچہ اس کے لئے ایک منظم کوشش کی گئی اور قادیان میں حسب خواہش بھرتی کا دفتر قائم کیا گیا جس کے انچارج افسر مولوی ظہور الحسن صاحب جہلمی تھے.میری سفارش پر آخر ملٹری ریکروٹمنٹ ڈیپارٹمنٹ سے ڈھائی صد روپیہ تنخواہ پانے لگے اور دوسری سہولتیں بھی انہیں بہم پہنچائی گئی تھیں ان دنوں فوجی جلسوں میں مجھے مدعو کیا جانے لگا.جالندھر کے آخری جلسہ میں وزیر اعلیٰ خضر حیات اور مہاراجہ پٹیالہ نے بھی تقاریر کیں اور افسران ریکروٹمنٹ کی خواہش پر میری تقریر بھی ہوئی.انہیں دنوں گورنر کے ہاتھ سے مجھے سونے کی گھڑی بطور ہدیہ دی جانے کی تجویز کی گئی میں نے بُرا مانا اور انہیں بتایا کہ میری خدمت ذاتی لحاظ سے نہیں بلکہ جماعتی حیثیت سے ہے اور ناظر امور عامہ جماعت احمدیہ کی یہ ( ہتک) ہوگی کہ وہ ان خدمات کے صلہ میں گورنر کے سامنے ہاتھ پھیلائے.افسران متعلقہ سے اپنی ناراضگی کا اظہار کر کے میں قادیان واپس آ گیا اور اس واقعہ کا کسی سے ذکر نہ کیا.کچھ عرصہ بعد جالندھر سے ایک انگریز فوجی افسر اور میجر سجان سنگھ معذرت کرنے کیلئے قادیان آئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے بھی ملنے کی خواہش کی.انہوں نے حضور سے دوران ملاقات آمد کی غرض کا خود ہی ذکر کیا اور بعد میں ایک چٹھی حوصلہ افزائی کی میری طرف بھیجی گئی.جو احمد یہ میمورنڈم میں موجود ہے اور اس کی نقل منسلک.ہے.
خود نوشت حالات زندگی 74 حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب Extracts from Confidential letter dated 26-10-42 from the A.T.R.O Jullundur to D.T.R.O.Sub Area No.2 Lahore."I would also bring to your notice the excellent work done by His Highness the Maharaja Sahib of Patiala and his officials Kanwar Gasjit Singh, Syed Zain-ul-Abedin Wali Ullah Shah Nazir Umuri Ama & Kharijah Ahmadiyya Movement Qadian and S.Kartar Singh Dewana Maharaja of Kapurthala in connection with the Technical Recruiting.I would have recommended the very strongly for the award of Gold watches, but as they are very big personalities I would only request that the Director of Recruiting may be pleased to express his appreciation for their most valuable services and assistance".Copy of a D.O.Letter No.Jm/14/2936 dated 2nd April 1943, to Syed Zain-ul-Abedin Wali Ullah Shah, Nazir Umuri Ama & Kharijah.I greatly acknoledge the valuable services rendered by you in connection with the recruitment of Technical personnel.You have taken a keen interest in the WAR Efforts and produced a large number of technicians, clerks and WAR Trainees etc.and excercised a personnel influence over the public and also given your whole hearted co-operation to the Recruiting staff.I also appreciate the help given by your local secretaries and assistants every where in my area.About SEVEN THOUSANDS recruits have been enrolled for the fighting services as a result of your efforts.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 75 خود نوشت حالات زندگی I shall be obliged if you please issue instructions to your assistants to redouble their efforts so that we may succeed in securing twice the number of recruits in an equal time.I certainly hope you will continue to give your help in future.Sd/- Tehnical Recruiting Officer Jullundur.بوقت تقسیم ان سات ہزار فوجی ملازمین جن کا ذکر چٹھی میں کیا گیا ہے سے احمدی نوجوان رخصت لیکر یا فوجی خدمت سے آزادی حاصل کر کے قادیان کی حفاظت کیلئے آموجود ہوئے جب کہ قادیان سکھوں کے نرغے میں گھری ہوئی تھی.ہماری ٹریننگ اور بھرتی اللہ تعالیٰ نے ضائع نہیں ہونے دی.فالحمد للہ علی ذالک حسین پاشا نے میرے ساتھ قادیان جانے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ پشاور سے واپسی پر بذریعہ تار اطلاع دیں گے چنانچہ میں لاہور ان کا انتظار کرتا رہا.ان کا پروگرام تھا کہ لاہور اسٹیشن پر ہی میں ان سے ملوں اور پھر اکٹھے گاڑی پر امرتسر سے قادیان جائیں.انہوں نے منتظمین کو بذریعہ تار اطلاع دی لیکن مجھے عملاً اطلاع نہ دی گئی اور اس کی تفصیل سالک صاحب مرحوم نے حضرت صاحب کو بتائی اور مجھے بتایا کہ پاشا صاحب نے جب مجھے اسٹیشن پر موجود نہ پایا تو بار بار افسوس کا اظہار کیا کہ میرا دوست کیا خیال کرے گا کیونکہ ایران کی دوسری لڑائی زیادہ سخت تھی لیکن دشمن مغلوب ہوا اور اس نے راہ فرار اختیار کی رسالہ کو تعاقب کا حکم ہوا اور میں بھی تعاقب کرنے والوں میں تھا.ان کے مردے ادھر ادھر بکھرے پڑے تھے.سڑاند سے سانس لینا مشکل تھا خون پر گھوڑے دوڑاتے اور خندقیں پھلانگتے ہم نے ان کا پیچھا کیا.ترکی فوج کا بھی جانی نقصان ہوا اور دوسرے یا تیسرے دن مجھے حکم ہوا کہ میں زخمیوں اور بیماروں کو بغداد پہنچاؤں.آلودز مین پرط
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 76 خودنوشت حالات زندگی فوج میں ایک بن باشی ( میجر ) محی الدین بیک بھی تھے.انہوں نے بعض احمقانہ غلطیاں کی تھیں جن کی وجہ سے ہمیں کرند کی لڑائی لڑنا پڑی.لڑائی سے بچنے کیلئے انہوں نے غالباً جمال گھوٹے کا مسہل لے لیا.خونی پیچش سے وہ سخت بیمار ہو گئے.حسین رؤف پاشا نے انہیں ان زخمیوں میں شامل کیا.ترکی افسران سے اس قدر ناراض تھے کہ ان میں بعض نے مجھے اشارہ کیا کہ ( محی الدین ) کو راستے میں ہی ختم کر دیا جائے.میری اقامت حسین رؤف پاشا کی قرارگاہ میں تھی اور قریباً تمام افسر میرے ساتھ بے تکلف تھے.محی الدین اور میرا اردلی مشترکہ تھا اور رہنا سہنا بھی اکٹھا.ان کے دل میں شبہ پیدا ہوا کہ کہیں جمال پاشا سے جو بڑی اور بحری فوج کے کمانڈرانچیف تھے ان کی غلطیاں بیان نہ کر دوں.جمال پاشا نے مجھے جرمن ماؤزر (Mouser) بطور ہدیہ دیا تھا جس میں گیارہ گولیاں بیک وقت استعمال ہو سکتی تھیں اور وہ ماؤزر (Mouser) تہہ ہوکر ایک ہاتھ برابر ہو جاتا تھا اور آسانی سے پہلو میں لٹکایا جاسکتا تھا ( سردار فقیر محمد خان نے میرے اس ماؤزر اور دیگر اسلحہ کا ذکر بھی اپنی تقریر میں کیا تھا ) محی الدین بیک نے مجھ سے کہا کہ ہم ایسے علاقہ میں سفر کرنے والے ہیں جہاں کوئی خطرہ نہیں.یہ ماؤز ر صندوق میں بند کر دیا جائے.چنانچہ مشتر کہ صندوق میں محمد نامی اردلی کے ذریعہ سے مقفل کر دیا گیا.یہ اردلی از میر کا باشندہ تھا.دوسرے پڑاؤ پر اس نے مجھ سے کہا کہ اپنا ریوالور دیں تا کہ صاف کردوں.میں نے دے دیا اور ساتھ ہی یہ شبہ گذرا کہ ہو نہ ہو میجر مجھے کسی بہانے سے غیر مسلح کر رہا ہے.اردلی نے دوسرا ریوالور بھی صاف کرنے کیلئے مجھ سے طلب کیا.میں نے کہا کہ یہ صاف ہی ہے اگلے روز تیسرے پڑاؤ پر جو قزل ارباط کے بعد تھا میں نے اردلی سے کہا کہ میرا ریوالور لاؤ.قسم کھا کر کہنے لگا کہ وہ تو فلاں چشمہ پر بھول آیا ہوں.مجھے اس کی قسم پر شبہ ہوا میں خاموش رہا.میری عادت تھی کہ نماز شام وغیرہ باہر جا کر کسی سبزہ زار میں پڑھتا تھا تیسرے پڑاؤ میں عشاء کے وقت نماز سے فارغ ہو کر جب لوٹا تو رات اندھیری تھی.ایک چوبارے میں میں اور محی الدین بیک مقیم تھے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 77 خود نوشت حالات زندگی ذکرِ حبیب یہ مضمون نامکمل رہے گا اگر میں دو تین چشم دید واقعات بطور مثال وعبرت بیان نہ کروں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاثیر قدسی کا اندازہ ہوسکتا ہے.ہر مبائع جس کا ہاتھ آپ کے دست مبارک سے چھوا اور آنکھوں نے آپ کے چہرہ مبارک کو دیکھا اور معبودِ حقیقی کی محبت میں آپ کی ربودگی و وارفتگی کا مشاہدہ کیا اور جس کے کانوں اور دل میں آپ کے کلمات مبارک جاگزین ہوئے ان کی زندگی میں ایک پاکیزہ انقلاب پیدا ہو گیا.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی دعوۃ الی اللہ کے اثرات بتایا جا چکا ہے کہ والدم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب سابقہ تحصیل رعیہ ضلع سیالکوٹ ( حال تحصیل و ضلع نارووال) کے شفا خانہ میں انچارج ڈاکٹر تھے جن دنوں کا واقعہ بیان کرنے لگا ہوں ان دنوں میری عمر چھ سات برس سے زیادہ نہ تھی.تحصیل کے افسران تحصیلدار، نائب تحصیلدار ناظر اور انچارج تھا نہ کبھی حضرت والد صاحب کی بہت عزت کرتے اور ان سے حسن عقیدت رکھتے.ان کی مستورات کا ہمارے گھر آنا جانا تھا.خواہ مسلم ہوں یا ہندو یا عیسائی.ان میں سے ایک ناظر حضرت والد صاحب کے بڑے عقیدت مند تھے.لیکن ان کا اپنا حال یہ تھا کہ راگ و ساز کے شیدائی اور ان کے لوازمات میں کھوئے ہوئے تھے.ایک دن ان کے بچوں سے ملنے ان کے ہاں گیا ڈھولکی اور سارنگی کی آواز سن کر باہر کے ایک کمرے میں جھانکا.ساری مجلس مست و مگن تھی.لیکن ناظر صاحب کچھ شرمائے.سیدوں کی بڑی قدر کرتے تھے.گانا بجانا تو کچھ دیر کیلئے بند ہوگیا اور مجھے اندرون خانہ بھجوا دیا.ان کی دنیا کی رنگ رلیوں سے شغف میں ان کی ہر خاص و عام میں شہرت تھی.اب تک ان کی شکل نہیں بھولتی.بڑی بڑی مونچھیں اور داڑھی صاف.جب میں قادیان آیا تو ایک دن کیا دیکھتا ہوں کہ ایک صاحب سجدہ میں سرنگوں ہیں اور نہ معلوم اپنے مولا سے کس قسم کے راز و نیاز کی کیفیت میں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 78 خود نوشت حالات زندگی غائب.ان کے لمبے سجدوں اور طول طویل نماز کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا.چہرے پر داڑھی تھی میں پہچان نہ سکا.نماز سے فارغ ہونے پر انہوں نے مجھے خود ہی گلے لگایا اور بتایا کہ وہ وہی مولا بخش بھٹی ہیں جو رعیہ میں ناظر تھے اور جس کی شہرت جیسی تھی سب کو معلوم ہے اور مجھے ان سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی کتاب غالبا براہین احمدیہ ان کو پڑھنے کیلئے والد صاحب نے انہیں دی اور جب وہ رعیہ سے تبدیل ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق بخشی اور یہ وہ مشہور ( رفیق) ہیں جن کی اولاد ہمارے نہایت مخلص دوست ڈاکٹر شاہ نواز صاحب ہیں جنہوں نے ملازمت کے بعد اپنے آپ کو خدمت دین اور اشاعت ( دین حق کیلئے وقف کیا اور اب بطور ( مبشر ) کام کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا پاک تبدیلی پیدا فرمائی دوسرا واقعہ میرے اپنے مشاہدہ سے تعلق نہیں رکھتا لیکن جس شخص کی زندگی کے متعلق ہے انہوں نے مجھے خود سنایا اور وہ بھی اپنے رزائل زندگی میں ایسے ہی تھے جیسے حضرت چوہدری مولا بخش صاحب بھٹی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) ان کا نام چوہدری حاکم علی صاحب ( اللہ آپ سے راضی ہو ) چک نمبر ۹ پنیار تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا ہے اور وہ جماعت میں کافی شہرت رکھتے ہیں ہو سکتا ہے ان کی زندگی کے حالات سیرۃ ( رفقاء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں قلمبند ہوں.ان کی نماز میں جو کیفیت تھی وہ میں نے خود دیکھی تھی.کہاں چنگ ور باب میں ان کا قدیم شغف اور کہاں نماز میں ان کا استغراق یہ مقدس انقلاب کوئی معمولی معجزہ نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وابستہ ہونے والوں میں پیدا ہوا.ایک دو نہیں بلکہ ہم جیسے ہزاروں ہیں جو آیت لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا (سورۃ البقرۃ : ۱۴۴) کے مصداق بنے.میرا یقین ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے الہی صفات کا غیر معمولی مشاہدہ کیا.کیونکہ اس کے بغیر زندگی میں سچی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 79 خود نوشت حالات زندگی مجھے پرانے پیروں کی مجلسوں کی ہاؤ ہو اپنے ملک میں اور عربی ممالک میں بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور جنات کو قابو کرنے والے بھی دیکھے ہیں.ان سے مجھے سخت نفرت ہے کیونکہ ان کی مجلس میں ریا کارانہ مکر وفریب اور پاکھنڈ کے سوا کچھ نہیں.مندروں کی حقیقت ایک دن خلیفہ المسح الاول ( نور اللہ مرقدہ) مجھ سے فرمانے لگے کہ کیا آپ کبھی کسی مندر میں گئے ہیں؟ میں نے عرض کیا وہ تو مسلمان کو اندر داخل نہیں ہونے دیتے.فرمایا کیا بے جان پتھروں کے پجاری سے زندہ خدا کا پرستار مرعوب ہوا کرتا ہے؟ اس دفعہ چھٹیوں میں جب رعیہ جانے کا موقع ملے تو مندر میں جا کر دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے.چنانچہ انہی دنوں میں ایک دن صبح رعیہ گاؤں کے مندر میں چلا گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بت کے سامنے پجاری کھڑا بھجن گا رہا ہے.ہاتھ میں گھنٹی یا چھپنیاں ہیں.وہ گانے کے ساتھ ناچ رہا ہے اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بت کے سامنے جھکتا اور ماتھا ٹیکتا ہے.میں اس نظارے سے کھڑا متاثر ہوا.جب واپس قادیان آیا تو حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ( نور اللہ مرقدہ) نے جو پہلا سوال مجھ سے کیا وہ یہ تھا کہ کیا آپ مندر میں گئے تھے؟ میں نے عرض کی ہاں گیا تھا.پوچھا کہ کیا کسی نے روکا تو نہیں؟ میں نے کہا نہیں.فرمایا نور الدین نے نہیں کہا تھا کہ زندہ خدا کا پرستار کسی بت کے پرستار سے مرعوب نہیں ہوتا.آپ نے پوچھا کہ میں نے اس میں کیا دیکھا.میں نے کہا کہ میں نے بت کی پوجا پاٹ سے جواثر قبول کیا ہے وہ اس آیت کا مصداق ہے.قُلْ كُلَّ يَعْمَلُ عَلَى شَاكِلَتِهِ فَرَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَنْ هُوَاهُدى سَبِيلًاه (سورة بنی اسرائیل: ۸۵) ہر شخص اپنے طریق پر عمل کر رہا ہے.تمہارا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون صحیح راستے پر ہے گو پجاری ایک بت کو پوج رہاتھا لیکن اپنی نادانی میں وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنے پرمیشر کو خوش کر رہا ہے.میرے جواب سے استاذی المکرم حضرت خلیفہ امسیح الاوّل (نور اللہ مرقدہ) بہت خوش ہوئے جو تربیت میں نے آپ سے حاصل کی اس کے تقاضے سے میں کئی پیروں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 80 خود نوشت حالات زندگی فقیروں وغیرہ کی مجلس میں بغرض تحقیق بے دھڑک چلا جاتا تھا جو بظاہر اولیائی کا دم بھرتے ہیں مگر حقیقت سے نا آشنا محض تاثیر قدسی سے بالکل کورے.اخلاص کے نظارے تیسرا واقعہ جو اب ذکر کرنے لگا ہوں اس کا تعلق اس زمانے سے ہے جب میں شام و مصر سے بطور شاہی قیدی اپنے وطن میں واپس لایا گیا.ایک دن میں لاہور میں تھا.مجھے معلوم نہ تھا کہ جماعت احمد یہ نماز کہاں پڑھتی ہے.مجھے اتنا علم ہوا کہ دہلی دروازہ میں نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے.میں دہلی دروازہ جا پہنچا اور وہاں ایک ( بیت ) میں نمازی دیکھے اور میں اندر چلا گیا.لیکن جس افراتفری میں سنتیں پڑھی جارہی تھیں اور خطبہ جمعہ کا جو انداز تھا اس سے میں نے معلوم کیا کہ یہ نہ احمدیوں کی نماز ہے اور نہ ان کا خطبہ.باہر نکلا تو ایک احمدی دوست نے پہچانا.وہ حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ میں یہاں کیسے؟ میں نے کہا کہ میں اس جگہ کی تلاش میں ہوں جہاں احمدی نماز پڑھتے ہیں.وہ مجھے اپنے ساتھ وہاں لے گئے.ایک باغیچہ میں دوست جمع تھے.میں نے جا کر سنتیں پڑھیں.خطبہ کے انتظار میں ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک صاحب سفید لباس میں ملبوس سفید رومال ہاتھ میں تھامے ہر شخص کے پاس جاتے اور اپنا رومال پیش کرتے.ہر شخص روپیہ دور و پیہر آنے دو آنے.پیسہ دو پیسے حسب توفیق اس میں ڈالتا میں نے پوچھا یہ کیا ہے.بتایا کہ یہ (بیت) کیلئے چندہ جمع ہو رہا ہے.سالہا سال ان کا یہی طریق رہا اور سالوں کے بعد آخر احمدیہ ( بیت ) ان پیسوں سے تیار ہوئی جس کے لئے ہر شخص کے سامنے مدتوں ہاتھ پھیلائے جاتے رہے.کیا ہی عجیب یہ ہمت واستقلال کا نمونہ تھا.خدا کیلئے بھیک مانگنے سے اس بزرگ نے ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کی.یہ وہ ( بیت ) ہے جو بیرون دہلی دروازہ میں واقعہ ہے.یہ بزرگ بہت نازک مزاج اور دلیہ طبع تھے.ایک دن ( بیت ) احمد یہ والی گلی میں شام کے وقت میں انتظار کرنے لگا کہ اذان ہو اور میں باجماعت نماز پڑھ کر واپس اپنی قیام
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 81 خود نوشت حالات زندگی گاہ کو جاؤں.میں نے ایک دوست سے جو میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا کتنا احسان ہے کہ ہمیں نماز پڑھنے کیلئے ایک (بیت) میسر ہے اور بتایا کہ وہ وقت تھا جب باہر درختوں کے نیچے نماز پڑھی جاتی تھی اور اس بھیک کی داد دی جس کے لئے سالہا سال ہاتھ پھیلائے جاتے رہے.تو سننے والے صاحب نے کہا.روپیہ ضائع کر دیا اور تعمیر (بیت) کے متعلق کئی نقائص گن ڈالے.ان کے چہرے پر داغ تھے.میں نے کہا نقص نکالنا کونسی بڑی بات ہے.خدا کی پیدائش میں بھی تو نقص نکالے جاسکتے ہیں.کام کرنا مشکل ہے کام کے بعد نکتہ چینی آسان اور ان پر ناراضگی کا اظہار کیا.انہیں بھی میں نے قریب سے دیکھا اور فرشتہ خصلت بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عاشق پایا اور خدمت دین کا بہت بڑا جوش رکھتے تھے ان کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے محمد اسماعیل صاحب قریشی ہیں جو راولپنڈی میں ملازم اور مقیم ہیں اور مخلص نوجوان ہیں اور ( دین حق) کی خدمت سے دریغ نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہی عجیب اسلوب بیان میں ہماری راہنمائی فرمائی ہے.فرماتا ہے:.وَالَّذِينَ جَاءُ وَ مِنْ بِعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالِا يُمَانِ وَلَا تَجْعَلُ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (سورۃ حشر: 11) اور جو لوگ ان کے زمانہ کے بعد آئے وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کو اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ہمارے دلوں میں مومنوں کا کینہ نہ پیدا ہونے دے.اے ہمارے رب! تو بہت مہربان اور بے انتہا کرم والا ہے.جن حالات میں صحابہ کرام رضوان اللہ میم نے دین اسلام کیلئے قربانیاں کیں.وہ نہایت ہی کڑے حالات تھے جن کی نزاکت اور شدت کا بعد میں آنے والے اندازہ نہیں کر سکے.اگر ان کے کاموں میں کوئی خامی نظر آئے تو وہ ایک طبعی اور لازمی ہے ہو سکتا ہے اپنی ہی نظر میں نقص ہو جو کچھ ان کے ہاتھوں انجام پایا وہ خطرناک اور مشکل حالات میں ایک خارق عادت
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 82 خود نوشت حالات زندگی ہے اور ہمیشہ کیلئے قابل قدر ہے کیونکہ ان کے ہاتھوں سے بنیا د رکھی گئی جس پر ایک عظیم الشان محل تیار ہوا اور بعد میں آنے والے اس سے فائدہ اٹھانے لگے.معمار اول جن حالات میں تعمیر شروع کرتا ہے ضروری نہیں کہ وہ ہر خامی کا تدارک کر سکے اور جو بعد میں آنے والا ہے وہ تازہ دم ہے اور اس کی آنکھ پہلوں کی خامیوں کو آسانی سے دیکھ سکتی ہے اور اس کا تدارک کرنے میں اس کے لئے سہولتیں میسر ہیں جو پہلوں کو میسر نہ تھیں اور اس بعد میں آنے والے کے لئے بھی لغزش ہے.احتمالات ہیں جس کا بڑا سبب اس کی ناتجربہ کاری ہے اس لئے آیت میں دونوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ پہلے بھی اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں کہ اگر ان کے کام میں کوئی خامی رہ گئی ہو تو اس کا تدارک وہ اپنی رحمت سے فرمائے اور بعد میں آنے والے جو نا تجربہ کار نوجوان ہیں.انہیں بھی مغفرت سے نوازے اور انہیں بھی مغفرت سے نوازے اور نا تجربه کاری) کی لغزشوں اور ناقص تربیت کی انہیں خامیوں سے بچائے اور ان کے دلوں میں اپنے محسنوں کیلئے کسی قسم کی کدورت پیدا نہ ہونے دے اور دونوں گروہ ایک دوسرے کیلئے مظہر صفات رافت ورحمت ہوں.اللہ تعالیٰ اس نو تعمیر (دین حق) کی عظیم الشان عمارت جس کی بنیادیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء اور ( رفقاء) کے ہاتھوں سے اٹھائی گئی ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحم سے پایہ تکمیل تک پہنچائے.نوجوانوں کے اندر بھی وہ پاکیزہ تبدیلی اور مکمل اخلاص اور ہمت پیدا فرمائے جس کا یہ مقدس کام متقاضی ہے.(آمین) اللهم صل على محمد و علی آله محمد کما صلیت و بارکت علی ابراهیم (خاکسار) زین العابدین ولی اللہ شاہ ۱۴/ جولائی ۱۹۶۱ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 83 خود نوشت حالات زندگی حواشی باب دوم حاشیہ صفحہ : (۱) پانی پت کی تیسری لڑائی اور مرہٹوں کی افواج کے حالات کیلئے دیکھئے اویماق مغل‘ از مرزا محمد عبد القادر خان مطبوعه امر تسر ۱۹۰۲ء صفحات ۶۴۶ تا ۶۷۰ - حاشیہ صفہ ۲: (۲) حضرت ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب کے حالات زندگی کیلئے دیکھئے ”حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب“ باب سوم.حاشیہ صفحہ ۱۹: (۳) مدرسہ احمدیہ کا قیام جنوری ۱۹۰۶ء میں عمل میں آیا مزید تفصیل کیلئے دیکھئے.تاریخ احمدیت جلد دوم بار دوم صفحه ۴۱۲۳۹۹) حاشیہ صفحہ ۱۳ (۴) آپ نے دمشق اور بیروت میں بھی دعوت الی اللہ کا کام ابتداء سے جاری رکھا جس کی جھلک ان مکتوبات سے ظاہر ہوتی ہے جو آپ نے حضرت خلیفہ آسیح الثانی کی خدمت میں دمشق اور بیروت سے روانہ کئے.آپ تحریر کرتے ہیں: محسنم حضرت خلیفتہ امسیح علیہ الصلوۃ والسلام السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ پچھلے سوموار ا پریل ۱۹۱۴ء کو دارالعلوم میں علماء وشر فاء بیروت کا اجتماع ہوا.صرف میری تقریر قرآن مجید پر مختصر تھی.جو کہ بعینہ ارسال خدمت ہے.میری تقریر کے بعد ایک مقرر جو اہل بیروت میں ( اور میرے خیال میں اہل مصر سے بھی بڑھ کر ) سب سے بڑھ کر مقر اور ضیح المسان شیخ ے اٹھا اور پون گھنہ تقریر کی جس کا سارا مقصد میری تقریر کی خوبیوں کا اظہار تھا.اس کے بعض الفاظ یہ ہیں: بخدا میں حق کو ہرگز نہیں چھپاؤں گا میری عمر ۵ سال سے زیادہ ہے میں نے آج تک کبھی بھی ایسی پر اثر ، پر معنی ، مدلل تقریر نہیں سنی.بخدا اگر مجھے آج کل کی تہذیب کا خیال نہ ہوتا تو اس مجھی مقرر کے سامنے اُس کی تقریر کے اثناء میں ہاتھ باندھ کر کھڑا رہتا.اہل عرب کے نوجوانو! تمہاری تجوید حلق میں ہے دل میں نہیں لہذا بخدا قریب تھا کہ اس تقریر کے اثر سے میری چیخیں نکل جاتیں، غرض پون گھنٹہ یہی اس کا موضوع تھا اور کہا کہ یہ عظیم الشان موضوع اور یہ دلائل اور یہ طرز ادا ( بہت اعلیٰ ہے...میں اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر بجالایا.اُسی کا فضل اور میرے محسنوں کے فیضان ہیں ورنہ میں اپنی کم مائیگی کو خوب جانتا ہوں اور میرے احباب بھی واقف ہیں.جس خدمت کیلئے میرا دل چاہتا ہے اس کے مقابل یہ تو کچھ نہیں.میں نے یہ مضمون بغیر کسی قسم کی مدد کے لکھا اور میرا خیال تھا کہ لغوسی عبارت ہے مگر میں حیران ہوں کہ میرے شیخ کیوں تعجب کرتے ہیں اور مجھے ان کے تعجب سے شرم آ رہی ہے.بعضوں نے کہا کہ یہ عبارت مضمون اس کا نہیں.مجھے خوشی ہوئی کیونکہ جب بیروت میں آیا تھا تو ایک دارالعلوم میں تقریر کی تھی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 84 اور اس میں میں نے بعض سے مدد لی تھی مگر اس میں نہیں لی.خود نوشت حالات زندگی محسنم ! جہاں تک میری طاقت ہے اور میرا دماغ کام کرتا ہے میں اس کام کیلئے کوئی دقیقہ اُٹھا نہیں رکھوں گا مگر میں بہت کمزور ہوں.میں نے ہندوستان میں اس کمزوری اور اس بار عظیم کا کوئی خیال نہیں کیا جناب نے بھی مجھے بہت تحریص دی.مجھ پر احسان تو کیا مگر مجھے درمیان ہی میں نہ چھوڑیں.میری کمزوری کو مدنظر رکھ کر بہت دعا سے کام فرماویں.میرا ارادہ ہے کہ مجھے کچھ عربی آجائے تو پوری ( دعوۃ الی اللہ ) کھل کر کروں.اہل بیت کو سلام اور احباب درس کو السلام علیکم اور دعا کیلئے سفارش تقریر کے بعد ہال میں ایک عجیب جوش و خروش تھا کہ گویا اب یہ قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر ساری دنیا کو فتح کرنے کا ارادہ کرتے ہیں.انشاء اللہ یہ سلسلہ خطبات ہر ماہ میں دو دفعہ ہوگا اور ( اللہ تعالیٰ کے فضل سے ) میرا ارادہ ہے اصل ( دین حق پر تقاریر کرتے کرتے حضرت اقدس کے دعوے پر علانیہ ( دعوۃ الی اللہ ) کروں.واللہ الموفق.خاکسار ( زین العابدین ولی اللہ ) آپ اس سلسلہ میں شام سے اپنی دوسری رپورٹ اور خط میں تحریر کرتے ہیں:.شام کی خبر ( الفضل قادیان ۳۰ مئی ۱۹۱۴ء) اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے عربی کیلئے خلوص دل رکھنے والے استاد عطا فرمائے اور نہایت خاطر خواہ انتظام سے تعلیم ہورہی ہے.میں نے تو ایسے فصیح اللسان مصر میں تو نہیں دیکھے اور نہ اس سے چار گنا کم خالص دل.وہ لوگ تو دنیا میں دن رات مستغرق.انہیں فرصت کہاں.میں نے یہاں میری باتیں سننے والے دین کا شوق رکھنے والے پائے.اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک جمعیت بھی ( دعوۃ دین حق ) کیلئے میرے ماتحت قائم ہوگئی ہے.آج اس کی منظوری کیلئے عبدالجبار والی بیروت کے پاس جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.قوانین جمعیت طے ہو چکے.مہینہ میں ایک دفعہ ہوا کرے گی.ٹی پارٹی کے ساتھ کل انشاء اللہ اخبار میں اس کا اعلان کرا دیا جائے گا.اس میں تقاریر عربی میں ہوں گی انشاء اللہ.مجھے بڑے شیوخ نے اس کے لئے بہت زور دیا تھا اور میں نے عبدالجبار کو اکسایا.بحمد للہ اسے یہ رائے پسند آ گئی.یہاں پر حکومت ایسی جمعیت کی ذرہ مانع ہوتی ہے اس لئے اس مشکل کو یوں حل کیا ہے کہ مدرسہ دارالعلوم کا ایک شعبہ قرار دیا گیا.الحمد للہ علی ذالک.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 85 خود نوشت حالات زندگی مجھے اس کے لئے ریویو آف ریلیجنز، براہین احمدیہ عسل مصفی ، آئینہ کمالات اسلام اور حضرت صاحب کی کتابیں جول سکیں چاہئیں اور اخبارات نہایت ضروری ہیں.عاجز کے لئے بہت دعا فرماویں دعا کا بہت محتاج ہوں.اہل بیت کو سلام علیکم “ اس کے بعد ایک دوسرے خط میں اس مجلس کے قیام کے متعلق انہوں نے یوں لکھا کہ:.بسم اللہ الرحمن الرحیم محسنم حضرت خلفية استم علی الصلوة والسلام السلام عليك ورحمة اللہ وبرکاتہ مبارک ہوکہ مجلس دعوت الی الله ) قائم ہو گئی.۲۷.اپریل ۱۹۱۴ء کو انشاء اللہ اس کا پہلا جلسہ ہو گا.والی کشہر وروساء وعلماء شہر کوئی پارٹی پر مدعو کیا گیا ہے اور میرا لیکچر ( دین حق ) پر عربی میں ہو گا.عاجز کیلئے بہت دعا فرماویں کہ اسے اللہ تعالیٰ اپنے مقصد میں کامیاب کرے.حقیقتاً میں دعا کا بہت محتاج ہوں.کمزور تھا.یونہی ایک عظیم الشان کام پر قدم مارا ہے.اللہ رحم کرے.میری طرف خصوصیت سے توجہ کریں.نہ یہ کہ مجھے ایسے مشکل راستے پر ڈال کر جناب ایک طرف ہو جائیں.میں کیا لکھوں.عبدالجبار آفندی مجھ سے سکول میں وقت لینا چاہتا ہے کم از کم تین گھنٹے.لیکن میں نے انکار کیا ہے اور نہ دینے کا ارادہ ہے.کیونکہ اس میں میری تعلیم کا حقیقتا بہت نقصان ہے.میں نہیں چاہتا کہ میرا ایک دقیقہ بھی سوائے تعلیم کے اور جگہ خرچ ہو.مکرر عرض ہے کہ میں حقیقتا دعا کا محتاج ہوں دعا فرما دیں.بہت دعا.اہل بیت کو اور احباب درس کو میرا سلام اور سفارش دعا.مضمون پڑھے جانے کے بعد ارسال خدمت کرے گا“.اب ان کا خط آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کا مضمون جو قرآن کریم کی خوبیوں پر تھا نہایت کامیاب ہوا اور وہاں کے ایک بڑے عالم نے کھڑے ہو کر پندرہ منٹ تک.لیکچر کی تعریف کی اور اہل شام کو شرم دلائی کہ وہ کس طرح قرآن کے سمجھنے میں پیچھے رہ گئے ہیں.اس عالم کے ایک فقرہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:.اہل عرب کے نوجوانو! تمہاری تجوید حلق میں ہے.دل میں نہیں.شرم ! بخدا قریب تھا کہ اس تقریر سے میری چیخیں نکل جاتیں.“ یہ مضمون شاہ صاحب سے وہاں کے ایک اخبار میں شائع کرنے کیلئے لیا گیا ہے.امید ہے کہ اگلے ہفتے تک موصول ہو جائے گا اور ان کے خط کے ساتھ ہی شائع کر دیا جائے گا.(الفضل قادیان ۲۳مئی۱۹۱۴ صفحه ۱۲۵) حاشیه صفحه ۴۳ (۵) حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ کی کشمیر کے حوالے سے خدمات کیلئے دیکھیں.( تاریخ احمدیت جلد ششم صفحه ۲۳۰ تا ۶۱۰) حاشیه صفحه ۴۵ (۱) پتھر مسجد کے جلسہ کی مکمل روئیداد کے لئے دیکھئے الفضل قادیان ۱ ستمبر ۱۹۳۲ء صفحہ ۹.حاشیہ صفحہ ۴۷ (۷) مکرم شیخ بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ، آپ کے حالات زندگی کیلئے دیکھئے.(الفضل ربوہ 9 ستمبر۱۹۷۴ء)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 86 خود نوشت حالات زندگی حاشیہ صفحہ ۴۷ (۸) حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ابن حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی.یکے از احباب ۳۱۳.سابق امیر جماعت احمدیہ ضلع فیصل آباد، ماہر لسانیات اور کئی تحقیقی کتب کے مصنف.آپ کا وصال ۹۶ سال کی عمر میں ۲۸ مئی ۱۹۹۳ء میں ہوا.آپ کے حالات زندگی کیلئے دیکھیں ماہنامہ انصاراللہ شیخ حمداحمد مظہرنمبر اپریل ۱۹۹۵ء حاشیه صفحه ۴۹ (۹) جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بنڈہ پور میں ”جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر دعوت الی اللہ ) جماعت احمدیہ قادیان بحیثیت نمائندہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی علاقہ لار، وروس.تلیل گریز کا دورہ کرتے ہوئے ۱۹ اگست کو براستہ تر اگه بل بوقت ظہر تشریف لائے.ناظرین اخبار سے مخفی نہیں کہ قصبہ بنڈہ پور میں مدت سے مسجد کی زمین کا تنازعہ چلا آتا ہے.مسجد کی ملحقہ زمین مقامی حکام نے پنڈت دا مو در بیٹ کو فروخت کر دی ہے.جہاں پنڈت صاحب نے اس طرز سے دو کا نہیں بنائی ہیں کہ اس سے مسجد کی زمین پر ناجائز تصرف ہوا.مسلمانان بنڈہ پور نے درخواستوں کے علاوہ اخبارات کے ذریعہ بھی حکام بالا کو متوجہ کیا.مگر آج تک اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا.اگر چہ پنڈت صاحب نے متنارعہ رقبہ پر تعمیر دکانات کا کام مسلمانوں کے احتجاج کی وجہ سے ملتوی کر دیا تھا.افسوس ہے کہ جناب شاہ صاحب کو قادیان اور سرینگر کے متعدد تار پہنچے.جس کے باعث زیادہ دیرنہ ٹھہر سکے اور بعد نماز جمعہ بطرف سرینگر روانہ ہو گئے.جناب شاہ صاحب کے ہمراہ مسٹر غلام قادر صاحب سیکنڈ ڈکٹیٹر کو جناب شیر کشمیر نے امداد دینے کے لئے بھیجا تھا.ہم نمائندگان بنڈہ پور جناب پریذیڈنٹ آل انڈ یا کشمیر کمیٹی کا شکر یہ ادا کرتے ہیں.حضور مدوح اور ان کے مخلص دانشمند کار کن جو کوشش ہماری گری ہوئی حالت کو سنوارنے کے لئے کر رہے ہیں.اس کے شکریہ سے عہدہ برا ہونا ہمارے لئے ناممکن ہے.چونکہ ہم مظلوم بنڈہ پور کی اور بھی بہت سی شکایات ہیں.جو عدم فرصت کی وجہ سے شاہ صاحب نہ سن سکے اس لئے ہم بے کس و بے زبان باشندگان بنڈہ پور جناب پریذیڈنٹ صاحب کی خدمت میں بصد آداب التجا کرتے ہیں کہ براہ نوازش جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب یا جناب غزنوی صاحب کو یہاں بھیج دیں تا کہ ہم سب اپنی شکایات حکام بالا تک پہنچاسکیں.اخبار الفضل قادیان ۱۳ ستمبر ۱۹۳۲ صفحه ۱۰) حاشیه صفحه ۵ (۱۰) سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی کشمیر میں خدمات کے بارے میں روز نامہ الفضل نے لکھا: سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو اثنائے تحریک کشمیر میں کئی بار محترم صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی طرف سے ریاست میں مختلف موقعوں پر بطور نمائندہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی بھیجا گیا اور آپ نے ہر موقعہ پر صدر محترم کی ہدایات کے ماتحت ایسا رویہ اختیار کیا جس سے حکومت اور پبلک کے درمیان تعاون اور بہتری کی صورت پیدا ہوئی.چنانچہ فسادات جموں کے وقت جبکہ مسلمان حکومت کے ساتھ عدم تعاون کر رہے تھے آپ کی کوششوں سے ایسی صورت پیدا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 87 خود نوشت حالات زندگی ہو گئی کہ تصفیہ ہو گیا.آپ نے علاقہ کھڑی سے ترک وطن کرنے والوں اور ریاست میں سمجھوتہ کرانے کیلئے جو مساعی کیں وہ نہایت ہی قابل قدر تھیں.اس علاقہ کے ہزار ہا لوگ ڈوگرہ فوج کے مظالم سے تنگ آ کر اپنے گھر بار چھوڑ کر جہلم میں پناہ گزین ہو گئے تھے اگر اس کا فور انتدارک نہ کیا جاتا تو اس کے نتائج بہت ہی تکلیف دہ نکلتے.وہ اس وقت حکام کی بات ماننے کیلئے تیار نہ تھے.ایسے وقت میں صدر محترم آل انڈیا کشمیر کمیٹی نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہدایات دے کر بھیجا جنہوں نے وطن ترک کرنے والوں اور حکام کے درمیان ایک باعزت سمجھوتہ کرا دیا.جس پر وہ بخوشی خاطر اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے.اسی طرح گزشتہ دنوں میں انہیں علاقہ پونچھ میں بھیجا گیا تا کہ وہ ان مظالم کی جو وہاں مسلمانوں پر کئے جاتے ہیں تحقیقات کریں اور وہ مکمل تحقیقات کر کے واپس آئے.اب اس غرض کے لئے سری نگر بھیجا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ احکام سے مل کر رعایا اور حکومت کے درمیان بہتری اور تعاون کی صورت پیدا کرنے کی کوشش کریں.ہمیں اعلیٰ احکام سے امید ہے کہ وہ ان کیلئے اس بارہ میں ہر ممکن امداد کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.الفضل قادیان ۲۱ جولائی ۱۹۳۲ صفحه ۹) حاشیه صفحه ۵۶ (۱۱) پسر حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب یکے از احباب ۳۱۳ آپ کے حالات زندگی کیلئے دیکھئے روز نامہ الفضل لاہور ۹ جنوری ۱۹۴۹ صفحه ۵ -۶) حاشیہ صفحہ ۵۷ (۱۲) مسٹر ایل.ڈبلیو جارڈین پیشل کمشنر ریاست جموں کشمیر ریاست میں اپنے تقرر کی معیاد ختم کرنے کے بعد رخصت پر ولائت جاتے ہوئے ۲۰ اپریل کو لاہور پہنچے جہاں جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے جو نمائندہ کشمیر کمیٹی کی حیثیت سے متعدد بار مسٹر جارڈین سے اہم معاملات کے متعلق گفتگو کرتے رہے اور دوستانہ مراسم قائم ہو چکے تھے.