Language: UR
بچوں بچیوں کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں مختصرمگر مستندمواد پر مشتمل کتب کی کمی پوری کرنے کے لئے صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر تیاری لٹریچر میں یہ مفید سلسلہ بھی شروع کیاگیا تھا جس کے تحت زیر نظر کتاب میں بانی اسلام حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت سے لیکر آپ کے مقام نبوت پر سرفراز ہونے تک کے واقعات کا بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتابچہ مکرمہ بشریٰ داؤدصاحبہ کا مرتب کردہ ہے اوراس کے لئے حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی محققانہ کتاب سیرت خاتم النبیین ﷺ اور دیگر کتب سیرت سے استفادہ کیا گیا ہے جن کی فہرست کتاب کے آخر پر درج کی گئی ہے۔
سیرت حضرت محمد مصطف اصلی اللہ علیہ وسلّم ولادت سے نبوت تک یکی از مطبوعات
BANI HASHEM ST.د سوق الليل شمال شرق ۲۱۸ NT - E2 / 21st Sug Al Lail شارع بنی هاشم جبل ثور
ע سیرت حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ولادت سے نبوت تک مرتبہ بشری داؤد
اظہارتشکر اور درخواست دعا ہم محترمہ امتہ العزیز صاحب بیگم محترم را نامحمد حنیف صاحب مرحوم کے لئے دلی مونیت کا اظہار کرتے ہیں.آپ نے محترمہ بشری داؤد مرحومہ سے نہی محبت کی وجہ سے ان کی کتاب کی اشاعت میں مالی معاونت کی ہے.فجزاها الله تعالى احسن الجزاء.آپ یا اپنی والدہ صاحبہ کے لئے دعا کی درخواست کرتے ہوئے فرماتی ہیں.ہماری پیاری امی محترمہ سکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم حکیم سردار محمد صاحب آف ڈگری سندھ ۳۵ سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی تھیں.ہمارے والد سر نومبر 19ء کو وفات پاگئے تھے.ہماری امی نے بڑے میسر اور ونار سے وقت گزارا بحیثیت صدر لجنہ سالہا سال تک خدمات سرانجام دیں اپنے بارہ بچوں کی اچھی تربیت کی سب خدا کے فضل سے خدمت دین میں مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ سے محبت اور اسی پر توکل نے آپ کی خدمات میں شاندار رنگ پیدا کر دیا.خاص طور پر مہمان نوازی کا وصف مثالی رنگ رکھتا ہے.ہماری والدہ صاحبہ آج کل جرمنی میں مقیم ہیں ان کی صحت ، عمر اور برکات میں اضافہ کے لئے درخواست دعا ہے.“ محترمہ امتہ العزیز صاحبہ کے شوہر ۱۳ نومبر ۱۹۹۶ء کو وفات پاگئے تھے ہم دعا گو ہیں کہ محترمہ اپنی والدہ صاحبہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق پاتے ہوئے حسنات دارین کی دارت نہیں.آمین اللهم آمین
پیش لفظ ن امام الہ ضلع کا ایک کمیشن تشکر کے سلسلے کی چھال ہوں پیش کش بفضل تعالی منظر عام پر آرہی ہے.بعزیزہ بشری داؤد مرحومہ (سیکرٹری اصلاح وارشادی نے کمال لگن سے سیرت پاک حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بچوں کے لئے خوبصورت کتب لکھیں.یہ کتب بشری کی طرف سے صدقہ جاریہ ہیں.کچھ کتابیں جو وہ اپنی حیات میں چھپوانے کی مہلت نہ پاسکی تھی اب پیش کی جیا رہی ہیں.ولادت سے نبوت تک ، بچوں کے لئے سیرت کے موضوع پر بطرز سوال جواب لکھی گئی ہے.عزیزہ بشری داؤد کی ذاتی زندگی میں معمول کے گفتار و کردار میں عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھلک نمایاں نظر آتی تھی.یہی پیارا موضوع اُس کی تقاریر کا تھا اور کتب کے لئے بھی یہی اظہار عقیدت و محبت اس نے اپنا یا تھا.وہ چاہتی تھی کہ سب کے دل میں پیارے آقا کی محبت رہنا بس جانے اور آپ کے خلق عظیم کے نمونے چلتے پھرتے نظر آئیں.یہ فرمان الہی س تک پہنچے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْكُمُ اللَّهُ ر ال عمران : ۳۲)
کہ اسے رسول ) تو کہہ کہ اے لوگو) اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اس صورت میں) وہ (بھی) تم سے محبت کرے گا.مجھے یقین ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے والے اپنی زندگیوں میں نمایاں تبدیلی محسوس کریں گے جس سے نہ صرف اُن کے اپنے گھر جنت نشان نہیں گے بلکہ دنیا کو بھی حقیقی فلاحی معاشرے کا نمونہ نظر آئے گا.کتاب کا موضوع اور لب واجہ چھوٹے بڑے سب کے لئے پرکشش ہے.خاص طور پر بچے بہت خوش ہوں گے.کیونکہ سیرت کے موضوع پر بچوں کے لئے بہت کم کتب دستیاب ہیں.ہماری دعا ہے کہ مرحومہ بشری داؤد صاحبہ کو ہماری دعائیں پہنچتی رہیں.عزیزہ امتہ الباری ناصرسیکرٹری اشاعت اور سب معاونات کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے.نجزا هن الله تعالى احسن الجزاء
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ماں میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو دنیا کے سب سے پیارے شہزادے کے بارے میں بتاؤں جو اللہ میاں کا بھی شہزادہ ہے.بچہ امی جان! کیا اس انسان سے اللہ میاں بھی پیار کرتے ہیں.ماں بہت زیادہ.اتنا زیادہ تو کسی سے بھی نہیں کیا.آپ کو معلوم ہے کہ جب سے یہ دنیا ہتی ہے.اس میں انسان پیدا ہوا.اور کتنے پیارے، انسان پیدا ہوتے رہے اور آئندہ بھی پیدا ہونگے ان سب سے زیادہ اللہ میاں نے صرف اپنے اس شہزادے سے پیار کیا.بچہ کیوں کیا وہ بہت اچھے اچھے کام کرتا تھا.ماں کام تو واقعی بہت اچھے گئے.ہر انسان سے پیار کیا.ہر جاندار کا خیال رکھا.کسی کو کبھی بھی دُکھ نہیں دیا.لیکن سب سے زیادہ پیار اس شہزادے نے اللہ میاں سے کیا.اتنا پیار کسی دنیا کے انسان نے نہیں کیا ہوگا.
بچہ ہیں.اتنا پیار ماں اس کی ایک وجہ ہے.اللہ میاں نے اس شہزادے کو اپنا نور دیا تھا.اس کے لئے دنیا بنائی چاند سورج ستارے آسمان کو بنایا.دریا پہاڑ - باغ بنائے پھر انسان بنائے جو اس کو پیار کریں اس کی باتیں مانیں بھر جن انسانوں نے اس سے پیار کیا.اللہ میاں نے بھی ان سے پیار کیا.اور جنہوں نے اس کو سنایا ان کو سزا ملی بچہ آپ مجھے شروع سے ساری باتیں بتائیں کہ وہ پیارا سا شہزادہ کون تھا.کہاں سے آیا تھا.اس کے امتی ابو کا کیا نام تھا.پھر وہ کیسے کھیلتا تقاد کیا کرتا تھا.اس شہزادے نے کیا کیا کام کئے.اور اللہ میاں سے کس طرح اتنا پیار کیا.ماں میری جان! میری بھی یہی خواہش ہے کہ میں آپ کو اس پیارے سے شہزادے کی پیاری پیاری باتیں بتاؤں لیکن باتیں سن کر بھول جانا اچھی بات نہیں ہوتی.بلکہ ان باتوں کو یاد رکھنا.اچھے کاموں جیسے کام کرنا.اور اسی طرح اللہ میاں سے پیار کرنا.اس کی مخلوق سے پیار کرنا اور پیار کرنے کے طریقے سیکھنا.جب ایسا کرو گے تو دل بھی خوش ہوگا.لوگ بھی پیار کریں گے.اور سب سے بڑھ کر اللہ میں بھی پیار کریں گے.بچہ آپ مجھے بتائیں میں انشاء اللہ یاد رکھوں گا اور دوسروں کو بھی بتاؤں گا.آپ دعا بھی کرنا کہ میں بھی اچھا بچہ بن جاؤں ماں ضرور انشاء اللہ.آؤ اب غور سے سنو ! یہ اللہ میاں کا پیارا سا
شہزادہ ملک عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوا.یہ وہی ملکہ ہے جہاں خانہ کعبہ ہے.آپ بتائیں خانہ کعبہ کس نے بنایا ؟ بچہ مجھے یاد ہے.اللہ میاں کے ایک شہزادے حضرت ابراہیم تھے.ان کو اللہ میاں نے ایک پیارا بیٹا اسمعیل دیا.حضرت ابراہیم نے اللہ میاں کے حکم سے حضرت اسمعیل اور ان کی امتی حضرت ہاجرہ کو اللہ میاں کے گھر خانہ کعبہ کے قریب چھوڑ دیا.اس وقت یہاں کوئی انسان نہیں تھا.نہ ہی چرند پرند حتی کہ گھاس بھی نہ تھی نہ پانی.اللہ میاں نے وہاں اس بچے اسمعیل کے لئے ایک چشمہ جاری کیا جس کو چشمہ زمزم کہتے ہیں.پھر یہ بچہ بڑا ہو گیا تو اس کے ابو جان نے اس کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ بنایا ہے اور آہستہ آہستہ مکہ کا شہر آباد ہو گیا.ماں ماشاء اللہ آپ تو اچھی طرح یاد رکھتے ہیں.حضرت اسمعیل کی اولاد میں سے ایک بیٹے کے بچے قریش کہلاتے ہیں کہ قریش قبیلہ سارے قبیلوں سے زیادہ باعزت تھا.کیونکہ اس کے ذمہ خانہ کعبہ کی حفاظت.اس کی صفائی، حج کا انتظام وغیرہ تھا.اسی لئے یہ سردار ہوتے تھے.اس تقبیلہ کی ایک شاخ بنو ہاشم ہے.سردار ہاشم کے بیٹے عبد المطلب کے ہاں اللہ میاں نے بہت پیارا خوبصورت بیٹا دیا.جس کا نام عبداللہ تھا.یہ دس بھائی تھے.بچہ دس بھائی تھے.اتنے سارے !!! ماں حضرت عبدالمطلب نے اللہ میاں سے دعا مانگی تھی کہ اگر میرے دس نے سیرت خاتم النبین جلد اول من مسیرت خاتم انبیین جلد اص ۹۷۹
بیٹے ہوں گے توئیں ان میں سے ایک تیری راہ میں قربان کردوں گا.عبد المطلب قریش کے سردار بھی تھے اور خانہ کعبہ کے محافظ بھی.جب انہوں نے قرعہ ڈالا کہ کسی بیٹے کو قربان کیا جائے تو عبید اللہ کا نام نکلا.عبد المطلب ان کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گئے لیکن لوگوں کے سمجھانے پر کہ ان کے بدلہ میں اونٹ قربان کر دیئے جائیں عبداللہ اور اونٹوں کے درمیان پرچی ڈالو.۱۰ اونٹ اور عبد اللہ کے درمیان پرچی ڈالی گئی تو عبد اللہ کا نام نکلا.آخر اونٹوں کی تعداد بڑھائی جاتی رہی.جب 100 اونٹوں کے ساتھ پرچی ڈالی تو اللہ میاں کا کرنا یہ ہوا کہ اونٹوں والی پرچی نکلی اور اس طرح عبد اللہ کے بدلہ ۱۰۰ اونٹ قربان کر دیئے گئے تھے بچہ یہ عبد اللہ کون تھے.ماں عبداللہ اس پیارے سے شہزادے کے ابو جان میں جس کے لئے اللہ میاں نے دنیا بنائی تھی.ان کی شادی ان کے ابو حضرت عبد المطلب نے یثرب کے معزز خاندان کی بیٹی آمنہ بنت وہب سے گھر دی ہے وہب بھی اپنے علاقہ میں عزت دار اور قابل احترام تھے.بچہ اچھا تو اس پیارے شہزادے کے ابو جان کا نام حضرت عبد اللہ اتی جان کا نام حضرت آمنہ اور دادا جان کا نام حضرت عبد المطلب تھا.اور یہ مکہ میں پیدا ہوئے.ماں بارک اللہ.آپ نے تو اچھی طرح یاد کر لیا.حضرت آمنہ کو اللہ تعالیٰ لے سیرت خاتم النبین جلد 1 صفحہ ۱۱۴ - سه ابن ہشام اصفحه ۱۰۶ - ۱۱۵
نے خواب میں بتایا کہ اس بچے کا نام محمد رکھنا.محمد کے معنی جس کی بہت زیادہ تعریف کی جائے جو بہت اچھے اچھے کام کرے.اور وہ کام اللہ میاں کو بھی پسند آجائیں.بچہ اس پیارے بچے کے ابو جان تو بہت خوش ہوئے ہوں گے.ماں اللہ میاں کے پیارے شہزادے کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کے ابو حضرت عبداللہ فوت ہو گئے تھے.وہ تجارت کے لئے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے.واپسی پر راستہ میں بیمار ہو گئے.اور شام سے لوٹتے ہوئے یثرب کے پاس آپ کی وفات ہو گئی اے بچہ شہزادے کی اتنی تو بہت اداس ہوئی ہوں گی.ماں ہاں یہ تو قدرتی بات ہے لیکن انہوں نے ایک اور خواب دیکھا.کہ ان میں سے ایک نور نکلا جو دُور دُور ملکوں میں پھیل گیا.ا س سے انہیں تسلی ہو گئی کہ ان کا بچہ بہت برکت اور شان والا ہوگا.دونوں خواب انہوں نے حضرت عبد المطلب کو سنا دئیے تھے.بچہ یہ شہزادہ کس تاریخ اور کس مہینے میں کون سے سن میں پیدا ہوا.ماں ۱۲؍ ربیع الاول عام الفیل کے پہلے سال میں پیدا ہوئے سن عیسوی کے حساب سے ۲۰ اپریل نشہ پیر کے دن صبح سویرے کا وقت تھائیے بچہ یہ عام الفیل کیا ہے ؟ ماں اس زمانے میں کیلنڈر تو نہیں تھا.لوگ دنیا کے رسم و رواج اور علوم سے نا واقف تھے اور کسی خاص واقعہ کی بنا پر کیلنڈر کی طرح حساب رکھ لیتے 119.مله ابن ہشام 1 صفحہ ۱۰۷ - ۱۱۷ - تله سیرت خاتم النبین و مثال سے سیرت خاتم النبين جلد اول صدا محمود یا شا مصری
تھے.عام الفیل کا مطلب ہا ملنی والوں کا سال ہے.چونکہ یہ بہت مشہور واقعہ تھا اس لئے ایک لمبے عرصہ تک اسی سے ماہ و سال کا حساب رکھا جاتا رہا لیکن بعد میں پیارے آقا کی ہجرت کی وجہ سے ہجری کیلنڈ مائے ہو گیا.جس سال پیارے محمد پیدا ہوئے اسی سال خانہ کعبہ کو گرانے کے لئے یمن کا بادشاہ ابرہہ بہت بڑی فوج لے کر ملکہ پر حملہ آو.ہوا تھا.اس کی فوج میں ہاتھی بھی تھے لیکن خانہ کعبہ کی حفاظت کا وعدہ خدا تعالیٰ نے پہلے سے کیا ہوا تھا.اس لئے اس کی فوج پرا با بیلوں نے کنکر برسائے جس کی وجہ سے ان میں پھیچک کی بیماری پھیل گئی اور ساری فوج برباد ہوگئی خود ابرہہ کے جسم کے حصے بھڑنے لگے اور وہ میں پہنچ کر مرگیاں بچہ بغیر لڑائی کے یہ سب ہو گیا.ماں مکہ کا کوئی بھی آدمی مقابلہ پر نہیں آیا.کیونکہ ان کے سردار حضرت عبدالمطلب نے کہہ دیا کہ جس کا گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا.یہ گھر تو خدا تعالیٰ کا ہے.اس لئے اس نے سب کو اپنے عذاب میں جکڑ لیا یہی تو وہ مقدس گھر ہے جس کے گرد طواف کرنے کا حکم حضرت ابراہیم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیا تھا اور جب سے یہ گھر بنایا گیا ہے لوگ مسلسل اس کا طواف کر رہے ہیں.اس کے گرد لبیک لبیک کہ کر چکو (طواف ) لگاتے ہیں.اور ہم اس کی طرف منہ کر کے نمانہ پڑھتے ہیں یہی ہمارا قبلہ ہے.بچہ اچھا.ان ہاتھی والوں کے حملہ کی وجہ سے یہ سال عام الفیل کہلاتا ہے.ماں یہی وجہ ہے.اور پھر یہ واقعہ تو ایک نشان ہے.کیونکہ اللہ میاں نے ے سیرت خاتم النبینم جلد اول صفحہ 114
اپنے شہزادے کے ذمہ ساری دنیا کی اصلاح کا کام لگانا تھا.انسانوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے والی تعلیم ملنے والی تھی.اس طرح ساری دنیا کے انسان ایک خدا کے جھنڈے کے نیچے ایک مذہب کے ماننے والے ایک رسول پر ایمان لانے کی وجہ سے ایک قوم بننے والے تھے جبکہ پہلے آنے والے شہزاد سے تو کسی خاص جگہ کسی خاص قوم وغیرہ میں وہاں کی ضرورت کے مطابق تعلیم دیتے تھے.لیکن اللہ کے اس پیارے سے شہزادے نے ساری دنیا کو خدا کا پنہ دنیا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا کہ دیکھو میں جب اپنے گھر کی حفاظت کر سکتا ہوں تو جو لوگ میرے شہزادے کو سنائیں گے.مارنا چاہیں گئے میری تعلیم کو نہیں مانیں گے تو میں ان کو بھی سزادینے کی طاقت رکھتا ہوں.وہ میرے شہزاد - کے کاموں میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکیں گے اور وہ ترقی کرتا جائے گا.- بچہ پیارے شہزادے کے پیدا ہونے کے بعد کیا ہوا.ماں سارا خاندان خوشی سے جھوم رہا ہے کیونکہ سب ہی حضرت عبد اللہ کی وفات سے اداس تھے.وہ سب اپنے چھوٹے بھائی سے بہت پیار کرتے تھے.سب سے پہلے حضرت عبد المطلب کو حضرت آمنہ نے کہلوایا.وہ جلدی سے آئے اور اپنے پوتے کو لے کر خانہ کعبہ میں گئے.وہاں دعا کی لیے خدا کا شکر ادا کیا اور آپ کے نام محمد کا اعلان کیا.پھر واپس لاکر بچہ ماں کو دے دیا مکہ کے لوگ اس انوکھے نام پر حیران تھے کہ کیا پیارا نام ہے.ان کے سردار نے بتایا کہ میری خواہش ہے کہ میرے پوتے کی سب تعریف کریں ساتھ له سیرت خاتم النبین 1 صفحہ 119
ہی کہا کہ اس بچے کی شان بہت بڑی ہوگی اور یہی نام پرانی الہامی کتابوں میں بھی آیا ہے.جیسے بائیل میں محمد یم یعنی میرا محمد ) بچه خاندان کے لوگوں نے کیسے خوشی منائی.ماں محمد کے ایک چھا ابو لہب تھے.اپنی لونڈی ثوبیہ کو اس خوشی کے موقع پر آزاد کر دیا کہ اس نے بھائی عبداللہ کے بیٹے کی خیر دی تھی اور اسی ثوبیہ نے کچھ عرصہ آپ کو دودھ بھی پہلا یا تھائیے بچہ آپ کے دادا جان کیا کر رہے تھے ماں عرب کے معزز گھرانوں اڑیسوں میں رواج تھا کہ بچے کو شہر سے دُور وادیوں میں عورتوں کے حوالے کر دیا جاتا.جہاں وہ کھلی ہوا میں پل کو صحتمند ہو جاتے تھے.آپ کے دادا جان کو فکر تھی کہ کوئی دودھ پلانے والی عورت مل جائے.بچہ دودھ پلانے والی عورت اللہ میاں کے شہزادے کے لئے تو خود اللہ میاں نے بھیجی ہوگی.ماں یہ بھی بڑا عجیب واقعہ ہے جس سے اللہ میاں کے پیارے شہزادے محمد کی برکتوں اور شان کا پتہ چلتا ہے.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ کچھ عرصے کے بعد گاؤں سے عورتیں آئیں.ان میں ایک حلیمہ نامی عورت اپنے شوہر حارث کے ساتھ آئی.وہ سب سے زیادہ کمزو را در غریب تھی.اس کا بچہ عبداللہ بھی بھوک سے ہر وقت روتا رہتا.کیونکہ اس کو پورا دودھ نہیں ملتا تھا.پھر اس کی اونٹنی بھی اتنی کمزور یعنی کہ مشکل سے چل رہی تھی.اس له سیرت خاتم النبيين 1 صفحه.
