Wafat-eMasih Aur Ahyae Islam

Wafat-eMasih Aur Ahyae Islam

وفات مسیح اور احیائے اسلام

تقریر برموقعہ جلسہ سالانہ ۲۶ دسمبر ۱۹۷۸
Author: Other Authors

Language: UR

UR
وفات مسیح ناصری

مولانا موصوف نے جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر مورخہ 26 دسمبر 1978ء کوحاضرین کے سامنے وفات مسیح کے موضوع پر تقریر فرمائی تھی جس میں اس ضروری مسئلے کی وضاحت کرکے بتایا تھا کہ کس طرح یہ عقیدہ احیائے اسلام کے واسطے ضروری ہے۔ مولانا موصوف کے مخصوص انداز میں پیش کردہ اس مواد کو جب کتاب شکل دی گئی تو ذیلی عناوین مرتب کرکے افادیت کو مزید بڑھادیا گیا ہے۔ نیز مورخ احمدیت کے کثرت مطالعہ اور قیمتی حوالہ جات تک رسائی نے اس مختصر کتابچہ کو مزید کار آمد بنادیا ہے۔


Book Content

Page 1

وفات حج کاحیائے اسلام تقریر بر وقعه ها سالانه ۲۶ ردیه مکرم مولینا دوست محمد ضیا شاہد مؤرخ احمدیت || الناشر نظار است لٹریچر تنصیف صور اجمل حمید پاکستان توجه

Page 2

..وفات حج واحیائے اسلام سالانه ۲۶ درباره مکرم مولینا دوست محمد رضا شاہد مؤرخ الحديت الناشر جماعت احمدیہ کراچی

Page 3

فہرست مضامین عنوانات صفحہ عنوانات مضمون کی اہمیت.- صفر عقیدہ حیات مسیح کے خلاف - ۲۳ مجرد خا کی جسم کی پرواز کا قدیم خیال ۶ قرآنی وحی کا نزدل - حضرت مسیح ناصری کا فیصلہ اور امت مسلمہ کو مسلسل یا درمانی - ۲۷ یہود و نصاری.صحابہ رسول کا اجماع دفاتِ اس فرقه با سیلیدیہ کا دلچسپ نظریہ - ۹ میے پر.شرک کا خوفناک طوفان - اجتماع صحا بہ کی بازگشت برین ہیں.۳۴ ایک قرآنی پیشگوئی آخری زمانے اجماع صحابہ کی ایک جھلک کو نہ ہیں.ئے سے متعلق.وفات شیشے کا ثبوت تین زاد بر با عیسائیوں کی سازش.نگاہ سے اکابر امت اور عقیدہ وفات مسیح.بزرگان سلف کی طرف سے ساری.حضرت سینے کا نام لیکر دنیا کا اعلان ۱۳ کا انکشاف.کا نام وفا pur of ۳۸ حضرت بیے کا حقیقی مشن ، آنحضور مسیحی عقیدہ کے فروغ کا سبب ۳۹ کی بشارت.با سیلید یہ افسانہ کا اسلام میں نفوذ حدیث نبوی اور سفر ہجرت.19 اور علماء ربانی کی تنقید - قدیم تاریخ میں سفر کشمیر کا ذکر ۲۰ نظریہ حیات مسیح کے بولنگ تاریخ حضرت خاتم الانبیاء کا جہاد تیرھویں صدی ہجری ہیں.

Page 4

صفحہ ۵۹ ۶۰ ۶۴ ۶۵ ۶۷ ۶۸ صفر عنوانات عنوانات میہ کے علمی ڈروں کے شرمناک تھکنڈے ۴۳ انکشاف قبر مسلح کا ابتدائی رد عمل - ا کر دیا مینہ پر صلیبی جھنڈ انٹروانے کے خواب ۴۴ بشپ لیفرائے کی شکست اور مدینة النبی کی آواز قادیان سے.۴۶ اسلام کی فتح مبین.حضرت مہدی موعود کی پر شوکت اسلام کا فتح نصیب جو نیل - دعوت فیصلہ - ۴۸ - امام و رعایت این جنگ دو و نیم تغیر است او عیسائی دنیا میں تشویش و اضطراب نظریہ وفات مسیح کی مقبولیت اور پادریوں کی عالمی کانفرنس ۵ دنیائے اسلام میں.۵۱ شخصیت مسیح کے متعلق جدید بعض قدیم نوشتے.حضرت مہدی موعود کی ایک اہم علمی اکتشافات - ۵۳ وصیت مسلمانان عالم کو.خد العالی کی قادرانہ تجلیات کا قبر مسیح سے متعلق بے نظیر تحقیق ایمان افروز منظر اور علیہ اسلام سے اس کا تعلق - صور سینے سے متعلق الحاقی آیات لكن شبہ نہم کی حقیقت افروز کا اخراج - حضرت مہدی موعود کی پر جلال مینگوئی.

Page 5

سمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تحدة وَنُصَلَى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيم وَعَلَى عَبْدِي امنيت و موعود وفات مسیح احا اسلام أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُو اللَّهِ وَلِرَسُولِ إِذَا دعَاكُمْ لِمَا يُحييكُمْ (الانقال : ٣٥) مضمون کی اہمیت..برادران اسلام ! موضوع تقریر ہے ، وفات مسیح ناصری علیہ السلام اور احیاء اسلام " عہد حاضر کا یہ ایک نہایت اہم مضمون ہے کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام انجیل کی رُو سے بھی محض " صبح کا ستارہ تھے کہ جو اپنے بعد مطلوب کائنات مقصود کائنات اور مرکز کا ئنات حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشخبری دینے کے لیے ظاہر ہوئے اور آفتاب محمدیت کے افق بطی پر طلوع ہونے سے قبل ہی غائب ہو گئے.لہذا اگر ایک ات مکاشفہ بات آیت ۲۶

Page 6

لحظہ کے لیے بھی فرض کر لیا جائے کہ حضرت مسیح ناصر کی ابھی تک زندہ ہیں تو ماننا پڑیگا کہ ہمارے نبی نبیوں کے شہنشاہ رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اب تک اس عالم میں تشریف فرما نہیں ہوئے نیظاہر ہے کہ کوئی کلمہ گو با الخصوص ایک احمدی مسلمان اس ناپاک خیال کو ہرگز برداشت نہیں کر سکتا اس کی تو پوری زندگی ہی غیرمسلموں کو مسلمان بنانے اور یہ دُعا کرنے کے لیے وقف ہے کہ ے اس دیں کی شان و شوکت یا رب مجھے دکھا دے سوب جھوٹے دیں مٹا دے میری دعا یہی ہے پس آج مجھے تاریخی حقائق اور واقعاتی شواہد سے ثابت کرنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی موت اور اسلام کی زندگی دونوں ہی متوازی صداقتیں ہیں جو سید الگل ، افضل الترسل ، سید الانبیاء سید الاحیاء ، محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے لے کہ قیامت تک لازم ومزدم رہیں گی ، اس نقطہ نگاہ سے بلامبالغہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کی بنیاد آج سے تیرہ سو سال قبل مسیحیت کے جعلی اور خود ساختہ عقیدہ حیات مسیح کے خلاف جہاد پر رکھی گئی تھی.اسلام کے شاندار ماضی کا راز بھی اسی علمی جہاد میں مخفی تھا اور اس کا روشن مستقبل بھی اسی کے ساتھ والبستہ ہے.مجرد خا کی حیم کی پرواز کا قدیم خیال میرے بزرگو اور بھائیو !! یہ خیال کہ کوئی شخص اپنے خاکی جسم کے ساتھ اُڑ کر آسمان پر چلا گیا ایک پرانا خیال ہے جو ایشیا اور یورپ کی اقوام میں ہزاروں برس سے پایا جاتا ہے

Page 7

رجیسا کہ ایک امریکی مصنف مسٹرٹی.ڈبلیو ڈون (Mr.T.W.DOANE) نے اپنی کتاب قصص بائیبل (BIBLE MYTHS) میں بھی ثابت کیا ہے.) حضرت ادریس علیہ السلام پہلے پیغمبر ہیں جنہیں آسمان پر اٹھائے جانے پر والوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے چنا نچہ در منشور سیوطی ) میں ہے کہ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ السَّادِسَةِ فَمَاتَ فِيهَا وعدم م ) مینی حضرت اور میں چھٹے آسمان پر اُٹھائے گئے اور دہیں فوت ہو گئے.اور البدايه والنهاية لابی الفداء ( عبد ا مر ا س ) میں ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام اُس تخت سمیت جس پر آپ کی وفات ہوئی تھی آسمان پر پہنچا دیئے گئے اسی طرح ایلیا یعنی حضرت العباس علیہ اللہ زم کا نسیم سمیت آسمان پر جانا سلاطین و با آیت 11 میں مندرج ہے اور پھر اُترنے کا وعدہ صحیفہ ملا کی کے باب آہستہ دو میں بطور پیشنگوئی دیا گیا ہے.اسرائیلی اس پیشگوئی کے مطابق آسمان کی راہ دیکھ رہے تھے اور نہایت بیقراری سے حضرت الیاس کے اترنے کے منتظر تھے کہ حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کا ظہور ہوا ، آپ نے مانا کہ بیٹی عبدالسلام ہی وہ الیاس میں جن کا آسمان سے آنا مقدر تھا متی ہے ) نیز اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعوی کیا : لى أعَدَّ صَعِدَ إِلَى السَّمَاءِ إِلَّا الَّذِي نَزَلَ مِنَ ليس السماء ابن الْإِنْسَانِ الَّذِي هُوَ فِي السَّمَاءِ (يوحنا ) سمان پر کوئی نہیں پڑھا سوائے اُس کے جو آسمان سے اترا

Page 8

معینی ابن آدم جداً سمان میں ہے.اس عبارت میں ابن آدم سے مراد خود میچ ناصری علیہ السلام کا وجود ہے اور آپ اس وقت ہیں جبکہ آپ زمین پر تھے، اپنے تئیں آسمان پر قرار دیتے تھے اور آسمان پر چڑھنے اور اترنے سے مراد آپ کی یہ تھی کہ جب تک کوئی انسان روحانیت کے اعتبارت آسمانی نہ ہو وہ آسمان کی باتیں یعنی روحانی امور کو سمجھ ہی نہیں سکتا.حضرت مسیح ناصرتی کا فیصلہ اور یہود و نصاری یہودی علماء نے خدا کے برگزیدہ صیح کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اپنی ظاہر پرستی کے باعث آپ کو کا فرد محمد کہ کہ آپ کے قتل کے منصوبے باندھنے گئے مگر اس سے بھی المناک حادثہ یہ رونما ہوا کہ اس آسمانی فیصلہ کی دھجیاں خود شیح کے پرستاروں نے اُڑا دیں، انہوں نے حضرت ابن مریم کو خدا قرار دیدیا ، آپ کی طرف خُدائی صفات منسوب کر دیں اور اپنے زعم میں انہیں پچ پچ آسمان پر چڑھا دیا اور یہ عقیدہ ترا شا کہ آپ آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گئے اور آخری دور بھی اُنھیں کا ہوگا ، یہ عقیدہ بگڑی ہوئی عیسائیت کا مستقل حصہ بن گیا جس کی توثیق بعد میں نیسیا (NICAEA) کی مشہور چرچ کونسل نے کر دی (انسائیکلو پیڈیا آف ریلی کا زیر لفظ کریڈ (CREED) جلد 4 ص امین منریز (ALLAN MENZIES) اور جیسے مغربی مفکرین ان جدید خیالات کا موجد پولوس کو بتلاتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ یہ اختراع غیر ہیو د لوگوں کو عیسائیت کا شکار کرنے کے لیے نہایت ہی موزوں اور ٹیم ایڈی (WILLIAM EDIE) ہتھیار تھا.انسائیکلو پیڈیا آف ریجن اینڈ ٹیکس جلد و ص )

Page 9

فرقه با سیلیدیہ کا دلچسپ نظریہ دوسری صدی سیحی میں اسکندریہ کے ایک نئے عیسائی فرقہ با سیلید (BASILIDES) نے جو حضرت میخ کو خدا کا اکلوتا بیٹا اور دنیا کا نجات دہندہ تسلیم کرتا تھا یہ دلچسپ نظریہ پیش کیا کہ کیوں مسیح نے واقعہ صلیب کے وقت اپنی شکل ایک دوسرے شخص (شمعون قرینی) کو دے دی اور خود اس کی صورت اختیار کر لی ، اس طرح شمعون کو یسوع مسیح کی بجائے تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور مسیحیہ نظارہ دیکھنے کے بعد آسمان پر چلے گئے چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آن ریجن اینڈا ٹیکس (جلد و منم) میں لکھا ہے :- "He appeared in human form and taught, but, at the crucifixtion changed forms with Simon of cyrene, So that the letter was crucified in the form of Jesus, while christ Himself Stood by and mocked at His enemies in the form of S.mon; for, since He was incorporeal, He was essentially invisible, and so He returned to the father." (Page 428--Basilides-Basilidians-System of Doctrine Encyclopaedia of Religion and Ethics, Vol.II.) Edited by (James Hastings M.A.D.D.) (ترجمہ السوع انسانی شکل میں ظاہر ہوا اور تعلیم دیتا رہا مگر واقعہ صلیب کے دوران اس نے اپنی شکل شمعون قرینی کو دے دی اور یوں شمعون یسوع کی بجائے مصلوب ہوا اور مسیح شمعون کی شکل میں اپنے دشمنوں کا مذاق اُڑاتا رہا.چونکہ مسیح غیر مرنی جسم کا مالک

Page 10

۱۰ تھا اس لیے وہ نظروں سے اوجھیل رہا اور اسی طرح اپنے باپ کی طرف لوٹ گیا.باسی طور ناقابل فرقه با سیلید یه کا یہ عقید و قطعی طور پر تا قابل تسلیم ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ شمعون قرینی واقع صلیب کے بعد زندہ رہا اور عیسائیوں میں شامل رہا شرک کا خوفناک سیلاب حضرت اور لیں ، حضرت ہارون ، حضرت موسیٰ اور حضرت الیاس علیهم السلام کے رفع الی السماء کے قدیم نظریات تو تاریخ کے اوراق کی زینت بن کر رہ گئے گر نظریہ حیات مسیح کی بنیادی اینٹ چونکہ حضرت مسیح کی مافوق البشر خدائی صفات پر رکھی گئی تھی اس لیے اس کے نتیجہ میں شرک کا خوفناک سیلاب امڈ آیا جس نے ظہور اسلام سے قبل شمالی یورپ سے لیکر وسطی افریقہ تک کو اپنی لپیٹ میں لے سیاحتی کہ جزیرہ عرب میں بھی عیسائیت کے وسیع اثرات پھیل گئے.اُسد الغابة میں ہے :- إِنَّ الْعَرَب قَبْلَ الْإِسْلَامِ كَانَ كَثِيرٌ مِنْهُمْ قَدْ تنصر عده ص۲۲۳ ) یعنی قبل از اسلام بہت سے عرب قبائل نصرانی ہو چکے تھے.یہی وجہ ہے کہ ہمارے ستید و مولى افضل الرسل، اسید الکل حضرت خاتم الانبياء امام الانتقاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و الہ وسلم توحید خالص کی تو حسین تعلیم لیکر آئے اُس کا سب سے منظم تصادم عیسائیت ہی سے ہوا کیونکہ عیسائی خیالات اسلامی توحید کی مکمل نفی کرتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ کم کے عشاق نے رجن سے میری مراد اکا بر صحابہ اور تابعین ہیں مسیحیت کے ایک ایک

Page 11

نظریاتی قلعہ کو پاش پاش نہیں کر دیا وہ چکن سے نہیں بیٹھے.ایک قرآنی پیشینگوئی آخری زمانے سے متعلق خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ آخری زمانہ میں بھی عیسائیت کا فتنہ عقیدہ حیات میتح کی آڑ میں ایک بار پھر زور پکڑ جائے گا جو اسلام کے لیے سخت مضر ہو گا اور امت مسلمہ کو بے روح ہے جان اور مروہ کر دے گا اس لیے اس نے اپنی آخری کتاب میں یہ پیشگوئی فرمائی : تكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُ الأَرْضُ و تخر الجِبَالُ هَدَّاه (سورة مريم : ٩١) فرمایا وہ نازک وقت آنے والا ہے کہ قریب ہے کہ تثلیث کے غلبہ کے وقت آسمان پھٹ جائیں اور زمین شق ہو جائے اور پھاڑ کر جاتیں یعنی قریب ہے کہ وہ استعبان جو اخلاص کی وجہ سے آسمانی کہلاتے ہیں گراہ ہو جائیں، زمینی آدمی بگڑ جائیں اور وہ ثابت قدم لوگ جو مضبوط پہاڑوں کے مشابہ ہیں گر جائیں.وفات مسیح کا ثبوت تمین زاویہ ہائے نگاہ سے..وہ قرآن مجید کا یہ بھی زندہ معجزہ ہے کہ اس نے سب سے بڑھ کر جس نبی کی وفات پر زور دیا ہے وہ حضرت مسیح علیہ اسلام ہی ہیں اور اس مضمون پر مختلف پہلوؤں سے اُس نے اِس طرح تکرار اور شدت کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ انسانی عقل ورطہ حیرت میں گم ہو جاتی ہے مسیح نا سرتی کی شخصیت کو دنیا میں تین حیثیتوں سے تسلیم کیا جاتا ہے : انسانوں میں سے ایک انسان.

