Language: UR
انسان کامل ﷺ کے اسوۃ حسنہ کے مختلف پہلو پر مستند واقعات اور روایات کو جمع کرنے کے لئے مؤلف نے عرق ریزی سے یہ قیمتی کتاب مرتب کی ہے۔ قبل ازیں اس حوالہ سے حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ کی ‘‘انسان کامل’’ کے نام سے مختصر کتاب موجود تھی۔ موجودہ کتاب میں آپ ﷺ کے روزمرہ معمولات، عادات واطوار اور اخلاق حسنہ پر تفصیلی مواد پیش کیا گیا ہے۔
لَقَدْ كَارَ لَكُمْ فِي رَسُول اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ اسوہ انسانِ کامل cream scho سیرت رسول ﷺ کا ایمان افروز تذکرہ حافظ مظفر احمد
لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُول اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ اسوة انسانِ کامل سیرت رسول عملہ کا ایمان افروز تذکره
نام کتاب اسوہ انسان کامل سن اشاعت $2011.طبع.چهارم تعداد ایک ہزار
الله الرحمن الرحيم بسم بَلَغَ العد الدم بے کمالہ ماییم صَلُّوا عَلَيكَ آلِه اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کمالات عطا فرمائے تھے، اُن کے سبب آپ انتہائی بلندی پر فائز ہو گئے.آپ کے ظاہری و باطنی حسن سے اندھیرے کافور ہوئے.آپ کے اخلاق اور تمام عادات و خصائل نیک، پاکیزہ اور حسین تھے.آپ پر اور آپ کی آل پر درود و سلام ہو !
اسوہ انسان کامل i پیش لفظ بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ انسانیت اپنے خالق و مالک کی تلاش میں سرگرداں تھی کہ ناگاہ ایک شیریں آواز نے صحرائے عرب کا سکوت تو ڑا اے عشق الہی کے متوالو! میرے پیچھے چلے آؤ تو ( اپنی منزل پالو گے ) اللہ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.1 فرمان الہی کی تعمیل میں یہ مژدہ جان فزا سنانے والے ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ “ تھے جنہوں نے اپنے رب سے انتہائی درجہ کی محبت کی اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے رنگ میں رنگین ہو کر دنیا کو ایک بہترین اور خوبصورت نمونہ دیا تھے.رسول اللہ کے اخلاق فاضلہ کی جڑ صفات الہیہ میں ہے.اسی لئے بنی نوع انسان سے ہمدردی والفت کے ذکر میں اللہ تعالیٰ کی صفات رؤف و رحیم آپ کی ذات پر بھی چسپاں کی گئی ہیں تیجس طرح صفت ” نور“ کا اطلاق آپ کی ذات پر کر کے تعلق باللہ میں آپ کے کمال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے میڈر اصل قرآنی تعلیم کا خلاصہ صفات الہیہ میں مضمر ہے.اسی ”امانت کا بوجھ ہی تھا جسے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے بھی اُٹھانے سے انکار کر دیا.یہ بارامانت اُٹھایا تو ایک انسان کامل‘ نے تیجس کا اکمل اور ارفع فرد ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تبھی تو رسول امین“ آپ کا لقب ٹھہرا.5 نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپ میں لامحال 6 صفات جمال اور صفات جلال ہر اک رنگ ہے بس عدیم المثال اللہ تعالیٰ کی تو سب صفات ہی پیاری اور خوبصورت ہیں جن کی مظہر اتم رسول اللہ کی ذات تھی اس لئے ہمارے نبیؐ کے سب اخلاق پاکیزہ حسین اور نورانی ہیں.آپ نے اپنی بعثت کا مقصد ہی یہ بیان فرمایا کہ بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الاخلاقِ میں بہترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث ہوا ہوں.اخلاق نام ہے فطری قومی کے برمحل استعمال کا اور بلاشبہ آپ نے مکارم اخلاق کے بہترین نمونے قائم کرنے کا حق ادا کر کے دکھا دیا اور ہر خلق کو اُس کی معراج تک پہنچا دیا.کیونکہ آپ ہی تھے جن کے تمام فطری قومی کمال اعتدال پر موزوں تھے.چنانچہ سورہ قلم کی ابتدائی آیات میں پیشگوئی ہے کہ قلم اور دوات سے لکھے جانے والے علوم گواہی دیں گے کہ انكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی اے نبی يقيناً آپ عظیم الشان اخلاق فاضلہ پر قائم ہیں.یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی اور بدستور پوری ہوتی چلی آرہی 1- آل عمران : 3 - الاحزاب : 22 - التوبه: 128, 4-المائدہ: 6 5- الاحزاب:73 6- استگویی : 22 ، 7- القلم: 6
اسوہ انسان کامل ii پیش لفظ ہے.آج بھی نبی کریم کی سیرت پر لکھنے والوں کی صف میں شامل ہونا اپنوں اور غیروں میں برابر باعث اعزاز سمجھا جاتا ہے مگر بائیں شرط کہ: اوچه میدارد بمدح کس نیاز مدح أو خود فخر ہر مدحت گرے رسول اللہ کی ذات پر لکھی گئی بے شمار کتب ہائے سیرت کا جہاں تک تعلق ہے، ان میں بالعموم آپ کی سوانح اور سن وارا حوال و واقعات کے بیان میں زیادہ توجہ کی گئی ہے.جب کہ آپ کے نمونہ وکردار کے بیان میں اختصار سے کام لیا گیا ہے، حالانکہ اسوہ رسول کا یہ مضمون اپنی ذات میں انتہائی اہم ہے.رسول اللہ فرماتے ہیں کہ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے اخلاق سب سے عمدہ ہیں.آپ اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کہ تیرے سوا کوئی یہ رہنمائی نہیں کر سکتا اور تو خود مجھے بڑے اخلاق سے بچالے کہ تیرے سوا بد اخلاق سے کوئی بچا نہیں سکتا ھے پس مکارم اخلاق رسول سے تعارف کے لئے واقعاتی انداز میں یہ کتاب اسوہ انسان کامل ایک دیر یہ ضرورت تھی جو سالہا سال کی محنت و کاوش کا ثمر ہے.اُردو کی لا تعداد کتب سیرت میں علامہ شبلی نعمانی کی مستند کتاب سیرت النبی اہم ہے.جس کی دوسری جلد میں سیرت واخلاق فاضلہ پر عمدہ نوٹ قلمبند کئے گئے ہیں مگر وہ بھی تشنہ ہیں.بعض اور علماء نے بھی اسوۂ حسنہ کے موضوع پر کتب لکھیں مگر اُن میں ایک تو واقعاتی مواد کم ہے، دوسرے حوالہ جات کے استناد کا اہتمام نہیں.متداول کتب سیرت میں یہ تشنگی محسوس کرتے ہوئے اسوہ انسان کامل “ میں سن وارسوانح کی بجائے اسوۂ حسنہ کے مختلف پہلو دلنشیں واقعاتی اُسلوب میں پیش کئے گئے ہیں.اللہ جزا دے برادرم مکرم نسیم مہدی صاحب ( سابقہ امیر جماعت ہائے احمد یہ کینیڈا ) کو جن کی تجویز پر حضرت خلیفہ المسیح الرابع " نے اس عاجز کو حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے مطبوعہ مضمون ”انسان کامل“ کے خاکہ میں واقعات کے رنگ بھر کر ایک دلکش گلدستۂ سیرت تیار کرنے کا ارشاد فرمایا.سیرت رسول کے موضوع پر کچھ لکھنے کی سعادت پانا دیرینہ دلی آرزو تھی.حضرت مسیح موعود کا وہ جامع بیان پڑھ کر بھی اس موضوع پر قلم اُٹھانے کو جی مچلتا تھا جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفت نور کے پرتو سے رسول اللہ ﷺ کی ذات میں پیدا ہونے والے نورانی اخلاق کی ایک جامع فہرست دے کر گو یا اہل علم کو دعوت تحقیق و قلم دی ہے.آپ نے نور علی نور کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرمایا:.عقل ذكا،سرعت فہم ، صفائی ذہن، حسن، تحفظ، حسن تذکر ، عفت، حیا، صبر، قناعت، زہد، توزیع، جوانمردی، 1- بخاری کتاب الادب 2- مسلم كتاب الصلوة
پیش لفظ اسوہ انسان کامل استقلال، عدل، امانت ، صدق لهجه ، سخاوت فی محلہ ، ایثار فی محله ، کرم في محلہ ، مروت في محلہ، شجاعت فی محلہ ، علو همت في محلہ علم فی محله تحمل في محلہ جمعیت فی محلہ، تواضع في محلہ ، ادب في محلہ شفقت في محلہ ، رافت في محلہ ، رحمت في محلہ ، خوف الہی ،محبت الہیہ ، أنس باللہ، انقطاع الی اللہ وغیرہ وغیرہ جمیع اخلاق فاضلہ اس نبی معصوم کے ایسے کمال موزونیت و لطافت و نورانیت پر واقعہ کہ الہام سے پہلے ہی خود بخود دروشن ہونے پر مستعد تھے ان نوروں پر ایک اور نور آسمانی جوجی الہی ہے.وارد ہو گیا.اور اُس نور کے وارد ہونے سے وجود باجود خاتم الانبیاء کا مجمع الانوار بن گیا.(1) چنانچہ مذکورہ بالا خوبصورت موضوعات سیرت کے ساتھ حضرت میر صاحب مرحوم کے رسالہ ”انسان کامل کے عناوین بھی زیر نظر کتاب میں سمونے کی سعی کا بیڑا اٹھایا.مزید برآں سیرۃ خاتم النبین میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے آئندہ تکمیل کتاب کی خاطر آخر میں فہرست عناوین میں شمائل نبوی “ اور ”سب نبیوں سے زیادہ کامیاب نبی“ کے عنوان بھی قائم فرمائے تھے.امید ہے اس خواہش کی تکمیل بالخصوص کتاب کے پہلے اور آخری مضمون سے اور بالعموم پوری کتاب سے ہو سکے گی.سیرت پر ایسی کتاب کی تیاری ایک کٹھن ، صبر آزما اور طویل محنت طلب کام تھا جو مرحلہ وار ہی ممکن ہوسکا.آغاز میں کتب حدیث وسیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے موضوعات بالا پر مواد ساتھ ساتھ اکٹھا کیا جاتا رہا، بعد میں سیرۃ النبی "پر مضامین کا ایک سلسلہ شروع کر دیا گیا جو مختلف اخبارات و جرائد کی زینت بنتے رہے.الحمدللہ کہ اُن تمام مطبوعہ و غیر مطبوعہ مضامین کو اسوہ انسان کامل کی صورت میں پیش کر کے کئی دیرینہ آرزوؤں کی تکمیل ہوتی ہے.زیر نظر کتاب میں بیان کردہ واقعات سیرت کی ایک اپنی دلکشی ہے مگر ان کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ ایک صاحب ایمان کے لئے بہترین دعوت عمل ہیں.اس کتاب کی دوسری خصوصیت مضمون کی جامعیت ہے.کوشش کی گئی ہے کہ سیرت رسول اور اخلاق فاضلہ کا کوئی اہم پہلو بیان سے رہ نہ جائے.چنانچہ سینتالیس 7 متنوع عناوین پر مبسوط مضامین سیرت کتاب کی زینت ہیں.جو واقعاتی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ ہمارے نبی غریبوں، دولت مندوں ، محکوموں، حاکموں ، شادی شدہ اور مجر دلوگوں سب کے لئے ایک نمونہ تھے نیز بحیثیت باپ، بحیثیت شوہر، بحیثیت دوست، بحیثیت سپاہی اور بحیثیت جرنیل آپ ایک کامل انسان تھے.اسوہ انسان کامل“ کی تیسری اہم خوبی حوالہ جات کے استناد کا خصوصی اہتمام ہے.قرآنی آیات کے حوالے ہر مضمون میں ساتھ ہی دے دیئے گئے ہیں ( بسم اللہ کو ہر سورت کی پہلی آیت شمار کرتے ہوئے ).-1 براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 1 ص 195 حاشیہ 11
اسوہ انسان کامل iv پیش لفظ کوشش کی گئی ہے کہ ہر بات باحوالہ ہو اور ہر واقعہ سیرت کے ساتھ عام قاری کی سہولت کے لئے مختصر حوالہ و ہیں ذکر کر کے تفصیلی حوالہ کے لئے نمبر دے دیا گیا ہے.سوائے بعض ایسے واقعات کے جن کا مکرر ذکر کرنا پڑا ہے یا کوئی ایسا شاذ حوالہ جس کی تحقیق و جستجو جاری ہے.اہل علم محقق حضرات کے لئے ہر مضمون کے آخر میں تفصیلی حوالے بھی درج ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی معیاری اور ٹھوس علمی کام کا تنہا پیش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے اس لئے تمام تعاون کرنے والے احباب کا شکر یہ ادا کرنا بھی ضروری ہے.اوّل فراہمی مواد کے سلسلہ میں بعض اہم بنیادی کتب حدیث و مآخذ سیرت نیز حوالہ جات حدیث کی تلاش کے لئے کلیدی کتب مہیا کرنے میں تعاون کرنے والے احباب ہیں.پھر تیاری مضمون کے وقت املاء لینے یا رف مسودہ قلمبند کرنے والے، کمپوزنگ کرنے والے، پروف ریڈنگ کر کے مسودہ کے بارہ میں مفید مشورے دینے والے ہیں.جن میں بعض متخصصین فی الحدیث اور بطور خاص عزیزم مکرم عطاء اللہ مجیب صاحب قابل ذکر ہیں جنہوں نے حوالہ جات کی تلاش میں مخلصانہ سعی کی.اسی طرح کتاب کے اشاریہ کی تیاری اور اس کی طباعت و اشاعت کے آخری مراحل سر ہونے تک معاونت کرنے والے احباب بھی شکریہ اور دعا کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا عطا فرمائے.آمین.اے اللہ ! اس کتاب کو دنیا کی ہدایت کا ذریعہ بنادے کہ وہ سچی اور دلی محبت کے ساتھ اس عظیم رسول کا پاک نمونہ اپنا ئیں اور اس احقر کے لئے یہ کتاب تو شئہ آخرت اور شفاعت رسول کا وسیلہ بن جائے.گر قبول افتد زهي عزو شرف والسلام 21 / رمضان المبارک بمطابق 5/ نومبر 2004 ء
اسوہ انسان کامل V دیباچه دیباچه طبع سوم الحمد للہ کہ کتاب اسوہ انسانِ کامل کو خدا کے فضل سے بہت پذیرائی ملی.اس کا پہلا ایڈیشن تو بہت جلد ختم ہو گیا تھا.اس میں سہو کتابت کی کچھ خامیاں تھیں جو بھارت سے شائع ہونے والے دوسرے ایڈیشن میں دور کر دی گئی تھیں.اب تیسرے ایڈیشن میں مزید اصلاحات کے ساتھ قابل قدر اضافے بھی ہیں جیسے رسول کریم کا مختصر سوانحی خاکہ" اور "آنحضرت کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق کے مضامین.دیگر عناوین میں بھی مزید واقعات شامل کئے گئے ہیں.بالخصوص آخری عنوان ”نبیوں میں سب سے زیادہ کامیاب نبی میں مزید حوالہ جات کے علاوہ اصل انگریزی عبارات شامل کرنے کا اہتمام بھی کر دیا گیا ہے.کتاب کے آخر میں ” المراجع والمصادر “ کے تحت فہرست محولہ کتب بھی دیدی ہے.اس ایڈیشن میں اشاریہ کا بھی اضافہ کیا گیا ہے تا کہ مطلوبہ حوالے جلد تلاش کئے جاسکیں.کتاب کے آخر میں اسوہ انسان کامل کے بارہ میں اب تک موصول ہونے والی اہل علم کی آراء اور تبصرے بھی شامل ہیں.ان گراں قدراضافوں کے باوجود کتاب کی ضخامت پہلے کی نسبت ڈیڑھ صد صفحات کم ہے.اس کے لئے رسم الخط کے فانٹ (Font) میں موزوں تبدیلی کے ساتھ ہر صفحہ کی از سر نو ترتیب و تزئین کی گئی ہے.جو کا تب (Composer) کی فنی حکمت عملی کا کرشمہ ہے.فجزاه الله احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس حقیر مساعی میں بہت برکت ڈال دے اور یہ کتاب بہت زیادہ نافع الناس ثابت ہو.آمین 21 رمضان المبارک بمطابق 5 نومبر 2004ء
اسوۃ انسان کامل ا صلى الله سیرت رسول ﷺ کا ایمان افروز تذکرہ عناوين حضرت محمد مصطفیٰ " کا سوانحی خاکہ سوانح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شمائل نبوی من رسول اللہ کی محبت الہی وغیرت توحید حق بندگی ادا کر نیوالا...عید کامل نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول صفحہ نمبر 1 3 46 99 66 81 4 94 105 116 124 153 165 171 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق رسول اللہ کی قبولیت دعا اور اس کے راز مخبر صادق کے رویا و کشوف اور پیشگوئیاں صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام ”رسول امین حج کی امانت و دیانت نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12
صفحہ نمبر 175 181 198 204 216 223 240 286 310 330 339 347 عناوين رسول اللہ کا ایفائے عہد آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ رسول اللہ کی ہمدردی خلق رسول کریم کی رافت و شفقت 357 365 404 418 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوۃ انسان کامل نمبر شمار رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت معلم و مربی اعظم نبی کریم کا اتفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا نبی کریم کا خلق ، مہمان نوازی رسول اللہ کی حب الوطنی رسول اللہ کا استقلال اور استقامت نبی کریم کا مصائب پر صبر غزوات النبی میں خلق عظیم 13 14 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی رسول کریم بحیثیت منصف اعظم 15 16 17 18 19 20 20 24 21 22 22 23 24 24 25 25 26 26 27 27 28
اسوۃ انسان کامل نمبر شمار 29 30 30 31 32 32 33 34 عناوين رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک ہمارے نیں یہ بتائی وایامی کے محافظ صفحہ نمبر 429 441 462 469 479 487 502 519 532 539 548 553 570 579 584 589 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار نبی کریم کا عدیم المثال عفو و کرم نبی کریم " کا شاندار حلم آنحضرت کی شان تو کل علی اللہ رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی رسول کریم کی حیاداری 35 36 36 37 37 38 39 40 40 41 42 42 43 44
اسوۃ انسان کامل د نمبر شمار 45 46 46 47 48 49 49 50 عناوين نبی کریم کا حسن مزاح اور بے تکلفی آنحضرت کی خداداد فراست و بصیرت نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی المراجع المصادر اشاریہ كتاب أسوة انسانِ کامل کے بارہ میں چند آراء صفحہ نمبر 593 601 621 665 672 688
اسوہ انسان کامل vi دیباچه دیا چه طبع چهارم لحمدللہ کہ کتاب اسوہ انسان کامل کا چوتھا ایڈیشن اضافوں کے ساتھ حسب منظوری حضرت خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مجلس انصار اللہ پاکستان کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے.اس کے پہلے ایڈیشنز میں جو خامیاں رہ گئیں تھیں وہ اس چوتھے ایڈیشن میں دور کرنے کی سعی کی گئی ہے.حسب ذیل قابل قدر اضافے کتاب میں کئے گئے ہیں.لا سوانح حضرت محمد رسول اللہ کے بہترین اسلوب تجارت می جنگوں میں رسول اللہ کی حکمت عملی حمید ہمارے نبی یامی وایامی کے محافظ اور والی جلد رسول اللہ کی خداداد فراست وبصیرت.ان عناوین سے 150 صفحات کا اضافہ ہوا ہے.کتاب کی ضخامت مناسب رکھنے کیلئے سائز بڑا کر دیا گیا ہے.دیگر سابقہ عناوین میں بھی بعض مزید واقعات اور حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں.ان گراں قدر اضافوں کے با وجود صفحہ کا سائز بڑھا کر کتاب کی ضخامت پہلے کی نسبت کم کر دی گئی ہے.اس کیلئے رسم الخط کے فونٹ (Font) میں موزوں تبدیلی کے ساتھ ہر صفحہ کی از سر نوتر تیب و تزئین کی گئی ہے.اضافہ جات اور کتاب کے سائز میں تبدیلی کے باعث صفحات بدل جانے سے نیا انڈیکس ( اشاریہ ) ضروری ہو گیا تھا.یہ کام پہلے سے زیادہ مفصل اور بہتر رنگ میں ترتیب دیا گیا ہے.کتاب میں موجود 2500 سے زائد حوالہ جات کی از سر نو پڑتال کر کے ضروری ترمیم واصلاح کر دی گئی ہے.جس کے لئے اصل کتب کے علاوہ سی ڈى المكتبة الشاملة الاصدار الثانی (2.11) سے مدد لی گئی ہے اور کتب صحاح کے حوالہ میں ذیلی کتاب کے عنوان سے قبل سہولت کی خاطر شروع میں نمبر کتاب اور باب کے بعد اس کا نمبر درج کر دیا گیا ہے.کتاب پر نظر ثانی ، تدوین تخریج تصحیح حوالہ جات اور اشاریہ کی تکمیل میں قریباً پانچ ماہ کا عرصہ لگا جس میں عزیزم مکرم عطاء النور صاحب مربی سلسلہ نے مسلسل تندہی و محنت سے کام کیا ہے.اللہ تعالیٰ انکو جزائے خیر عطا کرے ، نظر ثانی کے کام میں تعاون کر نیوالوں میں خاکسار کی اہلیہ مکرمہ نصرت مظفر صاحبہ کے علاوہ مکرم خواجہ مظفر احمد صاحب مربی سلسلہ مکرم محمد احمد نعیم صاحب مربی سلسلہ اور بعض دیگر کارکنان مکرم ندیم احمد صاحب اور آصف رضا صاحب بھی دعاؤں کے مستحق ہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء اللہ تعالیٰ اس حقیر مساعی میں بہت برکت ڈال دے اور یہ کتاب بہت زیادہ نافع الناس ثابت ہو.آمین
數 اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إبْراهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ انكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَاركَ عَلَى مُحَمَّدِ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
اسوہ انسان کامل 1 حضرت محمد مصطفی کا سوانحی خاکہ حضرت محمد مصطفی " کا سوانحی خاکہ ہر چند کہ کتاب اسوہ انسان کامل میں سوانح کی ترتیب ماہ وسال کی بجائے رسول اللہ کے اخلاق فاضلہ اور اسوۂ حسنہ پر واقعاتی انداز میں بحث کی گئی ہے.تاہم آغاز میں سوانح کے کسی قدر تفصیلی بیان سے پہلے ایک مختصر سوانحی خاکہ پیش ہے.تا کہ مختلف اہم واقعات سیرت کے لئے میدانڈیکس کا کام دے سکے.ہمارے نبی شاہ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اس تاریخی سال میں ہوئی ، جب خانہ کعبہ پر یمن کے گورنر ابر ہ نے حملہ کیا تھا.محمود پاشا فلکی مصری کی تحقیق کے مطابق یہ سال 571ء تھا اور 20 را پریل (مطابق 9 ربیع الاول) تاریخ تھی.چالیس سال کی عمر میں حضرت محمد مصطفیٰ پر وحی قرآنی کا نزول ہوا.اس تسلسل میں اہم تاریخی سوانح کا خاکہ یوں ہے.بعثت نبوی کا پہلا سال 610ء.نزول قرآن کا آغاز پانچواں سال 614ء.پہلی ہجرت حبشہ ساتواں سال 615ء.محاصرہ شعب ابی طالب ، معجزہ شق القمر دسواں سال 619ء وفات حضرت خدیجہ وابو طالب ، نکاح حضرت عائشہ و حضرت سودہ ، سفر طائف گیارہواں سال 620 ء.اہل یثرب سے ملاقات بارھواں سال 621ء.واقعہ معراج تیرھواں سال 622ء.بیعت عقبہ ثانیہ ، ہجرت مدینہ ہجرت کا پہلا سال 1ھ مطابق 622ء مدینہ آمدہ مسجد قباء اور مسجد نبوی کی بنیاد، ابتدائے اذان مؤاخات انصار و مہاجرین، معاہدہ یہود 2ھ بمطابق 623ء تحویل قبلہ، فرضیت رمضان عید الفطر، جنگ بدر، حضرت عائشہ سے شادی
اسوہ انسان کامل 2 حضرت محمد مصطفیٰ" کا سوانحی خاکہ ھ مطابق 624 ء.غزوہ قینقاع، پہلی عید الاضحی ، حضرت علی کا حضرت فاطمہ سے نکاح، حضرت عثمان سے اُمّ کلثوم کی شادی، رسول اللہ کی حضرت حفصہ سے شادی ، غزوہ احد 4ھ مطابق 625 ء.واقعہ رجمیع و بئر معونہ ، یہودی قبیلہ بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج، رسول اللہ کی حضرت ام سلمہ سے شادی ، غزوہ بدر الموعد 5ھ مطابق 626ء غزوہ دومۃ الجندل، مدینہ میں چاند گرہن اور نماز خسوف ، غزوہ بنو مصطلق اور واقعہ افک، غزوہ خندق ، غزوہ بنو قریظہ.6 ھ مطابق 28-627ء غزوۂ بنو لحیان، ثمامہ بن اثال رئیس یمامہ کا قبول اسلام، حضرت ابوالعاص داما درسول کا قبول اسلام صلح حدیبیہ اور بیعت رضوان 7ھ مطابق 29-628ء شاہان مملکت کو تبلیغی خطوط، غزوہ ذی قرد، غزوہ خیبر ، حضرت صفیہ سے شادی ، اہل فدک سے مصالحت ، آنحضرت کو زہر دینے کی سازش، مہاجرین حبشہ کی واپسی ، حضرت ابوھریرہ کا قبول اسلام، غزوہ ذات الرقاع اور صلوۃ الخوف، عمرۃ القضاء ھ مطابق 629ء.غزوہ موتہ، غزوہ فتح مکہ ، غزوہ حنین ،غزوہ طائف، مدینہ میں قبائل عرب کے وفود کی آمد کا آغاز 9ھ مطابق 630ء غزوہ تبوک، وفود عرب کی کثرت سے آمد ، عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کی موت، اہل طائف کا قبول اسلام ، حضرت ابوبکر کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا حج 10 ھ مطابق 631ء حضرت عدی بن حاتم الطائی کا قبول اسلام، حضرت ابو موسیٰ و حضرت معاذ کو یمن بھیجوانا، حجۃ الوداع 11ھ مطابق 632ء آخری وفد کی آمد، حضور کی آخری بیماری سریہ اسامہ بن زید، وفات رسول
اسوہ انسان کامل 3 سوانح حضرت محمد علی سوانح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب قبل از اسلام: ہمارے آقا بانی اسلام حضرت محمد ﷺ چھٹی صدی عیسوی میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص اور گزشتہ پیشگوئیوں کے مطابق عرب کے جزیرہ نما ملک میں پیدا ہوئے.جو ہندوستان کے مغرب میں واقع ہے.اس زمانہ میں اہل عرب تمدنی دنیا سے الگ وحشیانہ زندگی بسر کر رہے تھے.شراب خوری ، قمار بازی اور بد کاری عام تھی.عربوں کی جہالت اور بے جاضر و تعصب کا یہ عالم تھا کہ ذراسی بات پر تلوار میں سونت لی جاتیں اور سالہا سال تک قبائل کے مابین دشمنی اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا.مظلوم کا کوئی پرسان حال نہ تھا.عورت کی حالت عرب میں سب سے نازک تھی.ایک مرد جتنی بیویاں چاہتا، نکاح میں رکھتا.بعض قبائل تو لڑکی کو باعث نگ و عار سمجھتے ہوئے زندہ درگور کر دیتے تھے.عورتوں کا حق وراثت اور دیگر حقوق پامال ہو رہے تھے.عرب کا مذہب بت پرستی تھا.ان میں تو ہم پرستی کی بناء پر کئی قبیح رسمیں رائج تھیں.دیگر مذاہب میں سے یہودی، عیسائی ، صابی اور مجوسی بھی بعض عرب علاقوں میں پائے جاتے تھے اس زمانہ کا نقشہ ایک عیسائی مؤرخ سر ولیم میور نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.محمد (ﷺ) کی جوانی کے زمانہ میں عرب ایک بندھی لکیر پر چلنے والے لوگ تھے.ملک کی حالت ہر قسم کے تغیر اور اصلاح کے سخت مخالف تھی بلکہ اس کی تاریخ میں شاید اس زمانہ سے بڑھ کر کوئی زمانہ نہیں گزرا جب اس کی اصلاح اس وقت سے زیادہ مشکل اور مایوس کن ہو..بت پرستی اور بنو اسماعیل کے تو ہمانہ عقائد کا دریا ہر سمت سے جوش مارتا ہوا کعبہ کی دیواروں سے آ کر ٹکراتا تھا.( میور )1 امر واقعہ یہ ہے کہ صرف عرب ہی نہیں اس وقت ساری دنیا پر ہی سخت تاریکی کا دور دورہ تھا.اور سب مذاہب بگڑ چکے تھے.حضرت محمد ﷺ کی پیدائش بحر و بر میں فساد اور تاریکی کے اس عالم میں سرزمین عرب میں ایک آفتاب طلوع ہوا.مکہ کے ایک معزز خاندان، قریش میں ، حضرت محمد ﷺ کی ولادت 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ء میں ہوئی.( محمود پاشا ) 2 آپ کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اور والدہ آمنہ بنت وہب تھیں.آپ کا شجرہ نسب اپنے جد امجد عدنان کے واسطہ سے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل تک پہنچتا ہے.وہ بزرگ باپ بیٹا جنہوں نے دعائیں کرتے ہوئے مکہ میں خدا کے پہلے گھر کی بنیاد رکھی تھی کہ وہ تو حید کا مرکز بنے.مگر آنحضرت کی ولادت کے وقت وہ بتوں کا گہوارہ بن
اسوہ انسان کامل 4 سوانح حضرت محمد علی چکا تھا.آپ کی والدہ نے ایام حمل میں خواب میں دیکھا تھا کہ انکے وجود سے ایک چمکتا ہوا نور نکلا ہے جو دور دراز تک پھیل گیا ہے.اور ایک فرشتہ ان سے کہتا ہے کہ اس ہونے والے بچے کا نام محمد رکھنا.آپ کے دادا عبدالمطلب نے اسی خواب کی بناء پر بچے کا نام محمد (ﷺ ) رکھا.( زرقانی) 3 آپ کی پیدائش کے زمانہ میں آسمان پر غیر معمولی کثرت سے ستارے ٹوٹنے کا نشان بھی دیکھا گیا.آپ کی پشت کے بائیں جانب پیدائشی طور پر گوشت کے ابھرے ہوئے ایک ٹکڑے کا نشان تھا جو مہر نبوت کے نام سے معروف ہے.( زرقانی) بچپن لڑکپن شرفاء عرب کے دستور کے مطابق دودھ پلانے کے لئے حضرت محمدیہ قبیلہ بنی سعد کی ایک دیہاتی دایہ حلیمہ کے سپرد کیے گئے.حسب دستور دو سال کے بعد وہ آپ کو مکہ واپس لے آئی.مگر ان دنوں مکہ کی آب و ہوا کچھ خراب تھی.چنانچہ آپ کی والدہ نے آنحضرت ﷺ کو دوبارہ اسکے سپرد کر دیا.چار سال کی عمر میں وہاں آپ کے ساتھ یہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ دو سفید پوش آدمیوں نے آپ کا سینہ چاک کیا اور اس میں سے کچھ نکال کر چلے گئے.آپ کے رضاعی بھائی نے گھر آکر یہ واقعہ بیان کیا تو حلیمہ گھبرا کر آپ کو مکہ واپس چھوڑ گئیں.(ابن ہشام)3 شق صدر کا یہ واقعہ در اصل لطیف کشفی نظارہ تھا جو آپ کے رضاعی بھائی نے بھی دیکھا.جس کی تعبیر آپ کی باطنی پاکیزگی تھی.آنحضرت ﷺ نے اپنی رضاعی والدہ کی اس خدمت کی قدر کرتے ہوئے ہمیشہ ان کے خاندان سے احسان کا سلوک کیا.دو سال بعد آپ کی والدہ آپ کو نیبال سے ملانے یثرب لے گئیں.اس سفر سے واپسی پر ملکہ کے قریب ابواء مقام پر ان کی وفات ہوگئی.والد کا سایہ تو پہلے ہی سر سے اٹھ چکا تھا.چھ سال کی عمر میں آپ شفقت مادری سے بھی محروم ہو گئے.خادمہ ام ایمن نے آپ کو لا کر آپ کے دادا عبد المطلب کے سپر د کیا جنہوں نے اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر محبت کے ساتھ آپ کی پرورش کی.دو سال بعد عبدالمطلب بھی خدا کو پیارے ہو گئے اور آٹھ سال کی عمر میں یہ تیسر ا صدمہ آپ کو برداشت کرنا پڑا.جس کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کے اندر ایک خدا پر کامل ایمان و بھروسہ، عزم صمیم اور پیش آمدہ مشکلات ومصائب سے مقابلہ کے لئے ہمت پیدا ہوئی.دادا کی وصیت کے مطابق آپ کے چا ابو طالب نے آپ کی کفالت کا حق خوب ادا کیا.بارہ سال کی عمر میں آپ کی ملاقات دوران سفر بھر کی مقام پر ایک عیسائی راہب بحیر ا سے ہوئی.اس نے آپ کے چچا سے کہا کہ اس بچے کو اہل کتاب کے شر سے محفوظ رکھیں.لڑکپن کے اسی زمانہ میں رسول کریم ﷺ کو سنت انبیاء کے
اسوہ انسان کامل 5 سوانح حضرت محمد علی مطابق بکریاں چرانے کی بھی توفیق ملی.اور قریش و ہوازن کے مابین ہو نیوالی جنگ فجار میں اپنے چچاؤں کو تیر پکڑانے کی خدمت انجام دینے کا بھی موقع ملا.( ابن ہشام) ہیں سال کی عمر میں آپ حلف الفضول کے اس معاہدہ میں بھی باقاعدہ شریک ہوئے جس میں مظلوم کا حق دلانے کا عہد کیا گیا تھا.اس عہد کا پاس آپ کو زمانہ نبوت میں بھی رہا.چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ "اگر آج بھی مجھے کوئی مظلوم اس معاہدہ کی طرف بلائے تو میں اس کی مدد کا پابند ہوں.“ ( ابن سعد ) معاش اور شادی حضرت محمد سے جوان ہوئے تو ذریعہ معاش کے طور پر اپنے لئے آبائی پیشہ تجارت پسند کیا ، اس سلسلہ میں آپ نے شام، یمن، بحرین اور عرب کے دیگر اطراف کے سفر کئے.اس دوران جن لوگوں سے بھی آپ کا رابطہ ہوا.سب آپ کی راست گفتاری، دیانتداری ، امانت ، اور پاپندی عہد کے لئے رطب اللسان تھے آپ کا نام ”امین مشہور ہو گیا.ان اعلیٰ اخلاق کے ساتھ آپ ایک خوبرو نوجوان اور مردانہ حسن کا اعلیٰ نمونہ تھے.قد درمیانہ، جسم موزوں، رنگ گورا سرخی مائل ، سر بڑا ، بال کسی قدر خمدار، سینہ فراخ ، ہاتھ پاؤں بھرے بھرے ، ہتھیلیاں چوڑی، چہرہ گول، پیشانی اور ناک اونچی ، آنکھیں سیاہ اور روشن، پلکیں دراز تھیں، چلنے میں وقار تھا.بات آہستہ فرماتے.خوشی اور غمی کی حالت آپ کے چہرہ سے عیاں ہو جاتی تھی.مکہ کی ایک شریف اور مالدار بیوہ خاتون حضرت خدیجہ جو اپنی شرافت کی وجہ سے طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں.نے حضور ﷺ کی دیانت وسچائی کا شہرہ سن کر پہلے آپ کے ذریعہ اپنا مال تجارت میں لگا یا پھر آپ کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کرنے کے بعد خود آپ کو شادی کا پیغام بھیجا جو آنحضرت ﷺ نے اپنے چا ابوطالب کے مشورہ سے قبول فرمالیا اور پچیس سال کی عمر میں آپ کی شادی چالیس سالہ حضرت خدیجہ سے ہو گئی.آنحضرت ﷺ کی تمام اولا د حضرت خدیجہ کے بطن ہوئی سوائے صاحبزادہ ابراہیم کے جو حضرت ماریہ کے بطن سے تھے.قاسم، طاہر، طیب اور عبد اللہ آپ کے صاحبزادے تھے اور زینب، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ صاحبزادیاں.لڑکے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.تمام صاحبزادیوں کو اسلام قبول کرنے کی توفیق ملی.ان کی شادی و اولا د بھی ہوئی.مگر سوائے حضرت فاطمہ اور حضرت علی ہ سے کسی کی نسل معروف نہیں.حضرت محمد ﷺ کے بچپن سے جوانی تک کے دوران دو مرتبہ کعبہ کی تعمیر نو کا ذکر ملتا ہے.ایک دفعہ بچپن کے زمانہ میں جب آپ نے کندھے پر پتھر اٹھا کر اس تعمیر میں حصہ لیا.دوسری دفعہ جوانی میں بعمر 35 سال جب حجر اسود کو اسکی جگہ پر رکھنے کی ہر قبیلہ کی خواہش کا تنازعہ آپ نے خوش اسلوبی سے نمٹایا کہ اپنے دست مبارک سے اس مقدس پتھر کو
اسوہ انسان کامل 6 سوانح حضرت محمد علی اٹھا کر پہلے اپنی چادر میں رکھا اور تمام سرداروں کو اس کے چاروں کونے پکڑوا کر پہلے اسے اس کی جگہ پر لے گئے پھر اپنے دست مبارک سے ہی اسے اٹھا کر اصل جگہ پر رکھ دیا.اور قریش کو ایک خطرناک جھگڑے سے بچالیا.(ابن ہشام)3 حضرت علیؓ اور حضرت زید رسول اللہ ﷺ کی کفالت میں ย حضرت خدیجہ نے شادی کے بعد اپنا سب مال و منال حضور کی صوابدید پر چھوڑ دیا ، اور اپنے غلام زید بن حارثہ کو حضور کی ذاتی خدمت کے لئے وقف کر دیا جو آنحضرت ﷺ کو اپنی وفاداری اور خوبی کے باعث بہت عزیز تھے.حضرت زید کو بھی آپ سے اتنی محبت ہو گئی کہ جب ان کے والدین منہ مانگی قیمت ادا کر کے انہیں مکہ سے لے جانے کے لئے آئے تو آنحضرت ﷺ کی طرف سے والدین کے ساتھ جانے کے اختیار کے باوجود انہوں نے آپ کی خدمت میں رہنے کو ترجیح دی.آنحضرت ﷺ زید کو غلامی سے آزاد کر کے عرب دستور کے مطابق انہیں منہ بولا بیٹا بنا کر زید بن محمد پکار نے لگے.( ابن حجر ) قرآن شریف میں اس کی اصولی ممانعت کے بعد زیڈ اپنے باپ کے نام سے پکارے جانے لگے.مگر آنحضرت کا تعلق محبت حضرت زید سے ہمیشہ بڑھتا ہی رہا.کچھ عرصہ بعد آنحضرت نے اپنے چا ابو طالب کی امداد کی خاطر حضرت علی کو اپنی کفالت میں لے لیا.اب یہ مختصر خاندان آنحضرت ﷺ اور حضرت خدیجہ کے ساتھ حضرت علی اور زیڈ پر مشتمل ہو گیا.جہاں تک مکہ کے معاشرہ کے ماحول کا تعلق ہے قوم کی اخلاقی حالت دیکھ کر آپ سخت بے چین ہو کر ان کے لئے دعائیں کرتے.آپ کئی دن کا کھانا لیکر مکہ سے دور حراء نامی ایک پہاڑی غار میں تشریف لے جاتے اور تنہائی میں اللہ کی عبادت کرتے.اسی زمانہ میں کثرت سے آپ کو رویائے صالحہ شروع ہوئیں.( بخاری ) 10 پہلی وحی حضرت محمد ﷺ کی عمر جب چالیس برس ہوئی تو ایک روز غار حراء میں عبادت کے دوران ایک فرشتہ حضرت جبرائیل آپ کے سامنے ظاہر ہوا.یہ رمضان کے بابرکت مہینہ کا آخری عشرہ اور سوموار کا دن تھا.فرشتے نے آپ سے کہا اقرآ یعنی پڑھ.آپ نے جواب میں کہا کہ میں تو پڑھ نہیں سکتا یعنی یہ کام میری طاقت سے باہر ہے.فرشتہ نے آپ کو سینہ سے لگا کر تین مرتبہ زور سے بھینچا اور پھر سورۃ العلق کی یہ آیات آپ کو سنائیں:.اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقَ اقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَم عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (سورة العلق : 2 تا 6) ترجمہ : پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا.اس نے انسان کو ایک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پیدا کیا.پڑھ، اور تیرا رب سب سے زیادہ معزز ہے.جس نے قلم کے ذریعہ سکھایا.انسان کو وہ کچھ سکھایا
اسوۃ انسان کامل جو وہ نہیں جانتا تھا.7 سوانح حضرت محمد علی وحی الہی کے اس پہلے تجربہ کے بعد آپ کی گھبراہٹ طبعی بات تھی.چنانچہ غار حرا سے سخت اضطراب کی حالت میں واپس آکر آپ نے حضرت خدیجہ سے فرمایا.مجھ پر کوئی کپڑا ڈال دو.حضرت خدیجہ نے جب آپ سے سارا ماجرا سنا تو آپ کو تسلی دیتے ہوئے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ اللہ تعالی آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.آپ تو صلہ رحمی کرنے والے اور سچ بولنے والے ہیں ، لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں اور آپ میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو دوسروں میں نہیں.آپ مہمان نواز ہیں اور حقیقی مصائب پر دوسروں کی مددکرتے ہیں“.( بخاری ) 11 اس کے بعد حضرت خدیجہ مزید اطمینان کے لئے آپ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو شرک سے بیزار اور ایک موحد عیسائی عالم تھے.انہوں نے حضور ﷺ کی باتیں سن کر فرمایا ”یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسی پر اترا تھا.اے کاش ! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب تیری قوم تجھے وطن سے نکال دے گی.آنحضرت ﷺ نے تعجب سے پوچھا کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں کوئی رسول نہیں آیا مگر اس کی قوم نے اس کے ساتھ عداوت کی اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں پوری طاقت کے ساتھ تیری مدد کرونگا.“ آنحضرت ﷺ نے اس حکم الہی کے بعد اپنے ملنے والوں میں توحید کی تبلیغ اور شرک کی تردید شروع فرما دی.ابتدائی مسلمان پہلی وحی کے بعد سب سے پہلے بانی اسلام پر حضرت خدیجہ ایمان لے آئی تھیں.ان کے علاوہ ایمان میں سبقت لے جانے والے بڑوں میں حضرت ابو بکر ، جوانوں میں حضرت زید اور بچوں میں حضرت علی تھے.قریش کے معزز اور بااثر آدمی ہونے کی وجہ سے حضرت ابو بکر کا وسیع حلقہ احباب تھا.ان کی تبلیغ کے نتیجہ میں قریش کے متوسط طبقہ کے لوگ مسلمان ہونے لگے.جن میں حضرت عثمان بن عفان ،حضرت عبدالرحمان بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت زید بن العوام ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراغ ، حضرت سعید بن زید اور حضرت ابو سلمہ شامل تھے.عورتوں میں حضرت خدیجہ اور ان کی اولاد کے بعد حضرت اسماء بنت ابوبکر اور حضرت فاطمہ بنت خطاب زوجہ حضرت سعید بن زید مسلمان ہوئیں.ان کے بعد کمزور طبقہ کے لوگ حضرت عثمان بن مظعونؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعودی، حضرت بلال ، حضرت خباب ، حضرت یا سر اور حضرت سمیہ بھی ابتدائی تین چار سالوں میں ایمان لے آئے.مگر قریش ان کو کمزور اوگ سمجھ کر ان پر کوئی خاص توجہ نہ دیتے تھے.پہلی وحی کے بعد کچھ عرصہ تک مزید وحی کے نزول میں ایک وقفہ ہوا.جس کی وجہ سے آنحضرت ﷺ مضطرب رہے.پھر ایک دن غار حرا سے واپسی پر اسی فرشتہ نے آپ کو آواز دی تو آپ گھبرا گئے اور گھر آکر پھر فرمایا
اسوہ انسان کامل 8 سوانح حضرت محمد علی مجھے کپڑا اوڑھا دو.اس پر پڑ جلال الفاظ میں آپ پر سورۃ مدثر کی یہ آیات نازل ہوئیں يَا يُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرُ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ - ( سورۃ المدثر : 2 تا 5) یعنی اسے کپڑا اوڑھنے والے ! اٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر اور اپنے 12 رب ہی کی بڑائی بیان کر اور جہاں تک تیرے کپڑوں ( یعنی قریبی ساتھیوں ) کا تعلق ہے تو انہیں بہت پاک کر.تین سال بعد عام تبلیغ کے لئے ان الفاظ میں حکم ہوا فَاصْدَعُ بِمَا تُو مَرُ ( الحجر 3) یعنی اے رسول ! جو حکم تجھے دیا گیا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سنا دے.پھر اس کے کچھ عرصہ بعد یہ ارشاد ہوا وَ انْذِرُ عَشِيْرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ - ( سورۃ الشعراء 215) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کر.(ابن ہشام) رسول کریم نے اس ارشاد کی تعمیل کی خاطر کوہ صفا پر قریش کے تمام قبیلوں کے نام لے کر انہیں بلایا اور فرمایا کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے ایک بہت بڑا لشکر جرار تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم میری بات مانو گے؟ سب نے بالا تفاق کہا کہ ضرور مانیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا اور راست باز پایا ہے.تب آپ نے فرمایا اللہ کے عذاب کا لشکر تمہارے پاس پہنچ چکا ہے.خدا پر ایمان لاؤ تو اس سے بچ جاؤ گے.قریش یہ سن کر ہنسی مذاق کرتے اور آپ کو برا بھلا کہتے چلے گئے.آپ کے چار ابولہب نے تو یہاں تک کہا کہ تمہارا برا ہو.کیا اسلئے ہمیں یہاں جمع کیا ہے؟ اس پہلی دعوت عام کا کوئی مثبت نتیجہ نہ دیکھ کر رسول کریم نے بنو مطلب کے لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے حضرت علی کے ذریعہ دعوت طعام کا انتظام کیا اور قبائل قریش کو خدا کی طرف بلاتے ہوئے فرمایا.کون ہے جو اس کام میں میرا مددگار ہو گا ؟ سب خاموش تھے.ایک بارہ سالہ کمزور اور دبلا پتلا بچہ کھڑا ہو کر کہنے لگا اگر چہ میں نا تواں ہوں ، مگر میں آپ کا ساتھ دونگا.یہ حضرت علی تھے، جنہوں نے بچپن میں کیا یہ عہد عمر بھر نبھایا.(طبری) 13.پہلا تبلیغی مرکز اور مخالفت رفتہ رفتہ مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مخالفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.دوسری طرف کمزور مسلمانوں سے رابطہ اور ان کی وحدت کے لئے ایک مرکز کی ضرورت تھی.نبی کریم نے اپنے ایک صحابی ارقم بن ابی ارقم کے مکان کو مرکز بنایا جہاں چوتھے سال نبوت سے چھٹے سال تک دعوت تبلیغ اورتعلیم وتربیت کا کام ہوتا رہا.(حلبیہ )4 14 ہر چند کہ آنحضرت کا پر امن پیغام خدائے واحد کی محبت و عبادت اور انسانوں سے عدل اور احسان کے اصولوں پر مشتمل تھا اور اہل عرب کی عزت و ترقی کا ضامن تھا.لیکن الہی سنت کے مطابق اس کی مخالفت ہونا بھی طبعی امر تھا.کیونکہ ایک طرف پرانے نظام کو نئے پیغام سے اپنی آزادی و بے راہ روی پر پابندی لگنے اور عظمت و بڑائی کے سلب ہونے کا خوف بھی دامن گیر ہوتا ہے تو دوسری طرف نیا پیغام لانے والوں سے حسد اور رقابت بھی پیدا ہو جاتی ہے.یہی تاریخ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد اللہ کے وقت میں پوری شان سے دہرائی گئی.مکہ میں آنحضرت سے کے مخالفین میں سر فہرست قریش کا سردار عمرو بن ہشام تھا جو ابوالحکم ( دانائی کا باپ) کہلاتا تھا یعنی ابو جہل.وہ
اسوۃ انسان کامل 9 سوانح حضرت محمد علی 15 رسول اللہ ﷺ کی مخالفت میں پیش پیش تھا.وہ جنگ بدر میں دو انصاری لڑکوں کے ہاتھوں مارا گیا.( بخاری ) 3 دیگر معاندین میں آپ کا چا ابو لہب تھا.جو مخالفت کی حالت میں ہلاک ہوا.ان کے علاوہ سرداران قریش میں سے ولید بن مغیرہ ، عقبہ بن ابی معیط ، امیہ بن خلف، ابی بن خلف اور نضر بن الحارث سخت معاندین میں شامل تھے جو اپنے بد انجام کو پہنچے.یہ لوگ اسلام کو مٹانے کے درپے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی.ی ہے تو قریش کے سرداروں پر مشتمل ایک وفد رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس بھجوایا کہ اپنے بھتیجے کو اس نئے دین کی اشاعت سے روک دیں یا پھر ہمیں خود اس کے ساتھ فیصلہ کرنے دیں اور اس کی حمایت چھوڑ دیں.پہلی دفعہ تو ابو طالب نے اس وفد کو سمجھا کر واپس بھجوا دیا.پھر جب وہ آیات قرآنی اتریں جن میں مشرکین کی حقیقت کھول کر بیان کی گئی کہ وہ پلید اور مخلوق میں سے بدترین ہیں.وہ بے وقوف اور ذریت شیطان ہیں اور ان کے معبود آگ کا ایندھن.ہیں تو قریش کے سرداروں کا دوسرا وفد ابو طالب کے پاس آیا اور کہا کہ اگر آپ اب بھی اس کی حمایت نہیں چھوڑتے تو مجبور اہم سب مل کر آخری دم تک آپ کا مقابلہ کریں گے.اس پر ابو طالب نے سخت گھبرا کر آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ اے میرے بھتیجے اب تیری دشنام دہی سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھ کو ہلاک کریں اور ساتھ ہی مجھ کو بھی.تو نے ان کے عقل مندوں کو سفیہ قرار دیا اور ان کے بزرگوں کو شر البریہ کہا اور ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقو دالنا ررکھا اور عام طور پر ان سب کو رجس اور ذریت شیطان اور پلید ٹھہرایا.میں تجھے خیر خواہی کی راہ سے کہتا ہوں کہ اپنی زبان کو تھام اور دشنام دہی سے باز آجاور نہ میں قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.آنحضرت ﷺ نے جواب میں کہا کہ اے چا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ اظہار واقعہ ہے اور نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے.اور یہی تو کام ہے جس کے لئے میں بھیجا گیا ہوں اگر اس سے مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اسی راہ میں وقف ہے.میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رک نہیں سکتا اور اے پچا! اگر تجھے اپنی کمزوری اور اپنی تکلیف کا خیال ہے تو تو مجھے پناہ میں رکھنے سے دست بردار ہو جا.بخدا مجھے تیری کچھ بھی حاجت نہیں میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا.مجھے اپنے مولیٰ کے احکام جان سے زیادہ عزیز ہیں.بخدا اگر میں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہو کر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں.یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں.آنحضرت ﷺ یہ تقریر کر رہے تھے اور چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں ہو رہی تھی.اور جب آنحضرت ﷺ یہ تقریرختم کر چکے تو حق کی روشنی دیکھ کر بے اختیار ابو طالب کے آنسو جاری ہو گئے اور کہا کہ میں تیری اس اعلیٰ حالت سے بے خبر تھا تو اور ہی رنگ میں اور اور ہی شان میں ہے.جا اپنے کام میں لگا رہ.جب تک میں زندہ ہوں جہاں تک میری طاقت ہے ، میں تیرا ساتھ دونگا“.(ازالہ اوہام ، ابن ہشام) 16
اسوۃ انسان کامل 10 سوانح حضرت محمد علی تیسری مرتبہ قریش نے آپ کے خلاف ایک اور منصوبہ بنایا کہ ایک ہونہار نو جوان عمارہ بن ولید کو ابوطالب کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ قریش کے بہترین نو جوانوں میں سے ہے.آپ بیٹا بنا کر اس سے فائدہ اٹھائیں اور محمد کو ہمارے سپرد کر دیں.ہم اس سے نمٹ لیں گے.اس طرح فتنہ بھی ختم ہو جائے گا اور جان کے بدلے جان کا قانون بھی پورا ہوگا.ابوطالب نے بھی انہیں خوب لا جواب کیا کہ یہ عجیب انصاف ہے کہ میں تمہارے لڑکے کو اپنا بیٹا بنا کر کھلاؤں پلاؤں اور اپنا بیٹا تمہیں دے دوں تا کہ تم اسے قتل کر دو.اس پر قریشی سردار مطعم نے کہا کہ ” آپ قوم کی کوئی بات مانتے نظر نہیں آتے“.ابوطالب نے کہا 'واللہ میرے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا.اس لئے تم نے جو کرنا ہے کر لو.( ابن ہشام ) 18 17 قریش نے جب اپنی تدابیر نا کام ہوتے دیکھیں تو یہ فیصلہ کیا کہ جس قبیلے سے کوئی شخص مسلمان ہو وہ ہر ممکن طریق سے اسے اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرے اسطرح بال آخر محمد اکیلا رہ جائیگا.اس فیصلے پر عمل شروع ہوتے ہی مسلمانوں کے لئے ظلم وستم کا ایک نیا باب کھل گیا.قریش میں سے حضرت عثمان کو رسیوں میں جکڑ کر پیٹا گیا.حضرت زبیر کو چٹائی میں لپیٹ کر ناک میں دھواں دیا گیا.(ابن سعد ) حضرت عبداللہ بن مسعود کو صحن کعبہ میں مار مار کر ہلکان کیا گیا.حضرت ابوذرغفاری" کو بوقت طواف اتنا مارا کہ لہولہان ہو گئے.غلاموں میں سے حضرت بلال کو انتہائی اذیتیں دی گئیں.لبینہ اور زنیرہ نے بھی لونڈی ہونے کے جرم میں سخت تکلیفیں اٹھا ئیں.کمزور مسلمانوں حضرت صہیب اور حضرت خباب کو اس قد ر ایذاء دی گئی کہ الامان.حضرت عمار کے والدین یا سر اور سمیہ کے ساتھ جو سلوک روا رکھا تھا اس کا حال پڑھ کر روح و بدن کانپ جاتے ہیں.والحفیظ خود آنحضرت ﷺ کی ذات اقدس بھی بنو ہاشم کی حمایت کے باوجودقریش کے حملوں سے محفوظ نہ رہی.آپ کی بیٹیوں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثوم کو طلاق دلوائی گئی.آپ کو جھوٹے پراپیگنڈا، استہزاء، گالی گلوچ اور جسمانی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا.(ابن سعد )19 مخالفت کی مہم تیز تر کرنے کے لئے آپ کو کاھن، مجنون اور شاعر مشہور کر دینے کی سازشیں کی گئیں اور طے پایا کہ آپ کو جادوگر مشہور کیا جائے اور بڑے شد و مد سے آپ کے خلاف یہ طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا.رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اہل خانہ کو دکھ دینے کی خاطر گندی اور بد بودار چیزیں آپ کے گھر پھینک دی جاتیں.آپ صرف اتنا فرما کر خاموش ہو جاتے : ”تم لوگ اچھا حق ہمسائیگی ادا کرتے ہو ! (بیشمی ) 20 قریش کو آپ کا نام محمد تک گوارا نہ تھا کیونکہ اس کے معنے ہیں جس کی تعریف کی جائے.“ وہ آپ کو مدتم (نعوذ باللہ قابل مذمت ) کے نام سے پکارتے.نبی کریمہ مسکرا کر فرماتے جس کا نام اللہ نے محمد رکھا ہے، وہ مذقم کیسے ہوسکتا ہے.( بخاری )21 صحن کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے گلے میں کپڑے کا پھندا ڈال کر آپ کے قتل کی کوشش کی گئی.حضرت ابو بکڑ نے بر وقت پہنچ کر چھڑایا اور فرمایا کہ تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنے کے درپے ہو کہ وہ کہتا
اسوہ انسان کامل 11 سوانح حضرت محمد علی ہے کہ اللہ میرا رب ہے.( بخاری ) 22 یہ مصائب و آلام انتہا کو پہنچے تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ)! آپ ان ظالموں کے لئے بددعا کیوں نہیں کرتے ؟ رسول اللہ علی نے بڑے جلال سے فرمایا: ”تم سے پہلے وہ لوگ گزرچکے ہیں جن کا گوشت لوہے کے کانٹوں سے نوچ کر ہڈیوں تک صاف کر دیا گیا مگر وہ اپنے دین سے نہیں پھرے، ان کے سر آروں سے چیر دیئے گئے مگر ان کے قدموں میں لغزش نہیں آئی ، خدا اس دین کو پورا کر کے چھوڑے گا مگر تم جلدی کرتے ہو.( بخاری ) 23 ایک اور موقع پر حضرت عبدالرحمان بن عوف نے چند صحابہ کے ساتھ حاضر خدمت ہو کر عرض کیا کہ قریش کے مظالم کی حد ہو گئی ہے.اب ہمیں کفار سے مقابلہ کی اجازت دیں تو آپ نے فرمایا: إِنَّى أُمِرَتْ بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا.یعنی مجھے عضو کا حکم دیا گیا ہے.اس لئے تم لڑائی نہ کرو.(نسائی) ہجرت حبشہ 24 براعظم افریقہ کے شمال مشرق اور عرب کے جنوب میں حبشہ کا ملک واقع تھا.وہاں اصحمہ نجاشی کی حکومت تھی.جب مکہ میں مسلمانوں کی تکالیف انتہاء کو پہنچ گئیں تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ حبشہ کا بادشاہ انصاف پسند ہے.تم لوگ اس کے ملک ہجرت کر جاؤ.چنانچہ شہ نبوی میں گیارہ مردوں اور چار عورتوں کے پہلے قافلہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی.ان میں قریش کے مختلف قبائل کے افراد، حضرت عثمان ، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول علیہ، حضرت عبد الرحمان بن عوف ، حضرت زبیر، حضرت عثمان بن مظعون ، حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت ابو سلمہ اور حضرت ام سلمہ شامل تھے.(ابن ہشام) 25 قریش نے تعاقب کر کے ان کو واپس لانے کی کوشش کی مگر مسلمان ایک تجارتی جہاز کے ذریعے حبشہ روانہ ہو چکے تھے.اس پر قریش نے نجاشی شاہ حبشہ اور اس کے درباریوں کے پاس قیمتی تحائف کیساتھ اپنے سفیر بھجوانے کا فیصلہ کیا تا کہ وہ انہیں واپس لانے کی کوشش کریں.اس غرض کے لئے ایک سردار عمرو بن عاص کی سرکردگی میں ایک وفد حبشہ بھجوایا گیا.جنہوں نے تحائف کے ذریعے درباریوں کو ساتھ ملا کر نجاشی کے دربار میں رسائی حاصل کی اور مسلمانوں کو جو اپنا آبائی دین ترک کر کے وہاں آئے تھے واپس بھجوانے کی درخواست کی.منصف مزاج نجاشی نے مسلمانوں کے وفد سے اس بارہ میں وضاحت چاہی.حضرت جعفر بن ابی طالب نے اس موقع پر مسلمانوں کی نمائندگی کا حق خوب ادا کیا.انہوں نے اپنی تقریر میں کہا ”اے بادشاہ! ہم جاہل اور بت پرست لوگ ، بدکاریوں میں مبتلا تھے قطع رحمی اور ہمسایوں سے بد معاملگی ہمارا شیوہ تھا.جابر شخص کمزور کا حق دبا لیتا تھا.اللہ تعالیٰ نے ہم میں اپنا رسول بھیجا جس کی امانت و دیانت اور سچائی کو ہم سب پہلے سے جانتے تھے.اس نے تو حید ، عبادت اور امانت و دیانت اور صلہ رحمی کی تعلیم دی.خونریزی، بدکاری ، جھوٹ اور قیموں کا مال کھانے سے منع کیا.ہم اس پر ایمان لائے اور اسکی پیروی کی.اس پر
اسوہ انسان کامل 12 سوانح حضرت محمد علی ہماری قوم نے ہمیں طرح طرح کے عذاب دے کر اس دین سے جبر ارو کنا چاہا حتی کہ ہم نے آپ کے ملک میں آکر پناہ لی.اے بادشاہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کے ماتحت ہم پر ظلم نہ ہوگا“.شاہ حبشہ نجاشی نے اس عمدہ تقریر سے متاثر ہو کر کہا کہ جو کلام تمہارے رسول پر اترا ہے مجھے سناؤ.حضرت جعفر نے سورۃ مریم کی کچھ آیات سنائیں تو بادشاہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور اس نے کہا کہ خدا کی قسم یہ کلام اور ہمارے مسیح کا کلام ایک ہی منبع نور کی کرنیں معلوم ہوتی ہیں.پھر انہوں نے قریش کے وفد سے کہا کہ تم واپس چلے جاؤ ، میں ان مظلوموں کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتا.قریش نے نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کرنے کا ایک اور حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ ان مسلمانوں کے عقائد حضرت مسیح کے بارے میں بھی سخت قابل اعتراض ہیں.حضرت جعفر نے اس کے جواب میں بیان کیا کہ اے بادشاہ! ہمارے اعتقاد کی رو سے حضرت مسیح اللہ کا ایک بندہ اور اس کے مقرب رسول، روح اللہ اور اس کا کلمہ ہیں جو اس نے کنواری مریم کو عطا فر مایا.نجاشی نے فرش سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ خدا کی قسم جو مرتبہ مسیح کا تم نے بیان کیا میں تنکا برابر بھی اسے اس سے بڑھ کر نہیں سمجھتا.دربار کے پادری بھی نجاشی کی اس بات پر برہم ہوئے لیکن اس نے انکی بھی کچھ پرواہ نہ کی اور قریش کے سفیر نا کام واپس لوٹے مگر واپس آکر انہوں نے مسلمانوں کو اور زیادہ دکھ دینا شروع کر دیا.(احمد) 26 دوسری طرف حبشہ کے مسلمانوں نے نجاشی کے انصاف اور نیک سلوک کو دیکھ کر مکہ میں خبر بھیجی اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی اپنے پاس آنے کی دعوت دی.جس پر تر اسی (83) مسلمان مردوں اور عورتوں کا دوسرا قافلہ بھی جلد عبثہ پہنچ گیا.یہ لوگ کئی سال تک بڑے امن سے حبشہ میں رہے اور نبی کریم ﷺ کی ہجرت مدینہ کے سات سال بعد غزوہ خیبر کی فتح کے موقع پر واپس لوٹے.مسلمان شاہ حبشہ کی اس نیکی پر ہمیشہ منون احسان رہے.(ابن سعد) 27 چنانچہ کچھ عرصہ بعد جب نجاشی کو اپنے ایک حریف سے جنگ پیش آئی تو مسلمانوں نے باہم ملکر اس انصاف پسند بادشاہ اور اسکی سلطنت کی خاطر نہ صرف ہر قسم کی امداد پیش کی بلکہ نجاشی کی فتح کے لئے اس وقت تک دعائیں کرتے رہے.جب تک اسے فتح حاصل نہ ہوگئی.(ابن ہشام ) 28 ہجری میں حضرت حمزہ اور حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے بعد مسلمانوں نے کھلم کھلا خانہ کعبہ میں نماز ادا کرنی شروع کر دی.اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے استقلال اور مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھ کر قریش نے ایک اور حربہ یہ اختیار کیا کہ سرداران قریش کے ایک وفد نے آپ کو مال و دولت، حکومت، علاج معالجہ کروانے یا مکہ کی حسین ترین لڑکی کے ساتھ آپ کو شادی کی پیشکش کی.آپ کی ساری خواہشات پوری کرنے کی حامی بھری بشرطیکہ آپ ان کے معبودوں کی مخالفت سے رک جائیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا ”اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج لا کر رکھ دو پھر بھی میں اس پیغام سے رک نہیں سکتا جو خدا کی طرف سے لے کر آیا ہوں.اگر تم اسے
اسوۃ انسان کامل 13 سوانح حضرت محمد علی مان لوتو اس میں تمہارا ہی فائدہ ہے“.(ابن ہشام) 29 شعب ابی طالب جب مشرکین مکہ نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھی اسلام سے تائب ہونے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے مسلمانوں اور ان کے حامیوں سے ہر قسم کے تعلقات ختم اور خرید وفروخت تک بند کرنے کا فیصلہ کیا.محرم 7 نبوی میں رؤسائے مکہ کے دستخطوں سے یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں لٹکا دیا گیا اور بنو ہاشم اور بنو مطلب کے مسلمان اور غیر مسلم افراد اور دیگر مسلمان شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے.ان ایام میں محصورین کو سخت بھوک اور خوف کا سامنا کرنا پڑا.حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے تھے کہ فاقہ کے ان دنوں مجھے چمڑے کا ایک سوکھا ٹکڑا ملا جسے میں نے پانی سے نرم کر کے صاف کیا اور پھر پیس کر تین دن وہ کھاتا رہا.(الروض ) 30 بھوک کی وجہ سے مسلمانوں کے بچوں کی چیچنیں نکلتی تھیں.اس حالت میں تین سال گزر گئے.ایک دن آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اپنے چچا ابو طالب سے فرمایا کہ ہمارے خلاف جو معاہدہ لکھا گیا تھا اسے سوائے اس جگہ کے جہاں خدا کا نام ہے ، دیمک کھا چکی ہے.ابو طالب نے خانہ کعبہ جا کر قریش کے سرداروں کو کہا میرے بھتیجے نے مجھے بتایا ہے کہ خدا نے اس ظالمانہ معاہدہ کی ساری تحریر کو سوائے اپنے نام کے مٹا دیا ہے.جب معاہدہ دیکھا گیا تو آنحضرت یہ کی بیان فرمودہ بات بالکل درست نکلی.اس پر چند انصاف پسند اور رحم دل سردار بھی بول اٹھے کہ اب یہ معاہدہ ختم کر دینا چاہیے.ابو جہل نے کچھ حیل و حجت کرنا چاہی مگر مطعم بن عدی نے وہ بوسیدہ کاغذ چاک کر دیا اور مسلمان ہتھیار بند ہو کر شعب ابی طالب سے باہر آ گئے.یہ واقعہ بعثت نبوی کے دسویں سال کا ہے.شق القمر کا واقعہ بھی محاصرہ شعب ابی طالب کے دوران ظاہر ہوا تھا.(ابن ہشام ) 31 محاصرہ ختم ہونے کے بعد اسلام کا پیغام اردگرد کے قبائل میں پہنچتارہا اور دوس قبیلہ کا سردار طفیل مسلمان ہو گیا.اسی زمانہ میں معراج کا واقعہ ہوا.اور رسول کریم ﷺ کو اس روحانی سیر میں آئندہ اپنی امت کی ترقی کے نظارے کروائے گئے.(ابن ہشام ) 32 عام الحزن ابوطالب اور حضرت خدیجہ جو پہلے ہی ضعیف العمر تھے اور محصوری کے زمانہ میں ان کی صحت اور زیادہ بگڑ گئی شعب ابی طالب سے باہر آنے کے بعد یکے بعد دیگرے ان کی وفات ہوگئی.آنحضور ﷺ کوانکی وفات کا اتنا صدمہ ہوا کہ یہ سال مسلمانوں میں عام الحزن یعنی غم کے سال سے یاد کیا جانے لگا.حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد قریش کے مظالم میں نمایاں اضافہ ہو گیا.اور آنحضر
اسوہ انسان کامل 14 سوانح حضرت محمد علی کی ذات کونشانہ بنایا جانے لگا.جس کی جرأت پہلے کسی کو نہ تھی.(ابن ہشام ) 33 حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مسلمان عورتوں کی تربیت کے لئے حضور کے گھر میں کسی زوجہ مطہرہ کا ہونا ضروری ہو گیا تھا.آپ نے اللہ کے حضور دعا کی تو خواب میں ایک سبز رنگ کے ریشمی رومال میں حضرت عائشہ کی تصویر دکھائی گئی.جبریل نے کہا کہ یہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہیں.اس کے کچھ عرصہ بعد ایک بزرگ صحابیہ حضرت خولہ نے حاضر خدمت ہو کر آنحضرت ﷺ کو شادی کی تحریک کرتے ہوئے حضرت عائشہ اور حضرت سودہ کے رشتوں کی تجاویز پیش کیں اور ساتھ ہی حضور کی اجازت سے ان دونوں جگہ پر آنحضرت ﷺ کی طرف سے پیغام بھی پہنچایا.شوال دس نبوی میں یہ دونوں نکاح ہو گئے جبکہ حضرت سودہ کی رخصتی بھی عمل میں آگئی.( ازواج ) 34 سفر طائف اسی زمانہ میں حضور نے پیغام حق پہنچانے کے لئے مکہ میں درپیش مشکلات کے پیش نظر طائف کی طرف سفر اختیار فرمایا جو مکہ سے جنوب مشرق کی طرف چالیس میل کے فاصلہ پر ایک مشہور شہر ہے، وہاں آپ نے دس دن قیام فرمایا.اور سرداران طائف سے پناہ حاصل کر کے وہاں پیغام پہنچانا چاہا.وہاں کے رئیس عبد یا لیل نے صاف کہہ دیا کہ اگر آپ سچے ہیں تو مجھے آپ سے گفتگو کی مجال نہیں اور اگر آپ جھوٹے ہیں تو گفتگو لا حاصل ہے.پھر اس نے اس خیال سے کہ شہر کے نوجوانوں پر اثر نہ ہو آوارہ لوگوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جنہوں نے برابر تین میل تک آپ کا تعاقب کیا اور اس قدر پتھر برسائے کہ آپ سر سے پاؤں تک لہولہان ہو گئے.اس موقع پر پہاڑوں کا فرشتہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اگر ارشاد ہوتو یہ دونوں پہاڑ اہل طائف پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کردوں.رحمۃ اللعالمین ﷺ نے فرمایا نہیں.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں میں سے وہ لوگ پیدا کر دیگا جو خدائے واحد کی پرستش کرینگے.چنانچہ فتح مکہ کے بعد حضور کی یہ امید بھی برآئی.طائف سے واپسی پر ایک باغ میں حضور ﷺ نے پناہ لی اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنی کمزوری اور بے بسی کا واسطہ دیتے ہوئے بڑے درد کے ساتھ الحاج سے دعا کی.جسے دیکھ کر باغ کے مالک عتبہ کا دل بھی بھر آیا اور اس نے اپنے غلام عد اس کو انگوروں کا ایک خوشہ دے کر بھجوایا.جب آپ کو پتہ چلا کہ وہ عیسائی اور حضرت یونس نبی کے شہر کا باشندہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ میرا بھائی اور اللہ کا نبی تھا.اور میں بھی اللہ کا نبی ہوں.غلام نے آگے بڑھ کر آپ کے ہاتھ چوم لئے.مکہ میں داخل ہونے کے لئے دوبارہ آپ کو کسی میں کی پناہ کی ضرورت تھی.آپ نے ایک شریف سردار مطعم بن عدی کو پیغام بھجوایا اور اس کی ذمہ داری پر آپ مکہ میں داخل ہوئے.(ابن ہشام) 35 نبی کریم کی سفر طائف کے ابتلاء میں غیر معمولی استقامت کی گواہی مشہور مستشرق سرولیم میور نے خوب دی ہے:
اسوہ انسان کامل 15 سوانح حضرت محمد علی محمد کے طائف کے سفر میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے.ایک تنہا شخص جس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور رڈ کر دیا، وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بت پرست شہر میں جاکر ان کو توحید کی طرف بلاتا اور تو بہ کا وعظ کرتا ہے.اس واقعہ سے یقینا اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ محمد کو اپنے صدق دعوئی پر کس درجہ ایمان تھا.( میور (36 سفر طائف سے واپسی پرنصیبین ( عراق) سے تحقیق حق کی خاطر آنے والا ایک وفد آپ سے ملا جو جنات کے وفد سے مشہور ہوا ہے.( زرقانی) 37 اس زمانہ میں آنحضرت میں اللہ نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر فارس اور روم کے مابین جاری جنگ کے متعلق پیشگوئی فرمائی کہ اس وقت روم مغلوب ہے.لیکن آئندہ چند سالوں میں یہ فارس پر غالب آجائیگا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور روم نے اپنے مفتوحہ علاقے واپس لے لئے.قبائل کا دورہ اہل مکہ و طائف کے انکار کے بعد آنحضرت ﷺ نے دیگر قبائل تک پیغام حق پہنچانے کے لئے میلوں اور حج کے دنوں سے فائدہ اٹھانا شروع کیا.جہاں لوگ کثرت سے اکٹھے ہوتے تھے.یہ دیکھ کر قریش مکہ میں سے خاص طور پر ابو جہل اور ابولہب نے آپ کا تعاقب کرتے ہوئے جھوٹے پراپیگنڈہ میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی.ایام حج میں حضور ﷺ کی ملاقات میثرب کے قبیلہ خزرج کے کچھ لوگوں سے ہوئی.جنہیں آپ نے اسلام کی دعوت دی اور 11 رنبوی میں چھ افراد پر مشتمل وہاں کے ایک وفد نے اسلام قبول کر لیا اور بیٹرب میں اسلام کی 6 داغ بیل پڑ گئی.بیعت عقبہ الله سن 12 نبوی میں حج کے موسم میں نبی کریم کی ملاقات میثرب کے ان بارہ افراد سے ہوئی جو اس سے قبل بھی آپ سے ملاقات کر چکے تھے.اس دفعہ انہوں نے مکہ اور منی کے درمیان ایک پہاڑی گھائی عقبہ میں آپ سے ملاقات کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جو بیعت عقبہ اولی کہلاتی ہے.بیعت کرنے والوں کی درخواست پر رسول کریم ﷺ نے اپنے ایک ساتھی حضرت مصعب بن عمیر کو تعلیم و تربیت کے لئے ان کے ساتھ میٹرب بھجوایا.تھوڑے ہی عرصہ میں یثرب کے قبائل اوس و خزرج میں اسلام کا چرچا ہونے لگا اور اگلے سال 13 نبوی میں حج کے موقع پر حضرت مصعب بن عمیر ستر افراد کا وفد لے کر میٹر ب سے آئے اور عقبہ کے مقام پر رسول اللہ ہے کے چچا حضرت عباس کی موجودگی میں حضور " سے ملاقات کر کے آپ کی بیعت کی اور مدینہ تشریف لانے کی دعوت
اسوہ انسان کامل 16 سوانح حضرت محمد علی دیتے ہوئے آپ کے ساتھ یہ معاہدہ کیا کہ وہ اپنی جانوں کی طرح آپ کی حفاظت کریں گے.(ابن ہشام) 38 ہجرت مدینہ بیعت عقبہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے صحابہ کو تو انفرادی طور پر یثرب ہجرت کرنے کی اجازت عطا فرما دی لیکن خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت کا انتظار فرماتے رہے.قریش نے یہ دیکھ کر کہ اب محمد یہ اکیلے رہ گئے ہیں، دارالندوہ میں قریش کے قریبا ایک سوسر بر آوردہ افراد کو جمع کر کے مکہ میں آپ کے خلاف آخری مہم سر کرنے کا فیصلہ کیا اور طے پایا کہ ہر قبیلہ سے ایک مسلح نوجوان باہر نکلے اور سب مل کر بالآخر محمد ﷺ کا خاتمہ کر دیں.اس طرح بن عبد مناف مقابلہ بھی نہ کرسکیں گے اور خون بہا بھی تمام قبائل پر پھیل جائے گا.ادھر یہ فیصلہ ہوا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یثرب ہجرت کر جانے کی اجازت فرما دی.آپ فورا حضرت ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں اطلاع کی وہ فرط مسرت سے رو پڑے.پھر اپنی اونٹنیاں سفر کے لئے پیش کر دیں جو حضور ﷺ نے قیمتاً قبول فرمائیں.نوجوانان قریش نے اس رات رسول اللہ ﷺ کے گھر کا محاصرہ کر لیا.رسول کریم ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی کو لیٹنے کا ارشاد فرمایا اور ہدایت کی کہ لوگوں کی امانتیں انہیں لوٹا کر مدینہ آجانا اور حضرت ابو بکڑ سے طے شدہ پروگرام کے مطابق نہایت خاموشی سے رات کے وقت گھر سے نکل کر مکہ سے تین میل کے فاصلہ پر واقعہ غار ثور کی طرف روانہ ہوئے.وہاں پہنچ کر حضرت ابو بکر نے غار ثور میں داخل ہو کر اسے صاف کیا اور پھر حضور علی اندر تشریف لے گئے.( ابن ہشام ) 39 اگلے دن قریش کو پتہ چلا کہ شکار ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے تو سخت مایوس ہوئے اور آپ کے تعاقب کی ہر ممکن کوشش کی حتیٰ کہ غار ثور کے منہ پر جاپہنچے.خدا کی قدرت کہ حضور علیہ کے غار میں داخل ہونے کے بعد مکڑی نے ﷺ جالاتن لیا تھا.جب کسی نے کہا کہ غار کے اندر دیکھو تو دوسرے نے کہا یہ کون سی عقل کی بات ہے اور اس تاریک خطرناک غار میں کون چھپ سکتا ہے.ان خطر ناک لمحات میں جب بانی اسلام کی زندگی خطرے میں تھی تو آپ کے فدائی ساتھی حضرت ابوبکر نے اشارہ سے آپ کے بارہ میں اپنی فکرمندی کا اظہار کیا تونبی کریم ﷺ نے نہایت اطمینان سے فرمایا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا - التوبه (40) ہر گز غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.(زرقانی) 40 آنحضرت ﷺ اور حضرت ابو بکر نے تین راتیں غار ثور میں بسر کیں.حضرت ابوبکر کے بیٹے عبداللہ اپنے ریوڑ چرانے کے بہانے آپ کو دودھ پہنچایا کرتے.تیسرے دن جو 14 نبوی یکم ربیع الاول اور پیر کا دن تھا.راہنمائے سفر عبداللہ بن اریقط حضرت ابوبکر کی دو اونٹنیوں اور ان کے غلام کے ہمراہ حاضر ہوا اور یہ قافلہ بیشترب روانہ ہوا.رسول کریم ﷺ نے اپنی پیاری بستی پر آخری نظر ڈالتے ہوئے اسے یوں مخاطب کیا.اے مکہ ! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ پیارا ہے.مگر تیرے لوگ مجھے رہنے نہیں دیتے“.(ترمذی) 41
اسوہ انسان کامل 17 سوانح حضرت محمد علی قریش کے تعاقب کے خطرہ کے پیش نظر یہ قافلہ مختصر معروف راستہ چھوڑ کر سمندر کے قریب سے ہوتا ہوا یثرب کی طرف روانہ ہوا.ادھر قریش نے اعلان کر دیا کہ جو شخص محمد ﷺ کو گرفتار کر کے لائے گا اسے سو اونٹ انعام دیئے جائیں گے.اس انعام کے لالچ میں جو لوگ گھروں سے نکلے ان میں سراقہ بن مالک بھی تھا جو رسول کریم ﷺ کے قافلہ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا.مگر قریب پہنچ کر اس کا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھا کر گرنے لگا اور فال بھی خلاف نکلنے لگی تو اس نے رسول کریم ﷺ سے صلح کی درخواست کی.آپ نے فرمایا کہ ہمارے متعلق کسی سے ذکر نہ کرنا اور اس کی خواہش پر ایک تحریر امن لکھ کر دی اور بوقت روانگی اسے فرمایا کہ ”سراقہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب کہ شاہ ایران کے سونے کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہونگے.یہ پیشگوئی حضرت عمرؓ کے زمانہ میں بڑی شان سے پوری ہوگئی.الغرض رسول کریم آٹھ روز کے سفر کے بعد 12 ربیع الاول 14 نبوی مطابق 27 جون 622 مدینہ 42 پہنچے.اسلامی سن کا شمار اسی واقعہ ہجرت سے ہوتا ہے.(زرقانی) ادھر اہل مدینہ رسول کریم ﷺ کی ہجرت کی اطلاع پاکر آپ کی آمد کے لئے بے چین و بے قرار تھے.انہوں نے ہتھیار بند ہو کر آپ کا استقبال کیا اور رسول کریم ﷺ مدینہ سے باہر قبابستی میں حضرت کلثوم بن ہرم کے مکان پر ٹھہرئے جہاں تین روز بعد حضرت علیؓ بھی امانتیں ادا کر کے آپ کو آن ملے.قبا میں پہلا کام رسول کریم ﷺ نے یہ کیا کہ ایک مسجد کی بنیا درکھ دی جو چند روز میں صحابہ کے ہاتھوں مکمل ہو گئی.بعد میں حضور ﷺ مدینہ سے ہر ہفتہ اس مسجد کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے.دس بارہ دن قبا میں قیام کے بعد جمعہ کے روز رسول کریم ﷺ یثرب روانہ ہوئے جواب مدینہ الرسول یعنی شہر رسول بننے والا تھا.بنی عمر و بن عوف میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھائی.پھر قافلہ دین کی طرف بڑھا.شہر مدینہ کی عورتیں اور بچے خوشی اور جوش میں گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر یہ گیت گا رہے تھے: طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوِدَاعِ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع یعنی آج وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے ہم پر طلوع کیا اور اللہ کی طرف بلانے والے کے بلاوے پر آج ہم پر شکر واجب ہو گیا ہے.مدینہ کے جس گھر کے پاس سے آپ گزرے.ہر فدائی کی یہ خواہش تھی کہ آنحضرت ﷺ کو اپنے گھر ٹھہرانے کا فخر اسے حاصل ہو.رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری اونٹنی کی مہار چھوڑ دو.جہاں خدا کا منشاء ہوگا یہ بیٹھ جائے گی.چنانچہ اونٹنی جہاں رکی وہاں قریب ترین گھر حضرت ابوایوب انصاری کا تھا جنہیں چھ ماہ تک رسول اللہ کی میزبانی کا شرف نصیب رہا.(ابن ہشام) 43
اسوۂ انسان کامل تعمیر مسجد نبوی 18 سوانح حضرت محمد علی مدینہ میں رسول کریم ﷺ نے پہلا کام مسجد نبوی کی تعمیر کا کیا.حضور ﷺ کی اونٹنی جس جگہ جا کر بیٹھی تھی وہ زمین دو مسلمان یتیم بچوں کی ملکیت تھی جو ان سے خرید کر مسجد نبوی اور رسول کریم ﷺ کے حجرات یعنی رہائشی کمروں کے لئے استعمال ہوئی.مسجد کی تعمیر کے ساتھ ہی نماز پر بلانے کے لئے اذان کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا.میثرب اب مدینۃ الرسول بن چکا تھا.یہاں دو مشرک قبائل اوس اور خزرج کے علاوہ یہود کے تین بڑے قبیلے بنو قینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ آباد تھے.شہر سے باہر یہود کے چھوٹے چھوٹے رہائشی قلعے کچھ فاصلے پر موجود تھے.اوس وخز رج با هم برسر پیکار رہتے تھے.خانہ جنگی سے تنگ آکر انہوں نے قبیلہ خزرج کے ایک ہوشیار سردار عبد اللہ بن ابی کو مدینہ کا بادشاہ مقرر کرنے کی تجویز کی تھی جو رسول کریم ﷺ کی مدینہ آمد سے معطل ہو کر رہ گئی.اوس وختہ رج کے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کیا اور جلد اپنی عداوتیں ختم کر کے بھائی بھائی بن گئے.مدینہ میں یہودی قبائل کے ساتھ محفوظ اور پر امن ماحول رکھنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے ایک معاہدہ کیا جسے پہلا تحریری دستور کہا جاسکتا ہے.اس معاہدہ کی موٹی شرائط یہ تھیں کہ 1.مسلمان اور یہود ایک امت ہوں گے اور باہم ہمدردی واخلاص سے رہیں گے.2.دونوں قوموں کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی.3.مدینہ پر بیرونی دشمن کے حملہ کی صورت میں سب مل کر دفاع کریں گے.4.اگر یہودیا مسلمانوں پر کوئی حملہ آور ہو تو دونوں ایک دوسرے کی مدد کریں گے.5.قریش مکہ اور ان کے ساتھیوں کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی پناہ یا امداد نہیں ہوگی.6.تمام لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ ہر قوم کی شریعت کے مطابق رسول کریم ﷺ فرمایا کریں گے.7.کوئی ظالم یا فساد بر پا کرنے والا سر ایا انتقام سے محفوظ نہ ہوگا.اس معاہدہ کے نتیجہ میں مسلمانوں اور یہود کے مابین بہتر تعلقات کے ساتھ مدینہ میں ایک منظم حکومت قائم ہوگئی.(ابن ہشام ) 44 قریش مکہ نے مدینہ میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی آؤ بھگت دیکھ کر عبداللہ بن ابی کو ایک خط لکھا کہ مسلمانوں کی پناہ سے دستبردار یا حملہ کے لئے تیار ہو جاؤ.ہم تمہارے مردوں کو تہ تیغ اور عورتوں پر قبضہ کر لیں گے.( ابوداؤد ) 5 منافق عبداللہ کوتو کوئی بہانہ چاہئے تھا.وہ فوراً آنحضرت ﷺ کے ساتھ جنگ کے لئے آمادہ ہو گیا مگر آپ نے حکمت عملی سے اسے اس ارادہ سے باز رکھا.اس تدبیر میں نا کامی کے بعد قریش نے تمام قبائل عرب کو رسول کریم علیہ کے خلاف اس طرح اکسانا 45
اسوہ انسان کامل 19 سوانح حضرت محمد علی شروع کر دیا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب میں مسلمانوں کے خلاف مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی اور مدینہ کے مسلمانوں کے لئے کسی قبیلہ سے بھی اچانک حملہ کا خطرہ پیدا ہو گیا.اسی وجہ سے مسلمان ہجرت مدینہ کے ابتدائی ایام میں دن رات ہتھیار بند ہو کر رہتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہم آرام کی نیند سو سکیں گے.رسول کریم ﷺ کا بھی یہی حال تھا.ایک رات آپ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر کوئی نیک صحابی آج رات میرا پہرہ دیتا اور میں کچھ دیر سولیتا.اتنے میں حضرت سعد بن ابی وقاص کے ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی.انہوں نے بتایا کہ وہ حضور ﷺ کے پہرے کے لئے حاضر ہوئے ہیں.(مسلم ) 46 مسلمانوں کو دفاعی مقابلہ کی اجازت جب سارا عرب مٹھی بھر مسلمانوں اور خدائے واحد کے پرستاروں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہو گیا تو ہجرت مدینہ کے دوسرے سال ماہ صفر میں آنحضرت ﷺ کو بھی اپنی حفاظت اور دفاع کی خاطر مقابلہ کی اجازت مل گئی.جس کا ذکر سورۃ الحج میں اس طرح ہے.أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بأنَّهُمْ ظُلِمُوا وَانَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ مِ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِ هِمُ بِغَيْرِ حَقَّ الا ان يقُولُوا رَبُّنَا اللَّهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوْتٌ وَّ مَسْجِدُ يُذْكَرُفِيهَا اسْمُ الله كَثِيرًا، وَلَيَنصُرَنَّ الله مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُه (الحج 41,40) یعنی ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے (قتال کی ) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے.اور یقینا اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے.وہ لوگ جنہیں ان کے گھروں سے ناحق نکالا گیا محض اس بنا پر کہ وہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے.اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے کھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معاہد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے.اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے.یقینا اللہ بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جنگ کی اجازت مسلمانوں کو ان حالات میں دی گئی جب وہ مظلوم اور مجبور اور مذہبی آزادی سے محروم ہو کر اپنے وطنوں اور مالوں سے محروم کئے گئے اور انہوں نے کبھی بھی اسلام پھیلانے کے لئے تلوار نہیں اٹھائی بلکہ جنگ کے سالوں کے برعکس صلح حدیبیہ کے زمانہ میں اسلام زیادہ پھیلا اور فتح مکہ تک مسلمانوں کی تعداد دس ہزار ہوگئی جو جنگی زمانہ میں تین سو سے تین ہزار تک تھی.اس سے ظاہر ہے کہ جب کمزور مسلمانوں نے اپنے دفاع کیلئے تلوار اٹھائی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر کے انہیں فتح ونصرت عطا
اسوۃ انسان کامل 20 سوانح حضرت محمد علی فرمائی.پس مسلمانوں پر اسلام پھیلانے کے لئے جبر و تشدد کا الزام عائد کرنا کسی صورت میں بھی درست نہیں خصوصاً جب کہ بانی اسلام کا یہ واضح فرمان بھی موجود ہے کہ مجھے صرف اس وقت جنگ کی اجازت ہے.جب تک اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والے اسلام قبول کر کے لڑائی سے دستکش نہ ہو جا ئیں.مسلمانوں کی جنگیں اصولاً دفاعی اور خود حفاظتی کے طور پر تھیں.بعض صورتوں میں قیام امن اور مذہبی آزادی ان کا غالب مقصد تھا اور بعض دفعہ کسی خطرناک جرم ظلم یا بدعہدی وغیرہ کی پاداش میں کسی قبیلہ کو سزادینی مقصود تھی جبکہ بعض بین القبائلی معاہدات کی پابندی میں عہدوں کے خلاف معاہد قبیلہ کی مدد کی خاطر تھیں.ہجرت مدینہ کے معاً بعد جب سارا عرب مدینہ کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور چاروں طرف مسلمانوں کے خلاف خطرات منڈلانے لگے تو ارد گرد کے حالات سے باخبر رہنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے بعض صحابہ پر مشتمل دستے اطراف مدینہ میں بھجوائے جن کا ایک مقصد دشمن کو مرعوب اور متنبہ کرنا تھا کہ مسلمان ان کے منصوبوں سے باخبر ہیں.دوسرے ان مہمات کے ساتھ حتی الوسع نواحی قبائل میں نفوذ کے ذریعہ انہیں اپنے ساتھ معاہدہ امن میں شریک کرنا تھا تا کہ مدینہ نواحی قبائل سے حملہ کے خطرات سے محفوظ بھی ہو جائے.اس دوران قریش کا ایک سردار کرز بن جابر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ آور ہو کر ان کے اونٹ کوٹ کر لے جانے میں کامیاب ہو گیا.دوسرا اہم واقعہ مسلمان سردار حضرت عبداللہ بن جحش کے خبر رساں دستہ سے قریش کا آمنا سامنا اور اس کے نتیجہ میں ایک کافر عمرو بن حضرمی کی ہلاکت تھی.یہ واقعہ نا دانستہ طور پر حرمت والے مہینہ میں پیش آ گیا تھا.اس کے با وجود نبی کریم ﷺ نے اس پر اپنے صحابہ کی سرزنش فرمائی.ادھر قریش کو جو مسلمانوں کے خلاف مسلسل جنگی تیاری میں مصروف تھے مسلمانوں پر حملے کا ایک اور بہانہ مل گیا.جنگ بدر بھی اسی کا شاخسانہ تھی.(زرقانی) 47 غزوہ بدر غزوہ بدر کا فوری سبب ابوسفیان کی سرکردگی میں شام سے واپس آنے والا قریش کا وہ تجارتی قافلہ تھا جس کا سارا منافع مسلمانوں کے خلاف جنگ میں خرچ ہونا تھا اور اس قافلہ کا راستہ روکنا قریش کی سرگرمیوں کو کمزور کرنے کا ایک ذریعہ ہو سکتا تھا جس کے لئے رسول اللہ ﷺ نے ایک خبر رساں پارٹی بھجوائی.ابوسفیان کو بھی اس کی اطلاع ہو گئی اور اس نے فوراً مکہ سے امدادی لشکر حاصل کرنے کے لئے اپنا سوار روانہ کر دیا جس نے مکہ پہنچ کر مسلمانوں کے خلاف آگ لگا دی.چنانچہ آنا فانا ایک ہزار کا لشکر جرار مسلمانوں پر حملہ کے ارادہ سے مکہ سے نکلا.جس میں سات سو اونٹ، ایک سو گھوڑے تھے اور یہ لشکر سامان حرب سے لیس تھا.ابھی لشکر مکہ اور بدر کے درمیان تھا کہ انہیں ابوسفیان کے قافلہ کے بخیرت مدینہ سے نکل آنے کی اطلاع مل گئی مگر سرداران قریش پر جنگ کا بھوت سوار تھا.وہ مدینہ کی طرف بڑھے اور بدر میں آکر ڈیرے ڈال دیئے.
اسوۃ انسان کامل 21 48 سوانح حضرت محمد عام ادھر رسول کریم ﷺ کو اس لشکر کی اطلاع ہوئی.آپ نے کمال حکمت اور دانش مندی سے اس لشکر کی خبر عام کرنے سے احتراز کیا تا کہ خوف اور بددلی نہ پھیلے.البتہ مسلمانوں کو قافلہ کی روک تھام اور اس کی حفاظت کے لئے آنے والے لشکر دونوں سے ہوشیار کر دیا.آپ نے خاص طور پر انصار سے مدینہ سے باہر جا کر کفار مکہ سے مٹھ بھیٹر کی صورت میں مشورہ طلب کیا.کیونکہ ان کا معاہدہ آپ سے مدینہ میں رہ کر حفاظت کرنے کا تھا.اس کے جواب میں پہلے مہاجرین نے ہر حال میں آپ کا ساتھ دینے کے عزم کا اظہار کیا.مگر آپ کے بار بار استفسار پر انصار کے رئیس سعد بن معاذ نے بھی اپنی اطاعت و وفا کا یقین دلایا.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ”پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھو.اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں گروہوں یعنی قافلہ یا لشکر میں سے کسی ایک پر غلبہ کا وعدہ فرمایا ہے.اس کے بعد آپ میدان بدر کی طرف بڑھے جہاں لشکر کفار پہلے پہنچ کر پانی اور گھاس والی اچھی جگہ پر قبضہ کر چکا تھا.رسول کریم ﷺ وہاں جا کر ایک ریتلے ٹیلے پر اترے.خدا کا کرنا کیا ہوا کہ بارش ہوگئی جس کی وجہ سے مسلمانوں کی پوزیشن زیادہ محفوظ اور بہتر ہوگئی.17 رمضان کو جمعہ کے دن دونوں لشکر آمنے سامنے تھے.(ابن ہشام) لڑائی سے پہلے قدیم دستور کے مطابق پہلے انفرادی لڑائی کے لئے فریقین نے ایک دوسرے کو للکارا.انصار کی بجائے رسول کریم ﷺ نے سردار مہاجرین حضرت حمزہ ، حضرت علیؓ اور حضرت عبیدہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا.جنہوں نے سخت مقابلہ کے بعد اپنے حریفوں کا کام تمام کر دیا.اس کے بعد لشکر کفار نے مسلمانوں پر دھاوا بول دیا.لڑائی کا بازار گرم ہوا تو مہاجرین و انصار نے دشمن کی صفیں کاٹ کر رکھ دیں.دو انصاری نو جوانوں نے حضرت عبدالرحمان بن عوف سے ابو جہل کی نشاندہی کروا کے اس پر ایسا کاری حملہ کیا کہ وہ زمین پر آ رہا.( بخاری ) مسلمانوں کے جوش و خروش کے باوجود کفار کی کثرت اور ساز و سامان کا مقابلہ بظاہر مشکل نظر آتا تھا لیکن رسول کریم ﷺ کی دعاؤں نے یہ کام آسان کر دیا.آپ تسجدہ سے اٹھے.بآواز بلند سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ.(القمر 46 ) یعنی کفار کو شکست ہوگی اور دشمن پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے.وحی کی تلاوت فرماتے ہوئے کنکروں کی ایک مٹھی کفار کی طرف پھینکی تو ایسے زور کی آندھی چلی کہ کفار کی آنکھیں منہ اور ناک ریت سے بھر گئے.ادھر مسلمانوں نے بھی یکدم حملہ کیا.جس کے نتیجہ میں کفار کے پاؤں اکھڑ گئے.ان کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی اور میدان صاف ہو گیا.مسلمانوں نے ستر قیدی پکڑے اور اتنے ہی کا فر مارے گئے.جن میں سے چوبیس سرداران قریش تھے.جن کو ایک گڑھے میں دفنایا گیا.مسلمان شہداء کی تعداد چودہ تھی.جس میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے.نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ مال غنیمت اور فتح کے ساتھ مدینہ واپس لوٹے.( بیشمی ) مسلمانوں کے کفار قیدیوں کے ساتھ سلوک کے بارہ میں سرولیم میورلکھتا ہے: 49 محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنالئے تھے کے پاس جب ( بدر کے قیدی آئے تو انہوں نے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا.
اسوۃ انسان کامل 22 سوانح حضرت محمد علی بعد میں خود ایک قیدی کہا کرتا تھا کہ اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر.وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خود پیدل چلتے تھے.ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانہ میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پر گزارا کرتے تھے.اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے.تو ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا.( میور ( 51 اگر چہ قواعد جنگ کی رو سے یہ سب قیدی واجب القتل تھے لیکن رسول کریم ﷺ نے ہر قیدی کی توفیق کے مطابق آسان فدیہ مقرر کر کے ان کی آزادی کا اعلان کر دیا.جو قیدی لکھنا جانتے تھے ان پر صرف یہ فدیہ عائد کیا گیا کہ وہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں.یہ بھی آنحضور ﷺ کی طرف سے ایک احسان تھا ورنہ اس زمانہ میں قیدیوں سے مفت خدمت لی جاتی تھی.2 کے متفرق اہم واقعات 2ھ میں غزوہ بدر سے پہلے تحویل قبلہ کا واقعہ ہوا.ابتدائی مکی دور میں فرضیت نماز کے بعد رسول کریمی خانہ کعبہ کی طرف اس طرح منہ کر کے نماز پڑھتے تھے کہ بیت المقدس بھی سامنے رہتا تھا.مدینہ میں (جو خانہ کعبہ اور بیت المقدس کے درمیان واقع ہے یہ ممکن نہ تھا اس لئے شروع میں آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے.سولہ سترہ ماہ بعد جب بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہوا تو مسلمان بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے لگے.اسی سال رمضان المبارک کے مہینہ کے روزے بھی فرض ہوئے اور مسلمانوں نے یکم شوال کو عید الفطر کا دینی و معاشرتی تہوار منانا شروع کیا.(طبری) 52 اسی سال حضرت عائشہ کی اپنے والد حضرت ابو بکر کے گھر سے رخصتی عمل میں آئی جن کا نکاح نبی کریم ﷺ کے ساتھ مکی دور میں ہو چکا تھا.مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے جس اعلیٰ مقصد کے لئے یہ قدم اٹھایا گیا وہ اس شادی کے بعد بڑی شان سے پورا ہوا.احادیث نبویہ کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت عائشہ کی روایات پر مبنی ہے.روحانی وجسمانی طہارت کے اعلی مقام اور ذہانت کی وجہ سےبھی حضور ﷺ کو آپ بہت عزیز تھیں آپ فرماتے تھے کہ مجھے سوائے عائشہ کے کسی بیوی کے لحاف میں وحی نازل نہیں ہوئی.( بخاری ) 3 2ھ میں رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہراء کی حضرت علی سے شادی خانہ آبادی بھی انجام پائی.( ابن سعد ) 54 اسی سال یہود کے قبیلہ بنو قینقاع کی طرف سے ”میثاق مدینہ کی بد عہدی کرنے پر جب انہیں
اسوہ انسان کامل 23 سوانح حضرت محمد علی شرارتوں سے باز آجانے کا انتباہ کیا گیا تو بجائے اصلاح کے وہ الٹا دھمکیوں پر اتر آئے.مجبوراً ان کے قلعوں کا محاصرہ کرنا پڑا.ہر چند کہ تو رات کے فیصلہ کے مطابق وہ واجب القتل تھے ،مگر رسول کریم ﷺ نے اس شرط پر ان کی جان بخشی کر دی کہ وہ مدینہ سے چلے جائیں.(طبری) 55 اس سال کے آخر میں آنحضرت ﷺ نے اپنے صحابہ کے لئے ایک مقبرہ تجویز فرمایا جو جنت البقیع کے نام سے مشہور ہے.اس میں سب سے پہلے دفن ہونے والے صحابی حضرت عثمان بن المطعون تھے.اسی سال رسول کریم ﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیه ( زوجہ حضرت عثمان ) کی وفات کے بعد آپ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم کی شادی حضرت عثمان سے کر دی.جنگ بدر کے بعد 3ھ میں حضرت عمر کی صاحبزادی حضرت حفصہ کے شوہر بیمار ہو کر فوت ہوئے تو ان کی عدت گزرجانے کے بعد رسول کریم ﷺ نے شعبان میں ان سے نکاح کر کے ایک طرف اپنے مخلص ساتھی حضرت عمر سے ہمدردی اور دوسری طرف بیوگان سے نکاح کی تحریک کے لئے نمونہ قائم فرمایا.(طبری) 56 جنگ احد 3ھ میں جنگ احد ہوئی.سرداران قریش نے مقتولین بدر کا بدلہ لینے کے لئے قسمیں کھا رکھی تھیں اور اس کے لئے اپنے تجارتی قافلہ کا منافع وقف کر دیا تھا.انہوں نے قبائل عرب کا دورہ کر کے انہیں بھی مسلمانوں کے خلاف جنگ پر آمادہ کیا.جس کے بعد ابوسفیان تین ہزار کا لشکر لے کر تین ہزار اونٹوں اور دوسو گھوڑوں کے ساتھ نکلا.گیارہ دن کی مسافت کے بعد اس نے مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر احد پہاڑی کے پاس آکر ڈ میرے لگائے.رسول کریم کفار مکہ کی ان تیاریوں سے باخبر تھے.آپ نے رویا کی بناء پر صحابہ دشمن سے مقابلہ کے بارہ میں مشورہ کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ اس جنگ میں بعض صحابہ اور آپ کی ذات کو بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے.مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا چاہئے.لیکن پر جوش نوجوانوں کی کثرت رائے کے مطابق آپ نے آخری فیصلہ باہر نکلنے کا فرمایا.رسول کریم ﷺ ایک ہزار کا لشکر دو گھوڑے اور ایک سو زرہ پوش لے کر مدینہ سے نکلے.ایک دن کی مسافت کے بعد عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر اس بہانے واپس مدینہ چلا گیا کہ اس کی مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کرنے کی تجویز قبول نہیں کی گئی.(ابن ہشام) 57 رسول کریم ﷺ نے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے احد کے دامن میں جا کر پڑاؤ کیا.فوج کی پشت پر موجود ایک پہاڑی درہ سے حملہ کا خطرہ ہو سکتا تھا.وہاں آپ نے کمال دانش مندی سے حضرت عبداللہ بن جبیر کی سرکردگی میں پچاس تیراندازوں کو مقررفرمایا کہ فتح و شکست کسی صورت میں درہ خالی نہ چھوڑیں.
اسوہ انسان کامل 24 سوانح حضرت محمدعلی عام جنگ شروع ہونے سے پہلے حضرت علیؓ نے علمبر دار قریش طلحہ اور حضرت حمزہ نے اس کے بھائی عثمان کا خاتمہ کر دیا.پھر دونوں فوجیں آپس میں گتھم گتھا ہو گئیں.رسول اللہ ﷺ کی عطا فرمودہ تلوار کا حق حضرت ابودجانہ نے بھی خوب ادا کیا.فریقین کے زبردست مقابلہ میں قریش کے نو (۹) علمبر دار مارے جانے کے بعد فوج میں بھگدڑ بچ گئی.اور مسلمان فتح یاب ہوئے.( ابن ہشام ) 58 پہاڑی درہ پر موجود مسلمان بھی اپنے امیر کی ہدایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے درہ خالی چھوڑ کر مالِ غنیمت جمع کرنے میں مصروف ہوگئے.قریش کے سردار خالد بن ولید اور عکرمہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگتے ہوئے ساتھیوں کو جمع کر کے درے سے آکر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے.اس اچانک حملہ سے اسلامی فوج پر ایک گھبراہٹ طاری ہو گئی.حضرت حمزہ بے جگری سے لڑے.وحشی نامی غلام نے چھپ کر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا.(بخاری) 59 حضرت طلحہ اپنے آقا کے آگے سینہ سپر ہو گئے اور لڑتے ہوئے اپنا ہا تھ ٹنڈا کر والیا.حضرت ام عمارہ نے اپنے آقا کے دفاع میں جان لڑا دی.مسلمانوں کے علمبر دار حضرت مصعب بن عمیر سمیت کئی مسلمان شہید اور متعدد زخمی ہوئے.یہاں تک کہ خود رسول کریم ﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہو گئی.آپ کا چہرہ مبارک زخمی اور لہولہان تھا.حضرت فاطمہ اور حضرت علیؓ نے آپ کی مرہم پٹی کی.آپ نے دامن احد میں ایک محفوظ جگہ پر بعض صحابہ کے ساتھ پناہ لی.زخمی حالت میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کر رہے تھے کہ اے اللہ میری قوم کو معاف کر دے.( بخاری ) 60 ایسے نازک وقت میں ابو سفیان نے فخریہ نعرے بازی شروع کر دی تو پہلے رسول کریم ﷺ نے مسلمانوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا مگر جب اس نے بتوں کی عظمت کے نعرے لگائے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جواب دو.پھر کیا تھا میدان احمد نعرہ ہائے تکبیر و توحید سے گونج اٹھا.ابو سفیان آئندہ سال بدر میں پھر مقابلہ کا وعدہ کر کے مکہ روانہ ہوا.رسول کریم ﷺ نے اپنے ستر شہداء کی تجہیز و تکفین اور تدفین کا انتظام کیا جن کی نعشوں کو مسخ کیا گیا تھا.(بخاری) 61 اتنے بڑے نقصان اور صدمہ کے باوجود انصار مردوں اور خواتین سے فدائیت کے عجب نظارے دیکھنے میں آئے.ایک انصاریہ کے والد بھائی اور شوہر تینوں شہید ہو چکے تھے.وہ رسول اللہ ﷺ کو بخیریت واپس مدینہ آتے دیکھ کر بے اختیار کہ اٹھی کہ آپ زندہ ہیں تو سب مصیبتیں بیچ ہیں.پھر مجھے کسی کی پرواہ نہیں.(پیشمی ) 62 احد سے واپسی پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو خیال آیا کہ نہ مال غنیمت ہاتھ آیا نہ قیدی.مکہ واپس جا کر
اسوۂ انسان کامل 25 سوانح حضرت محمد علی فتح کی کیا نشانی دکھائیں گے.اور پلٹ کر دوبارہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.رسول کریم ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے حمراء الاسد تک زخمی صحابہ کے ساتھ دشمن کا تعاقب کیا.جس پر انہیں اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا.( ابن سعد ) 63 جنگ احد کے بعد شراب کی قطعی ممانعت کا حکم آیا اگر چہ اس سے پہلے بھی آنحضرت ﷺ نے اپنی فطرت صحیحہ کے باعث کبھی شراب نہیں پی.صحابہ نے یہ حکم آنے کے بعد اطاعت کا ایسا شاندار نمونہ دکھایا کہ محفل شراب میں اعلان ممانعت سنتے ہی شراب کے منکلے تو ڑ دیئے اور مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی.( بخاری )64 جنگ احد کے بعد قبائل عرب میں مسلمانوں کے خلاف شورش بڑھ گئی.بعض قبائل کے ناپاک ارادے تو بر وقت اقدام سے ناکام ہوئے مگر بعض دلخراش واقعات بھی ہوئے.پہلا واقعہ رجیع 4 ھ میں ہوا.قبائل عضل وقارہ کے مطالبہ پر دین سکھانے کے لئے دس قاری بھجوائے گئے تھے.ان قبائل نے بد عہدی سے اچھا تک حملہ کر کے آٹھ کو موقع پر شہید کر دیا اور خبیب اور زید کو قیدی بنالیا.بعد میں ان دونوں نے بوقت شہادت عجب شجاعت اور جذبہ فدائیت و قربانی کا اظہار کیا.ابوسفیان نے بھی اس موقع پر گواہی دی کہ خدا کی قسم میں نے کسی کو کسی سے ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد ( ﷺ ) کے ساتھی ان سے کرتے ہیں.(الحلبیہ ( 65 دوسرا واقعہ بئر معونہ میں ہوا.جس میں ستر مسلمان قاریوں کی دردناک شہادت ہوئی.ان کو ہوازن کی شاخ بنی عامر اور تسلیم کے رئیس ابو عامر کے تقاضا پر تبلیغ اسلام کے لئے بھجوایا گیا تھا.نبی کریم ﷺ کو اس سے بہت صدمہ ہوا اور آپ ایک ماہ تک نماز میں بآواز بلند یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ ان قبائل کے ہاتھ ظلم سے روک دے.4ھ میں یہود کے قبیلہ بنو نضیر کا مدینہ سے اخراج ہوا.انہوں نے معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نبی کریم "پر قاتلانہ حملہ کی سازش کی اور تنبیہ پر بجائے معذرت کے سرکشی کی تو ان کا محاصرہ کیا گیا.انہوں نے اپنے مال واسباب کے ساتھ مدینہ چھوڑ دینے کی حامی بھری.رسول کریم عملے کا مقصد ان کی شرارتوں کا خاتمہ تھا اس لئے آپ نے یہ شرط قبول فرمالی.(ابن ہشام ) 66 اس کے بعد رسول کریم علیہ نجد کے غطفانی قبائل کی سرکوبی کے لئے تشریف لے گئے.جس میں پہلی دفعہ نماز خوف ادا کی گئی.اس غزوہ کو ذات الرقاع کہتے ہیں.اسی سال رسول کریم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن حجش کی شہادت کے بعد ان کی بے سہارا بیوہ زینب سے شادی کی جو بہت پارسا اور صدقہ و خیرات کرنے والی خاتون اور ام المساکین کے نام سے مشہور تھیں.آپ جلد ہی وفات پا گئیں.اسی سال رسول کریم ﷺ نے قریش کے معزز گھرانے کی خاتون حضرت ام سلمہ سے بھی شادی کی.جن کے خاوند ابوسلمہ احد میں زخمی ہونے کے بعد شہید
اسوہ انسان کامل 26 سوانح حضرت محمد علی ہو گئے.حضرت ام سلمہ بہت دانا اور زیرک خاتون تھیں.لکھنا پڑھنا جانتی تھیں.انہوں نے 84 سال عمر پائی اور مسلمان عورتوں کی تعلیم و تربیت میں حضرت عائشہ کی طرح بہت کردار ادا کیا.اور رسول کریم ﷺ سے کئی روایات بیان کی ہیں.( ازواج ) 67 5ھ میں رسول کریم ﷺ ایک ہزار صحابہ کے ساتھ مدینہ سے پندرہ دن کی مسافت طے کر کے شام کی سرحد پر دومتہ الجندل مقام پر ڈاکوؤں کے ایک گروہ کا قلع قمع کرنے تشریف لے گئے جن سے مدینہ پر حملہ کا خدشہ تھا.وہ لوگ اطلاع پا کر بھاگ گئے.اسی سال رسول کریم ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحش سے نکاح کیا.اس سے قبل نسلی و قومی امتیاز کا خاتمہ کرنے کی خاطر آپ نے قریش کی اس معزز خاتون کی شادی اپنے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زیڈ سے کی.مگر جب بعض خانگی وجوہ سے یہ رشتہ نبھ نہ سکا تو آپ نے اپنے متبنی حضرت زید کی مطلقہ بیوی سے نکاح کر کے عربوں کی ایک اور جاہلانہ رسم کا بھی خاتمہ کر دیا.وہ منہ بولے بیٹے کی طلاق یافتہ کوحقیقی بیٹے کی بیوی کی طرح حرام سمجھتے تھے.(طبری) 68 قرآن شریف میں حضرت زینب سے نکاح کے ذکر کے بعد نبی کریم ﷺ کے تمام انبیاء سے افضل روحانی مقام’ خاتم النبین “ کا بیان ہے کہ بے شک رسول کریم ﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن اللہ کا رسول اور خاتم النبین (ﷺ) ہونے کے ناطہ سے آپ امت کے روحانی باپ ہیں ( سورۃ الاحزاب : 41) گویا آئندہ آپ کی پیروی اور مہر نبوت سے ہی امت میں روحانی فیوض و برکات حاصل ہو سکتے ہیں.احکام پرده سورۃ الاحزاب میں ہی اسلامی معاشرہ میں اخلاقی اقدار کی حفاظت کے لئے پردہ کے احکام کا بھی بیان ہے.جس کے مطابق عورتوں کو اس طرح چادریں اوڑھنے کی ہدایت ہے تا کہ وہ پہچانی جائیں کہ مسلمان خواتین ہیں.دوسری جگہ سورۃ النور میں مردوں اور عورتوں دونوں کو نظر بھی نیچی رکھنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ عورتیں جسم کا جو حصہ مجبوراً نہیں ڈھانک سکتیں اس کے کھلا رکھنے میں حرج نہیں لیکن جو حصہ ڈھانپ سکیں اس کا پردہ ضرور کرنا چاہیے.گویا پردہ کا یہ حکم حسب حالات ہے.شہر، گاؤں، امیر و غریب اور ازواج مطہرات اور عام مسلمان عورتوں میں پردہ کے فرق کی یہی بنیاد ہے.پردہ کی روح و حکمت یہ ہے کہ نہ تو عورت کو بالکل قیدی بنا دیا جائے اور نہ ہی مغربی تہذیب کی طرح بے حجاب چھوڑ دیا جائے.چنانچہ مسلمان عورتیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں علمی مجالس میں شریک ہوئیں ، پردہ کی رعایت سے مسائل سیکھتیں، سفروں پر مردوں کے ساتھ جاتیں ، سواری کرتیں ، تفریحی تماشے وغیرہ دیکھتیں اور جنگوں میں شریک ہو کر زخمیوں کو پانی پلاتیں اور مرہم پٹی کرتی تھیں.( بخاری ) 69
اسوہ انسان کامل غزوہ بنو مصطلق 27 سوانح حضرت محمد علی 5ھ میں رسول کریم ﷺ کو قبیلہ بنو مصطلق کے مدینہ پر حملہ کی تیاری کی اطلاع ملی.آپ نے صحابہ کے ساتھ ممریسیع کی طرف پیش قدمی فرمائی اور اس قبیلہ کی سرکوبی کے بعد واپس تشریف لائے.اس مہم کے دوران دو ناخوشگوار واقعات ہوئے.ایک تو چشمہ مریسیع پر پانی لیتے ہوئے انصار و مہاجرین کے دو نادانوں کے جھگڑے کی وجہ سے ان دونوں گروہوں میں تصادم ہونے کو تھا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے انصار کو کھلم کھلا کہہ دیا کہ اگر تم مکہ والوں کو پناہ نہ دیتے تو آج یہ نوبت نہ آتی.(طبری) 70 اس موقع پر اس نے نبی کریم ﷺ کی شان میں نہایت گستاخانہ کلمات بھی کہے.جن سے صاف عیاں ہے کہ وہ اپنے مزعومہ مقاصد کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ تھا ورنہ دل سے اللہ اور رسول سے کوئی عقیدت یا احترام کا تعلق نہ تھا.اس کے باوجود رسول کریم ﷺ نے ہمیشہ اس سے احسان کا سلوک کیا.لیکن اس نے کوئی موقع مخالفت یا شرانگیزی کا ہاتھ سے جانے نہ دیا.واقعہ افک غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر سردار منافقین عبداللہ بن ابی نے ام المؤمنین حضرت عائشہ پر جھوٹا الزام لگا کر رسول کریم ﷺ اور مہاجرین سے انتقام لینے کی ایک راہ نکالی.ہوا یوں کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر مدینہ کے قریب پہنچ کر رسول کریم ﷺ نے علی الصبح کوچ کا حکم دیا تو حضرت عائشہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہونے کے لئے نکلیں.واپسی پر دیکھا کہ گلے کا ہار موجود نہیں.اس کی تلاش میں دوبارہ واپس چلی گئیں.اس دوران قافلہ والوں نے حضرت عائشہ کو ( جو ہلکے پھلکے بدن کی تھیں) ہو رج کے اندر سمجھتے ہوئے اسے اٹھا کر اونٹ پر رکھ دیا اور قافلہ روانہ ہو گیا.لشکر کے پیچھے حضرت صفوان بن معطل کی ڈیوٹی تھی.وہ جب حضرت عائشہ کو بحفاظت اپنے اونٹ پر سوار کرا کے دو پہر کے وقت اگلے پڑاؤ پر پہنچے تو سب سے پہلے عبداللہ بن ابی ام المومنین پر بہتان لگاتے ہوئے گستاخانہ کلمات زبان پر لے آیا.جس کے بعد کچھ کمزور لوگ بھی الزام تراشی کی اس رو میں بہہ کر ہلاک ہو گئے.حضرت عائشہ مدینہ جاکر اتفاقا بیمار ہوکر والدین کے گھر چلی گئیں.ان کی معصومیت کا یہ عالم تھا کہ اپنے خلاف اس بہتان تراشی سے قطعی بے خبر تھیں.یہاں تک کہ جب ایک خادمہ نے ان سے ذکر کیا تو انہیں سخت صدمہ پہنچا.نیند حرام ہوگئی آنسو تھے کہ تھمتے نہ تھے.آپ خود بیان فرماتی ہیں کہ میں سمجھتی تھی کہ اگر اللہ نے کوئی فیصلہ نہ کیا تو میرا جگر پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا.یہ کیفیت بذات خود مجسم دعا تھی.حضرت عائشہ کو اللہ پر کامل تو کل کے ساتھ یہ احساس غالب تھا کہ وہ ضرور ان کی بریت فرمائے گا اور آخر وہ دن آ گیا جب حضرت نبی کریم پر حضرت عائشہ کے گھر میں ہی وحی کی کیفیت طاری ہو گئی جس کے بعد آپ نے حضرت عائشہ سے فرمایا
اسوۃ انسان کامل 28 سوانح حضرت محمد علی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری بریت ظاہر فرما دی ہے.اس موقع پر وہ آیات اتریں جن کی تفصیل سورۃ النور 12 تا 21 میں مذکور ہے.( بخاری ) 71 غزوہ بنو مصطلق کے ان قیدیوں میں سردار قبیلہ حارث بن ابی ضرار کی بیٹی جو یہ یہ بھی تھیں جو ایک صحابی ثابت بن قیس کے حصہ میں آئیں.وہ اپنے فدیہ کی ادائیگی کے لئے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ نے اس خیال سے کہ سردار قبیلہ کی بیٹی سے تعلق کے نتیجہ میں یہ قبیلہ جلد اسلام کی طرف راغب ہوگا.ان کا فدیہ خود ادا کر کے نکاح کر لیا.اس کے رد عمل کے نتیجہ میں اصحاب رسول ﷺ نے اس قبیلہ کے تمام قیدیوں کو آزاد کر دیا کہ اب یہ رسول کریم ﷺ کے سسرالی رشتہ دار بن چکے ہیں.چنانچہ قبیلہ بنو مصطلق کو اس احسان کے نتیجہ میں اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی.(ابن ہشام ) 72 جنگ احزاب غزوہ احزاب میں رسول کریم ﷺ کی زندگی پر وہ مشکل اور نازک دور آیا جب یہود مدینہ اور قریش مکہ نے عرب کے تمام قبائل کو جمع کر کے اسلام کو مٹانے کی آخری کوشش کی.جنگ احد کے دو سال بعد ابوسفیان قبائل عرب کا ایک لشکر جرار لے کر (جس کی تعداد دس ہزار سے چوبیس ہزار بیان کی جاتی ہے) مدینہ پر حملہ آور ہوا.رسول کریم ﷺ کو اطلاع ہوئی تو صحابہ سے مشورہ کیا.حضرت سلمان فارسی نے ایرانی طریق کے مطابق دشمن کو یکدم حملہ سے روکنے کے لئے مدینہ کے غیر محفوظ اطراف سے خندق کھودنے کی تجویز دی.کھدائی کا کام شروع ہوا تو خود رسول کریمہ فاقہ کی حالت میں کھدائی کے کام میں صحابہ کے ساتھ شریک ہوئے.اس دوران جب ایک سخت چٹان درمیان آئی تو آپ خود اسے کدال سے توڑنے کے لئے آگے بڑھے.چٹان تین ضربات سے ٹوٹ کر بکھر گئی.ہر چوٹ پر ایک شعلہ نکلا تو آپ نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر اپنی آئندہ ہونے والی فتوحات نیز شام ، یمن اور ایران کے محلات کی چابیاں دیئے جانے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ میری امت ان تمام ممالک پر غالب آجائے گی.اگر چہ منافقوں نے مسلمانوں کے فاقہ کی اس حالت میں حکومتوں کے خواب دیکھنے کا مذاق اڑایا مگر چند ہی سال میں خدا اور اس کے رسول ﷺ کی یہ باتیں پوری ہو کر اس کی صداقت پر مہر ثبت کر گئیں.ابوسفیان شہر کا محاصرہ کرنے کے بعد مدینہ میں موجود مسلمانوں کے حلیف یہود قبیلہ بنو قریظہ کو بھی غداری پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا.اس وقت مسلمانوں کی پریشان کن حالت قرآنی بیان کے مطابق یہ تھی کہ ”جب دشمن تمہارے اوپر سے بھی اور نیچے سے بھی ہجوم کر کے آگیا اور گھبراہٹ کی وجہ سے تمہاری آنکھیں پتھر ا گئیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم اپنے اپنے رنگ میں خدا کی نسبت گمانوں میں پڑے.اس وقت مومنوں کے لئے ایک سخت امتحان کا وقت تھا.مسلمانوں پر ایک شدید زلزلہ وارد ہوا تھا“.(سورۃ الاحزاب : 12)
اسوہ انسان کامل 29 سوانح حضرت محمد علی محاصرہ کے ان ایام میں ایک طرف مسلمان کم تعداد کی وجہ سے دن رات کی سخت ڈیوٹی کی وجہ سے تھکاوٹ سے چور ہوتے تھے تو دوسری طرف بنو قریظہ کی غداری کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے پہرہ کا الگ انتظام کرنا پڑتا تھا.تیسری طرف کفار جہاں ذرا کمزور جگہ پاتے اکٹھے ہو کر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے.خندق پار کرنے کی انہی کوششوں کے دوران عرب کے مشہور پہلوان عمرو کا مقابلہ حضرت علیؓ نے رسول کریم ﷺ کی عطا فرمودہ تلوار اور دعا سے کیا اور انجام کارا سے مار گرایا.اس کے باوجود محاصرہ کے لمبا ہونے سے مسلمانوں کی طاقت کمزور پڑتی جاتی تھی.اسی دوران ایک ایسا وقت بھی آیا کہ رسول کریم ﷺ اپنے صحابہ کی تکلیف دیکھ کر انصار سرداروں سے مشورہ پر مجبور ہوئے کہ بنو غطفان کو مدینہ کی کچھ پیدا وار دینے پر مصالحت کر کے قریش سے الگ کر لیا جائے.مگر انصار نے کمال جرات کا اظہار کرتے ہوئے مقابلہ کرنے کی ٹھانی.دوسری طرف رسول کریم ﷺ کی دن رات دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے قبیلہ غطفان کے ایک شخص نعیم بن مسعود کو یہود اور قریش میں پھوٹ ڈالنے کا ذریعہ بنا دیا.قریش بھی لمبے محاصرہ سے تنگ آچکے تھے.جس رات وہ تمام قبائل کے ساتھ مل کر مدینہ پر ایک لخت حملہ کرنا چاہتے تھے اسی رات اللہ تعالیٰ نے نہایت تیز سخت آندھی سے سخت پریشانی کی صورت پیدا کر دی.ان کے خیمے اکھڑ گئے ہنڈیاں الٹ گئیں.آگئیں بجھ گئیں اور ریت اور کنکریوں کی بارش نے ان کے کان اور نتھنے بھر دیے.تو ہم پرست کفار یہ سب دیکھ کر اتنے مرعوب ہوئے کہ ابوسفیان نے لشکر کو کوچ کا حکم دے دیا.( ابن ہشام) 73 اخراج بنو قریظہ جنگ احزاب کے بعد یہود بنو قریظہ کو ان کی غداری کی سزا دینی لازم تھی.اس لئے دشمن کی پسپائی کے بعد رسول کریم علیہ نے بنو قریظہ کے قلعوں کا محاصرہ کیا جنہوں نے حضرت سعد بن معاذ کو اپنا ثالث مانتے ہوئے معاملہ ان کے سپر د کر دیا.حضرت سعد نے توریت کے مطابق بد عہد دشمن پر غلبہ پانے کے بعد اس معاملہ کے متعلق یہ فیصلہ سنایا کہ ان کے لڑائی میں شامل مرقتل کئے جائیں اور عورتیں بچے قید کر لئے جائیں اور اموال مسلمانوں میں تقسیم ہوں.( بخاری ) 74 رسول کریم ﷺ کے لئے حضرت سعد کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا.اے کاش! بنو قریظہ بھی رحمۃ للعالمین ﷺ کو اپنا حاکم مانتے تو بنو قینقاع اور بنو نضیر کی طرح آپ کی رحمت سے حصہ پاتے.اور اپنی عہد شکنی اور مجرمانہ ریشہ دوانیوں کی سزا سے بچ جاتے.غزوہ حدیبیہ غزوہ احزاب کے بعد اہم واقعہ صلح حدیبیہ کا تھا.رسول کریم ﷺ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ آپ اپنے
اسوۃ انسان کامل 30 سوانح حضرت محمد علی اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.جسے عملی طور پر پورا کرنے کی خاطر آپ نے صحابہ کوعمرہ کا حکم دیا اور ذوالقعدہ 6ھ میں چودہ سوصحابہ کے ہمراہ پر امن مقصد کے لئے تلواریں نیام میں لئے جو عربوں کے لباس کا حصہ تھیں مکہ روانہ ہوئے.مکہ کے قریب پہنچ کر پتہ چلا کہ قریش مسلمانوں کو زبردستی عمرہ سے روکنے کا فیصلہ کر چکے ہیں.رسول کریم ﷺ نے اپنے سفیر بھجوا کر مصالحت کی کوشش کی مگر وہ ناکام ہوگئی.ناچار آپ نے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ کیا اور دوبارہ حضرت عثمان کو سفیر بنا کر بھجوایا جن کی واپسی میں تاخیر ہونے سے ان کی شہادت کی افواہ مشہور ہو گئی.رسول کریم اللہ نے اس موقع پر کیکر کے درخت کے نیچے اپنے صحابہ کو جمع کر کے موت پر بیعت لی کہ وہ حضرت عثمان کی شہادت کا بدلہ لئے بغیر یہاں سے نہیں جائیں گے.( بخاری ) 75 قریش کو پتہ چلا تو انہوں نے حضرت عثمان کی نظر بندی ختم کر کے واپس بھجوا دیا.اس دوران مسلمانوں کا جوش و جذ بہ دیکھ کر انہیں صلح کی کچھ تحریک ہوئی اور با ہم سفارت کے نتیجہ میں بالآخر اس بات پر دس سال کے لئے معاہدہ صلح حدیبیہ طے پایا.جس کی موٹی شرائط یہ تھیں:.1 مسلمان اس سال کی بجائے آئندہ سال عمرہ کریں.2.اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مسلمانوں کے پاس مدینہ چلا جائے تو اسے قریش کو واپس کیا جائے گا.لیکن کوئی مسلمان قریش کے پاس آجائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا.3.دونوں فریق اپنے حلیفوں کی مدد کے پابند ہوں گے.باوجود یکہ شرائط صلح طے ہونے کے دوران کفار کا رویہ سخت تلخ رہا.پھر بھی رسول کریم ﷺ نے ہر حال میں صلح کو جنگ پر ترجیح دی.حتی کہ معاہدہ طے ہونے سے قبل جب مکہ کا ایک مظلوم پابند سلاسل ابو جندل قید کی زنجیریں توڑ کر مسلمانوں کی پناہ میں آیا تو نمائندہ قریش سہیل نے اسے واپس کرنے پر اصرار کیا اور مسلمانوں کو صلح کی خاطر یہ سخت کڑی شرط بھی تسلیم کرنا پڑی.سہیل اسے مارتا ہوا واپس مکہ لے گیا اور مسلمان اس درد ناک منظر کو دیکھ کر بے تاب ہو گئے.ان حالات میں حضرت عمر جیسے بہادر انسان کو بھی ابتلاء آ گیا اور انہوں نے رسول کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر سے پوچھا کہ کیا ہم حق پر نہیں؟ حضرت عمر نے بعد میں اپنے اس سوال پر نادم ہو کر بہت نوافل اور صدقات ادا کئے.( بخاری ) 76 الغرض اس صلح کی بظاہر مشکل شرائط کی وجہ سے مسلمان سخت غمگین تھے کہ انہیں طواف کئے بغیر واپس جانا پڑ رہا ہے.چنانچہ اس کیفیت میں جب رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو میدان حدیبیہ میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کا حکم دیا تو مارے غم کے وہ سکنہ کے عالم میں آگئے اور انہیں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا.تب رسول کریم ﷺ کو ام المؤمنین حضرت ام سلمہ نے مشورہ دیا کہ آپ کے صحابہ نافرمان نہیں.ان پر غم کا اثر غالب ہے آپ اپنی قربانی ذبح کریں پھر دیکھیں وہ کس طرح اطاعت کرتے ہیں.اور واقعی رسول کریم ﷺ کا اپنی قربانی کو بیچ کرنا تھا کہ تمام صحابہ دھڑا دھڑ
اسوۃ انسان کامل 31 سوانح حضرت محمد علی 77 اپنی قربانیاں ذبح کرنے لگے.یہ یقینا جذبات اور نفوس پر حاصل ہونے والی ایسی عظیم فتح تھی جو بعد میں فتح خیبر و مکہ کا پیش خیمہ بن گئی.چنانچہ حدیبیہ سے واپسی پر رسول کریم ﷺ پر سورۃ الفتح کی ابتدائی آیات اتریں جن میں ذکر ہے کہ یقیناً ہم نے تمہیں کھلی کھلی فتح عطا کی ہے.( بخاری ) پھر واقعی حدیبیہ کی بظاہرمشکل شرائط مسلمانوں کے لئے ایسی مفید ثابت ہوئیں کہ مسلح وامن کے اس زمانہ میں وہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے.چنانچہ حدیبیہ میں مسلمانوں کی تعداد چودہ سوتھی.جو دو سال سے کم عرصہ میں فتح مکہ تک دس ہزار ہوگئی.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کی اشاعت کا اصل ذریعہ تلوار نہیں بلکہ محبت سے اس پیغامِ امن کی اشاعت کرنا ہے.شاہان مملکت کو خطوط اسی زمانہ ء امن میں رسول کریم ﷺ نے شاہ روم ، شاہ ایران ،شاہ مصرا اور شاہ حبشہ کو بھی تبلیغی خطوط لکھ کر قبول اسلام کی دعوت دی.اس کے عظیم الشان نتائج برآمد ہوئے.(ابن سعد ) 78 قیصر روم کو اس خط کے بعد رسول کریم علیہ کے مزید حالات جاننے کی طرف توجہ ہوئی اور اس نے بغرض تجارت شام گئے ہوئے قریش کے سردار ابوسفیان کو اپنے دربار میں بلوا کر اس بارہ میں بڑے اہم سوال کئے اور پھر ان کے جوابات پر ایسے عالمانہ اور شاندار تبصرے کئے جو رسول کریم ﷺ کی صداقت کے لئے واضح اشارے تھے.آخر میں شاہ روم نے کہا کہ اگر میں اس نبی کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں دھونے میں فخر محسوس کرتا.ایک روز وہ نبی اس سرزمین پر غالب آجائے گا.ابوسفیان یہ سن کر باہر آیا تو بے اختیار کہہ اٹھا کہ محمد ﷺ کا ستارہ تو بہت بلند معلوم ہوتا ہے.روما کا بادشاہ بھی اس سے خوف کھانے لگا ہے“.بہر حال ہر قل کے دل کی گہرائیوں میں رسول کریم ﷺ کی صداقت گھر کر چکی تھی مگر اپنے مصاحبوں اور درباریوں کے دباؤ کی وجہ سے وہ اپنی دلی خواہش پوری نہ کر سکا.تاہم اس نے رسول کریم ﷺ کا خط سنہری رومال میں لپیٹ کر متبرک تحفہ کے طور پر ایک سنہری ڈبے میں محفوظ کر دیا جو کئی سو سال بعد تک محفوظ رہا.( بخاری ) 79 شاہ ایران کسری کو بھجوائے گئے تبلیغی خط کا رد عمل اس کے برعکس ہوا.اس نے رسول کریم ﷺ کے خط کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھے اس طرح مخاطب کر رہا ہے.بعد میں یہودی سازش کے نتیجہ میں اس نے یمن کے گورنر باذان کو رسول کریم ﷺ کی گرفتاری کا حکم دیا.مکتوب نبوی کے پھاڑنے کی اطلاع پر رسول کریم ﷺ نے غیرت دینی کے جوش سے فرمایا تھا ”خدا اسے پارہ پارہ کرے اور جب گورنر یمن کے قاصد حضور ﷺ کوگرفتار کرنے آئے تو آپ نے انہیں اس رات انتظار کرنے کو کہا.اگلی صبح آپ نے خدا سے علم پا کر فرمایا کہ میرے رب نے آج تمہارے رب یعنی کسری کو قتل
اسوۃ انسان کامل 32 سوانح حضرت محمد عام کر دیا ہے.بعد میں پتہ چلا کہ اسی رات کسری پرویز کو اس کے بیٹے شیرویہ نے قتل کر کے رسول کریم ﷺ کی گرفتاری کے احکام منسوخ کر دیئے تھے.یہ نشان دیکھ کر یمن کے گورنر باذان نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا.( بخاری ،طبری) 80 شاہ مصر مقوقس پر بھی رسول کریم علیہ کے تبلیغی خط کا بہت اچھا اثر ہوا.اس نے وہ خط ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں محفوظ کر کے اس کا جواب بھی لکھوایا جس میں اللہ کے نام سے شروع کر کے رسول اللہ کی دعوت پر غور کا ذکر کر کے لکھا کہ مجھے ایک نبی کی بعثت کا انتظار تھا مگر خیال تھا کہ وہ ملک شام میں ہوگا.اس نے تحفہ کے طور پر کچھ پار چات ، سواری کے لئے خچر اور قبطی قوم کی دو معز ز شہزادیاں بطور تحفہ بھجوائیں.ان میں سے ایک ماریہ قبطیہ تھیں جو رسول کریم ﷺ کے عقد میں آئیں اور ان سے صاحبزادہ ابراہیم پیدا ہوئے.ماریہ کی دوسری بہن سیرین مشہور شاعر حسان بن ثابت کے عقد میں آئیں.مقوقس نے جو خچر بھجوایا اس کا نام دلدل تھا.وہ رسول کریم ﷺ کے استعمال میں رہا اور غزوہ حنین میں بھی رسول اللہ ہے اس پر سوار تھے.( ابن جوزی ) 81 شاہ حبشہ نجاشی کو بھی رسول کریم ﷺ نے تبلیغی خط لکھا.اگر چہ مکی دور میں حبشہ کی طرف مسلمانوں نے ہجرت کی اور کفار نے ان کا تعاقب کر کے نجاشی شاہ حبشہ کے دربار تک رسائی حاصل کر کے مسلمانوں کو واپس لانے کی کوشش کی تو اس وقت حضرت جعفر طیار کی تقریر اور سورہ مریم کی تلاوت کا ان پر بہت اثر ہوا تھا اور انہوں نے مہاجرین حبشہ کے ساتھ عدل وانصاف کا سلوک کیا بعد میں جب حضور کا خط انہیں پہنچا تو وہ بڑے ادب سے تخت سے نیچے اتر آئے اور اسے آنکھوں سے لگا کر کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اے خدا کے رسول ہیں.پھر اسے ایک ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھ کر کہا جب تک یہ خط ہمارے گھرانے میں رہے گا.اہل حبشہ اس کی حفاظت کی بدولت ہمیشہ خیر و برکت پاتے رہیں گے.نجاشی نے اپنے جوابی خط میں اپنے قبول اسلام کی درخواست کرتے ہوئے لکھا کہ میں آپ کے چچا زاد 82 بھائی جعفر کے ذریعہ آپ کے ہاتھ پر خدا کی خاطر بیعت کرتا ہوں.(ابن جوزی) 2 حضرت نجاشی جب 9ھ میں فوت ہوئے تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے فرمایا ” تمہارا ایک صالح بھائی نجاشی حبشہ میں فوت ہو گیا ہے آؤ سب مل کر اس کی نماز جنازہ ادا کریں“.( بخاری ) 83 یہ کسی مسلمان کی پہلی نماز جنازہ غائب تھی.نجاشی کے نام اپنے دوسرے خط میں حضور نے بعض ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد کیں جو انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے ادا کیں.ایک تو انہوں نے ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ کے حضور سے غائبانہ نکاح کا اہتمام کیا جن کے شوہر ہجرت حبشہ کے دوران فوت ہوئے تھے.دوسرے آنحضور ﷺ کی ہدایت کے مطابق حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کو خاص انتظام کے تحت واپس مدینہ
اسوہ انسان کامل 33 سوانح حضرت محمد علی بھجوایا.مہاجرین حبشہ فتح خیبر سے واپسی پر رسول کریم ﷺ کو آ کر ملے تو آپ نے فرمایا میں نہیں کہ سکتا کہ مجھے فتح خیبر کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر اور اس کے ساتھیوں کی آمد کی.( ابن سعد ) 84 غزوہ خیبر ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں کو شمال میں مکہ کے علاوہ دوسرا خطرہ جنوب میں یہود خیبر سے تھا جہاں یہود کے قبائل جلا وطن ہونے کے بعد ا کٹھے ہو گئے تھے.صلح حدیبیہ کے بعد مشرکین مکہ کے حملہ کا خطرہ تو ٹل گیا مگر خیبر میں یہود نے سراٹھایا.اور قبائل غطفان کو ساتھ ملا کر مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا.رسول کریم ﷺ نے فوری پیش قدمی کر کے دفاع کا فیصلہ کیا اور 7 ھ میں سولہ سوصحابہ کو ساتھ لے کر خیبر اور غطفان کے درمیان پڑاؤ فرمایا.جس کے نتیجہ میں یہود کے حلیف قبائل غطفان سے کٹ کر رہ گئے.لڑائی شروع ہوئی تو پہلے کھلے میدان میں مقابلہ ہوا.ان کے بڑے پہلوان مارے گئے تو یہودی قلعہ بند ہو گئے.مسلمان ایک کے بعد دوسرا قلعہ فتح کرتے گئے.یہاں تک کہ آخری مضبوط قلعہ رہ گیا جہاں باقی ماندہ یہود نے اکٹھے ہو کر اپنا پورا زور صرف کر دیا اور محاصرہ پر ہمیں دن ہو گئے.تب رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر فتح ہو گی.اگلے روز آپ نے حضرت علی ” کو علم عطا فرمایا اور ان کے ذریعہ یہ قلعہ فتح ہو گیا.(الحلبیہ ( 85 محاصرہ خیبر کے دوران رسول کریم اللہ کے دیگر اخلاق فاضلہ کے ساتھ امانتداری کا یہ شاندار واقعہ بھی ظاہر ہوا جب ایک یہودی رئیس کا گلہ بان مسلمان ہو گیا تو اس نے بکریوں کے ریوڑ کے بارہ میں پوچھا.آپ نے فرمایا ان بکریوں کے منہ قلعہ کی طرف کردو.اللہ تعالیٰ ان کو اپنے مالک کے پاس پہنچا دے گا.چنانچہ بکریاں قلعہ میں پہنچ گئیں.( ابن ہشام) 86 آج کی مہذب دنیا ایسے عظیم اخلاق کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کہ محصور دشمن کی رسد روکنے کی بجائے الٹا اس کے لئے مہینوں کی غذا کا سامان کر دیا جائے.مگر امانت ودیانت پر آنچ نہ آنے پائے.رسول کریم ﷺ نے یہود خیبر کی درخواست پر وہاں کی زمینیں نصف پیداوار کی شرط پر ان کے سپرد کر دی تھیں مگر وہ پھر بھی اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے اور ایک یہودی عورت کے ذریعہ رسول کریم ﷺ کو بھنے ہوئے گوشت میں زہر دینے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک صحابی حضرت بشیر " شہید ہوئے اور خود رسول کریم ﷺ کے حلق میں وفات تک اس زہر کا اثر رہا.رسول کریم ﷺ نے اس یہودیہ کو بلوا کر وجہ پوچھی تو کہنے لگی میں نے سوچا اگر آپ نبی ہیں تو زہر کے اثر سے بچ جائیں گے اور اگر نبی نہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی“.رسول کریم نے اس جانی دشمن کو بھی معاف فرما دیا.( بخاری ) 87 دوسرا احسان آپ نے یہود خیبر پر یہ کیا کہ یہود کے سردار کی بیٹی صفیہ ( جو قید ہو کر حضرت دحیہ کلبی کے
اسوہ انسان کامل 34 سوانح حضرت محمد علی حصہ میں آئی تھیں ) کو آزاد کر کے آپ نے صحابہ کے مشورہ پر اپنے حرم میں داخل کر لیا اور ان کے عوض حضرت دحیہ کو اور لونڈی دے دی.اس طرح حضرت صفیہ کی وہ خواب بھی پوری ہو گئی جس میں انہوں نے دیکھا تھا کہ چاند ان کی جھولی میں آگرا ہے اور ان کے والد نے اس کی تعبیر عرب کے بادشاہ کے ساتھ شادی کرنے سے کی تھی.حضرت صفیہ " سے شادی کا مقصد بھی یہود کو اسلام کے قریب کرنا تھا.خود حضرت صفیہ رسول اللہ اللہ کے اخلاق حسنہ سے انتہائی متاثر ہو کر آپ پر دیوانہ وار فدا تھیں.آپ کی آخری بیماری میں عرض کرتی تھیں کہ ”اے کاش! آپ کی تکالیف مجھے مل جائیں“.رسول کریم میں اللہ نے تمام بیویوں سے فرمایا کہ واللہ یہ سچی ہے“.ھ میں رسول کریم ﷺ نے حضرت عباس کی تحریک پر ان کی نسبتی بہن حضرت میمونہ سے شادی کی.( ازواج ) 88 یہ حضور علی کی آخری شادی تھی.تعدد ازواج کی دیگر معروف حکمتوں اور ضرورتوں کے علاوہ رسول کریم ﷺ کی ذات میں اس کی بہت برکات ظاہر ہوئیں.اول ان ازواج کے ذریعہ مسلمان عورتوں کی تربیت کے سامان ہوئے.دوسرے ان شادیوں کے ذریعہ عرب کے تمام قبائل سے رشتہ داری ہوگئی اور وہ اسلام کی طرف مائل ہوئے.تیسرے ان قبائل کی عورتوں نے اپنی رشتہ دار ازواج مطہرات سے مسائل سیکھے.اگر رسول کریم ﷺ کا مقصد ان شادیوں سے عیاشی ہوتا جیسا کہ بعض غیر مسلم اعتراض کرتے ہیں تو آپ بجائے بیوہ اور عمر رسیدہ عورتوں کے نوجوان کنواری عورتوں سے شادی کرتے.ھ میں صلح حدیبیہ کی شرط کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہزار صحابہ کے ساتھ عمرۃ القضاء کیا اور حسب وعدہ صرف تین دن مکہ میں قیام کے بعد مدینہ تشریف لے گئے.اسی زمانہ میں قریش مکہ کے دو بڑے سرداروں حضرت عمرو بن العاص اور حضرت خالد بن ولید نے مدینہ آکر اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی.غزوہ ذات الرقاع بھی اسی سال کا واقعہ ہے.(ابن ہشام) جنگ موتہ 89 90 میں رسول کریم ہے نے شامی سرحد پر عیسائی عرب قبائل کی طرف سے مدینہ پر حملہ کی تیاریوں کی اطلاع پا کر ایک خبر رساں دستہ بھجوایا.جس پر حملہ کر کے بعض صحابہ کو شہید کر دیا گیا تو آپ نے بصری کے حاکم شرحبیل کو بھی ایک تبلیغی خط بھجوایا مگر اس نے قاصد کو بے دردی سے قتل کر دیا جو کھلم کھلا اعلان جنگ تھا.رسول کریم ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کی سرکردگی میں تین ہزار جاں نثاروں کا ایک لشکر تیار کر کے شام روانہ کیا.( بخاری ) موتہ کے مقام پر شرحبیل کی فوج کے ساتھ ایک خطر ناک مقابلہ میں اسلامی جرنیل حضرت زید، حضرت جعفر اور حضرت عبداللہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے.آخر حضرت خالد بن ولید نے کمان سنبھالی اور لڑائی کا پانسا پلٹ دیا.آنحضرت ﷺ نے انہیں بہادری کے جوہر دکھانے پر سیف اللہ کا خطاب دیا.(ابن ہشام) 91
سوانح حضرت محمد علی اسوہ انسان کامل فتح مکه 35 صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں مسلمانوں کی تبلیغ سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہور ہا تھا جس پر قریش اندرہی اندر سخت ناراض تھے اور مسلمانوں کو کسی بہانہ سے نیچا دکھانا چاہتے تھے.اسی دوران قریش کے حلیف بنو بکر نے مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنوخزاعہ پر پرانی دشمنی کی وجہ سے حملہ کر کے ان کا جانی نقصان کیا.قریش نے صلح حدیبیہ کی شرائط کے مطابق انہیں اس ظلم سے روکنے کی بجائے الٹا ہتھیاروں سے مدد کی.اب مسلمانوں کا فرض تھا کہ حسب معاہدہ اپنے حلیف بنو خزاعہ کی مدد کرتے چنانچہ جب خزاعہ کا وفد رسول کریم ﷺ کی خدمت میں مدد کا طالب ہو کر گیا تو آپ نے فرمایا کہ ”ہم ضرور معاہدہ کے مطابق تمہاری امداد کریں گئے.پھر آپ نے قریش کو کہلا بھیجا کہ یا تو بنوخزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا ادا کریں یا بنو بکر سے علیحدگی اختیار کر لیں یا معاہدہ حدیبیہ کے ختم ہونے کا اعلان کر دیں.انہوں نے جواب دیا کہ ہم معاہدہ ختم کرتے ہیں مگر بعد میں اس پر پچھتائے تو ابوسفیان کو تجدید معاہدہ کے لئے مدینہ بھیجوایا مگر وہ نا کام واپس آیا.(ابن ہشام ) 92 ادھر رسول کریم ﷺ نے بنوخزاعہ کی مدد کرنے کے لئے حلیف قبائل کو ساتھ ملا کر 10 رمضان کو دس ہزار صحابہ کے ساتھ نہایت خاموشی سے مکہ کی طرف پیش قدمی شروع کی اور حضرت موسی کی وہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.آپ نے ساری فوج کو مرالظہر ان کے میدان میں آگئیں روشن کرنے کا ارشاد فرمایا جب سرداران مکہ نے ان کو دیکھا جو اسلامی لشکر کا پتہ چلانے نکلے تھے تو حیرت زدہ ہو کر رہ گئے.حضرت عباس مشرک سرداروں میں سے ابوسفیان کو اپنی حفاظت میں لے کر رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور اگلی صبح اس نے اسلام قبول کر لیا.رسول کریم اللہ نے مکہ میں پر امن داخلہ کی خاطر یہ اعلان کروا دیا کہ ہر اس شخص کو امان دی جائے گی جو خانہ کعبہ میں داخل ہو جائے یا ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے یا ہتھیار ڈال دے.اسکے بعد آپ کا لشکر مکہ کی چاروں اطراف سے شہر میں داخل ہوا.حضرت خالد بن ولید عکرمہ بن ابو جہل کی معمولی مزاحمت اور مقابلہ کے بعد بالائی حصہ سے شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے.رسول کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور اسے بتوں سے پاک کیا.کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ سے خانہ کعبہ کی چابی منگوا کر آپ اندر داخل ہوئے اور پھر یہ چابی اسی کے سپر د کر دی.اس اعلیٰ ظرفی کا اس پر بہت اثر ہوا.اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور مکہ کی حرمت وعزت وغیرہ اہم امور پر مشتمل تھا.آپ نے اپنے جانی دشمنوں اور خون کے پیاسوں مکہ والوں سے پوچھا تمہارا کیا خیال ہے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے کہا آپ ہمارے معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں.آپ نے فرمایا جاؤ تم سب آزاد ہو تم پر کوئی سرزنش یا گرفت نہیں.پھر آپ نے واقعی سب جانی دشمنوں کو صدق دل سے بخش دیا.ابو جہل کا بیٹا
اسوہ انسان کامل 36 سوانح حضرت محمد علی عکرمہ جو جان بچانے کی خاطر بھاگ گیا تھا اس کی بیوی کی درخواست پر آپ نے اسے امان عطا فرمائی وہ یہ احسان دیکھ کر مسلمان ہو گیا.(ابن ہشام ) 93 آپ نے اپنے خونی قاتلوں کو نہ صرف معاف کیا بلکہ انعام واکرام سے نوازا.اپنے چا حمزہ کے قاتل وحشی کو بھی آپ نے معاف فرما دیا.آپ کے اس بے نظیر عفو کا نتیجہ یہ نکلا کہ سارا عرب جوق در جوق مسلمان ہونے لگا.رسول کریم ﷺ مسلمان ہونے والوں سے ان الفاظ میں بیعت لیتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے ، چوری اور زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، کسی پر بہتان نہ باندھیں گے اور امر معروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے“.(سورۃ الممتحنہ : 13) جنگ حنین فتح مکہ کی خبر کے بعد پریشان ہو کر طائف کے قبائل ہوازن اور ثقیف نے اردگرد کے قبائل کی مدد سے ایک زبر دست لشکر تیار کیا.رسول کریم ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ بارہ ہزار کے لشکر کے ساتھ وادی حنین پہنچے.ہوازن کے لوگ جو مشہور تیرانداز تھے کمین گاہوں میں گھات لگا کر بیٹھ گئے اور مسلمانوں کے وادی میں داخل ہوتے ہی ان پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی لشکر کے آگے آگے وہ دو ہزار نو مسلم تھے جو حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں اپنی کثرت پر نازاں ہو کر جارہے تھے.یہ لوگ حواس باختہ ہو کر بھاگے تو مسلمانوں کے گھوڑے اور اونٹ بھی بدک کر بھاگنے لگے.رسول کریم سے وادی کے دائیں اپنے چند جاں نثاروں کے ساتھ سفید فیچر پر سوار ہو کر نعرہ لگاتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ میں نبی ہوں.یہ جھوٹ نہیں اور میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں“.صلى الله الله رسول کریم ﷺ کے حکم پر حضرت عباس نے انصار و مہاجرین قبائل کے نام لے کر پکارا کہ خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے.وہ یہ آواز سن کر بد کی ہوئی سواریوں سے چھلانگیں لگا کر میدان میں واپس پلٹے اور رسول کریم ﷺ کے گرد جمع ہونے لگے اور آپ کی معیت میں دشمن پر پوری قوت سے ہر طرف سے حملہ کر دیا.تھوڑی دیر میں لڑائی کا نقشہ بدل گیا.مسلمانوں کو فتح ہوئی.چوبیس ہزار اونٹ ، چالیس ہزار بھیڑ بکریاں ، چار ہزار اوقیہ چاندی اور چھ ہزار قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے.پھرانہ مقام پر رسول کریم ﷺ نے مال غنیمت میں سے بیت المال کے لئے پانچواں حصہ الگ کر کے باقی سب اموال سپاہیوں میں تقسیم فرما دیئے.ہوازن کا وفد آپ کی رضاعی والدہ حلیمہ کا واسطہ دیگر معافی کا طالب ہوا.آپ نے اپنے اور بنو مطلب کے حصہ کے قیدی آزاد کر دیے.اس طرح چھ ہزار قیدی ایک دن میں رہا ہوئے.انہی میں آپ کی رضاعی بہن شیماء بھی تھیں جنہیں آپ نے ان کی خواہش کے مطابق انعام واکرام دے کر رخصت کیا.( بخاری، ابن ہشام )94 مال غنیمت کی تقسیم کے بعد رسول کریم ﷺ نے بیت المال کے حصہ میں سے تالیف قلبی کے طور پر
اسوۃ انسان کامل 37 سوانح حضرت محمد علی قریش کے بعض سرداروں کو فیاضی سے اونٹوں وغیرہ کے انعامات عطا فرمائے بعض انصار نو جوانوں نے آپس میں چہ مگوئیاں کیں کہ خون ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال غنیمت اپنے ہم وطن قریش رشتہ داروں میں تقسیم کر دیا گیا ہے.رسول کریم ﷺ کو پتہ چلا تو انصار کو اکٹھا کر کے اس بارہ میں پوچھا انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے چند بے وقوف نو جوانوں کی زبان سے یہ بات نکلی ہے ورنہ ہم نے کوئی شکایت نہیں کی.اس پر رسول کریم ﷺ نے اسلام کے ذریعہ حاصل ہونے والے انعامات ، دولتِ ایمان اخوت و وحدت ، ظاہری فراخی وغیرہ کا ذکر کیا جس پر انصار نے کہا بے شک یہ اللہ اور اس کے رسول کا ہم پر احسان ہے.آپ نے فرمایا ” تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ جب دنیا نے مجھے جھٹلایا اور چھوڑ دیا تم نے پناہ دی اور مرد کی مگر کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ اپنے گھروں میں بھیٹرمیں اور بکریاں ساتھ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ساتھ لے جاؤ.آپ نے انصار سے اپنی محبت کا اس جذباتی رنگ میں ذکر کیا کہ ان کے دل پگھل گئے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.( بخاری ) 95 جنگ حنین سے بھاگنے والوں نے مشرکین طائف کے پاس جا کر پناہ لی تھی.رسول کریم ﷺ نے فتح حنین کے بعد طائف کا محاصرہ کیا جو ہمیں دن جاری رہا.مگر جب کوئی نتیجہ نہ نکلا تو آپ نے صحابہ کے مشورہ سے محاصرہ اٹھا کر لشکر اسلام کو واپسی کا حکم دیا.جنگ تبوک سفر فتح مکہ سے واپسی کے بعد 9ھ میں رسول کریم ﷺ کو اطلاع ملی کہ جنگ موتہ کا انتقام لینے کے لئے غستانی بادشاہ بہت بڑا لشکر تیار کر رہا ہے اور ہر قل کی فوجی امداد کے ساتھ وہ مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے.رسول کریم ﷺ نے تمام قبائل کو قیصر روم کے مقابلہ کے لئے جلد مدینہ پہنچنے کی اطلاع کروائی.اس لشکر عظیم کی تیاری کے لئے اخراجات کی ضرورت تھی.آپ کی تحریک پر لبیک کہتے ہوئے صحابہ کی مالی قربانی کے حیرت انگیز نمونے دیکھنے میں آئے.حضرت ابو بکر ا پنا سارا مال لے آئے تو حضرت عمرؓ نے نصف پیش کر دیا.حضرت عثمان نے تمام تجارتی سرمایہ چندہ میں دے دیا.دیگر صحابہ نے بھی حسب توفیق بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.رسول کریم ع میں ہزار کا شکر جرار لے کر مدینہ روانہ ہوئے.حضرت علی کو آپ نے اپنے بعد مدینہ کا امیر مقرر فرمایا.منافقین نے ان کو پیچھے چھوڑ جانے کے طعنے دیئے تو رسول کریم ﷺ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا اے علی ! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تو مجھ سے ایسا ہی ہے جیسے موسی کو ہارون" تھے.سوائے اس کے کہ تو نبی نہیں ہے.اس سفر میں رسول کریم و قوم ثمود کی تباہ شدہ بستیوں کے پاس سے گزرے تو فرمایا’یہاں سے استغفار کرتے ہوئے جلدی سے گزر جاؤ.چودہ منزلیں طے کرنے کے بعد آپ تبوک پہنچے تو پتہ چلا کہ قیصر روم کی امداد محض افواہ تھی.اسلامی لشکر جرار کی خبر سن کرغستانی بادشاہ کی فوج کے حوصلے ایسے پست ہوئے کہ وہ ادھر ادھر منتشر ہو گئے.
اسوہ انسان کامل 38 سوانح حضرت محمد عام 96 رسول کریم ع یہاں نہیں روز قیام کے بعد واپس تشریف لائے.اس سفر میں کل دو ماہ کا عرصہ لگا.(ابن ہشام) واپسی پر رسول کریم ﷺ نے مدینہ کے قریب منافقین کی ایک مسجد کے بارہ میں اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر کہ وہ مسجد ضرار ( یعنی باعث فتنه وضرر ) ہے مسمار کروا دیا.(طبری) 97 تبوک میں ایک طرف گرمی کی شدت تھی دوسری طرف مدینہ میں کھجوریں پکنے کا موسم تھا اس وجہ سے کئی کمزور لوگ اس غزوہ میں شریک ہونے سے رہ گئے.ان میں سے اکثر منافق تھے.مدینہ واپسی پر انہوں نے اپنی غیر حاضری کے طرح طرح کے بہانے تراشے مگر تین صحابہ حضرت کعب بن مالک ، مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ نے اپنے اخلاص کی بنا پر صاف صاف اپنی سستی اور غلطی کا اقرار کیا.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو ان سے کلام کرنے سے روک دیا.پچاس دن کا عرصہ ان صحابہ نے سخت اذیت تکلیف اور مسلسل امتحان میں گزارا کہ قرآن کریم کے مطابق زمین ان پر تنگ ہوگئی مگر انہوں نے دعا اور توجہ اور استغفار سے کام لیا.اس دوران حضرت کعب نے جو مشہور شاعر بھی تھے غسانی بادشاہ کے قاصد کا وہ خط تنور میں جلا کر راکھ کر دیا جس میں اس نے کعب کو اپنے ہاں عزت و اکرام کے وعدہ پر بلانے کی پیشکش کی تھی.پچاسویں دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان تینوں صحابہ کی قبولیت تو بہ کا حکم اترا.جس پر رسول ﷺ اور صحابہ نے ان کو مبارکباد دی.اس سفر سے واپسی پر طائف کے مشرکین کا وفد مد ینہ آیا اور اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی.(بخاری) 98 انہی ایام میں حضرت علی کو دو سواروں کے ساتھ قبیلہ طے کی شرارتوں کی اطلاع پر سرکوبی کے لئے بھجوایا گیا.جولوگ قید ہوئے ان میں حاتم طائی کی بیٹی سفانہ بھی تھی.رسول کریم ﷺ نے اسے فورا آزاد کر دیا مگرخی باپ کی بیٹی نے اکیلے آزاد ہونا پسند نہ کیا.رسول کریم ﷺ نے اس کے اعزاز میں اس کی قوم کے کل قیدی آزاد فرما دیئے.اس کا بھائی عدی جو شام کی طرف بھاگ گیا تھا، کو اسکی بہن نے رسول کریم ﷺ کے احسانات کا ذکر کر کے آپ کے پاس بھجوایا اور اس نے اسلام قبول کر لیا.(طبری) 99 ھ میں صاحبزادہ ابراہیم 16 ماہ کی عمر میں فوت ہو گئے.رسول کریم ﷺ نے ان کی وفات پر فرمایا ”اگر میرا یہ بیٹا زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا مگر ان کی وفات پر آپ نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا.فرمایا ”آنکھیں اشکبار ہیں ر دل غمگین مگر زبان سے اللہ کی مرضی کے برخلاف کوئی بات نہ نکلے گی“.اس موقع پر ہونے والے سورج گرہن کو جب لوگوں نے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات کا نشان قرار دیا تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کسی موت کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتا جب یہ نشان ظاہر ہو تو عاجزی سے نماز پڑھو اور دعا ئیں کرو“.( بخاری ) 100 29 کا سال عام الوفود کے طور پر معروف ہے.جس میں کثرت سے اطراف عرب سے قبائل مدینہ آئے
اسوہ انسان کامل 39 سوانح حضرت محمد علی اور رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کیا.ان میں ایک مشہور وفد نجران کے سرکردہ عیسائیوں کا تھا.جس میں 60 افراد شامل تھے.دوران گفتگو ان کی عبادت کا وقت آیا تو آپ نے ان کو مسجد نبوی میں ہی نماز کی اجازت دے دی.پھر جب انہوں نے واضح دلائل کا انکار کیا تو رسول کریم ﷺ نے انہیں اللہ کے حکم کے مطابق مباہلہ کے لئے بلا یا مگر وہ ڈر گئے اور بعد معاہدہ صلح کر کے واپس ہوئے.(ابن سعد ) 101 ایک اہم وفد بنو حنیفہ کا تھا جس میں مسلیمہ کذاب بھی شامل تھا اس نے مطالبہ کیا تھا کہ آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ بنانا منظور کرلیں تو میں بیعت کرتا ہوں.رسول کریم نے جواب دیا کہ میرے ہاتھ میں کھجور کی جو شاخ ہے اگر یہ بھی مانگوتو نہ دوں گا.کیونکہ تمہاری نسبت میں جو دیکھ چکا ہوں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمہارا انجام اچھا نہیں.رسول کریم نے خواب میں اپنے ہاتھ میں سونے کے دونگن دیکھے تھے.جو آپ کو برے معلوم ہوئے.بذریعہ وحی آپ کو بتایا گیا کہ ان پر پھونک مارو.جس سے وہ دونوں اڑ گئے ، آپ نے فرمایا اس سے مراد دو کذاب ہیں جو میرے بعد زور پکڑیں گے.ایک صنعاء کا اسود عنسی اور دوسرا یمامہ کا مسلیمہ کذاب“.(ابن ہشام) 102 دسویں سال میں یمن کے قبائل نے اسلام قبول کیا اور پھر رفتہ رفتہ قریباً سارا عرب مسلمان ہو گیا.حضرت ابو بکرا میرا لج رض 2 ھ میں رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر کو حج پر جانے والے اسلامی قافلوں کا امیر مقرر کر کے روانہ فرمایا.بعد میں سورۃ البرأت کی آیات نازل ہونے پر حضرت علی کو بھجوایا کہ وہ حج پر یوم النحر کے دن اس کا اعلان کر دیں.چنانچہ حضرت ابوبکر نے بطور امیر حج کے ارکان ادا کئے اور حضرت علی نے سورۃ البراۃ کی ابتدائی آیات کے مطابق یہ اعلان کیا کہ عہد شکن مشرکوں کے ساتھ اب کوئی معاہدہ نہیں رہا انہیں چار ماہ کی مہلت ہے.اس عرصہ میں وہ اپنی بہتری کے لئے جو چاہیں کر لیں البتہ غیر مخالف مشرکوں کے معاہدہ کی مدت پوری کی جائے گی.( بخاری ) 103 حجۃ الوداع 10ھ میں رسول کریم ﷺ قریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کے ساتھ خود حج کے لئے نکلے جو آخری حج ہونے کی وجہ سے حجتہ الوداع کہلاتا ہے.یہ حج بھی آپ کی صداقت کا عجب شاہکار ہے.ابھی چند سال پہلے وہ وقت تھا جب آپ حج پر آئے ایک ایک قبیلہ کو اسلام پیش کر کے سوال کرتے تھے کہ کوئی ہے جو مجھے قبول کرے اور پناہ دے کر ساتھ لے جائے اور کوئی آپ کی بات نہ سنا تھا اور آج یہ عالم تھا کہ سارا عرب آپ کے زیرنگیں تھا اور
اسوہ انسان کامل 40 سوانح حضرت محمد علی ہزاروں کا مجمع آپ کی غلامی میں فخر محسوس کر رہا تھا.مناسک حج ادا کرتے ہوئے آپ نے اونٹنی پر سوار ہو کر مشہور خطبہ بھی ارشاد فرمایا ”لوگو! شاید اس سال کے بعد میں تمہیں مل سکوں یا نہیں.یاد رکھو جیسے یہ دن اور مہینہ حرمت والا ہے تمہارے جان و مال بھی ایک دوسرے پر حرام ہیں.امانت اس کے اہل کے سپرد کی جائے.میری یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دینا جو یہاں موجود نہیں.تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سوال کیا جائے گا.سود کی رقم اور جاہلیت کے تمام خون آج معاف کئے جاتے ہیں.عورتوں کا تم پر حق ہے اور تمہارا عورتوں پر حق ہے.وہ تمہارے ہاتھوں میں خدا کی امانت ہیں.ان سے نیک سلوک کرو اور غلاموں کا خیال رکھو.جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ.جو خود پہنو انہیں پہناؤ.مسلمان مسلمان کا بھائی ہے.کسی مسلمان کے لئے دوسرے کے مال میں تصرف جائز نہیں“.(مسلم ) 104 وصال محرم 11ھ میں رسول کریم ﷺ کو بخار ہوا پھر بیماری میں اضافہ ہوتا چلا گیا.صفر کے مہینہ میں کچھ افاقہ ہوا تو شامی سرحدوں کی تشویش ناک خبریں سن کر نو عمر حضرت اسامہ بن زید کی سرکردگی میں جلیل القدر صحابہ کا ایک لشکر وہاں بھجوانے کا ارشاد فرمایا.مگر جب حضور کی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تو اسامہ کا لشکر حضور کی اجازت سے روک دیا گیا.(ابن ہشام) 105 بیماری شدت اختیار کرنے پر حضور نے باقی ازواج کی اجازت سے حضرت عائشہ کے گھر میں قیام فرمایا.سات آٹھ روز تک بیماری کی حالت میں آپ نماز کے لئے تشریف لاتے رہے.ایک روز فر مایا اللہ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا کہ چاہے وہ اس دنیا کو اختیار کرے اور چاہے آخرت کو مگر اس بندے نے آخرت کو اختیار کیا.حضرت ابوبکر سمجھ گئے کہ اس سے مراد ہمارے آقا ہیں اور وہ بے اختیار رو پڑے.( بخاری ) 6 106 اپنی بیماری کے دنوں میں نماز کی امامت کے لئے آپ نے حضرت ابوبکر" کو مقرر فرمایا.حالانکہ آپ کو حضرت عائشہ کی طرف سے یہ رائے دی گئی کہ ابو بکر نرم دل ہیں آپ کی جگہ کھڑے ہو کر ضبط نہ کر سکیں گے.اس لئے حضرت عمر کو نماز پڑھانے کا ارشاد فرمائیں.مگر آپ نے باصرار فرمایا کہ ابوبکر کو کہو نماز پڑھائیں.اور پھر جب آپ نے صحابہ کو حضرت ابو بکر کی اقتداء میں نماز پڑھتے دیکھا تو بہت خوش ہوئے.آپ کے اس فعل میں حضرت ابوبکر کی خلافت کی طرف اشارہ تھا.پیر کے دن رسول کریم ﷺ کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی.آنکھیں پتھرا گئیں اور بدن بوجھل ہو گیا.دو پہر کا وقت تھا.اور 12 ربیع الاول کی تاریخ کہ ہمارے آقا نے اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر اپنے مولائے حقیقی کی طرف سفر اختیار کیا (إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ) آخری وقت آپ کی زبان پر یہ الفاظ تھے.اے اللہ ! میرے اعلیٰ رفیق!! (بخاری) 107
اسوہ انسان کامل 41 سوانح حضرت محمد علی رسول کریم ﷺ کے وصال کی خبر مدینہ میں بجلی کی طرح پھیل گئی.صحابہ رسول کی دنیا اندھیر ہوگئی.وہ مارے غم کے دیوانوں کی طرح ہو گئے.حضرت عمرؓ جیسے جری انسان کے حواس کا یہ عالم تھا کہ آپ تلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور اعلان کر دیا کہ منافق کہتے ہیں رسول کریم ﷺہ وفات پاگئے.دراصل آپ فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسقی کی طرح اپنے رب کے پاس گئے ہیں اور واپس آکر منافقوں کے ہاتھ پاؤں کاٹیں گے.اتنے میں حضرت ابو بکر رسول کریم ﷺ کی میت کے پاس تشریف لائے ، آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور کہا اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں جمع نہیں کرے گا.پھر انا للہ پڑھتے ہوئے باہر تشریف لائے اور حضرت عمرؓ کو خاموش کروا کے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا ”جو تم میں سے محمد کی عبادت کرتا تھا وہ یادر کھے کہ آپ وفات پاگئے ہیں.اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا وہ یقین رکھے کہ اللہ یقینا زندہ ہے اس پر کبھی موت نہ آئے گی.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ومـــــــا مُحَمّد إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل ( آل عمران : 145) که محمد صرف ایک رسول ہیں اور اس سے پہلے سب رسول وفات پاچکے ہیں.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو خدا کی قسم یوں معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ابھی یہ آیت نازل کی ہے.اس وقت ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی.خود حضرت عمر فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی تو مجھے یقین ہوا کہ آپ کا وصال ہو گیا ہے.میں غم سے نڈھال ہو گیا اور غش کھا کر زمین پر گر گیا.( بخاری ) 108 حضرت عائشہ فرماتی تھیں رسول اللہ کی وفات سے مسلمان صدمہ سے اس طرح ہو گئے جس طرح جاڑے کی اندھیری رات سے بکریاں پریشان ہوتی ہیں.حضرت فاطمہ اس مصیبت کا نقشہ یوں بھینچتی ہیں کہ مجھ پر ایسی مصیبتیں آپڑیں کہ دنوں پر آتیں تو ان کو رات کر دیتیں.حضرت حسان نے ایک شعر میں کیا عجب مرثیہ کہہ دیا جو تمام صحابہ کے جذبات کی بھی ترجمانی تھی کہ كُنتَ السَّوادَ لِنَاظِرِي، فَعَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أَحَاذِرُ یعنی اے میرے آقا! تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہوگئی.اب تیرے بعد کوئی شخص مرے مجھے اس کی پرواہ نہیں.مجھے تو تیری موت کا ڈر تھا.يَا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِماً فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانِ اے میرے رب! اپنے نبی ﷺ پر ہمیشہ درود بھیج.اس دنیا میں بھی دوسرے جہاں میں بھی ! اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ على ال مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ
اسوہ انسان کامل 42 سوانح حضرت محمد علی حواله جات 1 سيرت خاتم النبين ص 64-63 مطبوعه 1996 از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بحواله دیباچه لائف آف محمد نتائج الافهام في تقويم العرب قبل الاسلام وفي تحقيق مولد النبي وعمره 4 طبع اول 1858 پیرس طبع دوم عربی 1982 از محمود پاشا مصرى وسيرة النبي از علامه شبلی نعمانی مطبع دارالاشاعت جلد اول 1984ص108 3 شرح مواهب اللدينيه از علامه محمد بن الباقی زرقانی متوفی 1122ه جلد1 ص 106 المعرفه بيروت 1993 4 زرقانی جلد 1ص289 5 سيرة النبويه لا بن هشام جلد 1 ص 162 163 مطبوعه دار الكتب العلميه بيروت لبنان سن اشاعت 2001ء 6 ابن هشام جلد1 ص 180 و 186 7 8 9 الطبقات الكبرى تأليف محمد بن سعد جلد1ص 128,129 دار الفكر بيروت ابن هشام جلد 1 ص 192 تا 195 اصابه جلد 2ص 599 10 بخاری(1) بدء الوحي باب 1 11 بخاری (1) کتاب بدء الوحي باب 1 12 ابن هشام جلد1ص262 13 تفسير طبرى سورة الشعراء زير آيت وانذر عشیر تک الاقربين جلد9ص 483 تا 484 14 السيرة الحلبیه از علامه علی بن برہان الدین جلد 1 ص 110،109 احياء التراث العربي بيروت 15 بخاری (67) كتاب المغازى باب 3 16 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 ص 111 سيرة النبى ابن هشام جلد1ص266 17 ابن هشام جلد1ص 266 18 ابن سعد جلد 3 ص 55 مجمع الزوائد جلد 9ص 15 19 المعجم الكبير جلد 22 ص 426 20 مجمع الزوائد از علامہ ہیثمی جلد6ص 18 21 بخاری (65) کتاب المناقب باب 15
اسوہ انسان کامل 43 سوانح حضرت محمد علی 22 بخاری (68) كتاب التفسير سورة المؤمن باب300 23 بخاری (66) كتاب فضائل الصحابة باب 58 24 نسائى كتاب الجهاد باب وجوب الجهاد 25 ابن هشام جلد1ص 322،321 26 مسند احمد جلد 5ص290 27 ابن سعد جلد1ص207 28 ابن ہشام جلد1ص 340 29 ابن هشام جلد1ص 266 30 الروض الانف سهیلى جلد 2ص 127 دار المعرفه بيروت 31 ابن هشام جلد1ص 350 32 ابن ہشام جلد1ص 382 33 ابن ہشام جلد1ص416،415 34 ازواج النبي ص 80 مطبوعة دار النصرت مدينه المنوره سن اشاعت 1992 مصنف الامام محمد بن يوسف الصالحي 35 ابن ہشام جلد1ص ،421، طبقات الكبرى جلد1ص212 36 Life of Mahomet by sir william Muir Page :117 new edition 1877 37 شرح العلامه الرزقاني على المواهب اللدنيه دار المعرفه بيروت جلد 1ص300 38 ابن ہشام جلد1ص 429و434 39 ابن ہشام جلد1ص485،482،480 40 زرقانی جلد1ص 334 41 ترمذى (50) المناقب باب 69 42 زرقانی جلد 1 ص 348 و ابن ہشام جلد1ص 489تا 490 43 ابن هشام جلد1ص 492تا 495 44 ابن هشام جلد1ص 495تا 501 45 ابو داؤد (20) كتاب الخراج باب 23 46 مسلم (45) كتاب فضائل الصحابه باب 5 و مستدرك حاكم جلد3 ص 573 47 زرقانی جلد1ص 396 تا 398 48 ابن ہشام جلد1ص 606 تا 613 49 بخاری (67) كتاب المغارى باب 3 50 مجمع الزوائد جلد 6ص 100 بخارى كتاب (67) المغازی باب58 ابن ہشام جلد1ص 708،668
سوانح حضرت محمد عام 44 Life of Muhammad(p.b.u.h) by William Mure Vol.1 pg.242 اسوہ انسان کامل 51 52 تاریخ طبری جلد2ص 18 53 بخاری (66) كتاب فضائل الصحابة باب 30 54 ابن سعد جلد 8ص22 55 طبرى جلد2ص 49،48 56 طبرى جلد 2 ص 58 وابن سعد جلد 8ص82،81 57 ابن هشام جلد2 ص 59 تا 64 58 ابن هشام جلد2 ص 66،65 59 بخاری (67) کتاب المغازى باب21 60 بخاری (67) كتاب المغازى باب 14 ومسلم (33) كتاب الجهاد والسير باب37 61 بخاری (67) کتاب المغازى باب 14 62 مجمع الزوائد از ہیثمی جلد6ص 115 63 ابن سعد جلد 2ص 48 64 بخاری (77) كتاب الأشربه باب 2 65 سيرت الحلبيه جلد 3 ص466 دار احياء التراث العربي بيروت 66 ابن هشام جلد 2 ص189،184،183 67 ازواج النبي ص 148تا160 68 طبری جلد2ص 90،89 69 بخاری (3) کتاب العلم, (67) كتاب المغازي، (60) كتاب الجهاد (19) كتاب العيدين 70 طبری جلد 2ص 109 71 بخاری (67) كتاب المغازی باب 32 و طبری جلد 3 ص122 123 ابن هشام جلد1ص674تا677 72 ابن هشام جلد2ص 294 73 ابن ہشام جلد 2 ص 213 تا 224 و طبرى جلد 2 ص 90 تا 95 الوفا باحوال المصطفى ابن جوزی جلد1ص 451 تا 453 مطبع دار الكتب العلميه بيروت 74 بخاری (67) كتاب المغازى باب 28 75 بخاری (66) كتاب فضائل الصحابة باب 7 76 بخارى (67) كتاب المغازى باب 30 بخاری (58) كتاب الشروط باب 33 77 بخاري (67) كتاب المغازى باب 33 و ابن هشام جلد1ص 687 78 ابن سعد جلد1ص 258 تا 260 79 بخاری (1) کتاب بدء الوحى باب 1 و مسلم (33) كتاب الجهاد والسير باب26
اسوہ انسان کامل 45 سوانح حضرت محمد علی 80 طبری جلد 2 ص 134،133، بخاری (67) كتاب المغازى باب 77 81 الوفاء ابن جوزى جلد1ص 466،465 82 الوفاء ابن جوزی جلد1ص 479 480 تاريخ الخميس جلد 2ص 31 مؤشعبان بيروت 83 بخاری (66) كتاب فضائل الصحابه باب 67 84 ابن سعد جلد2ص108، 132 و مجمع الزوائد جلد4ص 519 85 سيرة الحلبيه جلد 3ص 152تا 166 86 ابن هشام جلد2ص 344 87 بخاري (67) كتاب المغازى باب 38 و ابن هشام جلد 2 ص 343 88 ازواج النبي ص214 تا 220 89 ابن هشام جلد2ص276 90 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 4 91 ابن ہشام جلد2ص 378،377 92 ابن هشام جلد2ص 389 93 ابن هشام جلد2ص 418،401،399 94 بخاري (67) كتاب المغازى باب 51 ابن هشام جلد2ص440،428 95 بخاری (61) كتاب الخمس باب 19 96 ابن هشام جلد2 ص 519 97 طبری جلد2ص 186 98 بخارى (68) كتاب التفسير سورة التوبه باب 167 و ابن هشام جلد2ص531،518 99 طبری جلد 2ص188،187 100 بخاری (22) كتاب الكسوف باب 13 و ابن ماجه (6) كتاب الجنائر باب 27 101 ابن سعد جلد1ص357 دار الفكر بيروت ، زاد المعادا بن قيّم جلد 3ص639تا633 102 ابن هشام جلد2 ص 599 103 بخارى (68) كتاب التفسير سورة البراء باب 150 104 مسلم (16) كتاب الحج باب 19 و ابن هشام جلد2ص 604 تا 606 105 ابن ہشام جلد2ص 641،606 106 بخاری (66) کتاب فضائل اصحاب النبى باب 3 وكنز العمال جلد 11ص551 107 بخاری (67) كتاب المغازى باب 78 108 بخاری (67) كتاب المغازى باب 78
اسوہ انسان کامل 46 شمائل نبوی شمائل نبوی علا الله شمائل نبوی میں اپنے آقا و مطاع حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان پاکیزہ عادات واطوار کا ایک نقشہ پیش کرنا مقصود ہے جن کے بارہ میں قرآن شریف کی یہ گواہی ہے کہ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ یعنی آپ عظیم الشان اخلاق پر فائز تھے.(سورۃ القلم :5) اس آسمانی شہادت سے بہتر آپ کے اخلاق کی تصویر کشی کون کر سکتا ہے؟ رسول اللہ کی رفیقہء حیات حضرت عائشہ کی یہ شہادت ہے کہ اللہ کی رضا کے تابع آپ کے سب کام ہوتے تھے اور جس کام سے خدا ناراض ہو، آپ اس سے دور رہتے تھے.( حکیم ترندی) 1 حضرت یزید بن بابنوس بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت عائشہ سے عرض کیا اے ام المؤمنین ! رسول اللہ کے اخلاق کیسے تھے؟ انہوں نے فرمایا رسول اللہ کے اخلاق قرآن تھے.پھر فرمانے لگیں تمہیں سورۃ المؤمنون یا د ہے تو سناؤ.حضرت یزید نے اس سورت کی پہلی دس آیات کی تلاوت کی جو قد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ سے شروع ہوتی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ وہ مومن کا میاب ہو گئے جو اپنی نمازوں میں عاجزی اختیار کرتے ہیں.وہ لغو چیزوں سے پر ہیز کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں.وہ اپنے تمام سوراخوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک ان کے داہنے ہاتھ ہوئے کہ ان پر کوئی ملامت نہیں.اور جو اس کے علاوہ چاہے وہ لوگ زیادتی کرنے والے ہیں.اور وہ جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں.حضرت عائشہ نے ان آیات کی تلاوت سن کر فرمایا کہ یہ تھے رسول اللہ کے اخلاق فاضلہ.( حاکم )2 الغرض حضرت عائشہ کی چشم دید شہادت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم کے اخلاق قرآن تھے.جس کا یہ مطلب ہے کہ اوّل.قرآن شریف میں بیان فرمودہ تمام اخلاق اور مومنوں کی جملہ صفات کی تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی.چنانچہ قرآن کی اخلاقی تعلیم پر عمل کر کے آپ نے ایسا حسین عملی نمونہ پیش کیا جسے قرآن کریم نے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے.(سورۃ الاحزاب : 22) دوم.قرآن نے جو حکم دیئے وہ سب آپ نے پورے کر دکھائے.گویا آپ چلتے پھرتے مجسم قرآن تھے.آئیے ان دونوں پہلوؤں سے شمائل نبوی پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
اسوہ انسان کامل 47 شمائل نبوی علی قرآن شریف میں رسول کریم کی شخصیت ، آپ کے لباس، حقوق العباد کی نازک ذمہ داریوں، بے پناہ روز مرہ مصروفیات ، انقطاع الی اللہ ،عبادات، ذکر الہی، تبلیغ اور پاکیزہ اخلاق ، سچائی، راستبازی، استقامت، رافت و رحمت، عفو کرم وغیرہ کے واضح اشارے ملتے ہیں اور احادیث نبویہ میں ان اخلاق فاضلہ کی تفاصیل موجود ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پرکشش شخصیت کا عکس آپ کے خوبصورت اور پرکشش چہرہ سے خوب نمایاں تھا، جس کے ہزاروں فدائی اور عاشق پیدا ہوئے.بلاشبہ آپ کا بھرا بھرا، کھلتے ہوئے سفید رنگ کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح روشن ہوتا تھا، شرافت وعظمت کا نور اس پر برستا تھا اور بشاشت و مسکراہٹ اس پاکیزہ چہرہ کی رونق تھی.آپ کا سر بڑا تھا اور بال گھنے.ریش مبارک گھنی تھی ، ناک پکی کھڑی ہوئی، کالی خوبصورت آنکھیں اور رخسار نرم و ملائم تھے.دہانہ کشادہ، دانت فاصلے دار اور سفید موتیوں کی طرح چمکدار تھے.گردن لمبی ، سینہ فراخ ، بدن چھر میرا اور پیٹ سینہ کے برابر تھا.قد درمیانہ اور متناسب تھا.پشت مبارک پر کندھوں کے درمیان کبوتری کے انڈے کے برابر سُرخ رنگ کا گوشت کا ایک ٹکڑا اُبھرا ہوا تھا جو مہر نبوت سے موسوم ہے اور جس کا ذکر قدیم نوشتوں میں رسول اللہ کی شناخت کی ایک جسمانی نشانی کے طور پر موجود ہے.(ترمدی ) 3 روزمرہ معمولات کہتے ہیں کسر کی شاہ ایران نے اپنے ایام کی تقسیم اس طرح کر رکھی تھی کہ جس دن بادِ بہار چلے وہ سونے اور آرام کے لئے مقرر ہوتا تھا ، ابر آلود موسم شکار کیلئے مختص تھا، برسات کے دن رنگ و طرب اور شراب کی محفلیں سجتی تھیں.جب مطلع صاف اور دن روشن ہوتا تو در بارشاہی لگایا جاتا اور عوام و خواص کو اذن باریابی ہوتا.تو یہ ان اہل دنیا کا حال ہے جو آخرت سے غافل ہیں.ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفے نے ہر حال میں عسر ہو یا ئیسر اپنے دن کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا.دن کا ایک حصہ عبادت الہی کیلئے ، ایک حصہ اہل خانہ کے لئے اور ایک حصہ اپنی ذاتی ضروریات کیلئے مقرر تھا.پھر اپنی ذات کیلئے مقرر وقت میں سے بھی ایک بڑا حصہ بنی نوع انسان کی خدمت میں صرف ہوتا تھا.( عیاض)4 دعوی نبوت کے بعد رسول کریم ﷺ کی 23 سالہ زندگی میں سے 13 سالہ مکی دور نزول قرآن، تبلیغی جد وجہد، اسلام قبول کرنے والوں کی تعلیم و تربیت اور ابتلاء ومصائب کا ایک ہنگامی دور تھا.اس کے دور معمولات کی تفصیلات اس طرح نہیں ملتیں جس طرح دس سالہ مدنی دور کے معمولات روز و شب کی تفاصیل احادیث میں ملتی ہیں اور جن سے مکی دور کی بھر پور مصروفیات کا ایک اندازہ کیا جاسکتا ہے.احادیث کے مطابق آپ روزانہ اپنی مصروفیات کا آغاز نماز تہجد سے فرماتے تھے.نماز سے قبل وضو کرتے ہوئے مسواک استعمال فرماتے اور منہ اچھی طرح صاف کرتے.نہایت خوبصورت اور لمبی نماز تہجد ادا کرتے جس میں قرآن
اسوہ انسان کامل 48 شمائل نبوی شریف کی لمبی تلاوت کرتے ، اتنی لمبی کہ زیادہ دیر کھڑے رہنے سے پاؤں پر ورم ہو جاتے.نماز کے بعد آپ کچھ دیر لیٹ جاتے.اگر آپ کے گھر والوں میں سے کوئی جاگ رہا ہوتا تو اس سے بات کر لیتے ورنہ آرام فرماتے.پھر جو نہی نماز کے لئے حضرت بلال کی آواز کان میں پڑتی فورا نہایت مستعدی سے اُٹھتے اور دو مختصر رکعت سنت ادا کر کے نماز فجر پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے.کبھی نماز تہجد بیماری وغیرہ کے باعث رہ جاتی تو دن کے وقت نوافل ادا کرتے.(بخاری)5 نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک صحابہ کے درمیان تشریف فرما ہوتے.ذکر الہی سے فارغ ہوکر صحابہؓ سے احوال پرسی فرماتے ،زمانہ جاہلیت کی باتیں بھی ہوتیں.آپ پوچھتے کہ اگر کسی کو کوئی خواب آئی ہو تو سنائے.اچھی خواب پسند فرماتے اور اس کی تعبیر بیان کرتے.کبھی اپنی کوئی خواب بھی سنا دیتے.( بخاری، مسلم) 6 رسول کریم صبح ہی اپنے دن کا پروگرام مرتب فرما لیتے.اگر کسی صحابی کو تین دن سے زیادہ غیر حاضر پاتے اس کے بارہ میں پوچھتے اگر وہ سفر پر ہوتا تو اس کے لئے دعا کرتے.شہر میں ہوتا تو اس کی ملاقات کو جاتے.بیمار ہوتا تو اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے.(کنز ) 7 رسول کریم کی مجالس صحابہ سے ملاقات اور تعلیم و تربیت کا بھی ایک نہایت عمدہ موقع ہوتی تھیں.صبح صبح مدینہ کے بچے حصول متبرک کے لئے برتنوں میں پانی وغیرہ لے کر آجاتے تھے.آپ برتن میں انگلیاں ڈال کر تبرک عطا فرماتے.(مسلم)8 قومی کاموں سے فارغ ہو کر آپ گھر تشریف لے جاتے.اہل خانہ سے پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے.مل جاتا تو کھا لیتے اور اگر کچھ موجود نہ ہوتا تو فرماتے اچھا آج ہم روزہ ہی رکھ لیتے ہیں.(ترندی) 9 بادشاہ اور بڑے لوگ اپنے کام وزراء اور دوسروں کے سپرد کر کے خود عیش و عشرت سے زندگی گزارتے ہیں مگر بادشاہ ہر دوسرا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پنجوقتہ نمازیں، جمعہ، عید وغیرہ خود پڑھاتے تھے.پھر گھر میں جو وقت گزرتا کام کاج میں اہل خانہ کی مددفرماتے.ہاتھ سے کام کرنا عار نہ سمجھتے.عام آدمی کی طرح گھر میں کام کرتے ، کپڑے خودسی لیتے ، پیوند بھی لگائے ، ضرورت پر جوتا بھی ٹانک لیا، جھاڑو بھی دیا، حسب ضرورت جانوروں کو باندھ دیتے اور چارہ بھی ڈال دیتے ، دودھ دوھ لیا کرتے.خادم تھک جاتے تو ان کی مدد فرماتے.بیت المال کے جانوروں کو نشان لگانے کی خاطر خود داغ دیتے.(مسلم ، احمد ) 10 آپ اپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے ، ان کی بکریوں کا دودھ اُن کو دوھ کر دیتے.(احمد)11 رسول کریم کی ایک بہت اہم اور نازک ذمہ داری نزول قرآن اور اس کی حفاظت کی تھی.اس کے لئے اپنے اوقات
اسوہ انسان کامل 49 شمائل نبوی علی کا بڑا حصہ آپ کو وقف کرنا پڑتا تھا.گھر یا مجلس میں جہاں اور جب بھی وحی الٹی کا نزول ہوتا اس کے بوجھ سے ایک خاص کیفیت آپ پر طاری ہوتی.جسم پسینہ سے شرابور ہو جاتا جس کے فوراً بعد کا تب کو بلوا کر وحی الہی لکھوا لیتے.( بخاری )12 تھا.وحی قرآن کے یادر کھنے اور نمازوں میں تلاوت کے لئے گھر پر اس کا اعادہ اور غور ومنڈ بر ایک الگ محنت طلب کام ذکر الهی و دعا بی کریم ہر کام اللہ کا نام لے کر شروع کرتے ، فرماتے تھے کہ اس کے بغیر کام بے برکت ہوتے ہیں.( ہیمی 13) آپ فراغت و مصروفیت ہر حال میں اللہ کو یادر رکھتے تھے.الغرض آپ دست در کار و دل بایار کے حقیقی مصداق تھے.ہر موقع اور محل کے لئے آپ سے دعا ئیں ثابت ہیں.صبح اٹھتے ہوئے خیر و برکت کی دعا مانگتے تو شام کو انجام بخیر کی.گھر سے جاتے اور آتے ہوئے، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے ہوئے، کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں، بیت الخلاء جاتے آتے ، بازار جاتے ہوئے ، سفر پر روانہ ہوتے ہوئے، سوتے اور جاگتے وقت ہر حال میں خدا کی طرف رجوع کرتے اور اسے سہارا بنا کر دعا کرتے.مجلس میں بیٹھے ستر مرتبہ استغفار فرماتے تھے.( بخاری ) 14 دعاؤں میں زیادہ الحاح اور تضرع کے وقت یا حی یا قیوم کی صفات الہیہ ( یعنی اے زندہ اے قائم رکھنے والے) پڑھ کر دعا کرتے.مصیبت کے وقت آسمان کی طرف سر اٹھا کر سُبحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمُ پڑھتے.یعنی پاک ہے اللہ بڑی عظمت والا.مجلس میں چھینک آنے پر دھیمی آواز میں الحمد للہ کہتے اور کسی دوسرے کو چھینک آنے پر يَرْحَمُكَ اللہ کی دعادیتے کہ اللہ تم پر رحم کرے.( بخاری ) 15 صحابہ سے عام ملاقاتیں ، وعظ و نصیحت اور سوال و جواب کی مجالس کے پروگرام نمازوں کے اوقات میں ہو جاتے تھے.اکثر اپنے اصحاب خصوصاً انصار کے گھروں میں تشریف لے جاتے.( احمد 16 ) حضرت ابو طلحہ انصاری کے گھر بھی تشریف لے گئے، کبھی ان کے باغ میں جا کر وقت گزارتے.( بخاری ) 17 نماز عصر کے بعد باری باری سب ازواج مطہرات کے گھر جایا کرتے تھے.(احمد 18 ) یہ گھر ایک حویلی میں مختلف کمروں کی صورت میں پاس پاس ہی تھے.مغرب کے بعد سب بیویاں اس گھر میں جمع ہو جا تیں جہاں حضور کی باری ہوتی وہاں ان کے ساتھ مجلس فرماتے.ظہر کے بعد گھر میں حسب حالات کچھ قیلولہ فرما لیتے اور فرمایا کرتے کہ قیلولہ کے ذریعے رات کی عبادت کیلئے مدد حاصل کیا کرو.(طبرانی) 19 عشاء سے قبل سونا آپ کو پسند نہ تھا تا کہ نماز عشاء نہ رہ جائے اور عشاء کے بعد بلاوجہ زیادہ دیر تک فضول باتیں اور
اسوہ انسان کامل 50 شمائل نبوی علی گپ شپ پسند نہ فرماتے تھے.البتہ بعض اہم دینی کاموں کیلئے آپ نے حضرت ابو بکر اور عمر سے عشاء کے بعد بھی مشورے فرمائے.(احمد 20 ) دن کے کاموں کا اختتام نماز عشاء سے پہلے پہلے کر کے عشاء کے بعد آرام کرنا پسند کرتے تا کہ تہجد کیلئے بر وقت بیدار ہوسکیں.( بخاری ) 21 پھر آدھی رات کے قریب جب آنکھ کھلتی اپنے مولیٰ سے راز و نیاز میں محو ہو جاتے.آپ نے رات کے ہر حصہ میں نماز تہجد ادا کی ہے.مگر اکثر رات کی آخری تہائی میں عبادت کرتے تھے.( بخاری ) 22 خوراک و غذا نبی کریم کھانے سے پہلے اور بعد میں بھی ہاتھ دھونے کی ہدایت فرماتے تھے.( بیٹمی 23) نیز اللہ کا نام لے کر اپنے سامنے سے اور دائیں ہاتھ سے کھانے کی تلقین فرماتے.( بخاری (24) آپ کی خوراک و غذا نہایت سادہ تھی.بسا اوقات رات کے کھانے کی بجائے دودھ پر ہی گزارا ہوتا تھا.( بخاری (25) مشروب پیتے ہوئے تین مرتبہ سانس لیتے اور اللہ کے نام سے شروع کرتے اور اس کی حمد پر ختم کرتے.( بیٹمی ) 26 جو ملی گندم کے ان چھنے آٹے کی روٹی استعمال کرتے تھے کیونکہ اس زمانہ میں چھلنیاں نہیں ہوتی تھیں.یوں تو حضور کو دستی کا گوشت پسند تھا مگر جو میسر آتا کھا کر حمد وشکر بجالاتے.سبزیوں میں کڈ وپسند تھا.سر کہ کے ساتھ بھی روٹی کھائی اور فرمایا یہ بھی کتنا اچھا سالن ہوتا ہے.( بخاری ) 27 عربی کھانا ثرید ( جس میں گندم کے ساتھ گوشت ملا ہوتا ہے ) مرغوب تھا.اسی نوع کا ایک اور کھانا ہر میسہ بھی استعمال فرمایا.سنگترہ کھجور کے ساتھ ملا کر کھانے کا لطف بھی اٹھایا.اللہ کی ہر نعمت کے بعد اس کا شکر ادا کرتے.( بخاری ) 28 پھلوں میں تربوز بہت پسند تھا دائیں ہاتھ سے کھجور اور بائیں سے تربوز لے کر کھاتے اور فرماتے ہم کھجور کی گرمی کا علاج تربوز کی ٹھنڈک سے کرتے ہیں.(حاکم (29) میٹھے میں شہد کے علاوہ حلوہ اور کھیر پسند تھی.(احمد) 30 آپ ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھاتے تھے.سخت گرم کھانا کھانے سے پر ہیز کرتے تھے.(حاکم) 31 طہارت وصفائی ارشادربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی رکھنے والوں کو پسند کرتا ہے.(سورۃ البقرہ: 23) یہی وجہ ہے کہ رسول کریم نے باطنی طہارت کیلئے ظاہری طہارت کو ضروری قرار دیا اور اس کے تفصیلی آداب سکھائے.دن میں پانچ مرتبہ ہر نماز سے پہلے وضو کا حکم دیا.جسم کی صفائی کیلئے ہفتہ میں کم از کم دو مرتبہ نہانے کی ہدایت فرماتے.کم از کم ایک
اسوہ انسان کامل 51 شمائل نبوی صاع ( یعنی قریباً تین لٹر پانی سے نہا لیتے تھے غسل کی عادت زیادہ تھی.( ترندی 32 ) آنکھوں کی حفاظت کے لئے رات کو آپ سرمہ لگاتے تھے.(ترمذی) 33 دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے ، فرماتے تھے."اگر امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو ہر نماز کے ساتھ ( دن میں پانچ مرتبہ ) مسواک کا حکم دیتا.اپنا یہ حال تھا کہ گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک فرماتے.مسواک دانتوں کے آڑے رُخ یعنی نیچے سے اوپر کرتے تھے.تا کہ درزیں خوب صاف ہوں.(مسلم 34) بوقت وفات بھی مسواک دیکھ کر اس کی خواہش کی تو حضرت عائشہؓ نے نرم کر کے استعمال کروائی.( بخاری ) 35 آپ محمدہ خوشبو پسند کرتے تھے.اپنی مخصوص خوشبو سے پہچانے جاتے تھے.حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضور کے پسینے سے جو خوشبو آتی تھی وہ مشک سے بھی بڑھ کر ہوتی تھی.(دارمی (36) سر کے بال کانوں کی کو سے بڑھ کر کندھوں پر آ جاتے تو کٹوا دیتے.داڑھی حسب ضرورت لمبے اور چوڑے رخ سے تر شواتے تھے.جو مشت بھر رہتی تھی.بالوں پر مہندی لگاتے تھے.(ترمذی) 37 لباس قرآنی ارشاد کے مطابق لباس میں پردہ اور زینت کی بنیادی شرائط ملحوظ خاطر رکھتے تھے.عام طور پر ایک تہبند اور ایک اوڑھنے کی چادر عربوں کا لباس تھا جو آپ نے بھی پہنا مگر سلا ہوا لمبی آستین والا گر تہ زیادہ پسند تھا.بغیر آستین بھی پہنا.(ابن ماجہ 38 ) سادہ موٹے کپڑے استعمال فرماتے.آپ جبہ، پاجامہ اور سردی میں تنگ آستین والی روئی بھری صدری بھی استعمال فرماتے تھے.حسب موقع وضو کے بعد پوچھنے کیلئے تو یہ بھی استعمال فرماتے.آپ نے ٹوپی بھی استعمال فرمائی.جمعہ کے روز کلاہ کے اوپر پگڑی پہنتے.جمعہ عیدین اور وفود کی آمد پر عمدہ کپڑے اور خاص طور پر ایک سرخ قبا زیب تن فرماتے.ایک چاند رات میں سرخ قبا پہنی ہوئی تھی.دیکھنے والے بیان کرتے ہیں کہ اس رات آپ چاند سے زیادہ خوبصورت لگ رہے تھے.سفید کپڑے زیادہ پسند تھے.مگر سرخ سبز اور زعفرانی رنگ بھی استعمال فرمائے.نیا کپڑا پہننے پر دورکعت نماز ادا فرماتے اور پرانا کپڑا کسی ضرورت مند کو دے دیتے تھے.چمڑے کے موزے استعمال فرماتے اور بوقت وضوان پر مسح فرماتے.چمڑے کے کھلے جوتے دو تسمے والے ( ہوائی چپل، سلیپر نما) استعمال فرماتے.(ترمذی) 39 آپ کی چاندی کی انگشتری پر مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کندہ تھا جو خطوط پر مہر لگوانے کے لئے بنوائی تھی.ایک عرصہ تک یہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنتے رہے پھر بائیں ہاتھ میں بھی پہنی.بیت الخلاء جاتے تو یہ انگوٹھی اتار دیتے.وضو
اسوہ انسان کامل 52 شمائل نبوی کرتے وقت اسے حرکت دے کر انگلی کو دھوتے.ہاتھ میں بالعموم کھجور کی شاخ کی چھڑی رکھتے تھے.(بخاری، مسلم ، ترندی) 40 جنگ میں آپ نے خود اور زرہ بھی پہنی ہے.غزوہ احد میں تو دوز رہیں پہن رکھی تھیں.ایک زرہ کی کڑیاں ٹوٹ کر رخسار مبارک میں پھنس گئی تھیں.( بخاری ) 41 چال ڈھال اور گفتگو نبی کریم چال ڈھال میں نہایت پُر وقار انسان تھے.چال ایسی سبک تھی جیسے ڈھلوان سے اتر رہے ہوں.حضرت ابوھریرہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ سے زیادہ تیز رفتار کوئی نہیں دیکھا ایسے لگتا تھا کہ زمین آپ کے لئے لیٹتی جارہی ہے.ہم ساتھ چل کر تھک جاتے مگر حضور پر تھکاوٹ کا کوئی اثر نہ ہوتا تھا.آپ گردن اکڑا کر نہ چلتے بلکہ نظریں نیچی رکھتے تھے.(ترمذی)42 حضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ بی کریم آگے کو جھک کر چلے تھے یوں لگا تھا جیسے گھائی سے اتر رہے ہوں ہمیں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد ایسی رفتار والا شخص نہیں دیکھا.(ترمندی) 43 حضرت حسن بن علی اپنے ماموں ھند بن ابی ھالہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم لمبے لمبے اور تیز قدم اُٹھاتے تھے.نظریں نیچی رکھتے تھے مگر جب دیکھتے تو نظر بھر کر پوری توجہ فرماتے ، چلتے ہوئے اپنے صحابہ سے آگے نکل جاتے تھے، اور جو بھی راستہ میں ملتا اسے سلام کرنے میں پہل فرماتے تھے.(ابن سعد ) 44 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم چلتے ہوئے ادھر ادھر توجہ نہیں فرماتے تھے.بسا اوقات آپ کی چادر کسی درخت یا کانٹوں وغیرہ سے الجھ جاتی تو بھی توجہ نہ فرماتے اور صحابہ اس وجہ سے بعض دفعہ بے تکلفی سے باتیں کرتے ہوئے ہنتے اور سمجھتے تھے کہ حضور کا دھیان ادھر نہیں.( ابن سعد ) 45 حسب ارشاد باری کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے آپ کو نرم کر دیا.(سورۃ آل عمران : 107 ) آپ کی گفتگو میں تلخی تھی نہ تیزی ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھا کر وضاحت اور نرمی سے آپ اس طرح کلام فرماتے کہ بات ذہن نشین ہو جاتی.تین دفعہ بات دہراتے تھے.( احمد ) 46 کوئی بھی عزم کر لینے کے بعد آپ خدا پر کامل بھروسہ رکھتے.جب آپ تین دفعہ کوئی بات کہہ دیتے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا تھا.(احمد 47) لیکن آپ کبھی صحابہ کی طاقت سے زیادہ ان کو حکم نہ دیتے تھے.(احمد) 48 آنحضور بغیر ضرورت کے گفتگو نہ فرماتے تھے اور جب بولتے تھے تو فصاحت و بلاغت سے بھر پور نہایت با معنی کلام
اسوہ انسان کامل 53 شمائل نبوی فرماتے.خود بات شروع کرتے اور اسے انتہا تک پہنچاتے.آپ کی گفتگو فضول باتوں اور ہر قسم کے نقص سے مبرا اور بہت واضح ہوتی تھی.اپنے ساتھیوں سے تلخ گفتگو نہیں کرتے تھے.نہ ہی انہیں باتوں سے رسوا کرتے تھے.معمولی سے معمولی احسان کا ذکر بھی تعظیم سے کرتے اور کسی کی مذمت نہ کرتے.کسی پر محض دنیوی بات کی وجہ سے ناراض نہ ہوتے البتہ جب کوئی حق سے تجاوز کرتا تو پھر آپ کے غصہ کو کوئی نہ روک سکتا تھا اور ایسی بات پر آپ سزا ضرور دیتے تھے مگر محض اپنی ذات کی خاطر غصے ہوتے تھے نہ انتقام لیتے تھے.غصے میں منہ پھیر لیتے تھے.خوش ہوتے تو آنکھیں نیچی کر لیتے.مسکراتے تو سفید دانت اس طرح آبدار ہوتے جیسے بادل سے گرنے والے اولے.(عیاض، ابن سعد ) 49 حضرت جابڑ کی روایت کے مطابق رسول کریم کی گفتگو میں بھی ایک ترتیب اور حسن ہوتا تھا.(ابوداؤد 50 ) ام معبد کی روایت کے مطابق رسول اللہ شیر میں بیان تھے.آپ کی گفتگو کے وقت ایسے لگتا تھا جیسے کسی مالا کے موتی گر رہے ہوں.(حاکم) 51 حضرت عائشہ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم کو جھوٹ سے زیادہ نا پسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی.اور جب آپ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپ اس وقت تک اس سے کھچے کچھے رہتے تھے جب تک کہ آپ کو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے تو بہ کر لی ہے.(ابن سعد ) 52 زیادہ تر آپ کی ہنسی مسکراہٹ کی حد تک ہوتی تھی.مسکرانا تو آپ کی عادت تھی.صحابہ کہتے ہیں ”ہم نے حضور سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا.خوش ہوتے تو آپ کا چہرہ تمتما اٹھا تھا.(احمد) 53 آپ کی گفتگو خشک نہ تھی.بلکہ ہمیشہ شگفتہ مزاح فرماتے تھے.مگر مذاق میں بھی کبھی دامن صدق نہ چھوٹا.فرماتے "میرے منہ سے صرف حق بات ہی نکلتی ہے.“ (طبرانی) 54 ایک صحابی نے ایک دفعہ سواری کیلئے آپ سے اونٹ مانگا.رسول کریم نے فرمایا میں تجھے اونٹ کا بچہ دے سکتا ہوں.وہ سراسیمہ ہوکر بولے حضور اونٹنی کا بچہ لے کر میں کیا کروں گا ؟ مجھے تو سواری چاہئے فرمایا ”بھئی ! اونٹ بھی تو اونٹنی کا بچہ ہی ہوتا ہے.“ ( ترمندی )55 صحابہ کو وعظ ونصیحت کرنے میں ناغہ کرتے تا کہ وہ اکتا نہ جائیں.آپ کی تقریر نہایت فصیح و بلیغ دلکش اور جوش سے بھری ہوئی ہوتی تھی.بعض دفعہ خطبہ میں یہ جوش و جلال بھی دیکھا گیا کہ آنکھیں سرخ ہیں اور آواز بلند.جیسے کسی حملہ آور لشکر سے ڈرا رہے ہوں جو صبح یا شام حملہ آور ہونے والا ہے.ایک دفعہ صفات الہیہ کے بیان کے وقت منبر آپ کے جوش کے باعث لرز رہا تھا.( مسلم 56) رسول کریم کے خطبہ و نماز میں میانہ روی اور اعتدال ہوتا تھا.(مسلم) 7 حالت جنگ میں آپ عجب مجاہدانہ شان کے ساتھ کمان حمائل کئے ایک سپہ سالار کے طور پر صحابہ سے مخاطب
اسوہ انسان کامل 54 شمائل نبوی ہوتے.عام حالات میں جمعہ وغیرہ کے موقع پر عصا ہاتھ میں ہوتا.( ابن ماجہ 58) بعد میں منبر بن گیا تو اس پر خطبہ ارشاد فرماتے تھے.آپ جو کہتے تھے وہ کر کے بھی دکھاتے تھے.گفتگو میں الفاظ کے چناؤ میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے اور الفاظ کے بے محل استعمال کی اصلاح فرما دیتے عرب میں غلام اپنے آقاؤں کو رب کہتے تھے جس کے معنے ہیں پالنے والا.اور جو حقیقی معنی میں اللہ تعالیٰ کی صفت ہے.آپ نے فرمایا کہ آقا کو سید کہا کرو.یعنی سردار.آقا اپنے غلام کو معبد کہتے تھے یعنی نوکر.فرما یافتی کہہ کر مخاطب کرو.یعنی نوجوان یا بچے تا کہ ان کی عزت نفس قائم رہے.( بخاری 59) نبی کریم کو زبان وادب کا عمدہ ذوق تھا.آپ موزوں کلام اور عمدہ شعر پسند فرماتے اور داد دیتے تھے.حضرت شریڈ سے روایت ہے کہ میں ایک دن رسول کریم کے ساتھ آپ کی سواری کے پیچھے بیٹھا.آپ نے فرمایا تمہیں مشہور شاعر امیہ بن الصلت کے کوئی شعر یاد ہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے کچھ شعر سنانے کی خواہش کی.میں نے ایک شعر سنایا تو فرمایا ہاں اور سناؤ پھر ایک شعر سنایا تو فرمایا اور سناؤ.یہاں تک کہ میں نے سوشعر سنائے.(مسلم 60) رسول کریم اشعار کی محض ظاہری فصاحت پر خوش نہ ہوتے بلکہ ان کے مضامین کی گہرائی اور لطافت پر نظر ہوتی اور کہیں کوئی بات کھٹکتی تو دریافت فرمالیتے.مشہور شاعر نابغہ ابولیلی نے حاضر خدمت ہو کر جب اپنا کلام سنایا اور یہ شعر پڑھا.عَلَوْنَا العِبَادَعِفَّةً وَتَكَرُّمًا وَإِنَّا لَنَرْجُوا فَوقَ ذَلِكَ مَظْهَرا یعنی اسلام قبول کر کے ہم تمام دنیا سے عفت اور عزت میں بلند ہو گئے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر ایک ” مظہر کی اُمید رکھتے ہیں.جہاں اللہ تعالیٰ ہماری اور عزت و کرامت ظاہر فرمائے گا.رسول کریم نے فوراً پوچھا ” مظہر سے تمہاری کیا مراد ہے؟ نابغہ نے عرض کیا یا رسول اللہ جنت مراد ہے.فرمایا ہاں ٹھیک ہے اگر اللہ نے چاہا تو ضرور یہ نعمت بھی عطا ہوگی.اور جب نابغہ کلام سنا چکے تو رسول کریم نے فرمایا تم نے بہت خوب کہا اور پھر ان کو دعا بھی دی.(بیشمی )61 حضرت عائشہ سے پوچھا گیا کہ نبی کریم کبھی شعر وغیرہ بھی گنگناتے تھے تو فرمانے لگیں کہ ہاں ! اپنے صحابی شاعر عبد اللہ بن رواحہ کے شعر گنگناتے تھے.مثلاً یہ مصرع وَيَاتِيكَ بِالَا خُبَارِ مَالَمْ تُزَوّد کہ تیرے پاس ایسی ایسی خبریں آئیں گی جو پہلے تمہیں میتر نہیں.(ترمندی )62 حضرت جندب بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں نبی کریم پیدل جارہے تھے.پتھر کی ٹھوکر لگنے سے ایک انگلی زخمی
اسوہ انسان کامل 55 شمائل نبوی ہوگئی آپ نے انگلی کو مخاطب کر کے یہ شعر کہا هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ تو ایک انگلی ہی تو ہے جو خون آلود ہوئی اور خدا کی راہ میں ہی تو نے یہ تکلیف اُٹھائی.( بخاری )63 آپ کو اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے جوامع الکلم عطا کئے گئے تھے یعنی مختصر کلام میں ایسے گہرے مضمون بیان فرماتے تھے کہ دریا کو کوزے میں بند کر دیتے تھے.نہایت لطیف خوبصورت محاورات میں کلام فرماتے تھے.حضرت علی بیان کرتے ہیں وفد نہر آیا تو رسول اللہ نے ان کی درخواست پر ان کے حق میں دعا کی اور پھر انہیں ایک معاہدہ لکھ کر دیا کہ جو نماز قائم کرے مومن ہے، جو ز کوۃ ادا کرے مسلمان ہے جو کلمہ شہادت لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مَحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھ لے وہ غافل نہیں لکھا جائے گا وغیرہ.حضرت علی کہتے ہیں اس معاہدہ کی فصیح و بلیغ عبارت دیکھ کر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم ایک باپ کے بیٹے.ایک شہر کی گلیوں میں پلے بڑھے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ وفود عرب سے آپ ایسی زبان میں کلام کرتے ہیں کہ اس کا جواب نہیں.فرمایا اللہ نے مجھے ادب سکھایا ہے اور بہت بہترین سکھایا ہے اور میں بنی سعد میں پروان چڑھا ہوں.( عیاض) 64 حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ سب لوگوں سے زیادہ فصیح تھے.بعض دفعہ رسول کریم ایسا کلام کرتے تھے کہ لوگوں کو اس کے معنی کی سمجھ نہ آتی تھی ، یہاں تک کہ آپ خود اس کے معنے بیان فرماتے تھے.(ابن جوزی) 65 حضرت عمر نے ایک دفعہ یہی سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی! آپ کی زبان ہم سب سے بڑھ کر فصیح و بلیغ ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ رسول کریم نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے میرے باپ اسماعیل کی زبان سکھائی.(کنز )66 رسول کریم کو اچھے نام پسند تھے جیسے عبداللہ عبدالرحمن وغیرہ کسی نام کے اچھے معنے نہ ہوتے تو اسے بدل دیتے.ایک شخص کا نام کون تھا جس کے معنی غم کے ہیں آپ نے اس کا نام سہل رکھ دیا جو آسانی کے معنی دیتا ہے.ایک عورت کا نام عاصیہ تھا جس میں نافرمانی کا مفہوم ہے اس کا نام جمیلہ رکھ دیا یعنی خوبصورت.( بخاری ) 67 معاشرت رسول کریم کی معاشرت اپنے اہل خانہ اور صحابہ کرام کے ساتھ رافت و رحمت کی آئینہ دار تھی.فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کیلئے بہتر ہو.اور میں تم میں سب سے بڑھ کر اپنے اہل کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں.“ ( ابن ماجہ ) 8 گھر میں بے تکلفی سے خوش خوش رہتے.کبھی بیویوں کو کہانیاں اور قصے بھی سناتے.اہل خانہ سے حد درجہ کی نرمی اور 68
اسوہ انسان کامل 56 شمائل نبوی اکرام کا سلوک فرماتے.( بخاری ) 69 گھریلو زندگی کا ایک نہایت دلکش اور قابل رشک نظارہ خود حضرت عائشہ کی زبانی سنیئے.آپ بیان فرماتی ہیں کہ میں گھر میں بیٹھی چرنے پر سوت کات رہی تھی اور نبی کریم اپنے جوتے کی مرمت فرمارہے تھے کہ آپ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آ گیا، پسینہ کے قطرے آپ کے پر نور چہرے پر دمک رہے تھے اور ایک روشنی ان سے پھوٹ رہی تھی.میں موحیرت ہوکر یہ حسین نظارہ دیکھنے میں مگن تھی کہ نا گہاں رسول اللہ کی نظر مجھ پر پڑگئی.آپ نے میری حالت بھانپ کر فرمایا عائشہ ہے تم اسی کھوئی کھوئی اور حیران و ششدر کیوں ہو؟ میں نے عرض کیا ابھی جو آپ کی پیشانی مبارک پر پسینہ آیا تو اس کے قطرات سے ایک عجب نور پھوٹتے میں نے دیکھا اگر شاعر ابو کبیر ھذ لی آپ کو اس حال میں دیکھ لیتا تو اسے ماننا پڑتا کہ اس کے شعر کے مصداق آپ ہی ہیں.رسول کریم نے فرمایا اچھا! ابوکبیر کے وہ شعر تو سناؤ.میں نے شعر سنائے جن میں ایک یہ تھا.فَإِذَا نَظَرُتَ إِلَى أَسِرَّةِ وَجُهِهِ بَرَقَتْ كَبَرُقِ الْعَارِضِ المُتَهَدِّل کہ تم میرے محبوب کے روشن چہرے کے خدوخال کو دیکھو تو تمہیں اس کی چمک دمک بادل سے چمکنے والی بجلی کی طرح معلوم ہو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں یہ شعر سن کر رسول کریم جوش محبت اور فرط مسرت سے اٹھ کھڑے ہوئے اور میری پیشانی کا بوسہ لے کر فرمانے لگے.اے عائشہ! اللہ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے.شاید تم نے مجھے اس حال میں دیکھ کر اتنا لطف نہیں اُٹھایا ہوگا.جتنا مزا مجھے آپ سے یہ شعر سن کر آیا ہے.( سیوطی ) 70 اپنے صحابہ کی ضروریات اور جذبات کا بے حد احساس تھا.ان کے حالات سے باخبر رہتے مگر کسی کے خلاف یکطرفہ کوئی بات سننا گوارہ نہ کرتے.فرماتے تھے کہ اپنے اصحاب کیلئے میرا سینہ صاف رہنے دو.(ابوداؤد ) 71 صحابہ کو فاقہ کی تکلیف ہوتی تو اپنے گھر لے جا کر تواضع فرماتے یا پھر صحابہ کوتحریک کر دیتے.( بخاری ) 72 وہ بیمار ہوتے تو اُن کی عیادت کرتے.اپنے یہودی خادم کا حال پوچھنے اس کے گھر گئے.بوقت عیادت مریض پر ہاتھ پھیر تے اور شفا کی دعا کرتے.( بخاری ) 73 اپنے ساتھیوں پر خاص توجہ فرماتے.کوئی ساتھی راستہ میں مل جاتا تو رک کر اس سے ملتے اور کھڑے رہتے یہاں تک کہ وہ خودا جازت لیتا.کسی سے مصافحہ کرتے تو اس وقت تک ہاتھ نہ چھوڑتے جب تک وہ نہ چھوڑے.( ترمذی )74 اپنے ساتھیوں سے تحائف قدر دانی کے ساتھ وصول فرماتے تھے.خوشبو اور دودھ کا تحفہ کبھی رد نہ فرماتے اور بدلہ
اسوہ انسان کامل 57 شمائل نبوی میں بہتر تحفہ عطا فرماتے تھے.(احمد) 75 تحفہ میں زمزم کا پانی دینا پسند فرماتے تھے.صدقہ کا مال اپنی ذات کے لئے نہ لیتے تھے.انصار کے گھروں میں ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے.(احمد 76 ) ان کے بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے.پیار دیتے اور دعا کرتے.بعض بچوں کی پیدائش پر کھجور کی گھٹی بھی دی.( بخاری ) 77 گھر میں بیک وقت نو بیویاں رہیں ہمیشہ ان میں عدل فرماتے ، ان میں سے کسی کو سفر پر ہمراہ لے جانے کے لئے فیصلہ قرعہ اندازی سے فرماتے.(احمد 78 ) مدینہ سے رخصت ہوتے وقت سب سے آخر میں اپنی لختِ جگر حضرت فاطمہ سے مل کر جاتے اور واپسی پر مسجد نبوی میں دورکعت نماز ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ہی آکر ملتے.(احمد 79) سفر سے واپس تشریف لاتے تو خاندان کے بچے اور اہل مدینہ آپ کا استقبال مدینہ سے باہر جا کر کرتے.( بخاری )80 آپ عام مسلمانوں کی دعوت طعام بلا تفریق قبول فرماتے.( بخاری (81) اپنے صحابہ کے جنازہ اور تدفین میں شامل ہوتے تھے.سوائے اس کے کہ کوئی شخص مقروض ہو تو اس کے بارہ میں فرماتے تھے کہ اس کا جنازہ خود پڑھ لو.( بخاری )82 صحابہ کے ساتھ قومی کاموں میں برابر کے شریک ہوتے.مسجد نبوی کی تعمیر میں ان کے ساتھ مل کر اینٹیں اٹھائیں تو غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور مٹی باہر نکالی.( بخاری )83 آپ خادموں سے بہت حسن سلوک فرماتے تھے.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے کبھی آپ نے مجھے اُف تک نہیں فرمایا کبھی کسی بات پر نہیں ٹو کا.( بخاری )84 حضرت علی نے امام حسین کے اس سوال پر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے ساتھیوں کے ساتھ سلوک کیسا ہوتا تھا.حضور کی معاشرت کا دلآویز نقشہ یوں کھینچا کہ:.رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ مسکراتے تھے.عمدہ اخلاق والے اور نرم خو تھے.ترش رو تھے نہ تندخو، نہ کوئی فحش کلمہ زبان پر لانے والے نہ چیخ کر بولنے والے.عیب چھیں تھے نہ بخیل.جو بات ناگوار ہوتی اس کی طرف توجہ ہی نہ فرماتے نہ ہی اس کے بارے میں کوئی جواب دیتے.آپ نے اپنے آپ کو تین باتوں سے کلیتہ آزاد کر لیا ہوا تھا.جھگڑے، تکبر اور لایعنی وفضول باتوں سے اور تین باتوں میں لوگوں کو آزاد چھوڑ رکھا تھا یعنی آپ کسی کی مذمت نہ کرتے تھے، کسی کی غیبت نہ کرتے تھے اور کسی کی پردہ دری نہ چاہتے تھے.آپ صرف اس امر کے بارے میں گفتگو کرتے جس میں ثواب کی امید ہو.جب آپ خاموش ہو جاتے تو لوگ بات کر لیتے تھے مگر آپ کے سامنے ایک دوسرے سے باتیں
58 شمائل نبوی می اسوہ انسان کامل نہ کرتے اور جب آپ کے سامنے کوئی ایک بات کر رہا ہوتا تو باقی لوگ اس کی بات خاموشی سے سنتے یہاں تک کہ وہ بات پوری کر لے.آپ اپنے صحابہ کی باتوں میں دلچسپی لیتے.ان کی مذاق کی باتوں میں ان کا ساتھ دیتے اور تعجب کا موقع ہوتا تو تعجب فرماتے کبھی کوئی اجنبی مسافر آجاتا تو اس کی گفتگو یا سوال نہایت توجہ سے سماعت فرماتے.( عیاض )85 86 صحابہ مہمانوں کو حضور کی خدمت میں بڑے شوق سے لایا کرتے تھے.وہ خود از راہ ادب آپ سے اکثر سوال نہ کرتے تھے بلکہ اس انتظار میں رہتے کہ کوئی بد و آ کر مسئلہ پوچھے تو ہم بھی سنیں.( بخاری ) 6 آپ کی ہدایت تھی کہ اگر کوئی ضرورت مند دیکھو تو اسے کچھ دے دو ورنہ اس کی مدد کے لئے تحریک کر دیا کرو.فرماتے تھے کہ نیک سفارش کا بھی اجر ہوتا ہے.مبالغہ آمیز تعریف وستائش آپ کو قطعا پسند نہ تھی.سوائے اس کے کہ جائز حدود کے اندر ہو.( بخاری )87 آپ کسی کی قطع کلامی پسند نہ فرماتے تھے سوائے اس کے کہ وہ اپنی حد سے تجاوز کرے.ایسی صورت میں اسے روک دیتے تھے یا خوداس مجلس سے اُٹھ کھڑے ہوتے تھے.متفرق معمولات آپ ہفتہ کے روز بھی پیدل اور بھی سواری پر مسجد قبا جایا کرتے تھے جو بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں مدینہ سے چند میل دور تھی.یوں ہفتہ وار تفریح بھی ہو جاتی اور اس محلہ کے صحابہ سے ملاقات بھی.حضور کو سبزے اور جاری پانی کو دیکھنا بہت پسند تھا.(احمد، کنز 88 ) جمعہ کا دن تو جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیات میں گزرتا.کوئی مہم بھجوانا ہوتی تو بالعموم جمعرات کو دن کے پہلے حصہ میں بھجواتے.(احمد 89) اور تین یا اس سے زائد افراد پر امیر مقررفرماتے.(بخاری) 90 نبی کریم عیدین کے موقع پر قربانیوں اور عبادتوں کی قبولیت کی دعا کرنا پسند کرتے تھے.حضرت واثلہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کو عید کے دن ملا.اور عرض کیا کہ اللہ ہم سے اور آپ سے (عبادات وغیرہ) قبول فرمائے.نبی کریم نے فرمایا ہاں ! تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا ومِنْكَ یعنی اللہ ہم سے اور آپ سے قبول فرمائے.(ابن حجر ) 91 ہر کام میں دائیں پہلو کو ترجیح دیتے.جوتا پہننے کنگھی کرنے ، وضو کر نے ،نہانے وغیرہ میں یہی معمول تھا.دایاں ہاتھ کھانے پینے ، مصافحہ کرنے کے لئے استعمال فرماتے.( بخاری )92 دیگر طہارت وغیرہ کے کام بائیں ہاتھ سے کرتے.دائیں پہلو پر سوتے.جوتا پہنے میں پہلے دایاں پاؤں پہنتے اور اتارتے وقت پہلے بایاں اتارتے.(مسلم) 93
اسوہ انسان کامل 59 شمائل نبوی مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں اندر کھتے اور باہر نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہر رکھتے.کسی کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو نام لئے بغیر ( بعض لوگ کہہ کر ) مجلس میں سرزنش یا تنبیہ فرماتے.( بخاری )94 کسی کا نام بھول جا تا تو یا ابن عبد اللہ کہ کر پکارتے یعنی اے اللہ کے بندے کے بیٹے ! کوئی کام یادر کھنے کیلئے انگلی پر دھاگہ باندھ لیتے.95 سفر پر جاتے تو مدینہ میں امیر مقرر فرماتے.موسم گرما کی سخت گرمیوں کے بعد جب موسم سرما کی آمد آمد ہوتی تو خوش ہو کر اسے مرحبا کہتے.بادل یا آندھی کے آثار دیکھ کر فکر مند ہو جاتے اور چہرہ متغیر ہو جاتا کہ یہ طوفان بادوباراں کہیں گزشتہ قوموں کی طرح عذاب کا پیش خیمہ نہ ہو اور پھر دعائے خیر میں لگ جاتے.( بخاری ) 5 مگر موسم گرما کی عام بارش سے خوش ہوتے اور اسے بڑے شوق سے سر پر لے کر فرماتے.”میرے رب کی طرف سے یہ تازہ رحمت آئی ہے ( احمد ) 96 خوش ہوتے تو چہرہ خوشی سے تمتما اٹھتا.ناراض ہوتے تو چہرے کا رنگ سرخ ہو جاتا اور چہرے پر اس کے آثار ظاہر ہو جاتے.(احمد) 97 کوئی غم پہنچتا تو فرماتے بندوں کی بجائے میرا رب میرے لئے کافی ہے.اور نماز کی طرف توجہ فرماتے.(احمد) 98 کسی کو سرزنش کرتے تو اتنا فرماتے.اللہ اس کا بھلا کرے اسے کیا ہوا ؟“ زیادہ سوالات اور قیل وقال سے منع فرماتے تھے.( بخاری )99 مسائل میں الجھنیں اور مشکلات پیدا کرنے سے بھی روکتے اور فرماتے آسانی پیدا کر و مشکل پیدا نہ کرو.“ مجلس میں چھینک آتی تو منہ پر ہاتھ یا رومال رکھ لیتے.جمائی آتی تو ہاتھ منہ پر رکھ لیتے.تھوک پر مٹی ڈال کر اسے دفن کر دیتے.( بخاری ) 100 کبھی آپ کو در دشقیقہ کی تکلیف بھی ہو جاتی تھی جو ایک یا دو دن رہتی تھی.ایسی صورت میں گھر میں آرام فرماتے.اخلاق فاضلہ وہ ہستی جس کے بارے میں عرش کے خدا نے گواہی دی کہ اے نبی تو عظیم اخلاق پر فائز ہے.وہ اخلاق کیسے شاندار ہونگے.حضور کے عام اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ کی پندرہ سالہ رفاقت کے بعد وہ گواہی کیسی زبردست ہے کہ آپ صلہ رحمی کرنے والے، دوسروں کے بوجھ بانٹنے والے، گمشدہ اخلاق اور نیکیوں کو زندہ کرنے والے مہمان نواز اور راہ حق
اسوہ انسان کامل 60 شمائل نبوی میں مصائب پر مدد کرنے والے ہیں اس لئے آپ جیسے انسان کو اللہ ضائع نہیں کرے گا.( بخاری ) 101 پھر حضرت عائشہ کا آپ کے اخلاق کے بارہ میں بیان ہے کہ آپ کبھی مخش کلامی نہ فرماتے تھے.نہ ہی بازاروں میں آوازے کسنا آپ کا شیوہ تھا.آپ بدی کا بدلہ بدی سے نہیں لیتے تھے بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیتے تھے.( بخاری )102 صحابہ بیان کرتے ہیں کہ سب لوگوں کے محبوب ترین انسان آپ تھے.(احمد) 103 جب کبھی آپ مے کو دو معاملات میں اختیار دیا جاتا تو آسان امر کو اختیار کرتے.آپ سے زیادہ اپنے نفس پر ضبط کر نیوالا کوئی نہ تھا.( بخاری )104 حیا ایسی تھی کہ آپ کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ حیادار تھے.( احمد ) 105 حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم سب سے بڑھ کر سخی تھے.( مسلم ) 106 جب بھی آپ سے سوال کیا گیا آپ نے عطا فرمایا.( احمد ) 107 مال فئی ( غنیمت) جس روز آتا اسی روز تقسیم فرما دیتے تھے.تو کل ایسا تھا کہ کبھی کل کے لئے کچھ بچا کر نہ رکھتے تھے.( بخاری )108 آپ تمام لوگوں سے بڑھ کر زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے (احمد 109 ) اپنے آپ کو دنیا میں ایک مسافر سمجھتے تھے جوسستانے کے لئے ایک درخت کے نیچے آرام کیلئے کچھ دیر کتا اور پھر آگے روانہ ہو جاتا ہے.( ترندی )110 شجاعت ایسی تھی کہ جنگوں میں تن تنہا بھی مرد میدان بن کر لڑے اور کبھی قدم پیچھے نہ ہٹایا.اجمع الناس اور سب سے زیادہ بہادر تھے.(مسلم) 111 آپ کا عضو ایسا کہ جانی دشمنوں اور قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو بھی معاف کر دیا.( بخاری )112 الغرض رسول کریم نے جامع اخلاق فاضلہ تھے.آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے.آپ خلق عظیم پر فائز تھے اور بنی نوع انسان کے لئے ایک خوبصورت اور کامل نمونہ تھے.ایسا نمونہ جس کی پیروی کی برکت سے آج بھی خدا مل سکتا ہے اور آج بھی وہ ہمارا خالق و مالک یہ پاکیزہ اخلاق نبوی اپنے بندوں میں دیکھ کر ان سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.سچ ہے.محمد ھی نام اور محمد هی کام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السّلام
اسوہ انسان کامل 61 شمائل نبوی حواله جات 1 نوادر الاصول فى احاديث الرسول حكيم ترمذی جلد 4 ص 215 دار الجيل بيروت 2 مستدرك حاكم جلد2ص426 و مسلم (7) كتاب الصلاة المسافر باب 18 3 شمائل الترمذى باب ماجاء في خلق رسول الله 4 الشفاء بتعريف حقوق المصطفى للقاضي عياض جلد 1 ص136 دار الكتاب العربي 5 بخارى (25) كتاب التهجد باب 15،9،8،6،3 6 بخارى (95) كتاب التعبير الرؤياء باب 48 مسلم(6) کتاب المساجد باب 19 7 كنز العمال جلد 7 ص 153 مسلم (44) كتاب الفضائل باب 19 9 ترمذی(6) كتاب الصوم باب 35 10 مسلم (38) کتاب اللباس باب 30 مهـ ، مسند احمد جلد 6 ص 121 ، اسد الغابه جلد 1 ص 17 11 مسند احمد جلد 5 ص 18،111 12 بخاری (1) بدء الوحي باب 1 13 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 1 ص 526، جلد 3 ص 536 14 بخاری (83) كتاب الدعوات باب 12،14، 52،15 15 بخاری (81) کتاب الادب باب 126 16 مسند احمد جلد6ص30 17 بخاری(68) التفسير سورة آل عمران باب 63 (30) كتاب الزكاة باب 43 18 مسند احمد جلد 6ص59 19 المعجم الكبير للطبرانی جلد 11 ص245 20 مسند احمد 1 ص 26 21 بخاری (13) کتاب مواقيت الصلوة باب 39 22 بخارى (25) كتاب التهجد باب 15،14
اسوہ انسان کامل 23 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 5 ص 21 24 بخاری(73) كتاب الاطعمه باب 1 62 25 بخاری(77) كتاب الاشربة باب 11 26 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 5 ص 129،102 27 بخارى (73) كتاب الاطعمه باب 32،25 28 بخاری(73) كتاب الاطعمة باب ،24 مجمع الزوائد جلد5ص 47 29 مستدرك حاكم جلد4ص 134 30 مسند احمد 6ص59 31 مستدرك حاكم جلد4ص132 32 ترمذی(1) كتاب الطهارة باب 44 33 شمائل الترمذى باب ماجاء في كحل رسول الله 34 مسلم (3) كتاب الطهارة باب 15 35 بخاری(67) کتاب المغازی باب 78 36 سنن الدارمي جلد 1 ص 31 37 شمائل الترمذى باب ماجاء في خلق رسول الله 38 ابن ماجه (32) كتاب اللباس باب 1 39 ترمذی (25) كتاب اللباس باب 33،45،4 40 بخاری (3) كتاب العلم باب (7، مسلم (53) كتاب صفة القيامة والجنة باب5، ترمذی(25) كتاب اللباس باب ،16، کنز العمال جلد 7 ص 125 و جلد 9 ص 515 41 بخاری (67) كتاب المغازى باب 22 42 شمائل ترمذی باب ماجاء في مشية رسول الله 43 ترمذی(50) کتاب المناقب باب 8 44 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص422 45 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص379 46 مسند احمد 3 ص 213 و بخارى كتاب العلم 47 مسند احمد جلد 3 ص 423 48 مسند احمد6ص56 شمائل نبوی می
اسوہ انسان کامل 63 49 الشفاء للقاضي عياض جلد 1 ص 160 ، طبقات ابن سعد جلد 1 ص422 50 ابودائود (42) كتاب الادب باب 21 51 مستدرك حاكم جلد3 ص10 52 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 378 53 مسند احمد جلد 4 ص 358 54 المعجم الكبير لطبرانی جلد12 ص391 55 شمائل الترمذى باب ماجاء في مزاح رسول الله 56 مسلم (8) كتاب الجمعه باب 14 57 مسلم(8) كتاب الجمعه باب 14 58 ابن ماجه (5) کتاب اقامة الصلوة باب 85 59 بخاری (54) كتاب العتق باب 17 60 مسلم (42) كتاب الشعر باب1 61 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8ص233 62 ترمذی(44) كتاب الادب باب 70 63 بخاری (81) كتاب الادب باب 90 64 الشفاء للقاضی عیاض جلد1ص72 65 الوفاء باحوال المصطفى ابن جوزی ص332 بيروت 66 كنز العمال جلد 7 ص 219 67 بخاری (81) كتاب الادب باب 108 68 ابن ماجه (9) كتاب النكاح باب 50 69 بخاری (70) كتاب النكاح باب82 70 الخصائص الكبرى جلد 1 ص 116 71 ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 33 72 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الحشر باب 366 73 بخاری(78) کتاب المرضى باب 11 74 ترمذی (38) كتاب صفة القيامه باب 46 75 مسند احمد جلد 3 ص 133 ، فتح الباري لابن حجر جلد4ص361 شمائل نبوی
اسوہ انسان کامل 76 مسند احمد جلد 4 ص 398 77 بخاری(81) کتاب الادب باب 109 78 مسند احمد جلد 6 ص 117 79 مسند احمد جلد 3 ص 455 80 بخاری(67) کتاب المغازی باب 76 81 بخاری(73) کتاب الاطعمة باب 33 82 بخاری(43) کتاب الحوالات باب3 64 83 بخاری (67) كتاب المغازى باب 27 84 بخاری(81) کتاب الادب باب 39 85 الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ قاضی عیاض جلد 1 ص 160 دار الكتاب العربي 86 بخاری(3) كتاب العلم باب 59 87 بخاری(81) کتاب الادب باب 37 88 مسند احمد جلد 2 ص 4 کنز العمال جلد 7 ص 150 89 مسند احمد جلد 3 ص 456 90 بخاری (60) كتاب الجهادباب 167 و مسند احمد جلد 5 ص 358 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 2 91 فتح الباري لابن حجر جلد2ص336 92 بخاری(4) کتاب الوضوء باب 30 93 مسلم (3) كتاب الطهارة باب 18، 19 94 بخاری (11) کتاب المساجد باب 15 95 بخاری(68) كتاب التفسير سورة الاحقاف باب 319 96 مسند احمد جلد 1 ص 2 97 مسند احمد جلد2ص436 و مجمع الزوائدلهيثمي جلد8ص346 98 مسند احمد جلد 5 ص 388 99 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 22 100 بخاری (81) كتاب الادب باب 128 101 بخاری(1) کتاب بدء الوحي باب 1 شمائل نبوی می
اسوہ انسان کامل 102 بخاری (81) كتاب الادب باب 80 103 مسند احمد جلد 3 ص402 104 بخاری(65) کتاب المناقب باب 20 105 مسند احمد جلد 3 ص71 106 مسلم(44) كتاب الفضائل باب 12 107 مسند احمد جلد 3 ص 190 108 بخاری(88) کتاب الفرائض باب 2 109 مسند احمد جلد 4 ص 198 110 ترمذی(37) كتاب الزهد باب 44 111 مسلم (44) كتاب الفضائل باب 11 112 بخاری (67) کتاب المغازی باب 26 65 شمائل نبوی می
اسوۃ انسان کامل 66 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید توحید پرستوں کا بادشاہ کی رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شرک و بت پرستی کے تاریک دور میں قیام تو حید کا عظیم الشان کام لیا جانا تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آغاز سے ہی آپ کے دل میں توحید کی محبت اور بت پرستی سے نفرت رکھ دی تھی اور اپنی خاص مشیت سے آپ کو ہر قسم کے شرک سے محفوظ رکھا.شرک سے نفرت رسول اللہ کی کھلائی ام ایمن بیان کرتی تھیں کہ ”یوانہ وہ بت تھا جس کی قریش بہت تعظیم کرتے تھے.اُس کے پاس حاضری دے کر قربانیاں گزارتے اور سال میں ایک دن وہاں اعتکاف کرتے تھے.ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں جاتے اور رسول اللہ کو بھی ساتھ لے جانا چاہتے مگر آپ انکار کر دیتے.یہاں تک کہ بعض اوقات حضور کی پھوپھیاں اور ابو طالب آپ سے سخت ناراض ہوتے اور کہتے کہ بتوں سے آپ کی بیزاری کے باعث ہمیں آپ کے بارے میں ڈر ہی رہتا ہے.ایک دفعہ اپنی پھوپھیوں کے اصرار پر آپ وہاں چلے تو گئے مگر سخت خوفزدہ ہو کر واپس آگئے اور کہا کہ میں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا ہے.پھوپھیوں نے کہا کہ اتنے نیک انسان پر شیطان اثر نہیں کر سکتا اور پوچھا آپ نے کیا دیکھا ہے؟ آپ نے بتایا کہ جو نہی میں بت کے قریب جانے لگتا تو سفید رنگ اور لمبے قد کا ایک شخص چلا کر کہتا کہ اے محمد ! پیچھے رہو اور اس بت کو مت چھوڑ.بعد میں پھو پھیوں نے بھی بتوں کے پاس جانے کے لئے یہ اصرار چھوڑ دیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ آپ کو ایسی مشرکانہ رسوم سے محفوظ رکھا.( بیہقی ) 1 بچپن میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ سفر شام کے دوران عیسائی راھب بحیرای سے ملاقات ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ایک سوال پر فرمایا تھا کہ مجھ سے لات، اور عزئی بتوں کے بارہ میں مت پوچھو، خدا کی قسم ! ان سے بڑھ کر مجھے اور کسی چیز سے نفرت نہیں.(بیہقتی ) 2 نبی کریم حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر جب ملک شام گئے تو سودا فروخت کیا.کسی شخص نے اس دوران آپ سے لات اور مڑی کی قسم لینا چاہی.آپ نے فرمایا میں نے کبھی آج تک ان بتوں کے نام کی قسم نہیں کھائی اور نہ کبھی ان کی
اسوۃ انسان کامل طرف توجہ کی ہے.(ابن سعد ) 3 عبادت الہی کی محبت 67 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بچپن سے ہی اپنے خالق و مالک کی محبت بھر دی گئی تھی.عبادت اور ذکر الہی سے آپ کو خاص شغف تھا ، خلوت پسند تھی.عین عنفوانِ شباب میں آپ کو نیک اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا.( بخاری )4 جوانی میں آنحضور مہر سال غار حراء میں ایک مہینہ کے لئے اعتکاف فرمایا کرتے اور تنہائی میں اللہ کو یاد کرتے تھے.جاہلیت میں قریش کی عبادت کا یہ ایک طریق تھا.جب آپ کا یہ اعتکاف ختم ہوتا تو واپس آکر پہلے خانہ کعبہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے.جب حضور کو پہلی وحی ہوئی تو یہ رمضان کا ہی مہینہ تھا جس میں آپ غار حراء میں اعتکاف فرمارہے تھے.(ابن ھشام) 5 اس زمانہ میں مکہ میں گنتی کے چند لوگ تو حید پرست باقی رہ گئے تھے جو دین ابراہیمی پر قائم تھے.ان میں ایک قابل ذکر شخص زید بن عمر و تھے.ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی ملاقات کے کے قریب بلدح بستی میں ہوئی.مشرکین کی طرف سے آنحضرت کے سامنے کچھ کھانا پیش کیا گیا.آپ نے کھانے سے انکار کر دیا.پھر زید کو کھانا پیش کیا گیا تو انہوں نے بھی یہ کہہ کر کھانے سے انکار کیا کہ تم لوگ اپنے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرتے ہو اس لئے میں ہر گز تمہارا کھانا نہ کھاؤں گا ، سوائے اس کھانے کے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو.زید بن عمر وقریش کا ذبیحہ حرام سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ بکری پیدا کرنے والا تو خدا ہے.اس کے لئے گھاس اُگانے والا بھی وہی ہے.پھر تم اسے غیر اللہ کے نام پر کیوں ذبح کرتے ہو؟ ( بخاری ) 6 نبی کریم کی پہلی وحی کا آغاز ہی بنیادی طور پر تو حید کے پیغام سے ہوا.پہلے محض اقرا کے الفاظ پر آپ رکتے رہے مگر جب کہا گیا اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِى خَلَقَ یعنی اپنے اس پیدا کرنے والے پروردگار کے نام سے پڑھیئے جس نے پیدا کیا، تو بے اختیار آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے کیونکہ آپ تو پہلے ہی اپنے خالق و مالک پر فدا تھے.محبت الہی کی تمنا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت الہی کے نظارے دیکھ کر مکہ کے لوگ سچ ہی تو کہتے تھے عشق مُحَمَّدٌ رَبَّه، کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے.(غزالی )7 اور اس میں کیا شک ہے کہ آپ اپنے رب کے سچے عاشق تھے.آپ کی محبت کا اظہار نمازوں، عبادات ، دعاؤں اور ذکر الہی سے خوب عیاں ہے.رسول اللہ کی محبت الہی کا یہ حال تھا کہ حضرت داؤد کی یہ دعا بڑے شوق سے اپنی
اسوۃ انسان کامل 68 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید دعاؤں میں شامل کرتے تھے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ وَالْعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ ، اللهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِى وَمَالِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ ”اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اُس کی محبت بھی جو تجھ سے محبت کرتا ہے.میں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.اے اللہ ! اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال ، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو.“ ( ترمذی )8 مگر محبت الہی کی جو دعا آپ نے سکھائی وہ حضرت داؤد کی دعا سے کہیں جامع اور بلیغ ہے.آپ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے :.اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ وَحُبَّ مَنْ يَنْفَعُنِى حُبُّهُ عِندَكَ اللَّهُمَّ مَا رَزَقْتَنِي مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ قُوَّةٌ لِى فِيْمَا تُحِبُّ، وَمَازَوَيْتَ عَنِى مِمَّا أُحِبُّ فَاجْعَلْهُ فَرَاغَالِي فِيْمَا تُحِبُّ ”اے اللہ ! مجھے اپنی محبت عطا کر اور اُس کی محبت جس کی محبت مجھے تیرے حضور فائدہ بخشے.اے اللہ ! میری دل پسند چیزیں جو تو مجھے عطا کرے ان کو اپنی محبوب چیزوں کے حصول کے لئے قوت کا ذریعہ بنا دے.اور میری وہ پیاری چیزیں جو تو مجھ سے علیحدہ کر دے ان کے بدلے اپنی پسندیدہ چیزیں مجھے عطا فرما دے.(ترندی) 9 جس سے محبت ہو اس کی ہر چیز سے بھی پیار ہو جاتا ہے، جب سال کی پہلی بارش ہوتی تو رسول اللہ ا سے ننگے سر پر لیتے اور فرماتے ہمارے رب سے یہ تازہ نعمت آتی ہے اور سب سے زیادہ برکت والی ہے.(کنز ) 10 رسول کریم کی عبادات اور اعمال پر توحید کی گہری چھاپ تھی.آپ نماز کا آغاز ہی اس دعا سے کرتے تھے.وَجَّهُتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفاً وَّ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.( الانعام:80) میں نے موحد ہو کر اپنی تمام توجہ اس ذات کی طرف پھیر دی جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں.(نسائی ) 11 چنانچہ رسول کریم نے شرک کی مختلف شکلوں اور باریک راہوں سے بھی روکا.آپ نے ریا کاری کو شرک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص نماز میں ریا کرتا ہے وہ بھی شرک کا مرتکب ہوتا ہے.(احمد )12 حضرت شداد بن اوس کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کی امت بھی آپ کے بعد شرک کرے گی ؟ فرمایا ہاں وہ سورج، چاند ، پتھر یابت کی پرستش تو نہیں کریں گے مگر اپنے اعمال میں دکھاوا کریں گے.( احمد ) 13 اسی طرح آپ نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے میں شرک کرنے والوں کے شرک سے سب سے زیادہ بے نیاز ہوں.جو
اسوۃ انسان کامل 69 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید شخص کسی بھی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتا ہے تو میں اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہوں.(مسلم ) 14 حضرت عمر ایک دفعہ مسجد نبوی سے نکلے اور حضرت معاذ بن جبل کو رسول کریم ﷺ کے مزار کے پاس روتے ہوئے پایا.حضرت عمرؓ نے رونے کا سبب پوچھا.تو وہ کہنے لگے ایک حدیث یاد آ گئی جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی آپ نے فرمایا تھا کہ ” معمولی ریاء بھی شرک ہے (حاکم 15) رسول کریم بدشگونی کو بھی شرک سے تعبیر فرماتے 16(1) ایک دفعہ رسول اللہ خطبہ ارشاد فرما نے کھڑے ہوئے اور فرمایا ” اے لوگو! جھوٹی گواہی بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے برابر ہے.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی.فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الرُّوُرِ لا حُنَفَاءَ لِلَّهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ باللهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِى بِهِ الرِّيحُ فِى مَكَانِ سحيق.(سورة حج: 32,31) ترجمہ: پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو.ہمیشہ اللہ کی طرف جھکتے ہوئے اُس کا شریک نہ ٹھہراتے ہوئے اور جو بھی اللہ کا شریک ٹھہرائے گا.تو گویا وہ آسمان سے گر گیا.پس یا تو اُسے پرندے اُچک لیں گے یا ہوا اُسے کسی دُور جگہ جا پھینکے گی.(ترندی) 17 حضرت فروگا بن نوفل الاشجعی رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیں جو میں رات سوتے ہوئے پڑھا کروں فرمایا سورۃ الکافرون پڑھا کرو.یہ شرک سے آزاد کرنے والی (سورت) 18 (21)-4 حضرت ابوموسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شرک سے بچو یہ چیونٹی کے نقش پاسے بھی باریک تر ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیسے بچیں؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو: - اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُبِكَ مِنْ أَنْ تُشْرِكَ بِكَ شَيْئانَّعْلَمُهُ وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُ (احم )19 ترجمہ:.اے اللہ ! ہم تیری پناہ میں آتے ہیں اس بات سے کہ تیرے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے کسی کو شریک ٹھہرائیں اور لاعلمی میں ایسا کرنے سے ہم تجھ سے بخشش کے طلبگار ہیں.رسول اللہ کی عبادات محض اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وقف اور خالص تھیں اور آپ کے دل پر تو حید کی گہری چھاپ کی وجہ سے وہ ہر قسم کے ریاء سے پاک تھیں.جس پر عرش کے خدا نے بھی یہ گواہی دی کہ اے نبی تو کہہ دے میری نماز، میری قربانیاں ، میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.مجھے اسی امر کا حکم دیا گیا ہے اور میں اُس کا سب سے پہلا فرمانبردار ہوں.( سورۃ الانعام: 163,164 )
اسوۃ انسان کامل 70 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید فرض نمازوں کے علاوہ بالخصوص رات کے وقت آپ اللہ تعالیٰ کی گہری محبت سے سرشار ہو کر نہایت خشوع وخضوع سے بہت لمبی اور خوبصورت نماز پڑھا کرتے تھے.اپنے رب کی عبادت آپ کو ہر دوسری چیز سے زیادہ پیاری تھی.آپ کے پاس بیک وقت تو بیویاں رہیں اپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ کے ہاں آپ کی نویں دن باری آتی تھی.ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہو جانے کے بعد ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار لوں.انہوں نے بخوشی اجازت دے دی اور آپ نے وہ ساری رات عبادت میں بسر کی اور روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دی.(سیوطی )20 توحید کے اقرار کا بھی آپ کو بہت لحاظ تھا.ایک دفعہ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک مسلمان لونڈی آزاد کرنا ہے.یہ ایک حبشی لونڈی ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مومن ہے تو میں اسے آزاد کر دیتا ہوں.آنحضور نے اس لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتی ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا ہاں.آپ نے فر مایا کیا گواہی دیتی ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا ہاں.فرمایا کیا یوم آخرت پر ایمان لاتی ہو؟ اس نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا اسے آزاد کر دو.یہ مومن عورت ہے.( احمد ) 21 قیام توحید رسول اللہ کی شریعت کا پہلا سبق ہی کلمہ توحید لا اله الا اللہ تھا.یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.آپ کا اوڑھنا بچھونا تو حید ہی تھا.صبح وشام خدا کی توحید کا دم بھرتے تھے.دن چڑھتا تو آپ کے لبوں پر یہ دعا ہوتی.”ہم نے اسلام کی فطرت اور کلمہ اخلاص ( یعنی تو حید ) پر اور اپنے نبی محمد کے دین اور اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر صبح کی جو موحد تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے.“ ( احمد )22 شام ہوتی تو یہ دعا زبان پر ہوتی.أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلهِ ”ہم نے اور سارے جہاں نے اللہ کی خاطر شام کی ہے اور تمام تعریف اللہ کے لئے ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.بادشاہت اسی کی ہے.تمام تعریفوں کا وہی مالک ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے.“ ( مسلم ) 23 کوئی مصیبت در پیش ہوتی تو یہ دعا کرتے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ الْعَظِيمُ الْحَلِیم اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہی عظمت والا اور بردبار ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ عظیم عرش کا رب ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ آسمان اور زمین کا رب ہے.اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ عرش کریم کا رب ہے.“ (بخاری) 24 حضرت محمد مصطفے ہی تھے جنہوں نے شرک و بت پرستی کے ماحول میں نعرہ تو حید بلند کیا.پھر عمر بھر یہ علم تو حید بلند کیے رکھا اور کبھی اس پر آنچ نہ آنے دی.اس کلمہ توحید کی خاطر ہر طرح کے دکھ اٹھائے ،اذیتیں برداشت کیں ، اپنے
اسوۃ انسان کامل 71 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید 25 جانی دوستوں کی قربانی بھی دی اور خود اپنی جان کی قربانی پیش کرنے سے بھی دریغ نہ کیا.ہمیشہ قیام تو حید کے لئے کوہ استقامت بن کر تمام ابتلاؤں کا مقابلہ کیا.آپ نے تو حید کو ہی ذریعہ نجات قرار دیا اور فرمایا کہ جس نے صدق دل سے توحید باری کا اقرار کیا وہ جنتی ہے.(احمد) 5 اپنی امت کو ہمیشہ تو حید کے ترانے اور نغمے الاپنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ” کہ جس شخص نے دن میں سو مرتبہ خدا کی توحید کا یوں اقرار کیا لا اله الا اللهُ وَحْدَه، لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْ قَدِیر.کہ خدا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ ایک ہے.اس کا کوئی شریک نہیں، بادشاہت اُسی کی ہے.تمام تعریفوں کا بھی وہ مستحق ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے.ایسے شخص کو دس غلاموں کی آزادی کے برابر ثواب ہوگا اور اس کے لئے سونیکیاں لکھی جائیں گی اور سوبرائیاں مٹائی جائیں گی.توحید باری پر مشتمل یہ ذکر اس دن شام تک کے لئے شیطان سے اُس کی پناہ کا ذریعہ بن جائے گا اور کوئی شخص اُس سے بہترعمل والا قرار نہیں پائے گا سوائے اُس شخص کے جو یہ ذکر اس سے بھی زیادہ کثرت سے کرے.( بخاری ) 6 رسول اللہ نے تو حید کی حفاظت کی خاطر وطن کی قربانی بھی دی اور مدینہ ہجرت کر لی.جب وہاں بھی دشمن تعاقب کر 26 کے حملہ آور ہوا تو مجبور دفاع کے لئے تلوار اٹھائی مگر ان دفاعی جنگوں کی غرض بھی یہی تھی کہ خدا کا نام بلند ہو.ایک دفعہ کسی نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! کوئی شخص حمیت کی خاطر لڑتا ہے، کوئی شجاعت کے لئے تو کوئی مال غنیمت کی خاطر.ان میں سے خدا کی خاطر جہاد کرنے والا کون شمار ہوگا ؟ آپ نے فرمایا وہ شخص جو اس لئے لڑتا ہے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوا ور تو حید کی عظمت قائم ہو، فی الحقیقت وہی خدا کی راہ میں لڑنے والا شمار ہوگا.( بخاری ) 27 رسول اللہ نے توحید کا یہ احترام بھی قائم کیا کہ اپنے اوپر حملہ آور ہونے والے اور ظلم کرنے والے جانی دشمنوں کے متعلق فرمایا کہ اب بھی اگر یہ کلمہ توحید پڑھ لیں تو ہماری ان سے کوئی لڑائی نہیں.( بخاری 28) گویا ہماری تلوار میں جو اپنے دفاع کے لئے اٹھی تھیں کلمہ کے احترام میں پھر میانوں میں واپس چلی جائیں گی.چنانچہ آنحضور نے کلمہ توحید کا اقرار کرنے پر جانی دشمن کو امان دینے کا حکم دیا.آپ نے فرمایا کہ جس بستی سے اذان کی آواز آتی ہو ( جو تو حید اور رسالت کے اقرار پر مشتمل ہے ) اس پر حملہ نہیں کرنا.( بخاری ) 29 حضرت مقداد بن عمر و کندی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم سے پوچھا کہ اگر کسی کافر کے ساتھ میدان جنگ میں میرا مقابلہ ہو، وہ میرا ہاتھ کاٹ دے اور کسی درخت کی آڑ لے کر مجھ سے بچنے کی خاطر کہہ دے کہ میں اللہ کی خاطر مسلمان ہوتا ہوں تو کیا اس کلمے کے بعد میں اسے قتل کرنے کا حق رکھتا ہوں.فرمایا نہیں تم اسے ہرگز قتل نہ کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹا ہے اور اس کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.حضور نے فرمایا اسے قتل نہ کرو.اگر تم اسے قتل کرو گے تو وہ مسلمان اور تم کافر سمجھے جاؤ گے.“ (بخاری) 30
اسوۃ انسان کامل 72 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید حضرت اسامہ نے جب ایک جنگ میں مد مقابل دشمن پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس نے کلمہ پڑھ لیا.اسامہ نے پھر بھی اسے ہلاک کر دیا تو رسول اللہ بین کر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ توحید کا اقرار کرنے والے ایک شخص کو کیوں قتل کیا ؟ قیامت کے روز جب کلمہ تمہارے گریبان کو پکڑے گا تو کیا جواب دو گے؟ اور جب اسامہ نے کہا کہ وہ بچے دل سے کلمہ نہیں پڑھتا تھا تو فرمایا کہ ” کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا؟“ (مسلم) 31 رسول کریم تو حید کے بارے میں اتنی احتیاط فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آپ کی مجلس میں آکر ذکر کیا کہ اے محمد ! آپ بہت اچھے لوگ ہیں بشرطیکہ آپ شرک نہ کریں.رسول کریم نے کمال عاجزی سے فرمایا اللہ پاک ہے.وہ شرک کیا ہے؟ وہ کہنے لگا آپ ” وَ الكَعبة“ کہ کر کعبہ کی قسم کھاتے ہو.حالانکہ مسلمان کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ توقف کے بعد موقع ظن سے بچنے اور احتیاط کی خاطر مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ اب اس شخص نے ایک بات کہہ دی ہے اس لئے آئندہ حلف کے وقت کعبہ کی بجائے رب کعبہ کہہ کر قسم کھایا کرو.پھر وہ یہودی عالم کہنے لگا آپ بہت اچھی قوم ہیں.بشرطیکہ آپ خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں.رسول کریم نے فرمایا اللہ پاک ہے.ہم کونسا شریک ٹھہراتے ہیں؟ اس نے کہا آپ لوگ کہتے ہیں اللہ نے چاہا اور تم نے چاہا.رسول کریم نے پھر توقف کیا اور فرمایا اس نے ایک بات کر دی ہے.پس آئندہ جو شخص کہے کہ (ماشاء اللہ اللہ نے چاہا تو اس کے بعد وقفہ ڈال کر کہ سکتا ہے کہ تم نے چاہا.( اکٹھے یہ جملے کہنے میں احتیاط کی جائے ).( احمد )32 چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم سے کہا ما شاء الله وشئت کہ جو اللہ نے چاہا اور آپ نے چاہا.نبی کریم نے فرمایا تم نے مجھے اللہ کے برابر ٹھہرایا بلکہ اصل وہ ہے جو صرف خدائے واحد نے چاہا.( احمد ) 33 حضرت عمر ایک دفعہ اپنے والد کی قسم کھارہے تھے.رسول اللہ نے ان کو پکار کر فرمایا سنو! اللہ تمہیں اپنے باپوں کی قسم کھانے سے منع کرتا ہے، جسے قسم کھانے کی ضرورت پیش آئے وہ اللہ کی قسم کھائے یا پھر خاموش رہے.( بخاری ) 34 غیرت توحید زندگی کے بڑے سے بڑے ابتلاء میں بھی جب خود رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں آپ غیرت تو حید کی حفاظت سے غافل نہیں ہوئے بلکہ آپ کی محبت تو حید کمال شان کے ساتھ ظاہر ہوئی.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ غزوہ بدر کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ حرة الوبرہ مقام پر ایک مشرک شخص حاضر خدمت ہوا.جرات و شجاعت میں اس کی بہت شہرت تھی.صحابہ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ ایک سور ما حالت جنگ میں میسر آیا ہے.اس نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں اس شرط پر آپ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہونے آیا ہوں کہ مال غنیمت سے مجھے بھی حصہ دیا جائے.آپ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
اسوۃ انسان کامل 73 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر تم جاسکتے ہو.میں کسی مشرک سے مدد لینا نہیں چاہتا.سبحان اللہ ! تو حید کی کیسی غیرت ہے کہ حالت جنگ میں ہوتے ہوئے بھی ایک بہادر سورما کی مدد اس لئے قبول کرنے کو تیار نہیں کہ وہ مشرک ہے.کچھ دیر بعد اس نے پھر حاضر ہو کر یہی درخواست کی تو آپ نے وہی جواب دیا.وہ تیسری دفعہ آیا اور عرض کیا کہ مجھے بھی شریک لشکر کر لیں.آپ نے پھر پوچھا کہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس دفعہ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا ”ٹھیک ہے پھر ہمارے ساتھ چلو.“ ( مسلم )35 عظمت توحید غزوہ احد میں کفار مکہ کے درۂ احد سے دوبارہ حملہ کے بعد مسلمانوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی.اس دوران ستر مسلمان شہید ہوئے تھے.خود حضور کی شہادت کی خبریں پھیل گئیں.دشمن کو اس پر خوش ہونے کا موقع میسر آ گیا.ابوسفیان فخر میں آکر اپنی فتح جتلانے لگا.اس نازک حالت میں (جب مسلمان خود حفاظتی کی خاطر ایک پہاڑ کے دامن میں پناہ گزیں تھے ) ابوسفیان مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا.” کیا تم لوگوں میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم موجود ہیں؟“ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے از راہ مصلحت ارشاد فرمایا کہ ان کو جواب دینے کی ضرورت نہیں.مسلمانوں کی خاموشی دیکھ کر ابوسفیان کا حوصلہ بڑھا.کہنے لگا کیا تم میں ابو قحافہ کا بیٹا (ابوبکر) ہے؟ حضور نے پھر ارشاد فرمایا کہ جواب نہ دو.اس پر ابوسفیان پھر بولا کیا تم میں خطاب کا بیٹا (عمر) ہے؟ مسلمانوں کی مسلسل خاموشی دیکھ کر ابو سفیان نے فتح و کامرانی کا نعرہ لگایا اور کہا انغل هبل - ہبل بہت زندہ باد.یہ سن کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرت تو حید نے جوش مارا اور آپ نے فوراً جواب دینے کا ارشاد فرمایا.صحابہ نے پوچھا کیا جواب دیں؟ فرمایا کہو الله أعْلَى وَأَجَلُّ اللہ سب سے بلند اور اعلیٰ شان والا ہے.ابوسفیان نے پھر کہا ہمارا تو عزمی بہت ہے.تمہارا کوئی عزی نہیں ! آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اس کو جواب میں کہو کہ اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں.( بخاری ) 36 فتح مکہ کے موقع پر بھی غیرت توحید کی عجب شان دیکھنے میں آئی.خدائے واحد کا گھر ابراہیم خلیل اللہ نے ان دعاؤں کے ساتھ تعمیر کیا تھا کہ خدایا مجھے اور میری اولا د کو بتوں کی پرستش سے بچانا.(سورۃ ابراھیم : 36 ) رسول اللہ کی بعثت کے وقت اس خانہ خدا کو 360 جھوٹے خداؤں نے گھیر رکھا تھا.لیکن ابراہیمی دعاؤں کی بدولت اب رسول اللہ کے ذریعہ اس ظلم اور جھوٹ کے مٹنے کا وقت آگیا تھا چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے خانہ کعبہ تشریف لا کر خدا کے گھر کو بتوں سے پاک کیا.مکے میں داخلے کے وقت دنیا نے کمال انکسار کا یہ منظر دیکھا تھا کہ جب اپنی ذات کا معاملہ تھا تو اس فخر انسانیت نے اپنا وجود کتنا مٹادیا اوراپنا سرکتنا جھکا دیا تھا کہ سواری کے پال ان کو چھونے لگا لیکن جب رب جلیل کی عظمت ووحدانیت اور غیرت کے اظہار کا وقت آیا تو نبیوں کے اس سردار نے ایک ایک بت کے پاس جا کر پوری قوت سے اُس پر اپنی کمان
اسوۃ انسان کامل 74 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید ماری.یکے بعد دیگرے انگو گراتے چلے گئے.آپ بڑے جلال سے یہ آیت تلاوت کر رہے تھے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (سورة بنی اسرائیل: 82) کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور وہ ہے ہی مٹنے والا.( بخاری ) 37 فتح پر خدائے واحد کی عظمت کے نعرے چند لمحوں میں ضرب مصطفوی سے تمام بت ریزہ ریزہ ہو گئے.عڑی ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو گیا اور ہل پاش پاش ہو کر بکھر گیا.(ابن ہشام )38 تعمیر بیت اللہ کا یہ مقصد پورا ہوا کہ اس میں صرف اور صرف خدائے واحد کی پرستش کی جائے.یہ محمد مصطفی میں لینے کی مرادوں اور تمناؤں کے پورا ہونے کا دن تھا.یہ خدا کی بڑائی ظاہر کرنے اور عظمت قائم کرنے کا دن تھا.اس روز رسول خداً کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی پہنچی کہ تو حید کا بول بالا ہوا تھا.اس کیفیت میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائے اور حجر اسود کا بوسہ لیا تو وفور جذبات سے آپ نے بآواز بلند اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا.صحابہ نے بھی جواب میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے لگائے اور اس زور سے لگائے کہ سرزمین مکہ نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی.مگر نعرے تھے کہ تھمنے کا نام نہ لیتے تھے.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارے سے صحابہ کو خاموش کرایا.(زرقانی) 39 پس فتح مکہ کا دن بھی دراصل توحید کی عظمت اور قیام کا دن تھا.اس روز رسول اللہ نے اپنی فتح کا کوئی نقارہ نہیں بجایا.ہاں ! اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے شادیانے ضرور بجائے گئے.یہ کہتے ہوئے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَعَزَّ جُندَهُ وَنَصَرَ عَبْدَه ، وَصَدَقَ وَعْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَه ، کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے اس نے اپنے لشکر کی عزت افزائی کی اور اپنے بندے کی مدد کی اور اپنا وعدہ پورا فرمایا.تنہا اسی نے تمام لشکروں کو پسپا کر دیا.( بخاری 40) یہ تھا اپنی زندگی کی عظیم فتح پر ہمارے آقا ومولیٰ کا نعرہ توحید.توحید پر گہرے ایمان کی وجہ سے رسول اللہ کو کبھی کسی کا خوف پیدا نہیں ہوا.غزوہ حنین میں تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے آپ خچر پر سوار مسلسل آگے بڑھ رہے تھے اور بآواز بلند فرمارہے تھے.آنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَتَابُنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ میں نبی ہوں.جھوٹا نہیں ہوں.میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں.( بخاری )41 آپ کا تن تنہا ایک لشکر کے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا کرتے ہوئے آگے بڑھنا جہاں تو حید کامل پر ایمان کا نتیجہ تھا وہاں آپ کی صداقت کا محیر العقول معجزہ بھی تھا.