معہ اپنے دوستوں اور ممبران کشمیر کمیٹی کے لاہور کے سٹیشن پر ملاقات کی اور ان کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے.مسٹر جارڈین بھی نہایت تپاک سے ملے.نہایت ناگوار حالات میں خوشگوار ملاقاتوں کی یاد تازہ ہونے پر مسرت کا اظہار کیا.مسٹر جارڈین نہایت خوبی اور دیانت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنے والے افسر ہیں اور انہوں نے ریاست کشمیر کی نہایت اہم خدمات سرانجام دی ہیں اور اپنے پیچھے بہت اچھی یاد چھوڑی ہے“.الفضل قادیان ۲۵ اپریل ۱۹۳۳ء صفحه ۲ ) حاشیه صفحه ۵۸ (۱۳) مسلمانان علاقہ تھکیالہ پڑاوا ( پونچھ ) کا اظہارتشکر حضرت خلیفہ امی الثانی (نوراللہ مرقدہ) کی ہدایات کے ماتحت جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے بحیثیت نمائندہ کشمیر کمیٹی علاقہ تھکیالہ پڑاوا سے تعزیری اور کسٹم چوکیوں کے اٹھائے جانے کے لئے جو کامیاب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 88 خود نوشت حالات زندگی جدو جہد کی اسے اس علاقہ کے باشندوں نے اپنے لئے نعمت غیر مترقبہ سمجھا اور اپنے مصائب اور مشکلات میں بہت حد تک کمی محسوس کی.ایک نامہ نگار صاحب لکھتے ہیں کہ اس علاقہ کے مسلمانوں نے عید کی نماز کے بعد ایک جم غفیر میں جس میں معز اور سرکردہ اصحاب بھی بکثرت شریک تھے.جلسہ منعقد کیا.جس میں چوکیوں کے بنائے جانے کی خوشی میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( نوراللہ مرقدہ) کا پر اخلاص الفاظ میں شکر یہ ادا کیا گیا.نیز جناب سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی مساعی کے متعلق بھی شکر گزاری کا اظہار کیا گیا.(الفضل قادیان ۱۲۰ اپریل ۱۹۳۳ ء صفحه ۲) حاشیہ صفحہ ۶۷ (۱۴) سیدنا حضرت خلیفہ المسح الثانی نور اللہ مرقدہ نے ۱۹۳۱ ء تا ۱۹۳۷ء کے قلیل عرصہ میں کشمیریوں کے لئے یاد گار خدمات سرانجام دیں.آپ کشمیر کمیٹی سے مئی ۱۹۳۳ء کو مستعفی ہو گئے.اس کی تفصیلی روئیداد کیلئے دیکھئے الفضل قادیان ۲۳ تا ۳۰ مئی ۱۹۳۳ ء صفحه ۶۹.۱۵.حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی یکے از احباب ۳۱۳ مراد ہیں.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب باب سوم 89 ذكر حبيب حضرت مسیح موعود علیہ السلام ذكر حبيب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 90 گھر میں امام مہدی کے دعوی کا تذکرہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ذکر حبیب " مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میری عمر قریباً ۷، ۸ سال کی تھی (۵-۱۸۹۴ء ).تو اس وقت ہمارے گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ اس نے یہ خواب بھی دیکھا ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو کالے کالے پودے لگا رہے ہیں جن کی تعبیر یہ بتائی ہے.کہ دنیا میں طاعون پھیلے گی اور یہ کہ میری آمد کی یہ بھی نشانی ہے.اس وقت ہم ( تحصیل ) رعیہ ضلع سیالکوٹ میں تھے والد صاحب شفاخانہ کے انچارج تھے.اسی دوران میں نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے گھر میں آکر اطلاع دی ہے کہ حضرت نبی کریم علی تشریف لا رہے ہیں.چنانچہ ہم باہر ان کے استقبال کے لئے دوڑے.شفاخانہ کی فصیل کے مشرقی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ پہلی میں آنحضرت سے سوار ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے رنگ بھی سفید گندم گوں ہے اور ریش مبارک بھی سفید ہے اور سورج نکلا ہوا ہے.مجھے فرماتے ہیں.کہ آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں انہی ایام میں میں نے یہ خواب بھی دیکھا کہ رعیہ کی (بیت) ہے اس کے دروازہ پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے.لیکن اس کے الفاظ مدہم ہیں.میں بھی ساتھ ہو لیتا ہوں وہاں صفیں ٹیڑھی ہیں.آپ ان صفوں کو درست کر رہے ہیں ہم اس زمانہ میں ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے اس زمانہ میں اس بات کا عام چر چا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی تشریف لائیں گے.اور ان کے بعد حضرت عیسی بھی تشریف لائیں گے چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ مرحومہ ہی امام مہدی کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں رمضان میں چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے زمانے کے لئے مخصوص تھا.سو وہ بھی نشان پورا ہو چکا ہے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 91 ذكر حبيب ممکن ہے یہ خواہیں بچپن میں شنیدہ باتوں کے اثر کے ماتحت خواب کی صورت میں نظر آتی ہوں لیکن واقعات بتلاتے ہیں کہ وہ مہدی اور مسیح کے آنے کا عام چرچا اور یہ خواہیں جو بڑوں چھوٹوں کو اس زمانہ میں آیا کرتی تھیں آنے والے واقعات کے لئے بطور آسمانی اطلاع کے تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل ہم نے ( دین حق ) کا سورج بھی دیکھا اور قرآن مجید بھی پڑھا حضرت اقدس فرمایا کرتے تھے کہ ( دین حق ) کی زندگی میرے ساتھ وابستہ ہے اور مجھے چھوڑ کر قرآن مجید کا سمجھنا ناممکن ہے.یہ دونوں باتیں سچ ہیں“.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ء صفحه ۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان نے ہماری روحوں میں جادو بھر دیا حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت سید حبیب اللہ شاہ صاحب ۱۹۰۳ء میں حصول تعلیم کے لئے قادیان پہنچے.اس وقت ان کی دلی کیفیات کیا تھیں اور قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ نے کیا مسیحائی فرمائی اس کی بابت آپ بیان فرماتے ہیں:- ۱۹۰۳ ء میں جب میرے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے مجھے اور میرے بھائی سید حبیب اللہ شاہ صاحب کو برائے تعلیم بھیجا تو ہم رعیہ سے قادیان کی طرف بڑے شوق اور خوشی سے روانہ ہوئے.اس وقت ہماری عمر ۱۱ اور ۱۳ سال کے لگ بھگ تھی.ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھنے کا شوق بہت تھا.مگر ہمارے اس شوق کو صدمہ پہنچا جب ہم چوہڑوں کی تشفی کے پاس پہنچے ( جواب محلہ دارالصحت کہلاتا ہے اور جس کے مکین اب بفضل تعالیٰ قریباً سارے احمدی“ کہلاتے ہیں...مدرسہ میں داخل ہوئے تو اس میں کوئی رونق نہیں تھی.کچھ دیواریں، چھوٹے چھوٹے کمرے.ہم نارووال مشن سکول میں پڑھتے تھے جس کی عمارت پختہ اور وسیع کمروں پر مشتمل تھی.اس کے بالمقابل ہائی سکول کی عمارت بھیا نک سی معلوم ہوئی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 92 ذکر حبیب نارووال ایک بارونق شہر تھا.قادیان کے متعلق ہمارے دماغوں میں یہ تصور تھا.کہ حضرت امام مہدی کا شہر بہت بارونق ہوگا.مگر اس میں کچھ بھی نہ تھا.طبیعت اُداس ہونے لگیاور باجماعت نمازوں کی پابندی نے اور بھی تکلیف دہ صورت اختیا ر کر لی.خصوصاً عشاء اور فجر کی باجماعت نمازوں میں شریک ہونا تو بہت ہی دو بھر تھا.ایک بار عشاء کے وقت جب مانیٹر نے ہمیں جگانا شروع کیا تو میں نے جھنجھلا کر اسے ایک تھپڑ رسید کیا اور بھائی حبیب بولے کہ ہم کسی مصیبت میں پھنس گئے.مگر چھ ماہ نہیں گزرے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیضان نے ہماری روحوں میں کچھ ایسا جادو بھرا اثر کیا کہ ہم دونوں بھائیوں نے با قاعدہ تہجد بھی پڑھنی شروع کر دی اور گھنٹوں نماز میں کھڑے رہتے اور سجدوں میں پڑے رہتے اور مطلق طبیعت سیر نہ ہوتی ہمارے اساتذہ ہماری اس حالت سے اچھی طرح واقف اور گواہ ہیں.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ صفهیم) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیفیت سیر حضرت شاہ صاحب سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیر کے بارہ میں بیان کرتے ہیں:- حضرت اقدس علیہ السلام سیر کو بھی جایا کرتے تھے کبھی کسی طرف نکلتے کبھی کسی طرف.حضور علیہ السلام کے ہمراہ حضور کے ( رفقاء) ہوتے اور ہم طلباء بھی یہ سن کر بے تحاشا بورڈنگ سے بھاگ نکلتے اور حضور کے ساتھ ہو لیتے.آگے پیچھے دائیں بائیں جہاں سے حضور پر نظر پڑ سکتی اور وارفتہ سے ہو کر حضور کو دیکھتے جاتے عجیب زمانہ تھا.ایک دفعہ جب کہ حضور انور دار الانوار کے کھیتوں کی طرف سیر کے لئے جارہے تھے تو اس وقت میں بھی ساتھ گیا.اب جہاں مولوی عبد المغنی خان صاحب وغیرہ کے مکانات ہیں اُن دنوں یہاں بڑ کا درخت ہوتا تھا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 93 ذکر حبیب اور ڈھاب ہوا کرتی تھی.یہاں سے گذر کر حضور علیہ السلام موڑ کے قریب پہنچے.جہاں اب نیک محمد خان صاحب کا مکان واقعہ ہے.تو اس موقع پر حکیم عبدالعزیز صاحب پسروری نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضور آدم کے متعلق قرآن میں آتا ہے.عصى آدَمُ رَبَّه غوی.ایک نبی کی شان میں ایسے الفاظ آتے ہیں.حضور نے اس وقت تقریر فرمائی.اس میں سے یہ حصہ مجھے اب تک یاد ہے.حضور علیہ السلام نے عربی کے اشتقاق کے متعلق ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ عصفور ( چڑیا ) کا لفظ بھی دو لفظوں سے مرکب ہے عصی اور فرعصی کے معنی قابو سے نکل گیا.فسر کے معنی بھاگ گیا.چڑیا کو عصفور اس لئے کہتے ہیں کہ ذرا موقع پانے پر فورا ہاتھ سے نکل جاتی ہے.اس موقع پر آدمیوں کے ریلے نے مجھے پیچھے دھکیل دیا.چونکہ حضرت اقدس تیز چلتے تھے اس لئے میں اس کشمکش میں پیچھے رہ گیا اور باقی باتیں نہ سن سکا.الفضل قادیان ۳۱ مارچ ۱۹۴۳ ، صفحریه) بچوں سے شفقت و محبت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت و محبت کے بارہ میں بیان فرماتے ہیں کہ :- ۱۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو جب کانگڑہ کا زلزلہ آیا تو حضور علیہ السلام بڑے باغ میں معہ اپنے اہل و عیال تشریف لے گئے اور ہم طلبائے مدرسہ بھی باغ میں چلے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ والے مکان میں تشریف رکھتے تھے جس کا ہم طلبائے مدرسہ باری باری پہرہ بھی دیا کرتے تھے.اس مکان کے جانب مشرق ایک توت کا درخت تھا.اس کے قریب ایک دفعہ خواجہ عبدالرحمن صاحب فارسٹ رینجر ( کشمیر ) اور میں پہرہ پر متعین تھے رات اندھیری تھی.اتنے میں ہم نے کسی کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا.قریب پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضرت مسیح
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 94 ذكر حبيب موعود علیہ السلام ہی بذات خود ہیں.حضور علیہ السلام نے شفقت سے ہمارے سروں پر ہاتھ پھیرا اور حضور بہت خوش ہوئے اور ہماری خوشی کی بھی کوئی انتہانہ تھی.سچی معرفت (الفضل قادیان ۱۸.اپریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جو نبی علاقہ میں یا شہر میں طاعون نمودار ہوتی تو حضور علیہ السلام نہ صرف اپنے گھر کی صفائی کا حکم دیتے بلکہ بورڈنگ ہاؤس کی صفائی کے متعلق اہتمام فرما تیاور ایسا ہی احباب کو حکم دیتے کہ اپنے گھروں میں گندھک اور آگ اور فینائل اور گگل وغیرہ اشیاء سے جراثیم ہلاک کرنے کا انتظام کیا جائے.حضور علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ اسباب سے کام لینا اللہ تعالیٰ کی نعمت کا شکر یہ ادا کرنا ہے اور اس کے حکم کی تعمیل کے مترادف ہے اور ترک اسباب شریعت الہیہ کے خلاف ہے.تو کل کا مقام اس کے بعد ہے.یعنی اسباب کو اختیار کر کے ان پر بھروسہ نہ کیا جائے بلکہ سچی معرفت یہ ہے کہ اسباب کے پیچھے خدا تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھا جائے“.الفضل قادیان ۱۲۴ پریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳) صلى الله فرمودات نبوی ﷺ کی پاسداری حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اپنے والد ماجد کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں:.غالبا ۱۹۰۵ء کا واقعہ ہے کہ طاعون پنجاب میں سخت زوروں پر تھی.راولپنڈی کا ضلع خاص طور پر لقمہ اجل بنا ہوا تھا حضرت والد صاحب مرحوم نے حضور علیہ السلام سے اپنے وطن سیہالہ ضلع راولپنڈی) جانے کی درخواست کی.مگر حضور علیہ السلام نے اس بناء پر جانے سے روک دیا کہ حدیث میں منع ہے کہ کوئی شخص ایسی جگہ جائے جہاں وبا پھیلی ہوئی ہے.الفضل قادیان ۱/۲۴اپریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 95 95 طاعون کے نشانات ضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.ذکر حبیب جن دنوں پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں میں طاعون کا شدید ز ور تھا.قادیان میں بھی طاعون پڑی لیکن طاعون نے یہاں محدود محلوں یعنی غیر احمد یوں اور ہندوؤں کے محلوں میں حملہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور احمدی احباب خدا تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ وعدہ تھا محفوظ رہے.انہی ایام میں ایک دن کا واقعہ ہے کہ جب کہ میں اپنے گھر میں رہتا تھا اور حضور علیہ السلام نے ہمیں رہائش کیلئے اپنے مکان کا وہ حصہ دیا ہوا تھا جس میں اب حرم اوّل (یعنی ام ناصر ) رہتی ہیں.اس حصہ کے مغربی جانب کے مکانوں میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک ارائیوں کا مکان تھا جہاں صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا مکان ہے صبح کی نماز کے معا بعد اس مکان سے رونے کی آواز آئی.میں نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا اور دریافت کیا کہ کیا ہوا تو ایک عورت جور ور ہی تھی اور اس مکان کے صحن میں چکر لگا رہی تھی نے مجھے کہا کہ فلاں شخص طاعون سے فوت ہو گیا ہے.یہ کنبہ غیر احمدی تھا.اگر چہ ایسے واقعات سے دلوں پر دہشت طاری ہو جاتی تھی مگر بوجہ اس کے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چار دیواری کے اندر تھے ہمیں پورا اطمینان تھا اور کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہوا.جس مکان کا یہ واقعہ ہے وہ حضرت اقدس کے مکان سے بالکل ملحق تھا.گویا وبائے طاعون کے کیڑے بالکل آپ کی دہلیز کے قریب تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طاعون کے کیروں کو حکم تھا کہ وہ حضور علیہ السلام کے مغربی جانب کے محلوں میں سے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو پورا کر کے واپس ہو جائیں اور حضور کی چار دیواری میں داخل نہ ہوں“.الفضل قادیان ۱/۲۴اپریل ۱۹۴۳ء صفحه ۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 96 ذکر حبیب ۱۹۰۷ ء کے جلسہ سالانہ میں حضرت اقدس علیہ السلام کا خطاب حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ۱۹۰۷ ء کے جلسہ کی کیفیت کے بارہ میں روایت کرتے ہیں:.ر جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی وفات کے متعلق الہامات ہو رہے تھے انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ جلسہ سالانہ جو ( بیت) اقصیٰ میں منعقد ہوا اس میں حضور علیہ السلام نے نماز کے متعلق تقریر کرتے ہوئے سورہ فاتحہ کی تشریح فرمائی اور عبودیت کے معانی پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ عبد جب صحیح طور پر عبودیت کے رنگ سے رنگین ہوتا ہے تو اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے ایک لوہے کا ٹکڑا آگ میں پڑ کر آگ کا انگارہ سا ہو جاتا ہے.اسی طرح صفات الہیہ سے عبد متصف ہو جاتا ہے.جس طرح کہ وہ لوہے کا ٹکڑا آگ نہیں ہوتا بلکہ اپنی ماہیت میں لوہا ہوتا ہے اور عارضی طور پر آگ کی کیفیت اس میں سرایت کر جاتی ہے.اسی طرح عبد اپنی حقیقت میں انسان ہوتا ہے لیکن اس میں صفات الہیہ کام کر رہی ہوتی ہیں.ایسے عبد کا ارادہ اپنا نہیں ہوتا بلکہ الہی ارادہ کے ساتھ اس کی تمام حرکات وسکنات وابستہ ہوتی ہیں.اس مضمون کی تشریح حضور علیہ السلام نے ربط کے ساتھ فرمائی اور اس ضمن میں کرامات و معجزات کی حقیقت کو نمایاں فرمایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَمَیٰ کی آیت کے مفہوم کے مطابق اس واقعہ کا ذکر کیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر خاک دشمن کی طرف پھینکی اور اسے پھینکنے کے ساتھ آندھی چلی حضور نے فرمایا.بظاہر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مٹھی بھر خاک پھینک رہے تھے مگر حقیقت میں الہی ارادہ اس کے اندر کام کر رہا تھا اور اس کا نتیجہ آندھی کی شکل میں ظاہر ہوا.حضور نے فرمایا کہ یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ نوافل سے بندہ کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے اور ہوتے ہوتے یہاں تک نوبت پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ہاتھ بن جاتا ہے.جس سے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 97 ذکر حبیب وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے اور اس کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے کان بن جاتا ہے کہ جن کے ساتھ وہ سنتا ہے اور زبان بن جاتا ہے کہ جس سے وہ گویا ہوتا ہے.یہ حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسے عبد کی اپنی خواہشات باقی نہیں رہتیں جو کچھ اس سے صادر ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی سے صادر ہوتا ہے.اسی ضمن میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تو بہ کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے نفس میں آگ اور پانی کی سی خاصیت رکھی ہے جس طرح پانی آگ سے کھول کر آگ کی کیفیات اپنے اندر لے لیتا ہے لیکن اس کھولتے ہوئے پانی کو آگ پر ڈالا جائے تو اس سے وہ بجھ جائے گی.اسی طرح انسان کا نفس امارہ جب اپنی خواہشات بھیمیه سے گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اور گناہوں کی آگ اُسے کھا رہی ہوتی ہے.تو اس وقت بھی اُس نفس کے اندر یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر غالب آ کر انہیں سرد کر دیتا ہے.میں ان دنوں غالباً آٹھویں یا نویں جماعت میں پڑھتا تھا.مجھے اس تقریر کا مضمون اچھی طرح یاد ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام جب یہ تقریر فرما رہے تھے.تو میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے پس پشت قریب ہی بیٹھا ہوتا اور اس وقت میرا دل اس خیال سے غمگین اور افسردہ تھا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام عنقریب ہم سے جدا ہونے والے ہیں.بوجہ اس کے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اس قسم کے الہام ہورہے تھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ حضور جلد رحلت فرمانے والے ہیں“.الفضل قادیان ۲۴ امیریل ۱۹۴۳ ، صفحه ۳) دمشق میں ایک مجلس حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس دسمبر ۱۹۲۵ء میں (مدہ) دمشق میں خدمات بجالا رہے تھے.۱۵ دسمبر ۱۹۲۵ء کی رات کو ذکر حبیب کی ایک مجلس میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے جو آپ بیتی حضرت مولانا شمس صاحب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 98 ذکر حبیب کو سنائی آپ نے اسے اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا اور اگست ۱۹۳۸ء میں الحاکم قادیان میں شائع کروایا.ذکرِ حبیب کی وہ مجلس قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے.(مرتب) حضرت سیدہ سعیدۃ النساء صاحبہ کی بیعت آج بتاریخ ۲۵ دسمبر دمشق میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میری والدہ صاحبہ حضرت سعیدہ بیگم کی بیعت کا باعث یہ ہوا کہ والد صاحب نے پہلے پوشیدہ طور پر بیعت کی ہوئی تھی اور کسی کو اپنی بیعت کی خبر نہیں دی.انہی ایام میں جبکہ وہ بیعت کر کے آئے ہوئے تھے.والدہ صاحبہ مرض رسل سے بیمارتھیں اور پانچ چھ مہینے کے اندر آپ کی حالت دگرگوں ہو گئی تھی.آخری رات مایوسی کی وہ تھی جبکہ والد صاحب (حضرت سید عبدالستار شاہ ) سیالکوٹ کسی شہادت پر گئے ہوئے تھے اور والدہ صاحبہ بیماری سے اس قدر لاچار ہوگئیں کہ چار پائی سے اُن کے لئے اُٹھنا بھی محال تھا اور مجھے یاد ہے کہ ایک رات جبکہ ہم سمجھتے تھے کہ آج آخری رات ہے.ہم سب بہن بھائی چار پائی کے ارد گرد کھڑے رور ہے تھے جب گیارہ بارہ بجے کے قریب میں سونے کے کمرے میں گیا تو مجھے یقین تھا کہ صبح والدہ صاحبہ کو زندہ نہیں پائیں گے.جب صبح ہوئی تو میں حضرت والدہ صاحبہ کے پاس گیا تو آپ کو اطمینان کی حالت میں پایا.دیکھ کر ہمیں نہایت ہی تعجب ہوا کہ نہ وہ بخار ہے نہ کھانسی ہے نہ بلغم ہے.آپ نے ہم کو دیکھ کر فرمایا کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ میں صحتیاب ہو جاؤں گی اور اس بیماری سے فوت نہیں ہوں گی اور اس پر اپنا اس رات کا خواب سنایا کہ میں نے آج رات حضرت مہدی علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ بہت سی مخلوقات ہے اور سب طرف لوگ کہہ رہے ہیں کہ حضرت مہدی تشریف لے آئے اتنے میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک شخص کثیر التعداد آدمیوں کے ساتھ چلے آ رہے ہیں اور ان کے اوپر دو شخصوں نے دائیں بائیں سے چھتر تا نا ہوا ہے.والدہ صاحبہ نے یہ سنکر کہ یہ امام مہدی ہیں اپنی انگلی سے اُن کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کیا اور پھر اس سے آسمان کی طرف اشارہ کیا کہ اگر آپ مہدی موعود ہیں تو
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 99 ذکر حبیب میرے لئے دعا کریں کہ میں شفا پا جاؤں.اس پر حضرت مہدی علیہ السلام نے ایک آبخورہ میں پانی دم کر کے ایک چھوٹے سے بچے کے ہاتھ بھیجا اور کہا کہ یہ پی لوشفا ہو جائے گی اور یہ شفا اس بات کی علامت ہوگی کہ جس کا انتظار کیا جاتا ہے وہ آ گیا ہے.فرمانے لگیں کہ اس خواب کے بعد جب میری آنکھ کھلی ہے تو تمام بیماری کے آثار میں تخفیف پاتی ہوں اور اس وقت سے چند ہفتے کے اندر ہی آپ کو شفا ہوگئی.وہ دن جب باہر نکل کر چلی ہیں.ہمارے لئے عید کا دن تھا.والد صاحب کو جب انہوں نے اپنا خواب سنایا تو والد صاحب نے کہا کہ وہ مہدی فی الحقیقت آگئے ہیں اور اُسی وقت ایک رقعہ میں یہ خواب لکھ کر ایک میرے ماموں زاد بھائی (سید شیر شاہ صاحب) کے ہاتھ قادیان کی طرف بھیج دیا.چنانچہ حضور علیہ السلام نے دعا کی اور والد صاحب کو لکھ بھیجا کہ میں نے دعا کی ہے.انشاء اللہ شفا ہو جائے گی.حضرت اماں جان کی خدمت میں سونے کا ہار پیش کر دیا حضرت والدہ صاحبہ نے اس خط میں ہی اپنی بیعت کر لی تھی.شفا ہونے کے بعد خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دوبارہ دیکھا اور آنحضرت ﷺ کو بھی اور حضرت اماں جان ) کو بھی.آنحضرت میلہ حضرت اماں جان ) کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ یہ مسیح موعود کی بیوی ہے.اپنے گلے سے سونے ( جسے پنجابی میں کنٹھا کہتے ہیں ) کا ہارانہیں دیدیں.آپ نے دوسرے دن اس خواب کی بنا پر وہ ہار اُتار کر قادیان میں حضرت (اماں جان ) کی خدمت میں بھیج دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام مہمانوں کے جذبات کا خیال رکھتے حضرت والد صاحب کی عادت تھی کہ تین سال کے بعد تین مہینہ کی چھٹی لیکر قادیان آیا کرتے تھے اور تمام رخصتیں وہیں گزارا کرتے تھے.ہم ان دنوں تعلیم الاسلام ہائی سکول
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 100 ذکر حبیب قادیان میں پڑھا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمام کنبہ کا اپنے گھر میں ہی گول کمرہ میں رہائش کا انتظام کیا کرتے تھے اور رخصت کے ختم ہونے پر حضرت والدہ صاحبہ اور دیگر کنبہ کو جانے نہ دیا کرتے تھے اور اس قدر محبت و شفقت کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ ہمیشہ اپنے کھانے سے کھانا بھجوایا کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دو پہر کے وقت ہم اس مکان میں ( جو حرم اول کا مکان ہے ) کھانا کھا رہے تھے.کھانے میں مرغی کا گوشت تھا.قاضی عبد اللہ صاحب کی ہمشیرہ امتہ الرحمن نے آ کر کہہ دیا کہ یہ مرغی آپ کو اس لئے بھیجی گئی ہے کہ ان میں وہ گھی پڑا ہے جس میں بلی نے منہ ڈالا تھا.والدہ صاحبہ طبیعت کی بہت نازک تھیں.خادمہ کو کہا کہ تم نے ہمیں کیوں ایسا کھانا بھیج دیا ہے خادمہ نے کہیں جا کر حضرت (اماں جان ) یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے یہ ذکر کر دیا کہ امتہ الرحمن نے یہ انہیں شبہ ڈال دیا ہے.ہم کھانا ہی کھا رہے تھے.میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود سر سے ننگے پاؤں سے ننگے ہاتھ میں رکابی پکڑی ہوئی دروازہ کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا.والدہ ( ولی اللہ ) کہاں ہیں میں نے جواب دیا کہ حضور کھانا کھا رہی ہیں.فرمایا:.امتہ الرحمن نے غلط بیانی کی ہے اور یونہی شبہ ڈال دیا ہے دیکھو میں بھی اُسی کھانے سے کھانا کھا رہا ہوں.آپ کو اپنے مہمانوں کے احساسات کا اسقدر گہرا خیال تھا.والدین سے آپ کو بہت ہی محبت تھی.خصوصاً والدہ صاحبہ کے ساتھ اور آپ نے والدہ صاحبہ کو کبھی پاؤں دبانے کی اجازت نہیں دی اور اس قدر احترام تھا کہ والدہ صاحبہ کی خاطر قرآن مجید کا درس عورتوں میں جاری کیا اور پہلا درس آپ نے دیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول اور مولوی عبد الکریم صاحب کو بلا کر کہا کہ والدہ ( ولی اللہ ) رعیہ سے تشریف لائی ہیں اور مجھے ان کے متعلق بہت ہی خیال رہتا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اُن کی خاطر عورتوں میں قرآن مجید کا درس جاری کیا جائے.چنانچہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے درس دیتے ہوئے یوں تمہید باندھی اور کہا کہ میں سید عبد الستار صاحب کی اہلیہ کو مبارک دیتا ہوں کہ آپ کی خاطر اللہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 101 ذکر حبیب تعالی نے مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں تحریک ڈالی ہے اور عورتوں میں درس جاری کرنے کا انہیں سبب بنایا ہے.کاش کہ قادیان کی عورتیں اپنے اندروہ خوبی رکھتیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان کے متعلق یہ احساس پیدا ہوتا اور انہیں یہ عزت حاصل ہوتی جو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ کو عزت حاصل ہوئی ہے.اس تمہید کے بعد درس جاری کیا اور آج تک جاری ہے.ہمیں آپ کے ساتھ قرابت داری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے والدہ صاحبہ کو ایک دفعہ بلایا اور کہا کہ مجھے آپ کے متعلق ہمیشہ خیال آتا ہے کہ کسی قسم کی آپ کو تکلیف نہ ہو.ڈاکٹر صاحب یہاں نہیں ہیں اور میں نے آپ کو اس لئے پیچھے رکھوایا ہے کہ آپ کو قادیان میں رہنے کا اور موقع مل جائے مجھے آپ کے متعلق خاص طور پر خیال رہتا ہے.آپ کو جس بات کی ضرورت ہو آپ بے تکلف اس کے متعلق کہیں.یہ آپ کا اپنا گھر ہے اور فرمایا کہ آپ کو ہمارے ساتھ تین تعلق ہیں.ایک بیعت کا ایک مہمان کا تعلق اور ایک اور بھی تیسرا تعلق ہے مگر اس کے متعلق کبھی تشریح نہیں فرمائی.یہاں تک کہ ہمشیرہ کی شادی صاحبزادہ مبارک احمد سے اس تعلق کو قائم کرنے کے لئے کرائی جو تعلق الحمد للہ اب تک قائم ہے.صحبت صالحین کے ثمرات میری ( سید ولی اللہ شاہ صاحب) کی یہ عادت تھی کہ میں لڑکوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھا کرتا تھا بلکہ چاہتا تھا کہ ( بیت ) مبارک میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پڑھوں اور ہمیشہ انتظار ہی میں رہتا تھا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام با ہر نکلیں تو آپ کی صحبت سے مستفید ہوں.ایک دن دس بجے کے قریب مدرسہ احمدیہ (جو اس وقت تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا) اُس کے صحن میں کھڑا تھا کہ چھوٹی (بیت) سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز آئی.میں وہاں پہنچا.دیکھتا کیا ہوں ایک شخص امرتسر سے تحقیق کے لئے آیا ہوا ہے اور
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 102 ذكر حبيب حضور اس کی خاطر سے تشریف لائے ہیں اور پانچ چھ اور آدمی وہاں جمع ہیں.اس نے سوال کیا کہ آپ کی بیعت یا صحبت سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے جوش کی حالت میں تقریر فرمانے لگے.دوران تقریر میں بہت ہی گونجتی ہوئی بلند آواز سے فرمایا کہ ایک بچہ جس نے ایک ہفتہ بھی میری صحبت میں گزارا ہے.وہ مشرق اور مغرب کے مولویوں کو شکست دے سکتا ہے اور اپنے اندر وہ تاثیر رکھتا ہے.جو ان مولویوں میں نہیں.اس پر آپ کی آنکھیں سُرخ تھیں اور حضور میری طرف دیکھ رہے تھے.میری عمر اس وقت سترہ سال کی ہوگی.اس وقت اس مجلس میں میرے سوا اور کوئی بچہ نہ تھا اور اس وقت میں نے یہ دعا کی کہ الہی حضور کے اس قول کا ہی مصداق بنوں.اس دعا کرنے کو میں نے اس لئے غنیمت سمجھا کہ میں نے سنا ہوا تھا کہ اولیاء اللہ کی نظر ایک منٹ میں وہ کچھ کر سکتی ہے کہ سینکڑوں سال کی محنت و اعمال وہ نہیں کر سکتے اور میرا یہ یقین ہے کہ اس وقت جو مجھے مشرق و مغرب میں ( دعوۃ الی اللہ ) کی توفیق ملی اور بڑے سے بڑے عالم اور بڑے سے بڑے امیر نے میری باتوں کو سنکر میرے ہاتھوں کو چوما ہے.وہ محض مسیح موعود کی اس نظر کی برکت سے تھا“.( الحکم قادیان اگست ۱۹۳۸ء) ۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء ا حباب پر کیا گذری حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب بیان فرماتے ہیں:.لاہور میں جب حضور علیہ السلام کا انتقال ہوا.تو اس وقت میں بھی لاہور میں تھا اور گورنمنٹ کالج کی فرسٹ ائیر کلاس میں پڑھتا تھا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ ء اور منگل کا دن ہمیں کبھی نہیں بھول سکتا.۲۵ مئی کی شام کو سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے احمد یہ بلڈنگ میں خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان کے سامنے کھڑا تھا.میرے ساتھ میاں احمد شریف صاحب ریٹائر ڈالی.اے سی کے علاوہ اور بھی کئی دوست کھڑے تھے کہ اتنے میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام فٹن میں بیٹھے ہوئے تھے جب حضور کی بگھی خواجہ صاحب کے مکان کے سامنے کھڑی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 103 ذکر حبیب ہوئی.تو اس وقت حضور کی زیارت کرنے والے لوگوں کا ایک انبوہ تھا جس میں غیر احمدی بھی بکثرت تھے.حضور فٹن سے اتر کر مکان پر جانے کے لئے سیڑھی پر چڑھے( ایک چھوٹی سی چوبی سیڑھی اور کمرے میں جانے کے لئے رکھی ہوئی تھی ) تو اس موقعہ پرکسی شخص نے گالی دی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس تشریف لے آئے.اِدھر اُدھر کی باتیں ہونے کے بعد غالباً میاں محمد شریف صاحب نے تجویز کی کہ کل صبح دریائے راوی پر چلیں جب جانے کے متعلق فیصلہ ہو گیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتا کید فرمایا.کہ کل صبح ہوٹل میں تیار رہنا.ہم اسی طرف سے آئیں گے اور تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے.چنانچہ منگل کی صبح کو میں تیار ہو کر ان کی آمد کا انتظار کرنے لگا.مگر انتظار کرتے کرتے دن کے 9 بج گئے.خواجہ عبد الرحمن صاحب امرتسری جو میرے کلاس فیلو تھے انہوں نے کہا کہ آنے میں دیر ہوگئی ہے.آؤ پہلے کھانا کھا لیں میں کھانا کھانے کے لئے ان کے ساتھ گیا لیکن بوجہ ایک نامعلوم غم کے جو میرے دل پر طاری تھا.میں کھانا نہ کھا سکا.میں نے عبدالرحمن صاحب سے کہا کہ مجھے کوئی حادثہ معلوم ہوتا ہے.خدانخواستہ حضرت میاں صاحب پر کسی نے حملہ نہ کر دیا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی طرف خیال تک نہ گیا.حالانکہ اس سے دو تین دن پہلے حضور علیہ السلام بیمار تھے.میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے گورنمنٹ کالج سے احمدیہ بلڈنگ میں گیا تو میرے سامنے کسی نے حضور علیہ السلام سے پوچھا کہ حضوراب طبیعت کیسی ہے.اسہال میں کچھ فرق ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میں نے کلوروڈائین استعمال کی ہے.اور آگے سے کچھ افاقہ ہے تو اگر چہ میں جانتا تھا کہ حضور بیمار ہیں لیکن باوجود علم کے میرا ذ ہن آپ کے متعلق کسی حادثہ کی طرف نہیں گیا.بلکہ یہی خیال غالب ہوا کہ کسی نے حضرت میاں صاحب پر حملہ نہ کر دیا ہو.یہ خیال آتے ہی لقمہ میرے ہاتھ سے گر گیا.اتنے میں چوہدری فتح محمد صاحب اور شیخ تیمور صاحب کو ہوٹل کے گیٹ سے نکلتے ہوئے میں نے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 104 ذکر حبیب دیکھا.میں اس وقت باورچی خانہ کے سامنے کھانے کی میز پر بیٹھا ہوا تھا.میں نے انہیں دیکھا.کہ یہ جلدی جلدی باہر جارہے تھے.میں نے اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہی ہاتھ کے اشارہ سے ان سے پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے کچھ جواب دیا.مگر ہم اسے اچھی طرح نہ سن سکے لیکن ہاں یہ ہاتھ کے اشارہ سے ہمیں بلا رہے تھے کہ آؤ وہاں چلیں جس سے میں سمجھا کہ احمدیہ بلڈنگ کی طرف یہ جارہے ہیں.گھبراہٹ ان کے چہروں سے اور رفتار سے نمایاں تھی.میں بھی عبدالرحمن صاحب کو ساتھ لے کر احمد یہ بلڈنگ کی طرف چلا گیا جب ہم اس سڑک کے محاذ پر پہنچے.جو دہلی دروازہ کی طرف سے آکر لوہاری دروازہ کی طرف جاتی ہے تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک انبوہ ہے جو دہلی دروازہ کی طرف سے آ رہا ہے اور انہوں نے ایک جنازہ اٹھایا ہوا ہے.جنازہ کی چار پائی پر جو شخص لیٹا ہوا ہے اس کا مونہہ کالا کیا ہوا ہے.آنکھیں اس کی چمک رہی ہیں اور اس کا سر ہلتا بھی ہے اور جنازہ کے ارد گرد کے لوگ یہ کہہ کر پیٹ رہے ہیں کہ ” ہائے ہائے مرزا میں اس ماجرا کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور کچھ نہ سمجھا.ٹانگہ ہمیں جلدی سے احمد یہ بلڈنگ کی طرف لے گیا اور اترتے ہی ایک شخص سے پوچھا کہ کیا ہے؟ اس نے مجھے جواب دیا کہ سچ ہے.میں اس سے کچھ بھی نہ سمجھا اور گھبراہٹ میں بجائے اس سے مزید دریافت کرنے کے سیڑھی سے چڑھ کر او پر مکان میں پہنچا اور چوہدری ضیاء الدین صاحب مرحوم سے جو باہر بے بسی کی حالت میں زمین پر بیٹھے ہوئے تھے.پوچھا کہ کیا ہے؟ انہوں نے مجھے بھرائی ہوئی آواز میں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے ہیں.یہ سن کر میری ٹانگوں میں سکت نہ رہی اور میں بھی بیٹھ گیا.پھر جلدی ہی وہاں سے اٹھ کر احمد یہ بلڈنگ کے پچھواڑے میں جہاں اس وقت ایک کھیت تھا.جا کر خوب رویا اور تنہائی میں دل کی ساری بھڑاس نکالی.اس وقت دل کے غم کی انتہا کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا تھا.پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جنازہ کے ساتھ گاڑی میں بٹالہ پہنچا.امرتسرٹیشن کے پلیٹ فارم پر ہم نے مغرب کی نماز حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ( نور اللہ مرقدہ) کی اقتداء میں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 105 ذكر حبيب پڑھی جب بٹالہ پہنچے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا تابوت اتار کر اسٹیشن بٹالہ کے پلیٹ فارم پر رکھا گیا.میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے رات کو اس تابوت کا پہرہ دیا.جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جسد مبارک باغ والے مکان میں رکھا گیا تو حضرت خلیفہ مسیح الثانی ( نوراللہ مرقدہ) سے میں نے اور میرے بھائی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا چہرہ مبارک دیکھنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ ہمیں باغ والے مکان کے اس کمرہ میں لے گئے جہاں حضور علیہ السلام کا جنازہ رکھا ہوا تھا.حضرت ( اماں جان ) جنازہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں.ہم گئے اور ہم نے حضور علیہ الصلاة والسلام کے خاموش چہرہ کو دیکھا اور چپ سے ہو کر رہ گئے اور باہر آ کر اس کمرہ کے سامنے جو لوکاٹ کے درخت تھے.ان میں سے ایک درخت کے نیچے ہم تینوں کھڑے ہو گئے.اس وقت حضرت خلیفہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چہرہ کو دیکھ کر اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر ساری دنیا بھی حضور کو چھوڑ دے تب بھی میں اس عہد بیعت کو نہیں چھوڑوں گا جو حضور سے کیا تھا.الفضل قادیان ۱/۲۴ پریل ۱۹۴۳ صفحه ۳۰۴)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 106 کچھ یادیں، کچھ تاثرات باب چهارم کچھ یادیں کچھ تاثرات