Page 12

١٢ رسولوں میں سے ایک رسول.مصنوعی خداؤں میں سے ایک ندا.قرآن مجید نے ہر حیثیت سے اُن کی وفات کا اعلان عام فرمایا : ایک انسان کی حیثیت سے حضرت مسیح کی وفات کا ذکر درج ذیل آیت میں ملتا ہے : وَمَا جَعَلْنَا البَشَرِ مِنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ انَا بِنْ مِتَ نَهُمُ الخلدون.رالانبياء : ٣٥) یعنی ہم نے تجھ سے پلے کسی بشر کو غیر طبی عمر میں بخشی کیا اگر مرجائے تودہ غیر معمولی لمبی عمر تک زندہ رہیں گے.خُلُود کے مفہوم میں حضرت امام راغب اصفہانی (متوفی ۵۲ھ) کی مشہور لغت مفردات القرآن کے مطابق یہ بات داخل ہے کہ ہمیشہ ایک ہی حالت میں رہے.پھر فرمایا: ان ما تكونوا يُدْرِكُمُ الْمَوْتُ وَلَو كُنتُمْ فِي بُرُوج (النساء : آیت ۷۹ ) مشيدة یعنی تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آپکڑے گی خواہ تم مضبوط قلعوں میں رہی کیوں نہ ہو.حضرت علامه امام راغب اصفہانی نے بروج " کے معنے ستاروں کے بھی کئے ہیں (مفردات القرآن ) پس حضرت میشیح ناصری خواہ چاند اور دوسرے ستاروں اور سیاروں میں بھی پہلے جاتے پھر بھی وہ موت سے نہیں بچ سکتے تھے.ایک رسول کی حیثیت سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات کا ذکر تر آن عظیم نے کس پر شوکت انداز میں کیا ہے :

Page 13

۱۳ وما محمد إِلَّا رَسُولُ ، قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ.( ال عمران : آیت ۱۴۵) یعنی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں آپ سے پہلے سب رسول فوت ہو گئے ہیں.عیسائی دنیا سید نا حضرت عیسی علیہ السلام کو خدائی کا درجہ دیتی تھی اللہ جل شانہ و عزاسمہ نے اس حیثیت سے بھی آپ کی وفات پر مہر تصدیق ثبت کردی بچنا نچہ ارشاد فرمایا : وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخلقون أموات غَيْرُ احْيَاء وَمَا يَشْعُرُونَ * A У أيَّانَ يُبْعَثُونَ ر سورة النحل : آیت ۲۱-۲۲) اور اللہ کے سوا جن معبودان باطلہ کو وہ پکارتے ہیں وہ کچھ بھی) پیدا نہیں کر سکتے بلکہ آپ پیدا شدہ ہیں مرچکے ہیں زندہ بھی تو نہیں ہیں اور نہیں جانتے کہ کب اُٹھائے جائیں گے.ابن مریم مرگیا حق کی قیم.داخل جنت ہوا وہ محترم مارتا ہے اُس کو فرقاں سربسر اس کے مرجانے کی دیتا ہے خبر کوئی مردوں سے بھی آیا نہیں یہ تو فرقاں نے بھی بتلایا نہیں حضرت مسیح کا نام لے کر وفات کا اعلان کہ اب ان نے دن بہت سیے نا صرتی کا نام لے کر بھی آپ کی وفات کا صریح الفاظ

Page 14

۱۴ میں ذکر کیا ہے.فرماتا ہے کہ قیامت کو خدا تعالیٰ میسی سے پوچھے گا کہ کیا تونے اپنی قوم کو یہ تعلیم دی تھی کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کر کے مانا کہ تو وہ جواب دیں گے وكُنتُ ما دمتُ فِيهِم كنت انت الرقيب عَلَيْهِمْ (المائدة: آيت (۱۱) یعنی جب تک میں اپنی قوم میں تھا میں اُن کو ہی تعلیم دیتا رہا کہ خدا ایک ہی ہے اور میں اس کا رسول ہوں ، پھر جب تو نے مجھے وفات دیدی تو بعد اس کے مجھے اُن کے عقائد کا کچھ علم نہیں.اس آیت میں توکی کا لفظ حضرت مسیح ابن مریم کے بیان کی کلید ہے.جس کے معنے ہمارے آقا ہمارے مولی پیغمبر خدامحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم رنداہ ابی و اتی) نے اپنی زبان مبارک سے وفات ہی کئے گئے ہیں.چنانچہ بخاری ، کتاب التفسیر جلد ۲ صفحہ ، میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یں بھی قیامت کے دن دہی کہوں گا جو بیج ابن مریم نے کہا ہے یعنی وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أنتَ الرَّيْبَ عَلَيْهِم سعی میں جتك یعنی ان میں تھا اُن پر گواہ تھا پھر جب تو نے مجھے وفات دیدی تو اس وقت تو ہی انکا نگهبان ، نگران اور محافظ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تفسیر سے بالکل واضح ہو گیا کہ حضرت عیسی عیسائیوں میں شرک پھیل جانے سے قبل یقینی طور پر وفات پاچکے تھے.قرآن مجید کی ایک علمی کرامت یہ ہے کہ اُس نے ایک طرف حضرت شیح کے لیے رفع الی السماء کی بجائے رفع الی اللہ کا نظریہ پیش کیا ہے اور آپ کی نسبت کہیں بھی "حسم عنصری اور زندہ اور آسمان کے الفاظ استعمال نہیں گئے.دوسری طرف کلام اللہ نے یہ موقف پیش کیا ہے کہ کوئی بشر اور رسُول محض اپنے "

Page 15

۱۵ خاکی جسم سمیت اُڑ کر آسمان تک جا ہی نہیں سکتا چنانچہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ کفارہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تو ہمیں آسمان پر چڑھ کر دکھا تب تم ایمان لائیں گئے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل سبحان رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولاً ، ربنی اسرائیل: آیت (۹۴) یا رسول اللہ تو کہدے کہ میرا خدا اس سے پاک تری ہے کہ اس دار الا بلاء میں کھلے کھلے نشان دکھلاؤ اور میں محض بشر رسول ہوں اور بشر رسول پرواز کر کے آسمانوں پر نہیں جایا کرتے نہ جا سکتے ہیں.مغز نہ حضرات ! میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کے دانشور منفکر اور دینی را ہنما قرآن مجید کی اس آیت کریمہ پر خوب غور و تد تبر کریں اور اس اہم نکتہ پر غور فرمائیں کہ راکٹ خلائی جہانہ اور چاند گاڑی کی ایجادیں اس زمانہ میں ہوئی ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ تو عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت شیخ کسی جہاز پر بیٹھ کے آسمانوں پر گئے ہیں اور نہ کفار ہی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ مشینی آلانہ کے ذریعہ آسمان پر تشریف لے جائیں.دونوں کے مد نظر مجرد خاکی جسم کے ساتھ اُڑ کے آسمان پر پہنچنے کا خیال کار فرما تھا اور اسی خیال کو قرآن مجید نے باطل ٹھہرایا ہے اور بتایا ہے کہ کسی بشر رسول کا بجسد عنصری زندہ آسمان پر چڑھ جانا خدا کی انزلی سنت کے صریحاً خلاف ہے اور کسی ماں نے ایسا بیٹا ہی نہیں جنا نہ قیامت تک جن سکتی ہے جو اس قرآنی صداقت کو غلط ثابت کر سکے.اس تعلق میں خدا کی پاک کتاب نے یہ ازلی قانون بھی بیان فرمایا ہے : وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَ مَتَاعٌ إِلى حِينٍ ، (بقره آیت ۳۷) یعنی تم اپنے جسم خاکی کے ساتھ زمین میں ہی رہو گے یہاں تک کہ اپنے

Page 16

14 متمتع کے دن پورے کر کے مر جاؤ گے.اس آیت میں الارض “ کے معنے قرآنی محاورہ اور روح کے مطابق زمینی ماحول کے ہیں کیونکہ قرآن مجید ہی وہ عظیم کتاب ہے میں نے چودہ سو سال پہلے یہ وہ خبر دی تھی کہ وَإِذَا الْأَرْضُ مُدَّت ه رسورة الانتقاق : آیت (۴) کہ ایک وقت آئے گا کہ زمین پھیلا دی جائے گی مگر یہ کیسے ہوگا ؟ قرآن مجید اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ يخلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ.(النحل : 9) خدا تعالیٰ ایسی سواریاں پیدا کر دیگا جسے تم ابھی نہیں جانتے.پھر فرمایا : وَمِنَ الله خَلْقُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيهِمَا مِن دَابَّةٍ ، وَهُوَ عَلَى جَمْعِهِمْ إِذَا يَشَاءُ قَدِيره (سورة الشورى : آیت ۳۰ ) اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور تو کچھ ان دونوں کے درمیان جانداروں کی قسم سے اُس نے پھیلایا ہے اس کے نشانوں میں سے ہے اور جب وہ چاہے گا اُن سب کے جمع کرنے پر قادر ہو گا.پس جبکہ قرآن مجید میں پیشگوئی موجود ہے کہ ایسی ایجادات ہونیوالی ہیں جن سے انسان چاند ، مریخ ، زہرہ اور دوسرے ستاروں یا سیاروں تک پہنچ سکیگا تو ثابت ہوا کہ الارض " سے مراد قرآنی اصطلاح میں ارضی ماحول ہے اور مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان زمینی سواری، زمینی لباس، زمینی خوراک اور زمینی ہوا کو ساتھ لیے بغیر آسمانوں پر نہیں جا سکتا.پس یہ سیمی عقیدہ کہ یسوع مسیح ارضی ماحول کے سہاروں کے بغیر ہی اپنے جسد خاکی سے آسمان پر چلے گئے، قرآن کریم کی رو سے سراسر باطل ہے

Page 17

اس اعتبار سے یہ دنیا بھر کے خلانوردوں کو بھی چیلنج ہے کہ وہ اپنی فلک پیمانی میں خواہ آگے نکل جائیں وہ کسی گڑھ میں عیسائیوں کے تعدا وند میسور میسج کو ہرگز تمہیں دیکھ سکیں گے.حضرت مسیح کا حقیقی مشن آنحضرت کی بشارت قرآن مجید نے ایک اور زاویہ نگاہ سے بھی سیدنا حضرت مسیح ناصری علیہ اسلام کے آسمان پر چڑھ جانے کے عقیدہ کو رد کیا ہے اور وہ اس طرح کہ قرآن مجید بلاتا کہ بناکر ہے کہ آپ صرف بنی اسرائیل کے لیے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے ورسولاً إلى تن استور انتال ورسورة آل عمران آیت (4) اور آپ کی بعثت کا مقصد وحید پشت یہ بیان کرتا ہے کہ آپ بنی اسرائیل میں مقصود کائنات اور تخلیق عالم کے نقطہ مرکزیہ مینی ہمارے سید موٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی کریں (سورۂ مصنف) جیسا کہ انجیل بر نیاسی میں بھی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا : میں اس کے لائق بھی نہیں ہوں کہ اس رسول اللہ کے جوتے کے بند یا تعلمین کے تھے گھڑیوں.وہ جو کہ میرے پہلے پیدا کیا گیا اور اس میرے بعد آئے گا اور وہ بہت جلد کلام بچی کے ساتھ آئے گا اور اُس کے دین کی کوئی انتہانہ ہوگی ؟ داره توریه انجیل بر تنام فصل بیالیست این آیت ۱۵-۱۷) اور یوحنا کی انجیل میں ہے کہ میں تم سے پیج کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ انگر میں نہ ملاؤں تو وہ مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا، لیکن اگر جاؤنگا

Page 18

JA تو اُسے تمہارے پاس بھیج دونگا اور وہ آکر دنیا کوگناہ اور راستبازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھہرائے گا.تم مجھے پھر نہ دیکھو گے مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہا ہے گراب تم آنکو برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی روح دکھائے گا اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہینگا لیکن جو کچھ سنے گا رہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبر میں دیگا.(یوحنا : باب : آیت ۱۴۷) اب ظاہر ہے کہ وہ بنی اسرائیلی جن کو حضرت مسیح علیہ السلام یہ بشارت دینے کے لیے مبعوث ہوئے تھے وہ آسمان پر نہیں تھے بلکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے فلسطین سے لے کر کشمیر تک پھیلے ہوئے تھے لہذا حضرت مسیح علیہ اسلام کو اپنے اصل مشن کی تکمیل کے لیے آسمان پر جانے کی بجائے اُن علاقوں کی طرف جانا چاہیئے تھا جن میں بنی اسرائیل کے بقیہ دنش قبائل آباد تھے اور انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح اپنے السی مشن سے بخوبی آگاہ تھے اور ابتدائے ماموریت سے ہی بنی اسرائیل کے گمشدہ قبائل تک پہنچنے کا عزم رکھتے تھے، چنانچہ متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا " (باب ۱۵ آیت ۲۴) اور انجیل یوحنا میں آپ کا یہ فرمان درج ہے کہ اچھا چرواہا میں ہوں جس طرح باپ مجھے جانتا ہے اور میں باپ کو جانتا ہوں اسی طرح ہیں اپنی بھیڑوں کو جانتا ہوں اور میری بھیڑیں مجھے جانتی ہیں اور میں بھیڑوں کے لیے اپنی جان دیتا ہوں اور میری اور بھی بھیریں ہیں جو اس بھیڑ خانہ کی نہیں.مجھے اُن کو بھی لانا ضرور ہے اور وہ میری وو

Page 19

14 آواز نہیں گی پھر ایک ہی گلہ اور ایک ہی چرواہا ہو گا ؟ (یوحنا : باب آیت ۱۴ - ۱۶) قرآن مجید نے حضرت مسیح علیہ اسلام کی زندگی کے ایک نہایت اہم اور پوشیدہ دری کو بھی اجاگر کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کو حادثہ صلیب سے نجات کے بعد چرخ چہارم پر نہیں بلکہ دنیا کے ایک بلند پہاڑی مقام پر پناہ گزین ہونا پڑا تھا چنانچہ فرماتا ہے : وجَعَلْنَا ابْنَ مَرْيَمَ وَاُمَّةَ ايَةً وَاَوَ إلى ربوة ذَاتِ قَرَارٍ ومعين.(سورة المؤمنون : آیت (۹) وَمَعِيدٌ یعنی ہم نے حضرت عیسی اور اُن کی والدہ کو لہو دیوں کے ہاتھوں سے بچا کر ایک ایسے پہاڑ میں پہنچا دیا جو آرام اور خوشحالی کی جگہ تھی اور مصطفی پانی کے چشمے اس میں باری تھے.حدیث نبوی اور سفر ہجرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح ناصرتی کے سفر ہجرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا : لمان عيسى ابنُ مَرْيَمَ يَسْمَعُ فَإِذَا أَمْسى ال بقل الصَّحْرَاءِ وَيَشْرَبُ مَاءَ القَرَاحِ دکنز العمال جلد ۲ مت طبع اول) یعنی حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام ہمیشہ سیاحت کیا کرتے تھے اور جہاں شام پڑتی تھی جنگل کی سبزیاں کھاتے اور خالص پانی پیتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرمایا کہ اس سیاحت کا حکم انہیں الہام ربانی سے ملا تھا.چنانچہ حدیث ہے :

