Language: UR
خلافت احمدیہ کی صدسالہ جوبلی کے مبارک موقع پر نظام خلافت کے بارہ میں جماعتی شعراء کے کلام کو مرتب کرکے کتابی شکل دی ہے۔ اس مجموعہ میں شامل نظمیں خلافت احمدیہ کے پانچ ادوار میں ہونے والی جماعتی ترقیات، خلفائے احمدیت کے زریں کارناموں اور ان رجال فارس کی پاکیزہ اور حسین سیرت کے دل موہ لینے والے گوشوں کو ظاہر کررہی ہیں۔ اور یہ پاکیزہ منظوم کلام دل کی گہرائیوں میں اتر کر خلافت سے وفا، اطاعت اور محبت کے جذبے جگانے والا ہے۔ 500 صفحات سے زیادہ ضخیم یہ مسودہ بڑی محنت اور عرق ریزی سے مدون کیا گیا ہے۔
وفا کے قرینے
نام کتاب: وفا کے قرینے
i پیش لفظ محض خدا تعالی کا فضل و احسان ہے کہ خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے اس بابرکت موقع پر لجنہ اماء اللہ نظام خلافت کے بارہ میں اپنے بزرگ اور نوجوان شاعروں کی نظمیں کتابی شکل میں مرتب کرنے کی تو فیق پا رہی ہے.الحمد للہ ثم الحمد للہ.اس کتاب میں شامل نظموں میں شعرائے کرام نے پانچوں ادوار خلافت میں ہونے والی جماعتی ترقیات، احمدیت کے خلفائے کرام کے زریں کارنامے اور ان کی سیرت کے پاکیزہ پہلوؤں کو بہت حسین اور دلنشیں پیرائے میں اجاگر کیا ہے.دعا ہے کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلیں اس سے بھر پور فیض حاصل کریں.خدا کرے کہ یہ پاکیزہ اشعار دل کی گہرائیوں میں اتر کر خلافت سے وفا ،اطاعت اور محبت کے جذبوں کو جگانے والے ہوں.
!!
iii نمبر شمار شاعر خلافت اولی پہلا مصرعہ 1 کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار 2 حضرت میر ناصر نواب صاحب وہ خلیفہ مجھ کو بخشا جس کی سیرت نیک ہے صفحہ نمبر 3 4 3 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب آپ اے امیر المومنین، آپ اسے امام متقین 5 مکرم راجہ نذیر احمد صاحب گنے قدرتِ ثانیہ کے کرشمے حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب بڑا قدیر ہے پروردگار نورالدین حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب یہ ہی دن ہے کہ جب نوردین مصطفی" 7 مکرم مبارک احمد عابد صاحب مجسم وہ تصویر ایمان تھا 8 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب لگا جب اس کو مشکل مرحلہ تنہا مسافت کا 9 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب تیری وفا بھی مسلم تر اخلوص بجا 7 10 11 12 14 10 مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب مبارک وہ حقیقت جان لی جس نے خلافت کی 15 11 مکرم عبدالسلام اسلام صاحب معدن بھیرہ کا وہ لعل گراں در نمین 12 مکرم صوفی تصور حسین صاحب بریلی نشور نور احمد سے ہے جاں روشن، جہان روشن 13 مکرم عبد الخالق صاحب از مظفر نگر میرے درد دل کی دوا نور دیں ہے 14 15 مکرم نیم سیفی صاحب ربوہ قوم کا ہر فرد ہوگر نور دیں مکرم منشی جھنڈے خاں صاحب بعد مہدی نور دیں کو چن لیا رحمان نے 16 22 22 23 23 24 24 25 25
iv 16 مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب مٹ نہیں سکتا تصور سے وہ نقش دلنشیں 17 مکرم عابد حسین بکسوا ہا صاحب مهدی و عیسی غلام احمد هدی 18 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نور دیں نوریقیں پیکر صدق وصفا 19 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سمائے قادیاں کے ماہ و اختر یاد آتے ہیں 20 محترمہ شاکره صاحبه نظام قدرت ثانی کا جب وقت قیام آیا مکرم قیس مینائی نجیب آبادی صاحب جماعت کو بھلا پھر کس لئے ہو خوف ناکامی 22 محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کچھ حوالے مجھ کو تیری زندگی کے یاد ہیں 23 24 لله مکرم غلام مرتضی صاحب دنیا میں اب امانِ اہل زمیں یہی ہے مکرم شیخ علی محمد احمدی ڈنگوی صاحب رہے یارب ز نور نور دیں بزم جہاں روشن مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب سچائی کا پیکر تھا وہ بندہ تھا خدا کا 26 26 27 27 28 88 29 29 31 4 32 32 33 33 35 55 32 37 309 40 40 26 مکرم ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب نوردیں ، نور مجسم مظہر نور ہدی 27 مکرم قیس مینائی نجیب آبادی صاحب نہ طوفانوں کا خطرہ ہے نہ خوف زلزلہ اس کو 41
V نمبر شمار شاعر خلافت ثانیہ پہلا مصرعہ صفحہ نمبر 28 کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا 43 29 حضرت منشی جھنڈے خاں صاحب اے میرے مولا ترے احساں ہیں ہم پر بے بہا 44 30 حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ قرار وسکوں دل کو آتا نہیں ہے 31 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کھلی زمانے پہ جس دم فضلیت محمود 32 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب شکر صد شکر جماعت کا امام آتا ہے 33 مکرم عبدالعزیز منگل صاحب خلافت افتخار علم وعرفاں 34 مکرم مولوی محمد نواب خان صاحب اے مسیحا کے خلیفہ پیارے مرزا کے رشید 35 مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری وہ جس کے سر پہ سداحل کرد گار رہا 36 مکرم عزیز الرحمان انور صاحب مرے محمود پر تہمت لگانا کس سے سکھا ہے 37 حضرت مولانا ذوالفقار علی خان گوھر تجھ کو خدا نے چن لیا نور ہدایت کے لئے 38 مکرم محمد شرافت اللہ صاحب شرافت معنی تو ہیں قریب کے مطلب ہے دور کا 39 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اک نبی تو ہمیں دکھلا دیا 40 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ اک جوان منحنی اٹھا بعزم استوار 50 51 52 52 56 57 68 69 70 71 74 75 16 76
42 حضرت سیدہ نواب مبارکه بیگم صاحبہ دشمن بنے جو تیرے محبوں کی جان کے لہ مکرم منشی منظور احمد صاحب منظور دشمنی ہم سے ہمارے آشنا کرتے رہیں 43 44 حضرت مولانا ذو الفقار علی صاحب حیف ہے مسلم نہ سمجھے گر خلافت کا مقام 45 مکرم دامن اباسینی صاحب مئے عشق رسول رکھتا تھا 77 لا لله 8 78 80 82 46 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ جو دور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئیں گے 83 47 حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب گوھر خدا کا فضل اے فضل عمر تجھ سے ہے وابستہ 84 85 48 مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر خدا ضائع نہیں کرتا کبھی اپنی جماعت کو 49 مکرم مهجور پسروری صاحب دربارِ خلافت میں پہنچے سرسبز ہوئے شاداب ہوئے 87 50 حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب گوھر ہر مصیبت سے بچاتی ہے وہ طاقت ہے یہ 88 51 مکرم روشن دین تنویر صاحب نظام خدا ہے نظام خلافت حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت ہے نبوت کا ضمیمہ 53 مکرم ظہور احمد صاحب 91 92 خلافت ایک نعمت ہے خدائے پاک کا احساں 93 مکرم جناب ثاقب زیروی صاحب ہمنشیں آیا ہوں دل کو گد گدانے کے لئے 94 55 محترمہ شاکره خاتون صاحبه خوشی کا غلغلہ گونجا کہ سلور جوبلی آئی 56 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت سے وابستگی روح ملت 57 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب تعالٰی اللہ کی شان خلافت ہے 96 96 40 97 99
100 vii 58 حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب گوھر مبارک ہو سب کو خلافت کی جو بلی 60 60 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب دعائیں کرتا ہے اکمل صداقت احمد 101 مکرم مبشر احمد راجیکی صاحب حفاظت اہل ایماں کی مقدر ہے خلافت سے 102 61 مکرم محمد ابراهیم شاد صاحب خليفة و على وجہ البصیرت پاک ہوتا ہے 103 62 مکرم چوہدری فیض عالم خاں صاحب قادیاں میں چشمہ تنویر آ کر دیکھئے 104 63 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت موجب اجماع امت ایک رحمت ہے 106 108 109 113 114 115 116 117 118 121 122 64 مکرم عبدالسلام اختر صاحب اے صاحب اعجاز قلم تجھ کو یہ عالم مکرم چوہدری نعمت اللہ صاحب گوھر کام جب کر چکی ختم نبوت اپنا 66 مکرم عبدالسلام اختر صاحب برسوں بیقش دل سے مٹایا نہ جائے گا 67 مکرم ثاقب زیروی صاحب سنی ہم نے جس دم نوائے خلافت مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب خلیفہ حق تعالیٰ کا سراپا نور ہوتا ہے مکرم اختر گوبند پوری صاحب ہم دوش ثریا ہے تو اے قصر خلافت 70 مکرم عبدالرشید تبسم صاحب گدایان محمد کو کیا تو نے یوں صف آرا 71 مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب اے پیغام کے سب اہالی موالی 72 مکرم عبد رہتاسی صاحب ہمیشہ طالب حق کو حقیقت آزماتی ہے 73 مکرم روشن دین تنویر صاحب پڑھ ذرا سبز اشتہار اور جانب محموددیکھ
viii 74 مکرم عبدالمنان ناھید صاحب تحیر زا ہے اسپ وقت کی یہ برق رفتاری 123 75 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب مسیح خدا کو ملی یہ بشارت حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب امام و پیشوا جب مہدی ذیشان ہو میرا 77 مکرم مرزا حنیف احمد صاحب ضیاء نورمسیحا و مصلح موعود 78 مکرم مبشر احمد راجیکی صاحب خلافت سری ہستی ہے خلافت راز قدرت ہے 79 مکرم ملک نذیر احمد صاحب خلافت ظل رحمانی خلافت نور یزدانی 80 مکرم اکبر حمیدی صاحب فیروز والہ اک نئے انداز سے کی تو نے تفسیر حیات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب عبرت کا ہے مقام یہ منزل غرور کی 82 مکرمه امتہ القدیر ارشاد صاحبه اسلام کی خدمت میں عمرا اپنی گزاری 3 مکرم محمد ابراهیم شاد صاحب اے امیر المؤمنین تجھ پر سلام مکرم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب نور ہی نور ہم نے دیکھا ہے 85 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب مئی کی ستائیں یوم الخلافت 86 مکرم شاهد منصور صاحب ازل کی گود میں تخلیق کے جذنے تڑپ اٹھے 80 88 مکرم عبدالقادر صاحب خلافت وعده انعام ربی مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب ملتِ بیضا کی عظمت کا جو تھا بطل جلیل مکرم عزیز الرحمان منگلا صاحب خلافت باعث تخلیق انساں 124 126 127 128 129 130 131 133 134 136 137 138 140 143 144
ix 146 90 مکرم عبدالسلام اختر صاحب یہ نکتہ کیا نہیں ہے آدمی کے غور کے قابل 91 مکرم روشن دین تنویر صاحب ازل سے ہوا اہتمام خلافت مکرم اختر گوبند پوری صاحب کوئی داستاں ملے کیا میرے دل کی داستاں سے 148 93 مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلافت باعث صد جلوہ ہائے نور یزدانی 94 مکرم چوہدی علی محمد صاحب بی ٹی وہ زمیں شور تھی شورے سے یکسر سفید 95 مکرم سعید احمد اعجاز صاحب عشاق پاکباز کومہمان کئے ہوئے 96 مکرم جنرل ریٹائر محمود الحسن صاحب اک وعده خدا تھا يَسْتَخْلِفَنَّهُمْ 147 149 150 151 153 97 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ عجب محبوب تھا سب کی محبت اسکو حاصل تھی 154 98 مکرم عبدالسلام اختر صاحب فکر ونظر کو طلعت خورشید بخش کر 156 مکرم روشن دین تنویر صاحب وعده يَسْتَخْلِفَتْهُمْ کے وارث ہم ہی ہیں 157 دعا ئیں سن لیں ہماری خدائے قادر نے 158 100 مکرم نعمت اللہ خاں صاحب گوھر دعائیں 101 مکرم عبدالحمید شوق صاحب مسیح پاک کے فرزند کا دور خلافت ہے 102 مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب اللہ کی اک نعمت عظمیٰ سے خلافت 103 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم بشارت دی مسیحا کو خدا نے 104 مکرم عبدالمنان ناھید صاحب اے کہ عزم آفریں تھی ذات تیری 105 مکرم روشن دین تنویر صاحب ملتا ہے اسی قوم کو انعام خلافت 159 160 167 168 169 106 مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلافت دین و دنیا میں خدا کی مہربانی ہے 170
X 107 مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب عمر بھر جو کفر کی یلغار سے لڑتا رہا 108 مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ربوہ کے آسمان پر ٹوٹا مراستارہ 171 172 109 مکرم عبدالمنان ناهید صاحب آج اک در دمرے دل میں اٹھا ہے پیارو 173 110 مکرم میاں غلام محمد صاحب اختر تجھے بخشی گئی دیں کی خلافت 111 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ صبحیں افسردہ ہیں شامیں ویران ہیں 112 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب رہانیوں کاربو ہ یارب رہے سلامت مکرم شاہد اعظمی صاحب گوجره عرفان کی شراب پلاتا رہا ہمیں 113 114 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب رحمت کا تو نشان تھا قربت کا تو سبب 115 مکرم ارشاد احمد شکیب صاحب ضائع ہم آپ کا پیغام نہ ہونے دیں 174 175 178 179 180 181
xi نمبر شمار شاعر خلافت ثالثہ پہلا مصرعہ 116 حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ جاتے ہو مری جان خدا حافظ و ناصر صفحہ نمبر 183 117 حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ جب سے تجویز سفرتھی سب تھے مصروف دعا 184 118 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب درمیان جہان بے توقیر 119 حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب چودھویں کا چاند ہے پر چاندنی 120 مکرم نسیم سیفی صاحب بحمد للہ کہ انوار خلافت کی ہے ارزانی 121 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ زندگی میں چمن پہ نکھار آ گیا 122 مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری وعدہ ہے مومنوں سے حق تعالیٰ کا مدام 123 مکرم راجہ نذیر احمد صاحب سنا ہے اہل غرب کیا وہ آنے والا آگیا 124 مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری خلافت نور رب العالمیں ہے 125 مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ وہ محبت کا اک زندہ شہکار تھا 185 186 187 188 189 190 192 194 126 محترمه مومنہ فرحت صاحبہ لاکپور یہ کیا ہوا کہ نا گہاں سب اہل دل سنبھل گئے 195 127 مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ہے عہدِ خدا اہتمام خلافت 196 128 مکرم سید امین احمد صاحب کس طرح کیسے کروں اس کے محاسن کا بیاں 197 129 مکرم اور لیس احمد عاجز صاحب اے امیر المومنین اے جان جانان جہاں 198
xii 130 مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب سلام اس پر خدا نے نافلہ جس کو فرمایا 131 مکرم روشن دین تنویر صاحب سمجھتے ہیں وابستگان خلافت 132 201 202 مکرم مولا ناسیم سیفی صاحب رات ڈھلتی رہی وقت کند ہ ہولے ہولے پیام سحر آ گیا 203 133 مکرم رشید گجراتی صاحب کا شانہ احمد میں چراغاں ہی رہے گا 204 134 مکرم عبدالسلام اختر صاحب ادھر دیکھ آئے ہمدم ایک دنیا جاں نثاروں کی 205 206 135 مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلوص و شوق کی صدق وصفا کی بات کرو 136 مکرم مولانا عزیز الرحمان منگل صاحب ہے خلافت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز 207 137 مکرم عبد الماجد صاحب لائکپوری مرا پیارا آ قا رؤف و رحیم 138 مکرم پرویز پروازی صاحب جس کے سر پر تھا ہمیشہ خدا کا سایہ 139 مکرم ثاقب زیروی صاحب بغض اور نفرتوں کی دنیا میں 140 مکرم روشن دین تنویر صاحب جسے تیری محبت مل گئی ہے 141 مکرم مبارک احمد عابد صاحب میں نے ایسا نور دیکھا تیری جلوہ گاہ میں 142 مکرم نیم سیفی صاحب راہ گم کردہ قافلے سے ملا 143 مکرم روشن دین تنویر صاحب خلوص دل کی نعمت مل گئی ہے 144 مکرم نیم سیفی صاحب 208 210 211 212 213 214 215 پیام دیتے ہیں کون و مکاں نظام کے ساتھ 216 145 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب ساری دنیا ہے نفرتوں کی اسیر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب شکر اللہ آ گیا ہے باغ میں پھر باغباں 146 147 مکرم روشن دین تنویر صاحب جو ہاتھ آ گیا ہے خلافت کا دامن 217 218 220
xiii 148 مکرم عبدالسلام اختر صاحب دیدہ و دل نہ ہوں کیوں نغمہ سرا آج کے دن 221 149 مکرم محمد عثمان صدیقی صاحب گو ہر مقصود ہم کو مل گیا 150 مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب خدا کے بندے خدا کے حبیب ہوتے ہیں 151 مکرم روشن دین تنویر صاحب خدا کی تجھ کو قدرت دیکھتے ہیں 223 224 225 226 228 229 231 232 234 152 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب اک تپش سوز محبت کی ہمارے دل میں ہے 13 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب مردہ باداے ہمدمو! پھر چل رہا ہے دورِ جام 227 154 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ شکر باری تعالیٰ کہ اس نے ہمیں 155 مکرم سیدا در لیس احمد صاحب عاجز آسمانی ہے خلافت کا نظام 156 مکرم ثاقب زیروی صاحب جس کی باتوں میں خلق محمد کی لو 157 مکرم عبدالسلام اختر صاحب یہ حسن مدعا پر ہے نہ نشان ارتقاء پر ہے 158 مکرم یعقوب امجد صاحب یہ فیض نبوت کی برکت ہے ساری 159 مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ تھا بہاروں کا پیامی اس کے چہرے کا گلاب 235 160 مکرم سیدا در لیس احمد صاحب عاجز خلافت اس خدائے عز وجل کی ایک نعمت مکرم حضرت قیس مینائی نجیب آبادی السلام اے وارث تخت خلافت السلام 161 162 مکرم ثاقب زیروی صاحب ناصر تیری روح مقدس کو سلام 163 مکرمہ میز و ظهور صاحبہ 165 روح افروز ہے تیرا پیغام مکرم الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب پہلی قدرت کی صداقت کا نشاں وہ نافلہ 236 238 240 241 242 243 مکرم مبشر احمد راجیکی صاحب تعالیٰ اللہ علمدار خلافت 166 مکرم عبدالسلام اختر صاحب وہی جو خاک کے سینے سے پھول اگا تا ہے 245
xiv 167 مکرم ڈاکٹر نذیر احمد ظفر صاحب ہمیں جس کا تھا انتظار آ گیا 168 مکرم عبدالحمید شوق صاحب وہ آگئے پیام مسرت لئے ہوئے 169 مکرم اور لیس احمد عاجز صاحب قدرت ثانی کے مظہر افتخار قدسیاں 170 محترمہ شاکرہ بیگم صاحبہ از افق تا به افق امن کا پیغام دیا 171 مکرم عبدالرحیم راٹھور صاحب مثردہ فصلِ بہارِ جاوداں 172 مکرم عبد العلی ملک صاحب سنایا امن اور توحید کا پیغام دنیا کو مکرم عبدالکریم قدسی صاحب وہ ایک چہرہ حسیں چہرہ 174 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب احمد صد شکر کہ ہم لوگ ہیں انصارِ خلافت 175 مکرم احسن اسماعیل صاحب ا میرا بن امیر کارواں ہو 176 مکرم ثاقب زیروی صاحب تو شناور تھا پھیرے ہوئے طوفانوں کا 177 مکرم عبدالرحیم راٹھور صاحب دائمی ہے قدرت ثانی کا دور 246 248 249 250 252 254 255 257 258 260 261 178 مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب بھڑک رہی ہے اگر چہ دوزخ پہ تیرے مستوں کو 262 179 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب نگاہیں درد کا درماں مکرم شیخ سلیم الدین سیف صاحب تو نا خدا ہے ملت احمد کا پاسباں 181 مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ میں محفل کبھی تھا وہ جانِ جہاں 182 مکرم روشن دین تنویر صاحب اللہ نے باندھا ہے یہ پیمان خلافت 183 مکرم ابراہیم شاد صاحب خدا کی عطا کردہ نعمت خلافت 184 مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ عمر بھر وہ پیار کے ساغر لنڈھاتا چل دیا 185 مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب خلافت خدا کی مقدس امانت 264 265 266 268 269 271 272
XV محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آنکھ جس کی یاد میں ہے خونچکاں رخصت ہوا 187 محترمہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ آؤ مل جل کے کریں اس یار کی باتیں لوگو 188 مکرم عبدالحمید صاحب اس نے قوموں کو پلا ئی تھی شراب زندگی 189 مکرم عبید اللہ علیم صاحب وہ رات بے پناہ تھی اور میں غریب تھا 190 مکرم ثاقب زیروی صاحب سفیر امن و محبت پیمبر رافت 191 مکرم چوہدری محمد علی صاحب اب اسی دھن میں بھرے شہر کو جینا ہوگا 192 مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب رکھے گا زمانہ یادا سے جو ناصر دیں نے کام کیا 193 مکرم مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب آج پھر یاد آ گیا اک صاحب روئے جمیل 194 مکرم ثاقب زیروی صاحب تونے کی مشعلِ احساس فروزاں پیارے 195 مکرم سلیم شاہجہان پوری صاحب جو نظم و ضبط کا خوگر بنا گیا وہ شخص 196 مکرم سید ادریس احمد عاجز کرمانی صاحب بندہ رحمان ذی القرنین عالی شان تھا 197 مکرم سلیم شاہجہان پوری صاحب یاد آتی ہے وہ شفقت وہ محبت تیری 199 273 276 277 278 279 280 282 283 286 288 290 294 296 298 198 مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب نور کا جس کے گرد ہالہ تھا مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وہ صبر ورضا کا پیکر تھا دکھ در دکو ہنس کر سہتا تھا 297 200 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب آج پھر دل پہ اک چوٹ لگی 201 مکرم انور ندیم علوی صاحب پیار ہے سب کے لئے نفرت کسی سے بھی نہیں 305 202 محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ ئے خانہ ہستی کا حسیں پیر مغاں تھا 203 مکرم محمود احمد مرزا عبدالحکیم صاحب قرآن کے انوار سے سینہ ہے منور مکرم ڈاکٹر مہدی علی چوہدری صاحب اے ناصر دیں، فاتح دیں، نافلہ موعود 205 محترمہ امتہ الباری ناصر صاحب مسکرا تا حوصلہ دیتا وجود 306 307 308 309
xvi نمبر شمار 211 شاعر خلافت رابعه پہلا مصرعہ صفحہ نمبر 311 312 206 مکرم محمد شفیع اشرف صاحب مقصودر ہے کچھ تذکرۂ شانِ خلافت 207 مکرم روشن دین تنویر صاحب ملی ہے اسے زندگی جاودانی 208 مکرم سید اور لیس احمد عاجز کرمانی صاحب حضرت آدم کے قصے میں سبق یہ ہے نہاں 313 209 مکرم ارشاد احمد شکیب ایم اے اک حسنِ جہاں تاب جور بوہ میں مکیں ہے 315 مکرم سیدا در لیس احمد عاجز کرمانی صاحب وہی جو مونس و غمخوار ہے غربت کے ماروں کا 316 مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب سلام اس پر جسے حق نے خلافت کی ردا بخشی 317 212 مکرم عبدالسلام اسلام صاحب کئی اسرار پوشیدہ ہیں بطن علم و عرفاں میں 318 213 مکرم میر مبشر احمد طاہر صاحب آنیوالے کا بلندی پہ ہے تا را یا رب 214 مکرم امتہ القدیر ار شا د صاحبه دل سے نکلے ہوئے پر در دالو ہی نغمے 215 مکرم محمد صدیق امرتسری صاحب یہ سورہ نور میں وعدہ ہے سب ایمان والوں سے 321 216 مکرم عبدالکریم قدسی صاحب پاس تھا ہر معترض کے واسطے شافی جواب 323 217 مکرم اور میں احمد عاجز صاحب خلافت کا ہے مقصد کیا نہ وارائی نہ سلطانی 324 218 مکرم مبارک احمد ظفر صاحب عطاء خاص سے ہم کو ملی نعمت خلافت کی 219 مکرم محمد افتخاراحمد نیم صاحب دین حق کی سربلندی تیرا مقصود حیات 220 مکرم سیم سیفی صاحب مجھ سے پوچھو ہے میرا کون امام 319 320 328 329 330
xvii 221 مکرم امته الرشید بدر صاحبه تو ٹھنڈی گھنی چھاؤں سے لبریز شخص تھا 331 222 مکرم عبید اللہ علیم صاحب نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس 332 223 محترمہ رضیہ درد عاطف صاحبه ابر باراں کی طرح ہر ساوہ کوہ وکاہ پر 333 224 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب بیٹھے تھے ہم بھی عرش کی جانب نگہ کئے 225 مکرم سعید احمد صاحب 226 وابستہ خلافت سے نیا عزم نیا ذوق مکرم میر اللہ بخش تسنیم صاحب خلافت نے کیا کونین کا مقصود آدم کو 227 مکرمہ سیدہ منیره ظهور صاحبہ طاہر تو ایک جہد مسلسل کا نام ہے 228 مکرم آصف محمود باسط صاحب پیاری احمدیت کی خلافت 229 مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب اک نعمت عظمی ہے یہ انعام خلافت مکرم منصور احمد صاحب بی.ٹی چمکا وہ آسمان خلافت پر اس طرح 230 334 335 337 339 340 241 342 343 345 231 محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ شجر سے جور ہے وابستہ وہ پھلدار ہو جائے 232 مکرم عبید اللہ علیم صاحب بس ایک تو میں اسی کو کے گرد گھومتے ہیں 233 مکرم جمیل الرحمن صاحب آندھی اٹھتی رہی برق گرتی رہی جہل کی گود میں 346 234 مکرم میر اللہ بخش صاحب ہمارا خلافت پر ایمان ہے 347 235 مکرم جنرل ڈاکٹر محمود الحسن صاحب منبع علم و عمل اور پیکر صدق وصفا 349 236 مکرم نعیم اللہ باجوہ عبادت ہو کہ ریاضت ، طباعت ہو کہ خطابت 350
xviii 237 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ یہ تم نے کیا کیا جاناں 351 238 محترمہ نصرت تنویر صاحبه وہ تیرے دل میں رہے پیار کی دھڑکن کی طرح 355 239 محترمہ شاکره صاحبه خواب میں تھا ہر طلبگار مسیحائے زمن 356 240 مکرم مبارک احمد عابد صاحب پہلے ہی ہم ہجر کے مارے تھے از حد بے قرار 358 241 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب شہر ہے اک درد کا منظر ترے جانے کے بعد 360 242 محترمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبہ مثیل محمد ، مثیل مسیحا 243 مکرم جمیل الرحمان صاحب 244 مکرم انور ندیم علوی صاحب 361 چشم بینا کے لئے کیا کیا نظارے دے گیا 362 آپھر سے کریں یا رطرحدار کی باتیں 363 364 365 یہ کس کی جدائی ہے زمیں کانپ گئی ہے 245 محترمه طیبه رضوان صاحبه نور ہی نور برستا تھا زباں سے تیری 246 مکرم ضیاء اللہ مبشر صاحب 247 محترمہ امته الرفیق ظفر صاحبه اٹھتا ہے دھواں دل سے جب یاد تری آئے 366
نمبر شمار xix خلافت خامس شاعر پہلا مصرعہ صفحہ نمبر 248 مکرم صابر ظفر صاحب میں نے جو اس دل مسرور کی بیعت کی ہے 369 249 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب خلافت ہنر بشریت کا ہے قدرت ثانیہ کا اک مظہر 250 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب 370 372 ہر خوف کی حالت کو سدا امن میں بدلا 251 مکرم طارق بشیر صاحب 373 374 375 252 مکرم عبدالکریم قدسی صاحب آنکھ ہے نمناک دل مسرور ہے 253 مکرم ثاقب زیروی صاحب قلب گداز وزہن رسا تیرے ساتھ ہے 254 مکرم عبدالکریم قدسی صاحب خوف کو امن میں بدلا بکھرے لمحوں کو زنجیر کیا 376 مکرم عبد الصمد قریشی صاحب وہ حسن رنگ سخن لا جواب ہے اس کا 377 256 مکرم عبدالکریم قدسی صاحب خلافت سے محبت کی ملیں برکات پشتوں تک 378 257 مکرم عبدالسلام اسلام صاحب بنا محبوب تو رب الورائی کا مکرم قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت سے پھر روشنی ہم نے پائی 258 379 380 381 نور ایمان سے دنیا میں سویرا کر دے 259 مکرم عطاء المجیب راشد صاحب چن لیا مسرور کو اس نے امامت کے لئے 260 مکرم انور ندیم علوی صاحب 382 261 محترمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه ہم جسم ہیں اور جاں خلافت میں ہے اپنی 383 262 محترمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ اک تہنیت کا نعرہ ابھرا ہے اک مکاں میں 384 263 مکرم فرحت ضیاء راٹھور صاحب یہ تیری عطا ہے کہ بھی خوف ہوئے دور 385
XX 264 مکرم انور ندیم علوی صاحب سانسوں میں بسنے والے کیوں دور ہو گئے ہیں 386 مکرم عبدالصمد قریشی صاحب چشمہ فیض کہ ہر آن رواں رہتا ہے 387 266 مکرم سراج الحق قریشی صاحب خلافت دین حق کی برکتوں کا اک نشاں زندہ 388 خدا کے فضل کا سایہ ہمیشہ ہی رہے قائم 267 مکرم انور ندیم علوی صاحب تجھ کو خدا نے سایہ رحمت بنا دیا 268 مکرم عبدالمنان ناہید صاحب الہی رنگ سے رنگین ہے ہر قدرت ثانی 269 مکرم حمید المحامد صاحب 270 مکرمہ شہناز اختر صاحبہ 390 391 394 خلافت آسماں سے ایک نعمت کبریائی ہے 395 271 مکرم عبدالکریم قدسی صاحب ہوا کے رخ پہ دروازہ وہی ہے 272 مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب ہے خلافت کی محبت بحرنا پیدا کنار 396 397 273 الحاج مکرم محمد افضل خاں صاحب تر کی جنوں کے مرحلے عقل و خرد سے دور ہونگے 398 399 403 404 274 مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه خلافت اب تمنائے جاں ہے عمر دراز دے یارب ہمیں وفا 275 مکرم جمیل الرحمان صاحب 276 مکرم چوہدری اعظم نوید صاحب خلافت ہے نعمت خلافت انعام کفر و باطل پر اب وقت شام آچکا 277 مکرم مبارک احمد ظفر صاحب 278 مکرم عبدالصمد قریشی صاحب خدا کرے کے کٹے زیست اس میں کی طرح 406 وہ رشک ملائک یہی تاج ہے 279 مکرم عبدالسلام اسلام صاحب 280 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آگے بڑھتے رہو دم بدم دوستو 281 مکرمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت چشمہ علم و ہدی نوریقیں محکم مکرم ارشاد عرشی ملک صاحبه عرشی مری طرح سے سبھی کو ہے اعتبار 405 407 409 411 412
XXI 283 محترمه جمیل الرحمان صاحب پنہائی اس نے تجھ کو خلافت کی عبا مکرم عبدالصمد قریشی صاحب یہ سب اسی کا کرم ہے دیار یار میں ہیں 285 مکرمه در تمین طاہر صاحبہ یہ بجز سے بھرا ہوا پیارا لگا وجود 413 414 415 416 اطاعت اور وفا کی راہ پر ہم کو رواں رکھنا 286 مکرم ارشاد عرشی ملک صاحب 287 مکرم چوہدری شبیر احمد سلمان صاحب ہم دل و جاں سے خلافت کے رہیں گے پاسباں 417 418 420 422 423 288 مکرمه شگفته عزیز شاه صاحبه آج دل کو قرار آیا ہے یہی نوع بشر کے واسطے تقدیر یزدانی 289 مکرم عبدالسلام اسلام صاحب زندگی خواب پریشان سے بیدار ہوئی 290 مکرم جمیل الرحمان صاحب جو خلافت کے سائے میں آجائیں گے 291 مکرم مبارک احمد ظفر صاحب 292 مکرم سید محمود احمد صاحب یہ تیری کرامت ہے پیارے جو دشت کو سبزہ زار کیا 424 293 مکرم چوہدری محمد علی صاحب مضطر جس حسن کی تم کو جستجو ہے 294 مکرم ڈاکٹر محمد صادق جنجوعہ صاحب کیا کبھی باغوں میں دیکھا آپ نے ایسا شجر 426 425 427 428 جو دل تھے بیابان سو سال پہلے 95 مکرم ارشاد عرشی ملک صاحب 296 مکرم الحق ظفر صاحب اعجاز ہے خالق کا کرم اور عطا بھی 297 مکرم عطاء الکریم شاد صاحب کڑی چو تھی پر ہمارے لئے خدا کی محبت کا سایہ ہا 429 298 مکرمه شگفته عزیز شاه صاحبه مسرور کیا ہے ہمیں مسرور ہی رکھنا 299 مکرمہ ارشاد عرشی صاحبہ فضل ربی سے ہے ہم پر سایین قدرت ثانیہ 431 430 432 ہے محبت کا کرشمہ فاصلوں کے باوجود 300 مکرم انور ندیم علوی صاحب 301 مکرم مبارک صدیقی صاحب گزرے ہوئے سوسال کی تاریخ گواہ ہے 433
xxii 302 435 مکرم خلیل احمد خلیل صاحب کراچی زیر سایہ آگئے ہیں جو خلافت کے خلیل احمد 303 مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب خلافت جو بلی کا سال ہم سب کو مبارک ہو 436 437 ہم اپنا انتخاب نظر دیکھتے رہے 304 مکرم محمد ابراهیم شاد صاحب 305 مکرم ظہور احمد ناصر صاحب خلافت کی امامت کا محافظ رب رحماں ہے 438 306 مکرمہ احمدی بیگم صاحبہ لاہور اے خدائے ذومتیں اے مالک کون ومکاں 439 307 محترمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت کی غلامی ہے ضمانت تیری قربت کی 440 اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہریار 308 مکرم جمیل الرحمن صاحب ہالینڈ 309 مکرمہ شاہدہ سید صاحبہ میرے امام کی ہوں دعا ئیں سبھی قبول 441 442 443 444 445 446 447 مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب تجھ سے ملی ہے ہم کو ابد تاب زندگی 311 مکرم منیر احمد ریحان صاحب صابر خلافت نعمت اولی ، خلافت فضل ربانی آخریں پر رہے.اے خدا یہ کرم 312 مکرم عطاء کریم شاد صاحب 313 مکرم عبدالعزیز منگل صاحب خلافت باعث تسکینِ جاں ہے 314 مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب اس دلربا کی چاہت محسوس کر کے دیکھو زمانے کے طوفان اور آندھیوں میں 315 مکرم سید طاہراحمد زاہد صاحب 316 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ اخلاص ہے دستور غلامان خلافت 317 مکرم آفتاب احمد اختر صاحب خلافت کی اطاعت تو ہے اک گنج گراں مایہ 450 318 مکرم رشید قیصرانی صاحب میرا معتبر حوالہ کوئی ہے تو بس یہی ہے 448 449 451 319 مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب ترے لمس عقیدت کی عنایت ہے میرے آقا 452 320 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آؤ محبتوں کے ترانے سنائیں ہم 453
xxiii 456 457 458 321 مکرم مبارک احمد عابد صاحب ہماری سر بلندی ہے فقط اس کی غلامی میں 455 سوسال خلافت جو تسلسل سے رواں ہے 322 مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ حکومت نہ تو کوئی بادشاہت 323 مکرم مبارک ظفر صاحب تیرا آنا قدرت قادر کا اک زندہ نشاں 324 مکرم عطاء المجیب راشد صاحب 325 مکرم لئیق احمد عابد صاحب یہ جو ہر شخص نے خوداپنی تلاوت کی ہے 326 مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خدال صاحب نبوت کا فیض رساں ہے خلافت خلافت جو بلی ہے زندگی تسخیر کر لینا 327 مکرم عبدالسلام عارف صاحب 459 460 461 مکرم یونس احمد خادم صاحب مجھے کیا خوف دنیا سے مجھے کیا غم حوادث کا 462 329 مکرم فاروق محمود صاحب لرزتی کپکپاتی اک جماعت کو سنبھالا تھا 463 خدا سے فضل واحساں سے یہ نعمت جاودانی ہے 464 330 مکرم ظہور احمد صاحب 331 مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب خلافت کے امیں ہم ہیں خلافت ہم سنبھالیں 465 دیکھئے معجزہ خلافت کا 332 مکرم ناصر احمد سید صاحب 466 467 احمدی تجھ کو مبارک صد مبارک سال نو 333 مکرم محمد باشم سعید صاحب 334 مکرمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت ہی کے دم سے بارش عرفاں سدا بر سے 467 مجھے رستہ دکھانے کوستارہ دور تک پہنچا 335 مکرم احمد مبارک صاحب خلافت کے پر تو میں بیٹھے یہاں 336 مکرم محمد ہادی صاحب مکرم کرنل محمود الحسن صاحب دل میں اک کرب کا طوفاں بپا ہے اس کو 337 468 469 471 338 مکرم مبارک احمد ظفر صاحب یہ خاص عطائے ربی ہے ہم اہل وفا اہل اللہ پر 472 مکرم مبشر خورشید صاحب انجینئر ٹورانٹو کیسے کی ربّ نے جماعت کی حفاظت دیکھی 473
xxiv 340 مکرم سراج الحق قریشی صاحب خلافت سے وابستہ ہے دیں کا غلبہ سب دکھ درد کروں گا دور 341 مکرم طاہر عدیم صاحب جرمنی 342 مکرمہ تہمینہ تین صاحبہ 474 475 زیست کی دھوپ میں اک شخص ہے چھاؤں جیسا 477 343 مکرم فاروق محمود صاحب خدا یا اے میرے پیارے خدا یا 478 344 مكرم عبدالصمد قریشی صاحب ہجر کے رنج والم دل میں بسائے رکھنا 479 345 محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ خدا کا یہ احسان ہے ہم پہ بھاری خلافت وہ امید کی روشنی ہے 346 مکرم سید طاہراحمد زاہد صاحب 347 مکرم محمد رفیق اکبر صاحب جنہوں نے کیا ہے خلافت سے پیار 480 481 482
حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ 1 خلافت اولی
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ له 2 چہ خوش بُو دے اگر ہر یک زائت نور دیں بودے ہیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے نوٹ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت خلیفہ المسح الاول کے اخلاص و ) وفا کے بارے میں اپنی کتاب ' نشان آسمانی ، میں فرماتے ہیں:.مولوی حکیم نور دین صاحب اپنے اخلاص اور محبت اور صفت ایثار اور للہ شجاعت اور سخاوت اور ہمدردی اسلام میں عجیب شان رکھتے ہیں، کثرتِ مال کے ساتھ کچھ قدر قلیل خدا تعالیٰ کی راہ میں دیتے ہوئے تو بہتوں کو دیکھا ، مگر خود بھو کے پیاسے رہ کر اپنا عزیز مال رضائے مولے میں اُٹھا دینا اور اپنے لئے دنیا میں سے کچھ نہ بنانا یہ صفت کامل طور پر مولوی صاحب موصوف میں ہی دیکھی یا اُن میں جن کے دلوں پر ان کی صحبت کا اثر ہے مولوی صاحب موصوف اب تک تین ہزار روپیہ کے قریب اللہ اِس عاجز کو دے چکے ہیں اور جس قدر ان کے مال سے مجھ کو مدد پہنچی ہے اس کی نظیر اب تک کوئی میرے پاس نہیں ، اگر چہ یہ طریق دُنیا اور معاشرت کے اصولوں کے مخالف ہے مگر جو شخص خدائے تعالیٰ کی ہستی پر ایمان لا کر اور دین اسلام کو ایک سچا اور منجانب اللہ دین سمجھ کر اور با ایں ہمہ اپنے زمانہ کے امام کو بھی شناخت کر کے اللہ جلشانہ اور رسول اللہ صلعم اور قرآن کریم کی محبت اور عشق میں فانی ہو کر محض اعلاء کلمہ اسلام کے لئے اپنے مال حلال اور طبیب کو اِس راہ میں فدا کرتا ہے اس کا جو عند اللہ قدر ہے وہ ظاہر ہے.
حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ 3 اللہ جلشانہ فرماتا ہے لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبّون خُدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اُس پر نثار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اُسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے خدا تعالیٰ اس خصلت اور ہمت کے آدمی اس امت میں زیادہ سے زیادہ کرے آمین ثم آمین.چہ خوش بودے اگر ہر یک زانت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے ،،
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 4 ہم میں دنیا کی ملونی ، اس میں ہے نور و ضیا حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ عنہ وہ خلیفہ مجھ کو بخشا جس کی سیرت نیک ہے جو اشاعت دین کی کرتا ہے ہم میں دائما حامی سنت ہے جو اور حافظ قرآن حاجی حرمین ہے امت کا جو ہے عابد و زاہد ہے ہم میں ہے مگر ہم سا نہیں ہم میں دنیا کی ملونی اس میں ہے نور و ضیا ہے رہنما ناصر بیکس کی ہے یارب یہی تجھ سے دُعا آجکل بیمار ہے وہ اس کو دے جلدی شفا رحم کرتا ہے وہ سب پر تو بھی اس پر رحم کر وہ دوا کرتا ہے لوگوں کی تو کر اس کی دوا وہ کرم کرتا ہے خلقت پر تو کر اس پر کرم کیونکہ ہے تو سب سے بڑھ کر باحیا و باوفا کر ہمیں تو با مراد اور ان کو کر دے نامراد اپنے نور الدین کو دے دے مرے مولیٰ شفا عرض بندہ کر چکا مولیٰ کرے اس کو قبول دوستو ! آمیں کہو ناصر کی تم سُن کر دعا
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 5 صبح کے دس منٹ حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے مزار پر انوار پر حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب آپ اے امیر المؤمنیں آپ اے امام منتظمیں ہر وقت ہم کو یاد ہو بھولے نہیں بھوکے نہیں اسلام کے ماہ میں اے آفتاب علم و دیں کیوں چھپ گئے زیر زمیں چمکو بانوار یقیں مضحل بے چین ہے پہلو میں دل جانِ حزیں ہے سینہ پر اپنے رکھ کے سل رہتے ہیں ہم اندو نگیں نالائقی اُس قوم کی کچھ بھی نہ جس نے قدر کی وہ رسم الفت چھوڑ دی باہم بڑھالیا بغض و کیں اف کیا کہوں کیا ہو گیا جو مال تھا وہ کھو گیا بیدار ہو کر سو گیا یہ مجمع اخوانِ دیں یا رب یہ کیا اندھیر ہے قسمت کا کیسا پھیر ہے تیرے کرم کی دیر ہے ہاں بات تو کچھ بھی نہیں اے کاش وہ سوچیں بھی آیا تھا ہم میں اک نبی اُس نے ہمیں تعلیم دی مل کر کریں خدمات دیں جوں دانہ تسبیح ہم ، ہوں ایک رشتے میں بہم جاتے رہیں سب غم و ہم ، خوشیاں منائیں ہم یہیں
حضرت خلیفة المسیح الاول رضی الله عنه 6 اک دوسرے پر جان دیں منوائیں کچھ ، کچھ مان لیں اور صدق دل سے جان لیں چارہ بغیر اس کے نہیں ہو اک امام و مقتدا ، محمود احمد میرزا ہر دلعزیز و پارسا ، عالم باعمال متیں فاروق ہے سرگرم ہے ، دل کا نہایت نرم ہے آنکھوں میں اس کی شرم ہے چہرہ ہے یا ماہ مبیں اے کاش! وہ آتے یہاں ، قرآن کا سنتے بیاں وہ نکتہ ہائے دلستاں جو ہیں غذائے مؤمنیں مرکز بناتے قادیاں ، جو کچھ ہے لاتے قادیاں آتے تو آتے قادیاں ، مامن بنا لیتے ہیں دارالاماں کو چھوڑ کر ، اللہ سے منہ موڑ ہاں عہد اپنا توڑ کر ، جاتے نہ پھر ہر گز کہیں اے نورِ دین مصطفیٰ ، میں قبر پر تیری کھڑا رونا وہی رونے لگا، جس سے مرا دل ہے حزیں میں ضبط سے معذور ہوں ، اس خبط سے مجبور ہوں خدمت سے تیری دور ہوں کچھ سوجھتا مجھ کو نہیں اکمل کا جی گھبرا گیا ، اس واسطے یاں آگیا اس کو تو یہ غم کھا گیا ، مانا نہ حکم نور دیں
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 7 کس درد سے کسی پیار سے کتنے بڑے اصرار سے اس نے کہا اخیار سے ، میرا ہو کوئی جانشین! مکرم راجہ نذیر احمد صاحب گئے قدرت ثانیه کے کرشمے کسی میں طاقت کہاں اللہ ! اللہ ! جھکے منکرین خلافت بھی کیسے تھا نور دیں کا نشاں اللہ ! اللہ ! ستائیس ہے دن خلافت کا ٹھہرا گواہ اس پہ ہے سب جہاں اللہ ! اللہ !
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 8 سید نانورالدین حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب بڑا قدیر ہے پروردگار نورالدین عالم دیار نورالدین بنایا ہے جو کیسے تھے دیکھنا ہو کسی نے صحابہ وہ آکے دیکھ لے لیل و نہار نورالدین انقطاع و تبتل پھر اس زمانہ میں خاص حصه باختیار نورالدین ہر ایک کام میں سنت کا متبع رہنا یہی شعار یہی ہے دیار نورالدین بوقت عصر جو مسجد میں درس ہو تا ہے دکھائی دیتی ہے کیسی بہار نورالدین سپر د امت احمد کی دیدبانی ہوئی جناب حق میں ہے یہ اعتبار نورالدین جو پیشگوئی میں پڑھتے تھے اسمہ احمد رکھتے بعد ازاں انتظار نورالدین وہ خدا کا شکر کہ آخر مُراد بر آئی بنے ہیں فضل سے ہم جاں نثار نورالدین
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 9 وہ صدق میں ہے ابوبکر فرق میں ہے عمر دلائے یادِ علی ذوالفقار نورالدین جو توڑتی اعدا کو ہے دلائل دلائل سے منا کے چھوڑتی ہے افتخار نورالدین غنا میں جامع قرآں کی شان ہے پیدا خدا کے آگے ہے صرف انکسار نورالدین ہے چشمہ فیض کا جاری برحمت باری بجھائے تشنگیاں آبشار نورالدین مسیح وقت کی خدمت کا یہ نتیجہ ہے کہ خاص و عام کا مرجع ہے دار نورالدین غلام مهدی دوراں فقیر باب قدیر ہوا خلوص سے مدحت نگار نورالدین دُعا قبول ہو یہ خاکسار اکمل کی چمکے مہ نور بار نورالدین
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 10 مارچ ۱۹۱۵ حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب یہ وہی دن ہے کہ جب اے نورِ دین مصطفیٰ ہم سے تو رخصت ہوا اللہ سے واصل ہوا یاد ہے ہم کو ترا نورانی چہرہ یاد ہے شان صدیقی نظر آتی تھی جس میں برملا وہ تترا لطف نمایاں وہ تیرا رُعب و وقار سچ تو یہ یہ ہے تو بھی گویا جامع الاضداد تھا جان و دل سے سب فدا تھے اور پھر ڈرتے بھی تھے بیٹھتے تھے پاس لیکن کانپتے تھے ہم سدا رُعب و داب ایسا کہ عرض حال بھی دشوار تھا بے تکلف اس قدر بچے بھی کہہ لیں ماجرا غیر مسلم بھی ترے مداح پائے جاتے ہیں تیری باتوں میں ملا کرتا تھا اُن کو بھی مزا خرق عادت طور اخلاق میں شائستگی پر ترا قول و فعل ، قول و فعل حزب مرتضی وہ جو قرآں کے معارف تو سناتا تھا اور وہ پند و نصائح بھول سکتے ہیں بھلا
حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ 11 جو وصیت تو نے کی ہم نے عمل اس پر کیا جانشیں تیرا خدا کا مصطفیٰ پالیا وہ جو عفو الناس ہے دل کا نہایت ہی حلیم اور اپنی شان میں ہر دلعزیز و پارسا مکرم مبارک احمد عابد صاحب مجسم وہ تصویر ایمان تھا دل و جان سے عبد رحمان تھا سراپا تو گل تھا ایمان تھا وہ عشق نبی ، عشق قرآن تھا مسیحائے دوراں پہ قربان تھا وہی نوردیں ، اعظم الشان تھا
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 12 مرید با صفا ایسا ، کہ مرشد بھی تھا گرویدہ مکرم عبدالمنان ناہید صاحب لگا جب اُسکو مشکل مرحلہ تنہا مسافت کا مسیح پاک نے اللہ سے اک صدیق کو مانگا مسیح و مہدی دوراں کی پیہم التجاؤں فضائے آسمانی بھر گئی اُسکی دعاؤں سے عطا اسکو ہوا اک جاں شار باوفا ایسا ملا اسکو ، تو پایا اسکو جیسا اُسنے مانگا تھا وہ اک شاہی طبیب اُسکی بسر اوقات شاہانہ پر اسکے باوجود اُسکی طبیعت تھی فقیرانہ وطن سے قادیاں آیا ، وطن کو پھر نہیں لوٹا مسیح پاک کے در پر وہ دنیا بج کے آبیٹھا پھر اسنے ایک دن مرشد کی خدمت میں یہ لکھ بھیجا میں ہوں تجھ پر فدا، جو کچھ بھی ہے میرا وہ ہے تیرا محبت اُس سے کی ، تو کی پھر ایسے پیروی اُسکی ہے کرتی پیروی جوں نبض کی حرکت تنفس کی نگہ باریک ہیں اور نکتہ رس اور جامع الانوار رقيق القلب ، عالم باعمل اور زبدۃ الاخیار
حضرت خلیفة المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 13 وہ خود بھی نور دیں تھا ، دست قدرت کا تراشیدہ مرید باصفا ایسا ، کہ مرشد بھی تھا گرویدہ جو جاتے اُسکی محفل میں وہ بھر کر جھولیاں لاتے لطائف اور دقائق اور معارف اور حقائق دعا گو ، حاجی الحرمین ، صدر بزم مقبولین حکیم و مولوی و حافظ القرآن نور الدین ہوا پھر ނ جو صد یقیت اس میں تھی ، ملا اسکا صلہ اُسکو خدا نے قدرتِ ثانی کا مظہر چن لیا اسکو یہ مرید باصفا ہی جانشیں اُسکا رہا وہ چھ برس تخت خلافت پر سریر آرا منور ہو گیا انوار مشکوۃ نبوت سے جماعت کو ملی تمکین دیں اُسکی خلافت سے بالآخر وقت آیا ، اسکو اللہ نے بلا بھیجا وہ دیرینہ محب محبوب کے پہلو میں جالیتا نصیب اچھا تھا جو اُسکو در مولی پہ لے آیا مسیح پاک نے خود اسکے حق میں خوب فرمایا چه خوش بودے اگر هر یک زامت نورِ دیں بودے همیں بودے اگر هر دل پر از نور یقیں بودے
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 14 حضرت خلیفہ اسیح الا قول رضی اللہ عنہ مکرم عبدالمنان ناہید صاحب تری وفا بھی مسلم ترا خلوص بجا تری حیات کے دامن میں حرص جاہ نہیں تری غلامی آقا نے کی ثنا تیری کی عظمت میں اشتباہ نہیں ترے مقام تری نگاه تو کل میں کیا تھا الا اللہ کمال علم و یقیں صرف لاالہ نہیں تری نظر میں تھا محمود کا مقام وہاں جہاں خمیر غرور و ابا کو راہ نہیں منسوب ہزار حیف کہ کچھ لوگ تجھ سے ہیں ترے طریق یہ جن کی مگر نگاہ نہیں تجھ کو ترا طریق که خدمت میں کرتا نہیں انہیں گلہ کہ تو وہ کہ خواہش آقا بھی حکم تیرے لئے یہ وہم بغاوت بھی کچھ گناہ نہیں انہیں سلطان کجکلاہ نہیں محبتوں کو فراموش کر گئے یکسر مروت آنکھوں میں باقی دلوں میں چاہ نہیں
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 15 تیرا پیارا ، وہ تیرے مسیح کا محمود پوچھتے کیا وہ سلیماں جاہ نہیں ނ نہ جانے کیوں یہ ہوئے اسقدر وفا شناس اس کی شفقت پیہم کے کیا گواہ نہیں یہ ہمارے زخم جگر پر نمک چھڑکتے ہیں یہ بات تجھ کو سناتے بھی دل دھڑکتے ہیں مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری مُبارک وہ حقیقت جان لی جس نے خلافت کی مبارک وہ قیادت مان لی جس نے خلافت کی مبارک وہ جو پیوستہ خلافت کے شجر سے ہے کہ وہ محفوظ ہر خوف و خطر ، ہر فتنہ گر سے ہے
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 16 معدن بھیرہ کا وہ لعل گراں ، ڈر میں مکرم عبدالسلام اسلام صاحب معدن بھیرہ کا وہ لعل گراں ، ڈر میں آسماں کے نور سے جس کی چہکتی تھی جبیں اک چنیدہ گھر میں تھا وہ حق نما پیدا ہوا جس کے قول و فعل پر ہے اک جہاں شیدا ہوا وہ گھرانہ اُس علاقے میں تھا مامند چراغ جس کی کو کو دیکھ کر لوگوں کے دل تھے باغ باغ جستجوئے علم میں وہ جا بجا پھرتا رہا ہوئے حکمت ٹوٹنے مثل صبا پھرتا رہا اکتساب علم کی خاطر سفر کرتا رہا دولت حکمت سے دامن دمبدم بھرتا رہا رام پور پہنچا ، کبھی بھوپال ، گا ہے لکھنؤ ہاں حصول علم کی خاطر پھرا وُہ سُو بسو علم کی رو میں جہاں اس کے قدم پڑتے گئے آنیوالوں کے لئے اک کہکشاں جڑتے گئے
حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ 17 مکہ و میثرب میں توفیق ریاضت بھی ملی حاجی الحرمین ہونے کی سعادت بھی ملی بعد اک عرصہ کے آیا وہ وطن کو لوٹ کر شام کو آتا ہے جوں بلبل چمن کو لوٹ کر یاوری قسمت نے کی وہ بن گیا شاہی طبیب جا بسا کشمیر میں بالآخرش مردِ نجیب اُس زماں میں میرزا کو دعویٰ الہام تھا مصطفی کے منکروں کو زیر کرنا کام تھا گرز بُرہان قوی سے توڑتا تھا وہ صنم ہاں مثال تیغ دو دم چلتا تھا اُس کا قلم دین حق کی کرتا تھا ثابت جہاں میں برتری دم دبا کر بھاگ جاتے تھے وہ پنڈت ، پادری گیا قسمت سے اُس کو میرزا کا اشتہار جس کو پڑھ کر آگیا وہ قادیاں دیوانہ وار حضرت اقدس سے یوں ملنے کا ساماں ہو گیا دیکھتے ہی جس کو وہ سو جاں سے قرباں ہو گیا آنکھ متوالی تھی اسکی حق کے درین کے لئے آگیا کشمیر سے مرزا کے درشن کے لئے
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 18 اُسکی آنکھوں پر ہویدا تھا مقام میرزا قبل از بیعت بھی تھا گویا غلام میرزا مصلح دوراں کی تھا شاید دُعاؤں کا اثر شکل نورالدین میں تھا مل گیا کامل ثمر آبتاؤں میں کہ وہ مردِ مجاہد کون تھا؟ عاشق مرزا تھا وہ ہر آن اُسکا عون تھا اُسکے سینے میں بیا اک عشق کا طوفان تھا وہ رضائے میرزا پر ہر گھڑی قُربان ختگی تھی علم کی آیا وہ جب مرزا کے پاس یاں بھی لیکن اُسکی بجھ بجھ کے بھڑک اُٹھتی تھی پیاس مکتب کامل تھی اُسکو گفتگوئے میرزا لاکھ میخانوں سے بڑھ کر تھی سبُوئے میرزا فطرت زرخیز میں کیا تخم اُلفت ہو گئی ! صحبت مرزا تھی سونے پر سہاگہ ہو گئی بیعت اولی کا دن اُس کے لئے تھا یوم عید رحمت یزداں ہوئی اُس پر بنا پہلا مُرید آجمایا ڈیرہ واں آیا کا ڈیرہ چھوڑ کر قادیاں کا ہو گیا وہ اپنا بھیرہ چھوڑ کر
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 19 بندیہ مہدی کا تھا مت دلیس کا کرنا خیال اِس اِشارے میں تھی شاید کوئی حکمت بے مثال پیکر عشق و وفا نے یوں جھکایا اپنا سر حضرت مہدی کے چرنوں میں بسا بیٹھا وہ گھر دل کی گہرائیوں سے تھا ہر دم فدائے میرزا نقطۂ محور تھا اُس کا بس رضائے میرزا رکس قدر ڈوبا ہوا تھا عشق کے انوار میں! صورتِ صدیق تھا وہ سیرت و کردار میں نور دیں کے نور سے تارے ہوئے تھے ماند ماند اُس کی سیرت کو لگائے میرزا نے چار چاند اُس کا مال و جان و تن سب کچھ فدا تھا دین پر ہستی کو کے لئے وہ مر مٹا تھا دین پر اسکی مرضی حق کی مرضی سے مگر واصل رہی میرزا کی اُسکو خوشنودی سدا حاصل رہی میرزا کی ہر ادا شمع تھی ، پروانہ تھا وہ تھا فدائے رُوئے دلبر خود سے بیگانہ تھا وہ میرزا سے اسکو نسبت تھی جو نبض و دل میں ہے عشق کا تھا وہ تعلق کہ جو اصل وظل میں ہے
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 20 20 تھا فدا محبوب پر اپنی رضا سے دور تھا عادت 'لبیک' تھی چون و چرا سے دُور تھا بے نیاز این و آں تھا حق تعالیٰ کا ولی عشق کے مضمون کا شاید تھا عُنوان جلی اُس کے ماتھے پر چمکتا تھا سِتارہ سعید تھا نگاه میرزا میں سر برآورده مُرید جب مسیحا کر گئے دُنیائے فانی سے وصال مسند آرائے خلافت وہ ہوا زہرہ جمال اُس کا تھا دورِ خلافت زلزله در زلزله تھا جس کا تھا شاید مداوا اس کا عزم و ولولہ قلم کا گر دھنی تو وہ خطیب بے مثال جس کا کردارِ درخشاں تا ابد ہے بے مثال پیش حق گو آنکھ اُسکی اشک آلودہ رہی دل کی حالت مطمہ اور آسودہ رہی حافظ قرآن تھا وہ ہر طریق و طور میں بازگشت آتی رہے گی جسکی ہر اک دور میں آنے والے دور پر اُسکی نظر پڑتی رہی اسکی قوت باغیوں سے ذمہدم لڑتی رہی
حضرت خلیفہ مسیح الا ول رضی اللہ عنہ 21 21 حفظ ناموس خلافت کا اُسے رہتا تھا پاس اپنے رکردار و عمل سے رکھ گیا محکم آساس قدرت ثانی کو تھا وہ جانتا قدرت کا ہاتھ جس کا مطلب تھا کہ وہ محفوظ جو ہے اسکے ساتھ نطق روشن سے جہاں میں اک اُجالا کر گیا وہ خلافت کا ابد تک بول بالا کر گیا میرے نور الدین ! بے شک تا ابد زندہ ہے تو ! تو ہے اسم با مسمی کہ درخشندہ ہے تو! تھا ترا فقر و توکل لا جرم ایماں فروز سیرتِ اقدس تیری ہے بخشتی ہر دل کو سوز چشم دل سے دیکھتا تھا تو خدا کو ہر گھڑی ہو گئی کافور یکدم جو بھی مشکل آپڑی مہدی برحق کا تھا تو اک مثالی جاں نثار تیری سیرت پڑھنے والوں کو ہے آجاتا خُمار ہاں ترے فقر و غنا کی اک نرالی شان تھی! تیری ہر حرکت کا محورِ قوتِ ایمان تھی! جنت الفردوس میں رتبہ ترا ممتاز ہو! سُوئے سدرہ رُوح تیری کی سدا پرواز ہو!
حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ 222 22 غزل مکرم صوفی تصور حسین صاحب اور لیس بریلی ثم قادیانی نشور نور احمد سے ہے جاں روشن جہاں روشن زمین و آسمان روشن ، مکیں روشن ، مکاں روشن ہوا جب طفیل اُس کے ہے ہر سُو روشنی دارین میں پھیلی ادھر روشن ادہر روشن یہاں روشن وہاں روشن P جلوہ فرما تختِ دل پر نام احمد دل و جاں ہو گیا روشن دہن روشن زباں روشن مور فیض سے اُس کے ہوا ہے ظاہر و باطن عذار گلر خاں روشن ڈرون مومناں روشن وہی ہم گمرہوں کے واسطے شمع ہدایت ہے اُسی سے خامہ گاں کے دل میں ہے باغ جناں روشن یہ تازہ نور افشانی ہی اُس کی دیکھ لی سب نے نہاں تاریکی اسلام کی اُس نے عیاں روشن مٹا کر ظلمت کفر و ضلالت نور پھیلایا کہ رُوح عارفاں روشن ہے راہِ سالکاں روشن البہی نور سے اپنے منور کر میرا سینہ وجود نور دیں سے جس طرح ہے قادیاں روشن
حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ 23 نورالدین مکرم عبدالخالق صاحب از مظفر نگر میرے دردِ دل کی دوا نور دیں ہے مرا مقتداء پیشوا نور دیں ہے که خلافت کا لعل درخشاں مرا نور دیں ہے مرا نور دیں ہے ہوا تجھ ނ اسلام روشن جہاں میں مرحبا مرحبا نور دیں ہے تو نور خدا تو ہے نور احمد 6 تو نُور علی نور کیا نور دیں ہے مجھے بھی تو کر نوردیں ހނ منور سجدة شعر دیں دار بھائی یہی آپ التجا نور دیں کریں فضل خدا سے ملا نور دیں ہے میں سو جاں سے تجھ پر تصدق نہ کیوں ہوں ترے ہاتھ میری شفا نور دیں ہے تو چل سر کے بیل خدا کا پیارا محمد کا شیدا ابوبکر صدیق صدیق سا نور دیں ہے قادیاں عبد خالق وہاں تیرا رونق فزا نور دیں ہے
حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ 24 حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین خلیفه مسیح الاول کا ہر فرد مکرم نسیم سیفی صاحب ربوه ہو گر نور دیں صد آفریں آسماں بھی کہہ اٹھے زندگی کی ظلمتیں کافور ہوں دل میں بجلیاں ہوں جاگزیں گھڑی ہر ہر آن ہر لحظه سفر معرفت کے شوق کی حد ہی نہیں راہ مولا میں لئے ہر جان و دل صدقِ دل ہو آپ ہی اپنی مثال مدعائے زیست ہو جاں آفریں کچھ ثار سجدة طاعت کی حامل جبیں دیں راستی ہو محور دنیا ہو امام وقت پر خدمت انسان افتخار انکسار و عجز فطرت کے امیں فرد ملت ہے ملت فرد سے آگیا ہونٹوں راز حسیں
حضرت خلیفة المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 25 نور دیں شمع ہدی کا نور تابندہ ہوئی راہ اس دیکھ کر نقش قدم اس کا نیم منزل میں کوئی دوری نہیں * از مکرم منشی جھنڈے خان صاحب بعد مهدی نور دیں کو چن لیا رحمان نے اور خلیفہ کر دیا خود قادر سبحان نے پہن کر تاج خلافت صاحب عرفان نے حق ادائی خوب کی اُس عامل قرآن نے چھ برس نت درس میں جلوہ گری نوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 26 حضرت مولانا نورالدین کا مقام مکرم را جه نذیر احمد ظفر صاحب ربوه مٹ نہیں سکتا تصور سے وہ نقش دلنشیں وہ مُحبّ مهدی آخر زماں وہ نور دیں جس کی ہمت سے عیاں کون و مکاں کی وسعتیں وہ خودی کا آسماں وہ عجز و طاعت کی زمیں چشمہ ہائے علم وحکمت جس کے ہونٹوں سے رواں جس کے دل میں موجزن تھا ایک دریائے یقیں جس کی خاطر مائده نازل ہوا صبح و مسا ظاہری اسباب سے بالا رہا جس کا یقیں طائر دل گو رہا خود بے نیاز آشیاں لیک یارِ بے مکاں اس میں رہا ہر دم مکیں شاہ تھے پر فقر سے رکھتے تھے ہمت کو بلند ی تھی ان کی نظر میں رفعت چرخ بریں ظر ہو یا کیسر ہو سب خوب تھا اُن کیلئے حسن رؤیت کا کرشمہ تھا کہ تھی ہر شے حسیں
حضرت خلیفہ اصبح الاول رضی اللہ عنہ 27 27 بختیار و بے نوا اُن کی نظر میں ایک تھا کوئی بے مایہ ظفر سا ہو کہ ہو فغفور چیں نور حسن یار تھا طلعت سے عاشق کی عیاں داغ مہ بھی جس سے شرمائے وہ تھا داغ جبیں مکرم عابد حسین بکسواہا صاحب مهدی و عیسی غلام احمد ہدی برگزیده نور دین مصطفی مهدی و عیسی غلام احمد ہدی جائے دین نور دین مصطفیٰ مهدی و عیسی غلام احمد ہدی جانشیں نور ہے دمین مصطفیٰ مهدی و عیسی غلام احمد ہدی خادم اُس کا نور دین مصطفیٰ
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 28 سید نا حضرت خلیفة اصبح الاول رضی الله عند مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نور دیں نور یقیں پیکر صدق و صفا حق شناس و حق نواز و حق پرست و حق نما ارفع و اعلیٰ وہ رکھتا تھا تو کل کا مقام وقف رکھا مال و جاں کو بہر دینِ مصطفیٰ چھوڑ کر گھر بار سارا مان لیا دار صحیح ایک لمحہ کے لئے چھوڑی نہ پھر راہِ وفا اہل دانش بحر حکمت واقف دیر و حرم خدمت قرآن و ملت زندگی کا مدعا کشته عشق و وفا مهدی کا منظورِ نظر الله الله نور دیں تھا کتنا عالی مرتبہ تھا وہ اک شمع فروزاں بہر طلاب ضیاء پہر بیماراں عطا اس فگن چھ برس خلال مسیحا بن کے وہ سایہ تکن ہر گہ و مہ پر رہا شبیر وہ ظل ہما کو ہوا
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 29 29 یاد آتے ہیں ! محتر مہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ سمائے قادیاں کے ماہ و اختر یاد آتے ہیں ڈھلے نوروں میں رُو ہائے منور یاد آتے ہیں خلوص و صدق و طاعت میں نہ تھا جن کا کوئی ثانی مثیل بوبکر صدیق اکبر یاد آتے ہیں وطن چھوڑا تو اس کی یاد بھی دل میں نہیں آئی جو آ بیٹھے یہاں دھونی رما کر یاد آتے ہیں در محبوب پہ لا کے متاع جسم و جاں رکھ دی جنہوں نے کر دیا سب کچھ نچھاور یاد آتے ہیں وہ جن کے فہم قراں کی مسیحا نے گواہی دی وہ نورالدین وہ اک نور پیکر یاد آتے ہیں عجب شان قاعت تھی ، عجب رنگ توکل تھا نہی ہستی میں بھی تھے جو تو نگر یاد آتے ہیں حدیث وعلم قرآں میں تھی جن کو دسترس حاصل تھے بحر معرفت کے جو شناور یاد آتے ہیں شجاعت بھی صداقت بھی تھی، حکمت بھی معارف بھی تھے وہ جو ایک نخلِ بار آور یاد آتے ہیں
حضرت خلیفہ اصبح الا ول رضی اللہ عنہ 30 50 جو آئے ذہن میں رشتہ کبھی نبض و مجلس کا انا کے بت خودی کے ٹوٹے مندر یاد آتے ہیں نہیں جاتی ہماری سہل انگاری نہیں جاتی فقط بیٹھے ہی بیٹھے ان کے شہپر یاد آتے ہیں گلوں کے ساتھ کچھ گہرا تعلق بھی ہے کانٹوں کا وہ یاد آتے ہیں جب تو کچھ ستمگر یاد آتے ہیں چه خوش بو دے اگر هر يك ز امت نورِ دیں بودے یہ پاک الفاظ اک حسرت ہی بن کر یاد آتے ہیں تصور جب مجھے ماضی کے افسانے سناتا ہے کسی شاعر کا تب یہ شعر مجھ کو یاد آتا ہے نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 31 قدرتِ ثانیہ کے پہلے مظہر محترمہ شاکرہ صاحبہ اہلیہ شیخ لطف الرحمان صاحب ، ربوہ نظام قدرت ثانی کا جب وقتِ قیام آیا تو بن کر مظہر اوّل امام عالی مقام آیا از نور یقیں، اور نام نورالدین تھا اس کا وہ عاشق تھا ہر اک لمحہ فنا فی الدین تھا اس کا پر وہ کرتا تھا اطاعت حضرت اقدس کی کچھ ایسے کہ ہر دم نبض، چلتی نفس کے ہے ساتھ بس جیسے توکل بر خدا تھا اور حق گوئی میں لاثانی کسی بدخواہ کی ہر گز نہ اس نے بات کچھ مانی بہت ہمت سے کی شیرازہ بندی بھی جماعت کی بہت اس نے حفاظت کی امامت کی امانت کی حکیم حاذق تھا اس کے پاس تھا ہر درد کا درماں وفا کا صدق کا پیکر بھی تھا اور حافظ قرآں بسر ہوتے تھے دن تدریس میں اور درس میں اسکے سکوں پاتے تھے طالب اور معارف درس میں اسکے سکون دل کی خاطر آ گیا وہ قادیاں میں جب لٹا دی جان و مال و آبرو راہِ خدا میں سب
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 32 رہ عشق و وفا میں سب رفیقوں میں وہ اوّل تھا ہوئی جب بیعتِ اولی تو اس میں بھی وہ اوّل تھا سلام اس پر سنبھالی جس نے کشتی نا خدا ہو کر سلام اس پر گزاری عمر جس نے با وفا ہو کر مکرم قیس مینائی نجیب آبادی صاحب جماعت کو بھلا پھر کس لئے ہو خوف ناکامی کہ جب ہم میں قیادت ہے خلافت اور امانت ہے خلافت کا فدائی بن امامت پر فدا ہو جائے اگر اے میں تجھ کو ادعائے احمدیت ہے
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 33 33 ایک نورالدین اور ! مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کچھ حوالے مجھ کو تیری زندگی کے یاد ہیں ان کی بنیادوں پر یادوں کے محل آباد ہیں دل میں اٹھتی ہے کسک میں نے تجھے دیکھا نہیں دیکھتے تھے جو تجھے ان سب کے دل تو شاد ہیں احترام دید لے کر کچھ ملاقاتیں کروں دیکھ پاؤں تجھ کو اور تجھ سے ذرا باتیں کروں میں تیری باتیں سنوں سنتی رہوں سنتی رہوں خوش نصیبی پر ہنسوں اور میں مناجاتیں کروں وقت کے نباض تو نے سب کو اچھا کر دیا عصر کے بیمار کے ہر سر کو اونچا کر دیا زندگانی کے حوالوں سے جو ممکن ہی نہ تھا وار ڈالی زندگی زندگی کیسے بسر ہو گی کبھی سوچا نہیں کل کو کس ڈھب پر چلے گی زندگی جانا نہیں کچھ مہیا کر دیا ہر خوشی کر دی نچھاور اپنے آقا کے حضور پھر سر تسلیم خم تھا کچھ بھی تو سوچا نہیں
حضرت خلیفہ المسیح الا ول رضی اللہ عنہ 34 دیکھنے والوں نے دیکھا بات کا پکا تھا تھا تو فیصلے تیرے اہل تھے قول کا سچا تھا تو اک تو کل اک بھروسہ تھا خدا کی ذات کون سمجھے گا عزیز و کس قدر اچھا تھا تو کاش حکمت کی گرہ کوئی تو مجھ پر کھولتا سر پہ رکھتا کاش مجھ سے بولتا میں ہمہ تن گوش سنتی اُس کی ہر اک بات کو باندھتی پہلے سے جو حکمت کے موتی تولتا کچھ جوابوں اور سوالوں میں جو ممکن ہی نہیں تجھ سا ہو کوئی جیالوں میں یہ ممکن ہی نہیں میرزا کو ایک ساتھی مل گیا تجھ سا حسیں زندگانی کے حوالوں میں جو ممکن ہی نہیں کاش اس دنیا میں ہوتا ایک نور الدین اور کوئی ماں جنتی جہاں میں ایک نور الدین اور موتیوں جیسا کھرا ، کتنا بہادر میرزا بھی اور ہوتا لیک نور الدین اور
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 35 ہمارا امام مکرم غلام مرتضی صاحب دنیا میں اب امانِ اہلِ زمیں یہی ہے رز اور بام آسماں کی حبل امتیں یہی ہے اسلام گر ہے خاتم اُس کا نگیں یہی ہے قندیل آج زیر عرش بریں یہی ہے ہاں نورِ دیں یہی ہے وہ نور دیں یہی ہے جب چار سو جہاں میں اندھیر چھا رہا تھا بناؤں پر غیب کا تھا تجدید پرده سالار اہل تقویٰ تھا جو ازل سے اپنا الله فراست اُس نے وہ نور تا کا باطل کا وہ تلاطم پھر قطب بن کے چپکا وہ نور دیں یہی ہے وہ رات کالی کالی آتی تھی دھیمی دھیمی رہ رہ کے صوتِ ہادی گرداب وہ غضب کے موجیں وہ اک بلا کی کشتی نوح ثانی جس پر تھی آکے ٹھہری ایقان کا وہ جودی وہ نور دیں یہی ہے جب آسماں سے نازل ہم میں ہوئے مسیحا وہ کون دو ملک تھے جن نے دیا تھا کندھا
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 36 عبد الکریم لیڈر تھا ان میں اک ہمارا پر دوسرا جو خود اس رہبر کا رہ نما تھا ہے کون بھول سکتا وہ نوردیں یہی ہے محشر کا اک نمونہ تھا زلزلہ جو آیا محشر تلک وہ ہم سے جاتا نہیں بھلایا اک پاس کا تھا عالم سب مومنوں پہ چھایا ہاں قدم صدق جس کا ذرہ نہ ڈگمگایا اُٹھا ہمیں اُٹھایا وہ نور دیں یہی ہے موسائیوں کو وعدے کی سرزمیں میں لایا حواریوں کو اس نے گرتے ہوئے بچایا پھر کوه صدق ہو کر اسلام کو جمایا قدرت خدا کی ثانی بنکر وہ ہم میں آیا لاریب حق کا سایہ وہ نوردیں یہی ہے اے جانشین عیسی جاں بخش لب ہلا دے فائز ترا گدا ہے تو اس کو وہ دعا دے ہر ذرہ اس کی ہستی کا تجھ میں جو مٹا دے اک جلوہ شان وحدت کا اس کو بھی دکھا دے ہاں نور دیں یہی ہے وہ نور دیں یہی ہے
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 37 در مدح حضرت خلیفۃ المسیح مکرم شیخ علی محمد احدی ڈنگوی صاحب رہے یارب ز نور نور دیں بزم جہاں روشن کہ ہے جب تک زمهر و مه زمین و آسماں روشن وہ نور الدین جو ہے یارب سراپا نور کا پتلا بچشم مردماں روشن برنگ مردم دیده گا: برستا نور ہے کیا نور دیں سے گلشن دیں پر کوئی دیکھے تو اب رنگ بہارِ جاوداں روشن ہے جس کے ہاتھ سے گردش میں جام بادۂ عرفاں ہے جسکی گرمی محفل ضمیر عارفاں روشن جسے بس دیکھتے ہیں ہم جہاں میں عاشق قرآں کہ ہے پیش نظر ہر دم چور وئے دلستاں روشن کئی مردوں کو از روئے طبابت بھی کرے زندہ کوئی بجھتے فتیلے کی کرے جیسے رواں روشن عجب ہے آفتاب علم و حکمت نوردیں یارب ہ ہو پر تو سے جس کے گوہر ایمان و جاں روشن " دلا دیکھ آئینے میں اس مسیحا کے خلیفہ کے ہیں کیا کیا جو ہر ذاتی مسیحا کے نہاں روشن
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 38 وہ نوردیں جو ہے یارب خلیفہ اس مسیحا کا مسیحائی سے جس کی ہوگئی جانِ جہاں روشن خدا نے کر دیا کیا قادیاں میں اک دیا ظاہر کہ جس سے ہو گیا سارے جہاں میں قادیاں روشن دو بالا جس نے کر دی رونق اسلام قرآں سے کرے جیسے کوئی گھر کا چراغ نیم جاں روشن بھلا غروب مہر کی مانند تھا پوشیدہ نظروں سے پھر اس اسلام کے چہرے سے دکھلایا جہاں روشن ملا اسلام سے آگے ہے ہستی کیا کسی دیں کی عدم میں مہر کے آگے ستاروں کا سماں روشن نہیں ہے خاک بھی نسخوں میں کوئی آزما دیکھے فقط قرآن ہے پیارو جو چاہو ٹو ر جاں روشن نورِ جہاں جس کو اک اندھے کی نگاہ سے دیکھتا تھا کل وہ دکھلا یا مسیحا نے چراغ دو جہاں روشن
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 39 حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب سچائی کا پیکر تھا وہ بندہ تھا خدا کا خوگر تھا وہ حق بات کا حاذق تھا بلا کا طاعت میں بھی یکتا تھا مسیحا کا بھی پیارا نباض تھا اقوام کا پتلا بھی وفا کا اک رنگ حیا چال سے گفتار سے ظاہر ہر رنگ پہ غالب تھا تو تھا رنگ غننا کا ہر عُسر میں ہر ئیسر میں راضی بہ رضا تھا مولی بھی تو عاشق ہے ہر اک ایسی ادا کا اُس نو ر پہ جب نورِ خلافت کا چڑھا رنگ تعریف سے بھرتا ہی گیا عرش خدا کا
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 40 40 نوردیں رضی اللہ عنہ مکرم ڈاکٹر مہدی علی قمر صاحب نور دیں ، نور مجسم ، مظہر نور ہدی زندہ جاوید ہے تو پیکر صدق و صفا وادی اسلام میں تیری وفاؤں کا سرود گونجے گا تا به ابد اے طائرِ شیریں نوا بدھ کی مانند چل دیا تو چھوڑ کر اپنا وطن راہ حق میں کر دیا قربان سارا مال و جاه , لمحہ لمحہ کٹ گیا پھر خدمت اسلام میں زندگی عشق خدا ، بے مثل ہے تیری وفا تھا خدا کی ذات پر تیرا توکل بے مثال جو بھی تیرے پاس تھا سب کر دیا اس پہ فدا تھی تجھے قربت امام وقت سے کچھ اس طرح سکا نہ جس کو کوئی دوسرا تیرے سوا وہ غروب شمس وقت صبح محشر آفریں مهدی موعود کا وقت وداع آ گیا مومنوں کے دل حزیں تھے آنکھ غم سے تھی سیاہ بن گیا ایسے میں تو امید کا روشن دیا
حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ 41 بیچ سب تاروں کے چکا تو کہ جیسے ہو قمر موتیوں کا ہار تو نے ، وہ بکھرنے نہ دیا ہر عدو کے بر مقابل تو ہوا فتح تیرے ہاتھوں پہ خدا نے دیں کو مستحکم کیا وہ بنا رکھی خلافت کی ہو تجھ پہ آفریں تمکنت دیں کو ملی اور ٹل گیا ہر ابتلاء راه جذب و شوق میں تیرا سفر تھا بامراد منزل مقصود پائی مل گیا تجھ کو خدا مکرم قیس مینائی نجیب آبادی صاحب نہ طوفانوں کا خطرہ ہے نہ خوف زلزلہ اس کو خلافت ایک پختہ اور مستحکم عمارت ہے جماعت بھی منظم اور مرکز بھی ہے مستحکم امامِ وقت میں بھی انتظامی قابلیت ہے
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 42 خلافت ثانیہ
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 43 کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اس مه سے اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے! اک دل کی غذا دی فَسُبْحَان الّذِي أَخْزَى الا عَادِي
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 44 مبارکباد مکرم حضرت منشی جھنڈے خان صاحب اے مرے مولا! ترے احساں ہیں ہم پر بے بہا جس نے پھر تازہ کیا دین محمد مصطفیٰ ورنہ تھا گرداب میں بیڑا پڑا اسلام کا بھیج کر اک ناخدا تو نے لیا ہم کو بچا آیا مهدی قادیاں عالم میں مشہوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی جب سے ہجرت مصطفے کو ہو گئے تیرہ سو سال غلبه دقبال سے تھا دین کو پہنچا زوال منطقی و فلسفی تھے چل رہے کچھ اور چال پھنس کے جس کے جال میں تھا چھوٹا بیشک محال تب خدا کے فضل سے مہدی کی ماموری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی دشمنان دین جو کرتے تھے حملے گھات سے ہو گئے وہ مات سب، مہدی کی تصنیفات سے
حضرت خلیة السیح الثانی رضی اللہ عنہ 45 دین جاگا کفر بھاگا احمدی برکات سے کر دیئے پابند مومن صوم اور اور صلوٰۃ سے شکم پرور اور حریصوں کو یہ مجبوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی جب ہوا مامور مہدی پاک احمد کا غلام جب طفیل مصطفے ایسے دکھائے پاک کام تھے نہ کاذب بولتے ، سنتے تھے جب مرزا کا نام گویا منہ زوروں کے منہ میں قدرتی آئی لگام اف نہ کر سکتے تھے دشمن ایسی معذوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اُس مسیح موعود نے چڑھ دین کے مینار پر دشمنان دین کو، آؤ پرکھو مجھ کو سنت سید ابرار پر یہ کہا للکار کر گرہوں میں کا ذب تو بے شک کھینچو مجھ کو دار پر ہے فقط اسلام کی مولا کو منظوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 46 46 پھر کہا آؤ دکھائیں برکتیں قرآن کی پیشگوئی اور دعاؤں سے دکھاؤں رحمتیں رحمان کی دکھاؤں قدرتیں سُبحان کی اور دعاؤں سے دکھاؤں راہ اُس یزدان کی جس کے چشمہ فیض سے یہ فیض گنجوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی مومنوں کو سُن براہیں ہو گیا کامل یقیں یہ مزا ہے وقت پر شک و شبہ جس میں نہیں آسمان بارد نشان الوقت میگوئید زمیں آکے تب خادم ہوا جموں سے حضرت نور دیں سینکڑوں مومن جھکے جوں جوں یہ مشہوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی نیک خصلت پاک فطرت قادیاں پہنچے شتاب مرسل موعود کے خادم ہوئے لاکھوں صحاب کور باطن بن کے دشمن ہوگئے خستہ خراب ہوگیا دنیا و دیں میں اُن پہ قادر کا عتاب
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 47 کیوں نہ ہو جب راہ حق سے ان کو خود دوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی اُس بروز مصطفے نے شوق سے حق کا پیام ہند سے لنڈن تلک پہنچا دیا باحترام عرب و افریقہ و امریکه و مصر و روم و شام ئن پہلے پیغام جب تو ہوگئی حجت تمام چل بسا جنت میں مہدی حق کو منظوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی بعد مهدی نور دیں کو چن لیا رحمان نے اور خلیفہ کر دیا خود قادر سبحان نے پہن کر تاج خلافت صاحب عرفان نے حق ادائی خوب کی اُس عامل قرآن نے چھ برس نت درس میں جلوہ گری نوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی چھ برس اعلیٰ خلافت کر چکا جب نورِ دیں اور رہا ثابت قدم ہر امتحاں میں پُر یقیں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 48 تب اچانک آگیا پیغام رب العالمیں اے خلیفہ نور دیں آباد کر خُلدِ بریں نوردیں تو خوش گیا پر ہم کو مہجوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی جمعہ کے دن ہم سے تھا رخصت ہوا وہ عالی ذات تب اندھیرا قادیاں میں چھا گیا تھا ایک رات جان کر محمود کو اللہ نے صاحب صفات خود خلیفہ کر دیا اور نہ سنی اوروں کی بات بیعت اکثر نے تو کی ، بعضوں کو معذوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی پھر مدد مولا نے کی فضل عمر موعود کی اور ترقی کر دکھائی حضرت محمود کی ومئی کی فجر کو بخشی خوشی مولود کی عمر بھی بخشے گا وہ مولود کی مسعود کی جس کے یہ فضل و کرم سے فیض گنجوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 49 49 احمدی گلشن میں پھر تازہ بہاریں آگئیں جب مبارک آگیا ، خوشیاں مبارک چھا گئیں سب طبائع اس ضیائے نور سے سکھ پاگئیں دشمنان دین کی آنکھیں مگر چندھیا گئیں گھس گئیں جو گاڑیں جب صبح پھر نوری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی آج بالغ احمد میں کھل رہے ہیں تازہ پھول جنگی مہر کاروں سے ہر دم ہے خوشی ہم کو حصول علم ناظم کی مبارک ہے اسے کیجئے قبول اے میرے آقا دعاؤں میں نہ جائیو مجھ کو بھول تیری خوشیوں سے ہمیں بے شبہ مسروری ہوئی پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 50 50 احمدی بچیوں کی جانب سے دعا برائے خلیفہ اسیح ایدہ اللہ مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه قرار و سکوں دل کو آتا نہیں ہے چین یاتا نہیں ہے دل طور کڑا وقت ہے اور بڑا اضطراب کھلے ہیں مگر اس کی رحمت کے باب غمزدہ تو ہراساں نه ہو دعا کر خدا سے پریشاں نہ ہو 6 بڑا اس نے احسان ہم پر کیا ہے طریقہ تسلی کا وہ ہے تیری شہ رگ سے زیادہ قریب کہا اس نے بندوں کو اِنِّی مُجِی بتلا ہے میرے بندو! نہ ہونا ہونا ملول دعائیں کرو، میں کروں گا قبول وہی یاد وعدہ ترا کر رہی ہوں بڑی آس لے کر دعا کر رہی ہوں الی ہمیں رنج و غم سے چھڑا دے خوشی کی خبر ہم کو جلدی سنا دے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 51 یہ ممکن نہیں ہے کہ خالی پھرے وہ بندہ جو کوئی صدا دے ترے در خدایا میں ناچیز بندی ہوں تیری میں جو مانگتی ہوں مجھے وہ دلا دے ترے سامنے ہاتھ پھیلا رہی ہوں مری شرم رکھ میری جھولی بھرا دے حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب محمود کھلی زمانے پہ جس دم فضیلت بفضل حق ہوئی قائم خلافت محمود بتا دیا تھا خدا نے کہ وہ تو یوسف ہے کہ تا نہ ہو سکے انکار عصمت محمود
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 52 52 خیر مقدم حضرت خلیفہ مسیح الثانی مکرم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب بر موقع واپسی از سفر یورپ جب 24 نومبر 1924ء دوشنبہ کے روز حضرت خلیفہ اسی الثانی فر یورپ سے نہایت کامیابی کے ساتھ واپس قادیان میں تشریف لائے تو بعد نماز عصر ایک عظیم الشان مجمع کی موجودگی میں بیت اقصیٰ کے اندر اہلِ قادیان کی طرف حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا گیا.یہ نظم اسی موقع کے لئے کہی گئی تھی اور سید عبدالغفور ابن میر مہدی حسن صاحب نے ایڈریس کے پیش ہونے سے پہلے نہایت خوش الحانی کے ساتھ حاضرین کو پڑھ کرسنائی تھی.(محمد اسمعیل پانی پتی ) ہے شکر صد شکر! جماعت کا امام آتا لله الحمد ! کہ بانیل مرام آتا ہے زیب دستار کیسے فتح و ظفر کا سہرا ولیم کنکر رکے اور فاتح اور فاتح شام آتا ہے مغرب الشمس کے ملکوں کو منور کر کے اپنے مرکز کی طرف ماہ تمام آتا ہے پاس مینارِ دشقی کے بصد جاه و جلال ہو کے نازل یہ مسیحا کا غلام تھے آتا ہے 1 william conqueror ولیم اول جس نے انگلستان کو فتح کیا تھا.2.غلام یعنی پسر 2°
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 55 53 مرحبا ! ہو گئی لندن میں وہ مسجد تعمیر جس کی دیوار پہ محمود کا نام آتا ہے سچ بتانا تم ہی اے مدعیانِ ایماں کون ہے آج جو اسلام کے کام آتا ہے ނ عَظُمَتِ سلسلہ قائم ہوئی اس کے دَم اُسے حق کا پیام آتا ہے پہنچانا آج سُورج نکل آیا یہ کدھر مغرب سے ہم سمجھتے تھے کہ مشرق سے مدام آتا ہے مژده ای دل که مسیح نـفـسـے مـی آیـد که زانفاس خوشش بوئے گسے می آید اے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے وہی دستِ عاشق ہے وہی ، یار کا داماں ہے وہی ہوگئی دُور غم ہجر کی گلفت ساری لله الحمد کہ اللہ کا احساس ہے وہی پھر میرے بادہ گسارو! وہی ساقی آیا مے وہی ، جام وہی ، محفلِ رِنداں ہے وہی کار سرکار کیا خواب و خورش کر کے حرام لو پھر بھی بہار رُخ تاباں ہے وہی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 54 سامنے بیٹھے ہیں اس بزم کے مے خوار قدیم دل ہے وہی، قلب میں ایماں ہے وہی قادیاں! تجھ کو مبارک ہو ورود محمود دیکھ لے! دیکھ لے!شاہنشہ خوباں ہے وہی آج رونق ہے عجب کوچہ و برزن میں ترے بادہ خواروں کے لئے عیش کا ساماں ہے وہی رشک تجھ پر نہ کرے چرخ چہارم کیونکر طور سینا ترے جلوہ فاراں ہے وہی آمد في رسل حضرت احمد کا نزول دونوں آئینوں میں عکسِ رُخ جاناں ہے وہی ز آتش وادی ایمن نه منم خرم و بس موسیٰ این جا بامید قبسی می آید آپ وہ ہیں جنہیں سب راہ نما کہتے ہیں اہل دل کہتے ہیں اور اہل دعا کہتے ہیں کو حق نے کہا سخت ذکی اور فہیم مظهر حق و على ظلِ خدا کہتے ہیں رُستگاری کا سبب آپ ہیں قوموں کیلئے ہر مصیبت کی تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں 1 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا الہامی نام ہے.
حضرت خلیة السیح الثانی رضی اللہ عنہ 55 آپ وہ ہیں کہ جنہیں فخر رسل کا ہے خطاب دیکھنے والے جب ہی صلِ علیٰ کہتے ہیں استجابت کے کرشمے ہوئے مشہور جہاں آپ کے ڈر کو ذر فیض و عطا کہتے ہیں کوئی آتا ہے یہاں سائل دنیا بن کر مطلب اپنا وہ زر و مال و غنا کہتے ہیں رزق اور عزت و اولاد کے گاہک ہیں کئی بخشوانے کو کئی اپنی خطا کہتے ہیں کوئی دربار میں آتا ہے کہ مل جائیں علوم کوئی اپنے کو طلبگار شیفا نیک بننے کے لئے سینکڑوں در پر ہیں پڑے خود کو مشتاق رہ زُہد و تقی کہتے ہیں ہیں طالب بنت فردوس ہیں اکثر عاقل دار فانی کو فقط ایک سرا کہتے ہیں میں بھی سائل ہوں طلبگار ہوں اک مطلب کا کوئے احمد کا مجھے لوگ گدا کہتے ہیں میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے بہت دیکھئے آپ بھی سن کر اسے کیا کہتے ہیں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 56 جس کی فرقت میں تڑپتا ہوں ، وہ کچھ رقم کرے یعنی مل جائے مجھے جس کو خدا کہتے ہیں هیچ کس نیست که در کوئی تو اش کاری نیست هر کس این جا باميدِ هَوَسی می آید مکرم عبدالعزیز منگل صاحب خلافت افتخار علم عرفاں خلافت باعث تکریم انساں خلافت رونق بزم جہاں ہے خلافت کا کوئی ثانی کہاں ہے خلافت نور نبوت خلافت کاشف اسرار حکمت
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 57 خلافت ثانی بیعت ثاقب ی نظم مسدس مولوی محمد نواب خان صاحب ثاقب مالیر کوٹلوی نے جلسہ سالانہ 1914 میں پڑھی اے مسیحا کے خلیفہ پیارے مرزا کے رشید مہدی صاحبقران موعود عیسی کے رشید مہدی والا نشاں کے نام لیوا کے رشید میرے آقا کے رشید اور میرے مولا کے رشید رنگ سلطان تحریر میں ہے اک اعجاز مسیحا آپ کی تقریر میں آپ کے چہرہ سے ہے عجم سعادت آشکار آپ کے رُوئے مبارک سے نجابت آشکار خال و خط سے آپ کے نقش ولایت آشکار تیوروں سے آپ کے نور نبوت آشکار آپ کی آنکھوں کو حق بینی کا آئینہ کہیں سینہ صافی کو زیبا ہے کہ بے کینہ کہیں موجزن ہے آپ کے سینہ میں دریائے علوم آپ کے دل میں نہاں لولوئے لالائے علوم آپ دارائے معافی اور دانائے علوم آپ ہیں عرفانِ حق کے درس فرمائے علوم
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 58 آپ نے دیکھی ہیں آنکھیں پیارے نورالدین کی پائی ہے تعلیم اُن سے دنیا کے آئین کی مرنے والا جانتا تھا علم قرآں کے رموز ان کو ازبر تھے کلام پاک سبحاں کے رموز دل میں کرنے والے گھر وہ خطہ جاناں کے رموز آہ وہ دیں کے اشارات اور ایماں کے رموز اُن کی میراث آگئی ہے آپ کی تقسیم میں وہی سنج نہاں ہے یہ تور دیں بھی آپ ہیں اور نبی بھی آپ ہیں ایسے نازک وقت میں مرد جری بھی آپ ہیں امعی و لوزی و منبتی بھی آپ ہیں آپ ہیں حق کے ولی مرد یخی بھی آپ ہیں آپ ༡་ میں آپ ہیں وہ جن کی آمد کی دُعا کرتے تھے ہم بھیج دے ہاں بھیج دے کی التجا کرتے تھے ہم آپ نے شیرازہ وحدت میں باندھا قوم کو کر دیا اپنی اخوت میں اکٹھا قوم کو آپ نے وحدت سکھائی اور ایکا قوم کو پھر وہی لذت ملی ، تھا جس کا چسکا قوم کو
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ :: 59 59 ہے وہ نور خلافت تھا جو نورالدین میں نیہی تمکین و شوکت مرد با تمکین میں اللہ اللہ اُس بڑھاپے میں وہ طاقت اور زور لوحش اللہ ایسی پیری میں وہ قوت اور زور یہ تو کل کی بات ہے وہ اس کی شوکت اور زور ہم نے خود دیکھا ہے بھی جو اس میں سطوت اور زور کوئی اُٹھتا تو بٹھا دیتا اُسے تادیب سے روٹھتا بھی تو منا لیتا تھا اک ترکیب سے الغرض تھا ایک ہادی اور رہبر قوم کا قافلہ سالار اک سالار لشکر قوم کا ایک تھا سردار قوم اور ایک سرور قوم کا ایک ہی تھا زینتِ محراب و منبر قوم اُس کو کہتے تھے مسیحا کا خلیفہ ہے یہی جانشین مهدی و و موعود عیسی ہے مدتوں تک ہم رہے اس کی خلافت کے تلے اُس کی حکمت کے تلے، اُس کی حکومت کے تلے اُس کی ہمت کے تلے، اسکی حمایت کے تلے چھ برس تک اس کے ظل عدل و رافت کے تلے یہی
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 60 60 اس کے آگے کر دیا ہم نے سر تسلیم خم ہے پتہ کی بات اس کے سامنے مارا نہ دم تھا خدا کا ہاتھ ہی تھا جو ہمارے ہاتھ پر ہم سے خدا کی بات پر عہد تھا بس لے لیا اک حکومت تھی ہمارے طور پر عادات پر جس کا قابو تھا ہمارے نفس کے جذبات پر توڑ دی بیعت تو پھر بیعت کئے آخر بنی تھی مصیبت جو ہماری جان اور دم پر بنی مختصر یہ ہے کہ بیعت کر کے ہم زندہ ہوئے جو پریشاں پھر رہے تھے آخرش یکجا ہوئے رشتہ وحدت میں آئے اور کیا سے کیا ہوئے عیسی احمد میں مِٹ مٹ کر دمِ عیسی ہوئے زندہ کر لینا ہمیں مُردوں کا آساں ہو گیا اکمه و ابرص کے دُکھ کا ہم سے درماں ہو گیا یہ جو کچھ حاصل ہوا وحدت کی برکت سے ہوا تور دیں کے فیض سے اور اس کی صحبت سے ہوا یہ جماعت سے ہوا اور احمدیت سے ہوا کہہ بھی دو کیا دیر ہے سب کچھ یہ بیعت سے ہوا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 61 الوصیت کا معمہ نور دیں حل کر گئے جو وصیت اپنے جیتے جی مکمل کر گئے بات کہہ دینا لگا کر اپنی عادت میں نہیں چوٹ کرنا چھیڑنا ناحق طبیعت میں نہیں دیکھ کر مکروہ چُپ رہنا بھی فطرت میں نہیں جو کہتے ہیں خلافت الوصیّت میں نہیں اک جماعت اور خلیفہ دو یہ نقشہ خوب ہے اک نیام اس میں دو تلواریں یہ حربہ خوب ہے جب خلافت ہی سرے سے الوصیت میں نہ تھی یا کہو اس کی ضرورت احمدیت میں نہ تھی شرط وحدت اور اخوت کی جماعت میں نہ تھی یا جماعت کی ضرورت ایسی صورت میں نہ تھی کوئی پوچھے کیوں بنائے دو خلیفے نام کے ہے غضب کی بات بندے ہو گئے اوہام کے قادیاں میں بیٹھ کر لڑتے جھگڑتے کچھ نہ تھا رہ کے دار الامن میں بنتے بگڑتے کچھ نہ تھا بحث کرتے رائے دیتے اور لڑتے کچھ نہ تھا اختلاف رائے کی صورت میں اڑتے کچھ نہ تھا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 62 اب جو بھانڈا پھوڑ کر ہو بیٹھے ہم سے ہو جُدا اب بھی کچھ بگڑا نہیں آجاؤ از بهر خدا میں یہ کہتا تھا دلِ بیتاب پر آفت ہے کیا بیٹھا یہ جاتا ہے کیوں اس کا سبب علت ہے کیا کیوں گھلا جاتا ہے درد غم کی یہ حالت ہے کیا چارہ گر آکر بنا دے اس کی اب صورت ہے کیا یک بیک آئی در دل سے صدائے شاد باش قادیاں لے چل مجھے سُن لے دُعائے یاد باش سے دوا قادیاں ہے وہ جہاں رنجور پاتے ہیں شفا درد مندوں کو ملا کرتی ہے اس گھر.قلب مومن پر چڑھا کرتا ہے یاں رنگ وفا دل میں جم جاتا ہے رہ کر اس جگہ نقشِ دُعا دل کے اندوہ و الم کافور ہو جاتے ہیں یاں آکے دلہائے حزیں مسرور ہو جاتے ہیں یاں اے مرے آقائے نعمت ! دل مجھے لایا یہاں للہ پھر مرے مولا نے پہنچایا یہاں میرا پھر چمکا ستارہ اور میں آیا یہاں دولت گم گشتہ اقبال کو پایا یہاں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 80 63 انے کیا لینا تھا جا کر بلدہ لاہور میں سر پھرا تھا میرا میں پھنستا جفا و جور میں جذب تھا یہ آپ کا جو کھینچ کر لایا مجھے بخت نے پھر آپ کی خدمت میں پہنچایا مجھے میرے دل کی قوتِ ایماں نے دھمکایا مجھے میری غفلت اور غلط فہمی نے شرمایا مجھے ناصح مشفق بنا میرا دل ہشیار ہی چارہ گر آخر ہوا اپنا دل بیمار ہی ہیں مرکز امن و اماں میں برکتیں وحدت کی احمدیت کی ادائیں اور ہی صورت کی ہیں الفت و مهر و وفا یاں کی نئی رنگت کی ہیں نگتیں جتنی ہیں ساری آپ کی صحبت کی ہیں اک الہی رنگ ہے جس میں کہ سب رنگین ہیں حشمت و اقبال و دولت کے یہ سب آئین ہیں ظلم ہے اس مرکز امن و اماں کو چھوڑنا مهبط وحی خدا کے آسماں کو چھوڑنا بے نشاں کے واسطے زندہ نشاں کو چھوڑنا حیف ہے ، دار الامان قادیاں کو چھوڑنا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 64 اس کا سب دیوار و در اک زندہ کن اعجاز ہے یہ مکاں وہ ہے مسیحائی کا جس میں راز ہے دل سے داخل ہو گیا ہے آپ کی بیعت میں یہ اپنی طاعت بھر رہے گا حلقہ طاعت میں یہ حضرت والائے احمد کی رہا خدمت میں یہ رہ چکا ہے نور دیں کی دیر تک صحبت میں یہ آپ کا دل سے مُرید اور بندہ احکام ہے جانتے ہیں آپ اسے یہ ثاقب گمنام ہے منفعل تھا یہ کہ اتنی دیر تک بچھڑا رہا اپنے دل میں تھا نجل اور اپنے گھر بیٹھا رہا بولتے تھے اور تو یہ دم بخود چپکا رہا لے کے اپنے دل میں اپنا دردِ دل تنہا رہا یہ کسی سازش میں آیا اور نہ منصوبہ کیا عہد جو دل میں کیا تھا آکے اب پورا کیا یہ بھی کیا کرتا اسے صدمہ تھا نورالدین کا درس قرآں اس نے خود دیکھا تھا نورالدین کا اس کی نظروں میں وہی جلوہ تھا نورالدین کا اس کا دل ہر چار سُو جویا تھا نورالدین کا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 65 بس اُسی عشق و محبت میں گیا دیوانہ وار رہ کے تنہائی میں یہ تڑپا کیا باحال زار یاد کر کے اُس کو ہو جاتا تھا اکثر اشکبار اُس کی پڑھتا تھا سوانح با دل پر اضطرار دل میں رہ رہ کر خیال آتا تھا اس کا بار بار یاد آتا باغ کا جو بن وہ ایام بہار نیم بسمل کی طرح سینہ میں رہ جاتا تھا دل یاد نور الدین میں خوں ہو کے بہ جاتا تھا دل بند کر کے دونوں آنکھیں درس قرآں دیکھتا ظلمت اندوه و غم میں نور عرفاں دیکھتا دل میں ہو کر سرنگوں تصویر جاناں دیکھتا نوردیں کو دیکھتا تفسیر فرقاں دیکھتا نکتہ ہائے معرفت وہ بذلہ ہائے دل نشیں پسند ہائے دلربا انداز ہائے نور دیں میں نے پوچھا خواب میں اے میرے پیارے رہنما تو ہے دریائے معانی ، معدنِ فہم و ذکا بے بہا موتی ہیں تیرے پاس دے ان کو بہا میرا مطلب تھا پڑھا دے اک سبق قرآن کا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 66 60 مہرباں لے کر بغل میں مجھ کو یہ کہتا گیا ہاں سمجھ لینا کہ ہے قرآن کلام پر صفا میں نے سمجھا قادیاں میں درس قرآں ہے وہی مُصحفِ رُخ ہے وہی اور روئے جاناں ہے وہی نکتہ ہائے معرفت تفسیر قرآں ہے وہی نور دین کا فیض اس کا نُور، عرفاں ہے وہی حضرت محمود احمد نور دیں کے جانشیں صاحب نور خلافت وارث علم یقیں اے مرے آقا دُعا کر سب جماعت کے لیے ان کی اُلفت کے لئے ان کی محبت کے لیے رفق و نرمی کے لئے باہم اخوت کے لیے آشتی و صلح اور امن و سلامت کے لیے ہیں جو کچھ کھولے ہوئے آجائیں کچی راہ پر وہ جو ہیں روٹھے ہوئے ہو جائیں سب شیر وشکر دور ہو ایک ہو جائیں، شماتت دشمنوں کی دوستوں کی فتح ہو ، دین خدا منصور ہو احمدیت پھیل جائے دین و دل مسرور ہو چار اطراف جہاں معمور ہو دین حق ހނ
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 67 سب کے کانوں میں پہنچ جائے مسیحا کا پیام مهدی والا نشاں احمد عیسی کا پیام زیب تن ہو احمدی اُمت کے تقویٰ کی قبا جس پہ قرباں کیجئے زر بفت و دیبا کی قبا متقی کے قد زیبا کی قبا یہ قبائے متقی سرما و گرما کی قبا اس کو کر کے زیب تن جائیں بھرے دربار میں اوڑھ کر اس کو چلے جائیں کسی سرکار میں قصر شاہی میں ہماری بات کی تکریم بات وہ منہ سے کہیں جس کی بڑی تعظیم.تفہیم بیٹھ جائے دل میں ایسی قوت الغرض خم حق کے آگے گردن تسلیم ہو ہو ہو ہو دبدبہ جو حق کے پھیلانے میں ہے ہم کو ملے طنطنہ جو حق کے سمجھانے میں ہے ہم کو ملے قوم کا ہر فرد ہو تبلیغ میں معجز بیاں قوم کا ہر رکن ہو تعلیم دیں میں تر زباں ہر کوئی تدریس قرآں میں رہے رطب اللساں وجد میں آجائے جس سے رُوحِ مہدی زماں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 68 ملک امریکا میں چپکے سے چلا جائے کوئی وحشیوں کو ملک افریقہ میں سمجھائے کوئی مل کے دنیا میں کلام پاک حق پہنچا میں ہم سارے عالم میں پیام عام حق پھیلائیں ہم کھولے اور بھٹکوں کو راہ راست پر لے آئیں ہم کام ہو جائے نہ جب تک بس وہیں جم جائیں ہم لے کے ہم پھر جائیں عالم میں محمد کا پیام لے کے نام اللہ کا ثاقب ہمارے کا پیام مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری وہ جس کے سر پہ سدا ظتِ کردگار رہا جو روز و شب غم ملت میں بے قرار اک کا محسن و ہمدرد و غمگسار رہا ہر الم نصیب اسیروں کا رستگار رہا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 69 کس سے سیکھا ہے ؟ مکرم عزیز الرحمن انور صاحب مرے محمود پر تہمت لگانا کس سے سیکھا ہے؟ یہ اپنا نام محسن کش رکھانا کس سے سیکھا ہے؟ مسیح وقت کے در پر نہ جانا کس سے سیکھا ہے؟ مدینہ کا بغاوت گڑھ بنانا کس سے سیکھا ہے؟ خدا کے پاک لوگوں کو ستانا کس سے سیکھا ہے؟ ہے خود اور لوگوں کو ہٹانا کس سے سیکھا ہے؟.خلیفہ کی نہ بیعت کی خدا سے دور ہو و بیٹھے یہ اب دو دوخلیفوں کا بنانا کس سے سیکھا ہے؟ خلافت تو خدا کی ہے جسے چاہے عطا کر دے خدا کے کام کو خود ہی بنانا کس سے سیکھا.یا ہے؟ جسے کہتے ہو بچہ تم خدا کا اس پہ سایہ ہے بڑھاتا ہے خدا اس کو گھٹانا کس سے سیکھا ہے؟ ہزاروں شیر اس شیر خدا کے پاس بیٹھے ہیں یہ گیدڑ بھبکیوں سے دل ڈرانا کس سے سیکھا ہے؟ اشاعت نام لے کر ، لیا ہے ٹوٹ دنیا کو پرائے مال کو اپنا بنانا کس سے سیکھا ہے ؟
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 70 مقام قادیاں کو چھوڑ کر لاہور جا بیٹھے پرے مرکز سے ہٹ کر بیٹھ جانا کس سے سیکھا ہے؟.حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوھر تجھ کو خدا نے چن لیا نورِ ہدایت کے لئے اب تجھ سے بہتر کون ہے امر خلافت کے لئے ہے مصلح موعود تو اللہ کا محمود تو فضل عمر مجھ کو کیا حق نے فضیلت کے لئے تجھ کو اولوالعزمی ملی ، تقویٰ ملا ، عرفاں ملا تو خود بشیر الدین ہے آیا بشارت کے لئے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 71 احمد میں ہے ظہور محمد کے نور کا مکرم محمد شرافت اللہ خان صاحب شرافت ، شاہجہانپوری معنی تو ہیں قریب کے مطلب ہے دور کا ظہور محمد کے نور کا ہے احمد میں مدت سے بادہ خوار محبت ہیں تشنہ کام دے ساقیا پیالہ شراب طہور کا دیکھا نہ ہو تو دیکھ لو محمود کا جمال جلوہ نئے لباس میں حق کے ظہور کا گھر یہاں ہے برق تجلی کی روشنی نور کا دارالامان آج بھی بقعہ ہے دیکھو جدھر کو پھیلی ہے اسلام کی شعاع لندن کے بھی سواد میں تڑکا ہے نور کا اس کی نظر میں حسن حسینوں کا کیا بچے دیوانہ ہو جو برق تجلائے طور کا اے جانشین مهدی بر حق ادھر نگاہ فقیر دُعائے حضور کا طالب ہے یہ منکر کو ایک ذرہ برابر نہیں تمیز جو عقل و شعور کا پتلا بنا ہوا ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 72 حاسد جمال حق کو جو دیکھے تو کس طرح پردہ پڑا ہوا ہے نظر کے قصور کا شیدا ہیں ہم تو حُسن رُخ بے مثال کے زاہد ہے شیفتہ تو ہو شیفتہ تو ہو غلمان و حور کا بے شبہ بیڑا پار ہے دونوں جہان میں اُمیدوار رحمت رب غفور کا راحت ہر ایک رنج ہے ہر درد ہے دوا سرور کا لیتا مزہ ہے عاشق صادق بے کھٹکے آئے بیٹھ لو کشتی نوح میں طوفان غم ہے ، نه جو ارادہ عبور کا آئے نہ کیوں عذاب الہی کہ رات دن مشغلہ جہان میں فسق و فجور کا ہے توبہ کرو ، ڈرو ، نہ کرو ضد و سرکشی بھڑ کا ہوا غضب ہے خدائے غیور کا چپکے آکے دامن محمود تھام لو سنو نہ قول کسی بے شعور کا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 73 کر لو حساب دیکھ لو مدت فراق کی دفتر کھلا کھلا ہوا سنین و شہور کا ہے پیدا بشر ہے خاک سے لازم ہے عاجزی بننا نہ چاہیے اسے پتلا غرور کا احمد بنا کہیں کہیں محمود بن گیا نیرنگ ہر جگہ محمد کے نور کا ہے دیکھو نظر اُٹھا کے مہر کی طرف مه نقش کھچا ہوا ہے محمد کے نور کا محمود کے جمال کی حاسد کو کیا خبر ہے یہ چراغ محمد کے نور کا روشن ہے یہ مانگو مدد خدا سے شرافت کہ ہر طرف ہے فریب کا، طوفان زور کا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 74 ؟؟ میرے خُدا ! مکرم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نبی تو نے ہمیں دکھلا دیا قدر انعام ہے میرے خُدا پہلوان حضرت رب جس کا احمد نام ہے میرے خدا الف ساله تیرگی کے بعد اب نکلا بدر تام ہے میرے خدا کافر و دجال کو نفخ مسیح موت کا پیغام ہے میرے خدا اور یہی مومن مسلمان کے لئے زندگی کا جام ہے میرے خدا مغان 60 وہ قادیاں پیر ماجیے آنام ہے میرے خدا حضرت احمد گلفام ہے میرے خدا رض موعود جد محمود کے بے ہنگام ہے میرے خدا
حضرت خلیة السیح الثانی رضی اللہ عنہ 75 جو ترا طالب ہو ، آئے قادیاں یہ صلائے عام ہے میرے خُدا مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبه خلیفہ خدا نے جو تم کو دیا ہے عطا ء الہی ہے فضل خدا ہے یہ مولا کا اک خاص احسان ہے و جو د اس کا خود اس کی بر ہان ہے خلیفہ بھی ہے اور موعود بھی مبارک بھی ہے اور محمود بھی لبوں پر ترانہ ہے محمود کا زمانہ ، زمانہ ، زمانہ ہے محمود کا