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 107 کچھ یادیں، کچھ تاثرات تاثرات احباب کرام حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) ۷۸ سالہ کامیاب و کامران اور خدمت دین و خدمت انسانیت سے بھر پور زندگی گزار کر مورخہ ۱۴ مئی ۱۹۶۷ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے.آپ کے وصال پر مؤقر جریدہ الفضل ربوہ نے لکھا.جماعت احمدیہ کے ممتاز بزرگ اور حضرت المصلح الموعود کے رفیق کار لمصل حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب انتقال فرما گئے ر بوہ ۶ امئی.ہم نہایت رنج و غم کے ساتھ یہ خبر احباب جماعت تک پہنچاتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ممتاز بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ( رفیق ) اور سیدنا حضرت صلح الموعود ( نور اللہ مرقدہ) کے نہایت مخلص رفیق کار حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ایک لمبی علالت کے بعد ۱۵ ، ۶ مئی کی درمیانی شب کو ڈیڑھ بجے کے قریب ۷۸ سال کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہو کر محبوب حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) نے اپنی ساری زندگی ( دین حق ) اور احمدیت کی خدمت کیلئے وقف رکھی ( دعوۃ الی اللہ ) تربیتی اور تنظیمی میدان میں آپ کو سلسلہ احمدیہ کی گراں قدر خدمت کرنے کی توفیق ملی.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے قدیم اور جلیل القدر رفیق حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے صاحبزادے تھے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) کے برادر نسبتی تھے.عربی کی تعلیم آپ نے ممالک عربیہ میں حاصل کی.جس کے بعد کچھ عرصہ آپ شام کے ایک کالج میں پرنسپل بھی رہے.قادیان واپس تشریف لا کر سید نا حضرت الصلح الموعود ( نور اللہ مرقدہ) کی زیر ہدایت صدر انجمن احمدیہ کے ناظر کی حیثیت سے مختلف محکموں میں ایک لمبے عرصہ تک
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 108 کچھ یادیں، کچھ تاثرات ایسی شاندار اور قابل قدر خدمات سرانجام دیں.جنہیں سلسلہ کا کوئی مؤرخ کبھی نظر انداز نہیں کر سکے گا.ادارہ الفضل حضرت شاہ صاحب کی بیگم صاحبہ، صاحبزادگان،صاحبزادیوں اور جملہ دیگر افراد خاندان سے دلی ہمدردی اور تعزیت کا اظہار کرتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحب کو جنت الفردوس میں بلند درجات عطا فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے.اللہ تعالیٰ حضرت (سید ولی اللہ شاہ ) صاحب کے جملہ لواحقین اور عزیزوں کو صبر جمیل بخشے اور آپ کی وفات سے جماعت میں بظاہر جو خلا اور کمی محسوس ہوتی ہے.اسے محض اپنے فضل و کرم سے دور فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۷مئی ۱۹۶۷ ء صفحه ۱ ) آپ کے کارناموں کا تذکرہ آپ کے وصال پر روز نامہ الفضل نے آپ کے بارہ میں لکھا.ربوہ ۶ مئی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا جسد خاکی آج شام مقبرہ بہشتی کے قطعہ ( رفقاء) خاص میں سپردخاک کر دیا گیا جیسا کہ پہلے اطلاع شائع ہو چکی ہے.حضرت شاہ صاحب ۱۵، ۶ مئی کی درمیانی شب کو ۷۸ سال کی عمر میں انتقال فرما گئے تھے.آج نماز عصر کے بعد ساڑھے چھ بجے مقبرہ بہشتی کے میدان میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نماز جنازہ پڑھائی.جنازہ کو کندھا دیا اور پھر حضور و ہیں تشریف فرما ر ہے.تدفین مکمل ہونے پر حضور نے ہی دعا کرائی.نماز جنازہ میں مقامی احباب بکثرت شریک ہوئے.بیرون جات مثلاً لا ہور، شیخو پورہ ، سرگودھا اور لائل پور اور بعض دیگر مقامات سے بھی احباب جماعت نماز جنازہ میں شریک ہونے کیلئے تشریف لائے ہوئے تھے.حضرت شاہ صاحب کو غسل دینے میں آپ کے عزیزوں میں سے مکرم سید مبارک مسعود شاہ صاحب و مکرم سید عبداللہ شاہ صاحب نے اور مکرم سید مبارک احمد صاحب سرور، مکرم خواجہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 109 کچھ یادیں، کچھ تاثرات جلال الدین صاحب اور مکرم محمود احمد صاحب سعید حیدر آبادی نے حصہ لیا.مختصر حالات زندگی حضرت شاہ صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) ۱۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو پیدا ہوئے.ابتدائی ایام رعیہ ضلع سیالکوٹ ( موجودہ تحصیل و ضلع نارووال ) میں گزارے.جہاں آپ کے والد بزرگوار حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب (جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ( رفقاء) میں سے تھے ) بسلسلہ ملازمت متعین تھے.۱۹۰۳ء میں تعلیم کیلئے آپ کو قادیان بھجوا دیا گیا جس کی وجہ سے آپ کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کرنے اور حضور کی مقدس صحبت سے فیضان حاصل کرنے کا موقع میسر آ گیا.۱۹۰۸ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا.اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے موقعہ پر حضرت اصلح الموعود ( نور اللہ مرقدہ) کے ایماء پر آپ نے خدمت دین کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے کا عہد کیا.پھر آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہو گئے لیکن دو سال بعد سید نا حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل ( نور اللہ مرقدہ) کے ارشاد پر آپ کالج کی تعلیم چھوڑ کر قادیان آگئے.حضرت خلیفہ مسیح الاول ( نور اللہ مرقدہ ) اور بعض دیگر بزرگان سلسلہ سے شرف تلمذ حاصل کیا.۱۹۱۳ء میں آپ عربی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے مصر تشریف لے گئے کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد آپ بیروت اور حلب تشریف لے گئے جہاں پر نہایت قابل اساتذہ آپ کو میسر آگئے.معمول کی تعلیم کے بعد سات ماہ تک ایک ترکی رسالہ میں بھی آپ کو کام کرنے کا موقعہ ملا.پھر آپ بیت المقدس گئے.صلاح الدین ایوبیہ کالج میں بطور پروفیسر متعین ہو گئے.جہاں پر آپ کو تاریخ ادیان انگریزی اور اردو پڑھانے کا موقع ملا کچھ عرصہ آپ سلطانیہ کالج کے وائس پرنسپل بھی رہے.مئی ۱۹۱۹ ء میں آپ واپس وطن تشریف لے آئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نوراللہ مرقدہ) کی زیر ہدایت ۱۹۲۰ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ منسلک ہو کر خدمت سلسلہ بجا لانے لگے.چنانچہ اس کے بعد اپنی آخری بیماری تک
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 110 کچھ یادیں، کچھ تاثرات آپ نے مسلسل سلسلہ عالیہ احمدیہ کی گرانقدر خدمات سرانجام دیں.آپ صدر انجمن احمد یہ میں ناظر (اصلاح وارشاد ) ، ناظر تعلیم و تربیت، ناظر تجارت، ناظر تالیف و تصنیف، ناظر امور خارجہ اور ایڈیشنل ناظر اعلیٰ کے عہدوں پر فائز رہے اور اس طرح ایک لمبے عرصہ تک حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کے ایک معتمد رفیق کار کی حیثیت سے مختلف محکموں میں آپ کو نہایت قابل قدر کام کرنے کی توفیق ملی.اس اثناء میں جماعت کے خلاف کئی خطرناک فتنے برپا ہوئے اور جماعت پر بہت سے نازک دور آئے لیکن ہر مرحلہ پر حضرت شاہ صاحب نے نہایت کامیابی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کیا اور حضور کی خوشنودی حاصل کی.۵۶-۱۹۵۵ء میں آپ کو بلا دعر بیہ میں بطور (مربی) بھی کام کرنے کا موقع ملا.از حد مصروفیت کے باوجود علمی میدان میں بھی آپ نے جماعت کی بہت سی خدمات سرانجام دیں.چنانچہ آپ کی چوبیس کے قریب تصنیفات شائع ہو چکی ہیں.جلسہ سالانہ کے مواقع پر آپ کی تقاریر بھی ایک خاص رنگ رکھتی تھیں اور بہت پسند کی جاتی تھیں.۱۹۲۶ء میں صحیح بخاری کا ترجمہ اور شرح لکھنے کا کام آپ کے سپرد کیا گیا جسے آپ بڑے شوق اور محنت سے کرتے رہے.چنانچہ اس وقت تک شرح کے آٹھ جز شائع ہو چکے ہیں.مسلمانان کشمیر کی جد وجہد آزادی میں آپ کو حضور (خلیفتہ امسیح الثانی اللہ نوراللہ مرقدہ) کی زیر ہدایت گرانقدر خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.۱۹۴۷ تقسیم ملک کے وقت آپ کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں چنانچہ اکتو بر ۱۹۴۷ء تک آپ قید رہے.قیام پاکستان کے وقت سیاسی لحاظ سے بھی مسلمانوں کی خدمت کرنے کا بہت موقع ملا.جب پاکستان میں مرکز ربوہ قائم ہوا تو یہاں کے ابتدائی دور میں بھی جب کہ بہت سی مشکلات در پیش تھیں.ایک عرصہ تک آپ کو بطور امیر مقامی اور بطور ناظر کام کرنے کا موقع ملا.یکم جون ۱۹۵۴ء کو آپ صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے لیکن اس کے بعد پھر آپ کو ناظر امور خارجہ متعین کر دیا گیا.چنانچہ اس حیثیت سے آپ ۱۹۶۲ ء تک جب کہ فالج کی وجہ سے آپ شدید بیمار
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 111 کچھ یادیں، کچھ تاثرات ہو گئے کام کرتے رہے.گویا ۱۹۰۸ء میں آپ نے خدمت دین کا جو عہد کیا تھا اسے آخر تک نہایت عمدگی کے ساتھ نبھانے کی آپ کو توفیق ملی.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيُهِ مَنْ يَّشَاءُ حضرت شاہ صاحب صاحب رؤیا و کشوف اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.کئی مواقع پر اللہ تعالیٰ نے رویا و کشوف کے ذریعہ آپ کی رہنمائی کی اور اپنی بشارتوں سے آپ کو نوازا.نماز تہجد با قاعدہ ادا کرتے تھے قرآن کریم سے غایت درجہ محبت تھی اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا گہرا مطالعہ تھا.عربی اور اردو کے بلند پایہ ادیب تھے.غرض بہت سی خوبیوں کے حامل تھے ایک لمبے عرصے تک تنظیمی تربیتی اور عملی میدان میں سلسلہ کی گراں بہا خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.حضرت شاہ صاحب نے پانچ لڑکیاں اور دولڑ کے یادگار چھوڑے ہیں.اللہ تعالی ہم سب کو بھی حضرت شاہ صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق بخشے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۸ مئی ۱۹۶۷ ، صفحه ۱ ) تاثرات حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نوٹ: یہ مضمون حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے اگست ۱۹۶۲ء میں جب کہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) بہت بیمار ہو گئے تھے تحریرفرمایا تھا مگر ابھی تک شائع نہیں ہوا تھا.یہ راقم سید ولی اللہ شاہ صاحب کی ظاہری اور باطنی خوبیوں کا ۱۹۱۰ء میں گرویدہ ہوا جب کہ آنحترم گورنمنٹ کالج کی ایف ایس سی کلاس میں تعلیم پارہے تھے اور یہ عاجز میڈیکل سکول لاہور کا سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا.یہ راقم انہیں اپنے بورڈنگ میں ایک مکرم معظم بزرگ کی حیثیت سے لے گیا تا کہ خود فیض حاصل کرے اور دوسرے طلباء کو احمدیت کی صداقت کی باتیں سنوائے.چنانچہ آنمحترم نے کچھ باتیں صداقت احمدیت کے متعلق کیں اور تشریف
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 112 کچھ یادیں، کچھ تاثرات لے گئے.میں بورڈنگ کے گیٹ کے باہر تک ان کے ساتھ گیا.رخصت ہوتے وقت مجھ سے پوچھا کہ میری باتوں کا سامعین پر کچھ اچھا اثر بھی ہوا ہے؟ میں نے یہ محسوس کیا کہ آنحترم کے دل میں عشق احمدیت موجزن ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو بھی جلد از جلد اس کو چہ کا گرویدہ بنالیں.وہ دن ۱۹۱۰ ء کا کیا ہی مبارک دن تھا جب کہ ہم دونوں دوستی کے رشتے میں منسلک ہوئے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ ہم دونوں جو اپنے ناموں میں اللہ کے اسم ذات کی مشارکت رکھتے ہیں ولی اللہ حشمت اللہ نصف صدی سے زیادہ مدت سے شیر وشکر بنے ہوئے ہیں.علاوہ مشارکت اسم ذات باری تعالیٰ کے ایک اور مشارکت بھی کارفرما نظر آتی ہے وہ اس ذات کا حسن ہے جو خدا تعالیٰ کے محبوب حقیقی حضرت محمد واحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم احمد کی مظہر ہے یعنی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے پر نور چہرہ نے اور حسن باطنی نے ہم دونوں کوگرویدہ بنالیا.پس یہ دو مضبوط بند ہیں جنہوں نے ہمارے دلوں کو باندھے رکھا ہے اور فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کا بین ثبوت بہم پہنچایا.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ حضرت شاہ صاحب قادیان میں ایک ( بیت ) میں ہیں جو ( بیت ) اقصیٰ کی طرح کی ہے اور نماز سے فارغ ہوکر ( بیت ) کے صحن سے گذر کر باہر جانے کو ہیں اُسی وقت میں بھی ( بیت ) میں داخل ہوا ہوں اور میں دور سے دیکھ کر حضرت شاہ صاحب کی طرف تیز قدمی کے ساتھ بڑھا ہوں اور حضرت شاہ صاحب بھی مجھے دیکھ کر میری طرف بڑھے ہیں.آخر ہم دونوں محبت بھرا معانقہ کرتے ہیں اس وقت حضرت شاہ صاحب تندرست خوبرواور خوبصورت لباس میں نظر آ رہے ہیں.یہ صحت مندانہ حالت یہ خوبصورت لباس جور دیا میں نظر آئے یہ وہ صحت اور تندرستی ہے جو بعثتِ اُخروی سے تعلق رکھتے ہیں اور آپ کا اچھے لباس میں ملبوس ہونا اچھی منزلت کی نشانی ہے اور ہمارا دونوں کا معانقہ ہونا اس دنیا کے تعلقات محبت کے سچے ہونے اور ایمان اور اعمال
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 113 کچھ یادیں، کچھ تاثرات میں ہمرنگی کی دلیل ہے.( بیت ) یعنی خدا کے گھر میں اکٹھے ہو گئے ہیں گویا جس طرح اس دنیا میں لکھی محبت کے ذریعہ ہمرنگ اور ہم مشرب ہیں عقبے میں بھی ہماری ملاقاتیں ہوتی رہیں گی جو قادیان کے نور سے منور ہونے کے ذریعہ سے ہونگی.انشاء اللہ تعالیٰ“.روز نامه الفضل ربوه ۱۸ مئی ۱۹۶۷ء) حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کی یاد میں مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر مربی سلسلہ (مرحوم و مغفور ) لکھتے ہیں.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) طویل عرصہ سے صاحب فراش تھے.بیماری نے مدوجزر کی کیفیت پیدا کر دی تھی.مجھے حضرت شاہ صاحب کی عیادت کیلئے کئی دفعہ ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا ان کے منہ سے روحانیت اور نورانیت سے پُر کلمات نکلتے.رضائے ربانی اور شکر الہی کے جذبہ سے پُر ان کی گفتگو ہوتی.بالآخر ۱۵ اور ۶ امئی کی درمیانی شب کو ان کا وقت موجود آ پہنچا اور كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کے مطابق احمدیت کی یہ خوشنوا عندلیب دنیا سے پرواز کر گئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ تاریخ احمدیت میں حضرت شاہ صاحب کا مقام اس لحاظ سے امتیازی حیثیت رکھتا تھا کہ وہ (رفیق) ابن (رفیق) تھے.سلسلہ کی کئی خاص خدمات کی اللہ تعالیٰ نے انہیں سعادت عطا فرمائی.آپ کو سالہا سال تک مختلف نظارتوں کا قلمدان سونپا جا تارہا.آپ کی زندگی فعال زندگی تھی.حضرت شاہ صاحب کو حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کے زمانے میں عربی کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے مصر بھیجا گیا.آپ کے اس سفر کے اخراجات مجلس انصار اللہ نے دئے تھے.آپ ۲۲ جولائی ۱۹۱۳ء کو قادیان سے حضرت خلیفہ اول ( نوراللہ مرقدہ) کی دلی دعاؤں کے ساتھ روانہ ہوئے بعض وجوہات کی بناء پر قاہرہ میں زیادہ قیام نہ کر سکے اور آپ عربی کی تدریس کیلئے بیروت اور بعد ازاں حلب چلے گئے اور بیت المقدس میں آپ نے عربی ادب کا امتحان پاس کیا.چوٹی کے اساتذہ سے آپ نے تعلیم حاصل کی.چنانچہ آپ کے اساتذہ میں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 114 کچھ یادیں، کچھ تاثرات الشيــخ هـاشـم الشريف الخليل البيروني - عــلامـه الشيخ بشير الغزمي الحلبي العضو في مجلس الاعیان العثمانی ( ترکی پارلیمنٹ کے ممبر ) اور الشیخ صالح الرافعی الطرابلسی تھے.ان اساتذہ کا ذکر خیر کرتے ہوئے شاہ صاحب مرحوم تحریر فرماتے ہیں:.یعنی میں اس گھڑی کو ہر وقت یاد کرتا ہوں کہ جب میرے یہ استاد مجھے پڑھایا کرتے تھے.تاریک رات ، موسلا دھار بارش ، غضب کی ٹھنڈک اور سردی اور نیند کا شدید غلبہ ، بعض اوقات رات کے بارہ بج جاتے مگر یہ اساتذہ مجھے پڑھانے کی انتہائی خواہش رکھتے تاکہ میں اپنی تعلیم کی جلدی سے تکمیل کر سکوں اور یہ کام محض بغیر اجر وخواہش کے کیا کرتے تھے کیونکہ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ مجھ میں خیر و برکت کو دیکھتے ہیں“.دیار عرب میں کارنامے استاذ الشیخ صالح الرافعی آپ سے بہت ہی محبت وعقیدت رکھتے تھے اور وہ آپ کی (دعوت الی اللہ ) سے بیعت بھی کر چکے تھے چنانچہ اس ضمن میں ایک تاریخی مگر نا قابل فراموش واقعہ بیان کرتا ہوں.میرے قیام بیروت میں ایک مرتبہ بیروت کی میونسپلٹی کے ایک کارکن ٹیکس وصولی کیلئے آئے.عاجز نے ان کو بٹھایا اور ان کی تواضع کی.اس دوران میں کئی امور پر باہمی تبادلہ خیالات ہوا.وہ کہنے لگے کہ میرے والد صاحب مرحوم بھی اس عقیدہ کے تھے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کا ظہور ہو چکا ہے اور میں نے ان کو قبول کر لیا ہے.میں ابھی اس وقت چھوٹی عمر کا تھا.جب میں نے ان کے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا.الشیخ صالح الرافعی الطرابلسی.ان صاحب کا کہنا تھا کہ استاذ زین العابدین ہمارے گھر روزانہ عربی پڑھنے کیلئے آیا کرتے تھے اور میں دروازہ کھولا کرتا تھا.ان کے گھر ایک فوٹو بھی حضرت شاہ صاحب کا ہے.جس پر الشیخ صالح الرافعی کی یہ عبارت درج ہے.تلميذ مِنْ تَلَامِيذِ المَهْدِي عَلَيْهِ السَّلَامِ جَاء مِنِ الْهِنْدِ لِتَلَقِي الْعُلُومِ الْعَرَبِيَّةِ يعنى حضرت مہدی علیہ السلام کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد جو ہندوستان سے عربی کی تع
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 115 کچھ یادیں، کچھ تاثرات کیلئے آئے.الشیخ صالح الرافعی سے بیرونی ملک کے کئی طلباء مفت تعلیم حاصل کیا کرتے تھیاور وہ بڑے اخلاص سے یہ کام کیا کرتے حضرت شاہ صاحب کو یہ استاذ علاوہ عربی ادب کے عربی تلفظ بھی سکھایا کرتے تھے اور حروف مشابہہ یعنی (۱.ع.ء.س.ص.ث.ت.ط.ق.ک.ذ.ظـ ز- ح.(۵) کا باہمی فرق اور مخرج بھی سکھایا کرتے تھے.مکرم شاہ صاحب کے زمانہ قیام بیروت میں عثمانیہ حکومت شام کبری یعنی فلسطین، اُردن، شام اور لبنان پر حکمران تھی.جنگ عظیم کا آغاز ہو چکا تھا.مکرم شاہ صاحب نے ترکی حکومت کا ساتھ دیا اور انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا.چنانچہ آپ کو انگریزوں نے گرفتار کر لیا تھا مشہور تر کی گورنر جمال پاشا نے ایک کالج کی بنیاد بیت المقدس میں رکھی جس کا نام كلية صلاح الدین الایوبی“ رکھا گیا.مکرم شاہ صاحب اس کالج میں تین مضامین پڑھایا کرتے تھے.تاریخ الادیان، انگریزی زبان اور اردو.چنانچہ شاہ صاحب کے قدیم شاگردوں میں سے کئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار اور بالخصوص یہ شعر پڑھتے ہیں.جمال وحسن قرآں نور جان ہر مسلمان ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے السيد منير الحصنی صاحب امیر جماعت احمد یہ دمشق بھی شاہ صاحب کے شاگردوں میں سے تھے.شاہ صاحب کے شاگردوں میں معزز عرب خاندانوں کے کئی صاحبزادگان تھے.اس کالج میں پروفیسر کی حیثیت سے شاہ صاحب کو اعلی علمی سوسائٹی سے رابطہ پیدا کرنے کا موقع مل گیا چنانچہ ان معززا کا برین میں الاستاذ كــو عـلـى وزير عليم حکومت شام، الاستاذ خلیل بک مرحوم وزیر خارجہ حکومت شام السید جمیل بک مرحوم وزیر اعظم شام اور الشیخ عبدالقادر المغربی پریذیڈنٹ پوپ اکیڈمی بھی تھے خاکسار کو قیام دمشق میں ان سے ملاقات کے کئی مواقع میسر آئے.علاوہ ازیں مفتی اعظم
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 116 کچھ یادیں، کچھ تاثرات فلسطين الحاج امین الحسینی اور السيد صالح الخالدی پرنسپل عرب کا لج بیت المقدس و غیر ہم سے بھی آپ کے گہرے تعلقات تھے.الحاج امین الحسینی مفتی اعظم فلسطین جب بھی پاکستان آتے تو مکرم شاہ صاحب حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کی زیر ہدایت ملاقات کیلئے جایا کرتے تھیاور مفتی فلسطین بھی ان سے محبت سے پیش آیا کرتے تھے اور ان کی عزت کیا کرتے تھے.حضرت شاہ صاحب نے قرآن کریم کی تفسیر اور اس کے حقائق حضرت خلیفہ اوّل ( نور اللہ مرقدہ) سے پڑھے ہوئے تھے اور آپ کے درس سے استفادہ کیا ہوا تھا.چنانچہ آپ قرآن شریف کے بعض مشکل مقامات کی تفسیر بیان کیا کرتے تو آپ کے کئی عرب ساتھی و اساتذہ دریافت کیا کرتے یا اُسْتَاذُ مِنْ أَيْنَ تَعَلَّمْتَ هَذَا التَفْسِير؟ شاہ صاحب جوابا کہتے تَعَلَّمُتُ مِنَ الْمُفَضَّالِ الشَّيخ نُورِ الدِّينِ.یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب سے میں نے یہ تفسیر سیکھی ہے یہ واقعہ مجھے الشیخ عبدالقادر المغربي رئيس المجمع العلمي العربی نے بیان کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ( نور اللہ مرقدہ) کی خاص توجہ سے آپ عربی زبان کے بہترین مترجم اور لکھنے والے تھے.چنانچہ آپ نے مندرجہ ذیل کتب کے تراجم کئے..اسلامی اصول کی فلاسفی کا (فلسفة الاصول الاسلاميه) کشی نوح کا (التعلیم) پیغام احمدیت کا دعوة الاحمدية و غَرُضُهَا “ کے عنوان سے بہترین ترجمہ کیا.اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ دیباچہ میں تحریر کرتے ہیں:.” میں نے ترجمہ پوری دیانت سے کیا ہے جو کہ مترجم کے لئے لفظی ترجمہ کے وقت ضروری ہے.جس سے وہ انداز بیان مخدوش نہ ہو جو ہر زبان سے مخصوص ہے اور کلمات کا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 117 تسلسل بھی نہ ٹوٹے جو عربی زبان کی جملہ زبانوں سے امتیازی عربی ہے.کچھ یادیں، کچھ تاثرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات میں ایک خاص شوکت اور روحانی تاثیر پائی جاتی ہے ترجمہ کرتے وقت اس کا قائم رکھنا ایک انتہائی مشکل کام ہے مگر حضرت شاہ صاحب مرحوم نے اس خوبی کو ( حتی الوسع ) قائم کر کے دکھا دیا.علاوہ ازیں حضرت شاہ صاحب نے حَيَاةُ المَسيحَ وَ وَفَاتُه تحریر کر کے وفات مسیح کے موضوع پر نہایت مدلل کتاب تحریر کی.ایک دفعہ یہ کتاب میں نے السيـــد مــحســـن البرازي وزیر اعظم شام کو پیش کی.پڑھنے کے بعد کہنے لگے کہ احمدیت کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے مسلمانوں کو حیات مسیح جیسے گمراہ کن مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے.اس کے علاوہ آپ نے بخاری شریف کا ترجمہ اور تشریح اور دیگر کتب کا ترجمہ بھی کیا.مکرم شاہ صاحب عرب ممالک میں تین دفعہ تشریف لے گئے.پہلے آپ ۱۹۱۳ء میں گئے تھے.بعد ازاں ۱۹۲۵ء میں مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس کے ساتھ دمشق تشریف لے گئے.تقریباً چھ ماہ تک آپ نے دمشق میں قیام کیا.وہاں آپ نے شادی بھی کی.آپ کے برادر نسبتی السید اح فائق الساعاتی ( تھے ) جو محکمہ پولیس کی ایک کلیدی آسامی میں کام کرتے تھے ).تیسری مرتبہ آپ ۱۹۵۶ء میں تشریف لے گئے اور تقریباً دو ماہ قیام کیا.اس عرصہ میں آپ بیروت بھی تشریف لائے تھے.مکرم شاہ صاحب موصوف سلسلہ کے ان بزرگوں میں سے تھے جن کو خدمت سلسلہ کی خاص سعادت نصیب ہوئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے خاص رفیق اور مخلص فرزندِ احمدیت تھے.آپ نے ایک طویل عرصہ تک امتیازی خدمات سرانجام دیں.آپ کو تفسیر قرآن، حدیث اور عربی ادب سے خاص شغف تھا اور بہترین علمی ذوق رکھتے.اللہ تعالیٰ حضرت شاہ صاحب کے نقش قدم پر ہم سب کو چلائے اور جملہ عزیزوں کو صبر جمیل بخشے.روزنامه الفضل ربوہ ۱۹مئی ۱۹۶۷ء)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 118 کچھ یادیں، کچھ تاثرات تاثرات مکرم مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مکرم شیخ مبارک احمد صاحب ( مرحوم و مغفور ) سابق مربی سلسلہ مشرقی افریقہ تحریر کرتے ہیں:.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم و مغفور (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور جنت الفردوس کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے ) اعلیٰ شخصیت کے مالک تھے.احمدیت کے مخلص کارکن اور حضرت مصلح موعود ( نور اللہ مرقدہ) کے فدائی ساتھی تھے.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا خاندان نہایت نیک، پارسا، خدمت گزار، غریب پرور ، سلسلہ کی بے لوث خدمت کرنے والے.قرآن کریم سے بے حد محبت اور شفقت رکھنے والے، تہجد گزار ، دعا گو اور عابد افراد پر مشتمل تھا.حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی اسی خاندان کے ایک فرد تھے.آپ سلسلہ کے کئی کاموں پر متعین ہوئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو) کی ہدایات کے مطابق ان کاموں میں اپنے جوش اور عمل، پختہ ارادہ و عزم اور دعاؤں سے اپنے دوسرے بزرگ ساتھیوں کی طرح ایک نئی زندگی اور جان ڈال دیتے تھے اپنے مفوضہ فرائض کے علاوہ جماعت اور سلسلہ کی علمی خدمت کا بھی بہت شغف تھا.میرے والد صاحب محترم شیخ محمد دین صاحب ریٹائرڈ مختار صدر انجمن احمد یہ لمبا عرصہ ان کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں دونوں کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات تھے.میں نے متعدد مرتبہ دیکھا حضرت شاہ صاحب مرحوم و مغفور جب کبھی بھی ہمارے والد محترم کو کوئی پریشانی ہوئی فورا اس پریشانی کو دور کرنے اور مناسب امداد کرنے کیلئے مستعدی سے تیار ہو جاتے اور یہ ایسے بزرگوں کا ایک خصوصی وصف تھا.یہ لوگ دردوں کا مداوا تھے اور غم خوار ، خاموشی سے کئی قسم کی امدا د یں کرتے رہتے تھے.خاکسار جب مدرسہ احمدیہ کی آخری کلاس پاس کر کے مولوی فاضل کلاس میں داخل ہوا تو حضرت شاہ صاحب نے دیکھا کہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 119 کچھ یادیں، کچھ تاثرات ہمیں مالی وسعت نہیں اور بڑی بڑی کتب کا خریدنا مشکل ہے.بغیر کسی درخواست یا خواہش کے از خود انہوں نے بہت سی قیمتی کتب اپنی گرہ سے خرید کر مہیا کیں.ان کتب میں فتوح البلدان اور الکامل فی التاریخ “ بھی شامل تھیں.اس پر آپ نے مزید یہ مہربانی کی کہ وقت بھی دیا کہ میں ان سے ان کتب کو پڑھا بھی کروں.عربی علاقوں میں رہنے کے باعث تاریخ ایسے طور پر پڑھاتے کہ آنکھوں دیکھی کیفیت بیان کر رہے ہیں اور الکامل اس طریق سے پڑھاتے کہ گویا ایک بہت بڑا ادیب عربی زبان کا عاشق یہ کتاب پڑھا رہا ہے.مجھے یاد ہے ان کے اس ادبی و تاریخی درس میں جو بعد نماز عصر ان کی دارالانوار کی کوٹھی میں جاری رہتا بعض اور میرے کلاس فیلو بھی شامل ہو جاتے اور فائدہ اٹھاتے.یہی طریق اس وقت دوسرے بزرگوں کا بھی تھا.کشمیر میں خدمات ۱۹۳۴ء کے شروع میں مشرقی افریقہ جانے سے پہلے کی بات ہے حضرت شاہ صاحب تحریک آزادی کشمیر میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو ) کی ہدایات کے مطابق بہت اہم کام کر رہے تھے.ادھر آپ ناظر (اصلاح وارشاد ) بھی تھے.خاکسارکو حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو) کے ارشاد پر حضرت شاہ صاحب نے کشمیر بھجوایا.میں وہاں جا کر بیمار ہو گیا جنوری کا مہینہ تھا.سردی بھی سخت تھی یوں بھی نیا نیا باہر جانے لگا تھا.کچھ گھر کی جدائی نے ستایا اور بیمار پڑ گیا.سرینگر میں ایک مشہور ڈاکٹر چاولہ تھے جو ہندو تھے ان سے میں ملا انہوں نے کہا کہ آپ کو یہاں کی آب و ہوا موافق نہیں بہتر ہوگا کہ آپ واپس پنجاب چلے جائیں خود بخود دطبیعت ٹھیک ہو جائے گی.حضرت شاہ صاحب چونکہ ناظر ( دعوۃ الی اللہ ) تھے خاکسار نے اپنی بیماری اور ڈاکٹر کی رائے سے انہیں اطلاع دی.حضرت شاہ صاحب نے اپنے نام سے بذریعہ تار مجھے ہدایت دی کہ Eat rice and take یعنی چاول کھائیں اور قہوہ پیئیں.اس کے جواب میں خاکسار tea without milk
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 120 کچھ یادیں، کچھ تاثرات نے شاہ صاحب کی خدمت میں بذریعہ تار عرض کی کہ Unable to eat rice and take tea without milk یعنی میں چاول کھانے اور قہوہ پینے کے قابل نہیں ہوں.ڈاکخانہ میں ان دنوں کشمیر کی تحریک کے زور کی وجہ سے سی آئی ڈی بیٹھی ہوئی تھی.ان دونوں تاروں کی نقل حکومت کشمیر کے پاس بھیجی گئی جس پر کشمیر کے گورنر سردار عطر سنگھ اور اس وقت کے انسپکٹر جنرل پولیس جو مسلمان تھے دونوں نے مجھے کہا کہ آپ سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ساتھ یہ کیا تار بازی کر رہے ہیں کیا آپ کسی سازش کے مرتکب ہو رہے ہیں.حکومت کشمیر نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ کو کشمیر کی حدود سے نکل جانے کیلئے کہے.میں نے ہزار سمجھانے کی کوشش کہ کہ جناب میں (مربی) ہوں مجھے سیاسیات سے کوئی تعلق نہیں میں تو قرآن وحدیث کی کرلیں کی تعلیم دینے جماعت کی تربیت کے سلسلہ میں آیا ہوں.ڈاکٹر سے دریافت کر لیں میں بیمار ہوں اس کی رائے تھی جس کی میں نے اپنے ہیڈ آفس میں اطلاع بھجوائی وہاں سے مشورہ آیا کہ چاول استعمال کروں اور قہوہ پیا کروں.میں نے کہا کہ یہ میرے لئے مشکل ہے.گورنر عطر سنگھ کہنے لگے ہم کوئی بات نہیں جانتے.سید ولی اللہ شاہ صاحب کی طرف سے یہ تار ہے اور تم نے ان کو تار دی ہے وہ کشمیر کی تحریک میں بڑا اہم کردار ادا کر رہے ہیں ضرور کوئی سیاسیات کے متعلق سازش ہے.ان کی بات سن کر لطف بھی بڑا آیا کہ حضرت شاہ صاحب سے حکومتِ کشمیر کس قدر خوف زدہ ہے.مہاراجہ سے لے کر نیچے کے افسروں تک گھبراتے تھے.بڑی دلیری سے کام کرنے والے کارکن تھے اور کام کو اس رنگ میں انجام دیتے کہ وَ الشَّزِعَتِ غَرقاً “ کی تعبیر سامنے آجاتی ہے اپنے تو کیا غیر بھی متاثر ہوئی غیر نہ رہتا تھا.بعد میں خاکسار حذیفہ چلا گیا.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی (نور اللہ مرقدہ) کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت شاہ صاحب نے کوشش کی اور حکومت کشمیر کے آرڈرز خاکسار کے متعلق منسوخ ہو گئے.حضرت شاہ صاحب کو اس بات کا بڑا شوق بلکہ تڑپ رہتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ 66