Page 20

وحى الله تعالى إلى عِيسَى أَنْ تُعِيْسَى انْتَقِلْ مِنْ مَكَانٍ إلى مكان لا تُعْرَنَ فَتُورى - ركن العمال جلد ) (ترجمہ) اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ اے عیسی ! ایک جگہ سے دوسری جگہ کی طرف نقل مکانی کرتا رہو تاکہ کوئی تجھے پہچان کر دکھ نہ دے.قدیم تاریخ میں سفر کشمیر کا ذکر " کشمیر کی ایک قدیم اور مستند علمی تاریخ جو قریباً چون تو برس قبل مرتب کی گئی اس کے صفحہ ۱۶۹ پر حضرت مسیح کے سفر کشمیر کا واضح الفاظ میں ذکر موجود ہے چنانچہ لکھا ہے کہ : دریں وقت حضرت یوز اسف از بیت المقدس بجانب وادی اقدس مرفوع شدہ دعوئے پیغمبری کرد.شب و روز عبادت باری تعالی کرد و در تقوی و پارسانی بدرجہ اعلی رسیده خود را برسالت ایل کشمیر مبعوث رگارید ) و بدعوت خلائق اشتغال نمود زیرا که کثیر مردمان خطر عقیدت مند آنحضرت بودند - راجہ گو پانند اعتراض ہند و آن پیش او کرد حکیم آنحضرت سلیمان که هند و آن نامش سندیکان داوند تکمیل گنبد مذکور کرد (سال پنجاه و چهار) و نیز بر نردبان نوشت کہ دریں وقت یوز آسف دعوی پیغمبری می کند و بر دیگر سنگ نردبان سم نوشت که ایشان یسوع پیغمبر بنی اسرائیل است و در کتاب بنده خان وی ام که آنحضرت بعینه حضرت عیسی روح الله على نبينا وعليا لصلوة والسلام بود نام گونه است هم گرفت والعلم عند الله عمر خود در پی به بر دالید

Page 21

و جویل می که شکرت گوشی مورد کوبی خاری ی سی است لوگ مرفوع شوه د کومیدی اری شان بوده در تقوی و باست این سوره اعلی رسیده او در ر کلی مردمان خطر بیشتر هیم بود هنگام روش است به گرفت در املا و ه حکومت نرمی کشکه شت Tarikh-i-Kashmir of Mulla Nadiri, f.69

Page 22

رحلت محله انز مره اسود و نیز می گویند که بر دفه التحضرت انوار نبوت جلوه گر می باشند ترجمه : حضرت یوز آسف بیت المقدس سے وادی اقدس کی جانب مرفوع ہوئے اور آپ نے پیغمبری کا دعوی کیا.شب و روز عبادت الہی میں مشغول تھے اور تقویٰ و پارسائی کے اعلی درجہ کو پہنچ کر خود کو اہل کشمیر کی رسالت کے لیے مبعوث قرار دیا اور دعوت علائق میں مشغول ہوئے چونکہ خطہ کشمیر کے اکثر لوگ آنحضرت (یوز آسف) کے عقیدت مند تھے راجہ گو پا نند نے ہندوؤں کا اعتراض اُن کے سامنے پیش کیا اور آنحضرت کے حکم سے سلیمان نے جسے ہندوؤں نے سند یان کا نام دیا تھا گنبد مذکورہ کی تکمیل کی رشتہ تھا ، اس نے گنبد کی سیڑھی پر لکھا کہ اس وقت یونہ آسف نے دعوئی پیغمبری کیا ہے اور دوسری سیڑھی کے پتھر پر لکھا کہ آپ بنی اسرائیل کے پیغمبر یسوع ہیں.میں نے ہندوؤں کی کتاب میں دیکھا ہے کہ آنحضرت دیوز آسف) بعینم حضرت عیسی روح اللہ علی نبینا وعلیہ الصلواۃ تھے اور آپ نے یوز آسف کا نام اختیار کیا ہوا تھا.والعلم عند اللہ آپ نے اپنی عمر اسی جگہ سر کی اور وفات کے بعد محلہ انزمرہ (سرینگر ) میں دفن ہوئے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آنحضرت کے روضہ ہے انوار نبوت جلوہ گر ہوتے ہیں.قلمی تاریخ کا اصل متن فارسی میں ہے جس کا مکس کشمیر کے مشہور ماہر آثار قدیمہ اور را یہ رچ سکالر جناب محمد یسین ایم.اے.ایل ایل بی.پی.ایچ.ڈی نے بعض محققین کے نزدیک یہ تاریخ حضرت ملا نادری رحمتہ اللہ علیہ کی تالیف ہے علیہ ہے.

Page 23

۲۳ نی کتاب ما مز آف کشمیر steries of Kashmir) مطبوعہ کے صد پر شائع کیا ہے.اس قدیم علمی تاریخ کے علاوہ بارھویں صدی ہجری کے ایک کشمیری بزرگ حضرت مولانا خواجہ محمداعظم شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے تاریخ کشمیر عظمیٰ کے صفحہ ۲۷ پر بھی اس تاریخی واقعہ اور قبر پر فیوض و برکات نبوت کے ظاہر ہونے کا تذکرہ فرمایا ہے.یہ کتاب پہلی بار ہجری مطابق ہی میں مطبع محمدی لاہور سے شائع ہوئی.قرآن مجید نے سید نا حضرت مسیح علیہ السلام کو وجيها في الدنيا و العمران اسلام کے لقب سے نوازا جس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ آپ کو اپنی زندگی کے آخری دور میں بہت درجات یعنی عزت اور مرتب در عم لوگوں کی نظر میں بزرگی حلال ہوئی اور خدا علی نے آپکو من مقصد سب نی سرائیل کی طر بجھا تھا وہ پورا ہوگیا چنانچہ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ اپنی ہجرت کے بعد آپ نے بنی اسرائیل کے جن قبیلوں میں نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم کے قبول کرنے کی وصیت فرمائی تھی وہ آخر کار سب کے سبب مسلمان ہو گئے ، لیکن اگر معاذ اللہ میسی نظریہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی صحیح مان لیا جائے کہ حضرت مسیح حادثہ صلیب کے بعد بنی اسرائیل کو چھوڑ کرکشمیر کی بجائے آسمان پر ہجرت کر گئے تھے اور آج تک وہیں جاگزین اور زندہ موجود ہیں تو قرآنی نظریات کی پوری عمارت متزلزل ہو جاتی ہے.اس پس منظر سے صاف عیاں ہے کہ وفات مسیح کے تصور کا اسلام کی زندگی کے ساتھ ہمیشہ ہی چولی دامن کا ساتھ رہا ہے حضرت خاتم الانبیاء کا جہا د عقیدۂ حیات مسیح کے خلاف یہی وجہ ہے کہ ہمارے آقا سید الانبیاء سید الاحياء ختم المرسلین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلمنے دو تیم قرآن اور مبط فرمان تھے، ہمیشہ ہی عیسائیت

Page 24

کے نظریہ حیات مسیح کے خلاف علم جہاد عید کئے رکھا.یہ حقیقت صد توئی کے مشہور والے وقد نجران سے خوب مل جاتی ہے.کہ معظمہ سے بین کی طرف سات منزل پر نجران کی عیسائی ریاست تھی جہاں ایک عظیم الشان گرجا تھا میں کو وہ کھیہ تحجران کہتے تھے اور حرم کعبہ کا جواب سمجھتے تھے.یہ کعبہ تین سوکھالیوں سے گفتید کی شکل میں بنایا گیاتھا.مغرب میں عیسائیوں کا گوتی مذہبی مرکز اس کا ہمسر نہ تھا ، اس ریاست کا انتظام تین شعبوں پر قسم تعلم خارجی اور جنگی امور کے ناظم کو سید کہتے تھے.دنیادی اور داخلی امور عاقب کے سپرد ہوتے اور دینی امور کا ذمہ دار اسقف (اللہ ڈیشپ کہلاتا تھا.ان مذہبی پیشواؤں کا تقریرہ خود قیصر روم کیا کرتا تھا.رحیم البلدان بیلد ه می آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دوسرے بادشاہوں کے ساتھ تبلیغی خط لکھا میں پریشہ ہجری میں تحجران کا ایک پرشکوہ مقصد مدینہ حاضر ہوا.یہ وقد ستانو امکان پرمشتمل تھا اور اس میں ریاست کے تینوں لیڈر بھی تھے.جن کے نام یہ ) ہیں عبد المسیح (عاقب) شرجیل یا اسیم دستید) اور ابو حادثہ میں مقیمہ (استققت یہ وقد شاہی تزک و احتشام کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا.آنحضور نے انہیں مسجد تیوتی میں اتارا.تھوڑی دیر بعد ان کی نماز کا وقت آیا تو پیغمبر اس صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے ان لوگوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنی مخصوص عیادت کی جس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وفد کو جو گویا عیسائی دنیا کا ایک نمائندہ وفد تھا، اسلام کی طرف بلایا اور انھوں نے جواب میں کہا کہ ہم تو پہلے ہی مسلمان ہیں آنحضرت ملا لا لای لای من را یا کہ تم کو ملا کا بیا مانتے الطیب پیتے اور خنزیر کھاتے ہو.یہی وجہ ہے کہ تمہیں اسلام لاتے ہیں.ناقل ہے، کہنے لگے اگر یوں بیچ ندا کا بیٹا نہیں تو اس کا باپ کون ہے یا آخرت میں

Page 25

صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انتُمْ تَعْلَمُونَ انه لا يكون ولد الا و شمه آیا ھے.میں تمہیں علم نہیں کہ ہر بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے انہوں نے عرض کیا.یقینا اس پر حضور نے پورے جلال کے ساتھ فرمایا : السم تَعْلَمُونَ إِنَّ رَبَّنَا حَى لَا يَصُوتُ وَإِن عيسى اتى عليه العناد اسلامي التربيل از حضرت ابو الحسن علي بن احمد الواحدي النيساليسي طیع سیم معری سنا مینی کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رتب تندہ ہے کبھی نہیں مرتا ، گھر حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یه ایمان افروز جواب معاذ اللہ کوئی مناظرانہ یا مجادلات نه داوای چی نہیں تھا بلکہ اس کی بنیاد قرآن مجید کے علاوہ محضور کے روحانی اور کشفی مشاہدات پر تھی اور آپ علی وجہ البصیرت یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح انتقال کر سکتے ہیں کیونکہ حضور علی الصلوة والسلام نے معراج کی رات آسمانوں میں گذشتہ تمام ایسی تند کی روحوں کے ساتھ حضرت مسیح ناصری علی السلام کی روح ہی ادائیں تھی کثیت قسیم نہیں دیکھا تھا اور گفت عرب میں بھی نیک بندوں کی اور یہ مسکر کو سماء (یعنی آسمان ) ہی کہتے ہیں.(اقرب الموارد ص ۵۲) من اور شیعہ بتاتی ہے : ما ينطق عن الهوى.إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى.( النعيم : آیت ۴-۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول بشری ہوا و ہوس کے چشمہ سے نہیں شکلات بلکہ آپ کا قول خدا کا قول ہے.

Page 26

I اس آیت کی رو سے ماننا پڑتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیران کے سامنے وفات پیشے کی بو بہ بہان قاطع پیش فرمائی وہ یقینا خدائی تقسیم سے تھی.معلوم ہوتا ہے کہ حضور اپنی امرت کو یہ تاکیدی سبق دینا چاہتے تھے کہ رہ ہمیشہ صلیب پرستوں کے خلاف اپنے فارغ کے لیے وفات مسیح کے فولادی مورچے پر ڈٹے رہیں ورنہ جس طرح سے ہجری میں کفار کا لشکر اُحد کی پھاڑی کا درہ تعالی پا کر دوبارہ پڑھائی کر کے آگیا تھا اور مسلمانوں کی فتح عارضی طور پر شکست سے تبدیل ہو گئی تھی.اسی طرح وفات مسیح کے مورچہ کو خالی پا کر عیسائیت کو بلغار کرنے کا موقع مل جائے گا اور مسلمانوں کی سطوت و شوکت خاک میں مل جائیگی.قرآنی وحی کا نزول ہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عیسائیت کے خلاف اس زندہ اور محکم دلیل کو حضرت احدیت کی بارگاہ میں ایسی غیر معمولی قبولیت عطا ہوئی کہ اس کے ساتھ ہی قرآنی وحی اترنی شروع ہوئی.اس موقع پر جو آیات نازل ہوئیں ان میں یہ آیت بھی تھی.إذْ قَالَ اللهُ يعيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا (آل عمران : آیت ٥٦ یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اپنے رب کا وہ فضل یاد کر کہ جو اس نے عیسی علیہ السلام پر کیا اور بشارت دی کہ میں تجھے طبعی وفات ڈونگا یعنی تو صلیب پر نہیں مارا جائے گا اور تجھے وفات کے بعد اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور جو الزامات تیرے پر لگائے جاتے ہیں ان سب سے تیرا پاک ہونا ثابت کر دونگا.

Page 27

۲۷ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ تیری وفات اور رفع الی اللہ کے بعد نبی آخر الزمان بھیجا جائے گا جس کے ذریعہ تیری ذات سے تمام اعتراضات دور ہو جائیں گے اور لوگوں پر ظاہر ہو جائے گا کہ آپ خدا کے پیچھے رسول اُس کے مُقرب اور آسمان روحانیت کے ایک بلند مقام پر فائز ہیں ، خدا کا یہ وعدہ ہمارے نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات سے پورا ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے بھی محسن ہیں جن کا دامن آپ نے میرا ایک الزام اور آلائش سے پاک کرکے دکھلا دیا.امت مسلمہ کو مسلسل یاد دہانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مدینہ کی مسجد نبوی میں ہی حضرت مہینے ناصری کی وفات کا اعلان نہیں فرمایا بلکہ اپنی زندگی میں امت مسلمہ کو اس کی طرف بار بار توجہ دلائی.اس حقیقت کے ثبوت میں یہ عاجہ بطور نمونہ تین احادیث کا ذکر کرنا چاہتا ہے :.پہلی حدیث تومان عينى حَيَّانَا وَسِعَةً إِلَّا الشامي.(شرح فقہ اکبر مصری ملا از حضرت امام علی القاری مطبوعه شاه مطابق شم یعنی اگر جنایت میلی زندہ ہوتے تو انہیں میری پیروی کے بغیر چارہ نہ ہوتا.اسی مفہوم کی ایک اور حدیث ہے جس میں موسیٰ اور عیسی دونوں کا ذکر ہے اس کانن یہ ہے : توانا رَسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا

Page 28

i اتباعنی الیواقیت والجواہر از حضرت امام شعرانی جلد ۲ صفحه ۱۷۴ و تفسیر ابن کثیر بر حاشیه فتح البیان جلد ۲ صفحه ۲۴۶ ) دوسری حدیث : سيدة النساء حضرت فاطمتہ از مرانه ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِينَ وَمِائَةً ؛ م لهم کنز العمال جلد 4 م ، تفسير جامع البيان" عطبری جلد ۳ ص ۱۳ ، حجم الكرامة ) ترجمہ : یقیناً حضرت عیسی ابن مریم ایک سو بیس برس زندہ رہے.یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک احسان عظیم کا تذکرہ ضروری ہے.کروڑ جہاں ہو تو کر دوں فدا محمد پر کہ اس کے لطف و عنایات کا شمار نہیں آنحضرت صلی الہ علیہ سلم کی بیان تکلم کا کمال یہ ہے کہ حضور نے جہاں یہودی ان سے کے مسیح کی وفات اور اُس کی ایک سنسو نہیں سالہ عمر کی خبر دی وہاں ایک محمدی میشیح کی بھاری خوشخبری بھی سنائی اور وضاحت فرمائی کہ اسرائیلی میخ کا رنگ سرخ اور بال ) گھنگریالے تھے مگر مسیح محمدی گندم گوں رنگ والا ہوگا اور اس کے بال سید - 11400 ہوں گے.(بخاری مصری جلد ۲ ص۱۶۵ پھر مستقبل میں آنے والے مشیح کے بارے میں یہ نہیں فرمایا کہ اما مگن میں انبياء بني اسرائيل بلکہ یہ فرما یا کہ : اِمَامُكُم مِنكُمْ " " نَاقَكُمْ مِنْكُمْ " د بخاری مصری جلد ۲ ص و مسلم جلد ام مصری )

Page 29

۲۹ تھی کہ : یعنی وہ تمھارا امام ہوگا اور تم میں پیدا ہو گا.بیا که خود حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے اپنے مثیل کی نسبت پیشنگوئی کی ابن آدم نئی پیدائش میں اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا.دمتی ) معزز حضرات !! حدیث کے لفظ " نُزُول" سے غلط فہمی نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ قرآن میں یہی لفظ اللہ تعالٰی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ( الطلاق : آیت (۱۰) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی موعود کے لیے استعمال فرمایا ہے (بحارالانوار جلد ۱۳ صفحه ۲۰ از علامہ مجلسی جس کے معنے یقینی طور پر پیدا ہونے کے ہیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث مبارک لا المهدی الا عیسی ابن مریم رابن ماجہ جلد و قلت ) میں امام مہدی کو مسیح ابن مریم کے نام سے موسوم کر کے یہ یا تو سر بستہ بالکل کھول دیا ہے کہ امام مہدی کو عیسی ابن مریم کے نام سے یاد کرنا دینی ہی تمثیل اور تشبیہ بلیغ ہے جیسا کہ حضور نے حضرت علی کو اپنی امت کا ذوالقر نین قرار دیا ہے.دالترغيب والترهيب ج ۳ صفحه ۳۱۸) تیسری حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری ایام کا واقعہ ہے کہ جب انسار نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری تشویشناک حد تک بڑھ گئی ہے تو انہوں نے نہایت بے قراری اور اضطراب سے مسجد نبوی کے اردگرد گھومنا شروع کیا.حضرت عباس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں انصارلک در دناک