آہستہ کے دودھ دینے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا اور جس خچر پر آئی تھی وہ بھی کمزور مریل ، اس لئے یہ لوگ قافلہ میں سب سے پیچھے پیچھے آہستہ آرہے تھے.ان کے ساتھی لوگ مذاق بھی اڑا رہے تھے لیکن یہ چپ چاپ سب کی باتیں سنتے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے.سارا دن دوسری عورتیں شہر میں گھوم پھرکر بچوں کو لیتی رہیں سب ہی پیارے محمد کو لینا چاہتی تھیں کیونکہ اس کا حسن معصوم چہرہ بڑا پیارا لگ رہا تھا لیکن جب ان کو معلوم ہوتا کہ بچے کا باپ نہیں ہے تو یہ سوچ کر کہ ہماری خدمت کا کون انعام دے گا ، چلی جاتیں کیے ادھر حضرت حلیمے کو کسی نے اس کی غربت کی وجہ سے بچہ نہیں دیا کہ اس کا اپنا بچہ بھی بھور سے روتا رہتا ہے.ہمارے بچے کا کیا بنے گا.شام تک نہ تو حلیمہ کو بچہ ملا.اور نہ ہی پیارے محمد کو کسی نے لیا.ماں اور دادا حیران تھے لیکن خدا تعالی کو کچھ اور ہی منظور تھا.وہ اپنے پیارے کی برکتیں دکھانا چاہتا تھا حضرت حلیمہ اپنے ٹھکانے پر آئیں اور اپنے شوہر سے کہنے لگیں کہ اگر تم اجازت دو تو میں بنو ہاشم کے اس یتیم بچے کو ہی لے آؤں.کیوں کہ مجھے شہر سے کوئی بچہ نہیں ملا.اور جب قافلہ روانہ ہوگا تو ساتھی عورتیں میرا مذاق اڑائیں گی.ان کے شوہر نے کہا.جیسی تمہاری مرضی.یہ سُن کر وہ حضرت آمنہ کے پاس آئیں اور پیارے محمد کو مانگ لیا.جب وہ انہیں لے کر اپنے ٹھکانے پر لوٹیں تو انہیں اندازہ ہوا کہ کوئی نعمت مل گئی ہے کیونکہ اسی رات اونٹنی نے اتنا دودھ دیا کہ دونوں میاں بیوی کا پیٹ بھر گیا.ادھر بیٹا عبداللہ بھی بھوک سه سیرت ابن ہشام 1 صفحہ ۱۰۹- ۱۱۰ - سه سیرت خاتم النبيين جلد 1 صفحہ 3 صفحہ ۱۲۱
۱۴ سے نہیں رویا بلکہ اچھی طرح دودھ پی کر ساری رات آرام سے سویا.دوسرے دن جب صبح کے وقت قافلہ روانہ ہوا تو وہی کمزور خچر سب سے آگے دوڑی جارہی تھی.ساتھی عورتوں نے پوچھا.کیا یہ وہی نہیں جو آتے ہوئے سب سے پیچھے تھی.آپ نے جواب دیا.ہے تو وہی.ساتھی شعور نہیں حیران تھیں کہ کیا ماجرا ہے.ادھر دونوں میاں بیوی اس بابرکت بچے کے مل جانے پر بے حد خوش تھے.اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہوازن قوم کے قبیلہ بنی سعد کی حلیمہ کے گھر کے حالات ہی بدل گئے یہ بکریوں کے ریوڑ میں اضافہ ہوا جب شام کو ان کے جانور چراگاہوں سے لوٹتے تو اتنا دودھ دیتے کہ سارے علاقے میں بھی کسی کے گھر بھی نہ ہوا تھا اس کی چھرا گاہیں سر سبز و شاداب لہلہاتی تھیں.گھر میں خوش حالی ہوگئی قبیلہ کے لوگ کتنے کہ ہمارے جانور بغیر دودھ کے آتے ہیں.کیا انہیں چارہ نہیں ملتا.یوں سارے قبیلہ کو اس بچے کی برکت کا اندازہ ہو گیا.بچہ اللہ میاں نے با برکت بچے کی شان ظاہر کر دی.لیکن امی وہ خبر کیسے اتنی تیز بھاگی جا رہی تھی.ماں اس پر ساری دنیا کا ہر سید معا رستہ بتانے والا.خدا تعالیٰ کا پیارا نبی جس نے سب کو لے کر خدا کی طرف چلنا تھا، سوار تھا.وہ کیسے پیچھے رہتا.اس نے تو آگے ہی ہونا تھا.وہ دنیا کے نبیوں کا سردار ہے.اور قوم کا سردار آگے ہی تو چلتا ہے.اسی لئے وہ خچر سردار کو لے کر آگے آگے ه سیرت ابن ہشام 1 صفحه ۱۱۰ ے سیرت خاتم النبيين جلد 1 صفحہ ۱۲۱
10 دوڑی جارہی ملتی.بچہ اب بات سمجھ میں آئی.شہزادہ محمد کتنے دن حلیمہ کے پاس رہے ؟ ماں عرب کے دستور کے مطابق دو سال تک بچہ باہر رہتا تھا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.لیکن حضرت حلیمہ کے گھر والے آپ کی پیاری عادتوں اور برکتوں کی وجہ سے چاہتے تھے کہ وہ کچھ اور عرصہ آپ کو اپنے ساتھ رکھیں.اس لئے حضرت آمنہ سے اصرار کر کے دوبارہ حضرت حلیمہ واپس اپنے ساتھ لے آئیں.آپ کی والدہ نے اس وجہ سے بھی آپ کو لے جانے کی اجازت دے دی کہ ان دنوں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی اور آپ اپنے ساتھ کے بچوں کے مقابلہ میں زیادہ صحتمند اور ہوشیار تھے حضرت آمنہ نے صحت کی خرابی کے خوف سے دوبارہ پیارے محمد کو دائی حلیمہ کے سپرد کر دیا.آپ اپنی دودھ شریک بہنوں سے بہت پیار کرتے تھے.ان کے نام انیسہ بنت حارث اور خدامہ بنت حارث ہو بڑی تھیں اور شیمہ کے نام سے پکاری جاتی عقیں کہ بھائی عبد اللہ سے بھی آپ کی بڑی دوستی تھی اکٹھے کھیلنا.بھاگنا دوڑنا.پیار کرنا.ان میں لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا تھا.اس لئے جب دوبارہ واپس آئے تو سب بہت خوش تھے.بچہ دونوں کیا کرتے رہتے تھے.ماں آپ دونوں بھائی بکریاں چراتے تھے مغرب میں دستور تھا کہ بچوں کے حوالے بکریاں کر دیتے تھے جو انہیں گھروں سے باہر لے جاتے اور کبھی کبھی به سیرت خاتم النبیین جلد 1 صفحه ۱۲۱ کے سیرت خاتم النبیین جلد 1 صفحه ۱۲۱
14 چارے کی تلاش میں میدانوں میں دور بھی چلے جاتے تھے.اس طرح جانوروں کا خیال رکھنا.ان کو کھلانا پلانا.ان سے محبت کرنا.سب بچوں کی عادت ہوتی ہے لیکن پیارے محمد تو اپنے جانوروں کا بہت زیادہ دھیان رکھتے تھے کہ یہ ادھر ادھر نہ ہو جائیں.بچہ امتی جان گھر سے دور جانے کی وجہ سے ان دونوں کو ڈر نہیں لگتا تھا ؟ ماں آپ نے بڑا پیارا سوال کیا میں اس واقعہ کو بتانا شاید بھول جاتی.ننھے محمد کی بچپن میں بھی ایک شان تھی.آپ بہت دلیر تھے اور چیزوں کی حفاظت کرنے والے تھے.ایک دن اسی طرح گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ آپ اور آپ کے بھائی عبد اللہ اپنی اپنی بکریاں لے کر گئے.چارے کی تلاش میں چلتے چلتے آبادی سے کچھ دُور نکل گئے جانورادھر ادھر گھوم رہے تھے کچھ کھا رہے تھے.اور پیچھے ان کے قریب ہی کھیل لہ ہے تھے کہ اچانک گھوڑوں پر سوار کچھ لوگ تیزی سے اس طرف آ نکلے.ان کو آتا دیکھ کر سارے بیچتے بھاگ گئے اور عبد اللہ بھی دوڑا.بچے بکار رہے تھے کہ ڈاکو آگئے.ڈاکو آگئے.دیکھتے ہی دیکھتے میدان صاف تھا صرف نھا محمد بیکریوں کے ساتھ رہ گیا.یہ لوگ آتے ہی گھوڑوں سے کود پڑے.اور بکریوں کو جمع کرنے لگے.مصرف ایک آدمی گھوڑے پر سوار رہ گیا.جب ساری بکریاں جمع کر چکے تو ان کو لے کر چلے.بچہ کیا ساری بکریاں ڈاکو لے گئے ؟ ماں نتھا معصوم محمد ان کے راستے میں کھڑا ہو گیا.وہ بھلا کیسے لے جانے
دیتا.ڈاکو راستہ بدل کر نکلنے لگے تو بچہ پھر سامنے آگیا.ان لوگوں کو حیرت ہوئی کہ اتنے سارے بڑے بڑے آدمیوں کے سامنے چند سال کا بچہ کیسے کھڑا ہو گی.وہ پھر دوسری طرف بیٹے اور نکلنے کی کوشش کی تو پھر محمد نے ان کو روکا.آخر تنگ آکر انہوں نے پوچھا کہ بچے کیا بات ہے.بہادر بچے نے جواب دیا کہ یہ کمر باں گاؤں والوں کی ہیں ہم انہیں چرانے لائے تھے میں آپ کو ان کی اجازت کے بغیر نہیں لے جانے دوں گا.سارے ڈاکو حیران تھے کہ یہ کیسا بچہ ہے.انوکھی باتیں کر رہا ہے.ہمارے سامنے تو بڑے بڑوں کو ٹھرنے کی جرات نہیں ہوتی لیکن یہ تو اپنی جگہ سے ہٹتا ہی نہیں.ڈاکوؤں نے بار بار کہا کہ بچے تم بہت پیارے اور اچھے بچتے ہو ہم تم کو مارنا نہیں چاہتے.اس لئے ہمیں ہمارا کام کرنے دو.اور راستے سے ہٹ جاؤ لیکن مقادیر محمد تو اپنی جگہ پرائل تھا کہ گاؤں والوں سے اجازت لے لو پھر لے جاؤ.ایسے نہیں جانے دوں گا.بچہ پھر کیا ہوا ؟ ماں ادھر گھوڑے پر سوار آدمی جو اُن کا سردار تھا.زور سے دھاڑا کہ کیا بات ہے.کیوں نہیں چلتے جلدی کرو.اور جب اس کو بنایا گیا کہ ایک چھوٹا بچہ راستہ نہیں دے رہا تو اس کے غصہ کی انتہا ہو گئی.چیخا کہ ایک بچے تو نہیں ہٹا سکتے.ہمارے سامنے تو بڑے بڑے بہادر نہیں بھرتے بچے کی کیا بات ہے.لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ کونسا بچہ ہے ! آخر وہ خود آگے آیا.جیسے ہی اس کی نظر اس معصوم بچے پر پڑی تو وہ بھی حیران ہو گیا.واقعی کمال کا بچہ ہے چہرے پر کوئی خوف کے آثار نہیں.بڑے اطمینان سے اپنے ننھے ننھے ہاتھ پھیلائے راستہ روکے کھڑا ہے کیسا حوصلہ اور
۱۸ عزم ہے اس دلیر بہادر کا بچہ ڈاکوؤں کے سردار نے ایسا بچہ پہلے تو نہیں دیکھا ہو گا.ماں یقینا نہیں.وہ بچے کی عظمت کا قائل ہوتا ہوا گھوڑے سے اتر آیا.پوچھا کہ ہمارے راستے سے کیوں نہیں ہٹ جاتے ننھے معصوم کا جواب تھا کہ یہ بکریاں گاؤں والوں کی ہیں ہیں ان کی اجازت کے پر نہیں جانے دوں گا بسردار کو اس کی معصومانہ لیکن پر عزم دلبرانہ گفتگو میں لطف آنے لگا.پھر اولا بچے تمہارا نام کیا ہے.جواب ملا محمد وہ پھر حیران ہوا.کیسا انوکھا اور پیارا نام.اس نے زیر لب دہرایا محمد واقعی اس نام میں بھی لذت اور مٹھاس ہے.پھر پوچھا تمہارے ابو کا کیا نام ہے.فوراً جواب ملا عبد المطلب ( پیارے محمد دادا کو ابو مجھے تھے کیونکہ ان کے ابو جان کا انتقال ہو چکا تھا ، ڈاکوؤں کے سردار کو قریش کے معزز خاندان اور مکہ کے سردار کو پہچانتے میں دیر نہ لگی.بے ساختہ بول اٹھا کہ سردار قریش کے بیٹے کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہیے.یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا کہ گھوڑوں پر سوار ہو جاؤ.اور بکریاں چھوڑ دو پھر خود تھے مقدس معصوم دلیر کو سلام کر کے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے سارے ڈاکو تیزی سے نظروں سے اوجھل ہو گئے.بچہ کمال کر دیا نتھے محمد نے.ماں ڈاکوؤں کا سردار اگر جان لیتا کہ یہ بچہ صرف سردار قریش کا ہی بچہ نہیں بلکہ یہ تو نبیوں کا سردار ہے اس کو تو انیسی امانت سپرد ہونے والی ہے جو تخلیق کائنات سے پہلے ہی لوح محفوظ پر خدا تعالیٰ کے پاس ہے.اگر آج یہ اِن
19 بکریوں کی حفاظت نہ کرتا تو دنیا کیسے جان سکتی تھی کہ یہ امین ہے.اور اسی نے خدا تعالیٰ کی عطا کردہ امانت قرآن پاک جیسی مقدس تعلیم کا محافظ بنتا ہوگا.بچہ گاؤں والوں نے کیا کہا ؟ ماں کیا کہنا تھا.وہ بھی اس بہادری پر حیران تھے کیونکہ ڈاکوؤں کا مقابلہ آسان تو نہیں ہوتا.جب وہ بچوں کے ساتھ وادی میں آئے تو سب کی بکریاں محفوظ سنتیں اور نتھا محمد مسکراتا ہوا چلا آرہا تھا.آپ کی ان ہی معصوم اور انوکھی اداؤں نے سارے قبیلہ کو آپ کا گرویدہ بنا دیا.سب ہی آپ سے پیار کرتے تھے.بچہ اس وقت پیارے شہزادے کی عمر کیا تھی ؟ ماں تاریخ میں درست عمر تو نہیں ملتی لیکن آپ تین چار سال کے درمیان تھے.کیونکہ آپ چار سال تک دائی حلیمہ کے پاس رہنے تھے.بچہ اس واقعہ کے بعد تو دائی حلیمہ خوفزدہ ہوگئی ہوں گی.ماں نہیں اس واقعہ کے بعد تو اتنا خون نہیں ہوا.کیونکہ بچے اسی طرح بکریوں کے ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہوتے رہے.لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے دائی حلیمہ کا سارا خاندان ہی خوفزدہ ہو گیا.بچہ وہ کو نسا واقعہ ہے جس نے سب کو ڈرا دیا.ماں پیارے محمد اپنے بھائی عبد اللہ کے ساتھ بکریوں کے بچوں سے ل رہے تھے اور گھر کے تمام لوگ اپنے کاموں میں مصروف تھے ان کے پاس کوئی بڑا آدمی موجود نہیں تھا کہ اچانک دو آدمی سفید کپڑوں میں آئے.انہوں نے آتے ہی ننھے محمد کو پکڑا.عبداللہ یہ
i دیکھ کر ڈرا.لیکن ابھی وہ حیران ہی تھا کہ انہوں نے محمد کو زمین پر لٹا دیا اور سینہ چاک کر دیا.بس پھر کیا تھا.عبداللہ تو خوفزدہ ہو کر بھاگا اور چیختا جارہا تھا کہ میرے قریشی بھائی کو دو آدمیوں نے مار ڈالا.اس کی آواز سُن کر گھر کے سب لوگ بھاگے.آگے آگے حضرت حلیمہ دوڑی آرہی تھیں اور ان کے پیچھے حارث تھے.آتے ہی انہوں نے پیارے محمد کو سینے سے لگایا.جو خود بھی ڈرا ہوا تھا.بچہ حضرت حلیمہ نے کیا کیا ؟ ماں جب انہیں ذرا تسلی ہوئی تو حضرت حلیمہ نے پوچھا کیا ہوا میرے بیٹے یہاں تو خون وغیرہ کچھ نظر نہیں آرہا.پھر سینہ کھول کر دیکھا تو اس پر بھی کوئی نشان نہ تھا.دونوں میاں بیوی حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے.جب آپ سے بار بار پوچھا کہ بتاؤ کیا ہوا ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دو آدمی سفید کپڑوں میں آئے.انہوں نے عبداللہ کو توکچھ نہیں کہا صرف مجھے پکڑ لیا.اور زمین پر لٹا کر میرا سینہ کھول دیا.اس میں سے کچھ نکال کر باہر پھینکا.پھر اس کو برابر کر دیا ہے بچہ امی.جب خون بھی نظر نہیں آیا.اور کوئی زخم کا بھی نشان نہ تھا تو یہ کیا ماجرا تھا.؟ ماں اصل میں یہ ایک کشف تھا جو انسان کو جاگتے میں نظر آجاتا ہے.اس نظارہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ محمد کے دل سے دنیا کی محبت اور ہر قسم کی گندگی کم عمری میں ہی نکال له سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ ۱۲۲
دی گئی.اور اب اُن کا دل ہر برائی اور کمزوری سے پاک صاف ہے.اس میں نور بھرا ہوا ہے.اس واقعہ کو تاریخ اسلام میں شق صدر کہا جاتا ہے.اس وقت آپ کی چار سال عمر منی سے بچہ کیا یہ واقعہ مقدس بچے کو یاد تھا.ماں بالکل یا د رہا.آپ خود بیان کرتے ہیں کہ میں کھیل رہا تھا.اچانک جبرائیل آئے.انہوں نے زمین پر لٹا کر سینہ کھول دیا.پھر اس میں سے دل نکال دل میں سے کوئی چیز نکالی اور باہر پھینک دی.ساتھ ہی کہا کہ یہ کمزوریوں کی آلائش ہے.جس سے آپ کو پاک کر دیا گیا.پھر دل کو صاف شفاف پانی سے دھویا اور سینہ میں واپس رکھ کر سینہ برابر کر دیا کہ اب تو حضرت حلیمہ اور ان کے شوہر ڈر گئے ہوں گے کہ ہم اس بچے کی کیسے حفاظت کریں گے.اگر کوئی بات ہوگئی تو حضرت آمنہ اور سردار قریش حضرت عبدالمطلب کو کیا جواب دیں گے.ماں آپ نے درست اندازہ لگایا.دونوں میاں بیوی سخت پریشان تھے.ان کو خیال ہوا کہ جب ظاہر میں کچھ نظر نہیں آرہا.لیکن دونوں بچے ایک جیسی بات کہ رہے ہیں تو ضرور کوئی چین وغیرہ کا اثر ہوگا.اس زمانے میں لوگوں کو ان باتوں پر یقین تھا.دونوں نے مشورہ کیا کہ اب محمد کو اس کے دادا کے پاس چھوڑ آؤ.ایسا نہ ہو کہ پھر شرمندگی اٹھانی پڑے.ساتھ ہی انہیں آپ سے بہت زیادہ پیار تھا.وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچے چنانچہ حضرت حلیمہ آپ لله سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحہ ۱۲۲ - سه صحیح مسلم.راوی حضرت انس بن مالک
۲۲ کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس آئیں.ان کو پریشان دیکھ کو حضرت آمنہ نے پوچھا کہ حلیمہ کیا بات ہے ؟ تم تو اس کو زیادہ عرصہ رکھنے کے لئے گئی تھیں.کیا کوئی واقعہ ہوا ہے.پہلے تو حضرت حلیہ بتانا نہیں چاہتی تھیں.لیکن جب حضرت آمنہ نے بار بار پوچھا تو انہوں نے سارا واقعہ سنا دیا.بچہ حضرت آمنہ بھی پریشان ہوگئی ہوں گی.مالے بالکل نہیں.انہوں نے حضرت حلیمہ کو جواب دیا کہ حلیمہ تمہارا جو خیال ہے کہ اس بیچے پر کوئی اثر یا جن ہے یہ تو بالکل غلط ہے.اس کی پیدائش سے پہلے میں نے ایسے خواب دیکھتے ہیں جس سے مجھے یقین ہے کہ میرا بچہ بڑی عظمت اور شان والا ہوگا.اس پر کسی ایسی چیز کا اثر نہیں ہو سکتا اس لئے تم پریشان نہ ہو.بچہ پیارا شہزادہ اب مکہ میں اپنی امی کے ساتھ رہے گا.ماں اب یہ پیارا سا بچہ اپنی امی کے پاس رہنے لگا.اس کی معصوم مگر پیاری پیاری باتوں نے سارے خاندان کے لوگوں کو اس کا گرویدہ بنا دیا یتیمی جھوٹ نہیں بولتے.جو پوچھا جاتا.سچ سچ بتا دیتے.کبھی بد تمیزی نہیں کی.بڑوں کا احترام ، ان سے تمیز سے پیار سے بات کرتے، ہرایک کا کام جو اس وقت کر سکتے تھے فوراً خود کر دیتے.ادھر ادھر کی فضول باتیں نہیں کرتے.اور گالی یا گندی بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کسی چیز کے لئے بند نہیں کی، جیسے بچے لڑتے جھگڑتے ، شور کرتے ہیں ه سیرت ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۱۲
۲۳ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا بچہ آپ کے ماموں تو آپ سے مل کر بہت خوش ہوئے ہوں گے.ماں اظاہر ہے کہ اتنی پیاری صورت والا پیاری پیاری عادتوں والا بچہ کس کو اچھا نہیں لگتا.اس کم عمری میں بھی آپ کو اپنا یثرب کا قیام یاد تھا.جب آپ نے مدینہ ہجرت کی تو بنو عدی کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ مکان دکھایا جس میں ماں کے ساتھ ٹھہرے تھے سو سرکان بھی دکھایا جس میں بچوں کے ساتھ کھیلتے تھے پھر آپ کو وہ تالاب بھی یاد تھا جس میں بچوں کے ساتھ تیرنا سیکھا تھا.پھر وہ لڑکی بھی یاد تھی جو آپ کے ساتھ کھیلا کرتی تھی.اس کا نام انیسہ تھائی.بچہ آپ مکہ کب واپس آئے ماں ایک ماہ کے بعد واپس آئے.آپ نے اپنے ابو جان کے مزار کی زیارت بھی کی.اس کے بعد یثرب سے لوٹ رہے تھے تو راستے میں ابواء کے مقام پر آپ کی والدہ حضرت آمنہ کی وفات ہوگئی.دراصل آپ بیمار ہوگئی تھیں.آپ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا.یہ نتھا بچہ باپ کے بعد ماں کی شفقت سے بھی محروم ہوگیا.آپ بالکل تنہا رہ گئے.ابو جان تو پہلے ہی نہیں تھے.اب امتی بھی نہیں رہتیں ، بہت بے قرار ہوئے لیکن آپ کی لونڈی اُمر ایمین جو آپ کی آیا بھی تھیں، پھر یہ وفادار محبت کرنے والی عورت آپ کو والد کی طرف سے ترکہ میں ملی تھیں.یہی آپ کو واپس لائیں.اور آپ کے دادا کے سپرد کر دیا کہ یہی امر ایمین آپ کے ساتھ 44 سیرت النبی حصہ اول شبلی نعمانی مت ہے.ه طبقات ابن سعد جلد 1 سیرت خاتم النبیین جلد اول ص ۱۲ "
