Wahi Wa Ilham

Wahi Wa Ilham

وحی و الہام

عرفانِ مولیٰ کا نشان
Author: Other Authors

Language: UR

UR
اللہ تعالیٰ

Book Content

Page 1

1 عرفان مولی کا نشاں وحی والہام مرتبه ہادی علی چوہدری

Page 2

2 ( جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ) فروری 2018

Page 3

50 9 11 14 61 67 69 71 76 ان ق به م پیا اللهم لا هم له هه ن که ده لا لا 15 19 22 24 31 34 39 46 48 48 52 59 3 وحی والہام وحی والہام از روئے لغت نزول وحی کا طریق الہام اور وحی کلام الہی کے دو نام ہیں وحی کی قسمیں فہرست مضامین خواب ( رؤیا)، کشف اور وحی میں فرق ارکانِ وحی وحی کی ضرورت و اہمیت نزولِ جبریل انبیاء علیہم السلام پر غیر تشریعی وحی صحابه پروحی صحابہ پر نزول وحی والہام میں کمی کی وجہ غیر انبیاء پروحی پہلی امتوں میں غیر انبیاء پر وحی کا نزول.امت محمدیہ میں صلحاء پر نزول وحی ا صلحائے امت میں وحی کے چند اور نمونے ii.اولیاء اللہ پر وحی کے ذریعہ قرآنی آیات کا نزول iii.اولیاء اللہ پر نزول قرآن مسیح موعود پر نزول وحی مسیح موعود کا منصب و مقام وحی کے ذریعہ بیانِ شریعت ہے اسلام کا طرہ امتیاز اور آلہ خدا دانی وحی الہی ہے :10 :11 :12 :9 :4 :5 :6 :7 :8 :1 :2

Page 4

4 نوٹ: اس مضمون کے بنیادی نقوش مولا نا محمد صادق سماٹری صاحب کی کتاب حقانیت احمدیت سے اٹھائے گئے ہیں.(مصنف)

Page 5

5 بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمُ نحمده و نصلى على رسوله الكريم و على عبده المسيح الموعود وحی والہام وحی والہام اسلام کا ایک ایسا فخر و امتیاز ہے کہ جو اسے دوسرے مذاہب سے ممتاز ، اعلیٰ اور بالا ثابت کرتا ہے.لیکن عجیب اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج خود اہلِ اسلام میں سے جماعت احمدیہ کے علاوہ اکثر وہ لوگ ہیں جو اس نعمت خداوندی کو رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد امت میں منقطع مانتے ہیں.اس موضوع پر اور اس کے مختلف پہلوؤں پر ائمہ و علمائے سلف نے بڑی وضاحت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور امت کے لئے راہنمائیاں مہیا کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اللہ تعالی کا مومنوں سے مکالمہ مخاطبہ جاری ہے اور وحی و الہام کا دروازہ بند نہیں ہوا.ہم ان کے حوالوں کے ساتھ کچھ گزارشات اور حقائق ہدیہ قارئین کریں گے اور مستند اسلامی کتب سے ثابت کریں گے کہ مامور زمانہ مسیح زماں و مہدی دوراں حضرت مسیح موعود اللہ ﷺ نے سچ فرمایا تھا اور اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادتیں پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ے وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود اللہ کو قرآنی وعدوں کے تحت اور رسول اللہ ﷺ

Page 6

6 کی پیشگوئیوں کے مطابق بطور مسیح موعود و مہدی معہود مبعوث فرمایا.اس نے آپ کو اسی طرح چن لیا جس طرح اس نے پہلے انبیاء علیہم السلام کو چنا تھا.اس نے آپ کو شرف مکالمہ و مخاطبہ سے سرفراز فرمایا اور وہ آپ سے اسی طرح ہمکلام ہوا جس طرح وہ پہلے مرسلین علیہم السلام سے ہوتا آیا تھا.آپ پر بھی انبیائے گزشتہ کی مانند روح القدس کا نزول ہوا.فرق صرف یہ تھا کہ آپ کی وحی والہام اور آپ کا منصب و مقام رسول اللہ ﷺ کی کامل اتباع فیض کامل اور آپ کی قوت قدسیہ کی تاثیر کے راستے تھا اور اسی کے تحت تھا.رسول اللہ ﷺ کی اس تاثیر روحانی کے جلوہ کی وجہ سے آپ کی وحی ایک امتیازی شان کی حامل تھی.آپ سے اللہ تعالیٰ کا الہام و کلام کتاب ”تذکرہ میں محفوظ ہے.عملاً اور واقعہ یہ کتاب ان لوگوں کا جواب بھی ہے جو ایسے منافی اسلام عقیدے رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کے بعد د روحی والہام مقفل کر دیا ہے.انہی لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود الله فرماتے ہیں: بعض خشک ملاؤں کو یہاں تک انکار میں غلو ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مکالمات الہیہ کا درواز وہی بند ہے اور اس بد قسمت امت کے یہ نصیب ہی نہیں کہ یہ نعمت حاصل کر کے اپنے ایمان کو کامل کرے اور پھر کشش ایمانی سے اعمال صالحہ کو بجالا وے.ایسے خیالات کا یہ جواب ہے کہ اگر یہ امت در حقیقت ایسی ہی بد بخت اور اندھی اور شتر الامم ہے تو خدا نے کیوں اس کا نام خیر الام رکھا بلکہ سچ بات یہ ہے کہ وہی لوگ احمق اور نادان ہیں کہ جو ایسے خیالات رکھتے ہیں ورنہ جس طرح خدا تعالیٰ نے اس امت کو وہ دعا سکھلائی ہے جو سورۃ

Page 7

فاتحہ میں ہے.ساتھ ہی اُس نے یہ ارادہ بھی فرمایا ہے کہ اس امت کو وہ نعمت عطا بھی کرے جو نبیوں کو دی گئی تھی یعنی مکالمه مخاطبہ الہیہ جو سر چشمہ تمام نعمتوں کا ہے.کیا خدا تعالیٰ نے وہ دعا سکھلا کر صرف دھوکا ہی دیا ہے اور ایسی ناکارہ اور ذلیل امت میں کیا خیر ہو سکتی ہے جو بنی اسرائیل کی عورتوں سے بھی گئی گزری ہے.ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کی ماں اور حضرت عیسی کی ماں دونوں عور تیں تھیں اور بقول ہمارے مخالفین کے تنبیہ نہیں تھیں تا ہم خدا تعالیٰ کے یقینی مکالمات اور مخاطبات ان کو نصیب تھے اور اب اگر اس امت کا ایک شخص اس قدر طہارت نفس میں کامل ہو کہ ابراہیم کا دل پیدا کر لے اور اتنا خدا تعالیٰ کا تابعدار ہو جو تمام نفسانی چولا پھینک دے اور اتنا خدا تعالیٰ کی محبت میں محو ہو کہ اپنے وجود سے فنا ہو جائے تب بھی وہ باوجود اس قدر تبدیلی کے موسٹی کی ماں کی طرح بھی وہی ابھی نہیں پاسکتا کیا کوئی عقلمند خدا تعالیٰ کی طرف ایسا بخل منسوب کر سکتا ہے.اب ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الكَاذِبِينَ اصل بات یہ ہے کہ جب ایسے لوگ سراسر دنیا کے کیڑے ہو گئے اور اسلام کا شعار صرف پگڑی اور داڑھی اور ختنہ اور زبان سے چند اقرار اور رسمی نماز روزہ رہ گیا تو خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو مسخ کر دیا اور ہزار ہا تاریکی کے پردے آنکھوں کے آگے آگئے اور دل مر گئے اور کوئی زندہ نمونہ روحانی حیات کا اُن کے ہاتھ میں نہ رہا نا چار ان کو مکالمات الہیہ سے انکار کرنا

Page 8

8 پڑا اور یہ انکار درحقیقت اسلام سے انکار ہے لیکن چونکہ دل مر چکے ہیں اس لئے یہ لوگ محسوس نہیں کرتے کہ ہم کس حالت میں پڑے ہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 311-310) تاریخ انبیاء کے ایک سرسری سے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جب بھی مکفرین نے نبیوں کا انکار کیا، اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنا ناتا توڑ دیا.وہ خواہ اس سے کیسے ہی بڑے مذہبی رہنما و پیشوا تھے.حضرت عیسی اللہ کے منکرین سے اللہ تعالیٰ نے اپنا نا تا کاٹ کر آپ کے حواریوں سے رشتہ وحی والہام جوڑ لیا.پھر جب رسول اللہ مبعوث ہوئے تو آپ کے مخالف خواہ عیسائی تھے، یہودی تھے یا مشرک، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اپنے سے دور کر دیا اور صرف آپ کے صحابہ سے راضی ہو گیا ().یہ سنت انبیاء اس موجودہ دور میں پھر دوہرائی گئی.چنانچہ آئندہ صفحات یہ شہادت دیں گے کہ رسول اللہ ﷺ سے لے کر حضرت مسیح موعود اللہ کے دعوای تک امت میں ملہم من اللہ موجود تھے.پھر یہ عجیب واقعہ رونما ہوا کہ صرف وہ لوگ جو آپ پر ایمان لائے ، اللہ تعالیٰ ان سے تو ہمکلام ہونے لگا اور وہ جنہوں نے آپ کی تکذیب کی ان سے اپنا رشتہ توڑ دیا.کیونکہ انہوں نے اس کے مامور کورڈ کر کے خود اپنے ہاتھ سے یہ دروازہ بند کرنے کی جسارت کی تھی.یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی.یہ حضرت مسیح موعود ال کی صداقت کی ناقابل تردید اور اور عملی شہادت ہے کہ جس پر زمانہ خود شاہد ہے، اور جس پر بذات خود مکذبین کا عقیدہ کہ اب کا سلسلہ بند ہے گواہ ہے.یہ حقیقت ایسی ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی مہر تصدیق جلی طور پر ثبت ہے.

Page 9

9 1: وحی والہام از روئے لغت (1) قرآن مجید کی سب سے مستند لغت مُفردات ( تصنیف امام راغب اصفہائی) میں زیر لفظ وحی لکھا ہے:.أَصلُ الوَحْيِ اَلا شَارَةِ السَّرِيعَةُ وَلِتَضَمُّنِ السُّرْعَةِ قِيلَ أَمْرٌ وَحُيٍّ وَ ذلِكَ يَكُونُ بِالْكَلَامِ عَلَى سَبِيلِ الرَّمْزِ وَالتَّعْرِيضِ وَقَدْ يَكُونُ بِصَوْتٍ مُجَرَّدٍ عَنِ التَّرْكِيبِ وَبِإِشَارَةٍ بِبَعْضِ الْجَوَارِحِ وَ بِالْكِتَابَةِ - 66 وَيَقَالُ لِلْكَلِمَةِ إِلَّا لَهِيَّةِ الَّتِى تُلْقَى إِلَى انْبِيَاءِ هِ وَ أَوْلِيَاءِ؟ وَحُيِّ “ یعنی 9966 وحی کے اصل معنی جلدی اشارہ کے ہیں اور چونکہ اس لفظ میں جلدی سرعت“ کے معنی پائے جاتے ہیں اس لیے کہا جاتا ہے.امر وحی اور یہ وحی بھی کلام کے ذریعہ بطورا اشارہ اور تعریض کے ہوتی ہے اور کبھی ایسی آواز کے ذریعہ ہوتی ہے جو مرکب الفاظ سے خالی ہو اور کبھی بعض جوارح (اعضاء) کے اشارہ کے ذریعہ ہوتی ہے اور کبھی کتابت کے ذریعہ.اور وہ الہی کلام کو بھی جو خدا تعالیٰ کے انبیاء اور اولیاء کی طرف پہنچایا جائے وحی کہلاتا ہے.حدیث کی مشہور لغت نہایہ، ابن الاثیر الجزری میں لکھا ہے: وَقَدْ تَكَرَّرَ ذِكرُ الْوَحْيِ فِي الْحَدِيثِ وَيَقَعُ عَلَى الْكِتَابَةِ وَالْإِشَارَةِ وَالرِّسَالَةِ والاِلهَامِ وَالْكَلَامِ الْخَفِيّ“ کہ لفظ وحی حدیث میں بتکرار آیا اور کتابت، اشارہ ، پیغام، الہام اور مخفی کلام کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.یہی معنی کتاب مجمع بحارالانوار میں بھی مذکور ہیں.نیز صلى الله ملاحظہ ہو الشَّفَاءُ بِتَعْرِيفِ حُقُوقِ الْمُصْطَفى له جزء 1 صفحہ 191 -

Page 10

10 لغت کی مشہور کتاب المنجد میں ہے: (وَحَىٰ يَحيَ وَحُيا) إِلَى فُلَانِ: أَشَارَ إِلَيهِ: اس کی طرف اشارہ کیا.اَرْسَلَ إِلَيْهِ رَسُولًا: اس کی طرف پیغامبر (ایچی ) بھیجا.وَحَى إِلَيْهِ أَوْ وَحَى إِلَيْهِ كَلَامًا : كَلَّمَهُ سِرًّا اَوْ كَلَّمَهُ بِمَا يُخْفِيهِ عَنْ غَيْرِهِ کہ اس سے پوشیدہ پوشیدہ کلام کیا ، یا اس سے ایسی بات کی جو دوسرے سے مخفی رکھی جائے.وَحَسی اللهُ فِي قَلْبِهِ كَذَا : أَلْهَمَهُ إِيَّاهُ : اللہ نے اسے الہام کیا.اس کے دل میں کچھ ڈالا.وَحَى الْكِتَابَ : كَتَبَهُ : کتاب کو لکھا.وَحَى النَّبِيْحَةَ : ذَبَحَهَا بِسُرْعَةٍ : اسے جلدی سے ذبح کیا.ان حوالہ جات سے وحی کے لغوی معنے واضح ہو جاتے ہیں کہ ایسا کلام جس میں سرعت ، اخفاء ، راز و نیاز دل میں کوئی خیال ڈالنے کے ہیں اور جہانتک اصطلاح شرع میں وحی کے معنوں کا تعلق ہے تو اس سے مراد وہ کلام الہی ہے جو انبیاء اور اولیاء پر اتارا جا تا ہے.حضرت مسیح موعود اللہ فرماتے ہیں: الہام ایک القاء غیبی ہے کہ جس کا حصول کسی طرح کی سوچ اور تر ڈد اور تفکر اور تدبر پر موقوف نہیں ہوتا اور ایک واضح اور منکشف احساس ہے کہ جیسے سامع کو متکلم سے یا مضروب کو ضارب سے یا ملموس کو لامس سے ہو محسوس ہوتا ہے اور اس سے نفس کو مثل حرکات فکریہ کے کوئی الم روحانی نہیں پہنچتا بلکہ جیسے عاشق اپنے معشوق کی رویت سے بلا تکلف انشراح اور انبساط پاتا ہے ویسا ہی روح کو الہام سے ایک ازلی اور قدیمی رابطہ ہے کہ جس سے روح لذت اٹھاتا ہے.غرض یہ ایک منجانب اللہ اعلام لذیذ ہے کہ جس کو نفث فی الروع اور وحی بھی کہتے ہیں.“ پرانی تحریر ہیں.روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 20)

Page 11

11 2 نزول وحی کا طریق نزول وحی کے طریق کی بابت خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللَّهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ o وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحاً مِّنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِى مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيْمَانُ وَلَكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِى بِهِ مَنْ نَّشَاء مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (سورة الشورى:53،52) کہ اللہ تعالیٰ کسی بشر سے کلام نہیں کرتا مگر بذریعہ وحی یا پس پردہ یا وہ بھیجتا ہے کوئی ایلچی (فرشتہ ) جو اس کے اذن کے مطابق وحی کرتا ہے جو خدا چاہتا ہے یقینا اللہ بہت بلند اور حکمت والا ہے.اس آیت شریفہ میں وحی کے نزول کے تین بڑے طریق بیان کئے گئے ہیں.اوّل: وَحُيَّا، اس کے ماتحت تفسیر الجلالین) میں لکھا ہے.فِي الْمَنَامِ أَو بِالْإِلْهَامِ.کہ وحی سے مراد وہ کلام الہی ہے جو خواب میں نازل ہو یا بذریعہ الہام ( جاگتے ہیں ).اپنی تفسیر جامع البیان میں علامہ معین بن صفی وَحْياً، کے تحت لکھتے ہیں: وَهُوَ الْإِلْهَامُ أَوِ 6 الْمَنَامُ : کہ وحی سے مراد یا الہام ہے یا پھر وہ کلام جو خواب میں نازل ہوتا ہے.حضرت امام رازی فرماتے ہیں کہ وحیا سے مراد ہے ” وَهُوَ الْإلْهَامُ وَالقَذْفُ فِي الْقَلْبِ اَوِ الْمَنَامِ ( التفسير الكبير - سورة الشورای زیر آیت وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللهُ جلد 27 صفحہ 160) کہ وحی سے مراد، الہام اور بات کا دل میں ڈالنا یا خواب میں علم حاصل ہونا.

Page 12

12 ظاہر ہے کہ رویا صادقہ وحی کی ایک قسم ہے اور حدیث نبوی سے ثابت ہے کہ رسول الله روحی کا آغاز رویائے صادقہ سے شروع ہوا تھا.پس و حیا کے متعلق ان تحریروں سے واضح طور پر ان لوگوں کے وہم کا ازالہ ہو جاتا ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ الہام یا خواب ، وحی میں شامل نہیں.دوسرا طریق: مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ پس پردہ کلام کا ہے.تیسرا طریق : يُرْسِلَ رَسُولاً که خدا تعالیٰ فرشتہ کو بھیجے اور وہ آکر رسول یا ولی کو خدا تعالیٰ کا کلام پہنچائے.حضرت امام رازی رحمہ اللہ نے ان تینوں طریقوں کو یوں بیان فرمایا ہے: " وُ صُولُ الْوَحِي مِنَ اللَّهِ إِلَى الْبَشَرِ إِمَّا أَنْ يَكُونَ مِنْ غَيْرِ وَاسِطَةِ مُبَلِّغ اَوْ يَكُونُ بِوَاسِطَةِ مُبَلّغ.- اَمَّا الأَوَّلُ وَهُوَ أَنَّهُ وَصَلَ إِلَيْهِ الْوَحُنُ لَا بِوَاسِطَةِ شَخْصِ اخَرَ وَمَا سَمِعَ عَيْنَ كَلَامِ اللهِ فَهُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ إِلَّا وَحْيا وَأَمَّا الثَّانِي وَهُوَ أَنَّهُ وَصَلَ إِلَيْهِ الْوَحْيُ لَا بِوَاسِطَةِ شَخْصِ اخَرَ وَ لَكِنَّهُ سَمِعَ عَيْنَ كَلَامِ اللَّهِ فَهُوَ الْمُرَادُ مِنْ قَوْلِهِ أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَ أَمَّا الثَّالِثُ وَهُوَ أَنَّهُ وَصَلَ إِلَيْهِ بِوَاسطَةِ شَحُصٍ اَخَرَ فَهُوَ الْمُرَادُ بِقَوْلِهِ أَوْ يَرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ “ 66 التفسير الكبير سورة الشورای زیر آیت وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُكَلِّمَهُ اللهُ جلد 27 صفحہ 160 ) یعنی خدا تعالیٰ کی وحی کسی انسان تک یا تو بغیر کسی مبلغ کے پہنچتی ہے یا کسی مبلغ (پہنچانے والےفرشتے) کے ذریعہ.اگر تو و ہ وحی بغیر کسی مبلغ (فرشتے) کے پہنچے اور وہ شخص الفاظ ابھی بھی نہ سنے تو وہ وحی کہلائے گی.