Page 30

کیفیت عرض کی کہ وہ سخت مشویش ہیں.ازاں بعد یکے بعد دیگرے حضرت فضل بن عباس اور حضرت علی منہ ابن ابی طالب داخل ہوئے اور انہوں نے بھی انصار کی بے چینی کا تذکرہ کیا جس پر پنیر حا صل الله علیه ولم شیر خدا حضرت علی المرتضی اور جنت فضل کا سہارا لیے ہوئے حجرہ سے باہر تشریف لائے ، اس وقت حضرت عباش سامنے تھے.یہ بہت درد انگیز منظر تھا.سر مبارک پر دردوکرب کے باعث پٹی بندھی تھی اور قدم مبارک زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے.نقاہت کا یہ عالم تھا کہ حضورہ منبر کے پہلے زمینہ پری میٹھے گئے ، شمع محمدیت کے پروانے حضور کا چہرہ مبارک دیکھتے ہی دیوانگی اور وارفتگی کے ساتھ منبر نبوٹی کے گرد جمع ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر رونق افروز ہو کر دل ہلا دینے والا الوداعی خطبہ دیا اور خدا کی حمد دشت کے بعد فرمایا : ياتيهَا النَّاسُ عَنِي أَنَّكُمْ تَخَافُونَ مِن تَمَوْتِ بِكُمْ هل خَلَدَ نَبِيَّ قَبْلَى فِيمَن بُعِثَ إِلَيْهِ فَأَتَخَدَ هَلْ فِيكُمْ الا اني لاحِقٌ بِرَبِّي : المواهب اللدنية جلد ٢ دانية جلد ۲ ۳ تالیف ابو بکر خطیب قسطلانی و مکاشفه القلوب ۲۹ تالیف حضرت الشیخ غزالی مطبوعہ مصر ) ترجمہ : اے لوگو ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تم اپنے نبی کی موت سے خوفزدہ ہو گیا مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والا کوئی ایک نبی بھی ایسا گزرا ہے جو غیر طبعی عمر پاکر ہمیشہ زندہ رہا ہو کہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکوں گا؟ یاد رکھو کہ میں اپنے رب سے ملنے والا ہوں."

Page 31

۳۱ صحابہ رسول کا اجماع وفات مسیح پر اس الوداعی خطبہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا.اس قیامت نیز حادثہ سے پوری دنیا صحابہ کی نظر میں تاریک ہوگئی اور حضرت عمر بن خطایت جیسا جری، اولوالعزم اور صاحب جلال و تمکنت وجود اپنی تلوار بے نیام کر کے کھڑا ہوگیا تا ہر اس شخص کو قتل کر دے ہو اپنی زبان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی نسبت کوئی کلمہ نکالنے کی جرات کرے.حضرت عمری پر اس صدمہ کا اس درجہ اثر تھا کہ آنحضرت کی نعش مبارک اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے گھر کے جارہے تھے مَا مَاتَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ....وَلَا يَمُوتُ حَتَّى يَقْتُلَ الْمُنَافِقِينَ : ( قسطلانی شرح بخاری ) یعنی آنحضر صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے اور جب تک منافقوں کو قتل نہ سریں ہر گنتہ فوت نہیں ہوں گے.صحیح بخاری شریف میں حضرت ابن عباش کی روایت ہے کہ اس مرحلہ پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا کہ عمرا بیٹھ جاؤ.مگرانہوں نے بیٹھنے سے انکار کر دیا.تب لوگ حضرت ابو کرینہ کی طرف متوجہ ہوئے اور حضرت عمرہ کو تنہا چھوڑ دیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اما بعد مَن كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدُ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمات - وَمَن كَانَ مِنكُمْ يَعْبُدُ اللَّهُ فَإِنَّ - اللهَ حَيٌّ لا يَموتُ قَالَ اللهُ وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَنَا بِنْ تَمَاتَ أَو تُتلَ انْقَلَبُ تُم على اعتقا بكده وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُر اعْقَابِكُمْ

Page 32

الله شياء وسيجرى الله الشاكرين : احمدی مصرى جد ) ترجمه، بعد حد و صلوة واضع ہو کہ جو شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علہ وسلم نگی پرستش کر تا تھا اس کومعلوم ہو کہ مسند الی اللہ علیوسلم فوت ہوگئے اور یہ شخص تم میں سے خدا کی پرستش کرتا تھا تو خدانندہ ہے ، لکھی تھیں مرے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت دید دلیل یہ ہے کہ تعدا نے ریلیا ہے کہ مستقصد صرف ایک معمول ہے اور اُس سے پہلے تمام رسول اس دنیا سے گذر چکے ہیں بھی مر چکے ہیں.اب کیا تم اس رسمول مجھے مرتے یا مل ہو جاتے کی وجہ سے دین اسلام چھوڑ دو گے؟ او ہر شخص اپنی ایڑ لیں کے بیل لوٹ جائے وہ اللہ کا مرکز کچھ نقصان نہیں کر سکتا اور اللہ شکر گذاروں کو ضرور بدل دیگا.المور حضرت ابن عیاش فرماتے ہیں کہ بخدا اگر الگ اس سے لیے تیر تھے کہ یہ آیت بھی تعدا نے نانسان کی ہے، اور حضرت ابو بکرے کے پڑھنے سے اُن کو پتہ لگا.میں اس آیت کو تمام ممالیہ نے حضرت ابو بکر سے سیکھ لیا، حضرت مرتے بھی فرمایا کہ ادا کی قسم میں تے یہ آیت حضرت الید گریہ سے ہی شقی اور میں اس کے گننے سے ایسا ہیے جو اس اور تھی ہو گیا ہوں کہ میرے پیر مجھے اُٹھا نہیں سکتے اور میں زمین پر گرا جاتا ہوں، پھر فرمایا کہ آخرت صلی الہ علیہ وسلم واقعی فوت ہو گئے.(بخاری شریت عدم ما معبود مصری) سبحان الله با خدا کا یہ کتنا زبر دست تصرف ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے معاً بکھر سب سے پہلا اجتماع حضرت علی علیہ السلام سمیت گذشته تمام نبیوں کی وفات پر ہی ہوا.اس اجماع نے گرتی ہوئی اسلامی عمارت کو پھیر سے تھام لیا اور ثابت کر دیا کہ اسلام کی زندگی بھی مجھ سیح کی وفات کے ساتھ وابستہ ہے.یہ ایسی تہی دست صداقت ہے کہ اس نے بعض مستشرقی یورپ سے دال و

Page 33

۳۳ (Silvestre de Sacy) داری کو لا کر رکھدیا ہے.چنانچہ ایان فرانسیسی مفکر سونی وی یکی نے تو یہ مغالطہ دینے کی ناکام کوشش کی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی نے وَمَا مُحَمَّدُ إِلا رَسُولُ کی جو آیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور سے قبل کے تمام نبیوں کی وفات کے ثبوت میں پیش فرمائی دو قرآن میں در اصل موجود ہی نہیں تھی اور ملین اس موقع پر محض صحابہ کی ڈھارس بندھانے کے لیے وضع کرلی گئی تھی.(Bell's introduction to the Quran by W.Montgomery Wall, page 51) معزز حاضرین اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام اور قرآن کے دشمن اس عظیم الشان اجماع کی عظمت کو کم کرنے کے لیے کیا گیا حربے استعمال کرتے ہیں لیکن نویہ خُدا ہے گھر کی حرکت پر خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا اس اجماع کو تاریخ اسلام میں ہمیشہ بہت بڑی اہمیت حاصل رہے گی کیونکہ یہ اجتماع خلافت کے اجماع سے محبت بڑھ کر تھا اور بلا توقف اور بلا تردر واقع ہوا کسی ایک صحابی نے بھی مخالفت نہیں کی کسی نے کم نہیں مارا ، اور ایک آواز بھی اسکے خلاف نہیں اُٹھی اور شرعی حجت بھی صرف اجماع صحابہ ہی ہے.پھر یہی وہ اجماع ہے جس سے متاثر ہو کہ دربار نبوی کے شاعر حضرت حسان بن ثابت نے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم کی شان میں مرثیہ کہا : كُنتَ السَّوادَ لِنَا ظِرِي : نَعَمِ عَلَيْكَ النَّاظِرُ من شاء بعدك تلمتُ : فَعَلَيْكَ كُنتُ أعاذر 140 ا شرح دیوان حسان بن ثابت الانصاري من مطبعة الرحمانية مصر اه اه ) اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!! تو میری آنکھوں کی پتلی تھا.میں تو تیرے مرنے سے

Page 34

۳۴ اندھا ہو گیا.اب تیرے بعد جو شخص چاہے مرے.اعلی ہو یا موسی ) مجھے تو تیرے ہی مرنے کا خوف تھا اور در حقیقت صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے اور اُن کو کسی طرح یہ بات گوارا نہ تھی کہ حضرت عیسی زندہ ہوں اور آپ فوت ہو جائیں.پس اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت ان کو یہ معلوم ہوتا کہ حضرت عیسی آسمان پر مع جسم عنصری زندہ بیٹھے ہیںاور ان کا برگزیدہ نبی فوت ہو گیا توہمارے غم کے مرجاتے کیونکہ ان کو ہرگز اس بات کی برداشت ز تھی کہ کوئی اور نبی زندہ ہو اور ان کا پیارا نبی قبر میں داخل ہو جائے.اللهم صل على محمد وآله و اصحابه اجمعين غیرت کی جا ہے، عیسی زندہ ہو آسماں پر" مدفون ہو زمین میں شاہ جہاں ہمارا اجماع صحابہ کی بازگشت بحرین میں مدینہ کے اس تاریخی اجماع کی بازگشت عہد صدیقی کے آغاز میں بحرین میں بھی سنائی دی جبکہ قبیلہ عبد القیس کے بہت سے لوگ جو اسلام لانے سے پہلے نصرانی تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کی خبر سن کر مرتد ہو گئے جس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت محبوب اور جلیل القدر صحابی حضرت جارو د بن عمرو بن معلی ارتداد کی اس خوفناک رو کا مقابلہ کرنے کے لیے تن تنہا اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے قبیلہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و مبعوث فرمایا اور حضور کے وصال کی بھی خبر دی چنانچہ فرمایا : إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ منتونه رزمر : ۳۱) اور فرمایا : وَمَا مُحَمَّد إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قبله الرسل (آل عمران : ۳۵) پھر انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ تم مضرت روٹی

Page 35

۳۵ کی نسبت کیا گواہی دیتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں.پھر دریافت کیا حضرت عیسی کی بابت تمہاری گواہی کیا ہے ؟ جواب ملا ہم شہادت دیتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ہیں.اس پر حضرت جائر و دبن معلی نے قوت و شوکت بھرے الفاظ میں اعلان کیا: وانا اشهد DNA KALANGUAGE الله وان محمدا عبده رَسُولُهُ - عَاشَ كَمَا عَاشُوا وَ مَاتَ حَما مَا توا ا مختصر سيرة الرسول ص از مجدد صدی دوازدهم حضرت محمد دین محمد عبد الوهاب المتوفی ۳ ہجری) کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم اس کے بندے اور رسولی ہیں.آنحضرت ویسے ہی زندہ رہے جیسے حضرت موسیٰ اور حضرت میٹی زندہ رہے اور اسی طرح انتقال کر گئے جس طرح حضرت موسی : حضرت عیبی نے وفات پائی.اور یہ سنتے ہی عبدالقیس کا پورا قبیلہ عیسائیت کو چھوڑ کر دوبارہ مسلمان ہو گیا ہو وفات مسیح کے انقلاب آفریں اور زندگی بخش نظریہ کا ہی اعجانہ تھا.اجماع صحابیہ کی ایک جھلک کوفہ میں اس اجماع صحابہ کی ایک جھلک اہل کوفہ نے بھی سنہ ہجری میں دیکھی جبکہ نوا شد سوالی و جگر گوشہ بتول نه سید نا حضرت امام حسن علیہ السلام نے امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : بَقَدْ قُبِضَ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي عُرِجَ فِيهَا بِرُوحِ عيسَى ابْنِ مَرْيَمَ لَيْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ " (طبقات ابن سعد جلد ۳ ۲۶۰ مطبوعہ کیدن )

Page 36

یعنی امیر المومنین حضرت علی اس رات فوت ہوئے جس رات حضرت میسی ابن مریم کی روح اٹھائی گئی تھی یعنی ستائیس رمضان کی رات " اکابر امت اور عقیدہ وفات مسیح صحابہ کے بعد بہت سے اکابر امت مثلاً حضرت امام مالک بن انس د ستونی شدید) حضرت امام بتخارجی دستوئی نشده، حضرت محمد بن عبد الوہاب جبائی (متوفی ته) اور حضرت ابن جریر طبری رمتونی نه ) حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی موت کے قائل تھے.حضرت ابن جریر نے تو اپنی تاریخ میں قبر مسیح کے کنبہ کے یہ الفاظ بھی درج فرمائیے : هذَا تَبُرُ رَسُولِ اللهِ عِيسَى الغرض پہلی تین اسلامی صدیوں میں صحی یہ نئے کی اجماعی عقیدہ کی گونج پورے عالیم اسلام میں سنائی دیتی رہی.عیسائیوں کی سازش افسوس ! خیر القرون کے بعد وہ عیسائی طاقتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں سُرنگ لگانے اور حضور کی نعش مبارک کی بے حرمتی کرنے میں ناکام ما قال مالك مات عيسى راكمال الاكمال شرح مسلم ۱۶ ص۲۲۵ ست بخاری البواب التفسير ج ۳ ص (تفسير سورة النساء والمائده) س تغیر مجمع البیان زیر آسمیت فلما توفيتني مطبوعه ایران نشده مجری تاریخ الرسل و المدارک جلد ۲ ص ۷۳

Page 37

ہوگئی تھیں بالآخر ملت اسلامیہ میں نقب لگا کر اسرائیلیات کے انبار داخل کرنے اور عقیدہ حیات مسیح کا فتجبر پیوست کرنے میں کامیاب ہوگئیں اور اسے اسلام کے خلاف ایک تیز ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگیں.اس سلسلے میں چوتھی صدی ہجری کے ایک بد زبان مسیحی شاعر کے چند اشعار ملاحظہ ہوں : سأَفْتَهُ أَرْضَ الشَّرْقِ طُرًّا وَ مَغْرِبا وَأَنْشُرُدِينَ الصَّلْبِ نَشَرَ الْمَعَالِم سلام نَعِيْنِى عَلَا فَوْقَ السَّمَوَاتِ عَرْشُهُ فَقَاذَا الَّذِي وَالاهُ يَومَ التَّقَاصُم صَاحِبْتُمْ فِي القُرْبِ أَوْرَى بِهِ الثَّرَى شدار وق و تدق الرها تبي (STUDIA ARABICA I, 1937, page 50 & MEDIEVAL ISLAM by Gustave E.Von Grunebaum page 18) ترجمہ : میں مشرق و مغرب کے تمام ممالک کو فتح کروں گا اور نمیبی مذہب کو اس طرح پھیلا ؤں گا جس طرح نشان راہ پھیلائے جاتے ہیں.حضرت علی کی شان تو یہ ہے کہ آپ کا عرش تمام آسمانوں سے بھی بلند تر ہے.پیس کا میاب وہی ہے جس کو مقابلہ کے وقت حضرت →- سیسی کی مدد حاصل ہے.گر جسے تم اپنا پیغیر مانتے ہو وہ (نعوذ باللہ ) خاک میں پڑا ہے اور مٹی نے اُسے تم کر دیا ہے اور (معاذ الند) بوسیدہ ہڈیوں کے درمیان ریزہ ریزہ ہو چکا ہے.