اسوۃ انسان کامل 75 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید یہاں آپ کی غیرت توحید ایک اور رنگ میں ظاہر ہوئی.خدشہ تھا کہ آپ کو مافوق البشر مخلوق نہ خیال کر لیا جائے اس لئے اپنی صداقت کی گواہی کے ساتھ یہ وضاحت فرما دی کہ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں اور ایک انسان ہوں.یہ رعب بھی خداداد ہے اور یہ حفاظت خدا تعالیٰ کی عطا کردہ.رسول اللہ ﷺ کو قیام تو حید اور احکام الہی کی بڑی غیرت تھی.طائف سے ثقیف قبیلہ کا وفد آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.انہوں نے بعض احکام میں رخصت کی شرط پر اسلام قبول کرنے کی حامی بھری اور عرض کیا کہ نماز معاف اور زنا ، شراب اور سود حلال کر دیا جائے.رسول کریم نے اس کی اجازت نہیں دی اور فرمایا ”وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہیں“.اسی طرح اہل طائف نے اپنے بہت ”لات کے بارہ میں جسے وہ رتبہ یعنی دیوی کہتے تھے عرض کیا کہ تین سال تک اسے توڑا نہ جائے.رسول اللہ کی غیرت تو حید نے یہ مداہنت بھی قبول نہیں فرمائی.اہل طائف نے عرض کیا کہ ایک سال تک ہی اسے نہ گرا ئیں.رسول اللہ نے پھر بھی انکار کیا.انہوں نے کہا چلیں ایک ماہ تک اسے نہ گرانے کی اجازت دے دیں تا کہ لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں اور بے وقوف لوگ اور عورتیں اسے گرانے کی وجہ سے اسلام سے دور نہ ہوں، لیکن رسول اللہ نے اس کی بھی رخصت نہیں دی اور حضرت ابوسفیان اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کو بھجوا کر اس بت کو گر وادیا.( الحلبیہ ( 42 رسول کریم کی تو ہر بات کی تان توحید الہی اور عظمت باری پر جا کر ٹوٹتی تھی.آپ کی اونٹنی عضاء بہت تیز رفتار تھی جس سے آگے کوئی اور اونٹنی نہ نکل سکتی تھی.ایک دفعہ ایک اعرابی نے اپنی اونٹنی اُس کے ساتھ دوڑائی اور آگے نکل گیا.صحابہ کو بڑا رنج ہوا مگر رسول کریم نے عجب طمانیت کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی کسی بھی چیز کو اونچا کرتا ہے تو لا زم ہے کہ اسے نیچا بھی کرے کیونکہ سب سے اونچی خدا کی ذات ہے.(ابوداؤد )43 نبی کریم کی پشت پر گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا تھا.ابورمثہ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد نے نبی کریم کو کہا کہ یہ جو آپ کی پشت میں اُبھا رسا ہے ذرا مجھے دکھا ئیں کیونکہ میں طبیب آدمی ہوں.اُس کا مطلب تھا کہ میں اس کا علاج کر کے ٹھیک کردوں گا.نبی کریم نے کس غیرت سے فرمایا کہ اصل طبیب تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے آپ ایک دوست اور ساتھی ہو.اس کا طبیب وہی ہے جس نے اسے پیدا کیا.(ابوداؤد )44 رسول کریم فرماتے تھے کہ للہ فرماتا ہے، کبریا، یعنی بڑائی میرا لباس ہے، عظمت میرا اوڑھنا ہے جو کوئی ان دونوں میں میرے ساتھ مقابلہ کرے گا میں اسے آگ میں پھینکوں گا.(ابو داؤد ) 5 نبی کریم نے نجران کے عیسائی وفد کے سامنے تو حید باری کا مضمون خوب بیان کیا.انہوں نے سوال کیا کہ آپ اپنے رب کے بارے میں ہمیں بتائیں وہ زبر جد ہے؟ یا قوت ہے؟ سونا ہے یا چاندی؟ رسول کریم نے فرمایا میرا رب ایسی 45
اسوۃ انسان کامل 76 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید کسی مادی چیز میں سے نہیں ہے.بلکہ وہ خودان اشیاء کا خالق ہے.اس زمانہ میں سورۃ الاخلاص نازل ہو چکی تھی نبی کریم نے انہیں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ.پڑھ کر سنائی کہ خدا ایک ہے.انہوں نے کہا وہ بھی ایک ہے آپ بھی ایک ہیں.فرق کیا ہوا؟ رسول کریم نے یہ آیت پڑھی " لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَئ " ( شوری : 12) اس جیسی اور کوئی چیز نہیں نہ کوئی مثیل ہے نہ ثانی.نصاری نجران نے کہا آپ ہمیں اس خدا کی کوئی اور صفات بتائیں.آپ نے سورۃ الاخلاص کی اگلی آیت پڑھی کہ اللہ بے نیاز ہے اور کسی کا محتاج نہیں.انہوں نے کہا ”صمد “ کیا ہوتا ہے.رسول اللہ نے فرمایا مخلوق اپنی ضروریات کے لئے جس ہستی کا سہارا لے وہ ذات صمد کہلاتی ہے.انہوں نے اللہ کی اور کوئی صفت رسول اللہ سے پوچھی.رسول اللہ نے پڑھا لَمْ يَلِدْ یعنی نہ اس نے کسی کو جنا جیسے مریم کے ہاں بچہ پیدا ہوا.وَلَمْ يُولَدْ اور نہ وہ جنا گیا جیسے حضرت عیسی پیدا ہوئے وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُواً أَحَد اور نہ کوئی مخلوق میں اس کی برابری کرنے والا ہے.(ترمندی )46 توحید کی یہی محبت آپ نے اپنے صحابہ میں بھی پیدا فرمائی.چنانچہ ایک انصاری صحابی کا ذکر ہے کہ وہ مسجد قبا میں نماز پڑھاتے تھے اور جہری قراءت والی ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد پہلے سورۃ الاخلاص قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ پڑھ کر پھر اس کے ساتھ کوئی اور سورت تلاوت کرتے تھے.نمازیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ سورت اخلاص ہی پر اکتفا کر لیا کریں اس کے ساتھ الگ سورۃ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے کہا کہ اگر مجھ سے نماز پڑھوانی ہے تو میں ایسے ہی پڑھاؤں گا ورنہ بیشک کسی اور کو امام بنالو.چونکہ وہ ان میں سے صاحب فضیلت تھے اس لئے انہوں نے امام تو نہ بدلا البتہ رسول اللہ کی خدمت میں ان کی شکایت کر دی.آپ نے اُس صحابی کو بلا کر ہر رکعت میں سورت اخلاص پڑھنے کی وجہ پوچھی.انہوں نے کہا یہ سورت خدائے رحمان کی صفات پر مشتمل ہے.مجھے اس کی تلاوت بہت پیاری لگتی ہے.نبی کریم نے فرمایا اس سورت سے محبت تمہارے جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائے گی.(ترمندی) 47.بلا شبہ سورۃ الاخلاص میں توحید کا مضمون نہایت اختصار اور کمال شان سے بیان ہوا ہے.رسول کریم کو خدا کے آخری کلام اور اس کے احکام کی بھی بہت غیرت تھی.حضرت عمر بن الخطاب ایک دفعہ تورات کا ایک نسخہ اٹھا لائے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول یہ تو رات کا نسخہ ہے.رسول اللہ خاموش بیٹھے رہے.حضرت عمرؓ اس میں سے پڑھنے لگے تو رسول اللہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہونے لگا.حضرت ابو بکر نے حضرت عمرؓ کو اس طرف توجہ دلائی کہ آنحضور یہ پسند نہیں فرما ر ہے.اس پر حضرت عمر نے معذرت کی.رسول اللہ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر موسیٰ تم میں ظاہر ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی اختیار کرتے تو سیدھی راہ سے گمراہ ہو جاتے اور اگر وہ خود بھی زندہ ہونے کی حالت میں میرا زمانہ نبوت پالیتے تو ضرور میری پیروی کرتے.( دارمی ) 48 فتح مکہ کے موقع پر ایک قریشی عورت کے چوری کرنے پر جب اس کا ہاتھ کاٹنے کی سزا کا فیصلہ ہوا اور لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین صحابی اسامہ بن زید سے معافی کی سفارش کروائی تو آپ جوش میں آکر فرمانے
اسوۃ انسان کامل 77 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید گئے اے اسامہ کیا تم اللہ کے احکام میں سے ایک حکم کے بارہ میں سفارش کی جرات کرتے ہو؟“ ( بخاری ) 49 احکام الہی کی تعمیل کی غیرت کا ایک اور واقعہ حضرت ابوسعید بن معلی بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے جواب نہیں دیا اور نماز پڑھتا رہا.نماز سے فارغ ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا.آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو جب وہ تم کو پکارے تا کہ تمہیں زندہ کرے.( بخاری 50 ) حضور کا اشارہ سورۃ انفال آیت 25 کی طرف تھا.حضرت ابوبکر" تہجد کی نماز میں بہت آہستہ آواز میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے تھے اور حضرت عمر ذرا اونچی آواز میں پڑھتے تھے.رسول اللہ نے دونوں سے اس کی وجہ پوچھی.حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے رب سے سرگوشی میں بات کرتا ہوں.وہ میری حاجت کو جانتا ہی ہے.حضرت عمر نے کہا میں شیطان کو بھگا تا ہوں اور سوئے ہوئے کو جگاتا ہوں.جب قرآن شریف کی یہ آیت اتری کہ نماز میں بہت اونچی تلاوت نہ کرو، نہ ہی بہت ہلکی آواز سے پڑھو اور در میانی راہ اختیار کرو.(بنی اسرائیل: 111) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر سے کہا کہ آپ ذرا اونچی آواز میں پڑھا کریں اور حضرت عمر سے فرمایا کہ آپ ذرا ہلکی آواز میں پڑھا کریں تا کہ قرآنی حکم کی تعمیل ہو.(سیوطی ) 51 احکام الہی کی پابندی کے لئے غیرت کے بارہ میں حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ذات کے بارہ میں کبھی کسی سے کوئی انتظام نہیں لیا.ہاں اگر اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے کسی حکم کو تو ڑا جا تا تو پھر آپ ضرور غیرت دکھاتے اور سزا دیتے تھے.( بخاری )52 رسول اللہ کی آخری بیماری میں کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ ( یعنی حضرت مریم ) کے نام سے موسوم تھا.آپ اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی خاموش نہ رہ سکے.جوش غیرت توحید میں اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ برا ہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو معابد بنالیا.گو یا بالفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو میرے بعد تو حید پر قائم رہنا اور میری قبر پر سجدہ نہ ہونے دینا.( بخاری )3 گویا یہ آپ کی تو حید کے قیام کے لئے آخری کوشش بھی تھی اور خواہش بھی تبھی تو آپ یہ دعا کیا کرتے تھے اللهُم لَا تَجْعَلْ قَبْرِى وَثْنا اے اللہ میری قبر کو بت پرستی کی جگہ نہ بنانا.(احمد ) 54 پھر دیکھو خدا نے اپنے اس موحد بندے کی غیرت توحید کی کیسے لاج رکھی کہ توحید پرستوں کے بادشاہ کا روضہ مبارک ہر قسم کے شرک کی آلائش اور بت پرستی سے پاک ہے.خدا کے ایک موحد بندے کی توحید خالص کا نشان _ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ.53
اسوۃ انسان کامل 78 خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پر وہ چھا رہی کہ توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلام رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید حواله جات 1 دلائل النبوة للبيهقى جلد 1 ص 58 مطبوعه بيروت 2 دلائل النبوة للبيهقى جلد 1 ص407 مطبوعه بيرت 3 طبقات الكبرى ابن سعد جلد 1 ص 156 مطبوعه بيروت 4 بخاری(1) کتاب بدء الوحي باب 1 5 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 235 مكتبه مصطفی البابی الحلبی 6 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 54 7 المنقذ من الضلال للغزالي ص 151 عصيئة الاوقاف پنجاب لاهور طبع اول 1971 8 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب 73 9 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب 74 10 كنز العمال جلد2 ص 629 11 نسائی کتاب الافتتاح باب نوع آخر من الذكر و الدعا 12 مسنداحمد جلد4ص125
رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید اسونۃ انسان کامل 13 مسنداحمد جلد 4 ص 123 14 مسلم (56) كتاب الزهدباب 6 15 مستدرك حاكم جلد 1 ص 44 16 مسند احمد جلد 5 ص 253 17 ترمذی(36) کتاب الشهادات باب 3 18 مسنداحمد جلد 5 ص456 19 مسنداحمد جلد 4 ص 403 79 20 الدرالمنثور في التفسير الماثور للسيوطى جلد 6 ص 27 مطبوعه بيروت 21 مسند احمد جلد 3 ص 451 22 مسند احمد جلد 3 ص 406 23 مسلم(49) كتاب الذكر باب18 24 بخارى (83) كتاب الدعوات باب 26 25 مسند احمد جلد 4 صفحه 402 26 بخاری (63) کتاب بدء الخلق باب 11 27 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 15 28 بخاری(2) کتاب الایمان باب 15 29 بخاری(60) كتاب الجهادباب 101 30 بخاری(67) کتاب المغازی باب 9 31 مسلم(2) کتاب الايمان باب 43 32 مسنداحمد بن حنبل جز6ص 371 33 مسنداحمد بن حنبل جزء اول ص 347 قاهره 34 بخاری (81) کتاب الادب باب 74 35 مسلم(33) كتاب الجهاد والسير باب 51 36 بخاری(67) کتاب المغازی باب 14 37 بخاری(68) كتاب التفسير باب 210 38 السيرة النبوية لابن هشام جز 4 ص 59 مطبوعه مصر 39 شرح مواهب اللدنيه لزرقاني جلد ۲ صفحه ٣٣٤ مطبوعه بيروت
اسوۃ انسان کامل 40 بخاری (60) كتاب الجهاد باب 193 41 بخاری(67) کتاب المغازی باب 51 80 60 42 السيرة الحلبيه جلد3 ص 68 بيروت 43 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 9 44 ابوداؤد(34) كتاب الترجل باب 18 45 ابوداؤد (33) كتاب اللباس باب 28 46 ترمذی (48) كتاب تفسير القرآن باب 92 47 ترمذی(46) کتاب فضائل القرآن باب 11 48 سنن دارمی مقدمه باب مايتقى من تفسير حديث النبي.49 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 18 50 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الفاتحة باب 1 51 الدر المنثور زير آيت سورة بنى اسرائیل جلد4ص 375 52 بخاری (81) کتاب الادب باب 80 53 بخاری (11) كتاب المساجد باب 22 54 مسند احمد جلد2ص 301 رسول اللہ کی محبت الہی و غیرت توحید
اسوہ انسان کامل 81 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل حق بندگی ادا کرنے والا...عبد کامل صحرائے عرب کی تاریک اور پر سکوت رات میں ہو کا عالم طاری تھا.ہر طرف ایک سناٹا تھا.خانہ کعبہ کے پڑوسی اور وادی بطحا کے مکین رنگ رلیاں منا کر اور شراب کی محفلیں سجانے کے بعد خواب نوشیں میں مست پڑے سور ہے تھے....عین اس وقت مکہ سے چند میل دور جنگل کے ایک پہاڑی غار میں ایک معصوم اور عابد و زاہد عربی نوجوان عبادت میں مصروف تھا.وہ اپنے رب کریم کے آستانہ پر سجدہ ریز ہو کر گریہ وزاری کر رہا تھا اور نہایت سوز وگداز کے ساتھ اس کے حضور میں التجا کرتا تھا ”اے ہادی! اس جاہل قوم کو ہدایت دے ! عہد شباب میں ہی اس سعید نوجوان نے اپنے مولی سے کو لگائی تھی ، دنیا سے اسے ایک بے رغبتی تھی اور دنیا کی رونقیں، رعنائیاں اسے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں.خلوت میں یا دالبی اس سعادت مند نو جوان کو عبادت الہی سے انتہائی لگاؤ تھا.تنہائی کی دعاؤں میں وہ ایک خاص لطف اٹھاتا.دنیا سے الگ تھلگ ہو کر خشوع و خضوع کے ساتھ خدا کو یاد کرنے میں وہ ایک خاص سرور ولذت محسوس کرتا.وہ تن تنہا کچھ زادِراہ ساتھ لے کر مکہ سے چند میل دور حراء نامی پہاڑی غار میں جا کر ، معتلف ہو کر عبادت کیا کرتا.مہینوں وہ مکہ کی طرب خیز زندگی سے کنارہ کش رہتا.پھر جب زادِ راہ ختم ہو جاتی تو واپس آکر اور زاد ساتھ لے لیتا اور تنہائی میں جا کر مراقبہ کرتا.اللہ کو یاد کرتا.( بخاری ) یہ پاک طینت اور نیک خصلت انسان درگاہ الہی میں ہار پا گیا.حراء سے اتر کر سوئے قوم آنے والا یہ فخر عرب نوجوان ہادی برحق ، سید المعصومین حضرت مصطفے ﷺ کا وجود با جود ہے جسے رب العزت نے خلعت نبوت سے سرفراز فرمایا.عین عنفوان شباب میں جبکہ آرزوئیں اور تمنائیں جو بن پر ہوتی ہیں اور خواہشات کے ہجوم کا مقابلہ مشکل ہوتا ہے.محمد دنیا سے بے رغبت ہو کر آبادی مکہ سے کوسوں دور ایک ویران پہاڑی غار حراء میں چلے جاتے.وہاں تنہائی میں کائنات پر غور و فکر کرتے.اللہ کو یاد کرتے.شہر مکہ کے طرب خیز اور پُر رونق ماحول کو چھوڑ کر ایک نوجوان کی اللہ کی یاد میں ایسی محویت ، استغراق اور خلوت پسندی ایک غیر معمولی واقعہ تھا جسے مکہ والوں اور آپ کے خاندان کے لوگوں نے تعجب اور حیرت کی نظر سے دیکھا.وہ سوچتے تھے کہ یہ مجیب انسان ہے جو دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار ہے.عالم جوانی میں بھی بیوی بچوں اور گھریلو زندگی پر ویرانوں کو ترجیح دیتا ہے.
اسوہ انسان کامل 82 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل عین عالم جوانی میں حضرت محمد دین ابراہیمی اور عربوں کے دستور کے مطابق سال میں ایک ماہ اعتکاف فرماتے تھے.عمر کے چالیسویں سال میں آپ رمضان کے مہینہ میں غار حراء میں اعتکاف فرما ر ہے کہ تھے آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی.(ابن ہشام )2 نماز کی عبادت جبریل نے ابتدائی وحی کے بعد نبی کریم ﷺ کو وضو کر کے دکھایا اور اس کا طریق سکھا کر آپ کو نماز پڑھائی.آنحضور نے حضرت خدیجہ کو وضو کا طریق سکھا کر نماز پڑھائی جس طرح جبریل نے آپ کو سکھایا تھا.(ابن ہشام ) 3 الغرض مکی دور کے آغاز میں ہی حضرت جبریل نے نبی کر یم ﷺ کو پانچ نمازوں کی امامت کروا کے نماز کا طریق اور اوقات سمجھا دیے تھے.(ترمذی)4 رسول کریم کو منصب نبوت عطا ہوا تو عبادت کی ذمہ داری اور بڑھ گئی.ارشاد ہوا.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ 0 وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبُ (سورة الانشراح:8,9) کہ جب تو دن بھر کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو تو رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا ہو جا اور اس کی محبت سے تسکین دل پایا کر.حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق آغاز میں نماز دو دو رکعت ہوتی تھی.مدینہ ہجرت کے بعد چار رکعت ہوگئی.( بخاری )5 فرضیت نماز کے روز اول سے لے کر تادم واپسیں آپ نے اَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ الَّليْلِ وَ قُرْآنَ الْفَجْرِ ( سورة بنی اسرائیل : 79) میں پنج وقت نمازوں کی ادائیگی کے حکم کی تعمیل کا حق ایسا ادا کر کے دکھایا کہ خود خدا نے گواہی دی کہ آپ کی نمازیں، عبادتیں اور مرنا اور جینا محض اللہ کی خاطر ہو چکا ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.(سورۃ الانعام: 163) رسول اللہ پر آغا ز رسالت میں ابھی حضرت خدیجہ اور حضرت علی ہی ایمان لائے تھے کہ آپ نے ان کے ساتھ نماز با جماعت کی ادائیگی کا سلسلہ شروع فرما دیا.پھر عمر بھر سفر و حضر ، بیماری و صحت ، امن و جنگ غرض کہ ہر حالت عسر و یسر میں اس فریضہ کی بجا آوری میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی.ابتدا آپ کفار کے فتنہ کے اندیشہ سے چھپ کر بھی نماز ادا کرتے رہے.کبھی گھر میں پڑھ لیتے تو کبھی کسی پہاڑی گھائی میں.البتہ چاشت کی نما زعلی الاعلان کعبہ میں ادا کرتے.( بخاری ) 6
اسوہ انسان کامل 83 حق بندگی ادا کرنے والا....عبد کامل دعوی نبوت کے بعد کفار مکہ نبی کریم کو عبادت سے روکتے اور تکالیف دیتے.ظالموں نے ایک دن حالت سجدہ میں اونٹنی کی غلیظ نجاست سے بھری ہوئی بھاری بھر کم بچہ دانی رسول اللہ کی پشت پر ڈال دی.( بخاری ) 7 ایک بد بخت نے ایک دن حضور کے گلے میں چادر ڈال کر مروڑ نا شروع کیا اور گردن دبوچنے لگا.دم گھٹنے کو تھا کہ حضرت ابو بکر نے اسے دھکا دیکر ہٹایا اور کہا ” کیا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے اللہ میرا ارب ہے.مگر آپ عبادت سے کب باز آ سکتے تھے.( بخاری )8 اہتمام نماز نماز تو رسول کریم کا روزانہ و شبانہ کا وہ معمول تھا جس میں آپ کی روح کی غذا تھی.ہر چند کہ امت کی سہولت کی خاطر رسول اللہ نے یہ رخصت دی کہ کھانا چنا جا چکا ہو تو کھانے سے فارغ ہو کر پھر نماز ادا کرلو.مگر اپنا یہ حال تھا کھانا کھاتے ہوئے بلال کی آواز سنی کہ نماز کا وقت ہو گیا تو صرف اتنا کہا ” اسے کیا ہوا اللہ اسکا بھلا کرے.“ (یعنی کھانا تو کھا لینے دیا ہوتا ) مگر اگلے ہی لمحے وہ چھری جس سے بھنا ہوا گوشت کاٹ رہے تھے وہیں پھینک دی اور سیدھے نماز کیلئے تشریف لے گئے.(ابوداؤد) حضرت عائشہ آپ کا معمول یہ بیان فرماتی تھیں کہ نماز کیلئے بلال کی اطلاعی آواز پر آپ بلا توقف مستعد ہوکر اٹھتے اور نماز کے لئے تشریف لے جاتے.( بخاری ) 10 بیماری میں بھی نماز ضائع نہ ہونے دیتے.ایک دفعہ گھوڑے سے گر جانے کے باعث جسم کا دایاں پہلو شدید زخمی ہو گیا.کھڑے ہو کر نماز ادا نہ فرما سکتے تھے.بیٹھ کر نماز پڑھائی مگر با جماعت نماز میں ناغہ پسند نہ فرمایا.( بخاری ) 11 سفر میں بھی نماز کا خاص اہتمام ہوتا تھا.روایات حدیث کے مطابق زندگی بھر میں صرف دو مواقع ایسے آئے کہ جن میں بعض صحابہ کو رسول کریم کی غیر موجودگی میں نماز پڑھانے کی نوبت آئی.ایک موقعہ وہ تھا جب آنحضرت بنی عمرو بن عوف میں مصالحت کے لئے تشریف لے گئے.اور جیسا کہ ہدایت فرما گئے تھے تاخیر کی صورت میں کچھ انتظار کے بعد حضرت ابو بکر نے حضرت بلال کی درخواست پر نماز پڑھانی شروع کی.اتنے میں آپ تشریف لے آئے.حضرت ابو بکر پیچھے ہٹ گئے اور آپ نے خود امامت کروائی.(ابوداؤد )12 دوسرا موقع وہ ہے جب ایک سفر میں آپ قافلے سے پیچھے رہ گئے تو حضرت عبدالرحمان بن عوف نے نماز فجر قضا ہونے کے اندیشہ سے شروع کروائی اور آپ پیچھے سے آکر شامل ہو گئے.آپ نے بر وقت نماز ادا کرنے پر صحابہ سے اظہار خوشنودی فر مایا.(مسلم )13
اسوہ انسان کامل 84 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل نبی کریم نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر مدینہ سے یہود بنی قریظہ کے قلعوں کی طرف روانہ ہوتے ہوئے صحابہ کو یہ ہدف دیا کہ عصر کی نماز بنو قریظہ جا کر ادا کی جائے.( بخاری ) 14 یوں آپ نے حالت سفر میں بھی نماز کی حفاظت کا پیشگی انتظام فرما کر اپنے صحابہ کو ایک سبق دیا.سفر میں جدھر سواری کا رخ ہوتا رسول کریم علیہ اسی طرف منہ کر کے نفل نماز سواری پر ادا فرمالیتے تھے.(ابو داؤد 15 ) تاہم فرض نمازیں ہمیشہ قافلہ روک کر با جماعت قصر اور جمع کر کے ادا کرتے.( بخاری 16 ) بارش کی صورت میں بعض دفعہ آپ نے سواری کے اوپر بھی فرض نماز ادا کی ہے.(ترمذی) 17 ایک سفر میں رات کے آخری حصہ میں پڑاؤ کرتے ہوئے حضرت بلال کی ڈیوٹی فجر کی نماز میں جگانے پر لگانی گٹھی مگرا ان پر نیند غالب آگئی.دن چڑھے سب کی آنکھ کھلی.فجر کی نماز میں تاخیر ہو چکی تھی.پریشانی کے عالم میں رسول اللہ نے اس جگہ مزید رکنا بھی پسند نہیں فرمایا جہاں نما ز ضائع ہوئی اور آگے جا کر نماز ادا کی.( بخاری ) 18 رسول کریم جنگ کے ہنگامی حالات میں بھی نماز کی حفاظت کا خاص خیال رکھتے تھے.غزوہ بدر سے پہلے اپنی جھونپڑی میں نماز کی حالت میں گریہ وزاری کر رہے تھے اور تین سو تیرہ عبادت گزاروں کا واسطہ دے کر دراصل آپ نے دعاؤں کے ذریعہ اس کو ٹھری میں ہی یہ جنگ جیت لی تھی.غزوہ احد کی شام جب لوہے کے خود کی کڑیاں دائیں رخسار میں ٹوٹ جانے سے بہت سا خون بہہ چکا تھا.آپ زخموں سے نڈھال تھے اور ستر صحابہ کی شہادت کا زخم اس سے کہیں بڑھ کر اعصاب شکن تھا.اس روز بھی آپ حضرت بلال کی نداء پر نماز کیلئے اسی طرح تشریف لائے جس طرح عام دنوں میں تشریف لاتے تھے اور چشم فلک نے قیام عبادت کا ایسا حیرت انگیز نظارہ دیکھا جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہوگا.(واقدی)19 غزوہ احزاب میں دشمن کے مسلسل حملہ کے باعث عصر کی نماز وقت پر ادا نہ ہوسکی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.وہی رسول خدا جو طائف میں دشمن کے ہاتھوں سے لہولہان ہو کر بھی ان کی ہدایت کی دعا کرتے ہیں.نماز کے ضائع ہونے پر بے قرار ہو کر فرماتے تھے.خدا ان کو غارت کرے انہوں نے ہمیں نماز سے روک دیا.پھر حضور نے اصحاب کو اکٹھا کیا اور نمازیں ادا کروائیں.( بخاری ) 20 رسول کریم ﷺ نماز با جماعت کے اہتمام کا اس قدر خیال تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر شہر کے ایک جانب مسجد الحرام سے کافی فاصلے پر قیام کے باوجود آپ با قاعدہ تمام نمازوں کی ادائیگی کے لئے حرم تشریف لاتے رہے.جنگوں کے دوران خطرے اور خوف کی حالت میں بھی آپ نے نماز نہیں چھوڑی بلکہ اس حال میں صحابہ کو اس طرح نماز پڑھائی کہ ایک گروہ دشمن کے سامنے رہا اور دوسرے نے آپ کے ساتھ نصف نماز ادا کی.پھر پہلے گروہ نے آکر
اسوہ انسان کامل 85 حق بندگی ادا کرنے والا....عبد کامل نماز پڑھی.یوں آپ نے سبق دیا کہ موت کے بڑے سے بڑے خطرے میں بھی نماز ترک نہیں کی جاسکتی یہ رخصت دے دی کہ سواری پر یا پیدل یا چلتے ہوئے بھی اشارے سے نماز ادا کی جاسکتی ہے.( بخاری ) 21 آخری بیماری میں رسول کریم تپ محرقہ کے باعث شدید بخار میں مبتلا تھے مگر فکر تھی تو نماز کی گھبراہٹ کے عالم میں بار بار پوچھتے ، کیا نماز کا وقت ہو گیا ؟ بتایا گیا کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں.بخار ہلکا کرنے کی خاطر فرمایا کہ میرے اوپر پانی کے مشکیزے ڈالو تعمیل ارشاد ہوئی مگر پھر غشی طاری ہو گئی.ہوش آیا تو پھر پوچھا کہ کیا نماز ہوگئی ؟ جب پتہ چلا کہ صحابہ انتظار میں ہیں تو فرمایا مجھ پر پانی ڈالو جس کی تعمیل کی گئی.غسل سے بخار کچھ کم ہو تو تیسری مرتبہ نماز پر جانے لگے مگر نقاہت کے باعث نیم غشی کی کیفیت طاری ہو گئی اور آپ مسجد تشریف نہ لے جاسکے.(بخاری، ترمذی) 22 بخار میں پھر جب ذرا افاقہ ہوا تو اسی بیماری اور نقاہت کے عالم میں دو صحابہ کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر ، انکا سہارا لے کر رسول اللہ نماز پڑھنے مسجد گئے.حالت یہ تھی کہ کمزوری سے پاؤں زمین پر گھسٹتے جارہے تھے.حضرت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے.آپ نے اُن کے بائیں پہلو میں امام کی جگہ بیٹھ کر نماز پڑھائی.اور یوں آخر دم تک خدا کی عبادت کا حق ادا کر کے دکھا دیا.( بخاری ) دنیا میں رسول اللہ یہ کی آخری خوشی بھی نماز کی ہی خوشی تھی ، جب آپ نے سوموار کے دن ( جس روز دنیا سے کوچ فرمایا) فجر کی نماز کے وقت اپنے حجرے کا پردہ اٹھا کر دیکھا تو صحابہ موعبادت تھے.اپنے غلاموں کو نماز میں دیکھ کر آپ کا دل سرور سے بھر گیا.خوشی سے چہرے پر تبسم کھیلنے لگا.( بخاری ) 24 23 آپ نے بیچ ہی تو فرمایا کہ ” میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے.ایسے اہتمام سے ادا کی جانیوالی نمازیں محبت الہی اور خشوع و خضوع سے کیسی بھری ہوئی ہوتی ہونگی.(اس کا تفصیلی نقشہ رسول اللہ کی خشیت کے زیر عنوان بیان کیا گیا ہے ) نماز تہجد نبی کریم ﷺ کی با جماعت فرض نمازیں نسبتا مختصر ہوتی تھیں تا کہ کمزور ، بیمار، بچے، بوڑھے اور مسافر کیلئے بوجھ نہ ہو لیکن تنہائی میں آپ کی نفل نمازوں کی شان تو بہت نرالی تھی.فرماتے تھے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ بدستوراللہ کے قریب ہوتا جاتا ہے.یہاں تک کہ خدا اس کے ہاتھ پاؤں اور آنکھیں ہو جاتا ہے.بلاشبہ محبت الہی اور فنافی اللہ کا یہ مقام آپ نے حاصل کر کے ہمیں خوبصورت نمونہ دیا.تہجد کی نماز رسول اللہ کی روح کی غذا تھی.فرماتے تھے کہ اللہ نے ہر نبی کی ایک خواہش رکھی ہوتی ہے اور میری دلی خواہش رات کی عبادت ہے.(طبرانی) 25 ابتدا میں آپ رات کے وقت تیرہ یا گیارہ رکعتیں (بمعہ وتر ) ادا فرماتے اور آخری عمر میں کمزوری کے باعث نو
86 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل اسوہ انسان کامل رکھتیں پڑھتے رہے.اگر کبھی رات کو اتفاقا آنکھ نہ کھلتی تو دن کے وقت بارہ رکعتیں ادا کر کے اس کی تلافی فرماتے.حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر چکی ہوتی تو آپ بآواز بلند فرماتے ”لوگو! خدا کو یاد کر و زلزلہ قیامت آنے والا ہے.اس کے پیچھے آنے والی گھڑی سر پر ہے.موت اپنے سامان کے ساتھ آ پہنچی ہے.موت اپنے سامان کے ساتھ آ پہنچی ہے.“ ( ترمذی )26 رات کے وقت آپ کی نماز بہت لمبی ہوتی.نسبتا لمبی سورتیں تلاوت کرنا پسند فرماتے.حضرت عائشہ سے رسول اللہ کی نماز (تہجد) کی کیفیت پوچھی گئی.آپ نے فرمایا.حضور رمضان یا اس کے علاوہ دنوں میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہ پڑھتے تھے مگر وہ اتنی لمبی ، پیاری اور حسین نماز ہوا کرتی تھی کہ اس نماز کی لمبائی اور حسن و خوبی کے متعلق مت پوچھو! یعنی میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے آپ کی اس خوبصورت عبادت کا نقشہ کھینچ سکوں.( بخاری ) 27 نوجوان صحابہ کو حضور کی عبادت دیکھنے کا بہت شوق تھا.رسول اللہ کے عم زاد اور حضرت میمونہ کے بھانجے حضرت عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں.”میں ایک رات رسول اللہ کے گھر ٹھہرا.نصف رات یا اس سے کچھ پہلے آپ بیدار ہوئے.چہرے سے نیند زائل کی.آلِ عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں.پھر گھر میں لٹکے ہوئے مشکیزہ سے نہایت عمدہ طریق پر وضوء کیا اور نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو گئے.میں جا کر بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا.آپ نے مجھے کان سے پکڑ کر دائیں طرف کر دیا.آپ نے تیرہ رکعتیں ادا فرمائیں.“ (بخاری) 28 نبی کریم ﷺ نے اپنے اس عمل سے ایک نوجوان کی عملی تربیت بھی فرما دی کہ اکیلا مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہئے.29 حضرت عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی.آپ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی.آپ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرتے مگر رک کر پناہ مانگتے.پھر قیام کے برابر آپ نے رکوع فرمایا.جس میں تسبیح وتحمید کرتے رہے.پھر قیام کے برابر سجدہ کیا.سجدہ میں بھی یہی تسبیح ، دعا پڑھتے رہے.پھر کھڑے ہو کر آل عمران پڑھی.پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے.(ابوداؤد) حضرت حذیفہ بن یمان ( رسول اللہ ﷺ کے راز دار صحابی) فرماتے ہیں کہ انہوں نے رمضان میں ایک رات رسول اللہ کے ساتھ نماز ادا کی.نماز شروع کرتے ہوئے آپ پڑھ رہے تھے.اللَّهُ اَكْبَرُدُ وَالمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالعَظمَةِ یعنی اللہ بڑا ہے جو اقتدار اور سطوت کبریائی اور عظمت والا ہے.پھر آپ نے سورۃ بقرہ (مکمل) پڑھی ، پھر رکوع فرمایا، جو قیام کے برابر تھا، پھر رکوع کے برابر وقت کھڑے ہوئے ، پھر سجدہ کیا جو قیام کے برابر تھا.پھر دونوں سجدوں کے درمیان رَبِّ اغْفِرْ لِي رَبِّ اغْفِرْ لِی میرے
اسوہ انسان کامل 87 حق بندگی ادا کرنے والا....عبد کامل رب مجھے بخش دے کہتے ہوئے اتنی دیر بیٹھے جتنی دیر سجدہ کیا تھا.دوسری رکعتوں میں آپ نے آل عمران، نساء، مائدہ، انعام وغیرہ طویل سورتیں تلاوت فرمائیں.(ابوداؤد ) 30 ام المومنین حضرت سودا نہایت سادہ اور نیک مزاج تھیں، ایک رات انہوں نے بھی اپنی باری میں نبی کریم ہے کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کا ارادہ کیا اور حضور کے ساتھ جا کر نماز میں شامل ہوئیں، نامعلوم کتنی نماز ساتھ ادا کر پائیں.مگر اپنی سادگی میں دن کو رسول کریم کے سامنے اس لمبی نماز پر جو تبصرہ کیا اس سے حضور بہت محظوظ ہوئے.کہنے لگیں یا رسول اللہ !ارات آپ نے اتنا لمبا رکوع کروایا کہ مجھے تو لگا تھا جھکے جھکے کہیں میری نکسیر ہی نہ پھوٹ پڑے.“ حضور ( جن کی ہر رات کی نماز ہی ایسی لمبی ہوتی تھی ) یہ تبصرہ بن کر خوب مسکرائے.( ابن حجر ) 31 بسا اوقات رسول کریم ساری ساری رات عبادت میں گزار دیتے.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ” میں نے رسول اللہ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی.آپ اتنی دیر ( نماز میں) کھڑے رہے کہ میں نے ایک بُری بات کا ارادہ کر لیا.پوچھا گیا کہ کیا ارادہ تھا؟ فرمایا ” میں نے سوچا کہ رسول اللہ کو چھوڑ کر بیٹھ جاؤں.“ ( بخاری ) 32 حضرت ابوذر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ایک رات نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ساری رات ایک ہی آیت قیام، رکوع اور سجود میں پڑھتے رہے.یہاں تک کہ صبح ہوگئی.ابوذر سے پوچھا گیا کہ وہ کون سی آیت تھی.فرمایا یہ آیت : إِنْ تُعَذِّبُهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادَكَ وَإِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المائدة: 119) خدایا! اگر تو انہیں عذاب دے گا تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو بہت غالب اور بڑی حکمتوں والا خدا ہے.(نسائی) 33 سبحان اللہ! خدا اور اس کے رسول کے دشمن آرام کی نیند سور ہے ہیں اور خدا کا پیارا رسول بے قرار ہو کر گڑ گڑا کر بارگاہ ایزدی میں ان کی مغفرت کا ملتی ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آخری عمر میں جب حضور کے بدن میں کچھ موٹاپے کے آثار ظاہر ہوئے.تو بیٹھ کر تہجد ادا کرتے اور اس میں لمبی تلاوت فرماتے.جب سورت کی آخری تمہیں یا چالیس آیات رہ جاتیں تو کھڑے ہو کر تلاوت کرتے پھر سجدے میں جاتے.( بخاری )34 حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں.آپ کچھ دیر سوتے پھر اٹھ کر نماز میں مصروف ہوتے پھر سو جاتے پھر اُٹھ بیٹھتے اور نماز ادا کرتے.غرض صبح تک یہی حالت جاری رہتی.(ترمذی) 35 حمد باری یہ نماز میں بھی یاد الہی اور اللہ کی حمد سے خوب لبریز ہوتی تھیں اور اس پہلو سے اللہ کی حمد کرنے میں آپ کی ایک اور سبقت کی شان بھی کھل کر سامنے آتی ہے ، جیسا کہ آپ کا نام ”احمد“ بھی تھا واقعی آپ اسم بامسمی تھے.اللہ کی حمد وستائش
اسوہ انسان کامل 88 حق بندگی ادا کرنے والا....عبد کامل روئے زمین پر اس شان سے کب ہوئی ہوگی جو آپ نے کر دکھائی.آپ اپنی نفل نماز کا آغاز تسبیح و تحمید سے کرتے اور اس کے لئے ایسے الفاظ کا انتخاب فرماتے کہ جن کو سوچ کر آج بھی روح وجد میں آجاتی ہے.تسبیح وتحمید کے یہ ننے اور ترانے جو کبھی حراء کی تنہائیوں میں الاپے اور مکہ اور مدینہ کی خلوتوں میں آپ نے اپنے محبوب حقیقی سے سوز و گداز میں ڈوبی کیا کیا سرگوشیاں کیں یہ تو احادیث کا ایک طویل باب ہیں.آپ نماز تہجد کا آغاز ہی ” اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ سے کرتے کہ سب تعریف تیرے لئے ہے ( بخاری ) 36 پھر رکوع سے کھڑے ہوتے تو عرض کرتے "اے اللہ تیری اتنی تعریفیں کہ جن سے آسمان بھر جائے...اور اتنی تعریفیں کہ زمین بھی ان سے بھر جائے...اور اتنی حمد کہ آسمان و زمین کے بعد جو تو چاہے وہ بھی بھر جائے اے تعریف اور بزرگی کے لائق.(مسلم) 37 کوئی ہے جو اس ایک حمد سے ہی بڑھ کر کوئی حمد پیش کر سکے؟ نماز میں خشوع کبھی گھر کے لوگ سو جاتے تو رسول کریم چپ چاپ بستر سے اٹھتے اور دعا ومناجات الہی میں مصروف ہو جاتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات جو میری آنکھ کھلی تو آپ کو بستر پر نہ پایا.میں مجھی کہ آپ کسی اور بیوی کے حجرے میں تشریف لے گئے ہیں.اندھیرے میں ادھر ادھر ٹولا تو دیکھا کہ پیشانی مبارک خاک پر ہے اور آپ سر بسجود مصروفِ دعا ہیں.سُبْحَانَكَ وَ بِحَمْدِكَ لَا إِلَهُ إِلَّا أَنتَ - اے اللہ! تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ.تیرے سوا کوئی معبود نہیں.فرماتی ہیں یہ دیکھ کر مجھے اپنے شبہ پر ندامت ہوئی اور دل میں کہا.سبحان اللہ! میں کس خیال میں ہوں اور خدا کا رسول کس عالم میں ہے.(نسائی) 38 رات کے وقت جب سارا عالم محو خواب ہوتا لوگ میٹھی نیند سور ہے ہوتے.آپ چپکے سے بستر چھوڑ کر بعض دفعہ سنسان قبرستان میں چلے جاتے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا میں مصروف ہو جاتے.ایک دفعہ حضرت عائشہ تجس کیلئے پیچھے گئیں تو آپ جنت البقیع میں کھڑے دعا مانگ رہے تھے.اپنے رب سے محوراز و نیاز تھے.حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تم نے یہ کیوں سوچا کہ خدا کا رسول تم پر ظلم کرے گا.(یعنی تمہاری باری میں کہیں اور کیسے جا سکتا تھا ) پھر فرمایا مجھے جبریل نے آکر تحریک کی کہ اہل بقیع کی بخشش کی دعا کروں اور میں نے خیال کیا تم سوگئی ہو اس لئے جگانا نا مناسب سمجھا.(نسائی) 39 حضرت عائشہ کی ایک اور روایت ہے کہ ایک رات میری باری میں باہر تشریف لے گئے.کیا دیکھتی ہوں کہ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہ رہے ہیں سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَ خِيَالِی وَ آمَنَ لَكَ فُؤَادِي رَبِّ هَذِهِ يَدَايَ وَمَا جَنَيْتُ بِهَا عَلَى نَفْسِى يَا عَظِيمًا يُرْجَى لِكُلِّ عَظِيمٍ اغْفِرَ الذَّنْبَ الْعَظِيم (سیمی ) 40 (اے اللہ ) تیرے لئے میرے جسم و جاں سجدے میں ہیں.میرا دل تجھ پر ایمان لاتا ہے.اے میرے رب ! یہ
89 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل اسوہ انسان کامل میرے دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے.اے عظیم ! جس سے ہر عظیم بات کی اُمید کی جاتی ہے.عظیم گناہوں کو تو بخش دے.پھر فرمایا اے عائشہ! جبریل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کیلئے کہا ہے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو.جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سراٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے.“ عبادت سے محبت رسول کریم کو اپنے رب کی عبادت ہر دوسری چیز سے زیادہ عزیز تھی.اپنی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ کے ہاں نویں دن باری آتی تھی.ایک دفعہ موسم سرما کی سرد رات کو ان کے لحاف میں داخل ہو جانے کے بعد ان سے فرماتے ہیں کہ عائشہ ! اگر اجازت دو تو آج رات میں اپنے رب کی عبادت میں گزار دوں وہ بخوشی اجازت دیتی ہیں اور آپ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دیتے ہیں.( سیوطی ) 41 نماز میں رسول کریم کی خشوع و خضوع کا یہ عالم ہوتا تھا کہ روتے ہوئے سینے سے ہنڈیا اُبلنے کی طرح آواز آتی تھی.( احمد )42 راتوں کی عبادت کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے بجاطور پر آپ کی یہ تعریف کی کہ يَبيتُ يُجَافِي جَنْبَهِ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِينَ الْمَضَاجِعُ کہ آپ اس وقت بستر سے الگ ہو کر رات گزار دیتے ہیں جب مشرکوں پر بستر کو چھوڑ نا نیند کی وجہ سے بہت بوجھل ہوتا ہے.( بخاری )43 رمضان المبارک میں عبادت کا اہتمام عبادات اور دعا ئیں تو آپ کا عام معمول تھا.رمضان کے مہینہ میں آپ کی عبادات میں بہت اضافہ ہو جاتا.خصوصاً رمضان کے آخری عشرہ کے اعتکاف میں تو بہت زیادہ عبادت کرتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.”جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ کمر ہمت کس لیتے.بیدار رہ کر راتوں کو زندہ کرتے ، خود بھی عبادت کرتے ، اہل بیت کو بھی جگاتے.اس آخری عشرہ میں آپ اعتکاف بھی فرماتے.“ (بخاری) 44 آنحضور سارا وقت خدا کے گھر میں بیٹھ کر یاد الہی اور عبادت میں مصروف رہتے.حضرت انس کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم کچھ بیمار تھے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آج کچھ بیماری کا اثر آپ پر نمایاں ہے.فرمانے لگے اس کمزوری کے باوجود آج رات میں نے طویل سورتیں نماز تہجد میں پڑھی ہیں.( ابن الجوزی) 45 صحابہ کرام رسول اللہ کی کثرت عبادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ اس قدر لمبی نمازیں پڑھتے اور اتنا
اسوہ انسان کامل 90 حق بندگی ادا کرنے والا....عبد کامل طویل قیام فرماتے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے.آپ سے عرض کی گئی کہ اس قدر مشقت کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ آپ کی بخشش کا اعلان فرما کر آپ کو معصوم و بے گناہ قرار دے چکا ہے تو آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا میں اس نعمت پر ) عبادت گزار اور شکر گزار انسان نہ بنوں؟ ( بخاری ) 46 عبادت الہی کی خاطر آرام طلبی ہرگز پسند نہ تھی.ایک رات حضرت حفصہ نے آنحضرت کے بستر کی چار نہیں کردیں صبح آپ نے فرمایا ” رات تم نے کیا بچھایا تھا.اسے اکہرا کردو اس نے مجھے نماز سے روک دیا ہے.“ (ترمذی) 47 قرآن کی تلاوت اور ذکر الہی بھی ایک عبادت ہے.نبی کریم کو تلاوت کلام پاک سے بھی خاص شغف تھا.روزانہ سورتوں کی مقررہ تعداد عشاء کے وقت تلاوت فرماتے ، پچھلی رات بیدار ہوتے تو کلام الہی زبان پر جاری ہوتا.(عموماً آل عمران کا آخری رکوع تلاوت فرمایا کرتے ) رات کے وقت نماز میں نہایت وجد اور ذوق و شوق سے ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کبھی پوری رات آپ قیام فرماتے.سورہ بقرہ ، آل عمران اور سورہ نساء تلاوت کرتے.جب کوئی عذاب کی آیت آئی تو خدا سے پناہ طلب کرتے اور جب کوئی رحمت کی آیت آتی تو اس کے لئے دعا کرتے.“ ( نسائی) 48 مزید تفصیل ملاحظہ ہوز بر عنوان قرآن کریم سے عشق اور حمد و شکر و ذکر الہی.روزہ کی عبادت روزے رکھنا سنت انبیاء ہے.نبی کریم بھی روزہ کی عبادت کا خاص اہتمام فرماتے تھے.نبوت سے قبل عربوں کے دستور کے مطابق دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے.نبوت کے بعد بھی مکہ میں آپ کئی مہینوں تک یہ روزہ رکھتے رہے.مدینہ آ کر بھی روزہ رکھا یہاں تک کہ رمضان کے روزے فرض ہوئے.رمضان کے علاوہ مدینہ میں آپ شعبان کا اکثر مہینہ روزے رکھتے تھے.( بخاری 49 سال کے باقی مہینوں میں یہ کیفیت رہتی کہ روزہ رکھنے پر آتے تو معلوم ہوتا کہ آپ کبھی روزہ نہ چھوڑیں گے.پھر روزے رکھنے چھوڑ دیتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ پھر نہیں رکھیں گے.( بخاری ) 50 ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ پندرہ تاریخ کا روزہ بھی نہیں چھوڑتے تھے.(نسائی ) 51 مہینہ کے نصف اول میں اکثر روزے رکھتے اور مہینہ میں تین دن معمولاً روزہ رکھتے.بالعموم مہینہ کے پہلے سوموار اوراگلے دونوں جمعرات کے دن.( مسلم )52 آپ فرمایا کرتے تھے کہ سوموار اور جمعرات کو اعمال ( خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرے عمل اس حالت میں پیش ہوں کہ میں روزہ دار ہوں.(ترمذی) 53
اسوہ انسان کامل 91 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل اس کے علاوہ آپ نویں ذوالحجہ کا روزہ بھی رکھتے تھے.(مسلم) 54 عام حالات میں رسول اللہ بھی گھر تشریف لاتے پوچھتے کچھ کھانے کو ہے.جواب ملتا کچھ نہیں.فرماتے تو میں آج روزہ ہی رکھ لیتا ہوں.( ترندی) 55 کبھی کبھی ”صوم وصال بھی رکھتے یعنی متواتر کئی دن تک روزے، درمیان میں افطار نہ کرتے تھے لیکن صحابہؓ کو آپ نے اس سے روکا اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کھلا پلا دیتا ہے.( بخاری ) 56 رمضان کی ایک اور اہم عبادت اعتکاف ہے.دعویٰ نبوت سے قبل بھی رسول کریم کو تنہائی میں جاکر اللہ کو یاد کرنے کا شوق تھا.چنانچہ غار حراء میں جا کر اعتکاف فرماتے بعد کے زمانے میں رمضان کی فرضیت کے بعد پہلے درمیانی عشرہ اور آخری عشرہ تک اعتکاف فرماتے رہے.(بخاری) 57 جس میں آپ غیر معمولی عبادت کی توفیق پاتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں نبی کریم اپنی کمر ہمت کس لیتے تھے.اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور عبادت الہی میں گزارتے تھے.اور گھر والوں کو بھی جگا کر عبادت کے لئے تحریک فرماتے تھے.اور اتنی محنت اور مجاہدہ آخری عشرہ میں فرماتے تھے کہ اتنا اہتمام کسی اور زمانہ میں نہیں ہوتا تھا.(مسلم ) 58 رسول کریم کی عبادت کا معراج حج بیت اللہ کے موقع پر بھی دیکھا گیا جب آپ محض جانوروں کی قربانی ہی خدا کی راہ میں نہیں گزارتے تھے.کفن کے لباس کی طرح محض دو چادروں کا لباس اوڑھ کر ننگے سر دیوانہ وارا اپنے رب کریم کے پاک گھر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے.یہ وہ وقت تھا جب آپ کے جسم کے ساتھ آپ کی روح بھی اس طواف میں برابر کی شریک ہوتی تھی اور عبادت کا نقطۂ معراج حاصل ہوتا.اگر چہ آپ کی ساری زندگی ہی ہمہ تن عبادت تھی.1 بخاری (8) كتاب الصلاة باب 1 حواله جات 2 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 235 مطبوعه مصر 3 السيرة النبوية لاهشام جز1 ص 243 مطبوعه مصر 4 ترمذی (2) کتاب الصلوة باب 113 5 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 77
اسوہ انسان کامل 6 بخاری (4) کتاب الوضوء باب 69 92 بخاری(12) کتاب سترة المصلى باب 19 بخاری (68) كتاب التفسير سورة المؤمن باب 300 9 ابوداؤد (1) کتاب الطهارة باب 75 10 بخاری (25) كتاب التهجد باب 15 11 بخاری (78) کتاب المرضى باب 12 12 ابوداؤد(2) کتاب الصلوة باب 175 13 مسلم(5) كتاب الصلاة باب 22 14 بخاری (67) کتاب المغازی باب 28 15 ابوداؤد (4) کتاب صلاة السفر باب 8 16 بخاری (24) ابواب تقصير الصلوة باب 1 17 ترمذی(2) کتاب الصلوة باب 303 18 بخاری (13) كتاب المواقيت الصلوة باب 34 19 فتوح العرب في شروع الحرب ص 387 از واقدى 20 بخاری(67) کتاب المغازی باب 27 21 بخاری (68) كتاب التفسير سورة البقرة باب 46 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل 22 بخاری (67) كتاب المغازى باب 78 ، ترمذی (1) کتاب الطهارة باب 112 23 بخاری (67) كتاب المغازى باب 78 24 بخاری (67) کتاب المغازی باب 78 25 المعجم اللكبير لطبرانی جلد 12 ص84 26 ترمذی (38) کتاب صفة القيامة باب 23 27 بخاری (25) کتاب التهجد باب 16 28 بخاری (4) کتاب الوضوء باب 35 29 ابوداؤد (2) کتاب الصلوة باب 153 30 ابوداؤد(2) کتاب الصلوة باب 153 31 الاصابه في تمييز الصحابة ابن حجر جلد 7 ص 721 32 بخاری (25) كتاب التهجد باب 9
اسوہ انسان کامل 93 33 نسائی کتاب الافتتاح باب ترديد الاية 34 بخاری (24) كتاب تفسير الصلاة باب 20 35 ترمذی(46) کتاب فضائل القرآن باب 23 36 بخاری (83) کتاب الدعوات باب 10 37 مسلم(5) كتاب الصلوة باب 40 38 نسائی کتاب عشرة النساء باب لغيره 39 نسائی کتاب عشرة النساء باب لغيره 40 مجمع الزوائد هيثمى جلد 2ص314 مطبوعه بيروت 41 الدر المنشور في تفسير الماثور جلد 6ص27 مطبوعه بيروت 42 مسند احمد جلد 4 ص 26 مطبوعه مصر 43 بخاری (25) کتاب التهجد باب 20 44 بخاری (37) کتاب صلاة التراويح باب 6 45 الوفاء باحوال المصطفى ابن الجوزي ص511 بيروت 46 بخاری (68) کتاب التفسير باب 324 47 الشمائل النبويه الترمذى باب ماجاء في فراش رسول الله 48 نسائى كتاب الافتتاح باب مسألة القارى اذا مربآية رحمة 49 بخاری (36) كتاب الصوم باب 51 50 بخاری (36) كتاب الصوم باب 51 51 نسائی کتاب الصيام باب صوم النبي 52 مسلم (14) كتاب الصيام باب 36 53 ترمذی (6) كتاب الصيام باب 44 54 مسلم (15) کتاب الاعتكاف باب 4 55 ترمذی(6) كتاب الصوم باب 35 56 بخاری (36) كتاب الصوم باب 20 57 بخاری (38) کتاب الاعتكاف باب 1 58 مسلم(15) كتاب الاعتكاف باب 3 حق بندگی ادا کر نے والا....عبد کامل
اسوہ انسان کامل 94 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی قرآن شریف نے جس خالق کا ئنات اور قادر مطلق ہستی کا ہمیں پتہ دیا ہے، وہ بادشاہ بھی ہے غمنی بھی ، جبار قہار اور متکبر بھی اس عظیم ہستی کے سامنے انسان وہ عاجز مخلوق ہے.جو ہر لحظہ اس کا محتاج ہے.اللہ تعالیٰ نے اسے اَحْسَنِ تقویم یعنی بہترین صورت میں اپنی فطرت پر پیدا کیا اور اس کی پیدائش کا مقصد عبودیت ٹھہرایا.اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فضل شامل حال نہ ہو تو انسان فطرت صحیحہ کو چھوڑ کر شیطانی راہوں میں بھٹک جاتا اور أَسْفَلَ السَّافِلِينَ یعنی ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے.یہ وہ خوف ہے جو ایک ذی شعور انسان کو بے چین کر دینے کے لئے کافی ہے.خدا کی ذات پر ایمان کے نتیجہ میں یہ خوف زائل ہوتا اور امید ورجاء کا بندھن مضبوط ہوتا ہے اس لئے ایمان وہی قابل تعریف قرار دیا گیا ہے جو خوف و رجاء کے درمیان ہو.انسان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ہمیشہ در مولیٰ سے چمٹا رہے اور لرزاں وتر ساں اسی کے حضور جھکا ر ہے اور اس کی ناراضگی کے خوف سے ڈرتے ہوئے زندگی گزار دے اس کا نام تقویٰ ہے اور اسی میں انسان کی نجات ہے.رسول کریم نے فرمایا دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوٹے گی ایک وہ آنکھ جواللہ کی خشیت میں روئے اور دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں حفاظت کرتے ہوئے بیدا ر ر ہے.(ترمندی )1 حقیقی خشیت یہی ہے کہ انسان محض اللہ تعالیٰ سے ڈرے لا الہ الا اللہ اور کامل توحید کا بھی یہی مطلب ہے.ایک دفعہ رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھے انہوں نے کہا یا رسول اللہ وہ کیسے ؟ آپ نے فرمایا اس طرح کہ کسی دینی بات یاللہی کام میں وہ کوئی خامی یا خرابی محسوس کرتا ہے مگر اس پر وہ خاموش رہتا ہے.اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز پوچھے گا تم نے کیوں اپنی رائے کا اظہار نہ کیا وہ کہے گا لوگوں کے ڈرسے ایسا نہ کیا.اللہ فرمائے گا لوگوں کی نسبت میں اس بات کا زیادہ مستحق تھا کہ تم مجھ سے ڈرتے.(ابن ماجہ )2 رسول کریم نے اپنے صحابہ میں خشیت الہی کی صفت پیدا کرنے کے لئے ایک دفعہ انہیں یہ کہانی سنائی کہ ایک شخص نے بوقت موت اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ میری وفات کے بعد لکڑیاں جمع کر کے آگ جلانا جب میں جل کر راکھ ہو جاؤں تو میری خاک سمندر میں ڈال دینا.اولاد نے اس کی وصیت پر عمل کیا.اللہ تعالیٰ نے اس کی خاک جمع کی اور اس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کہا؟ اس نے عرض کیا اے میرے رب ! تیرے ڈر اور خوف سے ایسا کیا.اللہ تعالیٰ نے یہ جواب سن کر اسے بخش دیا.( بخاری )3
اسوہ انسان کامل 95 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی سب سے بڑھ کر خداترس ہمارے نبی ﷺ اول المؤمنین تھے اس لئے سب سے بڑھ کر اپنے مولیٰ کی خشیت آپ میں تھی جس کی وجہ سے آپ ہمیشہ لرزاں وتر ساں رہتے تھے.ہر چند کہ خدا کی طرف سے پہلی وحی آپ پر ایک عظیم روحانی انعام تھا.مگر آپ کے لئے یہ بھی مقام خوف تھا اس لئے حضرت خدیجہ سے آکر فرمایا لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِی (بخاری (4) مجھے تو اتناڈر پیدا ہوا ہے کہ اپنی جان کے لالے پڑ گئے ہیں.یہ ذمہ داری کا احساس بھی تھا اور انتہائی خشیت کا اظہار بھی.ایک دفعہ بعض صحابہ نے دنیا سے بے رغبتی کے اظہار کے طور پر عمر بھر شادی نہ کرنے ،ساری ساری رات عبادت کرنے اور ہمیشہ روزہ رکھنے کے عہد کئے.رسول کریم نے انہیں اس بات سے روکا اور اپنے نمونہ پر چلنے کی طرف توجہ دلائی نیز فرمایا دیکھو میں نے شادی بھی کی ہے ، رات سوتا بھی ہوں ، عبادت بھی کرتا ہوں، روزے رکھتا بھی ہوں اور اس میں ناغہ بھی کرتا ہوں.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کی کیا بات آپ تو اللہ کے رسول ہیں.ان کا مطلب تھا ہم کمزور اور گناہگار ہیں ہمیں زیادہ نیکیوں کی ضرورت ہے.تب آپ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ اِن أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ آنَا ( بخاری ) کہ تم میں سب سے زیادہ اللہ کا تقوی اختیار کرنے والا اور اللہ کی معرفت رکھنے والا میں ہوں.گویا سب سے زیادہ عمل کی مجھے ضرورت ہے اور نجات کے لئے میرے نمونہ کی پیروی تم پر لازم ہے اور یہی امر واقعہ ہے کہ ہمارے نبی ہی سب سے زیادہ خدا ترس انسان تھے.نبی کریم اکثر اپنی دعاؤں میں یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ یا مُقَلبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ.اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر جمادے اور مضبوط کر دے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ بھی یہ دعا کرتے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے رسول ہیں ( اور ہمیں ہدایت دینے والے) فرمایا ہاں ! دل تو رحمان خدا کی دوانگلیوں کے درمیان ہوتا ہے وہ جیسے چاہے اس کو پھیر دے.(ترندی) 6 آنحضور کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کوکھول کر سنادیا کہ تمہارے عمل ہی تمہارے کام آئیں گے، میں یا میرے ساتھ تمہارا رشتہ کچھ کام نہیں آئے گا.(بخاری 7) آپ فرماتے تھے کہ اللہ کی رحمت اور فضل نہ ہو تو میں بھی اپنی بخشش کے بارہ میں قطعیت سے کوئی دعوی نہیں کر سکتا.( بخاری )8 اللہ تعالیٰ کے غناء سے ہمیشہ آپ کو یہ خوف بھی دامنگیر رہتا تھا کہ نیک اعمال خدا کے حضور قبولیت کے لائق بھی ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ قرآن شریف میں ذکر ہے کہ بچے مومن وہ ہیں جو اپنے رب کی خشیت کے باعث ڈرتے رہتے ہیں اور اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں اور یہ لوگ جب دیتے ہیں جو بھی وہ (خدا کی راہ میں ) دیں تو ان کے دل خوف زدہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں.(المؤمنون : 58 61) حضرت عائشہ کے دل میں ان آیات کے بارہ میں ایک سوال پیدا ہوا اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ وہ
اسوہ انسان کامل 96 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی لوگ ہیں جو شراب پیتے ، چوری (وغیرہ گناہ) کرتے اور پھر اللہ سے ڈرتے ہیں.نبی کریم ﷺ تو قرآن کی عملی تفسیر تھے.آپ سے بڑھ کر کون ان آیات کی حقیقت بیان کر سکتا تھا.آپ نے کیا خوب فرمایا اے صدیق کی بیٹی ! یہ وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ، نمازیں پڑھتے اور صدقات دیتے ہیں مگر پھر بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ نیکیاں غیر مقبول ہوکر رڈ ہو جائیں.یہ وہ لوگ ہیں جو نیکیوں میں سبقت کی کوشش کرتے رہتے ہیں.“ (ترمذی) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ مجھے جہنم کی آگ کا خیال آیا تو میں رو پڑی.رسول کریم نے رونے کا سبب پوچھا.میں نے عرض کیا کہ جہنم کی آگ کو یاد کر کے رو پڑی تھی.معلوم ہوتا ہے اسی وقت حضرت عائشہ کو رسول اللہ اور آپ کی شفاعت کا خیال آیا.آپ سے پوچھنے لگیں کیا آپ قیامت کے دن اپنے گھر والوں کو یاد کریں گے.رسول کریم نے فرمایا تین جگہوں پر کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا.ایک تو حساب کے وقت جب تک یہ پتہ نہ چل جائے کہ اس کا پلڑ اہلکا ہے یا بھاری؟ دوسرے اعمال نامہ دیے جانے کے وقت.جب تک یہ علم نہ ہو جائے کہ وہ دائیں ہاتھ میں دیا جاتا ہے یا بائیں یا پیچھے سے اور تیسرے پل صراط کے پاس جو جہنم کے سامنے ہوگی.( احمد ) 10 خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور پکڑ کا خوف آنحضور ہمیشہ اس فکر میں رہتے تھے کہ کہیں آپ کا رحیم و کریم خدا آپ سے ناراض نہ ہو جائے.ایک دفعہ حضور بیمار ہو گئے اور دو یا تین راتیں نماز تہجد کیلئے نہ اُٹھ سکے.حضرت خدیجہ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے خیال میں آپ کے ساتھی (یعنی جبرائیل" ) کے نزول میں کچھ تاخیر ہوگئی ہے.حضور کو بھی طبعا فکر ہوئی ہوگی.چنانچہ سورۃ الضح نازل ہوئی جس میں حضور کو تسلی دیتے ہوئے یہ ارشاد ہے مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلی کہ تیرے رب نے تجھے چھوڑ انہیں اور نہ وہ تجھ سے ناراض ہوا.( بخاری ) 11 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم جب بادل یا آندھی کے آثار دیکھتے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگ تو بادل دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بارش ہوگی.مگر میں دیکھتی ہوں کہ آپ بادل دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں.آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا پتہ کسی آندھی میں ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہوگئی تھی اور ایک قوم (عاد) ایسی گزری ہے جس نے عذاب دیکھ کر کہا تھا کہ یہ تو بادل ہے.برس کر چھٹ جائے گا.مگر وہی بادل اُن پر درد ناک عذاب بن کر برسا.( بخاری )12 قرآن شریف کی جن سورتوں میں عذاب الہی کے نتیجہ میں بعض گزشتہ قوموں کی تباہی کا ذکر ہے.اُن کے مضامین کا حضور کی طبیعت پر بہت گہرا اثر تھا.ایک دفعہ حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کے بالوں میں کچھ سفیدی سی جھلکنے لگی ہے.آپ نے فرمایا ہاں سورۃ ہود، سورۃ الواقعہ، سورۃ المرسلات، سورۃ النبا اور سورۃ التکویر وغیرہ نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے.(ترمذی)13
اسوہ انسان کامل 97 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی ایک دفعہ نبی کریم ایک نوجوان کے پاس تشریف لائے جو جان کنی کے عالم میں تھا.آپ نے فرمایا تمہارا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا خدا کی قسم اے اللہ کے رسول ! میں اللہ سے نیک اُمید رکھتا ہوں اور اپنے گنا ہوں سے ڈرتا بھی ہوں.رسول اللہ نے فرمایا یہ دونوں باتیں یعنی خوف و رجاء جس مومن بندے کے دل میں آخری وقت میں اس طرح اکٹھی پائی جائیں اللہ تعالیٰ اُسے اس کی اُمید کے مطابق ضرور عطا کرے گا اور اس کے خوف سے اس کو امن عطا فرمائے گا.(ترمذی)14 احکام الہی کی بجا آوری نبی کریم کے تقویٰ کا ایک اظہار اللہ کے احکام کی بجا آوری سے خوب ہوتا تھا جو رسول کریم ایسی مستعدی سے کرتے تھے جسکی مثال نہیں ملتی.چنانچہ جب سورۃ النصر میں افواج کے اسلام میں داخلہ پر استقبال کی خاطر اللہ کی تسبیح وحمد اور استغفارکا حکم ہوا تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں اس کے بعد رسول اللہ کی کوئی نماز خالی نہ جاتی تھی جس میں آپ یہ کلمات نہ پڑھتے ہوں سُبحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِی.اے اللہ تو پاک ہے اے ہمارے رب اپنی حمد کے ساتھ.اے اللہ مجھے بخش دے.( بخاری ) 15 رسول کریم احکام الہی کی پیروی میں تقویٰ کی انتہائی باریک راہوں کا خیال رکھتے تھے.حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم سے سنا، حلال اور حرام واضح ہیں اور ان کے درمیان شبہ والی چیزیں ہیں جن کو اکثر لوگ جانتے نہیں ، جو شخص ان مشتبہ چیزوں سے بچتا ہے اس نے اپنا دین اور عزت بچالی، جو ان شبہات میں پڑ گیا وہ اُس چرواہے کی طرح ہے جو ایک رکھ ( محفوظ چراگاہ) کے اردگر دبکریاں چراتا ہے.اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کی بکریاں اس چراگاہ کے اندر چلی جائیں گی.سنو ہر بادشاہ کی ایک رکھ ( محفوظ جگہ ) ہوتی ہے اور اللہ کی رکھ اس کی زمین میں اُس کی منع کردہ چیزیں ہیں.پھر سنو! جسم میں ایک ایسا عضو ہے کہ اگر وہ درست ہو تو سب جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جائے گا.اور یا درکھو یہ دل ہے.( بخاری )16 نبی کریم کے تقویٰ کی باریک راہوں کے اختیار کرنے اور شبہات سے بچنے کی چند مثالیں قابل ذکر ہیں.حضرت عقبہ بن حارث سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو اھاب کی بیٹی سے شادی کی.ایک عورت نے آکر کہہ دیا کہ اس نے انہیں اور ان کی بیوی کو دودھ پلایا ہے.عقبہ نے کہا مجھے تو تم نے دودھ نہیں پلایا اور نہ ہی بتایا ہے.عقبہ حضور کے پاس مکہ سے مدینہ یہ مسئلہ پوچھنے آئے.حضور نے فرمایا اب جب ایک دفعہ یہ بات کہی جاچکی ہے اور شک پڑ چکا ہے.پھر کیسے تم میاں بیوی رہ سکتے ہو؟ پھر حضور نے ان کو بذریعہ طلاق جدا کروا دیا.عقبہ نے اور شادی کر لی.( بخاری ) 17 حضرت ابو قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کے ساتھ سفر حدیبیہ کے لئے نکلا آپ اور دیگر صحابہ تو احرام میں تھے مگر میں نے احرام نہیں باندھا تھا.دوران سفر میں نے ایک جنگلی گدھا دیکھا اور حملہ کر کے اُسے شکار
98 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی اسوہ انسان کامل کر لیا اور حضور کے پاس آکر عرض کیا کہ حضور! میں احرام سے نہیں تھا اس لئے آپ کی خاطر یہ شکار کر لیا.چونکہ محرم کا خود شکار کرنا یا اس کی خاطر کسی کا شکار مارنا بھی جائز نہیں.حضور نے میرے اس فقرہ کی وجہ سے کہ ”میں نے آپ کی خاطر یہ شکار کیا ہے اُس میں سے کچھ بھی کھانا پسند نہ کیا البتہ اپنے صحابہ کو اس گوشت سے کھانے کی اجازت دے دی.(ابن ماجہ ) 18 اللہ کے نام کی عظمت اور احترام ایک دفعہ ایک یہودی عالم نے آکر رسول کریم پر اعتراض کیا کہ آپ لوگ کعبہ کی قسم کھا کر شرک کے مرتکب ہوتے ہیں.ہر چند کہ مسلمان خانہ کعبہ کے بارہ میں کوئی مشرکانہ تصور نہیں رکھتے.پھر بھی رسول کریم نے از راہ احتیاط یہی ارشاد فر مایا کہ آئندہ سے قسم کھانی ہی پڑے تو کعبہ کی بجائے رب کعبہ کی قسم کھائی جائے.( احمد )19 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی صحابی نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ مَا شَاءَ اللهُ وشنت کہ وہی ہوگا جو اللہ نے چاہا اور آپ نے چاہا.رسول کریم نے فرمایا تم نے مجھے خدا کے برابر ٹھہرا دیا.صرف ماشاء اللہ کہنا چاہیئے کہ یہی کامل توحید ہے.(احمد) 20 آنحضرت میا اللہ تو کسی بھی معاملہ میں خدا کا نام درمیان آجانے سے ڈر جاتے تھے.امیمہ بنت شراحیل وہ معزز خاتون ہیں جن کو قبیلہ بنوالجون نے آنحضور سے رشتہ ازدواج قائم کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں بھجوایا.آپ کا ارادہ اُن کو اپنے عقد میں شامل کرنے کا تھا.( اُن کی ملازمہ نے انہیں کہہ دیا کہ پہلے دن ہی رسول اللہ پر رعب جمالینا ).آنحضرت ﷺ نے تقریب عقد کی خاطر ایک باغ میں خیمہ لگوا کر انہیں ٹھہرایا.جب آپ اُن کے پاس خیمہ میں تشریف لے گئے تو ان کی رضامندی معلوم کرتے ہوئے فرمایا تم اپنے آپ کو میرے لئے ہبہ کرتی ہو.وہ بولی کیا کوئی شہزادی بھی ایک عام شخص کو اپنی ذات ہبہ کرتی ہے.حضور نے اُسے مانوس کرنے کے لئے اُس کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہا تو اُس نے کہا میں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں.آپ وہیں رک گئے اور فرمایا تم نے بہت عظیم الشان ہستی کی پناہ مانگی ہے.پھر آپ نے طلاق دے کر اُسے آزاد کر دیا اور مال ومتاع دیکر رخصت کر کے اُس کے قبیلہ میں بھجوادیا.( بخاری ) 21 تقویٰ کی باریک راہیں آنحضرت ہر لحظہ اپنے رب سے ڈرتے رہتے تھے.ایک دفعہ فرمایا کہ میں بسا اوقات گھر میں ایک کھجور بستر پر پڑی پاتا ہوں.اٹھا کر کھانے لگتا ہوں پھر خیال آتا ہے کہ یہ صدقہ کی نہ ہو اور جہاں سے اٹھائی وہیں رکھ دیتا ہوں.( بخاری )22 رسول اللہ نے اپنی اولاد کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی اور ان کے دل میں بھی بچپن سے خوف خدا پیدا کیا.ایک دفعہ حضرت امام حسن یا حسین نے گھر میں کھجور کا ایک ڈھیر دیکھا اور صدقہ کی ان کھجوروں میں سے ایک کھجور منہ میں ڈال
اسوہ انسان کامل 99 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی لی.نبی کریم نے دیکھ لیا.انگلی بچے کے منہ میں ڈالی، کھجور نکال کر باہر پھینک دی اور فرمایا بچے ! ہم آل رسول ہیں.ہم صدقہ نہیں کھاتے.( بخاری )23 ایک دفعہ آنحضرت نماز کے بعد خلاف معمول بڑی تیزی سے صحابہ کی صنفیں چیرتے ہوئے گھر تشریف لے گئے.تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے تو ہاتھ میں سونے کی ایک ڈلی تھی.فرمایا کچھ سونا آیا تھا وہ مستحقین میں تقسیم ہو گیا.یہ سونے کی ڈلی تقسیم ہونے سے رہ گئی تھی.نماز میں مجھے خیال آیا تو میں اسے جلدی سے لے آیا ہوں تا کہ قومی مال میں سے کچھ ہمارے گھر میں نہ رہ جائے.طہارت نفس اور خوف الہی کی یہ کیسی بے نظیر مثال ہے.( بخاری ) 24 آنحضرت ہر دم اللہ تعالیٰ کے غنا اور عظمت سے خائف رہتے تھے.فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے میں بسا اوقات ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں اور اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں.( بخاری ) 5 قرآن شریف میں انبیاء علیہم السلام کے قبولیت دعا کے تجارب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی ایک مشترک خصوصیت یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ ہم سے چاہت اور خوف سے دعا کرتے تھے اور ہمارے سامنے عاجزی سے جھکنے والے اور خشوع اختیار کرنے والے تھے.(سورۃ الانبیاء: 91) سید الانبیاء ﷺ کی دعاؤں میں بھی یہ کیفیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے.دعاؤں میں گریہ و بکا 25 نبی کریم خوف الہی سے اکثر گریہ وزاری کرتے دیکھے جاتے.غزوہ بدر کے موقع پر جب آپ کے تین سو تیرہ نہتے ساتھیوں کا مقابلہ ایک ہزار کے مسلح جنگجو لشکر سے تھا، آپ میدان بدر میں اپنے جھونپڑے میں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر روروکر دعائیں کر رہے تھے، حالانکہ اللہ کی طرف سے فتح ونصرت کے وعدے موجود تھے مگر آپ کی نگاہ اپنے مولیٰ کے غنا پر بھی تھی اسلئے سجدہ میں پڑے گریہ وزاری کر رہے تھے.بدن پر لرزہ طاری تھا.کیپکپاہٹ سے کندھوں پر سے چادر سرک کر گر رہی تھی اور آپ اپنے مولیٰ سے یہ التجا کر رہے تھے.اے اللہ! اگر آج اس مختصر سی جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر تیری عبادت کون کرے گا.( مسلم ) 26 حجتہ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں آپ نے خشوع و خضوع خشیت اور ابتہال سے بھری ہوئی جو دعا کی، وہ آپ کے خوف وابتہال اور خشیت کا عجیب شاہکا رہے.آپ اپنے مولا کے حضور عرض کرتے ہیں.”اے اللہ تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے.میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے.میں ایک بد حال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں، تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما اور ڈرا ہوا ، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ) ہوں میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں ( ہاں ! ) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں.ایک اندھے نابینا کی طرح
100 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی اسوہ انسان کامل ( ٹھوکروں سے ) خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں.میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہہ رہے ہیں.میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے.اے اللہ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ ! جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے میری دعا قبول کر لینا.(طبرانی) 27 قرآن شریف میں ان مومنوں کی تعریف کی گئی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع وخضوع اور عاجزی اختیار کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی نماز خشوع کا بہترین نمونہ ہوتی تھی.چنانچہ نماز کے مرکزی نکتہ رکوع میں آپ یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے.” میرے اللہ ! تیری خاطر میں نے رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور میں تیرا ہی فرمانبردار ہوں.اور تجھی پر میرا تو گل ہے.تو ہی میرا پروردگار ہے.میرے کان اور میری آنکھیں ، میرا گوشت اور خون ، میری ہڈیاں اور میرا دماغ اور میرے اعصاب اس اللہ کی اطاعت میں جھکے ہوئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے.“ گریہ وزاری اور خشوع و خضوع کی یہ کیفیت آپ کی تنہائی کی نمازوں میں خاص طور پر پائی جاتی تھی.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ خدا کے حضور اس طرح گڑ گڑاتے تھے کہ آپ کے سینے سے ایسی آواز سنی جا سکتی تھی جو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے مشابہ ہوتی تھی.(نسائی) 28 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور کو بستر سے غائب پایا تلاش کیا تو مسجد میں تھے.( اندھیرے میں) میرا ہا تھ آپ کے پاؤں کے تلوے کو چھو گیا.آپ کے پاؤں زمین پر گڑے ہوئے تھے اور سجدے کی حالت میں مولیٰ کے حضور آپ یہ زاری کر رہے تھے.”اے اللہ میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں.میں خالص تیری پناہ چاہتا ہوں.میں تیری تعریف شمار نہیں کر سکتا بے شک تو ویسا ہی ہے جس طرح تو نے خود اپنی تعریف آپ کی ہے.“ ( ابن ماجہ ) 29 حضرت مطرف اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا کونماز پڑھتے دیکھا.گریہ وزاری اور بکاء سے یوں ہچکیاں بندھ گئی تھیں گویا چکی چل رہی ہے اور ہنڈیا کے اُبلنے کی آواز کی طرح آپ کے سینہ سے گڑ گڑاہٹ سنائی دیتی تھی.( ابوداؤد ) 30 حضرت عبداللہ بن عمر حجۃ الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے حجر اسود کی طرف منہ کیا.پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے.پھر اچانک توجہ فرمائی تو حضرت عمر بن الخطاب کو ( پہلو میں کھڑے) روتے دیکھا اور فرمایا اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں (اللہ کی محبت اور خوف سے ) آنسو بہائے جاتے ہیں.(ابن ماجہ ) 31
101 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی اسوہ انسان کامل حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ حضرت عائشہؓ سے عرض کیا کہ رسول کریم ﷺ کی کوئی بہت پیاری اور خوبصورت ہی بات سنائیں.حضرت عائشہ نے فرمایا ان کی تو ہر ادا ہی پیاری تھی.ایک رات میرے ہاں باری تھی.آپ تشریف لائے اور میرے ساتھ بستر میں داخل ہوئے.آپ کا بدن میرے بدن سے چھونے لگا.پھر فرمانے لگے اے عائشہ! کیا آج کی رات مجھے اپنے رب کی عبادت میں گزارنے کی اجازت دو گی.میں نے کہا مجھے تو آپ کی خواہش عزیز ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں پھر آپ آٹھے، مشکیزہ سے وضو کیا، اور نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھنے لگے.پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپ کا دامن آنسوؤں سے تر ہو گیا.پھر آپ نے دائیں پہلو سے ٹیک لگائی.دایاں ہاتھ دائیں رخسار کے نیچے رکھ کر کچھ توقف کیا.پھر رونے لگے یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے فرشِ زمین بھیگ گیا.صبح بلال نماز کی اطلاع کرنے آئے تو آپ کو روتے پایا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ سبھی روتے ہیں؟ حالانکہ اللہ نے آپ کو بخش دیا.فرمایا کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں.پھر فرمانے لگے میں کیوں نہ روؤں جبکہ آج رات مجھ پر یہ آیات اتری ہیں إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَ اخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ.آپ نے آل عمران کے آخری رکوع کی یہ آیات پڑھیں اور فرمایا ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جس نے یہ آیات پڑھیں اور ان پر غور نہ کیا.(سیوطی ) 32 عہد نبوی میں ایک دفعہ سورج گرہن ہوا.رسول اللہ نماز کسوف پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے.بڑے لمبے رکوع اور سجدے کئے.آپ اس قدر روتے جاتے تھے کہ ہچکی بندھ گئی.اس حال میں رورو کر یہ دعا کر رہے تھے.”میرے رب ! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا کہ جب تک میں ان لوگوں میں ہوں تو انہیں عذاب نہ دے گا.کیا تو نے وعدہ نہیں فرمایا کہ جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے تو ان پر عذاب نازل نہ کرے گا.پس ہم استغفار کرتے ہیں.( تو ہمیں معاف فرما ).(سیوطی ) 33 رسول کریم اس وقت تک یہ دعا کرتے رہے جب تک سورج گرہن ختم نہ ہو گیا.خشیت کی اس کیفیت کے باوجو د رسول کریم ﷺ کی خدا ترسی کا یہ عالم تھا کہ اپنے مولیٰ کے حضور مناجات میں اس کا تقویٰ اور خشیت مانگا کرتے.کبھی کہتے ”اے اللہ میرے نفس کو اپنا خوف اور تقویٰ نصیب کر دے اور اسے پاک کر دے.تجھ سے بڑھ کر کون اسے پاک کر سکتا ہے؟ تو ہی اس کا دوست اور آتا ہے.( مسلم ) 34 کبھی یہ دعا کرتے ”اے اللہ اپنی وہ خشیت ہمیں عطا کر جو ہمارے اور تیری نافرمانی کے درمیان حائل ہو جائے.(ترمذی) 35 تلاوت قرآن اور خشیت الہی للہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے.جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے
102 اسوہ انسان کامل نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے.(بنی اسرائیل : 110) دوسری جگہ فرمایا کہ خدا کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں.(سورۃ الزمر : 24) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے.قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی.کلام الہی سن کر آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے.ایک روز آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے فرمایا قرآن سناؤ ! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلَّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَّ جِتُنَا بِكَ عَلَى هُوَ لَاءِ شَهِيدًا (النساء : 42) یعنی پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے.اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے.تو آپ تاب نہ لا سکے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہن نکلی.آپ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو.( بخاری ) 36 حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ جب ( سورہ نجم کی آخری ) آیت اتری.أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ یعنی کیا تم اس بات (یا کلام) سے تعجب کرتے ہو.اور ہنستے ہو روتے نہیں تو رسول اللہ کے وہ غریب صحابہ جن کا مسجد نبوی کے چبوترے پر بسیرا ہوتا تھا اور اصحاب صفہ کہلاتے تھے ، بہت روئے.یہاں تک کہ ان کے آنسو سے رخسار بھیگ گئے.رسول کریم بھی ان کی آہ وزاری سن کر رونے لگے.ابوھریرہ کہتے ہیں ہم حضور کو روتا دیکھ کر اور رونے لگے.تب آپ نے فرمایا جو شخص اللہ کی خشیت سے رویا وہ آگ میں داخل نہ ہوگا.( بیہقی و قرطبی) 37 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا.آپ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے.پھر میں مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپ روتے روتے گر پڑتے.آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے.(ابن الجوزی) 38 رسول اللہ یہ بھی روتے روتے خدا کے حضور عرض کرتے.”اے اللہ مجھے آنسو بہانے والی آنکھیں عطا کر جو تیری خشیت میں آنسوؤں کے بہنے سے دل کو ٹھنڈا کردیں، پہلے اس سے کہ آنسو خون اور پتھر انگارے بن جائیں.(طبرانی) 39 قصہ مختصر اس فانی فی اللہ کی خشیت اور خوف الہی سے لبریز اندھیری راتوں کی یہی دلدوز چیخ و پکار اور دعائیں ہی تو تھیں جنہوں نے عرش اٹھی کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک دفعہ سرزمین عرب میں ایک ایسا انقلاب عظیم پیدا ہوا کہ پہلے اس سے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا.
اسوہ انسان کامل 103 حواله جات 1 ترمذی(23) کتاب فضائل الجهاد باب 12 2 ابن ماجه (36) كتاب الفتن باب 20 3 بخاری(64) کتاب الا نبياء باب 51 4 بخاری(1) بدا الوحى باب 1 5 بخاری (2) کتاب الایمان باب 11 6 ترمذی (33) كتاب القدر باب 7 7 بخاری (59) كتاب الوصايا باب 11 بخاری(78) کتاب المرضى باب 19 9 ترمذی (48) كتاب تفسير القرآن باب 23 10 مسند احمد جلد 6 ص 110 11 بخاری(68) كتاب التفسير سورة الضحي باب 440 12 بخاری(68) كتاب التفسير سورة الاحقاف باب 319 13 ترمذی (48) كتاب تفسير القرآن باب 56 14 ترمذی (8) كتاب الجنائز باب 11 15 بخاری (16) صفة الصلاة باب 40 16 بخاری(2) کتاب الايمان باب 37 17 بخاری(3) كتاب العلم باب 26 18 ابن ماجه (25) كتاب المناسك باب 93 19 مسنداحمدجلد6ص371 20 مسنداحمدجزاول ص347 21 بخاری (71) كتاب الطلاق باب 2 22 بخاری (50) كتاب اللقطة باب 6 23 بخاری(30) كتاب الزكاة باب 56 24 بخاری(30) كتاب الزكوة باب 19 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی
اسوہ انسان کامل 104 نبی کریم کی خشیت اور خوف الہی 25 بخاری (83) کتاب الدعوات باب 3 26 مسلم(33) كتاب الجهاد باب 18 27 المعجم الكبير لطبراني جلد 11 ص174 بيروت 28 نسائى كتاب السهو باب البكاء في الصلوة 29 ابن ماجه (34) كتاب الدعاء الصلوة باب 3 30 ابو داؤد (2) کتاب الصلوة باب 163 31 ابن ماجه (25) كتاب المناسك باب 27 32 الدر المنثور للسيوطي جلد2 ص 195 33 الدر المنثور للسيوطى جلد6ص 50 34 مسلم (49) كتاب الذكر باب18 35 ترمذی (49) کتاب الدعوات باب 80 36 بخاری (69) کتاب فضائل القرآن باب 33 37 بيهقى شعب الايمان جلد 1 ص479، جامع الاحكام القرطبي جلد 17 ص123،122 38 الوفا باحوال المصطفى لابن جوزی ص373 بيروت 39 كتاب الدعاء جلد 3 ص 1480 از علامه طبرانی مطبوعه بیروت
اسوہ انسان کامل 105 ذکر الہی اور حمد و شکر میں اسوہ رسول ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول کہتے ہیں کہ انسان جس چیز سے محبت کرتا ہے اس کا بہت ذکر کرتا ہے اور ہمارے نبی حضرت محمدؐ کی تو پہلی اور آخری محبت اللہ تعالیٰ کی ذات سے تھی.عین عالم جوانی میں آپ دنیا کی دلچسپیوں سے بیزار غار حراء کی تنہائیوں میں جا کر اس محبوب حقیقی کوہی تو یاد کرتے تھے.اس میں آپ کی زندگی کا سارا لطف تھا.آپ کی یہ وارفتگی دیکھ کر اہل مکہ بھی کہتے تھے کہ محمد تو اپنے رب پر عاشق ہو گیا ہے.مگر امر واقعہ یہ ہے آپ فنافی اللہ کے اس مقام پر تھے جہاں انسان اپنا وجود بھی فراموش کر بیٹھتا ہے اور محویت کے اس عالم میں صرف اللہ کی یاد باقی رہ جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق نبی کریم ہر لحظہ و ہر آن خدا کو یا درکھتے تھے.(مسلم )1 یا دالی میں شغف دن ہو یا رات، خلوت ہو یا جلوت عالم خواب ہو یا بیداری کبھی بھی آپ آپنے رب کی یاد نہیں بھولے.فرماتے تھے کہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے بعض دفعہ میں ستر سے بھی زائد مرتبہ استغفار کرتا ہوں.(ابوداؤد )2 صوفیاء نے دست در کار و دل بایار کے محاورہ میں عشق کے جس مقام کا ذکر کیا ہے کہ ہاتھ کام میں لگے ہوں مگر دل یار کے ساتھ ہو.ظاہر ہے اُس کا تعلق بیداری کی حالت سے ہی ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو اس سے بھی کہیں آگے تھا کہ سوتے ہوئے بھی آپ کا دل یا دالہی سے معمور ہوتا تھا.فرماتے تھے ” میری آنکھیں جب سو جاتی ہیں تو بھی دل نہیں سوتا.“ ( بخاری )3 گویانہ کر الٹی آپ کے دل کی غذا تھا.جیسے انسانی جسم کا انحصار دوران خون اور عمل تنفس پر ہے.آپ کی روح کا دارو مدار ذکر الہی پر تھا.دن بھر میں قضائے حاجت کے ہی چند لمحے ہوں گے جن میں اللہ کے ذکر کی عظمت اور احترام کے باعث آپ اس سے رُک جاتے ہوں، شائد اسی لئے قضائے حاجت سے فارغ ہو کر آتے تو غُفْرَانَكَ کی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تیری بخشش کا طلبگار ہوں.(ترمذی (4) اس میں یہی راز تھا کہ چند لمحے بھی کیوں یا دالہی میں روک بنے اس لئے اپنے مولیٰ سے معافی کے طالب ہوتے تھے.انسانی زندگی کا ایک لمحہ بھی اپنے خالق و مالک کی توفیق اور احسان کے بغیر ممکن نہیں بلکہ محتاج محض ہے جبکہ صفت
106 ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول اسوہ انسان کامل رحمانیت کے تحت بغیر کسی تقاضا کے اللہ تعالیٰ کے فیضان عام اور عنایات کے لامحدود سلسلہ نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے.پھر صفت رحیمیت کے طفیل انسان کی محنت کے اجر کا ایک لامتناہی سلسلہ بھی جاری وساری ہے اور اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں اور احسانات نے اس طرح انسان کو گھیر رکھا ہے کہ بے اختیار سے اس قرآنی آیت کے آگے سر جھکانا پڑتا ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو شمار نہیں کر سکو گے.(سورۃ ابراھیم : 35) قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنے بندوں پر افسوس بھی کیا ہے کہ ان میں سے بہت کم شکر ادا کرنے والے ہوتے ہیں وہاں حق شکر ادا کر نیوالوں کا تعریف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.شکر نعمت حضرت نوح “ کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ عبد شکور تھے.(سورۃ الاسراء: 4 ) یعنی اللہ تعالیٰ کے انتہائی شکر گزار بندے.حضرت ابراہیم کے بارہ میں فرمایا کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والے تھے.(سورۃ النحل : 122) پھر آنحضرت کو ارشاد ہوتا ہے کہ آپ اللہ کی عبادت کریں اور شکر کرنے والے بندوں میں شامل ہو جائیں.(سورۃ الزمر :67) اللہ تعالیٰ کا اپنے شکر گزار بندوں سے وعدہ ہے کہ وہ انہیں اور زیادہ نعمتیں عطا فرماتا ہے.ہمارے نبی کریم ﷺے نے واقعی حق شکر ادا کر کے اللہ تعالیٰ کے بے شمار انعامات سے حصہ پایا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ” آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے.“ (سورۃ النساء : 114) رسول اللہ کے شکر نعمت اور یاد الہی کی اصل معراج آپ کی نماز تھی.جس میں آپ کی آنکھوں اور دل کی ٹھنڈک تھی.(نسائی)5 عام لوگوں کا دل نماز میں نہیں لگتا اور نماز کے دوران بھی خیالات کہیں اور ہوتے ہیں.اس کے برعکس نبی کریم کا دل نماز کے علاوہ اوقات میں بھی نماز میں ہی انکا ہوتا تھا.اللہ کو اتنا یاد کرنے کے بعد بھی آپ اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے تھے کہ رَبِّ اجْعَلْنِي لَكَ ذَاكِرًا لَكَ شَاكِرًا (ابوداؤد ) یعنی ”اے میرے رب مجھے اپنا ذکر کر نیوالا اور اپنا شکر کرنیوالا بنائیں کیونکہ شکر بھی دراصل ذکر الہی اور محبت کے اظہار کا ایک خوبصورت اسلوب ہے.اور ذکر کی ایک بہترین شکل حمد وثنا ہے.آپ کی نماز مجسم شکرانہ ہوتی تھی جوالحمد للہ کہ کر اللہ کی حمد سے شروع ہوتی.اس کا وسط سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَه کہ کر حمد کثیر پر مشتمل ہوتا تو اس کی انتہاء التَّحِيَّاتُ لِلہ کی جامع حمد پر ہی ہوتی تھی.آپ کے رکوع و سجود بھی اسی حمد الہی سے لبریز ہوتے تھے جن میں آپ تعرض کرتے ”اے اللہ تو پاک ہے اپنی تمام تعریفوں کے ساتھ.( بخاری )7 رکوع سے اٹھ کر پھر یہ حمد باری یوں ٹھاٹھیں مارتی جیسے بے قرار سمندر.آپ عرض کرتے اے اللہ ہمارے رب! سب تعریفیں تجھی کو حاصل ہیں.یہ حمد کر کے بھی آپ کا جی سیر نہ ہوتا تو کہتے تیری اتنی تعریفیں کہ جس سے سارے آسمان
اسوہ انسان کامل 107 ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول اور زمین بھر جائیں اور اس کے بعد جو چیز تو چاہے وہ بھی بھر جائے.( مگر تیری حد ختم نہ ہو ).اے تعریف اور بزرگی کے لائق ہستی ! بندہ جتنی تیری تعریف کرے تو اس کا مستحق ہے اور ہم سب تیرے بندے ہی تو ہیں.( مسلم )8 فرض نمازوں کے علاوہ نوافل میں آپ کے شکرانے کا یہ عالم تھا کہ پوری پوری رات خدا کے حضور عبادت میں گزار دیتے یہاں تک کہ پاؤں سوج جاتے.حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں تو کیا خوب جواب دیا أَفَلا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا کہ میں عبد شکور یعنی خدا کا انتہائی شکر گزار بندہ نہ بنوں.( بخاری )9 محبت الہی اور ذکر و شکر سے بھری اس نماز سے فارغ ہو کر آپ یاد خدا کو بھولتے نہیں تھے بلکہ یہ دعا کرتے تھے.اللَّهُمَّ أَعِنِّی عَلَى ذِكْرِكَ وَ شُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.(ابوداؤر ) 10 ”اے اللہ ! مجھے اپنے ذکر، اپنے شکر اور خوبصورت عبادت کی توفیق عطا فرما.اس دعا کی قبولیت عملی زندگی میں لمحہ بہ لمحہ آپ کے ہمرکاب نظر آتی ہے.رات کا کچھ حصہ آرام کر کے اٹھتے تو پہلا کلمہ جو آپ کی زبان پر جاری ہوتا وہ اللہ کی حمد اور شکر کا کلمہ ہوتا.آپ اپنے مولیٰ کے حضور اقرار کرتے کہ تمام تعریف اس خدا کی ذات کیلئے ہے جس نے نیند جیسی موت کے بعد ہمیں پھر سے زندگی دی اور بالآخر تو اسی کی طرف لوٹ کر جاتا ہے.( بخاری ) 11 روکھی سوکھی پر گزارا کرتے ہوئے بھی کھانے کے بعد رسول اللہ کے شکر گزار دل سے بے اختیار حمد اور تشکر کے جذبات نکلتے تھے.فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے بہت راضی اور خوش ہوتا ہے.جو ایک لقمہ بھی کھاتا ہے تو اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہے.پانی پیتا ہے تو اس پر بھی اللہ کی حمد کرتا ہے.چنانچہ کھانے کے بعد آپ دعا کرتے اس خدا کی تمام تعریف ہے جس نے ہمیں کھانا کھلایا اور پانی پلایا اور ہمیں اپنا فرمانبردار بندہ بنایا.“ یعنی شکر کی توفیق دی.(ترمذی )12 گویا تو فیق شکر ملنے پر بھی شکرانہ ادا کرتے تھے.الغرض ذکر الٹی آپ کے وجود کا جزو لاینفک تھا.قضائے حاجت سے فارغ ہو جانے پر بھی رسول اللہ ﷺ اللہ کا شکر ہی بجالاتے اور عرض کرتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مضر چیز مجھ سے دور کردی مجھے تندرستی عطا کی اور غذا کے نفع بخش مادے میرے جسم میں باقی رکھ لئے.‘ (ابن ماجہ )13 رات کو بستر پر جاتے ہوئے دن بھر میں ہو نیوالی اللہ کی نعمتوں کا شکر یوں ادا کرتے کہ ” تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر اپنا احسان اور فضل کیا اور مجھے عطا کیا اور بہت دیا اور ہر حال میں اللہ ہی کی حمد وثنا ہے.‘ ( ابوداؤد )14 رسول کریم نے فرمایا ” جو شخص صبح کے وقت یہ کہتا ہے اے اللہ تیری جو نعمت اس وقت مجھے حاصل ہے وہ محض تیری طرف سے ہے.تیرا کوئی شریک نہیں.وہ شخص اس دن کا شکر ادا کرتا ہے اور جو شام کو یہ کلمات کہتا ہے اس نے اپنی
اسوہ انسان کامل رات کا شکر ادا کیا.(ابوداؤد ) 15 108 ذکر الہی اور حمد و شکر میں اسوہ رسول رسول کریم جب کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو اللہ کی حمد بجالاتے.( ترمذی ) 16 موسم گرما میں جب کچھ عرصہ کے بعد بارش ہوتی تو شکر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سر خدا کے حضور جھک.آپ اپنے سر سے کپڑا وغیرہ ہٹا کہ ننگے سر پر بارش لیتے اور فرماتے یہ میرے رب سے تازہ تازہ آئی ہے.( احمد ) 17 جب آپ کی دعا بارگاہ الہی میں قبولیت کا درجہ پاتی یا کوئی نیک کام انجام کو پہنچتا تو کسی فخر کی بجائے اللہ کی حمد بجالاتے اور کہتے ” تمام تعریف اس خدا کی ہے جس کے جلال و عظمت سے ہی نیک کام انجام کو پہنچتے ہیں.“ ( حاکم ) 18 ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اپنے یہودی غلام کی عیادت کو گئے اس کا آخری وقت دیکھ کر اسے کلمہ پڑھنے کو کہا.جب اس نے پڑھ لیا تو بے اختیار آپ کی زبان پر یوں حمد باری جاری ہوئی کہ اس خدا کی سب تعریف ہے جس نے ایک روح کو آگ سے بچالیا.( بخاری )19 سجدات شکر الله کوئی خوشی کی خبر آتی تو رسول کریم فور أخدا کے حضور سجدہ میں گر جاتے اور سجدہ تشکر بجالاتے.(خطیب وابوداؤد )20 حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت کے کے ساتھ مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے.جب ہم عز وراء مقام پر پہنچے وہاں حضور اترے.آپ نے ہاتھ اٹھائے اور کچھ وقت دعا کی.پھر حضور سجدے میں گر گئے.خاصی دیر سجدے میں رہے.پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اُٹھا کر دعا کی.پھر سجدے میں گر گئے.آپ نے تین دفعہ ایسے کیا.پھر آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعا مانگی اور اپنی امت کیلئے شفاعت کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کی ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دی.میں اپنے رب کا شکرانہ بجالانے کیلئے سجدے میں گر گیا اور سر اُٹھا کر پھر اپنے رب سے امت کیلئے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی اپنی امت کی شفاعت کیلئے اجازت مرحمت فرمائی.میں پھر شکرانے کا سجدہ بجالایا.پھر سر اٹھایا اور امت کیلئے اپنے رب سے دعا کی تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کی تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے رب کے حضور سجدہ شکر بجالانے کے لئے گر گیا.(ابوداؤد ) 21 حضرت عبدالرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم مسجد میں تشریف لائے اور قبلہ رو ہو کر سجدے میں گر گئے اور بہت لمباسجدہ کیا.یہاں تک کہ ہمیں گمان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے شاید آپ کی روح قبض کرلی ہے.میں آپ کے قریب ہوا تو آپ اُٹھ بیٹھے اور پوچھا کون ہے؟ میں نے عرض کیا عبدالرحمن.فرمایا کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ نے اتنا لمبا سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح تو قبض نہیں کر لی.آپ نے فرمایا
109 اسوہ انسان کامل ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول میرے پاس جبریل آئے تھے انہوں نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں فرماتا ہے کہ "جو آپ پر درود بھیجے گا میں اس پر اپنی رحمتیں نازل کرونگا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی بھیجوں گا.“ یہ سن کر میں اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالایا ہوں.( احمد ) 22 اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی مکہ کی فتح کے موقع پر آپ اپنی اونٹنی پر بیٹھے تھے اور سر جھک کر پالان کو چھو رہا تھا.( ابن ہشام ) 23 آپ سجدہ تشکر بجالاتے ہوئے یہ دعا پڑھ رہے تھے.سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِی.اے اللہ تو پاک ہے اپنی حمد اور تعریف کے ساتھ.اے اللہ مجھے بخش دے.شکر کے نئے گوشے نبی کریم ﷺ کے شکر ادا کرنے کا ایک لطیف پہلو یہ ہے کہ آپ شکر کے نئے گوشے تلاش کرتے تھے محض نعمتوں اور احسانوں اور کامیابیوں پر ہی آپ اللہ کا شکر نہیں کرتے تھے بلکہ گردش زمانہ اور مصائب سے محفوظ رہنے پر بھی اللہ کی حمد بجالاتے تھے.ہر مصیبت زدہ آپ کو اس شکر کی یاد دلاتا تھا.چنانچہ کسی معذور یا مصیبت زدہ کو دیکھ کر جہاں انسانیت کے ناطہ سے آپ کے دل میں اس کے لئے درد پیدا ہوتا تھا وہاں آپ اللہ کا شکر بھی کرتے تھے کہ اس خدا کی تعریف ہے جس نے ہمیں اس مصیبت سے بچا کر صحت و تندرستی عطا کی اور اپنی بیشتر مخلوق پر فضیلت عطا فرمائی.(ترندی) 24 رسول کریم ﷺ کا حمد باری کے نئے اور نرالے انداز ڈھونڈ نکالنے کا ایک واقعہ ام المؤمنین حضرت جویریہ یوں بیان کرتی ہیں کہ ایک روز صبح کی نماز کے وقت حضور میرے پاس سے گئے تو میں اپنے مصلے پر تھی.دن چڑھے واپس لوٹے تو بھی مجھے مصلے پر پایا اور پوچھا کہ تم صبح سے اس حال میں یہاں بیٹھی ہو؟ میں نے کہا جی ہاں.آپ نے فرمایا میں نے اس کے بعد صرف چار کلمات تین مرتبہ دہرائے ہیں.اگر ان کا موازنہ تمہارے اس سارے وقت کے ذکر و تسبیح سے کیا جائے تو وہ کلے بھاری ہوں اور وہ یہ کلمے ہیں.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ سُبْحَانَ اللهِ رِضَا نَفْسِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ زِنَةَ عَرْشِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ مِدَادَ كَلِمَاتِهِ - اللہ پاک ہے اپنی حمد کے ساتھ اُس قدر جس قدر اُس کی مخلوق ہے.اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اُس کی ذات یہ بات پسند کرتی ہے.اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اس کے عرش کا وزن ہے ( یعنی بے انتہا ).اللہ پاک ہے اُس قدر جس قدر اس کے کلمات کی روشنائی ہے.(مسلم) 25 اپنی ایک مناجات میں آپ اپنے مولیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں.تیرا نور کامل ہے تو نے ہی ہدایت فرمائی سب تعریف تیرے لئے ہے، تیرا حلم عظیم ہے.تو نے ہی بخشش عطا کی پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے.تیرے ہاتھ فراخ ہیں.تو نے ہی سب عطا کیا پس کامل حمد تجھے ہی حاصل ہے.اے
110 اسوہ انسان کامل ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول ہمارے رب تیرا چہرہ سب چہروں سے زیادہ قابل عزت ہے اور تیری وجاہت تمام وجاہتوں سے بڑھ کر ہے.تیری عطا تمام عطاؤں سے افضل اور شیریں ہے.اے ہمارے رب ! جب تیری اطاعت کی جاتی ہے تو تو قدردانی کرتا ہے اور تیری نافرمانی ہو تو بھی تیری بخشش میں فرق نہیں آتا.تو ہی ہے جو مجبور اور لاچار کی دعا سنتا اور تکلیف دور کرتا ہے، بیمار کو صحت عطا فر ما تا گناہ بخشا اور توبہ قبول کرتا ہے.کوئی نہیں جو تیری نعمتوں کا بدلہ اتار سکے اور تیری تعریف تک کسی مدحت گر کی زبان رسائی نہیں پاسکتی.( شوکانی ) 26 اللہ تعالیٰ کو رسول اللہ کی حمد وستائش کے ادا کئے ہوئے یہ نغمے ایسے پسند آئے کہ اس نے فیصلہ فرمایا کہ قیامت کے روز جب نفسانفسی کا عالم ہوگا اور ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں ہو گا تو رسول اللہ کو مقام محمود یعنی حمد باری کے انتہائی مقام پر فائز ہونے کی وجہ سے حمد کا جھنڈا عطا کیا جائے گا.(ترمذی) 27 آپ کی صفت احمد کی شان اس رنگ میں ظاہر ہوگی کہ آپ پر حمد کے نئے مضامین کھولے جائیں گے اور خدا کے لئے تعریفی کلمات سکھائے جائیں گے.پھر آپ سجدہ ریز ہو کر وہ حمد باری بجالائیں گے جسکے جواب میں آپ کو یہ انعام ملے گا کہ اے محمد ! آج جو مانگیں گے آپ کو عطا کیا جائیگا.تب آپ اپنی امت کی شفاعت کی دعا کریں گے.اور یہ حمدالہی کی ایک عظیم الشان برکت ہے جو آپ کو نصیب ہوگی.( بخاری ) 28 حمد باری کے حریص رسول اللہ تو اپنے رب کی حمد کے حریص تھے.اللہ کی حمد اور شکر کے ایسے اعلیٰ ذوق اور توفیق کے بعد پھر بھی اگر کسی کو حمد باری کرتے ہوئے سن لیتے تو اس پر رشک کرتے.(احمد ) 29 مشرک شاعر امیہ بن صلت کا حمد باری پر مشتمل ایک شعر جب آپ نے سنا تو بہت پسند کیا.فرمانے لگے امیہ کا شعر تو ایمان لے آیا مگر خود اسکو ایمان کی توفیق نہ ملی.دل کا فر ہی رہا.شعر یہ تھا:.لَكَ الْحَمْدُ وَالْنَّعْمَاءُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا فَلا شَيْئَ أَعْلَىٰ مِنْكَ حَمُدًا وَأَمْجَدًا یعنی اے ہمارے رب ! سب تعریفیں تیرے لئے ہیں ، احسان اور فضل بھی تیرے ہیں کوئی چیز حد اور بزرگی سے تجھ سے بڑھ کر نہیں.(کنز ) 30 لبید عرب کا مشہور شاعر تھا جس کا بلند پایہ کلام خانہ کعبہ میں لٹکا یا گیا تھا.مگر رسول اللہ کو اس کے سارے کلام سے جو شعر پسند آیا وہ اللہ کی عظمت کے بارہ میں ہے.آپ نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو لبید نے کہی وہ اسکے شعر کا یہ مصرع ہے."
اسوہ انسان کامل 111 ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول الا كُلِّ شَيْءٍ مَاخَلَا اللَّهَ بَاطِل کہ سنو! اللہ کے سوا ہر چیز بالآخر فنا ہو نیوالی ہے.( بخاری ) 31 پس کچی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ سے بڑھ کر آج تک اللہ کی کوئی حمد کر نیوالا پیدا نہیں ہوا.اسی لئے تو الہی نوشتوں میں آپ کا نام احمد رکھا گیا تھا کہ سب سے بڑھ کر خدا کی حمد کر نیوالا.اسی حمد باری کے صدقے آپ محمد کہلائے اور آپ کی دنیا بھر میں تعریف ہوئی.جذبہ شکر اور قدردانی دراصل شکر ایک جذبہ ہے جو احسان کے نتیجہ میں ایک قدردان دل کے اندر پیدا ہوتا ہے.انسان میں اس جذبہ کا ہونا اللہ کی سچی حمد اور شکر ادا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے.نبی کریم ﷺ فرماتے تھے کہ جولوگوں کے احسانوں کا شکر نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر بھی ادا نہیں کرتا.(ترمذی 32) کیونکہ اسے شکر کی نیک عادت ہی نہیں یا یہ جذ بہ سرد پڑ چکا ہے.آنحضرت ﷺ نے شکریہ ادا کرنے کا طریق بھی اپنی امت کو سمجھایا.حضرت اسامہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ”جس شخص سے کوئی نیکی کی جائے تو وہ اس نیکی کرنے والے سے یہ کہے جَزَاكَ اللهُ خَيْراً کہ اللہ تعالیٰ تجھے بہترین جزا دے تو اس شخص نے تعریف کا حق ادا کر دیا.“ ( ترندی 3 آپ نے فرمایا کہ ”جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کا بدلہ دو اور اس کی طاقت نہیں تو اس کے لئے دعا کیا کرو اتنی دعا کہ تم جان لو کہ تم نے اس کے احسان کا بدلہ اُتار دیا ہے.(ابوداؤد ) 34 انسانوں کا شکر 33 ہمارے نبی حضرت محمد یہ تو بدی کا بدلہ بھی نیکی سے دینے کے عادی تھے..آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو کوئی تحفہ دیا جائے تو چاہیے کہ اس کا بدلہ دے اگر اس کی توفیق نہ ہو تو اس کی تعریف ہی کرے جس نے اس کی تعریف کی اس نے اس کا شکر کیا.اور جس نے شکرانے کا اظہار نہ کیا اس نے ناقدری نے اس اور نے کیا اس نے کی.( ابوداؤد ) 35 جہاں تک نیکی کے بدلہ کا تعلق ہے رسول کریم قرآن شریف کی اس آیت پر بھی خوب عمل کرتے تھے مَن يُعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْر أَيْرَه.( سورۃ زلزال : 8) یعنی جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی اس کا بدلہ بھی پائے گا.بلکہ بعض دفعہ بظاہر معمولی نیکی کا غیر معمولی بدلہ عطا فرماتے.ایک دفعہ آپ قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کے کم سن چازاد بھائی عبداللہ بن عباس نے وضو کے لئے پانی بھر کر رکھ دیا.آپ نے آکر پوچھا کہ یہ کس نے رکھا ہے اور پھر معلوم ہونے پر حضرت عبد اللہ بن عباس کے لئے یہ دعا کی کہ اے اللہ ان کو قرآن اور حکمت سکھا.‘ ( بخاری 36 ) اور ان کو
اسوہ انسان کامل 112 ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول دین کی گہری سمجھ عطا کر.اس دعا نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی زندگی کی کایا پلٹ دی.( بخاری ) 37 نبی کریم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نے خدمات کی سعادت پائی.بعض نے کھجور کے درخت پیش کر دئیے.اسکے بعد جب بنو قریظہ اور بنو نضیر کے اموال غنیمت آئے تو آپ ان قربانی کر نیوالے انصار کا خاص خیال رکھتے اور اُن کے تحائف کا بدلہ بہترین رنگ میں اُنہیں واپس دینے کی کوشش فرماتے تھے.( بخاری ) 38 فتح مکہ کے بعد بھی رسول کریم نے انصار کی تالیف قلبی اور احساسات و جذبات کا خاص خیال رکھا اور فرمایا اب میرا مرنا جینا تمہارے ساتھ ہے.چنانچہ آپ نے مدینہ کو ہی اپنا وطن ثانی قرار دیئے رکھا.انصار کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی.فرمایا ” انصار کی محبت ایمان کا حصہ ہے.( بخاری ) 39 کعب بن ڈھیر مشہور عرب شاعر تھا جو رسول اللہ کے خلاف گندے اشعار کہنے کی وجہ سے لائق گرفت تھا.جب وہ معافی کا خواستگار ہو کر حاضر خدمت ہوا تو حضور کی شان میں ایک قصیدہ کہا جس میں مہاجرین کی تعریف کی اور انصار کا ذکر نہیں کیا.رسول کریم کو انصار کی اتنی دلداری مقصود ہوتی تھی ، فرمانے لگے کہ تم نے انصار کی شان میں کچھ نہیں کہا.یہ بھی مدح کے مستحق ہیں.تو اس نے انصار کے لئے یہ شعر کہا مَنْ سَرَّهُ كَرَمَ الْحَيَاةِ فَلَا يَزَلُ فِي مِقْنَبٍ مِنْ صَالِحِى الْأَنْصَارِ جس شخص کو باعزت زندگی پسند ہے وہ ہمیشہ نیک انصار کے شہ سواروں کے دستہ میں شامل رہے گا.(حلبیہ (40 الغرض نبی کریم ﷺ کے ساتھ جس کسی نے زندگی میں کبھی کوئی نیکی کی آپ نے کبھی فراموش نہیں کیا.حتی کہ عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے غزوہ بدر کے بعد رسول اللہ کے چچا حضرت عباس کو عند الضرورت جو قمیص مہیا کیا تھا اسے بھی یا درکھا اور عبداللہ کی وفات پر اپنا قمیص اس کے کفن کے لئے عطا فر مایا.( بخاری ) 41 نبی کریم حضرت خدیجہ کی خدمات کو بھی ہمیشہ یادر کھتے تھے.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ اس بارہ میں از راہ غیرت کچھ عرض کیا تو فرمایا ”جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو خدیجہ نے قبول کیا.جب لوگوں نے انکار کیا تو وہ ایمان لائیں.جب لوگوں نے مجھے مال سے محروم کیا تو انہوں نے اپنے مال سے میری مدد کی اور اللہ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا فرمائی.(مسند احمد )42 نبی کریم جب اہل مکہ کے رویہ سے مایوس ہو کر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تو واپسی پر مکہ میں داخلہ سے قبل حسب دستور کسی سردار کی امان لینی ضروری تھی.آپ نے مختلف سرداروں کو پیغام بھجوائے مگر کسی نے حامی نہ بھری سوائے مطعم بن عدی کے جس نے اپنے بیٹوں کو بھجوایا کہ حضور کو اپنی حفاظت میں شہر میں لے آئیں.نبی کریم نے مطعم کا یہ احسان ہمیشہ یادرکھا.وہ بدر سے پہلے وفات پاچکے تھے مگر بی کریم نے بدر کی فتح کے بعد جب ستر کفار مکہ کو
113 ذکر الہی اور حمد وشکر میں اسوہ رسول اسوہ انسان کامل قیدی بنایا تو فرمایا اگر آج ان کا سردار مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور مجھے ان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کرتا تو میں اس کی خاطر ان سب کو چھوڑ دیتا‘ ( بخاری )43 رسول اللہ کے چچا ابو طالب نے زندگی بھر آپ سے وفا کی، ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا اور آپ کی خاطر شعب ابی طالب میں محصور رہے.وہ بیمار ہوئے تو آپ ان کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے.انہوں نے دعا کی درخواست کی کہ اپنے رب سے دعا کرو.اللہ تعالیٰ مجھے صحت دے اور پھر آپ کی اعجازی دعا کے نشان سے وہ صحت یاب ہوئے.(حاکم 44) اس سے پتہ چلتا ہے کہ ابو طالب آپ کو دل سے سچ مانتے تھے مگر کھل کر اس کا اظہار نہ کرتے تھے.آخری بیماری میں بھی حضور انہیں اعلانیہ اظہار اسلام کی تحریک کرتے رہے مگر وہ ایسا نہ کر سکے.اس کے باوجود نبی کریم نے آخر دم تک ان سے حسن سلوک کیا.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو جب اپنے والد ابوطالب کی وفات کی اطلاع کی تو آپ رو پڑے اور فرمایا جاؤ ان کو نسل دو اور کفن کا انتظام کرو.نیز آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر رحم کرے.(ابن سعد ) 45 جب ابو طالب کا جنازہ اٹھا تو اپنے محسن کے سفر آخرت کو دیکھ کر بے اختیار رسول اللہ گوان کی صلہ رحمی اور احسان یاد آئے تو یہ دعا کی کہ صلہ رحمی کا بدلہ آپ کو عطا ہو اور اے چا اللہ آپ کو بہترین جزا عطا کرے.(ابن اثیر ) 46 رسول کریم چاہتے تھے کہ آپ کے ساتھی اور آپ سے محبت کا دم بھرنے والے بھی شکر کا اعلیٰ وصف اپنے اندر پیدا کریں.ایک دفعہ حضرت ابوھریرہ کو یہ نصیحت فرمائی ! اے ابوھریرہ ! بہت زیادہ ڈرتے رہو تو آپ سب لوگوں سے زیادہ عبادت کرنے والے ہو جاؤ گے اور قناعت کرنے والے بن جاؤ.سب سے زیادہ شکر کرنے والے ہو جاؤ گے.(ابن ماجہ ) 47 اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے آقا کی پیروی میں حقیقی حمد وشکر کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.⭑⭑⭑⭑⭑
اسوہ انسان کامل 114 ذکر الہی اور حمد و شکر میں اسوہ رسول 1 مسلم (4) کتاب الحيض باب 30 حواله جات 2 ابوداؤد (8) كتاب الوتر باب 26 3 بخاری(65) کتاب المناقب باب 21 4 ترمذی(1) كتاب الطهارة باب 5 5 نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء 6 ابوداؤد (8) كتاب الوتر باب 25 7 بخاری (16) کتاب صفة الصلوة باب 41 مسلم(5) كتاب الصلوة باب 40 9 بخاری (68) كتاب التفسير باب 324 10 ابوداؤد (8) كتاب الوتر باب 26 11 بخاری(83) کتاب الدعوات باب 7 12 ترمذی(49) كتاب الدعوات باب 56 13 ابن ماجه (1) کتاب الطهارة باب 10 14 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 107 15 سنن ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 110 16 ترمذی(25) كتاب اللباس باب 29 17 مسند احمد جلد 3 ص 267 مطبوعه بيروت 18 مستدرك حاكم جلد 1 ص 730 مطبوعه بيروت 19 بخاری(29) كتاب الجنائز باب 78 20 تاريخ الخطيب للبغدادى جلد 4 ص 157 ،ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 174 21 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 174 22 مسند احمد جلد 1 ص 191 مطبوعه بيروت 23 السيرة النبوية لابن هشام جلد (2) ص405 مطبوعه بيروت 24 ترمذی (49) کتاب الدعوات باب 38
اسوہ انسان کامل 115 ذکر الہی اور حمد و شکر میں اسوہ رسول 25 مسلم(49) كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب 19 26 تحفة الذاکرین از علامه شوکانی ص432 مطبوعه بيروت 27 ترمذی (50) كتاب المناقب باب1 28 بخاری (68) كتاب التفسير سورة البقرة باب 3 29 مسند احمد جلد 2 ص 470 مطبوعه بيروت و مسلم (42) كتاب الشعر باب 1 30 كنز العمال جلد 6ص 171 وفتح البارى جلد 7 ص 154،الاصابة جلد 8ص 51 31 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه باب 56 32 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 35 33 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 87 34 ابوداؤد (9) كتاب الزكاة باب 39 35 سنن ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 12 36 بخاری (3) كتاب العلم باب 17 37 بخاری(4) کتاب الوضوء باب 10 38 بخاری(67) کتاب المغازی باب 11 39 بخاری (2) کتاب الایمان باب 9 40 السيرة الحلبية جلد3 ص62 مطبوعه بيروت 41 بخاری (68) كتاب التفسير سورة التوبة باب 160 42 مسنداحمد بن حنبل جلد 6ص117 مطبوعه بيروت 43 بخاری (67) كتاب المغازی باب 9 44 مستدرك حاكم كتاب الدعاء جلد 1 ص 727 مطبوعه مصر 45 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 123 مطبوعه بيروت 46 البدايه والنهايه لابن اثير جلد 3 ص 125 مطبوعه بيروت 47 سنن ابن ماجه (37) كتاب الزهد باب 24
اسوہ انسان کامل 116 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق قرآن اللہ تعالیٰ کا پاک کلام اور وہ آخری مکمل ترین شریعت ہے جو قیامت تک بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کی گئی.فصیح و بلیغ عربی زبان میں نازل ہونے والا یہ کلام اپنے نفس مضمون کی وسعت و گہرائی ، حقائق و دقائق ، دلائل و فضائل اور فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے ایسا بے مثل ہے کہ اس کی چھوٹی سے چھوٹی سورت یا چند آیات کی مثال لانے پر بھی آج تک کوئی قادر نہ ہوسکا.قرآن عظیم کا اپنے جیسی نظیر پیش کرنے کا لا جواب چیلنج آج تک اس کی عظمت اور فتح کا نقارہ بجارہا ہے.یہ وہی پاک کلام ہے جسے مشہور قادرالکلام عرب شاعر لبید نے سنا تو اس کی عظمت کے آگے گھٹنے ٹیک دینے پر ایسا مجبور ہوا کہ شعر کہنے چھوڑ دئیے.چنانچہ جب اسے تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو کہنے لگا میں نے جب سے کلام اللہ کی یہ آیت سنی ہے الم ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ.میں نے شعر کہنے چھوڑ دیئے.(قرطبی) 1 حضرت عمر کا قبول اسلام بھی قرآنی تائید کا اعجاز تھا.ایک وقت تھا جب وہ رسول اللہ کوقتل کرنے کا پختہ ارادہ کر کے گھر سے نکلے تھے.مگر راستے میں اپنی بہن کے ہاں سورۃ طہ کی ابتدائی آیات پڑھتے ہی بے اختیار کہہ اٹھے.یہ کہنا خوبصورت عزت والا کلام ہے اور بالآخر اسلام قبول کر لیا.( قرطبی )2 مشہور سردار قریش عتبہ قریش کا نمائندہ بن کر رسول کریم کو سمجھانے کی غرض سے آیا تو آپ نے اسے سورۃ حم فضلت کی ابتدائی آیات سنائیں.جب حضور سجدہ والی آیت پر پہنچے تو وہ بے اختیار حضور کے ساتھ سجدے میں شامل ہوا اور کہ اُٹھا کہ خدا کی قسم ! یہ نہ تو شعر ہے نہ کسی کا ھن کا کلام ہے اور نہ جادو ہے.خدا کی قسم میں نے محمد سے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک کبھی ایسا کلام نہیں سنا.(حاکم)3 اس پاک کلام کی اصل شان اس وقت ظاہر ہوتی تھی جب خود خدا کا رسول اس کی تلاوت کر کے سناتا تھا جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رَسُولٌ مِّنَ اللَّهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ (البَيِّنة: 3 ) یعنی اللہ کا رسول مطہر صحیفے پڑھتا تھا.اُن میں قائم رہنے والی اور قائم رکھنے والی تعلیمات تھیں.رسول اللہ جب اس دلکش کلام کی آیات پڑھ کر سناتے تھے تو عرش کے خدا کو بھی اس پر پیار آتا تھا چنانچہ فرمایا وَمَاتَكُونُ فِي شَأْنٍ وَّمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنِ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ (يونس : 62)
اسوہ انسان کامل 117 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق یعنی (اے رسول) تو کبھی کسی خاص کیفیت میں نہیں ہوتا اور اس کیفیت میں قرآن کی تلاوت نہیں کرتا.اسی طرح تم (اے مومنو! ) کوئی (اچھا) عمل نہیں کرتے مگر ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں.جب تم اس کام میں مصروف ہوتے ہو.اللہ تعالیٰ کومحمد کی تلاوت قرآن پر اس لئے بھی پیار آتا تھا کہ آپ ایک عجب جذب، سوز و گداز اور عشق و محبت کے ساتھ اس پاک کلام کی تلاوت کرتے تھے.آپ کی تلاوت کی وہی عظمت اور شان تھی جو قرآن میں یوں بیان ہوئی الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُو نَه حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِه (البقره: 122) یعنی جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جیسے تلاوت کا حق ہے.یہی لوگ ہیں جو اس کتاب پر سچا ایمان رکھتے ہیں.رسول کریم اس حکم الہی کے مطابق خوبصورت لحن اور ترتیل کے ساتھ ایسی تلاوت کرتے تھے کہ تلاوت کا حق ادا ہو جاتا تھا.حضرت انس سے پوچھا گیا کہ رسول کریم کی تلاوت کیسی ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا آپ لمبی تلاوت کرتے تھے.پھر انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر سنائی.اسے لمبا کیا پھر الرحمان کو لمبا کر کے پڑھا پھر الرحیم کو.( احمد )4 حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی چیز کو کان لگا کر توجہ سے نہیں سنتا جتنا نبی کریم کی تلاوت قرآن کو سنتا ہے.جب وہ خوبصورت لحن اور غنا کے ساتھ بآواز بلند اس کی تلاوت کرتے ہیں.(احمد )5 حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم تلاوت کرتے ہوئے آیت پر وقف کرتے تھے.فاتحہ میں ہر آیت پر رُکتے رب العالمین پر پھر الرحمان الرحیم پر رُک رُک کر تلاوت کرتے تھے.(احمد) 6 رسول کریم تلاوت کرتے ہوئے ایک ایک لفظ واضح اور جدا کر کے پڑھتے.سوز و گداز میں ڈوبی ہوئی یہ آواز کبھی بلند ہو جاتی اور کبھی دھیمی.کسی نے رسول اللہ سے پوچھا کہ بہترین تلاوت کونسی ہے؟ فرمایا جس کو سن کر آپ کو احساس ہو کہ یہ شخص اللہ سے ڈرتا ہے.یعنی خشیت الہی سے لبریز تلاوت اور یہ تلاوت آپ کی ہی ہوتی تھی.رسول کریم کا تو اوڑھنا بچھونا ہی قرآن تھا.دن بھر گا ہے بگا ہے اور خصوصاً نمازوں میں نازل ہونے والی تازہ قرآنی وحی کی تکرار اور دہرائی کا اہتمام تو ہوتا ہی تھا.عموماً رات کو بھی زبان پر قرآن ہی ہوتا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں.کبھی رات کو اچانک آنکھ کھل جاتی تو زبان پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کی آیات جاری ہوتیں.وَمَا مِنَ اللَّهِ إِلَّا اللَّهُ الوَاحِدُ القَهَّارُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالارْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ (ص:67) یعنی اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ صاحب جبروت ہے نیز آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کا رب ہے اور غالب اور بخشنے والا ہے.(حاکم) 7 آپ رات کو تیسرے پہر تہجد کے لئے بیدار ہوتے تو اُٹھتے ہی سورۃ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرماتے.ان آیات کا مضمون خالق کا ئنات کی تخلیق ارض و سماء اور اس میں موجود نشانات پر غور وفکر سے تعلق رکھتا ہے.
118 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق اسوہ انسان کامل جس کے بعد انسان کے دل میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی عبادت کا شوق اور جوش و ولولہ بیدار ہوتا ہے.( بخاری )8 اسی طرح رات کو بستر پر جاتے ہوئے بھی قرآن کے مختلف حصوں کی تلاوت رسول کریم سے ثابت ہے.حضرت عائشہ کی ایک روایت کے مطابق نبی کریم آخری تین سورتوں کی تلاوت کر کے ہاتھوں میں پھونکتے اور اپنے جسم پر پھیر کر سو جاتے.( بخاری ) حضرت جابر کے بیان کے مطابق سونے سے قبل آنحضرت ملالہ سورہ الم السجدہ اور سورہ ملک کی تلاوت کرتے تھے.(ترندی) 10 حضرت عائشہ کی دوسری روایت یہ ہے کہ سونے سے قبل رسول اللہ سورہ زمر اور بنی اسرائیل کی بھی تلاوت کرتے 11(1)- حضرت عرباض بن ساریہ کی روایت کے مطابق رسول کریم بستر پر جاتے ہوئے وہ سورتیں پڑھتے تھے جواللہ کی تسبیح کے ذکر سے شروع ہوتی ہیں ( یعنی الحدید، الحشر، الصف الجمعہ التغابن اور الاعلیٰ ) اور فرماتے تھے ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیتوں سے بہتر ہے.(احمد) 12 حضرت خباب کا بیان ہے کہ رسول کریم بستر پر جانے سے قبل سورۃ کافرون سے لے کر آخر تک تمام سورتیں اللهب ، النصر ، الاخلاص الفلق الناس ) پڑھ کر سوتے تھے.( صیمی ) 13 حضرت عوف بن مالک انجھی کہتے ہیں کہ ایک رات مجھے نبی کریم ﷺ کے ساتھ رات کو عبادت کرنے کی توفیق ملی.آپ نے پہلے سورہ بقرہ پڑھی.آپ کسی رحمت کی آیت سے نہیں گزرتے تھے مگر وہاں رک کر دعا کرتے اور کسی عذاب کی آیت سے نہیں گزرے مگر رک کر پناہ مانگی.پھر نماز میں قیام کے برابر آپ نے رکوع فرمایا.جس میں تسبیح وتحمید کرتے رہے.پھر اسی قیام کے برابر سجدہ کیا.سجدہ میں بھی یہی تسبیح اور دعا پڑھتے رہے.پھر کھڑے ہو کر آل عمران کی تلاوت کی.پھر اس کے بعد ہر رکعت میں ایک ایک سورۃ پڑھتے رہے.(ابوداؤد ) 14 رمضان المبارک نزول قرآن کا مہینہ ہے.اس میں قرآن شریف کی تلاوت اور تدبر کا شغف اپنی معراج پر ہوتا تھا.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نیکیوں میں سب لوگوں سے سبقت لے جانے والے تھے اور سب سے زیادہ آپ کی یہ شان رمضان میں دیکھی جاتی تھی.جب جبریل آپ سے ملاقات کرتے تھے اور یہ ملاقات رمضان کی ہر رات کو ہوتی تھی.جس میں وہ رسول کریم سے قرآن کریم کا دور کرتے تھے یعنی آپ سے قرآن سنتے بھی تھے اور سناتے بھی تھے.اس زمانے میں رسول اللہ کی نیکیوں کا عجب عالم ہوتا تھا.آپ تیز آندھی سے بھی بڑھ کر سخاوت فرماتے تھے.(بخاری)5 15
119 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق اسوہ انسان کامل دوسری روایت میں ذکر ہے کہ جبریل رسول کریم کے ساتھ ہر سال رمضان میں ایک بار قرآن کریم کا دور مکمل کرتے تھے.مگر حضور کی وفات کے آخری سال انہوں نے دودفعہ قرآن کریم کا دور آپ کے ساتھ مکمل کیا.( بخاری 16 ) اور یہ آپ کی آخری سنت تھی.تلاوت قرآن اور خشیت الہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو علم دیا گیا ہے.جب ان پر رحمان خدا کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے خدا کے حضور ٹھوڑیوں کے بل سجدہ ریز ہو جاتے ہیں اور اللہ خشوع میں انہیں اور بڑھا دیتا ہے.(بنی اسرائیل: 110) دوسری جگہ فرمایا کہ قرآن کا کلام سن کر اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں.(سورۃ الزمر:24) ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کون اس مضمون کا مصداق ہوسکتا ہے جو سب سے بڑھ کر خدا ترس تھے.قرآن پڑھتے اور سنتے ہوئے آپ کی کیفیت بھی یہی ہوتی تھی.نبی کریم قرآن شریف کے مضامین میں ڈوب کر تلاوت کرتے تھے اور اس کے گہرے اثرات آپ کی طبیعت پر ہوتے تھے.ایک دفعہ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی ہے فرمایا ہاں ! مجھے سورۃ ھود، الواقعہ، المرسلات النبا اور النگو میر نے بوڑھا کر دیا.(ترمذی) 17 ان سورتوں میں گزشتہ قوموں کا ذکر ہے جن پر احکام خداوندی اور اس کے رسولوں کے انکار کی وجہ سے عذاب آیا اور وہ ہلاک ہوئیں ) رسول کریم نے بعض مواقع پر صحابہ کوسوز وگداز سے بھری آواز میں قرآن کریم کی تلاوت سنائی.ذرا تصور کریں وہ کیا عجب سماں ہوگا اور کیسی بابرکت محفل ہوگی جس میں اس پاک وجود نے جس کے دل پر قرآن اترا.سورہ رحمان جسے عروس القرآن (قرآن کی دلہن ) کا خطاب آپ نے دیا خود صحابہ کو خوش الحانی سے سنائی.یقینا اس وقت آسمان کے فرشتے بھی ہمہ تن گوش ہوں گے اور خدائے ذوالعرش کی بھی محبت کی نظریں آپ پر پڑتی ہوں گی.اس دلکش واقعہ کا ذکر حضرت جابر یوں بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ایک دفعہ انہیں سورہ رحمان تلاوت کر کے سنائی.صحابہ محو حیرت ہو کر خاموشی سے سنتے رہے.رسول کریم نے سورت کی تلاوت مکمل ہونے پر اس سکوت کو توڑتے ہوئے فرمایا کہ میں نے ایک قوم جن کو جب یہ سورت سنائی تو انہوں نے تم سے بھی بہتر نمونہ دکھایا.جب بھی میں نے فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کی آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے تو وہ قوم جواب میں کہتی تھی.لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ وَلَكَ الْحَمْدُ یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کسی چیز کو جھٹلاتے نہیں اور سب تعریفیں تیرے لئے ہیں.(ترمذی)18
120 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق اسوہ انسان کامل قیس بن عاصم نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا جو وحی آپ پر نازل ہوئی ہے.اس میں سے کچھ سنائیں نبی کریم نے سورۃ الرحمان سنائی وہ کہنے لگا دوبارہ سنائیں.آپ نے پھر سنائی اس نے تیسری بار پھر درخواست کی تو آپ نے تیسری مرتبہ سنائی جس پر وہ کہہ اُٹھا خدا کی قسم اس کلام میں روانی اور ایک شیرینی ہے اس کلام کا نچلا حصہ زرخیز ہے تو اُوپر کا حصہ پھلدار ہے.اور میہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں.( قرطبی ( 19 حضرت زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت ابی بن کعب نے رسول کریم ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کو قرآن کی تلاوت سنائی تو سب پر رقت طاری ہوگئی.رسول کریم نے فرمایا رقت کے وقت دعا کو غنیمت جانو کیونکہ یہ بھی رحمت ہے.( قرطبی) 20 کلام الہی سن کر رسول کریم پر رقت طاری ہو جاتی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک روز آپ نے فرمایا کچھ قرآن سناؤ ! جب وہ اس آیت پر پہنچے فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلَّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هُوَ لَاءِ شَهِيدًا (سورۃ النساء : 42) پس کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے.اور ہم تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے.تو آپ ضبط نہ کر سکے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی.ہاتھ کے اشارے سے فرمایا بس کرو.( بخاری ) آپ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ایک شخص کو تلاوت کرتے سنا جو سورہ مزمل کی اس آیت کی تلاوت کر رہا تھا.اِنَّ لَدَيْنَا انْكَالًا وَجَحِيمًا (یعنی ہمارے پاس بیٹیاں اور جہنم ہے تو نبی کریم کے مدہوش ہو کر گر پڑے.(کنز ) 22 21 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ مجھے ایک رات گزارنے کا موقع ملا.آپ نے بسم اللہ کی تلاوت شروع کی اور رو پڑے یہاں تک کہ روتے روتے گر گئے.پھر میں مرتبہ بسم اللہ پڑھی ہر دفعہ آپ روتے روتے گر پڑتے.آخر میں مجھے فرمانے لگے وہ شخص بہت ہی نامراد ہے جس پر رحمن اور رحیم خدا بھی رحم نہ کرے.(ابن جوزی) 23 کند ہ قبیلہ کا وفد رسل اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے آپ سے کوئی نشان صداقت طلب کیا.آپ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کو بطور ثبوت پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ایسا کلام ہے جس پر کبھی بھی باطل اثر انداز نہیں ہوسکتا نہ آگے سے نہ پیچھے سے.پھر آپ نے سورۂ صفت کی ابتدائی چھ آیات کی خوش الحانی سے تلاوت کی.وَالصَّفْتِ صَفًّا فَالزَّجِراتِ زَجْرًا فَالتَّلِيتِ ذِكْرًا هِ إِنَّ الهَكُمْ لَوَاحِدٌ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَرَبُّ الْمَشَارِق (الصفت : 1تا 6) ترجمہ: قطار در قطار صف بندی کرنے والی (فوجوں) کی قسم پھر اُن کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں.پھر
121 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق اسوہ انسان کامل ذکر بلند کرنے والیوں کی.یقینا تمہارا معبود ایک ہی ہے.آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی اور اس کا بھی جوان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا رب ہے.یہاں تک تلاوت کر کے حضور یہ رک گئے کیونکہ آواز بھرا کر گلو گیر ہوگئی تھی.آپ ساکت و صامت اور بے حس و حرکت بیٹھے تھے.آنکھوں سے آنسو رواں تھے جو ٹپ ٹپ داڑھی پر گر رہے تھے.کندہ قبیلہ کے لوگ یہ عجیب ماجرا دیکھ کر حیران ہورہے تھے.کہنے لگے کیا آپ اپنے بھیجنے والے کے خوف سے روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی کا خوف مجھے رُلاتا ہے جس نے مجھے صراط مستقیم پر مبعوث فرمایا ہے.مجھے تلوار کی دھار کی طرح سیدھا اُس راہ پر چلنا ہے اگر ذرا بھی میں نے اس سے انحراف کیا تو ہلاک ہو جاؤں گا.(حلبیہ (24 نمازوں میں مسنون تلاوت قرآن کریم تو سارے کا سارا ہی بہت پیارا ہے.مگر رسول کریم سے مختلف اوقات میں حسب حال مضمون قرآنی کی مناسبت سے نمازوں میں بعض خاص سورتوں کی تلاوت ثابت ہے.آپ ظہر و عصر کی نمازوں میں سورہ فاتحہ کے بعد بعض سورتوں کی خاموش تلاوت فرماتے تھے اور مغرب وعشاء و فجر میں فاتحہ کے ساتھ کسی سورت یا حصہ قرآن کی بآواز بلند تلاوت ہوتی تھی.نماز ظہر کی پہلی دور کعتیں آخری دورکعتوں سے تلاوت کے لحاظ سے دوگنی لمبی ہوتی تھیں.پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں حضرت ابو سعید خدری کا اندازہ قریباً تمیں آیات کے برابر تلاوت کا ہے.حضرت جابر بن سمرہ کے مطابق ظہر وعصر میں سورۃ اللیل کی تلاوت ہوتی تھی.(جس کی 21 چھوٹی آیات ہیں دوسری روایت میں سورۂ اعلیٰ کی تلاوت کا بھی ذکر ہے ) اور فجر کی نماز میں نسبتاً اس سے لمبی تلاوت ہوتی ہے.(مسلم) 25 حضرت جابر کے نزدیک نبی کریم فجر میں سورۃ ق کی تلاوت کرتے تھے بعد میں یہ تلاوت اس سے بھی نسبتا مختصر ہوگئی.حضرت ابو برزہ اسلمی کا اندازہ ہے کہ فجر کی ہر رکعت میں 60 سے 100 آیات کی تلاوت ہوتی تھی.حضرت عمرو بن حریث کا بیان ہے کہ انہوں نے فجر میں رسول کریم کو سورہ تکویر کی تلاوت کرتے سنا.(مسلم )26 حضرت ابوھر میرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الم السجدہ اور سورۃ الدھر کی تلاوت فرماتے تھے.( بخاری ) 27 حضرت عبداللہ بن عباس کہتے ہیں کہ ان کی والدہ ام الفضل نے انہیں مغرب کی نماز میں سورۃ المرسلات پڑھتے سنا تو کہنے لگیں میرے بیٹے ! تم نے نماز مغرب میں یہ سورت تلاوت کر کے مجھے وہ زمانہ یاد کر وا دیا ، جب میں نے نبی کریم ﷺ کو نماز مغرب میں سورۃ المرسلات پڑھتے سنا.(احمد) 28 حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم کو مغرب کی نماز میں سورہ طور پڑھتے سنا.اور ایسی
اسوہ انسان کامل 122 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق خوبصورت اور دلکش آواز میں کہ قریب تھا کہ میرا دل اُڑ جائے.(احمد 29 ) یعنی میں مکمل طور پر اس تلاوت کے سننے میں محو ہو گیا اور اپنی کوئی ہوش نہ رہی.حضرت جابر بن سمرہ نے نماز مغرب میں سورۃ کافرون اور سورۃ اخلاص پڑھنے کی سنت رسول روایت کی ہے.(بغوی) 30 حضرت براء بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو نماز عشاء میں سورۃ التین کی تلاوت کرتے سنا.اور خدا کی قسم میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں تلاوت کرنے والا کوئی نہیں سنا.( بخاری ) 31 حضرت معاذ بن جبل کو رسول کریم نے عشاء میں نسبتا مختصر قرآت کی خاطر سورة ،شمس وا ، والضُّحى،والليل اور سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کی ہدایت فرمائی.(احمد ) 32 نبی کریم جمعہ اور عیدین کے موقع پر سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کی تلاوت فرماتے تھے.(سیوطی )33 اسی طرح جمعہ کی نماز کی پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون کی تلاوت کی روایت بھی آئی ہے.(سیوطی )34 الغرض رسول کریم کے عشق قرآن کا اظہار قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت سے بھی خوب ہوتا تھا.قرآن آپ کی روح کی غذا تھا.اور آپ کسی قلبی کیفیت یہی تھی.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گردگھوموں کعبہ میرا یہی ہے حواله جات 1 تفسير الجامع لاحكام القرآن قرطبی جز 15 ص54دار الكتاب المصرية 2 تفسير الجامع لاحكام القرآن قرطبی جز 11 ص 163 164 دار الكتاب المصرية 3 مستدرك على الصحيحين للحاكم جلد 2 ص 278 4 مسنداحمد جلد 3 ص 166 5 مسنداحمد جلد 2 ص 450 6 مسنداحمد جلد 6 ص 302 7 مستدرك على الصحيحين للحاكم جلد 1 ص 724
اسوہ انسان کامل بخاری(4) كتاب الوضوء باب 35 9 بخاری(83) كتاب الدعوات باب 9 123 10 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب 22 11 12 مسند احمد جلد 6 ص 68 مسند احمد جلد 4 ص 128 13 مجمع الزوائد هیثمی جلد 10 ص 166 14 ابوداؤد (2) کتاب الصلوة ـ باب 153 15 بخاری(36) كتاب الصوم باب7 16 بخاری (69) كتاب الفضائل القرآن باب 7 17 ترمذی (48) كتاب تفسير القرآن باب 56 18 ترمذى (48) كتاب التفسير سورۂ رحمان باب 55 رسول کریم کی قرآن کریم سے گہری محبت اور عشق 19 تفسير الجامع لاحكام القرآن للقرطبي سورة الرحمان جلد 17 ص 151دارالكتاب المصرية 20 تفسير الجامع لاحكام القرآن قرطبی جلد 15 ص 250 دار الكتاب المصرية 21 بخاری(69) کتاب فضائل القرآن باب 33 22 كنز العمال جلد 7 ص 206 23 الوفا باحوال المصطفى لابن جوزی ص373يروت 24 السيرة الحلبيه جلد 3 ص92 بيروت 25 مسلم(5) كتاب الصلوة باب 34 26 مسلم(5) كتاب الصلوة باب 35 27 بخاری (17) كتاب الجمعه باب 9 28 مسنداحمد جلد 6 ص 340 29 مسنداحمد جلد4ص84 30 شرح السنه للبغوى جلد3ص81 31 بخاری (16) کتاب الصلوة باب 18 32 مسنداحمد جلد 5 ص 355 33 تفسير الدر المنثور سورة الاعلى جلد6 ص 338 34 تفسير الدر المنثور سورة المنافقون جلد6ص 222
اسوہ انسان کامل 124 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز آداب دعا رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبولیت دعا کے راز اپنے تجربے سے خود مشاہدہ کئے پھر ہمیں بھی وہ آداب سکھائے.آپ نے ان حالات، مقامات، اوقات، مواقع اور کیفیات کی نشاندہی فرمائی جن میں دعا ئیں بطور خاص قبول ہوتی ہیں.ان تمام کیفیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دراصل یہ حالتیں انسان میں جوش اضطراب اور دعا کی تحریک میں ممد و معاون ہوتی ہیں.اس لئے ایسے حالات اور اوقات کی دعائیں خاص قبولیت کا اثر رکھتی ہیں.ان با برکت اوقات کا تذکرہ یہاں مناسب ہوگا.نماز تہجد کی دعائیں ( بالخصوص رات کے آخری حصہ میں ) اذان کے وقت نیز اذان واقامت کے درمیان کی دعا سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد آمین کی کیفیت میں امام اور ملائکہ سے موافقت یعنی نماز میں توجہ سے دعا حالت سجدہ کی دعائیں نماز جمعہ میں قبولیت دعا کی گھڑی مسلمانوں کے اجتماع اور پاکیزہ مجالس ذکر کی دعائیں روزہ دار کی افطاری کے وقت کی دعا رمضان المبارک بالخصوص آخری عشرہ اور لیلتہ القدر کی دعائیں ختم قرآن کے وقت کی دعا حالت مظلومیت کی دعائیں بارش کے وقت کی دعا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا.ایک شخص کی دوسرے غیر موجود بھائی کے حق میں دعائیں بعض تعلقات کی وجہ سے بھی دعا میں اضطراب اور جوش پیدا ہوکر وہ لائق قبول ٹھہری ہے.مثلاً والدین کی اولاد کے بارے میں اور نیک اولاد کی والدین کے حق میں دعا امام عادل کی دعا نیز صالح اور نیک لوگوں کی دعائیں بعض مقامات بھی قبولیت دعا کے لئے خاص جوش اور تا ثیر پیدا کرتے ہیں.مکہ مکرمہ میں بیت اللہ کو دیکھ کر دعا مقام ابراہیم پر نیز حجر اسود کے پاس دعا
اسوہ انسان کامل 125 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز صفا مروہ پر دعا مسجد نبوی اور بیت المقدس میں دعا مشعر الحرام اور میدان عرفات میں دعا اس جگہ قبولیت دعا کے ان جملہ مواقع اوقات و حالات اور تعلقات کے بارہ میں رسول کریم میہ کے بعض ارشادات بیان کرنے مناسب ہوں گے.1.نماز تہجد کا وقت خاص قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے.رسول کریم فرماتے ہیں کہ ” ہمارا رب ہر رات کو جب آخری تہائی شب باقی رہ جائے ، نچلے آسمان پر اتر آتا ہے اور کہتا ہے کہ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں.کون ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اس کو عطا کروں.کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرے اور میں اسے بخش دوں.( بخاری )1 بعض روایات میں آدھی رات گزر جانے کے بعد اور بعض میں ایک تہائی رات کے بعد اللہ تعالیٰ کے نچلے آسمان پر اُتر آنے کا ذکر ہے.حضرت ابوامامہ باہلی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں.آپ نے فرمایا کہ رات کے آخری حصہ میں سب سے زیادہ قبولیت دعا کا وقت ہوتا ہے.اس کے بعد فرض نمازوں کے معاً بعد کے اوقات بھی خاص قبولیت کے ہیں.“ ( ترمذی )2 2.اذان کے وقت کی دعا کے بارے میں حضرت سہل کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو ایسے اوقات ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتی ایک اذان کے وقت، دوسرے جنگ کے دوران جب دشمن سے سخت مقابلہ جاری ہو.“ ( ابوداؤد ) 3 حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی دعا کبھی رو نہیں کی جاتی.کسی نے پوچھا اس وقت کون سی دعا کرنی چاہیے.فرمایا’ دنیا و آخرت کی بھلائی مانگو.( ترمذی )4 3.ختم قرآن کا وقت بھی خاص قبولیت کے اوقات میں سے ہے.رسول کریم نے فرمایا کہ جب بندہ قرآن کریم ختم کرتا ہے تو اس وقت ساٹھ ہزار فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اس موقع پر آپ نے قبر کی وحشت سے مانوسیت اور حصول رحمت باری کی دعا رسول اللہ نے سکھلائی.ایک اور روایت میں ہے کہ ختم قرآن کا وقت نزول رحمت کا وقت ہوتا ہے.(شوکانی )5 4.آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کو جمعہ کی ایک خاص گھڑی کا بتایا جس میں دعا ئیں خاص طور پر قبول ہوتی ہیں.اس گھڑی کا وقت خطبہ جمعہ سے لے کر جمعہ کے دن کے ختم ہونے تک بیان کیا گیا ہے.خاص طور پر خطبہ جمعہ اور
اسوہ انسان کامل 126 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز نماز کے دوران اس گھڑی کی توقع کی جاسکتی ہے.(ابو داؤد ) 6 5.رمضان المبارک دعاؤں کا خاص مہینہ ہے.بالخصوص اس کے آخری عشرہ میں آنحضرت کی سنت سے اعتکاف کے خاص مجاہدے کے ساتھ دعائیں کرنا ثابت ہے.( بخاری )7 رسول اللہ نے فرمایا روزہ دار کے لئے افطاری کا وقت قبولیت دعا کا ایک خاص موقع ہوتا ہے.جس وقت اس کی دعا رڈ نہیں کی جاتی.( ترمذی )8 6.رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلتہ القدر کی رات خاص طور پر قبولیت دعا کے اوقات میں سے ہے.( بخاری )9 7.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ جب بھی نیک لوگ اللہ تعالی کا ذکر کرنے بیٹھتے ہیں تو فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور ان پر رحمت و سکینت کا نزول ہوتا ہے اور ان کو مغفرت عطا ہوتی ہے.( بخاری ) 10 8.بعض احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہارانِ رحمت کے نزول کا وقت بھی قبولیت دعا کا خاص وقت ہوتا ہے.(ابن ماجہ ) 11 9.جن کیفیات میں دعا بطور خاص قبول ہوتی ہے.ان میں ایک وہ حالت ہے جب نماز میں توجہ اور خشوع حاصل ہو.حدیث میں آتا ہے جب سورۃ فاتحہ کی دعا کے بعد ملائکہ کی آمین سے کسی کی آمین کی موافقت ہو جائے تو اس کے گناہ معاف کئے جاتے ہیں.( بخاری )12 10.سجدے میں دعاؤں کا خاص موقع ہوتا ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انسان حالت سجدہ میں اپنے رب سے بہت قریب ہوتا ہے.پس تم اس وقت کثرت سے دعائیں کیا کرو.(مسلم) 13 11.مظلوم کی دعا بھی خاص قبولیت کے لائق ہے.آنحضرت ﷺ نے جن تین دعاؤں کی خاص قبولیت کا ذکر فرمایا ان میں ایک مظلوم کی دعا ہے.حضور ﷺ نے فرمایا کہ مظلوم کی دعا سے بچو.کیونکہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا.( بخاری )14 12.ایسے شخص کے لئے خاص توجہ اور جوش سے دعا کرنا جو پاس موجود نہ ہو خاص قبولیت کا موقع ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سرعت کے ساتھ قبول ہونے والی دعا اس شخص کی دعا ہے جو اپنے کسی غیر حاضر بھائی کے لئے دعا کرتا ہے.(مسلم )15 13.دعا کرنے والے کی حالت بھی قبولیت دعا میں ممد و معاون ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اپنے اللہ سے اس کے حضور، ہتھیلیاں پھیلا کر سوالی بن کر دعا مانگا کرو اور جب دعا سے فارغ ہو جاؤ تو ہاتھ منہ پر پھیر لو.اسی طرح فرمایا کہ تمہارا رب بہت ہی کریم اور حیادار ہے.جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے تو اس کو اس بات سے شرم
اسوہ انسان کامل 127 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز آتی ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی واپس لوٹا دے.(ترندی) 16 بعض رشتے اور تعلقات بھی قبولیت دعا کے لئے محرک ہوتے ہیں.چنانچہ والد کی دعا کے بارے میں آنحضرت نے فرمایا کہ اگر والد اولا د کے خلاف دعا کرے تو اس کی قبولیت میں شک نہیں ہوتا.( ترمذی 17 ) اسی طرح والدین کی اولاد کے حق میں اور نیک اولاد کی اپنے والدین کے لئے دعا بھی خاص طور پر قبولیت کا رنگ رکھتی ہے.15.آنحضرت ﷺ نے امام عادل یعنی مسلمانوں کے نیک اور بزرگ ائمہ کی دعا کے متعلق فرمایا کہ وہ رڈ نہیں کی جاتی اسی طرح نیک اور صالح لوگوں کی دعائیں بھی قبولیت کا خاص مرتبہ رکھتی ہیں.(ترمندی ) 18 بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دعائیں خاص قبول ہوتی ہیں.16.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ذکریا کو حصول اولاد کے لئے جب جوش دعا پیدا ہوا تو وہ اپنے محراب ( عبادت کی خاص جگہ ) میں دعا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ٹلے نہیں جب تک دُعا قبول نہیں ہوئی.اسی جگہ ان کو دعا قبول ہو جانے کی خوشخبری بھی عطا کی گئی.( سورۃ آل عمران: 39,40) 17.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بیت اللہ کے ماحول میں ” مقام ابراہیم پر خاص طور سے عبادات اور دعائیں کرنے کی ہدایت فرمائی.(البقرہ ) پس یہ دعائیں بھی خاص تاثیر رکھتی ہیں.18.رسول کریم نے فرمایا کہ جب بیت اللہ پر نظر پڑے تو جو دعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے.19.اسی طرح بیت اللہ میں حجر اسود کے پاس دعا کا خاص موقع ہوتا ہے جہاں رسول کریم نے بہت رو رو کر دعائیں کیں.( شوکانی )19 20 صفا مروہ اور مشعر الحرام کے پاس بھی رسول اللہ نے دعائیں کیں.اس جگہ بھی دعا کی خاص قبولیت کا ذکر ملتا ہے.(نسائی) 20 21.میدان عرفات کی دعا کو رسول اللہ نے بہترین دعا قرار دیا.(ترمندی )21 22.رسول اللہ نے بیت اللہ کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ میں سے بطور خاص مدینہ کی مسجد نبوی اور بیت المقدس کی طرف خاص اہتمام سے سفر کرنے کی اجازت فرمائی.ان مقامات میں بھی انسان قبولیت دعا کے خاص مواقع حاصل کرسکتا ہے.( بخاری )22 آداب دعا اور چند جامع دعائیں آداب دعا میں یہ شامل ہے کہ اس سے قبل اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کرنی چاہئے.سورۃ فاتحہ کے بعد درود شریف پڑھ کر دعا کرنی زیادہ مناسب اور مقبول ہے.
اسوہ انسان کامل 128 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز رسول کریم نے صحابہ کو دعا کے آداب بھی سکھائے.ایک دفعہ آپ ایک شخص کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.جو چوزے کی طرح کمزور ہو چکا تھا.رسول کریم نے اس کی حالت بھانپ کر فرمایا کیا تم کوئی خاص دعا کرتے تھے وہ کہنے لگا ہاں میں دعا کرتا تھا کہ اے اللہ تو نے جو سزا مجھے دینی ہے.آخرت کی بجائے اسی دنیا میں دے لے.رسول کریم نے فرمایا اللہ پاک ہے تمہیں اس سزا کی برداشت کہاں ہے؟ تمہیں یہ دعا کرنی چاہئے تھی اللَّهُمَّ اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَ فِي الآخِرَةِ حَسَنَةٌ ، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی نیکی عطا کر اور آخرت میں بھی.اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.پھر رسول کریم نے اس شخص کے لئے دعا کی اور اسے اللہ تعالیٰ نے شفا عطا فرمائی.(مسلم) 23 حضرت عبد اللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ روزانہ صبح اور شام کچھ دُعائیہ کلمات ضرور پڑھتے تھے.اُن میں سے ایک دُعا یہ ہے:.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْعَفْوَ وَالْعَافِيَةَ فِي دِينِي وَدُنْيَايَ وَأهْلِي وَمَالِى اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِي، وَآمِنْ رَوْعَاتِي اللَّهُمَّ احْفَظْنِيْ مِنْ بَيْنِ يَدَيَّ وَمِنْ خَلْفِي وَعَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي وَمِنْ فَوْقِى، وَأَعُوْذُ بِعَظْمَتِكَ أَنْ أَغْتَالَ مِنْ تَحْتِي - (ابوداؤد )24 اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلبگار ہوں.مولیٰ ہمیں تجھ سے دین ودنیا، مال وگھر بار میں عفو اور عافیت کا خواستگار ہوں.اے اللہ ! میری کمزوریاں ڈھانپ دے اور مجھے میرے خوفوں سے امن دے.اے اللہ ! آگے پیچھے دائیں بائیں اور اوپر سے خود میری حفاظت فرما اور میں تیری عظمت کی پناہ چاہتا ہوں کہ میں نیچے سے کسی مخفی مصیبت کا شکار ہوں.حضرت ابوامامہ باہلی کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے رسول کریم اللہ سے عرض کیا کہ آپ نے ڈھیر ساری دُعائیں کی ہیں جو ہمیں یا دہی نہیں رہیں.آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک جامع دعا سکھا تا ہوں تم یہ یاد کرلو:.اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا سَتَلَكَ مِنْهُ نَبِيُّكَ مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّمَا اسْتَعَاذَ مِنْهُ نَبِيَّكَ مُحَمَّد صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْتَ الْمُسْتَعَانُ ، وَعَلَيْكَ الْبَلاغ - ( ترندی) 25 اے اللہ ! ہم تجھ سے وہ تمام خیر و بھلائی مانگتے ہیں جو تیرے نبی ﷺ نے تجھ سے مانگی اور ہم تجھ سے ان باتوں سے پناہ چاہتے ہیں جن سے تیرے نبی محمد ﷺ نے پناہ چاہی.تو ہی ہے جس سے مدد چاہی جاتی ہے.پس تیرے تک دُعا کا پہنچا نا لا زم ہے.حضرت معاذ بن جبل بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ایک دفعہ فجر کی نماز میں اتنی تاخیر سے تشریف لائے کہ سورج
129 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اسوہ انسان کامل نکلنے کے قریب ہو گیا.آپ نے مختصر نماز پڑھا کر فرمایا کہ تم لوگ اپنی جگہ بیٹھے رہو.پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا میں تمہیں آج فجر کی نماز پر دیر سے آنے کی وجہ بتا دوں.میں رات کو تہجد کے لئے اُٹھا اور جتنی توفیق تھی نماز پڑھی.نماز میں ہی مجھے اونگھ آگئی.آنکھ کھلی تو اپنے رب کو نہایت خوبصورت شکل میں دیکھا.اللہ نے فرمایا اے محمد معلوم ہے فرشتے کس بارہ میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے معلوم نہیں.دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہی پوچھا تو میں نے یہی جواب دیا.پھر میں نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے کندھے پر رکھی یہاں تک کہ اس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینے میں محسوس کی اور ہر چیز میرے پر روشن ہو گئی.پھر اللہ نے پوچھا اے محمد فرشتے کس بارہ میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا سفارات کے بارہ میں.اللہ نے فرمایا کفارات؟ یعنی وہ امور جن سے گناہ دور ہوتے ہیں کان سے ہیں.میں نے کہا نماز با جماعت کے لئے چل کر مسجد جانا اور نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکر الہی کرنا اور نا پسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا.پھر اللہ نے پوچھا اور درجات کیا ہیں؟ میں نے کہا کھانا کھلانا ، نرم کلام کرنا اور نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوں.تب اللہ نے فرمایا اب مانگو جو مانگتے ہو.تب میں نے یہ دعا کی.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ، وَتَرْكَ الْمُنْكَرَاتِ، وَحُبَّ المَسَاكِينِ، وَأَن تَغْفِرْلِى وَتَرْحَمْنِي، وَإِذَا أَرَدْتْ فِتْنَةٌ فِي قَوْمٍ فَتَوَفَّنِي غَيْرَ مَفْتُون، وَأَسْأَلُكَ حُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ ، وَحُبَّ عَمَلٍ يُقَرِّبُنِي إِلَى حُبِّكَ ”اے اللہ! میں تجھ سے نیک کام کرنے اور بری باتیں چھوڑنے کی توفیق چاہتا ہوں.مجھے مساکین کی محبت عطا کر.اور مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر.اور جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے موت دے دینا.میں تجھ سے تیری محبت چاہتا ہوں اور اس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے.رسول اللہ نے فرمایا یہ دعا برحق ہے اسے خود بھی یاد کرو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ.( احمد ) 26 سیرت النبی قبولیت دعا کے واقعات خدا ایک مخفی خزانہ تھا اس نے چاہا کہ وہ پہچانا جائے سو اس نے انسان کو پیدا کیا اور اپنی ذات وصفات کا عرفان اسے بخشا.ان صفات میں سے ایک نہایت اہم صفت جو ہستی باری تعالیٰ پر زبر دست گواہ ہے خدا تعالیٰ کا مجیب الدعوات ہونا ہے.وہ خود اپنی ہستی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ کون ہے جو لا چار کی دعائیں سنتا اور اس کی مصیبت دور کرتا ہے کیا خدا کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ ( سورۃ النمل: 63) اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہوں جو ہر پکارنے والے کی پکار سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں ،شرط یہ ہے کہ یہ دعائیں کرنے والے کامل ایمان کے ساتھ میرے حکم قبول کریں.(سورۃ البقرہ: 187) دراصل قبولیت دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ جتنا کوئی خدا کی باتیں مانتا ہے اسی قدر اس کی سنی اور مانی جاتی ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں کی زندگی گواہ ہے کہ ان کا ایک ایک لمحہ دعا کے سہارے گزرا اور تبھی وہ کامیاب و کامران ہوئے.
130 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اسوہ انسان کامل انبیاء کرام کے اس عظیم گروہ میں ایک وہ مرد میدان بھی ہے جس نے اپنے رب کریم کی اطاعت میں اپنا وجود ایسا مایا کہ ا کی رضا اس کی رضا بن گئی.وہی فخر انسانیت جس نے یہ نعرہ بلند کیا کہ ”میری نمازیں اور قربانیاں اور میرا مرنا اور جینا سب اس اللہ کے لئے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.تب خدا بھی اس پر خوب مہربان ہوا اور اس دنیا میں اس کی سب مرادیں پوری کیں.اگلے جہاں میں بھی جب تمام انبیاء کی خدمت میں خدا کے دربار میں شفاعت کرنے کی التماس ہو گی تو سب انبیاء کے عذر کے بعد آپ ہی وہ جری اللہ ہیں جو آگے بڑھیں گے اور اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اور گڑگڑا کر اپنے امتیوں کے لئے شفاعت کی اجازت چاہیں گے تب آپ کو یہ مردہ سنایا جائے گا کہ سل تُغطة “ آج آپ جو مانگیں گے عطا کیا جائے گا.اور پھر کتنے ہی ایسے امتیوں کے حق میں آپ کی شفاعت قبول ہوگی جن کے اعمال صالحہ میں کچھ کمزوریاں بھی رہ گئی تھیں اور وہ سب بخشے جائیں گے.یقیناً یہی وہ عظیم الشان مقبول دعا ہوگی جس کے بارے میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطف معہ فرمایا کرتے تھے کہ ہر نبی کو ایک خاص دعا کی قبولیت کا وعدہ ہوتا ہے اور میں نے وہ دعا اپنی امت کے لئے محفوظ کر رکھی ہے جو روز قیامت اپنے رب سے مانگوں گا.ہزاروں ہزار درود ہوں اس محسن اعظم پر جنہیں اپنی امت کا اس قدر درد تھا.( بخاری ) 7 27 حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں دعا کا عرفان اور اس پر سچا ایمان ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے نے پیدا کیا ، آپ نے ہمیں سکھایا کہ جوتی کا تسمہ بھی مانگنا ہو تو اپنے رب سے مانگو.آپ کا تو لحہ لحہ دعا تھا اور آپ کی پاکیزہ سیرت قبولیت دعا کے سینکڑوں خوبصورت نمونوں سے بھری پڑی ہے.جن میں سے چند واقعات کا تذکرہ اس جگہ کیا جا رہا ہے تا کہ قبولیت دعا پر ایمان اور یقین بڑھے اور دعا کے لئے جوش اور جذبے اس طرح پروان چڑھیں جیسے حضرت مریم کے ہاں بے موسم پھل دیکھ کر حضرت زکریا میں دعا کا جوش پیدا ہوا تھا جو بالآخر ان کی قبولیت کا باعث ٹھہرا.ہم بھر پور یقین اور عزم کے ساتھ اپنے اس مولیٰ سے مانگیں جو اپنے بندوں کے ساتھ گمان کے مطابق ہی سلوک کرتا ہے.سیرت رسول سے ایسی مقبول دعاؤں کے چند نمونے یہاں پیش ہیں.ہدایت کیلئے دعا ئیں (1) ہمارے آقا و مولیٰ کا اٹھنا بیٹھنا اور اوڑھنا بچھونا تو دعا ہی تھا، آپ کے ہر کام کا آغاز بھی دعا سے ہی ہوتا تھا اور دعاؤں سے ہی آپ کے کام انجام کو پہنچتے تھے.مکہ میں جب آپ نے دعوت اسلام کا آغا ز فرمایا اور مخالفت شروع ہوئی تو سرداران قریش میں عمرو بن ہشام ( ابو جہل ) اور عمر بن خطاب جیسے شدید معاندین پیش پیش تھے.رسول کریم کے دل میں ان شدید دشمنان اسلام کے حق میں محبت اور رحم کے جذبات ہی پیدا ہوئے اور آپ نے خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی.”اے اللہ ! ان دو اشخاص عمر و بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ ( جو تجھے پسند ہو ) اسلام کو عزت اور قوت نصیب فرما.‘ ( ترندی ) 28
131 اسوہ انسان کامل رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز پھر دنیا نے دیکھا کہ ہادی برحق کی دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی یہ دعا ایسے حیرت انگیز معجزانہ رنگ میں قبول ہوئی کہ وہی عمر جو گھر سے تلوار لے کر رسول خدا کوقتل کرنے نکلے تھے اسلام کی محبت اور دعا کی تلوار سے گھائل ہو گئے.(2) جب قریش نافرمانیوں میں حد سے بڑھ گئے اور ان کے ایمان لانے کی صورت نظر نہ آئی.تب بھی اس رحمتہ للعالمین نے ان کی ہلاکت نہیں مانگی بلکہ بارگاہ الہی میں ایک التجا کی ( جو شاید بظاہر تو بد دعا معلوم ہو لیکن فی الواقع وہ ان کو کسی بڑی سزا اور تباہی سے بچانے کے لئے ایک نہایت حکیمانہ دعا ھی ) آپ نے عرض کیا ”اے میرے مولی ! ان مشرکین مکہ کے مقابلہ پر میری مدد کسی ایسے قحط سے فرما جس طرح حضرت یوسف کی مدد تو نے قحط سالی کے ذریعہ فرمائی تھی.“ اس دعا میں رحمت و شفقت کا یہ عجیب رنگ غالب تھا کہ ان کو قحط سے ہلاک نہ کرنا بلکہ جس طرح یوسف کے بھائی قحط سالی سے مجبور ہو کر اس نشان کے بعد بالآخر ان پر ایمان لے آئے تھے اس طرح میری قوم کو بھی میرے پاس لے آ.چنانچہ یہ دعا قبول ہوئی اور مشرکین مکہ کو ایک شدید قحط نے آگھیرا.یہاں تک کہ ان کو ہڈیاں اور مردار کھانے کی نوبت آئی.تب مجبور ہو کر ابوسفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد ! آپ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں.آپ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں ( کہ وہ قحط سالی دور فرمائے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ کی قوم تباہ ہو جائے گی“.29 رسول کریم نے ابوسفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ ” تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو.مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہرگز منظور نہ تھی.پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی دعا کی اور یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی.اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے.مگر ساتھ ہی وہ انکار و مخالفت میں بھی تیز ہو گئے.( بخاری )9 حضور کی دعا سے جب بارشوں کا کثرت سے نزول شروع ہوا تو مسلسل کئی روز تک بارش ہوتی چلی گئی.مشرکین نے پھر آکر بارش تھم جانے کے لئے درخواست دعا کی اور رسول اللہ کی دعاؤں کے نتیجہ میں بارش تھم گئی.(سیوطی (30) مگر حیف صد حیف کہ اس نشان کے باوجود قریش انکار و مخالفت سے باز نہ آئے.(3) مکی دور میں مشرکین مکہ کی مخالفت اور انکار بالاصرار سے تنگ آکر جب ہمارے آقا و مولی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے الہی ارشاد کے مطابق طائف کا قصد فرمایا تو آپ کو زندگی کی سب سے بڑی تکلیف اور اذیت وہاں اٹھانی پڑی.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ آپ سے پوچھا کہ یا رسول اللہ جنگ اُحد ( جس میں آپ شدید زخمی ہوئے اور تکلیف اٹھائی سے زیادہ بھی بھی آپ کو تکلیف برداشت کرنی پڑی ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا اے عائشہ میں نے تیری قوم سے بہت تکلیفیں برداشت کیں.مگر میری تکلیفوں کا سخت ترین دن وہ تھا جب میں طائف کے سردار عبدیالیل کے پاس گیا اور ( پیغام حق پہنچانے کے لئے ) اس سے اعانت اور امان چاہی مگر اس نے انکار کر دیا ( بلکہ شہر کے اوباش آپ کے پیچھے
اسوہ انسان کامل 132 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز لگادئے جو آپ کو پتھر مارنے لگے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سے خون بہنے لگا ).تب میں افسردہ ہو کر وہاں سے لوٹا.اس موقع پر ہمارے آقا و مولیٰ نے دردوکرب میں ڈوبی ہوئی دعا کی اس سے آپ کی اس جسمانی تکلیف اور اذیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اس موقع پر آپ نے برداشت کی.دعا سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ مکہ اور طائف والوں کے انکار اور ظلم کے مقابل پر اپنی بے بسی اور بے کسی کا عالم دیکھ کر اس اولوالعزم رسول سید المعصومین کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا.آپ نے اپنے مولیٰ کی غیرت کو یوں جوش دلایا کہ:.”اے خداوند ! میں اپنے ضعف و ناتوانی، مصیبت اور پریشانی کا حال تیرے سوا کس سے کہوں؟ مجھ میں صبر کی طاقت اب تھوڑی رہ گئی ہے.مجھے اپنی مشکل حل کرنے کی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی.میں سب لوگوں میں ذلیل ورسوا ہو گیا ہوں.تیرا نام ارحم الراحمین ہے تو رحم فرما ! کیا تو مجھے دشمن کے حوالے کر دے گا جو مجھے تباہ و برباد کر دے.خیر ! جو چاہے کر پر تو مجھ سے ناراض نہ ہونا.بس پھر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے.(طبرانی) 31 پھر جب آپ قرن العالب مقام پر پہنچے تو کچھ اوسان بحال ہوئے.آسمان کی طرف نگاہ کی تو جبریل کی آواز آئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کا جواب بھیجا ہے.تب ملک الجبال نے آپ کو سلام کیا اور کہا کہ اے محمد ! آپ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو ان دو پہاڑوں کو اس وادی پر گرا کر تباہ کر دوں.اپنے جانی دشمنوں کی ہلاکت کے جملہ اسباب جمع ہو جانے پر بھی آپ نے ان کی تباہی نہیں چاہی.آپ نے جواب دیا کہ نہیں ایسا مت کرو.میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد لاشریک کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.( بخاری )32 صرف یہی نہیں کہ آپ نے اپنی قوم کی ہلاکت نہیں چاہی بلکہ نہایت درد کے ساتھ خدا تعالیٰ سے دعا کی.اللهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت نصیب کر کہ یہ نادان ہیں.( خضری ) 33 بے کسی اور بے بسی کے زمانے کا یہ عجیب اور حیرت انگیز ماجرا ہے کہ وہ قوم جس سے ہمارے آقا و مولیٰ کوزندگی کا سب سے بڑا دکھ پہنچتا ہے.اُن کے لئے بھی آپ کے دل کی گہرائیوں سے رحمت و ہدایت کی دعا کے سوا کچھ نہیں نکلتا پھر جب مکہ فتح ہوتا ہے اور آپ کو اتنی طاقت حاصل ہوتی ہے کہ چاہیں تو طائف کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اس وقت بھی آپ اہل طائف کے لئے اپنے مولیٰ سے رحمت کی بھیک مانگتے ہی نظر آتے ہیں.اسلامی لشکر جب طائف کا رخ کرتا ہے تو اہل طائف محصور ہو کر مقابلہ کی ٹھان لیتے ہیں اور قلعہ بند ہو کر کھلے میدان میں پڑے مسلمان محاصرین پر خوب تیر اندازی کرتے ہیں تب صحابہ سے رہا نہیں جاتا اور وہ رسول اللہ کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ ثقیف قبیلہ کے تیروں کی بارش نے ہمیں بھون کر رکھ دیا ہے آپ ان ظالموں کے خلاف کوئی بد دعا کریں.ایک ظالم قوم کا مسلسل ظلم اور انکار دیکھ کر اور طاقت پا کر بھی ہمارے آقا ومولیٰ کی رحمت ودعا پھر جوش میں ہے آپ جوا با فرماتے ہیں !
اسوہ انسان کامل 133 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اَللَّهُمَّ اهْدِ ثَقِيْفاً.اے اللہ ! وادی طائف کی قوم ثقیف کو ہدایت عطا فرما.دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی یہ دعا بھی قبولیت کا شرف پاگئی اور 9ھ میں قوم ثقیف نے مدینہ میں آکر اسلام قبول کر لیا.(ترمندی) 34 (4) یمن کے قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو نے قبول اسلام کے بعد نبی کریم سے درخواست کی کہ میں اپنے قبیلہ کا سردار ہوں اور انہیں جا کر اسلام کی طرف بلانا چاہتا ہوں.آپ خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے کوئی تائیدی نشان عطا فرمائے.نبی کریم نے اُسی وقت دعا کی کہ اے اللہ طفیل بن عمرو کو کوئی نشان عطا کر.یہ دعا عجیب رنگ میں قبول ہوئی جس نے حضرت طفیل کو بھی مستجاب الدعوات بنا دیا.حضرت طفیل کہتے ہیں میں اپنی قوم کی طرف لوٹا تو اپنے شہر میں داخل ہوتے وقت میری پیشانی پر روشنی کا ایک نشان ظاہر ہوا.میں نے دعا کی کہ اے اللہ ! میری قوم یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ اپنا دین تبدیل کرنے کی وجہ سے میرا چہرہ مسخ ہو گیا ہے.اس لئے یہ نشان کہیں اور ظاہر فرمادے.چنانچہ میری چابک کے سرے پر وہ روشنی ظاہر ہوگئی اور جب میں شہر میں داخل ہوا تو لوگ میری چابک سکتے سے ایک روشن چراغ کا نظارہ کرنے لگے طفیل کے والد اور بیوی وغیرہ رشتہ داروں نے تو ان کی حکمت عملی سے نیز یہ نشان دیکھ کر حق قبول کر لیا مگر قوم پھر بھی نہ مانی.تب حضرت طفیل نے دوبارہ مکہ آکر رسول اللہ سے اپنی قوم کے خلاف بد دعا کی درخواست کی.نبی کریم نے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ دوس قبیلہ کو ہدایت عطا فرما اور ان کو یہاں لے کر آ.اور طفیل کو یہ نصیحت فرمائی کہ آپ واپس جا کر نہایت حکمت، نرمی اور محبت سے اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلائیں.اس نصیحت پر عمل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دوس قبیلہ مسلمان ہونے لگا.غزوہ خیبر کے زمانہ میں حضرت طفیل اپنی قوم میں سے مسلمان ہونے والوں کو لیکر آئے اور جلد ہی مدینہ میں دوس کے ستر اسی گھرانے آباد ہو گئے.یہ بلاشبہ رسول اللہ کی دعا کا معجز نمانشان تھا.( بخاری )35 (5) دوس قبیلہ کے ابو ہریرہ اور ان کی مشرک والدہ بھی اسی دعا کا پھل تھے.ایک روز حضرت ابو ہریرہ نے اپنی مشرک والدہ کو اسلام قبول کرنے کو کہا تو انہوں نے رسول اللہ کی شان میں گستاخی کی.ابو ہریرہ بڑے کرب کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل سے یہ دعا نکلی.اللھم اهْدِ أَمَّ أَبِي هُرَيْرَةَ" اے اللہ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے.یہ دعا عجیب معجزانہ طور پر قبول ہوئی.ابو ہریرہ گھر واپس آئے تو ان کی والدہ میں ایک عجیب تغیر اور انقلاب پیدا ہو چکا تھا.وہ بآواز بلند أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ " پڑھ کر اپنے قبول اسلام کا اعلان کر رہی تھیں.حضرت ابو ہریرہ پھولے نہ سمائے اور خوشی کے آنسو لئے اسی وقت پھر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.سارا واقعہ آپ سے عرض کیا.دعا پر ان کا ایمان اتنا پختہ ہو چکا تھا کہ عرض کیا اے خدا کے رسول ! دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری والدہ کی محبت مومنوں کے دلوں میں پیدا کر دے اور رسول اللہ نے ان کے حق میں یہ دعا بھی کر دی.( ابن حجر ) 36
134 اسوہ انسان کامل رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز (6) ایک دفعہ ایک یہودی نبی کریم کے پاس بیٹھا تھا.حضور کو چھینک آئی تو یہودی نے يَرحَمُكَ الله کہا کہ اللہ آپ پر رحم کرے.نبی کریم نے اسے جواب یہ دعادی کہ اللہ تمہیں ہدایت دے.چنانچہ اس یہودی کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی.(سیوطی ) 37 ہمارے آقا و مولیٰ کی یہ دعائیں ہی تھیں جنہوں نے سرزمین عرب کی کایا پلٹ دی تھی.یہ تو ان دعاؤں کا ذکر تھا جو قوم کی ہدایت کے لئے گاہے بگا ہے آپ نے کیں مگر آپ کا وجود تو مجسم دعا تھا.چلتا پھرتا دعاؤں کا ایک پیکر.ایسے لگتا ہے کہ مَا يَعْبَوابِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمُ (الفرقان : 78 ) ( کہ اگر تم دعا نہ کرو تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے ) کا ارشاد ہر دم آپ کے مد نظر رہتا تھا.غزوات میں دعائیں رسول اللہ کی زندگی کی تمام تر فتوحات بھی دراصل آپ کی دعاؤں کی ہی مرہون منت تھیں.ہر مشکل مرحلے پر آپ ہمیشہ خدا کو یاد کرتے اور نصرت الہی طلب کرتے نظر آتے ہیں.یوں معلوم ہوتا ہے کہ دعا آپ کی زندگی اور آپ کی جملہ مہمات دینیہ کی ایک کلید تھی.جسے آپ ہر ضرورت کے وقت استعمال فرماتے تھے.ہمیشہ یہ کلید آپ کے لئے فتوحات کے دروازے کھولتی ہوئی نظر آتی ہے.(7) بدر کی فتح کو اگر کوئی 313 نہتے مسلمانوں کی فتح قرار دیتا ہے تو دے، میں تو یہ جانتا ہوں کہ یہ دراصل میرے آقا و مولیٰ کی ان بے قرار دعاؤں کی فتح تھی جو بدر کی جھونپڑی میں نہایت عاجزی اور اضطراب سے آپ نے مانگیں.اس روز آپ نے اپنے موٹی کو نا معلوم کیا کیا واسطے دیئے.یہاں تک کہ اسے اس کی توحید کا واسطہ دے کر کہا اے مولیٰ ! آج تو نے اس چھوٹی سی موحد جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر تیری عبادت کون کریگا.( بخاری ) 38 کس قدر خدائی غیرت کو جوش دلانے والی ہے یہ دعا.گو یا بالفاظ دیگر آپ اپنے مولیٰ سے یوں مخاطب تھے کہ ان مٹھی بھر جانوں کی تو پرواہ نہیں، مجھے تو تجھ سے اور تیری توحید سے غرض ہے اور سالہا سال کی محنت کے بعد چند موحد عبادت گزاروں کی یہ مٹھی بھر جماعت میں نے اکٹھی کی ہے.اگر اس جماعت کو بھی تو نے ہلاک کر دیا تو مجھے یہ فکر ہے کہ تیرے نام لیوا کہاں سے آئیں گے؟ بدر کے جھونپڑے میں کی جانے والی یہ دعا ہی تھی کہ بارگاہ الوہیت میں جب مقبول ہوئی تو اس نے کنکروں کی ایک مٹھی کو طوفان بادوباراں میں بدل کے رکھ دیا اور تین سو تیرہ نہتے مسلمانوں کو مشرکین کے ایک ہزار مسلح لشکر جرار پر فتح عطا فرمائی.(بیشمی ) 39 حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ساری رات دعا کرتے رہے.عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ہم نے خدا کے برحق واسطے دے کر محمد سے بڑھ کر دعا کرنے والا کوئی نہیں سنا.آپ نے بدر میں بڑے الحاج کے ساتھ دعا کر کے جب سر اٹھایا تو آپ کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا.آپ نے فرمایا آج شام دشمن قوم کے لوگ جس
اسوہ انسان کامل 135 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز جگہ ہلاک ہو کر گریں گے ان کی جگہ میں دیکھ رہا ہوں.( بیشمی ) 40 (8) غزوہ احزاب کی فتح بھی دراصل رسول اللہ دعاؤں کی فتح تھی.جب مدینہ کی چھوٹی سے بستی پر چاروں طرف ہزاروں کی تعداد میں مسلح شکر چڑھ آئے اور محصور مسلمان سخت سردی کے ایام میں ، ناکافی غذائی ضروریات کے باعث سخت پریشان تھے.صحابہ رسول نے بھوک کا مقابلہ کرنے کیلئے پیٹوں پر پتھر باندھ لئے اور خود رسول خدا کے پیٹ پر دو پتھر تھے.وہ جنگ صرف ایک اعصاب شکن جنگ ہی نہ تھی بلکہ مسلمانوں کی زندگی پر ہولناک ابتلا تھا جس کا سچا نقشہ اور صاف تصویر قرآن شریف نے یوں کھینچی ہے.”جب دشمن اوپر سے بھی چڑھ آئے تھے اور نیچے سے بھی اور آنکھیں پتھرا گئیں اور دل مارے خوف کے اچھل کر گلوں تک آرہے تھے اور مومنوں کو خدا کے وعدوں پر طرح طرح کے گمان آنے لگے.جہاں مومن خوب آزمائے گئے اتنے کہ ان کی زندگیوں پر ایک شدیدا اور خوفناک زلزلہ کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ ہلائے گئے بلکہ جھنجھوڑ کر رکھ دئے گئے.(سورۃ الاحزاب 11,12 ) ان نازک حالات میں جب شہر مدینہ زندگی اور موت کی کش مکش میں تھا.مدینہ میں ایک وجود ایسا بھی تھا جو اپنے موٹی پر کمال یقین اور توکل کے ساتھ ان دعاؤں میں مصروف تھا.اللهُم مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِ مُهُمُ وَزَلْزِلَهُمْ.اے میرے مولی ! اپنی پاک کتاب کو نازل کرنے والے اور جلد حساب لینے والے ! عرب کے ان تمام لشکروں کو پسپا کر دے ان کو شکست فاش دے اور ہلا کر رکھ دے.اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ایک خوفناک آندھی نمودار ہوئی جس نے عربوں کی آگیں بجھا دیں.وہ محاصرہ چھوڑ کر سخت افراتفری کے عالم میں بھاگے اور ایسے بھاگے کہ سر پیر کا ہوش نہ رہا.لشکر کفار کا سردار ابوسفیان اپنے اونٹ کا گھٹنا تک کھولنا بھول گیا اور بندھے ہوئے اونٹ پر سوار ہو کر اسے بھگانا چاہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس موقع پر دعاؤں کی قبولیت کے معجزہ کا ذکر کرتے ہوئے بے اختیار یہ کہہ اٹھے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ اَعَزَّ جُندَه وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَغَلَبَ الْاَحْزَابَ وَحْدَهُ فَلَا شَيء بَعْدَه (بخاری) 41 کہ اس خدا کے سوا کوئی معبود نہیں جس نے اپنے گروہ کو عزت دی.اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور خود ہی تمام لشکروں پر غالب آیا.سب کچھ وہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں.(9) غزوہ خیبر کا عظیم معرکہ بھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے یہ کی دعاؤں کا ثمرہ تھا.جب مسلسل کئی روز مختلف جرنیلوں کی سرکردگی میں ترتیب دیئے گئے لشکر خیبر کے قلعوں کو فتح نہ کر سکے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعاؤں میں لگ گئے ، تب یہ واقعہ ہوا کہ خیبر کے محاصرہ کی ساتویں رات حضرت عمرؓ کے حفاظتی دستے نے ایک یہودی جاسوس کو اسلامی لشکر کے قریب گھومتے ہوئے گرفتار کر لیا.اسے رسول کریم کی خدمت میں لے آئے.اس وقت بھی
اسوہ انسان کامل 136 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز حضور خدا کے حضور سربسجو ددعاؤں میں مصروف تھے.مگر آپ کی دعائیں رنگ لا چکی تھیں ، یہودی جاسوس نے جان کی امان طلب کرتے ہوئے مسلمانوں کو خیبر کے قلعوں کے اہم جنگی راز بتادیے.اس نے اہل خیبر کے خوف و ہراس اور مایوسی کے نتیجہ میں ایک قلعہ خالی کر دینے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ فتح ہونے پر وہ راشن اور اسلحہ کے ذخیرے بھی بتائے گا.(الحلبیہ )42 دعاؤں کے نتیجہ میں خیبر کی فتح کی کلید حاصل ہو چکی تھی رسول کریم نے اس وقت اعلان فرمایا کہ صبح آپ اُس شخص کو لشکر اسلامی کا علم عطا کریں گے جس کے ہاتھ پر خدا مسلمانوں کو فتح دینے والا ہے، اور پھر آپ نے حضرت علی کو بلا کر علم اسلام عطا کیا.ان کی دکھتی آنکھیں آپ کی دعا کے فوری اثر سے شفایاب ہوئیں اور دعاؤں کے ساتھ آپ نے حضرت علیؓ کو رخصت کیا.اللہ تعالیٰ نے حضرت علی کے ہاتھ پر خیبر فتح فرمایا.( بخاری )43 (10) مکہ کی عظیم الشان فتح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کا تابندہ نشان تھا، رحمت دو عالم صدق دل سے چاہتے تھے کہ معاہدہ شکن دشمن پر اس طرح اچانک چڑھائی کریں کہ اسے کانوں کان خبر نہ ہوا اور اس کے نتیجہ میں دشمن جانی نقصان سے بھی بچ جائے.اس مقصد کے حصول کے لئے دیگر تدابیر کے علاوہ آپ اپنے مولیٰ کے حضور دعاؤں میں لگ گئے کہ اے اللہ ! قریش کے جاسوس ہم سے روک رکھنا اور ہماری خبر میں ان تک نہ پہنچنے پائیں.(حلبیہ )44 یہ دعا ئیں ایسی مقبول ہوئیں کہ جب رسول خدا نہایت راز داری کے ساتھ دس ہزار قد وسیوں کے جلو میں اہل مکہ کے سر پر آن پہنچے تو بھی ابوسفیان کو یقین نہ آتا تھا کہ مسلمان اتنے بڑے لشکر کے ساتھ اتنی تیزی سے مکہ پر چڑھ آئے ہیں.آپ نے انہیں یوں حیران و ششدر اور مبہوت کر چھوڑا کہ وہ رسول اللہ کے مقابلہ کا موقع نہ پاسکے اور مکہ بغیر کسی کشت وخون کے فتح ہو گیا.(11) غزوات میں قدم قدم پر جو مشکلات رسول کریم اور آپ کے صحابہ کو پیش آتیں ، آپ اسی وقت خدا تعالیٰ کے حضور دست بدعا ہو کر ان کا ازالہ کرتے.ایک جنگ میں زاد راہ اور راشن کی بہت قلت ہوگئی ، صحابہ کرام پریشان ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کھانے کیلئے اپنے سواری کے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت چاہی.پہلے تو آپ نے ان پر رحم کھاتے ہوئے اجازت دے دی، مگر بعد میں حضرت عمرؓ کے اس سوال پر کہ سواری کے اونٹ بھی نہ رہے تو سفر کیسے طے ہوگا ؟ آپ کے دل میں دعا کا جوش پیدا ہوا.اسی وقت آپ نے اعلان کروایا کہ جو بچی کچھی زادراہ قافلہ کے پاس ہے وہ اکٹھی کی جائے.پھر آپ نے اس معمولی سے جمع شدہ زادراہ پر برکت کی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس خوراک میں اتنی بڑکت پڑگئی کہ قافلہ کے سب لوگ اپنے اپنے برتن بھر کر لے گئے.قبولیت دعا کا یہ عظیم الشان معجزہ دیکھ کر رسول خدا بے اختیار کہہ اٹھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.( بخاری ) 45 (12) ایک سفر میں حضور ﷺ کی اوٹنی بدک کر بھاگ نکلی.آپ نے دعا کی تو اچا نک آندھی کا ایک بگولا نمودار ہوا
اسوہ انسان کامل 137 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز جو اس اونٹنی کو دھکیل کر آپ کے پاس واپس لے آیا.(عیاض ) 46 اہل مدینہ کیلئے دعا ئیں (13) جب رسول اللہ مکہ سے ہجرت کر کے بیٹرب تشریف لائے تو یہ ایک وبائی علاقہ تھا جس کی وجہ سے کئی صحابہ حضرت ابوبکر، حضرت بلال ، اور حضرت عائشہ وغیرہ بیمار پڑ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت خدا کے حضور دعا کی کہ اے مولیٰ ! اس وبائی علاقہ کی وباء دور کر دے اور اس شہر کے رزق میں برکت عطا فرما.( بخاری 47 ) یہ دعا جس طرح قبول ہوئی خود شہر مدینہ کی آبادی و شادابی اس پر شاہد ناطق ہے.(14) ایک دفعہ مدینہ میں سخت قحط پڑ گیا، ایک شخص نے خطبہ جمعہ میں کھڑے ہوکر نہایت لجاجت سے ہاران رحمت کے لئے یوں درخواست دعا کی کہ اے اللہ کے رسول ! مال مویشی خشک سالی سے ہلاک ہو گئے اور راستے ٹوٹ گئے.آپ دعا کریں کہ خدا بارش دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! ہماری خشک سالی دور کر اور ہم پر بارش برسا.حضرت انس کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں آسمان پر کوئی بادل نظر نہیں آتا تھا اور مطلع بالکل صاف تھا.اچانک سلع کی پہاڑیوں کے پیچھے سے چھوٹی سی ایک بدلی اٹھی جو وسط آسمان میں آکر پھیلی ، پھر وہ برسی اور خوب برسی یہاں تک کہ ایک ہفتہ تک ہم نے سورج کی شکل نہ دیکھی.اگلے خطبہ جمعہ کے دوران پھر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب تو بارش کی کثرت سے مال مویشی مرنے لگے ہیں اور سیلاب سے رستے بہ رہے ہیں.دعا کریں کہ اب بارش تھم جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ ! ان بادلوں کو ہمارے ارد گرد لے جا.ہم پہ نہ برسا.ان کو پہاڑوں ،ٹیلوں، وادیوں اور درختوں پر لے جا.تب اسی وقت معجزانہ رنگ میں بارش تھم گئی اور ہم جمعہ کے بعد باہر نکلے تو دھوپ نکل چکی تھی.( بخاری ) 48 رزق اور مال میں برکت کی دعائیں رسول کریم ﷺ کی معجزانہ دعاؤں کے اثرات اور برکات مال اور رزق میں خارق عادت برکت کے رنگ میں بھی ظاہر ہوئے.(15) حضرت انس بن مالک انصاری دس برس کے تھے کہ والدین نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں ذاتی خادم کے طور پر پیش کر دیا.ایک دفعہ حضرت انس کی والدہ حضرت ام سلیم نے آکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! یہ انس آپ کا خادم ہے، اس کے لئے اللہ سے دعا کریں.آپ نے اسی وقت انس کو دعا دی کہ اے اللہ ! انس کے مال واولاد میں برکت دینا اور جو کچھ تو اسے عطا کرے اس میں برکت ڈالنا.( بخاری ) 49
اسوہ انسان کامل 138 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز حضرت انس خود بیان کرتے تھے کہ خدا نے یہ دعا میرے حق میں خوب قبول فرمائی.میرا باغ سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے اور میری زندگی میں میری اولاد بیٹے، بیٹیاں، پوتے نواسے نواسیاں سب ملا کر اسی سے بھی زائد ہیں.حضرت انس نے 103 سے 110 سال عمر پائی.( ابن اثیر ) 50 (16) حضرت جابر کے والد حضرت عبداللہ احد میں شہید ہو گئے تھے اور ان کے ذمہ یہودی ساہوکاروں کا کچھ قرض تھا جس کا وہ حضرت جابڑ سے سختی سے مطالبہ کر رہے تھے.یہاں تک کہ حضرت جابر نے ان کو قرض کے عوض یہ پیشکش کر دی کہ اس سال ان کے کھجوروں کے باغ کا سارا پھل قرض خواہ لے کر قرض سے بری الذمہ قرار دیدیں.مگر یہودی بنیئے نے رسول اللہ کی سفارش کے باوجود بھی ایسا کرنے سے انکار کیا تو رسول کریم نے باغ میں تشریف لا کر دعا کی.اس دعا کی برکت سے کھجور کا اتنا پھل ہوا کہ قرض ادا کر کے بھی نصف کے قریب کھجور بچ رہی.جب حضرت ابوبکر کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے یہ تبصرہ کیا کہ رسول اللہ نے جب باغ میں جا کر دعا کی تھی اس وقت ہی ہمیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے پھل میں خارق عادت برکت دے گا.( بخاری ) 51 (17) حضرت مقداد بیان کرتے ہیں کہ میں اور میرے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہو گئی.پھر رسول اللہ کی معجزانہ دعا سے ہماری سیری کے سامان ہوئے.مقداد اپنی اس وقت کی مالی تنگی کا حال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے پاس صرف ایک اوڑھنے کی چادر تھی وہ بھی اتنی مختصر کہ سرڈھانپتا تو پاؤں ننگے ہو جاتے اور پاؤں ڈھانکتا تو سر نگار رہتا تھا.ہم نے محتاجی کے اس عالم میں صحابہ رسول سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بنا کر پاس نہ رکھ سکا.بالآخر ہم رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو گئے.حضور ہمیں اپنے گھر لے گئے.آپ کے گھر میں تین بکریاں تھیں.آپ نے فرمایا ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو.ہم چاروں پی لیا کریں گے چنانچہ یوں گزارہ ہونے لگا.ہم تینوں دودھ کا اپنا حصہ پی کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بچا کر رکھ لیتے تھے.آپ رات کو تشریف لاتے.پہلے ملکی آواز میں سلام کرتے کہ سونے والے جاگ نہ جائیں اور جاگنے والا سن لے.پھر اپنی جائے نماز پر نماز پڑھ کر اس جگہ آتے جہاں آپ کے لئے دودھ رکھا ہوتا تھا.آپ خود دودھ لے کر نوش فرماتے.ایک رات شیطان نے میرے دل میں کیا خیال ڈالا کہ اپنے حصہ کا دُودھ پی کر میں سوچنے لگا کہ یہ جو حضور کے لئے تھوڑا سا دودھ پڑا ہے اس کی آپ کو ضرورت ہی کیا ہے.آپ کی خدمت میں تو انصار تحفے پیش کرتے رہتے ہیں اور آپ اس سے کھا پی لیتے ہوں گے.یہ سوچ کر میں نے حضور کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا.جب اس سے خوب پیٹ بھر چکا تو فکر ہونے لگی کہ اب رسول کریم کیلئے کوئی دودھ باقی نہیں رہا اور اپنے کئے پر سخت ندامت سے اپنے آپ کوکو سنے لگا کہ میرا برا ہو میں نے یہ کیا کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بھی ہڑپ کر گیا.اب رسول کریم آئیں گے اور حسب معمول جب دودھ اس جگہ نہیں ملے گا تو ضرور میرے خلاف کوئی بد دعا کریں گے اور میری دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی.اسی مخمصے اور بے چینی میں میری نیند اڑ گئی تھی ، جبکہ میرے دونوں ساتھی میٹھی نیند سورہے تھے
اسوہ انسان کامل 139 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز کیونکہ وہ میری اس حرکت میں شامل نہیں تھے.اسی اثناء میں رسول اللہ تشریف لائے.آپ نے حسب عادت سلام کیا.پہلے اپنی جائے نماز پر جا کر نماز پڑھتے رہے.پھر اپنے دودھ والے برتن کے پاس گئے ڈھکنا اٹھایا تو اس میں کچھ نہ پایا.ادھر آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور ادھر مجھے یہ خوف کہ لواب میرے خلاف بد دعا ہوئی اور میں مارا گیا.مگر آپ نے جو دعا کی وہ بیتھی ”اے اللہ ! جو مجھے کھلائے تو اس کو کھلا جو مجھے پلائے تو خود اس کو پلا اس دعا کا سننا تھا کہ میں فوراً اٹھا چادر اوڑھی اور چھری لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بکریوں کی طرف چل پڑا کہ ذبح کر کے حضور کو کھلا کر آپ کی دعا کا وارث بنوں.جب میں سب سے موٹی بکری کو ذبح کرنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے تھنوں میں دودھ اترا ہوا ہے، حالانکہ شام کو دودھ نکالا تھا پھر جب باقی بکریوں پر نظر کی تو سب کا یہی حال دیکھا.چنانچہ میں نے بکری ذبح کرنے کا ارادہ ترک کر کے حضور کے گھر سے دودھ کا برتن لیا اور بکریاں دوبارہ دوہ کر اسے بھر لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا.آپ نے جب تازہ دودھ دیکھا تو خیال ہوا کہ ان بیچاروں نے بھی ابھی تک دودھ نہیں پیا ہوگا.فرمانے لگے کیا تم لوگوں نے آج رات دودھ نہیں پیا.میں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ حضور! بس آپ پئیں.حضور نے کچھ دودھ پی کر باقی مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ اب تم پی لو.میں نے کہا کہ آپ اور پیئیں.حضور نے اور پیا اور پھر مجھے دے دیا.اب دل کو تسلی ہوئی کہ رسول اللہ بھوکے نہیں رہے خوب سیر ہو چکے ہیں اور یہ خوشی بھی کہ آپ کی یہ دعا کہ اے اللہ ! جو مجھے پلائے تو اسے بھی پہلا میرے حق میں قبول ہو چکی ہے.تب حضور کے دودھ کا حصہ پینے کی اپنی حرکت یاد کر کے مجھے بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی ، اتنی ہنسی کہ میں لوٹ پوٹ ہو کر زمین پر گر پڑا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے مقداد! تجھے اپنی کونسی عجیب حرکت یاد آئی ہے جس پر لوٹ پوٹ ہورہے ہو.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا قصہ کہہ سنایا کہ کس طرح آپ کے حصہ کا دودھ بھی پی لیا اپنے حق میں آپ سے دعا بھی کروالی اور دوبارہ دودھ بھی پی لیا.نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ( قبولیت دعا کے نتیجہ میں ) خاص رحمت کا نزول تھا.تم نے اپنے ساتھی کو جگا کر اور اس دودھ میں سے پلا کر کیوں نہ ان کے حق میں بھی یہ دعا پوری کروائی میں نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے.مجھے اس برکت سے حصہ مل گیا تو میں اس بات سے بے پر واہ ہو گیا کہ کوئی اور اس میں شریک ہوتا ہے کہ نہیں.( مسلم ) 52 (18) اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ کے لئے رسول اللہ نے دعا کی کہ کبھی ان کو بھوک کی تکلیف نہ آئے.فاطمہ فرماتی ہیں اس کے بعد کبھی مجھے بھوک کی تکلیف نہیں پہنچی.(سیوطی ) 53 (19) حضرت عبداللہ بن جعفر کی تجارت میں برکت کے لئے حضور نے دعا کی.جس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ کوئی چیز خرید تے تو اس میں نفع پاتے.(سیوطی ) 54
اسوہ انسان کامل 140 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز (20) حضرت عروہ کے لئے آپ نے برکت کی دعا کی.وہ خود کہا کرتے تھے کہ میں نے بازار جا کر سود الگایا اور ره بسا اوقات چالیس ہزار تک منافع لے کر واپس لوٹا.امام بخاری نے لکھا ہے کہ عروہ مٹی بھی خریدتے تھے تو اس میں منافع پاتے تھے.(سیوطی ) 55 شفاء کی دعائیں (21) رسول کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر بعض بیماروں کیلئے معجزانہ شفا کی دعا مانگی.خدا تعالیٰ نے اس دعا کی قبولیت کے فوری اثرات ظاہر فرمائے، غزوہ خیبر میں رسول اکرم نے اعلان فرمایا کہ کل میں جس شخص کو جھنڈا دوں گا اس کے ہاتھ پر خدا تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا.روایات کے مطابق بعض صحابہ نے اس امید میں رات بسر کی کہ شاید اس خوش قسمتی کا قرعہ فال ان کے نام پڑے.حضرت علی کو آشوب چشم کی تکلیف تھی ، آنکھیں اتنی شدید دکھتی تھیں کہ صحابہ کا اس طرف خیال ہی نہیں گیا کہ یہ عظیم فاتح حضرت علی بھی ہو سکتے ہیں.اگلی صبح جب حضور نے حضرت علی کو یا د فرمایا تو صحابہ نے ان کی بیماری کی وجہ سے معذرت کرنا چاہی مگر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کو بلا کر آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور دعا کی.خدا نے حضرت علی کو معجزانہ طور پر اسی وقت شفا عطا فرمائی اور شفا بھی ایسی کہ یوں لگتا تھا جیسے پہلے کبھی آپ کی آنکھیں خراب ہی نہ ہوئی تھیں.( بخاری ) 56 (22) ایک اور موقع پر رسول کریم نے حضرت علی کے حق میں گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہنے کی دعا کی چنانچہ وہ گرمی و سردی کے اثر سے محفوظ رہتے تھے.(ابن ماجہ ) 57 (23) حضرت یعلی بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کے ساتھ ایک سفر میں تھا.راستہ میں ایک عورت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا.اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! اس بچے کو نیند کی حالت میں نامعلوم کتنی مرتبہ دورہ پڑتا ہے.آپ نے فرمایا کہ بچہ مجھے پکڑا ؤ.میں نے بچہ حضور کو دیا.آپ نے اسے اپنے پالان پر بٹھایا اور اس کا منہ کھول کر اس میں تین پھونکیں ماریں اور اسے اپنا لعاب دھن دیا اور فرمایا اللہ کے نام کے ساتھ اے اللہ کے بندے.اے اللہ کے دشمن دور ہو جا “ پھر حضور نے وہ بچہ واپس پکڑا دیا اور اس عورت سے فرمایا کہ واپسی سفر میں اسی جگہ آکر ملنا اور بچے کا حال بتانا.سفر سے واپسی پر وہ عورت وہاں موجود تھی.اس کے ساتھ تین بکریاں بھی تھیں.رسول کریم نے پوچھا بچے کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا خدا کی قسم اس گھڑی تک اُسے کوئی دورہ نہیں پڑا.پھر اس نے تین بکریاں حضور کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کیں نبی کریم نے مجھے فرمایا کہ سواری سے نیچے اتر و اور ایک بکری لے کر باقی واپس کر دو.(احمد) 58 (24) حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کو لے کر آئی اور عرض کیا کہ اسے کھانے کے وقت جنون کا دورہ ہوتا ہے.رسول کریم نے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور دعا کی.اچانک اسے کھل کر ایک قے
اسوہ انسان کامل 141 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز 60 ہوئی اور اس کے پیٹ سے سیاہ رنگ کا چھوٹا سا سانپ نکل کر بھاگ گیا.(احمد) 59 (25) حضرت سائب بن یزید بیان کرتے ہیں کہ مجھے میری خالہ رسول کریم کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ حضور یہ میرا بھانجا سائب بیمار ہو گیا ہے.آپ اس کیلئے دعا کریں.حضور نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے حق میں برکت کی دعا کی.حضور نے وضو فر مایا تو میں نے آپ کے وضوء کا بچا ہوا پانی بطور تبرک پی لیا.( بخاری ) 0 سائب سن 2 ھ میں پیدا ہوئے تھے یہ واقعہ پانچ چھ برس کی عمر کا معلوم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے سائب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت سے نہ صرف شفادی بلکہ لمبی عمر عطا فرمائی اور سن 80ھ میں بعمر 78 برس ان کا انتقال ہوا.( ابن اثیر ( 1 ) 61 (26) یزید بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سلمہ کی پنڈلی پر ایک زخم کا نشان دیکھا.میں نے ان سے پوچھا یہ کیسا نشان ہے؟ انہوں نے بتایا کہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم آیا تھا.زخم اتنا بڑا تھا کہ لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ سلمہ زخمی ہو گیا ہے.مجھے اٹھا کر نبی کریم کی خدمت میں لایا گیا.آپ نے دعا کر کے) تین پھونکیں مجھ پہ ماریں.تو اسی وقت وہ زخم اچھا ہو گیا.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ کوئی زخم آیا ہی نہیں.(صرف نشان باقی رہ گیا).اس کے بعد پھر کبھی اس میں تکلیف نہیں ہوئی.( بخاری )62 (27) عمرو بن اخطب بیان کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے چہرے پر پھیرا اور میرے حق میں صحت اور خوبصورتی کی دعا کی.اللہ تعالیٰ نے یہ دعا اس طرح قبول فرمائی کہ عمر کو صحت والی لمبی زندگی اور اولاد عطا فرمائی.ایک سو بیس سال کی عمر میں بھی ان کی ایسی صحت تھی کہ سر میں صرف چند سفید بال تھے.(ترمندی ) 63 (28) حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے چا ابوطالب بیمار ہوئے.آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.انہوں نے کہا بھتیجے! اپنے اس رب سے جس نے تجھے مبعوث کیا ہے دعا کر کہ وہ مجھے اچھا کر دے.نبی کریم نے اسی وقت دعا کی ”اے اللہ میرے چچا کو شفا دے.یہ دعا حیرت انگیز رنگ میں فی الفور قبول ہوئی.ابو طالب اسی وقت اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے ان کے بندھن کھول دیئے گئے ہوں.اور کہنے لگے اے محمد ! واقعی تیرے رب نے تجھے بھیجا ہے اور وہ تیری بات بھی خوب مانتا ہے.آنحضور نے فرمایا اے چا اگر آپ بھی اللہ تعالیٰ کی باتیں مانیں تو وہ ضرور آپ کی بھی سنے گا اور مانے گا.(حاکم) 4 یہ واقعہ ابوطالب کے دلی طور پر قبول اسلام کا سبب ہوا.(29) حضرت ابو قتادہ کے لئے رسول اللہ ﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ ان کو کامیاب و کامران کر اور ان کے بالوں اور چہرہ کو برکت دے، چنانچہ ابو قتادہ نے صحت والی لمبی عمر پائی.روایت ہے کہ ستر برس کی عمر میں بھی وہ پندرہ سالہ صحت مند جوان نظر آتے تھے.( عیاض ) 65
اسوہ انسان کامل 142 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز (30) اللہ تعالیٰ کی راہ میں خدمت کرنے والے صحابہ کے لئے رسول کریم بہت دعائیں کیا کرتے تھے.مخلص خدام کیلئے بسا اوقات آپ کے دل سے ایسی دعا نکلتی تھی کہ معجزانہ رنگ میں اس کی قبولیت کے اثرات ظاہر ہوتے تھے.عبداللہ بن عتیک انصاری ایک مہم پر بھجوائے گئے.واپسی پر ایک حادثہ میں انکی ٹانگ کو شدید ضرب آئی اور پنڈلی ٹوٹ گئی.وہ کہتے ہیں میں ایک ٹانگ پر کودتا ہوا اپنے ساتھیوں تک پہنچا.پھر رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ نے فرمایا اپنا پاؤں پھیلاؤ.میں نے پاؤں حضور کے سامنے رکھ دیا.آپ نے اس پر ہاتھ پھیرا تو ایسے لگا جیسے کبھی مجھے یہ تکلیف ہوئی ہی نہ تھی.( بخاری ) 66 قبولیت دعا کی پیشگی خبر رسول کریم ﷺ کی دعاؤں کی ایک شان یہ بھی تھی کہ آپ بعض دعاؤں کی قبولیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے علم پا کر قبل از وقت اطلاع فرما دیا کرتے تھے.(31) ایک مرتبہ نبی کریم حضرت انس بن مالک کے گھر تشریف لے گئے.وہاں کچھ دیر آرام فرمایا ، دریں اثناء آپ کی آنکھ لگ گئی.بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے.انس کی خالہ ام حرام نے وجہ پوچھی.آپ نے فرمایا مجھے سمندر پر سفر کرنے والے بعض اسلامی لشکروں کا نظارہ کروایا گیا ہے جو تختوں پر بیٹھے ہوئے گویا بادشاہوں کی طرح سفر کر رہے ہیں.حضرت ام حرام کو کیا سوجھی.عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ دعا کریں میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو جاؤں.آپ نے اپنی اس مخلص اور خدمت گزار خاتون کے جذبات کا خیال کرتے ہوئے ان کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ ! ان کو بھی اسلامی لشکر کے اس بحری سفر میں شریک کر دے، دوبارہ حضور پر غنودگی طاری ہوئی اور آپ نے ایک دوسرے نظارے کا ذکر کیا.اُم حرام نے کہا یا رسول اللہ ! میرے لئے ان لوگوں میں بھی شامل ہونے کی دعا کریں.رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ تم پہلے گروہ میں شامل ہو چکیں، (جس کے بارے میں چند لمحے قبل حضور نے دعا کی تھی ) یہ دعا غیر معمولی اور حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی.ام حرام کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر دی اور اس زمانے تک زندہ رکھا جب اسلامی لشکر حضرت معاویہ کے زمانے میں قبرص کے بحری سفر پر روانہ ہوا.اُم حرام بھی اپنے خاوند حضرت عبادہ بن صامت کے ساتھ اس مہم میں شریک ہوئیں.سفر سے واپسی پر شام میں ساحل سمندر پر اترتے ہوئے سواری سے گر کر فوت ہوگئیں.( بخاری )67 (32) خدا تعالیٰ سے علم پا کر دعا کی قبولیت کی اسی وقت اطلاع دینے کا ایک اور واقعہ حضرت سعد بن ابی وقاص سے تعلق رکھتا ہے جو ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.آپ نے مکہ سے ہجرت کر لی تھی.حجتہ الوداع کے موقع پر مکہ میں بیمار ہوئے تو فکر لاحق ہوئی کہ اگر مکہ میں وفات ہوئی تو انجام کے لحاظ سے ہجرت کا ثواب ضائع نہ ہو جائے.رسول کریم ان کی بیمار پرسی کے لئے گئے.انہوں نے اپنے اس خدشہ کے اظہار کے ساتھ دعا کی خصوصی درخواست کرتے ہوئے عرض کیا کہ حضور میرے لئے دعا کریں کہ اللہ مجھے مکہ میں وفات نہ دے جہاں سے میں ہجرت کر چکا ہوں.اس وقت
143 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اسوہ انسان کامل ان کی حالت ایسی نازک تھی کہ انہوں نے اپنے ورثہ وغیرہ کے بارے میں آخری وصیت بھی کر دی.آنحضور نے دعا کی کہ ”اے اللہ ! میرے صحابہ کی ہجرت ان کے لئے جاری کر دے.پھر حضرت سعد کو اس دعا کی قبولیت کی بشارت بھی دے دی اور فر مایا اے سعد! اللہ تعالیٰ تمہیں لمبی عمر عطا کرے گا اور بہت سے لوگ تجھ سے فائدہ اٹھا ئیں گے اور کئی لوگ نقصان اٹھا ئیں گے.( بخاری ) 68 اس پیشگوئی میں ان کے ذریعہ حاصل ہو نیوالی فتوحات کی طرف اشارہ تھا.چنانچہ حضرت سعد کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر شفا عطا فرمائی.وہ اُن دس صحابہ میں سے تھے جن کو رسول اللہ نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی.سن 55ھ میں بعمر ستر سال آپ کا انتقال ہوا.آپ کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ نے ایران جیسی عظیم الشان مملکت کی فتح کی بنیاد رکھوائی.( ابن حجر ) 69 (33) ایک دفعہ نبی کریم قضائے حاجت کیلئے تشریف لے گئے حضرت عبداللہ بن عباس اس وقت کم سن بچے تھے.دس گیارہ برس کی عمر ہوگی.انہوں نے حضور کے لئے پانی کا لوٹا بھر کے رکھ دیا.حضور تشریف لائے تو پوچھا یہ پانی کس نے رکھا ہے؟ عرض کیا گیا عبداللہ بن عباس نے ! آپ کے دل میں اس بچہ کیلئے تشکر کا ایسا جذبہ پیدا ہوا کہ اسے محبت سے اپنے ساتھ چمٹالیا اور دعا کی اے اللہ ! اس بچہ کو دین کی سمجھ عطا کر، اے اللہ ! اس بچہ کو کتاب اور حکمت کا علم عطا فرما.( بخاری ) یہ دعا پایہ قبولیت کو پہنچی اور حضرت عبداللہ بن عباس امت کے عظیم الشان اور زبر دست فقیه اور عالم ٹھہرے اور ”جبر الامة یعنی امت کے متبحر عالم کے طور پر مشہور ہوئے.(34) رسول کریم نے ایک صحابی حضرت جریر بن عبد اللہ کوڈ والخلصہ کا بت خانہ منہدم کرنے کیلئے بھجوایا.یہ معبد بیت اللہ کے مقابل پر کعبہ یمانی کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا.حضرت جریر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا.رسول اللہ نے ان کے سینے پر ہاتھ مارا اور دعا کی اے اللہ ! اس کو مضبوط اور ثابت قدم کر دے اور اسے ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنادے.حضرت جریر بیان کرتے تھے کہ اس دعا کا ایسا اثر ہوا کہ اس کے بعد میں کبھی گھوڑے سے گرا نہیں.( بخاری ) 71 (35) عبدالحمید بن سلمہ اپنے دادا کے متعلق روایت کرتے ہیں کہ جب وہ مسلمان ہوئے تو ان کی بیوی نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا اور یوں ان میں علیحدگی ہوگئی.وہ اپنے نابالغ بچے کی حضانت (سپر داری ) کا مسئلہ حضور کی خدمت میں فیصلہ کیلئے لائے.حضور نے فرمایا کہ بچے کو اختیار دے دیتے ہیں.کم سن بچوں کا رجحان طبعا والدہ کی طرف ہوتا ہے.حضور کی نورانی بصیرت دیکھ رہی تھی کہ بچے کی کفالت والد کے پاس بہتر طور پر ہو سکے گی.بچے کو جب اختیار دیا گیا تو وہ والدہ کی طرف جانے لگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچہ کی بہبود کے طبعی جوش سے اس کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ! اس بچے کو باپ کی طرف رہنمائی کر دے.وہی بچہ جو تھوڑی دیر پہلے ماں کی طرف دوڑا جارہا تھا ، لیک کر باپ سے لپٹ گیا اور یوں حضور کی دعا کی فوری قبولیت کا نظارہ بچے کے والدین نے دیکھا.( احمد )72
144 اسوہ انسان کامل رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز (36) حضرت ابو ہریرہ نے یمن سے آکر 7ھ میں اسلام قبول کیا، انہوں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ میں آپ سے جو باتیں سنتا ہوں بھول جاتا ہوں.میرے لئے دعا کریں، آپ نے فرمایا ابو ہریرہ چادر پھیلاؤ.ابو ہریرہ نے چادر پھیلائی آپ نے دعا کی اور پھر وہ چا درابو ہریرہ کو اور ھادی.ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے کبھی کوئی حدیث نہیں بھولی.یہی وجہ ہے کہ بہت بعد میں آنے کے باوجود حضرت ابو ہریرہ کی روایات ابتدائی دور کے صحابہ سے بھی زیادہ ہیں.( ترمذی ) 73 (37) ایک جنگ میں مسلمانوں کو سخت پیاس کا سامنا کرنا پڑا.پانی میسر نہ تھا.حضرت عمرؓ نے رسول کریم سے دعا کی درخواست کی.آپ نے دعا کی.اچانک ایک بادل اٹھا اور اتنا برسا کہ مسلمانوں کی ضرورت پوری ہوگئی اور پھر وہ بادل چھٹ گیا.( عیاض) 4 74 (38) اپنے اصحاب کے لئے دلی جوش سے دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوعامر کے متعلق ہے جو جنگ اوطاس میں امیر مقرر کر کے بھجوائے گئے تھے.ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ میرے چا! ابو عامر کو جنگ کے دوران گھٹنے میں تیر لگا.جب میں نے وہ تیر نکالا تو گھٹنے سے پانی نکلا.زخم بہت کاری تھا جان لیوا ثابت ہوا.آخری لمحات میں ابو عامر نے ابوموسیٰ سے کہا اے بھتیجے ! نبی کریم کو میرا سلام کہنا اور میری طرف سے دعائے مغفرت کی خاص درخواست کرنا.یہ کہا اور جان جاں آفرین کے سپر د کر دی.ابو موسی یہ پیغام لے کر رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور عرض کیا کہ ابو عامر نے دعائے مغفرت کی درخواست کی تھی، تو رسول اللہ اپنے عاشق کی آخری خواہش سن کر بے قرار سے ہو گئے.فوراً پانی منگوا کر وضو کیا اور ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی.”اے اللہ اپنے بندے ابو عامر کو بخش دے.مگر آپ نے اس فدائی کے لئے صرف بخشش کی دعا ہی نہیں مانگی ان کی بلندی درجات کی بھی دعا کی کہ اے اللہ ! قیامت کے دن ابو عامر کو اپنی بہت ساری مخلوق سے بلند مقام اور مرتبہ عطا کرنا.ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں میں اور نے جو دعا کی یہ مقبول گھڑی دیکھی تو عرض کیا.حضور ! میرے حق میں بھی دعا کر دیں.آپ نے دعا کی اے اللہ ! عبد اللہ بن قیس (ابوموسیٰ اشعری) کے گناہ بھی معاف کرنا اور قیامت کے دن اس کو معزز مقام میں داخل کرنا.( بخاری )75 (39) بے لوث خدمت کے نتیجہ میں دعا کا ایک اور واقعہ حضرت ابوایوب انصاری کا ہے.غزوہ خیبر سے واپسی پر جب رسول اللہ نے یہودی سردار حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ سے شادی کی حضرت ابوایوب انصاری کے ذہن میں جذبہ عشق رسول اور حفاظت رسول کے خیال سے کچھ اندیشے اور وسوسے پیدا ہوئے اور آپ ساری رات حضور کے خیمہ عروسی کے گرد پہرہ دیتے رہے.صبح رسول اللہ نے دیکھ کر پوچھا تو دل کا حال عرض کیا کہ آپ کی حفاظت کے لئے از خود ساری رات پہرہ پر کھڑا رہا.رسول اللہ نے اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ! ابوایوب کو ہمیشہ اپنی حفاظت میں رکھنا جس طرح رات بھر یہ میری حفاظت پر مستعد رہے ہیں“.یہ دعا بھی قبول ہوئی.حضرت ابوایوب نے بہت لمبی عمر پائی
اسوہ انسان کامل 145 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اور قسطنطنیہ میں آپ کا مزار آج بھی محفوظ ہے اور زیارت گاہ خاص و عام ہے.(حلبیہ (76 (40) رسول کریم نے اپنے صحابی سعد کے لئے دعا کی تھی کہ اے اللہ ! سعد کی دعائیں قبول کرنا.اس دعا نے حضرت سعد کو مستجاب الدعوات بزرگ بنادیا تھا.حضرت عمر کے زمانہ میں آپ کوفہ کے گورنر تھے.ایک شخص ابوسعدہ نے ان پر بے انصافی اور خیانت کا الزام لگایا.حضرت سعد کو پتہ چلا تو انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر مشخص جھوٹا ہے تو اس کو لمبی عمر اور دائمی غربت دے.اس کی بینائی چھین لے اور اسے فتنوں کا نشانہ بنادے.اُسے حضرت سعد کی یہ دعا ایسے لگی کہ آخری عمر میں اندھا اور فقیر ہو کر مارا مارا پھرتا تھا اور گلیوں میں بچے بھی اسے چھیڑتے تھے.چنانچہ جب تک سعد زندہ رہے ان کے دعائیہ نشان کی وجہ سے لوگ ان کی بددعا سے ڈرتے تھے اور ان سے دعائے خیر کی تمنا رکھتے تھے.(سیوطی ) 77 (41) حضرت حویرث بیان کرتے ہیں 9ھ میں وفد تجیب رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ ان کی آمد پر بہت خوش ہوئے اور انعام واکرام عطا کرنے کے بعد پوچھا کہ کیا وفد میں سے کوئی پیچھے تو نہیں رہ گیا.انہوں نے بتایا کہ ایک نوجوان ہمارے خیمہ گاہ پر حفاظت کی خاطر رہ گیا ہے.آپ نے فرمایا اسے بھی میرے پاس بھجوا ؤ.وہ جواں سال لڑکا آکر کہنے لگا کہ میں اسی قافلہ کا فرد ہوں جو ابھی آپ سے انعام و اکرام لے کر رخصت ہوا.جس طرح آپ نے ان کی حاجات پوری فرمائی ہیں میری حاجت بھی پوری کریں.آپ نے فرمایا حاجت بتاؤ؟ سعادت مند نوجوان نے عرض کیا بس یہی کہ آپ میرے حق میں بخشش اور رحمت کی دعا کریں کہ مولیٰ کریم میرے دل میں غنا پیدا کر دے پھر حضور نے اُسے باقی ساتھیوں جیسا انعام بھی عطا فرمایا.اگلے سال حج کے موقع پر اس قبیلہ کے لوگ رسول کریم سے ملے تو آپ نے ان سے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا کہ وہ کیسا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس جیسا کوئی اور نہیں دیکھا ، نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی قناعت پسند پایا.( ابن الجوزی) 78 قہری دعاؤں کے نشان دعاؤں کی یہ عظیم الشان برکات پانے والے سعادت مندوں کے بالمقابل کچھ ایسے بد بخت بھی تھے جو اپنی شقاوت ازلی کے نتیجہ میں رسول اللہ کی دعا سے اللہ تعالیٰ کی قہری تحتی کے مورد بنے.(42) نبی کریم نے ہمیشہ دشمن کی بھی خیر خواہی فرمائی.طائف میں آپ کو لہولہان کر نیوالے ہوں یا اُحد کے میدان میں خون آلود کر نے والے.آپ نے ان کی ہدایت کی ہی دعا کی.مگر کبھی ایسا بھی ہوا کہ جب جانی دشمن حد سے بڑھ گئے اور رسول خدا کو عبادت الہی سے روکنے لگے تو آپ نے عذاب الہی کا نشان مانگا.خدا تعالیٰ نے خوب آپ کی نصرت فرمائی.ایک دفعہ رسول کریم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے اور ابو جہل اور اس کے ساتھی بھی صحن کعبہ میں مجلس لگائے
146 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اسوہ انسان کامل بیٹھے تھے.ان سرداروں میں سے کسی ظالم نے مشورہ دیا کہ فلاں محلہ میں جو اونٹنی ذبح ہوئی ہے کوئی جا کر اس کی بچہ دانی اٹھا لائے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جب سجدہ میں جائیں تو ان کی پشت پر رکھ دے.ان میں سے ایک بد بخت معقبہ بن ابی معیط اٹھا اور اونٹنی کی گند بھری بچہ دانی اٹھالایا اور دیکھتار ہا جو نہی نبی کریم سجدہ میں گئے اس نے غلاظت بھرا وہ بوجھ آپ کی پشت پر دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہا کرتے تھے کہ میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی رسول خدا کی کچھ مدد نہ کر سکتا تھا.بس کفِ افسوس ملتا رہ گیا کہ اے کاش ان دشمنان رسول کے مقابل پر مجھے اتنی توفیق ہوتی کہ آپ سے یہ بوجھ دور کر سکتا.اُدھر ان مشرک سرداروں کا یہ عالم تھا کہ رسول اللہ کو اذیت میں دیکھ کر استہزا کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوئے جارہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ کی حالت میں پڑے تھے، بوجھ کی وجہ سے سر نہیں اٹھا سکتے تھے.یہاں تک کہ آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ تشریف لائیں اور آپ کی پشت سے وہ غلاظت کا بوجھ ہٹایا.تب آپ نے سجدے سے سر اٹھایا.عبادت الہی سے روکنے اور استہزا کرنے والے ان جانی دشمنوں کے حق میں رسول اللہ نے یہ فریاد کی ” اَللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشِ“.اے اللہ! ان قریش کو تو خود سنبھال.یہ دعا بھی قبول ہوئی اور خدائی گرفت ان دشمنان رسول پر بدر کے دن آئی اور رسول اللہ نے ان کا یہ عبرت ناک انجام بچشم خود دیکھا کہ میدان بدر میں ان کی لاشیں اس حال میں پڑی تھیں کہ تمازت آفتاب سے ان کے حلیے بگڑ چکے تھے.( بخاری 79) یہ تھا دشمنان رسول کا عبرتناک انجام جو رسول اللہ کی دعا کے نتیجہ میں ظاہر ہوا.(43) رسول اللہ نے کسری شاہ ایران کو تبلیغ کے لئے خط لکھا تو اس نے وہ پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا.آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دئے“.( بخاری )80 تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارہ میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسری کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل بر پا ہوا کہ شاہان کسری اندرونی خلفشار کا شکار ہوکر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہو کر رہ گئی.عتیبہ بن ابی لہب جب اپنی فتنہ پردازیوں اور شر انگیزیوں سے باز نہ آیا تو آپ نے دعا کی کہ اے اللہ اس پر کوئی کتا مسلط کر دے“.تھوڑے ہی عرصہ میں وہ تجارتی قافلہ کے ساتھ شام گیا خود کہتا تھا کہ مجھے محمد کی بد دعا سے ڈرلگتا ہے.ساتھیوں نے تسلی دی اور رات اس کا پہرہ دے کر حفاظت کرتے رہے.مگر اچانک ایک بھیڑ یا آیا ، اسے اُٹھا کرلے گیا اور اسے ہڑپ کر گیا.( ابن حجر )81 (44) ایک اور معاند اسلام حکم بن ابی العاص سر کی جنبش اور آنکھ کے اشاروں سے آنحضرت کا تمسخر اڑاتا تھا.آپ نے ایک دفعہ فرمایا ”خدا کرے اسی طرح ہو جاؤ.اس پر ایسار عشہ طاری ہوا کہ آخری سانس تک رہا اور وہ اس حال میں مرا کہ آنکھوں کو حرکت دیتے دیکھا گیا.( عیاض) 82
اسوہ انسان کامل 147 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز (45) رسول خدا کی قبولیت دعا کا یہ جلابی نشان بھی قابل ذکر ہے.بنو نجار سے ایک عیسائی شخص مسلمان ہوا اس نے سورۃ البقرۃ اور آل عمران بھی یاد کر لی (لکھنا پڑھنا جانتا تھا ) نبی کریم کی وحی بھی لکھنے لگا مگر کچھ عرصہ بعد مرتد ہو کر پھر عیسائی ہو گیا اور یہود سے جاملا.وہ اس سے بہت خوش ہوئے.وہاں جا کر یہ شخص دعوے کرنے لگا کہ محمد دانے کو تو کچھ نہیں آتا میں ہی لکھ کر دیا کرتا تھا.اس پر یہود نے اسے اور عزت دی.معلوم ہوتا تھا کہ یہ عیسائی کسی خاص سازش کیلئے بھیجا گیا تھا اور مقصد طائفہ یہود کی طرح یہ تھا کہ صبح مسلمان ہو کر شام کو انکار کر دو تا کہ مسلمان بھی بدظن ہوکر پھر جائیں.چونکہ اب وہ شخص وحی الہی کو اپنی طرف منسوب کر رہا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حق و باطل کے لئے خدا تعالیٰ سے خاص نشان طلب کیا اور دعا کی کہ ”اے اللہ! اس شخص کو عبرت کا نشان بنا.یہ دعا اس طرح قبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے جلد ہی اس شخص کو ہلاک کر دیا.چنانچہ اسے دفن کر دیا گیا مگر خدا تعالیٰ نے اسے عبرت ناک نشان بنانا تھا.صبح ہوئی تو دنیا نے یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھا کہ زمین نے اسے قبر سے نکال باہر پھینک دیا ہے.عیسائی کہنے لگے کہ یہ کام محمد ہے اور اس کے ساتھیوں کا ہے کہ اس شخص کے مرتد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اس کی قبر کھود کر نعش نکال باہر پھینکی ہے.چنانچہ انہوں نے اسے دوبارہ دفن کر دیا اور اس دفعہ قبر اتنی گہری کھودی جتنا وہ کھود سکتے تھے لیکن اگلی صبح پھر یہ عجیب ماجرا دیکھنے میں آیا کہ لغش زمین سے باہر پڑی تھی.عیسائیوں نے پھر وہی الزام دہرایا کہ یہ مسلمانوں کا کام ہے.اس دفعہ انہوں نے انتہائی گہرا گڑھا کھودا مگر زمین نے تیسری مرتبہ بھی اسے قبول نہ کیا.اب عیسائیوں کو عقل آئی کہ یہ انسان کے ہاتھوں کا کام نہیں ہو سکتا.چنانچہ انہوں نے اس کی نعش کو دو چٹانوں کے درمیان رکھ کر اوپر پھر پھینک دیئے.( مسلم ) 83 اُمت کے لئے دعائیں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد کی دعاؤں کی وسعت کا یہ عالم تھا جس سے کوئی زمانہ محروم نہیں رہا اور قیامت تک آنے والے متبعین امت کیلئے آپ نے دعائیں کر دی ہیں.آپ نے اپنے روحانی خلفاء کے حق میں دعا کی کہ اے اللہ ! میرے ان خلفاء کے ساتھ خاص رحم اور فضل کا سلوک فرمانا جو میرے زمانے کے بعد آئیں گے اور میری احادیث اور سنت لوگوں تک پہنچائیں گے.خود بھی اس پر عمل کریں گے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں گے.(سیوطی )84 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو مہمات پر بھجواتے ہوئے بھی ان کے لئے دعا کرتے تھے.اکثر مہمات علی الصبح روانہ فرماتے اور اس موقع پر خاص طور پر یہ دعا کرتے.اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهِمْ ( احم) 85 اے اللہ ! میری امت کے صبح کے سفروں میں خاص برکت عطا فرما.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کا اتنا خیال رکھا کہ اس کے حق میں یہ دعا کی اے اللہ ! جو شخص بھی
148 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز اسوہ انسان کامل میری امت کا والی یا حاکم ہو اور اُن پر سختی یا زیادتی کرے تو تو خود اس سے بدلہ لینا اور اُس سے ایسا ہی سلوک کرنا اور جو والی یا حاکم میری امت سے نرمی کا سلوک کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی کا سلوک فرمانا.( احمد )86 رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ جو محبت تھی اس کا ایک اظہار آپ نے اپنی شبانہ روز دعاؤں سے بھی کیا.جب آپ مہجرت کر کے مدینہ تشریف لے آئے تو اس وقت کئی کمزور مسلمان ایسے تھے جو مکہ میں رہ گئے.وہ مختلف وجوہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور مکہ میں اذیتیں برداشت کر رہے تھے.آپ کے دل میں اپنے ان کمزور بھائیوں کیلئے جو درد تھا اس کا اندازہ آپ کی دعاؤں سے کیا جاسکتا ہے، ایک زمانہ تک آپ اپنے ان مظلوم مریدوں کے نام لے لے کر عشاء کی نماز میں دعا کرتے.”اے اللہ ! عیاش بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے بھائی ) کو کفار مکہ سے نجات دے، اے اللہ ! ولید بن ولیڈ کو ان سے رہائی دے، اے اللہ سلمہ بن ہشام کو مشرکوں کے ظلم سے بچا ، اے اللہ ! سب کمزور مسلمانوں (مومنوں) کی نجات کے سامان فرما پھر اللہ تعالیٰ نے ان سب کو دشمنوں سے نجات دی.( بخاری )87 حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ نبی کریم نے سورۃ ابراہیم کی آیات 36,37 کی تلاوت کی جن میں اپنی اولاد کے شرک سے بچنے اور ساری قوم کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا ہے.پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی یہ قرآنی دعا اپنی قوم کی بخشش کے بارہ میں پڑھی کہ اے اللہ اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر ان کو بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے.(سورۃ مائدہ : 119) پھر آپ کے دل میں اپنی امت کے لئے دعا کا جوش پیدا ہوا تو ہاتھ اُٹھائے اور یوں دعا کی اے اللہ میری امت کو بھی بخش دے.میری امت پر رحم کیجیو اور یہ کہتے کہتے آپ رونے لگے تب اللہ تعالیٰ نے جبریل سے فرمایا کہ محمد سے جا کر پوچھو ( حالانکہ اللہ تعالیٰ آپ کی حالت کو خوب جانتا تھا کہ ان کے رونے کا کیا سبب ہے؟ ) جبریل نے آکر پوچھا تو رسول اللہ نے اپنی امت کے بارہ میں رحم کی بھیک مانگی.تب خدا کی رحمت بھی جوش میں آئی اور جبریل سے کہا کہ جا کر محمد سے کہہ دو کہ ہم آپ کو آپ کی امت کے بارے میں راضی کریں گے اور نا خوش نہیں کریں گے.(مسلم ) 88 الغرض اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو قبولیت دعا کے ہر قسم کے نشان عطا فرمائے اور اس کثرت سے آپ کی دعائیں بنی نوع انسان کے حق میں قبول ہوئیں کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.رسول کریم کے پاکیزہ اسوہ پر عمل کے نتیجہ میں آج بھی ہر صاحب ایمان یہ برکات حاصل کر سکتا ہے.
اسوہ انسان کامل 149 حواله جات 1 بخاری(25) كتاب التهجد باب 14 2 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب 79 3 ابوداؤد (2) باب الصلاة باب 35 4 ترمذى (49) كتاب الدعوات باب 129 تحفة الذاكرين للشوکانی جز 1 ص 65دار الكتاب العربي بيروت 6 ابوداؤد (2) کتاب الصلاة باب 210 7 بخاری (37) کتاب صلاة التراويح باب 6 8 ترمذی(49) كتاب الدعوات باب 129 9 بخاری (37) كتاب الصلوة التراويح باب 3 10 بخاری(83) کتاب الدعوات باب 66 11 ابن ماجه (34) كتاب الدعاء باب 21 12 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الفاتحه باب 2 13 مسلم (5) كتاب الصلوة باب 42 14 بخاری(51) كتاب المظالم باب 10 15 مسلم (49) كتاب الذكر باب 49 16 ترمذی(49) كتاب الدعوات باب 105 17 ترمذی (28) کتاب باب البر والصلة باب 7 18 ترمذی (39) كتاب صفة الجنة باب 2 19 تحفه الذاكرين للشوكاني جزء 1 ص 67-69 مطبوعه بيروت 20 نسائى كتاب مناسك الحج باب التهليل على الصفا 21 ترمذى (49) كتاب الدعوات باب 123 22 بخاری (26) کتاب الجمعة باب 14 23 مسلم (49) كتاب الذكر و الدعاء والتوبه والاستغفارباب 7 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز
اسوہ انسان کامل 150 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز 24 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 110 25 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب89 26 مسند احمد جلد 5ص243 27 بخاری(68) كتاب التفسير سوره بنی اسرائیل باب 203 28 ترمذی(50) کتاب المناقب باب 18 29 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الروم باب 266 30 الخصائص الكبرى للسيوطى جز ثانی صفحه 243 مطبوعه بيروت 31 المعجم الكبير لطبراني جلد 11 ص 174 بيروت 32 بخاری(63) كتاب بدء الخلق باب 7 33 نور اليقين فى سيرة خاتم النبین ڈاکٹر خضري بك واقعه سفر طائف مطبوعه مصر 34 ترمذی (50) ابواب المناقب باب 74 35 دلائل النبوة للبيهقى جلد 5 ص 460 ، بخاری (60) كتاب الجهاد باب 99 36 الاصابه في تمييز الصحابه زیر لفظ ابو هريره جلد 7 ص435 مطبوعه مصر 37 الخصائص الكبرى للسيوطى جزثاني ص 249 مطبوعه بيروت 38 بخاری (67) كتاب المغازی باب4 39 مجمع الزوائد جز6ص 94 40 مجمع الزوائد للهيثمي جزء 6 ص 107 مطبوعه بيروت 41 بخاری(67) كتاب المغازى باب 27 42 سيرت الحلبيه جلد 3 ص 35 بيروت 43 بخاری(67) کتاب المغازى باب 36 44 السيرة الحلبيه جلد3 ص 74 بيروت 45 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 121 46 الشفاء بتعريف حقوق المصطفى للقاضي عياض جلد 1 ص 328 بيروت 47 بخاری (66 کتاب فضائل الصحابة باب 75 48 بخاری (21) كتاب الاستسقاء الجمعة باب 7 49 بخاری(83) كتاب الدعوات باب 25 50 اسد الغابه لابن اثیر جلد 1 ص 80 مطبوعه بيروت
اسوہ انسان کامل 151 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز 51 بخاری (67) کتاب المغازی باب 15 52 مسلم (37) کتاب الاشر به باب 32 53 الخصائص الكبرى للسيوطي جزثاني ص111 اله بيهقى 54 الخصائص الكبرى للسيوطى جز ثاني ص 252 دار الكتاب العربى بحوا 55 الخصائص الكبرى للسيوطى جز ثاني ص 252 بيروت بحواله بيهقى وابونعيم 56 بخاری (60) كتاب الجهاد باب 101 57 ابن ماجه کتاب المقدمة باب 11 58 مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص170 59 مسند احمد بن حنبل جلد 1 ص254 60 بخاری(65) کتاب المناقب باب 19 61 اسد الغابة جلد 1 ص 417 بيروت 62 بخاری (67) كتاب المغازى باب 36 ، اصابة جلد 3 ص 27 بيروت 63 ترمذی(50) كتاب المناقب باب 6 64 مستدرك حاكم كتاب الدعاء جلد1ص727مطبوعه مصر 65 الشفاء بتعريف حقوق المصطفى للقاضي عياض جلد 1ص327 بيروت 66 بخاری (67) کتاب المغازى باب 13 67 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 8 68 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 35 69 الاصابه في تمييز الصحابه جزء 6ص 34 70 بخاری(4) کتاب الوضوء باب 10 71 بخاری(67) کتاب المغازی باب59 72 مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص 446 73 ترمذی(50) کتاب المناقب باب 47 74 الشفا بتعريف حقوق المصطفى للقاضی عیاض جلد 1 ص 327 بحواله بيهقى 75 بخاری(67) کتاب المغازی باب 52 76 السيرة الحلبيه جلد 3 ص 44 مطبوعه بيروت 77 الخصائص الكبرى للسيوطى جز ثاني ص 247 بيروت
اسوہ انسان کامل 152 78 الوفاء باحوال المصطفى جلد 1 ص 488ازابن الجوزى بيروت 79 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 97 80 بخاری(67) کتاب المغازی باب 77 81 فتح الباري لابن حجر جلد 4 ص 39 دار الكتب الاسلاميه لاهور، كنز العمال جزء12 ص 439 بيروت 82 الشفا بتعريف حقوق المصطفى للقاضی عیاض جلد 1 ص 329 83 مسلم(52) کتاب صفات المنافقين باب 1 4 جامع الصغير للسيوطى جز1ص61 بيروت 85 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 416 86 مسند احمد بن حنبل جلد6ص93 87 بخاری(83) كتاب الدعوات باب 58 88 مسلم (2) کتاب الايمان باب 89 رسول اللہ کی قبولیت دعا کے راز
اسوہ انسان کامل 153 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں مخبر صادق کے رویا وکشوف اور پیشگوئیاں خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جائزہ لینے کے لئے آپ کے رویا و کشوف کا مضمون بھی بہت اہم ہے.دوسرے رویا و کشوف کے ذریعہ خوش خبریوں کا عطا ہونا اور خدا کا بندے سے کلام کرنا محبت الہی کی نشانی ہے.تیسرے جن رؤیا وکشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہو ان کا کثرت سے ہو بہو پورا ہو جانا صاحب کشف والہام انسان کی سچائی کا نشان ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے.وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا بجز اپنے برگزیدہ رسول کے.( سورۃ الجن : 27) اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی والہام اور رؤیا وکشوف ہی ہیں.چنانچہ دوسری جگہ فرمایا اور کسی انسان کے لئے ممکن نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کوئی پیغام رساں بھیجے جو اُس کے اذن سے جو وہ چاہے وحی کرے.یقینا وہ بہت بلندشان (اور) حکمت والا ہے.“ (سورۃ الشوریٰ: 52) رؤیا وکشوف کے بارہ میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض پیش گوئیاں انبیاء کی زندگی میں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض وفات کے بعد.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر ہم تجھے اُن انذاری وعدوں میں سے کچھ دکھادیں جو ہم ان سے کرتے ہیں یا تجھے وفات دے دیں تو ( ہر صورت ) تیرا کام صرف کھول کھول کر پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے.(سورۃ الرعد : 41) سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو "بشیر و نذیر کے لقب سے بھی نوازا گیا ہے.آپ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اور تنبیہات کی تفاصیل رویا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اور امت محمدیہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں.ایک دفعہ نماز کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپ نے فرمایا ”مجھے ابھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے“ یہاں تک کہ جنت و دوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں.اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعماء جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپ آنہیں لینے کے لئے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے.( بخاری )1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے بطور نمونہ کچھ کا ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے.
اسوہ انسان کامل 154 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں ا.نبی کریم کی زندگی میں ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رویا پہلی قسم اُن رویا ء وكشوف اور پیش گوئیوں کی ہے، جو نبی کریم کی حیات مبارکہ میں ہی واضح طور پر اپنے ظاہری رنگ میں من وعن پوری ہو گئیں.حضرت عائشہ سے شادی کی رؤیا حضرت عائشہ کے ساتھ شادی سے قبل ان کی تصویر دکھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے.ظاہری حالات میں یہ بات نا ممکن نظر آتی تھی کیونکہ حضرت عائشہ کی منگنی دوسری جگہ طے ہو چکی تھی اور یوں بھی نبی کریم اور حضرت عائشہ کی عمروں کا فرق ہی چالیس سال سے زائد تھا.اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضور نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیا کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیدا فرماوے گا.( بخاری )2 پھر بظاہر ناموافق حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ بات غیر معمولی رنگ میں پوری کر دکھائی اور جبیر بن مطعم سے منگنی ختم ہونے کے بعد کم سن حضرت عائشہ رسول اللہ کے عقد میں آئیں اور اُم المؤمنین کا اعزاز ان کو عطا ہوا.مکی دور میں فتح بدر کی پیش گوئی ان پیشگوئیوں میں سے ایک غزوہ بدر کی فتح کی پیش گوئی بھی ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ ہی میں تھے اور مسلمان انتہائی کمزور اور مظلوم و مقہور ہو چکے تھے.ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے.دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لئے انشراح صدر اور مضبوطی ایمان کا موجب ہوتے تھے.جیسے شق قمر کا معجزہ وغیرہ.چاند جوعربوں کی حکومت کا نشان تھا.اس کے دوٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی اور انکی وحدت ملی پارہ پارہ ہوکر رہے گی.سورۃ قمر (جس میں واقعہ شق قمر کا ذکر ہے ) میں واشگاف الفاظ میں مسلمانوں کے مقابل پر کفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے.فرمایا سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَه ( القمر :46) یعنی (اس روز قریش کی ) جمعیت پسپا ہوگی اور یہ ( اور ان کے لشکر ) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہونگے.کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑ کہہ سکتے تھے اور اسی لئے ساحر و مجنون کے الزام لگاتے تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پور ا فر مایا اس پر اہل مکہ بھی انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے.چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدہ فتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا.وَاذْيَعِدُكُمُ اللَّهُ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ انَّهَالَكُمْ ( سورة الانفال:8 ) کہ اس وقت کو یاد کرو جب اللہ تمہیں دو گروہوں ( یعنی لشکر کفار اور قافلہ ) میں سے ایک کا وعدہ دے رہا تھا کہ اس پر تم کو فتح ہوگی.
155 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں اسوہ انسان کامل پھر بھی جب میدان بدر میں رسول اللہ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلے کی بجائے ایک مسلح لشکر جرار سامنے ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے تو طبعاً آپ کو فکر دامنگیر ہوئی.تب خدا تعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہ نے دعاؤں کی حد کر دی.آپ بدر کے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کر اتنے الحاج سے دعا کر رہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر گر جاتی تھی.آپ اپنے مولیٰ سے سرگوشیاں کر رہے تھے.اے اللہ تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ ! ( تو ہمیں کامیاب کر ) اے اللہ اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو کون تیری عبادت کرے گا.حضرت ابو بکر نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا یا رسول اللہ ! اب بس کریں.تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے اٹھے.آپ یہ آیت تلاوت کر رہے تھے.سَيْهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ 0 ( سورة القمر : 46 ) که لشکر ضرور پسپا ہوں گے اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے.( بخاری (3) گویا خدا کا پیشگی وعدہ فتح یاد کر کے مسلمانوں کو تسلی دے رہے تھے.چنانچہ بظاہر نا مساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطا فرمائی اور رسول اللہ کی کنکریوں کی ایک مٹھی کفار پر آندھی وطوفان بن کر ٹوٹی اور انہیں پسپا کرنے کا موجب بن گئی.سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبدر میں صنادید قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا.اس بارہ میں حضرت انس بیان کرتے تھے کہ ہم مکہ ومدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے.چنانچہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ معرکہ بدر سے ایک روز قبل رسول کریم نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہو گا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر ہم نے دیکھا کہ وہ لوگ و ہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسول خدا نے بتایا تھا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کوحق کے ساتھ بھیجا ہے.آپ نے ان کے گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں، ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی.(مسلم)4 غزوہ بدر میں قریش کے چوبیس سردار ہلاک ہوئے.انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا.تیسرے دن بدر سے گوچ کے وقت رسول کریم اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر ان سرداروں اور ان کے باپوں کے نام لے کر پکارنے لگے.آپ فرماتے تھے ”اے فلاں کے بیٹے کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور رسول کی اطاعت کی ہوتی ؟ ہم نے تو اپنے رب کے وعدوں کو سچا پا لیا کیا تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟ حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ ان بے جان جسموں سے کلام کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ انکو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں.“ (یعنی اپنے ظلموں کی جزا پا کر ).( بخاری )5
اسوہ انسان کامل 156 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں مکی دور میں ہجرت مدینہ اور مکہ واپسی کی پیشگوئی قرآن شریف میں سورہ قصص ( جو مکی سورۃ ہے ) کے آغاز میں حضرت موسیٰ“ کے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے.آخر میں مثیل موسیٰ نبی کریم کے مکہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآؤُكَ إِلى مَعَادٍ ط ( سورة القصص: 86) یعنی وہ جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا ہے، ضرور تجھے ایک واپس آنے کی جگہ کی طرف واپس لے آئے گا.یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی ، ان میں مکہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر ایک ناممکن سی بات معلوم ہوتی تھی.فتح مکہ سے چند روز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ اس شان سے مکہ میں داخل ہوں گے.مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ سال کے عرصہ میں کس شان سے پوری ہوئی.کسرای شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی رسول اللہ نے کسرای شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا.اس نے نہایت بے ادبی سے وہ خط پھاڑ دیا.رسول کریم کو علم ہوا تو آپ نے کسری کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا کی.پھر نہایت معجزانہ رنگ میں اس زمانہ کی یہ طاقتور حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور اس کا جابر و ظالم حاکم بھی پیشگوئی کے مطابق ہلاک ہوا اور رسول خدا کی سچائی کا نشان بنا.تفصیل اس کی یوں ہے کہ نبی کریم کے تبلیغی خط کو کسری نے اپنی ہتک سمجھا اور یمن کے حاکم باذان کو حکم بھجوایا کہ اس شخص کو جو حجاز میں ہے دو مضبوط آدمی بھجواؤ جو گرفتار کر کے اُسے میرے پاس لے آئیں.باذان نے ایک افسر بابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنے خط میں آنحضرت کو لکھا کہ آپ ان دونوں کے ساتھ شاہ ایران کے پاس حاضر ہوں.بابویہ کو اس نے کہا اس دعویدار نبوت سے جا کر خود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھے مطلع کرو.یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرت کے بارہ میں پوچھا.انہوں نے کہا وہ تو مدینہ میں ہیں.طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسرای شاہ ایران اس شخص کے پیچھے پڑ گیا ہے.وہ اس کے لئے کافی ہے.دونوں قاصد مدینہ پہنچے.بابویہ نے رسول اللہ سے بات چیت کی اور آپ کو بتایا کہ شہنشاہ کسری نے شاہ یمن باذان کو حکم بھجوایا ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے اور مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپ میرے ساتھ چلیں.اگر آپ میرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں شنہشاہ کسریٰ کے نام ایسا خط دوں گا کہ وہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا.اگر آپ میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپ خود جانتے ہیں کہ اس میں آپ کی بلکہ پوری قوم کی ہلاکت اور ملک کی تباہی و بربادی ہے.آپ نے ان دونوں نمائندوں سے فرمایا کہ اس وقت تم دونوں جاؤ صبح آنا.رسول اللہ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شنہشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا گیا ہے.اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کر دیا ہے.
اسوہ انسان کامل 157 مخبر صادق کے رویا وکشوف اور پیشگوئیاں اگلی صبح جب وہ دونوں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان دونوں سے فرمایا کہ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیر و یہ کو اس پر مسلط کر کے اسے قتل کیا ہے.وہ دونوں کہنے لگے آپ کو پتہ ہے کہ آپ کیا کہ رہے ہیں.ہم اس سے معمولی بات پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں.کیا ہم آپ کی بات شہنشاہ کولکھ کر بھیج دیں.آپ نے بڑے جلال سے فرمایا.ہاں! میری طرف سے اسے یہ اطلاع کر دو اور اسے جا کر یہ پیغام دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقینا تمہارے ملک ایران پر بھی ہوگا اور اس کو کہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کر لوتو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنادیا جائے گا.یہ دونوں شخص جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے.جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں.اگر تو یہ بیچ نکلا تو یقیناً یہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے اور اگر ایسا نہ ہوا تو ہم اس کے بارے میں اپنا فیصلہ کریں گے.تھوڑے ہی عرصے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا، جس میں لکھا تھا.میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطر کسری کو قتل کیا ہے کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتا اور ان کو قید کرتا تھا.اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور کسری نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا کا لعدم سمجھو یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے.کسری کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے.چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے مسلمان ہو گئے.(طبری)6 اسود عنسی کے قتل کی خبر حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت) کے قتل کی خبر دی.آپ نے ہمیں علی اصح اطلاع فرمائی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیا ہے.ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے.پوچھا گیا وہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کا نام فیروز ہے.جو یمن سے تعلق رکھتا ہے.(کنز )7 2- تعبیر طلب رؤیا اور ان کا پورا ہونا دوسری قسم کی رؤیا یا پیشگوئیاں وہ ہیں جو اپنے ظاہری الفاظ میں پوری نہیں ہوتیں بلکہ تعبیر طلب ہوتی ہیں.رسول کریم کو ان کی تعبیر کے بارہ میں بھی قبل از وقت علم عطا فر مایا گیا اور آپ نے وقت سے پہلے کھول کر بتا دیا کہ اس رویا کے مطابق یوں واقعہ ہو گا.اور پھر اسی طرح ظہور میں آکر وہ واقعات آپ کی سچائی کے گواہ بنے.جھوٹے مدعیان نبوت کے ظہور کی پیشگوئی حجۃ الوداع کے بعد نبی کریم نے دو جھوٹے مدعیان نبوت کے بارہ میں اپنی یہ رویا بیان فرمائی کہ میں سویا ہوا تھا.زمین کے خزانے مجھے دیئے گئے.میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دوسونے کے کنگن دیکھے.میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری.سونے کے یہ کنگن میرے لئے باعث پریشانی ہوئے.تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماریں.میں نے
158 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں اسوہ انسان کامل پھونک ماری تو وہ اُڑ گئے.میں نے اس رویا کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے دعویدار ہیں جن کے درمیان میں میں ہوں.ایک تو صنعاء کا باشندہ (اسود عنسی ) دوسرا یمامہ کا رہنے والا ( مسیلمہ کذاب ).( بخاری )8 یہ رویا بھی حضور کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوں مدعیان نے رسول اللہ کی زندگی میں نبوت کے دعوے کئے.اسود عنسی آپ کی زندگی میں اور مسلمہ بعد میں ہلاک ہوا.خلافت ابو بکر و عمرہ کے متعلق رویا خدا تعالیٰ کے ہر مامور کی طرح نبی کریم کو اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اُس رؤیا کے ذریعے دور فرما دی جس میں حضرت ابوبکر کے مختصر زمانہ خلافت اور حضرت عمرؓ کے فتوحات سے بھر پور پُر شوکت عہد کی طرف اشارہ تھا.نبی کریم نے فرمایا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں سیاہ رنگ کی بکریوں کے لئے کنوئیں سے پانی کھینچ رہا ہوں جن میں کچھ گندمی رنگ کی بکریاں بھی ہیں.اتنے میں ابو بکر آئے انہوں نے ایک یا دو ڈول پانی کھینچا اور ان کے کھینچنے میں کچھ کمزوری تھی پھر عمر آئے اور انہوں نے ڈول لیا تو وہ اسے بھرا ہوا کھینچ لائے.انہوں نے تمام لوگوں کو پانی سے سیراب کیا اور تمام بکریوں نے پانی پی لیا.میں نے آج تک ایسا کوئی باکمال و با ہمت جواں مرد نہیں دیکھا جو حضرت عمر جیسی طاقت رکھتا ہو.( بخاری )9 چنانچہ یہ رویا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی.حضرت عمر کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیا درکھ دی گئی اور بڑی بڑی فتوحات ہوئیں.فتح ایران اور سراقہ بن مالک کے بارہ میں پیشگوئی سفر ہجرت میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالک کے حق میں بھی رسول اللہ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی.حضرت ابوبکر ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمارا تعاقب کر نیوالوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ ہمیں پکڑنے کیلئے آیا ہے.آپ نے فرمایا اے ابو بکرغم نہ کر واللہ ہمارے ساتھ ہے.جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریم نے دعا کی کہ اے اللہ ہماری طرف سے تو خود اسکے لئے کافی ہو.تب اچانک اسکے گھوڑے کے اگلے دو پاؤں زمین میں جنس گئے.اس پر سراقہ کہنے لگا مجھے پسند چل گیا ہے کہ یہ آپ کی دعا کا نتیجہ ہے.اب آپ دعا کریں اللہ مجھے اس سے نجات دے.خدا کی قسم اپنے پیچھے آنیوالوں کو میں آپ کے بارہ میں نہیں بتاؤں گا.آپ میرے تیر بطور نشانی لے لیں.فلاں جگہ جب میرے اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپ گزریں تو اپنی ضرورت کے مطابق جو چیز چاہیں لے لیں.حضور نے فرمایا مجھے اس کی ضرورت نہیں.پھر آپ نے اس کے لئے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پاؤں باہر نکل آئے.(احمد) 10
اسوہ انسان کامل 159 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں سراقہ کی درخواست پر رسول کریم نے اسے ایک تحریر امان لکھوا کر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپ نے فرمایا اے وقت ہوگا گے؟سہ اے سراقہ ! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟ سراقہ نے حیرانی سے کہا کسری بن ہرمز ( شہنشاہ ایران ) ؟ آپ نے فرمایا ہاں کسری بن ہرمز کے کنگن.“ اپنے جانی دشمنوں سے جان بچا کر ہجرت کرنے والے بظاہر ایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی شان اور عظمت پر غور تو کریں جس میں سراقہ کو کسری کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان پیشگوئی یہ تھی کہ ایران فتح ہوگا اور کسری کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئیں گے.پھر نا مساعد حالات میں کی گئی یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.سراقہ نے فتح مکہ کے بعد بعرانہ میں اسلام قبول کیا.حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں کسری کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمر کے دربار میں پیش ہوئے.حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایا اور فرمایا ” ہاتھ آگے کرو“.پھر آپ نے اُسے سونے کے کنگن پہنا دیئے اور فرمایا اے سراقہ ! کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ان کنگنوں کو کسری کے ہاتھ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنا دیا.وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں.(الحلبیہ )11 اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی ایک اور عظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے.مدنی زندگی کے اس دور میں جب بری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اور فتوحات کی خبر دی گئی.حضرت ام حرام بنت ملحان بیان کرتی ہیں کہ حضور تہمارے گھر محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے.میں نے سبب پوچھا تو فرمایا کہ:.” میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں.“ ام حرام کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنادے.چنانچہ رسول کریم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے بھی ان میں شامل کر دے.پھر آپ کو اونگھ آگئی اور آنکھ کھلی تو آپ مسکرارہے تھے.میں نے وجہ پوچھی تو آپ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے.ام حرام نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں.آپ نے فرمایا " تم گروہ اولین میں شامل ہو ، گر وہ آخرین میں شریک نہیں.“ حضرت انس کہتے ہیں کہ پھر یہی حضرت ام حرام سمندری سفر میں شامل ہوئیں اور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی.( بخاری )12
160 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں اسوہ انسان کامل اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا.حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں حضرت معاویہؓ کو جب وہ شام کے گورنر تھے پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی.اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی.حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیا جو اسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا.جس کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھی گئیں.یوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی وہ بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کی دنیاؤں میں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار دستے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے.( ابن حجر ) 13 یہ پیش گوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبر دست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثمان کے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا.عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیٹرے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھا کر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دیئے.چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہمات میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود واحمر کے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ روس صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا.تیسری طرف طارق بن زیاد فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے جبرالٹر پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنے سفینے جلا دئیے تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے اور یوں مسلمانوں نے جریدہ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اور کیا بلحاظ صنعت اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے ان مٹ نقوش ثبت کئے جو رہتی دنیا تک یادر ہیں گے.نئی بندرگا ہیں تعمیر ہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان جو پانیوں سے ڈرتے تھے سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رویا وکشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے.-3- تعبیر طلب رؤیا کا کسی اور رنگ میں پورا ہونا رؤیا اور کشوف کی تیسری صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ رویا کے وقت کی گئی تعبیر کے مطابق من وعن ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ الی مشیت و تقدیر کے مطابق کسی اور بہتر رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں جیسے واقعہ صلح حدیبیہ.مدنی دور میں جب مسلمان اہل مکہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج وعمرہ پر پابندی تھی.اس وقت رسول اللہ نے رویا میں اپنے آپ کو صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا اور ظاہری تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت ہمراہ لے کر عمرہ کرنے تشریف بھی لے گئے.مگر گہری مخفی الہی حکمتوں اور منشاء الہی کے تابع آپ اس سال عمرہ نہ کر سکے اور معاہدہ صلح حدیبیہ کے مطابق اگلے سال عمرہ کیا.لیکن اس معاہدہ حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر کی فتح بھی عطا فرمائی اور مکہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا.اب اگر یہ تعبیر ظاہری رنگ میں
اسوہ انسان کامل 161 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں پوری ہو جاتی کہ اُسی سال مسلمان طواف کر بھی لیتے تو وہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں عطا ہوئی ہیں اور جسے قرآن شریف میں فتح مبین قرار دیا گیا.( بخاری )14 ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی جس کی درست تعبیر بعد میں ظاہر ہوئی.نبی کریم کو اپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے.آپ نے اُس سے یمامہ یا حجر کی سرزمین مراد لی.مگر بعد میں کھلا کہ اس سے میٹر ب یعنی 66 15 مدينة الرسول مراد تھا.( بخاری )5 رویا میں دارالہجرت کے نام کے اخفاء میں یقیناً گہری حکمت پوشیدہ تھی کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک یا خطرہ حائل نہ ہو.4- رویا پوری ہونے پر اُس کی تعبیر کا کھلتا بعض رؤیا ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی تعبیر رویا کے وقت واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رویا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے.جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اُس واقعہ یا حادثہ کے ظہور کے بعد رویا میں مضمر منشاء الہی معلوم کر کے انسان کو اطمینان حاصل ہو.جیسے غزوۂ احد سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رویا میں دیکھا کہ آپ کچھ گائیوں کو ذبح کر رہے ہیں.اسی طرح دیکھا کہ آپ آپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتا ہے.رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی ،مگر بعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں ستر مسلمانوں کی شہادت کی عظیم قربانی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میں ظاہر ہو گئی اس وقت گھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا.( بخاری )16 5- پیش گوئی کا جانشین یا اولاد کے حق میں پورا ہونا بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں مثلاً نبیوں کے خلفاء، اُن کے ماننے والوں یا صاحب رؤیا کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہے.ایک نہایت اہم اور غیر معمولی شان کا حامل لطیف کشف وہ ہے جس کا نظارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ احزاب کے اس ہولناک ابتلاء میں کروایا گیا جب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطر شہر کے گرد خندق کھود رہے تھے.دوسری طرف اندرونی طور پر وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے اور جیسا کہ حضرت جابر کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے.مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے خود آنحضرت نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے.(بخاری) 17 حضرت براء بن عازب اس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی.آپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی تو پھر شکستہ
اسوہ انسان کامل 162 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں ہو گیا اور اس کا ایک بڑا حصہ ٹوٹ گرا.آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور فرمایا کہ ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں.پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہو کر ٹوٹا اور رسول کریم نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں مدائن اور اس کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں.پھر آپ نے اللہ کا نام لیکر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.آپ نے تیسری بار اللہ اکبر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا! ” یمن کی چابیاں میرے سپرد کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کر رہا ہوں.( احمد ) 18 ی عظیم الشان روحانی کشف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے زبر دست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے کہ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں.خود حفاظت کے لئے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف ہیں.انہی وعدوں پر کیسا پختہ ایمان ہے کہ اپنے دور کی دو عظیم طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے ہیں اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہو کر رہیں گی.پھر خدا کی شان دیکھو کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ خلافت سے ان فتوحات کا آغاز ہو جاتا ہے.حضرت خالد بن ولید اور حضرت ابوعبیدہ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاص کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانوں کے زیر نگیں ہو جاتی ہیں.رسول کریم ﷺ کون فتوحات کے روشن نظارے اس تفصیل کے ساتھ کرائے گئے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حریم بن اوس کے بیان کے مطابق حیرہ کی فتح کے بارہ میں رسول کریم کا کشف جس شان کے ساتھ پورا ہوا وہ حیرت انگیز ہے.رسول کریم نے فرمایا ”حیرہ کے سفید محلات میرے سامنے لائے گئے اور میں نے دیکھا کہ اس کی ( شہزادی ) شیماء بنت نفیله از دیه ایک سرخ خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی سے نقاب اوڑھے ہوئے ہے.تحریم نے غالباً اس پیشگوئی کی مزید پختگی کی خاطر عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر ہم حیرہ میں یوں فاتحانہ داخل ہوئے اور ان کی شہزادی شیماء کو ایسا ہی پایا جیسا کہ حضور نے بیان فرمایا ہے تو کیا وہ شہزادی میری ملکیت ہوگی؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ہوئی.اب دیکھیں اس پیشگوئی میں حیرہ کی فتح کے ساتھ شیماء اور خریم کے زندہ رہنے کی پیشگوئی بھی شامل ہے.خریم کہتے ہیں کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر کے زمانہ میں جب ہم نے حیرہ فتح کیا تو بعینہ وہی نظارہ ہم نے دیکھا جو رسول اللہ نے بیان فرمایا تھا کہ شیماء خچر پر سوار سیاہ اوڑھنی کا نقاب کئے آرہی تھی.میں اس کی خچر سے چمٹ گیا اور کہا کہ رسول اللہ نے یہ مجھے صبہ فرما دی تھی.سالار فوج خالد بن ولید نے مجھے بلوایا اور میرے دعوی کی دلیل طلب کی.میں نے محمد بن مسلمہ اور محمد بن بشیر انصاری کو بطور گواہ پیش کیا اور شیماء میرے حوالے کر دی گئی.اس کا بھائی عبد ا مسیح صلح کی غرض سے
اسوہ انسان کامل 163 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں میرے پاس آیا اور کہا کہ اسے میرے پاس فروخت کر دو میں نے کہا میں دس سو درہم سے کم نہیں لونگا.اس نے فوراً مجھے ایک ہزار درہم دیئے اور میں نے شیماء اس کے حوالے کر دی.مجھے لوگ کہنے لگے اگر تم دس ہزار درہم بھی کہتے تو وہ ادا کر دیتا.یہ تم نے ایک ہزار مانگ کر کیا کیا؟ میں نے کہا دس سو سے زیادہ مجھے بھی گنتی نہیں آتی تھی.(ابو نعیم )19 فاقہ کش ابو ہریرۃ جنہوں نے ان رؤیا کی تعبیر اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی ، وہ یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ ” مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھیں.پھر کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو وفات پاگئے.اب تم ان خزانوں کو حاصل کر رہے ہو.( بخاری ) 20 پس رسول اللہ کے رویا ، کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الہی منشاء اور حکمت کے مطابق بہر حال پوری ہوئیں اور آج ہمارے لئے از دیا ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشارِ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضرور بالضرور پورے ہونگے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہم سے کئے گئے.چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم نے فرمایا کہ میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گا اور دوسری وہ جماعت جو عیسی بن مریم علیھم السلام کے ساتھ ہوگی.(نسائی ) 21 اس پیشگوئی کا پہلا حصہ بڑی شان کے ساتھ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں اس وقت پورا ہوا جب محمد بن قاسم کے ذریعے سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا.اور انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل وانصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل سندھ کو اپنا گرویدہ کر لیا.یوں یہاں اسلام کا آغاز ہوا.پیشگوئی کے دوسرے حصے کا تعلق اس آخری زمانہ سے ہے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے زمین کو سمیٹ کر دکھایا، یہاں تک کہ اُس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی میرے سامنے تھے.اور مجھے کہا گیا تھا کہ میری اُمت کی حکومت زمین کے اُن تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے اور مجھے دو خزانے دیئے گئے ایک سرخ خزانہ ( یعنی سونے کا ) اور ایک سفید خزانہ ( یعنی چاندی کا)‘ (مسلم )22 اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارہ میں آپ نے فرمایا کہ اللہ تعلی کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کر دے گا.ان الہی وعدوں پر ہر مومن کو یقین اور ایمان ہونا چاہیے کیونکہ جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
اسوہ انسان کامل 164 حواله جات 1 بخاری (27) كتاب العمل في الصلاة باب 11 بخاری (70) كتاب النكاح باب 9 3 بخاری (68) کتاب التفسير باب 352 4 مسلم (54) كتاب الجنة وصفة نعيمها باب 18 5 بخاری (54) كتاب المغازی باب 7 6 تاريخ الامم والملوك لطبرى جز 2 ص 133 دار الفكر بيروت 7 كنز العمال جلد 1 ص 263 بخاری (95) کتاب تعبير الرؤياباب 40 9 بخاری (55) کتاب فضائل الصحابه باب6 10 مسند احمد جلد 1 ص 2 مطبوعه مصر 11 السيرة الحلبيه جلد 2 ص 45 مطبوعه بيروت 12 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 3 13 فتح البارى جزء 1 ص 289 بيروت 14 بخاری (68) کتاب التفسير باب 322 15 بخاری (66) كتاب الفضائل الصحابة باب 74 16 بخاری (67) کتاب المغازی باب 14 17 بخاری (67) كتاب المغازى باب 27 18 مسند احمد بن حنبل جلد 4.ص 303 19 دلائل النبوة لابی نعیم جلد 1 ص 150 بيروت 20 بخاری(95) كتاب التعبير باب 11 21 نسائى كتاب الجهاد باب غزوة الهند 22 مسلم (55) كتاب الفتن واشراط الساعة باب 5 مخبر صادق کے رؤیا وکشوف اور پیشگوئیاں
اسوہ انسان کامل 165 صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام انسانی سیرت و کردار کی تعمیر میں سب سے اہم وصف صدق لہجہ، سچائی اور راست گفتاری ہے.در اصل انسان کی باطنی سچائی ہی ہے جس کا اظہار نہ صرف اس کی زبان سے بلکہ سیرت و کردارشی کہ اس کی پیشانی سے بھی جھلکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ماموروں اور فرستادوں کی سچائی کا نشان یہی صداقت شعاری کا خلق ٹھہرایا ہے.چنانچہ نبی کریم کے ذریعہ اہل مکہ کو یہ خطاب ہوا کہ ان کو کہہ دے اگر اللہ چاہتا تو میں یہ ( قرآن ) تم کو پڑھ کر نہ سنا تا اور نہ اس سے تمہیں آگاہ کرتا.اس سے پہلے میں تمہارے درمیان عمر کا ایک حصہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.“ ( سورۃ یونس آیت 17 ) اس آیت میں آنحضرت ﷺ کی دعوئی سے پہلے کی زندگی بحیثیت مدعی نبوت راست گفتاری میں بطور مثال کے پیش فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی میں انسانوں سے جھوٹ نہیں بولتا وہ بڑھاپے کے قریب خدا پر کیسے جھوٹ باندھ سکتا ہے.بلاشبہ مدعی نبوت کی صداقت کے لئے یہ ایک بنیادی اور اہم دلیل ہے.اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو پرکھا جائے تو آپ کی سچائی روز روشن کی طرح ظاہر و با ہر ہے.آپ ہی تھے جن کو آغاز جوانی سے ہی اپنے پرائے کبھی امانت دار مانتے تھے.آپ کا نام ہی ”صدوق‘ پڑ گیا تھا جو بے حد سچ بولنے والے کو کہتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن بھی دعوی نبوت تک کھلم کھلا یہ گواہی دیتے رہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.اس جگہ ہم رسول کریم کی صداقت کے بارے میں چند شہادتیں پیش کریں گے.میاں بیوی کی قربت کو قرآن شریف میں بجا طور پر ایک دوسرے کے لباس سے تعبیر کیا گیا ہے.(سورۃ البقرة : 188 ) پس بیوی سے بڑھ کر کون ہے جو شوہر کے زیادہ قریب ہو اور اس کے اخلاق کے بارے میں اس سے بہتر رائے دے سکے؟ ازواج مطہرات کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پہلی وحی کے بعد گھبراہٹ کے عالم میں گھر تشریف لائے تو حضرت خدیجہ نے آپ کو جن الفاظ میں تسلی دی وہ آپ کی صداقت کی زبر دست گواہی ہے.انہوں نے آپ کی یہ اہم صفت بھی بیان کی کہ آپ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا.( بخاری ) 1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں حضرت عائشہ کی بھی یہی گواہی تھی کہ آپ کے اخلاق تو
اسوہ انسان کامل 166 صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام قرآن تھے اور اسلام و قرآن کا بنیا دی خلق تو سچائی ہی ہے.حضرت عائشہ کی ایک اور روایت ہے کہ رسول کریم کو جھوٹ سے زیادہ نا پسند اور قابل نفرین اور کوئی بات نہیں تھی.اور جب آپ کو کسی شخص کی اس کمزوری کا علم ہوتا تو آپ اس وقت تک اس سے کھچے کھچے رہتے تھے جب تک کہ آپ کو معلوم نہ ہو جائے کہ اس شخص نے اس عادت سے تو بہ کر لی ہے.( ابن سعد ) 2 رشتہ داروں کی گواہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حکم ہوا کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو دعوت حق پہنچا ئیں تو کوہ صفا پر آپ نے قبائل قریش کو نام لے کر بلایا.جب وہ اکٹھے ہوئے تو ان سے پوچھا کہ اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے ایک شکر تم پر حملہ آور ہونے والا ہے تو کیا تم مجھے سچا جانو گے؟ انہوں نے بلا تامل کہا ہاں ! ہم نے کبھی بھی آپ سے جھوٹ کا تجربہ نہیں کیا.آپ تو ہمیشہ سچ بولتے ہیں.مگر جب آپ نے انہیں کلمہ توحید کی دعوت دی تو آپ کا چچا ابولہب کہنے لگا ”تیرا برا ہو کیا تو نے اس لئے ہمیں جمع کیا تھا.( بخاری )3 قرآن شریف میں نبی کی دعوے سے پہلے کی زندگی کو بطور دلیل پیش کرنے میں یہی حکمت ہے کہ بعد میں تو مخالف بھی پیدا ہو جاتے ہیں مگر دعوی سے پہلے سب اس کی راستبازی پر متفق ہوتے ہیں.ابوطالب کی گواہی ایک دفعہ قریش کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت لے کر رسول اللہ کے چچا ابوطالب کے پاس آیا.ابو طالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوا کر سمجھایا کہ قریش کی بات مان لو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش سے فرمایا کہ اگر تم اس سورج سے روشن شعلہ آگ بھی میرے پاس لے آؤ پھر بھی میرے لئے اس کام کو چھوڑ ناممکن نہیں.اس پر ابو طالب نے گواہی دی کہ خدا کی قسم! میں نے آج تک کبھی اپنے بھتیجے کو اس کے قول میں جھوٹا نہیں پایا.یعنی یہ اپنی بات کا پکا اور سچا ہے اور اس پر قائم رہے گا.میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا.( بیہقی ) 4 ابو طالب کی دوسری گواہی شعب ابی طالب کے زمانہ کی ہے.جب اس محصوری کی حالت میں تیسرا سال ہونے کو آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر ابو طالب کو اطلاع دی کہ بنو ہاشم سے بائیکاٹ کا جو معاہدہ خانہ کعبہ میں لڑکا یا گیا تھا اس کی ساری عبارت کو سوائے لفظ اللہ کے دیمک کھا گئی ہے.ابوطالب کو رسول اللہ کے قول پر ایسا یقین تھا کہ انہوں نے پہلے اپنے بھائیوں سے کہا کہ خدا کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آج تک کبھی جھوٹ نہیں بولا.“ یہ بات بھی لازماً سچ ہے.چنانچہ وہ ان کے ساتھ سرداران قریش کے پاس گئے اور انہیں بھی کھل کر کہا کہ میرے بھتیجے نے مجھے یہ بتایا ہے کہ تمہارے معاہدہ کو دیمک کھا گئی ہے.اس نے مجھ سے آج تک جھوٹ نہیں بولا.بیشک تم جا کر دیکھ لو اگر تو میرا بھتیجا سچا نکلے تو تمہیں بائیکاٹ کا اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا.اگر وہ جھوٹا ثابت ہوتو میں اُسے
اسوہ انسان کامل 167 راقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام تمہارے حوالے کرونگا.چاہو تو اسے قتل کرو اور چاہو تو زندہ رکھو.انہوں نے کہا بالکل یہ انصاف کی بات ہے.پھر جا کر دیکھا تو جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ہوائے لفظ اللہ کے سارے معاہدہ کو دیمک چاٹ چکی تھی.چنانچہ قریش یہ معاہدہ ختم کرنے پر مجبور ہو گئے.( ابن جوزی)5 خزیمہ بن حکیم سلمی کی گواہی خزیمہ حضرت خدیجہ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے.دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریم تجارت کے لئے حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر شام گئے.خزیمہ بھی حضور کے ساتھ تھے.حضور کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی دی کہ ”اے محمد میں آپ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہر ہونا تھا اور میں آپ پر ابھی ایمان لاتا ہوں.انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب مجھے آپ کے دعوی کی خبر ملی میں ضرور آپ کی خدمت میں حاضر ہونگا.مگر دعویٰ کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی.فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہ نے فرمایا ” پہلے مہاجر کو خوش آمدید.( ابن حجر ) 6 دوست کی گواہی حضرت ابو بکر رسول اللہ کے بچپن کے دوست تھے.انہوں نے جب آپ کے دعوئی کے بارہ میں سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار کے باوجود کوئی دلیل نہیں چاہتی کیونکہ زندگی بھر کا مشاہدہ یہی تھا کہ آپ ہمیشہ سچ بولتے ہیں.( بیہقی )7 پس رسول اللہ کا کردار بھی آپ کی سچائی کا گواہ تھا اور آپ کی پیشانی پر بھی سچائی کی روشنی تھی جسے حضرت ابوبکر نے پہچان لیا.اولین معاند ابو جہل کی شہادت حق یہ ہے کہ بچوں کی گواہی دینے پر اپنے اور بیگانے تو کیا دشمن بھی مجبور ہو جاتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ابو جہل سے بڑھ کر کون تھا؟ مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بر ملا کہا کرتا تھا کہ ہم تجھے جھوٹا نہیں کہتے بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو تو لے کر آیا ہے.( ترمذی )8 دشمن اسلام ابوسفیان کی گواہی رسول اللہ کا دوسرا بڑا دشمن ابو سفیان تھا.ہر قل شاہ روم نے اپنے دربار میں جب اس سے یہ سوال کیا کہ کیا تم نے اس مدعی نبوت ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اس سے پہلے کوئی جھوٹ کا الزام لگایا؟ ابوسفیان نے جواب دیا کہ نہیں
اسوہ انسان کامل 168 صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام ہرگز نہیں.دانا ہر قل نے اس جواب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں یہ ممکن نہیں ہوسکتا کہ اس نے لوگوں کے ساتھ تو کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور خدا پر جھوٹ باندھنے لگ جائے.( بخاری )9 جانی دشمن نضر بن حارث کی شہادت رسول اللہ کا ایک اور جانی دشمن نضر بن حارث تھا جو دارالندوہ میں آپ کے قتل کے منصوبے میں بھی شامل تھا.کفار کی مجلس میں جب کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ہمیں محمد کے بارے میں یہ مشہور کر دینا چاہئے کہ یہ جھوٹا ہے تو نضر بن حارث سے رہا نہ گیا.وہ بے اختیار کہ اٹھا کہ دیکھو محمد تمہارے درمیان جوان ہوا، اس کے اخلاق پسندیدہ تھے.وہ تم میں سب سے زیادہ سچا اور امین تھا.پھر جب وہ ادھیڑ عم کو پہنچا اوراپنی تعلیم تمہارے سامنے پیش کرنے لگا تو تم نے کہا جھوٹا ہے.خدا کی قسم! یہ بات کوئی نہیں مانے گا کہ وہ جھوٹا ہے.وہ ہرگز جھوٹا نہیں ہے.(ابن ہشام)10 دشمن اسلام اُمیہ بن خلف کی گواہی دشمن رسول امیہ بن خلف نے اپنے جاہلیت کے دوست حضرت سعد بن معاذ انصاری سے اپنی ہلاکت کے بارے میں رسول اللہ کی پیشگوئی سن کر بے ساختہ گواہی دی تھی کہ خدا کی قسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم جب بھی بات کرتا ہے.جھوٹ نہیں بولتا.“ ( بخاری )11 امیہ کی بیوی کی گواہی حضرت سعد بن معاذ " انصاری نے جب سردار قریش امیہ بن خلف کی بیوی کو بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی ہے کہ اس کا خاوند امیہ ہلاک ہو گا تو وہ بے اختیار کہ اٹھی ”خدا کی قسم محمد جھوٹ نہیں بولتے.چنانچہ جب جنگ بدر کے لئے امیہ ابو جہل کے ساتھ جانے لگا تو بیوی نے پھر کہا تمہیں یاد نہیں تمہارے بیٹر بی بھائی سعد نے تمہیں کیا کہا تھا.امیہ اس وجہ سے رک گیا مگر ابو جہل باصرار ا سے لے گیا چنانچہ امیہ بن خلف بدر میں مارا گیا اور رسول اللہ ﷺ کی بات کچی ثابت ہوئی.( بخاری )12 سردار قریش نقشبہ کی گواہی قریش نے ایک دفعہ اپنے ایک سردار عتبہ کو نمائندہ بنا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا.اس نے کہا کہ آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا بھلا کہتے اور ہمارے آباء کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟ آپ کی جو بھی خواہش ہے پوری کرتے ہیں.آپ ان باتوں سے باز آئیں.حضور تحمل اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتے رہے.جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورۃ حم فضلت کی چند آیات تلاوت کیں، جب آپ اس آیت پر پہنچے کہ میں تمہیں عاد و ثمود جیسے عذاب سے ڈراتا ہوں تو عتبہ نے آپ کو روک دیا کہ اب بس کریں اور خوف کے مارے اُٹھ کر چل
اسوہ انسان کامل 169 صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام دیا.اس نے قریش کو جا کر کہا تمہیں پتہ ہے کہ محمد جب کوئی بات کہتا ہے تو کبھی جھوٹ نہیں بولتا.مجھے ڈرلگتا ہے کہ کہیں تم پر وہ عذاب نہ آ جائے جس سے وہ ڈراتا ہے.تمام سردار یہ سن کر خاموش ہو گئے.(حلبیہ 13 ) اُن سب سردارانِ قریش کی یہ خاموشی اپنی ذات میں اس بات کی گواہی تھی کہ بلاشبہ آپ صادق در استباز ہیں.یہود مدینہ کی گواہی مسلمانوں اور یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے درمیان باہمی تعاون کا معاہدہ تھا مگر جنگ احزاب کے دوران بنونضیر کا سردار حی بن اخطب بنوقریظہ کے سردار کعب بن اسد قرظی کے پاس گیا اور اسے مسلمانوں سے معاہدہ توڑنے اور قریش کی مدد کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تاکہ مسلمانوں کو شکست سے دو چار کیا جائے.کعب بن اسعد جو بنو قریظہ کا سرداراور مسلمانوں کا دشمن تھا بے اختیار کہ اٹھا ” تم میرے پاس زمانے بھر کی ذلت لے کر آئے ہو میں محمد سے صدق کے سوا کچھ نہیں دیکھا“.(ابن ہشام)14 عبد اللہ بن سلام مدینہ کے ایک بڑے یہودی عالم تھے.وہ مسلمان ہونے سے پہلے کا اپنا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب آنحضور مہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو لوگ دیوانہ وار آپ کو دیکھنے گئے میں بھی ان میں شامل ہو گیا.آپ کا نورانی چہرہ دیکھ کر ہی میں پہچان گیا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا.“ ( ابن ماجہ ) 15 ایچ جی ویلز نے رسول اللہ کے صدق وصفا کی گواہی دیتے ہوئے لکھا: ''یہ حمد (ﷺ) کے صدق کی دلیل قاطع ہے کہ ان سے قربت رکھنے والے لوگ اُن پر ایمان لائے ، حالانکہ وہ اُن کے اسرار ورموز سے پوری طرح واقف تھے اور اگر انہیں ان کی صداقت میں ذرہ برابر بھی شبہ ہوتا تو اُن پر وہ ہرگز ایمان نہ لاتے.( ویلیز ) 16 پس ایک انسان کی سچائی پر اپنوں، پرایوں ، دوستوں اور دشمنوں سب کا اتفاق کر لینا ایسی عظیم الشان شہادت ہے جو ہمارے نبی کی راستبازی اور سچائی کی زبر دست اور روشن دلیل ہے.