۲۴ ایک لمبا عرصہ رہیں.اور آپ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہیں.بچہ جب آپ اپنے دادا جان سے ملے تو کیا حال ہوگا.ماں آپ خود سوچ لیں کہ چار سال کا بچہ جس کی ماں راستے میں اللہ کو پیاری ہو گئی.اس کا کیا حال ہو گا.آپ کے دل پر بچپن کے ان ہی صدمات کا اثر معلوم ہوتا ہے.پھر خدا تعالیٰ نے بھی آپ کے دل میں کمزوروں ، بیواؤں، یتیموں کے لئے بے پناہ ہمدردی ڈال دی تھی.اسی لئے ساری زندگی کسی کو دکھی نہیں دیکھ سکتے تھے.ہر ایک کی ہمدردی ہر ایک سے پیارا لوگوں کے دکھ کو بانٹ لینا آپ کی فطرت بن گئی تھی.بچہ آپ اپنے دادا جان کے ساتھ کیسے رہتے تھے.کچھ اس زمانے کی باتیں بھی تو بتائیں.ماں کیوں نہیں.یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ آپ کے دادا جان اپنے پوتے محمد سے بہت پیار کرتے تھے.اب جبکہ ماں بھی نہیں رہیں تو ساری توجہ آپ پر تھی.خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے اپنے کندھے پر بٹھالیتے خانہ کعبہ کے سائے میں جو مسند سردار قریش کے لئے بھائی جاتی اس پر بیٹھنے کی کسی کو جرات نہ تھی.اور پیارا پونا جب دادا کو دیکھتا تو دوڑ کر اس پر آبیٹھتا.چار دیکھتے یا کبھی کوئی اور منع کرتا تو فورا عبدالمطلب ٹوک دیتے کہ اس کو کچھ نہ کہو.اور اکثر آپ کو اپنی گود میں بٹھائے بٹھائے مسائل حل کرتے رہتے.اکثر کہتے کہ یہ میرا بیٹا ہو نہار اور صاحب شان ہے.اور جب کھانا کھانے بیٹھتے اور آپ پاس نہ ہوتے تو کہتے میرے بیٹے لے سیرت خاتم النبیین جلد اول سے ۱۲ ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۱۴
۲۵ کو میرے پاس لاؤ.اور جب تک آپ آ نہیں جانتے کھانا نہیں کھاتے تھے.آپ کو اپنی نظروں سے بھی اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے.کہا کرتے.دادا کی جان میرے سامنے رہا کرو.ورنہ پریشان ہو جاتا ہوں " قریش کے لوگ کہتے کہ آپ کا اپنا بیٹا حمزہ بھی تو محمد کی عمر کا ہے.اس کے لئے کبھی پریشان نہیں ہوئے تو فوراً بول پڑتے امد محمد کی تو بات ہی کچھ اور ہے.یہ شان والا ہے ؟ اور آپ بھی دادا کے ارد گرد رہتے.پیار کرتے ہر بات مانتے.بچہ آپ اپنے دادا کے ساتھ کتنا عرصہ رہے.ماں اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا جان کو جب ان کی عمر ۸۲ برس ہوئی تو اپنے پاس بلا لیا.اس وقت پیارا محمد صرف آٹھ سال کا تھا.تاریخ میں آتا ہے کہ دادا کی وفات کا آپ کو بے حد صدمہ تھا.جب ان کا جنازہ اٹھا تو مقدس پوتا پیچھے پیچھے چلتا جاتا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے بچہ امی آپ تو کہتی ہیں کہ اللہ میاں کو اپنے اس شہزادے سے سب سے زیادہ پیار تھا تو پھر کیوں بار بار اس سے پیار کرنے والوں کو اپنے پاس بلا کر اس نے بیچنے کو رلاتا رہا.آخر اس کو بھی تو اپنی امی.اور دادا جان یاد آتے تھے.ماں میری جان! سوال تو آپ نے بڑا ہی مشکل کر دیا.ان باتوں کی وجہ سے اللہ میاں کی محبت میں کمی ظاہر نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ آپ کو ستانے کے لئے ایسا کر رہا تھا.بلکہ وہ دنیا کے لوگوں دکھانا چاہتا مله سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ ۱۲۸
A تھا کہ بچوں کے ماں باپ ہوتے ہیں.دادا دادی ہوتے ہیں، نانا نانی ہوتے ہیں جبکہ یہ سب سے زیادہ پیار کرنے والے رشتے ہیں پھر یہ پرورش کے ساتھ ساتھ بہترین تربیت کی بھی کوشش کرتے ہیں.لیکن یہ میرا محمد ہے.میں خود اس کی تربیت کروں گا.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم نے محمد کی تربیت کی.بلکہ سارے پیارے میرے پاس آگئے.میں ہی اس کو پیار بھی کروں گا.اس کو سنبھالوں گا.ہر جگہ اس کی حفاظت کروں گا.اس کو معاشرے کی برائیوں سے بچاتے ہوئے اچھائیوں کی طرف لے جاؤں گا.اور آہستہ آہستہ ساری خوبیاں جو اس پیارے وجود میں جمع کی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر بھی کروں گا تاکہ دنیا خود اندازہ کرے کہ یہ عام انسان نہیں.بچہ امی جو بچے اپنے پیاروں سے جدا ہو جاتے ہیں.ان کی طبیعت پر بھی تو اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہوں گے.ماں یقیناً اس کے اثرات ہوتے ہیں جو بعد میں فطرت کا حصہ بن جاتے ہیں.کیونکہ وہ بچے جو بار بار اپنے پیاروں سے بچھڑتے رہتے ہیں پھر وہ کبھی کسی کی محبت میں بھی کسی کی نگرانی میں رہتے ہیں ، تو ان میں دو باتیں پیدا ہو جاتی ہیں.یا تو وہ سخت مندی اور بدتمیز بن جاتے ہیں.یا پھر خوف مایوسی حسرت کا شکار ہو جاتے ہیں.اور یہ دونوں ہی احساس برتری یا احساس کمتری (complex) کا نمونہ ہیں جو ایک انسان کو کامیاب انسان نہیں بناتے لیکن ان حالات سے گزرنے کے باوجود نہ تو آپ مندی تھے ، نہ مایوسی یا بے چارگی کا شکار.بلکہ چہرے پر ہمیشہ اطمینان اور سکون ہی رہتا.یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ
۲۷ کی ہی تربیت کا نتیجہ ہے.اس کے سوا تو کچھ نہیں ہوسکتا.اسی نے آپ میں یہ خوبیاں پیدا کیں اور ظاہر کیں.بچہ واقعی بات آپ کی ٹھیک ہی ہے.یہ اللہ میاں کے پیار کا انوکھا اور نرالا انداز ہے.ماں آپ کے دادا جان کو اپنی وفات کا اندازہ ہو گیا تھا یہ اس لئے انہوں نے اپنے پیارے پوتے کو اپنے بیٹے حضرت ابو طالب کے سپرد کر دیا.حضرت ابوطالب اور آپ کے ابو جان حضرت عبد اللہ کی امی ایک تھیں.آپ کے دادا جان نے کئی شادیاں کی تھیں.انہوں نے خیال کیا کہ عبداللہ کی ماں یعنی آپ کی دادی جان فاطمہ بنت عمرو کے بیٹے ابو طالب کے ساتھ میرا پیارا ہوتا اچھی طرح رہ سکتا ہے.ساتھ ہی ابوطالب کو نصیحت بھی کی کہ اس کا بہت خیال رکھتا.اس کو کوئی دکھ نہ ہو.اسکی حفاظت بھی کرنا ، یہ بڑی شان والا بچہ ہے.ایک دن دنیا اس کی شان کو دیکھے گی.بچہ امتی حضرت ابو طالب کا اصل نام کیا تھا.ابوطالب کے ساتھ آپ آرام سے رہے.کیا انہوں نے بھی بہت پیار کیا.ماں حضرت ابوطالب کا اصل نام عبد مناف تھا.لیکن ان کے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے ان کی کنیت ابو طالب ہو گئی.اور اسی نام سے مشہور ہوئے.حضرت ابو طالب نے اپنے باپ کی وصیت پر ساری زندگی عمل کیا.اور آپ اپنے بچوں سے زیادہ اپنے بھتیجے محمد ره سیرت ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۱۵
۲۸ سے پیار کرتے.انہیں اپنے ساتھ سلاتے ، آپ کے بغیر کھانا نہیں کھاتے ، اگر کسی وجہ سے دیر سے گھر آتے اور بچے کھانا کھا چکے ہوتے تو سب سے پہلے پوچھتے کہ محمد نے کھانا کھایا.اسی طرح آپ بھی ہر جگہ نتھے محمد کو ساتھ ساتھ رکھتے اور یہ پیار کا سلوک حضرت ابو طالب نے اپنی آخرمی زندگی تک جاری رکھا.سارے قریش کے قبائل سے دشمنی مول لے لی.لیکن آپ کی حفاظت اور محبت میں کوئی فرق نہ آیا.بچہ پیارے محمد کے بچپن کا کوئی اور واقعہ سنائیے.ماں واقعات تو بہت سے ہیں.ایک سناتی ہوں.ابھی آپ چھوٹے تھے.دادا جان کی وفات کے بعد مکہ میں قحط پڑا.جب کافی عرصہ تک بارش نہیں ہوئی تو قریش حضرت ابو طالب کے پاس آئے اور دعا کی درخواست کی حضرت ابو طالب کو نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے نتھے محمد کا ہاتھ پکڑا اور خانہ کعبہ میں لے گئے.کعبہ کی دیوار کے ساتھ آپ کو کھڑا کر کے کہا کہ بیٹیا دعا کرو کہ بارش ہو جائے آپ نے بھی چا کی بات فوراً مان لی اور اپنے ننھے ننھے ہاتھ خدا کے حضور اٹھا دئیے معصوم سی صورت والے اس منے سے شہزادے کی یہ ادا میرے مولا کو بہت پسند آئی.اور اس کے ہاتھ اٹھاتے ہی آسمان میں رحمت کے بادل چھا گئے اور بارش برسنے لگی.سیرت التي جلد اول شبلی نعمانی صفحه ۱۷۷
۲۹ بچہ کیا حضرت ابو طالب کو اندازہ تھا کہ یہ با برکت بچہ ہے.ماں بالکل اندازہ بلکہ یقین تھا.وہ آپ کے پیدا ہونے سے ہی ان برکتوں کو دیکھ رہے تھے پھر حضرت عبدالمطلب نے تو وفات سے پہلے وصیت میں بڑی وضاحت سے بیان کیا کہ " اس کی پیروی حرم کے سوا تمام کرہ ارض کی کشادہ اور سنگلاخ زمین میں بھی کی جائے گی.اور ساکنان حرم اور اس کے ارد گرد کے لوگ بھی ایسا ہی کریں گے.اور جو بھی جزائے خیر کا طالب ہو گا.وہ اس کی اقتداء سے سرتابی نہ کرے گا ، نہ بچہ پیارے محمد اس کم عمری میں کیا کیا کرتے.کیا وہ اسکول میں داخل نہیں ہوئے تھے ؟ ماں عرب میں عام طور پر اور شرفاء اور رؤساء میں خاص طور پر پڑھائی کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی.بلکہ ان کو اپنے حافظے پر بڑا مان تھا.وہ ہر بات ، ہر چیز کو یاد رکھ لیتے.اس لئے لکھنے پڑھنے کی ضرورت ہی نہ تھی.پھر اس زمانے میں آجکل کی طرح پڑھائی کا رواج بھی نہ تھا.میں بچے یا تو کھیلتے تھے یا اگر کوئی کام کرتے تو بکریوں کو چرانے لے جاتے تھے.اُسی زمانے کا ذکر ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ در جو پہلو کالے ہو جاتے ہیں زیادہ میٹھے ہوتے ہیں.میں بھی بکریاں چراتے ہوئے ان کو چن چن کر کھایا کرتا تھا تے له نقوش رسول نمبر جلد 11 صفحہ 42 نے سیرت خاتم النبیین جلد اول
بچہ آپ بتاتی ہیں کہ بعض لوگوں نے آپ کو بچپن میں ہی پہچان لیا تھا کہ اس بچہ کی بڑے ہو کر شان ظاہر ہوگی.اس کے متعلق کوئی واقعہ سنائیں.ماں واقعات تو کئی ہیں.جب حضرت حلیمہ آپ کو آپ کی امی کے پاس شق صدر کے واقعہ کے بعد چھوڑنے آرہی تھیں، جب کچھ لوگوں نے آپ کو دیکھ کر پہچان لیا تھا.لیکن ایک واقعہ بتاتی ہوں.مکہ میں بنی لہب کا ایک آدمی آیا یہ علم قیافہ یعنی چہرہ دیکھ کر حالات بتانے والا تھا.قریش کے لوگ اپنے اپنے بچوں کو لے کر اس کے پاس آئے تاکہ حالات معلوم کر سکیں.حضرت ابو طالب بھی آپ کو لے کر پہنچے.اس نے آپ کو ایک نظر دیکھا پھر دوسر بچوں میں مصروف ہو گیا.باری باری ان کے ماں باپ کو ان بچوں کے بارے میں بتاتا رہا.وہ غالباً یہ چاہتا تھا کہ سب سے فارغ ہو کر اطمینان سے آپ کو دیکھے.اور پھر اندازہ لگائے کہ یہ کیس شان کا بچہ ہے.جب اس کو فرصت ملی تو بولا اس بچے کو لاؤ جس کو میں نے ابھی دیکھا تھا.وہ تو بڑا ہو نہار معلوم ہوتا ہے اس کی ضرور شان ظاہر ہوگی.لیکن جب اس کو حضرت محمد دکھائی نہ دئیے تو بے قراری سے پوچھتا رہا.وہ بار بار آپ کو تلاش کرنے کی غرض سے ادھر اُدھر بے تابی سے دیکھ رہا تھا.اس کی حالت دیکھ حضرت ابو طالب کو خوف محسوس ہوا اور انہوں نے آپ کو چھپا لیا.پھر آہستہ سے لوگوں کے ہجوم سے نکل آئے اور تیزی سے آپ کو لے کر گھر میں داخل ہو گئے.سیرت ابن ہشام جلد اول ص 14
۳۱ بچہ حضرت ابو طالب کیا کام کرتے تھے ؟ ماں حضرت ابو طالب تجارت کرتے تھے اور بعض اوقات قافلوں کے ساتھ مکہ سے باہر شام، یمین کی طرف بھی جاتے.انہوں نے کئی تجارتی سفر کیے.بچہ پیارے محمد آپ کے بغیر رہ جاتے تھے.ماں دراصل حضرت ابو طالب آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھتے تھے.لیکن جب وہ شام کے سفر پر جانے لگے تو سفر کی طوالت اور راستے کی مشکلات کی وجہ سے چاہا کہ آپ گھر پر رہ جائیں.لیکن آپ نے ر اپنے پیارے چچا کے بعد ان کی جدائی میں رہتا برداشت نہ کیا اور پریشان ہو گئے.جب قافلہ روانہ ہونے لگا تو دوڑ کر لپٹ گئے اور رونے لگے.حضرت ابوطالب خود بھی آپ کے بغیر جاتے ہوئے گھبرا ر ہے تھے لیکن مجبوری تھی.اب آپ کی حالت جود دیکھی تو چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہو ساتھ ہی لے کر جاؤں گا.بلے بچہ اب تو آپ خوش ہو گئے ہوں گے ؟ ماں پیارے محمد اور اچھا دونوں ہی خوش تھے کہ ساتھ جارہے ہیں.وہ آپ کو لے کر چلے.جب بصری کے مقام پر پہنچ کر قافلے نے پڑاؤ ڈال دیا.یہ علاقہ شام کے جنوب میں واقع ہے.اس جگہ پر ایک عیسائی راہب کی خانقاہ (عبادت گاہ اور گھر تھی جو صومعہ کہلاتی تھی.راہب ایسے درویشوں کو کہتے ہیں جو دنیا چھوڑ کر اللہ سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحہ ۱۲۹
کی عبادت میں مگن ہو جاتے ہیں.اس راہب کا نام مجیدہ تھا.وہ دور سے قافلہ کو آتا دیکھ رہا تھا.جیسے ہی قافلہ خانقاہ کے قریب پہنچا تو اس نے دیکھا کہ تمام درختوں کی شاخیں جھک گئی ہیں اور پتھر بھی سجدہ کر رہے ہیں نے یہ ایک کشفی نظارہ ہو سکتا ہے.چونکہ یہ راہب الہی کتب کا ایک بڑا عالم بھی تھا اور سات پشتوں سے باری باری یہ نشانیاں اور پیشگوئیاں اس کو اپنے بزرگ عالموں سے پہنچی تھیں.پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان نشانیوں کے تحت وقت آگیا ہے کہ اس نبی کا ظہور ہو جس نے ساری دنیا کی ہدایت کا کام کرنا ہے اور اسی کے ذریعے ساری قوموں کو سچائی کا پیغام ملنے والا تھا.چنانچہ اس نظارے کو دیکھ کر اُسے یقین ہو گیا کہ وہ مقدس وجود اس قافلہ میں موجود ہے.پھر ایک روایت ہے کہ اس نے بار ہالہ بچے محمد کو بھی دیکھ لیا تھا جس کے سر پر ابر (بادل) کا سایہ تھائے بچہ بحیرہ راہب نے کیا کیا.ماں یہ نظارہ دیکھ کر وہ اپنے موقعہ سے باہر نکلا اور ایک دعوت کا انتظام کیا.تاکہ وہ آپ کی عادتوں اور باتوں کو دیکھ کر جان سکے کہ واقعی وہ نبی آپ ہیں پھر قافلہ والوں کو کہلا بھیجا کہ آپ تمام لوگ میرے مہمان ہیں اور سب اس دعوت میں آئیں کوئی بھی باقی نہ رہے.ادھر قافلہ کے لوگ حیران تھے کہ ہم تو ہر سال یہاں سے گزرتے ہیں ها بسیرت ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۱۴ - سه سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۲۹
} ۳۳ ٹھرتے بھی ہیں پہلے تو کبھی اس راہب نے ایسا سلوک نہیں کیا.دون کرنا تو دور کی بات، وہ تو صومعہ سے بھی باہر نہیں نکلتا تھا.آخر اس اچانک تبدیلی کی کیا وجہ ہو سکتی ہے.قافلہ کے لوگ اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ بالآخر ایک شخص نے اس سے پوچھ ہی لیا.وہ بولا.آپ کی بات صحیح ہے.پھر اصل بات کو چھپاتے ہوئے کہا کہ آپ میرے مہمان ہیں.اس لئے میں نے چاہا کہ آپ کی دعوت کروں یہ اس کا اصرار تھا کہ ہر فرد چاہے بچہ ہی کیوں نہ ہو یا غلام ہو دعوت میں سب آئیں.لیکن پیارے محمد چونکہ بچہ تھے.آپ کی عمر بارہ سال تھی اس لئے اپنے سامان کے پاس ٹھہر گئے.اور سب دعوت پر چلے گئے.بچہ لیکن بحیرہ راہب تو چاہتا تھا کہ سب آئیں ماں اسی لئے تو وہ ہر آنے والے کو غور سے دیکھتارہا.اور جب اس نے آپ کو نہ پایا تو پوچھا کہ کوئی رہ تو نہیں گیا.بتایا گیا کہ ایک بچہ اپنے سامان کے پاس ہے.وہ بولا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ سب آئیں.پھر آپ کو اصرار کر کے بلوایا.چونکہ وہ پہلے ہی آپ کی شان کو دیکھ چکا تھا اس لئے وہ ہر حرکت کا بغور جائزہ لیتا رہا.جب سب کھانے سے فارغ ہوئے تو وہ آپ کو لے کر ایک طرف ہو گیا.اس نے آپ کے سارے جسم کو غور سے دیکھا اور کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے مہر نبوت کو پہچان لیا.جو آپ کے دو کندھوں کے درمیان ابھرا ہوا گوشت کا حصہ تھی.ه نقوش رسول جلد II صفحہ ۶۹
بچہ اس نے آپ سے کوئی بات نہیں کی ؟ ماں اس نے آپ کو لات اور عزیٰ کی قسم دے کر کچھ باتیں پوچھنا چاہیں.وہ جانتا تھا کہ قریش ان دونوں بتوں کی قسم کھاتے ہیں.لیکن اس چھوٹے سے بچے نے فوراً جواب دیا کہ مجھے ان سے سخت نفرت ہے.ان کی قسم نہ دیں یہ پھر اس نے کہا کہ اللہ کی نہ.ہوئیں پوچھوں مجھے اس کے بارے میں بتاؤ.وہ آپ سے آپ کی عادتوں سونے جاگنے وغیرہ کے متعلق پوچھتارہا.اور ہر بات نشانیوں کے مطابق تھی.جب آپ کی ذات کے متعلق اس کی مکمل تسلی ہوگئی تو پھر اس نے حضرت ابو طالب سے پوچھا کہ اس بچے کے ساتھ آپ کا کیا رشتہ ہے.وہ بولے.یہ میرا بیٹا ہے.راہب نے فوراً کہا کہ اس کا باپ تو زندہ نہیں.یہ آپ کا بیٹا نہیں ہے.ابو طالب نے حقیقت بیان کی کہ یہ میرے بھائی کا بیٹیا ہے.وہ اس کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پاچکے ہیں.بچہ اب تو را مہب کو یقین ہو گیا ہوگا کہ یہی بچہ بڑا ہو کر وہی عظیم نبی ہوگا ماں وہ پوری طرح پہچان چکا تھا.بحیرہ نے حضرت ابو طالب سے کہا کہ اپنے اس بھتیجے کو لے کر فورا گوٹ جائیں کیونکہ اگر یہودیوں نے دیکھ لیا اور ان نشانیوں کو پہچان لیا.تو وہ اس بچے کو نقصان پہنچائیں گے.آپ اہل کتاب سے اس کو بچائیں ، کیونکہ وہ تمام نشانیاں جانتے ہیں.آپ کا بھتیجا بڑی عظمت والا ہے کہ اس کا ظہور ہونے والا ا نقوش رسول نمبر جلد 11 1-2 سے سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحه ۱۱۸