Page 13

13 اور اگر وہ وحی کسی مبلغ کے بغیر پہنچے لیکن اس میں خدا کے الفاظ سنے تو وہ من وَرَاءِ حِجَابٍ میں داخل ہوگی.اور اگر وہ لفظی وحی کسی مبلغ (فرشتے) کے ذریعہ پہنچے تو وہ يُرْسِلَ رَسُولًا کی شق میں شامل ہوگی.آخر میں حضرت امام رازی ایک انتہائی اہم بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: " وَاعْلَمْ أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْ هَذِهِ الْأَقْسَامِ الثَّلَثَةِ وَحْيٌ إِلَّا أَنَّهُ تَعَالَى خَصَّصَ الْقِسْمَ الْأَوَّلَ بِاسْمِ الْوَحْيِ لِاَنَّ مَا يَقَعُ فِي الْقَلْبِ عَلَىٰ سَبِيْلِ الْإِلْهَامِ 66 فَهُوَ يَقَعُ دَفْعَةً فَكَانَ تَخْصِيْصُ لَفْظِ الْوَحْيِ بِهِ أَوْلَى (ايضا) یعنی معلوم ہونا چاہئے کہ یہ تینوں قسم کا کلام وحی کہلاتا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے صرف پہلی قسم کو وحی قرار دیا ہے کیونکہ جو کلام بذریعہ الہام آتا ہے وہ دفعہ دل میں پڑتا ہے ، اس لئے اسے بالخصوص وحی کا نام دینا زیادہ مناسب ہے ( یعنی اسے اس کے لغوی معنوں سے زیادہ مناسبت ہے) قریباً یہی مضمون تفسیر الخازن ( جزء 6 صفحہ 107 ) ، تفسیر ابن کثیر ( جلد 4 صفحہ 122،121 ) اور تفسیر الصاوی وغیرہ میں بھی موجود ہے.انبیاء کے تابعین بطریق الہام جو علوم اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں وہ الہام بھی وہی ہی کی قسم ہے.بلکہ الہام کا لفظ وحی کے مقابل صرف لایا انہی سے بچانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ اُسے وحی تشریعی نہ سمجھ لیا جائے.حقیقت میں یہ الہام ، وحی غیر تشریعی ہی ہوتا ہے.خواہ وہ علوم شریعت یعنی اوامر ونواہی پر ہی مشتمل ہو یا امور غیبیہ پر.

Page 14

14 الہام اور وحی کلام الہی کے دو نام ہیں : اس سلسلہ شہید فرماتے ہیں: "" حضرت سیدا میں باید دانست از انجمله الهام است ہمیں الہام که با نبیاء الله ثابت است آنر او می گویند و اگر بغیر ایشاں ثابت میشود او را تحدیث مے گوند و گاہے در کتاب اللہ مطلق الہام خواہ بانبیاء 66 ثابت مے شود خواہ باولیاء اللہ وحی نامند.“ (منصب امامت صفحہ 13 ) یعنی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک الہام بھی ہے.وہ الہام جو انبیاء کو ہوتا ہے، اسے وحی کہتے ہیں اور یہی جو الہام غیر انبیاء کو ہوتا ہے ،اسے تحدیث کہتے ہیں.کبھی مطلق الہام کو خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء ( یعنی غیر انبیاء ) کو، قرآن مجید کی رُو سے وحی کہتے ہیں.

Page 15

15 3 : وحی کی قسمیں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشورای کی زیر بحث مذکورہ بالا آیت کریمہ میں بنیادی وجی کی تین اقسام یا اس کے نزول کے تین طریق بیان فرمائے ہیں.مگر رسول اللہ ﷺ پر نزول وحی کے اطوار کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت حافظ ابن القیم اپنی کتاب زاد المعاد جلد 1 صفحہ 84 ( دارالکتب العلمیہ ایڈیشن 2002 ء ) پر وحی کے مفضل مراتب بیان فرماتے ہیں.وہ لکھتے ہیں: وَكَمَّلَ اللهُ لَهُ مِنْ مَرَاتِبِ الْوَحْيِ مَرَاتِبَ عَدِيْدَةً: احد ها) الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ وَكَانَتْ مَبْدَأَ وَ حْيه صلى الله عليه وسلم وَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ - (الثَّانِيَةُ) مَا كَانَ يُلْقِيْهِ الْمَلَكُ فِي رُوْعِهِ وَ قَلْبِهِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَاهُ كَمَا قَالَ النَّبِيُّ ﷺ إِنَّ رُوْحَ الْقُدُسِ نَفَتَ فِي رُوْعِيْ أَنَّهُ لَنْ تَمُوْتَ نَفْسٌ حَتَّى تَسْتَكْمِلَ رِزْقَهَا فَاتَّقُوا اللَّه وَاَحْمِلُوْا فِي الطَّلَبِ وَلَا يَحْمِلَنَّكُمْ إِسْتِبْطَاءُ الرِّزْقِ عَلَىٰ أَنْ تَطْلُبُوهُ بِمَعْصِيَةِ اللهِ فَإِنَّ مَا عِنْدَ اللَّهِ لَا يُنَالُ إِلَّا بِطَاعَتِهِ - (الثَّالِثَةُ) إِنَّهُ الله كَانَ يَتَمَثَّلُ لَهُ الْمَلَكُ رَجُلًا فَيُخَاطِبُهُ حَتَّى يَعِيَ عِنْهُ مَا يَقُولُ لَهُ وَفِي هَذِهِ الرُّتُبَةِ كَانَ يَرَاهُ الصَّحَابَةُ أَحْيَانًا - (الرَّابِعَةُ) إِنَّهُ كَانَ يَأْتِيهِ فِي مِثْلِ صَلْصَلَةِ الْجَرَسِ وَ كَانَ أَشَدَّهُ عَلَيْهِ فَيَلْتَبِسُ بِهِ الْمَلَكُ حَتَّى إِنَّ جَبِيْنَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا فِي الْيَوْمِ الشَّدِيدِ الْبَرَدِ وَحَتَّى إِنَّ رَاحِلَتَهُ لَتَبْرُكُ بِهِ إِلَى الْأَرْضِ إِذَا كَانَ رَاكِبَهَا وَلَقَدْ جَاءَهُ الْوَحْيُ مَرَّةٌ كَذلِكَ وَ

Page 16

16 فَخِذُهُ عَلَى فَخِذِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فَتَقَلَتْ عَلَيْهِ حَتَّى كَادَتْ تَرُضُهَا.( الْخَامِسَةُ) إِنَّهُ يَرَى الْمَلَكَ فِى صُورَتِهِ الَّتِى خُلِقَ عَلَيْهَا فَيُوْحِي إِلَيْهِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُوْحِيَهُ وَهذَا وَقَعَ لَهُ مَرَّتَيْنِ كَمَا ذَكَرَ اللَّهُ ذَلِكَ فِي سُوْرَةِ النَّجْمِ (السَّادِسَةُ) مَا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَهُوَ فَوْقَ السَّمَوَاتِ لَيْلَةَ الْمِعْرَاجِ مِنْ فَرْضِ الصَّلوةِ وَغَيْرِهَا.(السَّابِعَةُ) كَلَامُ اللَّهِ لَهُ مِنْهُ إِلَيْهِ بِلَا وَاسِطَةِ مَلَكٍ كَمَا كَلَّمَ اللَّهُ مُؤْسَى بْنَ عِمْرَانَ وَ هَذِهِ الْمَرْتَبَةُ هِىَ ثَابِتَةٌ لِمُوْسَى قَطْعًا بِنَيِّ الْقُرْآنِ وَ ثُبُوْتُهَا لِنَبِيِّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِى حَدِيْثِ الْإِسْرَاءِ وَقَدْ زَادَ بَعْضُهُمْ - ( الثَّامِنَة) وَهِيَ تَكْلِيْمُ اللَّهِ لَهُ كِفَاحًا مِنْ غَيْرِ حِجَابٍ وَهَذَا عَلَىٰ مَذْهَبِ مَنْ يَقُولُ إِنَّهُ صلى الله عليه وسلم رَأى رَبَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى وَ هِيَ مَسْتَلَةٌ خِلَافٍ بَيْنَ السَّلْفِ وَالْخَلَفِ وَإِنْ كَانَ جَمْهُورُ الصَّحَابَةِ بَلْ كُلُّهُمْ مَعَ عَائِشَةَ كَمَا حَكَاهُ عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارَمِيُّ إِجْمَاعًا لِلْصَّحَابَةِ “ کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کے تمام مراتب نبی کریم ﷺ پر مکمل کر دیئے تھے.یعنی (اول) کچی خواب.یہی حضور ﷺ کے لئے وحی کا ابتدا تھی اور جور دیا بھی آپ دیکھتے وہ نمایاں طور پر پوری ہو جاتی.(روم) وہ وحی جوفرشتہ رسول اللہ ﷺ کے دل میں ڈال دیتا تھا لیکن آپ اس فرشتہ کو دیکھتے نہیں تھے.جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ روح القدس نے آپ کے دل میں ڈالا ہے کہ کوئی س نہ مرے گا جب تک کہ وہ اپنا پورا رزق حاصل نہ کر لے.پس اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور خوب محنت کرو اور اگر رزق ملنے میں کچھ دیر بھی ہو تو اس وجہ سے خدا کی نافرمانی نہ

Page 17

17 کرنا کیونکہ جو چیز خدا کے پاس ہے وہ اس کی طاعت وفرمانبرداری سے ہی ملتی ہے.نبی کریم ﷺ کے سامنے فرشتہ ایک آدمی کی شکل میں متمثل ہو جاتا تھا اور (سوم) آپ سے باتیں کرتا تھا اور جو وہ کہتا تھا اسے نبی آپ یاد کر لیتے تھے ، اس صورت میں بعض اوقات صحابہ بھی فرشتہ کو دیکھ لیتے تھے.(چهارم) د و وتی گھنٹی کی آواز میں آنحضرت ا ایک پہنچتی تھی اور یہ بخت ترین وحی ہوتی تھی اور اس میں فرشتہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہوتا تھا، اسکی سختی کی وجہ سے سردی کے دن بھی آپ کے منہ پر پسینہ چھوٹ جاتا تھا اور اگر آپ سوار ہوتے تو اونٹنی بوجھ محسوس کر کے زمین پر بیٹھ جاتی تھی.ایک دفعہ جب آپ پر وحی نازل ہوئی تو آپ کی ران زید بن ثابت کی ران پر تھی اور زید نے اس قدر بوجھ محسوس کیا کہ جیسے وہ بوجھ ان کی ران توڑ دے گا.(پنجم) حضور کبھی فرشتہ کو اس کی اصل شکل میں دیکھتے تھے اور جو کچھ خدا تعالی چاہتا تھاوہ اس کی وحی آپ تک پہنچا دیتا تھا.ایسا موقع صرف دو دفعہ پیش آیا جیسا کہ سورۃ النجم میں بیان ہوا ہے.(ششم) وہ وحی جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر معراج کی رات نماز وغیرہ کی فرضیت کے متعلق اتاری تھی.(ہفتم) خدا تعالیٰ کا وہ کلام جو کسی فرشتہ کی وساطت کے بغیر آنحضرت ﷺ تک پہنچا.جیسے کہ اس نے موسیٰ بن عمران سے کلام کیا تھا اور یہ مرتبہ موسیٰ ال کے لئے قرآن مجید کی نص سے ثابت ہے اور ہمارے نبی کریم ﷺ کے لئے اسراء کی رات کو واقع ہوا تھا.خدا تعالیٰ کا بغیر حجاب آمنے سامنے ہو کر آنحضرت ﷺ سے کلام کرنا.یہ (هشتم)

Page 18

18 وحی اس گروہ کے خیال کے مطابق ہوئی جو یہ مانتا ہے کہ آپ نے جاگتے ہوئے خدا تعالیٰ کو دیکھا تھا اور خدا تعالیٰ کو جاگتے دیکھنے کا یہ مسئلہ سلف وخلف کے نزدیک مختلف فیہ ہے.گو جمہور صحابہ بلکہ تمام کے تمام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ہیں جیسا کہ عثمان بن سعید دارمی نے اسے اجماع قرار دیا ہے.(کہ نبی کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کو عالم بیداری میں کبھی ان جسمانی آنکھوں سے نہیں دیکھا ).مفردات میں امام راغب فرماتے ہیں: ” فَالْإِلْهَامِ وَالتَّسْخِيْرُ وَالْمَنَامُ دَلَّ عَلَيْهِ قَوْلُهُ إِلَّا وَحْياً وَ سَمَاعُ الكَلَامِ دَلَّ عَلَيْهِ أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ وَتَبْلِيْغُ جِبْرِيلَ فِي صُورَةٍ مَعَيَّنَةٍ دَلَّ عَلَيْهِ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا.“ " یعنی وخباً میں الہام تسخیر اور خواب والی وحی شامل ہے.مِنُ وَرَاءِ حِجَابٍ میں وہ وحی شامل ہے جس میں صرف کلام الہی سنائی دے.يُرْسِلَ رَسُولاً میں وہ وحی جس میں فرشتے کا واسطہ ہو اور اس کے ذریعہ پہنچے.اس طرح وہ مذکورہ بالا آٹھ قسم کی وحی ان تین طریق سے ملہم تک پہنچ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود الا اپنے تجربہ کی بنیاد پر نزول وحی کے طریق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: بعض دفعہ وحی اس طرح پر نازل ہوتی ہے کہ کوئی کاغذ یا پتھر وغیرہ دکھایا جاتا ہے جس پر کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے.‘“ (ملفوظات جلد 8 صفحہ 7) پھر اس سوال کے جواب میں کہ جی کس طرح ہوتی ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: کئی طریق ہیں.بعض دفعہ دل میں ایک گونج پیدا ہوتی ہے کوئی آواز نہیں ہوتی.پھر اس کے ساتھ ایک شگفتگی پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ

Page 19

19 تیزی اور شوکت کے ساتھ ایک لذیذ کلام زبان پر جاری ہوتا ہے جو کسی فکر، ساتھ لذیذ پر تدبر اور وہم و خیال کا نتیجہ نہیں ہوتا.اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے نشانات ہزاروں ہیں.اگر کوئی چاہے تو اب بھی کم از کم چالیس روز ہمارے پاس رہے اور نشان دیکھ لے.صادق اور کاذب میں خدا تعالیٰ فرق کر دیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 8 صفحہ 196 ) خواب ( رؤیا)، کشف اور وحی میں فرق اوپر حضرت حافظ ابن قیم اور حضرت امام راغب کی تحریرات میں رویا اور خواب کو بھی وحی کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے.اسی طرح کشف بھی ایک حقیقت ہے جو رڈیا کی ایک اعلی قسم ہے.ان میں اور وحی میں فرق کیا ہے، حضرت مسیح موعود ال بیان فرماتے ہیں: " کشف کیا ہے؟ یہ رویا کا ایک اعلیٰ مقام اور مرتبہ ہے.اس کی ابتدائی حالت کہ جس میں غیبت حس ہوتی ہے،صرف اس کو خواب (رویا) کہتے ہیں.جسم بالکل معطل بیکار ہوتا ہے اور حواس کا ظاہری فعل بالکل ساکت ہوتا ہے.لیکن کشف میں دوسرے حواس کی غیبت نہیں ہوتی.بیداری کے عالم میں انسان وہ کچھ دیکھتا ہے جو کہ وہ نیند کی حالت میں حواس کے معطل ہونے کے عالم میں دیکھتا تھا.کشف اسے کہتے ہیں کہ انسان پر بیداری کے عالم میں ایک ایسی ربودگی طاری ہو کہ وہ سب کچھ جانتا بھی ہو اور حواسِ خمسہ اس کے کام بھی کر رہے ہوں اور ایک ایسی ہوا چلے کہ نئے حواس اسے مل جاویں جن سے وہ عالم غیب کے نظارے دیکھ لے.وہ حواس مختلف طور سے ملتے ہیں.کبھی بھر میں، کبھی شامہ سونگھنے

Page 20

20 میں کبھی سمع میں.شامہ میں اس طرح جیسے کہ حضرت یوسٹ کے والد نے کہا إِنِّي لَا جِدُ رِيحَ يُوسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَيِّدُون (سوره یوسف : 95 - کہ مجھے یوسف کی خوشبو آتی ہے.اگر تم یہ نہ کہو کہ بوڑھا بہک گیا ) اس سے مراد وہی نئے حواس ہیں جو کہ یعقوب کو اس وقت حاصل ہوئے اور انہوں نے معلوم کیا کہ بہت زندہ موجود ہے اور ملنے والا ہے.اس خوشبو کو دوسرے پاس الے نہ سونگھ سکے کیونکہ ان کو وہ حواس نہ ملے تھے جو کہ یعقوب کو ملے.جیسے گڑ سے شکر بنتی ہے اور شکر سے کھانڈ اور کھانڈ سے اور دوسری شیر میاں لطیف در لطیف بنتی ہیں.ایسے ہی رؤیا کی حالت ترقی کرتی کرتی کشف کا رنگ اختیار کرتی ہے اور جب وہ بہت صفائی پر آجاوے تو اس کا نام کشف ہوتا ہے.لیکن وحی ایسی شئے ہے جو کہ اس سے بدرجہا بڑھ کر صاف ہے اور اس کے حاصل ہونے کے لئے مسلمان ہونا ضروری ہے.کشف تو ایک ہند و کو بھی ہوسکتا ہے.بلکہ ایک دہر یہ بھی جو خدا تعالیٰ کو نہ مانتا ہو وہ بھی اس میں کچھ نہ کچھ کمال حاصل کر لیتا ہے.لیکن وحی سوائے مسلمان کے دوسرے کو نہیں ہوسکتی.یہ اسی امت کا حصہ ہے.کیونکہ کشف تو ایک فطرتی خاصہ انسان کا ہے اور ریاضت سے حاصل ہوسکتا ہے خواہ کوئی کرے.کیونکہ فطرتی امر ہے.جیسے جیسے کوئی اس میں مشق اور محنت کرے گا ویسے ویسے اس پر اس کی حالتیں طاری ہوں گی اور ہر ایک نیک و بد کورڈ یا کا ہونا اس امر پر دلیل ہے.دیکھا ہوگا کہ کچی خوا ہیں بعض فاسق و فاجر لوگوں کو بھی آجاتی

Page 21

21 ہیں.پس جیسے ان کو سچی خوا ہیں آتی ہیں ویسے ہی زیادہ مشق سے کشف بھی ان کو ہو سکتے ہیں حتی کہ حیوان بھی صاحب کشف ہو سکتا ہے لیکن الہام یعنی وحی الہی ایسی شئے ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ سے پوری صلح نہ ہو اور اس کی اطاعت کے لئے اس نے گردن نہ رکھ دی ہو تب تک وہ کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُون (تم اسجدہ: 31) یہ اسی کی طرف اشارہ ہے.نزول وحی کا صرف ان کے ساتھ وابستہ ہے جو کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مستقیم ہیں اور وہ صرف مسلمان ہی ہیں.وحی ہی وہ شئے ہے کہ جس سے انا الموجود کی آواز کان میں آکر ہر ایک شک وشبہ سے ایمان کو نجات دیتی ہے اور بغیر جس کے مرتبہ یقین کامل کا انسان کو حاصل نہیں ہوسکتا.لیکن کشف میں یہ آواز کبھی نہیں سنائی دیتی اور یہی وجہ ہے کہ صاحب کشف ایک دہریہ بھی ہو سکتا ہے.لیکن صاحب وحی کبھی دہر یہ نہیں ہوگا.“ ( ملفوظات جلد 7 صفحہ 320 تا 322)

Page 22

22 4 ارکان وحی علمائے اسلام نے وحی کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کے ارکان بھی بیان فرمائے ہیں.مثلاً حضرت امام رازی رحمہ اللہ نے آیت کریمہ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ" کے تحت اپنی تفسیر میں وحی کے حسب ذیل پانی رکن تحریر فرمائے ہیں.وو " ( فَاوَّلُهَا الْمُرْسِلُ وَهُوَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَ تَعَالَى فَلِهَذَا أَضَافَ الْقَاءَ الْوَحْيِ إِلى نَفْسِهِ فَقَالَ يُلْقِي الرُّوْحَ وَالرُّكْنُ الثَّانِي الْإِرْسَالُ وَالْوَحْيُ وَهُوَ الَّذِى سَمَّاهُ بِالرُّوْح (وَالرُّكْنُ الثَّالِثُ اَنَّ وُصُوْلَ الْوَحْيِ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى إِلَى الْأَنْبِيَاءِ لَا يُمْكِنُ أَنْ يَكُوْنَ إِلَّا بِوَاسِطَةِ الْمَلِئِكَةِ وَهُوَ الْمُشَارُ إِلَيْهِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بِقَوْلِهِ مِنْ أَمْرِهِ فَالرُّكْنُ الرُّوْحَانِيُّ يُسَمَّى اَمْرًا (وَالرُّكْنُ الرَّابِعُ الْأَنْبِيَاءُ الَّذِيْنَ يُلْقِى الله الوَحْيَ إِلَيْهِمْ وَ هُوَ الْمُشَارُ إِلَيْهِ بِقَوْلِهِ عَلَى مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَ 66 الرُّكْنُ الْخَامِسُ تَعْيِينُ الْغَرَضِ وَالْمَقْصُوْدِ الْأَصْلِي مِنْ الْقَاءِ هَذَا الْوَحْي “ التفسير الكبير جزء 27 صفحه 40 زير آيت يُلقى الروح من امره على من يشاء سورة المؤمن) (اوّل رکن) وحی بھیجنے والا.اور وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے اسی لئے اس نے وحی اُتارنے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.فرمایا يُلْقِي الرُّوحَ ( دوسرار کن) وحی اُتارنا.اور اسی کو روح سے موسوم کیا گیا ہے.( تیسرا رکن وحی الہی کا انبیاء تک پہنچنا ملائکہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے.اسی کی طرف مِنْ اَمرِہ میں اشارہ کیا گیا ہے اسی روحانی رکن کو امر کہا گیا ہے.