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 76 اک جوان تحریک دعائے خاص مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ منحنی اُٹھا اُٹھا بعزم استوار اشکبار آنکھیں لبوں پر عہد راسخ دل نشیں الفاظ بھر آئی ہوئی آواز میں! کرب و غم میں بھی نمایاں عزم و ایمان و یقیں میں کروں گا عمر بھر تکمیل تیرے کام کی میں تری تبلیغ پھیلا دوں گا برروئے زمیں زندگی میری کٹے گی خدمت اسلام میں وقف کر دوں گا خدا کے نام پر جانِ حزیں یہ ارادے اور اتنی شان ہمت دیکھ کر اُس گھڑی بھی محو حیرت ہو رہے تھے سامعیں درد میں ڈوبی ہوئی تقریر سُن سُن کر جسے لوگ روتے تھے ملائک کہہ رہے تھے آفریں چشم ظاہر میں سے پنہاں ہے ابھی اس کی چمک تیری قسمت کا ستارا بن چکا ماہِ مبیں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 77 سر پہ اک بار گراں لینے کو آگے ہو گیا ناز کا پالا ہوا ماں باپ کا طفل حسیں، کر نہیں سکتا کوئی انکار عالم ہے گواہ جو کہا تھا اُس نے آخر کر دکھایا بالیقیں ذات باری کی رضا ہر دم رہی پیش نظر خلق کی پروا نہ کی خدمت سے منہ موڑا نہیں چیر کر سینے پہاڑوں کے قدم اُس کے بڑھے سینہ کوبی پر ہوئے مجبور اعدائے لعیں مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ دشمن بنے جو تیرے محبوں کی جان کے وہ خود ہی اپنی جان سے بیزار ہوگئے جھنڈا رہا بلند محمد کے دین کا ذلت جو چاہتے تھے سبھی خوار ہو گئے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 78 مکرم نشی منظور احمد صاحب منظور شاہ پوری دشمنی ہم سے ہمارے آشنا کرتے رہیں جس طرح ہو دوستی کا حق ادا کرتے رہیں ان کو اپنی راہ ہے اور ہم کو اپنی راہ ہے وہ جفا کرتے رہیں اور ہم وفا کرتے رہیں ایک نقطہ نے انہیں محرم سے مجرم کر دیا وہ دعا کرتے رہیں اور ہم دعا کرتے رہیں ہم نہ چھوڑیں گے کبھی تہذیب کو ان کیلئے گالیاں دیتے رہیں وہ ہم حیا کرتے رہیں مبر ہے بس انکی اس گندہ دہانی کا جواب صبر وہ جس پر فرشتے مرحبا کرتے رہیں 6 سامنے میدان میں آنے سے گھبراتے ہیں وہ ہم بلاتے ہی رہیں وہ التوا کرتے رہیں صلح مخلوقات سے کیسی کہ ہے خالق سے جنگ کچھ خدا کے واسطے خوف خدا کرتے رہیں کر کے انکار خلیفہ منکر احمد ہوئے ابتدا اس سے ہوئی اب انتہا کرتے رہیں
79 حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ جس کو ملنی تھی خلافت فضل حق سے مل گئی رونے والے حشر تک آہ و بکا کرتے رہیں ہوگئے انکے تو ناسور جگر اب لا علاج مریم عیسی کا زخموں پر طلا کرتے رہیں شیخ امروی یہ دیکھو کس قدر افسوس ہے آپ بھی اخفائے شان میرزا کرتے رہیں صادقوں کی روشنی کو دور کر سکتا ہے کون ہے.وہ جو کوشش کر رہے ہیں، کیا ہوا کرتے رہیں! کیا کسی دن ہم بھی یارب جار ہیں گے قادیاں ہاں دعا تو روز ہم صبح و مسا کرتے رہیں میں تو خادم ہوں محمد ، احمد و محمود کا وہ جو کرتے ہیں گلا منظور کا کرتے رہیں رب کرے منظور کی سب مشکلیں آسان ہوں خادمان حضرت مہدی دعا کرتے رہیں **
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 80 60 مقصد منحص خلافت حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب بے گوہر ہے رہتا ہے سمجھے گر خلافت کا مقام تسبیح کا اپنی امام تسبیح ہے خلافت گویا ་་ ہے نبوت رشتہ تسبیح ، دانے مقتدی جن کو رکھتا ہے ہم اور منتظم ان کا امام ذکر الہی رات دن پر ہے یہ سارا نظام کیا نبوت ، کیا شریعت ، کیا الوہیت کا بار ہے خلافت ہی کے سر پر ، تا رہے ان کا قیام کیوں خُدا مبعوث کرتا انبیاء کا سلسلہ چلانا چاہتا وہ بے نبوت اپنا کام گر بے خلافت سلسلہ رہتا نبوت کا اگر مومنوں کو کرتی کیوں صدیق اکبر کا غلام سیدھی سادھی ہے یہ یہ منطق کوئی دانا ہو اگر سرکش و ناداں کو لیکن کیا ہے اس منطق سے کام گالیوں سے جن کو فرصت ہی نہ ملتی ہو کبھی سامنے ان کے ہو کیوں تسبیح اور اس کا امام
حضرت خلیة السیح الثانی رضی اللہ عنہ 81 انجمن برقی ہے ہم نے انجمن کے کام بھی بے امارت اس کا بھی چلتا کبھی دیکھا نہ کام ہے یہی جمہوریت کا حال جو رکھتی ہے شاہ اک وجود مرکزی شایان ہمیں بھی مختار کل ہوتا ہے اک اعظم وزیر چلتے ہیں باقی وزیر اس کے اشارہ پر تمام تعظیم عوام ہیں جو بے شاہوں کے جمہوریتیں زیر امیر وقت مشکل کرتی ہیں مختار کل اس کو تمام مشورے لیتا ہے لیکن فیصلے کرتا ہے خود کیبنٹ اور انجمن گویا کہ ہے اس کی غلام اہل شوری اور ناظر ، ناظروں کی انجمن اور کیا ہے یہ ، به ، خلافت دوسرا ہے اس کا نام ہار کر جھک مار کر آتی ہے پھر دنیا یہیں نقطه مرکز یہی ہے اور خدا کا ہے نظام! پارلیماں کی جگہ آنے لگی ڈکٹیٹری یعنی بے وحدت بہت مشکل ہے کرنا اہتمام
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 82 ہے خلافت کے لئے تسبیح اک تشبیہہ تام جسکے آگے ہوتے ہیں گنتی کے دانے اور امام سرکشی مانع نہ ہو گوہر تو سیدھی بات ہے ہیں سمجھتے جس کو کالانعام دنیا کے امام مکرم دامن ابا سینی صاحب مئے عشق رسول رکھتا تھا؟ میکشی عام کے اُصول رکھتا اہل نظر تھا کا تارا تھا قبول رکھتا تھا مسیح ثانی تھا تھا پاک کی نشانی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 83 فغان درویش در فراق حضرت مصلح موعود و دیگر بزرگان قادیان مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار که بیگم صاحبہ جو دور ہیں وہ پاس ہمارے کب آئیں گے ؟ دل جن کو ڈھونڈتا ہے وہ پیارے کب آئیں گے؟ ہر دم لگی ہوئی ہے سر راہ پر نظر آخر ہماری آنکھ کے تارے کب آئیں گے ؟ یا رب ہمارے شاہ کی بستی اداس ہے اس تخت گاہ کے راج دلارے کب آئیں گے؟ لپ پر دعا ہے تیرے کرم پر نگاہ ہے عاشق ترے حبیب ہمارے کب آئیں گے؟ جو سر کو ختم کئے تری تقدیر کے حضور تیری رضا کو پا کے سدھارے کب آئیں گے؟ کب راہ ان کی تیرے فرشتے کریں گے صاف کب ہوں گے ایسی کے اشارے؟ کب آئیں گے؟ جو ٹوٹ کر گئے ہیں اسی آسمان سے پھر لوٹ کر ادھر وہ ستارے کب آئیں گے ؟
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 84 صحن چمن سے گل جو گئے مثل ہوئے گل رحمت کی بارشوں سے نکھارے کب آئیں گے؟ زخم جگر کو مرہم وصلت ملے گا کب ٹوٹے ہوئے دلوں کے سہارے کب آئیں گے؟ دیکھیں گے کب وہ محفلِ كَالبَدْرِ فِي النُّجُومِ وہ چاند کب ملے گا وہ تارے کب آئیں گے؟ کب پھر منار شرق پہ چمکے گا آفتاب مشب سب کئے گئی ون کے نظارے کب آئیں گے؟ کہتا ہے رو کے دل شب تاریک، ہجر میں وہ مہر و ماہتاب تمہارے کب آئیں گے؟ حضرت مولانا ذوالفقار علی صاحب گوھر خدا کا فضل اے فضل عمر تجھ سے ہے وابستہ زبان بحر و بر پر و بر پر احمدیت کا ہے افسانہ
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 85 خلافت اور جماعت احمد یہ مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر خدا ضائع نہیں کرتا کبھی اپنی جماعت کو تباہی سے بچاتا ہے ہمیشہ وہ صداقت کو یہ وعدہ ہے خدا کا مومنوں سے اور بشارت ہے حفاظت کیلئے ہم نے مقرر کی خلافت ہے فدائی جان و دل سے گر رہو شمع خلافت کے یقیناً ہوں گے ہم ضامن تمہاری ہر حفاظت کے رکھے پیش نظر ہر احمدی حکم خداوندی سعادت ہے یہی دارین کی یہ ہی خرد مندی خلافت سے عقیدت میں کمی ہر گز نہ آنے دو اگر جاتی ہو جاں اس راہ میں تو اس کو جانے دو کوئی چون و چرا حکم خلیفہ میں نہیں جائز یہی نکتہ کرے گا دین و دنیا میں مہیں فائز خلیفہ حکم دے تو شوق سے تم آگ میں کودو مسرت سے سمندر میں اگر ہو حکم جا ڈوبو چلو تم دھار پر تلوار کی گر وہ یہ فرمائے اگر ایمان ہے دل میں تو ابرو پہ نہ بل آئے
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 86 اگر دے حکم تو چپ چاپ مار اور گالیاں کھاؤ! اشارہ ہو تو بڑھ کر تختہ سولی یہ چڑھ جاؤ! کرو قربان ہر اک پیار کو تم اس پیارے پر نچھاور کر دو ہر اک چیز کو ادنی اشارے پر غرض سمجھو نجات اخروی اس کی اطاعت میں نہاں سمجھو خدا کا حکم اس کی ہر ہدایت میں ہمارے چار سو گو آج ظلمت اور اندھیرا ہے اگر چہ دشمنوں نے ہر طرف سے ہم کو گھیرا ہے خلافت سے رہے لیکن اگر ہم یونہی وابستہ مثال دانہ تسبیح اک رشتہ میں پیوستہ نفاق و اختلاف و بغض و کینہ سب سے برگشتہ خلیفہ کی اطاعت کے لئے ہر آں کمر بستہ یقیں جانو ہمارے واسطے پھر کامیابی ہے عدد کے واسطے دونوں جہانوں میں خرابی ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 87 جذ بات مهجور مکرم مہجور پسروری صاحب دربارِ خلافت میں پہنچے سر سبز ہوئے آباد ہوئے سب رنج مئے تسکین می نغم دور ہوئے دل شاد ہوئے ہر وقت دلوں میں ہے اپنے ایمان خدا کی نصرت پر رنجوں کی کبھی پرواہ نہ کی گو ہم وقف بیدار ہوئے آپس میں محبت رکھتے ہیں دل موم کی صورت ہیں سب کے دشمن کے مقابل پر آکر پتھر کے بنے فولاد ہوئے سر کو جھکا کر مقتل میں خوش شوق شہادت میں پہنچے پر اپنے آمادہ شمشیر بکف جلاد ہوئے تم ظلم وستم کے بانی ہو ، اور جور و جفا کے موجد ہو ہم رنج والم سمہ سہ کے پہلے ہم کھانے میں استاد ہوئے ارشاد الہی پر حوروں نے باب اثر کو کھول دیا جب وقت سحر نالے اپنے مائل بہ لب فریاد ہوئے تاوقت مقدر مجبوراً افسردہ گلوں کا ساتھ دیا گوہم پرستم مالی نے کئے صد ہا جو ر صیاد ہوئے مہجور پھنسے تھے مدت سے تم دھوکے کی زنجیروں میں سب بند خدا نے توڑ دئے صد شکر کہ پھر آزاد ہوئے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 88 برکات خلافت حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر ہر مصیبت سے بچاتی ہے وہ طاقت ہے یہ ك الله اللہ علی یہ خلافت ہے رحمت ہے یہ ہاتھ اُٹھے گا جو خلاف اس کے وہ کٹ جائے گا قاطع كفر ، شمشیر صداقت ہے یہ کجیمیں ہے دین خدا کی ای باری میں ہے میں قدرت ہے ہے.ہے یہی حبل خدا جس کا پکڑنا واجب بیعت حق جسے کہتے ہیں وہ بیعت ہے یہ اسکا انکار وحی قرآن کا انکار کو منکرو سوچو تو کس درجہ کی ہے یہ سمجھتے ہو نبوت سے ہو وابستہ مگر شیطاں ہے یہ انکارِ نبوت ہے یہ بیعت ابن مسیحا میں مسیحائی ہے اس سے دوری!! مرضِ قلب کی شدت ہے یہ جلوه گر چہرہ محمود میں ہے نور خدا عرش سے اترا ہے جو رازِ حقیقت ہے یہ
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ مان 89 99 کر مہدی کو پھر اس کی وحی کا انکار منکر و نفس کی ظلمت ہے جہالت ہے یہ کیا نہیں حضرت احمد کی وحی سے ظاہر جس کو تائید خدا ہے وہ خلافت ہے یہ بگڑ کر نہ بنے اور یہ بنتی ہی رہی جس کا معمار خدا ہے وہ عمارت ہے یہ آؤ لوگو کہ یہیں نور خدا پاؤ گئے حضرت احمد مرسل کی وصیت ہے یہ ہے اولوالعزم سے دوری تو فنا کا رستہ جس سے ، بچنا نہیں ممکن وہ ہلاکت ہے یہ افترا چھوڑ دو محمود سائية فضل عمر ، سایہ رحمت جانو دین و دنیا جو سنوارے وہ معیت ہے یہ اے نادانو ! جس پہ نازاں ہے نبوت وہی عترت ہے یہ اس کا حامی ہے خدا اُس کے فرشتے ناصر تم جسے چھین نہیں سکتے وہ نصرت ہے یہ اس خلافت سے جو ٹکرائے وہ مٹ جائے گا مالک کون و مکاں ہی کی مشیت ہے یہ
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 90 یہ تو یوسف ہے کہ بے داغ ہے دامن اس کا جس پہ مٹ جائے گی دنیا وہی صورت ہے یہ اے گرفتارِ نفاق اپنی خبر لے جلدی درک اسفل میں نہ اگر راہ ضلالت ہے یہ کیا ہی خوش بخت ہیں جو سایہ محمود میں ہیں مطمئن رکھتی ہے جو ان کو وہ رحمت ہے یہ رات دن فکر ہے دنیا کی ہدایت کی اسے خدمت خلق اسے کہتے ہیں خدمت ہے یہ کچھ کتابیں جو ادھر اور اُدھر سے لے کر کر لیں تالیف تو کیا وجہ امارت ہے یہ؟ بات تو جب ہے کہ ہو نور ہدایت ان میں ظلمت کفر مٹے ان سے ہدایت ہے یہ پھیلتے جاتے ہیں محمود کے دنیا میں ایاز ہیں قربان اشاعت ہے یہ احمدیت فقر و فاقہ میں غریبی میں بسر کرتے ہیں پھر بھی ہیں تابع فرمان اطاعت ہے یہ سر ہتھیلی پہ لئے پھرتے ہیں اس کے خادم جان و دل اس پہ فدا کرتے ہیں الفت ہے یہ
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 91 وہ کہ دن رات دعاؤں میں گھلا جاتا ہے سخت دل ان کو سمجھتا ہے حکومت ہے یہ اپنے بچوں سے زیادہ اسے پیارے وہ ہیں جو خدا کیلئے مرتے ہیں حقیقت ہے یہ تیرے پیاروں کا ہوں مداح خدایا ہو قبول کوئی خدمت ہے مرے پاس تو خدمت ہے یہ جس نے اس نظم کی تحریک مجھے کی گوہر کر دعا اس کے لئے اصل اخوت ہے یہ مکرم روشن دین تنویر صاحب نظام خدا ہے نظام خلافت که جبل لمتیں ہے قیام خلافت ہے بنیان مرصوص ہم کو بناتی ہوا اس اہتمام خلافت لئے اہتمام
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 92 22 خلافت ہے خلافت حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کا ضمیمہ نبوت کا ہے بعد اس کے نظامت کا وسیلہ وه سُناتي ہے دکھاتی ہے رسالت حکم باری نشاں اللہ کے بھاری راہیں پاکبازی کی بتائے ربي سکھائے دلائل سے ہمیں آگاہ کر دے ہماری جھولیاں تقویٰ سے بھر دے ہو نبی کے بعد پھر اک جانشیں مقام صدق میں ایسا مکیں ہو جماعت کو بجا لائیں اکٹھے پیوست رکھے بست رکھے خدمت دیں وہ ان وہ مل جل کر بڑھائیں عظمت دیں و تمکیں دین کو پھر ان سے حاصل نہ خوف و حزن ہو ، سب رب سے واصل
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 33 93 مصطفى کی پیشگوئی کرے گا آکے پوری جو بھی کوئی وہی ہو گا نبی بھی ہمتی بھی مسیح مہدی ہر مقتدی بھی که منهاج پر خلافت کرے گا آ کے قائم تا قیامت چنانچہ الوصیت میں بتایا کہ میں ہوں قدرت اول بن کے آیا اب اس کے بعد قدرت ثانی آئے جو تم کو مفلح مصلح بنائے مکرم ظہوراحمد صاحب خلافت ایک نعمت ہے خدائے پاک کا احساں گروہ مومنیں وصالحیں کی ہے یہی پہچاں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 94 منتظر تھے جس کے مدت سے وہ دن آہی گیا ! مکرم جناب ثاقب زیروی صاحب ہمنشین آیا ہوں دل کو گدگدانے کے لئے اک حقیقت آفریں مژدہ سنانے کے لئے آج تیرے واسطے ہے اک پیام جانفزا میری تیری روز کی بحثوں کا تین فیصلا وی حق نے آخرش توڑا یہ آہوں کا طلسم منتشر نغموں کا، متجسس نگاہوں کا طلسم تیرے امکاں اور گنجائش کی زحمت اڑ گئی میری جانب سے دلائل کی ضرورت اڑ گئی منتظر تھے جس کے مدت سے وہ دن آہی گیا اور خُدا نے خواب میں حضرت کو جتلا ہی دیا ہے مبارک مصلح موعود وہ فضل مهدی موعود کی اُس پیشگوئی کا ثمر وہ وجیہ اور پاک لڑکا صاحب عزم بلند ہاں وہی فرزند دلبند و گرامی ارجمند علوم ظاہری و باطنی سے پُر فہیم وہ مسیحی نفس، اولوالعزم و ذکی دل کا حلیم
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 95 روح کی برکت سے جو دیگا مریضوں کو شفا کلمۃ اللہ کلمہ تمجید بھیجا ہوا جو شکوہ و تمکنت سے اس جہاں میں آئیگا اور کناروں تک زمیں کے خوب شہرت پائیگا جس کے سر پر سایہ ہو گا اُس خدائے پاک کا جس نے پائی قدس کی برکات سے نشوونما قیدیوں کا رُستگار اور پاسدار بیکساں مظہر شانِ خدا وہ ماہ وش والا نشاں جو مجسم نور ہے مولا کی رحمت کا نشاں و احساں میں نظیر مہدی آخر زماں حسن جس کے دم سے قو میں برکت پائیں گی وہ آپ ہیں جس سے بگڑی قسمتیں بن جائیں گی وہ آپ ہیں
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 96 نوید جو بلی محترمه شاکره خاتون صاحبه خوشی کا غلغلہ گونجا کہ سلور جوبلی آئی صبا جاکر یہ مژدہ سارے عالم میں پکار آئی لگایا احمدیت کا چمن دُنیا میں احمد نے کہ جسمیں اک جہاں نے پانچ بات کی ہوا پائی سینیا اسے فضل عمر نے چشمہ عرفان سے برس چھپیں جب گزرے تو اک رنگیں بہار آئی نوید جوبلی سنکر ہوئے مدہوش سب عاشق مگر جذبہ مسرت کا اُٹھا اک لے کے انگڑائی چراغان ماہ و انجم سے ہے بڑھ کر ضوفگن ، دیکھو! بھلا پھر کیوں نہ ہو چکر میں عقل چرخ مینائی زمیں سے آسماں تک دھوم ہے اس جشنِ اطہر کی امام وقت کے ہیں خاکی و نوری بھی شیدائی کیا ہشیار مہدی نے ہمیں جب ساری دنیا میں شراب کفر میں مدہوش تھی پیری و برنائی سہارا دامن فضل عمر کا مجھ کو ہے کافی! کہ جس کے چہرہ انور پہ ہے شانِ مسیحائی کوئی اے شاکرہ پیغام پیغامی کو پہنچا د امیر المؤمنین کی جیت اور دشمن کی پسپائی
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 40 97 خلافت حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت ހނ وابستگی روح ملت اسی ނ ہے بڑھتا وقار جماعت ید اللہ جس پر ہے ہے ارشاد نبوی کرو جان و دل سے سب اسکی اطاعت خلیفہ ہمارا جو فضل کتابوں میں اس کی مسیح محمد نے فرما دیا تھا ہمیں اس کا رتبہ بھی بتلا دیا تھا بڑا صاحب شان و شوکت وہ ہو گا أولو العزم ذى جاه و دولت وہ ہو گا عباء خلافت ہے جو منکر وہ زمیں کے کناروں تلک اُس کی شہرت پہنچ جائے گی یعنی تبلیغ و دعوت ملبوس ہو گا سخت منحوس ہو گا وہ موعود بیٹا نشاں ہے وہ خُدا کا ہادی ہے اُمت کی راہ ہدی کا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 98 مبارک زمانہ ہے اُس با خدا کا یہ ہے فضل مولائے ارض و سما کا مبارک جو بیعت میں اُس کی ہیں داخل کہ ہوں گے وہی حضرت حق سے واصل مبارک کہ پچیس سالوں سالوں سے قائم فضل الهی خلافت ہے دائم منائیں گے ہم جوبلی سب خوشی شریک اُس میں ہوں گے جو صدق دلی سے جو موجود ہے مال قرباں کریں گے کہ قدموں میں اس کے یہ سب کچھ دھریں گے فدا جان بھی اپنی کر دیں تو کیا ہے یہی اپنا مقصد یہی مدعا ہے دائم کہ اسلام کا بول بالا ہو وہی سب مقبول و اعلیٰ ہو دائم
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 9 99 شان خلافت محمود حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب تعالیٰ مرا اللہ کیا شان خلافت خلافت ہے محمود ہی جان خلافت ہے معارف کے گہر جھڑتے ہیں لب سے وہی تو ابر نیسان خلافت ہے خدا خود میر سامان خلافت ہے جو دنیا ساری میدان خلافت ہے ضیا افگن اکناف عالم تا ہے کہ جو بدر درخشان خلافت ہے پھلا پھولا پھولا گلستان خلافت ہے تو پُر رونق دبستان خلافت ہے نگل سر سبز باغ احمدیت بہارِ بے خزاں آن خلافت ہے سلامت ناصر دین الهدی باد یہ اکمل دل سے قربانِ خلافت ہے
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 100 جو بلی کی مبارک تقریب حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر مبارک ہو سب کو خلافت کی جو بلی خلافت کی اور احمدیت کی جو بلی بہار آئی پھر بالغ اسلام میں خدا نے دکھائی شریعت کی جوابی خدا نے مسیحا کو دنیا میں بھیجا منائیں نہ کیوں ہم نبوت کی جو بلی مسلمان پھر بجا ہے مسلمان ہوئے ہوئے ہیں یقت کی جو تکی طریقت قرباں کئے مال و جاں ہم نے احمد ملی ہم کو دور شہادت کی جو بلی منایا ہے جشن آسماں اور زمیں نے نرالی ہے یہ شان و شوکت کی جو بلی مبارک ہو فضل عمر آپ کو خدا کی طرف سے فضیلت کی جو بلی ہوا پرچم اسلام کا کا خوب اونجا ہے دین احمد کی رفعت کی جو بتی یہ
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 111 101 یہ ہے خسروی دور امن و اماں کا ہے دنیا میں پہلی اخوت کی جو بلی کمر جلا ڈالے گی گوہر اعدائے دیں محمود کی شان عظمت کی جو بلی حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب دعائیں کرتا ہے اکمل صداقت احمد جہاں میں پھولے پھلے از خلافت - احمد على الخصوص یہ محمود مصلح موعود ہے اس کے حق میں دعائے جماعت احمد ترا جمال ترقی کرے قیامت کی تیرے کمال میں ہو شان ہر کرامت کی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 102 خلافت کی برکات مکرم مبشر احمد صاحب پسر حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی حفاظت اہل ایماں کی مقدر ہے خلافت سے خلافت ہی بچاتی ہے انہیں قعر مذلت خلافت مظهر شان نبوت نور وحدت ہے خلافت روح مذہب ہے خلافت جانِ ملت ہے خلافت ہی ستون اُمت و سامانِ رحمت ہے خلافت ہی جہاں میں دین کی وجہ حفاظت ہے خلافت ہی ہدایت کے لئے تکمیل کا باعث خلافت ہی شریعت کے لئے تعمیل کا باعث خلافت حق تعالیٰ کی رفاقت کا نشاں سمجھو خلافت نعمت ارض و سما ، کون و مکاں سمجھو مجھو خلافت کی اطاعت میں نہاں راہِ جناں خلافت ہی سے وابستہ نجات دو جہاں مجھو ہے غرض جب بھی کبھی اس دور کا آغاز ہوتا تو ظاہر دست قدرت سے نیا اک راز ہوتا ہے جہاں میں نور سے معمور ہیں اہل خلافت ہی مئے عرفان سے مخمور ہیں اہل خلافت ہی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 103 نگاہِ یار میں منظور ہیں اہلِ خلافت ہی مظفر ، غالب و منصور ہیں اہلِ خلافت ہی وہی معتوب ہوتے ہیں وہی مقہور ہوتے ہیں خلافت کے جو دامن سے مبشر دور ہوتے ہیں مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب خلیفہ تو علی وجہ البصیرت پاک ہوتا ہے مگر منکر ہمیشہ بے ادب بے باک ہوتا ہے ترقی دن بدن ہوتی ہے اُس کی بد گمانی میں حقیقت میں وہ منکر فاسق و ناپاک ہوتا ہے خلیفه درگه خلاق میں مقبول ہوتا ہے عدو اُس کا مگر بے راہ نامعقول ہوتا ہے خُدا جب خود خلیفہ کو عطا کرتا ہے یہ منصب تو پھر وہ کیوں خلافت سے بھلا معزول ہوتا ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 104 دیکھ لو آ کر مسیحا کی دعاؤں کا نشان مکرم جناب چودھری فیض عالم خان صاحب قادیاں میں چشمہ تنویر آکر دیکھئے اپنے دل کے خواب کی تعبیر آ کر دیکھئے جس ”میاں محمود کو سمجھے تھے بچہ ہے ابھی اُس میاں محمود کی تقدیر آ کر دیکھئے مصلح موعود بھی اس کے نصیبوں ہی میں تھا قادیاں کی خاک کی توقیر آ کر دیکھئے دیکھ لو آکر مسیحا کی دعاؤں کا نشاں میرزا کا نالۂ شبگیر آکر دیکھئے نطق پیغمبر سے جو نکلی تھی اجمالاً کبھی آج اُس اجمال کی تفسیر آ کر دیکھئے وقت کی آنکھوں نے دیکھی تھی جو تصویر جمال حسن و احساں کی وہی تصویر آ کر دیکھئے جو مقدس سلسلہ اُمّی نبی تھا وہ یہاں زنجیر در زنجیر آ کر زنجیر آ کر دیکھئے
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ یعنی 105 منہاج نبوت پر خلیفوں کا قیام دین احمد کے امانت گیر آ کر دیکھئے راز کیا ہے الوصیت اور تحریک جدید اک نظام ٹو کی یہ تعمیر آ کر دیکھئے کو جو مقدس خواب چشم انبیاء میں تھا نہاں اُس مقدس خواب کی تعبیر آ کر دیکھئے جس کی بنیادوں کو مستحکم مسیحا نے کیا ہو گیا وہ قصر دیں تعمیر آ کر دیکھئے قادیاں جنت نشاں یہ جنت اہل یقیں اس میں کوثر ، اس میں جوئے شیر آ کر دیکھئے جو کرن پھوٹی تھی احمد کی نگاہ ناز سے وه تجلی آج کشور گیر آ کر دیکھئے دشمنوں کی چھاتیوں پر لوٹتے مار سیاه سرسراتا سا رگوں میں تیر آ کر دیکھئے مصلح موعود کی مدحت خود اک اعجاز ہے فیض کے اشعار کی تاثیر آ کر دیکھئے
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 106 خلافت کی اہمیت حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت موجب اجماع امت ایک رحمت ہے خلافت باعث اعزاز ملت ایک نعمت ہے خلافت ارتقاء نسل انسانی کی صورت ہے مومن صالح الاعمال کی جاوید دولت ہے خلافت میں خداوند دو عالم کی نیابت ہے خلافت میں تمام اقوام عالم کی امامت ہے خلافت لازم و ملزوم شانِ ہر نبوت ہے خلافت بعد میں روشن نشانِ ہر رسالت ہے خلافت ہی سے استحکام احکامِ شریعت ہے خلافت ہی سے قلع و قمع کفر و شرک و بدعت ہے خلافت سے نظام ملت بیضا کی قوت ہے خلافت سے نفاذ امر و نہی ہر حکومت خلافت سر وحدت وجہ تنظیم جماعت ہے یہی روح و رواں وصدق و اخلاص و محبت ہے ہے خلافت ہی میں پوشیدہ مسلمانوں کی رفعت ہے جور و گرداں ہوئے اس سے، مجھے اُن سے شکایت ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 107 خلافت سے جو پھرتے ہیں ضلالت میں وہ گرتے ہیں خلافت کی اطاعت رپ اکبر کی اطاعت ہے خلافت سے بدل جاتی ہے تقدیر امم جلدی یہ حسب وحی ربانی وہی موعود ساعت ہے خلافت میں بڑے چھوٹے ہوئے چھوٹے بڑے ہونگے اسی دُنیا میں قائم ہونے والی اک قیامت ہے خلافت قدرت ثانی نبوت قدرت اوّل اگر یہ ابتداء کہئے تو وہ انجام امت ہے خلافت سے مسلماں پھر مسلماں ہوتے ہیں اکثر یہ دور خسروی آغاز ہونے کی علامت ہے خلافت سے ہوا فرقان امر حق و باطل میں یہ ہر اسلامی گھر کے واسطے حضن و نظارت ہے خلافت ہی نے گھلیں ، مچھلیاں اس اژدھے کی ہیں بنی آدم کو ڈسن لینا پرانی جس کی عادت ہے خلافت پر تصدق مال و جان مؤمناں ہو گا که دینی دنیوی آثار کی اس سے حفاظت ہے خلافت احمدیہ کا بھی یہ اجماع ہے پہلا بقول اہل حل و عقد مضمونِ وصیّت ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 108 خلافت سے ہے روز افزوں ترقی اس جماعت کی اسی سے ہو رہی تنظیم ملک وقوم و ملت ہے یہ چرچا ہو رہا ہے اور ہونا چاہیے اکمل خلافت سیدی محمود احمد کی خلافت ہے مکرم عبد السلام اختر صاحب اے صاحب اعجاز قلم تجھکو یہ عالم جب تک ہے لہو دل میں رواں یاد کرے گا اے کوہ وقار عظمت انسان کے عظمت کو تیری کوہ گراں یاد کرے گا ہر اہل سخن اہل نظر اہل تفکر حسن نظر و فکر بیاں یاد کرے گا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 109 احمدیت اور خلافت مکرم چوہدری نعمت اللہ خان صاحب گوہر کام جب کر چکی سب ختم نبوت اپنا میری البیلی خلافت کا زمانہ آیا دور صدیقی و فاروقی نے پلٹا کھایا آیا حصہ میں ہمارے وہی جام صہبا جس کی شمخانہ یثرب میں پڑی تھی تمہید پانی پانی ہے جسے دیکھ کے جام جمشید میں ہوا خواہ خلافت ہوں خلافت میری ہے یہی پشت و پناه بعد رسالت میری سرتسلیم کیا خم ، ہوئی عزت میری بڑھ کئی چرخ چہارم سے بھی وقعت میری سینکڑوں تمغے ہیں سرباز خلافت کیلئے جاں بھی دے دیجئے اعزاز خلافت کیلئے جاه و اقبال یہی دولت و ثروت ہے یہی دین و ایمان یہی ، راہِ طریقت ہے یہی دہر میں ناشر انوار نبوت ہے یہی ساتی ماہ وش بادۀ وحدت ہے یہی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 110 جس نے اس راز کو سمجھا نہیں انسان ہے کیا؟ وہ ہے انسان تو بتلاؤ کہ حیوان ہے کیا؟ ہنسوں کونجوں کی قطاروں میں بھی قائم ہے نظام شہد کی مکھیوں نے پایا اسی سے اکرام ہو نہ آگاہ جو مسلم تو ہے حیرت کا مقام دیکھو تسبیح کے دانوں میں بھی ہوتا ہے امام معتقد چور بھی ہیں چیلے ہیں ڈاکو اس کے دل سے گن گاتے ہیں چنگیز و ہلا کو اس کے ہے خلافت ہی سے معمور جہانِ رحمت ہے یہی معنے اَتْمَمْتُ عَلَيْكُم نعمت ہوا صدیق خلیفہ بنی اپنی قسمت محرم اسرار حکیم الامن یعنی وہ سخت دشوار گزار اور تھی گھائی پُر خار نوردیں ہو گیا اس راہ میں مشعل بردار دشت و گلزار پہ احسان ہے نور الدین کا ہر گل و خار پہ احسان ہے نور الدین کا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 111 عاشق زار پر نور الدین کا احسان ہے چشم بیمار پر احسان ہے نور الدین کا مورد برق تجلی تھی نگاہیں اُس کی عرش سے پار نکل جاتی تھی آہیں اُس کی صدق سے دھونی در حق یہ رمائی کس نے درس قرآن کی محفل سجائی کس نے وہ ایٹر راہوار خلافت کو لگائی کس نے لشکر کفر پہ تلوار چلائی کس نے تمکنت دین کو حاصل ہوئی کافی وافی کر کے دکھلا دیا سیچ وعده استخلافی روز و شب ہم کو سکھایا کہ شریعت ہے وہی بعد ازاں سنت و الهام و احادیث نبی نئی تعلیم کی قرآں نے نہ حاجت چھوڑی آیا ہے ہے خدمت ملت کیلئے احمد بھی پھر ہوا واصل حق ہم کو نصیحت کر کے اتحاد اور محبت کی وصیت کر کے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 112 اُس کی وارث ہوئی یہ پاک جماعت اپنی سورۃ جمعہ میں مذکور ہے عظمت اپنی شیخ کو گو نہ ہو معلوم حقیقت اپنی قدسیوں میں تو ہے مشہور سیادت اپنی حیدر و بوذر و سلمان ہیں ہم میں موجود و طلحه و عثمان ہیں ہم میں موجود ہے رسا بخت تو اقبال ہے یاور اپنا ایک ادنی سا ہے چاکر شیر خاور اپنا جو داور کے ہوئے ہو گیا داور اپنا قول اندھوں کو نہیں آئے گا باور اپنا برگزیدہ ہیں خدا کے تو نبی کے پیارے توڑنے آئے ہیں ہم چرخ بریں کے تارے درِ ر اغیار یہ جھکتے نہیں غیور ہیں ہم آج شرمندہ کن قیصر و فغفور ہیں ہم رہرو راه دنایت سے بہت دُور ہیں حب اسلام سے تسلیم ہے معمور ہیں ہم
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 113 آسمان شرفِ دین کے تیر ہم ہیں! وارث ملک سلیمان و سکندر ہم ہیں! پیشوا اپنا غنیمت ہے، کہ محمود ہے آج وہی یعسوب وہی قوم کا موعود ہے آج آگیا ہاتھ ہمیں گوہر مقصود ہے آج راہ ہر فتنہ و شر کی ہوئی مسدود ہے آج دیجور کئی مہر سیادت چمکا ظلمتیں دور ہوئیں نور خلافت چمکا مکرم عبدالسلام اختر صاحب برسوں یہ نقش دل سے مٹایا نہ جائے گا محمود تیرا نام بھلایا نہ جائے گا تیرا مقام پا نه نہ سکے گی نگاہ شوق تیرا نظیر پھر کبھی لایا نہ جائے گا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 114 بقائے خلافت مکرم ثاقب زیروی صاحب سنی ہم نے جس دم نوائے خلافت ہوئے جان و دل سے فدائے خلافت ہمیں خلد ربوہ کی پہنائیوں میں نظر آرہی ہے روائے زمانے کی رفتار کہہ رہی ہے بقا عدل کی ہے بقائے خلافت رہے جسے خلافت کسی کے لبوں پر قصائد جہاں کے ہمارے لبوں پر ثنائے تک وہ ثنا خوان اس کا جلوہ دکھائے خلافت خلافت بصیرت جسے دے وہ ربّ دو عالم وہی باندھتا ہے ہوائے خلافت اندھیرے گھروں میں اُجالے ہوئے ہیں گئی ہے کہاں تک ضیائے خلافت خلافت سہارا ہے ہم غمزدوں کا اسے رکھ سلامت خدائے خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 115 جسے روح تسلیم کرتی ہے ثاقب وہی آج ہے رہنمائے خلافت مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب ہے خلیفہ حق تعالیٰ کا سراپا نور ہوتا اُسی کے دین کی خدمت پہ وہ مامور ہوتا ہے , مخالف کور چشمی میں ضیاء سے دُور ہوتا ہے دین کا واحد علمبردار ہوتا ہے لہذا وہ عداوت پر بہت مجبور ہوتا ہے ہمارا کام طاعت ہے، اطاعت میں ہی برکت ہے خُدا سے بعد کا باعث ہی استکبار ہوتا ہے خلیفہ مذہب و ملت کا اک سالار ہوتا ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 116 قصر خلافت مکرم اختر گوبند پوری صاحب ہم دوشِ ثریا ہے تو اے قصر خلافت تو لاریب تیرے در و دیوار میں ہے نور صداقت ہے مظہر انور سراسر چکے ہیں ترے نور سے مہر و مہ و اختر تقدیس سے معمور ہر اک گوشہ ہے تیرا صد جلوه گر طور ہر اک گوشہ ہے تیرا حُسن و شرف ابنِ مسیحا کی عطا ہے جو مرکز عرفان ہے جو اہلِ سخا ہے اے قصر خلافت کوئی تجھ سا ہی نہیں ہے تو رہبر کامل کی اقامت کا امیں ہے وہ رہبر کامل رہِ ہستی کا قلاوز وہ اس نطق مقدس کی ہر اک بات ہے جائز پرچم اسلام کا تابندہ ستارا وہ احمدیت کے لئے مضبوط سہارا
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 117 تابنده و پائندہ رہے بزمِ جہاں میں وه زنده و فرخندہ رہے بزمِ جہاں میں اس روکش مهتاب مہتاب سے ہر ذرہ ہو وہ روشن تنویر جهانتاب سے ہر ذرہ ہو روشن ه چرخ خلافت پہ درخشاں رہے ہر دم وہ صورتِ قندیل فروزاں رہے ہر دم ہم اُس کی شعاعوں سے اندھیروں کو مٹا دیں اختر دل انسان کو پھر اک بار جگا دیں مکرم عبدالرشید تبسم صاحب گدایان محمد کو کیا تو نے یوں صف آرا کہ اب ان کے مقابل شان سلطانی نہیں ہوگی تجھے ہر دور کے تاریخ داں ڈھونڈیں گے دنیا میں تری وہ شخصیت ابھرے گی جو فانی نہیں ہوگی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 118 اہل پیغام کے نام ہمدردانہ پیغام جناب محمد ابراہیم شاد صاحب سب اہالی موالی ہے تم پیامج الگ ایک جماعت بنالی ہے خدائے تعالیٰ کے اس میں کدورت کی بنیاد تم نے ہی ڈالی جسے تم سمجھتے تھے 'بچہ ہے اس نے خلافت سنبھالی خدا کے کرم خلافت کا مٹنا تو تھا زعم باطل تمہارے تھے دعوے صداقت سے خدا نے خود اس کی بنیاد رکھی ہے ہیں باتیں تمہاری قیاسی خیالی خالی خلافت کی طاعت میں لاریب واللہ ہر اک نیک فطرت نے گردن جھکا لی مگر جو ازل سے ہی باغی ہوئے ہیں انہوں نے تو خاک اپنی خود ہی اُڑا لی خلافت کی نعمت کا انکار کر کے علیحدہ امارت کی بنسی بجا کی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 119 ہوئی ساری ناکام کوشش تمہاری گئے تیر سب ہی نشانے سے خالی ہر خلافت کی ہم نے تو چھپیں سالہ بڑی شان و شوکت ملے خاک میں سب ارادے تمہارے اک بات میں تم نے ذلت اٹھا لی ނ جوبلی منالی خلافت سراسر ہے رحمت خدا کی ہر اک بات میں ہم نے خود آزمالی خلافت کا پودا خدا نے لگایا ثمر ور ہے آج اس کی ایک ایک ڈالی نبوت.خلافت تو دو قدرتیں ہیں بتدریج عالم چھا جانے والی ظاہر لفظ خلافت کے معنی سے نبوت کے بعد آنے والی خلیفہ کے منکر تو ہوتے ہیں فاسق اسی دفسق میں تم نے عظمت گنوالی سے نکل کر مسیحا کے دار الامان جدا چند اینٹوں کی کٹیا بنالی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 120 و 6 بگڑ کر مسیحا کے لخت جگر زباں بد زبانی میں تم نے بڑھا لی بھی آ کر منافق کہلوایا اُن کہ جن کے بھروسے دیتے ہو گالی خدا کے نبی کے عقائد کو چھوڑا ہے اک اور ہی الٹی گنگا بہا لی مسیحا کے درجے میں تفریط کر کے غلط کہہ رہے ہیں ہمیں آپ غالی د محمود ނ 6 ہیں غدار ملت کے پہلے بھی گزرے مگر تم نے پائی ہے فطرت نرالی تو کچھ ایسی عداوت ے جس نے دماغوں سے دانش نکالی کہ خلافت کی طاعت کرو صدق دل سے اگر ہے تمتائے درجات عالی امام زمانہ کے مسلک کو دیکھو! یہ ہے بات جھگڑے مٹا دینے والی وہ منور ہوئے نور ایمان ނ جنہوں نے کہ محمود سے لو لگا لی
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 121 خزاں کس طرح آئے دیں کے چمن میں کہ جب اس کے محمود احمد ہیں مالی غلامی میں محمود کی شاد تو نے خدا کے کرم ایازی ہے پالی * مکرم عبدر ہتاسی صاحب (1) ہمیشہ طالب حق کو حقیقت آزماتی ہے گھڑی اس کے مقدر کی فضا میں مسکراتی ہے نہیں خطرہ کوئی ہرگز تلاطم خیز طوفاں کا خدا کے پاک بندوں کو خدا سے نصرت آتی ہے (2) ملمسلہ سلسلہ یارو اگر نہ ہوتا خدائی یہ فوراً پکڑتا رنگ بتا ہی یہ یارانِ نکتہ داں کے لئے ہے صلائے عام مخزن ہے علم و فضل الہی یہ سلسلہ
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 122 جانب محمود دیکھ اور مصلح موعود دیکھ ! مکرم روشن دین تنویر صاحب پڑھ ذرا سبز اشتہار اور جانب محمود دیکھ! جانب محمود دیکھ اور مصلح موعود دیکھ! کر رہی تھی مدتوں سے جس کا قومیں انتظار اس کے فضل و رحم کے ساتھ آج اسے موجود دیکھ ! مہر عالمتاب کی مانند روشن ہیں نشاں کونسا پیشگوئی کا یہی مصداق ہے مولود دیکھ ! جو نشاں ثابت نہیں محمود میں؟ ہے یہ ذہانت یہ اولوالعزمی یہ بذل وجود دیکھ ! آج دنیا کے کناروں تک وہ شہرت پا گیا تین صدیوں کی طرف غافل نہ تو بے سود دیکھ ! کیا نہیں ہے مظہر نورِ خدا اس کی جبیں؟ یہ جبیں سجدوں سے جو رہتی ہے گرد آلود دیکھ ! جس طرف بھی اٹھ جس طرف بھی اٹھ گئی ہے اس کی حق پرور نظر نسل باطل ہو رہی ہے نیست و نابود دیکھ! اک نگاہِ مہر اے تنویر تھی اٹھنے کی دیر ہو رہے ہیں سب اندھیرے خود بخود مفقود دیکھ !
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 23 123 احساس فرض مکرم عبدالمنان ناہید صاحب تخمیر را ہے اسپ وقت کی یہ برق رفتاری یہ ساعت جو میسر آج آئی پھر نہ آئے گی یہ مکن ہے اسیروں کے جہاں میں رستگار آئیں مگر محمود کی فرمانروائی پھر نہ آئے گی بہاریں اور بھی آتی رہیں گی اس گلستاں پر مگر بلبل کی یہ رنگیں نوائی پھر نہ آئے گی میان میکدہ چلتا رہے گا دور ہے دور مے لیکن میرے ساقی کی طرز دلربائی پھر نہ آئے گی عزیز و قدر جانو زندگی کے لمحے لمحے کی عزیز و وقت کی نغمہ سرائی پھر نہ آئے گی کہاں پہنچا ہے دن ڈھلتے ہوئے سائے ذرا دیکھو کرن اک بار جو ہے مسکرائی پھر نہ آئے گی قسم ہے سورۃ و العصر نازل کرنے والے کی یه دولت آج گر ہم نے گنوائی پھر نہ آئے گی کیسے معلوم کب تھک کر دِل بیمار رک جائے یہ ناممکن ہے پیارو وقت کی رفتار رک جائے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 124 پیشگوئی سح موعود اور اُس کا ظہور مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب مسیح خُدا کو ملی عطا بشارت مقدر ہے تیرے لئے ایک نعمت ہو گا فرزند دلبند فرزند دلبند تجھ کو ذہین نظیر پدر وہ فهیم و حلیم وجیهه بُرہانِ قربت مقرب و وہ برہانِ رحمت ذکی صاحب شان و شوکت حُسن واحساں میں ہو گا کروں گا عطا اس کو میں عمر و دولت بڑھے گا وہ طفلِ ذکی جلدی جلدی کمالات ظاہر غلاموں اسیروں کو بخشے گا عزت کمالات باطن کرے گا عنایت اسے دست قدرت وہ کاموں میں اپنے اولوالعزم ہو گا وہ اکناف عالم میں پائے گا شہرت
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 125 ورود اس کا ہوا امام ہو گا ورود خدائی نزول اس کا ہو گا نزول صداقت جلوه گر پسر موعود آخر زمانہ کی فضل عمر رہبر وه گفتار و کردار مرے ملی تھی مسیحا کو جس کی بشارت پیشگوئی محیط جہاں ہے بصد شان و شوکت ملت قوم کئے زیب تن ہے قبائے خلافت ہر دو دو کا سلطاں جو فرما رہا ہے جہاں کی قیادت دوستو آؤ مانگیں دعائیں خدا دے اُسے عمر و صحت کی دولت یہ فصل خدا ہے اے شبیر تجھ پر کہ تو نے بھی پایا یہ عہد سعادت
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 126 الْخِلاقَة عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّة حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب امام و پیشوا جب مہدی ذیشان ہو میرا سعادتہائے گونا گوں سے پُر دامان ہو میرا خلافت جو ہوئی قائم ہے منہاج نبوت پر بہارِ بے خزاں والا سدا بُستان ہو میرا مسیح و مهدی موعود کے پہلے خلیفہ تھے وہ نور الدین راضی جن سے حق سُبحان ہو میرا نچه خوش بو دے اگر هر یک زانت نور دیں ہو دے ضیاء راہِ حق ہر وقت شفا بخش دل و جاں جن کی ہر تقریر ہوتی تھی وقت یہ فرمان ہو میرا دیا کرتے تھے جس کا درس وہ فرقان ہو میرا امیرالمؤمنیں ، ابن صیح و قدرت ثانی کہ جن کے حکم پر قرباں سر و سامان ہو میرا خدا رکھتے یہ چشمہ فیض کا جاری قیامت تک اطاعت ان کی ہر معروف میں ایمان ہو میرا تبلیغی و تنظیمی جو ان کے کارنامے ہیں! ترقی یاب ان کی دید سے عرفان ہو میرا گزاری عمر ساری معصیت کاری میں اے المل دعا ہے خاتمہ باخیر و الایمان ہو میرا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 127 نور مسیحا نزول حضر جاب طبابت عیسی اک طرف ہر آجاؤ ! مکرم مرزا حنیف احمد صاحب مصلح موعود آفرین و اصل شہود نغمه و راور لطافت برنگ لا محدود پیام زیست کا لایا ہے بحرو بر کے لئے ہر ایک مدعی - ذوق یک نظر کے لئے یاش نور مصطفوی بجھا کے بجھا لو شرار بجھا لو شرارے بو لہبی اٹھو برائے کے طلبی نیں میں شوق تشنہ لبی بھلا نہ دینا نہیں شیوہ ہائے رندانہ بھرا پڑا ہے مئے احمریں سے میخانہ اٹھا کے عرش سے لایا ہے ایک یزدانی شراب اطہر کوثر ظرف روحانی درون شہر ہے بادہ کشوں کی سلطانی ہوئی ہے ساغر و جام و سبو کی ارزانی صدائے قلقل قلقل و مینا بائیں کلام وہ بد گہر ہے ہے آج جسے فکر ننگ و نام ہے آج
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 128 خلافت مکرم مبشر احمد صاحب را جیکی خلافت سر ہستی ہے خلافت راز قدرت ہے خلافت روح مذہب ہے خلافت جانِ ملت ہے خلافت اہل ایماں کیلئے بارانِ رحمت ہے خلافت نوع انساں کیلئے سامانِ وحدت ہے خلافت ہے ہدایت کیلئے تکمیل کا باعث خلافت ہے شریعت کیلئے تعمیل کا باعث خلافت حق تعالیٰ کی محبت کا نشاں سمجھو خلافت کی اطاعت میں حیاتِ جاوداں سمجھو خلافت ہی میں پوشیدہ متاع آسماں سمجھو خلافت ہی سے وابستہ نجات دو جہاں سمجھو غرض جب بھی کبھی اس دور کا آغاز ہوتا ہے نیا ساقی، نئی محفل ، نیا انداز ہوتا ہے مداوائے ضلالت ہیں تو ہم اہلِ خلافت ہیں شناسائے مشیت ہیں تو ہم اہلِ خلافت ہیں نگہدار نبوت ہیں تو ہم اہلِ خلافت ہیں ہما دار خلافت ہیں تو ہم اہلِ خلافت ہیں یہ سب شیرازہ ظلمت پریشاں ہونے والا ہے کوئی دم میں طلوع صبح تاباں ہونے والا ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 129 مقام خلافت مکرم ملک نذیر احمد صاحب خلافت ظل رحمانی خلافت نور یزدانی خلافت سر جمیعت خلافت روح ایمانی خلافت سے ہوئی قائم جہاں میں شانِ انسانی زمانہ میں ہوا اس سے ظہور قدرت ثانی اسی کے دم سے مسلم کو خدا نے زندگی بخشی اُٹھایا خاک سے ذروں کو اور تابندگی بخشی خلافت در حقیقت باعث تکوین عالم ہے یہی وہ نور ہے جو موجب جو موجب تخلیق آدم ہے مزین دست انسانی ہے جس سے یہ وہ خاتم ہے جو اس حلقے میں داخل ہوا اسے دنیا میں کیا غم ہے خلافت ہی سے دنیا میں ہمارا بول بالا ہے اسی کے فیض سے ہر سو زمانے میں اُجالا ہے مسلمانوں کی جس سے شان قائم ہے خلافت ہے جہاں میں جس سے اپنی آن قائم ہے خلافت ہے تن مسلم میں جس سے جان قائم ہے خلافت ہے وہ جس سے عظمت ایمان قائم ہے خلافت ہے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 130 خلافت سے زمانے میں ہمارا نام زندہ ہے رسول پاک جو لائے تھے وہ پیغام زندہ ہے جماعت میں ہمیشہ نعمت رتی رہے یارب قیامت تک مسلمانوں میں یہ برکت رہے یارب سر انسانیت پر سایہ رحمت رہے یارب میسر ہم کو ہر ساعت تیری نصرت رہے یارب مئے توحید سے خوردو کلاں مخمور ہو جائیں تیرے انوار سے کون مکاں معمور ہو جائیں مکرم اکبرحمیدی صاحب، فیروز والہ اک نئے انداز سے کی تو نے تفسیر حیات زندگی کا اک نیا مفہوم پیدا کر دیا کھو گئے خود اس طرح اس حُسن کے انوار میں اپنی ہر جانب ہی کو جلوہ آراء کر دیا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 131 برکات ہیں یہ صدق خلافت کے نور کی ! حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی عبرت کا ہے مقام یہ منزل غرور کی! سر نہاں ہے حد عواقب امور کی! کہتے تھے پاک ، پر ہیں تقدس کے برخلاف حالت عناد ہوئی ایسی شعور کی! رت علیم نے محمود نام رکھا مذموم اس کو کہنا مذمت ہے نور کی! - عالم ہے جس کے دور میں اک جلوہ گاہِ حق ، موسی کہاں کہ دیکھے تجتی وہ طور کی! بھی احیاء خلق انقلاب دہر ہمیشیں روز نشور کی! دکھلا رہا ہے محمود کا دور انقلاء ہر قوم میں ہے شیر یا نان یا نور کا وحد نما بھی اک دورِ حمد ہے لکھی خبر صحیفوں میں جس کے ظہور کی! ہے ہوا شیح کی! وہ لوگ خوش نصیب ہیں جن کو ملا یہ وقت شکر پائیں برکتیں ربّ شکور کی! صد
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 132 صد حیف جو کہ رہ گئے محروم و بے نصیب عادت بنائی جہل سے کبر و غرور کی! دوزخ کا لطف کیا تجھے جنت کو چھوڑ کر غافل نہ بھول حسرتیں روزنشور کی! نفس دتی کے واسطے مولیٰ کو چھوڑنا صد حیف قدر ہے یہی ربّ شکور کی! محسن کشی ہے باب تو بہ وا ابھی اس کو نہ بند کر رحمت بجوش عفو ہے ربّ غفور کی! ہے آقا اپنے بگاڑنا یاد سب وہ شفقتیں جو ہیں حضور کی! جب تک شجر سے شاخ کا پیوند ہے درست سبز ہے وگرنہ ہے لکڑی تنور کی! سر مخفی نہیں ہے حالت اہل پیام کچھ ہر روز سوجھتی ہے انہیں دُور دُور کی! تقویٰ کا جب لباس ہوا ان کا تار تار خوگر طبائع ہو گئیں فسق و فجور کی!