۳۵ ہے.چنانچہ حضرت ابو طالب آپ کو لے کر جلد مکہ پہنچے.بچہ کسی اور نے تو آپ کو اس سفر میں نہیں پہچانا.ماں ایک اور روایت ہے کہ اسی سفر میں زربر ( زبیر) تماما تمام) اور در لیسار در لیس، جو یہودی تھے انہوں نے بحیرہ کی طرح آپ کو پہچان لیا تھا اور دشمنی پر آمادہ ہو گئے تھے.انہوں نے آپ کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کیا لیکن بحیرہ نے ان کے ارادہ کو بھانپ لیا اور انہیں نصیحت کی.ساتھ ہی کہا.کیا تم نے اپنی کتابوں میں اور ا نہیں پڑھا کہ خدا اس کی حفاظت کرے گا.اور تم کچھ نہ بگاڑ سکو گے.اس لئے ایسا نہ کرو.ورنہ خود ہی الہی غضب کا شکار ہو جاؤ گے.چنانچہ یہ سن کر وہ رک گئے.بچہ اتنی کمال ہے.اتنی چھوٹی عمر میں بھی نشانیاں پوری ہو رہی تھیں بلکہ کے لوگ تو بتوں کی پوجا کرتے تھے.پھر آپ نے جو لات و عزی کی قسم کو نہیں مانا.تو کیا آپ نے کبھی بھی کسی بت کی پرستش نہیں کی ؟ ماں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کو شرک سے محفوظ رکھا.اور یہی تو وہ باتیں مفتیں جن سے اہل علم ، اہل کتاب آپ کو پہچان لیتے تھے.میں آپ کو بتوں کی پرستش نہ کرنے کا ایک بڑا مشہور واقعہ جو آپ کی زندگی میں پیش آیا ، بتاتی ہوں.بچہ پیاری امی ضرور بتائیں.ے رسول نمبر جلد 1 صفحہ ۷۰
} ماں عرب میں ہوا نہ بت کی سالانہ تقریب ہوتی تھی.بالکل جیسے ہماری عید کی تیاریاں ہوتی ہیں.اس طرح قریش مکہ بھی اس تقریب میں حصہ لینے کیلئے تیاریاں کرتے تھے.جب وہ دن آگیا.سے الگ تھلگ آپ ایک طرف چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے جبکہ آپ کے ہم عمر بچے خوشی خوشی تیار ہو رہے تھے گھر ہم ہوں کے بڑے جب جانے کے لئے تیار ہو گئے تو دیکھا کہ محمد تو اسی طرح بیٹھے ہیں.آپ کی بھی آئیں اور بولیں کیا بات ہے محمد- طبیعت تو ٹھیک ہے.آپ نے کہا کہ جی بالکل ٹھیک ہوں.بولین.پھر تیار نہیں ہوئے.کیا بات ہے.چلنا نہیں.آپ نے جواب دیا کہ میں نہیں جاؤں گا.بچہ اتنے اہم موقع پر نہ جانے کی وجہ سے تو سب ناراض ہوئے م پر نہ جانے کی وجہ سے ہوں گے.ماں پہلے تو سب نے سمجھایا اور باری باری تمام پھوپھیاں آئیں.اور افراد کیا کہ یہ تو ہماری عزت کا سوال ہے.تم کو چلنا ہوگا.آخر چھپا بھی آگئے.لیکن آپ کا ایک ہی جواب تھا کہ میں اس تقریب میں نہیں جاؤں گا.مجھے بتوں کی پرستش پسند نہیں.آپ کے بار بار انکار کے باوجود سب کا اصرار بڑھتارہا.کیونکہ یہ قریش کا معزز گھرانہ تھا.اور کعبہ کا متولی بھی.پھر بھلا اس اہم تقریب میں بنو ہاشم کا کوئی فرد کیسے شریک نہ ہو.لیکن جتنا اصرار بڑھتا گیا.اسی عزم سے آپ کا انکار جاری رہا.آخر ابو طالب کو شکایت پہنچی کہ محمد تیار نہیں ہو رہا.تو وہ آئے.بڑی محبت و شفقت اور
۳۷ پیار سے محمدؐ سے کہا کہ کیا بات ہے.میری جان.کیوں نہیں چلتے.آپ بار بار کی تکرار سے تنگ آگئے تھے.روہانسے ہو کر بولے چھا.میں ہر گز نہیں جاؤں گا.مجھے ایسی جگہوں پر جانا بالکل پسند نہیں سخت گھبراہٹ ہوتی ہے.خوف آتا ہے.نہیں نہیں جاؤنگا نہ ہی اس موقع کا کھانا کھاؤں گا.محبت کرنے والے چھا کا دل تڑپے اٹھا.اور فیصلہ سنا دیا کہ محمد کو کوئی تنگ نہ کرے.اس کا جو جی چاہتا ہے اسے وہی کرنے دو.بار بار اصرار کر کے تنگ مت کرو.بچہ آپ کے اور بھی تو چھا تھے.انہوں نے کیا کہا ؟ ماں دوسرے چھاؤں نے تو یہاں تک کہا کہ ابو طالب کے پیار نے اس کو بگاڑ دیا ہے.لیکن ابو طالب سب کو سمجھا کر چلے گئے.اور باری باری سب تقریب میں جانے لگے.آپ اپنی لونڈی ام ایمین کے ساتھ گھر پر رہ گئے.آپ نے نہ صرف یہ کہ کسی بہت کی تقریب میں شرکت نہیں کی بلکہ کبھی بھی بتوں کے نام کا کھانا نہیں کھایا.یوں خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کی تربیت ہو رہی تھی.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن میں ہی شرک سے محفوظ رکھا.بچہ کیا اللہ میاں ہر معاملہ میں آپ کی نگرانی کر رہا تھا.اور آپ کو غلط بانوں سے بچاتا تھا.ماں آپ نے دیکھا کہ اللہ میاں نے اپنے شہزادے محمد کو شرک سے کیسے بچایا.اسی طرح اس نے قریش کی ناچ گانوں کی مجالس اور دوسری بے ہودگیوں سے بھی آپ کی حفاظت کی.
بچہ وہ کیسے ؟ ۳۸ ماں پیارے آقا حضرت محمد اپنے بچپن کے واقعات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا سب بچے پتھر اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے.انہوں نے اپنے تہہ بند کھول کر ان کو کندھوں پر رکھا.عرب میں عموماً بڑے لوگ بھی کام کرتے ہوئے یا مزدوری کرتے ہوئے اپنے تہ بند کو گردن سے باندھ لیتے تھے.یا کندھے پر رکھ لیتے تھے.ان میں بہر مہنگی رنگے پن کو عیب (برائی ) نہیں جانا جاتا تھا.کیونکہ وہ کعبہ کا طواف بھی ننگے ہو کر کرتے تھے جب آپ نے بھی پتھر لانے کے لئے اپنے تہہ بند کو کھولنا چاہا تو غیب سے توجہ دلائی گئی کہ ایسا مت کر تمہ ہند کو سختی سے باندھے رکھو.آپؐ فرماتے ہیں کہ میں ڈر گیا.سب بچے اس بر سنگی کی حالت میں پتھر لا رہے تھے لیکن صرف میرا تہ بند بندھا ہوا تھا اور میں اپنی گردن پر پتھر رکھ کر لاتا رہا ہے بچہ کیا اسی طرح کا کوئی اور واقعہ بھی ہوا.ماں اسی طرح کا واقعہ تعمیر کعبہ کے وقت بھی پیش آیا.جب قریش اپنے تہہ بندوں کو گلے میں باندھے پتھرا ٹھا کوں رہے تھے.آپ حضرت عباس (چھا ) والے گروپ میں شامل تھے کیونکہ انہوں نے کام کے لئے لوگوں کو دو گروپس میں بانٹ دیا تھا.آپ کے چانے کئی بار کہا کہ تند بنداد نچا کر لو لیکن آپ اسی طرح کام میں مصروف رہے.لیکن تہہ بند بار بار اٹک جاتا تھا.ه سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ 119
۳۹ بچہ اللہ میاں کیسے اپنے پیارے بندوں کو سمجھاتا ہے.بڑی حیرت ہوتی ہے.ایک بات تو بتائیے کہ عرب میں ناچ گانے، شعر و شاعری کی بڑی بڑی مجالس کیوں لگتی تھیں ماں آپ تو پہلے ہی جان چکے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی خدا تعالے آپ کو بتاتا اور سمجھاتا رہا.پھر اتنی بڑی بات پر کیسے حفاظت نہ کرتا.اس زمانے میں نہ تو ریڈیو تھا اور نہ ہی ٹی وی کہ کوئی غزل گانے ، قوالی وغیرہ یا پھر کوئی دھن سن لیں.یا کوئی قصہ کہانی یا ڈرامہ دیکھ سکیں.اس وقت جب اس طرح کی دلچسپی نہیں تھی.اس لئے اس زمانے میں شام کے وقت دن بھر کے تھکے ہارے انسان یا تو صحن کعبہ میں جمع ہو جاتے.اور ٹولیاں بناکر بیٹھتے یا پھر میدانوں میں جہاں کھلے آسمان تلے ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہوتیں ناچ گانے کا لطف اٹھاتے.یہ اس دور کئے Open Theater" یعنی کھلے سٹیج تھے.اس کے علاوہ یوں ہی مل بیٹھنے سے اِن کو مکہ سے باہر کی خبروں کا پتہ چلتا.جو کوئی بھی سفر سے لوٹتا یا کوئی اجنبی آتا تو ایسی مجالس میں ضرور شریک ہوتا تھا.پھر اپنے خاندانوں کے قابل فخر کارنامے جاننے کا بھی موقع ملتا جو لطف کو اور بھی بڑھا دیتا.گویا اس طرح شامیں گزارنے میں انہیں اپنے ماضی کے حالات کے ساتھ ساتھ حال کی خبریں بھی معلوم ہوتی رہتیں اور تفریح طبع کا سامان میستر آجانا.نوعمر افراد ان مجالس میں بڑی دلچسپی لیتے تھے.بچہ کیا پیارے محمد نے بھی ایسی مجالس میں شرکت کی.
۴۰ i ماں ایک دن پیارے محمد نے بھی سوچا کہ جا کر دیکھا جائے کہ ران مجالس میں کیا ہوتا ہے.کیونکہ ان کے ساتھی اکثر ذکر کرتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی بکریاں اپنے ساتھیوں کے حوالے کیں اور مکہ میں ایسی مجلس کی تلاش میں نکلے.شہر میں پہنچے تو ایک محلے سے گانے اور ناچنے کی آوازیں آرہی تھیں معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ فلاں مرد کا فلاں عورت سے نکاح ہے جس کی وجہ سے یہ محفل جھائی گئی ہے.آپ بھی وہاں پہ چلے گئے.لیکن اندر جاتے ہی نیند کا ایسا غلبہ ہوا کہ فوراً ہی سو گئے اور صبح ہی آنکھ کھلی جب اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچے اور انہوں نے رات کا احوال پوچھا تو وہ یہ سن کرحیران رہ گئے کہ ایسی دل چسپ اور پُر لطف محفل میں نیند کیسے آگئی.: بچہ امتی وہ لوگ ٹھیک ہی تو سوچ رہے تھے.مانی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ خدا تعالی اس معصوم نو عمر کی حفاظت کر رہا ہے.وہ اپنے پیارے کو ان مجالس سے دُور رکھنا چاہتا ہے.کیونکہ یہ خدا کا پیارا ان مجالس کے لئے تو پیدا نہیں کیا گیا.بلکہ یہ تو دنیا کو ان فضول دلچسپیوں سے بچانے کے لئے ظاہر ہوگا یہ تو انسان کو خدا کی طرف بلانے والا ہے.پھر بھلا وہ کیسے ان مجلسوں اور محفلوں سے لطف اٹھا سکتا تھا.بچہ کیا آپ کبھی کسی مجلس میں پھر نہیں گئے ؟ ماں دوسری مرتبہ آپ نے پھر کوشش کی کہ شرکت کروں.لیکن پہلے جیسا ہی معاملہ پیش آیا.اور آپ دوبارہ ان فضولیات سے
بچالے گئے.اس کے بعد تو آپ کا دل ان باتوں سے نفرت ہی کرنے لگا.اور یوں ہمیشہ کے لئے ان فضولیات سے محفوظ ہو گئے.ان واقعات سے ایک بات آپ کو سمجھانا چاہتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کو وقت کا ضائع کرنا بھی بالکل پسند نہیں ہے جس طرح وہ اپنی اور نعمتوں کے ضائع کرنے پر ناراض ہوتا ہے.اور انہیں چھین بھی لیتا ہے.اسی طرح وقت بھی اس کی ایک نعمت ہے.جس کو بیکار کاموں میں خرچ کرنا.یا فضولیات دیکھنا سننا بھی اس کو پسند نہیں.آجکل آپ بچے خود انصاف سے بتائیں کہ کتنا وقت ضائع ہوتا ہے.کبھی ٹی وی دیکھتے ہیں کبھی ریڈیو سنتے ہیں.کبھی فضول باتیں کرنے یا خواہ مخواہ کسی کا مذاق اڑانے لطیفے سنانے میں یا پھر فون پر بیکار گپ بازی کرتے ہیں اور کچھ نہیں تو افسانے ، ناول، کہانیاں وغیرہ پڑھتے ہیں.یہ تمام وہ چیزیں ہیں جن سے ہمیں اپنی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا.نہ ہی ہماری روح خوش ہوتی ہے.اس کے لئے قرآن پاک.احادیث بزرگان کی کتب واقعات تاریخی حقائق ہیں.یا پھر کوئی اور علم جو پڑھنے.سننے یا پھر دیکھنے سے ذہن تیز ہو.اگر یہ حاصل نہ ہو تو سب بیکار باتیں ہیں.اور یہی بات ہم انسانوں کو بنا نے سمجھانے کیلئے اللہ تعالیٰ نے پیارے آقا کو ان فضولیات سے محفوظ رکھا.ان سے بچنے کی وجہ سے ہی آپ نے دنیا میں اتنے بڑے بڑے کام کئے.ذہن ایک طرف لگا رہا.انسانیت کی بھلائی.اس کی خدمت.اس کی تربیت پر خرچ ہوا.اور دنیا نے نہ صرف روحانی بلکہ دنیاوی علوم بھی حاصل
۴۲ کئے اور اسی وجہ سے آج ترقی کی یہ رفتار حاصل ہوئی یجب مسلمانوں نے وقت کی قدر کرنا چھوڑا.تو آج ان کی حالت آپ کے سامنے ہے.بچہ واقعی جو خدا تعالیٰ کا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس کی کمال حفاظت کرتا ہے.امی کیا اگر ہم بھی اس پیارے مولا سے پیار کریں اور اس کا کہنا ماننے لگیں.اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور پھر ہمارا دل غلط کام کو نہ چاہے تو کیا اللہ میاں ہم کو بھی بچائے گا.ماں بالکل بچائے گا.اور وہ تو اب بھی بچاتا رہتا ہے.اگر اس کی حفاظت نہ ہو تو انسان نہ جانے کہاں کا کہاں نکل جائے انسانوں پیہ یہ اس کا بہت بڑا احسان ہے لیکن جو انسان اس دنیا میں برائیوں میں پڑ جاتے ہیں.اس کی بھی وجہ ہوتی ہے.یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو چھوڑ دیتا ہے.اور ان کی حفاظت نہیں کرتا.بلکہ وہ تو اپنے بندوں کو ماں سے زیادہ پیار کرتا ہے.جس طرح ماں ایک بچے کو بار بار گرنے سے ہر بار ہونے سے بچاتی ہے.چاہے بچہ اس کی بات مانے یا نہ مانے.لیکن ماں کو شش کرتی ہی رہتی ہے.جب وہ اس کو روک نہیں سکتی تو دعائیں کرتی ہے.دوسرے لوگوں کو کہتی ہے کہ اس کو سمجھاؤ کہ یہ راستہ غلط ہے.لیکن خدا تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں.وہ تو خود براہ راست بندوں کو سمجھاتا ہے.مگر اس دنیا کا ایک اصول ہے.ایک قانون ہے اور خدا تعالیٰ ان ہی قوانین کے تحت اپنی قدرت دکھاتا ہے.بچہ وہ کیسے ؟ ہم اللہ میاں کے اصول کیسے سمجھ سکتے ہیں ؟
سلام ماں جس طرح ایک آئینہ اگر صاف ہے تو اس میں چہرہ بھی صاف نظر آئے گا.اگر اس پر گرد و غبار ہے تو چہرہ بھی دھندلی دکھائی دیگا اور اگر مکمل طور پر گرد سے آٹ جائے تو پھر تو کچھ بھی نظر نہیں آنا.اسی طرح انسان دور ہو تو آواز نہیں آتی.یا پھر ایک اور اصول ہے کہ اس آواز یا بات کو یا پھر نہ بان کو جس میں بات ہو رہی ہے، سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.اس لئے اگر آواز سنائی بھی دے تب بھی انسان اس کو سمجھ نہیں سکتا.اگر آپ کہیں کہ فون کی آواز تو بڑی دور سے آجاتی ہے.لیکن اگر لائن درست نہ ہو تو آپ کا مطلوبہ نمبر نہیں ملے گا.اور اگر مل جائے گا تو لائن صاف نہ ہونے کی وجہ سے بات سمجھ میں نہیں آئے گی.بالکل اسی طرح اگر انسان کا دل صاف نہیں تو اس کو خدا نہیں مل سکتا.وہ موجود ہونے کے باوجود اس کو نظر نہیں آتا.کیونکہ دل اور ذہن پر گناہوں کی ، خطاؤں کی ، کمزوریوں کی گرد (مٹی) پڑی ہوتی ہے.اور چونکہ خدا کے کلام کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے اس کی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی.پھر ہمارا اپنے خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ یا رابطہ نہیں ہے.اس لئے اس کی ہدایات ہم تک پہنچ نہیں سکتیں گو یا لائن نہیں ملتی یا نظام کی خرابی کی وجہ سے درست آواز نہیں آتی.یہ تمام باتیں ایسی ہیں کہ ہم اگر اپنی اصلاح کرلیں اور دل اور دماغ کو صاف رکھیں.بری باتوں سے بچیں.نہ خرابیوں کو دیکھیں نہ گندی باتیں سنیں.اور نہ فضول خیالات ذہن میں آنے دیں اگر بار بار کوشش کرنے کے باوجود پھر بھی دل میں کسی کے لئے کوئی
۴۴ بات آتی ہے یا پھر ذہن بھٹک جاتا ہے تو استغفار پڑھیں نہ نیک لوگوں کی مجالس میں بیٹھیں.اور اچھے لوگوں کو دوست بنائیں.یوں ہم اپنے آپ کو خدا کا پیارا بنانے کی کوشش کرنے والے بن جائیں گے.اس طرح اللہ تعالیٰ کو بھی بڑا پیار آتا ہے.اور وہ کہتا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں دوڑ کر اس کی طرف آتا ہوں.اگر وہ میری طرف دوڑتا ہے تو میں جلدی سے اس کو تھام لیتا ہوں.“ گویا خدا کو پانا مشکل کام نہیں.صرف ارادے اور مضبوط عزم کی ضرورت ہے.اور وہ تو اپنے پیاروں کو پا کر بہت خوش ہوتا ہے.جس طرح ایک ماں کو اس کا کھویا ہوا بچہ مل جائے تو اس کی خوشی کی کیا حالت ہوگی.بنچہ آپ نے تو مجھے بڑی اچھی اور آسان سی ترکیب بتا دی میرے لئے دعا کریں کہ میں بھی اللہ میاں سے پیار کرنے والا بن جاؤں اور وہ بھی مجھ سے پیار کرے.ماں خدا کرے کہ آپ اور دنیا کے سب بچے خدا تعالیٰ سے پیار کرنے والے اور اس کے پیار کو حاصل کرنے والے بن جائیں ( آمین ) اب ہم آپ کی سیرت طیبہ کی طرف آتے ہیں.ہم نے آپ کے بچپن کے واقعات سنے.پھر لڑکین کے بھی سنے.اب پیارے محمد نو جوانی کے دور میں داخل ہو رہے ہیں.جس طرح آپ کا بچپن پاکیزہ اور معصوم اداؤں سے بھرا ہوا دکھائی دیتا ہے تو اسی طرح آپ کا لڑکین بھی عام قریش مکہ کے لڑکوں سے بالکل مختلف تھا
۴۵ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جس مقصد (کام) کے لئے پیدا کیا.اور آپ پر جو ذمہ داریاں ڈالنا چاہتا تھا.اس کے لئے آپ کا وجود ایک نمونہ کی طرح ہونا ضروری تھا.ورنہ دنیا کا کوئی بھی انسان کہہ سکتا تھا کہ اس زندگی سے ہم کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں جبکہ بچپن کے دور میں یہ کمزوری تھی.مثلاً مند کرنا ، نافرمانی ، کھانے پر لڑائی ، چھینا جھپٹی، چیخنا چلانا ، یا پھر روٹھ جانا وغیرہ.لڑکپن میں سچ نہ بولنا کوئی چیز کسی نے رکھنے کے لئے دی تو اس کی حفاظت نہ کرنا یا اگر کھانے کی ہے تو کھا لینا.وعدہ خلافی.اپنی بڑائی یا خوبصورتی پر ا ترانا وغیرہ.ایسی چیزیں ہیں جو عام طور پر بچوں میں نظر آتی ہیں لیکن اس پیارے انسان میں کوئی بُری بات ایسی نہیں تھی جس کو کوئی پیش کر سکے.آپ کے اخلاق اور کردار کی پاکیزگی اور فطرت کی معصومیت کی گواہی تو دشمنوں نے بھی دی.بچہ آپ پیارے محمد کے اخلاق اور کردار کے بارے میں بھی کچھ بتائیں.ماں آپ انتہائی خوش خلق ، غریبوں سے ہمدردی کرنے والے تھے.اور کردار کے لحاظ سے آپ جیسا کوئی نہ تھا.زندگی میں کبھی مذاق میں بھی غلط بیانی نہیں کی.پھر جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اسی لئے سارے مکہ میں صدیق کہلاتے تھے کبھی کسی سے لڑائی جھگڑا نہیں ہوا.کھانے کے معاملے میں آپ کی چچی جو حضرت ابو طالب کی بیوی تھیں کہتیں کہ جب میں بچوں کو کھانا دینے لگتی تو سب جمع ہو جاتے اور چاہتے کہ ان کو پہلے دوں اور زیادہ دوں لیکن محمد ایک طرف ہو کر بیٹھ جاتے.کبھی نہ ملتا تو آپ زمزم سے پیٹ بھر لیتے.