Page 23

23 (چوتھا رکن) انبیاء ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ اپنی وحی نازل فرماتا ہے اسی امر کی طرف اشارہ ہے الفاظ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ہیں.(پانچواں رکن ) وحی کے اتارنے کی غرض اور اصل مقصود کی تعیین.اس بیان میں تیسرے رکن میں کہا گیا ہے کہ وحی الہی کا کسی تک پہنچنا فرشتہ کے ذریعہ ہی ممکن ہے.بظاہر یہ پچھلے بیان کے مخالف معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ کوئی اختلاف نہیں ہے.کیونکہ کوئی نہ کوئی ذریعہ تو استعمال ہوتا ہی ہے جس سے وہ وحی بندے تک پہنچتی ہے.اس ذریعہ کو جو نام بھی دیا جائے ، وہ ایک واسطہ تو ہے.خواہ وہ واسطہ ظاہری ہو یا روحانی ، وہی ذریعہ یا واسطہ تیسرا رکن قرار پائے گا.

Page 24

24 5 وحی کی ضرورت و اہمیت وجی کا فائدہ تو دراصل وہی ہے جو حضرت مسیح موعود ال نے بیان فرمایا ہے جو اس مضمون کے شروع میں آپ کی مبارک تحریر میں درج کیا جا چکا ہے.اسی طرح اس مضمون کے آخر میں آپ کے اشعار بھی پیش کئے جائیں گے جو وحی کی اہمیت اور اس کی.یہاں ملاحظہ فرمائیں کہ امام رازی کیا فرماتے ہیں: " إِنَّ حَيَاةَ الْأَرْوَاحِ بِالْمَعَارِفِ الْإِلَهِيَّةِ وَالْجَلَايَا الْقُدْسِيَّةِ فَإِذَا كَانَ الْوَحْيُ سَبَبًا لِحُصُولِ هَذِهِ الْأَرْوَاحِ سُمِّيَ بِالرُّوْحِ فَإِنَّ الرُّوْحَ سَبَبُ لِحُصُوْلِ الْحَيَاةِ وَالْوَحْيُ سَبَبٌ لِحُصُولِ هَذِهِ الْحَيَاةِ الرُّوْحَانِيَّةِ “ (التفسير الكبير جزء 27 صفحہ 39 زیر آیت ” يلقى الروح “سورۃ الشورای ) کہ روحیں معارف الہیہ اور جلو ہائے قدسیہ کے ذریعہ زندہ ہوتی ہیں پس چونکہ وحی کے ذریعہ روحوں کو زندگی حاصل ہوتی ہے اس لئے اسے روح کا نام دیا گیا ہے کیونکہ جیسے روح اس جسمانی زندگی کا سبب ہے.وحی اس کی روحانی زندگی کا باعث ہے.یعنی وحی امت کے لئے روح یعنی زندگی کی حیثیت رکھتی ہے.دراصل نبی کی بعثت کی اغراض ہی وحی کے نزول کی اغراض ہیں، مثلاً نبی خدا تعالیٰ کی آیات اور معجزات اپنے ساتھ لاتا ہے تا کہ لوگوں کو ایمان اور یقین محکم حاصل ہو کہ ان کا ایک قادر خدا موجود ہے اور یہ آیات بذریعہ وحی ہی نازل ہوتی ہیں.” فَمَوْقِعُ الْآيَاتِ مِنَ الْأَدْيَانِ كَمَوقِعِ الْأَرْزَاقِ مِنَ الْأَبْدَانِ فَالْآيَاتُ لِحَيَاةِ الْادْيَانِ وَالْأَرْزَاقِ لِحَيَاةِ الْأَبْدَانِ.“ (ايضضًا - صفحہ 38)

Page 25

25 کہ دین میں آیات کی وہی حثیت ہے جو بدن میں کھانے پینے کی.آیات دینی (روحانی) زندگی کے لئے ہیں اور رزق جسمانی زندگی کے لئے.لکھتے ہیں: علامہ احمد الصاوی المالکی آیت کریمہ يُنَزِّلُ الْمَلِئِكَةَ بِالرُّوحِ “ کی تفسیر میں " و سُمِّيَ رُوحًا لِاَنَّ بِهِ حَيَاةَ الْقُلُوبِ النَّشِيُّ عَنْهَا السَّعَادَةُ الْأَبَدِيَّةُ وَمَنْ حَادَ عَنْهَا فَهُوَ هَالِكٌ كَمَا أَنَّ الرُّوحَ بِهَا حَيَاةُ الْاجُسَامِ وَهِيَ بِدُونِهَا هَالِكَةٌ.“ (حاشیہ الجلالین جزء2 صفحہ 265 سورۃ الخل آیت:3) کہ وحی کو روح کا نام دیا گیا ہے کیونکہ دلوں کو اسی کے ذریعہ وہ زندگی حاصل ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں سعادت ابدی ملتی ہے اور جو اس سے ہٹ گیا وہ تباہ و برباد ہوا جیسے کہ روح ہی سے اجسام کو زندگی ملتی ہے اور اس کے بغیر وہ تباہ ہو جاتے ہیں.اسی آیت کے متعلق امام رازی لکھتے ہیں: إِنَّ الْمُرَادَ مِنَ الرُّوحِ، اَلْوَحُى وَهُوَ كَلَامُ اللهِ (الغير الكبير جزء 19 صفحه 175) که روح سے مراد وحی اور خدا کا کلام ہے.“ آپ مزید لکھتے ہیں : القُرانُ وَالْوَحْيُ بِهِ تَكْمُلُ المَعَارِفُ الإِلَهِيَّةُ وَالمُكَاشَفَاتُ الرَّبَّانِيَّةُ وَ هَذِهِ المَعَارِفُ بِهَا يُشْرِقُ العَقُلُ وَ يَصُفُو وَيَكْمُلُ ----- وَ عِندَ هَذَا يَظْهِرُ اَنَّ الرُّوحَ الحَقِيقِيُّ هُوَ الْوَحَى وَ القُرْآنُ.“ ( تفسير سورة النحل آیت:3 ينزل الملائكة بالرّوح‘) یعنی قرآن اور وحی کے ذریعہ ہی معارف الہیہ اور مکاشفات ربانیہ کامل ہوتے ہیں اور انہی معارف کے ذریعہ عقل روشن، صاف اور کامل ہوتی ہے.تو واضح ہو گیا کہ روحِ حقیقی ہی دراصل وحی اور قرآن ہی ہے.

Page 26

26 خلاصہ یہ کہ جسے خدا تعالیٰ اپنا قرب بخشے اور اپنے مکالمہ ومخاطبہ سے نوازے وہ یقیناً ان لوگوں سے زیادہ افضل ہوگا جنہیں یہ باتیں نصیب نہیں بلکہ وہ اس سے استفادہ کر کے روحانی زندگی پاتے ہیں اور دوسرے لوگ ان کے مقابل پر بے روح یعنی مردہ تصو ر ہوتے ہیں.امام رازی فرماتے ہیں: وَإِنَّ عِبَادَ اللَّهِ الْكَامِلِيْنَ أَقْرَبُ إِلى اللَّهِ تَعَالَىٰ مِنْ عِبَادِهِ النَّاقِصِيْنَ وَ عِبَادَ اللَّهِ الَّذِيْنَ كَلَّمَهُمُ اللَّهُ وَكَلَّمُوْهُ وَ اَرْسَلَهُمْ لِتَكْمِيْلِ عِبَادِهِ فَكَمَّلُوْا أَقْرَبُ إِلَى اللهِ مِنَ الَّذِيْنَ لَمْ يُرْسِلْهُمُ اللَّهُ وَلَمْ يَحْمُلُوا.“ (التغير الكبير جزء 7 صفحہ 685) کہ خدا تعالیٰ کے کامل بندے ناقص لوگوں کی نسبت خدا سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور وہ لوگ جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرے اور وہ اس سے کلام کریں اور وہ انہیں دوسرے لوگوں کی تعمیل کے لئے بھیجے پھر وہ ایسا کریں بھی تو وہ یقیناً خدا کے زیادہ قریب ہوں گے ان لوگوں کی نسبت جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث نہیں فرمایا اور نہ وہ کامل ہوئے.ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق رکھتے ہیں ،اس سے شرف مکالمہ و مخاطبہ پاتے ہیں، اس کے جلال و جمال کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کا علم یقینی ہوتا ہے جس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.اس لئے وہ دنیا کو پکارتے ہیں کہ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اس کہ سوا کوئی حقیقی معبود نہیں اور اسی لئے وہی اُولُو العِلم کہلانے کے مستحق ہوتے ہیں اور ان کی گواہی ہی ایسی گواہی ہوتی ہے جو سو فیصد سچی ہوتی ہے اور تائیدی نشان اپنے ساتھ رکھتی ہے.آيت إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيرًا “ کے تحت امام رازی لکھتے ہیں: نَذِيرًا‘ شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلِئِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ وَ هُمُ الْأَنْبِيَاءُ عَلَيْهِمُ

Page 27

27 66 السَّلَامُ الَّذِينَ آتَاهُمُ اللهُ عِلْمًا مِنْ عِنْدِ وَ عَلَّمَهُمْ مَا لَمْ يَكُونُوا يَعْلَمُونَ - التفسير الكبير جزء 28 صفحه : 73 سورة الفتح) کہ یہ جو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں نے اور اہل علم نے گواہی دی کہ خداے تعالیٰ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ، اس فرمان میں اہل علم سے مراد انبیاء علیہم السلام ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم سے نوازا ہوتا ہے اور وہ کچھ سکھایا ہوتا ہے جن سے وہ واقف نہیں ہوتے.پس روحانیت میں خدا کے نزدیک اہل علم“ کہلانے کے اصل اور حقیقی مستحق انبیاء کرام ہی ہیں.وہی ہیں جو دنیا میں اعلان کرنے کی جرات کرتے ہیں کہ ان کا خدا زنده خدا ہے.خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں بھی لوگوں کو یونہی نہیں چھوڑا بلکہ اپنی رحمت کا مظاہرہ فرمایا.اس نے رسول اللہ ﷺ کی پیشگوئی لَو كَانَ الْإِيمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِّن هؤلاء ( صحیح بخاری.کتاب التفسير باب تفسیر سورۃ الجمعہ) کے مطابق اپنے ایک بندے کو بھیجا جس نے دنیا کو یہ اعلان کرتے ہوئے بلایا کہ: ”ہمارے سید و مولی آنحضرت ﷺ سے تین ہزار سے زیادہ معجزات ہوئے ہیں اور پیشگوئیوں کا تو شمار نہیں.مگر ہمیں ضرورت نہیں کہ ان گزشتہ معجزات کو پیش کریں بلکہ ایک عظیم الشان معجزہ آنحضرت ﷺ کا یہ ہے کہ تمام نبیوں کی وحی منقطع ہو گئی اور معجزات نابود ہو گئے اور اُن کی اُمت خالی اور تہی دست ہے.صرف قصے ان لوگوں کے ہاتھ میں رہ گئے مگر آنحضرت کی وحی منقطع نہیں ہوئی.اور نہ معجزات منقطع ہوئے بلکہ ہمیشہ بذریعہ کاملین امت جو شرف اتباع سے مشرف ہیں ظہور میں آتے ہیں.اسی وجہ

Page 28

28 سے مذہب اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور اس کا خدا زندہ خدا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس شہادت کے پیش کرنے کے لئے یہی بندہ حضرت عزت موجود ہے اور اب تک میرے ہاتھ پر ہزار ہا نشان تصدیق رسول اللہ اور کتاب اللہ کے بارہ میں ظاہر ہو چکے ہیں اور خدا تعالیٰ کے پاک مکالمہ سے قریباً ہر روز میں مشرف ہوتا ہوں.“ چشمه مسیحی روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 351,350) اللہ تعالیٰ کے اس بندے نے یہ بھی اعلان فرمایا: خدا تعالیٰ نے مجھ کو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تا وہ غلطیاں جو بجز، خدا کی خاص تائید کے نکل نہیں سکتی تھیں وہ مسلمانوں کے خیالات سے نکالی جائیں اور منکرین کو بچے اور زندہ خدا کا ثبوت دیا جائے اور اسلام کی عظمت اور حقیقت تازہ نشانوں سے ثابت کی جائے ،سو یہی ہو رہا ہے.قرآن شریف کے معارف ظاہر ہورہے ہیں اور لطائف و دقائق کلام ربانی کھل رہے ہیں ، نشان آسمانی اور خوارق ظہور میں آرہے ہیں اور اسلام کے حسنوں اور نوروں اور برکتوں کا خدا نئے سرے جلوہ دکھا رہا ہے.جس کی آنکھیں دیکھنے کی ہیں دیکھے اور جس میں سچا جوش ہے وہ طلب کرے اور جس میں ایک ذرہ محب اللہ اور رسول کریم کی ہے وہ اُٹھے اور آزمائے اور خدا تعالیٰ کی اس پسندیدہ جماعت میں داخل ہووے جس کی بنیادی اینٹ اس نے اپنے پاک ہاتھ سے رکھی ہے.“ ( بركات الدعا روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 24)

Page 29

29 پھر وہ اپنے ربّ کریم سے اپنے اسی عشق ، محبت اور قرب کی وجہ سے ان الفاظ میں التجا کرتا ہے: ”اے میرے قادر خدا ! میری عاجزانہ دعائیں سن لے اور اس قوم کے کان اور دل کھول دے اور ہمیں وہ وقت دکھا کہ باطل معبودوں کی پرستش دنیا سے اُٹھ جائے اور زمین پر تیری پرستش اخلاص سے کی جائے اور زمین تیرے راستباز اور موحد بندوں سے ایسی بھر جائے جیسا کہ سمندر پانی سے بھرا ہوا ہے اور تیرے رسول کریم محمد مصطفی ﷺ کی عظمت اور سچائی دلوں میں بیٹھ جائے ، آمین.“ (تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 603) یہ رسول اللہ ﷺ کے موعود فرزند حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ السلام ہیں جو اپنے ساتھ آسمانی نشان لے کر مبعوث ہوئے تا انسان کا رشتہ اس کے خالق حقیقی سے استوار کریں.جنہیں گو منکرین نے قبول نہ کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس موعود کی قبولیت کی تقدیر اپنے اس کلام میں ظاہر فرمائی کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا خدا اسے قبول کر یگا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا.“ انشاء اللہ اگر حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام سے نہیں ہیں تو پھر اس صدی میں اور اس دور آخر میں کون ہے؟ جسے اللہ تعالیٰ نے ان اہل العلم اور چنے ہوؤں میں داخل ہونے کا اعزاز عطا فرمایا ہے کہ جنہیں خدا تعالیٰ اپنے الہام و کلام سے نوازتا اور کثرتِ مکالمہ ومخاطبہ کی وجہ سے انبیاء کی صف میں شامل کرتا ہے.دیکھیں کہ حضرت امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ لوگ تین قسم کے ہیں: إِنَّ النُّفُوسَ عَلَى ثَلَثَةِ أَقْسَامٍ، نَاقِصَةٌ وَ كَامِلَةٌ لَا تَقْوَى عَلَىٰ تَكْمِيلِ

Page 30

30 30 النَّاقِصِينَ ، وَ كَامِلَةٌ تَقْوَى عَلى تَكْمِيلِ النَّاقِصِينَ - ( فَا لَقِسُمُ الأَوَّلُ الْعَوَامُ ، ) 66 وَالقِسْمُ الثَّانِى ( هُمُ الْاَولِيَاءُ ، ( والقِسْمُ الثَّالِثُ هُمُ الْأَنْبِيَاءُ.“.التفسير الكبير جزء 27 صفحہ 108 سورة حم السجده زير آيت وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا ) کہ نفوس تین قسم کے ہوتے ہیں.قسم اول ناقص لوگ اور قسم دوم وہ کامل لوگ ہیں جو دوسرے کی تکمیل نہیں کر سکتے اور قسم سوم وہ کامل لوگ جو دوسرے کو بھی کامل بنانے کی طاقت رکھتے ہیں.(پہلی قسم ) عوام کی ہے (دوسری قسم ) اولیاء کی اور ( تیسری قسم ) انبیاء کی.“ اب ذرا سوچئے کہ اگر نبی کریم ﷺ کی امت میں کوئی تیسری قسم کا آدمی نہیں ہے تو پھر اس امت کو افضل الامم کیونکر کہا جاسکتا ہے اور کیا یہ خیال کرنا کہ نبی کریم ﷺ کی امت ، تیسری قسم کے پاکباز انسان سے بکلی خالی ہے، حضور کی ہتک کے مترادف نہیں؟