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 121 کچھ یادیں، کچھ تاثرات وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام اور آپ کی کتب دوسری زبانوں میں ترجمہ ہوں.خود بھی اس کام میں مصروف رہتے.کئی کتب اور اہم مضامین کا عربی میں ترجمہ کیا.مجھے مشرقی افریقہ لکھا کہ کشتی نوح کا سواحیلی زبان میں ضرور ترجمہ کریں.ان کی اس نیک تحریک کا مجھ پر بہت اثر ہوا.ابھی گئے دو ایک سال ہی ہوئے تھے اور سواحیلی زبان سیکھنے کی طرف خاکسار نے توجہ کی اور خدا کے فضل سے اس سے مجھے ( دعوۃ الی اللہ ) کے لحاظ سے بہت ہی فائدہ ہوا ترجمہ کی خاص مہارت نہ تھی پھر بھی خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر کے کشتی نوح کا خاکسار نے سواحیلی زبان میں ترجمہ شروع کر دیا.تعلیم کا حصہ اور کشتی نوح کے دوسرے حصے ایسے پر اثر اور زوردار ہیں کہ جب ترجمہ کرنے کیلئے بیٹھتا تو اپنی عاجزی اور عدم اہلیت کا احساس اُبھر کر سامنے آ جاتا لیکن خدا تعالیٰ کی خاص تائید اور دعاؤں کی برکت سے مجھے توفیق مل گئی کچھ عرصہ کے بعد کشتی نوح کا ترجمہ مکمل ہو کر شائع ہو گیا اور پڑھنے والوں پر اس کا خاص اور نمایاں اثر ہوا.اس کے ترجمہ کرنے اور شائع کرنے میں خاکسار کو خاص تائید الہی حاصل رہی.مگر ہمیشہ ہی خاکسار کو یہ احساس رہا کہ حضرت شاہ صاحب مرحوم نے نہایت نیک جذ بہ اور تاکید سے اس کتاب پر ترجمہ کی مجھے تحریک فرمائی تھی.مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کے سواحیلی میں شائع ہونے سے جو بابرکت ( تربیتی) نتائج نکلے ہیں یا نکلتے رہیں گے خدا کے فضل سے حضرت شاہ صاحب کو بھی اس کا ثواب پہنچتا رہے گا.اس زمانہ کے بزرگ ذاتی دلچسپی ان کاموں میں لیتے انہیں خود ( دعوۃ الی اللہ ) کا شوق تھا.( دعوۃ الی اللہ ) کا تجربہ تھا.وہ سمجھتے تھے کہ کون کون سی کتاب مفید ہے اور اس کے ساتھ اپنی بزرگانہ شان کے عین مناسب دلی دعاؤں سے امداد کرتے تھے اور اس طرح بے سروسامانی کے باوجود خدا تعالیٰ کاموں میں برکت دیتا تھا.حضرت شاہ صاحب ایسے ہی نیک اور خدام دین بزرگوں میں سے ایک تھے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور اپنے قرب سے متمتع فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوہ ۴ جولائی ۱۹۷۶ء)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 122 قرار داد تعزیت از جامعه نصرت ربوه کچھ یادیں، کچھ تاثرات ہم یعنی پرنسپل، اساتذہ اور طالبات جامعہ نصرت ربوہ انتہائی رنج والم سے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ کی وفات پر اپنے دلی صدمہ کا اظہار کرتے ہیں.حضرت سید عبدالستار شاہ صاحب نوراللہ مرقدہ کی اولاد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہشتی خاندان کی بشارت دی تھی.حضرت شاہ صاحب گونا گوں صفات جلیلہ کے مالک تھے آپ کا بچپن انتہائی پاکیزہ ماحول میں گزرا اور جوانی کے زمانہ میں بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عملی نمونہ پیش کیا.آپ نے نو جوانی کی عمر ہی میں اپنی زندگی وقف کر دی تھی.ایف.ایس.سی کا امتحان بھی پاس نہیں کیا تھا کہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کے ارشاد اور منشاء کے مطابق آپ بلا دعر بیہ تشریف لے گئے اور وہاں کئی سال قیام کر کے عربی زبان پر مکمل عبور حاصل کیا اور ساتھ ہی ساتھ اشاعت دین کا فریضہ انجام دیتے رہے.وہاں سے واپسی پر آپ نے ہر وقت کسی نہ کسی رنگ میں دین کی خدمت انتہائی جانفشانی سے جاری رکھی اور آپ نظارت کے مختلف عہدوں پر فائز رہے.آپ نے بہت سی کتب تصنیف فرمائیں.مرحوم شاہ صاحب نے ایک طویل بیماری بڑے ہی صبر و استقلال سے برداشت کی اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ علیین میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل سے نوازے.آمین ہم محترم سید عبدالرزاق شاہ صاحب ، حضرت شاہ صاحب مرحوم کی اہلیہ محترمہ اور جملہ بچوں کی خدمت میں اظہار تعزیت کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو.آمین الھم آمین.قرار داد تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ محترم سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی تمام زندگی سلسلہ کی خدمت میں گزار دی.ادارہ تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ کے اساتذہ اور طلباء اس غم میں جو صرف ان کے اعزہ کا ہی نہیں بلکہ تمام جماعت کا ہے، شریک ہیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ جہاں
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 123 کچھ یادیں، کچھ تاثرات ان کے اہل خانہ کو اس غم پر صبر کی تو فیق بخشے وہاں جماعت میں محض اپنے فضل سے اس خلاء کو پُر کرنے کے سامان پیدا کرے.محترم شاہ صاحب مرحوم و مغفور ہمارے ادارہ کے اولڈ بوائے تھے.انہیں تعلیم سے گہرا لگاؤ تھا.حضرت خلیفتہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے اسی بناء پر انہیں ۱۹۱۳ء میں عربی کی تعلیم مکمل کرنے کیلئے مصر روانہ فرمایا.آپ نے اُن کے انتخاب اور اعتماد کو اپنی محنت اور ذوق سے عملی رنگ میں درست ثابت کر دیا اور اپنے قیام کے دوران مصر، شام، لبنان اور فلسطین میں عربی زبان کی تعلیم مکمل کی.آپ کا مطالعہ بہت وسیع تھا اور آپ عربی کے بہترین ادیب تھے.ہائی سکول کے طلباء سے آپ کو غیر معمولی محبت اور شفقت تھی.بچوں کی نفسیات سے بہت جلد واقف ہو جاتے اُن کا تعلیم دینے کا طریقہ بہت آسان تھا.قادیان میں جن لوگوں نے آپ کا درس بخاری سنا ہے وہ اسے بھلا نہیں سکتے.آپ کا انداز بیان اتنا دلکش اور سادہ ہوتا کہ چھوٹی عمر کے بچے بھی بہت زیادہ تعداد میں درس میں شریک ہوتے تھے.آپ کی سیرت کا خلاصہ محنت ، استقلال ، فدائیت اور سلسلہ اور خلیفہ کی ذات سے مثالی اخلاص میں مضمر ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو ان کو نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین.(هم هیں اساتذہ و طلباء تعلیم الاسلام هائی سکول ربوه) (روز نامه الفضل ربوہ یکم جولائی ۱۹۶۷ صفحه ۶)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 124 نذرانہ عقیدت کچھ یادیں، کچھ تاثرات از مکرم و محترم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول سلمہ اللہ تعالیٰ اک اور بزم یار کا گل ہو گیا چراغ اس قلب ناتواں پہ لگا ایک اور داغ محمود کا جری تھا جو رخصت ہوا ہے آج اللہ کا اک ولی تھا جو رخصت ہوا ہے آج تجھ کو بھلا سکے گی نہ کشمیر کی زمیں جس کا تو شہسوار تھا اے زین العابدین نازاں تری زبان پہ تھی اُمّم الالسنہ عارف بنا گیا تجھے اک شوقِ بے پنہ پروانه خلافت حقہ رہا مدام تھے دین مصطفیٰ کیلئے تیرے صبح و شام تو یادگار عید مسیح الزماں تھا فضل عمر کی بزم کا اک راز دان تھا ہم پر بہت گراں ہے اگر چہ تری وفات لیکن مسیح وقت کی یاد آ گئی ہے بات ”جو مر گئے انہی کے نصیبوں میں ہے حیات ؤمر اس راہ میں زندگی نہیں ملتی بجز ممات اے جانے والے جا ترا فردوس ہو مقام پر خدا کی رحمتیں افشاں رہیں مدام تجھ (روز نامه الفضل ربوه ۲۰ مئی ۱۹۶۷ء)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب.125 کچھ یادیں، کچھ تاثرات حضرت سیدہ سیاره حکمت صاحبه آف دمشق اہلیہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مرحوم کا ذکر خیر مکرمہ سیدہ طاہرہ شاہ صاحبہ بنت حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتی ہیں:.میری والدہ محترمہ کا ابتدائی وطن ترکی تھا.میرے نانا ہجرت کر کے ملک شام کے شہر دمشق میں آئے.میری امی کی پیدائش دمشق میں ہوئی.دراصل میرے نانا ترک تھے اورسید فیملی سے ان کا تعلق تھا ان کا نام سید محمد جمیل صاحب تھا.میری والدہ ابھی چھوٹی ہی تھیں کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا اور پھر تھوڑے عرصہ کے بعد والد صاحب بھی فوت ہو گئے اس طرح میری امی بچپن سے ماں اور باپ کی شفقت اور محبت سے محروم ہو گئیں.وہ اپنے تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھیں.ان کی پرورش ان کی خالہ نے کی.۱۹۲۶ء میں میرے ابا جان حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بطور داعی الی اللہ مشق میں کام کر رہے تھے اُس وقت میری امی کا خاندان میرے والد محترم کے زیر دعوت تھا.میری امی کے خالوسید محمد طاہر صاحب کے میرے ابا جان سے دوستانہ تعلقات تھے جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ میری امی کی پرورش خالہ نے کی اس طرح میری امی کے خالو سید محمد طاہر صاحب ان کے سر پرست تھے.لہذا میرے والد صاحب کی خواہش پر میری امی کا رشتہ ہوا.میری امی کو یہ فخر حاصل ہے کہ وہ مشق کی سب سے پہلی احمدی خاتون ہیں اس پر ہمیشہ اپنی وفات تک بڑی خوشی کا اظہار کرتی تھیں.اگر غور سے دیکھا جائے تو سیدنا حضرت بانی سلسلہ کی صداقت کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.میری والدہ کی جب شادی ہوئی تو اس وقت ان کی عمر سولہ سال تھی.اپنے وطن ، بھائیوں اور رشتہ داروں کو چھوڑ کر میرے والد کے ساتھ ۱۹۲۶ء میں قادیان آگئیں.خدا تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی سچی محبت ان کے دل میں ڈالی اور میری امی نے احمدیت کو سچے دل سے قبول کیا.حضرت فضل عمر کے ہاتھ پر بیعت کی.احمدی تو وہ نکاح سے پہلے ہو چکی تھیں تاہم
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 126 کچھ یادیں، کچھ تاثرات قادیان آکر دستی بیعت کا شرف حاصل کیا.میرے ابا جان اور ان کے خاندان نے میری امی کو ایسی محبت اور شفقت دی کہ وہ بالکل اپنے عزیر واقارب کو بھول گئیں.میری امی نے با قاعدہ اُردو پڑھنی اور لکھنی سیکھی.سیدنا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ساری کتاب میں انہوں نے پڑھیں.بے حد ذہین تھیں.اس لئے بہت جلد اُردو بولنی اور پڑھنی شروع کر دی اور اپنے آپ کو اپنے سسرال کے طور طریقوں میں ڈھال لیا.خدا تعالیٰ نے میری امی کو ایک ایسا محبت بھرا دل عطا کیا تھا جس کی مثال ملنی مشکل ہے.اپنے سر یعنی حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب کی ایسی محبت سے خدمت کی جس کی نظیر نہیں ملتی.جب تک میرے دادا زندہ رہے میرے ابا جان کے پاس رہے.نہ صرف میرے دادا محترم سے محبت اور ان کی عزت کی بلکہ اپنے تمام دیوروں، نندوں اور باقی تمام رشتہ داروں کو اپنی بے لوث محبت اور ایثار اور خدمت سے اپنا گرویدہ بنالیا.سب کو اپنے بھائی بہنوں کی طرح سمجھا.خاص طور پر حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ سے خاص محبت تھی جو کہ میری سب سے چھوٹی پھوپھی تھیں.میری پھوپھی حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہ کو بھی اپنی تمام بھاوجوں سے میری امی سے زیادہ پیار تھا اس کا سیدنا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے اپنے مضمون میں جو انہوں نے اپنی والدہ کے متعلق لکھا ہے ذکر فرمایا ہے.سید نا حضرت بانی سلسلہ کے خاندان سے بھی ان کو دلی محبت تھی خاص طور پر حضرت اماں جان اور ان کی اولا د سے.۱۹۵۵ء میں جب حضرت فضل عمر دمشق گئے تو میری امی کے بھائی اور رشتہ داروں نے شکوہ کیا کہ ہماری بہن ایک دفعہ بھی واپس اپنے وطن نہیں آئیں.چنانچہ حضور نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی ان کی بہن کو دمشق بھیجیں گے.اس طرح ۱۹۲۶ء کے بعد ۱۹۵۶ ء میں میری امی کو دوبارہ اپنے وطن جانے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ نے میری امی کو یہ موقع دیا کہ وہاں جا کر سب سے پہلے لجنہ قائم کی وہاں تقریباً
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 127 کچھ یادیں، کچھ تاثرات ایک سال ٹھہریں.اس تمام عرصہ میں با قاعدہ اجلاس کرواتیں.مجھے اچھی طرح یاد ہے میں ان کے ہمراہ تھی میری امی اجلاس پر وصال ابن مریم اور صداقت سید نا حضرت اقدس بانی سلسلہ پر ایسے جوش سے بولتیں اور دلائل دیتیں کہ ان کے رشتہ داروں کو حیرت ہوتی کہ کیسے اچھے طریقوں سے ان مسئلوں پر تقریر کرتی ہیں.دمشق سے واپسی پر میری امی نے وہاں کے امیر جماعت سید منیر الحسن صاحب کی بہن کے سپرد یہ کام کیا اور بڑی تاکید کی کہ اجلاس با قاعدگی سے ہوتے رہیں.اس کے بعد پاکستان سے نصیرہ بیگم صاحبہ جن کی شادی دمشق کے سلیم الجابی سے ہوئی وہاں گئیں.ان کو بھی بہت تاکید کی وہاں جا کر لجنہ کے اجلاسوں کی نگرانی کرتی رہیں.میری امی کی یہ بڑی خواہش تھی کہ ان کے وطن ( دمشق ) میں احمدیت کثرت سے پھیلے جب ان کو معلوم ہوا کہ دمشق میں ہمارے مشن کو سیل کر دیا گیا ہے تو اس پر ان کو اس قدر دکھ ہوا کہ بیان نہیں کر سکتی.وہ نمازوں میں رو رو کر دعائیں کرتیں کہ خدایا دمشق میں دین حق کی ترقی کے سامان پیدا فرما.اس کے بعد میری امی ۱۹۷۲ء میں دمشق گئیں وہ اُن دنوں بہت بیمار تھیں.اپنے بھائی کے پاس صرف چھ ماہ رہ کر واپس آگئیں پھر دو سال بعد ان کی وفات ہوگئی.اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.محبت الہی اور عشقِ رسول میری امی بہت ذکر الہی کرنے والی اور خدا سے محبت کرنے والی تھیں.ان کے دل میں خدا اور اس کے کلام کی محبت اس قدر نمایاں تھی کہ وہ جب بھی نماز اور قرآن پڑھتیں تو محبت الہی کی وجہ سے ان کے آنسو جاری ہو جاتے.خدا تعالیٰ کا خوف ان کے دل میں ہر وقت رہتا وہ نہ صرف پنجگانہ نماز کی پابند تھیں بلکہ تہجد اور اشراق کی نمازیں بھی پڑھتی تھیں.ذکر الہی کے ساتھ کثرت سے درودشریف پڑھا کرتی تھیں.رمضان المبارک کے روزے بڑی باقاعدگی سے رکھا کرتیں.اس کے علاوہ میری امی نے شوال کے روزے کبھی نہ چھوڑے اور نفلی روزے کثرت سے رکھا کرتیں.بڑی دعا گو تھیں.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 128 کچھ یادیں، کچھ تاثرات خدمت خلق خدا تعالیٰ نے میری امی کو ایک محبت بھرا دل عطا کیا تھا ان کے دل میں نہ صرف اپنے رشتہ داروں کے لئے بلکہ تمام لوگوں کے لئے بہت محبت تھی جب ان کو کسی کی بیماری یا دکھ یا تکلیف کا علم ہوتا تو ان کا دل غم سے بھر جاتا وہ اس کے لئے دعائیں بھی کرتیں اور ہر طریقہ سے ان کے دکھ میں شریک ہو کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتیں.اپنے ہمسایوں کا خاص خیال رکھتیں.ان کی نمی اور خوشی کے موقعوں میں شریک ہوتیں.مهمان نوازی خدا تعالیٰ کے فضل سے میری امی میں مہمان نوازی کا جذ بہ بھی بہت زیادہ تھا کبھی کسی کو بغیر خاطر کے گھر سے جانے نہیں دیا.جلسہ سالانہ کے مہمانوں کا خاص طور پر خیال رکھا کرتیں.ان کی ہر ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتیں.وہ اس بات پر بہت خوش ہوتیں کہ جلسہ کے مہمان زیادہ سے زیادہ ان کے گھر ٹھہریں اور وہ ان کی اپنے ہاتھ سے کھانے پکا کر خدمت کریں اور ثواب حاصل کریں.میری والدہ میں دوسروں کیلئے قربانی کا جذ بہ بہت زیادہ تھا وہ اپنے نفس کو دوسروں کیلئے تکلیف میں ڈال کر ہر وقت مدد کیلئے تیار رہتیں.ایک واقف زندگی اُس وقت تک اپنے وقف کو نبھا نہیں سکتا جب تک اُس کی بیوی بھی ساتھ وقف نہ کرے.اس لحاظ سے میری امی نے اپنے خاوند کے ساتھ مکمل وقف کر کے زندگی گزاری.دنیا کے شوق اور خواہشات کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر چھوڑ دیا اور بہت ہی صبر اور اطمینان سے ایک سادہ زندگی اپنے واقف زندگی خاوند کے ساتھ کامل محبت اور اطمینان سے گزاری.اللہ تعالیٰ ان پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے اور ہم سب کو ان کے اخلاق عالیہ اور اوصاف جمیلہ اپنانے کی توفیق بخشے.آمین (ماہنامہ مصباح ربوہ اگست ستمبر ۱۹۸۹ء)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب باب پنجم 129 علمی کارنامے علمی کارنامے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 130 علمی کارنامے بعض کتب کا اجمالی تعارف حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنا سب سے پہلا مضمون ۱۹۰۷ء میں سترہ سال کی عمر میں انجمن تشخیذ الاذہان کے اجلاس میں پڑھا.اس وقت سے لے کر ۱۹۶۳ ء تک ستر سال سے زائد عرصہ پر محیط زندگی میں آپ کو قادیان ، دمشق ، بیروت ،ترکی اور پھر ربوہ میں اخبارات ورسائل اور جرائد میں سینکڑوں علمی اور تحقیقی مضامین لکھنے کی توفیق ملی ، نیز اس دوران کئی علمی کتب بھی آپ نے تحریر کیں.جلسہ سالانہ قادیان اور جلسہ سالانہ ربوہ کے مواقع پر آپ کی علمی اور تربیتی تقاریر تاریخی اہمیت کی حامل ہیں جن میں سے بعض کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں.اس باب میں آپ کے بعض علمی تحقیقی ، تربیتی اور اخلاقی کتب و تحریرات کا ذکر کیا جا رہا ہے.(۱) احمد المسيح الموعود و دعوة النزال یہ کتاب دراصل حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی کتاب وفات مسیح کے بارہ میں دس ہزار روپے پینج کا عربی ترجمہ ہے جسے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ۱۹۱۷ء میں ترجمہ کیا اور یہ کتاب پہلی بار نظارت تالیف واشاعت قادیان کے اہتمام سے شائع ہوئی جس کے کل ۵۶ صفحات ہیں.(۲) اچھوت بھائیوں کے نام احمدیت کا پیغام اس کتاب کا تعارف کرواتے ہوئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:.سیکرٹری صاحب مجلس استقبالیہ مذاہب کانفرنس لکھنو نے بذریعہ تحریر مورخہ ۸.مئی ۱۹۳۶ ء کو حضرت امام جماعت احمدیہ کو دعوت دی کہ آپ بھی مذاہب کا نفرنس کے موقعہ پر اپنے خیالات کے اظہار کے لئے اپنا نمائندہ بھیجیں.آپ نے اس دعوت کو قبول فرماتے ہوئے مجھے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 131 علمی کارنامے بحیثیت ناظر دعوت الی اللہ ) ارشاد فرمایا کہ میں اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے مذہبی نقطہ نگاہ کی ترجمانی کروں.اس ارشاد کی تعمیل میں اچھوت بھائیوں کی خدمت میں پیغام احمدیت جو حقیقی ( دین ) پر مشتمل ہے پیش کرتا ہوں.سیکر ٹری صاحب نے اپنے نوٹ میں اس امر کی خواہش بھی کی تھی کہ حضرت امام جماعت احمد یہ اپنے ہاتھ سے مضمون لکھیں ان کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے آپ نے علیحدہ مختصر الفاظ میں اچھوت بھائیوں کو مخاطب فرمایا ہے جو اس پیغام کے ساتھ بطور ضمیمہ کے شائع کیا جاتا ہے.والسلام.سید زین العابدین ولی اللہ شاہ یہ کتاب ۱۶ صفحات پر مشتمل ہے جس کے مصنف و پبلشر آپ خود ہی تھے.(۳) اسمه احمد حجة الله البالغة یہ دراصل جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۳۴ء کے موقعہ پر آپ کی تقریر ہے جو ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی.اس کتاب میں مثیل احمد کے موضوع پر سورۃ الصف میں بیان فرمودہ پیشگوئیوں پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے یہ کتاب ۱۹۳۵ ء میں حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی آف قادیان نے شائع کی جوہ ۸ صفحات پر مشتمل ہے.(۴) اسمه احمد حصہ دوم یعنی حضرت نبی کریم ﷺ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق ۱۹۳۵ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر آپ نے یہ پر معارف تقریر کی جسے آپ نے چار دنوں میں دوبارہ نظر ثانی کر کے اشاعت کیلئے نظارت تالیف و اشاعت قادیان کے سپر د کیا.یہ کتاب دسمبر ۱۹۳۵ء میں نظارت تالیف و اشاعت قادیان نے شائع کی جو کہ ۸۰ صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی اور فارسی منثور و منظوم کلام کی رو سے آپ کے عشق رسول ﷺ کے نظارے پیش کئے گئے ہیں.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 132 علمی کارنامے (۵) انبیاء کی آسمانی شہادت اور اس کی تکمیل مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں یہ دراصل آپ کی جلسہ سالانہ قادیان ۱۹۳۱ء کے موقع کی تقریر ہے جو نظارت دعوۃ (الی اللہ ) نے فروری ۱۹۳۲ء میں شائع کی.یہ کتاب ۹۶ صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں آسمانی بادشاہت کے متعلق انبیاء کی پیشگوئیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کا ظہور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا اور اب جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہورہا ہے.(۶) انقلاب عظیم کے متعلق انذار و بشارات یعنی ہماری ہجرت یہ آپ کی جلسہ سالانہ ۱۹۴۸ء کی تقریر ہے جو فروری ۱۹۴۹ء میں مہتم نشر واشاعت ربوہ نے شائع کی جو کہ 4 صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب کے دیباچہ میں آپ تحریر کرتے ہیں.لاہور کے جلسہ سالانہ منعقدہ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء میں میری تقریر کا یہ پہلا حصہ ہے جو ہماری ہجرت سے متعلقہ گیارہ الہاموں اور چھ خوابوں پر مشتمل ہے.جن میں ہم کو واقعات ہجرت کی قبل از وقت مجمل اور مفصل دونوں طریقوں پر خبر دی گئی تھی.(دیباچه صفحه ۲) (۷) ترجمه و شرح جامع صحیح مسند بخاری اس کے بارہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:.در علم حدیث اس کے اصل مقام اس کی تاریخ تدوین ، اس کے ضبط وربط کے اصول اور جامع صحیح مسند بخاری کے اصل موضوع اور اس کے سمجھنے کے طریق کے متعلق ذکر کرنے کے بعد اب میں موجودہ شرح کے لکھے جانے کے متعلق بھی ایک دو باتیں کہنا ضروری سمجھتا ہوں.۱۹۲۵ء کے آخر میں جب کہ میں دمشق میں تبلیغی مرکز قائم کرنے میں مشغول تھا.نومبر کا مہینہ ہوگا یا دسمبر کا میں نے بحالتِ کشف دیکھا کہ مولوی عطا محمد صاحب جو کہ اس وقت ناظر اعلیٰ کے کلرک تھے.میرے سامنے کھڑے ہیں اور آرڈر بک ان کے ہاتھ میں ہے.چوہدری نصر اللہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 133 علمی کارنامے خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس وقت ناظر اعلیٰ تھے.ان کی طرف سے میرے نام ایک آرڈر بدیں مضمون ہے کہ نظارت تالیف و تصنیف میں آپ کو تبدیل کیا جاتا ہے ( دمشق جانے سے پہلے میں ناظر تعلیم و تربیت تھا ) اس آرڈر سے مجھے انقباض محسوس ہوا.اس لئے میں نے دستخط کرنے میں تامل کیا مگر وہ ڈٹ کر کھڑے ہیں گویا کہ حکم کی تعمیل بہر حال ضروری ہے.آخر افسردگی اور خاموشی میں میں دستخط کرتا ہوں.مولوی جلال الدین صاحب شمس کو میں نے یہ ماجرا سنایا اور کسی وقت ایک خط مولوی عطا محمد صاحب کو لکھا اور اپنی تبدیلی کے متعلق دریافت کیا.جواب نفی میں آیا.جب جولائی ۱۹۲۶ء کو میں دارالامان واپس پہنچا تو محترم نیر صاحب مجھے احمد یہ چوک میں ملے ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی.میرے کان میں بصیغہ راز کہتے ہیں.”مبارک ہو آپ کو ناظر تجارت بنایا گیا ہے.ان کے اشارہ کو تو میں سمجھتا تھا.مگر میں نے ان سے بھی کہا خدمت سے غرض ہے جہاں کہیں بھی لگایا جاؤں اور انہی دنوں قادیان میں خواب میں دیکھا کہ ایک شخص جس کا نام میں بھول گیا ہوں مگر اس کے نام کا ایک جز ولفظ ”محمد“ ہے دودھ کا بھرا ہوا پیالہ میرے سامنے پیش کرتا ہے جس میں بالائی بھی ہے اور میں اسے پیتا ہوں.محترم مولوی عبد المغنی صاحب سابق ناظر بیت المال سے سیالکوٹ جا کر تجارت کا چارج لیا اور تجارتی حالت کے متعلق ایک رپورٹ مرتب کر کے صدر انجمن احمدیہ کے سامنے پیش کی جو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ڈلہوزی بھیجی گئی.آپ نے مجھے اور سید انعام اللہ شاہ صاحب مرحوم کو بذریعہ تار ڈلہوزی بلایا.اسی اثنا میں مورخہ ۲ ستمبر ۱۹۲۶ء کی رات کو چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے انتقال کی اطلاع بذریعہ تارپہنچی اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دوسرے دن بغرض جنازہ دارالامان کے لئے روانہ ہوئے میں بھی آپ کے ساتھ تھا.راستہ میں بمقام دو نیرہ آپ نے سفر کے چکر اور کوفت دور کرنے کیلئے مجھے چائے پینے کیلئے فرمایا میں نے معذرت کی کہ مجھے کچھ حرارت ہے اور یہ کہ دمشق اور عراق میں لگا تار کام کرنے کی وجہ سے صحت پر اثر پڑا ہے.آپ نے فرمایا کہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 134 علمی کارنامے کچھ دن کی رخصت لے لیں.میں نے عرض کی تجارت کا چارج لینے کے معابعد میرا رخصت لے لینا نقصان دہ ہوگا.آپ نے فرمایا ہم نے تو آپ کو نظارت تالیف و تصنیف میں تبدیل کر دیا ہے اور اس بارہ میں احکام بھی صدر انجمن کو بھیجے جاچکے ہیں.میں یہ سن کر ششدر رہ گیا.اس موقع پر آپ نے افسوس بھرے لہجہ میں اور اس انداز سے مجھے مخاطب فرمایا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی آپ کے قلبی احساس اور جذبات میں کسی طرح شریک ہو جاؤں آپ نے فرمایا بہت سے ضروری کام ہیں جو کرنے کے ہیں مگر ان کی طرف توجہ نہیں.مثلاً صحیح بخاری کے ترجمہ اور اس کی شرح کا کام بھی نہایت ضروری اور اہم ہے اگر ہم نے نہ کیا تو ان لوگوں سے کیا توقع ہو سکتی ہے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہنے کا موقع نہیں ملا اور جو آپ کے فیضان سے براہ راست مستفیض نہیں ہوئے.غیروں کے تراجم اور حواشی رہ جائیں گے اور پھر جواناپ شناپ لکھا ہوا ہوگا اسی پر دارومدار ہوگا اور پھر بعد از وقت اعتراضوں کو دیکھ کر ادھر اُدھر کے جوابوں کی سوجھے گی.یہ مضمون تھا آپ کی اس درد بھری گفتگو کا جس کی یاد اب بھی میرے دل کو ٹھیس لگاتی ہے.دارالامان پہنچ کر صدر انجمن کی طرف سے تبادلہ کی با قاعدہ اطلاع مجھے ملی اور مجھ سے دریافت کیا گیا کہ اپنے لئے تصنیف کا کوئی کام تجویز کروں.عربی زبان میں لکھنے کا ایک کام میں نے تجویز کیا جسے صدر انجمن نے باتفاق رائے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی آخری منظوری کے لئے پیش کیا مگر آپ نے اسے نامنظور کرتے ہوئے مجلس شوریٰ کے مقامی کارکنوں سے مشورہ لینے کا حکم دیا.تبادلہ کے متعلق سابقہ حکم میں مجھ سے تصنیف کا کام لینے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا کہ مثلاً بخاری کا ترجمہ اور شرح کا کام نہایت ضروری ہے جو ان سے لیا جا سکتا ہے اور اس بارے میں مشورہ کرنے کا ارشاد فرمایا.اس حکم میں صراحت نہ تھی اور چونکہ مجھے احادیث میں دسترس بھی نہ تھی اس لئے میں اس سے بہت ڈرتا تھا اور اس دوسرے مشورہ میں احباب نے بھی یہی رائے پیش کی کہ صحیح بخاری کے سوا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 135 علمی کارنامے کوئی اور کام مجھے دیا جائے.میں اس قابل نہیں ہوں اور قرار پایا کہ عربی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر ایک مفصل اور مستند کتاب لکھی جائے مگر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس تجویز کو بھی نا منظور کرتے ہوئے واضح الفاظ میں حکم دیا کہ میں فورا صحیح بخاری اور ترجمہ کا کام شروع کر دوں اور اس کے بعد آپ نے اس بارہ میں اصولی ہدایات سے مجھے متمنع فرمایا.آپ کے اصل مقصد کو سمجھ کر محض اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھتے ہوئے میں نے یہ مبارک کام شروع کر دیا.پہلے تین چار سالوں میں ترجمے کا کام مکمل ہوا اور جب ۱۹۳۱ء میں نظارت دعوۃ الی اللہ ) کی خدمت علاوہ اس کام کے میرے سپرد ہوئی اور اس دوران میں تحریک کشمیر کی زمام حضرت خلیفہ مسیح الثانی ( نوراللہ مرقدہ) کے ہاتھ میں دی گئی اور آپ کے ارشاد کے ماتحت مجھے اس کی خاطر متواتر سفروں میں رہنا پڑا تو شرح کا کام چھ اجزا ء تک پہنچ کر التوا میں پڑ گیا اور امسال ان سفروں سے فراغت ہونے پر یہ کام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اب پھر شروع ہو گیا ہے اور میں اُس کی جناب سے امید کرتا ہوں کہ وہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے مبارک ارادہ کی تکمیل کی توفیق مجھے دے گا.ہم کیا ہیں اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں بے مثیت آلہ کار.جس طرح چاہتا ہے اُسے حرکت دیتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے سکون میں لاتا ہے.ہمارا سلسلہ روحانی ہے اور اسے شناخت کرنے کیلئے روحانی آنکھ سے کام لینا چاہئے.ہر بات اللہ تعالیٰ کی مشیت سے وابستہ ہے اور وہ فرماتا ہے آسمان سے بہت دودھ اُترا ہے اُسے محفوظ کرو“.( تذکرہ صفحہ (۱۰) اور یہ وہی دودھ ہے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت سے محفوظ کیا جا رہا ہے ورنہ ہماری بساط ہی کیا! ہماری کم مائیگی ہماری ہر بات سے عیاں ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے عجیب تصرفات میں سے ہے کہ وہ شہتیروں کا کام تنکوں سے لیتا ہے.یہی اس کی عادت روحانی سلسلوں میں قدیم سے چلی آ رہی ہے تا دیکھنے والے دیکھیں کہ اس کی داغ بیل عاجز انسانوں کے ہاتھوں سے نہیں ڈالی گئی بلکہ ملائکۃ اللہ کے دست تصرف سے جو اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حامل ہو کر روحانی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 136 علمی کارنامے خلافت کے ساتھ براہ راست وابستگی پیدا کرتے ہیں اس خلافت کی مشیت دراصل اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے لیکن دل کے اندھوں کو نظر نہیں آتی.اللہ تعالیٰ ہم سب کو وہ آنکھ دے جو حقیقت کی بینا ہو اور وہ دل دے جو شکر گزار ہو.آمین جامع صحیح مسند بخاری جزء اول صفحه ۳۳-۳۵) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے جامع صحیح مسند بخاری کی ہیں اجزاء میں شرح مکمل کی.تاہم پندرہ جلد میں شائع ہوسکیں.(جامع صحیح مسند بخاری جز پنجم پیش لفظ) جامع صحیح مسند بخاری جز ءاول اس سیریز کی پہلی جلد میں کتاب بدء الوحی ، کتاب الایمان، کتاب العلم اور کتاب الوضوء شامل ہیں.۱۸۶ صفحات پر مشتمل یہ جلد اللہ بخش سٹیم پریس قادیان سے طبع کروا کر مکرم مولوی نذیر احمد صاحب نے شائع کی.یہ جلد ۱۹۳۲ ء میں شائع ہوئی.جامع صحیح مسند بخاری جزء دوم مشتمل؟ یہ جلد کتاب الغسل ، کتاب الحیض ، کتاب التيمم اور کتاب الصلوۃ پرش جس میں ۲۴۴ سے لے کر ۴۹۶ تک احادیث کی شرح و ترجمہ پیش کیا گیا ہے.یہ جلد ۱۷۶ صفحات پر مشتمل ہے.جامع مسند جزء سوم بخاری کے ترجمہ و شرح کا تیسرا حصہ ادارۃ المصنفین کی جانب سے ۱۹۶۰ ء میں شائع ہوا جو کتاب مواقیت الصلوۃ ، کتاب الاذان اور ابواب - الصلوۃ پر مشتمل ہے.اس جلد میں | حدیث نمبر ۴۹۶ سے ۷۷۶ تک احادیث شامل ہیں اور اس کے ۱۱۸ صفحات ہیں.روزنامہ الفضل ربوہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 137 علمی کارنامے تمام قدیم اور جدید علمائے اسلام کا مسلمہ فیصلہ ہے کہ قرآن کریم کے بعد اسلام میں بخاری شریف کا درجہ ہے.جس طرح قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے کلام کا مجموعہ ہے.اسی طرح ” بخاری شریف آنحضرت صلعم کی احادیث کا مجموعہ ہے.مدت ہوئی سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ”بخاری شریف کے ترجمہ و شرح کی ہدایت فرمائی تھی.یہ عظیم کام سلسلہ کے فاضل اجل حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کے سپر د کیا گیا تھا.مگر قادیان میں صرف دو سپارے ہی شائع ہو کر لگ گیا.اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ شاہ صاحب نے آج تک سولہ سیپاروں کا کام پایہ تکمیل کو پہنچا دیا ہے اور انشاء اللہ باقی سپاروں کی تکمیل بھی جلد ہو جائے گی.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کا علماء میں جو مقام ہے وہ ظاہر و باہر ہے.آپ نے عرب ممالک میں نہ صرف زبان عربی اور علوم دین کی تکمیل کی ہے بلکہ وہاں تعلیم و تدریس بھی کی ہے.جن احباب نے بخاری شریف کے پہلے سپاروں کا مطالعہ کیا ہے وہ اس کام کیلئے آپ کی اہلیت کے شاہد ہیں.ہم ادارۃ المصنفین کے شکر گزار ہیں کہ اس نے تیسرے پارے کو شائع کر کے شائقین کی دلی آرزو کو پورا کیا ہے.ہمیں یقین ہے کہ یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ پک جائے گی تا کہ باقی جلدیں بھی جلد از جلد شائع ہو سکیں.باقی جلدوں کی اشاعت اس جلد کی فروخت پر منحصر ہے.(روز نامه الفضل قادیان ۲۲ جون ۱۹۶۰ء) جامع مسند صحیح بخاری جزء چهارم یہ جلد ادارۃ المصنفین کی طرف سے جولائی ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی جو بخاری کتاب الصلوۃ کے بقیہ حصہ پر مشتمل ہے.اس جلد میں ۷۷۷ سے ۱۰۸۶ تک احادیث شامل ہیں.اس جلد کے صفحات کی تعداد ۱۸۸ ہے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 138 جامع مسند صحیح بخاری جزء پنجم علمی کارنامے یہ جلد ادارۃ المصنفین ربوہ کی کی جانب سے ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی.اس جلد میں کتاب الصلوۃ کا بقیہ حصہ اور کتاب الجنائز شامل ہیں اور ۱۰۴۱ سے لیکر ۱۳۰۶ تک احادیث شامل ہیں.یہ جلد ۱۹۴ صفحات پر مشتمل ہے.ہے.جامع مسند صحیح بخاری جز ء ششم یہ جز ءادارۃ المصنفین کی جانب سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی.اس جزء میں کتاب الجنائز کا بقیہ حصہ، کتاب الزکوۃ اور کتاب المناسک کے ابواب شامل ہیں.اس جلد میں ۱۳۰۷ نمبر سے لے کر ۱۵۵۶ تک احادیث شامل ہیں.یہ جلد ۲۷۸ صفحات پر مشتمل مشتمل ہے.جامع مسند صحیح بخاری جزء هفتم یہ جز ءادارۃ المصنفین کی جانب سے ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی.یہ جلد کتاب المناسک کا بقیہ حصہ، ابواب العمرۃ اور کتاب الصوم پر مشتمل ہے جس میں ۱۵۵۷ حدیث سے لیکر ۱۸۳۷ تک احادیث شامل ہیں اور اس کے ۲۱۸ صفحات ہیں.جامع مسند صحیح بخاری جزء ہشتم یہ جلد ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی.یہ جلد کتاب الصیام ،کتاب البیوع اور کتاب السلم کے ترجمہ و شرح پر مشتمل ہے جس میں ۱۸۳۸ سے لے کر ۲۱۱۴ تک احادیث شامل ہیں.یہ جلد ۲۳ صفحات پر مشتمل ہے.جامع مسند صحیح بخاری جزء نہم و دہم یہ جلد ادارة ا ۃ المصنفین ربوہ کی جانب سے پہلی بار ۱۹۶۸ء میں شائع ہوئی جس میں کتاب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 139 علمی کارنامے ہے.الاجارة، كتاب الموالات، کتاب الکفالت، کتاب الشراکت، جب که جزء دہم کتاب الرہن، كتاب العتق ، كتاب المكاتب، کتاب الشهادات، کتاب الصلح اور کتاب الشروط پر مشتمل ہے ان اجزاء میں ۲۱۱۵ نمبر سے لے کر ۲۵۳۷ نمبر تک احادیث شامل ہیں.جزء نم ۲۰۰ جب کہ جزء دہم ۱۶ صفحات پر مشتمل ہے.یہ جلد آپ کے وصال کے بعد شائع ہوئی جس میں آپ کے مختصر حالات زندگی بھی شامل ہیں.جامع مسند صحیح بخاری جزء یازدهم و دوازدهم اداراۃ المصنفین ربوہ کی جانب سے یہ جلدہ ۱۹۷ء میں شائع ہوئی.اس جلد کے دونوں اجزاء میں ذیل کے ابواب شامل ہیں.کتاب الشروط ، کتاب الوصایا اور کتاب الجہاد والسیر.اس جزء میں حدیث نمبر ۲۵۳۹ سے لیکر ۲۹۶۳ نمبر تک احادیث شامل ہیں.پہلے حصے کے ۱۷۶ اور دوسرا حصہ ۱۶۰ صفحات پر مشتمل ہے.جامع مسند صحیح بخاری جزء سیزدهم جامع صحیح مسند بخاری کا تیرھواں جزء ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے ۱۹۷۲ء میں شائع ہوا.یہ حصہ بخاری شریف کی کتاب بدء الخلق اور کتاب الانبیاء پر مشتمل ہے جس میں حدیث نمبر ۲۹۶۴ تا ۳۲۱۹ شامل ہیں اور اس جزء کے صفحات کی تعداد۲ ۳۵ ہے.جامع مسند صحیح بخاری جزء چہار دہم میں جامع صحیح مسند بخاری کا چودہواں جزء ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے مارچ ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا.یہ حصہ بخاری شریف کی کتاب المناقب کے پہلے حصے کی شرح پر مشتمل ہے.جس میں حدیث نمبر ۳۲۲۰ سے لیکر ۳۵۱۰ تک احادیث شامل ہیں اور اس جزء کے صفحات کی تعدادہ ۱۶ ہے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 140 علمی کارنامے جامع مسند صحیح بخاری جزء پانزدهم جامع صحیح مند بخاری کا یہ حصہ آپ کے وصال کے بعد ادارۃ المصنفین کی طرف سے ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا جو کہ کتاب المناقب پر مشتمل ہے.اس جزء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ حضرت سعد بن معاذ، حضرت اسید بن حضیر ، حضرت عباد بن بشیر، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابی بن کعب، حضرت زید بن ثابت ، حضرت عبداللہ بن سلام،حضرت جریر بن عبداللہ، حضرت حذیفہ بن یمان رضوان اللہ یھم اجمعین اور بعض اور جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سیر و مناقب مع شرح و ترجمہ پیش کئے گئے ہیں.یہ جز ۱۶۲ صفحات پر مشتمل ہے.(۸) حيات الآخرة پہلی بار یہ کتاب مہتم نشر و اشاعت نظارت (اصلاح وارشاد ) نے ۱۹۵۲ء میں شائع کی.یہ دراصل آپ کی ۱۹۵۱ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر کی گئی تقریر تھی جسے آپ نے دوبارہ اہم اضافہ جات کر کے اشاعت کیلئے دیا.اس کتاب کے ۱۳۷ صفحات ہیں جس میں حیات بعد الموت یعنی حیات آخرت کو بدلائل ثابت کیا گیا ہے اور منکرین حیات آخرت کے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.(۹) حياة المسيح و وفاته من واجهاتها الثلاث حضرت شاہ صاحب کی یہ معرکۃ الآراء تصنیف عربی زبان میں ہے جو دارالکتب احمدیہ قادیان نے شائع کی اور ۲۱۵ صفحات پر مشتمل ہے.اس کتاب میں عیسائیت اسلام اور تاریخ کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور وفات کے موضوع پر منطقی انداز میں بحث کی گئی ہے.اس کتاب نے بلا دعر بیہ میں خاصی مقبولیت حاصل کی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 141 علمی کارنامے (۱۰) الخطاب الجليل في الاصول الاسلاميه یہ کتاب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہرہ آفاق تصنیف ” اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ ہے.پہلی بار یہ کتاب المکتبہ الاحمدیہ قادیان سے شائع ہوئی اور ۲۸۸ صفحات پر مشتمل ہے.کتاب کے آغاز میں ۴۲ صفحات پر مشتمل تعارف جلسہ مذاہب عالم، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مختصر سوانح حیات بھی دیئے گئے ہیں.(۱۱) دَعْوَةُ الْاحْمَدِيَّةُ وَغَرُضُهَا یہ کتاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کی کتاب ”احمدیت کا پیغام کاعربی ترجمہ ہے.یہ ترجمہ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے پہلی بار دمشق سے شائع کیا.اس کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن وکالت تبشیر تحریک ربوہ نے ۱۹۷۰ء کی دہائی میں شائع کیا.یہ کتاب ۴۷ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں عقائد احمدیت کا اجمالی طور ذ کر کیا گیا ہے.(۱۲) زار کا حال زار زار روس کے بارہ میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی پر اس کتاب میں بحث کی گئی ہے اور زار خاندان پر جو حالت زار آئی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے.اس رسالہ کے بارہ میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں:.اس رسالہ میں جو واقعات درج کئے گئے ہیں.میں انہیں مختلف وقتوں میں عربی اور انگریزی اخباروں میں پڑھتارہا ہوں اور قاہرہ میں جب کہ قصر نیل میں نظر بند تھا روسی اور جرمن افسروں سے بھی مختلف پیرایوں میں زار روس کے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 142 علمی کارنامے قتل کے متعلق سنتا رہا ہوں.جنوری ۱۹۲۱ء میں یہ واقعات عربی الہلال کے پر چہ میں مجموعی طور پر دیئے گئے.زار کی حالت زار صفحہ ۱۱) یہ رسالہ سولہ صفحات پر مشتمل ہے اور پہلی بار قادیان سے شائع ہوا.(١٣) سفينة نوح : تقوية الايمان یہ کتاب سید نا حضرت مسیح موعود کی تعلیمات پر مشتمل کتاب «کشتی نوح کا عربی ترجمہ ہے جو پہلی بار ۱۹۲۶ء میں شائع ہوا.اس کا دوسرا ایڈیشن وکالت تبشیر تحریک جدید نے ۵۰۰۰ کی تعداد میں شائع کیا.یہ کتاب ۹۶ صفحات پر مشتمل ہے.(۱۴) محمدی بیگم کے نکاح کی پیشگوئی پر ایک نظر یہ آپ کی جلسہ سالانہ ۱۹۳۶ ء کی تقریر ہے جو پہلی بار جنوری ۱۹۳۷ء میں احمد یہ کتاب گھر قادیان نے شائع کی اور اللہ بخش سٹیم پر لیس قادیان سے طبع ہوئی.یہ کتاب ۱۰۴ صفحات پر مشتمل ہے.اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات ، آپ کے اشتہارات اور مکتوبات کی روشنی میں محمدی بیگم کی پیشگوئی کا پس منظر، غرض و غایت، پیشگوئی کے انداری و تبشیری پہلو.نیز پیشگوئی پر ہونے والے اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں.(۱۵) مؤسس یہ کتاب حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب درد کی کتاب ”بانی سلسلہ اور انگریز کا عربی ترجمہ ہے جو آپ نے ۱۹۵۹ء میں کیا اور پہلی بار اس کی اشاعت وکالت التبشیر تحریک ربوہ کے اہتمام سے عمل میں آئی.یہ کتاب ۱۵۲ صفحات پر مشتمل ہے.الجماعة الاحمدية والانكليز (۱۲) نوٹس برائے جلسہ ہائے سیرۃ النبی علی یہ نوٹس حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ۱۹۳۱ء میں ترتیب دیئے اور پہلی بار اللہ بخش سٹیم پریس قادیان سے اکتو بر ۱۹۳۱ء میں شائع ہوئے.یہ کتاب ۴۸ صفحات پر مشتمل ہے جس