۴۶ لیکن کبھی مانگا نہیں.اسی بات کو دیکھتے ہوئے آپ کے لئے وہ پہلے کھانا نکال کر رکھ دیتی تھیں.بڑوں کا ادب، ان کا کہنا ماننا احترام کرنا ، چھوٹوں پر شفقت، ان کو کبھی نہیں ستایا یا مارا ، بزرگوں کی خدمت ، جو کہا وہ کام کر دیا.یہ وہ باتیں تھیں جس کی وجہ سے آپ نہ صرف خاندان بلکہ مکہ کے لوگوں کی بھی آنکھ کا تارا تھے.کبھی کسی نے آپ کی شکایت نہیں کی.پھر جیسے جیسے بڑے کی.ہوتے گئے آپ کی خوبیاں اور نمایاں ہو کر سامنے آتی گئیں کسی نے کوئی چیز آپ کے پاس رکھوائی تو اسی طرح محفوظ ملی.جب چاہا واپس لے لی.جس کی وجہ سے امین کہلاتے تھے.غریبوں کی مدد کرنا ، کمزوروں پر رحم کرنا ، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا، پھر ہر ایک کے دکھ کو دیکھ کر خود دکھی ہو جانا ، اس کی مدد کرنا سب کا بوجھ اٹھانا ، ہر ایک سے محبت اور شفقت کے ساتھ پلیش آنا.احترام تو کمال تھا.کیا غلام کیا بوڑھا ، کیا غریب کیا عورت یا بچہ سب کا احترام کرنا ، عزت دینا ، ہر بات کا خوش اخلاقی کے ساتھ مسکرا کر جواب دیا ، ہر ایک کی بات کو بڑے تحمل و حو صلے سے سننا ، پھر مشورہ دینا.اور اگر کوئی گالی بھی دے تو اس کو بری بات نہ کہنا کیا پیاری عادتیں تھیں جو آپ میں نظر آتی تھیں.یہ صرف اور صرف خدائی حفاظت اور تربیت کی وجہ سے تھا.نو عمری میں بچے غلط باتیں سیکھ لیتے ہیں لیکن جن کے سر پر ماں باپ یا بزرگوں کا سایہ نہ ہو تو ان کا بگڑ جانا معمولی بات ہے لیکن کوئی بے راہ روی یا اخلاق اور کردار سے گرمی ہوئی حرکت اس پیارے
۴۷ انسان میں دکھائی نہیں دیتی.اسی لئے آپ کے شدید دشمن اور مخالفین جو اسلام کی تعلیم لانے کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے وہ بھی آپ کی صداقت - امانت و دیانت شرافت پنجابت پاکیزہ اخلاق اور پختہ کردار کے گواہ تھے یہ بچہ قریش مکہ تو معمولی معمولی باتوں میں جھگڑ پڑتے تھے.آپ نے بنایا تھا کہ یہ چھوٹے چھوٹے جھگڑے جنگوں میں بدل جاتے کیا آپ کے دور میں بھی کوئی لڑائی ہوئی ؟ ماں آپ نے بالکل صحیح بات یاد رکھی عرب بڑی جنگجو قوم تھے.ان میں خاندانی غیرت بہت تھی.اس وجہ سے کسی کی بات سن کر چپ ہو جانا ان کی شان کے خلاف تھا.بات بات پر تلوار نکال لینا ان کی عادت تھی.ایک ایسی ہی لڑائی آپ کی جوانی کے دور میں شروع ہوئی جو جنگوں میں بدل گئی اور اس کا سلسلہ رک رک کر چار جنگوں تک جاری رہائی یہ بڑی خطرناک اور مشہور جنگیں تھیں جو حرب فجا کہلاتی ہیں.جب یہ جنگ شروع ہوئی تو آپ بچہ ہی تھے.کہتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر پندرہ ، سولہ سال تھی گویا کمسنی کا ہی دور تھا بچہ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی.اور حرب فجار کا کیا مطلب ہے ؟ ماں حرب معنی جنگ، فجار معنی نا جائز.کیونکہ اس لڑائی کی ابتدا حرمت والے مہینہ میں ہوئی جس میں لڑنا عربوں میں بہت برا سمجھا جاتا ه نقوش رسول نمبر صفحه (۷۳ - ۴ سے سیرت خاتم النبیین بلدا توں ما ته سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول صفحه ۱۸۱- ه ابن ہشام جلد اول صفحه 119
۴۸ ہے.اس لئے اس کو نا جائز لڑائی کا نام دیا.ہوا یوں کہ قبیلہ بنوا اذر کے عروہ الرجال بن عتبہ نے عظیمہ کو نعمان بن منذر کے واسطے پناہ دے دی.بنی کنانہ کے قبیلہ کے براض بن قیس نے عروہ کو کہا.کیا تو بنی کنانہ کے متقابلہ پر بناہ دیتا ہے عرب جب کسی کو پناہ دیتے تھے تو ہر لحاظ سے اس کی حفاظت کرنا ان پر فرض تھا.کیونکہ یہ ان کی غیرت کا سوال تھا.عروہ نے کڑک کر جواب دیا کہ بنی کنا نہ تو کیا ئیں ساری مخلوق کے مقابلہ پر اس کو پناہ دیتا ہوں.پھر کیا تھا.پراض بھڑک اٹھا.لیکن اس وقت چُپ ہو گیا اور موقعہ کی تاک میں رہا.ایک دن عروہ مقام نمین ذی کلال میں آیا.جہاں براض نے اسکو غافل پا کر قتل کر دیا.یہ قتل کیونکہ حرمت والے مہینہ میں ہوا جس میں کسی کو مارنا منع ہے اس لئے یہ جنگ حرب فجار کہلاتی ہے.بچہ قریش تو ضرور بھڑک اُٹھے ہوں گے کیوں کہ یہ تو ان کی غیرت کا سوال تھا ؟ ماں جب یہ خبر قریش کو پہنچی تو وہ کے احاطے میں تھے.یہ سنتے ہی وہ سب روانہ ہوئے.ادھر ہوا زن قبیلہ کے لوگ بھی بھاگے.انہوں نے قریش کو حرم میں داخل ہونے سے پہلے گھیر لیا اور لڑائی شروع ہو گئی.لیکن رات کو قریش حرم میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے.یوں یہ جنگ رک گئی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد دونوں طرف شه سیرت خاتم النبین ص ۲۵) شه این شام جلد اول صفحه ۱۱۹ - ۱۲۰
۴۹ کے قبائل کے رؤسا کے روکنے کے باوجود پھر چھڑ گئی یہ اسطرح یہ جنگ کئی بار رک رک کر ہوتی رہی.لیکن اس کی سب سے زیادہ خطر ناک لڑائی آخری اور چوتھی جنگ ہے جس میں جوش غضب اور انتقام کی وجہ سے اپنی خاندانی غیرت کی خاطر بعض روسیا نے اپنے آپ کو رسیوں سے بند ھوا لیا تھا کہ اگر لڑائی کا دور ہوجاتے تو بھی بھاگ نہ سکیں بلکہ مقابلہ کرتے رہیں ہے یہ لڑائی قریش اور بنو کنان کے مقابلہ پر قیس عیلان اور قبیلہ ہوازن کے درمیان لڑی گئی ہے بچہ اس جنگ کے جرنیل کون کون تھے ؟ ماں جنگ میں ہر قبیلہ کا افسر الگ الگ تھا.زبیر بن عبدالمطلب ن کی نگرانی میں بنو ہاشم تھے جبکہ بنو کنانہ کا افسر حرب بن امیہ جوابو سفیات کا باپ تھا، مقرر ہوائے صبح کے وقت سے دن چڑھے تک بنو قیس کا پلہ بھاری تھا.لیکن دو پہر کے بعد بنو کنانہ نے ان کو دبا دیا.یوں قریش کو فتح ہوئی.اس جنگ میں پیارے محمد بھی شریک ہوئے تھے آپ اپنے چھاؤں کو تیر پکڑاتے تھے.خود لڑائی میں حصہ نہ لیا.اس لیا.وقت آپ کی عمر ۲۰ سال تھی شے جنگ کے ختم ہونے کے بعد کیا ہوا ؟ ماں اس طویل جنگی سلسلہ نے کئی گھرانوں کو برباد کر دیا.کسی کا باپ نہ رہا تو کسی بیتا اور کسی کا شوہر.پھر اس کے علاوہ عرب جنگو فطرت کے مالک تھے جو زیادہ طاقتور ہوتا وہ کمزور کا مال چھین لیتا.زمین ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۱۹ - ۱۲۰ سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحه ۱۳۴ ۱۳۵۰ LAY / سیرت النبی شبلی نعمانی ١٢٠٧.
دبا لیتا.اس کے لونڈی غلام پر قبضہ کر لیا.اور بعض اوقات کمزور اور بے میں لوگوں کو زبر دستی لونڈی اور غلام بھی بنا لیا جاتا تھا.ایسی حرکتیں کرنے والے طاقتور - امراء یا قوم کے سردار ہوتے تھے.اس لئے اگر کسی کے دل میں ان حرکتوں کی وجہ سے احساس بھی پیدا ہوتا کہ یہ غلط بات ہے.ظلم ہے.لیکن مقابلہ کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے مجبوراً خاموش ہو جاتے تھے.ان تمام باتوں کا بعض شریف طبیعت رؤسا کو بھی احساس ہوا.چنانچہ حضرت زبیر بن عبد المطلب نے جنگ سے واپسی پر تجویز پیش کی.کہ قدیم عربوں نے جو ایک معاہدہ کیا تھا کہ دو ہم کمزوروں کا حق دلوائیں گے.ظالم کو ظلم سے روکیں گے.اور مظلوم کی مددکریں گئے اب ایک بار پھر ضرورت ہے کہ اس عہد کو دوبارہ قائم کیا جائے " تاکہ برائیوں، جھگڑوں سے جو جانوں اور مال کا نقصان ہوتا ہے اس سے بچا جا سکے.یہ تجویز سب کو پسند آئی.بچہ یہ معاہدہ کین لوگوں نے کیا تھا.ان کے کیا نام تھے.اور اس معاہدہ کو کیا کہتے ہیں ؟ ماں سبحان اللہ ! آپ نے ایک ساتھ اتنے سارے سوال کر ڈالے مجھے بڑی خوشی ہے کہ اب آپ کو تاریخ کے واقعات اچھی طرح سمجھ میں آنے لگے ہیں.اس معاہدہ کو قبیلہ جرہم اور قطورا کے لوگوں نے قائم کیا تھا سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۳۵
یہ عرب کے قدیم باشندے تھے.پھر یہ معاہدہ کسی وجہ سے قائم نہ رہ سکا.لیکن اس عہد کو قائم کرنے والے فضل بن حرث فضیل ابن داختر اور مفضل شامل تھے.چونکہ ان کے ناموں میں فضل آتا تھا اس وجہ سے اس کا نام حلف الفضول پڑ گیا.حلف معہد کو کتنے ہیں لیے آپ نے دیکھا کہ اگر کوئی نیک کام نیک نیتی سے کیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا.اور لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ اس کو زندہ کر دیتا ہے اور موجودہ قریش کے رؤساء نے دوبارہ اسی نام سے اس عہد کو قائم کیا.بچہ اب اس معاہدہ میں کون کون لوگ شامل ہوئے ؟ ماں اس معاہدہ میں قریش کے قبائل کے سردار اور ان کے خاندان کے لوگ جو اپنی طبیعت کے لحاظ سے ظلم کے خلاف تھے ، شریک ہوئے.عبد اللہ بن جرعان نے اس غرض سے اپنے گھر دعوت کا اہتمام کیا.جس میں بنو مطلب بنو ہاشم بنو اسد - بنو زہرہ اور بنویسم کے افراد شامل منے ہے ،انہوں نے آپس میں مل کر قسم کھائی کہ ہم مکہ سے ظلم کا خاتمہ کریں.اور ہر کمزور کی مدد کر نا ہمارا فرض ہوگا.جب بھی کوئی نہیں اس معاہدہ کے نام پہ پکانہ سے گا.ہم اس کے لئے کھڑے ہوں گے.اس معاہدہ میں حضرت محمد بھی شامل تھے.ایک روایت میں ہے کہ آپ کے نام کو معاہدہ میں شامل کرنے کی سفارش عبد اللہ بن جدعان نے کی مخفی) سه سیرت النبی شبلی نعمانی ص ۱۸۳ که سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۳۵
۵۲ بچہ یہ معاہدہ کتنے عرصہ قائم رہا ؟ ماں یہ معاہدہ تو ایک لمبے عرصہ تک قائم رہا.ایک مرتبہ حضرت رسول کریم کو ایک عرب نے ابو جہل سے رقم حاصل کرنے کے لئے مدد کے طور پر بلایا تھا اور آپ نے اس کی رقم دلوادی ستی.پھر امیر معاویہ کے زمانے میں حضرت امام حسن بین ابن علی کا حق امیر معاویہ کے بھتیجے ولید بن عتبہ نے دبا لیا.یہ اس وقت مدینہ کے امیر تھے.حضرت امام حسن ب نے حلف الفضول کے نام پر پکارا.اس وقت عبد اللہ بن زبیرہ جو بنو اسد سے تھے گھڑے ہوئے اور حضرت امام حسین کو حق مل گیا ہے بچہ اتنی پیارے محمد کیسے تھے.ان کی شکل تو بہت ہی پیاری ہوگی.آپ مجھے بتائیں.ماں اب ہم تاریخ کے لحاظ سے آہستہ آہستہ آگے بڑھتے ہوئے اس دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں پیارے محمد جوان ہو چکے ہیں.میں آپ کا حلیہ مبارک سناتی ہوں.غور سے سنیں.آپ کو اپنے ذہن میں ایک تصویر بنتی محسوس ہوگی جو ہر لحاظ سے خوبصورت ہے.پیارے آقا محمد مکہ کے نوجوانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت جوان تھے.جسمانی لحاظ سے کوئی کمی یا کمزوری دکھائی نہ دیتی تھی.آپ کا فذ درمیانہ - رنگ نہ تو بہت سفید که برا محسوس ہو اور نہ گندمی بلکہ گندمی رنگ میں سفیدی کے ساتھ سرخی کی جھلک پڑتی لے سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحہ ۱۳۶
۵۳ مخفی.اسی وجہ سے آپ کے جذبات کو جاننے میں دقت پیش نہیں آتی منفی.غصہ میں چہرہ سرخ ہو جاتا.اور خوشی کے موقع پر چمکنے لگتا.سر کے بال بالکل سید ھے نوکدار نہ تھے بلکہ ان میں ہلکا ساخم تھا.بالوں کا رنگ سیاہ - ڈاڑھی گھنی اور خوبصورت جسم در میانه - نہ بہت موٹا.نہ بہت دبلا.جلد نازک اور علائم تھی.آپ کے جسم اور پسینہ سے ایک قسم کی خوشبو آتی تھی جو اچھی لگتی تھی سر بڑا.سینہ چھوڑا.ہاتھ پاؤں بھرے بھرے ہتھیلیاں چوڑی.چہرہ گوں.پیشانی اور ناک اونچی.آنکھیں سیاہ اور روشن پلکیں لمبی لمبی تھیں.آپ کی چال میں وقار تھا.عموما تیزی کے ساتھ قدم اٹھتا.گفتگو ٹھہر ٹھہر کو فرماتے حتی کہ سننے والا آپ کے الفاظ گن سکتا تھا.اور اگر کوئی یاد رکھنا چاہے تو اس کو بھی آسانی ہوتی تھی.بچہ پیارے محمد تو واقعی بہت خوبصورت جوان تھے.کیا ہم آپ کو خواب میں دیکھ سکتے ہیں.ماں بالکل دیکھ سکتے ہو.وہ انسان جو اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی باتوں پر عمل کرے.اور میں سے منع کیا ہے اس سے بچے آپ کی سنت یعینی جس طرح آپ نے زندگی گزاری اس کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے اور ساتھ ساتھ آپ پر کثرت سے درود پڑھے تو اس کی ملاقات ہو جاتی ہے.بچہ آپ بچپن میں تو بکریاں چراتے تھے لیکن اب جوان ہو کر کون سا ے سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ ۱۳۶-۱۳۷
پیشہ اختیار کیا ؟ ماں عرب کے لوگ عموماً تجارت کو پسند کرتے تھے.لیکن قریش تو صدیوں سے اسی پیشہ سے وابستہ تھے.آپ کے پردادا ہاشم نے تو باقاعدہ معاہدے کے سخت سردیوں اور گرمیوں میں تجارتی قافلوں کے راستے اور ان کی حفاظت کا انتظام کر دیا تھا.آپؐ کا خاندان تجارت میں کمال رکھتا تھا.پھر آپ بھی اپنے چچا ابو طالب کے ساتھہ تجارتی سفر میں شام گئے.جب باقا عدہ اپنے چا ابو طالب کے مشورے سے تجارت شروع کی تو مین شام اور بحرین جہاں قافلے جاتے تھے سب ہی جگہ گئے اور صاف ستھر سے طریق پر تجارت کی کوئی غلط بات یا وعدہ خلافی نظر نہیں آتی.بچہ اس زمانے میں تجارت کے کیا اصول تھے ؟ ماں ایک طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنے پیسے سے سامان خرید تے تھے.اور دوسرے ملک جا کہ بیچ دیتے.پھر وہاں سے سامان خرید تے اور اپنے علاقے میں فروخت کر دیتے.یوں جو منافع ہوتا وہ صرف ان کا ہوتا کیونکہ پیسہ انہوں نے لگایا تھا.لیکن جن لوگوں کے پاس اتنی رقم نہ تھی.تو وہ معاہدہ کر لیتے کہ ہم مال لے جائیں گے اور جس کا مال ہوتا وہ باہم رضامندی سے لے کر لیتا کہ منافع میں سے اتنی رقم دیں گے.یہ اصول تھے جن کے مطابق تجارت ہوتی تھی.بچہ پیارے آقا حضرت محمد نے کیا اپنے مال سے تجارت کی.یا کسی کا مال لے کر جاتے رہے.؟ ماں آپ کے پاس اتنی رقم نہ تھی اور نہ ہی آپ کے چچا حضرت ابو طالب
ہیں کوئی بڑی رقم مہیا کر سکے تھے کیونکہ ان کے بہت سارے بچے تھے.اس وجہ سے آپ لوگوں کا مال مقررہ منافع کے اصول کے تحت لے جاتے تجارت کے دوران آپ کی چند خصوصیات لوگوں کے سامنے آئیں.ایک تو یہ کہ آپ اس مال کی بہت حفاظت کرتے کیونکہ وہ آپ کے پاس امانت تھا.پھر بڑی دیانت داری ہے سودا کرتے مال کی خوبی اور خامی سب بنا دیتے.پھر مالک کو مشکل کہ تم لا کر دیتے یا اگر دوسرے علاقے میں ہوتے تو وہاں سے مال خرید کر مکہ میں فروخت کر کے رقم مالک کو ادا کر دیتے.پھر جو منافع طے ہوتا وہ آپ کو ادا کر دیا.اس طرح آپ سے کسی کو بھی شکایت نہیں ہوئی.اور لین دین میں بلا ضرورت دیر نہ کرتے.معاملات کو جلدی نمٹا دیتے تاکہ تکلیف نہ ہوئے اور بھول چوک سے بچا جا بچہ پھر تو جن لوگوں کے ساتھ آپ نے کام کیا.وہ خوش ہوں گے.ماں آپ کے ساتھی لوگ مطمئن رہتے کیونکہ آپ وعدہ کا بہت خیال رکھتے تھے.تجارت میں امانت، دیانت ، صداقت اور پاس عہد ہی وہ اصول ہیں جو انسان کو سب کی نظر میں مقبول اور پسندیدہ بنا دیتے ہیں.آپ کی انہی باتوں کی شہرت سن کر مکہ کی مالدار خاتون حضرت خدیجہ بنت خویلد نے خواہش ظاہر کی کہ محمد بن عبد اللہ میرا مال لے کر جائیں.مکہ کی تجارت میں ان کا بڑا حصہ تھا.یہ قبیلہ بنو اسد ه سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۳۷- ۱۳۸ - سیرت النبی جلد اول شبلی نعمانی صفحه ۱۸۶
04 سے تعلق رکھتی تھیں.نہایت شریف.پاکیانہ اور نیک فطرت خاتون تھیں.ان کے دو شوہر یکے بعد دیگرے وفات پاچکے تھے.ان کے کئی بچتے تھے.اس نیک خاتون کی شرافت کی وجہ سے لوگ ان کو طاہرہ کہا کرتے یعنی پاک ہے چنانچہ آپ راضی ہو گئے.اور ان کے غلام میسرہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے.دورانِ سفر میبره نے آپ کو محنتی اور دیانت دار پایا.پھر حسن معاملہ کی وجہ سے بہت نفع ہوا.وہ کامیاب لوٹے.اس کے علاوہ میسرہ نے آپ کی بعض اور صفات کا بھی بڑی گہری نظر سے اور غور سے مطالعہ کیا.اسی دوران ایک واقعہ بھی پیش آیا جس کی وجہ سے وہ آپ کا معتقد ( اس کے دل میں احترام بڑھا ہو گیا ہے بچہ وہ واقعہ کیا تھا ؟ مجھے بھی بتائیں.ماں میسرہ کا بیان ہے کہ جب ہم شام کی سرحد میں داخل ہوئے تو گرمی کی شدت کے باعث محمد درخت کے سائے میں بیٹھ گئے.اسی مقام پر ایک راہب مسطورا کی قیام گاہ صومعہ تھی.اس کی نظر آپ پر پڑی تو باہر آیا.اور مجھ سے پوچھا کہ درخت کے سائے میں بیٹھنے والا شخص کون ہے.میں نے بتایا کہ یہ قریش کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور حرم کے محافظوں کے خاندان سے ہیں رابی مشتری فسطورا فوراً بول اٹھا کہ یہ وہ مقدس درخت ہے جس کے سائے میں سوائے پیغمبر خدا سے خبر پاکر دنیا کو پیغام دینے والا) کے کوئی نہیں له بیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۳۸۰ که سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۳۸۷