Page 31

31 6 نزول جبریل اللہ تعالیٰ کے مقربین پر جبریل کے نزول کی کیفیات کے ذکر میں حضرت امام رازی ” فرماتے ہیں: ا.قَالَ الْمُفَسِّرُوْنَ إِنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ خَافَ عَلَى أُمَّتِهِ أَنْ يُصِيرُوا مِثْلَ أُمَّةٍ مُوسَى وَعِيسَى عَلَيْهِمَا الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ فَقَالَ اللَّهُ لَا تَهْتَمَّ لِذلِكَ فَإِنِّي وَ إِنْ أَخْرَجْتُكَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا أَنَّى جَعَلْتُ جِبْرِيلَ خَلِيفَةً لَّكَ يَنْزِلُ إِلَىٰ أُمَّتِكَ كُلَّ لِيْلِةِ قَدْرٍ وَ يُبَلِّغُهُمُ السَّلَامَ مِنِّی.“ (النفير الكبير جزء 3 صفحہ: 277) یعنی مفسرین کہتے ہیں کہ جب نبی کریم کو سی ڈ ر لاحق ہوا کہ آپ کی امت موسیٰ اور عیسی علیہما السلام کی امت کی طرح گمراہ ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے اس بات کا فکر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اگر میں نے تجھے وفات دیدی تو میں جبرئیل کو تیرا خلیفہ مقرر کر دوں گا جو ہر لیلتہ القدر میں تیری امت کی طرف آیا کرے گا اور انہیں میری طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچایا کرے گا.“ مطلب ظاہر ہے کی جبرئیل جو خدا تعالیٰ کا کلام لاتا ہے اس کا نبی کریم ﷺ کے بعد زمین پر ائتر نا بند نہیں ہوا خصوصاً لیلۃ القدر کے موقع پر تو وہ ضرور آتا ہے.۲.حجر علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: " وَخَبُرُ لَا وَحْيَ بَعْدِي بَاطِلٌ وَمَا اشْتَهَرَ أَنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلْعَمُ فَهُوَ لَا أَصْلَ لَهُ.(روح المعانی جزء 22 صفحہ 41 زیر آیت خاتم النبیین.الخصائص الکبرای صفحہ :243).اس مذکورہ بالا عبارت کا ترجمہ فارسی میں اہلحدیث کے عالم نواب صدیق حسن

Page 32

32 خان صاحب نے یہ کیا ہے: وو و آنکه بر آلننه عامه مشهور شده که نزول جبر انیل بسوئے ارض بعد موت رسول خدا صلعم نشود بے اصل محض است.‘ ( حج الکرامہ صفحہ 431) طور کہ یہ حدیث کہ میرے بعد کوئی وحی نہیں باطل ہے ( موضوع ہے ) اور یہ جو عام مشہور ہے کہ جبرائیل وفات نبوی کے بعد زمین پر نازل نہیں ہوں گے اس کی کوئی بنیاد نہیں..پھر ایک اور حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے کہ جبرئیل نازل ہوتا رہتا ہے اور اس کا نزول بند نہیں ہوا.حضور ﷺ نے فرمایا: مَا أُحِبَّ أَنْ يَرْقُدَ الْحَنْبُ حَتَّى يَتَوَضَّأَ فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَتَوَفَّى وَ مَا يَحْضُرُهُ جِبْرِيلُ فَدَلَّ عَلَىٰ أَنَّ جِبْرِيلَ يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ وَ يَحْضُرُ مَوْتَ كُلِّ مُؤْمِنٍ تَوَفَّاهُ اللَّهُ وَ هُوَ عَلَى طَهَارَةِ “ (الفتاوى الحديثية صفحه 230 مطلب: فى ان جبريل يعصد الموتى - صفحه 243 مطلب : خبر لا وحی بعدی باطل ) کہ میں پسند نہیں کرتا کہ کوئی شخص وضوء بغیر سو جائے ، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ وہ مرجائے گا تو جبرئیل اس کے پاس نہیں آئے گا.پس یہ حدیث دلالت کرتی ہے اس بات پر کہ جبرائیل زمین پر اترتا ہے اور ہر مومن کی موت کے وقت اگر وہ با وضو ہو تو وہ حاضر ہوتا ہے.نبی کریم ﷺ کی ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امت محمدیہ وحی سے حصہ پاتی رہے گی.ہاں اگر وہ اپنے فرض سے غافل ہو جائے تو پھر وہ نعمت اس سے چھین لی جائے گی.آپ کے الفاظ یہ ہیں:

Page 33

33 إِذَا عَظَمَتْ أُمَّتِي الدُّنْيَا نُزِعَتْ مِنْهَا هَيْبَةُ الإِسْلَامِ وَإِذَا تَرَكَتِ الْأَمْرَ بالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهى عَنِ الْمُنْكَرِ حُرِمَتْ بَرَكَةُ الْوَحْيِ.“ ( الجامع الصغير جزء 1 صفحہ 31) کہ جب میری امت دنیا کو اہمیت دینے لگے گی تو اس سے اسلامی رُعب چھن جائے گا اور جب وہ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ترک کر دے گی تو اس سے وحی کی برکت اُٹھ جائے گی.“ پس معلوم ہوا کہ جب تک امت مسلمہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گی اور نیکی کا حکم دیتی رہے گی اور بدی سے روکتی رہے گی تو خدا تعالی اسے وحی کی برکت سے نوازتا چلا جائے گا.ہاں اگر وہ اس تعلیم کو چھوڑ دیں گے اور اس ارشاد کو پس پشت ڈال دیں گے تو پھر انہیں وحی الہی سے محروم کر دیا جائے گا.پس اس حدیث نبوی کی صداقت کی عملی شہادت یہ ہے کہ آج روئے زمین پر صرف اور صرف حضرت مسیح موعود ال کی جماعت، جماعت احمد یہ ہے جو جیسی نعمت عظمی سے اور اللہ تعالیٰ کے زندہ نشانات و تائیدات سے فیضیاب ہو رہی ہے.اس کے برعکس آپ پر ایمان نہ لانے والے ان آسمانی نعمتوں سے محروم ہیں.

Page 34

34 7 انبیاء علیہم السلام پر غیر تشریعی وحی : قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر ایک نبی سے کلام کیا ، ان میں سے بعض نبی ایسے تھے جنہیں شریعت عطا کی گئی تھی اور بعض ایسے تھے جنہیں کوئی نئی شریعت عطا نہیں کی گئی تھی.اس طرح وحی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی.چنانچہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ متبوع یا تشریعی نبی کی طرف جو کلام الہی نازل ہوا وہ وحی ہے، اور جو تابع یا غیر تشریعی نبی کی طرف نازل ہوا وہ وجی نہیں.خدائے پاک کا کلام ہونے کی وجہ سے دونوں ہی وحی ہیں.انہی لغوی معنی میں اگر کتاب کا نام دیا جائے تو بھی صحیح ہے اور اس لحاظ سے ہر ایک نبی کتاب لایا ہے.لیکن قرآنی اصطلاح میں 'الکتاب وحی تشریعی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے کتاب شریعت کہلائے گی اور دوسری محض الکتاب کے نام موسوم نہ ہوگی.علمائے اسلام نے اس موضوع پر بخشیں اٹھائی ہیں.چنانچہ حضرت امام رازی فرماتے ہیں: ”وَ الْفَرْقُ بَيْنَ الْهُدى وَالذِّكْرَى اَنَّ الْهُدى مَا يَكُوْنُ دَلِيْلًا عَلَى الشَّيْءِ وَ لَيْسَ مِنْ شَرْطِهِ أَنْ يَذْكُرَ شَيْئًا أَخَرَ كَانَ مَعْلُوْمًا ثُمَّ صَارَ مَنْسِيًّا وَأَمَّ الذِّكْرَى فَهِيَ الَّذِي يَكُونُ كَذَلِكَ فَكُتُبُ انْبِيَاءِ اللَّهِ مُشْتَمِلَةٌ عَلَى هَذَيْنِ الْقِسْمَيْنِ بَعْضُهَا دَلَائِلُ فِي أَنْفُسِهَا وَ بَعْضُهَا مُذَكَّرَاتٌ لِّمَا وَرَدَ فِي الْكُتُبِ الْإِلَهِيَّةِ الْمُتَقَدِّمَةِ “ (التفسير الكبير جزء 27 صفحه : 68 سورۃ المومن زیر آیت هدی و ذکری لاولی الالباب) کہ الھدی اور الذکری کا فرق یہ ہے کہ الھدی اس کو کہتے ہیں جو کسی چیز پر بطور دلیل ہو اور اس میں کوئی شرط نہیں کہ وہ کوئی ایسی بات ذکر کرے جو پہلے معلوم تھی اور پھر بھلا دی گئی لیکن الذکری سے یہی مراد ہے پس انبیاء کی کتابیں ان دونوں قسموں پر

Page 35

35 مشتمل ہیں بعض تو خود دلائل ہیں اور بعض کتابیں یاد دہانی کراتی ہیں ان باتوں کی جوان سے پہلی کتب میں وارد ہیں.“ زبور اس کی واضح مثال ہے.مشہور یہ ہے کہ وہ ایک کتاب ہے جو حضرت داؤد پر نازل ہوئی.ساتھ ہی علماء اور مفسرین اس امر کا بھی برملا اقرار کرتے ہیں کہ اس میں کوئی نیا حکم نہیں ملتا.بلکہ اس میں تاکید ملتی ہے کہ شریعت تو رات پر عمل کیا جائے.چنانچہ آیت وَآتَيْنَا دَاوُدَ زَبُورًا (النساء آیت : 162) کے تحت لکھا ہے: اسم لِلْكِتَابِ الَّذِى أُنْزِلَ عَلى دَاوُدَ وَ هُوَ مِئَةٌ وَ خَمْسُونَ سُوْرَةً لَيْسَ فِيْهَا حُكْمٌ وَلَا حَلَالٌ وَلَا حَرَامٌ بَلْ كُلُّهَا تَسْبِيْحٌ وَتَقْدِيْسٌ وَتَمْجِيْدٌ وَ ثَنَاءٌ عَلَى اللهِ تَعَالَى وَ مَوَاعِظُ (تفسیر الخازن جزء 1 صفحه : 519 و تفسیر الفتوحات الالهية جزء 1 صفحه : 470) کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جو داؤد (ال) پر اتاری گئی.اس کی ایک سو پچاس سورتیں ( باب ) ہیں ان میں کوئی نیا حکم نہیں اور نہ ہی حلال اور حرام کا بیان ہے بلکہ وہ تمام کی تمام تسبیح و تقدیس اور خدا تعالی کی حمد وثنا اور وعظ پر مشتمل ہیں.قریباً یہی مضمون حاشیہ الجلالین الشیخ احمد الصاوی جزء 1 صفحہ : 225 میں بھی موجود ہے.پس واضح ہو گیا کہ زبور ایک کتاب ہے لیکن اس میں کوئی نیا حکم نہیں پایا جاتا اور نہ ہی حلال و حرام کے متعلق کوئی نئی بات ہے.اسی طرح سورۃ آل عمران آیت 184 میں الزبر کے ماتحت لکھا ہے: الرُّبُرُ الكُتُبُ الْمَقْصُورَةُ عَلَى الْحِكَمِ وَالْمَوَاعِظِ وَالْكِتَابُ الْمُنِيرُ الْوَاضِحُ الْمَعْنَى الْمُتَضَمِّنُ للشَّرَائِعِ وَالْاحْكامِ.“ ( تفسیر جامع البيان للعلامه معین بن صفی صفحه : 66)

Page 36

36 کہ الزہر سے مراد وہ کتا بیں ہیں جو صرف حکمتوں اور نصائح پر مشتمل ہیں اور الکتاب المنیر سے وہ کتاب جو واضح ہے اور شرائع اور احکام اپنے اندر رکھتی ہے." علامہ ابوالسعودآیت جَاوُا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ الْمُنِيرِ “ کے ماتحت لکھتے ہیں: وَالْكِتَابُ فِي عُرُفِ الْقُرْآنِ مَا يَتَضَمَّنُ الشَّرَائِعَ وَالْاحَكَامَ “ (حاشيه النفير الكبير جزء 3 صفحہ 3) کہ الکتاب عرف قرآن میں اس کتاب الہی کو کہا جاتا ہے جس میں ( نئے ) شرعی احکام ہوں.“ ان حوالجات سے ظاہر ہے کہ زبور اور الز بُر وہ صحائف ہیں جو انبیاء کو دیئے گئے لیکن ان میں کوئی نیا حکم اور نئی شریعت نہ تھی.حالانکہ انہیں کتاب کا نام دیا جاتا ہے.بعض علماء نے کتاب کو صرف اس وحی کے لئے مخصوص قرار دے دیا ہے جس میں کوئی نئی شریعت پائی گئی ہو یا نئے احکام ملتے ہوں.لیکن یہ ان کی اپنی تشریح اور اپنے معنے ہیں.اس لئے انہیں صرف عرفی معنے قرار دیئے جائیں گے.حضرت امام راغب اصفہائی اپنی مفردات میں زیر لفظ زبور تحریر فرماتے ہیں: وَقَالَ بَعْضُهُمْ الزَّبُوْرُ اسْمٌ لِلْكِتَابِ الْمَقْصُوْرِ عَلَى الْحِكَمِ الْعَقْلِيَّةِ دُونَ الاحْكامِ الشَّرْعِيَّةِ وَالْكِتَابُ لِمَا يَتَضَمَّنُ الاحْكامَ وَالْحِكَمَ وَيَدُلُّ عَلَى ذَلِكَ أَنَّ زُبُوْرَ دَاوُدَ عليه السلام لَا يَتَضَمَّنُ شَيْئًا مِّنَ الْاحْكام “ یعنی بعض علماء کا کہنا ہے کہ زبور اس کتاب کا نام ہے جس کا بیان عقلی حکمتوں تک محدود ہے ، اس میں احکام شرعیہ نہیں پائے جاتے اور الکتاب اس کو کہتے ہیں جس میں احکام بھی ہوں اور حکمتیں بھی ہوں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت داؤد الﷺ کی زبور

Page 37

37 میں احکام (جدیدہ ) نہیں پائے جاتے.یہاں خدا تعالیٰ کے ایک فرمان کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ اس نے انبیاء کو مبعوث کیا تو انزَلَ مَعَهُمُ الكِتابَ ( سورة البقرہ آیت 213) ان کے ساتھ کتاب بھی نازل فرمائی.( نیز دیکھئے سورۃ الحدید آیت 25) یہاں اگر الکتاب سے مراد کلام الہی لیا جائے تو کوئی مشکل پیش نہیں آتی کیونکہ بیشک ہر ایک نبی سے خدا تعالیٰ ہمکلام ہوا اور اسے کثرت کے ساتھ مکالمہ و مخاطبہ الہیہ کا شرف عطا ہوا.لیکن الکتاب سے اگر مراد وہ وجی لی جائے جو نئے احکام اور شرائع پرمشتمل ہو تو پھر تمام انبیاء کو کتاب دیئے جانے کا مطلب بیان کرتے ہوئے علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ يَا خُذُ الاحكامَ اِمَا مِنْ كِتَابِ يَخُصُّهُ أَوْ مِنْ كِتَابِ مَنْ قَبْلَهُ (روح المعانی جلد 2 صفحه 101 زیر آیت وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ ) کہ ہر ایک نبی احکام اخذ کرتا تھایا تو اپنی اس کتاب سے جو اس پر نازل ہوئی ہوتی یا اپنے سے کسی پہلے نبی کی کتاب سے.“ علامہ معین بن صفی اپنی تفسیر (جامع البیان ) میں اسی آیت کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ انزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَاب کا یہ مطلب نہیں کہ ہر ایک نبی پر الگ الگ کتاب نازل ہوئی.وو إِذْ لَمْ يَكُنْ لِبَعْضِهِمْ كِتَابٌ وَإِنَّمَا كَانُوا يَأْخُذُونَ بِكُتُبِ مَنْ قَبْلَهُمْ کیونکہ بعض انبیاء کی کوئی کتاب نہ تھی وہ صرف اپنے سے پہلے انبیاء کی کتابوں سے احکام اخذ کیا کرتے تھے.

Page 38

38 حضرت امام رازی رحمہ اللہ نے وَآتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ (سورة الانعام آیت (89) پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے: " وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُوْنَ الْمَرَادُ مِنْهُ اَنْ يُؤْتِيَهُ فَهُما تَامَّا لِمَا فِي الْكِتَابِ وَعِلْمًا مُحِيطًا بِحَقَائِقِهِ وَاَسْرَارِهِ وَهذَا هُوَ الْأَوْلَى لِأَنَّ الْأَنْبِيَاءَ الثَّمَانِيَةَ عَشَرَ المَدْكُوْرِيْنَ مَا أَنْزَلَ اللهُ تَعَالَى عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمْ كِتَابًا إِلَهِيَّا عَلَى التَّعْمِيْنِ وَالتَّخصيص.“ (النفير الكبير جزء13 صفحہ 56.سورۃ الانعام) یعنی یہ بھی احتمال ہے کہ کتاب دینے سے مراد اس آیت میں یہ ہو کہ خدا تعالیٰ نے ان انبیاء کو اس کتاب کا پورا پورا فہم عطا کیا تھا اور ایسا علم دیا تھا جو اس کے اسرار اور حقائق پر محیط تھا اور یہی معنے زیادہ مناسب ہیں کیونکہ ان اٹھارہ انبیاء میں سے جو (اس آیت سے ) پہلے مذکور ہیں ہر ایک کو الگ الگ کتاب نہیں دی گئی تھی.“

Page 39

39 8 صحابہ پروحی 1: حضرت ابوبکر کتاب التمع میں لکھا ہے: 66 كَانَتْ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ جَارِيَةٌ حُبُلَى فَقَالَ الْقِيَ فِي رَوْعِى أَنَّهَا أُنثَىٰ.كتاب التمع لابی نصر عبداللہ علی السراج القومى باب ذکر ابی بکر الصديق صفحہ 171 - دار الكتب الحديثية بمصر ) کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی لونڈی حاملہ تھی، فرماتے ہیں مجھے الہام ہوا کہ حمل میں لڑکی ہے تو اس کے ہاں لڑکی ہی پیدا ہوئی.2 حضرت عمر بن الخطاب : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص کو ایرانیوں سے جنگ کے دوران جو تحریری فرمان بھجوایا اس میں یہ درج تھا کہ مجھے القاء ہوا ہے کہ تمہارے مقابلہ میں دشمن کو شکست ہوگی.الوثائق السیاسیة مرتبہ ڈاکٹر حمید اللہ حیدر آبادی فرمان بنام سعد بن ابی وقاص صفحہ 303) چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمر کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا: إِنَّهُ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ بِفَتْحِ الدَّالِ أَى الْمُلْهَمِينَ (الفتاوى الحديثية صفحه 395 مطلب: فی کلام علی کرامات الاولیا علی اکمل الوجہ ) کہ وہ محدثین ( بمعنی ملہمین ) میں سے ہے: :3 شیخ عبدالرحمان الصفوری میں لکھتے ہیں: قَالَ عُمَرُ رَأَيْتُ رَبِّي فِي الْمَنَامِ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ تَمَنَّ عَلَيَّ فَسَكَتُ فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ اَعْرِضْ عَلَيْكَ مُلْكِيْ وَ مَلَكُوْنِي وَاقُوْلُ لَكَ تَمَنَّ