اسوہ انسان کامل 170 صداقت شعاری میں رسول اللہ کا بلند مقام 1 بخاری(95) كتاب التعبير باب 1 حواله جات 2 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد1 ص378 بخاری(68) كتاب التفسير سورة اللهب باب 466 4 دلائل النبوة بيهقى جلد2 ص 62دارالكتبه العلميه بيروت 5 الوفاء باحوال المصطفى لابن جوزى جلد 1 ص 152 بيروت 6 الاصابه في تمييز الصحابه از ابن الحجر جز 2 ص 281 دار الكتاب العلميه.7 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 ص 34 دار الكتب العلميه بيروت 8 ترمذى (48) كتاب التفسير سورة الانعام باب7 9 بخاری 1 کتاب بدء الوحي باب 1 10 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص480 بيروت 11 بخاری(65) کتاب المناقب باب22 12 بخاری (65) كتاب المناقب باب 22 13 السيرة الحلبية از علامه برهان الدین جلد 1 ص 303 مطبوعه بيروت 14 السيرة النبوية لابن هشام 65 جلد 1 ص 220 بيروت 15 ابن ماجه 29 كتاب الاطعمه باب 1 بيروت The Outline of History by H.G.Wells, vol 2, P 325.16
اسوہ انسان کامل 171 رسول امین کی امانت و دیانت ” رسول امین “ کی امانت و دیانت اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حقداروں کو ادا کرو.(النساء:59) یہ ہے رسول اللہ کی شریعت میں قیام امانت کی بنیادی تعلیم.دنیا میں سب سے زیادہ امانت دار خدا کے نبی اور رسول ہوتے ہیں جو خدا کا پیغام بلاکم وکاست اس کی مخلوق تک پہنچاتے ہیں.اس لئے قرآن شریف میں کئی انبیاء کا یہ دعوئی مذکور ہے کہ ”میں ایک امانت دار رسول ہو کر آیا ہوں.مگر ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان یہ ہے کہ عرش کے خدا نے آپ کے ” مین ہونے کی گواہی دی.فرمایا مُطَاع ثُمَّ آمِين - (التکویر : 22) کہ یہ نبی ایسا ہے جس کی پیروی کی جائے اور امانت دار ہے.آپ ہی وہ انسان کامل ہیں جنہوں نے اس امانت کا بوجھ اٹھایا جو آسمان وزمین اور پہاڑ بھی نہ اُٹھا سکے.(الاحزاب : 73) آسمان با رامانت نتوانست کشید قرعہ فال بنام من دیوانه زدند پس رسول کریم ہی ہیں جنہوں نے امانت کے حق ادا کر دکھائے.آپ کے ماننے والوں کو بھی یہ تعلیم دی گئی کہ وہ مومن فلاح پاگئے جو اپنی امانتوں اور عہدوں کا خیال رکھتے ہیں.“ (المؤمنون : 9) رسول کریم نے فرمایا ”جس کی امانت نہیں اس کا کوئی دین نہیں.“ (طبرانی) 1 امانت و دیانت کی بنیاد نیک نیتی دلی سچائی اور راستبازی ہے.رسول کریم میں یہ وصف بھی خوب نمایاں تھا.آپ اہل مکہ میں اس خوبی میں ایسے ممتاز تھے کہ سب آپ کو ”صدوق وامین“ کے لقب سے یاد کرتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس بے خوف و خطر رکھتے تھے.ایمان کا امانت سے گہرا تعلق ہے رسول کریم کی تعلیم کا خاصہ بھی یہی تھا چنانچہ جب ہر قل نے ابوسفیان سے پوچھا کہ وہ مدعی نبوت تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے.تو ابو سفیان نے بھی گواہی دی کہ وہ نماز ، سچائی، پاکدامنی ، ایفائے عہد اور امانت ادا کرنے کی تعلیم دیتے ہیں.اس پر ہر قل بے اختیار کہ اُٹھا یہ تو نبی کی صفات ہیں.“ ( مسلم )2 نجاشی شاہ حبشہ کے دربار میں حضرت جعفر طیار نے رسول اللہ اور آپ کے دین کا تعارف کرواتے ہوئے کہا تھا کہ ”اے بادشاہ! ہم ایک جاہل قوم تھے.بتوں کے پجاری تھے.مردار کھاتے اور بدکاری کے مرتکب ہوتے تھے.قطع رحمی ہمارا شیوہ تھا اور ہمسایوں سے بدسلوکی کرتے تھے.طاقتور کمزور کا حق کھا جاتا تھا تب خدا نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کی سچائی امانت اور پاکدامنی کے ہم گواہ ہیں.اس نے ہمیں خدا کی تو حید اور عبادت کی طرف بلایا اور بت پرستی
اسوہ انسان کامل 172 رسول امین کی امانت و دیانت شخص سے بچایا اور سچائی، امانت کی ادائیگی صلہ رحمی اور ہمسائے سے حسن سلوک کی تعلیم دی.‘ (احمد ) 3 قریش مکہ نبی کریم کے خون کے پیاسے اور آپ کے قتل کے درپے تھے.مگر حضور گو ہجرت مدینہ کے وقت ان کی امانتوں کی واپسی کی فکر تھی.چنانچہ مکہ چھوڑتے ہوئے اپنے چازاد حضرت علیؓ کو ان خطر ناک حالات کے باوجود پیچھے چھوڑا کہ وہ امانتیں ادا کر کے مدینہ آئیں.(اسد الغابة )) رسول کریم کے دل میں امانت کا جس قدر گہرا احساس تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک نے آپ سے پوچھا کہ اگر کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اس کا کیا کیا جائے؟ نبی کریم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کی نشانیاں بتا کر اعلان کرتے رہو پھر اگر اس کا مالک آجائے تو اسے لوٹا دو.وہ کہنے لگا اگر کوئی گمشدہ اونٹ مل جائے تو اس کا کیا کریں؟ نبی کریم بہت ناراض ہوئے.چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا اور فرمانے لگے تمہیں اس سے کیا ؟ اس اونٹ کے پاؤں ساتھ ہیں وہ درخت چر کر اور پانی پی کر زندہ رہ سکتا ہے.تم اسے چھوڑ دو یہاں تک کہ خود اس کا مالک اُسے پالے.(بخاری)5 حفاظت امانت میں نبی کریم کا اپنا یہ حال تھا کہ فرماتے تھے میں بسا اوقات اپنے گھر میں بستر پر کوئی کھجور پڑی ہوئی پاتا ہوں.کھانے کی خواہش بھی ہوتی ہے اور میں وہ کھجور اٹھ کر کھانا چاہتا ہوں مگر پھر خیال آتا ہے کہ صدقہ کی کھجور نہ ہوتب اسے وہیں رکھ چھوڑتا ہوں.( بخاری ) ایک دفعہ گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے کم سن حضرت امام حسین یا حسن نے ایک کھجور لے کر منہ میں ڈال لی.نبی کریم نے فور اوہ کھجور بچے کے منہ سے اگلوادی.کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا.اور مسلمانوں کی امانت تھی.آپ نے بچے سے فرمایا کہ ہم آلِ رسول تصدقہ نہیں کھاتے اور بچے نے ٹھو کر کے وہ کھجور پھینک دی.(بخاری) 7 غزوہ خیبر کے موقع پر یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے.مسلمانوں کو طویل محاصرہ کے بعد فتح عطا ہوئی.بعض مسلمانوں نے جو کئی دنوں سے فاقہ سے تھے یہود کے مال مویشی پر غنیمت کے طور پر قبضہ کر کے کچھ جانور ذبح کئے اور ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھا دیا.نبی کریم کو خبر ہوئی تو رسول کریم نے اسے سخت ناپسند فرمایا کہ مال غنیمت میں باضابطہ تقسیم سے پہلے یوں تصرف کیوں کیا گیا اور اسے آپ نے خیانت پر محمول فرمایا.آپ نے صحابہ کو امانت کا سبق دینے کے لئے گوشت سے بھرے وہ سب دیگچے اور ہنڈیاں الٹوا دیں پھر صحابہ کے مابین خود جانور تقسیم فرمائے اور ہر دس آدمیوں کو ایک بکری دی گئی.دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اموال پر زبر دستی قبضہ جائز نہیں.( احمد ) 8 ایک دفعہ رسول کریم نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے اورفرمایا کہ کچھ سونا آیا تھا سب تقسیم ہو گیا یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی.میں جلدی سے اسے لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے
اسوہ انسان کامل 173 رسول امین کی امانت و دیانت کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے.( بخاری ) حضرت سائب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان اور زبیر مجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریفیں کرنے لگے.رسول کریم نے انہیں فرمایا ! آپ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتاؤ.یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے.سائب کہنے لگے ہاں یا رسول اللہ ! آپ کتنے اچھے ساتھی تھے.آپ نے فرمایا ہاں اے سائب دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے.اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا.مثلاً مہمان نوازی ، یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا.دوسری روایت میں ہے کہ سائب آنحضرت کے ساتھ تجارت میں شریک رہے.فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے کبھی جھگڑا نہیں کیا.(احمد) 10 غزوہ خیبر کے محاصرہ کے وقت بھوک اور فاقے کے ایام میں مسلمانوں کی امانت کا ایک کڑا امتحان ہوا.ہوا یوں کہ یہود کے ایک حبشی چرواہے نے اسلام قبول کر لیا اور سوال پیدا ہوا کہ اس کے سپرد یہود کی بکریوں کا کیا کیا جائے.نبی کریم نے ہر حال میں امانت کی حفاظت کرنے کا فیصلہ فرمایا.آپ نے اپنے صحابہ کی بھوک اور فاقہ کی قربانی دے دی مگر کیا مجال کہ آپ کی امانت میں کوئی فرق آیا ہو حالانکہ یہ بکریاں دشمن کے طویل محاصرہ میں تو مہینوں کی خوراک بن سکتی تھیں.مگر آپ نے کس شان استغناء سے فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ان کو ہا تک دو.خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.نو مسلم غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا.سبحان اللہ ! رسول اللہ نے جنگ میں بھی جہاں سب کچھ جائز سمجھا جاتا ہے کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے اور کرواتے تھے.(ابن ھشام ) 11 مد مقابل دشمن کے مال آج بھی میدان جنگ میں حلال سمجھے جاتے ہیں.کیا آج کل کے مہذب زمانہ میں کبھی ایسا واقعہ ہوا ہے کہ دوران جنگ دشمن کے جانور اور مال و اسباب ہاتھ آگئے ہوں اور ان کو دشمن فوج کی طرف سے واپس کر دیا گیا ہو.نہیں نہیں ! آج کی دنیا میں عام حالات میں بھی دشمن کے مال کی حفاظت تو درکنار، اسے لوٹنا جائز سمجھا جاتا ہے.مگر قربان جائیں دیانتداروں کے اس سردار پر کہ دشمن کا وہ مال جو ایک طرف فاقہ کش اور بھوک کے شکار مسلمانوں کی مہینوں کی غذا بن سکتا تھا، دوسری طرف دشمن اس سے اپنا محاصرہ لمبا کھینچ کر مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کرسکتا تھا.ان سب باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور امانت مالکوں کے سپردکرنے کا فیصلہ فرمایا.نبی کریم نے بھی صرف انسانوں کی امانت کے حق ہی ادا نہیں کئے بلکہ اپنے مولیٰ کی امانتوں کے تمام حق ادا کر دکھائے.ایک دفعہ یمن سے سونا آیا اور رسول اللہ نے تالیف قلبی کی خاطر عرب کے چار سرداروں میں تقسیم فرما دیا ایک شخص نے کہا ہم اس کے زیادہ حق دار تھے.رسول کریم کو خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ تو مجھے اہل زمین پر امین مقرر کرے اور تم لوگ مجھے امین نہ سمجھو.دوسری روایت میں ہے تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو حالانکہ میں اس ذات کا
اسوہ انسان کامل 174 رسول امین کی امانت و دیانت امین ہوں جو آسمان میں ہے.میرے پاس صبح و شام آسان کی خبریں (وحی الہی ) آتی ہیں.گویا وی آسانی کا امین ہوں ).( بخاری واحمد ) 12 خدا کی امانتوں کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کی عبادات اور قرآنی وحی کی تبلیغ شامل ہے.جس کا حق ادا کرنے کی تفصیل عبادت اور داعی الی اللہ کے عناوین میں مذکور ہے.پس رسول کریم نے بندوں اور خدا کی تمام امانتوں کے حق ادا کر کے دکھائے.0000000 حواله جات 1 المعجم الكبير لطبرانی جلد 8 ص 195 2 مسلم (33) كتاب الجهاد والسيرباب 26 3 4 مسند احمد جلد 1 ص 201 مطبوعه قاهره اسد الغابة جزء 1 ص 792 5 بخاری (3) كتاب العلم باب 28 6 بخاری (50) كتاب اللقطه باب 6 7 بخاری(30) كتاب الزكواة 56 8 مسند احمد جلد 4 ص89 9 بخاری(30) كتاب الزكواة باب 19 10 مسند احمد جلد 3 ص 425 بيروت 11 السيرة النبوية لابن هشام جلد2ص344 12 بخاری(67) کتاب المغازی باب 58 و مسنداحمد جلد3 ص4
اسوہ انسان کامل 175 رسول اللہ کا ایفائے عہد رسول اللہ کا ایفائے عہد قرآن شریف میں عہد پورا کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے فرمایا ”عہد پورا کرو کہ عہد کے بارہ میں پرسش ہوگی.“ ( سورۃ الاسراء: 35 ) رسول کریم نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا.(ابوداؤد (1) نیز فرمایا جس کا عہد نہیں اس کا کوئی دین نہیں.( احمد )2 نبی کریم آغاز سے ہی امانت و دیانت اور ایفائے عہد کا بہت خیال رکھتے تھے.آپ نے پابندی عہد میں بھی بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے.بعثت سے قبل حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ بعثت سے قبل نبی کریم سے ایک سودا کیا.ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا.میں نے آپ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکر میں آپ کو ادائیگی کروں گا مگر میں واپس جا کر وعدہ بھول گیا.تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریم اس جگہ موجود تھے.آپ فرمانے لگے نوجوان ! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا.میں تین روز سے یہاں ( طے شدہ وقت پر ) تمہارا انتظار کرتا رہا ہوں.(ابوداؤد )3 مکی دور میں بعثت سے قبل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا.آپ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور مدد کروں گا.(ابن ہشام)4 بعثت نبوی کے بعد دعوی نبوت کے بعد کا واقعہ ہے کہ ایک اجنبی الا راشی کا حق سردار ملکہ ابو جہل نے دبا لیا.اُس شخص نے آنحضرت سے آکر مدد مانگی.حضور اُس کے ساتھ ہو لئے اور معاہدہ حلف الفضول کی پابندی کرتے ہوئے اپنے سخت معاند ابو جہل کے دروازے پر جا کر اُس مظلوم اجنبی کے حق کا تقاضا کیا.پھر وہاں سے ہلے نہیں جب تک کہ اُس کا حق اُسے دلوا نہیں دیا.(ابن ہشام) 5
176 رسول اللہ کا ایفائے عہد اسوہ انسان کامل حضرت حذیفہ بن الیمان بیان کرتے ہیں کہ میرے بدر میں شامل ہونے میں یہ روک ہوئی کہ میں اور ابو سہل بدر کے موقع پر گھر سے نکلے.راستہ میں ہمیں کفار قریش نے پکڑ لیا.انہوں نے کہا تم محمد کے پاس جانا چاہتے ہو؟ ہم نے کہا نہیں ہم تو مدینہ جارہے ہیں.انہوں نے ہم سے عہد لیا کہ ہم جا کر رسول اللہ کے ساتھ لڑائی میں شامل نہیں ہونگے بلکہ سیدھے مدینہ چلے جائیں گے.ہم رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارا واقعہ عرض کر دیا.آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنا عہد پورا کر وہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے.(مسلم )6 شہنشاہ روم ہرقل نے رسول اللہ کاتبلیغی خط ملنے پر اپنے دربار میں سردار قریش ابوسفیان کو بلا کر جب بغرض تحقیق کچھ سوالات کئے تو یہ بھی پوچھا تھا کہ کیا اس مدعی رسالت نے بھی کوئی بد عہدی بھی کی ہے؟ ابوسفیان رسول اللہ کا جانی دشمن تھا مگر پھر بھی اسے ہر قل کے سامنے تسلیم کرنا پڑا کہ آج تک اُنہوں نے ہم سے کوئی بد عہدی نہیں کی.البتہ آجکل ہمارا اس سے ایک معاہدہ حدیبیہ) چل رہا ہے دیکھیں وہ کیا کرتا ہے.ابوسفیان کہتا تھا کہ میں ہر قل کے سامنے اس سے زیادہ اپنی طرف سے کوئی بات اپنی گفتگو میں حضور کے خلاف داخل نہ کر سکا تھا.( بخاری )7 مشرکین سے ایفائے عہد خدا کی تقدیر دیکھئے کہ رسول کریم نے معاہدہ حدیبیہ کی ایک ایک شق پر عمل کر کے دکھایا.معاہدہ توڑنے کے مرتکب بھی پہلے قریش ہی ہوئے اور پھر عہد شکن کا انجام بھی ان کو بھگتنا پڑا.جب کہ رسول کریم نے ایفائے عہد کی برکات سے حصہ پایا اور سب سے بڑی برکت فتح مکہ کی صورت میں آپ کو عطا ہوئی.معاہدہ حدیبیہ کی ایک شق یہ تھی کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کرنے مکہ آئیں گے اور تین دن کے اندر مکہ کو خالی کر دیں گے.چنانچہ اگلے سال جب نبی کریم عمرہ قضا کے لئے مکہ آئے تو قریش نے مکہ خالی کر دیا.گو یطب بن عزمی بیان کرتے ہیں کہ میں اور سہیل بن عمر و مکہ میں رہے تا کہ تین دن کے بعد مسلمانوں سے حسب معاہدہ مکہ خالی کرواسکیں جب تین دن گزر گئے تو میں نے اور سہیل نے رسول اللہ کو یاد کروایا کہ آج شرط کے مطابق مسلمانوں کو مکہ خالی کرنا ہوگا.آنحضور نے اسی وقت بلال کو حکم فرمایا کہ اعلان کر دیں کہ آج غروب آفتاب کے بعد کوئی مسلمان جو ہمارے ساتھ عمرہ کرنے مکہ آیا ہے مکہ میں نہ رہے اور بڑی سختی سے اس کی پابندی کی گئی.(حاکم) 8 معاہدہ کی ایک شق یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان بھاگ کر مدینے جائے گا تو اسے واپس اہل مکہ کی طرف لوٹایا جائے گا.اس شق پر مسلمانوں نے تکمیل معاہدہ سے بھی پہلے عمل کر دکھایا اور نمائندہ قریش کے مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمان بیٹے ابو جندل کو دوبارہ اس کے باپ سہیل بن عمرو کے سپر د کر دیا گیا جس نے اسے پھر اذیت ناک قید میں ڈال دیا.معاہدہ کے بعد بھی بعض مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ آئے تو رسول کریم نے معاہدہ کے مطابق انہیں مکہ واپس بھیجوا دیا.مگر یہ شرط خود مکہ والوں کے لئے وبالِ جان بن گئی کیونکہ معاہدہ کے بعد مکہ سے مدینہ آنے والے ایک بہادر
اسوہ انسان کامل 177 رسول اللہ کا ایفائے عہد مسلمان ابوبصیر کو جو مشرک گرفتار کر کے مدینہ سے دوبارہ مکہ لے جارہے تھے، راستہ میں وہ ان کو قتل کر کے، رہائی پانے میں کامیاب ہو گیا.پھر ابو بصیر نے واپس مدینہ آنے کی بجائے ساحل سمندر کے قریب اپنا اڈا بنالیا جہاں دیگر مسلمان بھی مکہ سے آکر اکٹھے ہونے لگے اور ایک جمعیت بن کر اہل مکہ کے لئے خطرہ بن گئے.جس پر مکہ والے خود یہ شرط چھوڑنے پر مجبور ہو گئے.صلح حدیبیہ میں قریش کے نمائندے سہیل بن عمرو نے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ دس سال کے لئے معاہدہ امن طے کیا تھا، جس کے مطابق بنو بکر قریش کے حلیف بنے تھے اور بنوخزاعہ مسلمانوں کے.نیز یہ کہ کسی کے حلیف پر حملہ خود اس پر حملہ تصور کیا جائے گا.حلیف سے ایفاء اور امداد صلح کے زمانے میں مسلمانوں کی غیر معمولی کامیابیاں دیکھ کر قریش نے معاہدہ امن تو ڑنا چاہا اور قریش مکہ کے ایک گروہ نے اپنے حلیف بنو بکر سے ساز باز کر کے ایک تاریک رات میں مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ پر حملہ کر دیا.خزاعہ نے حرم کعبہ میں پناہ لی لیکن پھر بھی ان کے تئیس آدمی نہایت بے دردی سے قتل کر دیئے گئے.خودسردار قریش ابوسفیان کو پتہ چلا تو اس نے اس واقعہ کو اپنے آدمیوں کی شرانگیزی قرار دیا اور کہا اب محمدمہم پر ضرور حملہ کریں گے.ادھر اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو اس واقعہ کی اطلاع بذریعہ وحی اسی صبح کر دی.آپ نے حضرت عائشہ کو یہ واقعہ بتا کر فرمایا کہ منشا الہی یہی معلوم ہوتا ہے کہ قریش کی اس بد عہدی کا ہمارے حق میں کوئی بہتر نتیجہ ظاہر ہوگا.پھر تین روز بعد قبیلہ بنوخزاعہ کا چالیس شتر سواروں کا ایک وفد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ بنو بکر اور قریش نے مل کر بد عہدی کرتے ہوئے شب خون مار کر ہمارا قتل عام کیا ہے.اب معاہدہ حدیبیہ کی رو سے آپ کا فرض ہے کہ ہماری مدد کریں.بنو خزاعہ کے نمائندہ عمرو بن سالم نے اپنا حال زار بیان کر کے خدا کی ذات کا واسطہ دیکر ایفائے عہد کی طرف توجہ دلاتے ہوئے عرض کیا يَا رَبِّ إِنِّي نَاشِدٌ مُحَمَّدًا حَلْقَ أَبِيْنَا وَأَبِيهِ الَا تُلَدَا یعنی اے میرے رب ! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا واسطہ دے کر مدد کے لئے پکارتا ہوں اور اپنے آباء اور اس کے آباء کے پرانے حلف کا واسطہ دے کر عہد پورا کرنے کا خواستگار ہوں.خزاعہ کی مظلومیت کا حال سن کر رحمتہ للعالمین ﷺ کا دل بھر آیا.آپ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.آپ نے ایفائے عہد کے جذبہ سے سرشار ہو کر فرمایا.اے بنو خزاعہ یقینا یقینا تمہاری مدد کی جائے گی.اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری مدد نہ کرے.تم محمد ﷺ کوعہد پورا کرنے والا اور باوفا پاؤ گے.تم دیکھو گے کہ جس طرح میں اپنی جان اور
اسوہ انسان کامل 178 رسول اللہ کا ایفائے عہد بیوی بچوں کی حفاظت کرتا ہوں اسی طرح تمہاری حفاظت کروں گا.(ابن ہشام) 9 ادھر ابوسفیان اس معاہدہ شکنی کے نتیجے سے بچنے کیلئے بہت جلد اس یقین کے ساتھ مدینے پہنچا کہ محمد ﷺ کواس بدعہدی کی خبر نہ ہوگی.اس نے بڑی ہوشیاری سے آنحضرت ﷺ سے بات کی کہ میں دراصل صلح حدیبیہ کے موقع پر موجود ہی نہیں تھا.آپ میرے ساتھ اس معاہدہ کی از سر نو تجدید کرلیں.آنحضرت نے کمال حکمت عملی سے پوچھا کہ کیا کوئی فریق معاہدہ توڑ بیٹھا ہے؟ ابو سفیان گھبرا کر کہنے لگا ایسی تو کوئی بات نہیں ہوئی.رسول کریم نے جواب دیا تو پھر ہم سابقہ معاہدے پر قائم ہیں.چنانچہ نبی کریم نے بنو خزاعہ کے ساتھ کیا گیا عہد پورا فرمایا اور دس ہزار قد وسیوں کو ساتھ لے کر ان پر ہونے والے ظلم کا بدلہ لینے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی شاندار فتح عطا فرمائی.(الحلبیہ ( 10 سراقہ سے ایفاء عہد ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریم کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھا کر گر جاتارہا تب میں نے آواز دے کر حضور کو بلایا اور حضور کے ارشاد پر ابو بکر نے مجھ سے پوچھا آپ ہم سے کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا آپ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں ، انہوں نے مجھے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریر لکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا.فتح مکہ کے بعد جب حضور جنگ حنین سے فارغ ہو کر جعرانہ میں تھے.میں حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا، حضور انصار کے ایک گھوڑ سوار دستے کے حفاظتی حصار میں تھے، وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ تمہیں کیا کام ہے؟ حضور اپنی اونٹنی پر سوار تھے، میں نے اپنا ہاتھ بلند کر کے وہی تحریر رسول اللہ ﷺ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپ کی تحریر امن ہے.رسول کریم نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے اور احسان کا دن ہے.پھر آپ نے فرمایا سراقہ کو میرے پاس لایا جائے.میں آپ کے قریب ہوا اور بالآخر آپ سے ملاقات کر کے اسلام قبول کر لیا.(ابن ھشام ) 11 رسول کریم نے تو مسلمان عورت کے عہد کا بھی پاس کیا.حضرت ام ہانی بنت ابی طالب نے فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم کی خدمت میں عرض کیا کہ انہوں نے اپنے سسرال کے بعض مشرک لوگوں کو پناہ دی ہے.حالانکہ حضرت علیؓ اس کے خلاف تھے.رسول کریم نے فرمایا اے ام ہانی ! جسے تم نے امان دیدی اسے ہم نے امان دی.(ابوداؤد )12 ابو رافع قبطی بیان کرتے ہیں کہ مجھے قریش نے رسول اللہ کی خدمت میں سفیر بنا کر بھیجوایا.رسول کریم کو دیکھ کر میرے دل میں اسلام کی سچائی گھر کر گئی.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں قریش کی طرف لوٹ کر واپس نہیں جانا چاہتا.رسول کریم نے فرمایا میں عہد شکنی نہیں کرتا اور نہ ہی سفیر کو روکتا ہوں.آپ اس وقت بہر حال واپس چلے جاؤ پھر اگر بعد میں یہی ارادہ ہو کہ اسلام قبول کرتا ہے تو وہاں جا کر واپس آجانا.چنانچہ یہ قریش کے پاس لوٹ کر گئے اور بعد
اسوہ انسان کامل 179 رسول اللہ کا ایفائے عہد میں آکر اسلام قبول کیا.(ابوداؤد ) 13 یہود مدینہ سے ایفائے عہد نبی کریم نے مکہ سے یثرب ہجرت فرمائی تو اہل مدینہ کے جن گروہوں سے معاہدہ ہوا اس میں یہود کے تین قبائل بنو قینقاع، بنو قریظہ اور بنونضیر شامل تھے.اس معاہدہ کے مطابق یہود اور مسلمان امت واحدہ کے طور پر ریاست مدینہ کے باسی تھے.نبی کریم نے ہمیشہ اس معاہدہ کا نہ صرف ایفاء اور احترام فرمایا.یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے.یہود کو مکمل مذہبی آزادی دی اور بعض مسلمانوں نے جب ان کے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر رسول کریم کی فضیلت و برتری ظاہر کی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کی تھی پھر بھی آپ نے معاہد قوم کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے از راه انکسا روا یار یہی فرمایا کہ مجھے موسی پر فضیلت مت دو تا کہ اس کے نتیجہ میں مدینہ کی امن کی فضا خراب نہ ہو.( بخاری ) 14 15 نبی کریم نے یہودی جنازوں کا بھی احترام کیا اور ان کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہو گئے.کسی نے کہا کہ یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا.(بخاری) 5 اس کے برعکس یہاں تک مسلسل عہد شکنی کے نتیجہ میں بالآخران کو مدینہ بدر کرنا پڑا.لیکن رسول اللہ پر بھی کسی یہودی کو عہد شکنی کا الزام تک لگانے کی جرات نہ ہوئی.(مسلم )16 عیسائیوں سے ایفائے عہد فتح مکہ کے بعد جن مختلف قبائل عرب نے مدینہ آکر صلح و امن کے معاہدے کئے ان میں نجران اور یمن کے عیسائی بھی تھے.نجران کے عیسائیوں نے معاہدہ صلح کے بعد رسول کریم سے درخواست کی کہ اس معاہدہ کے ایفاء کے لئے آپ اپنا کوئی ایسا نمائندہ مقرر کریں جو دیانتداری سے معاہدہ کی شقوں پر عمل کروائے.چنانچہ نبی کریم نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو امین الامت“ کا خطاب دیتے ہوئے تکمیل معاہدہ کے لئے نگران مقررفرمایا اور انہوں نے ایفائے عہد کا حق ادا کر دکھایا.(بخاری) 17 الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے پابندی عہد میں بھی ایک مثالی نمونہ پیش فرمایا ہے.
اسوہ انسان کامل 180 رسول اللہ کا ایفائے عہد حواله جات 1 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 162 2 مسند احمد جلد 3 ص 135 مصر 3 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 90 4 السيرة النبويه لابن هشام جز 1 ص 133 مصطفى البابي الحلبى مصر السيرة النبوية لابن هشام جز 1 ص 389جلددارالفكر بيروت 6 مسلم(33) كتاب الجهاد باب 35 7 بخاری(1) بدء الوحي باب 1 مستدرك حاكم جلد 3ص561 9 السيرة النبوية لابن هشام جلد2 ص 393 مطبوعه بيرون 10 السيرة الحلبية جز 3 ص 109 بيروت، مجمع الزوائد جلد6ص 242 11 السيرة النبوية لابن هشام جزء 1 ص 489-490 مكتبه المصطفى البابي الحلبي 12 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 167 13 (ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 163 14 بخاری(49) كتاب الخصومات باب 1 15 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 48 16 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 20 17 بخاری(67) کتاب المغازی باب 68
اسوۃ انسان کامل 181 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت آنحضرت ﷺ کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت تجارت انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ہے اور اس کی تاریخ انسان کی معاشرت کی طرح قدیم ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی قوم نے عدل وانصاف اور امانت و دیانت کا دامن چھوڑ کر اخلاقی قدروں کو پامال کیا وہ تنزل کا شکار ہوئی.یہی حال ملک عرب کا تھا.جب ان کی اصلاح کے لئے بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ تشریف لائے.آپ کی آمد کا بنیادی مقصد بھی اعلیٰ اخلاقی و روحانی اقدار کا قیام تھا.چنانچہ قرآن شریف میں ماپ تول میں لوگوں کا حق مارنے اور بد دیانتی ایسی اخلاقی کمزوری کی طرف بھی خاص طور پر توجہ دلائی گئی اور قوم مدین کی عبرت ناک ہلاکت کی مثال دے کر واضح فرمایا کہ اس کمزوری نے ان کے کردار کو کھوکھلا کر دیا تھا مگر وہ لوگ بظاہر اس چھوٹے سے حکم کی نافرمانی کرنے والے تھے.بالآخر اسی وجہ سے وہ پوری قوم ہلاک کر دی گئی.قرآن شریف کی اول مخاطب عرب قوم تھی جن کا پیشہ تجارت تھا.وہ بھی اس برائی کا شکار ہوکر ہلاکت کے کنارے تھی جب ہمارے نبی ﷺ نے تشریف لا کر انہیں متنبہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہلاکت ہے تول میں نا انصافی کرنے والوں کے لئے.یعنی وہ لوگ کہ جب وہ لوگوں سے تول لیتے ہیں بھر پور ( پیمانوں کے ساتھ ) لیتے ہیں.اور جب ان کو ماپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں“.(سورۃ المطففین 2 تا 4) حضرت ابن عباس ان آیات کا یہ پس منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم جب مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے لوگ ماپ تول میں سب سے بدتر تھے.اس پر یہ آیات نازل ہوئیں.اسکے بعد اہل مدینہ بہترین ماپ تول کرنے لگے.(ابن ماجہ ) اسی طرح قرآن شریف میں ارشاد ہے:.اور وزن کو انصاف کے ساتھ قائم کرو اور تول میں کوئی کمی نہ کرو“.(سورۃ الرحمان : 10) روحانی تجارت ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ام دنیا کو ضلالت و گمراہی سے نکال کر رشد و ہدایت عطا کرنے کے لئے تشریف لائے تھے ، اور اس کامیاب روحانی تجارت کا حق آپ نے ادا کر کے دکھا دیا، جس کے گر آپ نے براہ راست اپنے علیم و خبیر خدا سے سیکھے تھے.اس روحانی نفع بخش تجارت کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کا تقویٰ تھا، جس کے لئے آپ نے اپنے ماننے والوں کو یوں دعوت دی کہ ”اے ایمان لانے والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت کی خبر دوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچانے والی ہو.اور وہ یہ کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں
اسوۃ انسان کامل 182 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت کوشش کرو.اگر تم جانو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے اس کے نتیجہ میں وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں اور دائمی جنتوں میں پاکیزہ گھر عطا کرے گا.یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور ایک دوسری ( دنیوی ) چیز بھی جو تمہیں بہت پسند ہے یعنی اللہ کی طرف سے جلد آنے والی مدد اور فتح.اور مومنوں کو بشارت دے دے.(سورہ الصف آیت ۱۰ تا ۱۴) اس روحانی تجارت کے خاص پہلو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ اور اس کے حیرت انگیز نفع کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے کئی گناہ بڑھا کر واپس عطا کرے“.(البقرہ آیت ۲۴۶) دوسری جگہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کو سات سو گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھا کر عطا فرماتا ہے.(البقرہ: ۲۶۲) یہ بے پناہ منافع محض کوئی نظریاتی بات نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے روحانی تجارت کرنے والوں کا ہمیشہ یہ مشاہدہ اور تجربہ رہا ہے کہ وہ تقویٰ اور تو کل اختیار کرنے والے مومنوں کو بغیر حساب عطا فرماتا ہے.(النور:۳۹) اسلامی تجارت کے اصول دراصل اسلامی تعلیم کے مطابق دینی و دنیوی ہر دو معاملات میں کامیابی کاراز اللہ تعالیٰ کا تقویٰ ہی ہے.یعنی انسان اپنے تمام معاملات میں خوف الہی اور رضائے باری پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ اور اس کے بندوں کے حق مکمل طور پر ادا کرنے والا ہو.اسی بناء پر اسلامی تجارت کی بنیاد ہی اس اصول پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خرید وفروخت کو جائز اور سود کو حرام قرار دیا ہے.(البقرہ:۲۷۶) سود دراصل مالی استحصال کا نام ہے جس کی کئی صورتیں ہوسکتی ہیں.رسول اللہ نے فرمایا کہ سود کے ستر سے اوپر دروازے ہیں.(ابن ماجہ ) 2 تاہم سود ایک واضح شکل مقررہ مدت کے قرض میں معین منافع ہے.آپ نے سود خور ، سود دینے والے اس کے گواہوں اور لکھنے والوں سب پر لعنت کی اور فرمایا کہ ” جو شخص سود لیتا ہے وہ بالآخر نقصان اٹھاتا ہے.“ (ابن ماجہ )3 حضرت عمرؓ فرماتے تھے کہ سود والی آیت آخر میں اتری اور رسول کریم اس کی تفاصیل بیان نہیں فرما سکے اس لئے سود اور ہر شبہ والی چیز کو بھی چھوڑ دو.آنحضرت نے اس بارہ میں اپنے مانے والوں کو ہر قسم کے شبہات سے بھی بچنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حلال اور حرام واضح ہیں اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ امور ہیں.جوشخص شبہ والی چیزوں کو بھی چھوڑ دیتا ہے اس کے لئے واضح طور پر حرام چیزوں کو ترک کر نا زیادہ آسان ہوتا ہے.اور جو شک والی بات میں پڑ جائے اس کا واضح طور پر ممنوع چیزوں کے ارتکاب کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کی منع کردہ چیزیں محفوظ چرا گاہوں کی طرح ہیں.جو چرواہا کسی چراگاہ کے قریب جانور چراتا ہے اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ جانوروں کو اس چرا گاہ کے اندر داخل کر بیٹھے گا.دوسری روایت میں ہے کہ جو شک والی بات میں پڑتا ہے قریب ہے کہ وہ حد عبور کرنے کی جرات کرے“.(بخاری ، نسائی )4
اسوۃ انسان کامل 183 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت اسلام نے سود کی بجائے معاشرہ کی آسودگی کے لئے قرض حسنہ اور طوعی خدمات کا دائرہ وسیع کرنے پر زور دیا ہے.جہاں تک تجارت کے ذریعہ حصول منافع کا تعلق ہے اسلام میں اس کی کوئی خاص حد مقرر نہیں کی گئی.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ اصولی نصیحت فرمائی ہے کہ تم اپنے مال باہم جھوٹ اور ناجائز طریقوں سے مت کھاؤ ، البتہ باہمی رضامندی سے تجارت اور کاروبار جائز ہے.(النساء : ۳۱) ایک دفعہ صحابہ نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں مدینہ میں مہنگائی بڑھ جانے پر عرض کیا کہ اشیاء کے نرخ مقرر فرما دیں.آپ نے فرمایا میں دعا کروں گا.قیمتوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.وہی تنگی اور کشائش پیدا کرتا اور وہی رازق ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں میری ملاقات ہو کہ مجھ سے کسی کا کوئی مطالبہ اور شکایت کسی جان کے ) خون یا مال کے بارہ میں نہ ہو“.(ابوداؤد ) 5 اس بارہ میں آپ نے اپنے مانے والوں کو تنبیہ فرمائی کہ جس شخص نے مسلمانوں کے بازار کی قیمتوں کو چڑھانے کی کوئی کاروائی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے یقیناً بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے گا“.(مسند احمد )6 دین کو دنیا پر مقدم رکھنا بانی اسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے دوسرا اہم اصول تجارت یہ بیان فرمایا کہ دنیوی کاروبار اور تجارتوں میں پڑ کر دین کو فراموش نہ کر بیٹھیں بلکہ اپنے معاملات میں ہمیشہ اپنے خالق و مالک خدا کی مرضی کو مقدم رکھیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اے مومنو! جب جمعہ کی نماز کے لئے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو.پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو.اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.جب وہ تجارت یا کوئی مشغلہ دیکھیں تو اس کی طرف دوڑ کر جاتے ہیں اور تجھے کھڑا چھوڑ جاتے ہیں تو کہہ دے جو اللہ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے زیادہ بہتر ہے اور وہی سب سے بہترین رزق عطا کرنے والا ہے“.(الجمعہ: ۱۰ تا ۱۲) اس تعلیم کی روشنی میں قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے ایسے نمونے قائم کر کے دکھائے کہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں اصحاب رسول کی تعریف کی اور فرمایا کہ وہ ایسے مردان حق ہیں کہ تجارتیں اور خرید و فروخت انہیں یاد الہی اور نماز و زکوۃ سے غافل نہیں کرتیں“.(النور : ۳۸) دراصل دنیوی اموال کا اگر درست مصرف نہ ہو تو وہ انسان کے لئے سخت آزمائش کا موجب بن سکتے ہیں.اسلام نے دین ود نیا میں ایک نہایت خوبصورت توازن قائم فرمایا ہے رسول اللہ یہ دعا بہت کثرت سے کیا کرتے تھے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.
اسوۃ انسان کامل 184 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت دد یعنی اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی اور خیر عطا فرما جبکہ صرف دنیا کے طالبوں کے حق میں فرمایا کہ ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں“.(البقرہ:۲۰۱،۲۰۲) جہاں تک اس دنیائے دُوں کا تعلق ہے اس کی حقیقت بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا کہ درہم و دینار کا غلام ہلاک ہو گیا.نیز فرمایا کہ انسان کی حرص اور طلب کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا اگر اسے سونے کی دو وادیاں بھی مل جائیں تو وہ تیسری وادی کا خواہاں ہوتا ہے.اور اس کے پیٹ کو سوائے قبر کی مٹی کے کوئی چیز بھر نہیں سکتی.( بخاری )7 حضرت نبی کریم اس سلسلہ میں اپنے صحابہ کو گاہے بگاہے نصیحت فرماتے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ بازار تشریف لے گئے ،لوگ آپ کے دائیں بائیں تھے.آپ ایک چھوٹے کانوں والے مردہ بکر وٹے کے پاس سے گزرے، آپ نے اس کا کان پکڑ کر صحابہ سے فرمایا کہ تم میں کوئی اسے ایک درہم میں لینے کو تیار ہے؟ انہوں نے عرض کیا ہم اسے کیا کریں گے؟ ہمیں ہرگز یہ کسی چیز کے عوض لینا بھی گوارہ نہیں.آپ نے پھر فرمایا کہ کیا تم پسند کرو گے کہ تم اسے لے لو؟ انہوں نے پھر جواب دیا کہ اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو چھوٹے کانوں کا عیب اس میں تھا.اب مردہ ہونے کی حالت میں بھلا اس کی کیا حیثیت ہوگی ؟ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم او نیا للہ تعالیٰ کے نزدیک اس مردہ بکر وٹے سے بھی زیادہ ذلیل اور حقیر ہے“.(مسلم) 8 آپ کی غرض یہ تھی کہ دنیا کمان منع نہیں مگر اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہمیشہ مقصد اللہ تعالیٰ کی ذات ہو.اگر ایسا ہوتو پھر یہی تجارت اللہ تعالیٰ کا فضل بن جاتی ہے جس کے لئے کوشش اور محنت کرنے کا حکم ہے.(الجمعہ :۱۱ البقرہ : ۱۹۹ ) یہی وجہ ہے کہ رسول کریم محنت اور ہاتھ کی کمائی پسند کرتے اور فرماتے تھے کہ ہاتھ سے کمانے والا اللہ کا محبوب ہوتا ہے“.حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں نبی کریم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے والے مومن سے محبت کرتا ہے.ایک دفعہ آپ سے پوچھا گیا کہ بہترین کمائی کونسی ہے؟ آپ نے فرمایا دیانت دارانہ ہاتھ کی کمائی.اسی طرح آپ نے فرمایا کبھی کسی نے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا نہیں کھایا.اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھانا کھاتے تھے.(بیشمی ) 9 رسول اللہ ہاتھ سے کام کرنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی فرماتے تھے.ایک صحابی حضرت سعد بن معاذ " انصاری ایک دفعہ رسول اللہ سے ملے آپ نے پوچھا کہ تمہارے ہاتھوں کو کیا ہوا انہوں نے عرض کیا کہ محنت مزدوری اور کشتی چلا کر بچوں کا پیٹ پالتا ہوں.آنحضرت نے ان کے ہاتھ چوم لئے اور فرمایا ان ہاتھوں کو آگ نہیں چھوئے گی.(الاصابہ ) 10 ایک دیہاتی حضرت زاہر سادہ شکل کے تھے.وہ دیہات سے رسول اللہ کے لئے وہاں کی سوغاتیں لایا کرتے اور آپ ان کو کوئی تحفہ دے دیا کرتے یوں ان سے ایک تعلق تھا.ایک دفعہ ان کو بازار میں اپنا سامان بیچتے ہوئے دیکھا تو ان پر ایسا پیار آیا کہ پیچھے سے جاکر ان کی آنکھیں موند لیں پہلے تو وہ پوچھتے رہے کہ کون ہے پھر یہ محسوس کر کے کہ میرے آقا ع کے سوا کون ہو گا.وہ محبت سے اپنا جسم آپ کے ساتھ رگڑنے لگے.آنحضرت نے اظہار محبت کرتے
اسوۃ انسان کامل 185 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت ہوئے فرمایا کوئی ہے جو میرا یہ غلام خریدے؟ اب بے چارے جھینپ کر کہنے لگے یا رسول اللہ یہ گھاٹے کا سودا کون کرے گا ؟ فرمایا نہیں اللہ کے ہاں تمہاری بہت قدر ہے.(اصابہ ) 11 یہ ایک محنت کش پر آپ کا پیار تھا.جو اپنے ہاتھ کی کمائی سے پیٹ پالتا تھا.پاکیزہ تجارت کے آداب ہمارے نبی حضرت محمد مصطفے ﷺ نے جوان ہو کر اپنے لئے قومی پیشہ تجارت اختیار کرنا پسند فرمایا.آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کو تحریک فرمائی کہ مکہ کی مالدار خاتون خدیجہ بنت خویلد کا تجارتی قافلہ شام جارہا ہے، اگر آپ بھی اس قافلہ میں جانے کے لئے تیار ہو جاؤ تو وہ بخوشی اپنا مال تجارت آپ کے حوالے کرنے پر راضی ہوں گے.ادھر حضرت خدیجہ کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ آپ کی قوم کے لوگوں کے مقابلہ پر مال تجارت لے جانے کا دگنا معاوضہ آپ کو دیا جائے گا.چنانچہ آپ حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ کے ساتھ اس تجارتی قافلہ میں بصری گئے اور اپنا مال تجارت فروخت کر کے پہلے سے کئی گنا نفع کمایا.(ابن سعد) 12 اور اپنی پاکیزہ فطرت کے مطابق سچائی، امانت دیانت اور ایفائے عہد کے بابرکت اصولوں پر عمل کر کے اس میدان میں اپنالو ہا منوایا.بعد میں جب آپ مقام نبوت پر سرفراز ہوئے تو الہی تعلیم سے منور ہو کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ پاک صفات اور اخلاق وکردار کے ساتھ آپ نے تجارت کے اسلوب و آداب قائم فرمائے اور ان زریں قرآنی اصولوں پر عمل کر کے دنیا کو اس کا بہترین نمونہ دیا.آپ نے اپنے ماننے والوں کو بھی تجارت کے یہ آداب سکھائے اور صداقت و دیانت پر مبنی پاکیزہ اسلامی تجارت کی بنیاد رکھی.اسلام سے قبل خرید و فروخت کرنے والے اپنے لئے سماسرہ کا لفظ استعمال کرتے تھے جس کے معنی دلال (ایجنٹ ) کے ہوتے ہیں.رسول کریم نے سودا کرنے والوں کو تاجر کے نام سے موسوم کر کے اس پیشہ کو ایک تقدس عطا کیا.کیونکہ تجارت کے معنی جائز منافع کی خاطر خرید وفروخت کے ہیں.آپ نے اپنے صحابہ کو نصیحت فرمائی کہ سودا کرتے وقت کسی جھوٹ یا لغو بات کا بھی امکان ہوتا ہے اور انسان قسم بھی کھا بیٹھتا ہے اس لئے اس موقع پر کچھ صدقہ دے دینا چاہئے.تا کہ ایسی باتوں یا ان کے ضرر سے محفوظ رہیں.(ابوداؤد )13 صدقہ کے ساتھ آپ نے کامیاب تجارت کے لئے دعا کی طرف بھی توجہ دلائی.آپ خود بازار تشریف لے جاتے تو یہ دعا پڑھتے :.”اے اللہ ! میں تجھ سے اس بازار اور جو اس کے اندر ہے اس کی بھلائی کا طلب گار ہوں اور میں اس بازار اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں.اے اللہ ! میں اس بات سے بھی تیری پناہ میں آتا ہوں کہ بازار میں کوئی جھوٹی قسم کھاؤں یا گھاٹے والا سودا کروں“.(طبرانی)14 آنحضرت علی نے اچھے تاجروں کا دینی وروحانی مقام بیان کرتے ہوئے فرمایا:.
اسوۃ انسان کامل 186 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت که امانت دار سچا مسلمان تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہوگا.نیز فرمایا امانت دار سچا تاجر نبیوں صد یقوں اور شہیدوں میں سے ہے.(ابن ماجہ ) 15 حضرت رفاعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم کے ساتھ نکلے.لوگ صبح صبح خرید و فروخت کر رہے تھے آپ نے فرمایا اے تاجروں کی جماعت ! قیامت کے دن بعض تاجر فاجر ہونے کی حالت میں اٹھائے جائیں گے سوائے ایسے کے تاجر جو اللہ سے ڈرے اور احسان اور سچائی سے کام لے.(ابن ماجہ ) 16 رسول کریم ﷺ اپنے اصحاب کو ہمیشہ ایسی دیانتدارانہ تجارت کی ترغیب دیتے تھے.حضرت صفوان بن امیہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی ایک مجلس میں حضرت عرفطہ بن نہیک تمیمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اور میرے اہل بیت شکار پر گزارا کرتے ہیں.یہی ہماری بابرکت قسمت بھی ہے اور ضرورت بھی.مگر اس کے نتیجہ میں ہم اکثر باجماعت نماز ادا کرنے سے محروم رہتے ہیں کیا آپ اسے جائز قرار دیتے ہیں یا نا جائز ؟...حضور ﷺ نے فرمایا میں اسے حلال ہی کہتا ہوں کیونکہ اللہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور یہ بہت اچھا کام ہے اور اللہ تعالیٰ انسان کے عذر کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے، مجھ سے پہلے سارے رسول شکار ہی کرتے تھے اور شکار کی تلاش میں رہتے تھے.اور جب تم تلاش معاش کے باعث با جماعت نماز ادانته کرسکو تو با جماعت نماز اور اس کی ادائیگی کرنے والوں سے تمہاری محبت بھی کافی ہوسکتی ہے.اور ذکر الہی اور اللہ کو یاد کرنے والوں سے تمہاری محبت تمہارے اور اہل وعیال کے لئے شکار کے جواز میں وسعت پیدا کرتی ہے کیونکہ تلاش معاش بھی اللہ کی راہ میں جہاد ہے.اور یا درکھو کہ عمدہ ( دیانت دارانہ ) تجارت میں اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال ہوتی ہے.(بیشمی ) 17 تجارت کا بابرکت پیشہ رسول اللہ صحابہ کوتجارت کے ذریعہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے اور ابتدائی پونچی کا انتظام کر کے تجارت کے طریق بھی سکھاتے تھے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص نے تبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ مجھے کچھ عطا فرمائیں.آپ نے فرمایا: تمہارے گھر میں کچھ ہے؟ عرض کیا: ایک ٹاٹ ہے جو کچھ بچھالیتے ہیں اور کچھ اوڑھ لیتے ہیں اور پانی پینے کا پیالہ ہے.فرمایا وہ دونوں لے آؤ.وہ انصاری دونوں چیزیں لے کر آئے.رسول اللہ نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھوں میں لے کر فر مایا: یہ چیزیں کون خریدے گا ؟ ایک صحابی نے عرض کیا کہ میں دونوں چیزیں ایک درہم میں لیتا ہوں آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا کہ ایک درہم سے زائد میں کون لے گا؟ ایک دوسرے صحابی نے عرض کیا میں دو درہم میں لیتا ہوں.آپ نے دو درہم انصاری کو دیئے اور فرمایا: ایک درہم سے کھانا خرید کر گھر میں دو اور دوسرے سے کلہاڑی کا پھل خرید کر میرے پاس لے آؤ اس نے ایسا ہی کیا.رسول اللہ نے کلہاڑی کا پھل لیا اور اپنے دست مبارک سے اس میں دستہ ٹھونک کر فرمایا: جاؤ لکڑیاں اکٹھی کرو اور پندرہ دن تک میں تمہیں نہ دیکھوں وہ لکڑیاں کاٹ کر بیچتا رہا.پھر جب وہ حاضر ہوا تو اس کے پاس دس درہم تھے آپ نے
اسوۃ انسان کامل 187 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت فرمایا : اس میں سے کچھ کا کھانا خرید و اور کچھ سے کپڑا.پھر فرمایا کہ ” خود کمانا تمہارے لئے بہتر ہے بنسبت اس کے کہ تم قیامت کے روز ایسی حالت میں حاضر ہو کہ مانگنے کا داغ تمہارے چہرہ پر ہو.مانگنا درست نہیں سوائے اس کے جو انتہائی محتاج ہو یا سخت مقروض ہو.(ابن ماجہ ) 18 رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ ایک اور مخلص صحابی حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بھی ہجرت مدینہ کے وقت ایسی ہی عمدہ مثال قائم کر کے دکھائی وہ ایک صاحب حیثیت تاجر تھے.مگر جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو تہی دامن تھے کہ اپنا مال اور گھر بار سب کچھ خدا کی راہ میں فدا کر کے معیت و صحبت رسول کو مقدم کر چکے تھے.ایک مالدار انصاری حضرت سعد بن ربیع ان کے اسلامی بھائی بنائے گئے.انہوں نے بھی حق اخوت کی حیرت ناک مثال قائم کر کے دکھائی.اپنا نصف مال اپنے بھائی کی خدمت میں پیش کر دیا.حتی کہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے کر نکاح کی بھی پیشکش کر دی.حضرت عبدالرحمن بھی غیور اور خود دار تھے کہنے لگے اس کی ضرورت نہیں.مجھے یہ بتاؤ کہ یہاں کوئی تجارتی منڈی ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ یہود بنی قینقاع کا بازار ہے.اگلی صبح وہ منڈی گئے اور شام کو تجارت کے بعد کچھ پنیر اور مکھن لے کر آئے.چند ہی دنوں میں تجارت سے اتنا کچھ کما لیا کہ شادی بھی کر لی اور بطور حق مہر سونے کی ایک خاص مقدار مقرر کی.آنحضرت نے ان کے حالات کی مناسبت سے کم از کم ایک بکری ذبح کر کے دعوت ولیمہ کرنے کی تحریک فرمائی.( بخاری )19 ایک اور قابل تقلید مثال حضرت علیؓ کی ہے.وہ بھی دیگر اصحاب رسول کی طرح مکہ ہجرت کر کے آئے تو تہی دامن تھے.غزوہ بدر کے بعد ہ ھ میں رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی فاطمتہ الزھراء سے مدینہ میں ان کی شادی کے انتظام طے پا رہے تھے.رسول کریم نے انہیں ایک اونٹنی عطا فرمائی ، حضرت علی نے بنی قینقاع کے ایک سنار کے ساتھ طے کیا کہ وہ اس کے ساتھ جنگل سے جا کر گھاس کاٹ کر اونٹنی پر لائیں گے اور مدینہ کے بازار میں سناروں کے پاس بطور ایندھن فروخت کریں گے.( بخاری )20 اگر چہ بعد میں بوجوہ بی ارادہ پائیت کی کونہ پہنچ سکا مگر اس انتظام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم کی تربیت کے نتیجہ میں صحابہ کرام کسی کام میں عار محسوس نہیں کرتے تھے اور محنت و تجارت کے ذریعہ تلاش معاش کی راہیں نکال لیتے تھے.آنحضرت نے اپنے مختلف اصحاب کو حسب حالات مختلف چیزوں کی تجارت کے بارہ میں بھی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ اہل جنت کو تجارت کی اجازت دیتا تو وہ ضرور کپڑے اور عطر کی تجارت کرتے“.(بیشمی ) 21 آپ نے بکریوں کی تجارت بھی پسند فرمائی.حضرت ام ہانی بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ میرے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے مجھے تمہارے پاس کوئی برکات نظر نہیں آتیں.میں نے عرض کیا آپ کی مراد کن برکتوں سے ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے تین برکتیں اتاری ہیں.بکریاں، کھجور میں اور آگ.آپ نے ان سے یہ بھی فرمایا بکریاں پالو اس میں برکت ہے.(بیشمی )22 انصار مدینہ اگر چہ زراعت پیشہ تھے تاہم یہود بنو قینقاع کے تجارتی ماحول کے باعث خرید و فروخت کے معاملات میں انہیں بھی دلچسپی اور درک پیدا ہو گئی تھی اور آنحضور اپنے صحابہ کا یہ شوق بڑھاتے بھی رہتے تھے.ایک دفعہ نبی کریم نے
اسوۃ انسان کامل 188 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت حضرت عروہ بارقین کو ایک دینار دے کر بغرض تجارت بھیجوایا کہ ایک بکری خرید کر لائیں ، انہوں نے کمال ذہانت سے مدینہ کے باہر دیہات میں جا کر ایک دینار کی دو بکریاں خرید کرلیں پھر مدینہ آکر ایک بکری ایک دینار میں فروخت کر دی اور آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک دینار اور بکری دونوں پیش کر دیئے.سارا قصہ بھی کہہ سنایا ہوگا.رسول اللہ اپنے غلام کی اس ذھانت پر بہت خوش ہوئے اور ان کی تجارت میں مزید برکت کے لئے خاص طور پر دعا کی.جس کا ایسا اثر ہوا کہ اگر وہ مٹی بھی خریدتے تو اس میں بھی نفع پاتے.(بخاری) 23 آنحضرت ﷺ نے حضرت حکیم بن حزام کو بھی ایک دینار دے کر قربانی کا جانور خریدنے کے لئے بھجوایا.انہوں نے ایک جانور خرید کر اس میں ایک دینار کا نفع کمایا.پھر ایک اور قربانی دینار کی خریدی اور رسول کریم کی خدمت میں دینار اور بکری لے کر حاضر ہو گئے.رسول کریم نے فرمایا بکری ذبح کر دو اور دینار صدقہ میں دے دو.(ترمذی )24 بیچا دیانتداری کا اجر آنحضرت اپنے صحابہ کی تربیت کی خاطر تجارت میں امانت و دیانت کی خاص تلقین فرماتے.ایک دفعہ آپ نے ایک شخص کی بددیانتی اور دھوکہ دہی کی سزا کا دلچسپ اور عبرت آموز واقعہ سنایا جو دریا میں چلنے والی ایک کشتی میں شراب پا کرتا تھا اور اس میں پانی بھی ملا دیتا تھا.اس نے ایک بندر بھی پال رکھا تھا ایک دن اس کا بندر اس کی دیناروں سے بھری تھیلی لے کر کشتی کے بادبان پر جا بیٹھا اور ایک دینار پانی میں اور ایک کشتی میں پھینکنے لگا.یہاں تک کہ تھیلی خالی کر دی اور یوں اس نے دیناروں کو برابر تقسیم کر دیا.(پانی کا حصہ پانی میں او تاجر کا حصہ کشتی میں ).(مسند احمد ) 25 ایک اور موقع پر آنحضرت ﷺ نے بنی اسرائیل کے دو افراد کی حسن نیت اور ادائیگی فرض میں دیانتداری ، ایفائے عہد اور اس کی برکت کا یہ واقعہ اپنے صحابہ کو ستایا کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے دوسرے سے ہزار دینار قرض مانگا، اس نے گواہ کا مطالبہ کیا ، قرض لینے والے نے کہا کہ اللہ کافی گواہ ہے، پھر اس نے ضمانت مانگی تو قرض لینے والے نے کہا اللہ کافی ضامن بھی ہے ، قرض دینے والے نے کہا تم سچ کہتے ہو.پھر اسے ایک مقررہ مدت تک کے لئے ہزار دینار قرض دے دیئے.وہ شخص تجارت کی غرض سے سمندری سفر پر روانہ ہو گیا.اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد اس نے سواری کی تلاش کی تاکہ مقررہ میعاد تک واپس پہنچ سکے.مگر اسے بر وقت سواری نہ ملی ، تب اس نے ایک لکڑی لے کر اسے اندر سے کھوکھلا کیا اور اس میں ہزار دینار کے ساتھ ایک خط قرض خواہ کے نام لکھا اور لکڑی کا منہ بند کر کے اسے سمندر کے حوالے کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے عرض کیا اے اللہ تو جانتا ہے کہ میں نے فلاں شخص سے ایک ہزار دینار قرض مانگے اس نے گواہ اور ضامن مانگا تو میں نے کہا کہ اللہ ہی گواہ اور ضامن ہے اب میں نے سواری لینے کی پوری کوشش کی ہے جس کے ذریعہ بروقت یہ قرض ادا کر سکوں اب میں یہ امانت تیرے سپر د کرتا ہوں.‘ اس کے بعد وہ واپس اپنے وطن جانے کے لئے سواری کے انتظار میں رہا.دوسری طرف قرض خواہ مقررہ میعاد پر قرض لینے کے لئے نکلا کہ شاید کوئی سواری اس کا مال لے آئے ، اچانک اسے وہ لکڑی نظر آئی جو اس نے ایندھن کے طور پر اٹھالی.مگر جب گھر جا کر اسے پھاڑا تو اس میں اپنا مال اور خط موجود پایا.پھر جیسے ہی اس مقروض کو موقع ملاوہ ہزار دینار لے کر قرض خواہ کے
اسوۃ انسان کامل 189 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت پاس پہنچا اور معذرت کرتے ہوئے عرض کیا کہ سواری نہ ملنے کے باعث مجھے تاخیر ہوئی اس نے پوچھا کیا تم نے پہلے بھی میری طرف کچھ بھجوایا ہے مقروض نے کہا میں بتا تو رہا ہوں کہ اس سواری سے پہلے کوئی اور سواری نہیں ملی.دیانتدار قرض خواہ نے کہا تو پھر اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے اس لکڑی کے ذریعہ جو تم نے بھجوائی تھی وہ قرض ادا کر دیا ہے پس اپنے ایک ہزار دینار لے کر خیر و برکت سے واپس جاؤ.( بخاری )26 رسول کریم نے ایک دفعہ ایک اور تاجر کی حکایت سنائی جولوگوں کو قرض دیتا تھا اور اپنے قرض وصول کرنے والے کارندے سے کہتا تھا کہ جو آسانی مل جائے وہ لے لو اور جو مشکل ہوا سے چھوڑ دو اور درگزر کیا کرو شاید اللہ تعالیٰ اس طرح ہم سے بھی درگزر کرے.جب وہ شخص فوت ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا کہ تم نے کبھی کوئی نیکی کی ہے اس نے کہا کہ نہیں ، ہاں میرا ایک نو کر تھا اور میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب میں اسے قرض واپس لینے کے لئے بھجواتا تو اسے کہتا تھا کہ جو آسانی سے مل جائے لے لینا اور جو مشکل ہو چھوڑ دینا.شاید اللہ تعالیٰ اس طرح ہم سے درگزر کر دے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا.(مسند احمد ) 27 تجارت میں رسول کریم کا عملی سبق بانی اسلام نے تجارت کے تفصیلی اصول و آداب ہی تعلیم نہیں فرمائے بلکہ ان کا عملی نمونہ بھی پیش کر کے دکھایا.قرآن شریف میں لین دین کے کاروباری معاملات خصوصاً قرض اور تجارتی سودوں میں پوری شرائط اور مدت کے ساتھ تحریر کر لینے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا.کہ اس پر دو گواہ بھی مقرر کر لئے جائیں ( البقرہ: ۲۸۳ ).البتہ روزمرہ اور معمول کی دست بدست تجارت میں سہولت کی خاطر تحریر کولازمی قرار نہیں دیا.رسول اللہ نے اپنے کردار سے اس کا بہترین نمونہ دیا.عرب کے دستور میں سودا کرتے وقت کسی لکھت پڑھت کا رواج نہیں تھا.یوں بھی لکھنا پڑھنا عام نہ ہونے کی وجہ سے اس کی سہولت بھی میسر نہیں تھی مگر نبی کریم نے سودا کرتے وقت لکھ لینے یا رسید لینے کا دستور شروع فرمایا.چنانچہ آنحضرت کے ایک سودے پر آپ کے معاہدہ کی تحریر کے الفاظ آج بھی محفوظ ہیں.جو تجارت میں رسید جاری کرنے کے رواج کی قدیم ترین دستاویز کہلا سکتی ہے.حضرت عداء بن خالد بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے مجھے یہ رسید عطا فرمائی کہ یہ تحریر اس بات کی ہے جو عداء بن خالد بن ہو زہ نے محمد رسول اللہ سے سودا کیا ہے.اور آپ سے غلام یا لونڈی خریدی ہے.یہ ایک مسلمان کا مسلمان کے ساتھ سودا ہے جس میں کوئی عیب ، خرابی یا نقص نہیں ہے.یہ تحریر عداء بن خالد کے پاس محفوظ تھی.( بخاری, ابوداؤد ) 28 صاف ظاہر ہے کہ ایسی تحریر کا مقصد تجارت اور لین دین میں صفائی و سچائی اور امانت و دیانت کے قیام کے سوا کیا ہوسکتا تھا.اسلام نے ہر حال میں اور خصوصاً حقوق کے معاملات میں صاف سیدھی اور سچی بات کہنے پر زور دیا ہے.(الاحزاب : اے ) آنحضور نے سودے کا یہ اصول بھی بیان فرمایا کہ تجارت کرنے والوں کو اپنے سودے کو بدلنے کا اختیار اس وقت تک ہوتا ہے جب تک وہ باہم جدا نہ ہو جائیں.اور اگر وہ صاف اور کچی بات کریں اور کھول کر حقیقت بیان
اسوۃ انسان کامل 190 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت کر دیں تو ان کے سودے میں برکت ڈالی جائے گی اور اگر وہ کچھ چھپائیں اور جھوٹ سے کام لیں گے تو ان کے سودے کی برکت مٹادی جائے گی.( بخاری ) 29 اس طرح آپ نے فرمایا کہ نا واجب قسم کھا کر سودا فروخت کرنے والوں کا سودا تو فروخت ہو جاتا ہے.مگر یہ قسم برکت کو زائل کر دیتی ہے.(بخاری) 30 رسول اللہ نے اپنے ماننے والوں کو تجارت میں بھی احسان کرنے کی اعلی تعلیم دی کہ جھکتے ہوئے ترازو کے ساتھ تول کر وزن کیا کریں اور یوں آپ نے خریدار کو نقصان کے خدشہ کی بجائے فائدہ پہنچانے کے رجحان کی طرف توجہ دلائی اور خود اس پر عمل کر کے دکھایا.حضرت سویڈ بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی ہجر کے علاقہ سے ریشم مکہ لائے.رسول کریم ہمارے پاس تشریف لائے اور کچھ قیصوں کا سودا کیا.وہاں ایک شخص قیمت تول کر وصول کر رہا تھا.آنحضرت نے اسے فرمایا کہ جھکتے ہوئے ترازو سے تول کرو.(ابوداؤد )31 رسول کریم نے ایسے تاجر کے حق میں جو تجارت میں سہولت پیدا کرتا ہے یہ دائمی دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم فرمائے جو خرید و فروخت اور لین دین میں آسانی اور سہولت پیدا کرتا ہے.( بخاری )32 آپ نے معاشرہ میں تاجروں کا ایک احترام قائم کیا اور اجر پر علاقومی معیشیت پر حملہ مجھ خواہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ہم تاجروں پر بھی حملہ نہیں کرتے تھے.(بیشمی )33 آنحضرت نے اپنے مانے والوں کو تجارت میں کامیابی کے گر بھی بتائے.آپ علی الصبح کام کا آغاز کرنا پسند فرماتے تھے.کوئی مہم بھیجنی ہوتی یا کوئی اور کام ہوتا تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ میری امت کے صبح کے کام میں برکت ڈال.نیز فرماتے کہ صبح کا سونا رزق میں روک بن جاتا ہے.(بیشمی )34 ایک شخص صحر نامی تاجر تھا وہ ہمیشہ اپنے تجارتی قافلے صبح صبح روانہ کرتا تھا.اس طرح اس نے بہت فائدہ اٹھایا.( ترمذی )35 حضرت عبد اللہ بن ابی ربیعہ اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے مجھ سے چالیس ہزار قرض لیا.پھر جب آپ کے پاس مال آیا تو مجھے واپس ادا کیا اور فرمایا اللہتعالی تمہارے گھر بار اور مال میں برکت دے.قرض کا بدلہ شکر یہ اور ادائیگی ہے.(نسائی) 36 رسول اللہ کو ایک شخص کے بارہ میں پتہ چلا کہ سادگی کی وجہ سے تجارت میں دھو کہ کھا جاتا ہے آپ نے اسے سودا کرنے سے روکنا چاہا تو اس نے عرض کیا کہ تجارت کے بغیر میرا گزارہ نہیں.آپ نے فرمایا اگر تم تجارت کے بغیر نہیں رہ سکتے تو جب تم سودا کر د یہ کہا کر دیا پھر کھول کر بیان کر دیا کرو کہ یہ چیز ہے دیکھو بھئی کوئی دھوکا یا بددیانتی نہیں ہوگی.(ابو داؤد ) 37 تجارت میں اصولی رہنمائی رسول کریم نے تاجر اور خریدار کے مابین پیدا ہونے والے ممکنہ جھگڑوں کا خیال رکھتے ہوئے ان کے اصولی فیصلے فرما دیئے کہ اگر بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے تو فروخت کرنے والے کی قیمت قبول ہوگی اور خریدار کو اختیار ہوگا
اسوۃ انسان کامل 191 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت کہ وہ چیز لے یا نہ.(ترندی )38 زیادہ قیمت لینے کی خاطر جانور کا دودھ روک کر اسے فروخت کرنے سے منع کیا اور فیصلہ فرمایا کہ جس نے ایسا جانور خرید لیا وہ اسے تین دن تک واپس کر سکتا ہے.البتہ بوقت واپسی اس کے ساتھ ایک صاع ( قریباً تین کلو ) غلہ بھی لوٹا نا ہوگا.تا کہ دودھ استعمال کرنے کا معاوضہ ہو جائے.(بخاری) 39 یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ جب کوئی آدمی مفلس ہو جائے اور کوئی دوسرا شخص اس کے پاس اپنا سامان اصل حالت میں پالے تو وہ شخص اپنے اس مال کا زیادہ حقدار ہے.اور اگر خریدار فوت ہو جائے تو سامان کے مالک کو دیگر قرض خواہوں کی نسبت سے حصہ ملے گا.(ابوداؤد) 40 ایک دفعہ رسول اللہ علہ کے ڈھیر کے پاس سے گزرے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو اطلاع کی اور آپ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈالا تو وہ اندر سے گیلا نکلا.آپ نے فرمایا اے غلہ کے مالک! یہ کیا ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! بارش میں غلہ بھیگ گیا تھا.آپ نے فرمایا تم نے اس گیلے غلہ کو خشک کر کے اوپر کیوں نہ رکھا تا کہ لوگ دیکھ لیں پھر آپ نے فرمایا.جو ملاوٹ کرے وہ ہم میں سے نہیں.(مسلم, ترندی) 41 بعض لوگ تجارتی قافلوں کے ساتھ شہر کے باہر جا کر نسبتا ستے سودے کر لیتے تھے.آنحضرت ان کو اسی جگہ غلہ فروخت کرنے سے منع کرتے اور فرماتے کہ وہ غلہ منڈی میں لے جا کر فروخت کریں.یہ ہدایت بھی فرمائی کہ جب غلہ خریدیں تو اسے ماپ کر قبضہ میں لینے کے بعد پھر آگے فروخت کریں.( بخاری )42 اسی طرح ہدایت فرمائی کہ شہری دیہاتی کی خاطر اس کا سودا فروخت نہ کرے اور کوئی شخص کسی کے سودے کے اوپر سودا نہ کرے.( بخاری )43 رسول اللہ نے عربوں میں رائج بیچ ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا.جس میں کسی چیز کو اچھی طرح جانچے بغیر محض چھو لینے سے یا کوئی کپڑا وغیرہ پھینکنے سے سودا طے ہو جاتا تھا.اسی طرح پیشگی کے سودے سے بھی منع فرمایا.مثلاً پیدا ہونے والی اونٹنی جب آئندہ حاملہ ہو کر بچہ جنے گی اس کا سودا پہلے کر لیتا درست نہیں.(ابوداؤد )44 اسی طرح آپ نے بیج الغرر یعنی دھوکے کی بیچ سے منع فرمایا جیسے مچھلی کا پانی میں سودا بھاگنے والے غلام کا سودا یا فضاء میں پرندے کا سودا کرنا.اسی طرح جو چیز پاس نہ ہوا سے فروخت کرنے اور ایک سودے میں دوسودے کرنے سے منع کیا.(ترندی 45 آنحضرت نے شراب ، اس کے پینے اور پلانے والے، اس کے نچوڑنے اور اٹھانے والے اور جسکی طرف اٹھا کر لے جائی جائے ، اس کے بیچنے اور خریدنے والے اور اس کی قیمت کھانے والے پر لعنت فرمائی ہے.(بیشمی ) 46 حضور نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے شراب اور اس کی قیمت کو حرام کیا ہے اور مردار اس کی قیمت کو حرام کیا ہے اور ختر میر اور اس کی قیمت کو حرام کیا ہے.مردار کی چربی کے بارہ میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا وہ بھی حرام ہے.اللہ تعالیٰ یہود کا برا کرے.ان پر جب اللہ نے چربی حرام کر دی تو وہ بیچ کر اس کی قیمت کھانے لگے.(ابوداؤد )47
اسوۃ انسان کامل 192 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت رسول اللہ نے مال مسروقہ اور اس کی قیمت کھانے کو بھی حرام قرار دیا.( بیشمی ) 48 تجارت میں رسول اللہ کے بہترین نمونے آنحضرت نے ایک ہی جنس کے تفاوت کے ساتھ تبادلہ یا خرید وفروخت سے منع کیا جس میں سود پایا جاتا ہے جو حرام ہے.اس لئے فرمایا کہ دو صاع کھجور ایک صاع کے عوض اور دو صاع گندم ایک صاع کے عوض اور دو در ہم ایک درہم کے عوض جائز نہیں.چنانچہ حضرت بلال ایک دفعہ مدینہ کی اعلی قسم کی کھجور برنی لے کر آئے نبی کریم نے اپنی زمین کی کھجور سے مختلف قسم دیکھ کر فرمایا یہ کیا؟ انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی کھجور کے دو صاع دے کر برنی کھجور کا ایک صاع لیا ہے.رسول اللہ نے فرمایا ” اوہو.یہ خالص سود ہے اس کے قریب بھی نہ جاؤ“ (نسائی )49 حضرت براو بن عازب بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت مدینہ تشریف لائے تو ہم چاندی کی ادھار بیچ کر لیا کرتے تھے آپ نے فرمایا کہ دست بدست سودے میں تو حرج نہیں لیکن ادھار پر دینے میں سود ہے.(نسائی)50 رسول اللہ نے جہاں سود اور ناجائز استحصال کی ممانعت فرمائی وہاں اس کا بہتر متبادل دیتے ہوئے لین دین کے بارہ میں ایک عمدہ اصول یہ مقرر فرمایا کہ قرض ادا کرتے وقت اصل سے بڑھا کر دیا جائے.شرط یہ ہے کہ وہ پہلے سے معین نہ ہو.چنانچہ آپ نے کسی سے ایک چھوٹی عمر کا اونٹ لیا اور اس کی واپسی کے وقت فرمایا اسے ایک جواں سال اونٹ خرید کر دے دو.آپ سے عرض کیا گیا کہ اس کو چھوٹی عمر کے اونٹ سے بہتر عمر والا اچھا اونٹ مل رہا ہے.فرمایا وہی اسے لے کر دے دو کیونکہ مسلمانوں میں سے سب سے بہتر وہ ہیں جو ادائیگی میں سب سے بہتر ہیں.(نسائی)51 ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے ایک قافلہ سے غلہ خریدا.اس کی قیمت آپ کے پاس نہ تھی.وہ منافع پر فروخت ہوا.منافع آپ نے بیواؤں میں تقسیم کر دیا اور فرمایا ” آئندہ میں کوئی ایسا سودا نہیں کروں گا جس کی قیمت میرے پاس نہ ہو.(ابوداؤد )52 حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں اونٹ بیچا کرتا تھا اور دینار (سونے کے سکہ ) میں قیمت طے کر کے درہم (چاندی کے سکہ) میں وصول کر لیتا تھا.رسول اللہ سے اس بارہ میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں حرج نہیں کہ تم اس دن کی قیمت درہم و دینار کی قیمت کے مطابق وصول کر لو.“ ( نسائی (53 رسول اللہ نے مدینہ تشریف لا کر اپنی ضرورت کی خریداری خود فرمایا کرتے تھے.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آپ نے ایک یہودی سے قرض پر غلہ خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھی.اسی طرح ایک یہودی کے پاس زرہ رہن رکھنے کے عوض اپنے اہل خانہ کے لئے قرض پر جو خریدے.(بخاری)54 رسول اللہ نے ایک بدو سے گھوڑا خریدا اور اسے قیمت ادا کرنے کے لئے اپنے ساتھ آنے کے لئے فرمایا.نبی کریم جلدی میں رقم کا انتظام کرنے جارہے تھے اور بد و آہستہ آہستہ پیچھے تھا.اس دوران لوگ بدو سے گھوڑے کی قیمت دریافت کرتے اور بھاؤ کرتے رہے انہیں علم نہ تھا کہ نبی کریم کے ساتھ گھوڑے کا سودا ہو چکا ہے.ایک شخص نے جب اسے کچھ زائد قیمت بتائی تو بدو نے آنحضرت کو پکار کر کہا اگر تو آپ نے گھوڑا خریدنا ہے تو لے لیں ورنہ میں اسے بیچنے لگا ہوں رسول اللہ رک گئے اور فرمایا کیا میں تم سے گھوڑ ا خرید نہیں چکا.بدو قسم کھا کر انکار کر گیا.اور کہنے لگا میں نے آپ
اسوۃ انسان کامل 193 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت کو نہیں بیچا.رسول کریم فرما رہے تھے میں تم سے خرید چکا ہوں.بدو کہنے لگا اچھا آپ گواہ لے کر آئیں اس پر حضرت صل الله مخزیمہ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم نے یہ گھوڑا حضور کو بیچا تھا.رسول کریم ﷺ نے خزیمہ سے پوچھا تم کیوں کر گواہی دیتے ہو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کی سچائی کی وجہ سے.رسول کریم ﷺ نے ان کی گواہی کو دگنا قرار دیا.(نسائی)55 ایک دفعہ نبی کریم نے ایک اور بدو سے درخت کے پتوں کا گٹھا خریدا جب سودا ہو چکا تو آپ نے فرمایا اب بھی تمہاری مرضی ہے.اس نے سودا فروخت کرنے پر اصرار کیا تو آپ نے لے لیا.(ابن ماجہ ) 56 رسول اللہ نے کسی بد و سے ایک اونٹ خریدا.اس کے بدلے میں آپ نے مدینہ کی بہترین کھجور کا ایک وسق ( تقریباً 3 من کھجور ) دینا طے کیا.آپ نے جب گھر جا کر معلوم کیا تو اتنی مقدار میں کھجور موجود نہیں تھی.رسول اللہ واپس آئے اور اس بدو سے کہا اے اللہ کے بندے! ہم نے تجھ سے اونٹنی کا سو داعمدہ کھجور کے عوض کیا تھا اتنی کھجور ہمیں مل نہیں سکی.اس پر وہ بدو کہنے لگا اور دھو کے باز ! لوگ اسے گھورنے لگے اور کہنے لگے تمہارا برا ہو.کیا اللہ کے رسول دھو کہ کریں گے؟ نبی کریم نے فرمایا اس سے درگزر کرو کیونکہ صاحب حق کو بات کہنے کا بھی حق ہوتا ہے.پھر حضور نے اس بد و کو دوبارہ سمجھانا چاہا کہ دراصل اتنی کھجور گھر میں ملی نہیں اس نے پھر وہی گستاخی کی.آپ نے پھر در گزر کیا.دو تین مرتبہ ایسا ہونے کے بعد آپ نے محسوس کیا کہ وہ آپ کی بات سمجھ نہیں پارہا تو آپ نے اپنے صحابہ میں سے ایک شخص سے فرمایا تم خولہ بنت حکیم سے جا کر کہو کہ رسول اللہ کا پیغام ہے کہ اگر تمہارے پاس اعلی قسم کی کھجور کا ایک وسق ہے تو ہمیں ادھار دے دو ہم انشاء اللہ ادا کر دیں گے ان کا جواب آیا یا رسول اللہ میرے پاس کھجور موجود ہے آپ آدمی بھیجیں جو آ کر وصول کرلے.رسول کریم نے اس صحابی سے فرمایا کہ جاؤ اور اس بد وکو عمدہ طور پر کھجور کی دائیگی کروا دو.وہ صحابی اس کے ساتھ گئے اور اس سے نہایت احسن رنگ میں کھجور ماپ کر دلوائی اور اس کے بعد وہ بد و رسول کریم کے پاس سے گزرا.آپ اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے تو کہنے لگا.اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے.آپ نے صحابہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہیں جو مکمل اور بہتر ادائیگی کرتے ہیں.(مسند احمد )57 حضرت عبدالرحمن بن عوف بڑے کامیاب اور ماہر تاجر تھے ان سے تجارت میں کامیابی کا راز دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں تین چیزوں کا خاص خیال رکھتا ہوں ، اول میں کبھی کسی سودے میں ہونے والا منافع چھوڑتا نہیں ہوں دوسرے کوئی جانور مجھ سے طلب نہیں کیا گیا کہ میں نے اس کا سودا کرنے میں تاخیر کی ہو.اور تیسرے میں نے کبھی ادھار پر سودا نہیں کیا.کہتے ہیں ایک دفعہ انہوں نے ہزار اونٹنیاں فروخت کیں اور نفع میں صرف ان کی رسیاں بیچ رہیں.انہوں نے رسی ایک درہم میں فروخت کر کے ہزار درہم کمالئے اور ان جانوروں پر اس دن کے اخراجات سے ایک ہزار درہم بچا کر الگ منافع پایا.(غزالی) 58 رسول اللہ کے ساتھ تجارت کرنے والوں کی شہادت الغرض ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی عملے نے صدوق الامین تاجر کے ایسے شاندار اور خوبصورت نمونے
اسوۃ انسان کامل 194 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت دکھائے کہ دوست و دشمن آفرین کہہ کر اس پر گواہ بن گئے.حضرت خدیجہ نے جب اپنا مال تجارت محمد کے ذریعہ شام بھجوایا اور اپنے غلام میسرہ کو ساتھ کیا ، اس سفر میں بھی آپ نے اپنی امانت و دیانت کی وجہ سے بہت منافع کمایا.بصری میں خرید و فروخت کے دوران ایک یہودی نے ازراہ آزمائش اصرار کیا کہ آپ لات اور عزیٰ کی قسم کھا ئیں ، آپ نے فرمایا میں نے کبھی ان بتوں کی قسم نہیں کھائی.اور میں تو ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر دھیان بھی نہیں دیتا.بالآخر اس شخص نے آپ کی بات تسلیم کر لی.اور میسرہ سے کہا کہ خدا کی قسم ! یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہماری کتابوں میں ذکر ہے.( ابن سعد )59 خزیمہ حضرت خدیجہ کے سسرالی رشتہ داروں میں سے تھے.دعویٰ نبوت سے قبل جب رسول کریم تجارت کے لئے حضرت خدیجہ کا مال تجارت لے کر شام گئے.خزیمہ بھی حضور کے ساتھ تھے.حضور کے پاکیزہ اخلاق مشاہدہ کر کے انہوں نے بے اختیار یہ گواہی دی کہ:.”اے محمد میں آپ کے اندر عظیم الشان خصائل اور خوبیاں دیکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ وہی نبی ہیں جس نے تہامہ سے ظاہر ہونا تھا اور میں آپ پر ابھی ایمان لاتا ہوں.انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب مجھے آپ کے دعوی کی خبر ملی میں ضرور آپ کی خدمت میں حاضر ہونگا.مگر دعوئی کے بعد جلد اس وعدہ کی تکمیل نہ ہوسکی.فتح مکہ کے بعد آکر اسلام قبول کیا تو رسول اللہ نے فرمایا ” پہلے مہاجر کو خوش آمدید.(ابن حجر (60 رسول اللہ سودے میں وعدہ کی پابندی کا بہت خیال رکھتے تھے.حضرت عبد اللہ بن ابی الحمساء کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ بعثت سے قبل نبی کریم سے ایک سودا کیا.ان کا کچھ حصہ میرے ذمہ واجب الادا رہ گیا.میں نے آپ سے طے کیا کہ فلاں وقت اس جگہ آکر میں آپ کو ادائیگی کروں گا مگر میں واپس جا کر وعدہ بھول گیا.تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقررہ جگہ حاضر ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریم اس جگہ موجود تھے.آپ فرمانے لگے نوجوان ! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا.میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کرتا رہا ہوں.(ابوداؤد (61 حضرت سائب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان اور زبیر مجھے اپنے ساتھ لے کر آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میری تعریف کرنے لگے.رسول کریم نے انہیں فرمایا! آپ لوگ بے شک مجھے اس کے بارے میں زیادہ نہ بتاؤ.یہ جاہلیت کے زمانے میں میرا ساتھی رہا ہے.سائب کہنے لگے ہاں یا رسول اللہ ! آپ کتنے اچھے ساتھی تھے.آپ نے فرمایا ہاں اے سائب دیکھنا جاہلیت میں تمہارے اخلاق بہت نیک تھے.اسلام میں بھی وہ قائم رکھنا.مثلاً مہمان نوازی یتیم کی عزت اور ہمسائے سے نیک سلوک وغیرہ پر خاص توجہ دینا.دوسری روایت میں ہے کہ سائب آنحضرت کے ساتھ تجارت میں شریک رہے.فتح مکہ کے دن سائب نے یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے بھی جھگڑا نہیں کیا.(مسند احمد (62
اسوۃ انسان کامل 195 حواله جات آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت 1 2 ابن ماجه (12) کتاب التجارة باب 35 ابن ماجه (12) کتاب التجارة باب 58 3 ابن ماجه (12) كتاب التجارة باب 58 4 LO بخاری( 39) كتاب البيوع باب 2 ، نسائی کتاب البیوع باب اجتناب الشبهات في الكسب ابو داؤد ( 24 كتاب الاجارة باب 15 5 6 7 مسند احمد جلد 5 صفحه 27 بخاری (84) کتاب الرقاق باب 10 8 مسلم (56) كتاب الزهد باب 1 9 مجمع الزوائد جلد 4 صفحه 101 ، بخارى ( 39 ) كتاب البيوع باب 53,84,15 10 الاصابه جلد 3 صفحه 86 11 الاصابه جلد 2 صفحه 547 12 طبقات الكبرى جلد 1 ص 156,131 13 ابو داؤد (23) كتاب البيوع باب 1 14 كتاب الدعاء لطبرانی جلد 2 ص 1168 15 ابن ماجه (12) كتاب التجارات باب 1 ، ترمذی (12) كتاب البيوع باب4 16 ابن ماجه (12) کتاب التجارات باب 3 17 مجمع الزوائد جلد 4 ص107,35 18 ابن ماجه (12) کتاب التجارات باب 25 19 بخاری(39) كتاب البيوع باب 1 20 بخاری (39) كتاب البيوع باب 28 21 مجمع الزوائد جلد4ص107 مجمع ا الزوائد جلد 4 ص1132 22
اسوۃ انسان کامل 196 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت 23 بخاری (65) کتاب المناقب باب 24 24 ترمذی (12) كتاب البيوع باب 34 25 مسند احمد جلد 2ص306 26 بخاری (44) كتاب الكفالة باب 1 27 مسند احمد جلد 2 ص361 28 بخاری (39) كتاب البيوع باب 19، ابو داؤد ( 23) كتاب البيوع باب 8 29 بخاری (39) كتاب البيوع باب 19 30 بخاری( 39) كتاب البيوع باب 26 31 ابو داؤد (23) كتاب البيوع باب 7 32 بخاری (39) کتاب البيوع باب 18،16 33 مجمع الزوائد جلد 4 ص 128 34 مجمع الزوائد جلد 4 ص 106 35 ترمذی (12) كتاب البيوع باب 6 36 نسائى كتاب البيوع باب الاستقراض 37 ابو داؤد ( 24 كتاب الاجارة باب 32 38 ترمذی ( 12 ) كتاب البيوع باب 43 39 بخاری ( 39 ) كتاب البيوع باب 64 40 ابو داؤد (24) كتاب الاجارة باب40 41 مسلم (2 کتاب الایمان باب 45 ، ترمذی (12) كتاب البيوع باب 74 42 بخاری (39) كتاب البيوع باب 49 43 بخاری (39) كتاب البيوع باب71 44 ابو داؤد ( 23 ) كتاب البيوع باب 25 45 ترمذی (12) كتاب البيوع باب 18،17 46 مجمع الزوائد جلد4ص 160 47 ابو داؤد ( 24 ) كتاب الاجارة باب 30 48 مجمع الزوائد جلد 4 ص 164 49 نسائی کتاب البیوع باب بيع التمر بالتمر متفاضلاً
اسوۃ انسان کامل 197 آنحضرت کا حسن معاملہ اور بہترین اسلوب تجارت 50 نسائی کتاب البیوع باب بيع الفضة بالذهب نسيئة 51 نسائی کتاب البیوع باب استسلاف الحيوان 52 ابو داؤد (23) كتاب البيوع باب 9 53 نسائی كتاب البيوع باب بيع ا الفضة بالذهب وبيع الذهب بالفضة 54 بخاری (39) كتاب البيوع باب 14 55 نسائى كتاب البيوع باب التسهيل في ترك الاشهاد 56 ابن ماجه (12) كتاب التجارات باب 18 57 مسند احمد جلد2 ص 431 58 احياء علوم الدين للغزالي جلد 2 ص 80 59 طبقات الكبرى جلد 1 ص 156,130 60 الاصابه جلد2ص 281 61 ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 90 62 مسند احمد جلد 3 ص 425
اسوہ انسان کامل 198 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ صلہ رحمی یعنی خونی رشتہ داروں سے حسن سلوک بھی ایک اعلیٰ درجہ کا خلق ہے.کہتے ہیں اول خویش بعد درویش.اگر قریبی عزیزوں سے ہی انسان کا احسان کا تعلق نہیں تو ایسے شخص سے عام بنی نوع انسان سے حسن سلوک کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے جس کی تعلیم قرآن شریف نے دی ہے کہ اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَائِ ذِي الْقُرْبى (النحل: 91) یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دیتا ہے.دوسری جگہ صلہ رحمی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے انتہائی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کے نام کے ساتھ تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رحمی رشتوں کے حق بھی ادا کرو.“ (سورۃ النساء:2) رسول کریم کی بعثت کا ایک بڑا مقصد رشتوں کے تقدس اور انسانیت کے حقوق کا قیام بھی تھا.حضرت عمر و بن عنبسہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی خدمت میں ابتدائی زمانہ اسلام میں حاضر ہوا.جب آپ مخفی طور اسلام کا پیغام پہنچار ہے تھے.میں نے پوچھا آپ کا کیا دعوئی ہے.آپ نے فرمایا میں نبی ہوں.میں نے کہا نبی کیا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا اللہ کا رسول ہوتا ہے میں نے عرض کیا کسی تعلیم کے ساتھ آپ کو بھیجا گیا ہے؟ آپ نے فرمایا اس تعلیم کے ساتھ کہ اللہ کی عبادت ہو اور رحمی رشتوں کو نیکی اور احسان کے ساتھ استوار کیا جائے.(حاکم) 1 رحمی رشتہ داروں میں سے قرآن شریف میں سب سے مقدم والدین کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم ہے.پھر دیگر عزیز واقارب کے ساتھ درجہ بدرجہ حسن سلوک کا حکم ہے.جن میں اولاد، بیوی، بھائی، بہن ، چا، پھوپھی ، ماموں، خالہ وغیرہ شامل ہیں.ظاہر ہے وہ رحمی رشتہ دار جو احکام ورثہ میں اللہ تعالیٰ نے مقدم رکھے ہیں.حسن معاملہ میں بھی وہ دوسروں کی نسبت اولیٰ اور مقدم ہیں.نبی کریم نے بھی صلہ رحمی کی بہت تاکید کی.آپ نے فرمایا کہ رحم کا لفظ جس سے رحمی رشتے وجود میں آتے ہیں دراصل اللہ کی صفت رحمان“ سے نکلا ہے.اگر کوئی شخص ان رشتوں کا خیال نہیں رکھتا اور قطع رحمی کا مرتکب ہوتا ہے تو رحمان خدا اس سے اپنا تعلق کاٹ لیتا ہے، جو ان رشتوں کے حق ادا کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے اپنا تعلق جوڑتا ا ہے.(بخاری)2 اس ارشاد نبوی میں یہ خوبصورت پیغام مضمر ہے کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھنے والوں کے حق میں خدا کی صفت رحمانیت
اسوہ انسان کامل 199 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ (بن مانگے عطا کرنا ) پوری شان سے جلوہ گر ہوتی ہے.اس لئے فرمایا کہ صلہ رحمی کرنے والوں کے مال اور عمر میں برکت عطا کی جاتی ہے.نیز فرمایا کہ رحمی رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا.“ ( بخاری )3 نبی کریم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا تیری ماں ،اس نے پھر یہی سوال دو ہرایا آپ نے فرمایا تیری ماں تیسری مرتبہ بھی آپ نے اسے یہی جواب دیا چوتھی مرتبہ اس کے سوال پر فرمایا تیرا باپ.( بخاری )4 والدین کا تو اتنا حق ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان سے حسن سلوک کا حکم ہے.رسول کریم سے کسی نے پوچھا کہ والدین کی موت کے بعد بھی ان کی صلہ رحمی کا کوئی حق باقی رہ جاتا ہے.آپ نے فرمایا ”ہاں والدین کے لئے دعائیں کرنا.ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتے رہنا، ان کے عہد پورے کرنا ، ان کے دوستوں کی عزت کرنا ، اور ان کے رحمی رشتہ داروں سے حسن سلوک کرنا جن کے ساتھ صرف والدین کی طرف سے کوئی رشتہ ہو.“ ( ابوداؤد ) 5 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم جب کوئی جانور ذبح کرواتے تو فرماتے تھے خدیجہ کی سہیلیوں کو بھی بھجواؤ.ایک دفعہ میں نے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا کہ مجھے خدیجہ کی محبت عطا کی گئی ہے.( مسلم ) 6 مستحق رحمی رشتہ داروں کو صدقہ دینا زیادہ اجر کا موجب ہے.رسول کریم نے فرمایا کہ مسکین کو صدقہ دینا ایک نیکی ہے اور مستحق رحمی رشتہ دار کو صدقہ دینا دوہری نیکی ہے.“ ( ترمذی )7 ایک دفعہ ام المؤمنین حضرت میمونہ نے ایک لونڈی آزاد کی.رسول کریم کو جب انہوں نے اس بارہ میں بتایا تو آپ نے فر مایا اگر تم اپنے نہال کو ( جو مستحق تھے ) یہ لونڈی دے دیتیں تو تیرے لئے بہت زیادہ اجر کا موجب ہوتا.(ابوداؤد ) 8 ایک شخص نے نبی کریم سے عرض کیا کہ مجھ سے ایک بڑا گناہ سرزد ہوا ہے.کیا میری توبہ کی بھی کوئی صورت ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا ” کیا تمہاری ماں زندہ ہے اس نے کہا نہیں فرمایا ” تمہاری خالہ ہے؟ عرض کیا جی ہاں.فرمایا پھر اس سے حسن سلوک کرو.یہی عمل تمہارے لئے گناہوں سے معافی کا ذریعہ بن جائے گا.“ (ترندی) 9 رسول کریم نے صلہ رحمی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ” صلہ رحمی یہ نہیں کہ رشتہ داروں کے حسن سلوک کا بدلہ دیا جائے.اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ توڑنے والے سے جوڑنے کی کوشش کرے.( بخاری )10 ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے کچھ رشتہ دار ہیں.میں ان سے تعلق جوڑتا ہوں وہ توڑتے ہیں.میں احسان کرتا ہوں وہ بدسلوکی کرتے ہیں.میرے نرمی اور حلم کے سلوک کا جواب وہ زیادتی اور جہالت سے دیتے ہیں.نبی کریم نے فرمایا اگر وہ ایسا ہی کرتے ہیں جیسا تم نے بیان کیا تو تم گویا ان کے منہ پر خاک ڈال رہے ہو یعنی ان پر احسان کر کے انہیں شرمسار کر رہے ہو.) اور اللہ کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار فرشتہ اس
اسوہ انسان کامل 200 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ وقت تک مقر ر ر ہے گا جب تک تم مشرکہ اپنے حسن سلوک کے اس نمونہ پر قائم رہو گے.(احمد ) 11 حضرت اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ میری مشرکہ والدہ میرے لئے اداس ہو کر محبت کے جذبہ سے ملنے مدینہ آئیں.میں نے نبی کریم سے پوچھا کہ کیا میں ان کے مشرک ہونے کے باوجود ان سے حسن سلوک کروں.نبی کریم نے فرمایا کیوں نہیں آخر وہ تمہاری ماں ہے.ضرور ان سے حسن سلوک سے پیش آؤ.“ ( بخاری )12 صلہ رحمی میں رسول کریم کا اپنا نمونہ یہی تھا.چنانچہ حضرت خدیجہ نے پہلی وحی کے موقع پر رسول کریم کے حسن سلوک کے متعلق یہ گواہی دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز ضائع نہیں کر دیگا.آپ تو صلہ رحمی کرتے اور بوجھ اٹھاتے ہیں.(بخاری) 13 ایک شخص رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کی خواہش رکھتا ہوں لیکن اس کی توفیق نہیں.آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ اس نے عرض کیا والدہ ہے.رسول اللہ نے فرما یا والدہ سے حسن سلوک کرو اگر تم یہ کر لوتو حج عمرہ اور جہاد کرنے والے ٹھہرو گے (اور اس کا ثواب پاؤ گے ) اور اگر والدہ تم سے راضی ہے تو اللہ کا تقویٰ اختیار کر واور اس سے حسن سلوک کرو.( ھیثمی )14 رسول کریم کے حقیقی والدین تو بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے.بعد میں ان کے لئے محبت اور دعا کا جوش دل میں موجود رہا.آپ بطور خاص اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کے لئے ابواء تشریف لے گئے اور وہاں جا کر ان کی یاد میں آپ روئے اور اتنا روئے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی رُلا دیا.(مسلم ) 15 رضاعی رشتوں کا بھی نبی کریم نے ہمیشہ احترام کیا.ابو الفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو جنگ حنین سے واپسی پر بھر انہ میں گوشت تقسیم کرتے دیکھا میں اس وقت نو جوان لڑکا تھا.ایک عورت آئی رسول اللہ نے اسے دیکھا تو اس کے لئے اپنی چادر بچھادی.وہ اس پر بیٹھ گئی میں نے پوچھا یہ کون ہے تو لوگوں نے بتایا کہ رسول اللہ کی رضاعی والدہ ہیں.(ابوداؤد )16 ابولہب کی لونڈی ثویبہ نے رسول کریم کو دودھ پلایا تھا.آنحضور آپنی اس رضاعی والدہ سے صلہ رحمی کی خاطر اسے پوشاک بھیجوایا کرتے اور اس کی وفات کے بعد بھی اس کے اقارب کا حال پچھواتے.مسطح بن اثاثہ حضرت ابوبکر کا بھانجا تھا.وہ بھی غلط نہی میں حضرت عائشہ پر الزام لگانے والوں میں شامل ہو گیا.حضرت ابو بکر نے اس کا امدادی وظیفہ روک دیا، جس پر قرآن کریم میں سورہ نور کی آیت : 23 اتری کہ تم میں سے اہل فضل اور وسعت رکھنے والوں کو ہرگز فقسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ رشتہ داروں کو کچھ نہیں دیں گے بلکہ انہیں عفو اور در گذر سے کام لینا چاہئے.“ ( بخاری ) 17 دعوی نبوت کرنے پر رسول کریم کے اکثر حجمی رشتہ داروں نے آپ کی مخالفت کی ،مگر آپ پھر بھی ان کا خیال رکھتے
201 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ اسوہ انسان کامل اور فرماتے تھے کہ بے شک قریش کی فلاں شاخ کے لوگ میرے دوست نہیں رہے، دشمن ہو گئے ہیں مگر آخر میرا اُن سے ایک خونی رشتہ ہے، میں اس رحمی تعلق کے حقوق بہر حال ادا کرتا رہوں گا.( بخاری ) 18 چنانچہ جب بھی اہل مکہ کو رسول اللہ کی مدد کی ضرورت ہوئی.آپ نے ان سے احسان کا سلوک فر مایا.مکہ میں قحط پڑا اور وہ رحمی رشتہ کا واسطہ لے کر آئے تو آپ نے نہ صرف بارش کے لئے دعا کی جس سے قحط دور ہو گیا.( بخاری )19 بلکہ مدینہ سے فوری امداد بھی بھجوائی.فتح مکہ کے سفر میں جمعہ مقام پر رسول کریم کا چا (ابوسفیان ) ابن حارث عفو کا طالب ہو کر آیا.یہ حضور کے بچپن کا ہم عمر ساتھی تھا مگر دعوی نبوت کے بعد آپ کا سخت دشمن ہو گیا.آپ کو بہت اذیتیں دیں اور کہا کہ میں تو اس وقت ایمان لاؤں گا جب میرے سامنے سیڑھی لگا کر آسمان پر جاؤ اور فرشتوں کے جلوہ میں کوئی صحیفہ اتار لا ؤ جو اس پر گواہ ہوں.اسی پر بس نہیں کی یہ شخص آنحضور کے خلاف ہیں برس تک گندے اشعار بھی کہتا رہا.سفر فتح مکہ میں حضرت ام سلمہ نے رسول اکرم کی خدمت میں ان کی معافی کی سفارش کی.پہلے تو حضور نے اعراض کیا مگر جب ابن الحارث کا یہ پیغام پہنچا کہ معافی نہ ملنے کی صورت میں وہ بھوکا پیاسا رہ کر اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالے گا تو رسول کریم کا دل بھر آیا.آپ نے اُسے ملاقات کی اجازت دی اور معاف فرما دیا.اس موقع پر ابوسفیان بن حارث نے کچھ اشعار کہے جن میں ایک شعر یہ بھی تھا کہ هَدَانِي هَادٍ غَيْرُ نَفْسِي وَنَالَنِي مَعَ اللَّهِ مَنْ طَرَدْتُ كُلَّ مُطَرَّدٍ یعنی اللہ نے مجھے اس پاک وجود کے ذریعہ ہدایت نصیب فرمائی جسے میں نے دھتکار کر رد کر دیا تھا اور دشمنی میں اس کا پیچھا کیا تھا.رسول کریم نے اس کے سینے پر ہاتھ مارا اور بڑے درد سے فرمایا ” تم نے ہی مجھے دھتکارا تھا نا! اور بچپن کی دوستی کا بھی خیال نہیں کیا تھا.(ابن ہشام 20 یہ ابوسفیان بن حارث تو رسول کریم کے چچا تھے.سردار مکہ ابوسفیان بن حرب سے تو دور کا رشتہ تھا ، جس کا نسب چوتھی پشت میں جا کر رسول اللہ سے ملتا ہے، وہ ساری عمر رسول اللہ سے جنگیں کرتا رہا.مگر آپ نے اس سے بھی حسن سلوک کیا.حضرت عباس ابوسفیان کو فتح مکہ کے موقع پر پکڑ لائے تو حضرت عمر نے ان کے قتل کی اجازت چاہی.حضرت عباس نے عرض کیا میں نے اسے پناہ دی ہے.حضور نے فرمایا عباس اسے ساتھ لے جاؤ صبح لے آنا.صبح حضور نے ابوسفیان سے پوچھا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم لا اله الا اللہ کہو.ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ کتنے کریم اور صلہ رحمی کرتے ہیں.اگر کوئی اور معبود ہوتا تو آج ہمارے کام نہ آتا.پھر کہا البتہ رسالت کے بارے میں کچھ شبہ ہے مگر رسول اللہ نے نہ صرف ابوسفیان
اسوہ انسان کامل 202 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ کی معافی کا اعلان کیا بلکہ اس کے گھر میں داخل ہو جانے والوں کیلئے بھی معافی کا اعلان عام کروا دیا.مکہ کے دوسرے سردار عکرمہ بن ابی جہل کی بیوی ام حکیم مسلمان ہوگئی.خود عکرمہ تو بھاگ گیا لیکن اس کی بیوی رسول اللہ سے پروانہ امان لے کر عکرمہ کو واپس لائی.عکرمہ نے حضور کے دربار میں حاضر ہو کر تصدیق چاہی اور جب رسول اللہ نے فرمایا کہ ہاں میں نے تمہیں اپنے دین پر رہتے ہوئے امان دی ہے تو عکرمہ بے اختیار کہ اٹھا کہ یارسول اللہ ! آپ کتنے کریم اور کتنے صلہ رحمی کرنے والے ہیں.(الحلبیہ ( 21 اہل عرب بھی رسول اللہ کی وفا اور حسن معاشرت کے قائل تھے.جنگ حنین میں ہوا زن قبیلہ کے لوگ قید ہوئے تو ان کا وفد حضور کی خدمت میں قیدی چھڑوانے کے لئے حاضر ہوا.ان کے نمائندے نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ نے بنو ہوازن میں بچپن میں رضاعت کا زمانہ گزارا ہے.ان قیدیوں میں کئی آپ کی رضاعی پھوپھیاں خالائیں اور وہ بیبیاں ہیں جنہوں نے آپ کو کھلایا اور آپ کی کفالت کی ہے.آپ تو سب سے بہترین کفالت کرنے والے ہیں.رسول کریم نے ان سے کمال وفا اور احسان کا سلوک کرتے ہوئے فرمایا میں تمہارے تمام وہ قیدی آزاد کرتا ہوں جو میرے یا بنی عبدالمطلب کے حصے میں آئے ہیں.(ابن ہشام 22 اس کے بعد آپ نے صحابہ سے مشورہ اور رضامندی کے بعد ہوازن کے باقی سب قیدی بھی آزاد کر دئے.یہ تھا رسول کریم کا صلہ رحمی میں شاندار نمونہ جس کے حق میں اپنوں اور پرایوں نے بھی گواہی دی........
اسوہ انسان کامل 203 1 مستدرك حاكم جلد 4 ص 165 2 بخاری(81) كتاب الادب باب 13 3 بخاری(81) كتاب الادب باب 11 حواله جات 4 بخاری(81) كتاب الادب باب2 5 ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 130 6 مسلم (45) کتاب فضائل الصحابة باب12 7 ترمذی(5) كتاب الزكاة باب 26 8 ابوداؤد (9) كتاب الزكاة باب 46 9 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 5 10 بخاری(81) كتاب الادب باب 15 11 مسند احمد جلد2 ص 300 مطبوعه مصر 12 بخاری(81) كتاب الادب باب7 13 بخاری(1) بدء الوحي باب 1 14 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 255 15 مسلم (12) كتاب الجنائز باب 36 16 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 130 17 بخاری (68) كتاب التفسير باب 238 18 بخاری(81) کتاب الادب باب 14 19 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الروم باب 266 20 السيرة النبوية لابن هشام جلد2ص 400 21 السيرة الحلبية جلد3 ص 290 بيروت 22 السيرة النبوية لابن هشام جلد 2 ص 437 صلہ رحمی میں رسول کریم کا شاندار نمونہ
اسوہ انسان کامل 204 رسول کریم کی ہمدردی خلق رسول کریم ع کی ہمدردی خلق قرآن شریف میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام نبیوں کا سردار اور آپ کی امت کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے.اس بلند مقام اور منصب کا سب سے بڑا تقاضا خدمت ہے.چنانچہ فرمایا كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ للنَّاسِ ( سورة آل عمران: 111) کہ اے مسلمانو! تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کیلئے پیدا کی گئی ہے.گویا خدمت خلق کے نتیجہ میں مسلمان واقعی طور پر اپنا بہترین ہونا ثابت کر سکتے ہیں تبھی تو رسول کریم نے فرمایا کہ سید الْقَوْمِ خَادِمُهُمُ کہ قوم کا سرداران کا خادم ہوتا ہے.اور عمر بھر اس اصول کی ایسی لاج رکھی کہ بنی نوع کی خدمت کر کے کل عالم کا سردار ہونا ثابت کر دکھایا.آنحضور نے فرمایا ہے کہ دین تو خیر خواہی کا نام ہے.آپ سے پوچھا گیا رکس چیز کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا اللہ، اس کی کتاب ، اس کے رسول ، مسلمان ائمہ اور ان کے عوام الناس کی خیر خواہی.(مسلم 1) آپ نے اپنی جامع خوبصورت تعلیم کے ذریعہ بنی نوع انسان کی سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ ہر انسان کی جان، مال اور عزت کی حرمت قائم فرما دی.( بخاری )2 آپ فرماتے تھے مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ اورسلامت رہیں.( بخاری (3) ایک دوسری روایت میں ہے مومن وہ ہے جس سے دوسرے تمام انسان امن میں رہیں.( احمد ) 4 حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم کی خدمت میں عرض کیا کہ کون لوگ اللہ کو سب سے پیارے ہیں؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ محبوب ہیں؟ رسول کریم نے فرمایا اللہ کو سب سے پیارے وہ لوگ ہیں جو دوسروں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اللہ کو سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ انسان اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرے یا اس کی تکلیف دور کرے یا اس کا قرض ادا کر دے یا اس کی بھوک دور کرے.پھر فرمایا ”اگر میں خود ایک مسلمان بھائی کے ساتھ مل کر اس کی ضرورت پوری کروں تو یہ بات مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس بات کے کہ میں مدینہ کی اس مسجد میں ایک ماہ تک اعتکاف کروں اور جو شخص اپنے غصہ کو روکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرتا ہے اور جو شخص اپنے غصہ کو دبا لیتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہتا تو وہ اپنی من مانی کر سکتا تھا.اللہ اس شخص کا دل قیامت کے دن اُمید سے بھر دے گا اور جو شخص اپنے بھائی کے ساتھ ضرورت پوری کرنے کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کا کام کر کے دم لیتا ہے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسے ثابت قدم رکھے گا.جس دن کہ تمام قدم ڈگمگا رہے
اسوہ انسان کامل ہوں گے.(طبرانی)5 205 رسول کریم کی ہمدردی خلق عبد اللہ بن عباس کی روایت میں ہے کہ فرائض کے بعد سب سے پسندیدہ عمل ایک مسلمان بھائی کو خوش کرنا ہے.اسی طرح حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ”جو شخص مسلمان بھائی سے اس لئے ملتا ہے کہ وہ اسے خوش کرے تو اللہ قیامت کے دن اسے خوش کرے گا.‘ (مندری) 6 آپ ہمیشہ کمزوروں اور حاجت مندوں کے کام آتے اور فرماتے تھے کہ ” جب بندہ اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتا ہے اور جو کسی مسلمان بھائی کی کوئی تکلیف دور کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے روز کی تکلیف دور کرے گا.اور جو شخص کسی مسلمان کی ستر پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی ستر پوشی فرمائے گا.( بخاری )7 رسول کریم آغاز سے ہی مخلوق خدا سے محبت رکھتے اور لوگوں کی ضرورتیں پوری کر کے خوشی محسوس کرتے تھے.مکی دور میں بعثت سے قبل آپ معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا.آپ فرمایا کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور آج بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دیکر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور مدد کروں گا.( ابن ھشام ) 8 حضرت خدیجہ نے پہلی وحی پر رسول کریم کے اخلاق پر جو گواہی دی وہ آپ کی ہمدردی خلق سے عبارت ہے.انہوں نے عرض کیا تھا وَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ( بخاری ) خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا آپ تو رشتہ داروں کے حق ادا کرتے ہیں، غریبوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں ، دنیا سے ناپید اخلاق اور نیکیاں قائم کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے اور حقیقی مصائب میں مدد کرتے ہیں.ابو جہل کے خلاف مظلوم کی امداد رسول کریم جابر دشمن کے مقابل پر بھی مظلوم کی مدد کے لئے کھڑے ہو جاتے تھے.ایک اجنبی الا راشی سے ابو جہل نے اونٹ خریدا اور قیمت کی ادائیگی میں پس و پیش کرنے لگا.اراشی قریش کے مجمع میں آکر مدد کا طالب ہوا اور کہا کہ میں اجنبی مسافر ہوں.کوئی ہے جو ابو جہل سے مجھے میرا حق دلائے ؟ وہ میرے مال پر قابض ہے.سردارانِ قریش نے ازراہ تمسخر رسول کریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شخص تمہیں ابو جہل سے حق دلا سکتا ہے.اراشی رسول اللہ کے پاس جا کر دعائیں دیتے ہوئے کہنے لگا کہ آپ ابو جہل کے خلاف میری مدد کریں.رسول کریم اس کے ساتھ چل پڑے.سردارانِ قریش نے اپنا ایک آدمی پیچھے بھجوایا تا کہ دیکھے ابو جہل کیا جواب دیتا ہے.رسول کریم نے اس کا دروازہ کھٹکھٹایا.اس نے پوچھا کون ہے؟ آپ نے فرمایا میں محمد ہوں.باہر آؤ.آپ کو دیکھ کر ابو جہل کا رنگ فق ہو گیا آپ
اسوہ انسان کامل 206 رسول کریم کی ہمدردی خلق نے فرمایا ! اس شخص کا حق اسے دیدو.ابو جہل نے کہا اچھا.آپ نے فرمایا ! میں یہاں سے واپس نہیں جاؤں گا جب تک اس کا حق ادا نہ ہو جائے.ابو جہل اندر گیا اور اس شخص کی رقم لا کر اسے دے دی.تب آپ واپس تشریف لائے.ادھر اراشی نے واپس آکر سردارانِ قریش کی مجلس میں کہا کہ اللہ محمد کو جزائے خیر دے اس نے مجھے میر امال دلوا دیا ہے.اتنے میں قریش کا بھجوایا ہوا آدمی بھی آگیا اور کہنے لگا آج میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے کہ ادھر محمد نے ابو جہل کو ا راشی کا حق دینے کو کہا اور ادھر اس نے فور ارقم لا کر ادا کر دی.تھوڑی دیر میں ابو جہل بھی آ گیا.سب اس سے پوچھنے لگے کہ تمہیں کیا ہو گیا تھا ؟ ابو جہل نے کہا کہ جونہی میں نے محمد کی آواز سنی ، مجھ پر سخت رعب طاری ہو گیا.جب باہر آیا تھا تو دیکھا کہ محمد کے سر کے پاس خونخوار اونٹ ہے.اگر میں انکار کرتا تو وہ اونٹ مجھے چیر پھاڑ کر رکھ دیتا.(ابن ہشام ) 10 امت کے لئے درد رسول کریم ﷺ کے دل میں اپنی امت کے لئے بہت درد تھا.حضرت عباس بن مرداس السلمی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں عرفات کی شام اپنی امت کے لئے بخشش کی دعا کی.آپ کو جواب ملا کہ میں نے تیری امت کو بخش دیا سوائے ظالم کے.ظالم سے مظلوم کا بدلہ لیا جائیگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا اے میرے رب! اگر تو چاہے تو ( یہ بھی تو کر سکتا ہے کہ ) مظلوم کو (مظلومیت کے بدلہ میں ) جنت دیدے.ظالم کو (اس کا ظلم ) بخش دے.اس شام تو آپ کو اس دعا کا کوئی جواب نہ ملا مگر مزدلفہ میں صبح کے وقت آپ نے پھر یہ دعا کی تو آپ کی دعا شرف قبول پاگئی.اس پر رسول اللہ (خوش ہو کر مسکرانے لگے.حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے عرض کیا ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ کس بات پر مسکرائے ہیں؟ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ خوش و خرم ) ہنستا مسکراتا ہی رکھے.آپ نے فرمایا کہ اللہ کے دشمن ابلیس کو جب یہ پتہ چلا کہ اللہ نے میری دعاسن لی ہے اور میری امت کو بخش دیا ہے تو وہ مٹی لے کر اپنے سر میں ڈالنے لگا اور اپنی ہلاکت و تباہی کی دعائیں کرنے لگا.اس کی گھبراہٹ کا یہ عالم دیکھ کر مجھ سے جنسی ضبط نہ ہوسکی.(ابن ماجہ ) 11 رسول کریم کو ہمیشہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی اپنی امت کی تکلیف کا احساس رہتا تھا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم میرے پاس سے گئے تو مزاج خوشگوار تھا، واپس آئے تو غمگین تھے.میں نے کہا اے اللہ کے رسول، آپ میرے پاس سے گئے تو ہشاش بشاش تھے واپس آئے تو غمگین ہیں.آپ نے فرمایا میں کعبہ کے اندر گیا تھا.مگر اب افسوس ہو رہا ہے کہ کاش ایسا نہ کیا ہوتا کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ میں نے اپنے بعد اپنی امت کو (اس فعل کے ذریعہ سے ) مشقت میں نہ ڈال دیا ہو.یعنی اگر سب امتی بھی کعبہ کے اندر جانے کی خواہش کریں گے تو اُن کی کثرت کے باعث یہ خواہش پوری ہونی مشکل ہو جائے گی.(ابن ماجہ )12 اسی طرح رسول کریم فرماتے تھے کہ اگر امت پر گراں خیال نہ کرتا تو انہیں نماز عشاء تاخیر سے پڑھنے کا حکم
اسوہ انسان کامل 207 رسول کریم کی ہمدردی خلق دیتا.( بخاری 13) ایک اور موقع پر فرمایا کہ اگر امت پر گراں خیال نہ کرتا تو انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا.(مسلم 14 ) آپ فرماتے تھے کہ میں نماز کے دوران بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ اس کی ماں کے لئے باعث تکلیف و پریشانی نہ ہو.( بخاری ) 15 رسول کریم کو امت کے غربا کا اتنا خیال تھا کہ قربانی کی عید پر دوموٹے تازے مینڈھے خریدتے.ایک اپنی اُمت کے ہر اس فرد کی طرف سے ذبح کرتے جو تو حید اور رسالت کی گواہی دیتا ہے، دوسرا مینڈھا اپنے اہل خاندان کی طرف سے ذبح فرماتے.( بخاری ) 16 عام انسانوں سے ہمدردی آنحضرت ﷺ کسی مرد یا خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.نادار و بے کس خواہ کسی ملک اور قوم کا ہو اس کی مظلومیت کا حال سن کر آپ بے چین ہو جاتے تھے.مہاجرین حبشہ جب مدینہ واپس لوٹے تو نبی کریم نے ان سے دریافت فرمایا کہ ملک حبشہ میں تم نے کیا کچھ دیکھا.وہاں کی کوئی دلچسپ بات تو سناؤ.ایک نوجوان نے یہ قصہ سنایا کہ ایک دفعہ ہم حبشہ میں بیٹھے تھے.ایک بڑھیا کا ہمارے پاس سے گزر ہوا.اس کے سر پر پانی کا ایک مٹکا تھا.وہ ایک بچے کے پاس سے گزری تو اس نے اسے دھکا دیا اور وہ گھٹنوں کے بل آگری.مٹکا ٹوٹ گیا.بڑھیا اُٹھی اور اُس بچے کو کہنے لگی اے دھو کے باز بد بخت! تجھے جلد اپنے کئے کا انجام معلوم ہو جائے گا جب اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوگا اور فیصلہ کے دن پہلوں اور پچھلوں سب کو جمع کرے گا.ہاتھ اور پاؤں جو کچھ کرتے تھے خود گواہی دیں گے.تب تمہیں میرے اور اپنے معاملے کا صحیح علم ہوگا.رسول اللہ نے جوشِ ہمدردی سے فرمایا ” اس بڑھیا نے سچ کہا اللہ تعالیٰ اس قوم کو کیسے برکت بخشے اور پاک کرے گا جس کے کمزوروں کو طاقتوروں سے اُن کے حق دلائے نہیں جاتے.“ ( ابن ماجہ ) 17 کسی بھی سائل یا حاجت مند کے بارہ میں رسول کریم کی اصولی ہدایت تھی کہ میرے تک مستحقین کی سفارش پہنچا دیا کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا.باقی اللہ جو چاہے گا اپنے رسول کی زبان پر اس ضرورتمند کے بارہ میں فیصلہ فرمائے گا.(بخاری) 18 خدمت خلق کی تحریک رسول کریم ع غرباء کی مدد کے لئے تحرا تیکھے بھی کرتے اور فرماتے مستحق لوگوں کی ضروریات مجھ تک پہنچاتے رہا کرو.ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ ایک غریب آدمی مسجد میں آیا.رسول اللہ نے صدقہ کی تحریک فرمائی کہ لوگ کچھ کپڑے صدقہ کریں.لوگوں نے کپڑے پیش کر دیئے.حضور نے دو چادر میں اس غریب کو دے دیں.حسب ضرورت آپ نے پھر صدقہ کی تحریک فرمائی تو وہی غریب اٹھا اور دو میں سے ایک چادر صدقہ میں پیش کر دی.رسول اللہ نے
اسوہ انسان کامل 208 رسول کریم کی ہمدردی خلق اسے بآواز بلند فرمایا کہ اپنا کپڑا واپس لے لو.(ابوداؤد )19 رسول اللہ علیہ کے زمانے میں ایک شخص نے پھلوں کے کاروبار میں بہت نقصان اٹھایا.قرض بہت زیادہ ہو گیا.نبی کریم نے اُس کے لئے صدقہ کی تحریک فرمائی.لوگوں نے صدقہ دیا مگر جتنا قرض تھا اتنی رقم اکٹھی نہ ہو سکی.رسول اللہ ﷺ نے قرض خواہوں کو فرمایا کہ جو ملتا ہے لے لو، باقی چھوڑ دو اور معاف کردو.( احمد ) 20 حضرت معاویہ بن حکم کی ایک لونڈی تھی جو اُن کی بکریاں چراتی تھی.ایک دن بھیڑ یا اُس کے ریوڑ پر حملہ کر کے ایک بکری اُٹھا کر لے گیا.معاویہؓ نے غصے میں آکر اس لونڈی کو ایک تھپڑ رسید کر دیا.اور پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں اس واقعہ کا ذکر کیا.حضور پر یہ بات بہت گراں گزری.معاویہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں اُسے آزاد نہ کردوں؟ آپ نے فرمایا اُسے میرے پاس لے آؤ.جب وہ آئی تو آپ نے پوچھا اللہ کہاں ہے؟ اُس نے کہا آسمان.نے اللہ.رسول یہ مومن عورت میں.آپ نے فرمایا میں کون ہوں؟ اُس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں.رسول اللہ نے فرمایا یہ مومن عورت ہے اسے آزاد کر دو.(مسلم) 21 حضرت عبد اللہ بن عمر رسول اللہ کی خدمت خلق کے سلسلہ کا ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ کے پاس کہیں سے دس درہم آئے.اتنے میں کپڑے ایک سوداگر آ گیا ، رسول کریم نے اس سے چار درہم میں ایک قمیص خرید لیا.اسے پہن کر باہر تشریف لائے.ایک انصاری نے عرض کیا حضور آپ یہ مجھے عطا کر دیں اللہ آپ کو جنت کے لباس عطا فرمائے.آپ نے وہ قمیص اسے دیدیا.پھر آپ ایک دوکاندار کے پاس گئے اور اس سے چار درہم میں ایک اور تخمی خریدا.اب آپ کے پاس دو درہم بچ رہے تھے.راستہ میں آپ کو ایک لونڈی ملی جورور ہی تھی.آپ نے سبب پوچھا تو وہ بولی کہ گھر والوں نے مجھے دو درہم کا آٹا خرید نے بھیجا تھا وہ درہم گم ہو گئے ہیں.رسول کریم نے فوراً اپنے دو درہم اسکو دے دیئے.جانے لگے تو وہ پھر روپڑی.آپ نے پوچھا کہ اب کیوں روتی ہو؟ وہ کہنے لگی مجھے ڈر ہے کہ گھر والے مجھے تاخیر ہو جانے کے سبب ماریں گے.رسول کریم اس کے ساتھ ہو لئے اور اسکے مالکوں کو جا کر کہا کہ اس لونڈی کو ڈ رتھا کہ تم لوگ اسے مارو گے.اس کا مالک کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کے قدم رنجہ فرمانے کی وجہ سے میں آج اسے آزاد کرتا ہوں.رسول کریم نے اُسے نیک انجام کی بشارت دی اور فرمایا اللہ نے ہمارے دس درہموں میں کتنی برکت ڈالی کہ ایک قمیص انصاری کو ملا.ایک قمیص خدا کے نبی کو عطا ہوا اور ایک غلام بھی اس میں آزاد ہو گیا.میں اُس خدا کی تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ سب کچھ عطا فرمایا.(بیشمی ) 22 ایک غریب شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو مارا گیا.ماہ رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ازدواجی تعلق قائم کر بیٹھا ہوں.آپ نے فرمایا ایک گردن آزاد کر دو.کہنے لگا ، مجھے اس کی کہاں تو فیق ؟ فرمایا پھر مسلسل دو مہینے کے روزے رکھو.کہنے لگا مجھے اس کی بھی طاقت نہیں.آپ نے فرمایا اچھا تو پھر
اسوہ انسان کامل 209 رسول کریم کی ہمدردی خلق ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو.اس نے کہا یہ سب میری استطاعت سے باہر ہے.دریں اثناء کھجوروں کی ایک ٹوکری رسول اللہ کی خدمت میں پیش کی گئی.آپ نے اس مفلوک الحال سائل کو بلوایا اور وہ ٹوکری اس کے حوالے کر کے فرمایا یہ صدقہ کر دو.وہ بولامد ینہ کی بستی میں ہم سے غریب اور کون ہے جس پر یہ صدقہ کروں.رسول کریم اس کے اس جواب پر خوب مسکرائے اور فرمایا اچھا پھر یہ کھجور میں خود ہی لے لو.( بخاری ) 23 منذر بن جریر اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے پاس تھے ، دن کا پہلا پہر تھا.حضور کی خدمت میں ایک غریب قوم کے کچھ لوگ آئے جو ننگے پاؤں اور ننگے بدن تھے.انہوں نے تلوار میں سونتی ہوئی تھیں اور ان کا تعلق مضر قبیلہ سے تھا.ان کی بھوک اور افلاس کی حالت دیکھ کر رسول اللہ کا چہرہ متغیر ہو گیا.حضور گھر تشریف لے گئے پھر باہر آکر بلال سے کہا کہ ظہر کی اذان دو.آپ نے نماز کے بعد خطبہ ارشاد فرمایا اور ان کیلئے صدقہ کی تحریک فرمائی.لوگوں نے دینار، درھم ، کپڑے، جو اور کھجور وغیرہ صدقہ کیا یہاں تک کہ غلے کے دوڈ ھیر جمع ہو گئے.میں نے دیکھا رسول اللہ کا چہرہ خوشی سے ایسے دمک اُٹھا جیسے سونے کی ڈتی ہو.(احمد )24 نبی کریم ﷺ غرباء کی عزت نفس کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ ہر کمزور اور ضعیف آدمی جنتی ہے.(بخاری 25 ) آپ غرباء کو کھانے وغیرہ کی دعوتوں میں بلانے کی تحریک کرتے اور فرماتے کہ وہ دعوت بہت بری ہے جس میں صرف امراء کو بلایا جائے اور غرباء کو شامل نہ کیا جائے.“ (بخاری)26 خدمت خلق کے مواقع کی تلاش رسول کریم اللہ مخلوق خدا کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلام کے پاس سے گزرے جو ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا.حضور نے اسے فرمایا تم ایک طرف ہو جاؤ میں تمہیں کھال اُتارنے کا طریقہ بتا تا ہوں.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا باز جلد اور گوشت کے درمیان داخل کیا اور اسکو دبایا یہاں تک کہ باز و کندھے تک کھال کے اندر چلا گیا.پھر آپ نے اس غلام سے فرمایا کہ ”اے بچے! کھال اس طرح اتارتے ہیں.تم بھی ایسے ہی کرو.“ پھر آپ تشریف لے گئے اور لوگوں کو جا کر نماز پڑھائی اور دوبارہ وضوء نہیں کیا.( ماجہ ) 27 غرباء کے رشتہ ناطہ میں تعاون آنحضور یہ ہر طبقہ کے لوگوں کی ضرورت پر نظر ر کھتے اور حاجت روائی کی کوشش فرماتے.غرباء کی شادی وغیرہ کا بند و بست ذاتی دلچسپی سے کروادیتے تھے.حضرت ربیعہ الاسلمی کہتے ہیں میں رسول اللہ کی خدمت کیا کرتا تھا.ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ
210 اسوہ انسان کامل رسول کریم کی ہمدردی خلق ربیعہ اتم شادی کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول خدا کی قسم میرا شادی کا کوئی ارادہ نہیں.ایک تو مجھے بیوی کے نان و نفقہ کی توفیق نہیں اور دوسرے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اور مصروفیت مجھے آپ کی خدمت سے محروم کر دے.اس وقت آپ خاموش ہو گئے.میں آپ کی خدمت کی توفیق پا تا رہا.کچھ عرصہ بعد پھر فرمانے لگے ربیعہ ! شادی کیوں نہیں کر لیتے.میں نے وہی پہلے والا جواب دیا مگر اس وقت میں نے اپنے دل میں سوچا کہ حضور ﷺ تو دنیا اور آخرت کے مصالح مجھ سے بہتر جانتے ہیں اس لئے اب اگر آئندہ مجھ سے شادی کے بارہ میں پوچھا تو میں کہ دوں گا کہ حضور کا حکم سر آنکھوں پر.اگلی مرتبہ جب حضور نے شادی کے بارہ میں تحریک فرمائی تو میں نے کہ دیا کہ جیسے حضور کا حکم ہو.آپ نے فرمایا کہ تم انصار کے فلاں قبیلہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ رسول اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ اپنی فلاں لڑکی کی مجھ سے شادی کر دیں.میں نے ایسے ہی کیا.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ اور آپ کے نمائندے کو خوش آمدید! خدا کی قسم رسول خدا کا نمائندہ اپنی حاجت پوری کئے بغیر واپس نہیں لوٹے گا.انہوں نے میری شادی کر دی اور بڑی محبت سے پیش آئے.کوئی تصدیق وغیرہ طلب نہ کی کہ واقعی تمہیں رسول اللہ نے ہی بھیجا ہے.میں رسول کریم کی خدمت میں واپس لوٹا تو غمزدہ سا تھا.آپ نے فرمایا ربیعہ تمہیں کیا ہوا؟ عرض کیا یا رسول اللہ میں ایک معزز قوم کے پاس گیا.انہوں نے میری شادی کی.عزت افزائی اور محبت کا سلوک کیا اور مجھ سے کوئی ثبوت تک نہ مانگا.ادھر میرا حال یہ ہے کہ میرے پاس تو مہر ادا کرنے کو بھی پیسے نہیں.آنحضور نے بریدہ اسلم کو حکم دیا کہ حق مہر کے لئے گٹھلی برابر سونا جمع کرو.انہوں نے تعمیل ارشاد کی.آنحضور نے فرمایا اب ان لوگوں کے پاس جاؤ اور یہ مہر ادا کر دو.میں نے ایسا ہی کیا.انہوں نے بہت خوشی سے اسے قبول کیا اور کہا کہ یہ رقم بہت کافی ہے.میں پھر رسول اللہ کی خدمت میں پریشان ہو کر واپس لوٹا.آپ نے فرمایا ربیعہ اب کیوں پریشان ہو؟ میں نے عرض کیا کہ اس خاندان جیسے معزز لوگ میں نے نہیں دیکھے.میں نے انہیں جو مہر دیا انہوں نے خوشی سے قبول کیا اور مجھ سے احسان کا سلوک کیا مگر میرے پاس اب ولیمے کی توفیق نہیں.آپ نے پھر بریدہ سے فرمایا اس کے لئے بکری کا انتظام کرو.انہوں نے میرے لئے ایک بڑے صحت مند مینڈھے کا انتظام کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت عائشہ کے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ غلے کا ایک ٹوکرا دے دیں.میں نے حسب ارشاد جا کر عرض کر دیا.حضرت عائشہ نے فرمایا یہ ٹوکرا ہے جس میں ( نوصاع تقریباً 30 کلو ) جو ہیں.خدا کی قسم ! ہمارے گھر میں فی الوقت اس کے علاوہ اور کوئی غلہ نہیں، بس تم لے جاؤ.میں یہ لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت عائشہ نے جو کہا تھا وہ بھی عرض کر دیا.آپ نے فرمایا اب یہ غلہ اپنے سسرال لے جاؤ اور انہیں کہو کہ کل اس سے روٹی وغیرہ بنائیں.میں غلہ اور مینڈھا لیکر گیا اور میرے ساتھ اسلم قبیلے کے کچھ لوگ بھی تھے.ہم نے انہیں کھانا تیار کرنے کے لئے کہا.وہ کہنے لگے کہ روٹی ہم تیار کروا دیں گے، جانور آپ لوگ ذبح کر لیں.چنانچہ ہم نے گوشت تیار کر کے پکایا اور اگلی صبح میں نے گوشت روٹی سے ولیمہ کیا اور رسول اللہ کو بھی دعوت دی.اس کے کچھ عرصہ بعد آنحضور نے مجھے کچھ زمین عطا فرما دی.کچھ زمین حضرت ابوبکر صدیق نے دے دی پھر تو فراخی ہوگئی.(احمد) 28
211 رسول کریم کی ہمدردی خلق اسوہ انسان کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک غریب صحابی جلبیب کے رشتہ کا پیغام ایک انصاری لڑکی کے والد کو بھجوایا.وہ کہنے لگے میں اس کی ماں سے مشورہ کروں گا.انہوں نے جب بیوی سے مشورہ کیا تو وہ کہنے لگی کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم جلیبیب جیسے غریب آدمی کو رشتہ دے دیں حالانکہ اس سے پہلے ہم اس سے بہتر رشتے رڈ کر چکے ہیں.لڑکی نے پردے میں یہ بات سن لی.کہنے لگی کیا تم رسول اللہ کے حکم کو موڑو گے، اگر حضور اس رشتہ پر راضی ہیں تو میرا نکاح کر دو.چنانچہ اس کے والد نے جا کر رسول اللہ سے عرض کیا کہ بچی راضی ہے اس لئے ہم بھی راضی ہیں.یوں آپ نے جلبیب کی شادی کروادی.حضرت جلبیب بعد میں ایک دینی مہم میں شہید ہو گئے.( احمد ) 29 شادی پر تحفہ نبی کریم کبھی کسی سائل کو ر ڈ نہ فرماتے اور حسب توفیق و موقع جو میسر ہوتا عطا فرماتے.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں اپنی بیٹی کی شادی کر رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ مجھے کچھ عطا فرمائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سر دست تو میرے پاس کچھ نہیں البتہ کل ایک کشادہ منہ والی شیشی اور ایک درخت کی شاخ بھی لے آنا اور تمہارے ساتھ میری درمیان ملاقات کے وقت کی نشانی یہ ہوگی کہ جب میرے دروازے کا ایک کواڑ کھلا ہو اس وقت آ جاتا.اگلے روز وہ شخص یہ دونوں چیزیں لے کر آیا.نبی کریم اپنے بازؤں سے پسینہ جمع کر کے اس شیشی میں اکٹھا کرنے لگے یہاں تک کہ وہ شیشی بھر گئی.پھر آپ نے فرمایا کہ یہ لے جاؤ اور اپنی بیٹی سے کہنا کہ جب خوشبو لگانا چاہے تو یہ شاخ شیشی میں ڈال کر اس سے خوشبو استعمال کر لے.چنانچہ وہ گھرانہ جب یہ خوشبو استعمال کرتا تو اہل مدینہ اسے بہترین خوشبوقراردیتے.یہاں تک کہ اس گھرانے کا نام ہی ” بہترین خوشبو والوں کا گھر پڑ گیا.(حیثمی ) 30 عیادت مریض رسول کریم نے ایک دفعہ ایک حدیث قدسی بیان فرمائی جس سے خلق خدا سے ہمدردی کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے.فرمایا اللہ قیامت کے دن فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار تھا تو نے میری عیادت نہ کی.وہ کہے گا اے میرے رب میں کیسے تیری عیادت کرتا تو تو تمام جہانوں کا رب ہے.اللہ فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہ تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا اور تو نے اس کی عیادت نہ کی.کیا تجھے خبر نہیں کہ اگر تم اس کی عیادت کرتے تو مجھے اس کے پاس موجود پاتے.اے ابن آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا.وہ کہے گا اے میرے رب میں کیسے آپ کو کھانا کھلاتا اور تُو تورب العالمین ہے اللہ فرمائے گا کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا.اے ابن آدم میں نے تجھے سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ دیا.بندہ کہے گا میں تجھے کیسے پانی پلا تا حلانکہ تو رب العالمین ہے.اللہ فرمائے گا تجھ سے میرے ایک بندے نے پانی مانگا تھا تو نے اسے پانی نہ پلایا.اگر تو اسے پانی پلاتا تو اللہ کو وہاں موجود پاتا.(مسلم ) 31
اسوہ انسان کامل 212 33 رسول کریم کی ہمدردی خلق رسول کریم ﷺ اپنے بیمار صحابہ کی خود عیادت فرماتے تھے اور ان کے لئے دعا کے علاوہ بسا اوقات مناسب دوا بھی تجویز فرماتے تھے.(ابن ماجہ )32 آپ فرماتے تھے کہ ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے.آپ بعض بیماریوں کا علاج روحانی دعا وغیرہ سے فرماتے تھے.ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور نے ظہر کی نماز پڑھائی اور میری طرف توجہ فرمائی تو فرمایا کہ کیا تمہارے پیٹ میں درد ہے؟ عرض کیا جی ہاں.فرمایا نماز پڑھو.اس میں شفاء ہے.(ابن ماجہ ) 3 اسی طرح رسول کریم دم اور دعا سے بھی علاج فرماتے تھے.اپنی بیماری کے دنوں میں قرآن کی آخری دوسورتیں (معوذتین ) پڑھتے تھے.اس طرح فاتحہ کی دعا سے بھی بسا اوقات علاج فرمایا.( بخاری ) 34 رسول کریم ﷺ خدمت خلق کے کاموں میں اپنے اصحاب کا جائزہ لیتے رہتے تھے تاکہ اُن میں یہ جذبہ بڑھے.ایک روز آپ نے صحابہ سے پوچھا آج تم میں سے کسی نے روزہ رکھا.حضرت ابوبکر نے اثبات میں جواب دیا.آپ نے فرمایا آج تم میں سے مریض کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابو بکڑ نے عرض کیا جی.آپ نے فرمایا اپنے مسلمان بھائی کے جنازہ میں کسی نے شرکت کی؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ مجھے تو فیق ملی.رسول کریم نے پوچھا آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا.حضرت ابو بکر نے عرض کیا انہیں یہ سعادت بھی ملی.رسول کریم نے فرمایا یہ سب باتیں جس نے ایک دن میں جمع کر لیں وہ جنت میں داخل ہوا.“ ( مسلم ) 35 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کسی مریض کی عیادت کیلئے تشریف لے جاتے یا کوئی مریض آپ کے پاس لایا جاتا تو آپ یہ دعا پڑھتے " أَذْهِبِ البَأْسَ رَبَّ النَّاسِ اِشفِ وَأَنْتَ الشَّافِيِّ لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُكَ ، شِفَاءً كَامِلًا لَا يُغَادِرُ سَقَمًا - ترجمہ: اے لوگوں کے رب! بیماری دور فرما دے.تو ہی شفا عطا کرنے والا ہے.شفاء دے دے تیری شفاء کےسوا کوئی شفا نہیں.ایسی شفاء عطا کر جو کوئی بیماری باقی نہ چھوڑے.( بخاری )36 حضرت عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا کوئی بھی مسلمان کسی ایسے مریض کی عیادت کرے( جس کی موت کا وقت نہ آیا ہو ) وہ سات مرتبہ یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اسے شفا دے دے گا.أَسْأَلُ اللهَ العَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ.(ابوداؤد 37) سب سے بڑا اللہ ہے دعا کرتا ہوں جو عظیم عرش کا رب ہے کہ وہ آپ کو شفاء عطا کرے.رسول کریم اپنے صحابہ کو بھی تلقین فرماتے تھے کہ بیمار کی عیادت کو جایا کرو یہ ایک مسلمان بھائی کا حق ہے.آپ نے انصار کے سردار حضرت سعد بن عبادہ یا حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے بزرگ صحابہ کی ہی عیادت نہیں فرمائی بلکہ نوجوانوں ، بچوں ، بدوؤں کی عیادت کیلئے بھی بنفس نفیس تشریف لے جاتے رہے.چچا ابوطالب اور اپنے یہودی غلام
213 رسول کریم کی ہمدردی خلق اسوہ انسان کامل کی بھی عیادت فرمائی.حضرت جابر بن عبداللہ ایک نوجوان صحابی تھے جن کے والد اُحد میں شہید ہوگئے تھے.انہیں یہ بات ہمیشہ یادر ہی کہ ایک دفعہ وہ بیمار ہوئے.غشی کی حالت تھی.رسول اللہ حضرت ابوبکر اور عمر کے ساتھ پیدل ان کی عیادت کے لئے تشریف لائے تھے.( بخاری )38 رسول کریم بیمار کی تکلیف کا خاص خیال رکھتے اور علاج تجویز فرماتے تھے.حضرت کعب بن عجر ہمسفر حج میں آپ کے ساتھ شریک تھے.ان کے بال لمبے تھے اور سر میں جوئیں بہت پڑ گئی تھیں.حالت احرام میں سر بھی نہیں منڈواسکتے تھے.نبی کریم ان کے پاس سے گزرے تو ان کی تکلیف دیکھ کر فرمایا کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے اسی وقت حجام کو بلایا جس نے مجرہ کے سر کے بال مونڈ دیئے.پھر فرمایا’اب احرام میں بال مونڈوانے کا کفارہ ادا کر دو.( بخاری ) 39 رسول کریم شہد پسند کرتے اور بطور دوا بھی تجویز فرماتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے اپنے بھائی کے پیٹ کی کسی بیماری کا ذکر کیا.آپ نے فرمایا شہد پلاؤ.اس نے شہد پلایا اور واپس آکر بتایا کہ پیٹ تو مزید خراب ہو گیا ہے.آپ نے فرمایا اور شہد پلاؤ.اس نے پھر پلایا اور بتایا کہ تکلیف تو بڑھ گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ اور پلاؤ تمہارے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے ( اور خدا کا کلام سچا ہے کہ شہد میں شفاء ہے ).چنانچہ اس کے بعد اسی شہد سے اس کو افاقہ ہو گیا.( بخاری ) 40 رسول کریم ﷺ نے اونٹ کے دودھ سے بھی بعض بیماریوں استقاء وغیرہ کا علاج فرمایا.کلونجی کے بارہ میں فرمایا کہ ہر بیماری کا علاج اس میں ہے سوائے موت کے.( بخاری ) 41 اس طرح فرمایا ہر روز صبح سات کھجور میں ناشتہ میں استعمال کرنے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے.( بخاری )42 رسول اللہ تیز بخار وغیرہ کا فوری علاج پانی سے بدن ٹھنڈا کرتے اور فرماتے تھے کہ ”بخار بھی جہنم کی آگ کی طرح ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کرو.( بخاری )43 ایک دفعہ رسول کریم ایک مریض کی عیادت کو تشریف لے گئے.اس سے پوچھا تمہیں کچھ کھانے کی خواہش ہے؟ اس نے کہا کہ گندم کی روٹی کو جی چاہتا ہے.آپ نے اسی وقت ارشاد فرمایا کہ جس کسی کے گھر گندم کی روٹی ہو وہ اپنے اس بیمار بھائی کے لئے بھیج دے.پھر حضور نے فرمایا جب تمہارا مریض کسی چیز کا تقاضا کرے تو وہ اسے کھلایا کرو.ایک اور مریض نے حضور ﷺ کے استفسار پر عرض کیا کہ مجھے دودھ شکر اور آٹے سے پکی ہوئی روٹی چاہئے.حضور نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے.چنانچہ اسے ایسی روٹی مہیا کی گئی.(ابن ماجہ ) 44 آنحضور مریض کی مناسب تیمارداری اور اُسے اچھی خوراک مہیا کرنے کی ہدایت فرماتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم بیماری کے دنوں میں ایک قسم کا دلیہ جس میں گوشت ملا ہوتا تھا کھانے کی ہدایت کرتے اور فرماتے
اسوہ انسان کامل 214 رسول کریم کی ہمدردی خلق تھے کہ اس سے طاقت بحال ہوتی ہے.( بخاری (45) اسی طرح آپ بیان کرتی ہیں کہ جب رسول کریم ﷺ کے گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا تو آپ کے حکم سے مریض کے گوشت والے دلیہ کی ہانڈی مستقل چولہے پر چڑھی رہتی یہاں تک کہ وہ آدمی اچھا ہو جائے.(ابن ماجہ ) 46 الغرض بی کریم ﷺ نے ہمدردی خلق میں بہترین عملی نمونہ قائم کر کے دکھایا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَىٰ آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَ حُزنِهِ لِهذِهِ الْأُمَّةِ.1 مسلم (2) کتاب الايمان باب 25 حواله جات 2 بخاری(3) كتاب العلم باب ،37، بخاری (2) کتاب الایمان باب3 3 بخاری (2) کتاب الایمان باب 3 4 مسند احمد جلد2 ص 215 مطبوعه مصر 5 المعجم الكبير لطبراني جلد 12 ص 453 مطبع الوطن العربي 6 الترغيب والترهيب للمنذرى جلد 3 ص 265 احياء التراث بيروت 7 بخاری(15) كتاب المظالم باب 4 8 السيرة النبوية لابن هشام جز 1 ص 133 مصطفى البابي الحلبي 9 بخاری (1) بدء الوحي باب 1 10 السيرة النبوية لابن هشام امرالاراشی جلد 1 ص 389 دارالفکر بيروت 11 ابن ماجه (25) كتاب المناسك باب 56 12 ابن ماجه (25) كتاب المناسك باب 79 13 بخاری (13) کتاب مواقيت الصلوة باب 23 14 مسلم (14) كتاب الطهارة باب 15 15 بخاری (15) كتاب الجماعة والامامة باب 36 16 بخاری(76) کتاب الاضاحی باب 76 17 سنن ابن ماجه (36) كتاب الفتن باب 20 18 بخاری(81) كتاب الادب باب 36 19 ابوداؤد (9) كتاب الزكوة باب 40
اسوہ انسان کامل 215 رسول کریم کی ہمدردی خلق 20 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 58 مطبوعه مصر 21 مسلم(6) كتاب المساجد باب 8 22 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص572 مطبوعه بيروت 23 بخاری(81) کتاب الادب باب 68 24 مسند احمد جلد 4 ص 359 مطبوعه مصر 25 بخاری(81) كتاب الادب باب 61 26 بخاری(70) کتاب النکاح باب 72 27 ابن ماجه (27) كتاب الذبائح باب 6 28 مسند احمد جلد 4 ص 58 مطبوعه مصر 29 مسند احمد جلد 3 ص 136 مطبوعه مصر 30 مجمع الزوائد للهيثمى كتاب علامات النبوة باب فى صفته وطيبه جلد8ص503 بيروت 31 مسلم (46) كتاب البر والصلة والآداب باب 13 32 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 2 33 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 10 34 بخارى (79) كتاب الطب باب 31، باب 32 35 مسلم(45) کتاب فضائل الصحابة باب 1 36 بخاری(78) كتاب المرضى باب 20 37 ابوداؤد (21) كتاب الجنائز باب 12 38 بخاری(78) كتاب المرضى باب 5 39 بخاری(78) كتاب المرضى باب 16 40 بخاری(79) كتاب الطب باب 79 41 بخاری(79) كتاب الطب باب 7 42 بخاری(79) كتاب الطب باب 51 43 بخاری(79) كتاب الطب باب 27 44 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 2 45 بخاری(79) كتاب الطب باب 8 46 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 5
اسوہ انسان کامل 216 رسول کریم کی رافت و شفقت رسول کریم ع کی رافت و شفقت قرآن شریف میں نبی کریم کے پاکیزہ اخلاق کا نقشہ یہ پیش کیا گیا ہے.لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيمٌ (سورة التوبه (128) یعنی اے لوگو! تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آیا ہے تمہارا تکلیف میں پڑنا اس پر گراں گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کا بے حد خواہش مند ہے اور مومنوں کے ساتھ انتہائی نرمی و رافت سے پیش آنے والا اور محبت و پیار کا سلوک کرنے والا ہے.اس آیت میں رسول کریم کو بطور خاص اللہ تعالیٰ کی دوصفات رؤف اور رحیم کا مظہر قرار دیا گیا ہے.جس کا مطلب ہے کہ انتہائی رافت اور نرمی کا سلوک کرنے والے اور مخلوق خدا سے بے حد محبت اور پیار کرنے والے.چنانچہ آپ ہمیشہ نرمی، آسانی اور پیار کی تعلیم دیتے تھے.نبی کریم کی رافت ورحمت اپنی مثال آپ تھی.دراصل آپ کی محبت یا نفرت خدا کی خاطر ہوا کرتی تھی اور خدا کا حکم آپ کو یہ تھا کہ وہ لوگ جو صبح و شام اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اسے یاد کرتے ہیں ان کو مت دھتکارنا.(سورۃ الانعام :53) غریب صحابہ سے شفقت رسول کریم ہمیشہ دین میں تختی کو نا پسند فرماتے تھے.سفر اور بیماری وغیرہ میں جو رخصتیں نماز اور روزے کی عبادات میں ہیں، ان سے بعض لوگ دین پر شدت سے قائم ہونے کے خیال سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے ،مگر نبی کریم فرماتے تھے اللہ تعالیٰ کو یہ بات کہ اس کی رخصتوں سے فائدہ اُٹھایا جائے اسی طرح بہت پسند ہے جس طرح اسے نا پسند ہے کہ اس کی نافرمانی کی جائے.(احمد) 1 ایک دفعہ حضرت حمزہ بن عمر واسلمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت ہے میرے لئے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا یہ اللہ کی رخصت ہے جو شخص اسے اختیار کرے تو یہ بہت عمدہ ہے.لیکن اگر کوئی روزہ رکھنا پسند کرے تو اس پر گناہ نہیں ہے.( مسلم )2 حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں غریب مہاجرین کی ایک جماعت میں بیٹھا تھا جن پرکن کے پورے کپڑے بھی نہیں تھے.ایک قاری ہمیں قرآن سنا رہا تھا.اتنے میں رسول اللہ تشریف لائے.آپ ہمارے پاس کھڑے ہوئے تو قاری خاموش ہو گیا.آپ نے ہمیں سلام کیا اور فرمایا تم کیا کر رہے ہو؟ ہم نے کہا اے اللہ کے
217 رسول کریم کی رافت و شفقت اسوہ انسان کامل رسول ! یہ قاری ہمیں قرآن شریف سنا رہے تھے.حضور نے فرمایا تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے میری امت میں ایسے لوگ پیدا کئے کہ جن کے ساتھ مجھے مل بیٹھنے اور حسن معاشرت کا حکم دیا گیا ہے.پھر آپ ہمارے درمیان تشریف فرما ہوئے اور فرمایا حلقہ بنا لو تا کہ سب کے چہرے سامنے ہوں.ابوسعید خدری کہتے تھے میرا خیال ہے حضور نے میرے سوا کسی کو نہیں پہچانا.آپ نے فرمایا اے مہاجرین میں سے مفلسوں کی جماعت !تمہیں قیامت کے دن کامل نور کی بشارت ہو.تم جنت میں امراء سے آدھا دن پہلے داخل ہو گے اور یہ آدھا دن پانچ سوسال کے برابر ہے.(ابوداؤد ) 3 حضرت انس بن مالک خادم رسول نے ایک مجنون عورت کے ساتھ رسول کریم کی شفقت و محبت کا ایک عجیب واقعہ بیان کیا ہے کہ مدینہ میں ایک اگلی سی عورت رہتی تھی.جس کا نام اُم زفر تھا، حضرت خدیجہ کی خادمہ خاص رہ چکی تھی ( بعد میں عقل میں کچھ فتور پڑ گیا تھا.وہ ایک روز حضور کے پاس آگئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ سے ایک ضروری کام ہے.علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں.آپ نے کس وسعت حوصلہ سے اس کمزور اور دیوانی عورت کو یہ جواب دیا کہ اے فلاں کی ماں ! مدینہ کے جس راستہ یا گلی میں کہو بیٹھ جاؤ اور میں تمہارے ساتھ بیٹھ کر بات سنوں گا اور تمہارا کام کر دونگا.چنانچہ وہ عورت ایک جگہ جا کر بیٹھ گئی.حضور بھی اس کے ساتھ بیٹھ رہے.اس عورت نے اپنی حاجت بیان کی اور آپ اُس وقت تک اٹھے نہیں جب تک اس عورت کی تسلی نہیں ہوگئی.(ابن ماجہ ) 4 غلاموں، لونڈیوں کا جو حال اُس زمانہ میں تھا تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اسے خوب جانتے ہیں.اُن سے جانوروں کا سا سلوک ہوتا تھا.ایک حبشی لونڈی مدینہ میں رہتی تھی اسے مرگی کا دورہ پڑتا تھا.ایک روز بے چاری اپنی بیماری کی شکایت لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ حضور مجھے جب مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو میں بے پردہ ہو جاتی ہوں.آپ میرے لئے اللہ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس تکلیف اور بے پردگی سے بچائے.آپ نے اس حبشی خاتون کی بہت دلداری فرمائی.کچھ دیر تسلی کی باتیں اس سے کرتے رہے پھر فرمایا اگر تم چاہو اور صبر کر سکو تو تمہیں اس کے بدلہ جنت ملے گی اور اگر چاہوتو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ معجزانہ طور پر تمہیں اس بیماری سے شفا دیدے.وہ کہنے لگی حضور! میں صبر کرتی ہوں لیکن آپ یہ دعا ضرور کریں کہ میں مرگی کی حالت میں بے پردگی سے بچ جاؤں.حضرت ابن عباس لوگوں کو یہ لونڈی دکھا کر کہتے تھے کیا میں تمہیں اہل جنت میں سے ایک عورت نہ دکھاؤں.( بخاری )5 غریبوں سے دوستی حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی جس کا نام زاہر تھاوہ نبی کریم کو دیہات کی چیز یں تحفہ میں لا کر دیا کرتا تھا.نبی کریم اسے انعام واکرام سے نوازتے اور فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارا دیہاتی اور ہم اس کے شہری ہیں.حضور اس سے بہت محبت کا سلوک فرماتے تھے.وہ شخص بہت سادہ شکل کا تھا.ایک دفعہ حضور نے اسے دیکھا کہ وہ بازار میں
اسوہ انسان کامل 218 رسول کریم کی رافت و شفقت اپنا سودا بیچ رہا ہے.آپ نے پیچھے سے جا کر باہیں اس کی گردن میں ڈال دیں.وہ آپ کو دیکھ نہ سکا.کہنے لگا اے شخص! مجھے چھوڑ دو.پھر جو اس نے مڑ کر دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ حضور ہیں تو وہ خوشی سے اپنی پشت حضور کے جسم مبارک سے رگڑنے لگا.حضور فرمانے لگے میرا یہ غلام کون خرید یگا وہ بولا اے اللہ کے رسول ! پھر تو آپ مجھے بہت ہی ناکارہ سودا پائیں گے.نبی کریم نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا لیکن اللہ کے نزدیک تو تم گھاٹے کا سودا نہیں ہو.تمہاری بڑی قدر و قیمت ہے.(احمد) 6 بدوؤں سے سلوک بی تو غرباء اور فقراء صحابہ کے ساتھ آنحضور کا شفقت و رافت کا تعلق تھا.مدینہ کے اردگر درہنے والے اجڈ بدوؤں اور درشت رو بادیہ نشینوں سے بھی آپ ہمیشہ رافت کا سلوک فرماتے جن کے اخلاق و عادات کے بارہ میں قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بادیہ نشین کفر اور منافقت میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور زیادہ رجحان رکھتے ہیں کہ جو کچھ اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیا اس کی حدود کونہ پہچانیں اور اللہ دائی علم رکھنے والا اور بہت حکمت والا ہے.“(سورۃ التوبہ: 97) اکثر و بیشتر جنگلی بد و آکر عجیب و غریب سوال آپ کی مجلس میں کرتے ہیں اور آپ ہیں کہ نرمی سے جواب دیتے چلے جار ہے ہیں.آپ گھصحابہ سے محو گفتگو ہیں.ایک بدو آ کر مخل ہوتا ہے اور درمیان میں ٹوک کر سوال کرتا ہے کہ قیامت کب آئے گی؟ اب جسے علم دین کی سوجھ بوجھ ہی نہیں اسے انسان اسکا کیا جواب دے اور کیسے سمجھائے.حضور اپنی بات جاری رکھتے ہیں اور اصحاب رسول چہ میگوئیاں کر رہے ہیں کہ شاید حضور نے اس کا سوال سنا ہی نہیں اس لئے جواباً خاموش ہیں.کوئی کہتا ہے کہ حضور نے اس کا سوال ہی پسند نہیں فرمایا اس لئے جواب نہیں دے رہے.اپنی بات مکمل کرنے کے بعد حضور کو اس بد وسائل کا خیال آتا ہے پوچھتے ہیں قیامت کی بابت پوچھنے والا کہاں ہے؟ وہ عرض کرتا ہے اے خدا کے رسول ! میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا! جب امانت ضائع ہو جائے گی تو اس وقت قیامت کا انتظار کرنا.وہبر و یہ جواب پا کر ایک اور سوال کر دیتا ہے کہ جناب ! امانت کے ضائع ہونے کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا.آپ از راہ شفقت پھر اسے سمجھانے لگ جاتے ہیں کہ امانت کے ضائع ہونے کا یہ مطلب ہے کہ حکومت نا اہل لوگوں کے سپرد کر دی جائے تو سمجھنا کہ یہ قیامت کی علامت ہے.( بخاری )7 ایک دفعہ نبی کریم ﷺ نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے.ایک بدو آیا اور آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگا میرا ایک چھوٹا سا کام ہے ایسانہ ہو کہ میں بھول جاؤں آپ میرے ساتھ مسجد سے باہر تشریف لا کر پہلے میرا کام کردیں.آپ مسجد سے باہر تشریف لے گئے اور اس کا کام انجام دے کر تشریف لائے اور نماز پڑھائی.(ابوداؤد )8 نبی کریم علی دینی مصروفیات کے باوجود باہر سے مدینہ میں آئے ہوئے بدوؤں کی تالیف قلبی کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے.ایک دفعہ ایک اعرابی بیمار ہو گیا.آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.اُسے تسلی دلاتے ہوئے
اسوہ انسان کامل 219 رسول کریم کی رافت و شفقت دعائیہ انداز میں فرمایا کہ اللہ نے چاہا تو جلد بیماری دور ہو جائے گی اور ظاہری و باطنی صفائی ہو جائے گی.اس نے مایوسی سے کہا آپ یہ کہتے ہیں مجھے تو یہ ایسا بخار لگتا ہے جو ایک بڑھے میں جوش مار رہا ہے اور اسے قبر کی طرف لے جارہا ہے.رسول کریم نے فرمایا اگر تمہارا یہی خیال ہے تو پھر یہی سہی.( بخاری )9 حضور کی شفقت تو یہ تھی کہ اعرابی کی عیادت کے لئے بنفس نفیس تشریف لے گئے پھر اُسے تسلّی دلائی اور اُس کے حق میں دعا کی ،مگر اس نے ان تمام باتوں کے باوجود ادب رسول کا لحاظ نہ کیا.پھر بھی آپ نے ایک بیمار اور بوڑھے سے تکرار مناسب نہیں سمجھی اور اس کی کہی بات کا لحاظ کرتے ہوئے اس پر خاموشی فرمائی.ایک دفعہ نبی کریم تو ہم پرستی کی تردید کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ دراصل کوئی بیماری اپنی ذات میں متعدی نہیں ہوتی.اس پر ایک اعرابی بول پڑا کہ میرے اونٹ جو ہرن کی طرح صحت مند ہوتے ہیں کسی خارش زدہ اونٹ کے قریب آنے سے انہیں کیوں خارش ہو جاتی ہے؟ نبی کریم نے کیسے پیار اور حکمت سے اسے سمجھایا کہ اگر تمہاری بات ہی درست ہو تو پھر یہ بتاؤ کہ سب سے پہلے اونٹ کو بیماری کس نے لگائی تھی ؟ ( بخاری 10 ) اور یوں ایک بڈو کو بھی دوران گفتگو سوال کرنے پر آپ نے جھڑ کا نہیں حقیر نہیں سمجھا بلکہ معقولیت سے قائل کر کے خاموش کیا.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بدو نے رسول اللہ کو ایک اونٹنی تحفہ دی.حضور نے اس کے عوض اس کو چھ اونٹنیاں دیں مگر وہ پھر بھی ناراض تھا کہ مجھے کم دیا ہے.اس پر آنحضرت نے خطبہ ارشاد فرمایا کہ فلاں شخص نے مجھے ایک انونی تحفہ دی ہے اور جیسے میں اپنے گھر کے لوگوں کو پہچانتا ہوں اُسی طرح خوب پہچانتا ہوں کہ یہ میری ہی اونٹنی ہے.یہ اونٹنی فلاں دن مجھ سے گم ہوئی تھی جو اب اس نے مجھے تحفہ دی ہے.میں نے اس کے بدلے اس کو چھ اونٹنیاں دی ہیں اور یہ ابھی بھی ناراض ہے.آئندہ سے میں اعلان کرتا ہوں کہ میں کسی کا ایسا تحفہ قبول نہیں کرونگا.ہاں قریش ، انصار، بنو ثقیف یا دوس قبیلہ کے مخلصین کا تحفہ رو نہیں کرونگا.( احمد ) 11 حبشی کی دلداری حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک حبشی رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور نے فرمایا کہ سوال کر کے مسائل سمجھ لو.وہ کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے سفید لوگوں کو ہم کالے لوگوں پر شکل وصورت اور رنگ کے لحاظ سے بھی فضیلت دی ہے اور نبوت کے لحاظ سے بھی.اگر میں بھی آپ کی طرح ان چیزوں پر ایمان لاؤں جن پر آپ ایمان لائے ہیں اور جس طرح آپ عمل کرتے ہیں میں بھی عمل کروں تو کیا مجھے بھی جنت میں آپ کا ساتھ نصیب ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں.پھر نبی کریم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت میں ایک سیاہ حبشی کے نور کی سفیدی ایک ہزار سال کی مسافت سے بھی نظر آئے گی.پھر فرمایا جس شخص نے کلمہ لا إله إلا اللہ پڑھ لیا اللہ کے ہاں اسکے لئے اس کلمے کی وجہ سے ایک عہد لکھا جاتا ہے.جو سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ پڑھتا
220 رسول کریم کی رافت و شفقت اسوہ انسان کامل ہے اس کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار نیکیاں لکھی جاتی ہیں.وہ شخص کہنے لگا یا رسول اللہ ان باتوں کے باوجود پھر ہم کیونکر ہلاک ہو سکتے ہیں؟ رسول کریم نے فرمایا ایک شخص قیامت کے دن ایک عمل پیش کرے گا کہ اگر اسے ایک پہاڑ پر بھی رکھا جائے تو پہاڑ کو اسے اٹھانا بوجھل معلوم ہو.لیکن اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت اس عمل پر بھاری ہوگی سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کا دامن پھیلا کر اسے زیادہ اجر عطا فرمادے.پھر حضور نے سورۃ الدھر کی ابتدائی اکیس آیات کی تلاوت فرمائی.جن میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہے.اس پر وہ بشی کہنے لگا یا رسول اللہ ! کیا میری آنکھیں بھی جنت کی نعمتوں کو اسی طرح دیکھیں گی جس طرح آپ کی آنکھیں دیکھتی ہیں.نبی کریم نے فرمایا ہاں کیوں نہیں.اس پر وہ حبشی بے اختیار رونے لگا اور اتنا رویا کہ اس کی روح پرواز کر گئی.حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ اس حیشی کی تدفین کے وقت نبی کریم اسے خود اپنے ہاتھوں سے قبر میں رکھ رہے تھے.(بیشمی )12 رسول کریم ﷺ احکام شریعت کے نفاذ کی سخت پابندی فرماتے تھے.لیکن اس میں حسب حالات حتی الوسع نرمی اور سہولت کو مد نظر رکھتے تھے کیونکہ شریعت کا یہی منشا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ العُسر (البقره: 186) کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.خود رسول اللہ نے فرمایا کہ دین آسانی کا نام ہے.اس لئے آسانی پیدا کیا کرو مشکل پیدا نہ کرو.( بخاری مسلم 13 ) اسی طرح امت کو ہدایت فرمائی کہ جس حد تک ممکن ہو مسلمانوں کو جرائم کی سزا سے بچاؤ اگر کسی کے لئے اس سزا سے بچنے کی کوئی صورت ہو تو اسے چھوڑ دو کیونکہ امام کا معافی دینے میں غلطی کرنا سزا دینے میں غلطی کرنے سے بہتر ہے.(ترمذی )14 چنانچہ آپ معمولی شبہ کی صورت میں بھی حد کے نفاذ سے منع فرماتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر زنا کرنے کا اعتراف کیا.پہلے تو آپ نے اس سے اعراض فرمایا جب اس نے چار مرتبہ اقرار کرتے ہوئے کہا کہ میں نے بدکاری کی ہے تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں جنون تو نہیں؟ اس نے کہا نہیں چنانچہ وہ شخص رجم کیا گیا.جب اسے پتھر پڑے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا.اسے پکڑ رجم کیا گیا.نبی کریم نے اس کے بارہ میں رحم دلانہ جذبات کا اظہار فرمایا.( بخاری 15) ایک شخص اور جسے زنا بالجبر کے جرم میں رجم کیا گیا نبی کریم نے اس مجرم کے بارے میں بھی فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو ان سب کی توبہ قبول کی جائے.(ترمذی )16 دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ سنگ باری سے وہ شخص بھا گا تو اسے پکڑ کر ہلاک کیا گیا.نبی کریم کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا جب وہ بھاگ نکلا تھا تو تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا.(ترمذی) 17 ایسے انفرادی نوعیت کے گناہ (جن کی باضابطہ سزا مقرر نہیں).ان کے ارتکاب کے بعد کوئی شخص تو بہ کرنے کے لئے حاضر خدمت ہوتا تو نبی کریم اس سے عفو کا سلوک فرماتے.ابوھر بیر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص رمضان میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے تعلق قائم کر بیٹھا اور
221 رسول کریم کی رافت و شفقت اسوہ انسان کامل رسول اللہ سے فتویٰ کا طالب ہوا آپ نے فرمایا تم غلام آزاد کر سکتے ہو اس نے کہا نہیں.فرمایا کیا دوماہ کے روزے رکھ سکتے ہو اس نے کہا نہیں آپ نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دو.اس نے کہا میری تو یہ بھی توفیق نہیں.ابھی وہ بیٹھا ہی ہوا تھا کہ ایک شخص گدھے پر کچھ کھانے کا سامان لایا آپ نے پوچھا کہ وہ شخص کہاں گیا پھر اسے فرمایا کہ یہ لے جاؤ اور صدقہ کر دو.اس نے کہا کیا اپنے سے زیادہ محتاج لوگوں پر صدقہ کروں.میرے اپنے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں فرمایا جاؤ خود کھالو.(بخاری)18 رسول اللہ کے زمانہ میں ایک انصاری بہت بیمار رہ کر لاغر ہو گیا.کسی کی لونڈی اس کے گھر گئی وہ اس کے ساتھ زنا کا مرتکب ہوا.لوگ عیادت کو آئے تو بتایا کہ مجھ سے یہ غلطی سرزد ہو گئی ہے.میرے لیے رسول اللہ سے فتویٰ پوچھو.صحابہ نے رسول اللہ کو بتایا کہ فلاں شخص سخت بیمار اور کمزور ہے بس ہڈیوں کا ڈھانچہ ہے.رسول اللہ نے فرمایا کہ سو تنکے اکٹھے کر کے ایک دفعہ ماردو اور (اسی طرح) حد پوری کردو.(ابوداؤد )19 رسول کریم کی رافت و رحمت کی بے شمار مثالوں میں سے یہ چند نمونے ہیں.اس قسم کے دیگر کئی دلچسپ واقعات کے لئے ملاحظہ ہوں کتاب ہذا کے عناوین صلہ رحمی، ہمدردی خلق ، حلم، صحابہ سے محبت ،عفو وکرم اور مربی اعظم.
اسوہ انسان کامل 222 1 مسند احمد جلد2 ص 108 مصر 2 مسلم (14) كتاب الصيام باب 17 ابوداؤد(26) كتاب العلم باب 13 4 ابن (37) ماجه كتاب الزهد باب 16 حواله جات 5 بخاری(78) كتاب المرضى باب 6 6 مسند احمد جلد 3 ص 161 مطبوعه مصر بخاری(3) كتاب العلم باب 2 ابو داؤد (2) کتاب الصلاة باب 23 9 بخاری(78) کتاب المرضى باب 10 10 بخاری(79) كتاب الطب باب 53 11 مسند احمد جلد 2 ص 292 مطبوع عه مصر 12 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 10 ص 777 مطبوعه بيرون 13 بخاری کتاب(2) الایمان باب ،28 مسلم کتاب (33) الجهاد باب 3 14 ترمذی(15) كتاب الحدود باب 2 15 بخاری(97) كتاب الاحكام باب ،19، ترمذى كتاب الحدود باب 27 16 ترمذی(15) كتاب الحدود باب22 17 ترمذی(15) كتاب الحدود باب 5 18 بخاری(36) كتاب الصوم باب 31 19 ابوداؤد(39) كتاب الحدود باب 34 رسول کریم کی رافت و شفقت
اسوہ انسان کامل 223 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول محبت دووجہ سے پیدا ہوتی ہے، حسن سے یا احسان سے.حسن طبعاً اپنے اندر ایک کشش رکھتا ہے، ایک حسین وجود ہر صاحب ذوق کا دل اپنی طرف کھینچ کر کہتا ہے کہ نظارہ حسن تو یہاں ہے.پھر ہمارے نبی کر یم ﷺ تو حسن ظاہری و باطنی کا بہترین نمونہ تھے، ایک شاعر نے آپ کے بارے میں کیا خوب کہا ہے وَأَحْسَنُ مِنْكَ لَمْ تَرَقَطُّ عَيْنٍ وَأَجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النِسَاء کہ اے محمد ! تجھ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور تجھ سے بڑھ کر خوبصورت کبھی عورتوں نے پیدا نہیں کیا.خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ كُلِّ عَيْبٍ كَأَنَّكَ قَدْ خُلِقْتَ كَمَا تَشَاءُ اور اے پاک نبی آپ کو ہر عیب سے اس طرح پاک وصاف پیدا کئے گئے گویا جس طرح آپ چاہتے تھے اسی طرح ہی بنائے گئے.ما بتاب و آفتاب سے بھی بڑھ کرحسین اس پیکر حسن روحانی نے مطلع عالم پرطلوع ہو کر کیا قیامت ڈھائی اُس کا ایک نظارہ عاشق صادق برات بن عازب کی نظر سے کیجئے.ان کا بیان ہے چودہویں کی رات تھی، چاند اپنے پورے جو بن پر تھا.ہمارے محبوب رسول نے سرخ جوڑا پہنا ہوا تھا.میں ایک نظر چودہویں کے چاند پر اور ایک اپنے پیارے محبوب کے روشن چہرے پر ڈالتا تھا اور خدا کی قسم اس رات مجھے نبی کریم کا چہرہ چودہویں کے چاند سے کہیں زیادہ حسین معلوم ہوتا تھا.(ترمذی)1 بے شک اس چاند چہرے کی کشش بھی نرالی تھی.مگر حسن ظاہری سے کہیں بڑھ کر آپ کے حسن باطنی کو کمال حاصل تھا.آپ خود فرمایا کرتے تھے کہ یہ دلوں کی فطرت ہے کہ وہ احسان کرنے والوں کی طرف مائل اور ان کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں.(ابن عدی )2 رسول کریم نے تو بلاشبہ محبت اور احسان کر کے اپنے صحابہ کے دل جیتے.آنحضرت کی محبتوں کا ہی کرشمہ تھا جس نے نئی محبتوں کو جنم دیا اور اس محسن انسانیت کے ہزاروں عاشق پیدا ہوئے.یہ آپ کی بے لوث محبت کی برکت تھی.صحابہ آپ کو دل و جان سے چاہتے تھے اور آپ کے پسینہ کی جگہ خون بہانے کو تیار ہوتے تھے.پس رسول اللہ کی شفقتوں کے جواب میں صحابہ کے رسول اللہ سے عشق و فدائیت کے نظارے بھی دراصل سیرت رسول کا ایک اہم باب ہے.محبتوں کے یہ قصے دل کو بہت ہی لبھانے والے ہیں.ع دامان نگه تنگ و گل حسن توبسیار
اسوہ انسان کامل 224 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول حضرت ابوبکر سے محبت اور اُن کا عشق یوں تو نبی کریم ﷺ کو اپنے تمام اصحاب ہی بہت پیارے تھے مگر سب سے قریبی اور قدیمی با وفا دوست حضرت ابوبکر کا اور ہی مقام تھا جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر وفا کر دکھائی.ایک دفعہ حضرت عائشہ نے رسول خدا سے گھریلو بے تکلف گفتگو کے دوران پوچھا کہ آپ کو اپنے اصحاب میں سے سب سے پیارے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا ابو بکر، انہوں نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا عمر، حضرت عائشہ نے پوچھا پھر کون؟ فرمایا ابو عبیدہ بن الجراح.( ابن حجر ) 3 حضرت ابو بکر کو بھی عشق کی حد تک اپنے آقا سے پیار تھا.اُن کے ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے، ابھی مسلمان چالیس افراد سے بھی کم تھے کہ انہوں نے آنحضرت سے بڑے اصرار کے ساتھ خانہ کعبہ میں اعلانیہ عبادت کرنے کی درخواست کی اور مجبور کر کے خانہ کعبہ لے گئے.کفار نے خانہ کعبہ میں عبادت کرتے دیکھ کر حضرت ابوبکر کو خوب پیٹا یہاں تک کہ آپ کو اٹھا کر گھر پہنچایا گیا.جب ذرا آرام آیا تو پہلا سوال یہ پوچھا میرے آقا کا کیا حال ہے؟ کیا رسول اللہ ﷺ کو کوئی تکلیف تو نہیں پہنچی؟ (الحلبیہ (4 اس کے بعد بھی ہمیشہ ہی حضرت ابوبکر آنحضرت ﷺ کی حفاظت کے لئے آپ کے آگے پیچھے کمر بستہ رہے اور ہمیشہ آنحضرت ﷺ سے اپنی جان سے بھی بڑھ کر پیار کیا.اہل مکہ کے مظالم دیکھ کر حضرت ابو بکر نے آنحضرت عمال سے مدینہ ہجرت کی اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا ” ابوبکر انتظار کرو شاید اللہ تمہارا کوئی اور ساتھی پیدا کر دے.“ یہ بھی دلی پیار کا ایک عجیب اظہار تھا.چنانچہ چند دنوں کے بعد جب کفار مکہ نے دارالندوہ میں آنحضرت کے قتل کا مشورہ کیا تو آپ کو ہجرت کی اجازت ہوئی.آپ سب سے پہلے ابو بکر کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہجرت کی اجازت مل گئی ہے.حضرت ابو بکر پہلے ہی تیار تھے فوراً بولے.الصُّحْبَةُ يَا رَسُولَ اللہ کہ اے اللہ کے رسول مجھے بھی ہمراہ لے چلیں.آپ کی بیٹی اسمائہ کہتی ہیں کہ ابو بکڑ نے ہجرت کے لئے کچھ رقم بچا کر رکھی ہوئی تھی ، وہ ساتھ لے گئے.باقی پہلے ہی راہ خدا میں خرچ کر چکے تھے.ہجرت مدینہ کے مبارک سفر میں حضرت ابو بکر صدیق نے جس وفاداری اور جاں نثاری کا نمونہ دکھایا اس کی مثال نہیں ملتی.اپنی دو اونٹنیاں جو پہلے سے سفر ہجرت کیلئے تیار کر رکھی تھیں ان میں سے ایک اونٹنی آنحضرت کی خدمت میں بلا معاوضہ پیش کر دی مگر نبی کریم نے وہ قیمتاً قبول فرمائی.حضرت ابوبکرؓ نے پانچ ہزار درہم بھی بطور زادِ راہ ساتھ لئے.پھر غار ثور میں رسول خدا کی مصاحبت کی توفیق پائی جس کا ذکر قرآن شریف میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا.فرمایا ثانی اثْنَيْنِ إِذْهُمَا فِى الْغَارِ اذْيَقُولُ لِصَاحِبِهِ لا تَحْزَنُ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ( سورة التوبة : 40) یعنی دو میں سے دوسرا جب وہ دونوں غار میں تھے.جب وہ اپنے ساتھی سے کہتا تھا کہ غم نہ کرو.اللہ ہمارے ساتھ ہے.سفر ہجرت میں تاجدار عرب کا یہ بے کس سپاہی آپ کی حفاظت کی خاطر بھی آگے آتا تو کبھی پیچھے بھی دائیں تو کبھی
اسوہ انسان کامل 225 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول بائیں اور اس طرح اپنے آقا کو بحفاظت میثرب پہنچایا.(حلبیہ )5 اسی سفر ہجرت کا واقعہ ہے جب حضرت ابوبکر نے ایک مشرک سراقہ کو تعاقب میں آتے دیکھا تو رو پڑے.رسول اللہ نے وجہ پوچھی تو عرض کیا.” اپنی جان کے خوف سے نہیں آپ کی وجہ سے روتا ہوں کہ میرے آقا کوکوئی گزند نہ پہنچے.“ ( احمد ) 6 حضرت ابو بکر کی مزاج شناسی کرسول اور گہری محبت کا عجب عالم تھا.جب سورۂ نصر نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح کے آنے اور فوج در فوج لوگوں کے دین اسلام میں داخل ہونے کا ذکر تھا تو رسول کریم نے صحابہ کی مجلس میں یہ آیات سنائیں.حضرت ابو بکر رو پڑے.صحابہ حیران تھے کہ فتح کی خوشخبری پر رونا کیسا؟ مگر حضرت ابو بکر کی بصیرت نے ان آیات سے جو مضمون اخذ کیا وہ دوسرے نہ سمجھ سکے.حضرت ابو بکر کی فراست بھانپ گئی کہ یہ آیات جن میں رسول اللہ کے مشن کی تکمیل کا ذکر ہے آپ کی وفات کی خبر دے رہی ہیں.اس لئے اپنے محبوب کی جدائی کے غم سے بے اختیار ہوکر رو پڑے اور اس عاشق صادق کا خوف بجا تھا.آنحضور اس کے بعد صرف دو سال زندہ رہے.( بخاری ) حضرت عمر کی محبت رسول اللہ نے حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمرؓ سے اپنی محبت کا ذکر فرمایا ہے.حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام ہی آنحضور کی دعا کا صدقہ تھا.رسول کریم حضرت عمر کی خداداد استعدادوں کے باعث بھی اُن سے محبت فرماتے اور حوصلہ افزائی کرتے تھے.ایک دفعہ فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایسے لوگ ہوتے تھے جن سے خدا کلام کرتا تھا مگر وہ نبی نہیں تھے.میری اُمت میں بھی ایک ایسا فرد عمر ہے.( بخاری )8 حضرت عمرؓ بھی رسول اللہ کے سچے عاشق تھے.زہرہ بن معبد بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے.حضور نے حضرت عمرؓ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا.وہ فرط محبت میں کہنے لگے."اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں سوائے میری جان کے.نبی کریم نے فرمایا.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بھی زیادہ پیارا نہ ہوں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا.”اچھا تو خدا کی قسم آج سے آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں.رسول کریم نے فرمایا اے عمر کیا آج سے؟“ گویا حضور سمجھتے تھے کہ عمر فی الواقعہ دلی طور پر اس اظہار سے پہلے ہی آپ کو جان سے عزیز تر جانتے تھے.(احمد) حضرت عمرؓ اس محسن رسول کے ایسے دیوانے تھے کہ رسول اللہ کی وفات پر فرط غم سے یہ ماننے کیلئے تیار نہ تھے کہ رسول اللہ واقعی داغ مفارقت دے گئے ہیں.دیوانہ وار یہ اعلان کر رہے تھے کہ جس نے کہا رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں میں اسکا سرتن سے جدا کر دونگا.یہ کیفیت در اصل حضرت عمر کے رسول اللہ سے بچے عشق اور جذباتی تعلق کی آئینہ دار ہے.( بخاری )10
اسوہ انسان کامل دیگر عشاق وفا 226 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول حضرت عثمان اور علی سے رسول اللہ ﷺ کی محبت بھی اپنی مثال آپ تھی.حضرت عثمان کو یکے بعد دیگرے دو بیٹیاں بیاہ دیں اور فرمایا کہ اگر تیسری بیٹی بھی ہوتی تو وہ بھی عثمان کو بیاہ دیتا.( ابن اثیر ) 11 حضرت علیؓ کے بارہ میں فرمایا.علی کا میرے ساتھ تعلق ایسے ہے جیسے ہارون کا موسیٰ“ سے.( بخاری 12 ) نیز فرمایا جسے میرے ساتھ محبت کا تعلق ہے اُسے علی سے بھی محبت کا تعلق رکھنا ہوگا.( ترمندی ) 13 حضرت عثمان اور علی نے بھی ہمیشہ رسول اللہ کی خاطر فدائیت کے نمونے دکھائے.حضرت عثمان نے ایک طرف اپنے اموال خدا کی راہ میں بے دریغ خرچ کر کے غنی کا خطاب پایا.تو دوسری طرف حدیبیہ میں رسول کریم نے اپنے نمائندہ مصلح حضرت عثمان کی خاطر صحابہ سے موت پر بیعت لی اور اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر رکھ کر فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے.حضرت علی نے تو روز اول سے ہی رسول اللہ کی تائید و نصرت کی حامی بھری تھی ، جب رسول اللہ نے اللہ کے حکم کے مطابق اپنے خاندان کے لوگوں سے دعوت و تبلیغ کا آغاز کیا تھا، اُس وقت سب اہل خاندان نے انکار کیا سوائے اُس کمسن بچے علی کے جس نے کمزوری کے باوجود مدد کا وعدہ کیا اور پھر زندگی بھر اُسے خوب نبھایا.ہجرت مدینہ کے وقت حضرت علیؓ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر رسول اللہ کی جگہ آپ کے گھر میں ٹھہرنا صدق دل سے قبول کیا.(احمد) 14 امین الامت حضرت ابو عبیدہ بھی انہی وفا شعار عشاق میں سے تھے.جن کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ ابوبکر و عمر کے بعد ابو عبیدہ مجھے سب سے پیارے ہیں.حضرت ابوعبیدہ کے عشق رسول کا کڑا امتحان یوں ہوا کہ جنگ اُحد میں مدمقابل لشکر کفار میں آپ کا بوڑھا والد عامر بھی برسر پیکار تھا، ابو عبیدہ ایک بہادر سپاہی کی طرح داد شجاعت دیتے ہوئے میدان کارزار میں آگے بڑھتے چلے جارہے تھے کہ والد سے سامنا ہو گیا جوکئی بار تاک کر آپ کو نشانہ بنانے کی کوشش کر چکا تھا، ذرا سوچئے تو وہ کتنا کٹھن اور جذباتی مرحلہ ہوگا کہ ایک طرف باپ ہے اور دوسری طرف خدا اور اس کا رسول ہیں جن کے خلاف باپ تلوار سونت کر نکلا ہے، مگر دنیا نے دیکھا کہ ابو عبیدہ جیسے قوی اور امین کو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ خدا کی خاطر اُن کی سونتی ہوئی شمشیر برہنہ نہیں رکے گی جب تک دشمنان رسول کا قلع قمع نہ کر لے خواہ مد مقابل باپ ہی کیوں نہ ہو.اگلے لمحے میدان بدر میں ابو عبیدہ کا مشرک والد عامر اپنے موحد بیٹے کے ہاتھوں ڈھیر ہو چکا تھا.آفرین تجھ پر اے امین الامت آفریں ! تو نے کیسی شان سے حق امانت ادا کیا کہ باپ کا مقدس رشتہ بھی اس میں حائل نہ ہوسکا.اسی تاریخی موقع پر سورۃ المجادلہ کی آیت 23 اتری جس میں اللہ تعالیٰ ایسے کامل الایمان مومنوں کی تعریف کرتا ہے جو خدا کی خاطر اپنی رشتہ داریاں بھی قربان کر دیتے ہیں.( ابن حجر ) 15 غزوہ احد میں حضرت ابو عبیدہ کی محبت رسول کا ایک واقعہ حضرت ابو بکر یوں بیان کرتے ہیں کہ اُحد میں سنگباری
227 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل کے نتیجہ میں آنحضور کے خود کی دونوں کڑیاں ٹوٹ کر جب آپ کے رخساروں میں پھنس گئیں تو میں رسول کریم کی مدد کے لئے آپ کی طرف لپکا.میں نے دیکھا کہ سامنے کی طرف سے بھی ایک شخص دوڑا چلا آرہا ہے.میں نے دل میں دعا کی کہ خدا کرے اس نازک وقت میں یہ شخص میری مدد اور نصرت کا موجب ہو.دیکھا تو وہ ابوعبیدہ تھے جو مجھ سے پہلے حضور تک پہنچ چکے تھے.انہوں نے صورتحال کا جائزہ لے کر کمال فدائیت کے جذبہ سے مجھے خدا کا واسطہ دیکر کہا کہ حضور کے رخساروں سے یہ لوہے کی شکستہ کڑیاں مجھے نکالنے دیں.پھر انہوں نے پہلے ایک کڑی کو دانتوں سے پکڑا اور پوری قوت سے کھینچا تو با ہر نکل آئی ، مگر ابو عبیدہ خود پیٹھ کے بل پیچھے جا گرے ساتھ ہی اُن کا اگلا دانت بھی باہر آرہا.پھر انہوں نے دوسرے رخسار سے لوہے کی کڑی اسی طرح پوری ہمت سے پینچی تو اس کے نکلنے کے ساتھ آپ کا دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا اور آپ دوبارہ پیچھے جا گرے.مگر آنحضرت کو ایک سخت اذیت سے نجات دینے میں کامیاب ہوئے اور آپ کی خدمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیا.(ابن سعد )16 رسول اللہ کے ایک اور عاشق صادق حضرت جعفر تھے.ایک موقع پر حضرت محمد سکے بہت ہی پیاروں حضرت زید، حضرت علی اور حضرت جعفر کے مابین یہ سوال اُٹھ کھڑا ہوا کہ حضور کو زیادہ پیار کس سے ہے؟ حضور سے پوچھا گیا تو آپ نے انتہائی کمال شفقت سے سب پیاروں سے کمال دلداری فرمائی کہ سب ہی آپ کو محبوب تھے.حضرت جعفر سے فرمایا اے جعفر تو تو خلق وخلق اور صورت و سیرت میں میرے سب سے زیادہ مشابہ اور قریب ہے.‘ ( احمد ) 17 رسول اللہ کا یہ اظہار محبت سن کر بے محابا حضرت جعفر" پر پیار آتا ہے.حضرت جعفر نے غزوہ موتہ میں جام شہادت نوش فرمایا.آپ کی بیوی اسماء کا بیان ہے کہ حضور اس موقع پر ہمارے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ ان کو گلے لگایا، پیار کیا، آپ کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے.میں نے عرض کیا ”میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا جعفر کے بارہ میں کوئی خبر ہے؟ فرمایا ”ہاں وہ راہ مولیٰ میں شہید ہو گئے ہیں.‘اب شہید راہ حق حضرت جعفر رسول اللہ کو اور زیادہ محبوب ہو گئے تھے.آپ نے اپنے اہل خانہ کو ہدایت فرمائی کہ جعفر کے گھر والوں کا خیال رکھیں.انہیں کھانا وغیرہ بھجوائیں.‘ (احمد) 18 بعض صحابہ سے عشق رسول کے ایسے مناظر بھی دیکھے گئے کہ دوسرے صحابہ کو ان پر رشک آتا تھا.حضرت عبداللہ بن مسعوددؓ فرماتے تھے کہ میں نے بدر کے موقع پر مقداد بن الاسودؓ سے ایک ایسا نظارہ دیکھا کہ (میرا دل کرتا ہے کہ ) کاش ان کی جگہ میں ہوتا اور یہ سعادت مجھے حاصل ہوتی تو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب لگتی اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ بدر کے موقع پر مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کو تحر یک جنگ فرمارہے تھے تو مقداد نے کہا یا رسول اللہ ! ہم قوم موسیٰ کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ تم اور تمہارا رب جا کرلڑ و بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی ، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی.اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں آپ کی جان ہے اگر آپ سواریوں کو برک الغماد ( کے انتہائی ) مقام تک
اسوہ انسان کامل 228 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول بھی لے جائیں تو ہم آپ کی پیروی کریں گے.( بخاری )19 حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ مقداد کی تقریرین کر رسول اللہ کا چہرہ کھل کر چمک اٹھا اور اس بات نے حضور کو بہت خوش کیا.حضرت ابو طلحہ بھی ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی محبت سے حصہ پایا.رسول اللہ بے تکلفی سے ان کے گھر اور کبھی باغ میں بھی تشریف لے جاتے.ان کے بچوں سے محبت کا سلوک فرماتے.حضرت ابوطلحہ نے رسول اللہ کے تبرکات کچھ بال اور ایک پیالہ بڑی محبت سے سنبھال کر رکھے ہوئے تھے.آپ کو رسول اللہ سے والہانہ عشق تھا.( ابن سعد ) 20 غزوہ اُحد میں جب کفار نے دوبارہ حملہ کیا تو جن صحابہ نے رسول اللہ کو اپنے حصار میں لے کر جان کی بازی لگا کر آپ کی حفاظت کی ہے، ان میں ابوطلحہ کا نمایاں مقام ہے.وہ رسول اللہ کے سامنے سینہ سپر ہو گئے.رسول اللہ آپ کو تیر پکڑاتے اور سراٹھا کر دیکھنا چاہتے کہ کہاں پڑا ہے.ابوطلحہ عرض کرتے.”یا رسول اللہ آپ سر اٹھا کر نہ جھانکیے کہیں آپ کو کوئی تیر نہ لگ جائے میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے سپر ہے.( بخاری ) 21 رسول اللہ کے ایک اور عاشق صادق حضرت مصعب بن عمیر تھے.جو ایک امیر کبیر گھرانے کے فرد تھے مگر انہوں نے قبول اسلام کے بعد شہزادگی چھوڑ کر درویشی اختیار کر لی تھی.ایک دن رسول اللہ نے دیکھا مصعب بن عمیر اس حال زار میں آپ کی مجلس میں آئے ہیں کہ پیوند شدہ کپڑوں میں ٹاکیاں بھی چمڑے کی لگی ہیں.صحابہ نے دیکھا تو سر جھکا لئے کیونکہ وہ بھی مصعب کی کوئی مدد کرنے سے معذور تھے.مصعب نے آکر سلام کیا.آنحضرت نے دلی محبت سے وعلیکم السلام کہا اور اس صاحب ثروت نو جو ان کی آسائش کا زمانہ یا د کر کے آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.پھر مصعب کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا.الحمد للہ دنیا داروں کو ان کی دنیا نصیب ہو.میں نے مصعب کو اس زمانے میں بھی دیکھا ہے جب شہر مکہ میں ان سے بڑھ کر صاحب ثروت و نعمت کوئی نہ تھا مگر خدا اور اس کے رسول کی محبت نے اسے آج اس حال تک پہنچایا ہے.(ابن سعد ) 22 اسلام کے پہلے مبلغ مصعب ہجرت مدینہ کے بعد رسول اللہ سے ملنے مکہ آئے تو ان کی محبت رسول کا ایک عجب نمونہ دیکھنے میں آیا.آپ مکہ پہنچتے ہی اپنی والدہ (جو اب اسلام کی مخالفت چھوڑ چکی تھیں) کے گھر جانے کی بجائے سیدھے نبی کریم ﷺ کے پاس پہنچے.حضور کی خدمت میں وہاں کے حالات عرض کئے.مدینہ میں سرعت کے ساتھ اسلام پھیلنے کی تفصیلی رپورٹ دی.حضور ان کی خوشکن مساعی کی تفاصیل سن کر بہت خوش ہوئے.ادھر مصعب کی والدہ کو پتہ چلا کہ مصعب مکہ آئے ہیں اور پہلے ان کے پاس آکر ملنے کے بجائے رسول اللہ کے ہاں چلے گئے ہیں.انہوں نے بیٹے کو پیغام بھیجا کہ او بے وفا ! تو میرے شہر میں آکر پہلے مجھے نہیں ملا.عاشق رسول
اسوہ انسان کامل 229 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول مصعب کا جواب بھی کیسا خوبصورت تھا کہ اے میری ماں! میں مکہ میں نبی کریم سے پہلے کسی کو ملنا گوارا نہیں کرسکتا.( ابن سعد ) 23 اُحد کے میدان میں مصعب نے جان کی قربانی دیکر اپنے عشق رسول پر مہر ثبت کر دی.مصعب اسلامی جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے.رسول اللہ اللہ جب ان کی نعش کے پاس پہنچے تو وہ چہرے کے بل گرے پڑے تھے.گو یا دم واپسیں بھی اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی اور سجدہ ریز حضور نے ان کی نعش کے پاس کھڑے ہو کر یہ آیت تلاوت فرمائی.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا يَدَّلُوا تَبْدِيلا ( سورة الاحزاب :24) یعنی ان مومنوں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اپنی نیت کو پورا کر دیا.( لڑتے لڑتے مارے گئے ) اور ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو ا بھی انتظار کر رہے ہیں اور اپنے ارادہ میں کوئی تزلزل انہوں نے نہیں آنے دیا.اس کے بعد نبی کریم میں نے اپنے اس عاشق صادق کو مخاطب کر کے فرمایا اے مصعب ا خدا کا رسول تم پر گواہ ہے کہ واقعی تم اس آیت کے مصداق اور اُن مردانِ وفا میں سے ہو جنہوں نے اپنے وعدے پورے کر دکھائے.روز قیامت تم دوسروں پر گواہ بنائے جاؤ گے.پھر آپ نے اسلامی جھنڈے کے محافظ حضرت مصعب کو اس آخری ملاقات میں ایک اور اعزاز بھی بخشا.آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے میرے صحابہ مصعب کی نعش کے پاس آکر اس کی زیارت کر لو اور اس پر سلام بھیجو.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روز قیامت تک جو بھی ان پر سلام کرے گا یہ اس کے سلام کا جواب دیں گے.“ ( ابن اثیر 24 حضرت انس بن مالک کہتے ہیں کہ ان کے چچا انس بن نضر بدر میں شامل نہیں تھے.اسلام کی پہلی جنگ سے غیر حاضری کی وجہ سے اُن کو بے حد افسوس تھا.انہوں نے رسول اللہ کے سامنے عہد کیا کہ اگر آئندہ اللہ تعالیٰ نے حضور کے ساتھ کسی غزوہ میں شامل ہونے کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا میں کیا کر دکھاتا ہوں.چنانچہ اُحد کے دن وہ خوب لڑے مگر جب دڑہ چھوڑنے کی وجہ سے مسلمانوں کو فتح کے بعد پسپائی ہوئی تو انہوں نے جوش غیرت میں کہا اے اللہ! ان مسلمانوں میں سے جو دڑہ چھوڑ گئے اس کے لئے میں تجھ سے معافی چاہتا ہوں اور مشرکوں کے فعل سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں.پھر وہ تلوار لے کر آگے بڑھے.راستے میں سعد بن معاذ ” ملے تو اُن سے کہنے لگے اے سعد! کہاں جاتے ہو؟ مجھے تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو آرہی ہے.چنانچہ میدان اُحد میں لڑتے ہوئے شہید ہو گئے مگر ایسی بے جگری اور بہادری سے لڑے کہ جسم پر اسی سے اوپر تلواروں ، نیزوں اور تیروں کے زخم تھے جن کی وجہ سے نعش پہچانی نہ جاتی تھی.ان کی بہن نے آکر انگلی کے پورے پر ایک نشان سے ان کی لاش پہچانی.( بخاری )25 ایک اور عاشق صادق انصاری سردار سعد بن ربیع تھے.میدان اُحد میں ستر مسلمان شہداء کی لاشوں کے پشتے لگے پڑے تھے.اور رسول اللہ کو اپنے وفا شعار غلام یاد آرہے تھے.اچانک آپ فرمانے لگے ” کوئی ہے جو جا کر دیکھے کہ انصاری سردار سعد بن ربیع پر کیا گزری.میں نے اُسے لڑائی کے دوران بے شمار نیزوں کی زد میں گھرے ہوئے دیکھا
رض 230 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل تھا.ابی بن کعب محمد بن مسلمہ اور زید بن حارثہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم حاضر ہیں.رسول اللہ نے محمد بن مسلمہ کو بھیجوایا اور فرمایا کہ سعد بن ربیع سے ملاقات ہو تو انہیں میرا سلام پہنچانا اور کہنا کہ رسول اللہ تمہارا حال پوچھتے تھے.انہوں نے جا کر میدان اُحد میں بکھری لاشوں کے درمیان انہیں تلاش کیا.انہیں آوازیں دیں مگر کوئی جواب نہ آیا.تب انہوں نے بآواز بلند کہا کہ اے سعد بن ربیع ! رسول اللہ نے مجھے تمہاری خبر لینے بھیجا ہے.اچانک لاشوں میں جنبش ہوئی اور ایک نحیف سی آواز آئی.وہاں پہنچے تو سعد کو سخت زخمی حالت میں پایا.ان سے کہا کہ رسول اللہ نے مجھے بھیجا ہے کہ میں پتہ کروں کہ کس حال میں ہو؟ اور حضور کا سلام آپ کو پہنچاؤں.انہوں نے کہا میں تو موت کے کنارے پر ہوں، مجھے بارہ تلواروں کے زخم آئے ہیں اور ایسے کاری زخم ہیں کہ ان سے جان بر ہونا مشکل ہے.اس لئے میری طرف سے بھی رسول اللہ کو سلام پہنچا دینا اور کہنا کہ سعد بن ربیع ” آپ کی خدمت میں عرض کرتے تھے کہ پہلے نبیوں کو اپنی امت کی طرف سے جو جزا ملی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اُن سب سے بہترین جزا عطا کرے اور میری قوم کو بھی میری طرف سے سلام پہنچانا اور یہ پیغام دینا کہ سعد بن ربیع کہتے تھے کہ تم نے عقبہ کی گھاٹی میں جو عہد رسول اللہ سے کیا تھا اُسے ہمیشہ یادرکھنا.ہم نے آخری سانس تک یہ عہد نبھایا.اب یہ امانت تمہارے سپرد ہے.جب تک تمہارے اندر ایک بھی جھپکنے والی آنکھ ہے اگر نبی کریم پر کوئی آنچ آگئی تو تمہارا کوئی عذر خدا کے حضور قبول نہ ہوگا.محمد بن مسلمہ نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سارا واقعہ عرض کر دیا.جس سے یقیناً آپ کا دل ٹھنڈا ہوا.(الحلبیہ )26 ایک اور عاشق رسول زید بن دشنہ تھے، جو ایک اسلامی مہم کے دوران قید ہوئے.مشرک سردار صفوان بن امیہ نے اُن کو خریدا تا کہ اپنے مقتولین بدر کے انتقام میں انہیں قتل کرے.جب صفوان اپنے غلام کے ساتھ انہیں قتل کرنے کے لئے حرم سے باہر لے کر گیا تو کہنے لگا اے زید میں تجھے خدا کی قسم دیگر پوچھتا ہوں کیا تو پسند کرتا ہے کہ محمد اس وقت تمہاری جگہ مقتل میں ہو اور تم آرام سے اپنے گھر میں بیٹھے ہو.زیڈ نے کہا خدا کی قسم مجھے تو یہ بھی گوارا نہیں کہ میرے قتل سے بچ جانے کے عوض رسول اللہ کوکوئی کانٹا بھی چھ جائے.ابوسفیان نے یہ سنا تو کہنے لگا خدا کی قسم ! میں نے دنیا میں کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جتنی محبت محمد کے ساتھی اس سے کرتے ہیں.(الحلبیہ ( 27 ایک دفعہ نبی کریم نے بعض قبائل کی درخواست پر ستر حفاظ کرام کو دعوت الی اللہ کے لئے بھجوایا.جنہیں بنی سلیم وغیرہ قبائل نے بد عہدی سے بئر معونہ مقام پر شہید کر دیا.دشمن نے جب مسلمانوں کے قافلہ کے امیر حرام بن ملحان کو قتل کر کے انہیں گھیر لیا.اُس وقت سب نے یہ دعا کی کہ اے اللہ ! اس وقت ہمارے پاس کوئی اور ذریعہ رسول اللہ کو اطلاع کرنے کا نہیں، کسی طرح اپنے رسول کو ہمارا آخری سلام پہنچا دے اور ہماری شہادتوں کی خبر دے کر یہ اطلاع کر دے کہ ہم اپنے رب سے راضی ہیں اور ہمارا رب ہم سے راضی.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو جبریل کے ذریعے اطلاع فرمائی.حضور اُس وقت مدینے میں اپنے صحابہ کے درمیان تشریف فرما تھے.آپ نے اچانک فرمایا وَ عَلَيْهِمُ السَّلامُ
231 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل اور ان پر بھی سلامتی ہو.پھر آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور صحابہ کو اطلاع دی کہ تمہارے بھائیوں کا مشرکوں سے مقابلہ ہوا اور وہ سب شہید ہو گئے.بوقت شہادت انہوں نے یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کا سلام اور راضی برضائے الہی ہونے کا پیغام ہم تک پہنچا دے.رسول اللہ کو اپنے ان ستر اصحاب کی شہادت کا بہت غم تھا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضور کو کبھی کسی کی موت کا اتنا صدمہ نہیں ہوا جتنا صدمہ بئر معونہ میں شہید ہونے والے ستر اصحاب کا ہوا.آپ تمیں دن تک نماز کی آخری رکعت میں ہاتھ اُٹھا کر مد دو نصرت کی دعائیں پڑھتے رہے.( الحلبیہ (28 ایک محبوب کے دیوانے صحابہ رسول کو اپنے آقا کی حفاظت کی جو فکر ہوتی تھی اور رسول اللہ صحابہ کا جس طرح خیال رکھتے تھے اس کا کچھ اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے.حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم رسول اللہ کے ساتھ شریک سفر تھے رات کو ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا.رات کے کسی حصے میں مجھے رسول اللہ کا خیال آیا اور میں آپ کا پتہ کرنے اس جگہ گیا جہاں آپ نے ڈیرہ لگایا تھا.وہاں موجود نہ پا کر میں ادھر ادھر آپ کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا.اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ کا ایک اور صحابی بھی میری طرح دیوانہ وار آپ کو ڈھونڈتا پھرتا ہے.ہم اسی حال میں تھے کہ نبی کریم کو اپنی طرف آتے دیکھا.ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! آپ دشمن کی سرزمین اور جنگ کے علاقہ میں ہیں.ہم آپ کی ذات کے بارہ میں خطرہ محسوس کرتے ہیں.خدا را آپ کو جب کوئی حاجت ہو تو آپ اپنے بعض صحابہ کوحکم فرمائیں تا کہ وہ آپ کے ساتھ جائیں.رسول کریم نے فرمایا کہ دراصل میرے رب کی طرف سے ایک فرشتہ آیا.اس نے مجھے اختیار دیا کہ میری امت کا آدھا حصہ جنت میں داخل کرے یا مجھے شفاعت کا حق چاہئے.میں نے شفاعت کا حق مانگا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری امت کے لئے زیادہ وسیع مغفرت کا موجب ہے.پھر مجھے دو تہائی امت کو جنت میں داخل کرنے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا گیا، پھر بھی میں نے شفاعت کو اختیار کیا کیونکہ میں جانتا تھا کہ شفاعت میں امت کے لئے زیادہ بخشش کی گنجائش ہے.ان دونوں صحابہ نے آپ سے دعا کی درخواست کی کہ ان کے حق میں بھی آپ کی شفاعت قبول ہو.رسول اللہ نے دعا کی.پھر ان دونوں نے دیگر صحابہ کو جا کر بتایا تو وہ بھی اہل شفاعت میں سے ہونے کی دعا کروانے آنے لگے.رسول اللہ نے فرمایا میری شفاعت ہر کلمہ گو کیلئے ہوگی.( احمد ) 29 غزوہ حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود (سردار طائف) سفیر قریش بن کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا.ایک صحابی حضرت مغیرہ بن شعبه بغرض حفاظت تلوار لئے رسول اللہ کے پاس کھڑے تھے.عروہ عرب دستور کے مطابق بات کرتے ہوئے از راہ منت اپنا ہاتھ نبی کریم کی داڑھی کی طرف بڑھاتا تھا.عاشقِ رسول تمغیرہ کو یہ بھی گوارا نہ تھا کہ ایک مشرک کا ہاتھ رسول اللہ کی ریش مبارک کو چھوئے.وہ اپنی تلوار کی نوک سے سفیر قریش کا ہاتھ پرے ہٹا دیتے اور کہتے "رسول اللہ کی داڑھی سے اپنا ہاتھ پرے ہٹائو ( بخاری (30) عروہ نے تعجب سے پوچھا کہ یہ کون نو جوان ہے.جب
232 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل اُسے پتہ چلا کہ یہ مغیرہ ہیں تو وہ اُن سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تم جانتے ہو جاہلیت میں میں تمہارا معاون و مددگار رہا ہوں، اس کا یہ بدلہ تم مجھے دے رہے ہو.واقعہ یہ ہے کہ صحابہ رسول کو اپنے آقا و مولیٰ سب دوستوں اور عزیزوں سے بڑھ کر پیارے تھے.میدان حدیبیہ میں ہی کفار کے سفیر عروہ نے صحابہ کے عشق کا ایک اور نظارہ بھی دیکھا کہ وہ حضور کے وضو کا مستعمل پانی حتی کہ آپ کا تھوک بھی نیچے گرنے نہ دیتے بلکہ بطور تبرک اپنے ہاتھوں میں لیتے تھے.وہ آپ کے حکم کی والہانہ تعمیل کرتے تھے.اس نے جا کر قریش کے سامنے اس کا یوں اظہار کیا کہ میں نے بڑے بڑے بادشاہوں کے دربار بھی دیکھے ہیں اور قیصر و کسری اور نجاشی کے محلات بھی.خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے ساتھیوں کو اس کی وہ تعظیم کرتے نہیں دیکھا جو محمد کے ساتھی اس کی کرتے ہیں.خدا کی قسم ! رسول اللہ کوئی تھوک بھی نہیں پھینکتے مگر ان کا کوئی ساتھی اُسے اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے جسم پر مل لیتا ہے اور جب وہ انہیں کوئی بات کہتے ہیں تو وہ لبیک کہتے اور فورا اس پر عمل کرتے ہیں.جب محمد وضو کرتے ہیں تو اس کے پانی کا ایک قطرہ بھی وہ نیچے گرنے نہیں دیتے اور لگتا ہے کہ اسے ہاتھوں ہاتھ لینے کیلئے جیسے وہ لڑ پڑیں گے.پھر جب وہ بات کرتا ہے تو وہ خاموشی سے سنتے ہیں.اس کی تعظیم کی خاطر اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے اور اس کے سامنے نیچی آواز میں بات کرتے ہیں.الغرض صحابہ کے عشق و محبت کا یہ وہ نظارہ تھا جس نے مشرک سردار عروہ کو بھی حیران و ششدر کر دیا.( بخاری ) 31 رسول کریم کے ایک اور عاشق صادق حضرت ابوایوب انصاری تھے.ہجرت مدینہ کے معابعد رسول اللہ آپ کے مکان میں آکر رہائش پذیر ہوئے تھے.رسول اللہ اللہ سے ابو ایوب کی محبت کا عجب عالم تھا.چھ یا سات ماہ کا عرصہ جو آنحضرت سے ان کے ہاں فروکش رہے، انہوں نے مہمانی کا حق خوب ادا کیا.سارا عرصہ رسول اللہ ﷺ کا کھانا با قاعدگی سے تیار کر کے بھجواتے رہے.جب کھانا بیچ کر آتا تو اس پر رسول خدا کی انگلیوں کے نشانات دیکھتے اور وہاں سے کھانا تناول کرتے.ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے کھانا تناول نہ فرمایا.ابوایوب جو رسول خدا کا بچا ہوا تبرک کھانے کے عادی تھے دوبارہ حاضر ہوئے.عرض کی حضور نے آج کھانا تناول نہیں فرمایا.حضور نے فرمایا آج کھانے میں پیاز لہسن تھا اور میں اسے پسند نہیں کرتا.ابو ایوب نے عرض کی حضور" جسے آپ نا پسند فرماتے ہیں آئندہ سے میں بھی اسے ناپسند کرتا ہوں.(ابن حجر (32) ( معلوم ہوتا ہے کچا پیاز لہسن ہو گا جسے پسند نہیں فرمایا ).والدین سے بڑھ کر محبت انہیں عشاق رسول میں سے زید بن حارثہؓ بھی تھے جنہیں انکے قبیلہ پر حملہ کے دوران پکڑ کر بیچ دیا گیا تھا.یہ حضرت خدیجہ کے غلام تھے.انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا تو آپ نے آزاد کر کے زیڈ کو منہ بولا بیٹا بنالیا.زیڈرسول اللہ کی شفقتوں کے مورد بنے اور حب رسول ، یعنی رسول اللہ کے پیارے کہلائے.زیڈ بھی رسول اللہ کی محبت کے اسیر ہو کر رہ گئے.
233 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل زیڈ کا والد ان کی تلاش میں رسول اللہ کے پاس پہنچا اور انہیں آزاد کرنے کی درخواست کی.رسول اللہ نے زید کو بلا کے فرمایا کہ اے زیڈ تجھے اختیار ہے چاہو تو میرے پاس رہو، چاہو تو اپنے والدین کے ساتھ وطن واپس چلے جاؤ.زید کا یہ جواب عشق و محبت کی دنیا میں ہمیشہ یادر ہے گا کہ ”میرے آقا! میں آپ کی بجائے کسی دوسرے کے ساتھ جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا.اب آپ ہی میرے مائی باپ ہیں.( ابن سعد ) 33 خدام سے مشفقت رسول کریم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ایک خادم کی ضرورت محسوس ہوئی.حضرت ام سلیم اور ابوطلحہ نے اپنے بیٹے کولا کر پیش کر دیا کہ حضور ! یہ بچہ انس آپ کی خدمت کرے گا.( بخاری 34 ) والدین کی طرح لاڈ اور پیار کی خاطر حضور انس کو بیٹا اور ائیں“ کہ کر پکارتے کبھی ازراہ مذاق بالاذنين یعنی دوکانوں والا کہ کر یاد فرماتے.(ترمذی)35 رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق میں دعا کی تھی کہ اے خدا انس کے مال و اولاد میں برکت دے اور اسے جنت میں داخل کرنا ! ( بخاری ) 36 حضرت انس خادم رسول کے مبارک لقب سے یاد کئے جانے لگے.وہ اس پر فخر کیا کرتے تھے، کیوں نہ کرتے در نبوی کی گدائی سے بڑھ کر فخر کا کیا مقام ہو گا.حضرت انسؓ نے اس تعلق کی بدولت دینی ودنیاوی برکات حاصل کیں.حضرت انس کو آنحضرت ﷺ سے غایت درجہ عشق اور محبت تھی.آپ کے پاس رسول اللہ کے تبرکات میں سے ایک موئے مبارک تھا.بوقت وفات وصیت کی کہ میرے آقا کا یہ بال میری زبان کے نیچے رکھ دینا.رسول اللہ کی یادگا ر ایک چھڑی بھی آپ کے پاس تھی.آپ کی وصیت کے مطابق یہ بھی آپ کے پہلو میں دفن کی گئی.سبحان اللہ! محبوب کی جو ٹے بھی میسر تھی اس سے بوقت وفات بھی جدائی گوارا نہ تھی تو رسول اللہ کی جدائی ان پر کیسی شاق گزری ہوگی.وفات رسول کے بعد آپ اکثر دیوانہ و بے خود ہو جاتے اور کیوں نہ ہوتے اگر حستان کی آنکھوں کی پتلی نہ رہی تھی تو انس کا نور نظر بھی تو جاتا رہا تھا.اسی حد درجہ محبت کا نتیجہ تھا کہ اکثر خواب میں ”خادم رسول اپنے آقا سے ملاقات کیا کرتا.آقا کی باتیں سناتے تو الفاظ میں نقشہ کھینچ کر رکھ دیتے.حضرت انس کے اس خادما نہ تعلق کو صرف وفات رسول ہی جدا کرسکی.حضرت اسامہ بھی رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام زیڈ کے بیٹے تھے اور جب رسول“ یعنی رسول اللہ کے محبوب کہلاتے تھے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسامہ مجھے تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ہے سوائے ( میری بیٹی ) فاطمہ کے.خود اسامہ کہتے ہیں کہ آنحضرت یہ انہیں اور حضرت حسین کو دونوں رانوں پر بٹھا لیتے اور فرماتے.”اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما.( بخاری 37 ) رسول اللہ نے آخری بیماری میں رومیوں کے خلاف جولشکر
اسوہ انسان کامل 234 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول تیار کیا اس کی کمان کم سن اسامہ کے سپر دفرمائی.( بخاری ) 38 اسامہ حضور کی آخری بیماری میں آپ سے الوداعی ملاقات کرنے آئے وہ بیان کرتے ہیں.”جب میں حاضر ہوا تو حضور نے دونوں ہاتھ مجھ پر رکھے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھائے.میں جانتا ہوں کہ حضور میرے لئے دعا کر رہے تھے.“ سبحان اللہ آقا کی غلام پر شفقت کا عجیب عالم ہے کہ مرض الموت میں بھی اس یتیم بچہ کے لئے دعا گو ہیں گویا اسے خدا کے حوالے کر رہے ہیں دراصل یہ آپ کی طبعی محبت کا اظہار تھا.غزوہ موتہ میں اسامہ کے والد حضرت زیڈ کی شہادت پر رسول اللہ نے اسامہ کی بہن کو روتے دیکھا تو آپ بھی رو پڑے.سعد بن عبادہؓ نے عرض کی حضور یہ کیا فرمایا یہ جذبہ محبت ہے.رسول اللہ کے باوفا غلاموں میں ثوبان بن مالک بھی تھے.ایک دفعہ روتے ہوئے حاضر ہوئے.رسول اللہ نے حال پوچھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ! اس دنیا میں تو جب جی کرتا ہے آکر آپ کی زیارت کر لیتے ہیں.اگلے جہاں میں تو آپ بلند مقامات پر ہوں گے تب آپ تک رسائی کیسے ہوگی؟ یہ خیال بے چین کر دیتا ہے.رسول کریم نے ثوبان کو خوشخبری دی کہ آدمی اس کے ساتھ ہوتا ہے جس کے ساتھ اسے محبت ہو.( بخاری ) 39 حجرت ربیعہ اسلمی رسول اللہ کے ایک اور خادم تھے.ایک دن نبی کریم نے ان کی خدمتوں سے خوش ہو کر انعام سے نوازنا چاہا.فرمایا ربیعہ مانگو کیا مانگتے ہو؟ کچھ سوچ کر ربیعہ نے کہا یا رسول اللہ جنت میں آپ کی رفاقت چاہیے.فرمایا کچھ اور مانگ لو.عرض کیا بس یہی کافی ہے.رسول کریم نے فرمایا پھر ڈھیر سارے سجدوں، دعاؤں اور نمازوں سے میری مدد کرنا.(مسلم) 40 اپنے محسن کی خدمت کا جذبہ حضرت جابر اپنے والد عبدالله بن حرام کے بارہ میں یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے حلوا تیار کر وایا پھر مجھے کہنے لگے کہ رسول اللہ کی خدمت میں تحفہ پہنچا کر آؤ.میں لے کر گیا، حضور فرمانے لگے ”جا بڑا گوشت لائے ہو؟“ میں نے عرض کیا ”نہیں اے اللہ کے رسول ! میرے والد نے یہ حلوا آپ کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے بھجوایا ہے ، آپ نے فرمایا ” ٹھیک ہے.اور اسے قبول فرمایا.میں جب واپس گیا تو والد نے پوچھا کہ رسول اللہ نے تمہیں کیا فرمایا تھا.میں نے عرض کر دیا کہ حضور نے پوچھا تھا کہ گوشت لائے ہو؟ میرے والد کہنے لگے کہ معلوم ہوتا ہے کہ میرے آقا رسول اللہ کو گوشت کی خواہش ہوگی.چنانچہ والد صاحب نے اسی وقت اپنی ایک دودھ دینے والی بکری ذبیح کر دی.پھر گوشت بھوننے کا حکم دیا اور مجھے حضور کی خدمت میں بھنا ہوا گوشت دے کر بھجوایا.حضور نے بہت محبت سے دلی شکر یہ ادا کرتے ہوئے قبول کیا اور فرمایا " انصار کو اللہ تعالیٰ بہت جزا عطا فرمائے خاص طور پر عمر و بن حرام کے قبیلے کو.‘‘ (ھیثمی ) 41
235 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل جاب کے والد حضرت عبد اللہ احد میں شہید ہو گئے اور اپنے پیچھے جابر کے علاوہ سات بیٹیاں چھوڑیں.رسول اللہ حضرت جابر کا بہت خیال رکھتے تھے.حضرت عبداللہ کی وفات کے بعد یہودی ساہوکاروں کا ایک بھاری قرض حضرت جابر پر تھا.رسول اللہ کی دعا کی برکت سے وہ ادا ہوا.( بخاری )42 ایک سفر میں جابر کا اونٹ تھک کر اڑ گیا تو رسول اللہ نے اس کے لئے دعا کی اور وہ بھاگنے لگا.( بخاری )43 جابر کو بھی رسول اللہ کی شفقتیں دیکھ کر آپ سے ایک والہانہ عشق ہو گیا تھا اور رسول اللہ کی کوئی تکلیف ان سے دیکھی نہ جاتی تھی.حضرت جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی کے دوران صحابہ کو فاقہ تھا.رسول اللہ نے بھی اس وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے اور مسلسل تین روز سے ہم نے کچھ کھایا پیا نہیں تھا.حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ سے اجازت لے کر گھر گیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے رسول کریم کو ایسے حال میں دیکھا ہے جس پر صبر کرنا ناممکن ہے.تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ پھر میں نے ایک بکر وٹہ ذبح کیا، میری بیوی نے جو ہیں لئے ، گوشت جب ہنڈیا میں رکھ دیا تو میں رسول کریم کے پاس حاضر ہوا.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے گھر تھوڑا سا کھانا ہے آپ تشریف لائیں اور اپنے ساتھ ایک دو افراد کو بھی لے لیں، آپ نے پوچھا کہ کھانا ہے کتنا ؟ میں نے تفصیل عرض کر دی، آپ نے فرمایا کہ بہت کافی ہے.پھر مجھے فرمایا کہ جاؤ اور بیوی سے کہو کہ ہنڈیا چولہے سے نہ اُتارے اور روٹیاں تنور میں لگانی شروع نہ کرے یہاں تک کہ میں آجاؤں.پھر صحابہ سے فرمایا کہ چلو جابر نے ہماری دعوت کی ہے.چنانچہ مہاجرین اور انصار حضور کے ساتھ چل پڑے.جابڑ کہتے ہیں کہ میں بیوی کے پاس گیا تو وہ بولی تیرا بھلا ہورسول اللہ تو سب مہاجرین و انصار کو ہمراہ لے آئے ہیں.کیا حضور نے تم سے کھانے کی مقدار کا پوچھ لیا تھا.میں نے کہا ”ہاں“.حضور نے صحابہ کو خاموشی سے جائز کے گھر داخل ہونے کی تلقین فرمائی اور روٹی تو ڑ تو ڑ کر اس پر گوشت رکھتے گئے.ہنڈیا اور تنور کو آپ نے ڈھانپ کر رکھا ہوا تھا.کھانا لے کر پھر ڈھانپ دیتے تھے اور اپنے صحابہ کو دیتے جاتے تھے.اس طرح حضور تصحابہ کو کھانا کھلاتے رہے یہاں تک کہ سب نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور پھر بھی کھانا بیچ رہا.تب آپ نے جابڑ کی بیوی سے فرمایا کہ خود بھی کھاؤ اور لوگوں کو تحفہ کے طور پر بھجواؤ کیونکہ آجکل لوگ سخت بھوک اور فاقہ کہ حالت میں ہیں.( بخاری )44 حضرت کعب بن عجرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر دیکھا میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ حضور کے مزاج تو بخیر ہیں.آپ نے کمال بے تکلفی سے فرمایا کہ میں نے تین روز سے کھانا نہیں کھایا.کعب کہتے ہیں میں اسی وقت کھانے کی تلاش میں با ہر نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک یہودی اپنے اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا.میں نے اس کے اونٹوں کو پانی پلانے کے لئے ایک ڈول پانی کے عوض ایک
اسوہ انسان کامل 236 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول کھجور لینے کی حامی بھر لی.پھر وہ کھجور میں اکٹھی کر کے نبی کریم کی خدمت میں جا کر پیش کر دیں.آپ نے فرمایا کعب! یہ کہاں سے لائے؟ میں نے سارا ماجرا کہہ سنایا.نبی کریم نے فرمایا اے کعب کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟ میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان مجھے آپ سے عشق ہے.نبی کریم نے فرمایا جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے.فقر وفاقہ اس کی طرف بہت تیزی سے آتا ہے اور تجھے بھی آزمایا جائے گا.اس لئے اس کے مقابلہ کے لئے تیاری کرلو.اس کے بعد ایک دفعہ کعب بیمار ہو گئے.رسول کریم نے اپنے اس عاشق کا حال پوچھا کہ وہ کہاں ہیں نظر نہیں آئے.ان کی بیماری کا پتہ چلا تو بنفس نفیس احوال پرسی کے لئے تشریف لے آئے اور کعب کو تسلی اور بشارت دی.(حیثمی )45 حضرت سعد بن خیثمہ بیان کرتے ہیں کہ میں تبوک میں رسول اللہ سے پیچھے رہ گیا تھا.اپنے کھجور کے باغ میں گیا تو دیکھا کہ چھپر میں چھڑ کا ؤکر کے بیٹھنے کی ٹھنڈی جگہ بنائی گئی ہے.میری بیوی موجود تھی.میں نے کہا یہ انصاف نہیں.خدا کا رسول سخت گرمی کے موسم میں ہو اور میں سائے اور پھلوں میں ہوں.میں نے اسی وقت سواری لی اور کچھ کھجور میں بطور زادِ راہ لے کر چل پڑا.میری بیوی کہنے لگی کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا رسول اللہ کے ساتھ شریک جہاد ہونے کے لئے.جب میں لشکر کے قریب پہنچا تو رسول اللہ نے دور سے غبار اٹھتی دیکھ کر فرمایا خدا کرے یہ ابوخیثمہ ہو.میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ اللہ میں تو پیچھے رہ جانے کی وجہ سے ہلاک ہونے کو تھا اور پھر اپنا قصہ کہہ سنایا.رسول اللہ نے میرے لئے دعائے خیر کی.(بیٹمی )46 صحابیات کا عشق رسول عشق رسول تو ایمان کی علامت ہے.اس لئے صحابیات رسول سبھی اس میدان میں مردوں سے پیچھے نہ تھیں.وہ 47 رسول اللہ کے حالات اور ضروریات پر نظر رکھتیں اور ان کو پورا کر کے ثواب اور تسکین دل حاصل کرنا چاہتیں.رسول اللہ کی ازواج میں حضرت عائشہؓ سے بڑھ کر کون رسول اللہ کا عاشق ہوگا.مسروق بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عائشہ مجھ سے باتیں کرتے کرتے رو پڑیں میں نے رونے کا سبب پوچھا تو کہنے لگیں میں کبھی بھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھاتی مگر چاہتی ہوں کہ ایک دفعہ رسول اللہ کی تنگی اورسختی کا زمانہ یا دکر کے رولوں.( ابن سعد ) 7 حضرت زید مدنی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا اے ام المؤمنین سلام ہو.انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر رونا شروع کر دیا ہم نے کہا ام المؤمنین! رونے کا سبب کیا ہے؟ حضرت عائشہ فرمانے لگیں مجھے پتہ چلا ہے کہ تم لوگ قسم قسم کے کھانے کھاتے ہو.یہاں تک کہ پھر اسے ہضم کرنے کے لئے دوا تلاش کرتے پھرتے ہو.مجھے تمہارے نبی کے فاقہ کا زمانہ یاد آ گیا اس لئے روتی ہوں.آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو حال یہ تھا کہ کسی ایک دن میں آپ نے دو کھانوں سے پیٹ نہیں بھرا.جب پیٹ بھر کر کھجور کھالی تو روٹی سیر ہو کر نہیں
237 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول اسوہ انسان کامل کھائی اور روٹی پیٹ بھر کر کھائی تو کھجور سے سیر نہیں ہوئے.اس تکلیف دہ یاد نے مجھے بے اختیار رلا دیا.( ابن سعد ) 48 ایک صحابیہ نے ایک دفعہ رسول اللہ کے لئے لباس کی ضرورت محسوس کی تو ایک خوبصورت چادر ہاتھ سے کڑھائی کر کے لے آئیں اور حضور کی خدمت میں نذر کرتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ آپ یہ چادر خود زیب تن فرمائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنی ضرورت کا یہ انتظام ہونے پر شکریہ کے ساتھ اسے قبول کیا اور وہ چادر پہن کر مسجد میں تشریف لائے.ایک شخص نے دیکھ کر کہا اے اللہ کے رسول ! یہ کتنی خوبصورت چادر ہے؟ آپ مجھے ہی عطا فرما دیں.آپ نے فرمایا ” اچھا یہ آپ کی ہوئی" نبی کریم جب مجلس سے اٹھ کر تشریف لے گئے تو صحابہ نے اس شخص سے کہا کہ تم نے حضور سے چادر مانگ کر اچھا نہیں کیا، خصوصاً جب کہ حضور کو اس کی ضرورت بھی تھی اور تمہیں کو پتہ ہے کہ رسول اللہ سے کچھ مانگا جائے تو آپ کبھی انکار نہیں فرماتے.وہ صحابی کہنے لگے بیچ پوچھو تو میں نے بھی برکت کی خاطر یہ پہنی ہوئی چادر مانگی ہے.میری خواہش ہے کہ مرنے کے بعد میرا کفن اسی چادر سے ہو جو رسول اللہ کے بدن سے مس ہوئی.( بخاری ) 49 حضرت ام سلیم بسا اوقات کھانا بنوا کے رسول اللہ کے گھر بھجوا دیتی تھیں.حضرت زینب کی شادی کے موقع پر بھی حضرت ام سلیم نے کافی سارا کھانا بنوا کے بھیجوا دیا جس سے رسول اللہ نے دعوت ولیمہ کا انتظام فرمایا.( بخاری ) 50 ایک انصاری خاتون مینا نامی تھیں.ان کا غلام بڑھئی کا کام کرتا تھا.ان کے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ کے مجلس میں بیٹھنے کے لئے لکڑی کی کوئی اچھی چیز بنوا کر دیں.چنانچہ رسول اللہ سے انہوں نے عرض کیا میں آپ کے بیٹھنے کے لئے کوئی چیز بنوانا چاہتی ہوں.حضور نے خوشی سے اجازت دیدی تو انہوں نے وہ منبر بنوایا جس پر رسول اللہ خطبہ ارشاد فرماتے تھے.(بخاری) 51 اُحد کے دن جب مدینہ میں یہ خبر پھیل گئی کہ رسول اللہ شہید ہو گئے ہیں.مدینہ میں عورتیں رونے اور چلانے لگیں.ایک عورت کہنے لگی تم رونے میں جلدی نہ کرو میں پہلے پتہ کر کے آتی ہوں ، وہ گئی تو پتہ چلا کہ اس کے سارے عزیز شہید ہو چکے تھے.اس نے ایک جنازہ دیکھا، پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے.بتایا گیا کہ یہ تمہارے باپ کا جنازہ ہے.اس کے پیچھے تمہارے بھائی، خاوند اور بیٹے کا جنازہ بھی آ رہا ہے.وہ کہنے لگی مجھے یہ بتاؤ رسول اللہ کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا نبی کریم وہ سامنے تشریف لا رہے ہیں.وہ رسول اللہ کی طرف لپکی اور آپ کے کرتے کا دامن پکڑ کر کہنے لگی میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! جب آپ زندہ ہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں.( بیشمی )52 الغرض کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے سب ہی اس پاک رسول کے دیوانے اور اس کے منہ کے بھوکے تھے اور یہ کمال آنحضور کے اخلاق فاضلہ کا تھا جن کے باعث ایک دنیا آپ کی گروید تھی، آج تک ہے اور رہے گی.انشاءاللہ.......
اسوہ انسان کامل 238 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول 1 ترمذی (44) کتاب الادب باب 47 2 كامل لابن عدی جلد 2 ص 286 حواله جات 3 الاصابه في تمييز الصحابه ابن حجر جز 3 ص588 بيروت 4 السيرة الحلبية جلد 1 ص 295 بيروت 5 السيرة الحلبية جلد 2ص45 بيروت 6 مسند احمد جلد 1 ص 2 مصر بخاری (68) كتاب التفسير سورة النصرباب 463 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 6 9 مسند احمد جلد 4 ص 336 10 بخاری (67) کتاب المغازی باب 78 11 اسدالغابة فى معرفة الصحابه لابن اثیر جزء 1 ص597 12 بخاری (67) کتاب المغازی باب 74 13 ترمذی(50) کتاب المناقب باب 20 14 الوفاء جلد 1 ص 181 ، كنز العمال جلد 13 ص 128 15 المعجم الكبير جلد 1 ص 154 16 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد3 ص 410 بيروت 17 مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص 204 مطبوعه مصر 18 مسند احمد جلد6ص370 19 بخاری(67) کتاب المغازی باب 4 20 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد 3 ص 505 مطبوعه بيروت 21 بخاری (67) کتاب المغازی باب15 22 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد 3 ص116 مطبوعه بيروت 23 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد 3 ص119 مطبوعه بيروت 24 اسد الغابة في معرفة الصحابه لابن اثير جلد 1 ص 1017،789 بيروت 25 بخاری (67) کتاب المغازی باب 14
اسوہ انسان کامل 239 آنحضرت کی صحابہ سے محبت اور صحابہ کا عشق رسول 26 السيرة الحلبية جلد2 ص 245 دارا حياء التراث العربي بيروت 27 السيرة الحلبية جلد 3 ص 170 مطبوعه بيروت 28 السيرة الحلبية جلد 3 ص 171,172 بيروت 29 مسند احمد جلد 4 ص415 مطبوعه مصر 30 بخاری(58) کتاب الشروط باب 15 31 بخاری (58) كتاب الشروط باب 15 32 الاصابه في تمييز الصحابه ابن حجر جلد 2ص234 بيروت 33 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص 40 تا 42 مطبوعه بيروت 34 بخاری(83) کتاب الدعوات باب18 35 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 57 36 بخاری(83) کتاب الدعوات باب18 37 بخاری(66) کتاب فضائل الصحابة باب 18 38 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 17 39 بخاری(81) كتاب الادب باب 96 40 مسلم(5) كتاب الصلاة باب 43 41 دلائل النبوة الابي نعيم جلد 1 ص 48 42 بخارى كتاب المغازى باب غزوة احد و كتاب الاستقراض 43 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 112 44 بخاری (67) كتاب المغازی باب 27 الزوائد لهيثمي جلد 10 ص 565 45 مجمع 46 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 285 مطبوعه بيروت 47 مجمع الزوائد جلد 10 ص565 48 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 406 49 بخاری (81) کتاب الادب باب 39 50 بخاری (70) كتاب النكاح باب 64 51 بخاری (11) کتاب المساجد باب 31 52 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 165 بیروت بحواله طبرانی
اسوہ انسان کامل 240 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اہم منصب بطور نبی اور رسول کے یہ تھا کہ آپ اللہ کے حکم کے مطابق بنی نوع انسان کو خدا کی طرف بلائیں.قرآن شریف میں آپ کا یہ مقام دَاعِبًا اِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ “ (الاحزاب : 47) بیان کیا گیا ہے.آپ ہی کا ئنات کے وہ بہترین وجود تھے جنہوں نے محض دنیا کو خدا کی طرف بلایا ہی نہیں بلکہ خدا کے حکموں پر خود عمل کر کے بھی دکھا دیا اور ثابت کیا کہ آپ ہی سب سے بڑھ کر خدا کے فرمانبردار ہیں.آپ ہی تھے جنہوں نے ”بلغ ( یعنی پیغام پہنچا دو) کے حکم کی تعمیل میں حق تبلیغ ادا کر کے دکھایا.آپ نے مخفی طور پر بھی دعوت الی اللہ کی اور اعلانیہ بھی.دن کے وقت بھی دنیا کو خدا کی طرف بلایا اور رات کو بھی.بنی نوع انسان کا گہرا درد آپ کے سینہ میں موجزن تھا جس کی بناء پر آپ ہر کس و ناکس کو اسلام کی تبلیغ کرتے تھے.آپ نے غرباء اور فقراء کو بھی پیغام پہنچایا، بادشاہوں اور امراء کو بھی دعوت حق دی.ان کی طاقت وسطوت شاہانہ سے بھی مرعوب نہیں ہوئے.ہمیشہ قرآنی تعلیم کی تبلیغ حکمت اور استقلال کے ساتھ فرماتے رہے.یہی آپ کا وہ عظیم الشان منصب تھا.جس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” میں تو صرف ایک مبلغ بنا کر بھیجا گیا ہوں.ہدایت اللہ ہی دیتا ہے.پس تم میں سے جس شخص کو مجھ سے کوئی چیز حسن رغبت اور حسین ہدایت کے ساتھ پہنچے تو اس میں یقینا اس کے لئے برکت رکھی جائے گی.‘ (احمد )1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں دعوت الی اللہ کا جو دردتھا اور دنیا کی ہدایت کی جو فکر تھی اس کا اندازہ آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ ”لوگو! میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے (روشنی کی خاطر ) آگ جلائی.پروانے اور کیڑے مکوڑے اس پر آ آ کر گرنے لگے.وہ انہیں پرے ہٹاتا ہے مگر وہ باز نہیں آتے اور اس میں گرتے چلے جاتے ہیں.میں بھی تمہاری کمر سے پکڑ پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے بچانا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ دیوانہ وار اس آگ کی طرف بھاگے چلے جاتے ہو.( بخاری )2 خدا کا پیغام پہنچانے کی خاطر رسول اللہ نے حکمت کی تمام راہیں اختیار کیں.ہمیشہ نرم زبان استعمال کی.عمدہ نصیحت کے ذریعہ دنیا کو اسلام کے حسین پیغام کی طرف بلایا.بشارتیں اور خوشخبریاں دے کر بھی دعوت دی اور عذاب الہی سے ہوشیار کر کے اور ڈرا کر بھی دنیا کو متنبہ کیا مگر ہمیشہ تو اضع اور عاجزی کی راہ اختیار کرتے ہوئے اتمام حجت کیا.
اسوہ انسان کامل 241 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ آپ کی ایک حکمت عملی یہ تھی کہ مشترک قدروں سے بات کا آغاز فرماتے.ہمیشہ تو حید کا پیغام مقدم رکھتے تھے.جہاں ضروری ہوتا تالیف قلب کے ذریعہ بھی تبلیغ کا حق ادا کرتے.اس راہ میں آپ نے دیکھ بھی سہے، تکالیف بھی برداشت کیں.مارے پیٹے بھی گئے اور گالیاں بھی سنیں مگر ہمیشہ صبر کیا اور کمال استقامت کے ساتھ اپنی بعثت کے دن سے لے کر اس دن تک کہ دنیا سے کوچ فرمایا خدا کا پیغام پہنچانے میں کبھی ست ہوئے نہ ماندہ.آپ حسب حکم الہی سخت معاند مشرکوں اور جاہلوں سے اعراض فرماتے تھے.حتی الوسع بحث و جدال کی مجالس سے بچتے تھے.اگر مباحثہ کی نوبت آہی جائے تو نہایت عمدگی اور حکمت سے احسن طریق پر بحث کی تعلیم دیتے تھے.سوائے اس کے کہ مد مقابل زیادتی پر اتر آئے ہخت جواب سے پر ہیز کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پیغام پہنچا کر اتمام حجت کرنا ضروری سمجھتے تھے.کبھی پیچھے پڑ کر بات منوانے کی کوشش نہیں فرمائی.فرماتے تھے اللہ تعالیٰ نے مجھے مبلغ ( یعنی پیغام پہنچانے والا ) بنا کر بھیجا ہے سختی کرنے والا نہیں بنایا.(مسلم)3 اپنے زیر دعوت لوگوں کے لئے بھی دعا کرتے تھے اور اپنی مدد و نصرت کیلئے معاون ونصیر تیار ہونے کی دعائیں بھی.ایسے داعیان جو آپ کی صحبت و تربیت سے فیض یاب ہونے کے بعد آگے جا کر دعوت اسلام بھی کریں اور مزید داعی الی اللہ بھی بنائیں.انفرادی تبلیغ دعوت الی اللہ کا ایک بنیادی اصول حکمت انفرادی تبلیغ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو سے بھی دعوت الی اللہ کا بہترین نمونہ ہمیں دیا ہے.اللہ تعالیٰ نے قدم قدم پر آپ کی رہنمائی فرمائی اور دعوت الی اللہ کیلئے اعلیٰ حکمتیں تعلیم فرمائیں اور آپ نے ان پر عمل کر کے دکھا دیا.آپ کے اخلاق و کردار عین قرآن کے مطابق تھے.چنانچہ ابتدائی زمانہ میں پیغام حق پہنچانے میں جو حکمتیں بطور خاص ملحوظ رکھی گئیں ان میں اولین حکمت مخفی انفرادی تبلیغ ہے.یعنی دعوتی نبوت کے ابتدائی تین سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عملی نمونہ ے نیز مخفی اور انفرادی طور پر تبلیغ فرماتے رہے جس کے نتیجہ میں آپ کے افراد خانہ حضرت خدیجہ، حضرت علی اور قریبی تعلق والوں حضرت ابو بکر اور حضرت زیڈ نے اسلام قبول کر لیا.اس زمانہ کا کچھ حال اسماعیل بن ایاس اپنے دادا عفیف سے یوں بیان کرتے ہیں کہ میں تاجر آدمی تھا حج کے زمانہ میں منی آیا.عباس بن مطلب بھی تاجر تھے.ان کے پاس کچھ خرید وفروخت کے لئے آملاقات ہوئی.میرے وہاں بیٹھے ہوئے ایک شخص نے خیمہ سے نکل کر خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی.پھر ایک عورت اور ایک بچہ بھی اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگے.میں نے عباس سے پوچھا کہ یہ کون سا دین ہے.ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں.انہوں نے بتایا کہ یہ محمد بن عبد اللہ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اللہ نے ان کو بھیجا ہے اور یہ کہ قیصر و کسری کے خزانے ان کے ہاتھ پر فتح ہوں گے.ساتھ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہیں جو آپ پر ایمان لے آئی ہیں.یہ لڑکا ان کا چا زا علی بن
اسوہ انسان کامل 242 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ ابی طالب ہے جو آپ پر ایمان لایا ہے.عفیف کہا کرتے تھے کاش اس وقت میں ایمان لے آتا تو میرا تیسرا نمبر ہوتا.( بیہقی 4 ) مگر یہ سعادت حضرت ابو بکر کو عطا ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ اپنے فرستادوں کے حق میں خود تائید و نصرت کی ہوائیں چلاتا اور ان کی تنہائی کے زمانہ کی دعائیں قبول فرماتے ہوئے انہیں مضبو ط معاون و مددگار عطا فرماتا ہے.اسی زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر جیسی سعید روح کے دل میں اسلام کی جستجو پیدا کر دی اور انہوں نے خود آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوی کی نسبت پوچھا تو آپ نے قریبی دوستی کے تعلق کے حوالہ سے ان پر معاملہ کھول دیا.دعوت الی اللہ کا پہلا شیریں پھل ابن اسحاق ” بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو پوچھا کہ اے محمد ! قریش کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے معبودوں کو چھوڑ دیا اور ان کو بے وقوف ٹھہرا کر ان کے باپ دادا کو کافر قرار دیا.کیا یہ درست ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا ہاں میں اللہ کا رسول اور اس کا نبی ہوں.اس نے مجھے بھیجا ہے کہ میں اس کا پیغام پہنچاؤں اور اللہ کی طرف حق کے ساتھ دعوت دوں اور خدا کی قسم یہی حق ہے.اے ابوبکر! میں آپ کو خدائے واحد کی طرف بلاتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو.اس خدا کی اطاعت کی خاطر ہماری دوستی ہونی چاہئے.پھر حضور نے کچھ قرآن بھی ابوبکر کو سنایا.ابو بکڑ نے اسلام قبول کر لیا اور بتوں سے بیزاری ظاہر کر کے اُنکا انکار کیا.یوں ابوبکر اسلام قبول کر کے لوٹے.حضرت ابو بکر نے رسول اللہ سے آپ کے دعوی کے لئے کوئی دلیل نہیں لی.اسی لئے نبی کریم فرماتے تھے کہ جسے بھی میں نے اسلام کی طرف دعوت دی ، اسے ایک دھچکا سا لگا.اسلام قبول کرنے میں تر قد ہوا اور وہ سوچ میں پڑ گیا سوائے ابو بکر کے کہ انہوں نے فوراً میری دعوت قبول کرلی اور ذرہ برابر بھی تردد نہیں کیا.(بیہقی 5 ) مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے لیک آں صدیق حق معجز نخواست گفت این رو خود نه گوید غیر راست یعنی صدیق اکبر نے رسول اللہ سے کوئی معجزہ طلب نہیں کیا یہی کہا کہ یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں.اس دوران رسول اللہ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بھی اپنے آقا و مولیٰ کا دین قبول کر چکے تھے.اب قافلہ اسلام میں چار افراد ہو چکے تھے.اعلانیہ تبلیغ کا سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا.تبلیغ میں تدریج ہمارے نبی کریم نے آغاز میں عبادت الہی اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کی تعلیم کی طرف دعوت دی جیسا کہ حضرت عمرو بن عنبسہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ کی بعثت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ آیا.اس وقت رسول اللہ نے
243 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل ابھی رسالت کا اعلان عام نہیں فرمایا تھا.میں نے آپ سے پوچھا کہ آپ کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا میں نبی ہوں.میں نے پوچھا کہ نبی کیا ہوتا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کا بھیجا ہوا ) رسول ہوتا ہے.میں نے پوچھا کیا اللہ نے آپ کو بھیجا ہے.آپ نے فرمایا ہاں.میں نے کہا کیا تعلیم دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا یہ کہ اللہ کی عبادت کی جائے.بتوں کو چھوڑا جائے اور رحمی رشتوں کے حق ادا کئے جائیں.میں نے کہا یہ تو بہت اچھی تعلیم ہے.اسے کتنے لوگوں نے قبول کیا ہے.آپ نے فرمایا ایک آزاد اور ایک غلام ( یعنی ابو بکر اور زیڈ.اس جگہ حضور نے صرف گھر سے باہر کے مردوں کا ذکر کیا ہے ) گھر کی عورت خدیجہ اور بچے علی کا ذکر نہیں فرمایا.عمرو نے اسلام قبول کر لیا.وہ کہتے تھے کہ میں گو یا مر دوں میں چوتھے نمبر پر اسلام قبول کرنے والا تھا.پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کیا میں یہاں رہ کر آپ کی پیروی کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں تم اپنی قوم میں جا کر اس تعلیم پر عمل کرو.البتہ جب تمہیں میرے خروج یعنی ہجرت کا پتہ چلے پھر آکر میری پیروی کرنا.(بیہقی) چنانچہ حضرت عمرو بن عنبسہ اپنے علاقہ میں رہ کر اسلام پر قائم رہے.رسول کریم کی ہجرت مدینہ کے بعد وہ بھی مدینہ آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوئے.ابتدائی زمانے کی تبلیغ میں تدریج کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے.حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ اول رسول اللہ ﷺ پر وہ سورتیں اتریں جو مفصل کہلاتی ہیں اور جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے.پھر جب کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہو گئے تو حلال وحرام کے احکام اترے.اگر رسول اللہ آغاز میں یہ حکم دیتے کہ زنانہ کرو، شراب نہ پیو، چوری نہ کروتو لوگ کہتے ہم شراب بھی نہیں چھوڑیں گے ، ہم زنا بھی نہیں چھوڑیں گے.( بخاری )7 آغاز میں صرف اقرار توحید ورسالت کروایا گیا.پھر جوں جوں احکام الہی اتر تے گئے تدریجاً ان کی طرف دعوت دی گئی.پس نئے لوگوں کو اسلام کی طرف لانے میں تدریج کا اصول کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا.مخفی تبلیغ الله آغاز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخفی طور پر انفرادی تبلیغ فرماتے رہے،حضرت ابو بکڑ نے بھی قبول اسلام کے بعد اپنی قوم کے قابل اعتماد افراد تک پیغام حق پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا اور اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی.پھر چراغ سے چراغ روشن ہونے لگا.حضرت ابو بکر کے ذریعہ قریش کے چند نو عمر و جوان ایمان لے آئے.ان اسلام قبول کرنے والوں پر آپ کی سیرت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے جن میں حضرت عثمان بن عفان ، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت طلحہ بن عبد اللہ شامل ہیں.جن کو رسول اللہ نے ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت دی تھی.ان کے علاوہ حضرت بلال اور کچھ اور غلام بھی اس عرصہ میں ایمان لائے.رشتہ داروں سے تبلیغ عام کا آغاز تین سال بعد ارشاد ہوا.فَاصْدَعْ بِمَاتُو مَرُ وَاعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكين ( سورة الحجر : 95 ) کہ جو حکم آپ کو
244 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل دیا جاتا ہے اسے کھول کر سنا دیں اور مشرکوں سے اعراض کریں.ساتھ ہی یہ حکیمانہ ارشاد ہوا کہ اس کا آغاز اپنے قریبی رشتہ داروں سے کیا جائے.فرمایا وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ - وَاخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ ( سورۃ الشعراء: 215,216) ترجمہ: اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ہوشیار کر اور ان مومنوں کے لئے اپنا پہلو جھکا دے جنہوں نے تیری پیروی کی ہے.رشتہ داروں کو تبلیغ اور پیغام حق قبول کرنے والوں سے حسن سلوک کا حکم گہری حکمت رکھتا ہے جو ایک پاکیزہ جماعت کے قیام کے لئے نہایت ضروری ہے.اس حکم کی لفظا تعمیل کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی دفعہ اپنے رشتہ داروں کا مجمع عام کوہ صفا پر جمع کرنے کی انوکھی ترکیب یہ سوچی کہ علی الصبح صفا پہاڑی پر چڑھ کر اعلان کریں.عرب دستور کے مطابق کسی اچانک مصیبت پر مدد کے لئے اکٹھا کرنے کا یہی طریق تھا.چنانچہ نبی کریم نے قبائل قریش کے نام لیکر انہیں آواز دی کہ اے عبدالمطلب کی اولاد ! اے عبد مناف کی اولاد! اے قصی کی اولاد! پھر چھوٹے قبیلوں کے نام لے کر بلایا.پہلے تو لوگوں نے دیکھا کہ بظاہر کوئی خطرہ نہیں مگر جب دیکھا کہ محمد بلارہے ہیں تو آپ کی آواز پر کوہ صفا پر اکٹھے ہو گئے.جولوگ خود نہیں آسکتے تھے انہوں نے قاصد بھجوایا کہ دیکھیں کیا بات ہے.نبی کریم نے کوہ صفا سے انہیں یوں مخاطب فرمایا: میں ایک ہوشیار کرنے والا ہوں.میری اور تمہاری مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک حملہ آور دشمن کو دیکھا ہو اور اپنے خاندان کو ہوشیار کرنے جائے مگر اسے ڈر بھی ہو کہ وہ اس کی بات نہیں مانیں گے اور وہ چلا چلا کر سب کو مدد کے لئے پکارنا شروع کر دے.“ اس موقع پر نبی کریم نے اپنے بارے میں عزیز واقارب کی رائے بھی حاصل کی اور فرمایا اگر میں تمہیں کہوں کہ اس پہاڑی کے دامن سے ایک لشکر تم پر حملہ آور ہونے کو ہے تو کیا میری تصدیق کرو گے؟ انہوں نے کہا " کیوں نہیں ! آپ کی بات ضرور مانیں گے کیوں کہ ہمیں آج تک آپ سے بھی جھوٹ کا تجربہ نہیں ہوا.ہم نے ہمیشہ آپ کو سچا پایا ہے.تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور اس کے عذاب سے ڈراتا ہوں.آپ نے یہ بھی فرمایا کہ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو یہ پیغام پہنچاؤں.پس یا درکھو کہ میں نہ تو تمہارے لئے دنیا کے کسی فائدہ پر اختیار رکھتا ہوں نہ آخرت میں سے کوئی حصہ دلا سکتا ہوں ، سوائے اس کے کہ تم کلمہ تو حید لَا اللهُ إِلَّا الله کا اقرار کر لو.اس موقع پر ابو لہب ناراض ہو کر گالیاں دیتا اُٹھ کھڑا ہوا اور مجمع بکھر گیا.( بخاری )8 دعوت طعام کے ذریعہ تبلیغ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ جب رشتہ داروں کو انذار کے بارہ میں ارشاد ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے دل میں ڈر پیدا ہوا.مجھے پتہ تھا کہ میں جب بھی اہل خاندان کو تبلیغ شروع کروں گا تو ان کی طرف سے اچھا رد عمل ظاہر نہیں ہوگا.کچھ عرصہ تو میں خاموش رہا اس پر جبریل نے مجھے آکر کہا کہ اگر آپ نے حکم
245 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل الٹی کی تعمیل نہ کی تو آپ کا رب آپ پر بھی گرفت کرے گا.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا کہ ایک دعوت طعام کا انتظام کریں جس میں بکری کے پائے کا شور بہ روٹی کے ساتھ پیش کیا جائے اور خاندان بنی مطلب کے تمام افراد بلائے جائیں تا کہ انہیں پیغام حق پہنچایا جائے.حضرت علی نے حسب ارشاد یہ انتظام کیا اور خاندان کے کم و بیش چالیس افراد کو دعوت دی جن میں آپ کے سارے چچا ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب بھی شامل تھے.حضور نے خود سالن ایک کشادہ برتن میں ڈال کر فرمایا اللہ کا نام لے کر کھائیں.اللہ تعالیٰ نے کھانے میں خوب برکت ڈالی اور سب نے سیر ہو کر کھایا.پھر دودھ پیش کیا گیا اور اس میں بھی اتنی برکت پڑی کہ سب نے سیر ہو کر پیا.جب رسول کریم بات شروع کرنے لگے تو آپ کا چا ابولہب پہلے بول پڑا اور کہنے لگا تمہارے ساتھی نے تم پر جادو کر دیا ہے.اس پر لوگ منتشر ہو گئے.رسول کریم اس روز اپنا پیغام پہنچانہ سکے.آپ نے حضرت علی سے فرمایا کہ اس دفعہ تو یہ شخص ( ابو لہب ) بات کرنے میں مجھ سے پہل کر گیا ہے.اب دوبارہ ایک دعوت طعام کا انتظام کرو جس میں چیدہ چیدہ چالیس افراد خاندان ہوں.حضرت علی کہتے ہیں میں نے دوبارہ دعوت کا انتظام کیا.جب سب نے کھانا کھالیا تو رسول کریم نے خطاب میں فرمایا اے عبدالمطلب کی اولاد! خدا کی قسم ! کوئی عرب نوجوان اپنی قوم کے لئے اس سے اعلیٰ اور شاندار پیغام نہیں لایا جو میں تمہارے پاس لایا ہوں.میں تمہارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں.مجھے میرے رب نے حکم دیا ہے کہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں.پس تم میں سے کون اس معاملہ میں میرا مددگار ہوگا اور دینی اخوت کا رشتہ میرے ساتھ جوڑے گا ؟ سب خاموش تھے.ایک کم سن حضرت علیؓ اٹھے اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ میں حاضر ہوں.مگر باقی لوگ ہنستے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور چلے گئے.(طبری) 9 دعوت عام کے حکم کے باوجود مشرکوں سے اعراض کے حکم میں بھی ایک گہری حکمت تھی.مقصد یہ تھا کہ جولوگ شرک پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں ابتداء انہیں نظر انداز کرنا قرین مصلحت ہے.دوسری حکمت یہ بھی ہوگی کہ مخالفت کالا وا یکلخت نہ پھوٹے.تیسرے اس ارشاد میں یہ پیغام بھی مخفی تھا کہ جن نیک طبائع کو پہلے ہی تو حید کی طرف میلان اور شرک سے نفرت ہے پہلے ان سے رابطے کئے جائیں.اسلام کا پہلا دار التبلیغ دارارقم حضرت ارقم بن ارقم نے گیارہویں نمبر پر اسلام قبول کیا.ان کا مکان مکہ میں صفا کی پہاڑی پر تھا.مکہ میں آغاز اسلام میں مسلمانوں کیلئے کسی مرکزی ٹھکانے کی ضرورت محسوس ہوئی.حضرت ارقم نے اپنا یہ گھر پیش کر دیا جسے مسلمانوں کا پہلا مرکز بنے کی سعادت ملی.یہاں نبی کریم ایک عرصہ تک قریش سے مخفی طور پر لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے یہاں تک کہ مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی.حضرت عمر نے بھی اسلام قبول کر لیا تو اعلامیہ تبلیغ اور عبادت کا سلسلہ شروع ہوا.(ابن ہشام ) 10
246 اسوہ انسان کامل رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ جب عام لوگوں کو دعوت حق دینی شروع کی گئی تو کچھ نو عمر اور کمزور لوگ اس پیغام کو قبول کرنے لگے اور یہ تعدا درفتہ رفتہ بڑھنے لگی.ابتدائی تبلیغ میں مثبت پیغام حق کی حکمت عملی کے پیش نظر اقرار توحید اور اللہ کی عبادت کے ساتھ رشتہ داروں سے حسن سلوک کی تعلیم کی طرف بلایا جاتا تھا.اس لئے اس پر عام قریش کی طرف سے کوئی خاص مزاحمت نہ ہوتی تھی اور متحدہ مخالفت کا ابھی آغاز نہیں ہوا تھا.البتہ جب نبی کریم قریش کی مجالس کے پاس سے گزرتے تو وہ آپ کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ عبد المطلب کے اس بیٹے پر آسمان سے کلام آتا ہے.اس کے بعد وہ دور شروع ہوا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی تبلیغ کے ساتھ بت پرستی سے منع فرمایا اور جن معبودوں کی وہ پرستش کرتے تھے، ان کے نقائص اور عیوب کھول کر بیان کرنے شروع کئے تو مشرکین نے رسول اللہ کی مخالفت شروع کر دی.اس مخالفت کی دوسری بڑی وجہ سرداروں کو اپنی ریاست کا خطرہ اور قبائل قریش کی باہمی رقابت بھی تھی.چنانچہ مکہ کے دانشور ابو جہل نے رسول اللہ کے دعوی کو حق جاننے کے باوجود صرف اس لئے قبول نہ کیا کہ اس طرح بنو ہاشم بنو امیہ سے سبقت لے جائیں گے.سردار مکہ ابو جہل کو دعوت قریبی رشتہ داروں کو دعوت اسلام کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فَاصْدَعُ بِمَا تُؤْمَرُ کے حکم کے تابع تبلیغ عام بھی شروع فرمائی.الہی احکامات کے نتیجہ میں آپ کا دل بہت مضبوط تھا اور بڑی دلیری اور بہادری سے آپ نے یہ فریضہ انجام دیا اور بڑے بڑے سرداروں پر بھی اتمام حجت کر کے چھوڑا.ابو جہل کو انفرادی طور پر بھی تبلیغ کی کوشش کی.حضرت مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ میری پہلی ملاقات رسول اللہ سے اس دن ہوئی جب میں ابوجہل کے ساتھ مکہ کی ایک گلی میں آرہا تھا کہ ہمارا سامنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو گیا.رسول اللہ نے ابو جہل سے کہا اے ابوالحکم! اللہ اور اس کے رسول کی طرف آجاؤ.میں تمہیں اللہ کی طرف بلاتا ہوں.“ ابو جہل کہنے لگا ”اے محمد! کیا تو ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے سے باز آئے گایا نہیں ؟ اگر تو تم یہ چاہتے ہو کہ ہم گواہی دے دیں کہ تو نے پیغام ہم تک پہنچا دیا ہے تو ہم یہ گواہی دیتے ہیں کہ تو نے پیغام پہنچا دیا.ورنہ خدا کی قسم ! اگر مجھے پتہ چل جائے کہ جو دعویٰ تم کرتے ہو وہ برحق ہے تو پھر بھی میں تمہاری پیروی ہرگز نہ کروں گا.یہ سن کر رسول اللہ تو تشریف لے گئے.پھر ابو جہل مغیرہ کو مخاطب ہو کر کہنے لگا.خدا کی قسم ! میں جانتا ہوں کہ یہ اپنی بات میں سچا ہے لیکن اس کے جد امجد قصی کی اولاد نے کہا کہ خانہ کعبہ کے غلاف کا انتظام ہمارے پاس ہے تو ہم نے تسلیم کر کیا.پھر انہوں نے کہا کہ ندوہ ( جرگہ ) یعنی مجلس شوریٰ کے انتظام پر بھی ہمارا اختیار ہے تو ہم کچھ بول نہ سکے.پھر انہوں نے ہمارے مد مقابل یہ دعویٰ کیا کہ عرب کے جھنڈے کے بھی ہم علمبردار ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات ہمارے سپرد ہیں تو ہم چپ ہو گئے.پھر مقابلہ آگے بڑھا تو کھلانے پلانے اور سخاوت کے میدان میں ہم نے خوب ان کا مقابلہ کیا یہاں
اسوہ انسان کامل 247 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ تک کہ ہم دونوں قبیلوں کے قافلے باہم مشابہ ہو گئے یعنی ہم ان کی برابر کی ٹکر ہو گئے تو انہوں نے دعوی کر دیا کہ ہم میں سے نبی ہے.خدا کی قسم! میں یہ ہرگز نہ ہونے دونگا.(بیہقی ) 11 قریش کی متحدہ مخالفت کا آغاز رسول کریم نے جب کھل کر تبلیغ شروع کی اور بت پرستی سے منع کیا اور آپ کے ساتھ ایک جماعت اکٹھی ہونی شروع ہوگئی تو قریش کو اپنی سرداری خطرے میں نظر آنے لگی.وہ مشورے کرنے لگے کہ کس طرح اس نئے سلسلہ کوروکا جائے.ایک دن ابو جہل نے سرداران قریش کی مجلس میں کہا محمد کا معاملہ کچھ بڑھتاہی جارہا ہے.تم لوگ کسی ایسے شخص کو تلاش کرو جو جادو، کہانت اور شعر کا علم رکھتا ہو اور وہ ہماری طرف سے جا کر اس سے بات کر کے ہمیں اس کا رد عمل بتائے.اس پر ایک سردار نقتبہ کہنے لگا کہ میں جادو، کہانت اور شعر سب کے بارہ میں کچھ علم رکھتا ہوں اگر اس سے متعلق کوئی بات ہے تو میں کافی ہوں.چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد ! تم بہتر ہویا ہاشم ، عبد المطلب اور عبداللہ ؟ ( جو تمہارے آباء واجداد اور بزرگ تھے ).رسول اللہ خاموش رہے.اس نے پھر کہا آپ ہمارے معبودوں کو کیوں برا کہتے اور ہمارے آباؤ اجداد کو کیوں گمراہ قرار دیتے ہیں؟ اگر آپ سرداری کے خواہاں ہیں تو ہم آپ کو سر دار مان لیتے ہیں.اگر کہیں شادی کا ارادہ ہے تو قریش کے جس گھرانہ سے کہو دس عورتیں بیاہ کر دینے کو تیار ہیں.اگر مال چاہئے تو اتنا مال جمع کر کے دیتے ہیں کہ آپ اور آپ کی اولاد بھی ہمیشہ کے لئے محتاجی سے محفوظ ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو کر اس کی باتیں سنتے رہے.جب وہ سب کہہ چکا تو آپ نے سورہ حم فصّلت کی تلاوت فرمائی جس کے آغاز میں ذکر ہے کہ یہ رحمن و رحیم خدا کی طرف سے اترنے والا کلام ہے.جب آپ اس آیت پر پہنچے انذَرُ تُكُمْ صَاعِقَةٌ مِثْلَ صَاعِقَةِ عَادٍ وَثَمُودَ ( حم السجدہ:14) کہ میں تمہیں اس عذاب سے ڈراتا ہوں جیسا عذاب عاد و ثمود کی قوم پر آیا تھا.عتبہ نے آپ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا رحمان خدا کا واسطہ ہے آپ مجھے اور نہ ڈرائیں.عقبہ اس کلام کی فصاحت و بلاغت سے ایسا مرعوب اور خوفزدہ ہوا کہ وہ واپس سرداروں کے پاس نہیں گیا.دیر ہونے پر ابو جہل کہنے لگا کہ لگتا ہے کہ عتبہ محمد (ﷺ) کی طرف مائل ہو گیا ہے.بعد میں جب ابو جہل نے اس سے اسبارہ میں پوچھا تو عتبہ نے اسے سارا واقعہ سنا کر کہا تمہیں پتہ ہے محمد جب کوئی بات کہہ دے تو وہ کبھی جھوٹی نہیں ہوتی.میں ڈرتا ہوں کہ وہ عذاب جس سے وہ ڈراتا ہے تم پر آہی نہ جائے.(ابن ہشام )12 مخالفت کے ذریعہ تبلیغ الہی سلسلوں کی مخالفت کی حیثیت بھی ایسی ہے جیسی کھیتی کے لئے کھاو.مشرکین مکہ کی مخالفت کے ذریعہ بھی ملکہ کے گردونواح میں اسلام کی تبلیغ پہنچنا شروع ہوئی.اس سلسلہ کے واقعات بہت اہم اور دلچسپ ہیں.