Page 38

٣٨ بزرگان سلف کی طرف سے سازش کا انکشاف مین اس وقت جبکہ اسلام اور عیسائیت کی تبلیغی جنگ زور پکڑ رہی تھی مسلم اسلام حضرت علامہ ابن قیم گر ۲۹۱ - ۷۵۱ھ) نے مسلمانوں کو اس سازش سے آگاہ ابن گد کیا کہ صعود شیخ کا عقیدہ جس کی آڑ میں عیسائی حملہ آور ہو گئے ہیں خالص سیحی عقیدہ ہے میں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.چنانچہ انہوں نے زاد المعاد (جلد اصثہ ) میں لکھا : اما ما يد كَرُعَنِ المَسيحَ أَنَّهُ رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ وَلَهُ ثَلَاثَةٌ وَ لا تُون سَنَةٌ نَهُذَا لَا يُعْرَفُ لَهُ أَثَرُ صل (ترجمه) به جو ذکر کیا جاتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ اسلام تینتیس سال کی عمر میں آسمان پر اٹھائے گئے اس کا ثبوت کسی مر نوع مستقبل حدیث سے نہیں ملتا.شهره آفاق حنفی عالم و فقیہ حضرت علامہ ابن عابدین الشامی متوفی ۲۵ ہجری اجن کی ردالمختار فتاوی عالمگیری کی طرح بہت شہرت رکھتی ہے ) فرماتے ہیں : وَهُوَ كَمَا قَالَ فَإِنَّ ذَلِكَ إِنَّمَا يُرْوَى عَنِ النَّصَارَى : تفسير فتح البيان جلد و نه از نواب صدیق حسن خال متوفی ۱۳۰۷ ه ر سر ۱۸۸۹ء) یعنی حضرت امام ابن قیم کا نظریہ درست ہے.واقعی یہ عقیدہ مسلمانوں میں عیسائیوں سے ہی آیا ہے.همه عید هائیان را از مقابل خود مرد دادند دلیری با پدید آمد پرستاران میت را

Page 39

۳۹ مسیحی عقیدہ کے فروغ کا سبب در اصل اس مسیحی عقیدہ کے نہایت تیزی سے پھیلنے کا بنیادی سبب یہ تھا کہ نزول مسیح کی پیشگوئی کا مصداق یہودی اُمت کے نبی سید نا حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو سمجھ یا گیا میں کی بنیاد العام ربانی کی بجائے محض اجتہاد ذاتی پڑھتی.جنگوئیاں ہمیشہ استعارات و مجاز اسے لبریز ہوتی ہیں.نہ قبل از وقت اُن کی پوری حقیقت نمایاں ہو سکتی ہے نہ اُن پر اجماع ہی ممکن ہے اور یہ پیشگوئی تو خاص طور پر متشابھات کی قبیل سے تھی.جیسا کہ قریباً ساڑھے چھ سو سال قبل حضرت علی بن محمد بغدادی الصوفی رستوئی ۷۲۱ھ) نے اپنی تفسیر خازن (جلد) منٹ میں بتایا تھا.البتہ حضرت محی الدین ابن عربی رمتونی ) اور بعض دوسرے صوفیاء نے حدیث لا المهدى الا عيسى ابن مريم اور اپنی کشفی و الہامی بصیرت کی روشنی میں یہ مسلک اختیار فرمایا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا آخری زمانے میں نزول دوسرے بدن میں ہوگا اور ان کی روح یعنی روحانیت مہدی موعود میں بروز کرے گی اور نزول سے فقط میں مراد ہے تفسیر محی الدین ابن عربی ص اقتباس الانوار مده ، از حضرت اکرام صابری خلیفہ حضرت شیخ سوندھا بتونی شاه آٹھویں صدی ہجری کے محقق و مورخ علامہ حضرت ابو الفداء حافظ ابن کثیر (متوفی سیم) کے علمی کمال کی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے اپنی کتاب البداية والنهاية عبده ام مِن المَسِيحُ الْمَهْدِى عَلَيْهِ السَّلام کی حقیقت افروز اصطلاح استعمال فرمائی.با سیلید یہ افسانہ کا اسلام میں نفوذ اور علماء ربانی کی تنقید معزز حضرات با عیسائیوں کے فرقہ باسیلید یہ کے اس خود ساختہ قتہ کا ذکر به نیکا

Page 40

۴۰ ہے کہ شبیہ صیح کسی اور شخص پر ڈال دی گئی مسلمانوں میں جب حیات مسیح کے خیالات داخل ہوئے تو یہ قصہ بھی لکن شبه لهم" کی تفسیر کے نام پر رائج کر دیا گیا.حالانکہ قرآن وحدیث میں اس افسانے کا نام ونشان تک نہیں پایا جاتا.اس آیت کا مطلب تو یہ تھا کہ صلیبی موت جو روحانی رفع کے مانع ہے حضرت شیخ پر ہرگز وار دنہیں ہوئی لیکن خدا نے اُن کو شبہ میں ڈال دیا کہ گویا جان سے مار دیا ہے ،حضرت مسیح اپنے مقصد بعثت میں کامیاب و کامران اور منظفر و منصور ہو کر اپنے مولائے حقیقی کے حضور پہنچ گئے اور آپ کا رفع روحانی ہوا.یہ وہی کہ فع ہے جو ہر ایک مومن کے لیے وعدہ الہی کے مطابق ہونا ضروری ہے، اگر کافر کے لیے حکم ہے لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ ابْوَابُ السَّمَاءِ (الاعراف : آیتہ ( یعنی کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے یعنی ان کا رفع نہیں ہو گا ، ہاں مومنوں کے لیے دمایا : يرفع الله الذِينَ آمَنُوا مَنَا وَالَّذِينَ أوتُوا لَعِلْمَ دَرَتِ (سورة المجادلة : آيت.ترجمہ : اللہ تم میں سے ایمان لانے والوں کا درجات میں رفع کرتا ہے.ان حقائق کے با وجود فرقہ باسیید یہ کی سراسر جھوٹی کہانی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی تُم يَفْشُو الكذب " کے مطابق نیج اعوج کے زمانہ میں پھیلائی گئی مسلمانوں کی صفوں میں بہت سے دلچسپ اور عجیب و غریب تضادات کے مبالغہ ایر انوں کی مشہور ہوگئی جسر با خوی دی بجری کے تکلم حضر ابن حرم متونی ۲۵۰ در ساتویں دی جبری کے ہسپانوی مفت مقصر بو حیان نے اس مفروضہ داستان پر زبردست تنقید کی اور لکھا کہ اس سے کل حقائق بلکہ سب نبوتیں باطل ہو جاتی ہیں اور سفسطہ (یعنی بے دینی) کا باب کھل جاتا ہے.نیز واضح کیا کہ حدیث نبوی سے اس قصے کا کوئی سراغ نہیں ملتا اس کا سرچشمہ اہل کتاب کی روایات ہیں.رالفصل في المن والاهوال والنخل جلداث ونت المجر المحيط جلد ۳ مت ۳۹

Page 41

حیات مسیح کے مسیحی نظریہ پر ضرب کاری لگانے کے لیے اُس دور کے بعض عظیم اقتربیت بزرگوں مثلاً حضرت داتا گنج بخش رمتوفی ۴۷۵ھ) اور مجدد است حضرت علامہ جلال الدین سیوئی (متوفی 911ھ) کی تحریرات میں ایک لطیف اشارہ ملتا ہے اور وہ یہ کہ وہ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں شاہ لولاک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور دوسرے نبیوں کی روحوں سے ملاقات کی تھی نہ کہ خاکی حیم سے.(کشف المجوب بیان فی کلام الروح" خصائص الکبری لیولی بعدا ما مگر بعض بزرگوں نے چین میں حضرت ابن حزر مردم توی شه) شد کی شخصیت نمایاں ہے زور شور سے وفات مسیح کے حق میں آواز بلند کی.چنانچہ انہوں نے المحلى جلد اصل میں لکھا: ص " إِنَّ عِيسَى عَلَيْهِ السَّلام لَمْ يُقْتَلُ وَكَ يُصْلَبُ وَلكِن توفاه اللهُ عَزَّ وَجَلَّ تُم رَفَعَهُ إِلَيْهِ.یعنی حضرت علی علیہ السلام نہ قتل کئے گئے نہ ملیب پر مارے گئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کو پہلے وفات دی پھر اپنی طرف اُٹھالیا.نظریہ حیات مسیح کے ہولناک نتائج تیرھویں صدی ہجری میں ان سب مشاق مصطفے کایہ عظیم کا رنامہ آب زر سے لکھا جانا چاہیئے کہ انھوں نے وفات مسیح کے اُس مورچے کو نہیں چھوڑا جس پر ڈٹے رہنے کا حکم حضرت حساتم الانبیاء محمد مصطفے اصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک سنت کے ذریعہ نجران کے بعد بانی تھے سے گفتگو کے دوران دیا تھا ، لیکن آہ ! جس طرح درۂ احد کی حفاظت ہے.صحابہ کی جہاں فروشی کے باوجود دشمنان اسلام حملہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ، اسی طرح تیرھویں صدی ہجری میں عیسائیت کا شکر وفات مسیح کے محاذ کو خالی پاکر سیاہ بادلوں کی صورت میں اُٹھا اور قیامت خیز طوفان بن کر دنیا پر چھا گیا عالمی سطح پر ایک نئی

Page 42

(CARL GOTTLIEB PHANDER) صلیبی جنگ شروع ہوگئی اور کارل گوتلیب فینڈر ) جیسے نو نخوار پادری نے اور یے میں مسلمانوں پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑے کہ آپ کو خداوند یسوع مسیح کلمتہ اللہ اور (حضرت محمد بن عبداللہ میں سے ایک کو پسند کرنا ہے، دیگر تمام انبیاء وفات پاگئے، لیکن قرآن بتا تا ہے کہ خداوند یسوع مسیح زندہ ہی آسمان پر اٹھالیا گیا اور مسلمان مسیحیوں کے ساتھ متفق ہو کر اس حقیقت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پر زندہ ہے.قریش نے رحضرت محمدؐ سے آسمان پر چڑھ جانے کا معجزہ طلب کیا تھا اس کے جواب میں (حضرت محمد کو یہ کہنے کا حکم ملا کہ آپ محض انسان تھے اس لیے اُن کا طلب کردہ معجزہ نہیں دکھا سکتے تھے.اس پیسے ثابت ہوا کہ انہوں نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تھا.پادری فینڈر نے یہ بھی لکھا ہے کہ قبر اور موت اب تک (حضرت محمد پر قابض ہیں.مدینہ میں ان قبروں کے درمیان میں (حضرت محمد والو تکبر مدفون میں ایک قبر خالی ہے جس کو مسلمان ہمارے خداوند یسوع مسیح ابن مریم کی قبر کہتے ہیں.اس تقریں کوئی دن نہیں کیا گیا اور اس کا خالی ہونا حاجیوں کو یاد دلاتا رہتا ہے کہ مسیح زندہ ہے اور (حضرت محمد مردہ ہیں بتاؤ دونوں میں سے کون آپ کی مدد کرنے کی زیادہ قابلیت رکھتا ہے.آپ مانتے ہیں کہ خداوند مسیح پھر آئیگا اور آپ اُس کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں.بیسوع مسیح خداوند ہے.کسی نہ کسی روزہ آپ کو ضرور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہوں گے.ابھی سے کیوں نہیں.) ملخص از ترجمه ار دو میزان الحق مولفه پادری فینڈر شاه) ی رسوائے عالم کتاب ارمینی ترکی، تاتاری، فارسی اور اگر دو بانوں میں چھپی اور ممالک اسلامیہ میں بڑی کثرت سے تقسیم کی گئی.ایک اور پادری غلام سیخ پاسٹر انبار شہر جریج نے اپنی کتاب مذہب اسلام میں نہایت بے باکی سے عقیدہ حیات مسیح کی بنا پر یہ دعویٰ کیا کہ در اصل خداوند یسوع

Page 43

۴۳ میسج ہی ختم المرسلین ہے.محمد صا حب تو نبی ہی نہیں ختم المرسلین کیسے ہو سکتے ہیں ؟ مذہب اسلام حصہ دوم منٹ تاحث مطبوعہ امریکن مشن پریس لدھیانہ) نیز پادری آرد روس نے مسیح یا محمد (Christ or Mohammad) نامی رسالہ میں یہ اشتعال انگیز پراپیگنڈہ کیا کہ : یسوع مسیح سب سے بر تیرہ اور خاتم المرسلین ہے اور اسی کے وسیلہ سے نجات ہو سکتی ہے " رصت مطبوعہ نشانہ ناشر کو سچن لٹریچر سوسائٹی لدھیانہ ) اس آدھا کے ثبوت میں پادری مذکور نے جو کچھ لکھا اس کو پڑھکر ایک سچے عاشق رسول کا دل شق اور جگہ پارہ پارہ ہو جاتا ہے.اس بد بخت نے اپنے خبث باطن کا اظہار جن دلخراش الفاظ میں کیا وہ یہ تھے :.(نعوذ بالله محمد صاحب مر گئے........اور دوسرے لوگوں کی طرح اس کا جسم بھی لڑ گیا اور خاک اُسے کھا گئی لیکن میسج - ہرگز نہیں موا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے زندہ آسمان پر اٹھا لیا.دیکھئے محمد صاب تو مر گئے اور ان کے جسم کو خاک کھ گئی رنعوذ باللہ) ہم ان دونوں میں سے بڑا نبی کس کو کہیں گے ؟ اور تمام بنی آدم کا نجات دہندہ کون ہو سکتا ہے ؟ کیا وہ جو مر گیا یا وہ کہ جس نے موت کا مزا نہیں چکھا اور ہمیشہ زندہ ہے ؟" رایضاً ص صلیب کے علمبرداروں کے شرمناک ہتھکنڈے حضرت آدم سے لیکر آج تک لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے متفرق طور پر جو کرد فریب گئے گئے ہیں ان میں سے کوئی دقیقہ دجل کا ایسا نہیں رہ گیا جو گر جا سے ظاہر ہو نیواں

Page 44

اس گروہ نے مسلمانوں کی را بزنی کے لیے استعمال نہیں کیا.ہزار ہا واعظ اور منا دنیا بھر میں چھوڑ دیئے گئے اور تمام مقدسوں کے فخر تمام مقربوں کے سرتاج اور تمام بزرگ رسولوں کے سردار حضرت خد مصطفے صلی الہ علیہ جسم ما ر میں سختی اور اسلام کی تکذیب کے لیے صرف اکیس سال میں سات کروڑ سے کچھ نہ یہ کتابیں مفت تقسیم کی گئیں جن کو ایک جگہ ڈھیر کیا جائے تو اُس کی مہندی ایک ہزار فٹ سے بھی جو بنائے اور اس کی ضخامت کئی پہاڑوں کے برابر ہو جائے.ان کتابوں میں مندا کے پاک رسوں خُدا کے پاک دین کی وہ تو مین کی گئی ہو ابتدائے دنیا سے لیکر آج تک کسی بر گزیدہ کی نہیں کی گئی.ان ساحرانہ کارروائیوں سے متاثر ہو کر لاکھوں مسلمان مرتد ہو گئے اور وہی جو ہمارے ستید و مولی احضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بغیر درود پڑھنے کے نہیں لیتے تھے.ارتداد کا جامہ پہننے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی گالیاں دینے لگے شاہی نمائندنوں کے افراد اور بڑے بڑے ولیوں بزرگوں در سادات کی اولادیں حتی کہ کئی نامی گرامی ما، بقیہ مگر عیسائیت کا جال پھیلانے لگے.آگرہ کی شاہی مسجد کے امام مولوی عماد الدین مهتاب نے جو عیسائی ہوکر ریورنڈ مولوی عماد الدین کہلائے اپنے رسالہ شخط شکاگو مطبوعہ سہ میں کئی ایسے علماء کی فہرست دی جو صلیبی فتنہ کا شکار ہو گئے.یہ فرسٹ لندن کے اخبار انٹیلیجنسر میں شائع کی گئی جس پر عیسائی دنیا کا جشن مسرت منا نا قدرتی امر تھا.مکہ و مدینہ پریسی جھنڈا لہرانے کے خواب عیسائیت کی اس جارحانہ پیشقدمی اور پے در پے فتوحات سے صلیب پرستوں کے حوصلے بڑھ گئے اور انہیں یقین ہو گیا کہ وہ جلد ہی صفحہ ہستی سے اسلام کا نام ونشان تک ا یہاں ر ا د صرف انیسویں صدی کے وہ بد زبان پادری ہیں جو ہمارے آقا رسول تمد اصل اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے تھے اس دور کے مسیحیوں کا شریف طبقہ ہرگز اس کا مخاطب نہیں.