Page 40

40 عَلَيَّ وَ اَنْتَ فِي ذلِكَ تَسْكُتُ فَقُلْتُ يَا رَبِّ شَرَّفْتَ الْأَنْبِيَاءَ بِكُتُبِ أَنْزَلْتَهَا عَلَيْهِمْ فَشَرِّفْنِي بِكَلَامٍ مِنْكَ بِلَا وَاسِطَةٍ فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ : مَنْ أَحْسَنَ إِلَى مَنْ أَسَاءَ إِلَيْهِ فَقَدْ أَخْلَصَ لِى شُكْرًا وَ مَنْ أَسَاءَ إِلى مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهِ فَقَدْ بَدَّلَ نِعْمَتِي كُفْرًا.“ ( نزهة المجالس و منتخب النفائس جزء اول باب الحلم والصفح عن عثرات الاخوان ) یعنی حضرت عمرہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب کو خواب میں دیکھا تو اس نے فرمایا: اے ابن الخطاب ! کچھ مانگ !! میں چُپ رہا تو اس نے دوبارہ فرمایا : اے ابن الخطاب! میں تیرے سامنے اپنا ملک اور حکومت پیش کر رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ مجھ سے کسی چیز کی خواہش کر اور تو خاموش بیٹھا ہے؟ اس پر میں نے عرض کی اے میرے رب ! تو نے انبیاء کو ان پر کتا بیں نازل فرما کر ( اپنے کلام سے ) مشرف کیا ہے مجھے بھی اپنے کلام بلا واسطہ سے نواز ، تو خدا تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن الخطاب ! جو بھلا کرے اس شخص کا جس نے اسے دُکھ دیا ہو تو اس نے یقیناً میرا حقیقی اور خالص شکر ادا کیا اور جو شخص اس شخص کو دکھ دے جس نے اس کا بھلا کیا ہو تو اس نے میری نعمت کو کفر سے تبدیل کر دیا.اس روایت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے پاک مقرب بندوں سے خواہ وہ نبی ہوں یا نہ محبت سے گفتگو کرتا ہے.:4 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خدا تعالیٰ نے جس قدر علم و عرفان سے نوازا تھا وہ ظاہر و باہر ہے.آپ جیسی معتبر و پر منافقین کو جھوٹا اتہام لگانے کا موقع ہاتھ آگیا تو آپ کو جب اس کی خبر پہنچی کہ بعض منافقین آپ کی ذات بابرکت پر گندے الزام لگا رہے ہیں تو آپ کو بہت رنج پہنچا کھا نا پینا چھوٹ گیا اور زندگی تلخ ہوگئی ،اپنے ربّ کے سامنے گڑ گڑاتی رہیں اور مدد کی درخواست کرتی رہیں.آپ کے درد اور ڈکھ کو کو دیکھ کر خواب میں

Page 41

41 ایک فرشتہ ایک نوجوان کی شکل میں آیا: فَقَالَ لِيْ : مَا لَكِ ؟ فَقُلْتُ حَزِيْنَةٌ مِمَّا ذَكَرَ النَّاسُ فَقَالَ: أَدْعِى بِهَذَهِ يفرج عَنْكَ فَقُلْتُ مَا هِيَ ؟ فَقَالَ: قُولِي يَا سَابِعَ النَّعَمِ وَ يَا دَافِعَ التَّقَمِ وَ يَا فَارِجَ الْغَمَمِ وَ يَا كَاشِفَ الظُّلَمِ يَا أَعْدَلَ مَنْ حَكَمَ وَ يَا حَسِيْبَ مَنْ ظَلَمَ! يَا أَوَّلُ بِلَا بِدَايَةٍ وَ يَا آخِرُ بِلَا نِهَا يَةٍ وَ يَا مَنْ لَّهُ اِسْمٌ بِلَا كُنْيَةِ اللَّهُمَّ اجْعَلْ لَّيْ مِنْ أَمْرِى فَرْحًا وَمَخْرَجًا قَالَتْ فَانْتَبَهْتُ وَ أَنَا رَيَّانَةٌ شَبْعَانَةٌ وَ قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ مِنْهُ فَرْجِيْ (الدر المنثور جزء5 صفحہ 38 ) یعنی اس نے مجھے کہا کہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟ میں نے کہا کہ لوگوں کی باتیں سنکر مجھے سخت غم لاحق ہے.اس نے کہا ان کلمات کے ذریعہ دعا کرو اللہ تعالیٰ تمہارے غم کو دور فرمادے گا، میں نے کہا : کون سے کلمات؟ اس نے کہا: یوں کہو: اے جو تمام نعمتیں عطا فرماتا ہے، تمام مصیبتیں دفع کر دیتا ہے ، تمام غموں کو دور کرتا ہے تمام اندھیروں کو نابود کر دیتا ہے اور اے جو سب حاکموں سے زیادہ عادل ہے اور جوسب ظالموں کا احتساب کر نیوالا ہے اور اے خدا جو اول ہے اور تیری ابتداء نہیں اور آخر ہے اور تیری کوئی انتہا نہیں اور اے جس کا نام ہے کوئی کنیت نہیں.میرے لئے اس غم سے چھٹکارے کا کوئی انتظام فرما.“ حضرت عائشہ فرماتی ہیں: " اس کے بعد میں جاگ اٹھی تو میں نے دیکھا کہ میں سیر ہوں نہ پیاس تھی اور نہ بھوک اور نیز خدا تعالیٰ نے میری براءت کے بارے میں اپنا ارشاد بھی نازل فرما دیا.“ وہ شخص جو نہ کھاتا ہو اور نہ کچھ پیتا ہو، اُٹھے تو سیر ہو، تو یہ وحی کا ہی کرشمہ تھا.ورنہ سے شدید غم لاحق ہو اور کھانا پینا بھی چھوٹ گیا ہو، اس کے متعلق یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا

Page 42

42 کہ وہ اُٹھے گا تو سیر ہوگا اور اسے کمزوری اور ضعف تک محسوس نہ ہوگا.نیز الزام سے بریت بھی نازل ہو چکی ہو تو یہ وحی کا ہی منظر تھا جو حضرت عائشہ صدیقہ کو دکھایا گیا تھا.5 : حضرت علی مشہور روایت ہے: "كَانَ عَلِى والفضل يَغْسِلَان رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُودِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ارْفَعُ طَرْفَكَ إِلَى السَّمَاءِ “ الخصائص الكبرى للسيوطى " صفحہ 482 باب ما وقع في غسلہ من الآيات ) کہ حضرت علی اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ ﷺ کونسل دے رہے تھے کہ حضرت علی کو ایک غیبی ) آواز آئی کہ اپنی نگاہ آسمان کی طرف اُٹھا.6 حضرت علی و دیگر صحابہ عَنْ عَائِشَةَ رضى الله تعالى عنها قَالَتْ لما اَرَادُوْا غُسْلَ النَّبِيِّ صلى الله عليه و سلم قَالُوْا وَاللَّهِ لَا نَدْرِي أَنُجَرِّدُ رَسُوْلَ اللهِ عَنْ ثِيَابِهِ كَمَا نُحَرِّدُ مَوْتَى أَمْ نَغْسِلَهُ وَ عَلَيْهِ ثِيَابُهُ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا الْقَى اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّوْمَ حَتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَ ذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ اَنْ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صلى الله عليه و سلم وَ عَلَيْهِ ثِيَابُهُ.ابو داود والحاكم والبيهقى وحيلة ابو نعيم 66 اخرجه ( الخصائص الكبرى للسيوطى "صفحہ 483 باب ما وقع في غسلة من الآيات) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے.انہوں نے کہا.جب صحابہ نے نبی کریم ﷺ کو نسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے خدا کی قسم ہم نہیں جانتے کہ رسول کریم کے کپڑے اتارلیں جیسا کہ ہم مردوں کے کپڑے اتار لیتے ہیں یا آپ کو آپ کے کپڑوں میں ہی غسل دیں.پس جب انہوں نے اختلاف کیا تو اللہ تعالیٰ نے سب پر نیند وارد کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی نہ رہا مگر اس کی ٹھوڑی اس کے سینے کو جا لگی.

Page 43

43 پھر ان سے ایک کلام کرنے والے نے گھر کے ایک طرف سے کلام کی.صحابہؓ نے نہ جانا کہ وہ کون ہے.اس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کو کپڑوں سمیت غنسل دو.(اس روایت کی تخریج ابوداؤد، الحاکم اور بیہقی نے کی ہے اور ابونعیم نے اسے صحیح قرار دیا ہے.) یہ ایسی شان اور طاقت کی وجی تھی کہ تمام صحابہ نے بغیر کسی شک اور شبہ کے اس آواز کو سچا یقین کیا اور اسے خدائی آواز اور الہی فیصلہ تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل کیا.7 حضرت ابی بن کعب : عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ أَبَيٍّ ابْنِ كَعْبٍ لَادْخُلَنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا صَلِّيَنَّ وَ لَأَحْمِدَنَّ اللهَ تَعَالَى بِمُحَامِدٍ لَمْ يَحْمِدْ بِهَا أَحَدٌ فَلَمَّا صَلَّى وَ جَلَسَ يَحْمِدُ اللهَ تَعَالَى وَيُثْنِي عَلَيْهِ إِذَا هُوَ بِصَوْتٍ عَالٍ مِنْ خَلْفٍ يَقُوْلُ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ وَلَكَ الْمُلْكُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ كُلُّهُ وَإِلَيْكَ يَرْجِعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ عَلَانِيَتُهُ وَسِرُّهُ لَكَ الْحَمْدُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اغْفِرْ لِي مَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِي وَاعْصِمْنِي فِيْمَا بَقِيَ مِنْ عُمْرِكْ وَارْزُقْنِي أَعْمَا لا زَاكِيَةً تَرْضَى بِهَا مِنِّي وَتُبْ عَلَيَّ - فَأَتَى رَسُوْلَ اللهِ فَقَصَّ عَلَيْهِ فَقَالَ جِبْرِيلُ عليه السلام ـ (روح المعانی جلد 22 صفحہ 40 زیر تفسیر آیت خاتم النبین ) ترجمہ:.حضرت انس سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے ابی بن کعب نے کہا میں مسجد میں ضرور داخل ہونگا پھر ضرور نماز پڑھونگا اور ضرور اللہ تعالیٰ کی ایسے محامد کے ساتھ حمد کروں گا کہ کسی نے ایسی حد نہ کی ہو.جب انہوں نے نماز پڑھی اور خدا کی حمد کرنے کے لئے بیٹھ گئے تو ناگاہ انہوں نے پیچھے سے ایک شخص کو بلند آواز سے یہ کہتے سنا."اے اللہ سب حمد تیرے لئے ہے ، ملک تیرا ہے،سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے، سب امور کا مرجع تو ہے خواہ وہ امور ظاہری ہوں یا باطنی حمد تیرے لئے ہی ہے بے شک تو ہر شے پر قادر ہے.

Page 44

44 میرے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے اور مجھے باقی عمر محفوظ رکھ اور مجھے ایسے پاکیزہ اعمال کی توفیق دے کہ تو ان کے ذریعہ مجھ سے راضی ہو جائے.مجھ پر رحمت سے رجوع کر.پھر ابی بن کعب رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا ، وہ جبرائیل علیہ السلام تھے.رض 8: عبد اللہ بن زید بن ربہ : حضرت عبد اللہ بن زید ال کورویا میں اذان سکھائی گئی.اسی طرح حضرت عمرؓ کو بھی.(مشکوۃ باب الاذان) نمونہ کے طور پر یہ چند حوالہ جات جو پیش کئے گئے ہیں.یہ ثابت کرتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم الہام کی نعمت سے محروم نہ تھے.وہ بکثرت اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے بہرہ ور تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا “ (سورۃ الانفال:13 ) ترجمہ: یعنی جب تیرا رب ملائکہ کی طرف وحی کر 669 رہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں پس وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انہیں ثبات بخشو “ اس آیت سے ظاہر ہے کہ جہاد کے موقع پر اس میں شامل ہونے والے تمام صحابہؓ پر ملائکہ کا نزول ہوا اور انہوں نے وحی الہی کے مطابق مسلمانوں کو حوصلہ دیا اور ثبات بخشا.و امام ابن حجر ایٹمی کہتے ہیں کہ آنحضرت ا کا بیٹا ابراہیم ( جو آیت خاتم النبین کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ) نبی تھا اور پھر یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ان کی طرف حضرت جبرئیل ا وحی لے کر نازل ہوئے.جس طرح جبرئیل حضرت عیسی ال پر ماں کی گود میں وحی لے کر نازل ہوئے اور حضرت یحی اللہ پر تین سال کی عمر میں نازل ہوئے.لکھتے ہیں: "وَلَا بُعْدَ فِي الْبَاتِ التَّنُّبُوَّةِ لَهُ مَعَ صِغَرِهِ لِأَنَّهُ كَيْسَى الْقَائِلِ يَوْمَ وُلِدَ إِنِّي

Page 45

45 عَبْدُ اللهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا وَ كَيَحْيَ الَّذِي قَالَ تَعَالَى فِيْهِ وَآتَيْنَهُ الحُكْمَ صَبِيًّا.“ (الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر اہیمی.باب مطلب ماوردفی حق ابراہیم ابن مہیا 1 صفحہ 236) کہ آنحضرت ﷺ کا صاحبزادہ ابراہیتم چھوٹی عمر میں ہی نبی ہو گیا ہے تو اس میں کوئی بعید از عقل بات نہیں کیونکہ وہ حضرت عیسی کی طرح ہیں جنہوں نے پیدائش کے دن کہا تھا کہ میں خدا کا بندہ ہوں.مجھے اللہ نے کتاب دی ہے اور نبی بنایا ہے نیز وہ حضرت بیٹی کی طرح ہیں.جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو بچپن ہی کی عمر میں دانشمندی عطا فر مائی تھی.پھر فرماتے ہیں: وَ احْتَمَالُ نُزُولِ جِبْرِيلَ بِوَحْيِ لِعِيْسَى أَوْ يَحْيَ يَجْرِكْ فِي إِبْرَاهِيمَ.(الفتاوی الحدیثیہ مصنفہ امام ابن حجر ابھیجی.باب مطلب ماوردفی حق ابراہیم ابن نبینا ﷺ صفحہ 236) کہ جس طرح حضرت عیسی اور یحییٰ علیہما السلام پر بچپن میں جبرئیل وحی لے کر نازل ہوئے اس طرح احتمال ہے کہ بچپن کی عمر میں حضرت ابراہیم ابن النبی پر جبرئیل وحی لے کر نازل ہوئے.10: "وَالأخْبَارُ طَافِحَةٌ بِرُؤْيَةِ الصَّحَابَةِ لِلْمَلَكِ وَسِمَاعِهِمْ كِلَا مَهُ وَ كَفَى دَلِيْلًا لِمَا نَحْنُ فِيْهِ قَوْلُهُ سُبْحَانَهُ إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلِئِكَةُ أَنْ لا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوْ عَدُوْنَ فَإِنَّ فِيْهَا نُزُولَ الْمَلَكِ عَلَى غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ فِي الدُّنْيَا وَ تَحْلِيْمَهُ إِيَّاهُ وَلَمْ يَقُلْ اَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَنَّ ذَلِكَ يَسْتَدْعِى النَّبوَّةَ وَكَوْنَ ذلِكَ لِاَنَّ النُّزُوْلَ وَالتَّكْلِيْمَ قُبَيْلَ الْمَوْتِ غَيْرُ یہ اس روایت کی بنا پر ہے کہ جس میں بیان ہوا ہے آنحضرت ﷺ نے اس کی تدفین کے موقع پر فرمایا تھا: ” آمَا وَاللَّهِ أَنَّهُ لَنَبِيُّ ابْنُ نبي‘ کہ بخدا یہ نبی ہے اور نبی کا بیٹا ہے.

Page 46

46 مُفِيْدٍ كَمَا لَا يَخْفى - “ ( تفسیر روح المعانى جزء 22 صفحہ 40 زیر آیت خاتم النبین ) یعنی روایات بھری پڑی ہیں اس بات سے کہ صحابہ ﷺنے فرشتے (جبرائیل ) کو دیکھا اور اس کا کلام سنا اور اس کے لئے بطور دلیل ایک آیت ہی کافی ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمارا رب صرف اللہ ہی ہے اور پھر وہ اس پر مضبوطی سے قائم رہے ان پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے جو انہیں کہتے ہیں کہ تم نہ ڈرو اور نہ غم کھاؤ اور خوشی مناؤ اس جنت کی وجہ سے جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے.پس اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ نبی نہیں ان پر بھی فرشتے اُترتے اور ان سے کلام کرتے ہیں اور کوئی شخص اس بات کا قائل نہیں کہ یہ امر نبوت خاصہ کو ہی چاہتا ہے ہاں یہ کہنا کہ فرشتوں کا یہ نزول اور ان کا کلام موت سے ذرا پہلے ہوتا ہے بے فائدہ ساقول ہے جیسے کہ واضح ہی ہے.اس میں علامہ موصوف نے قرآن مجید سے استدلال کیا ہے کہ آئندہ بھی فرشتے مومنوں پر نازل ہوتے رہیں گے.صحابہ ﷺ پر میں کمی کی وجہ : ایک سوال یا خیال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے قریب کے زمانہ میں نزول وحی کا زیادہ ذکر نہیں ملتا یا اس کا کثرت سے اظہار نہیں ہوا جبکہ آپ کے بعد اس کا زیادہ ذکر ملتا ہے.اس سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابن حجر صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں: ” وَكَانَ السِّرُّ فِي نُدُورِ الالْهَامِ فِي زَمَنِهِ وَ كَثْرَتِهِ مِنْ بَعْدِهِ....لِمَنِ اخْتَصَّهُ اللَّهُ بِهِ لِلَامْنِ مِنَ اللَّبْسِ فِي ذَلِكَ (فتح الباری شرح البخاری کتاب التعبير باب المبشرات) یعنی یہ بات کہ آنحضرت ﷺ کے قریب کے زمانہ میں الہام کی وہ کثرت نہیں

Page 47

47 پائی جاتی جو بعد کے زمانہ میں پائی جاتی ہے اس میں تقدیر الہی کا یہ راز بھی تھا کہ تا قرآنی وحی کے ساتھ کسی دوسری وحی کا خلط نہ واقع ہو.“

Page 48

48 غیر انبیاء پروحی پہلی امتوں میں غیر انبیاء پر وحی کا نزول اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورة الانبیا ) اور تجھ سے پہلے ہم نے کبھی کسی کو نہیں بھیجا مگر مردوں کو جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے.پس اہل ذکر سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے.اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بیان فرمایا ہے کہ منصب نبوت صرف مردوں کو دیا جاتا ہے لیکن ولایت میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی ہمیشہ شامل ہوتی رہیں اور خدا تعالی دونو سے ہمکلام ہوتارہا اور انہیں اپنی رحمت اور فضلوں سے نوازتا رہا.یہ یمت الہی صرف امت محمدیہ ہی کو حاصل نہیں بلکہ اس کے ساتھ پہلی امتوں کے اولیاء بھی اس نعمت ہمکلامی میں شریک ہیں.(1) قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى أَنْ أَرْضِعِيهِ فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ وَلَا تَخَافِي وَلَا تَحْزَنِى إِنَّا رَادُّوهُ إِلَيْكِ وَجَاعِلُوهُ مِنَ الْمُرْسَلِينَ ) ( سورۃ القصص آیت 7 اور ہم نے موسٹی کی ماں کی طرف وحی کی کہ اسے دودھ پلا.پس جب تو اس کے بارہ میں خوف محسوس کرے تو اسے دریا میں ڈال دے اور کوئی خوف نہ کر اور کوئی غم نہ کھا.ہم یقیناً اسے تیری طرف دوبارہ لانے والے ہیں اور اسے مرسلین میں سے ایک رسول ) بنانے والے ہیں.“ موٹی کی ماں کا نام یو کبد تھا (خروج باب 16 آیت 20) یا یوحانذ تھا ( تفسیر الخارن جزء5