اسوہ انسان کامل 248 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ ایک واقعہ قبیلہ از دشنوہ کے سردار ضماد کا ہے جو بیماروں کا علاج جھاڑ پھونک اور دم سے کیا کرتا تھا.جب وہ مکہ آیا تو اس نے بعض مخالفین اسلام کو کہتے سنا کہ محمد تو دیوانہ اور مجنون ہے.ضماد نیک طبع انسان تھا.اس کے دل میں خیال آیا کہ میں اس شخص سے ملتا ہوں.شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پر ہی اسے جنون کی بیماری سے شفا عطا فرمادے.ضماد خود بیان کرتے ہیں کہ میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمد ! میں دم سے بیماروں کا علاج کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ پر جسے چاہے شفا عطا فرماتا ہے.کیا آپ مجھ سے علاج کرانا پسند کریں گے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے کچھ ارشاد فرمانے سے قبل حسب عادت مسنون خطبہ کے تمہیدی کلمات ہی پڑھے تھے ( یہ عربی خطبہ، جمعہ وغیرہ میں پڑھا جاتا ہے ) کہ انہی کلمات نے ضماد کے دل پر گہرا اثر کیا.اس نے کہا آپ دوبارہ یہ کلمات مجھے سنائیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پڑھا.الحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُهِ ۚ وَنَسْتَعِيْنُهُ ۚ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَاهَادِيَ لَهِ وَاشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ یعنی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.ہم اس کی حمد کرتے اور اس سے مدد کے طالب ہیں.جسے اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں.رسول کریم نے ضماد کی خواہش پر تین بار یہ کلمات اُسے سنائے.ضعتماد بظاہر ایک بدوی تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اسے فراست عطا کی تھی.جس پیغام کو مکہ کے دانشور ابوالحاکم نے تکبر کی راہ سے رو کر دیا خدا ترس ضماد نے وہ پاکیزہ کلمات سنتے ہی بے ساختہ عرض کیا ” میں نے بڑے بڑے کاہنوں جادوگروں اور شاعروں کی مجالس دیکھی اور سنی ہیں مگر آج تک ایسے خوبصورت کلمات کہیں نہیں سنے جن کا اثر سمندر کی گہرائی تک ہے.آپ ہاتھ بڑھائیں میں اسلام پر آپ کی بیعت کرتا ہوں.“ وہ ضماد جو حکیم اور معالج بن کر آیا تھا اسے رسول اللہ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے روحانی شفا عطا فرمائی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ شخص اپنے قبیلہ کا با اثر اور مجھدار سردار ہے.آپ نے اس کی بیعت لیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم اپنی قوم کی طرف سے بھی ان کی نمائندگی میں بیعت کرتے ہو کہ انہیں بھی اسلام کی تعلیم پر کار بند کرو گے؟ ضماد نے کمال اعتماد سے اپنی قوم کی نیابت میں عہد بیعت باندھا.اس غائبانہ عہد بیعت کا بھی مسلمانوں نے اتنالحاظ کیا کہ بعد کے زمانہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کسی مہم پر بھجوائے ہوئے اسلامی دستہ کا گزرضماد کی قوم کے پاس سے ہوا اور امیر دستہ کا جب اس قوم سے تعارف ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ ان لوگوں سے کوئی چیز ز بر دستی تو نہیں لی گئی ؟ پھر یہ معلوم ہونے پر کہ دو پہر کے کھانے کے لئے کچھ سامان لیا گیا ہے امیر لشکر نے فرمایا یہ فوراً واپس کر دیا جائے کیونکہ یہ ضماد کی قوم ہے جس کی طرف سے ان کے سردار نے اسلام قبول کرنے کا اظہار کیا ہوا ہے.(مسلم ) 13
اسوہ انسان کامل 249 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ مکہ کے نواحی قبائل میں اسلام رسول اللہ کے دعوی کی خبر مخالفت کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ مکہ کے ارد گرد کے قبائل میں پہنچنے لگی.شریف اور سعادت مند لوگ آپ کی دعوت پر توجہ دینے لگے.انہیں میں سے ایک سردار اکثم بن صیفی تھے جنہوں نے دعوے کی اطلاع سن کر خود حضور کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا مگر ان کی قوم نے اسے روک دیا.تب انہوں نے اپنے نمائندے حضور کی خدمت میں بھجوائے جنہوں نے آکر آپ کے دعوی کی بابت پوچھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں.پھر انہیں آیت اِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ (سورۃ النحل: 91) پڑھ کر سنائی.جو اسلام کی پاکیزہ تعلیم عدل و احسان پر مشتمل ہے.انہوں نے بار بارن کر یہ آیات یاد کرلیں.واپس جا کر اکٹم کو آپ کی خاندانی شرافت اور پاکیزہ تعلیم کے بارہ میں بتایا جسے سن کر اکٹم کہنے لگا "اے میری قوم ! یہ شخص تو نہایت اعلیٰ درجے کے اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور بڑی باتوں سے روکتا ہے.پس تم اسے ماننے میں پہل کر لو کہیں پیچھے نہ رہ جاؤ.چنانچہ اپنے قبیلہ کے ایک سو افراد ساتھ لے کر وہ حضور سے ملاقات کیلئے روانہ ہوا.راستہ میں اس کی وفات ہوگئی.اس نے اپنے ساتھیوں کو رسول اللہ پر ایمان لانے کی وصیت کی اور انہیں گواہ پھہرایا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے.( ابن الجوزی (14) یوں اسلام کا پیغام مکہ کے نواحی قبائل میں نفوذ کر نے لگا.قبیلہ بنوغفار کے ابوذر کو بھی اسی طرح اسلام کی اُڑتی ہوئی مخالفانہ خبریں پہنچیں.انہوں نے اپنے بھائی کو تحقیق کے لئے بھجوایا اور کہا کہ جا کر اس دعویدار نبوت کا کلام سنو جس کے پاس آسمانی خبریں آتی ہیں.بھائی نے واپس آکر بتایا کہ وہ نبی نہایت عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور اس کا کلام شاعری سے مختلف ہے.ابوذر کی پھر بھی تسلی نہیں ہوئی اور وہ خود کچھ زادراہ لے کر تحقیق کے لئے مکہ آئے.پہلے تو بیت اللہ میں آکر رسول اللہ کو ڈھونڈتے پھرے، کسی سے پوچھنا پسند نہ کیا.رات کو بیت اللہ میں ہی لیٹ گئے.حضرت علی نے انہیں دیکھ کر بھانپ لیا کہ یہ کوئی اجنبی مسافر ہے اور انہیں اپنے ساتھ گھر لے جا کر رات بسر کرنے کا انتظام کر دیا.پھر اُن کا یہی معمول ٹھہر گیا کہ دن کو خانہ کعبہ آجاتے اور رات حضرت علی کے گھر بسر کرتے.تیسرے دن حضرت علی نے پوچھ ہی لیا کہ یہاں کیسے آنا ہوا؟ حضرت ابوذر نے صحیح راہنمائی کرنے کا پختہ عہد لے کر اپنا مقصد ظاہر کیا.حضرت علی نے انہیں بتایا کہ حمد واقعی اللہ کے رسول ہیں.صبح حضرت علی نے انہیں نہایت خاموشی اور اخفاء کے ساتھ رسول اللہ کے پاس پہنچا دیا.ابوذر نے رسول اللہ کی گفتگوسن کر اسلام قبول کر لیا.نبی کریم نے ان سے فرمایا کہ اپنی قوم کی طرف واپس جاؤ اور انہیں تبلیغ کرو یہاں تک کہ میرا اگلا حکم آپ کو پہنچے.ابوذر کہنے لگے پہلے تو میں مشرکین مکہ کے سامنے قبول اسلام کا اعلان کرونگا.چنانچہ بیت اللہ جا کر انہوں نے بآواز بلند پڑھا.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ واشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللهِ
250 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ مشتعل اسوہ انسان کامل یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں.اس پر کفار من ہو کر انہیں مارنے کو دوڑے اور مار مار کر ادھ موا کر دیا.اتنے میں حضرت عباس آگئے.انہوں نے قریش سے کہا.تمہیں پتہ ہے کہ یہ غفار قبیلہ کا آدمی ہے جو تمہارے شام کے تجارتی رستہ پر آباد ہے.اس طرح انہوں نے ابوذر کو کفار کے پچنگل سے چھڑایا.مگر اگلے دن پھر ابوذر نے اسی طرح کلمہ توحید و رسالت کی منادی کی اور پھر دشمن کے ظلم وستم کا نشانہ بنے یہاں تک کہ حضرت عباس نے پھر آ کر چھڑایا.( بخاری ) 15 سردار قبیلہ دوس کا قبول اسلام ایک اور قابل ذکر واقعہ قبیلہ دوس کے سردار طفیل بن عمرو کا ہے جنہوں نے رسول اللہ کی بالواسطہ تبلیغ کی بجائے قریش کی مخالفت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے کی سعادت پائی.طفیل بن عمرو ایک معزز انسان اور عقل مند شاعر تھے جب وہ مکہ میں آئے تو قریش کے بعض لوگوں نے ان سے کہا ” آپ ہمارے شہر میں آئے ہیں اس شخص ( محمد ) نے عجیب فتنہ بر پا کر رکھا ہے.اس نے ہماری جمعیت کو منتشر کر دیا ہے.وہ بڑا جادو بیان ہے.باپ بیٹے ، بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان اس نے جدائی ڈال دی ہے.ہمارے ساتھ جو بیت رہی ہے ، وہی خطرہ ہمیں تمہاری قوم کے بارہ میں بھی ہے.پس ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اس شخص سے ہوشیار رہنا اور اس کا کلام تک نہ سننا.“ طفیل کہتے ہیں کہ کفار مکہ نے مجھے اتنی تاکید کی کہ میں نے عزم کر لیا کہ اس شخص کی کوئی بات سنوں گا نہ اس سے کلام کروں گا.یہاں تک کہ بیت اللہ جاتے ہوئے میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی تا کہ غیر ارادی طور پر بھی اس شخص کی کوئی بات میرے کان میں نہ پڑ جائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے.میں ان کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا.آپ کی تلاوت کے چند الفاظ کے سوا میں کچھ بھی نہ سن سکا.مگر جو سناوہ مجھے اچھا کلام محسوس ہوا.میں نے اپنے دل میں کہا ”میرا بڑا ہو.میں ایک دانا شاعر ہوں.بُرے بھلے کو خوب جانتا ہوں، آخر اس شخص کی کوئی بات سنے میں حرج کیا ہے؟ اگر تو اچھی بات ہوگی تو میں اسے قبول کرلوں گا اور بری ہوئی تو چھوڑ دوں گا.“ کچھ دیر انتظار کے بعد جب رسول اللہ گھر تشریف لے گئے تو میں آپ کے پیچھے ہولیا.میں نے کہا اے محمد ! آپ کی قوم نے مجھے آپ کے بارے میں یہ یہ کہا ہے.خدا کی قسم! انہوں نے مجھے آپ کے بارے میں اتنا ڈرایا کہ میں نے روئی اپنے کانوں میں ٹھونس لی تا کہ آپ کی بات نہ سن سکوں مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کا کچھ کلام سنادیا اور جو میں نے سنا وہ عمدہ کلام ہے.آپ خود مجھے اپنے دعوئی کے بارہ میں کچھ بتائیں.“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کے بارہ میں بتایا اور قرآن شریف بھی پڑھ کر سنایا.خدا کی قسم ! میں نے اس سے خوبصورت کلام اور اس سے زیادہ صاف اور سیدھی بات کوئی نہیں دیکھی.چنانچہ میں نے اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبیؐ! میں اپنی قوم کا سردار ہوں اور لوگ میری بات مانتے ہیں.میرا ارادہ واپس جا کر اپنی قوم کو اسلام کی طرف بلانے کا ہے.آپ میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان کے مقابل کوئی تائیدی
251 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل نشان عطا کرے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ! اسے کوئی نشان عطا کر.پھر میں اپنی قوم کی طرف لوٹا.جب میں اس گھائی پر پہنچا جہاں سے آبادی کا آغاز ہوتا ہے تو میری آنکھوں کے درمیان پیشانی پر ایک چراغ جیسی روشنی محسوس ہونے لگی.میں نے دعا کی کہ اے اللہ یہ نشان میرے چہرے کے علاوہ کہیں اور ظاہر فرما دے.کہیں الٹا یہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ اپنے دین کو چھوڑنے کی وجہ سے اس کا چہرہ مسخ ہو گیا ہے.چنانچہ روشنی کا نشان میری چابک کے سرے پر ظاہر ہو گیا.جب میں گھائی سے اتر رہا تھا لوگ میری اس روشنی کو میری چائے پر ایک لٹکتے چراغ کی طرح دیکھ رہے تھے.اگلے دن میرے بوڑھے والد مجھے ملنے آئے تو میں نے کہا ابا جان ! آج سے میرا آپ کا تعلق ختم.والد نے سبب پوچھا.میں نے بتایا کہ میں تو اسلام قبول کر کے محمد کی بیعت کر چکا ہوں.والد کہنے لگے پھر میرا بھی وہی دین ہے جو تمہارا ہے.میں نے کہا.آپ جا کر غسل کر کے صاف کپڑے پہن کر تشریف لائیں تا کہ میں آپ کو اسلامی تعلیم کے بارہ میں کچھ بتاؤں.انہوں نے ایسا ہی کیا.میں نے انہیں اسلام کی تعلیم سے آگاہ کیا اور انہوں نے اسلام قبول کر لیا.پھر میری بیوی میرے پاس آئی اسے بھی میں نے کہا کہ آپ مجھ سے جدار ہو.میرا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا.وہ کہنے لگی میرے ماں باپ تم پر قربان یہ کیوں؟ میں نے کہا تمہارے اور میرے درمیان اسلام نے فرق ڈال دیا ہے.چنانچہ اس نے بھی اسلام قبول کر لیا.اس کے بعد میں نے اپنے قبیلہ دوس کو اسلام کی طرف دعوت دی مگر انہوں نے میری دعوت پر توجہ نہ کی.میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ملکہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی دوس قبیلہ کے لوگ اسلام قبول نہیں کرتے آپ ان کے خلاف بد دعا کریں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا کی کہ اے اللہ ! دوس قبیلہ کو ہدایت عطا فرما اوراے اللہ ان کو ہدایت دے اور ان کو لے کر آ.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرا مقصد یہ تو نہیں تھا کہ ان کے حق میں دعا کریں.رسول کریم نے کیا پر حکمت جواب دیا فرمایا ” اس قوم میں تمہارے جیسے کئی لوگ موجود ہیں.“ اس طرح طفیل کو سمجھایا کہ جس طرح خود آپ کو آغاز میں سخت تعصب کے باوجود بالآخر طبعی سعادت اور حق سے رغبت اسلام کی طرف کھینچ لائی.اس طرح کئی ایسے لوگ ہیں جن تک پہنچ کر حکمت اور نرمی سے پیغام حق پہنچانا اور اتمام حجت کرنا ضروری ہے.امر واقعہ بھی یہی ہے کہ حضرت طفیل نے جس طرح اپنے والد اور بیوی کو جدائی اور علیحدگی کی دھمکی دے کر بالآخر اسلام کی طرف مائل کر لیا تھا آپ کی قوم محض اپنے سردار کے لحاظ میں بت پرستی کا ظلم و فساد، بد کرداری ، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ ترک کرنے کے لئے فوراً تیار نہ ہوئی تبھی نبی کریم نے حضرت طفیل کو توجہ دلائی کہ آپ واپس جا کر نرمی اور محبت سے پیغام حق پہنچائیں.چنانچہ جب طفیل بن عمرو نے جا کر اس نصیحت کے مطابق مسلسل دعوت الی اللہ کی تو کئی لوگوں کو قبول حق کی توفیق ملی.ان میں جندب بن عمر بھی تھے جو جاہلیت میں ہی کہا کرتے تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مخلوق کا کوئی خالق تو ضرور ہے.یہ نہیں
اسوہ انسان کامل 252 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ کہہ سکتا کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے.جندب نے جب اسلام کا پیغام سنا تو پچھتر ۷۵ افراد کو لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سب نے اسلام قبول کیا.(ابن حجر ) 16 خود حضرت طفیل بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت کے مطابق میں نے اپنے قبیلہ میں جاکر مسلسل دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کیا اور سات سال کے قلیل عرصہ میں میرے ذریعہ دوس کے ستر اسی گھرانے مسلمان ہوکر مدینہ آ بسے.(ابن سعد ) 17 رؤیا کے ذریعہ قبول حق مخالفت شروع ہونے پر رسول اللہ کی اللہ تعالیٰ کے دربار میں آہ وزاری اور نصرت طلب کرنا طبیعی امر تھا.آپ دن رات خدا کے حضور اپنی قوم کی ہدایت کی دعائیں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے سعید روحوں کے دلوں میں الہام کر کے آپ کے حق میں تحریک پیدا کی اور انہیں اسلام کی حقانیت کی طرف مائل کیا.چنانچہ خالد بن سعید کا قبول اسلام اس کی مثال ہے.جو ایک رؤیا کے ذریعہ اپنے بھائیوں میں سے سب سے پہلے مسلمان ہوئے.خالد نے خواب میں دیکھا کہ انہیں آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑا کیا گیا ہے جو بہت وسیع ہے اور ان کے والد انہیں اس میں دھکا دے کر گرانے کی کوشش کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو کمر کے پٹکے سے پکڑ کر پیچھے ہٹا لیتے ہیں.وہ اپنے اس خواب سے بہت ڈر گئے اور کہنے لگے کہ میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ بچی خواب ہے.وہ حضرت ابو بکر سے ملے تو ان سے اس خواب کا ذکر کیا.انہوں نے فرمایا کہ یہ تو بہت نیک اور مبارک خواب ہے.تعبیر یہ ہے کہ تم رسول اللہ کی پیروی کرتے ہوئے اسلام قبول کر لو گے، تمہاری خواب سے لگتا ہے کہ تم ضرور ایسا کروگے.اسلام تمہیں آگ کے گڑھے سے بچالے گا مگر تمہارا باپ اس گڑھے میں جا پڑے گا.پھر خالد اجیاد مقام پر نبی کر یم کے سے ملے اور آپ سے پوچھا کہ آپ کس بات کی طرف بلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں اللہ کی توحید کی طرف بلاتا ہوں کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور حمد اللہ کا بندہ اور رسول ہے.نیز یہ کہ م پتھر کے بتوں کی پرستش سے باز آؤ جو سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں، نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع ، نہ ہی یہ جانتے ہیں کہ کون ان کی پرستش کرتا ہے اور کون نہیں کرتا؟ خالد یہ سن کر کہنے لگے میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں.اس پر رسول اللہ کو بہت خوشی ہوئی.خالد اس کے بعد اپنے عزیز واقارب سے روپوش ہو گئے.ان کے والد کو ان کے قبول اسلام کا پتہ چلا تو بعض لوگوں کو ان کی تلاش میں بھیجا جو انہیں پکڑ کر باپ کے پاس لے آئے.باپ نے پہلے تو ڈانٹاڈ ٹا، پھر ایک سونٹے سے اتنا مارا کہ سوٹاٹوٹ گیا مگر خالد کی استقامت میں فرق نہ آیا.تب والد نے خدا کی قسم کھا کر کہا میں تمہارا نان و نفقہ بند کر دوں گا.خالد نے کہا بے شک آپ جو چاہیں کریں میرا اللہ مجھے رزق دے گا.بالآخر خالد رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے بچے غلاموں میں شامل ہو گئے.(احمد )18
اسوہ انسان کامل قریش کا پہلا وفد 253 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلامیہ تبلیغ کے مثبت اثرات دیکھ کر قریش کے بعض شرفاً اور سردارا بوطالب سے ملے اور کہا کہ آپ کا بھتیجا ہمارے دین کو قابل اعتراض ہمیں بے عقل اور ہمارے آباء واجداد کو گمراہ قرار دیتا ہے.یا تو اسے ان باتوں سے روکیں یا اس کا ساتھ چھوڑ دیں تا کہ ہم خود اس سے نبٹ لیں.ابوطالب نے ان سے نرمی سے بات کی اور انہیں سمجھا بجھا کر واپس کر دیا.دوسر اوفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کام جاری رکھا یہاں تک کہ قریش میں آپ کا زیادہ چرچا ہونے لگا تو قریش کا دوسرا وفدا بوطالب کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا آپ ہمارے بزرگ ہیں اور قدرومنزلت رکھتے ہیں.ہم نے آپ سے اپنے بھتیجے کو روکنے کے لئے کہا مگر آپ نے ہماری بات نہیں مانی اب ہم اس حالت پر صبر نہیں کر سکتے.آپ یا تو اسے اپنے دین کی تبلیغ اور ہمارے معبودوں کی مخالفت سے روکیں یا پھر ہم آپ کے ساتھ اُس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ ایک فریق ہلاک ہو جائے.ابوطالب کے لئے اب نہایت نازک موقع تھا.وہ سخت ڈر گئے.اُسی وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا.جب آپ آئے تو اُن سے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! اب تیری باتوں کی وجہ سے قوم سخت مشتعل ہو گئی ہے اور قریب ہے کہ تجھے ہلاک کر دیں اور ساتھ ہی مجھے بھی.تو نے ان کے عقلمندوں کو سفیہ ( کم عقل ) قرار دیا.اُن کے بزرگوں کو شَرُّ الْبَرِيَّة کہا.ان کے قابل تعظیم معبودوں کا نام ہیزم جہنم اور وقــود الـنـار رکھا اور خود انہیں رجس اور پلید ٹھہرایا.میں تجھے خیر خواہی سے کہتا ہوں کہ اس دشنام دہی سے اپنی زبان کو تھام لو اور اس کام سے باز آجاؤ، ورنہ میں تمام قوم کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتا.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے سمجھ لیا کہ اب ابو طالب کا پائے ثبات بھی لغزش میں ہے اور دنیاوی اسباب میں سے سب سے بڑا سہارا مخالفت کے بوجھ کے نیچے دب کر ٹوٹا چاہتا ہے مگر آپ کے ماتھے پر بل تک نہ تھا.نہایت اطمینان سے فرمایا.چا یہ دشنام دہی نہیں ہے بلکہ نفس الامر کا عین محل پر بیان ہے اور یہی تو وہ کام ہے جس کے واسطے میں بھیجا گیا ہوں کہ لوگوں کی خرابیاں اُن پر ظاہر کر کے اُنہیں سیدھے رستے کی طرف بلاؤں اور اگر اس راہ میں مجھے مرنا در پیش ہے تو میں بخوشی اپنے لئے اس موت کو قبول کرتا ہوں.میری زندگی اس راہ میں وقف ہے اور میں موت کے ڈر سے اظہار حق سے رُک نہیں سکتا اور اے چا! اگر آپ کو اپنی کمزوری اور تکلیف کا خیال ہے تو آپ بیشک مجھے اپنی پناہ میں رکھنے سے دستبردار ہو جائیں مگر میں احکام الہی کے پہنچانے سے کبھی نہیں رکوں گا اور خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی لا کر دے دیں تب بھی میں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا اور میں اپنے کام میں لگا
254 اسوہ انسان کامل رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ رہوں گاشی کہ خدا اسے پورا کرے یا میں اس کوشش میں ہلاک ہو جاؤں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ تقریر فرمار ہے تھے اور آپ کے چہرہ پر سچائی اور نورانیت سے بھری ہوئی رقت نمایاں تھی اور جب آپ تقریر ختم کر چکے تو آپ یک لخت چل پڑے اور وہاں سے رخصت ہونا چاہا مگر ابو طالب نے پیچھے سے آواز دی.جب آپ لوٹے تو آپ نے دیکھا کہ ابوطالب کے آنسو جاری تھے.اُس وقت ابو طالب نے بڑی رقت کی آواز میں آپ سے مخاطب ہو کر کہا.”اے بھیجے جا اور اپنے کام میں لگارہ جب تک میں زندہ ہوں اور جہاں تک میری طاقت ہے میں تیرا ساتھ دوں گا.“ ( ابن ہشام ) 19 تکالیف کی انتہاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت الی اللہ کی راہ میں بہت دکھ اور اذیتیں اٹھا ئیں.ایک دفعہ آپ گھر سے نکلے.راستہ میں جو بھی آپ کو ملا خواہ وہ کوئی آزاد تھایا غلام اس نے آپ کی تکذیب کی اور جھٹلایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس لوٹ آئے اور جو تکلیف آپ کو پہنچی تھی اس کی وجہ سے کمبل اوڑھ کر بیٹھ رہے ( قوم سے نا امید ہوکر سوچتے ہوں گے کیا کریں) کہ وحی الہی ہوئی اسے کمبل اوڑھے ہوئے ! کھڑے ہو جاؤ اور انذار کرتے چلے جاؤ.(ابن ہشام) 20 ممالک بیرون میں دعوت الی اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ عام کے بعد سے آپ اور آپ کے صحابہ کے خلاف مکہ میں ایک طوفان بدتمیزی بر پا ہو چکا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ذاتی طور پر ابو طالب کی وجہ سے بھی کسی قدر امن حاصل تھا مگر دیگر عام مسلمانوں کی قبول اسلام کے باعث سخت تکالیف دیکھ کر اور ان کی مدد کی طاقت نہ پا کر نبی کریم سخت مغموم ہوتے تھے.سوچ بچار کے بعد آپ نے صحابہ کو مشورہ دیا کہ وہ پڑوسی ملک حبشہ جا کر پناہ لیں جہاں عیسائی بادشاہ بہت عادل ہے اور کسی پر ظلم نہیں ہونے دیتا.چنانچہ مسلمانوں کے مردوزن پر مشتمل دو و فود پہلے بارہ اور پھر اسی اصحاب حبشہ ہجرت کر گئے.قریش نے وہاں بھی مسلمانوں کا تعاقب جاری رکھا اور نجاشی اور اس کے سرداروں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا یا.عادل نجاشی نے اپنے دربار میں مسلمانوں کو بلا کر ان کا موقف سنا.حضرت جعفر طیار نے مسلمانوں کے نمائندے کے طور پر سورۃ مریم کی تلاوت کر کے اسلام کی تعلیم پیش کی.بادشاہ پر اس کا بہت گہرا اثر ہوا اور وہ بھی بالآخر مسلمان ہو گیا.( احمد ) 21 مظلومیت کا پھل.....حمزة خدا کی راہ میں ان تکالیف اور اذیتوں کے نتیجہ میں شرفاء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہمدردی اور نرم گوشہ پیدا ہونا ایک طبعی بات تھی.حضرت حمزہ کا قبول اسلام بھی تو مظلومیت پر صبر کا میٹھا پھل تھا.واقعہ یوں ہوا کہ ابو جہل کو ہ صفا کے قریب رسول اللہ کے پاس سے گزرا تو آپ کو اذیت پہنچائی گالیاں بکیں ، آپ کے دین پر نا مناسب اور مکروہ حملے کئے اور کمزوری کے طعنے دیئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت صبر اور خاموشی سے سنتے
255 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل رہے.عبداللہ بن جدعان کی ایک لونڈی اپنے گھر میں یہ سب کچھ سن رہی تھی.ابو جہل وہاں سے خانہ کعبہ جا کر سردارانِ قریش کی مجلس میں بیٹھ گیا.ادھر حمزہ کمان حمائل کئے شکار سے واپس لوٹے.ان کا دستور تھا کہ شکار سے واپس آکر گھر جانے سے پہلے طواف کیا کرتے تھے.اس دوران سردارانِ قریش سے دعا سلام کرنا بھی ان کا معمول تھا.وہ خود معزز سرداروں میں سے تھے.جب وہ اس لونڈی کے پاس سے گزرے اس وقت تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس گھر تشریف لے جاچکے تھے.لونڈی کے دل پر آنحضرت کی مظلومیت کا گہرا اثر تھا جس کا اظہار اس نے سردار حمزہ سے یہ کہہ کر کیا کہ اے ابو عمارہ! آپ کے بھتیجے کو ابھی تھوڑی دیر پہلے ابوالحکام نے جو اذیت پہنچائی ہے کاش آپ وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے.اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہاں بیٹھے دیکھا تو آپ کو سخت دکھ دیا اور گالیاں دیتے ہوئے بری اور نا پسندیدہ باتیں کہیں مگر محمد خاموشی سے چلے گئے اور آگے سے کوئی جواب تک نہیں دیا.سردار حمزہ کی طبعی غیرت نے جوش مارا.وہ طیش میں آکر خانہ کعبہ کی مجلس میں گئے جہاں ابو جہل بیٹھا تھا اور اس کے سر پر زور سے کمان دے ماری.اس کا سر بری طرح زخمی کر دیا اور جوش میں آکر کہا کہ کیا تم میرے بھتیجے کو گالیاں دیتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے کہ میں بھی اس کے دین پر ہوں.اگر طاقت ہے تو آؤ اور میرے ساتھ مقابلہ کرو.تب ابو جہل کے قبیلہ مخزوم کے کچھ لوگ اس کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے مگر ابو جہل نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ واقعی میں نے اس کے بھتیجے کوسخت بری گالیاں دی تھیں تم لوگ اسے کچھ نہ کہو.ادھر حضرت حمزہ نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا.حضرت حمزہ کے قبول اسلام کے بعد قریش نے محسوس کیا کہ اب رسول اللہ کا معاملہ مضبوط ہو گیا ہے اور حمزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدافعت کریں گے.چنانچہ قریش کی ایذا رسانیوں میں کچھ کمی واقع ہوگئی.( ابن ہشام ) 22 معاندین اسلام کے لئے دعا دعوت الی اللہ کا پہلا اور آخری حربہ تو دعا ہی ہے.آغاز اسلام میں سرداران قریش کی سخت مخالفت دیکھ کر رسول کریم کو کمال حکمت اور دانشمندی سے مکہ کے دو طاقتور اور بہادر سرداروں کے قبول اسلام کے لئے بطور خاص دعا کی طرف توجہ ہوئی تاکہ ان کے قبول اسلام سے کفر کی طاقت ٹوٹے اور اسلام مضبوط ہو.آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان دو اشخاص عمرو بن ہشام اور عمر بن الخطاب میں سے کسی ایک کے ساتھ جو تجھے زیادہ پسند ہو اسلام کوعزت اور قوت نصیب فرما.(ترمذی 23) اللہ تعالیٰ نے یہ دعا بہت جلد قبول کی اور حضرت عمرؓ کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی.حضرت عمرؓ کا قبول اسلام بھی مسلمانوں کی مظلومیت کی برکت تھی.ہجرت حبشہ مسلمانوں کے لئے شرفاء اہل مکہ کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کا باعث ہوئی تھی.عمر بن خطاب اگر چہ آغاز میں اسلام کے ان شدید معاندین میں سے تھے جو مسلمانوں پر مظالم ڈھاتے تھے لیکن ایک قریشی گھرانے کو ہجرت حبشہ کے لئے رخت سفر باندھے دیکھ کر ان کا دل بھی بھر آیا تھا.
256 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل حضرت عمر کی اپنی ایک روایت کے مطابق قبول اسلام سے پہلے ایک اور موقع پر انہوں نے رات کے وقت رسول اللہ کو خانہ کعبہ میں نماز میں قرآن پڑھتے سنا تو دل پسیج گیا.یہ سب عوامل در اصل عمرہ کے حق میں رسول اللہ کی دعا کا نتیجہ تھے.عمرؓ سے پہلے ان کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بن زید اسلام قبول کر چکے تھے مگر عمر کی جابرانہ طبع کے باعث ابھی اس کا اعلان نہیں کیا تھا.ایک دن عمر بن خطاب گھر سے تلوار سونتے نکلے، راستہ میں اپنی قوم کے ایک شخص نعیم سے ملے جومخفی طور پر اسلام قبول کر چکا تھا.عمر نے اسے بتایا کہ وہ محمد کے قتل کے ارادہ سے نکلے ہیں تا کہ اس نئے دین کے فتنہ کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو جائے.نعیم نے کہا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر تم محمد کو قتل کر دو گے تو اس کا قبیلہ تمہیں چھوڑ دے گا؟ دوسری بات یہ کہ پہلے تم اپنے گھر کی تو خبر لو تمہارا بہنوئی اور بہن مسلمان ہو چکے ہیں.عمر سید ھے بہن کے گھر پہنچے تو تلاوت کی آواز سنائی دی.حضرت خباب وہاں قرآن پڑھ رہے تھے جو انہیں دیکھ کر چھپ گئے.عمر نے پوچھا کہ یہ آواز کیسی تھی؟ پھر کہا مجھے پتہ چلا ہے تم لوگ مسلمان ہو چکے ہو.یہ کہ کر انہوں نے سعید بن زید کو پکڑ لیا.بہن اپنے شوہر کو چھڑانے کے لئے اٹھیں تو عمرؓ نے ان کو بھی مارا اور ان کا سر پھٹ گیا.تب دونوں نے حضرت عمرؓ سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ مسلمان ہو چکے ہیں آپ جو چاہیں کر لیں.عمر پہلے ہی بہن کو خون آلود و یکھ کر نادم ہو رہے تھے.کہنے لگے اچھا جو تم پڑھ رہے تھے مجھے دکھاؤ تو سہی.بہن نے کہا یہ پاک کلام ہے آپ پہلے نہا کر پاک صاف ہو جائیں.اس میں حکمت یہ تھی کہ ان کا جوش ٹھنڈا ہو جائے.عمرؓ نے فنسل کے بعد سورۃ طہ کی ابتدائی آیات پڑھیں تو بے اختیار کہہ اٹھے.کتنا خوبصورت اور قابل عزت یہ کلام ہے.حضرت خباب یہ سن کر باہر نکل آئے اور کہنے لگے کہ اے عمر! مجھے لگتا ہے کہ خدا نے آپ کو اپنے نبی کی دعا کے لئے خاص کر لیا ہے.کل ہی میں نے حضور کو دعا کرتے سنا ہے کہ اے اللہ ! اسلام کی تائید عمرو بن ہشام یا عمر بن الخطاب کے ذریعہ فرما.پس اے عمر اللہ سے ڈرو.عمر نے کہا کہ مجھے محمد کا پتہ دو تا کہ میں اسلام قبول کروں.خباب نے بتایا کہ حضور صفا میں ہیں.عمر سید ھے دارارقم پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا.ایک صحابی نے دروازے کی درز سے حضرت عمر کو تلوار سے مسلح دیکھا اور گھبرا کر رسول اللہ کو اطلاع کی.ادہر حضرت حمزہ نے کہا ” سے آنے دو.اگر اس کا ارادہ نیک ہے تو ٹھیک ورنہ اسی کی تلوار سے اسے ٹھکانے لگادیں گے.“ رسول اللہ نے عمر کو دامن سے پکڑ کر جھٹکا دیا اور فرمایا.عمر کیسے آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں.اس پر رسول اللہ نے نعرہ تکبیر بلند کیا.(ابن ہشام و بخاری) 24 گشتی کے اکھاڑے میں دعوت الی اللہ رسول کریم نے ہر کس و ناکس کو پیغام حق پہنچایا، ان میں مکہ کا پہلوان رکا نہ بھی تھا.آپ نے اُسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا ” کیا تم اللہ سے نہیں ڈرو گے اور جس پیغام کی طرف بلاتا ہوں اُسے قبول نہیں کرو گے.“ اُس نے کہا اگر مجھے یقین ہو جائے کہ آپ کا دعوی سچا ہے تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا.آپ نے فر مایا اگر میں کشتی میں
اسوہ انسان کامل 257 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ تمہیں پچھاڑ دوں تو میرے دعوی کی سچائی کا یقین کر لو گے.“ اس نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے اُسے کشتی میں مقابلہ کی دعوت دے دی.اس نے یہ دعوت قبول کر لی.نبی کریم نے اس بہادر پہلوان کو پچھاڑ دیا.اس نے دوبارہ اور سہ بارہ مقابلہ کی خواہش کی ہر دفعہ نبی کریم نے اسے پچھاڑ دیا.وہ کہنے لگا کہ میں حیران ہوں کہ آپ نے مجھے کیسے گرا لیا ہے؟ یہی واقعہ رکانہ کے قبول اسلام کا موجب بن گیا.( بخاری ) 25 تبلیغ کی راہ میں مصائب مکہ میں تبلیغ عام کے زمانہ میں نبی کریم اور آپ کے صحابہ کو جو تکالیف اور اذیتیں برداشت کرنی پڑیں وہ ایک درد ناک اور المناک باب ہے.اس دور کے صحابہ بلکہ خود نبی کریم نے بھی وہ کر بناک یادیں بہت کم بیان کی ہیں.( ان مصائب کا تفصیلی ذکر صبر واستقامت کے زیر عنوان الگ آچکا ہے ) نبی کریم خود فرماتے تھے خدا کی راہ میں مجھے اتنی ایذاء پہنچائی گئی کہ کبھی کسی کو اتنی ایذاء نہیں دی گئی اور مجھے اللہ کی راہ میں اتنا ڈرایا گیا کہ کبھی کسی شخص کو اتنا خوفزدہ نہیں کیا گیا.میرے پر تین تین دن اور راتیں ایسی آئیں کہ میرے اور میرے اہل وعیال کے لئے کھانے کی کوئی ایسی چیز موجود نہ ہوتی تھی جسے کوئی ذی روح کھا سکے سوائے اس معمولی کھانے یا کھجوروں کے جو بلال اپنی بغل میں دبائے پھرتا تھا.( احمد ) 26 شعب ابی طالب کے زمانہ قید و بند میں تبلیغی حکمت عملی ہجرت حبشہ کے بعد جب قریش نے دیکھا کہ مسلمانوں کے پاؤں حبشہ میں جم گئے ہیں اور شاہ حبشہ نے انہیں پناہ دی ہے اور ادھر مکہ میں عمرؓ اور حمزہ جیسے جرات مند سردار اسلام کے آغوش میں آچکے ہیں.اسلام پھیل رہا ہے اور ابو طالب اور ان کا قبیلہ بھی محمد کا حامی ہے.تب انہوں نے متحدہ مخالفت کا آغاز کیا اور محرم سے سال نبوت میں مسلمانوں کے خلاف مکمل بائیکاٹ کرنے کا معاہدہ کر کے انہیں ایک گھاٹی میں محصور کر دیا.مسلمانوں کے حامی بنو ہاشم اور بنو مطلب کے اکثر افراد خواہ مسلمان تھے یا کا فروہ بھی ساتھ محصور ہو گئے.قریش نے فیصلہ کیا کہ جب تک محمدؐ کو ہمارے حوالہ نہ کیا جائے مسلمانوں اور ان کے حامیوں کے ساتھ شادی بیاہ ہوگا نہ خرید وفروخت.حتی کہ ان کے ساتھ لین دین اور میل ملاپ بھی بند کر کے مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا.بغرض توثیق مزید یہ معاہدہ خانہ کعبہ میں آویزاں کر دیا گیا.(ابن ہشام )27 شعب ابی طالب کے زمانہ میں مسلمانوں کے روابط محدود ہو کر رہ گئے تھے.ان کا ایک رابطہ تو بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ان افراد سے تھا جو قبائلی حمیت و غیرت کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ گھائی میں محصور ہوئے.جبکہ ابولہب وغیرہ بعض معاندین اسلام نے محصور ہونے کی بجائے کفار کا ساتھ دینا پسند کیا تھا.بنو ہاشم کے غیر مسلم مگر مسلمانوں کے ہمدرد اور بہی خواہ محصور افراد پر مسلمانوں کے حسن سلوک کا نیک اثر ہونا ایک طبعی بات تھی.مزید برآں مظلومیت کے اس زمانہ میں مسلمانوں کی صحبت و معیت میں رہ کر ان غیر مسلموں کا مسلمانوں کی عبادات اور اخلاق وکردار سے متاثر ہونا بھی
اسوہ انسان کامل 258 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ لازمی امر تھا.جس کے نتیجہ میں ان کی قبائلی وحدت کے دینی حمیت میں تبدیل ہونے کے سامان ہوئے.اگر چہ اس دور کے تفصیلی تبلیغی حالات بہت کم ملتے ہیں تا ہم اس دور میں مذکورہ تبلیغی عوامل کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی.شعب ابی طالب کے زمانہ میں مسلمانوں کے رابطے کا دوسرا موقع مکہ کے اُن شرفاء سے تھا جو خفی طور پر مسلمانوں کی مدد کرتے اور انہیں کچھ اجناس پہنچاتے رہتے تھے.یہ لوگ مسلمانوں کی مظلومیت کے باعث ہمدردی کے علاوہ ان کی نیکی و شرافت اور حسن کردار کی وجہ سے ان کے لئے نرم گوشہ ر کھتے تھے.اسیری کے ان ایام میں رابطے کا تیسرا ذریعہ بیرونی تجارتی قافلے تھے جو اہل مکہ کی پابندیوں سے آزاد تھے.مسلمان ان سے کچھ ضرورت کی چیزیں خرید لیا کرتے تھے.یوں ان سے بھی رابطہ تبلیغ کا ذریعہ بنتا تھا.بعض مشرک سرداران قافلوں کو تجارت سے تو منع نہ کر سکتے تھے البتہ ان کے دام بڑھانے کی کوشش ضرور کرتے تھے تا کہ مہنگائی کے نتیجہ میں مسلمان مزید مشکل میں پڑیں.چنانچہ ابولہب تاجروں کو کہتا تھا کہ محمدؐ کے ساتھیوں کے لئے چیزیں اتنی مہنگی کر دو کہ وہ تمہاری کوئی چیز بھی خرید نہ سکیں اس پر وہ قیمتیں کئی گنا بڑھا دیتے تھے اور ابولہب انہیں زیادہ منافع دے کر ان کا سارا مال خود خرید لیتا تھا.( ابونعیم ) 28 محصوری کے زمانہ میں مسلمانوں کے لئے رابطہ کا چوتھا موقع حج کا تھا.عربوں کے رواج کے مطابق حج سے کسی کو روکا نہیں جاتا تھا اس لئے حج کے موسم میں مسلمان آزادانہ گھاٹی سے باہر نکلتے.رسومات حج ادا کرتے.باہر سے آنے والوں سے رابطے بھی کرتے جنہیں مسلمانوں کی مظلومیت کا حال سن کر لازماً ہمدردری پیدا ہوتی.اس لحاظ سے شعب ابی طالب کا زمانہ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے نتیجہ میں دشمنان اسلام کے نت نئے مظالم سے مسلمانوں کی حفاظت اور بچاؤ کے ساتھ ان کی تبلیغی کا وشوں کو مخصوص کرنے نیز تربیت پر اُن کی تو جہات مرکوز کرنے کا زمانہ بن گیا.پختہ مسلمانوں کے صبر واستقامت کا بھی امتحان ہوا اور وہ اس میں کامیاب ٹھہرے.حج کے موقع پر پیغام حق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولین مخاطب تو ساری عرب قوم تھی.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ کی بستی میں مبعوث فرمایا جوام القری یعنی تمام بستیوں کا مرکز تھی.جہاں سارے عرب سے دین ابراہیمی سے نسبت رکھنے والے لوگ حج وعمرہ کے لئے آتے تھے.رسول اللہ ان قبائل کے لوگوں کے پاس تشریف لے جاتے اور انہیں پیغام حق پہنچا کر سوال کرتے کہ کوئی ہے جو میرا مددگار ہو؟ کوئی ہے جو میرا ساتھ دے اور مجھے اپنے ہاں پناہ دے تاکہ میں اُن کے قبیلے میں جا کر اپنے رب کا پیغام پہنچانے کا حق ادا کر سکوں.جو ایسا کرے میں اسے جنت کا وعدہ دیتا ہوں.( ترمذی ) 29 ایک دفعہ ہمدان قبیلہ کے ایک شخص نے حامی بھری کہ وہ آپ کو ساتھ لے جائے گا.آپ نے اس سے پوچھا کہ اس کا قوم میں کیا مقام ہے؟ بعد میں وہ ڈر گیا کہ کہیں اس کی قوم خلاف ہی نہ ہو جائے.وہ اگلے سال آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا.( بیہقی ) 30
اسوہ انسان کامل 259 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ مگر ان قبائل کا عمومی رد عمل یہی ہوتا تھا کہ ایک شخص کی قوم اس کے بارہ میں زیادہ بہتر جانتی ہے.وہ شخص ہماری اصلاح کیسے کر سکتا ہے جس نے اپنی قوم میں فساد برپا کر رکھا ہے اور خود اس کی قوم نے اسے دھتکار دیا ہے؟ ( بیہقی ) 31 میلوں پر تبلیغ ایام حج کے بعد مکہ کے نواح میں عکاظ ، ذوالمجاز اور مجنہ مقام پر میلے لگا کرتے تھے جہاں تجارت اور خرید وفروخت کے ساتھ رنگ و طرب کی محفلیں بھی سجائی جاتیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ شاید کوئی سعید روح یہاں مل جائے اور پیغام خدا وندی پہنچانے کے لئے کوئی راہ نکلے.چنانچہ آپ ان میلوں پر پیغام پہنچاتے.ہر چند کہ اس راہ میں روکیں پیدا کی جاتیں اور آپ کو اذیتیں دی جاتیں مگر آپ یہ فریضہ ادا کرنے سے کبھی تھکے نہ ماندہ ہوئے.ربیعہ بن عباد بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو ذ والمجاز کے میلے میں دیکھا.آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاتے تھے.فرماتے تھے کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو نجات پا جاؤ گے.اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں.آپ مکہ کے بازار اور گلی گلی میں جا کر منادی کرتے.لوگ آپ پر ٹوٹ پڑتے تھے مگر کوئی مثبت جواب نہ دیتا تھا لیکن آپ کمال استقامت کے ساتھ مسلسل اپنی بات دہراتے جاتے تھے.آپ کے پیچھے لمبے بالوں والا سفید رنگ کا ایک شخص تھا جس کی آنکھ بھینگی تھی.وہ کہتا تھا " اے لوگو یہ شخص تم سے لات و عزمی کو چھڑوانا چاہتا ہے.یہ صابی (بے دین ) اور جھوٹا ہے.ربیعہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ یہ کون ہے تو انہوں نے بتایا کہ آگے محمد بن عبد اللہ ہیں جو نبوت کے دعویدار ہیں اور ان کے پیچھے ان کا چچا ابولہب ہے.(احمد) 32 ذ والمجاز کے میلے کا ایک اور نظارہ ابو طارق ” یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کوذ والمجاز میں دیکھا.آپ سرخ قبا پہنے تو حید کی منادی کر رہے تھے.ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پھر برساتا جاتا تھا جس سے آپ کی پنڈلیاں اور ٹخنے زخمی ہو رہے تھے.وہ کہتا تھا اے لوگو! اس کی بات کبھی نہ ماننا.( الحلبیہ ( 33 تیسرا دردناک نظارہ اشعث بن سلیم نے کنانہ کے ایک شخص سے روایت کیا ہے کہ ذوالمجاز کے میلے میں اس نے رسول اللہ کی تبلیغ حق کے دوران ابو جہل کو آپ کا پیچھا کرتے دیکھا.وہ آپ پر خاک اڑاتا جاتا اور کہتا تھا اے لوگو ! کہیں یہ شخص تمہیں تمہارے دین سے بہکا نہ دے.یہ تو چاہتا ہے کہ تم لات و عزیٰ کا دین ترک کر دو.(احمد) 34 تبلیغ حق کے دوران رسول کریم کو دی گئی تکالیف میں سے طائف کے اس اذیت ناک دن کے ذکر کے بغیر تبلیغی مہمات کا تذکرہ مکمل نہیں ہوتا.وہی دن جسے خود رسول خدا نے اپنی زندگی کا سخت ترین دن قرار دیا.
اسوہ انسان کامل سفر طائف 260 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ 10 سال نبوت میں شعب ابی طالب کی قید کا زمانہ ختم ہوا.اُس کی سختیوں کی تاب نہ لا کر یکے بعد دیگرے ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی وفات ہوگئی جس کے بعد اہل مکہ کی مخالفت نے زور پکڑ لیا.ان کے انکار بالاصرار سے تنگ آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسی سال شوال کے مہینہ میں تبلیغ کی خاطر طائف کا سفر اختیار فرمایا.زید بن حارثہ اس سفر میں آپ کے ساتھ شریک تھے.نبی کریم نے قریباً دس روز وہاں قیام فرمایا اور طائف کے امراء وشرفاء تک پہنچ کر حق پہنچانے کی سعی فرمائی.(ابن سعد ) 35 طائف مکہ سے جنوب مشرق میں چالیس میل کے فاصلے پر ایک پر فضا پہاڑی مقام ہے جو امراء ورؤساء کی آماجگاہ تھا.طائف میں دیگر امراء کے علاوہ قبیلہ ثقیف کے تین سردار خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یہ تینوں بھائی کنانہ عبدیالیل ، مسعود اور حبیب تھے جن سے رسول اللہ کا نتھالی رشتہ بھی تھا.نبی کریم نے ان کے پاس جا کر انہیں بھی دعوت اسلام دی اور قریش مکہ کی مخالفت کا ذکر کر کے ان سے مدد چاہی.یہ سن کر ان میں سے ایک سردار کہنے لگا ”اگر تجھے خدا نے رسول بنا کر بھیجا ہے تو وہ کعبہ کا پردہ چاک کر رہا ہے.دوسرا بولا ” کیا تمہارے سوا اللہ کو کوئی رسول نہیں ملا تھا جسے وہ مبعوث کرتا.“ تیسرے نے کہا ”خدا کی قسم ! میں تو تم سے بات کرنے کا بھی روادار نہیں ہوں.اگر تو اپنے دعوی میں سچا ہے تو تیری بات رڈ کرنا خطرے سے خالی نہیں اور اگر تو اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے تو میرے لئے تم سے گفتگو جائز نہیں.بعد کے زمانہ میں اس تیسرے نے اسلام قبول کرلیا تھا مگر صحابیت کا شرف حاصل ہونے کے بارہ میں صراحت نہیں.(ابن ہشام )36 نبی کریم نے دیگر اہل طائف کو پیغام حق پہنچانا چاہا تو اس پر بھی سردارانِ ثقیف کو اعتراض ہوا اور انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں ہمارے نو جوان بہک نہ جائیں.چنانچہ انہوں نے نبی کریم کو طائف سے نکل جانے کا حکم سنایا.آپ نے فرمایا کہ اگر تم میری دعوت قبول نہیں کرتے تو میں خاموشی سے چلا جاتا ہوں تم اس کا اعلان نہ کرو.مگر ان بد بختوں نے اپنے حکم کی تعمیل کے لئے بعض غلاموں ، لونڈوں اور بے وقوف بازاری لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا جو گالیاں اور آپ پر آوازے کسنے لگے.ایک بڑا مجمع آپ کے خلاف اکٹھا ہو گیا.یہ لوگ راستہ میں دو قطاروں میں کھڑے ہو کر آپ پر پتھر برسانے لگے.پتھروں کی اس بارش کی تاب نہ لا کر کبھی آپ بیٹھنے لگتے تو وہ ظالم بازوؤں سے پکڑ کر آپ کو کھڑا کر دیتے اور پھر پتھر مارتے اور ہنسی اڑاتے.حضرت زید بن حارثہ رسول اللہ کے آگے ڈھال بن کر آپ کو پتھروں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے مگر ایک بھرے ہوئے ہجوم کے سامنے بے چارے تنہا زیڈ کر بھی کیا سکتے تھے.مسلسل کئی میل تک اس ہجوم نے آپ کا تعاقب کر کے پتھراؤ کیا جس سے رسول اللہ کی پنڈلیاں لہولہان اور جوتے خون سے لالہ رنگ ہو گئے اور زیڈ کے سر
اسوہ انسان کامل 261 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ میں شدید زخم آئے.(الحلبیہ (37 ہجوم تب واپس لوٹا جب آپ نے عتبہ اور شیبہ سرداران مکہ کے انگوروں کے باغ میں پناہ لی.بد بخت قوم ثقیف سے زخمی اور خون آلود ہو کر بھی ہمارے آقا و مولیٰ کے صبر و رضا کی شان دیکھنے والی تھی.آپ نے انگوروں کی بیلوں کے سایہ میں آکر دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے رب سے کچھ مناجات اور آہ وزاری کی ، اس دعا سے جہاں آپ کے کرب کی انتہا کا پتہ چلتا ہے وہاں راہ مولیٰ میں آپ کے صبر اور برداشت کی معراج کا بھی اندازہ ہوتا ہے.آپ نے خدا کے حضور کس مپرسی کی حالت زار میں یوں عرض کیا:.”اے میرے مولیٰ ! میں اپنی ضعف و ناتوانی اور قلت تد بیر کا حال تیرے سوا کس سے کہوں؟ اے سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والے! مجھے لوگوں میں رسوا کرنے کی ہر کوشش کی گئی ہے.تو جو کمزوروں کا رب ہے میرا بھی تو رب ہے.تو مجھے کس کے سپرد کرنے لگا ہے؟ کیا مجھے دور دراز کے لوگوں کے حوالے کر دے گا ؟ جو مجھے تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں یا ایسے دشمن کے سپرد کرے گا جن کو تو میرے سب معاملہ پر مکمل قدرت عطا کر دے؟ (میرے مولیٰ ! ) اگر تو ناراض ہو کر میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کر رہا تو پھر مجھے تیری راہ میں ان مصیبتوں کی کوئی بھی پرواہ نہیں لیکن میں تیری عافیت کا کہیں زیادہ محتاج ہوں کہ وہ اپنی تمام وسعتوں سے مجھے ڈھانپ لے.میں تیرے پاک چہرے کے نور کا واسطہ دے کر پناہ کا طلبگار ہوں جس نے تاریکیوں کو روشن کیا ہے ، جس نے دنیا اور آخرت کے معاملات کو درست کر رکھا ہے کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو اور تو مجھ سے ناراض ہو جائے.میرے مولیٰ ! میں تیری رضا تلاش کرتا رہوں گا یہاں تک کہ تو مجھ سے راضی ہو جائے اور سوائے تیرے کوئی طاقت اور قدرت کسی کو حاصل نہیں.“ (احمد 8 38) اس دعا کی فوری قبولیت تو اسی وقت ظاہر ہوئی کہ رسول اللہ کے لئے ظاہری اور روحانی دونوں قسم کے پھلوں کا انتظام کر دیا گیا.سردارانِ قریش عتبہ اور شیبہ کو نبی کریم کی درد ناک حالت دیکھ کر آپ پر ترس آیا.انہوں نے اپنا عیسائی غلام آپ کی خدمت میں بھجوایا جس نے انگوروں کے تازہ خوشے پیش کئے.رسول کریم بسم اللہ پڑھ کر انگور کھانے لگے.نصرانی عد اس نے تعجب سے آپ کا منہ دیکھا اور کہا خدا کی قسم ! اس شہر کے لوگ تو اس طرح کی کوئی دعا نہیں پڑھتے.رسول کریم نے فرمایا تم کس شہر کے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نے کہا میں نینوا کا باشندہ ہوں اور عیسائی ہوں.آپ نے فرمایا ”اچھا! تم خدا کے نیک بندے اور نبی حضرت یونس بن مٹی کی بستی سے ہو.اور یوں رسول کریم نے مصیبت کے وقت بھی ایک غلام کو جو غیر قوم اور غیر مذہب کا تھا پیغام حق پہنچانے کی راہ نکال لی اور اسے حقیر نہیں جانا.اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا دل نرم کر دیا.وہ یونس بن متی کا ذکر سن کر کہنے لگا کہ آپ کو اس کا کیسے علم ہے؟ آپ نے فرمایا وہ میرا بھائی اور نبی تھا اور میں بھی نبی ہوں.عد اس اسی وقت رسول اللہ کے سامنے جھک گیا اور آپ کی پیشانی، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا.عقبہ اور شیبہ جو یہ نظارہ دیکھ رہے تھے ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ لو تمہارا غلام تو اس نے خراب کر دیا ہے.
262 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل عد اس سے اس کے مالکوں نے سرزنش کی اور پوچھا کہ تم نے جھک کر محمد کا ادب کیوں کیا تو اس نے کہا آج روئے زمین پر اس شخص سے بہتر کوئی نہیں ہے.اس نے مجھے ایسی بات بتائی ہے جو سوائے نبی کے کوئی نہیں بتا سکتا.(ابن ہشام )39 الغرض طائف کا دن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی سخت دن تھا.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ نبی کریم سے پوچھا کہ اُحد کے دن (جس میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور چہرے پر بھی زخم آئے ) سے زیادہ کوئی سخت دن بھی آپ پر آیا ہے.آپ نے فرمایا عائشہ ؟ میں نے تمہاری قوم سے بہت تکالیف اٹھا ئیں مگر سب سے شدید تکلیف وہ تھی جو عقبہ کے دن (سفر طائف میں ) اٹھائی.اس روز میں نے بنی عبد کلال (سرداران طائف) کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا کہ وہ مجھے اپنی پناہ میں لے کر پیغام حق پہنچانے دیں مگر انہوں نے میری بات نہیں مانی.تب میں وہاں سے چل پڑا.اس وقت میں سخت مغموم ہونے کی حالت میں سر جھکائے چلا جاتا تھا.قرن الثعالب پہنچ کر کچھ افاقہ میں نے محسوس کیا اور خدائی مدد کیلئے آسمان کی طرف نظر اٹھائی.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بادل نے مجھے سایہ میں لے رکھا ہے.پھر جبریل اس میں نظر آئے.انہوں نے مجھے بلا کر کہا اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کا سلوک دیکھا ہے جو انہوں نے آپ سے روا رکھا ہے.اس نے آپ کی طرف پہاڑوں کے فرشتہ کو بھجوایا ہے تا کہ آپ جو چاہیں اسے حکم دیں.تب پہاڑوں کے فرشتہ نے مجھے ندادی.مجھے سلام کر کے کہا اللہ نے آپ کی قوم کا جواب سن لیا ہے.میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں.مجھے آپ کے رب نے آپ کی طرف بھیجا ہے تا کہ آپ جو حکم دیں میں بجالاؤں اے محمد ! آپ کیا چاہتے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو میں (اس وادی کے ) یہ دونوں پہاڑ ان پر گرا دوں.نبی کریم نے فرمایا ”نہیں ایسا نہ کرو.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.( بخاری ) 40 ولیم میور کی شہادت مستشرق سرولیم میور جیسا معاند اسلام بھی رسول اللہ کے اس تبلیغی سفر سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا.وہ لکھتا ہے:."There is something lofty and heroic in this journey of Mohomet to Tayif; a solitary man, despised and rejected by his own people, going boldly forth in the name of God, Like Jonah to Nineveh, and summoning an idolatrous city to repent and to support his mission.It sheds a strong light on the intensity of his belief in the divine origin of his calling." "محمد کے طائف کے سفر میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے.ایک تنہا شخص جس کی قوم نے اسے حقارت کی نظر سے دیکھا اور رڈ کر دیا، وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بت پرست شہر میں جا کر ان کو توحید کی طرف بلاتا اور تو بہ کا وعظ کرتا ہے.اس واقعہ سے یقیناً
اسوہ انسان کامل 263 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اس بات پر روشنی پڑتی ہے کہ محمد کو اپنے صدق دعوی پر کس درجہ ایمان تھا.( میور )41 دعوت الی اللہ کے مواقع کی تلاش تبلیغ عام کے حکم کے بعد نبی کریم پر عرب کے مختلف قبائل میں دعوت الی اللہ کی دھن سوار رہتی تھی جس کی خاطر آپ کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے.ایک دفعہ اوس قبیلہ کے لوگ خزرج کے خلاف مدد مانگنے قریش مکہ کے پاس آئے.رسول اللہ نے اس وفد کے پاس جا کر انہیں بھی پیغام حق پہنچایا.یہ نو جوان قبیلہ اوس کی شاخ عبدالا شہل سے تعلق رکھتے تھے جو اپنے سردارا ابوالجلیس کی سرکردگی میں مکہ آئے.ان کا مقصد قریش سے خزرج کے خلاف مدد کے لئے معاہدہ کرنا تھا.رسول اللہ نے اُن کی مجلس میں تشریف لے جا کر فرمایا کہ جس مقصد کے لئے تم آئے ہو کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟.انہوں نے کہا وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا ” میں اللہ کا رسول ہوں، اللہ تعالیٰ نے مجھے بندوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے تا وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں.اس نے مجھ پر کتاب بھی نازل فرمائی ہے.پھر آپ نے اسلامی تعلیم کا ذکر کیا اور انہیں قرآن شریف سنایا.میسن کر ایک نو عمر نوجوان ایاس بن معاذ کہنے لگا "اے میری قوم! تم جس مقصد کے لئے آئے ہو یہ پیغام اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے.“ اس پر ان کے سردار ابو لیس نے کنکروں کی ایک مٹھی بھر کر ایاس کے منہ پر دے ماری اور وہ مدینہ واپس لوٹ گئے جس کے بعد اوس و خزرج میں بعاث کی جنگ ہوئی.(بیہقی ) 42 تبلیغ ميثرب حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم مسلسل دس سال تک مکہ میں حج کے موقع پر حاجیوں کے خیموں میں جا کر تبلیغ کرتے رہے.اسی طرح آپ مجنہ اور عکاظ کے میلوں میں اور منی میں حاجیوں کے خیموں میں تشریف لے جا کر فرماتے تھے کہ کون ہے جو میری مدد کرنے اور پناہ دینے کی حامی بھرتا ہے کہ جہاں جا کر میں اپنے رب کا پیغام پہنچا سکوں؟ ایسے شخص کو میں جنت کی بشارت دیتا ہوں.کوئی بھی آپ کی مدد نصرت کے لئے تیار نہ ہوتا تھا.لوگ بیمن اور دوسرے علاقوں سے جب سفر حج پر آتے تو اپنی قوم کو یہ نصیحت کرتے کہ قریش کے اس نوجوان سے ہوشیار رہنا وہ تمہیں گمراہ نہ کر دے.نبی کریم حاجیوں کے خیموں میں جاکر اللہ کی طرف بلاتے تھے.لوگ انگلیوں سے آپ کی طرف اشارے کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ کو میٹر ب سے بھیجا.آپ کے پاس ایک ایک آدمی آکر ایمان لاتا اور قرآن سیکھتا تھا اور اپنے اہل خانہ کی طرف واپس میٹر ب جاتا تو وہ بھی اسلام قبول کر لیتے یہاں تک کہ مدینے کا کوئی محلہ باقی نہ رہا جہاں مسلمانوں کا ایک گروہ پیدا نہ ہو گیا جس سے اسلام کو طاقت اور قوت ملی.پھر ستر افراد کا ایک وفد مکہ گیا اور حج کے موقع پر شعب ابی طالب میں انہوں نے بیعت کی.(احمد )43
اسوہ انسان کامل 264 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اس طرح میثرب میں مسلمانوں کے لئے پناہ گاہ کا اللہ تعالیٰ نے انتظام فرما دیا.رسول اللہ نے ان میں وحدت اور مرکزیت پیدا کرنے کے لئے مصعب بن عمیر کو اسلام کا پہلا مبلغ بنا کر وہاں بھجوایا.کچھ عرصہ میں مدینہ میں بھی جمعہ کی ادائیگی شروع ہوگئی.سفر ہجرت میں تبلیغ مدینہ کے بریدہ انصاری اپنے خاندان بنی سہم کے ستر سوار لے کر سفر میں تھے کہ نبی کریم سے سفر ہجرت میں ملاقات ہوگئی.ہر چند کہ ہجرت کا سفر خطرات سے خالی نہ تھا پھر بھی رسول کریم نے اسی گروہ سے تعارف حاصل کیا اور انہیں پیغام حق پہنچایا.بُریدہ کے ساتھ حضور نے ایسی پر حکمت اور شیریں گفتگو فرمائی کہ انہوں نے خاندان سمیت اسلام قبول کر لیا.رسول اللہ نے پوچھا.آپ کون ہو ؟ بریدہ نے اپنا نام بتایا.(جس کے معنے ٹھنڈک کے ہیں ).رسول اللہ نے اس نام کے معنے ٹھنڈک سے نیک تفاؤل لیا اور ابو بکر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ابوبکر سمجھو کہ ہمارے تعاقب کا معاملہ اب ٹھنڈا پڑ گیا.پھر رسول اللہ نے پوچھا.”آپ کس قبیلہ سے ہو؟ بُریدہ نے کہا ”اسلم قبیلہ سے“.(اسلم کے معنی سلامتی کے ہیں).رسول اللہ نے ابوبکر سے نیک تفاؤل کے طور پر فرمایا ” ہمیں سلامتی عطا ہوئی.“ پھر رسول اللہ نے پوچھا کس قبیلہ سے ہو؟ بُریدہ نے کہا.”بنی سہم سے (سہم کے معنے ہیں غنیمت کا حصہ).رسول اللہ تیسری مرتبہ نیک تفاؤل کے طور پر ابو بکر سے فرمانے لگے کہ تمہارے مال غنیمت کا حصہ تمہیں مل گیا.بریدہ نے پوچھا ”آپ کون ہیں؟ فرمایا میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول بریدہ نے کہا ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.بریدہ اور ان کے تمام ساتھیوں نے وہیں اسلام قبول کر لیا.اگلی صبح بریدہ نے رسول اللہ کی خدمت میں مشورہ عرض کیا کہ آپ مدینہ میں اپنے لواء (جھنڈا) کے ساتھ داخل ہوں.چنانچہ انہوں نے اپنا عمامہ کھول کر نیزے پر باندھا اور آگے آگے چلنے لگے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے گھر قیام فرمائیں.آپ نے فرمایا میری اونٹنی اللہ کی طرف سے حکم کے مطابق بیٹھے گی.( ابن الجوزی) 44 دعوت الی اللہ کا مدنی دور اور تبلیغ عام کفار مکہ کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ ہجرت ہوئی.وہاں امن کے ماحول میں دعوت اسلام کا سلسلہ تیز تر ہو گیا.مدینہ آنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے پہلے مبلغ اسلام مصعب بن عمیر کے علاوہ داعیان الی اللہ کی ایک کثیر تعداد دعوت الی اللہ کے میدان میں اتر چکی تھی.پھر بھی آپ نے اپنی ذمہ داری کا حق ہمیشہ ادا کیا اور مدینہ کی کھلی مجالس میں جا کر بھی تبلیغ کی.اسامہ بن زید غزوہ بدر سے پہلے کا یہ واقعہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصاری سردار سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے.آپ ایک گدھے پر سوار تھے.انصار کی ایک مجلس کے پاس سے آپ کا گزر ہوا کا
265 اسوہ انسان کامل رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ جس میں عبداللہ بن ابی بھی تھا جو ا بھی مسلمان نہیں ہوا تھا.مجلس میں مسلمانوں کے علاوہ مشرکین ، بتوں کے پجاری اور یہود بھی موجود تھے.جب رسول کریم کی سواری کے آنے پر کچھ غبار اڑی تو عبداللہ بن ابی نے ( جو خزرج کے سرداروں میں سے تھا ) ناک بھوں چڑھائی اور اپنا منہ چادر سے ڈھانپ کر کہنے لگا.ہمارے اوپر مٹی مت اُڑاؤ.نبی کریم نے آکر سلام کیا اور وہاں رک کر ان لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن شریف بھی سنایا.عبداللہ بن ابی چیں بجبیں ہو کر کہنے لگا "اے شخص! اگر یہ درست بھی ہو کہ تیری تعلیم سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں پھر بھی تم ہماری مجالس میں آکر ہمیں ایذاء نہ دیا کرو اور اپنے ڈیرے پر رہو جو تمہارے پاس آئے اسے یہ باتیں بتاؤ “ اس پر مجلس میں موجود ایک مخلص صحابی عبداللہ بن رواحہ انصاری کو غیرت آئی.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ؟ آپ بے شک ہماری مجالس میں تشریف لایا کریں ہمیں یہ بات بہت پسند ہے.اس پر مسلمانوں ،مشرکوں اور یہود کے ما بین کچھ تکرار ہوگئی.نبی کریم " وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ لوگ خاموش ہو گئے تو آپ آگے تشریف لے گئے.( بخاری )45 رسول اللہ نے کبھی تبلیغ کیلئے کسی کوحقیر نہیں جانا خواہ وہ کوئی بد حال غریب ہو یا مفلوک الحال یہودی غلام.خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی لڑکا تھا جو آپ کی خدمت کرتا تھا.وہ بیمار ہوگیا تو نبی کریم اس کا حال پوچھنے تشریف لے گئے.آپ اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور فرمایا کہ اسلام قبول کرلو.اس نے اپنے میٹھے باپ کی طرف دیکھا.باپ حضور کی شفقت اور احسان دیکھ کر کہنے لگا ” بچے ابوالقاسم جو کہتے ہیں ان کی بات مان لو.“ چنانچہ وہ بچہ (کلمہ پڑھ کر ) مسلمان ہو گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نکلے تو یہ فرمارہے تھے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جس نے اسے آگ سے بچالیا ہے.( بخاری 46 ) دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریم جب باہر تشریف لائے تو اس بچے نے جان دیدی آپ نے صحابہ سے فرمایا ” اٹھو اور اپنے بھائی کی نماز جنازہ ادا کرو.‘ ( احمد ) 47 مدنی دور میں تبلیغ کی راہ میں قربانیاں نبی کریم کے لئے تنہا سارے عرب میں پیغام پہنچا ناممکن نہیں تھا.لازماً اس کے لئے انصار و اعوان اور داعیان کی ضرورت تھی.مختلف قبائل سے تبلیغ اسلام کے لئے معلمین و مبلغین کے مطالبے بھی ہونے لگے تھے.چنانچہ عضل وقارہ قبائل کے مطالبہ پر رسول کریم نے دس صحابہ کو عاصم بن ثابت انصاری کی سرکردگی میں بھجوایا.یہ لوگ رات کو سفر کرتے اور دن کو چھپ کر رہتے تھے.قریش مکہ سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے.جب یہ رجمیع مقام پر پہنچے تو ان کے دشمن قبیلہ ہذیل کو ان کی خبر ہوگئی.انہوں نے سو تیر اندازوں کا ایک دستہ ان کے تعاقب میں بھیجا.جب مسلمانوں کو پتہ لگا تو وہ قریب ہی ایک پہاڑی پر چڑھ گئے.دشمنوں نے انہیں گھیر لیا اور کہا اگر تم لوگ گرفتاری دے دو ہم تمہیں قتل نہیں کریں
اسوہ انسان کامل 266 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ گے.اسلامی دستے کے امیر عاصم نے کہا کہ مجھے تو کافروں کے عہد پر اعتبار نہیں.چنانچہ وہ دشمن کے مقابلے میں تیر برساتے رہے اور ساتھ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے.الْمَوْتُ حَقِّ وَالْحَيَاةُ بَاطِل وَكُلُّ مَا قَضَى الْالَهُ نَازِل یعنی موت برحق ہے اور زندگی بے کار ہے جو خدا کا فیصلہ ہو وہی برحق ہے.جب عاصم کے تیر ختم ہو گئے تو وہ نیزے سے لڑنے لگے.نیزہ بھی ٹوٹ گیا تو تلوار نکال لی اور لڑتے لڑتے جان دے دی.آخری لمحات میں اُن کی زبان پر یہ دعا جاری تھی.”اے اللہ میں نے آخر دم تک تیرے دین کی حفاظت کی ہے.اب میری نعش کی حفاظت تو خود کرنا.ان کی دعا اللہ تعالیٰ نے اس معجزانہ رنگ میں قبول فرمائی کہ جب دشمن بے حرمتی کرنے کیلئے ان کی نعش اٹھانے لگتے تا اس کا مثلہ کریں تو بھڑوں کا ایک غول ان پر حملہ آور ہو جاتا اور اُن کی نعش کی حفاظت کرتا.یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ بارشوں سے سیلاب آیا اور عاصم کی نعش کو بہا کر لے گیا.( الحلبیہ (48 میہ واقعہ رجیع کے نام سے معروف ہے جس میں امیر دستہ عاصم بن ثابت اور ان کے چھ اور ساتھی شہید ہو چکے تو ان کے باقی تین ساتھیوں خبیب ، زیڈ اور عبداللہ بن طارق نے دشمن کا عہد قبول کرتے ہوئے گرفتاری دے دی.جب دشمن ان کو رسیوں سے باندھ رہے تھے تو عبداللہ کہنے لگے یہ پہلی بد عہدی ہے.مجھے یہ قید قبول نہیں اور انہوں نے وہیں لڑتے ہوئے جان دے دی.خبیب اور زیڈ کو اہل مکہ نے خرید لیا کہ وہ اپنے مقتولین بدر کے عوض انہیں قتل کر کے اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کریں گے.جس روز انہیں قتل گاہ لے گئے تو خبیب نے کہا کہ مجھے دورکعت نماز پڑھ لینے دو.وہ جلد نماز سے فارغ ہوئے اور کہنے لگے خدا کی قسم اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تم سمجھو گے کہ میں موت سے ڈرتا ہوں تو آج میں لمبی نماز پڑھتا.اس قتل ناحق کا تماشہ دیکھنے کے لئے شہر کی عورتیں، بچے اور غلام باہر نکل کر جمع ہو گئے تھے.ان سب کو قتل کا عبرتناک منظر دکھانے کے لئے ایک لمبی لکڑی پر خبیب کو لٹکایا گیا.پھر کہا کہ ابھی بھی اسلام سے توبہ کر لو تو تجھے آزاد کر دیتے ہیں ورنہ قتل کر دیں گے.خبیب نے کہا خدا کی راہ میں میری جان کی یہ قربانی ایک حقیر نذرانہ ہی تو ہے.پھر خبیب نے دعا کی کہ اے اللہ یہاں کوئی ایسا شخص نہیں جو تیرے رسول کو میرا سلام پہنچائے.پس تو ہی میری طرف سے اپنے رسول کو میر اسلام پہنچا دے اور جو سلوک یہ میرے ساتھ کر رہے ہیں اس کی اطلاع بھی فرما دے.دوسری طرف تین سو میل کے فاصلے پر مدینہ میں خدا کے رسول اپنے صحابہ کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما تھے، عین اس وقت اچانک آپ پر وحی کی کیفیت طاری ہوئی.اسامہ بن زیڈ کا بیان ہے ہم نے آپ کو دو علیہ السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ “ کہتے سنا.جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ابھی جبریل آئے تھے وہ مجھے خبیب کی طرف سے سلام پہنچا رہے تھے جنہیں قریش نے شہید کر دیا ہے.قریش نے اپنے چو ہیں سرداروں کی اولاد کو جو بدر میں ہلاک ہوئے تھے ) ضریب سے قتل پر اکٹھا کیا تھا اور نیزے ان کے ہاتھ میں تھما کر کہا تھا کہ وہ سب اس شخص کو نیزے مار کر قتل کریں اور آتش انتقام سرد کریں.چنانچہ ان سب نے
اسوہ انسان کامل 267 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ خبیب کو شہید کیا.(الحلبیہ (49 مبلغین کی شہادت کا دوسرا واقعہ بئر معونہ کا ہے.جس میں ستر صحابہؓ شہید ہوئے.واقعہ یوں ہوا کہ قبیلہ بنی عامر کا سردار عامر بن طفیل حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.خود تو اسلام قبول نہیں کیا مگر کہا کہ مجھے یہ پیغام اچھا لگا ہے اگر آپ اپنے کچھ لوگ ہمارے علاقہ میں بھجوا دیں تو شاید وہ لوگ اسلام قبول کر لیں.حضور نے فرمایا مجھے اہل نجد سے خطرہ ہے.ابو عامر نے کہا کہ یہ میرا ذمہ.چنانچہ اس نے جا کر اہل نجد کو بتا دیا کہ محمد کے ساتھیوں کو میں نے پناہ دی ہے.یہ ستر حفاظ قرآن تھے جو دن کو قرآن اور نمازیں پڑھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے.ان کے امیر حرام بن ملحان نے جب بنی سلیم کو پیغام حق پہنچایا اور رسول اللہ کا خط دیتے ہوئے کہا کہ اے اہل بئر معونہ! میں تمہاری طرف رسول اللہ کا نمائندہ ہو کر آیا ہوں.اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اس دوران ایک شخص نے پیچھے سے آکر ان کو نیزہ مارا.اُن کی گردن سے خون کا فوارہ نکلا.اس بہادر داعی الی اللہ نے اللهُ اَكْبَرُ فُرُتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ کا نعرہ لگایا کہ اللہ سب سے بڑا ہے.کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.پھر اپنے خون کو ہاتھوں میں لیا اور چہرے اور سر پر چھینٹا مارا.بعد ازاں اُن کے ساتھیوں پر بھی حملہ کر دیا گیا اور اس میدان میں ستر داعیان الی اللہ نے جام شہادت نوش کیا.( بخاری ) 0 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ساتھیوں کی وفا اور راضی برضا ر ہنے کا یہ عالم تھا کہ بوقت شہادت انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ ! ہمارے حال کی خبر اپنے رسول کو کر دے اور ان کو ہمارا سلام اور یہ پیغام پہنچا کہ ہم اپنے رب کی رضا پر راضی ہیں.رسول اللہ کو بذریعہ وحی اس کی اطلاع ہو گئی اور آپ نے صحابہ کو اس سے مطلع فرمایا.ان شہادتوں کا حضور کو اتنا صدمہ اور غم تھا کہ کبھی کسی اور کی وفات پر اتنا غم نہیں ہوا.ایک ماہ تک حضور رورو کر نمازوں میں خدا تعالیٰ سے مد دو نصرت کی دعائیں کرتے رہے.( بخاری ) 51 سردار طائف عروہ کی شہادت 50 فتح مکہ کے بعد آنحضرت نے چند روز تک طائف کا محاصرہ کیا تھا مگر جلد ہی محاصرہ اُٹھا کر مدینہ واپس لوٹے تھے.مدینہ واپسی پر راستہ میں ہی ثقیف قبیلہ کے ایک سردار عروہ بن مسعود نے آکر اسلام قبول کر لیا اور پوچھا کہ واپس اپنی قوم میں جا کر اسلام کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.رسول اللہ نے فرمایا کہ ثقیف تمہیں قتل کر دیں گے.عروہ نے کہا کہ وہ مجھ سے اپنی اولاد سے بھی زیادہ محبت کرتے ہیں.عروہ واپس طائف پہنچے.قوم کے لوگ ملنے آئے تو عروہ نے اسلام کی طرف دعوت دی، انہوں نے انکار کر دیا اور بُرا بھلا کہنے لگے.اگلی صبح عروہ اپنے گھر میں کمرہ سے باہر نکلے اور کلمہ شہادت پڑھا تو ثقیف قبیلہ کے ایک تیر انداز نے تیر مار کر شہید کر دیا.آخری لمحات میں ان سے پوچھا گیا اپنے خون کے بدلہ کے بارہ میں کیا کہتے ہو، کہنے لگئے یہ تو ایک عزت ہے جو خدا نے مجھے بخشی اور شہادت کا رتبہ عطا فر مایا.“ رسول کریم نے ان کی شہادت پر فرمایا کہ عروہ کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کا ذکر سورہ پینس میں ہے کہ اُس
اسوہ انسان کامل 268 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ نے اپنی قوم کو رسول کی پیروی کی طرف بلایا تھا.(الحلبیہ (52 میدان جہاد میں دعوت الی اللہ ہجرت مدینہ کے بعد امن میسر آتے ہی دعوت اسلام کا کام تیز تر ہو گیا لیکن کفار مکہ نے وہاں بھی امن کا سانس نہ لینے دیا اور مدینہ پرحملہ آور ہوئے.تب امن کے بادشاہ حضرت محمد مصطفیٰ کو اپنے دفاع کے لئے مجبوراً تلوار اٹھانی پڑی.اس زمانہ میں بھی آپ نے دعوت الی اللہ کا فریضہ ہمیشہ مقدم رکھا.یہود خیبر کی مدینہ پر حملہ کی دھمکیوں اور خطرہ کے پیش نظر اسلامی لشکر محاصرہ خیبر پر مجبور ہوا تو اس دوران ایک حبشی غلام یہود خیبر کی بکریاں چراتا ہوا ادھر آنکلا.جنگ کی حالت تھی ہحاصرہ جاری تھا.وہ غلام جنگل سے بکریاں لے کر شہر کی طرف آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ باہر مسلمانوں کی فوج نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.اس موقع پر ہمارے سید و مولی کا شوق تبلیغ دیکھنے کے لائق تھا.آپ تبلیغ کے لئے کسی کو حقیر نہ جانتے تھے.چنانچہ اس حبشی چرواہے کو اسلام کی دعوت دینے لگے.اس نے کہا کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو مجھے کیا ملے گا؟ حضور نے فرمایا جنت.بشرطیکہ اسلام پر ثابت قدم رہو.اس پر وہ مسلمان ہو گیا.(الحلبیہ ( 53 حضرت علی کو نصیحت آنحضرت جنگ میں دعوت الی اللہ کا یہ پاکیزہ نمونہ دکھانے کے بعد حضرت علی کوسالارلشکر بنا کر اس نوید کے ساتھ قلعہ خیبر فتح کرنے بھیجا کہ تمہارے ہاتھ پر فتح ہوگی.انہیں یہ تلقین فرمائی کہ یہود ( جن کی طرف سے اعلان جنگ ہوا تھا) پر حملہ سے قبل ایک دفعہ پھر انہیں دعوت اسلام دینا.چنانچہ فرمایا اے علی ! جب تم ان کے میدان میں اتر و تو پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ قبول اسلام کی صورت میں ان کی کیا ذمہ داریاں ہوگی اور یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو تیرے لئے کئی سرخ اونٹوں کی دولت سے زیادہ بہتر ہے.(بخاری) 54 غزوات میں دشمن پر احسان اور تبلیغ رسول اللہ نجد کی طرف ایک مہم پر تشریف لے گئے جسے غزوہ ذات الرقاع بھی کہتے ہیں.واپسی پر دو پہر کے وقت آرام کے لئے ایک سایہ دار درختوں کی وادی میں حضور نے قیام فرمایا.لوگ درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے.رسول کریم بھی ایک کیکر کے درخت کے نیچے لیٹ گئے اور تلوار اس کے اوپر لٹکا دی.حضرت جابر کہتے ہیں ابھی ہم کچھ دیر ہی سوئے تھے کہ اچانک رسول اللہ کو ہم نے بلاتے سنا.حاضر خدمت ہوئے تو ایک بدو وہاں بیٹھا تھا.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے میرے سوتے ہوئے میری تلوار سونت لی اور مجھے جگا کر پوچھا کہ اب آپ کو مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ میں نے کہا اللہ.جس پر تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی تب میں نے تلوار ہاتھ میں لے کر اس سے پوچھا اب تم بتاؤ
اسوہ انسان کامل 269 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اس نے کہا سوائے آپ کے کوئی نہیں.آپ سے اچھے سلوک کی توقع ہے.دشمن قبیلہ کا یہ شخص غورث بن حارث دراصل آپ کے تعاقب میں تھا.آنحضور نے صحابہ کو بلایا تو وہ اسے ڈرانے دھمکانے لگے.آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.اس نے کہا نہیں لیکن میں آپ کے خلاف کبھی لڑائی میں شریک نہ ہوں گا.( بخاری ) 55 نبی کریم نے اس جانی دشمن کو بھی معاف کر دیا.وہ آپ کے شفقت بھرے سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ نہ صرف اس نے بلکہ اس کی قوم کے بہت سے لوگوں نے رسول اللہ کی حفاظت کا یہ معجزانہ نشان دیکھ کر اس کے ذریعہ اسلام قبول کرنے کی توفیق پائی.(زرقانی) 56 داعیان کی تیاری مدینہ کے نواحی قبائل اور قوموں سے لوگ آکر آنحضور کی صحبت میں رہتے ،تربیت پا کر واپس جاتے اور اپنے علاقے میں دعوت اسلام کی خدمات بجالاتے تھے.مالک بن حویرث ایک دفعہ ہیں ساتھیوں کے ساتھ آ کر مدینہ میں کئی روز ٹھہرے اور دین اسلام سیکھ کر واپس گئے.( بخاری )57 اصحاب صفہ کی تعلیم قرآن و سنت کا مسجد نبوی میں مستقل انتظام تھا.رسول کریم کی دعوت اور تربیت کا بہترین طریق حسنِ عمل اور کردار تھا جو ہمیشہ ہی کامیاب ثابت ہوا.آغاز اسلام میں حضرت خدیجہ، حضرت علی اور حضرت ابو بکر آپ پر ایمان لائے تو اس کا بنیادی سبب بھی رسول اللہ کا حسنِ کردار ہی تھا.پھر ان کی تبلیغ اور نمونہ سے اور لوگ مسلمان ہوئے.تالیف قلب اور احسان نبی کریم نے ایک گھڑ سوار دستہ نجد کی طرف بھجوایا.وہ بنی حنیفہ کے ایک سردار عمامہ بن اثال کو گرفتار کر لائے جسے مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا.نبی کریم مسجد میں تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ یعنی تمہیں کس سلوک کی توقع ہے؟ اس نے کہا میری رائے اچھی ہے کیونکہ آپ ہمیشہ احسان کرنے والے ہیں.اگر مجھے قتل کریں گے تو میر اقبیلہ اس کا بدلہ لے گا اور اگر آپ احسان کا سلوک کریں گے تو ایک شکر گزار انسان پر احسان کریں گے اور اگر آپ میری آزادی کے عوض کوئی مال وغیرہ چاہتے ہیں تو جو مانگنا چاہتے ہیں مانگیں.حضور نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا.( مقصود یہ ہوگا کہ وہ مسجد نبوی میں مسلمانوں کی عبادت وغیرہ کے احوال دیکھ لے ) اگلے روز پھر نبی کریم نے اس سے وہی سوال دو ہرایا.وہ بولا کہ میر اوہی جواب ہے جو پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اگر آپ مجھ پر احسان کریں گے تو یہ ایک شکر گزار بندے پر احسان ہوگا.دوسرے روز بھی حضور نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا.پھر تیسرے روز اس سے وہی سوال پوچھا وہ کہنے لگا کہ میں پہلے ہی جواب عرض کر چکا ہوں.آپ نے ارشاد فرمایا کہ شمامہ کو
270 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل آزاد کر دو.ثمامہ رسول اللہ کے حسن سلوک، مسلمانوں کی پنجوقتہ عبادت، اطاعت اور وحدت کے نظارے سے اس قدر متاثر ہو چکا تھا کہ آزاد ہوتے ہی قریب کے نخلستان میں جا کر غسل کیا.مسجد نبوی میں آکر کلمہ شہادت پڑھا اور اسلام قبول کر لیا.پھر کہا اے محمد ! آپ کا چہرہ روئے زمین پر میرے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت تھا مگر آج آپ مجھے دنیا میں سب سے پیارے ہیں.خدا کی قسم کوئی مذہب مجھے آپ کے مذہب سے زیادہ ناپسندیدہ نہ تھا مگر آج آپ کا دین اسلام مجھے تمام دینوں سے زیادہ پیارا ہو چکا ہے.خدا کی قسم کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ میرے لئے قابل نفرت نہ تھا.آج آپ کا شہر مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو چکا ہے.آپ کے دستہ نے جب مجھے گرفتار کیا تو میں عمرہ کے ارادہ سے جارہا تھا.اب میرے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم نے اس کے یہ تاثرات سن کر بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا.ثمامہ کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی بشارت دی اور عمرہ کرنے کی اجازت عطا فرمائی.وہ مکہ میں عمرہ کرنے گئے تو کسی نے کہ دیا تم بھی صابی ہو گئے ہو یعنی نیا دین اختیار کر لیا ہے.اس نے کہا نہیں میں مسلمان ہوکر محمد رسول اللہ پر ایمان لایا ہوں اور کان کھول کر سن لو! خدا کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک نبی کریم اس کی اجازت عطا نہ فرمائیں.( بخاری ) 58 فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول اللہ کی تالیف قلبی اور احسان کو دیکھ کر مکہ کے بڑے بڑے سرداروں نے اسلام قبول کر لیا تھا جس کی تفصیل غزوات میں خلق عظیم اور انفاق فی سبیل اللہ کے زیر عنوان موجود ہے.یہود مدینہ کو تبلیغ رسول اللہ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت یہود کے تین بڑے قبائل موجود تھے جو مسلمانوں کے ساتھ میثاق مدینہ کے معاہدہ امن میں شریک تھے مگر اپنی بد عہدی کی وجہ سے باری باری مدینہ سے ان کا اخراج ہوتا رہا.ہر چند کہ یہود مدینہ پر اتمام حجت ہو چکی تھی.ان کے کئی سرداروں پر آپ کی سچائی کھل چکی تھی ، ایک خدا ترس یہودی عالم عبداللہ بن سلام کو تو قبول اسلام کی توفیق مل گئی لیکن باقی یہود کا رویہ اپنے سرداروں کی وجہ سے معاندانہ رہا کیونکہ باقی سردار اپنی انا اور ہٹ دھرمی کے باعث اپنی سرداری چھوڑنے پر آمادہ نہ تھے.اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر مجھ پر دس یہودی سردار بھی ایمان لے آتے تو سارے یہودی ایمان لے آتے.( بخاری ) 59 یہود رسول اللہ کی مجالس میں حاضر ہو کر مختلف اعتراض بھی کرتے اور سوالات بھی اور تسلی بخش جواب بھی پاتے مگر ہدایت کی توفیق نہ ملی.رسول اللہ آخر دم تک ان پر اتمام حجت فرماتے رہے اور یہود اپنے وطیرہ کے مطابق انکار پر مصرر ہے.نبی کریم مدینہ میں یہود کی علمی درسگاہ بیت مدراس بھی تشریف لے جاتے تھے.حضرت ابوھر بر کا بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک روز مسجد نبوی میں موجود تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا ” چلو آج یہود کی طرف چلتے ہیں.چنانچہ ہم یہود کی تعلیمی درسگاہ بیت مدراس گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں یہودی علماء سے گفتگو کے
اسوہ انسان کامل 271 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ دوران انہیں دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ اے یہود کی جماعت ! تم اسلام قبول کر لو امن میں آجاؤ گے.( بخاری )60 نصاری کو تبلیغ سرزمین عرب میں موجود کوئی مذہب ایسا نہ تھا جس پر آنحضرت نے اتمام حجت نہ فرمائی ہو.نجران کے عیسائیوں کو بھی آپ نے تبلیغ کی.آغاز اسلام میں نجران میں چھوٹی سی خود مختار عیسائی ریاست قائم تھی جسے قیصر روم کی سر پرستی حاصل تھی.اہل نجران کو رسول اللہ کے دعویٰ کی اطلاع مکی دور میں مہاجرین حبشہ کے ذریعہ ہو چکی تھی.چنانچہ ان کا چوبیس افراد پر مشتمل پہلا وفد 10 نبوی میں سکے آیا.انہوں نے رسول اللہ کی تبلیغ سن کر اسلام قبول کر لیا.( کرامت )61 مدینہ آکر اہل نجران سے رابطہ رسول اللہ کے اس خط کے ذریعہ بحال ہوا جو آپ نے اُن کے مذہبی راہنمالارڈ بشپ کے نام لکھا جس میں آپ نے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے بعض مشترک قدروں کی طرف توجہ دلائی.حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق“ اور حضرت یعقوب کے ادب و احترام کرنے کا ذکر کیا.پھر خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلاتے ہوئے دعوت دی کہ مسلمان ہو جائیں یا جزیہ دینا قبول کر لیں.اس خط کے نتیجہ میں 2 ھ میں نجران کا ایک سہ رکنی وفد مدینے آیا جسے معاہدہ صلح کیلئے ایک عبارت تجویز کر کے دی گئی.بعد میں 9ھ کے زمانہ میں ساٹھ رکنی وفد نجران آیا جس میں ان کے مذہبی اور سیاسی رہنما بھی موجود تھے.اس موقع پر بحث و تمحیص کے بعد اہل نجران کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا جو انہوں نے قبول نہیں کیا بلکہ معاہدہ صلح کی توثیق کر دی.( بیہقی )62 مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نجران کے عیسائی رہنماؤں سے جو مدلل تبلیغی گفتگو رسول اللہ نے فرمائی اس کا مختصر ذکر کر دیا جائے.رسول کریم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے ”ہم تو پہلے سے مسلمان ہیں.یعنی دین حق پر قائم ہیں اور اللہ کے حکم کو مانے والے ہیں.رسول کریم نے فرمایا " یہ بات درست نہیں خدا کا بیٹا تسلیم کرنے صلیب کی پرستش اور خنزیر کھانے جیسی خرابیوں میں پڑ جانے کے بعد تم اپنے آپ کو مسلمان اور دین حق پر قائم کیسے کہہ سکتے ہو؟ کیونکہ یہ باتیں حضرت مسیح کی تعلیم نہیں.انہوں نے بحث کا پہلو اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اگر عیسی" خدا کا بیٹا نہیں تو آپ بتائیں اس کا باپ کون ہے؟ اس سوال پر انہوں نے خوب بحث کی.رسول کریم نے فرمایا کہ یہ تو تم جانتے ہو کہ کوئی بیٹا ایسا نہیں ہوتا جو باپ کے مشابہ نہ ہو.انہوں نے کہا ٹھیک ہے.“ آپ نے فرمایا ” کیا تمہیں پتہ ہے ہمارا رب زندہ ہے.اس پر کبھی موت نہیں آئے گی اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام پر تمہارے عقیدہ کے مطابق بھی ایک دفعہ موت آچکی ہے کیونکہ تمہارے عقیدہ کے مطابق انہوں نے گناہوں کے کفارہ کے لئے موت کا پیالہ پیا؟ انہوں نے کہا ”ہاں یہ بھی درست ہے.رسول اللہ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے ہمارا رب ہر شے کا نگران ہے.وہ ہر ایک کی حفاظت کرتا ہے اور اسے رزق بہم پہنچاتا ہے.انہوں نے کہا ”ہاں یہ بھی ٹھیک ہے.آپ نے فرمایا ”اچھا اب یہ بتاؤ کہ حضرت عیسی کو ان باتوں میں سے کس پر قدرت حاصل ہے؟ ( کہ اسے خدا کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس کا بیٹا
اسوہ انسان کامل 272 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ قرار دیا جائے ).انہوں نے کہا ان میں سے کوئی بات حضرت مسیح میں ہم نہیں جانتے.آپ نے فرمایا کہ ” ہمارے رب نے حضرت عیسی کو رحم مادر میں جیسے چاہا شکل عطا فرمائی.پھر ہمارا رب نہ تو کھاتا ہے نہ پیشاب پاخانہ کرتا ہے.انہوں نے کہا ”یہ درست ہے.آپ نے فرمایا ” کیا تمہیں پتہ ہے کہ عیسی کی والدہ اسی طرح حاملہ ہوئیں جیسے ایک عام عورت حاملہ ہوتی ہے؟ پھر اسی طرح عیسی کی ولادت ہوئی جس طرح ایک عام عورت بچہ جنتی ہے.پھر حضرت عیسی بچے کی طرح غذا بھی لیتا تھا اور کھاتا پیتا اور پیشاب بھی کرتا تھا.انہوں نے کہا ”ہاں“ آپ نے فرمایا ” پھر تمہارا سی دعوئی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے کیسے درست ہو سکتا ہے؟ اس پر وہ لا جواب اور خاموش ہو کر رہ گئے.(واحدی ) 63 شاہان مملکت کو خطوط شاہان مملکت کو خطوط بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان تبلیغی شاہکار اور بہادرانہ کارنامہ ہے.ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانان مدینہ کو سب سے بڑا خطرہ جنوب میں قریش مکہ سے تھا جن کے ساتھ 6ھ میں حدیبیہ مقام پر ایک صلح نامہ ہو گیا.ہر چند کہ ابھی شمال کی طرف سے یہود خیبر کا خطرہ موجود تھا مگر بڑے خطرہ کے ٹل جانے سے مدینہ کے حالات معمول پر آنے لگے اور مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمانہ امن کو تبلیغ کی وسعت کے لئے غنیمت جانا اور عرب کے چاروں اطراف میں شاہان مملکت کو تبلیغی خط لکھے.اس زمانہ میں ایران اور روم کی حکومتیں دنیا کی عظیم ترین سلطنتیں تھیں.عرب ریاستیں ان کی باجگزار اور تابع مہمل سجھی جاتی تھیں.اندر میں حالات ایک عرب کا ان حکومتوں کو خطاب اور اپنی اطاعت کی طرف بلانا اعلان جنگ کے مترادف تھا.کوئی عام انسان ایسی جرات کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ تبلیغی خطوط رسول اللہ کے اپنے مشن پر یقین ، خدا کی ذات پر کامل ایمان و توکل اور غیر معمولی شجاعت کو بھی ظاہر کرتے ہیں.کسری شاہ ایران کو خط نبی کریم اللہ نے حضرت عبداللہ بن حذافہ بن قیس کو اپنا خط دے کر کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے پاس بھجوایا.اس خط کی عبارت تبلیغی مکاتیب کیلئے راہنما ہے.آپ نے لکھا:.اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمان اور رحیم ہے.اللہ کے رسول محمد کی طرف سے یہ خط فارس کے شہنشاہ کسری کے نام ہے.جو بھی ہدایت کی پیروی کرے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اس پر سلامتی ہو.میں آپ کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں.میں تمام لوگوں کی طرف اللہ کا رسول ہوں تا کہ ہر زندہ شخص کو ہوشیار کروں اور انکار کرنے والوں پر فرد جرم لگ جائے.اسلام قبول کر لیجئے سلامتی آپ کا خیر مقدم کرے گی اور اگر انکار کریں گے تو قوم مجوس کا گناہ بھی آپ پر ہوگا.کسری شاہ ایران نے یہ خط پڑھ کر پھاڑ ڈالا تھا.جس پر رسول اللہ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اس کی حکومت اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے.( بخاری ) 64 یہ دعا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.
اسوہ انسان کامل 273 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ دراصل یہودیوں کی سازش سے جھوٹی اور غلط اطلاعات کسری کو پہنچائی گئیں تھیں جن کی وجہ سے مشتعل ہو کر وہ پہلے ہی گورنر یمن باذان کو رسول اللہ کی گرفتاری کا ظالمانہ حکم دے چکا تھا چنانچہ کسری کے اہلکار رسول اللہ کے خط سے پہلے ہی آپ کی گرفتاری کے لئے مدینہ پہنچ گئے تھے.(طبری) 65 جب یہ قاصد رسول اللہ و گر فتار کرنے کیلئے آئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات انتظار کرو کل جواب دیں گے اگلی صبح آپ نے فرمایا آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے.رسول اللہ کی یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.بعد میں پتہ چلا کہ اسی رات کسری کے بیٹے شیرویہ نے اپنے باپ کسری کوقتل کر دیا تھا.چھ ماہ بعد وہ خود بھی زہر پینے سے ہلاک ہو گیا اور اس کی بہن حکمران ہوئی اور یوں حکومت ایران پارہ پارہ ہوکر رہ گئی.( مجمع ) 66 قیصر شہنشاہ روم کو خط رسول اللہ کے صحابی حضرت دحیہ اسکمی کے ذریعہ حسب دستور حاکم بصری کے توسط سے یہ خط قیصر روم کو روانہ کیا گیا.اس خط کو اللہ کے نام سے شروع کرتے ہوئے حضور نے شاہی آداب کے موافق قیصر کو عظیم الروم“ کے لقب سے خطاب فرمایا اور اسلام اور عیسائیت کی مشترک قدر توحید کی طرف دعوت دیتے ہوئے نیز ہدایت قبول کرنے والے کیلئے دعاؤں کے ساتھ خط کا آغاز فرمایا اور اسلام قبول کرنے کی صورت میں دوہرے اجر کی بشارت دی.پہلا اجبر حضرت عیسی پر ایمان لانے کا اور دوسرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی صورت میں.پھر اس تبشیر کے ساتھ انذار بھی فرمایا کہ انکار کی صورت میں رعایا کا گناہ بھی تم پر ہوگا.شاہ روم ہرقل کی سعادت مندی تھی کہ اس نے رسول اللہ کا یہ خط بہت سنجیدہ نظر سے دیکھا.عزت کے ساتھ سونے کی ایک ڈبیہ میں اُسے محفوظ کر کے رکھا.مزید تحقیق کے لئے عربوں کے ایک وفد سے معلومات حاصل کیں جو ابوسفیان کی سرکردگی میں تجارت کے لئے شام گیا ہوا تھا.پھر ابوسفیان سے کہا کہ تم نے میرے سوالوں کے جواب میں جو کچھ کہا ہے اگر وہ واقعی درست ہے تو وہ شخص ضرور میرے ملک پر غالب آئے گا.اگر میرے لئے ممکن ہوتا تو میں ضرور اس کی خدمت میں حاضر ہوتا اور اس کے پاؤں دھوتا.مگر بعد میں جب ہر قل نے اپنی قوم کے سرداروں کے سامنے بڑی حکمت سے منصوبہ بندی کر کے آنحضرت کا دعویٰ پیش کیا تو انہوں نے سختی سے انکار کر دیا.اس پر ہرقل ڈر گیا اور اسلام قبول کرنے کی جرات نہ کی.( بخاری ) 67 رومی حاکم فروۃ بن عمر و جزامی کا قبول اسلام ایمان کی توفیق بھی انسان کی طبعی سعادت اور خدا کے فضل پر موقوف ہوتی ہے.جہاں ہر قل نے ایک عظیم الشان حکومت کا شہنشاہ ہوتے ہوئے دنیا کو مقدم کیا اور ڈر گیا وہاں کسری کے ایک خدا ترس عامل فروہ کو جب اسلام کا پیغام پہنچا تو اس نے اسے قبول کر لیا.فروہ عرب علاقوں کے لئے رومی حکومت کی طرف سے گورنر مقرر تھا.رسول کریم نے اُس
اسوہ انسان کامل 274 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ کی طرف بھی تبلیغی خط لکھا.اس نے اپنا نمائندہ رسول اللہ کی خدمت میں بھجوا کر اپنے قبول اسلام کی اطلاع کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ سواریاں خچر، گھوڑ اوغیرہ اور کچھ قیمتی پوشاکیں (جن پر سونے کا کام تھا) تحفہ بھجوائیں.جب شاہ روم کو پتہ چلا کہ فروہ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو اسے پکڑ کر قید کر دیا اور مسلسل دھمکیاں دیتا رہا کہ اس دین سے لوٹ آؤ تو حکومت واپس مل جائے گی.استقامت کے شہزادے فروہ نے کمال بہادری سے جواب دیا کہ میں محمد مصطفی کے دین کو نہیں چھوڑ سکتا اور تم بھی جانتے ہو کہ حضرت عیسی" نے اس نبی کی خبر دی تھی مگر تم اپنی حکومت کے چھن جانے کے ڈر سے اسلام قبول نہیں کرتے ہو.شاہ روم نے اُسے صلیب دے کر شہید کر دیا.(الحلبیہ ( 68 نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط رسول اللہ نے عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی شاہ حبشہ کی طرف خط دیکر بھجوایا.جس میں بسم اللہ کے بعد تحریر فرمایا:.یہ خط اللہ کے رسول محمد کی طرف سے شاہ حبشہ نجاشی کے نام ہے.میں تمہارے پاس اس خدا کی حمد بیان کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ بادشاہ ہے، پاک ہے ، سلامتی والا اور امن دینے والا ہے، حفاظت کر نیوالا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی بن مریم اللہ کی روح اور اس کا کلمہ ہیں، جو اس نے پاکباز مریم بتول کو عطا کیا اور وہ عیسی کے ساتھ حاملہ ہوئیں.میں آپ کو اس خدا کی طرف دعوت دیتا ہوں جس کا کوئی شریک نہیں اور یہ دعوت دیتا ہوں کہ آپ میری پیروی کریں اور اس کلام پر ایمان لائیں جو میرے پاس آیا ہے.میں اللہ کا رسول ہوں.میں نے آپ کے پاس اپنے چچا کے بیٹے جعفر اور ان کے ساتھ مسلمانوں کی ایک جماعت کو بھجوایا ہے.سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے.“ نجاشی نے یہ خط پا کر آنکھوں سے لگایا اور تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور انکساری سے زمین پر بیٹھ رہا.پھر اپنے قبول اسلام کا اعلان کیا اور کہا اگر مجھے طاقت ہو تو ضرور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں.“ شاہ مصر کو خط مقوقس شاه مصر و تبلیغی خط حاطب بن ابی بلتعہ کے ذریعہ حدیبیہ سے واپسی پر بھجوایا گیا.مقوقس مذھباً عیسائی تھا.اس خط کا مضمون بھی قیصر روم کے خط سے ملتا ہے.مقوقس نے قاصد نبوی سے کچھ سوال وجواب کے بعد سعادت مندی کا مظاہرہ کیا.مکتوب نبوی ہاتھی دانت کی ڈبیہ میں رکھا اور رسول اللہ کی خدمت میں جو بہا تحریر کیا کہ میں نے آپ کے خط کا مضمون سمجھ لیا ہے.مجھے ایک نبی کے ظہور کا اندازہ تھا مگر خیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہوگا.اُس نے آپ کے قاصد کا اکرام کیا چنانچہ اسے سود بینار اور پانچ پوشاکیں دیں اور رسول اللہ کی خدمت میں ہیں پوشاکیں اور معزز خاندان کی دولڑ کیاں بھجوائیں.ان میں سے ایک خاتون ماریہ رسول اللہ کے عقد میں آئیں.مقوقس نے قاصد رسول سے کہا تھا کہ میرے درباریوں کو تمہارے ساتھ ہونے والی گفتگو کا پتہ نہ چلے.میں حکومت چھن جانے کے ڈر سے اپنی قوم سے اسلام کے بارہ میں بات نہیں کرتا ، ورنہ میں جانتا ہوں کہ یہ
اسوہ انسان کامل 275 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ نبی ایک دن ہماری سرزمین پر غالب آئے گا اور اس کے ساتھی یہاں اتریں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور 17ھ میں مصر فتح ہو گیا.(الحلبیہ (69 غسانی سردار کے نام خط رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شجاع بن وھب الاسدی کو حارث بن ابی شمر کی طرف دعوت اسلام کے لئے اپنا خط دے کر بھجوایا اور لکھا کہ اسلام قبول کر لو تو تمہاری حکومت بھی قائم ودائم رہے گی.“ اس نے خط پڑھ کر پھینک دیا اور کہا ”کون ہے جو میرا ملک مجھ سے چھین سکے؟ میں اس کے خلاف لشکر کشی کرونگا.“ اور قاصد سے کہا کہ اپنے آقا کو جا کر یہ بتا دو.پھر اس نے قیصر شاہ روم کو مکتوب نبوی کی اطلاع دی.قیصر نے جواباً لکھا کہ تمہیں اس نبی کے خلاف لشکر کشی کی ضرورت نہیں اور مجھے ایلیاء مقام پر آکر ملو.یہ جواب آنے پر اس نے رسول اللہ کے قاصد کو بلوا بھیجا اور سو دینار اور پوشاک انعام دی اور کہا کہ رسول اللہ کو میر اسلام کہنا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب قاصد سے اس کے احوال سنے تو فر مایا کہ اس کی حکومت تباہ و برباد ہوگی.فتح مکہ کے سال حارث بن ابی شمر کی وفات ہوگئی.( الحلبیہ (70 حاکم بیمامہ کے نام خط رسول اللہ نے سلیط بن عمرو عامری کو اپنا خط دے کر ھوزہ بن علی حنفی حاکم یمامہ کے پاس دعوت اسلام کے لئے بھیجوایا اور لکھا کہ میرا دین عنقریب غالب آئے گا.تم اسلام قبول کر لو امن میں آجاؤ گے اور تمہاری حکومت تمہارے ہی سپرد رہے گی.اس نے وہ خط پڑھ کر جوا با لکھا.آپ کا پیغام نہایت عمدہ اور خوبصورت ہے.میں اپنی قوم کا شاعر اور خطیب ہوں.عرب لوگ میرے مرتبہ سے ڈرتے ہیں.آپ اپنی حکومت میں سے میرا بھی کچھ حصہ مقرر کریں تو میں آپ کی پیروی کرلونگا.نبی کریم نے اس کا خط پڑھ کر فرمایا ” اگر وہ زمین کا ٹکڑا بھی مانگتا تو میں اسے نہ دیتا.فتح مکہ سے واپسی پر جبریل نے رسول اللہ کو ھوذہ کی وفات کی خبر دی.(الحلبیہ ( 71 شاہ غسان کے نام خط جبلہ بن ایہم شاہ غسان کو بھی رسول اللہ نے خط لکھا جس میں اسلام کی دعوت دی.اس نے اسلام قبول کر لیا اور حضرت عمرؓ کے زمانہ تک مسلمان رہا.( الحلبیہ (72 سردار طائف کے نام خط ذی القلاع حمیری شاہان طائف میں سے تھا.اس نے خدائی کا دعوی کر رکھا تھا.رسول اللہ نے اس کے نام تبلیغی خط لکھا اور جریر بن عبد اللہ کے ہاتھ بھجوایا.جریر کی واپسی سے قبل رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی.
اسوہ انسان کامل 276 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ سرداران عمان کو خطوط نبی کریم نے عمان کے دوسرداروں جیفر اور عبد کو عمر و بن عاص کے ہاتھ خطوط بھجوائے.بڑے بھائی جیفر نے کہا میں کل سوچ کر جواب دونگا.اگلے روز اس نے کچھ تر ڈد کے بعد اسلام قبول کر لیا اور عمر و بن العاص کو اجازت دی کہ وہ اسلام قبول کرنے والوں سے زکوۃ وصول کر سکتے ہیں.چنانچہ انہوں نے امراء سے زکوۃ وصول کر کے وہاں کے غرباء میں تقسیم کر دی.( ابن الجوزی) 73 رئیس بحرین کو خط رسول کریم نے علاء بن حضرمی کے ذریعہ منذر بن ساوی العبدی رئیس بحرین کو خط بھجوایا.منذر نے جواب میں آپ کی تصدیق کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا.رسول کریم نے اس کی امارت قائم رکھی اور فرمایا کہ مسلمانوں کو مذہبی آزادی کا حق ملنا چاہئے اور یہود و مجوس سے جزیہ وصول کیا جائے.(الحلبیہ (74 شاہان حمیر کے حضور کے نام خطوط تبوک پر رومی فوجوں کے اجتماع کی اطلاع پا کر رسول اللہ نے سفر تبوک اختیار کیا تو کئی قبائل پر ہیبت طاری ہوئی.اس سفر سے واپسی پر شاہان حمیر نے آنحضور کی خدمت میں اپنے قبول اسلام کا خط بھجوایا.آنحضور نے جوابی مراسلہ میں تحریر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایت عطا فرمائی ہے تم اصلاح کرو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور نماز اور زکوۃ اور مال غنیمت کا پانچواں حصہ ادا کرو.میرے نمائندوں سے حسن سلوک کرو جن کے امیر معاذ بن جبل ہیں اور قوم حمیر سے بھی حسن سلوک کرنا کہ رسول اللہ تمہارے امراء و فقراء سب کے ولی ہیں.(الحلبیہ (75 عام الوفود غیر جانبدار قبائل عرب مکہ ومدینہ کی جنگ کے دوران طبعا اس انتظار میں تھے کہ غالب آنے والے فریق کا ساتھ دیں گے.وہ مسلمانوں کے غلبہ کی امید پر اپنے قبول اسلام کے لئے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے.چنانچہ فتح مکہ کے بعد 9ھ میں اس کثرت سے قبائل عرب مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا کہ یہ سال عام الوفود کے نام سے مشہور ہو گیا جس میں ستر کے قریب وفود آئے.رسول کریم کی ہدایت پر صحابہ کرام نے ان وفود کی خوب مہمان نوازی اور خاطر تواضع کی.رسول اللہ ان وفود کو تالیف قلبی کی خاطر انعام و اکرام سے بھی نوازتے اور وہ اسلام کے قریب ہو جاتے.ان وفود میں سے چند ایک کا ذکر حضور کی پر حکمت تبلیغی گفتگو کے حوالے سے کیا جارہا ہے.ا.وفد سعد بن بکر حضرت انس اس وفد کی آمد کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک شتر سوار آیا.اس نے اپنا اونٹ
277 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل باندھ کر پوچھا تم میں سے محمد کون ہے؟ نبی کریم درمیان میں تشریف فرما تھے.ہم نے کہا یہ جو گورے رنگ کے ٹیک لگا کر بیٹھے ہیں.اس شخص نے ندادی.اے عبدالمطلب کے بیٹے ! نبی کریم نے کمال حمل سے جواب دیا.میں حاضر ہوں.اس شخص نے کہا کہ میں آپ سے ذراسختی سے کچھ سوال کروں گا آپ برا نہ ماننا.نبی کریم نے فرمایا جو پوچھنا چاہتے ہو پوچھو.اس نے آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھا کہ کیا اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے اور پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے؟ پھر اس نے قسم دے کر روزوں کی فرضیت، زکوۃ کی ادائیگی وغیرہ کے بارے میں سوال کیا.نبی کریم نے فرمایا کہ ہاں میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور ان باتوں کا حکم دیا ہے.اس پر وہ شخص کہنے لگا میں اس تعلیم پر ایمان لاتا ہوں جو آپ لے کر آئے ہیں.میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے اور میں قبیلہ سعد بن بکر کا نمائندہ ہوں.( بخاری 76) ضمام بن ثعلبہ نے جو اپنی قوم کا سردار بھی تھا واپس جا کر یہ پیغام اپنی قوم کو بھی پہنچایا.۲.عدی بن حاتم طائی کی آمد حاتم طائی کا نام اپنی سخاوت کیوجہ سے عربوں میں ضرب المثل ہے.حاتم رسول اللہ کے زمانے سے پہلے ہی وفات پاچکا تھا.اس کے بیٹے عدی اپنے قبول اسلام کا دلچسپ واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی قوم کا سردار تھا اور عرب رواج کے مطابق مال غنیمت کا چوتھا حصہ وصول کرتا تھا.جب میں نے رسول اللہ کی بعثت کے بارے میں سنا تو مجھے یہ بات سخت ناگوار گزری اور میں نے اپنے ایک غلام کو جو میری بکریاں چراتا تھا اس کام سے فارغ کر کے یہ ذمہ داری سونپی کہ جب تمہیں اس علاقے میں محمد کے لشکروں کے آنے کا پتہ چلے تو مجھے اس کی اطلاع کرنا.ایک دن وہ میرے پاس آکر کہنے لگا کہ محمد کے حملے کے وقت جو حفاظتی تدبیر تم نے کرنی ہے کرلو حد کے لشکر سر پر ہیں.عدی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے اونٹ منگوائے.اپنے بیوی بچوں کو ان پر سوار کیا اور ملک شام میں اپنے ہم مذہب عیسائیوں کے پاس جا کر پناہ لی.اپنی ایک بہن اور دیگر رشتہ داروں کو پیچھے چھوڑ آیا.اس بیچاری پر کیا مصیبت گزری کہ وہ جنگ حنین میں قید ہوگئی.جب قیدی رسول اللہ کے پاس آئے اور حضور کو پتہ چلا کہ میں ملک شام کو بھاگ گیا ہوں تو آپ نے میری بہن کے ساتھ بہت احسان کا سلوک کیا.اسے پوشاک ، سواری اور اخراجات کے لئے رقم عنایت فرمائی.وہ مجھے ڈھونڈتی ہوئی ملک شام آنکلی اور کو سنے لگی کہ تم بہت ظالم اور قطع رحمی کرنے والے ہو.میں نے نادم ہو کر معذرت کی.وہ بہت دانا خاتون تھی.میں نے اس سے پوچھا کہ اس شخص ( محمد ) کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اس نے کہا کہ میری مانو تو جتنا جلدی ممکن ہے ان سے جا کر ملاقات کرو.اگر تو وہ نبی ہیں تو تمہارا ان کے پاس جلد جانا باعث فضیلت ہے اور اگر وہ بادشاہ ہیں تو بھی تمہیں ان کا قرب ہی نصیب ہوگا.میں نے سوچا کہ یہ مشورہ تو بہت عمدہ ہے.اس طرح عدی کی بہن نے اپنے مسلمان ہونے کا ذکر کئے بغیر حکمت عملی سے انہیں حضور کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے آمادہ کر لیا.عدی کہتے ہیں میں مدینے پہنچا اور اپنا تعارف کروایا تو حضور مجھے اپنے گھر لے کر جانے لگے.راستے میں ایک بوڑھی عورت آپ سے ملی ، اس نے آپ کو روک لیا.آپ دیر تک کھڑے اس کی بات سنتے رہے.میں نے دل میں کہا یہ شخص بادشاہ
278 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل تو نہیں لگتا.پھر جب حضور کے گھر پہنچا تو وہاں ایک گدیلا پڑا تھا جس کے اندر کھجور کی شاخیں بھری تھیں.حضور نے اپنے دست مبارک سے اُسے بچھا کر مجھے بیٹھنے کیلئے فرمایا.میں نے عرض کیا کہ آپ اس پر تشریف رکھیں.حضور نے فرمایا کہ نہیں اس پر تو آپ ہی بیٹھو گے اور رسول اللہ خود زمین پر بیٹھ رہے.میں نے دل میں کہا کہ خدا کی قسم یہ تو بادشاہوں والی باتیں نہیں.پھر حضور مجھے بار بار یہی فرماتے رہے کہ عدی تم اسلام قبول کر لو امن میں آجاؤ گے.میں نے عرض کیا کہ میں پہلے سے ایک دین پر قائم ہوں.آپ نے فرمایا مجھے تمہارے دین کا تم سے زیادہ پتہ ہے.میں نے تعجب سے پوچھا مجھ سے زیادہ؟ آپ نے فرمایا کہ تم فلاں عیسائی فرقہ سے ہونا ! میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے فرمایا تم عرب سرداروں کے قدیم دستور کے مطابق مال غنیمت کا چوتھا حصہ بھی وصول کرتے ہو.میں نے عرض کیا جی ہاں.آپ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے تمہارے دین کے مطابق یہ طریق جائز نہیں ہے.میں نے عرض کیا جی حضور.یہ سن کر میں نے دل میں کہا کہ خدا کی قسم یہ تو اللہ کی طرف سے بھیجا گیا نبی معلوم ہوتا ہے جو ایسا علم رکھتا ہے.پھر رسول اللہ نے فرمایا اے عدی ! تمہیں اس دین میں داخل ہونے میں یہی روک ہے کہ تم سمجھتے ہو کہ اس کی پیروی کمزور اور غریب لوگوں نے کی ہے جنہیں سارے عرب نے دھتکار دیا ہے.خدا کی قسم ! ان لوگوں میں مال کی بھی بڑی کثرت ہوگی یہاں تک کہ مال لینے والا کوئی نہیں رہے گا.پھر فرمایا تمہارے اس مذہب کے قبول کرنے میں دوسری روک یہ ہو سکتی ہے کہ ہماری تعداد کم ہے اور دشمن زیادہ تو سنو! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یہ دین غالب آئے گا اور ایک شتر سوار عورت تنہا عرب کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بے خوف و خطر سفر کرے گی اور بیت اللہ آکر طواف کرے گی.پھر فرمایا تمہارے اسلام قبول کرنے میں تیسری روک یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے پاس بادشاہت نہیں.خدا کی قسم بڑے بڑے محلات مسلمانوں کے لئے فتح کئے جائیں گے.اسلام کی شوکت اور فتح کا یہ زمانہ بہت قریب ہے.یہ مؤثر تبلیغ سن کر عدی نے اسلام قبول کر لیا.(الحلبیہ ( 77 ۳.وفد فروہ کی آمد فروہ قبیلے کا سردار شاہان کندہ سے بغاوت کرتے ہوئے اپنا وفد لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اسلام کے ظہور سے پہلے ان کی جنگ قبیلہ ہمدان سے ہوئی تھی جس میں انکا بہت جانی نقصان ہوا اور وہ جنگ ”یوم الردم یعنی ہلاکت کے دن کے طور پر مشہور ہوگئی.رسول کریم نے اس جنگ کے حوالے سے اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنگ تم لوگوں کے لئے بڑی تکلیف دہ ہوئی ہوگی.اس نے کہا کہ یا رسول اللہ جس قوم کو ایسی ہلاکت اور مصیبت پہنچے تو تکلیف اور رنج تو ہوتا ہے.حضور نے کیا عمدہ تبصرہ فرمایا کہ اس جنگ کا ایک فائدہ بھی تو ہوا کہ اس واقعہ کے نتیجے میں تمہاری قوم کو اسلام قبول کرنے کی توفیق مل گئی.رسول کریم نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسے اپنے قبیلہ کا امیر مقرر فرما دیا.(الحلبیہ ( 78
اسوہ انسان کامل ۴.وفد کندہ کی آمد 279 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ کندہ قبیلے کا ساٹھ افراد پر مشتمل وفدا اپنے سردار اشعث بن قیس کی سرکردگی میں حاضر خدمت ہوا.انہوں نے یمن کے ریشمی جیسے پہن رکھے تھے.انہوں نے کہا سنا ہے آپ گعنت ملامت سے منع کرتے ہیں.رسول اللہ نے فرمایا میں بادشاہ نہیں ہوں، محمد بن عبد اللہ ہوں.انہوں نے کہا ہم آپ کا نام لیکر نہیں پکاریں گے.آپ نے فر مایا تم ابوالقاسم کہ لو.انہوں نے کہا اے ابوالقاسم ! ہم نے اپنے دل میں ایک بات رکھی ہے.آپ یو جھو تو وہ کیا ہے؟ رسول اللہ نے فرمایا اللہ پاک ہے یہ کام تو کاہنوں کا ہے اور کہانت کرنے والا جہنمی ہے.انہوں نے کہا کہ پھر ہمیں کیسے پتہ لگے کہ آپ رسول ہیں.آپ نے فرمایا اللہ نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اور مجھ پر ایسی عظیم الشان کتاب اتاری ہے کہ جھوٹ نہ اس کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے.انہوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس میں سے کچھ سُنائیے.رسول اللہ نے سورۃ صافات کی تلاوت شروع کی.جب آپ اس کی چھٹی آیت رَبُّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ تک پہنچے تو خاموش ہو گئے اور بے حس وحرکت ہو کر رک گئے.آنسوؤں کی ایک لڑی آپ کی آنکھوں سے داڑھی پر برس رہی تھی.اس پر وفد کے لوگ کہنے لگے کیا آپ اپنے بھیجنے والے کے ڈر سے روتے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.مجھے اسی کا خوف رلاتا ہے جس نے مجھے صراط مستقیم پر بھیجا ہے جو تلوار کی دھار کی طرح سیدھی ہے.اگر میں اس سے بھٹک گیا تو ہلاک ہو جاؤں گا.پھر حضور نے اُن سے فرمایا کیا تم مسلمان نہیں ہو گے؟ انہوں نے کہا ضرور ہوں گے.آپ نے فرمایا پھر یہ ریشمی جیتے کیونکر پہن رکھے ہیں؟ چنانچہ انہوں نے وہ جسے اتار پھینکے.(الحلبیہ (79 ۵.وفد همدان فروہ اور ہمدان قبائل کے درمیان جنگ ہو چکی تھی.فروہ قبیلہ نے قبول اسلام میں پہل کی تو ہمدان کو طبعا وقتی روک پیدا ہوئی.رسول اللہ نے خالد بن ولید کو فتح مکہ کے بعد دعوت اسلام کے لئے قبیلہ ہمدان کی طرف بھجوایا.چھ ماہ کی کوششوں کے باوجود جب یہ اسلام نہیں لائے تو رسول اللہ نے بجائے حملہ کی اجازت کے حضرت علی کو بھجوایا کہ انہیں دوبارہ اسلام کی دعوت دیں.حضرت علیؓ نے جا کر دعوت اسلام دی، انہیں قرآن سنایا اور سارے قبیلہ نے اسلام قبول کر لیا.حضرت علی نے رسول اللہ کی خدمت میں ان کے قبول اسلام کی اطلاع کی.رسول اللہ کا شوق تبلیغ ملاحظہ ہو آپ خط پڑھتے ہی فور سجدے میں گر گئے اور دو دفعہ فرمایا ہدان قبیلے پر سلامتی ہو.پھر آپ نے اس قبیلہ کی تعریف اور حوصلہ افزائی فرمائی.( الحلبیہ ( 80 ۶.وفد نجیب تیرہ افراد پر مشتمل یہ وفد اپنے ساتھ اموال زکوۃ بھی لے کر آیا.رسول اللہ نے فرمایا کہ یہ مال اپنے غرباء
280 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ اسوہ انسان کامل میں تقسیم کر دینا.انہوں نے کہا کہ مقامی طور پر تقسیم کے بعد ہم بچا ہوا مال لے کر آئے ہیں.رسول اللہ اس قبیلہ کی آمد پر بہت خوش تھے کہ کسی طمع سے نہیں دلی شوق سے مالی قربانی کرتے ہوئے اسلام قبول کر رہے ہیں.آپ نے انہیں بڑی محبت سے اسلام کی تعلیم دی.جب انہوں نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو حضور نے فرمایا جانے کی کیا جلدی ہے کچھ دن اور قیام کریں.انہوں نے عرض کیا کہ واپس جا کر ہم اپنی قوم کو بھی اسلام کا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں.حضور نے اس وفد کو بھی انعام واکرام کے ساتھ رخصت کیا.( الحلبیہ (81 ۷.وفد سعد بن ہزیم بنی سعد ہزیم کا وفد نعمان کی سرکردگی میں آیا.وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آئے تو حضور ایک جنازہ پڑھا رہے تھے جس میں ہم شامل نہیں ہوئے.آپ نے ہمارے تعارف کے بعد پوچھا تم مسلمان ہو؟ ہم نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ پھر تم اپنے بھائی کی نماز جنازہ میں کیوں شامل نہ ہوئے ؟ انہوں نے کہا کہ بیعت سے پہلے ہم نے اسے جائز نہیں سمجھا.آپ نے فرمایا جس وقت تم نے دل سے اسلام قبول کر لیا اس وقت سے مسلمان ہو گئے.اس کے بعد رسول اللہ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی سعادت حاصل کی.اس وفد کے لوگ بیان کرتے تھے جب ہم اپنے خیموں میں آئے تو جس لڑکے کو وہاں بغرض حفاظت چھوڑ کر آئے تھے اسے حضور نے بلوا بھیجا.ہم نے عرض کیا کہ یہ ہم میں سے کم عمر اور ہمارا خادم ہے.آپ نے فرمایا قوم کا سردار بھی ان کا خادم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے برکت دے.اس طرح اس خادم میں صلاحیت دیکھ کر اس کی عزت افزائی کی.نعمان کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ نے اس بچے کو ہم پر امیر مقرر کیا اور وہ ہمیں نمازیں پڑھاتا تھا.(الحلبیہ (82 وفد بلی قضاعہ قبیلہ کا یہ وفد حضور کی خدمت میں آیا اور اسلام کا اقرار کیا.ان کے بوڑھے سردار نے پوچھا کہ مجھے مہمان نوازی سے شغف ہے کیا اس کا اجر ہو گا.آپ نے فرمایا ہر نیکی کا اجر ہے خواہ امیر سے کی جائے یا غریب سے.مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے.اس وفد نے تین روز قیام کیا.اسلام کی تعلیمات سیکھیں اور واپس اپنے قبائل میں جا کر پیغام پہنچانے لگے.(الحلبیہ (83 ۹.وفد بنی عذرہ کی آمد قبیلہ بنی عذرہ کا وفد یمن سے آیا.انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے تھالی رشتہ دار ہوتے ہیں کیونکہ ہم قصی بن کلاب کے بھائی کی اولاد ہیں.ہمارا آپ سے رحمی رشتہ ہے.رسول اللہ نے انہیں بہت مسرت سے خوش آمدید کہا اور فرمایا کہ پریشانی کی بات نہیں تم لوگ اپنے گھر کی طرح یہاں رہو.آنحضور نے انہیں اسلام کی تعلیم دی.کہانت سے روکا اور فرمایا کہ کا ھنوں سے غیب کی باتیں وغیرہ مت پوچھا کرو.اسی طرح انہیں بتوں پر قربانیاں کرنے سے بھی منع فرمایا اور وہ
اسوہ انسان کامل 281 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ مسلمان ہوکر لوٹے.(الحلبیہ )84 ان قبائل کی آمد اور قبول حق سے عرب میں اسلام کا نام بلند ہوا اور رسول اللہ کی تبلیغی کا وشوں کے نتیجہ میں اس بت پرست جزیرہ میں توحید کی منادی بر سر عام ہونے لگی.رسول اللہ کی آخری وصیت عمر بھر حق تبلیغ ادا کرنے کے بعد نبی کریم نے اپنی زندگی کے آخری حج کے موقع پر اپنی انقلاب انگیز تعلیم امن کا خلاصہ بطور اعادہ اُمت کے ہزاروں نمائندوں تک پہنچایا.انہیں آخری وصیت بھی تبلیغ ہی کے بارے میں فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام ضرور پہنچا ئیں جو یہاں موجود نہیں، کیونکہ بسا اوقات ایک غیر حاضر آدمی موجود شخص سے زیادہ بات کو یادر کھنے والا اور سمجھ کر اس پر عمل کرنے والا ہوتا ہے.( بخاری ) 85 پھر آپ نے موجود ہزاروں مسلمانوں سے یہ گواہی لی کہ کیا میں نے پیغام پہنچادیا، سب نے بیک زبان ہوکر کہا کہ آپ نے بلاشبہ پیغام پہنچانے کا حق ادا کر دیا.تب آپ نے آسمان کی طرف انگلی کر کے خدا کو گواہ ٹھہرایا اورکہا السلهم اشْهَدُ.اے اللہ تو بھی گواہ رہنا.( بخاری )86 اے ہمارے آقا! بے شک تیرارب اور اس کے فرشتے بھی گواہ ہیں کہ تو نے پیغام پہنچانے کا حق خوب ادا کر دیا اور جس طرح تیرے دور کے ہزاروں اصحاب نے اپنی چشم دید گواہی دی تھی کہ آپ نے حق تبلیغ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی.آج چودہ سو سال بعد ہم تیرے اُمتی اور غلام بھی صدق دل سے گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اس شان سے حق تبلیغ ادا کیا کہ اس کی مثال روئے زمین پر اس سے پہلے نہیں ملتی.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلَّم إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
اسوہ انسان کامل 282 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ 1 مسنداحمد بن حنبل جلد 4 ص 101 2 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 26 3 مسلم (19) كتاب الطلاق باب 5 حواله جات 4 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 ص 31 مطبوعه بيروت 5 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 ص 34 مطبوعه بيروت دلائل النبوة للبيهقى جلد2 ص 39 دار الكتب العلميه مطبوعه بيروت 7 بخاری(69) کتاب فضائل القرآن باب 6 بخاری(68) كتاب التفسير سورة الشعراء باب 258 و تفسیر ابن جرير الطبرى سورة الشعراء زیر آیت و انذر عشيرتك الاقربين 9 تفسير طبرى سورة الشعراء زير آيت وانذر عشيرتك الاقربين جلد9ص 481 تا 483 بيروت 10 اسد الغابه جز 1 ص 37 11 دلائل النبوة بيهقى جلد2ص82 مطبوعه بيروت 12 الخصائص الكبرى جلد 1 ص 188 مطبوعه بيروت 13 مسلم (8) كتاب الجمعه باب 14 14 الوفاء باحوال المصطفى ابن جوزى جز 1 ص 148 بيروت 15 بخاری(66) فضائل الصحابة باب 62 16 الاصابه في تمييز الصحابه لابن حجر جلد 3 ص 522،521 17 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 4 ص239 18 دلائل النبوة اللبيهقى جلد2 ،45 19 السيرة النبوية ابن هشام جلد 1 ص 266 20 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 291 21 مسند احمد بن حنبل جلد 1 ص 201 22 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 291 مطبوعه دارالمعرفه بيروت 23 ترمذی (50) ابواب المناقب باب18
اسوہ انسان کامل 283 24 السيرة النبوية ابن هشام جلد 1 ص 343 مطبوعه بيروت 25 السيرة النبوية ابن هشام جز1 ص 390 26 مسند احمد جلد 3ص 120 27 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 350 28 دلائل النبوة لابی نعیم جلد 1 ص 198 29 ترمذی(46) كتاب فضائل القرآن باب 24 30 دلائل النبوة للبيهقى جلد2ص287 بيروت 31 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 ص 288 بيرو بيروت 32 مسند احمد جلد 3 ص 492 33 السيرة الحلبية جلد2ص2 بيروت 34 مسند احمد بن حنبل جلد5ص371 35 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص212 بيروت 36 السيرة النبويه ابن هشام جلد 1 ص 419 37 السيرة الحلبية از علامه علی بن برهان جلد 1 ص354 مطبوعه بيروت 38 كتاب الدعاء للطبراني جلد2 ص 1280 بيروت 39 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص421 بيروت 40 بخاری(63) بدء الخلق باب 7 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ Life of Mahomet from original sources by Sir William Muir 41 Pg: 117 new edition 1877 42 دلائل النبوة للبيهقى جلد2 ص 294 بيروت 43 مسند احمد جلد 3 ص 339 44 الوفاء باحوال المصطفی از علامه ابن جوزی ص190 45 بخاری(68) كتاب التفسير سورة آل عمران باب 73 46 بخاری(29) کتاب الجنائز باب 78 47 مسند احمد جلد3 ص 260 48 السيرة الحلبية جلد 3 ص 166 تا 171 بيروت 49 السيرة الحلبية جلد3 ص 167تا 168 مطبوعه بيروت
اسوہ انسان کامل 284 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ 50 بخاری (67) کتاب المغازی باب 26 ، السيرة الحلبية جلد3 ص 171 بيروت 51 بخاری (67) کتاب المغازی باب 26 ، السيرة الحلبية جلد3 ص171 بيروت 52 السيرة الحلبية جلد 3 ص 215 بيروت 53 السيرة الحلبية جلد2 ص 45 دار احياء التراث العربي بيروت 54 بخارى (60) كتاب الجهاد و السير باب 141 55 بخاری(67) کتاب المغازی باب 30 56 شرح زرقاني على المواهب اللدنيه القسطلانی جلد2ص90 بيروت 57 بخاری(81) كتاب الادب باب 27 58 بخاری (67) کتاب المغازی باب 66 59 بخاری (66) فضائل الصحابة باب 80 60 بخاری(93) كتاب الاكراه باب2 61 السيرة المحمدیة از مولوی کرامت علی دهلوی باب وفد نجران 62 دلائل النبوة للبيهقى جلد 5 ص 483 تا 485 بيروت 63 اسباب النزول از علامه واحدی ص61دارالفکر بيروت 64 بخارى(67) كتاب المغازی باب 77 ، كتاب النبی الی کسری تاریخ طبری جلد2 65 طبری جلد 3 ص1583، زرقانی جلد 2 ص 211 هسٹورینز هسٹری آف دی ورلڈ جلد8ص95 66 مجمع بحار الانوار جلد 4 ص 586 زير لفظ مزّق 67 بخاری(60) كتاب الجهاد با ب 101 68 السيرة الحلبية جلد 3 ص 229 بيروت 69 السيرة الحلبية جلد 3 ص 252,251 مطبوعه بيروت 70 السيرة الحلبية جلد3 ص 255 بيروت 71 السيرة الحلبية جلد 3 ص 254 بيروت 72 السيرة الحلبية جلد3 ص 255,256 بيروت 73 الوفاء باحوال المصطفى از علامه ابن جوزی جلد 1 ص 483 مطبوعه بيرود 74 السيرة الحلبية جلد 3 ص 252 بيروت 75 السيرة الحلبية جلد3 ص 229 بيروت الوفاباحوال المصطفیٰ از علامه ابن حوزی جزء 1 ص 485 مطبوعه بيروت
اسوہ انسان کامل 76 بخاری(3) كتاب العلم باب 6 285 77 السيرة الحلبية جلد 3 ص 226,225 بيروت 78 السيرة الحلبية جلد 3 ص 226 مطبوعه بيروت 79 السيرة الحلبية جلد 3 ص 228 مطبوعه بيروت 80 السيرة الحلبية جلد 3 ص 230 مطبوعه بيروت 81 السيرة الحلبية جلد3 ص 31, 230 بيروت 82 السيرة الحلبية جلد 3 ص 232 مطبوعه بيروت 83 السيرة الحلبية جلد 3 ص 236 بيروت 84 السيرة الحلبية جلد 3 ص 235 بيروت 85 بخاری(3) كتاب العلم باب 9 86 بخاری(32) كتاب الحج باب 131 رسول اللہ بحیثیت داعی الی اللہ
اسوہ انسان کامل 286 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم اعف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیث بحیثیت معلم و مربی ا ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم عرب کی ایسی ان پڑھ قوم میں مبعوث کئے گئے جو گمراہی میں اپنی مثال نہ رکھتی تھی.آپ نے اپنے حسن اخلاق ، محبت و شفقت اور دعاؤں سے ان بدوؤں کی ایسے اعلیٰ درجے کی تربیت فرمائی اور ان کے سینہ و دل کو ایسا منور کیا کہ وہ آسمان روحانیت کے روشن ستارے بن گئے.میہ کرامت در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کردار اور پاکیزہ عملی نمونہ کی تھی.اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور عمل صالح بجالائے اور کہے کہ میں کامل فرمانبردار ہوں.“ (سورۃ حم السجدہ: 34) اس ارشادربانی کے اول مصداق ہمارے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ ہی کی ذات ہے جسے جماعت مومنین کے لئے بہترین نمونہ قراردیا گیا.(سورۃ الاحزاب:22) تربیت کیلئے قرآن شریف کا بنیادی اُصول یہ ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَار ( سورۃ التحریم: 7) یعنی اپنے نفس اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ.نبی کریم نے اس ارشاد کی تعمیل میں گھر کی اکائی (Unit) سے تربیت کا سلسلہ شروع کیا اور اپنا عملی نمونہ پیش کر کے اپنے اہل خانہ کی تربیت فرمائی.قرآن شریف کے بیان کے مطابق رسول اللہ ازواج مطہرات کو یہ نصیحت فرماتے تھے."اے نبی کی بیویو! تم ہر گز عام عورتوں جیسی نہیں ہو بشر طیکہ تم تقویٰ اختیار کرو.پس بات لجا کر نہ کیا کرو.ورنہ وہ شخص جس کے دل میں مرض ہے طمع کرنے لگے گا اور اچھی بات کہا کرو اور اپنے گھروں میں ہی رہا کرو اور گزری ہوئی جاہلیت کے سنگھار جیسے سنگھار کی نمائش نہ کیا کرو اور نماز کو قائم کرو اورزکوۃ ادا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.اے اہل بیت ایقینا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کر دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کردے اور اللہ کی آیات اور حکمت کو جنکی تمہارے گھروں میں تلاوت کی جاتی ہے یادرکھو.یقیناً اللہ بہت باریک ربین اور باخبر ہے.“ ( سورۃ الاحزاب : 33 تا35) اہل خانہ کی تربیت نبی کریم نے گھر میں نماز تہجد میں با قاعدگی اور دوام کا خوبصورت نمونہ قائم فرمایا پھر ازواج مطہرات کو بھی بیدار کر کے نوافل ادا کرنے کی تلقین فرماتے.ایک دفعہ انہیں کیسی درد انگیز تحریک کرتے ہوئے فرمایا ”سبحان اللہ ! آج رات کتنے ہی فتنوں کی خبر میں نازل کی گئی ہیں اور کتنے ہی خزانے اُتارے گئے ہیں.ان گجروں میں سونے والی بیبیوں کو جگاؤ اور بتاؤ کہ کتنی ہی عورتیں دنیا میں بظاہر خوش پوش ہیں مگر قیامت کے دن وہ حقیقی لباس سے عاری ہونگی ( جو تقویٰ کا لباس ہے.)‘ ( بخاری ) 1
287 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ہمارے گھر تشریف لائے اور مجھے اور فاطمہ کو تہجد کے لئے بیدار کیا.پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور کچھ دیر نوافل ادا کئے.اس دوران ہمارے اٹھنے کی کوئی آہٹ وغیرہ محسوس نہ کی تو دوبارہ تشریف لائے اور ہمیں جگایا اور فرمایا اٹھو اور نماز پڑھو.حضرت علی کہتے ہیں میں آنکھیں ملتا ہوا اُٹھا اور بڑ بڑاتے ہوئے کہہ بیٹھا " خدا کی قسم ! جو نماز ہمارے لئے مقدر ہے ہم وہی پڑھ سکتے ہیں.ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں وہ جب چاہے ہمیں اُٹھا دے.رسول کریم واپس لوٹے.آپ نے تعجب سے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے پہلے میرا ہی فقرہ دہرایا کہ ہم کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے اس کے جو ہمارے لئے مقدر ہے“ پھر یہ آیت تلاوت کی وَكَانَ الْإِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْ ءٍ جَدَلًا که انسان بہت بحث کرنے والا ہے.(احمد) 2 ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم چھ ماہ تک فجر کی نماز کے وقت حضرت فاطمہ کے دروازے کے پاس گزرتے ہوئے فرماتے رہے.”اے اہل بیت ! نماز کا وقت ہو گیا ہے اور پھر سورۃ احزاب کی آیت: 33 پڑھتے کہ اے اہل بیت ! اللہ تم سے ہر قسم کی گندگی دور کرنا چاہتا ہے اور تم کو اچھی طرح پاک کرنا چاہتا ہے.“ (ترمندی) 3 رسول کریم نے اپنے تمام اعزہ واقارب کو اور خاص طور پر اپنی بیٹی فاطمہ کو آپ نے کھول کر سنا دیا تھا کہ اللہ کے مقابل پر میں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا.تمہارے عمل ہی کام آئیں گے.( بخاری )4 رسول کریم نے اپنی اولاد کی تربیت کی بنیاد محبت الہی پر رکھی تاکہ وہ اللہ کی محبت میں پروان چڑھیں اور یہ محبت ان کے دل میں ایسی گھر کر جائے کہ وہ غیر اللہ سے آزاد ہو جائیں.چنانچہ نبی کریم حضرت حسن و حسین کو گود میں لے کر دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.“ ( احمد ) 5 آپ نے حضرت فاطمہ کی شادی پر کمال سادگی سے انہیں حسب توفیق ضرورت کی چند چیز میں عطا فرما ئیں.بعد میں جب انہوں نے خادم کا مطالبہ کیا تو ذکر الہی کی طرف توجہ دلا کر سمجھایا کہ خدا کی محبت میں ترقی کرو.اللہ خود تمہاری ضرورتیں پوری فرمائے گا.تم خدا کو نہ بھولو وہ بھی تمہیں یا در کھے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو ان کی شادی پر ایک کمبل ، چمڑے کا ایک تکیہ (جس میں کھجور کے پتے تھے ).ایک آٹا پیسنے کی چکی ، ایک مشکیزہ اور دو گھڑے دیئے تھے.ایک دن حضرت علیؓ نے حضرت فاطمہ سے کہا کہ کنوئیں سے پانی کھینچ کھینچ کر میرے تو سینے میں درد ہونے لگا ہے.تمہارے ابا کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں، جا کر درخواست کرو کہ ہمیں بھی ایک خادم عطا ہو.فاطمہ کہنے لگیں خدا کی قسم! میرے تو خود چکی پیس پیس کر ہاتھوں میں گئے پڑ گئے ہیں.چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں.آپ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ عرض کیا کہ سلام عرض کرنے آئی ہوں.پھر انہیں حضور سے کچھ مانگتے ہوئی شرم آئی اور واپس چلی گئیں.حضرت علی نے پوچھا کہ کیا کر کے آئی ہو؟ وہ بولیں کہ میں شرم کے مارے کوئی سوال ہی نہیں کر سکی.تب وہ دونوں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کی خدمت میں اپنا حال زار بیان کر کے خادم کے لئے درخواست کی.رسول کریم نے فرمایا خدا کی قسم ! میں تمہیں دے
288 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل دوں اور اہل صفہ (غریب صحابہ ) کو چھوڑ دوں؟ جو فاقہ سے بے حال ہیں اور ان کے اخراجات کے لئے کوئی رقم میسر نہیں.ان قیدیوں کو کے عوض ملنے والی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا.‘ بین کر وہ دونوں واپس گھر چلے گئے.رات کو نبی کریم ان کے گھر تشریف لے گئے.وہ دونوں اپنے کمبل میں لیٹے ہوئے تھے.رسول اللہ کو دیکھ کر اٹھنے لگے تو آپ نے فرمایا.اپنی جگہ لیٹے رہو.پھر فرمایا تم نے مجھ سے جو مانگا کیا میں اس سے بہتر چیز تمہیں نہ بتاؤں؟ انہوں نے کہا ضرور بتائیں.آپ نے فرمایا یہ چند کلمات ہیں جو جبریل نے مجھے سکھائے ہیں کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سبحان اللہ ، دس مرتبہ الحمد للہ اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.جب رات بستر پر جاؤ تو تینتیس مرتبہ سبحان اللہ تینتیس مرتبہ الحمدللہ اور چونتیس مرتبہ اللہ اکبر پڑھا کرو.حضرت علی فرماتے تھے جب سے رسول اللہ نے مجھے یہ کلمات سکھائے میں انہیں آج تک پڑھنا نہیں بھولا.کسی نے تعجب سے پوچھا کہ جنگ صفین کے ہنگاموں میں بھی آپ یہ نہیں بھولے؟ کہنے لگے ہاں جنگ صفین میں بھی یہ ذکر الہی کرنا میں نے یا درکھا تھا.نبی کریم نے ایک اور صحابی کو یہی تسبیحات سوکی تعداد میں پڑھنے کی نصیحت کی اور فرمایا کہ اس نبی کی برکت تمہارے لئے سوغلاموں سے بڑھ کر ہے.(احمد) 6 نصیحت اور یاد دہانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تربیت کے سلسلہ میں قرآنی اسلوب ہمیشہ یادر کھتے تھے اور فَذَرُ“ (یعنی نصیحت کرتے رہنے ) کے حکم کے تابع بعض اہم مضامین یا نصائح کا تکرار پسند فرماتے تھے ، بالخصوص تقویٰ کی نصیحت کی یاددہانی کرواتے تھے.نکاح وغیرہ کے موقع پر خطبہ الحاجہ میں تقویٰ کے مضمون پر مشتمل آیات تلاوت فرماتے تھے.عام وعظ میں بھی اِتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (سورة الحشر : 19) کی کثرت سے تلاوت کرنے کا ذکر روایات میں ہے.جس میں تقویٰ کے ساتھ محاسبہ نفس اور مسابقت فی الخیرات کے مضمون کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے.(احمد) 7 محاسبه نفس تربیت کا ایک نہایت عمدہ طریق محاسبہ نفس اور مسابقت فی الخیرات ہے.نبی کریم اس کا بہت خیال رکھتے تھے.حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک روز صحابہ سے پوچھا کہ آج مسکین کو کھانا کس نے کھلایا؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں مسجد میں آیا تو ایک محتاج کو دیکھا.میں نے اپنے بچے عبد الرحمان کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا لے کر اس مسکین کو دے دیا.(ابوداؤد )8 اسی طرح آپ نے پوچھا آج اپنے کسی بھائی کی عیادت کس نے کی؟ حضرت ابو بکر نے عرض کیا کہ مجھے اپنے بھائی عبدالرحمان بن عوف کی بیماری کی اطلاع ملی تھی.آج نماز پر آتے ہوئے میں ان کے گھر سے ہو کر ان کا حال پوچھتے
اسوہ انسان کامل 289 آنحضرت ماه بحیثیت معلم و و مربی اعظم عه ہوئے آیا ہوں.آپ نے پوچھا آج (نفلی) روزہ کس نے رکھا ہے؟ حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ وہ روزے سے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے یہ سب نیکیاں ایک دن میں جمع کیں اس پر جنت واجب ہوگئی.حضرت عمر نے یہ سنا تو روح مسابقت نے جوش مارا اور کہنے لگے کہ خوشا نصیب وہ جو جنت کو پاگئے.تب نبی کریم نے ایک ایسا دعائیہ جملہ ان کے حق میں بھی فرمایا کہ عمر کا دل اس سے راضی ہو گیا.آپ نے دعا کی، اللہ عمر پر رحم کرے.اللہ عمر پر رحم کرے.جب بھی وہ کسی نیکی کا ارادہ کرتا ہے ابوبکر اس سے سبقت لے جاتا ہے.(بیشمی ) 9 بیعت تو به نبی کریم حسب حکم الہی صحابہ کی تربیت اور روحانی ترقی کی خاطر بیعت کے وقت ان سے نیک باتوں میں اطاعت اور مری باتوں سے بچنے کا عہد لیتے اور پھر اس کی پابندی کرواتے تھے.حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ان باتوں پر بیعت لیتے تھے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہ کرو گے، زنانہ کرو گے، اپنی اولادوں کو قتل نہ کرو گے اور ایسے بہتان نہ تراشو گے جو اپنے سامنے گھڑ لو اور معروف باتوں میں نافرمانی نہ کرو گے.پس جو کوئی تم میں سے اس عہد بیعت کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے پاس ہے.( بخاری )10 خلوص نیت رسول کریم نے تربیت کے لئے بنیادی سبق خلوص نیت کا دیا اور فرمایا ہے کہ تمام نیک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہی ہے.( بخاری 11 ) نیز فرمایا اللہ تعالیٰ کی نظر انسان کے جسم و مال اور شکل و صورت پر نہیں بلکہ دلوں پر ہوتی ہے اور انسان کے تقویٰ کے مطابق خدا تعالیٰ کا اس سے معاملہ ہوتا ہے.(مسلم )12 رسول کریم نے اس کی مثال یہ بیان فرمائی کہ ایک انسان بظاہر لوگوں کی نظر میں نیکی کرتا چلا جاتا ہے مگر وہ دراصل اہل نار میں سے ہوتا ہے.ایک انسان بدی کر رہا ہوتا ہے مگر وہ اہل جنت میں سے ہوتا ہے.( بخاری 13 ) فرمایا وہ کسی موڑ پر اچانک نیکی کی طرف رجوع کرتا اور اہل جنت میں سے قرار پاتا ہے.اس طرح حسن نیت کے مطابق ہی نیکیاں انجام کو پہنچتی ہیں.اس لئے انفرادی یا اجتماعی تربیتی کوششوں کے ساتھ دعا بہت ضروری ہے.نبی کریم اپنے بارہ میں یہ دعا کرتے تھے ”اے اللہ میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھنا اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا " دل رحمان خدا کی انگلیوں میں ہوتا ہے وہ جب چاہے پلٹ دے.(ترمذی) 14 رسول کریم حوصلہ افزائی کرتے ہوئے تعریف میں مبالغہ نا پسند فرماتے تھے.ایک دفعہ کسی کی ایسی تعریف سن کر فرمایا کہ تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی کیونکہ ایسی تعریف سے اندیشہ ہوتا ہے کہ انسان کہیں کبر کا شکار نہ ہو جائے.تاہم حوصلہ افزائی کی خاطر جائز تعریف سے منع بھی نہیں فرمایا.چنانچہ ہدایت فرمائی کہ کسی کی تعریف کرنی مقصود ہو تو محتاط
اسوہ انسان کامل 290 آنحضرت معه بحیثیت معلم و مربی اعظم الفاظ میں اس شخص کی خوبی کا ذکر کر کے کہنا چاہئے کہ ”میرے خیال میں فلاں شخص ایسا ہے باقی اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.( بخاری ) 15 حضرت ام المؤمنین حفصہ نے ایک دفعہ اپنے بھائی عبداللہ بن عمرؓ کی ایک خواب نبی کریم کے سامنے بیان کی.آپ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا عمدہ نصیحت فرما دی کہ عبداللہ نیک نوجوان ہے.کیا ہی اچھا ہو اگر وہ رات کو تہجد کی نماز ادا کرنے کی عادت ڈالے.( بخاری )16 رسول اللہ کی دلی خواہش اور حوصلہ افزائی کے اس ایک جملے نے حضرت عبداللہ بن عمر کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا اور وہ عابد وزاہد انسان بن گئے.سچائی میں عمدہ نمونہ تربیت میں سچائی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے.ایک گناہ گار شخص نے رسول کریم کے ہاتھ پر تو بہ کی بیعت کی اور اپنی کمزوری کا اقرار کرتے ہوئے عرض کیا کہ سارے گناہ ایک ساتھ چھوڑ نے مشکل ہیں کوئی ایک گناہ جو آپ فرما ئیں چھوڑ سکتا ہوں.آپ نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو.پھر سچائی کی برکت سے اس سعادت مند کو رفتہ رفتہ سارے گناہوں سے نجات مل جائے گی.نبی کریم اولاد کے لئے اپنے اصحاب کو بھی عمدہ نمونہ پیش کرنے کیلئے ہدایت فرماتے تھے.مثلاً یہ کہ خود سچائی پر قائم ہو کر بچوں کو اس کا نمونہ دیا جائے اور تکلف سے یا مذاق میں بھی جھوٹ نہ بولا جائے.عبداللہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ایک دفعہ ہمارے گھر تشریف لائے.میں اس وقت کمسن بچہ تھا.میں کھیلنے کے لئے جانے لگا تو میری امی نے کہا عبداللہ ادھر آؤ میں تمہیں چیز دونگی.رسول اللہ نے فرمایا آپ اسے کچھ دینا چاہتی ہو؟ میری ماں نے کہا ہاں کھجور دونگی.آپ نے فرمایا اگر واقعی تمہارا یہ ارادہ نہ ہوتا ( اور صرف بچے کو بلانے کی خاطر ایسا کہا ہوتا ) تو تمہیں جھوٹ بولنے کا گناہ ہوتا.(احمد) 17 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے دینی حالات پر نظر رکھتے تھے.تربیت کا یہ بھی ایک انداز تھا کہ آپ تصحابہ میں نیکیوں کا مقابلہ کروا کے ان کی روحانی ترقی کے سامان فرماتے تھے.انہیں مناسب رنگ میں توجہ دلاتے رہتے تھے.حضرت ثابت بن قیس کو آپ نے کچھ روز نماز سے غیر حاضر پاکر ان کے بارے میں پتہ کروایا.انہیں کہلا بھیجا کہ وہ سورۃ حجرات کی تیسری آیت کے نزول کے بعد سے نادم و پریشان ہو کر گھر بیٹھ رہے ہیں.اس آیت میں نبی کی آواز سے اونچی آواز کرنے والوں کے اعمال ضائع ہونے کا ذکر تھا اور ثابت کی آواز بلند تھی.نبی کریم نے پیغام بھجوایا کہ ثابت کو جا کر بشارت دو کہ تمہارے جیسا آدمی اہل نار میں سے نہیں ہو سکتا تم تو اہل جنت میں سے ہو.( بخاری ) 18
اسوہ انسان کامل 291 آنحضرت معه بحیثیت معلم و مربی اعظم دلی محبت کے ساتھ تربیت نبی کریم کا تربیت کرنے کا بڑا اگر یہ تھا کہ آپ نے دنیا کے دل محبت اور احسان کے ساتھ جیتے.حضرت طلحہ بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں ایک دفعہ اہل نجد میں سے ایک شخص آیا جس کے سر کے بال پراگندہ تھے.اس نے دور سے ہی بولنا شروع کر دیا.اس کی آواز کی گونج سنائی دے رہی تھی مگر گفتگو سمجھ نہیں آرہی تھی یہاں تک کہ وہ قریب آیا اور اسلام کے بارہ میں آنحضور سے سوال کرنے لگا.حضور نے کمال تحمل اور نرمی سے جواب دیئے اور اسے بتایا کہ ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں.اس نے پوچھا کیا اسکے علاوہ بھی مجھ پر کچھ فرض ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں سوائے اسکے کہ تو از خود بطور نفل کچھ عبادت کرنا چاہے.پھر حضور نے اُسکے دوسرے سوال پر بتایا کہ رمضان کے روزے اس پر فرض ہیں تو وہ پوچھنے لگا کیا میرے ذمہ اسکے علاوہ بھی کچھ روزے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں سوائے نفلی روزوں کے جو تم خودخوشی سے رکھنا چا ہو.پھر اس کے سوال پر حضور نے زکوۃ کی فرضیت بیان کی تو اس نے وہی سوال دو ہرایا کہ کیا فرض زکوۃ کے علاوہ بھی میرے ذمہ کچھ ہے.آپ نے فرمایا نہیں.سوائے اس کے کہ تم از خود خوشی سے کوئی صدقہ دینا چا ہو.اس پر وہ شخص چلا گیا اور یہ کہتا جارہا تھا خدا کی قسم! میں نہ تو اس سے کچھ زیادہ کروں گا اور نہ کم.رسول اللہ اللہ نے فرمایا ” اگر اس نے سچ کہا ہے تو یہ کامیاب ہو گیا.( بخاری )19 معاویہ بن حکم بیان کرتے ہیں ایک دفعہ مجھے نبی کریم کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملا.اس دوران ایک آدمی کو چھینک آ گئی.میں نے نماز میں ہی کہہ دیا اللہ آپ پر رحم کرے.لوگ سنکھیوں سے مجھے دیکھنے اور تعجب سے اپنی رانوں پر ہاتھ مارنے لگے.میں نے محسوس کیا کہ مجھے خاموش کرانے کے لئے ایسا کر رہے ہیں.میں خاموش ہو گیا، نماز کے بعد نبی کریم ﷺ نے مجھے بلایا.میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں نے آپ سے بہتر تعلیم دینے والا کوئی انسان نہیں دیکھا.آپ نے مجھے مارا نہ برا بھلا کہا صرف اتنا فرمایا.نماز کے دوران کوئی اور بات کرنا جائز نہیں ہے.نماز تو ذکر الہی اللہ تعالیٰ کی تعریف اور بڑائی کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے.(مسلم) 20 ایک دفعہ ایک اعرابی آیا.اس نے اپنی سواری کا اونٹ صحن مسجد کے ایک حصے میں بٹھایا.پھر وہیں پیشاب کرنے بیٹھ گیا.صحابہ نے اُسے ڈانٹا ٹھہر ٹھہر و“.نبی کریم نے صحابہ کو منع کرتے ہوئے فرمایا ”اس بے چارے کا پیشاب تو نہ روکو، اسے اس کے حال پر چھوڑ دو.جب وہ شخص پیشاب کر کے فارغ ہوا تو رسول کریم نے اسے بلا کر سمجھایا کہ مساجد میں پیشاب کرنا اور گندگی ڈالنا مناسب نہیں یہ تو اللہ کے ذکر نماز اور قرآن کی تلاوت کے لئے ہیں.“ پھر آپ نے ایک شخص کو حکم دیا کہ پیشاب پر پانی بہادے.نیز صحابہ کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ” تم آسانی کیلئے پیدا کئے گئے ہونگی کے لئے نہیں.( بخاری ) 21 حضرت ابو ہریرہ کا بیان ہے کہ بعد میں وہ بد و رسول اللہ کے اخلاق کریمہ کا ہمیشہ تذکرہ کیا کرتا اور کہتا تھا کہ
اسوہ انسان کامل 292 آنحضرت الله بحیثیت معلم و مربی اعظم رسول کریم پر میرے ماں باپ قربان ہوں آپ نے کس طرح محبت سے مجھے سمجھایا.مجھے کوئی گالی نہیں دی ،سرزنش نہیں کی ، مارا پیٹا نہیں.( احمد ) 22 ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے ساتھ نماز کیلئے کھڑے ہوئے.ایک اعرابی نماز میں دعا کرتے ہوئے کہنے لگا.اے اللہ مجھ پر اور محد پر رحم کرنا اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا.نماز کے بعد رسول کریم نے اعرابی کو سمجھایا کہ دعا تو ایک بہت وسیع چیز ہے.تم نے اس کے آگے منڈ پر کھڑی کر دی ہے.یعنی اللہ کی رحمت کے آگے بند باندھنا ہرگز مناسب نہیں.( بخاری )23 رسول کریم بسا اوقات نادانستہ غلطی سے چشم پوشی فرما کر حوصلہ افزائی کے ذریعہ صحابہ کے دل جیت لیتے اور انہیں اعلیٰ نیکیوں کے عزم کی توفیق مل جاتی.حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ہمیں ایک مہم پر بھجوایا.اچانک لوگوں میں بھگدڑ مچ گئی.ہمیں بھی اس کی لپیٹ میں آکر پیچھے ہٹنا پڑا.جب ہم واپس آئے تو سخت پشیمان تھے کہ میدان جنگ سے بھاگ کر خدا کی ناراضگی کے مور د بن گئے.ہم نے کہا کہ مدینہ داخل ہوتے وقت ہم چپکے سے جائیں گے تا کہ ہمیں کوئی دیکھ نہ لے.پھر مدینہ پہنچ کر ہم نے سوچا کہ رسول کریم کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کر کے پوچھیں کہ اگر تو ہماری توبہ قبول ہو سکتی ہے تو ہم یہاں ٹھہریں ورنہ ہم واپس میدان جنگ میں لوٹ جائیں.ہم فجر کی نماز سے پہلے رسول اللہ کے انتظار میں تھے کہ آپ تشریف لائے.ہم نے کھڑے ہو کر عرض کیا ہم میدان جنگ کے بھگوڑے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم تو پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو ہم نے وفور محبت سے آپ کے ہاتھ چومے اور عرض کیا کہ ہم تو فرمانبرداروں کی جماعت ہیں.( احمد )24 اجتماعی تربیت کا مرکزی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی ارشاد کے تابع یہ نظام تربیت بھی جاری فرما رکھا تھا کہ مختلف علاقوں سے لوگ مرکز میں آکر اور آپ کی صحبت میں رہ کر دین کا گہرا فہم حاصل کریں اور واپس جا کر اپنی قوم کی تربیت کریں.(سورۃ التوبۃ :122) چنانچہ اصحاب صفہ کا ایک گروہ ہمیشہ مسجد نبوی کے قرب میں رسول اللہ کے زیر تعلیم و تربیت رہتا تھا جن کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست بھی آپ فرماتے تھے.حضرت مالک بن گو مرث بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ بہت رحیم و کریم اور نرم خو تھے.ہم نے آپ کی صحبت میں ہیں دن قیام کیا.اس دوران آپ نے محسوس کیا کہ ہم اپنے گھر والوں کے لئے اداس ہو گئے ہیں.آپ ہم سے ہمارے اہل خاندان کے بارے میں تفصیل پوچھنے لگے.ہم نے ان کے بارے میں بتایا.مالک کہتے ہیں حضور بہت نرم دل اور پیار کرنے والے تھے.آپ نے ہمیں اپنے گھروں میں واپس بھجواتے ہوئے فرمایا ان کو جا کر بھی یہ باتیں سکھاؤ اور جس
اسوہ انسان کامل 293 آنحضرت الله بحیثیت معلم و مربی اعظم طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے اس طرح نماز پڑھنا.نماز سے پہلے تم میں سے کوئی اذان کہہ دے اور جو بڑا ہو وہ امامت کروادے.(بخاری)25 مخاطب کو نصیحت سے قائل کرنا نبی کریم تربیتی نصائح میں دلیل سے قائل کرنے کو ترجیح دیتے تھے اور زیر تربیت لوگوں کے لئے دعا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک نوجوان نے عجیب سوال کر ڈالا کہ یا رسول اللہ! مجھے زنا کی اجازت دیجئے.لوگوں نے اسے لعنت ملامت کی کہ کیسی نامناسب بات کر دی اور اسے روکنے لگے.نبی کریم سمجھ گئے کہ اس نوجوان نے گناہ کا ارتکاب کرنے کی بیجائے جو اجازت مانگی ہے تو اس میں سعادت کا کوئی شائبہ ضرور باقی ہے.آپ نے کمال شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں اپنی ماں کے لئے زنا پسند ہے؟ اس نے کہا نہیں خدا کی قسم ! ہرگز نہیں.آپ نے فرمایا اسی طرح باقی لوگ بھی اپنی ماؤں کے لئے زنا پسند نہیں کرتے.آپ نے دوسرا سوال یہ فرمایا کہ کیا تم اپنی بیٹی کے لئے بدکاری پسند کرو گے؟ اس نے کہا خدا کی قسم! ہر گز نہیں.آپ نے فرمایا لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے.پھر آپ نے فرمایا کیا تم اپنی بہن سے بدکاری پسند کرتے ہو؟ اس نے پھر اسی شدت سے نفی میں جواب دیا.آپ نے فرمایا لوگ بھی اپنی بہنوں کے لئے یہ پسند نہیں کرتے.پھر آپ نے بدکاری کی شناعت خوب کھو لنے کیلئے فرمایا کہ تم پھوپھی اور خالہ سے زنا پسند کرو گے؟ اس نے کہا خدا کی قسم ہرگز نہیں.آپ نے فرمایا لوگ بھی اپنی پھوپھیوں اور خالاؤں کے لئے بدکاری پسند نہیں کرتے.مقصود یہ تھا کہ جو بات تمہیں اپنے عزیز ترین رشتوں میں گوارا نہیں.وہ دوسرے لوگ کیسے گوارا کریں گے اور کوئی اس کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ پھر نبی کریم نے اس نوجوان پر دست شفقت رکھ کر دعا کی اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهِ وَطَهِّرْ قَلْبَهِ، وَ حَصَّنُ فَرْجَهِ اے اللہ اس نوجوان کی غلطی معاف کر.اس کے دل کو پاک کر دے.اسے باعصمت بنا دے.اس نوجوان پر آپ کی اس عمدہ نصیحت کے ساتھ دعا کا اتنا گہرا اثر ہوا کہ اس نے بدکاری کا خیال ہی دل سے نکال دیا اور پھر کبھی اس طرف اُس کا دھیان نہیں گیا.(احمد (26) سبحان اللہ ! کیسا پیار کرنے والا مربی اعظم انسانیت کو عطا ہوا تھا.ایک بدو نے آکر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسر تھا عطا کر دیا.وہ اس پر سخت چیں بجبیں ہوا اور رسول کریم کی شان میں بھی بے ادبی کے کچھ کلمات کہہ گیا.صحابہ کرام نے سرزنش کرنا چاہی مگر رسول اللہ نے منع فرما دیا.آپ اُس بدو کو اپنے ساتھ گھر لے گئے.اُسے کھانا کھلایا اور مزید انعام واکرام سے نوازا.پھر پوچھا کہ اب راضی ہو؟ وہ خوش ہوکر بولا میں کیا میرے قبیلے والے بھی آپ سے راضی اور خوش ہیں.رسول کریم نے اُسے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے بھی جا کر یہ اظہار کر دینا کیونکہ تم نے ان کے سامنے سخت کلامی کر کے ان کی دل آزاری کی تھی.چنانچہ اُس نے صحابہ کے سامنے بھی اپنی خوشی کا اظہار کر دیا.تو نبی کریم نے صحابہ کو مخاطب کر سے فرمایا میری اور اس بد و کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کی ایک اونٹنی ہو وہ بدک کر بھاگ کھڑی ہو.لوگ پیچھے
294 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل پکڑنے کو دوڑ میں مگر وہ کسی کے قابو نہ آئے.اتنے میں اونٹنی کا مالک آجائے اور کہے میری اونٹنی کو چھوڑ دو.میں تم سب سے زیادہ اس سے نرمی کا سلوک کر نیوالا ہوں.پھر وہ اپنی اونٹنی کی طرف متوجہ ہو کر کچھ گھاس لے کر اسے پیچکارے تو وہ اس کی طرف چلی آئے اور اس کے پاس آکر بیٹھ جائے اور وہ اس پر اپنا پالان ڈال کر اسے قابو کر لے.پھر آپ نے فرمایا جب اس بدو نے کچھ سخت بات کی تھی اس وقت میں تمہیں اس پرختی کرنے دیتا تو یہ ہلاک ہوجاتا.( ہیمی ) 27 پاکیزه علمی مجالس نبی کریم کی پاکیزہ صحبت اور ہا برکت مجالس تربیت کا بہترین موقع ہوتی تھیں.اس لئے قرآن شریف میں صادقوں اور راستبازوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم ہے.(سورة التوبة : 119) قرآن شریف میں دوسری جگہ نبی کی صحبت کو روحانی لحاظ سے زندگی بخش قرار دیا گیا ہے.(سورۃ الانفال: 25) ایسی پاکیزہ مجالس میں شرکت سے دل میں نرمی پیدا ہوتی اور نصیحت کا اثر ہونے لگتا ہے.لیکن ان مجالس سے پہلو تہی کے نتیجہ میں دل سخت ہو جاتا ہے.اسی لئے فرمایا کہ نماز جمعہ اور خطبہ سے ایک ناغہ کرنے سے دل پر ایک نقطہ لگ جاتا ہے پھر مسلسل ایسا کرنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے اور نصیحت قبول کرنے کا مادہ کم ہو جاتا ہے.(ابن ماجہ ) 28 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی نیک مجالس میں شرکت کی تحریک فرماتے تھے.ایک دفعہ فرمایا کہ ایک مجلس میں تین آدمی آئے.ان میں سے ایک تو مجلس میں آگے خالی جگہ دیکھ کر توجہ سے بات سننے کے لئے آگے بڑھا دوسرے کو جہاں جگہ ملی پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا پیٹھ پھیر کر واپس چلا گیا.ان لوگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ان کے رویے کے مطابق خدا نے اُن سے سلوک کیا.جو آگے بڑھا اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی پناہ میں لے لیا.دوسرا جو حیا کرتے ہوئے پیچھے ہی بیٹھ گیا.اللہ تعالیٰ نے بھی اس سے حیاء و مغفرت کا معاملہ کیا.جو منہ پھیر کر چلا گیا اللہ نے بھی اس سے منہ پھیر لیا.( بخاری ) 29 عمدہ مثالوں سے نصیحت اپنی مجالس میں نبی کریم کا سادہ مثالوں اور کہانیوں کے ذریعہ نصیحت کرنے اور بات ذہن نشین کرانے کا ملکہ بہت اعلیٰ درجہ کا تھا.مثلاً اصلاح معاشرہ کے حوالے سے نیکی کی تحریک کرنے اور برائی سے نہ روکنے کی مثال یوں دی کہ کچھ لوگ کشتی میں سفر کر رہے ہوں.ان میں سے ایک آدمی کشتی میں سوراخ کرنے لگے اور دوسرے اسے نہ روکیں تو بالآخر کشتی ڈوب کر رہے گی اور سب ہلاک ہوں گے.(بخاری) 30 یہی حال اس معاشرہ کا ہوتا ہے جہاں بدی سے روکنے اور نیکی کی تحریک کا اہتمام نہیں ہوتا.اس طرح آپ نے پنجوقتہ نمازوں کی مثال ایک نہر سے دی جس میں پانچ وقت انسان نہائے تو جسم پر میل باقی نہیں رہتی.فرمایا یہی حال نماز کا ہے جس سے انسان کی بخشش و مغفرت کے سامان ہوتے رہتے ہیں.( بخاری ) 31
اسوہ انسان کامل 295 آنحضرت الله بحیثیت معلم و مربی اعظم نبی کریم نے انسان کی ہمدردی و خدمت کے حوالہ سے مومن کامل کی مثال کھجور کے درخت سے دی اور ایسے دلچسپ انداز میں پیش فرمائی کہ مجلس کے ہر شخص کے ذہن میں بیٹھ گئی.پہلے تو پوچھا کہ درختوں میں سے وہ درخت کون سا ہے جس کی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز کارآمد ہے.صحابہ نے جنگل کے سارے درختوں کے نام گنوادیئے مگر یہ پہیلی بوجھ نہ سکے.حضور نے فرمایا یہ کھجور کا درخت ہے.جس کی مثال مومن کے وجود سے دی جاسکتی ہے.( بخاری )32 یعنی جس طرح کھجور کا درخت تن تنہا میدان یا صحراء میں کھڑا آندھیوں طوفانوں کے چھیڑے برداشت کرتا ہے.اس کا پودا کچھ تقاضا نہیں کرتا مگر دھوپ میں سایہ دیتا ہے، پھل بھی دیتا ہے، اس کے پتے بھی کام آتے ہیں اور تنا بھی.اسی طرح مومن کا وجود بھی نافع الناس ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بابرکت مجالس اور صحبت بھی تربیت کا بہترین ذریعہ تھے.ایک دفعہ آنحضرت می کی مجلس میں دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے.ایک کو چھینک آئی حضور نے اس کو " يَرْحَمُكَ الله کہ کرد عادی.دوسرے کو چھینک آئی تو آپ نے اُسے دعا نہیں دی.اس نے کہا کہ فلاں کو چھینک آئی تو آپ نے اُسے یہ دعا دی کہ اللہ تجھ پر رحم کرے اور مجھے چھینک آئی تو آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی.آپ نے فرمایا اس نے الحَمْدُ لِلَّهِ ، کا تھا تو میں نے جوابا " يَرْحَمُكَ اللهُ " کہا اور تم نے " الْحَمدُ لِلَّهِ" نہیں کہا اس لئے میں نے بھی جواب نہیں دیا.(مسلم ) 33 رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کی تربیت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کی ذات تھی.قرآنی تعلیم کے ساتھ ساتھ رویا و کشوف اور وحی کے ذریعہ آداب تربیت کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ نبی کریم نے ذکر فرمایا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ مسواک کر رہا ہوں.میرے پاس دو آدمی آئے ایک بڑا تھا، دوسرا چھوٹا.میں ان میں سے چھوٹے کو مسواک دینے لگا تو مجھے کہا گیا کہ بڑے کا خیال کریں.چنانچہ میں نے بڑے کو مسواک دی.( بخاری )34 یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ہمیشہ بڑوں کے احترام کی تلقین فرماتے تھے.کھانے پینے کے آداب رسول کریم کی خدمت میں ایک دفعہ پانی پیش کیا گیا.آپ نے پانی پیا.دائیں جانب ایک بچہ تھا اور بائیں طرف بزرگ.آپ نے اس بچے سے کہا کہ کیا تم مجھے اجازت دیتے ہو کہ میں پانی پہلے بزرگ کو دے دوں وہ بچہ کہنے لگا نہیں خدا کی قسم ! میں آپ کے ترک پر کسی اور کو ترجیح نہیں دونگا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پانی پہلے اس بچے کے ہاتھ میں تھما دیا.( مسلم ) 35 ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بعض صحابہ کے ساتھ کھانا تناول فرما رہے تھے.ایک بد و آیا اور دولقموں میں ہی سارا کھانا چٹ کر گیا.رسول اللہ نے فرمایا اگر وہ ”بسم اللہ کہتا تو تم سب کیلئے یہ کھا نا کافی ہوتا.پس کھانے سے 66
اسوہ انسان کامل 296 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم پہلے اور آخر میں اللہ کا نام ضرور لیا کرو.(ابن ماجہ )36 گھر میں داخل ہونے کا ادب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تربیت کی خاطر بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے تھے.چنانچہ حضور نے اپنے صحابہ کوکسی کے گھر جانے کیلئے اجازت لینے کا طریقہ بھی سمجھایا.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا، دروازہ کھٹکھٹایا.آپ نے فرمایا کون ہے؟ میں نے کہا میں.آپ نے فرمایا ”میں“ کیا مطلب ہوا یعنی حضور نے اس کو نا پسند کیا اور یہ چاہا کہ نام لیا جائے.چنانچہ پھر بعد میں صحابہ نام لے کر آپ سے اجازت لیا کرتے تھے.( بخاری ) 37 نماز پڑھنے کا طریق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خوبصورت نماز کا نمونہ دے کر اپنے اصحاب کو نماز کا سلیقہ سکھاتے اور ان کی نمازوں کا جائزہ لے کر بھی انہیں مناسب توجہ دلاتے.ایک دفعہ حضور نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے آکر نماز پڑھی مگر رکوع و سجود مکمل نہیں کئے پھر اس نے رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا.آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جاؤ پھر نماز پڑھو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی.اس نے جا کر پھر نماز پڑھی اور دوبارہ واپس آکر آنحضور کو سلام عرض کیا.آپ نے تیسری دفعہ اسے فرمایا کہ پھر جاؤ اور نماز پڑھو.تم نے نماز نہیں پڑھی.اس پر اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ میں تو اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا آپ ہی مجھے سکھا دیں.رسول اللہ نے فرمایا تکبیر کہہ کے نماز کے لئے کھڑے ہو پھر جتنا حصہ قرآن کا سہولت سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر اطمینان سے رکوع کرو پھر سیدھے کھڑے ہو جاؤ.پھر اطمینان سے سجدہ کرو.اس طرح ساری نماز سکون سے پڑھا کرو.( بخاری )38 کھانے کے آداب کی تعلیم ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضرت کو کھانے پر بلایا اور درخواست کی کہ آپ چار مہمان ساتھ لے آئیں.ایک اور شخص بھی آپ کے ساتھ ہولیا.میزبان کے دروازے پر پہنچے تو آپ نے فرمایا یہ پانچواں آدمی بھی ہمارے ساتھ آگیا ہے.اگر تم چاہو تو ا سے اجازت دے دو اور چاہو تو یہ واپس چلا جاتا ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ میں اسے بخوشی اجازت دیتا ہوں.( مسلم ) 39 حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارا دستور یہ تھا کہ جب تک آنحضرت کھانا شروع نہ کریں، ہم کھانے میں ہاتھ نہیں ڈالتے تھے.ایک دفعہ جب ہم کھانے کے لئے اکٹھے تھے ایک لونڈی آئی اور جلدی سے کھانے میں ہاتھ ڈالنے
297 ،، آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل لگی.حضور نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا.پھر ایک بد و آیا.وہ بھی کھانے میں ہاتھ ڈالنے لگا.رسول کریم نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا.آپ نے فرمایا کہ شیطان کھانے کو حلال کر لیتا ہے اگر اس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے.یہ عورت شیطان کے لئے کھانے کو حلال کرنے آئی تو میں نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا.اسی طرح یہ بت بھی ”بسم اللہ “ پڑھے بغیر شیطان کے لئے کھانا حلال کرنا چاہتا تھا.میں نے اس کا ہاتھ بھی پکڑ لیا.اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اب ان دونوں کے ہاتھ میرے ہاتھ کے ساتھ کھانے میں اکٹھے جائیں گے.یعنی ہم اکٹھے کھانا شروع کریں گے اور اس میں شریک ہونگے.پھر آپ نے اللہ کا نام لے کر کھانا شروع فرمایا.(مسلم )40 بعض دفعہ نیکی کے رستہ سے شیطان حملہ آور ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر بھی گہری نظر ہوتی تھی اور موقع محل کے مطابق نیکی کی تحریک و تلقین فرماتے تھے.اگر کسی نے بوڑھے والدین کی خدمت چھوڑ کر جہاد پر جانے کا ارادہ کیا تو آپ نے روک دیا اور فرمایا ماں باپ کی خدمت ہی تمہارا جہاد ہے.جہاں نماز میں کمزوری دیکھی وہاں سمجھایا کہ افضل عمل وقت پر نماز کی ادائیگی ہے.رسول کریم جہاں بھی نیکی ہیں ریاء یا تکلف کا شائبہ بھی محسوس کرتے اس سے منع فرما دیتے.ایک بدوی مدینے آیا.( بدوی عام طور پر شہروں میں ٹھہر انہیں کرتے بلکہ سوائے ضرورت کے شہروں میں داخل ہی نہیں ہوتے ) معلوم ہوتا ہے اس بدوی نے فتح مکہ کے پہلے زمانہ میں سن رکھا تھا کہ رسول اللہ ہجرت پر بیعت لیتے ہیں.اس نے ہجرت پر بیعت کرنے کے بارہ میں آنحضور سے درخواست کی کہ میں مدینہ ٹھہروں گا.حضور نے اُس پر شفقت کرتے ہوئے فرمایا.تیرا بھلا ہو ہجرت بڑا کٹھن کام ہے.( آپ بھانپ گئے کہ یہ شخص اپنی بد و یا نہ طبع کے باعث ہجرت پر قائم نہ رہ سکے گا.) پھر آپ نے فرمایا یہ بتاؤ کیا تمہارے اونٹ ہیں جن کی زکوۃ تم ادا کر سکو اس نے کہا جی ہاں ! آپ نے فرمایا پھر بے شک پہاڑوں کے پیچھے رہ کر بھی کام کرو تو اللہ تعالیٰ تمہارے عمل میں کچھ بھی کم نہیں کرے گا.(بخاری) 41 نبی کریم صلی اللہ علیہ سلم کا دستور تھا کسی شخص کی شکایت آپ کو پہنچتی تو آپ تصیحت کے لئے کمر بستہ ہو جاتے تھے خواہ وہ کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو مگر اس کے لئے ہمیشہ مناسب موقع محل اور ماحول کا لحاظ ر کھتے تھے.حرمت شراب سے پہلے کا واقعہ ہے ایک دفعہ شراب کے نشہ میں بعض لوگ حضرت علی کی ایک اونٹنی کو نقصان پہنچا بیٹھے.ان میں آپ کے عزیز چچا حضرت حمزہ بھی تھے.نبی کریم کو اس کی خبر ہوئی تو فورا موقع پر پہنچے.مگر جب دیکھا کہ ابھی ان کا نشہ اتر انہیں تو آپ نے اس موقع پر نصیحت کرنی مناسب نہیں سمجھی اور فوراً الٹے پاؤں واپس تشریف لے آئے.( بخاری )42 ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں پڑاؤ پر ایک جگہ ہجوم دیکھا جس میں ایک شخص پر سایہ کیا جارہا تھا.آپ نے استفسار فرمایا کیا بات ہے؟ بتایا گیا کہ روزے دار ہیں.آپ نے فرمایا سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں.( بخاری )43
اسوہ انسان کامل 298 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم حجتہ الوداع میں عرفات سے منی آتے ہوئے بعض لوگ اپنی سواریاں بھگا رہے تھے.نبی کریم نے فرمایا لوگو اطمینان سے آؤ.سوار یوں کو تیز بھگا کر لانا نیکی نہیں اس لئے درمیانی رفتار پر چلو.( بخاری )44 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے.میں حضور کا خیمہ تیار کرتی تھی.حضرت حفصہ نے بھی مجھ سے پوچھ کر اپنا خیمہ لگالیا.ان کی دیکھا دیکھی ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش نے خیمہ لگوالیا.صبح رسول اللہ نے کئی خیمے دیکھے تو پوچھا کہ کس کے خیمے ہیں.آپ کو بتایا گیا کہ ازواج کے خیمے ہیں تو آپ ان سے ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم لوگ یہ (ریس کرنے کو) نیکی سمجھتے ہو.پھر اس سال آپ نے اعتکاف رمضان نہیں فرمایا بلکہ شوال کے دس دن اعتکاف میں گزارے.( بخاری ) 45 اس طرح آپ نے یہ تربیتی سبق دیا کہ ہمیشہ رضائے الہی مد نظر رکھنی چاہئے اور نیکی میں حسد نہیں رشک کا جذبہ پروان چڑھنا چاہئے.رسول کریم دین میں سختی اور تشد دبھی پسند نہ فرماتے تھے تا کہ لوگ دین سے دور نہ ہوں.اسی لئے تلقین فرماتے تھے کہ ہمیشہ آسانی پیدا کرو.مشکل پیدا نہ کرو.ابو مسعود انصاری بیان کرتے ہیں ایک دفعہ ایک شخص نے شکایت کی کہ میں اپنے محلے کی مسجد میں باجماعت نماز اس لئے ادا نہیں کرتا کہ ہمارا امام بہت لمبی نماز پڑھاتا ہے.ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں نے کبھی نصیحت کے وقت رسول اللہ کو اس قدر غصے میں نہیں دیکھا جتنا غصہ اس بات پر آپ کو آیا.آپ فرمانے لگے لوگو! تم دین سے نفرت دلاتے ہو جو شخص بھی نماز میں امام ہو وہ ہلکی نماز پڑھائے کیونکہ نماز میں بیمار، کمزور اور کام والے بھی ہوتے ہیں.( بخاری )46 آپ فرمایا کرتے تھے کہ خوشی اور بشارت کی باتیں بتایا کرو.نفرت پیدا کرنے والی باتیں نہ کیا کرو.اس حکمت کے تحت آپ وعظ ونصیحت میں ناغہ کرنا پسند کرتے تھے تا کہ لوگ اکتا نہ جائیں.( بخاری )47 تربیت کے لئے آغاز میں چھوٹی سی نیکی کی عادت ڈالنا اور انگلی سے پکڑ کر چلانا پڑتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وہ نیکی پسند فرماتے تھے جو عارضی نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی جائے.فرماتے تھے کہ بہترین عمل وہ ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے خواہ وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو.ایک عورت کے بارہ میں پتہ چلا کہ بہت زیادہ نمازیں پڑھتی ہے.اسے نصیحت فرمائی کہ اتنی عبادت کرو جتنی طاقت ہے کیونکہ اللہ تو نہیں اکتا تا.لیکن بندہ تھک ہار کر نیکی چھوڑ بیٹھتا ہے.( بخاری )48 بعض نوجوانوں کے ہمیشہ عبادت کرنے روزے رکھنے اور ترک دنیا کے ارادوں کا علم ہوا تو انہیں ایسا کرنے سے ختی سے منع فرما دیا.انہوں نے عرض کیا ہم آپ کی طرح نہیں ہیں اللہ نے تو آپ کو بخش دیا ہے.حضور ناراض ہوئے اور فرمایا میں تم میں سے سب سے بڑھ کر اللہ کا تقویٰ رکھتا ہوں.میری سنت پر چلو.میں سونا بھی ہوں ، روزے سے ناتھہ بھی کرتا ہوں اور شادی بھی کی ہے.( بخاری ) 49
299 آنحضرت من الله بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے مزاج کو سمجھتے تھے اور دراصل محبت کے ذریعہ ان کی تربیت فرماتے تھے.بسا اوقات زبانی نصیحت کی بجائے محض آپ کا کوئی اشارہ یا اظہار نا پسندیدگی بہترین اور مؤثر نصیحت ہوتا تھا.رسول اللہ کی مجلس میں ایک دفعہ کسی شخص نے حضرت ابو بکر سے تکرار شروع کر دی اور انہیں بُرا بھلا کہنے لگا.حضرت ابو بکر پہلے تو خاموشی اور صبر سے سنتے رہے مگر جب اس نے تیسری مرتبہ زیادتی کی تو آخر تنگ آکر ابوبکر نے اسے جواب دیا.رسول کریم مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے.حضرت ابو بکر نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ مجھ سے ناراض ہو کر جا رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا جب تک تم خاموش تھے، ایک فرشتہ آسمان سے آکر تمہاری طرف سے اس شخص کو جواب دے رہا تھا.جب آپ خود بدلہ لینے پر اتر آئے تو وہ فرشتہ چلا گیا اور شیطان آ گیا.اب میں ایسی مجلس میں کیسے بیٹھ سکتا ہوں.( ابوداؤد ) 50 بر محل اظہار نا راضگی کسی بات پر برمحل ناپسندیدگی کا اظہار نبی کریم کے چہرے سے عیاں ہو جاتا تھا.ایک دفعہ نجران سے ایک شخص آیا اس نے سونے کی انگوٹھی پہن رکھی تھی.رسول اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ فرمائی نہ اس سے کوئی بات چیت کی.اس نے گھر جا کر اپنی بیوی سے سارا ماجرا کہہ سنایا.بیوی نے کہا یقینا تمہاری اس بڑائی اور تکبر کے اظہار کے باعث حضور نے توجہ نہیں فرمائی.اس لئے اب دوبارہ آنحضور کی خدمت میں ادب سے حاضری دو.اس نے اپنی سونے کی انگوٹھی اور قیمتی چوغہ اُتارا اور دوبارہ جا کر ملاقات کی اجازت طلب کی.حضور نے خوشی سے اجازت عطا فرمائی اور اس کے سلام کا جواب دیا.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ میں پہلے حاضر ہوا تھا تو آپ نے التفات نہیں فرمایا.حضور نے فرمایا پہلے جب تم آئے تو تمہارے ہاتھ میں سونے کا انگارہ تھا.وہ شخص جو نجران سے اس قسم کے سونے کے زیورات لیکر آیا تھا کہنے لگا حضور پھر تو میں بہت سارے انگارے ساتھ لایا ہوں.آنحضور نے کس شانِ بے نیازی سے فرمایا کہ بے شک یہ دنیوی مقام اور فائدے کا سامان ضرور ہے.مگر ہمارے نزدیک اس کی حیثیت ایک پتھر سے زیادہ کچھ نہیں.تب اس صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے اپنے صحابہ کی موجودگی میں میرے ساتھ بے رخی برتی.اب آپ صحابہ کے سامنے میری معذرت قبول فرما کر معافی کا اعلان بھی فرما دیں تا کہ ان کو یہ خیال نہ رہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں.اس حضور وہیں کھڑے ہو گئے اور اس شخص کی معذرت قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا بے رخی کا رویہ اس شخص کی سونے کی انگوٹھی پہنے کی وجہ سے تھا.(اس کی تو بہ اور اصلاح کے بعد مجھے اس سے اب کوئی ناراضگی نہیں رہی).(احمد )51 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ یہودی ایام مخصوصہ میں عورتوں سے معاشرت نہیں کرتے تھے.جب اس آیت فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ (سورۃ البقرہ: 223 کا حکم اترا یعنی ایام حیض میں عورتوں سے الگ رہو تو نبی کریم
300 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل نے اس کی وضاحت فرمائی.فرمایا کہ سوائے میاں بیوی کے تعلقات کے باقی ہر طرح سے میل جول جائز ہے.اس پر یہودی کہنے لگے یہ شخص ہر بات میں ہماری مخالفت کرتا ہے.حضرت عباد بن بشر اور حضرت اسید بن حضیر نے آکر ذکر کیا یا رسول اللہ ! یہودی اس طرح کہتے ہیں کیا ہم ایام مخصوصہ میں بھی میاں بیوی کے تعلقات استوار کر لیں.حضور کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ہم نے خیال کیا کہ حضور ان سے ناراض ہو گئے ہیں.وہ حضور کے پاس سے چلے گئے.راستے میں انہوں نے حضور کی طرف دودھ کا تحفہ جاتے ہوئے دیکھا.حضور نے یہ دودھ انہی دونوں صحابہ کیلئے بھجوادیا.وہ دونوں کہتے تھے تب ہمیں اس بات کی زیادہ خوشی ہوئی کہ حضور ہم سے ناراض نہیں ہیں.( احمد )52 مگر بعض بدوؤں پر اس ناراضگی کا اثر نہیں ہوتا تھا.تب آپ صحابہ کے لئے نصیحت کا موقع نکال لیتے تھے.ایک دفعہ ایک بد و آیا اس نے ایک نہایت اعلیٰ درجے کا جبہ پہنا ہوا تھا جس پر ریشم کا کام ہوا تھا.وہ کہنے لگا تمہارا یہ صاحب ( یعنی نبی کریم ) ہر چرواہے کے بیٹے کو تو عزت دیتا ہے اور ہر خاندانی شہ سوار کے بہادر فرزند کو ذلیل کرتا ہے.نبی کریم اس پر بہت ناراض ہوئے اور اس کے جبہ کو (جو اظہار بڑائی کے لئے اس نے پہن رکھا تھا) کھینچ کر فرمایا تم نے تو عقل مندوں والا لباس بھی نہیں پہنا ہوا.پھر آپ مجلس میں تشریف فرما ہوئے اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر کہا کہ میں تمہیں ایک مختصر نصیحت کرتا ہوں.دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے روکتا ہوں.ایک تو شرک اور تکبر سے روکتا ہوں اور لا إلهَ إِلَّا الله یعنی توحید کا حکم دیتا ہوں کیونکہ آسمان وزمین اور جو کچھ اس میں ہے اگر وہ ترازو کے ایک پلڑے میں اور کلمہ لا اله الا اللہ دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو اس کا پلڑا بھاری ہوگا.دوسرے میں تمہیں سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِہ کا حکم دیتا ہوں یہ ہر چیز کی دعا ہے.اور اس کی برکت سے ہر چیز عطا ہوتی ہے.( احمد ) 53 تنبیه و تادیب تربیت کی خاطر بعض دفعہ تنبیہ یا تادیب بھی ناگزیر ہو جاتی ہے.نبی کریم کو بھی بعض مواقع پر تعزیری کاروائی کرنی پڑی مگر اس سزا میں بھی نفرت یا غصہ نہیں بلکہ شفقت و رحمت کا رنگ غالب ہوتا تھا جس کے نتیجہ میں عظیم الشان اصلاحی تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں.حضرت کعب بن مالک اور ان کے دو ساتھی بغیر کسی عذر کے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ گئے تھے.رسول اللہ کی واپسی پر انہوں نے اپنی اس غلطی کا اقرار کر لیا تو رسول کریم نے ان تینوں سے تمام صحابہ کا بول چال بند کر دیا.کعب کہتے ہیں کہ ہم بازاروں میں پھرتے تھے مگر کوئی ہم سے کلام نہ کرتا تھا.رسول کریم کی مجلس میں حاضر ہو کر آپ کو سلام کہتا تھا اور دیکھتا تھا کہ آپ کے ہونٹوں میں سلام کے جواب کیلئے جنبش ہوئی کہ نہیں.پھر آپ کے قریب ہو کر نماز ادا کرتا اور چوری آنکھ سے آپ کو دیکھتا رہتا.جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا رسول کریم میری طرف دیکھتے رہتے اور جب میں آپ کی طرف توجہ کرتا تو آپ رُخ پھیر لیتے.بعد میں ان تینوں اصحاب کا اُن کی بیویوں سے بھی
301 آنحضرت میال بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل مقاطعہ کر دیا گیا.پچاس دن انہوں نے اس حالت میں کاٹے.پھر جب ان کی معافی ہوئی تو انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا.رسول کریم کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا.آپ نے فرمایا اے کعب ! تمہیں بشارت ہو آج تمہارے لئے ایسا دن آیا ہے کہ جب سے تم پیدا ہوئے آج تک ایسا دن تم پر طلوع نہیں ہوا.کعب نے پوچھا یا رسول اللہ یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ کی طرف سے.فرمایا اللہ کی طرف سے ہے.کعب پر اس پر شفقت سزا کا یہ اثر تھا کہ انہوں نے رسول اللہ کے پاس سے اٹھنے سے قبل یہ عہد کیا کہ جس سچ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل فرمایا ہے میں آئندہ اس کا دامن کبھی نہ چھوڑوں گا.اور جھوٹ سے ہمیشہ مجتنب رہوں گا.دوسرے میں اپنا سارا مال خدا کی راہ میں بطور صدقہ پیش کرتا ہوں.رسول کریم نے کچھ حصہ صدقہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی.( بخاری ) 54 تربیتی حکمت عملی و مؤثر کاروائی تربیتی واخلاقی معاملات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح بہت گہری اور پر حکمت ہیں.جہاں آپ نے معاشرہ کی اہم فر دعورت کے مقام اور مرتبہ کا ذکر کر کے اسے محبت کی نظر سے دیکھا وہاں بعض ممکنہ خدشات اور فتنوں کا بھی ذکر کیا جو راہ راست سے ہٹ جانے کے نتیجہ میں معاشرہ میں پیدا ہو سکتے ہیں.چنانچہ فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر جس سب سے بڑے فتنہ کا ڈر ہے وہ عورتوں کا فتنہ ہے.آپ نے ان عورتوں کو جہنم کی آگ سے ڈرایا جو لباس پہنے ہوئے بھی لباس سے عاری ہوں گی اور اپنی طرف مردوں کو مائل کرنے والی اور بہت جلد انکی طرف مائل ہونگی.(مسلم )55 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تربیتی لحاظ سے معاشرہ پر گہری نظر رکھتے تھے اور برائی کے آغاز سے پہلے اسے دبانے یا اس کے تدارک کی فکر فرماتے تھے.نو جوانوں کی تربیت پر آپ کی خاص نظر ہوتی تھی اور انہیں انفرادی طور پر دلنشیں پیرائے میں موثر نصیحت فرماتے تھے اور مناسب عمر میں بر وقت ان کی شادی ہو جانا پسند فرماتے تھے کہ اس طرح نوجوان کئی قباحتوں سے بچ جاتے ہیں.حضرت ابوذ ر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کی خدمت میں عکاف بن بشر تمیمی آئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کیا تمہاری بیوی ہے.انہوں نے نفی میں جواب دیا، فرمایا کیا کوئی لونڈی ہے عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا اور تم صاحب دولت و ثروت بھی ہو.اس نے کہا جی حضور میں خدا کے فضل سے صاحب حیثیت ہوں.آپ نے فرمایا تو پھر تم شیطان کے بھائی ہوا اور اگر تم عیسائیوں میں ہوتے تو ان کے راہبوں میں سے ہوتے.ہماری سنت تو نکاح ہے.تم میں سے بدترین لوگ وہ ہیں جو شادی نہیں کرتے اور اگر اسی حال میں ان پر موت آجائے تو بحالت موت بھی وہ بدترین ہیں.شیطان کیلئے نیک لوگوں کے خلاف کوئی ہتھیار عورتوں سے زیادہ مؤثر نہیں.البتہ شادی شدہ لوگ اس سے محفوظ ہیں.یہی ہیں جو پاک اور نخش گوئی سے بڑی ہیں.اے عکاف! تیرا بھلا ہو یہ عورتیں ایوب، داؤد، یوسف علیہم السلام اور کرسف کو مشکل میں ڈالنے والی تھیں.کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اگر سف کون تھا آپ نے فر ما یا ایک عابد شخص تھا
302 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل جو ساحل سمندر کے پاس تین سو سال تک عبادت کرتا رہا وہ دن کو روزے رکھتا اور رات کو قیام کرتا.پھر اس نے خدائے عظیم و برتر کا انکار ایک عورت کے سبب سے کر دیا جس کے عشق میں وہ مبتلا ہوگیا اور عبادت کو ترک کر دیا.پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی کی وجہ سے اسے ضائع ہونے سے بچالیا اور اسے تو بہ کی توفیق مل گئی.اے عکاف تم شادی کرلور نہ تمہاری حالت بھی شک و شبہ والی ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ آپ ہی میری شادی کرا دیں.آپ نے فرمایا اچھا میں کریمہ بنت کلثوم حمیری سے تمہاری شادی تجویز کرتا ہوں.( احمد ) 56 امر بالمعروف و نہی عن المنکر رسول کریم کوئی نا مناسب بات دیکھتے تو حتی الوسع اُسے روکنے کی سعی فرماتے تھے اور جیسا کہ آپ کا ارشاد تھا کہ اگر برائی کو ہاتھ سے روک سکتے ہو تو روکو.اس کی توفیق نہ ہوتو پھر زبان سے نصیحت کرو ورنہ کم سے کم دل سے روکو یعنی خود بھی اسے برا سمجھو اور اس کے لئے دعا کرو.(ترندی) 57 حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ اللہ کے چازاد حضرت فضل بن عباس رسول اللہ کی سواری کے پیچھے بیٹھے تھے.خشم قبیلہ کی ایک عورت کوئی مسئلہ دریافت کرنے آئی.فضل اس کی طرف اور وہ عورت ان کی طرف دیکھنے لگی.نبی کریم نے فضل کی گردن پکڑ کر ان کے چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ دیا.( بخاری ) 58 لیکن جہاں ہاتھ سے روکنا پسندیدہ نہ ہو وہاں رسول کریم نصیحت فرما کر فرض تبلیغ سے سبکدوش ہو جاتے تھے.وفات وغیرہ کے موقع پر نبی کریم بین یاواویلا کرنے سے منع فرماتے تھے لیکن چونکہ غم کی حالت میں جذبات پر انسان بعض دفعہ بے اختیار اور مغلوب ہو جاتا ہے اسلئے اس پہلو سے شفقت کا دامن جھکا کے رکھتے تھے.چنانچہ آپ کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار کی غزوہ موتہ میں شہادت کے موقع پر خود رسول اللہ کو سخت صدمہ تھا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ مسجد میں تشریف فرما تھے اور چہرہ سے غم کے آثار صاف عیاں تھے.میں دروازے کی درز سے دیکھ رہی تھی.ایک شخص نے آکر کہا کہ جعفر کی عورتیں رو رہی ہیں.آپ نے فرمایا انہیں منع کرو.وہ گیا اور تھوڑی دیر میں واپس آکر کہنے لگا کہ وہ میری بات تو نہیں مانتیں.آپ نے فرمایا دوبارہ انہیں جا کر منع کرو.تیسری دفعہ اس نے آکر پھر کہا کہ وہ تو ہم پر غالب آگئی ہیں یعنی کہنا نہیں مانتیں.آپ نے فرمایا ان کے مونہوں پر مٹی پھینکو یعنی انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں میں نے دل میں کہا اللہ تمہیں رسوا کرے رسول اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے وہ تو تم کر نہیں سکے پھر رسول اللہ کو تکلیف دینے سے بھی باز نہیں آتے ہو.( بخاری ) 59 ایک دفعہ آپ کے علم میں یہ بات آئی کہ بعض لوگ خواتین کو رات کے وقت نماز با جماعت کے لئے مسجد آنے سے روکتے ہیں تو آپ نے مردوں کو نصیحت فرمائی کہ اللہ کی لونڈیوں کو خدا کے گھروں میں آنے سے مت روکو.(ابوداؤد )60
303 آنحضرت سے بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل اسی طرح بعض مردوں کی یہ شکایت ملی کہ کہ وہ فَاضْرِبُوهُنَّ “ (یعنی ان کو مارو ) کی قرآنی رخصت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے عورتوں کو نا واجب زدو کوب کرتے ہیں تو آپ نے مردوں کو سمجھایا اور فرمایا کہ جولوگ بیویوں پر ہاتھ اُٹھاتے ہیں وہ اچھے لوگ نہیں ہیں.(ابو داؤد )61 خانگی امور کی اصلاح میاں بیوی کے خانگی تنازعات بھی رسول کریم کے پاس آتے رہتے تھے.رسول کریم ذاتی دلچسپی لے کر خانگی تنازعات میں مؤثر رنگ میں نصیحت کرتے اور اصلاحی کاروائی فرماتے تھے.صفوان بن معطل کی بیوی نبی کریم کے پاس آئی اور کہنے گی کہ میں روزہ رکھتی ہوں تو صفوان مجھے اس سے منع کرتا ہے.نماز پڑھتی ہوں تو مارتا ہے اور خود فجر کی نماز سورج طلوع ہونے کے بعد پڑھتا ہے.حضور نے اُسے بلوا کر پوچھا تو اُس نے کہا کہ روزے رکھنے سے منع کرنے کی بات تو درست ہے.میں نو جوان آدمی ہوں اور یہ روزہ رکھ کے بیٹھ جاتی ہے.( جس میں ازدواجی تعلقات ممنوع ہوتے ہیں) باقی رہی مارنے کی شکایت تو مطلق نماز پڑھنے کی وجہ سے میں اسے نہیں مارتا بلکہ اصل وجہ اور ہے یہ نماز کی ہر رکعت میں دو دو سورتیں پڑھ کر اسے لمبا کر دیتی ہے.رہی سورج نکلنے کے بعد فجر کی نماز پڑھنے کی بات تو میں سردرد کا دائگی مریض ہوں اور یہ ہماری خاندانی بیماری ہے.نبی کریم نے فریقین کی بات سن کر یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے اور جہاں تک ہر دو رکعت میں دو سورتیں پڑھنے کا تعلق ہے تو ایک سورت پڑھنے سے بھی نماز ہو جاتی ہے، بوجہ بیماری نماز تاخیر سے پڑھنے کے بارہ میں صفوان سے فرمایا کہ جب تمہاری آنکھ کھلے نماز ضرور پڑھ لیا کرو.(احمد )62 ایک دفعہ حضرت علی حضرت فاطمۃ الزہراء سے ناراض ہو گئے اور مسجد میں جاکر زمین پر لیٹ رہے.رسول کریم کو پتہ چلا تو ان کے پیچھے مسجد آئے تو دیکھا کہ دیوار کے ساتھ لیٹے ہیں اور پشت پر مٹی لگی ہے.رسول کریم مے نے کمال شفقت سے ان کی پشت سے مٹی جھاڑی اور اسی مناسبت سے ابوتراب کہہ کر انہیں پکارا جس کے معنے ہیں مٹی کا باپ اور فرمایا اٹھو.گھر چلو یوں محبت سے ان کی ناراضگی دور کروانے کے سامان کئے.( بخاری )63 خوشی غمی کے مواقع پر تربیتی ہدایات شادی بیاہ یا موت فوت کے مواقع بھی جذباتی اظہار کے مواقع ہوتے ہیں اور خدشہ ہوتا ہے کہ ایسے مواقع پر بد رسوم رواج پا جائیں.نبی کریم اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے.شادیوں میں اسراف نہ کرنے اور سادگی اختیار کرنے کیلئے آپ نے اپنی بیٹی فاطمہ کی شادی پر بھی یہی نمونہ دیا اور اپنی متعد د شادیوں کے موقع پر حسب حالات و موقع نہایت سادگی سے ولیمہ کی تقاریب کیں.حضرت صفیہ کا ولیمہ سفر خیبر سے واپسی پر ہوا جو کھجور اور پنیر پرمشتمل تھا.حضرت زینب کا مثالی ولیمہ جسے لوگوں نے یا درکھا اس میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سادہ گوشت روٹی کھلائی تھی.( بخاری 64)
304 آنحضرت ساله بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل موت فوت اور غم کے مواقع پر بھی حضور نے صبر کا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا.بالخصوص اپنے بیٹے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات، اپنے چچا حمزہ اور چازاد بھائی حضرت جعفر کی شہادت پر صبر کے بے نظیر نمونے پیش فرمائے.عورتوں کو بھی صدمہ کے موقع پر صبر کی نصیحت فرماتے تھے.خواتین کی تربیت کے لئے ان کے مطالبہ پر ہفتہ میں ایک دن ان کے لئے مقرر تھا.( بخاری )65 عیدین پر تمام خواتین کی حاضری رسول کریم نے ضروری قرار دی.اور فرمایا جن عورتوں نے بوجہ عذر شرعی نماز نہیں پڑھنی وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو جائیں.اس موقع پر حضور مردوں میں خطبہ کے بعد عورتوں کی طرف بھی تشریف لے جاتے اور انہیں وعظ فرماتے تھے.( بخاری ) 66 اس طرح رسول کریم خواتین کی تربیت کا خاص خیال رکھتے تھے.اس میں تربیت کا یہ راز مضمر تھا کہ اچھی تربیت یافتہ ما ئیں تربیت یافتہ نسلیں مہیا کریں اور دین و تقویٰ میں اپنی اولاد کے لئے بہترین نمونہ بنیں.چنانچہ حضرت زینب بنت ابی سلمہ سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ میں نبی کریم کی بیوی حضرت ام حبیبہ کے پاس حاضر ہوئی.وہ فرمانے لگیں کہ میں نے نبی کریم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتی ہے یہ جائز نہیں کہ وہ وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے.سوائے اپنے خاوند کے کہ جس کے لئے وہ چار ماہ دس دن ( عدت کے مطابق ) سوگ کرے گی.( یعنی آرائش اور بناؤ سنگھار سے پر ہیز کرے گی.) پھر میں زینب بنت جحش کے پاس آئی جب ان کا بھائی فوت ہوا.انہوں نے تیسرے دن کے بعد کچھ خوشبو منگوا کر لگائی.پھر فرمایا کہ مجھے اس خوشبو وغیرہ کی کوئی حاجت یا ضرورت نہ تھی مگر میں نے نبی کریم سے منبر پر سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے جس پر وہ چار ماہ دس دن سوگ کرے.( بخاری ) 67 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت کرنے کا ایک عمدہ پہلو یہ تھا کہ کسی امر کے بارہ میں شکایت ملتی تو غائب کے صیغے میں نام لئے بغیر عمومی نصیحت فرما دیتے.ایک دفعہ حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میرا خیال ہے فلاں فلاں آدمی ہمارے دین اسلام کی تعلیم کو صیح طرح سے نہیں سمجھتے.یہ منافق لوگ تھے جن کا ذکر فرمایا.(بخاری) 68 ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ایک لونڈی کو خرید کر آزاد کیا.لونڈی کے مالکوں نے یہ نا واجب شرط رکھ دی کہ اس لونڈی کی وفات پر اس کے ورثہ پر ان کا حق ہو گا.نبی کریم کو پتہ چلا تو آپ نے خطبہ ارشاد کیا اور فرمایا کہ کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو جو اللہ کے فیصلہ کے خلاف شرطیں لگاتے ہیں.ایسی شرطوں کی کوئی حیثیت نہیں.غلام یا لونڈی کا ورثہ آزاد کرنے والے کا ہوتا ہے.(اگر اس کی اپنی اولاد نہ ہو ).( بخاری ) 69
اسوہ انسان کامل 305 آنحضرت معه بحیثیت معلم و مربی اعظم موقع ظن سے بچنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت کے لئے ایک اصول یہ سکھایا کہ تہمت کے موقع سے بچنا چاہئے.حضور کا اپنا دستور بھی یہی تھا.ایک رمضان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے.حضرت صفیہ آپ سے ملنے آئیں.واپس جاتے وقت حضور ان کے ساتھ ہو لئے تا کہ گھر تک چھوڑ آئیں.راستہ میں دو انصاری صحابہ ملے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روک کر فرمایا یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی میرے ساتھ ہیں.انہوں نے نہایت تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم بھلا آپ کے بارہ میں کوئی غلط گمان کر سکتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں کوئی بات نہ ڈال دے.(بخاری)70 رسول کریم کی تربیت کا انداز بہت پیار تھا.آپ نے کبھی ڈانٹ ڈپٹ میں کسی کو برا بھلا نہیں کہا.ایسے موقع پر بس اتنا فرماتے اس کی پیشانی خاک آلود ہو اُسے کیا ہو گیا ہے.( بخاری ) 71 سی کلمہ بددعانہیں بلکہ ایک دعا کے رنگ میں ہوتا تھا کہ اسے توفیق اطاعت عطا ہو.نماز پڑھے.اللہ کے حضور سجدوں میں اس کی پیشانی خاک آلودہ ہو.انداز نصیحت ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا.ایک آدمی غصے سے دیوانہ ہوا جار ہا تھا.اس کا چہرہ پھول کر رنگ متغیر ہو گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت خود اسے بلا کر یا مخاطب کر کے نصیحت نہیں فرمائی بلکہ علم النفس کا ایک گہرا نفسیاتی نکتہ سمجھاتے ہوئے تعجب انگیز انداز میں فرمایا مجھے ایک ایسی دعا کا پتہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ پڑھے تو اس کا غصہ جاتا رہے.ایک شخص نے جو یہ سُنا تو اس آدمی کو جا کر بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِیمِ پڑھ لو.یعنی میں راندے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو غصہ دور ہو جائے گا مگر وہ کوئی گنوار بد و تھا.بدبخت نے یہ نسخہ استعمال نہ کیا اور کہا میں کوئی دیوانہ ہوں.( بخاری )72 کاش ! وہ شخص اس نسخہ کو آزماتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم النفس کا حیرت انگیز مجزہ اس کی ذات میں بھی ظاہر ہوتا لیکن اگر اس بد بخت بد و نے تو اس سے فائدہ نہیں اٹھایا ہم کیوں نہ یہ نسخہ آزمائیں.اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفیر امن تھے.لڑائی جھگڑا سخت نا پسند اور آپ کی طبیعت پر بہت گراں ہوتا تھا جس کا احساس آپ اپنے زیر تربیت صحابہ میں بھی اجاگر کرنا چاہتے تھے.ایک دفعہ رمضان کے آخری با برکت ایام میں بذریعہ رؤیا آپ کو لیلتہ القدر کی طاق رات کا علم دیا گیا کہ وہ کونسی
306 آنحضرت ماه بحیثیت معلم و مربی اعظم اسوہ انسان کامل رات ہے.آپ صحا بہ کو یہ خوشخبری سنانے آئے تو دیکھا کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑ رہے ہیں.آپ کی توجہ ان کی طرف ہوگئی اور اس رؤیا کا مضمون ذہن میں نہ رہا.آپ نے فرمایا کہ وہ رات تمہارے جھگڑے کے باعث مجھے بھلا دی گئی ہے اور شاید اس میں بھی حکمت ہو کہ تم لوگ اس کی تلاش میں زیادہ راتیں خدا کی عبادت میں گزارسکو.اس لئے اب اسے طاق راتوں میں تلاش کرو.( بخاری ) 73 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درشت طبع لوگوں کی تربیت بھی نرمی سے کرتے تھے.ایک دفعہ ایک شخص ملنے آیا جو رشتہ داروں سے بدسلوکی اور قطع رحمی کرتا تھا.آپ اس سے بہت نرمی سے پیش آئے.حضرت عائشہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا بد ترین لوگ وہ ہیں جن کی بدزبانی سے بچنے کے لئے لوگ ان سے جان بچائیں.( بخاری ) 74 حضرت ابو رافع بن عمر وغفاری بیان کرتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا انصار کے کھجور کے درختوں سے (کھجور گرانے کے لئے ) پتھر مارا کرتا تھا.انصار مجھے پکڑ کر نبی کریم کی خدمت میں لے گئے حضور نے پوچھا ( رافع !) تم کھجور کے درخت پر پتھر کیوں مارتے ہو؟ میں نے کہا بھوک کے مارے کھجور کھانے کے لئے ایسا کرتا ہوں.آپ نے مجھے سمجھایا کہ پتھر نہ مارا کرو.البتہ جو کھجور میں درختوں کے نیچے گری ہوں وہ اُٹھا کر کھا لیا کرو.پھر آپ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور یہ دعادی اللَّهُمَّ أَشْبِعُ بَطْنَهُ اے اللہ اس کے پیٹ کو بھر دے.(ابوداؤد )75 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں توحید کی تعلیم دی وہاں اپنے صحابہ کی تربیت میں بھی یک رنگی پیدا کرنے کی طرف توجہ فرمائی.آپ کو دوغلی طبیعت کے اور دوہرے چہرے رکھنے والے لوگ سخت نا پسند تھے جو موقع محل کے مطابق اپنا چہرہ بدل لیں.( بخاری ) 76 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا مطمح نظر یہ تھا کہ سب مسلمان بھائی بھائی بن جائیں اور ایک پر امن معاشرہ قائم ہو.آپ صحابہ کو تلقین فرماتے تھے کہ آپس میں بغض و حسد نہ رکھو اور نہ ہی کسی کی پیٹھ پیچھے بات کرو.اللہ کے بندے اور بھائی بھائی ہو جاؤ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے قطع تعلق رکھے.نیز فرماتے تھے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ دو بھائی ملیں تو ایک دوسرے سے رخ پھیر لیں.اگر کوئی ناراضگی ہو بھی تو بہترین شخص وہ ہے جو سلام میں پہل کر کے ناراضگی دور کرے.( بخاری ) 77 نبی کریم کی اس پاکیزہ تعلیم اور تربیت کے مجرب اصولوں کی روشنی میں عظیم تر بیتی انقلاب بر پا کیا جاسکتا ہے.شرط یہ ہے کہ اسوہ رسول مشعل راہ ہو.کہتے ہیں یورپ کے ناداں وحشیوں میں دین کا پھیلانا یہ کیا مشکل تھا معنی راز نبوت ہے اسی سے آشکار پر بنانا آدمی وحشی کو ہے اک معجزہ
اسوہ انسان کامل 1 بخاری(3) كتاب العلم باب 40 2 مسند احمد جلد 1 ص91 307 حواله جات 3 ترمذی(48) كتاب التفسير باب 34 4 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الشعراء باب 260 5 مسند احمد جلد2ص446 6 مسند احمد جلد 6 ص 298 7 مسند احمد بن حنبل جلد4ص358 ابوداؤد(9) كتاب الزكوة باب 37 9 مجمع الزوائد لهيثمى جلد 3 ص385 مطبوعه بيروت 10 بخاری(2) کتاب الایمان باب 9 11 بخاری(1) بدء الوحي باب 1 12 مسلم (46) کتاب البرو الصلة باب 10 13 بخاری (67) كتاب المغازی باب 36 14 ترمذی (33) كتاب القدر باب 7 15 بخاری(81) کتاب الادب باب 54 16 بخاری (95) کتاب تعبير الرؤياء باب 36 17 مسند احمد جلد 3 ص447 18 بخاری (68) كتاب التفسير باب 328 سورة الحجرات 19 بخاری(2) کتاب الايمان باب 33 20 مسلم (6) كتاب المساجد باب 8 21 بخاری (4) كتاب الوضو ء 57 22 مسند احمد جلد 2 ص 503 23 بخاری (81) كتاب الادب باب 27 24 مسند احمد جلد2 ص 70 25 بخاری(81) كتاب الادب باب 27 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم
اسوہ انسان کامل 308 26 مسند احمد بن حنبل جلد 5ص 256 27 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص576مطبوعه بيروت 28 ابن ماجه (5) کتاب اقامة الصلوة باب93 29 بخاری(3) كتاب العلم باب 8 30 بخاری(52) كتاب الشركة باب 6 31 بخاری (13) کتاب مواقيت الصلوة باب5 32 بخاری(3) كتاب العلم باب 50 33 مسلم (56) كتاب الزهد باب 10 34 بخاری(4) كتاب الوضوء باب74 35 مسلم (37) كتاب الاشربة باب 17 36 ابن ماجه (29) كتاب الاطعمه باب 7 37 بخارى (82) كتاب الاستئذان باب 39 38 بخاری (16) كتاب الصلوة باب 39 39 مسلم (37) كتاب الاشربة باب 37 40 مسلم (37) كتاب الاشربة باب 13 41 بخاری(30) كتاب الزكواة باب 35 42 بخاری(67) کتاب المغازى باب 9 43 بخاری (36) كتاب الصوم باب 35 44 بخاری(32) كتاب الحج باب 93 45 بخاری (32) كتاب الاعتكاف باب 14 46 بخاری(3) كتاب العلم باب 28 47 بخاری(3) كتاب العلم باب 11 48 بخاری(2) کتاب الايمان باب 31 49 بخاری(2) کتاب الايمان باب 11 50 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 49 51 مسند احمد بن حنبل جلد3 ص 14 52 مسند احمد جلد 3 ص 246 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم
309 اسوہ انسان کامل 53 مسند احمد جلد 2 ص 225 54 بخاری(67) کتاب المغازی باب75 55 مسلم (38) كتاب اللباس باب 34 56 مسند احمد بن حنبل جلد 5ص163 57 ترمذی (34) كتاب الفتن باب 11 58 بخاری(34) کتاب الا حصار باب 35 59 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 39 60 ابوداؤد (2) کتاب الصلوة باب 53 61 ابوداؤد(12) كتاب النکاح باب 43 62 مسند احمد جلد3 ص84 63 بخاری (81) كتاب الادب باب 113 64 بخاری(70) كتاب النكاح باب 69 65 بخاری(3) كتاب العلم باب 12 66 بخاری (19) کتاب العيدين باب 19 67 بخاری(29) کتاب الجنائز باب 30 68 بخاری(81) كتاب الادب باب 59 69 بخاری(58) کتاب الشروط باب 13 70 بخاری(81) کتاب الادب باب 121 71 بخاری(81) کتاب الادب باب 44 72 بخاری(81) کتاب الادب باب 44 73 بخاری (81) كتاب الادب باب 44 74 بخاری(81) كتاب الادب باب 48 75 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 94 76 بخاری (81) کتاب الادب باب 52 77 بخاری (81) كتاب الادب باب 62 آنحضرت له بحیثیت معلم و مربی اعظم
اسوہ انسان کامل 310 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جو دوسخا انفاق کی قرآنی تعلیم مذہب اور دین کی بنیادی غرض دو ہی امر ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی.انفاق کے معنے خرچ کرنے اور لٹانے کے ہیں.انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق زیادہ تر حقوق انسانی کی ادائیگی سے ہے.تاہم فقراء ومساکین کی ضروریات کے علاوہ تعلیم و تربیت اور اشاعت اسلام کے خرچ نیز ملک وقوم کے دفاع کی خاطر جہاد بالسیف کی تیاری اور اس کے اخراجات بھی اللہ کی راہ میں مالی جہاد کے قرآنی حکم کی ذیل میں آتے ہیں.اس پہلو سے انفاق کا تعلق حقوق اللہ سے بھی ہو جاتا ہے.اسلامی تعلیم میں زکوۃ اور صدقات پر بہت زور دیا گیا ہے.قرآن شریف میں مومنوں کی بنیادی صفت ہی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں (البقرۃ:4) نیز فرمایا کہ اے مومنو! تم وہ قوم ہو جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلائے گئے ہو مگر تم میں سے بعض بخل سے کام لیتے ہیں.پھران بخل کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ "اگر تم پھر جاؤ تو اللہ تمہاری جگہ ایک اور قوم لے آئے گا جو تمہاری طرح نہ ہوں گے.“ (سورۃ محمد : 39) اتفاق فی سبیل اللہ کے بارہ میں قرآن شریف کی خوبصورت تفصیلی اور جامع تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی اور مالک ہے.اس کے پاس بے شمار خزانے ہیں.اسے اموال کی کوئی ضرورت نہیں.انسان اس کے مقابل پر فقیر اور محتاج ہیں.اللہ تعالیٰ مومنوں کو ثواب پہنچانے اور ان کے فائدے کے لئے انہیں خرچ کرنے کی تحریک فرماتا ہے گویا ایک قسم کا قرض ہے جو بطور تجارت ان سے مانگا جاتا ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک اور اس سے بھی زیادہ بڑھا کر عطا فرماتا ہے.(سورۃ البقرۃ :262) اور خدا کی رضامندی اس کے علاوہ ہے.جبکہ استطاعت کے با وجود خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنا اللہ کو ناراض کرنے اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے.(سورۃ محمد : 39) قرآن شریف میں انفاق فی سبیل اللہ کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں چنانچہ فرمایا کہ اپنے پاکیزہ اموال اور بہترین کمائی میں سے خدا کی محبت کی خاطر وہ خرچ کرو جو تمہیں بہت پسند ہو.( سورۃ آل عمران : 93) پہلے اپنے قریبی رشتہ داروں کے حقوق احسان کے ساتھ ادا کر و یعنی والدین اولا د بیوی بچوں بھائی بہنوں اور دیگر رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا سلوک کرتے ہوئے خرچ کرو.یتامیٰ اور مساکین کے حقوق ادا کرو.( سورۃ البقرۃ: 216) خاموشی اور راز داری سے
اسوہ انسان کامل 311 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا اور غرباء کی عزت نفس قائم رکھتے ہوئے انہیں دو.جہاں ضرورت ہو دوسروں کو تحریک کے لئے اعلانیہ بھی خرچ کرو.(البقرہ: 275) خدا کی راہ میں کسی کو دے کر اور احسان جتا کر اپنی مالی قربانی بر باد نہ کر دو.(البقرہ: 265) سنت رسول اور ارشادات نبوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے اسلامی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے دریغ اپنے اموال خرچ کرنے کا بہترین نمونہ دیا ہے.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حضرت عائشہ کی روایت کے مطابق عین قرآن شریف کے مطابق تھے اور آپ کی پاکیزہ سیرت انفاق فی سبیل اللہ کے بارہ میں قرآنی تعلیم کی بہترین عکاسی کرتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنگی اور فراخی کے دونوں زمانے دیکھے جن میں آپ کے اخلاق کھل کر دنیا کے سامنے آئے.دونوں زمانوں میں ہی ہمیشہ آپ کی کیفیت ایسے مسافر کی سی رہی جو کچھ دیر کسی درخت کے نیچے آرام کرنے اور ستانے کے لئے ٹھہرتا ہے اور پھر اسے چھوڑ کر آگے روانہ ہو جاتا ہے.عارضی دنیا اور اس کے اموال سے آپ کو چنداں رغبت تھی.( بخاری )1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ اور صحابہ کی بھی اسی انداز میں تربیت فرماتے تھے.ایک دفعہ صحابہ کی مجلس میں ان سے مخاطب ہو کر فرمایا تم میں کوئی ایسا بھی ہے جسے (اپنے بعد میں ہونے والے ) وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ عزیز اور پیارا ہو.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو.آپ نے فرمایا ” تو پھر یا درکھو تمہارا اصل مال وہی ہے جو خدا کی راہ میں خرچ کر کے آگے بھجوا چکے ہو جو پیچھے باقی رہ گیا وہ وارثوں کا مال ہے.( بخاری )2 ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری ذبح کروائی اور اس کا گوشت غرباء میں تقسیم کروایا اور بعد میں پوچھا کہ کیا اس گوشت میں سے کچھ باقی بچا ہے.گھر والوں نے جواب دیا کہ سارا تقسیم کر دیا گیا ہے.اپنے لئے تھوڑا سا بچا ہے.فرمایا جو تقسیم کر دیا در اصل وہ بچ گیا ہے کہ اس کا اجر محفوظ ہو گیا اور جو بچ گیا ہے سمجھو کہ یہ ضائع ہو گیا.(ترمذی) 3 مدینہ میں رسول اللہ کے پاس بحرین سے مال آیا تو فجر کی نماز میں کثرت سے لوگ آئے.فرمایا ” میں تمہارے بارے میں فقر وغربت سے خائف نہیں ہوں بلکہ مجھے اندیشہ یہ ہے کہ دنیا تم پر فراخ کر دی جائے گی پھر تم کہیں پہلی قوموں کی طرح آپس میں مقابلے کرنے نہ لگ جاؤ اور اُن کی طرح تمہارا انجام نہ ہو.“ ( بخاری )4 مال سے بے رغبتی کے بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رجحان اور قلبی کیفیت کا اندازہ اس بیان سے ہو سکتا ہے فرمایا:.اگر میرے پاس اُحد کے برابر بھی سونا آ جائے تو مجھے خوشی اس میں ہوگی کہ اس پر تیسرا دن چڑھنے سے پیشتر اللہ کی راہ میں اسے خرچ کر دوں اور ضرورت سے زائد ایک دینار بھی بچا کے نہ رکھوں اور سارا مال خدا کی راہ میں دل
اسوہ انسان کامل 312 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا کھول کر یوں خرچ کر دوں اور لٹا دوں.آپ نے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہاتھوں کے اشارے کر کے بتایا.پھر فرمایا کہ جو لوگ زیادہ مالدار ہیں قیامت کے دن وہ گھاٹے میں ہوں گے.سوائے ان کے جو اس طرح دائیں بائیں آگے اور پیچھے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں.“ ( بخاری )5 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ میں بھی یہی روح پیدا فرمانا چاہتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ ” قابل رشک ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا اور پھر اس کے بر محل خرچ کرنے کی غیر معمولی توفیق اور ہمت بخشی.( بخاری )6 حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہترین صدقہ کی یہ تعریف فرمائی کہ وہ صدقہ جو صحت کی حالت میں ذاتی ضرورت کے باوجود ایسے وقت میں دیا جائے جب افلاس کا اندیشہ ہو اور غنا کی امید.ایسا صدقہ اجر میں سب سے بڑھ کر ہے.پھر آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ کہیں ایسا نہ ہو خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے کے لئے زندگی کے آخری لمحات کا انتظار کرتے رہو.جب جان کنی کا وقت آ جائے تو یہ فیصلے کرنے بیٹھو کہ اچھا اب اتنا فلاں کو دے دو اور اتنا فلاں کوی خری لمحوں کی اس دریا دلی کا کیا ثواب؟ جبکہ وہ مال پہلے ہی کسی اور کی ملکیت ہونے والا ہے.( بخاری )7 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ حدیث قدسی بھی سنایا کرتے تھے کہ اللہ فرماتا ہے ”اے ابن آدم ! خرچ کرتا رہ.میں تجھے عطا کرتا رہوں گا.( بخاری 8) نیز فرمایا کہ غنایا امارت دولت کی کثرت کا نام نہیں بلکہ اصل امارت تو دل کا غنا ہے.( بخاری )9 حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ اپنی نسبتی ہمشیرہ حضرت اسماء بنت ابو بکر کونصیحت فرمائی کہ اللہ کی راہ میں گن گن کر خرچ نہ کیا کرو.ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن گن کر ہی دے گا.اپنی روپوؤں کی تھیلی کا منہ ( بخل سے ) بند کر کے نہ بیٹھ جانا ورنہ پھر اس کا منہ بند ہی رکھا جائے گا ( یعنی اگر کوئی روپیہ اس سے نکلے گا نہیں تو آئے گا کہاں سے؟ ) جتنی طاقت ہے دل کھول کر خرچ کیا کرو.( بخاری ) 10 اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلی خوشی اور انشراح صدر کا جو عالم تھا وہ اس بات سے خوب عیاں ہے جو آپ نے بخیل اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کی مثال ان دو آدمیوں جیسی بیان فرمائی جنہوں نے لوہے کے دو جسے سینے سے گلے تک پہن رکھے ہوں، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والا جوں جوں خرچ کرتا جاتا ہے اس کا جبہ مزید کھلتا اور فراخ ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے تمام جسم حتی کہ انگلیوں کے پوروں تک کو ڈھانک لیتا ہے.( اور اس کا نشان تک مٹ جاتا ہے ) اور بخیل ہر دفعہ جب کچھ خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لوہے کے جبہ کے حلقے تنگ پڑتے جاتے ہیں وہ ان کو کشادہ کر نا چاہتا ہے.مگر کر نہیں پاتا.( یعنی سخت تنگی اور گھٹن کی کیفیت میں ہوتا ہے ).( بخاری ) 11
اسوہ انسان کامل 313 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا رسول کریم نے اپنے اصحاب کو سمجھایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے مال میں کس طرح برکت عطا کی جاتی ہے.آپ نے فرمایا کہ ایک شخص جنگل میں جارہا تھا اس نے ایک بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو جا کر سیراب کرو.وہ بادل ایک طرف ہٹ کر ایک میدان پر برسا جہاں سے ایک نالے میں بہنے لگا وہ شخص اس نالے کے ساتھ چلتا ہوا اس باغ تک جا پہنچا جہاں ایک شخص باغ میں کھیتوں کو پانی لگارہا تھا.اس نے اس کا نام پوچھا تو یہ وہی نام تھا جو اس نے بادل سے سنا تھا پھر اس نے پوچھا اے اللہ کے بندے! تو مجھ سے نام کیوں پوچھتا ہے؟ وہ بولا میں نے بادل میں یہ آواز سنی تھی.کہ فلاں کے باغ کو سیراب کرو.اب آپ بتاؤ کہ اس باغ سے کیا کیا کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا اب تم نے پوچھ ہی لیا ہے تو سنو اس کی پیداوار سے میں تیسرا حصہ صدقہ کر دیتا ہوں.تیسرا حصہ اپنے اور اہل وعیال کے لئے رکھتا ہوں اور تیسر ا پھر اسی کھیت کے پیج وغیرہ کے لئے رکھ چھوڑتا ہوں.(مسلم )12 آداب انفاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتفاق فی سبیل اللہ کے آداب بھی اپنے صحابہ کو سکھائے.آپ نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت دکھاوے یا ریاء سے کام نہیں لینا چاہئے.جو شخص ایسا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے گا یعنی اسے شہرت اور مقبولیت تو حاصل ہو جائے گی مگر اجر سے محروم ہوگا اور خدا کی رضانہ پاسکے گا.( بخاری) 13 راز داری سے صدقہ دینے والے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” قیامت کے روز جب خدا کی پناہ اور سائے کے سوا کسی کی پناہ کوئی کام نہ دے گی تو وہ صدقہ دینے والا خدا کی پناہ میں ہوگا، جس نے اتنی راز داری سے دائیں ہاتھ سے صدقہ دیا کہ بائیں ہاتھ تک کو خبر نہ ہوئی.“ (یعنی اس نے مکمل راز داری سے کام لیا ).( بخاری ) 14 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترجیحات بھی بیان فرما ئیں.اسی کے مطابق آپ خود بھی خرچ فرماتے تھے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ”بہترین مال وہ ہے جو ایک شخص اپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، پھر وہ مال جسے وہ اللہ کی راہ میں اپنی سواری پر خرچ کرے، پھر وہ مال جسے وہ اللہ کی راہ میں اپنے ساتھیوں پر خرچ کرے.( مسلم )15 آپ نے فرمایا کہ ایک مسلمان جب اپنے اہل و عیال پر ثواب کی نیت سے خرچ کرتا ہے تو وہ بھی اس کے حق میں صدقہ ( یعنی مالی قربانی) شمار ہوتا ہے.یہاں تک کہ اگر وہ ایک لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے تو وہ بھی اس کے حق میں نیکی شمار ہوتی ہے.“ ( بخاری ) 16 اسی طرح فرماتے تھے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو صدقہ دینے کا ثواب زیادہ ہوتا ہے بلکہ دوہرا ثواب ہوتا ہے.صدقہ کا ثواب الگ اور قرابت داری کا حق ادا کرنے کا اجر الگ.چنانچہ آپ نے بیوی کو خاوند پر صدقہ کرنے اور
اسوہ انسان کامل 314 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا باپ کو بیٹے پر صدقہ کی تحریک فرمائی.( بخاری ) 17 انفاق کی خاطر قناعت کی قربانی اتفاق فی سبیل اللہ کی اس پاکیزہ تعلیم پر ہر پہلو سے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ " نے عمل کر کے دکھایا.رحمان خدا کے اس عظیم بندے میں سب سے بڑھ کر یہ شان جھلکتی تھی کہ نہ اسراف کی طرف میلان تھا نہ بخل کی طرف رجحان ، بلکہ ایک کمال شانِ اعتدال تھی.چنانچہ گھر یلو زندگی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حسب حال سادگی اور قناعت کا طریق اختیار فرماتے تھے.یہ بھی انفاق فی سبیل اللہ کے لئے ایک قسم کی تیاری ہوتی تھی کہ خود تکلیف اٹھا کر اور قربانی کر کے بھی دینی ضروریات مقدم رکھی جائیں.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ تشریف لائے آپ کے خاندان نے کبھی مسلسل تین دن گندم کی روٹی نہیں کھائی، یہاں تک کہ آپ کی وفات ہوئی.نیز انہوں نے بیان کیا کہ ہمارا پورا پورا مہینہ اس حال میں گزر جاتا تھا کہ جس میں ہم آگ نہیں جلاتے تھے.کھجور اور پانی پر گزر بسر ہوتی تھی سوائے اس کے کہ کچھ گوشت ( بطور تحفہ ) کہیں سے آجائے.( بخاری ) 18 انسانوں میں سب سے بڑا سخی جہاں تک اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے اور لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کا سوال ہے.آپ سے بڑھ کر کوئی شاہ دل اور سنی نہ تھا.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں سب سنیوں سے بڑے سخی کے بارہ میں نہ بتاؤں؟ اللہ تمام سخاوت کرنے والوں سے بڑھ کر سخاوت کرنے والا ہے.پھر میں تمام انسانوں میں سے سب سے بڑا سخی ہوں.“ ( بیشمی )19 یہ محض آپ کا دعوی نہیں تھا بلکہ جس نے بھی آپ کی سخاوتوں اور فیاضیوں کے جلوے دیکھے وہ یہی رائے دینے پر مجبور ہوا.آپ کے چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس ( جنہیں بہت قریب سے آپ کے احوال مشاہدہ کرنے کا موقع ملا) نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان کے مہینہ میں اپنے انتہائی عروج پر پہنچ جاتی تھی ، جب جبریل آپ سے ملاقاتیں کرتے تھے اس وقت آپ کی سخاوت اپنی شدت میں تیز ندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی.( بخاری ) 20 رمضان وہ برکتوں والا مہینہ ہے جس میں نیکی کا ثواب عام دنوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہے.دوسرے اس ماہ میں جبریل کی ملاقاتوں کی وجہ سے رسول اللہ کی روحانی و علمی ترقیات میں اضافہ ہوتا تھا اور آپ زیادہ سے زیادہ صدقہ کرتے تھے.
اسوہ انسان کامل 315 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انفاق فی سبیل اللہ اور سخاوت کے انداز بھی بے شمار تھے.ہر چند کہ آپ دینی و قومی ضروریات کو مقدم رکھتے تھے.تاہم ابتدائی زمانہ میں کثرت سے کمزور اور غریب لوگوں کے قبول اسلام کے باعث ان کی امداد اور حاجت روائی بھی ایک نہایت ضروری شعبہ تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذاتی اور جماعتی دونوں لحاظ سے بہت توجہ دیتے تھے اور ایک بہت بڑا حصہ اموال کا اس پر خرچ ہوتا تھا.اس زمانہ میں مہمان نوازی کے لئے کوئی علیحدہ مرکزی انتظام نہیں تھا اس لئے آنے والے مہمانوں کی اولین ذمہ داری آپ کے اہل خانہ پر ہی ہوتی تھی.گھر یلو اخراجات کا ایک بہت بڑا حصہ آپ اس پر صرف فرما دیتے تھے.آپ ہمیشہ ضرورت مند کو اپنے اوپر ترجیح دیتے تھے.لوگوں کی ضرورتوں کا خود خیال رکھتے.سوال سے پہلے از خود مدد کرنے کی سعی فرماتے تھے.جب بھی کوئی سوالی آپ کے در پر تا تو کبھی خالی ہاتھ واپس نہ جاتا.آپ بطور ھبہ بھی عطا فرماتے اور بطور صدقہ بھی.گویا امیر وغریب آپ کی عطا سے فیضیاب ہوتے.احباب کو از خود بھی تحائف بھجواتے اور اُن کے تحائف کا بہتر بدلہ بھی عطا فرماتے تھے.اس کے علاوہ اور مختلف حیلوں سے بھی دیتے تھے.کبھی قرضہ لیا تو بوقت ادائیگی زیادہ دے دیا.کبھی کسی سے کوئی چیز خریدی تو قیمت زیادہ عطا فرما دی اور کبھی چیز اور قیمت دونوں ہی بخش دیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دل کھول کر خرچ کرنے کی یہ کیفیت آغاز جوانی سے ہی تھی.آپ خود حالت یتیمی سے گزرے اور کمزوری کا زمانہ دیکھا تھا ، اس لئے جونہی اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے آپ نے حسب توفیق غرباء کی مدد اور ہمدردی کا ایک سلسلہ شروع فرما دیا.مکہ کے ابتدائی دور میں دعویٰ نبوت سے پہلے کفار قریش کے ساتھ آپ معاہدہ حلف الفضول کے اسی لئے رکن بنے تھے تا غرباء کی حق تلفیوں کے ازالے میں معاون ہوسکیں.مکی دور میں مالی جہاد اور حضرت خدیجہ کی گواہی شادی سے قبل حضرت خدیجہ کے اموال تجارت سے جو منافع پایا اس سے بھی کوئی جائیداد نہیں بنائی ، نہ اپنی تجارت بڑھائی بلکہ اللہ کی راہ میں غرباء پر خرچ کر دیا.پھر حضرت خدیجہ سے شادی ہوئی انہوں نے اپنے تمام اموال اور غلام آپ کے سپرد کر دیئے.آپ نے اپنے غلام زید بن حارثہ کو آزاد کر دیا اور اموال خدا کی راہ میں بے دریغ خرچ کئے.چنانچہ جب پہلی وحی کے نئے تجربے پر آپ کو طبعاً گھبراہٹ ہوئی تو حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے جو کلمات کہے ان سے نہ صرف اس زمانہ میں آپ کے انفاق فی سبیل اللہ کی عادت ظاہر ہوتی ہے بلکہ خدا کی راہ میں آپ کے خرچ کے طریقے بھی کھل کر سامنے آتے ہیں.حضرت خدیجہ نے آپ کے پاکیزہ اخلاق پر یہ بے لاگ تبصرہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا.آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، غریبوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، جو نیکیاں مٹ چکی ہیں وہ آپ قائم کرتے ہیں، آپ مہمان نوازی کرتے اور حقیقی مصائب میں لوگوں کی امداد کرتے ہیں.( بخاری ) 21 رض
316 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا اسوہ انسان کامل بعض روایات میں ہے کہ ورقہ بن نوفل نے بھی پہلی وحی کا حال سن کر یہی گواہی دی تھی.اس سے خوب اندازہ ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے آپ کن کن راہوں میں خرچ کرتے تھے.ہجرت کے بعد آپ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ آ گئے تھے.آپ کا کوئی ذاتی ذریعہ آمد نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی جملہ ضروریات معاش کا ذمہ خود اٹھایا ہوا تھا.جیسے فرمایا کہ تمہارے رزق کا انتظام ہم خود کریں گے.(سورۃ طہ : 133) مدنی دور اور انفاق فی سبیل اللہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار مدینہ نہایت اخلاص اور ایثار سے ہدایا اور تحائف پیش کرتے رہے.کسی نے دودھ دینے والے جانور پیش کئے تو بعض نے کھجور کے درخت آپ کے لئے وقف کر دیئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو حسب ضرورت اپنے استعمال میں بھی لاتے اور ضرورت مند صحابہ کی حاجت روائی بھی فرماتے رہے.بعد میں جب 4 ہجری میں یہود بنی نضیر اپنی بد عہدی کے باعث مدینہ سے جلا وطن ہوئے تو ان کے کھجوروں کے باغات بطور شمس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تصرف میں آئے.آپ ان کے پھلوں کو فروخت کر کے اہل خانہ کے سال بھر کے اخراجات خوراک اور غلہ وغیرہ کا انتظام فرما لیتے تھے اور باقی مال جو ضرورت سے زائد ہوتا اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتے تھے.( بخاری )22 ہر چند کہ شمس یعنی اموال غنیمت کا پانچواں حصہ مکمل طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صوابدیدی اختیار پر تھا کہ اسے جیسے چاہیں دینی مقاصد کے لئے اپنی ذات اور اہل و عیال پر نیز رشتہ داروں، یتامی ، مساکین اور مسافروں پر خرچ کریں.مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال احتیاط سے اپنے لئے صرف ضروری سامان معاش پر ہی اکتفا کیا اور جو ضرورت سے بچ جاتا تھا خدا کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے حتی کہ اگلے دن کے لئے بھی بچا کے نہیں رکھتے تھے.(ترمذی)23 الغرض آپ نے اپنے لئے قناعت کا طریق ہی پسند فرمایا.اور فراخی کے زمانہ میں جب ازواج مطہرات نے بعض مطالبات کئے تو انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اختیار دیا کہ اگر وہ دنیا اور اس کی زینت کی خواہاں ہیں اور آپ کی طرح سادگی اور قناعت اختیار نہیں کر سکتیں تو بے شک مال و متاع لے کر آپ سے الگ ہو جائیں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کو مقدم رکھنا ہے تو ایسی نیک عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہترین اجر تیار کر رکھا ہے.(سورۃ الاحزاب : 29) بے شک ازواج النبی نے اپنے مقام کے مطابق اللہ اور اُس کے رسول کو ہی ترجیح دی ،مگر اس تنبیہ سے یہ مقصد کھل کر سامنے گیا کہ اموال کی کثرت کے نتیجہ میں اسراف نہ ہونے پائے.بعد میں ازواج مطہرات کے معقول وظائف بھی مقرر ہوئے اور انہوں نے بھی اسوۂ رسول کی روشنی میں اپنے اموال بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کئے.الغرض نبی کریم نے ہر حال عسرویسر میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام مدات میں دل کھول کر خرچ کر کے دکھایا.
اسوہ انسان کامل 317 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا حاجت مندوں کا خود خیال رکھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت مندوں کی ضروریات کا خود خیال رکھتے تھے.جیسا کہ قرآن شریف میں بیان ہے آپ چہرہ کے تار سے ہی ایسے لوگوں کو بھانپ لیتے تھے.(البقرة : 274) پھر ان کے سوال کرنے سے پہلے ہی از خود ان کی ضروریات ایثار کر کے بھی پوری فرماتے تھے.اصحاب صفہ اکثر آپ کے احسان و تلطف سے مستفیض ہوتے تھے.ان اصحاب اور حضرت ابوھریرہ کی مہمان نوازی کی وہ مثال کیسی ایمان افروز ہے جب فاقہ مست ابوھریرہ بھوک سے بد حال ایک قرآنی آیت کی تفسیر ابو بکر و عمر سے دریافت کرتے ہیں.مقصود یہ تھا کہ شاید وہ ان کے لئے اس آیت کی عملی تفسیر کے طور پر کچھ کھانے پینے کا سامان کر دیں.اتنے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ابوھریرہ کو دیکھ کر مسکرائے اور چہرہ دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ ابوھریرہ فاقہ سے ہے.آپ نے فرمایا ابو ہریرہ ! بھوک لگی ہے؟ چلو میرے ساتھ چلو.ابو ہریرہ ساتھ ہو لئے.آپ دودھ کا ایک پیالہ لائے اور فرمایا کہ جا کر اہل صفہ کو بھی بلا لاؤ.یہ وہ مستحق اور غریب لوگ تھے جو مسجد نبوی میں اقامت پذیر ہو کر قرآن وسنت کی تعلیم میں مصروف رہتے تھے.رسول اللہ اکثر ان کے لئے صدقات بھجوا دیتے اور تحائف میں بھی انہیں شریک کرتے.اس موقع پر بھی آپ ان اصحاب صفہ کو نہیں بھولے.پہلے انہیں دودھ پیش کیا پھر ابو ہریرہ کو خوب سیر کر کے خر میں خود نوش فرمایا.( بخاری )24 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو بھی نہیں دیکھا کہ صدقہ دینے کا کام کسی اور کے سپر دفرماتے ہوں بلکہ آپ خود سائل کے ہاتھ میں صدقہ رکھتے تھے.( ابن سعد ) 25 معذوروں کا خیال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی راہ میں اموال کی تقسیم کے وقت معذد و محتاجوں کا بھی خاص خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ کہیں سے کچھ کپڑے آئے جو آپ نے تقسیم فرمائے.مدینہ میں ایک نابینا ضرورت مند صحابی حضرت مخرمہ بھی ہوتے تھے.انہیں خبر ہوئی تو سخت ناراضگی کے عالم میں آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر کے باہر سے ہی پکارنے لگے کہ میرا حصہ کہاں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخرمہ کی آواز سنتے ہی پہچان گئے.گھر سے ایک قمیص اٹھائے باہر تشریف لائے.فرمایا اے مخرمہ مہم نے تو پہلے ہی تمہارے لئے یہ قمیص سنبھال کر رکھ لیا تھا.(بخاری) 26 مختلف حیلوں سے امداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم از راہ شفقت اپنے صحابہ کی ضروریات پر خود نظر رکھتے تھے.امدا د کرتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ ان کا احساس خود داری بھی مجروح نہ ہونے پائے اور دست سوال دراز کرنے کی بھی نوبت نہ آئے.آپ از خود حسب حالات وضرورت امداد کی سعی فرماتے.
اسوہ انسان کامل 318 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا ایک جاں نثار صحابی حضرت جابر بن عبداللہ کے ساتھ بھی ایسا ہی محبت بھرا معاملہ رسول اللہ نے فرمایا.جابر کے والد عبداللہ اُحد میں شہید ہوئے تو سات بہنوں کی پرورش کا بوجھ ان کے سر پر تھا.دوسری طرف والد کے ذمہ یہود مدینہ کا خاصا قرضہ بھی واجب الادا تھا.اسی دوران امور خانہ داری سنبھالنے کے لئے جابر کو اپنی شادی کا فیصلہ بھی جلد کرنا پڑا.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان جملہ حالات پر نظر تھی.آپ ان کی مدد بھی کرنا چاہتے تھے مگر یہ بھی جانتے تھے کہ جابر غیور اور خود دارنوجوان ہے.جلد ہی ایک غزوہ سے واپسی پر آپ نے اس کا موقع پیدا کر لیا.جائز کا اونٹ اچانک اڑ کر رک گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جاہڑ سے فورا اس اونٹ کا سودا طے کر لیا.مدینہ آ کر رسول کریم ﷺ نے اپنے خزانچی حضرت بلال کو اونٹ کی قیمت ادا کرنے کا ارشاد فرمایا.جب جابر وہ قیمت وصول کر کے جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر فرمایا کہ قیمت کے ساتھ اپنا اونٹ بھی واپس لیتے جاؤ.اس طرح اپنے ایک پیارے صحابی کی ضرورت کے وقت امداد بھی فرما دی اور اس کی عزت نفس بھی قائم رکھی.( بخاری ) 27 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت مند کی حاجت دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے اور جب تک حاجت روائی نہ فرما دیکھ لیتے چین نہ تا.مصر قبلے کا وفد یا تو انہیں ننگے پاؤں ، جانوروں کی کھالیں اوڑھے دیکھ کر اور ان کے چہروں پر فاقہ کے ٹار محسوس کر کے آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا.بے چینی میں اندر تشریف لے گئے ، پھر باہر آئے اور بلال کو حکم دیا کہ لوگوں کو جمع کریں.بلال کی منادی پر لوگ اکٹھے ہو گئے.آپ نے نہایت مؤثر وعظ فرمایا اور اس وفد کی امداد کی تحریک کی.صحابہ کرام نے مالی قربانی کی اس تحریک پر والہانہ لبیک کہا اور حسب توفیق ہر قسم کی ضرورت کا سامان حاضر کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دل کی مراد پورے ہوتے دیکھی تو مسرت سے آپ کا چہرہ تمتما نے لگا.(مسلم ) 28 ابواسید کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ سے جب بھی کوئی چیز مانگی گئی آپ نے کبھی انکار نہیں فرمایا.حضرت علی “ اس کی مزید وضاحت فرماتے تھے کہ جب آپ کسی سائل کا سوال پورا کرنے کا ارادہ فرماتے تو جواب میں ہاں فرماتے اور اگر آپ کا جواب نفی میں ہوتا تو خاموش رہتے.چنانچہ کبھی کسی کے لئے ”نہ“ کا کلمہ آپ کی زبان پر جاری نہیں ہوا.( ہیمی ) 29 کبھی کوئی ضرورت مند تا جس کی آپ مدد کرنا چاہتے اور پاس کچھ موجود نہ ہوتا تو اسے فرماتے کہ میرے وعدے پر اتنا قرض لے لو، جب ہمارے پاس مال آئے گا تو ہم ادا کر دیں گے.ایک دفعہ کسی ایسے موقع پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات کا حکم تو نہیں دیا جس کی آپ کو طاقت نہیں ہے.آپ نے حضرت عمر کی یہ بات پسند نہیں فرمائی.وہاں موجود ایک انصاری صحابی کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! آپ دل کھول کر خرچ کریں اور افلاس سے نہ ڈریں.رسول اللہ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ”مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے.“ ( ترمذی ) 30
اسوہ انسان کامل فراخدلی 319 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا رسول کریم ہمیشہ فراخدلی سے عطا کرتے تھے.ضرورت مند بعض دفعہ آپ سے اپنا حق سمجھ کر مانگتے تھے مگر آپ کبھی برا نہ مناتے.ایک دفعہ ایک بدو نے آپ سے دست سوال دراز کرتے ہوئے عجیب گستاخانہ طریق اختیار کیا.جو چادر آپ نے اوپر لی ہوئی تھی اسے اس نے اتنے زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر نشان پڑ گئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا مجھے اللہ کے اس مال میں سے عطا کریں جو آپ کے پاس امانت) ہے.آپ نے اس گنوار دیہاتی کے اس رویہ پر نہ صرف صبر وضبط اور حمل کا مظاہرہ کیا بلکہ نہایت فراخدلی سے مسکراتے ہوئے اس کی امداد کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا.( بخاری ) 31 حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ دو آدمی رسول کریم کی خدمت میں آئے اور اونٹ خریدنے کے لئے آپ سے مدد چاہی.آپ نے انہیں دو دینار عطا فرمائے.واپسی پر ان کی ملاقات حضرت عمر سے ہوئی اور انہوں نے رسول کریم کے اس احسان کی بہت تعریف کی اور شکریہ ادا کیا.حضرت عمر نے جا کر رسول کریم کو سارا ماجرا عرض کیا آپ نے فرمایا فلاں کو میں نے سو دینار تک دیے مگر اس نے تو ایسا شکر یہ ادا نہیں کیا.ایسے لوگوں میں سے ایک شخص جب مجھ سے سوال کرنے آتا ہے تو جو مجھ سے لے جاتا ہے وہ سوائے آگ کے کچھ نہیں ہوتا.حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ پھر آپ ان کو وہ آگ کیوں دیتے ہیں؟ رسول کریم نے فرمایا 'وہ لوگ سوال کرنے سے باز نہیں آتے اور اللہ تعالیٰ نے میرے لئے بخل منع فرما دیا ہے.(ابن عساکر (32) یعنی وہ اپنی خو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں؟“ بدی کے بدلہ میں نیکی ایک دفعہ ایک دیہاتی نے جب رسول کریم کے گلے کا پڑکا کھینچ کر آپ کو تکلیف پہنچائی اور اس طرح سخت کلامی کرتے ہوئے مانگا اور کہا کہ یہ مال نہ آپ کا ہے نہ آپ کے باپ دادا کا.اللہ کے اس مال میں جو ہمارا حق ہے وہ ہمیں دیں.آپ نے فرمایا کہ یہ تو ٹھیک ہے، لیکن اے اعرابی ! تم نے جو چادر کھینچ کر مجھے تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تو تم سے لیا جائے گا.وہ بے اختیار بول اٹھا، ہر گز نہیں.آپ نے فرمایا خرکیوں تم سے بدلہ نہ لیا جائے؟ اس نے کیسی صاف گوئی اور سادگی سے کہا.بدلہ نہیں ہو گا اس لئے کہ آپ ہمیشہ بدی کا بدلہ نیکی سے دیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اسے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر جو اور ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر کھجوریں عطا فرما کر رخصت کیا.(عیاض) 33 ایک دفعہ ایک بدو نے آکر اپنی ضرورت سے متعلق سوال کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب حال جو میسر تھا عطا فرما دیا.وہ اس پر سخت چیں بجبیں ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی بے ادبی کے کچھ کلمات کہہ گیا.صحابہ کرام نے سرزنش کرنا چاہی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا.آپ اس بدو کو اپنے ساتھ گھر لے گئے، اسے کھانا کھلایا اور مزید انعام واکرام سے نوازا.پھر پوچھا کیا اب راضی ہو؟ وہ خوش ہو کر بولا اب تو میں کیا میرے قبیلے
اسوہ انسان کامل 320 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا والے بھی آپ سے راضی اور خوش ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ میرے صحابہ کے سامنے بھی جا کر یہ اظہار کر دینا کیونکہ تم نے ان کے سامنے میرے ساتھ سخت کلامی کر کے ان کی دل آزاری کی تھی.جب اس نے صحابہ کے سامنے بھی اسی طرح اظہار کیا تو آپ نے فرمایا ”میری مثال اس اونٹ کے مالک کی طرح ہے جو اپنے اڑیل اونٹ کو بھی قابو کر لیتا ہے.میں بھی سخت مزاج لوگوں کو محبت سے سدھا لیتا ہوں.‘ بیٹمی ) 34 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح حسنین کے بعد بے شمار غنائم تقسیم فرما کر واپس تشریف لا رہے تھے کہ ایک جگہ بدوؤں نے گھیر لیا اور آپ سے اصرار کر کے مانگنے لگے.ان کے ہجوم کے باعث پیچھے ہٹتے ہٹتے آپ کی چادر کانٹوں میں الجھ کر رہ گئی.آپ عمال معصومیت سے ان سے اپنی چادر واپس طلب فرما رہے تھے، پھر فرمایا اگر مویشیوں سے بھری ہوئی یہ وادی بھی میرے پاس ہوتی تو میں تمہارے درمیان تقسیم کر دیتا اور تم مجھے ہرگز بزدل اور بخیل نہ پاتے.( بخاری ) 35 اپنی ضروریات پر دوسرے کو ترجیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انفاق فی سبیل اللہ میں ہمیشہ ضرورت مند کی خاطر اپنی ضرورت قربان کر کے بھی خدا کی راہ میں ) دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے لئے لباس کی ضرورت دیکھ کر ایک صحابیہ نے ایک خوبصورت چادر کڑھائی کر کے آپ کی خدمت میں نذر کی جو آپ کو بہت پسند آئی.چونکہ ضرورت بھی تھی ، آپ اندر گئے اور وہ چادر زیب تن فرما کر باہر تشریف لائے.ایک صحابی نے اس چادر کی بہت تعریف کی کہ آپ کو خوب بجتی ہے اور بہت خوبصورت لگ رہی ہے.آپ نے اسی وقت پھر پرانی چادر پہن لی اور نئی اس صحافی کو عطا فرما دی.کسی نے اس شخص سے کہا کہ تم نے کیوں مانگ لی.حضور کو ضرورت تھی اُس نے کہا میں نے بھی اپنے کفن کیلئے مانگی ہے.( بخاری ) 36 اس ایثار اور انفاق فی سبیل اللہ کے نتیجہ میں آپ کے اموال میں برکت بھی بہت عطا ہوتی تھی جس کے نتیجہ میں مزید مالی قربانی کی توفیق ملتی تھی.آپ اموال کی تقسیم میں اہل خانہ پر بھی دوسروں کو ترجیح دیتے تھے.ایک دفعہ کچھ قیدی آئے.حضرت فاطمہ کو پتہ چلا تو ایک خادم مانگنے حاضر ہوئیں اور رسول اللہ کو موجود نہ پا کر حضرت عائشہ کو اپنی ضرورت بتا کر گھر چلی گئیں.رسول اللہ تشریف لائے حضرت عائشہ نے آپ کی لخت جگر کا پیغام دیا کہ چکی پیس کر ان کے ہاتھ میں گئے پڑ گئے ہیں انہیں ایک خادم کی ضرورت ہے.آپ اسی وقت صاحبزادی فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ قیدی تو ضرورت مندوں میں تقسیم ہو چکے.آپ لوگ اللہ کی نعمتوں پر خدا کی تسبیح اور حمد کرو.سبحان اللہ الحمد للہ اللہ اکبر پڑھا کرو.یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے.( بخاری 37 ) اس میں پیغام تھا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد و شکر اور دعا کے نتیجہ میں تمہاری یہ ضرورت پوری ہوگی.ایثار اور انفاق کی برکت عبد اللہ بن عمر یہ ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم کے پاس دس درہم تھے.کپڑے کا تاجر
اسوہ انسان کامل 321 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدا وہ چلا گیا تو آپ نے وہ قمیص زیب تن فرما لیا.اچانک ایک حاجت مند یا.اس نے آ کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی قمیص عطا فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کے لباس میں سے کپڑے پہنائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی نیا قمیص اتار کر اسے دے دیا.پھر آپ دوکاندار کے پاس گئے اور اس سے ایک اور قمیص چار درہم میں خرید لیا.آپ کے پاس ابھی دو درہم باقی تھے.راستہ میں اچانک آپ کی نظر ایک لونڈی پر پڑی جو بیٹھی رو رہی تھی.آپ نے پوچھا کیوں روتی ہو؟ کہنے لگی یا رسول اللہ ! مجھے اپنے مالکوں نے دو درہم دے کر ٹا خرید نے بھیجا تھا اور ہم گم ہو گئے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو درہم اسے دے دیئے مگر وہ پھر بھی روتی جارہی تھی.آپ نے اسے بلا کر پوچھا کہ اب کیوں روتی ہو؟ وہ کہنے لگی اس خوف سے کہ گھر والے ( تاخیر ہو جانے کے سبب ) سزا دیں گے.آپ اس بچی کے ساتھ ہو لئے اور اس کے گھر تشریف لے گئے.گھر والے تو خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.کہنے لگے ہمارے ماں باپ آپ پر قربان آپ نے کیسے قدم رنجہ فرمایا ؟ آپ نے (تفصیل بتا کر فرمایا یہ آپ کی لونڈی ڈرتی تھی کہ آپ لوگ اسے سزا دو گے.اس کی مالکہ بولی کہ خدا کی خاطر اور آپ کے ہمارے گھر چل کر آنے کے سبب میں اسے آزاد کرتی ہوں.رسول کریم ﷺ نے اُسے جنت کی بشارت دی اور فرمایا ” دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہمارے دس درہموں میں کیسی برکت ڈالی ؟ ان درہموں میں اپنے نبی کو قمیص بھی عطا کر دی، ایک انصاری کے لئے بھی قمیص کا انتظام کیا اور ایک لونڈی کی گردن بھی آزاد کر دی.میں اللہ کی حمد اور تعریف کرتا ہوں جس نے اپنی قدرت سے یہ سب کچھ عطا فر مایا.“ ( بیشمی ) 38 جود وسخا کے حیرت انگیز نظارے فتوحات کے زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت کثرت سے اموال آئے مگر جیسا کہ آپ کی دلی خواہش تھی آپ نے دونوں ہاتھوں سے وہ مال خدا کی راہ میں لٹائے اور ایک درہم بھی اپنی ذات کے لئے بچا کر رکھنا پسند نہ فرمایا اللہ تعالیٰ پر آپ کا کامل تو کل تھا اور وہی ہر ضرورت میں آپ کا متکفل ہوتا تھا.ایک دفعہ آپ تعصر کی نماز پڑھا کر خلاف معمول تیزی سے گھر تشریف لے گئے.واپس آئے تو صحابہ نے اس جلدی کی وجہ دریافت کی.آپ نے فرمایا ” مجھے نماز میں خیال یا کہ سونے کا ایک ٹکڑا اتقسیم ہونے سے رہ گیا تھا.مجھے یہ بات گوارا نہ تھی کہ وہ ایک دن کے لئے بھی ہمارے گھر میں پڑا رہ جاتا.میں اسے تقسیم کر یا ہوں.“ (بخاری) 39 اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے آپ کامل ایمان رکھتے تھے کہ اللہ تعالی رازق ہے جس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہوتی.وہ خرچ کرنے پر عطا کرتا اور مال کو اور بڑھاتا ہے.ایک دفعہ آپ اپنے خادم اور خزانچی بلال کے پاس تشریف لائے اور کھجور کا ایک ڈھیر دیکھ کر استفسار فرمایا بلال ! یہ کھجور میں کیسی ہیں؟ بلال نے عرض کیا کہ آئندہ کے لئے ذخیرہ کرنے کا ارادہ ہے.آپ نے فرمایا کیا تم اس بات سے
322 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا اسوہ انسان کامل نہیں ڈرتے کہ اس ذخیرہ سے جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی ؟ پھر آپ نے بلال کو نصیحت فرمائی کہ اے بلال خدا کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاؤ اور افلاس سے مت ڈرو.(طبرانی) 40 حضرت موسیٰ بن انس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا گیا مگر آپ نے وہ عطا فرما دی.( مسلم )41 حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول کریم نے کچھ لوگوں کو مال عطا کیا اور ایک شخص کو چھوڑ دیا جو مجھے بہت پیارا تھا.میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ نے فلاں شخص کو مال نہیں دیا، میرے خیال میں تو وہ مومن ہے.حضور نے فرمایا (مومن) یا مسلمان؟ آخر میں سعد کے اصرار پر فرمایا ”اے سعد! میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرا شخص ( جسے میں نہیں دیتا ) مجھے زیادہ محبوب ہوتا ہے.مگر میں اس اندیشہ سے دیتا ہوں کہ نہ دینے سے کہیں اُس کو ایسی ٹھوکر نہ لگے جس کے نتیجہ میں اللہ اُسے آگ میں گرا دے.“ (بخاری) 42 ایک دفعہ آپ کے پاس ایک شخص یا، آپ نے بکریوں سے بھری ایک وادی اسے عطا فرما دی.(مسلم 43) اس نو مسلم عرب سردار نے آپ سے وادی کے درمیان زمین کا بھی مطالبہ کیا تھا.آپ نے زمین کی چراگاہیں اور بکریوں کے ریوڑ سمیت سب کچھ اسے یہ کر دیا.یہ واقعہ اس کے لئے معجزے سے کم نہ تھا.وہ شخص اپنی قوم کی طرف واپس لوٹا تو اس حیرت انگیز تاثر کا اظہار کئے بغیر نہ رہ سکا کہ اے میری قوم! تم سب مسلمان ہو جاؤ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تو اتنا دیتے ہیں کہ فقر وفاقہ سے بھی نہیں ڈرتے.( بیشمی )44 فتح مکہ اور فتح حنین کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو دو کرم کے حیرت انگیز نظارے مفتوح قوم نے بھی دیکھے.یہ انعام واکرام تالیف قلب کی خاطر تھا.ابن شہاب زہری بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حنین کے معرکہ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی.اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان بن امیہ کوسو اونٹ عطا فرمائے، پھر سو اونٹ دیئے ، پھر سو اونٹ دیئے.( گویا تین صد اونٹ عطا فرمائے ) صفوان خود کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جب یہ عظیم الشان انعام عطا فر مایا اس سے پہلے آپ میری نظر میں سب دنیا سے زیادہ قابل نفرت وجود تھے لیکن جوں جوں آپ مجھے عطا فرماتے چلے گئے ، آپ مجھے محبوب ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ آپ مجھے سب دنیا سے زیادہ پیارے ہو گئے.(مسلم) 45 اسی طرح سردار مکہ ابوسفیان، ان کے بیٹے معاویہ اور ایک اور قریشی سردار حارث بن ھشام کو بھی آپ نے سوسو اونٹ عطا فرمائے.بعض روایات کے مطابق یہ کل ساٹھ افراد تھے جن کو آپ نے تالیف قلب کی خاطر انعام واکرام سے نوازا.( عیاض ) 46 غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے چھ ہزار لوگ قیدی ہوئے تھے.اہل حسنین یہ درخواست لے کر آئے کہ ان کو آزاد کر دیا جائے.یہ غلام تقسیم ہو چکے تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا اور انہیں تحریک فرمائی کہ ان غلاموں کو
323 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا اسوہ انسان کامل آزاد کر دیا جائے اور وعدہ فرمایا کہ جو شخص اپنے غلام کے عوض آئندہ اپنا حق لینا چاہے وہ اسے ادا کر دیا جائے گا.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش پر تمام مسلمانوں نے بخوشی ان چھ ہزار غلاموں کو آزاد کر دیا.( بخاری )47 غلاموں کی آزادی کا وہ نظارہ بھی کیا عجیب ہو گا.جب وہ آزاد ہو کر گلیوں میں دوڑتے پھرتے ہوں گے.حاتم طائی کی سخاوت عرب میں ضرب المثل تھی.مگر ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کا عرب کے اس سب سے بڑے بھی پر بھی احسان ہے.فتح حنین کے بعد جب حاتم کے قبیلہ کے قیدی رسول کریم کی خدمت میں پیش ہوئے تو ان میں ایک بہت حسین و جمیل اور خوبصورت دوشیزہ بھی تھی.راوی کہتا ہے کہ اسے دیکھتے ہی انسان اس پر فریفتہ ہوتا تھا میں نے دل میں سوچا کہ رسول کریم سے عرض کرونگا کہ یہ مجھے عطا فرما دیں مگر جب اس لڑکی نے رسول کریم سے گفتگو کی تو حسن و جمال سے کہیں بڑھ کر اس کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر میں دنگ رہ گیا.اس نے کہا اے محمد ! آپ ہمیں آزاد کر دیں تاقید کی ذلت ہمارے دشمن قبائل کے لئے موجب شماتت نہ ہو.خود میرا باپ دوسروں کی پناہ کا بہت احترام کرتا تھا.قیدیوں کو آزاد کرتا تھا.بھوکے کو کھانا کھلاتا تھا.ننگے کو لباس مہیا کرتا تھا، مہمان کی مہمان نوازی کرتا اور کھانا کھلاتا تھا.سلام کو عام کرتا تھا اور کسی ضرورت مند کو خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹا تا تھا.میرے اس عظیم باپ کا نام حاتم طائی تھا.نبی کریم نے فرمایا اے لڑکی! یہ تمام خوبیاں جو تم نے بیان کیں ایک سچے مومن میں پائی جاتی ہیں.کاش تمہارا باپ ہمارا زمانہ پا کر اسلام قبول کرنے کی توفیق پاتا.ہم اس سے محبت والفت سے پیش آتے اور اس پر بہت لطف و کرم کرتے پھر آپ نے فرمایا اس لڑکی کو آزاد کر دو.یہ اس باپ کی بیٹی ہے جو اعلیٰ اخلاق پسند کرتا تھا اور خدا کو بھی عمدہ اخلاق بہت پسند ہیں.ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! کیا خدا بھی اعلیٰ اخلاق پسند کرتا ہے؟ رسول کریم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جنت بھی حسن خلق سے ملتی ہے.(بیہقی ) 48 عرب قبائل کے قبول اسلام میں ایک روک مکہ ومدینہ کے درمیان جنگ تھی.وہ انتظار میں تھے کہ دیکھیں فتح کس کو ہوتی ہے؟ فتح مکہ کے بعد یہ قبائل دھڑا دھڑ وفود کی صورت میں مدینہ آکر اسلام قبول کرنے لگے.اس لئے 9ھ کا سال عام الوفود بن گیا.یہ وفود بھی نبی کریم اللہ کے جو دو سخا اور انعام واکرام سے فیضیاب ہوتے رہے.9ھ وفد تجیب مدینے آیا یہ تیرہ افراد تھے جو مال زکوۃ بھی ساتھ لائے تھے.رسول کریم ان کی آمد سے بہت خوش ہوئے.آپ نے انکو خوش آمدید کہا اور باعزت رہائش کی جگہ انہیں مہیا فرمائی اور بلال کو حکم دیا کہ ان کے لئے ضیافت اور تحائف کا بہترین انتظام کرے.اور ان لوگوں کو آپ نے اس سے کہیں زیادہ عطا فر مایا جو آپ بالعموم وفود کو انعام واکرام سے نوازتے تھے.اس کے بعد پوچھا آپ میں سے کوئی انعام لینے سے محروم تو نہیں رہ گیا.انہوں نے کہا ہمارا ایک کم سن بچہ پیچھے خیمہ میں ہے.فرمایا اُسے بھی لاؤ.وہ آیا تو کہنے لگا کہ میں بنی ابزئی میں سے ہوں اور میرے قبیلے کے لوگوں کی مرادیں آپ نے پوری فرمائی ہیں میری حاجت بھی پوری کریں.رسول اللہ نے فرمایا.اپنی حاجت بیان کرو.کہنے لگا.اللہ سے دعا کریں کہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کرے اور میرے دل میں غنا پیدا کر دے.آپ نے اسی وقت یہ
اسوہ انسان کامل 324 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا دعا کی اے اللہ اسے بخش دے، اس پر رحم کر اور اسکے دل میں غنا پیدا کر دے.پھر وہ لوگ واپس چلے گئے اور حج کے موقع پر 10 ھ میں دوبارہ آئے.نبی کریم کا حسن تذکر کہ آپ نے ان سے اس بچے کے بارے میں پوچھا.تو سب نے گواہی دی کہ ہم نے اس جیسا خوش نصیب اور اس سے زیادہ قانع آج تک نہیں دیکھا.اللہ تعالیٰ کے اس پر بے شمار فضل ہیں.(ابن سعد ) 49 فروہ بن مسیک مرادی شاہان کندہ کی اطاعت چھوڑ کر رسول کریم کی اطاعت قبول کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.رسول کریم نے اسے بارہ اوقیہ سونا ، ایک عمدہ قسم کا اونٹ اور ملک عمان کی بنی ہوئی پوشاک انعام عطا فرمائی.اور اسے مُراد قبیلہ پر امیر مقرر فرمایا.(ابن سعد ) 50 10 ھ حجۃ الوداع کے سال میں وفد محارب آیا اور اسلام قبول کیا.سیکی دور میں اُن سے بڑھ کر کسی نے رسول اللہ سے درشتی اور سخت زبانی نہیں کی تھی مگر ان سے بھی رسول اللہ نے حسن سلوک فر مایا اور دیگر وفود کی طرح انہیں انعام و اکرام سے نوازا.(ابن سعد ) 51 فتح مکہ کے بعد نبی کریم کی خدمت میں مختلف قبائل عرب کے وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا.ہر چند کہ یہ لوگ اسلام کی شان و شوکت پر متاثر ہو کر اپنے قبائل اور علاقوں کی نمائندگی میں مزید جستجو تحقیق حق کے لئے مدینہ حاضر ہوتے تھے مگر نبی کریم کے اخلاق فاضلہ آپ کے حسن و احسان اور لطف و کرم کے نتیجہ سے ایسے گرویدہ ہوتے کہ اکثر اسلام قبول کر لیتے.یہ وفود عرب بھی اپنے قبائلی رواج کے مطابق مختلف تحائف اور علاقائی سوغاتیں لے کر حاضر خدمت ہوتے تھے.نبی کریم قرآنی حکم کے مطابق ان کو جوابا بہترین تحائف بھی عطا فرماتے تھے.وفد دار تین کی آمد پر بھی یہی ہوا انہوں نے کچھ تحائف پیش کئے جن میں سے بعض تو آپ نے رکھ لئے بعض واپس فرمائے.ان تحائف میں ایک ریشمی قباء بھی تھی جس پر سونے کے بٹن تھے.وہ رسول کریم نے اپنے چچا حضرت عباس کو دیدی.جو حضرت عباس نے ایک یہودی کو آٹھ ہزار درہم میں بیچی.وفد کے ایک نمائندے تمیم نے عرض کیا کہ ہمارے پڑوس میں رومی سلطنت ہے وہاں کے دو شہر حیر کی اور بیت عینون ہیں.اگر اللہ تعالیٰ آپ کو ملک شام کی فتح عطا فرمائے تو یہ بستیاں ہمیں عطا فرما ئیں.نبی کریم نے کمال یقین اور دریادلی سے فرمایا یہ تمہاری ہوئیں.چنانچہ حضرت ابو بکر کے زمانہ خلافت میں جب یہ علاقے فتح ہوئے تو انہوں نے تمیم کو یہ بستیاں عطا کیں اور انہیں ایک تحریر بھی لکھ کر دی.یہ وفد رسول کریم کی وفات تک مدینہ میں رہا.آپ نے ان کو ایک سووسق کھجور قریباً ( دوصد پچیس من ) دینے کی ہدایت فرمائی تھی.( ابن سعد ) 52 ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ستر ہزار درہم آئے.یہ سب سے زیادہ مال تھا جو کبھی آپ کے پاس یا.یہ در ہم آپ نے ایک چٹائی پر رکھوائے.پھر آپ وہ بانٹنے کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو تقسیم کر کے دم لیا.اس
325 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا اسوہ انسان کامل دوران جو سوالی بھی یا، اُسے آپ نے عطا کیا.یہاں تک کہ وہ چٹائی صاف ہوگئی.( ابن الجوزی 53 ) دوسری روایت میں نوے ہزار درہم تقسیم کرنے کا ذکر ہے.اس روز ہر سائل کو عطا کیا.(ابن سید ) 54 عبداللہ ھوز نی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے حضرت بلال سے پوچھا کہ حضرت نبی کریم کے اخراجات کیسے پورے ہوتے تھے؟ بلال نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو مبعوث کیا اس وقت آپ کے پاس کوئی مال نہیں تھا.میں وفات تک آپ کے ساتھ رہا.آپ کے پاس جب کوئی ضرورت مند تا تو مجھے حکم دیتے.میں اس کے لئے قرض لے کر کپڑے وغیرہ خرید دیتا اور کھانا وغیرہ کھلاتا.ایک دفعہ ایک مشرک نے کہا کہ کسی اور کی بجائے مجھ سے ہی قرض لے لیا کرو.جب اس کا قرض زیادہ ہوا تو وہ بہت سختی سے تقاضا کرنے لگا.یہاں تک کہ میں نے شہر چھوڑ کر بھاگ جانے کی تیاری کر لی.مگر اگلے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے علی اصبح بلاوا گیا.حضرت بلال فرماتے ہیں کہ میں حاضر ہوا.کیا دیکھتا ہوں کہ چار اونٹ سامان طعام اور لباس سے لدے ہوئے ہیں جو فدک کے سردار نے آپ کو بھجوائے تھے.حضور نے فرمایا اے بلال اللہ تعالیٰ نے تمہاری ادائیگی کا انتظام کر دیا.اب قرض ادا کر دو.چنانچہ قرض ادا ہوا اور کچھ بیچ بھی رہا.آپ نے فرمایا میں گھر نہیں جاؤں گا جب تک کہ تم یہ مال بھی تقسیم نہ کر دو.جب رات تک کوئی سائل نہ یا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رات مسجد میں گزاری.اگلے دن جب بلال نے بتایا کہ اب مال تقسیم ہو چکا ہے تو آپ اطمینان سے اپنے اہل خانہ کے پاس تشریف لے گئے.(ابوداؤد ) 55 بخشش و عطا کے مواقع کی تلاش رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن شریف کی تعلیم کے مطابق تحفہ قبول کر کے جواب میں ( حسب حال ) بہتر تحفہ دینے کی کوشش فرماتے تھے.ربیع بنت معوذ " بیان کرتی ہیں کہ میرے والد نے مجھے تازہ کھجوروں کا ایک طشت اور کچھ لکڑیاں دے کر حضور کی خدمت میں ( تحفہ ) پیش کرنے کے لئے بھجوایا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوٹی کڑیاں بہت پسند تھیں.اس زمانہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین کے علاقے سے کچھ زیورات آئے ہوئے تھے آپ نے مٹھی بھر زیور ربیعہ کو عطا فرمایا.دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ بھر کر سونے کا زیور بیٹہ کو دیا اور فرمایا یہ زیور پہن لو.( ہیمی ) 56 حسن ادائیگی ایک دفعہ نبی کریم نے ایک اونٹ کسی سے بطور قرض لیا، واپس کرتے وقت اس سے اچھا اونٹ لوٹایا اور فرمایا تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو ادائیگی میں بہتر طریق اختیار کرتے ہیں.(ترندی 57) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھ سے قرض لیا اور واپس کرتے ہوئے بڑھا کر عطا فرمایا.( بخاری ) 58 ایک دفعہ ایک یہودی نے واپسی قرض کا تقاضاذ رافتی اور گستاخی سے کیا.حضرت عمرؓ نے جوابا اُسے کچھ سخت ست کہا
اسوہ انسان کامل 326 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا تو آپ نے منع فرما دیا اور انہیں حکم دیا کہ اسے قرض بھی ادا کریں اور کچھ زیادہ بھی دے دیں.آپ کا یہ حلم دیکھ کر اس شخص نے اسلام قبول کر لیا.( حاکم ) 59 عطاء نبوی کی نرالی شان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا اور بخشش کی ایک نرالی شان جو اور کہیں نظر نہیں آتی یہ ہے کہ آپ کی عطا کے سلسلے آپ کی وفات کے بعد بھی جاری رہے جس کی ایک مثال جابر بن عبداللہ کا یہ واقعہ ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین سے مال یا تو میں آپ کو ایسے ایسے اور ایسے دوں گا (یعنی بہت دوں گا ).نبی کریم ﷺ بحرین کا مال آنے سے پہلے ہی وفات پاگئے.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں وہ مال یا تو انہوں نے اعلان کروایا کہ کسی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرض یا وعدہ ہو تو وہ آکر لے لے.حضرت جابر نے عرض کیا کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال بحرین آنے پر اس اس طرح دینے کا وعدہ فرمایا تھا.حضرت ابوبکر نے دونوں ہاتھ بھر کر مجھے درہم عطا فرمائے اور ارشاد فرمایا کہ اب ان کو شمار کرو، وہ پانچ سو درہم نکلے.آپ نے فرمایا اس سے دگنے ( یعنی ایک ہزار ) مزید لے لو، تا کہ رسول اللہ کا وعدہ تین مرتبہ دینے کا پورا ہو جائے.(مسلم) 60 آخری پونجی بھی صدقہ کر دی حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے سات دینار حضرت عائشہ کے پاس رکھوائے ہوئے تھے.آخری بیماری میں فرمایا کہ اے عائشہ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا وہ کیا ہوا ؟ عرض کیا میرے پاس ہے.فرمایا صدقہ کر دو.پھر آپ پر غشی طاری ہوگئی اور حضرت عائشہ آپ کے ساتھ مصروف ہو گئیں.جب ہوش آئی تو پھر پوچھا کہ کیا وہ سونا صدقہ کر دیا ؟ عرض کی ، ابھی نہیں کیا.آنحضور نے تین بار دریافت فرمایا اور پھر ہوش آنے پر آپ نے وہ دینار منگوا کر ہاتھ پر رکھ کر گئے اور فرمایا محمد کا اپنے رب پر کیا گمان ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے وقت یہ دینا ر اس کے پاس ہوں.پھر وہ دینار حضرت علی کو دئے تا کہ وہ انہیں صدقہ کر دیں اور اسی روز آپ کی وفات ہوگئی.( بیشمی ) 61 الغرض رسول اللہ کے جو دو ستا پر مولانا روم کا وہی شعر صادق آتا ہے کہ بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل او نے بُو د نے خوا ہند بود کہ رسول اللہ اس لئے خاتم ٹھہرے کہ مثلاً سخاوت میں نہ آپ جیسا کوئی ہوا، نہ ہوگا.