۵۷ فتنہ گویا فسطورا را مہب نے بھی بحیرہ راہب کی طرح آپ کو دیکھ کر پیشگوئی کی کہ یہ شخص نبی ہے.خدا تعالیٰ اس کو دنیا کی ہدایت کے لئے چنے گا.اور یہ خدا کا پیغام پہنچائے گا.بچہ ان عالموں رہا ہوں کو کیسے معلوم ہوجاتا تھا کہ آپ کو اللہ میان یکی کی طرف بلانے والا بنائے گا.اپنا نبی بنائے گا.ماں آپ کو چند اصول بتاتی ہوں جن کی مدد سے آپ آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ خدا تعالیٰ کے پیاروں ، اس کے مقدس بندوں کو کیسے پہچانا جانا ہے.پھر نبی کا مقام تو ان سب سے بلند ہوتا ہے لیکن ہم تو حضرت محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بات کر رہے ہیں.جو خدا کو سب سے زیادہ پیارے تھے.پھر ان کے لئے نہ صرف دنیا بلکہ ساری کائنات کو بنا یا گیا.اور ہر نبی کو آپ کے بارے میں بتایا گیا.ان انبیاء علیم السلام نے اپنی اپنی امتوں کو وہ تمام نشانیاں سمجھائیں جو اس مقدس واخوات محمد کے زمانے سے تعلق رکھتی تھیں.صرف اس دور کی ہی نشانیاں نہیں بتائیں بلکہ آپ کے جسمانی وجود کی نشانیاں.پھر آپ کے بزرگوں میں پائی جانے والی باتیں.آپ کے والد کے بارے میں.پھر بعض لوگوں کو آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے پیار کے، اس کی محبت کے سلوک کے نمونے بھی نظر آئے.جو آپ کی سچائی کا نشان تھے.اس کے علاوہ آپ کے اخلاق اور کردار کے بارے میں بھی بتایا گیا.یہ آپ کی سیرت میں ظاہر ہونے والی نشانیاں تھیں جو پہلے سے بیان کر دی گئی تھیں.نقوش رسول نمبر جلد 1 صفحہ 24
۵۸ بچہ اللہ میاں نشانیاں تو تا دیتا ہے.لوگ کیسے پہچانتے ہیں ؟ ماں ایسے نیک لوگوں کی اللہ تعالی خود رہنمائی فرماتا ہے کبھی واضح الہام کے ذریعہ اور کبھی کشف یا ر ڈیا کے ذریعہ کیونکہ انسان دیکھ میں گھر گیا ہے.اچھے اخلاق معموما نظر نہیں آتے.اس لئے ایسے دردناک دور میں ہمیشہ کی طرح خدا تعالیٰ انسانوں کو بچانے کے لئے اپنا نبی بھیجتا ہے جو اُن کو نیکی کی طرف بلاتا ہے.بچہ ان باتوں کو عالم پہچانتے ہیں.لیکن ایک عام انسان کے لئے کیا نشانی ہے ماں اس گناہوں اور ظلم کے دور میں نبی کی زندگی اپنے ارد گرد بسنے والوں سے مختلف ہوتی ہے.وہ بچپن سے ہی اچھے اخلاق اور کردار کا مالک ہوتا ہے.یعنی سچائی ہمدردی میت ، خلوص ، امانت ، احترام ، سب سے پیار وغیرہ ایسی باتیں ہیں جو چھپی نہیں رہتیں.اور اس کو اس کے رشتہ دار، عزیز، جان پہچان کے لوگوں کے علاوہ ، پڑوسی، محلے والے ، ارد گرد بنے والے دیکھتے ہوئے حیرت بھی کرتے ہیں کہ یہ کیسا انسان ہے ؟ اور ظاہر ہے جو سب سے الگ اور مختلف ہے اس کی زندگی ایک نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے وہی رہبر بن سکتا ہے.بچہ کیا نبی کے زمانے کی نشانیاں بھی بنائی جاتی ہیں ؟ ماں اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ایک حد تک اس دور کی بھی نشاندہی کر دینا ہے جو پہچاننے والوں اور سچائی کو تلاش کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دیتا ہے.اس کے علاوہ ہر نبی اپنے فوراً بعد آنے والے نبی کے آنے کا وقت بھی بنا دیتا ہے کہ کتنی مدت بعد وہ آئے گا.اُس زمانے میں یہ یہ باتیں نمایاں طور پر ہوں گی اور پھر اس کے خاندان.اس کے
۵۹ بزرگوں کے علاوہ اس کے وجود کی نشانیاں بھی بیان کی جاتی ہیں.اور عام انسانوں کو دیکھنے سے بچپن سے ہی اس کی تربیت.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا سلوک اور اللہ کا پیار نظر آتا ہے.اس کے وجود سے برکتیں رحمتیں وابستہ ہوتی ہیں.جو نظر آتی ہیں اور لوگوں کو حیرت زدہ بھی کرتی ہیں.بچہ پیارے محمد ان اصولوں کے مطابق کیسے نظر آئے ؟ ماں اللہ میاں نے اپنے نبیوں کی جو نشانیاں بتائی تھیں ان میں سے چند میں نباتی ہوں کہ اس زمانے میں ہر طرف شرک پھیل جائے گا.وہ قومیں جن میں خدا کے بنی آئے اور وہ بھی جن میں نہیں آئے، سب کی سب اخلاق اور کردار کے لحاظ سے جانوروں سے بدتر ہو جائیں گی بشرم و حیا محبت و ہمدردی - احترام کوئی قانون کوئی اصول نہ ہوگا.بلکہ جس کو طاقت ہوگی وہ کمزور کو دبا ئیگا.ہم دیکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ جو خدا کا گھر ہے اس میں بھی ایک دو نہیں.تین سو ساٹھ (۳۶۰ ) بت تھے.غلاموں ، عورتوں، قوم کے کمزور لوگوں کی حیثیت جانوروں سے بدتر منفی.بات بات پر جنگ چھڑ جاتی جو سالوں چلتی.شراب ، جو آ بے حیائی عام تھی.جس زمانے میں نبی کی ضرورت ہوتی ہے اس کی ایک نمایاں نشانی یہ ہے کہ انسانوں میں اتفاق ، اتحاد نہیں رہتا.چھوٹے چھوٹے قبیلوں خاندانوں میں بٹ جاتے ہیں.ذات پات علاقائی نفرتیں بڑھ جاتی ہیں.محبت کا نام و نشان مٹ جاتا ہے.ہر طرف دیکھ ہی دکھ دکھائی دیتا ہے.بچه مکه ، بلکہ عرب کے علاوہ ساری دنیا میں ہی یہ حلال تھا ؟
ماں آپ خود بچپن کے واقعات سنتے آرہے ہیں.کہ جب بچہ تھے.پھر بڑے ہوئے.پھر جوان ہو گئے لیکن آپ زندگی کے ہر دور ہیں عام انسانوں سے مختلف، پیاری عادتوں کے مالک دکھائی دیتے ہیں.اور ان ہی اخلاق نے آپ کو سب کی نظر میں قابل احترام بنا دیا.بچہ واقعی آپ کی زندگی نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے.ماں آپ کی پیدائش سے پہلے خانہ کعبہ پر ابرہہ نے حملہ کیا مفاجس میں وہ برباد ہو گیا.پھر گم ہو جانے والے مقدس چشمہ زمزم کا آپ کے دادا جان حضرت عبدالمطلب کو خواب کی بنا پر مل جانا.پھر حضرت عیسی کا بغیر باپ کے پیدا ہونا.جس کی وجہ سے بنی اسرائیل سے نبوت کا ختم ہو جانا ثابت ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں کوئی مرد اس قابل نہیں کہ نبی کا باپ بن سکے.اور حضرت ابراہیم سے کئے گئے وعدہ کے تحت حضرت اسماعیل کی نسل بنوا سمعیل میں اس انعام کے جاری ہونے کا پتہ دینیا پھر اس مقدس ، آخری کامل اور مکمل شریعت لانے والے کا مکہ میں پیدا ہونا.جہاں خدا کا گھر کعبہ ہے.پیدائش کے وقت ستاروں کا کثرت سے ٹوٹنا وغیرہ.بچہ یہ سب نشانیاں دیکھ کر ہی لوگ کہہ رہے تھے کہ نبی کا ظہور قریب ہے؟ ماں آپ کے آباؤ اجداد کا خانہ کعبہ کی خدمت کرتے چلے جانا.اور ان میں نمایاں اخلاقی شان کا ظاہر ہونا جیسے سخاوت دلیری - جرات.قومی بغیرت اور پھر قوم کے لئے ہمدردی وغیرہ نظر آتے ہیں.آپ کی پیدائش سے پہلے والد کی وفات.پھر آپ کی کمر پر مہر نبوت کی نشانی شرک سے
نفرت بغیر اللہ کے نام کی چیزوں کا نہ کھانا وغیرہ ایسی باتیں ہیں جو بپیچی نہیں ہیں.بچہ یہ بھی سب نے دیکھیں اور پہچان بھی لیا.ماں آپ کو فضولیات سے خدا نے بچایا.پھر آپ کی شان کو پیدا ہوتے ہی ظاہر کرنا شروع کر دیا کہ حضرت حلیمہ کے علاوہ ان کے قبیلہ کے لوگ بھی آپ کے وجود کی برکت کے گواہ بنے.شین مصدر کا واقعہ خوبیات دعا کا نشان جو مکہ میں بارش ہوئی وغیرہ نشانات سے آپ کو بچا میں مدد ملی.بچہ ان عالموں نے بھی آپ کو ان ہی نشانیوں سے پہچان لیا تھا.اور عام انسان بھی غور کرے تو اس کو بھی پہچانتے ہیں.شکل نہیں ہو گی.ماں بحیرہ راہب نے تو کشفی طور پر درختوں ، پتھروں کو سجدہ کرتے دیکھا.پھر آپ کو بلا کر باتیں کر کے جسم کا دیکھ کر بچانا اور بتایا.پھر ا نشا نیا بھی تو نہیں.ان سب باتوں سے لوگ آنے والے کو پہچان لیتے ہیں.اس تجارتی سفر میں اتنے زیادہ فائدے کے ساتھ میسرہ نے اپنی مالکہ حضرت خدیجہ بہ کو ساری باتیں بتائی ہوں گی.ماں میسرہ نے سفر کے دوران آپ کے اخلاق.کردار حسن معاملہ.محنت.پھر راہب کا واقعہ.سب حضرت خدیجہ کو بتایا.آپ نے پہلے ہی متاثر تھیں.پھر تو آپ پر ان باتوں نے اور اثر کیا.انہوں نے اچھی طرح سوچ کر آپ کے سفر سے لوٹنے کے تین ماہ بعد نکاح کا بچه له سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول صفحہ ۱۸۸
۶۲ پیغام دیا.بچہ کیا حضرت خدیجہ پیارے آقا محمد کی رشتہ دار تھیں ؟ ماں پیارے آقا محمد سے پانچویں پشت میں دونوں کے خاندان کا سلسلہ ملتا ہے.قصی بن کلاب کے ایک بیٹے عبد المناف کی اولاد میں سے پیارے محمدؐ ہیں.اور دوسرے بیٹے عبد العزیٰ سے حضرت خدیجہ نہیں عبد مناف آپ کے پڑ دادا ہاشم کے باپ تھے یہ اس لئے حضرت خدیجہ آپ کو اپنا چازاد کہا کرتی تھیں.بچہ کیا اس زمانے میں عورتیں شادی کے لئے خود کہہ سکتی تھیں ؟ ماں عورتوں کو اختیار تھا کہ اپنی مرضی سے شادی کریں.ویسے حضر ستان خدیجہ کے والد خویلد بن اسد حرب نجار سے پہلے وفات پاچکے تھے پھر آپ نے اپنی بھا بھی حضرت صفیہؓ سے جو پیارے آقا حضرت محمد کی پھوپھی تھیں آپ کے بارے میں معلوم کیا تھا اور ہر ایک نے آپ کی اعلیٰ صفات کی گواہی دی تھی جس سے حضرت خدیجہ مطمئ تھیں.بچہ اس وقت پیارے آقا کی عمر کتنی تھی اور آپ نے اس سلسلہ میں کیسے فیصلہ کیا ؟ ماں آپ کی عمر ۲۵ سال اور حضرت خدیجہ کی ہم سال تھی.آپ نے اپنے چچا حضرت ابو طالب سے مشورہ کیا.چچانے اس رشتہ کو مناسب جان کر قبول کرنے کا مشورہ دیا.اور حضرت ابو طالب رؤسائے بنو مطلب جن میں آپ کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ بھی تھے سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول صفحه ۱۸۷ نے سیرت خاتم النبين جلد اول صفحه ۱۰۵ ۱۸۹ "
۶۳ حضرت خدیجہ کے گھر آئے.جہاں حضرت ابہ طالب نے نکاح پڑھا.مر میں پانچ سو درہم مہر مقرر ہوئے اس وقت حضرت خدیجہ کے عزیز رشتہ دار بھی موجود تھے.چچا عمرو بن اسد نے آپ کی طرف سے نکاح کی قبولیت کا اعلان کیا ہے بچہ کیا دونوں دولہا دلہن حضرت ابو طالب کے گھر آگئے یا الگ گھر کا انتظام کیا تھا.ماں حضرت خدیجہ نے خواہش کی کہ آپ الگ گھر لینے کی بجائے اسی گھر میں آجائیں جہاں وہ پہلے سے رہتی تھیں.چنانچہ اپنے چچا حضرت ابو طالب کی اجازت سے اسی گھر میں منتقل ہو گئے سینے بچہ کیا اب بھی آپ تجارت کے لئے مکہ سے باہر جاتے تھے.ماں شادی کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال حتی کہ غلام اور لونڈیاں بھی آپ کے سپرد کر دیں کہ ان سب کے آپ مالک ہیں.وہ آپ کی اعلیٰ صفات کی دل سے قدر کرتی تھیں اور بے پناہ احترام کا جذبہ تھا.اسی وجہ سے حضرت خدیجہ نے کہا کہ اب آپ کو باہر جانے کی ضرورت نہیں جس طرح مناسب سمجھیں اس دولت کو استعمال کریں پھر آپ تجارت کی غرض سے باہر نہیں گئے.آپ نے تمام غلاموں اور لونڈیوں کو آزاد کر دیا.مگر جنہوں نے آپ کے ساتھ رہنا چاہا انہیں خوشی سے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی.اور مال غرباء میں تقسیم کر دیا.ه سه سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحہ ۱۳۹ - سے سیرت البینی شبلی نعمانی جلد اور صفر ۱۸۱
۶۴ بچہ حضرت خدیجہ نے آپ کو کچھ نہیں کہا.کیونکہ وہ تو بہت امیر خاتون تھیں اور اب تو ان کو خود کام کرنا پڑتا ہوگا.ماں حضرت خدیجہ نے پیارے آقا محمد کو ان کی پیاری عادتوں اور مکہ کے نوجوانوں سے مختلف مشاغل رکھنے کی وجہ سے پسند کیا تھا.پھر وہ ان کی نیکی شرافت کی سبھی قائل تھیں.اس کے علاوہ جب میسرہ نے آپنے کو سفر کے حالات بتائے تو حضرت خدیجہ اپنے چا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں.اور ان سے ساری باتیں کہہ دیں.ورقہ بن نوفل توریت اور انجیل کے عالم تھے.انہوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا.اور وہ بھی دوسرے عالموں کی طرح ان باتوں کو سن کر پہچان گئے.کیونکہ یہ وقت ایک نبی کے ظہور کا زمانہ تھا.چنانچہ انہوں نے اپنی بہن کو کہا.کہ یہ ایک نبی کے ظہور کا زمانہ ہے اور یقیناً محمد اس زمانے کے نبی ہیں.ان کا بہت جلد ظہور ہونے والا ہے.اور میں اس بڑے مرتبہ اور شان والے نبی کا شدت سے انتظار کر رہا ہوں پھر وہ خود بھی تو بڑی نیک اور پاکباز خاتون تھیں.وہ اچھی طرح جان چکی تھیں کہ انہوں نے ایک عظیم الشان شخص سے شادی کی ہے.تو پھر الہ دولت کی کیا پرواہ.وہ تو پیارے آقا حضرت محمد کی خدمت کرنا.ان کو آرام پہنچانا ہی اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں.اور اسی کو وہ اپنی خوش نصیبی بھی جانتی تھیں.بچہ پیارے آقا حضرت محمد نے حضرت خدیجہ کے ساتھ کیسا سلوک کیا ؟ له سیرت ابن ہشام جلد اول صفحه ۱۲۳
40 ماں آپ نے ان کے ساتھ بہت محبت کی کبھی اپنے کاموں کا ان پر بوجھ نہیں ڈالا.اپنے کپڑے خود درست کر لیتے.جوتوں کی مرمت کرتے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے.لکڑیاں لاتے ، ایک دوسرے سے مشورہ کرتے.پھر جب حضرت خدیجہ کی طبیعت خراب ہوتی تو ان کی خدمت کرتے سر دباتے.ان کئے شتہ دار کو کا بہت احترام کرتے اور جب تک وہ زندہ رہیں آپنے کو کبھی بھی اپنے مقدس شوہر سے کوئی شکایت نہیں ہوئی.بلکہ ان کی وفات کے بعد بھی آپ بڑی محبت اور احترام سے حضرت خدیجہ کا ذکر فرماتے تھے.بچہ کیا اللہ میاں نے آپ کو بچے بھی دیئے ؟ ماں آپ کے سب سے بڑے بیٹے قاسم پیدا ہوئے.اسی لئے پیارے آقا کی کنیت ابوالقاسم ہے.دو اور بیٹے طبیب اور طاہر ہوئے.لیکن تینوں لڑکے بچپن ہی میں فوت ہو گئے.سب سے بڑی بیٹی زینب تھیں پھر رقیہ" پھر ام کلثوم اور سب سے چھوٹی حضرت فاطمہ نہیں.یہ سب زندہ رہیں.اسلام قبول کیا لیکن صرف حضرت فاطمہ کی نسل چلی.باقی کی اولادیں فوت ہوتی ہیں.رض بچہ کیا پیارے آقا اپنے چچا ابو طالب کے پاس جاتے تھے ؟ ماں آپ کو تو اپنے چچا سے بے حد پیار تھا اور ان کے بچوں سے بھی.پھر اپنی چچی کی بھی خدمت کرتے تھے.ان کا بہت احترام کرتے.گھر میں کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو اس کو پورا کرتے.ه سیرت خاتم النبيين جلد اول
44.آپ کے چھا کے بہت سے بچے تھے.آپ کو ہمیشہ اس بات کا دمعیان رہتا کہ چا کے گھر پر پریشانی نہ ہو.پھر اپنے چاجس نے اولاد سے زیادہ پیار کیا.آپ کیسے انہیں چھوڑ سکتے تھے.ادھر حضرت خدیجہ نے بھی بہت دھیان رکھتی تھیں.بچہ ابھی تک قریش مکہ نے آپ کے بچپن لڑکپن اور جوانی کی خوبیاں دیکھی تھیں.وہ تو ان سے ہی بہت متاثر تھے.اور آپ کی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جو آپ میں خوبیاں ظاہر ہو رہی تھیں وہ بھی آپ کی عزت بڑھانے میں مدد دیتی تھیں.لیکن اتنی ساری دولت ملنے کے بعد بھی آپ کا وہی سادہ انداز اور کمزور اور غرباء سے ہمدردی ، پھر عورت کا احترام جو اس زمانے میں بالکل نہیں تھا.کیا وہ جبران نہیں ہوتے تھے ؟ ماں آپ تو ماشاء اللہ بڑی سنجیدگی سے تاریخ پر غور کر رہے ہیں.قریش مکہ گھر کے پر سکون ماحول پر ضرور حیران تھے.پھر جو عزت آپ نے حضرت خدیجہ کو دی.اس پر تو ان کو یقین ہی نہ آتا تھا اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ آپ نے ساری زندگی ماں باپ کے بغیر گزاری کسی سے کسی قسم کی خواہش کا اظہار نہیں کیا جوملا اس پر شکر ادا کیا.اور نہ ملنے کا کبھی گلہ نہ کیا.لیکن جب اتنی دولت اور لونڈی غلام مل جائیں اور اتنی دولت مند عورت خود شادی کی خواہش کرے جس سے مکہ کا ہر بڑا سردارہ نکاح کرنا چاہتا ہو تو ایک لمحے کے لئے اگر ہم سوچیں تو ہماری عقل بھی حیران ہو جاتی ہے.لیکن آپ نے اس یکدم تبدیلی کا کوئی اثر نہ لیا.بلکہ وہی معصومانہ اندازہ نہ کوئی انوکھی حرکت
44 کی.نہ ہی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی.جیسے ہی حضرت خدیجہ نے آپ کو سب چیزوں کا مالک بنایا.آپ نے اپنے اندر کی خواہش کہ انسان آزاد ہے.اس کو آزاد رہنے کا حق ہے کے مطابق سب کو آزاد کر دیا.پھر دولت کے بارے میں آپ کا نقطہ نظریہ کہ اس پر صرف اسی انسان کا اختیار نہیں ہے جس کے پاس ہے بلکہ اس پر اوروں کا بھی حق ہے.چنانچہ آپ کے اخلاق کا یہ پہلو بھی سامنے آیا کہ آپ کھڑے بانٹ رہے ہیں اور خالی ہاتھ گھر آگئے.ان ہی اداؤں نے تو قریش مکہ کو ہر لحاظ سے آپ کا گرویدہ بنا دیا.پھر کوئی نہ کوئی انوکھا واقعہ بھی ہو جاتا تھا جو آپ کی عزت کو بڑھانے کا سبب بن جاتا.بچہ اس زمانے میں کیا واقعہ ہوا.ماں آپ کے لڑکپن کے واقعات میں جب ہم خدائی حفاظت اور تربیت کی بات کر رہے تھے تو تعمیر کعبہ کا ذکر آیا تھا بچہ تعمیر کعبہ کے وقت آپ کی تشرم وحیا کا ذکر آپ نے بتایا تھا.ماں با لکل ٹھیک.آپ کو تو سب یاد ہے.اللہ تعالیٰ آپ کے حافظے میں اور برکت دے.ہاں تو میں بتا رہی تھی.کعبہ کی تعمیر آہستہ آہستہ ہوتی رہی کبھی سامان کم پڑ جاتا کبھی ماہر مزدور نہ ملتے.اور کبھی قریش کی لڑائیاں جھگڑے فساد.ان سب باتوں نے تعمیر کعبہ میں زیادہ وقت لگا دیا.مگر جب کام اس مقام پر پہنچا جہاں پر حجر اسود کو لگا نا تھاتا کہ باقی کام آگے شروع ہوا اس موقع پر ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اس نیک کام کو وہ انجام دے چنانچہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے باہم جھگڑے کی نوبت آگئی.