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 133 ہر روز نصرتوں کے نشاں پر نشان ہیں برکات ہیں یہ صدق خلافت کے نور کی! تمحیص کے لئے ہے امتحاں ضرور تا ہوں عیاں علامتیں خیر الامور کی! قدسی دعا کے واسطے ہمت بلند کر حاصل ہوں تاکہ نصرتیں رب غفور کی! مکرمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبه اسلام کی خدمت میں عمر اپنی گزاری دشمن کے ہر اک وار کو سینہ پہ لیا ہے جو حسن میں احسان میں مہدی کا تھا ہر نور محمد کی غلامی سے لیا ہے افعال میں بے مثل تو افضال میں یکتا وہ زندہ ہے تابندہ ہے گو ہم سے جدا ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 134 سلام بحضور سید نا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب اے امیر المؤمنیں تجھے اے امام تو نے پھر اسلام کو غالب حامی دین متیں تجھ حضرت فضل عمر دل کے حلیم پر سلام پر سلام اے مظفر اور ذہیں تجھ پر سلام نے بتلائے نکات معرفت ان مطاع عارفیں تجھ پر سلام لشکر باطل کو تجھ سلام پر شاہ و مشهور وجود ہے بالیقیں تجھ پر سلام حُسن مصلح موعود اب و احساں میں مسیحا کا یوسف ماہ جبیں تجھ تیرے دوسرا کوئی تو پر سلام سوا نہیں تجھے سلام
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 135 یادگار مهدی آخر زماں مونس و غمخوار دیں تجھ پر سلام ہو رہے ہیں خائب خاسر تمام ہو گئے ہیں تیرے حاسد نکتہ چیں زنده باد اسلام کے بطل جلیل دین کے حصن سيدى أنتَ مُرادُ قَوْمِنَا ظلمت باطل ہوئی إِنَّكَ نِعم القريس روشن آسماں اور چمک اُٹھی زمیں تجھ ہوئی کافور 8: پر سلام ھیں تجھ پر سلام تجھ سلام سلام تجھ سے اے نور میں تجھ پر سلام میرے آقا بھیجتے ہیں صبح و شام اولین و آخریں تجھ حق کی خاطر ہو گئی دل میں میرے تیری الفت جاگزیں تجھ تیری طاعت میں خدا ہم کو ملا رہبر عرش بریں تجھ پر سلام سلام پر سلام
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 136 اللہ مل گیا آخر ہمیں تجھ سا اک در تمیں تجھ یاد میں تیری دعا کے واسطے جھک گئی میری جبیں تجھ میری جانب اک نظر اک نظر بر خدا شاد ہو حزیں مکرم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفر صاحب پر سلام پر سلام تجھ سلام نور ہی نور ہم نے دیکھا ہے گویا کا ظہور دیکھا ہے اُس کی شہرت ہے چاند تاروں تک بھر گئی ہے زمیں کناروں تک کتنی قوموں نے برکتیں پائیں سب کے حصہ میں رحمتیں آئیں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 137 ربوہ کے یوم الخلافت کے لئے حضرت قاضی ظہورالدین اکمل صاحب مئی کی ستائیس یوم الخلافت مبشر رسول اسم ہوا اس میں تاسیس یوم الخلافت احمد آیا تو نور خلافت کا مردہ سُنایا مقام اس کے بعد اپنے محمود کا ہے فرزند موعود کا ہے مبشر بشیرے برو مبارک شریفے خدا باد ناصر قائم صدی ایک گذری خلافت ہے المی نعمت رہے ہم میں دائم جو اعمال صالح ہیں ایمان کامل تو ہم سب رہیں گے خلافت میں شامل اسی میں ترقی دنیا و دیں کی ہے کرو قدر سب مل کے ڈریمیں کی دُعا گو ہے اکمل کہ یارب خلافت رہے زندہ پائنده با شان و شوکت
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 138 نعمت خلافت مکرم شاہد منصور صاحب ازل کی گود میں تخلیق کے جذبے تڑپ اٹھے عروس نو بنے انسانیت کے اولیں لمحے مثیت نے یہ جب چاہا نوازے ارضِ عالم کو حضور حق سے دو تحفے ملے اولاد آدم کو وہ تحفے جن سے ظلمت قلب کی کافور ہو جائے وہ تحفے جن سے سینہ نور سے معمور ہو جائے حضور کبریائی سے فرشتوں کو ندا آئی کہ ہم نے آج بخشی خاک کے پتلوں کو برنائی زمیں کے تھے ذروں کو فلک پر ہم نے رفعت دی نبوت دی، نیابت دی، رسالت دی، خلافت دی فروغ ظلمت باطل کا جب بھی دور آتا ہے تو شمع نور آگیں نے کے حق فی الفور آتا ہے یہی سنت خدا کی ہے کبھی یہ ٹل نہیں سکتی زمین و آسماں مل جائیں پر یہ ٹل نہیں سکتی کبھی باطل کو خورشید رسالت دور کرتا ہے کبھی بدرِ خلافت ذرے کو پر نور کرتا ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 139 کبھی تیغ نبوت کی چمک سے کفر لرزاں ہیں کبھی ایوانِ ظلمت بھی خلافت سے چراغاں ہیں ازل سے آج تک یونہی مقابل نور وظلمت ہیں خداوند جہاں کی بات پر دونوں شہادت ہیں وصال مهدی برحق باطل یہ سمجھ بیٹھا که دور ظلمت آگئیں آگیا اب نقش حق اُٹھا اولو العزم و مبارک دینِ حق کا جو خلیفہ ہے کیا ہے چار جس نے تین کو وہ میرا آقا ہے ہزاروں سال سے قو میں تھیں تشنہ جس خلافت کی ہمیں اللہ نے رحمت سے وہ نعمت عنایت کی پلائیں گے مئے رحمت جہاں میں تشنہ کاموں کو مٹائیں گے جہاں سے کفر کے باطل نظاموں کو زمانے کو بلائیں گے رہ حق و صداقت پر کٹا دیں گے ہم اپنی گردنیں شان خلافت پر ہمیں نعمت ملی یہ نعمت اللہ واحد ہے ہماری خوش نصیبی پر کلام اللہ شاہد ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 140 خلافت مکرم عبدالقادر صاحب، کراچی خلافت وعده انعام ربي خلافت مورد الهام ربی خلافت وجه خوشنودی مولا خلافت پر یقین ہے فرض اولی سراسر آیه رحمت خلافت خلافت موجب تمكين ملت خلافت مظہر کردار قدرت خلافت درس توحید و رسالت ہے اک طیب شجر جو ہم نے پایا جسے خود حق تعالیٰ نے لگایا خلافت آسمانی بادشاہت خلافت نظم عالم ربط ملت خلافت روضۂ تکمیل عالم خلافت بناء امنِ عالم ہے خلافت ورثه داؤد و عیسی خلافت ترکه ہارون و موسیٰ
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ہمارے واسطے حبل المتیں ہے خلافت رحمۃ للعالمیں ہے 141 خلافت فخر شان آدمیت خلافت عشق کا بار امانت خلافت راز اسماء الهی خلافت ہے مثیل سجدہ گاہی جو حاسد ہے ، عدد ہے بدگماں ہے یہ اُس کے واسطے اک امتحاں ہے خلافت کوکب دری و نوری خلافت سے ملے دل کو حضوری فدا سو جاں سے میرا جسم و جاں ہے کہ یہ مولیٰ کا سنگِ آستاں ہے خلافت بنت موعود آدم خلافت عرش کا ہے اسم اعظم خلافت حامل نور امامت خلافت راز مستور امامت نبوت جلوۂ شمس الضحی سے خلافت چشمه نور الہدی ہے خلیفہ سرگروه عارفاں ہے خلیفہ صدر بزم عاشقاں ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 142 و, خلیفہ حصن اسلامی کا افسر خلیفہ قدرت ثانی سراسر خلافت کشتی نوح زمانه مرے مولا مری یہ اک دعا ہے د تری درگاہ میں بجز و بکا ہے وہی فخر رُسل شاہ خلافت وہی محمود ناز احمدیت مسیحائے محمد کا نشاں ہے وہ جس کے نور سے روشن جہاں ہے خلافت جلوه یار یگانه ترا محمود جو معجز نما ہے جو جاں کا نور دل کا آسرا ہے وہ جس سے نصرت دین امیں ہے خلافت کی امانت کا امیں ہے وہ تیرا طیب و طاہر خلیفہ مرا قائد مرا سردار و آقا دعا ہے اُس کے حق میں عاجزانہ ہے تیرے در پہ عرض مضطرانہ تو اس سے دور کر دے ساری آفات عطا کر دے عظیم الشاں فتوحات
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 143 تو اس کے سب غموں کو دور کر دے خوشی سے اُس کا دل معمور کر دے ظہور عون و نصرت دمبدم ہے حسد سے دشمنوں کی پشت خم ہے اسے دے عمر اور صحت عطا کر اسے تائید اور نصرت عطا کر منو اب وقتِ توحید اتم ہے ستم اب مائلِ مُلک عدم ہے خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي مکرم قریشی عبدالرحمن ابد صاحب ملت بیضا بیضا کی عظمت کا جو تھا بطل جلیل بے سہاروں کا سہارا بے نواؤں کا کفیل فتح و نصرت نے سدا چوما کئے جس کے قدم جس کو پہنچا کرتی تھی یوں ، عون ونصرت دمبدم
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 144 خلافت مکرم عزیز الرحمن منگل صاحب، مولوی فاضل خلافت باعث تخلیق انساں خلافت اسرار پنہاں خلافت سر تکوین رو عالم خلافت صبر داؤد و سلیماں خلافت وحدت اعضاء ملت خلافت جامع حال پریشاں خلافت زینت محراب و منبر خلافت آله تقدیر رحماں خلافت کاسر کسری و قیصر خلافت قاطع گردن فرازاں خلافت کاشف اسرار فرقاں خلافت جامع اجزاء ملت خلافت مرحصار عاجزاں را خلافت دستگیر زیر دستاں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 145 خلافت مامن آشفته حالاں خلافت ملجاءِ ہر پیرو برنا خلافت مصهد رشد و هدایت خلافت خلافت مکتب تہذیب انساں مورد الهام باری خلافت مرکب ہر سالک راہ خلافت آتش سوزان شیطان خلافت بار برخنّاس طبعاں خلافت ناشر ناشر نور خلافت قدرت ثانی رحماں خلافت تا بعش مردِ مسلماں خلافت منکرش مردود دوراں خلافت وضله مخلوق و خالق خلافت زمینه ایمان و عرفان صدائے احمدی پائندہ بادا خلافت تا قیامت زنده بادا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 146 خلافت مکرم عبدالسلام صاحب اختر ایم اے یہ نکتہ کیا نہیں ہے آدمی کے غور کے قابل! کہ پت شاخ سے گرتا ہے جب ، مرجھا ہی جاتا ہے رواں ہے بلبلے کی ناؤ بھی دریا کی موجوں پر ذرا اُبھرے تو ہیئت میں تغیر آہی جاتا ہے سبق دیتی ہے تاریخ خلافت نوع انساں کو کہ اہل حق کے قدموں میں زمانہ آہی جاتا ہے ہزاروں ہوں گھنے تاریک بادل مٹ ہی جاتے ہیں کہ جب سورج نکلتا ہے تو آخر چھا ہی جاتا ہے اخوت ایک نعمت ہے ، وگرنہ سلسلہ غم کا اگر ہو مستقل تو آدمی گھبرا ہی جاتا ہے عجب شے ہے جہاں میں جذبہ شوق محبت بھی جو اُس کو ڈھونڈ نے آتا ہے آخر پا ہی جاتا ہے جو کی ہو چھو تو شمع خلافت سے ہے نورانی یہی ہے رمز قرآنی ، یہی راز جہانبانی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 147 ازل ازل سے ہوا اہتمام خلافت مکرم شیخ روشن دین تنویر صاحب سے ہوا اہتمام خلافت ابد تک رہے گا نظام خلافت بتایا ہے قرآن میں یہ خدا نے پیا پہلے آدم نے جام خلافت ملائک کی جس سے جبینیں ہیں روشن وہ ہے خاک بیت الحرام خلافت ملینگے محبت کے جلتے ہیں جس میں ہے شعله شمع بام خلافت وہ ره راست پاتے ہیں جس سے مسافر وہ ہے نور ماہِ تمام خلافت وہ طائر ہے بھٹکا ہوا بوستاں سے پکارا ہے تنویر پھر میکدے نہیں جس کی گردن میں دام خلافت پیو آکے کاس الكرام خلافت
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 148 مقام محمود مکرم اختر گوبند پوری صاحب، لاہور کوئی داستاں ملے کیا مرے دل کی داستاں سے کہ نظر نے فیض پایا ترے حسن جاوداں سے نقیب نور و نکہت تو بہارِ بے خزاں ہے میں کہیں نہ جا سکوں گا ترے سنگِ آستاں سے تو صداقتوں کا مظہر تو ہدایتوں کا پیکر ہوا اک جہاں منور تری شمع ضوفشاں سے تو امین فکر و دانش تو ضیائے مہر حکمت ہے فروغ بزمِ اُلفت ترکی ذاتِ بے گماں.تجھے عظمتوں نے پالا تجھے نصرتوں نے چوما تری گفتگو نفتگو مزين ނ مزین ہے جمال کہکشاں سے مرے دل کا ذرہ ذرہ تری عظمتوں کا قائل تری رفعتیں نمایاں ترے روئے ذی نشاں سے مری سر بلندیوں میں ترا التفات شامل مری تشنگی بجھی ہے اسی بحر بے کراں سے ا گیا ہے اس بحر ہے تری دعا کا طالب ترا خاکسار اختر ترے در پہ آ گیا ہے یہ گزر کے سب جہاں سے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 149 خلافت مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلافت باعث صد جلوہ ہائے نور یزدانی خلافت سر شان و شوکت آیات قرآنی خلافت رحمت حق ، مظہر مظهر صد شانِ ایمانی خلافت آفتاب و نیر ملت کی تابانی خلافت ظلمتِ کفر و ضلالت کیلئے مشعل خلافت نعرہ حق ، نغمہ توحید ربانی نگاه بوبکر دشمنان دیں پراگنده شکی بیست فاروق سے اصنام شیطانی خلافت دولت گم " گشته انسان ، اللہ ھو خلافت برکت صبرو رضا و عشق عثمانی ارے ناداں ! خلافت کی بجان و دل حفاظت کر اسی میں آج پوشیدہ ہے معراج مسلمانی خلافت ہی تو ہے ملجا و ماویٰ ابنِ آدم کا خلافت ہی تو ہے محبوب روحانی و جسمانی
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 150 خلافت نے بشر کو عشق کے وہ راز سمجھائے کہ ان کو دیکھ کر ہوتی ہے حیرت کی فراوانی خلافت نے وہ حُسنِ زندگی بخشا ہے دنیا کو چمکتی ہے جمال پاک سے عالم کی پیشانی خلافت کیا ہے انوار نبوت کا تمہ ہے انہی انوار سے روشن ہے چشم نوع انسانی خلافت کی ردائے بے بدل چھینے کوئی مشکل خدا خود کر رہا ہے احمدیت کی نگہبانی بحمد اللہ عروج آدم خاکی کا دور آیا میسر ہے ہمیں پھر شوق یہ انعام رحمانی چوہدری علی محمد صاحب بی اے.بی ٹی * وہ زمیں شور تھی جو شورے سے یکسر سفید بن گئی آج وہ رشک گل باغ جناں کیا کرامت ہے کہ تیرے پاؤں کے نیچے سے آج کر دیا جاری خدا نے چشمه آب رواں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 151 امیر المؤمنین مکرم سعید احمد اعجاز صاحب عشاق پاکباز کو مہماں کئے ہوئے نور خدا سے بزم چراغاں کئے ہوئے بندہ نوازیوں کی بچھائے ہوئے بساط محفل کو زیر سایہ مژگاں کئے ہوئے سینوں کو موج نور سے دھونے کے واسطے اہل جنوں کے چاک گریباں کئے ہوئے تابانیاں لئے ہوئے تاریک رات میں تاریکیوں میں جشن چراغاں کئے ہوئے لہجے میں سوز ، بات میں رس، گفتگو ملیح روح بشر کے درد کا درماں کئے ہوئے جس شمع آرزو سے میسر ہے دید دوست وہ شمع آرزو داماں کئے ہوئے اک سرمدی بہار کا چھیڑے ہوئے سرود ہر گوشئہ فضا کو غزل خواں کئے ہوئے رکھے ہوئے یقین بنیاد دلبری وہم و گماں کا بتکدہ ویراں کئے ہوئے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 152 کھولے ہوئے رموز و معارف کے بند باب تفسیر دلفریبی قرآں کئے ہوئے نوع بشر کی راہنمائی کے واسطے لے کر سرور عشق کی تسکین ریز کے صدها چراغ راہ فروزاں کئے ہوئے چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے سرے سے تیز دشنۂ مژگاں کئے ہوئے سرمہ بنا کے وادی بطحا کی خاک کو المختصر وہ صدر نشیں انجمن میں ہے اور انجمن ہے پیش دل و جاں کئے ہوئے اعجاز خوش نصیب بھی اُس آستاں پہ ہے سر زیر بار سنتِ درباں کئے ہوئے زیر قبا چھپائے ہوئے صد جہانِ شوق پوشیدہ دل میں سینکڑوں ارماں کئے ہوئے دست دُعا اُٹھائے ہوئے سوئے آسماں آہ و فغاں کو زیر گریباں کئے ہوئے سالار مومنین یارب نگاه خاص ارض و سما و سما کو اُس کا نگہباں کئے ہوئے
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 153 کچھ میرے آقا کو ہمکنار بد خواہ دشمنوں کو پشیماں کئے ہوئے عمر دراز دیجئو اے فاطر حیات خدام جاں نثار پہ احساں کئے ہوئے مکرم جنرل ریٹائرمحمودالحسن صاحب اک وعده خدا تھا يَسْتَخْلِفَنَّهُمُ یہ وعده خدا تھا جو ہم سے وفا ہوا اس کی تلاش تھی رہ جمہور یہ عبث اس کا تو شاہراہ نبوت تھا راستہ قصر شہی میں جستجو اس کی ہوئی مگر اس کا وجود سطوتِ شاہی میں بھی نہ تھا یہ راستہ خدا کی رضا کا ہے راستہ کرتا ہے وہ خدا جسے چاہے اسے عطا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 154 حضرت خلیفہ المسح الثانی مصلح موعود کی یاد میں محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ عجب محبوب تھا سب کی محبت اس کو حاصل تھی دلوں میں جڑ ہو جس کی ، وہ عقیدت اس کو حاصل تھی ہیں سب یہ جانتے کہ کام معمولی نہ تھا اس کا کہ مامور زمانہ کی نیابت اس کو حاصل تھی اُسے قدرت نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے سنوارا تھا تھا جس کا شاہکار اس کی ضمانت اس کو حاصل تھی علوم ظاہری اور باطنی سے پڑ تھا گر سید تو میدانِ عمل میں خاص شہرت اس کو حاصل تھی اولوالعزم و جواں ہمت، تھا وہ عالی گہر ایسا زمانے بھر سے ٹکرانے کی ہمت اس کو حاصل تھی رضا کے عطر.وح کر کے اُس کو بھیجا تھا وہ ایسا گل تھا کہ ہر گل کی نگہت اس کو حاصل تھی اُسے ملتا تھا جو بھی وہ اسی کا ہو کے رہ جاتا کہ دل تسخیر کر لینے کی قوت اس کو حاصل تھی اُٹھاتا تھا نظر اور دل کے اندر جھانک لیتا تھا خدا کے فضل سے ایسی بصیرت اس کو حاصل تھی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 155 خدا نے خود اسے فضل عمر، کہہ کے پکارا تھا عمر سا دبد به ویسی ہی شوکت اس کو حاصل تھی وہ نور آسمانی تھا زمیں پہ جو اتر آیا کلمۃ اللہ ہونے کی سعادت اس کو حاصل تھی وجیہہ و پاک لڑکے کی خدا نے خود خبر دی تھی عجب رنگ ذکا، شانِ وجاہت اس کو حاصل تھی وہ ذہن و فہم کی جس کے خدا نے خود گواہی دی ذہانت اس کو حاصل تھی ، فراست اس کو حاصل تھی یہ ممکن ہے اسیروں کے جہاں میں رستگار آئیں، کہاں وہ بات لیکن جو فضیلت اس کو حاصل تھی جو نظروں کو جکڑ لے ایسی صورت کا وہ مالک تھا دلوں کو کھینچ لے جو ایسی سیرت اس کو حاصل تھی تبسم زیر لب ، روشن جبیں ، روئے گلاب آسا جو یوسف کو ملی تھی ایسی طلعت اس کو حاصل تھی وہ اس کی زندگی کے سعی پیہم سے عبارت تھی نہ دن کا چین، نہ شب کی فراغت اس کو حاصل تھی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 156 راہیں ہجوم افکار کا ، جہد مسلسل اور کٹھن ر پھر بھی طبیعت کی بناشت اس کو حاصل تھی نظیر حسن و احسانِ مسیح و مهدی دوراں تھا جس کی ذریت اس کی شباہت اس کو حاصل تھی مصائب سے وہ کھیلا اور طوفانوں سے ٹکرایا نہ اس کے عزم میں اور حوصلے میں ایک فرق آیا المی روح پر اس کی صدا نوروں کی بارش ہو جماعت پہ بھی اس کی تیرے فضلوں کا رہے سایہ مکرم عبدالسلام صاحب اختر فکرو نظر کو طلعت خورشید بخش کر تاروں کو گردِ راہ بناتے ہوئے گیا قطروں کو دے کے قلزم طغیانِ زندگی ذروں کو مہر و ماہ بناتے ہوئے گیا اک وادی حقیر میں آیا مگر اُسے اک بخت نگاہ بناتے ہوئے گیا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 157 د پہلوں نے جس تم سے پی ،اس کم کے وارث ہم ہی ہیں مکرم روشن دین تنویر صاحب وعده يستخلفنهم کے وارث ہم ہی ہیں پہلوں نے جس کم سے ہی اس ٹم کے وارث ہم ہی ہیں ہم کو بخشا ہے خدا نے پھر دم عیسی کا فیض اذن حق سے معجزہ ظلم کے وارث ہم ہی میں پھر ثریا سے اُتارا ہے کلام پاک کو نچه بازخوشتہ انجم کے وارث ہم ہی ہیں از سر نو اس نے مردوں سے ہمیں زندہ کیا كُنتم امواتاً فاحیاکم کے وارث ہم ہی ہیں ہو گئی تھی تم زمانے سے خلافت کی شعاع گُم آج تنویر اس شعاع کم کے وارث ہم ہی ہیں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 158 عہد خلافت ثانیہ کی پہلی نظم مکرم مولوی نعمت اللہ خان صاحب گوہر دعائیں سُن لیں ہماری خدائے قادر نے یہ کیسا فضل کیا اک جری کو بھیج دیا جو نوڑ دیں ہوا اوجھل ہماری نظروں بچا لیا ہمیں گرنے ނ تو ایک آن میں نورِ نبی کو بھیج دیا چاہ ظلمت میں که خود بخود ہی امام تقی کو بھیج دیا سمجھ نہ سکتے تھے کیا ہو گا ایسی حالت میں خدا نے وقت کیسے ذکی کو بھیج دیا بشیر ثانی و محمود ہے وہ فضل "عمر" وہ بہتریں تھا خدا نے اسی کو بھیج دیا رہی نہ باقی دلوں میں شکوک کی ظلمت کوئی تو ہونا تھا جب آسمان سے وحی خفی کو بھیج دیا آخر خلیفہ ثانی اعتراض ہی کیا فسردگی ہوئی کافور ، بیعت احمد دُعا یہ کرتا ہے ہے ہے کسی کو بھیج دیا جلا کے شمع ہدی ، روشنی کو بھیج دیا گوہر ترے لئے محمود ہمیشہ پھولو ، پھلو ہووے عاقبت مسعود
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 159 مکرم عبدالحمید شوق صاحب مسیح پاک کے فرزند کا دور خلافت ہے یہ عرصہ غیر معمولی صداقت کی علامت ہے خدا کے فضل سے یہ دور دور کامرانی ہے اُسی کی مہربانی ہے اسی کی یہ عنایت ہے شہادت دے رہی ہے صاف استخلاف کی آیت کہ ملت کو خلافت کی ہمیشہ ہی ضرورت ہے خلافت ہی سے وابستہ ترقی ہے جماعت کی یہی تو کاروانِ دین کی اصلی قیادت ہے مساجد بن گئیں دُنیا کے کتنے ہی ممالک میں جہاں ہر اسود و احمر کا نُورِ دل عبادت ہے تراجم ہو گئے قرآن کے اکثر زبانوں میں خدا کے دین کی اقصائے عالم میں اشاعت ہے ہزاروں ابتلا آئے مگر بگڑا نہ کچھ اپنا حقیقت میں خلافت کی دعاؤں کی یہ برکت ہے ابھی تک دمجلس عرفان، یادوں سے نہیں اُتری یہ نقشہ میری ساری عمر کا سامانِ راحت ہے زمانہ بھر میں کیوں نہ شوق بجتا دین کا ڈنکا جناب میرزا محمود احمد کی خلافت ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 160 160 خلافت مکرم آفتاب احمد صاحب بسمل کراچی اللہ کی اک نعمت عظمیٰ خلافت کیلئے محروة وقتی ہے خلافت موسن گرتی ہوئی ملت کا سہارا ہے خلافت حق یہ ہے نبوت کا تتمہ ہے خلافت ہے نخلِ نبوت تو شمر اس کا خلافت ں نبوت ہے قمر اس کا خلافت مومن ہیں جو قرآن میں وعدہ ہے یہ اُن سے ایمان کے ساتھ ان کے گر اعمال ہیں اچھے اللہ نوازے گا انہیں فضل سے اپنے اور دے گا خلافت انہیں خاص اپنے کرم سے خوف ان کا مبدل بہ اماں ہو کے رہے گا زیر اُن کے لئے سارا جہاں ہو کے رہے گا اسلام کی تاریخ سے ملتی ہے شہادت تکمیل کو پہنچ گیا عہد رسالت جب اللہ نے بریا کیا پھر دورِ خلافت بو بکر کے شانوں پہ پڑا بار خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 161 بچیتی ملت ہوئی صدیق کے دم سے اسلام کو شوکت ملی صدیق کے دم سے بوبکر کا جب دور خلافت ہوا آخر رض اللہ نے فاروق کو پھر کر دیا ظاہر ہر چار طرف غلبہ اسلام کی خاطر وہ دین کا خود آپ بنا حافظ و ناصر تاریخی فتوحات ہوئیں عہد عمر میں کیا شرق میں کیا غرب میں کیا بحر میں بر میں بعد اس کے خلافت ہوئی عثمان غنی کی اس دور میں دیں کو ہوئی بھرپور ترقی جب فتح مبیں دین کو اللہ نے بخشی پیدا ہوئے ملت میں منافق بھی عدد بھی ابلیس لعیں اپنی کمیں گاہ سے نکلا اور مفسدوں کو قتل یہ عثمان کے اُبھارا یہ شومی قسمت تھی کہ نیرنگئی قدرت عثمان کو پینا ہی پڑا جام شہادت سانحہ دراصل تھا اس شے کی علامت چھننے کو ہے مسلم سے یہ انعام خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 162 شیرازه اسلام بکھرنے ہی لگا تھا دانائی حیدر نے مگر اس کو سنبھالا ہم کو یہ سبق دیتی ہے عثماں کی شہادت جاں دے دو مگر چھوڑو نہ دامان خلافت لازم ہے بہر حال رہے دین سلامت دُنیا میں نہیں اس سے بڑی کوئی بھی دولت لازم ہے رہے یاد ہمیں اسوة عثمان پہلوں کی طرح ہم بھی نہ کھو دیں کہیں ایمان اب چوتھے خلیفہ ہوئے ابنِ ابی طالب ایسے میں چناؤ تھا یہی سب سے مناس خطرہ تھا نہ ہو جائیں منافق کہیں غالب اسلام تھا نرغے میں ز اطراف و جوانب لیکن بخدا تھی یہ خلافت ہی کی برکت دشمن ہوئے ناکام ملی دین کو نصرت کی پانچ برس حضرت حیدر نے خلافت جاں توڑ کے گو آپ نے کی دین کی خدمت سازش میں تھے مصروف مگر دشمن ملت در پرده منافق بھی تھے سرگرم شرارت
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 163 شیطان کی یہ چال ہوئی کار گر آخر اور قتل خلیفہ عدد ہو گئے قادر یہ صرف علیؓ ہی کی نہ تھی ایک شہادت اس ނ متاثر ہوا ہر شعبہ ملت تو قیر گھٹی ، کم ہوئی اسلام کی عظمت اور چھن گئی مسلم سے خلافت کی بھی نعمت رخصت جو خلافت ہوئی اب سلطنت آئی روحانیت اب ختم ہوئی مادیت آئی تاریخ بتاتی ہے کہ بعد اس کے مسلماں رہنے لگے باہم دگر اب دست و گریباں یکجہتی ہوئی ختم ہوا نظم پریشاں مرکز یہ اکٹھے نہ ہوئے پھر کبھی عنواں و اب بھی کئی ملک بڑے زیر نگیں تھے تائید خدا کے مگر آثار نہیں تھے تیرہ سو برس تک رہی قائم یہی حالت گھٹتی گئی اسلام کی خوشحالی و عظمت بڑھتی گئی مسلم کی زبوں حالی و نکبت حتی کہ نہ باقی رہا احساس ضلالت
حضرت خلیة السیح الثانی رضی اللہ عنہ 164 اُمید کی ہر اک کلی مرجھائی ہوئی تھی اور پاس کی تاریک گھٹا چھائی ہوئی تھی لیکن یہ خدائے دو جہاں کا تھا نوشتہ زندگی پیدا اسلام میں اک بار ہو پھر زند اللہ نے آخر کیا اس وعدے کو ایفا اور بھیج دیا دنیا میں موعود مسیحا پھر کر دی عطا فضل سے اپنے وہی نعمت یعنی کہ خلافت علی منہاج نبوت موعود مسیحا نے براہین قوی ادیان مجازی کے اڑا ڈالے پرنچے اسلام کو غلبہ ہوا حاصل نئے سر سے ظلمت ہوئی کافور پھر اس نور کے آگے آخر وہ مسیحا بھی ہوا دہر سے رخصت اور اپنی جماعت کو یہ کی اس نے وصیت رخصت کی گھڑی گرچہ بہت سخت رہے گی جانے سے مرنے مومنوں کی جاں پہ بنے گی تقدیر بہر حال ہے یہ ہو کے رہے گی پر غم نہ کرو ' قدرت ثانی ' بھی ملے گی
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 165 وہ قدرتِ ثانی کہ جو ہے دائگی نعمت انعامِ خداوندی ہے، نام اُس کا خلافت پس حسب وصیت جو صحابہ میں تھا افضل اس قدرت ثانی کا بنا مظہر اوّل وہ دین کا تھا نور ، رہِ صدق میں اکمل اس دور کا صدیق تھا مومن تھا گر غور کریں تھا یہی مفہوم وصیت یہ قدرتِ ثانی اس قدرتِ ثانی کی ہے کیا اصل حقیقت عمل ہے حقیقت میں خلافت آیا ہے مراد 'انجمن' اس سے کہ خلافت اُس مرسل ربانی نے خود کی ہے وضاحت دو قدرتیں ظاہر وہ فرمایا ازل سے ہے یہ اللہ کی سنت کیا کرتا ہے اپنی تم کو بھی دکھائے گا وہ اب قدرتِ ثانی اُس قدرت ثانی کے مظاہر جو بنیں گے وہ نور سراپا ہیں سدا پھولیں پھلیں گے وہ دین کی تبلیغ ہر اک سمت کریں گے اور خدمت اسلام میں مصروف رہیں گے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 166 ان نوروں میں ایک مصلح موعود بھی ہو گا وہ ه فضل عمر بھی ہے وہ محمود بھی ہوگا اس لفظ عمر میں تھے یہ پوشیدہ معانی اس قدرتِ ثانی کا ہے وہ مظہر ثانی جب ہو گئی اس طرح سے تعیین زمانی مومن کیلئے اک یہی کافی پس حضرت محمود کی حقانی خلافت نشانی ہے تائید میں ہر طرح کی رکھتی ہے شہادت اللہ ! ہمیشہ ہی خلافت رہے قائم احمد کی جماعت میں یہ نعمت رہے قائم ہر دور میں یہ نور نبوت رہے قائم یہ فضل ترا تا به قیامت رہے قائم جب تک کہ خلافت کا یہ فیضان رہے گا ہر دور میں ممتاز مسلمان رہے گا
حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 167 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی یاد میں مبارک آمدن ، رفتن مبارک مکرمہ حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ ( میں حضرت سیدنا بڑے بھائی صاحب حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی.گزری ہوئی یادوں نے تازہ ہو کر تصور میں آکر مجھے زمانہ ماضی میں پہنچا دیا تھا، دل در دفراق سے بے چین و بے قرار ہورہا تھا کہ خود بخود بغیر کسی شعر کہنے کے ارادے کے حسب ذیل مصرع قلب میں گزرا.اس پر چند اشعار ہو گئے جوار سال ہیں،مبارکہ ) نے بشارت دی مسیحا کو خدا تمہیں پہنچے گی رحمت کی نشانی وہ بصد عطا گا ایک گرامی ہوگی دلوں کو شادمانی آیا ساتھ لے کر فضل آیا اکرام شاه مٹا دو جهانی اپنی ہستی راہِ حق میں جہاں کو اس نے بخشی زندگانی
168 حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ یہی مد نظر تھا ایک مقصد برائے دین احمد جانفشانی رہی نصرت خدا کی شامل حال گزاری ہمیں داغ جدائی آج دے ہوا حاضر حضور زندگی با کامرانی کر یار جانی جو اُس نے نور بھیجا تھا تھا جہاں میں ہوا واصل رت جاودانی وہ جس کے قلب و روح و تن مبارک مبارک آمدن ، رفتن مبارک ** مکرم عبدالمنان ناہید صاحب عزم آفریں تھی ذات تیری شیریں تھی بات بات تیری تھے معمور سعی پیہم سے سکون نا شناس رات تیری The
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 169 رکھتا ہے عجب شانِ خُدا نام خلافت مکرم روشن دین تنویر صاحب ملتا ہے اُسی قوم کو انعام خلافت ہو جس کا عمل لائق اکرام خلافت خورشید جهانتاب نبوت کی کرن سے رخشندہ ہیں دیوار و در و سلسلہ در سلسلہ قائم ہے ہدی کا بام خلافت پیغامِ نبوت ہی ہے پیغام خلافت پھر شور اُٹھا خُم كدة مصطفوی میں پھر دور میں لائے ہیں وہی جام خلافت شاہی میں گدائی ہے گدائی میں ہے شاہی خُدا نام خلافت رکھتا ہے عجب شانِ آغاز کیا پھر جو مسیحائے زماں نے تا روز قیامت نہیں انجام خلافت یہ ہے دین کا اک نکتہ باری آزاد وہی ہے کہ جو ہے دام خلافت
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 170 مصلح موعودؓ کی با برکت خلافت مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلافت دین و دنیا میں خدا کی مہربانی ہے نزول رحمت باری کی لاثانی نشانی خلافت نغمہ توحید ربانی کی نگہت ہے خلافت بادۂ حق کا خلافت قوم کی پژمردگی کو تازگی بخشے ہے سرور جاودانی ہے خلافت ہی سے انسانوں کو حاصل زندگانی ہے اسی سے آبیاری ہو رہی ہے باغ ملت کی اسی سے اپنے گلشن اپنے گلشن پر بہار جاودانی زہے قسمت خدا کا نور اترا آسمانوں سے اُسی نورِ خلافت کی زمین ارے ناداں ! خلافت کی حفاظت کر قیامت تک پر ضوفشانی یہی تو نصرت رحمن کی واحد برس پچاس گزرے شان سے دورِ خلافت کے ہے ہے نشانی ہے یہ دور فیض و فضل و کامیاب و کامرانی ہے خلافت کے درخشاں دور پر ، ناز ہے سب کو کہ ہر سُو شان وشوکت ہے وفور شادمانی ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 171 یہ تفسیریں یہ تحریریں یہ خطبے اور تقریریں فصاحت ہے بلاغت ہے مالِ خوش بیانی ہے خدا تجھ کو بصارت دے تو اس کے نور کو پالے یہی تو مصلح موعود رحمت کی نشانی ہے مرا شافی امام پاک کو کامل شفا بخشے بسرعت دور ہو جو آج ضعف و ناتوانی ہے سنیں پھر شوق جلسہ گاہ میں تقریر جاں پرور ہمیشہ جس میں دیکھی اس نے دریا کی روانی ہے مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب عُمر بھر جو کفر کی یلغار سے لڑتا رہا بے نیاز بیش و کم ہو کر بھی جو بڑھتا رہا جس نے قرآں کے خزانوں کو بکھیرا ہر طرف ظلمتیں چھٹتی گئیں دیکھا سویرا ہر طرف
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 172 ربوہ کے آسماں پر ٹوٹا مرا ستارہ مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب ربوہ کے آسماں پر ٹوٹا مرا ستاره ہائے کدھر گئے وہ کر کے مجھے اشارہ تاریکیاں غموں کی بڑھنے لگیں فضا میں اب چاندنی کہاں کی جب چاند ہی سدہارا پیر غلام احمد ، ختم رسل کی خاطر وہ پہنچ گیا جو خاک میں ملا تھا ، آقا تھا وہ ہمارا ہے روحانی آسماں پر نقطہ وہی ہے جس سے عیسی نبی اتارا اللہ کی خلافت جاری ہے جو ازل سے اب بھی رہے گی جاری اس کا نہیں کنارا عدہ کیا جو اس نے ہو کر رہے گا پورا اللہ کی ہو نصرت ناصر ہے وہ ہمارا ٹھہرو نصیر سُننا کوئی پکارتا ہے ! آئی صدا کہاں سے کس نے تجھے پکارا اک تیرگی مٹا کر آنکھوں میں آگئے وہ آنکھوں نے جذب کر کے دل میں انہیں اتارا
حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ 173 پیا روآ مؤحہ درس وفا خام نہ ہو مکرم عبدالمنان ناہید صاحب آج اک درد مرے دل میں اٹھا ہے پیارو سینہ عشق میں اک حشر بپا ہے پیارو لاکھ شیرینی گفتار بھی تو بے کار اَنَا خَيْرٌ تو بڑی تلخ نوا تو بڑی تلخ نوا ہے پیارو گوئے محبوب کو جاتی ہے فقط ایک ہی راہ اور وہ رہ ، رہ تسلیم و رضا ہے عشق کو راس نہیں خود سری و خود غرضی عشق تو نمکش اس کے ہر تار سے وابستہ دل و جاں اپنے پیارو بیم و رجا ہے پیارو یہ خلافت تو محبت کی ردا ہے پیارو کتنی تاکید سے ، اصرار سے ، تکرار کے ساتھ ہمیں آئین جماعت کا ملا ہے پیارو یاد محمود پس گردشِ ایام نہ ہو پیارو آموخته درسِ وفا خام نہ ہو
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 174 سید نا حضرت مصلح موعود کے دربار عالی میں محترم میاں غلام محمد صاحب اختر تجھے بخشی گئی دیں کی خلافت حق العلاء ہے جہاں میں نہ ہو تو کس کس طرح که فرزند سیح تری صحبت تری سیرت کا مظہر عیاں ہر رنگ میں نور خدا ہے خطر کیا تجھ فضلوں کا وارث دوسرا ہے دنیائے دنی ترا حامی ترا ناصر خدا ہے دعائیں کارگر کارگر ہوتی ہوتی ہیں تیری کہ تو اک محرم راز خدا ہے تے دم سے حیات نو ملی ترا دعا ترے کوچے کی پیارے خاک ہوں میں تڑپ ہے ، آرزو ہے 6 لگا کے تجھ ہے نما ہے 小小 مدعا ہے عشق محبت کا قرینہ آگیا ہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ پہچ 175 حضرت خلیفتہ اسیح الثانی مصلح موعود کی یاد میں محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ جیں افسردہ ہیں شامیں ویران ہیں گلیاں خاموش ہیں کوچے سنسان ہیں یکھتے دیکھتے رونقیں کیا ہوئیں لوگ حیران ہیں آج ربوہ کے ہر حجر ، آج ہے سرنگوں افسردگی کو ہساروں پہ ہے آج ہر دل ہے شق ، آنکھ ہے خونچکاں کس قدر بے کسی سوگواروں پہ ہے چاندنی ماند ہے ، چاند بھی ماند ہے وہ چمک بھی گاستاروں میں باقی نہیں پھول توڑا بچیں نے وہ باغ ہے دلکشی اب بہاروں میں باقی نہیں چل دیا آج وہ مصر روال جس کی ہستی اس دور ناز تھا اپنے پرائے کا غمخوار تھا وہ کہ اپنے پرائے کا دمساز تھا وہ
وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ 176 وہ کہ مُردہ دلوں میں جو دم پھونک کر زندگی کے ترانے سناتا رہا ! جو سدا صبر کا درس دیتا رہا جو مصائب میں بھی مسکراتا رہا وہ 3." شفقتیں دشمنوں بھی کرتا رہا محبت کا اک بحر زخار تھا ڈانٹتا بھی رہا تربیت کے کے لئے اُس کے غصے میں بھی لایک اک پیار تھا مرقع تھا علم اور عرفان کا! اک فراست ، ذہانت کا پیکر تھا وہ معرفت کے خزانے تھے حاصل اُسے کر روحانیت کا کا شناور شناور تھا وہ o اُس نے اپنی ذرا بھی تو پرواہ نہ کی اُس کے دل میں تو بس اک یہی تھی لگن ہو خزاں کا تسلط نہ گلزار لہلہاتا رہے دین حق کا چمن وہ کہ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کے رویا کیا کہ جماعت دنیا میں پھولے پھلے رحمت حق رہے اس سایہ فگن چشمہ فیض حق اس میں جاری رہے
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 177 اہل دنیا کی حالت یہ کر کے نظر اشکوں کے موتی وہ کے بلکتا وہ کہ سجدے میں گر کے اور جہاں چین کی نیند شق ہو پتھر کا سینہ بھی سُن کر جنہیں صبر ނ ایسی باتیں وہ سنتا رہا خار دامن سے اس کے اُلجھتے رہے پھول چنتا وہ ہمارے لئے اس کو ہمیشہ نیند سوتا ستاتے رہے وہ حق بات کہتا رہا نہ دی اس نے اسلام پر اپنے سینے ہر وار سہتا رہا ل.لطف اور اخلاق وہ زمانے تخير کرتا رہا خون جگر وہ اسلام کا تحریر کرتا 3: دور کرتا رہا دین احمد کی اُس نے بقا کے لئے مال اپنا دیا ، اپنی جاں پیش کی اپنی اولاد کو وقف اُس کیا اپنے افعال اپنی زباں پیش کی
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 178 تشنگی کی حالت رہی ، عمر بھر اُس محمد یتا لآر وہ شراب ہی سانس بس خدا کے لئے خاطر ہی جیتا رہا وہ خدمتیں وہ کی بھی وہ کرتا رہا ہجر کی تلخیاں بھی وہ سہتا رہا لے کے آخر میں نذرانہ جان و دل سوئے کوئے نگاراں روانہ اُس کے دم سے اُجالا تھا چاروں طرف گیا تو یہاں تیرگی چھا گئی چاند روشن ہے اب بھی افق یہ مگر میرے سورج کو کس کی نظر کھا گئی حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب ربانیوں کا ربوہ یارب رہے سلامت اعجاز احمدیت ، محم ، محمود کی کرامت اسلام کی اشاعت ہو اس کی مرکزیت قائم رہے نظارت ، دائم رہے امامت ہوا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 179 مکرم شاہد اعظمی صاحب، گوجره عرفان کی شراب پلاتا رہا ہمیں جنت کی راہ جو چلاتا رہا ہمیں ہر فرق نیک و بد کا بتاتا رہا ہمیں کیا کیا کہوں کہ کیا کیا سکھاتا رہا ہمیں وہ جس نے علم و فضل کے دریا بہا دیئے سائل گواہ ہیں کہ خزانے لٹا دیئے وہ جس نے کفر و شرک کے ایواں گرا دیئے چہرے پہ حق کے جتنے تھے پردے ہٹا دیئے محمود خود تھے ہم کو بھی محمود کر گئے گردش میں ہر ستارے کو مسعود کر گئے ملت سے کفر و شرک مفقود کر گئے باطل کو حق کے سامنے مسجود کر گئے عالم ولی مقرر و زاہد حضور تھے عشق رسُول رکھتے تھے عابد حضور تھے جس چاند کی ضیاء سے منور تھا اک جہاں کہتا ہوں سچ کہاں دنوں روشن تھا آسماں
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 180 اس روشنی میں چلتا تھا اپنا یہ کارواں محمود کاروان کے ہوتے تھے پاسباں ڈوبا وہ چاند اپنے ستاروں کو چھوڑ کر ہم بے کسوں کو درد کے ماروں کو چھوڑ کر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب رحمت کا تو نشان تھا قربت کا تو سبب جو تجھ سے دور تھا وہ خدا سے بھی دُور تھا ہر لحظه تو مظفر و منصور ہی رہا میدان کار زار میں تیرا ظہور تھا
حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ 181 خدا حافظ پیمان وفا مکرم ارشاد احمد شکیب صاحب ضائع ہم آپ کا پیغام نہ ہونے دیں گے سرنگوں پرچم ایمان نہ ہونے دیں گے دام مرنگ زمیں لاکھ بچھائے باطل طائر دل کو تہہ دام نہ ہونے دیں گے اپنے اعمال کی تقویٰ رکھیں گے بنا دعوتِ فسق کبھی عام نہ ہونے دیں گے بڑھتے جائیں گے سوئے منزل مقصود مگر راہ میں سست بھی گام نہ ہونے دیں گے خدمت دیں کے عوض نفس کو اپنے ہرگز ہم بھی طالب انعام نہ ہونے دیں گے آپ کے فیض سے چمکا ہے جو مہر انور اسے زیب رخ شام نہ ہونے دیں گے لاکھ طوفان اٹھیں ظلم کے لیکن دل کو ناشکیب آپ کے خدام نہ ہونے دیں گے آر ہم بھی سے عہد جو باندھا ہے وہ انشاء اللہ رسوا سر عام نہ ہونے دیں گے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 182 خلافت ثالثه
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 183 صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے متعلق الوداعی نظم بر موقع سفر انگلستان بغرض تعلیم ، حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ جاتے ہو مری جان ! خدا حافظ و ناصر اللہ نگہبان ! خدا حافظ و ناص ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری و ہر آن خدا حافظ و ناصر ہر والی بنو امصار علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعان ! خدا حافظ و ناصر ނ ہر علم حاصل کرو عرفان الهی بڑھتا رہے ایمان خدا حافظ و ناصر پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے ڈرتا رہے شیطان خدا حافظ و ناصر ہر بحر کے غواص بنو لیک بایں شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر سر پاک ہو اغیار سے، دل پاک ، نظر پاک اے بندہ سبحان خدا حافظ و ناصر محبوب حقیقی کی 'امانت' سے خبردار اے حافظ قرآن خدا حافظ و ناصر
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 184 تشنہ روحوں کو پلا دو شربت وصل و بقا حضرت مرزا ناصراحم خلیفہ المسح الثالث رحمہ اللہ کے مصرع کی تضمین ، یہ مصرع حضور کو خواب میں بتلایا گیا تھا“ حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نب سے تجویز سفر تھی سب تھے مصروف دعا خود امیر المؤمنیں اور ہر غلام باوفا یا الہی خیر ہو آئیں بصد فتح و ظفر دردِ دل سے تھی حضور ذات باری التجا طالب نَصْرُ، مِّنَ اللَّهِ سائِلِ فَتْحٌ قَرِيبٌ روز و شب رہتا تھا سالار سپاہ مصطفی ری رحمت حق جوش میں آئی یہ حالت دیکھ کر تسکین و سکوں مولا نے یہ مشردہ دیا پہر ی نصرت ہم قدم ہے فضل میرا ہم نفس جا سفر تیرا مبارک کر دیا مبارک زباں تیری ، قلم تیرا ، ترے قلب و دماغ ہیں کبھی میرے تصرف میں ، تجھے پھر خوف کیا کہہ چکا ہے رحمت عالم کا فرزند جلیل ہم ہوئے دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا کام کو جس کے چلا ہے خود وہ تیرے ساتھ ہے اے مرے ناصر ہے تیرا حافظ و ناصر خدا ,
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 185 تجھ کو روحانی خزائن ہیں مسیحا سے ملے دونوں ہاتھوں سے لٹا اے صاحب جود وسخا علم وعرفاں تم کو بخشا اور کنیز بے بہا یہ کلام اکبر دل میں ایمان ویقیں ہے ہاتھ میں قرآن ہے تشنہ روحوں کو پلا دو شربت وصل و بقا یہ کتاب حق نما سپاہ مصطفیٰ سے مراد جماعت احمد یہ ہے جس کا مقصد اولین اور فرض اولین خدمت اسلام اور سینہ سپر ہو کر تمام عالم کو چپہ چپہ پر اسلام کا علم ، تو حید کا پرچم بلند کرنا ہے ، مبارکہ درمیان تو مکرم عبدالمنان ناہید صاحب جہان بے توقیر سراپا وقار کی تصویر کھو گئی جب بھی تیرگی میں نظر تبسم تیرا نمودِ سحر
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 186 تاریخ وفات اور انتخاب خلافت محترم حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب چودھویں کا چاند ہے پر چاندنی خالق الانوار نے جب ماند کی قدرت ثانی کا یارب ہو نزول جماعت کی دعائیں کر قبول ہو چکا ہے ـلة اور اب اولین تلة من آخرین بے امامت کے تو سکتے نہیں ره صدمہ فرقت تو سکتے نہیں ہو حافظ و ناصر خدائے پاک جلوة نور شه لولاک ہو راجعون پڑھتے ہیں انا اليـ نام تائبون و آمِنُون و حامدون دین محمد کی طلب قدرت ثانی کا ثالث منتخب
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 187 انوار خلافت مکرم نسیم سیفی صاحب بحمد اللہ کہ انوار خلافت کی ہے ارزانی نگاہِ شوق کی خاطر ہوئی ہے جلوہ سامانی خدائے ذوالجلال و ذوالٹن کے اک کرشمے نے سکینت سے بدل ڈالی ہر اک دل کی پریشانی مقدر ہو اگر فتح و ظفر ایمان والوں کو خدائے عرش کرتا ہے خلافت کی نگہبانی نظر اس کی جسے چاہے اُسے وہ منتخب کرلے کسی کے کام آسکتا نہیں زعیم ہمہ دانی مبارک حضرت ناصر ، مبارک ! صد مبارک ہو! خلافت کی قبا ہے حامل منشائے یزدانی تجھے معلوم ہیں اپنے کرم کی وسعتیں مولا! مرا کیا ہے مجھے تو ہے خیالِ تنگِ دامانی قیم اب ہاتف غیبی کی یہ آواز آتی ہے ز بهر ناصر دنیا دین حق نصرت شود پیدا به جنبید از پئے کوشش که از درگاه ربانی ،
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 188 گلستاں میں وہ رشک بہار آ گیا حضرت خلیفة اصبح الثالث کے دورہ مغرب سے واپسی کے موقع پر صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ قطعات زندگی میں چمن یہ نکھار آ گیا آج گلشن میں وہ گلعذار آ گیا پھول مہکے ، چمن مسکرانے لگا گلستاں میں وہ رشک بہار آ گیا دید اُس کی ہی آنکھوں کا مقصود ہے وہ کہ موعود ہے ابن موعود ہے جاکے یورپ میں پیغام حق کا دیا آج واں کفر کی راہ مسدود ہے وہ نگار حسیں ہے.༩ یہاں جلوہ گر دیکھ کے جس کو ہر شخص خورسند ہے نافله سیح کا وہ عالی گہر ہے اور فضل عمر کا وہ فرزند ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 189 شکر باری تعالیٰ کہ اُس نے ہمیں قدرت ثانیہ کی عطا بخش دی دے کے دورِ خلافت کی نعمت ہمیں اپنی رحمت کی رنگیں ردا بخش دی ہے دعائے دلِ درد منداں کہ یہ دیر تک اپنے جلوے دکھاتا رہے اس کی خوشبو سے گلشن مہکتا رہے باغ احمد یونہی لہلہاتا رہے مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری وعدہ ہے مومنوں سے حق تعالیٰ کا مدام جاری رکھے گا وہ امت میں خلافت کا نظام
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 190 اہل مغرب سے حضرت خلیده امسبح الثالث اید واللہ کے دورہ یورپ کے تاثرات مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب سُنا ہے اہلِ غرب کیا ؟ وہ آنے والا آ گیا طریق دین مصطفی سکھانے والا آ گیا تمہیں پیام میرزا سُنانے والا آ گیا رہ سلوک میں قدم بڑھانے والا آ گیا جو پوچھنا ہے پوچھ لو بتانے والا آ اُٹھو دیارِ شرق یہ کفر دلفریب کیوں یہ شرک دلنشین کیوں! یہ تین اور ایک کیوں یہ ایک اور تین کیوں! یه ظلم و جور دیکھ کر نہ ہو وہ تعالی خشمگین کیوں؟ نہ شق ہو آسمان کیوں نہ پھٹ پڑے زمین کیوں ! یہ سے جگانے والا آ گیا یہ بات پھر نہ بچیو ڈرانے والا آگیا اُٹھو دیارِ شرق سے جگانے والا آگیا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 191 یہ ناؤ و نوش راگ و رنگ و نغمہ ہائے جلترنگ یہ شبکدے یہ عشرتیں یہ ساقیان ماہ رنگ یہ سارے خرخشے فقط ہیں اک نوائے طبل جنگ کہ چھا چکی ہے شیطنت بساط آدمی ہے تنگ مئے وصالِ ایزدی پلانے والا آگیا اُٹھو دیار شرق سے جگانے والا آگیا فضا ہے سب دھواں دھواں اُفق افق ہے تیرگی مہیب سائے موت کے محیط کار زندگی برس رہی ہیں وحشتیں گھٹا ہے ظلم کی اٹھی چڑھا ہے شرق سے مگر پھر آفتاب زندگی پکڑ لو دامنِ یقیں بچانے والا آگیا اُٹھو دیار شرق سے جگانے والا آگیا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 192 الخلافة الاسلامیہ احمدیہ مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری ایم اے خلافت نور ربّ العالمين ہے خلافت دیں کا اک حصن حصیں خلافت ظلِ ختم ہے ہے خلافت کامرانی کی امیں ہے خلافت کاشف اسرار دیں ہے خلافت حرز جان مومنیں ہے خلافت مرکز آئین قرآن خلافت حافظ شرع متیں ہے خلافت مخزن عرفان و حکمت خلافت رونق گلزار دیں ہے خلافت وحدت ملت کی ضامن فتح خلافت موجب میں ہے خلافت سدا وابستہ رہنا ہمارا عین فرض اولیں ہے خلافت ملت بیضا کے حق میں حصار امن و ایمان و و یقیں ہے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 193 خلافت کے بغیر اے قومِ احمد نہ دنیا ہے نہ عقبی ہے نہ دیں ہے اک پیر و جوان احمدیت خلافت کے چمن کا خوشہ چیں ہے بھٹک سکتا نہیں وہ راہ حق سے خلافت وہ جس سے غلبہ حق ہے مقدر پر جسے کامل یقیں ہے خلافت کا نظام بہتریں ہے کیا ہے متحد قوموں کو جس نے عالمگیر مرے ہمدم یہ وہ حبل متیں ہے فیضان خلافت بفیض رحــمـة لـلـعـالـمـيـں ہے یہ ہے زندہ نشاں زندہ خدا کا مقابل یہ بے شک آية للعالمین ہے ہمارے لا کے دکھلا نظام ایسا اگر دیکھا کہیں ہے رسالہ الوصیت پڑھ کے دیکھو وہاں ذکر خلافت بالیقیں ہے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 194 ہوئی کافور جس کے دم سے ظلمت خلیفہ ناصر دمین ہ شمع نور ربوہ میں مکیں ہے محمد امام وقت کا اب جانشیں ہے خلافت کے مناقب پر یہ صدیق کلام خاکسار و کمتریں ہے مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ وہ محبت کا اک زندہ شہکار تھا بندہ حق تھا دیں اس کو درکار تھا پالیا جس نے کچھ اس کے ادراک سے کچھ رہی نہ طلب اس کو املاک سے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 195 قیادت حضرت خلیفہ المسح الثالث ایدہ اللہ مکرمہ مومنہ فرحت صاحبہ، لائکپور یہ کیا ہوا کہ ناگہاں سب اہل دل سنبھل گئے یہ کس کے فیض سے تمام غم خوشی میں ڈھل گئے یہ کون آگیا کہ اپنے روز و شب بدل گئے قدم قدم روش روش ہزاروں دیپ جل گئے ہیں سنگ و خشت راہ میں مگر ہے مائل سفر نگر نگر شہر شہر ہے عزم اس کا مشتہر جو تھک کے پھر پلٹ پڑے نہیں ہے اس کی وہ نظر ہے اس کی جراتوں کا ذکر عرش اور فرش پر
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 196 عہد اطاعت بحضور سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ہے عهد خدا خلافت اہتمامِ ہے بعد از نبوت مقام خلافت پریشانی علاج اگر ہے وہ بزم ہستی ہے نظام خلافت غموں کے اندھیرے میں ہم کو ڈبو کر چھپا جب وہ ماه تمام خلافت تو دنیا یہ سمجھی کہ شاید ہو قیام خلافت 6 مشکل دوام خلافت مگر میرے آقا ! خدا کا کرم ہے ترے ہاتھ آئی زمام خلافت سکینت ملی پھر ٹوٹے دلوں کو ازل سے ہے جو فیض عام خلافت
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 197 لطف محبت سرور اطاعت وابسته احترام خلافت ہے باپ دادا کے نقش قدم پر 6 رہے گا غلام خلافت مکرم سیدامین احمد صاحب کس طرح ! کیسے کروں اس کے محاسن کا بیاں دامن الفاظ کم اور حسن اس کا بے شمار وہ محبت ہی محبت تھا محبت کی قسم اک مجسم رحم کا پیکر تھا وہ عالی وقار
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 198 سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث سے خطاب مکرم اور لیس احمد عاجز عظیم آبادی صاحب اے امیر المؤمنیں اے جان جانانِ جہاں شہسوار راه عرفان حامل بار خلافت باہزاراں عز و شاں و غلام مصطفى گلشن اسلام کا لاریب تو ہے باغباں مطلع نور الہی سینه صافی ترا تو علوم معرفت کا ایک بحر بے کراں ہم نشیں ، دوشیزگی حسن جاناں کچھ نہ پوچھ محشر خاموش کی اُف اے تلاطم خیزیاں قدرت ثانی کے مظہر ، افتخار قدسیاں معدن حلم و حیا و نیر روحانیاں حافظ قرآن و فرزند مسیحائے زماں خادمِ شرع مبین و سربسر علم و عمل " غمگسار ملت بیضاء انیس کساں نور چشم مصلح موعود سُلطان البیاں قرة العينين حضر سیدہ نصرت جہاں جامع آیات قرآن میں کا ہم عناں
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 199 بلبل بستان احمد ، غنچه لب ، شیریں دہن مرحبا صد مرحبا تیری ترنم ریزیاں ہاتھ یہ تیرا نہیں بلکہ مسیحا کا ہے ہاتھ دست عثمان جس طرح دست نبی آخر زماں ختم الانبياء ، و ، دست خدائے ذوالجلال فَوقَ أَيْدِيهِمُ کا دیکھو گھل گیا راز نہاں نافلة لك ، خبر کی تو ہے اک زندہ دلیل تو ہے تصویر ' مبارک‘ بے شبہ و بے گماں تو علوم مشرقی و مغربی کا امتزاج تیرے دم گلشنِ دم بخود ہے تیرے آگے حکمت یونانیاں اسلام میں تازہ بہار گلستان ابرہن پر چھا گیا دورِ خزاں لائے گی آب رنگ تاثیر دعائے نیم شد شب مغربیت کا طلسم اُڑ جائیگا بن کر دھواں دہر میں طوفانِ دہریت کا ہر جا شور ہے چھا گئی ہیں چار جانب جہل کی تاریکیاں گئی یہ دُعا ہے اے خدائے قادر و رب قدیر م دین احمد ہر جگہ ہو کامیاب و کامراں