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 143 علمی کارنامے میں سیرت رسول ﷺ کے مختلف پہلوؤں پر مضامین ترتیب دیئے گئے ہیں.(۱۷) وصیت حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب مع مناجات اس کے بارہ میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب تحریر کرتے ہیں :- یہ وصیت اپریل ۱۹۲۷ء میں والدم حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھ کر مجھے دی کہ میں اسے محفوظ رکھوں اور یہ کہ اسے اپنے لئے دستورالعمل بنایا جائے.ان دنوں آپ کو اس بات کا شدید رنج وفکر تھا کہ اس وقت تک کیوں ہم نے دارالامان میں مکان نہیں بنوائے.یہ فکر اس حد تک تھا کہ آپ اس سے دن رات بے چین رہتے اور اس قلق واضطراب کی حالت میں شاید دل کو تسکین دینے کی خاطر آپ نے ہمارے لئے یہ وصیت اپنے ہاتھوں سے لکھی.آج رات جب کہ کاتب کتابت کا آخری کام کر چکا تو میں نے اپنے تئیں شفا خانہ رعیہ میں دیکھا.جہاں شاہ جی رحمتہ اللہ علیہ تقریباً چھپیں سال تک انچارج ڈاکٹر رہے.کیا دیکھتا ہوں کہ آپ اسی شفا خانہ میں لوگوں کے علاج میں مصروف ہیں.وہ اُجڑا ہوا تھا مگر آپ کی آمد سے آباد ہے.اس میں آج کل حیوانات کا شفا خانہ ہے.خواب میں بھی دیکھتا ہوں کہ اس میں حیوانوں کے علاج کا بھی سامان ہے اور انسانوں کے علاج کیلئے بھی آپ کو اجازت حاصل ہے.بیمار آپ کے اردگرد جمع ہیں اور شفا خانہ میں رونق ہے.اس کی تعبیر میں نے یہ کی ہے کہ ممکن ہے کہ یہ وصیت اور یہ مناجات جو میں نے آپ کی یاد میں بطور ضمیمہ کے ترتیب دی ہے بہت سے دلوں کی شفایابی اور آبادی کا موجب ہو.آمین.خاکسار زین العابدین ولی اللہ شاہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 144 علمی کارنامے مذکورہ بالا کتب کے علاوہ آپ نے بعض اور کتب کا ذکر خود نوشت سوانح حیات میں کیا ہے.مثلاً ترکی کا مستقبل حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کا ایک خطاب تھا جس کا آپ نے عربی میں ترجمہ کیا.اس کی اشاعت بلا دعر بیہ میں ہوئی.ان کی تفاصیل خود نوشت سوانح حیات میں دیکھئے.آپ کے بعض مضامین اور تقاریر کا ذکر بطور نمونہ پیش کیا جا رہا ہے.فہرست تقاریر و مضامین نمبر شمار عنوان ، مضامین و تقاریر 3 ۶ ง > 1.11 ماخذ آنحضرت علیہ کا طرہ امتیاز فیض روحانی کا ابدی الفضل لا ہورا ۲ مئی ۱۹۴۸ سر چشمه آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کی امتیازی حیثیت الفضل قادیان ۱۵ تا ۱۹ جنوری ۱۹۳۸ء حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کی بے مثل شان الفضل قادیان ۱۴ جنوری ۱۹۴۶ء ہمارے ہادی کامل محمد ﷺ کی ایک ہدایت کا ایک نمونہ ماہنامہ الفرقان ربوہ جنوری ۱۹۶۱ صفحه ۳۱ الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۳۵ء آنحضرت عملے کی پیشگوئیوں کی امتیازی حیثیت | الفضل قادیان ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ ء اسمہ احمد کی پیشگوئی امحضرت ام اللہ کی پیشگوئیوں کی امتیازی حیثیت الفضل قادیان ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ء بخضرت ﷺ کی پیشگوئیاں موجودہ جنگوں کے الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۴۲ء متعلق آنحضرت علیہ کی بے مثل شان الفضل قادیان ۳۰ دسمبر ۱۹۴۴ء آنحضرت ﷺ کی شان احمدیت کے نقطہ نظر سے الفضل قادیان ۳۱ دسمبر ۱۹۴۵ء آنحضرت ﷺ کے اخلاق حدیث کی روشنی میں الفضل ربوہ۶،۵،۴، ۸جنوری ۱۹۶۱ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ۱۲ اسلامی معاشرہ ۱۴ 145 علمی کارنامے الفضل ربوه ۲۷، ۳۱٬۲۸ جنوری ۳ ۴۰ فروری ۱۹۵۹ء اسلام میں خلافت وامامت کی اہمیت الفضل قادیان ۲ جنوری ۱۹۳۵ء اللهم سلماً لا وُلِيَاء كَ الفضل ربوه ۲۴، ۲۵ نومبر ۱۹۵۶ء ۱۵ ارکانِ دین میں سے ایک اہم رکن زکوۃ الفضل ربوه ۱۹ مارچ ۱۹۵۸ء K انقلابات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام الفضل لا ہور یکم جنوری ۱۹۵۰ء کے انذارات و بشارات مرت المصلح الموعود کے متعلق حضرت مسیح موعود الفضل ربوه ۵ جنوری ۱۹۵۲ء حضرت علیہ السلام کی پیشگوئی کی اہمیت اور ہماری ذمہ داری اسلام اور تزکیہ نفس المصلح کراچی ۶ جنوری ۱۹۵۴ء اسلام اور کمیونزم الفضل ربوہ ۳۱ دسمبر ۱۹۵۵ء اسلامی معاشرہ الفضل ربوه ۲ ،۳، ۶ جنوری ۱۹۵۹ء پیشگوئی نشان رحمت الفضل لا ہور ۱۸ ، ۲۸ نومبرا ۱۹۵ ء تعاقب ( درباره شب برات) الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۵۹ء تصور و شعور الفضل قادیان ۸ دسمبر ۱۹۱۹ء تقریر جلسه سالانه ۱۹۴۳ء الفضل قادیان یکم جنوری ۱۹۲۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انداری پیشگوئیاں الفضل قادیان ۵ دسمبر تا ۱۸ دسمبر ۱۹۴۴ ء الفضل قادیان ۲۷، ۲۹ جنوری ۶،۳، ۸ فروری ۱۹۴۷ء حضرت عیسی علیہ السلام کا سفر کشمیر ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ३ ۲۶
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ۲۷ 146 حضرت مصلح موعود کی پیشگوئی اور ایک مکاشفہ الفضل قادیان ۱/۱۸اپریل ۱۹۴۴ء ۲۸ حیات فرد یہ واجتماعیه الفضل قادیان ۵ جولائی ۱۹۲۱ء ۲۹ حضرت مسیح ناصری کا صلیب سے بچنا الفضل قادیان ۳ دسمبر ۱۹۲۶ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عشق رسول له الفضل قادیان ۲۹ دسمبر ۱۹۳۵ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں الفضل قادیان ۳۰ دسمبر ۱۹۴۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی انذاری پیشگوئیاں الفضل قادیان ۳۱ دسمبر ۱۹۴۳ء حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا سفر کشمیر الفضل قادیان ۲۸ دسمبر ۱۹۴۶ء ۳۳ ۳۴ حیات آخرت پر ایمان لانا کیوں ضروری ہے الفضل ربوه ۳ جنوری ۱۹۵۱ء الفضل ربوہ ۱۳ / جنوری ۱۹۶۲ء ۳۵ خدام الاحمدیہ کی ذمہ داریاں ۳۶ درباره شب برات الفرقان ربوہ اپریل ۱۹۵۹ء صفحه ۳۳ ۷ روزہ کے متعلق ہماری نیت کیا ہونی چاہئے الفضل قادیان ۱۰:۳ ۱۳۰ /اگست ۱۹۴۶ء علمی کارنامے ۳۸ زکوۃ کی اہمیت ۳۹ زکوۃ وصدقات الفضل لا ہورا ۱ مارچ ۱۹۵۸ الفرقان ربوه اگست ۱۹۵۸ء ۴۰ ۴۱ روحانی سلسلوں میں خلافت و امام کا قیام الفضل قادیان ۱۴.مارچ ۱۹۳۱ء شیطان کا منصب ۴۲ شیعہ صاحبان سے ایک گزارش ۴۳ شیطان کا مذہب ۴۴ شرح بخاری ۴۵ شرح صحیح بخاری کا ایک ورق الفضل ربوه ۲۵ تا ۲۸ مارچ ۱۹۵۹ء الفضل لا ہور ۲۲ / اگست ۱۹۵۰ ء روزنامه الفضل ۲۵ تا ۲۸ مارچ ۱۹۵۹ء الفضل ربوہ ۱/۲۱ اکتوبر ۱۹۶۱ء الفضل ربوه ۲۷ فروری ۱۹۶۲ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 147 ۴۶ ضلع گجرات کے احمدیوں پر جبر وتشد د پولیس کی الفضل قادیان ۸ دسمبر ۱۹۳۲ء افسوسناک غفلت.آپ کی تحقیقات عالمگیر جنگ اور مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیاں | الفضل لا ہور۲ ،۳ تا ۹ مارچ ۱۹۴۸ء عالم طیور الفرقان ربوه دسمبر ۱۹۵۳ صفحه ۳ ۴۹ قرآن مجید کی فصاحت و بلاغت اور پُر حکمت کلام الفرقان ربوہ ستمبر اکتوبر ۱۹۵۵ء مجید پر ربوہ ء کا ایک نمونہ علمی کارنامے ۵۰ قرآن مجید کی وحی اور آنحضور ﷺ کے روحانی الفرقان ربوہ جنوری تا اپریل، جولائی تا ۵۲ مشاہدات کا ایک نمونہ اگست ۱۹۵۳ء فروری، مارچ، جولائی ، اگست ۱۹۵۴ء منصب نبوت اور اس کی خصوصیات الفضل لا ہور ۵/اکتو برا ۱۹۵ء محمدی بیگم والی پیشگوئی پر ایک نظر الفضل قادیان ۳۱ دسمبر ۱۹۳۶ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 148 باب ششم مناجات ولی اللہ مناجات ولی اللہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 149 مناجات ولی اللہ تعارف حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) نے اپریل ۱۹۲۷ء کو ایک وصیت تحریر فرمائی.جو آپ کے وصال کے بعد نومبر ۱۹۳۷ء میں پہلی بار شائع ہوئی.اس وصیت کو شائع کرنے کی سعادت حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو حاصل ہوئی.آپ نے اس وصیت کے ساتھ ۲۰۰ سے زائد دعا ئیں بطور ضمیمہ ترتیب دے کر شائع کیں.دعاؤں کا یہ ضمیمہ ہے صفحات پر مشتمل تھا.جس میں قرآن کریم ، احادیث مبارکہ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگان اُمت کی دعائیں شامل تھیں.اب ان دعاؤں کو مناجات ولی اللہ کے نام سے شائع کیا جا رہا ہے.پہلے ایڈیشن کے مطابق دعاؤں کے عناوین مسن وعن درج کر دیئے گئے ہیں اور بعض نئے عناوین بریکٹس میں لگا دیئے گئے ہیں.طبع اول میں حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نے ۱۸۸ دعا ئیں شامل کی تھیں اور بعض مواقع پر دو یا تین دعاؤں کو اکٹھا شامل کیا تھا ایسی تمام دعاؤں کو الف ب اور ج کی صورت میں اسی نمبر میں ذیل کے طور پر درج کر دیا گیا ہے.اس طرح دعاؤں کی تعداد ۲۰۰ سے زائد ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان دعاؤں سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (مرتب)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 150 مناجات ولی اللہ مناجات ولی اللہ شاہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب فرماتے ہیں:.مدت سے میری یہ خواہش رہی ہے کہ دعاؤں کو ایسے طور سے مرتب کیا جائے کہ سورۃ مشتمل ہیں فاتحہ کے مقاصد و مطالب جو درحقیقت ہماری جسمانی و روحانی ضروریات پر می دعاؤں کی صورت میں ایک ترتیب میں آ کر بآسانی یاد کئے جاسکیں اور پھر روز مرہ کے سجدوں میں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ہے.انہیں دہرایا جائے تا کہ اس مبارک گھڑی میں جب کہ ہمیں آستانہ الہی پر سر جھکانے کا موقعہ ملتا ہے اور ہم سے وعدہ کیا جاتا ہے کہ مانگو تمہیں دیا جائے گا.ہم نہایت عاجزی سے اپنی درخواست گزارتے ہیں.بہت ہی بد بخت وہ انسان ہے جو باوجود اس کے کہ پانچ بار سر بجو د ہوتا ہے مگر قبولیت دعا کے زرین موقع سے فائدہ نہیں اٹھاتا.جو نبی کہ وہ سر نیچے رکھتا ہے.فورا اُسے اٹھا لیتا ہے.جیسے کہ اس کی سجدہ گاہ میں کانٹے بجھے ہیں جو اس کی پیشانی کو چبھتے ہیں.ہر (احمدی ) جونماز کا پابند ہے اُسے چاہئے کہ وہ اس بات کو نہ کھولے کہ آخر جب وہ سجدہ میں جاتا ہے تو کوئی بڑی بات نہیں اگر وہ ایک آدھ منٹ دعا پر بھی صرف کر دے.اس میں اس کا اپنا ہی بھلا ہے.کونسی عظمندی ہے کہ ایک دومنٹ کو بچانے کیلئے انسان اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمتوں سے محروم رکھے.ہر روز ایک (احمدی) پابند نماز کم وبیش ساٹھ سجدے تو ضرور کرتا ہوگا اگر ہر سجدہ میں ایک دعا بھی کرلے تو روزانہ کم از کم ساٹھ دعائیں ہو جائیں گی.مختصر دعاؤں کا یاد کرنا اور سجدے میں انہیں ایک ایک کر کے دہراتے رہنا مشکل نہیں بلکہ آسان ہے اور وہ ایک آدھ منٹ میں دہرائی جا سکتی ہیں.اگر یہ نہ ہو سکے تو کم از کم یہ تو ہو کہ دعاؤں کے لئے ایک وقت مخصوص کر کے کتاب کی مدد سے ان کا روزانہ ورد ہو.(ضمیمہ وصیت حضرت عبدالستار شاہ صاحب)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 151 مناجات ولی اللہ چونکہ حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (حضرت سید عبدالستار شاہ ) نے ہمیں اپنی وصیت میں دعاؤں کی سخت تاکید فرمائی ہے اور انہیں اور حضرت والدہ علیہا الرحمتہ دونوں کو دعاؤں سے اس قدر شغف تھا کہ گویا ان کی فطرت کا خمیر ہی دعا سے اٹھایا گیا تھا.اس لئے میں ان کی یاد میں نیز وصیت کی تعمیل میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے اپنے تمام بھائیوں اور بہنوں کیلئے چند ضروری دعا ئیں بمعہ ترجمہ ترتیب وار پیش کرتے ہوئے دعاؤں کے متعلق اپنی دیرینہ خواہش کو پورا کرتا ہوں“.( وصیت سید عبدالستار شاه صاحب صفحه ۵۱-۵۲) خاکسار سید زین العابدین ولی اللہ شاہ دارالا نوار قادیان جمعۃ المبارک ۲۱/رمضان المبارک ۱۳۵۶ھ بمطابق ۲۶/ نومبر ۱۹۳۷ء
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 152 مناجات ولی اللہ استغفار ا - لَا إِلَهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ - کوئی معبود نہیں مگر تو ، پاک ذات ہے تو ( میں ) تو گہنگار ہوں.( سورة الانبياء: ۸۸) ٢ - رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا فَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ جَمِيعَهَا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں.میرے سب گناہوں کو بخش.گنا ہوں کو کوئی نہیں بخشتا مگر تو ہی..اللَّهُمَّ اَمَرْتَنِي فَعَصَيْتُ وَنَهَيْتَنِي فَأَبَيْتُ هَذَا مَكَانُ الْعَائِذِ بِكَ مِنَ النَّارِ - لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا الہی! تو نے مجھے حکم دیا اور میں نے نافرمانی کی اور تو نے مجھے روکا میں نہیں رکا یہی مقام تو ہے جہاں پہنچ کر انسان آگ سے تیری پناہ چاہتا ہے.کوئی معبود نہیں مگر تو میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.میرے گناہ بخش.گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا مگر تو ہی.( مغفرت الهی ) -۴- اَللَّهُمَّ مَغْفِرَتُكَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوبِي وَرَحْمَتُكَ اَرْجِي عِنْدِي مِنْ عَمَلِي (کنز العمال جلد ۲۰ حدیث نمبر ۳۷۳۷) الہی ! تیری مغفرت میرے گناہوں سے وسیع تر ہے.اور مجھے تیری رحمت کی امید زیادہ ہے بہ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب نسبت اپنے عمل کے.153 مناجات ولی اللہ ه - اللَّهُمَّ اغْفِرْلِى جِدِى وَهَزَلِى وَخَطَآئ وَعَمَدِي وَكُلُّ ذَالِكَ عِنْدِي ( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۴۱۸) الہی ! میری سنجیدگی کو اور میری ہنسی مذاق کو اور میری بھول چوک کو اور میری جان بوجھ کی غلط کاریوں کو بخش.یہ سب باتیں مجھ میں پائی جاتی ہیں.- اللَّهُمَّ اغْفِرْلِى مَا قَدَّمْتُ وَمَا اَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا اَسْرَفْتُ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بهِ مِنّي اَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَ اَنْتَ الْمُؤ خِرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۲۰) الہی ! بخش مجھے جو تقدیم اور جو تاخیر میں نے کی اور جو میں نے چھپ کر کیا اور جو میں نے کھلے طور پر کیا اور جو اسراف میں نے کیا اور وہ بھی جس کو تو زیادہ جانتا ہے مجھ سے.تو ہی پہلے کرنے والا ہے اور تو ہی پیچھے کرنے والا ہے.کوئی نہیں قابل پرستش بجز تیرے اور نہیں ہے طاقت گناہ سے پھرنے کی اور نہ ہی نیکی کرنے کی مگر اللہ کی توفیق سے.- اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِى كُلَّهُ وَجُلَّهُ وَ أَوَّلَهُ وَاخِرَهُ وَعَلَانِيَتَهُ وَسِرَّهُ - (مسلم کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۱۰۸۴) الہی ! ڈھانپ میرے تمام گناہ اور بڑے اور پہلے اور پچھلے اور ظاہر اور پوشیدہ.- اللَّهُمَّ إِنِي اسْتَغْفِرُكَ لِذَنْبِى وَ اسْتَهْدِيْكَ لِمَرَاشِدِ أَمْرِى وَاسْتَجِيرُكَ مِنْ شَرِّنَفْسِى وَاتُوبُ إِلَيْكَ فَتُبُ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ رَبِّي ( موسوعه اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه ۲۱۲) الہی ! میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اپنے گناہوں کی اور رہنمائی چاہتا ہوں تجھ سے اپنے نیک کاموں کی اور پناہ مانگتا ہوں تجھ سے اپنے نفس کی بُرائی سے اور تو بہ کرتا ہوں تو میری توبہ قبول
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 154 مناجات ولی اللہ فرما یقینا تو ہی میرا پروردگار ہے.٩ - رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفَرْعَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَه (سورۃ آل عمران : ۱۹۴-۱۹۵) اے ہمارے رب! ہم نے سنا کہ ایک پکارنے والا پکارتا ہے ایمان لانے کیلئے.(کہتا ہے) ایمان لاؤ اپنے رب پر سو ہم ایمان لائے.اے ہمارے رب! بخشش ہم کو گناہ ہمارے اور دُور کر ہم سے ہماری بُرائیاں اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ.اے ہمارے رب ! دے ہم کو جو وعدہ کیا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعہ اور رسوا نہ کر ہم کو قیامت کے دن.یقینا تو نہیں خلاف کرتا وعدہ کا.ا (الف) - رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (سورة نوح:۲۹) اے میرے رب معاف کر مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور جو آوے میرے گھر میں امن طلب کرتا ہوا اور مومن مرد اور مومن عورتوں کو.ا (ب) - رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِيْنَ سَبَقُونَا بِالْإِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ ( سورة الحشر :11) اے ہمارے رب ! بخش ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور نہ ڈال ہمارے دلوں میں کینہ ان لوگوں کا جو ایمان لائے.بیشک تو ہی بخشنے والا مہربان ہے.١١ - رَبِّ اغْفِرْلِى وَلَا خِي وَ اَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ اَرْحَمُ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب الرَّاحِمِينَ 155 مناجات ولی اللہ ( سورۃ اعراف:۱۵۲) اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائیوں کو بخش اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کیجیئو.اور تو بہت ہی رحم کرنے والا ہے.۱۲ - اَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِينَ (سورۃ اعراف: ۱۵۶) (اے ہمارے رب ! ) تو ہی ہمارا والی ہے سو بخش ہم کو اور رحم کر ہم پر اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے.(لیلۃ القدر کی دعا ) ۱۳ - اَللّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا كُلَّهَا إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انْتَ ( مسند احمد بن حنبل جلد : ۶ صفحه ۲ ۱۸) الہی! تو بہت ہی عفو کرنے والا ہے.عفو کو پسند کرتا ہے.ہمیں معاف فرما اور ہماری تمام کمزوریوں کی پردہ پوشی فرما.گناہوں کو کوئی نہیں ڈھانپتا مگر تو ہی.١٤ - رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْاَحْطَانًا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَةَ لَنَابِهِ ، وَاعْفُ عَنَّار، وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ وقفه ( سورة البقره: ۲۸۷) اے ہمارے رب ! نہ پکڑ ہم کو اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں.اے ہمارے رب ! نہ رکھ ہم پر بوجھ جیسا تو نے رکھا تھا ان لوگوں پر جو پہلے ہیں.اے ہمارے رب! اور نہ اُٹھوا ہم سے و جس کی طاقت نہیں ہم کو اور درگزر کر ہم سے اور بخش ہم کو اور ہم پر رحم کر تو ہمارا آقا ہے تو ہماری
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب مددکر کافروں کے مقابلہ میں.156 توبه مناجات ولی اللہ ۱۵ - اَللَّهُمَّ إِنِّي أَتُوبُ إِلَيْكَ مِنَ الْمَعَاصِي اَبَدًا لَا أَرْجُعُ إِلَيْهَا أَبَدًا رَبِّ تَقَبَّلُ تَوْبَتِي - الہی ! میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں نافرمانیوں سے ہمیشہ کیلئے.نہیں لوٹوں گا ان کی طرف کبھی.اے میرے رب ! میری توبہ قبول کر.(نصرت الہی) ٦ ١ - يَارَبِّ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ - فَإِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ فَلَا تَكِلْنِي إِلَيْهَا أَبَدًا إِنَّكَ إِنْ تَكِلْنِي إِلَيْهَا فَإِنَّمَا تَكِلْنِي إِلَى ضُعْفٍ وَّعَوْرَةٍ وَّ ذَنْبٍ وَخَطِيئَةٍ وَإِنِّي لَا أَثِقُ إِلَّا بِرَحْمَتِكَ فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيْعَهَا وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ اے میرے رب! تیری رحمت کی فریاد کرتا ہوں.کیونکہ نفس بدیوں کا بہت حکم کر نیوالا ہے سونہ حوالے کی جینو مجھے اس کے کبھی تو نے اگر مجھے حوالے کیا اس کے تو تو مجھے حوالے کر دے گا کمزوری اور ننگ اور گناہ اور خطا کاری کے اور میں بھروسہ نہیں رکھتا مگر تیری رحمت کا.سو تو بخش میرے گناہ سب کے سب اور میری طرف متوجہ ہو اور میری توبہ قبول فرما.تو تو اب رحیم ہے.توکل علی اللہ ) ۱۷ - رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ اَنَبُنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُه رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْلَنَا رَبَّنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة الممتحنة: ۵-۶)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 157 مناجات ولی اللہ اے ہمارے رب! تجھ پر ہم نے بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف ہم جھکے اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے.اے ہمارے رب! ہمیں تو آزمائش میں نہ ڈال کافروں کی اور بخش ہمیں.اے ہمارے رب ! بیشک تو ہی عزیز حکیم ہے.۱۸ - رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ إِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ (سورۃ الاعراف: ۲۵ ) الْخَاسِرِينَ اے ہمارے رب! ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر اور اگر نہ بخشا تو نے ہم کو اور نہ رحم کیا ہم پر تو ضرور ہو جائیں گے ہم گھاٹا پانے والوں میں سے.رو تزکیه نفس 19 - اللَّهُمَّ بَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ( بخاری کتاب الاذان ، حدیث نمبر ۷۴۴ ) الہی ! ڈوری ڈال میرے درمیان اور میرے گناہوں کے درمیان جس طرح تو نے ڈوری ڈالی ہے مشرق اور مغرب میں.۲۰ - اَللَّهُمَّ اَعْطِ نَفْسِى تَقُوهَا وَ زَكَّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَ - اے میرے اللہ ! میری جان کو پر ہیز گاری عنایت کر اور پاک کر اس کو تو بہتر پاک کرنے والا ہے اسے.تو اس کا والی ہے اور تو اس کا آقا ہے.٢١ - اللَّهُمَّ طَهَرُ قَلْبِى مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِى مِنَ الرِّيَاءِ وَلِسَانِى مِنَ الْكَذِبِ وَعَيْنِى مِنَ الْخِيَانَةِ - فَإِنَّكَ تَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ - (کنز العمال جلد ۲ حدیث ۳۶۶۰)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 158 مناجات ولی اللہ اے میرے اللہ ! پاک کر میرے دل کو نفاق سے اور میرے عمل کوریا سے اور میری زبان کو جھوٹ سے اور میری آنکھ کو خیانت سے.کیونکہ تو جانتا ہے خیانت آنکھوں کی اور ان باتوں کی جنہیں چھپاتے ہیں سینے.۲۲ - اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَدَنِي اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي سَمْعِيَ اللَّهُمَّ عَافِنِي فِي بَصَرِى لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ وَاعْصِمُنِي مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ (جامع الترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۰ ۳۴۸) الہی ! تو عافیت دے مجھ کو میرے بدن میں.اے اللہ ! تو عافیت دے مجھ کو میری شنوائی میں.اے اللہ تو عافیت دے مجھ کو میری بینائی میں نہیں کوئی معبود سوا تیرے اور بچا مجھے شیطان رجیم سے.٢٣ - اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلُ عَلَانِيَتِي صَالِحَةٌ (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۸۶) الہی! تو کر دے میرے باطن کو بہتر میرے ظاہر سے اور بنامیرے ظاہر کو نیک.۲۴ - اَللَّهُمَّ اهْدِنِي بِالهُدَى وَنَقِّنِي بِالتَّقْوَى وَاغْفِرْلِي فِي الْآخِرَةِ وَالأولى الہی ! میری رہنمائی فرما کامل رہنمائی کے ساتھ اور پاک کر مجھ کو پر ہیز گاری کے ساتھ اور بخش دے مجھ کو آخرت میں بھی اور دنیا میں بھی.۲۵ - اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ الْهُدَى وَالتَّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنى (مسلم کتاب الذکر والدعاء حدیث نمبر ۶۹۰۴) اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ہدایت اور تقوی اور گناہوں سے بچنا اور تو نگری.۲۶ (الف) - اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ اَرْجُوا فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طُرْفَةَ عَيْنٍ وَاَصْلِحْ لِي شَأْنِي كُلَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۴۲)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 159 مناجات ولی اللہ الہی ! تیری رحمت ہی کی میں امید رکھتا ہوں.سو تو نہ حوالے کر مجھے میرے نفس کے آنکھ کے پلک جھپکنے کے برابر بھی اور درست کر میرے کام سب کے سب.نہیں کوئی معبود مگر تو.٢٢ ( ب ) - يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ - ( تذکره صفحه ۳۳۶) اے زندہ! اے ہمیشہ زندہ رہنے والے! تیری رحمت کی میں فریاد چاہتا ہوں.٢٧ - اللَّهُمَّ اقْسِمُ لَنَا مِنْ خَشْيَتِكَ مَا يَحُولُ بِهِ بَيْنَنَا وَبَيْنَ مَعَاصِيْكَ -۲۷ وَمِنْ طَاعَتِكَ مَا تُبَلِّغُنَا بِهِ جَنَّتَكَ وَمِنَ الْيَقِيْنِ مَا تُهَوِّنُ بِهِ عَلَيْنَا مَصَائِبَ الدُّنْيَا وَمَتِّعْنَا بِاَسْمَا عِنَا وَاَبْصَارِنَا وَقُوَّتِنَا مَا أَحْيَيْتَنَا وَ اجْعَلْهُ الْوَارِثَ مِنَّا وَاجْعَلْ ثَارَنَا عَلَى مَنْ ظَلَمَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى مَنْ عَادَانَا وَلَا تَجْعَلْ مُصِيبَتَنَا دِينِنَا وَلَا تَجْعَلِ الدُّنْيَا اَكْبَرَ هَمِّنَا وَمَبْلَغَ عِلْمِنَا وَلَا تُسَلِّطْ عَلَيْنَا مَنْ (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۰۲) اے اللہ ! نصیب کر ہم کو اپنا اتنا خوف کہ روک بن جائے تو ہمارے اور ہماری نافرمانیوں کے درمیان اور نصیب کر ہم کو اپنی فرمانبرداری اتنی کہ جس سے تو پہنچاوے ہم کو اپنی جنت تک اور ایسا یقین دے کہ جس کے سبب سے تو آسان کر دے ہم پر مصیبتیں دُنیا کی اور فائدہ دے ہم کو ہمارے کانوں اور ہماری آنکھوں اور ہماری قوت سے جب تک تو ہم کو زندہ رکھے اور بنا اسے وارث ہمارا اور لے ہمارا بدلہ اس سے جو ظلم کرے ہم پر اور فتحیاب کر ہم کو اُس پر جو ہم سے عداوت رکھے اور نہ کر ہماری مصیبت ہمارے دین میں اور نہ کر دنیا کو ہمارا بڑا مقصود اور نہ علت غائی ہمارے علم کی اور نہ مقرر کر ہم پر اس شخص کو جو رحم نہ کرے ہم پر.۲۸ - اَللّهُمَّ اَلِفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا وَاَصْلِحُ ذَاتَ بَيْنِنَا وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَنَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَتِ إِلَى النُّورِ وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِكْ لَنَا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 160 مناجات ولی اللہ فِي أَسْمَاعِنَا وَأَبْصَارِنَا وَقُلُوبِنَا وَاَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّيَّاتِنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ وَ اجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِيْنَ بِهَا قَابِلِيْهَا وَاتِمَّهَا عَلَيْنَا (ابوداؤ د کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۹۶۹) اے اللہ ! الفت ڈال ہمارے دلوں میں اور بنا دے ہماری بگڑی اور دکھلا دے ہم کو راستے سلامتی کے اور نجات دے ہمیں اندھیروں سے نور کی طرف اور بچا ہم کو بے حیائی کے کاموں سے وہ جو ظا ہر ہوں ان میں سے اور وہ جو پوشیدہ ہوں اور برکت دے ہمیں ہمارے کانوں میں اور ہماری آنکھوں میں اور ہمارے دلوں میں اور ہمارے بچوں میں اور ہماری توبہ قبول فرما.تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا بہت مہربان ہے اور بنا ہم کو شکر گزار اپنی نعمتوں کا ثنا خوان-ان نعمتوں کی وجہ سے قبول کرنے والا انہیں اور پوری کر ان نعمتوں کو ہم پر.سبیح و تحمید ۲۹ - اللَّهُمَّ أَنْتَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ - لَا شَرِيكَ لَكَ أَنْتَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ عَمَّا يُشْرِكُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا - اَنْتَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ - لَكَ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى - يُسَبِّحُ لَكَ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ تَبَارَكَ اسْمُكَ وَتَقَدَّسَ وَتَعَالَى جَدُّكَ وَلَا إِلَهَ غَيْرُكَ - (طبرانی جلدا احدیث نمبر ۴۵ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۱۹۶) الہی ! تو اللہ ہے.نہیں کوئی قابل عبادت مگر تو.تیرا کوئی شریک نہیں.تو بادشاہ ہے.تو پاک ہے.تو سلامتی کا سر چشمہ ہے.تو امن دینے والا ہے.تو نگہبان ہے غالب ہے.زبردست