Page 49

49 صفحہ 134) بعض لوگ کہتے ہیں کہ اولیاء کی وحی ظنی ہوتی ہے مگر دیکھئے موٹی کی والدہ پر جو وحی نازل ہوئی اس نے اسے کیسا یقین دلایا اور یہ کتنی شاندار وحی ہے.اس میں دو باتوں کا حکم دیا گیا، پھر دو باتوں سے منع فرمایا گیا ہے پھر دو خوشخبریاں دی ہیں، سبحان الله الـعـظـيـم.اور پھر کس خوبی سے یہ وحی کچی ثابت ہوئی ؟ اور کس یقین سے موسی کی والدہ کا دل یقین سے بھر گیا اور اس نے اس پر عمل کیا.اگر یہ وحی الہی یقینی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ماں اپنے بیٹے کو دریا میں ڈالنے پر آمادہ ہو جاتی.یہ وحی کا کرشمہ تھا کہ وہ ایسی باتیں کر گزری جن کی ایک ماں سے از خود ہرگز امید نہ کی جاسکتی تھی.اسی وحی کا نتیجہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے اس پر اپنی خاص رحمت نازل فرمائی اور اسے اپنے وعدہ کے مطابق ماں سے واپس ملا دیا.قرآن کریم بھی آیت " إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ “ میں استقامت دکھانے والے مومنوں کی وحی کو، ان سے جو کہ تحقیق جملہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مؤکد کر کے یقینی قرار دیتا ہے.(۲) قرآن کریم میں ہی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں مونٹی پر اور ان کی ماں پر یقینی وحی نازل فرمائی، وہاں حضرت عیسی اور آپ کی ماں پر جو وحی نازل ہوئی وہ بھی یقینی تھی.وجی کی برکت سے ہی مریم کا دل تھم گیا اور ڈھارس بندھ گئی اور اسی وحی کے طفیل اس نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور خدا کے حضور میں وہ عزت پائی جو بہت کم مردوں کے حصہ میں آتی ہے فرمایا: فَاتَّخَذَتْ مِن دُونِهِمُ حِجَابَاً فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهَا رُوحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيّاً قَالَتْ إِنِّي أَعُوذُ بِالرَّحْمَن مِنكَ إِن كُنتَ تَقِيَّا هِ قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ

Page 50

50 50 لأهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيّاً ٥ قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيّاً ، قَالَ كَذَلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَى هَيِّنٌ وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَّا وَكَانَ أَمْراً مَّقْضِيّان“ (سورة مريم : 18 تا 22) پس اس نے اپنے اور ان کے درمیان ایک حجاب حائل کر دیا.تب ہم نے اس کی طرف اپنا فرشتہ (جبرئیل ) بھیجا اور اس نے اس کے لئے ایک متناسب بشر کا تمثل اختیار کیا.اس نے کہا میں تجھ سے خدا کی پناہ میں آتی ہوں اگر تو تقوی شعار ہے.اس نے کہا میں تو تیرے رب کا محض ایک ایلچی ہوں تا کہ تجھے ایک پاک ٹولز کا عطا کروں.اس نے کہا میرے کوئی لڑکا کیسے ہوگا جبکہ مجھے کسی بشر نے چھوا تک نہیں اور میں کوئی بدکار نہیں ؟ اس نے کہا اسی طرح.تیرے رب نے کہا ہے کہ یہ بات مجھ پر آسان ہے اور (ہم اسے پیدا کریں گے ) تا کہ ہم اسے لوگوں کے لئے نشان بنا ئیں اور اپنی طرف سے مختم رحمت بنادیں اور یہ ایک طے شدہ امر ہے.کیسا عظیم الشان کلام ہے.ایک کنواری سے خدا تعالیٰ کا فرشتہ ہمکلام ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ تو ایک لڑکا بنے گی، وہ لڑکا پاکباز انسان ہوگا اور خدا تعالی کی قدرت کا ایک نشان اور کئی لوگ اس سے مل کر خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں حاصل کرینگے اور پھر ایسا ہی وقوع میں آ گیا.مریم کئی ماہ تک حاملہ رہی اور خدا تعالیٰ کو یاد کرتی رہی ، آخر انسان تھی اور وہ بھی ایک عورت اور پھر کنواری اور پھر سفر میں جب ولادت کا وقت آیا تو ادھر دردزہ کی تکلیف اُدھر کھانے پینے کو کچھ نہ تھا ، خدا کے سوا اسے کوئی نظر نہیں آرہا تھا ؟ اس موقع پر خدا تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئی اور فرشتہ کو حکم ہوا.چنانچہ فَنَادَاهَا مِن تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيان وَهُزِّى

Page 51

51 إِلَيْكِ بجذع النَّخْلَةِ تُسَاقِطْ عَلَيْكِ رُطَبَاً جَنِيّاهِ فَكُلِي وَاشْرَبِي وَقَرِّكُ عَيْنًا فَإِمَّا تَرَينَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً فَقُولِى إِنِّى نَذَرُتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْماً فَلَنْ أُكَلَّمَ الْيَوْمَ إِنسِيّاً ه (سورۃ مریم آیت: 25 تا 27) جب ( ایک پکارنے والے نے ) اسے اس کے زیریں طرف پکارا کہ کوئی غم نہ کر.تیرے رب نے تیرے نشیب میں ایک چشمہ جاری کر دیا ہے.اور کھجور کی ساق کو تو اپنی طرف جنبش دے وہ تجھ پر تازہ پکی ہوئی کھجور میں گرائے گی.پس تو کھا اور پی اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر اور اگر تو کسی شخص کو دیکھے تو کہہ دے کہ یقیناً میں نے ٹمن کے لئے روزہ کی منت مانی ہوئی ہے.پس آج میں کسی انسان سے گفتگو نہیں کروں گی.یہ کیسی تفصیلی اور طویل وہی ہے جو حضرت مریم کو ہوئی اور اس کا حرف حرف یقینی اور سچا ثابت ہوا.(۳) ایک اور جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب حضرت عیسی ال مبعوث ہوئے اور یہود نے آپ کی سخت مخالفت کی تو خدا تعالیٰ نے ان میں سے بعض کے دلوں میں وحی نازل فرمائی اور اس وحی کا اتنا اثر ہوا کہ وہ حضرت عیسی اللہ پر ایمان لے آئے ، فرمایا: وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِيِّينَ أَنْ آمِنُوا بِي وَبِرَسُولِى قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدُ بِأَنَّنَا مُسْلِمُونَ“ (سورة المائدة: 112) اور جب میں نے حواریوں کی طرف وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لے آؤ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے ، پس گواہ رہ کہ ہم فرمانبردار ہو چکے ہیں.اس مخالفت کے زمانہ میں جبکہ حضرت عیسی ال بظاہر بے کس و بے بس تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کی تائید میں لوگوں کے دلوں میں وحی نازل فرمائی.جس کا اثر یہ ہوا کہ

Page 52

52 وہ لوگ آپ پر ایمان لائے اور بڑے مخلص ثابت ہوئے ،اگر ان پر یہ وحی نازل نہ ہوئی ہوتی تو ان میں یقیناً وہ صدق و اخلاص پیدا نہ ہو سکتا تھا جو وحی کے ذریعہ پیدا ہوا.مدعا یہ ہے کہ پہلی امتوں میں بھی اولیاء اللہ پر وحی نازل کی گئی.ایک دو پر نہیں بہت سے اولیاء پر.خود نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے: ہوا.قَدْ كَانَ فِيمَا مَضَى قَبْلَكُمْ مِنَ الْامَمِ أُنَاسٌ مُحَدَّثُونَ“ الجامع الصغير جزء 2 صفحہ 48 رواه البخاري عن ابي هريره ) کہ تم سے پہلی امتوں میں بہت سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جن سے خدا ہمکلام : امت محمدیہ میں صلحاء پر نزول وحی حضرت شیخ عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں کہ جب تو اللہ تعالیٰ کا ہو جائے گا تو: " فَيُؤْخَذُ بِيَدِكَ فَتُقَدَّمُ وَيُنْزَعُ عَنْكَ مَا عَلَيْكَ ثُمَّ تُغَوَّصُ فِيْ بِحَارِ الْفَضَائِلِ وَالْمِنَنِ وَالرَّحْمَةِ فَيُخْلَعُ عَلَيْكَ خِلَعُ الْانْوَارِ وَالْاَسْرَارِ وَالْعُلُوْمِ الغَرَائِبِ اللَّدُنيَّةِ فَتُقَرَّبُ وَتُحَدَّثُ وَتُكَلَّمُ وَ تُعْطَى وَ تُغْنَى وَ تُشَجَّعُ وَتُرْفَعُ وَ تَخَاطَبُ بِأَنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ أَمِينٌ.“(فتوح الغيب مقاله 26) تو پھر تیرا ہاتھ پکڑا جائے گا اور تو مقدم کیا جائے گا اور تجھ سے سختی اور بوجھ اٹھا لیا گا جائے گا.پھر احسان ، رحمت اور کمالات کے سمندر میں تجھے غوطہ دیا جائے گا پھر انوار و اسرار کی خلعت تجھے پہنائی جائے گی اور نا در علوم لدنیہ کا جامہ تجھے دیا جائے گا اور تو مقترب بنے گا پھر تجھ سے گفتگو شروع ہوگی اور تجھے کلام سے نوازا جائے گا.تجھے پر خدا کی عطا ہوگی اور تو غنی اور بہادر بنایا جائے گا اور تجھے عزت دی جائے گی اور تجھ سے بایں کلام خطاب کیا

Page 53

53 جائے گا کہ اب تو ہمارے نزدیک بلند مرتبہ اور امین ہے.“ کلام الہی اور وحی کی جو اقسام خدا تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں انہیں بیان کرنے کے بعد حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی اپنی کتاب الفتوحات المكية جزء2 صفحہ 236 پر فرماتے ہیں: وَهذَا كُلُّهُ مَوجُودٌ في رِجَالِ اللهِ مِنَ الْاَ وَلِيَاءِ وَالَّذِى احُتُصَّ بِهِ النَّبِيُّ 6 مِنْ هذَا دُونَ الْوَلِي الْوَحُنُ بِالتَّشْرِيع کہ یہ تمام قسم کی وحی اللہ کے بندوں یعنی اولیاء میں پائی جاتی ہے.ہاں وہ وجی جو نبی کے لئے مخصوص ہے اور ولی کو نہیں ملتی ، تشریعی وحی ہے.پس ایسی وجی جس میں کوئی نیا حکم مخالف قرآن ہونہ ہیں اترے گی.اگر کوئی امتی نبی مبعوث ہوتا ہے تو اسے لازماً وحی کا شرف حاصل ہوگا.اس میں کوئی عقلی اور نفلی روک نہیں.اس میں لازم ہے کہ کوئی ایسا امر نہ ہو گا جو قرآن مجید کے خلاف ہو.حضرت عبد الوہاب الشعرانی فرماتے ہیں: إِعْلَمُ أَنَّهُ لَمْ يَجِيُّ لَنَا خَبَرٌ اِلهى أَنَّ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه 66 وسلّم وَحُيَ تَشْرِيعِ اَبَداً إِنَّمَا لَنَا وَحُى الإلهام.“ (الیواقیت والجواهر جزء 2 صفحہ 84) کہ ہمیں خدا کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی کہ آنحضرت ﷺ کے بعد وحی تشریعی کبھی نازل ہوگی البتہ ہمارے لئے وحی الالہام ضرور موجود ہے.اس میں وحی الالہام کے الفاظ صرف اس لئے استعمال کئے گئے ہیں تاکہ قارئین کرام یہ ملحوظ رکھیں اور ہرگز نہ بھولیں کہ ایسی وحی جس میں کوئی نیا حکم خلاف قرآن مجید نہیں وہی نازل ہو سکتی ہے اور وہ وجی جس میں کوئی نیا حکم ہو خواہ اسے وحی تشریعی کہیں یا وحی نبوت

Page 54

54 ہرگز نازل نہ ہوگی.علامہ الوسی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: اعْلَمْ أَنَّ بَعْضَ الْعُلَمَاءِ اَنْكَرُوْا نُزُولَ الْمَلَكِ عَلَى قَلْبِ غَيْرِ النَّبِيِّ لِعَدْمِ ذَوْقِهِ لَهُ وَالْحَقُّ إِنَّهُ يَنْزِلُ وَلَكَنْ بِشَرِيْعِةِ نَبِيِّنَا صَلَّى الله عليه وسلّم روح المعانی جزء 7 صفحہ 326) کہ تمہیں یہ علم ہونا چاہئے کہ بعض علماء نے انکار کیا ہے.غیر نبی کے دل پر فرشتہ کے نازل ہونے کا کیونکہ اس نے اس کا مزہ نہیں چکھا.حق بات یہ ہے کہ فرشتہ تو نازل ہوتا ہے لیکن ہمارے نبی کریم ﷺ کی شریعت کے ساتھ ، نہ کہ کوئی دوسری شریعت لیکر.بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد اس نے خود تحریر فرمایا ہے: " وَكَافِيُكُمُ مِنْ فَخْرِاَنَّ اللَّهَ افْتَتَحَ وَحُيَهُ مِنْ آدَمَ وَخَتَمَ عَلَى نَبِيِّ كَانَ 66 مِنْكُمْ وَمِنْ اَرْضِكُمْ - “ (التبلیغ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 420) کہ (اے اہل عرب !) تمہارے لئے یہی کافی فخر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کا آغاز آدم سے کیا اور ایک عظیم الشان نبی ( یعنی حمد ) پر ختم کی جو تم میں سے اور تمہارے ملک سے ہے.“ یہاں حضرت مسیح موعود ال نے اہلِ عرب کو مخاطب کرتے ہوئے وحی کے ابتدائی درجہ اور پھر اس کے انتہائی نقطۂ عروج کی بات کی ہے.یعنی حضرت آدم اللہ پر جو وحی نازل ہوئی وہ وحی کی ابتدائی حالت تھی جبکہ رسول اللہ ﷺ پر وحی ایسے کمال کو پہنچی کہ اس سے بڑھ کر اس کے علو اور اس کی رفعت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا.باقی جہانتک آپ کے بعد وحی کے نزول کا تعلق ہے تو گزشتہ صفحات میں اس کی تفصیل آچکی ہے کہ صحابہ سے لے کر اب تک یہ جاری ہے اور حضرت مسیح اﷺ پر نازل ہونے والی وحی الہی بھی اسی فیض کا

Page 55

55 تسلسل ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ امت کو مسلسل پہنچ رہا ہے.رسول اللہ ﷺ پر وحی ختم ہونے مطلب یہی ہے کہ آپ کی وحی آپ کے بعد کے زمانے میں نازل ہونے والی وحی پر مصدق ہے اور اسی کے فیض سے فیضیاب ہے.حضرت مسیح موعود الﷺ نے اسی کتاب میں جس کی مذکورہ بالا عبارت پیش کی گئی ہے، اپنے پر نازل ہونے والی وحی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے.کہ لَمَّا بَلَغَتُ اَشُدَّ عُمُرِى وَبَلَغَتُ اَرْبَعِينَ سَنَةٌ جَاءَ تُنِي نَسِيمُ الْوَحْيِ“ (التبلیغ.آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 584) کہ جب میں جوان ہوا اور میری عمر چالیس برس کو اچھی تو مجھے وحی کی باد نسیم پہنچی.پھر حضور نے فرمایا: وَ أَوْحَى إِلَى رَبِّي مَا أَوْحَى ، ايضا صفحہ 382) کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ چاہا میری طرف وحی کیا.“ پس مصنف کی ایک تحریر کو درمیان میں سے اچک لینا اور باقی تحریروں کو نظر انداز کر دینا کوئی منصفانہ طریق نہیں.اس کی اس نوع کی دیگر تحریرات کے مختلف زاویوں کو بھی دیکھنا چاہئے.پھر مجموعی تناظر میں دیکھنا چاہئے کہ مصنف کی اس زیر نظر تحریر کا کیا مطلب نکلتا ہے اور یہ کہ مصنف کس پہلو سے کیا بیان کر رہا ہے.دراصل حضرت مسیح موعود الﷺ نے اپنی کتاب توضیح المرام (روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 61) میں حدیث لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبوَةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ “ کی تشریح کرتے ہوئے وحی کے متعلق پہلے ہی وضاحت فرما دی تھی کہ: الحَدِيثُ يَدُلُّ عَلى اَنَّ النُّبُوَّةَ التَّامَّةَ الْحَامِلَةَ لِوَحْيِ الشَّرِيعَةِ قَدِ

Page 56

56 56 انْقَطَعَتْ وَلَكِنَّ النُّبُوَّةِ الَّتِي لَيْسَ فِيْهَا إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ فَهِيَ بَاقِيَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ لَا انْقِطَاعَ لَهَا أَبَدًا.“ 66 یعنی حدیث لَم يَبْقَ مِنَ النبوة دلالت کرتی ہے کہ نبوت تامہ کاملہ جو اپنے اندر وحی شریعت رکھتی ہو ختم ہو چکی ہے.لیکن وہ نبوت جس میں صرف مبشرات ہیں، قیامت تک باقی ہے.وہ ہرگز ختم نہ ہوگی.اس سے معلوم ہوا کہ وہ وحی جو ایک ” تابع نبی“ پر نازل ہو یعنی اس میں کوئی نئی شریعت نہ ہو اور وہ صرف وحی مبشرات ہو، ہمیشہ جاری رہے گی اور کبھی منقطع نہ ہوگی.چنانچہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی آنحضرت ﷺ کے امتیوں میں سے مقام نبوت پانے والوں کی شان میں فرماتے ہیں: أُوتِيَ الْأَنْبِيَاءُ اِسْمَ النُّبُوَّةِ وَ أَوْتِيْنَا اللَّقَبَ أَيْ حُجِرَ عَلَيْنَا اِسْمُ النَّبِيِّ مَعَ اَنَّ الْحَقَّ تَعَالَى يُخْبِرُنَا فِي سَرَائِرِنَا بِمَعَانِيَ كَلَامِهِ وَكَلَامِ رَسُوْلِهِ ﷺ وَ يُسَمَّى صَاحِبُ هَذَا الْمَقَامِ مِنْ أَنْبِيَاءَ : الْاَوْلِيَاءَ فَغَايَةُ نُبُوَّتِهِمُ التَّعْرِيْفَ بِالْاحْكَامِ الشَّرْعِيَّةِ حَتَّى لَا يُخْطِئُوْا فِيْهَا لَا غَيْرَ “ 66 الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 374 الحث الخامس والثلاثون فی کنم محمد خاتم النبين كما به صرح القرآن - و نبر اس شرح الشرح لعقائد سیفی حاشیہ صفحہ 445) یعنی انبیاء کو تو نبی کا نام دیا گیا ہے.اور ہم انتی صرف لقب نبوت پاتے ہیں.ہم سے النبوۃ کا نام ( یعنی محض نبی کہلانے کا حق ) روکا گیا ہے.باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ ہمیں خلوت میں اپنے کلام اور اپنے رسول ﷺ کے کلام کے معانی سے خبر دیتا ہے.اور نبیوں کے اس مقام والے ولی کہلاتے ہیں.ان کی (اس نوع کی ) نبوت کی غرض یہ ہوتی

Page 57

57 ہے کہ وہ احکام شریعت سے آگاہ کریں.اس میں وہ غلطی نہیں کھاتے.اس کے علاوہ ( ان کی اس نبوت کی ) کوئی غرض نہیں.حضرت پیران پیر نے اس قول میں ایک قسم کی نبوت کو امت محمدیہ میں جاری مانا ہے.اور اُمت کے اندر ہونے والے نبیوں کو نبی کہلانے کا پورا حقدار سمجھا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو انبیاء میں شمار کیا جاتا ہے.یعنی وہ اولیاء اللہ ہیں مگر انہیں نبوت کا لقب دیا جاتا ہے.پس امت میں اس طرح بھی نبوت جاری ہے.اس مسئلہ پر ایک اور زاویہ سے راشنی ڈالتے ہوئے حضرت مجددالف ثانی اپنے مکتوبات میں تحریر فرماتے ہیں: إِنَّ كَلَامَ اللهِ قَدْ يَكُونُ شَفَاهاً وَذَلِكَ الْأَفَرَادُ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ يَكُونَ لِبَعْضِ الْحُمَّلِ مِنْ مُّتَابِعِيهِمْ “ یعنی اللہ تعالیٰ کبھی اپنے بندوں سے بالمشافہ کلام کرتا ہے اور یہ لوگ انبیاء ہوتے ہیں اور کبھی انبیاء کے بعد ان کے کامل متبعین سے بھی اس طرح کلام کرتا ہے.آگے فرماتے ہیں: وَإِذَا كَثُرَ هذَا الْقِسْمُ مَعَ وَاحِدٍ مِّنْهُمْ سُمِّيَ مُحَدَّثًا.یعنی جب انبیاء میں سے کسی کے کامل متبع سے خدا تعالیٰ اس قسم کا کلام بکثرت کرتا ہے تو اس کا نام محد ث یعنی مکلم میں اللہ رکھا جاتا ہے.کثرت مکالمہ مخاطبہ الہیہ جو غیب کی خبروں پر بھی مشتمل ہو، نبوت کی ایک نوع ہے جسے اسلامی اصطلاح میں محدثیت سے تعبیر کیا گیا ہے.آیت کریمہ عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُول “(سورۃ الجن : 27-26) اس پر دال