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 200 پرچم اسلام کی ہو سربلندی ہر جگہ چین ہو ، جاپان ہو ، یا روس و آذر بائیجاں رپ کعبہ کی قسم رب محمد نئی قسم کی احمدیت ہو گی ہر جا سُرخرو و کامراں دوستو میرے عزیزو اب رہو ثابت قدم زیر حکم جانشین مهدی آخر زماں صبر و صدق و حلم کا کامل نمونہ تم بنو آسمان علم پر شیوه پیغمبر امّی کرو تم اختیار چمکو مثال کہکشاں تا کرے تم سے محبت وہ خدائے مہرباں اے خدا اے ربّ کعبہ اے خدائے قادیاں اے خدائے لامکان و اے خدائے بے نشاں جو تری درگاہ عالی میں ہوا ہے سجدہ ریز رحمتوں نے تیری ڈھانپا اسکو بن کر آسماں خاکساری عاجزی بندہ کی ہے تجھ کو پسند تو اے ستار العیوبی اے خدائے مہرباں نوحہ گر اپنے گناہوں پر ہے یہ عاجز بشر تیرے فضل وجو د سے سب دُور ہوں کمزوریاں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 201 الہی مصطفی عالی گہر کا واسطہ کر قبول اب تو دعائے عاجز نوحہ کناں في شعرا حضرتِ وحشت کے جذب فیض سے عاجز شوریدہ سر بھی بن گیا شیریں بیاں مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب سلام اس پر خدا نے نافلہ جس کو فرمایا سلام اس پر کہ جس کا ذکر وہی پاک میں آیا سلام اس پر سدا سے جس پہ ہے اللہ کا سایہ سلام اس پر امامت کا ہے جس نے مرتبہ پایا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 202 ملائک ہیں خود پاسبانِ خلافت مکرم روشن دین تنویر صاحب ملائک ฟรี ہیں وابستگان خلافت ہیں خود پاسبان خلافت ل درخشاں نشاں جو مومن بجا لائیں اعمال صالح ہے ان کے لئے ارمغان خلافت قدرت ثانیہ کی نشان خلافت ہے خلافت حقیقت میں حبل المتیں ہے حصار یقیں کوہستان خلافت دل کفر و الحاد میں ہم ہیں ناؤک ہے جن کو کمان خلافت چلاتی ہوا یہی فیصلہ آسماں پر ناصر ہے شایان شان خلافت کوئی خوف تنویر غم ہے ہے حاصل اسے آستانِ خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 203 برکات خلافت مکرم مولا نا نیم سیفی صاحب رات ڈھلتی رہی وقت کما رہا ہولے ہولے پیام سحر آ گیا دور پر دور آتے رہے تو بہ تو آخرش دور صبح و ظفر آ گیا اہل باطل کا کھلنے لگا ہر بھرم اہلِ حق کے قدم تیز تر ہو گئے منزلیں خود قریب آگئیں ، راہرو کو کچھ ایسا طریق سفر آ گیا لے سے آنکھوں میں دین محمد کی شو چل پڑا سوئے صحرا ہر اک تیز رو جذبہ خدمت دین احمد لئے آج ہر اہلِ قلب و جگر آ گیا زندگی کے قرینے سکھائے گئے بہت مرگ معدوم کر دی گئی مردِ مومن اُٹھا اور ہر معر کے کیلئے ہو کے سینہ سپر آ گیا اہل الہام کو تو یہیں آگئی آسمانوں سے بشریٰ لکم کی ندا اہل عقل و خرد جب خلا میں گیا تو وہاں سے بھی وہ بے خبر آ گیا اللہ اللہ نظام خلافت سے نو ر نبوت کی چپکا ر قائم رہی کارواں کے سفر کا تسلسل ہے یہ راہبر چل بسا را ہر آ گیا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 204 چشم و دل کے تقاضے بہل جائیں گے آرزوؤں کی دنیا نکھر جائیگی ہم تو اک ماہ نو سے بھی تھے مطمئن شکر صد شکر رشک قمر آ گیا یہ تلاش مسلسل مبارک تجھے تیرے شوقِ سفر پر ہزار آفریں اب اگر خود بخود تھک گئی ہے جبیں دیکھ شاید کوئی سنگ در آ گیا جب سُنا حسن والا تبار اک نئے جلوہ خوبرو سے ادھر آئیں گے اپنے گمنام گوشے سے اُٹھا نسیم اور چل کرسر را بگذ رآ گیا * مکرم شیدا گجراتی صاحب کا شانہ احمد میں چراغاں ہی رہے گا اسلام کا ہر نقش نمایاں ہی رہے گا جس قافلہ شوق کا سالار ہے ناصر وہ قافلہ شوق خراماں ہی رہے گا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 205 قربانی اور ایثار کرنے والی جماعت، جماعت احمدیہ مکرم عبدالسلام اختر صاحب ادھر دیکھ آکے ہمدم، ایک دُنیا جاں نثاروں کی محمد مصطفی کی راہ کے خدمت گزاروں کی چراغ مصطفی" کے نور کے آئینہ داروں کی خدا کے آخری موعود کے طاعت گزاروں کی نہیں ہے امتیاز نسل و قوم ان جانثاروں میں نہیں تخصیص ان میں کچھ امیروں ، مالداروں کی امام وقت کی آواز پر لبیک‘ کام ان کا وفا کی کامرانی خو ہے ان طاعت شعاروں کی کوئی تحریک ہو ، دل چاہتا ہے ان کا خود جا کر فلک سے جھولیاں بھر کر اُٹھا لائیں ستاروں کی کہیں دیکھا ہے تو نے ہمنشیں ایسا چمن جس میں کوئی موسم ہو لیکن مسکراہٹ ہو بہاروں کی یہ برکت اس عطا کی ہے ، خلافت ہے شمر جس کا وگرنہ اس جہاں میں کیا کمی ہے نیکو کاروں کی
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 206 نعمت خلافت مکرم عبدالحمید شوق صاحب خلوص و شوق کی صدق و صفا کی بات کرو ہماری بزم میں رُشد و ہدی کی بات کرو نه بخض و حسد کی بخل و ریا کی بات کرو سدا خلوص کی مہر و وفا کی بات کرو غرور و کبر خدا کو کبھی پسند نہیں ہمیشہ عجز و رضائے خدا کی بات کرو سلام بھیجو رسول کریم پر ہر دم درود و نعت شہ دوسرا کی بات کرو تمہاری مشکلیں مشکل گشا کرے آساں نماز و توبه و صبر و دعا کی بات کرو پڑھو قرآن کو صبح و مسا تدبر سے اسی کتاب ہدایت ہوا کی بات کرو خدا نے دے کے خلافت کی نعمت عظمیٰ جو کی ہے ہم یہ عطا اُس عطا کی بات کرو
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 207 اسی نے قوم کو بخشا اتحاد و سکوں ہے اسی عنایت ربّ علی کی بات کرو فلک رسا میں خلافت کی سب دعا ئیں شوق اُٹھو ! حضور میں پہنچو ! دعا کی بات کرو محترم مولانا عزیز الرحمان منگلا صاحب ہے خلافت ایک پاکیزہ امانت اے عزیز قدسیوں کو ہم نے دیکھا کرتے اس درگاہ میں عندلیب گلشن احمد سے کیا نغمہ سنا جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 208 مرا پیارا خلافت خلافت خدا کا ہے فضل عظیم مکرم عبدالماجد انورصاحب لائلپوری آقا رؤف رحیم غفور ، عفو کریم ودود ، سے دُنیا میں ظاہر ہوا خلافت کا سایہ ہی فردوس ہے وہ جانِ جہاں اور یار قدیم سے دوری ہے دردِ الیم خلافت قائم ہے ره مستقیم خلافت خلافت کی نعمت روحانیت خلافت کی راہ ہے جسے مل گئی اُسی کی زباں ہے زبانِ کلیم خلافت کی خادم ہے فرزانگی خلافت کا حامل ذہین و فہیم خلافت کی خاطر ہے سب کائنات خلافت خُدا کا ہے خلافت کی طاقت گناہ سوز ہے فضل عظیم اسی سے ہی قائم ہے دین قویم
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 209 خلافت طہارت کو پیدا کرے خلافت ނ ملتی ہے عقل عقلِ سلیم خلافت امت ނ ہے مضبوط تر خلافت کا ہے عزم عزم خلافت نبوت کا ہے آبگینه خلافت ہے جلوه رب رحیم مبین خلافت کے دم سے ہے خلافت ملتی خلافت سے تازہ ہے دیں کا چمن ہے فوز عطا گلزار ہستی کی بادِ نسیم ہے خلافت معراج انسانیت خلافت ہے فیضان ور خلافت سے قائم ہے سارا جہاں خلافت کے خادم ہیں کروبیاں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 210 مکرم پرویز پروازی صاحب جس کے سر پر تھا ہمیشہ سے خُدا کا سایہ قدرتِ ثانیہ سے نَافِلةً لَّكُ آیا جانے والے کی جدائی سے جگر چھلنی تھے ذہن ماؤف تھے اور قلب و نظر چھلنی تھے تیرے آنے سے سکینت کی ہوا آئی اپنے دامن میں بہاروں کی سحر لائی ہے ہے مل گئی کھولتے جذبات کو یکدم راحت ساقيا ! آمدن عيد مبارك بادت ہم نے بھی دیکھ لیا اہلِ وفا کا آنا! آنے والے! ترا آنا ہے خُدا کا آنا دل عشاق پہ چھائی ہوئی رحمت دیکھی ہم نے اس رات برستی ہوئی برکت دیکھی ابن محمود ترا آنا عجب آنا تھا شمع روشن ہوئی جب ہر کوئی پروانہ تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 211 تازہ ہم وعدہ تسلیم و رضا کرتے ہیں آپ کے ہاتھ پہ تجدید وفا کرتے ہیں لیکے ہم جائیں گے ہر سمت پیام احمد ہم غلامانِ غلامان غلام احمد مکرم ثاقب زیروی صاحب بغض اور نفرتوں کی دنیا میں بن کے آیا محبتوں کا سفیر وه شدائد میں عزم کا پیکر وہ مصائب میں صبر کی تصویر
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 212 یہاں ہرا یک نعمت مل گئی.مکرم روشن دین تنویر صاحب جسے تیری محبت مل گئی ہے اسے دنیا میں جنت مل گئی حکومت کیا ہے اس نعمت کے آگے مسیحا کی خلافت مل گئی یہ ربوہ خوان نعماء سے نہیں کم ہے ہے یہاں ہر ایک نعمت مل گئی ہے مسرت ہے بڑی قربانیوں میں خلیل اللہ کی سنت مل گئی ہے مرے اعمال نامہ کو نہ دیکھو اسی کا نام ہے محمد کی شفاعت مل گئی اللہ کی طاعت ہے رسول اللہ کی طاعت مل گئی ہے یہی تنویر طاعت کا ہے ثمرہ که صلحاء کی رفاقت مل گئی ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 213 تیری جلوہ گاہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ سے ملاقات کے بعد مکرم مبارک احمد عابد صاحب میں نے ایسا نور دیکھا تیری جلوہ گاہ میں جو جلال مہر میں ہے ، ئے جمال ماہ میں جس سے لرزاں ہو غرورِ سطوتِ باطل مدام ایسی شان تمکنت ہے تیری عزّ وجاہ میں تیرا حال و قال ہے عشق خدا ، عشق رسول جو ہدایت بن کے روشن ہو دل گمراہ میں تیری تحریکات کے صدقے کہ تو نے جان جاں ہم کو شامل کر دیا خوشنودی اللہ میں تیرے ارشادات کی تعمیل ہے عین حیات جان و مال و آبرو حاضر ہیں تیری راہ میں تیرے قدموں میں پناہیں ڈھونڈھنے کی آس میں آگیا عابد تری شفقت بھری درگاہ میں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 214 محترم مولانا محمد یعقوب خان صاحب کی بیعت خلافت سے متاثر مکرم نسیم سیفی صاحب راه گم کرده قافلے کل کا ނ ملا جوئندہ آج یابنده کھینچ لیتی ہے راستی اُس کو جس کا ایمان سے ہو دل زنده بات تیری گی اصل اصول رہے نام 12 رہے گا تا بنده خلافت کے نور سے روشن و حال اور آئندہ یہ ہے اسلام ہی کا پہلا سبق مرکزیت قوم راہبر ہے زنده کی ضیائے رُخ سے نیم راہ کی گرد بھی ہے رخشنده ای سعادت بزور بازو نیست تانه بخشد خدائے بخشنده
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 215 اسی دنیا میں جنت مل گئی ہے مکرم روشن دین تنویر صاحب خلوص دل کی نعمت مل گئی ہے اسی دنیا میں جنت مل گئی جو آباء کی محبت سے بڑی ہے ہے وہی رُوح محبت مل گئی ہے کیا دنیا جب دیں کو مقدم تو دنیا ہے مشقت مل گئی ہے فرشتے اس سے ہوتے ہیں بغل گیر جسے اس در کی قربت مل گئی دی تھی جو نادانی ނ تنویر گنوا ہمیں پھر وہ خلافت مل گئی ہے ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 216 نظام خلافت مکرم نیم سیفی صاحب پیام دیتے ہیں کون و مکاں نظام کے ساتھ چلو قدم بہ قدم حضرت امام کے ساتھ حیات کو کا تقاضا ہے سر بلند رہے عدو بھی آج صف آرا ہے اہتمام کے ساتھ ہر ایک خار سرِ رہگذر نے دیکھا ہے ہماری آبلہ پائی کو احترام کے ساتھ کسی کو شکوہ تشنہ لبی لبی نہ رہ جائے حضور ! کون بہلتا ہے ایک جام کے ساتھ سبک روی کے تصور سے بھی بعید ہیں وہ اُلجھ رہے ہیں جو اپنے خیالِ خام کے ساتھ ہے نعمت عظمی خدا کی دین ، نبوت ہے خلافت اس کا تسلسل ہے انتظام کے ساتھ خدا کرے کہ اُسے عمر نوح ارزاں ہو پیام بھیجا ہے جس نے مجھے سلام کے ساتھ
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 217 ہزار شکر ، من و تو کا فرق مٹ کے رہا کسی نے ہم کو پکارا تمہارے نام کے ساتھ ہم ان کی بزم میں دیکھیں گے کون بچ کے رہے خرید لیتے ہیں وہ اک ذرا سے دام کے ساتھ قسیم کوئی لب بام آئے یا کہ نہ آئے انگاه شوق تو لیٹی رہے گی نام کے ساتھ مکرم عبدالمنان ناہید صاحب ساری دنیا ہے نفرتوں کی اسیر تو محبت کی مملکت کا سفیر مسکراتے ہوئے لبوں پر نغمہ جاں حق زباں پر تھا ہاتھ میں قرآں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 218 وو خیر مقدمی نغمه بر زبان لجنه اما ء الله سید نا حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کے دورہ افریقہ سے کامیاب مراجعت پر اعظم میری خواہش پر مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے کہی تھی جو نجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع میں 17 اکتوبر 1970 بروز ہفتہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ کی آمد پر پڑھی گئی.خاکسار ، مریم صدیقہ (1) شکر اللہ آگیا ہے باغ میں پھر باغباں جس کے قدموں سے ہے وابستہ بہار جاوداں ہو گیا ہے پھر سے ربوہ کا چمن رشک جناں طائرانِ خوش گلو ہیں وجد میں یوں نغمہ خواں آج ا آقائے ما سبطِ مسیحائے زماں (2) لجنہ اماء اللہ کتنی خوش نصیب! ہے آج ہم میں جلوہ گر ہیں دین احمد کے نقیب! صنف نازک کے محافظ غم کے ماروں کے نصیب! این فرزند مسیحا رحمت حق کے نشاں مرحبا آقائے ما سبط مسیحائے زماں
219 (3) حضرت خلیفة المسح الثالث رحم اللہ تعالی آج ہم دوش ثریا ہو گئی ارض بلال جس کو روشن کر گیا شمع خلافت کا جمال ہر جگہ ظاہر ہوا ، جذب محبت کا کمال طالبان فیض آئے کارواں در کارواں مرحبـــا آقــائـے مــا سبطِ مسیحــائـے زمـــان (4) ہو مبارک آپ کو فتح و نصرت سیدا ارض افریقہ میں اظہار کرامت سیدا مغربی احرار پر اتمام محبت سیدا آپ ہی ہیں اب دلوں کی مملکت کے حکمراں ا آقائے ما سبطِ مسیحائے زماں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 220 یہ ہے مصطفی کی شفاعت کا دامن مکرم روشن دین تنویر صاحب جو ہاتھ آگیا ہے خلافت کا دامن ہے یہ مصطفی کی شفاعت کا دامن جو اوڑھی ہے اسلام کی ہم نے چادر نہ کچھ ابتداء ہے ہے صلح و صفا و سلامت کا دامن نہ کچھ انتہاء ہے ابد تا ابد ہے محبت کا دامن ز میں سے فلک تک ، فلک سے زمیں تک ہے پھیلا ہوا اس کی رحمت کا دامن کہیں ختم تو یہ ہوتا نہیں ہے محمدؐ کی د ختم نبوت کا دامن
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 221 یوم خلافت کے موقع پر مکرم عبدالسلام اختر صاحب ایم اے دیدہ و دل نہ ہوں کیوں نغمہ سرا آج کے دن حق سے ملت کو ملی رُوح بقا آج کے دن جب ہوئے مہدی موعود نگاہوں سے نہاں سایہ لطف سے محروم ہوئے پیر و جواں اک ستم زار ہوئی گردشِ انداز جہاں دل تڑپتا تھا کہ پائیں گے کہاں جائے اماں مرہم زیست ہوا ہم کو عطا آج کے دن حق سے ملت کو ملی روح بقا آج کے دن ہم نے جو پائی عطا ، حق کی عنایت ہی تو تھی باعث امن و اماں ایک ہی نعمت ہی تو تھی جاگ اٹھی جس سے نظر، موج سعادت ہی تو تھی جس سے روشن ہوئے دل، شمع خلافت ہی تو تھی
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 222 نعمت حق تھی خلافت کی قبا آج کے دن حق سے ملت کو ملی روح بقا آج کے دن آج بے چین ہے دُنیا کسی وحدت کے لئے جنت صبر و سکوں، امن کی دولت کے لئے دل تڑپتے ہیں کسی رشتۂ الفت کیلئے یچ جو پوچھو تو ہیں بے تاب خلافت وہ خلافت کہ جو ہے جلوہ نما آج کے دن حق سے ملت کو ملی روح بقا آج کے دن
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 223 نوبر مقصود مہدی معہود نبوت اور خلافت کی نعمت مکرم محمد عثمان صدیقی صاحب کو مل گیا اس زمانی شاہد b و منتظر تھے جس مسیح وقت وقت موجود گیا مشہور حضرت مل اور پھر وہ فرزند گرامی ارجمند مصلح موعود ہم نافلہ محمود ٹھیک ناصر پھر نبوت اور خلافت کے فضل لامحدود لا محدود ہم کامگار مل گیا کا گیا ہم وہ داؤدی ثمر جب نیا داؤد ہم کو مل گیا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 224 خدا کے بندے مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب خدا کے بندے خدا کے حبیب ہوتے ہیں خدا سے اُن کے تعلّق عجیب ہوتے ہیں نفس نفس میں خدا کی صفات کے مظہر قدم قدم پہ وہ اس کے نقیب ہوتے ہیں سکون پاتے ہیں اُن سے مریض روحانی وہ ایسے دردوں دُکھوں کے طبیب ہوتے ہیں جہاں میں رہتے ہیں بیگانہ جہاں بن کر وہ محو حضرت ربّ مجیب ہوتے ہیں ملے ہے غیب سے اُن کو متاع روحانی نگاہ خلق میں گو وہ غریب ہوتے ہیں حریم مقدس میں اونچا مقام رکھتے ہیں خدا کی گود میں وہ خوش نصیب ہوتے ہیں خدا ہی غیب سے دیتا ہے شاد انہیں سب کچھ کہ اس کی دین کے رستے عجیب ہوتے ہیں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 225 حقیقت کو حقیقت دیکھتے ہیں مکرم روشن دین تنویر صاحب خدا کی تجھ کو قدرت دیکھتے ہیں سزا وار خلافت دیکھتے ہیں نہیں یہ کچھ قیاس و ظن تنویر على وجہ البصیرت دیکھتے ہیں نیا دورٍ خلافت دیکھتے ہیں منهاج نبوت وہ بس لفظوں ہیں محمد رحمة للعالمیں ہیں انہیں کا فیض رحمت دیکھتے ہیں کی صورت دیکھتے ہیں کہاں وجہ شباہت دیکھتے مجاز آئینه حقیقت ہیں تنویر جس میں ཏ دیکھتے ہیں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 226 روشنی شمع خلافت کی ہمارے دل میں ہے مکرم عبدالمنان ناہید صاحب اک تپش سوز محبت کی ہمارے دل میں ہے گویا اک تصویر جنت کی ہمارے دل میں ہے ختم کر دے گی جہاں سے جہل کی تیرہ شمی جو کرن نورِ حقیقت کی ہمارے دل میں ہے آفتاب صدق آئے گا کمالِ اَوج پر ابتدا صبح سعادت کی ہمارے دل میں ہے ایک دن سارا جہاں درد آشنا ہو جائے گا وہ گسک دردِ محبت کی ہمارے دل میں ہے لوگ کیا جانیں گے اس کو لوگ کیا سمجھیں اسے قدر جو ختم نبوت کی ہمارے دل میں ہے تیرگی میں قافلے اپنے بھٹک سکتے نہیں! روشنی شمع خلافت کی ہمارے دل میں ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 227 خلافت کی بہار مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب، ربوہ مژده باد اے ہمدمو! پھر چل رہا ہے دورِ جام مائل جود و کرم ہے ساقی عالی مقام تشنہ روحیں پی رہی ہیں شربت وصل و بقا پھر مئے عرفاں سے سارے ہو رہے ہیں شادکام کوچہ جاناں میں ہے پھر جاں نثاروں کا ہجوم اک نرالی شان سے وہ آئے ہیں بالائے بام الله الله این فرزند مسیحا کا جمال ذرہ ذرہ ہے منور صورت ماه تمام رشک کرتا ہماری خوش نصیبی بر فلک ہے پر کتنا بابرکت ہے یارو یہ خلافت کا نظام اب یہی وہ میکدہ ہے جس پہ ہے ابر کرم مورد بارانِ رحمت مربع ہر خاص و عام قائم و دائم رہے یارب خلافت کی بہار کام والی عمر پائے ساقی عالی مقام
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 228 مصطفی کے دیں کو غلبہ بخش سب ادیان پر جس کی خاطر تیرے دیوانے ہیں کوشاں صبح وشام تیرے لطف خاص سے شیر بھی ہو بہرہ ور مستحق ہیں اس کرم کے ناصر دیں کے غلام محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ شکر باری تعالیٰ کے اُس نے ہمیں قدرت ثانیہ کی عطا بخش دی کے دور خلافت کی نعمت ہمیں اپنی رحمت کی رنگیں ردا بخش دی
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 229 آسمانی ہے خلافت کا اس جمیں صبغة اللہ میں ہے راه ختم المرسلین از دیدہ بینا گامزن پر خلافت در برائے مومنان خوش شعار یزدان پاک و کردگار خلافت ! شاہراہِ غلبہ اسلام مکرم سیدا در لیس احمد صاحب عاجز عظیم آبادی برکات نبوت کو دوام نظام بر خوش آئے نظر نور احمد ضوفگن وعده مهبط خداوند یگاں مظہر نور خدائے کن فکاں ہے وہ آئینه که جس ضوفشاں قدرت و جبروت جبروت ربّ دو دو جہاں مومنوں کے واسطے مثل سپر روکتی ہے حمله ہائے اہلِ شر خلافت ہے سانی کریم ستوں کے لئے لطف عمیم
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 230 از خلافت اتحاد اتفاق ہے خلافت انتشار و افتراق از خلافت جذب باہم اتصال رت افکار اس بے خلافت انشقاق ہے عیاں اعمال کا وحدت یہ تاثیر خلافت ہے لا جرم و انفصال سر نہاں اوج پر جاتی ہے خير أمم شاہراہ غلبه اسلام ہے دین حق کو عرب آں خدائے قادر و رب یگاں خود خلیفه ہے کہاں اس میں کوئی جائے بھی صاف ہے قرآن میں اِنِّي جَاعِل رحمت باری کا اس پر ہے نزول جو خلافت کو کرے دل سے قبول مومنان نیک دل تقوی شعار کرتے ہیں راہِ اطاعت اختیار استحکام ہے بناتا بے گماں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 231 کامرانی ہے اطاعت میں نہاں مردمان کم نگاه اطاعت نیکیاں بھی رائیگاں بے شعو رکھتے ہیں امر خلافت جو خلافت ނ ہوا ہے سر گراں ހނ نفور اس کا دشمن ہے خداوند یگاں مومنوں پر اب یہی لازم ہوا جان و دل سے ہوں خلافت فدا مکرم ثاقب زیروی صاحب جس کی باتوں میں خلق محمد کی لو آنکھوں میں نورِ محبت کی ضو حبذا غم نصیبوں کی بن آ گئی کے ساقی نوید بہار آگیا لے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 232 خلافت مکرم عبدالسلام اختر صاحب یہ حسن مدعا پر ہے نہ شان ارتقاء پر ہے! و ہی زندہ ہے، ایماں جس کا اک زندہ خدا پر ہے رضا حق کی ہے یہ قائم ہو آئین جہاں بندی اخوت کی جہانگیری نظر کی آرزو مندی سعادت اور اطاعت کا سبق یوں حق نے سکھلایا لَهُ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ ، کہہ کر آپ فرمایا اگر اک مرکز وحد وحدت نہ ہو بیدار و پائنده جہاں میں رہ نہیں سکتی کبھی انسانیت زندہ اُسی نے فطرتِ انساں کو ہر ظلمت سے دھویا ہے ہر اک چھوٹے بڑے کو ایک رشتے میں پرویا ہے جہاں خورشید وحدت کی درخشانی نہیں ہوتی وہاں ظلمت ہوا کرتی ہے تابانی نہیں ہوتی چمن خود نکہت گل سے گل و گلزار ہوتا.ہے نکل جاتی ہے جب خوشبو، تو گل بے کار ہوتا ہے اسی سے اہل حق کی امتیازی شان ، زندہ ہے یہ زندہ ہے تو دیں زندہ ہے، اور ایمان زندہ ہے
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 233 نہ اس قوت کی جب تک ہو دل و جاں پر عملدای! نہ تیری ضرب ہے کاری نہ میری ضرب ہے کاری ہیں تو نعمت عظمی تھی اک ملت کا سرمایا کوئی کو اچھے.مسلمانوں نے اس کو کھو کے کیا پایا بهم بخض و حسد فتنه گری ، اذبار و رُسوائی عداوت، تفرقہ ، بے رہروی ، ہنگامہ آرائی بلائیں تیرتی پھرتی ہیں موجوں کے تھیٹروں پر قضا کے تیر ہیں ایمان کے کمزور بیڑوں پر نہنگان اجل کی نیتیں بیدار پر مائل شب تاریک بیم موج گرد اب چنیں حائل تقاضا ہے کوئی اس وادی پر خار میں آئے لئے کشتی ، بڑھے اور حلقہ منجدھار میں آئے خلافت سے جو وابستہ ہو جان و دل ، شار اُس پر گرم کے پھول اُس پر، رحمت پروردگار اس پر
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 234 نظام خلافت مکرم یعقوب امجد صاحب، کھاریاں یہ فیض نبوت کی برکت ہے ساری کہ نور خلافت کا چشمہ ہے جاری یہی نظام خلافت خدا نے جو بخشا تو اُس کا ہے ہم پر یہ احسان بھاری ہے امامت ، یہی ہے سیادت اسی نے نکھاری ہے دُنیا ہماری وہ نور نظر جو تھا اسلام لایا اُسی نے خلافت کی خلعت سنواری اطاعت میں اس کی رضائے خدا ہے ہیں توحید کی آبیاری مقاصد رسالت کی خادم فضائل کی حامل خلافت اک ہے خلافت کا بار امانت اُٹھانا حقیقت میں میں ہے حق خدمت گزاری کامگاری
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 235 خلافت خلافت کی معمار خود ہے رسالت ہے اک نعمت فضل باری خلافت نے امجد کو وہ نور بخشا کہ ذرے کو جس سے ملی تا بداری مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ تھا بہاروں کا پیامی اس کے چہرے کا گلاب کے ریگزاروں میں بھی گھبرایا نہ تھا مشکلوں وه تروتازه ، شگفتہ ، خنداں ، روشن ، دلربا بھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ نہ تھا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 236 خلافت درحقیقت اک نظام آسمانی ہے مکرم سیدا در لیس احمد صاحب عاجز عظیم آبادی خلافت اس خدائے عزوجل کی ایک نعمت ہے فلک سے تاز میں جس کی ہراک شے پر حکومت ہے خلافت مومنوں سے وعدہ یزدان عالی ہے یہی ہے تقدیر ربانی ، نہیں نقشِ خیالی ہے خلافت سے ہیں برکات نبوت تا ابد جاری اسی سے لشکر شیطان پر ہیبت ہوئی طاری خلافت درحقیقت اک نظام آسمانی ہے نگہباں ہے وہی اس کا جو ذات جاودانی ہے خلافت سے خدائے عرش کی حاصل رضا مندی اسی سے بوستانِ حق کی تزئین و چمن بندی خلافت ہی سے قائم باغ احمد میں ہے رعنائی خلافت ہی سے ملتی ہے جماعت کو توانائی خلافت سے جبینِ دین پر ظاہر وہ تابانی کہ جس سے منعکس ہیں دہر میں انوارِ ربانی خلافت باعث تمکین دیں از روئے قرآں ہے اسی سے دینِ حق کی سطوت و شوکت نمایاں ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 237 خلافت نے رکھا ہے باندھ کر ملت کا شیرازہ خلافت کی صداقت اسی سے دوڑتا ہے جسمِ ملت میں لہو تازہ تسلیم خم اپنا مئے عشق محمد کا یہی ہے جام جم اپنا خلافت شمع حق ہے اور ہم ہیں اس کے پروانے بھلا اس راز کو سمجھیں گے کیا دنیا کے فرزانے ہزاروں آندھیوں نے زور باندھا، زلزلے آئے بڑھے اس کو بجھانے حزب باطل کے گھنے سائے فروزاں یہ رہی پیہم بغایت شان زیبائی ملی ہر اک قدم پر دشمنان دیں کو پسپائی خلافت کی اطاعت ہی میں مضمر کامرانی ہے یہی وجہ سرور و انبساط و انبساط و شادمانی سلام اس پر کہ جو ہے جلوہ گر تخت خلافت پر ہے قدم مضبوط ہے جس کا محمد کی اطاعت پر ہے عاجز پر نگاہ لطف کی یہ کار فرمائی زباں تھی سٹنگ اس کی ، مل گئی اب تاب گویائی
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 238 السلام نذرانہ عقیدت حضرت قیس مینائی ، نجیب آبادی صاحب اے وارث تخت خلافت السلام السّلام اے صاحب تاج امامت السلام السّلام اے گوہر درج شرافت السلام السلام اے درشہوار ولایت السلام السلام اے آفتاب چرخ ملت السلام السلام اے تیر برج سعادت السلام السلام اے شہریار شہر الفت السلام السلام اے شہسوار راه نصرت السلام السلام اے مردِ اسرافیل صورت السلام پیغام محبت السلام السّلام اے صور السّلام اے چشمہ لطف و عنایت السلام السلام اے منبع جود و سخاوت السلام السلام اے باغبان باغ ملت السلام السّلام اے مظہر رضوان جنت السلام اے واقف مغز شریعت السلام السلام السلام اے رہبر و خضرِ طریقت السلام
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 239 السلام اے مائی کفر و ضلالت السلام السلام اے دافع جادوئے ظلمت السلام السلام اے قاطع رگ ہائے بدعت السلام السّلام اے ہادی راہِ ہدایت السلام السّلام اے جانِ ما رُوحِ جماعت السلام السلام اے ناظم نظم و نظامت السلام السلام اے حافظ قرآن امام کامگار السّلام اے ناشر نشر و اشاعت السلام السلام اے نور چشم حضرت فضل عمر السّلام اے زینت آغوشِ نصرت السلام السلام اے ناصر دین محمد مصطفی السلام اے یوسف کنعان امّت السلام السلام اے قدرت ثانی بطور نافلہ السّلام اے مظہر شہکار قدرت السلام السلام اے شاہد معنی و راز لم یزل السلام اے کاشف سر حقیقت السلام
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 240 السّلام اے خضر راہ کہکشان معرفت السّلام اے ماہ پروین مثبت السلام السلام اے شہگل فردوسِ عرفان و یقیں السّلام اے عندلیب باغ وحدت السلام السّلام اے حضرت اقدس امیر المؤمنیں السلام اے قیس کے مرشد امام الکاملیں مکرم ثاقب زیروی صاحب ناصر تیری روح مقدس کو سلام دین حق کی تب و تاب بڑھا دی تو نے دے کے اسپین کو اللہ کے گھر کا تحفہ ظلمت کفر میں ایک شمع جلا دی تو نے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 241 مکرمہ منیرہ ظہور صاحبہ روح افروز ہے ترا پیغام زندگی بخش ہے تمہارا نام تیری ہستی تیرے عزم جواں کی ہمیت ہر مخالف کرزه ہے بر اندام ہے زمیں نازاں قدسیوں کے لبوں پہ تیرا نام اس کلام کی པོ་ اس جہاں میں تری مثال کہاں ناصر الدین ہے تمہارا ہے ہر نام خدا کا شیدائی ہے ترا ہر کام بلند ان سبھی سے تیری اُڑان طرف گو بچھے ہوئے ہیں دام تو نے توحید کی صراحی آج بھر بھر لٹا دیئے ہیں جام ہو خدا تیرا حافظ اُس کی تائید ساتھ ہو ناصر ہر گام
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی تیرے رندوں کی ہے 242 دعا دن رات تیرے حاسد رہیں سدا بے نام ہر طرف نور ہو اُجالا ہو احمدیت کا بول بالا ہو مکرم الحاج شیخ نصیر الدین احمد صاحب پہلی قدرت کی صداقت کا نشاں وہ نافلہ دوسری قدرت کا مظہر ہو گیا جو تیسرا ہو کے باطل کے مقابل تو نے اے شیر خدا مصلح موعودؓ کے نقش قدم کو پا لیا سن پیام اس کا نصیرسُن کے اوروں کا بتا پیار ہو سب کے لئے نفرت نہیں شیوہ تیرا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 243 پھلا ! پھولا ! سے گلزار خلافت ہے مکرم مبشر احمد راجیکی صاحب تعالیٰ الله علمدار خلافت بہر جانب ہیں انصار خلافت دل ناصر میں اسرای الہی انوار خلافت ناصر سکینت یقیں بخش انداز تخاطب افروز گفتار خلافت یکسر احسان ہے سراپا ہے حسن کہوں کیا تجھ سے کردار خلافت خدا کا وصل کشتِ دیں کا حاصل خدا کا ذکر شہکار تذلل یہی نبوت کے حقائق جو 6 ہے خلافت دردمندی اشک ریزی راه دلدار نہ مجھے وہ کیا جھیں گے اسرار خلافت خلافت خلافت ہے نبوت ہے نبوت کی نگہدار نگہدار خلافت
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 244 ! پھولا ! مسیحائے زمان کے پھلا ! دم قدم ہے خلافت ہے پھر پھر سے رحمت کا خزینہ سجا ہے پھر س دربار خلافت بہر پہر ہے دین کا بول بالا بجا لائیں ملا ہے ہیں ابرار خلافت کہاں وہ غیر کی نمی کہاں بخت بیدار خلافت نہ کیوں شکر الہی در شہوار خلافت رب گاه محبت میں مبشر آتے ہیں انوار خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 245 خلیفہ ، خدا بناتا ہے ! مکرم عبدالسلام اختر صاحب وہی جو خاک کے سینے سے پھول اُگاتا ہے جو پتھروں سے بھی چشمے بہا کے لاتا ہے نہاں جو رکھتا ہے موتی ، صدف کے سینے میں جو بحرو بر سے گھٹائیں نئی اُٹھاتا ہے جو کوه و وادی وصحرا کے ذرے ذرے میں سحر کی پہلی کرن بن کے جگمگاتا ہے وہ خود ہے محور عالم ، اور ایک عالم کو وہ ایک مرکز و محور پہ لے کے آتا ہے جلا کے وحدتِ روحانیت کا ایک چراغ وہ اس چراغ کی کو ، اور بھی بڑھاتا ہے ثار ہونے کو آتے ہیں اُس پہ پروانے وہ جب دلوں پہ وفا کے دئے جلاتا ہے ہزار بھڑ کے جہاں میں شرارِ بُو لہی چراغ مصطفوی یہیں خدا کی مشیت کا ہے عمل اے دوست 6 اور جگمگاتا ہے ہے یہ اس لئے کہ خلیفہ ، خُدا بناتا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 246 مراجعت امام ایدہ اللہ تعالیٰ سیدنا حضرت خلیفہ اصبح الثالث ایده الله عالی بصرہ العزیز کی سر امریکہ و یورپ سے واپسی پر مکرم ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب ظفر (1) ہمیں جس کا تھا انتظار آگیا گیا تھا جلو میں دعاؤں کے جو بتائید 5 مرے شہر کا شہریار آگیا پروردگار آگیا ظفر آج لازم ہے شکر خُدا امام الزماں کامگار آگیا (2) طرب خیز ہے کس قدر سماں سب کے عیاں مسرت ہے چہروں خوشی کے ترانوں میں ہیں یک زباں زن و مرد و اطفال و پیرو جواں زمیں پہ کیوں کرتا ہے رشک آسماں چراغاں میں خود آ ملی کہکشاں
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 247 (3) جو ہے حق انداز تبلیغ ادار یوں کیا دیں کہ گونج اُٹھی مغرب کی فرشتے بھی سرز میں نے وہ کہتے ہیں صد آفریں ہے میں ظفر کیوں نہ تیرے غلاموں میں ہو کہ تیرا مقدر (4) یہ میری نہیں کی آواز ہے ،روح، یہ نغمہ مرے دل میری دوست ملت کا اک ساز ہے دھڑکن سہی تیری محبت کا اعجاز ہے پہ تیری ہیں ہم اسیران زنجیر ألفت اطاعت (5) تیری ہمیں ناز ہے اُٹھیں پھر کہ وقتِ قیام آگیا شب جان وہ ہجر کی ظلمتیں چھٹ کمر باندھ کر ستاروں میں میں میں اب سبھی چل پڑیں وہ امام آگیا ماه تمام آگیا وہ قائد تیز گام آگیا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 248 سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی دورہ امریکہ ویورپ سے واپسی پر مکرم عبدالحمید شوق صاحب وہ آ گئے پیام مسرت لئے ہوئے دور سعید و راحت و فرحت لئے ہوئے خورشید نور حضرت ناصر ہوا طلوع اپنے جلو میں روز سعادت لئے ہوئے خوش ہو گیا ہوں رونق بازار دیکھ کر آئے حضور شوکت و عظمت لئے ہوئے پیرو جوان پھرتے ہیں شاداں چہار سو چہروں یہ صد مسرت و زینت لئے ہوئے مومن ہوئے ہیں جوش مسرت سے ہم کنار دل میں خلوص مہر و محبت لئے ہوئے اک دوسرے سے ملتے ہیں پورے خلوص سے اپنے دلوں میں جذبہ الفت لئے ہوئے کچھ حد انبساط نہیں ان کو دیکھ کر آنکھیں ہیں نور شادی و فرحت لئے ہوئے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 249 دنیائے غرب کو دیا درس حیاتِ نو ہر خطر زمین گلہائے باغ دین کی نکہت لئے ہوئے پہنچے مرے حضور روحانیت کی شمع ہدایت لئے ہوئے دن رات مست عشق خدا اور رسول میں تعریف پہ اپنے نور ریاضت لئے ہوئے چہرے ہے خدا و پیمبر کی شوق بس بیٹھا ہوں حمد ونعت کی دولت لئے ہوئے محترم اور لیس احمد عاجز عظیم آبادی صاحب قدرت ثانی کے مظہر افتخار قدسیاں معدن علم تیر روحانیاں خادم شرع مبین و سر بسر علم و عمل حافظ قرآن و فرزند مسیحائے زماں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 250 حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں مکرمہ شاکرہ بیگم صاحبہ از افق تا به افق امن کا افق امن کا پیغام دیا کام مشکل تھا بہت ، تو نے سر انجام دیا تشنہ روحوں کو دیا وصل و بقا کا شربت یعنی قرآن دیا ، نیر الهام دیا غلبہ دین کی تمہید مبارک بادت ساقیا! آمدن عيد مبارك بادت خواب غفلت میں تھا اسپین جگایا کس نے عظمت رفتہ کا پھر رنگ جمایا کس نے قصر تثلیث بھی ہے آج تزلزل میں پڑا یک بیک نعرہ تکبیر لگایا کس نے غلبہ دین کی تمہید مُبارک بادت ساقیا! آمدن عيد مبارك بادت دیکھ ترا حُسن نکھر آیا لجلل نائب مہدی مسعود ادھر آیا ہے ہاتھ رکھا تو تری نبض لگی پھر رنگ یہ کس کی دُعاؤں کا اثر لایا ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 251 غلبہ دین کی تمہید مُبارک بادت ساقیا! آمدن عید مبارك بادت تیرے ممنون ہوئے ناروے اور گوٹن برگ سویٹزرلینڈ بھی امریکہ ہمبرگ اُن کو معبودِ و حقیقی کی جو و آئی خوشبو مائل حمد و ثنا ہو گئے سب غنیہ و برگ غلبہ دین کی تمہید مُبارک بادت ساقیا! آمدن عيد مبارك بادت تیری افریقہ میں جس سمت سواری آئی ساتھ چلنے کو وہیں نصرت باری آئی صف بصف لوگ تھے مشتاق کھڑے یوں جیسے تیرے دیدار کو ہو ساری خدائی آئی غلبہ دین کی تمہید مبارک بادت ساقیا! آمدن عيد مبارك بادت کار گر عشق کا ہر وار ہوا جاتا ہے ہر طرف جلوہ نما پیار ہوا جاتا ہے اب تو نفرت کی سیاہی کا تصور نہ رہے جہاں مطلع انوار ہوا جاتا ہے ساقیا! آمدن عيد مبارك بادت غلبہ دین کی تمہید مبارک بادت
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 252 مژده صد مبارک آر صبح خلافت مکرم عبدالرحیم راٹھور صاحب بہار جاوداں اہل وطن آج کچھ رونق ہوا ہے باغ میں دیدنی شمشاد کا ہے با سپین تختہائے گل سجے ہیں ہر طرف صف بصف استادہ ہیں سرو و سمن خوش رقص عقد نرگس لے کر آ گئے مروارید لیے و شہلا ، گلاب و یاسمن طائر فضا میں نغمہ خواں رنگیں گلوں کا ہے در چمن شوق سے نغمہ سرا ہوں دور ہیں بستان سے سے زار زاغ و زه محفل انجم کے ارکاں محو رقص لو ! فضا میں ناچتے ہیں نو رتن کن کی آمد محفل میں کہ سج گئی ہے گلوں کہ ہیں سے اہم
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 253 حور , غلماں گل بداماں با ادب کن کی خاطر منتظر ہیں سیم تن چند کنواری نیک شہزادیاں آسمانی نور کر کے کر کے زیب تن معرفت کی مشعلیں روشن کئے منتظر صدیوں سے ہیں یہ سے ہیں یہ گل بدن بدر کامل شان ނ طالع ہوئے یا ہوا نُور خدا جلوہ فگن نازش بطحی فرزند جلیل جری اللہ حقیقی بُبت شکن کر کے قائم پھر خلافت کا نظام جا رہے ہیں سوئے جنات عدن حبذا ! صبح خلافت زنده باد ! مرحبا! نُورِ خدا کی نورحق ނ کرن ! پھر ہوا رشک چمن بحرو بر، گل خشک و تر، کوه و دمن
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 254 قدرت ثانی کا بابرکت ظہور دائمی ہے اے نیک ظن سلسلہ اے شکر اللہ ! پھر کئی صدیوں کے بعد ہو گئیں روشن عیون مرد و زن نصرت تائید حق شامل رہے رحمت باری ہو نازل دائماً نیک چہرے نور عید معمور ہیں ނ خوشتر ہے ہے یہ روز حسن دے رہی ہے غلبہ حق کی نوید زنده جاوید ہو روح چمن مکرم عبدالعلی ملک صاحب سنایا امن اور توحید کا پیغام دنیا کو صدائے لاالہ سے گونج اٹھے شہر و ویرانے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 255 مزاج یورپ بدل رہا ہے وہ ایک چہرہ ! مکرم عبدالکریم قدسی صاحب وہ ایک چہرہ! چهره! رشتیغ و تیر و ہیٹ تر و سناں جو کفر کی آندھیوں میں دلوں کو یوں فتح کر رہا ہے مثال خوشبو بکھر رہا ہے وہ ایک چہرہ! حسین چہرہ! جو زخم کھا کر بھی مسکرانے کا ڈھنگ سب کو سکھا رہا ہے عجیب باتیں سنا رہا ہے جو اپنے دل کی شکن ملال تک بھی نہیں ہے لاتا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 256 شکایتوں کا زباں پہ حرف سوال تک بھی نہیں ہے لاتا وہ ایک چہرہ! حسین چهره ! گلوں کی رنگت کلی کی نکہت رضا کا پیکر وفا کا پیکر گلاب صورت وفا کی مورت محبتوں کا شرافتوں کا صداقتوں کا رفاقتوں کا حسیں تصوّر جو مسکرانے کے خوبصورت حسین سانچے میں ڈھل رہا ہے مزاج یورپ بدل رہا ہے وہ ایک چہرہ! حسین چهره !
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 257 انوار خلافت مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب صد شکر کہ ہم لوگ ہیں انصارِ خلافت ہیں قلب و جگر مهبط انوار خلافت ملت سے جو تھا وعدہ حق غلبہ دیں کا مژدہ ہے اُسی کے لئے گلزار خلافت چھا جائیں گے دنیا یہ غلامان محمد ہر آن رہیں گے جو وفادار خلافت ہے صاحب لولاک کی تا حشر حکومت تا حشر یہ ملت ہے سزاوار خلافت ہم کیوں ہوں زمانے کے اندھیروں سے پریشاں حاصل ہے ہمیں شمع خیابارِ خلافت قیر تمہیں گوہر مقصود ہو حاصل ہر ذرہ تمہارا ہو فدا کارِ خلافت
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 258 بحضور حضرت امام جماعت احمدیہ الثالث مکرم احسن اسماعیل صاحب آف گوجره امیر این کارواں ہو چراغ منزل صاحب دلاں ہو خدا کی رحمتوں کا اک نشاں ہو پیام راحت و آرام جاں ہو مسرت بن کے چھائے ہو جہاں میں محبت بن کے ہر دل میں نہاں ہو براہیمی نظر لے کے اٹھے ہو پیام مرگ ادوار بُتاں ہو رسول ہاشمی کا عشق دل میں خدا کی حمد میں رطب اللساں ہو دیارِ غیر میں اسلام چکا نہایت کامیاب و کامران خوشا کہ حافظ قرآن بھی بھی ہو ہو خوشا کہ ایک مردِ خوش بیاں ہو
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 259 ترے نقشِ قدم ڈھونڈتے ہیں تمہی کوئی عالم ہو یا اہلِ زباں ہو ہو دین حق کے وہ سپاہی جو ٹکرایا وہی مسیح وقت تمہی ན་ شکوه دُعا ہی جس کی شمشیر و سناں ہو پھوڑ بیٹھا نبی پاک کے دیں کی چٹاں ہو زمیں ادھر آجاؤ لوگو تم کہاں ہو قافله سالار دمین ملت ہو منزل میں منزل کا نشاں ہو احمد کے علم دار صبح توحید کی گویا اذاں تجھے اللہ نے نصرت عطا کی ہو علوم کوئی مشکل ہو کوئی امتحاں ہو ظاہری میں دسترس ہے علوم باطنی میں بے کراں خدا رکھے تجھے ہر دم سلامت ہو خدا ہر لحظه تیرا پاسباں ہو
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 260 خطا کاروں تیری چشم پوشی خطا کاروں جب ان کی بزم میں جاتے ہو احسن کتنے مہرباں ہو تو یوں لگتا ہے جیسے بے زباں ہو * مکرم ثاقب زیروی صاحب تو شناور تھا بھرے ہوئے طوفانوں کا تو مسیحا تھا بھٹکتے ہوئے انسانوں کا ہار مانی نہ کبھی تونے کسی مشکل تادم مرگ نہ مغلوب ہوا باطل تری جرأت تھی مثالی تری ہمت تھی جواں
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 261 بے حقیقت ہے نماز بے امام مکرم عبدالرحیم رانصور صاحب دائمی قدرت ثانی کا ہے دور مرحبا ! صل على احتشام جدا ! تبلیغ حق کا انتظام نعرہ زن ہیں ہر طرف طرف مناد آج اہل دانش آرہے ہیں اس طرف غلیہ دیں کا ہے یہ سب اہتمام ہو رہے ہیں فخر سے دانشوران شرق غرب شاه بطحی کے غلام لوگ وہ تھے جام ہو گئے توحید کے شیدا جو سدا تثلیث کا شادماں ہیں مرد و زن پیر و جواں صدر انجم خوب ہیں ماہ تمام صد مُبارک قدرت حق کا ظہور رحمة للعالمین مرحبا ! دائم خلافت رحمتیں کونین پر کا نظام ہر دم سلام
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 262 نظام قدرت ثانیہ مکرم راجہ نذیراحمد ظفر صاحب ،ربوه بھڑک رہی ہے اگر چہ دوزخ، پہ تیرے مستوں کو فکر کیوں ہو برس رہا ہے ہمارے سر پر ترے کرم کا سحاب ساقی ہماری جنت ، ہماری دوزخ، رضا و ناراضگی جاناں نہ ہم کو حرص ثواب ساقی نہ ہم کو خوف عذاب ساقی طریق روحانی میکدے کا یہ کتنا دلکش ہے کتنا پیارا اُسی کو چلتے ہیں سارے میکش کرے جسے انتخاب ساقی وہی ہے آج اپنا میر محفل کہ جس کے سینے میں ضوفشاں ہیں علوم و حکمت کی مشعلیں اور تیری اُتم الکتاب ساقی یہ ہاتھ جو ہاتھ میں ہے سب کے یہ تیری حبل متیں ہے مولا نظام وابستہ جس سے ہم ہیں، جہاں میں ہے لا جواب ساقی سپر امامت کی دے کے ہم کو بچا لیا یورشِ عدو سے ترے تشکر میں جھک رہی ہے جہین ہر شیخ و شاب ساقی
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 263 خبر وہ فضلِ عُمر کی پوری ہوئی کہ آیا ہے آنے والا چلو میں فتح و ظفر لئے اور نصر تیں ہم رکاب ساقی حصار امن و اماں میں اُن کو بھی لا ! جو ہم سے بچھڑ گئے ہیں جو چھوڑ کر شہر عافیت کو ہوئے ہیں خانہ خراب ساقی درود اس پر سلام اُس پر کہ جس نے تیرا پتہ دیا ہے پلائی ہے جس نے مجھہ روحوں کے واسطے بے حساب ساقی ہم اُس کی اُلفت میں جی رہے ہیں ہم اس کی عزت پہ مررہے ہیں ہماری موت و حیات عشق نبی سے ہے فیضیاب ساقی اگر چہ کمزور و ناتواں بہوں پر شاہ کونین کا پکواں ہوں عطا مجھے زورِ حیدری کر ، بلند ہے انتساب ساقی ظفر کو بھی سر فراز کر دے ہو تیرے قدموں کی اوج ظاہر میں تیرے پاؤں میں آگرا ہوں اے میرے عالی جناب ساقی
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 264 قدرت ثانیہ مکرم عبدالمنان ناهید صاحب نگاہیں درد کا درماں زباں در بار و در افشاں مروّت بے کنار اُس کی محبت اُس کی بے پایاں کوئی کوٹا نہ اُس دَر سے تہی دست و تہی داماں ور دولت بہر صورت زر حکمت بیر عُنواں ثانی حصار عافیت ساماں محیط قدرت پیچاں کلید فتح و نصرت ہے کشود عقده وه استخلاف کی سُورة وہ شرح سنت و قرآں سکینت ، تمکنت ، شوکت برائے مومن و ایماں خلافت آمینه دار عروج و عظمت انساں نچھاور اُس کے قدموں پر شکوه و شوکت شاہاں فقیری اُس کی دارائی گدائی سطوتِ سُلطاں جہان چیرہ دستاں میں پناه جان معصو ماں وہ ہر فرعون کا موسیٰ خضر راہ عالمیاں وہ
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 265 ہجوم تاجداراں میں شہنشاہ شہنشاہاں گروہ خاکساراں میں عزیز جان ہے حالاں دولت جاودانی ہے شمع کا ایک تاباں نہیں قیمت کوئی اس کی نہ مول اس کے کوئی شایاں اگر ملتی ہے جاں دے کر تو ہے ارزاں ! بہت ارزاں ! مکرم شیخ سلیم الدین سیف صاحب تو ناخدا ہے ملتِ احمد کا پاسباں سینچیں گے اپنے خون سے ہم تیرا گلستاں تیرے ہی دم سے ملتِ احمد کا ہے وقار تو آفتاب حسن ہے اور ماہ پروقار
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 266 ها پیا رسب سے نفرت کسی سے نہیں ! کبھی محفل محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ تھا وہ جانِ جہاں جس کو شخص نافلہ تھا مسیح کا اور فضل کا زندگی کی چمک ہر خورسند تھا وہ عالی گہر وہ فرزند تھا ذات اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوئی کام اس کا زمانے میں موجود ہے جاکے مغرب میں پیغام حق کا دیا آج واں کُفر کی راہ مسدود ہے ނ دمکتا ہوا اس کے چہرے یہ کیسا عجب نور تھا اُس کی ہر بات امید کی روشنی یاسیت کے اندھیروں سے وہ دور تھا سلسلہ تھا حوادث کا جاری مگر پاس کا لفظ بھی کب آیا نہ تھا موجزن درد کا دل میں دریا کرب کا اُس کے چہرے پہ سایہ نہ تھا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 267 مسکراتا رہا مسکرانے کی اس فین وہ کرتا سدا رہا جماعت کو تسکین دیتا رہا اس کی راہوں کی تعیین کرتا رہا اس کی صورت حسیں ، اُس کی سیرت حسیں وہ ، وہ کشادہ جبیں شگفت دہن درس اہل وفا کو یہی دے گیا سے کسی سے بھی نفرت نہیں سات سو سال کے بعد مسجد کی پھر اُس کے ہاتھوں سے رکھی گئی ہے بنا تشنہ لباں اُس نے اسپین میں چشمہ فیض حق پھر سے جاری کیا یاد تازہ تھی فضل تھی فضل عمر کی ابھی اک نیا وار نیا وار تقدیر نے کر دیا چوٹ تازہ ہوئی زخم رسنے لگے اک نیا درد دل میں مرے بھر دیا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 268 چیز جس کی تھی واپس وہی لے گیا کوئی شکووں کا حق بھی ہمارا نہیں اپنے رب کی رضا پہ ہی راضی ہیں ہم اس کی ناراضگی تو گوارا نہیں مکرم روشن دین تنویر صاحب اللہ نے باندھا ہے یہ پیمان خلافت اعمال مناسب ہوں اور ایمان خلافت دی ہم کو بشارت یہ مسیحائے زماں نے ہے قدرتِ ثانی سے غرض شانِ خلافت جس طرح ملا پہلوں کو تم کو بھی ملے گا پہلوں کی طرح پاؤ گے فیضانِ خلافت
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 269 پریشان روحوں کی راحت خلافت مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب خدا کی عطا کردہ نعمت خلافت ہے ایمان والوں کی دولت خلافت نبوت کی زنده صداقت خلافت خدا کی خدا کی طرف سے امانت خلافت مكتل ہدایت ہدایت کی کامل اشاعت خلافت کہ رکھتی ہے اک خاص نصرت خلافت نہیں ہوتے معزول ہرگز خلیفے نہیں چھین سکتا خلیفے سے کوئی خدا کی عطیہ ہے خلعت خلافت ہراساں دلوں کی تسلی کا تشفى موجب سکینت خلافت سرایا غم رحلت انبیاء کا مداوا پریشان رُوحوں کی راحت خلافت ہے بندوں پہ انتخاب خلافت حقیقت میں ہے دست قدرت خلافت
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی تصرف 270 خدا کا جھکاتا ہے سب کو گویا خدا کی مشیت خلافت ہے سراج نبوت جو ہوتا ہے اوجھل تو آتی ہے حسب سنت خلافت قرب الــــى الـــلــــه کا واحد ذریعہ ہے صدق و وفا کی علامت خلافت خلافت ہے دینِ متین کی محافظ خلافت ہوتی خلافت ہے ہے امن سکوں کی ضمانت خلافت نظیم قائم یہی ہے نبی کی نیابت خلافت ہے اثبات مرکز کا باعث خدا کی جماعت کی قوت خلافت کیا سورہ نور میں حق نے وعدہ کہ پائے گی خیر امت خلافت خلافت کا انکار کرتا ہے سمجھتا فاسق بے حقیقت خلافت ہے وہ کرو صدق دل سے اطاعت ہمیشہ خدا کی ہے لاری رحمت خلافت
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحم اللہ تعالی 271 ہمیں ناز اس کی غلامی پہ ہر دم مشرف میلی دائی ایک بیعت ہوئے شاد ہم بھی ہے ایک نعمت خلافت صد سعادت خلافت مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ عمر بھر وہ پیار کے ساغر لنڈھاتا چل دیا! شاہ دل ساقی سخی پیر مغاں رخصت ہوا! پیار بھی تھا ، دل بائی بھی تھی ، رعنائی بھی تھی! رونق و تزئین بزم دوستاں رخصت ہوا!
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 272 خلافت مقدس امانت مکرم شیخ نصیر الدین احمد صاحب امانت خدا کی مقدس یہی روح کی زندگی کی ضمانت خدا کی کی ہدایت کا تلل ہے ہوئی وقت آدم سے جاری خلافت خلافت ہے مرکز اُسی دائرے کا ہے وابستہ جس سے جہاں کی نظامت سروں پر اسی سے تو فکر د عمل میں ہے وحدت اسی سے سے ہے بالیدہ رُوح اطاعت تَسَلَّط نہیں اس کا مقصد دلوں پر حکومت ہے اس کی کرامت امام زمانہ کو پہچان لینا ہے ایک پختہ روایت گا مومن کی خدا کی جو ریشی کو تھامے رہے محمد کریں گے اسی کی شفاعت ہے نصیر ایسی نعمت کو جو چھوڑتا کو ملتی خدا کی حمایت اس
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 273 رخصت ہوا! صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آنکھ جس کی یاد میں ہے خونچکاں رخصت ہوا! جس کے غم میں دل سے اٹھتا ہے دھواں رخصت ہوا! نافلہ لک کی تابندہ بشارت کا ثبوت وہ مسیح پاک کا زندہ نشاں رخصت ہوا! گئی اسپین اُن کی منتظر ہی رہ ناصر دین خُدا سُوئے جناں رخصت ہوا! کچھ نئی راہوں کا بھی ہم کو پتہ بتلا گیا ثبت کر کے اپنے قدموں کے نشاں رخصت ہوا! حوصلہ ایسا کہ انساں دیکھ کر حیران ہو صبر و ہمت کا وہ اک کوہ گراں رخصت ہوا! جس کے آگے چُپ ہوئے سب عالمانِ ذی وقار اہلِ علم و اہلِ دانش ، نکتہ داں رخصت ہوا! لا الہ کا ورد بر لب ، دعوتِ حق بر زباں جس کے ہر فقرے میں تھا رنگ اذاں رخصت ہوا! حسن، احساں، پیار شفقت یاد کیا کیا آئیں گے وہ شہ خوباں ، نگار دلبراں رخصت ہوا!
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 274 جس کا چہرہ دیکھ کے تسکین پا جاتے تھے دل زندہ دل ، روشن جبیں ، شیر میں وہاں رخصت ہوا! جس کو ملتے ہی مہک اٹھتے امیدوں کے چمن ! وہ تو کل اور غنا کا ترجماں رخصت ہوا! کی تکلیفوں کو سُن کے حوصلہ دیتا رہا مونس و همخوار سب کا رازداں رخصت ہوا! کرب کے دریا میں غوطہ زن رہا اُس کا وجود غم مگر جس کا نہ ہو پایا عیاں رخصت ہوا! زخم جو دل پر لگے وہ بنتے بنتے سہہ گیا صاحب خندہ جبیں ، خندہ لباں رخصت ہوا! سنگ و ابریشم کی یکجائی سے تھا اُس کا خمیر نرم فطرت ، نرم خو ، پر سخت جاں رخصت ہوا! کر گیا تحریر ہر دل پہ وہ کچھ انمٹ نقوش دے کے اہل عشق کو سوز تیاں رخصت ہوا! اپنے رب کی ہر رضا پر جو سدا راضی رہا خوش دلی سے ہمرکاب قدسیاں رخصت ہوا! آخر دم تک بھی چہرے پہ رہا اس کے سکوں وه به این انداز سلین و اماں رخصت ہوا!