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 161 مناجات ولی اللہ ہے.بڑائی والا ہے.پاک ہے تو اے ہمارے رب! اور تو بلند تر ہے ان سے جو تیرا شریک بناتے ہیں بہت ہی بلند تر.تو ہی وہ اللہ ہے جو پیدا کرنے والا ہے.درست کرنے والا ہے.صورت بنانے والا ہے تیرے لئے ہی سب پاکیزہ نام مخصوص ہیں.تیری پاکی بیان کرتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمینوں میں ہیں اور تو ہی غالب حکمت والا ہے.بے عیب ہے تو اے اللہ ! ہمارے پروردگار! اور تو اپنی خوبیوں کے ساتھ ہے اور برکت والا ہے تیرا نام اور پاک ہے اور بہت بلند ہے تیری شان اور کوئی نہیں قابل پرستش بجز تیرے.(اقرار عبودیت) ٣٠ - اَللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ذَالْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ فَاِنّى اَعْهَدُ إِلَيْكَ فِى هَذِهِ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَأُشْهِدُكَ وَكَفَى بكَ شَهِيدًا - إِنِّى أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَكَ الْمُلْكُ وَلَكَ الْحَمْدُ وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث ۳۵۲۹) الہی ! پیدا کرنے والے آسمانوں کے اور زمین کے جاننے والے غیب کے اور ظاہر کے بزرگی والے اور عزت والے ! میں عہد کرتا ہوں تیرے حضور اس دنیا کی زندگی میں اور تجھے گواہ ٹھیرا تا ہوں اور تو کافی گواہ ہے.یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی نہیں قابل عبادت سوائے تیرے.تیرا کوئی شریک نہیں.تیری ہی بادشاہت ہے اور تیری ہی سب تعریفیں ہیں اور تو ہر چیز پر قادر ہے.٣١ - اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَ سَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ وَمِنْكَ وَإِلَيْكَ ( مسنداحمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۱۹)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 162 مناجات ولی اللہ الہی! حاضر ہوں حاضر ہوں اور تیری خدمت میں ہوں اور نیکی تیرے ہاتھ میں ہے اور تجھ سے ہے اور تیرے ہی سپرد ہے.- اَللّهُمَّ رَبَّ السَّمواتِ الْعُلى وَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ - وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ اَنْتَ الْحَنَّانُ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ يَا ذَ الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ اللَّتِي لَا تُرَامُ - اَسْتَلْكَ يَا اللَّهُ يَا رَحْمَانُ بِجَلَالِكَ وَنُورِ وَجْهِكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمِ مَغْفِرَتِكَ اللَّهُمَّ فَارْحَمْنِي بِتَرُكِ الْمَعَاصِي اَبَدًا مَّا أَبْقَيْتَنِي وَ ارْحَمْنِى اَنْ اَتَكَلَّفَ مَالَا يَعْنِينِي وَارْزُقْنِي حُسُنَ النَّظَرِ فِيْمَا يُرْضِيْكَ (حصن حصین مطبوعه مصر ۱۳۴۹ ۵ صفحه ۶) اے میرے اللہ ! جو رب ہے بلند آسمانوں کا اور رب ہے عرش عظیم کا.کوئی معبود نہیں مگر تو ہی اکیلا.کوئی تیرا شریک نہیں.تو ہے بہت شفقت کرنے والا.بہت احسان کرنے والا.پیدا کرنے والا آسمانوں کا اور زمین کا.اے بزرگی اور نیک سلوک کے مالک اور اس عزت کے مالک جس کا قصد نہیں کیا جا سکتا.میں تجھ سے مانگتا ہوں.اے اللہ ! اے مہربان ! تیرے جلال کا واسطہ اور تیری ذات کے نور کا واسطہ.مانگتا ہوں وہ باتیں جو تیری رحمت کا موجب ہوں اور پختہ ارادے جو تیری مغفرت کا موجب ہوں.الہی! رحم کر مجھ پر کہ میں چھوڑ دوں نافرمانیوں کو ہمیشہ کیلئے جب تک کہ تو مجھے زندہ رکھے اور رحم کر مجھ پر کہ میں تکلف سے کروں ایسی باتیں جن کا تعلق نہیں مجھ سے اور عطا کر مجھے اچھی نظر ان باتوں میں جو راضی کر دیں تجھے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 163 مناجات ولی اللہ اقرار عبودیت ۳۳ - اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي وَ رَبُّ السَّمَواتِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي وَ أَنَا عَبُدُكَ وَأَنَا عَلَى وَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ وَاَبُوْءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِيَ الذُّنُوبَ جَمِيْعَهَا فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ (مسند احمد جلد ۴ صفحه ۱۲۲ ، ۱۲۵) الہی! تو میرا رب ہے اور رب ہے آسمانوں کا اور جو مخلوق اُن میں ہے اس کا نہیں کوئی معبود مگر تو ، تو نے مجھے پیدا کیا ہے اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں نے جو تجھ سے وعدہ عبودیت کیا ہے.اس پر جہاں تک میری طاقت ہے قائم ہوں.میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنے کردار کے شر سے.اقرار کرتا ہوں تیری نعمت کا جو تو نے مجھ پر کی اور اقرار کرتا ہوں اپنے گناہوں کا.میرے سب گناہ بخش کہ تو ہی گناہ بخشا ہے اور نہیں طاقت گناہ سے پھرنے کی اور نہیں قوت نیکی کر نیکی مگر تیری توفیق سے.۳۴- اَللَّهُمَّ لَكَ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي وَإِلَيْكَ مَابِي وَلَكَ رَبِّ تُرَاثِي (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۳۷) الہی ! تیرے ہی لئے میری نماز ہے اور میری عبادتیں اور میرا جینا اور میرا مرنا اور تیری ہی طرف مجھے لوٹنا ہے اور تیرے ہی لئے ہے اے میرے رب ! میری میراث.( محبت الہی ) ۳۵ - اَللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ الْاَشْيَاءِ إِلَيَّ وَاجْعَلُ خَشْيَتَكَ اَخْوَفَ الْأَشْيَاءِ عِنْدِى وَاقْطَعْ عَنِّي حَاجَاتِ الدُّنْيَا بِالشَّوْقِ إِلَى لِقَائِكَ وَإِذَا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 164 مناجات ولی اللہ اَقْرَرْتَ أَعْيُنَ أَهْلِ الدُّنْيَا مِنْ دُنْيَا هُمْ فَاقْرِرُ عَيْنِي مِنْ عِبَادَتِكَ (اتحاف جلد ۵ صفحه ۷۸ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۱۵۸) الہی ! تو کر دے اپنی محبت کو سب چیزوں سے زیادہ محبوب میرے لئے اور کر دے اپنے ڈرکو سب چیزوں سے زیادہ ڈرانے والا میرے نزدیک اور کاٹ دے مجھ سے حاجتیں دنیا کی اپنے دیدار کے شوق سے اور اگر تو نے ٹھنڈی کی ہیں آنکھیں دنیا داروں کی ان کی دنیا سے تو ٹھنڈی کر میری آنکھ اپنی عبادت سے.٣٦ - اللَّهُمَّ اِنّى اَسْتَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي.يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۹۴) الہی ! میں مانگتا ہوں تجھ سے تیری محبت اور محبت ان کی جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اور وہ کام جو مجھ کو تیری محبت تک پہنچائے.- اللَّهُمَّ اجْعَلُ حُبَّكَ اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَّفْسِي وَاَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ( کنز العمال جلد۲ حدیث نمبر ۳۷۹۴) الہی! تو کر دے اپنی محبت کو زیادہ عزیز میری جان سے اور میرے گھر والوں سے اور ٹھنڈے پانی ۳۸ - اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِي حُبُّهُ عِنْدَكَ (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۱ ۳۴۹) الہی! نصیب کر مجھے اپنی محبت اور محبت اس شخص کی جس کی محبت تیرے نزدیک مجھے فائدہ ے.٣٩ - اَللّهُمَّ رَزَقْتَنِى مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةً لِي فِيْمَا تُحِبُّ ترندی کتاب الدعوات حدیث ۳۴۱۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 165 مناجات ولی اللہ الہی ! جو تو نے مجھے عنایت کیں وہ چیزیں جو مجھ کو محبوب تھیں اسی طرح تو بنا ان چیزوں کو میرے لئے وسیلہ ان باتوں میں جن کو تو پسند کرتا ہے.۴۰ (الف) - اللَّهُمَّ وَمَا زَوَيْتَ عَنِّى مِمَّا اُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاعًا لِي فِيْمَا تُحِبُّ ترندی کتاب الدعوات حدیث نمبر (۳۴۱۳) الہی ! اور جو چیز تو نے ہٹا دی مجھ سے میری محبوب چیزوں میں سے تو اس خلا کو بھر دے اس چیز سے جس کو تو پسند کرتا ہے.۲۰ (ب) - يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ( ترمذی کتاب الدعوات حدیث ۳۴۴۴) اے پھیر نے والے دلوں کے ثابت رکھ میرے دل کو اپنے دین پر.۴۱ - اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَلْكَ قُلُوْبًا اَوَّاهَةً مُّخْبَتَةً مُّنِيْبَةٌ فِي سَبِيْلِكَ- (کنز العمال جلد۲ حدیث نمبر ۳۶۰۹) الہی ! ہم تجھ سے ایسے دل مانگتے ہیں جو بہت گداز فروتنی کرنے والے جھکنے والے ہوں تیری راہ میں.٤٢ - اَللَّهُمَّ إِنَّ قُلُوبَنَا وَنَوَاصِيَنَا وَجَوَارحَنَا بِيَدِكَ لَمْ تُمَلِكْنَا مِنْهَا شَيْئًا فَإِذَا فَعَلْتَ ذَالِكَ بِنَا فَكُنْ أَنْتَ وَلِيَّنَا وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ السَّبِيلِ (کنز العمال جلد ۳ حدیث نمبر ۳۸۰۷) الہی ! ہمارے دل اور ہماری پیشانی کے بال اور ہمارے ہاتھ پاؤں تیرے قبضہ میں ہیں.تو نے مالک نہیں کیا ہمیں اُن میں سے کسی کا پس تو نے جب ہمارے ساتھ یہ کیا ہے تو تو ہی ہمارا مددگار ہو اور رہنمائی فرما ہماری سیدھے راستے کی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 166 مناجات ولی اللہ ( قیام صلوة ) ۴۳ - رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ (سورۃ ابراہیم: ۴۱ ۴۲) اے میرے رب ! بنا مجھ کو نماز قائم کرنے والا اور میری اولا دکو بھی.اے ہمارے رب! اور قبول کر میری دعا! اے ہمارے رب! بخش مجھ کو اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن کہ قائم ہو حساب.( با برکت ہجرت ) (سورۃ بنی اسرائیل: ۸۱) ۴۴- قُلْ رَبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَاَخْرِجُنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلُ لَى مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَنًا نَّصِيرًاه ( تو کہہ دے) اے میرے رب! داخل کر مجھ کو سچائی کا داخل کرنا اور نکال مجھ کو سچائی کا نکالنا اور برے لئے اپنے حضور سے ایک جانشین جو بہت مدد کرنے والا ہو.( سورة البقره: ۱۲۹) ۴۵- رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَاَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ إِنَّكَ انْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اے ہمارے رب! بنا ہمیں فرمانبردار اپنا اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ تابع فرمان اپنا اور دکھا ہمیں ہماری قربان گاہیں اور ہماری طرف متوجہ ہو.تو ہی ہے بہت متوجہ ہونے والا اور رحم کرنے والا.اے ہمارے رب! اور مبعوث کر ان میں ایک رسول انہی میں سے جو پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھا دے ان کو کتاب اور دانائی اور پاک کرے ان کو.تو ہی ہے اپنے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب ارادہ کا غالب حکمت والا.167 مناجات ولی اللہ استعانت ٤٦ - فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ( سورة التوبة : ۱۲۹) ( پس تو کہہ دے) کافی ہے مجھ کو اللہ نہیں کوئی معبود مگر وہی.اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور وہی ہے عظیم الشان عرش کا مالک.۴۷ - اَللَّهُمَّ بِيَدِكَ مَقَالِيدُ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَخَزَائِنُ كُلَّ شَيْءٍ وَّانْتَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ الصَّمَدُ الَّذِي مَنْزُولٌ بِكَ كُلُّ حَاجَةٍ - الہی! تیرے ہاتھ میں ہیں زمین اور آسمان کی چابیاں اور ہر شے کے خزانے اور تو ہی حی و قیوم صد ذات ہے جس کے حضور ہر حاجت پیش کی جاتی ہے.۴۸ - اللهُمَّ مَلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ، تُولِجُ الَّيْلَ فِى النَّهَارِ وَ تُولِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ : وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنْ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ تَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (سورۃ آل عمران: ۲۷، ۲۸) اے اللہ ! جو مالک ہے ساری بادشاہی کا.تو دیتا ہے بادشاہت جس کو چاہتا ہے اور چھین لیتا ہے بادشاہت جس سے چاہتا ہے اور تو عزت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور ذلیل کرتا ہے جس کو چاہتا ہے.تیرے ہاتھ میں ہے خیر تو ہر چیز پر قادر ہے.شامل کرتا ہے رات کو دن میں اور شامل کرتا ہے دن کو رات میں اور نکالتا ہے زندہ مردے سے اور نکالتا ہے مردہ زندہ سے اور رزق دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بے شمار.٢٩ - اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَّ وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 168 مناجات ولی اللہ وَلَا هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ وَلَا مُعْطِيَ لِمَا صَنَعْتَ وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ وَلَا مُبَا عِدَلِمَا قَرَّبْتَ - (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۴) اے اللہ ! تیرے ہی لئے ہے تمام حمد کوئی سمیٹنے والا نہیں جس کو تو کھول دے اور نہ کوئی کھولنے والا ہے جس کو تو سمیٹے اور نہ کوئی راہنما ہے اس کا جس کو تو گمراہ کر دے اور نہ کوئی گمراہ کرنے والا ہے اس کو جس کی تو راہنمائی کرے اور نہ دینے والا ہے جس کو تو محروم کرے اور نہ کوئی محروم کرنے والا ہے جس کو تو دے اور نہ کوئی نزدیک کرنے والا ہے جس کو تو دُور کرے اور نہ کوئی دُور کرنے والا ہے جس کو تو نزدیک کرے.۵۰ - اللَّهُمَّ لَا سَهُلَ إِلَّا مَا جَعَلْتَهُ سَهْلًا وَّ أَنْتَ تَجْعَلُ الْحَزَنَ سَهْلًا إِذَا (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۵۵) الہی ! آسان نہیں مگر جسے تو آسان بنائے اور تو مشکلات کو نرم کر دیتا ہے جو تو چاہے.۵۰ (الف) - لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الحَلِيمُ الكَرِيمُ سَبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ - ( مسنداحمد بن حنبل جلد : اصفحه ۲۰۶) نہیں کوئی معبود مگر اللہ جو حلیم کریم ہے! پاک ذات ہے اللہ ، جو رب ہے عظیم الشان عرش کا.سب تعریف اللہ کی ہے جو سب جہانوں کا رب ہے.( سلامتی اور مغفرت ) ۵۰ (ب) - اَسْتَلْكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْعِصْمَةَ مِنْ كُلَّ ذَنْبٍ وَالْغَنِيْمَةَ مِنْ كُلِّ بَرٍ وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لَّا تَدَعُ لِى ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ وَلَا هَمَّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ وَلَا كَرْبًا إِلَّا نَفَّسَتَهُ وَلَا ضَرًّا إِلَّا كَشَفْتَهُ وَلَا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 169 مناجات ولی اللہ حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ - (کنز العمال جلد ۳ حدیث ۳۸۱۲) میں تجھ سے مانگتا ہوں وہ باتیں جو تیری رحمت کا موجب ہوں اور پختہ نیک ارادے جو تیری بخشش کا موجب ہوں اور حفاظت ہر گناہ سے اور غنیمت ہر نیکی کی اور سلامتی ہر بدی سے نہ رہنے دے میرا کوئی گناہ مگر تو اس کو بخش دے اور نہ کوئی مشکل مگر تو اس کو کھول دے اور نہ کوئی گھبراہٹ مگر تو اس کو ہٹا دے اور نہ کوئی ضرر مگر تو اس کو دور کر اور نہ کوئی ایسی حاجت جو تیری رضا کا موجب ہو گر تو اس کو پوری کراے مہربانوں سے بڑھ کر مہر بان ! ۵۱ - اللَّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ كُلّ شَرِّ خَزَائِنُهُ بِيَدِكَ وَاَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّمَا أَنْتَ اخِذْ بِنَا صِيَتِهِ - (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۷۹) الہی ! بیشک میں تجھ سے مانگتا ہوں ہر بھلائی سے کہ جس کے خزانے تیرے ہاتھ میں ہیں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں ہر بُرائی سے کہ اس کے خزانے تیرے ہاتھ میں ہیں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں اس چیز کی بُرائی سے جس کی پیشانی کو تو پکڑے ہوئے ہے.۵۲ - اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِمَّنْ تَوَكَّلَ عَلَيْكَ فَكَفَيْتَهُ وَاسْتَهْدَاكَ فَهَدَيْتَهُ وَاسْتَنْصَرَكَ فَنَصَرُتَهُ - (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۵۱۰۶) الہی! تو بنا مجھے ان لوگوں میں سے جنہوں نے بھروسہ کیا تجھ پر اور تو ان کو کافی ہوا اور تجھ سے ہدایت چاہی اور تو نے ان کو ہدایت کی اور تجھ سے مدد چاہی تو تو نے ان کی مدد کی.(کمزوریوں سے نجات کی دعا ) ۵۳ - اللَّهُمَّ إِنِّي ضَعِيفٌ فَقَةٍ فِي رِضَاكَ ضَعْفِي وَخُذْلِيَ الْخَيْرَ بِنَا صِيَتِى وَاجْعَلِ الْإِسْلَامَ مُنْتَهَى رِضَائِي - (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۱۸۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 170 مناجات ولی اللہ الہی ! میں کمزور ہوں تو قوی کر اپنی خوشنودی میں میری کمزوری کو اور پکڑ میری بھلائی کی خاطر میری پیشانی اور کر اسلام کو انتہا میری خوشنودی کا.(شکرالهی) ۵۴ - اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۵۰۷۳) الہی ! میری مدد فرما کہ تجھے یا درکھوں اور تیرا شکر کروں اور تیری اچھی طرح عبادت کروں.۵۵ - رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّلِحِينَ (سورة النمل:۲۰) اے میرے رب ! توفیق دے مجھے کہ میں شکر کروں تیرے احسانوں کا جو تو نے انعام کئے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر اور یہ کہ کروں ایسے نیک کام جو تو پسند کرے اور داخل کر مجھے اپنے عمل سے اپنے نیک بندوں میں.۵۶ - اللَّهُمَّ اِنّى اَسْتَلْكَ التَّوْفِيقَ لِمَحَابِكَ مِنَ الْأَعْمَالِ وَصِدْقَ التَّوَكُلِ عَلَيْكَ وَحُسْنَ الظَّنِّ بِكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۷۷) الہی ! میں تجھ سے توفیق مانگتا ہوں تیرے پسندیدہ اعمال کی اور تجھ پر سچا بھروسہ کرنے کی اور تجھے پر نیک گمان کرنے کی.۵۷ - اللَّهُمَّ وَفِّقْنِي لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضَى مِنَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ وَالْفِعْلِ وَالنِّيَّةِ وَالْهُدَى إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۹۷) الہی! توفیق دے ان باتوں کی جن کو تو پسند کرتا ہے اور جن سے تو راضی ہوتا ہے قول اور عمل اور
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 171 مناجات ولی اللہ فعل اور نیت اور راست روی میں سے.تو ہر چیز پر قادر ہے.۵۸ - اللَّهُمَّ افْتَحْ مَسَامِعَ قَلْبِي لِذِكْرِكَ وَارْزُقْنِی طَاعَتَكَ وَطَاعَةَ رَسُولِكَ وَعَمَلًا بِكِتَابِكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۵۵) الہی ! کھول دے میرے دل کے کانوں کو اپنی یاد کیلئے اور نصیب کر مجھے اپنی فرمانبرداری اپنے رسول کی اور توفیق دے عمل کرنے کی اپنی کتاب پر.۵۹ - اللَّهُمَّ مُصَرِّفَ الْقُلُوبِ اَصْرِفَ قُلُوْبَنَا عَلَى طَاعَتِكَ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۱۴۸) الہی ! پھیر نے والے دلوں کے! پھیر دے ہمارے دلوں کو اپنی عبادت کی طرف.۲۰ - اَللَّهُمَّ اجْعَلْنِيْ اَخْشَاكَ كَانِيْ أَرَاكَ اَبَدًا حَتَّى الْقَاكَ وَاسْعِدُنِي بِتَقْوَاكَ وَلَا تُشْقِنِي بِمَعْصِيَتِكَ وَخِرْلِي فِي قَضَائِكَ وَ بَارِكْ لِي فِي قَدْرِكَ حَتَّى لَا أُحِبَّ تَعْجِيْلَ مَا أَخَّرْتَ وَلَا تَاخِيرَ مَا عَجَّلْتَ وَاجْعَلْ غِنَائِي فِي نَفْسِي - (کنز العمال جلد : ۲ حدیث نمبر ۳۶۱۷) الہی! بنا مجھ کو کہ تجھ سے ایسا ڈروں کہ گویا کہ میں تجھ کو ہمیشہ دیکھ رہا ہوں یہاں تک کہ میں تجھ کو ملوں اور مجھے نیک بخت کر اپنے تقویٰ سے اور نہ بدبخت کر مجھے اپنی نافرمانی کی وجہ سے اور نیک بات اختیار کر میرے لئے اپنے فیصلہ میں اور برکت دے مجھے اپنی تقدیر میں تاکہ میں نہ چاہوں جلدی ہونا اس بات کا جس میں تو نے تاخیر کی اور نہ تاخیر اس بات میں جس کو تو نے جلدی چاہا اور بنا مجھے غنی میرے نفس میں.۶ - اللَّهُمَّ أَعِنِّي بِالْعِلْمِ وَزَيِّنِي بِالْحِلْمِ وَ اَكْرِمُنِي بِالتَّقْوَى وَجَمِلْنِي
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بالْعَافِيَةِ 172 مناجات ولی اللہ الہی! میری مدد کر علم سے اور زینت دے مجھ کو علم سے اور بزرگی دے مجھ کو پر ہیز گاری سے اور آراستہ کر مجھ کو عافیت سے.( انشراح صدر ) ٦٢ - رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِى ٥ وَيَسِرُلِي أَمْرِى o وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِسَانِي يَفْقَهُوا قَوْلِى وَاجْعَلْ لِى وَزِيْرًا مِنْ أَهْلِي هِ هَارُونَ أَخِي اشْدُدْ بِهِ أَزْرِى وَاَشْرِكْهُ فِي أَمْرِى O كَى نُسَبِّحَكَ كَثِيرًا هِ وَّ نَذْكُرَكَ كَثِيرًا ه إِنَّكَ كُنْتَ بِنَا بَصِيرًاه ( سورة طه : ۲۶-۳۶) اے میرے رب! کشادہ کر میرا سینہ اور آسان کر میرے کام اور کھول گرہ میری زبان کی کہ وہ سمجھیں میری بات اور دے مجھ کو ایک مددگار میرے گھر والوں سے ہارون میرا بھائی.مضبوط کر اس سے میری کمر اور شریک کر اس کو میرے کام میں تا کہ تیری تسبیح کر میں بہت اور ہم ذکر کریں تیرا بہت.تو ہی ہمیں خوب دیکھتا ہے.( علم حاصل کرنے کی دعائیں ) ٦٣ - رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - ( سورة طه : ۱۱۵) اے میرے رب ! مجھے بڑھا علم میں.۶۴ - اَللَّهُمَّ انْفِعْنِي بِمَا عَلَّمْتَنِي وَعَلِمُنِي مَا يَنْفَعُنِي وَ زِدْنِي عِلْمًا - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَّ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ حَالِ أَهْلِ النَّارِ - (مشکوۃ شریف حدیث نمبر ۲۴۹۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 173 مناجات ولی اللہ الہی ! نفع مند بنا ان علوم کو جو تو نے مجھے سکھائے اور سکھا مجھے وہ کچھ جو مجھے نفع دے اور زیادہ کر میرا علم سب تعریف اللہ کیلئے ہے ہر حال میں اور میں اللہ کی پناہ لیتا ہوں دوزخیوں کے حال سے.۶۵ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ عِلْمًا نَّافِعًا وَّعَمَلًا مُّتَقَبَّلًا وَّرِزْقًا حَلَالًا طَيِّبًا (مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۲۹۴) وَّاسِعًا- الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں علم نافع اور عمل مقبول اور رزق حلال پاک اور وسیع.٦٦ - اللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ إِيْمَانًا يُبَاشِرُ قَلْبِي وَيَقِيْنًا صَادِقًا حَتَّى أَعْلَمَ أَنَّهُ لَا يُصِيبُنِي إِلَّا مَا كَتَبَتَ لِي وَ رَضِنِي مِّنَ الْمَعِيْشَةِ بِمَا قَسَمْتَ لِى - (کنز العمال جلد ۲ حدیث ۳۶۵۷) الہی ! میں تجھ سے ایسا ایمان مانگتا ہوں جو رچ جائے میرے دل میں اور ایسا سچا یقین کہ میں جان لوں کہ مجھے کوکوئی گزند نہ پہنچے گا مگر وہی جو تو نے میرے لئے لکھ دیا ہے اور اس روزی پر رضا مندی جو تو نے میری قسمت میں لکھی ہے.(کھانا کھانے کی دعا ) - اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَأَرُونَا وَاوْنَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - رَبِّ اجْعَلُ طَعَامَنَا عَوْنًا عَلَى عِبَادَتِكَ وَخِدْمَةِ عِبَادِكَ (کنز العمال جلدے حدیث نمبر ۱۸۲۴۱) الحمد للہ جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور سیر کیا اور ہمیں ٹھکانہ دیا اور ہمیں مسلمان بنایا.اے میرے رب بنا ہمارے کھانے کو مدد تیری عبادت کرنے میں اور تیرے بندوں کی خدمت کرنے میں.۲۸ - اللَّهُمَّ اكْفِنِي بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَ أَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاکَ.(جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۶۳)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 174 مناجات ولی اللہ الہی ! کفایت کر مجھ کو اپنے حلال کے ساتھ اپنے حرام سے اور بے پرواہ کر مجھ کو اپنے فضل.دوسرے لوگوں سے.( دعائے صحت ) 19 - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ صِحَّةً فِى إِيْمَانٍ وَّ إِيْمَانًا فِي حُسْنِ خُلُقٍ وَّ نَجَاةً يَّتْبَعُهَا فَلَاحٌ وَّرَحْمَةً مِّنْكَ وَعَافِيَةً وَّمَغْفِرَةً مِّنْكَ وَرِضْوَانًا ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۳۲۱) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایمان کی درستگی اور ایمان نیک خلق کے ساتھ اور ایسی نجات کہ جس کے پیچھے فلاح ہو اور ( مانگتا ہوں ) تیری رحمت اور عافیت اور تیری بخشش اور خوشنودی.٧٠ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ الصِّحَّةَ وَالْعِفَّةَ وَ الْاَمَانَةَ وَحُسْنَ الْخُلُقِ وَالرّضا بالقدر (کنز العمال جلد ۳ حدیث نمبر۰ ۳۶۵) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں صحت اور عفت اور دیانتداری اور نیک خلق اور تقدیر پر رضا.ا اللَّهُمَّ اِنّى أَسْتَلْكَ اَنْ تُبَارِكَ لِي فِي سَمْعِي وَفِي بَصَرِي وَ فِي رُوحِي وَفِي خَلْقِي وَفِي مَحْيَايَ وَفِي مَمَاتِي وَفِي عَمَلِي - (مستدرک حاکم کتاب الدعا جلد اصفحه ۵۲۰) الہی! برکت دے مجھے میری شنوائی میں اور میری بینائی میں اور میری روح میں اور میری خلقت میں اور میرے اخلاق میں اور میرے جینے میں اور میرے مرنے میں اور میرے عمل میں.( دعائے قنوت) - اَللّهُمَّ اهْدِنِي فِيْمَنُ هَدَيْتَ وَعَافِنِى فِيْمَنُ عَافَيْتَ وَتَوَلَّنِي فِيْمَنُ تَوَلَّيْتَ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 175 مناجات ولی اللہ وَبَارِكْ لِى فِيْمَا أَعْطَيْتَ وَقِنِي شَرَّمَا قَضَيْتَ فَإِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَّالَيْتَ وَلَا يَعِزُّمَنْ عَادَيْتَ تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ نَسْتَغْفِرُكَ وَنَتُوبُ إِلَيْكَ وَصَلَّى اللهُ عَلَى النَّبي - ( مسنداحمد بن حنبل جلد صفحه ۱۹۹) الہی ! میری بھی رہنمائی فرما ان لوگوں کے ساتھ جن کی تو نے رہنمائی کی اور مجھے عافیت دے ان لوگوں کے ساتھ جن کو تو نے عافیت دی اور تو میرا اوالی ہو ان لوگوں کے ساتھ جن کا تو والی ہوا اور برکت دے مجھے ان چیزوں میں جو تو نے مجھے عطا کیں اور بچا مجھ کو برائی سے جس کا تو نے فیصلہ کیا ہے کیونکہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے.اور نہیں فیصلہ کیا جا تا تیرے خلاف اور نہیں ذلیل ہوتا وہ شخص جس کا تو دوست ہوا اور نہیں عزت پاتا وہ شخص جس کا تو دشمن ہوا.تو برکت والا ہے اے ہمارے رب! اور تو بہت بلند ہے.تجھ سے ہم بخشش مانگتے ہیں اور تیری طرف ہم رجوع کرتے ہیں اور اللہ رحمت بھیجے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر.دین و دنیا میں خیر و برکت کے لئے ) ٧٣ - اَللّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى دِينِى بالدُّنْيَا وَعَلَى آخِرَتِي بِالتَّقْوَى وَاحْفِظُنِي فِيمَا غِبْتُ عَنْهُ وَلَا تَكِلْنِى إِلى نَفْسِي فِيمَا حَضَرْتُهُ - يَامَنْ لَّا تَضُرُّهُ الذُّنُوبُ وَلَا تَنْقُصُهُ الْمَغْفِرَةُ - هَبْ لِى مَالَا يَنْقُصُكَ وَاغْفِرْ لِي مَالَا يَضُرُّكَ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - أَسْتَلْكَ فَرَجًا قَرِيبًا وَصَبْرًا جَمِيلًا وَرِزْقًا وَّاسِعًا وَالْعَافِيَةَ مِنْ جَمِيعِ الْبَلَايَا وَ أَسْتَلْكَ تَمَامَ الْعَافِيَةِ أَسْتَلُكَ دَوَامَ الْعَافِيَةِ أَسْتَلكَ الشُّكُرَ عَلَى الْعَافِيَةِ أَسْتَلُكَ الْغِنى عَنِ النَّاسِ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ يَا رَبِّ يَارَبِّ يَارَبِّ ( کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر۵۱۱۰) الہی ! تو میری مدد کر میرے دین پر دنیا سے اور مدد کر میری آخرت پر پرہیز گاری سے اور میری نگہبانی کر اس چیز میں کہ جس سے میں غائب ہوا ہوں اور نہ حوالے کر مجھے میرے نفس کے اس چیز میں کہ جس میں میں موجود ہوں.اے وہ ذات کہ جس کو گناہ ضر نہیں پہنچاتے اور نہ بخشش
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 176 مناجات ولی اللہ اس کا کچھ کم کرتی ہے.عطا کر مجھ کو وہ چیز جو تیرا نقصان نہیں کرتی اور بخش مجھے وہ گناہ جو تجھ کو کچھ ضرر نہیں پہنچاتے.تو ہی ہے بہت عطا کرنے والا.میں مانگتا ہوں تجھ سے کشائش جو نزدیک ہو اور صبر جمیل اور رزق کشادہ اور آرام تمام بلاؤں سے اور میں مانگتا ہوں تجھ سے پوری عافیت اور میں مانگتا ہوں تجھ سے ہمیشہ کی عافیت اور میں مانگتا ہوں تجھ سے شکر اس عافیت پر اور میں مانگتا ہوں تجھ سے بے نیازی لوگوں سے اور نہیں ہے طاقت گناہ سے پھر نے کی اور نہیں ہے طاقت نیکی کرنے کی مگر اللہ کی توفیق سے جو بلند ہے عظمت والا ہے اے میرے رب ! اے میرے رب ! اے میرے رب.۷۴ - اللَّهُمَّ أَصْلِحُ لِي دِينِيَ الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِئُ وَأَصْلِحُ لِي دُنْيَايَ فِيهَا مَعَاشِي وَاَصْلِحْ لِى آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي مَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لَّى - وَاجْعَلِ الْحَيَوةَ زِيَادَةً لَّى فِي كُلِّ خَيْرٍ وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍ - مسلم کتاب الذکر والد عاحدیث نمبر ۲۹۰۳) الہی! درست کر میرے لئے میرے دین کو جو بچاؤ ہے میری حالت کا اور درست کر میرے لئے میری دنیا جس میں میرا ذریعہ معاش ہے اور درست کر میرے لئے آخرت جس کی طرف میرا لوٹنا ہے اور زندہ رکھ مجھے جب تک کہ زندگی بہتر ہے میرے لئے اور وفات دے مجھ کو جب وفات بہتر ہو میرے لئے اور بنا میری زندگی زیادتی کا موجب میرے لئے ہر بھلائی میں اور کر موت کو میرے لئے راحت کا موجب ہر بُرائی سے.۵ - اللَّهُمَّ رَحْمَتَكَ اَرْجُو فَلَا تَكِلْنِي إِلَى نَفْسِي طُرْفَةَ عَيْنٍ وَأَصْلِحُ لِي شَانِى كُلَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا أَنْتَ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۴۲) الہی ! تیری رحمت کی میں امید رکھتا ہوں سو تو مجھ کو میری جان کے حوالے نہ کیجیئو پلک
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 177 مناجات ولی اللہ جھپکنے بھر بھی اور درست کر میرے سب کام تیرے سوا کوئی معبود نہیں اے زندہ! اے قیوم خدا! تیری رحمت سے میں فریاد چاہتا ہوں.۷۶ - اللَّهُمَّ فَالِقَ الْإِصْبَاحِ وَجَاعِلَ اللَّيْلِ سَكَنًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَانًا اقْضِ عَنِّى الدَّيْنَ وَ اَغْنِنِي مِنَ الْفَقْرِ وَقَوِنِي عَلَى الْجِهَادِ فِي سَبِيْلِكَ (قرطبی جلد ۷ صفحه ۴۹) الہی ! پھاڑ کر نکالنے والے صبح کے اور بنانے والے رات کو آرام کا موجب اور سورج اور چاند کو اندازے سے نکالنے کا ذریعہ ادا کر میری طرف سے میرا قرض اور بے پرواہ کر مجھ کو محتاجی سے اور قوت دے مجھ کو جہاد کرنے کی اپنی راہ میں.۷۷- اَللّهُمَّ اَنْتَ تَكْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاثَمَ - ( فتح الربانی جلدا اصفحہ ۱۲۷ بحوالہ موسوعۃ اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه ۱۹۴) الہی ! تو دُور کرتا ہے تاوان کو اور گناہ کو.تو کل اور حصول رزق ) - وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا هِ وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ط وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلّ ( سورۃ الطلاق: ۴۳) شَيْءٍ قَدْرًا اور جو کوئی اللہ کو اپنا سپر بنائے گا.وہ اس کے لئے نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا اور رزق دے گا اس کو جہاں سے اس کا وہم و گمان نہ ہوگا اور جو بھروسہ کرتا ہے اللہ پر تو وہ کافی ہوتا ہے اس کو ضرور اللہ اپنی بات کو پورا کرے گا.ضرور بنا دیا ہے اللہ نے ہر چیز کیلئے ایک اندازہ.( حضرت والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن مجھے تین روزے رکھنے کیلئے فرمایا اور سونے سے قبل وضو کر کے دو نفل پڑھنے اور مذکورہ بالا آیت بطور دُعا سو دفعہ پڑھنے کی ہدایت فرمائی.آپ نے خود بھی ایسا کیا تین دن کے اندر بطور خارق عادت نشان کے میری دعا ایسی قبول ہوئی کہ قطعاً کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اس طور سے پوری ہوگی اور اُس کے پورا ہونے کی کیفیت خواب میں بتلائی گئی جو اس ہفتہ میں پوری ہوئی) (سید زین العابدین ولی اللہ شاہ )