اسوہ انسان کامل 327 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 3 حواله جات نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود و سخا 2 3 4 LO 5 6 7 8 9 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 12 ترمذی (38) کتاب صفة القيامة باب 6 بخاری (67) کتاب المغازى باب 14 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 14 بخاری (30) كتاب الزكواة باب 5 بخاری (30) كتاب الزكواة باب 10 بخاری (72) كتاب النفقات باب 1 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 15 10 بخاری (30) كتاب الزكواة باب 20 11 بخاری(30) کتاب الزكواة باب 27 12 مسلم (56) كتاب الزهد والرقائق باب 5 13 بخاری (84) کتاب الرقاق باب 36 14 بخاری (30) كتاب الزكواة باب 12 15 مسلم (13) كتاب الزكواة باب 13 16 بخاری (72) كتاب النفقات باب 2 17 بخاری(72) کتاب النفقات باب 2 18 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 17 19 مجمع ا الزوائد و منبع الفوائد از علامه هیثمی جلد 9 صفحه 13 بيروت 20 بخاری (36) كتاب الصوم باب 7 21 بخاری (1) کتاب بدء الوحي باب 1 22 بخاری(72) كتاب النفقات باب 3 23 ترمذی (37) كتاب الزهد باب 38
اسوہ انسان کامل 328 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا 24 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 17 25 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 370 بيروت 26 بخاری (80) كتاب اللباس باب 11 27 بخاری (60) كتاب الجهادباب 49 28 مسلم (13) كتاب الزكواة باب 12 29 مجمع الزوائد هيثمى جلد 9ص 13 بيروت 30 شمائل الترمذی باب ماجاء في خلق رسول الله 31 بخاری (61) كتاب الفرض الخمس باب 1 32 مختصر تاریخ دمشق جلد 2 ص 210 33 الشفاء بتعريف حقوق المصطفی قاضی عیاض ص140 بحواله بيهقى بيروت 34 مجمع الزوائد هيثمى جلد 9ص 15 بيروت 35 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 24 36 بخاری(29) كتاب الجنائز باب 28 37 بخاری (72) کتاب النفقات باب 6 مجمع الزوائد هيثمي جلد 9ص 14 بيروت 38 39 بخاری (30) کتاب الزكواة باب 19 40 المعجم الكبير لطبراني جلد 1 ص 325 بيروت 41 مسلم (44) كتاب الفضائل باب 14 42 بخاری(2) کتاب الایمان باب 17 43 مسلم (44) كتاب الفضائل باب 14 44 مجمع الزوائد هيثمى جلد 8ص572 بيروت 45 مسلم (44) کتاب الفضائل باب 14 46 الشفاء للقاضی عیاض ج 1 ص 145 مطبوعه بيروت 47 بخاری (67) کتاب المغازی باب 51 48 دلائل النبوة للبيهقى جلد 5 ص 341 49 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص323دارالفكر بيروت 50 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 327دارالفكر بيروت
اسوہ انسان کامل 329 نبی کریم کا انفاق فی سبیل اللہ اور جود وسخا 51 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص299دارالفکر بيروت 52 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد7ص407 53 الوفاء باحوال المصطفى ابن الجوزى ص 447 بيروت 54 عيون الاثر لا بن سیدالناس جلد2ص329 55 سنن ابی داؤد (20) كتاب الخراج باب 35 56 مجمع الزوائد للهيثمى جلد 8 صفحه 572 بيروت 57 ترمذی (12) ابواب البيوع باب 75 58 بخاری (48) کتاب الاستقراض باب 7 59 مستدرك حاكم جلد 3 صفحه 700 60 مسلم (44) کتاب الفضائل باب 14 61 مجمع الزوائد للهيثمي جلد 3 ص 308 مطبوعه بيروت الوفا جلد 2 ص 6
اسوہ انسان کامل 330 نی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی نبی کریم ع کا خُلق ، مہمان نوازی اسلام میں مہمان نوازی کی حسین تعلیم اسلام کی تعلیم میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے.دیگر اقوام اور مذاہب عالم کے بالمقابل مہمان نوازی کی اسلامی تعلیم بھی اپنی تفاصیل کے ساتھ نہایت اعلیٰ اور ارفع ہے.اسلام سے قبل عربوں میں بھی مہمان نوازی کا دستور تھا مگر بالعموم اس سے شہرت اور دکھاوا مقصود ہوتا کیونکہ اچھے مہمان نواز کو عرب شاعر آسمان شہرت کا ستارہ بنا کر پیش کرتے ہیں.قرآن شریف میں اجنبی مسافر سے بھی احسان کی تعلیم دی گئی ہے.آنحضرت نے بھی اکرام ضیف کا تاکیدی ارشاد فرمایا کہ مہمان کی عزت اور اس کا حقیقی احترام کیا جائے.کھانا پیش کرنا تو مہمان نوازی کا ایک پہلو ہے.اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے بندوبست کے ساتھ اس کے جذبات کا خیال رکھنے ، اس کی ادنی ادنی ضروریات کی دیکھ بھال، اس کی بے لوث خدمت اور خاطر تواضع ، اس کے لئے ایثار اور قربانی کے جذبہ کی تعلیم دی ہے.نیز خود بھوکا رہ کر مہمان کو سیر کر کے خوش ہونے نیز بلا تکلف اور بغیر کسی طمع ، صلہ اور ستائش کی تمنا کے مہمان کی ضروریات خوش دلی اور خندہ پیشانی سے پوری کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.ہمارے آقا اور سید و مولیٰ نے مہمان نوازی کو ایمان کی علامت ٹھہرایا ہے اور حق یہ ہے سب سے بڑھ کر یہ خلق آپ کے اندر پایا جاتا تھا کہ اول المؤمنین جو تھے.آپ نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب بھی سکھائے.فرمایا تین دن تک مہمان نوازی مہمان کا حق ہے.(ابن ماجہ ) آپ مہمان کے ساتھ آخر تک کھانے میں شریک رہنے کی تلقین فرماتے تھے تا کہ اسے کسی قسم کی خجالت و ندامت نہ ہو کہ وہ اکیلا کھا رہا ہے.(ابن ماجہ (2) آپ نے مہمان کو الوداع کرتے ہوئے مہمان کی عزت کی خاطر اس کے ساتھ گھر کے دروازے تک تشریف لے جا کر ایک اعلیٰ نمونہ قائم فرمایا.(ابن ماجہ ) 3 الغرض آنحضرت ﷺ کی سیرت اکرام ضیف اور مہمان نوازی کے لحاظ سے نہایت خوبصورت نمونے پیش کرتی ہے.ابتدا ہی سے یہ اعلیٰ وصف آپ کے اخلاق حمیدہ کا لازمی جزو تھا.چنانچہ پہلی وحی کے موقع پر حضرت خدیجہ نے آپ کو حوصلہ دلاتے ہوئے بے ساختہ جن تاثرات کا اظہار آپ کے بارے میں کیا اس میں یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہیں کرے گا آپ تو مہمان نوازی کرتے ہیں اور حقیقی مصائب میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.( بخاری )4 مہمان نوازی کے بارہ میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کا یہ پہلو بھی نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے حکماً آپ سے کہلو اياقُلْ مَا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَّ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (سورۃ ص : 87) کہ تو کہہ دے میں تم
331 اسوہ انسان کامل نبی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں.پس نہ آپ مہمان بن کر تکلف کرتے تھے ،نہ میزبان ہو کر کبھی آپ نے تکلف سے کام لیا.اسی طرح مہمان نوازی کے عوض آپ گوئی صلہ نہیں چاہتے تھے جیسا کہ قرآن شریف میں مومنوں کی یہ شان بیان ہوئی ہے جن کے آپ سردار تھے کہ وہ اللہ کی محبت میں مسکینوں یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم محض خدا کی رضا کی خاطر ایسا کرتے ہیں ہمیں کسی بدلے بلکہ شکریہ تک کی حاجت نہیں.(سورۃ الدھر: 10) مہمان نوازی اور دعوت الی اللہ نبی کریم نے دین اسلام کی دعوت کا آغاز ہی بے لوث مہمان نوازی اور جذبہ خدمت خلق کے تحت فرمایا.جب آپ نے کوہ صفا پر رشتہ داروں کو پیغام حق پہنچایا اور وہ انکار کر کے چلے گئے تو آپ نے مہمان نوازی کے ذریعہ انہیں اکٹھا کرنا چاہا.حضرت علی کو کھانے کی دعوت کا انتظام کرنے کی ہدایت فرمائی جس میں بکری کے پائے تیار کروائے.آپ کے عزیز واقارب میں سے چالیس مہمان آئے اور سب نے سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر انہیں دودھ پلایا گیا.کھانے کے بعد رسول کریم ﷺ نے گفتگو کرنا چاہی تو ابو لہب یہ کہتا ہوا اٹھ کر چلا گیا کہ تمہارے ساتھی نے تم پر جادو کر رکھا ہے اس پر لوگ بھی اُٹھ کر چلے گئے.حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ اگلے روز رسول کریم نے ایک اور دعوت کا اہتمام کرنے کی ہدایت فرمائی.دعوت میں حضور نے خاندان بنی مطلب کو خطاب فرمایا کہ میں تمہارے پاس دنیا و آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں کون میرا مددگار ہو گا ؟ اس پر حضرت علیؓ نے مدد کی حامی بھری.یہ پہلا پھل تھا جو اس مہمان نوازی اور دعوت کے بعد آپ کو نصیب ہوا.(طبری )5 اکرام ضیف کا خلق تالیف قلب اور دعوت الی اللہ کا ایک ایسا ذریعہ ہے جو بسا اوقات انسان کی ہدایت کا موجب بن جاتا ہے.ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک کا فرمہمان ٹھہرا.آپ نے ارشاد فرمایا کہ دودھ پلا کر اس کی خاطر تواضع کی جائے ، دودھ پیش کیا گیا.اس نے ایک بکری کا دودھ پی لیا.پھر دوسری کا دودھ دہو کر اسے پلایا گیا وہ بھی پی گیا پھر تیسری اور چوتھی بکری کا.یہاں تک کہ سات بکریوں کا دودھ اسے پلایا گیا تب کہیں اس کا پیٹ بھرا.وہ آنحضرت سے کی اس بے تکلف مہمان نوازی اور حسن سلوک سے اتنا متاثر ہوا کہ اگلے دن اس نے اسلام قبول کر لیا.حضور نے دوسرے روز پھر اس کیلئے دودھ لانے کا حکم دیا.اس روز ایک بکری کا دودھ تو اُس نے پی لیا لیکن دوسری بکری کا سارا دودھ نہ پی سکا بلکہ اس میں سے کچھ بچ رہا.آنحضرت ﷺ نے ایمان کی برکت وطمانیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافرسات آنتوں میں.( ترمذی ) 6 مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مسلمان کو ایمان کی دولت کے ساتھ صبر وحوصلہ اور قناعت کی دولت بھی عطا فرماتا ہے.
اسوہ انسان کامل مہمان کی خدمت 332 نی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی فتح خیبر کے موقع پر حبشہ کے مہاجرین حضرت جعفر طیار کی سرکردگی میں واپس لوٹے.ان میں نجاشی کا بھیجا ہوا ایک وفد بھی تھا.حضور خود ان لوگوں کی مہمان نوازی اور خدمت کی سعی فرماتے.آپ کے صحابہ نے عرض کی کہ حضور تہم خدام جو خدمت کیلئے حاضر ہیں آپ کیوں تکلیف فرماتے ہیں.آنحضرت نے فرمایا ان لوگوں نے ہمارے صحابہ کی عزت کی تھی میں پسند کرتا ہوں کہ خود اپنے ہاتھوں سے ان کی مہمان نوازی کروں کہ ان کے احسان کا یہی بدلہ ہے.(الحلبیہ )7 نبی کریم ﷺ مہمان کے لئے حسب حال کھانے کا اچھا اہتمام فرماتے اور اپنے ہاتھ سے کھانا پیش کر کے خوش ہوتے.حضرت مغیرہ بن شعبہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ حضور ﷺ کے ہاں مہمانی کا شرف حاصل ہوا.آپ نے ران بھونے کا حکم دیا اور پھر چھری لے کر گوشت کاٹ کاٹ کر مجھے عطا فرمانے لگے.دریں اثناء بلال نے نماز کے لئے بلالیا تو فوراًنماز کیلئے تشریف لے گئے.(ابوداؤد )8 نبی کریم کا دستور تھا کہ اگر کوئی ملاقاتی کھانے کے وقت آجائے تو اسے بلا تکلف کھانے میں شامل فرما لیتے تھے.حضرت عبداللہ بن اُنیس بیان کرتے ہیں کہ میں بائیس رمضان کو لیلة القدر کے بارہ میں دریافت کرنے کیلئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ کے ساتھ نماز مغرب ادا کرنے کے بعد میں آپ کے دروازے پر کھڑا ہو گیا.آپ نے فر ما یا اندر آ جاؤ.آپ شام کا کھانا لے آئے اور محسوس کیا کہ میں کھانے کے کم ہونے کے باعث ہاتھ کھینچ رہا ہوں تو فرمایا لگتا ہے آپ کسی خاص کام سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں مجھے بنی سلمہ نے آپ سے لیلۃ القدر کے بارے میں پوچھنے بھجوایا ہے.آپ نے فرمایا آج کیا تاریخ ہے؟ میں نے کہا بائیس رمضان - فرمایا کل یعنی تئیس کی رات کولیلۃ القدر کی تلاش کرنا.( ابوداؤد ) ایک دفعہ ایک یہودی آپ کے پاس مہمان ٹھہرا.رات پیٹ کی خرابی کے باعث اس نے حضور کے بستر پر پاخانہ کر کے اُسے خراب کر دیا.علی اصبح شرم کے مارے بغیر بتائے چپکے سے چلا گیا.جلدی میں اپنی تلوار بھول گیا.جب آگے جا کر اسے یاد آیا تو تلوار لیے واپس لوٹا.کیا دیکھتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بنفس نفیس اس کا گند بھرا بستر خود دھور ہے تھے.(رومی ) 10 مہمان کی جملہ ضرورتوں کا خیال ابوعبداللہ بن طبقہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے پاس جب مہمان زیادہ ہو جاتے آپ نماز کے بعد صحابہ کو مسجد میں فرما دیتے تھے کہ جو آدمی اپنے ساتھ مہمان لے کر جا سکتا ہے لے جائے لیکن ایک رات مہمان اتنے زیادہ تھے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا ہر آدمی اپنے ساتھ ایک مہمان کو لے جائے تعمیل ارشاد ہوئی، اس کے باوجود پانچ مہمان بیچ رہے.پانچواں میں تھا.آنحضرت ہمیں اپنے ساتھ حضرت عائشہ کے گھر لے گئے.آپ نے ان سے پوچھا کہ
333 نبی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی اسوہ انسان کامل کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ حضور آپ کے روزہ افطار کرنے کے لئے کچھ کھانا تیار کیا ہے.حضرت عائشہ وہ کھانا ایک پلیٹ میں لے آئیں.آنحضور نے اس میں سے تھوڑ اسالیا اور باقی ہم پانچوں کو دیا اور فرمایا کہ بسم اللہ کر کے کھاؤ.حضرت عائشہ اور کھانا لے آئیں وہ بھی ہم نے کھالیا، آنحضور نے پھر حضرت عائشہ سے پوچھا کہ کچھ پینے کو ہے.انہوں نے عرض کی تھوڑ اسا دودھ آپ کے لئے رکھا تھا.آپ نے فرمایا لے آؤ.انہوں نے وہ پیش کیا.حضور نے اس میں سے تھوڑا سا پیا باقی تبرک ہمیں دیکر فرمایا کہ بسم اللہ کر کے پیو.ہم نے وہ بھی پی لیا اور ختم کر دیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا " اگر چاہو تو یہیں سو جاؤ.چاہو تو مسجد چلے جاؤ.چنانچہ ہم مسجد جا کر سو گئے.صبح نماز سے قبل حضور تشریف لائے اور ہمیں نماز کے لئے جگانے لگے اور یہ آپ کا طریق تھا کہ جب گھر سے نماز کیلئے تشریف لاتے تو نماز نماز“ کہہ کر سونیوالوں کو جگاتے جاتے تھے.میں مسجد میں پیٹ کے بل سویا پڑا تھا.مجھے احساس ہوا کہ کوئی آدمی پاؤں سے مجھے ہلا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس طرح سونا اچھا نہیں، میں نے دیکھا تو وہ آنحضرت سے تھے.(احمد) 11 فاقہ کشوں کی مہمان نوازی حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاقہ کے باوجود حضور کی باتیں سننے کی خاطر در رسول پر ہمہ وقت حاضر رہتے تھے.ایک دفعہ بھوک کی حالت میں از راہ تحریک و توجہ ایک آیت کے معنی حضرت ابو بکر و عمر سے پوچھے جس میں مسکین کو کھانا کھلانے کا ذکر ہے.وہ معنی بتا کر چلے گئے.پھر رسول اللہ تشریف لائے.قبل اس کے کہ ابو ہریرہ کوئی سوال کرتے آپ نے ان کا چہرہ دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ فاقہ سے ہیں.پوچھا ابوھریرہ کیا بھوک لگی ہے؟ پھر مجھے ساتھ گھر لے گئے جہاں دودھ کا ایک پیالہ میٹر آگیا.رسول کریم کو اصحاب صفہ کے دیگر مساکین بھی بہت عزیز تھے.ابوھریرہ سے کہا کہ ان کو بلالا ؤ.اب ابوھریرہ کو یہ دھڑکا لگا کہ دودھ کا پیالہ کہیں ختم نہ ہو جائے.اس پر طرہ یہ کہ جب وہ مسکین صحابہ آگئے تو حضور نے دودھ کا پیالہ ابوھریرہ کو دیکر کہا کہ ان کو پلاؤ.سب سیر ہو چکے تو ابوھریرکا سے فرمایا اب خود پیو، وہ پی چکے تو فرمایا اور پواور پیو یہاں تک کہ ابوھریرہ سیر ہو گئے اور عرض کیا کہ اب تو میری انگلیوں کے پوروں سے بھی دودھ نکلنے کو ہے.تب رسول خدا نے دودھ کا پیالہ ابوھریرہ سے لے کر اپنے منہ سے لگایا اور سب کا باقی ماندہ دودھ پیا اور یوں اپنے صحابہ کو مہمان نوازی کا خوبصورت نمونہ دیا.( بخاری )12 حضرت مقداد ایک غریب اور مفلوک الحال صحابی رسول تھے، انہوں نے رسول کریم کی مہمان نوازی کا ذکر کرتے ہوئے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے جس کی تفصیل دعاؤں کی قبولیت کے مضمون میں آچکی ہے.کہ وہ اور ان کے دو ساتھی بھوک اور فاقوں سے ایسے بدحال ہوئے کہ سماعت و بصارت بھی متاثر ہوگئی محتاجی کے اس عالم میں انہوں نے اصحاب رسول سے مدد چاہی مگر کوئی بھی ہمیں مہمان بنا کر نہ لے جاسکا.بالآخر رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بد حالی کا ذکر کیا.آپ نے کمال کشادہ دلی سے انہیں اپنا مستقل مہمان رکھ لیا.اور اپنے گھر لے گئے.وہاں تین بکریاں
اسوہ انسان کامل 334 نبی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی موجود تھیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ ان بکریوں کا دودھ دوہ لیا کرو.ہم چاروں پی لیا کریں گے چنانچہ خوب گزر بسر ہونے لگی.ایک رات مقداد شما را دودھ خود ہی پی گئے رسول کریم کی برکت سے بکریوں کو پھر دودھ اتر آیا اور انہوں نے حضور کی خدمت میں پیش کیا تو حضور نے پہلے ان کو دیا پھر ان کی درخواست پر خود پی کر باقی انہیں کو پلایا.مقداد بعد میں بڑی محبت سے حضور کی دلنوازی کا یہ واقعہ سنایا کرتے تھے.(مسلم )13 ایثار اور مہمان نوازی ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک غریب مفلوک الحال شخص آیا اور عرض کی کہ میں فاقہ سے ہوں.آنحضرت ﷺ نے اپنے گھر سے پوچھوا بھیجا کہ کھانے کو کچھ ہوتو بھجوایا جائے.وہ زمانہ سخت تنگی اور قحط کا تھا سب بیویوں کی طرف سے جواب آیا کہ صرف پانی گھر میں ہے کھانے کو کچھ نہیں.رسول اللہ نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو آج رات اس شخص کی مہمان نوازی کرے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پائے.ایثار پیشہ ابوطلحہ انصاری کھڑے ہوئے اور عرض کیا اے خدا کے رسول ! میں اس مہمان کی ضیافت کیلئے حاضر ہوں.چنانچہ اس مہمان کو وہ اپنے گھر لے گئے.اپنی بیوی حضرت اُم سلیم ( جو نہایت زیرک ایثار پیشہ اور فدائی خاتون تھیں) سے کہا یہ رسول خدا کا مہمان ہے.اس کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھنا اور اس کا پورا پورا اکرام کرنا.انہوں نے کہا خدا کی قسم آج تو بمشکل بچوں کے لئے کھانا موجود ہے ہمارے اپنے کھانے کو بھی کچھ نہیں.حضرت ابوطلحہ نے کہا کوئی بات نہیں آج بچوں کو بھوکا رکھ لیں گے.جب وہ کھانا مانگیں تو انہیں بہلا پھسلا کر سلا دو اور مہمان کیلئے کھانا بچا رکھو.ساتھ یہ ہدایت کی کہ جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو حکمت عملی سے دیا بجھا دینا تا کہ خدا کے رسول کا مہمان سیر ہوکر کھا سکے ہم بھو کے گزارا کرلیں گے.مہمان کی عزت کی خاطر اسکا ساتھ دینے کے لیے ہم خالی منہ ہلاتے رہیں گے.پردہ کے حکم سے پہلے عربوں میں اہل خانہ کے ساتھ کھانے میں شرکت کو اکرام ضیف کا حصہ سمجھا جاتا تھا.چنانچہ میاں بیوی مہمان کے ساتھ بیٹھ تو گئے کہ اس پہلو سے بھی مہمان کے اکرام میں فرق نہ آئے مگر کھانا ایک آدمی کا تھا.حضرت ام سلیم کھانا رکھ کر چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے اُٹھیں اور اسے بجھا دیا.پھر دونوں میاں بیوی مہمان کے ساتھ خالی منہ ہلا کر یہ ظاہر کرتے رہے کہ کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ خالی مچا کے لیتے رہے مہمان کو خدا اور اس کے رسول کی خاطر پیٹ بھر کر کھانا کھلایا اور خود بھوکے پیٹ رات بسر کی.ایثار و قربانی اور اخلاص و فدائیت کا یہ عظیم الشان نمونہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ بھی ان سے اتنا خوش ہوا کہ آنحضرت مہ کو اس واقعہ کی خبر کر دی.صبح ہوئی اور ابوطلحہ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا آج رات عرش کا خدا تم دونوں میاں بیوی کے اخلاص و ایثار اور محب کا یہ نمونہ دیکھ کر خوش ہورہا تھا.اسی قسم کے مضمون کا ذکر اس آیت قرآنی میں ہے.وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر : 10) کہ صحابہ رسول اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے اور خود ایثار کرتے ہیں خواہ خود خالی پیٹ بھوکے ہی کیوں نہ ہوں.( بخاری ) 14
اسوہ انسان کامل 335 نی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی مہمانوں کی کثرت اور الہی برکت غزوہ خندق کے زمانہ میں بھی مسلمانوں پر تنگی اور قحط کے سخت دن تھے.حضرت جابر اس کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ہم خندق کھودرہے تھے کہ ایک سخت چٹان کھدائی میں حائل ہوگئی.صحابہ نے آکر آنحضرت سے عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ میں خود آتا ہوں.پھر آپ تشریف لائے.آپ کے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے دو پتھر بندھے تھے.مسلسل تین دن سے ہم نے کچھ کھایا پیا نہ تھا.آنحضرت نے کدال ہاتھ میں لی اور ( تین ضربوں میں ) چٹان پاش پاش کر دی.حضرت جابر سے رسول اللہ کی بھوک اور فاقہ کی حالت دیکھی نہ گئی.وہ حضور سے اجازت لے کر اپنے گھر گئے.اپنی بیوی سے کہا میں نے فاقہ سے آنحضرت کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر صبر نہیں ہوسکتا، تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے؟ اس نے کہا ہاں کچھ جو ہیں اور گھر میں ایک بکری کا بچہ بھی پالا ہوا ہے.حضرت جابر نے جلدی سے بکروٹا ذبح کر دیا.بیوی نے جو پیس لئے اور گوشت ہنڈیا میں پکنے کیلئے رکھ دیا.حضرت جابر رسول اللہ کو کھانے پر بلانے جانے لگے.بیوی نے کہا مجھے رسول اللہ کے سامنے رسوا نہ کرنا اور زیادہ لوگ ساتھ نہ لے آنا تا کہ کھانا کم نہ ہو جائے.ادھر حضرت جابر " آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اس دوران بیوی نے آنا وغیرہ گوندھا اور ہنڈ یا قریباً تیار ہوگئی.حضرت جابر نے جا کر راز داری سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرے گھر کچھ کھانے کا انتظام ہے آپ اور چند صحابہ تشریف لے آئیں.رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کو بھو کا چھوڑ کر کیسے چلے جاتے.آپ نے پوچھا کھانا کتنا ہے؟ حضرت جابر نے بتا دیا کہ بس ایک بکر وٹہ اور کچھ جو ہیں.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ! بہت ہے اور خوب ہے.تم اپنی بیوی سے جا کر کہو کہ وہ میرے آنے تک نہ تو ہنڈیا اُتارے نہ تنور سے روٹی پکانی شروع کرے.پھر آپ نے اپنے موجود تمام صحابہ سے فرمایا کہ اے اہل خندق! جابر نے تمہارے لئے دعوت کا انتظام کیا ہے چلو اس کے گھر چلیں.“ حضرت جابر پہلے گھر آگئے ان کی بیوی کو معلوم ہوا کہ حضور خندق میں کام کرنے والے قریباً ایک ہزار صحابہ کو ہمراہ لا رہے ہیں تو جابر سے خفا ہونے لگیں.حضرت جابر نے کہا میں نے تو تمہارے کہنے کے مطابق آنحضرت کی خدمت میں راز داری سے ہی دعوت پیش کی تھی.آگے حضور کی مرضی ! خیر اتنی دیر میں آنحضرت تشریف لائے.آپ نے آٹے پر برکت کی دعا پڑھ کر دم کیا، پھر ہنڈیا میں پھونک ماری اور برکت کی دعا کی.پھر فرمایا ” اب روٹیاں پکانے والی کو بلا و وہ روٹی پکائے اور ہنڈیا چولھے سے نہ اُتارنا.آنحضرت وہ خود کچھ روٹی توڑتے اس پر ہنڈیا میں سے گوشت نکال کر رکھتے اور اپنے صحابہ کو دیتے پھر تنور اور ہنڈیا کو ڈھانک دیتے.اس طرح تمام آئے ہوئے مہمان سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا.آنحضرت نے حضرت جابڑ کی بیوی سے فرمایا کہ اب جو کھانا بچ گیا ہے خود بھی کھاؤ اور تحفتہ دوسرے لوگوں کو بھی بھجواؤ کیونکہ لوگ فاقہ اور بھوک کا شکار ہیں.“ ( بخاری )15
اسوہ انسان کامل 336 نی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی بیرونی وفود کی مہمان نوازی فتح مکہ کے بعد 9ھ کا سال عام الوفود " کہلاتا ہے اس سال کثرت سے مختلف علاقوں سے وفود مدینہ آئے اور ا سلام قبول کیا.ان تمام وفود کے ساتھ نبی کریم اعزاز و اکرام سے پیش آتے اور ان کی مہمان نوازی کا اہتمام فرماتے.چنانچہ وفد تجیب کو آپ نے خود خوش آمدید کہا.باعزت رہائش کی جگہ مہیا فرمائی اور بلال کو حکم دیا کہ ان کے لئے ضیافت اور تحائف کا بہترین انتظام کرے.(ابن الجوزی ) 16 ایک مشہور وفد بحرین سے آیا تھا جسے وفد عبد القیس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.یہ ربیعہ قبیلہ کے لوگ تھے.ربیعہ رسول اللہ کے جدا مجد مصر کا بھائی تھا.آپس میں لڑائی کے باعث وہ ہجرت کر کے بحرین چلے گئے تھے.نبی کریم کی مہمان نوازی کی عجب شان ہے کہ قدیمی دشمن قبائل بھی اس سے محروم نہیں رہے.آپ نے پر تپاک استقبال کیا.اس وفد کے ارکان بیان کیا کرتے تھے کہ ہم آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ اور صحابہ کرام کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا.جب ہم رسول اللہ کی خدمت میں پہنچے تو وہ نہایت کشادہ دلی اور وسیع ظرفی سے ملے.ہمیں رسول اللہ نے مرحبا اور خوش آمدید کہا.پھر حضور نے ہم سے پوچھا تمہارا سردار کون ہے؟ ہم نے منذر بن عائد کی طرف اشارہ کیا.آپ نے ہمارے سردار کو اپنے قرب میں جگہ دی.اس سے بہت محبت اور لطف کا سلوک فرمایا.حضور نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے ان بھائیوں کا پورا اکرام کرنا کیونکہ مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان کو اہل مدینہ سے ایک مناسبت اور مشابہت ہے کہ یہ لوگ بھی خوشی سے از خود مسلمان ہوئے ہیں.جب صبح وفد کے لوگ حضور کے پاس آئے تو آپ نے ان سے پوچھا تمہارے بھائیوں نے تمہارے اکرام اور ضیافت میں کوئی کسر تو اُٹھا نہیں رکھی.وفد کے سب لوگوں نے بیک زبان یہی جواب دیا کہ یہ ہمارے بہترین بھائی ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے ہمارے لئے نرم بستر بچھائے اور نہایت عمدہ کھانے کا انتظام کیا اور صبح ہوئی تو ہمیں قرآن شریف اور سنتِ رسول کی باتیں بھی سکھانے لگے.آنحضرت مہ کو انصار کا یہ سلوک بہت پسند آیا اور آپ نے اس پر خوشی کا اظہار فرمایا پھر آپ نے وفد کے ہر فرد سے جو جو دینی باتیں اس نے اپنے میزبان سے یاد کی تھیں خود سنیں اور خود بھی ان کو کئی باتیں سکھائیں.(احمد ) 17 اہل بیت رسول کی مہمان نوازی حضرت لقیط بن صبرہ بیان کرتے ہیں کہ میں بنی منتفق کے وفد کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں مدینہ حاضر ہوا.جب ہم نے حضور کے گھر اپنے آنے کی اطلاع کی تو آپ گھر میں موجود نہیں تھے.حضرت ام المؤمنین عائشہ کو ہماری آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے از خود ہمارے لئے کھانے کا انتظام کروایا.گوشت اور موٹے آٹے کا ایک عرب کھانا پیش کیا گیا.پھر ایک طشتری کھجور کی ہمارے لئے بھجوائی گئی.اتنے میں رسول کریم تشریف لائے اور آتے ہی پہلے پوچھا کچھ کھایا پیا بھی ہے؟ ہم نے کہا جی ہاں اے اللہ کے رسول ! اسی دوران حضور کا چرواہا آ گیا.اس کے پاس بکری کا
اسوہ انسان کامل 337 نبی کریم کا خُلق ، مہمان نوازی ایک بچہ تھا.آپ نے فرمایا سناؤ بکری نے کیا جنا ہے؟ اس نے کہا بکروٹی.فرمایا اسکی جگہ ایک بکری ہمارے لئے ذبح کر دو.پھر بے تکلفی سے فرمایا آپ لوگ یہ نہ سمجھو کہ آپ کی وجہ سے جانور ذبح کروارہا ہوں.دراصل ہماری سو بکریاں ہیں اور ہم یہ تعداد اس سے زیادہ نہیں کرنا چاہتے.جب کوئی بکری بچہ دیتی ہے تو اسکی بجائے ہم ایک بکری ذبح کر لیتے ہیں.(ابوداؤد ) 18 میزبان سے جو سلوک مہمان کو کرنا چاہئے اس کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ جب انصار میں سے کسی کے ہاں مہمان جاتے تو آپ کا معمول تھا کہ آپ کھانا وغیرہ تناول فرما کر واپس جانے سے پہلے وہاں دو رکعت نماز نفل ادا فرماتے یا موقع کی مناسبت سے دُعا ہی کروا دیتے.اہل خانہ کے لئے اور ان کے رزق میں برکت کیلئے خاص طور پر دعا کرتے.( بخاری )19 مہمان سے بے تکلفی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھجور اور روٹی موجود تھی کہ حضرت صہیب آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا آگے ہو کر کھاؤ.وہ کھجور کھانے لگے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ان کی آنکھ میں سرخی دیکھ کر ) فرمایا تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے.( زیادہ کھجور کھانے میں احتیاط کرو) صہیب نے بے تکلفی سے عرض کیا میں دوسری آنکھ سے کھاتا ہوں.( احمد ) 0 20 نبی کریم ﷺ اپنے میزبان سے بھی بے تکلفی سے پیش آتے تھے.ایک فارسی نو مسلم حضور کا ہمسایہ بناجو بہت عمدہ شور بہ تیار کیا کرتا تھا.اس نے حضور کے لئے سالن تیار کیا اور دعوت دینے آیا.آپ نے حضرت عائشہ کے بارہ میں پوچھا کہ ان کو بھی ساتھ بُلایا ہے نا؟ وہ بولا نہیں حضور نے فرمایا پھر ہم بھی نہیں آتے.دوسری دفعہ وہ پھر دعوت دینے آیا تو آپ نے پھر وہی سوال دو ہرایا.تیسری مرتبہ اس نے حامی بھر لی.تب حضور اور حضرت عائشہ اس کے گھر کھانے کے لئے تشریف لے گئے.( مسند احمد ) 21 رسول کریم کو خود مہمان بنتے ہوئے بھی بے تکلفی ہی مرغوب خاطر تھی.ایک دفعہ ابوشعیب انصاری نے رسول اللہ کی دعوت کی اور عرض کیا کہ کوئی سے چار افراد اپنی مرضی سے ساتھ لے آئیں.دعوت پر جاتے ہوئے ایک اور شخص بھی ساتھ ہو گیا.رسول کریم نے میزبان کو بے تکلفی سے فرمایا کہ آپ نے تو پانچ افراد کی دعوت کی تھی.ایک زائد آدمی ہمارے ساتھ آگیا ہے.اگر آپ اجازت دیں تو یہ آجائیں ورنہ یہ واپس چلے جاتے ہیں.میزبان نے بہت خوشی سے اجازت دے دی.( بخاری ) 22 الغرض رسول اللہ نے ضیافت کے آداب کا بھی حق ادا کر کے دکھا دیا.اللہ تعالیٰ نہیں ہے حضور ﷺ کے اسوہ کی روشنی میں مہمان نوازی کے اسلوب اور سلیقے سیکھنے اور اُس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
اسوہ انسان کامل 338 حواله جات 1 ابن ماجه (33) كتاب الادب باب 5 2 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 31 3 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 35 4 بخاری (1) كتاب بدء الوحي باب 1 5 تفسیر طبری جلد 19 ص 75 سورة الشعراء زير آيت وانذر عشيرتك 6 ترمذی(18) كتاب الاطعمة باب 4 7 سيرت الحلبيه جلد3 ص49 بيروت 8 ابو داؤد (1) کتاب الطهارة باب 74 ابوداؤد (2) کتاب الصلوة باب 102 10 مثنوی مولانا روم مترجم دفتر پنجم ص 20 ترجمه قاضی سجاد حسین 11 مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص426 12 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 17 13 مسلم (37) كتاب الاشربه باب 32 14 بخاری (66) کتاب المناقب باب 40 15 بخاری (67) کتاب المغازى باب 27 16 الوفاء باحوال المصطفى ص 764 ابن جوزی مطبوعه بیروت 17 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص 433 18 ابو داؤد (1) كتاب الطهارت باب 19 19 بخاری (81) كتاب الادب باب 65 20 مسند احمد جلد 4 ص 61 21 مسند احمد بن حنبل جلد3 ص 123 22 بخاری (75) کتاب الاطعمه باب 33 نبی کریم کا خلق مهمان نوازی
اسوہ انسان کامل 339 رسول اللہ کی حب الوطنی صلى الله رسول اللہ ﷺ کی حب الوطنی وطن سے محبت انسان کا ایک طبعی خاصہ ہے.انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، جس ماحول میں آنکھیں کھولتا ہے، جس سرزمین کی مٹی سے کھیلتا ہے اور جس دھرتی سے غذا حاصل کرتا ہے وہ اس کے لئے بمنزلہ ماں کے ہو جاتی ہے اور اس کی محبت انسان کے رگ و ریشہ میں رچ بس جاتی ہے.جب وطن قومی اور دینی فریضہ بھی ہے.یہی وجہ ہے کہ دین کی خاطر ترک وطن کرنے اور خدا کی راہ میں ہجرت کا بہت ثواب بیان ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اللہ کی راہ میں وطن چھوڑتا ہے ، وہ زمین میں بہت جگہ اور وسعت پائے گا اور جو شخص اپنے گھر سے اللہ کی خاطر ہجرت کر کے نکلتا ہے پھر اسے موت آجائے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے.(سورۃ النساء:101) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ”حُبُّ الوَطَنِ مِنَ الْإِيمَان “ یعنی وطن کی محبت جزوایمان ہے.(سخاوی (1) دینی فریضہ ہونے کے اعتبار سے وطن کی محبت انسان پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد کرتی ہے ، جن کا پورا کرنا ہر مومن کا فرض اولین ہے.حبّ الوطنی کا سچا تصور آج ذاتی مفادات کی دنیا میں یہ قدریں بدل چکی ہیں.حب الوطنی کے نام پر رنگ ونسل اور قوم و ملک کی غیرت وحمیت کو ہوا دی جاتی ہے.اس مقدس نام پر کمزوروں کے حقوق پامال کر لئے جاتے ہیں.اپنے وطن کی محبت کے مقابل پر غیروں اور ان کے وطن سے نفرت کی جاتی ہے.انہیں اپنے وطن سے محبت کا حق نہیں دیا جاتا.قوموں اور ملکوں میں مخصوص مفادات کی خاطر ترجیح وتفریق کا یہ رویہ آج کے مادیت زدہ دور کی پیدا وار تو ہوسکتی ہے.دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.قرآنی تعلیم کا صحیح اور سچا نمونہ ہمارے لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ کی سیرت پر نظر ڈالیں تو حب الوطنی کے دینی مفہوم میں وسعت نظر آنے لگتی ہے جس کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ بانی اسلام حضرت محمد مصطفی تمام عالم کیلئے رحمت ہیں.آپ آفاقی نبی ہیں اور ساری زمین آپ کا وطن ہے.آپ کی ہی یہ خصوصیت ہے کہ تمام روئے زمین آپ کے لئے پاک اور سجدہ گاہ بننے کے لائق قرار دی گئی ہے.اس لئے آپ روئے زمین کے ہر خطہ اور اس کے انسانوں سے بلا امتیاز رنگ و نسل محبت کرنے والے تھے.آپ نے ہی قومی تفریق مٹانے کا یہ سبق دیا کہ سب انسان برابر ہیں اور رنگ ونسل یا عصبیت کی بناء پرکسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں.
اسوہ انسان کامل 340 رسول اللہ کی حب الوطنی پھر آپ نے ہر فرد کا اپنے وطن سے محبت کا جائز حق اور مکمل آزادی کا حق قائم فرمایا.پس وہ خطہ عرب جہاں ہمارے نبی پیدا ہوئے اور وہ شہر جس کے گلی کوچوں میں آپ کا بچپن گزرا، وہ گھر اور وہ مکان جہاں آپ کے شب و روز بسر ہوئے، بلاشبہ آپ کی طبعی محبت کے زیادہ حقدار تھے اور یہ محبت اپنے موقع محل پر خوب ظاہر ہوئی.دفاع وطن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ حب وطن میں کمال تو ازن اور اعتدال پایا جاتا ہے.آپ ہمیشہ حب الوطنی کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے نظر آتے ہیں.جب کبھی وطن یا اہل وطن پر کوئی مصیبت آئی ، آپ نے آگے بڑھ کر اہل وطن کا ساتھ دیا.آپ کی عمر ابھی ہیں سال تھی کہ آپ کی قوم اور قبیلہ قیس عیلان کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں بنو کنانہ اور قریش ایک طرف تھے اور قیس عیلان اور ہوا زن دوسری طرف.وطن پر اس مصیبت اور نازک صورت حال میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک عام سپاہی کی طرح فوج میں شامل ہو کر اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں.(ابن ہشام)2 اہل وطن سے ہمدردی نبی کریم کی اہل وطن کے ساتھ محبت کا یہ عالم ہے کہ جب حقوق انسانی کے قیام، اور ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے حلف الفضول کا معاہدہ ہوتا ہے.آپ اس میں شریک ہوتے ہیں.دعویٰ نبوت کے بعد بھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں اس معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوا تھا.اس بات کی مجھے اتنی خوشی ہے کہ اگر سرخ اونٹ بھی مجھے مل جائیں تو اتنی خوشی نہ ہو اور اگر آج مجھے اس معاہدہ کی طرف بلایا جائے تو اس پر ضرور عمل کروں گا.(ابن ہشام)3 وطن اور اہل وطن کی جو محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جاگزیں تھی.زمانہ نبوت سے قبل اس کے اظہار کا ایک اور منظر اس وقت سامنے آتا ہے جب عربوں کو ظلم کا نشانہ بنانے والے ایرانیوں کے ساتھ رومیوں کی جنگ ہوئی.عربوں نے رومیوں کی خوب مدد کی یہاں تک کہ رومی بالآخر فتح یاب ہوئے گویا عربوں کو ایرانیوں کے ظلم سے نجات ہوئی، اس روز اہل وطن کے چین اور سکھ کا خیال کر کے خوش ہو کر ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ " آج وہ دن ہے کہ جس میں عربوں نے اپنا حق آزادی حاصل کر لیا ہے ( ابن سعد ) 4 خون کے آنسو آج کے دور آزادی میں ذرا اس انسان کی مظلومیت کا تصور تو کریں جسے اس کے شہر کے باسی اپنے وطن میں ہی رہنے نہ دیں بلکہ اس کے جان لیوا دشمن بن کر شہر سے نکلنے پر مجبور کریں، بلاشبہ آج ایسے شخص کو دنیا کا مظلوم ترین انسان
اسوہ انسان کامل 341 رسول اللہ کی حب الوطنی کہا جائے گا.مگر ہمارے پیارے رسول نے تو خدا کی راہ میں یہ ظلم بھی راضی برضا ہو کر برداشت کیا.پہلی وحی کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے کر آئیں تو انہوں نے وحی کی ساری کیفیت سن کر کہا تھا یہ تو وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسی پر اترا تھا.کاش ! میں اس وقت جوان ہوتا جب تیری قوم تجھے اس شہر سے نکال دے گی.ذرا سوچو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی کیا حالت ہوگی.جب آپ کے لئے اپنے دیس اپنے پیارے وطن سے نکالے جانے کا تصور ہی تکلیف دہ تھا جس کا کچھ اندازہ آپ کے اس تعجب آمیز جواب سے ملتا ہے جو آپ نے فرمایا کہ آوَ مُخْرِجِيَّ هُمُ“ کیا میری قوم مجھے اپنے وطن سے نکال باہر کرے گی یعنی میرے جیسے بے ضرر بلکہ نفع رساں وجود کو جو ان کے لئے ہر وقت فکر مند اور دعا گو ہے دیس سے نکال دیا جائیگا.یہ کیسے ممکن ہے؟ مگر ورقہ نے بھی ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ پہلے جس کسی نے بھی ایسا دعویٰ کیا اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا آیا ہے.آپ کے ساتھ بھی یہی ہوگا.( بخاری 5) اور پھر وہی ہوا کہ وہ شاہ دو عالم جس کی خاطر یہ ساری کائنات پیدا کی گئی.ان کو ایک دن اپنے وطن سے بے وطن کر دیا گیا.ذرا سوچیں تو سہی وہ دن شاہ دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنا بھاری ہوگا ، جب آپ اپنے آبائی وطن مکہ کے ان گلی کو چوں سے نکل جانے پر مجبور کر دیئے گئے.جس روز آپ مکہ سے نکلے ہیں اس روز آپ کا دل اپنے وطن مکہ کی محبت میں خون کے آنسو رور ہا تھا.جب آپ شہر سے باہر آئے تو اس موڑ پر جہاں مکہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہور ہا تھا آپ ایک پتھر پر کھڑے ہو گئے اور مکہ کی طرف منہ کر کے اسے مخاطب ہو کر فرمایا.اے مکہ تو میرا پیارا شہر اور پیارا وطن تھا اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا.“ ( احمد )6 یوں حسرت سے مکہ کو الوداع کہتے ہوئے آپ سفر ہجرت پر روانہ ہو گئے.اللہ تعالیٰ کی بھی اپنے محبوب نبی کے دلی جذبات پر نظر تھی اس لئے اسے پہلے ہی ترک وطن کی قربانی کیلئے تیار کر رکھا تھا اور قبل از وقت یہ دعا سکھا دی تھی جس میں مکہ سے نکلنے کا ذکر بعد میں اور اس میں دوبارہ داخل ہونے کا ذکر پہلے کر کے تسلی دے دی تا دل کا بوجھ ہلکا ہو.فرمایا:.وَقُل رَّبِّ اَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِى مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطَنَا نَّصِيرًا ( بنی اسرائیل : 81 ) یعنی اے نبی تو یہ دعا کر کہ اے میرے رب مجھے نیک طور پر دوبارہ مکہ میں داخل کر اور نیک ذکر چھوڑنے والے طریق پر مکہ سے نکال اور اپنے پاس سے میرا کوئی مددگار مقرر کر دراصل یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حب وطن کا جذبہ ہی تھا جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی دلی تسلی کے لئے یہ آیت اتاری.إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُّكَ إِلى مَعَادِ (القصص: 86) کہ وہ خدا جس نے آپ پر قرآن فرض کیا ہے وہ آپ کو وطن میں ضرور واپس لائے گا.سورہ بلد میں بھی اللہ تعالیٰ اپنے حبیب رسول کے شہر کی قسم کھا کر آپ کو دلاسا اور تسلی دلاتے ہوئے پیشگوئی فرماتا ہے کہ آپ ایک روز اس شہر مکہ میں ضرور برضرور داخل ہوں گے.(سورۃ البلد : 2 )
اسوہ انسان کامل 342 رسول اللہ کی حب الوطنی اہل وطن کے لئے دعائیں ہجرت مدینہ کے بعد بھی اپنے اہل وطن کی یاد اور محبت آپ کے دل میں باقی رہی آپ مسلسل ان کے لئے دعائیں کرتے تھے.حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ساری رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوکر یہ دعائیہ آیت پڑھتے رہے کہ اے اللہ ! اگر تو ان کفار کو عذاب دے تو آخر یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے.(نسائی) 7 گویا آپ حکیمانہ تدبیروں سے کفار اور اہل وطن پر غلبہ کے خواہشمند تھے بر بادی اور ہلاکت کی راہ سے نہیں.ایک دفعہ آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ان کفار کے خلاف میری اس طرح مدد کر جس طرح یوسف کی ان کے بھائیوں کے خلاف قحط سے مدد کی تھی.( جب وہ مطیع ہو کر دربار یوسف میں حاضر ہو گئے تھے ) یہ دعا مقبول ہوئی اور مکہ میں اتنا سخت قحط پڑا کہ لوگ مردہ جانوروں کی ہڈیاں تک کھانے لگے.بھوک کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں کے سامنے دھواں ہی دھواں چھا جاتا تھا.کفار مکہ اس قحط سالی سے سخت خوف زدہ ہوئے وہ خوب جانتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق جس طرح خدا کے ساتھ ہے مخلوق کے ساتھ بھی ہے.وہ محب وطن بھی بہت ہیں.چنانچہ ابوسفیان نے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اہل وطن کا واسطہ دے کر عرض کیا کہ اے محمد ! آپ کی قوم ہلاک ہو رہی ہے آپ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ بارشیں ہوں اور قحط سالی دور ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تو ابوسفیان کو احساس دلانے کے لئے فرمایا تم بڑے دلیر ہو.میرے انکار کے نتیجہ میں ہی تو یہ عذاب آیا ہے اور اس خدائے واحد پر ایمان لانے کی بجائے تم عذاب ٹلوانے کی درخواست دعا کرتے ہو.مگر پھر آپ کے دل میں اہل وطن کی محبت کا کچھ ایسا خیال آیا کہ آپ نے قحط سالی کے دور ہونے اور بارش کے لئے دعا کی اور یہ دعا ایسی مقبول ہوئی کہ بارشیں ہوئیں اور قحط دور ہو گیا.مگر اہل مکہ پر جب خوشحالی کا دور آیا تو شرک ، بت پرستی اور مخالفت میں پھر مصروف ہو گئے.یہ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے.( بخاری )8 اس قحط کے دوران حضور نے مدینہ سے چندہ اکٹھا کر کے پانچ سو دینار بھی اہل مکہ کی امداد کے لئے بھجوائے تھے.(السرخسی ) یا دوطن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن مکہ سے جو گہری محبت تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی خوب ہوتا ہے کہ جب غفار قبیلہ کا ایک شخص ہجرت کے بعد کے زمانہ میں مکہ سے مدینہ آیا یہ احکام نزول پردہ سے پہلے کا واقعہ ہے ) تو حضرت عائشہ نے اس سے پوچھا کہ مکہ کا کیا حال تھا اس نے کمال فصاحت و بلاغت سے بھر پور یہ جواب دیا کہ
اسوہ انسان کامل 343 رسول اللہ کی حب الوطنی سر زمین مکہ کے دامن سرسبز و شاداب تھے اس کے چٹیل میدان میں سفید اذخر گھاس خوب جو بن پر تھی اور کیکر کے درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے.“ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ سنا تو آپ کو مکہ کی یاد آئی اور وطن کی محبت نے جوش مارا.فرمایا ایسے دیس سے آنے والے ! بس بھی کرو اور ہمارے وطن مکہ کی یاد میں تازہ کر کے اتنا بھی دل کو نہ دکھاؤ.دوسری روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا تو نے دلوں کو ٹھنڈا کر دیا.“ ( سخاوی ) 10 امن کا سفیر حدیبیہ کے موقعہ پر بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت شرائط کے مقابل پر نرمی اور صلح کی راہ اختیار کی تو اس کی ایک وجہ یہی تھی کہ جنگ و جدل کے نتیجہ میں اہل وطن کا جانی نقصان نہ ہو.( بخاری )11 فتح حدیبیہ سے اگلے سال جب معاہدہ کے مطابق آپ عمرۃ القضاء کے لئے تشریف لائے تو مکہ میں صرف تین دن ٹھہرنے کی اجازت تھی.اس موقع پر حضرت میمونہ کی شادی آپ کے ساتھ ہوئی.آپ کی خواہش تھی کہ مکہ میں دعوت ولیمہ ہو جائے اور اہلِ وطن بھی اس میں شامل ہوں.آپ نے کفار مکہ کو یہ پیغام بھی بھیجا کہ ایک دوروز اور مکہ میں رہ لینے دو اور دعوت میں تم سب لوگ شریک ہو جاؤ.مگر انہوں نے اجازت نہ دی.( بخاری 12 ) پھر بھی آپ کی اہل وطن سے محبت سرد نہ ہوئی.فتح مکہ کے موقعہ پر آپ کی ساری حکمت عملی اس کوشش کے لئے وقف تھی کہ مکہ والوں کا جانی نقصان نہ ہو.آپ نہایت تیز رفتاری سے دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ پہنچے اور آپ کی یہ دلی آرزو پوری ہوئی.جس روز وہ شہر مکہ فتح ہوا جہاں آپ کو سخت اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا.آپ کی طرف سے پورے شہر کیلئے امان اور معافی کا اعلان ہی سننے میں آیا.اہل مکہ کے ایک دستہ نے بدبختی سے از خود حملہ میں پہل کرکے اپنے دو آدمی مروالئے.( بخاری )13 مکہ سے وفا فتح مکہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے وطن سے محبت کا اظہار کھل کر ہوا.جب مکہ میں آپ کے قیام کا سوال ہوا کہ کہاں ٹھہریں گے.؟ کیا اپنے پرانے گھروں میں؟ تو فرمایا ہمارے جدی رشتہ داروں عقیل وغیرہ نے وہ گھر کہاں باقی چھوڑے؟ بیچ بچا دیے.گو یا فتح پا کر بھی آپ نے اپنے گھروں کو واپس قبضہ میں نہ لیا اور یوں اہل وطن کی لاج رکھ لی.( بخاری ) 14 فتح مکہ کے موقعہ پر نبی کریم کے دل میں جب وطن کا جوشِ تلاطم جس طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا.اس کا اندازہ حضرت ابو ہریرہ کی اس روایت سے ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر ” حزورة “ مقام پر کھڑے ہوئے ( یہ
اسوہ انسان کامل 344 رسول اللہ کی حب الوطنی جگہ مکہ کے بازار میں باب الحناطین کے پاس ہے ) آپ اپنے پیارے وطن مکہ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے.اے مکہ ! خدا کی قسم میں جانتا ہوں کہ تو اللہ کی سب سے بہتر اور پیاری زمین ہے اگر تیرے اہل مجھے یہاں سے نہ نکالتے تو میں ہر گز نہ نکلتا.“ ( احمد ) 15 معلوم ہوتا ہے یہ بات انصار مدینہ تک بھی پہنچی.انہوں نے آپس میں سرگوشیاں کیں کہ رسول اللہ پر وطن کی محبت غالب آگئی ہے.فتح کے بعد شاید رسول اللہ ﷺ اپنے وطن میں ہی ٹھہر جائیں.نبی کریم کو اس کی اطلاع ہوئی آپ نے انصار کو کوہ صفا پر اکٹھا کر کے فرمایا.کیا تم نے ایسی بات کہی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کے جذبہ کے تحت ایسا کہا ہے.رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں.(مسلم 16 ) پھر آپ نے فرمایا کہ اے انصارر مدینہ ! اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہو چکا ہے.(ابن ہشام ) 17 آخری بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر مکہ تشریف لے گئے.اس مرتبہ پھر وطن کی یاد میں عود کر آئیں.عبدالرحمان بن حارث کہتے ہیں میں نے آپ کو اپنی سواری پر بیٹھے یہ کہتے سنا کہ اے مکہ خدا کی قسم تو بہترین وطن اور اللہ کی پیاری زمین ہے.اگر میں تجھ سے نہ نکالا جاتا تو ہر گز نہ نکلتا.عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے کاش ! اب ہم ایسا کر سکیں اور آپ مکہ لوٹ آئیں یہ آپ کی پیدائش کا مقام اور پروان چڑھنے کی جگہ ہے.رسول اللہ نے فرمایا ” میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ اے اللہ تو نے مجھے اپنی پیاری سرزمین سے نکالا ہے تو اپنی کسی اور محبوب سرزمین میں ٹھکانہ عطا کر.اب خدا نے مجھے مدینہ میں ٹھکانہ دے دیا ہے.“ ( حاکم ) 18 مدینہ وطن ثانی پھر جب خدا کی تقدیر نے مدینہ کو آپ کا وطن ثانی بنا دیا تو اس سے بھی محبت اور وفا کا حق ادا کر دکھایا.اہل مدینہ کی سعادت کہ خدا کے نبی کو خوش آمدید کہا تو ان کے وارے نیارے ہو گئے.یہ عجیب بات ہے کہ مدینہ اور وہاں کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن خانی بننے کے بعد اس سے بڑھ کر ملا جو اُن کا حق تھا.مدینہ کو پہلے میٹرب نام سے یاد کیا جاتا تھا.جس میں سرزنش کا مفہوم پایا جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد یہ شہر مــــديـنـة الرسول یعنی شہر رسول کہلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بڑے پیار سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگ تو اسے میٹرب کہتے ہیں مگر یہ تو مدینہ ہے جو اس طرح لوگوں کو صاف کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی میل کو صاف کر دیتی ہے یعنی مدینہ کا پاکیزہ ماحول اور نیک محبتیں اثر انگیز ہیں.آپ نے شہر مدینہ کی حرمت قائم کی اور فرمایا کہ حضرت ابراہیم نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں یعنی اس میں جنگ و جدل اور خون خرابہ جائز نہیں.( بخاری )19
اسوہ انسان کامل مدینہ کے لئے دعائیں 345 رسول اللہ کی حب الوطنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو شروع میں یہاں کی آب و ہوا صحا بہ کو موافق نہ آئی اور ان کو بخار آنے لگا.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے.”اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ایسی ڈال دے جیسے مکہ ہمیں محبوب ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مدینہ کو محبوب کر دے.اے اللہ ! مدینہ اور اس کے اہل کے رزق میں فراوانی عطا کر اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے صحیح کر دے.اس کے وبائی بخار کو کہیں دور لے جا اور مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکات رکھ دے.“ ( بخاری ) 20 پھر اس وطن ثانی سے رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کو ایسی محبت ہوئی کہ مدینہ سے جدائی طبیعت پر گراں گزرتی تھی.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم کسی سفر سے تشریف لاتے اور واپسی پر مدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو مدینہ کی محبت کے باعث اپنی سواری کو میٹر لگا کر تیز کر دیتے.( بخاری ) 21 آخری سالوں میں آپ کتبوک کی مہم کے سلسلہ میں ایک ماہ کے قریب مدینہ سے باہر رہے تھے.واپس تشریف لاتے ہوئے مدینہ کے ارد گرد کے ٹیلوں کے قریب پہنچے، جو نہی مدینہ پر نظر پڑی عجب وارفتگی کے عالم میں بے اختیار فرمانے لگے.”هذه طابة لو ہمارا پاک شہر مدینہ آ گیا.مدینہ آ گیا.(بخاری (22) آپ پیار سے مدینہ کوطا به یاطیبہ کے نام سے یاد کرتے تھے جس کے معنی پاک اور پاک کرنے والے کے ہیں.یہ بھی محبت کی نشانی تھی.اسی طرح رسول کریم جب غزوہ خیبر میں فتح حاصل کرنے کے بعد مدینہ تشریف لا رہے تھے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر فرط مسرت میں سواری کو ایڑ لگائی اور تیز کر لیا.جب دور سے پہاڑ احد پر نظر پڑی تو بے اختیار وادی مدینہ کی محبت میں سرشار ہو کر کہ اٹھے وادی اُحد یعنی مدینہ کو ہم سے محبت ہے اور یہ ہمیں بہت پیاری ہے.( بخاری ) 23 رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدینہ سے محبت دیکھ کر حضرت عمر یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے موت آئے تو تیرے پاک رسول کے شہر مدینہ میں آئے.یہ ہیں حب الوطنی کی زندہ جاوید مثالیں اور پاکیزہ نمونے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رسول کریم کی پاک سیرت کے نمونوں کی روشنی میں وہ ہمیں اپنے وطن کی ایسی سچی محبت عطا کرے، جو ہم وطن کی خاطر خدمت اور قربانی کے سب حق پورے کرنے والے ہوں اور اپنی کسی حق تلفی کے نتیجہ میں اپنے وطن یا اہل وطن کی حق تلفی کرنے والے نہ ہوں.اگر ہم اور کچھ نہیں کر سکتے تو اپنے وطن کے لئے درد دل سے دعائیں ہی کریں کہ اللہ تعالیٰ خود اس کا محافظ ہو اور جس نام پر یہ سر زمین حاصل کی گئی تھی خدا کرے کہ وہ مقصد حقیقی طور پر پورا ہو.
اسوہ انسان کامل 346 حواله جات 1 المقاصد الحسنة از علامه عبدالرحمن سخاوى دار الكتب العربية 2 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 198 مطبوعه مصر 3 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 142 مطبوعه مصر 4 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد7ص 77 بيروت 6 بخاری (1) کتاب بدء الوحي باب 1 مسند احمد جلد 4 ص 305 7 نسائی کتاب الافتتاح باب ترديدا لآية 8 بخاری (68) کتاب التفسير سورة دخان 9 المبسوط للسرخسی جلد 10 ص92 10 المقاصد الحسنه از سخاوی ص 298 بيروت 11 بخاری (67) کتاب المغازی باب 33 12 بخاری (67) کتاب المغازى باب 41 13 بخاری (67) کتاب المغازى باب 46 14 بخاری (32) كتاب الحج باب 43 15 مسنداحمد بن حنبل جلد4ص 305 16 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 31 17 السيرة النبويه لا بن هشام جلد2 ص 95 بيروت 18 مستدرك حاكم على الصحيحين جلد3 ص278 بيروت 19 بخاری (35) کتاب فضائل المدينة باب 11 20 بخاری (35) کتاب فضائل المدينة باب 12 21 بخاری (35) کتاب فضائل المدينة باب 10 22 بخاری (35) کتاب فضائل المدينة باب 3 23 بخاری (67) کتاب المغازی باب 14 رسول اللہ کی حب الوطنی
اسوہ انسان کامل 347 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت صلى الله رسول اللہ ﷺ کا استقلال اور استقامت خدا تعالیٰ کے مامور اور فرستادے دنیا کے معزز اور شریف ترین انسان ہوتے ہیں، جن کی سچائی امانت ودیانت اور شرافت کا ایک زمانہ گواہ ہوتا ہے.مگر جب وہ گمراہ معاشرے کو خدا کی طرف سے پیغام حق پہنچاتے اور نیکی وسچائی کی تعلیم دیتے ہیں تو بدی کے پرستار اور بدخواہ اہل دنیا ان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں، ان کا تمسخر اڑاتے اور اذیتیں دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے رویے پر حسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے:.وائے افسوس ان بندوں پر کہ جب کبھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور تمسخر کرنے لگتے ہیں.“ (يس:31) نی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی یہی سلوک روارکھا گیا.اللہ تعلی آپ کوتسلی کے رنگ میں فرماتا ہے.تجھے صرف وہی باتیں کہی جاتی ہیں جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہی گئی تھیں“ (حم السجدة: 44) یعنی اُن کے ساتھ بھی اسی طرح کا تمسخر و استہزاء اور اسی قسم کے اعتراض کئے جاتے تھے.مگر ان تمام اذیتوں پر آپ کو صبر اور استقامت کی تلقین کی گئی چنانچہ فرمایا.تو اسی دین کی طرف لوگوں کو پکار اور استقلال سے قائم رہ جیسا تجھے کہا گیا ہے.اور انکی خواہشوں کی پیروی نہ کر.“ (سورۃ الشوری: 16) نیز فرمایا ”پس اے نبی ! تو بھی اسی طرح صبر کر جس طرح پختہ ارادے والے رسول تجھ سے پہلے صبر کر چکے ہیں.“ (سورۃ الاحقاف : 36) طعن و تشنیع پر استقلال.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں اپنی جانوں اور مالوں کے بارہ میں ضرور آزمایا جائے گا.اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے بہت دکھ دینے والا کلام سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو گے تو یقینا یہ ہمت والے کاموں میں سے ہے.“ (سورۃ آل عمران: 187 ) سلسلہ انبیاء کے سردار ہونے کے ناطے ہمارے آقا و مولا محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ آزمائے گئے.آپ نے زبانی اذیتیں بھی سن کر برداشت کیں اور جسمانی دکھ بھی ہے.اور یہ تمام مصائب خدا کی راہ میں خوشی سے جھیلے.کبھی ماتھے پر کوئی شکن یا زبان پر کوئی شکوہ نہیں لائے بلکہ بڑی شان اور وقار کے ساتھ اپنے مولیٰ کی راہ پر گامزن ا.رہے اور اعلیٰ درجے کی استقامت کا نمونہ دکھلا دیا.
348 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت اسوہ انسان کامل ہمارے آقامہ کیسے کوہ وقار وہ انسان ہیں جن کو معاذ اللہ ،شاعر، دیوانہ، جادوگر اور کذاب کہہ کر ہر گندی گالی دی جاتی ہے ، مگر وہ نہ صرف یہ دشنام دہی برداشت کرتے ہیں بلکہ ان دشمنان دین کے لئے دعا گو ہیں کہ اے اللہ میری قوم کو بخش دے یہ جانتے نہیں.( بخاری ) 1 شدائد وآلام کے اس زمانے میں اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے نبی کو تلقین عبر، تائید و نصرت کی یقین دہانی اور حفاظت کے وعدے نہ ہوتے تو وہ مشکلات کے پہاڑ کیسے عبور ہوتے اللہ تعالیٰ آپ کو قدم قدم پر تسلی دیتا تھا.کبھی استہزاء کرنے والوں کے بارہ میں یہ فرما کر کہ ہم خود اُن تمسخر کرنے والوں کے لئے کافی ہیں.“ (سورۃ الحجر : 96) یعنی ان سے نپٹ لیں گے اور تجھے ان کے شر سے محفوظ رکھیں گے.تو کبھی یہ کہ کر اطمینان دلایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان کے حملوں سے محفوظ رکھے گا.(سورۃ المائدة : 68) وہ استہزاء کرنے والے جب آپ کے پاک نام محمد کو (جس کے معنے ہیں تعریف کیا گیا ) بگاڑ کر مذمم (یعنی قابل مذمت ) کہا کرتے تو آپ فرماتے.دیکھو اللہ تعالیٰ مجھے کس طرح ان کی گالیوں اور دشنام دہی سے بچا لیتا ہے.یہ کسی ندم کو گالیاں دیتے ہیں جبکہ میرا نام خدا نے محمد رکھا ہے.( بخاری )2 اولا داور اصحاب کی تکالیف پر استقامت کفار مکہ نے رسول اللہ علیہ کو اذیت دینے کے لئے جو مختلف طریق آزمائے وہ نہایت ظالمانہ ،شرمناک اور انسانیت سوز تھے.مگر یہ تمام حربے رسول اللہ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش پیدا نہ کر سکے.ایک ہتھکنڈا دشمن نے یہ آزمانا چاہا کہ رسول اللہ کی بیٹیوں کو جن کے نکاح قریش میں ہو چکے تھے طلاق دلوائی جائے.چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے عتبہ بن ابو لہب کو اس پر آمادہ کیا.جس نے رسول اللہ کی بیٹی حضرت رقیہ کو طلاق دے دی.(ابن ہشام)3 ابولہب کے دوسرے بیٹے عتیبہ کا نکاح رسول اللہ کی بیٹی ام کلثوم سے ہوا تھا.ابولہب نے اس پر بھی دباؤ ڈال کر طلاق دلوا دی.(ابن سعد ) 4 رسول کریم کو آزادانہ نماز پڑھنے کی بھی آزادی نہ تھی.چنانچہ نماز عصر کے وقت آپ مختلف گھاٹیوں میں جا کرا کیلے یا دو دو کی صورت میں چھپ کر نماز ادا کرتے.(حاکم) 5 ان مظالم میں سردار مکہ ابو جہل پیش پیش تھا.جو اپنی ریاست کے بل بوتے پر نومسلموں کو ذلیل ورسوا کرتا اور طرح طرح کی دھمکیاں دیتا.اگر وہ نومسلم تاجر ہوتا تو اسے بائیکاٹ کی دھمکی دی جاتی اگر وہ بے چارہ کسی کمز ور قبیلہ سے ہوتا تو اسے مارتے پیٹتے.(ابن ہشام ) 6 شروع میں تو حضرت ابوبکر ، طلحہ ، عثمان اور زبیر مصعب بن عمیر جیسے شرفاء بھی ان اذیتوں کا نشانہ بنے.جن سے مشرکین مکہ بالآخر مایوس ہوئے.مگر جو مظالم حضرت بلال، خاندان یا سر اور حضرت خباب پر توڑے گئے ان کو سن کر اور پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت بلال امیہ کے غلام تھے.وہ انہیں کو تپتی ہوئی زمین پر پشت کے بل لٹا دیتا
349 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت اسوہ انسان کامل پھر ایک بھاری بھر کم پتھر اس معصوم کے سینے پر رکھا جاتا اور کہتا محمد کا انکار کرو اور لات و عزمی بتوں کی عبادت کرو.ورنہ اسی حال میں مرجاؤ گے.مگر استقامت کے اس شہزادے کی زبان پر اس حال میں بھی احد احد کے الفاظ جاری رہتے تھے کہ خدا ایک ہے خدا ایک ہے.رسول اللہ سے اپنے صادق اور راست باز غلام کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی تھی ایک روز اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش ہم بلال کو آزاد کرا سکتے.حضرت ابو بکر کو یہ سعادت عطا ہوئی کہ انہوں نے حضرت بلال کو آزاد کر وایا.( ابن سعد ) 7 حضرت یا سٹر ان کی بیوی سمیہ اور بیٹا عمار قریش کے قبیلہ بنومخزوم کے غلام تھے ان کو بھی مکے کے تپتے ہوئے میدان میں سخت گرم دو پہر میں لے جا کر اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا.حضور انہیں صبر کی تلقین کرتے اور فرماتے ”اے خاندان یا سرصبر کرو.میں تمہیں جنت کا وعدہ دیتا ہوں.حضرت عثمان بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ کے ساتھ مکہ کے پتھر یلے میدان سے گزرا تو عمار اُس کے والد اور والدہ کو ان لوگوں نے عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا.رسول اللہ کو دیکھ کر یا سر نے صرف اتنا کہا یا رسول اللہ اب زندگی اسی طرح ہی گزارنی ہوگی ؟ نبی کریم نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا صبر کرواے یا سر صبر کرو.پھر آپ نے دعا کی اے اللہ ! یا سر کے خاندان کو بخش دے اور تو ان کو بخش ہی چکا ہے.(احمد 8) بالآخر ابو جہل نے نیزہ سے حضرت سمیہ کو نہایت شرمناک طریق پر شہید کر ڈالا تھا.(ابن سعد 9) یہی حال خباب ، صہیب ، عامر ابو فکیہہ کا تھا.خباب کو آگ جلا کر اس میں ڈالا گیا.دہکتے کوئلوں کو ان کی پشت کی چربی نے ٹھنڈا کیا ورنہ وہ ظالم تو سینے پر پاؤں رکھ کر کھڑے رہے.یہاں تک کہ پشت پر جلنے کے نشان ہمیشہ کے لئے باقی رہ گئے.(ابن سعد ) 10 حضرت خباب بیان کرتے ہیں کہ بالآخر ہم نے ایک دن رسول اللہ سے جا کر ان مظالم کی شکایت کی کہ کیا آپ ہماری مدد نہیں کریں گے اور ہمارے لئے دعا نہیں کریں گے.آپ نے فرمایا ” تم سے پہلے لوگوں کو گڑھے کھود کر ان میں فن کر دیا جا تا تھا اور سر پر آری چلا کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا مگر یہ چیز انہیں اپنے دین سے نہ ہٹا سکی لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت ہڈیوں سے نوچ لئے گئے مگر یہ بات بھی انہیں دین سے جدا نہ کر سکی.خدا کی قسم ! اللہ اپنے اس دین کو غلبہ بخشے گا اور صنعاء سے حضر موت تک کسی مسافر سوار کو سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہ ہوگا.مگر تم جلدی کرتے ہو.( بخاری )11 خود رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکات بھی ان ظالموں کے تمسخر اور استہزاء سے محفوظ نہ تھی.ابولہب کی بیوی ام جمیل آپ کے راستے میں کانٹے بچھا دیتی.ہاتھ میں پتھر لے کر رسول اللہ ﷺ پر حملہ کرنا چاہتی مگر ہمیشہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق آپ کی حفاظت فرماتا تھا.( ابن ہشام )12 رسول اللہ کی ذات پر مختلف حملے دشمنان اسلام رسول اللہ کسی پہلو چین نہ لینے دیتے.گھر میں چولہے پر ھنڈیا پک رہی ہوتی تو وہ اُس میں غلاظت پھینک دیتے.حتی کہ نماز پڑھتے ہوئے دشمن کے امکانی حملے سے بچنے کے لئے رسول اللہ ایک چٹان کو ڈھال بنا کر
اسوہ انسان کامل 350 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت کھڑے ہوتے.( ابن ہشام) 13 ام جمیل رسول اللہ کو گالیاں دیتی اور کہتی تھی ہم نے مذمم کا انکار کر دیا ہے.ہم اس کے دین سے بیزار ہیں اور اس کی نافرمانی کرتے ہیں.(حاکم) 14 امیہ بن خلف رسول اللہ کو اعلانیہ بھی گالیاں دیتا اور اشاروں میں بھی ایسی حرکات کر کے آپ کو تمسخر کا نشانہ بناتا.ابی بن خلف گلی سڑی ہڈی اٹھا کر لایا اسے ہاتھ سے مسل کر حضور کی طرف پھونک مار کر کہنے لگا اے محمد تم کہتے ہو اس طرح گل سڑ جانے اور مٹی ہو جانے کے بعد ہم پھر اُٹھائے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں اللہ تعالیٰ تم سب کو اٹھائے گا اور پھر آگ میں داخل کرے گا.“ ( ابن ہشام ) 15 عاص بن وائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے اولاد ہونے کے طعنے دیتا.ولید بن مغیرہ کہتا ہے اگر فرشتہ اتر ناہی تھا تو ہمارے جیسے شہر کے کسی بڑے سردار پر اتر تا.(ابن ہشام) 16 ابوطالب کی وفات کے بعد تو رسول اللہ کو ایذا دہی کا سلسلہ بہت تیز ہو گیا.یہاں تک کہ آپ کی ذات پر حملے ہونے لگے ایک بد بخت نے آپ کے سر پر خاک ڈال دی.رسول کریم اس حالت میں گھر تشریف لائے.آپ کی لخت جگر حضرت فاطمہ مٹی بھرا سر دھوتی تھیں اور ساتھ روتی جاتی تھیں اور رسول اللہ ا سے تسلی دیتے ہوئے فرماتے تھے بیٹی ! رونا نہیں.اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کا محافظ ہے.پھر فرمایا قریش نے میرے ساتھ ابوطالب کی وفات کے بعد بدسلوکی کی حد کر دی ہے.(ابن ہشام )17 الغرض ابو طالب کی وفات کے بعد قریش رسول اللہ کو دکھ پہنچانے کا کوئی حیلہ یا بہانہ ضائع نہ کرتے تھے.یہاں تک کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ ابوطالب کی کمی محسوس کرتے ہوئے فرمایا اے میرے چا! آپ کی جدائی مجھے کس قدر محسوس ہوتی ہے.( ھیثمی ) 18 ایک روز تو قریش نے رسول کریم پر مظالم کی حد کر دی.آپ گھر سے باہر نکلے تو جو بھی ملا وہ آزاد تھا یا غلام اس نے آپ کی تکذیب کی اور ایذارسانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.رسول اللہ مغموم ہو کر واپس لوٹے اور چادر اوڑھ کر لیٹ رہے تب حکم ہوا کہ اے چادر اوڑھے ہوئے اُٹھ اور لوگوں کو انذار کر.(ابن ہشام )19 امر واقعہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدائد و آلام کا حال اصحاب رسول نے بہت کم بیان کیا، کیونکہ ایک طرف یہ مضمون سخت تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا تو دوسری طرف ادب رسول کا بھی تقاضا تھا کہ یہ تذکرے عام نہ ہوں.خود نبی کریم کمال صبر کا نمونہ دکھاتے ہوئے کبھی بھی از خودان شدائد وآلام کے قصے نہیں سناتے تھے.گھر یلو ماحول میں کبھی بات ہو گئی تو حضرت عائشہ کو ایک دفعہ اتنا بتایا، میں ( مکہ میں ) دو بدترین ہمسایوں ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط کے درمیان رہتا تھا یہ دونوں گو بر اُٹھا کے لاتے اور میرے دروازے پر پھینک دیتے حتی کہ اپنے گھروں کی غلاظت بھی میرے دروازے پر ڈال جاتے.آپ باہر نکلتے تو صرف اتنا فرماتے اے عبد مناف کی اولاد! یہ کیسا حق ہمسائیگی تم ادا کرتے ہو؟“ پھر آپ اس گند کو خود راستہ سے ہٹا دیتے.(حلبیہ ( 20
351 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت اسوہ انسان کامل رسول اللہ کو طواف کعبہ سے بھی روکا جاتا تھا.کبھی بیت اللہ میں داخل ہو کر دورکعت نماز پڑھنا چاہی تو اس سے بھی منع کر دیئے گئے.عروہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے کہا کہ قریش نے آنحضرت کو جو سب سے بڑا دکھ پہنچایا اور آپ نے دیکھا ہو وہ سنائیں.عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں قریش کے سردار جمع تھے اور میں بھی موجود تھا.وہ کہنے لگے اس شخص کو جتنا ہم نے برداشت کیا ہے آج تک کسی اور کو نہیں کیا.اس نے ہمارے عقلمندوں کو بیوقوف کہا، ہمارے باپ دادا کو برا بھلا کہا، ہمارے دین کو خراب قرار دیا، ہماری جمعیت میں تفرقہ ڈال دیا اور ہمارے معبودوں کو گالیاں دیں ، ہم نے اس کی باتوں پر حد درجہ صبر کیا.ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.آپ نے آکر حجر اسود کو بوسہ دیا پھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے.اس دوران اُن سرداروں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی دعوے کا ذکر کر کے آپ پر اعتراض کے رنگ میں آنکھ سے اشارہ کیا ، جس کا اثر میں نے آپ کے چہرے پر دیکھا.پھر جب آپ دوسری دفعہ گزرے تو انھوں نے اسی طرح طعن کیا اور میں نے رسول اللہ کے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار دیکھے طواف کے تیسرے چکر میں بھی سردارانِ قریش نے یہی حرکت کی.آپ نے بڑے جلال سے انھیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے قریش کی جماعت سُن لو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے.میں تمھیں ہلاکت کی خبر دیتا ہوں.میں نے دیکھا کہ اس بات کا لوگوں پر اتنا اثر ہوا جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں.یہاں تک کہ ان میں سے سختی کی تحریک کرنے والا بھی نرمی سے کہنے لگا کہ اے ابو القاسم آپ تشریف لے جائیں.خدا کی قسم آپ جاہل نہیں ہیں.“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے.اگلے دن سرداران قریش خانہ کعبہ میں پھر جمع ہوئے اور میں ان کے ساتھ تھا.وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کل جو واقعہ گزرا ہے اس کے جواب میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کہا اس کے باوجود تم نے اس کو چھوڑ دیا.ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ رسول اللہ تشریف لائے.سب آپ کی طرف لپکے.آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے آپ ہمیں یہ یہ کہتے ہو.ہمارے معبودوں کو اور ہمارے دین کو خراب قرار دیتے ہو.حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر بات کا جواب دیتے جارہے تھے.اتنے میں ایک شخص نے آپ کی چادر کو پکڑا اور اس کو بل دے کر آپ کا گلا گھونٹے لگا.حضرت ابوبکر آڑے آئے اور اس شخص کو پیچھے ہٹایا اور روتے ہوئے کہا تم ایک شخص کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے.یہ واقعہ سنا کر عبداللہ بن عمرو کہنے لگے یہ ایک سخت ترین اذیت ہے جو میں نے رسول اللہ کو قریش سے پہنچتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھی.( احمد )21 ایک روز سرداران قریش خانہ کعبہ کے پاس مقام حجر میں جمع ہوئے.لات و منات اور عزیٰ کی قسمیں کھا کر کہا کہ آج کے بعد اگر ہم نےمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا تو ایک شخص کی طرح سب مل کر حملہ آور ہوں گے اور دم نہ لیں گے جب تک کہ ان کو قتل نہ کر دیں.حضرت فاطمہ کو پتہ چلا تو آپ روتی ہوئی اپنے بزرگ باپ کے پاس تشریف لائیں.عرض کیا کہ آپ کی قوم کے
352 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت اسوہ انسان کامل سرداروں نے ایسی قسمیں کھائی ہیں.ان میں سے ہر ایک شخص آپ کے خون کا پیاسا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میری بیٹی مجھے ذرا وضو کا پانی دینا.پھر آپ وضو کر کے بیت اللہ تشریف لے گئے، جہاں وہ سب سردار براجمان تھے.آپ کو دیکھتے ہی وہ سب بیک زبان ہو کر بولے لو وہ آگیا مگر کسی کو کھڑا ہو کر حملہ کرنے کی جرات نہ کود ہو ہوکرحملہ ہوئی.سب کی آنکھیں جھک گئیں اور کوئی بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا حتی کہ آپ کی طرف آنکھ تک اٹھانے کی جرات کسی کو نہ ہوسکی.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی طرف متوجہ ہوئے اور جاکر ان کے پاس کھڑے ہو گئے ، عین ان کے سروں کے اوپر.آپ نے مٹی کی ایک مٹھی بھر کر اُن کی طرف پھینکی اور بآواز بلند فرمایا شَاهَـتِ الوُجُوهُ» (یعنی رسوا ہو گئے چہرے ) ابن عباس کہتے ہیں ان سردارانِ قریش میں سے جس تک بھی وہ خاک پہنچی وہ بدر کے روز قتل ہو کر ہلاک ہوا.“ ( بیہقی )22 ایک دفعہ ابو جہل نے کہا کہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لوں تو آپ کی گردن دبوچ کے رکھ دوں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عجب جلال کے ساتھ فرمایا اگر وہ ایسا کرے گا تو فوراً فرشتے آکر اس پر گرفت کریں گے.( بخاری ) 23 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آزادی سے خدا کی عبادت کرنے کی بھی اجازت نہ تھی.آپ عبادت کرتے ہوئے بھی اذیتوں کا نشانہ بنائے گئے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے.ابو جہل اور اس کے ساتھی وہاں بیٹھے تھے.ان میں ایک دوسرے سے کہنے لگا تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے میں ذبح ہونے والی اونٹنی کی بچہ دانی اٹھالائے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پشت پر اس وقت رکھ دے جب وہ سجدہ کرے.تب لوگوں میں سے بد بخت انسان عقبہ بن ابی معیط اٹھا اور وہ اونٹنی کی بچہ دانی اٹھالایا اور دیکھتار ہا جب نبی کریم نے سجدہ کیا تو اس نے وہ گند بھری بچہ دانی آپ کے کندھوں پر رکھ دی.عبداللہ بن مسعودؓ ( جو ایک کمزور قبیلہ کے فرد تھے ) کہتے ہیں، میں یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ان سرداروں کی موجودگی میں رسول اللہ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا.اے کاش ! مجھے بھی طاقت حاصل ہوتی اور میں آپ کے لئے کچھ کر سکتا.ادھر سر داران قریش رسول اللہ کی یہ حالت زار دیکھ کر ہنتے ہوئے لوٹ پوٹ ہوکر ایک دوسرے پر گر رہے تھے.رسول اللہ مسجدہ کی حالت میں پڑے ہوئے سر نہ اٹھا سکتے تھے.یہاں تک کہ حضرت فاطمہ آئیں اور انہوں نے آپ کی پشت سے وہ گند ہٹایا تو آپ نے سراٹھایا اور فرمایا اے اللہ ! تو قریش پر گرفت کر.( بخاری ) 24 انتہائی ایذارسانی پر استقامت عمر و حضرت عثمان سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ نبی کریم ﷺ کو قریش سے پہنچنے والی اذیتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہنے لگے کہ قریش نے رسول اللہ کو بہت ہی ایذائیں دیں.عمرو کہتے ہیں کہ یہ کہہ کر وہ تکالیف یا دکر کے حضرت عثمان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.پھر کچھ سنبھل کر اپنا چشم دید واقعہ بیان کرنے لگے کہ ایک دفعہ رسول کریم خانہ کعبہ
353 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت اسوہ انسان کامل کا طواف فرمارہے تھے.آپ کا ہاتھ ابوبکر کے ہاتھ میں تھا اور صحن کعبہ میں قریش کے تین سردار عقبہ بن ابی معیط، ابو جہل اور امیہ بن خلف بیٹھے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا.جس کا ناگوار اثر میں نے حضور کے چہرے پر محسوس کیا.چنانچہ میں حضور کے اور قریب ہو گیا.حضور میرے اور ابوبکر کے درمیان آگئے.آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے ہاتھ میں ڈال لیں.ہم نے اکٹھے طواف کیا.جب اگلے چکر میں ہم ان کے پاس سے گزرے.ابو جہل کہنے لگا ”ہماری تم سے مصالحت قطعی ناممکن ہے.تم ہمیں ان معبودوں کی عبادت سے روکتے ہو.جن کی پرستش ہمارے باپ دادا کرتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میری یہی تعلیم ہے.“ طواف کے تیسرے چکر میں جب حضور ان کے پاس سے گزرے تو پھر انہوں نے ایسی ہی نازیبا حرکات کیں.چوتھے چکر میں وہ تینوں اٹھ کر کھڑے ہو گئے.پہلے ابو جہل پکا وہ رسول اللہ کو گلے سے پکڑ کر دبوچنا چاہتا تھا.میں نے اُسے سامنے سے روک کر دھکا دیا.وہ پشت کے بل پیچھے جا گرا.حضرت ابو بکڑ نے امیہ بن خلف کو پیچھے دھکیلا اور خو درسول اللہ نے عقبہ بن ابی معیط کو.اسکے بعد وہ وہاں سے چلے گئے.رسول اللہ وہاں کھڑے فرمارہے تھے ”خدا کی قسم ! تم باز نہیں آؤ گے یہاں تک کہ بہت جلد تم پر اللہ کی سزا اور گرفت اترے گی.“ حضرت عثمان فرماتے تھے کہ خدا کی قسم میں نے دیکھا ان میں سے ہر ایک خوف سے کانپ رہا تھا اور رسول اللہ فرمارہے تھے تم اپنے نبی کی کتنی بری قوم ثابت ہوئے ہو.پھر حضور اپنے گھر تشریف لے گئے اور دروازہ میں داخل ہونے کے بعد کھڑکی سے ہماری طرف رخ کر کے فرمایا تمہیں بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غالب اور اپنی بات پوری کر کے چھوڑے گا اور اپنے نبی کی مدد کرے گا.اور یہ لوگ جن کو تم دیکھتے ہو اللہ تعالیٰ انہیں بہت جلد تمارے ہاتھوں سے ہلاک کرے گا.“ پھر ہم اپنے گھروں کو چلے گئے.حضرت عثمان کہتے تھے پھر میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خدا نے ان لوگوں کو ہمارے ہاتھوں سے ہلاک کیا.( فتح )25 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.آپ مکہ سے باہر نکل رہے تھے.اہل مکہ نے آپ کو لہو لہان کر دیا ہوا تھا.جبریل نے پوچھا ” آپ کو کیا ہوا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ان لوگوں نے مجھے خون آلود کر کے چھوڑا ہے اور یہ یہ بد سلو کی میرے ساتھ کی ہے.“ جبریل نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں ان کو ایک نشان دکھاؤں آپ نے فرمایا ہاں! جبریل نے کہا اس درخت کو بلائیں.نبی کریم نے اسے بلایا وہ زمین پر نشان چھوڑتا ہوا آپ کے سامنے آکھڑا ہوا.جبریل نے کہا ” اب اسے واپس پلٹ جانے کا حکم دیجئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ واپس اپنی جگہ پر لوٹ جاؤ تو وہ واپس ہو گیا.پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بس میرے لئے کافی ہے.“ ( بیھقی ) 26
اسوہ انسان کامل 354 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اقتداری نشان بھی ہو سکتا ہے جس طرح پانی یا کھانا بڑھنے کے معجزات آپ سے ثابت ہیں.یا پھر یہ ایک لطیف کشفی نظارہ ہوسکتا ہے.جس میں تمثیلی زبان میں یہ پیغام تھا کہ اگر خدا چاہے تو اہل مکہ کو اس طرح مجبور کر کے آپ کے آگے جھکا دے جس طرح یہ درخت آپ کے بلانے پر چلا آیا ہے.مگر خدا تعالیٰ دین میں جبر وا کراہ روانہیں رکھتا.البتہ جن طبائع میں نرمی اور لچک ہے وہ ایک دن ضرور آپ کی آواز پر لبیک کہیں گی.اس نظارے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دلی طور پر ایسی تسلی ہوئی کہ فرمایا بس میرے لئے یہ کافی ہے.قید و بند کی صعوبتوں پر ثابت قدمی قریش مکہ کی طرف سے مظالم کے تمام حربے آزما لینے کے باوجو درسول اللہ کی استقامت ان کیلئے ایک حیران کن امر تھا.چنانچہ انہوں نے اجتماعی طور پر رسول اللہ کے قتل کا فیصلہ کیا اور اس سے اختلاف کی صورت میں رسول اللہ کا ساتھ دینے والے آپ کے سارے خاندان کے ساتھ بائیکاٹ طے کیا گیا.کہ ان کے ساتھ شادی بیاہ،خرید وفروخت اور میل جول سب بند کر دیا جائے.یہاں تک کہ وہ رسول اللہ کوقتل کرنے کیلئے ان کے حوالے نہ کر دیں.( ابن سعد ) 27 جب قریش نے دیکھا کہ بنو ہاشم کے تمام لوگ مسلمان اور کا فر رسول اللہ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں تو انہوں نے اپنے بازاران پر بند کر دیے.ادھر ابو طالب اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور ہو گئے انہیں غلہ اور کھانے پینے کے سامان کی خرید و فروخت سے کلی طور پر روک دیا گیا.ہر قسم کا سامان تجارت وہ ان سے پہلے جا کر خرید لیتے مقصد یہ تھا کہ وہ رسول اللہ کو ان کے سپردکردیں ورنہ یہ ان کو فاقوں اور بھوک سے ہلاک کرنے سے بھی دریغ نہ کریں گے.شعب ابی طالب میں اس تین سالہ محصوری کے زمانہ میں بعض لوگ رقم لے کر غلہ خرید نے بازار جاتے اور کوئی انہیں سودا دینے پر راضی نہ ہوتا اور وہ خالی ہاتھ لوٹ آتے یہاں تک کہ بعض لوگ فاقوں سے وفات پاگئے.( ابو نعیم ) 28 حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں ایک رات میں پیشاب کرنے کے لئے اٹھا.پیشاب کے نیچے کسی چیز کی آواز آئی دیکھا تو اونٹ کی خشک کھال کا ایک ٹکڑا تھا.جسے اُٹھا کر میں نے دھویا ، اسے جلایا پھر پتھر پر رکھ کر اسے باریک کیا اور پانی کے ساتھ نگل لیا اور تین روز تک اس کھانے پر گزارا کیا.جب مکہ میں قافلے غلہ لے کر آتے اور کوئی مسلمان غلہ خرید نے جاتا تو ابولہب انہیں کہتا محمد کے ساتھیوں کے لئے قیمت بڑھا دو.چنانچہ وہ کئی گنا قیمت بڑھا دیتے اور مسلمان خالی ہاتھ گھروں کو لوٹتے ان کے بیچے گھروں میں بھوک سے بلک رہے تھے مگر وہ انہیں کوئی کھانے کی چیز مہیا نہ کر پاتے تھے.اگلے دن ابولہب ان تاجروں سے مہنگے داموں غلہ اور کپڑے خرید لیتا اور یوں مسلمان اس عرصہ میں بھوکے ننگے رہ کر نہایت درد ناک حالت کو پہنچ گئے.(الروض) 29 حضرت سعد بن ابی وقاص شعب ابی طالب کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ فاقے سے تھے.رات
اسوہ انسان کامل 355 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت کے اندھیرے میں اُن کے پاؤں کے نیچے کوئی نرم چیز آئی جسے اُٹھا کر وہ کھا گئے اور انہیں پتہ تک نہ چلا کہ وہ کیا چیز تھی.(ابن ھشام) 30 علاوہ ازیں مسلمان اس دور میں سخت خطرے کی حالت میں تھے.رسول کریم اور مسلمانوں کی حفاظت اپنی ذات میں ایک اہم مسئلہ تھا.مسلسل تین سال تک یہ زمانہ خوف کے سایہ میں بسر ہوا.ابوطالب ہر شب رسول اللہ کو اپنے سامنے بستر پر سونے کیلئے بلاتے اور سلا دیتے تا کہ اگر کوئی شخص بدارادہ رکھتا ہے یا رات کو چپکے سے حملہ کرنا چاہتا ہے تو وہ آپ کو اس جگہ سوتے دیکھ لے، جب سب لوگ سو جاتے تو ابو طالب اپنے کسی بھائی، بیٹے یا چازاد کو رسول اللہ کی جگہ سونے کا حکم دیتے اور رسول اللہ کی سونے کی جگہ بدل کر کسی اور مخفی جگہ آپ کو سلا دیتے.حفاظت کا یہ پر حکمت طریق مسلسل جاری رہا.(زرقانی 31) مگر اس سے اس دور کے حالات کی نزاکت کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے.ڈیون پورٹ رسول اللہ کے استقلال کے بارہ میں لکھتا ہے.محمد(ﷺ) کو بلاشک وشبہ اپنے مشن کی سچائی پر یقین تھا.وہ اس پر مطمئن تھے کہ اللہ کے فرستادہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے ملک کی تعمیر واصلاح کی ہے.ان کا اپنا مشن نہ تو بے بنیاد تھا اور نہ غریب دہی ، جھوٹ و افترا پر مبنی تھا بلکہ اپنے مشن کی تعلیم و تبلیغ کرنے میں نہ کسی لالچی دھمکی کا اثر قبول کیا اور نہ زخموں اور تکالیف کی شدتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بن سکیں.وہ سچائی کی تبلیغ مسلسل کرتے رہے.‘ پورٹ )32 1 2 3 4 LO 5 6 7 8 9 حواله جات بخاری(67) کتاب المغازی باب 14 بخاری (65) کتاب المناقب باب 15 السيرة النبوية لابن هشام جلد 2 ص 296 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 37 مستدرك حاكم جلد4ص52 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص342 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص232 مسند احمد جلد 1 ص62 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 265
اسوہ انسان کامل 356 10 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص 165 11 بخاری (66) كتاب الفضائل الصحابة باب 25 12 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص376 13 السيرة النبوية لابن هشام جلد2ص25 14 مستدرك حاكم جلد2 ص361 بيروت 15 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 385 16 السيرة النبوية لابن هشام جلد 1 ص 85-384 17 السيره النبوية لابن هشام جلد2ص26 18 مجمع الزوائد لهيثمي جلد6ص 15 19 السيره النبويه لابن هشام جلد 1 ص311 20 السيرة الحلبية جلد 1 ص 295 بيروت 21 مسند احمد جلد2 ص 218 22 دلائل النبوه للبيهقى جلد2 ص 277، مستدرك حاكم جلد 1 ص 163 23 بخاری (68) کتاب التفسير سورة العلق 24 بخاری (4) كتاب الوضوء باب 69 25 فتح الباري جلد 7 ص 167 رسول اللہ کا استقلال اور استقامت 26 دلائل النبوة جلد2ص154 و مجمع الزوائد جلد9ص10 مطبوعه بيروت 27 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 208 ، دلائل ابی نعیم جلد 1 ص358 28 دلائل ابی نعیم جلد 1 ص359 29 الروض الانف جلد2 ص 127 مكتبه المصطفى البابي الحلبي 30 حاشية السيرة ابن هشام جلد2 ص 17 مكتبه المصطفى البابي الحلبي 31 شرح العلامه زرقانى على المواهب اللدنيه للقسطلاني جلد1ص279 Devenport, John, Apology for Mohammad and the Quran London (1889) Reprint Lahore 1975 Chap.3 p.133-34 32
اسوہ انسان کامل 357 نبی کریم کا مصائب پر صبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مصائب پر صبر صبر کے لغوی معنے روکنے کے ہیں.یہ ایک اعلیٰ درجے کا جامع خلق ہے.اس کے بنیادی معنی میں ضبط نفس ، شدت اور بختی بر داشت کرنے کے ہیں اور خدا کی راہ میں دیکھا اٹھا کر بغیر کسی شکوہ کے راضی برضا ہو جانے کا یہ خلق ” صبر جمیل“ کہلاتا ہے.صفات الہیہ میں سے ایک اہم صفت الصبور اور ”صبار ہے.جو مبالغہ کے صیغے ہیں اور جس کا مطلب بہت زیادہ عبر سے کام لینے والا.اللہ تعالیٰ کا صبر یہ ہے کہ وہ نافرمانوں کو جلد سزا نہیں دیتا.چنانچہ روایت ہے کہ کوئی انسان اللہ سے زیادہ صبر کرنے والا نہیں ہے.لوگ اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اور وہ ان سے درگزر کرتے ہوئے انہیں رزق بہم پہنچاتا ہے.(بخاری) 1 صفات الہیہ اختیار کرنا ہی انسان کے لئے جہاد بالنفس کی بہترین صورت ہے چنانچہ انسان یہی صفت صبر اختیار کرتا ہے تو اس میں کئی خلق جمع ہو جاتے ہیں.صبر کی حقیقت اور اجر انسان کا مصیبت کے وقت ضبط نفس اور برداشت سے کام لینا صبر ہے تو میدان جنگ میں تلواروں اور تیروں کے سامنے اپنے آپ کو روک رکھنا شجاعت ہے.عیش و عشرت اور اسراف سے رک جانا زہد ہے تو شرمگاہ کی حفاظت عفت ہے.کھانے سے اپنے آپ کو روک رکھنا وقار ہے تو غصہ کے اسباب سے رُکنا حلم ہے.اس جگہ نبی کریم کے مصائب پر صبر کا ذکر مقصود ہے.آنحضرت فرماتے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق إِنَّا لِلَّهِ " پڑھ کر پھر یہ دعا کرتا ہے اللهم أجرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفُ لِي خَيْراً مِنْهَا کہ اے اللہ مجھے اس مصیبت کا اجر عطا کر اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا کر تو اللہ تعالیٰ اسے اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے.(مسلم )2 حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ جب میں مومن بندے کی دنیا سے کوئی قیمتی اور محبوب چیز لیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اس کی جڑ ا سوائے جنت کے اور کچھ نہیں.( بخاری )3 ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے جو خیر ہی خیر ہے اور یہ شان صرف مومن کی ہے کہ اگر اسے تنگی ہوتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور یہ اس کے لئے خیر و برکت کا موجب ہو جاتا ہے اور اگر وہ تکلیف پر صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے لئے خیر و برکت کا موجب ہوتا ہے.(مسلم) 4
اسوہ انسان کامل 358 نبی کریم کا مصائب پر صبر ایک شخص کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے.اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس پر مصیبت بھی سخت آتی ہے.اور اگر دین میں کچھ کمزوری ہو تو اس کے مطابق وہ آزمایا جاتا ہے.اور جب ایک انسان مصیبت پر صبر کے ساتھ اس سے سرخرو ہو کر نکلتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح بخشے جاتے ہیں کہ کوئی بدی بھی باقی نہیں رہتی.( ترندی)5 جسمانی تکالیف پر صبر نبی کریم عملی زندگی میں چھوٹی بڑی تکالیف پر غیر معمولی صبر کا مظاہرہ فرماتے تھے.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ سخت بخار میں مبتلا تھے.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو تو سخت بخار کی تکلیف ہے آپ نے فرمایا ہاں مجھے بہت شدید تکلیف ہے ایک عام آدمی کو بخار میں جتنی تکلیف ہوتی ہے اس سے دو گنا تکلیف ہے.( مگر حضور نہایت صبر سے اسے برداشت کر رہے تھے ) میں نے عرض کیا آپ کو اجر بھی تو دگنا ملے گا.رسول اللہ نے فرمایا کسی مسلمان کو بھی کوئی تکلیف پہنچے حتی کہ کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ اس طرح دور کر دیتا ہے جیسے درخت کے پتے گر جاتے ہیں.( بخاری ) 6 حضرت جندب بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگ میں رسول کریم کی انگلی زخمی ہوگئی آپ اسے مخاطب کر کے فرماتے ہیں.هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيبٌ وفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيت اے انگلی ! تو صرف ایک انگلی ہی تو ہے جو زخمی ہوئی ہے تو کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں یہ تکلیف تجھے پہنچی ہے.( بخاری )7 اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے اخلاص و وفا کو آزمانے کیلئے کبھی خوف ، بھوک مصیبت سے اور کبھی جان ومال کی قربانی لے کر ان کا امتحان کرتا ہے.جو لوگ اس امتحان میں پورے اتریں اور کسی جزع فزع اور بے صبری کے اظہار کی بجائے کمال صبر و وفا سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ( یعنی ہم بھی اللہ کی ہی امانت ہیں اور ہم نے اس کی طرف لوٹ کر جانا ہے.کہ کر اپنے مالک کی مرضی پر راضی ہو جائیں تو اللہ ان پر راضی ہوتا ہے اور اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا اور ان کو ہدایت یافتہ قرار دیتا ہے.(سورۃ البقرۃ:156 تا158) نبی کریم سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ سب سے زیادہ ابتلاء اور مصائب کن لوگوں پر آتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نبیوں پر.پھر ان پر جو اُن سے قریب ہوں پھر ان سے قریب تر لوگوں پر.(احمد) 8 نبی کریم طبعاً بہت صابر و شاکر طبیعت رکھتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ کی آخری بیماری میں آپ کی تکلیف سے زیادہ کسی کی تکلیف نہیں دیکھی.( بخاری ) حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کی خدمت میں آپ کی آخری بیماری میں حاضر ہوا.آپ سخت تکلیف میں تھے.میں نے آپ کو ہاتھ لگا کر عرض کیا کہ آپ تو بخار سے تپ رہے ہیں.آپ نے
اسوہ انسان کامل 359 نبی کریم کا مصائب پر صبر فرمایا کہ مجھ اکیلے کو تمہارے دو آدمیوں کے برابر سخت بخار کی تکلیف ہے.میں نے عرض کیا پھر آپ کو اجر بھی دہرا ملے گا.فرمایا ہاں پھر فرمانے لگے کہ ایک مسلمان کو جب تکلیف یا بیماری پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی خطائیں اس طرح معاف کر دیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرتے ہیں.( بخاری ) 10 صبر جمیل کی تلقین اور پاک نمونہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی " کا جتنا بڑا مقام تھا اسی مناسبت سے آپ پر ابتلاء بھی آئے.دین کی راہ میں کفار اور مشرکین کے دکھ بھی آپ نے سہے.عزیزوں، پیاروں کی موت فوت کے صدمے بھی کمال صبر سے برداشت کئے.اپنے بچے غلاموں کو بھی اسی صبر جمیل کی تعلیم دی.چنانچہ نومسلم خواتین سے عہد بیعت لیتے ہوئے آپ یہ الفاظ بھی دوہراتے تھے کہ وہ مصیبت یا صدمہ کے وقت اپنا چہرہ نہیں نوچیں گی ، نہ ہی ہلاکت کی بددعا اور واویلا کریں گی.نہ گریبان پھاڑیں گی.اور نہ ہی بال بکھیر کر بین کریں گی.(ابوداؤد ) 11 اسی طرح رسول کریم نے فرمایا ” جب کسی کا بچہ فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بیٹے کی روح قبض کر لی ؟ وہ کہتے ہیں ہاں.اللہ فرماتا ہے تم نے اس کے دل کا ٹکڑا چھین لیا؟ وہ کہتے ہیں ہاں.اللہ فرماتا ہے میرے بندے نے کیا کہا؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تیری حمد کرتا تھا اور انا للہ کہہ کر تیری رضا پر راضی تھا.اللہ فرماتا ہے.میرے بندے کیلئے جنت میں گھر بناؤ اور اسکا نام ” بیت الحمد رکھو.“ ( ترندی )12 نبی کریم اس بات پر فخر کرتے تھے کہ میری امت کو مصیبت کے وقت انا للہ کہ کر اللہ کی رضا پر راضی ہونے کے اظہار کا جو سلیقہ دیا گیا ہے یہ مقام اور کسی امت کو اس سے پہلے نہیں دیا گیا.( ہیمی ) 13 حضرت ام المؤمین ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ جب میرے شوہر ابوسلمہ فوت ہوئے تو میں نے ارادہ کیا کہ پرانے رواج کے مطابق انکا ایسا ماتم کرونگی کہ دنیا یا در کھے گی.میں اس کے لئے تیار ہوکر بیٹھ گئی.ایک اور عورت بھی ماتم اور بین میں میری مدد کیلئے آگئی.اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا کہ تم اس گھر میں شیطان کو داخل کرنا چاہتی ہو جس سے اللہ نے شیطان نکال دیا.اُم سلمہ پر اس نصیحت کا ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہ کہتی ہیں کہ میرا رونا بند ہو گیا اور میں روہی نہیں سکی.( مسلم ) 14 حضرت ام سلمہ کہتی ہیں مجھے رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ تم دعا کرو اللہ تعالیٰ تمہیں اس مصیبت کا بہتر بدلہ دے.میں سوچتی تھی کہ ابوسلمہ سے بہتر کون ہوگا لیکن جب اللہ تعالیٰ نے نبی کریم سے عقد کروا دیا تو مجھے اس دعا کی قبولیت کی سمجھ آئی.(مسلم) 15 ایک دفعہ نبی کریم ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے ، جو ایک قبر کے پاس بیٹھی رو رہی تھی.آپ نے اسے
360 اسوہ انسان کامل نبی کریم کا مصائب پر صبر نصیحت کی کہ اللہ سے ڈرو اور صبر کرو.اس نے آپ کو پہچانا نہیں اور کہا پیچھے ہٹ تمہیں میرے جیسی مصیبت نہیں پہنچی.اسے جب بتایا گیا کہ یہ تو نبی کریمے تھے تو آپ کے گھر حاضر ہوئی اور معذرت کی کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا.( گویا اب میں صبر کرتی ہوں) آپ نے فرمایا اصل صبر تو صدمہ کے آغاز میں ہوتا ہے.( بخاری )16 پیاروں کی جدائی پر صبر اس عورت کا رسول اللہ کے پاس آکر معذرت کرنا اس وجہ سے تھا کہ وہ جانتی تھی کہ نبی کریم نے اس سے بڑے مصائب پر صبر کیا.ماں کی وفات پر اپنے پیارے دادا اور چچا کی وفات پر اپنی عزیز بیوی خدیجہ کی جدائی پر.اپنے کئی بیٹوں اور بیٹیوں کی وفات پر جن کی تعداد گیارہ تک بیان کی گئی ہے.حضرت خدیجہ کے بطن سے آپ کی نرینہ اولا دقاسم، عبد اللہ طیب ، طاہر مطہر ، مطیب ، عبد مناف کم سنی میں اللہ کو پیارے ہو گئے جبکہ بیٹیوں میں سے اُم کلثوم،رقیہ اور زینب نے آپ کی زندگی میں وفات پائی.(الحلبیہ ( 17 اور آپ نے صبر کیا.ماریہ قبطیہ کے بطن سے آخری عمر کی اولاد ابراھیم پیدا ہوئے.جو آپ کو بہت پیارے تھے ابوسیف کے گھر میں رضاعت کے لئے صاحبزادہ ابراھیم کو رکھا گیا تھا، آپ وہاں اپنے اس لخت جگر سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے.آپ ابراھیم کو اٹھا کر سینے سے لگاتے اور پیار کرتے.اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آپ نے اس بیٹے کی صلاحیتوں کے بارہ میں فرمایا تھا کہ اگر صاحبزادہ ابراھیم زندہ رہتے تو ضرور سچے نبی ہوتے.(ابن ماجہ ) 18 جب ابراہیم کی وفات کا وقت آیا تو رسول کریم نے کمال صبر کا نمونہ دکھایا.اپنے خدا کی رضا کے آگے ، جو آپ کو ابراھیم سے کہیں زیادہ پیارا تھا، یہ کہتے ہوئے سر جھکا دیا کہ الْعَيْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ يَحْزُنُ وَلَا تَقُولُ إِلَّا بِمَا يَرْضَى بِهِ رَبُّنَا وَإِنَّا عَلَى فِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ.آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمگین ہے مگر ہم اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کلمہ زبان پر نہیں لائیں گے اور اے ابراھیم ! ہم تیری جدائی پر سخت غمگین ہیں.( بخاری )19 حضرت ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم کی صاحبزادی ام کلثوم کا جنازہ قبر میں رکھا گیا تو آپ نے یہ آیت پڑھی مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيْهَا نُعِيدُ كُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أخرى (سورة طه: 56) کہ اس زمین سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا.اس میں دوبارہ داخل کریں گے اور اسی سے دوسری مرتبہ نکالیں گے.تم پہ پھر جب ان کی لحد تیار ہوگئی تو نبی کریم خود مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دینے لگے اور فرمایا کہ اینٹوں کے درمیان سوراخ ان سے بند کر دو.پھر فرمایا کہ ایسا کرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں مگر زندوں کا دل اس سے مطمئن ہوتا ہے.( بیشمی ) 20 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ہمیں رسول کریم کی دو بیٹیوں کے جنازہ میں شریک ہونے کا موقع ملا.رسول اللہ قبر کے پاس تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے.حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی صاحبزادی رقیہ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں.
اسوہ انسان کامل 361 نبی کریم کا مصائب پر صبر P حضرت عمرؓ کوڑے سے انہیں مارنے لگے تو نبی کریم نے انہیں اپنے ہاتھ سے پیچھے ہٹایا، فرمایا اے عمر ا ر ہنے دو.پھر آپ نے عورتوں کو نصیحت فرمائی کہ تم شیطانی آوازوں ( یعنی چیخ و پکار ) سے اجتناب کرو.پھر فرمایا کہ بے شک ایسے صدمے میں آنکھ کا اشکبار ہو جاتا اوردل کا غمگین ہوتا تو اللہ کی طرف سے ہے، جو دل کی نرمی اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے.ہاتھ اور زبان سے ماتم شیطانی فعل ہے.( احمد ) 21 حضرت اسامہ بن زید حضرت زینب کے ایک صاحبزادے کی وفات کا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحبزادی نے آپ کو پیغام بھجوایا کہ میرا بیٹا جان کنی کے عالم میں آخری سانس لیتا نظر آتا ہے.آپ تشریف لے آئیں.رسول اللہ نے فرمایا ان کو جا کر سلام کہو اور یہ پیغام دو یہ اللہ کا ہی مال تھا، اس نے واپس لے لیا، اسی نے عطا کیا تھا.اور ہر شخص کی اللہ کے پاس میعاد مقرر ہے.اس لئے میری بیٹی صبر کرے اور اللہ سے اس کے اجر کی امید رکھے.اس پر آپ کی صاحبزادی نے دوبارہ پیغام بھجوایا اور قسم دے کر کہلا بھیجا کہ آپ ضرور تشریف لائیں.آپ تشریف لے گئے ،سعد بن عبادہ ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور زید بن ثابت اور کچھ اور اصحاب آپ کے ساتھ تھے.وہ بچہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا.اس کی جان نکل رہی تھی.رسول اللہ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.حضرت سعد نے تعجب سے کہا یا رسول اللہ یہ کیا؟ آپ نے فرمایا یہ محبت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دلوں میں پیدا کی ہے.(مسلم )22 حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ کی ایک کم سن بیٹی آخری دموں پر تھی.رسول کریم نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا پھر اس پر اپنا ہاتھ رکھا اس کی روح پرواز کر گئی.بچی کی میت رسول اللہ کے سامنے تھی.رسول اللہ کی رضاعی والدہ اُم ایمن رو پڑیں.رسول کریم نے اسے فرمایا اے ام ایمن ! رسول اللہ کی موجودگی میں تم روتی ہو وہ بولیس جب خدا کا رسول بھی رورہا ہے تو میں کیوں نہ روؤں.رسول کریم نے فرمایا میں روتا نہیں ہوں.یہ تو محبت کے آنسو ہیں پھر آپ نے فرمایا مومن کا ہر حال ہی خیر اور بھلا ہوتا ہے.اس کے جسم سے جان قبض کی جاتی ہے اور وہ اللہ کی حمد کر رہا ہوتا ہے.(نسائی) 23 نبی کریم کے بہت پیارے چچا حضرت حمزہ جو مکہ میں مصائب کے زمانہ میں آپ کی پناہ بنے تھے.احد میں شہید ہوئے ان کی نعش کا مثلہ کر کے کان ناک کاٹے گئے اور کلیجہ چبا کر پھینکا گیا اور بے حرمتی کی گئی.نبی کریم اپنے پیارے چا کی نعش پر تشریف لائے بغش کی حالت دیکھی اور فرمایا کہ اگر مجھے اپنی پھوپھی صفیہ کے غم کا خیال نہ ہوتا تو حمزہ کی نعش کو اسی حال میں چھوڑ دیتا کہ درندے اسے کھا جاتے اور قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اس کا حشر ہوتا.پھر آپ نے ایک چادر کا کفن دے کر انہیں دفن کر دیا.رسول اللہ ﷺ نے دوستوں کی موت کے صدمے بھی دیکھے.احد میں ستر صحابہ شہید ہوئے تھے مگر آنحضرت کمال صبر سے راضی برضار ہے.غزوہ موتہ میں آپ کے چازاد بھائی حضرت جعفر طیار حضرت زید بن حارثہ “ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ شہید ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم کو وحی کے ذریعہ اطلاع فرمائی.
اسوہ انسان کامل 362 نبی کریم کا مصائب پر صبر حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم مجلس میں تشریف فرما تھے اور چہرہ سے حزن و ملال کے آثار صاف ظاہر تھے.کسی نے آکر عورتوں کے بین کرنے کا ذکر کیا تو آپ نے اُن کو سمجھانے کی ہدایت فرمائی.( بخاری ) 24 نبی کریم نے اپنے ساتھیوں کے عزیزوں کی موت کے صدمے میں بھی شریک ہوئے اور انہیں صبر کا نمونہ دکھانے کی نصیحت فرمائی.نوجوان صحابی حضرت معاذ بن جبل کا بیٹا فوت ہو گیا.نبی کریم نے ان کے ساتھ اظہار افسوس کرتے جو بے ہوئے جو تعزیتی خط تحریر فرمایا وہ آپ کے صبر و رضا کا ایک شاہکا رہے.آپ نے بسم الله الرحمن الرحیم “ کے بعد تحریر فرمایا:.یہ خط محمد رسول اللہ کی طرف سے معاذ بن جبل کی طرف ہے.آپ پر سلام ہو میں تمہارے سامنے اس اللہ کی تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں.اس کے بعد تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں عظیم اجر عطا کرے اور آپ کو صبر الہام کرے اور ہمیں اور آپ کو شکر کی توفیق دے.(یا درکھو) ہماری جانیں اور ہمارے مال اور ہماے اہل وعیال سب اللہ کی عطا ہیں.یہ امانتیں ہیں جو اس نے ہمارے سپر دفرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس بچے کے عوض کچی خوشی نصیب کرے اور اس کی موت کے بدلے تمہیں بہت سا اجر برکتوں اور رحمتوں اور ہدایت کا عطا کرے..اگر تم ثواب کی نیت رکھتے ہو تو صبر کرو اور واویلا کر کے اپنا اجر ضائع نہ کر بیٹھو کہ بعد میں تمہیں ندامت ہو اور جان لو کہ واویلا کرنے سے مردہ واپس نہیں آجا تا.نہ ہی جزع فزع اور بے صبری غم کو دور کرتی ہے اور جو مصیبت انسان کے مقدر میں ہے وہ تو آنی ہی ہوتی ہے.والسلام ( بیشمی ) 25 نبی کریم کی اس پاکیزہ تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش نے اپنے سگے بھائی کی وفات کے تیسرے دن آرائش کا سامان منگوا کر چہرے کی تزئین کی.اور فرمایا کہ بے شک مجھے اس عمر میں اس آرائش کی ضرورت نہیں ،مگر میں نے رسول کریم سے سنا ہے کہ کسی مومن عورت کے لئے جائز نہیں کہ خاوند کے سوا کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے.خاوند کی موت پر چار ماہ دس دن سوگ کرنا ضروری ہے.یہی حال دیگر ازواج مطہرات کا تھا.( بخاری )26 غیروں کا اعتراف پر کاش دیو جی رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کے مظالم پر صبر واستقامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :.حضرت کے او پر جو ظلم ہوتا تھا اُسے جس طرح بن پڑتا تھا وہ برداشت کرتے تھے.مگر اپنے رفیقوں کی مصیبت دیکھ کر اُن کا دل ہاتھ سے نکل جاتا تھا اور بیتاب ہو جاتا تھا اُن غریب مومنوں پر ظلم وستم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا.لوگ اُن غریبوں کو پکڑ کر جنگل میں لے جاتے اور برہنہ کر کے جلتی تپتی ریت میں لٹا دیتے اور اُن کی چھاتیوں پر پتھر کی سلیں رکھ دیتے وہ گرمی کی آگ سے تڑپتے.مارے بوجھ کے زبان باہر نکل پڑتی.بہتیروں کی جانیں اس عذاب سے نکل گئیں.
اسوہ انسان کامل 363 نبی کریم کا مصائب پر صبر انہیں مظلوموں میں سے ایک شخص عمارا تھا جسے اس حوصلہ وصبر کی وجہ سے جو اُس نے ظلموں کے برداشت میں ظاہر کیا حضرت عمار کہنا چاہئے اُن کی مشکیں باندھ کر اُسی پتھریلی زمین پر لٹاتے تھے اور اُن کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے تھے.کم دیتے تھے کہ محمد کو گالیاں دو اور یہی حال اُن کے بڑھے باپ کا کیا گیا.اُن کی مظلوم بی بی سے جس کا نام سمیہ تھا یہ ظلم نہ دیکھا گیا اور وہ عاجزانہ فریاد زبان پر لائی اس پر وہ بے گناہ ایماندار عورت جس کی آنکھوں کے رو برواس کے شوہر اور جوان بیچے پر ظلم کیا جاتا تھاہر نہ کی گئی اور اُ سے سخت بے حیائی سے ایسی تکلیف دی گئی جس کا بیان کرنا بھی داخل شرم ہے.آخر اس عذاب شدید میں تڑپ تڑپ کر اس ایماندار بی بی کی جان نکل گئی.( پر کاش ) 27 مشہور اطالوی مستشرق ڈاکٹر وگلیری نے رسول اللہ کے صبر واستقامت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کی زندگی میں اسلام صرف توحید کا داعی تھا.لیکن جب آپ اور آپ کے ساتھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے تو اسلام ایک زبر دست سیاسی طاقت بن گیا.محمد نے قریش کے مطاعن اور مظالم کو صبر سے برداشت کیا اور بالآخر آپ کو اذنِ الہی ملا کہ آپ آپنے دشمنوں کا مقابلہ کریں.پس مجبور ہو کر آپ نے تلوار کو بے نیام کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الہامات میں یہ تعلیم ہوتی تھی کہ مظالم کو صبر سے برداشت کرنا چاہئے.( وگلیری) 28 مشہور مؤرخ گبن رسول اللہ کے صبر واستقامت کی دادیوں دیتا ہے:.اُن سے پہلے کوئی پیغمبر اتنے سخت امتحان سے نہ گزرا تھا جیسا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیونکہ منصب نبوت پر سرفراز ہوتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو سب سے پہلے اُن لوگوں کے سامنے پیش کیا جو انہیں سب سے زیادہ جانتے تھے.اور جوان کی بشری کمزوریوں سے بھی سب سے زیادہ واقف ہو سکتے تھے.لیکن دوسرے پیغمبروں کا معاملہ برعکس رہا کہ وہ سب جگہ سب کے نزدیک معزز و محترم ٹھہرے الا یہ کہ جو انہیں اچھی طرح جانتے تھے.“ ( گبن ) 29 1 بخاری (81) کتاب الادب باب 95 2 مسلم (12) كتاب الجنائز باب 2 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 11 حواله جات
اسوہ انسان کامل 364 4 مسلم (56) كتاب الزهد والرقائق باب14 5 ترمذی (37) كتاب الزهد باب 35 6 بخاری (78) كتاب المرضى باب 55 7 بخاری (81) كتاب الادب باب18 مسند احمد بن حنبل جلد 6ص369 بخاری (78) كتاب المرضى باب2 10 بخاری (78) كتاب المرضى باب 13 11 ابوداؤد (21) كتاب الجنائز باب 29 12 ترمذی (8) كتاب الجنائز باب 36 13 مجمع الزوائد لهيثمي كتاب الجنائز باب الاسترجاع بحواله طبرانی کبیر 14 مسلم (12) كتاب الجنائز باب 30 15 مسلم (12) كتاب الجنائز باب 28 16 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 41 17 سيرة حلبيه جلد 3 ص432 433 440 و تاريخ الخميس جلد 1 ص 272 18 ابن ماجه (6) كتاب الجنائز باب 27 19 بخاری(29) كتاب الجنائز باب 42 20 مجمع الزوائد لهيثمى كتاب الجنائز باب ما يقول اذا ادخل القبر 21 مسند احمد جلد 1 ص 335 22 مسلم (12) كتاب الجنائز باب 31 23 نسائی کتاب الجنائز باب في البكاء على الميت 24 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 39 25 مجمع الزوائد لهيثمي جلد3 ص 3 بيروت 26 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 30 27 سوانح عمری حضرت محمد صاحب :25 نبی کریم کا مصائب پر صبر 28 اسلام پر ایک نظر ص 12-10 ترجمه An interpretation of Islamمطبوعه 1957 از مترجم شیخ محمد احمد مظهر 29 گبن، زوال سلطنت روما ص 108 بحواله نقوش رسول نمبر جلد 11 ص548
اسوہ انسان کامل 365 غزوات النبی میں خلق عظیم غزوات النبی میں خلق عظیم اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اور عام حالات میں جنگ وجدال سے منع کرتا ہے، تاہم جب دشمن حملہ آور ہوکر آجائے تو انسانوں کو اپنے دفاع کا حق مکمل ہے.بانی اسلام کو بھی ایسی دفاعی جنگوں کا سامنا کرنا پڑا.نبی کریم نے ایک سپاہی کے طور پر بھی غزوات میں حصہ لیا اور دفاعی جنگوں میں بطور جرنیل اپنے لشکر کی کمان کر کے میں کمان بھی کامل نمونہ پیش کیا.جنگوں میں اکثر فتح پائی اور کبھی ساتھیوں کے پاؤں اکھڑ بھی گئے.مگر ہمیشہ اور ہر حال میں آپ کے پاکیزہ اخلاق نئی شان کے ساتھ ظاہر ہوئے.ہمارے سید و مولا حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مکارم اخلاق کی یہی عظمت ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے نئے حسین جلوے دکھاتے نظر آتے ہیں.حالت امن ہو یا جنگ، مشکلات کے پہاڑ اور مصائب کے طوفان اس کوہ استقامت کو ہلا نہیں سکتے.فتوحات اور کامرانیوں کے نظارے اس کوہ وقار میں ذرہ برابر جنبش پیدا نہیں کر سکتے.تکلف اور تصنع سے پاک ایسے کامل اور بچے اخلاق میں بلا شبہ خدائی شان جلوہ گر نظر آتی ہے اور ہر صاحب بصیرت انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ اے آقا تیرے روشن و تاباں چہرے میں ایسی شان اور عظمت ہے جو انسانی شمائل اور اخلاق سے کہیں بڑھ کر ہے.رسول اللہ کے خلق عظیم کا طرہ امتیاز ہمیشہ یہ رہا کہ آپ ہر امکانی حد تک فساد سے بچتے اور ہمیشہ امن کی راہیں اختیار کرتے تھے.مکے کا تیرہ سالہ دور ابتلا گواہ ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ نے سخت از بیتیں اور تکالیف اٹھائیں لیکن صبر پر صبر کیا.جانی اور مالی نقصان ہوئے پر برداشت کئے اور مقابلہ نہ کیا.اپنے مظلوم ساتھیوں سے بھی یہی کہا کہ إِنِّي أُمِرْتُ بِالعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا کہ مجھے عضو کا حکم ہوا ہے.اس لئے تم لڑائی سے بچو.(نسائی) پھر جب دشمن نے شہر مکہ میں جینا دو بھر کر دیا.آپ کے قتل کے منصوبے بنائے تو آپ اور آپ کے ساتھیوں نے عزیز واقارب اور مال و جائیداد کی قربانیاں دے کر دکھی دل کے ساتھ وطن کو بھی خیر باد کہ دیا اور مدینے میں پناہ لی.دشمن نے وہاں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا.اہل مکہ مسلمانانِ مدینہ پر حملہ آور ہونے لگے.تب ہجرت مدینہ کے ایک سال بعد اذن جہاد کی وہ آیت اتری جس میں مظلوم مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مذہبی آزادی کی خاطر تلوار اٹھانے کی اجازت دی گئی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ الله عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ.( سورة الحج: 40) وہ لوگ جن سے ( بلا وجہ ) جنگ کی جارہی ہے اُن کو بھی (جنگ) کرنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان -
366 غزوات النبی میں خلق عظیم اسوہ انسان کامل کی مدد پر قادر ہے.اس آیت اور اس سے اگلی آیات سے اسلامی جنگوں کی غرض وغایت ظاہر وباہر ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ جنگ کی ابتدا کفار کی طرف سے ہوئی.دوسرے یہ کہ مسلمان دین کی وجہ سے مظلوم ہوکر رہ گئے تھے.تیسرے کفار یکھنی کا مقصد دین اسلام کونابود کرنا تھا.چوتھے مسلمانوں کو محض خود حفاظتی اور اپنے دفاع کی خاطر تلوار اُٹھانی پڑی.سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ”محمد“ میں جہاد کے اسلامی تصور کا ذکر کرتے ہوئے لکھ ہیں."The Jihad is not one of the five pillars of Islam.It is not the central prop of the religion, despite the common Western view.But it was and remains a duty for Muslims to commit themselves to a struggle on all fronts-moral, spiritual and political.to create a just and decent society, where the poor and vulnerable are not exploited, in the way that God had intended man to live.Fighting and warfare might sometimes be necessary, but it was only a minor part of the whole jihad or struggle.A well-known traditon (hadith) jihad to the greater jihad, the difficult and crucial effort to conquer the forces of evil in oneself and in one's own society in all the details of daily life."(page 168) ”جہاد اسلام کے پانچ ارکان میں شامل نہیں اور اہل مغرب میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف یہ مذہب (اسلام) کا مرکزی نقطہ بھی نہیں لیکن مسلمانوں پر یہ فرض تھا اور رہے گا کہ وہ اخلاقی ، روحانی اور سیاسی ہر محاذ پر ایک مسلسل جد و جہد اور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف عمل رکھیں.تا کہ انسان کے لئے خدا کی منشاء کے مطابق انصاف اور ایک شائستہ معاشرہ کا قیام ہو.جہاں غریب اور کمزور کا استحصال نہ ہو.جنگ اور لڑائی بھی بعض اوقات ناگزیر ہو جاتی ہے.لیکن یہ اس بڑے جہاد یعنی کوشش کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے.ایک معروف حدیث کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ سے واپسی پر فرماتے ہیں کہ ہم ایک بڑے جہاد سے چھوٹے جہاد کی طرف لوٹ کر آتے ہیں یعنی اس مشکل اور اہم مجاہدہ یا جہاد زندگانی کی طرف جہاں ایک فرد کو اپنی ذات اور اپنے معاشرے میں روز مرہ زندگی کی تمام تر تفاصیل میں برائی کی قوتوں پر غالب آنا ہے.( آرمسٹرانگ )12 اسلامی جنگوں میں ضابطہ اخلاق اسلامی جنگوں میں ضابطہ اخلاق کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ دیگر مذاہب میں جنگوں کے ضابطہ کا بھی ذکر کیا جائے.یہودونصاری کو اپنے دشمنوں سے یہ سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی.” جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لئے تو جارہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے اُن
367 غزوات النبی میں خلق عظیم اسوہ انسان کامل بہت سی قوموں کو یعنی جنتیوں اور چر جاسیوں اور اُمور یوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور جو یوں اور سیوسیوں کو جو ساتوں قو میں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مارلے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا، تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا، اور نہ ان پر رحم کرنا، تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا، نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا نہ اپنے بیٹوں کے لئے ان کی بیٹیاں لینا، کیوں کہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تا کہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑ کے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دے گا.بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، اور ان کی سیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا.‘ (استثناء باب 7 آیت 1 تا 6) قرآن شریف نبی کریم کے زمانہ کی مستند ترین مسلمہ دستاویز ہے، اس میں اسلامی جہاد کے آداب بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ط إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (البقرہ : 191) یعنی اللہ کی راہ میں ان سے لڑو جو تم سے جنگ کرتے ہیں.اسی طرح فرمایا کہ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّل مَرَّةٍ (التوبہ: 13 ) کہ جنگ میں پہل کفار مکہ کی طرف سے ہوئی تھی.اس کے باوجود مسلمانوں کو یہی حکم تھا کہ اگر دشمن اب بھی صلح کی خواہش کرے تو مصالحت کرلو.فرمایا وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (الانفال:62) کہ اگر وہ (دشمن ) صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی صلح کے لئے جھک جاؤ.نبی کریم ان اصولی اسلامی احکام کی روشنی میں ہمیشہ اپنے ساتھیوں کو یہ تعلیم دیتے رہے کہ دشمن سے مقابلہ کی خواہش کبھی نہ کریں.خدا سے ہمیشہ عافیت اور امن و امان کے طالب ہوں.ہاں جب دشمن حملہ آور ہو اور اس سے مقابلہ ہو جائے تو پھر اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرو.اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے.( بخاری )2 حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ رسول کریم جب کسی دستہ پر کوئی امیر مقررفرماتے یا کوئی مہم بھجواتے تو اسے سب سے اہم ہدایت یہ فرماتے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا اور اپنے ساتھی مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کرنا.پھر فرماتے خدا کا نام لے کر اللہ کی راہ میں نکلا کرو.ان سے جنگ کرو جو اللہ کے منکر ہیں.جہاد کرو اور کسی قسم کی خیانت کے مرتکب نہ ہوتا.بدعہدی نہ کرنا.دشمن کی نعشوں کا مثلہ نہ کرنا یعنی کان ناک وغیرہ اعضاء کاٹ کر بے حرمتی نہ کرنا).بچوں کو قتل نہ کرنا.وہ مشرک جو فتح مکہ کے بعد بھی مسلمانوں کے ساتھ نبرد آزما اور حالت جنگ میں تھے ان کے متعلق فرمایا ” جب مشرکوں میں سے اپنے کسی دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان کو تین باتوں میں سے کسی ایک کی طرف بلاؤ.ان میں سے کسی ایک بات کو بھی وہ قبول کر لیں تو ان پر حملے سے رُک جاؤ اول انہیں اسلام کی دعوت دو.اگر وہ قبول کر لیں تو ان پر حملہ کرنے سے گریز کرو.پھر ان کو اپنے وطن سے مسلمانوں کے دارالہجرت کی دعوت دیں اگر وہ اسے قبول کریں تو
اسوہ انسان کامل 368 غزوات النبی میں خلق عظیم جو حقوق اور فرائض مہاجرین کے ہیں وہ ان کے ذمہ ہوں گے.اگر وہ ہجرت پر آمادہ نہ ہوں تو انہیں بتاؤ کہ خانہ بدوش مسلمانوں کی طرح ان کے حقوق ہونگے.مومنوں پر جو احکام لاگو ہیں وہی ان پر بھی ہونگے.اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ ملکر جہاد کریں گے تو مال غنیمت وغیرہ سے حصہ پانے کے حقدار ہونگے.اگر اس بات سے بھی انکار کریں تو ان سے اپنے مذہب پر قائم رہ کر اسلامی حکومت کی اطاعت کرتے ہوئے جزیہ کا مطالبہ کرو اگر وہ قبول کر لیں تو تم بھی اسے قبول کر کے حملہ سے رُک جانا لیکن اگر وہ ان تمام شرائط صلح سے انکاری ہوں تو پھر اللہ کا نام لے کر ان سے جنگ کرو.(مسلم)3 رسول کریم نے یہاں تک تفصیلی ہدایات دیں کہ سفر جہاد پر جاتے ہوئے راستے میں کسی کو تکلیف نہ پہنچنے پائے.چنانچہ حضرت جابر کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا " اگر رات کو تم پر کوئی شب خون مارے تو اذان کہہ کر اپنے اسلام کا اعلان کرو اور راستے کے درمیان میں نماز نہ پڑھو.نہ ہی اس پر پڑاؤ کرو.“ (احمد )4 عبدالرحمن بن عائذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ عام طور پر لوگوں سے نرمی اور محبت کا سلوک کرو.اور اس وقت تک ان پر حملہ نہ کرو جب تک تم ان کو صلح کی دعوت نہ دے لو.“ پھر فرمایا اگر تم اہل زمین کو مطیع کر کے اور مسلمان بنا کر میرے پاس لے آؤ تو یہ مجھے زیادہ پسند ہے بہ نسبت اس کے کہ ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بناؤ اور مردوں کو قتل کرو.“ (علی متقی ) 5 رسول کریم صحابہ کو صبح و شام جنگ میں سورہ مومنون کی آیت 116 پڑھنے کا ارشاد فرماتے تھے جس میں ارشاد باری ہے ” کیا تم خیال کرتے ہو کہ تمہیں بے مقصد پیدا کیا گیا ہے اور تمہیں ہماری طرف لوٹا کر نہیں لایا جائے گا ؟ اس کی حکمت یہی معلوم ہوتی ہے کہ ان اصحاب پر خوف خدا طاری رہے اور کسی پر زیادتی کا ارتکاب نہ کریں.وہ اپنے اصل مقصد عبودیت ورضا الہی پر نظر رکھیں.رسول کریم نے اپنے صحابہ کو جنگ کے آداب اور مستقل ہدایات دیتے ہوئے فرمایا کہ ” جنگ کے دوران کسی عمر رسیدہ بوڑھے کو، کم سن بچے کو اور عورت کو قتل نہ کرو.خیانت کرتے ہوئے مال غنیمت پر قبضہ نہ کرو حتی الوسع اصلاح اور احسان کا معاملہ کر واللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.(ابوداؤد ) 6 اسی طرح حکم دیا کہ دوشمن پر رات سوتے میں حملہ نہ کرنا اور شب خون نہ مارنا.( بخاری ) 7 رسول کریم کے بیان فرمودہ ان آداب جنگ کی تعمیل حضور کے زمانے میں نہایت پابندی سے کی گئی اور آپ کے بعد بھی خلفاء راشدین نے اس ضابطہ اخلاق کا بے حد خیال رکھا.بلکہ اس پاکیزہ تعلیم کی روح مد نظر رکھتے ہوئے ،حسب حال مزید ہدایات جاری فرمائیں.جو آج بھی اسلامی ضابطہ جنگ کا حصہ ہیں کیونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ کے ساتھ خلفاء راشدین کی پیروی کا بھی حکم ہے.حضرت ابو بکر نے یہ ہدایات دیں کہ جن لوگوں نے اپنی خدمات کسی بھی مذہب
اسوہ انسان کامل 369 غزوات النبی میں خلق عظیم کے لئے وقف کی ہوں ، اُن سے میدان جنگ میں تعرض نہ کیا جائے.اُن کے مذہب کی مقدس چیزوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے.کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے.نہ ہی کسی آبادی کو ویران کیا جائے.اور کسی جانور کو ذبح بھی نہ کریں سوائے اس کے جسے کھانا مقصود ہو.کسی کو آگ سے نہ جلائیں.(مالک)8 الغرض رسول کریم کو دشمن کے حملے سے مجبور ہو کر اپنا دفاع کرنے کے لئے جب تلوار اُٹھانا پڑی تو جنگ کی حالت میں جہاں دنیا سب کچھ جائز بھتی ہے ، آپ نے پہلی دفعہ دنیا کو جنگ کے آداب سے روشناس کرایا.اس ضابطہ اخلاق کے ساتھ جب آپ جنگ کے لئے لکتے تو پھر آپ کا تمام تر تو کل اور بھروسہ خدا کی ذات پر ہوتا تھا.حضرت انس بیان کرتے ہیں رسول کریم جب کسی غزوہ کے لئے نکلتے تو یہ دعا کرتے اللهُم أَنْتَ عَضُدِي وَأَنْتَ نَصِيْرِي وَبِكَ اقَاتِلُ ( احمد ) اے اللہ تو ہی میرا سہارا، تو ہی میرا مددگار ہے.اور تیرے بھروسہ پر ہی میں لڑتا ہوں.غزوہ بدر میں خلق عظیم ایک بہترین جرنیل کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل گرفت اپنے سپاہیوں پر ہوتی تھی.غزوہ بدر کے موقع پر جب رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نے میدان بدر میں مشرکین سے پہلے پہنچ کر ڈیرے ڈالے تو آپ نے فرمایا ” کوئی شخص از خود کسی بات میں پہل نہ کرے جب تک میں اجازت نہ دوں.“ پھر جب تک دشمن کی طرف سے حملہ نہیں ہوا، آپ نے مقابلہ کے لئے صحابہ کو دعوت نہیں دی.جب دشمن سامنے صف آرا ہوئے تو صحابہ کوفرمایا ” اب اُس جنت کے حصول کے لئے اُٹھ کھڑے ہو جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے.“ پھر صحابہ نے اپنی جانیں خدا کی راہ میں خوب فدا کیں.(احمد) 10 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوات میں اپنے ساتھی سپاہیوں کا بہت خیال رکھتے تھے.حضرت رفاعہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ بدر کے سفر میں ہم نے اچانک محسوس کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ نہیں ہیں.اصحاب رسول نے ایک دوسرے کو آواز دے کر پوچھا کہ تمہیں رسول اللہ کا کچھ پتہ ہے یا تمہارے ساتھ ہیں؟ جب کچھ پتہ نہ چلا تو سب رُک گئے.اتنی دیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے تشریف لائے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم تو آپ کو موجود نہ پا کر پریشان ہو گئے تھے.آپ نے فرمایا کہ علی کے پیٹ میں اچانک تکلیف ہوگئی اور میں اس کی تیمارداری کے لئے رک گیا تھا.“ ( ھیثمی ) 11 نبی کریم کسی سواری پر بیک وقت تین آدمیوں کا سوار ہونا پسند نہیں فرماتے تھے کہ یہ بھی جانور پر زیادتی ہے.بدر میں رسول اللہ کے صحابہ کے پاس چند اونٹ اور دو گھوڑے تھے.ایک اونٹ کی سواری میں تین تین اصحاب شریک تھے، جو باری باری اونٹ پر سوار ہوتے تھے.حضرت علی اور حضرت ابولبابہ یا ابومرند غنوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری
اسوہ انسان کامل 370 غزوات النبی میں خلق عظیم میں شریک تھے.جب رسول اللہ کی باری ہوتی تو یہ دونوں کہتے ہم آپ کی خاطر پیدل چلیں گے آپ سوار رہیں.رسول کریم فرماتے تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقت ور نہیں ہو اور نہ میں تم دونوں کی نسبت اجر سے بے نیاز ہوں.“ مجھے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور اجر کی ضرورت ہے.( احمد ) 12 اپنے صحابہ کی حوصلہ افزائی اور دلداری ایک بہترین سپہ سالار کی طرح رسول اللہ کی نظر اپنے سپاہیوں کی کارکردگی پر رہتی تھی.اور اپنے ساتھیوں کی مناسب رنگ میں حوصلہ افزائی فرماتے رہتے تھے.حضرت علی نے غزوہ احد سے واپسی پر اپنی تلوار حضرت فاطمہ کے سپرد کی کہ اسے سنبھال رکھیں کہ آج یہ جنگ میں خوب کام آئی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا ہاں ! اے علی! آج آپ نے بھی خوب تلوار زنی کی ہے، مگر عاصم بن ثابت سہل بن حنیف، حارث بن صمہ اور ابودجانہ نے بھی کمال کر دکھایا ہے.(ھیمی )13 رسول اللہ جنگ میں بھی جہاں اپنے صحابہ کی دلداری کا خیال رکھتے تھے، وہاں راہ خدا میں جان کی قربانی پیش کرنے والوں کا بہت اعزاز فرماتے تا کہ آئندہ قربانی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو.غزوہ خیبر میں جب ایک صحابی عامر سردار یہود مرحب کے مقابل پر اپنی تلوار کے کاری زخم سے جانبر نہ ہو سکے تو بعض لوگوں نے عامر کی شہادت کو خود کشی گمان کیا.عامر کے بھتیجے حضرت سلمہ بن الاکوع یہ سکر بہت غمگین ہوئے.وہ بیان کرتے ہیں میں اس حال میں تھا، اچانک کیادیکھتا ہوں.میرے آقا محمدصلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر سہلا رہے ہیں اور فرماتے ہیں تمہیں کیا ہوا ہے؟ میں نے عامر کے بارہ میں لوگوں کے خیال کا ذکر کیا.صادق و مصدوق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی یہ کہا غلط کہا ہے.پھر آپ نے اپنی دوانگلیاں ملا کر فرمایا عامر کیلئے دوہرا اجر ہے.وہ تو جہاد کر نیوالا ایک عظیم الشان مجاہد تھا.( بخاری )14 خدام سے شفقت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے مجھے ابو عامر کے ساتھ غزوہ اوطاس کے لئے بھجوایا.ان کے گھٹنے میں تیر لگا.جس سے ایک کاری جان لیوا زخم ہوا.میں نے تیر کھینچا تو پانی نکلا.مجھے ابو عامر کہنے لگے بھتیجے رسول اللہ کو میر اسلام عرض کرنا اور درخواست کرنا کہ میرے لئے بخشش کی دعا کریں.پھر تھوڑی دیر بعد ان کی روح پرواز کرگئی.میں نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا ماجرا عرض کر دیا اور ابو عامر کا پیغام سلام و دعا بھی پہنچایا.رسول کریم نے پانی منگوا کر وضو کیا.پھر دعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے اور یہ دعا کی اے اللہ! اپنے بندے ابو عامر کو بخش دے، اے اللہ ! اسے قیامت کے دن اپنی مخلوق میں سے بہت لوگوں کے اوپر فوقیت عطا کرنا.میں نے عرض کیا یا حضرت! میرے لئے بھی
اسوہ انسان کامل 371 غزوات النبی میں خلق عظیم رض کچھ دعا کر دیں.آپ نے دعا کی کہ اے اللہ ! ابو موسیٰ کے گناہ بخش دے اور قیامت کے دن اسے معزز مقام میں داخل کرنا.( بخاری ) 15 دعاؤں پر بھروسہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام فتوحات دراصل دعاؤں کا نتیجہ تھیں (جیسا کہ قبولیت دعا کے مضمون میں تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے ).بدر کی دعا میں غیر معمولی شغف اور توجہ کا ذکر حضرت علی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بدر میں کچھ دیر لڑنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ دیکھوں رسول اللہ کا کیا حال ہے آکر دیکھا تو آپ سجدے میں پڑے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور مسلسل گریہ وزاری کر رہے تھے."یا حی یا قیوم یعنی اے زندہ ہستی خود قائم اور دوسروں کو قائم رکھنے والے!“ آپ یہی پڑھتے جاتے تھے اور اس سے زیادہ کچھ نہ کہتے تھے.میں پھر جا کر لڑائی میں مشغول ہو گیا.تھوڑی دیر بعد پھر حضور کا خیال آیا اور آپ کا پتہ کرنے لوٹا تو آپ اسی حالت میں سجدہ میں پڑے خدا کو اس کی صفت حی و قیوم کے واسطے دے رہے تھے.میں پھر میدان کارزار میں چلا گیا اور تیسری با رواپس لوٹا تو بھی آپ کو اسی حالت میں دعا کرتے پایا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کے طفیل ہمیں فتح عطا فرمائی.( ھیثمی ) 16 کامیابی پر حمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جنگ میں کامیابی حاصل ہوتی تو بھی کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے خدا کی حمد بجالاتے.اور اسی کی کبریائی اور عظمت کے نعرے بلند کرتے تھے.حضرت عبد اللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ابو جہل کو قتل کرنے اور اس پر آخری وار کرنے کے بعد میں نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر اطلاع کی کہ ابو جہل ہلاک ہو چکا ہے.آپ نے اس وقت بھی نعرہ توحید بلند کیا اور فرمایا کیا اللہ تعالیٰ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں؟ میں نے اثبات میں جواب دیا کہ بے شک اللہ وہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں.پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابو جہل کی نعش کے پاس جا کر کھڑے ہوئے تو فرمایا’ اس خدا کی سب تعریف ہے جس نے اے اللہ کے دشمن ! تجھے ذلیل کیا.پھر فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا (طبرانی) 17 نبی کریم یہ فتح کے موقع پر کسی بڑائی کے اظہار کی بجائے شکر بجالاتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور عجز وانکسار سے جھک جاتے.بدر کی فتح مسلمانوں کے لئے پہلی بہت بڑی فتح تھی.جس نے کفار کی کمر توڑ کر رکھ دی.ان کے ستر آدمی ہلاک ہوئے ، جن میں چوبیس سرداران قریش تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمنوں کی نعشیں بھی کھلے میدان میں
اسوہ انسان کامل 372 غزوات النبی میں خلق عظیم چھوڑنی پسند نہیں فرما ئیں بلکہ دفن کے لئے ایک پرانے گڑھے میں ڈلوادیں.رسول اللہ نے بدر کی فتح پر کوئی جشن نہیں منایا بلکہ اپنے رب کی عظمت اور حقانیت کے نعرے ہی بلند کئے.اپنے ساتھیوں کو بھی یاد کر وایا کہ فتح سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ بدر کا دن خدا کے وعدے پورے ہونے کا دن ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گڑھے پر تشریف لے گئے جس میں سرداران قریش کی لاشیں تھی تو ان کا یہ عبرتناک انجام دیکھ کر افسوس اور حسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا ” کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی یا اپنا یہ انجام پسند ہے.ہم نے تو اپنے رب کے وعدوں کو سچا پا لیا.تم نے بھی خدا کے وعدے کو سچا پایا یا نہیں ؟ ( بخاری )18 احسان کا پاس غزوات میں رسول اللہ کا احسان اور وفا کا خلق بھی بڑی شان سے ظاہر ہوا.ایک واقعہ قریش کے مشرک سردار مطعم بن عدی کا ہے، جو بن نوفل کا سردار اور قریش کی سر بر آوردہ شخصیات میں سے تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے قبیلہ بنو ہاشم اور مسلمانوں کو شعب ابی طالب میں محصور کر کے بائیکاٹ کرنے کا جو معاہدہ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا، اس کو ختم کرانے کی مہم میں مطعم نے نمایاں خدمت انجام دی تھی.اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ والوں سے مایوس ہو کر تبلیغ اسلام کے لئے طائف تشریف لے گئے تھے تو عرب کے دستور کے مطابق آپ کو مکہ میں واپس آنے سے پیشتر کسی سردار کی پناہ میں آنا ضروری تھا، جسے جوار یعنی پناہ کہتے تھے.رسول اللہ نے کئی سرداروں کو پناہ لینے کے لئے پیغام بھیجا، سب نے انکار کیا، مطعم بن عدی وہ تشریف النفس سردار تھا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں دوبارہ داخلہ کے لئے اپنی پناہ دی.اس کے چاروں بیٹے تلواروں کے سایہ میں رسول اللہ کو مکہ لائے اور آپ کو امان دینے کا اعلان کیا.افسوس کہ اس منصف مزاج سردار کو اسلام قبول کرنے کی توفیق نہ ملی اور بدر سے پہلے ہی سو سال کے لگ بھگ عمر پا کر وفات پا گیا.بدر کی فتح کے بعد جب ستر مشرکین مکہ بطور قیدی مسلمانوں کے ہاتھ آئے تو نبی کریم اُس وقت بھی مطعم بن عدی کا احسان نہیں بھولے اور فرمایا " اگر آج مطعم زندہ ہوتا اور ان قیدیوں کو آزاد کرنے کے لئے مجھے سفارش کرتا تو میں ان تمام قیدیوں کو اس کی خاطر آزاد کر دیتا.“ ( مینی )19 سر ولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں مسلمانوں کے اسیران بدر کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:."In pursuance of Mahomet's commands, the citizens of Medina, and such of the refugees as already had houses of their own, received the prisoners, and treated them with much consideration.'Blessings be on the men of Medina!'said one of these prisoners in later days: 'they made us ride, while they themselves walked: they gave us wheaten bread to eat when there was
غزوات النبی میں خلق عظیم 373 اسوہ انسان کامل little of it, contenting themselves with dates.' It is not surprising that when, sometime afterwards, their friends came to ransom them, several of the prisoners who had been thus received declared themselves adherents of Islam; and the such the Prophet granted liberty without ransom." محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کی ہدایہ ہے پر عمل کرتے ہوئے اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے ر بنالئے تھے کے پاس جب ( بدر کے قیدی آئے تو انہوں نے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا.بعد میں خود ایک قیدی کہا کرتا تھا کہ اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر.وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خود پیدل چلتے تھے.ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانہ میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پر گزارا کرتے تھے.اس لحاظ سے یہ بات تعجب انگیز نہیں ہونی چاہئے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے.ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا.“ ( میور ( 20 غزوہ احد میں دوراندیشی غزوات النبی میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کھل کر سامنے آئے ، وہاں آپ کی قائدانہ صلاحیتوں ، حکمت عملی اور دوراندیشی کا بھی کھل کر اظہار ہوا.غزوۂ احد کے موقع پر جب آپ نے شہر مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کا ارادہ فرمایا تو شہر کو دشمن سے حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا ایک طرف سے احد پہاڑ کی آڑلیکر اُ سے ڈھال بنایا.اسی دوران حضور کی نظر اس پہاڑی درے پر پڑی جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہوسکتا تھا.آپ نے وہاں پچاس تیرانداز عبداللہ بن جبیر کی سرکردگی میں مقرر فرمائے اور انہیں جو ہدایات دیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بہترین جرنیل ہوتے ہوئے دڑے کی نزاکت کا کتنا احساس تھا.آپ نے فرمایا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو اچک رہے ہیں پھر بھی تم نے درّہ نہیں چھوڑ نا سوائے اس کے کہ میرا پیغام تمہیں پہنچے.( بخاری ) 21 صحابہ کی تربیت حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ احد کے دن جب لوگ پسپا ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( چند ساتھیوں کے ساتھ ) رہ گئے تو ابوطلحہ حضور کے سامنے اپنی ڈھال لے کر کھڑے ہو گئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سراٹھا کر دشمن کی طرف دیکھنا چاہتے تو ابوطلحہ عرض کرتے میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ اس طرح سے دشمن کی طرف نہ جھانکیے کہیں دشمن کا کوئی تیر آپ کو لگ نہ جائے.( آقا!) آج میرا سینہ آپ کے سینہ کے آگے سپر ہے.مجھے تیر لگتا ہے تو لگے آپ
اسوہ انسان کامل 374 غزوات النبی میں خلق عظیم محفوظ رہیں.( بخاری )22 ابوطلحہ بڑے جی دار اور بہادر تھے، زبر دست تیرانداز.طاقتور ایسے کہ کمان کو زور سے کھینچتے تو ٹوٹ کر رہ جاتی.احد میں آپ نے دو یا تین کمانیں توڑ ڈالیں.ایسی تیزی سے آپ تیراندازی کر رہے تھے کہ تیر بانٹنے والا جب اپنا ترکش لے کر حضور کے پاس سے گذرتا تو آپ فرماتے ارے! ابوطلحہ کے لئے تیر پھیلا دو.( بخاری )23 جنگ میں سپاہیوں کی مدد اور تالیف قلب حضرت سعد بن ابی وقاص بیان فرماتے ہیں کہ احد کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ترکش میرے لئے پھیلا دیا تھا.آپ میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ) فرماتے تھے کہ اے سعد! تیر چلاؤ.میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں.‘‘ ( بخاری )24 غزوہ احد میں جب مشرکین پسپا ہورہے تھے تو ان میں سے ) کسی شیطان نے مسلمانوں کو دھوکہ دینے کیلئے آواز بدل کر یہ نعرہ لگایا اے اللہ کے بندو! پیچھے پلٹو.یعنی پیچھے سے تم پرحملہ ہو گیا ہے.چنانچہ مسلمانوں کا اگلا دستہ پیچھے کو پلٹ کر حملہ آور ہوا اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے ایسا الجھ کر رہ گیا کہ اپنے پرائے کی تمیز اور ہوش نہ رہی.حضرت حذیفہ نے اچانک دیکھا تو ان کے والد یمان ( جو خلص صحابی تھے ) خود مسلمانوں کے نرفعے میں، ان کی تلواروں کی زد میں تھے.وہ بے چارے چلاتے رہے کہ اے اللہ کے بندو! یہ میرا باپ ہے، یہ میرا باپ ہے اس کو بچانا.ان کی آواز شور میں دب کر رہ گئی اور حذیفہ کے والدیمان مسلمانوں کے ہاتھوں ہی احد میں شہید ہو گئے.( بخاری ) 25 رسول کریم نے اپنے اس صحابی کی تالیف قلب فرمائی اور ان کے والد کی دیت انہیں دلوائی.محمود بن لبیڈ ا نصاری روایت کرتے ہیں کہ حضرت یمان وہ مخلص صحابی تھے جو باوجود بڑھاپے کے غزوہ احد میں شامل ہوئے.رسول کریم نے انکو اور ایک اور بوڑھے صحابی ثابت کو حفاظت کے لئے عورتوں کے پاس مدینہ میں رہنے کیلئے چھوڑا تھا.مگر انہیں شہادت کا جوش آیا تو وہ دونوں مسلمانوں کے قدم اکھڑنے کے بعد میدان احد میں آکر ملے.ثابت تو مشرکوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور یمان غلط فہمی سے مسلمانوں کے جھرمٹ میں عبداللہ بن مسعودؓ کے بھائی عتبہ بن مسعودؓ کے ہاتھوں مارے گئے.حذیفہ نے صرف اتنا کہا تم نے میرے باپ کو قتل کر دیا.جواب ملا کہ ہم انہیں شناخت نہ کر سکے.حضرت حذیفہ نے کہا اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کرے.یہاں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دل گرفتہ صحابی حضرت حذیفہ کا اتنا خیال رکھا ان کے والد کی دیت سو اونٹ بیت المال سے ادا فرمائی.حضرت حذیفہ نے وہ سارے کا سارا مال مستحق مسلمانوں میں بطور صدقہ تقسیم کر دیا.یوں اخلاص و ایثار میں ان کا مقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اور بھی بڑھ گیا.( مینی ) 26
اسوہ انسان کامل 375 غزوات النبی میں خلق عظیم اُحد میں جنگی حکمت عملی اُحد کے موقع پر خالی درہ سے دشمن کے حملہ کے نتیجہ میں کئی مسلمان شہید ہو چکے تھے اور دشمن کے حملہ کا سارا زور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بزرگ اصحاب پر تھا.اس دوران رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کی حکمت عملی اختیار فرمائی تا کہ اسلامی قیادت کی حفاظت کی جاسکے.حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے رسول اللہ کو ( درّہ میں خود پہنے ) پہچان کر کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.نبی کریم نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر از راہِ مصلحت اپنی زرہ مجھے پہنائی اور میری زرہ خود پہن لی.مجھ پر حملہ کرنے والا یہی سمجھتا تھا کہ وہ رسول اللہ پر حملہ کر رہا ہے.مجھے اس روز ہیں زخم آئے.(صیثمی ) 27 اُس وقت اسلامی قیادت کی حفاظت کا معاملہ انتہائی اہم تھا.جس کے لئے حضور نے یہ پر حکمت طریق اختیار فرمایا.رسل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کواحد میں سخت تکلیف اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا.یہ آپ کی زندگی کے صدموں میں بڑا بھاری صدمہ تھا.ایک دکھ تو یہ تھا کہ دورہ پر مقرر تیر اندازوں نے آپ کے ارشاد کی تعمیل نہ کی جس کا خمیازہ پوری مسلمان قوم کو بھگتنا پڑا، دوسرا بڑا غم مسلمانوں کی ستر قیمتی جانوں کے نقصان کا تھا.تیسرے آپ خود اس جنگ میں بڑی طرح زخمی ہوئے تھے.مگر اس وقت بھی آپ نے کمال وقار کے ساتھ نہایت صبر وحوصلہ کا نمونہ دکھایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دانت شہید ہو گئے تھے.چہرہ زخمی تھا اور اس سے خون بہ رہا تھا.حضور خون پونچھتے جاتے اور فرماتے ، یہ قوم کیسے کامیاب ہوگی جنہوں نے اپنے نبی کے چہرے کو خون آلودہ کیا ہے حالانکہ وہ انہیں خدا کی طرف بلاتا ہے.( مسلم ) 28 حضور کی یہ تکلیف صحابہ کیلئے بہت گراں تھی.انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ مشرکین مکہ کے خلاف بددعا کر دیں.آپ نے فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا.مجھے تو اسلام کی طرف دعوت دینے والا اور رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے.پھر آپ نے دعا کی اے اللہ ! میری قوم کو معاف کر دے یہ لوگ جانتے نہیں.“ ( مسلم ) 29 ابودجانہ انصاری احد کے دن سر پہ سرخ پٹی باندھے دو صفوں کے درمیان اکثر کر چل رہے تھے رسول اللہ اللہ نے فرمایا یہ چال خدا کو پسند نہیں مگر آج اس جگہ دشمن کے مقابلہ میں پسند ہے.( ھیثمی ) 30 اُحد میں ہزیمت کے بعد استقامت اور راضی برضا احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ شہید ہوئے اور خود بھی زخموں سے لہولہان ہو گئے.آپ کا دل صحابہ کی جدائی پر غمگین تھا مگر خدا کے وعدوں پر کامل یقین تھا.آپ کے ایمان اور استقامت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق نہیں آیا جس کا اندازہ آپ کی اس دعا سے ہوتا ہے جو آپ نے مشرکین مکہ کے واپس لوٹ جانے کے بعد کی ، جو آپ کے دلی
376 غزوات النبی میں خلق عظیم اسوہ انسان کامل جذبات کی آئینہ دار ہے.آپ نے تمام صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا کہ صف بستہ ہو جاؤ تا کہ ہم سب اپنے رب کی حمد وثنا کر سکیں.خوشی اور فتح کے موقع پر تو دنیا کو خوشی مناتے اور شکر کرتے دیکھا ہے لیکن آؤ آج ابتلا اور مصیبت میں بھی خدا کے اس عظیم بندے کو اپنے رب کی حمد وستائش کرتے دیکھیں جنہوں نے ہر حال میں راضی برضاء الہی رہنا سیکھا تھا.میدانِ اُحد میں رسول اللہ نے اپنے صحابہ کی حلقہ بندی کر کے اُن کی صفیں بنوائیں اور اُن کے ساتھ مل کر یوں دعا کی.”اے اللہ ! اسب حمد اور تعریف تجھے حاصل ہے.جسے تو فراخی عطا کرے اسے کوئی تنگی نہیں دے سکتا اور جسے تو تنگی دے اسے کوئی کشائش عطا نہیں کر سکتا.جسے تو گمراہ قرار دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں اور جسے تو ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا.جسے تو نہ دے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا اور جسے تو عطا کرے اسے کوئی روک نہیں سکتا.جسے تو دور کرے اسے کوئی قریب نہیں کر سکتا اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں.اے اللہ ! ہم پر اپنی برکات، رحمتوں، فضلوں اور رزق کے دروازے کھول دے.اے اللہ ! میں تجھ سے ایسی دائمی نعمتیں مانگتا ہوں جو کبھی زائل ہوں نہ ختم ہوں.اے اللہ میں تجھ سے غربت و افلاس کے زمانہ کے لئے نعمتوں کا تقاضا کرتا ہوں اور خوف کے وقت امن کا طالب ہوں.اے اللہ! جو کچھ تو نے ہمیں عطا کیا اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں.اور جو تو نے نہیں دیا اس کے شتر سے بھی.اے اللہ! ایمان ہمیں محبوب کر دے، اور اسے ہمارے دلوں میں خوبصورت بنا دے، کفر ، بد عملی اور نا فرمانی کی کراہت ہمارے دلوں میں پیدا کر دے اور ہمیں ہدایت یافتہ لوگوں میں سے بنا.اے اللہ! ہمیں مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے، مسلمان ہونے کی حالت میں زندہ رکھ اور صالحین میں شامل کر دے.ہمیں رسواتہ کرنا، نہ ہی کسی فتنہ میں ڈالنا.اے اللہ ! ان کا فروں کو خود ہلاک کر جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیری راہ سے روکتے ہیں ان پر ختی اور عذاب نازل کر.اے اللہ ! ان کا فروں کو بھی ہلاک کر جن کو کتاب دی گئی کہ یہ رسول برحق ہے.( احمد ) 31 شجاعت احد میں مسلمانوں کے ستر افراد شہید ہوئے اور مشرکین فتح کی خوشی مناتے واپس لوٹے تو روحاء مقام پر جا کر ابوسفیان مشرکین مکہ کو طعنہ دیتے ہوئے کہنے لگا کہ نہ تو تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کیا ، نہ عورتوں کو قید کیا.پھر احد کے معرکہ کو فتح کیسے قرار دے سکتے ہو؟ ( ھیثمی )32 چنانچہ مشرکین مکہ نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا.رسول کریم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیں گے، بلکہ آگے جا کر دشمن کا تعاقب کریں گے.اُحد کی شہادتوں اور وقتی ہزیمت کے بعد یہ فیصلہ اتنا کٹھن تھا کہ اسے سن کر صحابہ ایک دفعہ تو سناٹے میں آگئے.وہ سوچتے ہو نگے کہ زخموں اور غم سے نڈھال ہونے کی حالت میں دشمن کا مقابلہ کیسے کریں گے ، تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت ، مردانگی ، پختہ عزم تو کل علی اللہ اور قائدانہ صلاحیت کا عجیب نظارہ صحابہ نے دیکھا.آپ نے فرمایا کہ میں دشمن کو مدینہ پر دوبارہ حملہ کا موقع دینا نہیں چاہتا اس لئے اُن کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا ہے.اگر ایک آدمی بھی میرا ساتھ نہ دے تو میں بہر حال دشمن کے پیچھے جاؤں
اسوہ انسان کامل 377 غزوات النبی میں خلق عظیم گا اور اس راہ میں اپنی جان بھی فدا کرنی پڑے تو کر گزروں گا.صحابہ نے اپنے سپہ سالار اعظم کا یہ حوصلہ دیکھا تو والہانہ لبیک کہتے ہوئے آپ کے ہمرکاب ہو کر چل پڑے.کئی صحابہ زخموں سے چور تھے کہ انہیں اُٹھا کر حمراء الاسد لے جایا گیا.کفار کو مسلمانوں کی اس پیش رفت کا پتہ چلا تو وہ مکہ واپس لوٹ گئے.یہود مدینہ کی عہد شکنی اور آنحضرت کے احسانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے تین قبائل بن قینقاع بنونضیر اور بنوقریظہ کے ساتھ امن وصلح سے رہنے کا معاہدہ کیا.یہود کے یہ تینوں قبیلے مدینہ کے جنوب مشرق میں چار پانچ میل کے اندر پھیلے ہوئے تھے.2ھ میں بدر میں مسلمانوں کی فتح کے بعد یہود کے تیور بدلنے شروع ہوئے اور انہوں نے مدینہ کے مشرکین اور منافقین سے مل کر مسلمانوں کے خلاف سازشیں اور ریشہ دوانیاں شروع کر دیں.یہود بنو قینقاع اس میں پیش پیش تھے.جب اس معاہدہ شکنی ، فساد اور بے حیائی کی ان سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ قلعہ بند ہو کر مسلمانوں سے جنگ کے لئے تیار ہو گئے.اس کی سزا اُن کی شریعت کے مطابق تو یہ تھی کہ ان کے جنگجو مردوں کو تل اور عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا جائے.(استثناء20/13) لیکن یہ رسول کریم کا احسان ، شفقت اور وسعت حوصلہ تھا کہ آپ نے ان کی جان بخشی فرما دی.لیکن چونکہ مدینہ میں ان کا رہنا خطر ناک تھا اس لئے آپ نے بنو قینقاع کو بدعہدی پر مدینہ سے چلے جانے کا حکم دیا.3ھ میں یہود کے سب سے بڑے قبیلے بنونضیر کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف اہل مکہ سے ساز باز رکھنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدام قتل کے منصوبہ کی صورت میں بد عہدی ظاہر ہوئی.( بخاری 33 ) جب ان سے مؤاخذہ کیا گیا تو وہ بھی قلعہ بند ہو کر مسلمانوں سے برسر پیکار ہو گئے اور پندرہ دن بعد انہوں نے مال واسباب سمیت مدینہ سے نکل جانے کی شرط پر قلعوں کے دروازے کھول دیئے.(ابن ھشام) 34 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل مقصد چونکہ ان کی شرارتوں کا سدِ باب تھا.اس لئے آپ نے یہود پر احسان کرتے ہوئے یہ شرط مان لی اور 4 ھ میں بنو نضیر کے یہودی اپنے اہل و عیال ، تمام تر مال و اسباب اور سونے چاندی کے قیمتی زیورات وغیرہ ساتھ لے کر ڈھول باجے بجاتے اور قومی گیت گاتے ہوئے بڑی شان اور طمطراق کے ساتھ مدینہ سے نکلے.(زرقانی) 35 یہود کے سردار سلام بن ابی الحقیق نے اپنا قیمتی خزانہ مسلمانوں کو دکھاتے ہوئے کہا ایسے نازک حالات کیلئے ہم نے یہ مال جمع کر رکھا تھا.یہودی جانتے تھے کہ رسول اللہ علیہ عہد کے پابند ہیں.وہ ہمارے مال واسباب سے تعرض نہیں کریں گے اور ہمارے مال محفوظ ہیں.اس لئے اپنے مال اعلانیہ دکھاتے ہوئے گئے.بنو نضیر کے سرداروں میں سے حی بن اخطب، کنانہ بن ربیع اور سلام بن ابی الحقیق اپنے خاندان سمیت خیبر کے قلعہ بند شہر میں جا کر آباد ہو گئے اور
اسوہ انسان کامل 378 غزوات النبی میں خلق عظیم ایک قلعہ کی سرداری حاصل کر لی.مدینہ سے یہود کے اخراج کے بارہ میں منٹگمری واٹ جیسا معاند اسلام بھی تسلیم کرتا ہے کہ ”یہود کو ان کے مخالفانہ طرز عمل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشیں کرنے کی وجہ سے مدینہ سے نکالا گیا.‘ ( واٹ ) 36 قبیلہ بنونضیرا اپنی اس جلاوطنی کی وجہ سے اسلام کا پہلے سے کہیں بڑھ کر دشمن ہو چکا تھا.اسی انتقام کی آگ میں جلتا ہوا اس قبیلہ کا سردار حیی بن اخطب مسلسل قبائل عرب اور اہل مکہ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کے خلاف اکساتا رہتا تھا.حیی بن اخطب کی اشتعال انگیزیوں کے نتیجہ میں ہی جنگ احزاب میں سارا عرب متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا.تو مسلمانوں نے شہر کے گر د خندق کھود کر اپنا دفاع کیا تھا.حیی بن اخطب نے مدینہ کے نواح میں بسنے والے آخری یہودی قبیلہ بنو قریظہ کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسا کر غداری پر آمادہ کر لیا.جس سے مسلمانان مدینہ کی جانوں کی حفاظت کا بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گیا، کیونکہ انہوں نے بنوقریظہ سے معاہدہ کی وجہ سے ان کی سمت کو محفوظ خیال کرتے ہوئے اس طرف خندق نہیں کھو دی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان لشکروں کو تو پسپا کرنے کے سامان کر دئیے، لیکن اس طرح اس موقع پر یہود خیر کی کھلم کھلا عداوت اور بنوقریظہ کی غداری اور بغاوت کھل کر سامنے آگئی.(ابن ھشام ) 37 جنگ احزاب کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنوقریظہ کو ان کی غداری اور محاربت پر گرفت کرنے نکلے تو وہ بھی قلعہ بند ہو گئے.بالآخر انہوں نے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے حضرت سعد بن معاذ انصاری کو ( جو اسلام سے قبل ان کے حلیف رہ چکے تھے ) فیصلہ کرنے کیلئے اپنا ثالث مانا.حضرت سعد نے یہودی شریعت کے مطابق بنوقریظہ کے لڑنے والے مردوں کو قتل اور عورتوں کو قیدی بنانے کا فیصلہ دیا.(بخاری) 38 غزوة ذي قرد مسلمانوں کے خلاف پہلی جنگی کاروائی کا آغاز یہود کے حلیف قبائل غطفان کے ایک قبیلہ بنوفزارہ نے سنہ ۷ ھ میں کر دیا تھا.انہوں نے ذی قرد کی چراگاہ پر ، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مویشی اونٹ وغیرہ چرایا کرتے تھے حملہ کر دیا اور چند اونٹنیاں ٹوٹ کر لے گئے.ایک بہادر نوجوان صحابی سلمہ بین الاکوع نے ان کا تعاقب کیا اور عین اس وقت جب وہ پانی کے ایک چشمہ پر خواستراحت تھے، تیروں کی بوچھاڑ کر کے ان کو بھگادیا اور اونٹیاں واپس لے آئے.نبی کریم کو اس اچانک حملہ کی خبر ہوئی تو آپ صحابہ کے ساتھ تشریف لائے.بہادر سلمہ بن الاکوع نے آنحضرت کی خدمت میں دشمن کا مزید تعاقب کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ میں نے انہیں چشمہ کا پانی نہیں پینے دیا تھا وہ سخت پیاسے ہیں اور آگے چشمہ پر ضرور مل جائیں گے.ہمارے سید و مولا رحمۃ للعالمین نے اس کا کیا خوبصورت جواب دیا.ایک فقرہ کہہ کر گویا دریا کوزے میں بند کر دیا.نہیں نہیں بلکہ رحمتوں کا سمندر ایک فقرے میں سمو دیا.فرمایا اے سلمہ إِذَا مَلَكْتَ فَاسْجَحُ کہ جب دشمن پر قدرت حاصل ہو جائے تو پھر عفو سے کام لیا کرتے ہیں.(مسلم ) 39
اسوہ انسان کامل 379 غزوات النبی میں خلق عظیم اے رحمت مجسم ! تجھ پر سلامتی ہو تجھ پر ہزاروں رحمتیں! ہم نے عفو کی تعلیم کے چھ چے تو دنیا میں بہت سنے لیکن عفوو رحمت کے نمونے تیرے وجود ہاجو د ہی سے دیکھے.ہاں ہاں تیرے ہی دم قدم سے عفو و کرم کے ایسے چشمے پھوٹے کہ اپنے تو اپنے بیگانے بھی اس سے فیضیاب ہوئے.غزوہ احزاب میں خلق عظیم جنگ احد کے بعد جنگ احزاب مسلمانانِ مدینہ کا ایک بہت سخت اور کڑا امتحان تھا.جس میں مدینہ سے نکالے گئے یہود نبی نفیر کے اُکسانے پر قبائل عرب بنو غطفان، بنو سلیم وغیرہ نے قریش مکہ کے ساتھ مل کر مدینہ پر اجتماعی حملہ کا خوفناک منصوبہ بنایا.اس کے لئے چار ہزار کا لشکر ابتداء میں ہی جمع ہو گیا.جس میں تین صد گھڑ سوار اور ڈیڑھ ہزار شتر سوار تھے.ابوسفیان کی سرکردگی میں یہ لشکر مکے سے نکلا تو دیگر قبائل بنو اسد ، فزارہ، اشجع ، بنومرہ وغیرہ اسمیں شامل ہوتے چلے گئے اور مدینہ پہنچنے تک قبائل عرب کی متحدہ فوجوں کا یہ لشکر دس ہزار تک پہنچ گیا.اس کے مقابل مسلمان صرف تین ہزار تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی اطلاع پا کر صحابہ سے مشورہ کیا اور سلمان فارسی کی رائے قبول کرتے ہوئے مدینہ کی حفاظت کے لئے اس کے گرد ایک خندق کھودنے کا فیصلہ ہوا.اس مدبرانہ فیصلہ سے مسلمانوں کے جان و مال تمام متحدہ قبائل عرب سے محفوظ رہے ، ورنہ وہ انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے مسلمانوں کو اچک لینے کے ارادے لے کر آئے تھے.اس نہایت نازک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتیں خوب نکھر کر سامنے آئیں، ہر چند کہ یہ موقع مسلمانوں کی زندگی کے سب سے بڑے خطرے کا تھا.قرآن شریف کے بیان کے مطابق ان کی زندگیوں پر ایک زلزلہ طاری تھا اور جانیں حلق تک پہنچی ہوئی تھیں.مگر رسول خدا تھے کہ سب کیلئے ڈھارس، حو صلے اور سہارے کا موجب تھے.پہلے تو آپ صحابہ کے ساتھ مل کر خندق کی کھدائی میں مصروف نظر آتے ہیں.کبھی کوئی سخت چٹان حائل ہو جاتی ہے، جو کسی سے نہیں ٹوٹتی تو خود خدا کا رسول وہاں پہنچتا ہے.حال یہ ہے کہ فاقہ سے دو پھر پیٹ پر باندھ رکھے ہیں مگر کدال لیکر تین ضربوں سے پتھر کو ریزہ ریزہ کر چھوڑتے ہیں.اس نازک موقع پر بھی خدا کے وعدوں پر ایمان و یقین کا یہ عالم ہے کہ وحی الہی کی روشنی میں صحابہ کے حو صلے بڑھاتے اور انہیں بتاتے ہیں کہ ہر ضرب پر جو اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا گیا تو شام و ایران اور صنعاء ویمن کے محلات مجھے دکھائے گئے اور ان کی چابیاں مجھے عطا کی گئیں.(احمد 40 ) یہ سن کر ان فاقہ کشوں کے حوصلے کتنے بلند ہوئے ہونگے.جنہیں جان کے لالے پڑے ہوئے تھے.بعد کے حالات نے یہ بھی ثابت کیا کہ خندق کے ذریعہ محصور ہو کر مسلمانوں کے دفاع کا فیصلہ کتنا مد برانہ اور دانشمندانہ تھا.بلاشبہ وہ خندق نہتے مسلمانوں معصوم بچوں اور عورتوں کیلئے متحدہ قبائل عرب کے خونخوار اور بھرے ہوئے لشکروں سے پناہ کا ذریعہ بن گئی جو مدینہ کو لوٹنے اور مسلمان مردوں کو غلام اور عورتوں کو لونڈیاں بنا کر ساتھ لے جانے
اسوہ انسان کامل 380 غزوات النبی میں خلق عظیم کے ارادے سے نکلے تھے.مگر ایک طرف طویل محاصرہ نے ان کے حوصلے پست کئے تو دوسری طرف الٰہی نصرت مسلمانوں کے شامل حال ہوئی اور سخت سردی کے ان ایام میں اچانک طوفانی آندھی سے سب لشکر پسپا ہو گئے.اُس وقت بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی عظمت کا نعرہ ہی بلند کیا اور فرمایا لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ نَصَرَ عَبْدَه، وَ هَرَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَہ، کہ اس اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.جس نے اپنے لشکر کی مد کی اور تنہا تمام لشکروں کو پسپا کر دیا.رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی فراست کی عجیب شان بھی اس موقع پر ظاہر ہوئی آپ نے فرمایا کہ آئندہ بھی اس طرح محصور ہو کر ہم حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیں گے بلکہ آگے بڑھ کر دفاع کریں گے.( بخاری ) 41 بحیثیت سالار فوج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احساس ذمہ داری بھی غیر معمولی تھا.غزوہ خندق کے مخدوش حالات میں حفاظتی حکمت عملی بہت ضروری تھی.جس میں اسلامی قیادت کی حفاظت سرِ فہرست تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مخفی مقام پر رہائش رکھتے تھے اور صحابہ کے ایک خاص دستہ کے علاوہ عام لوگوں کو اُس جگہ کی خبر نہ ہوتی تھی.حضور کے ساتھ ڈیوٹی پر مامور صحابہ میں حضرت طلحہ ، حضرت زبیر، حضرت علی، حضرت سعد، اور انصار میں سے حضرت ابودجانہ اور حضرت حارث بن الصمہ تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں.جنگ احزاب کے زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک نازک جگہ کی بڑی فکر رہتی تھی جہاں سے حملے کا خطرہ ہوسکتا تھا.آپ اس پر ہمہ وقت نظر رکھتے تھے، جب بھی آکر سونے لگتے اور ذراسی آہٹ پاتے تو اُٹھ کھڑے ہوتے.ایک دفعہ جو اسلحہ کی جھنکار سنی تو پوچھا کون ہے؟ یہ حضرت سعد بن ابی وقاص تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ارشاد فرمایا کہ وہ اس نازک مقام پر پہرہ دیں.اس رات رسول اللہ تسلی سے سوئے.( سیتمی )42 غزوہ حدیبیہ میں اخلاق فاضلہ حدیبیہ کا واقعہ بھی مسلمانوں کیلئے ایک اور امتحان بن کر آیا.مگر اس موقع پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ اخلاق پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئے.ہر چند کہ حدیبیہ کا سفرکسی غزوہ یا جہاد کی غرض سے نہیں تھا، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک رؤیا کی تکمیل کی خاطر طواف بیت اللہ کی ایک کوشش تھی.رویا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تھا کہ آپ آپنے صحابہ کی معیت میں امن کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر طواف کر رہے ہیں.اس رؤیا کو طواف بیت اللہ کیلئے ایک انہی اشارہ سمجھتے ہوئے ذوالقعدہ 6 ھ میں آپ نے اپنے چودہ سوصحابہ کے ساتھ مکہ کیلئے رخت سفر باندھا.طوائف الملو کی کے اس دور میں تلوار عرب مسافروں کے لباس کا لازمی حصہ تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رؤیا کے مطابق امن کی علامت کے طور پر مسلمانوں کو تلواریں بھی نیام میں رکھنے کا حکم دیا.ان کے علاوہ کوئی جنگی ہتھیار ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی ، مسلمانوں
381 غزوات النبی میں خلق عظیم اسوہ انسان کامل نے ذوالحلیفہ سے احرام باندھ لئے تھے اور طواف کے بعد قربانی کرنے کیلئے جانور اپنے ساتھ رکھ لئے تھے.ادھر اہل مکہ کو پتہ چلا تو انہوں نے مسلمانوں کو طواف بیت اللہ سے روکنے کا فیصلہ کیا اور اس غرض سے ایک لشکر جس میں دو سو گھر سوار تھے.مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے تیار کیا.مکہ کے قریب حدیبیہ مقام پر رسول اللہ کی اونٹنی رک گئی وہ کسی طرح بھی آگے نہ بڑھتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے ہر حال میں راضی برضار ہنا سیکھا تھا.فرمانے لگے یہ اونٹنی خود نہیں رکی المی منشا یہی معلوم ہوتا ہے.جس خدا نے ہاتھیوں کو خانہ کعبہ پرحملہ سے روکا تھا، اُسی خدا نے آج اسے بھی روکا ہے، تا بیت اللہ کا امن خراب نہ ہو.پھر آپ نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بھی ایسا مطالبہ جو قریش مکہ مجھ سے کریں جس سے اللہ کی قابل احترام چیزوں کی حرمت قائم ہوتی ہو، میں لازماً اسے قبول کرونگا.عرب سردار بدیل بن ورقاء قریش کی طرف سے پہلی سفارت کے طور پر مسلمانوں کو طواف کعبہ سے روکنے کا پیغام لے کر آیا.اس نے خوب ڈرانے کی کوشش کی اور کہا کہ اہل مکہ نے اردگرد سے کئی جنگجو اکٹھے کر لئے ہیں اور وہ خدا کی قسمیں کھا رہے ہیں کہ آپ کو امن سے طواف بیت اللہ نہیں کرنے دیں گے.رسول اللہ نے کس شان اور وقار سے جواب دیا کہ ہمارا مقصد جنگ و قتال نہیں.ہم تو محض طواف بیت اللہ کی غرض سے آئے ہیں.پھر آپ نے اپنے اس مضبوط موقف کے اظہار کیلئے کھل کر فرمایا کہ اس مقصد میں جو روک بنے گا اس سے مجبوراً ہمیں جنگ بھی کرنی پڑی تو کریں گے ، سوائے اس کے کہ قریش ہم سے کسی خاص مدت تک معاہدہ صلح کر لیں.“ رسول اللہ کا یہ عزم بالجزم دیکھ کر اہل مکہ کے موقف میں نرمی آئی اور عروہ بن مسعود ان کی طرف سے یہ پیغام لایا کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر طواف کر لیں.یہ محض ضد اور ہٹ دھرمی تھی مگر رسول اللہ تو قدم قدم پر امن کے متلاشی تھے.آپ نے حضرت عثمان بن عفان کو مکے بھیجوایا تا کہ وہ اپنے اثر ورسوخ سے سردارانِ قریش میں کوئی نرم گوشہ تلاش کریں.ان کے مذاکرات اس قدر طویل ہو گئے کہ مشہور ہو گیا عثمان شہید کر دیے گئے.یہ بھی دراصل مشیت الہی تھی، کیونکہ یہ خبر سن کر عثمان کا بدلہ لینے کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے موت پر بیعت لی اور مٹھی بھر صحابہ کے جذبوں کو ایسا جوان کر دیا کہ وہ آسمان سے باتیں کرنے لگے.اب وہ ہر حال میں مرنے مارنے پر تیار تھے اور کسی طرح طواف کئے بغیر ٹلنے والے نہ تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امن اور تعظیم حرم بیت اللہ کی خاطر قدم قدم پر نہ صرف اپنی بلکہ اپنے صحابہ کے جذبات کی قربانی بھی پیش کی.نمائندہ قریش سہیل بن عمرو کے ساتھ معاہدہ صلح لکھواتے ہوئے رسول اللہ نے فرمایا کہ لکھو بِسمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیم توسہیل نے کہا میں رحمان کو نہیں جانتا ہاں.لکھو تیرے نام کے ساتھ اے اللہ ! اس پر مسلمان کہنے لگے خدا کی قسم ہم تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِیم ہی لکھیں گے لیکن رسول اللہ نے فرمایا چلو ہی لکھ لوکہ اللہ کا نام ہی ہے غیر الہ کا تو نہیں.پھر جب آپ لکھوانے لگے کہ یہ معاہدہ محمد رسول اللہ کا قریش کے ساتھ ہے، تو سہیل پھر اڑ گیا کہ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو بیت اللہ سے کیوں روکتے اس لئے محمد بن عبد اللہ لکھو.بلا شبہ مسلمانوں کیلئے یہ بھی تکلیف دہ بات
اسوہ انسان کامل 382 غزوات النبی میں خلق عظیم تھی ،مگر رسول اللہ نے فرمایا خدا کی قسم میں تو اللہ کا رسول ہوں خواہ تم میری تکذیب کرو.لیکن صلح کی خاطر میں اس پر بھی راضی ہوں کہ محمد بن عبد اللہ ہی لکھ لو.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوایا کہ یہ صلح اس شرط پر ہے کہ تم ہمیں امن سے طواف کرنے دو گے.سہیل نے کہا سارے عرب کیا کہیں گے کہ ہم نے اتنی جلدی شکست قبول کر لی ، اس لئے اس سال نہیں ہاں اگلے سال آپ لوگ طواف کر سکو گے.چنانچہ یہی لکھا گیا.پھر سہیل نے یہ شرط لکھوائی کہ ہماری طرف سے کوئی آدمی مسلمان ہو کر اور بھاگ کر مدینہ جائے گا تو آپ اسے مکہ واپس لوٹائیں گے.مسلمان اس پر سخت جذباتی ہو کر کہنے لگے کہ مظلوم مسلمانوں کو ہم کیسے مشرکوں کے حوالے کر دیں گے؟ ابھی یہ شرط طے نہیں پائی تھی اور بحث جاری تھی کہ سہیل کا مظلوم بیٹا ابو جندل ( جو مسلمان تھا اور اسے سہیل نے قید کر رکھا تھا) پابجولاں ہتھکڑیاں اور بیٹریاں اُٹھائے آیا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے اپنے آپ کو مسلمانوں کے سامنے ڈال دیا.سہیل کہنے لگا اب میری پہلی شرط یہ ہوگی کہ ابو جندل ہمیں واپس لوٹا دو.رسول اللہ نے فرمایا ابھی اس شرط کا فیصلہ نہیں ہوا اور معاہدہ کی تکمیل بھی نہیں ہوئی ، ابو جندل کو لوٹانے کا کیا سوال ہے.مگر سہیل نے کہا کہ خدا کی قسم! پھر میں معاہدہ نہیں کرونگا.نبی کریم نے فرمایا کہ اچھا تمہاری شرط مان لیتے ہیں، اب تم میری خاطر ہی ابو جندل کو چھوڑ دو.سہیل نے کہا میں اسے آپ کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا.آپ نے پھر اصرار کیا.مگر سہیل راضی نہ ہوا.ابو جندل نے اپنی قسمت کا فیصلہ خلاف ہوتے دیکھا تو دہائی دینے لگا کہ اے مسلمانو! کیا میں اس حالت من میں مشرکوں کی طرف واپس لوٹایا جاؤں گا حالانکہ میں مسلمان ہو کر آیا ہوں تم دیکھتے نہیں انہوں نے مجھے اذیتیں دے کر میرا کیا حال کر رکھا ہے؟ اُس وقت مسلمانوں کے ہوش و حواس جواب دے چکے تھے.حضرت عمر جیسے جری کے حو صلے بھی اس ابتلا میں پست ہو گئے.وہ رسول اللہ سے مخاطب ہوئے کہ کیا آپ اللہ کے نبی برحق نہیں؟ نبی کریم ہے نے کمال اعتماد سے جواب دیا کیوں نہیں.عمر نے کہا کیا ہم حق پر اور دشمن باطل پر نہیں؟ رسول کریم نے فرمایا کیوں نہیں.عمرؓ نے کہا پھر اپنے دین کے بارے میں ہم ذلت کیوں قبول کر رہے ہیں؟ رسول اللہ نے کمال صبر و حوصلہ سے جواب دیا.میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرتا وہی میرا مددگار ہے.عمر نے کہا.کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم امن سے خانہ کعبہ کا طواف کریں گے ؟ رسول اللہ نے فرمایا ہاں.مگر کیا میں نے یہ کہا تھا ہم اسی سال طواف کریں گے؟ عمر نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا تو پھر اگلے سال آکر آپ طواف کرو گے.قریباً ایسے ہی جذبات دیگر صحابہ کے تھے.جن کو حضرت عمرؓ نے زبان دی تھی.مگر ایک رسول اللہ تھے کہ کوہ استقامت بنے ہوئے تھے.یا پھر صدیق اکبر انشراح صدر کے ساتھ آپ کی رکاب سے چمٹے ہوئے حضرت عمر کو بھی یہی وعظ کر رہے تھے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں ان کی رکاب تھامے رکھنا خدا کی قسم ! یہ حق پر ہیں.حضرت عمر بعد میں کہا کرتے تھے کہ حدیبیہ پر جوا بتلا مجھے پیش آیا.میں نے اس کی تلافی کے لئے بہت نیک اعمال کئے کہ اللہ تعالیٰ وہ لغزش معاف کر دے.
اسوہ انسان کامل 383 غزوات النبی میں خلق عظیم معاہدہ طے ہو جانے کے بعد رسول اللہ نے صحابہ سے فرمایا کہ اب اپنی قربانیاں یہیں میدان حدیبیہ میں ذبح کر ڈالو.صحابہ غم سے نڈھال اور صدمہ سے مدہوش تھے.وہ بے حس و حرکت اور ساکت و جامد کھڑے تھے.رسولِ خدا نے تین مرتبہ اپنا حکم دہرایا کہ اپنی قربانیاں ذبح کر دو مگر کسی کو ہمت نہ ہوئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضرت ام سلمہ کے خیمہ میں تشریف لے گئے اور افسوس کے رنگ میں ان سے میہ ذکر کیا کہ صحابہ میری ہدایت کے مطابق قربانیاں ذبح کرنے میں متردد ہیں.ام سلمہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اگر آپ قربانیاں کروانا چاہتے ہیں تو کسی سے بات کئے بغیر خود جا کر میدان حدیبیہ میں اپنی قربانی ذبح کر دیں.ام سلمہ کا مشورہ کتنا صائب تھا.واقعی غم کے وہ بت نمونہ چاہتے تھے.رسول اللہ کی اپنی قربانی ذبح کرنے کی دیر تھی کہ صحابہ اس طرح دھڑا دھڑ اپنی قربانی کے جانور ذبح کرنے لگے کہ میدان حدیبیہ حرم بن گیا.صحابہ کے غم کا یہ حال تھا کہ قربانی کے بعد وہ کانپتے بدن اور لرزتے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ ایک دوسرے کے سر مونڈ رہے تھے اور خطرہ تھا کہ لرزتے ہاتھوں سے کہیں وہ ایک دوسرے کی گردنیں ہی نہ کاٹ ڈالیں.( بخاری ) 43 فتح خیبر میں خلق عظیم مسلمانانِ مدینہ کو جنوب کی سمت سے اہل مکہ کے حملہ کا خطرہ رہتا تھا تو شمال سے یہود خیبر کا صلح حدیبیہ اس طرح فتح خیبر کا پیش خیمہ ثابت ہوئی کہ مسلمان اس معاہدہ صلح کے باعث اہل مکہ کے خطرہ سے امن میں آگئے.اب اُن کے لئے یہود خیبر کے شمالی خطرے سے نبٹنا آسان تھا.چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد تین ماہ کی قلیل مدت میں ہی خیبرے ھے میں فتح ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب خیبر کی تیاری کا حکم دیا تو یہ اعلان فرمایا کہ " کوئی شخص جہاد کے علاوہ کسی غنیمت وغیرہ کے ارادہ سے ہمارے ساتھ نہ نکلے.“ ( الحلبیہ (44 پھر آپ نے اس ہدایت کی تعمیل کیلئے عملی کار روائی یہ فرمائی کہ حدیبیہ میں شامل افرادہی کو خیبر کی تیاری کا حکم فرمایا، جو خلوص نیت سے حج اور عمرہ کے ارادہ سے نکلے تھے اور رسول اللہ کے ہاتھ پر موت پر بیعت کر کے ہر حال میں آپ کی فرمانبرداری کا عہد تازہ کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے ان مومنوں کے پاکیزہ ارادوں پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے انہیں ایک فتح قریب کی بشارت بھی عطا فرمائی تھی.(سورۃ الفتح: 19) خیبر میں دس ہزار مسلح قلعہ بند یہودیوں کے مقابل پر اپنے لشکر کو محض حدیبیہ کے چودہ سو اصحاب میں محدود کردینا جنگی نقطہ نگاہ سے بظاہر مناسب نظر نہیں آتا لیکن آنحضرت کے پیش نظر یہ ضابطہ اخلاق تھا کہ محض مال غنیمت کی نسیت سے کوئی شخص ہمارے لشکر میں شامل نہیں ہونا چاہئے.(الحلبیہ (45) یہ پاکیزہ نمونہ بڑی شان کے ساتھ ہمیشہ اس الزام کی نفی کرتا رہے گا کہ اسلامی جنگوں کا مقصد محض لوٹ مار اور حصول غنیمت تھا.
اسوہ انسان کامل 384 غزوات النبی میں خلق عظیم یہود خیبر سے مصالحت کی کوشش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہودی سازشوں کا اطلاع ہوئی تو آپ نے پہلے مصالحت سے اس فتنہ کو دبانے کی کوشش کی.آپ نے یہود کو ایک خط میں لکھا کہ یہ خط موسیٰ علیہ السلام کے بھائی اور ان کی تعلیم کی تصدیق کرنے والے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہودی خیبر کے نام ہے.اے یہود کے گروہ ! تمہاری کتاب تورات میں مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار (الفتح: 30) کی پیشگوئی موجود ہے.میں تمہیں اس خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تم پر تو رات اتاری، جس نے تمہارے آباؤ اجداد کو من وسلویٰ عطا کیا اور سمندر خشک کر کے فرعون سے نجات بخشی.سچ سچ بتاؤ کہ کیا تمہاری کتاب میں یہ لکھا ہوا موجود نہیں کہ تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور یاد رکھو ہدایت و گمراہی کھل چکی ہے میں تمہیں اللہ اور رسول کی طرف بلاتا ہوں.(ابن ھشام ) 46 کیسا واضح اور خوبصورت اس خط کا مضمون ہے جو اظہار محبت و تبشیر اور انذار و تنبیہ کے حسین امتزاج کا مرقع ہے.امن کی ان تمام کوششوں کا یہود نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا.غزوہ خیبر میں محمود بن سلمہ کی شہادت کے بعد جب ان کے بھائی محمد بن مسلمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ میرے بھائی محمود کو یہودیوں نے زیادتی سے قتل کیا ہے میں اس کا انتقام لے کر رہوں گا.کوئی اور جرنیل ہوتا تو دشمن کے خلاف اپنے سپاہی کی اس جوش و غیرت کو سراہتا مگر اس موقع پر بھی صبر و استقامت کے اس علمبردار نے اعتدال کا کیسا عمدہ سبق دیا فر مایا دشمن سے مقابلہ کی خواہش نہیں کرنی چاہیے اور خدا سے عافیت مانگو.ہاں ! جب دشمن سے مٹھ بھیڑ ہو جائے تو پھر دعا اور تدبیر کے ساتھ اس کا مقابلہ کرو اور یہ دعا کرو.اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبُّنَا وَنَوَاصِيْنَا وَنَوَاصِيهِمُ بِيَدِكَ وَإِنَّمَا تَقْتُلُهُمُ أنت ( الحلبیہ ) 47 یعنی اے اللہ تو ہی ہمارا رب ہے ہم اور ہمارے دشمن سب تیرے قبضہ قدرت میں ہیں.اب تو ہی ان کو مارے تو مارے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ہم رات کے وقت خیبر پہنچے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ کسی دشمن پر شب خون نہ مارتے تھے.خیبر میں بھی آپ نے رات کے اندھیرے میں دشمن کے غافل ہونے کا فائدہ 48 نہیں اٹھایا.( بخاری ) 18 صنف نازک کی عزت افزائی قدیم زمانہ میں رواج تھا کہ جنگ میں مردوں کا حوصلہ بڑھانے ، رنگ و طرب کی محفلیں سجانے اور دل بہلانے کیلئے عورتیں بھی شریک جنگ ہوتی تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کا جو تقدس اور احترام قائم فرمایا اس لحاظ سے آپ کو یہ طریق سخت نا پسند تھا.خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص کچھ خواتین کو زخمیوں کی
اسوہ انسان کامل 385 غزوات النبی میں خلق عظیم مرہم پٹی، تیمار داری اور دیکھ بھال کیلئے ساتھ چلنے کی اجازت فرمائی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پاکیزہ خیال کو ایک فرانسیسی عیسائی سوانح نگار یوں بیان کرتا ہے کہ شاید تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی لشکر کے ساتھ عورتیں نرسنگ کی خدمات اور زخمیوں کی دیکھ بھال کیلئے شامل ہو ئیں ، ورنہ اس سے پہلے جنگ میں عورت سے تحریض جنگ اور حفظ نفس کے سوا کوئی کام نہیں لیا جاتا تھا.عورت سے درست اور جائز خدمات لینے کے بارہ میں اب تک کسی نے نہ سوچا تھا کہ میدان جنگ میں تیمارداری اور بیماروں کی دیکھ بھال کی بہترین خدمت عورت انجام دے سکتی ہے.“ ( حیات محمد ) 49 خاموش حکمت عملی قریباً ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ تین راتوں کے مسلسل تھکا دینے والے سفر میں بعجلت طے کر کے آنحضرت خیبر پہنچ گئے.علی اصبح جب وادی خرص سے میدان خیبر میں داخل ہونے لگے تو صحابہ کرام نے بخیر و عافیت اپنی منزل پالینے کی خوشی میں نعرے بلند کرنے شروع کئے.اس خاموش پیش قدمی میں اللہ اکبر اور لا اللهُ إِلَّا اللہ کے نعروں کا یہ شور خلاف مصلحت تھا، کیونکہ آنحضرت تو یہود خیبر کے پاس اچانک پہنچ کر انہیں حیران و ششدر اور مبہوت کرنا چاہتے تھے.آپ نے صحابہ کو ان نازک لمحات میں موقع محل کی مناسبت سے کام کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا از بعوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبَ إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ ( بخاری 50 ) یعنی اللهُ أَكْبَرُ اور لَا إِلَهَ إِلَّا الله تو ذکر الہی کے کلے ہیں تم لوگ اپنے نفسوں پر رحم کرو اور آہستہ ذکر الہی کرو.جسے تم پکارتے ہو وہ نہ بہرہ ہے نہ غائب بلکہ وہ خوب سنتا ہے.وہ تمہارے قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے.حضرت محمد مصطفیٰ" کی فصاحت و بلاغت کا کمال دیکھئے کہ اپنے دل کی بات ایسے خوبصورت انداز اور جامع الفاظ میں بیان فرمائی کہ مبادا کوئی کہے دشمن کے خوف سے خدا کا نام بلند کرنے سے روک دیا گیا.فرمایا ہمارا خدا تو آہستہ ذکر بھی اسی طرح سنتا ہے جس طرح بلند - مصلحت وقت کا تقاضا آہستہ ذکر کا ہے اور اس وقت یہی عمل صالح ہے.بلند بانگ نعرے خلاف حکمت اور ہلاکت کو دعوت دینے کے مترادف ہیں.خیبر میں پڑاؤ کرتے ہوئے دوسری حکمت عملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اختیار فرمائی کہ لشکر کو پانچ حصوں ( مقدمہ میمنہ، میسرہ ، قلب اور ساقہ ) میں تقسیم کر کے قلعہ ہائے خیبر کے سامنے میدان میں اس طرح پھیلا دیا کہ سرسری نگاہ میں وہ ایک لشکر جرار نظر آتا تھا اور اس حکمت عملی میں جو دراصل دشمن کو اچانک حیران و ششدر کر دینے اور بوکھلاہٹ (Surprize) دینے کا حصہ تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی.واقعہ یہ ہوا کہ صبح جب قلعوں کے دروازے کھلے اور یہودی اطمینان سے کھیتی باڑی اور کام کاج کیلئے کتیاں ، کدال، ٹوکریاں لے کر باہر نکلنے لگے تو اچانک مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے.مدینہ سے منافقوں کے سردار عبد اللہ بن ابی نے تو انکو اطلاع دی تھی کہ مٹھی بھر مسلمان خیبر پر حملہ کرنے آرہے ہیں.اب ایسا لشکر دیکھ کر وہ
اسوہ انسان کامل 386 غزوات النبی میں خلق عظیم حیران و ششدر یہ کہتے ہوئے واپس قلعوں کی طرف دوڑے مُحَمَّد وَالخَمِيسِ وَاللهِ مُحَمَّد وَالْخَمِيس - (بخاری) 51 یعنی محمد اور اس کا پانچ دستوں والا لشکر.خدا کی قسم محمد اور پانچ دستوں والا لشکر ( آن پہنچا ).رسول اللہ زبر دست حیرانی اور سرپرائز (Surprise) دے کر ایک اور فتح حاصل کر چکے تھے.عارفانہ نعرے اب نعرے لگانے اور خدا کا نام بلند کرنے کا وقت تھا اور اس عارفانہ نعرہ کے پہلے حقدار میرے آقائے نامدار نبیوں کے سردار محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم تھے.سو آپ نے خیبر کی وادیوں میں بآواز بلند یہ نعرہ لگایا.اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِين - ( بخاری ) 52 یعنی اللہ سب سے بڑا ہے.خیبر ویران ہو گیا اور ہم جب کسی قوم کو تنبیہ اور ہوشیار کر دینے کے بعد اس کے میدان میں اترتے ہیں تو اس کی صبح نامبارک صبح ہوا کرتی ہے.رسول اللہ کے اس واشگاف اعلان سے آپ کی یہ امتیازی شان ظاہر ہے کہ آپ دشمن پر بغیر مناسب اختباہ وانذار ( وارنگ اور الٹی میٹم) کے حملہ نہ کرتے تھے.بے شک آپ دشمن کو حالت جنگ میں جنگی حکمت عملی کے طور پر اچانک حملہ آور ہو کر حیران و ششدر تو کر دیتے تھے لیکن شب خون سے منع فرماتے تھے.آپ کا یہ خلق عظیم حیرت انگیز ہے کہ دشمن کے سر پر پہنچ کر بھی دن کی روشنی کا انتظار کرتے ہیں.حضرت عرباض بن ساریہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ غزوہ خیبر میں شریک تھے.حاکم خیبر درشت رو اور بے لحاظ انسان تھا.( فتح کے بعد ) اس نے رسول اللہ کے پاس آکر کہا اے محمد ! کیا تم لوگوں کو حق پہنچتا ہے کہ ہمارے جانور ذبح کرو، ہمارے پھل کھاؤ اور ہماری عورتوں کو مارو.نبی کریم یہ سن کر بہت ناراض ہوئے اور عبدالرحمان بن عوف سے فرمایا کہ آپ گھوڑے پر سوار ہو کر یہ اعلان کریں کہ جنت میں صرف مومن ہی داخل ہو نگے نیز لوگوں کو نماز کے لئے جمع کیا جائے.جب وہ اکٹھے ہو گئے تو آپ نے صحابہ سے خطاب فرمایا کیا تم میں کوئی تکیہ پر ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا یہ گمان کرتا ہے کہ اللہ نے سوائے اس کے جو قرآن میں ہے، کوئی چیز حرام نہیں کی.سنو میں نے بھی کچھ احکام دیئے ہیں اور بعض باتوں سے روکا ہے وہ بھی قرآن کی طرح ہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جائز نہیں رکھا کہ تم اہل کتاب کے گھروں میں بلا اجازت داخل ہو.نہ ہی ان کی عورتوں کو مارنے کی اجازت دی ہے اور نہ ان کے پھل کھانے کی.جب (معاہدہ کے مطابق ) وہ تمہیں وہ کچھ دے رہے ہوں جوان کے ذمہ ہے یعنی جزیہ.(ابوداؤد ) 53 جرنیل...سپاہیوں کے ساتھ فتح خیبر سے واپسی پر پڑاؤ خیبر سے تین میل ادھر صہباء مقام پر ہوا.یہاں نماز عصر کے بعد حضور نے کھانا طلب فرمایا
اسوہ انسان کامل 387 غزوات النبی میں خلق عظیم اور اپنے سپاہیوں سے فرمایا کہ جس کے پاس جو زاد راہ ہے وہ لے آئے.ہم سب مل کر کھانا کھائیں گے.دستر خوان بچھائے گئے اور کھانا چنا گیا.ہمارے آقا کا وہ کھانا کیا تھا ؟ جو کے ستو اور کچھ کھجور میں جو آپ نے اپنے خدام کے ساتھ مل کر تناول فرما ئیں.( بخاری 54) یہ نظارہ کتنا دلکش ہے جس میں آقاپنے غلاموں کے ساتھ کمال سادگی، انکساری اور بے تکلفی سے ستو اور کھجور کاما حضر تناول کرتا نظر آتا ہے.فتح مکہ میں ظاہر ہونے والے خلق عظیم قریش مکہ کے لشکر بدر اور احد میں مدینے کے گنتی کے چند مجبور اور نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے.پھر جنگ احزاب میں تو سارا عرب مسلمانان مدینہ پر چڑھ آیا اور اہل مدینہ نے شہر کے گرد خندق کھود کر اور اس میں محصور ہو کر جائیں بچا ئیں.آپ ہمیشہ دفاع ہی کرتے رہے.خانہ کعبہ کے حقیقی متولی مسلمانوں کو یہ اجازت بھی نہ تھی کہ وہ خدا کے گھر کا طواف ہی کر سکیں.چنانچہ 6 ھ میں چودہ سو مسلمانوں کو جو طواف بیت اللہ کی غرض سے مکہ جارہے تھے حدیبیہ سے واپس لوٹا دیا گیا.اسی موقع پر معاہدہ صلح کی شرائط طے ہوئیں.صلح کا شہزادہ فتح مکہ کے موقع پر ایک دفعہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خلق عظیم پر فائز ہونے کی بے نظیرشان دنیا نے دیکھی.ہر چند کہ قریش مکہ نے صلح حدیبیہ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے حلیف بنی خزاعہ پر شب خون مار کر معاہدہ توڑ دیا.پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے صلح کی طرح ڈالتے نظر آتے ہیں.چنانچہ آپ نے معاہدہ شکنی کرنے والوں کی طرف اپنا سفیر تین شرائط میں سے کسی ایک شرط پر صلح کی پیشکش کے ساتھ بھیجا کہ ہمارے حلیف خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا ادا کر دو یا بنوبکر کی طرف داری سے الگ ہو جاؤ یا حدیبیہ کی صلح توڑنے کا اعلان کر دو.مسلمانوں کے اس سفیر کو جواب ملا کہ ہم حدیبیہ کی صلح توڑتے ہیں.( زرقانی) 55 سفر مکہ میں راز داری کے لئے تدبیر اور دُعا رازداری کی حکمت عملی کا مقصد قریش مکہ کو تیاری کا موقع نہ دیگر از راہ احسان انہیں کشت وخون سے بچانا تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت عملی سے کام لیتے ہوئے نواح مدینہ میں یہ پیغام بھجوایا کہ اس دفعہ کا رمضان مدینہ میں گزاریں اور اہل مدینہ کو سفر کی تیاری کی ہدایت فرمائی.لیکن یہ ظاہر نہ فرمایا کہ کہاں کا قصد ہے.ایک لشکر جرار کی تیاری اور نقل و حرکت راز داری میں رکھنا بظاہر ایک ناممکن امر تھا.لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہر کٹھن مرحلہ کیلئے دعا اور تدبیر کو کام میں لاتے تھے.آپ نے اپنے رب کے حضور دعا کی اللَّهُمَّ خُذِ الْعُيُونَ وَالْأَخْبَارَ عَنْ قُرَيشِ کہ اے اللہ قریش کے جاسوسوں کو روک رکھ اور ہماری خبریں ان تک نہ پہنچیں اور تدبیر یہ فرمائی
اسوہ انسان کامل 388 غزوات النبی میں خلق عظیم که مدینے سے مکے جانے والے تمام رستوں پر پہرے بٹھا دئیے.(الحلبیہ (56 افشائے راز کا خطرہ لشکر اسلام کی اس خاموش تیاری کے دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس سے مکے پر چڑھائی کا راز کھل جانے کا سخت خطرہ پیدا ہو گیا.ہوا یوں کہ ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ نے مکہ جانیوالی ایک عورت کے ذریعے قریش کو خط لکھ کر یہ اطلاع بھجوادی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر تیار ہے.یہ معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے مگر تم اپنا بچاؤ کرلو.میرا مقصد اس خط سے تم پر ایک احسان کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مخبری کی اطلاع کر دی.آپ نے گھوڑ سواروں کا ایک دستہ حضرت علی کے ساتھ اس عورت کے تعاقب میں بھیجا جو یہ خط واپس لے آئے.رسول کریم نے حاطب کو بلا کر پوچھا تم نے یہ کیا کیا ؟ حاطب نے سچ سچ کہہ دیا کہ یا رسول اللہ میں قریش میں سے نہیں ہوں مگر اس خط کے ذریعے میں قریش پر احسان کرنا چاہتا تھا تا کہ وہ مکے میں میرے گھر بار کی حفاظت کریں.حضرت عمرؓ اس مجلس میں موجود ہیں وہ کہنے لگے.یارسول اللہ ! مجھے اجازت دیجئے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں.مگر جانتے ہو وہ رحیم و کریم رسول کیا خوب جواب دیتے ہیں کہ نہیں نہیں حاطب سچ کہتا ہے اسے کچھ نہ کہو.حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے مجھے اس کی گردن مارنے دیجئے.شفقت بے پایاں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف عمر کی تختی پر تحمل سے کام لیا تو دوسری طرف حاطب کی معافی کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا عمر ! تم جانتے نہیں یہ شخص جنگ بدر میں شامل ہوا تھا اور عرش کا خدا جو اصحاب بدر کے حالات سے خوب واقف ہے اور ان کے حق میں فرماتا ہے اِعْمَلُو اما شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةَ کہ جو چاہو کرو تمہارے لئے جنت واجب ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے دلوں میں گناہ کی ایسی نفرت ڈال دی ہے کہ بالا رادہ ان سے کوئی گناہ نہیں ہو سکتا.( بخاری )57 اس رؤف و رحیم رسول کی شفقت بے پایاں کا یہ حیرت انگیز نظارہ دیکھ کر حضرت عمر بے اختیار رونے لگے.ان کی حیرانی بجا تھی کہ اپنی زندگی کے اہم نازک ترین اور تاریخ ساز موٹر پر تو کوئی بھی فاتح اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی کسی بھی روک کو قطعا برداشت نہیں کیا کرتا.ایسے مواقع پر تو سابقہ خدمات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی اور آئندہ خطرے سے بچنے کیلئے کم از کم احتیاط یہ بھی جاتی ہے کہ ایسے قومی مجرم کو زیر حراست رکھا جائے لیکن دیکھواس در بار عفوو کرم کی شان دیکھو جس سے حاطب کے لئے بھی مکمل معافی کا اعلان جاری ہوا.حیرت ناک حکمت عملی مرالظہران کے وسیع میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداداد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت
اسوہ انسان کامل 389 غزوات النبی میں خلق عظیم عملی کا ایک حیرت انگیز منصوبہ بنایا.آپ نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور ہر شخص آگ کا ایک الاؤ روشن کرے.اس طرح اس رات دس ہزار آگئیں روشن ہو کر مر الظہران کے ٹیلوں پر ایک پرشکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے ہو لگیں.( بخاری ) 58 عربوں کے دستور کے مطابق لشکر کے دس آدمیوں کی ایک ٹولی اپنی آگ روشن کرتی تھی.اب یہاں دس ہزار لشکر کے اتنے ہی آگ کے الاؤ مسلمانوں کے لشکر کی اصل تعداد کو کہیں زیادہ ظاہر کر رہے تھے.ابوسفیان کو معافی اُدھر ابوسفیان اور اس کے ساتھی سردار رات کو شہر مکہ کی گشت پر نکلے تو یہ ان گنت روشنیاں دیکھ کر واقعی حیران و ششدر رہ گئے.ابوسفیان کہنے لگا خدا کی قسم میں نے آج تک اتنا بڑا لشکر اور آگیں نہیں دیکھیں.وہ ابھی یہ اندازے ہی لگارہے تھے کہ اتنا بڑ الشکر کس قبیلے کا ہوسکتا ہے؟ کہ حضرت عمر کی سرکردگی میں مسلمانوں کے گشتی دستے نے ان کو پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا.اس موقع پر حضرت عمر نے دشمن اسلام ابوسفیان کو قتل کرنا چاہا لیکن آنحضرت تو اس کے لئے پہلے امن کا اعلان کر چکے تھے کہ ابوسفیان بن حرب کسی کو ملے تو اسے کچھ نہ کہا جائے.یہ گویا آپ کی طرف سے ابوسفیان کی ان مصالحانہ کوششوں کا احترام تھا جو اس نے معاہدہ شکنی کے خوف سے مدینے آکر چالاکی سے کی تھیں اور ان کی کوئی قیمت نہ تھی لیکن آپ کی رحمت بھی تو بہانے ڈھونڈ تی تھی.(ابن ھشام) 59 چنانچہ حضرت عباس نے ابو سفیان کو پناہ دی.صبح جب ابو سفیان دوبارہ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا.ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم گواہی دو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں.تب ابوسفیان نے بے ساختہ یہ گواہی دی کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ نہایت حلیم ، شریف اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا وہ ضرور ہماری مدد کرتا البتہ آپ کی رسالت کے قبول کرنے میں ابھی کچھ تامل ہے.(ابن ھشام ) 60 حضرت عباس کو ارشاد رسول ہوا کہ جب اسلامی لشکر مکہ کی جانب روانہ ہوتو ابوسفیان کو کسی بلند جگہ سے لشکر کی شان و شوکت کا نظارہ کرایا جائے ، شاید یہ دنیا دار شخص اس سے مرعوب ہو کر حق قبول کر لے.دس ہزار قد وسیوں کا شکر چلا ، ہر امیر فوج جھنڈا بلند کئے دستہ کے آگے تھا.انصاری سردار سعد بن عبادہ اپنا دستہ لیکر ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو جوش میں آکر کہہ گئے.الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةُ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْكَعْبَةَ آج جنگ و جدال کا دن ہے آج کعبہ کی عظمت قائم کرنے کا دن ہے.( بخاری ) 61 نبی کریم ﷺ نے اپنے اس کمانڈر کو جو ایک طاقتور قبائلی سردار تھا معزول کر دیا کہ اس نے حرمت کعبہ کے بارے میں ایک ناحق بات کیوں کہہ دی اور ابوسفیان کا دل بھی دکھایا.ہاں ! اس دشمن اسلام ابوسفیان کا جو مفتوح ہو کر بھی ابھی
390 اسوہ انسان کامل غزوات النبی میں خلق عظیم آپ کی رسالت قبول کرنے میں متامل تھا.اے دنیا والو! دیکھو اس عظیم رسول کے حو صلے تو دیکھو، عین حالت جنگ میں جرنیلوں کی معزولی کے تمام خطروں سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ فیصلہ سناتے ہیں کہ سعد سے اسلامی جھنڈا واپس لے لیا جائے.(ابن ھشام )62 مگر ہاں اس محسن اعظم کے احسان پر بھی تو نظر کرو کہ غیرت اسلام کے جوش میں سرشارا ایسا نعرہ بلند کرنے والے جرنیل سعد کا بھی آپ کس قدر لحاظ رکھتے ہیں.ساتھ ہی دوسرا حکم یہ صادر فرماتے ہیں کہ سعد کی بجائے سالار فوج ان کے بیٹے قیس بن سعد کو مقرر کیا جاتا ہے.(الحلبیہ (63 کیا جنگوں کی ہنگامہ خیزیوں میں بھی کبھی اپنے خدام کے جذبات کا ایسا خیال رکھا گیا ہے؟ نہیں نہیں یہ صرف اس رحمۃ للعالمین کا ہی خلق عظیم تھا جو سزا میں بھی رحمت و شفقت اور احسان کا پہلو نکال لیتے تھے.فتح مکہ عظمت اخلاق کا بلند ترین مینار فاتحین عالم کے اس دستور سے کون ناواقف ہوگا کہ شہروں میں داخلے کے وقت آبادیوں کو ویران اور ان کے معزز مکینوں کو بے عزت اور ذلیل کر دیا جاتا ہے، لیکن رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی عظیم ترین فتح کو بھی تو دیکھو جہاں آپ کی عظمت اخلاق کا سب سے بلند اور روشن ترین مینار ایستادہ ہے.جب دس ہزار قد وسیوں کا لشکر مکہ کے چاروں اطراف سے شہر میں داخل ہوا تو قتل و غارت کا بازار گرم ہوانہ قتل عام کی گرم بازاری بلکہ امن و سلامتی کے شہنشاہ کی طرف سے یہ فرمان شاہی جاری ہوا کہ ” آج مسجد حرام میں داخل ہو نیوالے ہر شخص کو امان دی جاتی ہے.امان دی جاتی ہے ہر اس شخص کو جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے یا اپنے ہتھیار پھینک دے اپنا دروازہ بند کر لے اور ہاں جو شخص بلال حبشی کے جھنڈے کے نیچے آجائے اسے بھی امان دی جاتی ہے.“ ( الحلبیہ (64 اس اعلان کے ذریعہ جہاں خانہ کعبہ کی حرمت قائم کی گئی وہاں دشمن اسلام ابوسفیان کی دلداری کا بھی کیسا خیال رکھا گیا یہی وہ اعلیٰ اخلاق تھے جس سے بالاخرا بو سفیان کا دل اسلام کے لئے جیت لیا گیا اور اسے اس تالیف قلب کے ذریعہ نبی کریم کی رسالت پر ایمان نصیب ہوا.بلال کے جذبات کا خیال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بلال کے جھنڈے کو امن کا نشان قرار دینا بھی علم النفس کے لحاظ سے آپ کے اخلاق فاضلہ کی زبر دست مثال ہے، کوئی وقت تھا جب مکے کے لوگ بلال کو سخت اذیتیں دیا کرتے تھے اور مکے کی گلیاں بلال کے لئے ظلم و تشدد کی آماجگاہ تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا آج بلال کا دل انتقام کی طرف مائل ہوتا ہوگا، اس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی ضروری ہے.لیکن ہمارا انتقام بھی اسلام کی شان کے مطابق ہونا چاہئے پس آپ نے
391 اسوہ انسان کامل غزوات النبی میں خلق عظیم گردنیں کاٹ کر بلال کا انتظام نہیں لیا بلکہ بلال جو کبھی مکہ کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا.آج نبی کریم نے اسے اہل مکہ کے لئے امن کی علامت بنا دیا.بلال کے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا اور بلال کے جذبات کا بھی خیال رکھا.میں سوچتا ہوں وہ کیا عجیب منظر ہو گا جب بلال یہ منادی کرتا ہوگا کہ اے مکہ والو! بلالی جھنڈے کے نیچے آجاؤ تمہیں امن دیا جائے گا اور یہ کتنا بڑا فخر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غلام کو بخشا کہ اس پر ظلم کر نیوالے اس کی پناہ میں آنے سے بخشے جائیں گے.یہ پاک نمونہ بلاشبہ شرف انسانی کے قیام کی زبردست علمی شہادت ہے.خون خرابہ سے بچنے کی کوشش رسول کریم نے مکہ میں داخل ہوتے وقت اپنے جرنیلوں کو بھی حکم دیا کہ کسی پر حملے میں پہل نہیں کرنی اور اس وقت تک جنگ شروع نہیں کرنی جب تک لڑائی تم پر مسلط نہ کر دی جائے.آپ خود مکہ کی بالائی جانب اس مقام سے شہر میں داخل ہوئے جہاں ابوطالب اور حضرت خدیجہ کی قبریں ہیں اور یوں فتح کے موقع پر بھی مصیبت کے زمانہ کے مددگاروں کو یا درکھا.نبی کریم نے اپنے کہنہ مشق جرنیل خالد بن ولید کو ملکہ کی زیریں شمالی جانب سے داخلے کا ارشاد فرمایا جہاں عکرمہ بن ابی جہل اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اس مزاحمت میں مسلمانوں کے دو آدمی شہید ہو گئے.(بخاری) 65 قریش کے جو آدمی مارے گئے ان کی تعداد دس سے اٹھائیس تک بیان کی جاتی ہے.اگر کفار کی طرف سے مزاحمت نہ ہوتی تو یہ خون بھی نہ بہتا.(الحلبیہ ( 66 سر ولیم میور نے بھی لکھا ہے کہ محمد نے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم کر کے مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم دیا اور تختی سے ہدایت کی کہ سوائے انتہائی مجبوری اور خود حفاظتی کے جنگ نہیں کرنی.( میور 67) اسی ہدایت کا نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے موقع پر چند گنتی کے مشرک مارے گئے.مگر اتنی بڑی فتح پر اتنے کم جانی نقصان ہو جانے کا بھی آنحضرت مہ کوخت افسوس تھا.(ابن ہشام )68 آپ نے اپنے جرنیل خالد بن ولید کو بلا کر اس کی جواب طلبی فرمائی کہ حتی الامکان از خود حملہ نہ کرنے کی ہدایت کے با وجود پھر یہ خون کیوں ہوا اور جب آپ کو حقیقت حال کا علم ہوا تو ہمیشہ کی طرح یہ کہہ کر راضی برضا ہوئے کہ منشا الہی یہی تھا.( الحلبیہ (69 فتح مکہ پر عجز وانکسار کا عجیب منظر ہمارے سید ومولا کے شہر میں داخل ہونے کا منظر بھی دیکھنے کے لائق تھا.شہر کا شہر اس عظیم فاتح کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے تاب اور منتظر تھا.اہل شہر سوچنتے ہونگے کہ فاتح مکہ آج فخر سے سراونچا کے شہر میں داخل ہوگا لیکن جب
اسوہ انسان کامل 392 غزوات النبی میں خلق عظیم محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شاہی سواری آئی تو وہاں کچھ اور ہی منظر تھا.رب جلیل کا یہ پہلوان حفاظتی خود کے اوپر سیاہ رنگ کا عمامہ پہنے اپنی اونٹنی قصواء پر سوار تھا اور سرخ رنگ کی یمنی چادر پہلو پر تھی.سواری پر پیچھے اپنے وفادار غلام زیڈ کے بیٹے اسامہ کو بٹھایا ہوا تھا.دائیں جانب ایک وفادار ساتھی حضرت ابو بکرؓ تھے اور بائیں جانب حضرت بلال اور اُسید بن حضیر انصاری سردار تھے.( بخاری )70 فتح مکہ کے دن امن کے اعلان عام کی خاطر رسول خدا نے سفید جھنڈا لہرایا جب کہ بالعموم آپ کا جھنڈا سیاہ رنگ کا ہوا کرتا تھا.مکہ میں داخلہ کے وقت رسول اللہ سورہ فتح کی آیات تلاوت فرما رہے تھے اور آپ کی سواری شہر کی طرف بڑھ رہی تھی.پھر وہ موڑ آیا جس سے مکہ میں داخل ہوتے ہیں وہی موڑ ، جہاں آٹھ سال پہلے مکہ سے نکلتے ہوئے آپ نے وطن عزیز پر آخری نگاہ کرتے ہوئے اسے اس طرح الوداع کہا تھا کہ اے مکہ ! تو میرا پیارا وطن تھا اگر تیری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز نہ نکلتا سرولیم میورلکھتا ہے کہ خدشہ تھا کہ شاید اس جگہ نبی کریم کو مکہ میں داخلہ سے روکنے کیلئے مزاحمت ہوگر اللہ کی شان کہ خدا کا رسول آج نہایت امن سے اپنے شہر میں داخل ہو رہا تھا ( میور )71 اس موقع پر مفتوح قوم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا کہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی فتح کے دن غرور اور تکبر کے کسی اظہار کی بجائے خدا کے وعدوں کو پورا ہوتے دیکھ کر اس عظیم فاتح کا سر عجز وانکسار اور شکر کے ساتھ جھک رہا تھا حتی کہ جھکتے جھکتے وہ اونٹنی کے پالان کو چھونے لگا دراصل آپ سجدہ شکر بجالا رہے تھے اور یہ فقرہ زبان پر تھا.اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ الَّا عَيْشَ الْآخِرَة کہ اے اللہ ! اصل زندگی تو آخرت کی ہے.دنیا کی فتوحات کی کیا حقیقت ہے.( ابن ھشام ) 72 اللہ اللہ! محمدمصطفی ﷺ کی استقامت کتنی حیرت انگیز ہے اور آپ کی بے نفسی کا بھی کیا عجیب عالم ہے اپنی زندگی کے سب سے بڑے ابتلا پر جنگ احزاب میں بھی آپ یہی فقرہ دہراتے تھے.اللَّهُمَّ لَاعَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَةَ کہ یہ دکھ تو عارضی ہیں اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور اپنی زندگی کی عظیم ترین فتح کے موقع پر بھی آپ کمال شانِ استقامت سے وہی نعرہ بلند کرتے ہیں.سبحان اللہ! کیسا کوہ وقار انسان ہے کہ ابتلاء ہو یا فتح تنگی ہو یا آسائش اس کے قدمِ صدق میں کوئی لغزش نہیں آتی.آئیے ! اس فقرہ کی سچائی جاننے کیلئے ذرا اس عظیم فاتح کے جشن فتح کا نظارہ کریں.سادگی و قناعت دو پہر ہوا چاہتی ہے.کھانے کا وقت ہے فاتحین عالم کے جشن کے نظاروں کا تصور کرتے ہوئے آؤ دیکھیں کہ یہ عظیم فاتح آج کیا جشن مناتا ہے؟ اور کیا لذیذ کھانے اڑائے جاتے ہیں؟ وہ مقدس وجود جس کی خاطر یہ کائنات بنائی گئی جس کے طفیل ہم ادنی بھی قسم قسم کی نعمتوں سے حصہ پاتے ہیں آؤ اس کی عظیم ترین فتح کے دن دیکھیں تو سہی کہ کتنے
اسوہ انسان کامل 393 غزوات النبی میں خلق عظیم جانوروں کے کاٹنے کا حکم ہوتا ہے؟ اور کیا پکوان پکائے جاتے ہیں؟ اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشَ الْآخِرَة کہنے والے کے جشن فتح کا نظارہ کچھ اس طرح ہے.آپ اپنی چازاد بہن ام ہانی کے گھر تشریف لے جاتے اور فرماتے ہیں بہن کچھ کھانے کو ہے؟ بہن شرمندہ ہے کہ گھر میں فی الفور اس شاہ دو عالم کیلئے روٹی کے چند خشک ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں.آپ فرماتے ہیں وہ ٹکڑے ہی لے آؤ پھر آپ پانی منگوا کر وہ خشک ٹکڑے بھگو لیتے ہیں.تھوڑا سا نمک او پر ڈالتے ہیں اور پوچھتے ہیں کچھ سالن ہے؟ ام ہانی عرض کرتی ہیں سالن تو نہیں سر کے کی کچھ تلچھٹ پڑی ہے اور رسول اللہ وہ بچا کھچا سر کہ ان گیلے نمکین ٹکڑوں پر ڈال کر مزے مزے سے کھانے لگتے ہیں اور ساتھ الحمد للہ الحمد للہ کہتے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اُم ہائی اس کہ بھی کتنا اچھا سالن ہے.یہ ہمارے آقا کا اپنی عظیم فتح کے دن کا کھانا ہے.( ھیثمی )73 بے قرار سجدے فتح کے موقع پر نعرہ ہائے تکبیر یا اونٹنی کے پالان پر سجدہ تشکر تو در اصل رسول اللہ کے قلبی جذبات کا ایک ادنی ساعلامتی اظہار تھا کہ توحید الہی اور اپنے مولیٰ کی کبریائی کی کتنی غیرت اور جوش آپ کے دل میں موجزن ہے.مگر کسے معلوم کہ ابھی تو کتنے ہی بے پناہ ان گنت بے قرار سجدے آپ کی پیشانی میں تڑپ رہے تھے جو بیت اللہ کی زینت بننے والے تھے.دراصل انہی سجدوں سے آج بیت اللہ سجنے والا تھا.وہی پاکیزہ پر خلوص اور عاجزی سے بھرے ہوئے سجدے اس گھر کی زینت بننے والے تھے جن کی خاطر یہ پہلا گھر بنایا گیا اور جن کی بیت اللہ کو بھی انتظار ہوگی.اب ان سجدوں کی ادا ئیگی کا وقت آچکا تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں آکر پہلا کام یہی کیا کہ اس کے اندر تشریف لے گئے اور بطور شکرانہ فتح نفل نماز ادا کی.اس وقت حضرت اسامہ اور حضرت بلال آپ کے ساتھ تھے اور کافی دیر خانہ کعبہ میں عبادت کرتے رہے.( بخاری )74 پہلے آپ نے دوستونوں کے درمیان دو نفل ادا فرمائے پھر باہر تشریف لا کر بیت اللہ کے اندر کے دروازے اور حجر اسود کے درمیان دو نفل ادا کئے پھر اندر تشریف لے گئے اور کافی دیر کھڑے دعا کرتے رہے حتی کہ خانہ کعبہ کے ہر کونے میں کھڑے ہوکر آپ نے دعا کی.(الحلبیہ (75 بدسلوکی کے بدلے احسان طواف کے بعد آنحضرت ﷺ نے کلید بردار کعبہ عثمان بن طلحہ سے بیت اللہ کی چابیاں منگوائیں.جب حضور مکہ میں تھے تو سوموار اور جمعرات کے دن خانہ کعبہ کا دروازہ کھولا جاتا تھا اور لوگ اندر جاتے تھے.ایک دفعہ آنحضرت اندر جانے لگے تو اسی عثمان نے اس پاک رسول کو خدا کے اس گھر میں داخل ہونے سے روک دیا.جس کے لئے یہ گھر بنایا گیا تھا.رسول خدا ﷺ نے اس وقت عثمان کو کہا تھا کہ اس خانہ خدا کی چابیاں ایک دن میرے پاس آئیں گی اور پھر جسے
اسوہ انسان کامل 394 غزوات النبی میں خلق عظیم میں چاہوں گا دوں گا.آج وہ دن آچکا تھا اور عثمان بن طلحہ لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چابیاں خدا کے رسول کو پیش کر رہا تھا.( ابن ھشام )76 اب د نیا منتظر تھی کہ عثمان بن طلحہ سے بطور انتقام چابیاں واپس لے لی جائیں گی اور کسی اور کے سپر دہونگی.حضرت علی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض بھی کر چکے تھے کہ آج سے دربانی کعبہ کی خدمت بنو ہاشم کو عطا کی جائے.اُدھر رسول خدا ﷺ بیت اللہ میں نماز پڑھ کر باہر تشریف لائے اور عثمان بن طلحہ سے ایک عجیب تاریخ ساز انتقام لیا.آپ نے چابیاں اس کے حوالے کر دیں اور فرمایا ” آج کا دن احسان اور وفا کا دن ہے اور اے عثمان میں یہ چابیاں ہمیشہ کیلئے تمہیں اور تمہارے خاندان کے حوالے کرتا ہوں اور کوئی بھی تم سے یہ چابیاں واپس نہیں لے گا.سوائے ظالم کے.یہ احسان دیکھ کر عثمان بن طلحہ کا سر جھک گیا اور اس کا دل محمد مصطفیٰ " کے قدموں میں تھا اس نے ایک دفعہ پھر صدق دل سے اعلان کیا کہ میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد اس کا رسول ہے.(الحلبیہ ( 77 یہ تھا انتقام حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اور کتنا حسین ہے یہ انتقام ! کوئی ہے جو اس کی نظیر پیش کرے؟ فتح مکہ میں جانی دشمنوں سے عفو حضور طواف سے فارغ ہو کر جب باب کعبہ کے پاس تشریف لائے تو آپ کے تمام جانی دشمن آپ کے سامنے تھے.آپ نے اس جگہ وہ عظیم الشان تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا جس میں اپنے خونی دشمنوں کے لئے معافی کا اعلان تھا، مساوات انسانی کا اعلان تھا، کسی غرور کی بجائے فخر و مباہات کا لعدم کرنیکا اعلان تھا.یہ معرکہ آراء خطبہ بھی دراصل آپ کے خلق عظیم کا زبردست شاہ کا ر ہے.آپ نے فرما یا لا اله الا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ هَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ”اے لوگو! خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.اس نے فتح کے جو وعدے اس عاجز بندے سے کئے تھے وہ آج پورے کر دکھائے ہیں.اس خدائے وحدہ لاشریک نے اپنے اس کمزور بندے کی مدد کر کے اس کے مقابل پر تمام جتھوں کو توڑ کر رکھ دیا ہے.آج تمام گذشتہ ترجیحات اور مفاخر اور تمام انتقام اور خون بہا میرے قدموں کے نیچے ہیں.میں ان سب کو کالعدم قرار دیتا ہوں.اے قوم قریش ! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کا غرور اور نام ونسب کی بڑائی ختم کر دی ہے.تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنا تھا.پھر آپ نے یہ آیت پڑھی يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنكُمْ مِنْ ذَكَرٍو أَنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ أَتْقَكُم (الحجرات: 14) کہ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے قبیلے اور خاندان بنائے تا کہ آپ اس میں ایک دوسرے کی پہچان کرو.یقینا خدا کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.“ ( ابن ہشام ) 78 پھر آپ نے فرمایا.اے مکہ والو! اب تم خود ہی بتاؤ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں؟ یہاں ذرا ٹھہرئیے اور
اسوہ انسان کامل 395 غزوات النبی میں خلق عظیم دیکھئے رسول کریم کن لوگوں سے مخاطب تھے ؟ ان خون کے پیاسوں سے جن کے ہاتھ گزشتہ میں سال سے مسلمانوں کے خون سے لالہ رنگ تھے.ہاں ! مسلمان غلاموں کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹنے والے مسلمان عورتوں کو بیدردی سے ہلاک کرنے والے، مسلمانوں کو انکے گھروں سے نکالنے والے اور خود ہمارے آقا و مولا کو تین سال تک ایک گھاٹی میں قید کر کے اذیتیں دینے والے، مسلمانوں پر حملہ آور ہو کر ان کی نعشوں کا مثلہ کرنے والے، آپ کے چا حمزہ کا کلیجہ چبانے والے، آپ کی صاحبزادی زینب پر حملہ کر کے حمل ساقط کرنے والے، لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہیں کس سلوک کی توقع ہے تو کہتے ہیں.آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں مگر آپ جیسے کریم انسان سے ہمیں نیک سلوک کی ہی امید ہے اس سلوک کی جو حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.“ سچا عفو لوگ مکہ میں رسول اللہ کے داخلہ کو فتح قرار دیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ حضرت محمد مصطفی کی حقیقی فتح تو آپ کے خلق عظیم کی فتح تھی جس کا دشمن بھی اعتراف کر رہا تھا کہ اب تک جس وجود سے صرف اور صرف رحمت ہی ظاہر ہوئی آج بھی اس سے رحمت کی امید کیوں نہ رکھیں؟ مگر رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان سے حسن سلوک کیا.آپ نے فرمایا إِذْ هَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاءُ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ کہ جاؤ تم سب آزاد ہو صرف میں خود تمہیں معاف نہیں کرتا ہوں بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لئے عفو کا طلب گار ہوں.( ابن ھشام ) 79 یہ وہ سچا عفو تھا جس کے چشمے میرے آقا کے دل سے پھوٹے اور مبارک ہونٹوں سے جاری ہوئے.اس رحمت عام اور عفو تام کو دیکھ کر دنیا انگشت بدنداں ہے.مستشرقین بھی اس حیرت انگیز معافی کو دیکھ کر اپنا سر جھکا لیتے ہیں اور اس عظیم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوخراج تحسین پیش کرتے ہیں.چنانچہ مسٹر آرتھر نے فتح مکہ میں آنحضور کی رحمت وشفقت کے نظارہ پر یوں خراج تحسین پیش کیا ہے.ر فتح مکہ کے اس موقع پر یہ بات ان کے حق میں جائے گی اور وہ قابل تعریف ٹھہریں گے کہ اُس وقت جب کہ اہل مکہ کے، ماضی کے انتہائی ظالمانہ سلوک پر انہیں جتنا بھی طیش آتا، کم تھا اور ان کی آتشِ انتقام کو بھڑ کانے کے لئے کافی تھا.مگر انہوں نے اپنے لشکر وسپاہ کو ہر قسم کے خون خرابے سے روکا ، اور اپنے اللہ کے سامنے انتہائی بندگی وعبد یت کا مظاہرہ کیا اور شکرانہ بجالائے.صرف دس بارہ آدمی ایسے تھے جنھیں پہلے سے ہی ، ان کے وحشیانہ رویہ کی وجہ سے جلا وطن کر دیا گیا تھا اور ان میں سے بھی صرف چار کوقتل کیا گیا.لیکن دوسرے فاتحوں کے وحشیانہ افعال وحرکات کے مقابلہ میں، اسے بہر حال انتہا درجہ کی شرافت و انسانیت سے تعبیر کیا جائے گا ( مثال کے طور پر صلیبیوں کے مظالم ، کہ 1099ء میں فتح یروشلم کے موقع پر انہوں نے ستر ہزار سے زائد مسلمان مرد، عورتوں اور بچوں کوموت کے گھاٹ اتارا، یا وہ انگریز فوج
اسوہ انسان کامل 396 غزوات النبی میں خلق عظیم جس نے صلیب کے زیر سایہ لڑتے ہوئے 1874ء میں افریقہ کے سنہری ساحل پر ایک شہر کو نذرآتش کر ڈالا ) محمد (ﷺ) کی فتح در حقیقت دین کی فتح تھی ، سیاست کی فتح تھی ، انہوں نے ذاتی مفاد کی ہر علامت کو پس پشت ڈالا اور کروفر شاہی کے ہر نشان کو مسترد کر دیا اور جب قریش کے مغرور و متکبر سرداران کے سامنے سرنگوں ہوکر آئے تو محمد (ﷺ) نے اُن سے پوچھا کہ تمہیں مجھ سے کیا توقع ہے؟ وہ بولے رحم، اے بنی و فیاض برادر ! رحم “ انہوں نے فرمایا "جاؤ تم سب آزاد ہو“.( آرتھر 80 نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن مشہور مستشرق سٹین لے پول لکھتا ہے اب وقت تھا کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) خونخوار فطرت کا اظہار کرتے.آپ کے قدیم ایز اور ہندے آپ کے قدموں میں آن پڑے ہیں.کیا آپ اس وقت بے رحمی اور بیدردی سے ان کو پامال کریں گے.سخت عذاب میں گرفتار کریں گے یا ان سے انتقام لیں گے.؟ یہ وقت اس شخص کے اپنے اصلی روپ میں ظاہر ہونے کا ہے.اس وقت ہم ایسے مظالم کے پیش آنے کی توقع کر سکتے ہیں جن کے سننے سے رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور جن کا خیال کر کے اگر ہم پہلے سے نفرین و ملامت کا شور مچائیں تو بجا ہے مگر یہ کیا ماجرا ہے کیا بازاروں میں کوئی خونریزی نہیں ہوئی؟ ہزاروں مقتولوں کی لاشیں کہاں ہیں؟ واقعات سخت بیدرد ہوتے ہیں، کسی کی رعایت نہیں کرتے اور یہ ایک واقعی بات ہے کہ جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپ کی اپنے نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن تھا.قریش نے سال ہا سال تک جو کچھ رنج اور صدمے دیئے تھے اور بے رحمانہ تحقیر وتذلیل کی مصیبت آپ پر ڈالی تھی.آپ نے کشادہ دلی کے ساتھ ان تمام باتوں سے درگذر کی اور مکہ کے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا.(انتخاب قرآن) 81 ليا ظلم کا عفو سے انتقام عَلَيْكَ الصَّلَوةُ عَلَيْكَ السَّلَامِ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بادشاہ ہیں سرزمین مکہ کا سب کچھ آپ کی ملکیت اور قبضہ واقتدار میں آچکا ہے.ایسے میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آپ قیام کرنا کہاں پسند فرمائیں گے؟ حضرت اسامہ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ آپنے آبائی گھر میں ٹھہریں گے (جہاں بچپن اور جوانی کی یادیں وابستہ ہیں) تو فرمانے لگے ہمارے چا زاد عقیل بن ابی طالب نے وہ گھر ہمارے لئے کہاں باقی چھوڑے ہیں، وہ تو کب کے فروخت کر کے کھا چکے ہیں.(بخاری) 82 فتح مکہ پر جانی دشمنوں اور جنگی مجرموں پر احسانات فاتحین عالم کی فتوحات کی یادیں ان کی ہلاکت خیزیوں اور کھوپڑیوں سے تعمیر کئے جانیوالے میناروں سے وابستہ ہوتی ہیں مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مکہ کی فتح تو آپ کے عفو عام اور رحمت تام کا وہ
اسوہ انسان کامل 397 غزوات النبی میں خلق عظیم روشن مینار ہے جس کی کل عالم میں کوئی نظیر نہیں ، سوائے چند مجرموں کے جو اپنے جرائم کی بنا پر واجب القتل تھے.نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دربار سے عام معافی کا اعلان ہوا.دراصل یہی آپ کی وہ اخلاقی فتح تھی.جس نے آپ کے اہل وطن کے دل جیت لئے.ان دس واجب القتل مجرموں میں سے بھی صرف تین اپنے جرائم پر اصرار کرنے اور معافی نہ مانگنے کی وجہ سے مارے گئے.ایسے مجرموں کو قرار واقعی سزا دینا عدل وانصاف کا تقاضا بھی تھا اور معاشرہ پر احسان بھی کیونکہ وہ اپنے جرم پر مصر تھے ورنہ اس دربار سے تو عفو کا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ لوٹا نہ معافی سے محروم ہوا.پہلا مجرم ان بد بخت مجرموں میں سے ایک عبداللہ بن ہلال بن خطل تھا.جس کا اصل نام عبدالعڑ ی تھا.مسلمان ہوا تو رسول اللہ اللہ نے اس کا نام عبداللہ رکھا اور اسے زکوۃ وصول کرنے پر مامور فرمایا اور ایک انصاری کو بطور خدمت گار ساتھ روانہ کیا.ایک منزل پر قیام کے دوران محض بر وقت کھانا تیار نہ کرنے پر اس نے انصاری نوجوان کو قتل کر ڈالا.اس قتل ناحق کے باعث بطور قصاص وہ سزائے موت کا مستحق تو قرار پاہی چکا تھا، لیکن اس پر مستزاد یہ کہ اس قتل کے بعد مرتد ہوکر مشرکین مکہ سے جاملا اور اسلام اور بانی اسلام کے خلاف ایک محاذ کھول لیا.یہ خود شاعر تھا.نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف گندے اور مخش اشعار کہتا اور مجالس میں ترنم سے پڑھواتا تھا.فتح مکہ کے موقع پر بھی ابن خطل معافی کا خواستگار ہونے کی بجائے مسلح اور زرہ بند ہوکر گھوڑے پر سوار ہوا اور قسمیں کھا کھا کر یہ اعلان کرتا پھرا کہ محمد کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا.پھر جب حضور مکہ میں داخل ہو گئے تو بھی بجائے آپ کے دربار عفو میں حاضر ہونے کے خانہ کعبہ کے پردوں سے جاکر لپٹ گیا تا اس حیلہ سے جان بچا لے.چنانچہ حسب فیصلہ یہ قتل ہو کر کیفر کردار کو پہنچا.اے کاش ! ابن خطل بھی رسول اللہ کے دربار رسالت سے عفو کا طالب ہوتا تو اپنے جیسے دیگر مجرموں کی طرح وہ بھی آپ کی رحمت وعفو سے حصہ پاتا.(حلبیہ ( 83 ابن خطل مذکور کی دو مغنیہ ( گانے والی عورتیں ) بھی تھیں.جو اعلانیہ اس کی کہی ہوئی ہجو گایا کرتیں اور اشاعت فاحشہ کی مرتکب ہوتیں.اس لئے اس کے ساتھ اس کی دونوں مغنیات بھی سزائے موت کی سزا وار قرار پائیں.ان میں سے بھی ایک جس کا نام فرستنہ یا قریبہ تھا تا ئب ہو کر بھیس بدل کر آئی اور رسول اللہ کی بیعت کر کے اسلام قبول کر لیا.دوسری لونڈی کے بارہ میں مستند تاریخی روایات سے کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا کہ اس کا کیا نام تھا اور کیا انجام ہوا.آیا وہ اپنے مالک کی طرح فسق و فجور پر قائم رہنے اور تو بہ نہ کرنے کے باعث اپنے منطقی انجام کو پہنچی یا کہیں بھاگ کر رو پوش ہوگئی.( الحلبیہ ، بلاذری) 84 دوسرا مجرم دوسرا مجرم کو سرث بن نقیذ بن وہب تھا.جو نبی کریم کا جانی دشمن تھا.مکہ میں آپ کو سخت ایذائیں دیتا، آپ کے
اسوہ انسان کامل 398 غزوات النبی میں خلق عظیم خلاف سخت بکواس کرتا اور ہجو کہتا تھا.مگر اس کا اصل جرم جس کی بناء پر یہ واجب القتل ٹھہرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی پر قاتلانہ حملہ تھا.چنانچہ ہجرت مدینہ کے بعد جب آپ کے چا حضرت عباس نے حضور ﷺ کی صاحبزادیوں حضرت فاطمہ اور حضرت ام کلثوم کو مکہ سے مدینہ بھجوانے کیلئے اونٹ پر سوار کروا کے روانہ کیا.اس بد بخت نے چھپ کر قاتلانہ حملہ کیا اور ان کو اونٹ سے گرا دیا.حضرت علی نے اسے فتح مکہ کے موقع پر حسب فیصلہ اس کے جرائم کی پاداش میں قتل کیا.(الحلبیہ (85 86 تیسرا مجرم تير شخص مقيس بن شبابہ تھا، اسے اس لئے واجب القتل قرار دیا گیا تھا کہ اس نے مدینہ میں ایک انصاری کو قتل کیا تھا جس کے بعد وہ مرتد ہو کر قریش سے جا ملا.(ابن ھشام دراصل مقیس مسلمان ہوا اور اپنے بھائی ہشام بن ضبابہ کی دیت کا تقاضا کیا جسے ایک انصاری نے غزوہ قرد میں دشمن کا آدمی سمجھ کر غلطی سے قتل کر دیا تھا.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بھائی کی دیت اسے ادا فرمائی.ویت وصول کر لینے کے بعد اس نے پھر اس انصاری کو انتقا ما قتل کیا اور مرتد ہو کر اہل مکہ سے جاملا.اسے بھی انصاری کے قتل کے قصاص میں فتح مکہ کے موقع پر قتل کیا گیا.(الحلبیہ ( 87 ان تین مجرموں کے علاوہ باقی تمام وہ مجرم جو واجب القتل قرار دیئے گئے جب معافی کے طالب ہوئے اور امان چاہی تو رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ کے عفو عام کے اس اعلان کے بعد مرتد عبد اللہ بن سعد کاتب وحی کو بھی معافی مل گئی ، رسول اللہ کی صاحبزادی زینب پر حملہ کر کے حمل ساقط کرنے والا ہبار بھی بخشا گیا.سردارانِ مکہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ اور صفوان بن امیہ کو حالت شرک میں رہتے ہوئے امان نامہ عطا ہوا.حمزہ کا کلیجہ چبانے والی ھند کے لئے بھی عفو کا حکم صادر ہوا.حارث اور زہیر جو اپنے جرائم کی پاداش میں واجب القتل ٹھہرائے گئے تھے، ایک مسلمان عورت کی امان دینے پر معاف کئے گئے.(ان سب کی تفصیل عفو و کرم کے مضمون میں بیان ہے) الغرض فتح مکہ کے موقع پر صرف چار مجرموں کو سزائے موت دیکر باقی سب کو معاف کر دینا تاریخ عالم کا منفرد واقعہ ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ان بے نظیر احسانات کا نظارہ دیکھ کر مشہور مستشرق سرولیم میور بھی انگشت بدنداں ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے:.اشتہاریان قتل تعداد میں تھوڑے ہی تھے اور شاید وہ سارے ہی اپنے جرائم کی وجہ سے انصاف کے مطابق قتل کے لائق تھے (سوائے ایک مغنیہ کے قتل کے باقی سب کا قتل سیاسی عناد کی بجائے ان کے جرائم کی بنیاد پر تھا) محمد کا یہ حیرت انگیز کردار بے مثال فیاضی اور اعتدال کا نمونہ تھا.لیکن محمد نے جلد ہی اس کا انعام بھی لے لیا اور وہ یوں کہ آپ کے وطن
اسوہ انسان کامل 399 غزوات النبی میں خلق عظیم کی ساری آبادی صدق دل سے آپ کے ساتھ ہوگئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چند ہفتوں میں دو ہزار مکہ کے باسیوں کو مسلمانوں کی طرف سے (حنین میں ) لڑائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں.( میور ) 88 جس ایک مغنیہ سارہ نامی کے قتل کا ذکر سرولیم میور نے کیا ہے، روایات سیرت میں اس کی معافی کا بھی ذکر موجود ہے.(ابن ھشام ) 89 پس فتح مکہ کا دن رسول اکرم کی ذات سے ہر تشدد کے الزام دور کرنے کا دن تھا.جب مکہ کو پیغمبر اسلام کی شوکت و جلال نے ڈھانپ لیا تھا.جب مسلمان فاتحین کے خوف سے عرب سرداروں کے جسم لرزاں تھے اور سینوں میں دل دھڑک رہے تھے.جب مکہ کی بستی ایک دھڑکتا ہوا دل بن گئی تھی تو یہ وقت تھا کہ تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بنایا جاتا اور جائیدادوں پر قبضہ کیا جاتا لیکن یہ دن گواہ ہے کہ کہیں ایسا نہیں ہوا اور فتح مکہ کا یہ دن ابد الا باد تک محمدمصطفی ہے کی ذات سے جبر و تشدد کے الزام کی نفی کرتا رہے گا.اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگیری نے بحیثیت سپہ سالا رنبی کریم کے کردار پر تبصرہ اور اسلام سے جبر وتشدد کے الزام کی نفی کرتے ہوئے کیا خوب لکھا ہے:.قر آن کریم کی علم اور نبی کریم کا کردار نوں گواہی دیت ہیںکہ یہ الزام سراسر جوتا ہے.آپ نے جنگ کی لیکن یہ ایک ایسی جنگ تھی جس میں ایک فریق پیکر صبر تھا اور دوسرافریق پیکر تکبر.یایہ ایسی جنگ تھی جس میں ایک شخص لڑ نانہ چاہتا ہوگر مجبوراً اسے ایسے دشمنوں کے خلاف لڑنا پڑے جو طاقت کے بل بوتے پر اسے نیست و نابود کرنے پر تلے ہوں...پیغمبر اسلام کی تمام جنگیں بچے مذہب کو بچانے اور برقرار رکھنے کی غرض سے تھیں.یہ جنگیں مقصود بالذات نہ تھیں اور بہر حال مدافعانہ تھیں نہ کہ جارحانہ.قرآن شریف صاف فرماتا ہے اور اللہ کے راستے میں لڑوان سے جو تمہارے خلاف لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو.(بقرہ: 191) اگر ہم حملے کی پیشگوئیوں پر غور کریں یا مسلمانوں کی ابتدائی فتوحات کو دیکھیں تو آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ یہ الزام کہ اسلام بزور شمشیر منوایا گیا اور اسلام جلدی سے پھیل جانا تلوار کی وجہ سے تھا سراسر لغو اور بے ہودہ ہے.“ (دیگلیری) 90
اسوہ انسان کامل 400 حواله جات 1 نسائی کتاب الجهاد باب وجوب الجهاد غزوات النبی میں خلق عظیم Muhammad a Biography of Prophet page: 168 by K.Armstrong 1.a 2 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 56 3 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 2 4 مسند احمد جلد 3 ص 305 5 كنز العمال جلد 4 ص469 6 ابوداؤد (22) كتاب الجهاد باب 22 7 بخاری (67) کتاب المغازی باب 19 8 مؤطا امام مالك كتاب الجهاد باب النهي عن قتل النساء والولدان في الغزو 9 مسند احمد جلد 3 ص 184 10 مسنداحمد بن حنبل جلد 3ص137 11 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 69 بيروت بحواله طبرانی 12 مسند احمد جلد 1 ص411 13 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 123 بيروت بحواله طبرانی 14 بخاری (67) کتاب المغازی باب 19 15 بخاری (67) كتاب المغازی باب 26 16 مجمع الزوا الزوائد لهيثمي جلد 10 ص 147 17 معجم الكبير للطبراني جلد 9 ص 81 بيروت 18 بخاری (67) كتاب المغازی باب 7 19 عمدة القاری شرح بخارى للعيني 17 ص 119 The life of Mahomet By Sir William Muir Vol.1 Page:242 20 21 بخاری (67) کتاب المغازی باب 11 22 بخاری (67) کتاب المغازی باب 11 23 بخاری (67) كتاب المغازی باب 11
اسوہ انسان کامل 24 بخاری (67) کتاب المغازی باب 11 25 بخاری (67) كتاب المغازی باب 11 401 26 عمدة القاری شرح بخارى للعيني جلد 17 ص152 27 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 112 بيروت 28 مسلم(33) كتاب الجهاد باب 37 29 مسلم (46) كتاب البر والصلة باب 24 30 مجمع الزوائدلهیثمی جلد 6 ص 109 بیروت بحواله طبرانی 31 مسند احمد جلد3 ص 424 32 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص121 مطبوعه بيروت 33 بخاری (67) کتاب المغازى باب 11 34 السيرة النبويه لا بن هشام جلد 3 ص 241,240 35 شرح المواهب اللدنية لزرقاني جلد 2 ص 8، حیات محمد ص263 36 محمدایت مدينه صفحه 216 انگریزی ترجمه 37 السيرة النبوية لابن هشام جلد 3ص261 38 بخاری (67) کتاب المغازى باب 27 39 مسلم (33) كتاب الجهاد والسير باب 45 40 مسند احمد جلد 4 ص 303 41 بخاری (67) کتاب المغازی باب 27 42 مجمع الزوائد لهيثمي جلد6ص135 بيروت 43 بخاری (58) كتاب الشروط باب 15 44 السيرة الحلبية جزء 3 ص 36 مطبوعه بيروت 45 السيرة الحلبية جلد 3 ص 38 مطبوعه بيروت 46 السيرة النبوية لا ابن هشام جلد ۲ ص ۲۷۱ مطبوعه مصر 47 السيرة الحلبية جلد ۳ ص ٤٠ مطبوعه بيروت 48 بخاری (67) كتاب المغازی باب19 49 حیات محمد تالیف امیل در منغم ص 251-250 50 بخاری (67) کتاب المغازی باب 19 غزوات النبی میں خلق عظیم
اسوہ انسان کامل 51 بخاری (67) کتاب المغازی باب 19 52 بخاری (67) كتاب المغازی باب19 53 ابوداؤد (20) كتاب الخراج باب 33 402 54 بخاری (67) كتاب المغازي، تاريخ الخميس جلد 2ص43 55 المواهب اللدنية للزرقاني جلد ۲ ص ۲۹۲ مطبوعه بيرت 56 السيرة الحلبية جلد 3 ص 74,75 مطبوعه بيروت 57 بخاری (67) کتاب المغازی باب 44 58 بخاری (67) کتاب المغازی باب 44 59 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4 ص 90 مطبوعه بيروت غزوات النبی میں خلق عظیم 60 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4 ص 46 مطبوعة مكتبة المصطفى البابي الحلبى مصر 61 بخاری (67) كتاب المغازي 46 62 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4.ص مطبوعه بيروت 63 سيرت الحلبية جلد 3 ص 90-95 64 السيرة الحلبية جلد 3 ص 97 مطبوعه بيروت السيرة النبوية لا بن هشام جلد 4.65 بخاری (67) کتاب المغازی باب 46 66 السيرة الحلبية جلد 4 ص 97,98 مطبوعه بيروت 67 لائف آف محمد از سرولیم میور فتح مکه ص424 68 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4 صفحه 92مطبوعه مصر 69 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 97 مطبوعه بيروت 70 بخاری(67) کتاب المغازی باب 47 71 لائف آف محمد صفحه 426 از سرولیم میور 72 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4 صفحه 91 مطبوعه بيروت 73 مجمع الزوائدلهيثميجلد 8 صفحه 172 74 بخاری (67) کتاب المغازى باب 44 75 سيرت الحلبية جلد 3 صفحه 101 76 السيرة النبويه لا بن هشام جلد 4 ص 55 مكتبه المصطفى البابي الحلبي ص 77 سيرة الحلبية ، مجمع الزوائد لهيثمي جلد 6 ص 177، ابن هشام جلد 4 ص 92-94 90,91
اسوہ انسان کامل 403 غزوات النبی میں خلق عظیم 78 السيرة النبوية لابن هشام جلد4ص31 79 السيرة النبوية لابن هشام جلد 4 ص94مطبوعه مصر 184-580.Arther Giman.The Saraceus, London 1887 p بحوالہ نقوش رسول 545 81 انتخاب قرآن مقدمه ص 67 82 بخاری (67) کتاب المغازی باب 46 83 سيرة الحلبية جلد 3 ص 105 و بخاری (67) كتاب المغازى 84 فتوح البلدان للبلاذرى ص 54,53 ، سیرت الحلبية جلد 3 ص 107 طبوات الكبرى لابن سعد جلد 2 ص 136 و فتح الباري جلد 8 ص 11 85 سيرت الحلبية جلد 3 ص 105 86 ابن هشام جز 4 ص 92 87 سيرت الحلبية جلد 3 ص 105-106 88 لائف آف محمد ص 425 انگریزی ایڈیشن 89 ابن هشام جلد 4 ص 92 مطبوعة بيروت والسيرة الحلبية جلد3ص107 90 اسلام پر نظر ص 13 ترجمه An interpretation of Islam از شیخ محمد احمد مظهر
اسوہ انسان کامل 404 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی غزوات میں رسول اللہ کی حکمت عملی اور بیدار مغزی ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی سے بہترین قائد اور رہنما کی تمام اعلیٰ خصوصیات اپنے اندر رکھتے تھے.قیادت کی یہ بہترین خوبی آپ نے عملی نمونہ سے ثابت کر دکھائی کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے.آپ ایک بہترین جرنیل پر انتہائی شجاع اور بہادر تھے اور ہر پر خطر اور مشکل مقام میں خود آگے ہوتے تھے.جہاں بڑے بڑے بہادروں کے پاؤں اکھڑ جاتے تھے آپ اس مشکل میدان میں بھی ثابت قدم رہتے تھے.آپ نے جس حالت مظلومیت میں تیرہ سال کی دور میں دشمن کے مظالم پر صبر اور عفو کی تعلیم دیتے ہوئے گزارے.آپ مذہبی آزادی کے قیام ، عبادت گاہوں کی حرمت اور امن کی خاطر وطن سے بے وطن ہوئے مگر پھر بھی آپ پر جنگ مسلط کر دی گئی.اس وقت مسلمان دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لئے تعداد اپنی کم اور بے سرو سامانی کے باعث ذہنی لحاظ سے قطعا تیار نہ تھے.پہلی جنگ کے موقع پر بھی دراصل آپ اور آپ کے ساتھی اس تجارتی قافلہ کو روکنے کے لئے نکلے تھے جس کا منافع جنگی مقاصد میں استعمال ہونا تھا اور جس کی حفاظت کے لئے مکہ سے آنے والے لشکر سے اچانک بدر میں مقابلہ ہو گیا.پڑا من مسلمانوں کی اس وقت کی قلبی کیفیت کا نقشہ اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کھینچا ہے.کہ " تم چاہتے تھے کہ جس (گروہ) کے پاس ہتھیار نہیں ہیں اس سے تمہاری مٹھ بھیڑ ہو.اور اللہ چاہتا تھاوہ حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ پورا کر دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے.(الانفال : 8) رسول اللہ نے ان حالات میں اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی بشارتوں کے مطابق مومنوں کو اپنے دفاع کے لئے جنگ کی ترغیب دلاتے ہوئے خوشخبری دی کہ اگر تم میں میں ثابت قدم رہنے والے ہوئے تو وہ دوسو پر غالب آئیں گے اور ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوئے تو وہ ایک ہزار پر غالب آئیں گے.(الانفال: 66) رسول اللہ دعاؤں اور بشارتوں کے بعد خدا تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین اور بھروسہ رکھتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو ان مشکل اور پُر خطر مقامات کے لئے تیار کرتے تھے.چنانچہ غزوہ بدر کے موقع پر مسلمانوں کو دشمن کے مقابلہ پر تیار کرنے کے لئے جو موثر خطاب آپ نے فرمایا اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” جب تو مومنوں سے کہہ رہا تھا کہ کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہ ہوگی کہ تمہارا رب آسمان سے نازل کئے ہوئے تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے.بلکہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور وہ کا فرتم پر اسی دم چڑھ آئیں تو تمہارا رب پانچ ہزار سخت حملہ کرنے والے فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا.اللہ تعالیٰ نے یہ بات تمہارے لئے خوشخبری کے طور پر اور اس لئے کہ تمہارے دل اس کے ذریعہ سے اطمینان پائیں مقرر کی ہے.تا کہ اللہ تعالیٰ کا فروں کے ایک حصہ کو کاٹ دے یا انہیں
اسوہ انسان کامل 405 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی ذلیل کر دے تاکہ وہ نا کام واپس جائیں.ورنہ مدد تو صرف اللہ ہی کی طرف سے آتی ہے جو غالب اور حکمت والا ہے.( آل عمران : 125 تا 128 ) اور پھر واقعہ میں ایسا ہی ہوا کہ 313 نہتوں سے ایک ہزار کا مسلح لشکر کفار میدان بدر میں شکست فاش کھا گیا.دشمن کے ستر جنگجو مارے گئے جن میں سے 24 بڑے بڑے سردار تھے.غزوہ احد میں بھی رسول اللہ نے میدان جنگ میں آگے آگے ایک ماہر قائد لشکر کی طرح خود صف بندی کروائی اور میمنہ و میسرہ خود مقرر فرمایا.اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” جب تو صبح صبح اپنے اہل کے پاس سے نکل کر صبح صبح اس لئے گیا تھا کہ مومنوں کو جنگ کیلئے ان کی مقررہ جگہوں پر بٹھا دے اور اللہ تیری دعائیں بہت سننے والا اور خوب جاننے والا ہے.( آل عمران : 122) الغرض رسول اللہ نے دفاعی جنگوں کے لئے کمال حکمت سے اپنے کمزور اور تعداد میں کم بے سروسامان ساتھیوں کو ایک طاقتور مسلح قوم کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور ان پر فتح پائی.اس میں بے شک اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور دعاؤں کا کمال بھی تھا.جس کی برکت سے وہ حکمت عملی آپ کو عطا ہوتی تھی.جو ہر موقع جنگ پر آپ نے اختیار فرمائی.آپ کو خوب ادراک تھا کہ جنگ دھو کہ ہوتی ہے.اور اس میں بار یک حیلہ اور لطیف تدبیر کے ذریعہ فتح حاصل کی جاسکتی ہے رسول اللہ کے غزوات میں ایسی عمدہ تدابیر اور کامیاب حکمت عملی کے بہت خوبصورت نظارے نظر آتے ہیں.جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں حسب موقع ہوگا.دشمن کی نقل و حرکت سے باخبر رہنے کی منصوبہ بندی جنگ میں قائد لشکر کا دشمن کی نقل و حرکت اور اس کے منصوبوں سے باخبر ہونا بہترین حکمت عملی ہے جسے بجاطور پر آدھی فتح کہا جاتا ہے.رسول اللہ اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے.غزوہ بدر میں پہلے دن پڑا اور سول اللہ نے اپنے چند معتمد اصحاب کو مشرکین کی خبر معلوم کرنے کے لئے بدر کے چشمہ کی جانب بھیجوایا.مسلمانوں کا غالب گماں یہی تھا کہ ابوسفیان کے قافلہ سے ان کی مڈھ بھیڑ ہوگی.مکہ سے اس کی حفاظت کیلئے آنے والے لشکر سے مقابلہ کا ارادہ نہیں تھا.یہ صحابہ چشمہ بدر سے قریش کے ایک غلام کو پکڑ لائے اور اس سے پوچھ کچھ شروع کی.رسول اللہ نماز پڑھ رہے تھے.غلام نے بتایا کہ وہ مکہ آنے والے ابو جہل کے لشکر کے ساتھ تھا اور پانی لینے نکلا ہے، مسلمانوں کو یہ بات اچھی نہ لگی وہ اس سے بار بار ابوسفیان کے قافلہ کا پوچھتے ، وہ کہتا مجھے اس کا علم نہیں.جب مارا پیٹا جاتا تو کہتا اچھا میں ابوسفیان کے بارہ میں بتاتا ہوں.چھوڑنے پر پھر کہہ دیتا کہ میں ابو جہل کے لشکر کے ساتھ ہوں.رسول اللہ نے نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ ” جب وہ سچ بولتا ہے تم اسے مارتے ہو جب جھوٹ بولتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہو“.پھر رسول اللہ نے کمال حکمت سے اس سے کچھ معلومات اخذ کیں.آپ نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کیا ہے؟ اس نے کہا بہت زیادہ.معین تعداد پوچھی تو کہا ” معلوم نہیں.آپ نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ وہ روزانہ کتنے
اسوہ انسان کامل 406 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی ہیں.اونٹ ذبح کرتے ہیں؟ کہنے لگا کبھی نو اور کبھی دس.آپ نے کیا خوب اندازہ فرمایا کہ یہ لوگ نوسو سے ایک ہزار تک لشکر کی واقعی یہی تعداد تھی.پھر آپ نے پوچھا لشکر میں کون لوگ شامل ہیں.اس نے تمام بڑے بڑے سرداران عتبه، شیبه،ابو جہل، امیہ بن خلف، ابوالبختری، حکیم بن حزام ، نضر بن حارث سھیل بن عمر و اور عمر و بن عبدود کے نام لئے قبل اس کے کہ مسلمان ان سورماؤں سے مرعوب ہوتے.رسول اللہ نے ایک بات سے ہی سب اثر زائل کر کے ان کے حوصلے بڑھا دئیے.آپ نے فرمایا ”لومکہ نے اپنے جگر گوشے تمہارے سامنے لا ڈالے ہیں.اور پھر واقعی یہی ہوا.قریش کے چیدہ چیدہ چوبیس سردار اس روز مارے گئے.(ابن ہشام )1 غزوہ بدر کے موقع پر اپنے اخفائے اسلام کی وجہ سے حضرت عباس کو بھی کفار مکہ کے لشکر میں مجبوراً شامل ہونا پڑا تھا.رسول اللہ اس سے بھی باخبر تھے.آپ نے اپنے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ بنی ہاشم کے کچھ لوگ بشمول حضرت عباس مجبوراً جنگ کے لئے نکالے گئے ہیں.ہمیں ان سے جنگ کرنے یا مارنے کی ضرورت نہیں.حضرت عباس کے بدر میں قید ہونے پر ان کے ساتھ تمام قیدیوں کی مشکیں ڈھیلی کرنے اور حضرت عباس کے اقرار اسلام کے باوجو د بطور عام قیدی فدیہ وصول کرنے میں بھی یہ حکمت عملی کارفرما تھا کہ ان کے اخفائے اسلام کا راز فاش نہ ہو جائے.(ابن سعد )2 حضرت عباس کو مکہ رکھنے کی حکمت عملی کی برکت تھی کہ غزوہ احد سے پہلے انہوں نے مکہ سے بنی غفار کے ایک شخص کے ہاتھ خط دے کر رسول اللہ کو کفار کے تین ہزار کے لشکر کے حملہ آور ہونے کی فوری اطلاع کروائی تھی جس کے نتیجہ میں مدینہ اچانک حملہ سے محفوظ رہا اور اہل مدینہ نے بر وقت تیاری کے ساتھ باہر نکل کر کفار سے مقابلہ کیا.(الواقدی)3 اسی طرح غزوہ خیبر میں مسلمانوں کی شکست کی جھوٹی خبر مکہ میں مشہور ہو جانے پر حضرت عباس رسول اللہ کی احوال پرسی کے لئے مکہ سے نکل کھڑے ہوئے تھے اور حضور سے ملاقات کر کے خود فتح کی خبر سن کر وہ مطمئن ہوئے بلکہ مال غنیمت سے بھی حصہ پایا.اس طرح فتح وہ مکہ سے قبل مکہ سے نکل کر رسول اللہ کے لشکر میں شامل ہو گئے تھے اور آپ سے خاتم المہاجرین کا خطاب پایا.جس میں اشارہ تھا کہ رسول اللہ کے حکم پر ان کا مکہ میں رہ کر مسلمانوں کے مفاد کے لئے خدمات بجالا نا دوسروں کی ہجرت سے بڑھ کر ثواب واجر رکھتا ہے.(ابن سعد )4 رسول کریم کا فرہمی اطلاعات کا نظام اتنا مضبوط اور مکمل تھا کہ غزوہ احزاب میں مسلمانوں کے حلیف خزاعہ قبیلہ کی طرف سے لشکر کفار کی پیشگی اطلاع کے نتیجہ میں ہی مسلمان اپنے دفاع کے لئے بر وقت خندق کی تیاری کر سکے تھے.غزوہ خیبر میں بھی دشمن کی اطلاعات حاصل کرنے کے عمدہ انتظام تھے.آخری قلعہ کی فتح سے پہلے حضرت عمرؓ کے ذریعہ یہودی جاسوس کی گرفتاری اور اس سے حاصل ہونے والی معلومات بہت ممد اور مفید ثابت ہوئی تھیں.اس سے دشمن کا ذخیرہ ختم ہونے اور یہود کی پست ہمتی کی اطلاع سے مسلمانوں کے حوصلے بھی بلند ہوئے اور دشمن کے کئی کمزور پہلو بھی سامنے آئے.مکہ کی عظیم الشان تاریخی فتح بھی میں کشت و خون سے بچاؤ کا سبب مسلمانوں کے نظام اطلاعات کا مؤثر ہونا اور
407 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی اسوہ انسان کامل دشمن کے اطلاعی نظام کا ناقص ہونا تھا.دس ہزار کا لشکر مکہ کے سر پر آن پہنچا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی.سرداران قریش رات کو شہر کی سرحدوں پر معمول کی گشت پر نکلے تو حضرت عمرؓ کے گشتی دستہ نے سردار مکہ ابوسفیان کو گر فتار کر کے رسول اللہ کی خدمت میں پیش کر دیا.پھر اس کی خواہش پر یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اسے بھی امان ہوگی.جس کے بعد مسلمان مختلف اطراف سے پر امن طور پر مکہ میں داخل ہو گئے.غزوات میں سپاہیوں کی حوصلہ افزائی اور دلداری دینی اور قومی سطح پر بے لوث خدمت گاروں اور تعاون کے جذ بہ سے سرشار ہوکر کام کرنے والوں کے لئے حوصلہ افزائی بھی ایک اہمیت رکھتی ہے.رسول اللہ جنگ میں بھی جہاں اپنے صحابہ کی دلداری کا خیال رکھتے تھے، وہاں راہ خدا میں جان کی قربانی پیش کر نیوالوں کا بہت اعزاز فرماتے تا کہ آئندہ قربانی کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو.حضرت عبد اللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مہم سے پسپا ہو کر ہمیں واپس مدینہ آنا پڑا.فجر کی نماز میں رسول اللہ سے ملاقات کر کے ہم نے اپنے کئے پر پشیمانی اور معذرت کا اظہار کیا تو آپ نے ہمارے حوصلے بڑھاتے ہوئے فرمایا دو تم بھگوڑے نہیں ہو بلکہ تازہ دم ہو کر دشمن پر دوبارہ حملہ کرنے والے ہو“.وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے والہانہ جذبہ سے سرشار آگے بڑھ کر رسول اللہ کے ہاتھوں کو چوم لیا.(ابوداؤد )5 حضرت سعد بن ابی وقاص بیان فرماتے تھے کہ احد کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ”اے سعد! تیر چلاؤ.میرے ماں باپ تم پر قربان ہوں.“ میدان احد میں تیر بانٹنے والا جب اپنا ترکش لے کر حضور کے پاس سے گذرتا تو آپ فرماتے ارے ! ابوطلحہ کے لئے تیر پھیلا دو.یہ ابوطلحہ کی حوصلہ افزائی تھی جو پوری ہمت سے دشمن کے آگے سینہ سپر تھے.( بخاری )6 غزوہ خیبر میں جب ایک صحابی حضرت عامر یہودی سردار مرحب سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی تلوار کے کاری زخم سے جانبر نہ ہو سکے تو بعض لوگوں نے عامر کی شہادت کو خود کشی گمان کیا.عامر کے بھتیجے حضرت سلمہ بن الاکوع " بہت غمگین تھے.رسول اللہ دیکھ کر بھانپ گئے اور ان سے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے؟ انہوں نے اپنے چچا عامر کے بارہ میں لوگوں کے خیال کا ذکر کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے بھی یہ کہا غلط کہا ہے.پھر آپ نے اپنی دو انگلیاں ملا کر فرمایا ”عامر کیلئے دوہرا اجر ہے.وہ تو جہاد کر نیوالا ایک عظیم الشان مجاہد تھا.( بخاری )7 غزوہ احد میں دوراندیشی تمام غزوات النبی میں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائدانہ صلاحیتوں ، حکمت عملی اور فراست و بصیرت بھی کھل کر اظہار ہوا.غزوہ احد کے موقع پر جب آپ نے مدینہ سے باہر نکل کر دشمن سے مقابلہ کا ارادہ فرمایا تو ایک طرف شہر کو دشمن سے حفاظت کی خاطر اپنے پیچھے رکھا تو دوسری طرف احد پہاڑ کی آڑ لیکر اسے ڈھال بنایا.پھر حضور کی نظر اس پہاڑی درے
408 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی اسوہ انسان کامل پر پڑی جہاں سے دشمن کے حملے کا خطرہ ہو سکتا تھا.آپ نے وہاں پچاس تیرانداز حضرت عبد اللہ بن جبیر کی سرکردگی میں مقرر فرمائے اور انہیں ہدایات دیتے ہوئے موقع کی نزاکت دیکھ کر یہاں تک فرمایا کہ اگر تم دیکھو کہ پرندے ہماری لاشوں کو اچک رہے ہیں پھر بھی تم نے در نہیں چھوڑ نا سوائے اس کے کہ میرا پیغام تمہیں پہنچے.بعد کے حالات سے ظاہر ہے کہ اسی ہدایت کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت تکلیف اور نقصان اٹھانا پڑا.( بخاری )8 غزوہ اُحد میں درہ کو خالی پا کر دشمن کے حملہ کے نتیجہ میں کئی مسلمان شہید ہو چکے تھے اور دشمن کے حملہ کا سارا زور نبی کریم اور آپ کے بزرگ اصحاب پر تھا.یہاں تک کہ رسول اللہ کی شہادت کی خبر مشہور ہوگئی اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی کی حکمت عملی اختیار فرمائی تا کہ اسلامی قیادت اور باقی مسلمانوں کی حفاظت کی جاسکے.حضرت کعب بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے میں نے رسول اللہ کو ( درہ میں خود پہنے) پہچان کر کہا یہ رسول اللہ ہیں.نبی کریم نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا پھر از راہِ مصلحت اپنی زرہ مجھے پہنائی اور میری زرہ خود پہن لی.مجھ پر حملہ کرنے والا یہی سمجھتا تھا کہ وہ رسول اللہ پر حملہ کر رہا ہے.اس موقع پر جب ابوسفیان نے خوشی کے نعرے لگائے کہ ہم نے محمد ﷺ کوقتل کر دیا.ابوبکر کو تل کر دیا تو رسول اللہ نے اسی حکمت عملی کی بناء پر مسلمانوں کونعروں کا جواب دینے سے روک دیا گیا.البتہ بعد میں کفار مشر کا نہ تعلی کے نعروں کے جواب میں توحید کے نعرے خود لگوائے.( بیشمی )9 غزوہ احد سے واپسی پر ابوسفیان کو خیال آیا کہ نہ تو اس جنگ میں کوئی قیدی بنائے نہ ہی مال غنیمت لوٹا مکہ جا کر کیا منہ دکھائیں گے اور اس نے مدینہ پر دوبارہ حملہ کا ارادہ کیا.حضور کو پتہ چلا تو آپ نے لشکر ابوسفیان کا تعاقب کرنے کا ارادہ فرمایا.ادھر حالت یہ تھی کہ ستر مسلمان شہید ہو چکے، باقی اکثر زخمی تھے.بظاہر ایک جیتے ہوئے لشکر کے تعاقب کا ارادہ مسلمانوں کیلئے بھاری امتحان تھا.لوگ متذبذب تھے.تب حضور نے دوٹوک الفاظ میں اپنے اس عزم کا یوں اظہار فرمایا کہ اگر دشمن کے تعاقب کیلئے ایک شخص نے بھی میر اساتھ نہ دیا تو میں تن تنہا ابوسفیان کے تعاقب کو جاؤں گا اور ضرور جاؤں گا.پھر کیا تھا وہ صحابہ بھی جو زخموں سے نڈھال تھے لبیک کہتے ہوئے اس مہم کیلئے یوں دیوانہ وار تیار ہو گئے کہ عرش کے خدا نے بھی ان کی تعریف کی.( بخاری )10 غزوہ احزاب میں حکمت عملی 5ھ میں یہود مدینہ کی سازش کے نتیجہ میں ابوسفیان تمام عرب قبائل کو جنگ کے لئے آمادہ کر کے دس ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کیلئے تیار ہو کر چلا تو مسلمانوں کے حلیف بنو خزاعہ نے ایک تیز رفتار قاصد کے ذریعہ مدینہ اطلاع کر دی.رسول اللہ نے اپنے اصحاب سے مشاورت کے بعد حضرت سلمان فارسی کے مشورے کے مطابق مدینہ کے شمال میں جہاں سے حملہ کا خطرہ ہوسکتا تھا ایک خندق تیار کروانے اور محصور ہو کر اپنے دفاع کا فیصلہ فرمایا.کیونکہ مدینہ کے مشرق و مغرب میں پتھر یلے میدان اور جنوب میں کھجور کے باغات اور عیر پہاڑ کی روک موجود تھی.محدود وقت میں شمالی جانب ایک طویل خندق کی کھدائی بہت کٹھن کام تھا.لیکن رسول اللہ کی فراست و بصیرت اور دعاؤں سے یہ کام آسان ہو گیا.آپ نے دس دس افراد کی ٹولیوں کے ذمہ 40 فٹ خندق کی کھدائی لگائی.اور بنفس نفیس موقع پر اس کی نشاندہی فرمائی.( حاکم )11
اسوہ انسان کامل 409 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی منافقین حسب معمول مختلف حیلوں بہانوں سے اس با مشقت کام میں شریک نہ ہوئے.آنحضرت مسلمانوں کی حوصلہ افزائی اور ترغیب کی خاطر خود کھدائی کے کام میں شریک ہو کر مٹی ڈھوتے رہے، اور مسلسل دن رات ایک کر کے فاقہ کی حالت میں بھی اپنے انصار مہاجرین کے حوصلے بڑھانے کیلئے رجزیہ اور دعائیہ اشعار پڑھتے ہوئے بظاہر یہ کٹھن اور ناممکن کام چھ سے نو دن میں مکمل کر ڈالا.(ابن سعد ( 12 جس میں گل 5544 میٹر (18189 فٹ) طویل اوسطاً 15 فٹ (4.6 میٹر چوڑی اور 10.5 فٹ (3.2 میٹر گہری خندق تیار کر لی گئی.مسلمانوں نے خندق کی مٹی شہر مدینہ کی جانب نکال کر اتنی ہی اونچی حفاظتی دیوار بھی اپنے اور دشمن کے درمیان حائل کر دی.ادھر کفار کے لشکر اس دفعہ مدینہ کو تر نوالہ سمجھتے ہوئے شہر کو فتح کرنے کے خواب دیکھتے ہوئے آئے تو اچانک اپنے اور اس کے درمیان خندق حائل پا کر دنگ رہ گئے.کیونکہ عربوں میں ایسی تدبیر کا رواج نہیں تھا.پھر انہوں نے ناچار خندق کے سامنے ہی پڑاؤ کیا اور اس کے نسبتاً تنگ مقامات سے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور بالآخر محاصرہ نا کام ہو جانے اور دیگر غذائی مسائل نیز سردی کی شدت اور اچانک آندھی وغیرہ کے باعث انہیں پسپا ہو کر لوٹنا پڑا.(ابن سعد )13 حفاظت مدینہ اور گشتی دستوں کی حکمت عملی ہجرت مدینہ کے بعد سے مسلمانوں کو شمال سے اہل مکہ کے حملہ کا مستقل خطرہ رہتا تھا تو جنوب سے یہود خیبر کا.شروع میں مدینہ کے ارد گرد کے قبائل بھی مسلمانوں کے حلیف نہیں بنے تھے.اسلئے مسلمانوں کو پہرہ کے سخت حفاظتی اقدامات کرنا پڑتے تھے.صحابہ کہا کرتے تھے کہ کوئی ایسا وقت بھی آئے گا جب ہم امن سے سو سکیں گے.صلح حدیبیہ تک مسلمانوں کو باخبر رہنے اور اردگرد کے قبائل پر اپنے دفاع کی خاطر دھاک بٹھانے کے لئے مختلف اطراف میں مہمات بھجوانے کی ضرورت رہتی تھی.خصوصاً ان علاقوں میں جہاں کفار مکہ کے حلیف قبائل آباد تھے.تاکہ وہ اپنے علاقوں میں مسلمانوں کی موجودگی محسوس کرتے ہوئے انہیں چوکس پا کر مدینہ پر حملہ کی جرات نہ کر سکیں.چنانچہ پاک بعض قبائل تو مدینہ کی کھجور کی گٹھلیاں اپنے گردو نواح میں پا کر اپنے علاقہ میں مسلمان دستوں کی موجودگی کا اندازہ کر کے بجائے حملہ کے اپنے دفاع پر مجبور ہو جاتے تھے.اس حکمت عملی کا مدینہ کے دفاع کے علاوہ بھی بہت فائدہ ہوا.اور بعض دشمن قبائل بھی صلح یا قبول اسلام پر آمادہ ہو گئے.مسلمانوں کا ایک گھڑ سوار گشتی دستہ نجد کی مہم سے اپنے مخالف قبیلہ بنی حنیفہ کے ایک سردار ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر کے لے آیا.اسے مسجد نبوی میں ایک ستون کے ساتھ باندھ کر قید رکھا گیا.مقصد یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کا طریق نماز اور دیگر اخلاق و اطوار وغیرہ دیکھ لے.رسول اللہ نے ثمامہ سے پوچھا کہ تم سے کیا معاملہ کیا جائے ؟ اس نے کہا آپ احسان کرنے والے ہیں.حسن سلوک کریں گے تو ایک شکر گزار انسان کے ساتھ یہ معاملہ کریں گے اور اگر قتل کریں گے تو میر اقبیلہ انتقام لے گا اور اگر آپ کو مجھے چھوڑنے کے عوض کوئی مال چاہئے تو مطالبہ پیش کریں.حضور نے مزید سوچنے کا موقع دینے کے لئے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا.اگلے روز پھر نبی کریم نے اس سے وہی سوال کیا.وہ بولا میرا وہی
اسوہ انسان کامل 410 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی جواب ہے جو میں پہلے دے چکا ہوں.تیسرے روز رسول اللہ نے پھر اس سے وہی سوال پوچھا وہ کہنے لگا کہ میں جواب دے چکا ہوں.آپ نے ارشاد فرمایا کہ بغیر کسی معاوضہ کے اسے آزاد کر دیا جائے.ثمامہ رسول اللہ کے حسن سلوک، مسلمانوں کی پنجوقتہ عبادت، اطاعت اور وحدت کے نظارے دیکھ کر اس قدر متاثر ہو چکا تھا کہ آزاد ہوتے ہی قریب کے نخلستان میں گیا، غسل کر کے واپس مسجد نبوی میں آیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا.پھر کہنے لگا "اے محمد ! آپ کا چہرہ روئے زمین پر میرے لئے سب سے زیادہ قابل نفرت تھا مگر آج آپ مجھے دنیا میں سب سے پیارے ہیں.خدا کی قسم کوئی مذہب مجھے آپ کے مذہب سے زیادہ نا پسندیدہ نہ تھا مگر آج آپ کا دین اسلام مجھے تمام دینوں سے زیادہ پیارا ہو چکا ہے.خدا کی قسم کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ میرے لئے قابل نفرت نہ تھا.مگر آج آپ کا شہر مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو چکا ہے.آپ کے دستہ نے جب مجھے گرفتار کیا تو میں عمرہ کے ارادہ سے جار ہا تھا.اب فرما ئیں میرے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ثمامہ کو دنیا و آخرت کی بھلائی کی بشارت دی اور عمرہ کا ارادہ پورا کرنے کی ہدایت فرمائی.وہ مکہ پہنچے.کسی نے کہ دیا تم بھی صافی ہو گئے ہو؟ انہوں نے کہا نہیں میں مسلمان ہو کر محمد رسول اللہ پر ایمان لایا ہوں اور کان کھول کر سن لو! خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلہ کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت عطا نہ فرمائیں.(بخاری)14 بعد میں کفار قریش نے رسول اللہ کی سفارش کروائی تو ثمامہ نے ان کا غلہ کھول دیا.واقعہ افک میں رسول اللہ کی فراست و بصیرت کا اظہار انسان کی صلاحیتیں اور اخلاق ابتلاء کے وقت خوب کھل کر سامنے آتے ہیں.رسول اللہ کی قومی زندگی پر آنے والے ابتلاؤں کے ذکر کے ساتھ مناسب ہوگا کہ آپ کی ذات پر آنے والے ایک شدید ابتلاء میں ( جو کسی زلزلہ سے کم نہیں تھا) آپ کی حکمت و دانش اور فراست و بصیرت کے اظہار کا ذکر کیا جائے.جس کا تعلق آپ کی عزیز ترین بیوی حضرت عائشہ بنت حضرت ابو بکر پر لگنے والے ایک جھوٹے الزام سے ہے.جس نے ایک ماہ کے لئے رسول اللہ، آپ کے اہل بیت اور عشاق بلکہ پورے شہر مدینہ پر ایک زلزلہ طاری کئے رکھا.بات اتنی سی تھی کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر ایک پڑاؤ میں حضرت عائشہ علی اصبح قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئیں تو ان کے گلے کا ہار کہیں کھو گیا جس کی تلاش میں اتنی دیر ہوگئی کہ قافلہ کے لوگ ( یہ خیال کر کے کہ حضرت عائشہ اپنے ہودج میں ہیں ) ہو وج اونٹ پر رکھ کر روانہ ہو گئے.حضرت عائشہ بعد میں ایک صحابی صفوان (جن کی قافلے کے پیچھے نگرانی کرتے ہوئے آنے کی ڈیوٹی تھی ) کے ساتھ دو پہر کو قافلہ سے آملیں.عبد اللہ بن ابی کو اپنی بدطینتی سے بدگمانی کا موقع مل گیا اور اس نے حضرت عائشہ پر الزام تراشی شروع کر دی.کئی دیگر سادہ لوح بھی اس رو میں بہ گئے.اس تمام عرصہ میں سے رسول اللہ نے باوجود حکومت و طاقت کے نہ تو اشتعال میں آکر اپنی معصوم بیوی پر الزام لگانیوالوں کے خلاف کوئی انتہائی اقدام کیا جیسا کہ ایسے موقع پر بالعموم دنیا میں ہوتا ہے اور نہ ہی حضرت عائشہ سے کوئی استفسار تک ہی مناسب جانا.حالانکہ صورتحال
اسوہ انسان کامل 411 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی کی نزاکت کے پیش نظر اور ناموس رسول کی خاطر بعض اصحاب حضرت عائشہ کوطلاق دینے کا مشورہ دے چکے تھے.مگر آپ نے حضرت عائشہ یا ان کے والدین سے اس واقعہ کا ذکر کرنا بھی گوارہ نہ کیا تا کہ انہیں کوئی جذباتی تکلیف نہ ہوتی کہ کافی دنوں تک خود حضرت عائشہ سرے سے اس جھوٹے اور من گھڑت قصہ سے ہی بے خبر رہیں.اور رسول اللہ اپنے مولیٰ کی رہنمائی کے منتظر رہے.پھر جب اس تکلیف دہ الزام تراشی کا طوفان بدتمیزی اپنی حدوں کو پھلانگنے لگا تو باوجودیکہ آپ کو حضرت عائشہ کے پاکیزہ کردار پر مکمل اعتماد تھا مگر کمال عدل اور دوراندیشی سے اس بارہ میں گھر یلو سطح پر اپنی تسلی کی کوشش کی اور پھر نہایت خاموشی اور صبر سے آنے والے وقت کا انتظار کیا.اس دوران آپ نے ام المومنین حضرت زینب اور اپنے قریب ترین افراد خانہ حضرت علی اوار حضرت اسامہ سے مشاورت کے بعد بغرض اطمینان حضرت عائشہ کے بارہ میں ان کی خادمہ بریرہ سے رائے لی تو انہوں نے بھی ان کی صفائی پیش کرتے ہوئے اور برا ت کا اظہار کیا.مگر وحی میں تاخیر باعث پریشانی تھی.رسول اللہ نے حکمت کے تقاضا اور وقت کی ضرورت کا خیال کرتے ہوئے تکلیف میں مبتلا اپنے اصحاب پر کم از کم یہ ظاہر کرنے کا فیصلہ فرمایا کہ یہ سب عبداللہ بن ابی کی سازش ہے اور اس کے معاملہ میں مسلمانوں کو محتاط ہونا چاہئے.چنانچہ آپ نے صحابہ کو جمع کر کے حقیقت حال سے متعلق نہایت مختصر اور جامع خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اس شخص ( عبد اللہ بن ابی ) کو لگام دینے کے بارہ میں کون میرا عذر قبول کرے گا جس نے میری اہلیہ کے بارہ میں مجھے اذیت پہنچائی ہے.جہاں تک میرے اہل کا تعلق ہے ان کے بارہ میں سوائے خیر و بھلائی کے کچھ ثابت نہیں ہوا.اور جس شخص صفوان کے بارہ میں الزام لگایا گیا ہے اس کے بارے میں بھی سوائے خیر و بھلائی کے کچھ نہیں وہ ہمارے گھر میری موجودگی کے سوا کبھی آیا تک نہیں.رسول اللہ کا یہ اظہار ایسا مؤثر تھا کہ اسے سن کر سردار اوس حضرت سعد نے طبعی جوش سے فتنہ کے بانی عبداللہ بن ابی کے قتل کی اجازت چاہی تو اس کے قبیلہ خزرج کے سردار نے قبائلی عصبیت سے مشتعل ہو کر جواب دیا تم اسے قتل نہیں کر سکتے قریب تھا کہ دونوں قبائل کی قدیم عداوت کی چنگاری پھر بھڑک اُٹھے.رسول اللہ نے کمال حکمت سے اس صورتحال کو احسن رنگ میں سنبھالا مگر پھر بھی اس موقع پر قطعی بات کے ظاہر ہونے تک کسی کا روائی سے گریز کیا.اگر چہ اس کے نتیجہ میں مخلص مومنوں کو اپنے حسن ظن کا یقین ہو گیا اور کمز وہ طبع بدظنی کرنے والے بھی رسول اللہ کے اظہار براکت کے بعد طبعاً کچھ محتاط ہو گئے.ایک ماہ گزرجانے کے بعد رسول اللہ نے یہ جانتے ہوئے کہ یہ الزام محض جھوٹا ہے کمال عدل کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اپنے محبوب ترین رشتہ حضرت عائشہ سے جو معاملہ کیا وہ آپ کے تقویٰ کی اعلیٰ شان کو ظاہر کرتا ہے.آپ نے حضرت عائشہ سے پہلی اور آخری دفعہ کھول کر یہ اظہار فرمایا کہ اگر تو آپ واقعی اس الزام سے بری ہو (جیسا کہ آپ کو یقین تھا) تو اللہ تعالیٰ ضرور تمہاری براکت ظاہر فرمائے گا اور اگر کسی غلطی کا ارتکاب ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر تو بہ کرنی چاہئے کہ وہی ہے جو بندہ کے اعتراف گناہ اور توبہ کے بعد رجوع رحمت ہوتا ہے.یہ بات پاک دامن حضرت عائشہ کے لئے پہلے صدمہ سے بڑھ کر
412 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی اسوہ انسان کامل تھی مگر وہ بھی رسول اللہ اور حضرت ابو بکر کی تربیت یافتہ تھیں.اپنی کم سنی کے باوجود ہو کر ان کا جواب بھی کمال فراست کا آئینہ دار ہے انہوں نے کہا مذکورہ الزام سن سن کر آپ لوگوں کے ذہن میں اتنا جم چکا ہے کہ میرے انکار پر میری برا اُت کوئی نہیں مانے گا.پس میرے لئے حضرت یعقوب کی طرح صبر جمیل کے سوا کوئی چارہ نہیں.اور مجھے یقین ہے کہ میرا رب ضرور میری برا ات فرمائے گا.اسکے تھوڑی ہی دیر بعد رسول اللہ پر سورۃ نور کی وہ آیات اتریں جن میں حضرت عائشہ کی برا ات کا ذکر تھا.( بخاری)15 یوں ایک خطر ناک فتنہ کا خاتمہ ہوا اور حکم الہی کے مطابق جھوٹی الزام تراشی کرنے والوں کو کوڑوں کی سزادی گئی.صلح حدیبیہ میں بیدار مغزی جنگ بدر، احد اور احزاب میں اپنے مجموعی مالی و جانی نقصان کے علاوہ تجارت کے متاثر ہونے کے بعد اہل مکہ معاشی و اقتصادی لحاظ سے بہت کمزور ہو چکے تھے.خصوصاً ملک شام سے ان کی تجارت بے حد متاثر ہوئی تھی جس کے راستہ میں مدینہ پڑتا تھا.اسلئے وہ اس دباؤ اور کمزوری کی حالت میں کسی حل کے متلاشی تھے.رسول اللہ کی فراست و بصیرت ان کی اس کمزوری کو بھانپ چکی تھی.چنانچہ جب 6ھ میں رسول اللہ نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ امن سے طواف بیت اللہ کر رہے ہیں.بظاہر یہ ایک عجیب خواب تھی کیونکہ وہاں مسلمانوں کے ایسے دشمن موجود تھے جنہوں نے ہجرت کے بعد سے ان کے حج وعمرہ پر پابندی عائد کر رکھی تھی.اس جنگی صورتحال کے باوجود آپ کا بے دھڑک عازم بیت اللہ ہو جانا صاف بتاتا ہے کہ آپ اس بصیرت پر قائم تھے کہ اب قریش میں کم از کم طواف کے ارادہ سے حرم جانے والے مسلمانوں سے جنگ کی سکت اور خواہش نہیں ہوگی.چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ عربوں کے دستور کے مطابق امن کی علامت کے طور پر تلواریں میان میں لئے روانہ ہوئے مگر مکہ کے قریب حدیبیہ مقام پر روک دئے گئے.اس دوران آپ کی تمام تر حکمت عملی صلح کے گرد گھومتی رہی.آپ نے شروع میں واضح فرما دیا کہ صلح کی خاطر اہل مکہ جو لائحہ عمل بھی پیش گے ہم اسے قبول کریں گے اور پھر قریش کے ایلچیوں کی سخت شرائط کے باوجود آپ اپنے اس موقف پر آخر دم تک ڈٹے رہے.قریش نے اپنی انا کی خاطر اس سال کے بجائے آئندہ سال عمرہ کرنے کی تجویز دی تو آپ نے حضرت عثمان بن عفان کو بطور سفیر کے بھجوایا تا کہ وہ سرداران قریش میں اپنے اثر ورسوخ سے اسی سال عمرہ کے لئے کوئی راہ تلاش کریں.اس نازک صورتحال میں جب مذاکرات طویل ہو گئے تو ادھر اُن کی شہادت کی خبر مشہور ہوگئی.موت پر بیعت سیہ وہ وقت تھا جب مسلمانوں کے جذبات سخت تلاطم میں تھے اگر ان کو سنبھال کر کوئی مناسب رخ نہ دیا جاتا تو شاید وہ ان کو قابو میں نہ رکھ سکتے.سفیر کی حفظت و احترام کا مسئلہ اپنی جگہ اہم تھا رسول اللہ نے ایک بہترین قائد کی طرح صحابہ کے ان جذبات کو ایک نئی سمت دیتے ہوئے ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہنے اور ہر حال میں اطاعت کیلئے موت پر بیعت لی
413 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی اسوہ انسان کامل کہ جان دے دیں گے مگر حضرت عثمان کا بدلہ لئے بغیر یہاں سے نہ نکلیں گے.مسلمانوں کے اخلاص و وفا کی بناء پر یہ واقعہ بیعت رضوان سے معروف ہے.جس نے کفار مکہ پر مسلمانوں کے مرنے مارنے پر تل جانے کے عہد کا ایسا رعب پیدا کر دیا کہ بالآخر انہوں نے صلح کرنے میں ہی عافیت جانی.رسول اللہ کی فراست کا ایک اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب مشرکوں نے اپنے سردار سہیل بن عمرو کو بطور ایچی شرائط صلح طے کرنے کیلئے بھجوایا تو آپ نے اس کے نام سے ہی تفاءل لیتے ہوئے فرمایا کہ اب معاملہ آسان ہو گیا.پھر واقعی سہیل کے ذریعہ شرائط صلح طے ہوئیں.اگر چہ بظاہر وہ شرائکہ مسلمانوں کے خلاف نظر آتی تھیں.قدم قدم کفار مکہ کی ان صلح میں روک بن کر آڑے آتی تھی تو رسول اللہ کی فراست و بصیرت اس کتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو جاتی.آپ نے صلح کی خاطر کفار کے اصرار پر بسم اللہ کے ساتھ رحمان و رحیم نہ لکھنے پر اتفاق کیا، محمد رسول اللہ کی بجائے محمد بن عبد اللہ لکھنا قبول فرمایا.مگر جب سہیل کے مسلمان بیٹے ابو جندل ( جو مسلمان ہونے کے جرم میں مکہ میں قید تھے اور زنجیریں تو ڑ کر حدیبیہ پہنچے تھے ) کی مکہ واپسی پر اصرار ہوا.جب کہ ابو جندل دہائی دے رہا تھا کہ مسلمانو! کیا مجھے اس حال میں چھوڑ جاؤ گے( جبکہ مکہ سے بھاگ کر آنے والے مسلمانوں کو واپس لوٹانے کی شرط ابھی طے نہ پائی تھی ) تو اس رقت آمیز منظر سے صحابہ کے دل زخمی اور جگر پارہ پارہ تھے.اس وقت تازہ عہد اطاعت ہی ان کو سنبھال رہا تھا.چنانچہ انہوں نے رسول اللہ کی کامل اطاعت میں سر جھکا دیا.پھر جب معاہدہ طے ہو جانے کے بعد رسول اللہ نے صحابہ سے فرمایا کہ اب اپنی قربانیاں میدان حدیبیہ میں ہی ذبح کر ڈالو.غم سے نڈھال صحابہ صدمہ سے مدہوش ، بے حس و حرکت اور ساکت و جامد کھڑے تھے.رسول خدا نے تین مرتبہ اپنا حکم دوہرایا کہ اپنی قربانیاں ذبح کر دو مگر کسی کو اس کی ہمت نہ ہوئی.شاید وہ اپنے آقا کے عملی نمونہ کے منتظر تھے پھر جونہی رسول اللہ نے حضرت ام سلمہ کے مشورہ کے مطابق پہلے اپنی قربانی ذبح کر ڈالی تو صحابہ بھی دھڑا دھڑ قربانیاں ذبح کرنے لگے اور میدان حدیبیہ حرم بن گیا.( بخاری )16 بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ حدیبیہ واقعی مسلمانوں کیلئے فتح مبین ثابت ہوئی.ایک تو اس طرح کہ اہل مکہ سے معاہدہ کے بعد شمال کی جانب کے اس دشمن سے مسلمانوں کو امن ہوا تو اس کے تھوڑے ہی عرصہ بعد رسول اللہ کو یہود خیبر کے جنوبی خطرہ سے بھی نمٹنے اور خیبر فتح کرنے کا موقع میسر آیا.یہ صلح حدیبیہ کی پہلی برکت تھی.حدیبیہ کی اس شرط کی وجہ سے مکہ سے کوئی مسلمان بھاگ کر مدینہ نہیں آسکتا تھا اس لئے مکہ سے بھاگ کر آنے والے حضرت ابو بصیر نے مدینہ کی بجائے کچھ فاصلے پر آزادانہ طور پر اپنا الگ ڈیرہ جما کر مکہ کے کمزور مسلمانوں کے جمع ہونے کا موقع بہم پہنچا دیا اور کفار مکہ کے شام کے راستے میں ایک اور خطرہ پیدا کر دیا.یہ اس معاہدہ کی دوسری کامیابی تھی.تیسری کامیابی اس دور صلح میں تبلیغی خطوط کے ذریعہ مختلف قبائل اور بادشاہوں سے تبلیغی رابطے اور زمانہ جنگ کے مقابل پر بہت زیادہ لوگوں کا قبول اسلام ہے.چوتھی بڑی کامیابی اس وقت ہوئی جب قریش کی عہد شکنی پر گرفت کرنے کے لئے رسول اللہ مدینہ سے نکلے اور بالآخر مکہ فتح ہوا.اور صلح حدیبیہ واقعی «فتح مبین ثابت ہوئی.