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 275 مسکرانے کی سدا ، تلقین جو کرتا رہا چھوڑ کے آنکھوں میں اب سیل رواں رخصت ہوا ! گرد جس کے کھینچ رکھا تھا حفاظت کا حصار چھوڑ کے کیسے اُسے تنہا یہاں رخصت ہوا! یہ ہماری ہے تو پھر جو اُس کی حالت ہو سو ہو اُس کی نظروں میں تو گویا گل جہاں رخصت ہوا! شکر اللہ کہ کڑے لمحوں کی سختی مٹ گئی فضل ربی سے وہ ہنگام گراں رخصت ہوا! پھر خُدا کے فضل سے اک سائباں حاصل ہوا لوگ تو سمجھے تھے سر سے سائباں رخصت ہوا! یاد پھر رہ رہ کے اُس کی دل کو تڑپانے لگی وہ مرا محبوب آقا اب کہاں؟ رخصت ہوا! اُس کے جانے سے پرانے زخم بھی رسنے لگے کر کے تازہ پھر سے یادِ رفتگاں رخصت ہوا! ، خوشی اس کارواں کو رہنما پھر مل گیا غم مگر ہے وہ امیر کارواں رخصت ہوا! یا الہی کیا کروں دل حوصلہ پاتا نہیں جس کو نظریں ڈھونڈتی ہیں وہ نظر آتا نہیں،
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 276 صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ آؤ مل جل کہ کریں اس یار کی باتیں لوگو تاکہ زندہ رہیں ذہنوں میں وہ یادیں لوگو ہم نے ہر حال میں اس شخص سے جینا سیکھا اشک آنکھوں کے بھی ہنستے ہوئے پینا سیکھا وہ مرا دوست بھی تھا مونس و غم خوار بھی تھا تھا ، وفادار بھی تھا میرا ہمراز تھا ، ہمدم وہ مرے پاس تھا جب غم بھی بھلے لگتے تھے خار رستے میں تھے ، پر پھول کھلے لگتے تھے جس کے آنے سے گلستاں میں بہار آئی تھی ہر نظر جس کی زمانوں کو سنوار آئی تھی جس کی باتوں میں ہوا کرتی تھی چاہت کتنی جس کے دیکھے ہی سے مل جاتی تھی راحت کتنی اس کے ہونٹوں کی جنسی اور وہ چہرے کا نکھار اس کی آنکھوں کی چنک دل کے لئے وجہ قرار سب کے ہی واسطے یکساں تھی محبت کیسی تھا نہ معلوم کہ ہوتی ہے عداوت کیسی
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 277 اب وہ ساحر ہے نہ جادو بھری باتیں اس کی خوں رُلا دیتی ہیں پہروں مجھے یادیں اس کی کر کے بے سایہ مجھے زیرِ زیر زمیں سویا ہے آج کھو کر اسے جانا کہ جہاں کھویا ہے مکرم عبدالحمید صاحب اس نے قوموں کو پلائی تھی شراب زندگی اُس کے سر پر تاج تھا قرآن کے انوار کا اہل دانش کہہ رہے ہیں بات کچی اور کھری ناصر دین محمد تو سراپا نور تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 278 مکرم عبید اللہ علیم صاحب وہ رات بے پناہ تھی پناہ تھی اور میں اور میں غریب تھا جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا وہ وہ روشنی کہ آنکھ اٹھائی نہیں گئی کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا گئی مری دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو مسکرا دیا تو میں شاعر ادیب تھا وہ ہر رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے سامنے وہ یوں بھی تھا طبیب اور وہ یوں بھی طبیب تھا سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا ہو ، کہ لب کشا ، بلا کا خطیب تھا موج نشاط وسیل غم جاں تھے ایک ساتھ گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا میں بھی رہا ہوں خلوتِ جاناں میں ایک شام یہ خواب ہے یا واقعی میں خوش نصیب تھا حرف دعا اور دستِ سخاوت کے باب میں خود میرا تجربہ ہے وہ بے حد نجیب تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 279 دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بارہا وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم اس کو دکھا نہ پاؤ وہ ایسا مکرم ثاقب زیروی صاحب سفیر امن و محبت ، پیمبر رافت سرا یا عفو تھا ! شفقت تھا! پیار تھا وہ شخص! لبوں پہ اُس کے تبسم تھا ، دن کو ہر لمحہ حضور دوست، به شب، اشکبار تھا وہ شخص ! تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 280 خاک ربوہ اسے سینے سے لگا کر رکھنا مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب اب اسی دھن میں بھرے شہر کو جینا ہو گا تجھ سے ملنے کا بھی کوئی تو قرینہ ہو گا اشک در اشک تجھے ڈھونڈنے نکلیں گے لوگ وصل کے شہر میں فرقت کا مہینہ ہو گا ہجر کی رات ہے رو رو کے گزاریں گے اسے ہر گلی کوچے میں اجلاس شبینہ ہو گا صبح تقدیر جدھر چاہے گی لے جائے گی نہیں ہوں گے مقدر کا سفینہ ہو گا جسم کے رہ جائیں گی عقاق کی نظریں اس پر تیرے کوچے میں جو اُمید کا زینہ ہو گا تیری ہر ایک ادا رستہ دکھائے گی ہمیں تو نہیں ہوگا ترا دیدہ بینا ہو گا تجھ سے ملنے کی فقط اس کو اجازت ہو گی جس کے اندر نہ انا ہوگی نہ کینہ ہو گا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 281 جس کی پلکوں پہ بجے ہوں گے وفا کے موتی جس کے سینے میں محبت کا خزینہ ہوگا آنے والے کے گلے لگ کے بلکنے والے جانے والے نے ترا چین تو چھینا ہوگا سے لگا کر رکھنا خاک ربوہ اسے سینے سے پھر وہی ذکر آبگینوں سے بھی نازک یہ دفینہ ہو گا سر وادی سینا ہو گا وہی ساقی ، وہی بادہ ، وہی مینا ہو گا شربت وصل میں شامل ہے جو زہر فرقت ہے اگر عشق تو یہ زہر بھی پیٹا ہو گا تیری کرنوں کو اب اے عہد کے سچے سورج ہجر کی رات کا یہ چاک بھی سینا ہو گا حسن پھر اترا ہے روحوں پہ سکینت بن کر قافلہ پھر سے رواں سوئے مدینہ ہو گا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 282 یوں چڑھا ہے جو نئے عہد کا سورج بن کر خاتم یار کا یہ چوتھا نگینہ ہو گا اس کے دربار میں جاؤں گا خطائیں لے کر میرے ہمراہ ندامت کا پسینہ ہو گا کشتی نوح میں بیٹھے تو ہو لیکن مضطر شرط یہ ہے یہیں مرنا یہیں جینا ہو گا مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب رکھے گا زمانہ یاد ا سے جو ناصر دیں نے کام کیا شمشیر محبت سے اس نے دشمن کے بھی دل کو رام کیا ابلاغ صداقت کی خاطر دن رات رہا وہ محو سفر تثلیث کے گہواروں میں بھی تو حید کا اونچا نام کیا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 283 حضرت خلیفة المسیح الثالث مکرم مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری آج پھر یاد آ گیا اک صاحب رُوئے جمیل احمد موعود کے پیارے مبارک کا مثیل ومين ناصر اور فرزند نے پایا نافلہ ربّ محمد سے خطار مصلح موعود کا تھا جو بروز لاجواب شہنشاہ زمین عظیم و آسماں سیدہ نصرت جہاں جس کو اپنی جاں سے بھی بڑھ کر رہا قرآں سے پیار مشرق و مغرب میں کی اس کی اشاعت بے شمار پرچم اسلام جو اُندلس میں پھر کہرا گیا سات صدیوں بعد پھر مسجد وہاں بنوا گیا یورپ و امریکہ کو ہر نیک و بد سمجھا گیا ہسپتال اور مدرسے افریقہ میں کھلوا گیا چاند تھا محمود کا ایسا وہ جس کے نور سے ہو گئے رخشاں کئی اقوام کے ظلمت کدے دل تڑپ اُٹھتے تھے اس کی ہر ادائے ناز پر غیر تھے خیران و ششدر اُس کے ہر انداز پر
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 284 سایہ رحمت تھا وہ انصار دیں کے واسطے اور اک حصن حصیں شرع متیں کے واسطے مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر تھی رقصاں ہر گھڑی اور زباں پر تھی شائے رب رحماں ہر گھڑی اُس کے ہر انداز میں اک تمکنت تھی شان تھی ہر ادا اُس کی مجسم محسن اور احسان تھی ہر گا ہے لگتا تھا وہ اک کوہ وقار و اقتدار اور گاہے پیکر مہر و محبت ، لطف و پیار آہ! سُوئے خُلد آخر وہ بھی رخصت ہو گیا جو نہ تھا وہم و گماں بھی وہ بعجلت ہوگہ یک بیک راک گلستاں کا گلستاں مُرجھا گیا ہر کلی ہر پھول ہر سرو و سمن گملا گیا دیکھتے ہی دیکھتے وہ مومنوں کا گلعذار کر گیا اپنی جدائی سے ہر اک کو سوگوار اجنبی لگنے لگا ہر اک کو سارا جہاں جسم بے جاں سا نظر آتا تھا ہر خورد و کلاں
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 285 رات دن گزرے جماعت کے دعائے خاص میں در پہ ربّ دو جہاں کے التجائے خاص میں آسماں ނ آخرش سُن کی خدا نے اپنے بندوں کی پکار قدرتِ ثانی ہوئی جلوہ کناں پھر ایک بار پھر نزول رحمت باری ہوا اہل دل پر خاص روحانی سماں طاری ہوا مومنوں نے قافلہ سالار اپنا چن لیا ہاتھ میں اس کے ہراک نے ہاتھ اپنا دے دیا سرور ہر دوسرا کے اک غلام نامدار طاہر احمد میرزا نے بانیاز و انکسار زیب تن کر لی بحکم اللہ خلافت کی قبا قدرت ثانی کا یوں جلوہ نیا ظاہر ہوا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 286 مکرم ثاقب زیروی صاحب تو نے کی مشعل احساس فروزاں پیارے دل بھلا کیسے بھلا دے ترا احساں پیارے روح پژمردہ کو ایماں کی جلائیں بخشیں اور انوار سے دھو ڈالے دل و جاں پیارے ولولوں نے ترے ڈالی مہ و انجم پہ کمند تو نے کی سطوت اسلام درخشاں پیارے پہلے بخشا اب وہی وہی دین محمد کی قسم کھاتے ہیں تھے جو مشہور کبھی دشمن ایماں پیارے مرے بہکے ہوئے نغموں کو گداز پھر مری روح پہ کی درد کی افشاں پیارے مجھ کو بھولے گی کہاں وہ تری بھر پور نگاہ جگمگا اُٹھتا تھا جب فکر کا ایواں پیارے اب نگاہیں تجھے ڈھونڈ میں بھی تو کس جایا ئیں جانے کب پائیں سکوں پھر دل ویراں پیارے کون افلاک پہ لے جائے یہ روداد الم تیرا متوالا ابھی تک ہے پریشاں پیارے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 287 رُوح پھرتی ہے بھٹکتی ہوئی ویرانوں میں دل ہے نیرنگی افلاک پر حیراں پیارے شکر ایزد تری آغوش کا پالا آیا اپنے دامن میں لئے دولت عرفاں پیارے فکر میں جس کے سرایت تری تھیل کی شو گفتگو میں بھی وہی حُسنِ نمایاں پیارے جس کی ہر ایک ادا نَافِلةً لكَ کی دلیل جس کی ہر ایک نوا درد کا عنواں پیارے دیکھ کر اس کو لگی دل کی بجھا لیتا ہوں آنے والے یہ نہ کیوں جان ہو قرباں پیارے تیری اس شمع کا پروانہ صفت ہو گا طواف تیرے ثاقب کا ہے اب تجھ سے یہ پیماں پیارے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 288 ข حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمد یہ تو راللہ مرقده محترم سلیم شاہجہانپوری صاحب جو نظم و ضبط کا خوگر بنا گیا وہ شخص جو زندگی کا قرینہ سکھا گیا وہ شخص وہ جس کے ضبط وتحمل کی داستاں ہے عجیب سبق جو صبر و رضا کا پڑھا گیا وہ شخص وہ جس کے عزم مصتم پہ حوصلے قرباں جو راہ جہد لقا وہ جس کا چہرہ تھا خنداں کشادہ پیشانی پر چلا گیا وہ شخص جو راز ہم کو خوشی کا بتا گیا وہ شخص وہ جس کی جان تھا عشق محمد عربی شراب حُبّ نبی کی پلا گیا وہ شخص وہ جس نے راتیں گزاریں عبادت حق میں جو گر قبول دُعا کا سکھا گیا وہ شخص وہ جس نے نظم جماعت کو استوار کیا بناء قوم کو سیسہ پلا گیا وہ شخص
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 289 وہ جس نے عام کیا ذکر غلبہ اسلام جو مژده فتح و ظفر کا سنا گیا وہ شخص وہ جس نے حق و صداقت کو سربلند کیا دروغ و کذب کو یکسر مٹا گیا وہ شخص چراغ جس نے بجھائے غرور و نفرت کے دیئے خلوص و وفا کے جلا گیا وہ شخص دعائیں دیتا تھا دشمن کو گالیاں کھا کر دلوں پہ پیار کا سکہ بٹھا گیا وہ شخص جو بانٹتا تھا خزانے وفا و الفت کے جو خالی ہاتھ جہاں سے چلا گیا ، وہ شخص ہر آنکھ غم میں اسی کے تو اشکبار ہے آج اُسی کے غم میں ہر اک قلب سوگوار ہے آج
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 290 زیست کا ہر لمحہ اُسکا دین پہ قربان تھا مکرم سید ادریس احمد عا جز صاحب کرمانی بنده رحمان ،ذی القرنین عالی شان تھا تھا.غلام شاه بھی سبط مهدی ، نور چشم مصلح موعود تھا حافظ قرآن تھا سیدہ ذیشان کے بہجت کا اک سامان تھا وہ مبارک کی شبہیہ تھا ذی چشم، عالی وقار نافله مهدی برحق ، وہ عالی شان تھا اس کے رُوئے پاک پر نور بشاشت جلوہ گر جس کے نظارے سے حاصل دل کو اطمینان تھا ہم نفس اس کا رہا سر آمد قدوستیاں ساتھ اس کے لمحہ لمحہ دمبدم ہر آن تھا اس کے تقویٰ پر ہیں کرتے ناز جملہ ٹوریاں تھا مجسم خیر و خوبی اور عظیم انسان تھا صدق دل سے وہ بجا لاتا تھا احکام خدا سید لولاک کا وہ تابع فرمان تھا ربّ کعبہ کی قسم تھا حق نما اُس کا وجود ہستی نادیدہ کی وہ محبت و برہان تھا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 291 خدمت اسلام میں ہی صرف کی اپنی حیات زیست کا ہر لمحہ اس کا دین پر قربان تھا تھا ارازل اور یتامی کا وہ اک جائے پناہ گرسنه و تشنه لب اسکا بنا مہمان تھا خوبیاں اس کی تھیں بے حد و نہایت بے شمار اپنے تو اپنے ہیں ، غیروں پر کیا احسان تھا دشمنوں کا بھی بھلا ہی چاہتا ہر دم رہا فضل ربي سنتِ نبوی پر عامل ہر دم و ہر آن تھا سے یہ سترہ سالہ دور رہبری رکھتا تھا وہ شان کہ چشم فلک حیران تھا مسجدوں ، مہمانخانوں ، اور شفا خانوں کے جال اس نے پھیلائے کہ حکم ایندومتان تھا ترجمے قرآن کے اس نے زبان غیر میں اور وہ کر دیئے شائع کہ اذنِ خالق و حنان تھا پیڈرو آباد کی ہے گواہ کہ عزم و ہمت کا وہ اک انسان تھا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 292 بحرِ طوفاں خیز آخر کرلیا اس نے عبور زورق اسلام کا چوکس وہ کشتی بان تھا سیل کفر و شرک کی وہ بے پناہ جولانیاں روکنے کو ان کے وہ اسلام کی بنیان تھا تیر کھائے اپنے سینے میں ہزاروں اُس نے تھے تھا جماعت کا نگہباں اور پیشتی بان تھا غیر ملکوں میں گیا باتزک و باصد احتشام اس کی برکت سے بیاباں بن گیا بستان تھا اس کے اک خادم نے حاصل کرلیا نوبل پرائز علم کی دُنیا کا وہ شاہنشہ ذیشان تھا کہکشاں مریخ و مہر و ماہ اس کے ہم سفر داستان جرات و ہمت کا وہ عنوان تھا تھی جماعت کی فلاح کا رات دن اس کو خیال اس لئے محو دُعا شام و سحر ہر آن تھا ذره خاک وطن کرتا تھا اس پر فخرو ناز افتخار ملک وہ فرزند پاکستان تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 293 حکم رب سے اس نے پایا ، چل دیا سوئے ارم لینے کو اسکے قدم در پر کھڑا رضوان تھا اس کے جانے سے بپا اک زلزلہ ایسا ہوا پہر صدمہ غم سے ہر اک مومن بنا بے جان تھا دل مضطر خدا آیا اُتر دفع غم کے واسطے پیدا کیا سامان تھا حافظ قرآں گیا اور آگیا صاحب قراں وقت لطف حق سے درد اور غم کا بنا درمان تھا پر پورا ہوا تھا وعدہ استخلاف کا مؤمنین و صاحین ہوا احسان تھا عاجز ناکارہ وہ پر تھا شفیق و مہرباں پر یہ اس قدر کہ محو دل سے باپ کا احسان تھا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 294 سانحہ ارتحال حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب امام جماعت احمد یہ نوراللہ مرقدہ مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب،نواب شاہ یاد آتی ہے وہ شفقت وہ محبت تیری خون روتی ہے ترے غم میں جماعت تیری ہوئی تقدیر خداوند سے رحلت تیری ور نہ تھی اب بھی زمانے کو ضرورت تیری کی فرشتوں نے اعانت پر اعانت تیری پھیلی افریقہ و امریکہ میں شہرت تیری تھی عیاں تیرے تکلّم سے شرافت تیری کتنی پاکیزه و شستہ تھی طبیعت تیری بخش دینا تھی خطا کار کو عادت تیری تھی خطا پوش و عطا پاش طبیعت تیری طبیعت تیری مسکراتا ہوا چہرہ، تری روشن آنکھیں اب بھی پھرتی ہے نگاہوں میں وہ صورت تیری مثل آئینہ شفاف تھا سینہ تیرا صاف تھی گرد کدورت سے طبیعت تیری
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 295 تیرا انداز تلطف تھا نرالا آقا وہ متانت میں سموئی ہوئی شفقت تیری دشمنوں پر بھی ترا لطف و کرم تھا پیہم اور اپنوں نچھاور تھی محبت تیری بھانپ جاتا تھا نگاہوں سے دلوں کے احوال بخدا باعث حیرت تھی فراست تیری گالیاں کھا کے بھی دشمن کو دعا دی تو نے تھی عیاں صبر و تحمل سے شرافت تیری خادم و دائی اسلام رہا ساری عمر پہنچی عالم کے ہر اک گوشے میں دعوت تیری روح فرسا تھی ہمارے لئے رحلت تیری غم و اندوہ کا پیکر تھی جماعت تیری لیکن اللہ نے گرتوں کو سنبھالا کیسا جمع پھر ہو گئی اک بار جماعت تیری خوف کو امن سے سے بدلا ہے خدا نے یکسر منتقل ہو گئی طاہر کو خلافت تیری
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 296 ناصر دین حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مکرم راجہ نذیر احمد ظفر صاحب ر بوه نور کا جس کے گرد بالا تھا تھا موعود جس کو نصرت جہاں نے پالا تھا باپ کا موعود میں حوالہ تھا جس کا الہام میں ساری دنیا تھی جس کی نظروں میں شرق اور غرب دیکھا بھالا تھا جس کا کسر صلیب کا جلسہ کفر کے دل میں ایک بھالا تھا جس نے صدیوں کے بعد اندلس میں کر دیا دیں کا بول بالا تھا جس نے تقدیر کو دُعاؤں ހނ حق میں ہم عاجزوں کے ڈھالا تھا کتنے کمزور پا تھے ہم میں جن کو اس شخص نے سنبھالا تھا
حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحم الله تعالی 297 اُس کے سائے میں جنتیں ٹوٹیں تھا اور پیار والا تھا کر کے چھوڑ گیا ظلمتوں پالا تھا ناگہاں چاند اک طلوع ہوا اب کے طاہر کا اُجالا تھا علاج جُدائی پہنچا نامه دیں کا بھائی آ پہنچا مکرم چودھری شبیر احمد صاحب وہ صبر ورضا کا پیکر تھا دکھ درد کو ہنس کر سہتا تھا یوں خلق محمد کو اس نے اپنا کے جہاں میں عام کیا
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 298 وصال حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی مکرم عبدالمنان ناھید صاحب ربوہ آج پھر دل ایک چوٹ لگی پھر ہرا دل کا زخم زخم ہوا کیا بتاؤں کسے بتاؤں میں آج میں نے گنوا دیا کیا کیا جوش گریه ہے یا کوئی کوئی سیلاب اُٹھ رہی ہے ہر ول ہے یا ایک درد کا دریا مل گئی خامشی خامشی کو گویائی کنارا زمیں کا نوحہ کناں کن آنسوؤں کی صدا ہے عرش عرش ایک شدتِ غم بخود ناہید نوا و بے بے چارا کسی پہلو قرار آیا رمیان دیار یار آیا ارض ربوہ ترے ترے حسیں ذرّے ہم نے ہمرنگ آسماں پائے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالی 299 تیرے نظارے آنکھ کی ٹھنڈک تیرا ہر تیری گلیوں میں تیرے دیوانے نغمہ دل کو گرمائے شکست دل آئے اپنے سجدے سمیٹ کر لائے آبله آج پھر حکمِ اسْجُدُوا ہر طرف تپتی دھوپ کی تیزی ٹھنڈے ٹھنڈے ترے گھنے سائے چاند روشن رہے سدا 12 تیرا سورج بھی نہ گہنائے وقت پھر لے گا امتحاں تیرا آگیا تجھ میں کارواں تیرا احتیاط ! احتیاط ! ہمسفرو ! آگیا پھر مقام بیم رجا قافله آگیا دورا ہے اور اپنے سجدوں کو سالار پر قافله رہا رو وہ سوز دروں راکھ ہو جائے جس سے رُوح ابا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 300 جلوہ گر ہو گی قدرت ثانی ہو رک نہ پائے گا کارواں اپنا گا پورا يُمَكِّنَنَّ لَهُمُ پاؤ گے پاؤ گے وفا امن پھر خوف کی جگہ لے کر وجہ تسکین کا صلہ تمکنت ہو گا تھام لے گا کوئی تو ہاتھ اپنا یقیں مجھ کو دے گا کوئی صدا ہے جانے والے تری محبت کو دل کی دھڑکن کے ساتھ رکھیں گے روح ناصر ! تری امنگوں میں اپنی آرزو کو ڈھالیں گے ہر راه منزل زندگی کے چراغ تیری یادوں روشنی لیں گے ނ تیرے قدموں کے برگزیدہ نشاں رہ نوردوں کو حوصلہ دیں گے عظمت کام آئے گی تیری فکر زیست کی عظمتیں بھی دیکھیں گے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 301 تیرے احساں سحاب کی صورت آنے والے دنوں برسیں گے تیری یادوں کو لے کے گام به ' گا.آئے گا دور غلبه اسلام دور نو کی انوکھی قدروں میں تو پرانی محبتوں کا سفیر فکر دوراں، خرابی تخریب سوچ تیری ترقی تعمیر شور آشوب روزگار میں تمكنت فتنے اُٹھ اُٹھ کے ہو اور وقار کی تصویر گئے خاموش تھی تری خامشی میں کیا تاثیر ہر طرف سنگ خشت کی بارش تیری شفقت تھی اک ردائے حریر سوئے منزل رواں دواں ہر دم تھی کوئی شے نہ باعث تاخیر جا! خدا کی رضا کے دامن میں ابدی راحتوں کے مامن میں
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 302 مقبرہ کی بہشت زار زمیں! لے اور اک امانت دل و جاں تیری خاموشیوں میں آسوده کتنے محنت کش و جنوں ساماں وچتا ہوں قدم قدم کتنا نازک کوئی دیکھے تو کتنے پیار میں ہے رشته تن و جاں پیار سے چاند میں ہیں تاباں تیری تاریکیوں میں ہے تیری مٹی سے بوئے گل بدناں تجھے سے گزروں تو مجھ کو آتی ذہن میں خود بخود اُبھرتا ہے تصوّر جاناں لے اک اور گلعذار آیا نمائندہ بہار آیا ނ تجدید عہد بیعت کی پھر ہوئی دور آج طاہر کے ہاتھ پر ہم نے اپنی تیرہ شمی آج رو رو کے کی سحر ہم نے
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 303 خونبار تمكنت ساماں پائی اک حُسن کی نظر ہم نے کیا رخصت محبوب راہبر نے رہبری کے مقام پایا سامنے اک نئی اڑان آئی ہمسفر ہم نے پھر سنوارے ہیں بال و پر ہم نے ہی ایک ہمسفر مختصر سا تھا امتحاں اپنا کارواں ہے رواں دواں دواں اپنا آنے والے! والے! تجھے ہمارا بصد سلام تیری رہ میں بچھائیں گے آنکھیں ہے اوڑھ کر تو قبا خلافت کی شان دل رُبائی آ والی ولایت دل کا تخت دل پر ہوا سری آرا ہم اطاعت گزار گزار بندے ہیں حق اطاعت کا ہم کریں گے ادا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 304 دیکھتے ہیں تو ایک تیری طرف سُن رہے ہیں تو ایک تیری صدا مرتعش ہوں گے نغمہ ہائے وفا اک ذرا تو دلوں کے تار ہلا اپنی پیشانیاں سجود آثار دور ނ ابا استکبار آنے والے! تری نگاہوں میں کتنے زخمی دلوں کا مرہم ہے جذبہ دل کو کیا کہوں اس دم طرب ہے کس جذبہ تشکر لا دل بھر آیا ہے موجه غم ہے آنکھ پُر نم ہے پھر خم ہے زندگی کی زمام ہاتھ میں لے زندگی کا نظام برہم ہے آج پھر اسجُدُوا کا حکم ہوا سرتسلیم آج
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 305 تو ہے محسور کن آرزوؤں کا کیا کہوں! حرفِ آرزو کم زمانے میں کر مسیحائی! آ کہ تو بھی تو ابنِ مریم ہے مکرم انور ندیم علوی صاحب پیار ہے سب کے لئے نفرت کسی سے بھی نہیں زندگی بھر آپ کا نعرہ یہی تھا بالیقین بھول جائیں ان کی شفقت کیسے ممکن ہے بھلا تشنہ روحوں کو پلایا شربت وصل بقا ہے
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 306 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی یاد میں خانہ ہستی کا ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ حسیں پیر مغاں تھا شخص کہ ادراک کا اک زندہ جہاں تھا جھکتی تھی جبیں اس کی بس اللہ کی خاطر !! وہ دین کا ستوں عزم کا اک کوہ گراں تھا وہ ذات کے گنبد میں جو محصور نہیں تھا فهم و ذکا علم کا تابندہ نشاں تھا وہ وہ پیکر شفقت تھا بہت عالی گہر تھا رخشنده و پر نُور جہیں گل بہ دہاں تھا بھولی نہیں کانوں کو وہ لہجہ کی حلیمی جس میں کوئی تاثیر کا اک جادو نہاں تھا تزئین گلستاں میں رہا مدتوں مصروف استاد بھی تھا، دوست بھی تھا ، اک نگراں تھا اک داعی الی اللہ تھا صداقت کا نشاں تھا تثلیث کا ہر بُت تیرے دم سے لرزاں تھا مشعل سا فروزاں رہا ظلمت کے نگر میں اک نور کا ہالہ تھا کہ جو رقص کناں تھا
حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمه الله تعالی 307 ربوہ کو نہ بھولے گی ترے پیار کی خوشبو پھولوں بھرا گلزار تھا تو اک بستاں تھا صدیوں ترے اوصاف کو سب یا رکھیں گے تو وقت کی آواز تھا، ماہ کنعاں تھا مکرم محمود احمد مرزاعبدالحکیم صاحب قرآن کے انوار سے سینہ ہے منور یہ ناصر دین حافظ قرآن عزیز و قرآن سے عشق اس کو وراثت میں ملا ہے والله یہ ہے عاشقِ قرآن عزیزو
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 308 نا فله موعود ڈاکٹر مہدی علی چوہدری صاحب فاتح دیں ، نافله موعود تو نور کی تجسیم تھا لختِ دل محمود پیشانی اللہ کا مہدی کو بشارت تھی نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اس کی ہی سجتی تھی تیری ذات میں مشہود وہ زہد و عبادت کا اجالا تھا تیری منزل مقصود تو امن کا شہزادہ تو محبت کا پیامبر انوار و کمالات خلافت کی رواں رُود احمد کے گلستاں کو جلانے کو جو اٹھے ٹکرا کے ہوئے تجھ سے فنا وقت کے نمرود بت خانہ دنیا آذان وہ حق کی لرزاں ہوئے جس سے سبھی طاغوت کے معبود لہرایا زمانے میں یوں توحید کا پرچم تثلیث کی آواز جہاں سے ہوئی نابود اللہ کا تھا احسان کہ تو رہبر تھا ہمارا اسلام کی تاریخ کا وہ دور تھا مسعود
حضرت خلیفة المسیح الثالث رحم اللہ تعالی 309 مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ مسکراتا حوصلہ دیتا وجود پیار سکھلاتا وجود زندگی امن اور اُلفت کا تھا پیغام آفتاب تازه اسپین جس کی ہے ނ أجلا وجود گواه ة الا كا شیدا وجود احمدیت کا ستارا دے گیا مُصلح موعود کا بالا وجود کا تھا رہنما طالبان مهربان مشفق اعلیٰ وجود جنت الفردوس حق ناشر قرآن ارض ربوہ میں بظاہر دفن ہے اعلی علییس میں ہے اُس کا وجود ހނ ہو عطا تھا تیرا وجود چادر رحمت میں جا کر لمسلے کا سائیاں سایا سو گیا وجود
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 310 خلافت رابعه
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 311 مقصود ہے شان خلافت مکرم محمد شفیع اشرف صاحب کچھ تذکرہ شان خلافت اظہار خیالات بعنوان خلافت 6 اللہ کی مرضی پہ ہے موقوف سراسر امکان نبوت ہو کہ امکان خلافت اُس شخص کو وہ اپنا خلیفہ کردار و عمل جس کا ہو شایان خلافت ہے انوار نبوت سے وہی پاتے ہیں حصہ جن کو بھی میسر ہوا عرفان خلافت ممکن نہیں خالی رہے اس حص کا دامن تھاما ہو کبھی جس نے بھی دامان خلافت وابستہ ہیں برکات و فیوض اب تو اسی سے فیضانِ خداوندی ہیں فیضان خلافت ہے دیں کے لئے سطوت و تمکین کا ذریعہ سچ ہے کہ خدا خود ہے نگہبان خلافت ہر خوف بدل جاتا ہے تسکین و اماں سے اب مامن و ملجا ہے تو ایوانِ خلافت
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 312 ہے دعوی ایمان کی تصدیق اسی سے ایمان کی بُرہان ہے بُرہان خلافت اعجاز ہے یہ حسن نبوت کا یقیناً ہے تازہ و شاداب گلستان خلافت تا حشر یہی سلسلہ ہے قائم و دائم خوش بخت ہے جو رکھتا ہے ایمان خلافت کافی ہے شرف واسطے میرے یہی اشرف اشعار میں ہوں آج ثنا خوانِ خلافت G مکرم روشن دین تنویر صاحب اسے زندگی جاودانی ہے پیا جس نے کاس الکرام خلافت مسیح الزماں نے خبر صاف دی ہے مقدر ہوا ہے دوام خلافت
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 313 تا ابد جاری رہے گا یہ خلافت کا نظام مکرم سیدا در لیس احمد عاجز صاحب کرمانی حضرت آدم کے قصے میں سبق یہ ہے نہاں جو خلافت سے ہوا سرکش وہ ناری بے گماں تابع حکم خلافت ہوتے ہیں گڑ و بیاں حاصل ان کو بے گماں لطف خداوند یگاں آیت استخلاف سے ہے یہ حقیقت آشکار زمرة فساق ہیں مرکزیت جس سے قائم ہے یہ وہ حبل امتیں ہوتا ہے منکر کا شمار حصین دردمندوں، بے کسوں کے واسطے حصنِ منتشر نُورِ نبوت جس سے وہ ماہِ مبیں ہے عروج قوم کی خاطر ضماندار وضمیں ہے خلافت نام و ناموس محمد کی امیں قادر مطلق خُدا ہر آن ہے اُس کا معیں غیر ملکوں میں مساجد کا جو پھیلا جال ہے نعرة تكبير دولت قرآن سے ہر شخص مالا مال ہے سے شیطاں ہوا بدحال ہے ہر مجاہد کے قدم سے زورِ شر پامال ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 314 برکتیں یہ سب خلافت سے ہیں حاصل بے گماں ہے خلافت عز و جاه ملتِ اسلامیاں حق تعالیٰ نے لگایا ہے خلافت کا نہال کس کا بل بوتا ہے جو اس کو کرے گا پائمال حافظ و ناصر ہے اس کا وہ خُدائے ذوالجلال حی اور قیوم و باقی لایموت و لازوال ہے یہی منشاء حق و ایزد و ربّ الانام تا ابد جاری رہے گا یہ خلافت کا نظام وسعت آفاق اس کی بُوئے خوش سے عنبریں قلب ہر مومن میں ہے اس کی محبت جاگزیں ہر عدو اس کا ہوا شیطان کا ہے ہم قریں ہے خلافت ظل مہر و لطف ربّ العالمیں اے کہ جو انصار میں شامل ہیں از فضلِ خُدا لطف حق تعالیٰ سے تم خوش رہو ہر دم سدا مثل پروانہ خلافت کی شمع پر ہو فِدا تا رہے راضی خدائے کن فکاں رب الوریٰ ہوں گے روشن بحرو بر از نور شاہ کن فکاں یہ زمیں ہو گی نئی ہو گا نیا اک آسماں
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 315 آجاؤ کہ اب مجلس عرفان یہیں ہے ! مکرم ارشاد احمد شکیب ایم اے اک حُسنِ جہاں تاب جو ربوہ میں مکیں ہے طاہر اسے کہتے ہیں وہ رخشندہ جبیں ہے بھر بھر کے آجاؤ کہ لے آؤ انہیں جو بھی ہیں تشکیک گزیدہ ربوہ کی زمیں مرکز انوار یقیں ہے بادہ عرفاں کے پیالے عرفان یہیں ہے کب ' مجلس اقوام میں ہے وحدتِ افکار ہے وحدتِ افکار تو بس ایک یہیں ہے یہ نظم ، ، یہ اُلفت ، یہ اخوت ، سیہ مساوات دکھلا دیں ہمیں آپ اگر اور کہیں ہے شابات جہاں پائیں سے اب کپڑوں سے برکت وہ وقت بھی آپہنچا ہے ، اب دُور نہیں پہنچو گے کنارے یہ اسی کشتی نوح سے اب جائے اماں اس کے سوا اور نہیں ہے ہم پیار.ہے پیار سے جیتیں گے زمانے کے دلوں کو ہے دست دعا ہاتھ میں تلوار نہیں ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 316 جس ملک یہ طارق کی کبھی چمکی تھی شمشیر طاہر کے وہ اب پیار سے پھر زیر نگیں ہے ہے اوج پہ توحید کا اب تیر تاباں تثلیث کو یوں سمجھو کہ اب زیر زمیں ہے دل میں تو شکیب اپنے فقط پیار کی ہے ہے نفرت کا تو اس جام میں اک قطرہ نہیں ہے مکرم سید ادریس احمد صاحب وہی جو مونس و غم خوار ہے غربت کے ماروں کا جسے سونپی ہے حق نے درد مندوں کی نگہبانی یہ فرمایا کہ ابنائے سعادت سامنے آئیں زمانے میں نمایاں کر دیں اپنا جوش ایمانی
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم الله تعالی 317 سلام بحضور حضرت خلیفہ المسح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ مکرم آفتاب احمد بسمل صاحب سلام اس پر جسے حق نے خلافت کی ردا بخشی ملا جس کو بفضل ایزدی یہ رتبه عالی سلام اُس پر ملی جس کو قیادت اس جماعت کی میچ پاک نے خود آپ تھی جس کی بنا ڈالی ں کی بنا ڈالی سلام اُس پر کہ جو ہے مہبطِ انوارِ یزدانی ہوئی ہے جس سے چوتھی بار ظاہر قدرت ثانی سلام اُس پر بنا جو جانشین حضرت ناصر کلام اللہ کا جس سے شرف پھر سے ہو گیا ظاہر سلام اُس پر جماعت کو ملی جس سے ٹیکبائی وہ اس کے دم قدم سے دین نے پھر تمکنت پائی سلام اُس پر بیات الحمد کی جس نے بنا رکھی غریبوں بے کسوں سے یوں کیا اظہارِ ہمدردی سلام اُس پر جوحسن سیرت وصورت میں ہے یکتا , جناب مصلح موعود و مریم کا جگر گوشہ
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 318 سلام اُس پر وضاحت جس کی ہے تقریر کا خاصہ بلاغت کا ہے اک اعلیٰ نمونہ جس کا ہر جملہ سلام اُس پر جسے قرآن سے ہے عشق لاثانی احادیث نبیؐ سے جس کو اک نسبت ہے روحانی سلام اُس پر خدا سے جس کا اک زندہ تعلق ہے وہ جس کی خاک پا پر میرا ہر ذرہ تصدق ہے سلام اُس میرے آقا پر کہ طاہر نام ہے جس کا محمد مصطفیٰ کے دیں کی خدمت کام ہے جس کا مکرم عبدالسلام اسلام صاحب کئی اسرار پوشیدہ ہیں بطن علم و عرفان میں پر ان کو کھلونے والا تو ہی اک راز داں بھی تھا
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 319 حشر تک ہم میں خلافت رہے قائم یا رب مکرم میرمبشر احمد طاہر صاحب آنے والے کا بلندی پہ ہے تارا یارب جانے والا بھی بہت ہم کو تھا پیارا یارب دیکھ لی ہم نے تیری الفت و شفقت یار مل گیا وقت پہ ہی تیرا سہارا یارب طاہر احمد کو بنایا ہے خلیفہ تو نے خوب ہے دوسری قدرت کا نظارہ یارب بڑھتے جائیں گے ترے فضل و کرم سے لاریب بہتا جائے گا یونہی وقت کا دھارا یارب جب کبھی آیا کڑا وقت یا کوئی مشکل تیرے بندوں نے ہے تجھ کو ہی پکارا حسن و احساں میں نہ تھا جس کا نظیر ثانی مل گیا اس کا ہی اک راج دلارا یارب ہم کریں اس کی مدد اپنی دعاؤں سے مدام اس کو ملتا رہے ہر آن سہارا یارب
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 320 ناصر دین محمد کی دُعا لیتے تھے طاہر احمد کا بنا دے ہمیں پیارا یارب اس کی تربت پہ ترے فضل کا سایہ ہو مدام ناصر دیں کہ ترے پاس سدھارا یارب تیرا طاہر تری رحمت کا طلبگار ہے آج اپنی بخشش کا کوئی ادنی اشارہ یارب حشر تک ہم میں خلافت رہے قائم یارب فضل ہم یہ ترا یونہی رہے دائم یارب محتر مہ امۃ القدیر ارشاد صاحبه دل سے نکلے ہوئے پُر درد الوہی نغمے ہے درد پنہاں میں تیرا حسن بیاں ہوتا ایسے انساں کہیں صدیوں میں عطا ہوتے ہیں جن کے ہونے سے بہاروں کا سما ہوتا ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 321 خلافت راشدہ کے تا قیامت بقا کی بشارت مکرم محمد صدیق صاحب امرتسری یہ سورہ نور میں وعدہ ہے سب ایمان والوں سے خُدا والوں، رسول پاک اور قرآن والوں.عمل جن کے بھی صالح ہوں گے وہ انعام پائیں گے خُدائے دو جہاں سے دولت الہام پائیں گے عطا ہو گی انہیں ہر دور میں نعمت خلافت کی بڑھے گی جس سے عز وشاں محمد کی رسالت کی خلافت اُن سے پہلی امتوں میں جیسے رائج تھی اسی نہج پہ ہو گی اُمّت احمد میں بھی جاری وہ اُمت کے لئے یکسر حصارِ عافیت ہو گی اسی سے سب کی وابستہ صلاح و مشورت ہوگی خُدا کو اپنے بندوں کے لئے جو دیں پسند آیا جسے اُس نے شہ ابرار پر نازل ہے فرمایا خلافت کے ذریعہ اس کو ہو گی تمکنت حاصل جہاں میں عزّ و استحکام و قدر و منزلت حاصل خلیفہ منتخب جب بھی نیا ہو گا مشیّت بدل جائیں گے سب خوف و خطر امن و سکینت -
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم الله تعالی 322 عبادت ہو سکے تاحق کی اطمینان سے ہر دم شریک اس کا کبھی ہر گز نہ ٹھہرائیں کسی کو ہم گراں کردار ہے مشرک کا اتنا حق تعالیٰ زمین و آسماں بھی کانپ اُٹھتے ہیں اُسے سُن کر وفا ہوتا رہا ہے اب تلک وعدہ یہ صدیوں سے سنہری دور اُمّت پر کئی آئے خلافت کے بحمد اللہ ملی ہے پھر یہ نعمت اہلِ ایماں کو سیخ وقت کے اس دور کے اصحاب ذیشاں کو اک ارشاد وعیدی بھی ہے اس وعدہ کے آخر میں یہ لازم ہے کہ مومن اس کو بھی پیش نظر رکھیں جو بیعت سے کسی راشد خلیفہ کی گریزاں ہے جماعت کی نظامت سے الگ رہنے پہ نازاں ہے سمجھتا ہے جماعت کی ضرورت ہی نہیں اُس کو خلافت کی قیادت کی ضرورت ہی نہیں اُس کو وہ ہر اک اجتماعی کام سے محروم رہتا ہے مهم خدمت اسلام سے محروم رہتا ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 323 جو سچ پوچھو تو وہ شیرازہ اُمت کا دشمن ہے نظام مرکزی کی حکمت و عظمت کا دشمن ہے رضائے خاص رب العالمیں وہ پا نہیں سکتا وہ اس کے سایہ رحمت کے نیچے آنہیں سکتا غرض اس کی مثال اُس بھیٹر کی مانند ہوتی ہے جو ظالم گرگ کے ہاتھ آ کے اپنا آپ کھوتی ہے ابھی رکھ ہمیں وابستہ اسلامی خلافت سے نہ اک لمحہ بھی گزرے عُمر کا باہر جماعت سے مکرم عبدالکریم قدسی صاحب پاس تھا ہر معترض کے واسطے شافی جواب وہ مفكّر 6 وہ مقرر دلنشین ، وہ مدبر زندگی کی پائی پائی دین حق پر وار دی آخری دم تک رہا وہ خادم دین متین
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 324 خلافت کی اطاعت میں ہی پنہاں کامرانی ہے! مکرم سیدا در لیس احمد عاجز صاحب کرمانی خلافت کا ہے مقصد کیا؟ نہ دارائی نہ سلطانی ہے کرتی خدمتِ اسلام و ملت کی نگہبانی نبوت کی ضیا کو ہے بڑھاتی بزمِ امکاں میں نبوت قدرت اوّل خلافت قدرت ثانی اسی سے قائم و دائم ہے شوکت دین برحق کی اسی سے خرم و شاداب ہے رکشتِ امیں ہے یہ رسول اللہ کے ناموس عظمت کی مسلمانی به فخر و ناز کرتی ہے در نبوی کی دربانی یہ ضامن ہے نفاذ، شرع و احکام الہی کی به تائید خدا کرتی ہے یہ امت کی چوپانی یہ پھیلاتی جہاں میں روشنی قرآن کی ہر سُو خدا سے سیکھ کر شرح و بیانِ رمز فرقانی ہے وہ حبل المتیں کہ جس سے قائم وحدت ملت بفضل حق کرے یہ دُور اُمت کی پریشانی حصول سلطنت کی یہ نہیں رکھتی کبھی خواہش ہیں اس سے سیکھتے اہل خرد طرز جہانبانی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 325 بیان آدم و ابلیس میں یہ راز پنہاں ہے خلافت کے مزاحم ہوتی ہیں افواج شیطانی وہی ہستی نادیده خدائے قادر و غالب جو صحرا کو کرے گلشن ، بہارے سنگ سے پانی زباں کی مثل وہ رہتی تو ہے بتیس دانوں میں مگر رہتی ہے وہ قادر خُدا کی زیر نگرانی خلافت کی اطاعت میں ہی پنہاں کامرانی ہے شہادت دیتی ہیں اس بات کی آیات قرآنی ہیں بے حد اور بے اندازہ برکات و فیوض اس کے مطيعان خلافت پاتے ہیں انعام ربانی خلافت سے جو ٹکر لے وہ اپنا سر ہی پھوڑے گا تعجب ہے سمجھ رکھتے ہوئے ایسی بھی نادانی جلا دیتی ہے ساری کھیتیاں ارباب باطل کی عدوان محمد کے لئے ہے برق ربانی قلم کرتی شیاطیں کے سروں کو یہ بیک جنبش حقیقت میں خلافت ہے وہ تیغ تیز یزدانی رہے گی تا قیامت یہ فروزاں بزمِ عالم میں خدائے لم یزل اس کا محافظ جو ہے لاثانی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 326 مسیحائے زمان کے آج جو چوتھے خلیفہ ہیں غلام حضرت خیر الرسل محبوب سبحانی مثیل فاتح خیبر ، رموز حرب سے واقف ہیں غازی اور مجاہد شہسوار راه عرفانی الی نور کے پرتو سے تاباں ہے رخ روشن فروغ جلوہ سے ہے بند چشم ماہِ کنعانی حیات تازہ اس سے ملتی ہے اجسام مُردہ کو وہ فرحت بخش ہونٹوں کی تبسم ہائے پنہانی ہیں پنہاں اس کے دونوں بازوؤں میں قدرت باری شجاعت اور جرات میں نہیں ان کا کوئی ثانی ہے تیغ ذوالفقار حیدری اب ان کے ہاتھوں میں دلاور اور جری ہے مردِ میداں شیر ربانی وہ ہیبت اور وہ جبروت، رعب و داب کا عالم ہوئے مفرور سُن کر نام ہی غزل بیابانی بڑی گرز گراں کی ضرب کاری کاسئہ سر پر کہ جس کی کوفت سے ہیں چیختے افواج شیطانی اب انکے ہاتھ سے اقوامِ عالم پائیں گی برکت فرنگی ، ہندی و روسی و اسکیمو و جاپانی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 327 یہی ہیں وارث علم قرآن و حکمت نبوی تخجل ہوتے ہیں ان سے جن کو دعوائے ہمہ دانی زمانے کا کوئی سقراط و افلاطوں ، ارسطو ہو زباں کھولے تو ملتی ہے اسے یکسر پشیمانی بڑھے جب حد سے تو آجاتی ہے دنیا میں بربادی نشاط عقل کی سرمستیوں کی فتنہ سامانی زمانہ دے رہا ہے ہم کو یہ آواز اے ہمدم کہ تیزی سے قدم آگے بڑھے وہ راہ عرفانی اُدھر کو تا ہی ذوق عمل وجہ تباہی ہے ادھر رفعت کا باعث عزم اور ہمت کی جولانی کرو رفتار اپنی تیز تر دیں کی مساعی میں عمل پر زور دیتی ہے خلافت کی حدی خوانی بفضل ایزدی وہ دن قریب آتے ہیں اے ہمدم کہ ہو گی داخلِ اسلام ساری نسلِ انسانی نہ چھوٹے ہاتھ سے اے دوستو دامن خلافت کا خلافت ہی سے ہوتی ہے حصول لطف یزدانی یہ فیضِ خاص ہے عاجز بروز شاہِ مرداں کا مچائی دھوم دنیا میں تری طرزِ غزلخوانی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 328 خلافت مکرم مبارک احمد ظفر صاحب عطاء خاص سے ہم کو ملی نعمت خلافت کی سعادت ہے ہمیں حاصل خدا کی اس عنایت کی سنی ہے ہم نے خوشخبری خدا کے برگزیدہ سے ضمانت دی خدا نے آسماں سے خود حفاظت کی اب اس کے دور میں باطل شکست فاش کھائے گا نوشتوں میں شہادت بھی لکھی ہے اس قیادت کی پہنچ سکتا نہیں اب کوئی نقصاں حزب شیطاں.خدا نے ہی بناء رکھی ہوئی ہے اس عمارت کی خطا جائے گا ہر اک وار اس کے ہر مخالف کا ہمیشہ مونہہ کی کھائے گا کسی نے گر شرارت کی ذلیل وخوار ہو جائے گا وہ دونوں جہانوں میں ابھی سلسلہ کے ساتھ جس نے بھی بغاوت کی خدا کے ہاں وہی سب وارث انعام ٹھہریں گے جنہوں نے بھی دل و جاں سے خلافت کی اطاعت کی ظفر تو اک غلام احمد مختار ہی بن کر! امانت کی حفاظت گر، اطاعت کر امامت کی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 329 تری درگہ میں اے مولیٰ مری اک التجا یہ ہے دم آخر مجھے توفیق دینا استقامت مت کی نوٹ : 1983 کی مجلس مشاورت پاکستان کے اختتامی خطاب میں حضور نے جماعت کو خلافت کی حفاظت کی خوشخبری سنائی تھی ، یہ نظم اُس موقع پر کہی گئی.مکرم محمد افتخار احمد نسیم صاحب دین حق کی سر بلندی تیرا مقصودِ حیات تو نے سوچا ہی نہیں اپنا کبھی سود و زیاں نافلہ مہدی موعود اس کا جانشیں تا دم آخر رہا دین خدا کا پاسباں
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 330 میرا امام مکرم نسیم سیفی صاحب مجھ سے پوچھو ہے میرا کون امام کس نے مُجھ کو دیا ہے درسِ دوام یوں صبا نے بکھیر دی ہے مہک جیسے خوشبو نے خود کیا ہو خرام کونے کونے میں بات پہنچا دی قدرت ثانه ثانیہ کا دین و دنیا کا ہے اس میں آتے ہیں کیسے کیسے نام ہر مظہر ساری دُنیا کی زندگی کا پیام تعلق کیا اب نہیں اس میں کوئی بھی ابہام فوج در فوج لوگ آتے ہیں ہاتھ اٹھانا تو ظلم کی کیوں نہ آئیں یہ سب ہیں تشنہ کام ہے ریت ریت لیکن رہی ہے یہ ناکام
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 331 تھی تو ہلکی سی اک صدا لیکن مل گیا اس کو ایسا استحکام ایک سو ہمیں ملک ہیں ایسے جن میں سنتے ہیں اس کو خاص و عام زندگی بخش ہے نسیم یہ بات اس سے بڑھ کر ہو اور کیا انعام مکر مہامۃ الرشید بدر صاحبه تو ٹھنڈی گھنی چھاؤں سے لبریز شخص تھا سائے میں ترے دھوپ کا نہ لو کا اثر تھا ہر رنگ تیرا رنگ تھا ، ہر حسن تیرا حسن تو نازش گل ، تو نازش صد شمس و قمر تھا تو ابر تھا جو برسا سدا خشکی تری پر خالی تیرے اس فیض سے نہ بحر تھا نہ بر تھا
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 332 آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس ! مکرم عبید اللہ علیم صاحب نوروں نہلائے ہوئے، قامت گزار کے پاس! اک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس! اس کی ایک ایک نگہ دل پر پڑی ایسی کہ بس! عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لب اظہار کے پاس! یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے جتنے بھی بت تھے ہم خانہ پندار کے پاس! تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو آسماں کی ہے زباں، یار طرحدار کے پاس! یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے چل کے خود آئے مسیحا ، کسی بیمار کے پاس! یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسئہ دل یونہی لاتا رہے مولا ، ہمیں سرکار کے پاس! پھر اسے سایۂ دیوار نے اُٹھنے نہ دیا آکے اک بار جو بیٹھا ، تری دیوار کے پاس!
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 333 تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقول غالب خود بخود پہنچے ہے گل گوشتہ دستار کے پاس! تیرا سایہ رہے سر پر تو کسی حشر کی دھوپ سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہ گار کے پاس! مکرمہ رضیه در دعاطف صاحبه ابر باراں کی طرح برسا وہ کوہ و کاہ پر اُس کی شفقت اور عنایت تھی گدا و شاہ پر پاسباں تھا دینِ حق کا، وہ محبت کا امیں عہد جو باندھا تھا اُس نے قول سے ہارا نہیں زندگی عشق خدا عشق محمدؐ میں کئی خدمت قرآن بھی اس کو بہت محبوب تھی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 334 انتخاب خلافت مکرم عبدالمنان ناہید صاحب بیٹھے تھے ہم بھی عرش کی جانب جگہ کئے نالوں سے غم نوازئی شام و پگاہ کئے حمکین دیں ہوئی ، ہمیں تسکین دل ملی وہ شہریار ، شہر وفا جب بھی آگیا آنسو جو اپنی آنکھ سے ٹیکے گواہ کئے اہلِ وفا نے دیدہ و دل فرش راہ کئے بیکار آپ نے کئی دفتر کئے دو بول اُس کے تھے جو دلوں میں اُتر گئے چلتے ہیں کس کی شمہ پہ ہر اک شے سے بے نیاز ناہید سے فقیر بھی یوں کج کلاہ کئے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 335 برکات خلافت مکرم سعید احمد صاحب وابستہ خلافت سے نیا عزم نیا ذوق وابستہ خلافت وابسته خلافت سے نیا جوش مہمات سے نیا معرکہ حق وابستہ خلافت سے وابسته خلافت سے نیا جذبہ تعمیر مسلماں کی فتوحات وابستہ خلافت سے نئے ارض و سماوات وابستہ خلافت سے ہیں مومن کے شب و روز وابستہ خلافت سے ہیں مومن کے مقامات وابستہ خلافت سے ہے اسلام کی شوکت اک زندہ حقیقت ہے یہی زیر سماوات مشرق میں ہوئے صبح کے آثار ہویدا ملتے ہوئے آنکھوں کو اُٹھے خاک کے ذرات مغرب سے اُبھرنے لگا اسلام کا سورج روشن ہوئے اس نور سے افریقہ کے ظلمات
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 336 نور نہیں کوئی بجز نور محمد اُٹھنے لگے دنیا کی نگاہوں سے حجابات سلطانی و درویشی و غمخواری و جبروت وابستہ خلافت سے مسلماں کے کمالات تسکین ترے دل کی ترے درد کا درماں سقراط کے مضموں نہ فلاطوں کے مقالات وابستہ خلافت سے تری روح کی راحت وابستہ خلافت سے ترے دل کی مرادات جو لفظ نکلتا ہے خلیفہ کی زباں سے اُس لفظ میں پوشیدہ ہیں اللہ کی آیات تنظیم خلافت سے ہے محکم تیری ہستی مربوط خلافت سے تری عمر کے لمحات انوار نبوت کا خلافت ނ تسلسل مرات به مرات آئینه به آئینه و مرات اے دوست ترے دل میں غم عشق نہیں ہے کیونکر تجھے سمجھاؤں خلافت کے مقامات
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 337 خلافت ہے سراسر مہبطِ الطاف ربانی مکرم میر اللہ بخش تسنیم صاحہ خلافت نے کیا کونین کا مقصود آدم کو خلافت نے فرشتوں کا کیا مسجود آدم کو خدا کا ہاتھ ہوتا ہے خلافت کے ارادوں میں مرادیں حق کی شامل ہیں خلافت کی مرادوں میں خلافت شہپر پرواز آدم کی توانائی ہے ید بیضا خلافت خلافت ناتوانوں کی توانائی کا سرمایہ ، خلافت ہے مسیحائی خلافت سے غریبوں پر خدا کے فضل کا سایہ خلافت سے میسر دین کو تمکین ہوتی ہے خلافت میں سراسر قوت تکوین ہوتی خلافت مرکز پر کار جوش کامرانی ہے خلافت کیا ہے ، اکسیر حیات جاودانی خلافت ہے دلیل ایمان کی اور نیکو کاری کی ہے ہے خلافت ہے دلیل است یہ لطف و فصل باری کی خلافت میں نہاں رازِ دوامِ شاد کامی ہے فدا ہے حریت جس پر خلافت کی غلامی ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 338 خلافت سے عبادت زندگی کا نور پاتی ہے نشاط جانفروز جلوہ ہائے طور پاتی ہے خلافت عصمت صغریٰ عطا کرتی ہے ملت کو ہلاکت سے مصیبت سے بچا لیتی ہے اُمت کو خلافت کے وسیلے سے جہاں زیر نگیں کر لو جہاں کا ذکر کیا کون و مکاں زیر نگیں کر لو خلافت ہی بالفاظ دگر ہے قدرت ثانی جہاں کی بزم میں آئینہ دار شان رحمانی ہیں پھل مخل خلافت کے ، جہانگیری ، جہانبانی خلافت ہے سراسر مهبط الطاف ربانی خلافت سے اشاعت حق کی دُنیا کے کناروں تک صداقت پھیلتی ہے ریگ زاروں کہساروں تک خلافت مذہب اسلام میں موعود ربانی بغیر اس کے پنپ سکتی نہیں شاخ مسلمانی خلافت شاہبازوں سے ممولوں کو لڑاتی ہے یہی آئین فطرت ہے خلافت غالب آتی ہے خلافت سے شعور قوم کو تابندگی حاصل اسی کے فیض سے تنظیم کو ہے زندگی حاصل
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 339 خلافت ضامن امن حقیقی، خوف سے خالی ای سے وحدت باری کی پاتی ہے نمو ڈالی خلافت سے خزف ریزے بہا پاتے ہیں گوہر کی چمک ذروں میں ہوتی ہے نمایاں مہر انور کی حصارِ عافیت ہے خیر و خوبی کا خزانہ ہے خلافت سے جدا ہونا شعار فاسقانہ ہے محترمہ سیدہ منیره ظهور صاحبہ طاہر تو ایک جہدِ مسلسل کا نام ہے طاہر تو ایک جذبہ کامل کا نام ہے پارس ہے جس کے ہاتھ سے پتھر ہو کیمیا طاہر تو ایسے جوہرِ قابل کا نام ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 340 پیاری احمدیت خلافت احمدیہ مکرم آصف محمود با سط صاحب کی زمانے کے لئے رشد و نه خلافت ہدایت اس جہاں میں خدا نے نور یں کو دی نیابت کی روا تھا خدایا اس په تیری تیری لاکھ رحمت لیا جو نور دیں نور حق خدا نے گیا وہ جو تو دے بلایا محمود بخشا شرافت آیا ناصر بلاوا لایا ساتھ اللہ کی عنایت ہمارا کہا ہم صورت کچھ اللہ کی رحمت اس کی اطاعت طاقتی بنایا ند تھا جار تارے خدایا ان تیری رحمت
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمد الشد تعالی 341 برکات خلافت مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب، اوسلو ناروے اک نعمت عظمیٰ ہے یہ انعام خلافت خوش بخت ہیں وہ لوگ ملے جن کو یہ نعمت ماضی میں جو اسلام کو حاصل ہوئی شوکت وہ عظمت و سطوت تھی خلافت کی بدولت بھول گئے نعمت عظمیٰ کو مسلماں جاتی رہی پھر ہاتھ سے قوموں کی سیادت سے صد گرنے لگے ادبار کے شعلوں میں مسلماں ہر قدم پہ پھر ملنے لگی اُن کو ذلالت ر شکر کہ پھر مہدی دوراں کی بدولت مولیٰ نے ہمیں کی ہے عطا پھر سے خلافت چلنے لگی توحید کی پھر ٹھنڈی ہوائیں پیدا ہوئی ہر قوم میں توحید کی اُلفت ہر ملک ہوا نُورِ خلافت سے منور تثلیث کے ایوانوں کی ہلنے لگی چوکھٹ اب حضرت طاہر جو خلیفہ ہیں ہمارے لمحہ ہمیں اُن کی میسر ہے قیادت ہر
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 342 عاشق ہیں وہ مولیٰ کے محمد پہ فدا ہیں قرآں کے معارف کی وہ پھیلاتے ہیں برکت سایہ رہے مومن خلافت کا ہمیشہ دنیا میں سدا جلتی رہے شمع خلافت مکرم منصور احمد صاحب ٹی.ٹی چپکا وہ آسمان خلافت پہ اس طرح دنیائے بحر و بر پہ وہ احسان کر گیا راز نہاں وہ اپنی بصیرت سے کھول کر عالم کو دیکھو صاحب عرفان کر گیا عاشق رسول کا تھا وہ خادم مسیح کا ہر لمحہ اپنی زیست کا قربان کر گیا
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 343 خلافت سے عقیدت مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ شجر سے جو رہے وابستہ وہ پھلدار ہو جائے جو کٹ کر گر گیا بے دست و پا بیکار ہو جائے! خلافت سے عقیدت کی جو رسم و راہ رکھتا ہے نہیں ممکن وہ خالی ہاتھ یا نادار ہو جائے! ہے محبت میں خدا کی پھر وہ آگے بڑھتا رہتا ہو ننگے پاؤں اور پیوست نوک خار ہو جائے! اسے اندیشہ سود و زیاں باقی نہیں رہتا کوئی گردن کٹا دے ، یا کوئی سنگسار ہو جائے ! خزائن علم روحانی کے اس کو بخشے جاتے ہیں وہ تابنده، درخشنده ، بلند افکار ہو جائے! نہیں تنہا، خلافت کا جو دامن تھامے رہتا ہے یقیں رکھو خدا خود اس کا یارِ غار ہو جائے! نہیں کچھ دخل اس میں زورِ بازو یا ارادت کا سعادت حق سے پاکر دل فدائے یار ہو جائے! خلافت کی محبت نے دلوں کو یوں جلا بخشی که صیقل خود بخود جیسے کوئی تلوار ہو جائے!
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 344 سنجل کر مسکرا کر، راہ حق میں رکھ قدم اے دل سنجل یوں جیسے دیوانہ کوئی ہوشیار ہو جائے! بہر جانب مجھے تو دعوتِ حق آج دینا ہے نہیں پرواہ مری ہستی ذلیل و خوار ہو جائے! سنجل اے دل دعائیں کر ابھی کچھ دور ہے منزل یہ ہو سکتا ہے کوئی نا گہانی وار ہو جائے! الہی مجھ کو وابستہ شجر سے حشر تک رکھنا شجر پھولے پھلے اور خوب سایہ دار ہو جائے! مرے دامن میں ڈھیروں پھول برکات خلافت کے یہ وہ دامن نہیں الجھے، الجھ کر تار ہو جائے! کوئی سجدوں میں گر کر رو رہا ہے گڑ گڑاتا ہے خدایا آدمی کو آدمی سے پیار ہو جائے! ہے بہت طوفان ہے، یہ کشتی نوح کا کھویا خدایا احمدیت کا سفینہ پار ہو جائے! بچایا جائے گا وہ جو بھی اس کشتی میں آئے گا جسے ہمراہ چلنا ہو، ابھی تیار ہو جائے! جو ہم کو آزماتے، طنز کے نشتر چھوتے ہیں ہماری خامشی ان کے لئے گفتار ہو جائے!
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 345 بہار احمدیت کو خزاں سے دور سے دور رکھ یارب الی صحن احمد پھر گل و گلزار ہو جائے! جو پتھر مارنے آئے تھے اب ہمراہ چلتے ہیں تعجب! اتنی الجھی راہ یوں ہموار ہو جائے! ترا حسن تکلم دیکھ کر دل سے دعا نکلی ہر اک خادم خدایا تجھ سا خوش گفتار ہو جائے! نچھاور تجھ پہ اے آقا عقیدت کے یہ چند آنسو خوشا اے دل خلوص و جذب کا اظہار ہو جائے ! مکرم عبید اللہ علیم صاحب بس ایک لو میں اسی لو کے گرد گھومتے ہیں جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہمارے لئے وہ نور نور دمکتا ہوا سا اک چہرہ دہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے وہ
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 346 ایک پودا تناور شجر بن گیا مکرم جمیل الرحمن صاحب،ھالینڈ آندھی اٹھتی رہی ، برق گرتی رہی، جہل کی گود میں فتنے پلتے رہے ایک پودا تناور شجر بن گیا، بے بسی سے عدو ہاتھ ملتے رہے تنگ ہم پہ اگر چہ ہوئی یہ ز میں ایک سے ان گنت ہم ہوئے کہ نہیں تم خدا لگتی کہنا ہماری نہیں ہم تو دیوانے تھے دھن میں چلتے رہے اس سے پہلے کہ ہو جائیں آنکھیں لہو سجدہ گہر سے صدا آئی لَا تَقْنَطُوا خیمہ زن تیرگی ہے وہی کو بکو کو کچھ سے جس کی سورج نکلتے رہے وقت کے رنگ پھر کیا سے کیا ہو گئے سارے نمبر و دو فرعوں ہوا ہو گئے سطوت کجکلا ہی ملی خاک میں اور دیئے ہم فقیروں کے جلتے رہے نصرت حق سے منزل پہ ہیں دیدہ ور ، سہل ورنہ نہ تھا اک صدی کا سفر ان گنت قافلے گرد میں کھو گئے ان گنت راستے ہی بدلتے رہے حسن پجہتی ، صبر و وفا، ارتقاء ، سب نظام خلافت سے ممکن ہوا منکرین خلافت سے پوچھو ذرا کیسے شمس و قمر اُن پر ڈھلتے رہے ہم خداوند! کے ، وہ ہمارا ہوا، جو دیا جھولیاں بھر کے اس نے دیا حمد واجب ہے اس کی جمیل اور کیا قلب و جاں جس کی خاطر پگھلتے رہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 347 ہمارا خلافت خلافت مکرم میر اللہ بخش صاحب تسنیم ، تلونڈی را ہوالی ایمان ہے ملت کی تنظیم کی جان ہے اسی سے ہر اک مشکل آسان ہے گریزاں ہے اس سے جو نادان ہے ہیں دانا تو سو جاں سے اس پر شار رہیں گے خلافت سے وابستہ ہم ! بھرم! جماعت کا قائم ہے اس سے ہو گا بھی اپنا اخلاص کم! بڑھے گا اسی ނ ہمارا قدم! خلافت ہے اک عافیت کا حصار خلافت نگیں ہو جہاں خلافت ملت ہمیشہ جواں خلافت اسلام ہے کامراں خلافت کا اونچا ہے ہر دم نشاں خلافت کی ہیں برکتیں ہے شمار
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 348 تک رہے گا قیام خلافت کا جب نہ کمزور ہو گا ہمارا نظام خلافت کا جس کو نہیں احترام زمانے میں ہو گا نہ وہ شاد کام خلافت لطف خلافت سے ہی ہوں گے ہم کامگار خدا ہمعناں کی جاں خلافت تو احمدیت کی ہے تمنائیں اس سے ہیں سے ہیں اپنی جواں ہے آسان اس سے ہر اک امتحاں اسی سے جماعت ہے دائم بہار سے زندہ دلوں میں خدا خلافت خلافت غریبوں کا ہے آسرا حامی ہے پروردگار آبرو نہ کیوں جان و دل سے ہو اس پر فدا اسی کے ہے دم سے ہماری بقا خلافت ہے اپنی خلافت کا ہے دھاک اپنی بیٹھی ہوئی چار سو بغیر اس کے باقی رہوں میں نہ تو ہے گرم اپنا خلافت اسی ہیں ہوشیار
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی 349 یاد تیری ہمدم شام و سحر ہے آج بھی مکرم جنرل ڈاکٹر محمودالحسن صاحب نظیم ' صنعت توشیح میں ہے جس کے ہر شعر کے مصرع اولیٰ کا حرفِ اول لینے سے ممدوح کا نام یعنی مرزا طاہر احمد برآمد ہوتا ہے.م منبع علم و عمل اور پیکر صدق و صفا ذات پر تیری رہا ہر آن فیضانِ خدا ر روشنی علم و عمل کی تیرگی میں ، تجھ سے تھی عزم و استقلال کا پیکر تھی تیری زندگی ز زندگی جہد مسلسل سے عبارت تھی تری معترف خُلق و مروت کے ہیں تیرے غیر بھی ا آدمی کو آدمیت آشنا تو نے کیا آشتی کا آندھیوں میں کر دیا روشن دیا ط طاہر و محمود تیری ہر ادا ہر بات تھی مربع خلق خدائے پاک تیری ذات تھی ا آشنا رمز حقیقت سے کیا تو نے ہمیں گامزن راہِ وفا پر کر دیا تو نے ہمیں
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 350 ہ ہو گئی اندھیر دُنیا تو جدا جس دم ہوا اشکبار آنکھیں ہوئیں اور دل ہمارا بجھ گیا ر رو رہے ہیں تیرے شیدائی جدائی میں تری چ تو یہ ہے ہو گئی بے کیف اپنی زندگی ا آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے سبزه نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے ح حسن عالم تاب تیرا جلوہ گر ہے آج بھی یاد تیری ہمدم شام و سحر ہے آج بھی م میرے طاہر اگلر سے تو بر سر پیکار تھا تیرا دم اعدائے ملت کے لئے تلوار تھا دردِ دل سے اب ترے محمود کی ہے یہ دُعا تیرے مرقد پر کرے نازل خدا رحمت سدا
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 351 یہ تم نے کیا کیا جاناں ! یہ تم نہ کیا کیا جاناں ! صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ تم نے کیا کیا جاناں! ابھی تو لوٹ کر آنے کا وعدہ بھی نبھانا تھا ابھی تو شہر کی گلیوں میں بھی پھر نا پھرانا تھا ابھی تو اپنی بستی کے گلی کوچے سجانا تھا ابھی تو ہجر کے ماروں کو بھی ڈھارس بندھانا تھا ابھی تو شعر کہنے تھے ابھی تو گنگنانا تھا ابھی تو آنسوؤں کے ساتھ ہم نے مسکرانا تھا ابھی تو مل کے ہم نے پیار کے نغمات گانے تھے ابھی تو دل کے سارے داغ بھی تم کو دکھانے تھے جو مثل ریگ ہاتھوں سے ہیں نکلے کیا زمانے تھے یہ تم نہ کیا کیا جا ناں! یہ تم نے کیا کیا جاناں!