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 178 مناجات ولی اللہ ۷۹ - اللَّهُمَّ فَارِجَ الْهَمِّ كَاشِفَ الْغَمِّ مُجِيْبَ دَعْوَةِ الْمُضْطَرِّينَ - رَحْمَنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَرَحِيْمَهُمَا أَنْتَ تَرْحَمُنِى فَارْحَمُنِي بِرَحْمَةٍ تُغْنِيُنِي بِهَا عَنْ رَحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ (مستدرک حاکم جلد ا صفحه ۵۱۵) الہی ! جو دور کرنے والا ہے فکروں کا اور جو ہٹانے والا ہے عموں کا.قبول کرنے والا ہے دعا بے قراروں کی.رحمان ہے دنیا اور آخرت میں اور رحیم ہے ان دونوں میں تو ہی مجھ پر رحم کرتا ہے مجھ پر رحم کر ایسی رحمت کہ جس سے تو مجھ کو بے پروا کر دے اپنے سوا غیروں کی رحمت سے.(اہل وعیال کے لئے ) ٨٠ - اَللّهُمَّ إِنِى أَسْتَلْكَ غِنَى الْاَهْلِ وَالْمَوْلَى وَ اَعُوْذُبِكَ اَنْ يَّدْعُو عَلَيَّ رَحِمٌ قَطَعْتُهَا - ( موسوعة اطرف الحدیث جلد ۲ صفحه ۲۰۶ ) الہی! میں تجھ سے مانگتا ہوں گھر والوں کی دولتمندی اور دوستوں کی دولتمندی اور میں پناہ لیتا ہوں تیری اس قرابت کی بددعا سے کہ جس کو میں نے قطع کیا ہے.- اَللّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ مِنْ صَالِحٍ مَاتُؤْتِي النَّاسَ مِنَ الْمَالِ وَالْاَهْلِ وَالْوَلَدِ غَيْرَ صَالٍ وَّلَا مُضِلَّ - جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۶ ۳۵۸) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بہتر سے بہتر جو تو دیتا ہے لوگوں کو مال اور کنبہ اور اولاد جو نہ گمراہ ہو اور نہ گمراہ کرنے والی ہو.b ۸۲ - رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ ( سورة آل عمران: ۳۹ ) اے میرے رب ! عطا کر مجھے اپنے پاس سے اولاد پاکیزہ.یقینا تو سننے والا ہے دعا کو.۸۳ - اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَيْبِ الشَّيْطَنَ مَا رَزَقْتَنَا (مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۲۱۷)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 179 مناجات ولی اللہ اے اللہ ! دُور رکھنا ہمیں شیطان سے اور دُور رکھنا شیطان کو اس اولا د سے جو تو ہمیں دے.۸۴ - اَللَّهُمَّ اَصْلِحْ لِي فِى نَفْسِى وَاَصْلِحْ لِي فِي زَوْجَتِي وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِى وَبَارِكْ لِى فِيْهِمْ وَارْزُقُهُمُ رِزْقًا كَرِيمًا وَّانْبَتْهُمُ نَبَاتًا حَسَنًا - الہی ! تو اصلاح کر میرے لئے میرے نفس کی اور اصلاح کر میرے لئے میری بیوی کی اور اصلاح کر میرے لئے میری اولاد کی اور برکت دے مجھ کو ان میں اور رزق دے تو ان کو باعزت رزق اور نشونما کر ان کی اچھی نشو نما.(حصول اولاد کے لئے ) ۸۵ - رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْدًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ - (سورة الانبياء: ٩٠) اے میرے رب ! نہ تو چھوڑ مجھے اکیلا اور تو ہے سب سے بہتر وارث.- رَبِّ إِنِّى وَهَنَ الْعَظْمُ مِنّى وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْئًا ۖ وَلَمْ أَكُنُ بدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيَّاه وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَاءِ ئُ وَكَانَتِ امْرَأَتِي ق عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَّدُنكَ وَلِيًّا ٥ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ، وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّاه (سورۃ مریم : ۵-۷) اے میرے رب ! کمزور ہوگئیں ہڈیاں میری اور سفید ہوگیا سر بڑھاپے کی وجہ سے اور اے رب میرے نہیں رہا میں تجھ سے مانگ کر محروم اور میں ڈرتا ہوں بھائی بندوں سے اپنے پیچھے اور ہے میری عورت بانجھ سو عطا کر مجھے اپنے حضور سے ولی عہد جو میرا وارث ہو اور وارث ہو یعقوب کی اولاد کا اور بنا اس کو اے رب ! اپنا محبوب - رَبِّ اَوْ زِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِى إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (سورۃ الاحقاف: ۱۶)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 180 مناجات ولی اللہ اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں شکر بجالاؤں تیرے احسان کا جو تو نے کیا مجھ پر اور میرے ماں باپ پر اور یہ کہ کروں نیک کام جس سے تو راضی ہواور نیک بنا میرے لئے اولاد میری.میں نے رجوع کیا تیری طرف اور میں ہوں فرمانبردار.۸۸- رَبِّ اجْعَلْنِى لَكَ ذَكَارًا لَكَ شَكَارًا لَّكَ رَهَّابًا لَكَ مِطْوَاعًا لَّكَ مُخْبِتًا إِلَيْكَ أَوَّاهَا مُّنِيِّبًا - (مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۲۷۷) اے میرے رب ! بنا مجھ کو اپنے لئے بہت یاد کرنے والا.اپنے لئے بہت شکر کرنے والا.بہت ڈرنے والا اپنے لئے تیری فرمانبرداری کرنے والا.فروتنی کرنے والا.گریہ زار رجوع کرنے والا.( مغفرت اور نصرت الہی ) ۸۹ (الف) - نَادَى رَبَّةٌ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّوَانتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ( سورة الانبياء : ۸۴) (اس نے اپنے رب کو پکارا ) اے میرے رب مجھ کو تکلیف پہنچی ہے اور تو سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.۸۹ (ب) - لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ کوئی معبود نہیں سوائے تیرے تو بے عیب ہے میں ہوں ظلم کرنے والا.(سورۃ الانبياء: ۸۸).9 - رَبِّ أَعِنِّى وَلَا تُعِنُ عَلَيَّ وَانْصُرُنِي وَلَا تَنْصُرُ عَلَيَّ وَامْكُرْ لِي وَلَا تَمُكُرُ عَلَيَّ وَاهْدِنِى الْهُدَى وَيَسِرِ الْهُدَى لِي وَانْصُرُ عَلَى مَنْ بَغَى عَلَيَّ - ( مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۲۷۷) اے میرے پروردگار! میری مدد کر اور نہ مدد کر میرے خلاف اور میری نصرت فرما اور نہ دے نصرت میرے خلاف اور تدبیر کر میری بھلائی کی اور نہ تدبیر کر میرے خلاف اور میری رہنمائی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 181 مناجات ولی اللہ فرما کامل رہنمائی اور آسان کر اس رہنمائی کو میرے لئے اور فتح یاب کر مجھ کو اس شخص پر جو مجھ پر زیادتی کرے.۹۱ (الف) - رَبِّ إِنِّي مَغْلُوبٌ فَانْتَصِرُ - الہامی دعا از اخبار بد ر قا دیان ۹ مئی ۱۹۰۷ ء صفحه ۳) اے میرے رب ! میں مغلوب ہوں تو میری مدد فرما.۹۱ (ب) - رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ - (سورۃ المومنون : ۱۱۹) اے میرے رب بخش اور رحم کر اور تو تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.و (ج) - اللَّهُمَّ اسْتِرْ عَوْرَاتِي وَآمِنْ رَوْعَاتِي- إِنَّكَ تَعْلَمُ سِرِّئَ وَعَلَانِيَتِي ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۵ ) الہی ! میرے نگوں کو ڈھانپ اور امن میں تبدیل کر میری گھبراہٹوں کو.تو جانتا ہے میری پوشیدہ اور میری کھلی باتیں.۹۲ - اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَمَا أَظْلَلُنَ وَرَبَّ الْأَرْضِينَ وَمَا أَقْلَلْنَ وَرَبَّ الشَّيْطِيْنَ وَمَا أَضْلَلْنَ كُنْ لِى جَارًا مِّنْ شَرِّ خَلْقِكَ كُلِّهِمْ جَمِيعًا أَن يَفْرُطَ عَلَى اَحَدٌ مِنْهُمْ أَوْ أَنْ يَبْغِيَ عَزَّ جَارُكَ وَجَلَّ ثَنَاءُ كَ وَلَا إِلهُ غَيْرُكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ ( موسوعة اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه ۲۳۴) اے اللہ ! جو رب ہے ساتوں آسمانوں کا اور ان کا جنہیں وہ سایہ کئے ہوئے ہیں اور جو رب ہے زمینوں کا اور ان کا جنہیں وہ اٹھائے ہوئے ہیں اور جو رب ہے شیطانوں کا اور ان کا جنہیں انہوں نے گمراہ کیا ہے.تو میری پناہ ہو اپنی مخلوق کے شر سے سب کی سب یہ کہ زیادتی کرے مجھ پر ان میں سے کوئی یا یہ کہ بغاوت کرے.زبر دست ہے تیری پناہ اور بڑی ہے تیری تعریف اور نہیں کوئی معبود تیرے سوا نہیں کوئی معبود مگر تو ہی.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 182 مناجات ولی اللہ ( حفاظت الہی ) ۹۳ (الف) - اللَّهُمَّ احْفِظُنِى مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِى وَاَعُوْذُبِكَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِي - (کنز العمال جلد ۲ نمبر ۴۹۵۷) الہی ! تو میری حفاظت کر میرے آگے سے اور میرے پیچھے سے اور میری دا ہنی طرف سے اور میری بائیں طرف سے اور میرے اوپر سے اور میں پناہ لیتا ہوں تیری کہ اُچکا جاؤں اپنے نیچے سے.۹۳ (ب) - رَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبَّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُوْلًا وَّ نَبِيًّا - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۷۱) ہم نے پسند کر لیا اللہ کو اپنا رب اور اسلام کو اپنادین اور ( حضرت ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اور نبی.۹۴ - اَللَّهُمَّ أَنْتَ عَضُدِى وَنَصِيْرِى بِكَ اَحُولُ وَبِكَ أَصُولُ وَبِكَ اقَاتِلُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ (ابوداؤد کتاب الجہاد حدیث نمبر ۲۶۳۲) اے اللہ ! تو ہی میری مدد کرنے والا اور میرا مددگار ہے.تیری ہی مدد سے پھرتا ہوں اور تیری ہی قوت سے حملہ کرتا ہوں اور تیری امداد سے مقابلہ کرتا ہوں اور نہیں طاقت گناہ سے پھرنے کی اور نہ نیکی کرنے کی مگر تیری توفیق سے.۹۵ - اللَّهُمَّ الْطُفْ بِى فِى تَيْسِيرِ كُلَّ عَسِيرٍ فَإِنَّ تَيْسِيْرَ كُلَّ عَسِيرٍ عَلَيْكَ يَسِيرٌ وأَسْتَلْكَ الْيُسْرَ وَالْمُعَافَاةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۵۸) الہی ! میری مدد کر ہر دشواری کے آسان کرنے میں کیونکہ آسان کرنا ہر دشواری کا تجھ پر آسان
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 183 مناجات ولی اللہ ہے اور میں مانگتا ہوں تجھ سے آسانی اور عافیت دنیا میں اور آخرت میں.- - اَللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَواتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ مَا أَحْبَبْتَ مِنْ خَيْرٍ فَحَسِبُهُ إِلَيْنَا وَيَسِرُهُ لَنَا وَمَا كَرِهْتَ مِنْ شَرِّفَكَرِهُهُ إِلَيْنَا وَلَا حَتِبْنَاهُ وَلَا تَرِعُ مِنَّا الْإِسْلَامَ بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا - اَللَّهُمَّ إِنَّكَ سَأَلْتَنَا مِنْ اَنْفُسِنَا مَالَا نَمْلِكُهُ إِلَّا بِكَ فَاعْطِنَا مِنْهَا مَا يُرْضِيْكَ عَنَّا - ( مسنداحمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۴۰۴ ) اے اللہ ! رب ساتوں آسمانوں کے اور رب عرش عظیم کے جو پسند کرے کوئی بھلائی تو محبت دے اس کی ہمیں بھی اور آسان کر دے اس کو ہمارے لئے اور جو تو نا پسند کرے کوئی بدی تو ناپسندیدہ کر اس کو ہمارے لئے بھی اور نہ محبوب بنا اسے ہماری اور نہ چھین ہم سے اسلام بعد اس کے کہ تو نے ہدایت دی ہم کو الہی ! تو نے ہماری جانوں سے وہ چیز مانگی ہے جس کے ہم تیری مدد کے سوا ما لک نہیں.سو ہمیں عنایت کر اس میں سے وہ چیز جو تجھ کو راضی کرے ہم سے.(یقین وایمان ) ۹۷ - اَللّهُمَّ إِنَّا نَسْتَلُكَ إِيْمَانًا دَائِمًا وَّ قَدْبًا خَاشِعًا وَّيَقِينًا صَادِقًا وَّ دِينًا قَيْمًا وَّنَسْتَلْكَ الْعَافِيَةَ مِنْ كُلِّ بَلِيَّةٍ وَّ دَوَامَ الْعَافِيَةِ وَنَسْتَلْكَ الشُّكْرَ عَلَى الْعَافِيَةِ وَنَسْتَلْكَ الْغِنى عَنِ النَّاسِ - الہی ! ہم تجھ سے مانگتے ہیں ایمان ہمیشہ رہنے والا اور دل گداز ہونے والا اور یقین صادق اور دین مستقیم اور ہم مانگتے ہیں تجھ سے آرام ہر بلا سے اور ہمیشہ کا آرام اور ہم مانگتے ہیں تجھ سے شکر کی تو فیق اس آرام پر اور مانگتے ہیں بے نیازی لوگوں سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 184 مناجات ولی اللہ امن وسلامتی ) - اللَّهُمَّ أَنْتَ السَّلَامُ وَمِنكَ السَّلَامُ وَإِلَيْكَ يَعُودُ السَّلَامُ اَسْتَلُكَ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ اَنْ تَسْتَجِيْبَ لَنَا دَعْوَتَنَا وَأَنْ تُعْطِيَنَا رَغْبَتَنَا وَ أَنْ تُغْنِيَنَا عَمَّنْ أَغْنَيْتَهُ عَنَّا مِنْ خَلْقِكَ رَبِّ وَقِنَا عَذَابَكَ يَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَكَ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۴ ۱۸) الہی! تو ہی سلامتی ہے اور تجھ ہی سے سلامتی ملتی ہے اور تیری طرف ہی لوٹتی ہے سلامتی.میں تجھ سے مانگتا ہوں اے صاحب جلال و احسان! کہ تو قبول فرما ہماری دعا اور یہ کہ دے تو ہم کو ہماری رغبت اور یہ کہ تو ہم کو بے پروا کر اُن لوگوں سے کہ جن کو تو نے ہم سے بے پروا کیا اپنی خلقت میں سے.اے ہمارے رب ! تو بیچا ہمیں اپنے عذاب سے جس دن کہ تو اٹھائے گا اپنے بندوں کو.( برکات خداوندی) اَللَّهُمَّ ابْسُطُ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ اَللَّهُمَّ ارْزُقْنَا مِنْ فَضْلِكَ وَلَا تَحْرِمْنَا رِزْقَكَ وَبَارِكْ لَنَا فِيمَا رَزَقْتَنَا وَاجْعَلُ غِنَاءَ نَا فِي اَنْفُسِنَا وَاجْعَلْ رَغْبَتَنَا فِيمَا عِنْدَكَ (در منثور جلد ۶ صفحه ۹۰ بحوالہ کنز العمال جلد۱۰ حدیث نمبر ۳۰۰۴۷) الہی! کشادہ کر ہم پر اپنی برکتیں اور اپنی رحمت اور اپنا فضل اور اپنا رزق- الہی ! تو رزق دے ہم کو اپنے فضل سے اور نہ محروم کر تو ہم کو اپنے رزق سے اور برکت دے ہم کو ان چیزوں میں جو تو نے ہم کو دیں اور بنا ہمیں بے نیاز اپنے آپ میں اور کر ہماری رغبت اس چیز میں جو تیرے پاس ہے.(حسناتِ دارین) ١٠٠ - رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِى الْآخِرَةِ حَسَنَةٌ وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِهِ ( سورة البقرة :۲۰۲)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 185 مناجات ولی اللہ ے رب دے ہم کو دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی اور بچا ہم کو آگ کے عذاب سے.طلب ہدایت ۱ - اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ أَسْتَلْكَ يَا اللَّهُ يَارَحُمْنُ بِجَلَالِكَ وَنُوْرٍ وَجْهِكَ اَنْ تُنَورَ بِكِتَابِكَ بَصَرِى وَاَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي وَأَنْ تُفَرِّجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي وَأَنْ تَشْرَحَ بِه صَدْرِى وَاَنْ تَسْتَعْمَلَ بِهِ بَدَنِى فَإِنَّهُ لَا يُعِيْتُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ ( تذکرة القرطبی صفحہ ۵۱۱ بحوالہ موسوعه اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه ۲۲۹) الہی! پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے.اے بزرگی اور احسان اور اس عزت کے مالک ! جس کا قصد نہیں کیا جا سکتا.میں تجھ سے مانگتا ہوں.اے اللہ ! اے بن مانگے دینے والے! تیری بزرگی اور تیری ذات کے نور کا واسطہ کہ تو روشن کر دے اپنی کتاب سے میری بینائی کو اور یہ کہ تو چلا دے اس کے ساتھ میری زبان اور یہ کہ فکر دُور کر اس سے میرے دل سے اور یہ کہ تو کھول دے اس سے میرے سینہ کو اور یہ کہ تو کام میں لائے اس کے ساتھ میرے بدن کو کیونکہ کوئی نہیں میری مدد کر سکتا حق پر تیرے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا یہ مگر تو اور نہیں طاقت گناہ سے بچنے کی اور نہ قوت نیکی کی مگر اللہ بلند مرتبہ بزرگ کی توفیق سے.( معرفت قرآن کریم ) ١٠٢ - اَللَّهُمَّ اجْعَلِ الْقُرْآنَ الْعَظِيمَ رَبِيعَ قَلْبِي وَنُورَ بَصَرِى وَجِلَاءَ حُزْنِي (مسنداحمد بن حنبل جلد نمبر احدیث ۴۰۹۱) وَذَهَابَ هَمِّي الہی! تو بنا قرآن عظیم کو بہار میرے دل کی اور روشنی میری بینائی کی اور صیقل میرے غم کا اور سبب
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 186 مناجات ولی اللہ میرے فکر کے دُور ہونے کا.١٠٣ - اَللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَامًا وَّنُوُرًا وَهُدًى وَّرَحْمَةً - اللَّهُمَّ ذَكَرُنِى مِنْهُ مَا نَسِيتُ وَعَلَّمْنِي مِنْهُ مَا جَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ انَاءَ اللَّيْلِ وَانَاءَ النَّهَارِوَا جُعَلْهُ لِى حُجَّةً يَارَبَّ الْعَلَمِينَ (اتحاف جلد ۴ صفحه ۴۹۲ بحواله موسوعه اطراف الحدیث جلدا صفحه ۱۶۸) الہی! رحم کر مجھ پر قرآن عظیم کے طفیل اور بنا اس کو میرے لئے پیشوا اور روشنی اور ہدایت اور رحمت الہی ! یاد دلا مجھ کو اس میں سے جو میں بھول گیا ہوں اور سکھلا مجھے اس میں سے جو میں نہیں جانتا اور نصیب کر مجھ کو اس کا پڑھنا رات کی گھڑیوں میں اور دن کی گھڑیوں میں اور بنا اس کو میرے لئے حجت اے پروردگار جہانوں کے! ۱۰۴ - اَللّهُمَّ اجْعَلُ لِى فِي قَلْبِى نُورًا وَّفِي لِسَانِى نُورًا وَّاجْعَلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ نُورًا وَّمِنْ خَلْفِى نُورًا وَّعَنْ يَمِينِى نُورًا وَّ عَن شِمَالِي نُورًا وَّمِنْ فَوْقِى نُورًا وَّ مِنْ تَحْتِى نُورًا وَّ فِي سَمْعِي نُورًا وَفِي بَصَرِي نُورًا وَّاعْطِنِي نُورًا - ( مسند احمد بن حنبل جلدا صفحه ۲۸۳) الہی! تو کر میرے لئے میرے دل میں روشنی اور میری زبان میں روشنی اور کر میرے آگے روشنی اور میرے پیچھے روشنی اور میرے داہنی طرف روشنی اور میرے بائیں طرف روشنی اور میرے اوپر روشنی اور میرے نیچے روشنی میری شنوائی میں روشنی اور میری بینائی میں روشنی اور مجھے عطا کر روشنی.١ - اَللّهُمَّ الْهِمُنِى رُشْدِى وَاعِدُنِي مِنْ شَرِّنَفْسِي - - ۱۰۵ ابونعیم بحوالہ کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۵۰۸۴) الہی ! تو ڈال دے میرے دل میں میری بھلائی اور پناہ دے مجھ کو میرے نفس کی بُرائی سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 187 مناجات ولی اللہ (اخلاق حسنه ) ١٠٢ - اَللّهُمَّ اِنّى اَسْتَلْكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَتَرَكَ الْمُنْكَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاكِينَ وَأَنْ تَغْفِرَلِى وَتَرْحَمَنِى وَإِذَا أَرَدْتَ بِقَوْمٍ فِتْنَةٌ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مفتون - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۴۴۲۳) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں نیکیاں کرنا اور بُرائیاں چھوڑنا اور محبت مسکینوں کی اور یہ کہ تو مجھ کو بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور جب تو ارادہ کرے کسی قوم کی آزمائش کا تو وفات دے مجھ کو بغیر آزمائش میں ڈالنے کے.۱۰۷ - اَللَّهُمَّ اهْدِنِي لِاَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّى سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّى سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ (طبرانی جلد ۸ صفحه ۳۰۰ بحواله موسوعه اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه ۲۲۳) الہی ! مجھ کو راہ دکھلا نیک اخلاق کی طرف نہیں راہ دکھلاتا نیک اخلاق کی طرف مگر تو اور دُور کر مجھ سے بُری خصلتوں کو کوئی دور نہیں کرتا مجھ سے بُری خصلتوں کو مگر تو.۱۰۸ - اَللَّهُمَّ اجْعَلْنَا هَادِينَ مُهْتَدِينَ - غَيْرَ ضَالِيْنَ وَلَا مُضِلَّيْنَ سِلْمًا لِاَوْلِيَاءَكَ وَحَرُبًا لَّا عُدَائِكَ نُحِبُّ بِحُبِّكَ مَنْ أَحَبَّكَ وَنُعَادِى بِعَدَاوَتِكَ مَنْ خَالَفَكَ مِنْ خَلْقِكَ (البیهقی کتاب الدعوات بحوالہ کنز العمال جلد۲) الہی! کر ہم کو راستی کی راہنمائی کرنے والے راست رو نہ بھٹکنے والے اور نہ بھٹکانے والے.صلح کرنے والے تیرے دوستوں سے اور لڑنے والے تیرے دشمنوں سے.ہم محبت رکھتے ہیں تیری محبت کے سبب سے اس شخص کو جو تجھ سے محبت رکھے اور ہم دشمنی رکھتے ہیں تیری دشمنی کے
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 188 سبب سے اس شخص سے جو تیری مخالفت کرے تیری خلقت میں سے.(والدین کی مغفرت کے لئے) ۱۰۹ - رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ هِ مناجات ولی اللہ ( سورة التحريم:9) اے ہمارے رب ! پوری کر دے ہمارے لئے ہماری روشنی اور بخش ہم کو یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے.طلب نعمت ١١٠ - اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ أَوْ بِأَحَدٍ مِّنْ خَلْقِكَ فَمِنْكَ وَحْدَكَ لَا شَرِيكَ لَكَ فَلَكَ الْحَمْدُ وَلَكَ الشُّكُرُ - (در منثور جلد ۱ صفحه ۱۵۴) الہی ! جو نعمت کہ مجھ کو ملی یا کسی کوملی تیری خلقت میں تو وہ تیری ہی طرف سے ہے تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں.سو تیرے ہی لئے تعریف ہے اور تیرے ہی لئے شکر ہے.١١ - اللَّهُمَّ اهْدِنِي مِنْ عِنْدِكَ وَافِضْ عَلَيَّ مِنْ فَضْلِكَ وَ أَسْبِغْ عَلَيَّ مِنْ رَّحْمَتِكَ وَاَنْزِلُ عَلَيَّ مِنْ بَرَكَاتِكَ ( کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۵۲۱) الہی! ہدایت کر مجھ کو اپنے پاس سے اور وسعت سے دے مجھے اپنا فضل اور پورے طور پر دے مجھے اپنی رحمت اور اُتار مجھ پر اپنی برکتیں.١١٢ - اللَّهُمَّ اتِنِي اَفْضَلَ مَاتُوتِى عِبَادَكَ الصَّالِحِيْنَ - وَلَا تَجْعَلُ لِفَاجِرٍ عِنْدِي نِعْمَةً لَا أُكَافِيهِ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تمہید جلد ا صفحه ۲۳۷ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۱۵۸) الہی! دے مجھے بہتر سے بہتر جو تو دیتا ہے اپنے نیک بندوں کو.اور نہ بنائیو کسی فاجر کا مجھ پر
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 189 مناجات ولی اللہ احسان کہ جس کا میں بدلہ نہ دے سکوں دنیا اور آخرت میں.۱۱۳ - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَسْتَلْكَ تَمَامَ النِّعْمَةِ فِي الْأَشْيَاءِ كُلِّهَا وَالشُّكْرَلَكَ عَلَيْهَا حَتَّى تَرْضَى وَبَعْدَ الرِّضَى الْخِيَرَةَ فِي جَمِيعِ مَا يَكُونُ فِيهِ الْخِيَرَةُ وَبِجَمِيعِ مَيْسُورِ الْأُمُورِ كُلِّهَا لَا بِمَعْسُورِهَا يَا كَرِيمُ الہی ! میں مانگتا ہوں تجھ سے کامل نعمت سب چیزوں میں اور تیری شکر گزاری اُن پر یہاں تک که تو راضی ہو جائے اور رضا کے بعد پسندیدگی (چاہتا ہوں ) ان تمام چیزوں میں کہ جن میں پسندیدگی ہو سکتی ہے اور تمام آسان کاموں میں.نہ مشکل کاموں میں اے خوبیوں والے! ۱۱۴ (الف) - اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ بِنِعْمَتِكَ السَّابِقَةِ عَلَيَّ وَبَلَائِكَ الْحَسَنِ الَّذِي ابْتَلَيْتَنِي بِهِ وَ فَضْلِكَ الَّذِى فَضَّلْتَ عَلَيَّ أَنْ تُدْخِلَنِيَ الْجَنَّةَ بمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرَحْمَتِكَ فردوس الاخبار دیلمی بحوالہ کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۸۴) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں بطفیل تیری پہلی نعمتوں کے جو مجھ پر ہیں اور بذریعہ تیری اس نیک آزمائش کے جس سے تو نے مجھے آزمایا ہے اور بوسیلہ تیرے اس فضل کے جو تو نے مجھ پر کیا ہے کہ تو مجھ کو داخل کرے بہشت میں اپنے احسان اور فضل اور رحمت سے.( آئینہ دیکھنے کی دعا ) ۱۱۴ (ب) - اَللّهُمَّ اَحْسَنُتَ خَلْقِي فَأَحْسِنُ خُلُقِى - - ( مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحه ۴۰۳ ) الہی ! تو نے میری اچھی صورت بنائی ہے سو میرے اخلاق بھی اچھے بنا.۱۱۵ - اَللّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلْكَ ثَوَابَ الشَّاكِرِينَ وَنُزُولَ الْمُقَرَّبِينَ وَمُرَافَقَةَ النَّبِيِّنَ وَيَقِينَ الصَّدِيقِينَ وَذِلَّةَ الْمُتَّقِينَ وَإِخْبَاتَ الْمُوْقِنِينَ حَتَّى تَوَفَّانِي
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 190 مناجات ولی اللہ عَلَى ذَالِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّحِمِينَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث ۴۹۴۵) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں شکر کرنے والوں کا ثواب اور مقربین کی مہمانی اور نبیوں کی رفاقت اور صدیقوں کا یقین اور پرہیز گاروں کی سی انکساری اور یقین والوں کی فروتنی یہاں تک کہ تو مجھے وفات دے اسی حالت میں.اے سب سے بڑھ کر رحم کرنے والے! ١١ - اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ الْفَوْزَ فِي الْقَضَاءِ وَ نُزُلَ الشُّهَدَاءِ وَعَيْشَ السُّعَدَاءِ وَمُرَافَقَةَ الْأَنْبِيَاءِ وَالنَّصْرَ عَلَى الْأَعْدَاءِ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۰۸) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں کامیابی کا فیصلہ اور شہیدوں کی سی مہمانی اور نیک بختوں کی سی زندگی.اور نبیوں کی رفاقت اور دشمنوں پر فتحیابی یقینا تو دعا کوسنتا ہے.( نیک تمنائیں) ١١٧ - رَبِّ هَبْ لِى حُكْمًا وَّالْحِقْنِي بِالصَّلِحِيْنَ وَ اجْعَلُ لِي لِسَانَ صدقٍ فِى الْآخَرِيْنَ وَاجْعَلَنِى مِنْ وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ o وَلَا تُخْزِنِى يَوْمَ يُبْعَثُونَه يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُونَ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ( سورة الشعراء ۸۴-۹۰) اے رب ! دے مجھ کو حکم اور شامل کر مجھ کو نیکوں میں اور بنائیو میرے لئے زبان راستی کی پچھلوں میں اور کر مجھ کو وارث نعمتوں والی جنت اور نہ رسوا کر مجھ کو جس دن اُٹھائے جائیں گے لوگ.جس دن کہ مال اور بیٹے کچھ فائدہ نہ دیں گےمگر جو شخص کہ آیا اللہ کے پاس صاف دل کے ساتھ.۱۱۸ - رَبِّ نَجِّنِي وَأَهْلِي مِمَّا يَعْمَلُونَ - ( سورة الشعراء:۱۷۰) اے میرے رب نجات دے مجھ کو اور میرے خاندان کو ان باتوں سے جو وہ لوگ کر رہے ہیں.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 191 مناجات ولی اللہ ١٩ ١ - رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَاَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (سورة النمل:۲۰) اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں شکر بجالاؤں تیری اس نعمت کا جو تو نے کی ہے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر (اور توفیق دے مجھ کو ) کہ میں ایسا نیک عمل کروں جس کو تو پسند کرے.اور داخل کر تو مجھے اپنی مہربانی سے اپنے نیک بندوں میں.(سفر اور ہجرت ) ۱۲۰ - رَبِّ اَنْزِلْنِي مُنْزَلًا مُّبَارَكًا وَّاَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِينَ (سورة المؤمنون:۳۰) اے میرے رب! اُتار مجھ کو اُتارنا مبارک اور تو بہتر اتارنے والا ہے.حق و باطل کے درمیان فیصلہ ) ( سورة الشعراء: ۱۱۸-۱۱۹) ۱۲۱ (الف) - رَبِّ إِنَّ قَوْمِي كَذَّبُونِ ، فَافْتَحُ بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ فَتْحًا وَّنَجِّنِي وَمَنْ مَّعِيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اے اللہ اتحقیق میری قوم نے مجھے جھٹلایا ہے.سو تو فیصلہ کر میرے درمیان اور ان کے درمیان پورا فیصلہ اور نجات دے مجھ کو اور ان لوگوں کو بھی جو میرے ساتھ ایمان لائے.۱۲۱ (ب) - رَبِّ احْكُمُ بِالْحَقِّ ، وَ رَبُّنَا الرَّحْمَنُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا ( سورۃ الانبیاء : ۱۱۳) تَصِفُونَ اے رب! فیصلہ فرما حق کا اور ہمارا رب رحمان ہے جس سے مدد طلب کی جاسکتی ہے ان باتوں کے خلاف جو تم بیان کرتے ہو.۱۲۱ (ج) - رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَاَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِيْنَ (سورۃ الاعراف:۹۰)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 192 مناجات ولی اللہ اے ہمارے رب ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کی فتح کر اور تو بہتر فتح کرنے والا ہے.۱۲۲ (الف) - رَبَّنَا إِنَّنَا مَغْلُوبُونَ فَانْتَصِرُ - اے ہمارے رب! ہم مغلوب ہیں ہماری مددفرما.۱۲۲ (ب) - رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمُ وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ (سورة المؤمنون: ١١٩) اے رب ! بخش اور رحم کر اور تو تمام مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے.۲۳ ۱ (الف) - رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّحِمِينَ ( سورة المؤمنون:۱۱۰) اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے سو تو ہم کو بخش اور رحم کر ہم پر اور تو سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے.رشد و ہدایت ) ۱۲۳ (ب) - رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاه ( سورۃ الکھف :۱۱) اے ہمارے رب ! دے ہم کو اپنے حضور سے رحمت اور تیار کر ہمارے لئے ہمارے کام سے بھلائی.( نعماء الہیہ کے حصول کے لئے ) ۱۲۴ - اَللَّهُمَّ افْتَحْ أَقْفَالَ قُلُوبِنَا بِذِكْرِكَ وَ أَتْمِمْ عَلَيْنَا بِنِعْمَتِكَ وَأَسْبِعُ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلِكَ وَاجْعَلْنَا مِنْ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (کنز العمال جلدے حدیث نمبر ۲۰۹۹۰) الہی ! کھول دے قفل ہمارے دلوں کے اپنے ذکر سے اور پوری کر ہم پر اپنی نعمت اور پورا کر ہم پر اپنا فضل اور بنا ہم کو اپنے نیک بندوں میں سے.۱۲۵ - اَللَّهُمَّ افْتَحْ لَنَا اَبْوَابَ نِعْمَتِكَ وَسَهِّلْ لَّنَا أَبْوَابَ رِزْقِكَ (کنز العمال جلد ۷ حدیث ۲۰۷۸۹)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 193 مناجات ولی اللہ الہی! کھول دے ہمارے لئے دروازے اپنی نعمت کے اور آسان کر دے ہمارے لئے دروازے اپنے رزق کے.( تالیف قلب کے لئے ) ۱۲۶ - اَللَّهُمَّ أَلِفْ بَيْنَ قُلُوبِنَا وَاَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وَاهْدِنَا سُبُلَ السَّلَامِ وَ نَجِّنَا مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ، وَجَنِّبْنَا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَبَارِك لَنَا فِي أَسْمَا عِنَا وَابْصَارِنَا وَقُلُوبَنَا وَاَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - وَاجْعَلْنَا شَاكِرِينَ لِنِعْمَتِكَ مُثْنِينَ بِهَا قَابِلِيهَا وَاتِمَّهَا عَلَيْنَا (اتحاف جلد ۳ حدیث نمبر ۸ بحوالہ موسوعه جلد ۲ صفحه ۱۹۰) البى ! الفت ڈال ہمارے دلوں میں اور بنا دے ہماری بگڑی ہوئی بات اور دکھلا ہم کو راستے سلامتی کے اور نجات دے ہمیں اندھیروں سے روشنی کی طرف اور بچا ہم کو بے حیائی کے کاموں سے وہ جو ظاہر ہیں ان میں سے اور وہ جو پوشیدہ ہیں اور برکت دے ہمارے لئے ہماری شنوائی میں اور ہماری بینائی میں اور ہمارے دلوں میں اور ہماری بیویوں میں اور ہمارے بچوں میں اور ہماری طرف متوجہ ہو اور رحم کر تو بہت متوجہ ہونے والا مہربان ہے اور بنا ہم کوشکر کرنے والا اپنی نعمتوں کا ان کی تعریف کرنے والا ان کو قبول کرنے والا اور پوری کر ان نعمتوں کو ہم پر.(اولاد کے لئے ) ۱۲۷ - رَبَّنَا هَبْ لَنَامِنُ اَزْوَاجِنَا وَذُرِيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( سورة الفرقان: ۷۵) اے ہمارے رب ! دے ہم کو ہماری بیبیوں سے اور ہمارے بچوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک اور
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب بنا ہم کو پر ہیز گاروں کا پیشوا.194 ( آسمانی مائدہ کی دعا ) مناجات ولی اللہ ۱۲۸ - اَللَّهُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لَّا وَّلِنَا وَاخِرِنَا وَايَةً مِنْكَ ، وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ (سورة المائدة : ۱۱۵) اے اللہ ہمارے رب! اتار ہم پر ایسا خوان کرم آسمان سے کہ جو ہو عید ہمارے پہلوں کیلئے اور پچھلوں کے لئے اور ایک نشان ہو تیری طرف سے اور ہم کو رزق دے اور تو ہی بہتر رزق دینے والا ہے.(خاتمہ بالخیر کی دعا ) ١٢٩ - رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَه وَمَالَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا جَاءَ نَا مِنَ الْحَقِّ وَ نَطْمَعُ أَنْ يُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّلِحِينَ (سورۃ المائدة:۸۵،۸۴) اے ہمارے رب! ہم نے مان لیا ہے.سو تو لکھ ہم کو گواہوں کے ساتھ اور کیا ہے ہم کو کہ نہ مانیں ہم اللہ کو اور اس کو جو آیا ہمارے پاس حق اور ہم امید رکھتے ہیں کہ داخل کرے ہم کو ہمارا رب نیکوں کی صحبت میں.استقامت ١٣٠ - اَللّهُمَّ ثَبِّتْ قَدَمَيَّ يَوْمَ تَزِلُّ فِيْهِ الْأَقْدَامُ موسوعه اطراف الحدیث جلد ۲ صفحه (۲۳۱) الہی ! تو ثابت رکھ میرے قدموں کو جس دن پھسل جائیں گے سب قدم.(علم و ہدایت کے لئے ) ۱۳۱ - رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - الہی ! زیادہ کر میر اعلم ( سورة طه : ۱۱۵)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 195 مناجات ولی اللہ - اَللّهُمَّ اِنّى اَسْتَلْكَ إِيْمَانًا دَائِمًا وَهُدًى قَيْمًا وَّعِلْمًا نَّافِعًا - رَبِّ عَلِّمُنِي مَاهُوَ خَيْرٌ عِنْدَكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۷۸۹) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایمان ہمیشہ رہنے والا اور رہنمائی صحیح اور علم فائدہ دینے والا.اے میرے رب! مجھے سکھا جو بہتر ہو تیرے نزدیک.۱۳۳ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ وَ أَسْتَلْكَ عَزِيمَةَ الرُّشْدِ وَأَسْتَلْكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ وَحُسُنَ عِبَادَتِكَ وَأَسْتَلُكَ لِسَانًا صَادِقًا وَّ قَلْبًا سَلِيْمًا وَّ خُلُقًا مُّسْتَقِيمًا وَّاَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا تَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُكَ مِمَّا تَعْلَمُ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (جامع ترمذی، کتاب الدعوات حدیث نمبر ۳۴۰۸) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں پائیداری ہر کام میں اور تجھ سے مانگتا ہوں پختہ ارادہ نیکی کا اور مانگتا ہوں تجھ سے شکر گزاری تیری نعمت کی اور اچھی طرح تیری عبادت کرنا اور مانگتا ہوں تجھے سے زیادہ کچی زبان اور دل سلامتی والا اور خلق مستقیم اور میں پناہ لیتا ہوں اُس چیز کی برائی سے جس کو تو جانتا ہے اور میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اس گناہ سے جس کو تو جانتا ہے یقینا تو تمام چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے.۱۳۴ - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنَكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ( سورة آل عمران: ۹) اے ہمارے رب ! نہ پھیر ہمارے دلوں کو جب کہ تو ہدایت دے چکا ہمیں اور عطا کر ہم کو اپنی جناب سے رحمت تو ہی تو سب کچھ عطا کرنے والا ہے.۱۳۵ - اَللّهُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 196 مناجات ولی اللہ وَاَصْلِحْهُمْ وَاَصْلِحُ ذَاتَ بَيْنِهِمْ وَالِفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَاجْعَلُ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَالْحِكْمَةَ وَثَبِّتْهُمْ عَلى مِلَّةِ رَسُولِكَ وَ اَوْزِعْهُمْ أَنْ يَشْكُرُوا نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ وَأَنْ يُوفُوا بِعَهْدِكَ الَّذِي عَاهَدْتَهُمْ عَلَيْهِ وَانُصُرْهُمْ عَلى عَدُوّكَ وَعَدَدُ وَهِمُ الهُ الْحَقِّ سُبْحَنَكَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ اغْفِرْ لِي ذَنْبِى وَأَصْلِحْ لِي عَمَلِيُّ إِنَّكَ تَغْفِرُ الذُّنُوبَ لِمَنْ تَشَاءُ وَأَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - الہی ! ہمارے گناہ ڈھانپ اور ایمان والوں کے اور ایمان والیوں کے اور مسلمان مردوں کے اور مسلمان عورتوں کے اور ان کی اصلاح فرما اور بنا ان کی آپس کی بگڑی ہوئی بات اور الفت ڈال دے اُن کے دلوں میں اور داخل کر دے اُن کے دلوں میں ایمان اور حکمت اور قائم رکھے ان کو مذہب پر اپنے رسول کے اور توفیق دے ان کو کہ وہ شکر کریں تیری اس نعمت کا جو تو نے ان پر کی اور یہ کہ وہ پورا کریں تیرے اُس عہد کو جو تو نے اُن سے لیا اور مددکر ان کی اپنے دشمن پر اور اُن کے دشمن پر اے بچے خدا پاک ذات ہے تو کوئی قابل عبادت نہیں مگر تو ہی.میرے گناہ ڈھانپ اور سنوار میرے لئے میرے کام تو ہی گناہ ڈھانپتا ہے جس کیلئے چاہتا ہے اور تو غفور ہم ہے.دوام نعمت ١٣٦ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ رَبِّ اجْعَلْنِي مُبَارَكًا حَيْثُمَا كُنْتُ - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۴) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں نعمت ہمیشہ رہنے والی جو نہ بدلے اور نہ الگ ہو.اے میرے رب ! بنا مجھے مبارک جہاں کہیں بھی میں ہوں.۱۳۷ - اللَّهُمَّ اَعْطِنِي إِيْمَانًا لَّا يَرْتَدُّ وَيَقِينًا لَيْسَ بَعْدَهُ كُفْرٌ وَّ رَحْمَةً اَنَالُ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 197 مناجات ولی اللہ بهَا شَرَفَ كَرَامَتِكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ - (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۰۸) الہی! تو مجھے وہ ایمان دے جو نہ پھرے اور ایسا یقین دے کہ جس کے بعد کفر نہ ہو اور ایسی رحمت عطا کر کہ جس کے ذریعہ میں تیری عزت سے شرف پاؤں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.۱۳۸ ١١ - اللَّهُمَّ لَا تَكِلْنِي إِلى نَفْسِي طُرْفَةَ عَيْنٍ وَّلَا تَنْزِعُ مِنِّى صَالِحَ مَا أَعْطَيْتَنِي فَإِنَّهُ لَا نَازِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ وَلَا يَعْصِمُ ذَا الْجَدِّمِنكَ الْجَدُّ - ( کنز العمال جلد۲ حدیث نمبر ۵۰۷۵) الہی ! نہ سپر د کر مجھے میرے نفس کے آنکھ کی جھپک بھر اور نہ چھین مجھ سے اچھی چیزیں جو تو نے مجھے عنایت کی ہیں کیونکہ کوئی نہیں چھین سکتا اس چیز کو جو تو نے دی اور نہیں بچاسکتی کوشش والے کی کوشش تجھ سے.۱۳۹ - اللَّهُمَّ اِنّى أَسْتَلْكَ إِيمَانًا لَّا يَرْتَدُّ وَ نَعِيْمًا لَّا يَنْفَدُ وَمُرَافَقَةً نَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَعْلَى دَرَجَةِ الْجَنَّةِ الْخُلْدِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۵۰۸۸) الہی ! میں تجھ سے مانگتا ہوں ایسا ایمان جو پھر نہ بدلے اور ایسی نعمت جو فنا نہ ہو اور رفاقت اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جنت خلد کے اعلیٰ درجوں میں.۱۴۰ - اَللّهُمَّ وَمَا ابْتَلَيْتَنِى بِهِ مِنْ رَّحَاءٍ وَّ شِدَّةٍ فَمَسِكْنِي بِسُنَّةِ الحَقِّ وَشَرِيعَةِ الْإِسْلَامِ الہی ! اور جس بات سے تو میری آزمائش کرے خواہ نرمی سے خواہ بختی سے تو مجھ کو مضبوطی سے قائم رکھ حق کے راستہ پر اور اسلام کے طریقہ پر.۱۴۱ - اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِكَ وَ تَحَوُّلِ عَافِيَتِكَ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 198 مناجات ولی اللہ وَفَجَاءَةِ نِقْمَتِكَ وَجَمِيعِ سَخَطِكَ (مسلم کتاب الرقاق حدیث نمبر ۶۹۴۳) الہی ! میں تجھ سے پناہ چاہتا ہوں تیری نعمت کے دور ہو جانے سے اور تیری دی ہوئی تندرستی کے بدل جانے سے اور تیرے نا گہانی عتاب سے اور تیری تمام ناراضگی سے.- اَللّهُمَّ احْرِسُنِي بَعَيْنِكَ الَّتِى لَا تَنَامُ وَ اكْتُفْنِي بِرُكْنِكَ الَّذِي لَا يُرَامُ وَارْحَمْنِي بِقُدْرَتِكَ عَلَيَّ فَلَا اَهْلِكُ وَأَنْتَ رَجَائِي - فَكَمْ مِنْ نِعْمَةٍ اَنْعَمْتَ بِهَا عَلَيَّ قَلَّ بِهَا شُكْرِى وَكَمْ مِنْ بَلِيَّةِ ابْتَلَيْتَنِي بِهَا ۖ قَلَّ لَكَ بِهَا صَبْرِى - فَيَامَنْ قَلَّ عِنْدَ نِعْمَتِهِ شُكْرِى فَلَمْ يَحْرِمُنِي وَيَامَنْ قَلَّ عِنْدَ بَلِيَّتِهِ صَبْرِى فَلَمْ يَخْذُ لُنِي وَيَا مَنْ رَّانِى عَلَى الْخَطَا يَا فَلَمْ يَفْضَحْنِى - يَاذَا الْمَعْرُوفِ الَّذِي لَا يَنْقَضِي اَبَدًا وَّ يَاذَا النُّعْمَاءِ الَّتِي لَا تُحْصَى اَبَدًا - أَسْتَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ َو عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَّ بِكَ أَدْرَهُ فِي نُحُوْرِ الا عُدَاءِ وَالْجَبَابِرَةِ - ( کنز العمال جلد۲ حدیث نمبر ۳۴۴۱) الہی نگہبانی کر میری اپنی اس آنکھ سے جو نہیں ہوتی اور پناہ میں لے مجھے اس اپنے ستون کی کہ جس کا قصد نہیں کیا جا سکتا اور رحم کر مجھ پر اپنی اس قدرت سے جو مجھ پر ہے تو میں ہلاک نہیں ہونگا اور تو میری امید ہے.بہت سی نعمتیں ہیں جو تو نے بطور احسان مجھ پر کی ہیں کہ نہ ہوا مجھے سے شکران کا اور بہت سی آزمائشوں میں تو نے مجھے مبتلا کیا.نہ ہوا مجھ سے صبر ان پر تیرے لئے.پس اے وہ ذات کہ جس کی نعمت میں مجھ سے شکر نہ ہوا اور اس نے مجھے محروم نہ کیا.اور اے وہ ذات کہ جس کی آزمائش کے وقت مجھ سے صبر نہ ہوا تو اس نے مجھے رسوا نہ کیا اور اے وہ ذات کہ جس نے مجھے خطاؤں پر دیکھا مگر مجھے خوار نہ کیا.اے ایسے احسان والے کہ جس کا احسان کبھی بند نہیں ہوتا اور اسے ایسی نعمتوں والے کہ جو کبھی شمار نہیں کی جاتیں.میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ تو محمد (صلعم) پر اور محمد (صلعم) کی آل کو خاص الخاص رحمتوں سے نواز