۶۸ بچہ پھر تو لڑائی شروع ہو گئی ہوگی.مان اس وقت تو نہیں ہوئی.لیکن بنو عبد الدار نے حد ہی کر دی.ایک پیالہ میں خون بھرا.اس میں اپنی اپنی انگلیاں ڈبوئیں اور عہ کیا کہ اگریم اس سعادت کو حاصل نہ کر سکے تو لڑ کر مر جائیں گے لے جہالت کے دور میں بڑی بڑی قسمیں کھاتے تھے.اور ان کو پورا بھی کرتے تھے لیکن یہ بڑی خطرناک قسم تھی.ایک طرح کا عہد ہوتا تھاکہ یا تو ہماری مانو.یا لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.بچہ پھر کیا ہوا.؟ ماں جب یہ سلسلہ پیدا ہوا تو بزرگوں کو فکر لاحق ہوئی کہ کام تو نیک کر رہے تھے لیکن ایک نیا فساد کھڑا ہو گیا.اب کیا کریں.اسی سوچ و بچار میں چار پانچ راتیں گزرگئیں یہ اور تعمیر کا کام پھر رک گیا.آخر قریش کے گئے ایک بزرگ سردار ابو امیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص صبح سب سے پہلے حرم میں داخل ہو اس کو حکم مان لو.یعنی جی مقر کر لو.اور وہ جو فیصلہ کرے اس کو سب مان لیں.چنانچہ اس بات پر سب بچہ کون آیا.جلدی سے بتائیں.ماں جس کو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کے جھگڑوں کو نبٹانے کے لئے منتخب کرنا تھا جس نے ہر مسئلہ پر فیصلہ دینا تھا.اور سب کو ایک جگہ جمع کرنا تھا.سارے اختلاف مٹانے تھے.وہی سب سے پہلے حرم میں داخل ہوا.اور سارے لوگ پکار اُٹھے.این آگیا.امین آگیا.بس پھر شه ، ته سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ ۱۲۸ سے سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحہ اہم
43 49 کیا تھا.سارے سرداروں نے کہا کہ آپ جو بھی فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے.بچہ میں نے پہچان لیا.پیارے آقا حضرت محمدؐ آگئے تھے.پھر کیا فیصلہ ہوا ؟ ماں ظاہر ہے اور کوئی کیسے آسکتا تھا.یہ تو خدا تعالیٰ کا منشا تھا.آپ نے آتے ہی ساری بات سنی پھر اپنی چادر بچھائی اور اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اس کے درمیان رکھا.سارے سرداروں سے کہا.کہ اس کو اٹھا کر اس مقام پر لے چلو.جہاں اس کو نصب کرنا ہے.سارے سردار خوش خوش آگے بڑھے اور چادر کو پکڑ کر لے چلے مقررہ جگہ پر پہنچ کر آپ نے اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو اس کے مقام پر نصب کر دیا.سارے سردار اور ان کے قبائل کے لوگ جو تلواریں نکالے تیار بیٹھے تھے.حیران تھے کہ اتنی آسانی سے اتنا بڑا مسئلہ حل ہو گیا.اور سب کو سعادت و سعرت بھی مل گئی ملیہ اس کے بعد تعمیر کا کام دوبارہ شروع ہوگیا.بچہ اگر آپ نہ آتے تو کیسی تباہی آتی.اللہ میاں نے تو کرم ہی کر دیا.ماں آپ ۳۵ سال کے ہو چکے تھے.کچھ عرصہ بعد ہی خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کی اصلاح کے لئے اپنے محبوب کو کھڑا کرنا تھا.اس لئے وہ آہستہ آہستہ قوم کے لوگوں کے ذہنوں کو تیار کر رہا تھا کہ دیکھو اب تمہارے درمیان فیصلہ کرنے والا صرف یہی ہے جو تمہیں سیدھی اور نیکی کی راہ پر لے چلے گا.ہر قسم کے فسادوں ، مار دھاڑ، قتل و غارت گری سے بچائے گا.اس کے علاوہ جو پرانی کتابوں میں لکھا تھا کہ کونے کا پتھر کے سیرت خاتم النبین جلد اول صفحه ۱۴۱ نه زیور ۱۱۸ آیت ۳۲ سیرت خاتم النبین بعد اقل من
جسے راجگیروں نے رد کر دیا پھر مدیث میں آتا ہے کہ میں نبوت کی عمارت کا آخری پتھر ہوں ، گویا اللہ تعالیٰ نے حقیقت کی نگاہ سے سارے سرداروں کو دکھا دیا کہ اسی کیلئے تکمیل دین ہوگی.شریعت کامل ہوگی.اور آنے والے نبی کے لئے جو وعدے کئے گئے تھے.یہ وہی ہے اس کو اچھی طرح پہچان لو.پھر جب اس کا ظہور ہو اور یہ اعلان کرے تو نادانی نہ کرنا کیونکہ اگر تم نے پرانی کتابوں کی پیشگوئیوں کے مطابق اس کو رد بھی کر دیا.تب بھی خدا اس کے ذریعے سے نبوت کی عمارت جو ابھی مکمل نہیں ہوئی اس کو مکمل کر کے اس کی شان ظاہر کرے گا جس طرح اب تم پر ثابت ہو گیا کہ کتنے بڑے خون خرابے سے اسے مقدس یا برکت انسان میرے محبوب نے تم کو بچایا اور عبادت سے مرکز خانہ کعبہ کی تعمیر جو رک گئی تھی یہ تعمیر دوبارہ اسی کے پر حکمت فیصلہ سے شروع ہوئی.بچہ قریش تو بہت خوش ہوئے ہوں گے ؟ ماں خوش بھی تھے اور حیران بھی کہ اتنا بڑا مسئلہ انتی آسانی سے حل ہو گیا.اور ہمارے پیارے آقا حضرت محمد تو سب کے لئے ہی رحمت کا باعث تھے.ان ہی دنوں کی بات ہے کہ حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم بن حزام جو پیارے آقا کے بھی دوست تھے، تجارت کی غرض سے عکاظ کے میلے میں گئے.وہاں انہوں نے چند غلام خریدے اور ایک سمجھدار شریف لڑکا جس کا نام زید بن حارثہ تھا اپنی پھوپھی کو دیا.ه زیور ، ۱ آیت ۲۲ - سیرت خاتم النبلتين جداول صفحه ۱۴۷ نے سیرت النبی مشبلی نعمانی جلد اول صفحه ۵ ۱۸ حاشیه
حضرت خدیجہ نے اس کی خوبیاں دیکھتے ہوئے اس کو اپنے مقدس شوہر کی خدمت میں پیش کر دیا.یہ لڑکا ایک آزاد گھرانے سے تعلق رکھتا تھا.لیکن کسی لوٹ مار کے نتیجہ میں اس بچے کو غلام بنالیا تھا لیکن کسی نوٹ مار کے نتیجہ میں اس بچے کو غلام بنا لیا تھا.چنانچہ آپ نے اس سے بڑی ہی محبت کا سلوک کیا.زید کے والد اور چچا کعب بچے کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے جب انہیں معلوم ہوا کہ اہل حرم کی محترم اور قابل احترام سہتی جس کو سارا مکہ عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.وہ زید کا آتا ہے.وہ اس امید پر کہ آپ ان کے خاندان پر رحم کا سلوک کریں گے مگہ چلے آئے اور آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر زید کو لے جاتا چاہا کیونکہ سارا گھرانہ بچے کی وجہ سے سخت بے قرار تھا.بچہ لیکن اس طرح تو اس زمانے میں کوئی غلام کو آزاد نہیں کرتا.ماں آپ دیکھتے تو جائیں کہ پیارے آقا کی کیا کیا خوبیاں دنیا پر طاہر ہو رہی ہیں.جب یہ دونوں آپ کے پاس آئے اور اپنے دکھ اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے درخواست کی کہ ہم اس کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں.جانتے ہو آپ نے کیا کہا ؟ آپ نے نہید کو بلایا.پوچھا کہ تم ان دونوں کو پہچانتے ہو.زید نے بتایا کہ یہ میرے والد ہیں.اور یہ میرے چچا ہیں.آپ نے پوچھا کہ یہ دونوں تم کو لے جانے کے لئے آئے ہیں.اگر جانا چاہو تو چلے جاؤ میری طرف سے اجازت ہے.زید کے والد اور چھاکو تو اس طرح بغیر کسی شرط کے امید نہیں ہوگی اور نہ ہی زید کو.کہ اتنی آسانی سے آزادی مل جائے گی.له سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۴۳
ماں آپ کی شرافت رحمدلی سے امید تو تھی جب ہی تو آئے تھے.لیکن اس سے بھی زیادہ کمال ہوگیا.زید نے صاف جواب دے دیا کہ میں لا اپنے آقا کو چھوڑ کو نہیں جاؤں گا.ہے بچہ وہ کیوں کیا.ماں یہی تو کمال ہے.باپ سے زیادہ اس کو آپ کے ساتھ پیار ہو گیا تھا اور اسی بات سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ آپ کا اپنے غلاموں کے ساتھ کتنا محبت اور پیار کا سلوک تھا جو ماں باپ کی محبت پر بھی غالب آگیا.باپ نے ، چھانے، بہت زور لگایا لیکن زید نے ماننا تھا نہ مانے.آخر وہ تھک کر جانے لگے تو پیارے آقا نے زید کا ہاتھ پکڑا اور خانہ کعبہ میں جاکر ا علان کیا کہ لوگو گواہ رہنا میں نے زید کو آزاد کیا.یہ میرا بیٹا میرا وارث ہے " اس کے بعد سے زید - تریدین محمد کہلانے لگے کہ یہ منظر دیکھ ان کے والدا در چھا کو یقین آگیا کہ زید نے صحیح بات کی ہے.یہ انسان واقعی اس قابل ہے کہ اس کی خدمت کرنا آزادی سے بہتر ہے.اس سلوک کی وجہ سے زید کے باپ اور چھا خوش خوش مطمئن اپنے گھروں کو ٹوٹ گئے سکے لیکن جب اسلام کی تعلیم آئی اور خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ بچوں کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکار دے تو پھر سے زید.زید بن حارثہ کہلانے لگے.بچہ اتنی ہمارا پیارا آقا کتنا پیارا تھا کہ سب سے پیار کرتا.سب کے دُکھ میں ه الله سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۴۴ - ۵۵ سوره احزاب رکوع ۶ 4
تشریک ہوتا.بلکہ دکھ کوختم کرنا چاہتا تھا.واقعی ایسے پیارے اور قابلِ احترام انسان سے تو پیار ہی کرنے کو دل چاہتا ہے.ماں ایک اور دکھ بانٹنے کا واقعہ بتاتی ہوں.مکہ میں قحط پڑا جس کی وجہ سے عام گھروں میں بڑی تنگی کے حالات ہو گئے.حضرت ابو طالب کے حالات تو پہلے ہی تنگ ہو جاتے تھے.آپ اپنے چچا عبائش کے پاس گئے.وہ ایک امیر آدمی تھے.ان سے کہا کہ میں دیکھتا ہوں.چچا ابو طالب بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں.آپ میرے ساتھ چلیں.ان سے ان کے ایک بیٹے کو مانگ لیتے ہیں.اس طرح ان پر سے کچھ بوجھ کم ہو جائے گا.چھا عباس کو یہ بات پسند بھی آئی.ساتھ ہی وہ سوچنے لگے.واقعی محمد ہر ایک کے لئے کس طرح بھلائی کی بات سوچتا ہے.پھر یہ دونوں حضرت ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے.بچہ آپ کے چچانے کیا جواب دیا.ماں حضرت ابو طالب نے جب یہ بات سنی تو بولے عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو.ان کو عقیل سے بہت پیار تھا.کہنے لگے جعفر اور علی کو لے جاؤ.چنانچہ جعفر کو غباس لے گئے.اور علی کو آپ اپنے ساتھ لے آئے.اس وقت حضرت علی کی عمر چھ سات سال تھی یہ اسی دن حضرت علی کی خوش نصیبی کا دور شروع ہوا کہ انہوں نے آپ کے زیر سایہ پرورش پائی.بچہ پیارے آقا نے بھی اپنے چچا کے سلوک اور محبت کو بڑی شدت سے محسوس کیا تھا.اس لئے اس محبت کا جواب بھی اسی طرح کی محبت ن سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۴۴- ۱۴۵
۷۴ سے دینا چاہا.ماں یہی تو وہ باتیں تھیں.آپ کا اخلاق اور کردار تھا.جو خدا تعالی مختلف انداز سے، مختلف حالات میں دنیا کو دکھا رہا تھا کہ یہ انسان اس مقام پر بھی اپنے سلوک میں تم سے آگے ہے.اس موقعہ پر بھی تم اس کو بلندی پر ہی دیکھو گے.اس کے اخلاق تمہاری جہالت سے دُور سب کو روشنی دکھاتے ہیں لیکن ان باتوں کو یا درکھنا بھول نہ جاتا.جب یہ تم سب کو بہتری کی طرف بلائے تو اس وقت بھی اس نہ مانے کی طرح.اس کے خلوص اور محبت پر شک نہ کرنا.ورنہ تم کو ہی نقصان ہو گا.اب آپ کی عمر اس منزل پر پہنچ رہی تھی جہاں ایک بڑی عمر داری پڑنے والی تھی.بچہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کی زندگی میں کیا تبدیلیاں آئیں ؟ ماں آپ سنتے آرہے ہیں کہ بچپن سے لیکر جوانی اور پھر اس عمر سے بھی آگے پہنچنے تک زندگی کے مختلف ادوارد PERIODS ) میں مناسب اخلاق اور کردار کی جھلک جو نظر آتی رہی وہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زیادہ نمایاں اور مضبوط اور روشن ہوتی چلی گئی جو آپ کی پیداغ پاک اور نیک سیرت کی گواہی دے رہی تھی.لیکن اس کے علاوہ بھی لجھ تبدیلیاں تھیں جن کو کبھی کبھارہ دنیا والے بھی محسوس کرتے تھے.لیکن آپ خود چونکہ اس دور سے گزر رہے تھے اس لئے آپ کی طبیعت پیر ان حالات کے نمایاں اثرات تھے.بچہ وہ تبدیلیاں کیا تھیں ؟ ماں یہ تو آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جب اپنے آپ کو
ظاہر کرنا چاہا.کیونکہ وہ تو ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور اس کی قدرتیں اس کی مخلوقات پر ہی ظاہر ہو سکتی تھیں.پھر کوئی ایسی مخلوق بھی ہوتی جو براہ راست نہ صرف یہ کہ اس کی شان.اس کے جلال.اس کی رحمت ، قدرت ، برکت سے حصہ لیتی بلکہ اس کے علوم، اس کے رازوں ، اس کے چھپے ہوئے معرفت و عرفان کے خزانوں کو بھی جان سکتی.اور سب کچھ جان کر پہچان کو پھر اس کی عظمت اس کی بزرگی اور ہوتری کی قائل ہوتی.اور پھر اس کے آگے سچے دل خلوص کے ساتھ جھگتی.اس سے پیار کرتی اور اس کے پیار کو حاصل کرتی.اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے ایک نور کو پیدا کیا اور اس کا نام نور محمدی رکھا.اس کی خاطر کا ئنات کو بنایا.زمین پیدا کی.اس پر دو سری معلومات کے ساتھ ساتھ انسان کو بھی پیدا کیا.انسان میں ترقی کا مادہ رکھا.اس کو یاد داشت یعنی حافظہ عطا کیا.اور پھر ان انسانوں کی ہدایت کے لئے نیوں کا سلسلہ جاری کیا.جو اسی نور سے یعنی نور محمدی سے حصہ لیے کر انسانوں کی اصلاح کا کام کرتے رہے.انہیں نیکیوں کی طرف بلانے ر ہے.اور آخر میں ساری قوموں کی اصلاح کے لئے اپنے سب سے پیارے محبوب بندے حضرت محمد مصطفے کو بھیجنا نخدار جیس کی خاطر سارا انتظام قائم کیا تھا.بچہ امی اب تو پیارے محمد اس دنیا میں آچکے اور بڑے بھی ہو گئے.آپ مجھے تبدیلیوں کے بارے میں بتائیں..ماں میں آپ کو اسی طرف لا رہی ہوں.لیکن اگر آپ نے شروع کی بات نہ سمجھی تو باقی باتوں کے سمجھنے میں بھی وقت (مشکل) ہوگی.یہ تو آپ
24 جانتے ہی ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ایک نظام ہے.اسی نظام کے تحت درجہ بدرجہ آہستہ آہستہ اس کی قدر میں کام کرتی ہیں.تبدیلیاں لاتی ہیں اس کا کوئی کام بھی ایک دم اچانک نہیں ہو جاتا ہر انقلاب کے لئے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے.اب جبکہ وہ مقدس انسان اس دنیا میں آگیا جس کی خاطر یہ کائناتے بنائی گئی اور وہ اپنی عمر کے اس حصہ میں بھی داخل ہو گیا.جب اللہ تعالی کی اپنے پیارے محبوب انسان کو اپنے علوم کا ، اپنے خزانوں کا وارث بنانا تھا.اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے وارث کو وہ باتیں بھی بتاتا جن کو جان کر پہلے وہ خود اپنے پیدا کرنے والے کو تو پہچان سکتا.اور جب پہچان ہو جاتی تب وہ اس کی قدرتوں کو سمجھ سکتا تھا.پیارے آقا حضرت محمد کو اپنی سر کے ۳۰ سال کے بعد خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے اس دنیا کائنات نظام قدرت کے بارے میں آہستہ آمینہ سمجھانا شروع کر دیا.اسی وجہ سے آپ ہر چیز پر غور کرنے لگے.اور آپ کی تمام توجہ ان ہی امور پر رہتی تھی.بچہ اللہ میاں کیسے سمجھا رہا تھا.ماں آپ جانتے ہیں کہ انسان کے ساتھ اس کی دنیاوی ضروریات بھی لگی ہوئی ہیں.پھر اب تو ہمارے آقا کی اولاد بھی تھی.حضرت خدیجہ کے دوسرے بچے بھی تھے.پھر خاندان کے کمزور لوگ.ان میں سے سب سے زیادہ آپ کو اپنے چھا حضرت ابو طالب کی فکر رہتی اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیسے کی ضرورت ہوتی ہے.آپ کو خدا تعالیٰ نے بہت دولت عطا کی لیکن
LL آپ نے وہ سب تقسیم کر دی.ادھر زندگی کی ضروریات اُدھر قدرت پر غور فکر، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود آپ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کام تو کرتے.اس کے باوجود آہستہ آہستہ آپ کا دل دنیوی کاموں سے اچاٹ ہونے لگا.آپ کو تنہائی کہ آنے لگی.آپ کا دل چاہتا کہ کونے میں بیٹھ کر غور کریں کہ یہ دنیا کیوں بنی ؟ اس کو بنانے کی عرض کیا تھی ؟ اس سارے نظام کو کس نے بنایا ؟ وہ عظیم ذات کون ہے ؟ انسان کو کیوں پیدا کیا ؟ آپ کا ومین بار بار اس طرف توجہ دلانا تھا کہ یہ سارا نظام کسی خاص مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے.کیونکہ اتنے وسیع نظام کا بغیر کسی مقصد کے وجود میں آجانا اور کامیابی سے چلتے چلے جانا ، خالق کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.ضرور کوئی بڑی طاقتور ہستی ہے جو اس کار خانہ قدرت کو چلاتی ہے.بچہ آپ ان سوالوں کا جواب کسی سے پوچھ لیتے.ماں کس سے پوچھتے ؟ عرب تو جہالت کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے.پھر ان کا باہر کی دنیا سے بھی کوئی رابطہ نہیں تھا.دوسرے پیارے آقا کا کوئی استاد نہیں تھا.لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے.اور نہ ہی آپ کا کوئی ایسا ر ہنما تھا جو آپ کو بتاتا سمجھاتا.اس کے علاوہ صرف پرانی الہامی کتابیں رہ جاتی ہیں جن سے کچھ پتہ مل سکتا ہو.لیکن وہ بھی تبدیل ہو گئی تھیں کوئی سبھی تو اپنی اصلی حالت میں موجود نہیں تھی.اس لئے آپ خود ہی سوچتے غور کرتے رہتے.ایسے حالات میں خدا تعالیٰ خود ہی ذہن کو بعض باتیں سمجھا دیا جن کی وجہ سے کبھی
تسلی ہو جاتی تو کبھی بے قراری بڑھ جاتی.یونہی دن گزر رہے تھے بچہ لیکن اس طرح تو کام نہیں چل سکتا.کوئی تو ان سوالوں کا حل بتاتا.ماں عمر کے اس دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر کائنات کے اسرار (رازہ) کھولنے شروع کر دئیے.آپ کو غیب کی باتیں بتائی جاتیں چونکہ شروع سے ہی آپ خدا تعالیٰ کی خاص حفاظت میں تھے.وہی آپ کی تربیت کر رہا تھا.وہی آپ کا استاد بھی تھا.اور وہی ذہین میں پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات بھی بتاتا رہا.اس کے بنانے کا طریقہ ابھی بالکل ابتدائی تھا.جو بات آپ کو زیادہ غور کرنے کے باوجود سمجھ میں نہیں آتی تھی.اور اس کی وجہ سے بی فراری بڑھ جاتی.لیکن اچانک خود بخود وہ راز آپ پر کھل جانا حقیقت جان کر دل اور ذہین بھی مطمئن ہو جاتا.یوں بعض باتیں اور حقائق کھل کر وضاحت کے ساتھ ظاہر ہو رہے تھے.بچہ کیا ان باتوں سے آپ اللہ میاں کے بارے میں کچھ سمجھ سکتے تھے.ماں آپ جانتے ہی ہیں کہ پیارے آقا اس کائنات کے ، زمین آسمان کے مخلوقات کے ، انسانوں کے بنانے والے کے بارے میں مسلسل ایک لمبے عرصے سے سوچ رہے تھے جبکہ حقیقت واضح نہیں ہو رہی تھی ، دوسری طرف آپ کی آنکھوں کے سامنے اُن سب چیزوں کے خالق کے طور پر الگ الگ بتوں کی پوجا کی جارہی مخفی لیکن آپ کا دل ہر گز اس بات کو ماننے کو تیار نہ تھا کہ حیثی جاگتی دنیا کے ، حرکت کرتی مخلوقات کے ، چلتے پھرتے نظام کے بے جان بے حس و حرکت پتھروں کے بت کیسے خالق ہو سکتے ہیں.