Page 58

58 ہے.کہ وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا.بجز اپنے برگزیدہ بندوں کے.پھر آپ یہ بھی تحریر فرماتے ہیں: ہم چنانکہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام آن علم را از وحی حاصل مے کر د.اس بزرگواران بطریق الہام آن علوم را از اصل اخذ می کنند.علماء اس علوم را از شرائع اخذ کرده به طریق اجمال آورده اند ہماں علوم چنانکه انبیاء علیهم الصلوۃ و السلام حاصل بود تفصیلی و کشفاً ایشان را نیز مہماں و جو ہ حاصل میشود اصالت و تبیعت در میان است به اس قسم کمال اولیاء تمثل بعضی از پیشان از قرون متطاوله و از مند متباعدہ انتخاب مے فر مائند.(مکتوبات جلد 1 : 40) ترجمہ:.جیسے نبی کریم ﷺ وہ علوم وحی سے حاصل کرتے تھے، یہ بزرگ الہام کے ذریعہ وہی علوم اصل یعنی خدا تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں اور عام علماء ان علوم کو شریعتوں سے اخذ کر کے بطریق اجمال پیش کرتے ہیں.وہی علوم جس طرح انبیاء کو تفصیلاً وكشفاً حاصل ہوتے ہیں ان بزرگوں کو بھی انہی طریقوں سے حاصل ہوتے ہیں.دونوں کے علوم کے درمیان صرف اصالت اور تبعیت کا فرق ہوتا ہے.ایسے باکمال اولیاء میں سے بعض کو صدیوں اور لمبازمانہ گزرنے پر انتخاب کیا جاتا ہے.حضرت سید اسمعیل صاحب شہید اپنی کتاب منصب امامت میں تحریر فرماتے ہیں: " باید دانست ازاں جملہ الہام است ہمیں الہام که بانبیاء ثابت است آن را وحی گویند و اگر بغیر ایشاں ثابت مے شود اور اتحدیث مے گویند و گاہے در کتاب اللہ مطلق الہام را خواہ بانبیاء ثابت مے شود خواہ باولیاء اللہ وحی مے نامند.“ (منصب امامت صفحہ 31) ترجمہ:.ان تمام امور میں سے ) ایک تو الہام ہے.اور الہام وہی ہے جو انبیاء سے

Page 59

59 ثابت ہے اور اُس کو وحی کہتے ہیں اور اگر ان کے بغیر کسی اور سے ثابت ہو تو اسے تحدیث کہتے ہیں.اور کہیں کتاب اللہ میں مطلق الہام کو ( خواہ انبیاء کو ہو یا اولیاء کو ) وحی کہا گیا ہے.(اردو ترجمہ از حکیم محمد حسین علوی صفحہ 39 مطبوعہ 1949 گیلانی پریس لاہور ) ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے اولیاء اللہ کو مکالمہ و مخاطبہ الہیہ کی نعمت سے محروم نہیں کیا گیا.پس صحابہ کرام کو بھی مکالمہ مخاطبہ الہیہ سے محروم تصور نہیں کیا جا سکتا.گوان کے الہامات محفوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کیا گیا پھر بھی بعض الہامات ایسے ملتے ہیں جن سے یہ بالبداہت معلوم ہو جاتا ہے کہ صحابہ کرام کو بھی خدا کی ہمکلامی کا شرف ضرور عطا کیا گیا تھا.صلحائے امت میں وحی کے چند اور نمونے (۱) حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کے متعلق الاستاد عبدالحمید آساہانی نے اپنی کتاب المطالب الجمالیہ“ میں لکھا ہے: فَرَأَى الشَّافِعِيُّ رضى الله عنه اللهَ سُبْحْنَهُ وَ تَعَالَىٰ فِي النَّوْمِ وَ هُوَ قَائِمٌ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَادَاهُ: يَا مُحَمَّدُ أُثْبُتْ عَلَى دِينِ مُحَمَّدٍ وَ إِيَّاكَ إِيَّاكَ أَنْ تَحِيْدَ فَتَضِلَّ وَ تُضِلَّ أَلَسْتَ بِاِمَامِ الْقَوْمِ لَا خَوْفٌ عَلَيْكَ مِنْهُ إِقْرَأْ إِنَّا جَعَلْنَا فِي إِعْنَاقِهِمْ أَغْلَا لَّا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُوْنَ - قَالَ الشَّافِعِيُّ فَاسْتَيْقَظْتُ وَ أَنَا أَقْرَأَهَا مِنْ تَعْلِيْمٍ الْقُدْرَةِ الدَّيَّانِيَّةِ.“ (صفحہ 23 مطبوع مصر 1344ھ) کہ حضرت امام شافعی نے خواب میں خدا تعالیٰ کو دیکھا.آپ اس کے سامنے کھڑے تھے سوخدا نے آپ کو پکارا: اے محمد ( بن ادریس الشافعی ! محمد ﷺ کے دین پر

Page 60

60 ثابت قدم رہنا اور اس سے بالکل نہ ہٹنا اور نہ خود بھی تو گمراہ ہو جائیگا اور لوگوں کو بھی گمراہ کر یگا کیا تو لوگوں کا امام نہیں ؟ تجھے اس بادشاہ سے ہرگز نہیں ڈرنا چاہئے.یہ آیت پڑھو إِنَّا جَعَلْنَا فِي إِعْنَاقِهِمْ إِغْلَا لَّا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُونَ (يس:9) کہ یقیناً ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیئے ہیں اور وہ ٹھوڑیوں تک پہنچے ہوئے ہیں اس لئے وہ سر اونچا اٹھائے ہوئے ہیں.امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں جا گا تو قدرت الہیہ سے وہ آیت میری زبان پر جاری تھی.امام شافعی کو اپنے زمانے کے بادشاہ سے پالا پڑا ہوا تھا جب آپ کو کوئی خطرہ محسوس ہوا تو آپ نے خدا کے حضور مدد کرنے کے درخواست کی ،اس پر آپ کو اس وحی کے ذریعہ اور آیت قرآنیہ سنا کر تسلی دی گئی کہ ان کے مخالفین کا انجام اچھا نہیں.(۲) قاضی عیاض امی نے اپنی مشہور تصنیف "الشِفَاء بِتَعْرِيفِ حُقوقِ المُصْطَفَى جزء2 صفحہ 13 مطبوعہ مصر میں ایک واقعہ بیان کیا ہے جو حضرت امام احمد بن حنبل سے تعلق رکھتا ہے.لکھا ہے کہ ایک دفعہ امام احمد نے حمام میں غسل کرنے کا ارادہ کیا ، عربوں میں ایک پرانا رواج تھا یعنی وہ تمام میں لگے نہایا کرتے تھے جب آپ غسل کے لئے تمام میں داخل ہونے لگے تو حدیث نبی کے مطابق آپ نے چادر باندھ لی اور عام رواج کی پیروی نہ کی غسل کے بعد آپ جب رات کو سوئے تو فرماتے ہیں: فَرَأَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ قَائِلًا لِيُّ : يَا أَحْمَدُ! ابشِرُ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ بِاسْتِعُمَالِكَ السُّنَّةَ وَجَعَلَكَ إمَاماً يُقْتَدى بِكَ، قُلْتُ مَنْ أَنْتَ قَالَ جِبْرِيلُ.“ 66 کہ میں نے اس رات دیکھا کہ مجھے کوئی کہہ رہا ہے: اے احمد ! تجھے خوشخبری ہو!

Page 61

61 کیونکہ سنت نبوت پر عمل کرنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تیری پردہ پوشی فرما دی ہے اور تجھے بطور امام کے مقرر فرمایا ہے تیری پیروی کی جائیگی.امام احمد فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: جبریل ہوں.“ کیسی صاف وحی ہے اور یہ وحی لانے والا پوچھنے پر بتاتا ہے کہ وہ جبریل ہے.معلوم ہوا کہ جو شخص قرآن کریم اور سنت نبویہ پر خلوص نیت اور قلب سلیم سے عمل کرتا ہے اور رسم ورواج کی پرواہ نہیں کرتا خدا تعالیٰ بڑی برکتوں اور رحمتوں سے اسے نوازتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ جبریل اب اللہ تعالیٰ کا کلام لے کر نہیں آتا.ایسے لوگوں کے لئے حضرت امام احمد بن حنبل کا یہ واقعہ ایک حقیقت افروز رہنمائی ہے.یہ واقعہ یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ایسے لوگ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سلسلہ نزول جبریل یا نزول وحی منقطع ہو چکا ہے، اپنے اس عقیدہ میں غلط ہیں.ایسے عقیدوں کا رڈ حضرت مولانا جلال الدین رومی کے اس فرمان سے بھی ہوتا ہے.آپ فرماتے ہیں: نے نجوم است و نه ریل است و نه خواب وحى حق و الله اعلم بالصواب از پے روپوش عامه درمیاں وحی دل گوئند او را صوفیاں یعنی جو باتیں اُوپر کہی گئی ہیں یہ نجوم ، رمل اور خواب کی باتیں نہیں ، بلکہ یہ خدا کی وحی ہیں.اور خدا تعالیٰ خوب جانتا ہے عوام الناس سے چھپانے کے لئے صوفی اسے دل کی وحی کہہ دیتے ہیں.(مثنوی دفتر چہارم صفحہ 151) اولیاء پر وحی کے ذریعہ قرآنی آیات کا نزول (۱) حضرت شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ اپنے معراج روحانی کا ذکر کرتے ہوئے

Page 62

29 62 تحریر فرماتے ہیں: فَأُنْزِلَ عَلَيَّ عِنْدَ هَذَا الْقَوْلِ قُلْ امَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ عَلَى إبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيْلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوْبَ وَالْاسْبَاطِ وَمَا أُوْتِيَ مُوْسَىٰ وَعِيْسَى ده وَالنَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ “ 66 (الفتوحات المکیہ جزء3 صفحہ 35) و یعنی اس وقت مجھ پر یہ آیت نازل فرمائی گئی قُلُ آمَنَّا بِاللَّهِ (الاية ) کہ تو کہہ دے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو ہم پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو ابرایم ، اسمعیل ، اسحاقی، یعقوب اور ان کی اولاد پرا تارا گیا اور اس پر بھی ہم ایمان لائے جو موسیٰ اور عیسی اور دوسرے تمام انبیاء کو ان کے رب سے دیا گیا ہم ان پر ایمان میں کوئی فرق نہیں کرتے اور ہم اپنے ربّ کے پورے پورے فرماں بردار ہیں.یہ پوری آیت قرآنی آپ پر نازل کی گئی اور کون مومن مسلمان ہے جو اس سے انکار کر سکتا ہے؟ پس ہمیں مانا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے اور ان پر جب بھی ضرورت ہو قر آنی وحی بھی نازل فرما دیتا ہے.اگر کوئی بدنصیب اس سے محروم ہو اور محروم ہونے کی وجہ سے انکار کرے تو علیحدہ بات ہے.(۲) حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ہر سالک کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”اے انسان! اگر تو نیکی میں ترقی کرتا چلا جائے تو اللہ تعالیٰ تجھے اتنی عزت دے ا تُخَاطَبُ باَنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنٌ أَمِينٌ فتوح الغیب مقالہ 28، صفحہ 171 سورۃ یوسف) 66280 إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِيْنَ اَمِيْنَ “سورہ یوسف کی آیت نمبر 55 ہے جس کا

Page 63

63 ترجمہ ہے:.” یقیناً آج (سے) تو ہمارے حضور بہت تمکنت والا اور قابل اعتماد ہے.“ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی " فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ تجھے اس آیت قرآنی سے مخاطب فرمائے گا.یعنی وحی فرمائے گا.(۳) حضرت مجد دالف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے بیٹے کی پیدائش سے قبل الہام ہوا 66 إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيى ، مکتوب امام ربانی فارسی جلد دوم صفحہ 136 مطبوعہ دہلی ) یہ سورۃ مریم کی آٹھویں آیت ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ہم تجھے ایک ہونہار بچے کی بشارت دیتے ہیں.جس کا نام گیی ہے چنانچہ حضرت مجد والف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے گھر بیٹا پیدا ہوا.اس کا نام آپ نے یحیی رکھا.(۴) خواجہ میر درد صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے ایک صوفی بزرگ تھے ، انہوں نے اپنی کتاب ”علم الکتاب“ میں ” تحدیث نعمت“ کے عنوان کے ماتحت اپنے بہت سے الہامات درج کئے ہیں جن میں سے بطور نمونہ کچھ یہاں درج کئے جاتے ہیں.مثلاً ” وَادْعُهُمْ إِلَى الطَّرِيقَةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ مِنَ الْآيَاتِ الَّتِي هِىَ الشَّاهِدَاتُ البَيِّنَاتُ عَلى حَقِيتِكَ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَ هُمْ وَاسْتَقِمْ كَمَا یعنی تو انہیں طریقت محمدیہ کی دعوت دے بذریعہ ان آیات کے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں اور جو واضح گواہ ہیں تیری حقانیت پر، اور تو لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کر اور استقامت اختیار کر جیسے کہ تجھے حکم دیا گیا ہے.آپ کے اس الہام کے دوسرے الفاظ کے ساتھ قرآنی آیت فَاسْتَقِيمُ كَمَا اُمِرتَ بھی نازل ہوئی.پھر آپ اپنے بعض الہامات یوں درج کرتے ہیں:

Page 64

64 66 أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ فِي زَمَان يُحْكُمُ اللهُ بِآيَاتِهِ مَا يَشَاءُ “ کہ وہ لوگ اس زمانہ میں بھی جبکہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے اپنی آیات کے ذریعہ محکم کرتا ہے.جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں.“ اس الہام میں آیت قرآنیہ کا ایک حصہ بھی موجود ہے اور قرآن مجید کے علاوہ الفاظ بھی ہیں.پھر وہ کچھ اور الہامات یوں درج فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں فرمایا: يَا مَوْرِدَ الوَارِدَاتِ وَ يَا مَصْدِرَ الْآيَاتِ إِنَّا جَعَلْنَاكَ آيَةٌ للنَّاسِ لعلهم يَرْشُدُونَ - وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ - قُلْتُ يَا رَبِّ! تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنْ تُعِذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ إِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ ،، کہ اے واردات کے مورد ! نشانات کے مصدر ! ہم نے تجھے لوگوں کے لئے نشان بنایا ہے تا کہ وہ ہدایت پائیں لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ، میں نے کہا: اے میرے رب ! تو جانتا ہے جو میرے نفس میں ہے مگر میں نہیں جانتا جو تیرے نفس میں ہے اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں ( تو ان کا مالک ہے ) اور اگر تو انہیں بخش دے تو تُو بڑا عزت والا اور حکمت والا ہے.“ اس الہام میں بھی الہامی الفاظ کے ساتھ قرآنی الفاظ بھی ملے ہوئے ہیں.حضرت خواجہ میر درد پر مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ بھی نازل ہوئیں جو اوامر و نواہی پر مشتمل ہیں: ۱ - وَانْذِرْ عَشِيْرَتكَ الْأَقْرَبِيْنَ ٢ - لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْنِ مِمَّا يَمْكُرُونَ

Page 65

65 ٣ وَمَا أَنْتَ بِهَادِ الْعُمْي عَنْ ضَلَا لَتِهِمْ (علم الكتاب: 64) (۵): جہاں تک کسی امتی پر ان آیات قرآنیہ کے الہاما نزول کا تعلق ہے جن میں خالصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہے تو مولوی عبدالجبار غزنوی صاحب جو جماعت احمدیہ کے شدید مخالفوں میں سے تھے، بڑی وضاحت سے اپنی کتاب "اثبات الإلهام والبيعَةِ " میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہیں.ان کی یہ تحریر ان لوگوں کے جواب میں ہے جو بر صغیر کے مشہور اور صاحب کشف والہام بزرگ حضرت مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کے ان الہامات پر اعتراض کرتے تھے جو قرآنی آیات پر مشتمل تھے اور ان میں خالصہ آنحضرت کو خطاب فرمایا گیا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: اگر الہام میں اس آیت کا القاء ہوجس میں خاص آنحضرت ﷺ کو خطاب ہو تو صاحب الہام اپنے حق میں خیال کر کے اس مضمون کو اپنے حال کے مطابق کرے گا اور نصیحت پکڑے گا.اگر کوئی شخص ایک آیت کو جو پروردگار نے جناب رسول اللہ ﷺ کے حق میں نازل فرمائی ہے، اسے اپنے پر وارد کرے اور اس کی امرونہی اور تائید و ترغیب کو بطور اعتبار اپنے لئے سمجھے تو بے شک وہ شخص صاحب بصیرت اور مستحق تحسین ہوگا.اگر کسی پر ان آیات کا القاء ہو جن میں خاص آنحضرت ﷺ کو خطاب ہے مثلاً المْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.کیا نہیں کھولا ہم نے واسطے تیرے سینہ تیرا.وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى ، فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللَّهُ - فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ـ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ - وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبِعْ هَوْهُ - وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى ـ تو بطريق اعتبار یہ مطلب نکالا جائے گا کہ انشراح صدر اور رضا اور انعام ہدایت جس لائق یہ ہے علی

Page 66

99 66 حسب المنز لہ اس شخص کو نصیب ہوگا اور اس امرونہی وغیرہ میں اس کو آنحضرت ﷺ کے حال میں شریک سمجھا جائے گا.(اثبات الالہام والبیعۃ صفحہ 143-142) و و حضرت مسیح موعود اللہ فرماتے ہیں: ” جب مکھی کی وحی اب تک منقطع نہیں ہوئی تو انسانوں پر جو وحی ہوتی ہے وہ کیسے منقطع ہو سکتی ہے.ہاں فرق یہ ہے کہ ال کی خصوصیت سے اس وحی شریعت کو الگ کیا جاوے ورنہ یوں تو ہمیشہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے جن پر وحی کا نزول ہو.حضرت مجد دالف ثانی اور شاہ ولی اللہ صاحب بھی اس وحی کے قائل ہیں اور اگر اس سے یہ مانا جاوے کہ ہر ایک قسم کی وحی منقطع ہو گئی ہے تو یہ لازم آتا ہے کہ امور مشہودہ اور محسوسہ سے انکار کیا جاوے.اب جیسے کہ ہمارا اپنا مشاہدہ ہے کہ وحی نازل ہوتی ہے.پس اگر ایسے شہود اور احساس کے بعد کوئی حدیث اس کے مخالف ہو تو کہا جاوے گا کہ اس میں غلو ہے.خود غزنوی والوں نے ایک کتاب حال میں لکھی ہے.جس میں عبد اللہ غزنوی کے الہامات درج کئے ہیں.“ ( ملفوظات جلد 6 صفحہ 121) اس کے بعد نمونہ چند آیات قرآنیہ ملاخطہ فرمائیں جن میں خالصہ آنحضرت کو خطاب ہے لیکن وہ آپ کے امتیوں پر بھی الہام کی گئیں.(1) مولوی عبد اللہ غزنوی صاحب کی سوانح میں درج الہامات سے چند مثالیں: نُيَسِّرُكَ لِلْيُسْری بار ہا الہام ہوئی.(صفحہ 5) وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَالَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَ كَ مِنَ الْعِلْمِ مَالَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وِلِيٌّ وَّلَا