Page 45

۴۵ مٹا دیں گے اور دنیا میں کوئی مسلمان دیکھنے کو بھی نہیں لے گا چنانچہ امریکی کے شہرہ بہ داری جان ہنری بیروز نے انیسوی صدی کے نصف آخر میں ہندوستان کا طوفانی دورہ کیا.مختلف شہروں میں تقریریں کیں، اس سلسلے میں ایک لیکچر ٹیسائیت کے عالمی اثرات کے زیر عنوان دیا جس میں کہا کہ I might sketch movement in mussulman lands, which With the radiance of the Cross the has touched.Lebanon and the Persian mountains, as well as the waters of the Basphorus, and which is the sure har- binger of the day when Cairo and Damascus and Teheran shall be the servant of Jesus and when even the solitudes of Arabia shall be pierced, and Christ, in the person of His disciples, shall enter the Kaaba of Mecca and the whole truth shall at last be there spoken."This is eternal life that they might know Thee, the only true God, and Jesus Christ whom thou hast sent." (Barrows Lectures 1896-97, Christianity, The World Wide Religion, by John Henry Barrows, page 42).(ترجمہ اب میں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں.اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی ضوفشانی اگر ایک طرف لبنان پر ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے منور ہے.یہ صورت حال اس آئندہ انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ، دمشق اور طہران خداوند یسوع مسیح کے مقام سے معمور نظر آئیں گے، حتی کہ صلیب کی چک صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ لگہ اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگی اور بالآخر وہاں اس حق و صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی

Page 46

۴۶ یہ ہے کہ دو تجھے خدائے واحد برحق کو اور شیوع مسیح کو جانیں جسے تو نے بھیجا ہے." جان ہنری بیروز نے اپنے ایک اور کھیر میں گیا : "But all the progress which the nineteenth century has achieved, appears to many christians but a faint prophecy of the Christian victories which await the twentieth." (Borrows Lectures, page 23).وہ تمام ترقی جو انیسویں صدی میں عیسائیت کو نصیب ہوئی ہے وہ بہت سے عیسائیوں کے نزدیک ان فتوحات کی محض ایک تخفیف سی جھلک ہے جو عیسائیت کو بیسیویں صدی میں ملنے والی ہیں ؟ ایک اور عیسائی پادری فرینک بلیڈ (FRANK BALLED) انے اپنی کتاب وائی ناٹ اسلام" با ? (? WHY NOT ISLAM) میں میاں تک لکھا : "Whilst all efforts at reforming it (Islam) seem to amount to the paradox that the only way in which it may hope to save its life is by committing suicide." (Why Not Islam by Frank Balled).اترجمہ اسلام کے احیاء کی تمام تر لا حاصل کوششیں بالآخر اس چیده تضاد پر منتج ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ وہ واحد طریق جس کی مد سے یہ اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکتا ہے بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ یہ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلے" مدینہ النبی کی آواز قادیان سے یہ عیسائی منداد جواور رپ اور امریکہ کی زبر دست مسیحی حکومتوں کے ایجنٹ اور انٹر کار

Page 47

۴۷ تھے نعوذ باللہ مکہ اور مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے خواب دیکھ ہی رہے تھے که سید الانبیاء سید الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ زندہ نشان ظاہر ہوا کہ آپ کی وہ پیاری آواز ہو ان عني اتى عَلَيْهِ الْفَناءِ کے الفاظ میں تیرہ سو سال پہلے مدینہ کی مسجد نبوی میں سنائی دی تھی ایک بار پھر لوری قوت اور شوکت کے ساتھ قادیان کی مسجد مبارک سے بلند ہونے گئی.بلاوا حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور زبان حضور کے فرزند جلیل اور عاشق صادق حضرت مسیح موعود مدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تھی.آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قویت قد ستیہ کے فیض سے مکالمہ و مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو کہ یہ اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح ابن مر تیم فوت ہو چکے ہیں ، اور زندہ نبی تمام سلسلہ انبیاء میں سے صرف اور صرف حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں چنا نچہ فرمایا : ار اسے تمام وہ لوگو جو زمین پر رہتے ہو! اور اسے تمام وہ انسانی رد ہو جو مشرق و مغرب میں آباد ہو ! ! میں پورے زور کے ساتھ آپ کو اس طرف دعوت کرتا ہوں کہ اب زمین پر سچا مذہب صرف اسلام ہے اور سچا خدا بھی وہی خدا ہے جو قرآن نے بیان کیا ہے اور ہمیشہ کی روحانی زندگی والا نبی اور حلال اور تقدس کے تخت پر بیٹھنے والا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے " تریاق القلوب مث ) ہمارا پیارا برگزیدہ نبی فوت نہیں ہوا بلکہ وہ بلند تر آسمان پر اپنے ملیک مقتدر کے دائیں طرف بزرگی اور جلال کے تخت پر بیٹھا ہے.الهُمَّ صَلَّ عَلَيْهِ وَبَارِكْ ہے.

Page 48

وسلم - إِنَّ اللَّهَ وَمَنْشِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( نزیاق القلوب مت ) حضرت مهدی موعود کی پر شوکت دعوت فیصلہ اس دعوئی کے عملی ثبوت کے طور پر آپ نے دنیا بھر کے عیسائی پادریوں اور دوسرے تمام دشمنان اسلام کو میدان مقابلہ میں لگانا اور انہیں یہ فیصلہ کن اور پرشوکت دعوت دی کہ : میں دیکھتا ہوں کہ اسلام کے ماننے سے نور کے پیشے میرے اندر بہہ رہے ہیں اور محض محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے وہ اعلیٰ مرتبہ مکالمہ الہیہ اور اجابت دعاؤں کا مجھے حاصل ہوا ہے کہ تو بجز پیچھے نبی کے پیرو کے اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکے گا اور اگر ہندو اور عیسائی وغیرہ اپنے باطل معبودوں سے دعا کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی ان کو وہ مرتبہ نہیں مل سکتا اور وہ کلام الہی جو دوسرے خنی طور پر اس کو مانتے ہیں میں اس کوشن رہا ہوں اور مجھے دکھلایا اور بلا یا گیا اور سمجھایا گیا ہے کہ دنیا میں فقط اسلام ہی حق ہے اور میرے پن ظاہر کیا گیا کہ یہ سب کچھ به برکت ب پیروی حضرت خاتم را امضاء لی اللہ علیہ کی تجھ کو ملا ہے اور جو کچھ لاہے اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں کیونکہ وہ باطل پر ہیں.اب اگر کوئی پہنچ کا طالب ہے......اس کے لیے یہ خوب موقعہ ہے جو میرے مقابل پر کھڑا ہو جائے اگر وہ امور غیبیہ کے ظاہر ہونے اور دعاؤں کے 14

Page 49

۴۹ قبول ہونے میں میرا مقابلہ کر سکا تونی اللہ بشانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اپنی تمام جاندار غیر منقولہ جو دس ہزار کے قریب ہوگی اس کے حوالہ کر ڈونگا جس طور سے اُس کی تسلی ہو سکے اسی طور سے تاوان ادا کرنے میں اس کو تستی دونگا میرا خُدا واحد شاہد ہے کہ میں ہرگز فرق نہیں کرونگا اور اگر سزائے موت بھی ہو تو بدل وجان روا رکھتا ہوں.( آئینہ کمالات اسلام ) نیز فرمایا : پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے محبتِ محمدیہ پوری کرنے کے لیے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آدیں، میں بے وقت نہیں آیا ، میں اس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.یاد رکھو وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گزر گیا اب وہ زمانہ آگیا جبیں میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی میں کو گالیاں دی گئیں جس کے نام کی بے عزتی کی گئی جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتا ہیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کردیں.وہی سچا اور سچوں کا سردار ہے.اُس کے قبول میں حد سے زیادہ انکار کیا گیا ، گھر آخر اسی رسول کو تاج عزت پہنایا گیپ اُس کے غلاموں اور خادموں میں سے ایک میں ہوں....( (حقیقة الوحی ص ۲۷۳ ص ۲۷۲

Page 50

۵۰ سه آن مسیحا که بر افلاک مقامش گویند لطف کردی که از یں خاک مرا اس کردی ترجمہ : وہ میسج میں کا مقام آسمانوں پر بیان کرتے ہیں تو نے ہی تو مهربانی فرمائی کہ اسی خاک میں سے مجھے وہی بیج بنا دیا.عیسائی دنیا میں تشویش و اضطراب اور پادریوں کی عالمی کانفرنس حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود کی یہ دعوت ایک آسمانی قرنا اور صور اسرافیل ثابت ہوئی جس نے مسلمانوں کے مردہ جسم میں زندگی کی ایک زبر دست روح پھونک دی گریسیلیبی افواج تاپ مقابلہ نہ لاکر بدحواس ہوگئیں.اُن کے قدم اکھڑ گئے اور ترقی کی رفتار یکا یک رک گئی ، اسلام کو مٹا دینے کے سارے منصوبے خاک میں مل گئے اور اسلام کی ابھرتی ہوئی نئی قوت و طاقت نے ان کو بہت جلد احساس دلا دیا کہ صلیبی مذہب خطرے میں ہے.چنانچہ ء میں پادریوں کی ایک عالمی کانفرنس لندن میں منعقد ہوئی تھیں میں لارڈ یشپ آف گلومیٹر دی رائٹ ریورنڈ چارلس بیان ایلی کوٹ (LORD BISHOP OF CLOUCESTER, THE RIGHT REVEREND CHARLES JOHN ELLICOT) واننظراب کا اظہار کرتے ہوئے پوری مسیحی دنیا کو مطلع کیا کہ نے نہایت درجہ تشویش "I learn from those who are experienced in these things that there is now a new kind of Mohammadan- ism showing itself in many parts of our empire in India, own island here at home, Moham- and even in our now speaks with reverence of our blessed Lord and Master, but is not the less more intensely It discards many of these usages monotheistic than ever madanism

Page 51

۵۱ which have made Mohammadanism hateful in our eyes, but the False Prophet holds his place no less pre-emi- nently than before.Changes are plainly to be recog- nised; but Mohammadanism is not the less aggressive, us (God grant that and alas to some minds among they be not many) even additionally attractive." (The Official Report of the Missionary Conference of the Anglican Communion, 1894, page 64).ترجمہ : اسلام میں ایک نئی حرکت کے آثار نمایاں ہیں.مجھے اُن لوگوں نے جو صاحب تجربہ ہیں بتایا ہے کہ ہندوستان کی برطانوی مملکت میں ایک نئی طرز کا اسلام ہمارے سامنے آرہا ہے.اس نئے اسلام کی وجہ سے مستند کو پھر وہی پہلی سی عظمت حاصل ہوتی جارہی ہے یہ نشے تغیرات بآسانی شناخت کئے جاسکتے ہیں.پھر یہ نیا اسلام اپنی نوعیت میں مدافعانہ ہی نہیں بلکہ جارحانہ حیثیت کا حامل بھی ہے.افسوس ہے تو اس بات کا کہ ہم میں سے بعض کے ذہن اس کی طرف مائل ہو رہے ہیں.بعض قدیم نوشتے ور بعض قدیم نوشتوں میں بتایا گیا تھا : يَدْعُوكُم إِلَى مَا دَعَاكُمْ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ " (بحار الانوار جلد ساعت ۱۸۰ مطبوعه ایران )

Page 52

۵۲ یعنی : مهدی موعود مسلمانوں کو انھیں میں عقائد کی طرف بلائیں گئے جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی تھی.بعض پرانی روایات میں ہے کہ میری منتظر حقائق کے چہرہ سے پردہ اٹھائینگے اسلام کے مقدس دین میں نئی تازگی پیدا ہوگی جو چیز اسلام کا حصہ نہ ہوگی، آئین اُس کے ساتھ چمٹی ہوگئی اُس کو اس طور پر لغو ثابت کریں گے کہ لوگ گمان کرینگے کہ مہدی نیا دین اور نئی کتاب سے آیا ہے ؟ YM ( ترجمه از فارسی کتاب «المهدی" تالیف سید صدر الدین صدر صف مطبوعه ایران ) اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے مسلمانان عالم کو مخاطب کر کے فرمایا : خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقید : پر موت نہیں آسکتی سو اس سے فائدہ کیا کہ بر خلاف تعلیم قرآن اُس کو زندہ سمجھا جائے اس کو مرنے دوتا یہ دین زندہ ہوتا رکشتی نوح صفحه (۱۵) اسی طرح آپ نے سالانہ جلسہ قادیان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا : " وفات مسیح اور حیاتِ اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں.اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات، اسلام کے لیے ضروری ہو گیا ہئے اس لیے کہ حیات مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے.حضرت علی کی حیات اوائل میں تو صرف ایک فعلی کارنگ رکھتی تھی مگر آج علی ایک ارد یا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے...اسلام تنزل

Page 53

۵۳ کی حالت میں ہے اور میاشیت کا یہی ہتھیار حیات میں ہے جس کونے کہ وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذرتیت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے.........اس لیے خدا تعالے نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے " پھر فرمایا کہ ملفوظات جلد و هم صفحه ہا سم سوس ۳۳۵ اور ۱۳۴۵ ترینی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے ایسا ہی عینی موسوی کی بجائے عیسی محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے.الملفوظات بجاد ۱۰ مت۴۵ ) مسلمانوں یہ تب ادبار آیا کہ جب تعلیم قرآن کو بھلایا رسول حق کو مٹی میں شادیا مسیحا کو فلک پر ہے بیٹھایا یہ تو ہمیں کر کے پھل دلیا ہی پایا اہانت نے انہیں کیا کیا دکھایا خدا نے پھر تمہیں اب ہے بلایا کہ سوچو عزت نخیر البرایا ہمیں یہ رہ خدا نے خود دیکھا دی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرى الاعادي حضرت مهدی موعود کی ایک اہم وصیت مسلمانان عالم کو حضرت مهدی موعود علیہ السلام نے اپنی زندہ جاوید تصانیف میں عقید حیات مسیح کا نہایت مفصل ، مدل اور جامع تجز یہ فرمایا اس کی حقیقت پر بصیرت افروز روشنی ڈالی اور اُس کے ایسے ایسے بھیا تک اور ملک نقصانات واضح کئے کہ اُن کا تنتور بھی رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے اور روح کانپ اٹمتی ہے.آپ نے موت مسیح کو احیاء اسلام

Page 54

۵۴ اشاعت اسلام اور علیہ اسلام کا مؤثر ترین حربہ قرار دیا اور مسلمانان عالم کو یہ تاکیدی ہدایت فرمانی که اے میرے دوستو ! اب میری ایک آخری وصیت کو سنو اور ایک راز کی بات کہتا ہوں اس کو خوب یاد رکھو کہ تم اپنے اُن تمام مناظرات کا جو عیسائیوں سے تمہیں پیش آتے ہیں پہلو بدل لو اور عیسائیوں پر یہ ثابت کر دو که در حقیقت مسیح ابن مریم ہمیشہ کے لیے فوت ہو چکا ہے.یہی ایک بحث ہے جس میں فتحیاب ہونے سے تم عیسائی مذہب کی رُوئے زمین سے صف پیسٹ دو گے.تمہیں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے لیے لیے جھگڑوں میں اپنے اوقات عزیز کو ضائع کرو.صرف مسیح ابن مریم کی وفات پر زور دو اور پر زور دلائل سے عیسائیوں کو لاجواب اور ساکت کرد و رجب تم میسیج کا مردوں میں داخل ہونا ثابت کر دو گے اور عیسائیوں کے دنوں میں نقش کر دو گے تو اُس دن تم سمجھ لو کہ آج عیسائی مذہب دنیا سے رخصت ہوا.یقیناً سمجھو کہ جب تک ان کا خدا فوت نہ ہو اُن کا مذہب بھی فوت نہیں ہو سکتا اور دوسری تمام بحثیں اُن کے ساتھ عبث ہیں، ان کے مذہب کا ایک ہی ستون ہے اور وہ یہ ہے کہ اب تک مسیح ابن مریم آسمان پر زندہ بیٹھا ہے.اس ستون کو پاش پاش کرو پھر نظر اٹھا کر دیکھو کہ عیسائی مذہب دنیا میں کہاں ہے.چونکہ خدائے تعالی بھی چاہتا ہے کہ اس ستون کو ریزہ ریزہ کرے اور یورپ اور ایشیا میں توحید کی ہوا چھلا دے اس لیے اس نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر

Page 55

۵۵ کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے وکان وَعْدُ اللهِ مَفْعُولاً - ر ازالہ اوہام صفحه - 04- ۵۶۲ طبع اول ) تبر مسیح سے متعلق بے نظیر تحقیق اور غلبہ اسلام سے اسکا تعلق دسمبر شہداء میں حضرت مہدی موعود علیہ اسلام نے حضرت مسیح ناصری کے سفر کشمیر اور آپ کی قبر کا انکشاف کر کے پوری عیسائی دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.اس بارے میں آپ نے یہ معرکہ آرا تحقیق اس شان سے قرآن شریف ، حدیث نبوی ، با میل ، تاریخ اور ہندوؤں اور بدھوں کی قدیم روایات کی روشنی میں پایہ ثبوت تک پہنچا دی کہ اسلام کے کسی دشمن کو دم مارنے کی گنجائش نہ رہی.یہ لاجواب تحقیق قرآنی صداقت کا شاہکار ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے ان مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ ر النساء آیت ۱۶۰) حضرت عکرمہ، حضرت عباس اور حضرت علی بن طلحہ جیسے بزرگ صحابہ کے نزدیک بہہ کی ضمیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشارہ ہے اور حضرت ابی بن کعب کی دوسری قراء ت کے مطابق موتہ " کی ضمیر اہل کتاب کی طرف موته.جاتی ہے.( تفسیر کشاف از حضرت علامہ زمخشری متونی شده التفسير المظهری از حضرت قاضی محمد ثناءالله صاحب عثمان حنفی متونی ۱۳۹۵ تفسیر ترجمان القرآن از نواب محمد صدیق حسن خان قنوجی متوفی شاه جناب الہی کی طرف سے حضرت علامہ بدرالدین شارح بخاری پر کسی مصلیب کے یعنی

Page 56

۵۶ کھولے گئے کہ مسیح موعود عیسائیوں کا کذب دنیا پر ظاہر کر دیں گے.د عینی شرح بخاری ج ۵ ص ۸۴ ) اس نقطہ نظر سے جب اس آیت کے سیاق وسباق پرستند بر کیا جائے تو اس میں یہ حیرت انگیز پیشنگوئی معلوم ہوتی ہے کہ جب وَمَا قَتَلُوهُ وَ مَا لبوں کے قرآنی نظریہ کی تائید و تصدیق میں واقعاتی شہادتیں اور تاریخی اکتشافات منصہ شہود پر آجائیں گے تو حضرت مسیح کی حقیقی شخصیت بے نقاب ہو جائے گی اور اپنی بند پردازی اور غیر معمولی کمی صلاحیتوں پر ناز کرنے والے وہ لوگ جو در حقیقت اہل کتاب میں اور نیچے دل سے خدا پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لاتے اور عمل کرتے ہیں وہ آخر کار قرآن کو خدا کا کلام یقین کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں گے اور حسین طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مدینہ قرآن سے فتح ہوا افتتحت المدينة بالْقُرْآنِ الْجامِعُ الغير للسيوطى ) ٹھیک اسی طرح قرآن کی اس زندہ صداقت سے مغربی اور مشرقی اقوام کے دل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جیتے جائیں گے پس یہی وہ محیر العقول انکشاف تھا جس نے امریکہ یورپ اور افریقہ الغرض پوری دنیا کور داخل اسلام کرنے کا وسیع دروازہ کھول دیا جیسا کہ سید نا المهدی الموعود علیه السلام نے بھی قریباً پون صدی پیشتر فرمایا کہ ہر انی کی نہر نگر نانبار کے محلہ میں ثابت ہوگئی ہے اور یہ وہ بات ہے جو دنیا کو ایک زمانہ نہ میں ڈال دے گی کیونکہ اگر مسیح صیب پر مرے تھے تو یہ قبر کہاں سے آگئی.نیز فرمایا کہ : (3190) اس واقعہ کے ثابت ہونے سے بیسائی مذہب کو وہ صدمہ پہنچتا ہے جو اس چھت کو پہنچ سکتا ہے جس کا تمام بوجھ ایک شتر می تا اختر یونا

Page 57

اور چھت گرمی پیس اسی طرح اس واقعہ کے ثبوت سے عیسائی مذہب کا خاتمہ ہے.خدا ہو چاہتا ہے کرتا ہے.اپنی قدرتوں سے وہ پہچانا گیا ہے.دیکھو کیسے عمدہ معنے اس آیت کے ثابت ہوئے کہ مَا قَتَلُوهُ د مَا صَلَبُوهُ وَلكِن شُبّه لَهُمْ یعنی قتل کرنا اور صلیب سے مسیح کا مارنا سب جھوٹ ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو دھوکا لگا ہے اور مسیح خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق صلیب سے ینچ کر نکل گیا........اگر عیسائیوں میں کوئی فرقہ دینی تحقیق کا جوش رکھتا ہے تو ممکن ہے کہ ان ثبوتوں پر اطلاع پانے سے وہ بہت جلد عیسائی مذہب کو الوداع کہیں اور اگر اس تلاش کی آگ یورپ کے تمام دلوں میں بھڑک اٹھے تو جو گروہ چالیس کروڑ انسان کا انہیں سو برس میں طیار ہوا ہے ممکن ہے کہ انھیں ماہ کے اندر دست غیب سے پلٹا کھا کر مسلمان ہو جائے " درانه حقیقت صفحه ۱۲ - ۱۴ حاشیه مطبوعه ۱۳۰ تو میر شه ) لكن شبه لهم " کی حقیقت افروز تغییر حضرت مہدی موعود علیہ السلام نے آیت لکن مشتبہ لھم کی حقیقت افروز تفسیر بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا : رہا ر با لفظ مشتبہ بھی سو اس کے دو معنے نہیں ہیں جو سمجھے گئے وہ ہیں اور نہ ان معنوں کی تائید میں قرآن اور احادیث نبویہ سے کچھ پیش کیا گیا ہے بلکہ یہ معنے ہیں کہ موت کا وقوعہ ہو دیوں پر مشتبہ کیا گیا وہ یہی سمجھ بیٹھے کہ ہم نے قتل کر دیا ہے حالانکہ میسح قتل ہونے سے بچ گیا

Page 58

۵۸ میں خدا تعالی کی قسم کھا کر کہ سکتا ہوں کہ اس آیت میں شُبَهَ لَهُمْ کے یہی معنے ہیں اور یہ سنت اللہ ہے.خدا جب اپنے محبوبوں کو بچانا چاہتا ہے تو ایسے ہی دھوکہ میں مخالفین کو ڈال دیتا ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نمای تور میں پوشیدہ ہوئے تو وہاں بھی ایک قسم کے شبہ لھم سے خدا نے کام لیا.یعنی مخالفین کو اس دھوکہ میں ڈال دیا کہ انہوں نے خیال کیا کہ اس غار کے منہ پر عنکبوت نے اپنا جالا بنا ہوا ہے اور کبوتری نے انڈے دے رکھتے ہیں پس کیونکہ ممکن ہے کہ اس میں آدمی داخل ہو سکے.......حضرت ابراہیم علیہ اسلام جب آگ میں ڈالے گئے تب بھی یہ عادت اللہ ظہور میں آئی ابراہیم آگ سے جدا نہیں کیا گیا اور نہ آسمان پر چڑھایا گیا، لیکن حسب منطوق آمیت تلنا یا نارکونی بود اے آگ اس کو جلا نہ سکی اسی طرح یوسف بھی جب کو ئیں میں پھینکا گیا آسمان پر نہیں گیا بلکہ کستواں اس کو ہلاک نہ کریگا اور ابراہیم کا پیارا فرزند اسماعیل بھی ذبح کے وقت آسمان پر نہیں رکھایا گیا تھا بلکہ چھری اس کو ذبح نہ کرسکی.ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم محاصرہ غار ثور کے وقت آسمان پر نہیں گئے بلکہ خونخوار دشمنوں کی آنکھیں ان کو دیکھ نہیں سکیں اسی طرح مسیح بھی صلیب کے وقت آسمان پر نہیں گیا بلکہ صلیب اس کو قتل نہیں کر سکا غرض ان تمام نبیوں میں سے کوئی بھی مصیبتوں کے وقت آسمان پر نہیں گیا ، ہاں آسمانی فرشتے اُن کے پاس آئے اور انہوں نے مدد کی.یہ واقعات بہت صاف ہیں اور صاف طور پر ان سے ثبوت ملتا ہے کہ حضرت سیح الانبياء :

Page 59

۵۹ آسمان پر نہیں گئے اور ان کا اسی قسم کا رفع ہوا جیسا کہ ابراہیم اور تمام نبیوں کا ہوا تھا اور وہ آخر وفات پاگئے.(تحفہ گولڑویہ صفحہ ۱۴۱ - ۱۴۲ ) انکشاف قبریح کا ابتدائی رد عمل عیسائی پادری اور اُن کے ہمنوا بعض علمائے کرام شروع ہی سے حضرت مہدی موعود کے خلاف متحدہ قومی محاذ قائم کئے ہوئے تھے اور آپ پر بغاوت کا الزام لگا کرانگریز حکومت کو آپ کے خلاف اکساتے آرہے تھے.توزین الا قوال صفحه ۴۰ از پادری عماد الدین صاحب ، " اشاعته السنته" جلد 4 صفحہ ۱۶۴ ایڈیٹر مولانا محمدحسین صاحب بٹالوی ایڈوکیٹ اہلحدیث کلیه فضل رحمانی صفحه ۲۴ از قامتی فضل احمد صاحب در حیانوی کورٹ انسپکٹر لدھیانہ ) یہ لوگ قبر مسیح کے انکشاف کے بعد اور بھی زیادہ مشتعل اور غضبناک ہو گئے ، چنا نچھ شمالی ہند کے ایک با اثر منفی عالم دین نے انگریزی حکومت کو انتباہ فرمایا کہ : گورنمنٹ کو اپنی وفادار مسلمان رعایا پر اطمینان ہے اور گورنمنٹ کو خوب معلوم ہے کہ مرزا جی جیسے مہدی مسیح وغیرہ بننے والے ہی کوئی نہ کوئی آفت سلطنت میں برپا کیا کرتے ہیں........مرزا جی نے تو میں مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ مہدی ومسیح کا یہی زمانہ ہے اور قادیان ضلع گورداسپور میں وہ مہدی دیسیح بیٹھا ہوا ہے.وہ کسر صلیب کے لیے مبعوث ہوا ہے تاکہ عیسوتیت کو محو کر کے اسلام کو روشن کرے........گورنمنٹ کو ایسے اشخاص کا ہر وقت خیال رکھنا چاہیے.تازیانه عبرت ۱۳۹۳ طبع دوم از شیر اسلام جناب مولوی محمد کرم دین دبیر

Page 60

۶۰ جہاں تک مسیحی کلیسا کا تعلق ہے اُس کے لیڈروں نے ایک طرف تو قبر مسیح کو فرضنی پیوترہ قرار دیا ضربت عیسوی از پادری اکبر سیم مسته) دوسری طرف ایک سازش یہ کی کہ پادری مارٹن کلارک کے ذریعہ اگست عشاء میں آپ کے خلاف اقدام قتل کا ایک جھوٹا مقدمہ دائر کر دیا جس میں بعض علماء سے بھی آپ کے خلاف گواہی دلوائی جنہیں بعد کو انگریزی حکومت نے چار مرتبہ زمین سے بھی نوازا.(اشاعۃ السنۃ جلد ۱۸ نمبر صفحہ ھو ایڈیٹر مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی ایڈوکیٹ اہل حدیث ) عیسائیوں نے تو یہ خونی مقدمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تختہ دار پر لٹکانے کے لیے کھڑا کیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے گورداسپور کے جج مسٹر ولیم ڈگلس ( پہلا طوس ثانی ) کے دل پر الیسا تصرف کیا کہ انہوں نے آپ کو باعزت طور پر بری کر دیا.نیز کہا کہ آپ ان عیسائیوں پر مقدمہ کر سکتے ہیں.مگر آپ نے فرمایا :- میں مقدمہ کرنا نہیں چاہتا.میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے".لیکچر لدھیانہ ص ) بشپ لیفرائے کی شکست او را سلام کی فتح مبین اس واقعہ پر ابھی تین سال بھی نہیں ہوئے تھے کہ ۲۵ ر مئی نشہ کو اسلام اور عیسائیت کے اس دائر شدہ مقدمہ کا پہلا فیصلہ صادر ہو گیا اور وہ اس طرح کہ مشہور بشپ پادری جارج ایفرڈ لیفرائے (۱۸۵۴ ۶ - ۱۹۱۹ء) نے لاہور میں دھوم دھام سے ایک پبلک لیکچر دیا کہ محمد صاحب تو فوت ہو چکے اور اُن کی قبر مدینہ میں موجود ہے مگر میسوع مسیح کی نسبت خود مسلمانوں کو مسلم ہے کہ وہ آسمان پر زندہ موجود ہیں.تقریر کے بعد سوالات کا موقع دیا گیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے مخلص مرید اور محبت صادق جنہوں نے کچھ عرصہ بعد احمدیہ سلم من امریکہ کی بنیاد رکھی ایک ایک کھڑے ہو گئے

Page 61

رت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے قلم مبارک کا لکھا ہوا مضمون پڑھ کر سنایا.یہ مضمون حضور نے اس جلسہ سے صرف ایک دن قبل تحریر فرمایا تھا جسے وہ راتوں رات قادیان سے چھپوا کر عین وقت پر لاہور پہنچے تھے، اس مضمون کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بشپ صاحب کی پوری تقریر کا مسکت جواب موجود تھا.لوگ حیران تھے کہ بشپ صاحب کی تقریر کے خاتمہ پر اتنا زبردست مضمون چھپ کر شائع کیسے ہو گیا.حضرت اقدس نے اپنے اس پر شوکت مضمون میں یسوع مسیح کی وفات کے ناقابل تردید ثبوت دینے اور بتایا کہ زندہ نبی صرف محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں جن کی تاثیرات و برکات کا ایک زندہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے اور اُس کا ایک زندہ نمونہ میں موجود ہوں کہ کوئی قدیم اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کرسکتی مضمون کے آخر میں حضور نے تحریر فرمایا : "خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تائیں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن ہے اور زندہ دین اسلام ہے زندہ رسول محمدصطفی صلی لند وسلم پر دیکھو یں آسمان اور زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ باتیں بیچ ہیں اور خدا وہی ایک خدا ہے جو کلمہ رائے ان میں پیش کیا گیا ہے.مجموعه اشتهارات جلد ۲۶۹۶۳ ناثر الله که الماسه مسیر بوده ) الله جونی یہ مضمون ختم ہوا فضا "اسلام زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی اور بشپ لیفرانے کے چہرہ پر ہوائیاں اُڑنے لگیں اور انہوں نے صرف یہ کہ کر اپنی جان بچائی کہ معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو.ہم تم سے گفت گو نہیں کرتے ہمارے مخاطب عام مسلمان میں، اس وقت مجمع میں مسلمانوں نے جن کی ایک کثیر تعداد موجود تھی بالاتفاق کہا کہ مرزائی اگرچہ کافر ہیں مگر آج اسلام کی عزت انہوں نے رکھ دکھائی ہے.(الحکم ۱۴ مٹی شاه ص نے کالم ۱)

Page 62

بنا موید عالم جناب مولانا نورمحمد صاحب نقشبند می نشستی یسائیت کے مقابل اس نمایاں فتح کا ذکر نہایت سے اس زبر دست معرکہ کی حقیقی عظمت کی سیقی رائے پادریوں کی ایک بہت ٹھا کر ولا بہت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ کو سپائی بنا توں گا.ولایت کے انگریزوں سے ن کریم کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقتراب نان میں داخل ہوکر بڑا نظام بر پا کیا.حضرت عیسی کے آسمان پیر جسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین ساتھا ہے ہونے کا حملہ عوام لینے اس کے خیال میں کارگر مواقب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی جما عمدتا سے کہا کہ عیبی جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح سے فوت ہو گر دفن ہو چکے ہیں اور میں عیسی کے آنے کی خیر ہوں نہیں میں اگر تم سعادت مند ہو تو محمد کو قبول کر لو ہے کہ ولایت روپیا چه قرآن م $

Page 63

اسلام کا فتح نصیب جرنیل اسی طرح برصغیر کے ایک مستانہ ای بالصلوة والسلام كى وفاته پنے باجتهاد وکیل می آزاد نے حضرت مسیح موعود علیہ الصفوة کو زبر دست خراج تحسین ادا کیا اور آپ کو اسلام کا فتح نصیب جو نیل قرار ہوئے لکھونا نہیں وہ وقت ہرگز کوچ قرب سے نہیں منت نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لیے کچھ نہ کرتے تھے یا ن کر سکتے تھے.ایک طرف جملوں کے ) امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری بھی دنیا اسلام کی شمع عرفانی کو سر را و منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل ودولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لیے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مانعیت دونوں کا قطعی دنوں ہی انتھا.منہ کر مسلمانوں کی طرف سے دو مدافعت شروع ہوئی حسین کا ایک حصہ مر زا یا حسین کو حاصل ہوا.اس بدافعورت نے نہ صرف عیسائیت کے اس.ابتدائی اثر کے پونچھے اُڑائے جو سلطنت کے بیان میں ہونے کی وجہ سے تحقیقت میں اس کی جان تھا اور نہزار مال لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور تحقی کامیابی دیتے