49 ماں بچہ پیارے آقا نے تو بچپن میں بھی کسی بت کی پوجا نہیں کی تھی.نہ اس کی تقریب میں شریک ہوئے اور نہ ہی ان کے نام نہ بیچے ہونے والے جانورہ کا پکا ہوا کھانا کھایا.حتی کہ بحیرہ راہب نے جب لات و عزیٰ کی قسم دی تو فوراً اس کو ٹوک دیا.ماشاء اللہ آپ نے بالکل صحیح باتیں کیں.خالق کائنات اور مخلوقات کے بارے میں آپ کے ذہن میں بڑی وضاحت سے یہ بات تھی.اس میں آپ کو کوئی شک نہیں تھا کہ " سب کا خالق اور بالک کوئی عظیم نہتی ہے جس کو ابھی تک میں جان نہیں سکا ہوں.لیکن ایک دن میں اپنے خالق و مالک کو ضرور ڈھونڈ لوں گا اور اس کی تائش میں آپ کی بیقراری بڑھتی جار ہی تھی بعض حقائق خوابے کشف کے ذریعے آپ پر کھولے گئے ہے بچہ کیا اس زمانے میں آپ کے سوا کسی اور شخص کو بھی خدا کی طرف توجہ ہوئی تھی ؟ ماں خدا تعالیٰ کے روحانی نظام کو سمجھنے کے لئے ہم اس دنیادی نظام پر غور کریں تو بہت سی چیزیں سمجھ میں آجاتی ہیں.مثلاً جب زمین پر بلے عرصہ تک بارش نہ ہو تو وہ تپ جاتی ہے.پھر ہوا بھی بند ہو جائے تو جس پیدا ہوتا ہے اور جب یہ کیفیت بڑھ جاتی ہے تو بارش کا امکان ہوتا ہے.اگر بادل موجود ہوں تو پہلے پھوار پڑتی ہے.پھر موسلا دھار برستی ہے.ه سیرت النبی شبلی نعمانی جلد اول صفحه...
بالکل اسی طرح جب دنیا میں گنا ہوں، ظلموں کی زیادتی ہوتی ہے اور کسی طرف سے بھی اصلاح کی ہوائیں نہ آئیں تو اس جیس کے دور میں باران رحمت یعنی خدا کی طرف سے نبی کی آمد یقینی ہو جاتی ہے.اور موسلا دھار بارش نبی کا وجود ہوتا ہے جو خدا کی رحمتوں اور برکتوں کو سمیٹنے کا باعث ہوتا ہے.جو پیاسی زمین یعنی انسانی قلب و ذہن کو سیراب کرتا ہے.پھر عشق خداوندی کا بیج بوتا ہے جس سے آہستہ آہستہ انسانیت کا اخلاقیات کا پودا نکل کر تناور درخت بنتا ہے اوراس میں خلوص انتشار محبت تحمل بریاری اور قربانی کے پھل لگتے ہیں.لیکن موسلا دھار بارش سے پہلے جو پھوار برستی ہے وہ اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ رحمت قریب ہے.ہر بنی کی آمد کے زمانے سے پہلے ایسے افراد ضرور پیدا ہوتے ہیں جو اس نظام کی خرابی کو بیان کرتے اور معاشرے میں قائم غلط روایات کے خلاف بغاوت کرتے ہیں.ساتھ ہی وہ بھی اسی رحمت کی تلاش میں ہوتے ہیں جس کی نشاندہی نبی کے آنے کے بعد ظاہر ہوتی ہے.بچہ اس زمانے میں وہ کون خوش نصیب لوگ تھے ؟ کیا آپ ان کے نام بتائیں گی.ماں پیارے آقا کی نبوت کے اعلان سے پہلے چار نام ملتے ہیں.ان میں سے دو کا ذکر کرتی ہوں.-۱- حضرت خدیجہ کے چا زاد بھائی ورقہ بن نوفل.جو خدا کی تلاش میں یہودیت - نصرانیت اور دین ابراہیم کا مطالعہ کرتے ہوئے بال آخر عیسائی ہو گئے.اور الہامی کتابوں کے ماہر مانے جاتے تھے.
۲ دسرے زید بن عمرو بن نفیل.نہ یہودی ہوئے اور نہ نصرانی یہ دین ابراہیمی کی تلاش میں مکہ سے نکلے.بڑی تکلیفیں اٹھائیں.جب معلوم ہوا کہ ایک نبی کا ظہور مکہ سے ہی ہوگا تو واپس آگئے شرک سے سخت نفرت تھی.بتوں کی قربان گاہ کا نہ کھاتے.لڑکیوں کو زندہ دفن کرنے سے منع کرتے.آخری عمر میں بڑی بے بسی کے عالم میں خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوئے بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھاتے کہ اللہ نہیں معلوم کہ تیری عبادت کیسے کروں.پھر حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق " کہتی ہیں کہ اپنی ہتھیلیوں کو زمین پر رکھ کر اس پر سجدہ کر لیتے.اسی حالت میں دین ابراہیمی پر قائم رہتے ہوئے وفات پائی.لیکن ان کی تلاش ضائع نہیں ہوئی.ان کے بیٹے سعید بن زید جو حضرت عمر کے بہنوئی تھے مسلمان ہوئے.بچہ کیا پیارے آقا کو بھی دین ابراہیم کی تلاش مخفی ؟ مانی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ بھی اپنے دادا جان حضرت ابراہیم کی طرح خدا کی تلاش میں محو ہوتے جارہے تھے.سورج ، چاند ستاروں.آسمان زمین ہر چیز پر غور کرتے.اسی غور و فکر کے لئے تنہائی آپ کا معمول بن گیا.آپ دنیا سے کئے جا رہے تھے اکیلے رہنا اچھا لگتا یہی وہ حالت تھی جس میں غیب کے راز کھلنے لگے.لیکن مالک حقیقی کا پتہ نہ چلتا تھا.کہ وہ کون ہے.کہاں ہے کیا چاہتا ہے.اسی فکر کی خاطر آپ نے ایک جگہ ڈھونڈ نکالی.مکہ شہر سے تین میل کے فاصلے پر حرا پہاڑ ہے.اس کے غارمیں چلے جاتے.کچھ سال تو آپ مہینہ بھر اس غار میں گزارتے یا پھر جب دل
۸۲ زیادہ گھبراتا تو شہر سے باہر ویرانے میں چلے جاتے جنگل کی طرف نکل جاتے ہے لیکن سکون نہیں ملتا تھا.سکون تو جب ہی مل سکتا ہے جب تلاش کی جانے والی ہستی کو پالیں.بچہ غار میں کیا کرتے تھے.ماں غار میں چپ چاپ بیٹھے غور کرتے سوچتے سکائنات کے رازوں کو قدرت کے اشاروں کو.خدائی نشانوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور پھر اسی نکتے پر آجاتے کہ ان سب کا خالق کون ہے.اس دوران بعض اوقات حضرت خدیجہ بھی آپ کے ساتھ چلی جاتی تھیں یہ کبھی کھانا بھیجوا دیتیں.آپ کو اس حالت میں بالکل ڈسٹرب نہ کرتی تھیں نہ ہی آپ کو کبھی پریشان کیا.کہ ہم سب کو چھوڑ کر یہاں اس دیران غار میں کیا کر رہے ہیں.حضرت خدیجہ تیری نیک وفا شعار سمجھدار خاتون تھیں.بچہ جب غار سے نکلتے تو کہاں جاتے.ماں جب آپ غار سے نکلتے تو سید ھے خانہ کعبہ کا طواف کرتے.پھر گھر کی راہ لیتے.راستے میں لوگوں کا حال دریافت کرتے غرباء کی مدد کرتے.مسکینوں کو کھانا کھلاتے.پھر گھر میں جب تک اپنے تو سب کا دھیان رکھتے لیکن جب پھر طبیعت گھیرائی تو چلے جاتے بچہ یہ کیفیت کب تک رہی ؟ ماں جب آپ عمر کے چالیسویں سال میں داخل ہوئے تو کثرت سے سچے خواب.کشف کا ظہور ہونے لگا جو خواب آپ کو دکھائی جاتی.وہ سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۱۴۵
٨٣ صبح کی سفیدی روز روشن کی طرح پوری ہو جاتی.گویا حقائق کو سمجھانے کے لئے ایک طرح سے تیز بارش کا نتروں تھا.اور آخر کے چھ ماہ تو یہ کثرت بہت بڑھ گئی لیے یہ سچے خواب نبوت کی ابتدائی سیٹرھی تھی.اسی لئے اب تو آپ زیادہ وقت غار حرا میں ہی رہتے.کیونکہ اس جگہ زیادہ غیب کی خبریں مل رہی سنتیں.بچہ آپ کھانے پینے کا کیا کرتے تھے ؟ ماں ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن کا کھانا لے کر چلے جاتے تھے.بعض دفعہ حضرت خدیجہ خود آپ کے لئے کھاناں ہیں.اور کبھی بھجوا دیتی تھیں کہ اب تو پہلا ختم ہو چکا ہوگا.اور ایسا بھی ہوتا کہ آپ خود گھر آکر اور لے جاتے تھے.اسی زمانے کو اللہ تعالیٰ نے تلاش حق زمانہ قرار دیا ہے.جس کا ذکر سورۃ الفتح میں کیا گیا.اب آپ کی عمر چالیس سال کی ہوگئی تھی.یہی عمر انسانی ذہن کی پختگی.اخلاق کی بلندی اور کردار کی مضبوطی کی عمر ہے.جو انسان بچپن سے ہی چھوٹی چھوٹی پیاری پیاری عادتوں کا مالک ہو اور عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیاں اچھائیاں بھی بڑھ رہی ہوں تو اس عمر میں تو وہ اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہیں.اور اسی عمر میں نبوت و رسالت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جاتی ہے.بچہ اللہ میاں نے آپ کو کس طرح اطلاع دی کہ آپ کو اس نے چنتا ہے مان آپ غار حرا میں تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے.اچانک کے سے سیرت خاتم النبيين " جلد اول صفحه ۱۴۵
۸۴ ایک انجانے وجود کو دیکھ کر گھبرائے.لیکن انہوں نے آتے ہی بتایا کہ میں آپ کے خالق و مالک خدا کا نمائندہ ہوں.اور اُسی کی ہدایت کے تحت آیا ہوں.آپ کو اس مقدس ذات نے رسول بنایا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس اس لئے بھیجا ہے کہ میں آپ کو آپ کے خدا کا پتہ دوں کہ وہی خالق و مالک گل کائنات ہے اور اس کی عبادت کرنے کا طریق سکھاؤں جو اس کو پسند ہے.بچہ حضرت جبرائیل دوبارہ کب آئے ؟ ماں تقریباً 4 ماہ بعد رمضان المبارک کی ۲۴ تاریخ تھی بمطابق ۲۰ اگست اله بروز منگل کہ آپ غارِ حرا میں عبادت میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل آئے.انہوں نے آپ کو پیغام دیا کہ اقراء یعنی پڑھ.آپ نے جواب دیا کہ ما انا بفَارِی کہ میں پڑھنا نہیں جانتا.عربی میں افترا کے ایک معنی پڑھ کر پیغام پہنچانے کے بھی ہیں.آپ کا جواب سن کر حضرت جبرائیل نے آپ کو سینے سے لگایا اور دبایا.بھینچا ).اس طرح تین بار کیا.وہ آپ کو اس طریقہ پر تسلی دیتے تھے اور اپنے ساتھ لگانے کی وجہ سے آپ کو اس بڑے کام کے لئے تیار کر رہے تھے کہ آپ خدا تعالیٰ کے پیغام کو قبول کرلیں.اور ساری دنیا کی ہدایت کی ذمہ داری کو اُٹھائیں جس کی خاطر آپ کو به عمد بوٹی کا قمری و شمسی کیلنڈر صفحه ۴۵ - که سیرت خاتم النبیین جلد اول صفحه ۵۳
۸۵ پیدا کیا گیا تھا.آخر اس طرح بار بار کے عمل سے آپ اس پیغام کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے گویا اس مشکل ، بھاری فرد داری کو اٹھانے پر آمادہ ہو گئے.تب حضرت جبرائیل نے آپ کو سورہ علق کی ابتدائی چار آیات پڑھائیں کی.یوں آپ پر قرآن پاک کا نزول شروع ہو گیا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالے نے آپ کو اس کلام کو لوگوں تک پہنچانے کی بڑی ذمہ داری سونپ دی کہ آپ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر تمام دنیا کے انسانوں کو اس کی عبادت کرنے کے لئے تیار کریں اور انہیں اس کا طریقہ بتائیں ساتھ ہی ہر قسم کے شرک سے روکیں.اور تمام انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور جمع کریں.بچہ اتنی بڑی ذمہ داری قبول کرنے پر آپ گھبرائے نہیں ؟ ماں بہت گھبرائے.خدا جانے کیا ہونے والا ہے.جلدی سے غار حرا سے نکلے.اور حضرت خدیجہ کے پاس آئے.فرمایا.زملوني زملوني مجھے چاور اڑھاؤ.چادر اڑھاؤ.حضرت خدیجہ نے آپ کو چادر اوڑھا دی.سارے جسم پر کپکپاہٹ طاری مخفی خوف سے بدن کانپ رہا تھا.کیونکہ یہ احساس بھی تو تھا کہ یہ بہت بڑا کام ہے.ساری دنیا کے انسانوں کو ، تمام قوموں کو جو زمین پر لیتی ہیں کیسے اپنے خدا کا پیغام پہنچاؤں گا.نہیں یہ کام کیسے انجام دے سکتا ہوں.سب کچھ تو میری طاقت سے باہر ہے لیکن اس پیارے خدائے به سیرت خاتم النبيين جلد اول صفحه ۱۵۴ - سه سیرت خاتم النتین جلد اول صفحه هم
14 واحد و یگانہ کی عظمت کے قربان کہ جس نے آپ کو اس عظیم الشان کام کے لئے چنا.اسی نے آپ کو تسلی دی.بہمت بندھائی حوصلہ عطا کیا.اور وہ تمام مشکلات اور پریشانیوں میں آپ کا مددگار بنا رہا.اسی نے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کام کرنے کے طریقے سمجھائے.اس راہ میں پیش آنے والے خطرات سے بچایا.دشمنوں سے محفوظ رکھا.اور آخر آپ کو ساری دنیا کے مقابلہ پر کامیاب کر کے اپنے دین کو غالب کر دیا.ایک ایسی قوم آپ کے ہاتھ سے تیار ہوئی جو خدا کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے اپنا سب کچھ اس راہ میں تار کرنے کے لئے تیار تھی.اللهم صلى على مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلِّمْ انَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد
کتب جن سے استفادہ کیا گیا.۸۷ 51944 سیرت خاتم البیان جلد اول حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے الناشر الشركته الاسلامیہ لمٹیڈ ریوہ -۲- سیرت النبی حصہ اول طبع چهارم تالیف حضرت علامہ شبلی نعمانی مکرم سید سلیمان ندوی صاحب ۱۹۱۸ء ناشر نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد پاکستان ۳- سیرت النبی (کامل) این میشام تالیف مکرم محمد بن مکریم ابو محمد ردو ترجمه کرم سید سلین علی حسن نظامی دہلوی صاحب ناشرا داره اسلامیتا انار کلی ۱۹۰ لاہور نقوش رسول نمبر جلد ] شماره ۱۳۰ جنوری ۱۹۸۵ء مکرم مدیر محمد طفیل صاحب اداره فروغ اردو.لاہور ۵ طبقات ابن سعد 4- تجرید بخاری عہد نبوی کا قمری ریشمی کیلینڈر مکرم دوست محمد شاہد صاحب (مورة - مقالات سیرت احمدیت ) احمد اکیڈمی ریوہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے مقدمہ کے ساتھ.مصنفہ ڈاکٹر محمد آصف قدوائی ایم.اسے.پی ایچ ڈی فلیس تحقیقات و نشریات اسلام - ندوۃ العلماء
حجراسود مكننا الله لا الله اليد دار خرا غار حرا