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 352 ابھی تو روبرو ہم نے ملاقاتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو تم سے دل کی کتنی ہی باتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو ناز اٹھوانے، مداراتیں بھی کرنی تھیں ابھی اہلِ وفا نے نذر سوغاتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو میری جاں ہم کو دعاؤں کی ضرورت تھی ابھی تو دان تم نے ہم کو خیراتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو تشنگی دل کی مرے بجھنے نہ پائی تھی ابھی تو تو پیار کی کچھ اور برساتیں بھی کرنی تھیں تھے اس بستی کے باسی منتظر کہ چاند نکلے گا منور نور سے ہم نے سیاہ راتیں بھی کرنی تھیں ابھی تو چاندنی کو میرے آنگن میں اترنا تھا یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ تم نے کیا کیا جاناں! یہ میری اور تمہاری پیاری بستی ، زنده دل بستی کہ جس کے تم بھی شیدائی تھے جس کی میں بھی شیدا ہوں اچانک ہی خبر ایسی سنی کہ ایسے لگتا کہ جیسے کوئی سایہ ہو گیا ہو یا کوئی جادو ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 353 اثر سے جس کے ہر ذی روح پتھر بن کے رہ جا.جائے اگر تم دیکھ لیتے حال اس دم اپنی بستی کا تو کتنے دل گرفتہ کس قدر دلگیر ہو جاتے مرے آنسو تمہارے پاؤں کی زنجیر ہو جاتے اے کاش ! ایسا ہی ہو جاتا! اے کاش ! ایسا بھی ہو سکتا! نہ بازاروں میں سڑکوں پہ کوئی رونق نہ ہنگامہ اک سو ہو کا عالم اور سناٹا سا طاری تھا فسردہ صبحیں ، غمگیں شامیں اور سہمی ہوئی راتیں تھیں بس سر گوشیوں میں ہولے ہولے کرب کی باتیں فقط بس سسکیوں کی سرسراہٹ تھی فضاؤں میں اداسی رچ گئی تھی میری بستی کی فضاؤں میں ہر یکا یک دی ندا ہاتف نے ہلچل سی ہوئی پیدا لی اس بستی نے انگڑائی دریچہ دل کا بھی کھولا خدا کے فضل کا سایہ ، خدا کے پیار کا جلوہ
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 354 سبھی اہل وفا کو اہل بینش کو نظر آیا افق یہ روشنی ابھری ، ستارہ ایک پھر چپکا اُجالے کی کرن نے ہر اندھیرا ختم کر ڈالا ہر اک مضطر کے دل پر اک سکینت سی ہوئی طاری ہر اک کے لب پہ کلمہ ہائے حمد و شکر تھے جاری خدا دارم چه غم دارم خدا داری چه غم داری مگر میں کیا کروں جاناں مجھے تم یاد آتے ہو تمہارے ساتھ کتنے چہرے یادوں میں چلے آئے وہ اُجلے چاند چہرے! سوچ کر ہی جن کو میرے دل کی نگری میں اُجالا ہو چراغاں ہی، چراغاں ہو! مری جاں میں کبھی تم کو نہ ہر گز بھول پاؤں گی میں پھر اک بار اپنے عہد کی تجدید کرتی ہوں جو میں نے تم سے باندھا تھا نہ وہ نہ وہ پیمان توڑوں گی میں محبوب حقیقی کا کبھی دامن نہ چھوڑوں گی
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 355 میں اُس کی قدرتِ ثانی سے ہرگز منہ نہ موڑوں گی خدا توفیق دے مجھ کو ! خدا توفیق دے مجھے کو ! میں آنے والے کے ہر حکم پر سر کو جھکاؤں گی وفاؤں کے دیئے ہر گام پہ پل پل جلاؤں گی یہ میرا تم سے وعدہ تھا یہ میرا تم سے وعدہ ہے! مکرمہ نصرت تنویر صاحبه وہ ترے دل میں رہے پیار کی دھڑکن کی طرح جتنے معصوم کہ پابند سلاسل ٹھہرے کتنا تھا درد ترے دل میں یتامی کے لئے بے زباں بیٹیوں کا آپ ہی آنچل ٹھہرے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 356 خلافت اور اُس کا پس منظر مکرمہ شاکرہ صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ لطف الرحمن صاحب، لاہور خواب میں تھا ہر طلبگار مسیحائے زَمن ہو گئے کفر و ضلالت چار جانب خیمه زن تیر برسے ہر طرف سے سینۂ اسلام پر طائرِ ایماں اُڑا تھا چرخ نیلی فام پر لوگ خود اپنی خوشی سے پھنس رہے تھے جال میں بدلیاں چھائی ہوئی تھیں تھی کچھ ایسی دلفریبی فتنہ دجال میں مہر عالمتا.روشنی تھی آمد مہتاب پر دفعہ بدلا ہوا کا رُخ ، گھٹا چھٹنے لگی آسماں کی دولت تنویر اب بٹنے لگی بعد مدت مطلع اسلام پر نکلا تھا چاند اُس کے آگے حُسن تاروں کا پڑا جاتا تھا ماند کی ضیا پاشی تو ذروں کو بنایا اس نے طور وادئ ظلمت کے پہلو سے نکل آیا تھا نُور قوتِ قُدسی سے دھویا اس نے ہر الزام کو اور ! چمکایا، محمد مصطفیٰ کے نام کو
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 357 خم ریزی سے جماعت کی ہؤا وہ شاد کام ڈھونڈتے پھرتے تھے تارے چھپ گیا ماہ تمام چھپ گیا جب چاند بعد اس کے خلافت آگئی یعنی پھر فضل خدا سے نیک ساعت آگئی شاہدانِ با صفا ، تاج خلافت کے گہر جاں ہتھیلی پر لئے پھرتے ہیں، بے خوف وخطر پھر خلافت کی قیادت میں ہوئے جاری مشن لشکر شیطان کی تیاریوں پر خنده زن ہے خلافت میں اطاعت دیں کا استحکام ہے! ہے یہی وعدہ خدا کا اور یہی انعام ہے آج بھی مغرب کی ہر وادی میں گونجی ہے اذاں عہد حاضر پر ہوا ہے ، عہد رفتہ کا گماں آج بھی سیل رواں رو کے سے رُک سکتا نہیں سُورج اپنی سر زمیں پر اب کبھی چھپتا نہیں اہل دنیا کی ترقی سے بڑھا ظلم و عناد آتی ہے تلاش امن لیکن ، بحرو بر میں ہے فساد ہے قصر خلافت سے ندا یہ بار بار ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 358 اب تجھے ڈھونڈا کریں گے حشر تک ، لیل و نہار مکرم مبارک احمد عابد صاحب پہلے ہی ہم ہجر کے مارے تھے از حد بے قرار اب تو پریم چل دیا پردیس سے بھی دور پار افتخار بزم تھا تو عزم میں کوہ وقار اب تجھے ڈھونڈا کریں گے حشر تک لیل و نہار تو ہمارے پاس تھا پر آج پردیسی ہوا اب کہاں پائیں گے ہم ابرِ بہاراں کی پھوار سو گیا چپ چاپ تو اے بلبل شیریں نوا پھرتے ہیں گلیوں میں دیوانے ترے پروانہ وار ایک سناٹا سا ہے سارے گلستاں پر محیط ہر کسی کا دل دکھی ہے اور آنکھیں اشکبار حرف گویا تیرے ہونٹوں پر مہکتے پھول تھے حسن جادو اثر تھا لفظ در شہوار ہر آئینوں میں عکس و آہنگ ہیں تیرے جلوہ پذیر یہ تری یادوں کا ہے شہر عجائب زر نگار کون سا دل ہے کہ ہے جو تیری چاہت سے تہی کون سا گھر ہے جہاں چھلکا نہیں ہے تیرا پیار
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی 359 کون ہے جس نے نہ پایا تجھ سے فیضانِ دُعا کون ہے جس پر کرم تیرا ہوا نہ بار بار کس کو بتلائے کہ کتنا بے سہارا ہو گیا یہ ترا عابد ترا عاشق ترا خدمت گزار جب زیادہ ہی دکھے تو دل کو سمجھاتے ہیں ہم یہ ہمارا تو نہیں قادر کا ہے سب کاروبار آئی پہلے بھی ہم نے جہاں زیر زمیں رکھے ہیں چاند پھر وہیں اُگتی ہے دیکھی کہکشاؤں کی قطار باغ احمد میں کھلا پھر اک تروتازہ گلاب ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار آنے والے فضل رب سے تو سدا مسرور ہو جانے والے تجھ پہ اس کی رحمتیں ہوں بے شمار
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 360 ترے جانے کے بعد ! مکرم عبدالمنان ناہید صاحب شہر ہے اک درد کا منظر، ترے جانے کے بعد! میں بھی آیا ہوں بچشم تر ، ترے جانے کے بعد! جانتا بھی تھا کہ تجھ سے مل نہ پاؤں گا مگر پھر بھی آیا ہوں ترے در پر ترے جانے کے بعد! مرے پرواز کی طاقت نہیں کٹ گیا ہے شعر کا شہپر ترے جانے کے بعد! تخیل میں مر.وہ تری خاک لحد اور وہ ہجوم عاشقاں تھا بڑا دلدوز یہ منظر، ترے جانے کے بعد ! ان دلوں کی کیفیت ہو بھی تو ہو کیسے بیاں جی رہے ہیں جو تو مر مر کر ترے جانے کے بعد ! تو نے کیا دیکھا ہے یوں ہو کر سر محفل خموش ہم نے تو دیکھا ہے اک محشر ترے جانے کے بعد ! میکدہ پر ہے ترے اب بھی ہجوم میکشاں ہے لبالب ہی ترا ساغر، ترے جانے کے بعد! دشت غم میں قافلہ پریشاں تھا بہت دے دیا اللہ نے اک رہبر ، ترے جانے کے بعد !
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 361 تو کہ اک تابندہ مظہر قدرتِ ثانی کا تھا مل گیا ہے اک نیا مظہر ترے جانے کے بعد شي محترمہ امتہ القدیر ارشاد صاحبه محمد ، مثیل مسیحا مٹانے مفاسد زمانے کے آیا ہوئی اُس کے آنے سے کافور ظلمت وہی آج بدر الدجی بن کے آیا خلافت کی بنیاد رکھی دوبارہ ہوا جس سے اسلام کا بول بالا خلافت سے قائم ہوئی دیں کی عظمت خلافت سے وابستہ غلبہ ہمارا
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم الله تعالی 362 مائدے جتنے ثریا سے اتارے، دے گیا! مکرم جمیل الرحمن صاحب، ہالینڈ چشم بینا کے لئے کیا کیا نظارے ، دے گیا ! اس کے دامن میں تھے جتنے پھول سارے، دے گیا! آنسوؤں سے کر رہی ہے ہر نظر دل کا حساب کیسے کیسے وہ سبھی کو گوشوارے ، دے گیا ! میں وہ خوش قسمت کہ جس کا ہم زبان و ہم سخن اپنی یادوں کے خزانے ڈھیر سارے، دے گیا! منتشر ذہنوں کو یکسو کر گئی اُس کی صدا ہر بھٹکتی ناؤ کو سمت و کنارے ، دے گیا ! مفلسوں کو زندگی میں سر چھپانے کے لئے وہ بیوت الحمد کے تحفے نیارے ، دے گیا! ریڈیائی لہر کے تخت رواں پر جلوہ گر مائدے جتنے ثریا سے اتارے ، دے گیا ! ނ علم کی ہر یک گرہ کو ناخن دانائی اس طرح کھولا سمجھنے کے اشارے ، دے گیا ! سلک جاں ٹوٹی تو دیکھا دیکھنے والوں نے پھر آفتاب اپنے عوض کتنے ستارے ، دے گیا !
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 363 یار طرحدار کی باتیں مکرم انور ندیم علوی صاحب آ ! پھر سے کریں یار طرحدار کی باتیں مہکتے ہوئے گلزار کی باتیں خوشبو سے خوابوں میں جو آتا ہے ، خیالوں میں رچا ہے جو دل میں بسا ہے اُسی دلدار کی باتیں ہر تیر ستم اپنے ہی سینے پہ جو روکے جو ڈھال ہے مظلوم کی اس یار کی باتیں یہ درد کی سوغات ، عطا ہے تری مولا! ہر غم کا مداوا ترے دلدار کی باتیں سب صبر کے انداز ہمیں اس نے سکھائے ہے غمخوار کی باتیں بھلا سکتا دل کیسے بھلا نفرت نہیں انسان سے دستور ہمارا دنیا میں کرو سب فقط پیار کی باتیں چھین مرے ہاتھ سے تو تیغ قلم کو اب چھوڑ دے اے شیخ! یہ تلوار کی باتیں
حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحم الله تعالی 364 اللہ نے ہے خوف کو پھر امن میں بدلا محتر مہ طیبہ رضوان صاحبہ، ناروے یہ کس کی جدائی ہے زمیں کانپ گئی ہے وہ مردِ خدا ، مردِ خدا ، مردِ وہ خدا ہے مظہر رابع تیری قدرت کا تھا مولیٰ جو درد کے ماروں سے جُدا ہو کے گیا ہے محبوب تھا ، دلدار تھا ، ستار تھا سب کا ہر سینے میں روشن اسی اُلفت کا دیا ہے ہر لمحہ رہا دین کی خدمت میں ہی وہ وقف علموں کا خزانہ بھی وہ اک چھوڑ گیا ہے راضی تھا خدا سے تو ، خدا اُس سے تھا راضی واللہ وہ اس کے بلاوے پہ گیا ہے اب تو ہی بتا کیسے کہیں درد جدائی یہ غم تری فرقت کا تو ، ہر غم سے سوا ہے دل زخمی ہے اور اشک بھی تھمتے نہیں لیکن راضی ہیں اسی میں کہ جو مولیٰ کی رضا ہے یادیں تیری سینے سے مٹائے نہ مٹیں گی بھر دے اسے مولیٰ ! میرے دل میں جو خلا ہے
حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 365 اللہ نے ہے مسرور ہے خوف کو پھر امن میں بدلا بخشا ہمیں مسرور کیا ہے ہاں وعدہ تمکین ، بھی ہوتا رہے پورا ہر عاشق صادق کی یہ دن رات دُعا ہے مکرم ضیا ء اللہ مبشر صاحب نور ہی نور برستا تھا زباں سے تیری تیرے لفظوں کی زمانے میں ضیاء باقی ہے تیری باتیں ، تیرے خطبے ، وہ مجالس تیری جانے والے تیری یادوں کی کتھا باقی ہے تو نے ہر دل میں اتر کر ہے محبت بانٹی دل میں ہر دم تری چاہت کا مزا باقی ہے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 366 اک نور سا چہرہ جب مٹی میں سلا آئے مکرمہ امتہ الرفیق ظفر صاحبہ، کینیڈا اُٹھتا ہے دھواں دل سے جب یاد تری آئے آنکھوں سے بہیں آنسو، دل درد سے بھر آئے یادوں کے دیئے روشن ہیں ذہن کی چوکھٹ پر اک ٹور کے سانچے میں جب چہرہ وہ ڈھل جائے اے جانِ بہاراں تو ، اس باغ کی رونق تھا ہر پتہ ہے افسردہ اور پھول ہیں کملائے خوشبوتری ایم ٹی اے ہر گھر میں بکھیرے ہے ، چاند سا چہرہ جب آنگن میں اتر آئے وہ اک نُور کا منبع تھا ، اک پیار کا ساگر تھا بھر لیتے تھے جام اپنے ہر روز گئے آئے تو عزم کا جوہر تھا ہمت تھی جواں تیری دشمن کے مقابل پر تو جان بھی وار آئے اے نُورِ ہدایت تُو ، دریائے خطابت تھا جب پھول جھڑیں منہ سے منبر کو بھی پیار آئے - طاہر تھا ، مطہر تھا ، سرتا پا مُبارک تھا ملتا ہے سکوں دل کو جب نام ترا آئے
حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی 367 اک فیض کا چشمہ تھا اس دور ضلالت میں پیغام محبت کا ہر سمت سُنا آئے ہر آنکھ تڑپ اُٹھی بے قابو ہوا ہر دل اک نور سا چہرہ جب مٹی میں سلا آئے آنا بھی مبارک تھا، جانا بھی تھا شاہانہ لشکر بھی فرشتوں کے لوگوں کے سوا آئے اک نُور سا اُبھرا ہے خوشیوں کا سویرا ہے دے دل کو تسلی اب ، نہ خوف بلا آئے مسرور کی آمد ہے ، رحمت کا اُجالا ہے اک صبح یقیں پھر سے ، اے میرے خدا آئے خلافت کی ردا اوڑھے اب نصرتِ حق آئی پھر عرش سے ٹکرا کر مضطر کی دُعا آئے
حضرت طليق الست انا ما ا د الله تعالیٰ بنصرہ العزیز 368 خلافت خامسه
حضرت خلیفة الحي الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 369 خوشبو کا تسلسل مکرم صابر ظفر صاحب میں نے جو اس دلِ مسرور کی بیعت کی ہے سلسلہ وار تعلق کی اطاعت کی ہے ہے خدا ہی کی جلائی ہوئی بے شک دیکھو اتنی ضو بار جو یہ شمع صداقت کی کیوں نہ میں حشر تلک اس کے ہی رنگوں میں رہوں یہ جو تصویر ابد تاب ہدایت کی ہے ہے خود بخود کھلتا چلا جائے گا احوال مرا مجھے کہنا نہ پڑے گا کہ محبت کی ہے حکمراں کتنے ہی آتے ہیں چلے جاتے ہیں بات ساری تو فقط دل پہ حکومت کی ہے اس کی خوشبو کا تسلسل تو رہے گا دائم وہ جو مٹی کے سپرد ایک امانت کی ہے آرزو ہے کہ ظفر ہو وہ کسی طور قبول میں نے جو پیش ، بصد ناز ، شہادت کی ہے
حضرت خلیفة الحي الخامس ایدہ اللہتعالی بنصرہ العزیز 370 مقام خلافت مکرم عبدالمنان ناہید صاحب خلافت ہتر بشریت کا ہے ازل سے وقار آدمیت کا ہے وہی ہو ایمان کے ساتھ صالح عمل تو اللہ کا وعدہ خلافت کا خلافت کا ہے ہے اللہ کی دین ہے حق نے صلہ کوئی خدمت کا ہے ملتی ہیں کام جسے چاہیے پہنائے اللہ اسے وہ مالک خلافت کی خلعت کا ہے چالاک سے الہی مشیت کا ہے خلافت ہے عالی مقام خلافت تو مقام خلافت قدرت نبوت کا ہے ثانیه تسلسل نبوت کی قدرت کا ہے ނ قدم اس آگے نہ رکھیں کبھی کہ اگلا قدم بھی امامت کا ہے
حضرت خلیفہ مسیح انام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 371 یہ لازم ہے حد ادب میں رہیں یہی ایک تقاضا اطاعت کا ہے ہمیں حکم ہے اُسجدوا اور بس که انکار شیوه شقاوت کا خلافت تو اس دور کی آن ہے دور، دور احمدیت کا ہے ہے نعمت تو جاری رہے گی سدا ہے یہ وقت آج تحدیث نعمت کا کیا کہہ دیا ایک نادان نے جو قول اس کا باعث اذیت کا ہے ہم اس کی محبت وہ دور خلافت ہے مسرور کا وہ مہبط خدا کی عنایت کا ہے سے مسرور ہیں محبت کا مرکز ہماری ابھی ہے رواں کارواں یکجہت ہے یہ اعجاز اس کی قیادت کا ہے ہمیں اس سے نسبت غلامی کی ہے ناہید رشته ارادت کا ہے
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہتعالی بنصرہ العزیز 372 یہ محبت کہاں سے آئی تھی؟ مکرم عبدالمنان ناہید صاحب قدرت ثانیه کا اک مظہر رخصت ہوا مل کر محبت ترجماں ہر آنکھ ہر محبت تھی آنسوؤں محبت کہاں آئی تھی؟ خلافت کی جلوہ آرائی شوق کی پذیرائی حجابانہ والہانہ تھی محبت کی کار فرمائی یہ محبت کہاں سے آئی تھی؟ گریاں کے مہماں دونوں فراق و وصال کے لمحے محبت سے پھوٹ کر نکلے جذبہ مثال کے لمحے یہ محبت کہاں سے آئی تھی؟
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصره العزيز 373 } سنگا کے مطار ناہید پر عشق بے اختیار کا منظر سسکیوں آہوں آنسوؤں کا ہجوم کس محبت کی محبت کی دے دے رہا تھا خبر محبت کہاں آئی تھی؟ مکرم طارق بشیر صاحب ہر خوف کی حالت کو سدا امن میں بدلا وعدہ جو کیا ہم سے تو پورا بھی کیا ہے ہر گام ترے ساتھ فرشتوں کا ہو ہر صبح و مسا و مسا شام و سحر لب په دعا ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالى نصره العزيز 374 ایک مشعل کی کرنیں مکرم عبدالکریم قدسی صاحب آنکھ نمناک ، دل مسرور ہے ہے منظور ہے تعالیٰ کو یہی ڈوبا تو نکلا نکلا دوسرا یہ بھر پور ہے چاند اک ڈوبا اگر کامل تھا وہ ایک مشعل ہی کی کرنیں ذی وقار بھی تھا اک نور یہ بھی نور وہ لوح دل ہے کنده ہے لفظ دل وفا یوں وفاداری پہ آقا کی طرف ہی دیکھنا غلاموں کا یہی دستور ہے وفادار پشتوں ނ وہ امام وہ یی منشور تھا سخی لق ہے ابن منصور سخی ہے لو رخ روشن غریب شہر کے کیوں مقدر میں ).دیجور ہے
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 375 اک محبت کی نظر قدسی یہ مسافر تو تھکن سے چور چور ہے مکرم ثاقب زیروی صاحب قلب گداز و ذہنِ رسا تیرے ساتھ ہے تائید ایزدی کی ضیا تیرے ساتھ ہے سینه ترا امین ہے قرآں کے نور کا روحانیت کا آب بقا تیرے ساتھ ہے جا بانٹ تشنہ کاموں میں دولت قرار کی اپنی جلاء سے شان بڑھا دے بہار کی
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 376 رحمت کی بارش مکرم عبدالکریم قدسی صاحب خوف کو امن میں بدلا بکھرے لمحوں کو زنجیر کیا پھر مولا نے رنگ بھرے اور رنگوں کو تصویر کیا پھر اس پیاری سی تصویر کو رب نے پیارا نام دیا اس کو عرش پہ لکھا اور پھر سینوں پر تحریر کیا پھر اس نام کی نسبت سے مسرور کیا غمزادوں کو غم کے اندھیروں کی وادی کو شہر تنویر کیا پھر شمر تنویر پر بارش بری اس کی رحمت کی اس موسم کو بدلا جس نے اس کو تھا دلگیر کیا پھر رحمت کے نور نے قدسی شکل تراشی پگڑی کی اس کے سر پر رکھ کر اس کو ننگے سے شہتیر کیا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 377 وہ کتاب زیست کا روشن باب مکرم عبدالصمد قریشی صاحب حسن رنگ سخن لاجواب ہے اُس کا نگاه لطف و کرم بے حساب ہے اُس کا وہ بولتا ہے تو خوشبو سی پھیل جاتی ہے ہر ایک لفظ معطر گلاب ہے اُس کا اسے آسمانوں سے حسین سی نسبت ہے کہ نور نور میں ڈوبا ، شباب ہے اس کا وہ جگمگاتا ہے فکر و عمل کی راہوں پر کتاب زیست میں روشن سا باب ہے اُس کا ہیں اُس کی کانوں میں رس گھولتی ہوئی باتیں سرور و کیف میں ڈوبا خطاب ہے اس کا
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 378 برکات پشتوں تک مکرم عبدالکریم قدسی صاحب خلافت سے محبت کی ملیں برکات پشتوں تک اسی لطف و کرم کی ہوسدا برسات پشتوں تک خلافت سے وفاداری بشرط استواری ہو یہی ہو حاصل ایماں بہر اوقات پشتوں تک میری نسلوں میں آئندہ بھی ہوں اہل قلم پیدا قلم کا منبع و مرجع رہیں خطبات پشتوں تک کسی بھی فکر کی اترن نہ پائے قرب کا درجہ رہیں پیش نظر مہدی کے ارشادات پشتوں تک غلامی کی سند مل جائے قسمت سے اگر مجھ کو تو موضوع سخن ٹھہرے گی میری ذات پشتوں تک نسلیں سدا نورِ خلافت سے منور ہوں میری کسی لمحے جہالت کی نہ آئے رات پشتوں تک خیالوں میں ، گھروں میں رزق اور الفاظ اُتریں گے اگر ہم چومتے جائیں گے ان کے ہاتھ پشتوں تک جو منکر ہو خلافت کا کسی پہلو سے بھی قدسی خداوندا ! وہ پیدا ہو نہ میری سات پشتوں تک
حضرت خلیفة الحي الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 379 بنا ملا ورثه دورِ خلیفہ پنجم مکرم عبدالسلام اسلام صاحب ہیں اہلِ گلشن کہ رخ ہے الوری کا مرزا کا! تے پیش سب نذرانہ دل نے عہد باندھا ہے وفا کا چہچہانے گیا یکدم ہوا کا تمناؤں کے جال تھلیں گے نفس جھونکا صبا کا ! تری موج ! مبارک ! صد مارک و مصر خلافت کی قبا فقیروں کو ہے مبارک قتا کا تو مرور سب مسرور ہوں گے ہے مٹے گا دیتا با دشاہی ترے سائے میں ہے سایہ ہما کا ! اب جور و جفا کا لگے گی کیوں نہ اپنی پارکشتی؟ خدا حامی ہے جب اس ناخدا کا
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 380 چھٹے ظلمت کے بادل ، چاند نکلا ذرا آ دیکھ رنگ اجلی فضا کا گائیں بھلا ہم کیوں نہ اب ملہار موسم ہے ساون کی گھٹا کا چمن میں زمزموں کا دور ہے پھر گیا موسم اداسی کی فضا کا تری چشمک میں ہے منزل نمائی اثر بانگِ درا کا نوا میں ہے نگہباں کیوں نہ ہو تیرا خدا اب نگہباں تو ہے جب خلق خدا کا آمد نوں طاهـر رفـت ایـن مسـرور بعوض نـــور دیـــگــــر نـــور آمــد حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب خلافت ނ J5 دینے لگا سیدھا پھر روشنی ہم نے پائی دکھائی چلے اچھے نکلتے تو چلتے رہیں گے رہیں گے
حضرت خلیفة اسم الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 381 محبوب جہاں مکرم عطاء المجیب راشد صاحب نور ایمان سے دنیا میں سویرا کر دے دور مسرور میں یارب یہ کرشمہ کر دے وہ جسے تو نے چنا دیں کی امامت کے لئے اس کی تدبیر کو تقدیر سے یکجا کر دے جس سے وابستہ ہے اسلام کی عظمت مولیٰ اُس کی عظمت کو نشانوں سے ہویدا کر دے جس کے ہر کام میں ہے نصرتِ باری کی جھلک اس کے قدموں کو تو ہمدوش ثریا کردے جس کے سینہ میں ہوا نور سماوی کا نزول اس کے انوار سے ہر دل میں اجالا کر دے تو چُنے جس کو وہ بن جاتا ہے محبوب جہاں اپنے پیارے کو ہر اک آنکھ کا تارا گردے تو ہے جب ساتھ تو پھر ساتھ ہے سارا عالم ساری دنیا پہ تو ظاہر یہ نظارہ کر دے روز روشن میں بھی جن آنکھوں میں کچھ نور نہیں اپنی رحمت سے خدایا انہیں بینا کر دے
حضرت خلیفة الحي الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 382 تیرا انعام ہے یارب یہ خلافت کی قبا تو جسے چاہے عطا خلعت زیبا کردے انتخاب اپنا تو ہے تیری رضا کا مظہر کورچشموں پہ بھی یہ نکتہ ہویدا کردے مکرم انور ندیم علوی صاحب چن لیا ' مسرور ، کو اُس نے امامت کیلئے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں ڈھال بن کر ساتھ رہتی ہیں دعائیں آپ کی ظلم کے تیروں سے ہم کو ہمنشیں ! خطرہ نہیں
حضرت خلیفہ مسیح انام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 383 فیضان خلافت مکر مدارشاد عرشی ملک صاحبه ہم جسم ہیں اور جان خلافت میں ہے اپنی زندہ ہمیں کر دیتا ہے عنوان خلافت راک کو اطاعت میں ہے سبقت کی تمنا ہے جماعت جو نہی فرمان خلافت تج دینا ہے دنیا کے مزے دین کی خاطر بیعت کا یہ مفہوم یہ عرفان خلافت اس سائے میں عافیت و آرام بہت ہے تا حد زمیں پھیلا ہے دامان خلافت اک تار میں بکھرے ہوئے دانوں کو پرویا کچھ کم تو نہیں ہم پہ یہ احسانِ خلافت عطى ہے میں چاہوں بھی گننا تو نہ گن پاؤں گی ہرگز بارش کی طرح برسے ہیں فیضانِ خلافت یہ بخشش ہے خدا کی منہاج نبوت میں نہاں جان خلافت اللہ نے خود تاج خلافت جسے بخشا عرشی وہی مہدی وہی سلطان خلافت
حضرت خلیفة اسم الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 384 پھر سے بہار آئی ہے اپنے گلستاں میں مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ اک تہنیت کا نعرہ اُبھرا ہے اک مکاں میں پھر مل گیا ہے ساقی اک شکل مہرباں میں پھر ٹم کے ثُم لنڈ ہاؤ پھر جشن اک مناؤ اب ڈوبنے سے مطلب اندیشہ فغاں میں سیلاب اُتر گیا ہے زرخیز ہے زمیں اب سورج نکل رہا ہے اب اپنے گلستاں میں واللہ خلافت ه صبر جس کا انعام ہے ڈالا گیا تھا ہم کو اک مشکل امتحاں میں مولا نے آزمایا مولا نے دی سکینت اتنی سکت کہاں تھی اب جانِ ناتواں میں تیر و سناں نہیں ہیں ہتھیار ہیں دُعا کے کچھ توڑ پھوڑ دیکھو اب سینہ بتاں میں کچھ روشنی سی پھیلی ہے آس پاس اس کے کوئی مکین اُترا آکر ترے مکاں میں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 385 پھل پھول پھر کھیلیں گے روشن چراغ ہوں گے پھر سے بہار آئی ہے اپنے گلستاں میں پھر ہے نئی قیادت پھر ولولے نئے ہیں جشن طرب ہے عظمت اس بزم دوستاں میں مکرم فرحت ضیاء راٹھور صاحب یہ تیری عطا ہے کہ سبھی خوف ہوئے دور ہم امن کی حالت میں پھر اک بار ملے ہیں کیا ان کو زمانے کی ہواؤں کا خطر ہو! جو پھول خلافت کی وفاؤں میں کھلے ہیں
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصره العزيز 386 خوف کے بعد امن محترم انور ندیم علوی صاحب سانسوں میں بسنے والے کیوں دور ہو گئے ہیں مولا! فقیر تیرے رنجور ہوگئے ہیں نہ دیکھا اتنا اداس ربوہ پہلے کبھی اس کی رضا کے ہاتھوں مجبور ہوگئے ہیں یہ آس تھی اچانک لندن سے آئیں گے وہ خوابوں کے آئینے بھی سب چور ہو گئے ہیں ہجر و وصال کے میں دُکھڑے سناؤں کس کو انساں تو کیا شجر بھی مہجور ہو گئے ہیں حق بات کہہ رہے ہیں ، ہر لمحہ زندگی کا غم کی صلیب پر ہم ' منصور ہو گئے ہیں کرب و بلا میں لیکن کب اس نے ہم کو چھوڑا دکھ درد سارے دیکھو کافور ہو گئے ہیں آؤ ندیم ! پھر تجدید ہو وفا کی دل نور سے یقیں کے ، پُر نور ہو گئے ہیں
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 387 چمه فیض مکرم عبدالصمد قریشی صاحب چشمہ فیض کہ ہر آن رواں رہتا ہے باغ احمد میں بہاروں کا سماں رہتا ہے کتنے خوش بخت ہیں اُس دیس کے رہنے والے جس کے ہر قریہ میں وہ حسنِ جہاں رہتا ہے میرے احساس کی دنیا میں سدا رہتے ہیں ہر گھڑی پاس ہیں وہ ایسا گماں رہتا ہے ہاتھ اُٹھتے ہیں ہر اک اپنے پرائے کے لئے ہرا.ان کے سینے میں محبت کا جہاں رہتا ہے دل کی دھڑکن میں تمناؤں میں اور سانسوں میں ایک ہی نام ہے جو زیر بیاں رہتا ہے وہ ہیں محبوب زماں ان کی نگہبانی کو خالق ارض و سما کون و مکاں رہتا ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالى نصره العزيز 388 سدا قائم رہے گی اب خلافت احمدیت کی پروفیسر محرم سراج الحق قریشی صاحب خلافت دین حق کی برکتوں کا اک نشاں زندہ خدا کے فضل و احساں کا ہے اک بحرِ رواں زندہ خلافت در حقیقت ہے نیابت حق تعالیٰ کی یہ انوار خداوندی کا ہے اک ترجماں زندہ نبوت اور خلافت لازم و ملزوم ہیں دونوں یہ فرمان محمد مصطفیٰ ہے ہر زماں زندہ یہ تزئین نبوت ہے یہ تمکین رسالت ہے یہ نعمت ہے خدا کی ، اس کا ہے اک ارمغاں زندہ نبوت قدرت اوّل ، خلافت قدرت ثانی خلافت فضل یزدانی، رہے گی جاوداں زندہ نبوت نے کیا توحید کو قائم زمانے میں خلافت نے دیا ہم کو خدائے مہرباں زندہ خدا کرتا ہے اپنے فضل سے قائم خلافت کو اُسی نے کر دیا ہے پھر یہ نورِ عاشقاں زندہ خلافت مومنوں کے واسطے ہے امن کا سكن یہ ہے اک سایہ رحمت ، سی اک تسکین جاں زندہ
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 380 خزاں نے کر دیئے سارے چمن ویران دُنیا میں مگر طیور روحانی کا ہے یہ آشیاں زندہ خلافت نے دلوں کو پھر نئی اک زندگی بخشی خلافت نے کئے ہیں پھر ہمارے جسم و جاں زندہ خدا کا نور ہی تھے نُورِ دیں ، محمود اور ناصر ایده خدا کا نور تھا طاہر ہمارے درمیاں زندہ خدا نے اب ہمیں مسرور ' دے کر پھر نوازا ہے کیا ہے اس نے آکر پھر دلوں کو شادماں زندہ خُدا کی قدرت ثانی کا ہے یہ مظہر خامس یہ کر دے گا خدا کے نور سے کون و مکاں زندہ کھلیں گے باغ احمد میں کروڑوں پھول خوشیوں کے مہک اُٹھے گی اس میں اک بہارِ جاوداں زندہ سدا دیتا رہے گا باغ احمد پھول و پھل تازہ سدا ملتا رہے گا اس چمن کو باغباں زندہ خدا کے دین کا غلبہ ہے وابستہ خلافت سے یہی ہے وعدہ مہدی ، مسیحائے زماں زندہ سدا قائم رہے گی اب خلافت احمدیت کی قیامت تک رہے گا اب یہ نور قادیاں زندہ
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصره العزيز 390 خدا کا ہاتھ ہے روزِ ازل سے اس جماعت پر خدا دیتا رہے گا اس کو میر کارواں زندہ کبھی اس پر نہ ڈوبے گا خدا کے نور کا سورج سدا چمکے گی اس پر نور کی اک کہکشاں زندہ مٹا سکتا نہیں ان کو کوئی صفحہ ہستی خدا کا فضل ہو جن پر ، ہو جن کا پاسباں زندہ سکون و امن کا مامن فقط اب احمدیت ہے یہی ہے اس زمانے میں خدا کا سائباں زندہ اٹھو! دين خدا کو ہم زمانے بھر میں پھیلائیں اُٹھو ! کر دیں خدا کے نور سے سارا جہاں زندہ مکرم انور ندیم علوی صاحب خدا کے فضل کا سایہ ہمیشہ ہی رہے قائم دعا کرتا ہوں انوار خلافت ہم پہ ہوں دائم
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 391 ما خدا کرے ! مکرم عبدالمنان ناہید صاحب خدا نے سایہ رحمت بنا دیا مسرور ! تجھ پہ سایہ رحمت خدا کرے! اے دلوں کی مملکت کے بادشاہ آ! اب تو کرے دلوں پہ حکومت خدا کرے! جائے جدھر جدھر تو فرشتے ہوں ساتھ ساتھ عرش آشنا ہو تیری خلافت خدا کرے! اس شاہراہ کو کے نشیب و فراز میں آسان تجھ پہ تیری مسافت خدا کرے! ہر سیدھی راہ پر رہے تیرا قدم قدم ہر ہر قدم پہ تیری حفاظت خدا کرے! ہر شام بن کے ساعتِ سعد آئے ہر گھڑی ہر صبح تیری صبح سعادت خدا کرے! ہر مرحلے پہ تجھ سے ہو راضی ترا خدا ظاہر ہو تجھ سے دوسری قدرت خدا کرے! ہر روز نو شگفتہ کلی کی طرح رہے ناساز ہو نہ تیری طبیعت خدا کرے!
حضرت خلیفة أصبح الناس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 392 اے جانِ جاں! جہاں ترا حلقہ بگوش ہو اور تو کرے جہاں کی امامت خدا کرے! رشک آئے اُسکو دیکھ کے شاہوں کی شان کو تجھ کو عطا وہ شوکت و سطوت خدا کرے! من كر ا جيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ڈھونڈے تری دعا کو اجابت خدا کرے! دریا میں جیسے موجہ دریا ہو ، دلوں میں یوں موجزن ہو تیری محبت خدا کرے! تیرا وجود اس کے لئے ہوگا حرز جاں تجھ پر فدا ہو تیری جماعت خدا کرے! توفیق مل رہی ہے اسے تیری دید کی پاتی رہے نظر نظر یہ سعادت خدا کرے! بغیر مرضی تری سنائی دے تیرے کہے تجھ کو عطا وہ حسن خطابت خدا کرے! دن ہو کہ رات ، جس گھڑی آئے تری صدا اترے دلوں میں حُسنِ سماعت خدا کرے!
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 393 ہم جنبش و سکوں میں ترے ساتھ ساتھ ہوں ایسا ملے شعور اطاعت خدا کرے! ہو عرش پر قبول جو سجدہ زمیں پہ ہو ہم اور ہو یہ ذوق عبادت خدا کرے! ممسوح اُس کے عطر رجا سے ہوا ہے تو پہنچے چمن چمن تری شہرت خدا کرے! ارض وطن کو بھی ملے مژدہ بہار کا اب مختصر ہو عرصہ ہجرت خدا کرے! نسکین جاں ملی ہمیں تمکین دیں ملی کیا نعمت نہیں ملی يَسْتَخْلِفَهُمْ
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 394 قدرت ثانیہ کا ظہور مکرم حمیدالمحامد صاحب الی رنگ سے رنگین ہے ہر قدرت ثانی نیابت میں مسیح پاک کے بہ شکل نورانی برستے ہیں تیرے انوار و انعامات ربانی ترا جود و کرم بندے پہ اور اس درجہ ارزانی کرم ہے اے مرے مولا ترا یہ لطف بے پایاں مٹا جب نقش اول تو ملا پھر مظہر ثانی خدا کو اپنے بندوں کا لحاظ و درد ہے کتنا میسیج پاک کا ہم کو دیا پھر نقش لاثانی تھا جو خوف و خطر پل بھر میں سب کا فور کر ڈالا خلافت کی جدائی تھی ہمیں بے سر و سامانی لگے چھٹنے اندھیرے غم کے پھر آہستہ آہستہ که تنویر مسرت بن کے آیا یوسف ثانی وہ اک ماہ مبیں بن کر فرازِ دہر میں اُبھرا چمک نے جس کی خیرہ کر دیے سب تاج سلطانی اعادہ کر رہا ہے پھر سے وہ اسباق پارینہ ترقی کیلئے لازم ہے یہ یہ تعلیم دہرانی
حضرت خلیفہ اسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 395 جماعت میں نئے سر سے اٹھی ہے موج بیداری ہر اک چھوٹا بڑا بڑھ چڑھ کے اب کرتا ہے قربانی اب کرتا ہے قربانی وہ دن آتے ہیں دنیا پھر وہی ادوار دیکھے گی محمد کی حکومت اور محبت کی فراوانی علم توحید کا لہرائے گا اکناف عالم پر سمٹ آئے گی سب دنیا بصدق نورِ ایمانی خلافت کا سدا یہ سلسلہ قائم رہے یارب ہی فتح میں ہے اور یہی ہے فضل ربانی مکرمہ شہناز اختر صاحبہ ہے خلافت آسماں سے ایک نعمت کبریائی خلافت ہی سے وابستہ ہماری پارسائی ہے یہ ہے اک شجره طیب جو ہر دم لہلہائے گا پھلے گا تا قیامت ، خبر مہدی سے پائی ہے
حضرت خلیفة الحي الخامس ایده الله عالی بنصرہ العزیز 396 ہوا کے رخ زمانے بھر کا سرمایہ وہی ہے مکرم عبدالکریم قدسی صاحب دروازہ وہی ہے فصیل جس میں رستہ وہی ہے لہو کے ، دودھ کے رشتے بہت ہیں دنیا میں بس اپنا وہی ہے بہت پیارے مجھے ماں باپ اپنے دل میں فقط بیستا وہی ہے الفضل ہو ، بیت الفتوح ہو وہ بیت جہاں خطبہ وہ دے ربوہ وہی ہے جدھر بھرم ہے دیکھوں وہ مری فکر و نظر کا کھوں نظر آتا نظر آتا وہی ہے کسی کا کس طرح سکہ چلے گا دلوں کے تخت وہی ہے بھی دریاؤں کے ہیں خشک سوتے سخاوت کا رواں دریا وہی ہے اسی کے ساتھ وابستہ ہے خوشبو زمانے میں گل تازہ وہی ہے
حضرت خلیفہ اسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 397 وہی ہے آج مرجع روشنی کا کہ سورج کا فرستادہ وہی ہے ہیں مقفل ہمیشہ در زباں اپنی خدا کہتا ہے 6 نہ اس کی فکر اپنی جو ! کہتا وہی ہے محل شاہوں کے سارے کھلا رکھتا وہی ہے اسے منہا کریں تو کیا بچے گا زمانے بھر کا سرمایہ وہی ہے ہمیں قدسی قدسی نہیں دیتا بکھر.دلوں کا حسن شیرازہ وہی نے ہے ہے مکرم عطاء المجیب راشد صاحب خلافت کی محبت بحر نا پیدا کنار قلزم عشاق میں ہے اک تلاطم " کا سماں
حضرت خلیفة الحي الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 398 خلافت ہی وہ طاق جلوۂ حسنِ یقیں ہے الحاج مکرم محمد افضل خان صاحب ترکی جنوں کے مرحلے، عقل و خرد سے دور ہونگے فراست کی نظر ہو، نور سے معمور ہونگے ہمیں ظلمات ہستی سے ذرا کھنکا نہیں ہے ہمارے دل سدا ایمان سے پُرنور ہو.ہونگے خلافت ہی وہ طاق جلوہ حسنِ یقیں.ضیاء سے جس کی ، اندھیرے سبھی کافور ہونگے باء کبھی ہم دم نہ لیں گے خدمت دین مبیں.مخالف اپنی کرتوتوں سے تھک کر چور ہونگے مثال اپنی زمانے میں سدا قائم رہے گی کناروں تک زمیں کے ہم بڑے مشہور ہونگے بہاروں کی بارات آئی ہے دیکھو گلستاں میں کلی دل کی کھلے گی ، باغباں مسرور ہونگے قدم بوسی کو ہم جاتے ، خلیفہ المسیح کی سبب سے بھیڑ کے ، ہم لوگ بھی مجبور ہونگے قدر ہو گی تو ہوگی خاکساروں کی جہاں میں جھکیں گی گردنیں ترکی! اگر مغرور ہونگے
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 399 خلافت سبھی کہتے خلافت اک مقدس سائیاں ہے مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه اب تمنائے جاں ہے نعمت کہاں اس نکتے کو سمجھا غافلوں نے نہ اس یہ منہاج نبوت میں نہاں ہے اور اُمت کے یہی شایانِ شان ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے دلوں میں گرچہ تقویٰ کی قلت مگر خواہاں خلافت کی لڑی و انعام.چاہے بھر رب ملت الوری کا خلعت یہ مہدی کی صداقت کا نشاں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے خدا نے عہد سارے دیئے دامن ہمارے میں اس طرح ہم کو پرویا تسبیح کے دانے ہیں سارے امام اینا امیر کارواں ہے خلافت مقدس سائیاں ہے
حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 400 ہمارا کام ہے ہر پیل اطاعت اطاعت ہی سے قائم ہے یہ وحدت کوئی اب مفسدوں نہیں خطرہ کوئی بفضل رب ہوئی بالغ جماعت مقدر اس کا عمر جاوداں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے خدا کے نام کا نعرہ خلافت خدا کے فضل کا دھارا خلافت جو بُت سینوں میں غیر اللہ کے ہیں کرے اک وار میں پارہ خلافت مقابل کفر کے تیغ براں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے خلافت ڈھال ہے سب معرکوں میں خدا کا آستاں ہے بت کدوں میں بہت دھو کے ہیں جعلی مرشدوں میں یہ کوہ نور جھوٹے نگوں میں ہے وہ جو قدرداں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 401 نے جلوے دکھاتی ہے خلافت وفا خلافت کو آزماتی دلوں کے روگ میں اکسیر ہے یہ وساوس مثاقی ہے خلافت دلائل کی اک تیغ رواں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے یہ رچ جاتی ہے دل کے ولولوں میں نیا اک سلسلہ سلسلوں میں کے کوئی اک گھونٹ بھی گر اس کا چکھ لے اتر جاتی ہے ٹھنڈک سی دلوں میں خدا کا فضل ہمارے یہ زم زم ہے علاج تشنگاں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے اتنا سنواریں ہم کو پکاریں گھڑی ہو دائم بہاریں وہ تڑپیں جن کے گھر فصلِ خزاں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے
حضرت خلیفة المسح الخامس يده الله تعالى نصرہ العزیز 402 خدا کی قدرت قدرت ثانی خلافت نئے اک دور کی بانی خلافت نبوت پر ہے قائم آکر نہیں جانی خلافت منهاج اور اب آکر نہیں لعل بے بہا ، جنسِ گراں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے دُعا گو اپنا ہر پیر و جواں ہے دُعا میں ہی ہمیں آرام جاں ہے ہمارا حافظ ناصر ہے مولا ہمارے سر پر دست مہرباں ہے جماعت کا خدا خود پاسباں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے خلافت نعمت عظمی ہے پیارو بات اچھی طرح دل میں اُتارو رہے ہر حال میں دیں ہی مقدم نہ دُنیا میں بہت پاؤں پسیارو ہے جو کچھ بھی یہاں وہ امتحاں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 403 اندھیرے چھٹ گئے سارے کے سارے چراغاں ہو گیا دل میں ہمارے سکینت بخش دی ہر دل کو عرشی نصیب اپنے خلافت نے سنوارے ہے بد قسمت جو اس سے بد گماں ہے خلافت اک مقدس سائباں ہے آخر کیا مسرور نے بلائے خوف کر دی مسرور دور آخر خدا کے فضل نے اس کو چنا ہے کہ مہدی کا ہے اس میں نور آخر ہر اک دل مطمئن ہے ، شاد ماں ہے خلافت اک مقدس سائیاں ہے مکرم جمیل الرحمن صاحب عمر دراز دے اسے یارب ہمیں وفا یکتائے روزگار ہو رشتہ یہ پیار کا
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصر العزيز 404 خلافت خلافت ہے نعمت مکرم چوہدری اعظم نوید صاحب ہے نعمت ، خلافت انعام خلافت اسی سے ہیں تاریکیاں چھٹ تجدید دیں کا پیام گئیں اسی کی بدولت ہوئے دل ہیں رام لڑی میں جو اس کی پرویا گیا اسی کو کیا اسی سے دلوں کو ہے راحت علی نے ہے شاد کام خلافت بھی ہے اک سعادت کا نام کروں کیا بیاں اس کی میں خوبیاں اسی سے ہے جاری مئے حق کا جام خدا کا عظیم ایک احسان ہے ہوں میں بھی خلافت کا ادنی غلام نبوت سے لیتا ہے یوں برکتیں خدا کے حسیں سلسلہ کا نظام جو ہیں نیک فطرت غلام اس کے ہیں رہیں گے ہمیشہ وہ عالی مقام
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصره العزيز 405 اسی کا ہے دامن میسر مجھے اسی سے ہیں روشن مرے صبح و شام مکرم مبارک احمد ظفر صاحب کفر و باطل پہ اب وقت شام آ چکا پانچویں دور کا بھی امام آ چکا دین احمد کو جس سے دوام آ چکا اب خلافت کا اعلیٰ نظام آ چکا اس کو جاری ہوئے سال سو ہو گئے بے نصیبے ہیں جو یہ گھڑی کھو گئے
حضرت خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 406 یار دلنشیں مکرم عبدالصمد قریشی صاحب خدا کرے کہ کٹے زیست اس مکیں کی طرح کہ جس کا قول و عمل ہو کسی امیں کی طرح رہ حیات میں دیکھے ہیں یوں تو لاکھ حسیں نہیں ہے کوئی بھی اس بار دلنشیں کی طرح دکھائی دیتی ہیں ہر سمت اُس کی تصویریں اندھیری شب میں چمکتا ہے وہ نگیں کی طرح وہ اپنے حسن میں یکتا ہے بے مثال ہے وہ نہ کوئی چاند نہ سورج مرے حسیں کی طرح یوں فرط وکیف میں کٹتے ہیں اپنے شام و سحر وہ میری سانسوں میں رہتا ہے ہمنشیں کی طرح میں ایک خواب ہوں میرا کوئی وجود کہاں اُسی کا قرب مرے ساتھ ہے یقیں کی طرح
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 407 وہ خلافت مکرم عبدالسلام اسلام صاحب رشک ملائک یہی تاج ہے یہی آدمیت کی معراج ہے نُورِ خُدا کی ہے جلوه گری تکوین کا نقطه محوری نظام خلافت ہے پائندہ تر اسی خاکی ہے تابنده تر جہاں میں یہ ہے اک نشانِ خدا زبان بشر ترجمان خدا ازل ނ ابد تک اعجاز یہی رُوح مردہ کو آواز معدوئے مبیں، اس پامال ہے قبائے خلافت تیری ڈھال ہے گھٹاؤں میں اس کی نظر برق ریز افواج باطل کو حکم گریز یہی کفر الحاد کا توڑ و قوی ہے یتی جو منہ موڑ ہے
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصره العزيز 408 یہ ہے چشم گیتی میں تل کی طرح شہی کا نہ جمہوریت کا سینہ ہستی میں دل کی طرح ہے راج دونوں کا گویا حسین امتزاج بظاہر جمہور کا ساز ہے مگر قدرت حق کی آواز یہ زندہ تو زندہ ہے دین متیں اسی ہے یہ قدرت کے جلووں کا عکس حسیں پرواز تو ہے سرگرم پرواز فرشتوں اگر پاسبانی ہے سدا بڑھ کر فلک باز تو احساس ہے امانت تیرے پاس ہے
حضرت خلیفة المسح الخام ايده الله تعالى نصرہ العزیز 409 آگے بڑھتے رہو! مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آگے بڑھتے رہو دمبدم دوستو ! دیکھو رکنے نہ پائیں قدم دوستو! نا خدا گر خدا کو بناتے ساحلوں رہے سفینہ بھی آ جائے گا اس کے حکموں سر جو جھکاتے رہے : زندگی کا قرینہ بھی آجائے گا تو پھر کیسا غم دوستو! وہ ہے ساتھ آگے بڑھتے رہو 门 دمیدم دوستو! جو خلافت کے دامن کو تھامے رہے رحمتوں کی قبائیں بھی پا جائیں گے اس کی رسی کو مضبوط پکڑیں گے جو نصرتوں کی ردائیں بھی پا جائیں گے دیکھ لیں گے یہ اہلِ ستم دوستو ! آگے بڑھتے رہو د میدم دوستو!
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 410 کوئی سالار جب چھوڑ کے چل دیا مضطرب کس قدر کارواں ہو گیا ہائے جنوں پر سلامت رہے ٹھٹکا پھر آگے رواں ہو ہے اسی کا یہ فضل و کرم دوستو! بڑھتے رہو د میدم دوستو! ماں کی آغوش میں جیسے بچہ رہے یوں خدا نے ہمیں گود میں لے لیا اس نے بے سائباں ہم کو چھوڑا نہیں گر لیا ایک تو دوسرا دے دیا اس نے رکھا ہمارا بھرم دوستو ! آگے بڑھتے رہو د میدم دوستو! اک خدا کا چنیدہ کڑے وقت میں دلفگاروں کو پھر تھامنے آگیا جس کا نگاہوں سے اوجھل روپ اوجھل رہا اک نئے میں سامنے آگیا روپ آب ہے سب میں وہی محترم دوستو ! بڑھتے رہو د میدم دوستو! آگے
حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی بنصر العزيز 411 آگے لے کے نام خدا اپنے جذبوں کو مہمیز کرے راستے میں وفا کے جلاؤ دیئے قدم تیز سے تیز تیز کرتے تے چلو اور ہیں راہ کے پیچ و خم دوستو ! بڑھتے رہو د میدم دوستو ! مکرمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت چشمه علم و هدی نور یقیں محکم الوہی رنگ میں رنگیں لعل بے بہائی ہے خلافت شعلہ نور نبوت ، مظہر قدرت خلافت نے اپنے واحدانیت کی مے پلائی ہے
حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی بنصر العزيز 412 رحمت کی آبشار مگر مهارشا د عرشی ملک صاحبہ، اسلام آباد عرشی مری طرح سے سبھی کو ہے اعتبار موجیں ہوں سر پھری بھی تو پیڑہ لگے گا پار اپنا جو ناخُدا خُدا کا ہے منتخب ہم خوش نصیب نوح کی کشتی میں نہیں سوار فضل خُدا سے دور خلافت ہے پانچواں جاری ہے سو برس سے یہ رحمت کی آبشار اس میں نہا کے پاک و مطہر ہوئے بہت بس میں مرے نہیں کہ میں اُن کا کروں شمار عاجز ہیں خاکسار و اطاعت گزار ہیں ہم نے امام وقت کو دی نفس کی مہار نشر ہے عاجزی میں شراب طہور کا یہ ئے ہے پاک اور مزہ اس کا خوشگوار اُس کو بقا ملی ہے فنا جس نے کی قبول جو مٹ گیا خوشی سے ہوا خاک پائے یار
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 413 مرشد کا قہر و مہر ہے یکساں اسے عزیز راہِ طلب میں حوصلہ جس کا ہے اُستوار اک ڈھال ہے امام، رہو اس کی آڑ میں اس ڈھال پہ اثر نہیں کرتا کوئی بھی وار صد شکر ہم ہیں آج خلافت سے منسلک چودہ سو سال جس کا رہا سب کو انتظار تشبیہ کس سے دوں میں خلافت کے فیض کو ساچ ہے یہ خُدا کا یہی حرف اختصار مکرم جمیل الرحمن صاحب ہالینڈ پہنائی اس نے تجھ کو خلافت کی یہ عبا ہم سب تیرے غلام، تو محبوب یار کا جو حکم ہو وہ نذر گزاروں میں سیدی ! اپنا تو کچھ نہیں ہے ترے جانثار کا
حضرت خلیفة المسح الخامس ایده ال تعالى بنصر العزيز 414 ردائے خلافت کا حصار مکرم عبدالصمد قریشی صاحب یہ سب اس کا کرم ہے دیار یار میں ہیں خطا کار کس شمار میں ہیں وگرنہ ہم وہ جس کی چھاؤں میں اب چین اور راحت ہے ہم عافیت کے اسی شجر سایہ دار میں ہیں یہ خوشبوؤں سے معطر ہے جس کی ساری فضا خدا کا شکر کہ اس گلشنِ بہار میں ہیں خوشی سے کیوں نہ کریں ناز اپنی قسمت پر وہ خوش نصیب جو اس محفلِ قرار میں ہیں وہ جس کے فیض سے روشن ہیں آگہی کے چراغ ہم علم و فضل کی اس بزم افتخار میں ہیں ملے ہیں سارے ثمر جس کی برکتوں کے طفیل اسی ردائے خلافت کے ہم حصار میں ہیں یہ جان و دل سبھی تجھ پر شار ہیں آقا ترے غلام ہیں ہم ترے اختیار میں ہیں
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 415 عجز بھرا وجود مکرمہ درنمین طاہر صاحبہ،ر بوہ یہ عجز سے بھرا ہوا پیارا لگا وجود فضل خدا نے پھر سے ہمیں اک دیا ودود نظریں جھکا کے ہاتھ اُٹھا کر دعا کر.اب اس کے سنگ سنگ دعا کی.پڑھا درود اس پیار اور سکون سے اس کو چنا گیا اُترا ہو آسمان سے جیسے کوئی وجود آنے سے اس کے آگئیں پہلی سی رونقیں سے اب قیام ہیں پہلے سے اب سجود دل غم سے اس کا چور تھا آنکھیں تھیں اشکبار دیتا رہا سنبھالا ہمیں اس کے باوجود
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 416 نگاہ مہرباں رکھنا مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه اطاعت اور وفا کی راہ پر ہم کو رواں رکھنا خلافت کا ہمارے سر پہ قائم سائباں رکھنا ہمیں تقویٰ کی ہو تو فیق تیرا قرب حاصل ہو ہماری سمت اے مالک نگاہِ مہرباں رکھنا ہمارے درمیاں قائم رہے رشتہ اخوت کا ہمیں اپنی محبت اور عطا کے درمیاں رکھنا خلافت کی یہ برکت ہے کہ دل باہم ہوئے اپنے ہمیشہ ہی بھی مولا یہ بزمِ دوستاں رکھنا امام وقت اپنی ڈھال ہے ، ہم ڈھال کے پیچھے امامِ وقت کو ہر معرکے میں کامراں رکھنا ہمارے دل پروئے جاچکے ہیں ایک ڈوری میں تو اس ڈوری کی مضبوطی کو دنیا پر عیاں رکھنا مقابل کفر کے ہم رستم و سہراب بن جائیں حضور اپنے ہمیں مانند طفل ناتواں رکھنا خوشی ہو یا قمی جو کچھ بھی ہو تیرے حوالے سے ہمیں بھاتا نہیں تجھ بن کوئی سود و زیاں رکھنا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 417 اگر منہ زور ہوں لہریں اگر طوفان آجائیں ہماری ناؤ کا پیارے، سلامت بادباں رکھنا مخالف گالیاں بھی دیں تو عرقی لب نہ کھولیں گے ہمیں آتا ہے یوں بہتیں دانتوں میں زباں رکھنا مکرم چوہدری شبیر احمد سلمان صاحب پاسباں ہم دل و جاں سے خلافت کے رہیں گے اس کی خاطر جان بھی دینے کو ہم تیار ہیں ہم یہی تلقیں کریں گے اپنے بچوں کو سدا یہ خلافت ہے امانت ہم امانت دار ہیں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 418 پھر خلافت کو ہم نے پایا ہے.مکرمه شگفته عزیز شاہ صاحبه اسلام آباد آج دل کو قرار آیا ہے بہار آیا ہے مروة کس کے سجدوں سے تر ہوئی ہے زمیں کس نے اشکوں کو یوں بہایا ہے وہ جو بجز و بکا ނ نور ہی نور ہے قبائے جھکا اس نے نے عرش بریں ہلایا ہے محسون فضاؤں میں خلافت ہو ان کی آغوش کا ہے خلافت نور میں نہایا ہے مهدی ملبوس جس میں آیا ہے پرورده گه ملبوس ل عطائے یہی قرآن عمر کا جایا ہے ربانی نے بتایا ہے ساتھ اس کے ہیں رب کی تائیدیں جس نے مسرور فضل خدا کا سایہ ہے جاں ایسا سرور آیا ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 419 عہد پوری ہے جان حقیقت ہے ہے عہد 6 قربانی اولاد رہو دشمن کی آرزو نہ ہوئی جو کمایا ہے رب کا مامور ہے جو آیا ہے باطل کا سر جھکایا ہے زور اس نے بڑا لگایا ہے حق نے تفرقہ ہم میں دیکھنے کے لئے پھلے گی پھو.احمدیت حق نے فیصلہ سنایا ہے اون ربّ وہ با مراد گیا با مراد آیا ہے سر اذن جھ کا میں در امام ہی ہم دعا کجھ جانے والے رحمتیں ہوں ہزار آنے والے شکر صد شکر اے خدایا ہے رَبّ کا سایہ ہے مولی ہے مرے پھر خلافت کو ہم نے پایا ہے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز 420 خلافت مکرم عبد السلام اسلام صاحب یہی نوع بشر کے واسطے تقدیر یزدانی نبوت قدرت اول خلافت قدرت ثانی یہی وہ ہے یہ مثلِ تفسیر و حواشی نبوت کم ریزی ہے ، خلافت خلافت آبپاشی ہے عکس خداوندی ہے آئینہ ہستی میں یہ پیغامِ سکوں گویا ہے ہنگاموں کی بستی میں کبھی صدیق ہو کر اس نے باطل کو کچل ڈالا ہزاروں آندھیوں کا اک نگہ سے رخ بدل ڈالا اسی نے عہد فاروقی میں ملت کو جنوں بخشا بھی عثمان و حیدر ہو کے ہر دل کو سکوں بخشا خلافت کی قبائے تام میں کامل امام آ صدی جب چودھویں آئی مرا ماہِ تمام آیا جمالی دور میں اس نے لیا پھر تھام اُمت کو بشکل نورِ دیں اُٹھ کر کیا پامال ظلمت کو خدا نے بعد ازاں پھر اپنی رحمت کو اتارا تھا وہی نور ازل محمود میں بھی جلوہ آراء تھا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 421 کبھی ناصر ، کبھی طاہر ، کبھی مسرور کا جلوہ حقیقت میں خلافت ہے ، خدا کے نور کا جلوہ ملی آخر کسے پائندگی اے ' انجمن والو یہی شیرازہ بند زندگی اے ' انجمن والو ای کشتی کو طوفانوں میں دست غیب کھتا ہے وساطت سے جماعت کی خدا خود ووٹ دیتا ہے خدا والوں کی منزل کا یہی رستہ ہے دنیا میں اسی سے عظمت توحید وابستہ ہے دنیا میں رفیض دل لہو کی ہر رگ و پے میں روانی ہے خلافت ہی سے وابستہ نظامِ زندگانی ہے اگر سینے میں دل قائم لہو بھی جوش وقوت بھی خلافت ہے اگر زندہ عمل بھی ، ذوق و جدت بھی فروغ محفل ملت ، چراغ انجمن یہ ہے مگر روح جماعت کے لئے مثل بدن یہ ہے ہے جو چمکے گا ابد تک وہ خلافت کا ستارہ یہ بحر نور ہے جس کا نہ ساحل نہ کنارہ ہے اگر اسلام ہم کرتے رہے آئین کی پابندی رہے گا تا ابد جاری یہ فیضانِ خداوندی
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 42 عہد خامس میں نئے گھوڑوں پہ زمینیں ڈالو زندگی مکرم جمیل الرحمن صاحب، ہالینڈ پریشان سے بیدار ہوئی اک نئی شمع خلافت کی خلافت کی ضیا بار ہوئی پھر سے پروانے جلے ، روشنی غم خوار ہوئی روح تجدید وفا نغمہ سرا ہونے لگی دل ہوئے سجدہ کناں ، حمد و ثنا ہونے لگی خوف کی ساعت بے رنگ ادھر آئی ، گئی ہوئے تحلیل وساوس کے ہیولے بھی سبھی تخت جاناں پہ چمک اُٹھی نئی شانِ کئی نور لئے میر ہر پر میگرن نجس کی دعا جینگی قریه یار منور ابھرا وہ پیکر اُبھرا دائم یونہی آباد رہے سے مسرور شاد رہے اور اطاعت کے سوا کچھ نہ ہمیں یاد رہے د تمہیں کیمیا ہونے کے رستے میں قدم دھرنے کا وقت پھر آیا درست اپنی صفیں کرنے کا
حضرت خلیفة اصبح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 423 سلطنت عہد بدست آئی قبیلے والو خامس میں نئے گھوڑوں پہ زمینیں ڈالو سونت کر تیغ دُعا نکلو ، رجز یہ گا لو شہسوار اور طرح کے ہیں یہ آنے والے اپنے مولا کے لئے جان سے جانے والے آسماں دُور نہیں اور زمیں قدموں میں سینے قرآن سے معمور ہیں، خواب آنکھوں میں اور کامل ہے یقیں جس کے سبھی وعدوں میں عشق میں اس کے، زمانے کو بدل جائیں گے کفر و ایماں کے فسانے بدل جائیں گے مکرم مبارک احمد ظفر صاحب،لندن جو خلافت کے سائے میں آجائیں گے لطف و انعام مولی انعام مولی کو پا جائیں گے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 424 بن تیرے نہ کوئی چاہت ہے نہ اور کسی کی طاعت ہے! مکرم سید محمود احمد صاحب یہ تیری کرامت ہے پیارے جو دشت کو سبزہ زار کیا اس بستی کو آباد کیا، ہر صحرا کو گل زار کیا قادر کی پہلی قدرت نے ہر وحشی کو انسان کیا قادر کی دوسری قدرت نے ہر پت جھڑ کو گلبار کیا ہر ایک نظر نے دیکھا ہے تم کتنے پیارے محسن ہو ہر باغ سے پھول چنے تم نے ہر دل کو لالہ زار کیا تری پیار بھری اس قربت نے اور پاک مطہر صحبت نے ان لوگوں کو اس دنیا کی آلائش سے بیزار کیا بن تیرے نہ کوئی چاہت ہے نہ اور کسی کی طاعت ہے بس ہاتھ پہ رکھ کے ہاتھ ترے یہ ہم نے ہے اقرار کیا ہر حکم پہ تیرے سب کے سب ہی جان لٹانے والے ہیں ان تیرے چاہنے والوں نے اس بستی کو گلنار کیا ہم مجبوروں نے اے جاناں ! ظلمت میں دیپ جلائے ہیں ان دیپ جلانے والوں نے تجھے یاد ہے لاکھوں بار کیا ہم لوگ محبت کرتے ہیں ترے پیار کی مالا جیتے ہیں ترے پیار کی خوشبو سے ہم نے سب جگ کو عنبر بار کیا
حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز 425 انتخاب خلافت خامسہ کے بعد مکرم چودھری محمد علی صاحب جس حسن کی تم کو جستجو ہے حسن ازل با وضو خوش رنگ اور خوبرو ہے ہے لگتا ہے وہ پھول ہو بہو ہے تاریخ کا سانس رُک گیا ہے کوئی رو برو ہے اترا ہے عزت جو دل بھی ہے جو آنکھ بھی یقیں ہے وہ جو آج آسماں ہماری آبرو سے پر ہے باوضو ہے ہم ہنس بھی رہے ہیں صدق دل ہے ނ دل لہو لہو ہے J" قدرت ثانیه کے مظہر ! تو کتنا حسیں 6 ہے خوبرو ہے سرشار ہے شرمندہ ہے تیرا خادم دل ترا عدد ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 426 خاموش! مقام آقا مرا مجو دل کا گفتگو ہے سرشار ہوں پی کے میں بھی مضطر پھر سے وہی جام ہے ، سبو ہے مکرم ڈاکٹر محمد صادق جنجوعہ صاحب کیا کبھی باغوں میں دیکھا آپ نے ایسا شجر جو ثمر ، شجر خلافت کی طرح ہو دے رہا یہ شجر ایسا ہے جس کو پا کے ملتا ہے خدا حق تعالیٰ کی طرف جانے کا ہے یہ واسطہ اے خدا توفیق دے ہم کو اسی کو تھام لیں اب نہیں جاتا کوئی منزل کو رستہ دوسرا
حضرت خلیفہ مسیح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 427 سو سال پہلے ! مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه، اسلام آباد جو دل تھے بیابان سال پہلے ! وہ گلستان سال پہلے ! ہوئے ہوئی اذن ربی خلافت خدا کا تھا فرمان سال پہلے ! عنا کی برکت نہ پوچھو سال پہلے ! کیا اس نے یکجان سو خلافت جو وحدت کا عنواں بنی ہے تھی وحدت کا عنوان سو سال پہلے! تمہیں قدرت ثانیہ ہو مبارک فرمان سو سال پہلے! یچ یہ حیران پریشاں سے دشمن ہمارے یونہی تھے پریشان سو سال پہلے ! وہی عہد و پیمان جو ہم باندھتے ہیں بزرگوں نے باندھا سو سال پہلے ! خلافت خدا کا ہے فضل ہوا تھا یہ احسان سو سال پہلے!