اسوہ انسان کامل 414 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی غزوات میں خاموش پیش قدمی میں حسن ترتر مدینہ سے یہود کی جلا وطنی کے بعد خیبر میں ان کا ایک مضبوط مرکز بن گیا.وہ مدینہ پر حملہ کے منصوبے بنا کر دھمکیاں دینے لگے.ایسی نازک صورتحال میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ دشمن کی طرف پیش قدمی کی حکمت عملی اختیار کر کے اپنا دفاع کیا جائے اور اسے مدینہ پر حملہ آور ہونے کا موقع نہ دیا جائے.دوسرے یہ سب کچھ اس قدر خاموشی سے ہونا ضروری تھا کہ یہود کے حلیف قبائل غطفان وغیرہ ان کی مدد کو نہ پہنچ سکیں رسول اللہ اپنی اس حکمت عملی میں حیرت انگیز طور پر کامیاب ہوئے.آپ ایک ماہر رہنمائے سفر کے ذریعہ تین ہزار کے لشکر کے ساتھ قریباً ڈیڑھ سومیل کا فاصلہ تیز رفتاری کے ساتھ تین راتوں کے مسلسل تھکا دینے والے سفر میں طے کر کے خیبر پہنچ گئے.علی اصبح میدان خیبر میں داخل ہوتے وقت صحابہ کرام نے اپنی منزل پالینے کی خوشی میں نعرے بلند کرنے شروع کئے.اس خاموش پیش قدمی میں نعروں کا یہ شور خلاف مصلحت تھا، آنحضرت تو یہود خیبر کے سر پر اچانک پہنچ کر انہیں حیران و ششدر اور مبہوت کرنا چاہتے تھے.ان نازک لمحات میں آپ نے صحابہ کو موقع محل کی مناسبت سے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ نعرے تو ذکر الہی کے کلمے ہیں.اور جس ہستی کو تم پکارتے ہو وہ نہ تو بہرہ ہے نہ غائب بلکہ وہ خوب سنتا ہے.اس لئے دھیمی آواز میں ذکر الہی کرو.( بخاری) 17 اور یوں اپنے پروگرام کے مطابق آپ خاموشی سے یہود خیبر کے عین سر پر جاپہنچے.خیبر میں پڑاؤ کرتے ہوئے دوسری حکمت عملی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ اختیار فرمائی کہ لشکر کو پانچ حصوں میں قسیم کر کے قلعہ ہائے خیبر کے سامنے میدان میں اس طرح پھیلا دیا کہ سرسری نگاہ میں وہ ایک لشکر جرار نظر آتا تھا.اس حکمت عملی میں جو دراصل دشمن کو اچانک حیران و ششدر کر دینے اور بوکھلاہٹ (Surprize) دینے کا حصہ تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی.18 واقعہ یہ ہوا کہ صبح جب قلعوں کے دروازے کھلے اور یہودی اطمینان سے معمول کی کھیتی باڑی اور کام کاج کیلئے اپنی کسیاں ، کدال ، ٹوکریاں لے کر باہر نکلنے لگے تو اچانک میدان خیبر میں چاروں طرف مسلمانوں کے پھیلے ہوئے لشکر کو دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے.مدینہ سے منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی نے یہود کو ٹھی بھر مسلمانوں کے خیبر پر چڑھائی کرنے کی اطلاع کی تھی.اب اتنا بڑ الشکر دیکھ کر وہ حیران و ششدر یہ کہتے ہوئے واپس قلعوں کی طرف دوڑے.کہ محمد اور اس کا پانچ دستوں والا لشکر.خدا کی قسم محمد اور پانچ دستوں والا لشکر ( آن پہنچا ).( بخاری ) رسول اللہ ﷺ یہود کوز بر دست حیرانی اور سرپرائز (Surprise) دے کر ایک اور فتح حاصل کر چکے تھے.جس کے نتیجہ میں یہود خیبر کو مدینہ پر حملہ تو در کنار با ہر میدان میں نکل کر مقابلہ کی جرات بھی نہ ہوئی اور وہ محصور ہو کر رہ گئے.رسول اللہ اللہ یکے بعد دیگرے قلعہ ہائے خیبر فتح کرتے چلے گئے اور یہود کو ایک کے بعد دوسرے قلعہ میں محصور ہونا پڑا.آخری قلعہ میں یہود نے اپنا پورا زور لگا دیا تو اس کی فتح میں مشکل ہوئی.آپ نے دعاؤں کے بعد اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اپنے لشکر کے حو صلے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں جھنڈا دوں گا جس
اسوہ انسان کامل 415 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی کے ذریعہ خیبر کی فتح مکمل ہو جائے گی.اگلے روز آپ نے حضرت علی کو عالم جنگ عطا کیا اور ان کی قیادت میں مسلمانوں نے آخری قلعہ بھی فتح کر لیا.فتح مکہ میں فراست مندانہ اقدام رسول اللہ نے تمام غزوات میں نقل و حرکت کی رازداری قائم رکھنے کے اصول سے بہت فائدہ اٹھایا.آپ فرماتے تھے کہ جنگ در اصل ایک بار یک چال ہوتی ہے.سفر خیبر کی طرح فتح مکہ کے سفر میں بھی رازداری کی حکمت عملی کا مقصد اہل مکہ کو تیاری جنگ کا موقع نہ دیکر انہیں کشت و خون سے بچانا تھا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حکمت کی بناء پر نواح مدینہ میں یہ پیغام بھجوایا کہ اس دفعہ کا رمضان مدینہ میں گزاریں اور اہل مدینہ کو سفر کی تیاری کی ہدایت فرمائی.لیکن یہ ظاہر نہ فرمایا کہ کہاں کا قصد ہے.مدینہ سے مکہ کے تین سومیل کے فاصلے کے درمیان قریش کے جاسوسوں اور حلیف قبائل کی موجودگی میں ایک لشکر جرار کی تیاری اور نقل و حرکت کی راز داری کو قائم رکھنا بظاہر ایک انہونی سی بات لگتی ہے.مگر رسول خدا نے اس مقصد کیلئے تدبیر یہ فرمائی کہ مدینے سے کے جانے والے تمام رستوں پر پہرے بٹھا دیے.(حلبیہ (19 الغرض دس ہزار کا لشکر تیار ہو گیا مگر کسی سپاہی کو منزل کی خبر نہ تھی.ایک صحابی حاطب بن ابی بلتعہ کا قریش کو مدینہ کی ایک مغنیہ کے ذریعہ بھجوایا جانے والا اطلاعی خط جب پکڑا گیا تو اس میں بھی یہی لکھا تھا کہ رسول اللہ کا لشکر روانہ ہونے کو ہے معلوم نہیں کہاں کا قصد ہے.پھر لشکر نے کوچ کیا تو بجائے سیدھے مکہ کی سمت روانہ ہونے کے آپ دوسری جانب رخ کر کے نکلے اور مکہ جانے والے عام راستہ کو چھوڑ کر نہایت تیزی سے سفر کرتے ہوئے مکہ کے عین سر پر مر الظہر ان پہنچ گئے اور اہل مکہ کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی.مر الظہران کے وسیع میدان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا داد فراست کو کام میں لاتے ہوئے جنگی حکمت عملی کا ایک اور حیرت انگیز منصوبہ بنایا.آپ نے صحابہ کوحکم دیا کہ وہ مختلف ٹیلوں پر بکھر جائیں اور آج ہر شخص آگ کا ایک الاؤ روشن کرے.اس طرح اس رات دس ہزار آگئیں روشن ہو کر مرالظہران کے ٹیلوں پر ایک پرشکوہ اور ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگیں.( بخاری )20 عربوں کے دستور کے مطابق لشکر کے دس آدمیوں کی ایک ٹولی اپنی آگ روشن کیا کرتی تھی.اب یہاں دس ہزار لشکر کے اتنے ہی آگ کے الاؤ مسلمانوں کے لشکر کی اصل تعداد کو دس گنا زیادہ ظاہر کر رہے تھے.اس رات قریش کے سردار گشت پر نکلے تو حیران رہ گئے کہ یہ کس قبیلہ کا لشکر ہو سکتا ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد کا لشکر کسی عرب قبیلہ میں موجود نہ ہو سکتا تھا اور لشکر اسلام کی ایسی اچانک آمد ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی.اگلے دن اسلامی لشکر مکہ کی جانب چلا تو رسول اللہ کی ایک اور حکمت عملی کے تحت ابوسفیان کو ایک بلند جگہ سے لشکر کی شان و شوکت کا نظارہ کرایا جارہا تھا.تا کہ وہ مرعوب ہو کر حق قبول کر لے.جب انصاری سردار سعد بن عبادہ اپنا دستہ لیکر ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو جوش میں آکر کہہ گئے.
اسوہ انسان کامل 416 جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی آج جنگ و جدال کا دن ہے آج کعبہ کی حرمت کا بھی لحاظ نہیں کیا جائے گا.(بخاری)21 ابوسفیان نے شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے اپنے اس کمانڈر کو (جو ایک طاقتور قبائلی سردار تھا ) معزول کر دیا کہ اس نے حرمت کعبہ کے بارے میں ایک نا حق بات کہی تھی اور جنگ کی دھمکی سے ابوسفیان کا دل دُکھایا.(ابن ھشام ) 22 ساتھ ہی کمال حکمت سے دوسرا حکم یہ صادر فرمایا کہ سعد کی بجائے سالار فوج ان کے بیٹے قیس بن سعد کو مقرر کیا جاتا ہے.(حلبیہ ( 23 اور یوں ہر قبائلی خلفشار کی پیش بندی بھی فرما دی.فتح مکہ پر دلوں کی فتح اور بلال کا انتقام فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا آج اپنے غلام بلال کا انتقام لینا بھی ضروری ہے.بلال جو کبھی مکہ کی گلیوں میں ذلت اور اذیت کا نشان رہ چکا تھا.اسے اہل مکہ کے لئے ابوسفیان کی طرح امن کی علامت قرار دے کر آپ نے غلام کو سر دار مکہ کے برابر کھڑا کر دیا اور ابوسفیان کے گھر میں امان کی منادی کے ساتھ یہ اعلان بھی کروایا کہ جو بلال کے جھنڈے نیچے آ گیا اسے بھی امان ہوگی.اور یوں آپ نے اپنے جانی دشمنوں اور قاتلوں کے لئے بھی فتح مکہ کے موقع پر عام معافی کا اعلان کر کے ان کے دل جیتنے کی راہ نکال لی.بلال کے دشمنوں کو بھی معاف کر دیا اور بلال کے جذبات کا بھی خیال رکھا.مکہ کی حقیقی فتح تو دراصل آپ کے خلق عظیم کی فتح تھی کہ کفار نے بھی آپ کے اس سوال پر کہ تم سے کیا سلوک کیا جائے یہی کہا کہ ہمیں آپ سے نیک سلوک کی امید ہے اور رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان سے حسن سلوک کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ تم سب آزاد ہو صرف میں ہی تمہیں معاف نہیں کرتا بلکہ اپنے رب سے بھی تمہارے لئے عفو کا طلب گار ہوں.( ابن ھشام ) 24 مشہور مستشرق شین لے پول کے بقول جس دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر فتح حاصل ہوئی وہی دن آپ کی اپنے نفس پر فتح حاصل کرنے کا دن تھا.جب آپ نے قریش کے سالہا سال کے ظالمانہ مصائب سے درگزر کرتے ہوئے تمام باشندوں کو ایک عام معافی نامہ دے دیا.‘ ( انتخاب قرآن ) 25 امر واقع یہ ہے کہ اس عفو عام کے نتیجہ میں اپنے اپنے دشمنوں اور نفس پر ہی فتح حاصل نہیں کی بلکہ ان کے دلوں پر بھی فتح حاصل کی جیسا کہ سرولیم میور کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ محمد نے جلد ہی اس کا انعام بھی پالیا اور وہ یوں کہ آپ کے وطن کی ساری آبادی صدق دل سے آپ کے ساتھ ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم چند ہفتوں میں دو ہزار مکہ کے باسیوں کو مسلمانوں کی طرف سے (حنین میں ) لڑائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں.“ ( میور (26
اسوہ انسان کامل 417 حواله جات جنگوں میں رسول اللہ ﷺ کی حکمت عملی 1 ابن هشام جلد 2 ص 255 2 ابن سعد جلد 4 ص 9 تا 14 3 الواقدی جلد 1 ص 203 4 ابن سعد جلد 4 صفحه 18 ، سيرت الحلبيه جلد 3صفحه 90 5 ابو داؤد (15) كتاب الجهاد باب 106 6 بخاری (67) کتاب المغازی باب 14 7 بخاری (67) کتاب المغازی باب 36 بخاری(67) کتاب المغازی باب 14 مجمع الزوائدهيثمي جلد6ص 112 10 بخاری (67) کتاب المغازی باب 23 عمدة القاری شرح بخاری جلد 17 ص162 11 مستدرك جلد 3 ص 598 12 ابن سعد جلد2ص 66 13 ابن سعد جلد 2 ص 67 14 بخاری (67) کتاب المغازی باب 66 15 بخاری (67) کتاب المغازی باب 32 16 بخاری(58) كتاب الشروط باب 15 17 بخاری (67) کتاب المغازی باب 36 18 بخاری (67) کتاب المغازی باب 36 19 سيرت الحلبيه جلد 3 ص 74,75 20 بخاری (67) کتاب المغازى باب 44 21 بخاری (67) كتاب المغازى 44 22 السيرة النبوية الابن هشام جلد 4 ص 9مبطوعه بيروت 23 سيرت الحلبيه جلد 3 ص 95-90 24 السيرة النبوية لا بن هشام جلد 4 ص 94 مطبوعه مصر 25 انتخاب قرآن مقدمه ص 67 Life of Mahomet by W.Muir p-42 26
اسوہ انسان کامل 418 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم رسول کریم بحیثیت منصف اعظم ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کو قرآن کریم کی صورت میں ایک کامل دائی آخری شریعت عطا کی گئی.آپ نے اس قانون الہی کے نافذ کرنے کا نمونہ بھی دکھانا تھا اس لئے آپ کو حکومت بھی عطا کی گئی.بعثت نبوت کے ساتھ ہی مسلمانوں کے واجب الاطاعت امام اور لیڈر کی حیثیت آپ کو حاصل ہوگئی تھی.اس لحاظ سے مختلف النوع فیصلوں کی اہم ذمہ داری بھی آپ پر عائد ہوتی تھی، قرآنی شریعت میں کامل عدل کی وہ جامع تعلیم آپ کو عطا کی گئی، جس پر آئندہ عالمی امن کی عمارت تعمیر ہونے والی تھی.مگر الہی تقدیر کے مطابق اس کا آغاز سرزمین عرب سے کیا گیا، جہاں ہر قسم کی بے اعتدالی اور ظلم و تعدی دستور بن چکے تھے.آپ ہی وہ منصف مزاج وجود ہیں جنہوں نے ظلم و ستم سے بھرے اس جزیرے کو عدل و انصاف کا گہوارہ بنا کر دنیا کو ایک نمونہ دیا.رسول اللہ کی بعثت کے وقت ہر کمزور طبقہ ظلم کی چکی میں پس رہا تھا.آپ نے آکر عورتوں کو بھی اس ظلم سے رہائی دلائی اور مقہور غلاموں کو بھی ان کے حقوق دلائے.معاشرے کی ناہمواری دُور کی اور معاشی اور معاشرتی طور پر بھی عدل قائم کر کے دکھایا کیونکہ یہی آپ کی بعثت کا بنیادی مقصد تھا.آپ کے ذریعہ یہ اعلان کروایا گیا کہ ” میں قیام عدل کی خاطر مامور کیا گیا ہوں.“ ( سورة الشورى: 16) یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ کا فیصلہ آخری اور اسے بخوشی قبول کرنا ہر مومن کے لئے واجب التسلیم ہے.(سورۃ النساء: 66 ) آپ نے یہ تعلیم دی کہ اللہ تو عدل سے بھی آگے یہ حکم دیتا ہے کہ احسان اور زائد نیکی کرنے والے بنو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس نیکی کا درجہ حاصل کرو جوخونی رشتہ داروں سے کی جاتی ہے.‘“ (سورۃ النحل: 91) اسلامی تعلیم عدل قرآن شریف نے مذہبی معاشرتی اور معاشی ہر پہلو سے عدل کے قیام کی تفصیلی تعلیم دی ہے.اس مضمون میں بے پناہ وسعت کے پیش نظر اس جگہ اہم نکات کی طرف اشارہ ہی کیا جاسکتا ہے.1 خدائے واحد کے ساتھ شریک ٹھہرانا خلاف عدل ہے اور یہ عدل کا مذہبی ودینی پہلو ہے.معاشرتی عدل کا تقاضا ہے کہ والدین کے احسانات کے جواب میں کم از کم ان سے احسان کا سلوک جائے.( سورۃ الانعام : 152 ، سورۃ الرحمان: 61) اولاد کے حقوق بھی عدل کے ساتھ ادا کئے جائیں.بالغ ہونے تک انکے ذمہ دار والدین ہیں.
اسوہ انسان کامل 419 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم اہلی زندگی میں عدل کا تقاضا یہ ہے کہ میاں بیوی فحشاء سے بچیں.(سورۃ الانعام: 152) 5 روئے زمین پر زندہ رہنے کی خواہش رکھنے والے ہر شخص کا دیگر بنی نوع انسان کے ساتھ عدل یہ ہے کہ ہر انسان کے کم از کم زندہ رہنے کا حق تسلیم کیا جائے.اور ناحق کسی کو قتل نہ کیا جائے.معاشی عدل کا تقاضا کمزور طبقات اور یتامی کے اموال کی حفاظت ہے نیز ماپ تول پورا ہو اور اس میں انصاف سے کام لیا جائے.(سورۃ الانعام : 153) گفتگو میں بھی عدل کا حکم ہے.یعنی اس میں سچائی ہو خواہ وہ بیچ قریبی رشتوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو.گفتگو میں بے اعتدالی نہ ہو.برمحل ہو اور اس میں کسی پر زیادتی نہ ہو.(سورۃ الانعام : 152,153) 8 تحریری معاہدات میں بھی عدل کی تعلیم دی گئی ہے.(سورۃ البقرۃ : 283) و دشمنوں کے ساتھ بھی عدل کا حکم دیا گیا.(سورۃ المائدۃ:9) 10 حاکموں کو رعایا سے عدل کا حکم ہے.(سورۃ النساء :59) 11 بین الاقوامی امن کے قیام کے لئے بھی عدل کو بروئے کار لایا جائے.اور تمام قومیں ظالم قوم پر دباؤ ڈال کر بین الاقوامی امن کے قیام کی سعی کریں.الغرض رسول اللہ کی پاکیزہ بے نظیر تعلیم عدل کے ذریعہ تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیا گیا.مگر اس کے لئے ضروری تھا کہ آپ کا سینہ و دل بھی عدل سے لبریز ہوں، اور بلاشبہ بچپن سے ہی آپ کی طبیعت اور مزاج ہی عادلانہ تھا.اور اللہ تعالیٰ نے آغاز سے اپنی خاص قدرت سے آپ کو کمال عدل پر قائم رکھا.فطری عدل رسول اللہ کی رضاعی ماں حضرت حلیمہ سعدیہ بیان کرتی تھیں کہ جب محمد کو دودھ پلانے کے لئے میں نے گود میں بٹھا لیا تو دائیں پہلو سے آپ دودھ پی لیتے بائیں پہلو سے نہ پیتے.آپ کے ساتھ حلیمہ کے بیٹے اور رضاعی بھائی بھی دودھ پیتے تھے اور وہ دوسرے پہلو سے دودھ نہ پیتے تھے.(الحلبیہ )1 ہر چند کہ بے شعوری کے اس دور میں آپ کا یہ فعل ارادتا نہ بھی ہو مگر اس کے پیچھے ایک مقتدر بالا رادہ ہستی کی قدرت نظر آتی ہے، وہی قدرت جس نے نوزائیدہ حضرت موسی کو (جب فرعون کی بیوی نے انہیں سمندر سے اٹھایا ) کسی بھی دودھ پلانے والی کا دودھ نہیں پینے دیا سوائے ان کی ماں کے.حضرت سائب بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی تو وہ اس میں شامل تھے اس دوران جب حجر اسو در رکھنے کا موقع آیا تو قریش کے قبائل آپس میں جھگڑ پڑے کہ ہم یہ پتھر اپنی جگہ پر رکھیں گے.بالآخر ثالثی فیصلے پر اتفاق رائے ہوا اور انہوں نے کہا کہ سب سے پہلا شخص جو صبح آئے گا وہ ثالث ہوگا.صبح نبی کر یم اے تشریف لائے تو سب لوگوں نے کہا کہ ' امین آ گیا.اور آپ کے سامنے معاملہ پیش کیا گیا.آپ نے پتھر کو ایک
420 اسوہ انسان کامل رسول کریم بحیثیت منصف اعظم کپڑے میں رکھ دیا اور قریش کے مختلف قبائل کے سرداروں کے نمائندوں کو بلایا.انہوں نے اس کپڑے کو تمام اطراف سے پکڑا اور اس کی جگہ پر لے گئے.پھر حضور نے وہ پتھر اٹھا کر اس کے اصل مقام پر رکھ دیا.( احمد )2 آداب قضا حضرت ابو بکر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ کوئی منصف غصہ کی حالت میں دو فریق کے درمیان فیصلہ نہ کرے.( بخاری )3 حضرت علی ابن ابی طالب بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے مجھے یمن میں قاضی بنا کر بھیجا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ مجھے یہ اہم ذمہ داری دے رہے ہیں اور میں تو کم عمر نو جوان ہوں جسے قضا کا کوئی تجربہ نہیں آپ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ تیرے دل کو خود رہنمائی فرمائے گا اور تیری زبان کو سچائی پر درستی سے قائم کر دے گا.جب تمہارے سامنے فریقین مقدمہ بیٹھیں تو ان کے مقدمہ کا فیصلہ اس وقت تک نہ کرنا جب تک دونوں فریق سے پوری بات نہ سن لو جس طرح پہلے فریق سے سنی.یہ طریق زیادہ مناسب ہے جس کے نتیجہ میں فیصلہ تجھ پر کھل جائے گا.حضرت علی کہتے ہیں اس کے بعد میں قاضی رہا لیکن کسی فیصلہ کے بارہ میں کبھی شک نہیں ہوا.(ابوداؤد )4 حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا کہ تم لوگ میرے پاس جھگڑا لے کر آتے ہو اور تم میں سے ایک فریق اپنا معاملہ اور دلیل بیان کرنے میں زیادہ طاقت رکھتا ہے اور میں اس کے بیان کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں.ایسا شخص جسے اپنے بھائی کا حق ناجائز طور پر فیصلہ میں مل جائے وہ اسے ہرگز نہ لے کیونکہ وہ آگ کا ایک ٹکڑا فی ہے.(بخاری)5 اولاد میں عدل حضرت نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں کہ میرے والد مجھے نبی کریم کے پاس لے گئے اور عرض کیا یا رسول اللہ میں نے نعمان کو اپنا فلاں مال حبہ کیا ہے آپ اس پر گواہ ہو جائیں.نبی کریم نے فرمایا کیا سب بیٹوں کو ہی ایسا ہی مال دیا ہے.انہوں نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر میرے علاوہ کسی اور کو گواہ بنالو نیز فرمایا کیا یہ بات تمہیں اچھی لگتی ہے کہ تمہاری اولاد تم سے حسن سلوک میں برابر ہوں.میرے والد نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا پھر ان کو مال دینے میں بھی عدم مساوات مناسب نہیں.( بخاری )6 قیدیوں کے ساتھ عدل مشرکین مکہ کے جنگ بدر کے قیدیوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بھی تھے.قیدیوں کی نگرانی جب حضرت عمر کے سپرد ہوئی تو انہوں نے حضرت عباس قسمیت تمام قیدیوں کی مشکیں اچھی طرح کس دیں.جو
اسوہ انسان کامل 421 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم مسجد نبوی کے احاطہ میں ہی تھے.حضرت عباس تکلیف سے کراہنے لگے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس کے کراہنے کی آواز سنی تو آپ کو چا کی تکلیف کی وجہ سے بے چینی سے نیند نہ آتی تھی.انصار کو کسی طرح اس کا علم ہو گیا انہوں نے عباس کی مشکیں ڈھیلی کر دیں.حضور کو پتہ چلا تو فرمایا کہ سب کی مشکیں ڈھیلی کر دو.انصار نے رسول اللہ کی حضرت عباس سے محبت کو دیکھ کر حضور کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر عرض کیا حضور ہم عباس کا فدیہ معاف کرتے ہیں.ان کو قید سے آزاد کر دیا جائے مگر رسول کریم نے اُن کی یہ پیش کش قبول نہ فرمائی اور حضرت عباس سے فرمایا کہ اپنا اور اپنے بھائی عقیل ، نوفل نیز اپنے حلیف عقبہ کا بھی فدیہ دیں کیونکہ آپ مالدار ہیں.حضرت عباس نے عرض کیا کہ حضور میں تو مسلمان تھا مگر مشرک مجھے مجبور کر کے بدر میں لے آئے.حضور نے فرمایا یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے اور اگر یہ درست ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزا دے گا.لیکن چونکہ آپ بظاہر دیگر قیدیوں کی طرح ہمارے خلاف جنگ کیلئے آئے تھے اس لئے فدیہ دینا ہو گا.چنانچہ انہوں نے چالیس اوقیہ فدیہ ادا کیا.( مینی )7 یہود مدینہ کے عادلانہ فیصلے یہود کے قبائل بنونضیر اور بنو قریظہ میں سے بنونضیر زیادہ معزز سمجھے جاتے تھے.چنانچہ جب بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنونضیر کے کسی آدمی کوقتل کرتا تو وہ قصاص میں قتل کیا جاتا اور جب بنونضیر کا کوئی آدمی بنوقریظہ کے کسی آدمی کوقتل کرتا تو اس کی دیت سودسق کھجورا دا کر دی جاتی.نبی کریم کی مدینہ تشریف آوری کے بعد ایک نفیری نے قمر ظلی کو قتل کر دیا.بنوقریظہ نے قصاص کا مطالبہ کیا اور اپنا ثالث رسول کریم کو مقرر کر کے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے جاہلیت کے طریق کے برخلاف اس قرآنی ارشاد پر عمل فرمایا کہ وَإِن حَكَمْتَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُمُ بِالْقِسْطِ (سورة المائدة : 43) یعنی ” جب تو ان یہود کے درمیان فیصلہ کرے تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر.چنانچہ آپ نے جان کے بدلے جان کا منصفانہ فیصلہ صادر فرمایا.(ابوداؤد )8 ایک دفعہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کے قیمتی زیور دیکھ کر اسکا سر پتھر کے ساتھ کچل کر قتل کر دیا.مقتولہ کو نبی کریم کے پاس لایا گیا.اس میں کچھ جان باقی تھی.آپ نے اس سے ایک شخص کا نام لے کر پوچھا کہ فلاں نے تمہیں قتل کیا ہے؟“ اس نے سر کے اشارہ سے کہا نہیں، پھر آپ نے دوسرے کا نام لیا تو اس نے نفی میں جواب دیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے یہودی شخص کا نام لیا.اس نے سر ہلا کر اثبات میں جواب دیا.آپ نے اس یہودی کو بلا کر پوچھا تو اس نے قتل کا اعتراف کر لیا.چنانچہ اس شخص کو قصاص میں قتل کیا گیا.( بخاری )9 یہودی کے حق میں ڈگری عبد اللہ بن ابی حدر والا سلمی بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی کا ان کے ذمے چار درہم قرض تھا جس کی میعاد ختم ہوگئی.اس یہودی نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ اس شخص کے ذمے میرے چار درہم ہیں اور یہ مجھے ادا
422 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم اسوہ انسان کامل نہیں کرتا.رسول اللہ نے عبد اللہ سے کہا کہ اس یہودی کا حق دے دو.عبداللہ نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے.مجھے قرض ادا کرنے کی طاقت نہیں ہے.آپ نے دوبارہ فرمایا ” اس کا حق اسے لوٹا دو.عبداللہ نے پھر وہی عذر کرتے ہوئے عرض کیا کہ میں نے اسے بتادیا ہے کہ آپ ہمیں خیبر بھجوائیں گے اور مال غنیمت میں سے کچھ حصہ دیں گے تو واپس آکر میں اس کا قرض چکا دوں گا.آپ نے فرمایا ” ابھی اس کا حق ادا کرو.“ نبی کریم جب کوئی بات تین دفعہ فرما دیتے تھے تو وہ قطعی فیصلہ سمجھا جاتا تھا.چنانچہ عبداللہ اسی وقت وہاں سے بازار گئے.انہوں نے ایک چادر بطور تہ بند کے باندھ رکھی تھی.سمر کا کپڑا اتار کر تہہ بند کی جگہ باندھا اور چادر چار درہم میں بیچ کر قرض ادا کر دیا.اتنے میں وہاں سے ایک بڑھیا گذری.وہ کہنے لگی ”اے رسول اللہ کے صحابی آپ کو کیا ہوا ؟“ عبداللہ نے سارا قصہ سُنایا تو اس نے اسی وقت اپنی چادر جو اوڑھ رکھی تھی ان کو دے دی اور یوں رسول اللہ کے عادلانہ فیصلے کی برکت سے دونوں فریق کا بھلا ہو گیا.( احمد ) 10 ایک دفعہ ایک یہودی بازار میں سودا بیچ رہا تھا ، اسے ایک مسلمان نے کسی چیز کی تھوڑی قیمت بتائی، جوا سے ناگوار گزری.اُس نے کہا کہ اُس ذات کی قسم جس نے موسی کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے.اس بات پر مسلمان نے اُس کو تھپڑ رسید کر دیا اور کہا کہ نبی کریم پر بھی موسیٰ کو فضیلت دیتے ہو.وہ یہودی رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے ابوالقاسم ہم آپ کی ذمہ داری اور امان میں ہیں اور آپ کے ساتھ ہمارا معاہدہ ہے اور اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مار کر زیادتی کی ہے.نبی کریم اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا مجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ دیا کرو.( بخاری )11 اس میں کیا شک ہے کہ نبی کریم کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے لیکن آپ نے ایثار اور انکسار کو کام میں لاتے ہوئے یہی فیصلہ فرمایا کہ ایسی باتوں سے ماحول میں فتنہ وفساد پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.کعب بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی حدرد سے مسجد میں اپنے قرض کا مطالبہ کر لیا.اس دوران تکرار میں ہماری آوازیں کچھ اونچی ہو گئیں.رسول اللہ نے گھر میں سن لیا.آپ تشریف لائے اور مجھے بلایا اور فرمایا اپنا نصف قرض چھوڑ دو.پھر عبداللہ سے کہا کہ اب آپ یہ نصف قرض ادا کر دو.( بخاری 12) یہ واقعہ اگر حرمت شود سے پہلے کا ہو تو حضور نے سود والا حصہ چھٹروایا ہوگا.بدلہ لینے کی پیشکش انصار کے ایک بزرگ سردار حضرت اسید بن حضیر کے بارہ میں روایت ہے کہ ان کی طبیعت میں مزاح بہت تھا.وہ ایک دفعہ لوگوں کو باتیں سنارہے تھے.ان کی کسی مزاحیہ بات پر جس سے وہ لوگوں کو ہنسار ہے تھے، حضور نے ان کے پہلو میں اپنی چھڑی چھوٹی.وہ خوب جانتے تھے کہ رسول خدا آکبھی عدل وانصاف کو نہیں چھوڑتے.چنانچہ وہ آپ سے کہنے لگے مجھے بدلہ دیں.رسول اللہ نے فرمایا بے شک لے لو.انہوں نے کہا آپ نے قمیص پہنا ہے، میں نے تو قمیص
423 اسوہ انسان کامل رسول کریم بحثیت منصف اعظم نہیں پہنا ہوا ، اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قمیص اوپر اٹھایا.اُسید بن حضیر آپ سے چمٹ گئے.اور آپ کے جسم کے بوسے لینے لگے اور کہا یارسول اللہ میرا تو بس یہی مقصد تھا یعنی آپ سے برکت حاصل کرنے کیلئے یہ تدبیر میں نے سوچی تھی.( ابوداؤد )13 حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کچھ مال تقسیم فرمارہے تھے.ایک شخص آیا اور وہ مال کے اوپر جھک کر کھڑا ہو گیا.رسول کریم نے کھجور کی ایک شاخ سے اس کو پیچھے ہٹایا تو اس کے منہ پر کچھ زخم سا آگیا.حضور نے فرمایا آو بدلہ لے لو.اس نے کہا نہیں یا رسول اللہ میں نے معاف کیا.(ابوداؤد )14 سورۃ نصر کے نزول کے بعد (جس میں رسول اللہ کی وفات کی طرف اشارہ ہے ) رسول اللہ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جسے سن کر لوگ بہت روئے.پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سب کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ کسی نے مجھ سے کوئی حق یا بدلہ لینا ہو تو قیامت سے پہلے آج یہیں لے سکتا ہے.ایک بوڑھا شخص عکاشہ نامی کھڑا ہوا.اور کہنے لگا میرے ماں باپ آپ پر قربان.اگر آپ بار بار اللہ کی قسم دے کر یہ نہ فرماتے کہ بدلہ لے لوتو میں ہر گز آگے نہ بڑھتا.میں فلاں غزوہ میں آپ کے ساتھ تھا.میری اونٹنی حضور کی اونٹنی کے قریب آئی تو میں سواری سے اتر آیا تا کہ حضور کے قدم چوم لوں.حضور نے چھڑی اٹھا کر جو ماری تو میرے پہلو میں لگی.مجھے نہیں معلوم کہ حضور نے ارادتا مجھے ماری تھی یا اونٹنی کو؟ رسول اللہ نے فرمایا اللہ کے جلال کی قسم ! خدا کا رسول جان بوجھ کر تجھے نہیں مارسکتا.پھر حضور نے بلال سے فرمایا کہ حضور کی وہی چھڑی گھر سے لے کر آئے.حضرت بلال جا کر حضرت فاطمہ سے وہ چھڑی لے آئے.رسول اللہ نے وہ چھڑی عکاشہ کو دی اور فرمایا کہ اپنا بدلہ لے لو.اس پر حضرت ابوبکر اور عمر گکھڑے ہو گئے اور انہوں نے عکاشہ سے کہا کہ آپ رسول اللہ ﷺ کی بجائے ہم سے بدلہ لے لو.حضور نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو بٹھا دیا.پھر حضرت علی کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ کی بجائے مجھ سے بدلہ لے لو.نبی کریم نے انہیں بھی روک دیا.پھر حضرت حسن اور حسین اٹھے.انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ کے نواسے ہیں اور ہم سے بدلہ لینا بھی رسول اللہ سے بدلہ لینے کی طرح ہے.نبی کریم نے انہیں بھی منع کر دیا اور عکاشہ سے کہا کہ تم بدلہ لے لو.عکاشہ نے عرض کیا.یارسول اللہ جب آپ کی چھڑی مجھے گی تو میرے بدن پر کپڑا نہ تھا.حضور نے جسم سے کپڑا اٹھایا تو مسلمان دیوانہ وار رونے لگے.وہ دل میں کہتے تھے کہ کیا عکاشہ ہمارے پیارے آقا کو چھڑی مارے گا؟ عکاشہ نے حضور کے جسم کو دیکھا تو لپک کر آگے بڑھا اور آپ کو چومنے لگا اور ساتھ کہتا جاتا تھا ” میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ سے بدلہ لینے کو کس کا دل گوارہ کر سکتا ہے.رسول اللہ نے فرمایا یا تو تمہیں بدلہ لینا ہوگا یا پھر معاف کرنا ہوگا.‘ عکاشہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہے میں نے معاف کیا.اس امید پر کہ اللہ بھی قیامت کے دن مجھے معاف کرے.نبی کریم نے فرمایا ”جو آدمی جنت میں میرے ساتھی کو دیکھنا پسند کرے وہ اس بوڑھے کو دیکھ لے.“ پھر تو مسلمان عکاشہ کے ماتھے کو چومنے لگے اور اسے مبارکباد دے کر کہنے لگے کہ تم نے بہت بلند درجہ حاصل 66
اسوہ انسان کامل کرلیا.( سیتمی ) 15 424 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم دنیا میں اپنے تمام بدلے چکا دینے کے بعد بھی رسول اللہ یہ دعا کیا کرتے تھے.اے اللہ میرے کسی ساتھی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو اسے اس شخص کے لئے رحمت و مغفرت کا ذریعہ بنادے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ میں تجھ سے ایک پختہ وعدہ چاہتا ہوں.میری التجا ہے کہ کبھی اس وعدہ کے خلاف نہ کرنا.میں ایک انسان ہوں پس مومنوں میں سے جس کسی کو میں نے کوئی اذ بیت دی پی برا بھلا کہایا کوئی کوڑا مارا تو اسے قیامت کے دن اس شخص کیلئے دعا، برکت اور قربت کا ذریعہ بنا دینا.(احمد )16 حرم بیت اللہ کی حرمت اور عدل وانصاف کا قیام احکام الہی کی حرمت کے ساتھ نبی کریم نے فتح مکہ کے موقع پر حرم کا احترام و تقدس بھی بحال کیا، جو آپ کی بعثت کا ایک اہم مقصد تھا.فتح مکہ کے دوسرے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک شخص کو حرم میں قتل کر دیا.آپ اس پر سخت ناراض ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا ”اے لوگو ! یا درکھو اس حرم کی عزت کو کسی انسان نے نہیں خدا نے قائم کیا ہے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا نے اصحاب الفیل کے حملہ سے اپنے اس گھر کو بچایا تھا اور مسلمانوں کو اس پر مسلط کر دیا ہے.کسی شخص کیلئے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے جائز نہیں کہ وہ اس میں خونریزی وغیرہ کرے.یہ حرم مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں ہوا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہوگا.میرے لئے صرف اسی وقت اور اسی لمحے لوگوں پر خدا کے غضب کے سبب حلال ہوا ہے اور اب پھر اس کی حرمت بدستور برقرار رہے گی.تم میں سے جو لوگ حاضر ہیں وہ غیر حاضر لوگوں تک یہ بات پہنچا دیں.جو شخص تم سے کہے کہ اللہ کے رسول نے مکہ میں جنگ کی ہے تو یاد رکھو اللہ نے اسے اپنے رسول کے لئے حلال کر دیا تھا لیکن (اے بنی خزاعہ ) تمہارے لئے حلال نہیں کیا اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی کیلئے یہ اجازت دی گئی تھی.( بخاری ) 17 اسلامی حکومت کے قیام کے بعد رسول کریم نے عدل کی شاندار مثالیں قائم فرمائیں.ایک دفعہ ایک مسلمان سے ایک ذمی قتل ہو گیا.نبی کریم نے قصاص کے طور پر مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں اس بات کا زیادہ حقدار ہوں جو اس غیر مسلم کا حق دلواؤں اور اس کا عہد پورا کر کے دکھاؤں.(ھدایہ ) 18 اس کے بعد آپ نے بنو خزاعہ کے قاتلوں کو قصاص دینے یا خون بہا قبول کرنے کا پابند کیا اور یوں عملاً عدل و انصاف کو قائم فرمایا.فتح مکہ کے اس سفر کا واقعہ ہے کہ قبیلہ مخزوم کی ایک عورت فاطمہ نامی نے کچھ زیور وغیرہ چرا لئے.اسلامی تعلیم کے مطابق چور کی سزا اس کے ہاتھ کاٹنا ہے.عورت چونکہ معزز قبیلہ سے تعلق رکھتی تھی اس لئے اس کے خاندان کو فکر ہوئی اور انہوں نے رسول اللہ کے بہت پیارے اور عزیز ترین فردا سامہ بن زید سے حضور کی خدمت میں سفارش کروائی کہ اس
425 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم اسوہ انسان کامل عورت کو معاف کر دیا جائے.اسامہ نے جب رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا تو آپ کے چہرہ کا رنگ سرخ ہو گیا اور فرمایا کیا تم اللہ کے حکموں میں سے ایک حکم کے بارہ میں مجھ سے سفارش کرتے ہو؟ اسامہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کریں.شام کو نبی کریم نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا ”تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں سے کوئی معزز انسان چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تھا تو اس پر حد قائم کرتے تھے.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق اس عورت کا ہاتھ کاٹا گیا.( بخاری )19 رسول کریم فرماتے تھے کہ ایک شخص کی غلطی کے بدلے دوسرے کو سزاد ینا نا جائز ہے.ایک دفعہ باپ بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص پر کسی دوسرے شخص کی وجہ سے زیادتی نہ ہو اور پھر یہ آیت پڑھی لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَأَخْرى کہ کوئی جان دوسری کا بوجھ نہیں اُٹھائے گی.( ابوداؤد ) 20 بیویوں میں عدل نبی کریم ﷺ اپنی بیویوں میں کمال عدل اور مساوات کا سلوک فرماتے تھے.خود حضرت عائشہ کی شہادت ہے کہ رسول کریم دونوں کی تقسیم میں کسی بیوی کو دوسری پر فضیلت نہ دیتے تھے.قریبا ہر روز آپ ہمیں ملنے تشریف لاتے اور ہم سے احوال پوچھتے.(ابوداؤد ) 21 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم اپنی ایک بیوی کے ہاں تھے وہاں کسی دوسری بیوی نے ایک پیالہ میں کچھ کھانا بھجوایا جس بیوی کی باری تھی اسے غیرت آئی اور اس نے پیالے پر ہاتھ مار کر اسے توڑ دیا.نبی کریم نے اس پیالے کو جوڑا اور اس میں کھانا اکٹھا کیا اور فرمایا کھاؤ.ادھر آپ نے کھانا لانے والے کو روک لیا تھا.کھانے سے فارغ ہوئے تو ٹوٹا ہوا پیالہ پاس رکھ لیا اور اس کی بجائے درست پیالہ توڑنے والی بیوی سے لے کر واپس بھجوا دیا.( بخاری )22 دوسری روایت میں خود حضرت عائشہ نے تفصیل بیان کی ہے کہ میں نے کھانا پکانے میں حضرت صفیہ سے بہتر کوئی نہیں دیکھا.ایک دفعہ خود انہوں نے میری باری میں کھانا بنا کر بھیج دیا.مجھے غیرت آگئی اور ان کا برتن توڑ دیا.بعد میں ندامت کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری اس غلطی کا کفارہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا برتن کے بدلے برتن اور کھانے کے بدلے کھانا.(ابوداؤد ) 23 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ٹوٹا ہوا پیالہ اس بیوی کے گھر میں رکھ لیا جس سے پیالہ ٹوٹا تھا اور ان کے گھر سے نیا پیالہ لے کر اس بیوی کو بھجوا دیا جن کے ہاں سے کھانا آیا تھا.( بخاری ) 24
426 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم اسوہ انسان کامل الغرض رسول اللہ نے عدل وانصاف کے معاملہ میں کبھی جنبہ داری سے کام نہیں لیا.خواہ اپنے اہل وعیال کا ہی معاملہ کیوں نہ ہو.واقعہ افک میں آپ کی زوجہ حضرت عائشہ پر الزام لگا تو باوجود یکہ آپ کو حضرت عائشہ کی پاکدامنی پر کامل بھروسہ تھا ، پھر بھی عدل کے تقاضا کے تحت فرمایا کہ اے عائشہ کا یہ بات مجھ تک پہنچی ہے اگر تم اس سے بری ہو تو اللہ تعالیٰ تمہاری برأت ظاہر کر دے گا اور اگر کسی بشری کمزوری سے گناہ کر بیٹھی ہو تو اللہ سے بخشش مانگو.بندہ جب گناہ کا اعتراف کر کے تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کرتا ہے.( بخاری )25 رسول کریم اپنی ازواج مطہرات میں کمال عدل کا سلوک فرمانے کے بعد خدا تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرتے تھے.”اے اللہ ! نان و نفقہ اور مال کی تقسیم میں جس میں مجھے اختیار ہے.پورے عدل سے کام لیتا ہوں مگر جس میں میرا اختیار نہیں یعنی قلبی میلان محبت اس میں مجھے معاف فرما دینا.“ ( ابوداؤد ) 26 عوام میں عدل حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ان کی پھوپھی ربیع بنت نصر نے ایک لونڈی کا دانت توڑ دیا.لونڈی کے مالکوں نے اس کا معاوضہ مانگا.( جو دس اونٹ تھا) ربیع کے خاندان نے معافی طلب کی مگر لونڈی کے ورثاء نہ مانے.ربیع کے بھائی انس نے رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہماری بہن ربیع کے دانت توڑے جائیں گے.نہیں! اس خدا کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے دانت ہرگز نہیں توڑے جائیں گے.نبی کریم نے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ اے انس ! اللہ کا فیصلہ قصاص ہے.اس طرح آپ نے اس مخلص انصاری خاندان اپنے گہرے تعلق کے باوجود عدل کا دامن نہیں چھوڑا.اگر چہ بعد میں یہ معاملہ باہم فریقین کی صلح کے نتیجہ میں انجام پایا.( بخاری )27 اسی طرح اپنے اصحاب کے درمیان کمال عدل کے ساتھ آپ فیصلے فرماتے تھے ،مگر ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی فرماتے تھے کہ میں بھی انسان ہوں اور ممکن ہے کہ کوئی چرب زبان مجھ سے کوئی غلط فیصلے کر والے مگر وہ یا درکھے کہ جو چیز وہ ناحق لے گا وہ آگ کا ٹکڑا لے کر جائے گا.چاہے تو لے لے چاہے تو اسے چھوڑ دے.( بخاری ) 28 قیام عدل و احسان کے عجیب نظارے غزوہ حنین میں بھی ظاہر ہوئے.رسول اللہ نے حسنین سے واپسی پر اموال غنیمت تقسیم کئے اور بعض عرب سرداروں کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہوئے بطور تالیف قلبی کے انعام و اکرام سے نوازا تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیا گیا.رسول اللہ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کریگا.اللہ تعالی موٹی پر رحم کرے ان پر اس سے بڑا الزام لگایا گیا مگر انہوں نے صبر کیا.( بخاری )29 دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کیا میں عدل نہیں کروں گا حالانکہ آسمان وزمین کے خدا نے مجھے اپنی وحی
427 رسول کریم بحیثیت منصف اعظم اسوہ انسان کامل کا امین ٹھہرایا ہے.دراصل رسول اللہ نے اموال خمس میں سے بعض سرداران عرب کو اسلام سے قریب کرنے کے لئے جو انعام واکرام فرمایا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف وہ خود مسلمان ہوئے بلکہ ان کے قبائل بھی مسلمان ہو گئے.نبی کریم کو اپنے ان اموال پر مکمل اختیار تھا لیکن تقسیم میں جو عدل پیش نظر تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ جن لوگوں کو اموال دے رہا ہوں اس کی وجہ ان کی ایمانی کمزوری اور حرص ہے اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے نیکی اور غنار کھی ہے، انہیں میں نہیں دیتا.( بخاری )30 ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے یوں وضاحت فرمائی کہ میں بعض لوگوں کو تالیف قلبی کی خاطر دیتا ہوں جبکہ ان کے علاوہ بعض دوسرے لوگ مجھے زیادہ عزیز ہوتے ہیں.مگر انہیں اسلام کے قریب کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں.( بخاری )31 چنانچہ ایک دفعہ کچھ قیدی آئے.حضرت فاطمہ نے بھی ایک خادم گھر یلو ضرورت کے لئے طلب کیا تو رسول کریم نے فرمایا خدا کی قسم! میں تمہیں عطا کر کے اہل صفہ یعنی غریب صحابہ کو محروم نہیں رکھ سکتا.جو فاقوں سے بے حال ہیں اور جن کے نان ونفقہ کے لئے اخراجات میسر نہیں.میں قیدی فروخت کر کے اہل صفہ پر خرچ کروں گا.(مسنداحمد )32 چنانچہ اس موقع پر اپنی بیٹی حضرت فاطمہ اور حضرت علی پر بھی غریب صحابہ کو ترجیح دی گئی جو عدل کی بہترین مثال ہے.الغرض عدل گستری بھی حضرت محمد پر ختم ہے.حواله جات 1 السيرة الحلبية جلد ١ ص90مطبوعه بيروت 2 مسند احمد جلد 3 ص 425 بخاری (97) كتاب الاحكام باب 13 4 ابوداؤد (25) كتاب الاقضية باب 6 5 بخاری (56) كتاب الشهادات باب 27 6 بخاری (56) کتاب الشهادات باب 9 7 عمدة القاری شرح بخاری لعینی جلد 18 ص 116 8 ابوداؤد (40) كتاب الديات باب 1 9 بخاری (91) كتاب الديات باب 6
اسوہ انسان کامل 10 مسند احمد جلد 3 ص422 11 بخاری (64) كتاب الانبياء باب 9 12 بخاری (8) كتاب الصلوة باب 38 13 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 161 14 ابوداؤد (40) كتاب الديات باب 15 428 15 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 4 ص 289 دارالكتاب العربي بيروت 16 مسند احمد جلد 2 ص 390 17 بخاری (67) کتاب المغازی باب 44 18 نصب الراية فى تخريج احاديث الهداية جلد4ص336 19 بخاری (67) کتاب المغازى باب 49 20 ابوداؤد (40) كتاب الديات باب 2 21 ابوداؤد(12) كتاب النكاح باب 39 22 بخاری (51) كتاب المظالم باب 35 23 ابوداؤد (24) كتاب الاجارة باب 55 بخاری (70) كتاب النکاح باب 106 25 بخاری (67) کتاب المغازى باب 32 26 ابوداؤد(12) كتاب النكاح باب 39 27 بخاری (57) كتاب الصلح باب 8 28 بخاری(51) کتاب المظالم باب 17 29 بخاری (61) کتاب الخمس باب 19 30 بخاری (61) کتاب الخمس باب 19 31 بخاری (2) کتاب الايمان باب 17 32 مسند احمد جلد 1 ص 107 رسول کریم بحثیت منصف اعظم
اسوہ انسان کامل 429 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت ہمارے نبی کریم کی بعثت جاہلیت کے اس دور میں ہوئی جب ہر قسم کے انسانی حقوق پامال کئے جارہے تھے.اولا د اور بچوں کے حقوق کا بھی یہ حال تھا.اگر کچھ بچے افلاس کی وجہ سے پیدائش سے قبل ہی قتل کر دیے جاتے تھے.تو بعض قبائل میں بچیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا.رسول کریم نے آکر اولاد کے عزت کے ساتھ زندہ رہنے کا حق قائم کیا.آپ نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کی بھی عزت کیا کرو.اور ان کی عمدہ تربیت کرو.( ابن ماجہ )1 اسی طرح فر مایا کہ والد کا اولاد کے لئے حسنِ تربیت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا.( احمد )2 پھر رسول کریم نے حسن تربیت کے لئے یہ پر حکمت تعلیم فرمائی کہ پیدائش کے بعد بچے کے کانوں میں اذان اور تکبیر کہی جائے.اس ارشاد کے ذریعہ دراصل آپ نے یہ پیغام دیا ہے کہ آغاز سے ہی بچوں کے کان میں اللہ رسول کی باتیں پڑنی چاہئیں اور آغاز سے ہی انکی تربیت کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے.پھر آپ نے ہدایت فرمائی کہ سات سال کی عمر سے بچوں کو نماز پڑھنے کیلئے کہا کرو.(اس وعظ ونصیحت کے لئے تین سال کا عرصہ دیا ) اور فرمایا کہ اگر دس سال کی عمر میں بچے نماز نہ پڑھیں تو سزا بھی دے سکتے ہو.(ابوداؤد )3 رسول کریم کا اپنا نمونہ یہ تھا کبھی تربیت کی خاطر بچوں کو سزا نہیں دی.بلکہ ہمیشہ محبت اور دعا کے ذریعہ ہی ان کی تربیت کی.آپ اپنے نواسوں بلکہ زیر تربیت بچوں حضرت اسامہ وغیرہ کے لئے بھی دعا کرتے تھے کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.( بخاری )4 کچی پدرانہ شفقت کا تقاضا ہے کہ بچوں سے اپنی اولاد کی طرح محبت اور پیار کا سلوک ہو.ایک دفعہ کسی نے رسول کریم سے سخت دلی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا اگر نرم دلی چاہتے ہو تو مسکین کو کھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرو.(احمد) 5 حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم کے پاس کوئی بھی پہلا پھل آتا تو پھلوں میں برکت کی دعا کرتے اور پھر پہلے وہ پھل مجلس میں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عطا فرماتے.(مسلم )6 حضرت عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم حضرت عباس کے بچوں عبد اللہ ، عبید اللہ اور دیگر بچوں کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کی دوڑ شروع کرواتے اور فرماتے جو سب سے پہلے دوڑ کر مجھ تک پہنچے گا اسے انعام دونگا.پھر بچے دوڑ کر آپ تک پہنچتے.کوئی آپ کی پیٹھ پر چڑھتا تو کوئی سینے پر.آپ ان کو چومتے ان کو اپنے ساتھ چمٹا
اسوہ انسان کامل 430 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت لیتے.( احمد )7 نبی کریم ﷺ ماں کی مامتا کا بہت خیال فرماتے تھے.ایک دفعہ فرمایا جو شخص ماں اور اس کی اولاد میں جدائی ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے پیاروں سے جدا کر دیگا.ایک دفعہ بحرین سے قیدی آئے ان کو قطار میں کھڑا کیا گیا.رسول کریم نے دیکھا ایک عورت رور ہی تھی.آپ نے سبب پوچھا.وہ کہنے لگی کہ میرا کم سن بچہ عبس قبیلہ کوفروخت کر دیا گیا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی ابواسیڈ سے فرمایا تم سواری لو اور جا کر وہ بچہ قیمت ادا کر کے واپس لاؤ.ابواسید جا کر وہ بچہ واپس لے آئے.( بیہقی )8 حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم کے پاس جب کسی ایک جگہ کے قیدی لائے جاتے تو آپ انہیں ایک گھرانے کے سپر د کرتے تاکہ بچے ان سے جدا نہ ہوں.(ابن ماجہ ) 9 رسول کریم قرآنی ہدایت کے مطابق اولاد کے آنکھوں کی ٹھنڈک بننے کی دعا بھی کرتے تھے اور دلی محبت کے جوش سے ان کی تربیت فرماتے تھے.حضرت انس بن مالک جو دس سال کی عمر میں رسول اللہ کی خدمت میں آئے کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم سے بڑھ کر بچوں کے ساتھ شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا.(بیہقی ) 10 ایک دفعہ رسول اللہ اپنے بچوں کو پیار سے چوم رہے تھے کہ ایک بدوی سردار نے کہا آپ بچوں کو چومتے بھی ہیں.میرے دس بچے ہیں میں نے تو کبھی کسی کو نہیں چوما.آپ نے فرمایا اللہ نے تیرے دل سے رحمت نکال لی ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں.( بخاری ) 11 دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم نے اس سردار سے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا.بچوں کے ساتھ حضور کی شفقت اور محبت کا یہ عالم تھا کہ بسا اوقات ان کی تکلیف دیکھ کر نماز بھی مختصر کر دیتے آپ فرماتے تھے کہ بعض دفعہ میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور نماز نمی کرنا چاہتا ہوں مگر اچانک کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں اور نماز مختصر کر دیتا ہوں کہ اس بچے کا رونا اس کی ماں پر بہت گراں ہوگا.( بخاری )12 ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو کوئی قیمتی تحفہ دیا اور اپنی بیوی کی خواہش پر رسول کریم کو اس پر گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوا.آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا سب بچوں کو ایسا ہی ہبہ کیا ہے.انہوں نے نفی میں جواب دیا.آپ نے فرمایا پھر ظلم کی اس بات پر میں گواہ نہیں بن سکتا.( بخاری ) 13 یوں آپ نے اولاد میں بھی عدل کرنے کا سبق دیا.رسول کریم نے تربیت اولاد کے لئے اپنا بہترین نمونہ پیش فرمایا.اولاد سے حسن سلوک کے کچھ واقعات بطور نمونہ پیش ہیں.حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے ، بلال نے رسول اللہ کی خدمت میں نماز کی اطلاع
431 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل کی.آپ تشریف لائے ، آپ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپ کے کاندھے پر تھی.رسول اللہ اپنے مصلے پر کھڑے ہوئے ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضور کے کندھے پر ہی تھی.حضور کے تکبیر کہنے کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی.رکوع میں جاتے وقت حضور نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھا دیا.رکوع اور سجدہ سے فارغ ہوکر دوبارہ اٹھا کر اسے کندھے پر بٹھا لیا.آپ نے نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے.(ابوداؤد ) 14 رسول کریم کی زندہ رہنے والی اولاد حضرت خدیجہ کے بطن سے چار بیٹیاں تھیں.جو بالترتیب حضرت زینب، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ الزھراء ہیں.حضرت خدیجہ سے بیٹے بھی ہوئے جن کے نام قاسم ، طاہر، طیب عبد اللہ مشہور ہیں.صاحبزادہ قائم کی نسبت سے آپ کی کنیت ابوالقاسم تھی.حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے صاحبزادہ ابراہیم ہوئے جو 9ھ میں 16 ماہ کی عمر میں وفات پاگئے تھے.رسول کریم نے تمام اولاد سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا.ان کی پرورش اور اعلیٰ تربیت کے حق ادا کئے.یہی وجہ تھی کہ حضرت زینب اور دیگر بیٹیوں نے اپنی والدہ حضرت خدیجہ کے ساتھ ہی اسلام قبول کر لیا تھا.( ابن سعد ) 15 صاحبزادی زینب سے حسن سلوک حضرت زینب کی شادی مکہ ہی میں حضور کے دعوے سے قبل حضرت خدیجہ کی تجویز پر ان کے بھانجے ابوالعاص ابن ربیع سے ہو گئی تھی.اس لئے حضرت زینب مدینہ ہجرت نہ کر سکیں.حضرت زینب کے شو ہر ابو العاص غزوہ بدر میں کفار مکہ کی طرف سے شامل ہو کر قید ہوئے.حضرت زینب نے حضرت خدیجہ کی طرف سے اپنی شادی پر تحفے میں ملنے والا ہار، ان کے فدیہ کے طور پر بھجوایا جسے دیکھ کر نبی کریم کا دل بھر آیا اور آپ کی خواہش کے مطابق ابوالعاص کو فدیہ لئے بغیر اس معاہدہ پر قید سے آزاد کر دیا گیا کہ وہ رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت زینب کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دیں گے.(ابوداؤد )16 آنحضرت ہی کی اس شفقت اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ ابو العاص نے یہ وعدہ خوب نبھایا اور واپس مکے جا کر حضرت زینب کو مدینے جانے کی اجازت دے دی.کفار مکہ کو پتہ چلا تو انہوں نے تعاقب کیا.ایک مشرک ھبار بن اسود نے حضرت زینب کی اونٹنی پر حملہ آور ہو کر انہیں اونٹ سے گرا دیا جس سے انکا حمل ساقط ہو گیا.اور انہیں کچھ عرصہ کیلئے مزید مکہ میں رکنا پڑا.( بخاری ) 17 رسول اللہ اپنی بڑی صاحبزادی حضرت زینب کے اسلام قبول کرنے کے بعد کمزوری اور مظلومیت کے عالم میں رہنے پر بے چین رہتے تھے.وعدہ کے مطابق اُن کے شوہر ابوالعاص کی انہیں مدینہ بھجوانے کی کوشش ناکام ہو چکی تھی.رسول کریم ﷺ نے مزید تکلیف دہ انتظار کی بجائے حضرت زید کو اپنی ایک خاص انگوٹھی نشانی کے طور پر دے کر سکے
432 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل بھجوایا کہ کسی طرح حضرت زینب کو مدینے لے آئیں.حضرت زید نے حضرت زینب اور ان کے شوہر ابو العاص کے چرواہے کے ذریعے وہ انگوٹھی حضرت زینب تک پہنچادی اسی رات حضرت زینب حضرت زید کی معیت میں اونٹ پر سوار ہو کر مدینے آئیں.ان کے مدینے پہنچنے پر رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری اس بیٹی نے میری وجہ سے بہت دیکھ اٹھائے ہیں.یہ اس لحاظ سے باقی بیٹیوں پر زیادہ فضیلت رکھتی ہیں.( بخاری )18 نبی کریم ﷺ اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے داما دا بو العاص کے حسن سلوک کی تعریف فرماتے تھے کہ اس نے اسلام قبول کرنے سے پہلے وعدہ کے مطابق میری بیٹی کو میرے پاس مدینے بھجوا دیا.( بخاری )19 اسی زمانے میں ایک دفعہ جب شام سے واپسی پر مدینہ کے قریب ابوالعاص کے تجارتی قافلہ کا مسلمانوں کے دستے سے آمنا سامنا ہو گیا اور ان کے مال پر قبضہ کر لیا گیا تو انہوں نے مدینے آکر حضرت زینب سے پناہ چاہی.ہر چند کہ ابو العاص کے حالت شرک پر قائم رہتے ہوئے مکہ ٹھہر جانے کی وجہ سے حضرت زینب سے جدائی ہو چکی تھی لیکن ان کے احسانات کے عوض انسانی ہمدردی کے طور پر حضرت زینب نے ان کی امان کا اعلان کر دیا.رسول کریم نے ( جنہوں نے کبھی کسی مسلمان عورت کی امان رڈ نہیں فرمائی ) حضرت زینب کی امان نہ صرف قبول فرمائی بلکہ ابوالعاص کا سارا مال بھی انہیں واپس کروا دیا.اس احسان کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابوالعاص نے مکہ جا کر قریش کی امانتیں واپس کیں اور مسلمان ہو کر مدینے آگئے.( ابن ھشام ) 20 نبی کریم نے ابو العاص بن ربیع کے اسلام قبول کرنے پر حضرت زینب کو چھ سال بعد سابقہ نکاح پر ہی اُن کے عقد میں دے دیا.(ابوداؤد )21 حضرت زینب کی وفات 8ھ میں ہوئی.نبی کریم نے ان کے غسل اور تجہیز وتکفین کے لئے خود ہدایات فرمائیں.حضرت ام عطیہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور تشریف لائے اور ہمیں فرمایا کہ زینب کو تین یا پانچ مرتبہ بیری کے پتے والے پانی سے غسل دو.اگر تم ضروری سمجھو تو پانچ سے بھی زیادہ مرتبہ نہلا سکتی ہو.آخر پر کافور بھی استعمال کرنا.جب فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا.وہ کہتی ہیں جب ہم فارغ ہوئے تو حضور کو اطلاع دی.حضور نے اپنا تہ بند ہمیں دیا اور فرمایا کہ یہ چادر اُن کو بطور زیر جامہ پہناؤ.ایک اور روایت میں ہے کہ حضور نے فرمایا کہ اس کے بالوں کی تین مینڈھیاں بنانا.( بخاری )22 نیز فرمایا کہ اسے دائیں پہلو سے اور وضو کی جگہوں سے منسل شروع کرنا.( بخاری ) 23 حضرت زینب کی وفات پر حضور ان کی قبر میں اُترے آپ غم زدہ تھے.جب حضور قبر سے باہر نکلے تو غم کا بوجھ کچھ ہلکا تھا.فرمایا ”میں نے زینب کی کمزوری کو یاد کر کے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ! اس کی قبر کی تنگی اور غم کو ہلکا کر دے اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی اور اس کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے.حضرت زینب کی تدفین کے موقع پر آنحضور ﷺ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا ”ہمارے آگے بھیجے ہوئے بہترین
433 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل انسان عثمان بن مظعون کے ساتھ جنت میں جا کر ا کٹھے ہو جاؤ.یہ سن کر عورتیں رو پڑیں، حضرت عمرؓ انہیں روکنے لگے.حضور نے فرمایا "رونا منع نہیں مگر شیطانی آوازیں نکالنے یعنی بین کرنے سے بچو.پھر آپ نے فرمایا وہ دکھ جو آنکھ اور دل سے ظاہر ہو وہ اللہ کی طرف سے ایک پیدا شدہ جذبہ ہے اور رحمت اور طبعی محبت کا نتیجہ ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ظاہر ہو وہ شیطانی فعل ہے.“ ( احمد ) 24 حضرت رقیہ سے حسن سلوک دوسری صاحبزادی حضرت رقیہ کا نکاح نبی کریم نے اپنے بہت عزیز صحابی حضرت عثمان بن عفان سے فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ عثمان کا خاص خیال رکھنا وہ اپنے اخلاق میں دیگر اصحاب کی نسبت زیادہ میرے مشابہ ہیں.چنانچہ ایک دفعہ حضور صاحبزادی رقیہ کے ہاں گئے تو وہ حضرت عثمان کا سر دھورہی تھیں.(کنز )25 حضرت رقیہ نے حضرت عثمان کے ساتھ حبشہ ہجرت کی تھی.جب کچھ عرصہ ان کی کوئی خبر نہ آئی تو رسول کریم حبشہ سے آنے والے لوگوں سے فکر مندی کے ساتھ اپنی صاحبزادی اور داماد کا حال دریافت فرماتے تھے.ایک قریشی عورت نے آکر بتایا کہ اُس نے حضرت عثمان کے ساتھ حضرت رقیہ کو خچر پر سوار جاتے دیکھا تھا.رسول اللہ نے دعا کی کہ اللہ ان دونوں کا حامی و ناصر ہو.( ابن اثیر ) 26 غزوہ بدر کے موقعہ پر رقیہ بیمار ہوگئیں اور نبی کریم نے حضرت عثمان کو اپنی صاحبزادی کی تیمارداری کے لئے مدینہ رہنے کی ہدایت فرمائی اور بدر میں فتح کے بعد مال غنیمت سے اُن کا حصہ بھی نکالا.( بخاری ) 27 نبی کریم کی ایک لونڈی ام عیاش تھی.جو حضور کو وضو وغیرہ کرواتی تھیں.حضور نے بطور خادمہ یہ لونڈی حضرت رقیہ کی شادی کے وقت گھریلو کام کاج میں اُن کی مدد کے لئے ساتھ بھجوائی تھی.( ابن ماجہ )28 حضرت رقیہ کی وفات حصہ میں ہوئی.حضور یے کو ان کی وفات کا بہت صدمہ تھا حضرت انس کہتے ہیں کہ حضرت رقیہ کے جنازے میں رسول کریم ان کی قبر کے پاس بیٹھے آنسو بہا رہے تھے.( بخاری ) 29 رسول کریم اپنی صاحبزادی فاطمہ کو لے کر حضرت رقیہ کی قبر پر آئے تو فاطمہ قبر کے پاس رسول کریم کے پہلو میں بیٹھ کر رونے لگیں.رسول اللہ ولا سادیتے ہوئے اپنے دامن سے ان کے آنسو پونچھتے جاتے تھے.( بیھقی ) 30 حضرت ام کلثوم سے شفقت ہجرت مدینہ کے بعد نبی کریم ﷺ نے صاحبزادی ام کلثوم کو مدینے بلوانے کے لئے حضرت زید بن حارثہ اور ابورافع کو دواونٹ اور پانچ صد درہم دے کر کے بھجوایا تا کہ وہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو آپ کے پاس مدینہ لے آئیں.(ابن سعد ) 31
434 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل صاحبزادی رقیہ کی وفات کے بعد رسول اللہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم بھی حضرت عثمان سے بیاہ دی اس موقع پر آپ نے اپنی خادمہ اُم ایمن سے فرمایا کہ میری بیٹی کو تیار کرو اور اسے دلہن بنا کر عثمان کے پاس لے جاؤ.اور اس کے آگے دف بجاتی جانا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.نبی کریم تیسرے دن اُم کلثوم کے پاس آئے اور استفسار فرمایا کہ آپ نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ عرض کیا بہترین شوہر.نبی کریم نے فرمایا ! امر واقعہ یہ ہے کہ تمہارے شوہر لوگوں میں سے سب سے زیادہ تمہارے جد امجد ابراہیم اور تمہارے باپ محمد سے مماثلت رکھتے ہیں.(ابن عدی ) 32 حضرت ام کلثوم 9ھ میں فوت ہوئیں حضور نے ان کا جنازہ خود پڑھایا اور قبر کے کنارے تشریف فرما ہو کر اپنی موجودگی میں تدفین کر وائی.رسول کریم نے اپنی صاحبزادی اُم کلثوم کی وفات پر تجہیز و تکفین کا انتظام اپنی نگرانی میں کروایا.حضرت لیلی اشتفیہ روایت کرتی ہیں کہ میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے حضرت ام کلثوم کو ان کی وفات پر غسل دیا.رسول کریم نے نہ بند کے لئے کپڑا دیا پھر قمیص، اوڑھنی اور اوپر کا کپڑ ا.اس کے بعد ان کو ایک اور کپڑے میں لپیٹ دیا گیا.وہ بتاتی تھیں کہ غسل کے وقت رسول کریم دروازے کے پاس کھڑے تھے.حضور کے پاس سارے کپڑے تھے اور آپ باری باری ہمیں پکڑا ر ہے تھے.حضرت ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول کریم کی بیٹی ام کلثوم قبر میں رکھی گئی تو رسول خدا نے یہ آیت تلاوت كى مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرى (سورة طه: 56) یعنی اس سے ہی ہم نے تم کو پیدا کیا اور اس میں تمہیں دوبارہ لوٹائیں گے اور اسی سے تمہیں دوسری دفعہ نکالیں گے.پھر جب آپ کی لحد تیار ہوگئی تو نبی کریم قبر بنانے والوں کو مٹی کے ڈھیلے اٹھا کر دیتے تھے اور فرماتے تھے ان سے اینٹوں کی درمیانی در زیں بند کرو پھر فرمانے لگے کہ مردے کے لئے ایسا کرنے کی کوئی ضرورت تو نہیں لیکن اس سے زندہ لوگوں کے دل کو ایک اطمینان ضرور حاصل ہو جاتا ہے.(احمد ) 33 حضرت فاطمہ سے محبت و شفقت نبی کریم اپنی صاحبزادی فاطمتہ الزھراء سے بھی شفقت کا سلوک فرماتے تھے.نبی کریم کی محبت بھری تربیت کا اثر تھا کہ حضرت فاطمہ نہیں بھی وہی رنگ جھلکتا نظر آتا تھا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال، طور اطوار اور گفتگو میں حضرت فاطمہ سے بڑھ کر آنحضرت کے مشابہ کوئی نہیں دیکھا.فاطمہ جب حضور کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں تو حضور کھڑے ہو جاتے تھے محبت سے انکا ہاتھ تھام لیتے تھے اور اسے بوسہ دیتے اور اپنے ساتھ بٹھاتے اور جب آنحضور حضرت فاطمہ کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ بھی احترام میں کھڑی ہو جاتیں آپ کا ہاتھ تھام کر اسے بوسہ دیتیں اور اپنے ساتھ حضور کو بٹھا تھیں.(ابوداؤد )34
435 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل نبی کریم فرماتے تھے کہ فاطمہ میرے بدن کا ٹکڑا ہے جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ غلام آئے.حضرت فاطمہ گھر کی ضرورت کے لئے خادم مانگنے آئیں نبی کریم گھر پر نہیں تھے.جب تشریف لائے اور انہیں پتہ چلا کہ فاطمہ آئی تھیں تو سردی کے موسم میں اسی وقت حضرت فاطمہ کے گھر تشریف لے گئے.حضرت فاطمہ بیان کرتی ہیں کہ ہم بستر میں جاچکے تھے.حضور میرے پاس تشریف فرما ہوئے.میں نے آپ کے پاؤں کی ٹھنڈک محسوس کی.آپ فرمانے لگے خادم تو زیادہ ضرورت مندوں میں تقسیم ہو چکے ہیں.پھر حضرت فاطمہ اور حضرت علی کو تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کہ تم نے جو خادم کا مطالبہ کیا تھا کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز نہ بتاؤں ؟ تم لوگ جب سونے لگو تو چونتیس مرتبہ اللہ اکبر اور تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللہ اور الحمداللہ کا ورد کیا کرو.یہ تمہارے لئے اس سے کہیں بہتر ہے جو تم نے مانگا ہے.( بخاری ) 35 اولاد سے حقیقی پیار اور اعلیٰ تربیت نبی کریم کو اپنی اولاد کی تربیت کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ تہجد کے وقت حضرت علی اور فاطمہ کو سوتے پایا تو جگا کر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا تم لوگ تہجد کی نماز نہیں پڑھتے ہو.حضرت علی نے نیند کے غالب آنے کا عذر کیا تو آنحضور تعجب کرتے ہوئے واپس تشریف لائے اور سورۃ کہف کی وہ آیت پڑھی جس کا مطلب ہے کہ انسان بہت بحث کرنے والا ہے.( بخاری )36 حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم چھ ماہ تک با قاعدہ حضرت فاطمہ کے گھر کے پاس سے گزرتے ہوئے انہیں صبح نماز کے لئے جگاتے اور فرماتے تھے کہ اے اہل بیت ! اللہ تعالیٰ تمہیں مکمل طور پر پاک وصاف کرنا چاہتا ہے.حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت فاطمہ ( حضور کی بیماری میں ) آئیں نبی کریم نے فاطمہ کو خوش آمدید کہا اور اپنے دائیں طرف یا شاید بائیں طرف بٹھایا.حضرت فاطمہ کو بھی رسول کریم سے بہت محبت تھی.رسول اللہ کی وفات پر حضرت فاطمہ کی زبان سے جو جذباتی فقرے نکلے، ان سے بھی آپ کی گہری محبت کا اظہار ہوتا ہے ، آپ نے حضرت انسؓ سے کہا کہ وائے افسوس میرے ابا ! ہم آپ کی موت کا افسوس کس سے کریں ؟ کیا جبریل سے؟ وائے افسوس! ہمارے ابا ! آپ اپنے رب کے کتنے قریب تھے ! ہائے افسوس! ہمارے ابا ہمیں داغ جدائی دے کر چلے گئے جنہوں نے جنت الفردوس میں گھر بنا لیا.ہائے افسوس! میرے ابا ! جنہوں نے اپنے رب کے بلانے پر لبیک کہا اور اس کے حضور حاضر ہو گئے.(ابن ماجہ ) 37 بیٹیوں کی اولاد سے شفقت حضرت ابولیلی بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی کریم کی خدمت میں حاضر تھے.کم سن حضرت حسن یا حسین میں سے کوئی آپ کی گود میں چڑھا ہوا تھا.اچانک بچے نے پیشاب کر دیا اور میں نے حضور کے پیٹ پر پیشاب کے نشان
اسوہ انسان کامل 436 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت دیکھے.ہم لپک کر بچے کی طرف آگے بڑھے تا کہ اسے اُٹھا لیں.رسول اللہ نے فرمایا میرے بیٹے کو میرے پاس رہنے دو اور اسے ڈراؤ نہیں پھر آپ نے پانی منگوا کر اس پر انڈیل دیا.( احمد ) 38 حضرت یعلی عامری سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ کے ساتھ ایک دعوت پر جارہے تھے کہ سامنے سے کم سن حسین دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے نظر آئے.رسول اللہ نے کھیل کھیل میں ان کو پکڑنا چاہا تو وہ ادھر ادھر بھاگنے لگے.رسول کریم اس طرح ان کو ہنساتے رہے یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا.پھر آپ نے اپنا ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے اور دوسرا ان کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا اور اپنا منہ ان کے منہ پر رکھ کر انہیں چومنے لگے اور فرمایا حسین مجھ سے اور میں حسین سے ہوں ( یعنی میرا ان سے گہرا دلی تعلق ہے ) جو شخص حسین سے محبت کرتا ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے.حسین ہماری نسل ہے.(حاکم) 39 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کی پشت پر حسن اور حسین سوار تھے اور آپ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں کے بل چل رہے تھے اور ان بچوں سے باتیں کر رہے تھے کہ تمہارا اونٹ کتنا اچھا ہے اور تم دونوں سوار بھی کیسے خوب ہو.( ھیثمی ) 40 حضرت زینب کے بچوں سے بھی حضور کو بہت محبت تھی.حضرت زینب کے ایک بیٹے کم سنی میں وفات پاگئے ان کی حالت نزع کے وقت حضرت زینب نے حضور کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ میرے بیٹے کا آخری وقت آن پہنچا ہے.آپ تشریف لے آئیں.نبی کریم نے ہر قسم کے مشرکانہ خیال سے بچنے کے لئے یہ پیغام بھیجا کہ زینب کو میر اسلام پہنچا دو اور کہو جو کچھ اللہ لے لے وہ بھی اسی کا ہے اور جو وہ عطا کرے اس کا بھی وہی مالک ہے اور ہر شخص کے لئے اللہ کے پاس ایک میعاد مقرر ہے اس لئے صبر کرو اور اپنے خیالات خدا کی خاطر پاک کرلو.( بخاری ) 41 حضرت ابوقتادہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز کے انتظار میں تھے.بلال نے رسول اللہ کو نماز کی اطلاع کی آپ تشریف لائے.آپ کی نواسی امامہ بنت ابی العاص آپ کے کاندھے پر تھی.رسول اللہ اپنے مصلے پر کھڑے ہوئے ہم پیچھے کھڑے تھے اور وہ بچی حضور کے کندھے پر ہی تھی.حضور کی تکبیر کے ساتھ ہم نے بھی تکبیر کہی.رکوع میں جاتے وقت حضور نے ان کو کندھے سے اتار کر نیچے بٹھادیا رکوع اور سجدے سے فارغ ہو کر پھر اسے اُٹھا کر کندھے پر بٹھالیا.نماز کی ہر رکعت میں ایسے ہی کیا.یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہوئے.(ابوداؤد )42 ایک دفعہ نجاشی شاہ حبشہ کی طرف سے کچھ زیورات بطور تحفہ آئے ، ان میں ایک انگوٹھی تھی جس کا نگینہ ملک حبشہ کا تھا.آپ نے عدم دلچسپی کے اظہار کے طور پر اسے لکڑی یا انگلی سے پرے کیا.پھر امامہ کو بلایا اور فرمایا بیٹی ! یہ تم پہن لو.(ابوداؤد ) 43
437 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت اسوہ انسان کامل حضرت رقیہ کے اکلوتے بیٹے عبداللہ دو سال کی عمر میں چہرے پر مرغ کے چونچ مارنے سے زخمی ہو کر وفات پاگئے تھے نبی کریم نے عبد اللہ کا جنازہ خود پڑھایا.(ابن سعد )44 حضرت ام سلمہ سے روایت ہے رسول اللہ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ تشریف لائیں ان کے صاحبزادے حسن حسین ہمراہ تھے.حضرت فاطمہ ہنڈیا میں کچھ کھانا حضور کے لئے لائی تھیں، وہ آپ کے سامنے رکھا.آپ نے پوچھا ابوالحسن یعنی حضرت علی کہاں ہیں حضرت فاطمہ نے عرض کیا کہ گھر میں ہیں.حضور نے ان کو بلا بھیجا اور پھر سب اہل بیت بیٹھ کر کھانا کھانے لگے.حضرت اُم سلمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم نے کھانے سے فارغ ہو کر ان اہل بیت کے حق میں یہ دعا کی اے اللہ ! جوان اہل بیت کا دشمن ہو تو اس کا دشمن ہو جا اور جوانہیں دوست رکھے تو اسے دوست رکھنا“.( ھیثمی )45 حضرت فاطمہ کی اولا د سے بھی نبی کریم کو بہت محبت تھی.حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کو دیکھا حضرت حسنؓ آپ کے کندھے پر تھے اور فرمارہے تھے ” اے اللہ ! اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر.“ (بخاری)46 ایک دفعہ رسول کریم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ حسن اور حسین آگئے انہوں نے سرخ قمیص پہنے تھے اور چلتے ہوئے ٹھوکریں کھا رہے تھے رسول کریم منبر سے اتر آئے اور انکو اٹھا لیا ، اپنے سامنے بٹھایا اور فرمایا اللہ نے سچ فرمایا ہے کہ تمہارے مال اور اولاد تمہارے لئے فتنہ ہے.میں نے ان دونوں بچوں کو چلتے اور گرتے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنی بات روک کر ان کو اٹھالایا.“ ( ترندی ) 47 حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ہمارے ہاں تشریف لائے.میں لیٹا ہوا تھا.حضرت حسنؓ اور حضرت حسین نے پینے کیلئے کچھ مانگا.حضوراً ٹھے، ہمارے گھر میں ایک بکری تھی جس کا دودھ دوہا جا چکا تھا.آپ اس کا دودھ دوہنے لگے تو دوبارہ بکری کو دودھ اتر آیا.حسن حضور کے پاس آئے تو حضور نے اُن کو پیچھے ہٹا دیا اور اُن کی بجائے حسین کو دودھ دیا.حضرت فاطمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ آپ کو زیادہ پیارا ہے.آپ نے فرمایا نہیں دراصل پہلے دودھ اس نے مانگا تھا.( ھیثمی )48 دوسری روایت میں ذکر ہے کہ حسنؓ نے پہلے مانگا اور حسین پہلے لینے کی ضد کرتے ہوئے رونے لگے تو نبی کریم نے پہلے حسن کو دیا اور حضرت فاطمہ کے سوال پر کہ یہ آپ ﷺ کو زیادہ پیارا ہے.فرمایا ”دونوں میرے لئے برابر ہیں.“ (حیمی )49 حضرت ابوبکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نماز پڑھتے ہوئے جب سجدہ میں جاتے تھے تو بعض دفعہ حضرت حسنؓ آپ کی پشت یا گردن پر چڑھ جاتے.حضور بہت نرمی سے ان کو پکڑ کر اتارتے تاکہ گر میں نہیں.صحابہ نے عرض کیا یا
اسوہ انسان کامل 438 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت رسول اللہ حضرت حسن کے ساتھ آپ جس طرح محبت سے پیش آتے ہیں ایسا سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں کرتے.فرمایا یہ دنیا سے میری خوشبو ہے.میرا یہ بیٹا سردار ہے جو دو گروہوں میں صلح کروائے گا.ایک اور روایت میں ہے کہ حضور سجدے کی حالت میں تھے کہ حسن پشت پر آکر بیٹھ گئے آپ نے اُن کو نہیں اتارا اور سجدے میں رہے یہاں تک کہ وہ خود اترے.(احمد) 50 حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو فرزند عطا فرمایا.اس کا نام آپ نے ابراہیم اپنے جد امجد کے نام پر رکھا.حضور کے نواسوں حسن و حسین سے بھی کم سن تھے.آخری عمر کی اس اولاد سے آپ بے حد محبت فرماتے تھے.اس بچے کو پرورش کیلئے ام سیف کے سپرد کیا گیا.نبی کریم ان کے گھر گاہے بگاہے بچے سے ملاقات کرنے اور حال دریافت کرنے تشریف لے جاتے تھے.ابراہیم کو اپنی گود میں لے کر پیار کرتے.اُسے چومتے اور اپنے ساتھ چمٹا لیتے.( بخاری )51 کم سنی میں اس بچے میں اعلیٰ صلاحیتوں کے جو ہر دیکھ کر آپ خوش ہوتے تھے.رسول اللہ کا یہ جگر گوشہ 16 ماہ کی عمر میں اللہ کو پیارا ہو گیا.اس کی وفات پر اس کی خداداد صلاحیتوں کے بارہ میں فرمایا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو سچانبی ہوتا.“ ( ابن ماجہ )52 اس پیارے بیٹے کی جدائی پر آپ نے کمال شان صبر دکھائی.ابراہیم کا جنازہ دیکھ کر آپ کی آنکھیں اشکبار تھیں.ایک صحابی نے عرض کیا حضور آپ بھی روتے ہیں.فرمایا یہ تو اولاد سے محبت کا جذبہ ہے کہ آنکھ آنسو بہاتی ہے دل غمگین ہے مگر ہم کوئی ایسی بات نہیں کہیں گے جس سے ہمارا رب ناراض ہو اور اے ابراہیم سچی بات تو یہ ہے کہ تیری جدائی پر ہم بہت غمگین ہیں.‘ ( بخاری )53 اتفاق سے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر سورج گرہن بھی ہوا.لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ رسول اللہ کے اتنے عظیم الشان بیٹے کی وفات پر سورج بھی گہنا گیا ہے.رسول کریم سے بڑھ کر صاحبزادہ ابراہیم سے کسے محبت ہو سکتی تھی مگر آپ نے یہ حق بات کھول کر بیان فرما دی کہ چاند اور سورج اللہ کے نشانات میں سے ہیں.کسی کی موت یا پیدائش پر ان کو گرہن نہیں لگا کرتا.البتہ اس نشان کو دیکھ کر اللہ سے ڈرتے ہوئے صدقہ وغیرہ دینا چاہئے.( بخاری )54 الغرض نبی کریم نے بحیثیت باپ اولاد سے حسن سلوک اور حسنِ تربیت کے لئے بہترین اور خوبصورت نمونہ پیش کیا ہے، جو ہمارے لئے مشعل راہ ہے.
اسوہ انسان کامل 439 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت حواله جات 1 ابن ماجه (33) كتاب الادب باب 3 2 مسند احمد بن حنبل جلد4ص 77 3 ابوداؤد (2) کتاب الصلاة باب 26 4 بخاری (66) کتاب المناقب باب 18 5 مسند احمد جلد 2 ص 263 6 مسلم (16) كتاب الحج باب 85 مسند احمد بن حنبل جلد 1 ص214 سنن البيهقى جلد 9 ص 126 طبعه اولی ،1326ه، مستدرك حاكم جلد3ص591 9 ابن ماجه (12) کتاب التجارات باب 46 10 دلائل النبوة للبيهقي جلد 1 ص 316 11 بخاری (81) کتاب الادب باب 18 12 بخاری (15) کتاب الصلوة باب 36 13 بخاری (55) كتاب الهبة باب 12 14 ابو داؤد (2) کتاب الصلوة باب 171 15 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 32 مطبوعه بيروت 16 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 131 17 تاريخ الصيغر امام بخاری زیر لفظ زینب 18 تاريخ الصغير از امام بخاری زیر لفظ زینب 19 بخاری (70) كتاب النکاح باب 53 20 السيره النبوية لابن هشام جز1 ص 657 مطبوعه بيروت 21 ابو داؤد (13) كتاب الطلاق باب 24 22 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 36 23 بخاری (4) کتاب الوضوء باب 30 24 مسند احمد جلد 1 ص 335 25 كنز العمال جلد 11 ص 590 مطبوعه بيروت 26 البداية والنهاية لابن اثير جز 3 ص 66 مكتبة المعارف بيروت
اسوہ انسان کامل 27 بخاری (61) کتاب الخمس باب 16 28 ابن ماجه (1) کتاب الطهارة باب 39 29 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 32 440 رسول کریم کی بچوں اور اولاد سے پدرانہ شفقت 30 سنن الكبرى للبيهقى كتاب الجنائر باب سیاق اخبار على جواز البكاء بعد الموت 31 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 8 ص 62 مطبوعه بيروت 32 كامل لابن عدی جلد 5 ص 134 33 مسند احمد جلد 5 ص 254 مطبوعه مصر 34 ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 156 35 بخاری (61) كتاب الجهاد باب 6 36 بخارى (68) كتاب التفسير سورة الكهف باب214 37 ابن ماجه (6) کتاب الجنائز باب 65 38 مسند احمد بن حنبل جلد4ص348 39 مستدرك حاكم جلد 3 ص 194 طبعه اولی 1978 بيروت 40 مجمع الزوائد لهيثمي جلد9ص291 بيروت 41 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 32 42 ابوداؤد (2) کتاب الصلوة باب 171 43 ابو داؤد (35) كتاب الخاتم باب 8 44 الطبقات الكبرى ابن سعد جلد 8 ص 36 بيروت 45 مجمع الزوائد لهيثمى جلد 9ص262 مطبوعه بيروت 46 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه باب 22 47 ترمذی(40) کتاب المناقب باب 31 48 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 9 ص 268 بيروت بحواله مسند احمد 49 مجمع الزوائد لهيثمى جلد9صفحه 271 بيروت 50 مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص37,38 51 بخاری (29) کتاب الجنائز باب42 52 ابن ماجه (6) كتاب الجنائز باب 27 53 بخاری (29) کتاب الجنائز باب42 54 بخاری (22) کتاب الكسوف باب 2
اسوہ انسان کامل 441 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ مردوں اور عورتوں اور خصوصاً میاں بیوی کے حقوق کا نزاع بہت پرانا ہے.بانی اسلام حضرت محمد نے نہ صرف اس پہلو سے کمال اعتدال اور انصاف پر مبنی تعلیم پیش فرمائی بلکہ عملی رنگ میں اُس کا بہترین نمونہ پیش کر کے دکھا دیا اور فرمایا تم میں سے سب سے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوں.“ ( ترندی ) 1 اسلام کی پاکیزہ تعلیم میں عورتوں کے حقوق کے ساتھ اُن کے فرائض کا ذکر بھی بیان کر دیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح عورتوں کے کچھ حقوق مقرر ہیں اسی طرح اُن کی کچھ ذمہ داریاں اور فرائض بھی ہیں ( لیکن گھر کا نظام قائم رکھنے کیلئے ) مردوں کو اُن پر ایک فوقیت دی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ غالب اور بڑی حکمت والا ہے.“ ( سورة البقرة: 229) دراصل مردوں اور عورتوں میں جسمانی وضع میں بھی فرق ہے.عورت کے قوامی اور صلاحیتیں بچوں کی پیدائش، پرورش اور ان کی تربیت کے لحاظ سے تخلیق ہوئے ہیں مقابلہ مرکو مضبوط قوی دیے ہیں اوراس کی ذمہ دار یاں بھی زیادہ تر گھر سے باہر کے معمولات سے متعلق ہیں اور نان و نفقہ کا انتظام اور گھر سنبھالنے کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لحاظ ہی سے اس کی صلاحیتیں رکھی گئی ہیں.آنحضور نے بھی یہ فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک اپنے دائرہ عمل میں نگران بنایا گیا ہے اور اُس سے اس کی نگرانی اور رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا.ایک مرد اپنے گھرانے میں اور اپنے خاندان کے لوگوں کے اُوپر نگران ہوتا ہے اور ایک عورت اپنے خاوند کے گھر اور اپنی اولاد کی تربیت کی نگران ہوتی ہے.اور تم میں سے ہر ایک سے اُس کی نگرانی کے بارہ میں پوچھا جائے گا.“ اب دیکھو کس طرح اسلام نے عورت کو ملکہ بنا کر گھر میں ایک تخت پر بٹھا دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے گھر کی ذمہ داریاں ادا کرنے والی، اپنے بچوں کو سنبھالنے والی، اپنے خاوند کے گھر اور خاندان کی ایک مکمل اور با اختیار نگران ہے لیکن نظام کسی منتظم کے بغیر چل نہیں سکتا اس لئے مرد کا یہ فرض اور ذمہ داری ٹھہرائی کہ وہ گھر کے اخراجات اور باہر کی ذمہ داریاں بھی ادا کرتا رہے اور کمزور صنف کی تربیت کیلئے اسے نگران بھی مقرر کیا اور فرمایا کہ اس پہلو سے ہم نے مردوں کو عورتوں پر نگران مقرر فرمایا ہے.“ (سورۃ النساء : 35 ) آج کل مرد عورت کے مساوی حقوق کے علم بردار بھی عملی طور پر مجبور عورتوں کی کھیلیں عورتوں کے ساتھ اور مردوں
442 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل کے مقابلے مردوں کے ساتھ کرواتے ہیں اور کبھی میدان جنگ میں مردوں کی بجائے عورتوں کو نہیں بھجواتے.اس فرق کے باوجود مرد عورت کی برابری کا سوال اٹھا نا محض افراط و تفریط کی راہ ہے.آنحضور ﷺ نے عورت میں ناز و نخرے کی طبعی اور جیبی کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرمایا کہ عورت کی پیدائش پسلی سے ہوئی یعنی اُس کی طبیعت اور مزاج میں ایک کبھی اور نزاکت ہے جو طبعاً پائی جاتی ہے.اگر تم اس کو ایک طریق پر سیدھا چلانا چاہوتو یہ مکن نہیں.لیکن اگر تم اُس کی کبھی کی کیفیت ناز و ادا کے ساتھ اس سے فائدہ اٹھانا چاہو تو یقیناً بہت زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہو.لیکن اگر اسے سیدھا کرنا چاہو گے تو توڑ بیٹھو گے.یعنی اس کا آخری انجام طلاق کے سوا کیا ہوگا.( مسلم )2 آنحضور ﷺ نے میاں بیوی کو ایثار کا پہلو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے میں خوبیاں تلاش کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر تم میں سے کسی کو دوسرے میں کوئی عیب نظر آتا ہے یا اُس کی کوئی ادا نا پسند ہے تو کئی باتیں اسکی پسند بھی ہونگی جو اچھی بھی لگیں گی، اُن کو مدنظر رکھ کر ایثار کا پہلو اختیار کرتے ہوئے موافقت کی فضا پیدا کرنی چاہیے.(مسلم)3 حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق قرآن شریف کی اس پاکیزہ تعلیم کے عین مطابق تھے اور آپ کی بعثت کا بڑا مقصد ہی ان اعلیٰ اخلاق کا قیام تھا.(احمد )4 نان و نفقہ کی ذمہ داری آنحضور کا نمونہ گھریلو زندگی میں ہر لحاظ سے مثالی اور بہترین تھا.آپ اپنے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا بطور خاص اہتمام فرماتے تھے.ہر چند کہ آپ کے گھر میں وہ دن بھی آئے جب دو دو ماہ تک چولہے میں آگ نہ جلی اور صرف پانی اور کھجور پر گزارا رہا.( بخاری )5 رسول کریم اپنے اہل خانہ کوحتی المقدور قوت لایموت نہ صرف مہیا فرماتے تھے بلکہ اپنی ذات سے زیادہ اہل خانہ کا فکر فرمایا کرتے تھے.خود بسا اوقات کھانا نہ ہونے کی صورت میں روزہ کی نیت فرمالیتے تھے.ایسے دن بھی آپ پر آئے جب سخت فاقے سے نڈھال ہو کر بھوک کی شدت روکنے کے لئے پیٹ پر سلیں باندھنی پڑیں لیکن اہل خانہ کا اپنے سے بڑھ کر خیال رکھتے اور بوقت وفات بھی اپنی بیویوں کے نان و نفقہ کے بارے میں تاکیدی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کا خرچہ ان کو با قاعدگی کے ساتھ ادا کیا جائے.( بخاری )6 آپ اکثر یہ دعا کرتے ”اے اللہ میرے اہل کو دنیا میں قوت لایموت ضرور عطا فرمانا.یعنی کم از کم اتنی غذا ضرور دینا کہ فاقوں نہ مریں.( احمد )7
اسوہ انسان کامل نرم خو ، نرم زبان 443 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ جہاں تک اہل خانہ سے آپ کے حسن سلوک کا تعلق ہے آپ نے کبھی گھر والوں کو برا بھلا نہیں کہا، گالی نہیں دی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص کی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کا بڑے دکھ کے ساتھ ذکر فرما رہے تھے.اتنے میں وہ شخص ملنے آگیا.آپ اس کے ساتھ بہت نرمی اور ملاطفت سے پیش آئے.میں نے پوچھا کہ ابھی تو آپ اس کی بدسلوکی کا تذکرہ فرمارہے تھے.پھر اس کے ساتھ اس قدر نرم کلامی کیوں اختیار کی.آپ نے ایک جملہ میں نہ صرف حضرت عائشہ کی حیرت کا جواب دے دیا بلکہ خوش گفتاری کی اپنی دائی صفت پر خود حضرت عائشہ کو گواہ ٹھہراتے ہوئے کیا خوب فرمایا " يَا عَائِشَةُ مَتَى عَاهَدْتَنِي فَعَاشًا اے عائشہ اس سے پہلے میں نے کب کسی سے بد کلامی کی ہے جو آج کرتا.حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کبھی کوئی درشت کلمہ اپنی زبان پر نہ لائے.( بخاری )8 حضرت عائشہ کی شہادت گھر یلو زندگی کے بارہ میں یہ ہے کہ نبی کریم تمام لوگوں سے زیادہ نرم خو تھے اور سب سے زیادہ کریم عام آدمیوں کی طرح بلا تکلف گھر میں رہنے والے.آپ نے کبھی تیوری نہیں چڑھائی ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.نیز آپ فرماتی ہیں کہ اپنی ساری زندگی میں آنحضرت ﷺ نے کبھی اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی کسی خادم کو مارا.(ترندی) حضرت خدیجہ پر آپ کے اخلاق کریمہ کا اثر آنحضرت ﷺ کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ وہ عظیم خاتون تھیں جنھوں نے رسول کریم ﷺ کے اخلاق عالیہ سے ہی متاثر ہو کر آپ گوشادی کا پیغام بھیجا تھا.شادی کے بعد بھی آپ کے اخلاق کریمہ کا ہی اثر تھا کہ حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال اور سب غلام آنحضرت ﷺ کی نذر کر دیئے اور نبی کریم نے ان سب غلاموں کو آزاد کر دیا.(ابن ھشام ) 10 حضرت خدیجہ کی فدائیت کا یہ عالم تھا کہ وہ کبھی اپنے مال کی اس بے دریغ تقسیم پر کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں لا ئیں.آپ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ آپ کی تعریف میں رطب اللسان ہی رہیں اور جب تک زندہ رہیں مکہ کے شدید دور ابتلا میں آپ کی سپر اور پناہ بن کر رہیں.رسول کریم ﷺ کے ساتھ قریباً پندرہ برس کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد پہلی وحی کے موقع پر انہوں نے حضور ہے کے حسن معاشرت کے بارے میں جو گواہی دی وہ بی تھی.خدا تعالیٰ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ،رشتہ داروں سے حسن سلوک فرماتے ہیں اور مہمان نواز ہیں.“ ( بخاری ) 11 حضرت خدیجہ کی قدردانی ہمارے آقا و مولی ہے کی اہلی زندگی میں ایک نمایاں خلق یہ بھی نظر آتا ہے کہ آپ بیویوں کے نیک اوصاف کی
اسوہ انسان کامل 444 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ بہت قدر فرماتے تھے.چنانچہ حضرت خدیجہ کے ایثار و فدائیت اور وفا کی ان کی زندگی میں بھی ہمیشہ پاسداری کی.اور وفات کے بعد بھی کئی سال تک آپ نے دوسری بیوی نہیں کی.ہمیشہ محبت اور وفا کے جذبات کے ساتھ حضرت خدیجہ کا محبت بھرا سلوک یاد کیا.آپ کی ساری اولا د حضرت خدیجہ کے بطن سے تھی اس کی تربیت و پرورش کا آپ نے خوب لحاظ رکھا.نہ صرف ان کے حقوق ادا کئے بلکہ حضرت خدیجہ کی امانت سمجھ کر ان سے کمال درجہ محبت فرمائی.آپ دیتی ہے حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ کی آواز کان میں پڑتے ہی کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے اور خوش ہو کر فرماتے خدیجہ کی بہن ہالہ آئی ہیں.گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو اس کا گوشت حضرت خدیجہ کی سہیلیوں میں بھجوانے کی تاکید فرماتے.( مسلم )12 الغرض آپ حضرت خدیجہ کی وفاؤں کے تذکرے کرتے تھکتے نہ تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں ” مجھے نبی کریم کی کسی دوسری زندہ بیوی کے ساتھ اس قدر غیرت نہیں ہوئی جتنی حضرت خدیجہ سے ہوئی حالانکہ وہ میری شادی سے تین سال قبل وفات پا چکی تھیں.( بخاری 13 فرماتی تھیں کہ کبھی تو میں اُکتا کر کہ دیتی یا رسول اللہ.خدا نے آپ کو اس قدر اچھی اچھی بیویاں عطا فرمائی ہیں اب اس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں.آپ فرماتے نہیں نہیں.خدیجہ اس وقت میری ساتھی بنی جب میں تنہا تھا وہ اس وقت میری سپر بنی جب میں بے یار و مددگار تھا.وہ اپنے مال کے ساتھ مجھ پر فدا ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے اولاد بھی عطا کی.انہوں نے اس وقت میری تصدیق کی جب لوگوں نے جھٹلایا.(مسند احمد ) 14 حضرت سودہ سے شادی حضرت خدیجہ جیسی وفا شعار ساتھی اور مشیر وزیر کی وفات سے نبی کریم کوسخت صدمہ پہنچا تھا.اسی سال آپ کے چا ابو طالب کی بھی وفات ہوئی تھی.یہی وجہ ہے کہ اسلامی تاریخ میں یہ سال عام الحزن کے نام سے مشہور ہے.یہ دونوں با برکت وجود ہمارے آقا و مولاً کیلئے ظاہری تسکین اور ڈھارس کا موجب ہوتے تھے ان کی جدائی سے پیدا ہو نیوالے خلاء کے نیتجے میں آپ کی تنہائی اور اداسی ایک طبعی امر تھا جسے آپ کے قریبی ساتھی بشدت محسوس کرتے تھے.اس خلاء کا پر کیا جانا مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے بہت اہم تھا.اللہ تعالیٰ حضرت خولہ بنت حکیم کو جزا عطا فرماتا رہے.جنہوں نے مسلمانوں کی نمائندہ بن کر رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد آپ بہت تنہا اداس ہو گئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں خر وہ میرے بچوں کی ماں تھیں اور گھر کی مالکہ.( زرقانی 15 ) اس پر حضرت ام حکیم نے شادی کی تحریک کرتے ہوئے بعض رشتے بھی تجویز کئے.نبی کریم نے نسبتاً ایک معمر بیوہ خاتون حضرت سودہ کی تجویز پسند کرتے ہوئے انہیں عقد میں لینا قبول فرمایا، تا کہ وہ حضور کے گھر میلو انتظام اور آپ کی نو عمر صاحبزادیوں کی کفالت کے اہتمام میں ممد و معاون ہوں.
اسوہ انسان کامل 445 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ حضرت سودہ سے حسن سلوک حضرت سودہ بہت سادہ طبیعت کی تھیں.وہ دین العجائز یعنی بوڑھیوں والا مسلک رکھتی تھیں یعنی نیکی اور بھلائی کی جو بات سنی اس پر مضبوطی سے جم گئیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ یہ خری حج ہے اس کے بعد شائد ملاقات نہ ہو.ظاہر ہے حضور کا اشارہ اپنی ذات سے تھا مگر حضرت سودہ اس کی ایسی لفظی پابندی فرماتی تھیں کہ نبی کریم کی وفات کے بعد اس ارشاد کی وجہ سے حج پر تشریف نہیں لے گئیں.(زرقانی ) 16 سادگی کا یہ عالم تھا کہ جن دنوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے بارے میں خبریں بیان فرما ئیں ، امت کو اس سے ڈرایا اور ابن صیاد کے بارہ میں دجال کا شبہ ظاہر فرمایا تو حضرت سودہ دجال کی باتیں سن کر اس سے سخت خوفزدہ ہوتی تھیں.ایک دن جو یہ ذکر ہوا کہ دجال ظاہر ہو گیا ہے تو حضرت سودہ فوراً چار پائی کے نیچے جا چھپیں.وہ اپنی سادہ لوحی کی ایسی باتوں سے نبی کریم کو بعض دفعہ خوب ہنساتی تھیں.ایک دفعہ ان کو نبی کریم کے ساتھ رات کے وقت عبادت کرنے کا جو شوق ہوا تو حضور کے ساتھ نماز تہجد میں کھڑی ہو گئیں حضور نے اپنے معمول کے مطابق لمبی نماز پڑھی.حضرت سودہ حضور کے ساتھ بمشکل ایک رکعت ہی ادا کر سکیں کیونکہ جسم خاصہ بھاری تھا.بعد میں نبی کریم کی خدمت میں نہایت سادگی سے عرض کیا کہ رات میں نے آپ کے پیچھے تہجد کی نما ز شروع کی.بس ایک رکعت ہی پڑھ سکی باقی تھک ہار کر چھوڑ دی کیونکہ مجھے تو نکسیر پھوٹ پڑنے کا خوف دامنگیر ہو چلا تھا.( زرقانی) 17 ایک دفعہ حضرت عائشہؓ نے حریرہ بنایا جو حضرت سودھ کو پسند نہیں آیا.حضرت عائشہ نے ان سے کھانے کے لئے اصرار کیا مگر وہ نہ مانیں حضرت عائشہ کو کیا سو بھی کہ اپنے محبت بھرے اصرار کے انکار پر وہ مالیدہ حضرت سودہ کے منہ پر لیپ کر دیا.نبی کریم یہ دیکھ کر محفوظ بھی ہوئے مگر یہ عادلانہ فیصلہ فرمایا کہ حضرت سودۃ کو بدلہ لینے کا پوراحق ہے اور یہ چاہیں تو حضرت عائشہ کے منہ پر وہی مالیدہ مل سکتی ہیں.حضرت سودہ نے بدلہ لیتے ہوئے مالیدہ حضرت عائشہ کے منہ پر مل دیا اور رسول اللہ یہ دیکھ کر مسکراتے رہے.( ھیثمی ) 18 حضرت عائشہ کو حضرت سودہ کی مرنجاں مرنج سادہ اور صاف دل طبیعت بہت پسند تھی فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام لوگوں سے بڑھکر حضرت سودھ کی بھولی ادائیں ایسی بھلی معلوم ہوتی ہیں کہ بعض دفعہ انہیں اپنانے کو جی چاہتا ہے.البتہ حضرت سودہ کی طبیعت میں کچھ تیزی بھی تھی مگر غصہ بہت جلد دور ہو جاتا تھا.( زرقانی )19 شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت سودہ نے اپنے بڑھاپے اور بیماری کے باعث محسوس کیا کہ گھریلو ذمہ داریوں کی ادا ئیگی ان پر بوجھ ہے.اور ازدواجی تعلق کی انہیں حاجت نہیں رہی مگر یہ دلی تمنا ضرور تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے با برکت عقد تا دم حیات قائم رہے.انہوں نے از خود نبی کریم کی خدمت میں درخواست کی کہ مجھے دیگر از واج سے مقابلہ
446 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل کی کوئی تمنا نہیں صرف اتنی خواہش ہے کہ قیامت کے روز آپ کی بیویوں میں میرا حشر ہو.آپ سے علیحدگی نہیں چاہتی تا ہم اپنے حقوق حضرت عائشہ کے حق میں چھوڑتی ہوں بے شک میری باری ان کو دے دی جائے.نبی کریم ﷺ نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ان کی یہ تجویز قبول فرمالی، مگر ان کے جملہ اخراجات وغیرہ حسب سابق ادا ہوتے رہے.(زرقانی) 20 مدنی دور میں آنحضرت مے کو تربیتی و قومی ضروریات کی بنا پر متعد د شادیاں کرنی پڑیں اور بیک وقت نو بیویاں تک آپ متے کے گھر میں رہیں مگر کبھی ان کی ذمہ داریوں سے گھبرائے نہیں بلکہ نہایت حسن انتظام اور کمال اعتدال اور عدل وانصاف کے ساتھ سب کے حقوق ادا کئے اور سب کا خیال رکھا.آپ نماز عصر کے بعد سب بیویوں کواس بیوی کے گھر میں اکٹھا کر لیتے جہاں آپ کی باری ہوتی تھی.یوں سب سے روزانہ اجتماعی ملاقات ہو جاتی تھی.ہر چند کہ آٹھ دن کے بعد ایک بیوی کی باری آتی تھی.مگر آنحضرت کی محبت و شفقت ایسی غالب تھی کہ ہر بیوی کو آپ کی رفاقت پر ناز تھا.وہ ہر حال میں رسول خدا کے ساتھ راضی اور خوش رہتی تھیں.ان نو بیویوں میں سے کبھی کسی بیوی نے علیحدگی کا مطالبہ نہیں کیا.کبھی کوئی ناراض ہو کر آپ سے عارضی طور پر بھی جدا نہیں ہوئی.فتوحات وغنائم کے دور میں بیویوں کے بعض دنیوی مطالبات کے جواب میں جب سورۃ احزاب کی آیت تخییر اتری جس میں بیویوں کو مال و دولت اور اپنے حقوق لے کر رسول کریم ﷺ سے علیحدہ ہو جانے کا اختیار دیا گیا اور ارشاد ہوا کہ يأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ إِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعُكُنَّ وَ أُسَرِحُكُنَّ سَرَاحَاً جميلا ( الاحزاب (29) یعنی اے ازواج ! اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی خواہاں ہو تو آؤ میں تمہیں دنیوی متاع دیگر جدا کر کے عمدگی سے رخصت کر دیتا ہوں.اور اگر اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرنا چاہتی ہو تو ایسی نیک عورتوں کے لیے اللہ نے بڑا اجر مقرر کر چھوڑا ہے.اس حکم کے نازل ہونے پر رسول کریم ﷺ نے باری باری سب بیویوں سے ان کی مرضی پوچھی کہ وہ حضور کے ساتھ فقر و غربت میں گزارہ کرنا پسند کرتی ہیں یا جدائی چاہتی ہیں تو سب بیویوں نے بلا توقف یہی مرضی ظاہر کی کہ وہ کسی حال میں بھی رسول خدا کو چھوڑ نا گوارا نہیں کرتیں.سب سے پہلے جب آنحضرت نے حضرت عائشہ کو یہ اختیار دے کران کی رائے لینا چاہی تو اس خیال سے کہ نوعمر ہیں کہیں عجلت سے کوئی غلط فیصلہ نہ کر بیٹھیں.یہ نصیحت بھی فرمائی کہ اے عائشہ ایک نہایت اہم اور نازک معاملے میں تمہیں حسب حکم الہی جو اختیار دینے والا ہوں اس کے بارے میں فیصلہ سوچ سمجھ کر اور والدین سے مشورہ کے بعد کرنا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا خود بے شک نو عمر تھیں مگر ان کا جواب کیسا کہنہ مشق اور کیا خوب تھا کہ یا رسول اللہ میں کس بارے میں اپنے ماں باپ سے مشورہ کروں گی ؟ کیا خدا کے رسول سے جدائی اختیار کرنے کے بارے میں صلاح کروں گی؟ حضرت عائشہ بڑے ناز سے فرمایا کرتی تھیں کہ شاید رسول اللہ نے مجھے ماں باپ سے مشورہ کرنے کو اس لئے کہا تھا کہ آپ جانتے تھے کہ میرے والدین مجھے ہرگز رسول خدا سے جدا ہونے کا
اسوہ انسان کامل 447 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ مشورہ نہ دیں گے.(بخاری) 21 خانگی امور کی بجا آوری بیویوں کی اس فدائیت کی وجہ در اصل آنحضرت اللہ کا ان کے ساتھ بے تکلف رہن سہن اور حسن سلوک ہی تھا، باوجود یکہ تمام دنیا کی ہدایت اور ایک عالم تک پیغام حق پہنچانے کی کٹھن ذمہ داری آپ کے نازک کندھوں پر تھی.بندوں کے حق ادا کرنے کے علاوہ آپ کو اپنے مولیٰ کی عبادت کا حق بھی پورا کرنا ہوتا تھا لیکن حیرت ہے گھر کے کام کاج میں دوسری ذمہ داریوں کی وجہ سے کوئی کمی واقع نہیں ہونے دیتے تھے.آپ گھریلو کام کاج کو بھی اتنا ہی اہم سمجھتے تھے جیسا کہ دوسری ذمہ داریوں کو.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر پر ہوتے تھے گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نماز کا بلاوا آتا اور آپ مسجد تشریف لے جاتے.( بخاری )22 کسی نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ آنحضرت ﷺ گھر میں کیا کیا کرتے تھے.فرمانے لگیں آپ تمام انسانوں کی طرح ایک انسان تھے کپڑے کو خود پیوند لگا لیتے تھے بکری خود دوہ لیتے تھے اور ذاتی کام خود کرلیا کرتے تھے.(احمد 23 ) اسی طرح انہوں نے بیان کیا کہ آپ اپنے کپڑے خو دسی لیتے تھے، جوتے ٹانک لیا کرتے تھے اور گھر کا ڈول وغیرہ خود مرمت کر لیتے تھے.(احمد 24 ) رات کو دیر سے گھر لوٹتے تو کسی کو زحمت دینے یا جگائے بغیر کھانا یا دودھ خود تناول فرمالیتے.(مسلم) 25 بیویوں میں عدل رسول کریم کوشش فرماتے کہ تمام بیویوں کے حقوق کی ادائیگی میں سرمو فرق نہ آئے.جنگوں میں جاتے ہوئے بیویوں میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرماتے تھے اور جس کا قرعہ نکلتا اس کو ہمراہ لے جاتے تھے.( بخاری )26 هر چند که آیت تُرْجِيُ مَنْ تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُوَى إِلَيْكَ مَنْ تَشَاءُ“ (سورۃ الاحزاب:52) کے مطابق آپ کو اختیار تھا کہ بیویوں میں سے آپ سجس کو چاہیں اس کی باری مؤخر کر دیں اور جسے چاہیں پہلے باری دے کر اپنے ہاں جگہ دیں.پھر بھی زندگی میں ایک دفعہ بھی آپ نے یہ اختیار استعمال نہیں فرمایا کہ بلاوجہ معمول کی باریوں میں کوئی تفریق کی ہو.حضرت عائشہ اپنے خاص انداز محبت میں عرض کیا کرتی تھیں کہ اگر یہ اختیار مجھے ہوتا تو میں تو صرف آپ کے حق میں ہی استعمال کرتی.( بخاری )27 بیویوں کے درمیان آنحضرت ﷺ کے انصاف کا یہ عالم تھا کہ آخری بیماری میں بھی جب ازدواجی حقوق کی ادائیگی کی بجائے آپ کی تیمارداری کا سوال کہیں زیادہ اہم تھا.اس وقت بھی آپ نے اس دلی خواہش کے باوجود کہ
448 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل حضرت عائشہ ” جیسی مزاج شناس بیوی آپ کی تیمارداری کرے آپ نے باری کی تقسیم مقدم رکھی.البتہ حضرت عائشہ کی باری کی تمنا کرتے ہوئے بار بار پوچھتے ضرور رہے کہ کل میری باری کہاں ہے؟ یہاں تک کہ بیویوں نے خود ہی عائشہ کے گھر میں آپ کو تیمار داری کی اجازت دی.( بخاری )28 الغرض ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ جو تقویٰ کے بلند اور روشن مینار پر فائز تھے.بسا اوقات اس خیال سے کہ دل کے جذبوں اور طبعی میلان پر تو کوئی اختیار نہیں اس لئے اگر سب بیویوں کے برابر حقوق ادا کرنے کے بعد بھی میلان طبع کسی بیوی کی جانب ہو گیا تو کہیں میرا مولیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے.اتنے مخلصانہ عدل اور منصفانہ تقسیم کے بعد بھی آپ یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ تو جانتا ہے اور دیکھتا ہے کہ انسانی حد تک جو برابر منصفانہ تقسیم ہوسکتی تھی وہ تو میں کرتا ہوں اور اپنے اختیار سے بری الذمہ ہوں.میرے مولیٰ اب دل پر تو میرا اختیار نہیں اگر قلبی میلان کسی کی خوبی اور جو ہر قابل کی طرف ہے تو تو مجھے معاف فرمانا.(ابوداؤد ) 29 محبت والفت کی ادائیں اسلام سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدار رہنا پڑتا تھا.خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو درکنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے.(مسلم ) 30 آنحضرت ﷺ نے اس معاشرتی برائی کو دور کیا اور آپ کی شریعت میں یہ حکم اترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہر گز منع نہیں.(سورۃ البقرہ: 223) چنانچہ آنحضور بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا اور زیادہ لحاظ فرماتے.ان کے ساتھ مل بیٹھتے.بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایام مخصوصہ میں بھی بسا اوقات ایسا ہوتا کہ میرے ساتھ کھانا تناول کرتے ہوئے حضور گوشت کی ہڈی یا بوٹی میرے ہاتھ سے لے لیتے اور بڑی محبت کے ساتھ اس جگہ منہ رکھ کر کھاتے جہاں سے میں نے اسے کھایا ہوتا تھا.میں کئی دفعہ پانی پی کر برتن حضور کو پکڑا دیتی تھی.حضور وہ جگہ ڈھونڈ کر جہاں سے میں نے پانی پیا ہوتا تھا وہیں منہ رکھ کر پانی پیتے تھے.(ابوداؤد 31 ) اور یہ آپ کے پیار کا ایک انوکھا اور ادنی سا اظہار ہوتا تھا.بیماری میں اہل خانہ کا خیال بیویوں میں سے کوئی بیمار پڑ جاتی تو آپ بذات خود اس کی تیمارداری فرماتے.تیمارداری کا یہ سلوک کس قدر نمایاں اور نا قابلِ فراموش ہوتا تھا اس کا اندازہ حضرت عائشہ کی ایک روایت سے ہوتا ہے.آپ فرماتی ہیں کہ واقعہ افک میں الزام لگنے کے زمانہ میں ، اتفاق سے میں بیمار پڑ گئی.تو اس وقت تک مجھے اپنے خلاف لگنے والے الزامات کی کوئی خبر نہ تھی ، البتہ ایک بات مجھے ضرور کھنکتی تھی کہ ان دنوں میں میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے محبت اور شفقت بھرا تیمارداری
449 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل کا وہ کریمانہ سلوک محسوس نہیں کرتی تھی جو اس سے پہلے کبھی بیماری میں آپ فرمایا کرتے تھے.واقعا فک کے زمانہ میں تو بس اتنا تھا کہ آپ میرے پاس آتے سلام کرتے اور یہ کہ کر کہ کیسی ہو؟ واپس تشریف لے جاتے.اس سے مجھے سخت تکلیف ہوتی تھی کہ پہلے تو بیماری میں بڑے ناز اٹھاتے تھے اب ان کو کیا ہو گیا ہے؟ ( بخاری )32 حضرت عائشہ کی دلداریاں یوں تو آپ سب بیویوں کی دلداری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے.مگر حضرت عائشہ کم سنی کے علاوہ زیر کی ، ذہانت اور مزاج شناس ہونے کی وجہ سے آپ کی شفقت کا خاص مورد ہوتی تھیں.فرمایا کرتے تھے کہ عائشہ کی فضیلت باقی بیویوں پر ایسے ہے جیسے ثرید یعنی گوشت والے کھانے کو دوسرے کھانے پر.بعض دفعہ بیویوں نے اس پر احتجاج کیا تو فرمایا کہ بیویوں میں سے صرف عائشہ ہی ہے جن کے بستر میں بھی مجھے وحی ہو جاتی ہے.یعنی اس کے ساتھ خدا کا سلوک بھی نرالا ہے.( بخاری )33 حضرت عائشہ کی نو عمری کی وجہ سے بھی ان کے ساتھ حسن سلوک تھا، حضرت عائشہ خود بیان فرماتی ہیں کہ شادی کے بعد بھی میں آنحضرت کے گھر میں گڑیاں کھیلا کرتی تھی.میری کچھ سہیلیاں میرے ساتھ کھیلنے آتی تھیں.حضور کیا ہے گھر میں تشریف لاتے تو وہ آپ کے رعب سے بھاگ جاتیں.حضور میری خاطر ان کو اکٹھا کر کے واپس گھر لے آتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتی رہتیں.( بخاری )34 پیروں والا گھوڑا رسول کریم ﷺ بیویوں کے ساتھ ان کی دلچسپی اور ان کے معیار کے مطابق باتیں کرنا پسند فرماتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ہم کمرے میں تھے ہوا کا جھونکا آیا تو الماری کا وہ پردہ ہٹ گیا جس کے پیچھے میری کھیلنے کی گڑیاں رکھی تھیں.رسول کریم و دیکھ کر فرمانے لگے.عائشہ یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا حضور میری گڑیاں ہیں.حضور اس توجہ سے یہ سب کچھ ملاحظہ فرمارہے تھے کہ گڑیوں کے درمیان میں چمڑے کے دو پروں والا جو ایک گھوڑا آپ نے دیکھا اس کے بارے میں پوچھا کہ عائشہ ان گڑیوں کے درمیان میں کیا رکھا ہے.میں نے کہا گھوڑا ہے.آپ پروں کی طرف اشارہ کر کے فرمانے لگے.اس کے اوپر کیا لگا ہے میں نے کہا اس گھوڑے کے دو پر ہیں.تعجب سے فرمانے لگے گھوڑے کے دو پر ؟ میں نے کہا آپ نے سنا نہیں کہ سلیمان کے گھوڑوں کے پر ہوتے تھے.اس پر آنحضرت ہنسے اتنا ہنسے کہ مجھے آپ کے دانت نظر آنے لگے.(ابوداؤد ) 35 ہار کی گمشدگی سفر میں جو بیوی بھی ہمراہ ہوتی رسول کریم ﷺے اس کے آرام اور دلداری کا خاص خیال رکھتے.روایات میں
اسوہ انسان کامل 450 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ حضرت عائشہ کا ہار ایک سے زیادہ مرتبہ گم ہونے کا ذکر ملتا ہے.ایک ایسے ہی موقعے پر آنحضرت نے کمال شفقت سے حضرت عائشہ کے ہار کی تلاش میں کچھ لوگ بھجوائے.اسلامی لشکر کو اس جگہ پڑاؤ کرنا پڑا جہاں پینے کے لئے پانی میسر تھا نہ وضو کے لئے.ایسی صورت میں حضرت عائشہ کے والد حضرت ابو بکر بھی ان سے ناراض ہو گئے اور سختی سے فرمانے لگے.عائشہ ؟ تم ہر سفر میں ہی مصیبت اور تکلیف کے سامان پیدا کرتی ہو." ( الحلبیہ ( 36 مگر آنحضرت نے کبھی ایسے موقع پر حضرت عائشہ کو جھڑ کا تک نہیں خواہ ان کی وجہ سے آپ کو پورے لشکر کے گوچ کا پروگرام بدلنا پڑا اور تکلیف بھی اٹھانی پڑی.گھر میں تو دلداری کے ایسے نظارے اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتے تھے.عید کی رونق عید کا دن ہے حضرت عائشہ کے گھر میں کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بعاث کے نغمے گا رہی ہیں.اتنے میں حضرت ابو بکر تشریف لاتے ہیں اور اپنی بیٹی حضرت عائشہ کو ڈانٹتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ گانا بجانا کیسا؟ آنحضرت یہ حضرت عائشہ کی طرفداری کرتے ہوئے فرماتے ہیں اے ابوبکر ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے آج مسلمانوں کی عید ہے ان بچیوں کو خوشی کر لینے دو.( بخاری ) 37 ایک اور عید کے موقع پر اہل حبشہ مسجد نبوی کے وسیع دالان میں جنگی کرتب دکھا رہے تھے.رسول اللہ حضرت عائشہ سے فرماتے ہیں کہ کیا تم بھی یہ کرتب دیکھنا پسند کرو گی اور پھر ان کی خواہش پر انہیں اپنے پیچھے کھڑا کر لیتے ہیں.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں دیر تک آپ کے پیچھے کھڑی رہی اور آپ کے کندھے پر ٹھوڑی رکھے آپ کے رخسار کے ساتھ رخسار ملا کے یہ کھیل دیکھتی رہی آپ میرا بوجھ سہارے کھڑے رہے.یہاں تک کہ میں خود تھک گئی.آپ فرمانے لگے اچھا کافی ہے تو پھر اب گھر چلی جاؤ.( بخاری )38 حضرت عائشہ یہ واقع سنا کر فرمایا کرتی تھیں کہ نوعمر لڑکیوں کو کھیل تماشا کا شوق ہوتا ہے.دیکھو آنحضرت ﷺ ان کے جذبات کا کتنا لحاظ رکھتے تھے اور ان کی ہر جائز خواہش پورا کرنے میں کوئی تامل نہیں فرماتے تھے.ہر چند کہ عائشہ سے شادی کے وقت عمروں کا تفاوت چالیس برس سے بھی زائد تھا جو بہت سنجیدگی اور تکلف پیدا کر سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا.آپ نے حضرت عائشہ کی دل لگی اور ناز برداری کے لئے کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ رسول کریم گھر میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ہم نے باہر کچھ شور اور بچوں کی آوازیں سنیں.رسول کریم نے جا کر دیکھا تو ایک حبشی عورت رقص کر رہی تھی.اور بچے اس کے گرد تھے.رسول کریم نے مجھے فرمایا عائشہ ؟ تم بھی آکر دیکھ لو.میں آکر اپنی ٹھوڑی رسول اللہ کے کندھے پر رکھی اور دیکھنے لگی.کچھ دیر بعد حضور پوچھتے اب دیکھ چکی ہو؟ بس کافی ہے؟ میں کہہ دیتی نہیں ابھی اور دیکھوں گی.اور میرے دل میں تھا کہ دیکھوں تو سہی یہ کتنا میرے ناز اٹھاتے ہیں.اتنے میں حضرت عمرؓ آگئے تو بچے بالے ان کو دیکھ کر بھاگ گئے.رسول کریم نے فرمایا :.
اسوہ انسان کامل 451 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ لگتا ہے انسانوں اور جنوں میں سے تمام شیطان عمر کے خوف سے بھاگتے ہیں.( ترمذی ) 39 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں جب کبھی غصہ میں آجاتی.رسول کریم اپنا ہاتھ میرے کندھے پر رکھ کر دعا کرتے.اللَّهُمَّ اغْفِرْلَهَا ذَنْبَهَا وَاذْهِبُ غَيْظَ قَلْبِهَا وَاعِدُهَا مِنَ الْفِتَنِ.اے اللہ !عائشہ کے گناہ بخش دے اور اس کے دل کا غصہ دور کر دے اور اسے فتنوں سے بچالے.دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے غصے ہونے پر حضور ان کی ناک پکڑ کر فرماتے اے ٹویش ( چھوٹی سی عائشہ) یہ دعا کرو.اَللَّهُمَّ رَبَّ النَّبِيِّ مُحَمَةٍ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي وَاذْهِبْ غَيْظَ قَلْبِي وَاَجِرْنِي مِنْ مُضِلَّاتِ الْفِتَنِ کہ اے اللہ! نبی محمد کے رب! میرے گناہ مجھے بخش دے اور میرے دل کا غصہ دور کر دے اور مجھے گمراہ کن فتنوں سے بچالے.( ابن جوزی) 40 کہانیوں کی بے تکلف مجلس رسول کریم عائشہ کا دل بہلانے کے لئے ہمیں کہانیاں سناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں.ایک دفعہ آپ نے حضرت عائشہ کو تیرہ عورتوں کی کہانی بھی سنائی، جنہوں نے ایک دوسرے کو اپنے خاوندوں کے کچے چٹھے خوب کھول کر سنائے مگر ایک عورت ام زرعہ جسے کہانی کے مطابق اس کے خاوند ابوزرعہ نے بعد میں طلاق دے کر اور شادی کر لی تھی.اس نے اپنے خاوند کی جی بھر کر تعریف کی کہ اس نے مجھے ہر قسم کا آرام پہنچایا اور کھانے کے لئے وافر دیا اور کہا خود بھی کھاؤ اور اپنے والدین کو بھی بھجواؤ.حضرت عائشہ فرماتی ہیں پھر رسول کریم نے فرمایا کہ میری اور عائشہ کی مثال ابوزرعہ کی سی ہے.تم میری ام زرعہ ہو اور میں تمھارا بوزرعہ ہوں.( بخاری ) 41 دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ اپنے باپ حضرت ابوبکر کے جاہلیت کے مال و دولت پر فخر کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس کئی لاکھ درہم تھے.رسول کریم فرمانے لگے.اے عائشہ ! رہنے بھی دو.میں تمہارے لئے ایسے ہوں جیسے کہانی میں ابوزرعہ ائم زرعہ کے لئے تھا.اس پر حضرت عائشہ نے عرض کیا نہیں یا رسول اللہ آپ میرے لئے ابوزرعہ سے کہیں بہتر ہیں.(حیمی )42 ایک رات حضور نے بیویوں کو کوئی بات سنائی.تو ایک بیوی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے عرب محاورہ کے مطابق عرض کیا ایسے لگتا ہے کہ یہ خرافہ والی بات ہے یعنی بے سروپا کہانی.اس پر رسول کریم نے ایک کہانی سنائی.فرمایا تمہیں پتہ ہے خرافہ کون تھا؟ خرافہ ایک آدمی تھا جسے جاہلیت میں کسی جن قوم نے قید کر لیا اور وہ ان میں ایک زمانے تک رہا.پھر انہوں نے اسے اس کے لوگوں کے علاقہ کی طرف واپس لوٹا دیا.خرافہ واپس آکر اپنی اسیری کے زمانے کے قصے اور عجیب و غریب باتیں سنایا کرتا تھا.اس سے ہر عجیب و غریب بات کیلئے حدیث خرافہ کا محاورہ مشہور ہو گیا.“ ( احمد )43 دعوت طعام میں بیوی کی معیت رسول کریم ﷺ کو عائشہ کے جذبات واحساسات کا جس قدر خیال ہوتا تھا، اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا
اسوہ انسان کامل 452 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ ہے کہ ایک ایرانی باشندہ رسول کریم کا ہمسایہ تھا، جو سالن بہت عمدہ پکاتا تھا.اس نے ایک دن رسول کریم کے لئے کھانا تیار کیا اور آپ کو دعوت دینے آیا.آنحضور کی باری عائشہ کے ہاں تھی.وہ اس وقت پاس ہی تھیں آپ نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ کیا یہ بھی ساتھ آجائیں.اُس نے غالباً تکلف اور زیادہ اہتمام کرنے کے اندیشے سے نفی میں جواب دیا آپ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا.تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ بلانے آیا تو آپ نے پھر فرمایا میری بیوی بھی ساتھ آئے گی؟ اس نے پھر نفی میں جواب دیا تو آپ نے دعوت میں جانے سے معذرت کر دی.وہ چلا گیا، تھوڑی دیر بعد پھر آکر گھر آنے کی دعوت دی تو آپ نے پھر اپنا وہی سوال دہرایا کہ عائشہ بھی آجائیں تو اس مرتبہ اس نے حضرت عائشہ کو ہمراہ لانے کی حامی بھر لی.اس پر آپ اور حضرت عائشہ دونوں اس ایرانی کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر کھانا تناول فرمایا.(مسلم ) 44 حضرت علی روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ فاطمہ اور میں فاقہ سے تھے.میں گھر آیا تو دیکھا کہ فاطمہ مغموم بیٹھی ہیں میں نے سبب پوچھا تو بولیں کہ نہ ہم نے رات کھانا کھایا نہ صبح اور نہ ہی آج شام کھانے کے لئے گھر میں کچھ ہے.میں باہر نکلا اور جا کر محنت مزدوری کر کے ایک درہم کا غلہ اور گوشت خرید لایا.فاطمہ نے پکایا اور کہنے لگیں آپ جا کر میرے ابا کو بھی بلالا ئیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ کھانا کھا لیں.حضرت علی کہتے ہیں میں گیا تو رسول کریم مسجد میں لیے ہوئے یہ دعا کر رہے تھے اعُوذُ بِاللهِ مِنَ الْجُوعِ ضَحِيْعاً ، میں بھوک اور فاقہ سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں.میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان.اے اللہ کے رسول ! ہمارے گھر کھانا ہے آپ تشریف لائیں.آپ نے میرا سہارا لیا یہاں تک کہ ہمارے گھر تشریف لائے.ھنڈیا اہل رہی تھی.آپ نے فاطمہ سے فرمایا پہلے تھوڑ اسا عا ئشہ کے لئے ڈال دو.انہوں نے ایک پیالے میں ڈال دیا پھر فرمایا اب حفصہ کے لئے کچھ ڈال دو.انہوں نے دوسرے پیالے میں ڈالا.یہاں تک کہ حضور نے نو بیویوں کے لئے کھانا ڈلوایا.پھر فرمایا اب اپنے والد اور میاں کے لئے بھی ڈال دو.جب وہ ڈال چکیں تو فرمایا اب خود ڈال کر کھاؤ.پھر انہوں نے ھنڈ یا اُتاری تو وہ بھری کی بھری تھی.حضرت علی کہتے ہیں جب تک خدا نے چاہا ہم نے (اُس سے ) کھایا.(ابن سعد ) 45 آنحضرت کی ایک بیوی حضرت صفیہ تھیں، جو رسول اللہ کے شدید معاند اور یہودی قبیلہ بنی نضیر کے مشہور سردار حیی بن اخطب کی بیٹی تھیں.جنگ خیبر میں حضرت صفیہ کا باپ اور ان کا خاوند مسلمانوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے تھے، مگر آنحضرت ﷺ نے پھر بھی یہود خیبر پر احسان فرماتے ہوئے حضرت صفیہ بنت حیی کو اپنے عقد میں لینا پسند فرمایا.اپنے جانی دشمن کی بیٹی صفیہ کو بیوی بنا کر اپنی شفقتوں اور احسانوں سے جس طرح انہیں اپنا گرویدہ کیا اور ان کا دل آپ نے جیتا وہ بلاشبہ انقلاب آفرین ہے.جنگ خیبر سے واپسی کا وقت آیا تو صحابہ کرام نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ آنحضرت اونٹ پر حضرت صفیہ کے لئے خود جگہ بنا رہے ہیں.وہ عبا جو آپ نے زیب تن کر رکھی تھی اتاری اور اسے تہہ کر کے حضرت صفیہ کے بیٹھنے کی جگہ پر بچھا دیا.پھر ان کو سوار کراتے وقت اپنا گھٹنا ان کے آگے جھکا دیا اور فرمایا اس پر
اسوہ انسان کامل 453 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ پاؤں رکھ کے اونٹ پر سوار ہو جاؤ.( بخاری ) 46 خود حضرت صفیہ کا بیان ہے کہ چونکہ جنگ خیبر میں رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ میرے باپ اور شوہر مارے گئے تھے اس لئے میرے دل میں آپ کے لئے انتہائی نفرت تھی مگر آپ نے میرے ساتھ ایسا حسن سلوک فرمایا کہ میرے دل کی سب کدورت جاتی رہی.حضرت صفیہ بیان فرماتی ہیں کہ خیبر سے ہم رات کے وقت چلے تو آپ نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھا لیا مجھے اونگھ آگئی اور سر پالان کی لکڑی سے جا ٹکرایا.حضور نے بڑے پیار سے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا اور فرمانے لگے.اے لڑکی.اے جی کی بیٹی ذرا احتیاط ذرا اپنا خیال رکھو.پھر رات کو جب ایک جگہ پڑاؤ کیا تو وہاں میرے ساتھ بہت محبت بھری باتیں کیں.فرمانے لگے دیکھو تمھارا باپ میرے خلاف تمام عرب کو کھینچ لایا تھا اور ہم پر حملہ کرنے میں پہل اس نے کی تھی اور یہ سلوک ہم سے روارکھا تھا جس کی بنا پر مجبور تیری قوم کے ساتھ ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس پر میں بہت معذرت خواہ ہوں.مگر تم خود جانتی ہو کہ یہ سب کچھ ہمیں مجبوراً اور جوابا کرنا پڑا ہے.حضرت صفیہ فرماتی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں رسول کریم کے پاس سے اٹھی تو آپ کی محبت میرے دل میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ دنیا میں آپ سے بڑھ کر مجھے کوئی پیارا نہ رہا.( ھیثمی )47 اہل خانہ کی تربیت قوام اور راعی یعنی سر پرست اور نگران ہونے کے ناطے بیویوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ایک اہم اور نازک مسئلہ ہے اپنی تمام تر دلدار یوں اور شفقتوں کے ساتھ تربیت کی ذمہ داری ادا کرنے کا حق ہمارے آقا ومولی ہے نے خوب ادا فر مایا.حسب ارشاد خداوندی جب بیویوں نے آیت تخیر کے بعد آپ کے پاس رہنا ہی پسند فرمایا تو آپ کا ازواج مطہرات کو یہی درس ہوتا ہے کہ آپ دنیا کی عام عورتوں کی طرح نہیں ہیں.اس لئے تقویٰ اختیار کریں.اور لوچ دار آواز سے بات نہ کریں کہ منافق کوئی بد خیال دل میں لائے اور زیادہ وقت گھروں میں ہی ٹھہری رہا کریں.اور جاہلیت کے طریق کے مطابق زینت و آرائش کے اظہار سے باز رہیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمر بستہ رہیں.جب کسی غیر مرد سے بات کرنی ہو تو بر عایت پر وہ ایسا کریں اور جب باہر نکلیں تو اوڑھنیاں اس طرح لیا کریں کہ پہچانی نہ جائیں.یہ سب احکام وہ تھے جن پر عمل درآمد کے نتیجہ میں اہل بیت اور ازواج مطہرات نے مدینہ میں ایک پاکیزہ معاشرہ قائم کر دیا.رسول اللہ کے گھر میں قیام عبادت کی طرف ہمیشہ توجہ رہی.آپ قرمایا کرتے تھے کہ بہت خوش قسمت ہیں وہ میاں بیوی جو ایک دوسرے کو نماز اور عبادت کے لئے بیدار کرتے ہوں اور اگر ایک نہ جاگے تو دوسرا اس پر پانی کے چھینٹے پھینک کر اسے جگائے.(ابن ماجہ ) 48 اپنے اہل خانہ کے ساتھ آپ کا یہی سلوک تھا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور رات کو نماز تہجد کی ادائیگی کے لئے
اسوہ انسان کامل 454 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اٹھتے اور عبادت کرتے تھے جب طلوع فجر میں تھوڑا سا وقت باقی رہ جاتا تو مجھے بھی جگاتے اور فرماتے تم بھی دور کعت ادا کرلو.( بخاری )49 اسی طرح آپ فرماتی ہیں کہ رمضان کے آخری عشرہ میں تو بطور خاص آپ خود بھی کمر ہمت کس لیتے اور بیویوں کو بھی اہتمام کے ساتھ عبادت کے لئے جگاتے تھے.(بخاری) 50 ایک رات کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ نماز تہجد کے لئے اٹھے ہوئے تھے وحی الہی کے ذریعہ سے آپ کو آئندہ کے احوال اور فتنوں کے کچھ خبریں بتائی گئی ہیں جس کے بعد ایک پریشانی اور گھبراہٹ کے عالم میں آپ بیویوں کو نماز اور دعا کے لئے جگانے لگے اور فرمایا ان حجروں میں سونے والیوں کو جگاؤ.اور پھر اس نصیحت کو مزید اثر انگیز بنانے کے لئے ایک عجیب پر حکمت جملہ فرمایا جو پوری زندگی میں انقلاب پیدا کرنے کے لئے کافی ہے.فرمایا:.دنیا میں کتنی ہی عورتیں ہیں جو ظاہری لباسوں کے لحاظ سے بہت خوش پوش ہیں مگر قیامت کے دن جب یہ لباس کام نہ آئیں گے اور صرف تقویٰ کی ضرورت ہوگی تو وہ اس لباس سے عاری ہوں گی.‘( بخاری )51 با جماعت نماز ایک دفعہ حضرت ام سلمہ کے گھر میں کچھ عورتیں جمع تھیں.رسول کریم نے دیکھا کہ سب اکیلی اکیلی نماز پڑھ رہی ہیں.اُم سلمہ کو فرمایا تم نے ان کو نماز با جماعت کیوں نہ پڑھا دی ؟ ام سلمہ نے پوچھا کیا یہ جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں جب تم زیادہ عورتیں ہو تو ایک درمیان میں کھڑی ہو کر امامت کروالیا کرے.اس طرح آپ نے نماز با جماعت اور عبادت الہی کا شوق ان میں پیدا کیا.( مجموع) 52 محبت الہی کے نرالے انداز اللہ کی یاد اور اس کی صفات کا تذکرہ تو اکثر ہی گھر میں رہتا تھا.عجب ڈھنگ اور نرالے انداز سے آپ اہل خانہ کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کی عبادت کا شوق پیدا فرماتے تھے.ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے فرمانے لگے.مجھے اللہ کی ایک ایسی صفت کا علم ہے جس کا نام لے کر دعا کی جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے.حضرت عائشہ نے وفور شوق سے عرض کیا حضور پھر مجھے بھی وہ صفت بتائیے نا.آنحضور ﷺ نے فرمایا میرے خیال میں تمہیں بتانا مناسب نہیں.حضرت عائشہ جیسے روٹھ کر ایک طرف جا بیٹھیں کہ خود ہی بتائیں گے مگر جب آنحضرت نے کچھ دیر تک نہ بتایا تو عجب شوق کے عالم میں خو دانھیں رسول کریم کے پاس آکر کھڑی ہو گئیں.آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ بس مجھے ضرور وہ صفت بتائیں.آنحضرت نے فرمایا کہ عائشہ بات دراصل یہ ہے کہ اس صفت کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے دنیا کی کوئی چیز مانگنا درست نہیں اس لئے میں بتانا نہیں چاہتا.تب حضرت عائشہ پھر روٹھ کر الگ ہو جاتی ہیں کہ اچھا نہ تو نہ سہی.پھر آپ وضو کر کے مصلیٰ بچھاتی ہیں اور حضور کو سنا سنا کر بآواز بلند یہ دعا کرتی ہیں کہ اے میرے مولیٰ !
455 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل تجھے اپنے سارے ناموں اور صفتوں کا واسطہ.ان صفتوں کا بھی جو مجھے معلوم ہیں اور ان کا بھی جو میں نہیں جانتی کہ تو اپنی اس بندی کے ساتھ عفو کا سلوک فرما.حضرت عائشہ یہ دعا کر رہی ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پاس بیٹھے دیکھتے جاتے اور مسکراتے جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے عائشہ بے شک وہ صفت انہی صفات میں سے ہے جو تم نے شمار کر ڈالیں.(ابن ماجہ ) 53 قیام توحید بیویوں کے دل میں توحید باری کی عظمت کے قیام کا خیال آپ کو بوقت وفات بھی تھا.آپ کی آخری بیماری میں جب کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ (حضرت مریم ) کے نام سے موسوم تھا تو اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی آپ نے بیویوں کی توجہ تو حید باری کی طرف مبذول کراتے ہوئے فوراً گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑ دیا اور فرمایا ”بر ا ہوان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو سجدہ گاہیں بنالیا.“ ( بخاری )54 گویا با الفاظ دیگر اپنی وفات کو قریب جانتے ہوئے آپ بیویوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھو تم لوگ میری قبر کو شرک گاہ نہ بنادینا میرے بعد تو حید پر قائم رہنا.محتمل و ایثار جہاں ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو جذ بہ غیرت کا پیدا ہو جانا ایک طبعی امر ہے.آنحضرت کے لئے ایک اہم اور نازک مسئلہ یہی ہوسکتا تھا، مگر آپ اکثر و بیشتر اس کا مداوا اور حل خود تکلیف اٹھا کر اور اپنی ذاتی قربانی کے ذریعہ سے تلاش کر لیا کرتے.ایک دفعہ آپ کی باری حضرت عائشہ کے ہاں تھی.کسی اور بیوی نے کچھ کھانا تحفتہ وہاں بھجوادیا.حضرت عائشہ کی رسول اللہ سے محبت اور طبعی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ ان کی باری میں کوئی اور بیوی حضور کی خدمت کا شرف پائے.انہوں نے غصے میں وہ کھانے سے بھرا پیالہ زمین پر دے مارا.کھانا گر گیا، پیالہ ٹوٹ کر بکھر گیا.کھانا لانے والا خادم پاس حیران کھڑا ہے.رسول کریم بھی یہ سب تماشا کمال تحمل سے دیکھ رہے ہیں.مگر حضرت عائشہ پر کوئی سختی نہیں فرماتے چپکے سے اپنی جگہ سے اٹھتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے زمین پر گرا ہوا کھانا جمع کرنا شروع کرتے ہیں.حضرت عائشہ کے لئے تو یہی کافی تھا حضور کے اس رد عمل سے یقیناً ان کو سخت ندامت ہوئی.چنانچہ جب رسول کریم نے ان کو فرمایا کہ اے عائشہ جو پیالہ توڑا ہے.اس کے بدلے میں اب اپنا کوئی پیالہ واپس کر دو تو حضرت عائشہ نے بخوشی اس خادم کو اپنا پیالہ دے کر رخصت کیا.(نسائی) 55 حضرت میمونہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک رات رسول کریم کی میرے ہاں باری تھی.آپ باہر تشریف لے گئے.میں نے دروازہ بند کر دیا.آپ نے واپس آکر دروازہ کھٹکھٹایا.میں نے دروازہ کھولنے سے انکار کر دیا.آپ نے فرمایا تمہیں
اسوہ انسان کامل 456 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ قسم ہے کہ تم ضرور دروازہ کھولوگی.میں نے کہا آپ میری باری میں کسی اور بیوی کے ہاں کیوں گئے تھے.آپ نے فرمایا میں نے تو ایسا نہیں کیا.مجھے تو پیشاب کی شدید حاجت محسوس ہوئی اس کے لئے باہر نکلا تھا.(ابن سعد ) 56 اہل خانہ کیلئے ایثار آپ جائز حد تک اپنی بیویوں کی خاطر اپنے نفس کی قربانی میں کوئی تامل نہ فرماتے تھے.ایک دفعہ آنحضرت ملے نے ایک بیوی کے ہاں ٹھہر کر شہد کا شربت پیا ، وہاں معمول سے کچھ زیادہ آپ کا وقت لگ گیا تو حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے از راہ غیرت شہد ترک کروانے کی خاطر حضور سے شہد کی خاص بو کی شکایت اس انداز میں کی کہ لگتا ہے حضور نے فلاں بدبودار بوٹی کا رس چوسنے والی مکھی کا شہد پیا ہے.حضور کے لئے یہ اشارہ کافی تھا.آپ نے دونوں بیویوں کے جذبات کی خاطر شہد ہمیشہ کے لئے ترک کرنے کا عزم کر لیا اور فرمایا کہ اب میں کبھی شہد کا شربت نہ پیئوں گا.( بخاری (57) یہاں تک کہ قرآن شریف میں آپ گوارشاد ہوا کہ اے نبی محض اپنی بیویوں کی رضامندی کی خاطر اللہ کی حلال چیزوں کو کیوں حرام کرتے ہو.(سورۃ التحریم : 2 ) آپ بیویوں کی باتیں جس حد تک سنتے اور برداشت فرماتے تھے اس پر ازواج مطہرات کے عزیز واقارب کو تو تعجب ہوتا تھا، مگر آنحضرت نے کبھی اس کا بڑ انہیں منایا اور اپنی نرم خوئی میں کبھی بھی اور درشتی نہیں آنے دی.کمال عفو ایک دن حضرت عائشہ گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابو بکر تشریف لائے.یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کیلئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہو.آنحضرت یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابو بکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہ کو بچالیا.جب حضرت ابو بکر چلے گئے تو رسول کریم حضرت عائشہ سے از راہ تلفن فرمانے لگے.دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا ؟ کچھ دنوں کے بعد حضرت ابو بکر دوبارہ تشریف لائے تو آنحضرت کے ساتھ حضرت عائشہ ہنسی خوشی با تیں کر رہی تھیں.حضرت ابو بکر کہنے لگے دیکھو بھئی تم نے اپنی لڑائی میں تو مجھے شریک کیا تھا اب خوشی میں بھی شریک کرلو.(ابوداؤد )58 حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم کے ساتھ ایک دفعہ کچھ تکرار ہوگئی آپ فرمانے لگے کہ تم کسی کو ثالث بنالو.کیا عمر بن الخطاب ثالث منظور ہیں؟ حضرت عائشہ نے کہا نہیں وہ سخت اور درشت ہیں.آپ نے فرمایا اچھا اپنے والد کو ثالث بنالو.کہنے لگیں ٹھیک ہے تب رسول اللہ نے حضرت ابو بکر کو بلوا بھیجا اور بات شروع کی کہ عائشہ کی یہ بات یوں ہوئی.میں نے کہا آپ اللہ سے ڈریں اور سوائے سچ کے کچھ نہ کہیں.اس پر حضرت ابو بکڑ نے زور سے مجھے تھپڑ رسید کیا اور فرمانے لگے تمہاری ماں تمہیں کھوئے تم اور تمہارا باپ بچ بولتے ہو اور خدا کا رسول حق نہیں کہتا اس تھپڑ کے
457 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل نتیجہ میں مجھے نکسیر پھوٹ پڑی.رسول کریم و فرمانے لگے اے ابو بکڑ ا ہم نے تجھے اس لئے تو نہیں بلایا تھا.حضرت ابو بکڑ نے ایک کھجور کی چھڑی لی اور مجھے مارنے کو دوڑے.میں آگے آگے بھاگی اور جا کر رسول اللہ سے چمٹ گئی.رسول کریم نے حضرت ابو بکر سے کہا میں آپ کو قسم دے کر کہتا ہوں کہ اب آپ چلے جائیں.ہم نے آپ کو اس لئے نہیں بلایا تھا.جب وہ چلے گئے تو میں رسول اللہ سے الگ ہو کر ایک طرف جابیٹھی.آپ فرمانے لگے عائشہ میرے قریب آجاؤ.میں نہیں گئی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا ابھی تھوڑی دیر پہلے تو تم نے میری کمر کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور خوب مجھ سے چھٹی ہوئی تھیں.“ (السمط ) 59 انداز الفت حضرت عائشہ کے تو آپ بہت ہی ناز اٹھاتے تھے ایک دفعہ ان سے فرمانے لگے کہ عائشہ میں تمہاری ناراضگی اور خوشی کو خوب پہچانتا ہوں.حضرت عائشہؓ نے عرض کیا وہ کیسے؟ فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو تو اپنی گفتگو میں رب محمد کہ کر تم کھاتی ہو اور جب ناراض ہوتی ہو تو رب ابراہیم کہ کر بات کرتی ہو.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ہاں یا رسول اللہ یہ تو ٹھیک ہے مگر بس میں صرف زبان سے ہی آپ کا نام چھوڑتی ہوں.( دل سے تو آپ کی محبت نہیں جاسکتی) ( بخاری )60 حضور ﷺ کی بیوی حفصہ بنت عمر کچھ تیز طبیعت تھیں.ایک دفعہ حضرت عمرؓ کی بیوی نے ان کو کوئی مشورہ دینا چاہا تو آپ سخت خفا ہوئے کہ مردوں کے معاملات میں عورتوں کی مداخلت کے کیا معنی؟ تب آپ کی بیوی کہنے لگیں کہ آپ کی اپنی بیٹی حفصہ تو رسول اللہ کے آگے بولتی ہے اور ان کو جواب دیتی ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ رسول کریم ﷺ سارا سارا دن ان سے ناراض رہتے ہیں.حضرت عمر فوراً اپنی بیٹی کے گھر پہنچے اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ تمہارے آگے سے بولنے کی وجہ سے رسول الله له بعض دفعہ سارا دن ناراض رہتے ہیں.انہوں نے عرض کیا کہ ہاں بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے.آپ نے فرمایا یا درکھو عائشہ کی ریس کرتے ہوئے تم کسی دن اپنا نقصان نہ کر لینا.پھر یہی نصیحت حضور کی ایک اور بیوی حضرت ام سلمہ کو بھی کرنے گئے.وہ بھی آخر حضرت عمرؓ کی رشتہ دار تھیں فرمانے لگیں.اے عمر اب رسول اللہ کے گھریلو معاملات میں بھی تم مداخلت کرنے لگے.کیا اس کے لئے خود رسول اللہ کافی نہیں ہیں.حضرت عمر فرماتے ہیں میں خاموش ہو کر واپس لوٹا یہ واقعہ جب آنحضرت مہ کو سنایا تو آپ خوب محظوظ ہوئے.(بخاری)61 جائز سرزنش ان شفقتوں کے باوجود اگر کبھی بیویوں کی طرف سے عدل سے ہٹی ہوئی کوئی بات سرزد ہوتی تو آپ سختی سے اس کا نوٹس بھی لیتے اور مناسب فیصلہ بھی فرماتے.ہر چند کہ حضرت عائشہ آپ کو بہت محبوب تھیں ایک دفعہ انہوں نے حضرت صفیہ کو اپنی چھوٹی انگلی دکھا کر ان کے پست قد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ٹھگنی ( چھوٹے قد والی ) کا طعنہ
458 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ اسوہ انسان کامل دے دیا.آنحضرت کو پتہ چل گیا تو آپ نے بہت سرزنش کی.فرمایا یہ ایسا ست کلمہ تم نے کہا کہ تلخ سمندر کے پانی میں بھی اس کو ملا دیا جائے تو وہ اور کڑوا ہو جائے.(ابوداؤد 62) گویا آپ نے لَا تَنَابَزُو بِالْأَلْقَابِ (الحجرات :12 ) کے قرآنی حکم کی سختی سے پابندی کروائی.بلا امتیاز عادلانہ فیصلوں کا یہ اصول تادم واپسی برقرار رہا.آخری بیماری میں جب حضور نے حضرت ابوبکر کو امامت نماز کا ارشاد فرمایا تو حضرت عائشہ نے اس خیال سے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی تو لوگ ابو بکر کے مصلے پر آنے کی بدشگونی نہ لیں یہ مشورہ دیا کہ حضرت عمرؓ کو نماز پڑھانے کے لئے کہہ دیا جائے.حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ نے مل کر اس پر اصرار بھی کیا.مگر آپ نے سختی کے ساتھ امامت ابوبکر کا فیصلہ ہی نافذ کیا اور فرمایا.دستم یوسف کو راہ راست سے بہکانے والی عورتوں کی طرح مجھے کیوں راہ حق سے ہٹانا چاہتی ہو.( بخاری )63 الغرض ہمارے آقا ومولیٰ نے کمال عدل اور احسان اور مروت کے ساتھ اہلی زندگی میں اپنے حقوق ادا کئے.ازواج مطہرات کی چاہت آنحضرت ﷺ کی ان کمال ذرہ نوازیوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کی تمام بیویاں آپ پر جان چھڑکتی تھیں.زمانہ قرب وفات میں جب آنحضرت نے اپنی بیویوں سے فرمایا کہ ”تم میں سے زیادہ لمبے ہاتھوں والی مجھے سب سے پہلے دوسرے جہان میں آملے گی تو بیویوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ عجب عالم شوق میں انہوں نے باہم ہاتھ ماپنے شروع کر دیئے کہ وہ کون خوش نصیب بیوی ہے جو اس دار فانی سے کوچ کر کے اس دوائی گھر میں اپنے آقا کے قدموں میں سب سے پہلے پہنچتی ہے.بیویوں کی آپ سے اس درجہ کی محبت اور عشق آپ کے حسن و احسان پر گواہ ہے.ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ کے حسن و احسان کے ان جلووں نے بلاشبہ آپ کی اہلی زندگی کو جنت نظیر بناد یا تھا تبھی تو دوسرے جہان کی جنت کے لئے بھی آپ کی بیویاں آپ سے ملنے کے لئے اتنی بے قرار نظر آتی ہیں.ایک سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے تعدد ازدواج پر اہل مغرب کا جنس پرستی کا اعتراض رڈ کرتے ہوئے اپنی کتاب ”محمد“ میں لکھا."But, seen in context, polygamy was not designed to improve the sex life of the boys.it was a piece of social legislation.The problem of orphans had exercised Muhammad since the beginning of his career and it had been exacerbated by the deaths at Uhud.The men who had died had left no only widows but daughters, sisters and other relatives who needed a new protector.Their new guardians might not be scrupulous about administering the property of these orphans: some might even keep these women
اسوہ انسان کامل 459 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ unmarried so that they could hold on to their property.It was not unsusual for a man to marry his women wards as a way of absorbing their property into his own estate." دم اگر تعد دازدواج کو اس کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ ہرگز لڑکوں کی تسکین جنس کے سامان کے طور پر ایجاد نہیں کی گئی تھی.بلکہ یہ معاشرتی قانون سازی کا ایک حصہ تھا.یتیم لڑکیوں کا مسئلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آغاز سے ہی در پیش تھا لیکن جنگ احد میں کئی مسلمانوں کی شہادت نے اس میں اضافہ کر دیا تھا.شہید ہونے والوں نے محض بیوگان ہی پیچھے نہیں چھوڑیں بلکہ بیٹیاں بہنیں اور دیگر رشتہ دار بھی تھے جو نئے سہاروں کے متقاضی تھے.کیونکہ ان کے نئے نگران ان یتامی کی جائدادوں کی انتظام و انصرام کے قابل نہ تھے.بعض جائدادروکنے کی خاطر ان لڑکیوں کی شادی اس لئے نہ کرتے تھے اور ایک مرد کے لئے اپنے زیر کفالت عورتوں سے شادی کرنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی جس کے ذریعہ وہ ان کی جائداد بھی اپنے قبضہ میں کر لیں.‘ ( آرمسٹرانگ )64 اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم صحیح معنوں میں اپنی اہلی زندگیوں کو رسول اللہ ﷺ کے پاک اسوہ اور خلق عظیم کے رنگ میں رنگین کرنے والے ہوں اور وہ پاکیزہ معاشرہ استوار کریں جس کے قیام کے لئے ہمارے سید و مولیٰ اس دنیا میں تشریف لائے.1 ترمذی (40) کتاب المناقب باب 64 2 مسلم (18) كتاب الرضاع باب 18 مسلم (18) كتاب الرضاع باب 18 4 مسند احمد جلد 6 ص 91 5 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 17 6 بخاری (59) كتاب الوصايا باب 33 حواله جات 7 مسند احمد بن حنبل جلد 2 ص 232 8 بخاری (81) كتاب الادب باب 38 شمائل ترمذی باب ماجاء في خلق رسول الله" 10 السيرة النبوية ابن هشام جلد 1 ص204
اسوہ انسان کامل 460 11 بخاری (1) بدء الوحي باب 1 12 صحیح مسلم (45) کتاب فضائل الصحابة باب12 13 بخاری (81) كتاب الادب باب 23 14 مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 118 15 شرح المواهب اللدنية از علامه زرقانی جلد3ص227 16 شرح المواهب اللدنية از علامه زرقانی جلد 3 ص 229 17 شرح المواهب اللدنية لزرقاني جلد 3 ص229 ص 229 18 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 4 ص 578 بيروت 19 شرح المواهب اللدنية از علامه زرقانی جلد 3.20 شرح المواهب اللدنية از علامه زرقانی جلد3 ص229 21 بخاری(68) كتاب التفسير سورة احزاب باب 277 22 بخاری (81) كتاب الادب باب 40 23 مسند احمد بن حنبل جلد 6 ص 256 24 مسند احمد بن حنبل جلد 5 ص 121 25 مسلم (37) كتاب الاشربة باب 32 26 بخاری (60) كتاب الجهاد باب 63 27 بخاری (68) كتاب التفسير سورة الاحزاب باب 279 28 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 30 29 ابوداؤد(12) كتاب النكاح باب 39 30 صیحح مسلم (4) كتاب الحيض باب 3 31 ابو داؤد (1) كتاب الطهارة باب 104 32 بخاری (67) کتاب المغازی باب 32 33 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 30 34 بخاری (81) كتاب الادب باب 80 35 ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 62 36 السيرة الحلبية جلد2 ص 307 37 بخاری (19) کتاب العيدين باب3 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ
اسوہ انسان کامل 38 بخاری(19) كتاب العيدين باب 2 39 ترمذی (50) کتاب المناقب باب 18 461 اہلی زندگی میں رسول کریم کا بہترین نمونہ 40 الوفا باحوال المصطفى لابن جوزی ص 674 و حاشیه دار الكتب العلميه بيروت 41 بخاری (70) كتاب النکاح باب 82 42 مجمع الزوائدلهيثمي جلد4ص317 43 مسنداحمد جلد 6ص 157 44 مسلم (28) كتاب الاطعمة باب 6 45 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 186 46 بخاری (67) کتاب المغازی باب 36 47 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 9 ص 15 بحواله طبراني في الاوسط 48 ابن ماجه (5) اقامة الصلوة باب 175 49 بخاری (13) کتاب سترة المصلى باب 13 50 بخاری(37)صلوة التراويح باب6 51 بخاری (96) كتاب الفتن باب 6 52 مجموع الفقه بروايت زيد بن على ص43 53 ابن ماجه (34) كتاب الدعاء باب 9 54 بخاری (9) كتاب الصلوة باب 9 55 سنن النسائی کتاب عشرة النساء باب الغيرة 56 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 365 مطبوعه بيروت 57 بخاری (68) كتاب التفسير سورة التحريم باب 386 58 ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 92 59 ازواج النبی از محمد بن یوسف الصالحی مطبوعه بيروت بحواله السمط الثمين ص50 60 بخاری (70) كتاب النكاح باب 107 61 بخاری(68) كتاب التفسير سورة التحريم باب 386 62 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 15 63 بخاری (15) کتاب الجماعة باب 18 Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong p-180 64
اسوہ انسان کامل 462 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات عورت....اسلام سے قبل ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ " وہ پہلے مرد ہیں جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لئے نہ صرف آواز بلند کی بلکہ ان کے حقوق قائم کر کے دکھائے.عورتوں پر آپ کے بے پایاں احسانات کا اندازہ کرنے کے لئے ہمیں اس دور میں جانا ہوگا.جس میں رسول کریم کے زمانہ کی خواتین بود و باش رکھتی تھیں.اس معاشرہ میں عورت کی حیثیت کا اندازہ اس قرآنی بیان سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی پیدائش کی خبرملتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور سخت غمگین ہو جاتا ہے.وہ لوگوں سے اس بُری خبر کی وجہ سے چھپتا پھرتا ہے کہ آیا وہ اس ذلت کو قبول کرلے یا اسے مٹی میں دیا دے.کتنا برا ہے وہ جو فیصلہ کرتے ہیں.(سورۃ النحل: 60) عرب کے بعض قبائل میں غیرت وحمیت کے باعث لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا ظالمانہ رواج تھا.ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص نے زمانہ جاہلیت میں اپنی بیٹی کو گڑھے میں گاڑ دینے کا دردناک واقعہ سنایا.کہ یا رسول اللہ ! ہم جاہلیت کے زمانہ میں بس رہے تھے بتوں کی پرستش کرتے اور اولاد کو قتل کرتے تھے.میری ایک بیٹی تھی.جب وہ میری بات سمجھنے اور جواب دینے کے قابل ہوئی تو میرے بلانے پر بھاگی بھاگی آتی تھی.ایک دن میں نے اسے بلایا تو وہ میرے ساتھ چل پڑی.میں اپنے خاندان کے ایک کنوئیں کے پاس پہنچا اور اس معصوم بچی کو پکڑ کر اُس میں پھینک دیا.مجھے اتنا یاد ہے کہ میں نے اس کی دلدوز چیخیں سنیں وہ مجھے پکارتی رہی ہائے میرے ابا ، ہائے میرے ابا.رسول کریم نے یہ سنا تو بے اختیار آبدیدہ ہو گئے آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوؤں بہنے لگے.اس دوران مجلس میں سے حضور کے ایک صحابی اُس شخص سے مخاطب ہوئے کہ تم نے اللہ کے رسول کو غمگین کر دیا ہے.رسول کریم نے اس صحابی کو یہ کہ کر خاموش کروا دیا کہ یہ بے چارہ تو اپنے اس گناہ کی تلافی کی بابت پوچھنا چاہتا ہے.پھر اس شخص سے فرمایا کہ دوبارہ اپنی ساری بات سُناؤ.اس نے پھر یہ دلدوز کہانی سُنائی تو رسول کریم رو پڑے اور آنسو کی برسات سے آپ کی ریش مبارک بھی گیلی ہوگئی.پھر آپ نے اس سائل سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کے زمانے کے گناہ معاف کر دئیے ہیں.اب اسلام میں اپنے نئے نیک اعمال کا سلسلہ شروع کرو.“ ( دارمی ) 1 رسول کریم نے یہ تعلیم دی کہ جس شخص کے گھر بیٹی ہو اور وہ اسے زندہ درگور کرے، نہ اسے ذلیل کرے اور نہ بیٹے کو اس پر ترجیح دے اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا.“ ( احمد )2
463 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات اسوہ انسان کامل حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم ہم جاہلیت میں عورت کو چنداں اہمیت نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کے بارے میں قرآن شریف میں احکام نازل فرمائے اور وراثت میں بھی ان کو حقدار بنا دیا.ایک دن میں اپنے کسی معاملہ میں سوچ رہا تھا کہ میری بیوی بولی اگر آپ اس طرح کر لیتے تو ٹھیک ہوتا.میں نے کہا تمہیں میرے معاملہ میں دخل اندازی کی جرات کیوں ہوئی ؟ وہ کہنے لگی تم چاہتے ہو کہ تمہارے آگے کوئی نہ بولے اور خود تمہاری بیٹی رسول اللہ کے آگے بولتی ہے.( بخاری )3 عربوں کے دستور کے مطابق جاہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خود شوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی.مرد کے قریبی رشتہ دار ( مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا ) عورت کے سب سے زیادہ حق دار سمجھے جاتے تھے.اگر وہ چاہتے تو خود اس عورت سے شادی کر لیتے.خود نہ کرنا چاہتے تو ان کی مرضی کے مطابق ہی دوسری جگہ شادی ہوسکتی.عورت کا اپنا کوئی حق نہ تھا.( بخاری )4 نبی کریم نے بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے.( بخاری )5 اس زمانہ میں یتیم بچیوں کے حقوق کی کوئی ضمانت نہ تھی.بعض دفعہ ایسی مالدار یتیم لڑکیوں کے ولی ان کے مال پر قبضہ کرنے کے لئے خودان سے شادی کر لیتے تھے اور حق مہر بھی اپنی مرضی کے مطابق معمولی رکھتے تھے.قرآن شریف میں ان بد رسوم سے بھی روکا گیا.اور ارشاد ہوا کہ یتیم بچیوں سے انصاف کا معاملہ کرو.( بخاری )6 اسلام سے پہلے عورت کی ناقدری اور ذلت کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ اپنے مخصوص ایام میں اسے سب گھر والوں سے جدار ہنا پڑتا تھا.خاوند کے ساتھ بیٹھنا تو در کنار اہل خانہ بھی اس سے میل جول نہ رکھتے تھے.(مسلم )7 آنحضرت نے اس معاشرتی برائی کو دور کیا اور آپ کی شریعت میں یہ حکم اترا کہ حیض ایک تکلیف دہ عارضہ ہے ان ایام میں صرف ازدواجی تعلقات کی ممانعت ہے عام معاشرت ہر گز منع نہیں.(سورۃ البقرہ:223) چنانچہ آنحضور بیویوں کے مخصوص ایام میں ان کا اور زیادہ لحاظ فرماتے.ان کے ساتھ مل بیٹھتے.بستر میں ان کے ساتھ آرام فرماتے اور ملاطفت میں کوئی کمی نہ آنے دیتے.(ابوداؤد )8 خاوند کی وفات کے بعد عرب میں عورت کا حال بہت رسوا کن اور بد تر ہوتا تھا.اسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدت گزارنے کے لئے رکھا جاتا.سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کتے پر بکری کی مینگنی پھینک کر اس قید خانہ سے باہر آتی تھی.( بخاری ) 9 اس دور جاہلیت میں عورتوں کی ناگفتہ بہ حالت اور رسول اللہ کے پیدا کردہ انقلاب کی نہایت سچی تصویر سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خوب کھینچی ہے.آپ اس دور کا تصور کر کے عورتوں سے مخاطب ہیں:.
اسوہ انسان کامل 464 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات عورتوں کا احترام رکھ پیش نظر وہ وقت بہن ! جب زندہ گاڑی جاتی تھی گھر کی دیوار میں روتی تھیں جب دُنیا میں تو آتی تھی جب باپ کی چھوٹی غیرت کا نوں جوش میں آنے لگتا تھا جس طرح جنا ہے سانپ کوئی یوں ماں تیری گھبراتی تھی یہ خونِ جگر سے پالنے والے تیرا خون بہاتے تھے جو نفرت تیری ذات سے تھی فطرت پر غالب آتی تھی کیا تیری قدر و قیمت تھی؟ کچھ سوچ !تری کیا عزت تھی؟ تھا موت سے بد تر و ہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی عورت ہونا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ جرم نہ بخشا جا تا تھا تا مرگ سزائیں پاتی تھی کو یا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذ بات نہ تھے تو ہین وہ اپنی یا دتو کر ! ترکہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جا تا ہے کو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے ان ظلموں سے چھڑوا تا ہے بھیج دُرود اُس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفیٰ نبیوں کا سردار اس دور جہالت میں عورت کے ساتھ نفرت اور حقارت کے جذبات زائل کرنے کے لئے ہمارے آقا ومولا نے یہ بھی فرمایا کہ ”مجھے تمہاری دنیا کی جو چیزیں سب سے زیادہ عزیز ہیں ان میں اول نمبر پر عورتیں ہیں.پھر ا چھی خوشبو مجھے محبوب ہے مگر میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز اور محبت الہی میں ہی ہے.(نسائی) 10 ایک موقع پر نبی کریم نے یہ اظہار فرمایا کہ بالعموم عورتیں مرد کے مقابل پر ذہنی صلاحیتوں میں نقص کے باوجود ایسی استعداد میں رکھتی ہیں کہ مردوں پر غالب آجاتی ہیں.نبی کریم نے عورتوں کی درخواست پر ان کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک الگ دن مقر فر مایا تھا جس میں ان کو وعظ فرماتے اور ان کے سوالوں کے جواب دیتے تھے.( بخاری )11
465 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات اسوہ انسان کامل نبی کریم نے عورتوں کو معاشرتی دھارے میں برابر شریک کیا.عیدین کے موقع پر تمام مردوں عورتوں بالغ بچیوں تک کو ان اسلامی تہواروں میں شریک کرنے کی ہدایت کی اور فرمایا کہ اگر کسی لڑکی کے پاس پر دہ کیلئے چادر نہ ہو تو وہ اپنی بہن سے مانگ لے اسی طرح وہ عورتیں بھی جنہوں نے ایام مخصوصہ کی وجہ سے نماز نہیں پڑھنی اجتماع عید میں ضرور شامل ہوں تا کہ دعا میں شریک ہو جائیں.( بخاری )12 نبی کریم ماں بیٹی اور بہن اور بیوی کے طور پر عورت کی ایسی عزت اور احترام قائم کیا کہ تاریخ میں پہلے اس کی مثال نہیں ملتی.آپ نے فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے.(نسائی) 13 بیٹیاں زندہ درگور کرنے والوں کو آپ نے ان کی پرورش کرنے پر جنت کی بشارت دی.آپ کی بیٹی فاطمہ تشریف لائیں تو آپ احترام میں کھڑے ہو جاتے.بیوی کی عزت اور احترام بھی آپ نے قائم کیا اور اسے گھر کی ملکہ بنایا.فرماتے تھے کہ ”سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے حسن سلوک کرتے ہیں اور میں تم میں عورتوں سے سلوک میں سب سے بہتر ہوں.“ عورتوں کے احترام اور ان کی نزاکت کا آپ کو بہت خیال تھا.ایک سفر میں آپ کی بیویاں اونٹوں پر سوار تھیں کہ حدی خواں انجشہ نامی نے اونٹوں کو تیز ہانکنا شروع کر دیا.آنحضرت یہ فرمانے لگے اے انجعہ.تیرا بھلا ہو ذرا آہستہ! دیکھتے نہیں یہ نازک شیشے ہمراہ ہیں.ان آبگینوں کو ٹھیس نہ پہنچے.یہ شیشے ٹوٹنے نہ پائیں اونٹوں کو آہستہ ہانکو “ اس واقعہ کے ایک راوی ابو قلابہ بیان کیا کرتے تھے کہ دیکھو رسول کریم ﷺ نے عورتوں کی نزاکت کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو شیشے کہا.یہ محاورہ اگر کوئی اور استعمال کرتا تو تم لوگ عورتوں کے ایسے خیر خواہ کو کب جینے دیتے ضرور اسے ملامت کرتے.(مسلم ) 14 عورت کے حقوق بلا شبہ رسول کریم ﷺ کا ہی حوصلہ تھا کہ اس صنف نازک کے حق میں آپ نے اس وقت نعرہ بلند کیا جب سارا معاشرہ اس کا مخالف تھا.حقیقت یہ ہے کہ مرد ہو کر عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے علمبر دار ہونے کی منفر د مثال صرف اور صرف ہمارے نبی ﷺ کی ہے جو ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف میں لکھی جاتی رہے گی.وہ معاشرہ جس میں عورت کا کوئی حق نہیں سمجھا جاتا تھا اور ان سے گھر کی خادماؤں اور لونڈیوں سے بھی بدتر سلوک ہوتا تھا.نبی کریم نے اسے گھر کی ملکہ بنادیا اور فرمایا عورت اپنے خاوند کے گھر کی نگران ہے.اور اس سے اس ذمہ داری کے بارہ میں پوچھا جائے گا.اسلامی شریعت میں اللہ کر مثل حظ الانثین کا اعلان کر کے عورت کو اس کی ذمہ داری کے مطابق ورثہ کا حق دی گیا کہ وہ بطور ماں ، بیٹی اور بیوی جائیداد کی وارث ہوگی جبکہ اس سے قبل بڑا بیٹا ہی ساری جائیداد کا مالک ہوتا تھا.بانی اسلام نے عورت کو بھی مردوں کی طرح ذاتی ملکیت رکھنے کا پورا حق عطا فر مایا.اور حق ورثہ اور حق مہر کے اموال اس کے تصرف میں دینے کی ہدایت فرمائی.آپ نے شادی کے بارہ میں عورت کی پسند کا حق بھی
466 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات اسوہ انسان کامل قائم فرمایا.روز مرہ خانگی امور سے ہٹ کر مالی امور میں شہادت کے لئے دو عورتوں کی گواہی کو قبول کرنے کا اصول مقرر فرمایا جبکہ بعض امور میں حسب حالات وضرورت تنہا عورت کی گواہی بھی قبول فرمائی جیسے ولادت ورضاعت وغیرہ.غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے عورت کو مکمل آزادی عطا فرمائی.آپ نے عورت کے حقوق کھول کر بیان فرمائے.حضرت معاویہ بن حیدہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت نے اس سوال پر کہ ہم میں سے کسی ایک شخص کی بیوی کا ہم پر کیا حق ہے؟ رسول کریم نے فرمایا کہ تم کھانا کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، خود لباس پہنتے ہو تو اسے بھی پہناؤ.یعنی اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق جوتمہارا اپنا معیار زندگی ہے.بیوی کے حقوق ادا کرو.اُسے سرزنش کرتے ہوئے چہرے پر کبھی نہ مارو اور کبھی پُر ابھلا نہ کہوا سے گالی گلوچ نہ کرو.اور اس سے کبھی جدائی اختیار نہ کرو، ہاں ضرورت پیش آنے پر گھر کے اندر بستر سے جدائی اختیار کرنے کی اجازت ہے.(ابوداؤد ) 15 جہاں تک مجبوری کی صورت میں عورت کو سزا دینے کا ذکر ہے.یا د رکھنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ نے مرد کو جو گھر کا سر براہ اعلیٰ ہوتا ہے، صرف بے حیائی سے روکنے کیلئے اس کی اجازت دی ہے، جیسا کہ خطبہ حجتہ الوداع میں ذکر آئیگا.مگر آنحضرت ﷺ نے جب دیکھا کہ اس رخصت کا غلط استعمال ہو رہا ہے تو آپ نے اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا لَا تَضْرِبُوا اِمَاءَ اللهِ.عورتیں تو اللہ تعالیٰ کی لونڈیاں ہیں، ان پر دست درازی نہ کیا کرو.ایک اور موقع پر بعض لوگوں کے بارے میں جب یہ پتہ چلا کہ وہ عورتوں سے سختی کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ " لَيسَ أُولَئِكَ بِخِيَارِكُمْ - یعنی یہ لوگ تمہارے اچھے لوگوں میں سے نہیں ہیں.“ ( ابوداؤد ) 16 آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جو خطاب فرمایا ہے وہ ایک نہایت ہی جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے.اس میں آپ نے عورتوں کے حقوق کے متعلق خاص طور پر تاکید کی اور فرمایا کہ دیکھو میں تمہیں عورتوں کے حقوق کے بارے میں نصیحت کرتا ہوں کہ یہ بیچاریاں تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہی تو ہوتی ہیں.تمہیں ان پر سخت روی کا صرف اسی صورت میں اختیار ہے کہ اگر وہ کسی بے حیائی کی مرتکب ہوں تو تم اپنے بستروں میں اُن سے جدائی اختیار کر سکتے ہو یا اس سے اگلے قدم کے طور پر انہیں کچھ سرزنش کرتے ہوئے سزا بھی دے سکتے ہو، مگر سزا بھی ایسی جسکا جسم کے اوپر کوئی نشان یا اثر نہ پیدا ہو.اگر وہ اطاعت کرلیں تو پھر اُن کیلئے کوئی اور طریق اختیار کرنا مناسب نہیں.یادرکھو جس طرح تمہارے عورتوں کے اوپر کچھ حقوق ہیں.اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حق ہیں جو تم پر عائد ہوتے ہیں.تمہارا حق عورتوں پر یہ ہے کہ وہ تمہارے لئے اپنی عصمت کی حفاظت کرنے والی ہوں اور تمہاری مرضی کے سوا کسی کو تمہارے گھر میں آنے کی اجازت نہ دیں.اور اُن کا حق تم پر یہ ہے کہ تم اُن کے ساتھ لباس میں، پوشاک میں اور کھانے پینے میں احسان کا سلوک کرنے والے ہو اور جس حد تک توفیق اور استطاعت ہے ، اُن سے حسن سلوک کرو.(ترمذی) 17
اسوہ انسان کامل 467 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹروگلیری نے اسلام میں عورت کے تحفظ حقوق اور مثالی مقام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:.اسلامی شریعت کے آنے سے پہلے تعدد ازدواج پر کوئی قید نہ تھی اور اسلامی قانون نے بہت کی پابندیاں لگا کر مسلمانوں کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کو جائز رکھا.اسلام نے ان مشروط اور عارضی نکاحوں کو ناجائز قرار دیا جو دراصل حرامکاری کو جائز بنانے کے مختلف بہانے تھے مزید برآں اسلام نے عورتوں کو ایسے حقوق عطا کئے جو انہیں پہلے کبھی حاصل نہ تھے..گو سماجی اعتبار سے یورپ میں عورت کو بڑا درجہ حاصل ہے لیکن اگر ہم چند سال پیچھے جائیں اور یورپ کی عورت کی خود مختاری کا موازنہ دنیائے اسلام کی عورت کی خود مختاری سے کریں تو معلوم ہوگا کہ یورپ میں عورت کی حیثیت کم از کم قانونی لحاظ سے بہت ادنیٰ رہی ہے اور بعض ملکوں میں اب تک یہی صورت باقی ہے.ایک مسلمان عورت کو حق ہے کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ ورثہ میں شریک ہو.( گونسبتا اس کا حصہ کم ہے ) اور اس کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہ کی جائے اور شوہر اس سے بدسلو کی نہ کرے.علاوہ بریں اسے یہ بھی حق ہے کہ شوہر سے اپنا مہر وصول کرے اور نان و نفقہ میں خواہ وہ عورت پیدائشی مال دار ہو اور اگر وہ عورت قانونی لحاظ سے اس قابل ہو تو اسے یہ بھی حق ہے کہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی ذاتی جائداد کا انتظام کرے.‘ ( و گلیری)18 پی ایئر کر یبائٹس لکھتے ہیں:."Muhammad, thirteen hundred years ago, assured to the mothers, wives and daughters of Islam a rank and dignity not yet generally assured to women by the laws of the West." محمد اللہ نے تیرہ سو سال قبل اسلام میں ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں کے لئے وہ مقام اور وقار یقینی بنادیا جو ابھی تک مغرب کے قوانین میں عورت کو نہیں مل سکا.“ ( پورٹ )19 سچ ہے وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
اسوہ انسان کامل 1 2 468 حواله جات سنن الدارمي جلد 1 ص 3 مسنداحمد جلد 1 ص 223 طبقہ نسواں پر رسول کریم کے احسانات بخارى (68) كتاب التفسير سورة التحريم باب 386 4 بخاری (68) كتاب التفسير سورة النساء باب 85 5 بخاری(94) الحيل باب 10 6 بخاری (68) كتاب التفسير سورة النساء باب 79 صیحح مسلم(4) كتاب الحيض باب 3 7 8 ابو داؤد (1) كتاب الطهاره باب 104 9 بخاری (71) کتاب الطلاق باب 45 10 نسائی کتاب عشرة النساء باب حب النساء 11 بخاری(3) كتاب العلم باب 12 12 بخاری(19) کتاب العيدين باب 20 13 نسائى كتاب الجهاد باب الرخصة في التخلف لمن له والدة 14 مسلم (44) كتاب الفضائل باب18 15 سنن ابی داؤد (12) كتاب النكاح باب42 16 سنن ابی داؤد (12) كتاب النكاح باب 43 17 سنن الترمذى (10) كتاب الرضاع باب 11 18 An Interpretation of Islam کا اُردو ترجمه اسلام پر نظر ص 41,37 مترجم شیخ محمداحمد مظهر ایڈووکیٹ Muhammad and Teaching of Quran by John Davenport p.126 19
اسوہ انسان کامل 469 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی انسانی معاشرہ افراد کے مجموعہ کا نام ہے.جو میل جول اور باہمی تعلقات کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا.اگر ہر انسان اپنے قریبی ماحول میں بسنے والے لوگوں کے معاشرتی حق ادا کرنے کا سلیقہ سیکھ لے تو کوئی فتنہ اور فساد پیدا نہ ہو اور دنیا امن کا گہوارہ بن جائے.رسول کریم نے ایک مسلمان بھائی اور دوست کا کم از کم حق یہ بیان فرمایا کہ مومن وہ ہے جس سے دوسرے لوگ امن میں رہیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں.(حاکم)1 پھر آپ نے فرمایا کہ باہمی محبت و الفت ایک دوسرے کے ساتھ شفقت سے پیش آنے میں مومنوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے.جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.(احمد 2 ) اسی طرح فرمایا ” اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا.جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند کرتا ہے.‘ ( احمد )3 پھر آپ نے تمام مومنوں کو دوستی سے مضبوط تر تعلق اسلامی اخوت کے دائرہ میں شامل کیا اور فرمایا کہ تم جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک ایمان نہ لاؤ اور مومن نہیں ہو سکتے جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ کرو.(مسلم) 4 آپ نے ایک مومن بھائی کے دوسرے مسلمان پر کچھ حق قائم کئے اور فرمایا.”مومن کے مومن پر کچھ حق ہیں جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے.جب فوت ہو تو جنازہ میں شامل ہو.وہ بلائے تو اسے جواب دے جب اس سے ملے تو سلام کرے جب اسے چھینک آئے تو اسے دعا دے.اور اس کی غیر موجودگی میں اس کی خیر خواہی کرے.(نسائی)5 نبی کریم نے اس لئے قیام امن کا سبق پہلے ایک فرد سے اور پھر گھر سے شروع کیا.ایک فرد کے ساتھ تعلق میں دوستی کے حقوق ایک دوسرے پر قائم ہوتے ہیں اور ایک گھر کے تعلق میں ہمسائیگی کا حق قائم ہوتا ہے.رسول کریم کے جب اور جہاں بھی یہ تعلق قائم ہوئے آپ نے خوب نبھائے اور ان کا حق ادا کر کے دکھایا.آپ کی دوستی کمزور اور غریب لوگوں سے زیادہ ہوتی.فرماتے تھے ” مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کیا کرو اور یا درکھو تمہیں تمہارے کمزور محنت کش لوگوں کی وجہ سے ہی رزق ملتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے.“ ( ترمذی )6
470 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی اسوہ انسان کامل آپ اکثر یہ دعا کرتے تھے اے اللہ مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھنا اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے روز بھی مجھے مساکین کی جماعت سے اُٹھانا.(ترمذی)7 حضرت عثمان نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں بیان فرمایا کہ خدا کی قسم ہم رسول کریم کی صحبت میں رہے سفر میں بھی اور حضر میں بھی.آپ ہمارے مریضوں کی عیادت فرماتے ، ہمارے جنازوں میں شامل ہوتے اور ہمارے ساتھ جہاد میں خود شامل ہوتے تھے نیز کم یا زیادہ سے ہماری غمخواری اور مددفرماتے تھے.(احمد) 8 رسول کریم نے اخوت اور دوستی کے بھی نئے آداب سکھائے آپ نے فرمایا کسی کے لئے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے.کبھی ایسا نہ ہو کہ وہ دونوں دوست با ہم ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے اور دوسرا اُس طرف رُخ کر لے ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے.( بخاری ) رسول کریم ساتھیوں کے جذبات کا بہت خیال رکھتے تھے.فرمایا ” جب تین ساتھی اکٹھے ہوں تو ان میں سے دو تیسرے کو چھوڑ کر الگ سرگوشی میں بات نہ کریں کیونکہ اس سے تیسرے ساتھی کی دل آزاری ہوگی.‘‘ ( بخاری )10 رسول کریم نے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ان کے حق کا خیال رکھنے کی بھی تلقین فرمائی.چنانچہ کھجور کھاتے ہوئے دو دو کھجوریں اکٹھی کھانے سے منع فرمایا.( بخاری )11 وفا ایک قیمتی جو ہر ہے.رسول کریم نے فرمایا کہ جو خدا کے بندوں کے احسانات کی قدر دانی نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرتا.حقیقت یہ ہے وہ لوگ جو اپنے مولیٰ کے ساتھ وفا کے بے نظیر نمونے قائم کر کے دکھاتے ہیں انسانوں کے ساتھ تعلق اور دوستی میں ان سے بڑھ کر کوئی باوفا نہیں دیکھا گیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق جس سے بھی قائم ہوا آپ نے ہمیشہ اس کا لحاظ رکھا.حق ہمسائیگی کا بھی آپ ہمیشہ خیال رکھتے.فرماتے تھے کہ ”جبریل نے مجھے ہمسایہ سے حسن سلوک کی اس قدر تلقین کی یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ ہمسایہ کو شاید حق وراثت میں بھی شامل کرنے کی ہدایت کریں گے.( بخاری )12 اسی طرح آپ نے فرمایا کہ کسی کے حسن و قبح کا معیار اس کا ہمسایوں سے سلوک ہے.اگر تمہارے ہمسائے یہ کہیں کہ تم اچھے ہوتو واقعی تم اچھے ہو اور اگر ہمسائے کہیں کہ تم برے ہو تو واقعی تم بڑے ہو.“ ( ابن ماجہ )13 نبی کریم نے بحیثیت دوست بھی اعلیٰ درجے کا نمونہ وفا دکھایا.حضرت ابوبکر آپ کے ابتدائی زمانہ کے ساتھی تھے.ایک دفعہ حضرت عمر کے ساتھ ان کی تکرار ہو گئی.نبی کریم کو پتہ چلا تو حضرت عمر سے اظہار ناراضگی کرتے ہوئے فرمایا کہ ”تم لوگ میرے ساتھی کو میرے لئے چھوڑو گے یا نہیں؟ ابوبکر وہ ہے جس نے اس وقت میری مدد کی جب سب نے انکار کیا.( بخاری )14
471 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی اسوہ انسان کامل حضرت ابو بکر سے اظہار محبت اور دوستی کا ایک اور واقعہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت اور آپ کے ساتھی ایک تالاب میں تیر رہے تھے تو آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ تم میں سے ہر شخص تیر کر اپنے ساتھی کی طرف جائے (یعنی ایک اس کنارے سے تیرتا جائے اور دوسرا اس کنارے سے تیرتا ہوا آئے) چنانچہ ہرشخص اپنے اپنے ساتھی کی طرف تیر کر چلا ( یعنی سب کو ایک ایک ساتھی مل گیا) صرف آنحضرت اور حضرت ابوبکر صدیق رہ گئے.چنانچہ رسول اللہ حضرت ابوبکر کی طرف تیرے یہاں تک کہ آپ نے (ان کے پاس پہنچ کر انہیں گلے لگایا اور فرمایا " میںاور میرا ساتھی.ایک روایت میں ہے کہ میں اپنے ساتھی کی طرف میں اپنے ساتھی کی طرف“.(حلبیہ )15 بلال اور زید بن حارثہ جو مکی دور ابتلاء کے ساتھی تھے اور حضرت ابوبکر جو سفر ہجرت کے آڑے وقت میں ہمسفر تھے، فتح مکہ کی عظیم الشان فتح کے وقت ان ساتھیوں کو رسول کریم نے فراموش نہیں کیا.اس روز آپ کی شاہی سواری کے دا ئیں ابو بکر تھے تو بائیں بلال اور زیڈ اگر چہ فوت ہو چکے تھے مگر اس کے بیٹے اسامہ کو آپ نے اپنی سواری کے پیچھے پٹھایا ہوا تھا.اس طرح وفاؤں کے جلو میں یہ قافلہ مکے میں داخل ہوا.( بخاری )16 غزوہ احزاب کے موقع پر خندق کی کھدائی ہورہی تھی اور نبی کریم اپنے انصار اور مہاجرین دوستوں کے ساتھ مل کر یہ دعائیہ نغمے پڑھ رہے تھے.اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ الَّا خَيْرَ الآخِرَهُ فَاغْفِرِ الأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهُ اے اللہ ! اصل بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے.پس تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے.رسول کریم انصار مدینہ کی قربانیوں کی بہت قدر فرماتے تھے.ایک دفعہ مدینہ میں انصار کی عورتیں اور بچے کسی شادی کی تقریب سے واپس لوٹ رہے تھے کہ رسول کریم نے دیکھ لیا.آپ ان کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے اور دودفعہ وفور جذبات میں فرمایا " خدا کی قسم ! تم مجھے سب لوگوں سے زیادہ پیارے ہو.( بخاری ) 17 رسول کریم کو اپنے خدام سے خاص محبت تھی.اور ان کی خدمات کا خاص احترام آپ کے دل میں ہوتا تھا.اس سلسلہ میں شہدائے احد کی مثال قابل ذکر ہے.جن سے حضور کو گہری دلی محبت تھی.چنانچہ اپنی زندگی کی شاندار فتح غزوہ خیبر سے واپس آتے ہوئے جب احد مقام پر پہنچے تو وادی احد کے شہید آپ کو یاد آئے.جن کے خون سے یہ وادی لالہ رنگ ہوئی تھی.اور جن کو ان کے خونوں سمیت احد کے دامن میں دفن کیا گیا تھا.آپ وادی احد سے گزرتے ہوئے فرمانے لگے.احد کو ہم سے محبت ہے اور ہمیں احد سے مراد اہل احد سے تھی.ان مسکینوں سے جو دا من احد میں زیر خاک تھے اور ان زندوں سے جو وادی مدینہ میں آباد تھے.( بخاری ) 18
472 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی اسوہ انسان کامل ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کے بارہ میں فرمایا کہ میں ان لوگوں کے حق میں گواہی دونگا.حضرت ابوبکر صدیق نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا ہم ان کے بھائی نہیں ؟ جیسے انہوں نے اسلام قبول کیا ہم نے کیا.جیسے انہوں نے جہاد کیا ہم نے کیا.رسول اللہ نے فرمایا ہاں! لیکن مجھے کیا معلوم تم لوگ میرے بعد کیا کرو گے؟ اس پر حضرت ابوبکر روئے اور بہت روئے.پھر کہنے لگے کیا ہم آپ کے بعد تنہا رہ جائیں گے؟ ( موطا )19 حضرت عقبہ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ شہدائے احد کی شہادت کے آٹھ سال بعد ( یعنی 11ھ میں اپنی وفات کے سال ) رسول کریم نے احد کے شہیدوں پر جا کر دعا کی.صحابہ کہتے ہیں ایسے لگتا تھا جیسے آپ زندوں کے ساتھ مردوں کو بھی الوداع کہہ رہے ہیں.دوستوں کے لئے غیرت فتح مکہ کے سفر میں مرالظہران میں پڑاؤ کے دوران حضرت عبداللہ بن مسعود اپنے چھریرے بدن اور پیلی ٹانگوں کی وجہ سے پھرتی سے درختوں پر چڑھ جاتے اور کالی کالی پیلو اتار کر لاتے.بعض صحابہ ان کی دبلی پتلی ٹانگوں کا مذاق اڑانے لگے.آپ نے دیکھا کہ مذاق استہزاء کا رنگ اختیار نہ کر جائے.تب اپنے اس صحابی کے لئے آپ کو غیرت آئی.فرمایا اس کی سوکھی ہوئی ٹانگوں کو حقارت سے مت دیکھو.اللہ کے نزدیک یہ بہت وزنی ہیں.“ ( ابن سعد ) 20 دیرینہ ساتھی کے والد کا لحاظ فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صحن کعبہ میں تشریف فرما تھے کہ حضرت ابوبکر اپنے بوڑھے باپ ابو قحافہ کو ہمراہ لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ان کی بیعت کے لئے حاضر ہوئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے رفقاء سے حسن سلوک اور کمال بجز و انکسار ملاحظہ ہو.اپنے دیرہ بینہ جانی رفیق حضرت ابو بکڑ کے والد جوا بھی مسلمان نہیں ہوئے تھے کود یکھ کر فرمانے لگے.اپنے بزرگ اور بوڑھے باپ کو آپ گھر میں ہی رہنے دیتے اور مجھے موقع دیتے کہ میں خودان کی خدمت میں حاضر ہوتا.حضرت ابو بکر اس شفقت پر وارے جاتے ہیں کمال ادب سے عرض کیا اے خدا کے رسول ! ان کا زیادہ حق بنتا تھا کہ چل کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوں بجائے اس کے کہ حضور مبنفس نفیس تشریف لے جاتے.نبی کریم ﷺ نے اپنے سامنے بٹھا کرا ابو قحافہ کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ اب اسلام قبول کر لیجئے.ان کا دل تو محبت بھری باتوں سے رسول اللہ پہلے ہی جیت چکے تھے.ابو قحافہ کو انکار کا یارا کہاں تھا انہوں نے فوراً سر تسلیم خم کیا.حضور صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان سے دل لگی کی باتیں کرنے لگے ان کے بالوں میں سفیدی دیکھی تو فر مایا کہ ” خضاب وغیرہ لگا کر ان کے بالوں کا رنگ تو بدلو.“ ( ابن ھشام ) 21 رسول کریم کو قدیم دوستانہ تعلقات کا بہت پاس ہوتا تھا.اور ایک عجب وفا اور پاس عہد کے ساتھ ان کو زندہ رکھتے تھے.آپ کسی کی نیکی فراموش نہ کرتے تھے.
اسوہ انسان کامل 473 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی نجاشی شاہ حبشہ کا وفد آیا تو آنحضرت اُن کی خدمت کے لئے خود کمر بستہ ہو گئے.صحابہ نے عرض کیا ہم آپ کی طرف سے نمائندگی کر دیں گے.آپ نے فرمایا انہوں نے ہمارے دوستوں کی عزت کی تھی اور میرا دل کرتا ہے کہ خود ان کی خدمت کر کے ان کا بدلہ چکاؤں.( بیہقی )22 حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد بھی ان کی سہیلیوں کو تحائف بھجوا کر انہیں یا ور کھتے.( بخاری ) 23 حضرت عائشہ بیان فرماتی تھیں کہ ایک دفعہ ایک بڑھیا نبی کریم کے پاس آئی.حضور کی باری میرے ہاں تھی.آپ نے اس کا تعارف پوچھا وہ کہنے لگی.میں جشامہ ہوں مزنی قبیلہ سے میرا تعلق ہے.آپ نے فرمایا ہاں ہاں تم تو مزنی قبیلہ کی بہت اچھی عورت ہو.تم کیسی ہو؟ احوال کیا ہیں؟ ہمارے مدینہ آجانے کے بعد تم پر کیا گزری؟ وہ کہنے لگی میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! ہم خیریت سے ہیں.حضور اس سے نہایت شفقت سے باتیں کرتے رہے.جب وہ چلی گئی تو میں نے تعجب سے کہا یا رسول اللہ! ایک بڑھیا کے لئے اتنا تپاک اور التفات؟ فرمانے لگئے ”ہاں! یہ عورت خدیجہ کی زندگی میں ہمارے گھر آتی تھی اور تعلق نبھانا بھی ایمان کا حصہ ہے.“ (حاکم) 24 فتح حسین کے بعد ایک لڑکی نے آکر عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ کی رضاعی بہن شیماء ہوں.رسول کریم نے کمال محبت سے اپنی چادر اس کے لئے بچھا دی اور فرمایا جو چاہے مانگو اور جس کی سفارش کر و قبول کی جائے گی.(بیہقی ) 25 حضرت سائب بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضرت عثمان مجھے ہمراہ لے کر رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تعارف میں کچھ تعریفی کلمات کہنے لگے تو آپ نے فرمایا سائب کے بارے میں تم بے شک مجھے کچھ زیادہ نہ بتاؤ.میں اسے زمانہ جاہلیت سے جانتا ہوں کہ یہ میرا دوست رہا ہے.( احمد ) 26 فتح مکہ اور انصار مدینہ سے وفا جب مکہ کی عظیم الشان فتح سے خدا کا رسول اور جماعت مومنین خوش ہورہے تھے عین اس وقت ایک عجیب جذباتی نظارہ دیکھنے میں آیا.ہوا یوں کہ کچھ عشاق رسول انصار مدینہ کے دلوں میں یہ وسو سے جنم لے رہے تھے.ان کے دل اس وہم سے بیٹھے جارہے تھے کہ ہمارے آقا مکہ کی فتح کے بعد کہیں اپنے اس وطن مالوف میں ہی مستقل قیام نہ فرمالیں.یہ وساوس قلب و دماغ سے نکل کر زبانوں پر آنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے جس محبت و رأفت کا سلوک فرمایا ہے اس سے وطن کے ساتھ آپ کی محبت بھی ظاہر ہے.اگر یہ محبت غالب آگئی اور آپ کیہیں رہ گئے تو ہمارا کیا ٹھکانہ ہوگا.کہتے ہیں عشق است ہزار بد گمانی.دراصل یہ وسو سے انصار مدینہ کے عشق صادق کے آئینہ دار تھے.کمزوری اور مظلومی کے زمانہ کے ان ساتھیوں کے ٹوٹے دلوں کی ڈھارس بھی ضروری تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی انصار کی ان قلبی کیفیات سے اطلاع فرمائی.آپ نے انصار مد بینہ کا ایک الگ اجتماع کوہ صفا پر طلب فرمایا اور ان سے مخاطب ہوئے کہ کیا تم لوگ یہ باتیں کر رہے ہو کہ محمد پر اپنے وطن اور قبیلے کی محبت
474 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی اسوہ انسان کامل غالب آگئی ہے؟ انصار نے سچ سچ اپنے خدشات بلا کم و کاست عرض کر دئیے.تب خدا کے رسول نے اطمینان دلاتے ہوئے بڑے جلال سے فرمایا کہ اگر میں ایسا کروں تو دنیا مجھے کیا نام دے گی؟ میں پوچھتا ہوں مجھے بتاؤ تو سہی کہ بھلادنیا مجھے کسی اچھے نام سے یاد کرے گی؟ اور میرا نام تو محمد ہے یعنی ہمیشہ کیلئے تعریف کیا گیا.تم مجھے کبھی بے وفا نہیں پاؤ گے.بے شک میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں.وہ وطن جو میں نے خدا کی خاطر چھوڑا تھا اب میں لوٹ کر کبھی اس میں واپس نہیں آسکتا ہوں.اب میں تمہارا جیون مرن کا ساتھی بن چکا ہوں.میرے مکہ میں رہ جانے کا کیا سوال؟ اب تو سوائے موت کے مجھے کوئی اور چیز تم جیسے وفاداروں اور پیاروں سے جدا نہیں کر سکتی.انصار مدینہ جو جذبات عشق سے مغلوب ہو کر ان وساوس میں مبتلا ہوئے تھے سخت نادم اور افسردہ ہوئے کہ ہم نے نا حق اپنے آقا کا دل دکھایا.پھر کیا تھا وہ ڈھائیں مار مار کر رونے لگے.روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں.انہوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ! ہم نے جو یہ بات کی تو محض خدا اور اس کے رسول کے ساتھ پیار کی وجہ ہی کی تھی کہ اس سے جدائی ہمیں گوارا نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان وفادار ساتھیوں کو دلاسا دیا اور فرمایا اللہ اور رسول تمہارے اس عذر کو قبول کرتے ہیں.اور تمہیں مخلص اور سچا قرار دیتے ہیں.( مسلم ) 27 جس طرح فرد کے فرد کے ساتھ خوشگوار تعلقات معاشرہ کے امن واستحکام کی ضمانت ہیں.اسی طرح ایک گھرانے کے گھرانے سے محبت بھرے تعلقات کے نتیجہ میں بھی ماحول میں وحدت پیدا ہوتی ہے.رسول کریم نے اس پہلو سے ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم دے کر اس مضمون کو بہت وسیع کر دیا ہے.آپ نے فرمایا’ چالیس گھروں تک ہمسایہ کا حق ہوتا ہے.“ تمام دنیا جومحمد مصطفیٰ سے منسوب ہوتی ہے.آپ سے محض حق ہمسائیگی ادا کرنا ہی سیکھ لے اور اس بارہ میں آپ کی تعلیم پر عمل پیرا ہو تو ایک فرد اپنے ساتھی کا خیال رکھے، ہر گھرانہ اپنے ہمسایہ گھرانے کا خیال رکھے پھر ایک محلہ ہمسایہ محلے کا ، ایک شہر ہمسایہ شہر کا اور ایک ملک ہمسایہ ملک کے حقوق ہمسائیگی کا خیال رکھے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے.الغرض حق ہمسائیگی کے بارہ میں نبی کریم کی تعلیم بے نظیر ہے.رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک اچھے دوست وہ ہیں جو اپنے دوست کے لئے بہتر ہیں.اور بہترین ہمسائے اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے ہمسائے کے لئے بہتر ہیں.(ترمذی) 28 نیز فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے اپنے ہمسایوں میں محبوب بنا دیتا ہے.( احمد ) 29 حضرت ابوذر بیان کرتے تھے کہ رسول کریم نے مجھے نصیحت فرمائی کہ جب سالن کا شور بہ بناؤ تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو.اپنے ہمسایوں میں سے کسی کو تحفہ بھجوا دو.“ (مسلم ) 30 رسول کریم ﷺ نے بڑی تفصیل سے ہمسائے کے حقوق بیان کئے اور فرمایا جو شخص اپنا دروازہ اپنے ہمسائے پر بند
475 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی اسوہ انسان کامل رکھتا ہے کہ اس کے اہل یا مال کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو وہ مومن نہیں ہے اور وہ بھی مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کے شر سے محفوظ نہیں.جانتے ہو ہمسائے کا حق کیا ہے؟ جب پڑوسی کوئی مدد طلب کرے تو اس کی مدد کر و.جب وہ قرض مانگے تو اسے قرض دو.جب اسے کوئی حاجت ہو تو وہ پوری کرو.جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو.جب اسے کوئی خوشی پہنچے تو مبارک باد دو.جب اسے کوئی رنج پہنچے تو اس سے تعزیت کرو.جب اس کی وفات ہو تو جنازہ میں شامل ہو.اپنے مکان کی دیوار میں اتنی اونچی نہ کرو کہ ہمسائے کی ہوا رک جائے.ہاں اس کی رضامندی سے ایسا کر سکتے ہو.اپنی ہنڈیا کی خوشبو سے اس کا دل نہ دکھاؤ بلکہ اسے بھی کچھ سالن بھجوا دو.اگر پھل خرید و تو اس میں سے بھی تحفہ بھجواؤ.نہیں دے سکتے تو پھر گھر میں خاموشی سے وہ پھل لے جاؤ تمہارے بچے وہ پھل لے کر باہر نہ جائیں مبادا اس کے بچوں کی دلآزاری ہو.(منذری )31 رسول کریم نے اپنے نمونہ سے ہمیں یہ سبق دیا کہ اگر کوئی شخص ہمسائے کا حق ادا نہیں کرتا تو پورے معاشرہ کو اس مظلوم کے حق میں جہاد کرنا چاہئے.چنانچہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم کی خدمت میں اپنے پڑوسی کی شکایت لے کر حاضر ہوا پہلے تو آپ نے فرمایا صبر کرو.وہ دوسری دفعہ آیا تو بھی آپ نے صبر کی تلقین فرمائی.تیسری مرتبہ اس کا پیمانہ صبر لبریز دیکھ کر رسول کریم ﷺ نے اس کے ہمسائے کی اصلاح کا عمدہ طریق تجویز کیا.آپ نے اس مظلوم ہمسائے کو فرمایا کہ اپنے گھر کا سامان نکال کر باہر رکھ دو.اس نے ایسا ہی کیا.لوگوں کے پوچھنے پر وہ انہیں بتاتا کہ ہمسایہ زیادتی کرتا ہے.تمام لوگ اس ظالم ہمسائے کو لعنت ملامت کرنے لگے.یہاں تک کہ وہ تنگ آکر رسول کریم نے کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ لوگوں نے مجھ پر لعنت ملامت کی حد کر دی ہے.آپ نے فرمایا کہ اللہ اس سے پہلے تم پر لعنت کر چکا ہے.وہ معافی کا طلبگار ہوا کہ اب ہمسائے کو تنگ نہیں کرونگا.پھر اپنے ہمسائے سے بھی عہد کیا اور کہا کہ آئندہ تمہیں مجھ سے کوئی شکایت نہ ہوگی.اس پر رسول کریم نے بھی دوسرے ہمسائے سے فرمایا ٹھیک ہے اب سامان اندر رکھ لو.اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے.آپ نے فرمایا کہ وہ شخص مومن نہیں ہے جو خود تو سیر ہو کر کھا لیتا ہے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے.( منذری )32 رسول کریم اپنے ہمسایوں کا بہت خیال رکھتے تھے.آپ کے ہمسایوں میں مسجد نبوی کے وہ فاقہ کش درویش بھی تھے.جو مسجد کے ایک چبوترے پر بسیرا رکھتے اور اصحاب صفہ کہلاتے تھے.حضرت ابوھریرہ کا بھی ان میں سے تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم نے میرے چہرہ سے بھوک کے آثار محسوس کئے.مجھے اپنے ہمراہ گھر لے گئے.آپ کو دودھ کا ایک پیالہ مل گیا.مجھے فرمایا کہ جاؤ اصحاب صفہ کو بلا لاؤ.ابو ہریرہ کہتے ہیں یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنا کوئی گھر بار نہ تھا.رسول کریم کے پاس جب بھی صدقہ آتا تو انہیں عطا فرماے یا کوئی تحفہ آتا تو انہیں ضرور اس میں شریک کرتے.یہ گویا مسلمانوں کے مستقل مہمان تھے.( ھیثمی )33 ابو ہریرہ کو ان سب کو بلاتے ہوئے یہ فکر دامنگیر تھی کہ دودھ کا ایک پیالہ ان سب کو کیسے کفایت کرے گا ؟ مگر اللہ
اسوہ انسان کامل 476 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی تعالیٰ نے اس میں ایسی برکت ڈالی کہ سب نے سیر ہو کر پیا بلکہ بچ بھی گیا.(بخاری) 34 اصحاب صفہ کے ایک اور فاقہ کش درویش ابو عبد اللہ بن طہفہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مہمان زیادہ تھے.انصار مدینہ ان سب کو گھروں میں لے گئے.صرف ہم پانچ آدمی بیچ رہے جن کو رسول کریم اپنے گھر لے گئے اور جو تھوڑا سا کھانا آپ کی افطاری کے لئے تیار تھا اس میں ہم پانچوں مہمانوں کو شریک فرمایا.( احمد ) 35 انہی درویشوں میں مقداد بن اسود اور ان کے دو ساتھی بھی تھے.جن کو رسول کریم نے اپنے پڑوس میں رہنے کے باعث مستقل مہمان رکھ لیا تھا.اور ایک عرصہ تک وہ حضور کی تین بکریوں کے دودھ میں آپ کے ساتھ شریک ہو کر حق ہمسائیگی سے لطف اندوز ہوتے رہے.(مسلم) 36 رسول کریم مسلمان خواتین کو بھی تاکید فرماتے تھے کہ کوئی پڑوسن کسی دوسری کو معمولی تحفہ خواہ بکری کے پائے کا ہو دینے میں دریغ نہ کرے.( بخاری ) 37 اس تعلیم پر سب سے پہلے خود رسول اللہ اور آپ کے اہل خانہ عمل کرتے تھے.چنانچہ حضرت عائشہ نے ایک دفعہ استفسار کیا کہ یا رسول اللہ میرے دو ہمسائے ہیں.دونوں میں سے ایک کو تحفہ دینا ہو تو کسے دوں؟ فرمایا ” جو ہمسایہ تمہارے دروازے کے زیادہ قریب ہے.( بخاری ) 38 ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک بلا امتیاز مذہب وملت لازم ہے.صحابہ رسول نے سنت نبوی کے یہ پاکیزہ نمونے خوب اپنائے.حضرت عبداللہ بن عمر کے بارہ میں روایت ہے کہ جب وہ کوئی جانور یا بکری وغیرہ ذبح کرواتے تو پوچھتے کہ ہمارے یہودی ہمسائے کو بھی گوشت کا تحفہ بھجوایا کہ نہیں؟ نیز فرماتے رسول اللہ ﷺ نے ہمسائے کا بڑا حق قائم فرمایا ہے.(ابوداؤد )39 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کہا یارسول اللہ ! ایک عورت ہے یوں تو اس کی نیکی نماز روزہ اور صدقہ وغیرہ کا بہت چر چاہے بس اس میں ایک خامی ہے.وہ اپنے ہمسائے کو ایذا پہنچاتی ہے.رسول کریم نے فرمایا کہ وہ آگ میں ہے ، پھر اس نے ذکھ کیا کچھ عیارسول اللہ ! ایک اور عورت ہے وہ نماز ، روزہ اور صدقہ میں تو کمزور ہے مگر وہ پنیر وغیرہ صدقہ کرتی رہتی ہے اور ہمسایوں کا خیال رکھتی ہے انہیں برا بھلا نہیں کہتی.رسول کریم نے فرمایا وہ جنت میں ہے.“ ( احمد ) 40 میوه پاکیزہ معاشرہ ہے جو نی کریم انفرادی گھر یلوسط پر قائم فرمانا چاہتے تھے.اور اس معاشرہ کا قیام ہم سب کا صح نظر ہونا چاہئے.
اسوہ انسان کامل 477 1 مستدرك حاكم جلد1ص54 2 مسند احمد جلد4ص278 3 مسند احمد جلد 3 ص 251 4 مسلم (2) کتاب الايمان باب 24 حواله جات 5 سنن نسائى كتاب الجنائز باب النهي عن سب الاموات 6 سنن ترمذی (24) کتاب الجهاد باب 24 7 ترمذی (39) كتاب الدعوات 8 مسند احمد جلد 1 ص 69 9 بخاری (81) كتاب الادب باب 62 10 بخارى (82) كتاب الاستئذان باب 45 11 بخاری (73) کتاب الاطعمة باب 42 12 بخاری(81) كتاب الادب باب 28 13 ابن ماجه (37) كتاب الزهد باب 25 14 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 5 15 سيرت الحلبيه أردو جلد اول ص172 16 بخاری (67) کتاب المغازی باب 44 17 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 35 18 بخاری (67) کتاب المغازی باب 11 19 مؤطا امام مالك كتاب الجهاد باب الشهداء في سبيل الله 20 الطبقات الكبرى لابن سعد جز ٣ ص ١٥٥ 21 السيرة النبوية ابن هشام جلد ٤ صفحه ٩١ 22 دلائل النبوة للبيهقى جلد2ص307 23 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 50 24 مستدرك حاكم جلد1ص62 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی
اسوہ انسان کامل 25 دلائل النبوة للبيهقي جلد 5 ص 272 26 مسند احمد جلد 3 ص 425 27 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 31 478 28 سنن ترمذی (28) کتاب البر والصله باب 28 29 مسند احمد جلد 4 ص 200 30 مسلم (46) كتاب البرو الصلة والادب باب42 31 الترغيب والترهيب للمنذري جلد 3 ص 357 358 نبی کریم کا حسن معاشرت بحیثیت دوست و پڑوسی 32 مستدرك حاكم والترغيب والترهيب للمنذري جلد3 ص 355 33 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 538 ، مستدرك حاكم جلد3 ص17 34 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 17 35 مسند احمد جلد 5 ص426دار الفكر العربي 36 مسلم(37) كتاب الاشربة باب 32 37 صحیح بخاری(81) كتاب الادب باب30 38 صحیح بخاری(41) كتاب الشفعة باب3 39 سنن ابی داؤد (42) کتاب الادب باب 133 40 مسند احمد جلد 1 ص 440 ابن ماجه (22) كتاب الوصايا باب3
اسوہ انسان کامل 479 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر طبقہ کے لئے رحمت بن کر آئے تھے.جس زمانہ میں آپ مبعوث ہوئے اس میں نہ مذہبی آزادی میسر تھی نہ حریت ضمیر.حضرت عمررؓ کا یہ قول کتنا سچا ہے کہ ماؤں نے تو سب انسانوں کو آزاد جنا تھا تم نے کب سے ان کو غلام بنالیا؟ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس زمانے میں انسانوں کی غلامی کا رواج تھا.طاقتور قومیں یا قبائل حملہ آور ہو کر جسے چاہتے قید کر کے غلام بنا لیتے تھے.محسنِ انسانیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو جن طوقوں سے نجات دلائی ان میں ایک غلامی کا طوق بھی ہے آپ کے ذریعہ غلامی کے خاتمہ کا یہ اعلان کیا گیا کہ:.سوائے اس کے کہ خونریز جنگ ہو اور مد مقابل دشمن تمہارے آدمی قید کرے بلا وجہ کسی کو قیدی نہیں بنایا جاسکتا.“ (سورۃ الانفال : 68) ایسی مجبوری میں جولوگ قید ہو کر غلام بن جائیں.انہیں غلامی سے نجات دلانے کیلئے رسول کریم نے کئی طریق اعلان فرمائے.ایک یہ کہ فدیہ تاوان جنگ دے کر جنگی قیدی آزاد ہو سکتا ہے.اگر یکمشت ادا ئیگی نہیں کر سکتا تو اس کو مکاتبت کا حق ہے یعنی ایک قیمت مقرر کروا کے بالاقساط ادائیگی کے ذریعہ وہ آزاد ہوسکتا ہے.جنگ بدر میں ستر کفار مکہ قیدی ہوئے.ان لوگوں اور ان کے اقارب نے مسلمانوں پر مکہ میں سخت مظالم ڈھائے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور وہ مدینہ آکر آباد ہوئے مگر مدینہ میں بھی ان ظالموں نے مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور نہتے مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے.لیکن نبی کریم نے کفار قریش کے ان قیدیوں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کی تعلیم دی.رسول کریم ﷺ نے مختلف گھرانوں میں بدر کے قیدی تقسیم کرتے ہوئے فرمایا دیکھو ان قیدیوں کا خیال رکھنا.“ ابوعزیز بن عمیر ( جو حضرت مصعب بن عمیر کے بھائی تھے ) بھی ان قیدیوں میں تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کے ایک گھرانے میں قید تھا.جب وہ صبح یا شام کا کھانا کھاتے تو مجھے خاص طور پر روٹی مہیا کرتے اور خود کھجور پر گزارا کر لیتے کیونکہ رسول اللہ اللہ نے ان کو قیدیوں کے بارے میں حسن سلوک کی ہدایت فرمائی تھی.ان کے خاندانوں کے کسی فرد کے ہاتھ میں روٹی کا کوئی ٹکڑا آجاتا تو وہ مجھے پیش کر دیتا.میں شرم کے مارے واپس کرتا مگر وہ مجھے ہی لوٹا دیتے.(ابن ہشام و سیمی ) 1 انہی قیدیوں میں سے حضرت عباس کے جسم پر کوئی قمیص نہ تھا.رسول کریم کو ان کے لئے قمیص تلاش کروانا پڑا کیونکہ
اسوہ انسان کامل 480 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک وہ لمبے قد کے تھے بالآ خر عبداللہ بن ابی کا قمیص انکو پورا آیا جوان کو مہیا کیا گیا.( بخاری )2 بدر کے قیدیوں کی آزادی اس زمانے کے دستور کے مطابق بدر کے جنگی قیدیوں کی سزا موت تھی.جیسا کہ استثناء میں یہودونصاری کو بھی یہی تعلیم ہے کہ جس قوم پر فتح پاؤ مردوں کو قتل کردو اور عورتوں بچوں کو قیدی بنالو.مگر نبی کریم نے اپنے ان جانی دشمنوں کے ساتھ نہایت احسان کا سلوک کرتے ہوئے ان کی جان بخشی فرمائی باوجود یکہ حضرت عمر یہ رائے پیش کر چکے تھے کہ یہ سرداران کفر اور قریش کے سرکردہ لوگ ہیں اور اس لائق ہیں کہ سب قتل کئے جائیں مگر رسول کریم بار بار ان کے لئے رحم کے جذبات ابھارتے اور فرماتے ”اب اللہ نے تم لوگوں کو ان پر قبضہ اور اختیار دیدیا ہے اور یہ کل تک تمہارے بھائی تھے.تب حضرت ابوبکر نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ اُن کو معاف کر کے فدیہ قبول فرما ئیں.رسول کریم یہ مشورہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بالآخر یہی فیصلہ فرمایا اور قیدیوں سے فدیہ قبول فرمالیا.(احمد) 3 ہر قیدی کا فدیہ اس کی استطاعت کے مطابق ایک ہزار سے چار ہزار درہم تک تھا.مگر وہ قیدی جو غریب اور نادار تھے اور فدیہ دینے کی طاقت نہ رکھتے تھے رسول کریم ﷺ نے انہیں بغیر فدیہ کے آزاد فر ما دیا.جیسے ابوعزہ عمرو بن عبداللہ.( ابن ہشام) 4 بعض اور قیدیوں کو جو فدیہ کی طاقت نہیں رکھتے تھے مگر لکھنا پڑھنا جانتے تھے انہیں اختیار دیا گیا کہ اگر وہ انصار کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو آزاد ہونگے چنانچہ جب بچے لکھنے پڑھنے کے قابل ہو جاتے انہیں آزاد کر دیا جاتا.( ابن سعد )5 مسلمانوں کے قیدیوں کے ساتھ اس حسن سلوک کا نتیجہ یہ ہوا کہ قیدیوں میں سے کئی مسلمان ہو گئے جن کی تعداد سولہ کے قریب ہے.ان میں عقیل بن ابی طالب، نوفل بن حارث، ابوالعاص بن ربیع ، ابو عزیز بن عمیر ، خالد بن ہشام، سھیل بن عمر د وغیرہ شامل ہیں.نبی کریم نے عام طور پر بھی غلاموں کی آزادی کی تحریک فرمائی اور اسے بہت نیکی اور ثواب کا کام قرار دیا.آپ نے کئی قسم کی خطاؤں کا کفارہ غلام آزاد کرنا مقرر فرمایا مثلا قتل خطا کا کفارہ ایک غلام آزاد کرنا، بیوی کو ماں کہنے سے اپنے او پر حرام قرار دے کر میاں بیوی کا تعلق قائم کرنے کا کفارہ بھی غلام آزاد کرنا ہے، پختہ قسم کھا کر توڑنے کا کفارہ بھی غلام کی آزادی ہے.رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کا اپنے جانی دشمنوں اور ان کے ساتھ جنگ میں شکست کھا کر قید ہونے والوں سے سلوک بھی ایسا شاندار تھا کہ مستشرقین بھی اس کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکے.سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد میں مسلمانوں کے اسیران بدر کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.