Page 67

67 20 واق.“ (صفحہ 15) وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهُ ـ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرَّانَهُ ثُمَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ » (صفحه 35) "لَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ 66 أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَالتَّبَعَ هَوَاهُ و كَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا.“ (صفحہ 36) وو.وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبِّكَ فَتَرْضَى.“ (صفحه 37) الَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ - (صفحہ 37) سوانح مولوی عبداللہ غزنوی مؤلفہ مولوی عبدالجبار غز نوی و مولوی غلام رسول ) (۲) حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کوکئی مرتبہ آیت قرآنی وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً العالمين " الہام ہوئی.چنانچہ حضرت مخدوم گیسو دراز" لکھتے ہیں: " حضرت شیخ فرماتے تھے کہ کبھی کبھی کسی ماہ میرے سرہانے ایک خوب رو اور خوش جمال لڑکا نمودار ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کرتا : وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ“ میں شرمندہ سر جھکا لیتا اور کہتا یہ کیا کہتے ہو؟ یہ خطاب حضرت پیغمبر ﷺ کے لئے مخصوص ہے.یہ بندہ نظام کس شمار میں ہے جو اس کو اس طرح مخاطب کیا جائے.“ جوامع الکلم ملفوظات گیسودراز صفحه 226 ڈائری بروزشنبه 26 شعبان 802ھ) اولیاء اللہ پر نزول قرآن شیخ الاکبر حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں: أَمَّا الْإِلْقَاءُ بِغَيْرِ التَّشْرِيْعِ فَلَيْسَ بِمَحْجُوْرٍ وَلَا التَّعْرِيْفَاتُ الْإِلَهِيَّةُ لِصِحَّةِ الْحُكْمِ الْمُقَرَّرِ أَوْ فَسَادِهِ وَكَذلِكَ تَنَزُلُ الْقُرْآنِ عَلَى قُلُوبِ الْأَوْلِيَاءِ مَا انْقَطَعَ مَعَ

Page 68

68 80 كَوْنِهِ مَحْفُوظًا لَّهُمْ وَلكِنْ لَّهُمْ ذَوْقُ الْإِنْزَالِ وَهذَا لِبَعْضِهِمْ “ (الفتوحات المكية جلد 2 صفحه 287) کہ باقی رہا غیر تشریعی الہام تو وہ ممنوع نہیں ہے اور نہ ایسا الہام ممنوع ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کسی پہلے ثابت حکم کی شناخت کرائے یا کسی حکم کے فساد یا خرابی کو ظاہر کرے.یہ دونوں قسم کے الہام منقطع نہیں.ایسا ہی قرآن کریم کا نزول اولیاء کے قلوب پر منقطع نہیں.باوجود یکہ قرآنِ مجید اپنی اصلی صورت میں محفوظ ہے.لیکن اولیاء کو نزولِ قرآنی کا ذوق عطا کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے.اور ایسی شان بعض کو عطا کی جاتی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ال پراگر اوامر ونواہی والی وحی بطور تجدید دین اور بیانِ شریعت نازل ہو تو اس سے شریعت جدیدہ کا دعوی لازم نہیں آتا.آپ جب قرآن مجید کو ربانی کتابوں کا خاتم یقین کرتے ہیں تو آپ کو تشریعی نبوت کا مدعی قرار دینا درست نہیں.شریعت جدیدہ کے مدعی کو تو ترمیم و تنسیخ کا حق ہوتا ہے مگر آپ تو صاف فرماتے ہیں: ”ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت ﷺ خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو.جھوٹی گواہی نہ دو.زنانہ کرو.خون نہ کرو.اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنا بیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.“ اربعین نمبر ۴ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 436)

Page 69

69 69 :10 مسیح موعود پر نزول وحی امت میں آنے والے مسیح موعود و مہدی معہود کو اللہ تعالیٰ نے رسول اور رسول اللہ ﷺ نے نبی اللہ قرار دیا ہے.لہذا اس کا کلامِ الہی سے مشرف ہونالازمی تھا.چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ " يَقْتُلُ عِيسَى الدَّجَّالَ عِنْدَ بَابِ لُدِ الشَّرْقِي فَبَيْنَمَا هُوَ كَذلِكَ إِذْ أَوْحَى.66 اللهُ إِلى عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ إِنِّي قَدْ اخْرَجُتُ عِبَادًا مِنْ عِبَادِى ـ “ (مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذکر الدجال وصفته ومن معه - مشکوۃ کتاب الفتن باب العلامات بین یدی الساعة - مطبع اصبح المطابع ) کہ موعود عیسی دجال کو باب لد شرقی پر قتل کرے گا اور جب وہ اس حالت میں ہوں گے تو خدا تعالیٰ موعود عیسی پر وحی کرے گا کہ میں نے اپنے بندوں میں سے بعض بندے تیری حمایت میں نکالے ہیں.اسی طرح حج الکرامہ صفحہ 431 اور اقتراب الساعۃ صفحہ 163 پر حضرت امام سیوطی حضرت حافظ ابن حجر اور دیگر بزرگانِ امت کی تصریحات کی بناء پر لکھا ہے کہ موعود مسیح پر بعد نزول حضرت جبرئیل ان کے ذریعہ وحی نازل ہوگی.علاوہ ازیں امت میں آنے والے موعود مسیح پر نزول وحی کے بارہ میں چند اور حوالجات ذیل میں درج ہیں: (1) علامہ ابن الحجر انتیمی سے جب پو چھا گیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس پروجی نازل ہوگی؟ تو انہوں نے جواب دیا: نَعَمْ يُوحَى إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحَى حَقِيقِيُّ كَمَا فِي حَدِيثِ مُسْلِم “ (روح المعانی جزء 22 صفحہ 41 زیر آیت خاتم النبیین )

Page 70

70 ہاں خدا تعالیٰ ان پر وحی حقیقی نازل کرے گا جیسا کہ مسلم کی حدیث میں ہے.(۲) اس حدیث کو نقل کر کے نواب صدیق حسن خاں صاحب لکھتے ہیں: و ظاہر آنست که آرندہ وحی بسوئے او جبرئیل علیہ السلام باشد.بلکہ ہمیں یقین واریم و در ال تر و دنمی کنم چه جبر انمیل سفیر خدا است در میان انبیاء علیم السلام و فرشته دیگر برائے اس کار معروف نیست “ ( حج الكرامه صفحه 431 ) کہ ہمیں یقین ہے کہ مسیح موعود کی طرف جبرائیل ہی وحی لے کر آویں گے کیونکہ انبیاء کی طرف خدا کی وحی لانے کے لئے وہی مقرر ہیں.اور ان کے سوا کوئی دوسرا فرشتہ اس کام پر مقرر نہیں ہے.(۳): علامہ ابن الحجر اہتیمی فرماتے ہیں: وَذَلِكَ الْوَحْنُ عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ إِذْ هُوَ السَّفِيرُ بَيْنَ اللَّهِ تَعَالَى وَانْبِيَائِهِ (روح المعانی جزء 22 صفحہ 41 تفسیر سورۃ الاحزاب زیر آیت خاتم النبیین ) کہ ( مسیح موعود پر نازل ہونے والی ) وہ وحی جبریل کی زبان سے ہوگی کیونکہ وہی اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان سفیر کے ہیں.

Page 71

71 :11 مسیح موعود کا منصب و مقام وحی کے ذریعہ بیان شریعت ہے (۱) حضرت امام ملا علی القاری " مرقاۃ شرح مشکوۃ جلد 5 صفحہ 564 پر لکھتے ہیں:.أَقُولُ لَا مُنَافَاةَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ نَبِيًّا وَيَكُونَ تَابِعًا لِنَبِيِّنَا صَلَّى الله عليه وسلّم فِي بَيَان أَحْكامِ شَرِيْعَتِهِ وَاتْقَان طَرِيْقَتِهِ وَلَوْ بِالْوَحْيِ إِلَيْهِ كَمَا يُشِيْرُ إِلَيْهِ قَوْله صلى الله عليه وسلم لو كان مُوسَى حَيَّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِيِّ، أَيْ مَعَ وَصْفِ النُّبُوَّةِ والرِّسَالَةِ وَ إِلَّا فَمَعَ سَلْبِهِ لَا يُفِيْدُ زِيَادَةِ الْمَزِيَّةِ “ کہ میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح کہ نبی ہونے اور آنحضرت ﷺ کے تابع ہو کر احکام شریعت کے بیان اور آپ کے طریقوں کے پالنہ کرنے میں کوئی منافات موجود نہیں.خواہ وہ اس وحی سے یہ کام کریں جو اُن پر نازل ہو.جیسا کہ اس کی طرف رسُول اللہ ﷺ کا قول اشارہ کرتا ہے کہ اگر موٹی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتا.مراد یہ ہے کہ وصف نبوت اور رسالت کے ساتھ (میرے تابع ہوتے.ناقل ور نہ سلب نبوت ( نبوت چھینا جانے) کے ساتھ تابع ہونا آنحضرت ﷺ کی فضیلت کا فائدہ نہیں دیتا.حضرت امام علی القاری” کی اس عبارت سے بھی ظاہر ہے کہ مسیح موعود کی وحی کو جو احکام شریعت پر مشتمل ہو بیانِ احکام شریعت ہی قرار دیا گیا ہے اور اس وحی کے باوجود مسیح موعود کو تابع نبی ہی قرار دیا گیا ہے.نہ کہ تشریعی نبی.(۲) حضرت امام عبدالوہاب الشعرائی اپنی کتاب ” الکبریت الاحمر“ کے صفحہ 10 پر فرماتے ہیں: فَإِنَّ الْوَحْيَ الْمُتَضَمِّنَ لِلتَّشْرِيْعِ قَدْ أُغْلِقَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ عَ وَلِهَذَا كَانَ

Page 72

72 صلى الله عيسى عليه السلام إِذَا نَزَلَ يَحْكُمُ بِشَرِيْعَةِ مُحَمَّدٍ عَ دُوْنَ وَحْيِ جَدِيدٍ فَعْلِمَ أَنَّهُ مَا بَقِيَ لِلْاَوْلِيَاءِ إِلَّا وَحْيُ الْإِلْهَام “ 66 کہ جو وحی نئی شریعت پر مشتمل ہو ، وہ نبی کریم ﷺ کے بعد بند کر دی گئی ہے.اسی لئے جب عیسی نزول فرمائیں گے تو وہ شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ دیں گے کوئی نئی وحی پیش نہ فرما ئیں گے.اس سے معلوم ہو گیا کہ اولیاء کے لئے صرف وحی الہام ہی باقی رہی ہے.(۳) حضرت امام مہدی کے بارے لکھا ہے: إِنَّهُ يَحْكُمُ بِمَا الْقَى إِلَيْهِ مَلَكُ الْإِلْهَامِ مِنَ الشَّرِيعَةِ وَذَلِكَ أَنَّهُ يُلْهِمُهُ الشَّرْعَ الْمُحَمَّدِيَّ فَيَحْكُمُ بِهِ كَمَا أَشَارَ إِلَيْهِ حَدِيثُ الْمَهْدِي أَنَّهُ يَقْفُوْ أَثَرِى لَا يُخْطِيُّ فَعَرَّفَنَا صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ مُتَّبِع لَا مُبْتَدِعٌ وَ أَنَّهُ مَعْصُوْمٌ فِي حُكْمِهِ إِذْ لَا مَعْنَى لِلْمَعْصُوْمِ فِى الْحُكْمِ إِلَّا أَنَّهُ لَا يُخْطِيُّ وَ حُكْمُ رَسُوْلِ اللَّهِ لَا يُخْطِيُّ فَإِنَّهُ لَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوْحَىٰ وَقَدْ أَخْبَرَعَنِ الْمَهْدِي أَنَّهُ لَا يُخْطِئُ وَجَعَلَهُ مُلْحَقًا بِالْأَنْبِيَاءِ فِي ذلِكَ الْحُكْمِ “ 66 الیواقیت والجواهر جزء 2 صفحہ 145 مبحث 65) یعنی الہام کا فرشتہ شریعت کا جو مفہوم اس (مہدی ) کو سکھائے گا اس کے مطابق ہی وہ فیصلہ دیا کرے گا.یہ اس لئے کہ وہ اس کو شرع محمدی الہام کرے گا اسی کی طرف نبی کریم ﷺ کی مہدی والی حدیث اشارہ کرتی ہے فرمایا کہ وہ میرے پیچھے پیچھے آئے گا اور غلطی نہیں کرے گا.اس طرح حضور ﷺ نے ہمیں بتا دیا کہ وہ (مہدی ) متبع ہوگا کوئی نئی بات نہیں بنائے گا اور وہ اپنے فیصلے میں معصوم ہوگا کیونکہ غلطی سے پاک ہونے کے یہی

Page 73

73 معنی ہیں اور نبی کریم ﷺ کا مہدی کے بارے میں یہ فیصلہ غلط نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اپنی مرضی سے نہیں بولتے ، بلکہ جو ارشاد فرمائیں وہ وحی ہوتی ہے اور آپ نے مہدی کے متعلق اس حکم سے اس امر میں اسے انبیاء میں شامل کر دیا ہے.بالفاظ دیگر حضرت امام شعرائی نے یہ بیان فرمایا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ بتادیا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے مہدی کی بذریعہ وحی والہام راہنمائی ہوا کرے گی اور مقامِ نبوت پر فائز ہوگا.(۴) علامہ الوسی اپنی تفسیر میں اس امر کی بزور تردید کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے بعد جبرئیل کا نزول نہیں ہوگا اور نہ وہ وہی لائے گا، پھر وہ فرماتے ہیں اور مسیح فرماتے ہیں: ” وَلَعَلَّ مَنْ نَفيَ الْوَحْيَ عَنْهُ عليه السَّلام بَعْدَ نُزُولِهِ اَرَادَ وَحْيَ التشريع (روح المعانى جزء 22 صفحہ 14 زیرآیت خاتم النبيين ) کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی پر نزول کے بعد وحی نہ ہوگی اس سے مراد وہ وحی ہے جونئی شریعت پر مشتمل ہو.علامہ الوی نے انتہائی بصیرت افروز رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر مسیح موعود پر کوئی نئی وحی کی بات کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تشریعی وحی کی بات کر رہا ہے.وہ بہر حال بند ہے مگر غیر تشریعی وہی جاری ہے اور مسیح موعود پر لاز ما ایسی وہی ہوگی.(۵) پھر علامہ ابن الحجر اہتیمی سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا نزول کے بعد حضرت عیسی پر وحی نازل ہوگی یا نہیں؟ تو اس کا جواب انہوں نے حدیث صحیح پر بنیا در کھتے ہوئے نہایت واشگاف الفاظ میں یوں دیا کہ: نَعَمَ يُوحَى إِلَيْهِ وَحْيٌ حَقِيقِيٌّ كَمَا فِي حَدِيْثِ مُسْلِمٍ وَغَيْرِهِ عَنِ

Page 74

74 النَّوَاسِ بْنِ سَمْ ـانَ وَ فِى رِوَايَةٍ صَحِيْحَةٍ فَبَيْنَمَا هُوَ كَذَلِكَ إِذْ أَوْحَى إِلَيْهِ يَا عِيْسَى إِنِّي أَخْرَجْتُ عِبَادًا لِيْ لَا يَدَانِ لَاحَدٍ بِقِتَالِهِمْ حَوِّلْ عِبَادِي إِلَى الطُّوْرِ وَ ذلِكَ الْوَحْيُ عَلَى لِسَانِ جِبْرِيلَ إِذْ هُوَ السَّفِيْرُ بَيْنَ اللَّهِ وَ انْبِيَائِهِ لَا يُعْرَفَ ذَلِكَ (الفتاوی الحدیثیہ صفحہ 243 مطلب: خبر لا وحی بعدی باطل) 66 کہ ہاں ! آپ کو وحی حقیقی ہوگی جیسے کہ حدیث مسلم وغیرہ میں حضرت نواس بن سمعان سے روایت کیا گیا ہے اور صحیح روایت میں ہے کہ خدا تعالی بیٹی کو وحی کریگا کہ اے عیسی ! میں نے ایسے بندے کھڑے کئے ہیں جن کا جنگ میں کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا پس میرے ان (مومن ) بندوں کو طور کی طرف موڑ لے جا.اور یہ وحی یقیناً جبرئیل کے ذریعہ نازل ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء کے درمیان وہی سفیر ہے کوئی دوسرا فرشتہ نہیں.اس میں بصراحت بیان کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ عیسی پروحی نازل کی جائیگی اور یہ حدیث صحیح ہے مسلم اور دیگر کتب میں درج ہے اس سے بڑھ کر مومن کے لئے اور کون سی دلیل درکار ہے؟ (1) اور امام عبد الوہاب شعرانی الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 89 بحث 47 میں حضرت مسیح موعود الل کے متعلق لکھتے ہیں: وجهه 66 فَيُرْسَلُ وَلِيًّا ذَا نُبُوَّةٍ مُطْلَقَةٍ وَيُلُهمُ بِشَرُعٍ مُحَمَّدٍ وَيَفُهَمُهُ عَلَى یعنی ( موعود ) عمیق ولی کے طور پر نبوت مطلقہ کے ساتھ بھیجے جائیں گے.اُن پر شریعت محمدیہ الہاما نازل ہوگی.وہ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں گے.اب دیکھو سیح موعود پر شریعت محمدیہ کا الہاما نازل ہونا بھی تسلیم کیا گیا ہے مگر اس

Page 75

75 کے باوجود انہیں غیر تشریعی اور تابع نبی ہی سمجھا گیا ہے.پس علمائے امت نے مسیح موعود پر شریعت محمدیہ کے الہاما نزول میں گو احکام شریعت کا نزول بھی مانا ہے مگر اُسے صاحب شریعت جدیدہ نہیں سمجھا اور نہ بعد از نزول تشریعی نبی قرار دیا گیا ہے.بلکہ وہ شریعت محمدیہ کا تابع اور رسول اللہ ﷺ کا تابع اور آپ کا امتی نبی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود اللہ فرماتے ہیں: ؎ سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدا یا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے، میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے عليهم

Page 76

76 وو اسلام کا طرہ امتیاز اور آلہ خدا دانی وحی الہی ہے ” ہے غضب کہتے ہیں اب وحی خدا مفقود ہے اب قیامت تک ہے اس اُمت کا قصوں پر مدار عقیده برخلاف گفته دادار ہے! پر اُتارے کون برسوں کا گلے سے اپنے ہار وہ خدا اب بھی بناتا ہے جسے چاہے کلیم اب بھی اُس سے بولتا ہے جس سے وہ کرتا ہے پیار گوہر وحی خدا کیوں توڑتا ہے ہوش کر اک یہی دیں کے لئے ہے جائے عز و افتخار یہ وہ گل ہے جس کا ثانی باغ میں کوئی نہیں یہ وہ خوشبو ہے کہ قرباں اس پہ ہو مشک تتار یہ وہ ہے مفتاح جس سے آسماں کے در کھلیں یہ وہ آئینہ ہے جس سے دیکھ لیں رُوئے نگار بس یہی ہتھیار ہے جس سے ہماری فتح ہے بس یہی اک قصر ہے جو عافیت کا ہے حصار ہے خدا دانی کا آلہ بھی یہی اسلام میں محض قصوں سے نہ ہو کوئی بشر طوفاں سے پار ہے یہی وحی خدا عرفان مولی کا نشاں جس کو یہ کامل ملے اُس کو ملے وہ دوستدار ( حضرت مسیح موعود القلم )

Page 76