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 428 ہماری وفا ہے حیران دُنیا پر یونہی تھی یہ حیران سو سال پہلے ! ہماری طرح ہی تھے آباء ہمارے خلافت سو قربان سال پہلے ! عطا فضل رب سے ہوئے ہیں جو ساماں نہیں تھے سامان سو سال پہلے! خلافت ، جماعت ، جماعت خلافت یونہی تھے یہ یکجان سو سال پہلے! خدا ہے نگہباں جماعت کا عرشی خدا تھا نگہبان سال پہلے ! مکرم الحق ظفر صاحب اعجاز ہے خالق کا کرم اور عطا بھی تازہ ہی لگا ہر گھڑی بستان خلافت انعام ہے اللہ کا اے چاہنے والو کرتی ہے ہر دور میں احسان خلافت
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 429 صد سالہ جشن خلافت احمد یہ مکرم عطاء کریم شاد صاحب کڑی دھوپ تھی پر ہمارے لئے ، خدا کی محبت کا سایہ رہا لہو دے کے کو کو بڑھاتے رہے ، چمن دل کا یوں جگمگایا رہا پہاڑوں سے ٹکرا کے بڑھتے رہے ، جنوں ایک سر میں سمایا رہا خلافت کی صورت ہمارے لئے ، سدا ابر رحمت ہی چھایا رہا چلو روح پروری تانیں اٹھائے ، یہ تائید حق کے ترانے سنائیں خدا کی عنایت پہ سر کو جھکائے ، یہ صد سالہ جشنِ خلافت منائیں وہ قدوسیوں کا گروہ حزیں ، جسے نورِ دیں نے سہارا دیا وہ محمود سالار بن کے چلا ، سدا بڑھتے رہنے کا یارا دیا ستم سے جو تھے چُور پھر جی اٹھے ، جو ناصر نے ہنس کر اشارہ دیا عدد کے ستم جب بھنور بن گئے تو طاہر نے بڑھ کر کنارہ دیا اب آیا سکھانے ، چلو عہد مسرور سے ہم نبھائیں ایده خدا کی عنایت پہ سر کو جھکائے ، یہ صد سالہ جشن خلافت منا ئیں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 430 جو حق کی نداء قادیاں سے اٹھی ، وہ ہر سو فضاؤں میں لہرا گئی براہیں کا لشکر جو لے کے چلی، تو ادیان باطل کو لرزا گئی الہی نوشتوں میں تحریر تھا ، زمیں کے کناروں سے ٹکرا گئی افق در افق یوں پلتی رہی ، زمیں ضرب صوتی سے تھرا گئی ندائے خلافت ہے آواز مہدی، سمعنا ، اطعنا کا نعرہ لگائیں خدا کی عنایت پہ سر کو جھکائے ، یہ صد سالہ جشنِ خلافت منائیں مکرمه شگفته عزیز شاه صاحبه، اسلام آباد مسرور کیا ہے ہمیں مسرور ہی رکھنا ہر رنج و مصیبت سے سدا دُور ہی رکھنا پیمانہ عرفان پلا کر میرے پیارے مسحور ہی رکھنا ہمیں مخمور ہی رکھنا
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 431 قدرت ثانیہ مکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبه فضل رتی سے ہے ہم یہ سایین قدرت کا یہ قدرت ثانیہ کر دیا ساری دنیا کو اپنا وطن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ وعده دائمی کا بھی دن آگیا عہد ایفاء ہوا ایک اک لفظ پورا ہوا من وعن قدرتِ ثانیہ قدرتِ ثانیہ ہاتھ سے ہم پہ ڈالی خدا نے ردا گود میں لے لیا رحمتوں کے سمندر میں ہم غوطہ زن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ علم کی آندھیوں سے نہیں کچھ زیاں.سر پہ ہے سائیاں اپنے سر کی ردا تن کا ہے پیرہن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ ہم نے خوں سے لکھی داستانِ وفا وقت خود ہے گواہ ہم نے ہر گام چومے ہیں دار و رسن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ مال و جاں سب خلافت پہ کر دو فدا ہے یہ سودا کھرا دین کی شان ہے دیں کا ہے بانمکین قدرت نامی قدرت ثانیہ جھوٹی خوشیاں مخالف کی پامال ہیں ، غم کے جنجال ہیں اپنے چاروں طرف اک حصار من قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ ہم جو بے گھر ہوئے تھے خدا کے لئے فضل اس نے کئے ساری دنیا بنی اپنے گھر کا محن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 432 قرب پانے کا میداں تھا خالی پڑا، کام تھا پر کڑا عشق کے تو نے ہم کو سکھائے چلن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ پڑھ کے کلمہ جو باندھا ہے عہد وفا یاد ہے بخدا اپنے ہر قطرہ خوں میں ہے موجزن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ نیک فطرت جو تھے کھینچ کے خود آگئے زندگی پا گئے لگ گئی سب کو عشق خدا کی لگن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ اس مکاں میں بہت چین و آرام ہے.عشق ہی کام ہے دور کرتی ہے سارے عموم وحزن قدرت ثانیہ قدرت ثانیہ مکرم انور ندیم علوی صاحب ہے محبت کا کرشمہ فاصلوں کے باوجود ایک لمحہ میں اسے اور وہ مجھے بھولا نہیں وہ بہاروں کا پیمبر وہ محبت کا سفیر کتنے ہی موسم ہیں بدلے وہ مگر بدلا نہیں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 433 پر نور خلافت کا دیا مکرم مبارک صدیقی صاحب گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے سائے کی طرح سایہ فگن ہم پہ خدا ہے اور رات جو آئے بھی تو پروانوں کو غم کیا جلتا ہوا پرنور خلافت کا دیا ہے قانون بنائے ہیں بہت اہلِ ستم نے اب لے نہ کوئی اُن کے سوا نام خدا کا ان سادہ مزاجوں سے کوئی جا کے یہ پوچھے بندے بھی بھی روک سکے کام خدا کا ساتھ اپنے محمد کی مسیحا کی دعا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے سجدوں میں لگا دیتے ہیں اشکوں کے نگینے دنیا کے خداؤں سے شکایت نہیں کرتے کچھ اور بڑھا دیتے ہیں کو اپنے لہو میں ہم تیز ہواؤں سے شکایت نہیں کرتے کردار کی عظمت کو سدا اونچا کیا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 434 آتی ہے صدا روز شہیدوں کے لہو سے یہ دیپ ہواؤں سے بجھائے نہ بجھیں گے قسمت کا لکھا پڑھ نہیں سکتے ہو تو سُن لو دیپ بجھاؤ گے تو سو اور جلیں گے مانے نہ کوئی مانے مگر ایسا ہوا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے اک زندان میں بیٹھا ہوا قیدی کوئی بولا تسلیم ہے مجھ کو کہ مرا جرم وفا ہے ہاتھوں پہ مرے زخم جو تم دیکھ رہے ہو ٹوٹے ہوئے شیشوں کو اٹھانے کی سزا ہے تو سر عام کیا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے جرم اگر ہے جو لوگ جلا دیتے ہیں اوروں کا نشیمن وہ لوگ کبھی چین سے سویا نہیں کرتے اور جن کا نگہبان ہمیشہ سے خدا ہو گرداب ، سفینے وہ ڈبویا نہیں کرتے طوفان بھی کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 435 کچھ اس لئے ہجرت بھی ضروری تھی ہماری اُس شہر ستم گر میں جفاکار بہت تھے کچھ اُن کو بھی نفرت سے عقیدت تھی زیادہ کچھ ہم بھی محبت کے پرستار بہت تھے پہلے سے کہیں بڑھ کے ہمیں اس نے دیا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے برکت ہے خلافت کی کہ اک ہاتھ پہ یارو لاکھوں میں کروڑوں ہیں جو اک جان ہوئے ہیں میں ہیں جو طوفان کی مرضی تھی اُجڑ جائیں یہ لیکن ٹوٹے جو لگائے تھے گلستان ہوئے ہیں سب اس کی عطا ، اس کی عطا ، اس کی عطا ہے گزرے ہوئے سو سال کی تاریخ گواہ ہے مکرم خلیل احمد خلیل صاحب کراچی زیر سایہ آ گئے ہیں جو خلافت کے حلیل پہلے زرے تھے وہ اب روشن ستارے ہیں تمام
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 436 خلافت جوبلی کا مبارک سال 2008 مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب خلافت جوبلی کا سال ہم سب کو مبارک ہمارے واسطے یہ سال رحمت ہو بشارت ہو خلیفہ وقت مرکز میں نرالی شان سے جائیں جماعت کے لئے یہ سال مولیٰ کی کرامت ہو ہماری مشکلیں سب دور ہوں مولیٰ کی رحمت سے کھلیں جب در ترقی کے خدا کی خاص نصرت سے مسیح وقت پر بھٹکے ہوئے ایمان لے آئیں خدا کھولے صداقت ان پراپنے دست قدرت سے دعا مومن کی ہے یہ سال ہم پر رحمتیں لائے ہمارے دین و دنیا میں نمایاں برکتیں پائے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 437 ہم اپنا انتخاب رشک قمر دیکھتے رہے مکرم محمد ابراہیم شاد صاحب روج الوان قلب المجر دیتے رہے و لوگ آسماں پہ ہم بھی تو اپنا رہے وہ آئے اور پھول بکھیرے ، چلے گئے پیار کی نظر سے سے ادھر دیکھتے ہم سب رہے رشک Bl رہے J.ہے ہے ہیں مہر بلب شوق دید میں جب تک وہ بار بار ادھر دیا دیکھتے رعب جمال وحسن سے ہم ان کی بزم میں کچھ کر سکے نہ بات مگر دیکھتے رہے رہے ہم تو رواں ہیں منزل مقصود کی طرف کچھ لوگ دور گردِ سفر دیکھتے رہے باطل کے لشکروں کے مقابل پہ آج تک دین خدا کی فتح و ظفر دیکھتے رہے انجام ہر عید کا ہر ہم ہر عدد کو خاک آشکار رہے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 438 مقبول و مستجاب ہوا دل کا اضطرار ہم دعا کا اثر دیکھتے رہے ہر لحظه سر پر مدام یورش آفات دہر میں تائید ایزدی کی سپر دیکھتے رہے ان کا خطاب موجب جاں ہوا برسا خدا کا نور جدھر دیکھتے رہے گزری ہے شاد عمر مری انتظار میں ہم راہ ان کی شام و شام و سحر دیکھتے رہے مکرم ظہور احمد ناصر صاحب خلافت کی امامت کا محافظ رب رحماں ہے قبا یہ اس نے اب مسرور احمد کو پہنائی ہے کریں گے ہم اطاعت ان کی ناصراب دل و جاں سے خلافت کی اطاعت میں ہی ساری پارسائی ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 439 آنے والے سے عہد نو مکرمہ احمدی بیگم صاحبہ، لاہور اے خدائے ذوالمنن اے مالک کون و مکاں اپنے وعدے پورے کرتا آیا ہے تو ہر زماں جب خلافت کا امیں رخصت اچانک ہو گیا ایک عالم خوف کا ہم پر مسلط ہو گیا پر مرے مولا ترے وعدے تو ٹل سکتے نہیں ہر دل رنجور کو تھا تیرے وعدوں پر یقیں نور کی پھوٹی کرن اور بند دروازہ کھلا دے کے پھر مسرور " تو نے امن قائم کر دیا اک طرف تھا رنج اور تھی دوسری جانب خوشی یہ تسلسل کی کڑی تھی جس نے بخشی تھی خوشی آنے والے کے لئے دل فرش راہ ہم نے کئے اور دعاؤں سے گند ھے پھر ہار لے کر ہم بڑھے اشکبار آنکھیں تھیں اپنی ، دل عزائم سے تھے پر حمد کے لب پر ترانے ، آنکھ میں نور سحر آنے والے سے دوبارہ عہد تازہ پھر کیا آنے والے آ خوشی سے مرحبا صد مرحبا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 440 ہر قدم پر ساتھ ساتھ اپنے ہمیں تو پائے گا نقدِ جاں حاضر رہے کی ہر وفا تو پائے گا محترمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت کی غلامی ہے ضمانت تیری قربت کی ہمیں بھی اس کے قدموں کی ہمیشہ خاک پا رکھنا اگر نورِ نبوت سے منور جنگ کو کرنا ہے تو روشن ہر جگہ ہر دم خلافت کا دیا رکھنا اگر ہے تم کو ملنا اولیس سے ! آخریں ہو کر خلافت کی امانت سے دلوں کو آشنا رکھنا کلیساؤں کی دنیا کی صلیبیں جس نے توڑی ہیں ہمارے سر پہ اس مہدی کی تو ہر دم ردا رکھنا
حضرت خلف أسبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 441 نغمہ تہنیت مکرم جمیل الرحمن صاحب، ہالینڈ اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار قربان مال و آبرو تجھ ہزار بار ہو اذن تو یہ جاں بھی کریں تجھ پہ ہم نثار pant تو تجھے ہے رُوح وفا کو روح خلافت سے پیار ہے چن لے جسے خدا وہی جانِ بہار ہے اب اے گل چمین ترے دم سے ہے سب نکھار اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار راه جنوں میں دیئے جلے شاخ دعا پر ثمر لگے اور عشق پر کس کو ہے اختیار دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار تیرے قدم اٹھیں تو سمٹ جائے یہ جہاں تیرے جلو میں گامزن افواج قدسیاں تیری دعا کرے گی پھر جالوت کو شکار اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار
حضرت خلیفة المسح الخامس ایده ال تعالى بمصر العزيز 442 زبان یار میں تو بولنے لگا من میں اٹھی اٹھی وہ لہر کہ تن ڈولنے لگا گفتگو تری ، لہجہ فسوں شعار جادو ہے اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار بار حیا سے پلکیں تری اس طرح جھکیں خلوت میں جیسے قربتیں سرگوشیاں کریں اے نورِ حسن جاوداں ، یزداں کے رازدار اقلیم دل تجھے ہو مبارک اے شہر یار ہونٹ مسکرائے ترے دھوپ کھل گئی سے نظر ملی تو ہمیں زندگی ملی وجود ہم ہے احسان کردگار دل تجھے ہو مبارک اے شہریار مکرمہ شاہدہ سید صاحبہ میرے امام کی ہوں دعا ئیں سبھی قبول اپنی عطا سے ان کو بے حد و بے شمار دے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالى نصره العزيز 443 مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب تجھ سے ملی ہے ہم کو ابد تاب زندگی تجھ پر ہوئی ہے ختم خلافت کی اک صدی مستعد تو ہے تو ہم ہیں کار گہہ جاں میں تجھ سے لہو میں رنگ ہے دل میں تکلفتلی تجھ کو خُدا نے خلق کیا اہتمام سے تجھ میں جھلک ہے مہدی دوراں کے نور کی پیکر ترا تراش کے آئینہ کر دیا آواز میں تری ہے فرشتوں کی راگنی خوشبو کہاں سے آئی کو حیراں ہوا چمن نکہت ترے وجود کی گلشن میں آگئی اک بار جو کیا ہے ارادہ ، ٹلا نہیں تو نے یہ بازی جیت کے ہاری نہیں کبھی سُن کر ترے خطاب جلالت باب کو خستہ تنوں کو ایک نئی زندگی ملی خالد مجھے خلافت حقہ سے پیار ہے اس کے لئے ہی وقف ہے میری یہ شاعری
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالى نصره العزيز 444 خلافت فضل ربانی مکرم منیر احمد ریحان صاحب صابر خلافت نعمت اولی ، خلافت فضل ربانی خلافت ظل نبوت کا ، خلافت نور سبحانی خدا نے اپنے پیاروں سے کیا وعدہ وفا اپنا ہوئی ظاہر خلافت کی ردا میں قدرت ثانی خلافت اس کو ملتی ہے خدا جس کے لئے چاہیے خلافت رحمت یزداں ، خلافت عکس رحمانی خلافت بحر طوفاں میں امیدوں کا سہارا ہے خلافت گوہر مقصد ، جہاں داری ، خدادانی خلافت ڈوبتی ناؤ کو لاتی ہے کنارے خلافت میں نمو پاتے نہیں افکار شیطانی خلافت کی ضیاء پاشی سے دل تسکین پاتے ہیں خلافت ثبت کرتی ہے دلوں میں نقش ایمانی خلافت کی ردا ہم پر رہے سایہ فگن صابر کہ حاصل ہو ہمیں علم و عمل کی بھی جہانبانی
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 445 آخریں صد مبارک صدی مکرم عطاء کریم شاد صاحب رہے ، اے خدا یہ کرم کو سوئے ہوئی ، ہم کو سوئے حرم ک کے چلتی رہے نے قدرت ثانیه 6 قدرت ثانیہ قدرت ثانیه نور و محمود کے جد پرنور میں طاہر و ناصر و یونہی ڈھلتی ثانیہ ماہ مسرور میں رہے قدرت ثانیہ 6 قدرت ثانیه ہے رواں کارواں ، پر کڑا ہے سفر اے خدا! تھام کر لوائے ظفر یونہی بڑھتی رہے قدرت ثانیہ ثانیه قدرت ثانیه ہم چلے آئے ہیں ، سُن کے حق کی ندا ہمیں باوفا 6 با صفا ، باخدا کرتی رہے ، قدرت ثانیہ ثانی 6 قدرت نانچہ
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 446 تھا صدی کا سفر بھی دعا کا اثر اے خدائے مسیح الزماں اور کر یونہی پھلتی قدرت ثانیه رہے قدرت ثانیہ 6 6 صد قدرت ثانیه ، اے گروہ صفا مبارک صدی نہ ہو خوف عدو نہ خدا ہو خفا شاد کرتی رہے قدرت ثانیه 6 ، 6 قدرت ثانیہ قدرت ثانیه مکرم عبدالعزیز منگلا صاحب خلافت باعث تسکین جاں ہے محبت کا بحر بیکراں ہے خلافت ضامن تجدید دیں ہے خلافت کاشف شرع متیں ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 447 اس دلربا کی چاہت مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب اُس دلربا کی چاہت محسوس کر کے دیکھو اے واقفان اُلفت محسوس کر کے دیکھو اک چاند سا سماں ہے وہ چہرہ مبارک اُس نور کی حلاوت محسوس کر کے دیکھو وہ کون سی کشش ہے جو تم کو کھینچ لائی دو چار دن کی قربت محسوس کر کے دیکھو ناز پرور بھر لو ! مشام جاں میں خوشبوئے ناز اس کا وجود نگہت محسوس کر کے دیکھو میرے لئے وہ کیا ہے ممکن نہیں بتانا اک جذبہ محبت وس کر کے دیکھو یوں تو وہ آدمی ہے لیکن گلاب محسوس وہ پیکر صباحت ہاتھوں میں ہاتھ لے کر آنکھوں سے تم لگا لو دست گداز راحت محسوس کر کے دیکھو کر کے دیکھو اس کا بیاں بلاغت دھیرے سے دل میں اترے اس کی زباں فصاحت محسوس کر کے دیکھو
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالى نصره العزيز 448 مسرور نام اس کا کرتا ہے شاد دل کو اس نام کی لطافت محسوس کر کے دیکھو خالد مدح میں اس کی لفظ ہیں ہر شعر سرو قامت محسوس کر کے مکرم سید طاہر احمد زاہد صاحب زمانے کے طوفان اور آندھیوں میں یہی وہ شجر ہے خلافت وہ جھونکا جو پھولا پھلا ہے ہے بادِ صبا کا کہ صحرا کو بھی جس نے دریا کیا ہے خلافت ہی وہ نور انسانیت ہے کہ جینے کا جس نے سلیقہ دیا ہے
حضرت خلیفة المسح الخمس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 449 اخلاص خلافت محترمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ دستور غلامان خلافت مشروط ہے پیمان خلافت سے مشروط انکار خلافت تو ہے ابلیس کا شیوہ ہے حزب ملائک تو ثناء خوان خلافت ہر دور میں مبعوث خلیفہ ہوئے لیکن نبیوں کا ہے سردار ہی سلطان خلافت لعل نبوت تو ہے اک گوہر یکتا بعد اس کے گراں مایہ ہے مرجان خلافت استاد سے شاگرد نے وہ فیض ہے پایا وہ شانِ نبوت ہے تو یہ جانِ خلافت ہے باغ نبوت کا ہی اک مخلِ شمر دار اس گل کا ہی تو تخم ہے ریحان خلافت اعدائے خلافت تو نگوں سار ہوئے ہیں ہیں نغمہ سرا زمزمه پیران خلافت پڑتے ہیں شریروں پہ ہی خود ان کے شرارے ہے رب خلافت ہی نگہبان خلافت
حضرت خلیفہ امسح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 450 ہر ایک کو اس سائے میں ملتی ہیں پناہیں کتنا وسیع دیکھو تو دامان خلافت ہے ہر ذات کی پہچان ہر اک بات کا ادراک فضل خدا شامل وجدان خلافت ہے اے تخت نشینو! جو بصیرت ہے تو دیکھو کس پائے کا ہے تختِ سلیمان خلافت اہل وفا کی یہ محبت کا تقاضا ہے ہوتی رہے پابندی فرمان خلافت تا روز قیامت رہے جاری مرے مولا خوش بختی کا فیضان خلافت مکرم آفتاب احمد اختر صاحب خلافت کی اطاعت تو ہے اک گنج گراں مایہ خلافت کے بنا بے کار سب اسباب سرمایہ
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 451 اک نظر کا صدقہ مکرم رشید قیصرانی صاحب مرا معتبر حوالہ کوئی ہے تو بس یہی ہے تری اک نظر کا صدقہ مری ساری زندگی ہے کہیں چاند رُت نے چھیڑا تیری دلبری کا قصہ کہیں پھول کی زبانی تیری بات چل پڑی ہے ترے رُخ کی روشنی میں کبھی رات مسکرائی ترے سائے کی بدولت کبھی دھوپ سانولی ہے ترے چشم ولب کے صدقے مرے ست سروں کے سائیں کہیں حرف دوستی ہے کہیں رسم نغمگی بڑی رونقیں ہیں جاناں تری چاہتوں کے ڈیرے کہیں مست مست میلے ، کہیں جشن آگہی ہے.ہے مرے خواب کا مسافر کہیں پھر پلٹ نہ جائے یہی سوچ کر ہمیشہ مری نیند جاگتی ہے مرے شہر جاں کے یوسف کوئی بھیج اب نشانی تری راہ تکتے تکتے مری آنکھ بجھ گئی ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 452 مرا مرکز مرا محور ، خلافت ہے مرے آقا! مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب ترے لمس عقیدت کی عنایت ہے مرے آقا کہ اب دل میں فقط تیری محبت ہے مرے آقا زہے قسمت کہ دیکھا ہے تجھے تیرے قریب آکر مگر آگے بہت لمبی مسافت ہے مرے آقا تجھے پا کر محبت نے کچھ ایسا رنگ پکڑا ہے ذرا دل کا دھڑکنا بھی قیامت ہے مرے آقا اگر تیرا اشارہ ہو تو تن من دھن لٹا دوں سب مرا مقصد تو بس تیری اطاعت ہے مرے آقا میں حاضر ہوں مرے دلبر یہ جاں حاضر یہ دل حاضر ترے قدموں میں سر رکھنا سعادت ہے مرے آقا مجھے غیروں سے کیا لینا مجھے دنیا سے کیا ڈرنا مرا مركز ، مرا محور ، خلافت ہے مرے آقا عدو کی بدزبانی پر قلم تلوار کردوں میں مگر اس کو دُعا دینے کی عادت ہے مرے آقا
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 453 جشن تشکر مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ آؤ! محبتوں کے ترانے سنائیں ہم بغض و عناد و کینہ سے دامن چھڑائیں ہم آؤ ! کہ سب کدورتوں کو بھول جائیں ہم عہد وفا جو باندھا ہے اس کو نبھائیں ہم کچھ اس طرح سے جشنِ تشکر منائیں ہم آؤ! کہ آج جشن تشکر منائیں ہم قدرت کا اسکی دائمی انعام ہے اسکی جناب سے ہمیں اکرام ملا ہے ملا عشق و وفا کی مے سے بھرا جام ہے ملا اہلِ جہاں کو پلائیں ہم کچھ اسطرح آؤ جام آؤ کہ آج جشن ہو دل پہ رقم وفاؤں کی تحریر بھی تو سینے پہ نقشِ یار کی تصویر بھی بھی تو ہو قربانیاں ہوں ، جذبہء شبیر بھی تو ہو بس اک زبان سے ہی نہ نعرے لگا ئیں ہم تشکر منائیں ہم تشکر منائیں ہم
حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایده ال تعالى بنصر العزيز 454 کچھ اس طرح سے جشنِ تشکر منائیں ہم آؤ کہ آج جشن تشکر منائیں ہم شمی ہے چار سو ، ظلمت کا ہے وفور گر کوئی نور ہے تو خلافت کا بس ہے نور اسکے ہی دم سے اُس کی تجلی کا ظہور بڑھتا رہے یہ نور کریں یہ دعائیں ہم کچھ اس طرح سے جشنِ تشکر منائیں ہم آؤ! کہ آج جشن تشکر منائیں ہم اُس یارِ بے مثال کا دیدار ہو نصیب ذوق دعا و لذتِ و لذت گفتار ہو نصیب اسکی رضا نصیب ہو اور پیار ہو نصیب اب کجروی کو نفس کی اپنے مٹا مائیں کچھ اس طرح طرح سے جشنِ تشکر منائیں ہم آؤ کہ آج جشن تشکر منائیں ہم ہو ہم میں بھی کوئی حامل حق الیقین ہر دور میں کوئی نہ کوئی نور دین ہو فضل عمر ہو ناصر دین متین ہو طاہر سا بن کے جذبے دلوں کے لٹائیں ہم 6 ข کچھ اس طرح سے جشنِ تشکر منائیں ہم آؤ! کہ آج جشن تشکر منائیں ہم
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 455 میرے حضور حضرت مسرور زندہ باد حق نے کیا ہے آپ کو مامور زندہ باد عصر رواں کے ناصر و منصور زندہ باد پیچھے ترے قدم بہ قدم بڑھتے جائیں ہم ہر گام پہ خلوص کی شمعیں جلائیں ہم جشن تشکر منا ئیں ہم کچھ اس طرح آؤ! کہ آج جشن تشکر منائیں ہم مکرم مبارک احمد عابد صاحب ہماری سر بلندی ہے فقط اس کی غلامی میں ہماری ہر فضیلت ہے اسی دستار والے سے سیہ وہ چھتری ہے چھائی ہے جو دنیا کے کناروں تک یہ وہ چشمہ ہے جو رو کے نہیں روکتا ہمالے سے یہ صد سالہ مئے عرفاں کی وہ بزم ہے عابد کہ دنیا ہے سنور جاتی یہاں ہر ایک پیالے سے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 456 خیر کا سر چشمہ مکرمہ امتہ الباری ناصر صاحبہ سو سال خلافت جو تسلسل سے رواں ہے دراصل مسیحا کی صداقت کا نشاں ہے انعام خداوندی ہے یہ دوسری قدرت سورة النور میں قرآں کا بیاں ہے اب عافیت و امن کا منبع ہے خلافت دنیا کے مفاسد سے اماں ہے تو یہاں ہے اس ڈھال کے پیچھے ہی ہر اک فتح و ظفر ہے اب دین کی واللہ خلافت میں ہی جاں ہے بنیاد ہیں اس قصر کی پُر درد دعائیں اخلاص و محبت کا نرالا ہی سماں ہے پیوستگی اس پیڑ سے ضامن بقا کی ہے سچ ہی تو کہا جاتا ہے جاں ہے تو جہاں ہے بیعت نے اُبھارا ہے نیا رنگ عقیدت اس دور میں یہ رنگ کہیں اور کہاں ہے ہے خیر کا سر چشمہ دعاؤں کا ادارہ یہ دل ، خلیفہ کا یا تقویٰ کا مکاں ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 457 خلافت باعث تمکین دیں ہے مکرم مبارک ظفر صاحب حکومت نہ تو کوئی بادشاہت جو دے گی عدل تو دے گی خلافت یہ ہے تلمیلِ شرع دیں کا موجب خلافت ہے نبوت کی نیابت نصیبوں میں فقط ہے صالحیں کے خلافت باعث وہ خلافت مومنوں کی ہے تمکین دین ہے قائم ہو چکی سوسال وراثت اسی پائے گا ایمان طاقت قہ جس کی تھی نوشتوں میں بشارت یہی عروہ یہی حبل اللہ ہے ہے پنہاں اس میں ہی امت کی وحدت جنہوں نے اس کو اپنی ڈھال جانا انہی کو ہے حفاظت کی ضمانت مقدر ان کا ہے گرداب ظلمت کریں وہ جس قدر بھی اب ریاضت خدا کا فضل ہے ہم آخریں ہیں بخشی گئی ہے یہ سعادت
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصرہ العزیز 458 نہیں اشعار کی بازی گری جھکیں گے سر تو پھر ہو گی اطاعت مسرور نے مژدہ سنایا رہے گی تا قیامت اب خلافت اگر خواهی دلیل عاشقیں باش خلافت هست برهان خلافت نبھائیں گے ظفر عہدِ وفا کو کیا ہے جو سر تخت خلافت مکرم عطاءالمجیب راشد صاحب تیرا آنا قدرت قادر کا اک زندہ نشاں کارواں بڑھتا چلے گا ہر زمان و ہر مکاں نصرت مولا کا وعدہ عرش سے تیرے لئے تیرے پیاروں کی دعائیں ساتھ تیرے ہر زماں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 459 تجھ سے محبت کی ہے مکرم لئیق احمد عابد صاحب یہ جو ہر شخص نے خود اپنی تلاوت کی ہے ساری برکت یہ مرے یار خلافت کی ہے نور و محمود کو ، ناصر کو جو طاہر کو ملی وہی مولا نے سپرد آپ کے خلعت کی ہے تجھ کو دِل نقد دیا تجھ سے محبت کی ہے ہم نے مسرور ترے ہاتھ پہ بیعت کی فرش میرے ہونٹوں کی ہنسی اب نہ چرا پاؤ گے مجھ پہ مسرور نے کچھ ایسی عنایت کی ہے کیا عرش پہ پہنچی نماز یکھو اس شخص نے یہ کیسی عبادت کی ہے آؤ دربار خلافت میں وفا پیش کرو یہاں قیمت کوئی دولت کی نہ رنگت کی ہے اپنے اعمال کو تقویٰ سے سجا کر لاؤ میرے آقا نے یہی ہم کو نصیحت کی ہے جس کی چاہت ہمیں لے جائے گی تیرے در تک اُس ترے چاہنے والے سے محبت کی ہے
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 460 اے خُدا حشر تلک وعدہ نبھاتے رہنا ہم نے تیری ، تیرے مُرسل کی اطاعت کی ہے سارے بت توڑ دیئے شرک سے نفرت کی ہے تیرے عابد نے فقط تیری عبادت کی ہے مکرم ڈاکٹر عبدالکریم خالد صاحب نبوت کا فیض رساں ہے زمیں پر خدا کا نشاں ہے سکھایا ہمیں زندگی کا جماعت ہے جسم اور جاں ہے خلافت خلافت قرینہ خلافت یہ ابر کرم بن کے برسی زمیں پر زمیں کے لئے آسماں ہے خلافت
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 461 خلافت سے وفا مکرم عبدالسلام عارف صاحب خلافت جوبلی ہے زندگی تسخیر کر لینا ہر اک روحانیت کے خواب کی تعبیر کر لینا سنو اے رہروان فاتح عالم کے میخوارو! کوئی اخلاق کا تازہ جہاں تعمیر کر لینا لگا کر جان کی بازی خلافت کے لئے ہر دم رضائے حق تعالیٰ کی کوئی تدبیر کر لینا سنبھل جانا ذرا ، متاع جاں کی آمد ہے تمنا کی ہر اک چادر پہ اک تصویر کر لینا خلافت کی طلب صدیوں سے ہی میراث ہے اپنی خلافت سے وفا آئندہ کی جاگیر کر لینا خلافت آسماں کا فیض ہے نور نبوت ہے خلافت سے ہی اب وابستہ ہر تقدیر کر لینا اٹھو کھاؤ قسم دامن خلافت کا نہ چھوڑو گے اطاعت کی تم اس کے گرد اک زنجیر کر لینا حوادث میں جو کشتی نوح میں بیٹھے ہو تم عارف تو پھر اعمال بھی زیتون اور انجیر کر لینا
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 462 میر کارواں مکرم یونس احمد خادم صاحب مجھے کیا خوف دنیا سے مجھے کیا غم حوادث کا میرے سر پہ ہے اب تک سائباں قائم خلافت کا خدا کی خاص ہے نظر عنایت آج کل جس پہ ہماری گردنوں میں ہے جواُ اس کی اطاعت کا وہ ہر فر د جماعت کے دلوں کی دھڑکنوں میں ہے خزینہ ہے دعاؤں کا ، محافظ ہے جماعت کا دل و جاں ہے میری وابستگی اک ناخدا سے ہے بھنور میں آنہیں سکتا سفینہ میری قسمت کا خدا سے دور ہوتی جا رہی ہے آجکل دنیا علم تھاما ہوا ہے آج تو نے ہی ہدایت کا پنا تجھ کو خدا نے باغبان گلشن احمد کہ میر کارواں ہے تو مسیحا کی جماعت کا مسیح پاک کے فرمان کا ہر لفظ بیچ نکلا کہ تو ہے ایک تابندہ نشاں اس کی صداقت کا نظام نو سے وابستہ ہے خادم امن دنیا کا زمانہ ہے فقط محتاج اب تیری قیادت کا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 463 خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے مکرم فاروق محمود صاحب لرزتی کپکپاتی اک جماعت کو سنبھالا تھا خدا کے ہاتھ نے دشت بلا سے خود نکالا تھا پھر اس کے فضل کا انداز ویسا ہی نرالا تھا بہت ہی مختصر سی رات تھی اور پھر اُحالا تھا ہمیشہ سے وہی قدرت عجب جلوے دکھاتی ہے خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے کبھی سوچا تھا یہ بھی شہر رشک بوستاں ہوگا سنے گا سب جہاں بس آپ کا سحر البیاں ہو گا غبارِ رہگزر بننا ہی فخر کہکشاں ہوگا خلافت کے ہی اب زیر نمیں سارا جہاں ہوگا بدلتے موسموں کی یہ ہوا بھی گنگناتی خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آئی ہے صورت نظر میں اک سمائی مستقل سرکار ھی صور نہیں ممکن کہ اب بن پائے گی اظہار کی صورت مرے جذبات پنہاں کب ڈھلے اشعار کی صورت بس مرے دیوار کی صورت ادب حائل ہے رستے میں میرے ہی یہی کہوں پر ہمیں واضح بتائی.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے
حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایده ال تعالى بنصر العزيز 464 ہوا کے دوش پر آقا ترا دیدار ہو جانا کئی غافل بڑی روحوں کا یوں بیدار ہو جانا تری صحبت کو پا کر پھر مع الابرار ہو جانا خلافت ہی کی برکت ہے مرے اشعار ہو جانا جنہیں یہ حبل اللہ ہے جو خالق سے بندے کو ملاتی ہے خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے ہوس اور خواہش خواہش دنیا سے وہ آگے گزر آئے لعل و گہر تیرے تبسم میں نظر آئے جو یار کا بس ذکر ہی تو آنکھ بھر آئے دلوں کی ظلمتوں میں نور عرفاں سے سحر آئے.تری ہے سے نصرت خدا کے پاک لوگ ہے جو سب جماعت کو بچانے مکرم ظہوراحمد صاحب خدا کے فضل و احساں سے یہ نعمت جاودانی ہے یہ وعدہ ہے خدا کا یہ قضائے آسمانی ہے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنصر العزيز 465 یہ دولت ہم سنبھالیں گے مکرم اطہر حفیظ فراز صاحب خلافت کے امیں ہم ہیں امانت ہم سنبھالیں گے جو نعمت چھن چکی پہلے وہ نعمت ہم سنبھالیں گے خلیفہ کے لیوں سے جو گل و جوہر بکھرتے ہیں بڑے انمول موتی ہیں ، یہ دولت ہم سنبھالیں گے دسمبر کے مہینے میں جو وصل یار ہونا ہے برس ہا تک نگاہوں میں وہ ساعت ہم سنبھالیں گے اسی کی رہبری میں یہ فلک تک جو رسائی قسم مولا کی کھاتے ہیں یہ قامت ہم سنبھالیں گے جو بازو کٹ گرے اپنے تو دانتوں سے اٹھا ئیں گے بہر قیمت لوائے احمدیت ہم سنبھالیں گے ہے میرے رہبر ! مرے مرشد ! ترے خدام کہتے ہیں تمہیں چھاؤں میں رکھیں گے تمازت ہم سنبھالیں گے فراز اپنی تو عادت ہے وفا کی راہ میں مٹنا جہاں تک بس چلا اپنا یہ عادت ہم سنبھالیں گے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ الله عالی بنصرہ العزیز 466 خلافت کا رتبہ مکرم ناصر احمد سید صاحب دیکھئے معجزہ خلافت زنده کا ہے اک خدا خلافت کا ہے موت سلسلہ شداد خلافت کا وقت کے جبر میں رہا موجود ہر نشاں بولتا خلافت کا چل رہی ہیں ہوا ہوائیں تیز مگر جل رہا ہر گھڑی ساتھ ہے وہی اس کے ہے خدا خلافت کا رہنما لنشیں 6 دلآویز میں حسین و خلافت کا دیا خلافت کا جائیں ایک لمحے میں ہو آسرا خلافت کا صدقے جائیے وجود پر اس کے اٹھا خلافت کا جس ہر مقام دانائی خلافت کا ر جس نے بھی کی خلافت کی فیض اس کو ملا خلافت کا
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 467 صد سالہ خلافت احمدیہ کا سال مکرم محمد ہاشم سعید صاحب احمدی تجھ کو مبارک صد مبارک سال نو احمدیت میں خلافت کے مکمل سال سو قدرت ثانی کے مظہر پانچویں کا دور ہے پی رہے ہیں ہاتھ سے مسرور کے ہم جام نو جانتے ہو پچھلے سو سالوں میں کیا کیا ہو گیا اگلے سو سالوں میں کیا ہو جائے گا نکتہ ورد اک صدی میں ایک سو نوے ممالک میں گئی دوسری میں احمدیت بستی بستی کو بکو مکرمہ شہناز اختر صاحبہ خلافت ہی کے دم سے بارش عرفاں سدا بر سے امام وقت کے خطبے سے پیاس اپنی بجھائی ہے
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایده ال تعالى بنعبد العزيز 468 در مسرور تک.مکرم احمد مبارک صاحب مجھے رستہ دکھانے کو ستارہ دُور تک پہنچا کہیں بھٹکا نہیں سیدھا درِ مسرور تک پہنچا تھکے ہارے بدن میں روح تک آسودگی اتری میں جب اُس باغ کے سیب و انار ، انگور تک پہنچا رخ انور کو تکنے طالب و مطلوب سب پہنچے ہجوم عاشقاں پہنچا بُت مغرور تک پہنچا ندا ایسی پلٹ کر انفس و آفاق سے آئی اندھیرے سے نکل کر آبشار نور تک پہنچا زمیں سے آسماں تک حسن کا شعلہ لپکتا تھا جب اُس کے عشق میں جلتا ہوا میں طور تک پہنچا مئے عرفان تازہ چل رہی تھی اُس کی مجلس میں پیالہ در پیالہ مجھ دل مخمور تک پہنچا زمانہ چل رہا ہے کس قدر بے سمت و بے منزل مرے مالک تو اس کو وقت کے مامور تک پہنچا
حضرت خلیفة اصبح الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 469 خلافت کی شمع مکرم محمد ہادی صاحب خلافت کے بر تو میں بیٹھے یہاں ستاروں سے سے آگے کا دیکھا جہاں خلافت کے سو سال پورے ہوئے مرادیں بر آئیں کھلے گلستاں خلافت کے جلوے ہیں کیف آفریں خلافت نبوت کے منہاج پر خدا کی عنایات کا ہے نشاں نگاہوں میں فردوس خنداں نہاں عقائد معارف حقائق ہوئے وجودِ خلافت سے گھل کر بیاں فیوض خلیفہ خامس سے اب فتوحات کا سلسلہ بیکراں زمین خلافت چمکتی رہے خلافت کا روشن رہے آسماں خلافت کی ہر شاخ شاداب ہے خدا کی ہر اک شاخ پر جھلکیاں
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 470 معطر جبین نظر چار سُو ہیں اعجاز قدسی کے جلوے عیاں خلافت کی شمع سے ماہتاب بھی ہوا سرنگوں ، جھک گئی کہکشاں مٹاؤ خلافت کے انوار سے جنم لے چکی ہیں جو گمراہیاں خلافت کے دامن کو اب تھام لیں بہت کرچکے ہیں جو من مانیاں خلافت کے سائے میں ہم گامزن دور اب منزل ضوفشاں نہیں ނ ہوا مبارک کہ اس جوبلي خلافت کی برکت کا فیض رواں اسی نور سے جگ پہ روشن ہوا وسیع تر مکان مسیح الزماں اطاعت کے جذبہ سے محمود ہے نہ ہادی کا لینا کوئی امتحان
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 471 تیرے مسرور نے آکے مجھے مسرور کیا مکرم محمودالحسن صاحب، راولپنڈی دل میں اک کرب کا طوفان بپا ہے ، اُس کو ضبط تحریر میں لانا ہو تو کیسے لاؤں میں گنہگار وسیه حرف و معنی سے شناسائی نہیں ہے ، کیسے اُس کو حلقہ زنجیر بیاں پہناؤں کار کہاں اور کہاں تیرا رتبه ، تری ہستی ، ترا منصب ، ترا نام کہ اللہ کا انعام تھا دنیا کے لئے آج دنیا تجھے روتی ہے مرے پیارے امام تری ہر بات تھی پیغام رسول عربی تری ہر سانس میں موجود تھے گلہائے درود تو کہ تھا طوطی بستان محمد تجھ جانے کیوں لگتی رہیں، ایک نہیں لاکھوں قیود با رہا مہدی موعود کہا کرتے تھے ربط ہے جان محمد سے مری جاں کو مدام بطحا طاہر تو بھی ہے حلقہ بگوش شد میں بھی ہوں شاہ عرب ہی کے غلاموں کا غلام
حضرت خلیفة الحي الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 472 دل میں اک ٹیس سی اٹھی تھی کہ جس نے پیارے شعر کہنے پہ مرے ذہن کو مجبور کیا میں کہ تھا خستہ و پامال تری فرقت میں تیرے مسرور نے آ کے مجھے مسرور کیا مکرم مبارک احمد ظفر صاحب یہ خاص عطائے ربی ہے ہم اہلِ وفا ، اہل اللہ پر ہر قلب پہ جلوہ گر ہو کر معمور ابنِ منصور ہوا اب تھام لو اس کو اے لوگو جو حبل اللہ اتر آئی مانند عروة الوقی یہ اب دست مسرور ہوا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 473 خوف کے بعد امن مکرم مبشر خورشید صاحب انجینئر نارتھ یارک ،ٹورانٹو کیسے کی رب نے جماعت کی حفاظت دیکھی ہم نے پھر خوف کے بعد امن کی صورت دیکھی کم نہ طوفان سے تھی پیارے خلیفہ کی وفات حشر سے پہلے لگا جیسے قیامت دیکھی التجاؤں کو سنا پچھلے برس تو رب نے اب کے ملتے نہ دعاؤں کی بھی مہلت دیکھی ایم ٹی اے حضرت طاہر کا ہے اک کارِ عظیم سائنس سے دین کی لیتے ہوئے خدمت دیکھی دور ہم سے جسے دشمن نے تھا کرنا چاہا اپنے گھر بیٹھ کے آقا کی وہ صورت دیکھی کر دیا دعوتِ اسلام کا حق اُس نے ادا دیکھا آرام کبھی اپنا نہ صحت دیکھی کتنا حیراں ہے جماعت کی ترقی یہ جہاں پہنچتی چاروں طرف دنیا میں شہرت دیکھی اے خدا پہلے سے بڑھ کر ہو کرم کی بارش ہم نے ہر آن برستے تیری رحمت دیکھی
حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی بنصر العزيز 474 ابن مریم بھی بلا شک تھے خلیفہ رابع پوری سب ہوتے حدیثوں کی صداقت دیکھی ایده اب ہمارے ہیں امام حضرت مرزا مسرور ان کے ہاتھوں میں جماعت کی امامت دیکھی بادشاہ آپ ہیں قاضی بھی ہمارے اب تو آپ کے حق میں یہ تحریر بشارت دیکھی اک لڑی میں ہے جماعت کو پرویا پھر سے آپ کے ہاتھ پہ پھر عالمی بیعت دیکھی ہم پہ احسان ہے مولا کا خلافت کا قیام اس سے بڑھ کر کوئی خورشید نہ نعمت دیکھی مکرم سراج الحق قریشی صاحب خلافت سے وابستہ ہے دیں کا غلبہ فتوحات کا کارواں ہے خلافت ہمیں جاں سے پیارا ہے مسرور آقا ہمارے لئے جانِ جاں ہے خلافت
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 475 إِنِّي مَعَكَ يَا مَسْرُورُ مکرم طاہر عدیم صاحب جرمنی دکھ درد کروں گا دور ـعَكَ بَ خوش ہیں ہیں لوگ مجبوری طاعت روز لوگ جو ہوئے کوئی تھے کے نشے میں چُور 6 مشہور رنجور مجبور حضور گاتے ہیں ی مَعَكَ يَـ مُّسْرُورُ تعداد تری تعداد ما آباد کے میں امداد دول گا برباد منظور قدرت نِّی مَـ ــــرُورُ حیلوں اور وسیلوں کا انبار دلیلوں کا گا اصل اصیلوں وکیلوں کا کا م م
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 476 جائے مَعَكَ گا مغرور ـرور لطف لحاظ لٹاؤں گا بحر بہاؤں گا درد بٹاؤں گا مٹاؤں گا ما ما ما ما ـرور تھا تھا فتوے مَعَكَ ظلا جب وہ محفل میرے ساتھ مسیحائے نور مَعَكَ يَـ ـرور
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 47 ماں کی دُعاؤں جیسا مکرمہ تهمینه مین صاحبه، ر بوه زیست کی دھوپ میں اک شخص ہے چھاؤں جیسا اس کا ہونا ہے بہاروں کی ہواؤں جیسا Cenis Com اس نے اندر کے اندھیروں کو اُجالے بخشے پیاسی روحوں کو ، وہ ساون کی گھٹاؤں جیسا جب کبھی بھی کسی مشکل نے ہمیں آگھیرا مجھ کو وہ شخص لگا ، ماں کی دعاؤں جیسا اس کی عادت ہے ، جلائے گا محبت کے چراغ گرچه دشمن کا رویہ ہے ہواؤں جیسا جب بھی وہ ہونٹ ہلے نور کی برسات ہوئی اس کا ہر قول ہے سورج کی شعاعوں جیسا غیر ممکن ہے کہ دکھلا دے نمونہ کوئی اک خلافت سے کروڑوں کی وفاؤں جیسا
حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالی نصرہ العزیز 478 جماعت جسم ہے اور دل خلافت مکرم فاروق محمود صاحب اے مرے پیارے خدایا ہیں ترے ہم پر عطايا میرے مولا نے پھر دن دکھایا مرے یوسف سے ہم پھر ملایا جلوے کی ہم کو پھر دکھا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي جماعت جسم ہے اور دل خلافت مرے آقا کی مولا کر حفاظت غلاموں کو عطا سعادت اطاعت کرتے جائیں تا قیامت خلافت کی ہمیں تو نے قبا دی فسبحان الذى اخزى الاعادي میچ پاک کا اثر دعا خلافت اکائی بن محبت جماعت ہم کو رو شاہد خدا ہے جدا ہے فضلوں کی منادی طرفه عطا جماعت تیرے فسبحان الذى اخزى الاعادي
حضرت خلیفة المسح الخامس ایدہ اللہ علی بنصرہ العزیز 479 یادوں کے دیپ مکرم عبدالصمد قریشی صاحب، ربوه ہجر کے رنج و الم دل میں بسائے رکھنا ان کی یادوں کے سبھی جلائے رکھنا دیپ وہ کہ اک شخص تھا شاداب بہاروں جیسا اس کی خوشبو خیالوں کو سجائے رکھنا ނ دیکھ لینا کبھی سپنوں میں چلے آئیں گے دل کی دہلیز پہ اک شمع جلائے رکھنا بھول سکتا ہے بھلا کون وہ انداز بیاں علم و عرفان کی اک شمع جلائے رکھنا اپنا اندازِ محبت ہے زمانے سے جُدا چاند کے گرد یوں ہالہ سا بنائے رکھنا اس کا احساں ہے ہمیں حضرت مسرور ملے اپنی پلکوں کو اسی در پہ جھکائے رکھنا
حضرت خلیفة الحي الخامس ایده الله عالی بنصرہ العزیز 480 خلافت کا فیضان مکرمہ صاحبزادی امتہ القدوس بیگم صاحبہ بھاری خدا کا احسان ہے ہم کہ جس نے ہے اپنی یہ نعمت اتاری نہ مایوس ہونا کھٹن ہو نہ طاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری! نبوت کے ہاتھوں جو پودا لگا ہے خلافت کے سائے میں پھولا پھلا ہے یہ کرتی ہے اس باغ کی آبیاری گا خلافت کا فیضان جاری! خلافت سے کوئی بھی ٹکر جو لے گا وہ ذلّت کی گہرائی میں جا گرے گا خدا کی سنت ازل سے ہے جاری خدا کا رہے گا خلافت کا فیضان جاری! خلافت وعده گی نعمت تمہیں تا قیامت ملے گی شرط اس کی اطاعت گزاری رہے گا خلافت کا فیضان جاری!
حضرت خلیفہ امسح الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 481 اخوت نعمت خلافت سے ہی بر برکتیں وفا کا قرینہ ترقی کا زینہ ہیں ساری رہے گا خلافت کا فیضان جاری! الی ہمیں تو فراست عطا کر گہری محبت عطا کر خلافت ہمیں دیکھ نہ دے کوئی لغزش ہماری رہے گا خلافت کا فیضان جاری! مکرم سید طاہراحمد زاہد صاحب خلافت وہ امید کی روشنی ہے اندھیروں میں جس نے اجالا کیا ہے رہے گی قیامت تلک اب خلافت خدا کا یہ وعدہ یہی فیصلہ ہے
حضرت خلیفة اسم الخامس ایدہ اللہتعالی بنصرہ العزیز 482 خلافت کا سایہ مکرم محمد رفیق اکبر صاحب جنہوں نے کیا ہے خلافت سے پیار تو ان پہ ہوئیں رحمتیں بے شمار خلافت سے سیکھے محبت کے ڈھنگ ہمیشہ جو اس کے رہے سنگ سنگ نہیں ہوتی ان کو کبھی کوئی خلافت کے دم سے سبھی رونقیں اطاعت سے گھر گھر میں ہیں برکتیں جماعت پہ چھائی ہے ہر دم بہار ے لئے جو دعائیں کریں وہ رو رو کے تر سجدہ گاہیں کریں جماعت کی خاطر رہیں بے قرار خلیفہ ہمارے رہیں چاہے دور ہراک دل میں بستے ہیں لیکن ضرور ہر اک آنکھ کرتی ہے ان کا دیدار وہ نیکی کی راہیں دکھاتے ہیں روز وہ قرآں کی باتیں بتاتے ہیں روز دیئے لاکھوں اللہ نے طاعت گزار جو اللہ کی راہوں میں دیتے ہیں مال ہمیشہ جو کھاتے ہیں رزق حلال تو خوش ہوتا ہے ان سے خدایا خلافت سلامت رہے پروردگار سایہ یونہی تاقیامت رہے دعا مانگتے ہیں یہ ہم خاکسار عمل ان کی باتوں پہ جس نے کیا جو سب کچھ کریں اپنا دیں پہ فدا تو اکبر انہی کے ہی بیڑے ہیں پار