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 199 مناجات ولی اللہ اور تیرے ہی وسیلہ سے میں سینہ سپر ہوتا ہوں دشمنوں اور ظالموں سے.( ہدایت و نصرت الہی کے لئے ) ١٤٣ - رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً انَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ ( سورة آل عمران: ۹) اے رب ہمارے! نہ پھیر ہمارے دل جب ہم کو تو ہدایت دے چکا اور دے ہم کو اپنی جناب سے رحمت.تو ہی ہے تو سب کچھ عطا کرنے والا ہے.۱۴۴ - رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي اَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (سورۃ آل عمران: ۱۴۸) اے رب ہمارے! بخش ہم کو ہمارے گناہ اور جو ہم سے زیادتی ہوئی اپنے کام میں اور ثابت رکھ ہمارے قدم اور مدددے ہمیں قوم منکرین کے مقابلہ میں.۱۴۵ - اَللَّهُمَّ زِدْنَا وَلَا تَنْقُصْنَا وَاكْرِمُنَا وَلَا تُهِنَّا وَاعْطِنَا وَلَا تَحْرِمْنَا وَاثِرُنَا وَلَا تُؤْثِرُ عَلَيْنَا وَاَرْضِنَا عَنْكَ وَارْضَ عَنَّا - ( مسند احمد بن حنبل جلد ا صفحه ۳۴) الہی ! بڑھا ہمیں اور گھٹا نہیں اور عزت دے ہمیں اور ذلیل نہ کیجیئو - اور عطا کر ہمیں اور محروم نہ کیجیئو - اور مقدم کر ہمیں اور مقدم نہ کیجیئو ہم پر دوسروں کو اور ہم کو راضی کر اپنے پاس سے اور تو ہم سے راضی ہو.( حصول ایمان کے لئے ) ١٤ - اَللَّهُمَّ حَيِّبُ إِلَيْنَا الْإِيْمَانَ وَزَيِّنُهُ فِي قُلُوبِنَا وَكَرِهُ إِلَيْنَا الْكُفْرَ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 200 مناجات ولی اللہ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ وَ اجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ - اَللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ وَالْحِقْنَا بالصَّالِحِيْنَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَفْتُونِينَ - (مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۴) الہی! پیارا کر ہمارے لئے ایمان اور زینت بنا اسے ہمارے دلوں کی اور نفرت دے ہمیں کفر سے اور بدکاری سے اور نافرمانی سے اور بنا ہمیں راہ راست والوں سے.الہی! ہم کو فرمانبردار بنا کر وفات دے اور ملا ہمیں نیکوں سے جو نہ رسوا ہوں اور نہ فتنہ میں ڈالے جائیں.۱۴۷ - اَللَّهُمَّ لَا تُؤْمِنَّا مَكْرَكَ وَلَا تُنْسِنَا ذِكُرَكَ وَلَا تَهْتِكُ عَنَّا سِتْرَكَ وَلَا تَجْعَلْنَا مِنَ الْغَافِلِينَ (اتحاف جلد ۵: صفحه ۸۶ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۲۵۶) الہی ! نڈر نہ کیجیئو ہمیں اپنی تدبیر سے اور نہ بھلا ہمیں اپنی یاد اور نہ پھاڑ ہمارا پر دہ اور نہ بنا ہم کو غافلوں سے..استعاده ۱۳۸ - اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَا فَاتِكَ مِنْ عَقُوبَتِكَ وَاَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ اَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ- (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۶۶) الہی ! میں پناہ لیتا ہوں تیری رضا کی تیرے غصہ سیاور تیری معافی کی تیرے عذاب سے اور تیری پناہ لیتا ہوں تجھ سے.میں تیری تعریف نہیں کر سکتا.تو ویسا ہی ہے جیسے کہ تو نے اپنی تعریف کی ہے.۱۳۹ - اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنْ جَهُدِ الْبَلَاءِ وَ دَرُكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ (اتحاف جلد ۵ حدیث نمبر ۸۴ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۲۱۶)
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 201 مناجات ولی اللہ الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں کڑی آزمائش سے اور بدبختی کی پکڑ سے اور بُرے فیصلہ سے اور دشمنوں کے بغلیں بجانے سے.( بجز وانکسار کے لئے ) ۱۵۰ - اَللَّهُمَّ اِلَيْكَ اَشْكُرُ ضَعْفَ قُوَّتِي وَ قِلَّةَ حِيْلَتِي وَهَوَانِي عَلَى النَّاسِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ إِلَى مَنْ تَكِلُنِى إِلَى عَدُةٍ يَّتَجَهَّمُنِي أَمْ إِلَى قَرِيبٍ مَّلَّكْتَهُ أَمْرِى اِنْ لَّمْ تَكُنْ سَاخِطًا عَلَى فَلَا أُبَالِى غَيْرَ أَنَّ عَافِيَتَكَ أَوْسَعُ لِيْ - اَعُوْذُ رِ وَجُهِكَ الْكَرِيمِ الَّذِى أَضَاءَتْ لَهُ السَّمَوَاتُ وَأَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلُمَاتُ وَصَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ أَنْ تُحِلَّ عَلَيَّ غَضَبَكَ وَتُنْزِلَ عَلَيَّ سَخَطَكَ وَلَكَ الْعُتُبِى حَتَّى تَرْضَى وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۱۳) الہی ! میں تیرے حضور شکایت کرتا ہوں اپنی ناتوانی کی اور اپنی تدبیر کی کمی کی اور لوگوں کے سامنے اپنی خواری کی اے سب سے زیادہ مہربانی کرنے والے تو مجھ کو کس کے حوالے کرے گا.دشمن کے جو مجھ سے ترش روئی سے پیش آتا ہے یا کسی قریبی کے جس کو تو میرے کام کا مالک بنا دے اگر تو نہ ہو مجھ سے ناراض تو میں کسی کی پرواہ نہیں کرتا سوائے اس کے کہ تیری عافیت میرے لئے بہت کشادہ ہے.میں پناہ لیتا ہوں تیری کریمانہ ذات کے نور کی جس کے لئے روشن ہیں سب آسمان اور روشن ہیں سب اندھیرے اور سنورتے ہیں اس سے کام دنیا کے اور آخرت کے.اس بات سے کہ تو نازل کرے مجھے پر اپنا غضب اور نازل کرے تو مجھ پر اپنی ناراضگی اور تیرے لئے خوشنودی ہے یہاں تک کہ تو راضی ہو اور نہیں ہے گناہ سے بچنے کی سکت اور نہ توفیق نیکی کرنے کی مگر تیرے وسیلہ سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 202 مناجات ولی اللہ ( پناہ الہی ) ۱۵۱ - اَللَّهُمَّ وَاقِيَةً كَوَاقِيَةِ الْوَلِيدِ - (کنز العمال جلد۲ حدیث نمبر ۳۶۷۸) الہی ! محفوظ رکھنا جیسے محفوظ رکھا جاتا ہے بچے کو.۱۵۲ - اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنْ اَنْ اَضِلَّ أَوْ أَضَلَّ أَوْ أَزِلَّ اَوْ أُزَلَّ أَوْ أَظْلِمَ أوْ أَظْلَمَ اَوْ اَجْهَلَ اَوْ يُجْهَلَ عَلَى - ( کنز العمال جلد ۶ صفحه ۳۰۶) الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ خود گمراہ ہوں یا گمراہ کیا جاؤں، یا پھسلوں یا پھسلایا جاؤں، یاظلم کروں یا ظلم کیا جاؤں یا نادانی کروں یا مجھ پر نادانی کی جائے.۱۵۳ - اَللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُ بِوَجْهِكَ الْكَرِيمِ وَ بِاسْمِكَ الْعَظِيمِ مِنَ الْكُفْرِ (کنز العمال جلد ۲۰ حدیث نمبر ۳۶۸۵) والْفَقْرِ الہی! میں پناہ لیتا ہوں تیری ذات کریمانہ کی اور تیرے نام بزرگ کی کفر اور محتاجی سے.- ۱۵۴ ( عذاب سے بچنے کے لئے ) ١٥ - اَللّهُمَّ غَشِنِي بِرَحْمَتِكَ وَجَنِّبْنِي عَذَابَكَ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۴۰۳) الہی ! مجھ کو ڈھانپ لے اپنی رحمت سے اور بچالے مجھ کو اپنے عذاب سے.۱۵۵ - اَللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُبِكَ اَنْ نَّرْجِعَ عَلَى أَعْقَابِنَا أَوْ نُفْتَنَ عَنْ دِينِنَا - ( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر ۱۶۰۴) الہی! ہم تیری پناہ لیتے ہیں اس بات سے کہ ہم ایڑیوں کے بل لوٹ جاویں یا ہم آزمائے جاویں اپنے دین سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 203 ( نا گہانی آفات سے بچنے کی دعا ) مناجات ولی اللہ ۱۵۶ - اَللَّهُمَّ لَا تُهْلِكُنَا فَجَاةً وَّلَا تَأْخُذْنَا بَغْتَةً وَّ لَا تَغْفُلْنَا عَنْ حَقٍ وَّلَا وَصِيَّة الہی! نہ ہلاک کر ہم کو نا گہاں اور نہ پکڑ ہم کو یکا یک اور نہ غافل کر ہم کو کسی حق سے اور نہ کسی بد خلقی اور نفاق سے بیچنے کے لئے ) ۱۵۷ (الف) - اَللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الشَّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوءِ الاخلاق (سنن نسائی کتاب الاستعاذہ حدیث نمبر ۵۴۷۳) الہی میں تیری پناہ لیتا ہوں آپس کی پھوٹ سے اور نفاق سے اور بُری عادتوں سے.(پیغام صلح ) ۱۵۷ (ب) - أَصْلِحُ بَيْنِي وَبَيْنَ اِخْوَتِي - الہامی دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام از تذکره صفحه ۷۱۶) میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان صلح فرما.( اخلاق سیئہ اور لغزشوں سے بچنے کے لئے ) ۱۵۸ - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُبِكَ مِنْ مُنْكَرَاتِ الْأَخْلَاقِ وَالْأَعْمَالِ وَالْاهْوَاءِ وَالْادْوَاءِ (جامع الترمذی، ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۹) الہی! بیشک میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں ناپسندیدہ اخلاق سے اور بُرے عملوں سے اور
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 204 مناجات ولی اللہ بد خواہشوں اور بُری بیماریوں سے.۱۵۹ - اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ العَجْزِ وَالْكَسَلِ وَالْجُبْنِ وَالْهَرَمِ (بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر ۶۳۶۷) وَالْمَغْرَمِ وَالْمَاثَم - الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں عاجزی سے اور کاہلی سے اور بُزدلی سے اور پیر فرتوت ہونے سے اور تاوان اور گناہ سے.١٠ - اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْقَسْوَةِ وَالْغَفْلَةِ وَالْعَيْلَةِ وَالذِلَّةِ وَالْمَسْكَنَةِ (اتحاف جلد ۵ حدیث نمبر ۶ ۸ بحواله موسوعه جلد ۲ صفحه ۲۱۵) الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں سنگدلی اور غفلت اور محتاجی اور خواری اور تنگدستی ہے.۱۱ (الف) - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُ بِكَ مِنْ ضِيْقِ الدُّنْيَا وَضِيقِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مجمع الزوائد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۳۵۴۴) الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں دنیا کی تنگی اور روز قیامت کی تنگی سے.( غم سے نجات کے لئے ) ۱ ۱ (ب)- رَبِّ نَجِّنِي مِنْ غَمِّي اے میرے رب ! نجات دے مجھے میرے غم سے.( شفایابی کے لئے ) (الهامی دعا از تذکره صفحه ۱۶۱) ۱۶۲ - اَللّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنَ الْفَقْرِ وَالْكُفْرِ وَالْفُسُوقِ وَالشَّقَاقِ وَالسُّمْعَةِ وَالرِّيَاءِ وَاَعُوذُبِكَ مِنَ الصَّمَمِ وَالْبَكَم وَالْبَرَصِ وَالْجُنُونِ وَالْجُذَامِ وَسَيِّءِ الْاَسْقَامِ إِشْفِنِي مِنْ لَّدُنكَ وَارُحَمُنِي - حصن حصین صفحه ۳۹ مطبوعه ۱۳۴۹ ھ مصر )
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 205 مناجات ولی اللہ الہی! میں تیری پناہ لیتا ہوں محتاجی اور کفر اور فسق و فجور سے اور آپس کی دشمنی اور شہرت پسندی اور ریا کاری سے اور میں پناہ لیتا ہوں بہرہ پن اور گونگا پن اور برص اور دیوانگی اور جذام اور تمام بُری بیماریوں سے.مجھے شفادے اپنے حضور سے اور رحم کر.( قرض اور دشمن کے غلبہ سے بچنے کے لئے ) ١ - اللَّهُمَّ اِنّى اَعُوذُبِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنَ وَ غَلَبَةِ الْعَدُوِّ وَمِنْ بَوَارِ الْآتِمِ - وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر۰ ۳۶۷) الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں قرض کے غلبہ سے اور دشمن کے غلبہ سے اور بیوہ عورت کی خستہ حالی سے اور مسیح دجال کے فتنہ سے.(عذاب قبر سے بچنے کے لئے ) ۱۶۴ - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النِّسَاءِ وَ اَعُوْذُبِكَ مِنْ عَذَابِ (کنز العمال جلد ۲ حدیث نمبر ۳۶۸۷) الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں عورتوں کے فتنہ سے اور میں تیری پناہ لیتا ہوں قبر کے عذاب سے.خاتمہ بالخیر کی دعا ۱۶۵ ( الف ) - رَبِّ قَدَاتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْكِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ اَنْتَ وَلِي فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَّ الْحِقْنِي بِالصَّلِحِينَ (سوره یوسف : ۱۰۲) اے میرے رب! تو نے دی مجھ کو کچھ حکومت اور سکھائی مجھ کو حقیقت باتوں کی.اے پیدا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 206 مناجات ولی اللہ کرنے والے آسمانوں اور زمین کے تو ہی ہے میرا کارساز دنیا میں اور آخرت میں.وفات دے مجھ کو اسلام پر اور شامل کر مجھ کو نیکوں میں.۱۶۵ (ب) - إِنَّ رَبِّي لَسَمِيعُ الدُّعَاءِ (سورۃ ابراہیم :۴۰) میرا رب سنتا ہے دعا کو.١٦٦ - رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلُ دُعَاءِ رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ( سورۃ ابراہیم: ۴۱ ۴۲) اے میرے رب! کر دے مجھ کو قائم کرنے والا نماز کا اور میری اولا دکو بھی.اے ہمارے رب! قبول فرما میری دعا.اے ہمارے رب! بخش مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مومنوں کو جس دن کہ قائم ہو حساب.۱ - اللَّهُمَّ اَنْتَ خَلَقْتَ نَفْسِى وَاَنْتَ تَوَفَّا هَالَكَ مَمَا تُهَا وَمَحْيَاهَا إِنْ أَحْيَيْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِيْنَ وَإِنْ اَمَتَّهَا فَاغْفِرْلَهَا وَارْحَمْهَا - ( مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۷۹) الہی ! تو نے میری جان کو پیدا کیا ہے اور تو ہی اس کو وفات دے گا.تیرے ہی لئے اس کا مرنا اور اس کا جینا ہے اگر تو اس کو زندہ رکھے تو اس کی حفاظت فرما جیسا کہ تو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اور اگر اس کو مارے تو اس کو بخش دے اور اس پر رحم فرما.١٨ - اَللّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبِ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْحَقِّ أَحْيِنِي مَا عَلِمْتَ الْحَيوةَ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاةَ خَيْرًا لِي وَأَسْتَلْكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ وَكَلِمَةَ الْإِخْلَاصِ فِي الرّضَا وَالْغَضَبِ وَأَسْتَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْفَقْرِ وَالْغِنى وَأَسْتَلْكَ نَعِيْمًا لَّا يَنْفَدُ وَقُرَّةً عَيْنٍ لَّا تَنْقَطِعُ وَأَسْئَلُكَ الرِّضَا بِالْقَضَاءِ وَبَرُدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَلَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 207 مناجات ولی اللہ وَجْهِكَ وَالشَّوْقَ إِلى لِقَائِكَ وَاَعُوْذُبِكَ مِنْ ضَرَّاءِ مُضِرَّةٍ وَّ فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ (مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۲۶۴) الہی ! بطفیل اپنے علم غیب اور اپنی قدرت کے جو تمام خلقت پر ہے مجھے زندہ رکھ جب تک تو زندگی کو میرے لئے بہتر جانے اور تو مجھے وفات دے جب تو میرے لئے وفات کو بہتر جانے اور میں مانگتا ہوں تجھ سے تیرا خوف پوشیدگی میں اور ظاہر میں اور کلمہ اخلاص رضا مندی میں اور ناراضگی میں اور میں مانگتا ہوں تجھ سے میانہ روی محتاجی اور دولتمندی میں اور تجھ سے وہ نعمت مانگتا ہوں جو ختم نہ ہوا اور ٹھنڈک آنکھوں کی جو نہ کئے اور میں تجھ سے مانگتا ہوں رضامندی تیرے فیصلہ پر اور اطمینان بخش زندگی مرنے کے بعد اور اپنے دیدار کی لذت اور تیری ملاقات کا شوق اور میں تیری پناہ لیتا ہوں ضر ر دینے والی شئے سے اور گمراہ کرنے والے فتنہ سے.١٢٩ - اللَّهُمَّ اَحْيِنِي مُسْلِمًا وَّامِتَنِي مُسْلِمًا - 1-179 (جامع ترمذی ابواب الزھد حدیث نمبر۲۳۵۲) اے اللہ! تو مجھے کوزندہ رکھ فرمانبرداری کی حالت میں اور وفات دے مجھ کو فرمانبرداری کی حالت میں.(حفاظت الہی ) ۱۷۰ - اَللَّهُمَّ احْفَظْنِى بِالْإِسْلَامِ قَائِمًا وَّ احْفِظُنِي بِالْإِسْلَامِ قَاعِدًا وَاحْفِظُنِى بِالْإِسْلَامِ رَاقِدًا وَّلَا تُشْمِتْ بِي عَدُوًّا وَّلَا حَاسِدًا - (مستدرک حاکم جلد ۵ صفحه ۵۲۵) الہی ! محفوظ رکھ مجھے اسلام پر کھڑے ہوئے اور محفوظ رکھ مجھے اسلام پر بیٹھے ہوئے اور محفوظ رکھ مجھے اسلام پر سوئے ہوئے اور نہ خوش کر میرے غم سے میرے دشمن کو اور نہ کسی حاسد کو.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 208 (غم سے نجات پانے کے لئے ) مناجات ولی اللہ 11 - اَللَّهُمَّ إِنِّي اَعُوذُبِكَ مِنْ مَّوْتِ الْهَمِّ وَ اَعُوذُبِكَ مِنْ مَّوْتِ الْغَمِّ وَاَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْجُوعِ فَإِنَّهُ بِئْسَ الصَّحِيعُ وَاعْوُذُبِكَ مِنَ الْخِيَانَةِ فَإِنَّهَا بمُسَتِ الْبَطَانَةُ الہی ! میں تیری پناہ لیتا ہوں فکر کی موت سے اور تیری پناہ لیتا ہوں غم کی موت سے اور میں تیری پناہ لیتا ہوں بھوک سے کیونکہ یہ بہت ہی بُری ہم خواب ہے اور میں تیری پناہ لیتا ہوں خیانت سے کیونکہ وہ بہت ہی بُری ہم راز ہے.۱۷۲ - اللَّهُمَّ أَعِنِّى عَلَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَسَكَرَاتِ الْمَوْتِ (جامع ترمذی ابواب الجنائز حدیث نمبر ۹۷۸) الہی! میری مدد کیجئیو موت کی سختیوں پر اور موت کی بے ہوشیوں پر.۱۷۳ (الف) - اَللّهُمَّ اغْفِرْلِی وَارْحَمْنِي وَالْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الَّا عَلَى ( الہامی دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) ۱۷۳ (ب) - رَبِّ لَا تُبْقِ لِي مِنَ الْمُحْزِيَاتِ ذِكْرًا (جامع ترمذی ابواب الدعوات حدیث نمبر ۳۴۹۶) الہی ! بخش مجھ کو اور رحم کر مجھ پر اور ملا دے مجھ کو فیق اعلیٰ سے.اے میرے رب ! نہ باقی رکھ میرے لئے رسوا کن باتوں سے کوئی ذکر.۱۷۴ - اللَّهُمَّ اَحْسِنُ عَاقِبَتَنَا فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحه ۱۸ ) الہی ! اچھا کر انجام ہمارا تمام کاموں میں اور خلاصی دے ہم کو دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 209 مناجات ولی اللہ ٧۵ ١ - اَللَّهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ وَالحِقْنَا بِالصَّلِحِيْنَ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا - ۱۷۵ مَفْتُونِينَ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۴۲۴) الہی! ہم کو وفات دے مسلمان ہونے کی حالت میں اور ملادے ہم کو نیکو کاروں سے نہ رسوا ہوں اور نہ فتنہ میں ڈالے جائیں.( تائیدات سماویہ ) ١ - رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَا مَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرُ عَنَّا سَيًا تِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ۚ رَبَّنَا وَاتِنَامَا وَعَدُتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَه (سورۃ آل عمران: ۱۹۴-۱۹۵) اے ہمارے رب! ہم نے سنا ایک پکارنے والا جو پکارتا ہے.ایمان لانے کیلئے ( کہتا ہے) کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر سو ہم ایمان لائے.اے ہمارے رب! بخش ہم کو گناہ ہمارے اور دور کر ہم سے ہماری بُرائیاں اور وفات دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ.اے رب ہمارے ! تو دے ہم کو جو وعدہ کیا تو نے ہم سے اپنے رسول کے ذریعہ اور نہ رسوا کر ہم کو قیامت کے دن.یقینا تو نہیں خلاف کرتا وعدہ کا.- ( عذاب سے بچنے کی دعا ) ۱۷۷ - رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًاه (سورۃ الفرقان: ۶۶.۶۷) اے رب ہمارے! ہٹا ہم سے دوزخ کا عذاب.اس کا عذاب بڑی چھٹی ہے اور وہ بہت ہی
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 210 مناجات ولی اللہ بُری ہے ٹھہرنے کی جگہ اور بُر امقام ہے.۱۷۸ - اَللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيْمَا كَانُوا فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ ( سورة الزمر: ۴۷) الہی! پیدا کرنے والے آسمان اور زمین کے.جاننے والے پوشیدہ اور کھلی باتوں کے تو ہی فیصلہ کرے گا اپنے بندوں کے درمیان ان باتوں کے متعلق جن میں وہ جھگڑتے تھے.اس لئے اے ہمارے رب ! نہ شامل کر ہم کو ظالم لوگوں کے ساتھ.(فتنہ سے بچنے کی دعائیں) ١٧٩ - رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورة الممتحنة: ٦) اے رب ہمارے! نہ بنا ہمیں تختہ مشق کافروں کا اور معاف کر ہم کو اے ہمارے رب تو ہی زبر دست حکمت والا ہے.۱۸۰ - رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ اے رب ہمارے! نہ بنا ہمیں تختہ مشق ظالموں کا.(سورۃ یونس: ۸۶) ۱ ۱۸ - رَبَّنَا وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحَ الدَّجَّالِ وَفِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ - إِنَّهَا لَفِتْنَةٌ عُظمى قَدْ اَحَاطَتْ بِنَا مِنْ كُلِّ جَانِبٍ وَّإِنَّ سَفِيْنَتَنَا يَارَبِّ ذَاتُ الْوَاحٍ وَّ دُسُرٍ - تَجْرِى بِنَا فِي مَوْجٍ كَالْجِبَالِ - لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ إِلَّا أَنْتَ فَادْرِكُنَا بِرَحْمَتِكَ قَبْلَ اَنْ نَّكُونَ مِنَ الْمُغْرَمَيْنَ - رَبَّنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 211 مناجات ولی اللہ اے رب ہمارے! اور نجات دے ہم کو اپنی رحمت کے ساتھ مسیح دجال کے فتنہ سے اور زندگی کے فتنہ سے اور موت کے فتنہ سے.لاریب وہ بڑا فتنہ ہے جس نے گھیر لیا ہے ہم کو ہر طرف سے اور ہماری کشتی اے رب ! چند تختیوں کی ہے اور کچھ میخیں ہیں.چل رہی ہے ہمیں لیکر ایسی موجوں میں جو پہاڑوں کی مانند ہیں.آج کوئی بچانے والا نہیں مگر تو ہی.پس تو آ کر سنبھال اپنی رحمت کے ساتھ پیشتر اس کے کہ ہم غرق کر دیے جاویں.اے ہمارے رب! یقیناً ہم مغلوب ہیں پس تو مد دکر.اے رب! تو بخشش اور رحم کر اور تو بہتر رحم کرنے والا ہے.( امت محمدیہ کیلئے دعائیں) ۱۸۲ - اَللَّهُمَّ أَصْلِحُ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ - فَإِنَّهُمْ فِي فَسَادٍ عَظِيمٍ - اللَّهُمَّ صَلَّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ اللَّهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَى خَلِيْفَةِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ وَ ذُرِّيَّتِهِ وَاَصْحَابِهِ وَ أَتْبَاعِهِ وَ ذُرِّيَّاتِهِمْ أَجْمَعِينَ الہی ! تو اصلاح کر اُمت محمدیہ کی کیونکہ وہ بڑی خرابی میں ہیں.الہی ! خاص رحمتوں سے نواز اور سلامتی میں رکھ اور برکت نازل کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور آل محمد پر.الہی ! خاص رحمتوں سے نواز اور سلامتی میں رکھ اور برکت نازل کر اس کے خلیفہ مسیح موعود پر اور اس کی اولاد پر اور اس کے صحابہ پر اور اس کے تابعین پر اور ان سب کی اولادوں پر.۱۸۳ - اَللّهُمَّ اَيْدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِينَ بِالْإِمَامِ الْحَكَمِ الْعَادِلِ - الہی ! تو مضبوط کر اسلام کو اور مسلمانوں کو امام حکم و عادل کے ذریعہ سے.صلى الله ۱۸۴ - اَللّهُمَّ انْصُرُمَنُ نَصَرَ دِينَ مُحَمَّدٍ (لا) وَ اجْعَلْنَا مِنْهُمُ اللَّهُم الله وَاخْذُلُ مَنْ خَذَلَ دِينَ مُحَمَّدٍ (علم) وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْهُمْ - الہی! تو مد دکر اس کی جو مدد کرتا ہے دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور بنا ہمیں اُن میں سے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 212 مناجات ولی اللہ الہی ! تو رسوا کر اُس کو جو رسوا کرتا ہے دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اور نہ بنا تو ہم کو ان میں سے.۱۸۵ (الف) - اَللّهُمَّ مَزْقِ الاَعْدَاءَ كُلَّ مُمَزَّقٍ وَّ اكْبِتُهُمْ عَلَى وُجُوهِهِمْ الہامی دعا حضرت مسیح موعود علیه السلام از تذکره صفحه ۲۶۲) الہی ! ٹکڑے ٹکڑے کر دے دشمنوں کو اور اوندھا کر انہیں ان کے چہروں کے بل.۱۸۵ (ب) - رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرعَوْنَ وَمَلَاءَ هُ زِيْنَةً وَّ اَمْوَالًا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيْلِكَ رَبَّنَا اطْمِسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْ مِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ 0 (سورۃ یونس: ۸۹) اے رب ہمارے! تو نے دی ہے فرعون اور اس کے سرداروں کو زینت اور مال دنیا کی زندگی میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بہکاتے ہیں تیری راہ سے.اے رب ہمارے! مٹادے اُن کے مال اور سخت کر اُن کے دل کہ نہ ایمان لاویں جب تک کہ دیکھیں دردناک سزا.( احباب جماعت کے لئے ) ۱ - اَللَّهُمَّ انْصُرِ الْمُبَلِغِيْنَ وَالْأَنْصَارَ وَالْمَأْ مُوْرِينَ وَالنُّفَّارَ نَصْرًا عَزِيزًا وايَدُهُمُ بِرُوحِ الْقُدُسِ وَبَارِكْ لَهُمْ فِي دِينِهِمْ وَدُنْيَا هُمْ وَاحْفَظْ مَنْ خَلْفَهُمْ وَ مَنْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ - الہی! تو مد دکر (مربیان ) کی اور انصار کی اور کارکنوں کی اور ناظروں کی زبر دست مدد اور تائید فرما اُن کی رُوح القدس سے اور برکت دے اُن کو اُن کے دین میں اور ان کی دنیا میں اور حفاظت کر جو اُن کے پیچھے ہیں اور جو اُن کے سامنے ہیں.( دعائے حضرت نوح علیہ السلام ) ۱۸۷ - رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَّنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْ هُمْ دُعَاءِ ئَ إِلَّا
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 213 مناجات ولی اللہ فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَوا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًاه ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ه ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنُنْتُ لَهُمْ وَ اَسْرَرْتُ لَهُمُ إِسْرَارًا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا o وَّ يُمْدِدْ كُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنْتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَ وَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا o وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ٥ إِنَّكَ إِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا ه رَبِّ اغْفِرْلِی وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ * وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ( سورة نوح:۶-۲۹) اے میرے رب! میں بلاتا رہا ہوں اپنی قوم کو رات اور دن مگر نہ زیادہ کیا ان کو میرے بلانے نے سوائے بھاگنے کے اور میں نے جب کبھی اُن کو بلایا ہے تا کہ تو ڈھانپے ان کی کمزوریوں کو وہ ڈالنے لگے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں اوڑھ لئے اپنے کپڑے اور ضد کی اور تکبر کیا بہت تکبر.پھر میں نے بلایا ان کو پکار کر.پھر میں نے سمجھایا ان کو کھول کر بھی اور راز کی باتیں بھی انہیں بتلائیں اور میں نے کہا استغفار سے کام لو اپنے رب کے حضور.وہ بہت بخشنے والا ہے.برسائے گا آسمان کو تم پر موسلا دھار اور بڑھائے گا تمہیں مال اور بیٹوں میں اور بنائے گا تمہارے لئے باغات اور بنائے گا تمہارے لئے بیشمار نعمتیں.اے میرے رب ! انہوں نے میرا کہا نہ مانا اور پیچھے لگ گئے ایسے لوگوں کے جنہوں نے نہیں بڑھا یا مال اور اولادکو بجز گھاٹے کے اور تدبیریں کیں انہوں نے بڑی بڑی.اے میرے رب ! نہ چھوڑ زمین پر منکروں میں سے کوئی گھر بسنے والا.اگر تو نے چھوڑ دیا اُن کو تو گمراہ کر دیں گے تیرے بندوں کو اور نہ جنیں گے وہ مگر بدکار ناشکر گذار اے میرے رب! بخش مجھے اور میرے والدین کو اور اس کو جو آوے میرے گھر میں امن طلب کرتا ہوا اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اور نہ بڑھا ان ظالموں کو بجز تباہی کے.
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 214 ( والدین کے لئے دعائیں) ۱۸۸ (الف) - رَبِّ اغْفِرُ لِي وَلِوَالِدَيَّ (اے میرے رب ! میرے والدین کو بخش دے.) (سورة نوح:۲۹) مناجات ولی اللہ ۱۸۸ (ب) - رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا - (سورۃ بنی اسرائیل: ۲۵ ) (اے میرے رب ! تو میرے والدین پر رحم فرما جس طرح کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی.) اے سرچشمہ ربوبیت ! تو نے اولاد کے متعلق ایک فرض تربیت والدین کے سپر د کیا تھا جسے انہوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر پوری محنت و مشقت سے ادا کر دیا.تجھے تیری ہی ربوبیت کی قسم اور اسی کی غیرت کہ تو بھی ان پر اپنی ربوبیت کی کامل تجلی فرما اور اپنی لا انتہا رحمتوں سے انہیں نواز.ان کے راستے میں تو لاکھ مشکلیں اور روکیں تھیں پر تیرے راستے میں نہ کوئی مشکل نہ کوئی روک.ہماری کمزوریوں اور ناشکر گزاریوں کو نہ دیکھ.آخر ہم جیسے بھی ہیں، تیری مخلوق ہیں.اپنی رحمت کو دیکھ جو بے پایاں ہے اور والدین کے اُن ہاتھوں کو دھیان میں رکھ جو انہوں نے ساری عمر تیری رحمت کی امید رکھتے ہوئے تیرے حضور پھیلائے رکھے ہیں.ان کی امیدوں کو بُر لا اور ان کی وصیت پر ہمیں قائم کر آمین.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ - اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ -
حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب 215 مناجات ولی اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آڑے وقت کی دعا اے میرے محسن اور میرے خدا! میں ایک تیرا نا کارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بے شمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سو اب بھی مجھے نالائق اور پر گناہ پر رحم کر اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھے کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے چارہ گر کوئی نہیں.آمین ثم آمين - تَمَّتْ بِالْخَيْرِ