اسوہ انسان کامل 481 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک "In pursuance of Mahomet's commands, the citizens of Medina, and such of the refugees as already had houses of their own, received the prisoners, and treated them with much consideration.'Blessings be on the men of Medina!'said one of these prisoners in later days: 'they made us ride, while they themselves walked: they gave us wheaten bread to eat when there was little of it, contenting them selves with dates.' It is not surprising that when, some time afterwards, their friends came to ransom them, several of the prisoners who had been thus received declared themselves adherents of Islam; and the such the Prophet granted liberty without ransom." محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حکومت میں اہالیانِ مدینہ اور وہ مہاجرین جنہوں نے یہاں اپنے گھر بنا لئے تھے کے پاس جب (بدر کے قیدی آئے تو انہوں نے ان سے نہایت عمدہ سلوک کیا.بعد میں خود ایک قیدی کہا کرتا تھا کہ اللہ رحم کرے مدینہ والوں پر.وہ ہمیں سوار کرتے تھے اور خود پیدل چلتے تھے.ہمیں کھانے کے لئے گندم کی روٹی دیتے تھے جس کی اس زمانہ میں بہت قلت تھی اور خود کھجوروں پر گزارا کرتے تھے.اس لحاظ سے یہ بات تعجب خیز نہیں ہونی چاہئے کہ بعد میں جب ان قیدیوں کے لواحقین فدیہ لے کر انہیں آزاد کروانے آئے.ان میں سے کئی قیدیوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اور ایسے تمام قیدیوں کو رسول اللہ نے فدیہ لئے بغیر آزاد کر دیا.“ ( میور )6 اسی طرح سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے اپنی کتاب ”محمد“ میں لکھا:."Some of the prisoners were so impressed by life in the umma that they converted to Islam.Perhaps the most dramatic of these conversions was that of Umayr ibn Wahb (who had tried to persuade the Quraysh not to fight at Badr).Ummayah persuaded him to go back to Medina and assassinate Muhammad.He did go back but Muhammad caught him out and Umayr became a Muslim instead." و بعض قیدی مسلمانوں میں زندگی گزارنے کے بعد اتنے متاثر تھے کہ وہ مسلمان ہو گئے.ان اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے زیادہ حیران کن واقعہ عمیر بن وھب کا تھا ( جس نے قریش کو بدر میں لڑائی نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ) جب وہ مکہ واپس لوٹا تو اس کے قبیلہ کے سردار اور دوست صفوان بن امیہ نے محمد کو قتل کرنے کے لئے اسے واپس مدینہ
اسوہ انسان کامل 482 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک بھجوایا.یہ چلا گیا مگر محمد نے اسے پکڑ لیا اور عمیر نے بالآخر اسلام قبول کر لیا.“ ( آرمسٹرانگ ) 7 غلاموں کی تدریجی آزادی کا یہ طریق نہایت مفید اور کارآمد ر ہاور نہ اگر ایک روز ہی تمام غلاموں کی آزادی کا اعلان کر دیا جاتا جس طرح امریکہ میں کیا گیا تو ان مقہور غلاموں کی رہائش اور معاش کے بے شمار نا قابل حل مسائل اٹھ کھڑے ہوتے.اور یہ غلاموں پر احسان کی بجائے ظلم ہوتا کہ ایک ہی دن میں کئی عورتیں اور بچے بے خانماں اور بے آسرا ہو جاتے.ان کے منہ کے لقے بھی ان سے چھن جاتے.تاہم جب اور جہاں کثیر غلاموں کو آزاد کر ناممکن ہوا وہاں رسول کریم نے یہ بھی کر کے دکھایا چنانچہ غزوہ حنین میں بنو ہوازن کے چھ ہزار افراد قیدی ہوئے اور جب ان کے عزیز اور رشتہ دار نبی کریم سے آزادی کے طالب ہو کر آئے تو آپ نے سب کو ایک دن میں بغیر کسی معاوضہ کے احسان فرماتے ہوئے آزاد کر دیا، جو دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے.(بخاری) 8 غلاموں کے حقوق غلامی سے آزادی کی ان تمام تدبیروں کے باوجود جو غلام باقی رہ گئے تھے ان سے آپ نے کمال شفقت اور احسان کا سلوک کرنے کی تعلیم دی.وہ معاشرہ جہاں غلاموں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جانتا تھا، وہاں آپ نے غلاموں کو آقا کے برابر لا کھڑا کیا اور انہیں اخوت کے مقدس اور مضبوط رشتہ میں باندھ دیا.عرب لوگ غلاموں کو جانوروں کی طرح مارتے تھے.رسول کریم نے اس بات سے سختی سے منع کیا.فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہیں جو اپنے خادموں کے لئے بہتر ہیں.( بیشمی 9) ایک دفعہ ابو مسعود بدری اپنے غلام کو کسی بات پر مار رہے تھے.نبی کریم نے دیکھا تو فرمایا ” اسے آزاد کرو.اور انہوں نے وہ غلام آزاد کر دیا.( مسلم ) 10 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خادم کے مالک پر تین حق ہیں.اول یہ کہ جب وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اسے جلدی نہ ڈالے.دوسرے کھانا کھاتے ہوئے اسے کھانے سے نہ اُٹھائے اور تیسرے اسے بھوکا نہ رکھے بلکہ سیر کر کے کھانا کھلائے.( پیشمی ) 11 نبی کریم نے حضرت ابوذر کو ایک غلام دیا اور فرمایا اس کا خاص خیال رکھنا.ابوذر نے اسے آزاد کر دیا.بعد میں حضور نے ان سے پوچھا کہ تمہارے غلام کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ نے جو ارشاد فرمایا تھا کہ اس سے حسن سلوک کرنا، میں نے اسے آزاد کر دیا ہے.رسول کریم نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ کو ایک غلام دیا اور فرمایا میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے تم لوگ اس سے اچھا سلوک کرنا.(بیشمی )12 ایک شخص نے آنحضرت کی خدمت میں عرض کیا کہ میرا خادم بہت غلطیاں کرتا ہے اور زیادتی کا مرتکب ہوتا ہے کیا میں اسے سزا دے لیا کروں؟ حضور نے فرمایا کہ اپنے خادم سے دن میں ستر دفعہ تک عفو کا معاملہ کرو.(بیشمی ) 13
483 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک اسوہ انسان کامل معرور بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوذر سے ربذہ مقام پر ملا.انہوں نے بھی ایک پوشاک زیب تن کی ہوئی تھی اور ان کے غلام نے بھی ویسی ہی پوشاک پہنی تھی.( آقا و غلام میں مساوات کا یہ عالم دیکھ کر تجب سے ) میں نے اس بارہ میں سوال کیا.تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو گالی دی تھی ( جو اغلبا غلام تھا ) حضور نے سن کر فرمایا اے ابوذر! کیا تم نے اسے ماں کی گالی دی ہے.بلاشبہ یہ تم نے جاہلیت کی بات کی ہے (یاد رکھو) تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کر دیا ہے.جس کا بھائی اس کے ماتحت ہو وہ اُسے اس میں سے کھلائے جس میں سے وہ خود کھاتا ہے.اور ویسا ہی لباس پہنائے جیسا خود پہنتا ہے.اور ان کو ایسے کام کرنے کے لئے نہ کہو جو ان کی طاقت سے باہر ہوں.اور اگر کوئی ایسا مشکل کام کہہ دو تو پھر خود ان کی مدد کرو.( بخاری )14 دوسری روایت میں تصریح ہے ابوذر اور انکے غلام کی چادر ایک جیسی تھی ( تہبند دونوں کے مختلف تھے ) معرور نے ان سے کہا کہ اے ابوذر اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے کر اپنا تہبند بناتے تو آپ کی پوری پوشاک بن جاتی اور غلام کو آپ کوئی اور کپڑا دے دیتے.ابوذر نے کہا میں نے ایک دفعہ ایک شخص کو ( جو غلام تھا ) جس کی ماں عجمی تھی ماں ( کی عجمیت ) کا طعنہ دیا تو اس نے حضور کے پاس میری شکایت کردی.آپ نے فرمایا یہ بھی تمہارے بھائی ہیں جن پر اللہ نے تمہیں فضیلت دی ہے.پس جس کو اس کا غلام موافق نہ ہوا سے بیچ دو اور اللہ کی مخلوق کو عذاب نہ دو.(ابوداؤد ) 15 ایک اور موقع پر نبی کریم نے فرمایا کہ خادم یا غلام جب کھانا لائے اُسے بھی ساتھ بٹھا کر اس میں سے کھلا ؤ اگر وہ نہ مانے تو کچھ کھانا ہی دید و کہ اس نے کھانا تیار کرتے ہوئے گرمی اور دھواں کھایا ہے.(ابن ماجہ ) 16 پھر فرمایا تم ان غلاموں کی اپنی اولاد کی طرح عزت کرو اور جو خود کھاتے ہو اس میں سے ان کو کھلا ؤ.( بخاری ) 17 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کی عزت نفس قائم کرنے کیلئے ایک انسان ہونے کے ناطہ سے ان کی تکریم کی ہدایت کی اور فرمایا کہ انہیں میرا غلام یا میری لونڈی کہہ کر نہ پکارا کرو.بلکہ نو جوان یالڑ کی کہہ کر بلایا کرو.( تا کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو ).( بخاری ) 18 نبی کریم نے غلاموں کے حقوق کا بھی تحفظ فرمایا.اسلام سے پہلے غلام کو طلاق کا اختیار نہیں ہوتا، آپ نے غلام کا یہ حق بھی قائم فرمایا.( ابن ماجہ )19 غلاموں سے محبت حضرت زید بن حارثہؓ حضرت ام المومنین خدیجہ کے غلام تھے ، جو انہوں نے نبی کریم کی خدمت کیلئے پیش کر دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر کے اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا اور اس قدرشفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کہ جب زیڈ کے حقیقی والدین ان کو لینے کیلئے آئے تو باوجود یکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو اختیار دے دیا کہ آپ والدین کے ساتھ واپس وطن جانے کیلئے آزاد ہومگر زیڈ نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.اور بزبان حال ثابت کیا کہ ہزار آزادی رسول اللہ کی غلامی پر قربان ہے.نبی کریم نے عربوں کے دستور کے خلاف معزز قبیلہ قریش کی خاتون اپنی
اسوہ انسان کامل 484 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک پھوپھی زاد بہن زینب کی شادی اس آزاد کردہ غلام سے کر کے ثابت کر دیا کہ آپ کے نزدیک عزت کا معیار تقویٰ تھا.اگر چہ اختلاف مزاج کے باعث یہ شادی کامیاب نہ ہوسکی تو آپ نے حضرت ام ایمن سے زیڈ کی شادی کروائی.جن سے اسامہ پیدا ہوئے.(ابن سعد ) 20 رسول اللہ کو حضرت اسامہ سے بھی بہت محبت تھی.ایک دفعہ گھر میں ایسا ہوا کہ اسامہ کی ناک بہ رہی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی ناک صاف کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں.حضرت عائشہ دیکھ کر عرض کرتی ہیں.حضور میں جو حاضر ہوں آپ رہنے دیں میں اس کی ناک صاف کر دیتی ہوں.آپ فرماتے نہیں اور پھر خود اسامہ کی ناک صاف کرتے.اپنے نواسے امام حسین اور غلام زادے اسامہ کو گود میں لے کر دعا کرتے کہ اے اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر.( بخاری ) 21 آپ کمال محبت سے فرمایا کرتے اسامہ لڑ کی ہوتی تو میں اسے زیور پہنا تا.عمدہ عمدہ کپڑے پہناتا.( ابن ماجہ ) 22 رسول اللہ کے ایک خادم حضرت انس بن مالک تھے انکا بیان ہے کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے آپ نے کبھی مجھے اُف تک نہیں فرمایا کسی کام کے لئے جو میں نے کیا آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کسی کام کے لئے جو میں نے نہ کیا ہو اور چھوڑ دیا ہو آپ نے یہ فرمایا کہ کیوں نہیں کیا.( بخاری ) 23 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول کریم کی خدمت کی ہے مجھے کبھی پتہ نہیں چلا کہ آپ کو کونسی بات پسند ہے اور کونسی نا پسند.آپ تو ہر حال میں راضی برضائے الہی رہتے تھے.اگر آپ کی بیویوں سے کوئی مجھے یہ فرما نہیں کہ اگر تم یوں کر لیتے تو اچھا ہوتا آپ فرماتے اسے کچھ نہ کہو کیونکہ ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے.(بیشمی )24 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں میں سے خوبصورت اور بہترین اخلاق رکھتے تھے.ظاہری و باطنی ہر لحاظ سے لطافت آپ کے اندرا ایسے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ریشم بھی آپ کی ہتھیلی کے مقابلہ میں کیا نرم ہو گا.آپ خوشبو استعمال فرماتے تھے.آپ کے پسینہ سے اٹھنے والی خوشبو کا مشک بھی کیا مقابلہ کریگا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کے ساتھ کھانے پینے میں شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے آپ کے خادم حضرت انس کہتے ہیں کہ میری ماں ام سلیم نے ایک ٹوکری میں کھجور میں دے کر رسول اللہ کی خدمت میں بھیجا.حضور گھر پر نہیں تھے.بلکہ اپنے ایک آزاد کردہ غلام کی دعوت پر اس کے ہاں تشریف لے گئے تھے جس نے حضور کا کھانا کیا ہوا تھا.میں وہاں پہنچا تو حضور کھانا تناول فرما رہے تھے آپ نے مجھے بھی کھانے میں شریک ہونے کے لیے فرمایا.کھانے میں گوشت اور کدو کا ثرید تھا.میں نے دیکھا کہ حضور کو کدو بہت پسند ہیں چنانچہ میں کدو کے ٹکڑے اکٹھے کر کے حضور کے قریب کرنے لگا ( اور آپ تناول فرماتے رہے ) ہم کھانا کھا چکے تو حضور واپس اپنے گھر تشریف لائے.میں نے کھجور کی ٹوکری حضور کے سامنے رکھ دی.آپ اس میں سے کھاتے بھی جاتے اور تقسیم بھی فرماتے جاتے
اسوہ انسان کامل 485 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک تھے.جب وہ ٹوکری آپ نے بانٹ دی.تب وہاں سے اُٹھے.(ابن ماجہ ) 25 رسول اللہ کے خادم اور غلام تو آپ کے ایسے عاشق تھے کہ یہ دنیا تو کیا اگلے جہاں میں بھی آپ کی غلامی کے لئے ترستے تھے.آپ کے آزاد کردہ غلام ثوبان کو ایک روز یہی خیال آیا تو روتا ہوا آیا کہ اگلے جہاں میں جب آپ بلند درجوں پر ہونگے آپ کے دیدار کیسے ہو سکیں گے؟ فرمایا انسان کو جس سے محبت ہو اس کی معیت بھی عطا کی جاتی ہے.(سیوطی ) 26 ایک اور خادم ربیعہ اسلمی کی خدمتوں سے خوش ہو کر نبی کریم نے کچھ انعام اس کی مرضی کے مطابق دینا چاہا اور فرمایا مانگ لو جو مانگتا ہے.اس خوش نصیب نے بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ جنت میں آپ کی رفاقت چاہئیے.فرمایا کچھ اور مانگ لو اس نے کہا یہی کافی ہے آپ نے فرمایا پھر سجدوں، نمازوں اور دعاؤں میں میری مدد کرنا.( مسلم ) 27 مشہور اطالوی مستشرق پروفیسر ڈاکٹر گلیری نے لکھا ہے:.غلامی کا رواج اسی وقت سے موجود ہے جب سے انسانی معاشرے نے جنم لیا اور اب تک بھی باقی ہے.مسلمان خانہ بدوش ہوں یا متمدن ان کے اندر غلاموں کی حالت دوسرے لوگوں سے بدرجہا بہتر پائی جاتی ہے.یہ نا انصافی ہوگی کہ مشرقی ملکوں میں غلامی کا مقابلہ امریکہ میں آج سے ایک سوسال پہلے کی غلامی سے کیا جائے.حدیث نبوی کے اندر کس قدر انسانی ہمدردی کا جذ بہ پایا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں یہ مت کہو کہ وہ میرا غلام ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میرالڑ کا ہے اور یہ نہ کہو کہ وہ میری لونڈی ہے بلکہ یہ کہو کہ وہ میری لڑکی ہے.اگر تاریخی لحاظ سے ان واقعات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے اس باب میں بھی عظیم الشان اصلاحیں کی ہیں.اسلام سے پہلے قرضہ نہ ادا ہونے کی صورت میں بھی ایک آزاد آدمی کی آزادی کے چھن جانے کا امکان تھا لیکن اسلام کے آنے کے بعد کوئی مسلمان کسی دوسرے آزاد مسلمان کو غلام نہیں بنا سکتا تھا.آنحضرت ﷺ نے غلامی کو محدود ہی نہیں کیا بلکہ آپ نے اس بارے میں اوامر و نواہی جاری کئے اور مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ قدم بڑھاتے رہیں حتی کہ وہ وقت آجائے جب رفتہ رفتہ تمام غلام آزاد ہو جائیں.( گلیری) 28 حواله جات 1 السيرة النبوية لابن هشام جلد 2 ص 644 و مجمع الزوائد هیثمی جلد6ص115 2 بخاری(60) كتاب الجهاد باب 140 3 مسند احمد بن حنبل جلد 1 ص 30, 383
اسوہ انسان کامل 4 السيرة النبوية لابن هشام جلد2 ص 60 486 5 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد2ص22 رسول اللہ کا غلاموں سے حسن سلوک The life of Mahomet By Sir William Muir Vol.1 Page:242 6 Muhammad A Biography of Prophat by Karen Armstrong page 180 7 9 بخاری(67) کتاب المغازی باب 51 مجمع الزوائدلهيثمي جلد4ص433 10 مسلم (28) کتاب الایمان باب 8 11 مجمع الزوائد لهيثمي جلد8ص 299 12 13 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 4 ص 434 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 4 ص 435 14 بخاری(2) کتاب الايمان باب 20 15 ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 134 16 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 19 17 بخاری (54) كتاب العتق باب 16 18 بخاری(54) كتاب العتق باب 18 19 ابن ماجه (10) کتاب الطلاق باب 31 20 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص42دار الفكر بيروت 21 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه 18 22 ابن ماجه (9) كتاب النكاح باب 49 23 بخاری (81) كتاب الادب باب 39 و مسلم (44) كتاب الفضائل باب 13 24 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 9 ص 16 25 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 26 26 الدرالمنثور للسيوطى سورة النساء زير آيت ومن يطع الله والرسول 27 مسلم (5) كتاب الصلوة باب 43 28 اسلام پر نظرص 41 اُردو ترجمه An Interpretation of Islam
اسوہ انسان کامل 487 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ ہمارے نبی یتامی و ایامی کے والی اور محافظ پس منظر قبل از اسلام.3 ھ میں اہل مدینہ کی معاشرتی زندگی پر ایک سخت ابتلا آیا جب غزوہ احد میں ستر صحابہ شہید ہو گئے.اور کئی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گئے.اس نازک المیہ کے موقع پر جہاں قرآن شریف کی سورۃ النساء میں اس سانحہ کو بعض مسلمانوں کی اپنی ہی کوتاہی کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے شہداء کے مقام و مرتبہ اور ان کے لواحقین کے صبر واستقلال کا ذکر کر کے تمام مومنوں کو تسلی دلائی گئی ، وہاں معاشرہ میں یتامیٰ کے پیدا ہونے والے مسائل کے بارہ میں بھی وضاحت فرمائی.جوامت میں آئندہ پیدا ہونے والی ایسی کسی بھی صورتحال کے لئے عمدہ رہنمائی ہے.دنیا میں ایسے سانحہ کے موقع پر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ فوری وقتی ہمدردی کے بعد یتامی اور بیوگان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اور ان کو لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا جاتا ہے.اور ان کے حقوق سے زیادہ اپنے مفادات پیش نظر رکھ کر فیصلے کئے جاتے ہیں.بعض دفعہ بیوگان کے موروثی مال و جائیدادکو دیکھ کر شادی بھی کر لی جاتی ہے مگر ان کے یتیم بچے سہارا ملنے کی بجائے سوتیلے باپ کی زیادتیوں کا شکار ہو کر اپنے ہی اموال سے محروم رہ جاتے ہیں اور معاشرے کا مظلوم طبقہ ہو کر رہ جاتے ہیں.اسلام سے قبل بھی یتامی اور بیوگان کا کوئی پرسان حال نہ تھا.ان کے حقوق معاشرت اور عزت و تکریم کا خیال تو در کنار انہیں حقارت سے دھتکار دیا جاتا تھا.اہل عرب کی حالت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے ، یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ( الماعون: 4) دوسری جگہ ان منکرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”خبردار! در حقیقت تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو.“ (الفجر :18,19 ).رسول کریم خود یتیم تھے.آپ کی رضاعت کے لئے موزوں خاندان کی تلاش ہوئی تو بوجہ یتیم ہونے کے کوئی دایہ آپ کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھی.بالا خر بنوسعد قبیلہ کی حلیمہ سعدیہ کو جب کوئی اور بچہ پرورش کے لئے نہ ملاتو وہ مجبورا آپ کو قبول کرنے پر آمادہ ہوئی.اس زمانہ میں یتیم بچیوں کے حقوق کی بھی کوئی ضمانت نہ تھی.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جس شخص کے پاس یتیم بچی کی کفالت ہوتی تھی اس زمانہ کی رسم کے مطابق اگر وہ ایک دفعہ اس پر کپڑا پھینک دیتا تو پھر کوئی اور اس سے کبھی بھی نکاح نہیں کر سکتا تھا.اگر تو وہ لڑ کی خوش شکل ہوتی اور اسے پسند ہوتی تو خود اس سے شادی کر کے اس کے مال کا بھی مالک بن جاتا اور اگر وہ بد صورت ہوتی تو دوسروں کو اس سے نکاح کرنے سے روک دیتا یہاں تک کہ وہ مرجاتی تو وہی اس کے وارث ہوتے.قرآن شریف میں ان بد رسوم سے روکا گیا.اور ارشاد ہوا کہ یتیم بچیوں سے انصاف کا معاملہ کرو.(ابن کثیر ) 1
اسوہ انسان کامل 488 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ......یہی حال بیوگان کے حقوق کی پامالی کا تھا.شوہر کی وفات کے بعد ان سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا جاتا تھا.ہندوستان میں عورتیں شوہر کی میت کے ساتھ ستی کی رسم کے مطابق جلا کر خاکستر کر دی جاتی تھیں.تو عرب میں بیوہ عورتوں کا حال بھی زندہ درگور کرنے کے مترادف تھا.عرب دستور کے مطابق جاہلیت کے زمانہ میں بیوہ عورت خودشوہر کی وراثت میں تقسیم ہوتی تھی.مرد کے قریبی رشتہ دار ( مثلاً بڑا سوتیلا بیٹا ) عورت کا سب سے زیادہ حق دار سمجھا جاتا تھا.وہ چاہتا تو خود اس عورت سے شادی کر لیتا.وہ خود شادی نہ کرنا چاہتے تو ان کی مرضی کے بغیر ہی دوسری جگہ شادی نہ ہو سکتی الغرض بیوہ کا اپنا کوئی حق نہ تھا.نبی کریم نے بیوہ عورت کو نکاح کا حق دیا اور فرمایا کہ وہ اپنی ذات کے بارہ میں فیصلہ کے متعلق ولی سے زیادہ حق رکھتی ہے.( بخاری )2 خاوند کی وفات کے بعد عرب میں بیوہ عورت کا حال بہت رسوا کن اور بدتر ہوتا تھا.اسے بدترین لباس پہنا کر گھر سے الگ تھلگ ویران حصہ میں ایک سال تک عدت گزارنے کے لئے رکھا جاتا.سال کے بعد عربوں کے دستور کے مطابق کسی گزرنے والے کتنے پر بکری کی مینگنی پھینک کر اس قید خانہ سے باہر آتی تھی.( بخاری )3 حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے عورت کو مخاطب کر کے زمانہ جاہلیت میں اس کی مظلومیت کا کیا ہی عمدہ نقشہ یوں کھینچا ہے:.کیا تیری قدر و قیمت تھی؟ کچھ سوچ تیری کیا عزت تھی ؟ تھا موت سے بدتر ہ جینا قسمت سے اگر بچ جاتی تھی عورت ہو نا تھی سخت خطا، تھے تجھ پر سارے جبر روا یہ مجرم نہ بخشا جاتا تھا، تا مرگ سزائیں پاتی تھی گویا تو کنکر پتھر تھی احساس نہ تھا جذ بات نہ تھے تو ہین و اپنی یاد تو کر ! تر کہ میں بانٹی جاتی تھی وہ رحمت عالم آتا ہے تیرا حامی ہو جاتا ہے تو بھی انساں کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے الغرض رسول اللہ کی بعث کے وقت ما سوائے اعلیٰ درجہ کے اخلاق فاضلہ رکھنے والے چند افراد کے یتامیٰ اور بیوگان سے حسن سلوک کی خوبی بالعموم معاشرہ سے ناپید ہو چکی تھی.ان با اخلاق وجودوں میں رسول اللہ کے دادا عبدالمطلب اور چا ابوطالب نمایاں ہیں.جنہیں اس خوبی میں شہرت کے باعث عرب شاعر نے بھی تمــالُ اليتامى عصمة للارامل “ کا خطاب دیا یعنی یتامیٰ کے لئے معاشرہ کا باقی آخری سہارا اور بیوگان کی عصمت کے محافظ ! اور ان دو وجودوں کا باقی رہنا بھی مشیت ایزدی تھی کیونکہ انہوں نے زمانے میں انقلاب پیدا کرنے والے ایک عظیم الشان وجود کی کفالت کرنی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ الَمْ يَجِدُكَ يَتِيماً فَاوَى (الضحى: ٧) کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا ؟ پس پناہ دی.جہاں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کی کم سنی اور عالم بے کسی میں ان وجودوں کو ایک پناہ گاہ بنا دیا.وہاں خود رسول کریم کو اس دور میں سے گزار کر یتیموں کے مسائل کا عملی ادراک بھی عطا فر مایا تا کہ تیموں کی قدرومنزلت کے لطیف احساس سے آپ ان کے حقوق ادا کر سکیں.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود آپ کی ذات کے لئے یتیم کا لفظ استعمال کر کے تمام دنیا کے قیموں کے لئے اسے موجب عزت و اکرام بنا دیا.
اسوہ انسان کامل یتامی اور بیوگان کے متعلق اسلامی تعلیم 489 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ قرآن شریف میں مسلمانوں کو خاص طور پر یتامی اور بیوگان کے ساتھ نیکی اور احسان کا سلوک کرنے کی بار بار یاد دہانی کروائی گئی ہے.یہ ذمہ داری اولین طور پر صاحب حیثیت قریبی رشتہ داروں کی ہے.جس کی ادائیگی کو قرآن شریف میں بلند چوٹی سر کرنے جیسی اعلی نیکی قرار دیا ہے.(البلد :12 تا 19 ) اس لئے بیوگان کے لئے یہ ہدایت فرمائی کہ تم اپنے میں سے بیوہ عورتوں اور نیک چلن لونڈیوں کی شادیاں کرواؤ.( النور : 33 ) قریبی رشتہ داروں کی طرف سے یہ فرائض ادا نہ کرنے کی صورت میں یہ ذمہ داری معاشرہ پر عائد ہوتی ہے.بانی اسلام ﷺ نے والدین اور خونی رشتوں کے بعد اولین طور پر یتامیٰ اور مساکین کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یتیم لڑکے کی بلوغت اور لڑکی کی شادی ہونے تک عمدہ پرورش اور بہترین اخلاقی و دینی تربیت کی جائے.یتیم کا لفظ تم سے نکلا ہے جس کے معنے غفلت اورست روی کے ہوتے ہیں.بچے کو والد کی وفات کے بعد یتیم اس لئے کہا جاتا ہے کہ بالعموم اس کے ساتھ حسن سلوک میں غفلت برتی جاتی ہے.اس طرح مسکین کا لفظ سکن سے ہے، جس کے معنی حرکت سے معذور اور کمانے سے عاجز محتاج کے ہیں جس میں تنگدست بیوگان بھی آجاتی ہیں.ان سب کی ضروریات اور حقوق کی ادائیگی کے لئے اسلامی نظام میں بیت المال کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے.رسول کریم ﷺ کے ذریعہ نازل کی جانیوالی کامل تعلیم میں جہاں اس دور کی معاشرتی خرابیوں کی نشاندہی کی گئی ہے وہاں از راہ اصلاح جذبات ابھارنے والے پر حکمت انداز میں بیتامی کے اموال کی حفاظت کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ”جو لوگ ڈرتے ہوں کہ وہ اپنے بعد کمزور اولا د چھوڑ گئے تو اس کا کیا بنے گا، ان کو دوسرے تیموں کے متعلق بھی اللہ کے ڈر سے کام لینا چاہیے.اور چاہیے کہ وہ صاف اور سیدھی بات کہیں.جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاتے ہیں وہ یقیناً اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں اور یقیناً شعلہ زن آگ میں داخل ہوں گے.“ ( النساء 10-11) اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریق پر کہ وہ بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو.یقیناً عہد کے بارہ میں پوچھا جائے گا.( بنی اسرائیل: 35 ) یتامی کی اصلاح و تربیت سے متعلق معاشرتی حقوق کے ذکر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.اور لوگ تجھ سے یتامی کے بارہ میں پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ ان کی اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر ر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ وہ تمہارے بھائی ہی ہیں اور اللہ فساد کرنے والے کو اصلاح کرنے والے کے مقابلہ میں خوب جانتا ہے.(البقرہ: 221) حضرت عائشہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتی ہیں کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جانے کے قرآنی حکم پر صحابہ نے اس سختی سے عمل کیا کہ اپنے زیر پرورش یتیموں کا کھانا پینا تک الگ کر دیا اور انکا بچا کھچا بھی استعمال کرنے کی بجائے ضائع کر دینے کو ترجیح دینے لگے.تب مذکورہ آیت میں واضح کیا گیا کہ ان سے میل جول میں حرج نہیں اور اللہ کی بندوں کی
اسوہ انسان کامل نیتوں پر نظر ہے.(ابوداؤد ) 4 490 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ یتیم بچیوں کی ولایت ، نکاح اور مالی حقوق کی حفاظت کی تعلیم دیتے ہوئے اللہ تعالی فرمایا ہے:.اور وہ تجھ سے عورتوں کے بارہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں تو کہہ دے کہ اللہ تمہیں ان کے متعلق فتوی دیتا ہے اور ( متوجہ کرتا ہے اس طرف ) جو تم پر کتاب میں ان یتیم عورتوں کے متعلق پڑھا جا چکا ہے.جن کو تم وہ نہیں دیتے جو ان کے حق میں فرض کیا گیا حالانکہ خواہش رکھتے ہو کہ ان سے نکاح کرو.اسی طرح بچوں میں سے (بے سہارا) کمزوروں کے متعلق ( اللہ فتویٰ دیتا ہے ) اور ( تاکید کرتا ہے ) کہ تم قتیموں کے حق میں انصاف کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ پس جو نیکی بھی تم کرو گے تو یقینا اللہ اس کا خوب علم رکھتا ہے.(النساء: 128) حضرت عائشہ شسورہ نساء کی تیسری آیت میں یتیم بچیوں سے شادی کرنے کے حکم اور اس آیت کے متعلق فرماتی تھیں کہ یہاں مراد ایسی یتیم لڑکی ہے جو کسی شخص کی کفالت میں ہو اور وہ اس کے حسن و مال کی وجہ سے اس سے نکاح کرنا چاہے تو اپنی کفالت کی وجہ سے اس کے حقوق دبائے نہیں اور حق مہر وغیرہ کے بارہ میں انصاف کے جملہ تقاضے پورے کرتے ہوئے نکاح کرے ورنہ نہیں.( بخاری )5 قرآن شریف نے یتیم کے دلی جذبات اور عزت نفس کا خیال رکھنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور فرمایا کہ جہاں تک یتیم کا تعلق ہے اس سے سختی نہ کر (الضحی : 10) اور یتیم کی عزت کرنے والوں کو روحانی خوشیوں اور مسرتوں سے بھری جنت کی نوید سنائی ہے.(الدھر:9 تا13) بانی اسلام ﷺ نے بیوہ عورتوں کے خلاف جاری اس ظلم کو بھی روکا کہ وہ مال کی طرح وارثوں میں تقسیم ہوں اور چاہیں تو خود یا کسی اور سے نکاح کر دیں اور چاہیں تو منع کر دیں فرمایا اے مومنو! تمہارے لئے جائز نہیں کے تم زبر دستی عورتوں کے وارث بن جاؤ ( النساء: 20) اسی طرح فرمایا اور عورتوں میں سے ان سے نکاح نہ کرو جن سے تمہارے آباء نکاح کر چکے ہوں سوائے اس کے جو پہلے گزر چکا.یقینا یہ بڑی بے حیائی اور بہت قابل نفرین ہے.اور بہت ہی برا رستہ ہے.“ (النساء:23 ) اس کی بجائے اسلام نے ان کا یہ حق قائم فرمایا، کہ اپنے خاوند کی وفات کے بعد چار ماہ دس دن کا عرصہ عدت گزارنے کے بعد انہیں اپنے بارہ میں کوئی بھی معروف فیصلہ نکاح وغیرہ کے ذریعے کر سکتی ہیں دوسرے کم از کم ایک سال تک انہیں اپنے خاوند کے گھر میں رہائش کی سہولت دینی ضروری ہے سوائے اس کے کہ وہ خودا سے چھوڑ دیں.(البقرہ: 241,235) یتامی و ایامی کا نجات دھندہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ہے جو خود ایک یتیم تھے اور ان لاوارث یتامی وایامی کے والی اور محافظ بن کر آئے تھے.آپ نے اس قرآنی تعلیم کے ذریعہ ان کے حقوق نہ صرف قائم کئے بلکہ معاشرہ سے دلوا کر دکھائے.آپ نے خوبصورت اسلامی تعلیم پر عمل کر کے دکھایا اور فرمایا کہ ”بیوگان اور مسکین کے لئے کوشش اور خدمت میں لگا رہنے والا
اسوہ انسان کامل 491 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور اس عبادت گزار کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا“.( بخاری )6 یتامی کے حق میں جو علم جہاد آپ نے بلند کیا اس میں اپنے ساتھ شریک جہاد ہو نیوالوں کے بارہ میں فرمایا کہ یتیم کی کفالت کرنے والا اور میں جنت میں دو انگلیوں کی طرح ملے ہوں گے اور آپ نے اپنی انگشت شہادت اور وسطی انگلی کو ملا کر دکھایا.دوسری روایت کے مطابق فرمایا بشر طیکہ کفالت یتیم کرنے والا اللہ سے ڈرتے ہوئے اس کے حق ادا کرے.(بخاری)7 حضرت ابوامامہ کی روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا جس شخص نے کسی یتیم بچے کے سر پر محض خدا کی خاطر ہاتھ پھیرا تو ہر بال کے عوض جسے اس کے ہاتھ نے چھوا اُسے کئی نیکیاں عطا کی جائیں گی اور جس نے کسی یتیم بچی کی عمدہ تربیت یا اپنے زیر پرورش کسی یتیم بچے سے حسن سلوک کیا.میں اور وہ جنت میں ان دوانگلیوں کی طرح اکٹھے ہوں گے اور آپ نے وسطی انگلی اور انگشت شہادت میں فرق ڈال کر دکھایا.( احمد ) 8 علامہ ابن بطال نے اس جگہ ایک لطیف بات لکھی ہے کہ جو شخص بھی یتیم کی کفالت کے عوض رسول اللہ کی معیت والی حدیث سنے اس پر لازم ہے کہ اس پر عمل کرے تا کہ اسے جنت میں اپنے آقا ومولا کی رفاقت نصیب ہو.کیونکہ اخروی زندگی میں اس سے افضل مقام اور کوئی نہیں ہوسکتا.( ابن حجر ) 9 رسول کریم نے یتیم بچے کے لطیف جذبات کا احساس کرتے ہوئے اس کے بارہ میں تفصیلی ہدایات دیں اور فرمایا: جس نے مسلمانوں کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے پینے میں شریک کیا اللہ اسے جنت عطا فرمائے گا سوائے اسکے کہ اس نے کوئی ایسا گناہ کیا ہو جو قابل بخشش نہ ہو.(ترمذی )10 حضرت ابو درداء نے حضرت سلمان فارسی گو ( جن کے ساتھ رسول کریم نے ان کی اسلامی مواخات کروائی تھی ) ایک خط میں لکھا کہ اے میرے بھائی یتیم کے ساتھ رحم کا سلوک کرنا اور اسے اپنے قریب رکھنا ، اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا اور اسے اپنے کھانے میں سے کھانا کھلانا.میں نے رسول کریم ﷺ کوفرماتے سنا، جب ایک شخص نے آپ کے سامنے اپنے دل کی حتی کا ذکر کیا تو آپ نے اسے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہو اور حاجتیں پوری ہوں تو یتیم کو اپنے پاس رسائی دو.اس کے سر پر ہاتھ پھیرو اور اپنے کھانے میں سے اسے کھلاؤ.یہ نیکی تمہارے دل کو نرم کرنے کا موجب ہوگی اور تمہاری حاجتیں پوری ہوں گی.اسی طرح فرمایا جس دستر خوان پر یتیم کھانا کھاتا ہے وہاں شیطان نہیں تا(یعنی بے برکتی نہیں ہوتی ) ( طبرانی) 11 آپ نے نفسیاتی طور پر یتیم بچے کو احساس کمتری سے بچانے کی خاطر نہایت باریک بینی سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے کا طریق تک اپنے صحابہ کو سمجھایا جو عام بچوں کے مقابل پر ایک امتیازی شان کا حامل ہے.حضرت عبداللہ سے فرمایا کہ یتیم کے سر پر اس طرح ہاتھ پھیرا جاتا ہے پھر آپ نے اس کی پیشانی کے قریب سر کے اگلے حصہ پر ہاتھ رکھا اور اسے سر کے درمیان تک لے گئے اور پھر واپس پیشانی تک لائے اور فرمایا اگر اس کا باپ موجود ہو تو پھر سر کے درمیان
اسوہ انسان کامل 492 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ سے پیچھے کی طرف ہاتھ پھیر و.گویا یتیم بچے کے ساتھ باپ سے زیادہ شفقت کے انداز سے برتاؤ کی ہدایت فرمائی.حضرت عبد الرحمن بن ابری بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تم یتیم کے لئے ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح ہو جاؤ“.( سیمی )12 حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کوگھروں میں سے سب سے پیارا گھر وہ ہے جس میں یتیم کی عزت کی جاتی ہے“.(ابن ماجہ )13 دوسری روایت میں ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم سے حسن سلوک ہوتا ہے اور مسلمانوں کا بد ترین گھر وہ ہے جس میں یتیموں سے بدسلوکی کی جاتی ہے.( بیھقی )14 حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اس ذات کی قسم ! جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے.اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو عذاب نہیں دے گا ، جس نے یتیم پر رحم کیا اور اس سے نرم گفتگو کی اور اس کی یتیمی اور کمزوری کی حالت میں اس سے پیار کا سلوک کیا.(ابوداؤد )15 حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یتیم کو لانے سے بچو کیونکہ رات کو جب لوگ سور ہے ہوتے ہیں تو اس کا رونا آسمان پر بڑی تیزی سے جاتا ہے.(منذری )16 رسول اللہ ﷺ نے جہاں بیوگان کے حقوق قائم فرمائے وہاں ایسی بیوہ عورت کی قربانی کو بھی سراہا جو اپنے شوہر کے یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے وقف ہو کر رہ جاتی ہے.چنانچہ حضرت عوف بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ میں اور زر در خساروں والی عورت قیامت کے دن ان دو انگلیوں ( درمیانی اور شہادت کی انگلی ) کی طرح ہونگے.وہ صاحب حیثیت اور شکل وصورت رکھنے والی عورت جس کا خاوند فوت ہو گیا اور اس نے اپنے آپ کو اپنے یتیم بچوں کی خاطر وقف کر دیا یہاں تک کہ وہ خود اس سے جدا ہوئے یا فوت ہو گئے.(ابوداؤد )17 حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے میں جنت کا دروازہ کھولوں گا تو اچانک دیکھوں گا کہ ایک عورت بڑی تیزی سے میری طرف آتی ہے.میں اسے کہوں گا کہ آپ کون ہو اور آپ کو کیا ہوا.وہ کہے گی کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جو اپنے یتیم بچوں کی خاطر میں بیٹھ رہی تھی.(ابو یعلی )18 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد آنیوالی فتوحات کے نتیجہ میں امت کو فراخی اور اموال عطا ہونے کی خبر دیتے ہوئے نصیحت کے رنگ میں فرمایا کہ بہترین مسلمان وہ صاحب دولت شخص ہوگا جو مسکین، یتیم اور مسافر کا حق ادا کرے.( بخاری )19 نبی کریم نے یتیم کے مالی حقوق کی حفاظت کے لئے قرآنی تعلیم پر عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہلاک کرنے والی چند باتوں سے تنبیہ کرتے ہوئے یتیم کا مال کھانے کی ممانعت فرمائی اور اس کے قریب نہ جانے کی قرآنی ہدایت کے احترام میں یہاں تک فرمایا کہ حتی الوسع مال یتیم کی ذمہ داری اٹھانے سے بھی بچو.(نسائی) 20 تا ہم ایسے مال کی نگرانی سپرد ہو جانے کی صورت میں آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ یتیم کے مال سے اسراف اور
493 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ اسوہ انسان کامل فضول خرچی نہ کی جائے البتہ اپنے لئے مال و جائیداد بنائے بغیر اپنے اوپر کھانے پینے کیلئے خرچ کر سکتے ہو.یہ اجازت بھی تنگدست کے لئے بطور حق خدمت کے ہے جو مال یتیم میں تجارت وغیرہ کے لئے اپنا وقت صرف کرتا ہے.آپ نے یہ ہدایت بھی فرمائی کہ یتیم کے مال کو بغیر تجارت میں لگائے اس طرح جمع کر کے نہ رکھو کہ زکوۃ کی ادائیگی سے وہ مسلسل کم ہوتا رہے.(ترمندی 21 یتامی کے حق میں رسول اللہ اللہ کا مثالی نمونہ حقوق یتامی کے تحفظ کے لئے اس قدر باریک بینی سے تفصیلی تعلیم دینے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے نفسیاتی طور پر یتیم بچوں کو احساس کمتری سے بچانے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے اور ان کے حوصلے بڑھانے کے لئے ایک طرف ان کے لئے یتیم کا وہ لفظ استعمال کیا جو قرآن میں آپ کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے.دوسرے یہ اصولی وضاحت فرما دی کہ بلوغت کی عمر کو پہنچ جانے تک ہی یتیمی کا دور ہوتا ہے.اس کے بعد کوئی یتیم نہیں.(ابوداؤد )22 ہمارے آقا و مولی ہے کو یتامی کے حقوق کی اتنی فکر رہتی تھی کہ اپنے رب کے حضور مناجات کرتے ہوئے اس بارہ میں مدد کے بھی طالب ہو کر عرض کیا ”اے اللہ! میں ان دو کمزوروں ، یتیموں اور عورتوں کے حقوق ضائع ہونے سے سخت پریشان رہتا ہوں“.(نسائی )23 صل الله حضرت عبداللہ بن مسعود کی بیوی حضرت زینب اپنے سابق مرحوم شوہر کے بچوں کی بھی پرورش کرتی تھیں.انہوں نے رسول کریم ﷺ سے اس بارہ میں پوچھوایا کہ کیا میں اپنے زیر پر ورش بچوں پر صدقہ کر سکتی ہوں ؟ رسول کریم یا اے نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تمہیں تو اس کا دوہرا اجر ہوگا.ایک قرابت دار یتیم بچوں سے حسن سلوک کا اور دوسرے صدقہ کرنے کا.(بخاری)24 حضرت بشیر عین عقربهہ جہنی کے والد احد میں شریک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جنگ احد کے دن رسول اللہ سے مل کو اپنے والد کے بارہ میں پوچھا! آپ نے فرمایا وہ شہید ہو گئے، اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر ہو ، میں یہ سن کر رونے لگا.رسول کریم ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا، مجھے اپنے ساتھ سواری پر بٹھایا اور فرمایا کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہو کہ میں تمہارا باپ ہوں گا اور حضرت عائشہ تمہاری ماں.( سیمی )25 غزوہ اُحد کے ایک اور شہید حضرت سعد بن ربیع تھے وہ صاحب جائداد تھے.دو یتیم بچیاں پیچھے چھوڑ ہیں.ابھی ورثہ کے احکام نہیں اترے تھے اور پرانے رواج کے مطابق یتیم بچیوں کے چانے بھائی کی جائداد سنبھال لی.ایسے مسائل پیدا ہونے پر میراث کی آیات اتریں جن میں قریبی رشتہ داروں کے حصے مقرر کر دیئے گئے.رسول کریم ﷺ نے ان یتیم بچیوں کے چچا کو بلوا کر ان احکام سے آگاہ کیا اور حضرت سعد کی دونوں بیٹیوں کو تیسرا تیسرا حصہ اور ان کی بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کی ہدایت فرمائی.( ترندی )26 حضرت عبد اللہ بن جحش ام المؤمنین حضرت زینب کے بھائی نے احد میں شہادت کی دعا کی تھی.جو قبول ہوئی اور وہ جوانی میں شہید ہو گئے.رسول اللہ اللہ نے اس شہید احد اور اپنے نسبتی بھائی کی ذمہ داری و حفاظت جامدادخود سنبھال لی
اسوہ انسان کامل 494 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ......اور ترکہ کے انتظام کے علاوہ ان کے یتیم بیٹے محمد کے لئے خیبر میں زرعی اراضی خریدنے کا اہتمام فرمایا.(استیعاب) 27 اسی طرح شہید احد حضرت حمزہ کی بیٹی فاطمہ مکہ میں یتیم رہ گئی تھی.فتح مکہ کے موقع پر وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بھائی بھائی کہتے ہوئے حاضر خدمت ہوئیں.چونکہ یتیم بچی کی شادی نہ ہونے تک اس کی کفالت کی ذمہ داری ادا کرنی لازم ہے.حضرت علیؓ اور حضرت جعفر کی خواہش تھی کہ اپنی اس چازاد بہن کی کفالت کا حق وہ ادا کریں.جبکہ حضرت زید نے اپنے دینی بھائی حضرت حمزہ ( جن سے ان کی مواخات ہوئی تھی ) کی بیٹی اور اپنی بھتیجی کی کفالت کی پر زور پیشکش کی رسول اللہ اللہ نے فاطمہ کو حضرت جعفر" کے سپرد کیا کیونکہ بوجہ خالو ہونے کے ان کا دوہرا رشتہ تھا.( احمد ) 28 الغرض صحابہ میں یتامیٰ کی کفالت کے لئے بھی ایک مسابقت کا جذبہ پایا جاتا تھا بعد میں حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ نے ان سے شادی کی اور اپنی وفات پر وصیت کی کہ میرے بعد اگر چاہو تو حضرت مغیرہ بن شعبہ سے نکاح کر لینا چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.احد کے ایک اور شہید حضرت عبداللہ تھے جنہوں نے اپنے پیچھے اپنے بیٹے حضرت جابر کے علاوہ نو (9) بیٹیاں چھوڑیں اور وہی ان کے واحد کفیل تھے.آنحضرت نے اس خاندان کے ساتھ ہمیشہ محبت اور شفقت بھرا سلوک روا رکھا.والد کی شہادت کے بعد حضرت جابرؓ کو مغموم دیکھ کر سبب پوچھا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ والد کی شہادت کے بعد بہنوں کی ذمہ داری کے علاوہ قرض بھی ہے.حضور نے ان کو دلاسا دیا اور اس کے بعد ہمیشہ ان سے احسان کا سلوک فرماتے رہے.سب سے پہلے خود موقع پر جا کر یہودی ساہوکاروں کا سارا قرض ادا کرنے کا انتظام کروایا.پھر حضرت جابر چونکہ غیور نو جوان تھے اس لئے حیلوں بہانوں سے انہیں اس طرح عطا فرماتے رہے کہ ان کی عزت نفس میں بھی کوئی فرق نہ آئے.ان کی شادی کے بعد ایک سفر میں ان سے ایک اونٹ خریدا اور پھر وہ اونٹ مع قیمت ان کو واپس کر کے ان کی امداد کے سامان کئے اور ان سے مزید وعدہ فر مایا کہ ”جب بحرین کا مال آئے گا تو میں اس اس طرح تمہیں دوں گا.پھر حضرت ابو بکر کے زمانے میں جب وہ مال آیا تو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کا وعدہ پورا کر دکھایا اور یوں وفات کے بعد بھی حضور کی حضرت جابر سے عنایات کا سلسلہ جاری رہا.( ترمذی )29 تیموں کے لئے بھی رسول اللہ کا دل بہت نرم اور فراخ واقع ہوا تھا.حضرت عبداللہ بن ابی اوفی سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم اللہ کے پاس بیٹھے تھے ایک بچہ نے آ کر عرض کیا یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں ایک یتیم بچہ ہوں، میری ایک یتیم بہن بھی ہے اور ہماری بیوہ ماں ہم قیموں کی پرورش کرتی ہے.آپ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اس کھانے میں سے جو آپ کے پاس ہے ہمیں اتنا عطا فرما دیں کہ ہم راضی ہو جائیں رسول اللہ نے فرمایا اے بچے !تم نے کیا خوب بات کی.ہمارے گھر والوں کے پاس جاؤ اور جو کھانے کی چیز ان سے ملے وہ لے آؤ.وہ آپ کے پاس گل اکیس کھجوریں لے کر یا حضور ﷺ نے کھجوریں اپنی تھیلی پر رکھیں اور ہتھیلیاں اپنے منہ کی طرف اُٹھا ئیں.ہم نے دیکھا جیسے آپ اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا کر رہے ہوں.پھر آپ نے فرمایا ” بچے اسات کھجور میں تمہارے لئے ،سات تمہاری ماں کے لئے اور سات تمہاری بہن کے لئے ہیں.ایک کھجور صبح اور ایک شام کو.جب وہ
اسوہ انسان کامل 495 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ بچہ رسول کریم کے پاس سے جانے لگا تو حضرت معاذ بن جبل نے اپنا ہاتھ اس بچے کے سر پر رکھا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری یتیمی کا مداوا کرے اور تمہارے باپ کا اچھا جانشین تم کو عطا کرے.رسول اللہ نے فرمایا اے معاد : تم نے اس بچے کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ میں نے دیکھا ہے.انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس بچے سے محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر میں نے ایسا کیا.نبی کریم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے مسلمانوں میں سے کوئی شخص یتیم کا والی نہیں بنتا مگر اللہ تعالیٰ اس شخص کو یتیم کے ہر بال کے عوض ایک درجہ بڑھاتا ہے اور ہر بال کے عوض ایک اور نیکی عطا کرتا اور ہر بال کے برابر ایک گناہ معاف فرماتا ہے.( صیمی )30 شہدائے جنگ موتہ کے پسماندگان سے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی حسن سلوک کیا آپ کے چچازاد حضرت جعفر طیار بھی اس جنگ میں شہید ہوئے تھے.رسول کریم بنفس نفیس حضرت جعفر کے گھر ان کی شہادت کی خبر دینے تشریف لے گئے.حضرت جعفر کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس کا بیان ہے ” جب حضرت جعفر اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کی خبر آئی تو آنحضرت ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے.میں گھر کے کام کاج آنا وغیرہ گوندھنے کے بعد بچوں کو نہلا دھلا کر فارغ ہوئی ہی تھی.آپ نے فرمایا کہ جعفر کے بچوں کو میرے پاس لاؤ.میں انہیں حضور کے پاس لے آئی.آپ نے ان کو گلے لگایا اور پیار کیا آپ ﷺ کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے.اسلام کہتی ہیں میں نے گھبرا کر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان.آپ کس وجہ سے روتے ہیں؟ کیا جعفر اور ان کے ساتھیوں کے بارہ میں کوئی خبر آئی ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ آج شہید ہو گئے.حضرت اسماء کہتی ہیں میں اس اچانک خبر کو سن کر چیخنے لگی.دیگر عورتیں بھی افسوس کے لئے ہمارے گھر اکٹھی ہو گئیں.رسول کریم ﷺ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ہدایت فرمائی کہ "جعفر" کے گھر والوں کا خیال رکھنا اور انہیں کھانا وغیرہ بنا کر بھیجوانا کیونکہ اس صدمہ کی وجہ سے انہیں مصروفیت ہوگئی ہے.“ حضرت شعمی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسمان کو شہادت جعفر کی اطلاع دے کر ان کے حال پر چھوڑ دیا تا کہ وہ آنسو بہا کر غم غلط کر لیں.پھر آپ دوبارہ ان کے ہاں تشریف لائے اور تعزیت فرمائی اور بچوں کیلئے دعا کی.(مسند احمد ) 31 تیسرے روز آپ پھر حضرت جعفر کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا کہ بس اب آج کے بعد میرے بھائی پر مزید نہیں رونا.آپ نے ان کے یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام وانصرام اپنے ذمہ لے لیا اور ان کی بیوہ سے فرمایا کہ میرے بھائی کے بیٹے میرے پاس لاؤ.حضرت جعفر کے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ ہمیں حضور کے پاس اس طرح لایا گیا جیسے مرغی کے چوزے پکڑ کر لائے جاتے ہیں.آپ نے حجام کو بلوایا ہمارے بال وغیرہ کٹوائے اور ہمیں تیار کر وایا.بہت محبت و پیار کا سلوک کیا اور فرمایا ” جعفر طیار کا بیٹا محمد تو ہمارے چچا ابو طالب سے خوب مشابہ ہے اور دوسرا بیٹا اپنے باپ کی طرح شکل اور رنگ ڈھنگ میں مجھ سے مشابہ ہے.پھر میرا ہاتھ پکڑا اور گویا خدا تعالیٰ کے سپر د کرتے ہوئے درد رض
اسوہ انسان کامل 496 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ دل سے یہ دعا کی.اے اللہ جعفر کے اہل وعیال کا خود حافظ و ناصر ہو اور میری ( عبداللہ کی ) تجارت میں برکت کیلئے بھی دعا کی.ایک مرتبہ ہماری والدہ اسماء نے حضور کی خدمت میں ہماری یتیمی کا ذکر کیا تو آپ نے انہیں تسلی دلاتے ہوئے فرمایا کبھی ان بچوں کے فقر وفاقہ کا خوف مت کرنا میں نہ صرف اس دنیا میں ان کا ذمہ دار ہوں بلکہ اگلے جہاں میں بھی ان کا.دوست اور ولی ہوں گا.“ ( مسند احمد (32 ایک دفعہ ایک یتیم بچے کا حضرت ابولبابہ سے ایک کھجور کے درخت پر تنازعہ ہو گیا.رسول اللہ نے ابولبابہ کے حق میں فیصلہ فرمایا.یتیم بچہ رونے لگا تو رسول اللہ نے ابولبابہ کو تحریک فرمائی کہ بے شک درخت آپ کا ہے.مگر یہ آپ اس یتیم بچے کو دے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے عوض جنت میں درخت عطا فرمائیگا.ابولبابہ نے یہ پیشکش قبول نہ کی.حضرت ثابت بن دحداح کو پتہ چلا تو انہوں نے ابولبابہ سے پوچھا کہ کیا تم میرے باغ کے عوض مجھے یہ درخت دے سکتے ہو.ابولبابہ مان گئے تو حضرت ثابت بن ابو دحداح نے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! کھجور کا وہ درخت جو آپ نے یتیم بچے کے لئے لینا چاہا تھا اگر میں وہ لے کر پیش کر دوں تو کیا مجھے بھی اس کے عوض جنت میں درخت ملے گا.آپ نے فرمایا ہاں.پھر انہوں نے ایسا ہی کیا.حضرت ابو دحداح جب شہید ہوئے تو رسول اللہ نے فرمایا ابودحداح کے لئے جنت میں کتنے ہی پھل دار درخت جھکے ہوں گے.(استیعاب )33 آنحضرت ﷺ بیوگان اور یتامیٰ سے حسن سلوک کا خاص خیال رکھتے تھے.ایک غزوہ سے واپسی پر جب آپ کے لشکر کے پاس پانی ختم ہو گیا تو صحابہ اس کی تلاش میں نکلے.ایک عورت اونٹ پر پانی لاتی ہوئی ملی.معلوم ہوا کہ بیوہ عورت ہے جس کے یتیم بچے ہیں.رسول کریم نے دعا کر کے اس کے پانی کے اونٹ پر سے ایک مشکیزہ لے کر اس پر برکت کے لئے دعا کی پھر اس کے پانی سے تمام لشکر نے پانی لیا مگر پھر بھی وہ کم نہ ہوا.رسول اللہ نے اس بیوہ عورت سے حسن سلوک کی خاطر صحابہ کے پاس موجود زادراہ جمع کروالی اور اس بیوہ عورت کو کھجور میں اور روٹیاں عطا کرتے ہوئے فرمایا ہم نے تمہارا پانی ذرا بھی کم نہیں کیا اور یہ زادراہ تمہارے یتیم بچوں کے لئے تحفہ ہے.اس عورت نے اپنے قبیلہ میں جا کر کہا کہ میں ایک بڑے جادوگر کے پاس سے ہو کر آئی ہوں یا پھر وہ نبی ہے.یوں اس عورت کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائی اور وہ مسلمان ہو گئے.( بخاری )34 اپنے آقا کے یتامیٰ سے حسن سلوک کے پاکیزہ نمونے دیکھ کر بھی مخلص صحابہ اور صحابیات یتیم بچوں کی پرورش کی سعادت پاتے اور اپنی اولاد کی طرح محبت و پیار سے ان کی تعلیم و تربیت کرتے تھے.مدینہ میں حضرت ابوطلحہ انصاری اور حضرت ام سلیم کے گھرانہ میں بھی ایک یتیم لڑکے اور ایک یتیم بچی کی پرورش کا ذکر ملتا ہے.آنحضور ﷺ کا حضرت ام سلیم کے گھر آنا جانا تھا.ایک دفعہ ان کے گھر نفل نماز با جماعت پڑھائی.اس یتیم بچے کے بھی ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا ذکر ہے.ایک دوسرے موقع پر رسول کریم ﷺ نے حضرت ام سلیم کے گھر کی یتیم بچی کو دیکھا تو محسوس کیا کہ عمدہ پرورش کے نتیجہ میں جلد جلد پروان چڑھ رہی اور تیزی سے بڑھ رہی ہے.آپ
497 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ اسوہ انسان کامل نے اسے دیکھ کر پیار سے فرمایا اے لڑکی اتم اتنی بڑی ہوگئی ہو.تم تو چھوٹی ہی رہو.یتیم بچی نے سوچا کہ رسول کریم کے منہ سے بات نکلی ہے.اب پتہ نہیں آئندہ میں بڑی بھی ہو سکتی ہوں کہ نہیں.وہ روتی ہوئی حضرت ام سلیم کے پاس گئی اور کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے بڑے نہ ہونے کی دعا کر دی ہے.اب میں کبھی بھی بڑی نہیں ہوسکوں گی.حضرت ام سلیم کو بھی اپنی یتیم بچی بہت پیاری تھی.فوراً اپنی اوڑھنی لی اور بی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا.اے اللہ کے نبی ! کیا آپ نے میری یتیم بچی کے بارہ میں واقعی یہ دعا کی ہے کہ وہ کبھی بڑی نہ ہو اور ہمیشہ چھوٹی ہی رہے.رسول کریم ﷺ اس پر مسکرائے اور فرمایا اے ام سلیم ! کیا تمہیں پتہ نہیں کہ میں نے اپنے رب سے ایک دعا کی ! ہوئی ہے کہ ایک انسان ہونے کے ناطہ سے میں خوش بھی ہوتا ہوں اور ناراض بھی.اس لئے اے اللہ ! اگر میں اپنی امت کے کسی فرد کے بارہ میں ایسا کلمہ کہ دوں جو اس کے حسب حال نہ ہو تو اسے اس شخص کے لئے پاکیزگی برکت اور قربت کا ذریعہ بنا دے جس سے وہ قیامت کے دن قرب حاصل کرے.( ترمذی ) 35 محسن انسانیت ﷺ کو یتیم بچوں کے مال کی حفاظت کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک شخص نے آنحضور کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے پتہ چلا ہے کہ شراب حرام ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا ہاں ! اس نے پوچھا کہ جس سے میں نے یہ خریدی تھی کیا اسے میں واپس لوٹا سکتا ہوں؟ آپ نے فرمایا یہ مناسب نہیں ہے.اس نے کہا کیا میں یہ بطور تحفہ کسی ایسے شخص کو دے سکتا ہوں جو مجھے اس کے بدلہ میں کوئی اور تحفہ دے دے؟ آپ نے فرمایا نہیں.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دراصل اس میں ایسے یتیم بچوں کا مال بھی شامل ہے جو میری پرورش میں ہیں.یہ سن کر آپ جیسے بے چین ہو گئے اور فرمایا ” جب بحرین کا مال آئے گا تو تم ہمارے پاس آجانا تمہارے زیر پر ورش یتیم بچوں کے مالی نقصان کا معاوضہ ہم ادا کریں گے“.(حیشمی )36 ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اس قرآنی حکم کے مطابق کہ بیوہ عورتوں کے نکاح کا انتظام کیا کرو.(سورۃ النور: 33) بیوگان کے مناسب حال رشتوں کے لئے خود بھی عملی نمونہ پیش کیا.رسول اللہ نے جو شادیاں کیں ان میں دیگر مصالح کے علاوہ ایک اہم مصلحت بیوگان کے لئے سہارا مہیا کرنا بھی تھا.چنانچہ آپ نے نو خواتین سے بیوہ ہونے کی حالت میں نکاح کیا.پہلی شادی حضرت خدیجہ سے بھی ہیوگی کی حالت میں ہوئی.ان کے سابق شوہر سے دو یتیم بچے ھند اور ھالہ بھی تھے جو حضور کی کفالت میں آکر ز مر تر بیت رہے.ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ غزوہ بدر میں اپنے شوہر عبیدہ کی شہادت کے بعد بیوہ ہوئیں تو ان سے آپ کا نکاح ہوا.یہی صورت حضرت ام سلمہ اور حضرت حفصہ سے نکاح کی تھی.رسول اللہ ﷺ نے غزوہ احد میں زخمی ہونے والے اپنے عزیز صحابی حضرت ابوسلمہ کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ حضرت ام سلمہ سے نکاح کر کے قومی ضرورت کے تقاضے پورے کئے.آپ کے گھر میں حضرت ام سلمہ کے یتیم بچے بھی زیر پرورش رہے.دوسری طرف ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال رکھ کر حضرت ام سلمہ سے فرمایا کہ ان بچوں پر خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں اجر بھی عطا فرمائے گا.آپ خود ان کے یتیم بچے سلمہ کو دستر خوان پر اپنے پاس بٹھا کر کھانا
اسوہ انسان کامل 498......ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ کھلاتے اور کھانا کھانے کے آداب سکھاتے.( بخاری ) 37 حضرت عمر کی صاحبزادی حضرت حفصہ کے شوہر حضرت خنیس بن حذافہ نے احد میں شرکت کے بعد ایک زخم کی وجہ سے مدینہ میں وفات پائی.حضرت عمرؓ کو اپنی جواں سال بیوہ ہونے والی بیٹی کے لئے طبعا پر یشانی تھی انہوں نے از خود اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے قریب ترین اور قابل اعتماد دوستوں حضرت عثمان اور حضرت ابوبکر کے سامنے پیش کیا.حضرت عثمان نے تو یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ فی الوقت ان کا شادی کا ارادہ نہیں.مگر حضرت ابو بکر نے خاموشی اختیار کی جو حضرت عمر کو ناگوار گزری.بعد میں حضرت ابو بکر نے ان کو بتایا کہ چونکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ حضرت حفصہ کو عقد میں لینے کا ذکر فرما چکے تھے اس لئے افشائے راز کی بجائے خاموشی ہی مناسب تھی.یہ بات حضرت عمر کے لئے باعث تسکین ہوئی.یوں رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کی بیوہ حضرت حفصہ کو عقد میں لے کر اپنے عزیز دوست حضرت عمرؓ کی پریشانی بھی دور فرمائی.( بخاری )38 ام المومنین حضرت سودہ کے شوہر سکران اور حضرت ام حبیبہ کے شوہر عبیداللہ بن جحش بھی ہجرت حبشہ کے دوران وفات پاگئے اور وہ بیوہ ہوئیں تو ان سے رسول اللہ نے نکاح فرمایا.ام المومنین حضرت میمونہ سے نکاح حضرت عباس کی تحریک پر تھا جو ان کی نسبتی بہن تھیں.انہوں نے ہی رسول اللہ کی خدمت میں ان کی ہوگی کا ذکر کر کے یہ پیشکش کی جسے آپ نے قبول فرمایا.حضرت جویریہ کے شوہر غزوہ بنو مصطلق میں اور حضرت صفیہ کے شوہر غزوہ خیبر میں حالت کفر میں مارے گئے اور وہ بیوہ ہو گئیں.جس کے بعد آنحضرت امیہ نے ان سے عقد فرمایا.الغرض رسول اللہ نے بیوگان کے حقوق کی ادائیگی کا بہترین عملی نمونہ پیش کر کے دکھایا.خدمت کا یہ کام جس ذاتی توجہ، محنت اور قربانی کو چاہتا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں.رسول اللہ معاشی لحاظ سے کمزور بیوگان کی ضرورت کا خاص طور پر خیال رکھتے اور ان کی امدا د فرماتے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ نے کسی قافلہ سے تجارتی سودا کیا.اس کی قیمت آپ کے پاس میسر نہ تھی.وہ آپ نے فروخت کر دیا رجتنا نفع ملا وہ سارا اپنے خاندان عبدالمطلب کی بیواؤں میں بطور صدقہ بانٹ دیا.(ابوداؤد )39 افاضہ سیرت رسول آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت کے فیض کا ہی کرشمہ تھا کہ ملک عرب میں ایک انقلاب بر پا ہوا جو محض آپ کی ذات تک محدود نہ رہا بلکہ آپ کے بعد بھی یہ کمزور طبقے آپ کے احسانات کے مرہون منت رہے اور ہیں.آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی کمزوروں کے حقوق کی ادائیگی کے یہی خوبصورت نمونے دکھائے.حضرت ابو بکر خلیفہ اول بیت المال میں کچھ جمع رکھنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی راہ میں کھلے دل سے خرچ کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ سردی کے موسم میں کچھ ریشمی چادر میں دیہات سے آئیں جو آپ نے خرید کر مدینہ کی تمام بیواؤں میں تقسیم فرما دیں.آپ کی وفات کے بعد بیت المال میں کوئی دینار یا ور ہم باقی نہ تھا.جھاڑو دینے پر بھی صرف ایک درہم نکلا.خزانچی کو بلا کر پوچھا گیا تو اس نے کہا دو لاکھ دینار کے قریب مال تھا جو حضرت ابوبکر کے پاس بیت المال میں آیا
499 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ اسوہ انسان کامل اور وہ سب ضرورت مندوں، یتامی ، مساکین ، بیوگان ، اور غلاموں وغیرہ میں تقسیم کر دیا گیا.(ابن سعد ) 40 حضرت عمر خلیفہ ثانی میں بھی ضرورت مندوں کی خدمت کا یہی جذبہ موجزن تھا.حضرت سعد بن خولی ایک غلام تھے.جواحد میں شہید ہو گئے ، ان کا بیٹا عبد اللہ یتیم رہ گیا.حضرت عمر نے اپنے زمانہ خلافت میں ان کا وظیفہ انصار کے برابر مقرر فرمایا تھا.(اصابہ (41 حضرت اسلم بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عمرؓ کے ساتھ بازار گیا.وہاں ایک عورت ان سے ملی اور عرض کیا اے امیر المؤمنین! میرا خاوند فوت ہو گیا اور بچے چھوٹے ہیں.جن کا فاقہ سے برا حال ہے.نہ ہماری کوئی کھیتی ہے نہ جانور اور مجھے ڈر ہے کہ یہ یتیم بچے بھوک سے ہلاک نہ ہو جائیں اور میں ایماء غفاری کی بیٹی خفاف ہوں، میرا باپ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شامل تھا.حضرت عمر یہ سن کر اس بی بی کے احترام میں وہیں رک گئے فرمایا ” اتنے قریبی تعلق کا حوالہ دینے پر میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں.پھر گھر میں بندھے ایک مضبوط اونٹ پر دو بورے غلے کے بھرے ہوئے لدوائے.ان کے درمیان دیگر اخراجات کے لئے رقم اور کپڑے رکھوائے اور اونٹ کی مہار اس خاتون کو تھما کر فرمایا یہ تو لے جاؤ اور انشاء اللہ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ آپ کے لئے اور بہتر سامان پیدا فرمادے گا.‘ ( بخاری )42 آپ نے اپنی شہادت سے چند روز قبل اپنے بعض اصحاب کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے مہلت دی اور زندگی نے وفا کی تو میں عراق کی بیواؤں کے لئے ایسے انتظام کروں گا جس کے بعد ان کو کوئی احتیاج باقی نہیں رہے گی.( بخاری )43 حضرت محمد ﷺ کے دیگر صحابہ بھی بتامی اور بیوگان کی خدمت میں سرگرم رہتے تھے.نبی کریم ﷺ کو اپنے صحابہ کے مراتب ایک کشفی نظارہ میں دکھائے گئے.جن کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے حضرت عبدالرحمن بن عوف سے فرمایا.کہ آپ سخت پسینہ سے شرابور حالت میں آئے تو میں نے آپ سے پوچھا کہ میرے پاس آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی کہ مجھے آپ کی ہلاکت کا اندیشہ ہوا.آپ نے عالم کشف میں جواب دیا اے اللہ کے رسول میرے مال کی کثرت.بس میں اسی بات میں وقف رہا کہ میں نے اپنا مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا.حضرت عبدالرحمن بن عوف حضور سے اپنے بارہ میں یہ نظارہ سن کر رو پڑے اور کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ یہ اناج سے لدی سوسواریاں آج رات ہی مصر کی تجارت سے آئی ہیں.میں آپ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ یہ سب مدینہ کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے لئے صدقہ کرتا ہوں.شاید اس طرح اللہ تعالیٰ اس دن میرا کچھ بوجھ ہلکا کر دے.(ابن عساکر )44 رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانہ کے یتیموں سے ہی حسن سلوک کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ قیامت تک آنے والے تیموں اور کمزوروں کے حقوق اس اعلان کے ذریعہ محفوظ کر دیئے کہ جس کا کوئی نہیں اس کا میں ہوں گا.چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی مومن فوت ہو جائے اور ترکہ میں کوئی مال چھوڑے تو اسکے قریبی رشتہ دار اس کے وارث ہوں گے اور جو اس حال میں مر جائے کہ اس پر قرض ہو اور کمزور اولا دیا ضائع ہونے والے یتیم بچے چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس
اسوہ انسان کامل 500 ہمارے نبی حامی و ایامی کے والی اور محافظ ئیں میں ان کا والی ہوں گا“.( بخاری )45 اس اعلان کے ذریعہ رسول اللہ نے اپنے بعد اسلامی بیت المال اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ہر حکومت کو اپنی نیابت میں یتیم کے حقوق ادا کرنے کے لئے ذمہ دار ٹھہرا دیا.اور اس طرح ہمیشہ کے لئے یتامیٰ کے حقوق کا تحفظ فرما دیا.اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد 1 تفسیر ابن کثیر جلد 1 صفحه 443 حوالہ جات بخاری(70) كتاب النكاح باب 35 و (68) كتاب التفسير سورة النساء 3 بخاری (71) کتاب الطلاق باب 45 4 ابو داؤد (18) كتاب الوصايا باب 7 5 بخاری (68) كتاب التفسير باب 1 6 بخاری (81) كتاب الادب باب 25 7 بخاری (81) کتاب الادب باب 24 و مسند احمد جلد 2ص375 8 مسند احمد جلد 5ص250 9 فتح الباری شرح بخاری جلد 10 ص 451 10 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 13,14 11 معجم الاوسط لطبرانی جلد 7 ص 163 12 مجمع الزوائد جلد 8 ص 163,193 13 ابن ماجه (33) كتاب الادب باب 6 14 شعب الايمان للبيهقى جلد7ص472 15 ابو داؤد (42) کتاب الادب باب 131 16 الترغيب والترهيب للمنذري جلد3 ص 348 17 ابو داؤد (42) كتاب الادب باب 131 18 مسندابو يعلى جلد 12ص7 19 بخاری(30) كتاب الزكواة باب 46
اسوہ انسان کامل 501 ہمارے نبی حامی وایامی کے والی اور محافظ 20 نسائی کتاب الوصايا باب النهي عن الولاية على مال اليتيم 21 ترمذی(5) كتاب الزكواة باب 15 22 ابو داؤد (18) كتاب الوصايا باب 9 23 نسائی کتاب عشره النساء باب حق المرءة 24 بخاری(30) كتاب الزكوه باب 43 25 مجمع الزوائد جلد 8 ص 161 26 ترمذی (30) كتاب الفرائض باب 3 27 استيعاب بيروت صفحه 442 28 مسند احمد جلد 1 صفحه 98 29 ترمذی (48) كتاب التفسير سوره آل عمران بخاری (39) كتاب البيوع،(48) كتاب الاستقراض، (55) كتاب الهبه، (67) كتاب المغازي،(70) كتاب النكاح 30 مجمع الزوائد جلد 8 ص 162 31 مسند احمد جلد 6 صفحه 372 ، منتخب کنز العمال برحاشیه مسند جلد 5ص 156 32 مسند احمد جلد 1 ص 204 33 استيعاب صفحه 792 دار المعرفه بيروت 34 بخاری (65) کتاب المناقب باب 22 35 ترمذی (28) کتاب البر والصلة باب 48 36 بخاری (30) كتاب الزكواة باب 43 37 بخاری(70) كتاب النكاح باب 34 38 ابوداؤد (23) كتاب البيوع باب 9 39 مجمع الزوائد فى منبع الفوائد جلد 4 ص 89 مطبوعه بيروت 40 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 3 ص 213 41 اصابه جزء1 صفحه 75 42 بخاری(67) کتاب المغازی باب 33 43 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه باب 6 44 تاریخ دمشق ابن عسا کر جلد 35 ص 266 45 بخاری (48) كتاب الاستقراض باب 11
اسوہ انسان کامل 502 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبر دار عظیم رسول بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم، بربریت اور تعصبات کی دنیا میں مبعوث ہو کر عدل و احسان ، مذہبی رواداری اور حریت ضمیر و مذھب کی ایسی اعلی تعلیم فرمائی جس کی نظیر نہیں ملتی.اسلامی تعلیم سے حسن کا اندازہ کرنے کے لئے دیگر مذاہب کا تقابلی مطالعہ بہت مفید ہوگا.یہودونصاریٰ کو توربیت میں غیر قوموں کے ساتھ سلوک کے لئے ی تعلیم دی گئی.” جب خداوند تیرا خدا تجھ کو اس ملک میں جس پر قبضہ کرنے کے لئے تو جارہا ہے پہنچا دے اور تیرے آگے سے اُن بہت سی قوموں کو یعنی حتیوں اور جر جاسیوں اور اُمور یوں اور کنعانیوں اور فرزیوں اور جو یوں اور بیوسیوں کو جو ساتوں قو میں تجھ سے بڑی اور زور آور ہیں نکال دے اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مارلے تو تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا، تو ان سے کوئی عہد نہ باندھنا، اور نہ ان پر رحم کرنا تو ان سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا ، نہ ان کے بیٹوں کو اپنی بیٹیاں دینا اور نہ اپنے بیٹوں کے لئے ان کی بیٹیاں لینا، کیوں کہ وہ تیرے بیٹوں کو میری پیروی سے برگشتہ کر دیں گے تاکہ وہ اور معبودوں کی عبادت کریں یوں خداوند کا غضب تم پر بھڑ کے گا اور وہ تجھ کو جلد ہلاک کر دے گا.بلکہ تم ان سے یہ سلوک کرنا کہ ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا، ان کے ستونوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، اور ان کی یسیرتوں کو کاٹ ڈالنا اور ان کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلا دینا.(استثناء ) 1 اسلامی تعلیم بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کی بے نظیر تعلیم دی اور اعلان کیا کہ دین میں کوئی جبر نہیں.( سورة البقرة : 257) نیز فرمایا ” جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیار کرے.“ (سورۃ الکہف: 30) اسلام کی امتیازی شان یہ ہے کہ اس نے دیگر مذاہب و اقوام کے ساتھ عدل و انصاف کی نہ صرف تعلیم دی بلکہ بانی اسلام اور ان کے بچے پیروؤں نے اس پر عمل کر کے غیر مذاہب کے ساتھ رواداری اور احسان کے بہترین نمونے پیش کئے.بے شک اسلامی تعلیم میں قیام عدل کی خاطر ظلم کا بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے لیکن عفو کوزیادہ پسند کیا گیا ہے اور فرمایا کہ اس کا اجر خدا نے خود اپنے ذمہ لیا ہے.(سورۃ الشوری: 41) غیر قوموں اور مذاہب کی مذہبی زیادتیوں کے جواب میں کسی قسم کی زیادتی کرنے سے منع کرتے ہوئے اسلام یہ تعلیم
اسوہ انسان کامل دیتا ہے:.503 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار ایسی قوم جس نے تمہیں بیت اللہ سے روکا ، اس کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم زیادتی کر بیٹھو بلکہ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو.“ (سورۃ المائدۃ: 3) دوسری جگہ فرمایا اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو کہ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.“ (سورۃ المائدۃ:9) اسلام نے صرف یہ اصولی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ تفصیل میں جا کر مشرکین کے برابر کے حق قائم فرمائے.چنانچہ زمانہ جنگ میں اگر مومن عورتیں دار الحرب سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر کے آجائیں تو انہیں واپس کرنے کی بجائے ان کی مشرک قوم میں ان عورتوں کے ولی کو وہ اخراجات ادا کرنے کا حکم ہے جو انہوں نے ان مومن عورتوں پر کئے.اور کافر عورتوں سے زبردستی نکاح کرنے اور انہیں اپنے پاس روک رکھنے سے منع فرمایا اور انہیں واپس مشرکین کے پاس لوٹاتے ہوئے مسلمانوں کو ان اخراجات کے مطالبہ کا حق دیا جس طرح کفار کو یہ حق حاصل ہے.(سورۃ الممتحنة:11) اسلام نے دشمن قوم حتی کہ مشرکین کا امن کے ساتھ زندہ رہنے کا حق بھی تسلیم کیا ہے چنانچہ فرمایا.اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الہی سن لے پھر ا سے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچا دے یہ ( رعایت ) اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے.(سورۃ التوبۃ:6) رسول کریم کے ذریعہ رواداری کی بید اعلی تعلیم دی گئی کہ غیر مذہب یا قوم میں بھی جو خوبی یا تیکی پائی جاتی ہو اس کی قدردانی کرنی چاہئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سارے اہل کتاب برابر نہیں ہیں ان میں سے ایک جماعت ( نیکی پر قائم ہے.جو راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے اور عبادت کرتے ہیں“.(سورۃ آل عمران : 114) اسی طرح بعض یہود و نصاری کی دیانت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ان میں سے بعض ایسے ہیں کہ ان کے پاس ڈھیروں ڈھیر مال بھی بطور امانت رکھ دو تو وہ تمہیں واپس کر دیں گے مگر بعض ایسے بھی ہیں جو ایک دینار بھی واپس نہیں لوٹائیں گے.“ (سورۃ آل عمران : 76) بعض نیک فطرت خدا ترس عیسائیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ” جب وہ رسول کی طرف نازل ہونے والا کلام سنتے ہیں تو آپ ان کی آنکھوں میں آنسو بہتے دیکھتے ہیں، اس وجہ سے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا، وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ، پس تو ہمیں گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے.“ (سورۃ المائدہ 84) بانی اسلام نے رواداری کی یہ تعلیم بھی دی ہے کہ مذہبی بحثوں کے دوران جوش میں آکر دوسرے مذہب کی قابل احترام ہستیوں کو برا بھلا نہ کہو.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور تم ان کو گالیاں نہ دو.جن کو وہ لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں.ورنہ وہ بھی اللہ کو دشمنی کی راہ سے نادانی میں گالی دیں گے.“ (سورۃ الانعام: 109 ) رسول کریم نے اس بنیادی حقیقت سے پردہ اُٹھا کر بانیان مذاہب کے احترام کی تعلیم دی کہ ہر قوم میں نبی آئے اور آغاز
504 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل میں ہر مذہب سچائی پر قائم تھا مگر بعد میں اپنے نبی کی تعلیم سے انحراف کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا.تاہم اب بھی ہر مذہب میں کچھ حصہ ہدایت کا موجود ہے.(سورۃ النحل:64) آپ نے یہ تعلیم بھی دی کہ سب اقوام کے نبی مقدس اور برگزیدہ تھے، اس لئے وہ منافرت دور کرنی چاہئے جو دائرہ ہدایت کو محدود کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور باوجود مذہبی اختلاف کے دیگر اقوام و مذاہب سے اتحاد رکھنا چاہئے اور انسانیت کے ناطے ان کے ساتھ محبت و پیار کا سلوک کرنا چاہیئے.پانی اسلام کا نمونہ اسلام دیگر مذاہب کے پیروؤں کے احساسات کا احترام سکھاتا ہے کہ خواہ وہ حق پر نہ ہوں.مگر چونکہ وہ سچ سمجھ کر اس مذہب کو مان رہے ہیں انہیں اپنے مسلک پر قائم رہنے کا حق ہے.مدینہ میں ایک مسلمان اور یہودی کے مابین رسول اللہ اور حضرت موسیٰ کی فضیلت کا تنازعہ کھڑا ہوا تو رسول کریم نے فرمایا کہ مجھے موی پر فضیلت مت دو.( بخاری )2 بانی اسلام نے محض مذہبی اختلاف کی بناء پر دوسری قوم پر حملہ کرنے کی تعلیم نہیں دی.صرف ان اقوام سے دفاعی جنگ کی اجازت دی ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرنے میں پہل کریں.چنانچہ فرمایا ” ان لوگوں سے اللہ کی راہ میں لڑائی کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں.اور زیادتی نہ کرو.اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.“ (سورۃ البقرہ: 191) پھر رسول کریم نے غیر مذاہب اور اقوام سے معاہدات کو پورا کرنے کی تعلیم دی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.و اگر کوئی غیر قوم مسلمانوں پر ظلم اور زیادتی کی مرتکب ہو اور وہ مسلمان تم سے مدد کے طالب ہوں اور تمہارا اس قوم کے ساتھ پہلے سے کوئی معاہدہ ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے اور مظلوم مسلمانوں کی خاطر بھی اس عہد شکنی کی اجازت نہیں.(سورۃ الانفال : 73) البتہ اگر وہ لوگ عہد شکنی کریں تو مسلمانوں کو جوابی کاروائی کا حق ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دو اگر تمہیں کسی قوم سے عہد شکنی کا خدشہ ہو تو ان سے ویسا ہی کرو جیسا کہ انہوں نے کیا ہے.اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.“ (سورۃ الانفال: 59) پھر اسلام نے محض عدل کی ہی تعلیم نہیں دی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر احسان کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.(سورۃ النحل : 91 ) اسلام غیر قوموں سے تمدنی تعلقات قائم کرنے ، انصاف اور نیکی کا سلوک کرنے کی ہدایت فرماتا ہے.یہودی مذہب کی طرح یہ نہیں کہتا کہ صرف یہود سے سود نہ لو.(استثناء ) 3 بلکہ قرآن شریف نے سود کو حرام کر کے سب کے لئے منع کر دیا اور یہ اعلی درجہ کی تمدنی تعلیم دی:.جن لوگوں نے دین کے بارہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا.ان کے ساتھ احسان کا سلوک کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا.(الممتحنة: 9) حضرت اسماء بنت ابو بکر کی ( مشرک ) والدہ اداس ہو کر انہیں ملنے مدینہ آ ئیں.اسماء نے نبی کریم سے پوچھا کہ کیا مجھے ان کی خدمت کرنے اور ان سے حسن سلوک کی اجازت ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ تمہاری ماں ہے.ابن عیینہ
اسوہ انسان کامل 505 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار کہتے ہیں اسی بارہ میں یہ آیت ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنہوں نے تم سے دین کے بارہ میں جنگ نہیں کی.( بخاری )4 اسلامی حکومت میں مسلمانوں پر ذمہ داریاں زیادہ اور غیر مسلموں پر نسبتا کم ہیں.مسلمانوں پر جہاد فرض ہے اور لڑائی کی صورت میں بہر حال اس میں شامل ہونا ان کے لئے ضروری ہوتا ہے.جبکہ غیر مسلموں کے لئے یہ لازم نہیں.مسلمانوں پر پیدا وار کا دسواں حصہ بطور عشر حکومت کو دینا واجب ہے.غیر مسلموں پر یہ ذمہ داری نہیں.اسی طرح مسلمانوں کو ہر سال اپنی آمدنی کا اڑھائی فیصد زکوۃ اور مشر یعنی زرعی پیداوار کا دسواں حصہ دینا لازم ہے.جبکہ غیر مسلموں پر جزیہ کی صورت میں معمولی ٹیکس مقرر ہوتا ہے.غیر مسلموں کی آزادی میں بھی اسلام نے مسلم غیر مسلم کی کوئی تفریق نہیں رکھی بلکہ اصولی طور پر غلاموں کی آزادی کی تعلیم دی.نبی کریم ﷺ نے غزوہ حنین کے موقع پر ہزاروں غیر مسلم غلاموں کو آزاد کر کے اس کا عملی نمونہ عطا فر مایا.مشرکین مکہ سے حسن سلوک مشرکین مکہ نے آنحضرت کو مکہ سے جلا وطن کیا تھا اور مدینہ میں بھی چین کا سانس نہ لینے دیا مگر آنحضرت نے موقع آنے پر ہمیشہ اُن سے احسان کا سلوک ہی روا رکھا.اہل مکہ کو ہجرت مدینہ کے بعد ایک شدید قحط نے آگھیرا.یہاں تک کہ ان کو ہڈیاں اور مردار کھانے کی نوبت آئی.تب مجبور ہو کر ابو سفیان آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد ! آپ تو صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں.آپ کی قوم اب ہلاک ہو رہی ہے آپ اللہ سے ہمارے حق میں دعا کریں ( کہ قحط سالی دور فرمائے ) اور بارشیں نازل ہوں ورنہ آپ کی قوم تباہ ہو جائے گی“.رسول اللہ نے ابوسفیان کو احساس دلانے کے لئے صرف اتنا کہا کہ تم بڑے دلیر اور حوصلہ والے ہو جو قریش کی نافرمانی کے باوجود ان کے حق میں دعا چاہتے ہو.مگر دعا کرنے سے انکار نہیں کیا کیونکہ اس رحمت مجسم کو اپنی قوم کی ہلاکت ہرگز منظور نہ تھی.پھر لوگوں نے دیکھا کہ اسی وقت آپ کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ گئے اور اپنے مولیٰ سے قحط سالی دور ہونے اور باران رحمت کے نزول کی یہ دعا بھی خوب مقبول ہوئی.اس قدر بارش ہوئی کہ قریش کی فراخی اور آرام کے دن لوٹ آئے.مگر ساتھ ہی وہ انکار و مخالفت میں بھی تیز ہو گئے.( بخاری (5) آنحضرت نے اہل مکہ کی امداد کے لئے کچھ رقم کا بھی انتظام کیا اور وہ قحط زدگان کے لئے مکہ بھجوائی.(السرخسی ) 6 مسلمانوں کے دشمن قبیلہ بنو حنیفہ کا سردار شمامہ بن اثال گرفتار ہو کر پیش ہوا تو رسول کریم نے از راہ احسان اسے آزاد کر دیا.رسول اللہ کے حسن سلوک سے متاثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا.اس کے بعد وہ حضور کی اجازت سے عمرہ کرنے مکہ گئے تو مسلمانوں کے طریق پر لبيك اللهم لبيك کہنا شروع کیا.قریش نے انہیں پکڑ لیا اور کہا کہ تمہاری یہ جرات کہ مسلمان ہو کر عمرہ کرنے آئے ہو.تمامہ نے کہا خدا کی قسم تمہارے پاس میرے علاقہ یمامہ سے غلے کا ایک دانہ
اسوہ انسان کامل 506 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار بھی نہیں آئے گا.جب تک رسول اللہ اجازت نہ فرمائیں.قریش ثمامہ کو قتل کرنے لگے مگر بعض سرداروں کی سفارش پر کہ یمامہ سے تمہیں غلہ وغیرہ کی ضرورت ہے.ان سے دشمنی مول نہ لو.چنانچہ انہوں نے اسے چھوڑ دیا.ثمامہ نے یمامہ جا کر واقعی اہل مکہ کا غلہ روک دیا.یہاں تک کہ وہاں قحط پڑ گیا.تب قریش نے رسول اللہ کی خدمت میں لکھا کہ آپ تو دعوی کرتے ہیں کہ رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں اور صلہ رحمی کی تعلیم دیتے ہیں.مگر ہمارا تو غلہ تک رکوا دیا.رسول کریم نے تمامہ کولکھا کہ قریش کے غلہ کے قافلے مکہ جانے دیں.چنانچہ انہوں نے تعمیل ارشاد کی، اس طرح اپنی دشمن قوم قریش پر یہ آپ نے ایک گراں قد را در عظیم احسان فرمایا.(الحلبیہ (7 مشرکین کے بچوں کے قتل پر ناراضگی مشرکین مکہ نے غزوہ احد کے موقع پر مسلمان شہدا کی نعشوں کی بے حرمتی کی تھی اور اُن کے ناک، کان وغیرہ کاٹے گئے تھے.حضرت حمزہ کا کلیجہ تک چبایا گیا.مگر آنحضرت ﷺ نے کبھی اس کا بدلہ لینے کا نہیں سوچا بلکہ ہمیشہ اُن کے ساتھ حسن سلوک ہی کیا.حضرت حسن بن اسود بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ کے موقع پر مقتولین میں کچھ بچوں کی نعشیں بھی پائی گئیں.حضور" کو جب پتہ چلا تو آپ نے فرمایا یہ کون لوگ ہیں؟ جنہوں نے جنگجو مردوں کے ساتھ معصوم بچوں کو بھی قتل کر ڈالا.ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ مشرکوں کے بچے ہی تو تھے.نبی کریم نے فرمایا، آج تم میں سے جو بہترین لوگ ہیں وہ بھی کل مشرکوں کے بچے ہی تو تھے.یاد رکھو کہ کوئی بھی بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو نیک فطرت پر پیدا ہوتا ہے.اس کی یہ کیفیت اس وقت تک باقی رہتی ہے جب تک وہ بولنا سیکھتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں.( احمد ) 8 رسول کریم سے پوچھا گیا مشرکوں کے بچوں کا حساب کتاب کیسے ہوگا ؟ فرمایا وہ اپنے والدین کے مذہب پر شمار ہوں گے.عرض کیا گیا پھر تو وہ بغیر کسی عمل کے پکڑے گئے فرمایا اللہ بہتر جانتا ہے وہ کیا کرنے والے تھے.(ابوداؤد )9 تعاقب کر نیوالے دشمن کو انعام ہجرت مدینہ کے وقت قریش مکہ نے آنحضرت اللہ کو گرفتا ر کر کے لانے والے کیلئے سو اونٹ کا انعام مقرر کیا تھا.جس کے لالچ میں سراقہ بن مالک نے اپنے تیز رفتار گھوڑے پر رسول اللہ کا تعاقب کیا.مگر جب آپ کے قریب پہنچا تو اس کے گھوڑے کے پاؤں زمین میں ھنس گئے.جب تین مرتبہ ایسا ہوا تو وہ تو بہ کر کے معافی اور امان کا طالب ہوا.رسول کریم نے اسے امان عطا کرتے ہوئے بطور انعام کسری کے کنگنوں کی بشارت دی.فتح مکہ پر وہ مسلمان ہوا اور رسول اللہ کے دامن رحمت سے حصہ پایا.بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں کسری کے کنگن بھی اُسے عطا کئے گئے.یوں آپ کا تعاقب کرنے والا بد خواہ بھی آپ کے انعام واکرام کا ہی مور دٹھہرا.( بخاری ) 10
اسوہ انسان کامل 507 مفتوح قوم کے مشرک سرداروں سے حسن سلوک مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ سے جنگیں کرتا رہا.فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم کے اعلان عفو اور امان کے باوجود ایک دستے پر حملہ آور ہو کر حرم میں خونریزی کا باعث بنا.اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرا تھا.فتح مکہ کے بعد جان بچانے کے لئے وہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا.اس کی بیوی رسول اللہ سے اس کے لئے معافی کی طالب ہوئی تو آپ نے کمال شفقت سے معاف فرما دیا.وہ اپنے شوہر کو واپس لانے کے لئے گئی تو خود عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہ آتا تھا.چنانچہ اس نے دربار نبوی میں حاضر ہو کر اس کی تصدیق چاہی.اس کی آمد پر رسول اللہ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا.پہلے تو آپ دشمن قوم کے اس سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے پھر عکرمہ کے پوچھنے پر بتایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے.(مالک)11 عکرمہ نے پوچھا کہ کیا اپنے دین (حالت شرک) پر رہتے ہوئے آپ نے مجھے بخش دیا ہے آپ نے فرمایا ہاں.اس پر مشرک عکرمہ کا سینہ اسلام کے لئے کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھا اے محمد آپ واقعی بے حد حلیم وکریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.رسول اللہ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا.(الحلبیہ )12 مشرکین کا ایک اور سردار صفوان بن امیہ تھا جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمانوں پر حملہ کرنے والوں میں شامل تھا.یہ بھی عمر بھر رسول اللہ سے جنگیں کرتا رہا.اپنے جرائم سے نادم ہو کر فتح مکہ کے بعد بھاگ کھڑا ہوا تھا.اس کے چاعمیر بن وہب نے رسول اللہ سے اس کے لئے امان چاہی.آپ نے اپنا سیاہ عمامہ بطور علامت امان اُسے عطا فر مایا.عمیر صفوان کو واپس مکہ لایا.اس نے پہلے تو رسول اللہ سے اپنی امان کی تصدیق چاہی پھر اپنے دین پر رہتے ہوئے دوماہ کیلئے مکہ میں رہنے کی مہلت چاہی آپ نے چار ماہ کی مہلت عطا فرمائی.محاصرہ طائف سے واپسی پر رسول اللہ نے تالیف قلب کی خاطر اسے پہلے سو اونٹ کا انعام دیا.پھر سو اونٹ اور پھر سو اونٹ گویا کل تین صد اونٹ عطا فرمائے.صفوان بے اختیار کہ اُٹھا اتنی بڑی عطا ایسی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں دے سکتا.چنانچہ وہ بھی مسلمان ہو گیا.(الحلبیہ ( 13 فتح مکہ کے بعد بنو ثقیف کا وفد طائف سے آیا ، تو نبی کریم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی خاطر تواضع کا اہتمام کروایا.بعض لوگوں نے سوال اُٹھایا کہ یہ مشرک لوگ ہیں ان کو مسجد میں نہ ٹھہرایا جائے کیونکہ قرآن شریف میں مشرکین کو نجس یعنی نا پاک قرار دیا ہے.نبی کریم نے فرمایا کہ اس آیت میں دل کی ناپاکی کی طرف اشارہ ہے، جسموں کی ظاہری گندگی مراد نہیں.(حصاص)14 وفد ثقیف کے بعض لوگ تو مدینہ میں اپنے حلیفوں کے پاس ٹھہرے.بنی مالک کے لئے نبی کریم نے خود خیمہ لگا کر انتظام کروایا اور آپ روزانہ نماز عشاء کے بعد جا کر ان سے مجلس فرماتے تھے.(ابوداؤد )15
508 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل حضرت مغیرہ بن شعبہ نے رسول کریم کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ وہ وفد ثقیف کو اپنا مہمان رکھنا چاہتے ہیں رسول کریم نے فرمایا کہ میں تمہیں ان کے اکرام وعزت سے نہیں روکتا مگر ان کی رہائش وہیں ہونی چاہئے جہاں وہ قرآن سن سکیں.چنانچہ حضور نے سب کے لئے مسجد میں خیمے لگوا دئیے تاکہ لوگوں کو نماز پڑھتے دیکھیں اور قرآن سنیں.( بیہقی ) 16 رسول کریم نے غیر حربی مشرکین سے ہمیشہ حسن معاملہ کا طریق اختیار فرمایا.ایک دفعہ مشرک مہمان کی خود مہمان نوازی کی اور اسے سات بکریوں کا دودھ پلایا.( ترمذی ) 17 ایک دفعہ ریشم کا لباس تحفہ آیا تو رسول کریم نے حضرت عمر کو دیا انہوں نے عرض کیا کہ ریشم تو مردوں کے لئے منع ہے وہ اسے کیا کریں گے؟ فرمایا کسی اور کو دے دیں.چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے مشرک بھائی کو بطور تحفہ دے دیا.( بخاری )18 ایک شریف النفس مشرک سردار طعم بن عدی ( جو غزوہ بدر کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے ) کے بارے میں نبی کریم نے فرمایا کہ اگر آج وہ زندہ ہوتے اور بدر کے قیدیوں کی آزادی کے لئے سفارش کرتے تو میں ان کی خاطر تمام قیدیوں کو بلا معاوضہ ) آزاد کر دیتا.( بخاری )19 یہود مدینہ سے سلوک نبی کریم مدینہ تشریف لائے تو یہود، مشرکین اور دیگر قبائل نے مدینہ کے ساتھ معاہدہ کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے معروف ہے.یہ معاہدہ آزادی مذہب اور حریت ضمیر کی بہترین ضمانت ہے.اس معاہدہ کی مذہبی آزادی سے متعلق شقوں کا ذکر یہاں مناسب ہوگا.اس معاہدہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ یہود کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہوگی اور اس معاہدہ کے نتیجہ میں کچھ حقوق انہیں حاصل ہوں گے اور کچھ ذمہ داریاں عائد ہوں گی.معاہدہ کی دوسری اہم شق ی تھی کہ مدینہ کے مسلمان مہاجرین و انصار اور یہود اس معاہدہ کی رو سے امت واحدہ“ ہونگے.ظاہر ہے مذہبی آزادی اور اپنے اپنے دین پر قائم رہنے کے بعد امت واحدہ سے مراد وحدت اور امت کا سیاسی تصور ہی ہے.معاہدہ کی تیسری بنیادی شق میں صراحت ہے کہ بنی عوف کے یہود مسلمانوں کے ساتھ مل کر ایک سیاسی امت ہوں گے.یہود کو اپنے دین کی آزادی اور مسلمانوں کو اپنے دین میں مکمل آزادی ہوگی.معاہدہ کی چوتھی شق کے مطابق مسلمانوں اور یہود کے مدینہ پر حملہ کی صورت میں ایک دوسرے کی مدد لازم تھی.مسلمان اپنے اخراجات کے ذمہ دار اور یہود اپنے اخراجات کے ذمہ دار خود ہو نگے البتہ جنگ میں باہم مل کر خرچ
اسوہ انسان کامل کریں گے.509 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار پانچویں شق کے مطابق فریقین ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں گے اور نقصان نہیں پہنچائیں گے.(ابن ہشام )20 ہر چند کہ مدینہ کے یہودی مسلسل معاہدہ شکنی کے مرتکب ہوتے رہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ان کے ساتھ ایفائے عہد کے علاوہ حسن سلوک کا بھی خیال رکھا.یہودی نبی کریم کی مجالس میں حاضر ہوتے تو آپ ان سے حسن معاملہ فرماتے تھے چنانچہ کسی یہودی کو حضور کی مجلس میں چھینک آ جاتی تو آپ اسے یہ دعا دیتے کہ اللہ تمہیں ہدایت دے اور تمہارا حال اچھا کر دے.(سیوطی ) 21 اس کے برعکس یہود کا سلوک اپنے حسد اور کینہ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ گستاخانہ رہا.وہ طرح طرح کے سوالات کے ذریعہ آپ کی آزمائش کرتے آپ کی مجالس میں آتے تو اپنی تحریف کی عادت سے مجبور حضور کی مجلس میں بھی الفاظ بگاڑ کر تمسخر کرتے اور اپنی طرف توجہ پھیرنے کے لئے راعِنَا یعنی ہماری رعایت کر.اس کی بجائے راعيــــــا کہتے جس کے معنے ہمارے چرواہے یا نوکر کے ہیں.یہود آپ کی مجلس میں آکر سلام کرنے کے بجائے السلام علیکم کہتے جس کے معنے ہیں معاذ اللہ آپ پر لعنت اور ہلاکت ہو.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ کچھ یہودی آئے.انہوں نے السام علیک کہہ کر نبی کریم کو طعن کیا.میں سمجھ گئی اور بول پڑی کہ اے یہود یو ا تم پر لعنت اور ہلاکت ہو نبی کریم ﷺ نے یہود کو کچھ کہنے کی بجائے مجھے سمجھایا اور فرمایا ٹھہرو اے عائشہ! اللہ تعالیٰ ہر بات میں نرمی پسند کرتا ہے.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے سنا نہیں انہوں نے آپ کو کیا کہا ہے؟ آپ نے فرمایا میں نے بھی تو و علیکم کہ دیا تھا کہ تم پر.دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ کے برا بھلا کہنے پر نبی کریم نے ان کو روکا سمجھایا اور فرمانے لگے اللہ تعالیٰ مخش بات پسند نہیں کرتا.( بخاری 22 ) اسی سلسلہ میں یہ آیت بھی اتری کہ وَإِذَا جَاءُ وَكَ حَيَّرُكَ بِمَالَمْ يُحَيْكَ بِهِ الله ( المجادلة:9) یعنی جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو وہ تجھے ان الفاظ میں سلام کرتے ہیں جن میں تجھے اللہ نے سلام نہیں کیا.اور اپنے دلوں میں سوچتے اور اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ ہم جو اس رسول کو ) بُرا بھلا کہتے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتا.ان کے لئے جہنم کافی ہے وہ اس میں داخل ہوں گے اور وہ بہت بُر اٹھکانا ہے.( احمد ) 23 نبی کریم سے کسی صحابی نے سوال کیا کہ اہل کتاب ہمیں سلام کرتے ہیں ہم انہیں کیسے جواب دیں؟ آپ نے فرمایا علیکم کہہ کر جواب دے دیا کرو یعنی تم پر بھی.( بخاری ) 24 ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک گروہ کے پاس سے گزرے جن میں مسلمانوں کے علاوہ یہودی اور مشرک بھی تھے.آپ نے جملہ اہل مجلس کو السلام علیکم کہا.( بخاری )25 فتح خیبر کے موقع پر رسول کریم کی خدمت میں یہود نے شکایت کی کہ مسلمانوں نے ان کے جانور لوٹے اور پھل
510 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل توڑے ہیں.نبی کریم نے اس پر تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ تم بغیر اجازت کسی کے گھر گھس جاؤ اور پھل وغیرہ تو ڑو.(ابوداؤد )26 خیبر کی فتح کے موقع پر ایک یہودیہ کی طرف سے دعوت طعام میں رسول کریم کی خدمت میں بھنی ہائی کا ہی چین کی گئی جس میں زہر ملایا گیا تھا.حضور نے منہ میں لقمہ ڈالا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ سے علم پا کر اگل دیا.پھر آپ نے یہود کو اکٹھا کیا اور فرمایا میں ایک بات پوچھوں گا کیا سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا ہاں آپ نے فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا کس چیز نے تمہیں اس پر آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا، ہم نے سوچا اگر آپ جھوٹے ہیں تو آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو یہ زہر کچھ نقصان نہ دے گا.( بخاری ) 27 رسول کریم نے قاتلانہ حملہ کی مرتکب اس یہودیہ کو بھی معاف فرما دیا اور یہود کی تمام تر زیادتیوں کے باوجود مدینہ کے یہود سے احسان کا ہی سلوک فرمایا.ایک دفعہ مدینہ میں یہودی کا جنازہ آرہا تھا.نبی کریم جنازہ کے احترام کے لئے کھڑے ہو گئے.کسی نے عرض کیا کہ حضور یہ یہودی کا جنازہ ہے.آپ نے فرمایا کیا اس میں جان نہیں تھی.کیا وہ انسان نہیں تھا ؟ ( بخاری ) 28 گویا آپ نے یہود کے جنازے کا بھی احترام فرما کر شرف انسانی کو قائم کیا.غیر مذاہب کے مُردوں کا احترام حضرت یعلی بن مرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کے ساتھ کئی سفر کئے.کبھی ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپ نے کسی انسان کی نعش پڑی دیکھی ہو اور اسے دفن نہ کروایا ہو آپ نے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ مسلمان ہے یا کافر ہے.(حاکم) 29 چنانچہ بدر میں ہلاک ہونے والے 24 مشرک سرداروں کو بھی آپ نے خود میدان بدر میں ایک گڑھے میں دفن کر وایا تھا.جسے قلیب بدر کہتے ہیں.( بخاری ) 30 الغرض نبی کریم نے بحیثیت انسان غیر مسلموں کے حقوق قائم کر کے دکھلائے.ان کے مردوں تک کا احترام کیا.حالانکہ وہ مسلمانوں کی نعشوں کی بے حرمتی کرتے رہے مگر آپ نے انتقام لینا کبھی پسند نہ کیا.غزوہ احزاب میں مشرکین کا ایک سردار نوفل بن عبد اللہ محرومی میدان میں آیا اور نعرہ لگایا کہ کوئی ہے جو مقابلہ میں آئے؟ حضرت زبیر بن العوام مقابلہ میں نکلے اور اسے زیر کر لیا.دریں اثناء حضرت علیؓ نے بھی نیزہ مارا اور وہ دشمن رسول خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا.مشرکین مکہ اُحد میں رسول اللہ کے چا حمزہ کے ناک کان کاٹ کر ان کی نعش کا مثلہ کر چکے تھے.وہ طبعا خائف تھے کہ ان کے سردار سے بھی ایسا بدلہ نہ لیا جائے.انہوں نے رسول اللہ کو پیغام بھجوایا کہ دس ہزار درہم لے لیں اور نوافل کی نعش واپس کردیں، رسول کریم نے فرمایا ہم مردوں کی قیمت نہیں لیا کرتے.تم اپنی نعش واپس لے جاؤ.( بیہقی ) 31 دوسری روایت میں ہے کہ نوفل خندق عبور کرنا چاہ رہا تھا کہ اس میں گر پڑا مسلمان اس پر پتھر برسانے لگے تو مشرکین نے کہا کہ مسلمانو ! اس اذیت ناک طریقے سے مارنے سے بہتر ہے کہ اسے قتل کر دو.چنانچہ حضرت علیؓ نے
511 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل خندق میں اتر کر اسے قتل کر دیا.اب اس کی نعش مسلمانوں کے قبضہ میں تھی.مشرکین نے اسے باعزت دفن کرنے کے لئے نعش کی واپسی کا مطالبہ کیا اور بارہ ہزار درہم تک پیشکش کی.رسول کریم نے فرمایا نہ تو ہمیں اس کے جسم کی ضرورت ہے نہ قیمت کی.ان کا مردہ انہیں واپس لوٹا دو تا کہ وہ اسے حسب منشا دفن کر سکیں.مردے کو فروخت کرنا کوئی قابل عزت بات نہیں پھر آپ نے کوئی رقم لئے بغیر وہ نعش دشمنوں کو واپس لوٹا دی.(ابن ہشام )32 رواداری کی نادر مثالیں فتح خیبر کے بعد یہود سے مسلمانوں کی مصالحت ہوگئی اور وہاں کی زمین نصف پیداوار کی شرط پر ان کو بٹائی پر دی گئی.ایک مسلمان عبد اللہ بن سہل اپنے ساتھی محیصہ کے ہمراہ خیبر گئے.عبداللہ یہودی علاقہ میں قتل کر دیئے گئے.رسول کریم کی خدمت میں مقدمہ پیش ہوا.آپ نے مقتول کے مسلمان مدعیان سے فرمایا کہ تمہیں اپنے دعویٰ کا ثبوت بصورت شہادت دینا ہوگا یا پھر قاتل کے خلاف قسم تا کہ اس کا قصاص لیا جائے.جب مدعیان نے کوئی عینی شاہد نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ثبوت پیش کرنے سے معذوری ظاہر کی تو نبی کریم نے فرمایا کہ پھر یہود پچاس قسمیں دے کر بری الذمہ ہو سکتے ہیں.مسلمانوں نے عرض کیا کہ کافروں کی قسم کا ہم کیسے اعتبار کر لیں؟ چنانچہ نبی کریم نے ثبوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کی طرف سے اس مسلمان کی دیت ادا کر دی.اور یہود پر کوئی گرفت نہ فرمائی.( بخاری )33 رسول کریم ﷺ نے ہمیشہ غیر مذاہب کے لوگوں سے خوشگوار تعلقات رکھے.چنانچہ آپ نے مدینہ میں ایک یہودی لڑکے کو اپنی گھریلو خدمت کے لئے ملازم رکھا ہوا تھا.جب وہ بیمار ہوا تو اس کی عیادت کو خود تشریف لے گئے.( احمد ) 34 آپ بلا امتیاز رنگ و نسل و مذہب وملت دعوت قبول فرماتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس میں اس نے جو اور چربی پیش کئے.( ابن سعد ) 35 یہود مدینہ سے آخر وقت تک نبی کریم کا لین دین اور معاملہ رہا.بوقت وفات بھی آپ کی زرہ ایک یہودی کے ہاں تیں صاع غلے کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی.( بخاری )36 عیسائی قوم سے حسن سلوک قرآن شریف میں عیسائیوں کی یہ خوبی بیان ہوئی ہے کہ تم غیر قوموں میں سے عیسائیوں کو نسبتا اپنے زیادہ قریب اور محبت کرنے والا پاؤ گے.“ (سورۃ المائدۃ: 83) نجران کے عیسائیوں کا وفد رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا.بحث و مباحثہ کے دوران ان کی عبادت کا وقت آگیا.نبی کریم نے انہیں مسجد نبوی میں ہی ان کے مذہب کے مطابق مشرق کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے کی اجازت فرمائی.( ابن سعد ) 37
اسوہ انسان کامل اہل نجران کی مذہبی آزادی 512 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اہل نجران سے جو معاہدہ ہوا اس میں انہیں مذہبی آزادی کے مکمل حقوق عطا کئے گئے.معاہدہ یہ ہوا کہ وہ دو ہزار چادریں سالانہ مسلمانوں کو بطور جزیہ دیں گے نیز یمن میں خطرے کی صورت میں تمھیں گھوڑے، تمہیں اونٹ، ہمیں ہتھیار ہر قسم کے یعنی تلوار، تیر، نیزے عاریتاً مسلمانوں کو دیں گے.جو مسلمان بعد استعمال واپس کر دیں گے.مسلمان ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت کریں گے.ان کے تمام مالکانہ حقوق مسلّم ہو نگے.ان کا کوئی گر جا گرایا نہیں جائے گا ، نہ ہی کسی استقلف یا کسی پادری کو بے دخل کیا جائے گا اور نہ ان کے حقوق میں کوئی تبدیلی یا کمی بیشی ہوگی ، نہ ہی اُن کی حکومت اور ملکیت میں.نہ انہیں ان کے دین سے ہٹایا جائے گا جب تک وہ معاہدہ کے پابند رہیں گے.ان شرائط کی پابندی کی جائے گی اور ان پر کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوگی.(ابوداؤد ) 38 علامہ بیہقی نے اس معاہدہ کے حوالہ سے بعض اور شقوں کی صراحت کی ہے.مثلاً یہ کہ اہل نجران کے تمام پادریوں کا ہنوں ، راہوں ، عبادت گاہوں اور ان کے اندر رہنے والوں اور ان کے مذہب وملت پر قائم تمام لوگوں کو محمد رسول اللہ کی طرف سے اللہ اور رسول کی مکمل امان حاصل ہوگی.کسی پادری کو اس کے عہدہ سے یا کسی راہب کو اس کی عبادت سے ہٹایا نہ جائے گا.ان حقوق کے عوض اہل نجران معمولی سالا نہ ٹیکس ادا کرنے کے پابند ہوں گے.(بیہقی )39 یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ نجران کے عیسائیوں سے مصالحت جزیہ پر نہیں بلکہ عام حکومتی ٹیکس پر تھی جس میں انہیں مکمل مذہبی آزادی عطا کی گئی.یہی وجہ ہے کہ معاہدہ نجران کے متن میں کہیں بھی جزیہ" کا لفظ موجود نہیں ہے.چنانچہ فقہاء نے اس پہلو سے بحث کی ہے کہ اہل نجران پر جو ٹیکس عائد کیا گیا وہ عام ٹیکس تھا یا جزیہ؟ امام ابو یوسف (۱۸۲ھ) نے اہل نجران کے ٹیکس کے لئے فدیہ کا نام تجویز کیا ہے، اور لکھا ہے کہ بے شک جز یہ تمام اہل ذمہ اہل حیرہ اور دیگر علاقوں کے یہود و نصاریٰ پر واجب ہے سوائے بنو تغلب اور اہل نجران کے جو خاص طور پر اس سے مستثنیٰ ہیں.(ابو یوسف ) 40 جزیہ کے متعلق یہ امر تو وضاحت کا محتاج نہیں کہ اس کی بناء ہی اسلام قبول نہ کرنا اور اپنے مذہب پر قائم رہنا ہے.گویا اپنی ذات میں جزیہ اسلام کی مذہبی آزادی کی شاندار علامت ہے.ابتدائی اسلامی دور میں جزیہ کو دستور کے مطابق صاحب استطاعت مردوں سے 48 درھم سالانہ اوسط درجہ کے افراد سے 24 درہم اور غریب مزدور طبقہ سے 12 درھم سالانہ وصول کیا جاتا تھا.(ابو یوسف ) 41 جبکہ اہل نجران کی کئی لاکھ کی آبادی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہزار پوشاکیں سالانہ اور دو ہزار اوقیہ ٹیکس مقررفرمایا تھا جو جزیہ کے مقابل پر بہت معمولی مالیت ہے.کیونکہ نجران کی آبادی میں انداز ایک لاکھ جنگجو پر اوسط درجے کے جزیہ کا ہی فی کس حساب لگایا جائے تو یہ کم درجے کا اندازہ بھی 24لاکھ درہم بن جاتا ہے.پھر جزیہ کی صورت میں ضروری تھا کہ دیگر ذمے داریاں بھی اہل نجران پر عائد کی جاتیں.مگر اہل نجران کے ساتھ صلح میں یمن کو جنگوں میں حسب ضرورت اسلحہ کی
513 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل عاریہ امداد اور اسلامی دستوں کی مہمان نوازی کی شرائط صاف بتا رہی ہیں کہ اہل نجران سے مخصوص شرائط اور معمولی سالانہ ٹیکس پر مصالحت طے پائی تھی.اور امام ابو یوسف کا یہ موقف بجاطور پر درست ہے کہ اہل نجران سے جزیہ وصول نہیں کیا گیا بلکہ عام ٹیکس یا فدیہ مقرر کیا گیا.یوں بھی نجران کا پہلا وفد جب ۲ھ میں مدینہ آیا اس وقت ابھی جزیہ کے احکام نہیں اترے تھے اس لئے جو نمائندہ وفد معاہدہ کی مجوزہ شرائط نجران کے حکومتی ارکان سے مشورہ کی خاطر ساتھ لے کر گیا اس میں جزیہ کا ذکر نہیں ہو سکتا تھا.عیسائی مؤرخ یہ معاہدہ انصاف و رواداری نقل کرتے ہوئے ششدر ہو کر رہ جاتے ہیں.چنانچہ مسٹر کر ینسٹن اپنی کتاب World Faith میں ان معاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :."Has any conquering race or faith given to its subject nationalities a better guarantee than is to be found in these words of the prophet? It would be hard to find a more tolerant and tuely and brotherly statement in the teaching of any religion.Thirteen hundred years before the Atlantic Charter incorporated freedom of religion and freedom from fear, Mohammad made treatico with Jewish and Christian tribes he had conquered and gave them freedom of religions worship and local self government.In many muslim invaded countries there has been conspicuocsly fair and just treatment of non-muslim population" یعنی ” کیا دنیا میں کسی فاتح قوم یا مذ ہب نے اپنی مفتوح قوموں کو اس سے بڑھ کر تحفظات کی ضمانت دی ہے جو ہادی اسلام علی کے ان الفاظ میں موجود ہے؟..دنیا کے کسی مذہب میں اس سے زیادہ روادارانہ اور حقیقی طور پر برادرانہ تعلیم تلاش کرنا مشکل ہے.اٹلانٹک چارٹر میں تو مذہبی آزادی اور دہشت و ہر اس سے نجات کو انسانی حقوق میں آج شامل کیا گیا ہے لیکن اٹلانٹک چارٹر سے بھی تیرہ سو سال پیشتر محمد نے یہودی اور عیسائی قبیلوں سے ان پر فتح حاصل کرنے کے بعد جو معاہدات کئے ان میں مذہبی عبادات کی آزادی اور مقامی لحاظ سے ان کی خود مختاری کو تسلیم کیا گیا تھا.“ (کرمینسٹن )42 دیگر عیسائی قبائل کو برا نہ مذہبی آزادی عرب میں نجران کے عیسائیوں کے علاوہ دوسرا بڑا عیسائی کٹر قبیلہ تغلب تھا.جن پر ٹیکس کی ادائیگی پر صلح ہوئی.
514 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار اسوہ انسان کامل رسول کریم نے تغلب کا وفد مدینہ آنے پر ان سے جو معاہدہ صلح کیا اس میں مذہبی آزادی کی مکمل ضمانت موجود ہے اور یہ ذکر ہے کہ انہیں اپنے دین پر قائم رہنے کا اختیار ہے مگر یہ آزادی ان کی اولادوں کے لئے بھی ہے کہ وہ ان کو جبر عیسائی نہیں بنائیں گے.(ابوداؤد ) 43 نبی کریم نے یمن کے عیسائی قبیلہ حارث بن کعب کی طرف عمرو بن حزم کو دعوت اسلام کے لئے بھجوایا اور ان کے نام مکتوب میں تحریری امان لکھ کر بھجوائی جس میں اسلامی احکام کی وضاحت کے بعد تحریر فرمایا کہ یہود ونصاریٰ میں سے جو مسلمان ہوگا اس کے مسلمانوں جیسے حقوق و فرائض ہونگے اور جو عیسائیت یا یہودیت پر قائم رہے گا تو اسے اس کے مذہب سے لوٹایا نہیں جائے گا.( یعنی مکمل مذہبی آزادی ہوگی ) ہاں ان کے ذمہ جزیہ ہوگا اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہوں گے.(ابن ہشام ) 44 اہل ایلہ کے عیسائیوں کو امان نامہ عطا کرتے ہوئے رسول کریم نے تحریر فرمایا:.دوستم کو مکمل امان ہو جنگ کی بجائے تمہیں یہ تحریر دے رہا ہوں کہ مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ ادا کرو اور جو معاہدہ صلح تم میرے نمائندوں سے کرو گے مجھے منظور ہے.اس صورت میں تم اللہ اور رسول کی پناہ میں ہو گے.( ابن سعد )45 شاہان تعمیر کو رسول کریم نے تحریری امان نامہ عطا کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ:.”جو شخص یہود یا عیسائیوں میں سے اسلامی احکام کی پابندی کریگا اسے مسلمانوں کے حقوق حاصل ہوں گے اور بطور مسلمان اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہوں گی اور جو شخص اپنی یہودیت یا عیسائیت پر قائم رہیگا اسے اس کے مذہب سے ہٹایا نہیں جائے گا البتہ ان کے ہر بالغ پر جزیہ واجب ہوگا.ایسے لوگ اللہ اور رسول کی امان میں ہونگے.( ابن ہشام ) 46 اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دی گئی.چنانچہ جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ آئے تو یہاں رواج تھا کہ انصار کی جن عورتوں کے بچے کم سنی میں فوت ہو جاتے وہ منت مانتیں کہ اگلا بچہ زندہ رہا تو اسے یہودی مذہب پر قائم کریں گی.جب یہودی قبیلہ بنونضیر کو اس کی عہد شکنی کی وجہ سے مدینہ بدر کیا گیا تو انصار کے ایسے کئی بچے یہودی مذہب پر تھے.انصار میں سے مسلمان ہونے والوں نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو یہود کے دین پر نہیں چھوڑیں گے.دوسری روایت میں ہے کہ انصار نے کہا کہ یہ منتیں اس وقت مانی گئی تھیں جب ہم سمجھتے تھے کہ یہود کا دین ہمارے دین سے بہتر ہے.اب اسلام کے آنے کے بعد ہمیں اپنے بچوں کو زبر دستی اسلام پر قائم کرنا ہوگا.اس پر یہ آیت اُتَرى لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّين کہ دین میں کوئی جبر نہیں.(ابوداؤد ) 47 منافقین مدینہ سے حسن سلوک ہجرت مدینہ کے بعد جن مخالف گروہوں سے رسول اللہ ﷺ کا واسطہ پڑا ، ان میں منافقین کا گر وہ بھی تھا.ان کی ریشہ دوانیوں کے سدباب کیلئے حسب حکم الہی رسول اللہ ﷺ اقدام فرماتے تھے ، مگر بالعموم ان سے نرمی اور احسان کا
اسوہ انسان کامل سلوک ہی رہا.515 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار عبداللہ بن ابی بن سلول منافقوں کا سردار تھا.ہجرت مدینہ کے بعد وہ مسلسل نبی کریم کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور کبھی اہانت و گستاخی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ہتی کہ حضرت عائشہ پر جھوٹا الزام لگانے کی جسارت کی.رسول کریم نے اس دشمن کے ساتھ بھی ہمیشہ عفو ورحم کا معاملہ فرمایا، اس کی وفات پر آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کیلئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ نے اس کی زیادتیاں یاد کر وا کر روکنا چاہا.رسول کریم نہ مانے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ قرآن شریف میں ان منافقوں کے بارہ میں ذکر ہے کہ آپ گستر مرتبہ بھی استغفار کریں تو وہ بخشے نہ جائیں گے.نبی کریم نے فرمایا عمر پیچھے ہٹو مجھے اس میں اختیار ہے اور میں ستر مرتبہ سے زائد اس کی بخشش کی دعا کرلوں گا.( بخاری )48 چنانچہ آپ نے عبداللہ بن ابی کی نماز جنازہ ادا کی اگر چہ بعد میں منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانے کی ممانعت قرآن میں نازل ہوئی.لیکن اس شفقت اور احسان کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ میں نفاق کا خاتمہ ہو گیا.الغرض رسول کریم ہی آزادی ضمیر ومذہب کے عظیم علمبر دار تھے.غیروں کا اعتراف اطالوی مستشرقہ پروفیسر ڈاکٹر وگلیری نے اسلامی رواداری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.قرآن شریف فرماتا ہے کہ اسلام میں جبر نہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان خدائی احکام کی پیروی کرتے تھے اور سب مذاہب کے ساتھ عموماً اور توحید پرست مذاہب کے سات خصوصاً بہت رواداری برتتے تھے.آپ کفار کے مقابلہ میں صبر اختیار کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کے متعلق یہ ذمہ لیا کہ عیسائی ادارے محفوظ رکھے جائیں گے اور یمن کی مہم کے سپہ سالار کوحکم دیا کہ کسی یہودی کو اس کے مذہب کی وجہ سے دکھ نہ دیا جائے.آپ کے خلفاء بھی اپنے سپہ سالاروں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ دوران جنگ میں ان کی افواج انہی ہدایات پر کار بند ہوں.ان فتح مند سپہ سالاروں نے مفتوح اقوام کے ساتھ معاہدات کرنے میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کی پیروی کی.انہی معاہدات کی وجہ سے مفتوحین کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے کی آزادی ملی.صرف شرط یہ تھی کہ جولوگ اسلام قبول نہ کریں ایک معمولی سائیکس یعنی جزیہ ادا کریں یہ ٹیکس ان ٹیکسوں سے بہت ہلکا تھا جو خود مسلمانوں پر حکومت اسلامی کی طرف سے عائد ہوتے تھے.جزیے کے بدلے میں رعایا یعنی ذقی لوگ ایسے ہی مامون ومصون ہو جاتے تھے جیسا که خود مسلمان.پھر پیغمبر اسلام اور خلفاء کے طریق کو قانون کا درجہ حاصل ہو گیا اور ہم حتما بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ اسلام نے مذہبی رواداری کی تلقین پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ رواداری کو مذہبی قانون کا لازمی حصہ بنادیا.مفتوحین کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد مسلمانوں نے ان کی مذہبی آزادی میں دخل نہیں دیا اور نہ تبدیلی مذہب کے لئے کوئی سختی کی.“ ( دگلیری) 49
اسوہ انسان کامل 516 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار ایڈیٹرست آپریشن لکھتے ہیں :.لوگ کہتے ہیں کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا مگر ہم اُن کی اس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کر سکتے کیونکہ زبردستی سے جو چیز پھیلائی جاتی ہے وہ جلدی ظالم سے واپس لے لی جاتی ہے.اگر اسلام کی اشاعت ظلم کے ذریعہ ہوئی ہوتی تو آج اسلام کا نام ونشان بھی باقی نہ رہتا.لیکن نہیں.ایسا نہیں ہے بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی پر ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بانی اسلام ﷺ کے اندر روحانی شکتی تھی.منش مانتر ( بنی نوع انسان ) کے لئے پر یم تھا.اُس کے اندر محبت اور رحم کا پاک جذبہ کام کر رہا تھا.نیک خیالات اُس کی رہنمائی کرتے تھے.( آپریشن ) 50 1 استثناء باب 7 آیت 1 تا6 حواله جات 2 بخارى(68) كتاب التفسير سورة الاعراف 3 استثناء: 23/19 4 بخاری(81) كتاب الادب باب7 5 بخارى (68) كتاب التفسير سورة الروم والدخان 6 المبسوط للسرخسی جلد 10 ص92 7 السيرة الحلبيه جلد3 ص 175 بيروت 8 مسند احمد بن حنبل جلد 4 ص 24 بيروت 9 ابوداؤد (41) كتاب السنّه باب 18 10 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 55
اسوہ انسان کامل 517 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار 11 مؤطا امام مالك كتاب النكاح باب نكاح المشرك اذا اسلمت زوجته 12 السيرة الحلبيه جلد 3 ص 92 دار احياء التراث العربي بيروت 13 السيره الحلبيه جلد3 ص 109 بيروت 14 احكام القرآن للجصاص جلد3ص109 15 ابوداؤد (6) کتاب شهر رمضان باب 9 16 دلائل النبوة للبيهقي 57 17 ترمذی (18) كتاب الاطعمه 18 بخاری (80) كتاب اللباس باب 25 19 بخاری (67) كتاب المغازى باب 19 20 السيرة النبويه لا بن هشام جلد2 ص 147 تا 150 21 الخصائص الكبرى للسيوطى جزثانى ص167 مطبوعه بيروت 22 بخاری (81) کتاب الادب باب 25 23 مسنداحمد جلد2 ص221 مطبوعه مصر 24 بخاری (82) كتاب الاستيذان باب 56 25 بخارى (68) كتاب التفسير سورة آل عمران و لتسمعن من الذين اوتوالكتاب من قبلكم 26 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد 27 بخاری (60) كتاب الجهاد باب 6 28 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 48 29 مستدرك حاكم جلد 1 ص371 30 بخاری (67) کتاب المغازى باب 3 31 دلائل النبوه للبيهقى جلد 3 ص 437,438 32 ابن هشام جلد 3 ص 273، طبری جلد2ص574 مسند احمد جلد 1 ص 248 و جلد 1 ص 256 بیهقی جلد 9 ص 133 33 بخاری (62) كتاب الجزيه باب 12 34 مسند احمد بن حنبل جلد3 ص 175
اسوہ انسان کامل 518 مذہبی رواداری اور آزادی ضمیر کے علمبردار 35 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص370-407 36 بخاری (67) کتاب المغازى باب 87 37 ابن سعد جلد 1 ص 357 دار الفكر بيروت 38 ابوداؤد (20) كتاب الخراج باب 30 والطبقات الكبرى لابن سعد جلد1ص266 39 دلائل النبوة للبيهقى جلدص 388 40 كتاب الخراج ص...72 از امام ابويوسف 41 كتاب الخراج ص 132 از امام ابویوسف World Faith by Ruth Cranston p.157 U.S.A 42 43 ابوداؤد (20) كتاب الخراج باب ،43 ابن سعد جلد 1 ص316 44 ابن هشام جلد 1ص269 مطبوعه مصر 45 ابن سعد جلد 1 ص 277 دار الفكر بيروت 46 ابن هشام جلد4ص258 مطبوعه مصر 47 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 5 48 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 83 49 اسلام پر نظر ص 14 ترجمه An Interpretation of Islam مترجم شيخ محمداحمدمظهر 50 از قلم ایڈیٹر ست اُپدیشن لاهور مورخه 7 جولائی 1915ء
اسوہ انسان کامل 519 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم 66w بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم صفات الہیہ کو اخلاق فاضلہ کی بنیاد قرار دیتے اور حسب استطاعت یہ صفات اختیار کرنے کی تلقین فرماتے تھے.اللہ تعالی کی ایک صفت عفو " ہے یعنی وہ بہت معاف کرنے والا ہے.انسان کے لئے بھی یہ خُلق اختیار کرنا ضروری ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں رنگین ہو کر وہ ایک کامل انسان بن سکے.اسلام سے پہلے توریت میں قصاص اور برابر کے بدلہ کی تعلیم بھی عدل وانصاف پر مبنی تھی.اسلام نے عدل سے ایک قدم آگے بڑھ کر احسان کی تعلیم دیتے ہوئے عفو کی طرف توجہ دلائی، مگر ساتھ ہی یہ وضاحت فرمائی کہ عفو “ کا خلق اس وقت قابل تعریف ہے، جب برمحل ہو.اگر کمزوری اور بدلہ لینے کی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے معاف کیا جائے تو یہ عفو قابل تعریف نہیں.عفو وہ قابل تعریف ہے، جس کے نتیجہ میں اصلاح ہو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بدی کا بدلہ کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے پس جو کوئی معاف کرے بشرطیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے یقیناً وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ہے.“ (سورۃ الشوری: 41) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جو حدود یعنی بعض گناہوں کی سزائیں مقرر فرما دی ہیں ان میں انسان کو عفو کا حق نہیں دیا اسی لئے رسول کریم نے فرمایا کہ لوگوں کو ان کی لغزشیں معاف کر دیا کرو سوائے حدود کے (جیسے قتل، زنا، چوری کی سزا).(ابوداؤد) رسول کریم کو بطور خاص عفو کا خُلق ودیعت کیا گیا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو اُن کیلئے نرم ہو گیا اور اگر تو تند خو اور سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دور بھاگ جاتے.پس ان سے عفوا ور در گذر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر.(سورۃ آل عمران: 160 ) دوسری جگہ رسول کریم کو عفو سے اگلے مقام صفحہ کی تعلیم دی ہے.جس کے معنے ایسی معافی کے ہیں کہ دل میں بھی کوئی خلش یا تلخ یاد باقی نہ رہے اور صدق دل سے مکمل طور پر معاف کر دیا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ان کو معاف کر اور در گذر کر.اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.“ (سورۃ المائدہ:14) پھر فرمایا که در گذر کرو خوبصورت در گذر (سورۃ الحجر : 86) چنانچہ رسول کریم نے غصہ دبانے اور معاف کرنے کے لئے بہت اعلی تعلیم پیش فرمائی ہے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی رضاء کی خاطر غصے کا ایک گھونٹ پی لینے کا جتنا اجر ہے وہ دوسرے کسی بھی گھونٹ کا نہیں.(احمد) 2
اسوہ انسان کامل 520 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم ایک دفعہ رسول کریم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے وہ آپس میں کشتی کا مقابلہ کر رہے تھے.حضور نے پوچھا کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں شخص ایسا پہلوان ہے کہ جسے کوئی بھی کشتی میں پچھاڑ نہ سکے وہ اسے گرا دیتا ہے.رسول کریم نے فر مایا کیا میں تمہیں اس سے بڑے پہلوان کے بارہ میں نہ بتاؤں؟ وہ شخص بڑا بہادر ہے کہ جو دوسرے آدمی کے ساتھ بات کرتے ہوئے اپنا غصہ دبا لیتا ہے اور اپنے اوپر اور اپنے شیطان پر بھی غالب آتا ہے اور اپنے مد مقابل کے شیطان پر بھی غالب آتا ہے.( ابن حجر ) 3 حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے کوئی خاص نصیحت فرمائیں.حضور نے فرمایا کبھی غصے میں مت آنا اور یہ جملہ آپ نے کئی مرتبہ دہرایا کہ غصے میں مت آؤ.غصہ میں مت آؤ.( بخاری )4 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عفو کر نے کے بے نظیر نمونے نہ صرف دوستوں بلکہ دشمنوں کے حق میں بھی ظاہر ہوئے اور دنیا پر ثابت ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفت عفو“ کے بہترین مظہر تھے.چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو سے رسول اللہ کی توریت میں بیان فرمودہ علامت پوچھی گئی تو انہوں نے بیان کیا کہ وہ نبی تند خو اور سخت دل نہ ہوگا، نہ بازاروں میں شور کرنے والا ، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ عضو اور بخشش سے کام لے گا“.( بخاری )5 دراصل یہ اشارہ توریت کی اس پیشگوئی کی طرف تھا.جس میں لکھا ہے.”وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا.وہ نہ چلائے گا نہ شور کرے گا نہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی.وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا.وہ راستی سے عدالت کرے گا“.(یسعیاہ )6 رسول کریم نے ایک دفعہ یہ قصہ سنایا کہ ایک تاجر کا لوگوں سے لین دین کا معاملہ تھا.وہ اپنے کارکنوں سے کہتا کہ تنگدست سے در گزر کرنا اور اسے مہلت دینا شاید اس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے بھی درگزر کرے.پھر واقعی اللہ تعالیٰ نے اس سے درگزر رکا سلوک فرمایا.( بخاری )7 حضرت عائشہ نبی کریم کے عفو کرم کے بارہ میں یہ گواہی دیتی تھیں کہ نبی کریم نے کبھی اپنی ذات کی خاطر اپنے اوپر ہونے والی کسی زیادتی کا انتقام نہیں لیا.(مسلم ) 8 حضرت خدیجہ کے صاحبزادے ہند کو رسول اللہ کے زیرتربیت رہنے کی سعادت عطا ہوئی تھی.ان کی روایت ہے کہ رسول اللہ دنیا اور اس کے اغراض کی خاطر کبھی غصے نہیں ہوتے تھے.اسی طرح اپنی ذات کی خاطر نہ کبھی آپ غصے ہوئے نہ بدلہ لیا.(ترندی) ایک دفعہ ایک شخص نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کتنی دفعہ خادم کو معاف کریں.حضور خاموش رہے.اس نے پھر سوال کیا.حضور پھر خاموش رہے.جب تیسری مرتبہ اس نے یہی سوال دو ہرایا تو آپ نے قرمایا میں تو دن میں ستر مرتبہ اسے معاف کرتا ہوں.(ابوداؤد ) 10
521 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم اسوہ انسان کامل مدینہ میں آنے کے بعد ایک دفعہ نبی کریم انصاری سردار حضرت سعد بن عبادہ کی عیادت کو تشریف لے گئے.راستے میں یہود مشرکین اور مسلمانوں کی ایک مجلس میں منافقوں کا سردار عبد اللہ بن ابی بھی موجود تھا.رسول اللہ کی سواری کے آنے سے گرد اٹھی تو اس نے منہ ڈھانپ لیا اور رسول اللہ کو برا بھلا کہنے لگا.نبی کریم جب سعد بن عبادہ کے گھر پہنچے اور ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو انہوں نے مدینہ کے مخصوص حالات میں عبداللہ بن ابی سے در گزر کرنے کی درخواست کی.اور رسول کریم نے اسے معاف کر دیا.( بخاری ) 11 دوسری روایت میں ہے کہ رسول کریم سردار منافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس سے گزرے وہ ٹیلوں کے سایہ میں بیٹھا ہوا تھا، ناک بھوں چڑھا کر حقارت سے نبی کریم کو ابن ابی کبشہ کے نام سے پکار کر کہنے لگا کہ اس نے اپنی ساری غبار ہم پر ڈالی ہے.اس کے بیٹے عبداللہ نے جو ایک مخلص صحابی اور عاشق رسول تھے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو عزت عطا فرمائی ہے.اگر آپ ارشاد فرما ئیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں.نبی کریم نے فرمایا در نہیں وہ تمہارا باپ ہے اس سے نیکی اور احسان کا سلوک کرو.( بیٹمی )12 رسول کریم نے اس معاند دشمن کو ایسا صدق دل سے معاف کیا کہ اس کی تمام تر گستاخیوں اور شرارتوں کے باوجود اس کی وفات پر اس کا جنازہ پڑھایا حالانکہ حضرت عمر نے باصرار اس کا جنازہ پڑھانے سے روکتے ہوئے رسول اللہ کو عبد اللہ بن ابی کی سب زیادتیاں اور دشمنیاں یاد کرائیں.مگر رسول کریم نے مسکراتے ہوئے فرمایا اے عمر! پیچھے ہٹ جاؤ.مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ تم ان کے لئے استغفار کر دیا نہ کرو ( برابر ہے ) اگر تم ستر مرتبہ بھی استغفار کروتو اللہ ان کو نہیں بخشے گا.پھر فرمایا اگر مجھے پتہ ہو کہ میرے ستر سے زائد مرتبہ استغفار سے یہ بخشے جائیں گے تو میں ستر سے زائد بار استغفار کروں گا.پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھایا جنازہ کے ساتھ قبر تک تشریف لے گئے اور تدفین تک وہاں رہے.( بخاری ) 13 غزوہ ذات الرقاع میں تعاقب کر کے ارادہ قتل کے لئے آنے والے غورث بن حارث کو بھی آپ نے معاف فرما دیا.جس نے حضور کے سوتے ہوئے قتل کے ارادہ سے آپ کی تلوار پر قبضہ کر لیا تھا.مگر آپ کے الہی رعب و ہیبت سے قتل پر قادر نہ ہو سکا.اس جانی دشمن کو بھی آپ نے معاف فرما دیا.( بخاری ) 14 زہر دینے والی یہودیہ سے عفو غزوہ خیبر کے بعد مشہور یہودی جرنیل مرحب کے بھائی کی بیٹی زینب بنت الحارث نے بکری کے گوشت میں زہر ملا کر اس کا بھنا ہوا گوشت آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجا.رسول کریم دستی کا گوشت کھانے لگے اور دیگر صحابہ نے بھی کھایا.اچانک رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کھانے سے ہاتھ روک لو.پھر حضور نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا کیا تم نے اس کھانے میں زہر ڈالا تھا؟ اس نے کہا ہاں مگر آپ کو کیسے پتہ چلا؟ حضور نے اپنے ہاتھ میں دستی کے
522 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم اسوہ انسان کامل گوشت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اس نے بتایا.حضور نے پوچھا کہ تمہارا مقصد کیا تھا؟ کہنے لگی میں نے سوچا اگر آپ نبی ہیں تو یہ زہر آپ کو کوئی نقصان نہیں دے گا.اگر نہیں ہیں تو آپ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی.آنحضور نے اس عورت کو معاف کر دیا اور اسے کوئی سزا نہیں دی.رسول کریم کے ایک صحابی ، جنہوں نے یہ گوشت کھایا تھا، کچھ عرصہ بعد زہر کے اثر سے فوت بھی ہو گئے اور رسول اللہ پر اس زہر کا اثر عمر بھر رہا.آخری بیماری میں بھی آپ اپنے گلے میں اس کی وجہ سے تکلیف محسوس کرتے تھے.(ابوداؤں ) 15 فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم نے عضو کے شاندار اور بے نظیر نمونے قائم فرمائے اور اس روز آپ نے محض مکہ کی بستی اور مکان ہی فتح نہیں کئے تھے بلکہ دراصل مکینوں کے دل بھی جیت لئے.مرتدین کی معافی عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح بھی انہی لوگوں میں سے تھا جو رسول کریم کا کاتب وحی تھا.اس نے کلام الہی میں تحریف اور خیانت کے جرم کا ارتکاب کیا.جب اس کی یہ چوری پکڑی گئی تو بغاوت اور ارتداد اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کے حریف قریش مکہ سے جاملا.وہاں جا کر اس جھوٹے الزام کی کھلم کھلا اشاعت کی کہ جو میں کہتا تھا اس کے مطابق وحی بنا کر لکھ لی جاتی تھی.اسکی محاربانہ سرگرمیوں کے باعث اسے واجب القتل قرار دیا گیا.بعض مسلمانوں نے نذرمانی کہ وہ اس دشمن خداور سول کو قتل کریں گے.مگر عبد اللہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عثمان غنی کی پناہ میں آکر معافی کا طالب ہوا.رسول کریم نے معمولی تردد کے بعد حضرت عثمان کی بار بار درخواست پر کہ میں اسے امان دے چکا ہوں.معاف کر کے اس کی بیعت قبول فرمالی.بعد میں رسول کریم نے اپنے صحابہ سے (جن میں عبداللہ کے قتل کی نذر ماننے والے صحابی بھی شامل تھے ) پوچھا کہ جب تک میں نے اس کی معافی اور بیعت منظور نہیں کی تھی اس دوران عبد اللہ کو قتل کر کے اپنی نذر پوری نہ کر لینے کی کیا وجہ ہوئی ؟ کیونکہ نذر پوری کرنا اللہ کا حق ہے.صحابہ نے عرض کیا آپ کا ادب مانع تھا.حضور ”ہمیں ادنیٰ سا اشارہ ہی فرما دیتے کہ نذر پوری کرنے میں کوئی روک نہیں.نبی کریم نے کیا خوبصورت جواب ارشاد فرمایا کہ آنکھ کے مخفی اشارے کی خیانت بھی نبی کی شان سے بعید ہے.اس طرح کلام پاک میں خیانت کے مرتکب اس مجرم کے ساتھ بھی نبی کریم نے یہ سلوک روا رکھنا گوارا نہ فرمایا کہ اسے خاموشی سے قتل کروا دیا جائے.غالباً صحابہ کو یہی سبق دینے کیلئے آپ نے ان سے یہ سوال پوچھا تھا.ورنہ اس رسول امین کا فیصلہ تو یہ ہے کہ ایک مسلمان عورت نے بھی جسے امان دی وہ ہماری امان شمار ہوگی.پھر حضرت عثمان جیسے جلیل القدر صحابی کی امان کے باوجود نبی کریم کی موجودگی میں کوئی کیسے جرات کر سکتا تھا کہ حضور کے کسی واضح فیصلہ سے قبل ایسا اقدام کرے بیعت کی قبولیت کے بعد عبداللہ اپنے جرائم کے باعث حیاء کی وجہ سے نبی کریموں کے سامنے آنے سے کتراتا تھا.اس رحیم و کریم اور عالی ظرف رسول نے اسے محبت بھرا پیغام بھجوایا کہ اسلام قبول کرنا پہلے کے گناہ معاف کر دیتا
اسوہ انسان کامل ہے.(حلبیہ (16 16 523 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم رسول کریم کے دامن عفو سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہ لوٹا.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ انصار مدینہ میں سے ایک شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہو کر مشرکوں سے جاملا.پھر ندامت ہوئی تو اپنی قوم کو پیغام بھجوایا کہ رسول اللہ سے بعد مرتد ہو پھر ہوئی تواپنی قوم کوپیغام کہ رسول اللہ پوچھو کیا میری تو بہ بھی قبول ہو سکتی ہے؟ اس کی قوم کے لوگوں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ فلاں شخص اب نادم ہو کر تو بہ کا طالب ہے.اس پر یہ آیات اُتریں اُولئِكَ جَزَاؤُهُمُ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللَّهِ وَالْمَلَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَلِدِينَ فِيهَا لاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (آل عمران: 87 تا 90) ان آیات میں ارتداد کے بعد تو بہ اور اصلاح کی صورت میں اللہ کی بخشش کا ذکر ہے.رسول کریم نے اس شخص کو معافی کا پیغام بھجوایا اور اس نے اسلام قبول کر لیا.(نسائی) 17 واجب القتل مجرموں سے عفو چند واجب القتل مجرموں میں ایک شخص ہبار بن الاسود بھی تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی حضرت زینب پر مکہ سے مدینہ ہجرت کے وقت نیزے سے قاتلانہ حملہ کیا اور وہ اونٹ پر سے ایک پتھریلی چٹان پر گر گئیں.اس حادثہ کے نتیجہ میں ان کا حمل ضائع ہو گیا اور بالآخر یہی چوٹ ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.اس جرم کی بناء پر حضور نے اس کے قتل کا فیصلہ فرمایا تھا.فتح مکہ کے موقع پر تو یہ بھاگ کر کہیں چلا گیا.بعد میں جب نبی کریم واپس مدینہ تشریف لائے.ہبار حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور رحم کی بھیک مانگتے ہوئے عرض کیا کہ پہلے تو میں آپ کے ڈر سے فرار ہو گیا تھا مگر پھر آپ کے عفو و رحم کا خیال مجھے آپ کے پاس واپس لایا ہے.اے خدا کے نبی ! ہم جاہلیت اور شرک میں تھے.خدا نے ہمیں آپ کے ذریعہ ہدایت دی اور ہلاکت سے بچایا.پس میری جہالت سے صرف نظر فرمائیں بے شک میں اپنے قصوروں اور زیادتیوں کا اقراری اور معترف ہوں.عفوو کرم کے اس پیکر نے اپنی صاحبزادی کے اس قاتل کو بھی بخش دیا اور فرمایا ”جا اے ھبار! میں نے تجھے معاف کیا.اللہ کا یہ احسان ہے کہ اس نے تمہیں قبول اسلام کی توفیق دی.پھر رحمتہ للعالمین ہبار کو بھی محبت بھری تسلیاں دیتے ہیں کہ اسلام قبول کرنا سابقہ گناہوں کا ازالہ کر دیتا ہے.(حلبیہ ) 18 ابو جہل کے بیٹے کو امان واجب القتل مجرموں میں دشمن اسلام ابو جہل کا بیٹا اور مشرکین مکہ کا سردار عکرمہ بھی تھا جس نے ساری عمر اسلام کی مخالفت اور عداوت میں گزاردی.مسلمانوں اور بانی اسلام کو وطن سے بے وطن کیا، پھر مدینے میں بھی چین سے بیٹھنے نہ دیا.ان پر جنگیں مسلط کیں اور ان کے خلاف لشکر کھینچ کر لے آیا.حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روکا اور
اسوہ انسان کامل 524 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم پھر اس موقع پر جو معاہدہ کیا اسے توڑنے اور پامال کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا.سب سے بڑھ کر یہ کہ فتح مکہ کے موقع پر امن کے اعلانِ عام کے باوجود ہتھیار نہ ڈالے بلکہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خالد بن ولید کے دستے کی مدد سے مسلمانوں پر حملہ کر کے حرم میں خونریزی کا موجب بنا.اپنے ان گھناؤنے جرائم کی معافی کی کوئی صورت نہ دیکھ کر فتح مکہ کے بعد عکرمہ یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا.اس کی بیوی اُم حکیم مسلمان ہوگئی تھی.وہ رسول کریم کے دربار عفو سے اپنے خاوند کی معافی اور امن کی طالب ہوئی.سبحان اللہ ! حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس جانی دشمن کے لئے بھی امان نامہ عطا فر مایا.اس کی بیوی تلاش میں اس کے پیچھے گئی ، اور بالآخر اسے جالیا اور کہا ” میں اس عظیم انسان کے پاس سے آئی ہوں جو بہت ہی صلہ رحمی کر نیوالا ہے.تم اپنے آپ کو ہلاک مت کرو.میں تمہارے لئے پروانہ امان لے کر آئی ہوں.عکرمہ کو اپنے جرائم کے خیال سے معافی کا یقین تو نہ آتا تھا مگر اپنی بیوی پر اعتماد کرتے ہوئے واپس لوٹ آیا.جب رسول اللہ کے دربار میں حاضر ہوا تو رسول کریم نے اسے بھی معاف کر دیا.(الحلبیہ ( 19 عکرمہ پر لطف و کرم رسول کریم نے اپنے جانی دشمن عکرمہ کو نہ صرف معاف کیا بلکہ اس کے ساتھ کمال شفقت و محبت کا سلوک کیا.پہلے تو اپنے اس جانی دشمن کو خوش آمدید کہا اور دشمن قوم کے اس سردار کے اعزاز کیلئے کھڑے ہو گئے.(مالک) 20 اپنی چادر اس کی طرف پھینک دی جو امان عطا کرنے کے علاوہ احسان کا اظہار بھی تھا.پھر فرط مسرت سے اس کی طرف آگے بڑھے.عکرمہ نے عرض کیا میری بیوی کہتی ہے آپ نے مجھے معاف فرما دیا ہے.آپ نے فرمایا ہاں یہ درست کہتی ہے.یہ سن کر عکرمہ کا سینہ کھل گیا اور وہ بے اختیار کہہ اٹھا.اے محمد ! واقعی آپ تو بہت ہی صلہ رحمی کرنیوالے اور بے حد حلیم اور بہت ہی کریم ہیں.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.تب ہمارے آقا کی خوشی دیکھنے والی تھی ، مشرکین کے لشکر کا سالار مسلمان ہو رہا تھا ، آج رسول اللہ کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ، آپ کے خوابوں کی تعبیریں پوری ہو رہی تھیں.آپ نے ایک رویا میں ابو جہل کے ہاتھ میں جنتی پھل انگور کے خوشے دیکھے تھے، آج ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کے قبول اسلام سے اس کی تعبیر ظاہر ہوئی.رسول اللہ خوشی سے مسکرا ر ہے تھے.صحابہ نے استفسار کیا تو فرمایا کہ میں خدا کی شان اور قدرت پر حیران ہو کر خوشی سے مسکراتا ہوں کہ بدر میں عکرمہ نے جس مسلمان صحابی کو قتل کیا تھا وہ شہیدصحابی اور عکرمہ دونوں جنت میں ایک ہی درجے میں ہوں گے.بعد میں جنگ یرموک میں عکرمہ کی شہادت سے یہ بات مزید کھل کر ظاہر ہو گئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عکرمہ کے اسلام سے خوش ہو کر فرمایا کہ اے عکرمہ! آج جو مانگنا ہے مجھ سے مانگ لو میں اپنی توفیق واستطاعت کے مطابق تمہیں عطا کرنے کا وعدہ کرتا ہوں.یہ موقع تھا کہ سردار مکہ کا بیٹا شہنشاہ عرب سے منہ مانگا انعام لے سکتا تھا، مگر اب وہ دنیا دار عکرمہ یکسر بدل چکا تھا.تو حید ورسالت کا صدق دل سے اقرار کر کے اور
525 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم اسوہ انسان کامل رسول اللہ کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر اس کی ہستی میں ایک انقلاب رونما ہو چکا تھا.اس نے عرض کیا اے خدا کے رسول ! میرے لئے اپنے مولیٰ سے بخشش کی دعا کیجئے کہ جو دشمنی میں نے آج تک آپ سے کی وہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی وقت دعا کیلئے خدا کے حضور ہاتھ پھیلا دیئے اور عرض کرنے لگے.”مولیٰ میرے مولیٰ ! عکرمہ کی سب عداوتیں اور قصور معاف فرمادے اور خود آپ نے بھی صدق دل سے عکرمہ کو ایسا معاف کیا کہ مسلمانوں کو تاکید کی کہ دیکھو عکرمہ کے سامنے اس کے باپ ابو جہل کو برا بھلا نہ کہنا.اس سے میرے ساتھی عکرمہ کی دل آزاری ہوگی اور اسے تکلیف پہنچے گی.دشمن کے ساتھ حسن سلوک کے لحاظ سے نبی کریم کا کتنا عظیم خلق ہے جس کی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی.عکرمہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے آج تک آپ کی مخالفت میں اپنا جتنا مال خرچ کیا ہے.اب میں اللہ کی راہ میں بھی اتنا مال خرچ کئے بغیر نہیں رہ سکتا.( ابن اثیر ) 21 ہند سے حسن سلوک ان واجب القتل مجرموں میں ابوسفیان کی بیوی ھند بنت عتبہ بھی تھی.اس نے اسلام کے خلاف جنگوں کے دوران کفار قریش کو اکسانے اور بھڑ کانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا.وہ رجزیہ اشعار پڑھ کر اپنے مردوں کو انگیخت کیا کرتی تھی کہ اگر تم فتح مند ہو کر لوٹو گے تو ہم تمہارا استقبال کریں گی ، ورنہ ہمشیہ کیلئے جدائی اختیار کرلیں گی.(ابن ہشام) 22 جنگ اُحد میں اسی ہند نے انعام کے لالچ پے اپنے غلام وحشی سے رسول اللہ ﷺ کے چا حضرت حمزہ کو قتل کروا کے انکی نعش کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا تھا.ان کے ناک کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑا اور ان کا کلیجہ چبا کر آتش انتقام سرد کی تھی.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ نے عورتوں کی بیعت لی تو یہ ھند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی کیونکہ اس کے جرائم کی وجہ سے اسے بھی واجب القتل قرار دیا گیا تھا.بیعت کے دوران اس نے بعض شرائط بیعت کے بارہ میں استفسار کیا تو نبی کریم پہچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ہند ہی کر سکتی ہے.آپ نے پوچھا ” کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟“ اس نے کہا یا رسول اللہ ! اب تو میں دل سے مسلمان ہو چکی ہوں.جو کچھ پہلے گزر چکا آپ سبھی اس سے در گذر فرمائیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا.“ نفرت کو محبت سے بدلنے کا انقلاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ظرف دیکھو کہ اپنے محبوب چا کا کلیجہ چبانے والی ھند کو بھی معاف فرما کر ہمیشہ کیلئے اس کا دل جیت لیا.ہند پر آپ کے عفو و کرم کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا ہی پلٹ گئی.اس نے اپنا دل بھی شرک و بت پرستی سے پاک کیا اور گھر میں موجود تمام بت توڑ کر نکال باہر کئے.اسی شام ہند نے رسول اللہ یہ کے لئے ضیافت کے اہتمام کی خاطر دو بکرے ذبح کر وائے اور بھون کر حضور کی خدمت میں بھجوائے.خادمہ کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ ہند بہت معذرت کرتی ہیں کہ آج کل جانور کم ہیں اس لئے جو حقیر سا تحفہ پیش کرنے کی توفیق پارہی ہوں یہی قبول فرما لیں.
526 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم اسوہ انسان کامل ہمارے محسن آقا ومولا نے جو کسی کے احسان کا بوجھ اپنے اوپر نہ رکھتے تھے.اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ہند کے بکریوں کے ریوڑ میں چہوت تبر کریتی ڈال دے.یہ دعا بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی.ہند کی بکریوں میں ایسی برکت پڑی کہ سنبھالی نہ جاتی تھیں.پھر تو ہند رسول خدا کی دیوانی ہوگئیں، خود کہا کرتی تھیں کہ یا رسول اللہ ایک وقت تھا جب آپ کا گھر میری نظر میں دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر تھا، مگر اب یہ حال ہے کہ روئے زمین پر تمام گھرانوں سے معزز اور عزیز مجھے آپ کا گھر ہے.(حلبیہ ( 23 وہ لوگ جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس کی اشاعت تلوار کے زور سے ہوئی.ذرا وہ بتا ئیں تو سہی کہ وہ کونسی تلوار تھی جس نے عکرمہ اور ہنڈ کا دل فتح کیا تھا، بلاشبہ وہ رسول اللہ کی بے پایاں رحمت ہی تھی.دشمن اسلام صفوان پر احسان صفوان بن امیہ مشرکین مکہ کے ان سرداروں میں سے تھا، جو عمر بھر مسلمانوں سے نبرد آزما رہے.صفوان فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے اعلان امن کے باوجود خالد بن ولید کے ساتھ اسلامی دستے پر حملہ آور ہوئے تھے.پھر بھی نبی کریم نے صفوان کے لئے بطور خاص کسی سزا کا اعلان نہیں فرمایا، مکہ فتح ہونے کے بعد یہ خود سخت نادم اور شرمندہ ہوکر یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا، کیونکہ اپنے جرائم سے خوب واقف تھا اور اپنے خیال میں ان کی معافی کی کوئی صورت نہ پاتا تھا ، اس کے چچا حضرت عمیر بن وہب نے نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے تو ہر اسود واحم کو امان دے دی ہے.اپنے چا زاد کا بھی خیال کیجیئے اور اسے معاف فرمائیے.نبی کریم نے صفوان کو بھی معاف فرما دیا.حضرت عمیر نے عرض کیا کہ مجھے اپنی امان کا کوئی نشان بھی عطا فرمائیں.حضور نے اپنا وہ سیاہ عمامہ معافی کی علامت کے طور پر اتار کر دے دیا جو فتح مکہ کے روز آپ نے پہنا ہوا تھا.عمیر نے جا کر صفوان کو معافی کی خبر دی تو اسے یقین نہ آتا تھا کہ اسے بھی معافی ہو سکتی ہے ، اس نے عمیر سے کہا تو جھوٹا ہے.میری نظروں سے دور ہو جا، میرے جیسے انسان کو کیسے معافی مل سکتی ہے؟ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے.“ حضرت عمیر نے اسے سمجھایا کہ نبی کریم تمہارے تصور سے بھی کہیں زیادہ بہت احسان کرنے والے اور حلیم و کریم ہیں ، ان کی عزت تمہاری عزت اور ان کی حکومت تمہاری حکومت ہے.اس یقین دہانی پر صفوان نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آتے ہی پہلا سوال یہی دریافت کیا کہ کیا آپ نے مجھے امان دی ہے؟ رسول خدا نے فرمایا ہاں میں نے تمہیں امان دی ہے.صفوان نے عرض کیا کہ مجھے دو ماہ کی مہلت دے دیں کہ اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں ٹھہروں، نبی کریم نے چار ماہ کی مہلت عطا فرمائی، یوں اپنے بدترین دشمن سے بھی اعلیٰ درجہ کا حسن سلوک کر کے خلق عظیم کی شاندار مثال قائم فرما دی.(مالک) 24 بالآخر چند ہی دنوں میں آپ نے صفوان کا دل اپنے جود و سخا سے جیت لیا.محاصرہ طائف سے واپسی پر حض بر حضور ا یک وادی کے پاس سے گزرے.جہاں نبی کریم کے مال شمس وفینی کے جانوروں کے ریوڑ چر رہے تھے.صفوان حیران ہو کر طمع بھری آنکھوں سے ان کو دیکھنے لگا، حضور صفوان کو دیکھ رہے تھے، فرمانے لگے اے صفوان ! کیا یہ جانور تجھے بہت اچھے لگ رہے
اسوہ انسان کامل 527 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم ہیں ؟ اس نے کہا ہاں ! آپ نے فرمایا "جاؤ یہ سب جانور میں نے تمہیں بخش دیئے.صفوان بے اختیار یہ کہہ اٹھا کہ خدا کی قسم ! اتنی بڑی عطا اور ایسی دریا دلی اتنی خوش دلی سے سوائے نبی کے کوئی نہیں کرسکتا یہ کہ کر وہیں رسول اللہ کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا.(ابن ھشام) 25 وحشی قاتل حمزہ سے در گذر واجب القتل مجرموں میں وحشی بن حرب بھی تھا.جس نے اپنی غلامی سے آزادی کے لالچ میں غزوہ احد میں سامنے آکر مقابلہ کرنے کی بجائے چھپ کر اسلامی علمبر دار حضرت حمزہ پر قاتلانہ حملہ کر کے انہیں شہید کیا تھا.فتح مکہ کے بعد وحشی طائف کی طرف بھاگ گیا.بعد میں مختلف علاقوں سے سفارتی وفود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے لگے.وحشی کو کسی نے مشورہ دیا کہ نبی کریم سفارتی نمائندوں کا بہت احترام کرتے ہیں.بجائے چھپ چھپ کر زندگی گزارنے کے تم بھی کسی وفد کے ساتھ دربار نبوی میں حاضر ہو کر عفو کی بھیک مانگ لو.چنانچہ وہ طائف کے سفارتی وفد کے ساتھ آیا.حضور سے آپ کے چاکے قتل کی معافی چاہی.آپ نے دیکھ کر فرمایا تم وحشی ہو.؟ اس نے کہا جی حضور ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں.آپ نے فرمایا حمزہ کو تم نے قتل کیا تھا؟“ اس نے اثبات میں جواب دیا.آپ نے اس واقعہ کی تفصیل پوچھی.اس نے بتایا کہ کس طرح تاک کر اور چھپ کر ان کو نیز امارا اور شہید کیا تھا.یہ سن کر رسول اللہ ﷺ کی اپنے محبوب چا کی شہادت کی یاد ایک بار پھر تازہ ہوگئی.صحابہ نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے.شاید اس وقت آپ کو حضرت حمزہ کے احسانات بھی یاد آئے ہوں گے.وہ ابو جہل کی ایذاؤں کے مقابل پر آپ کی سپر بن کر اسلام کی کمزوری کے زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے اور آخر دم تک نبی کریم کے دست و بازو بنے رہے.یہ سب کچھ دیکھ کر اور قدرت و طاقت پا کر جذبات انتقام میں کسی قدر تلاطم برپا ہوسکتا ہے اس کا اندازہ اہل دل ہی کر سکتے ہیں.مگر دوسری طرف وحشی قبول اسلام کا اعلان کر کے عفو کا طالب ہو چکا تھا.رسول کریم نے کمال شفقت اور حوصلہ کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ اے وحشی! میں تمہیں معاف کرتا ہوں.کیا تم اتنا کر سکتے ہو کہ میری نظروں کے سامنے نہ آیا کرو؟ تا کہ اپنے پیارے چچا کی المناک شہادت کی دکھ بھری یاد مجھے بار بارستاتی نہ رہے.وحشی نے رسول اللہ کا یہ حیرت انگیز احسان دیکھا تو آپ کے حسن خلق کا معترف ہوکر صدق دل سے مسلمان ہوا اور حضرت حمزہ کے قتل کا کفارہ ادا کرنے کی سوچ میں پڑ گیا.پھر اس نے اپنے دل میں یہ عہد کیا کہ اب میں اسلام کے کسی بڑے دشمن کو ہلاک کر کے حضرت حمزہ کے قتل کا بدلہ چکاؤں گا.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں مسلیمہ کذاب کو قتل کر کے کیفر کردار تک پہنچانے والا یہی وحشی تھا جس کا دل محمد مصطفیٰ نے محبت سے جیت لیا تھا.(الحلبیہ ) 26 حارث اور زمیر کی معافی حارث بن ہشام اور زہیر بن امیہ بھی عکرمہ اور صفوان کے ساتھیوں میں سے تھے.انہوں نے نبی کریم ﷺ کی امان
اسوہ انسان کامل 528 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم قبول کر نیکی بجائے مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا تھا.فتح مکہ کے بعد پشیمان تھے کہ نامعلوم اب ان کے ساتھ کیا سلوک ہو.چنانچہ انہوں نے نبی کریم کی چچا زاد بہن اُم ہانی سے معافی کیلئے سفارش چاہی.یہ دونوں ان کے سسرالی عزیز تھے.حضرت ام ہانی نے انہیں امان دے کر اپنے گھر میں ٹھہرایا.پہلے اپنے بھائی حضرت علی سے ان کی معافی کیلئے بات کی.حضرت علی نے صاف جواب دیا کہ ایسے معاندین اسلام کو تو میں خود اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا.تب ام ہانی نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.ذرا سوچئے دو ظالم دشمنان اسلام کیلئے ایک عورت کی امان کیا حیثیت رکھتی ہے؟ مگر اُم ہانی نے نبی کریم کی خدمت میں جا کر عرض کیا کہ میرا بھائی علی کہتا ہے کہ وہ اس شخص کو جسے میں نے امان دی ہے قتل کرے گا.آنحضرت کی وسعت حوصلہ دیکھو آپ نے فرمایا."اے اُم ہانی ! جسے تم نے امان دی اسے ہم نے امان دی.“ چنانچہ ان دونوں دشمنان اسلام کو بھی معاف کر دیا گیا.(مستدرک) حارث بن ہشام کو جو قریش کے سرداروں میں سے تھے.نبی کریم نے صرف معاف ہی نہیں فرمایا ، سو اونٹوں کا تحفہ بھی عطا کیا.بعد میں یہ غزوہ یرموک میں شامل ہوئے اور اس میں شہید ہوئے.یہ وہی حارث ہیں جنہوں نے اپنے دو زخمی مسلمان بھائیوں عکرمہ اور عیاش کو پیا سادیکھ کر خود پانی پینے کی بجائے انہیں پلانے کا اشارہ کیا اور یوں ایثار کرتے ہوئے اپنی جان جاں آفریں کے سپر د کر دی تھی.( ابن اثیر ) 28 27 حارث بن ہشام کا اپنا بیان ہے کہ جب اُم ہانی نے مجھے اطلاع دی کہ رسول اللہ نے ان کی پناہ قبول فرمالی ہے تو کوئی بھی مجھ سے تعرض نہیں کرتا تھا.البتہ مجھے حضرت عمر کا ڈر تھا لیکن وہ بھی ایک دفعہ میرے پاس سے گزرے میں بیٹھا ہوا تھا مگر انہوں نے بھی کوئی تعرض نہ کیا.اب مجھے صرف اس بات کی شرم تھی کہ میں رسول اللہ کو کیا منہ دکھاؤں گا کیونکہ حضور کو دیکھنے سے مجھے وہ تمام باتیں اور اپنی وہ دشمنیاں یاد آجائیں گی جو میں ہر موقعے پر آپ کے خلاف مشرکوں کے ساتھ مل کر کرتا رہا تھا، لیکن جب میں آنحضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملا، اس وقت وہ مسجد میں داخل ہورہے تھے.آپ کمال شفقت سے میری خاطر رک گئے.نہایت خندہ پیشانی اور بشاشت سے میرے ساتھ ملاقات فرمائی.تب میں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور حق کی گواہی دے دی.حضور نے اس موقع پر فرمایا حسب حمد اس اللہ کی ہے جس نے تمہیں ہدایت دی.تمہارے جیسا عقلمند انسان اسلام سے کس طرح علم اور دور رہ سکتا تھا.“ (حلبیہ ( 29 دلوں کی فتح رحمتہ للعالمین اہل مکہ کیلئے امان کا اعلان کرتے ہوئے خانہ کعبہ پہنچتے ہیں اور بعض بد بخت یہ منصوبے بنارہے ہیں کہ اگر آج اس عظیم فاتح کو قتل کر دیا جائے تو مسلمانوں کی فتح شکست میں بدلی جاسکتی ہے.طواف کے وقت ایک شخص فضالہ بن عمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے قریب آیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کے نا پاک منصوبے کی اطلاع کر دی.آپ نے نام لے کر بلایا تو وہ گھبرا گیا.آپ نے پوچھا.”کس ارادہ سے آئے ہو؟“
529 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم اسوہ انسان کامل تو وہ جھوٹ بول گیا.آپ مسکرائے اور اسے اپنے قریب کر کے پیار سے اُس کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا.فضالہ بعد میں کہا کرتا کہ جب آنحضرت نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا تو میری تمام نفرت دور ہوگئی اور مجھے ایسے لگا کہ دنیا میں سب سے پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.فضالہ نے اس حسن سلوک سے متاثر ہو کر اسی وقت اسلام قبول کر لیا.سیتھی دلوں کی فتح جو ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن حاصل ہوئی.(ابن ھشام ) 30 حضرت جعدہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی کریم کی خدمت میں حاضر تھا.ایک شخص کو پکڑ کر لایا گیا اور عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! یہ آدمی آپ کے قتل کے ارادے سے آیا تھا.نبی کریم اسے فرمانے لگے گھبراؤ نہیں اور ڈرومت اگر تم نے میرے قتل کا ارادہ کیا بھی تھا تو بھی اللہ تجھے میرے قتل پر مسلط نہ کرتا اور اس کی توفیق نہ دیتا.“ (طبرانی) 31 حضرت عبید بن عمیر بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول کریم سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کے پاس کوئی بھی معاملہ پیش ہوا جس میں اللہ کے کسی ایسے حکم کو نہ توڑا گیا ہو جس کے نتیجہ میں حد لازم آتی ہے.(جیسے زنا قتل وغیرہ) تو آپ نے ہمیشہ عفو سے کام لیا.(ابن سعد ) 32 دشمن پر احسان محاصرہ طائف سے واپسی پر مشہور شاعر کعب بن زہیر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.دراصل ان کے والد زہیر نے اہل کتاب کی مجالس میں ایک نبی کی آمد کا ذکرسن رکھا تھا اور اپنے بیٹوں کو وصیت کی تھی کہ اسے قبول کریں.رسول اللہ کی بعثت پر ان کے ایک بیٹے بجیر نے تو اسلام قبول کر لیا.جب کہ کعب رسول اللہ اور مسلمان خواتین کی عزت پر حملہ کرتے ہوئے گندے اشعار کہتا تھا اور اس بناء پر رسول اللہ نے اس کے قتل کا حکم دیا تھا.کعب کے بھائی نے اسے لکھا کہ مکہ فتح ہو چکا ہے اس لئے تم آکر رسول اللہ سے معافی مانگ لو.چنانچہ اس نے رسول اللہ کی شان میں ایک قصیدہ لکھا جو " انت سُعادُ “ کے نام سے مشہور ہے.وہ مدینہ آ کر اپنے ایک جاننے والے کے پاس ٹھہرا.اہل مدینہ میں اسے کوئی پہچانتانہ تھا.اس نے فجر کی نماز نبی کریم کے ساتھ مسجد نبوی میں جا کر ادا کی اور رسول اللہ کی خدمت میں اپنا تعارف کرائے بغیر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ! کعب بن زہیر تا ئب ہو کر آیا ہے اور معافی کا خواستگار ہے اگر اجازت ہو تو اسے آپ کی خدمت میں پیش کیا جائے؟ آپ نے فرمایا ”ہاں“ تو کہنے لگا ”میں ہی کعب بن زہیر ہوں “ یہ سنتے ہی ایک انصاری حضور کے سابقہ حکم کے مطابق اسے قتل کرنے کے لئے اُٹھے.رسول اللہ نے فر مایا نہیں اب اسے چھوڑ دو، یہ معافی کا خواستگار ہو کر آیا ہے.پھر اس نے اپنا قصیدہ حضور کی شان میں پیش کیا جس میں یہ شعر بھی پڑھا.إِنَّ الرَّسُوْلَ لَسَيْفٌ يُسْتَضَاءُ به مُهَنَّدٌ مِنْ سَيُوفِ اللَّهِ مَسْلُوك
اسوہ انسان کامل 530 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم کہ یہ رسول ایک ایسی تلوار ہے جس کی چمک سے روشنی حاصل کی جاتی ہے.یہ زبر دست سونی ہوئی ہندی تلوار ہے جو اللہ کی تلواروں میں سے ہے.رسول اللہ یہ قصیدہ سن کر بہت خوش ہوئے اور اپنی چادر دست مبارک سے بطور انعام اس کے اوپر ڈال دی.یوں یہ دشمن رسول بھی آپ کے دربار سے معافی کے ساتھ انعام بھی لے کر لوٹا.(الحلبیہ ( 33 الغرض رسول اللہ کا دامن عفواتنا وسیع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کی شانِ جمال اس میں جھلکتی نظر آتی ہے اور آپ اس صفت کے بھی کامل مظہر ثابت ہوتے ہیں.1 ابو داؤد (39) كتاب الحدود باب 4 2 مسنداحمدجلد3ص61 3 بخاری (81) كتاب الادب باب 76 حواله جات 4 صحیح (81) بخاری کتاب الادب باب 76 بخاری (39) كتاب البيوع باب 50 6 يسعياه: 4-42/2 7 بخاری(39) كتاب البيوع باب 18 مسلم (44) كتاب الفضائل باب 20 شمائل ترمذی باب ماجاء في كلام رسول الله 10 ابوداؤد (42) کتاب الادب باب 134 11 بخاری (82) کتاب الاستيذان باب 20 12 مجمع الزوائدلهيثمي جلد 1 ص301 13 بخاری (29) كتاب الجنائز باب 83
اسوہ انسان کامل 531 رسول کریم کا عدیم المثال عفو و کرم 14 بخاری (67) کتاب المغازی باب 29 15 ابوداؤد (40) كتاب الديات باب 6 المعجم الكبير جلد2ص35 16 السيرة الحلبية جلد 3 ص 91-90 مطبوعه بيروت 17 نسائى كتاب المحاربه باب توبة المرتد 18 السيرة الحلبية جلد 3 ص 92-91 مطبوعه بيروت 19 السيرة الحلبية جلد 3 ص 93-92 دار احياء التراث العربي بيروت 20 مؤطا امام مالك كتاب النكاح باب المشرك اذا اسلمت زوجته 21 اسدالغابة في معرفة الصحابة لابن اثير جلد 1 ص782-781مطبوعه بيروت 22 السيرة النبوية ابن هشام جلد2ص92 بيروت 23 السيرة الحلبية جلد3 ص301 مطبوعه بيروت 24 مؤطا امام مالك كتاب النكاح باب نكاح المشرك اذا اسلمت زوجته 25 كنز العمال جلد 10 ص 506-505 26 السيرة الحلبية جلد 3 ص94 مطبوعه بيروت 27 مستدرك حاكم جلد 3ص312 28 اسدالغابة جلد 1 ص 223 بيروت 29 السيرة الحلبية جلد 3 ص 117 مطبوعه بيروت 30 السيرة النبوية لابن هشام جلد2ص417 31 المجعم الكبير جلد 2ص284 32 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 368 33 السيرة الحلبية جلد 3 ص 214,215
اسوہ انسان کامل 532 نبی کریم کا شاندار حلم صلى الله نبی کریم ﷺ کا شاندار حلم حلم کے معنی عقل اور سمجھ کے ہیں.مد مقابل کی نادانی اور زیادتی دیکھ کر عجلت میں گرفت کرنے کی بجائے ڈھیل دینا، طبیعت کا دھیما پن اور زبان کی نرمی حلم کے دائرہ میں داخل ہے، جو دراصل عفو کی ہی قسم ہے.حلیم اللہ تعالی کی وہ صفت ہے جس کا وہ بلاتمیز اپنی تمام مخلوق کے ساتھ معاملہ کرتا ہے.رسول کریم فرماتے تھے کہ اپنے خلاف تکلیف وہ بات سن کر اس پر صبر کرنے والا اللہ سے بڑھ کر کوئی نہیں.کچھ لوگ ایک انسان کو اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں.مگر وہ ان کو بھی معاف کرتا ہے اور رزق بہم پہنچاتا ہے.( بخاری ) 1 رسول کریم اللہ تعالیٰ کی صفت حلم کا بھی بہترین نمونہ تھے.اور آپ کا یہ حلم اپنے محل اور موقع پریشان دکھا نا تھا اور یہی قابل تعریف خلق ہے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم نے کبھی کسی خادم یا بیوی کو نہیں مارا ، نہ کبھی کسی پر ہاتھ اٹھایا سوائے جہاد فی سبیل اللہ میں تلوار اُٹھانے کے کبھی آپ نے کسی برا بھلا کہنے والے سے ذاتی انتقام نہیں لیا.ہاں اگر کوئی اللہ کا حکم تو ڑتا تو اسے ضرور سزا دیتے تھے.(مسلم)2 حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ” دھیما پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جلدی شیطان کی طرف سے اور اللہ تعالی سے بڑھ کر کوئی بھی زیادہ عذر پر نظر کرنے والا نہیں.( یعنی اس کی رحمت بہانے ڈھونڈتی ہے ) اور کوئی بھی چیز حلم سے زیادہ اللہ کو پیاری نہیں.( بیٹمی )3 اسی طرح آپ فرماتے تھے علم سکھاؤ اور آسانی پیدا کرونگی پیدانہ کرو، اور جب تمہیں غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ.جب غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ.جب غصہ آئے تو خاموش ہو جاؤ.“ ( احمد )4 در اصل رسول کریم ﷺ کی طبیعت اور مزاج میں ہی نرمی اور آسانی رکھی گئی تھی.حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ رسول کریم کو جب بھی دو معاملات میں اختیار ہوتا تو آپ ہمیشہ آسان راستہ اختیار فرماتے تھے.اسامہ مین شریک بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کر کے بیٹھ گیا بڈولوگ آکر آپ سے سوال کرنے لگے کسی نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہم علاج معالجہ کرتے ہیں کیا یہ ٹھیک ہے؟ آپ نے فرمایا ضرور علاج کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں پیدا کی مگر اس کی دوا بنائی ہے سوائے بڑھاپے کے کہ اس کی کوئی دوا نہیں.کسی اور بہو نے پوچھا کہ فلاں فلاں بات میں کوئی حرج ہے؟ نبی کریم نے فرمایا اے خدا کے بندو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے حرج اُٹھا دیا ہے.سوائے اس کے کہ کوئی کسی مسلمان بھائی پر ظلم کرے تو اس میں حرج ہے بلکہ ہلاکت ہے.کسی نے پوچھا یا رسول اللہ؟
اسوہ انسان کامل 533 نبی کریم کا شاندار حلم لوگوں کو جو کچھ عطا کیا گیا ہے اس میں سے سب سے بہتر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اچھے اخلاق سب سے بہتر عطیہ الہی ہیں.(ابن ماجہ )5 رسول اللہ نے دو آدمیوں کو باہم جھگڑتے دیکھا، ایک کی آنکھیں سرخ اور رگیں پھولی ہوئی تھیں.رسول کریم نے فرمایا.مجھے ایک کلمے کا پتہ ہے اگر یہ شخص پڑھ لے تو اس کا غصہ دور ہو جائے گا اور وہ ہے.اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیم.یعنی میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں راندے ہوئے شیطان سے.( بخاری )6 حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ہمیں فرمایا کرتے تھے جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جایا کرے اگر غصہ دور ہو جائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے.(ابو داؤد 7 ) اسی طرح فرمایا کہ نرم روی اور دھیما پن ہر کام میں ہونا چاہئے ، سوائے آخرت کے نیک کام کے کہ وہ جلدی کر لینا چاہئے.(حاکم) 8 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک شخص بول بول کر رسول اللہ کا کان کھا گیا ہو اور رسول اللہ نے اس سے رخ پھیرا ہو.وہ شخص ہی آخر تھک ہار کر اپنا منہ پرے ہٹاتا تھا اور یہ بھی کبھی نہیں دیکھا کہ کسی شخص نے رسول اللہ کا ہاتھ پکڑا ہو اور آپ نے ازخود اس کا ہاتھ چھوڑ دیا ہو یہاں تک کہ وہ شخص خود آپ کا ہاتھ چھوڑ دے.(ابوداؤں) حلم کا خلق رسول اللہ ﷺ کی خاص شان تھا.رسول اللہ کے نواسے حضرت امام حسین اپنے ماموں ہند بن ابی ہالہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم دنیا کی کسی بات کی وجہ سے کبھی غصہ میں نہ آتے تھے.البتہ ناحق ظلم کی کوئی بات ہوتی تو پھر آپ کے غصہ کے آگے کوئی چیز نہ ٹھہر سکتی تھی اور اس کی سزا آپ ضرور دیتے تھے لیکن اپنی ذات کے لئے کبھی غصہ آیا نہ کبھی بدلہ لینا پسند کیا.(ترمذی) 10 رسول اللہ کی نبوت کی نشانی حلم رسول اللہ کی وہ خاص علامت تھی.جس کے بارہ میں تو رات میں پہلے سے پیشگوئی موجود تھی.چنانچہ ایک یہودی زید بن سعنہ آپ کا علم آزمانے کے بعد آپ پر ایمان لے آیا اور حلم کے معنے عملی رنگ میں کھل کر دنیا کے سامنے آئے.یہ واقعہ بہت دلچسپ ہے.حضرت عبد اللہ بن سلام ایک یہودی عالم تھے جن کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی.آپ بیان فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زید بن سعنہ کو ہدایت دینے کا ارادہ فرمایا تو زید نے کہا.میں نے نبوت کی تمام علامات رسول کریم کے چہرے میں پہچان لی ہیں سوائے دو علامتوں کے جو ابھی تک خود آزما کر نہیں دیکھیں.ایک یہ کہ اس نبی کا علم ہر جاہل کی جہالت پر غالب آئے گا دوسرے جہالت کی شدت اسے علم میں اور بڑھائے گی.زید آپ کے حلم کے امتحان کی خاطر اکثر جا کر آپ کی مجالس میں بیٹھتا.ایک روز رسول اللہ علی بن ابی طالب کے ساتھ باہر نکلے.ایک بدو نے آکر
534 اسوہ انسان کامل نبی کریم کا شاندار حلم بتایا کہ فلاں بستی کے لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اور میں نے انہیں کہا کہ مسلمان ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ تمہیں وافر رزق دے گا.مگر ان پر تو قحط کی مصیبت ٹوٹ پڑی ہے.مجھے ڈر ہے کہ وہ ترک اسلام نہ کر دیں.اگر آپ پسند فرما ئیں تو کوئی چیز ان کی امداد کے واسطے بھجوا ئیں.اس یہودی زید نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کہا میں اتنے من غلہ بطور قرض خرید کر دیتا ہوں اور پھر اسی دینار کا غلہ خرید کر دے دیا.آپ نے اس شخص کو فرمایا کہ جلدی جا کر ان لوگوں کی حاجت پوری کرو.قرض کی میعاد پوری ہونے سے دو تین دن قبل رسول اللہ اپنے اصحاب کے ساتھ ایک جنازہ کے لئے نکلے.زیڈ نے آپ کی چادر زور سے کھینچی یہاں تک کہ وہ آپ کے کندھے سے گر گئی.زید نے غصے والا منہ بنا کرختی سے پوچھا کہ اے محمد ! تم میرا قرض ادا کرو گے یا نہیں؟ خدا کی قسم ! مجھے پتہ ہے کہ تم بنی مطلب کی اولا د بہت ٹال مٹول سے کام لیتے ہو.اس پر عمر بن خطاب غصہ سے کانپ اُٹھے اور زیڈ کی طرف غصے بھری نظروں سے دیکھ کر کہا اے اللہ کے دشمن کیا تو میرے سامنے خدا کے رسول کی اس طرح گستاخی کرنے کی جرات کرتا ہے.اگر مجھے رسول اللہ کالحاظ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا.رسول اللہ نے نہایت وقار اور سکون سے یہ سب ملاحظہ فرماتے رہے اور پھر عمر سے مسکراتے ہوئے یوں مخاطب ہوئے اے عمر ! ہم دونوں کو تم سے اس کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت تھی تمہیں چاہئے تھا کہ مجھے قرض عمدگی سے ادا کرنے کی تلقین کرتے اور اسے قرض مانگنے کا سلیقہ سمجھاتے.عمر ! اب آپ ہی جا کر اس کا قرض ادا کر دو اور کچھ کھجور زائد بھی دے دینا.جب عمر نے میرا قرضہ بے باک کر کے زائد کھجور بطور انعام دی.تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جو زبانی کلامی سختی میں نے تم سے کی تھی اس کے عوض یہ کھجور زائد ہے.تب زیڈ نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ وہ زید بن سعنہ یہود کے عالم ہیں.عمر نے رسول اللہ سے بدسلوکی کی وجہ پوچھی؟ زیڈ نے صاف صاف بتایا کہ دراصل میں نے رسول اللہ کی نبوت کی تمام علامات پہچان لی تھیں ایک علم کا امتحان باقی تھا، سواب وہ بھی آزمالیا ہے.پس اے عمر ! اب میں اسلام قبول کرتا ہوں.میرا نصف مال خدا کی خاطر وقف ہے.اور میرا مال بہت ہے جو میں امت محمدیہ پر صدقہ کرتا ہوں.پھر عمر زید کو لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.زید نے کلمہ توحید ورسالت پڑھ کر اسلام قبول کر لیا.پھر اس کا سارا خاندان بھی مسلمان ہو گیا.زید بن سعنہ ایمان لانے کے بعد کئی غزوات میں رسول اللہ کے ساتھ شریک ہوئے.(حاکم) 11 اسی طرح کا دوسرا واقعہ ایک اور یہودی کا ہے.حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی جس کا نام حجر حجرہ تھا.اس نے رسول اللہ سے دینار قرض لینے تھے ان کا تقاضا کیا.آپ نے اسے فرمایا کہ میرے پاس اس وقت دینے کے لئے کچھ نہیں ہے.وہ کہنے لگا اے محمد ! میں بھی آپ کو چھوڑوں گا نہیں جب تک آپ مجھے یہ قرض ادا نہ کر دیں.رسول اللہ فرمانے لگے اچھا میں تمہارے ساتھ ہی بیٹھتا ہوں.پھر نبی کریم اس کے ساتھ بیٹھ رہے.آپ نے اسی جگہ ظہر وعصر ، مغرب وعشاء اور فجر کی نماز پڑھی.رسول کریم کے صحابہ اسے ڈرانے لگے حضور کو پتہ چل گیا آپ نے فرمایا تم اسے
اسوہ انسان کامل 535 نبی کریم کا شاندار حلم کیوں ڈرا رہے ہو؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ا ایک یہودی نے آپ کو روک رکھا ہے.رسول اللہ نے فرمایا ”میرے رب نے مجھے منع فرمایا ہے کہ میں کسی ایسے شخص سے جس سے ہمارا معاہدہ ہے یا کسی اور پر ظلم کروں.“ جب دن چڑھا تو اس یہودی نے کلمہ پڑھ کر گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں.پھر وہ کہنے لگا میں مال دار آدمی ہوں اور میرا آدھا مال اللہ کی راہ میں پیش ہے.میں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا تو ریت میں آپ کے متعلق بیان کردہ صفات جانچنے کے لئے کیا ہے.جو درست ثابت ہوئی ہیں.( حاکم )12 نبی کریم سخت باتیں سن کر نہ صرف عفو سے کام لیتے بلکہ بسا اوقات احسان کا سلوک فرماتے.بہتر بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ ان کا بھائی نبی کریم کے پاس آیا.اس کے ہمسائے کسی کے مال پر ناجائز قبضہ کی وجہ سے ماخوذ تھے.اس نے اپنے ہمسایوں کی سفارش کی کہ اس کی ضمانت پر ان کو چھوڑ دیا جائے.نبی کریم نے پہلے اس کی بات پر توجہ نہیں فرمائی.دریں اثناء وہ آپ پر کھلم کھلا اعتراض کرنے لگا کہ سنا ہے.آپ لوگوں کو تو زیادتی سے روکتے ہیں مگر خود اس کے مرتکب ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا " اگر میں ایسا کروں اس کی پرسش مجھ سے ہو گی تم سے نہیں ہوگی.پھر فرمایا کہ اس کے ہمسایوں کو رہا کر دو.(مستدرک حاکم ) 13 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ یہودی نبی کریم کے پاس حاضر ہوتے اور سلام کی بجائے کہتے السام علیکم یعنی تم پر لعنت اور ہلاکت کی مار ہو.ایک دفعہ حضرت عائشہ نے ان کو جواب دیا تکرار سے کہا تم پر اللہ کی لعنت اور غضب ہو.نبی کریم نے فرمایا ” اے عائشہ ا نرمی اختیار کرو سختی اور درشت گوئی سے بچو.“ حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے سنا نہیں ان یہود نے کن الفاظ سے آپ کو سلام کیا ہے.نبی کریم نے فرمایا اور کیا تم نے میرا جواب نہیں سنا تھا.میں نے بھی صرف ”علیکم ہی کہا تھا کہ جو تم نے کہا وہی تم پر ہو اور میری دعا تو ان کے بارہ میں قبول ہوگی مگر ان کی دعا میرے خلاف کبھی قبول نہ ہوگی.‘‘ ( بخاری )14 پھر رسول کریم ﷺ نے حضرت عائشہ کو اپنے پاکیزہ نمونہ کے موافق نرمی اور حلم کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عائشہ! نرمی جس چیز میں بھی پائی جائے اسے زینت عطا کر دیتی ہے اور جس بات میں نرمی نہ رہے اس میں تختی بدصورتی اور عیب پیدا کر دیتی ہے.نیز فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرمی پسند فرماتا ہے.( احمد ) 15 مملکت مدینہ کے سر براہ ہوتے ہوئے بھی رسول کریم نے یہود مدینہ کی گستاخیوں کے باوجود ہمیشہ ان سے رواداری اور علم کا سلوک کیا.حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کے پاس کھڑا تھا کہ ایک یہودی عالم آیا اور کہنے لگا اے محمد ! آپ پر سلام ہو.میں نے اسے زور سے پیچھے دھکا دیا.قریب تھا کہ وہ گر جائے.اس نے کہا تم نے مجھے دھکا کیوں دیا؟ میں نے کہا تم اللہ کا رسول کہہ کر حضور کو مخاطب نہیں کر سکتے ؟ یہودی عالم کہنے لگا ہم تو اسے اسی نام سے پکاریں گے جو اس کے گھر والوں نے اس کا رکھا ہے.رسول اللہ نے فرمایا ہاں یہ ٹھیک کہتا ہے.میرے گھر والوں نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے.اس کے بعد اس یہودی نے کچھ سوالات کئے.اس کے جانے کے بعد نبی کریم نے فرمایا ابھی
اسوہ انسان کامل 536 نبی کریم کا شاندار حلم اس نے جو سوالات کئے تھے مجھے ان کا کوئی علم نہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کا علم عطا فر مایا.(ابن کثیر ) 16 نبی کریم سے تو گھر یلو خادم بھی روزمرہ معاملات میں یہی حلم کا نمونہ دیکھتے تھے.آپ دن میں ستر سے بھی زائد مرتبہ خادم سے عفو کا سلوک کرتے تھے.خادم رسول حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ میں نے دس سال رسول اللہ کی خدمت کی.کبھی آپ نے مجھے برا بھلا نہیں کہا کبھی مارا نہیں نہ ہی ڈانٹا اور نہ کبھی منہ پر تیوری چڑھائی نہ کبھی کسی حکم کی تعمیل میں تاخیر کرنے پر سرزنش فرمائی.بلکہ اگر اہل خانہ میں بھی کوئی مجھے ڈانٹے لگتا تو آپ فرماتے جانے بھی دو جو چیز مقدر ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے.(مسلم ) 17 رسول کریم سے عرب کے نادان بدوؤں کی درشتی کے مقابل پر بھی ہمیشہ علم ہی ظاہر ہوا.ایک دفعہ ایک بدو نے آپ کی خدمت میں دست سوال دراز کرتے ہوئے عجیب گستاخانہ طریق اختیار کیا.آپ کی چادر کو اس نے اتنے زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر نشان پڑگئے اور پھر بڑی ڈھٹائی سے کہنے لگا مجھے اللہ کے اس مال میں سے عطا کریں جو آپ کے پاس (امانت) ہے.آپ نے اس دیہاتی کے اس رویہ پر نہ صرف صبر و ضبط اور تحمل کا مظاہرہ کیا بلکہ نہایت فراخدلی سے مسکراتے ہوئے اس کی امداد کرنے کا حکم دیا.( بخاری ) 18 ایک دفعہ رسول کریم نے ایک بہو سے ایک وسق خشک کھجور ( قریبا سواد ومن ) کے عوض اونٹ خریدا.گھر تشریف لا کر دیکھا تو کھجور ختم ہو چکی تھی.آپ نے کمال سادگی اور سچائی سے جا کر بد و سے صاف صاف کہا کہ اے خدا کے بندے! ہم نے آپ سے خشک کھجور کے عوض اونٹ خریدا تھا اور ہمیں خیال تھا کہ اسقدر کھجور ہمارے پاس ہوگی ، مگر گھر آ کر پتہ چلا ہے کہ اتنی کھجور موجود نہیں.وہ بد و کہنے لگا اے دھو کے باز.لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے کہ رسول اللہ کو اس طرح کہتے ہو.مگر رسول کریم نے فرمایا اسے جانے دو.( احمد )19 مخالفین کے غلط الزامات اور نا مناسب اعتراضات پر بھی رسول کریم کبھی طیش میں نہیں آئے بلکہ ہمیشہ حلم دکھایا.غزوہ حنین کے موقع پر آپ نے بعض سردارانِ قریش کو اسلام سے قریب کرنے کیلئے ازراہ تالیف قلب انعام و اکرام سے نوازا اور سوسو اونٹ عطا فرمائے.اس پر ایک عام شخص نے اعتراض کر دیا کہ اس تقسیم میں عدل سے کام نہیں لیا گیا.(اس کا مطلب ہوگا کہ اسے تو سو اونٹ نہیں ملے ) نبی کریم نے فرمایا اگر اللہ اور اس کا رسول عدل نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ان پر اس سے زیادہ نکتہ چینی کر کے ایذاء دی گئی.مگر انہوں نے صبر کیا.گویا میں بھی صبر سے کام لیتا ہوں.پھر آپ نے اسے معاف کر دیا.( بخاری ) 20 رسول کریم نے اپنی قوم سے مسلسل انکار اور تکذیب دیکھ کر حلم اور صبر سے کام لیا اور بددعا میں جلدی نہیں کی.حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ اہل مکہ نے نبی کریم سے مطالبہ کیا کہ صفا پہاڑی کوسونے کا بنا دیں یا مکہ سے پہاڑ ہٹا کر اسے میدانی علاقہ میں تبدیل کر دیں تا کہ وہ بآسانی کھیتی باڑی کر سکیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم سے
اسوہ انسان کامل 537 نبی کریم کا شاندار حلم پوچھا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو اللہ تعالیٰ ان منکرین کو مہلت دے اور اگر چاہیں تو ان کا مطالبہ پورا کر دیا جائے.مگر پھر نشان دیکھ کر بھی جو انکار کرے گا تو میں اسے ہلاک کر کے چھوڑوں گا.نبی کریم نے فرمایا نہیں ایسا نہیں کرنا.میں چاہتا ہوں کہ ان کو مہلت ملے.( احمد ) 21 دوس قبیلہ کے سردار طفیل بن عمرو نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی طرف دعوت دی اور ان کا انکار دیکھ کر رسول اللہ سے ان کے خلاف بددعا کروانا چاہی تو رسول کریم نے ہاتھ اُٹھائے اور اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا اے اللہ ! دوس قبیلہ کو ہدایت دے اور انہیں میرے پاس لے کر آ.( احمد )22 الغرض حلم کا خلق رسول اللہ کی صداقت نبوت کا حیرت انگیز نشان تھا.
اسوہ انسان کامل 538 حواله جات 1 بخاری (81) کتاب الادب باب 71 2 مسلم (44) کتاب فضائل باب 20 مجمع الزوائد لهيثمى جلد8ص43 مطبوعه بيروت 3 4 مسند احمد جلد 1 ص 239، 283 5 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 1 6 بخاری (42) كتاب الادب باب 76 7 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 4 مستدرك حاكم جلد 1 ص 132 9 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 6 10 شمائل ترمذی باب كيف كان كلام رسول الله 11 مستدرك حاكم كتاب معرفة الصحابه ذكر اسلام زيد بن سعنه جلد3 ص700 12 مستدرك حاكم جلد2 ص 678 13 مستدرك حاكم جلد 1 ص214 14 بخاری (81) كتاب الادب باب 38 15 مسنداحمد بن حنبل جلد 3 ص 241 ، بخاری (83) كتاب الدعوات باب 158 16 تفسير ابن كثير جلد 4 ص 519 سورة ابراهيم آیت 47 17 مسلم (44) کتاب الفضائل باب 13 18 بخاری کتاب (80) و كتاب اللباس باب 17 19 مسند احمد جلد 6 ص 268 بيروت 20 بخارى كتاب اللباس باب 7,18 21 مسند احمد جلد 1 ص 258 22 مسند احمد جلد 2 ص 243 بيروت نبی کریم کا شاندار حلم
اسوہ انسان کامل 539 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ تو گل کے لفظی معنی سپرد کرنے کے ہیں.اللہ پر توکل کرنے سے مراد اپنے آپ کو خدا کے بنائے ہوئے اسباب و قوانین کے سپرد کرنا ہے، اس اعتدال کے ساتھ کہ نہ تو محض ان اسباب پر کھلی بھروسہ کیا جائے ، نہ ہی ترک اسباب ہو.بلکہ خدا نے جو طاقت اور صلاحیت عطا کی ہے، اسے بروئے کار لانے کے بعد انسانی کوشش میں جو کمی رہ جائے، اسے خدا کے سپرد کیا جائے کہ وہ خود اسے پورا کرے گا.تو گل کے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے.ایک تو علمی اور ذہنی تو گل ہے کہ ظاہری اسباب موجود نہ ہوں تو بھی خدا کی ذات پر بھروسہ ہو اور اسباب میئر آجائیں تو بھی کسی گھمنڈ کی بجائے یہ خیال رہے کہ اس میں بھی کوئی رخنہ باقی ہے، جسے خدا پورا کرے گا.یہ ہے خدا کی ذات پر مکمل بھروسہ اور عملی تو کل یہ ہے کسی کام کے لئے سارے اسباب مہیا ہو جانے اور ساری تدبیروں اور کوششوں کے باوجود بھروسہ اسباب پر نہیں بلکہ خدا کی ذات پر ہو.یہ اصل تو کل ہے جو کمزوری کے وقت نہیں طاقت کے وقت کیا جائے.یہی تو کل ہے جس کا عرفان ہمیں نبی کریم کی پاکیزہ سیرت سے عطا ہوتا ہے.بعض لوگوں کو اپنی غفلت اور کوتاہی کا نتیجہ جب مجبوراً قبول کرنا پڑتا ہے تو وہ اس پر راضی ہو جانے کوتو کل سمجھتے ہیں تو کل کا یہ مفہوم درست نہیں.ایک دفعہ رسول کریم نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ فرمایا جس شخص کے خلاف فیصلہ ہوا وہ جاتے ہوئے کہنے لگا حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْل میرا اللہ میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے.رسول کریم نے فرمایا اس شخص کو واپس میرے پاس لے کر آؤ.پھر آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے یہی دعائیہ جملہ پھر دوہرایا آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کو ستی غفلت اور کم ہمتی ہرگز پسند نہیں بلکہ وہ اس پر ملامت فرماتا ہے.اس لئے انسان کو ہوشمندی اور مستعدی سے پہلے مکمل تدبیر کرنی چاہئے.پھر اگر کہیں مشکل پیش آجائے تو بے شک یہ هو حَسْبِيَ اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَکیل “ کہ میرا اللہ میرے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے.( احمد )1 بغیر اسباب ،متد بیر اور کوشش کے کسی کام کو شروع کرنا بھی تو کل نہیں کہلا سکتا.چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بعض اہل یمن کے بارے میں بیان کیا کہ وہ حج پر آتے تھے اور زادِ راہ ساتھ نہیں رکھتے تھے.مگر دعوی یہ کرتے تھے ہم متوکل لوگ ہیں.پھر مکہ میں آکر لوگوں سے مانگتے پھرتے تھے.اس سلسلہ میں یہ آیت قرآنی اتری.وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْویٰ که زادراہ ساتھ رکھا کرو.اور یا درکھو سب سے بہترین زاد راہ تقوی ہے.( بخاری )2
540 اسوہ انسان کامل نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ نبی کریم نے تو کل کے یہی معنی اپنی اُمت کو سمجھائے.ایک دفعہ ایک بد و آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول میں اونٹ کا گھٹا باندھ کر تو کل کروں یا اونٹ کو چھوڑ دوں اور خدا پر توکل کروں.رسول کریم نے فرمایا پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر تو گل کرو.(ترمندی )3 دراصل تو کل کا اعلی خلق رسول کریم کی وہ اعلیٰ شان ہے.جس کے بارہ میں گزشتہ الہی نوشتوں میں بھی خبر دی گئی تھی کہ وہ رسول خدا پر توکل کرنے والا ہوگا.چنانچہ عبد اللہ بن عمر بیان کرتے تھے کہ نبی کریم کے بارہ میں توریت میں یہ پیشگوئی تھی کہ تو میرا بندہ اور رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے ( بخاری )4 دراصل یہ اس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو یسعیاہ میں لکھا ہے دیکھو میرا خادم جسے میں سنبھالتا ہوں، میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خوش ہے میں نے اپنی روح اس پر ڈالی (1/42) پھر لکھا ہے وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک عدالت کو زمین پر قائم نہ کرے.“ (4/42) پھر لکھا ہے میں نے تجھے صداقت سے بلایا، میں ہی تیرا ہاتھ پکڑونگا اور تیری حفاظت کرونگا“ (6/42) چنانچہ رول کریم کا مکمل بھروسہ او کامل تو کل خدا کی ذات پر ہوتا تھا اور ہر خطہ ہر آن ای تو کل کا واسطہ دے کر اس سے دعا کرتے تھے، آپ کی نماز تہجد کا آغاز اس دعا سے ہوتا تھا کہ میں نے تجھ پر توکل کیا.گھر سے نکلتے تو یہ دعا کرتے بِسْمِ اللَّهِ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللَّهِ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ.اللہ کے نام کے ساتھ.میں نے اللہ پر توکل کیا.اللہ کے سوا کسی کو کوئی قوت اور طاقت حاصل نہیں.نیز فرماتے تھے کہ یہ دعا کر کے جب انسان گھر سے نکلتا ہے تو اسے جواب میں کہا جاتا ہے تمہیں ہدایت دی گئی، تمہارے لئے یہ دعا کافی ہوگی اور تم بچائے جاؤ گے.چنانچہ شیطان اس سے دور ہٹ جاتا ہے اور دوسرا شیطان اسے کہتا ہے اس شخص پر تمہارا کیا اختیار ہوسکتا ہے جسے ہدایت وکفایت مل گئی اور جو بچایا گیا.(احمد) 5 رات کو سونے لگتے تو کام تو کل کی یہ دعا کرتے اور اپنے صحابہ کو بھی اس کی تعلیم فرماتے.حضرت حذیفہ بن الیمان بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم سوتے یا بستر پر جاتے تو یہ دعا کرتے :.اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَ أَحْيَا.( بخاری ) 6 اے اللہ ! تیرے نام کے ساتھ میں مرتا ہوں.اور تیرے نام سے ہی زندہ ہوتا ہوں.جنگوں میں رسول اللہ کو کامل تو کل اور بھروسہ خدا کی ذات پر ہوتا تھا.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی غزوہ کے لئے تشریف لے جاتے تو یہ دعا کرتے.اللَّهُمَّ أَنتَ عَضُدِى وَ نَصِيرِى بِكَ اَحُولُ وَبِكَ أَصُولُ وَبِكَ أُقَاتِلُ - ( ترندي) 7 اے اللہ ! تو میرا سہارا اور مددگار ہے.تیری مدد سے ہی میں تدبیر کرتا ہوں اور تیری تائید سے ہی میں حملہ آور ہوتا ہوں اور تیرے نام سے ہی لڑتا ہوں.
اسوہ انسان کامل 541 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ آخری زمانہ میں دجالی فتنوں سے بچنے کے لئے بھی رسول کریم نے خدا پر توکل کی تعلیم دی اور فرمایا کہ جو شخص دجال سے متاثر ہو کر اسے اپنا رب تسلیم کر بیٹھے گا وہ فتنہ میں مبتلا ہوگا اور جو اس کی ربوبیت کا انکار کر دے گا اور کہے گا کہ میرا رب اللہ ہے اسی پر میرا تو کل ہے تو اسے دجالی فتنہ کوئی ضررنہ پہنچا سکے گا.(احمد )8 رسول اللہ اپنی دعاؤں کے بعد خدا پر کامل بھروسہ کا اظہار کرتے ہوئے یہ التجا کرتے.اللهُمَّ هَذَا الدُّعَاء وَإِلَيْكَ الإِجَابَةُ ، اللهم هذا الجُهَدُ وَعَلَيْكَ التَّكِلانُ (ترندى) اے اللہ ! ( ہماری ) تو بس یہ دعا ہے.اب اس کی قبولیت تیرے سپرد.اے اللہ ! یہ ہے ہماری کوشش اب بھروسہ اور تو کل تجھ پر ہے.رسول کریم فرماتے تھے کہ بدشگونی شرک ہے، آپ نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی اور پھر فرمایا ہم بدشگونی تو نہیں لیتے لیکن اگر کبھی ایسا خیال آبھی جائے تو اللہ تعالیٰ تو کل کے ذریعہ اسے دور فرما دیتا ہے.(ابوداؤد ) 10 بعض لوگ متعدی مریض سے کوسوں دور بھاگتے ہیں.رسول کریم کا تو کل اس حوالے سے بھی غیر معمولی تھا.ایک دفعہ ایک جذام کا مریض مجلس میں موجود تھا.کھانے کا وقت ہوا تو نبی کریم نے اپنے پیالے میں اسے کھانا کھلایا اور فرمایا اللہ پر بھروسہ اور اس پر تو کل کرتے ہوئے کھانا کھاؤ.( ابوداؤد ) 11 رسول کریم نے اپنی امت کے ستر ہزار لوگوں کے بے حساب جنت میں داخل ہونے کا ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہونگے جو دم کرنے کروانے پر بھروسہ نہیں کرتے نہ ہی بدشگونی لیتے ہیں بلکہ خدا پر توکل کرتے ہیں.(مسلم )12 ظاہر ہے ان سب متوکلین کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ تھے.رسول کریم نے خاص طور پر رزق کے بارہ میں اپنی امت کو اللہ پر توکل کرنے کی تعلیم دی.آپ نے فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح تو کل کرو جیسے اس کے تو کل کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے گا جیسے پرندوں کو رزق ملتا ہے.جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس لوٹتے ہیں“.(احمد (13) نیز فرمایا کہ ” جنت میں ایسے لوگ داخل ہوں گے جن کے دل پرندوں کے دل جیسے ہونگے“.(مسلم ) 14 رسول کریم کے زمانہ میں دو بھائی تھے.ایک آنحضرت کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا اور دوسرا بھائی ہاتھ سے محنت کر کے کماتا تھا.ایک دن اس نے رسول کریم سے اپنے اس بھائی کے بے کار رہنے کی شکایت کی تو رسول کریم نے فرمایا ” کیا پتہ تمہیں بھی اس کی وجہ سے رزق عطا کیا جاتا ہو؟“ (ترمذی) 15 رسول اللہ ﷺ اپنے باوفا غلاموں کو راہ مولا میں اذیتیں پاتے دیکھ کر اسی تو کل کی تعلیم فرماتے تھے.حضرت یاسر کا خاندان کفار مکہ کی اذیتوں کا نشانہ بنتا تھا.رسول کریم ان کو خدا پر بھروسہ کی تعلیم دیتے ہوئے فرماتے.اے آل یا سر صبر کرو.میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں.جب مکہ میں مسلمانوں پر مظالم کی انتہا ہوگئی اور بعض صحابہ
اسوہ انسان کامل 542 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ نے آکر دفاع اور مقابلہ کی اجازت چاہی تو رسول کریم نے انتقام لینے کی بجائے انہیں صبر اور تو کل کی ہی نصیحت فرمائی.اور فرمایا تم سے پہلی قوموں کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیرا گیا اور لوہے کی گرم کنگھیوں سے ان کا گوشت ہڈیوں سے نو چا گیا مگر یہ مظالم انہیں اپنے دین سے نہ ہٹا سکے.اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ اسلام کو ترقی اور عظمت اور غلبہ عطا کرے گا.یہاں تک کہ ایک مسافر (عرب کے ایک سرے ) صنعاء سے ( دوسرے سرے) حضر موت تک تنہا سفر کرے گا اور خدا کے سوا اسے کسی کا خوف نہ ہوگا.( بخاری )16 خود رسول کریم نے مصائب و آلام برداشت کرتے ہوئے اپنے اصحاب کو ہمیشہ خدا پر بھروسہ کرنے کا شاندار نمونہ دیا.آپ کی زندگی کا ایک بہت بڑا ابتلاء شعب ابی طالب میں آپ کے خاندان اور اصحاب کی محصوری کا سہ سالہ دور ہے.جس میں آپ کے ساتھ لین دین، خرید و فروخت ، شادی بیاہ وغیرہ کے سب تعلقات منقطع کر دیے گئے اور تمام اسباب معدوم ہو کر رہ گئے.ہر لحظہ و ہر آن آپ کی ذات کو خطرہ لاحق ہوتا تھا مگر یہ زمانہ بھی آپ نے خدا کی ذات پر کامل تو کل کرتے ہوئے گزارا.پھر خدا تعالیٰ نے بھی کسی طرح غیب سے آپ کی نصرت فرمائی اور بائیکاٹ کے معاہدہ کو دیمک کھا گئی.شعب ابی طالب سے باہر آئے تو اہل مکہ سے مایوس ہو کر طائف کا رُخ کیا.اس سفر میں بھی دنیا نے آپ سے ایک عجیب شان تو کل کا نظارہ دیکھا.خدا کا نبی تن تنہا کس مردانگی اور شجاعت سے ایک اجنبی دیس میں جا کر سردارانِ طائف کو مخاطب کرتا اور بے دھڑک خدا کا پیغام پہنچاتا ہے.نہ اپنی جان کا خوف ہے نہ کسی اور خطرے کی پر واہ.بس ایک ہی لو گی ہے کہ کس طرح حق تبلیغ ادا ہو جائے.بھروسہ ہے تو ایک اللہ کی ذات پر.سفر طائف سے واپسی پر بھی رسول اللہ کے تو کل کا عجیب منظر دیکھنے میں آیا.رسول اللہ نے کچھ روز نخلہ میں قیام فرمایا.زید بن حارثہؓ نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اب آپ مکہ میں کیسے داخل ہونگے جب کہ وہ آپ کو نکال چکے ہیں.رسول اللہ نے کس شان تو کل سے جواب دیا کہ اے زیڈ ! تم دیکھو گے اللہ تعالیٰ ضرور کوئی راہ نکال دے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے دین کا مددگار ہے، وہ اپنے نبی کو غالب کر کے رہے گا.چنانچہ نبی کریم نے سردارانِ قریش کو پیغام بھجوائے کہ آپ کو اپنی پناہ میں لے کر مکہ داخلہ کا انتظام کریں.کئی سرداروں کے انکار کے بعد بالآخر مکہ کے ایک شریف سردار مطعم بن عدی نے آپ کو اپنی پناہ میں مکہ میں داخل کرنے کا اعلان کیا.( ابن سعد )17 تو کل میں دعا کے ساتھ تدبیر بھی ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم کو بذریعہ وحی ہجرت مدینہ کے وقت بعض تدابیر اختیار کرنے کا حکم دیا.چنانچہ جبریل نے رسول کریم کو ہجرت کی رات آکر پیغام دیا کہ آپ جس بستر پر سوتے ہیں آج رات اس پر نہ سوئیں جب رات کا اندھیرا ہوا تو مشرکین آکر انتظار کرنے لگے کہ جو نبی رسول اللہ اپنے بستر پر سوئیں وہ حملہ کر دیں گے.رسول کریم نے ان کو دیکھ کر حضرت علی کو حکم دیا کہ وہ آپ کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی سبز 66 چادر اوپر اوڑھ لیں.انشاء اللہ انہیں کوئی نقصان نہ ہوگا.( ابن ہشام ) 18 اور پھر ایسا ہی ہوا.ہجرت مدینہ میں قدم قدم پر رسول اللہ کے تو کل الہی کے نظارے دیکھنے میں آتے ہیں.
543 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ اسوہ انسان کامل ہر چند کہ حضرت ابو طالب اور خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں رسول اللہ کے لئے گزر بسر بہت مشکل ہو گئی تھی.تبلیغ حق کی خاطر طائف کا قصد کیا تو وہاں بھی کامیابی نہ ہوئی.اب آپ مکہ میں خطرناک دشمنوں کے درمیان رہ رہے تھے.مسلمانوں کا ایک حصہ پہلے ہی حبشہ ہجرت کر چکا تھا.اور رسول اللہ کی اس خواب کی بناء پر کہ کھجوروں والی سرزمین پر ہماری ہجرت ہوئی ہے.باقی ماندہ مسلمانوں نے یثرب (مدینہ) ہجرت کرنی شروع کی.یہاں تک کہ حضور کے مشیران خاص اور دست راست بھی ہجرت کر گئے حضرت عمر نے بھی ہجرت کر لی اور حضرت ابوبکر عبادت الہی اور تلاوت قرآن کریم میں مشرکین کی آئے دن کی روکاوٹیں دیکھ کر مکہ چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے.مگر قارہ قبیلہ کے رئیس ابن الدغنہ آپ کو اپنی امان میں واپس لے آئے.رسول کریم ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت کے منتظر تھے.جس کی تاخیر میں یہ حکمت بھی ہوگی کہ مظلوم مسلمان کے سے محفوظ طور پر نئے دارالہجرت کی طرف نکل جائیں.چنانچہ اس زمانہ میں جب حضرت ابوبکر نے دوبارہ ہجرت کا قصد کیا تو رسول کریم نے انہیں فرمایا کہ ابھی آپ ٹھہریں امید ہے مجھے بھی ہجرت کی اجازت ہو جائے گی.پھر اذن ہجرت ہونے پر رسول اللہ حضرت ابوبکرؓ کی معیت میں نہایت خوفناک حالات میں اللہ پر تو کل کرتے ہوئے مکہ سے نکلے.( بخاری )19 اس سفر میں رسول اللہ کے تو کل کی عجیب شان ظاہر ہوئی.حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو بکر نے ان سے بیان کیا کہ جب ہم غار ثور میں پناہ گزیں تھے تو میں نے نبی کریم سے کہا اگر مشرکین میں کوئی اپنے پاؤں کی جگہ پر جھک کر نظر ڈالے تو ہمیں دیکھ سکتا ہے.آپ نے فرمایا اے ابو بکر تمہارا ان دواشخاص کے بارہ میں کیا گمان ہے.جن کے ساتھ تیسرا خدا ہے.( بخاری ) 20 حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ ابوبکر کی تو ایک رات اور ایک دن ہی عمر اور اس کی تمام اولاد سے بہتر ہیں.اس کی ایک رات وہ تھی جب وہ رسول اللہ کے ساتھ غار ثور میں پناہ گزیں تھے.غار میں بچھوؤں اور سانپوں کے کئی سوراخ اور بل تھے.حضرت ابوبکر کو اندیشہ ہوا کہ کوئی موذی کیڑا حضور کو نقصان نہ پہنچائے.انہوں نے اپنے پاؤں ان سوراخوں پر رکھ کرا کو بند کر دیا.کسی کیڑے نے آپ کو کاٹ لیا تو تکلیف سے آنسو گرنے لگے.رسول کریم نے فرمایا اے ابوبکر! غم نہ کر اور پریشان نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے.تب اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکینت عطا فرمائی.(بیہقی )21 حضرت ابو بکر کی اپنی روایت ہے کہ سفر ہجرت کے دوران جب سراقہ گھوڑے پر سوار تعاقب کرتے ہوئے ہمارے قریب پہنچ گیا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اب تو پکڑنے والے بالکل سر پہ آپہنچے اور میں اپنے لئے نہیں بلکہ آپ کی خاطر فکرمند ہوں.آپ نے فرمایا لَا تَحْزَرُ إِنَّ اللهَ مَعَنَا کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.چنانچہ اسی وقت آپ کی دعا سے سراقہ کا گھوڑا زمین میں پھنس گیا.اور وہ آپ کی خدمت میں امان کا طالب ہوا.(الحلبیہ )22 اس وقت کس شان تو کل سے آپ نے سراقہ کے حق میں یہ عظیم الشان پیشگوئی کی کہ سراقہ اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب کسری کے کنگن تمہارے ہاتھوں میں ہونگے.رسول اللہ کو جس طرح مکہ سے نکلتے ہوئے اپنے مولیٰ پر کامل بھروسہ تھا.
اسوہ انسان کامل 544 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ اسی طرح مدینہ میں داخل ہوتے وقت بھی ایک اور شان تو گل نظر آئی.انصار مدینہ میں سے ہر فدائی اور عاشق صادق کی خواہش تھی کہ رسول اللہ ان کے ہاں مہمان ٹھہریں.رسول اللہ نے فرمایا کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ خدا کے حکم سے جہاں بیٹھے گی وہیں میں قیام کرونگا.چنانچہ یہ اونٹنی ایک جگہ آکر بیٹھ گئی.رسول اللہ بھی اترے نہیں تھے کہ اونٹنی ایک دفعہ پھر کھڑی ہوگئی اور تھوڑی دور تک گئی.رسول کریم نے اس کی باگ کھلی چھوڑ رکھی تھی.آپ کے موڑے بغیر وہ دوبارہ اسی جگہ آکر بیٹھ گئی.رسول کریم اتر کر اس جگہ سے قریب ترین گھر میں تشریف لے گئے جو حضرت ابوایوب انصاری کا تھا.(ابن ہشام و بیہقی ) 23 جب اسباب بالکل معدوم نظر آتے تھے.اس وقت بھی رسول کریم مایوس نہیں ہوتے تھے اور ہمیشہ خدا پر بھروسہ کرتے تھے.غزوہ بدر میں سخت کمزوری کا عالم تھا کہ 313 نہتوں کا ایک لشکر جرار سے مقابلہ تھا اور ایک ایک سپاہی کی بڑی قیمت تھی.اس خطرناک حالت میں بھی رسول کریم کی شان تو کل پر کوئی مایوسی کا سایہ نہیں پڑا.اس سفر میں ایک بہت بہادر مشرک پہلوان حاضر خدمت ہوا اور کہا کہ مجھے بھی جنگ کے مال غنیمت سے حصہ دیں تو میں آپ کے ساتھ لڑائی میں شامل ہوتا ہوں.آپ نے فرمایا کیا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہو؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے اسے واپس لوٹا دیا وہ دوسری مرتبہ آیا اور مدد کی حامی بھری مگر آپ نے پسند نہ فرمایا کہ خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ایک مشرک کی مدد لی جائے.تیسری مرتبہ اس نے کلمہ شہادت کا اقرار کر کے جنگ میں شامل ہونے کی درخواست کی تو آپ نے قبول فرمالی.(مسلم ) 24 اس جنگ میں شرکت کے ارادہ سے دو صحابہ حضرت حذیفہ اور ابو سہل" گھر سے نکلے.راستہ میں ان کو کفار قریش نے پکڑ لیا اور زبردستی ان سے عہد لیا کہ جنگ میں رسول اللہ کی مدد نہیں کریں گے.انہوں نے حضور کی خدمت میں جب سارا ماجرہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا جاؤ تم اپنا عہد پورا کرو ہم دشمن کے مقابل پر دعا سے مدد چاہیں گے.(مسلم )25 غزوہ بدر کے موقع پر نبی کریم نے دشمن کے ممکنہ مقابلہ کے لئے پہلے اپنے ۳۱۳ نبتے صحابہ کی صفیں ترتیب دیں.اس تدبیر سے فارغ ہو کر آپ دعاؤں میں لگ گئے ، یہ ہے کامل تو کل کی مثال.الغرض خدا کی ذات پر کامل بھروسہ کے نمونے جس طرح نبی کریم کی ذات میں نظر آتے ہیں اور کہیں ملنے محال ہیں.مدینہ میں ایک رات اچانک شور اُٹھا.جنگ کا زمانہ تھا خطرہ ہوا کہ کسی دشمن نے حملہ نہ کر دیا ہو.لوگ جمع ہونے لگے کہ مشورہ کر کے کوئی کا روائی کریں.اُدھر خدا کا متوکل نبی تن تنہا حقیقت حال معلوم کر نے گھوڑے کی نگی پشت پرنکل کھڑا ہوا.تلوار گردن میں لٹکی ہوئی تھی.جب تک لوگ باہر نکلے آپ سب خبر معلوم کر کے واپس بھی آچکے تھے اور لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمارہے تھے.خوف کی کوئی بات نہیں.میں چکر لگا کر دیکھ آیا ہوں اور اس گھوڑے کو تو میں نے سمندر کی طرح تیز رفتار پایا ہے.( بخاری ) 26 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے تھے کہ رسول کریم کے عظیم الشان تو کل کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں
اسوہ انسان کامل 545 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ ہے.الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوالَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَ هُمُ إِيمَانًا وَّقَالُو حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ - ( آل عمران : 174 ) یعنی وہ لوگ جن کو کہا کہ دشمن تمہارے خلاف جمع ہو گئے ہیں.پس ان سے ڈر جاؤ.تو اس بات نے ان کو ایمان میں اور بڑھا دیا.اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيل “ اللہ ہمارے لئے کافی ہے.اور وہ بہترین کارساز ہے.دراصل اس آیت میں غزوہ حمراء الاسد کی طرف اشارہ ہے.اُحد سے واپسی پر سردار قریش ابوسفیان نے دوبارہ پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کو لوٹنے کا قصد کیا.رسول اللہ اور آپ کے اصحاب کو اس کی خبر ہوئی تو بجائے کسی خوف کے آپ نے ابوسفیان کے لشکر کا تعاقب کرنے کا ارادہ فرمایا اور صحابہ نے والہانہ لبیک کہتے ہوئے آپ کا ساتھ دیا اور بیک زبان ہو کر کہا کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے.( بخاری ) 27 اُدھر ابوسفیان نے جب پلٹ کر مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.تو مدینہ کی طرف جانے والے عبدالقیس کے ایک قافلے کے ذریعہ یہ پیغام بھجوایا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کہہ دینا کہ ہم اُن کی جڑا کھیر نے اور قلع قمع کرنے کے لئے پھر آرہے ہیں.وہ قافلہ رسول اللہ کو حمراء الاسد مقام پر ملا اور ابوسفیان کا پیغام دیا.جس پر رسول کریم نے کسمپرسی کے اس عالم میں ایک شکست خوردہ زخمی لشکر کی ہمراہی میں کس شان سے اس موقع پر جواب دیا.حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ کہ اللہ ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہت بہترین کارساز ہے.ادھر بنوخزاعہ کا ایک مشترک سردار جو حمراء الاسد میں رسول اللہ کو دیکھ کر آیا تھا اس نے ابوسفیان کو مشورہ دیا کہ مسلمان شکست کا بدلہ لینے کے لئے لڑنے مرنے پر تیار ہیں.سردار قریش صفوان بن امیہ نے بھی ابو سفیان کو واپس لوٹنے کا مشورہ دیا.چنانچہ وہ واپس لوٹ گئے.(ابن ہشام) 28 الغرض رسول کریم کا تو گل زندگی بھر اپنی شان میں مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا.آپ ایک جنگ سے واپسی پر آرام فرما رہے تھے، ایک دشمن تاک میں تھا.وہ تلوار سونت کر کہنے لگا، اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ نبی کریم نے ظاہری اسباب کے معدوم ہونے کے باوجود کمال یقین اور عجب شان تو کل سے فرمایا میرا اللہ! اور تلوار دشمن کے ہاتھ سے گر گئی.( بخاری )29 رسول کریم کا اپنے دور کی دو عظیم حکومتوں کو دعوت اسلام دینا بھی آپ کے عظیم تو کل کو ظاہر کرتا ہے.عرب ریاستیں ایرانی اور رومن حکومت کی باجگزار اور تابع تھیں اور ان کو اپنی اطاعت کی دعوت دینا گویا اعلان جنگ کے مترادف تھا.مگر رسول کریم نے خدا کے حکم کے مطابق انہیں بھی پیغام پہنچایا.شہنشاہ کسری نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے آپ کو گرفتار کرنے کا پروانہ بھجوایا.اہل معرفت نے خوب کہا ہے کہ ” مترس از بلائے کہ شب درمیان است اس مصیبت سے نہ ڈرو جس کے درمیان ابھی رات باقی ہو.رسول اللہ نے بھی اس رات خدا پر بھروسہ کے ساتھ خوب دعائیں کیں.ایسی مقبول دعا ئیں کہ اسی رات اللہ تعالیٰ نے جواباً قبولیت کی بھی اطلاع فرمائی اور آپ نے کمال
اسوہ انسان کامل 546 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ بے نیازی سے وہ جواب قاصدان شاہ روم کو دیا کہ جاؤ ! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے.اور پھر واقعہ میں ایسا ہی رونما ہوا.(طبری) 30 غزوہ حنین میں بھی صحابہ کے پسپا ہو جانے کے بعد رسول اللہ کمال شان تو کل سے تنہا آگے بڑھے تھے اور بالآخر فتح پائی تھی.الغرض رسول اللہ کی ساری زندگی در اصل خدا پر توکل کی ایک خوبصورت مثال ہے.آپ کی دعا ہمیشہ یہ ہوتی تھی کہ اے خدا میں نے ہر آن تجھ پر توکل کیا اور ہمیشہ اللہ کی ذات ہی آپ کا پہلا اور آخری سہارا رہی.پس اے متوکلوں کے سردار! تجھ پر سلام کہ تیرے تو کل کا واسطہ دے کر آج بھی اہل اللہ خدا کی غیبی تائید ونصرت کے نشان دیکھتے ہیں.حواله جات 1 مسند احمد جلد6ص24,25 2 بخاری (32) كتاب الحج باب 6 3 ترمذی (38) کتاب صفة القيامه باب 60 4 بخاری (39) كتاب البيوع باب 50 5 مسنداحمد جلد 6ص306 6 بخاری(83) کتاب الدعوات باب 8 7 ترمذی (49) كتاب الدعوات باب 122 واحمد بن حنبل جلد 3 ص 184، کنز العمال جلد 7 ص 94 مسند احمد جلد4ص20 9 ترمذی(49) کتاب الدعوات باب 30 10 ابوداؤد (29) کتاب الطب باب 24
اسوہ انسان کامل 547 نبی کریم کی شان تو کل علی اللہ 11 ابوداؤد (29) کتاب الطب باب 24 12 مسلم (2) کتاب الایمان باب 96 13 مسند احمد جلد 1 ص30 14 مسلم (54) كتاب الجنة ) وصفة نعيمها باب 12 15 ترمذی (37) كتاب الزهد باب 33 16 بخاری (66) كتاب فضائل الصحابة باب 58، مستدرك حاكم جلد3 ص 432 17 الطبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 212 18 السيرة النبويه لابن هشام جلد2ص482 19 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب 74 20 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه باب 2 21 دلائل النبوة للبيهقى جلد 2 ص 339 بيروت 22 السيرة الحلبيه جلد 2 ص 227 دار احياء التراث العربي 23 السيرة النبويه لابن هشام جلد 1 ص 498 ودلائل النبوه بیهقی جلد2ص358 24 مسلم(33) كتاب الجهاد والسير باب 51 25 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 35 26 بخارى (60) كتاب الجهاد والسير باب 81 27 بخاری(68) كتاب التفسير سورة آل عمران باب 71 28 اليسرة النبويه لابن هشام جلد2ص103 29 بخاری (67) کتاب المغازی باب 29 30 تاريخ الامم والملوك لطبرى جز 2 ص 133 دار الفكر بيروت
اسوہ انسان کامل 548 رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت شجاعت کی جڑ تو حید خالص پر ایمان اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل تو کل اور بھروسہ ہے.خدا تعالیٰ کے نبی اور مامور جو ساری دنیا کو پیغام پہنچانے اور زمانے کے دھارے کا رخ بدلنے اور دنیا میں ایک انقلاب برپا کرنے کے لئے آتے ہیں.انہیں ایک خدا داد ہمت ، مردانگی اور شجاعت عطا کی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ”وہ لوگ جو اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے“ (سورۃ الاحزاب : 40) نبی کریم سے بھی کامل موحد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر بہادر تھے.رسول کریم نے اپنی خدا داد شجاعت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ” مجھے سخاوت اور شجاعت کے اخلاق میں لوگوں پر فضیلت دی گئی ہے.حضرت انس بیان کرتے تھے کہ نبی کریم سب لوگوں سے بڑھ کر شجاع اور بہادر تھے.( بیٹمی ) 1 حضرت براء بن عازب کہا کرتے تھے کہ جب میدانِ جنگ میں بلا کا رن پڑتا تو خدا کی قسم ! ایسے میں ہم رسول کریم کو ڈھال بنا کر لڑتے تھے اور ہم میں سے بہادر وہ سمجھا جاتا تھا جو رسول کریم کے پہلو میں ہو کر جم کر لڑے.(مسلم )2 حضرت علی فرماتے تھے کہ جب میدان کارزار گرم ہوتا اور مخالف فو جیں یا ہم ٹکرا جاتیں ہم رسول کریم کی اوٹ میں ہوکر لڑتے تھے.اور ہم میں سے حضور سے زیادہ دشمن سے قریب اور کوئی نہ ہوتا تھا.(حاکم 3) نیز آپ فرماتے تھے کہ رسول کریم تمام لوگوں سے زیادہ جرات مند اور بہادر تھے.(کنز )4 حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ رسول کریم کا کبھی کسی لشکر سےمقابلہ نہیں ہوا مگر آپ سب سے پہلے تلوار کے ساتھ حملہ آور ہوتے تھے.(ابن سید ) 5 مکہ میں تیرہ سالہ مظالم کا اذیت ناک دور نبی کریم نے جس شجاعت اور مردانگی سے گزارا ہے وہ آپ ہی کا حصہ ہے.ہر چند کہ اہل مکہ سے آپ کی جان کو خطرہ لاحق ہوتا تھا مگر آپ ان کے درمیان چلتے پھرتے صحن کعبہ میں جاتے ، اعلانیہ عبادت کرتے اور قرآن کی تلاوت کرتے.دشمن نے بار ہا آپ کے قتل کے منصوبے بنائے مگر نا کام ہوئے.ایک دن ابوجہل نے کہا کہ اب اگر میں نے محمد کو صحن کعبہ میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو آکر اس کی گردن مار دونگا.نبی کریم نے کمال بہادری سے فرمایا اگر وہ ایسا کرے گا تو فرشتے اسی وقت اس پر گرفت کریں گے.( بخاری )6
اسوہ انسان کامل 549 رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت قریش کے پہلوان سے کشتی کا مقابلہ رُکا نہ بین عبد یزید خاندان قریش کا ایک بہادر سورما تھا.یہ رسول اللہ کی مخالفت میں پیش پیش تھا.ایک دن مکہ کی گھاٹیوں میں رسول اللہ کی اس سے ملاقات ہو گئی.آپ نے اسے اسلام کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ " کیا تم اللہ سے نہیں ڈرو گے اور جس پیغام کی طرف میں بلاتا ہوں اسے قبول نہیں کرو گے.وہ کہنے لگا ”اگر مجھے یقین ہو جائے کہ آپ کا دعویٰ برحق ہے تو ضرور آپ کی پیروی کروں گا.رسول اللہ نے فرمایا اگر میں کشتی میں تمہیں پچھاڑ دوں تو تمہیں یقین ہو جائے گا کہ میرا دعوی برحق ہے.“ اس نے کہا ہاں، آپ نے فرمایا پھر آؤ کشتی کر لو.رُکا نہ آپ سے کشتی کرنے لگا رسول اللہ نے اسے پکڑ کر گرا دیا اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا ، اس نے خیال کیا کہ اتفاق سے ایسا ہوا ہے، چنانچہ دوسری گشتی کی دعوت دی، رسول اللہ نے اسے دوبارہ بھی گرا دیا.اسے اپنی پہلوانی پر بہت گھمنڈ تھا، کہنے لگا مجھے تعجب ہے کہ آپ نے مجھے گرا لیا ، آپ نے فرمایا کہ اس سے بھی عجیب تر نشان میں تجھے دکھا سکتا ہوں، بشر طیکہ تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری پیروی کرو.رُکا نہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا کہ اے عبد مناف ! تم محمد کے ذریعہ سب دنیا پر جادو کر سکتے ہو، میں نے اس سے بڑا جادو گر نہیں دیکھا.پھر اس نے سارا قصہ سنایا اور یوں یہ واقعہ رکا نہ کے قبول اسلام کا موجب بن گیا.( بخاری وابن ہشام) 7 قیام مکہ کے زمانہ میں شعب ابی طالب میں اسیری کے ایام بھی رسول کریم نے کمال شجاعت سے گزارے.اس زمانہ میں آپ کی زندگی کو قدم قدم پر خطرات درپیش تھے یہاں تک کہ ابو طالب ہر رات آپ کے سونے کی جگہ بدل دیا کرتے تھے.طائف کے تبلیغی سفر میں جب تن تنہا رسول کریم نے طائف کے سرداروں اور سرکشوں کو نڈ راور بے خوف ہوکر پیغام تو حید پہنچایا اور اہل طائف کی سنگ باری سے لہولہان ہو گئے یہاں تک کہ مشہور عیسائی مستشرق سرولیم میور کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ محمد کے طائف کے سفر میں ایک عجیب شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے.“ پھر سفر ہجرت میں بھی رسول اللہ کی غیر معمولی شجاعت ظاہر ہوئی.غار ثور میں پناہ کے دوران دشمن سر کے اوپر ہے.مگر خدا کا موحد نبی کمال ثابت قدمی سے اپنے ساتھی ابو بکر کو بھی تسلی اور دلا سے دے رہا ہے کہ غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے.دوران سفر سراقہ تعاقب کرتے ہوئے پاس پہنچ جاتا ہے اور آپ کو پرواہ نہیں.وہی سراقہ اپنے گھوڑے کے ھنس جانے کے بعد واپس جاتے ہوئے آپ کا امان نامہ لے کر واپس لوٹتا ہے.ہجرت مدینہ کے بعد بھی جب دشمن نے پیچھا نہ چھوڑا اور مسلمانوں کو اپنے دفاع کے لئے تلوار اٹھانی پڑی تو رسول اللہ شمشیر برہنہ کی طرح ہر مہم سر کرنے کیلئے ہمہ وقت ایسے تیار و آمادہ ہوتے تھے کہ زندگی بھر کبھی موت کا خوف نہ ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر امت پر گراں نہ ہوتا تو ہر مہم پر بھجوائے جانے والے دستہ میں میں خود شریک ہوتا اور میری تو دلی تمنا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں.( بخاری )8
اسوہ انسان کامل 550 رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت ایک رات مدینہ کے نواح میں اچانک کچھ شور بلند ہوا.شمال اور مغرب کی سمت سے مدینہ پر دشمن کے اچانک حملے کے خطرے تو رہتے ہی تھے.لوگ اکٹھے ہو کر، جتھا بنا کر آواز کی سمت جانے لگے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار چلا آتا ہے.گردن میں تلوار لٹک رہی ہے.لوگ حیران تھے کہ کون بہادر شہ سوار رات کی تاریکی میں اتنی تیزی میں تنہا چلا آتا ہے.قریب جا کر معلوم ہوا کہ رسول اللہ ہیں.آپ کشور سنتے ہی ابوطلحہ کا گھوڑا لے کر صورتحال کا جائزہ لینے نکل کھڑے ہوئے تھے اور جلدی میں گھوڑے پر زین ڈالنے کا وقت بھی ضائع کرنا مناسب نہیں جانا بلکہ گھوڑے کی نگی پشت پر ہی سوار ہو کر مدینہ کے باہر چکر لگا کر آگئے اور معلوم کر لیا کہ کوئی خطرہ در پیش نہیں ( معلوم ہوتا ہے کوئی قافلہ گزرا جس کا شور تھا ) آپ لوگوں کو تسلی دیتے ہوئے فرما رہے تھے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں.پھر ابوطلحہ کے گھوڑے کے بارے میں آپ فرمانے لگے کہ میں نے تو آج اس گھوڑے کو سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارنے والا پایا ہے.( بخاری ) اور اسی سے اس شہ سوار کی شجاعت کا اندازہ خود کر لیں.غزوہ اُحد کے بعد ابوسفیان جب جانب مکہ روانہ ہوا تو راستہ میں اُسے کچھ لوگ ملے اور پوچھا کہ مسلمانوں کے کتنے قیدی بنائے کیا مال غنیمت ہاتھ آیا تو ابوسفیان نے دوبارہ مدینہ پر حملہ کا ارادہ کیا.حضور نے ابوسفیان کا تعاقب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا، ستر مسلمان شہید ہو چکے تھے، ان کے عزیز رشتہ دار گہرے دلی صدمہ سے دو چار تھے ، باقی مسلمان اکثر زخمی تھے.یہ موقع بظاہر جیتے ہوئے لشکر کے اوپر حملے کا ارادہ اور غینم کا تعاقب ایک بھاری امتحان تھا.چنانچہ حضور کی پہلی تحریک پر لوگ متذبذب تھے.تب حضور نے واشگاف اور دوٹوک الفاظ میں اپنے عزم کا یوں اظہار فرمایا کہ اگر دشمن کے تعاقب کے لئے میرے ساتھ ایک شخص بھی نہ آیا تو میں تن تنہا لشکر ابوسفیان کے تعاقب میں جاؤں گا اور ضرور جاؤں گا.یہ عزم اور شجاعت دیکھ کر تمام زخمی صحابہ بھی والہانہ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھے ان میں ابوبکر بھی تھے اور زبیر بھی عمر اور عثمان بھی علی اور عمار بن یاسر بھی طلحہ وسعد اور عبد الرحمان بن عوف بھی الغرض یہ ستر صحابہ تھے.جن کو سخت زخم پہنچے تھے.انہوں نے رسول اللہ کی آواز پر لبیک کہا جس پر عرش کے خدا نے بھی ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے زخمی ہونے کے باوجود رسول کی آواز پر لبیک کہا ان میں نیکی اور تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے بہت بڑا اجر ہے.( بخاری ) 10 غزوہ ذات الرقاع میں ایک جانی دشمن رسول اللہ کے تعاقب میں چلا آیا.رسول اللہ اپنے اصحاب کے ساتھ دو پہر کو سایہ دار درختوں کے نیچے آرام فرمارہے تھے.دریں اثنا اس شخص نے سوتے ہوئے ، آپ کی تلوار سونت لی اور پوچھا، اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ رسول اللہ پر ذرا خوف نہیں، انتہائی یقین اور خدا دا در عب سے فرمایا ”میرا اللہ اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.(بخاری) 11 یہی شان شجاعت غزوہ حدیبیہ میں بھی نظر آئی جب رسول کریم ﷺ ہجرت کے چھٹے سال اپنے ایک رؤیا کی بنا پر
اسوہ انسان کامل 551 رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت چودہ سوصحابہ کو ہمراہ لے کر پر امن طور پر طواف بیت اللہ کا قصد لئے نکلے، مگر اہل مکہ نے حدیبیہ مقام پر روک لیا اور اس شرط پر مصالحت ہونے لگی کہ مسلمان اگلے سال آکر عمرہ کر لیں.قصد بیت اللہ سے کسی کو روکنے کا شاید یہ پہلا موقع تھا، جوطواف بیت اللہ کے لئے بے چین مسلمانوں کے لئے ایک بھاری صدمہ سے کم نہیں تھا.وہ چاہتے تو بز در شمشیر بھی مکہ میں داخل ہو کر طواف کر سکتے تھے مگر امن کے شہزادے کی موجودگی میں یہ ممکن نہ تھا، یہی وجہ تھی کہ جب رسول اللہ نے شرائط صلح حدیبیہ قبول فرماتے ہوئے مسلمانوں کو حدیبیہ میں ہی اپنے جانور قربان کر دینے کا ارشاد فرمایا ، اس وقت آپ کے جاں نثاروں کو اس دکھ اور صدمہ کی حالت میں کچھ ہوش نہ رہا.ابو بکر و عمر ، عثمان و علی جیسے بزرگ صحابہ سمیت کسی کو بھی یہ جرات اور حوصلہ نہ ہوا کہ آگے بڑھ کر اس حکم کی فوری تعمیل کرتے ہوئے اپنی قربانی ذبح کر دیں ، وہ ساکت و جامد اور مبہوت کھڑے دیکھتے تھے.شاید وہ طواف بیت اللہ کی امید کی آخری کرن کے منتظر تھے.اس صدمہ کی حالت میں سب بہادروں کا ایک بہادر خدا کا یہ رسول تھا جو اپنے ان صحابہ کے آگے بھی لڑ رہا تھا ور پیچھے بھی ، دائیں بھی لڑ رہا تھا اور بائیں بھی.اس وقت آپ کو ہی یہ ہمت اور حوصلہ نصیب ہوا کہ اللہ کے حکم کے مطابق پہل کرتے ہوئے اپنی قربانی میدان حدیبیہ میں ذبح کر ڈالی.پھر کیا تھا آپ کے غلام دیوانہ وار اپنی قربانیوں کی طرف لپکے اور دھڑا دھڑ میدان حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کرنے اور سرمنڈوانے لگے.اس نظارے نے حدیبیہ کی سرزمین کو حرم بنا دیا.یوں رسول اللہ کے عالی حوصلہ نے اپنے صحابہ کی ہمتیں جمع کر کے حوصلے بڑھا دیئے اور یہ آپ کی شان اول المسلمین ہے جو ہر اہم موڑ اور نازک مرحلے پر پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر اور روشن نظر آتی ہے.( بخاری ) 12 غزوہ حنین کے موقع پر بنو ہوازن نے اچانک حملہ کر دیا، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پیچھے ہٹنا پڑا.صرف چند لوگ رسول اللہ کے ساتھ ثابت قدم رہے.رسول اللہ کے چچازاد ابو سفیان بن حارث اور حضرت عباس آپ کے ساتھ رہ گئے.عباس کہتے ہیں کہ میں آپ کے خچر کی لگام پکڑ کر اسے دشمن کی طرف بڑھنے سے روک رہا تھا، مگر رسول خدا تھے کہ دشمن کی طرف آگے بڑھنے کیلئے بے تاب خچر کو مسلسل ایٹر لگا رہے تھے.چا زادا بوسفیان بن حارث نے آپ کی خچر کی رکاب پکڑا رکھی تھی.چاروں طرف سے تیروں کی بارش تھی مگر رسول اللہ محیر العقول بہادری کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے اور یہ نعرہ زبان پر تھا.أنا النبى لا كذب انا بن عبدالمطلب میں نبی ہوں.یہ جھوٹ نہیں ہے اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.رسول اللہ نے فرمایا اے عباس! انصار و مہاجرین کو بلاؤ ، اور حدیبیہ میں موت پر بیعت کرنے والے اصحاب شجرہ کو بھی آواز دو.مسلمان اس آواز پر مردانہ وار لپک کر میدان میں واپس لوٹے.جن کی سواریاں بد کی ہوئیں تھیں ، انہوں نے سواریوں سے چھلانگیں لگا دیں اور پیدل تلوار میں لے کر میدان کی طرف بھاگے.ایسا بلا کا رن پڑا کہ رسول اللہ نے بھی فرمایا اب میدان جنگ خوب گرم ہوا ہے، اس وقت آپ نے کفار کی طرف کنکروں کی ایک مٹھی پھینکی اور فرمایا
اسوہ انسان کامل 552 رسول اللہ کی بے نظیر شجاعت رب کعبہ کی قسم ! اب دشمن پسپا ہو گئے.اور واقعی پھر دشمن کو پسپا ہوتے اور رسول اللہ کو ان کے تعاقب میں خچر دوڑاتے دیکھا گیا.( ابن الجوزی) 13 یہ تھے ہمارے بہادروں کے بہادر اور شجاعوں کے شجاع موحد رسول مجن کو زندگی بھر خدا کے سوا کبھی کسی سے خوف نہیں ہوا.جنہوں نے خدا کے آگے اپنی گردن جھکا کر باقی سب طاقتوں سے اسے آزاد کرالیا تھا.1 حواله جات مجمع الزوائد جلد 8 ص 482 بيروت 2 مسلم (33) كتاب الجهاد باب 28 مستدرك حاكم جلد2ص155 بيروت 4 كنز العمال جلد 7 ص 172 5 عيون الاثرابن سیدالناس جلد2ص422 6 بخاری (68) كتاب التفسير سورة العلق باب 448 7 السيرة النبويه لابن هشام جز 1 ص 390 مطبوعه مصر بخاری(2) کتاب الايمان باب 25 9 بخاری(60) كتاب الجهادباب 81 10 بخاری (67) كتاب المغازی باب 23 11 بخاری (67) كتاب المغازى باب 29 12 بخاری(67) کتاب المغازی باب 33 13 الوفاء باحوال المصطفى ص 324 و بخاری (67) كتاب المغازی باب 51
اسوہ انسان کامل 553 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع تواضع اور انکساری تکبر کی متضاد صفت ہے.عام طور پر تواضع اور انکسار سے یہ مفہوم لیا جاتا ہے کہ ایک صاحب عزت انسان اپنے آپ کو تکلف کی راہ سے کم تر یا حقیر خیال کرے، حالانکہ ایسی خلاف حقیقت بات کو عمدہ خلق قرار نہیں دیا جاسکتا جبکہ تو اضع و انکسار ایک اعلیٰ درجے کا خُلق ہے.انکسار دراصل ایثار کی ایک قسم ہے جو تھوڑی سی تبدیلی سے انکسار کا نام پاتی ہے.منکسر المزاج وہ نہیں جو نالائق ہو اور پھر اپنی نالائقی کا اعلان کرے، بلکہ فی الحقیقت منکسر المزاج اور متواضع وہ انسان ہوتا ہے جو صاحب فضیلت ہوکر دوسروں کی خوبیوں کے مطالعہ میں ایسا مشغول ہو کہ اپنی لیاقت و فضیلت فراموش کر بیٹھے.اس خُلق میں خوبی اور حسن یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور تو یہ مسیح ادب کا طریق ہے اور انسانوں کے ساتھ ایسا خلق اختیار کرنے سے امن قائم ہوتا ہے اور فسادمٹ جاتے ہیں.اکثر جھگڑے اس لئے ہوتے ہیں، جب طرفین میں سے ہر فریق اپنے حق پر اڑا رہے.اگر ان میں سے کوئی ایک اپنے حق کو ترک کر دے یا فریقین انکساری سے کام لیں تو جھگڑے ختم ہو جائیں.پس انکسارد نیا کے امن وامان کے بڑھانے میں زبر دست آلہ ہے، جو ایثار کے ساتھ مل کر تمام فساد جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے.اللہ تعالی تکبر پسند نہیں کرتا اور فرماتا ہے اور لوگوں کے ساتھ گال پچھلا کر بات نہ کرو.اور نہ ہی زمین میں اکڑ کر چلو.اللہ تعالیٰ ہر اترانے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا“ (سورۃ بنی اسرائیل : 38 ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ جس کے دل میں ایک دانہ کے برابر بھی کبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا.( احمد ) 1 پس امن کی راہ انکساری میں ہے جو حضرت کبریاء کو بہت پیاری ہے.سچا منکسرالمزاج وہ شخص ہے، جو کام کی اہلیت رکھتا ہو مگر خدا کے جلال پر نظر کرتے ہوئے اپنی کمزوری کا اقراری ہو، لیکن جب کام اس کے سپرد ہو جائے تو پھر پوری ہمت کے ساتھ وہ کام کرے جیسا کہ ہمارے سید و مولا حضرت محمد مصطفے ﷺ پہلی وحی پر یہ کہتے رہے کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں مگر جب ذمہ داری سپر د ہوگئی تو اسے اس طرح ادا کیا کہ ایک دنیا کو حیران کر دیا.رسول کریم نے فرمایا الہ تعالیٰ نے مجھے وی فرمائی کہ تم تواضع اختیار کرو.یہاں تک کہ کوئی شخص دوسرے پر فخر نہ کرے اور کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے.(مسلم )2 اسی طرح آپ نے فرمایا جو شخص خدا کی خاطر تواضع کرتے ہوئے لباس (فاخرہ ) ترک کرتا ہے حالانکہ وہ اس کی تو فیق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن سب مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ لباس ایمان
اسوہ انسان کامل 554 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع میں سے جو چاہے اختیار کرے.“ ( احمد ) 3 رسول کریم نے ایک متکبر اور دولت کے غلام شخص کے بالمقابل ایک منکسر المزاج مجاہد راہ مولیٰ کا خوبصورت نقشہ کھینچا ہے.فرمایا ”دینار کا بندہ ، درہم کا بندہ اور خوبصورت لباس کا بندہ ہلاک ہو گیا.جسے کچھ دے دیا جائے تو راضی.نہ دیا جائے تو ناراض.ایسا شخص ہلاک ہو کر سر کے بل گرا.اسے کانٹا بھی چھے تو وہ اسے نکالنے کی طاقت نہیں رکھتا.مبارک ہو ایک ایسے منکسر المزاج کو جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہے بال پراگندہ ہیں اور پاؤں غبار آلود.اگر حفاظت میں اس کی ڈیوٹی لگا دو تو وہ اس میں ہی لگارہے گا.اگر اُسے لشکر کے پیچھے کہیں ڈیوٹی دے دو تو وہاں رہے گا اور غیر معروف ایسا کہ وہ کسی سے ملاقات کی اجازت چاہے تو اجازت نہ ملے اور کہیں سفارش کرے تو سفارش قبول نہ ہو.“ ( بخاری )4 رسول کریم کا انکسار رسول کریم کے انکسار کا یہ عالم تھا کہ عروہ بن زبیر کے بیان کے مطابق جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے اور قبا پہنچے تو مسلمان آپ کے استقبال کے لئے حاضر ہوئے حضرت ابوبکر لوگوں کے سامنے کھڑے تھے اور رسول کریم تشریف فرما تھے انصار میں سے وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ کو نہیں دیکھا تھا، حضرت ابوبکر کو آکر سلام عرض کرنے لگے.یہاں تک کہ تھوڑی دیر کے بعد جب رسول اللہ پر دھوپ پڑنے لگی اور حضرت ابو بکر نے اپنی چادر سے آپ پر سایہ کیا تو لوگوں کو رسول اللہ کا تعارف ہوا.( بخاری )5 دنیا کے لوگ ترقی کر کے اپنا ماضی کتنا جلدی فراموش کر بیٹھتے ہیں مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عجیب شان تھی ایک دن فر مایا کہ اللہ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر اس نے بکریاں چرائی ہیں.صحابہ نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہ آپ نے بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے معاوضہ پر چرا تا رہا ہوں.( بخاری ) 6 الغرض نزول وحی کا پہلا واقعہ ہی نبی کریم کی منکسرانہ طبیعت پر نہایت عمدہ روشنی ڈالتا ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ انکسار سے آپ کا دل معمور تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد اصلاح خلق کا کام کیا جانے لگا اور حضرت جبریل نے کہا اقا ( آپ پڑھیے ) تو خدا کے جلال پر نظر کرتے ہوئے ، اپنی لیاقت بھول کر ، آپ نے انکساری سے فرمایا مَا أَنَا بِقَارِی کہ میں پڑھنے والا نہیں ہوں.نبوت ملنے سے بھی پہلے اپنی کمزوری کا یہ اقرار دراصل وہ اعلیٰ درجہ کا انکسار تھا جو آپ کے مزاج کا حصہ اور فطرتِ ثانیہ تھا بجائے اس کے کہ آپ خوشی سے اچھل کر چل پڑتے اور لوگوں میں فخریہ بیان کرتے پھرتے کہ یہ عظیم الشان کام میرے سپرد ہوا ہے.آپ نے انکسار کا وہ رنگ اختیار کیا جو کبھی کسی انسان نے اس سے پہلے اختیار نہ کیا تھا.یہی وجہ تھی کہ یہ انکسار دیکھ کر حامل وحی فرشتہ کا دل اُس کامل منکسر المزاج انسان کی محبت کے جوش سے بھر گیا اور اُس نے بے اختیار آپ کو گلے لگا کر اپنے ساتھ چمٹا لیا.
اسوہ انسان کامل 555 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع تین دفعہ فرشتہ نے اقرا“ کہہ کر پڑھنے کے لئے کہا اور ہر دفعہ وہی کمال انکساری کا جواب پا کر محبت کی آگ اس کے دل میں ایسی شعلہ زن رہی کہ وہ بے اختیار ہو کر آپ سے چمٹ جاتا ہی کہ فرشتہ نے باصرار خدا کی امانت آپ کے سپرد کر دی.مگر آپ کا انکسار دیکھو کہ ( پھر بھی تسلی نہیں ہوتی اور گھبرائے ہوئے حضرت خدیجہ کے پاس جاتے اور فرماتے ہیں.مجھے اپنی جان اور زندگی کے بارہ میں خوف ہے.اے نبیوں کے سردار ! اے تمام کمالات انسانی کے جامع ! اے بنی نوع انسان کے لئے ایک ہی رہنما اور ھادی! میری جان آپ پر قربان ہو آپ اب بھی اپنے کمالات سے آنکھیں بند کرتے اور یہی خیال کرتے ہیں کہ میں اس قابل کہاں کہ اس خدائے واحد لاشریک کے کام کا بوجھ اٹھانے والا بنوں.تواضع کا اعلیٰ مقام دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فقرہ بھی کہ میں اپنی جان پر ڈرتا ہوں تواضع کے عالی مقام پر فائز ہونے کا ثبوت ہے.چنانچہ پہلے الہام سے آپ کی گھبراہٹ اس لئے تھی کہ کہیں یہ کلام مجھ پر آزمائش بن کرنہ اترا ہو.اس لئے اپنا خوف حضرت خدیجہ کے آگے بیان فرمایا.حضرت خدیجہ نے جو آپ کو تسلی دلائی وہ بھی آپ کی اعلیٰ درجہ کی انکساری کی گواہی دیتی ہے.اس کا حاصل یہ تھا کہ تیرے جیسے کاموں والا انسان ضائع نہیں ہوسکتا کیونکہ آپ تو رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرتے ہیں، اور کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور جو اخلاق فاضلہ دنیا سے اُٹھ گئے ہیں وہ آپ قائم کرتے ہیں.مہمان کی اچھی طرح سے خاطر کرتے ہیں.مصیبتوں میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.یہ سب کام رسول کریم کے اعلیٰ درجہ کا انکسارظاہر کرتے ہیں اور ان کے بیان سے حضرت خدیجہ کا مطلب یہ تھا کہ آپ پر یہ الہام بطور آزمائش نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر ہے.( بخاری )7 علامہ قاضی عیاض نے اپنی سیرت کی مشہور کتاب الشفاء میں لکھا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع سب لوگوں سے بڑھ کر اور کبر سب سے کم تھا.بعض علماء نے اس پر تنقید کرتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ حضور میں کبر تھا ہی نہیں.ایک پہلو سے یہ بھی درست ہے اور دوسرے پہلو سے علامہ عیاض کی بات بھی قابل فہم نظر آتی ہے، جب اس سے مراد یہ لی جائے کہ آنحضور نے اپنے مقام و منصب کی عظمت کا اظہار کیا بھی ہے تو ارشاد دربانی کی تعمیل میں ایسا کیا، ورنہ آپ اپنی خوبی یا نیکی کا اظہار پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ بسا اوقات غائب کے صیغہ میں اُس کا ذکر فرما دیتے تھے.تا لوگوں کو نیکی کی تحریک ہو.حقیقت یہ ہے کہ اصل کبریائی تو خدائے وحدہ لا شریک کو ہی زیبا ہے، لیکن اس کے بعد جن وجودوں پر اس کی عظمت کا پر تو پڑتا ہے ، ان کو حکم ملتا ہے کہ اپنے مقام کا اظہار کرو.ان کو اپنے خدا داد مقام و مرتبہ کا اظہار دنیا پر اتمام حجت کے لئے کرنا پڑتا ہے.یہ تواضع حقیقی کے خلاف نہیں ہوتا.دراصل تواضع کے موقع پر تواضع کا اظہار ہی اصل خُلق ہے.چنانچہ ہمارے آقا و مولاشہنشاہ دو عالم کو حسب حکم الہی دنیا کو دیگر انبیاء کے مقابل پر اپنا امتیازی مقام بتانا پڑا.
اسوہ انسان کامل چنانچہ فرمایا 556 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع 1.ہر نبی اپنی خاص قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا مجھے تمام بنی نوع انسان کی طرف بھیجا گیا ہے.2- مجھے شفاعت کا حق دیا گیا ہے جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملا.3 مجھے خاتم النبین بنایا گیا ہے.(بخاری مسلم ) 8 مگر اتنے عظیم مقام اور مراتب بیان کرتے ہوئے بھی کبھی فخر اور غرور پیدا نہیں ہوا.بنی نوع انسان کو خطاب کرتے ہوئے تمام مفاخر کا خلاصہ آپ کا یہ خوبصورت اعلان تھا.انا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَلَا فَخْرَ کہ میں تمام بنی آدم کا سردار ہوں مگر اس پر کوئی فخر نہیں کرتا.(مسند احمد 9) بلکہ حکم الہی کی تعمیل میں اظہار حقیقت کے لئے مجھے یہ کہنا پڑتا ہے.یہ تھی رسول اللہ کی تواضع اور انکساری کی دلی کیفیت! تواضع کی جزا رفعت روحانی رسول اللہ کے قلب مطہر سے بھی اس پاکیزہ تعلیم کے چشمے پھوٹے اور آپ نے خدا سے علم و عرفان پا کر اپنے تجربہ سے یہ حقیقت آشکار فرمائی.مَا تَوَاضَعَ اَحَدٌ لِلَّهِ الْأَرَفَعَهُ الله کہ بندہ جب خدا کے لئے انکساری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اُس کو رفعت عطا کرتا ہے.( مسلم ) 10 رسول اللہ کی اپنے مولیٰ کے حضور تضرع و ابتہال اور بجزو نیاز کا کچھ اندازہ آپ کی اس عاجزانہ مناجات سے بھی ہو سکتا ہے.جو آپ نے حجتہ الوداع میں عرفات کی شام میں کی.”اے اللہ تو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے میری پوشیدہ باتوں اور ظاہر امور سے تو خوب واقف ہے.میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں ہے.میں ایک بد حال فقیر اور محتاج ہی تو ہوں، تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما اور ڈرا ہوا ، اپنے گناہوں کا اقراری اور معترف ہو کر تیرے پاس چلا آیا ) ہوں میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں ( ہاں ! ) تیرے حضور میں ایک ذلیل گناہگار کی طرح زاری کرتا ہوں.ایک اندھے نا بینے کی طرح ( ٹھوکروں سے ) خوف زدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں.میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے اور میرے آنسو تیرے حضور بہ رہے ہیں.میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے.اے اللہ ! تو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بد بخت نہ ٹھہرا دینا اور میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا.اے وہ جو سب سے بڑھ کر التجاؤں کو قبول کرتا اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے.( میری دعا قبول کر لینا ).( ہیمی ) 11 رسول کریم ﷺ کو جو بلند مقام عطا ہوا اُس میں تواضع اور انکسار کو بھی ایک دخل تھا.چنانچہ حضرت ابوھریرہ اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ اسرافیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس تواضع کی بدولت جو آپ نے اس کے لئے اختیار کی یہ انعام عطا کیا ہے کہ آپ قیامت کے روز تمام بنی آدم کے سردار ہو نگے.سب سے اول حشر بھی آپ کا ہو گا.سب سے پہلے شفیع بھی آپ ہو نگے ، جو ایک عالم کو اپنی شفاعت کے
اسوہ انسان کامل 557 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع ذریعہ عذاب الہی سے نجات دلائیں گے.( عیاض )12 عقل محو حیرت ہے کہ ان تمام بلند مقامات کے حامل انسان کی انکساری کا یہ عالم کہ اپنے اہل خاندان کو مخاطب کر کے فرمایا اے میری پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب اور اے میری لخت جگر فاطمہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے ہرگز نہیں بچا سکتا.اپنی جانوں کی خود فکر کر لو.( بخاری )13 اسی طرح نہایت درجہ انکسار کے ساتھ آپ اپنے صحابہ کو یہ سمجھاتے نظر آتے ہیں کہ تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنت میں لیکر نہیں جائیں گے.صحابہ نے تعجب سے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کے عمل بھی ؟ آپ نے فرمایا ہاں! مجھے بھی اگر خدا کی رحمت اور فضل ڈھانپ نہ لیں تو میں بھی جنت میں نہیں جاسکتا.( مسلم ) 14 حضرت عثمان بن مظعون کی تجہیز و تکفین کے موقع پر جب ایک انصاریہ اُم العلاء نے ان کے بارے میں جذباتی رنگ میں یہ کلمات کہے کہ اے عثمان تم پر اللہ کی رحمتیں ہوں میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا اکرام کیا ہے.نبی کریم نے فوراً انہیں ٹو کا اور فرمایا تمہیں کیسے پتہ ہے کہ اللہ نے اس کی عزت کی؟ اسم العلامہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر ایسے نیک انسان کا اعزاز و اکرام نہیں تو پھر کس کا ہوگا ؟ آپ نے فرمایا بس رہنے دو کسی وفات یافتہ کے لئے محض یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں اس کے لئے خیر و بھلائی کی امید رکھتا ہوں.اور خدا کی قسم ! میں ( باوجودیکہ ) اللہ کا رسول ہوں مگر مجھے بھی علم نہیں کہ میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ ( بخاری )15 عاجزی کے خوبصورت نمونے رسول اللہ کی روزمرہ زندگی میں عجز وانکساری کے خوبصورت نمونے موجود ہیں.نبی کریم فرماتے تھے کہ میں تو عام مزدور سا آدمی ہوں.عام انسانوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں.آپ کی گھریلو زندگی بھی اس پر گواہ تھی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ گھر میلو کام کاج میں مدد فرماتے تھے.آپ کپڑے خود دھو لیتے تھے، گھر میں جھاڑو بھی دے لیا کرتے ،خود اونٹ کو باندھتے تھے، اپنے پانی لانے والے جانو راونٹ وغیرہ کو خود چارہ ڈالتے تھے، بکری خود دوھتے ، اپنے ذاتی کام خود کر لیتے تھے.خادم کے ساتھ اس کی مدد بھی کرتے ، اُس کے ساتھ مل کر آٹا بھی گوندھ لیتے ، بازار سے اپنا سامان خود اٹھا کر لاتے.( احمد )16 اسی طرح حضرت عائشہ کی شہادت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی حسین اخلاق والا نہیں تھا.آپ کے صحابہ میں سے یا اہل خانہ میں سے جب بھی کسی نے آپ کو بلایا تو ہمیشہ آپ کا جواب یہ ہوتا تھا لبیک کہ میں حاضر ہوں.تب ہی تو قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے کہ آپ معظیم خلق پر قائم ہیں.( ابن الجوزی) 17 حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم بیوگان اور مساکین کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ان کے ساتھ چل کر جانے میں کوئی عار نہ سمجھتے تھے.( دارمی) 18
اسوہ انسان کامل 558 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع حضرت انس بن مالک خادم رسول بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم اپنی سواری کے پیچھے سوار کرا لیتے تھے اور زمین پر رکھ کر کھانا کھا لیتے تھے ، غلام کی دعوت قبول کرتے اور گدھے پر سواری کر لیتے تھے.( حاکم )19 حضرت ابوموسی کی روایت کے مطابق آپ موٹے اونی کپڑے پہن لیتے ، اپنی بکری باندھ لیتے اور مہمان کا خود خیال رکھتے اور خدمت کرتے تھے.(حاکم) 20 حمزہ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی کریم میں ایسی خوبیاں تھیں جو متکبر اور سرکش لوگوں میں نہیں ہوتیں.آپ بلا امتیاز رنگ ونسل لوگوں کی دعوت قبول فرماتے تھے اور گدھے کی نگی پشت پر سوار ہو جاتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی کی معمولی دعوت قبول فرمائی جس نے جو اور چربی پیش کی.(ابن سعد ) 21 حضرت عمر بن خطاب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص نے نبی کریم کو تین مرتبہ بلایا ، ہر دفعہ آپ نے لبیک کہہ کر جواب دیا کہ میں حاضر ہوں.( بیٹمی ) 22 عبداللہ بن جبیر خزاعی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم اپنے اصحاب کے ساتھ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ آپ کے لئے کپڑے کا سایہ کیا گیا.جب آپ نے سایہ دیکھ کر سر او پر اُٹھایا تو دیکھا کہ آپ کو کپڑے سے سایہ کیا جا رہا ہے آپ نے فرما یا ر ہنے دو اور کپڑا لے کر رکھ دیا اور فرمایا ” میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں.بیٹمی )23 حضرت عامر بن ربیعہ کی روایت ہے کہ میں رسول کریم کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، اس دوران حضور کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ گیا.میں حضور کا جوتا لے کر اسے ٹھیک کرنے لگا آپ نے میرے ہاتھ سے وہ جوتا واپس لے لیا اور فرمایا ” یہ ترجیحی سلوک ہے اور مجھے اپنے لئے ترجیح پسند نہیں.“ (بیٹمی ) 24 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دن علی الصبح آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ خود اپنے بیت المال کے اونٹوں کو داغ رہے ہیں.( ابوداؤد ) 25 حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ میں ایک دفعہ رسول کریم کے ساتھ بازار گیا ، آپ کپڑے کی دکان میں گئے اور وہاں سے چار درھم کے کچھ پاجامے خریدے.رائج الوقت طریق کے مطابق حضور سے یہ رقم وصول کرنے کے لئے جب وزن کرنے والا چاندی کے سکے تو لنے لگا تو آپ نے فرمایا کہ پلڑے کو جھکنے دو.مقصد یہ تھا دوکاندار کو کچھ زیادہ مل جائے.دوکاندار حیران و ششدر تھا کیونکہ پہلی دفعہ کسی گاہک نے اس کے فائدہ کی بات کی تھی.وہ لیک کر حضور کے ہاتھ چومنے کے لئے آگے بڑھا.آپ نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا عجمی لوگ ایسا کرتے ہیں.میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں.میں تو تم میں سے ہی ایک فرد ہوں.پھر رسول اللہ نے پاجامے خود ہی اٹھالئے.ابوھریرہ کہتے ہیں کہ میں اٹھانے لگا تو آپ نے انکساری کی کیسی خوبصورت تعلیم فرمائی کہ جس کی چیز ہو، وہ اسکو اٹھانے کا زیادہ حقدار ہوتا ہے، البتہ اگر وہ کمز ور و نا تواں ہو اور اپنی چیز اٹھانے سے عاجز ہو تو پھر اس کا مسلمان بھائی اسکی مدد کرے.( ہیمی ) 26
اسوہ انسان کامل 559 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع نبی کریم کو صحابہ کے ساتھ مل جل کر کام کرنا پسند تھا.مسجد نبوی کی تعمیر میں خود پتھر ڈھوتے رہے.غزوہ خندق میں خود کھدائی کرنے اور مٹی اٹھانے میں شامل ہوئے.(بخاری) 27 ایک دفعہ صحابہ آنحضور ﷺ کے ساتھ سفر میں تھے، ایک جگہ پر پڑاؤ ہوا.آنحضور نے فرمایا سب صحابہ میں کام تقسیم کئے جائیں تعمیل ارشاد ہوئی.خیمہ لگانے ،کھانا پکانے ، پانی لانے وغیرہ کے سب کام تقسیم ہو چکے.آپ نے فرمایا میرے ذمہ کیا کام ہے؟ صحابہ نے عرض کیا حضور مہم آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں.آپ تشریف رکھیں.آپ نے فرمایا نہیں میں بھی کام کروں گا.پھر خود ہی فرمایا آگ جلانے کے لئے لکڑیاں جمع کرنے کا کام ابھی تک کسی کے سپرد نہیں ہوا.میں یہ کام اپنے ذمہ لیتا ہوں (میں لکڑیاں جمع کرونگا) اور پھر آپ اس مقصد کے لئے جنگل میں چلے گئے.(زرقانی)28 سادگی نبی کریم کا کھانا پینا اور خوراک ولباس اتنے سادہ تھے کہ اسراف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.نبی کریم نے عام دنیوی سرداروں کی طرح اپنی سواری کے جانور کو بھی کبھی فخر و مباہات کا ذریعہ نہیں بنایا.آپ کی اونٹنی عضباء بہت تیز رفتار تھی.سب اونٹنیوں سے آگے نکل جاتی تھی.ایک دفعہ پیچھے رہ گئی تو صحابہ کو اس کا بہت افسوس ہوا.آپ ان کو تسلی دیتے اور فرماتے تھے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز جب بلند ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نیچا دکھاتا ہے.( بخاری ) 29 رسول کریم لباس کے استعمال میں بھی احتیاط فرماتے کہ عجب و فخر کا ذریعہ نہ ہو.صحابہ کو بھی نصیحت فرماتے کہ کپڑے لٹکا کر چلنا کبر کی نشانی ہے، اس سے بچنا چاہیے.جمعہ عید اور مہمانوں یا وفود کی آمد پر شایان شان لباس بھی پہنتے تھے مگر کبھی بڑائی کا اظہار مقصود نہ ہوا.آپ صرف ضرورت کے وقت لباس خریدتے تھے.غرباء کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے تھے.بسا اوقات ایسا ہوا کہ اپنی ضرورت کے کپڑے بھی مستحقین کو دے دیئے.ایک دفعہ ایک کم سن لونڈی کو بازار میں روتے دیکھا جو گھر کے مالکوں کا آنا خرید نے انکی تھی مگر درہم گم کر بیٹھی.آپ نے اُسے درہم بھی مہیا کئے اور اُس کے مالکوں کے گھر جا کر سفارش بھی کی.جنہوں نے حضور کی آمد پر خوش ہو کر اسے آزاد کر دیا.(بیشمی ) 30 غزوہ بدر میں سواریاں کم تھیں.ایک سواری میں کئی اصحاب شریک تھے.رسول اللہ کے حصہ میں جو اونٹ آیا اس میں دوساتھی اور شامل تھے.انہوں نے عرض کیا کہ حضور اونٹ پر سوار ہو جائیں ہم پیدل چلیں گے.آپ فرماتے نہیں ہم باری باری سوار ہو نگے نہ تم مجھ سے زیادہ طاقتور ہو کہ تم پیدل چلو اور میں سوار ہوں اور نہ تمہیں ثواب اور اجر کی مجھ سے زیادہ ضرورت ہے کہ تم چل کر ثواب حاصل کرو اور میں اس سے محروم رہوں.( احمد ) 31 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے اصحاب کی عیادت کیلئے خود تشریف لے جاتے تھے.اپنے یہودی غلام کی
560 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع اسوہ انسان کامل عیادت کو بھی تشریف لے گئے.آپ تغریب اور مسکین لوگوں کے ساتھ بیٹھنے اور مجلس کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے.ایک غریب حبشی لونڈی جو مسجد میں جھاڑو دیتی تھی ، فوت ہو گئی.صحابہ نے شاید اُسے حقیر جانتے ہوئے رات کے وقت حضور کو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اسے دفن کر دیا.حضور ﷺ کو پتہ چلا تو فرمایا مجھے کیوں اطلاع نہ کی؟ پھر آپ نے خود اس عورت کی قبر پر جا کر دعائے مغفرت کی.( مسلم )32 رسول کریم اکثر یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھنا اسی حالت میں موت دینا اور قیامت کے دن مسکینوں کی جماعت میں اٹھانا.( ترمذی )33 آنحضور تصحابہ کے ساتھ گھل مل کر بیٹھتے تھے.اس انکسار کی وجہ سے بعض دفعہ کوئی اجنبی یا مسافر آپکو پہچان نہ سکتا تھا کہ آپ مجلس میں کہاں تشریف فرما ہیں.صحابہ نے درخواست کر کے مٹی کا ایک چبوترہ آپ کے لئے بنادیا تا کہ آنیوالے مہمان آپ کو نمایاں طور پر پہچان لیں.آپ کبھی اس چبوترے کے اوپر بیٹھ جاتے تھے اور کبھی انکسار سے اس کے پہلو میں ہی بیٹھ جاتے.ایک دفعہ آنحضور مجلس میں صحابہ کے درمیان ٹیک لگائے تشریف فرما تھے.ایک شتر سوار بدو آیا، اس نے مسجد کے ملحقہ حصے میں اونٹ بٹھایا، اس کا گھٹنا باندھ کر ، سادگی سے پوچھنے لگا بھٹی !تم میں محمد کون ہے؟ صحابہ نے جواب دیا، یہ سفید رنگ کے جو ٹیک لگائے بیٹھے ہیں محمد ہیں.وہ بدو آپ کی خاندانی نسبت سے بلا کر یوں مخاطب ہوتا اور کہتا ہے! اے عبدالمطلب کے بیٹے ! ہمارے آقا کمال تواضع اور انکسار سے جواب دیتے ہیں ” میں حاضر ہوں.“ وہ بڑ و ( اس جواب سے اور حوصلہ پاکر کہنے لگا.میں آپ سے کچھ سوال کرتا ہوں اور سوال میں ذرا سختی کرونگا.آپ مجھ پر ناراض نہ ہوں.اندازہ کیجئے کہ بڈو کی ایسی درشتی کیسی ہوگی؟ جس کا اُسے خود بھی احساس ہو کہ وہ ناراض کر سکتی ہے.آنحضور کمال حوصلہ اور تحمل سے فرماتے ہیں کہ جو چاہو پوچھو تب وہ بدو آپ کو رب کی قسم دے کر سوال پوچھتا ہے اور حضوراً سے نہایت انکسار سے جواب دیتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ اس کی تسلی ہوگئی.( بخاری )34 مبالغہ آمیز تعریف سے کراہت آپ تواضع اور انکساری کے باعث اپنی تعریف پسند نہیں فرماتے تھے.حد سے زیادہ تعریف کرنے والے کوٹوک دیتے.صحابہ اور امت مسلمہ کو بھی یہی تعلیم دی کہ میری تعریف میں اس طرح مبالغہ سے کام نہ لینا.جس طرح عیسائیوں نے مسیح ابن مریم کی ناجائز تعریف کر کے مبالغہ کیا.فرماتے تھے کہ دیکھو ! میں تو خدا کا ایک بندہ ہوں.پس مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو، یہی کافی ہے.( بخاری )35 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا اے محمد ؟ ہم میں سب سے بہترین اور اے ہم میں سے سب سے بہترین لوگوں کی اولاد ! اے ہمارے سردار اور اے ہمارے سرداروں کی اولاد! آپ نے سنا تو فرمایا کہ دیکھ تم اپنی اصلی بات کہو اور کہیں شیطان تمہاری پناہ نہ لے.میں محمد بن عبد اللہ ہوں
اسوہ انسان کامل 561 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع اور اللہ کا رسول ہوں.میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ ، جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمایا ہے.(مسند احمد ) 36 حضرت حسین بن علی سے فرماتے تھے کہ ہم سے بے شک محبت کرو مگر محض اسلامی محبت.( یعنی اس میں غلو نہ ہو ) کیونکہ نبی کریم فرماتے تھے کہ مجھے میرے حق سے زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بندہ پہلے بنایا ہے اور رسول بعد میں.( بیشمی ) 37 ربیع بنت معوذ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ میری شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے تشریف لائے.لڑکیاں ڈھولک کی تھاپ پر گانے گارہی تھیں.جن میں شہید ہونے والے میرے آباء واجداد کا قصیدہ بھی تھا.اچانک ان میں سے ایک لڑکی نے حضور کو دیکھ کر فی البدیہہ یہ مصرع کہہ دیا.وفينا نَبِي يَعْلَمُ مَافِی غَدٍ یعنی ہمارے اندر ایسا نبی موجود ہے جو جانتا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فوراً ٹوک دیا اور فرمایا یہ رہنے دو اور وہی کہو جو پہلے کہ رہی تھیں.( بخاری ) 38 اس میں کیا شک ہے کہ نبی کریم نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر آئندہ کے بارہ میں بے شمار کچی پیشگوئیاں فرمائیں ہیں، جو اپنے وقت پر پوری بھی ہوئیں مگر جب ایک بچی نے ایسا کہنا چاہا تو مبالغہ کے ڈر سے اسے روک دیا.بشر رسول کا مقام رسول کریم نے اپنا مقام ایک بشر انسان کے طور پر ہمیشہ پیش فرمایا، جسے خدا تعالیٰ نے اپنی وحی سے سرفراز فرما کر نبوت کا مقام عطا کیا.جتنا علم آپ کو اللہ کی طرف سے ہوتا، آپ اس کا اظہار فرما دیتے تھے.کوئی کمزوری ہوتی تو اسے اپنی بشریت کی طرف منسوب فرماتے.حضرت رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم مدینہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کھجور کے درختوں کا ”بور (ذرات) مادہ پر بکھیر کر جفتی کا عمل (Polination) کرتے تھے.آپ نے پوچھا کہ یہ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ ہما را دستور پرانا ہے.آپ نے فرمایا ایسانہ کرو تو شاید بہتر ہو.اس پر انہوں نے یہ عمل ترک کر دیا جس کے نتیجہ میں اس سال کھجور کا پھل کم پڑا.صحابہ نے نبی کریم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا میں بھی ایک انسان ہوں.میں دین کی جس بات کا حکم دوں اسے اختیار کرو اور اپنی رائے سے کوئی بات کہوں تو میری رائے ایک عام انسان جیسی سمجھو نیز فرمایا کہ دنیا کے معاملات تم بہتر جانتے ہو.(مسلم ) 39 بعض دفعہ آپ نماز میں رکعتوں کی تعداد بھول گئے اور چار کی بجائے دو پڑھا دیں پھر فرمایا میں بھی تمہاری طرح انسان ہی ہوں.جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول سکتا ہوں.(ابوداؤد ) 40 رسول کریم عاجزی سے بھری ہوئی یہ دعائیں بھی کرتے تھے اے اللہ میں ایک انسان ہوں جس طرح ایک عام آدمی کو غصہ آجاتا ہے.مجھے بھی غصہ آتا ہے.پس اگر کسی مومن بندے کے خلاف میں کوئی بددعا کروں تو اس بددعا کو اس
اسوہ انسان کامل 562 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع شخص کے حق میں پاکیزگی برکت کا ذریعہ بنادینا.(احمد) 41 اے اللہ! میں ایک انسان ہوں.اگر میں نے کسی اور مومن کو کوئی ایذا دی ہو یا بُرا بھلا کہا ہو تو اس بارہ میں مجھ سے بدلہ نہ لینا اور معاف فرما دینا.(احمد )42 حضرت ابو امامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم ہمارے پاس تشریف لائے.آپ اپنی چھڑی کو ٹیکتے ہوئے چلے آرہے تھے.ہم نے آپ کو دیکھا تو احترام کی خاطر کھڑے ہو گئے.آپ نے فرمایا جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں.تم اس طرح میری خاطر کھڑے نہ ہوا کرو.(ابوداؤد )43 دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جابر بادشاہوں کی طرز پر جبر رعایا سے اپنی تعظیم کروانی پسند نہیں فرمائی، جو تعظیم نہ کر نیوالوں کو عبرتناک سزائیں دیتے تھے.گویا آپ نے عقیدت واحترام کی خاطر کھڑے ہونا صحابہ کے لئے اختیاری امرقراردیا، جیسے رسول اللہ خود حضرت فاطمہ کے آنے پر از راہ محبت کھڑے ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ غزوہ بنو قریظہ میں جب حضرت سعدا اپنی خچر پر سوار ہو کر ثالثی فیصلہ کرنے آئے تو آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کے اعزاز کی خاطر کھڑے ہو جاؤ.گویا عزت کے لئے کھڑے ہونا منع نہیں.اس کے باوجود یہ آپ کی کمال درجہ کی خاکساری تھی کہ بادشاہ ہو کر بھی اپنی ذات کے لئے شاہانہ انداز پسند نہ فرماتے تھے.حضرت ابو مسعود بیان کرتے ہیں کہ آنحضور کے پاس ایک شخص آیا آپ اس سے گفتگو فرمارہے تھے.دریں اثنا اس پر آپ کے رعب و ہیبت سے کپکپی طاری ہوگئی.آپ نے فرمایا: اطمینان اور حوصلہ رکھو.گھبرانے کی کوئی بات نہیں میں کوئی (جابر ) بادشاہ نہیں ہوں.میں تو ایک ایسی عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.( ابن ماجہ ) 44 الغرض آپ کی طبیعت جابرانہ نہیں منکسرا نہ تھی.اللہ کی رحمت خاص نے آپ کا دل نرم کر دیا تھا.حضرت مسوڑا اپنے والد مخرمہ ( جو آنکھوں سے معذور تھے) سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ وہ کہنے لگے مجھے پتہ چلا ہے کہ نبی کریم کے پاس کچھ قمیصیں آئی ہیں آؤ ہم بھی لینے جائیں.ہم گئے تو نبی کریم گھر میں تھے مجھے ابا نے کہا کہ بیٹے حضور کو آواز دو.مجھے یہ بات عجیب لگی کہ رسول اللہ کو باہر سے آواز دیکر بلاؤں.مخرمہ کہنے لگے بیٹے ! نبی کریم ہرگز سخت گیر نہیں ہیں تم بے شک آواز دے کر بلاؤ.میں نے بلایا تو آپ تشریف لائے.ایک ریشمی قمیص آپ کے پاس تھا.جس پر سونے کے بٹن تھے، آپ نے فرمایا مخرمہ اہم نے پہلے ہی یہ قمیص تمہارے لئے بچا کر رکھ لیا تھا.( بخاری) 45 آنحضور علی محتاجوں اور معذوروں کے ساتھ ان کی سطح پر اتر کر محبت اور نرمی سے پیش آتے.مدینہ کی دیوانی اور مجنون عورت بھی اسی طرح آپ کی شفقت کی مورد ہوتی جس طرح کوئی اور.وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے جا کر آپ کو اپنی بات سنانا چاہتی ہے اور حضور مبخوشی اس کی خواہش پوری کرتے ہیں.( بخاری ) 46 رسول کریم غرباء کی ضروریات توجہ سے سنتے اور ان کے لئے دعا کرتے.ایک حبشی لونڈی مرگی کے دوروں کا شکار تھی.آپ کی دعا کا آسرا ڈھونڈھ کر آئی اور درخواست دعا کی.آپ نے اُسے بھی حقیر نہیں جانا اور اسے تسلی دی اور اس کے لئے دعا کی.(عیاض )47
اسوہ انسان کامل 563 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع ایک نابینا حاضر خدمت ہوا اور عرض کی کہ حضور میرے لئے دعا کریں کہ میری بصارت لوٹ آئے.آپ نے فرمایا اگر تم کہو تو میں دعا کر دیتا ہوں اور اگر چاہو تو صبر کرو اور میرے خیال میں یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے.جب نابینا نے دعا پر ہی زور دیا تو آپ نے اُسے ایک دعا سکھائی.(ترمذی )48 کسی ضرورت مند کو دیکھ کر رسول اللہ کا دل اس کی مدد کیلئے رحم سے بھر جاتا.ایک دفعہ نماز پر جاتے ہوئے ایک نا تجربہ کار بچے کو جانور کی کھال اتارتے دیکھتے ہیں.آپ اس کا درست طریق خود کھال اُتار کر اسے سمجھاتے ہیں اور پھر آگے نماز پر تشریف لے جاتے ہیں.(ابن ماجہ )49 اپنے کم سن غلام زادے اسامہ کی ناک بہتی دیکھتے ہیں تو خود صاف کرنے کو آگے بڑھتے ہیں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ نے ایک کوڑھی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کھانے یعنی پیالے میں ڈالا.اپنے ساتھ اُسے کھانا کھلایا اور فرمایا اللہ پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے کھاؤ.(ترمذی) 50 صحابہ کو عاجزی کے سبق حضرت عمر نے عمرہ پر جانے کے لئے اجازت چاہی تو اجازت دیدی اور کمال انکسار سے فرمایا.اے بھیا! ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بھولنا.حضرت عمرؓ کہتے ہیں مجھے اس بات سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل جائے تو اتنی خوشی نہ ہوتی.(ابوداؤد )51 تواضع و انکسار کا یہی عملی سبق نبی کریم نے اپنے صحابہ کو دیا.قرآن شریف نے بھی ان غلامانِ محمد کی تعریف کی اور فرمایا کہ ان کی عاجزی کے اصل جو ہر تب کھلتے ہیں ، جب بارگاہ الوہیت میں ان کی گردنیں خم ہوتی اور جبینیں اس کی چوکھٹ پر سر بسجو دہوتی ہیں.انکسار کے ان پتلوں کی یہ کیفیت دراصل رضائے باری کے حصول کی خاطر ہوتی ، جہاں خدا کی مرضی شدت وصلابت کے اظہار کی ہو وہاں طاقت و شوکت ظاہر کرتے اور جہاں تواضع کا اظہار مقصود ہوتا انکساری دکھاتے ہیں.گویا ان میں اپنے محل اور موقع پر تواضع دکھانے کا خلق پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہے.یہی سبق رسول اللہ نے اپنے صحابہ کو دیا تھا.جب حدیبیہ کے اگلے سال کے موقع پر صحابہ مکہ میں عمرہ کرنے آئے.کفار مکہ کی ایک گھائی سے مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے.مکہ میں مشہور ہو چکا تھا کہ مسلمانوں کو مدینہ کے بخار نے کمزور اور انکی کمروں کو نم کر دیا ہے.نبی کریم نے صحابہ کو حکم دیا کہ جہاں سے مشرک مسلمانوں کو طواف کرتے دیکھ رہے تھے وہاں وہ دوڑ کر طواف کریں اور باقی چکر میں بے شک پیدل چلیں.( بخاری )52 ایک صحابی اس موقع پر طواف کرتے ہوئے جب کفار کے سامنے سے گزرے تو ان کے مقابل پر مضبوطی کے اظہار کے لئے اکڑ کر چلتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ عام حالات میں تو اکڑ کر چلنے کا یہ انداز خدا کو پسندیدہ نہیں.مگر آج تمہارا یہ انداز خدا کو بہت بھلا اور پیارا لگا.کیونکہ آج تم دشمنانِ اسلام کے مقابل پر
اسوہ انسان کامل 564 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع مسلمانوں کی شدت کا اظہار کرنے کے لئے ایسا کر رہے ہو.( پیشمی ) 53 دنیا میں بڑائی کے اظہار کے ذریعے طاقت و حکومت مال و دولت ، علم وفضل اور عزت و وجاہت مانے جاتے ہیں.نبی کریم نے یہ تمام نعمتیں پائیں مگر تکبر کو پاس تک نہیں پھٹکنے دیا.ہمیشہ تقویٰ اور خدا خوفی کو عزت و تکریم کا حقیقی معیار قرار دیا.آپ کے پاس مال آیا تو اُسے بے دریغ خدا کی راہ میں خرچ کیا.کوئی پیسہ جمع نہیں کیا.کوئی محل نہیں بنوایا.کوئی در بار نہیں سجایا.اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے بھی یہی نعرہ بلند کیا کہ اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ الْمُعْطِى يہ سب خدا کی عطا ہے.میں تو محض تقسیم کر نیوالا ہوں.( بخاری )54 آپ کو خدائے علام الغیوب نے علم عطا فرمایا کہ دریا بہادئیے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تجھے خدا نے وہ سکھایا جوتو نہیں جانتا تھا اور اس لحاظ سے اللہ کا آپ پر بہت بڑا فضل ہے.(سورۃ النساء: 114) علم کا انکسار رسول اللہ کو علم و معرفت کی اس فراوانی کے باوجود کبھی علم کے تکبر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا، بلکہ جتناعلم بڑھتا گیا خدا کے حضور اتنے ہی جھکتے چلے گئے.مدینہ کے یہودی جو علمی لحاظ سے بھی آپ کے بڑے حریف تھے.جن کو صبح و شام یہ قرآنی چینج دیے جاتے تھے کہ قرآن کے مقابل ایک آیت ہی پیش کر دکھاؤ.وہ بسا اوقات آکر اپنی طرف سے مشکل سے مشکل سوال کرتے.رسول کریم قرآنی اسلوب کے مطابق لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ (بنی اسرائیل: 37) پر عمل کر کے دکھاتے یعنی جس بات کا تجھے علم نہیں اس موقف کو اختیار نہ کر.صحابہ آپ سے ہی سیکھ کر کہا کرتے تھے کہ یہ بھی انسان کے علم کی نشانی ہے کہ جس بات کا پتہ نہ ہو صاف کہہ دے کہ مجھے اس کا علم نہیں.(بخاری)55 ایک دفعہ آپ مدینہ کے ایک ویرانے سے گزر رہے تھے.یہود کی ایک جماعت کا بھی ادھر سے گذر ہوا، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ ان سے روح کے متعلق سوال پوچھو.بعض نے کہا مت پوچھو کیونکہ ایسا سخت جواب دیں گے جو تمہیں پسند نہ آئے گا.بعض نے پوچھنے پر اصرار کیا.چنانچہ ایک شخص نے روح کے بارہ میں سوال پوچھا تو حضور خاموش ہو گئے.عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں میں نے سوچا کہ آپ کی طرف وحی ہورہی ہے.جب یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے (بنی اسرائیل: 86) کی تلاوت فرمائی.جس میں اس سوال کا جواب ہے.( بخاری 56 ) گویا جب تک خدا کی طرف سے جواب عطا نہ ہوا آپ نے خاموشی کو عار نہیں سمجھا.عظیم فتح پر انکساری انسان کو سب سے بڑا تکبر حکومت و طاقت کے بل بوتے پر ہوتا ہے.مگر ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بھی عجیب شان ہے کہ سب سے زیادہ انکسار اس موقع پر دکھایا.جب زندگی کی سب سے بڑی فتح اپنے سب سے بڑے دشمن مشرکین مکہ پر حاصل ہوئی.