Page 64

حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسہ ھواں ہو کر اُڑنے لگا...غرض مرزا صاحب کی یہ خدمات الی الی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے فلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی شریف سے کہاں مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یادگار چھوڑا ہو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی سگوں میں زندہ خون ہے اور جماہیت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا." ها ا شبابه وکیل امرتسر میشه خواند از قاریان مایون مو سے وہ کار بر صلیب محمد کا ہے غلام مامور ہے مولا کا امت کا ہے، امام جاری ہوتے ہیں جس سے محمد کے نہیں عام اخوان گھر جیل کی ترکی چھوٹی تمام افواج مستند کا کمانڈر نہیں ہے اب مہمنوں کا قافلہ سالا، یہی ہئے اسلام اور عیسائیت کی جنگ اور دو عظیم تغیرات محمدی فوجوں کے اس روحانی سپہ سالار کے انتقال پر ستر برس گزر چکے ہیں.اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علی الصلوۃ والسلام کے جدید علم کلام کے نتیجر می مذابی دنیا کے اندر زیر دست علمی عملی انقلابات رونما ہو چکے ہیں جن کی تفصیل نہایت ایمان افروز اور ایک مستقل اور مبسوط مقالے کا تقاضا کرتی ہے اگر یہ مضمون ختم کرنے سے پیشتر اس قدر بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام اور عیسائیت کی اس جنگ میں دو عظیم تغیرات نمایاں طور پر ابھر آئے ہیں، ایک تو یہ کہ عیسائیت کے مقابل اسلام کی فتوحات کا نظارہ 1 +

Page 65

۶۵ دیکھنے کے بعد مسلمانوں کے بہت سے دیتی را ہنما، مفکر اور اہل قلم وفات مینیج کے قائل ہو چکے ہیں، بلکہ اپنی تصانیف اور تقاریر اور مکاتیب میں اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عقیدہ حیات مسیج قطعی طور پر میسا میت کی سازش سے اسلام میں شاں کیا گیا ہے.بعض مسلمان شخصیتوں نے نہ صرف قبرسیح کی تحقیق پر حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کو خراج تحسین ادا کیا ہے بلکہ اس پر ستقل لٹریچر بھی شائع کیا ہے اور اس سے بڑھکو یہ کہ ایک طبقہ نے نزول مسیح کی حدیث کا ترجمہ ہی یہ کیا ہے کہ : علی ابن مریم علی اسلام انصاف کر نیوالے حاکم کیحیثیت میں پیدا ہوں گئے.040 خطبات نبوی از مولانا عبد القيوم ندوی نام سیرت المہ اربعہ از مولا تاری احمد معیری) نظر یہ وفات مسیح کی مقبولیت دنیائے اسلام میں علمی افکار کی یہ بھاری تبدیلی عرب وعجم کے بہت سے مسلم زعماء اور مد ترین میں ہو چکی ہے.اس سلسلہ میں بعض ممتاز شخصیتوں کے نام یہ ہیں :- مسلم ورلڈ لیگ نکہ Muslim World League Mecca) اور اسلام کے جنیوا (Islamic Centre Geneva) کے علامہ محمد اسد.۲- مصر کے شہرہ آفاق صحافی اور عالم جناب رشید رضا ایڈیٹر رسالہ المنارة - الاستاذ محمد شلتوت سابق مفتی مصر -۴- الاستاذ احمد العجوز ، ٥ - الاستاذ مصطفی المراقی جامعہ ازہر، 4.لبنان کے نامور عالم الاستاذ عباس محمود ، ، - سید قطب را ہنمائے اخوان المسلمین ۸۰ - الدكتور محمود بن الشریف پر و فیسر اکنامکس کالج مصر، ۹ عالم از هر سعد محمد حسن وزارت معارف مصرنا محمد الغزالی ومصری او سیب ) ۱ - فلسطینی عالم الشیخ عبدالله النقیشاوی غزه، ۱۲.ایرانی عالم جناب زین الدین را بنما منتر حجم قرآن، ۱۴- انڈونیشیا کے عالم محاجی

Page 66

۶۶ عبدالکریم امر الله، ۱۵ شیخ عبداللہ صالح چیف قاضی کینیاہے.برصغیر پاک وہند کے جو علماء فضلاء اور ادباء وفات مسیح کا مسلک اختیار کر چکے ہیں اُن میں سے مولانا عبید اللہ صاحب سندھی ، مولانا ابو الکلام صاحب انداد مام البند علامہ عنایت اللہ خاں صاحب مشرقی بانی خاکسار تحریک ، علامہ نیاز فتح پوری ، جناب محمد یسین صاحب ایم.اے.ایل ایل بی.پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر، ماخذ: دی میسیج آف دی قرآن از محمد اسد (The Message of the Quran, by Mohammad Asad) المنار جلد ۱۵ صفحه ۹۰۰ - ۹۰۱ 4 "الفتاوی صفحه ۵۲ - ۷۵ ناشران دارة العامة للثقافة الاسلامية بالازهر تا هره ه فوٹو تحریر درسالہ کیا حضرت بیع علیہ اسلام زندہ میں ملا از مولانا شیخ نور احمد صاحب نیز مبلغ بلاد عربی) " تفسير المراغى " صفحه ۱۹۵ "حياة المسيح از عباس محمود عقاد صفحه ۲۱۳ " في ظلال القران جلد ، صفحه ۶۶ از سید قطب مطبوعه لبنان الاديان في النقران از دکتور محمد بن الشريف مطبوعہ دار المعارف مصر ۲۱۰ تا ۲۱۴ : المهدية في الاسلام ص ۳۸ مطبوعہ دارالكتاب العربي مصر " تنظرات في القرآن" (محمد الغزالي ) ناشر دار الكتب الحديثة ۴اش الجمهورية بالقاهره انکار مومنین فی حقائق الدین مطبوعہ فلسطین 剔 ترجمه قران فارسی از این الدین صاحیب را مینما ایران القول الصحيح" از حاجی عبدالکریم امر الله مطبوعہ انڈونیشیا سہ ماہی رسالہ " صوت الحق" نیرو بی ذیقعد ۱۳۹۸ در مطابق اکتوبر ۱۹۷۰ 1

Page 67

42 پروفیسر قد محمد حسین صاحب ایم.اسے ایل ایل بی ڈانسر کی تکمہ آثار قدیمی سرینگر دو فدا رکن بین الاقوامی کانگریس، عبدالوحید خان صاحب مصنف کتاب عیسائیت ، مولانا محمد اسماعیل صاحب ندوستی اور غلام احمد صاحب پرویز مدیر طلوع اسلام خاص طور پر قابل ذکر ہیں بلے شخصیت مسیح کے متعلق تجدید علمی اکتشافات دوسری عظیم الشان تبد یلی جو گذشتہ ستر سال میں واقع ہوئی وہ یہ ہے کہ اس عرصہ میں ایسے ایسے زبر دست علمی اور تاریخی اکتشافات ہوئے کہ حضرت مسیح کی صلیبی موت سے نجات ، آپ کے سفر کشمیر اور آپ کی قبر سے متعلق تحقیق پر گویا دن چڑھ ماخذ : "الهام الرحمن جلد ۲ صفحہ ۲۳۰ از مولانا سندھی ملاحظات آزاد منا ، " نقش آزاد " ص ۱ " قول فصل" ملاحظات نیاز " صام مسٹریز آف کشمیر ("MYSTERIES OF KASHMIR") ناشر قیصر پبلشرز سرینگر شه (TRUTH ABOUT THE CRUCIFICATION) ( ناشر مسجد فضل النهدان) عیسائیت صفحه ۵۹ - ۶۴ ناشر اسلامک پبلیکیشنز لاہور شاء "القاديانية" از محمد اسماعیل ندوی ص ۱۰۷

Page 68

گیا.مثلاً وادی قمران کے صحیفے ،اقتصادیر حضرت مسیح ناصری، کفن میسیج حضرت میت کی نظموں کا مجموعہ اور ہرات میں قدیم ترین انجیل کی دریافت.یہ انجیل احادیث ایسیح کے نام سے ہے جو ایران و افغانستان کی سرحد پر نواح ہرات میں آباد ایک قدیم عیسائی فرقہ کے پاس محفوظ ہے جو مسلمان ہو چکا ہے اور اپنے تیں مسلمان عیسائی کہتے ہیں.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام مصلیب سے بچ گئے اور کنعان سے ہجرت کر کے ہرات میں آئے جہاں اُن کا سلسلہ قائم ہوا، اٹک کی وفات کشمیر میں ہوئی اور "یوز آسف" سے مراد آپ ہی ہیں اور اسی نسبت سے آپ عیسی ابن مریم ناصری کشمیری کہلائے.ایمینگ دی ڈروشنز (AMONG THE DERVISHES) یعنی اور ولیوں کے درمیان مصنفہ میکائیل پرک MICHAEL BURKE) شائع کردہ آئیگن پریس ندن (OCTAGON PRESS LTD, LONDON) خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلیات کا ایمان افروز منظر خدا تعالیٰ کی قادرا نہ تجلیات ملاحظہ ہوں کہ کسر صلیب کے لیے یہ بدیہی شہادتیں خود عیسائی دنیا کے محققین کے ذریعہ ظاہر ہوئیں اور سب سے بڑھ کر یہ تغیر عظیم ہوا کہ چوٹی کے عیسائی پادریوں نے حیات مسیح " کے عقیدہ کے خلاف بغاوت شروع کر دی، اور لیسون و مسیح کی آمد ثانی سے انکار کر دیا.صلیب کو غیر سیحی نشان قرار دیا اور اسے قابل احترام سمجھنے یا گلے میں لٹکائے رکھنے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کردی.رکتاب سچائی ناشر واچ ٹاور بائیل اینڈ ٹیکیٹ سوسائٹی آف نیو یارک ۱۹۷۰ء انگریزی ۱۹۷۲ ء اردو ) نے اس مجموعہ میں سیدنا حضرت مہینے دنیا سے مخاطب میں اور فرماتے ہیں مجھے مارنے کی کوشش کی گئی گریں زندہ بچ گیا پھر لکھا ہے کہ وہ ایک بند چوٹی پر کھڑا ہوگیا اور اس نے اپنی آوانہ دنیا کے ایک کنارے سے دوستی ہے (The Lost Books of the Bible Part II p.134)

Page 69

۶۹ پر مین یونیورسٹی کی ایک فاضل عیسائی لیکچرار نے بی بی سی لندن سے تقریر کی کو سیوری میسج کے آسمان پر جانے کا خیال محض ڈھونگ ہے.نوائے وقت" ۲۰ جنوری دار است اور مشہور عیسائی محقق را بوٹ گریوز اور جوشوا پوڈرو ROBERT) GRAVES & JOSHUA PODRO) نے تاریخی اور سائنسی شواہد سے ثابت کیا کہ حضرت مسیح کے گوشت پوست والے جسم میں میکانکی امداد کے بغیر پروانہ نامکن تھی اور اُن کے جسم کے فوری طور پر غیر مادی صورت میں تبدیل ہونے کے نتیجہ میں ایسی طاقت پیدا ہونا لازمی تھی جو یہ ظلم اور فلسطین کو تباہ کر سکے رکھ دیتی اور یہ ایک حادثہ ہے جو تاریخی طور پر وقوع پذیر نہیں ہوا.پس اُن کے آسمان پر جانے کا خیال تو ہری طبعیات کے منافی ہے.(Jesus in Rome) عیسائی پادری قریباً پون صدی سے تبر مسیح کو فرضی بیو ترے کا نام دیگر مذاق اڑا رہے تھے، لیکن اب دنیا بدل چکی ہے کیونکہ محمدرسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے قادر اور زندہ ندا نے یورپ کے تثلیث کروں میں لیڈس لاؤ فلپ ایم ڈی پیراک ( LADISLAV FILLIP M.D) ریجنالڈ چارلس سکا فیلڈ چیکوسلوا گیا النگان (REGINALD CHARLES EVERARD SKOL FIELD) اور انڈر پائی خیر کا ٹیزر (ANDREAS FABER KAISER) جیسے محقق و منکر پیدا کر دیتے ہیں جنہوں نے لندن کی تاریخی کسر صلیب کا نفرنس کے دوران فاضلانہ مقالے پڑھے اور جو ذاتی تحقیق کے بعد اس قطعی نتیجہ تک پہنچے ہیں کہ حضرت مسیح کی قبر یقینا سرینگر میں ہے.مسٹر سکا لفیلڈ نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ اس تحقیق کا سہرا حضرت بانی احمدیت کے سر ہے جنہوں نے اس مقبرہ کی نشان دہی کی اور اپنی بصیرت سے کام لے کر تمام تعصبات کا پردہ چاک کر دیا.مبر کا ٹیزر موازنہ مذہب کے مشہور ہسپانوی سکالر ہیں آپ قبر مسیح کی

Page 70

تحقیق کے لیے خود کشمیر گئے اور انتہائی محنت و قابلیت سے معلومات جمع کر کے ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہی یہ رکھا کشمیر میں فوت ہوئے.(JESUS DIED IN KASHMIR) سوع ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ امریکہ کے ایک نہایت مستند مسیحی ادار می نے جو دنیا کے مشہور عیسائی سکالرز پیشتمل تھا، کئی برسوں کی تحقیق کے بعد یہ انکشا کیا کہ مرقس اور لوقا کی وہ آیات جن میں مسیح کے آسمان پر جانے کا ذکر ہے سراسر جھوٹی، وضعی اور جعلی ہیں.صعود مسیح سے متعلق الحاقی آیات کا اخراج امریکی چرچ کی نیشنل کونسل نے اس تحقیق کی بنا پر ایک نیا معیاری اور مستند ترجمہ "ی لوائنز ڈسٹینڈرڈ ورشن" (Revised Standard Version) کے نام سے شائع کیا اور اس میں سے علاوہ دیگر کئی الحاقی آیات کے ان آیات کو بھی تمن سے خارج کر دیا جس نے عیسائیت کے تمام حلقوں میں صف ماتم بچھا دی ہے.چنا نچہ بر صغیر کے بعض مسیجی لیڈروں نے حال ہی میں نہایت خوفزدہ ہو کر لکھی ہے کہ : مترجمین کے سامنے ایک ہی مقصد تھا کہ جہاں تک ہو سکے کلام مقدس میں سے وہ تمام آیات حذف کر دی جائیں جن سے خداوند یسوع کا تجبتم ، الوہیت ، کفارہ ، مردوں میں سے زندہ ہونا اور آسمان پر صعود فرمانا ثابت ہوتا ہے تاکہ خداوند یسوع مسیح کی دوبارہ آمد مشکوک ہو جائے اور خداوند کو وہی حیثیت حاصل رہے جو دوسرے انبیاء کو حاصل ہے اور انہوں نے اس طرح خداوند مسیح کی الوہیت اور

Page 71

41 پاکیزگی اور فوق البشر ہونے کا انکار کیا ہے اور یہ ایک ایسی مدیوم جسارت ہے کہ اس کی موجودگی میں مسیحیت کی ساری عمارت دھڑام سے گر جاتی ہے.ماہنامہ کلام حق گوجرانوالہ با بیت اپریل شتاء حضرت مهدی موعود کی ایک پر ملال پیشگوئی عالی سطح پر سی چرچ کی یہ زیر دست تبدیلی جس کا تصور بھی قبل ازیں ناممکن تھا اسلام، قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و حقانیت پر ایک زندہ نشان ہے کیونکہ حضرت مهدی موعود علیہ اسلام نے خدا سے علم پا کر پہلے سے اس کی خبر دے دی تھی، چنانچہ حضور نے سنشاء میں یہ پر جلال پیشنگوئی فرمائی :- یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اتریکا ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مرینگے اور کوئی اُن میں سے عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھیے گا اور پھر ان کی اولاد جو باتی رہیگی وہ بھی مرگی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسی بن مریم کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گا اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی.اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اترتے نہیں دیکھے گی ، تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا میٹی اب تک آسمان سے ندا ترا - تب دانشمند سید فعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے اور ابھی تفسیری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسی کے انتظار کر نیوالے کیا مسلمان

Page 72

۷۲ اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہو گا اور ایک ہی پیشوا.میں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں سو میرے ہاتھ سے دو تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھوٹے گا اور کوئی نہیں جو اس کو روک سکے " ر تذكرة الشهادتين صفحه ۶۵ ) (40 نام کتاب مصنف مطبع تاریخ طبع ناشر وفات مسیح اور احیا اسلام.مولانا دوست محمدت ہر مورخ احمدیت ور نے پورنسٹر لاہور مارچ شراء جماعت احمدیہ کراچی ملنے کا پتہ الشركة الاسلامیہ ربوہ ضلع جھنگ

Page 72