565 اسوہ انسان کامل رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع مکہ آپ کا پیارا وطن تھا جہاں سے بزور شمشیر آپ کو نکالا گیا.مگر خدا کی شان کہ جلاوطنی کے صرف آٹھ سال بعد اُس شہر میں جب آپ فاتحانہ شان سے داخل ہوئے تو دس ہزار صحابہ کا لشکر آپ کے جلو میں تھا.آپ چاہتے تو ایسی ظاہری شان وشوکت اور ہیبت سے مکہ میں داخل ہوتے کہ اہل مکہ کے دل بیٹھ جاتے.مگر خدا کا یہ متواضع بندہ کس شان انکسار سے شہر مکہ میں داخل ہوا.مفتوح قوم کے لوگ جوق در جوق فاتح شہر کو دیکھنے نکلے تو وہاں عجیب نظارہ تھا.رسول اللہ ﷺ کسی اعلیٰ درجہ کے گھوڑے پر نہیں بلکہ ایک اونٹ پر سوار تھے اور کسی فخر یا تکبر کا تو کیا کر تواضع اور انکسار کی وجہ سے آپ کی گردن جھکی ہوئی تھی اور جھکتی چلی جارہی تھی.یہاں تک کہ آپ کی پیشانی اونٹ کے پالان کی لکڑی کو چھونے لگی.(ابن ھشام ) 57 آپ اپنے مولیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالا رہے تھے.آپ کی زبان اس وقت خدا کی عظمت کے گیت گا رہی تھی.سچ پوچھو تو اس وقت آپ کی پیشانی کا جھکنا تو انکسار کی محض ایک ظاہری علامت تھی.فی الحقیقت اس وقت آپ کے جسم کا رواں رواں خدا کے حضور سجدہ شکر بجالا رہا تھا.یہ تھا دنیا کا عظیم فاتح ،دنیا کا شہنشاہ مگر بیک وقت متواضع اور منکسر المزاج انسان.یہ تو آپ کی فتح کا موقع تھا.آپ کا تو دستور تھا کہ ہر سفر میں ہر بلندی پر چڑھتے ہوئے بھی اللہ اکبر پڑھتے جس میں یہ پیغام ہوتا تھا.اللہ سب سے بڑا ہے سب بلندیاں اصل میں اسی کو زیبا ہیں.(بخاری) 8 یہ ہے تواضع اور انکسار میں شاہ دو جہاں کا اسوہ حسنہ جو آپ نے عرب کے اس دور میں دکھایا جسے فخر ومباہات اور اظہار کبروغرور کا دور کہا جاسکتا ہے، کیونکہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے جملہ اوصاف واخلاق تفاخر کے گرد گھومتے تھے، وہ جنگ کرتے تھے تو نام پیدا کرنے کے لئے ، مہمان نوازی کرتے تھے تو شہرت کی خاطر سخاوت کرتے تھے تو نمود کے لئے ، وہ اپنی ناک رکھنے اور جھوٹی عزت کی خاطر جان کی بازی لگا دینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے، اسی ذاتی وجاہت اور خاندانی عزت کے جھوٹ کب کا نتیجہ تھا کہ زمانہ جاہلیت میں ادنی سی بات پر شروع ہونے والی جنگیں سالہا سال چلیں.نبی کریم نے اس معاشرہ کو خاکساری کا درس اور عملی نمونہ دیا تھا.دیگر انبیاء کے مقابل انکسار کی شان آپ سردار انبیاء ٹھہرائے گئے مگر تواضع ایسی کہ ہمیشہ دیگر انبیاء کی شان بیان کرتے نظر آتے ہیں.کبھی فرماتے ہیں نَحْنُ أَحَقُّ بِالْشَّكِ مِنْ إِبْرَاهِيمَ کہ ابراہیم علیہ السلام نے خدا کے حضور اطمینان قلب کے لئے احیاء موتی کا جو نشان مانگا تھا اگر وہ شک تھا تو پھر ہم اس شک کے زیادہ حقدار ہیں.( بخاری )59 58 ایک دفعہ کسی نے آپ کو يَا خَيْرَ الْبَرِيَّةِ کہہ کر پکارا.یعنی اے مخلوق کے بہترین وجود! آپ نے فرمایا وہ تو ابراہیم تھے.(احمد) 60 کبھی حضرت لوط علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے، کیسے مشکل اور کٹھن
566 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع اسوہ انسان کامل حالات سے گزرے ہونگے کہ اللہ کی مضبوط پناہ کو تلاش کرتے تھے.جیسا کہ قرآن میں ذکر ہے او آوِی اِلی رُکن شَدِید یعنی میں کسی مضبوط پناہ کی تلاش کروں.( بخاری )61 کبھی حضرت یوسف علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں اگر ہم یوسف کی جگہ قید میں رہے ہوتے تو شاہی قاصد کا قید سے آزادی کا پیغام سن کر فوراً اس کے ساتھ چل پڑتے.مگر یوسف علیہ السلام نے الزام تراش عورتوں سے اپنی برا آت آنے تک انتظار کیا.( بخاری )62 اس زمانہ میں نینوا کی بستی میں حضرت یونس کے ماننے والے موجود تھے.سفر طائف میں رسول اللہ کو نینوا کا ایک باشندہ ملا، جو آپ سے حضرت یونس علیہ السلام کا نام سن کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا تھا.قرآن شریف میں حضرت یونس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَوْلَا أَنْ تَدرَكَهُ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ لَنُبِدَ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ مَذْمُومٌ ( سورة القلم : 50) یعنی اگر اس ( یونس) کے رب کی ایک خاص نعمت اسے بچانہ لیتی تو وہ چٹیل میدان میں اس طرح پھینک دیا جاتا کہ وہ سخت ملامت زدہ ہوتا.معلوم ہوتا ہے اس بیان سے کسی غلط فہمی کا ازالہ کرنے کے لئے نبی کریم نے حضرت یونس کی عزت اور مقام کا بھی لحاظ کیا اور از راہ تواضع فرمایا مجھے یونس بن متی پر بھی فضیلت نہ دو.( بخاری )63 یہی ہدایت آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں دی اور ایک ایسے موقع پر دی جب ایک یہودی کا مسلمان سے تنازعہ ہو گیا.جس میں یہودی کی بظاہر سراسر زیادتی تھی کہ سر بازار سودا فروخت کرتے ہوئے ایک مسلمان کو چڑاتے ہوئے کہا کہ اس خدا کی قسم جس نے موسیٰ کو دیگر انبیاء پر فضیلت دی، مسلمان نے کہا کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ؟ اس نے کہا ہاں ، مسلمان نے اُسے تھپڑ رسید کر دیا، یہودی مقدمہ لے کر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی کریم ہے نے فتنہ وفساد فرو کرنے کے لئے ایثار کرتے ہوئے ، کمال انکساری سے فرمایا اور لا تُفَصِلُونِي عَلَى مُوسَى - مجھے موسی" پر فضیلت نہ دو.( بخاری )64 الغرض ہمارے آقا ومولا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم امن و آشتی کے وہ پیامبر ہیں جنہوں نے فتنہ دور کرنے اور قیام امن کی خاطر اپنی ذات کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کیا.آپ نے تواضع سے اپنا وجود ایسا مٹا کر دکھا دیا کہ آپ کا رفع ساتویں آسمان سے بھی آگے سدرۃ المنتھی تک ہوا.بلا شبہ آج کی مادیت پرست دنیا میں قیام امن کا ایک راز یہی انکسار ہے اور کبر ونخوت کے عفریت سے رہائی کا ایک بڑا ذریعہ بھی یہی بھاری خلق ہے.جس میں اسوہ رسول کو مشعل راہ بنا کر انسان بلند د نیوی و روحانی ترقیات حاصل کر سکتا ہے.جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما
اسوہ انسان کامل 567 1 مسند احمد : حنبل جلد 1 ص 399 حواله جات 2 مسلم (54) كتاب الجنة وصفة نعيمها ـــ باب 17 3 مسند احمد جلد 3 ص439 4 بخاری (60) كتاب الجهاد والسير باب 69 5 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابة باب74 6 بخاری (42) كتاب الاجاره باب 2 7 بخاری(1) کتاب بدء الوحي باب 1 بخاری(7) كتاب التميم باب 328 9 مسلم(6) كتاب المساجد باب 1 مسند احمد جلد 2 ص 295،281 10 مسلم (46) كتاب البر والصلة باب 19 11 كنز العمال جلد2ص 175 12 الشفاء قاضی عیاض جلد 1 ص 130 مطبوعه بيروت 13 بخاری (68) كتاب التفسير باب 258 14 مسلم (53) كتاب صفة القيامه والجنة والنارباب 18 15 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 16 16 مسند احمد جلد 6 ص 121 17 الوفاء باحوال المصطفی از علامه ابن جوزی ص304 مطبوعه بيروت 18 سنن الدارمی جلد 1 ص 38 مطبوعه ملتان 19 مستدرك حاكم جلد 4 ص 132 بيروت 20 مستدرك حاكم جلد 1 ص 129 بيروت 21 طبقات الكبرى لابن سعد جلد 1 ص 370-407 مطبوعه بيروت 22 مجمع الزوائد لهيثمي جلد8 ص 586 بيروت رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع
اسوہ انسان کامل 568 23 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 586 بيروت 24 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 588 بيروت 25 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 57 26 مجمع الزوائد جلد5ص212 بيروت 27 بخاری(67) کتاب المغازی باب 27 28 شرح المواهب اللدنيه للزرقاني جلد 4 ص 265 دار المعرفه بيروت 1933 29 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 38 30 مجمع الزوائد از علامه هیثمی جلد 8 ص 572مطبوعه بيروت 31 مسند احمد جلد 1 ص422 بيروت 32 مسلم (20) كتاب الجنائز باب 6 33 ترمذی (30) كتاب الزهدباب 44 34 بخاری(3) كتاب العلم باب 6 35 بخاری(64) کتاب الانبياء باب 48 36 مسند احمد جلد 3 ص 153 مطبوعه بيروت 37 مجمع الزوائد هيثمي جلد8ص 587 38 بخاری(70) كتاب النكاح باب 49 39 مسلم (35) كتاب الفضائل باب 31 40 ابوداؤد (2) كتاب الصلوة باب 198 41 مسند احمد جلد 6 ص 52 مطبوعه بيروت 42 مسند احمد جلد 6 ص 258 مطبوعه بيروت 43 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 166 44 ابن ماجه (23) کتاب الاطعمه باب 15 45 بخاری(80) كتاب اللباس باب 43 46 بخاری(81) کتاب الادب باب 61 47 الخصائص الكبرى جلد2 ص 256 48 ترمذی (32) كتاب الدعوات 49 ابن ماجه (27) كتاب الذبائح باب 6 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع
اسوہ انسان کامل 50 ترمذی (26) کتاب الاطعمه باب 17 569 51 ابوداؤد (8) كتاب الوتر باب 23 52 بخاری(67) کتاب المغازی باب 41 53 مجمع الزوائد جلد6ص 157 بيروت 54 بخارى (61) كتاب الفرض الخمس باب 7 55 بخاری (3) كتاب العلم باب 47 56 بخاری (3) كتاب العلم باب 47 57 السيرة النبويه لابن هشام جلد 2 صفحه 405 مطبوعه بيروت 58 بخاری (83) كتاب الدعوات باب 52 59 بخاری (68) كتاب التفسير سورة البقره باب 3 60 مسند احمد جلد 3 ص 178 61 بخاری(68) کتاب التفسير باب 183 62 بخاری (68) كتاب التفسير باب 183 63 بخاری (64) کتاب الانبياء باب 36 64 بخاری(64) كتاب الانبياء باب 32 رسول اللہ کی حیرت انگیز تواضع
اسوہ انسان کامل 570 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ قرآن شریف کی پاکیزہ تعلیم کے عین مطابق تھے.اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کی زبان سے یہ کہلوایا کہ اے نبی ! تو کہہ دے کہ میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں.(ص: 87 ) یہ خود خدائے عالم الغیب کی گواہی ہے جو نبی کریم کے تکلف اور تصنع سے پاک بیچے اخلاق کی تصدیق کر رہی ہے.اس سے بڑھ کر کوئی گوا ہی نہیں ہو سکتی.نبی کریم کی اپنی گواہی بھی یہی ہے.فرماتے تھے ”میں تو ایک سادہ سا انسان ہوں.عام لوگوں کی طرح کھاتا پیتا اور اٹھتا بیٹھتا ہوں.“ آپ کی زوجہ محترمہ ام المؤمنین حضرت عائشہ نے بھی یہی گواہی دی.جب پوچھا گیا کہ آنحضور گھر میں کیسے رہتے تھے ؟ فرمانے لگیں عام انسانوں کی طرح رہتے تھے اور گھریلو کاموں میں اہل خانہ کی مدد فرماتے تھے.اپنے کام خود کر لیتے تھے.( بخاری ) از کوۃ کے اونٹوں پر نشان لگانے کے لئے خود انہیں داغ لیتے تھے.( بخاری )2 قناعت پسندی نبی کریم کی سادگی کا اصل راز آپ کی قناعت میں مضمر تھا.جس کی قرآن شریف میں آپ کو تعلیم دی گئی کہ اپنی آنکھیں اس عارضی متاع کی طرف نہ پیار جو ہم نے ان میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تا کہ ہم اس میں ان کی آزمائش کریں.اور تیرے رب کا رزق بہت اچھا اور بہت زیادہ باقی رہنے والا ہے.“ (سورۃ طہ (132) آپ کا مسلک تھا کہ قناعت ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا.( سیوطی )3 اسی طرح اپنے صحابہ کو بھی یہ تلقین فرماتے تھے کبھی اپنے سے اوپر نظر نہ رھو بلکہ اپنے سے کم تر کو دیکھو یہ اس بات کے زیادہ قریب ہے کہ اللہ کی نعمت کو حقیر نہ جانو اور شکر ادا کر سکو.(احمد) 4 آپ فرماتے تھے کہ جس شخص نے دلی اطمینان اور جسمانی صحت کے ساتھ صبح کی اور اس کے پاس ایک دن کی خوراک ہے.اس نے گویا ساری دنیا جیت لی اور ساری نعمتیں اسے مل گئیں.(ترمذی)5 آپ کا اپنا کھانا پینا، لباس بستر وغیرہ سب سادہ تھے.زمین پر بچھونا ڈال کر سو جاتے تھے.بستر یا گدا چمڑے کا تھا جس کے اندر کھجور کے پتے اور ان کے ریشے بھرے ہوئے تھے.( بخاری )6 ایک دفعہ حضرت عائشہ نے بستر کے بچھونے کی دوتہوں کی بجائے چار نہیں لگادیں آپ نے پوچھا کہ آج رات کیا بچھایا تھا؟ جب بتایا گیا زیادہ آرام کے لئے کپڑے کی چار نہیں لگا کر بچھایا تھا.فرمایا پہلے جیسا ہی بچھایا کرو وہی ٹھیک
اسوہ انسان کامل 571 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت ہے.آج رات تو اس کے آرام نے مجھے تہجد کی نماز سے روک دیا.(شمائل) 7 میانه روی نبی کریم سادہ لباس زیب تن فرماتے تھے اور حسب ضرورت اس میں پیوند وغیرہ لگا کر پہننے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے ایک نیا قمیص پہن کر نماز پڑھی.جس میں نقش و نگار تھے.حضور نے دوران نماز اس کے نقش و نگار پر ایک نظر فرمائی.جب سلام پھیرا تو فرمایا میری یہ قمیص ابو جہم ( تاجر ) کو واپس کر دو اور میرے لئے انجان بستی کی بنی ہوئی سادہ ہی چادر منگوا دو.اس چادر کے نقش و نگار کہیں نماز کے دوران خلل انداز نہ ہوں.( بخاری )8 آپ نے فراخی اور بادشاہی کا زمانہ بھی دیکھا مگر اپنی سادگی میں کوئی غیر نہ آیا.کوئی بارگاہ نہیں بنوائی.کوئی شاہانہ لباس تیار نہ کر وایا اور اسی حال میں خدا کے حضور حاضر ہو گئے.حضرت عائشہ نے ایک دفعہ حضرت ابو بردہ کو کھدر کی موٹی چادر اور تہ بند نکال کر دکھائی اور بتایا کہ حضور نے بوقت وفات یہ کپڑے پہن رکھے تھے.( بخاری )9 حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے جب ازواج مطہرات سے ایک ماہ کیلئے علیحدگی اختیار فرمائی اور بالا خانے میں قیام فرمایا تو میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا.کیا دیکھتا ہوں آپ ایک خالی چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں.جس پر کوئی چادر یا گدیلا وغیرہ نہیں اور چٹائی کے اثر سے آپ کے بدن مبارک پر بدھیاں پڑ چکی تھیں.آپ ایک سیکیے سے سہارا لئے ہوئے تھے.جس کے اندر کھجور کے پتے بھرے تھے.کمرے کے باقی ماحول پر نظر کی تو خدا کی قسم ! وہاں چمڑے کی تین خشک کھالوں کے سوا کچھ نہ تھا.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! آپ دعا کریں اللہ آپ کی اُمت کو فراخی عطا کرے، ایرانیوں اور رومیوں کو دنیا کی کتنی فراخی عطا ہے حالانکہ وہ خدا کی عبادت بھی نہیں کرتے.نبی کریم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا اے عمرا تم بھی ان خیالوں میں ہو.ان لوگوں کو عمدہ چیز میں اسی دنیا میں پہلے عطا کر دی گئی ہیں.مومنوں کو آئندہ ملیں گی.( بخاری ) 10 دوسری روایت میں تفصیل ہے کہ چٹائی پر لیٹنے کے نشان رسول اللہ کے جسم پر دیکھ کر حضرت ابو بکر اور عمر رونے لگے اور حضرت عمر نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اللہ کے معزز ترین انسان ہیں آپ کا یہ حال ہے جب کہ قیصر و کسری ریشم کے بچھونے رکھتے ہیں.رسول کریم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ ان کو دنیا مل جائے اور ہمارے لیے آخرت ہو.نیز فرمایا قیصر و کسریٰ کا انجام تو آگ ہے اور میری اس کھردری چار پائی کا ٹھکانہ جنت ہے“.( احمد ) 11 غذا میں سادگی کھانے میں سادگی اور قناعت کا یہ عالم تھا فرماتے تھے کہ میرا دل کرتا ہے ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن سیر ہو کر کھالوں.جس دن بھوکا ہوں اپنے رب سے تضرع اور دعا کروں اور سیر ہوکر اللہ کا شکر بجالاؤں.( ترمذی )12 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ہجرت مدینہ کے بعد ابتدائی زمانہ میں تو خاص طور پر آپ کی خوراک اور غذا بہت
572 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت اسوہ انسان کامل سادہ تھی.بہت قناعت سے گزارا ہوتا تھا.دو دو ماہ گزر جاتے اور چولہے میں آگ نہ جلتی تھی.کسی نے پوچھا کہ أم المؤمنین ! آپ لوگ کھاتے کیا تھے؟ فرمانے لگیں کہ کھجور اور پانی پر گزارا ہوتا تھا یا پھر دودھ پر کہ بعض صحابہ حضور کو کوئی جانور کچھ عرصہ کے لئے عاریتاً دے دیتے تھے تا کہ آپ اس کا دودھ استعمال کر سکیں.( بخاری )13 کھانے میں حضور کی سادگی کا اندازہ آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے کہ انسان کے لئے پیٹ سے برا کوئی برتن نہیں.آدمی کے لئے اتنے لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ سیدھی کر دیں.اگر آدمی کی خواہش اس سے زیادہ کی ہو تو پھر پیٹ میں ایک حصہ کھانے کے لئے رکھے ایک پینے کے لئے اور ایک سانس کے لئے.(ابن ماجہ ) 14 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے کبھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور اپنے گھر میں کبھی کھانا خود سے نہیں مانگتے تھے نہ ہی اس کی خواہش کرتے تھے.اگر گھر والے کھانا دے دیتے تو آپ تناول فرما لیتے اور جو کھانے پینے کی چیز پیش کی جاتی قبول فرما لیتے.(ابن ماجہ ) 15 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم کبھی شام کا کھانا بچا کر صبح کے لئے اور صبح کا رات کے لئے نہیں رکھتے تھے.اور کبھی آپ نے دو چیزیں ایک ساتھ اپنے ذاتی استعمال کے لئے نہیں رکھیں.یعنی دو قمیص ، دو چادر میں یا دوتہ بند اور دوجو تے کبھی نہیں رکھے.اور کبھی آپ گھر میں فارغ نہیں دیکھے گئے یا تو کسی مسکین کے لئے جو نا سی رہے ہوتے یا بیواؤں کے لئے کپڑ اسی رہے ہوتے.( ابن الجوزی )16 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے اپنی وفات تک ایک دن میں دومرتبہ سیر ہوکر روٹی اور تیل زیتون استعمال نہیں کیا.(مسلم)17 حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت فاطمہ نے رسول کریم کو جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا پیش کیا.آپ نے فرمایا تین دن کے بعد تیرے باپ نے یہ پہلا لقمہ کھایا ہے.(احمد) 18 حضرت ابوطلحہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم کی خدمت میں بھوک کی شکایت کی اور ہم نے اپنے پیٹوں سے کپڑا اٹھا کر دکھایا جن پر ایک ایک پتھر بندھا تھا.رسول کریم ﷺ نے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو اس پر دو پتھر تھے.(ترمذی )19 حضرت ابوھر یہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم کے پاس ایک روز کھا نالا یا گیا.آپ نے کھانا تناول فرمایا اور پھر دعا کی کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں.میرے پیٹ میں کوئی ٹھوس کھانا اتنے عرصہ سے نہیں پڑا.( ابن ماجہ ) 20 آنحضرت جو کی روٹی استعمال کرتے تھے.ایک دفعہ گھر کا کام کاج کرنے والی ام ایمن نے آٹا چھان کر روٹی بنائی.آپ نے پوچھا یہ کیا ؟ انہوں نے وضاحت کی کہ ہمارے ملک حبشہ میں چھٹے ہوئے آٹے کی ایسی روٹی بنائی جاتی ہے جو میں نے خاص حضور کے لئے تیار کی ہے.فرمایا چھان آٹے میں ملا کر گوندھو اور اس کی روٹی بنایا کرو.(ابن ماجہ ) 21 ام سعد کہتی ہیں کہ رسول اللہ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے.میں وہاں بیٹھی ہوئی تھی حضور نے پوچھا کہ
573 اسوہ انسان کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت ناشتہ کے لئے کچھ ہے حضرت عائشہ نے کہا ہمارے پاس روٹی کھجور اور سرکہ ہے.رسول کریم نے فرمایا ”سرکہ کتنا عمدہ سالن ہے؟ پھر دعا کی.”اے اللہ سرکہ میں برکت ڈال یہ میرے سے پہلے نبیوں کا بھی کھانا تھا.جس گھر میں سرکہ ہے و محتاج نہیں ہے.(ابن ماجہ )22 حضرت عبداللہ بن سلام کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم کو دیکھا آپ نے روٹی کے ایک ٹکڑے پر کھجور کھی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے یہ کھجور اس روٹی کا سالن ہے.(ابوداؤد ) 23 حضرت عبداللہ بن سبیل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بہت بڑا برتن تھا جو کھانے کے لئے استعمال ہوتا تھا.جسے چار آدمی اُٹھاتے تھے.عید کے موقع پر قربانی کے گوشت کا کھانا ترید اس میں تیار ہوتا تھا.پھر سارے لوگ اکٹھے ہو کر اس میں سے کھاتے تھے.جب لوگ زیادہ ہو گئے تو مجبوراً اس موقع پر رسول اللہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے.اس طرح کہ پاؤں آپ کے زمین کے اوپر تھے اور بوجھ آپ کے گھٹنوں کے اوپر تھا.ایک بد و وہاں بیٹھا ہوا تھا.وہ کہنے لگا کہ یہ بیٹھنے کا کون سا طریق ہے؟ حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک معزز بندہ بنایا ہے.جبار اور سرکش دشمن نہیں بنایا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کھانا کناروں سے کھاؤ اور درمیان کے حصہ کو چھوڑ دو تا کہ اس میں برکت پڑتی رہے.(ابوداؤد ) 24 آنحضرت اپنے صحابہ کے ساتھ بے تکلف تھے.عبداللہ بن حارث کہتے ہیں ہم چھ سات افراد حضور کے ساتھ موجود تھے.بلال نے نماز کے لئے بلایا تو ہم چل پڑے.راستہ میں ایک شخص کے پاس سے گزرے اس کی ھنڈیا چولہے پر تھی.رسول اللہ نے فرمایا ” کیا تمہاری ھنڈیا پک چکی ہے؟ اس نے کہا ”ہاں“.آپ نے اس میں سے ایک بوٹی لے لی اور کھاتے ہوئے نماز پر تشریف لے گئے.(ابوداؤد 25) رسول کریم غلاموں اور خادموں کی دعوت قبول فرما لیتے تھے.(ابن ماجہ ) 26 حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم اُون کے موٹے کپڑے پہنتے، چمڑے کے سادہ جوتے استعمال کرتے اور جو کا دلیہ کھاتے تھے.جو پانی کے بغیر حلق سے نہ انتر تا تھا.( ابن ماجہ ) 27 سادگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شادی یا غنی کے موقع پر بھی ہمیشہ سادگی اختیار فرمائی چنانچہ حضرت علی بیان فرماتے تھے کہ حضرت فاطمہ کی شادی کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ( بنیادی ضرورت کا ) حسب ذیل سامان دیا تھا.1- خمیلہ ( ریشمی چادر ) 2.چڑے کا گدیلا جس میں کھجور کے ریشے تھے.3.آٹا پینے کی چکی 4 مشکیزہ 5.دو گھڑے (احمد ) 24 رسول کریم کی سواری بھی سادہ ہوتی تھی.آپ گدھے یا خچر پر سوار ہونے میں کوئی عیب نہ سمجھتے تھے بلکہ خود یہ جانور پالے ہوئے تھے.ایک گدھے کا نام عفیر اور دوسرے کا یعفور تھا.آپ ان جانوروں پر حسب ضرورت سواری بھی
574 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت اسوہ انسان کامل فرماتے تھے.سواری کے پیچھے کسی کو بٹھانے میں عار محسوس نہ کرتے تھے.یہ آپ کی کمال سادگی تھی.شہر مدینہ کے لوگوں نے بہت دفعہ یہ نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ رسول خدا خچر یا اونٹ پر سوار ہیں اور کبھی بزرگ صحابہ میں سے حضرت ابوبکر آپ کے پیچھے بیٹھے ہیں تو کبھی حضرت عثمان بھی حضرت علی تو کبھی زید بن حارثہ بچوں میں سے حسن وحسین، اسامه بن زید اور انس بن مالک بڑوں میں سے ابو داؤد، ابوطلحہ، ابوھریرہ.نوجوان صحابہ میں سے معاذ بن جبل اور جابر بن عبداللہ عورتوں میں سے کبھی ازواج مطہرات اونٹنی پر ساتھ سوار ہیں.ایک دفعہ آپ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے انہوں نے از راہ ادب واپسی پر اپنی سواری دی اور اپنے بیٹے قیس کو ساتھ کر دیا کہ حضور کو چھوڑ آؤ.حضور نے قیس سے فرمایا کہ اپنی سواری کے آگے تم بیٹھو.انہوں نے از راہ ادب کچھ پس و پیش کی تو حضور نے بے تکلفی سے فرمایا کہ یا تو سواری کے آگے بیٹھو یا پھر واپس چلے جاؤ.(ابوداؤد ) 29 آپ کی سواری کا پالان اور گدیلا بھی نہایت سادہ ہوتا تھا.حجتہ الوداع آپ کی زندگی کا آخری حج تھا.اس سے پہلے خیبر، مکہ چنین وغیرہ کی زبردست فتوحات آپ حاصل کر چکے تھے.آپ چاہتے تو بہتر سے بہتر چیز استعمال میں لا سکتے تھے.مگر اس وقت دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ آپ ایک اونٹ پر سوار تھے.جس کا پالان بوسیدہ ہو چلا تھا.حج کے موقع پر نہایت انکساری سے آپ یہ دعا کر رہے تھے.”اے اللہ ! یہ حج قبول کرنا، اسے ایسا مقبول حج بنانا جس میں ریا ہو نہ شہرت کی کوئی غرض.( ابن ماجہ ) 30 حج کے دوران اپنے لئے کوئی امتیازی سلوک پسند نہ فرمایا.آپ کے لئے منی میں آرام کی خاطر الگ خیمہ لگانے کی خواہش کی گئی تو فرمایا کہ مٹی میں جو پہلے پہنچ جائے پڑاؤ کا پہلا حق اسی کا ہے.(ابن ماجہ ) 31 بے تکلفی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوستوں سے بھی بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے.ایک دفعہ آپ کو ایرانی ہمسائے نے دعوت پر بلایا.آپ نے بلا تکلف فرمایا کہ کیا میری اہلیہ عائشہ کو بھی ساتھ دعوت ہے؟ اس نے کہا ”نہیں“ آپ نے فرمایا پھر میں بھی نہیں آتا.دو تین دفعہ کے تکرار کے بعد ایرانی نے آکر کہا کہ ٹھیک ہے حضرت عائشہ بھی آجائیں.تب نبی کریم اور حضرت عائشہؓ خوش خوش اس کے گھر کی طرف چلے.( احمد ) 32 آنحضور اپنی پسند کا بلا تکلف اظہار فرما دیتے تھے.جابر بن عبداللہ کی روایت ہے آنحضور ایک انصاری شخص کے ہاں تشریف لے گئے وہ اپنے باغ میں پانی لے جار ہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ اگر رات سے مشکیزہ میں پڑا ٹھنڈا پانی ہو تو لے آؤؤر نہ ہم اسی مشکیزہ سے پانی پی لیتے ہیں.انہوں نے کہا ”حضور ”ہمارے پاس رات کے مشکیزے کا (ٹھنڈا ) پانی موجود ہے.پھر ہم ان کے ڈیرے کی طرف چل پڑے جہاں اس انصاری نے بکری کا دودھ اس مشکیزے کے ٹھنڈے پانی میں ملا کر پیش کیا اور حضور اور آپ کے ساتھیوں کو پلایا.(ابن ماجہ )33
575 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت اسوہ انسان کامل نبی کریم اپنے نوجوان صحابہ سے بھی بے تکلفی کے ماحول میں بات کر لیا کرتے تھے.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ میں رسول کریم کے ساتھ ایک سفر میں تھا.چند روز قبل میری شادی ہوئی تھی.مجھے فرمانے لگے اے جابر ! سناؤ پھر شادی کرلی ؟ میں نے کہا ”جی کر لی ہے.فرمانے لگے کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ عرض کیا حضور بیوہ سے فرمایا ارے! کنواری لڑکی سے کیوں شادی نہ کی کہ ہم عمر سے بے تکلفی کا لطف بھی اٹھاتے ؟‘ جاہڑ نے عرض کیا ”حضور آپ کو تو معلوم ہے میرے والد اُحد میں شہید ہو گئے اور پیچھے نو بیٹیاں چھوڑ گئے.اب مجھے نو بہنوں کو سنبھالنا تھا میں نے نا پسند کیا کہ ان جیسی ایک اور بے سمجھ لڑکی لے آؤں اس لئے میں نے ایک ایسی بیوہ عورت سے شادی کی جوان کی نہ پٹی کر دے اور ان کا خیال رکھے.“ ( بخاری )34 تکلف سے کام لینا آپ کو پسند نہ تھا.اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا.حضور کی طرف سے ہمیں بھی کھانے کے لئے کہا گیا تو ہم نے تکلفاً کہا کہ ہمیں تو بھوک نہیں ہے.آپ نے فرمایا دو باتیں جمع نہ کر لو ایک بھوک دوسرے جھوٹ.“ ( ابن ماجہ ) 35 حضرت اسماء نے پوچھا "یا رسول اللہ ! کیا اس طرح سے تکلف کی بات بھی جھوٹ شمار ہوتی ہے؟ فرمایا ”ہاں اگر کوئی چھوٹی سی بات غلط کہی جائے تو وہ چھوٹا جھوٹ ہوتا ہے اور کوئی بڑی بات خلاف واقعہ ہو تو وہ بڑا جھوٹ شمار ہوگا.‘ ( احمد ) 36 الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں بے تکلفی پسند تھی اور ما انا مِنَ الْمُتَكَلِّفِین کا سچا نعرہ آپ کا ہی تھا.مہمان نوازی آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا مگر اس میں بھی تکلف روانہ رکھتے.جو حاضر ہوتا پیش فرما دیتے.جابر بن عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور کو کچھ شہد بطور تحفہ پیش کیا گیا.حضور نے صحابہ کوفر مایا کہ ایک ایک لقمہ شہد لے کر کھالیں.حضرت جابڑ کہتے ہیں میں نے اپنے حصہ کا ایک لقمہ کھالیا.پھر حضور سے عرض کیا کہ حضور میں ایک اور لقمہ بھی لے لوں.آپ نے فرمایا.ہاں.“ ( ابن ماجہ ) 37 ایک دفعہ رسول کریم کے پاس ایک مہمان آیا.آپ نے اس کے کھانے کے لئے گھر میں دیکھا تو سوائے روٹی کے ایک ٹکڑے کے کچھ نہ پایا.آپ نے اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیئے اور وہ لے کر آ گئے اور فرمایا اللہ کا نام لے کر کھالو‘ اس نے کھایا اور کچھ بیچ رہا.وہ شخص نبی کریم ﷺ سے کہنے لگا آپ بہت نیک انسان ہیں.(الوفاء )38 معلوم ہوتا ہے وہ شخص فاقہ سے تھا کہ سیر ہو کر صدق دل سے شکر یہ ادا کیا.اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور بے تکلفی کی بیداد اتنی پسند آئی کہ بے اختیار آپ کی تعریف کرنے لگا.غیروں کا اعتراف الغرض غیروں نے بھی آپ کی سادگی پر رشک کرتے ہوئے صدق دل سے اس کا اعتراف کیا ہے.سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ نے نبی کریم کی سادگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:.
اسوہ انسان کامل 576 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت "Muhammad himself always lived a simple and frugal life, even when he became the most powerful sayyid in Arabia.He hated luxury and there was often nothing to eat in his household.He never had more than one set of clothes at a time and when some of his Companions urged him to wear a richer cermonial dress, he always refused, preferring the thick, coarse cloth worn by most of the people.When he received gifts or booty, he gave it away to the poor and, like Jesus, he used to tell the Muslims that the poor would enter the Kingdom of Heaven before the rich." محمد نے اپنی ذات میں ایک نہایت سادہ اور قناعت والی زندگی گزاری.اس وقت بھی جب آپ عرب کے طاقتور سردار بن گئے.آپ آسائش پسند نہ تھے.اکثر آپ کے گھر میں کھانے کو کچھ نہ ہوتا تھا.پہننے کے لئے آپ کے پاس بیک وقت کپڑوں کا ایک جوڑا ہوتا تھا اور جب آپ کے اصحاب نے کوئی امیرانہ لباس پہنے کی درخواست کی تو آپ نے قبول نہیں فرمائی بلکہ موٹے کھردرے کپڑے جو عام لوگ پہنتے تھے پسند فرمائے.جب آپ کے پاس تحائف یا مال غنیمت آتا تو آپ اسے غربا میں تقسیم فرما دیتے اور مسیح کی طرح آپ مسلمانوں کو بتایا کرتے کہ غریب امیر سے پہلے آسمان کی حکومت میں داخل ہوں گے.“ ( آرمسٹرانگ ( 3 39 قناعت کے اس خوبصورت نمونہ کے باوجو درسول کریم یہ دعا کیا کرتے تھے.”اے اللہ ! جو تو نے مجھے عطا کیا ہے اُس پر مجھے قانع کر دے اور اس میں میرے لئے برکت ڈال دے اور جو چیز مجھے حاصل نہیں اُس میں میرے لئے بہتر قائمقامی فرما.(حاکم) 40 لین پول رسول اللہ کی سادگی کے بارہ میں یہ شہادت دیتا ہے.اخلاق و عادات میں وہ حد درجہ سادہ تھے.البتہ اپنے معمولات میں وہ بہت محتاط تھے.ان کا کھانا پینا ، ان کا لباس اور فرنیچر وغیرہ وہی معمولی درجہ کا تھا اور ہمیشہ وہی رہا جب کہ وہ اپنی طاقت و حکومت کی معراج تک پہنچے...وہ بیماروں کی عیادت کرتے ، کوئی جنازہ ملتا تو پیچھے چلتے ، غلام کی دعوت کو بھی قبول کر لیتے ، اپنے کپڑوں کی مرمت خود کر لیتے ، بکریوں کا دودھ خود د وہ لیتے اور دوسروں کا ہمہ تن انتظار کر لیتے وہ اپنی ازواج کے ساتھ ایک قطار میں بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے معمولی مکانوں میں رہتے تھے وہ آگ خود جلا لیتے ، فرش پر جھاڑو دے لیتے تھوڑا بہت کھانا جو کچھ بھی گھر میں موجود ہوتا، اس میں وہ لوگ ہمیشہ شریک ہوتے جو وہاں موجود ہوتے ، ان کے گھر کے باہر ایک چھپر (صفہ ) تھا جہاں ایسے متعدد غریب افراد موجود رہتے جن کی گزر بس کا تمام تر انحصار آپ ﷺ کی فیاضی پر منحصر تھا.(پول) 41
اسوہ انسان کامل 577 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت ڈیون پورٹ رسول اللہ کی سادگی کے متعلق لکھتا ہے :.یہ بات ان کی زندگی کے ہر واقعہ سے ثابت ہے کہ ان کی زندگی اغراض و مفاد پرستی سے کلیتہ خالی تھی.مزید یہ کہ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اپنی نگاہوں کے سامنے دین کے مکمل قیام و استحکام اور لامحدود اختیارات حاصل ہو جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی ذات اور انا کی تسکین کا کوئی سامان بہم نہیں پہنچایا بلکہ آخر وقت تک اُسی سادہ طرز و انداز کو برقرار رکھا جو اول دن سے اُن کے بود و باش سے نمایاں تھا.“ ( پورٹ )42 1 2 3 4 5 6 7 8 9 حواله جات بخارى (15) كتاب الجماعة و الامامة باب16 بخاری(30) كتاب الزكاة باب 68 الدر المنثور للسيوطى جلد 1 ص361 مسند احمد جلد 2 ص 254 بيروت ترمذی(37) كتاب الزهد باب 34 بخاری(84) كتاب الرقاق باب 17 الشمائل المحمديه ص171 بخاری(9) کتاب الصلوة باب 13 بخاری(80) كتاب اللباس باب18 10 بخاریى (68) كتاب التفسير سورة التحريم باب 387 11 مسند احمد جلد 3 ص139 و مجمع الزوائد لهيثمي جلد10ص586 12 ترمذی(37) كتاب الزهد باب 35 13 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 17 14 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 50 15 ابن ماجه (29) کتاب الاقتصاد باب 49 16 الوفالابن جوزی جلد 1 ص 343 17 مسلم (56) كتاب الزهد والرقاق باب 1 18 مسند احمد بن حنبل جلد 3 ص213
اسوہ انسان کامل 19 ترمذی(37) كتاب الزهد باب 39 578 20 ابن ماجه (27) كتاب الزهد باب 10 21 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمه باب 44 22 ابن ماجه (29) كتاب الاطعمة باب 30 23 ابو داؤد (22) كتاب الايمان باب 10 24 ابوداؤد (28) کتاب الاطعمه باب 18 25 ابوداؤد (1) كتاب الطهارة باب 75 26 ابن ماجه (29) كتاب الاطعمة باب 19 27 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمة باب 49 28 مسند احمد جلد 1 ص 106 29 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 139 30 ابن ماجه (25) کتاب المناسك باب 4 31 ابن ماجه (25) کتاب المناسك باب 52 32 مسند احمد جلد 3 ص 123 مطبوعه بيروت 33 ابن ماجه (30) کتاب الاشربه باب 25 34 بخاری (67) کتاب المغازی باب 15 35 ابن ماجه (29) کتاب الاطعمه باب 23 36 مسنداحمد جلد 6 ص 438 37 ابن ماجه (31) كتاب الطب باب 7 38 الوفاء باحوال المصطفى لابن الجوزى ص282 مطبوعه بيروت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی اور قناعت Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong p-93 39 40 مستدرك حاكم جلد 2 صفحه 388 Lane Poole, Stainley.The speeches and Table talk of the 41 بحوالہ نقوش رسول نمبر ص 29546-27.Prophet Muhammad.London 1882 p Devenport, John, Apology for Mohammad and the Quran 42 London(1889) Repprint Lahore 1975 Chap.3 p.133-34 بحوالہ نقوش رسول نمبرص 547
اسوہ انسان کامل 579 رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ للعالمین کا عظیم خطاب دے کر بھیجا گیا.بلاشبہ آپ تمام جہانوں کیلئے سراپا رحمت تھے.آپ اس وحشی قوم میں مبعوث ہوئے جو جانوروں سے بھی بدتر تھی.مگر آپ نے انہیں ایسا با خدا انسان بنادیا کہ وہ انسان تو انسان جانوروں کے ساتھ بھی رحمت اور شفقت سے پیش آنے لگے.یہ نتیجہ تھا نبی کریم کے فیض صحبت اور تربیت کا.آپ نے ان کے دلوں میں انسانوں کی محبت کا جذبہ بھی پیدا کیا اور حیوانوں سے پیار کرنا بھی سکھایا.جانوروں پر رحم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ کو یہ قصہ سنایا کہ ایک شخص پیدل جار ہا تھا.اسے سخت پیاس محسوس ہوئی.اس نے پانی کا کنواں دیکھا اور اس سے پانی پیا.وہاں پر ایک کتا پیاس سے بے تاب گیلی مٹی چاٹ رہا تھا.اس نے سوچا کہ اسے بھی میری طرح شدید پیاس لگی ہوگی.وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے جوتے میں پانی بھر کر، اسے اپنے منہ سے پکڑ کر باہر آیا اور کتے کو پانی پلایا.اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیکی کی قدر کی اور اسے بخش دیا.صحابہ نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہمیں جانوروں کی وجہ سے بھی اجر ملے گا.آپ نے فرمایا ہاں ہر ذی روح اور جاندار چیز کے ساتھ نیکی اور احسان کا اجر ملتا ہے.“ (ابوداؤد ) 1 دوسری روایت میں ایک کنچنی کا ذکر ہے جس نے شدت پیاس سے بد حال ایک کتا دیکھا جو کنوئیں کے گرد چکر لگا رہا تھا ، وہ اپنا موزہ اتار کر کنوئیں میں اتری اور اس میں پانی لا کر کتے کو پلایا.اس کی اس نیکی کے باعث اللہ نے اسے بخش دیا.( مسلم )2 حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے ساتھ ہم سفر تھے.ایک انصاری عورت کی اونٹنی کچھ اڑ گئی اور رکنے لگی تو اُس نے بد دعا دیتے ہوئے اونٹنی پر لعنت ڈالی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیا.آپ نے فرمایا کہ اب سامان وغیرہ اس اونٹنی سے اتار لو اور اسے خالی چھوڑ دو.کیونکہ اب یہ لعنت والی اونٹنی ہو گئی ہے.اب یہ ہمارے قافلہ کے ساتھ نہ چلے، چنانچہ اس اونٹنی کو چھوڑ دیا گیا.اس طرح آپ نے کس مؤثر اور پر حکمت انداز میں جانوروں کو گالی دینے سے بھی منع فرما دیا.(مسلم (3) عرب لوگ اپنے جانوروں پر نشان لگانے کیلئے ان کے جسم گرم لوہے سے داغا کرتے تھے.نبی کریم ﷺ نے مختلف مواقع پر اونٹ، گدھے وغیرہ کو دیکھا جن کے چہرے یا ناک وغیرہ کو داغا گیا تھا.آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا اور
580 رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت اسوہ انسان کامل فرمایا کہ کاش! یہ لوگ ان جانوروں کو آگ کی اذیت سے بچاتے اور منہ اور گوشت والے حصہ پر گرم لوہے سے نہ داغتے.کیا انہیں احساس ہے کہ اس اذیت کا ان سے بدلہ لیا جائے گا؟ پھر آپ نے سمجھایا کہ اگر ضرور داغنا ہی پڑے تو دُم کے قریب پیٹھ کی ہڈی پر نشان لگایا جا سکتا ہے.تا کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو.( بیشمی )4 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں شرف انسانیت کی خاطر کسی کے چہرے پر مارنے سے منع کیا وہاں جانوروں پر بھی رحم کرتے ہوئے اور ان کے چہرے کی عزت قائم کرتے ہوئے فرمایا کہ جانوروں کے چہرے پر نہ مارا کرو کیونکہ ہر چیز منہ سے تسبیح کرتی ہے.ایک دفعہ آنحضرت عمل کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے جو اپنی سواریوں پر سوار اُن کو روکے ہوئے کھڑے تھے.نبی کریم ﷺ نے ان کو فرمایا کہ سواریوں پر مناسب طریق سے سواری کرو اور اس کے بعد اچھے طریق سے ان کو چھوڑ دیا کرو.بازاروں اور راستوں میں باتیں کرنے کیلئے ان کو کرسیاں بنا کر کھڑے نہ ہو جایا کرو.بعض سواریاں اپنے سوار سے بھی بہتر اور اللہ تعالیٰ کو زیادہ یاد کر نے والی ہوتی ہیں.( ہیمی )5 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانوروں پر رحم کی خاطر سواری پر تین آدمیوں کے اکٹھے سوار ہونے سے منع فرماتے تھے.ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جو لاغر ہو چکا تھا.آپ نے فرمایا ” ان بے زبان جانوروں پر اس حال میں سواری کرو جب یہ صحت مند ہوں اور ان کو صحت کی حالت میں ذبح کر کے کھاؤ.( ہیمی ) 6 عبد اللہ بن جعفر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا اور ایک انصاری کے باغ میں لے گئے.وہاں پر ایک اونٹ نبی کریم کو دیکھ کر بلبلانے لگا اور اس کی آنکھوں سے پانی بہہ نکلا.حضور اس کے پاس آئے اور اس کے منہ پر ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہو گیا.نبی کریم نے پوچھا یہ کس کا اونٹ ہے ؟“ ایک انصاری نوجوان آگے بڑھا اور کہا کہ میرا اونٹ ہے.آپ نے فرمایا کیا اس جانور کے بارے میں تم اللہ کا تقویٰ اختیار نہیں کرتے.جس کا خدا نے تجھے مالک بنایا ہے.اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو.( احمد ) 7 پرندے کی تکلیف کا احساس حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک سفر میں پڑاؤ کیا.ایک شخص نے جا کر ایک چڑیا کے گھونسلے سے انڈے نکال لئے.وہ چڑیا آکر حضور اور آپ کے صحابہ کے سر پر منڈلانے لگی.نبی کریم ﷺ کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے فرمایا کہ اس پرندہ کو کس نے دُکھ پہنچایا ہے؟ ایک شخص نے کہا میں نے اس کے انڈے اُٹھائے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جاؤ اس کے انڈے واپس گھونسلے میں رکھ دو.“ ( احمد )8 دوسری روایت میں چڑیا کے دو بچے اٹھا لینے کا ذکر ہے.آپ نے چڑیا کو سروں پر پھڑ پھڑاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا اس چڑیا کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے دکھ پہنچایا ہے؟ اس کے بچے اسے واپس کر دو.“
581 رحمۃ للعالمین.....جانوروں کیلئے رحمت اسوہ انسان کامل ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چیونٹیوں کا بل دیکھا ، جسے آگ لگائی گئی تھی.آپ نے فرمایا ' اسے کس نے جلایا؟ صحابہ نے بیان کیا کہ ہم نے ایسا کیا ہے.فرمایا کسی کو اللہ کا عذاب دینا مناسب نہیں.‘ (ابوداؤد )9 نبی کریم ﷺ نے جانوروں کو باندھ کر نشانہ بنانے سے بھی منع کیا ہے.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے، جو ایک پرندہ کو باندھ کر اس کے نشانے لے رہے تھے.حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو دیکھ کر وہ ادھر اُدھر منتشر ہو گئے.آپ نے پوچھا کس نے پرندے کو باندھ کر نشانے بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ اس کا برا کرے.اور پھر کہا کہ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں پر لعنت بھیجی ہے جو جانداروں کو نشانہ بناتے ہیں.(مسلم ) 10 حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے شکاری پرندے نیز چیونٹی ، شہد کی مکھی اور ھد ھد کو مارنے سے منع کیا.(ابن ماجہ ) 11 مقصد یہ ہے کہ بے فائدہ کسی جانور کی جان نہ لی جائے.بعض پرندے دیکھنے کو خوبصورت ہوتے ہیں ان کو مارنا مناسب نہیں.نبی کریم جانوروں کو باندھ کر مارنے یا ان کا مثلہ کرنے سے منع فرماتے تھے.(ابن ماجہ )12 جانوروں سے احسان کی تعلیم حضرت ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ بکری کو اس کے کان سے پکڑ کر گھسیٹ رہا تھا.آپ نے فرمایا ” اس کا کان چھوڑ دو اور گردن سے پکڑ لو.“ ( گویا جانور کی تکلیف بھی آپ پر گراں گزری ).(ابن ماجہ ) 13 حضرت شداد بن اوس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہر چیز پر احسان فرض کیا ہے.( یعنی ہر ذی روح پر احسان کرنا انسان کے لئے لازم ہے.پس جب تم کسی کو بطور قصاص کے قتل کرو تو قتل میں بھی احسان کا پہلو اختیار کرو اور جب تم کوئی جانور ذبح کرو تو احسان کا دامن نہ چھوڑو.( ذبح کرنے میں احسان یہ ہے کہ ) چھری تیز کرلو اور ذبح ہونے والے جانور کو اس کے ذریعے آرام پہنچاؤ “ یعنی کند چھری کی وجہ سے جانور کی جان دیر سے نکلے گی اور اُسے تکلیف ہوگی.اس سے بچو.(ابن ماجہ ) 14 حضرت ابولبابہ بدری کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے سفید رنگ کے چھوٹے بے ضرر سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا.( بخاری ) 15 رسول اللہ نے جانوروں کو اذیت پہنچانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی گرفت اور عذاب سے ڈرایا ہے.ایک دفعہ فرمایا کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا جس نے اس کو قید کر دیا تھا.نہ خود اسے کچھ کھانے پینے کو دیا اور نہ ہی اُسے آزاد چھوڑا کہ وہ زمین سے ہی کوئی چیز کھا لیتی.اس وجہ سے وہ عورت آگ میں ڈالی گئی.( مسلم )16
اسوہ انسان کامل 582 رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت سابق عیسائی راہبہ پر و فیسر کیرن آرمسٹرانگ نے نبی کریم کی جانوروں سے محبت کے ذکر میں لکھا:."Over the centuries in the west, we have tended to think of Muhammad as a grim figure, cruel warrior and a callous politician.But he was a man of great kindness and sensibility.He loved animals, for example, and if he saw a cat asleep on his cloak he would not dream of disturbing it.It has been said that one of the tests of a society is its a attitude towards animals.All religions encourage an attitude of love and respect for the natural word, and Muhammad was trying to teach Muslims this.During the Jahiliyah the Arabs had treated animals very cruelly: they used to cut off lumps of flesh to eat while the beasts were still alive and put painful rings round the necks of camels.Muhammad forbade any painful branding or organised animal fights." ترجمہ مغرب میں صدیوں تک ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو نا پسندیدہ شخصیت خیال کرتے رہے ہیں.ایک ظالم جنگجو اور ایک بے رحم سیاستدان.لیکن آپ ایک عظیم ہمدردی اور دوسروں کا احساس رکھنے والے انسان تھے.آپ جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے.مثال کے طور پر اگر آپ نے ایک بلی کو اپنے کپڑے پر سوئے ہوئے پایا تو اسے وہاں سے اٹھانا پسند نہیں کیا.کہا جاتا ہے کہ کسی معاشرے کا ایک امتحان جانوروں کے ساتھ لوگوں کا رویہ ہوتا ہے.تمام مذاہب محبت کے رویے کی حوصلہ افزائی کرتے اور عالم قدرت کی عزت کرتے ہیں.محمد صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو یہی سبق دینا چاہتے تھے.جاہلیت میں عرب جانوروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے.وہ زندہ جانوروں سے کھانے کے لئے گوشت کاٹ لینے سے بھی دریغ نہ کرتے تھے.وہ اونٹوں کی گردنوں میں تکلیف دہ حلقے ڈال دیتے تھے.محمد ﷺ نے جانوروں کو داغنے کے ظالمانہ طریق اور جانوروں کی لڑائیوں سے روک دیا.‘ ( آرمسٹرانگ ) 17
اسوہ انسان کامل 583 1 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 47 4 حواله جات 2 مسلم(40) كتاب السلام باب 41 3 مسلم (46) كتاب البرو الصلة باب 24 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 203 ، 204 بيرود 5 مجمع الزوائد لهيثمي جلد 8 ص 42 مجمع الزوائدلهيثمي جلد8 ص562 بيروت 6 7 مسند احمد جلد 1 ص 204 8 مسند احمد جلد 1 ص404 9 ابوداؤد (15) كتاب الجهاد باب 122 10 مسلم (35) كتاب الصيد باب 12 11 ابن ماجه (28) كتاب الصيد باب 10 12 ابن ماجه (27) كتاب الذبائج باب 10 13 ابن ماجه (27) كتاب الذبائح باب 3 14 ابن ماجه (27) كتاب الذبائح باب3 15 بخاری (63) کتاب بدء الخلق باب 15 16 مسلم (40) كتاب السلام باب40 رحمۃ للعالمین....جانوروں کیلئے رحمت Muhammad A Biography of Prophet by Karen Armstrong p-231 17
اسوہ انسان کامل 584 ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقره: 223) اللہ تعالیٰ تو بہ کر نیوالوں اور پاک صاف رہنے والوں سے محبت کرتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا.(مسلم ) 1 ایمان جس طرح باطنی طہارت اور تقویٰ کا متقاضی ہے اسی طرح ظاہری پاکیزگی اور صفائی کا بھی مطالبہ کرتا ہے.چنانچہ نماز کے لئے وضو کو ضروری قرار دیا جس سے قریباً آدھا غسل ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ اسکے بغیر نماز قبول نہیں ہوتی.(ترندی) 2 وضو کی برکت سے گناہ معاف ہوتے ہیں.پس جس طرح چھال کا کسی پھل کے مغز کی حفاظت کرتا ہے.اسی طرح ظاہری صفائی باطنی طہارت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.ظاہری جسمانی حالتوں کا روح پر بہت اثر ہوتا ہے.وضو کے نتیجہ میں پیدا ہو نیوالی نشاط نماز کی توجہ اور خشوع و خضوع کے لئے نہایت مفید ہے.اس لئے ہر نماز کے وقت باوضو ہونے کے باوجود دوبارہ وضو تازہ کرنے کو باعث ثواب قرار دیا گیا بلکہ نُورٌ عَلیٰ نُور کہا گیا ہے.آداب خلاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضاء حاجت کے آداب بھی سکھائے.حضرت سلمان فارسی کو ایک دفعہ کسی یہودی نے از راه استہزاء طعنہ دیا کہ تمہارا نبی کیسا ہے؟ تمہیں پیشاب پاخانہ کے آداب سکھاتا پھرتا ہے.حضرت سلمان نے اسی بات کو ایک دوسرے انداز میں فخریہ طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہاں رسول اللہ نے ہمیں یہ سب آداب سکھائے ہیں کہ ہم قضائے حاجت کے وقت دایاں ہاتھ صفائی کیلئے استعمال نہ کریں، ہڈی یا گوبر سے استخانہ کریں اور صفائی کیلئے کم از کم تین ڈھیلے استعمال کریں.( ترمذی )3 صفائی کے لئے نبی کریم پانی استعمال کرنا زیادہ پسند فرماتے.آپ نے پاکیزگی اور طہارت کے آداب سکھاتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ پیشاب کرتے ہوئے اس کے چھینٹوں وغیرہ سے بچنا چاہیے اور اس کے لئے بہت سخت تنبیہ فرمائی.ایک دفعہ قبرستان سے گزرتے ہوئے فرمایا کہ فلاں قبر والے کو اس لئے عذاب دیا جارہا ہے کہ وہ پیشاب کرتے وقت کپڑے چھینٹوں وغیرہ سے نہیں بچاتا تھا.( بخاری )4 حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ رسول کریم استنجاء کے وقت تین مرتبہ پانی استعمال فرماتے تھے.استنجاء سے فارغ
اسوہ انسان کامل 585 ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی ہو کر رسول کریم ہاتھ اچھی طرح صاف کرتے اور مٹی یا زمین میں رگڑ کر دھوتے تھے.(ابن ماجہ )5 اہل قیا جو پانی سے استنجاء کرتے تھے ان کی تعریف میں وہ آیت اتری جس میں یہ ذکر ہے کہ ان لوگوں سے خدا محبت کرتا ہے جو پاک صاف رہنے کی کوشش کرتے ہیں.( سورۃ التوبہ: 108) رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے پر اہل قبا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری تعریف کی اور تمہارے لئے اپنی رضا اور محبت کا ذکر کیا ہے.بتاؤ تو سہی تمہاری طہارت کا طریق کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہم رفع حاجت کے بعد صفائی کے لئے محض ڈھیلے یا پتھر پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ پانی ضرور استعمال کرتے ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی تعریف کی ہے.“ ( ترمذی ) 6 وضو اور غسل کے آداب پانی صفائی کے لئے بہترین چیز ہے اسلام نے دن میں پانچ نمازوں کے لئے وضو اور بعض صورتوں میں غسل کے احکام دے کر بہترین صفائی کی بنیا درکھ دی.نبی کریم جس طرح وضو فرماتے تھے اگر آج بھی اس کی مکمل پیروی کی جائے تو علاوہ برکت و ثواب اور طہارت وصفائی کے حصول کے انسان کئی بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکتا ہے.رسول کریم کے وضوء کا طریق یہ تھا کہ پہلے تین مرتبہ ہاتھ دھوتے تھے پھر تین مرتبہ کلی کرتے.تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرتے.پہلے دایاں ہاتھ کہنیوں تک دھوتے پھر بایاں پھر سر پر مسح فرماتے پہلے دایاں پاؤں دھوتے اور پھر بایاں.( بخاری 7 ) اس طرح کے مکمل وضوء سے نصف غسل تو خود بخود ہو جاتا ہے.وضو کرتے ہوئے نبی کریم ریش مبارک کو بھی پانی سے دھوتے اور اندر انگلیاں پھیر کر خلال فرما لیتے تھے تاکہ مٹی وغیرہ سے صفائی ہو جائے.اسی طرح انگلیوں کے اندر جوڑوں اور فاصلوں کی صفائی کرتے.کانوں کی اندر اور باہر سے صفائی فرماتے.(ابوداؤد )8 رسول کریم نہاتے ہوئے پہلے استنجاء کرتے پھر وضوء کرتے.پھر تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے پہلے دائیں پھر بائیں اور پھر سارے جسم پر.اس طرح خوب اچھی طرح جسم صاف کرتے تھے.( بخاری )9 حضرت عائشہ فرماتی ہیں.رسول کریم کو (ہر اچھا ) کام دائیں طرف سے شروع کرنا پسند تھا.جوتا پہلے دایاں پہنتے کنگھی دائیں طرف سے کرتے ، وضو بھی دائیں سے شروع کرتے.غرض کہ ہر کام میں دائیں کو تر جیح دیتے.(اسی طرح نہانے ، بال منڈوانے وغیرہ امور میں ).( بخاری ) 10 صفائی کے لئے آپ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے.نبی کریم کا یہ دستور تھا کہ جن باتوں کی تلقین فرماتے.سب سے پہلے خود اس پر عمل کر کے دکھاتے.چنانچہ اکثر با وضوء رہنے کی کوشش کرتے نسل کا بہت اہتمام فرماتے تھے.جمعہ کے دن خاص طور پر غسل کرتے اور اس کی تلقین فرماتے.
اسوہ انسان کامل صفائی اور خوشبو 586 ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی نبی کریم گھر کی عورتوں کو بھی صاف ستھرا رہنے کی تلقین فرماتے.ایام مخصوصہ کے بعد نہانے کا حکم دیتے.اسی طرح میاں بیوی کے تعلقات کے بعد نہانے کا ارشاد فرماتے اور بڑی پابندی سے اس پر عمل فرماتے.ذاتی جسمانی صفائی پر بھی زور دیتے اور اس کا خاص خیال رکھتے بالخصوص زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرنے ہونچھیں کانٹے اور ناخن کٹوانے کی ہدایت کرتے اور فرماتے کہ چالیس دن سے زیادہ یہ بال اور ناخن بڑھنے نہیں چاہئیں.(بخاری) 11 آپ فرماتے تھے ناخنوں کی میل دیکھ کر مجھے وسوسہ پیدا ہوتا ہے.“ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوشبو بھی استعمال کرتے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں یا یہ اسراف میں داخل نہیں کہ عام کام کاج اور محنت مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے لئے دو صاف ستھرے جوڑے کپڑوں کے بنالے.(ابوداؤد )12 رسول اللہ نے فرمایا کہ دین کی بناء صفائی پر ہے.آپ خود اعلی درجہ کی خوشبو استعمال فرماتے تھے.حضرت انس بیان کرتے تھے کہ میں نے کبھی مشک وغیرہ یا کسی اور چیز کی ایسی خوشبو نہیں سونگھی جو رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے بہتر ہو.حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ میرے گال پر ہاتھ پھیرا تو آپ کے ہاتھ سے میں نے ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو محسوس کی.جیسے وہ ابھی عطار کی صندوقچی سے باہر نکلا ہو.( مسلم ) 13 نبی کریم کے پسینہ سے بھی خوشبو کی مہک آتی تھی.آپ ایک دفعہ حضرت انس بن مالک کے گھر سو گئے.تو انس کی والدہ ام سلیم ( جو آپ کی رضاعی خالہ تھیں) ایک شیشی لے کر آئیں اور اس میں حضور کا پسینہ جمع کرنے لگیں.رسول اللہ نے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگیں کہ ہم یہ پسینہ کے قطرے اپنی خوشبو میں ملا دیں گے تو وہ بہترین خوشبو بن جائے گی.(مسلم) 14 حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم جس راستہ سے گزر جاتے تھے.اگر کوئی پیچھے جاتا تو حضور رات کو اپنی مخصوص خوشبو کی وجہ سے پہنچانے جاتے تھے اور پتہ چل جاتا تھا کہ ابھی حضور یہاں سے گزر کر گئے ہیں.( دارمی ) 15 دانتوں کی صفائی پر بہت زور دیتے.فرماتے کہ اگر میں اُمت پر گراں خیال نہ کرتا تو ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا.( بخاری ) 16 خود کئی مرتبہ دن میں مسواک کرتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ گھر داخل ہوتے ہوئے بھی مسواک کرتے اور باہر جاتے ہوئے بھی.( مسلم ) 17 فرمایا کرتے تھے کہ مسواک منہ کو صاف رکھنے کا آلہ اور اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے.( بخاری ) 18 اپنی آخری بیماری میں حضرت عائشہ کے بھائی عبدالرحمان کو مسواک کرتے دیکھا تو اُسے لینے کے لئے خواہش کے ساتھ دیکھا جسے حضرت عائشہ سمجھ گئیں.انہوں نے بھائی سے مسواک لے کر حضور کو چبا کر دی جو آپ نے استعمال فرمائی.( بخاری )19
اسوہ انسان کامل 587 ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی کھانے پینے وغیرہ میں صفائی رسول کریم ﷺ کھانے پینے میں بھی صفائی کا خیال رکھنے کی ہدایت فرماتے.ارشاد فرماتے کہ ہاتھ صاف کر کے دائیں ہاتھ سے کھانا کھایا جائے.( بخاری ) 20 برتن میں کتا منہ ڈال جائے تو سات مرتبہ دھونے کی ہدایت فرماتے.( مسلم ) 21 طبیعت میں نفاست بہت تھی.گندے رہنے والے جانور کا گوشت پسند نہ تھا.گوہ کا گوشت شاید اسی لئے ناگوار ہوا بلکہ گوہ کے چمڑے میں رکھا ہوا گھی بھی اس کی مخصوص یو کی وجہ سے پسند نہ فرمایا.(ابن ماجہ ) 22 حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ایک دفعہ مسجد کے سامنے کی دیوار پر تھوک پڑا دیکھا.آپ نے خود اپنے ہاتھوں سے گھر چ کر صاف کر دیا.پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ناراضگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ نماز میں انسان قبلہ رخ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کر کے کھڑا ہوتا ہے.ایسے میں سامنے کی طرف ہرگز تھوک نہیں پھینکنا چاہیے.(احمد) 23 سر اور داڑھی کے بالوں کی تزئین رسول کریم نے لباس کی صفائی کے ساتھ سر اور داڑھی کے بالوں کی تزئین و درستی کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.آپ خود با قاعدگی سے اپنے سر کے بال کٹواتے تھے اور داڑھی بھی دائیں اور بائیں سے تر شوایا کرتے تھے.(ترمذی) 24 ایک دفعہ رسول کریم ﷺ مسجد نبوی میں تھے کہ ایک شخص اندر آیا اس کے سر اور داڑھی کے بال پراگندہ تھے.آنحضرت ﷺ نے اسے اشارہ سے فرمایا کہ واپس جاؤ اور سر اور داڑھی کے بال درست کر کے آؤ.وہ شخص تعمیل ارشاد کے بعد واپس آیا.رسول کریم میں نے اسے دیکھ کر فرمایا کیا یہ اب زیادہ اچھا نہیں لگ رہا اور کیا یہ اس سے زیادہ بہتر نہیں کہ تم میں سے ایک شخص پراگندہ بالوں کے ساتھ اس حال میں آئے گویا کہ وہ شیطان ہے (مالک) 25 حضرت جابر بیان کرتے ہیں رسول کریم ہمارے پاس تشریف لائے آپ نے ایک شخص کو دیکھا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے.آپ نے فرمایا کیا اس شخص کواتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ اپنے بال ہی درست کر لیتا.پھر آپ نے ایک اور شخص دیکھا جس نے میلے کچیلے غلیظ کپڑے پہن رکھے تھے.آپ نے فرمایا کیا اس شخص کو کہیں پانی بھی نہیں ملا جس سے یہ کپڑے صاف کر لیتا.(ابوداؤد ) 26 ابو ر صافہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ اور خالہ کے ساتھ رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کی.واپسی پر میری والدہ اور امی کہنے لگیں کہ ایسا نفیس انسان ہم نے آج تک نہیں دیکھا جس کا چہرہ اتنا حسین ،لباس اتنا صاف اور اتنی نرم گفتگو کرنے والا ہو.اس کے منہ سے تو جیسے نور پھوٹتا ہے.( بیٹمی )27 ی تھی ہمارے پاک اور مطہر رسول کی نظافت و نفاست کی اعلیٰ شان !
اسوہ انسان کامل 1 مسلم(3) كتاب الطهارت باب 1 588 حواله جات 2 ترمذی(1) كتاب الطهارت باب 1 ترمذی(1) کتاب الطهارت باب12 4 بخاری(81) کتاب الادب باب 49 5 ابن ماجه (1) كتاب الطهارة باب 28 باب 29 6 ترمذی(48) ابواب تفسير القرآن سورة التوبه باب 10 بخاری (36) كتاب الصوم باب 27 8 ابوداؤد (1) كتاب الطهارت باب 50 9 بخاری(5) كتاب الغسل باب 1 10 بخاری(4) كتاب الوضوء باب30 11 بخاری(80) کتاب اللباس باب 61 12 ابوداؤد (2) کتاب الصلاة باب 221 13 مسلم (44) کتاب الفضائل باب 21 14 مسلم(44) كتاب الفضائل باب 22 15 سنن الدرامي جلد 1 ص 34 16 بخاری (17) كتاب الجمعه باب 7 17 مسلم(3) كتاب الطهارة باب 15 18 بخاری (36) كتاب الصوم باب 27 19 بخاری (67) كتاب المغازى باب 78 20 بخاری (73) كتاب الاطعمة باب 1 21 مسلم (3) كتاب الطهارة باب 27 22 ابن ماجه (28) كتاب الصيد باب 16 23 مسند احمد جلد 2ص 141 مطبوعه مصر 24 ترمذی(25) کتاب الاستيذان باب 5 25 مؤطا امام مالك كتاب الجامع باب اصلاح الشعر 26 ابوداؤد(33) كتاب اللباس باب 16 27 مجمع الزوائد لهيثمي جلد8ص 497 ہمارے مطہر رسول کی طہارت و پاکیزگی
اسوہ انسان کامل 589 رسول کریم کی حیاداری رسول کریم کی حیاداری حیاء کے معنی ملامت کے ڈر سے برائیوں سے بچنے کے ہیں.اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ ہر قسم کے عیب سے منزہ ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کیلئے صفت حیاء کا مطلب یہ ہوگا کہ قبائح سے پاک اور محاسن کا فاعل.حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی بڑا حیادار اور کریم ہے جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتا ہے تو اسے خالی واپس لوٹاتے وہ شرم محسوس کرتا ہے جب تک وہ اسے کوئی خیر یا بھلائی عطا نہ کر دے.(ترمذی) 1 حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس طرح حیاء کرو جو حیاء کا حق ہے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہم حیاء کرتے ہیں اور تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.آپ نے فرمایا محض اللہ کی حمد کرنا حیاء نہیں ہے.اصل حیاء یہ ہے کہ اپنے سر اور اس کے جملہ اعضا یعنی آنکھوں اور کانوں کی حفاظت کرو اور پیٹ اور اس پر مشتمل اعضاء کی مکمل حفاظت کرو اور موت کو ہمیشہ یادرکھو اور جو آخرت چاہتا ہے وہ دنیا کی زینت چھوڑ دیتا ہے جو شخص ایسا کرے اس نے اللہ سے حیاء کا حق ادا کیا.(ترمذی)2 ایک دفعہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی خاص نصیحت فرمائیں.آپ نے فرمایا اللہ سے کم از کم اس طرح حیاء کرو جس طرح اپنی قوم کے کسی نیک آدمی سے حیاء کرتے ہو.( بیشمی ) 3 رسول کریم نے یہ بھی فرمایا کہ ہر دین کے کوئی اخلاق ہوتے ہیں.اسلام کا خلق حیاء ہے.(ابن ماجہ )4 حضرت حکم اپنے باپ سے اور وہ دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم سے سوال کیا کہ جسم کے کتنے حصہ کا پردہ ضروری ہے.آپ نے فرمایا اپنی شرمگاہ کی حفاظت اور پردہ کرو.سوائے اس کے جائز محل یعنی بیوی کے.میرے دادا نے پوچھا کہ کیا ایک شخص اپنے ساتھی مرد سے بھی یہ پردہ کرے؟ فرمایا ہاں اگر مکن ہوتو یہی مناسب ہے کہ شرمگاہ کو کوئی دوسرا نہ دیکھے.انہوں نے پھر پوچھا کہ جب آدمی اکیلا ہو تو پھر بھی یہ پردہ ضروری ہے فرمایا ہاں اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے حیاء کی جائے.( نر مندی) 5 رسول کریم فرماتے تھے کہ بے حیائی جس چیز میں ہوا سے بد زیب بنا دیتی ہے اور حیاء جس چیز میں ہوا سے حسین اور خوبصورت کر دیتا ہے.(ترمذی) 6 رسول اللہ اللہ کا خلق حیاء حیاء کی غیر معمولی صفت بچپن سے ہی رسول اللہ کو غیر معمولی طور پر ودیعت تھی اور اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ آپ کی خاص حفاظت فرما تا رہا.رسول کریم اپنے بچپن کا یہ واقعہ خود بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم بچے کھیلتے ہوئے پتھر
اسوہ انسان کامل 590 رسول کریم کی حیاداری اُٹھا رہے تھے ہر ایک اپنا تہبند اتار کر کندھے پر رکھ کر پتھر ڈھورہا تھا.میں نے بھی ایسا کیا تو کسی نے مجھے پیچھے سے ہاتھ مار کر کہا کہ اپنا تہبند باندھ لو.چنانچہ میں نے چادر پہن لی اور کندھے پر پتھر اٹھاتا رہا.میرے ساتھیوں میں سے صرف میں نے نہ بند باندھ رکھا تھا.(ابن ہشام) 7 حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ جب ابوطالب نے زمزم کے کنویں کی مرمت کی ، نبی کریم کم سن تھے.آپ بھی مدد کے لئے آئے اور اپنی چادر اتار کر کندھے پر رکھ لی اور پتھر اٹھا کر لانے لگے کہ اچانک آپ پر غشی طاری ہوگئی کسی نے ابوطالب کو خبر کی انہوں نے آکر پوچھا تو آپ نے بتایا ایک سفید کپڑوں والا شخص آیا اور اس نے مجھے کہا کہ اپناستر ڈھانکو.حضرت ابن عباس کہتے تھے یہ رسول اللہ کا پہلا الہام تھا کہ شرمگاہ کا پردہ کریں.اس کے بعد کبھی آپ کو بغیر کپڑے پہنے نہیں دیکھا گیا.(حاکم)8 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کی جڑ تو صفات الہیہ میں ہی تھی اور اللہ تعالیٰ کی صفت حیاء بھی آپ کے اندر بدرجہ اتم پائی جاتی تھی.قرآن شریف میں آپ کی صفت حیاء کا ذکر ایک پاکیزہ خلق کے طور پر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ خودمومنوں کو نبی سے ملاقات کے وہ آداب تعلیم فرماتا ہے جن کو سکھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حیاء اور لحاظ مانع ہوتا تھا، مگر اللہ کے حکم سے آپ کو یہ کہنا پڑا کہ اے مومنو! نبی کے گھر میں داخل نہ ہوا کر وسوائے اس کے کہ تمہیں کھانے وغیرہ کے لئے بلایا جائے.تم کھانے کے انتظار میں زیادہ دیر نہ ٹھہرے رہا کرو بلکہ جب تم کو بلایا جائے تو آجاؤ، اور جب کھانا کھالو تو پھر منتشر ہو جاؤ اور لمبی باتیں شروع نہ کر دیا کرو.یہ بات نبی کو تکلیف دیتی ہے مگر وہ (خود) تم سے حیاء ( کرتے ہوئے اظہار نہیں کرتا.مگر اللہ تو حق بیان کرنے سے رکتا نہیں.“ (سورۃ الاحزاب: 54) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاء کی بہت برکات بیان کی ہیں.ایک دفعہ آپ نے آداب مجلس بیان کرتے ہوئے ذکر فر مایا کہ تین آدمی ایک مجلس میں آئے اور رسول اللہ کی باتیں سننے لگے، ایک تو واپس چلا گیا.باقی دو میں سے ایک آگے جا بیٹھا، دوسرے نے مجلس میں جہاں خالی جگہ پائی بیٹھ گیا.اسے حیاء آئی کہ لوگوں کو پھلانگتا ہوا آگے بڑھے.خدا تعالیٰ نے بھی اس سے حیاء کا سلوک کیا اور اسے بخش دیا.( بخاری ) 9 ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گزشتہ نبیوں کے کلام میں سے یہ بھی ہے کہ جب تمہیں حیاء نہیں تو پھر جو چاہو کرو.( بخاری ) 10 نیز آپ فرماتے تھے کہ حیاء کا نتیجہ لازما خیر و بھلائی ہی ہوتا ہے.خود آپ کی ذات حیاء کا بہترین نمونہ تھی آپ کنواری لڑکیوں سے بھی بڑھ کر حیادار تھے.کوئی چیز آپ کو نا پسند ہوتی تو چہرے کے تغیر سے اس کا پتہ چل جاتا تھا.(مسلم )11 آداب حیاء حضرت بلال بن حارث بیان کرتے تھے کہ رسول کریم جب قضائے حاجت کے لئے تشریف لے جاتے تو بہت دور نکل جاتے تھے.(ابن ماجہ ) 12 اسی طرح قضائے حاجت کے وقت نبی کریم اپنا تہ بند اس وقت تک اوپر نہیں
اسوہ انسان کامل 591 رسول کریم کی حیاداری 16 اٹھاتے تھے جب تک زمین کے قریب نہ ہو جائیں.(ترمذی) 13 حضرت عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم اپنے حجروں کے اندر پردے میں اس طرح غسل فرماتے تھے کہ کبھی کسی نے آپ کو ننگے بدن نہیں دیکھا.(بیشمی ) 14 میاں بیوی کے انتہائی قربت کے تعلقات کے باوجود حضرت عائشہ کی اس روایت سے رسول کریم کے حیاء کی شان معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے کبھی رسول کریم کی شرمگاہ نہیں دیکھی.(ابن ماجہ ) 15 ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو اس کے شہر میلے پن کی وجہ سے سرزنش کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم تو اتنا شر ماتے ہو کہ اس میں اپنا نقصان کر بیٹھتے ہو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ٹو کا اور فرمایا اسے کچھ نہ کہو.حیاء سے منع نہ کرو کیونکہ حیاء ایمان کا حصہ ہے.(بخاری) شرع میں شرم نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حصول علم دین اور شرع کی باتوں میں یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ حیاء کی وجہ سے کوئی روک پیدا ہو.حضرت عائشہ مدینہ کی مسلمان خواتین کی تعریف فرماتی تھیں کہ انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں.حیاء انہیں مسائل دین سیکھنے میں مانع نہیں ہوتا.( بخاری ) 17 ایک دفعہ رسول اللہ نے اپنی مجلس میں سوال کیا کہ وہ کون سا درخت ہے جس سے مومن کی مثال دی جاسکتی ہے اس درخت کی کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی.صحابہ مختلف درختوں کے نام لینے لگے.حضرت ابن عمر کہتے ہیں مجھے خیال آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے مگر شرم سے کہہ نہ سکا.حضرت عمر نے بعد میں کہا اگر تم بتا دیتے تو مجھے دنیا اور اس میں موجود تمام دولتوں کے مل جانے سے بڑھ کر خوشی ہوتی.( بخاری ) 18 اس حدیث سے ظاہر ہے کہ علم اور حق باتوں میں حیاء مناسب نہیں.حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم بہت حیادار تھے.جب بھی آپ سے کوئی سوال کیا جاتا آپ کچھ نہ کچھ ضرور عطا فرماتے تھے.(حاکم)19 حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ نبی کریم کو جب کسی شخص کے بارے میں کوئی شکایت پہنچتی تو آپ کبھی اسے مخاطب کر کے یہ نہیں فرماتے تھے تم نے یہ یہ کہا ہے.(ابو داؤد ) 20 نبی کریم اپنے حیاء کی وجہ سے کسی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر نہیں دیکھتے تھے اور مجبوراً کسی کی کوئی نا پسندیدہ بات بیان کرنی پڑے تو اشارہ کنایہ میں بیان کر دیتے تھے.(ابن سید ) 21 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم نے ایک آدمی پر زرد رنگ کے نشان دیکھے تو اسے نا پسند کیا مگر خود حیاء کے باعث منع نہ کیا.صحابہ سے فرمایا آپ لوگ اسے سمجھا دو کہ ہاتھوں سے رنگ دھوکر صاف کردے تو مناسب
اسوہ انسان کامل ہے.(ابوداؤد ) 22 592 رسول کریم کی حیاداری الغرض رسول کریم انتہائی باحیاء انسان تھے اور اس پاکیزہ حیاء نے آپ کے اخلاق عالیہ میں ایک بے نظیر حسن پیدا کر دیا تھا.حواله جات 1 ترمذی (49) كتاب الدعوات باب 105 2 ترمذی(38) كتاب صفة القيامة والرقاق والورع باب 24 3 مجمع الزوائدلهيثمي جلد 8 ص 52 4 ابن ماجه (37) كتاب الزهد باب 17 5 ترمذی (44) کتاب الادب باب 22 6 ترمذی (28) کتاب البرو الصلة باب 47 7 السيرة النبويه لابن هشام جلد 1 ص 198 مستدرك حاكم جلد4ص 179 بخاری (3) كتاب العلم باب 8 10 بخاری(81) كتاب الادب باب 78 11 مسلم (44) کتاب الفضائل باب 16 12 ابن ماجه (1) کتاب الطهارت باب 22 13 ترمذی ابواب الطهارت باب 10 14 مجمع الزوائدلهيثمي جلد1ص 603 15 ابن ماجه (1) كتاب الطهارت باب 137 16 بخاری(81) كتاب الادب باب 77 17 بخاری(3) كتاب العلم باب 50 18 بخاری(3) كتاب العلم باب 5 19 الوفا جلد 1 ص 317 20 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب6 21 عيون الاثر جلد2ص423 22 ابوداؤد (34) كتاب الترجل باب 8
اسوہ انسان کامل 593 نبی کریم " کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی نبی کریم " کا حُسن مزاح اور بے تکلفی انسان کی کچی خوشی اور خوشحالی اپنے خالق و مالک کے ساتھ ربط و تعلق اور راضی برضاء الہی رہنے میں ہے.خدا سے کامل تعلق پیدا کرنے والوں کو نفس مطمئنہ “ کا مقام عطا ہوتا ہے.ایمانی و عملی استقامت کے نتیجہ میں ایسے لوگ ملائکہ کی یہ تسکین آمیز آواز سنتے ہیں کہ ڈرو نہیں اور خوف نہ کھاؤ بلکہ اُس جنت کی بشارت پاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.(سورۃ حم السجدہ: 31) ان مومنوں کی یہی دنیا جنت بن جاتی ہے اور الہی بشارتوں اور خوشخبریوں کا ایک سلسلہ ان کے ساتھ ہوتا ہے.جس پر انہیں کامل ایمان ہوتا ہے.(سورۃ یونس :63-64) اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور رحم پر وہ بجا طور پر خوش ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے کہ اس پر انہیں خوش ہونا چاہئے.(سورۃ یونس : 59) رسول کریم فرمایا کرتے تھے کہ مومن کا حال بھی عجیب ہے کہ جب اسے کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ بخوشی صبر کرتا اور خدا سے اجر پاتا ہے.اور جب اسے انعام ملے تو شکر کرتا ہے اور اس کا بھی اجر پاتا ہے.گویا مومن ہر حال میں خوش اور راضی برضا ہوتا ہے.اس لحاظ سے کچی خوشی اور خوش طبعی نہ صرف انسان کے صحت مند جسم و ذہن اور اعلی ذوق کی علامت ہے بلکہ اس کے ایمان کی نشانی بھی بن جاتی ہے.ہمارے نبی کریم سے بڑھ کر کون ہے جسے مقام رضا نصیب ہوا ہو.آپ خوش طبع تھے، مسکرانا آپ کی عادت تھی.اپنے صحابہ کو بھی تلقین فرماتے تھے کہ کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے پیش آنے کی نیکی ہو.( مسلم ) 1 صحابہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم سب لوگوں سے بڑھ کر مسکرانے والے اور سب سے زیادہ عمدہ طبیعت کے تھے.حضرت جابر کی روایت ہے کہ رسول کریم پر جب وحی آتی یا جب آپ وعظ فرماتے تو آپ ایک ایسی قوم کے ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب آنے والا ہو مگر آپ کی عمومی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ سب سے زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپ کا ہوتا تھا.( بیشمی )2 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے.(زرقانی) 3 لطیف اور پاکیزہ مزاح آنحضور ﷺ کی حسن مزاح بہت لطیف تھی.آپ صاف ستھرا اور سچامذاق کرتے تھے.فرماتے تھے کہ میں مذاق میں بھی جھوٹ نہیں کہتا.( ترندی) 4 لطیف اور پاکیزہ مزاح اعلیٰ درجہ کی ذہانت کا متقاضی ہوتا ہے.رسول اللہ ﷺ کو اس
594 نبی کریم " کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی اسوہ انسان کامل لحاظ سے بھی غیر معمولی فراست عطا ہوئی تھی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ بہت مزاح کرتے تھے.اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سے مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا.(سیوطی ( 5 رسول کریم کے مزاج میں سیوست یا خشکی ہرگز نہیں تھی آپ شگفتہ مذاق پسند فرماتے تھے.صحابہ رسول بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ہماری مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ،کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم ہنسی خوشی بیٹھے ہوں اور آپ نے کوئی مایوسی یا غم والی بات کر دی ہو.آپ ہمارے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے اور خوش ہوتے تھے ، لطیفے وغیرہ سنتے اور سناتے تھے.(مسلم)6 حضرت جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کے ساتھ سو سے زیادہ مجالس میں فیض صحبت پایا.آپ کے اصحاب آپ کے سامنے اعلیٰ اشعار اور دور جاہلیت کی دیگر متفرق باتیں بیان کرتے.رسول اللہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتے اور بسا اوقات آپ بھی تبسم فرماتے.(ترمذی) 7 حضرت زید بن ثابت بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ کی مجالس میں جب ہم دنیا داری کی باتوں کا ذکر کرتے تو آپ ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوتے.جب ہم کھانے وغیرہ کی باتیں کرتے تو اس میں بھی حصہ لیتے.( بیھقی ) 8 حضرت عبداللہ بن عباس سے کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ کیسا مذاق کرتے تھے ؟ انہوں نے جوابا یہ مثال دی کہ مثلاً ایک دفعہ ایک زوجہ محترمہ کو ایک کپڑا اوڑھا کر فرمایا اللہ کی حمد و ثناء کرو اور دلہنوں کی طرح اپنا دامن گھسیٹ کر چلو.(کنز ) 9 رسول کریم کے مزاح کا ایک اچھوتا اسلوب یہ تھا کہ کسی روز مرہ بات کو ایسے ہلکے پھلکے انداز میں پیش کرتے کہ مزاح کی کیفیت پیدا ہو جاتی.مثلاً ہر شخص کے دوکان ہی تو ہوتے ہیں.رسول اللہ کا پیار سے اپنے خادم انس" کو یوں پکارنا کہ اے دوکانوں والے ذرا ادھر تو آنا.کیسا مزاح پیدا کر دیتا ہے.(ترمندی ) 10 اس مزاح میں یہ لطیف فلسفہ بھی تھا کہ اطاعت شعار انس رسول اللہ کے ارشاد پر کان لگائے رکھتے تھے.اسی طرح ایک مرتبہ لمبے قد کے آدمی کو ذوالیدین یعنی لمبے ہاتھوں والا کہہ کر یا فرمایا.ایک دفعہ ایک صحابی حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا مجھے سواری کے لئے اونٹنی کی ضرورت ہے.آپ نے فرمایا میرے پاس تو اونٹ کا بچہ ہے.اُس شخص نے عرض کیا.حضور میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا ؟ فرمایا اونٹ بھی تو اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے.پھر ایک اونٹ اس کے حوالے کر دیا.(ابوداؤد ) 11 حضرت انس بن مالک خادم رسول بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاح اور بے تکلفی کی باتیں کرتے تھے.(بیہقی )12 حضرت سفینہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم کے ساتھ ایک سفر میں شریک تھے، جب بھی ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپنا سامان تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتا یہاں تک کہ میرے پاس بہت سا سامان جمع ہو گیا.نبی کریم نے جو یہ سب دیکھ رہے تھے فرمایاتم واقعی سفینہ (یعنی کشتی ) ہو.(احمد) 13 جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے.
اسوہ انسان کامل 595 نبی کریم " کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی ایک دفعہ ایک بڑھیا عورت ملنے آئی.آپ نے فرمایا بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہ ہوں گی وہ رونے لگی.آپ نے فرمایا بی بی آپ جوان ہو کر جنت میں جاؤ گی، یعنی وہاں بڑھا پا نہیں ہوگا.اس پر وہ خوش ہوگئی.آپ نے اپنی بات کی تائید میں سورۃ الواقعہ کی آیت بھی تلاوت فرمائی کہ ہم نے جنت کی عورتوں کونو عمر اور کنواریاں بنایا ہے.(ترمذی)14 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عام گفتگو میں بھی توجہ اور سرعت فہم کے نتیجہ میں مزاح کا نکتہ پیدا کرلیا کرتے تھے.ابورمہؓ اپنے والد کے ساتھ رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور نے از راہ تعارف ان کے والد سے پوچھا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ حضور کا زور یہ" پر تھا انہوں نے اپنی سادگی میں سمجھا کہ پوچھ رہے ہیں واقعی تمہارا ہی بیٹا ہے.نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے.رب کعبہ کی قسم یہ میرا ہی بیٹا ہے.حضور معاملہ سمجھ گئے مگر ان کے اصرار پر از را تفتن فرمایا واقعی پکی بات ہے؟ وہ اس پر اور سنجیدہ ہو کر کہنے لگے حضور میں پختہ قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا ہی بیٹا ہے.رسول کریم یہ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور ہنستے مسکراتے رہے.خصوصاً ابور مٹہ کے باپ کی قسمیں کھانے کی وجہ سے حضور بہت محظوظ ہوئے، کیونکہ بچے کی شباہت والد سے اتنی ملتی تھی کہ اس کے نسب میں کسی شبہ کا احتمال نہ ہو سکتا تھا.(ابوداؤد )15 بچوں سے مزاح رسول کریم بچوں سے بھی از راہ شفقت مذاق کرتے اور انہیں اپنے ساتھ مانوس رکھتے تھے.اپنے ایک خادم انس کے ہاں گئے ، ان کے چھوٹے بھائی کو اداس دیکھ کر سبب پوچھا تو پتہ چلا کہ اس کی پالتو مینا مرگئی ہے.آپ اس کے گھر جاتے تو اُسے محبت سے چھیڑتے اور کنیت سے یاد فرما کر کہتے.اے ابو عمیر ( عمیر کے ابا ) تمہاری مینا کا کیا ہوا؟ اس طرح بچوں سے پیار بھرے مزاح سے باتیں کرتے تھے.حضرت محمود بن ربیع نے کم سنی میں حضور کے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یا درکھی.وہ فرماتے تھے کہ میری عمر پانچ سال تھی حضور ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے.ہمارے کنوئیں سے پانی پیا اور بے تکلفی سے میرے ساتھ کھیلتے ہوئے ڈول سے پانی کی کلی میرے اوپر پھینکی.( بخاری )16 ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا کہ میرے والد مجھے رسول اللہ کے پاس لے کر آئے.حضور کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا، کبوتری کے انڈے کے برابر تھا.پرانی کتابوں میں اس نشان کو مہر نبوت کا نام دیا گیا تھا، جو آنحضور کی شناخت کی ایک جسمانی علامت تھی.میں نے قمیص میں سے وہ گوشت کا ٹکڑا دیکھا تو اُس سے کھیلنے لگ گیا.والد نے مجھے ڈانٹ دیا.نبی کریم نے فرمایا بچہ ہے اسے کچھ نہ کہو، کھیلنے دو.اپنے صحابہ میں بھی حضور نے حس مزاح بیدار کر دی تھی.صحابہ جانتے تھے کہ اگر وہ مزاح کے رنگ میں حضور سے بات کریں گے تو حضور خوش ہوں گے ، ناراض نہ ہونگے.حضرت عوف بن مالک کہتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک میں رسول کریم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ چھڑے کے ایک
596 اسوہ انسان کامل نبی کریم " کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی چھوٹے سے خیمے میں تھے ، میں نے سلام عرض کیا تو آپ نے فرمایا اندر آ جاؤ.میں نے خیمہ کے چھوٹے سائز پر طنز کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا سارے کا سارا ہی آجاؤں.آپ نے فرمایا ہاں سارے کے سارے ہی آجاؤ.(ابوداؤد ) 17 ایک دفعہ حضرت صہیب رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.حضور کے سامنے کھجور میں اور روٹی پڑی تھی.آپ نے صہیب کو بھی دعوت دی کہ شریک طعام ہوں.صہیب روٹی کی بجائے کھجور زیادہ شوق سے کھانے لگے.رسول کریم نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دکھتی ہے.اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہیے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ میں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھا رہا ہوں.نبی کریم ﷺ اس مزاح سے بہت محظوظ ہوئے اور اس صحابی کی حاضر جوابی پر تبسم فرمانے لگے.(احمد) 18 صلى الله با مقصد مزاح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہلکے پھلکے انداز میں مذاق کے رنگ میں تربیتی امور کی طرف توجہ دلا کر نصیحت فرما دیتے تھے.حضرت خوات بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں میں نے رسول کریم کے ساتھ مرالظہران میں پڑاؤ کیا.اپنے خیمہ سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ عورتیں ایک طرف بیٹھی باتیں کر رہی ہیں.میں خیمہ میں واپس آیا اور اپنی ریشمی پوشاک پہن کر ان عورتوں کے قریب آکر بیٹھ گیا.دریں اثناء رسول اللہ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے.مجھے دیکھا تو فرمانے لگے اے ابوعبد الله ! تم ان عورتوں کے قریب آکر کیوں بیٹھے ہو؟ میں نے رسول اللہ کے رعب سے ڈر کر جلدی میں یہ عذر گھڑ لیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرا اونٹ آوارہ سا ہے، اسے باندھنے کو رسی ڈھونڈتا ہوں.رسول کریم نے اپنی چادر او پر لی اور درختوں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے.وضوء فرما کر واپس آئے تو مجھے چھیڑتے ہوئے فرمانے لگے.ابوعبداللہ ! تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟ خوات دل ہی دل میں سخت نادم تھے.وہ کہتے ہیں ہم نے وہاں سے کوچ کیا رسول کریم ہر پڑاؤ پر مجھے دیکھتے ہی فرماتے.”السلام علیکم.اے ابو عبد الله تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟ خیر خدا خدا کر کے مدینہ پہنچے.اب میں رسول کریم سے آنکھیں بچانے لگا اور رسول اللہ کی مجالس سے بھی کنی کترا جاتا.جب کچھ عرصہ گزر گیا تو ایک روز میں نے مسجد میں تنہائی کا ایک وقت تلاش کر لیا اور نماز پڑھنے لگا.اتنے میں رسول کریم اپنے گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور آ کر نماز پڑھنے لگے.آپ نے دو رکعت نماز مختصری پڑھی اور انتظار میں بیٹھ رہے.میں نے نماز لمبی کر دی کہ شاید حضور گھر تشریف لے جائیں.آپ نے یہ بھانپ کر فرمایا.اے ابوعبدالله ! نماز جتنی مرضی لمبی کر لو.میں بھی آج تمہارے سلام پھیرنے سے پہلے نہیں اٹھونگا.میں نے دل میں سوچا کہ خدا کی قسم ! اب تو مجھے رسول اللہ سے معذرت کر کے بہر حال آپ کو راضی کرنا ہوگا.جونہی میں نے سلام پھیرا.رسول اللہ نے فرمایا.السلام علیکم اے ابو عبد اللہ تمہارے اونٹ کی آوارگی اب کیسی ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے.جب سے میں
اسوہ انسان کامل 597 نبی کریم ” کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی مسلمان ہوا ہوں میرا اونٹ کبھی نہیں بھاگا.رسول اللہ نے فرمایا اللہ تم پر رحم کرے.آپ نے دو یا تین مرتبہ یہ عادی.اس کے بعد آپ نے میرے ساتھ کبھی یہ مذاق نہیں فرمایا.(طبرانی) 19 رسول اللہ کی خوش مزاجی کے بارہ میں ایک دلچسپ روایت جریر بن عبداللہ اسمبلی کی ہے.جو بجیلہ قبیلہ کا وفد لے کر آخری زمانہ 10ھ میں مدینہ آئے اور اسلام قبول کیا تھا.وہ بیان کرتے ہیں کہ قبول اسلام کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسول اللہ نے مجھے دیکھا ہو اور مسکرائے نہ ہوں.انہوں نے رسول اللہ کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ میں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا.رسول اللہ نے ان کے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی.جس کے بعد جریر کبھی گھوڑے سے نہیں گرے.( بخاری ) 20 جریر کو دیکھ کر ہمیشہ مسکرانے کی روایت سے طبعا سوال پیدا ہوتا تھا کہ حضرت جریر کے ساتھ اس امتیازی سلوک کا کیا سبب ہوگا ؟ بیشمی کی ایک تفصیلی روایت میں اس دلچسپ وضاحت نے یہ مسئلہ حل کر دیا.براء بن عازب یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے (ایک روز ) رسول کریم کو فرماتے سنا کہ تمہارے پاس اس رستہ سے یمن کا ایک بہترین شخص آئیگا اس کے چہرہ پر سرداری کے آثار ہیں.اس شخص نے آکر رسول اللہ کو سلام کیا اور ہجرت پر آپ کی بیعت کی.آپ نے اس سے تعارف پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ جریر بن عبداللہ البجلی ہیں.رسول اللہ نے ( ان کی درخواست دعا پر جیسا کہ بخاری میں ہے ) ان کیلئے دعا کرتے ہوئے برکت کے لئے ان پر ہاتھ پھیرنا چاہا اور ان کو اپنے پہلو میں بٹھا کر پہلے سر اور چہرے پر ہاتھ پھیرا.پھر سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا.جزیرا جنبی تھے وہ صورتحال سمجھ نہ پائے.اور یہ خیال کیا کہ رسول اللہ شاید برکت دینے کیلئے ان کے تہ بند میں بھی ہاتھ ڈالیں گے اور وہ شرم کے مارے سمٹ کر کبڑے ہو گئے.( پیشمی ) 21 دوسری روایت میں خود جریر اپنی آمد کا یہ قصہ بیان کر کے کہتے تھے کہ اس کے بعد جب بھی رسول اللہ کی نظر مجھ پر پڑتی آپ مسکرا پڑتے تھے.وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھے اپنی چادر بچھا کر اس پر بٹھایا تھا.اور صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب کسی قوم کا معز بشخص آئے تو اس کی عزت کیا کرو.( بیھقی ) 22 آخر میں ایک ایسے دلچسپ مزاح کا ذکر جسے رسول اللہ کی مجلس میں ایک سال تک سنا کر صحابہ محفوظ ہوتے رہے.حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر رسول اللہ کی وفات سے ایک سال قبل تجارت کے لئے بصری گئے.آپ کے ساتھ نعیمان اور سویٹ بھی تھے.ان دونوں کو غزوہ بدر میں شامل ہونے کی سعادت حاصل تھی.نعیمان کی ڈیوٹی کھانے وغیرہ پر مقررتھی.سویبط بہت مزاحیہ طبیعت کے ( ذہین ) انسان تھے.دوران سفر انہوں نے نعیمان سے کھانا طلب کیا تو وہ کہنے لگے کہ حضرت ابو بکر کام سے واپس آجائیں تو پھر دوں گا.تھوڑی دیر کے بعد ایک قافلہ وہاں سے گزرا.سو یبط ان کو کہنے لگے کہ تم مجھ سے ایک غلام خریدو گے.انہوں نے کہا ضرور خریدیں گے.یہ کہنے لگے بس ایک خامی اس غلام میں ہے کہ وہ تمہیں یہی کہے گا کہ میں آزاد ہوں.غلام نہیں ہوں.اگر تم نے اس کی یہ بات سن کر
598 نبی کریم ” کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی اسوہ انسان کامل مجھے واپس کر دینا ہو تو پھر میں اسے نہیں بیچتا.تم میر اغلام خراب کر کے مجھے نہ لوٹانا.انہوں نے ہر طرح سے تسلی دلائی کہ وہ ضرور یہ غلام خریدیں گے اور دس اونٹوں کے عوض انہوں نے نعیمان کا سودا کر دیا.جب قافلہ کے لوگ نعیمان کو لینے آئے اور اس کے گلے میں پڑکا ڈالا کہ چلو ہمارے ساتھ تو وہ کہنے لگے.یہ تم سے مذاق کر رہا ہے میں تو آزاد ہوں غلام نہیں ہوں.قافلہ والوں نے کہا یہ تو ہمیں پہلے سے پتہ تھا کہ تم یہ کہو گے چنانچہ وہ اسے پکڑ کر لے گئے.(اب سُو یبط نے آرام سے کھانا وغیرہ کھالیا ).حضرت ابوبکر کام سے واپس تشریف لائے تو ان کو اس قصہ کا پتہ چلا ، وہ اس قافلہ کے پیچھے گئے اور انہیں دس اونٹ واپس کر کے نعیمان کو چھڑا کر لے آئے.سفر سے واپس نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور کو یہ قصہ سنایا تو حضور بہت محظوظ ہوئے اور آپ کے صحابہ ایک سال تک یہ واقعہ یاد کر کے ہنستے رہے.(ابن ماجہ ) 23 تفریح کے مواقع معمول کی زندگی میں تفریح کا اہم کردار ہے.اس کے گہرے اثرات انسانی زندگی پر پڑتے ہیں اور انسان تازہ دم ہوکر پھر مصروف عمل ہو جاتا ہے.نبی کریم کی باقاعدہ زندگی میں تفریح کا عنصر بھی نمایاں تھا.رسول کریم کا معمول تھا کہ ہر ہفتہ پیدل مسجد قبا تشریف لے جاتے تھے.گاہے بگاہے اپنے صحابہ کے ساتھ پکنک منانے کا بھی شغل رہتا تھا.حضرت ابوطلحہ کا ایک باغ بیرحاء نامی (مسجد نبوی کے سامنے تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف لے جاتے تھے.تازہ کھجوریں نوش فرماتے.اس کے چشمہ کا ٹھنڈا پانی پیتے اور کچھ وقت وہاں گزار کر خوش ہوتے.( بخاری ) 24 عید وغیرہ کے موقع پر بھی تفریح کے مواقع پیدا کئے جاتے.گھر میں بچیاں ننھے وغیرہ گاتی اور خوشی مناتی تھیں.حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عید کے موقع پر رسول اللہ گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ دولڑکیاں جنگ بعاث کے نغمے گارہی ہیں.آپ بستر پر لیٹ گئے اور رخ دوسری طرف کر لیا.حضرت ابو بکر نے آکر مجھے ڈانٹا اور کہا رسول اللہ کے گھر میں یہ شیطان کا با جا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ان کو خوشی کر لینے دو.ہر قوم کا ایک عید کا دن ہوتا ہے.اور یہ ہمارا عید کا دن ہے.( بخاری ) حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ عید کے موقع پر اہل حبشہ نے مسجد نبوی میں کرتب دکھائے.رسول اللہ نے 25 فرمایا کہ تم بھی دیکھنا چا ہوگی؟ چنانچہ میں آپ کے پیچھے کھڑی ہو کر دیر تک ان کے کرتب دیکھتی رہی.( بخاری ) 26 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم کے مدینہ میں ابتدائی زمانے کے ایک سفر کا ذکر ہے، میں لڑکی سی تھی ، ابھی موٹا پا نہیں آیا تھا.نبی کریم نے قافلہ کے لوگوں سے فرمایا تم آگے چلے جاؤ.پھر مجھے فرمانے لگے آؤ میرے ساتھ دوڑ کا
599 نبی کریم " کا حسنِ مزاح اور بے تکلفی اسوہ انسان کامل مقابلہ کر لو.میں نے آپ سے دوڑ لگائی تو آگے نکل گئی.حضور خاموش رہے (معلوم ہوتا ہے آنحضور نے حضرت عائشہ کی خوشی کی خاطر انہیں آگے نکلنے دیا تبھی کوئی تبصرہ نہیں فرمایا اور خاموشی اختیار کی ).حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعد میں جب میرا جسم کچھ فربہ ہو گیا اور وزن بڑھ گیا ہم ایک اور سفر کے لئے نکلے.رسول اللہ نے پھر قافلہ سے فرمایا کہ آپ لوگ آگے نکل جائیں.پھر مجھے فرمایا آؤ آج پھر دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں.ہم نے دوڑ لگائی اس دفعہ رسول کریم آگے نکل گئے.آپ مسکراتے ہوئے فرمانے لگے لو پہلی دفعہ تمہارے جیتنے کا بدلہ آج اُتر گیا.(احمد) 27 حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک عورت کی شادی ایک انصاری شخص سے ہوئی.نبی کریم ﷺ نے فرمایا.اے عائشہ ! تمہارے پاس کوئی روافق وغیرہ کا سامان نہیں ہے.انصار کو ( ایسے موقع پر ) روفق پسند ہے.( بخاری ) 28 ایک دفعہ ایک عورت نبی کریم کے پاس آئی.حضور نے فرمایا عائشہ تمہیں پتہ ہے ، یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا نہیں ، اے اللہ کے نبی! آپ نے فرمایا.یہ فلاں قبیلے کی مغنیہ ہے.کیا تم اس سے کوئی گانا سننا چاہتی ہو؟ عائشہ نے عرض کیا ، کیوں نہیں، پھر حضرت عائشہؓ نے اس کو ایک طشتری دی ، جسے بجا کر اس نے گانا گایا.جب وہ گا چکی تو نبی کریم نے اس پر تبصرہ فرمایا.اس کے نتھنوں میں شیطان پھونکتا ہے.( احمد )29 اس طرح آپ نے اس کے فن کی داد بھی دے دی اور گانے بجانے سے اپنی طبعی بے رغبتی کا اظہار بھی فرما دیا.الغرض رسول کریم کو غیر معمولی لطیف حس مزاح عطا ہوئی تھی.اور اس بچے اور پاکیزہ مزاح سے آپ نے اپنی ، اپنے اہل خانہ اور صحابہ کی مشکل زندگی کو بھی پُر لطف بنادیا تھا.اللهم صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمّد حواله جات 2 1 مسلم (40) كتاب الاداب باب 12 مجمع الزوائد جلد9ص 17 3 شرح مواهب اللدنيه للزرقاني جلد4ص 253 4 ترمذی (17) كتاب البرو الصلة باب 10 5 جامع الكبير للسيوطى ص142
نبی کریم " کا حسن مزاح اور بے تکلفی اسوہ انسان کامل 6 مسلم (30) کتاب الفضائل باب 11 7 ترمذی(40) كتاب الادب باب12 600 دلائل النبوة للبيهقى جلد 1 ص324 مطبوعه بيروت 9 كنز العمال جلد 4 ص 43 مطبوعه بيروت 10 شمائل الترمذى باب في صفة مزاح رسول الله 11 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 18 12 دلائل النبوة للبيهقى جلد 1 ص 331 بيروت 13 مسند احمد بن حنبل جلد 5ص221 14 شمائل ترمذی باب في صفة مزاح رسول الله 15 ابوداؤد (40) كتاب الديات باب 2 16 بخاری (3) کتاب العلم باب متى 13 17 ابوداؤد (42) كتاب الادب باب 18 18 مسند احمد جلد 4 ص 61 دار الكتاب العربي بيروت 19 معجم الكبير للطبراني جلد4ص243 20 بخاری (81) کتاب الادب باب 17 21 مجمع الزوائدلهيثمي جلد9ص372 22 دلائل النبوة للبيهقى جلد 5 ص 347 23 ابن ماجه (42) کتاب الادب باب 25 24 بخاری (68) كتاب التفسير سورة آل عمران باب لن تنالو البرحتى تنفقوا 25 بخاری (33) کتاب العيدين باب 12 26 بخاری (17) كتاب الصلوة باب 5 27 مسند احمد بن حنبل جلد 6ص 264 28 بخاری (70) كتاب النکاح باب 4 29 مسند احمد جلد 3ص449
اسوہ انسان کامل 601 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت آنحضرت ﷺ کی خدا داد فراست و بصیرت عليه اے کہ خواندی حکمت یونانیاں حکمت ایمانیاں راہم بخواں دنیا میں انسان کو قدم قدم پر امتحان اور مشکلات و مصائب کی کئی تاریکیاں در پیش ہیں.لامذہب دنیا دار تو اس وادی ظلمت کو طے کرنے کے لئے اپنے علم ، تجربہ اور ذہانت کو کام میں لاتے ہیں جو کبھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو کبھی نا کام.لیکن ایک خالص مذہبی انسان کا طرز عمل قدرے مختلف ہوتا ہے.کیونکہ وہ ایک ایسی عالم الغیب اور قادر مطلق ہستی پر یقین رکھتا اور اس سے تعلق کا دم بھرتا ہے جو سراپا نور ( روشنی ) ہونے کے ساتھ ہادی و مجیب بھی ہے.وہ اپنے بندوں کی پکار کا جواب دیتا اور اپنی رضا اور سلامتی کی راہوں کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے.اس لئے اگر دنیا والوں کے نزدیک فراست سے مراد محض انسان کی عقل فطری و جبلی ذہانت اور محنت و تجربہ سے حاصل ہونے والی دانش مندی ہے.تو ایک عارف باللہ اپنے مولیٰ کے عطا کردہ نور معرفت اور اس کے فضل سے حاصل والی بصیرت روحانی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے.جس سے خدا تعالیٰ اس کے دل و دماغ کو منور کر کے کامیابی کی راہیں دکھا دیتا ہے.ورنہ محض عقل تو الہام کی روشنی کے بغیر اندھی ہے.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کی کامیابی کی شرح اہل دنیا کی جبلی ذہانت اور تجرباتی دانش مندی سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں اور ان کے ماننے والوں کی تاریخ اور سیرت اس پر شاہد ناطق ہے.جن میں سر فہرست ہمارے نبی حضرت محمد مصطفی ملے ہیں جن کی ذات میں یہ معجزہ رونما ہوا کہ وہ امی اور ناخواندہ ہو کر ساری دنیا کے معلم کتاب و حکمت بنائے گئے.امی و در علم و حکمت بے نظیر زیں چه باشد، مجتے روشن ترے اسی کامیاب ترین انسان حضرت محمد مصطفی میں اللہ کی نورانی زندگی کے خوبصورت اور دلچسپ واقعات کا مطالعہ یہاں مقصود ہے.غرض یہ کہ اس بزرگ ہستی کے اسوہ حسنہ سے ہم اپنے لئے فراست کے عمدہ نمونے اور سبق تلاش کریں.دراصل فراست و بصیرت سے مراد یہ ہے کہ انسان کسی واقعہ سے پہلے آثار سے ہی اس کو بھانپ لے.یہ ادراک اسے اپنے حواس یعنی آنکھ ، کان یا دل کسی ذریعہ سے بھی حاصل ہو سکتا ہے.جس کے بعد وہ مناسب پیش بندی کر کے ممکنہ نقصان سے بچ سکتا ہے اور متوقع فائدہ حاصل کر سکتا ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے بندوں
602 آنحضرت ﷺ کی خدادادفر است و بصیرت اسوہ انسان کامل حضرت ابراہیم ، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اولی الابصار یعنی صاحب بصیرت کے خطاب سے نوازا ہے.جس میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ پسند ہیں جو بصر اور بصیرت سے اس کے کام اور کلام کو دیکھتے اور پھر اس پر عمل کرتے ہیں.اور یہ خوبی تزکیہ نفس اور باطنی پاکیزگی سے حاصل ہوتی ہے.اہل فراست کی عمدہ مثالیں پیش کرتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے کیا خوب کہا کہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ فراست رکھنے والے تین گزرے ہیں.اول: عزیز مصر: جنہوں نے اپنی بیوی کو حضرت یوسف کے بارہ میں یہ کہا کہ اس کی رہائش کی جگہ باعزت بنانا.امید ہے کہ یہ ڑ کا ہمارے لئے نفع رساں ہوگا یا شاید ہم اسے بیٹا ہی بنالیں“.(سورۃ یوسف:22) دوسرے شعیب کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت موسیٰ" کے بارہ میں اپنے باپ سے کہا کہ اسے ملازم رکھ لیں کیونکہ ملازم وہی بہترین ہے جو مضبوط اور امانت دار ہو“.(القصص: 27) جب اس سے پوچھا گیا کہ تمہیں موسی" کی امانت کا کیسے علم ہوا؟ تو کہنے لگی میں اسے اپنے گھر لے کر آتے ہوئے راستہ بنانے کے لئے آگے چل رہی تھی تو وہ مجھے ( پردہ اور حفاظت کی خاطر ) اپنے پیچھے کر کے خود آگے چلنے لگا.تیسرے فرعون کی بیوی کہ جس نے نوزائیدہ حضرت موسی کو سمندر میں بہتے ہوئے صندوق سے نکال کر اپنے شوہر سے کہا تھا کہ ”یہ میرے اور تمہارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک ہوگا ، اسے قتل نہ کرنا ممکن ہے یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں“.(سورۃ القصص:10) بعض روایات کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک بات یہ بھی کہی تھی کہ حضرت ابو بکر اپنے بعد حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کرنے میں بہت صاحب فراست نکلے.(بیشمی )1 فراست نورانی جہاں تک رسول کریم کی فراست نورانی اور بصیرت روحانی کا تعلق ہے اسکی شہادت تو خود عرش کا خدادیتا ہے کہ آپ نے خدا کے ”نور“ سے وافر حصہ پایا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :.اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو.وہ چراغ شیشہ کے شمع دان میں ہوا اور وہ شیشہ ایسا ہو گویا ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے.وہ ( چراغ ) زیتون کے ایسے مبارک درخت سے روشن کیا گیا ہو جو نہ مشرقی ہو اور نہ مغربی.اس درخت ) کا تیل ایسا ہے کہ قریب کہ وہ از خود بھڑک کر روشن ہو جائے خواہ اسے آگ کا شعلہ نہ چھوا ہو یہ نور علی نور ہے.اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کا دائمی علم رکھنے والا ہے.(سورۃ النور :36) اس قرآنی تمثیل میں یہ خوبصورت مضمون بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی نورانی عقل الہام سے پہلے خود بخود دروشن ہونے پر مستعد تھی اور کئی نور حضرت خاتم الانبیاء میں جمع تھے ان نوروں پر وحی الہی کا نور آسمانی وارد ہوا تو آپ کا وجود مجمع
اسوہ انسان کامل 603 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت الانوار بن گیا.(براہین )2 یہ نور اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان کی برکت سے عطا ہوتا ہے اور نہایت شیر میں ثمرات پیدا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے وہ ان کو اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے“ (سورۃ البقرہ:258) ایک اور مقام پر کفر کو موت اور ایمان کو زندگی سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ "پس کیا وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس کے لئے ایسا نور بنایا جس کے ذریعہ وہ لوگوں میں چلتا ہے.کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جواند ھیروں میں پڑا ہوا ہے ( اور ) ان سے نکلنے والا نہیں.(سورۃ الانعام : 123) پس فراست ایمانی سے مراد وہ آنکھ ہے جو نور الہی سے دیکھتی ہے.اور یہ قوت انسان کی ایمانی طاقت کے مطابق اسے ملتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ مقام ہمارے نبی حضرت محمد میلہ کو عطا ہوا جن کو قرآن میں اول المسلمین کہہ کہ بصیرت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز قرار دیا گیا ہے.فرمایا تو کہ دے یہ میرا راستہ ہے.میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں بصیرت پر قائم ہوں اور وہ ( بھی بصیرت پر ہے ) جس نے میری پیروی کی' (سورۃ یوسف: 109) رسول اللہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے پھر آپ نے سورہ حجر کی آیت 76 تلاوت فرمائی کہ اس میں فراست کی نظر رکھنے والوں کے لئے نشان ہیں.( ترندی) 3 حقیقت یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر یہ فراست ایمانی ہمارے نبی ﷺ کو نصیب تھی پھر حسب مراتب دیگر مومنوں کو.چنانچہ رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے ہوتے ہیں جولوگوں کوغور سے دیکھ کر پہچان لیتے ہیں.(قیمی )4 اللہ تعالیٰ کی طرف کامل طور پر جھکنے اور دعاؤں کے ذریعہ اس سے مدد چاہنے کے نتیجہ میں ایمانی فراست بڑھتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی طرف خالص تو بہ کرتے ہوئے جھکو.بعید نہیں کہ تمہارا رب تم سے تمہاری بُرائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں.جس دن اللہ نبی کو اور ان کو رسوا نہیں کرے گا جو اس کے ساتھ ایمان لائے ان کا نوران کے آگے بھی تیزی سے چلے گا اور ان کے دائیں بھی.وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل کر دے اور ہمیں بخش دے.یقینا تو ہر چیز پر جسے تو چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے“.(سورہ التحریم: 9) ہمارے نبی ﷺ اپنی صبح کا آغاز نماز فجر سے پہلے اس دعا سے کرتے تھے.”اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا کر دے.میری قبر بھی روشن کر دے.میرے سامنے اور پیچھے بھی روشنی ہو.دائیں اور بائیں بھی روشنی ہو ، او پر اور نیچے بھی نور ہو.میری سماعت اور بصارت کو بھی جلا عطا کر.میرے بال اور جلد بھی نورانی کر دے.میرے گوشت اور خون میں
اسوہ انسان کامل 604 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت بھی نور بھر دے.مولیٰ ! میر انور بڑھا دے اور مجھے نور عطا کر دے اور مجھے سراپا نور ہی بنادے.(ترمذی )5 پیشانی کے آثار سے پہچان رسول اللہ کی فراست کی یہ گواہی بھی قرآن شریف میں ہے کہ آپ حاجت مندوں کو ان کے چہرے کے آثار سے پہچان لیتے ہیں (سورۃ البقرہ: 247) آپ نے فرمایا "مسکین وہ نہیں ہوتا جو لوگوں کے گھروں میں جا کر ایک دو لقمے یا کھجوریں مانگتا پھرے بلکہ مسکین وہ ضرورت مند ہے جسے ایسی آسائش میسر نہ ہو جو ا سے سوال سے بے نیاز کر دے مگر وہ لوگوں سے مانگتا نہیں پھرتا.نہ ہی عام لوگوں کو اس کی حالت کا علم ہوتا ہے کہ وہ اس کو صدقہ دے سکیں“.(مسلم )6 ایک دفعہ رسول کریم ﷺ مسجد نبوی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک نادار شخص اندر آیا.آپ نے فرمایا لوگو! صدقہ دو.کچھ لوگوں نے صدقہ دیا.آپ نے اس میں سے دو کپڑے اس مفلوک الحال کو عطا فرمائے اور دوبارہ ارشاد فرمایا کہ لوگو! صدقہ دو تو اس شخص نے اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا آپ نے فرمایا تم نے دیکھا نہیں کہ یہ شخص خستہ حال مسجد میں آیا مجھے امید تھی کہ تم اس کی حالت دیکھ کر صدقہ کرو گے مگر تم نے صدقہ نہ کیا تو مجھے کہنا پڑا کہ صدقہ دو پھر تمہارے صدقہ میں سے میں نے اسے دو کپڑے دیئے اور کہا صدقہ دو تو اس شخص نے ان دو کپڑوں میں سے ایک صدقہ میں دے دیا.اور مجھے اسے ڈانٹ کر کہنا پڑا کہ اپنا کپڑ اواپس لے لو.( احمد )7 اس بصیرت روحانی کا ایک اور شاندار نظارہ حضرت ابو ہریرہ یوں بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ شدت فاقہ سے میرا بُرا حال تھا اور میں نے بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے.میں اس رستے پر بیٹھ گیا جہاں سے لوگ گزرتے تھے.حضرت ابو بکر وہاں سے گزرے تو میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کے بارے میں پوچھا.مقصد یہ تھا کہ وہ مجھے کھلا پلا کر سیر کر دیں.مگر وہ چلے گئے اور ایسا کچھ بھی نہ کیا.پھر میرے پاس سے حضرت عمرؓ گزرے ان سے بھی میں نے اپنی اسی غرض سے قرآن کی ایک آیت کی تفسیر پوچھی.وہ بھی چلے گئے اور میرے لئے کچھ نہ کیا.پھر میرے پاس سے حضرت محمد مصطفی کا گزر ہوا.میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی آپ مجھے دیکھ کر مسکرا دئے.وہ میرے چہرے کے آثار دیکھ کر میرے دل میں جو کچھ تھا اس کی ساری حقیقت جان گئے اور فرمایا ابو ہریرہ ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ ! فرمایا ” میرے ساتھ چلو میں آپ کے پیچھے ہو لیا.آپ اپنے گھر تشریف لے گئے اور مجھے بھی اندر بلالیا.گھر میں آپ نے دودھ کا ایک پیالہ موجود پایا.گھر والوں سے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ انہوں نے بتایا فلاں شخص نے تحفہ بھیجا ہے.آپ نے فرمایا ابو ہریرہ! جاؤ اور مسجد سے اصحاب صفہ کو بلا لاؤ.یہ وہ لوگ تھے جن کا اپنا کوئی گھر بار نہ تھا اور حضور کے تحفے تحائف پر ہی اُن کا گزارہ ہوتا تھا.مجھے یہ بات اچھی نہ لگی کہ اتنا تھوڑا سا دودھ کیسے اصحاب صفہ میں پورا پڑے گا جبکہ اپنی بھوک مٹانے کے لئے اس دودھ کا سب سے زیادہ حقدار میں اپنے آپ کو ہی سمجھتا تھا.مجھے یہ خیال بھی آیا کہ جب وہ لوگ آئیں گے تو حضور مجھے ہی ارشاد فرمائیں کہ میں ان میں دودھ بانٹوں.مجھے امید نہ تھی کہ میرے لئے بھی کچھ دودھ بچ رہے گا.مگر اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کے سوا میرے لئے کوئی چارہ نہ تھا.خیر میں انہیں بلالا یا
605 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اسوہ انسان کامل جب وہ رسول اللہ کے گھر میں بیٹھ چکے تو وہی ہوا جس کا ڈر تھا حضور نے فرمایا لواب ان کو دودھ پلاؤ.میں نے دودھ کا پیالہ لیا اور وہاں موجود ہر شخص کو دودھ پلانے لگا، یہاں تک کہ جب وہ سیر ہو جاتا تو پیالہ مجھے دے دیتا اور میں دوسرے شخص کو پیالہ دے دیتا اور جب وہ سیر ہو جاتا تو پیالہ مجھے واپس دے دیتا.پھر میں تیسرے شخص کو دے دیتا جب وہ سیر ہو جاتا تو پیالہ مجھے دے دیتا.بالآخر میں وہ پیالہ لے کر نبی کریم کے پاس پہنچا.سب لوگ سیر ہو کر دودھ پی چکے تھے.حضور نے پیالہ لے کر اپنے ہاتھ پر رکھا اور مجھے دیکھ کر بسم فرمایا اور کہنے لگے ابو ہریرہ ! اب میں اور تم باقی رہ گئے عرض کیا جی ہاں ! رسول اللہ نے فرمایا اب بیٹھو اور پیو.میں بیٹھ کر پینے لگا آپ نے فرمایا اور پیو.میں نے اور پیا مگر آپ فرما رہے تھے اور پیو.یہاں تک کہ میں نے عرض کیا اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، اب تو میرے اندر دودھ جانے کی کوئی گنجائش نہیں فرمایا پھر لاؤ مجھے دو.میں نے دودھ کا وہ پیالہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا.آپ نے اللہ کی حمد کی اور اسکا نام لے کر باقی ماندہ دودھ نوش فرمالیا.( بخاری )8 اپنے صحابہ کی طبع شناسی قرآن شریف میں رسول اللہ ﷺ کی یہ خصوصیت بھی بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ منافقوں کو ان کے آثار اور لہجہ سے پہچان لیتے ہیں (سورۃ محمد : ۳۱) اس کی بے شمار واقعاتی مثالیں احادیث میں موجود ہیں.حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ایک دفعہ مال تقسیم فرمارہے تھے.آپ نے ایک شخص کو جسے میں مومن یقین کرتا تھا اس میں سے عطا نہیں فرمایا.میں نے اپنے علم کی بنا پر اس کی سفارش کرتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول ﷺ میرے نزدیک تو یہ مومن ہے ، آپ نے فرمایا یا مسلمان؟ یعنی اس سے بھی بڑھ فرمانبرداری اختیار کرنے والا حضرت سعد کی بار بار کی سفارش پر رسول اللہ یہی جواب دیتے رہے اور تیسری بار فر مایا اے سعد! میں ایک شخص کو دیتا ہوں جبکہ اسکے علاوہ کوئی اور مجھے زیادہ پیارا ہوتا ہے.مگر میں اسے فتنہ سے بچانے کے لئے اس ڈر سے دیتا ہوں کہ کہیں اللہ تعالیٰ اسے اوندھے منہ آگ میں نہ گرا دے.( بخاری )9 رسول کریم اپنے بلند مرتبہ صحابہ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کے بارہ میں بھی خوب معرفت رکھتے تھے.آپ کی فراست روحانی نے بھانپ لیا تھا کہ آپ کے بعد حضرت ابو بکر آپ کے جانشین ہوں گے.چنانچہ آپ نے ایک موقع پر حضرت عائشہ سے فرمایا کہ میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر اور اس کے بیٹے کو بلا کر ( خلافت کی ) وصیت کر دوں ، مبادا اعتراض کرنے والا کوئی اعتراض کرے یا خواہش کرنے والا کوئی خواہش کرے.پھر میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ ( ابو بکر کے علاوہ) کسی کو خود ہی رڈ فرمادے گا اور مومن بھی اس کے علاوہ کسی دوسرے شخص کا انکار کر دیں گے.( بخاری )10 یہی وجہ تھی کہ آپ نے اپنی آخری بیماری میں امامت نماز کے لئے حضرت ابو بکر کو ارشاد فرمایا اور باوجود حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ کے اصرار کے کہ حضرت عمر امامت کروائیں آپ نے فرمایا کہ تم یوسف والیاں ہو.ابو بکر کو کہو کہ وہی نماز پڑھائیں، نیز فرمایا کہ جن لوگوں میں ابو بکر موجود ہوں مناسب نہیں کہ کوئی اور ان کو نماز کی
اسوہ انسان کامل 606 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت امامت کرائے“.(ترمذی )11 رسول اللہ کی یہ بصیرت افروز باتیں بظاہر ناموافق حالات میں من وعن اسی طرح پوری ہوئیں ، جس کا اشارةُ اظہار آپ نے قبل از وقت فرما دیا تھا.ایک موقع پر آپ نے حضرت عمر کی روحانی استعدادوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں محدث ( یعنی صاحب الہام ) ہوا کرتے تھے.اور میری امت میں اگر کوئی ان میں سے ہوا تو عمرہ ضرور ہونگے.( بخاری )12 رسول اللہ نے فرمایا کوئی نہیں نہیں گزرا مگر میری امت میں اس کی نظیر موجود ہے، حضرت ابوبکر حضرت ابراہیم کے نظیر ، حضرت عمرؓ حضرت موسی کے نظیر ، حضرت عثمان حضرت ہارون کے نظیر اور حضرت علی میرے نظیر ہیں اور جسے یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت عیسی بن مریم کو دیکھے تو وہ حضرت ابوذر غفاری کو دیکھ لے.(کنز العمال)13 آغاز اسلام میں تبلیغی حکمت عملی رسول اللہ کی ساری زندگی ہی نور الہی کے جلووں سے لبریز ہے.آپ کی سوچیں آپ کے اقدام سب نوار نی معلوم ہوتے ہیں.دعوی نبوت کے بعد آنحضور ﷺ نے پہلی حکمت عملی یہ اختیار کی کہ اسلام کا پیغام مخفی طور پر انفرادی تبلیغ کے ذریعہ مکہ کے شریف النفس اور سمجھدار لوگوں تک پہنچایا جائے.ابتدائی تین سال تک اسی طریق پر عمل رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھول کر پیغام پہنچانے کا حکم ہوا.(سورۃ الحجر : 95) توقع یہ تھی کہ قبیلہ قریش کے چودہ خاندانوں میں سے جو باہم معاہدوں میں بندھے ہوئے تھے ،سب سے پہلے آپ کا قبیلہ بنو ہاشم پیغام اسلام پر توجہ کرے گا.مگر جب قریبی رشتہ داروں کو تبلیغ کا حکم ہوا تو رسول اللہ نے اپنے ان رشتہ داروں کو بڑی حکمت عملی سے دعوت طعام کے ذریعہ پیغام پہنچانے کا اہتمام کیا.جس پر چالیس حاضرین اکٹھے بھی ہوئے مگر آپ کے چھا ابولہب نے کھانے کے بعد بد مزگی پیدا کر کے انہیں منتشر کر دیا اور آپ کا پیغام سنے نہ دیا.اگلی دفعہ آپ نے پھر دعوت کی اور کھانے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کو پیغام پہنچایا.مگر سوائے حضرت علیؓ کے کسی نے ساتھ نہ دیا.بعد میں دیگر قبائل قریش کو وہ صفا پر پیغام پہنچاتے ہوئے گفتگو کا جو انداز آپ نے اختیار فرمایا وہ کمال حزم وبصیرت کا حامل تھا.آپ نے فرمایا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے دامن سے ایک لشکر تم پر حملہ کرنے کو ہے تو کیا تم میری بات کو سچ جانو گے؟ سب نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے پیغام اسلام دے کر عذاب الہی سے ڈرایا.اس کے بعد جب مخالفت کا طوفان بدتمیزی اُٹھا تو حضور ﷺ اور آپ کے اصحاب نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ ایک عرصہ تک مکہ کی گھاٹیوں میں مخفی نماز پڑھتے رہے.(ابن ہشام )14 ابتدائی دور میں مکہ سے حضرت عبد اللہ بن ارقم کا گھر حضور اور آپ کے صحابہ کی خاموش تبلیغی سرگرمیوں کا
607 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اسوہ انسان کامل مرکز بنا.اسی زمانہ میں طفیل بن عمرو دوسی اور ابوذر غفاری نے مخفی طور پر اسلام قبول کیا.(مستدرک )15 جب مخالفت زیادہ ہوگئی تو آپ نے اپنے اصحاب کو کمال دور اندیشی سے یہ مشورہ دیا کہ حبشہ میں ایک عادل بادشاہ ہے وہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا ہم لوگ وہاں ہجرت کر جاؤ.چنانچہ کچھ لوگ حبشہ ہجرت کر گئے.(ابن جوزی )16 مکہ میں پیچھے رہ جانے والے کمزوروں میں خباب اور یاسر کے خاندان کے علاوہ غلاموں اور لونڈیوں کو شدید اذیتوں کا سامنا تھا.رسول اللہ کے لئے سوائے صبر کی تلقین اور دعا کے کوئی چارہ نہ تھا.حضرت بلال کو آپ کی ہی تحریک پر حضرت ابوبکر نے خرید کر آزاد کیا.اس زمانہ میں آپ کی صبر اور مظلومیت اور دعا کی حکمت عملی کا بھی غیر معمولی اثر ہی تھا کہ حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہ نے اسلام قبول کر لیا.شعب ابی طالب مسلمانوں اور بنو ہاشم سے قریش کے تین سالہ معاشی و معاشرتی بائیکاٹ کے دوران رسول اللہ نے غیر معمولی حکمت عملی سے کام لے کر ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا.رسول اللہ کی حفاظت کے لئے روزانہ رات کو آپ کے سونے کی جگہ بدلنی پڑتی تھی.مکہ میں اپنے ہمدردوں اور بہی خواہوں سے رات کے اندھیرے میں رابطے رکھ کر غلہ اور غذائی اشیاء حاصل کی جاتی تھیں.حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد مکہ میں رسول اللہ پر مظالم کا سلسلہ بڑھ گیا تو آپ نے طائف جا کر بنو ثقیف کو اسلام پہنچانا چاہا مگر انہوں نے ظلم و زیادتی سے اس پیغام کو ٹھکرا دیا.اب دوبارہ مکہ میں آکر اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے حضور ﷺ کے لئے کسی با اثر سردار کی پناہ لینی ضروری تھی.اس مقصد کے لئے آپ نے بعض شرفائے مکہ کا انتخاب کر کے انہیں پیغام بھجوایا کہ مجھے اپنے رب کا پیغام پہنچانے کے لئے تمہاری پناہ درکار ہے.دوسر داروں نے تو اپنی کمزوری کا عذر کیا مگر مطعم بن عدی آپ کی امیدوں پر پورا اترا.وہ جرات مند سردار آپ کو اپنے سلح بیٹوں اور بھتیجوں کی معیت میں مکہ لایا.ابوجہل نے اسے دیکھ کر پوچھا کہ کیا آپ نے ان کو پناہ دی ہے؟ مطعم نے کہا ہاں پھر انہوں نے حضور کو اپنی حفاظت میں خانہ کعبہ کا طواف کروایا.حضور نے مطعم کی وفات کے بعد بھی اس کی شرافت اور احسان کو یا درکھا.( تاریخ طبری )17 اس زمانہ میں رسول اللہ نے موسم حج اور عرب کے مشہور میلوں کے موقع پر دعوت اسلام کی تدبیر فرمائی اور ایک ایک قبیلہ کے پاس جاکر ان کے علاقوں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے امان چاہی.اس بابرکت حکمت عملی کے نتیجہ میں بالآخر یثرب سے حج پر آنے والے اوس اور خزرج قبیلہ کے لوگوں سے آپ کا رابطہ ہو گیا اور 12 سال نبوی کو عقبہ اولیٰ میں میٹرب کے 12 افراد کو قبول اسلام کی سعادت عطا ہوئی.آنحضور ﷺ نے ان کے ساتھ اپنے نمائندہ حضرت مصعب بن عمیر کو بھجوا کر وہاں اسلام کے نفوذ کی راہ ہموار کی.جس کی برکت سے اگلے سال حج کے موقع پر 72 افراد نے اسلام قبول کیا.ان وفود سے بھی مکہ کی گھاٹیوں میں رات کی تاریکی میں ملاقاتیں ہوتی تھیں چنانچہ حضرت عباس نے انصار مدینہ کو اس موقع پر مشرکین کے جاسوسوں سے خبر دار کر منہ خطرہ سے بچنے کی تلقین کی تھی.(ابن سعد )18
اسوہ انسان کامل 608 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت میثرب میں اسلام کو ایک مرکز میسر آیا تو رسول اللہ نے مسلمانوں کو مکہ سے وہاں ہجرت کی اجازت عطا فرما دی اور مسلمان قافلے میثرب پہنچنے لگے.باوجود یکہ سب سے زیادہ خطرہ مکہ میں حضور کی ذات کو تھا.مگر آپ نے سب سے آخر میں اس وقت ہجرت کی جب مکہ میں بیمار کمزور یا مجبور ومحبوس کے سوا کوئی باقی نہ رہ گیا.اس دوران حضرت ابو بکر نے آپ سے اجازت ہجرت چاہی تو آپ نے کمال دور اندیشی سے انہیں انتظار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ شاید اللہ تعالیٰ آپ کا ساتھی پیدا کر دے اور پھر جونہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجازت ہوئی تو خود دو پہر کے وقت آپ نے حضرت ابو بکر کے گھر جا کر اطلاع دی.دریں اثناء حضرت ابو بکڑا اپنے خادم رہنمائے سفر سواریوں و زاد راہ سمیت تیار ہو گئے.دوبارہ رات کے وقت حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹانے کے بعد آپ مشرکین کے محاصرہ سے نکل کر حضرت ابوبکر کے گھر پہنچے اور تاریکی میں ان کے بڑے دروازے کی بجائے گھر کی عقبی کھڑکی سے نکل کر غار ثور کو روانہ ہو گئے.الغرض ہجرت مدینہ کے سفر میں قدم قدم پر دعاؤں کے ساتھ حضور کی یہ تدابیر بھی بہت کارگر ثابت ہوئیں.(ابن سعد )19 پھر ہجرت کے سفر میں رسول اللہ نے جو راستہ اختیار فرمایا اس میں بھی انتہائی احتیاط اور بصیرت سے کام لیا کیونکہ آپ کی گرفتاری کے عوض سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں کئی لوگ تعاقب میں تھے.آپ کبھی ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ اس حکمت عملی سے چلے کہ عام راستہ کے متوازی رہ کر سیدھا جانے کی بجائے اس راستہ کو عبور کر کے کبھی دائیں اور کبھی بائیں نکل جاتے.یوں آپ کا یہ سفر مخفی رہا کہ سوائے ایک تعاقب کرنے والے کے کوئی آپ کا سراغ نہ پاسکا.ہجرت کے بعد حضرت عباس کو مکہ میں رکھنے کی حکمت عملی رسول اللہ نے انتہائی بصیرت سے اپنے چچا حضرت عباس کو جو آغاز میں ہی اسلام قبول کر چکے تھے، ملکہ کی مخالفت میں اپنا اسلام مخفی رکھنے اور ہجرت کے وقت پیچھے مکہ ٹھہرنے کی ہدایت فرمائی تا کہ بنو ہاشم کے سپر د بیت اللہ کے حاجیوں کو پانی پلانے اور قیام امن کی بابرکت خدمت سے یہ خاندان محروم نہ ہو.ان کی دوسری اہم ذمہ داری ہجرت مدینہ کے بعد مکہ کے حالات سے رسول اللہ کو مطلع رکھنا تھا.چنانچہ حضرت عباس آپ کو سب احوال لکھ کر بھجوا دیتے تھے.حضرت عباس کے مکہ ٹھہرنے کا تیسرا فائدہ پیچھے رہ جانے والے کمزور مسلمانوں کی مخفی امداد تھی.یہی وجہ ہے کہ جب بھی حضرت عباس نے رسول اللہ سے مدینہ آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے انہیں ارشاد فرمایا کہ آپ کا مکہ میں ٹھہر نا ہی جہاد ہے.بعد میں غزوہ بدر، احد وغیرہ کے موقع پر حضرت عباس کی بر وقت اطلاعات کا مسلمانوں کو بہت فائدہ ہوا.(ابن سعد )20 ہجرت کے بعد مدینہ میں بے شمار مسائل کا سامنا تھا.آپ نے کمال حکمت سے مؤاخات کے نظام کے ذریعہ مہاجرین اور انصار مدینہ کو بھائی بھائی بنا کر مسلمانوں کی ایک تنظیم کردی اور نہایت حکمت سے قرعہ اندازی کے ذریعہ ہر گھر میں دس مہاجرین کے لئے فوری بندوبست فرمایا.انصار مدینہ نے ان سے حقیقی بھائیوں سے بڑھ کر سلوک کیا.( احمد )21 علاوہ ازیں نئی جگہ مہاجرین کے لئے رہائش اور کھانے کے انتظام کے علاوہ ان کی تعلیم وتربیت اور انہیں لکھنا، پڑھنا
اسوہ انسان کامل 609 آنحضرت ﷺ کی خدادادفر است و بصیرت سکھانے اور نمازوں وغیرہ کے لئے تعمیر مساجد کا انتظام کروایا گیا.پھر آپ نے مدینہ اور اس کے ماحول پر توجہ فرمائی اور مدینہ کے یہود اور دیگر غیر مسلموں اور اردگرد کے قبائل سے معاہدات کر کے مسلمانوں کے لئے ایک محفوظ راہ اختیار فرمائی.میثاق مدینہ رسول اللہ کے نہایت فراست مندانہ اقدامات میں سے ایک تھا.میثاق مدینہ اس تحریری معاہدہ کے نتیجہ میں مدینہ اور اس کے ماحول میں موجود غیر مذاہب اور اقوام کے ساتھ منصفانہ برتا ؤ اور حسن سلوک کے علاوہ آزادی مذہب اور قیام امن کے زریں اسلامی اصول کے عملی نمونے واضح ہو کر سامنے آئے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے ہجرت مدینہ کے ابتدائی سالوں میں جب مسلمان اقلیت میں تھے جب کہ وہاں کے باشندوں کی اکثریت یہودیوں اور مشرکین وغیرہ پرمشتمل تھی.منافقین ان کے علاوہ تھے.ان حالات میں وہاں ایک اسلامی ریاست کی بنیا درکھنا بظاہر ناممکن تھا.یہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کی فراست و بصیرت کا کمال تھا کہ ہجرت کے صرف تین ماہ کے اندر آپ نے میثاق مدینہ کے پہلے تحریری دستور کا یہ کام کر دکھایا.جس کا مقصد حصول اقتدار نہیں بلکہ قیام امن تھا.مدینہ کی مسلمان اقلیت کو نہ صرف مکہ سے خطرہ تھا بلکہ مدینہ اور اس کے اردگرد کے تمام غیر مسلموں، یہود اور مشرکین سے وہ معرض خطر میں تھے.اس کا حل آنحضرت ﷺ نے کمال دانشمندی اور حسن تدبر سے میثاق مدینہ کے ذریعہ نکالا.اس سے بھی پہلے آپ نے نہایت دور اندیشی سے اوس و خزرج کے بر سر پیکار قبائل میں سے نومسلم خاندانوں کے بارہ نقیب مقرر فرما کر انہیں مہاجرین کے ساتھ اخوت کے رشتہ میں باندھ کر منظم کر دیا تھا.دور حاضر کے مشہور محقق ڈاکٹر محمدحمید اللہ صاحب نے میثاق مدینہ پر اپنی کتاب ”دنیا کا پہلا تحریری دستور میں اس معاہدہ پر مفصل بحث کی ہے.اس کی سب سے نمایاں خوبی وہ حقوق ہیں جن کا پہلی بار اس میں اعلان کیا گیا.اس معاہدہ نے نہ صرف مدینہ کے متحارب قبائل کے مابین جاری اس جنگ کو ختم کر دیا، جس نے ان کی معاشرت کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا بلکہ اس میں غیر مذاہب خصوصاً یہود اور مشرکین کے ساتھ تمام دیگر قبائل کے مقابل پر امت واحدہ کے طور پر ایک دوسرے کی مدد کا معاہدہ ہوا.اس معاہدہ میں مدینہ منورہ کے نواح میں آباد متعد د قبائل میں سے نسبتاً زیادہ معروف قبیلے بنونضیر، بنو قینقاع اور بنوقریظہ ہی اس معاہدہ میں فریق نہ تھے بلکہ ان کے تمام ذیلی قبائل بھی شامل تھے جن کے نام معاہدہ کے تاریخی متن میں آج بھی محفوظ ہیں.میثاق مدینہ کی اہم شقیں یہ تھیں.1 - المسلمون من قريش و يثرب ومن تبعهم فلحق بهم وجاهد معهم امة واحدة من دون الناس ، قریشی مسلمان ، یثرب کے مسلمان ، ان کی اتباع کرنے والے، ان کے ساتھ الحاق کرنے والے، ان کے
اسوہ انسان کامل 610 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت ہمراہ جہاد کرنے والے دیگر لوگوں کے علاوہ یہ سب ایک امت ہیں.2.کوئی مسلمان یا اس کے اہل و عیال اس وحدت میں فتنہ وفساد اور تفرقہ پیدا نہیں کریں گے.مسلمان کے ہاتھوں اگر کوئی غیر مسلم مارا جائے تو قاتل کو قانون کے مطابق سزادی جائے گی.معاہدہ میں شامل کوئی گروہ خون بہا کی مقررہ حدود میں تخفیف یا ترمیم نہیں کرے گا اس معاہدہ میں کوئی بے جا سفارش نہ چلے گی.4.کسی غیر مسلم کو حق نہ ہوگا کہ کسی مسلمان کو ناحق تکلیف پہنچائے.5.حصول انصاف کی خاطر مسلمان کو یہودی کی مدد میں کوئی روک نہ ہوگی.6.کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے خلاف پناہ نہیں دے گا.نہ ہی کسی غیر مسلم سے حاصل ہونے والے مال کی حفاظت کا ذمہ اٹھائے گا.7.کوئی مسلمان کسی یہودی پر ناحق تہمت نہیں لگائے گا..یہود اور مسلمان باہم خیر خواہی سے رہیں گے.9.فریقین اپنے ہمسائے کی حفاظت کریں گے خواہ اس کا مذہب کوئی بھی ہو.10.کسی بھی فساد اور شرارت کرنے والے کو پناہ نہیں دی جائے گی.جیسا کہ پہلی شق سے ظاہر ہے اس میثاق کا پہلا اہم نکتہ وحدت تھا کہ دین اسلام (جس کی بنیاد تو حید ہے ) عملی طور پر مسلمانوں اور دیگر اقوام کو معاشرتی حقوق میں برابری کی سطح پر امت واحدہ بنانا چاہتا ہے.جس کے نتیجہ میں ہر فرق اور تمیز ختم ہوکر رہ جاتی ہے.وحدت وہ پہلی اساس ہے جو ایک مضبوط ، پر امن اور پاکیزہ معاشرے کی عمارت قائم کرنے کے لئے ضروری ہے.میثاق مدینہ کا دوسرا اور تیرا نکتہ قیام امن، قانون قصاص اور با ہمی کفالت ، ضمانت اور دیت کے نظام کو واضح کرتا ہے.جسکی موجودگی میں ریاست مدینہ کے پُرامن معاشرہ کے قیام اور استحکام میں بہت مدد ملی.میثاق مدینہ کا چوتھا ، پانچواں اور چھٹا نکتہ قیام عدم و انصاف اور نظام مساوات کو ظاہر کرتا ہے ، جو اسلامی معاشرے کا اہم ستون ہے.معاہدہ کی ایک شق یہ بھی تھی کہ ذِمَّةُ اللهِ وَاحِدَةٌ يُجِيرُ عَلَيْهِم أَدْنَا هُمْ یعنی اللَّہ تعالیٰ کا ذمہ ایک ہے، مسلمانوں کا ادنی فرد مرد ہو یا عورت کسی کو پناہ دے دے تو اس کی پابندی سب پر لازم ہوگی.دیگر نکات معاہدہ با ہمی اخوت، غیر مسلم ہمسایوں سے رواداری، ظلم کے خلاف جہاداور عزت کی حفاظت کے آئینہ دار ہیں.الغرض ریاست مدینہ کے آئین میں مذہب رنگ و نسل اور جنس کے کسی امتیاز کے بغیر بنیادی انسانی حقوق کی واضح اور یقینی طور پر ضمانت دی گئی اور جان و مال اور آبرو کے تحفظ میں ریاستی شہریوں میں کوئی امتیاز روانہ رکھا گیا.میثاق مدینہ کے گہرے مطالعہ سے کئی اور اصول بھی مستنبط ہو سکتے ہیں.تاہم ان موٹی شرائط سے ہی ایک ریاست
اسوہ انسان کامل 611 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت کے داخلی اور خارجی جملہ امور سے متعلق واضح احکامات صاف ظاہر ہیں.داخلی لحاظ سے قیام امن ، تنازعات کے فیصلوں کے لئے عدالت کے قیام ، نظام دیت و خون بہا، جنگی اخراجات سے متعلق مالی نظام اور مذہبی آزادی کی واضح تنقیحات اس دستور میں موجود تھیں اور خارجی لحاظ سے بیرونی دشمن کے مقابل پر ریاست مدینہ کے اقوام و قبائل کا اتحاد ایسے اہم امور تھے جن کے بغیر کسی ریاست کا تصور نا مکمل ہے.مختصر یہ کہ میثاق مدینہ کے بعد نواح مدینہ کے قبائل سے معاہدات کے نتیجہ میں مدینہ ایک مختلف اقوام و مذاہب اور رنگ ونسل کا عالمی شہر ہوتے ہوئے ایک اقلیت کے ذریعہ نا قابل تسخیر بنادیا گیا.اسی معاہدہ کے نتیجہ میں کمزور مسلمانوں کو مکہ جیسی طاقتور ریاست کے حملہ سے کامیاب دفاع کی طاقت نصیب ہوئی تھی.اس معاہدے کے جملہ نکات پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہوئے ہی پہلی اسلامی ریاست مضبوط بنیادوں پر قائم ہوئی پھر یہ ریاست شرق و غرب میں تیزی سے پھیلتی چلی گئی جو انسانیت کی عظمت اور ترقی کی علامت بنی اور اس دنیا کے سامنے صحیح تہذیب و تمدن اور عظیم ثقافت کے درخشاں مظاہرے پیش کئے.الغرض میثاق مدینہ کا عظیم الشان معاہدہ قیام امن ، انصاف ، مساوات اور مذہبی آزادی کے لئے اپنے مخصوص پس منظر میں رسول اللہ کا ایک ایسا اہم کارنامہ تھا جس کی خصوصیات دور حاضر کے ترقی پذیر معاہدات کے تقابلی مطالعہ پر نمایاں ہو کر سامنے آتی ہیں.چنانچہ ساری دنیا پر حکومت کرنے والی سلطنت برطانیہ کا 1215ء میں بادشاہ جان (King John) کے ذریعہ ہونے والا میگنا کارٹا (Magna Carta) کا معاہدہ ہو, 1689ء میں جاری ہونے والے بنیادی شہری حقوق کی آئینی دستاویز ( Bill of Rights) یا 1700 ء کا کسانوں اور مزدوروں کے اقتصادی حقوق کا قانون (The Act of Settlement) یا پھر 1911 ء کا ( The Act of Parliament) ان تمام دستاویزات میں شہری حقوق کے جو وعدے بہت بعد میں کئے گئے کئی صدیاں قبل میثاق مدینہ کے ذریعہ وہ حقوق زیادہ بہتر رنگ میں محفوظ کر دیئے گئے تھے.اسی طرح جدید تہذیب کے علمبر دار ریاستہائے متحدہ امریکہ کا بنیادی آئینی ڈھانچہ Constitutional Convention ہو یا میثاق اقوام متحدہ Charter of United Nations ان کے ساتھ میثاق مدینہ کے تقابلی مطالعہ سے بھی یہی عیاں ہوتا ہے کہ اپنے ماحول، پس منظر اور تمدن کے اعتبار سے میثاق مدینہ کہیں زیادہ شان اور عظمت رکھتا ہے.مثال کے طور پر میثاق اقوام متحدہ میں 26 جون 1945 ء کو یہ مقاصد بیان کئے گئے تھے کہ ”عالمی سطح پر اقتصادی ، سماجی ، ثقافتی اور انسانی حقوق کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بین الاقوامی تعاون کا حصول تا کہ انسانی حقوق کا فروغ و حوصلہ افزائی اور بغیر نسل ، جنس ، زبان یا مذہب کی تجویز کے بنیادی آزادیوں کی فراہمی ممکن ہو سکے اسی طرح دیگر انسانی حقوق مساوات، قیام امن ، آزادی ضمیر کے فروغ اور قیام صحت وغیرہ کا بھی اس چارٹر میں ذکر کیا گیا.بالآخر 10 دسمبر 1948ء کو اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے طور پر منظور کیا گیا.مگر یہ بات کسی سے پوشیدہ
612 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اسوہ انسان کامل نہیں کہ یہ منشور کوئی معاہدہ نہیں بلکہ محض ایک اعلان تھا جس کی پابندی تمام اقوام عالم کے لئے ضروری نہیں تھی.اس لحاظ سے میثاق مدینہ ایک طرف یونائیٹڈ نیشنز کیلئے مشعل راہ ہے تو دوسری طرف مسلمان حکومتوں کے لئے بھی اس میں سبق ہے جو اس قدیم تحریری دستور میثاق مدینہ کی داعی ہونے کے ساتھ یونائیٹڈ نیشنز کے چارٹر کی بھی حامی ہیں.میثاق اقوام متحدہ Charter of UNO) اور میثاق مدینہ میں یہ فرق نمایاں ہے کہ میثاق مدینہ کے اعلان کے بعد مدینہ کی اسلامی حکومت نے خود بھی دل و جان سے اس پر عمل کی کوشش کی بلکہ تمام معاہدین سے بھی اس پر عمل کروایا جبکہ کئی ممالک میثاق اقوام متحدہ پر دستخط کرنے سے ہی گریزاں رہے.پھر میثاق مدینہ میں مردوں کی طرح عورت بھی کسی کو پناہ دینے کا برابر حق رکھتی ہے.جبکہ (امریکہ میں ) انیسویں ترمیم کے منظور ہونے سے قبل عورتوں کو حق رائے دہی تک حاصل نہ تھا.بلکہ 1824ء سے 1900 ء تک سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق مردوں کو امریکہ میں عورتوں کے زدو کوب کرنے کا قانونی حق حاصل رہا.اسی طرح امریکی عدالت عالیہ کا فیصلہ تھا کہ چودہویں آئینی ترمیم کے مساوی حقوق والی شق کا اطلاق عورتوں پر نہیں ہوتا اور انہیں مردوں کے برابر حقوق نہیں دیئے جا سکتے“.(سٹینلے ) 22 پھر میثاق مدینہ کی روشنی میں جب ہم اس کے بانی حضرت محمد ﷺ کی سیرت کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ دوسرے فریق معاہدہ یہود کی عہد شکنی کے باوجود اس معاہدہ کا نہ صرف ایفا ء اور احترام فرمایا بلکہ یہود کے حق میں عادلانہ فیصلے فرمائے.آپ نے انہیں مکمل مذہبی آزادی عطا کی.مدینہ میں ان کی مذہبی درس گاہ ، بیت مدراس قائم تھی جس میں ان کے علماء تیار ہوتے تھے اور رسول اللہ وہاں جا کر ان سے مذہبی گفتگو فرماتے تھے.یہود کے وفد مسجد نبوی میں رسول اللہ کی مجالس میں آکر سوال و جواب کرتے تھے.یہ پر امن ماحول میثاق مدینہ کا ہی مرہون منت تھا، یہی حال انصاف اور قضائی معاملات کا تھا.رسول اللہ کے ایک صحابی عبداللہ بن ابی حدر دالا سلمی کے ذمے ایک یہودی کا چار درہم قرض تھا.اس نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی.رسول اللہ نے مسلمان کو اس یہودی کا حق ادا کرنے کی ہدایت فرمائی.عبداللہ نے ادائیگی کی استطاعت نہ ہونے کا عذر کیا.آج بھی عدالتوں میں ایسے معذور شخص کو مفلس قرار دے کر فارغ کر دیا جاتا ہے.مگر رسول اللہ کا فیصلہ یہی تھا کہ ایک مسلمان کا دامن یہودی معاہد سے بد عہدی سے داغدار نہیں ہونے دیا جائے گا.آپ نے فرمایا ”ابھی اس کا حق ادا کرو.عبداللہ اسی وقت بازار گئے.انہوں نے سرکا کپڑا اتار کر تہہ بند کی جگہ باندھا اور نہ بند کی چادر چار درہم میں بیچ کر قرض ادا کر دیا.(احمد )23 ایک دفعہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں ایک مسلمان کو سودا بیچتے ہوئے کہا کہ اس ذات کی قسم جس نے موسی کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے.مسلمان نے طیش میں آکر اس کو تھپڑ رسید کر دیا اور کہا کہ نبی کریم پر موسیٰ کو فضیلت دیتے ہو؟ وہ یہودی رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے ابوالقاسم ! ہم آپ کی امان میں ہیں اور اس مسلمان نے مجھے تھپڑ مار کر زیادتی کی ہے.نبی کریم مسلمان پر ناراض ہوئے اور فرمایا مجھے نبیوں کے مابین فضیلت نہ
اسوہ انسان کامل 613 آنحضرت ﷺ کی خدادادفر است و بصیرت دیا کرو.باوجود یکہ آپ افضل الانبیاء تھے مگر قیام امن کی خاطر آپ نے اپنی ذات کی قربانی دینے سے بھی گریز نہ کیا.( بخاری )24 معاہد یہود کے زندہ لوگوں کا احترام تو الگ رہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں اور جنازوں کا بھی احترام کیا ایک دفعہ آپ کسی یہودی کا جنازہ آتے دیکھ کر کھڑے ہو گئے.صحابہ نے عرض کیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے فرمایا کیا وہ انسان نہیں تھا.( بخاری ) 25 دوسری طرف مختلف مواقع پر نبی کریم اور مسلمانوں کے خلاف یہود کی طرف سے مختلف اسباب جنگ پیدا ہوئے.مگر آپ میشه درگز رفرماتے رہے مگر ان کی مسلسل عہد شکنی ، غداری اور قاتلانہ منصوبوں کے نتیجہ میں بالآخران کومدینہ بدر کرنا پڑا.لیکن رسول اللہ ﷺ پر کبھی کسی یہودی کو عہد شکنی کا الزام تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی.حقوق انسانی کے اس علمبر دار اور قیام امن کے ضامن حضرت محمد کی تعریف کرتے ہوئے مسٹر آر.اے.نکلسن رقم طراز ہیں.یہ دستوری دستاویز آپ کی عظیم سیاسی بصیرت کی عکاس ہے کیوں کہ اس کے تحت اس مثالی امت کا وجود عمل میں آیا جس کے لئے آپ نے جدو جہد کی تھی.اور جو مذہبی مظہر کی حامل تھی اور اس کی تشکیل عملی بصیرت کی بناء پر کی گئی تھی.(اس ریاست میں دستور کے تحت اعلی ترین اقتدار اللہ تعالیٰ اورمحمدحیہ کا تھا جن کے سامنے امت کے تمام اہم معاملے پیش کئے جاتے تھے تاہم امت میں یہودی اور غیر مسلم بھی شامل تھے“.ماحول مدینہ میں معاہدات میثاق مدینہ کے نتیجہ میں داخلی امور سے اطمینان کے بعد رسول اللہ نے مدینہ کے نواحی قبائل کی طرف توجہ فرمائی.سب سے پہلے آپ نے ان علاقوں کے قبائل سے روابط استوار کئے جہاں سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے گزر کر عراق شام یا مصر جاتے تھے.ان قبائل کے ساتھ آپ نے بیرونی حملہ کے خلاف ایک دوسرے کی امداد کے معاہدے کرنے میں کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے باخبر رہنے کے لئے ان علاقوں میں اسلامی دستوں کی آزادانہ گشت کی راہ ہموار ہوگئی.جبکہ کفار کو یہ سہولت میسر نہ تھی.ان میں خاص طور پر جبینہ ، مزینہ اور غفار کے قبائل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.یہ قبائل مدینہ کے جنوب مغرب میں ساحل سمندر کے قریب آباد تھے اور ان کے لئے مدینہ ایک تجارتی منڈی کی حیثیت رکھتا تھا.اس لئے اس معاہدہ کے سوا ان کے پاس اور کوئی متبادل راہ نہ تھی.غفار قبیلہ کے ابوذر غفاری مکی دور میں ہی مسلمان ہو چکے تھے.ہجرت مدینہ کے بعد ان کا نصف قبیلہ مسلمان ہو گیا.( مسلم ) 26 مدینہ آنے کے معا بعد ایک بڑے قبیلہ جہینہ سے روابط ہوئے جب عقبہ بن عامر جہنی کی سربراہی میں ایک وفد نے مدینہ آکر اسلام قبول کیا.رسول اللہ نے جہینہ کی ذیلی شاخوں بنوزرعہ، بنور بعد کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا کہ مسلمانوں کی طرف سے ان کے مال و جان محفوظ ہو گئے اور ان پر ظلم یا جنگ کرنے والے کے مقابل پر مسلمان ان کی مدد کریں گے.اسی طرح بنی شیخ اور بنی الجرمز اور بنی الحرقہ سے بھی ایسے ہی معاہدے ہوئے.( ابن سعد )27
614 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اسوہ انسان کامل 5 ھ مزینہ قبیلہ کا وفد چارسو افراد کے ساتھ مدینہ آیا.ہجرت کے اس دور میں نومسلموں کے لئے دیہات کی بجائے مرکز اسلام شہر مدینہ کی برکات اور رسول کریم ﷺ کی محبت سے فیض یاب ہونا زیادہ پرکشش تھا.یہی خواہش مزینہ قبیلہ کی بھی تھی.آنحضرت ﷺ نے ان کو مال حکیمانہ انداز میں نصیحت فرمائی کہ تم جہاں بھی ہوئے مہاجر ہویعنی ہجرت کی نیت کا ثواب پاؤ گے لہذا اپنے اموال اور علاقوں میں واپس چلے جاؤ.اس ارشاد کی تعمیل کے نتیجہ میں مدینہ کے نواح میں مسلمانوں کا ایک اور مضبوط دفاعی مورچہ قائم ہو گیا.(مسند احمد (28 اسی طرح بنو حنیفہ کے سردار کے اسلام قبول کرنے کے بعد یہ اہم قبیلہ بھی مسلمانوں کا حلیف بن گیا.شمال میں آباد قبائل کو زیر کرنے کیلئے رسول اللہ نے حسب ضرورت دومتہ الجندل اور موتہ کی طرف مہمات بھیجیں.والی بصرہ اور شاہ غسان کی طرف قاصد بھیج کر روابط استوار کئے اور شمال میں آباد قبائل فزارہ ، ایلہ اور عذرہ سے الگ معاہدات کئے.جن قبائل کے مابین کشمکش تھی ان کی مصالحت کروا کے انہیں اپنا حلیف بنایا اور اگر ان کی باہم صلح نہ ہوسکی تو ان میں سے ایک قبیلہ کو حلیف بنا کر اس سے تعلقات استوار کئے.جیسے مکہ کے نواح میں خزاعہ قبیلہ کی موجودگی مسلمانوں کے لئے انتہائی مفید رہی.الغرض مدینہ کے گردونواح میں آباد قبائل سے معاہدات کے نتیجہ میں تھوڑے ہی عرصہ میں رسول اللہ نے اپنی حکمت و فراست سے مدینہ کو ایک محفوظ جزیرہ بنا دیا.قبائل عرب کی مزاج شناسی اور ان سے پُر حکمت رابطے 2 ھ میں عرب کے مختلف اطراف مدینہ میں مختلف قبائل کے وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا.رسول اللہ ان قبائل کی زبان میں ان سے گفتگو فرماتے اور ان کے معروف دستور کے مطابق ان سے حسن سلوک فرماتے اور انعام واکرام دے کر رخصت فرماتے.اکثر ان میں سے اسلام قبول کر کے واپس لوٹتے.بنو نہد سے ان کے لہجہ میں ایسا فصیح کلام فرمایا که صحابه حیران رہ گئے.پھر مختلف قبائل اور علاقوں اور افراد کی خصوصیات کے مطابق ان کے حسب حال ایسا معاملہ اور حسن سلوک فر مایا اس سے بھی حضور علیہ کی خداداد فراست و بصیرت کا خوب اندازہ ہوتا ہے.بے شک آنحضرت ﷺ نے دعوی سے قبل یمن اور شام کے چند تجارتی سفر کئے تھے.وہ بھی اس وسعت نظر میں ممد معاون ہوئے ہونگے.مگر جہاں تک آپ کی بصیرت کا تعلق ہے آپ ان قبائل کے مزاج اور خصوصیات سے بھی واقف تھے.ایک دفعہ آپ نے ایک عرب سردار کے ساتھ مختلف قبائل کے بارہ میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:.کہ ”بہترین لوگ یمن کے ہوتے ہیں اور ایمان تو یمنی ہے.خصوصاً یمن کے قبائل تخم وجذام کے لئے اور حمیر قبیلہ کے عوام ان کے بادشاہوں سے بہتر ہیں.اور قبیلہ حضر موت بنو حارث سے کہیں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ نے قبیلہ بنی تمیم پر لعنت کی.عقیہ قبیلہ وہ ہے جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی.خصوصاً اسکی شاخیں عبد قیس، جعدہ وغیرہ.اور انصار مدینہ کے قبائل اسلم ، غفار، مزینہ اور جہینہ وغیرہ ان کے حلیف قبیلے بنواسہ تمیم اور ہوازن سے قیامت کے دن بہتر ہونگے اور عرب کے بدترین قبائل بحران اور بنو تغلب ہیں اور جنت میں سب قبیلوں سے زیادہ مذحج قبیلہ کے لوگ ہوں گئے“.( احمد )29
اسوہ انسان کامل 615 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد یمن سے آیا.پہلے تو رسول اللہ نے ان کے سردار عبداللہ بن عوف کو دیکھ کر فرمایا کہ تم میں دو باتیں ایسی ہیں جو اللہ پسند فرماتا ہے ایک علم دوسرے ٹھہراؤ.پھر آپ نے ان کے ایک شخص جارود سے اس کے بعض سوالات کا از خود ذکر فرمایا جن کے پوچھنے سے وہ جھجک رہا تھا.ان علاقوں میں شراب وغیرہ کا بہت رواج تھا آپ نے ان سے شرابوں کی اقسام کے بارہ میں پوچھا اور پانچ بنیادی ارکان اسلام کی تعلیم کے ساتھ ان کے حالات کے موافق بعض چیزوں کی ممانعت فرمائی.خاص طور پر ان میں رائج ، روغنی گھڑے ، کدو کے برتن ، لکڑی کے برتن اور تارکول ملے برتنوں میں نبیذ یعنی کھجور کے رس کے لئے استعمال کرنے سے منع فرمایا.کیونکہ اس سے بھی نشہ پیدا ہو جاتا تھا.انہوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ کو نبیذ برتنوں کے بارہ میں کیا علم ہے.؟ فرمایا ہاں! یہ ایک تنا ہوتا ہے جسے تم کھرچ ڈالتے ہو.پھر اس میں ایک قسم کی کھجور قطیع یا خشک کھجور ڈالتے ہو.پھر اس پر پانی ڈالتے ہو.جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اسے پیتے ہو.(مسلم ) 30 ان لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہمارے علاقے کی آب و ہوا مختلف ہے اگر ہم یہ مشروبات نہ پیئیں تو ہمارے پیٹ پھول جائیں گے.اسلئے ہمارے لئے کچھ رعایت فرما ئیں.یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہتھیلیاں بلند کر کے اشارے سے بتایا کہ اگر میں تمہیں اتنی سی رعایت دوں تو تم اتنی پیو گے یعنی رعایت سے کئی گنا فائدہ اُٹھاؤ گے.(ابوداؤد )31 نیز فرمایا اگر اس فقیر میں کھجور بھگو کر پیو گے تو تم ایک دوسرے پر تلوار لے کر چڑھ دوڑو گے اور کسی کی تلوار دوسرے کو اس طرح لگے گی کہ وہ ہمیشہ کے لئے لنگڑا ہو جائے گا.اس پر وہ لوگ ہنس پڑے آپ نے وجہ پوچھی تو انہوں نے عرض کیا ہم نے واقعی ایک دفع فقیر میں بھگو کر بی پی تھی جس کے نتیجہ میں بعض لوگ ایک دوسرے پر تلوار سونت کر چڑھ دوڑے اور اس شخص کو ایک آدمی نے تلوار مار دی جس سے یہ لنگڑا ہو گیا جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں.پھر رسول اللہ نے ان کے علاقے میں پائی جانے والی کھجور کی قسمیں گنوائیں ، اور انہیں مخالف آب و ہوا کا علاج بھی بتایا کہ تم فلاں کھجور کھایا کرو.تمہارے علاقہ کی بہترین کھجور برنی ہے جو بیماریوں کو دور کرنے والی ہے اور خود اس میں کوئی بیماری نہیں.جاتے وقت آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو مدینہ کی پیلو کی مسواکیں دیں جو ان کو بہت پسند تھیں اور وہ اپنے علاقے میں یہی استعمال کرتے تھے.(سیرت الحلبیہ (32 بنوتمیم کا وقد آیا با وجود یکہ اس قبیلہ کی فخر و کبر کی عادت آپ کو پسند نہ تھی پھر بھی آپ نے ان مہمانوں کا ہر طرح لحاظ رکھا.ان کے ساتھ ان کا سردار قیس بن عاصم بھی تھا جو اپنے کمال حلم کی وجہ سے مشہور تھا.رسول اللہ کی فراست نے اسے دیکھتے ہی پہچان کر فرمایا یہ بادیہ نشینوں کا سردار ہے.(سیرت الحلبیہ ( 33 یہ لوگ فصاحت و بلاغت کے رسیا اور فخر و مباہات کے عادی تھے.انہوں نے ادب رسول کا لحاظ کئے بغیر مفاخرانہ انداز اپناتے ہوئے اپنے خطیب و شاعر کے ذریعہ قبائلی فضائل بیان کرنا چاہے رسول کریم نے انہیں اس کی اجازت دے کر پھر اپنے خطیب اور شاعر کو کھڑا کیا.جس سے ان کے سردار بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور اسلام قبول کر لیا.اور رسول اللہ نے انہیں انعامات سے
اسوہ انسان کامل 616 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت نوازا.(ابن اثیر 34 قبیلہ طے کا وفد اپنے سردار زید الخیل کے ساتھ آیا جو ایک فصیح و بلیغ شاعر اور خطیب تھے.اور اپنے خاص گھوڑوں کی وجہ سے مشہور تھے.رسول اللہ نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور وہ مسلمان ہو گئے.حضرت زیڈ سے گفتگو اور ملاقات کے بعد رسول اللہ نے ان کے بارہ میں اپنی بصیرت افروز رائے دیتے ہوئے فرمایا کہ عرب کے کسی شخص کی فضیلت کا ذکر مجھ سے نہیں کیا گیا مگر جب وہ مجھے ملا تو اسے اس سے کم تر پایا سوائے زید کے کہ ان کے بارہ میں جو سنا تھا انہیں اس سے بڑھ کر پایا.( الحلبیہ (35 طائف سے بنو ثقیف کا وفد مدینہ آیا.جس سے مسلمان بہت خوش ہوئے کیونکہ رسول اللہ طائف کے تبلیغی سفر میں جب رسول اللہ سے پہاڑوں کے فرشتہ نے اہل طائف کی ہلاکت کے بارہ میں پوچھا تو آپ نے انتہائی دوراندیشی سے اس وقت یہ عرض کیا تھا کہ ان کو ہلاک نہ کیا جائے ” میں امید کرتا ہوں ان کی نسل سے توحید کے ماننے والے پیدا ہوں گئے.( بخاری )36 فتح مکہ کے بعد اہل طائف قلعہ بند ہو گئے اور رسول اللہ انکا محاصرہ چھوڑ کر واپس تشریف لے آئے تھے.اب حضور کی امید بر آئی اور اہل طائف کا وفد خود حاضر تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے مسجد نبوی میں ایک جانب خیمہ نصب کروایا.اسی میں یہ حکمت تھی انہیں قرآن سنے کا موقع ملتا ہے اور وہ دیکھیں کہ مسلمان نماز کیسے پڑھتے ہیں.اس موقع پر بعض صحابہ نے یہ سوال کیا کہ اہل طائف مشرک اور نجس ہیں انکو مسجد نبوی میں نہ ٹھہرایا جائے آپ نے فرمایا کہ ان کی نجاست ظاہری نہیں، باطنی ہے.اور انہیں مسجد میں ہی ٹھہرا کر ان کے لئے اصلاح و تربیت کے مواقع پیدا فرمائے.(بصاص)37 حکیمانہ جواب رسول اللہ ﷺ کی فراست و بصیرت کا غیر معمولی اظہار آپ کی ان مجالس سے بھی ہوتا تھا، جن میں متنوع لوگ اپنی حاجات اور مسائل دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوتے اور آپ ہر فرد کو اس کے مناسب حال جواب سے نوازتے.ایک دفعہ بنی فزارہ قبیلہ کے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ ! میری بیوی نے سیاہ رنگ کے بچے کو جنم دیا ہے گویا سرخ وسفید میاں بیوی کے ہاں ایسے بچے کی پیدائش اسکے لئے قابل اعتراض تھی ) آنحضرت ﷺ نے جس کمال بصیرت و حکمت سے اس کی تشفی کروائی اسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا ہے.آپ نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اونٹ ہیں؟ اس نے کہا ہاں.فرمایا کس رنگ کے ہیں؟ کہا سرخ رنگ کے.فرمایا ان میں کوئی گندمی رنگ کا بھی ہے؟ کہنے لگا جی ہاں.رسول اللہ علیہ نے پوچھا سرخ اونٹوں میں گندمی کہاں سے آگیا ؟ کہنے لگا شاید اس کے باپ دادا میں کوئی اس رنگ کا ہو.آپ نے فرمایا پھر تمہارا بیٹا بھی ممکن ہے اپنے آباء میں سے کسی کے رنگ پر چلا گیا ہو.( بخاری )38
اسوہ انسان کامل 617 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اس طرح آپ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے تولیدی وراثت کے لطیف مضمون کی طرف توجہ دلا کر یہ مسئلہ حل کر دیا.ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا وقت پر نماز ادا کرنا پھر والدین سے حسن سلوک اور پھر اللہ کی راہ میں جہاد کرنا.( بخاری )39 ایک اور موقع پر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پیارا عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی اور دوام اختیار کیا جائے.( بخاری )40 اس اہم سوال کے جواب میں بھی آپ نے کمال حکمت اور بصیرت سے ایک فقرہ میں اس جماعت کی مکمل صفات اور علامات بیان کرنے کا حق ادا فر ما دیا.حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے پوچھ لوگوں میں سے اللہ کو سب سے پیارا کون سا ہے.رسول اللہ نے فرمایا اللہ کو سب سے زیادہ پیارے وہ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتے ہیں اور اللہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ خوشی ہے جو ایک مسلمان کو دی جائے.(طبرانی) 41 ایک اور شخص نے جہاد پر جانے کی اجازت چاہی تو فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں ؟ اس نے کہا ہاں.فرمایا پھر ان کی خدمت کر کے تم جہاد کرو.( بخاری )42 ایک اور شخص نے (جس کی طبیعت میں غصہ غالب تھا) کہا مجھے کوئی وصیت کریں آپ نے فرمایا بھی غصہ نہ کرو.اس نے پھر پوچھا کوئی اور نصیحت آپ نے ہر بار یہی جواب دیا کہ غصہ نہیں کرنا.( بخاری )43 حضرت ابو ذر کو ( جو تنہائی پسند تھے ) حسن معاشرت کے بارہ میں یہ نصیحت فرمائی کہ لوگوں سے حسن خلق سے پیش آیا کریں ، اور بدی کا بدلہ نیکی سے دو اور کھانا پکاؤ تو شور بہ زیادہ کر لو اور اپنے ہمسایوں کو بھی اس میں سے دو.(ترمدی, مسلم ) 44 نوافل کی ادائیگی میں آپ کا اپنا طریق یہ تھا کہ بالعموم رات کے آخری پہر گیارہ رکعت نماز تہجد بشمول تین وتر ادا فرماتے تھے.حضرت عمرؓ کے بارہ میں پتہ چلا کہ وہ بھی آخری پہر وتر ادا کرتے ہیں تو فرمایا کہ وہ ہمت والے ہیں اور حضرت ابو بکر کے رات کو وتر پڑھ کر سونے کے طریق پر یہ تبصرہ فرمایا کہ وہ محتاط ہیں.اپنے صحابی حضرت ابو ہر میرا کو ان کے مناسب حال اسی احتیاط کی راہ اختیار کرنے کی وصیت کی اور فرمایا کہ تین وتر ادا کئے بغیر نہ سوئیں.(بخاری)45 جب سورہ جمعہ کی آیات اتریں جن میں آخرین کی ایک جماعت کا ذکر ہے جن میں رسول اللہ مبعوث ہوکر تعلیم کتاب و حکمت دیں گے اور پاک کریں گے اور وہ ابھی صحابہ سے نہیں ملے تو اس پر ایک شخص نے سوال کیا یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے کوئی جواب نہ دیا.اس نے تین مرتبہ یہ سوال کیا پھر نبی کریم نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اگر ایمان ثریا ستارہ کی بلندی تک بھی چلا گیا تو ان لوگوں یعنی سلمان اور اس کی قوم ( اہل فارس ) میں سے کچھ لوگ
اسوہ انسان کامل 618 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت اسے واپس لے آئیں گے.(بخاری ومسلم )46 رسول اللہ کی کمال بصیرت ہے کہ اتنے اہم تفصیلی سوال کا جواب اتنی جامعیت اور اختصار سے دیا کہ کوئی تشنگی باقی نہ رہنے دی.پہلے تو زمانہ بتا دیا کہ ایمان کے ثریا پر اٹھ جانے کا زمانہ آخرین میں بعثت کا ہے.دوسرے یہ بتایا کہ آپ خود مبعوث نہیں ہوں گے.بلکہ سلمان کی قوم سے ان جیسا آپ کا ایک وفا شعار خادم اسلام پیدا ہوگا اور تیسرے یہ بتایا کہ اہل فارس و ہی خادم اسلام آکر ایمان کو دنیا میں قائم کرے گا.ایک اور موقع پر رسول اللہ نے بنی اسرائیل کے بہتر فرقوں کی طرح اپنی امت کے تہتر فرقوں میں بٹ جانے کی پیشگوئی کے ساتھ فرمایا کہ سب آگ میں ہوں گے سوائے ایک کے.تو آپ سے پوچھا گیا وہ کونسا فرقہ ہوگا؟ آپ نے فرمایاوہ جماعت جو میرے اور میرے صحابہ کے نمونہ اور نقش قدم پر چلنے والی ہوگی.(ترمندی )47 دراصل یہی وہ جماعت اور فرقہ ناجیہ تھا جس کی خوشبو محسوس کر کے اور اللہ سے خبر پاکر چودہ سوسال بعد آنے والے اپنے غلاموں کی خصوصیات اور خوبیوں کا بڑی محبت سے آپ نے ذکر فرمایا:.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دفعہ جنت البقیع کے قبرستان میں تشریف لے گئے اور اہل قبور کو سلام کیا.گزشتہ اصحاب کو سلامتی کی دعا دے کر پھر آخری زمانہ کی جماعت آخرین کو بھائی اور والہانہ رنگ میں یاد کرتے ہوئے شوق سے فرمایا کہ میری دلی تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو ان آنکھوں سے دیکھ لیتے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ نے فرمایا تم تو میرے صحابہ ہو اور میرے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اپنی امت کے ان افراد کو کیسے پہچانیں گے جو ابھی دنیا میں نہیں آئے.آپ نے فرمایا تم پنج کلیان گھوڑے ( جن کے پاؤں اور پیشانی پر سفیدی کے نشان ہوتے ہیں ) کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان دیکھو تو پہچان لو گے یا نہیں؟ صحابہ نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن وضو کی وجہ سے میرے ان امتیوں کے چہرے اور پاؤں روشن ہوں گے.اور میں حوض کوثر پر ان کا پیشر ہوں گا.( احمد )48 الغرض اس پاک جماعت کی خوبیوں کو آپ نے بڑی محبت سے یاد کیا.ایک دفعہ صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ کوئی ہم سے بھی بہتر ہوگا ؟ ہم نے جہاد اور دینی خدمات کی توفیق پائی.آپ نے فرمایا کہ ہاں ایک قوم ہے جو تمہارے بعد ہوگی وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں.(مسند دارمی )49 خدا کرے کہ ہم اپنے آقا ومولا کی نیک امیدوں پر پورا اترنے والے ہوں.اور آپ کی فراست و بصیرت سے حصہ پانے والے ہوں.آمین
اسوہ انسان کامل 619 آنحضرت ﷺ کی خدادادفر است و بصیرت حواله جات مجمع الزوائد جلد 10 ص 473 1 2 3 4 ترمذى (48) كتاب التفسير سورة الحجر باب 16 مجمع الزوائد جلد 10 ص 473 5 ترمذی (49) کتاب الدعوات باب 30 6 مسلم (13) كتاب الزكواة باب 35 براهین احمدیه روحانی خزائن جلد 1 حاشيه ص195 7 8 9 مسند احمد جلد 3 ص 25 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 17 بخاری (2) کتاب الایمان باب 17 10 بخاری (97) كتاب الاحكام باب 51 11 ترمذی (50) کتاب المناقب باب 16 12 بخاری (66) کتاب فضائل الصحابه باب 6 13 كنز العمال جلد 11 ص 757 14 سيرة ابن هشام جلد 1 ص 275 15 مستدرك الحاكم جلد3 ص 576 16 الوفا جلد 1 ص 149 17 تاريخ الطبری جلد 1 ص555 18 طبقات الكبرى جلد 1 ص 221،220 19 طبقات الكبرى جلد1 ص 226،225 20 طبقات الكبرى جلد 1 ص 83 مسند احمد جلد 6ص4 21 D.Stanley Fitzen,In Conflict and Disorder 22 23 مسند احمد جلد 5ص842 24 بخاری (64) كتاب الانبياء باب 36 25 بخاری (29) کتاب الجنائز باب 48
اسوہ انسان کامل 620 26 مسلم (45) فضائل الصحابه باب 28 27 طبقات الكبرى جلد 1 ص 270 تا 272 28 29 مسند احمد جلد 4 ص55 مسند احمد جلد 4 ص 387 30 مسلم (2) کتاب الایمان باب 8 31 ابو داؤد ( 23 ) كتاب البيوع باب 7 32 السيرة الحلبيه جلد 3 ص82 33 السيرة الحلبيه جلد3 ص 71 آنحضرت ﷺ کی خداداد فر است و بصیرت 34 اسد الغابة جلد 1 ص 407،406 35 السيرة الحلبيه جلد 3 ص 87،86 36 بخاری (63) کتاب بدء الخلق باب 7 37 احكام القرآن لجصاص جلد3ص109 38 بخاری (71) كتاب الطلاق باب 24 39 بخاری(81) كتاب الادب باب 1 40 بخاری (84) كتاب الرقاق باب 18 41 كتاب الدعاء لطبرانی جلد 12 ص 456 42 بخاری (81) كتاب الادب باب 3 43 بخاری (81) كتاب الادب باب 76 44 ترمذی (28) كتاب البرو الصلة باب 55 مسلم (46) كتاب البر و الصلة باب 42 45 بخاری (26) كتاب التطوع باب 9 6 46 بخاری(68) كتاب التفسيـر ســورة الجمعة باب 373 ، مسلم ( 45) كتاب فضائل الصحابه باب 59 47 ترمذی (41) کتاب الایمان باب 18 48 مسند احمد جلد 2 ص 300 49 مسند دار می کتاب الرقاق باب آخر هذه الامة
اسوہ انسان کامل 621 بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی بَلَغَ العلیٰ بکمالِه حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِهِ صَلُّوا عَلَيهِ وَ آلِهِ حضرت شیخ سعدی کی یہ شہرہ آفاق رباعی بے شک بہت بعد کے زمانہ کی ہے.مگر وہ اس نعت رسول کے ذریعہ کئی پہلوں پر سبقت لے گئے.انہوں نے کیا خوب کہا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کمالات عطا فرمائے تھے، اُن کے سبب آپ انتہائی بلندی پر فائز ہو گئے.آپ نے اپنے ظاہری و باطنی حسن سے اندھیرے کا فور کر دکھائے.آپ کے اخلاق اور تمام عادات و خصائل نیک، پاکیزہ اور حسین تھے.پس آپ پر اور آپ کی آل پر درود و سلام بھیجو “ حضرت محمد عربی خاتم النبین ﷺ کی عظمت کے ترانے اس وقت سے بھی پہلے گائے جارہے تھے جب آدم کا خمیر ابھی مٹی سے اٹھایا جارہا تھا.آپ تخلیق عالم کی علت غائی تھے.انبیاء کے سرتاج تھے تبھی تو وہ سب آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہے.حضرت ابراہیم نے اس مبارک وجود کیلئے دعائیں کیں.حضرت موسیٰ“ نے اپنے اس مثیل نبی کے برپا ہونے کا مشر دہ سنایا کہ وہ فاران کی چوٹیوں سے جلوہ گر ہو گا.حضرت سلیمان کی زبان مبارک سے ایک محبوب سرخ وسفید کی خوشخبری دی گئی کہ وہ محمد یم“ ہے.اس لفظ میں محمد نام کے ساتھ یہ اشارہ بھی تھا اس کی مدح وستائش کی جائے گی.یسعیاہ نے ایک ابدی سلامتی کے شہزادے کی نوید مسرت سنائی.دانیال نبی نے آسمانی ابدی سلطنت کی پیش از وقت اطلاع دی.حضرت یسوع مسیح نے اپنے بعد احمد رسول کی بشارت دی.الغرض ازل سے تمام افلاک اور سارا عالم اپنے اس مقصود حقیقی کی تلاش میں سرگرداں اس کی شان کے قصیدے گا تا ہوا رواں دواں تھا، کائنات اپنے مقصود کے لئے گردش لیل و نہار میں تھی.تو میں اس عظیم ہستی کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کئے ہوئے تھیں کہ اس مبارک صد مبارک ہستی کا اور ودارض حجاز سے ہوا.قیصر وکسری کے ایوان لرز اٹھے اور عرش الہی یوں نغمہ سرا ہوا :
اسوہ انسان کامل 622 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی ط إِنَّ اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا - (سورۃ الاحزاب:57) کہ اللہ یقینا اس نبی پر اپنی رحمت نازل کر رہا ہے اور اس کے فرشتے بھی یقینا اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.اے مومنو! تم بھی اس پر درود بھیجتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہا کرو اور خوب جوش و خروش سے ان کے لئے سلامتی مانگتے رہا کرو.کہ آپ ہی خدائی فرمان لَوْلَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الافلاک کا مصداق ہیں یعنی گر تو نہ ہوتا تو میں کا ئنات کو پیدا نہ کرتا.ی تھی حضرت آمنہ کے مبارک خواب کی تعبیر کہ نور عالم ان کے وجود سے ظاہر ہوا اور پھر چہار سو پھیل گیا اور أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا کا نظارہ دنیا نے دیکھا.حضرت آمنہ نے آپ کا نام الہی اشارہ کے مطابق ” محمد “ رکھا.اس نام پر عربوں کا تعجب دیکھ کر عبدالمطلب نے بیچ ہی تو کہا ”بلاشبہ میرا یہ بیٹا عظیم ہوگا.اس کی بہت تعریف ہوگی.“ اور پھر ایسا ہی ہوا ملائک کو ارشاد ہوا کہ آسمانوں کو اس عظیم وجود کی تعریف سے بھر دو اور زمین میں اس کی مقبولیت پھیلا دو، بندگان خدا کو حکم ہوا کہ اس ہستی پر سلام و درود بھیجو اور بارگاہ رب العزت سے یہ فیصلہ صادر ہوا کہ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ (الانشراح : 5) کہ اے محمد عربی ہم نے تیرے ذکر کو بہت بلند کیا ہے.گویا تو عظمت و رفعت کا ایک مینار ہے اور یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ پر آج تک جس قدر سلام و درود بھیجا گیا ساری دنیا 66 کے انسانوں کے لئے بھی اتنی دعائیں نہ کی گئی نہ ہوں گی.جس قدر تعریف اور ذکر آپ کا ہوا اس کی نظیر لا حاصل ہے.قرآن شریف میں آنحضرت کے مقام محمود پر فائز کئے جانے کا بھی ذکر ہے.جو ایسی عظیم الشان تعریف کا مقام ہے جس پر پہلے اور پچھلے سب رشک کریں گے اور بروز قیامت اس کا اظہار یوں ہوگا کہ رسول کریم کو ایک سبز پوشاک پہنائی جائے گی.آپ خدا کی حمد کے ترانے گائیں گے پھر آپ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور آپ اپنی امت کی شفاعت کریں گے.(احمد) ظاہر ہے اس مقام محمود کا تعلق صرف اخروی زندگی سے نہیں بلکہ اس دنیا سے بھی ہے کہ آپ سے بڑھ کر تعریف کا مقام کسی انسان کو حاصل نہیں ہوا.حضرت عائشہ کا بیان ہے رسول اللہ نے فرمایا کہ ” مجھے جبریل نے کہا میں نے زمین کے مشرق اور مغرب کو پلٹ کر دیکھا تو میں نے محمد سے افضل کوئی شخص نہیں پایا.(بیہقی )2 حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا :.میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا مگر اس پر مجھے کوئی فخر نہیں اور کوئی بھی نبی آدم“ اور اس کے سوا ایسا نہیں.مگر وہ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا.نیز فرمایا ” قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور شفاعت کرنے والا ہونگا.مگر بغیر کسی فخر کے.(ترمذی) 3 محمد ہی نام اور محمد ہی کام عَلَيْكَ الصَّلَوةُ عَلَيْكَ السَّلَام
623 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل رسول کریم کی صداقت و دیانت سے متاثر ہو کر قوم نے آپ کو صدوق وامین کا خطاب دیا اور کوہ صفا پر آپ کی پوری قوم نے بالا تفاق شہادت دی.کہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچا پایا ہے.بلاشبہ آپ مکارم اخلاق اور خلق عظیم کے مالک تھے.اسی لئے قرآن کریم میں آپ کو اسوہ حسنہ قرار دیا گیا ہے.آپ کے پاکیزہ اخلاق کے بارہ میں حضرت خدیجہ حضرت عائشہ کی شہادت نیز آپ کے دیگر عزیز واقارب، دوستوں اور دشمنوں تک کی گواہیاں بیان ہو چکی ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ رسول کریم ﷺ صداقت دراستبازی اور اعلی درجہ کے اخلاق پر قائم تھے.بچپن سے جوانی تک ساتھ دینے والے آپ کے چچا ابوطالب نے بھی کہا تھا: وَأَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْعَمَامُ بِوَجُهِهِ ثِمَالُ الْيَتَامَى عِصْمَةٌ لِلأَرَامِلِ کہ محمد کے روشن چہرے کا واسطہ دے کر بارش مانگی جائے تو بادل برس پڑتے ہیں آپ یتیموں کے والی اور بیواؤں کے محافظ ہیں.رسول کریم کے دشمن ابو سفیان نے شہنشاہ روم کے سامنے آپ کے اعلیٰ اخلاق اور صدق و امانت کی گواہی دی تو آپ کے چچا زاد بھائی جعفر طیار نے شاہ حبشہ کے سامنے کہا تھا کہ ”خدا نے ہمارے درمیان ایسا شخص کھڑا کیا ہے جس کی سچائی، دیانت اور اخلاص ہم آزما چکے ہیں.دنیا کی ہر زبان میں مختلف اقوام کے مشاہیر نے آپ کی سوانح عمریاں لکھیں اور آپ کے حالات زندگی پر بحث کی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور آئندہ بھی رہے گا.ان غیر جانبدار اشخاص کی بے لوث تحریروں سے بھی آپ کی عظیم الشان صداقت کا ثبوت ملتا ہے.1.مسٹر مائیکل ہارٹ (1978) موجودہ زمانہ میں ان کی کتاب ”دی ہنڈرڈ (The Hundred) میں پہلے نمبر پر شائع ہونے والے مضمون ”محمد.دنیا کا سب سے بڑا موثر انسان“ کا بہت چرچا ہوا ہے.جس میں فاضل مصنف نے اربوں انسانوں (ایک اندازہ کے مطابق بیس ملین) میں سے جو روئے زمین پر اب تک پیدا ہو چکے ہیں.حضور سرور پاک کو سب سے مؤثر ترین انسان قرار دیتے ہوئے سو عظیم شخصیتوں کی فہرست میں وہ اولین شخصیت قرار دیا ہے.جس نے تاریخ انسانی میں سب سے زیادہ اور دیر پا اثر چھوڑا ہے، ایسا اثر جس نے لوگوں کی زندگیوں کو خاص رنگ میں رنگین کیا اور دنیا کو بھی ایک خاص رنگ میں ڈھال دیا.مصنف لکھتا ہے:."My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious, and secular levels became immensely effective political leader.Today, thirteen levels centuries after his death, his influence is still powerful and pervasive.
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 624 اسوہ انسان کامل The majority of the persons in this book had the advantage of being born and raised in centers of civilization, highly cultured or politically pivotal nations.Muhammad, however, was born in the year 570, in the city of Mecca, in southern Arabia, at that time a backward area of the world, far from the centers of trade, art, and learning.Orphaned at the age of six, he was reared in modest surroundings.Islamic tradition tells us that he was illiterate....Most Arabs at the time were pagans, who believed in many gods....The Bedouin tribesmen of Arabia had a reputation as fierce warriors.But their number was small and plagued by disunity and internecine warfare, they had been no match for the larger armies of the kingdoms in the settled agricultural areas to the north.However, unified by Muhammad for the first time in history, and inspired by their fervent belief in the one true God, these small Arab armies now embarked upon one of the most astonishing series of conquests in human history......Numerically, the Arabs were no match for their opponents.....However......in a scant century of fighting, these Bedouin tribesmen, inspired by the word of the Prophet, had carved out an empire stretching from the borders of India to the Atlantic Ocean the largest empire that the world had yet seen......How, then, is one to assess the ever all impact of Muhammad on human history.Like all religions, Islam exerts an enormous influence upon the lives of its followers.It is for this reason that the founders of the world's great religions all figure prominently in this book.Since there are roughly twice as many Christians as Muslems in the world, it may initially seem strange that Muhammad has been ranked higher than Jesus.There are two principal reasons for that decision.First,
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 625 اسوہ انسان کامل Muhammad played a far more important role in the development of Islam than Jesus did in the development of Christianity......Furthermore, Muhammad (unlike Jesus) was a secular as well as a religious leader.In fact, as the driving force behind the Arab conquests, he may well rank as the most influential political leader of all time.......Of many important historical events, one might say that they were inevitable and would have occurred even without the particular political leader who guided them........But this can not be said of the Arab conquests.Nothing similar had occurred before Muhammad, and there is no reason to believe that the conquests would have been achieved without him."(4) ترجمہ: " محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دنیا کی انتہائی موثر شخصیات کی فہرست میں میرا سب سے اوپر رکھنا شاید بعض لوگوں کے لئے حیرت ناک اور بعض کے لئے قابل اعتراض ہو لیکن آپ ہی تاریخ انسانی کی ایسی منفر د شخصیت ہیں جو دینی ودنیوی دونوں اعتبار سے انتہائی کامیاب ثابت ہوئے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ایک کمزور حیثیت سے زندگی کا آغاز کرتے ہوئے دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے زندگیوں میں نافذ کیا اور پھر ایک انتہائی مؤثر کن سیاسی رہنما بن کر اُبھرے.آج ان کی وفات کے تیرہ صدیاں بعد بھی آپ کا اثر غیر معمولی طاقت اور نفوذ رکھتا ہے.اس کتاب میں زیادہ تر جن مشاہیر کا تذکرہ ہے ان کو عظیم اقوام کے بڑے مراکز میں پیدا ہونے کی برتری حاصل ہے جو اس زمانہ کی تہذیب اور سیاست میں ترقی کے اعلیٰ مقام پر تھے.تا ہم برخلاف اس کے محمد 570ء میں جنوبی عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے.جو اس وقت کی دنیا میں خانہ جنگی کا شکار ایک غیر مہذب علاقہ تھا.جو تجارتی مراکز اور علم وفن سے کہیں دور تھا.احادیث کے مطابق آپ چھ سال کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے اور اس طرح آپ کی پرورش سادہ اور غریبانہ ماحول میں ہوئی.محمد خود امی تھے.عرب بت پرست تھے اور متعدد خداؤں کو مانتے تھے.عرب کے خانہ بدوش قبائل جنگجو مشہور تھے مگر وہ اختلافات کے باعث باہم برسر پر کاررہتے تھے.اس لئے وہ شمال کے سرسبز علاقے پر قابض طاقتور سلطنتوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر تھے.لیکن تاریخ میں پہلی مرتبہ محمد کے ماتحت متحد ہو کر اور ایک بچے خدا پر کامل ایمان سے سرشار ہو کر عرب کے یہ چھوٹے دستے انسانی تاریخ کی عظیم الشان فتوحات کے سلسلے بر پا کرنے نکلے تعداد کے لحاظ سے اپنے مد مقابل سے ان کی کوئی نسبت نہ تھی...پھر بھی ایک صدی سے بھی کم عرصہ میں ان خانہ بدوش قبائل نے محمد کے پیغام سے سرشار ہو کر ایک حیرت انگیز اور عظیم سلطنت کی بنیا درکھی جس کی حدود ہندوستان سے لے کر بحر اوقیانوس تک تھیں اور جو اس وقت تک دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی.اب ہم
626 اسوہ انسان کامل نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی ( کس طرح) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مجموعی طور پر انسانی تاریخ پر گہرے نقوش ثبت کرنے کا جائزہ لے سکتے ہیں! دیگر تمام مذاہب کی طرح اسلام اپنے پیروکاروں کی زندگیوں پر گہرا اثر ڈالتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے بانیوں کو اس کتاب میں نمایاں جگہ دی گئی ہے.بلاشبہ دنیا میں مسلمانوں کی نسبت عیسائیوں کی تعداد تقریباً دوگنا ہے.ابتداء یہ تعجب انگیز خیال آسکتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو عیسی (علیہ السلام) سے ارفع مقام دیا گیا ہے.اس فیصلہ (انتخاب) کی دو بڑی وجوہات ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ عیسی (علیہ السلام) نے جو کام عیسائیت کی ترقی کے لئے کیا اُس کی نسبت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام کی ترویج و اشاعت کا کام کہیں زیادہ اور مؤثر ہے...مزید برآں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) عیسی (علیہ السلام) کے برعکس دینی ودنیاوی دونوں قسم کے رہنما تھے.دراصل عرب کی فتوحات کے پیچھے آپ کی قوت متحرکہ ہی تھی جس کی بناء پر آپ دنیا کے عظیم ترین اور مؤثر ترین سیاسی رہنما کی مسلمہ حیثیت کے حامل بن گئے دنیا کے اہم واقعات کے بارہ میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی خاص سیاسی رہنما کے بغیر بھی ہوکر رہتے تھے لیکن عرب کی فتوحات کے بارہ میں یہ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ محمد نے جو کچھ کر دکھایا اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور کوئی وجہ نہیں کہ یقین کیا جائے کہ یہ فتوحات آپ کے بغیر بھی حاصل ہو سکتی تھیں.2.جارج بیشور ( 1998ء) ایک مذہبی محقق ہیں.وہ لکھتے ہیں :."The ancient Egyptian, Greek, and scientists had made remarkable advances in medicine, math, astronomy, philosophy, and alchemy.Their discoveries might have been lost forever if a child named Muhammad had not been born in Arabia around 570." (5) ترجمہ: قدیم مصری، یونانی، اور رومی سائنسدان نے طب، ریاضی، فلکیات، فلسفہ اور کیمیا میں بہت ترقی کی.عین ممکن تھا کہ ان کی تمام محنت رائیگاں چلی جاتی اگر عرب میں ایک بچہ کہ جس کا نام محمد تھا جنم نہ لیتا.3.مسٹر کے ایس راما کرشناراؤ (1996ء) ایک انڈین فلاسفر ہیں.وہ رقمطراز ہیں "In the desert of Arabia was Mohammad born, according to Muslim historians, on April 20, 571.The name means 'highly praised.' He is to me the greatest mind among all the sons of Arabia.He means so much more than all the poets and kings that preceded him in that impenetrable desert of red sand.When he appeared, a nothing.Out of nothing a new world was Arabia was a desert fashioned by the mighty spirit of Mohammad - a new life, a new culture, a new civilization, a new kingdom which extended from
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 627 اسوہ انسان کامل Morocco to India and influenced the thought and life of three continents Asia, Africa and Europe....The theory of" Islam and the Sword", for instance is not heard now frequently in any quarter worth the name....The principles of universal brotherhood and doctrine of the equality of mankind which he proclaimed presents one very great contribution of Mohammad to the social uplift of humanity.All great religions have preached the same doctrine but the prophet of Islam had put this theory into actual practice and its value will be fully recognized, perhaps centuries hence, when international consciousness being awakened, racial prejudices may disappear and greater brotherhood of humanity come into existence....The Arabs had a very strong tradition that one who can smite with the spear and can wield the sword would inherit.But Islam came as the defender of the weaker sex and entitled women to share the inheritance of their parents.It gave woman, centuries ago, the right of owning property, yet it was 12 centuries later in 1881 that England the supposed cradle of democracy, adopted this institution of Islam and the act was called, 'the married woman act'....Historical records show that all the contemporaries of Mohammad both friends and foes, acknowledged the sterling qualities, the spotless honesty, the noble virtues, the absolute sincerity and every trustworthiness of the apostle of Islam in all walks of life and in every sphere of human...Circumstances changed, but the prophet of God did not.In activity victory or in defeat, in power or in adversity, in affluence or in indigence, he is the same man, disclosed the same character.Like all the ways and laws of God, Prophets of God are unchangeable.An honest man, as the saying goes, is the noblest work of God,
اسوہ انسان کامل 628 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی Mohammad was more than honest.He was human to the marrow of his bones.Human sympathy, human love was the music of his soul.To serve man, to elevate man, to purify man, to educate man, in a word to humanize man - this was the object of his mission, the be-all and end all of his life.In thought, in word, in action he had the good of humanity as his sole inspiration, his sole guiding principle."(6) ملتا.ترجمہ : مسلمان تاریخ دانوں کے مطابق محمد 20 اپریل 571ء کو عرب کے صحرا میں پیدا ہوئے.آپ کے نام کا مطلب ” بہت تعریف کیا گیا ہے.میرے خیال میں آپ معرب کے سپوتوں میں سب سے اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک ہیں.آپ عرب کے نا قابل عبور سرخ ریت کے صحرا میں اپنے سے پہلے گزرنے والے تمام شاعروں اور بادشاہوں سے بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں.جب آپ مبعوث ہوئے تو عرب ایک صحرا تھا.ایک نا قابل ذکر ملک.اس نا قابل ذکر جگہ سے محمد کے عظیم وجود سے ایک نیا عالم وجود میں آیا.ایک نئی زندگی ، ایک نئی ثقافت ، ایک نئی تہذیب ، ایک نئی سلطنت جو مراکش سے ہندوستان تک وسیع تھی کہ جس نے تین براعظموں یعنی ایشیاء افریقہ اور یورپ کے فکر و عمل کو متاثر کیا وجود میں آئی.نظریہ اسلام اور تلوار کے بارے میں آج کی مقبول دنیا میں عام ذکر نہیں عالمی بھائی چارے کے اصول اور انسانی مساوات کی تعلیم جسے آپ نے پیش کیا انسانیت کی معاشرتی ارتقاء میں آپ کے عظیم کردار کی عکاسی کرتے ہیں.تمام بڑے مذاہب نے یہی تعلیمات دی ہیں لیکن نبی اسلام نے اس نظریہ کا عملی نمونہ پیش کیا اور شاید صدیوں بعد جب بین الاقوامی ضمیر بیدار ہونے سے نسلی تعصبات ختم ہونگے اور سب انسان اخوت کی لڑی میں پروئے جائیں گے تب اس بات کی اہمیت کا اندازہ ہوگا.عربوں میں یہ رسم راسخ تھی کہ طاقتور زور بازو سے وراثت حاصل کرتا تھا.مگر اسلام صنف نازک کے دفاع کا علمبر دار بنا اور اس نے عورتوں کو والدین کے ترکے کا وارث قرار دیا.اس حکم نے عورت کو جائیداد کے مالک ہونے کا حق صدیوں پہلے دے دیا تھا جبکہ انگلستان میں جو جمہوریت کی ابتدائی درسگاہ کہلاتا ہے.1881ء میں اسلام کا یہ اصول اپنایا گیا اور یہ قانون The" Married Woman's Act کے نام سے موسوم ہوا.تاریخی ریکارڈ سے واضح ہوتا ہے کہ محمد کے تمام ہم عصر چاہے وہ دوست ہوں یا دشمن محمد کے وقیع خواص، بے داغ ایمانداری، زہد تقوی ، کمال اخلاص اور اسکے علاوہ زندگی کے ہر میدان میں انسانی عادات و اطوار میں آپ کے نمونہ کو بہترین تسلیم کرتے ہیں...حالات بدل گئے مگر اللہ کا نبی نہ بدلا.فتح ہو یا شکست ، طاقت ہو یا بے سروسامانی کا عالم ، فراخی ہو یا تنگی آپ کی شخصیت کا ایک خاص ٹھہراؤ ہر موقعہ پر ظاہر ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے تمام طریقوں اور قوانین کی طرح اللہ تعالی کے انبیاء بھی غیر متبدل ہوتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ایک دیانتدار انسان خدا کی بہترین تخلیق ہے، محمد امانت و دیانت میں بہت بلند مقام رکھتے تھے.انسانیت گویا آپ میں رچی بسی تھی.آپ کی روح محبت اور ہمدردی خلق کے گیت گاتی تھی.انسان کی خدمت، انسان کو رفعت بخشا، انسان
اسوہ انسان کامل 629 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی کا تزکیہ کر نا انسان کو تعلیم دینا علی ھذا القیاس آدمی کو انسان بنانا آپ کا مطمح نظر اور مقصد حیات تھا، آپ کی زندگی کا واحد محرک اور راہنما اصول جو آپ کی سوچ، الفاظ اور اعمال سے صاف ظاہر ہے انسانیت کی بھلائی ہے.-4 پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ.1991ء میں سلمان رشدی کی بدنام زمانہ کتاب کے بعد سابق عیسائی راہبہ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ ( جو اسلام اور دیگر مذاہب ، عیسائیت، یہودیت پر کئی کتب کی مصنفہ بھی ہیں ) نے رسول اللہ کی سوانح پر ایک کتاب "محمد" لکھی ہے.جس میں بالعموم اہل مغرب کی طرف سے بانی اسلام کی سیرت پر ہونے والے نا پاک حملوں اور اعتراضات کے متعلق جارحانہ کی بجائے انصاف کے ساتھ مدافعانہ پہلو اختیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے.مغرب میں سلمان رشدی کی بانی اسلام کے خلاف یکطرفہ غلط کہانی کے مقابل پر اس کتاب کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے لکھا:."It seemed important that the true story of the prophet should also be available, because he was one of the most remarkable human beings who ever lived "......"Muhammad has been seen as the antithesis of the religious spirit and as the enemy of decent civilization.Instead, perhaps, we should try to see him as a man of the spirit, who managed to bring peace and civilization to his people." 66 ترجمہ : یہ نہایت ضروری معلوم ہوتا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی سچی کہانی بھی دستیاب ہو کیونکہ آپ دنیا کے وہ عظیم ترین انسان ہیں جو کبھی اس دنیا میں تشریف لائے.اہل مغرب نے محمد کو مذہبی روح کے مخالف اور شائستہ تہذیب کے دشمن کے طور پر دیکھا ہے اس کی بجائے شاید ہمیں ان کو ایک روحانی انسان کے طور پر دیکھنا چاہئے جنہوں نے اپنے لوگوں کو امن اور تہذیب کا گہوارہ بنایا.“ پروفیسر کیرن آرمسٹرانگ مزیدلکھتی ہیں:.He became a brilliant and charismatic political leader who not only transformed Arabia but changed the history of the world,...It is possible to see the egalitarian ideal of Islam as a practical way of fostering brotherly love by reducing all men to the same social and political level....Indeed Muhammad himself set a high standard of 'brothering' in his own behaviour....Over the centuries in the West,
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 630 اسوہ انسان کامل we have tended to think of Muhammad as a grim figure, a cruel warrior and a callous politician.But he was a man of great kindness and sensibility....Divine aid seemed the only possible explanation for Muhammad's extraordinary success....Instead of devoting all their efforts to restructuring their own personal lives within the context of the 'pax Romana,' like the early Christians, Muhammad and his companions had undertaken the redemption of their society, without which there could be no moral or spiritual advance....the Islamic empire had reached the limits of its expansion about a hundred years after Muhammad's death, and Muslims developed normal diplomatic and economic links with their neighbours in the House of War.There was no pressure on Jews, Christians or Zoroastrians to convert to Islam,...We in the West have never been able to cope with slam: our ideas of it have been crude and dismissive and today we seem to belie our own avowed commitment to tolerance and compassion by our contempt for the pain and inchoate distress in the Muslim world.Islam is not going to disappear or wither away; it would have been better if it had remained healthy and strong.We can only hope that it is not too late...If Muslims need to understand our Western traditions and institutions more thoroughly today, we in the West need to divest ourselves of some of our old prejudice.Perhaps one place to start is with the figure of Muhammad: a complex, passionate man who sometimes did things that it is difficult for us to accept, but who had genius of a profound order and founded a religion and a cultural tradition that was not based on the sword - despite the Western myth - and whose name 'Islam' signifies peace and reconciliation."(7)
631 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی يقيناً اسوہ انسان کامل ترجمہ : ” آپ نہایت قابل اور کرشماتی راہنما کے طور پر ابھرے.جس نے نہ صرف عرب کونئی شکل دی بلکہ پوری دنیا کی تاریخ کو بدل کے رکھ دیا.ہم اسلامی با ہمی مساوات کے نظریہ کو جس میں تمام آدمیوں کو سیاسی اور معاشی لحاظ سے مساوی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں.باہمی بھائی چارہ اور محبت کو فروغ دینے میں مؤثر پاتے ہیں.محمد نے خود اپنے کردار میں اخوت کا ایک اعلیٰ معیار قائم کیا..بلا مبالغہ صدیوں تک مغرب میں ہمارا رجحان محمد کو ایک شدت پسند شخصیت ایک بے رحم جنگجو اور ایک جذبات سے عاری سیاستدان کی شکل میں دیکھنے کا رہا ہے آپ ایک انتہائی شفیق اور عقل مند شخصیت تھے.محمد کی غیر معمولی کامیابی صرف اور صرف الہی تائید ہی کی مرہون منت دکھائی دیتی ہے.ابتدائی عیسائیوں کے برعکس کہ جنہوں نے "Pax Romana" یعنی تمام ریاستوں میں امن کے قیام کی آڑ میں اپنی تمام تر کوششوں کو محض اپنی اپنی زندگیوں کو سنوارنے میں لگایا.محمد اور آپ کے ساتھیوں نے اپنے پورے معاشرے کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا جس کے بغیر کسی بھی قسم کی اخلاقی یا روحانی ترقی ناممکن تھی.مسلمان مملکت محمد کی وفات کے سو سال کے اندر اندر اپنی وسعت کی حدوں تک پھیل چکی تھی.اور مسلمانوں نے جنگ کے زمانے میں بھی اپنے ہمسائیوں سے معمول کے سفارتی اور معاشی تعلقات استوار کیے تھے.کسی یہودی، عیسائی یا زرتشی پر اسلام لانے کیلئے کوئی دباؤ نہ ڈالا جاتا تھا.ہم یہاں مغرب میں کبھی بھی اسلام کو صحیح تناظر میں نہ دیکھ سکے.ہمارے اس کے بارے میں نظریات بالکل نا پختہ اور نا معقول سے رہے ہیں اور آج ہم خود اپنی برداشت اور ہمدردی کے وعدے سے انحراف کر رہے ہیں.کیونکہ آج مسلمان دنیا میں نفسیاتی دباؤ اور تکلیف کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں.اسلام مٹنے والا یا اپنا حسن کھونے والا نہیں بلکہ بہتر تھا کہ اگر یہ پھلتا پھولتا اور اس میں آب و تاب رہتی.ہم اب صرف امید ہی کر سکتے ہیں کہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی.اگر ہمارے مغربی روایات اور نظام کو مفصل سمجھنا مسلمانوں کی ضرورت ہے تو ہم مغربی اقوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بعض پرانے تعصبات سے آزاد کریں شاید ایک ابتدائی سیڑھی نبی کریم کی شخصیت ہو سکتی ہے.ایک ہمہ جہت ، جذبات سے پر شخصیت جس نے بعض دفعہ ایسے کام کیے جن کا تسلیم کرنا ہمارے لئے مشکل ہے لیکن آپ مذہبی دنیا میں بہت اعلیٰ درجہ کی دماغی صلاحیات کے مالک تھے اور آپ نے ایک ایسے مذہب اور ثقافت کی داغ بیل ڈالی جس کی بنیاد مغربی افسانوں کے برعکس تلوار پر نہیں تھی اور جس کے نام ”اسلام“ کا مطلب امن و مصالحت پیدا کرنا ہے.“ 5.پروفیسر مسٹر منٹگمری واٹ (1960ء) برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی کے عربی واسلامیات کے پروفیسر اور کتاب محمد ایٹ مدینہ کے مصنف ہیں.وہ لکھتے ہیں."It must rank as one of Muhammad's greatest achievements that he effected a genuine reconciliation with the leading men of Mecca - the men who a few months before had been his implacable enemies.In both Meccan and Medinan periods Muhammad's
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 632 اسوہ انسان کامل contemporaries looked on him as a good and upright man, and in the eyes of history he is a moral and social reformer....The more one reflects on the history of Muhammad and of early Islam, the more one is amazed at the vastness of his achievement.Circumstances presented him with an opportunity such as few men have had, but the man was fully matched with the hour.Had it not been for his gifts as seer, statesman, and administrator and, behind these, his trust in God and firm belief that God had sent him, a notable chapter in the history of mankind would have remained unwritten."(8) ترجمہ: ”یقین محمد کا ایک بہترین کارنامہ آپ کا کفار مکہ سے مصالحت کر لینا ہے.ان لوگوں کے ساتھ جو چند ماہ قبل شدید دشمن تھے.محمد کے ہم عصر دونوں کی اور مدنی ادوار میں آپ کو ایک اچھا اور راست باز شخص کے طور پر جانتے تھے اور تاریخ کی نظر میں آپ اخلاقی اور سماجی مصلح ہیں.جتنا ایک انسان محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی ابتدائی اسلام کی تاریخ پر غور کرتا ہے اتنا ہی وہ آپ کی وسیع کامیابیوں کو دیکھ کر مو حیرت ہو جاتا ہے.حالات نے آپ کو وہ موقع دیا جو بہت کم ہی کسی کو میسر آیا ہوگا تا ہم آپ کی ذات زمانے کے جملہ تقاضوں پر پوری اترتی تھی.غیب پر اطلاع پانے مد بر اور منتظم ہونے کے علاوہ اگر آپ کا اس بات پر محکم ایمان نہ ہوتا کہ خدا نے آپ کو بھیجا ہے تو انسانی تاریخ کا ایک قابل ذکر باب ضبط تحریر میں آنے سے رہ جاتا.“ 6.جیمز اے میچز (1955ء) ایک عظیم محقق لکھتے ہیں."Orphaned at birth, he was always particularly solicitous of the poor and the needy, the widow and the orphan, the slave and the downtrodden He lifted women from the bondage in which desert custom held them and preached general social justice....Among drunkards he abolished alcohol,...He preached that slaves should be set free, that fathers should not kill unwanted baby girls, that those oppressed by society inherit the earth, that peace is better than war, that justice prevails....No other religion in history spread so rapidly as Islam....The West has widely believed that this surge of religion was made possible by the sword.But no modern scholar accepts that
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 633 اسوہ انسان کامل idea, and the Koran is explicit in support of freedom of conscience....Many Westerners, accustomed by their history books to believe that Muslims were barbarous infidels, find it difficult to comprehend how profoundly our intellectual life has been influenced by Muslim scholars in the fields of science, medicine, mathematics, geography and philosophy....I have been studying Islam for many years, and I cannot see any valid reason why this religion and Christianity cannot cooperate."(9) ترجمہ : پیدائشی یتیم ، آپ ہمیشہ خاص طور پر غریب اور ضرورت مند ، یتیم اور بیوگان ،غلام اور کمزور لوگوں کے بہت خیر خواہ رہے.آپ نے عورت ذات کو صحرائی اقدار کی بندشوں سے نجات دلائی اور عمومی معاشرتی انصاف کا پر چار کیا.شرابیوں سے شراب چھڑائی.آپ نے اس بات کا پرچار کیا کہ غلاموں کو آزاد کرنا چاہیے.اور یہ کہ والد کو بچیاں جو اس معاشرے میں ناپسندیدہ سمجھی جاتی تھیں قتل نہیں کرنا چاہیے اور یہ کہ معاشرے میں مظلوم کو بھی زمین وراثت میں ملے.اور یہ کہ امن جنگ سے بہتر ہے.اور یہ کہ انصاف کی علمبر داری ہونی چاہیے.تاریخ میں کوئی بھی مذہب اتنی تیزی سے نہیں پھیلا جتنی تیزی سے اسلام پھیلا ہے.مغرب کے وسیع حلقوں میں یقین کیا جاتا ہے کہ مذہب (اسلام) کا یہ پھیلا ؤ تلوار سے ممکن بنایا گیا ہے.لیکن کوئی بھی جدت پسند عالم اس بات کو نہیں مانتا اور قرآن کریم ( کی تعلیم ) ضمیر کی آزادی کو فروغ دینے میں صریح واضح ہے..اکثر مغربی لوگ جو صرف تاریخی کتب پر یقین رکھنے کے عادی ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان وحشی اور لامذہب قوم ہیں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان کی علمی کاوشیں سائنس ،طب، ریاضی ، جغرافیہ اور فلسفے میں مسلمان علماء سے اس قدر گہرائی سے کیونکر متاثر ہیں.اسلام کئی سال سے میرے زیر مطالعہ ہے اور میں کوئی بھی مؤثر وجہ اس بات کی نہیں پاتا کہ یہ مذہب (اسلام) اور مسیحیت مل کر کیوں نہیں چل سکتے.“ 7.مسٹر برنارڈ شا (1856 تا 1950ء) نے بانی اسلام اور آپ کے مذہب کی برتری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:."If any religion has the chance of ruling over England, nay, Europe, within the next hundred years, it can only be Islam." "I have always held the religion of Muhammad in high estimation because of its wonderful vitality.It is the only religion which appears to me to possess the assimilating capability to the changing phase of existence, which can make its appeal to every age.I believe that if a man like Muhammad were to assume the dictatorship of the modern
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 634 اسوہ انسان کامل world he would succeed in solving its problems in a way that would bring it much needed peace and happiness."(10) ترجمہ: ”اگلے سوسال میں اگر کسی مذہب کو انگلستان بلکہ یورپ پر غلبہ حاصل کرنا ممکن ہے تو وہ صرف اسلام میں نے ہمیشہ محمد کے مذہب کو اسکی حیران کن جاذبیت کی وجہ سے انتہائی معزز جانا ہے.یہ وہ منفر د مذہب ہے جو میری رائے میں دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہر زمانہ کو متاثر کر سکتا ہے.مجھے یقین ہے کہ محمد ہے جیسا انسان آج کی جدید دنیا کو مطلق العنان حکمران کے طور پر مل جاتا تو وہ دنیا کے مسائل اس طرح حل کرنے میں ضرور کامیاب ہوتا کہ انسانیت کو مطلوب امن اور خوشحالی کی دولت نصیب ہو جاتی.“ 8.ایم این رائے (1939 ء ) ایک عظیم انقلابی راہنما.رقمطراز ہیں."Every Prophet establishes his pretension by the performance of miracles.On that token, Mohammad must be recognized by far the greatest of all prophets, before or after him.The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles."Today the educated world has rejected the vulgar theory that the rise of Islam was a triumph of fanaticism over noble and tolerant peoples.The phenomenal success of Islam was primarily due to its revolutionary significance and its ability to lead the masses out of the hopeless situation created by the decay of antique civilizations not only of Greece and Rome but of Persia and China - and of India." "The basic doctrine of Islam - 'There is but one God' - itself makes for toleration.If the whole world, with its defects and deformities, the entire mankind, with all its follies and frivolities, is admitted as the creation of the self-same God, the believer in this elevating doctrine may deplore the deformities and laugh at what appears to him to be absurdities and perverseness; but the very nature of his faith does not permit him to look upon them as the works or worshippers of some other God of Evil, and declare war upon them as such.Those, who worship differently, are for him mistaken and misled brethren,
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 635 اسوہ انسان کامل but nonetheless children of the self-same father, to be brought to the right road, or indulgently tolerated are ready for redemption.(11) ترجمہ : ” ہر نبی اپنے دعوی کو معجزات کے ذریعے مضبوطی بخشتا ہے.اس لحاظ سے تو محمد یقیناً دوسرے تمام انبیاء ما خلا و ما بعد سے عظیم ترین تسلیم کئے جانے چاہیں.اسلام کا پھیلنا تمام منجزات سے زیادہ معجزانہ شان رکھتا ہے.“ " آج کی پڑھی لکھی اور باشعور د نیا اس نا معقول نظریہ کو مستر د کر چکی ہے کہ اسلام کا ظہور اور ترقی گویا شدت پسندی کی متمدن اور عمدہ اقوام پر فتح تھی.اسلام کی شاندار کامیابی کی بنیادی وجہ اس کا انقلاب انگیز امتیاز اور اس کی عوام الناس کو یاس و ناامیدی کے ان حالات سے بازیاب کروانے کی اہلیت تھی جو پرانی تہذیبوں کے انحطاط کے باعث پیدا ہوئیں جن میں نہ صرف رومی اور یونانی تہذیبیں شامل ہیں بلکہ ایرانی چینی اور ہندوستانی بھی.اسلام کا بنیادی رکن لا الہ الا اللہ.اپنی ذات میں رواداری کا آئینہ دار ہے.اگر تمام دنیا اپنے تمام عیوب اور خرابیوں سمیت تمام انسانیت اپنے تمام تر گناہوں اور کمزوریوں کے ساتھ اسی خدا کی تخلیق تسلیم کئے جائیں تو ممکن ہے کہ اس اعلیٰ عقیدہ پر ایمان لانے والا ان عیوب پر افسوس کرے اور باتیں اس کے نزدیک مضحکہ خیز اور بگڑی ہوئی ہیں ان پر ہنسے.لیکن اس کے ایمان کی نوعیت اسے یہ بات سوچنے کی اجازت نہ دے گی کہ وہ انہیں کسی دوسرے جھوٹے خدا کی تخلیق یا اس کے عبادت گزار تسلیم کرے اور اس کے نتیجے میں ان سے اعلان جنگ کر دے.وہ لوگ جو کسی اور طرز پر عبادت بجالاتے ہیں ان کے نزدیک غلطی خوردہ ہیں، راہ راست سے بٹے ہوئے ہیں مگر ہیں تو اسی ایک باپ کی اولاد جنہیں راہ راست پر لانا ابھی باقی ہے.یا یہ ہو سکتا ہے کہ انہیں متاثر کن حد تک برداشت کیا جائے.یہاں تک کہ وہ گناہوں سے نجات کیلئے تیار ہو جائیں.“ 9.مسٹر فلپ کے بٹی (1937ء) پروفیسر پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ رقمطراز ہیں: "Arabia, which had hitherto never bowed to the will of one man, seemed now inclined to be dominated by Muhammad and be incorporated into his new scheme.Its heathenism was yielding to a nobler faith and a higher morality....Even in the height of his glory Muhammad led, as in his days of obscurity, an unpretentious life in one of those clay houses consisting, as do all old-fashioned houses of present-day Arabia and Syria, of a few rooms opening into a courtyard and accessible only therefrom.He was often seen mending his own clothes and was at all times within the reach of his people, thus by one stroke the most vital bond of Arab relationship,
اسوہ انسان کامل 636 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی that of tribal kinship, was replaced by a new bond, that of faith; a sort of Pax Islamica was instituted for Arabia.The new community was to have no priesthood, no hierarchy, no central see....? Within a brief span of mortal life Muhammad called forth out of unpromising material a nation never united before, in a country that was hitherto but a geographical expression; established a religion which in vast areas superseded Christianity and Judaism and still claims the adherence of a goodly portion of the human race; and laid the basis of an empire that was soon to embrace within its far-flung boundaries the fairest provinces of the then civilized world.Himself an unschooled man, Muhammad was nevertheless responsible for a book still considered by one-eighth of mankind as the embodiment of all science, wisdom and theology."(12) ترجمہ: ”عرب جس نے اس وقت تک کبھی کسی ایک آدمی کے سامنے گردن نہ جھکائی تھی اب محمد سے مرعوب ہوتا نظر آتا تھا اور ان کے نئے سلسلے میں شامل ہوتا دکھائی دیتا تھا.ان کی لامذہبیت ایک بہتر دین اور اعلیٰ اخلاقیات میں تبدیل ہو رہی ہے.محمد نے اپنی شان و شوکت کی انتہا پر بھی اسی طرح کی غیر مصنوعی تضع سے پاک زندگی گزاری جس طرح کی آپ گمنامی کے زمانے میں مٹی کے گھروں میں گزارتے تھے.جیسا کہ آج کل شام اور عرب میں پرانی طرز کے گھر موجود ہیں جن میں چند کمرے اور ایک صحن ہوتا ہے اور صرف اسی صحن سے ان کمروں میں جانا ممکن ہوتا تھا.آپ کو بار ہا اپنے کپڑوں کو خود ٹانکہ لگاتے ہوئے دیکھا گیا اور آپ سے کسی بھی وقت ملاقات کی جاسکتی تھی...چنانچہ صرف ایک ہی جھٹکے میں عرب کے سب سے مضبوط بندھن یعنی قبائلی عصبیت کو ایک نئے رشتے سے بدل دیا گیا.ایک مذہب کا رشتہ، ایک اسلامی پروا نہ عرب میں رائج کیا گیا.اس نئے گر وہ میں نہ ملائیت تھی ، مذہبی درجہ بندی اور نہ ہی پاپائیت؟ محمد نے اس مختصر فانی زندگی میں ایک ایسے ملک سے جو اس وقت تک جغرافیہ میں خاطر خواہ مقام ہی نہ رکھتا تھا ایسی قوم میں جو اس سے پہلے کبھی بھی ایک نہ ہوئی تھی اور جن میں بظاہر بہتری پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا انقلاب پیدا کر دیا.ایک ایسے مذہب کو فروغ دیا جو بہت سارے علاقوں میں عیسائیت اور یہودیت سے آگے نکل گیا.اور اب بھی دنیا کی آبادی کا اکثر حصہ اس سے وابستہ ہے.اور انہوں نے ایک ایسی سلطنت کی بنیا د رکھی کہ جس نے جلد ہی اپنی وسیع وعریض حدود میں اس وقت کی مہذب دنیا کے بہترین حصوں کو اپنے اندر ضم کر لیتا تھا.آپ اپنی ذات میں ایک امی آدمی تھے مگر اس کے باوجود
اسوہ انسان کامل 637 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی آپ کے سبب سے ہی اس کتاب کا ظہور ہوا جواب بھی دنیا کے 1/8 انسانوں کے خیال میں تمام تر سائنس، عقل اور الہیات کا مجموعہ ہے.“ 10 مسٹر جواہر لعل نہرو (1932ء) ایک مفکر اور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم نے کہا:."It is strange that this Arab race, which for long ages had lived a sleepy existence, apparently cut off from what was happening elsewhere, should suddenly wake up and show such tremendous energy as to startle and upset the world.The story of the Arabs, and of how they spread rapidly over Asia, Europe and Africa, and of the high culture and civilization which they developed, is one of the wonders of history.Islam was the new force or idea which woke up the Arabs and filled them with self-confidence and energy.This was a religion started by a new prophet, Mohammad, who was born in Mecca in 570 A.C....He lived a quiet life, liked and trusted by his fellow-citizens.Indeed, he was known as 'Al-Amin' - the Trusty.The religion he preached, by its simplicity and directness and its flavour of democracy and equality, appealed to the masses in the neighbouring countries who had been ground down long enough by autocratic kings and equally autocratic and domineering priests.They were tired of the old order and were ripe for a change.Islam offered them this change, and it was a welcome change, for it bettered them in many ways and put an end to many old abuses."(13) ترجمہ : ” یہ حیران کن امر تھا کہ عربوں کی وہ قوم جس نے عرصہ تک گمنامی کی زندگی گزاری اور جو ظاہری طور پر اطراف واکناف میں ہونے والے واقعات سے بے خبر رہتی تھی اچانک جاگ اٹھی اور اس نے اتنی زبر دست قوت کا مظاہرہ کیا کہ دنیا کو چونکا دیا اور تہلکہ مچادیا.عربوں کی کہانی اور اس بات کا ذکر کہ وہ کس تیزی سے ایشیا، یورپ اور افریقہ میں پھیل گئے اور اعلیٰ تہذیب و تمدن جو انکے ذریعے فروغ پایا تاریخ کے عجائبات میں سے ایک ہے.اسلام ایک نئی قوت یا نظر یہ تھا کہ جس نے عربوں کو جھنجھوڑا اور انہیں خود اعتمادی اور طاقت سے مملوء کر دیا.یہ وہ مذہب تھا جو ایک نئے نبی محمد
اسوہ انسان کامل 638 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی کی طرف سے شروع کیا گیا جو مکہ میں 570ء میں پیدا ہوئے.آپ نے انتہائی گوش نشینی کی زندگی گزاری.آپ کے ساتھ رہنے والے آپ کو پسند کرتے اور آپ پر اعتماد کرتے تھے.یقیناً آپ گالا مین، یعنی امانت دار مشہور تھے.جس مذہب کا آپ نے پر چار کیا وہ آسان، سیدھا سادھا ہونے اور اپنے اندر جمہوریت اور مساوات رکھنے کی وجہ سے ہمسایہ ممالک میں موجود لوگوں کو بہت بھایا جو آمر بادشاہوں کے ظلم و بربریت اور ویسے ہی آمرانہ انداز رکھنے والے متکبر پادریوں کے کافی عرصہ سے ظلم سہ رہے تھے.وہ پرانے نظام سے تنگ آچکے تھے اور ایک تبدیلی کیلئے بالکل تیار تھے.اسلام نے ان کے سامنے تبدیلی کا ایک راستہ کھولا اور اس تبدیلی کو خوش آمدید کہا گیا.کیونکہ اس نے انہیں کئی لحاظ سے پہلے سے بہتر کر دیا اور پرانی بد عنوانیوں کا قلع قمع کیا.“ 11 - لارا ولیسیا ڈاکٹر وگلیری (1935ء) اطالوی مستشرقہ (جو پلیز یونیورسٹی میں عربی اور ہسٹری آف مسلم سولائزیشن کی پروفیسر تھیں) نے 1935ء میں اپنی اطالوی زبان (Italian) میں An Interpretation of" "Islam لکھی جس کا انگریزی ترجمہ فاضل اور مشہور ادیب ڈاکٹر آلڈ وکیلی نے کیا اور اردو جامہ بعنوان ” اسلام پر نظر جناب شیخ محمد احمد مظہر صاحب ایڈووکیٹ لائکپور نے پہنایا.اس کتاب میں مصنفہ نے بانی اسلام کے پیدا کردہ انقلاب کی عظمت کو یوں سلام پیش کیا.تہذیب و تمدن کی شاہراہوں سے دُور بیابان میں ایک جاہل قوم بہتی تھی.جس کے اندر خالص اور شفاف پانی کا ایک چشمہ نمودار ہوا جس کا نام اسلام ہے.اسلام آیا اور اس نے ان خون خرابوں کو مٹا کر دلوں کے اندر اپنی تاثیر پھونک دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مذہب نے اخلاق اور مقاصد میں ہم آہنگی پیدا ہوگئی.باہمی اخوت کے جذبات موجزن ہونے لگے.اسلامی چشمہ ایک ناقابل مزاحمت دریا بن گیا.اور اس کے خالص اور پر زور دھارے نے زبر دست سلطنتوں کوگھیر لیا جوئی یا پرانی تہذیب کی حامل تھیں.یہ وہ شور تھا جس نے سوتوں کو جگاد یا یہ وہ روح تھی جس نے پراگندہ اقوام کو بالآخر وحدت کی لڑی میں پرو دیا.تاریخ عالم میں ایسا انقلاب کبھی نہ آیا تھا جس سرعت سے اسلامی فتوحات عمل میں آئیں اور جتنی جلدی چند مخلص اشخاص کے مذہب نے لاکھوں انسانوں کے دلوں میں گھر کر لیا.انسانی دماغ کے لئے یہ بات معمہ ہے کہ آخر وہ کونسی مخفی طاقت تھی جس کی بدولت چند آزمودہ کارلوگوں نے ان قوموں کو مغلوب کر لیا.جو تہذیب دولت تجربے اور فنون جنگ میں ان سے بدرجہا افضل تھیں.انہوں نے اپنے ساتھیوں کے دلوں میں اپنے نصب العین کے حصول کے لئے ایک ایسا حیرت انگیز ولولہ اور مستقل تڑپ پیدا کر دی کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ہزار سال بعد تک بھی کوئی دوسرا مذہب اس ولولے اور تڑپ کا ہمسر نہ ہوگا.“ فی الحقیقت اس مصلح کا کام نہایت اعلیٰ اور شاندار تھا.ہاں! یہی وہ مصلح تھا جس نے ایک بت پرست اور وحشی قوم کو کیچڑ سے نکال کر ایک متحد اور موحد جماعت بنا دیا.اور ان میں اعلیٰ اخلاق کی روح پھونک دی.(14) لا راولیسیا ڈاکٹر ویگیری مزید لکھتی ہیں:.
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 639 اسوہ انسان کامل "If we look into the prophecies of Muhammad or at the first Muslim conquests, it is easy to see how 'false was the accusation that Islam was imposed by the sword and that only by such means could its rapid and wide diffusion be accounted for.The Quran says: There should be no compulsion in Religion....Against the accusation of cruelty the answer is easy.Muhammad, Head of a State, defender of the life and freedom of his people, in the exercise of justice punished severely individuals guilty of crimes,...Muhammad, as a preacher of the religion of God, was gentle and merciful even towards his personal enemies.In him were blended justice and mercy, two of the noblest qualities which the human mind can conceive.....Enemies of Islam have insisted in depicting Muhammad as a sensual individual and a dissolute man, trying to find in his marriages evidence of a weak character not consistent with his mission.They refuse to take into consideration the fact that during those years of his life when by nature the sexual urge is strongest, although he lived in a society like that of the Arabs, where the institution of marriage was almost non-existent, where polygamy was the rule, and where divorce was very easy indeed, he was married to one woman alone, Khadija, who was much older than himself, and that for twenty-five years he was her faithful, loving husband.Only when she died and when he was already fifty years old did he marry again and more than once.Each of these marriages had a social or a political reason, for he wanted through the women he married to honour pious women, or to establish marriage relations with other clans and tribes for the purpose of opening the way for the propagation of Islam.With the sole
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 640 اسوہ انسان کامل exception of Ayesha, he married women, who were neither virgins, nor young nor beautiful.Was this sensuality?"(15) ترجمہ: اگر ہم محمد کی پیشگوئیوں کا بغور مطالعہ کریں یا مسلمانوں کی بتدائی فتوحات پر غور کریں تو ہم پر با سہولت یہ واضح ہو جائے گا کہ اسلام کا تلوار سے مسلط کیے جانے اور تلوار ہی کے ذریعہ اس کا جلد اور وسیع پھیلائے جانے کا الزام کتنا بے حقیقت ہے.قرآن کہتا ہے ملا اکراہ فی الدین کہ دین کے لئے کوئی جبر نہیں.قرآن کا یہ کہنا ظلم وجبر کے الزام کا آسان جواب ہے.محمد جو سلطنت کے سربراہ تھے اور اپنے لوگوں کی زندگی اور آزادی کے محافظ انصاف کے معاملے میں مجرموں کو سخت سے سخت سزائیں دیتے تھے...محمد ایک الہی مذہب کے داعی ہونے کے لحاظ سے انتہائی نرم اور رحم دل تھے حتی کہ اپنے ذاتی دشمنوں کیسا تھ بھی.آپ دو بہترین خوبیوں جنہیں انسان تصور میں لاسکتا ہے یعنی انصاف اور رحم کا ایک حسین امتزاج تھے.اسلام کے دشمنوں نے آپ کی شادیوں سے آپ میں ایک کمزور کر دار اور اپنے مشن سے غیر مخلص ثابت کرنے کی کوشش کر کے آپ کو ایک عیاش طبع اور آوارہ آدمی کی صورت میں پیش کرنے کیلئے پورا زور لگایا.انہوں نے اس حقیقت کو مد نظر نہ رکھا کہ آپ نے زندگی کے اس دور میں جبکہ قدرتی طور پر جنسی خواہشات زور آور ہوتی ہیں صرف ایک ہی عورت سے شادی کی ، باوجود یہ کہ آپ عربوں کے اس معاشرے کے مکین تھے جہاں نظام از دواجیت نہ ہونے کے برابر تھا.جہاں تعدد ازدواج ایک رواج تھا اور جہاں علیحدگی نہایت آسان تھی.خدیجہ جوخود آپ سے کافی عمر رسیدہ تھیں اور آپ 25 سال تک ان کے وفاشعار اور محبوب رفیق حیات رہے.صرف اس وقت جب خدیجہ کی وفات ہوگئی اور آپ 50 سال کے ہو گئے آپ نے دوبارہ کئی شادیاں کیں.ہر شادی کسی معاشرتی یا سیاسی مقصد کیلئے تھی.آپ اپنی ازواج کے ذریعہ سے پر ہیز گار عورتوں کو عزت دینا چاہتے تھے یا دوسرے قبائل سے شادیوں کے ذریعے سے تعلقات استوار کرنا چاہتے تھے تا کہ اسلام کی تبلیغ میں زیادہ سے زیادہ راہ ہموار ہو.سوائے حضرت عائشہؓ کے آپ نے ایسی عورتوں سے نکاح کیا جو نہ تو کنواری تھیں نہ جوان اور نہ ہی غیر معمولی خوبصورت.کیا یہی عیاشی ہوتی ہے؟ 12 مسٹر سرولیم میور (1923ء) اسلامی امور کے ماہر اور لائف آف محمد کے مصنف لکھتے ہیں:."The condition of the world at the time of the advent of Muhammad has been summed up in the Holy Quran as: 'Corruption has appeared on land and sea in consequence of people's misdeeds' (30:42).This is amply borne out by the testimony that we have cited above.Thus, it is clear that the state of the world, at the time of the advent of the Holy Prophet, called loudly for universal and comprehensive divine guidance, to be set forth in God's words,
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 641 اسوہ انسان کامل and to be illustrated by a messenger whose life would be multi-faceted and who would serve as an exemplar for mankind.Such was Muhammad.Another very striking factor in his support is that no one else even remotely approaching his stature and his qualities appeared to guide mankind at the time of its greatest need.The conclusion is irresistible that he was beyond doubt the pre-determined instrument of God for the revival of mankind." (16) ترجمہ : محمد (ﷺ) کی بعثت کے وقت دنیا کی حالت زار کا نقشہ قرآن میں یوں پیش کیا گیا ہے کہ لوگوں کے بد اعمال کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد برپا ہو چکا ہے (30:42) اس سے ہماری بیان کردہ شہادت کی تائید ہوتی ہے اور واضح ہو جاتا ہے کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت دنیا کی حالت بآواز بلند اس عالمی اور کامل الہی ہدایت کو پکار رہی تھی جو خدا کے الہامی الفاظ میں ایک ایسے رسول کے ذریعہ بیان کی جائے جس کی زندگی مختلف پہلوؤں اور جہات پر حاوی ہو اور جو بنی نوع انسان کے لئے ایک نمونہ اور اسوہ ہو، ایسے انسان محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہی تھے.آپ کی تائید میں ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ کوئی انسان بھی اس زمانہ میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے نہیں آیا جو آپ کے مقام اور صلاحیتوں تک پہنچا.جب کہ دنیا کو اس کی انتہائی ضرورت تھی.جس کا ناقابل تردید نتیجہ یہی ہے کہ بلاشبہ آپ کا وجود انسان کی رشد و ہدایت کے لئے خدا کے ہتھیار کے طور پر پہلے سے مقدر تھا.“ سر ولیم میور مزید لکھتے ہیں :."I will merely add that the simplicity and earnestness of Abu Bekr, and of 'Omar also, the first two Caliphs, are strong evidence of their belief in the sincerity of Mohammad; and the belief of these men must carry undeniable weight in the formation of our own estimate of his character, since the opportunities they enjoyed for testing the grounds of their conviction were both close and long-continued.It is enough that I allude to this consideration, as strengthening generally the view of Mohammad's character which throughout I have sought to support...A remarkable feature was the urbanity and consideration with which Mohammad treated even the most insignificant of his followers.Modesty and kindliness, patience, self-denial, and
اسوہ انسان کامل 642 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی generosity, pervaded his conduct, and riveted the affections of all around him...In the exercise of a power absolutely dictatorial, Mohammad was just and temperate.Nor was he wanting in moderation towards his enemies, when once they had cheerfully submitted to his claims.The long and obstinate struggle against his pretensions maintained by the inhabitants of Mecca might have induced its conqueror to mark his indignation in indelible traces of fire and blood.But Mohammad, excepting a few criminals, granted a universal pardon; and, nobly casting into oblivion the memory of the past, with all its mockery, its affronts and persecution, he treated even the foremost of his opponents with a gracious and even friendly consideration." (17) ترجمہ : ”میں صرف اتنا ہی مزید کہوں گا کہ پہلے دو خلفاء ابو بکر اور عمر کی سادگی اور گرم جوشی محمد کے اخلاص پر ان کے مستحکم ایمان کی واضح دلیل ہے.اور ان دونوں کا ایمان یقینی طور پر آپ کے کردار کی تصویر کشی میں جو ہم خود کر رہے ہیں نا قابل تردید ا ہمیت کا حامل ہے کیونکہ جو مواقع انہیں اپنے عقیدہ کو پر رکھنے کے ملے ہیں وہ قریب سے دیکھنے کیلئے لمبے عرصے پر محیط ہیں.میرے لئے کافی ہے کہ اب اس حوالہ سے ذکر کروں کہ یہ بات محمد کے کردار کو عام طور پر تقویت بخشتی ہے جس کی میں نے شروع سے آخر تک حمایت کی ہے...( آپکی شخصیت کا ) ایک بہترین پہلو آپ کی متانت اور توجہ ہے جس سے آپ آپنے ادنیٰ سے ادنی خدمتگار سے بھی پیش آتے.بیجز ونرمی ، حوصلہ اور کسر نفسی اور سخاوت آپ کے کردار میں عیاں تھیں اور اپنے ارد گرد کے تمام لوگوں کے دل موہ لیتی تھی.آپ ایک منصف مزاج اور اعتدال پسندی سے کام لینے والے مطلق العنان سر براہ سلطنت تھے.جب آپ کے دشمنوں نے اپنی مرضی سے آپ کے دعاوی کو قبول کیا تو آپ ان سے بھی حسن سلوک کے ساتھ برتاؤ کرتے.عین ممکن تھا کہ مکہ کے باسیوں کی طرف سے آنحضرت کے دعاوی کے خلاف لمبی اور مستقل مہم جوئی فاتح مکہ کو اپنی برتری آگ اور خون کے ان مٹ کلمات سے تحریر کرنے پر مجبور کر دیتی.لیکن محمد نے چند مجرموں کے علاوہ سب لوگوں کیلئے معافی کا اعلان کردیا اور انتہائی خوبصورتی سے تمام ٹھٹھوں، دیدہ دلیریوں اور تکالیف کو اپنے ماضی سے گویا جانتے بوجھتے ہوئے بھلا کر، اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے ساتھ احسان بلکہ دوستی کا سلوک روا رکھا.“ 13.ایس پی سکاٹ (1903ء) اپنی انگریزی کتاب "ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ میں نبی کریم کی زندگی کا حاصل یوں بیان کرتے ہیں:.
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 643 اسوہ انسان کامل "If the object of religion be the inculcation of morals, the diminution of evil, the promotion of human happiness, the expansion of the human intellect, if the performance of good works will avail in the great day when mankind shall be summoned to its final reckoning, it is neither irreverent nor unreasonable to admit that Muhammad was indeed an apostle of God." "The most convincing evidence of his (Prophet Muhammad's) honesty of purpose, his self-confidence, and his earnest dovotion, is furnishted by the rank and charactor or his first disciples, and the reverence with which his teachings were received."(18) ترجمہ : اگر مذہب کا مقصد اخلاق کی ترویج ، برائی کا خاتمہ، انسانی خوشی و خوشحالی کی ترقی اور انسان کی ذہنی صلاحیتوں کا جلاء ہے اور اگر نیک اعمال کی جزا اس بڑے دن ملنی ہے جب تمام بنی نوع انسان قیامت کو خدا کے حضور پیش کئے جائیں گے تو پھر یہ تسلیم کرنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم) بلاشبہ خدا کے رسول تھے ہر گز بے بنیا د اور بے دلیل ( دعوی ) نہیں ہے.پیغمبر محمد کی اپنے مقصد سے وفا، آپ کی خود اعتمادی اور انتہائی کمال کو پہنچی ہوئی وفا کا سب سے بڑا قابل فہم ثبوت، آپ کے ابتدائی اصحاب کے اعلیٰ اخلاق اور وہ انداز ہیں جس سے آپ کی تعلیم کو قبول کیا گیا.14.مسٹر تھامس ڈبلیو آرنلڈ (1896ء) عظیم محقق اسلام لکھتے ہیں:."It has been frequently asserted by European writers that from the date of Muhammad's migration to Medina, and from the altered circumstances of his life there, the Prophet appears in an entirely new character.He is no longer the preacher, the warner, the apostle of God to men, whom he would persuade of the truth of the religion revealed to him, but now he appears rather as the unscrupulous bigot, using all means at his disposal of force and statecraft to assert himself and his opinion." "But it is false to suppose that Muhammad in Medina laid aside his role of preacher and missionary of Islam, or
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 644 اسوہ انسان کامل that when he had a large army at his command, he ceased to invite unbelievers to accept the faith." Thus, from the very beginning, Islam bears thetamp of a missionary religion that seeks to win the hearts of men, to convert them and persuade them to enter the brotherhood of the faithful; and as it was in the beginning so has it continued to be up to the present day," (19) ترجمہ: یورپی مصنفین کی طرف سے یہ بات بڑے زور دار انداز سے بکثرت پیش کی جاتی ہے کہ محمد کی ہجرت مدینہ کے بعد بدلتے ہوئے حالات میں نبی کریم کا ایک بالکل مختلف کردار سامنے آیا.اب وہ بشیر بھی نہیں رہے نہ ہی نذیرنہ ہی انسانون کی طرف خدائی رسول جنہیں وہ اپنے اوپر نازل شدہ مذہب کی سچائی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے تھے.لیکن اب وہ ایک بے اصول کٹر مذہبی شخصیت کی صورت میں ابھرے جو اپنے آپ کو اور اپنے نظریہ کو منوانے کیلئے اپنے پاس موجود تمام تر طاقت اور وسائل اور حکومتی نظام کو بروئے کارلانے سے دریغ نہیں کرتا.“ لیکن یہ خیال کہ محمد نے مدینہ میں آکر اپنے مبلغ اسلام کے کردار کو پس پشت ڈال دیا یا یہ سوچنا کہ جب ان کے پاس غیر معمولی فوج اکٹھی ہوگئی تو آپ نے غیر مسلموں کو ایمان لانے کی دعوت دینا ترک کر دی سرا سر غلط ہے.“ چنانچہ بالکل آغاز سے ہی اسلام ایک تبلیغی مذہب کے حوالہ سے اپنی پہچان کرواتا ہے جس کا مقصد لوگوں کے دلوں کو جیتنا او لوگوں کواس بنیاد پر قائل کر کے مسلمان کرنا ہے کہ وہ اسلامی اخوت میں داخل ہوں اور جیسا کہ اسلام آغاز میں تھا ویسا ہی اسلام آج بھی ہے.“ 15.بسور تھ اسمتھ (1874) اپنی کتاب محمد اینڈ محمڈن ازم میں لکھتے ہیں:."We know indeed some fragments of a fragment of Christ's life; but who can lift the veil of the thirty years that prepared the way for the three? What we do know indeed has renovated a third of the world, and may yet renovate much more an ideal of life at once remote and near possible and impossible but how much we do not know! What do we know of his mother, of his home life, of his early friends, and his relation to them, of the gradual dawning, or, it may be, the sudden revelation, of his divine mission? How many
اسوہ انسان کامل 645 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی questions about him occur to each of us that must always remain questions! But in Mohammedanism every thing is different' here, instead of the shadowy and the mysterious, we have his story.We know as much of Mohammed as we do even of Luther and Milton.The mythical, the legendary, the supernatural is almost wanting in the original Arab authorities, or at all events can easily be distinguished from what is historical.Nobody here is the dupe of himself or of others; there is the full light of day upon all that that light can ever reach at all."The abysmal depths of personality" indeed are, and must always remain, beyond the reach of any line and plummet of ours.But we know every thing of the external history of Mohammed his youth, his appearance, his relation, his habits; the first idea and the gradual growth, intermittent though it was, of his great revelation; while for his internal history, after his mission had been proclaimed, we have a book absolutely unique in its origin."(20) یہ صحیح ہے کہ تاریخ کی روشنی میں ہم مسیح کی زندگی کے کچھ واقعات دیکھ سکتے ہیں لیکن اُن تمیں سالوں سے کون پردہ اٹھا سکتا ہے جو انہوں نے (نبوت سے پہلے ) گزارے جو کچھ ہم جانتے ہیں ، اس نے اگر چہ دنیا کی معلومات میں کسی حد تک اضافہ کر دیا ہے.اور آئندہ مزید انکشافات متوقع ہیں تا ہم ایک مثالی زندگی ، کون جانے ، کتنی قریب ہے کتنی دور! کتنی ممکن ہے اور کتنی نا ممکن ! ہم ابھی بہت کچھ نہیں جانتے.ہم اُن کی ماں کے بارے میں، ان کی گھریلو زندگی کے بارے میں، ان کے ابتدائی دوست احباب اور ان کے تعلقات باہم کے بارے میں اور اس سلسلہ میں بھلا کیا جانتے ہیں کہ مسند نبوت پر وہ بتدریج فائز ہوئے یا وحی پا کر میدم خدائی مشن کے حامل بن گئے؟ بہر حال کتنے ہی سوال ایسے ہیں جو ہم میں سے اکثر کے ذہنوں سے ٹکراتے ہیں مگر وہ بس سوالات ہیں جواب کے بغیر ! البتہ محمد (ﷺ) کے معاملہ میں صورت یکسر مختلف ہے.یہاں ہمارے پاس اندھیروں کی بجائے تاریخ کی روشنی ہے.ہم محمد (ﷺ) کے بارے میں اتنا ہی جانتے ہیں جتنا کہ لوتھر اور ملٹن کے بارے میں.یہاں واقعات کا دامن، خیال محض ، قیاس تخمین و ظن ، ماورائے فطرت روایات اور فسانہ و فسوں سے آلودہ ہونے کے بجائے حقائق سے آراستہ ہے.اور ہم بآسانی معلوم کر سکتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟ یہاں کوئی شخص نہ خود اپنے آپ کو دجل و
اسوہ انسان کامل 646 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی فریب میں مبتلا کر سکتا ہے نہ دوسروں کو.یہاں ہر چیز دن کی پوری روشنی میں جگمگا رہی ہے.اس میں شک نہیں کہ اُن کی شخصیت کے بہت سے پرٹ ہیں اور ان میں سے ہر ایک تک ہماری رسائی ممکن نہیں ہے تاہم محمد ( ﷺ ) کی زندگی کے متعلق ہم ہر چیز جانتے ہیں.اُن کی جوانی ، اُن کی اُٹھان ، اُن کے تعلقات ، اُن کی عادتیں ، ابتدائی حالات اور پہلی وحی کے نازل ہونے تک کا لمحہ، ذہنی سفر اور ارتقاء وغیرہ.نیز ان کی داخلی ، باطنی زندگی کے متعلق بھی اور یہ کہ جب اعلانِ نبوت کر چکے تو پھر ہم ایک ایسی مکمل کتاب پاتے ہیں جو اپنی ابتداء ، اپنی حفاظت اور متن وغیرہ کے کئی پہلوؤں کے لحاظ سے بالکل ممتاز و منفرد ہے.“ 16.جان ولیم ڈریپر ( 1861ء) عظیم سائنسدان اور مؤرخ رقمطراز ہیں :."Four years after the death of Justinian, A.D.569,was born at Mecca, in Arabia the man who of all men, has exercised the greatest influence upon the human race-Mohammad, by Europeans surnamed 'the impostor.' He raised his own nation from Fetichism, the adoration of a meteoric stone, and from the basest idol worship; he preached a monotheism which quickly scattered to the winds the empty disputes of the Arians and Catholics,...Mohammad possessed that combination of qualities which more than once has decided the fate of empires.A preaching soldier, he was eloquent in the pulpit, valiant in the field.His theology was simple: 'There is one God.' The effeminate Syrian, lost in Monothelite and Monophysite mysteries; the Athanasian and Arian, destined to disappear before his breath, might readily anticipate what he meant.Asserting that everlasting truth, he did not engage in vain metaphysics, but applied himself to improving the social condition of his people by regulations respecting personal cleanliness, sobriety, fasting, prayer.Above all other works he esteemed almsgiving and charity.With a liberality to which the world had of late become a stranger, he admitted the salvation of men of any form of faith provided they were virtuous.To the declaration that there is but one God, he added, 'and Mohammad is
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 647 اسوہ انسان کامل his Prophet.' Whoever desires to know whether the event of things answered to the boldness of such an announcement, will do well to examine a map of the world in our own times.He will find the marks of something more than an imposture.To be the religious head of many empires, to guide the daily life of one-third of the human race, may perhaps justify the title of a messenger of God.It is altogether a misconception that the Arabian progress was due to the sword alone.The sword may change an acknowledged national creed, but it cannot affect the consciences of men.Profound though its argument is, something far more profound was demanded before Mohammedanism pervaded the domestic life of Asia and Africa, before Arabic became the language of so many different nations."(21) ترجمہ: جسٹینین کی وفات کے 4 سال کے بعد 569ء میں عرب کے شہر مکہ میں ایک آدمی پیدا ہوا جس کا نام محمد تھا.جو دنیا میں لوگوں پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوا.اسے یور بین لوگوں نے نعوذ باللہ ( مفتری ) بادشاہت کا طلبگار قرار دیا.اس نے قوم کو قدیم روحوں کی پرستش ، ایک شہابیہ کی عقیدت اور ذلیل ترین عمل یعنی بتوں کی پوجا کی حالت سے نکال کر کے انہیں رفعت بخشی.اس نے وحدانیت کے عقیدہ کی تبلیغ کی جو جلد ہی فضاؤں میں پھیل گیا اور آریوں اور کیتھولک (عیسائیوں ) کے کھو کھلے اختلافات رکھنے والی قوم کو ہواؤں میں اڑا دیا...محمد ایسی خوبیوں کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھے جنہوں نے بار ہا بڑی بڑی طاقتوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کیے.آپ ایک مبلغ اور سالار تھے.آپ منبر پر فصیح البیان اور میدان جنگ میں بطل جلیل ہوتے.آپ کا علم دین الہی انتہائی عام فہم تھا.کہ اللہ ایک ہے.زنانہ خواص کے مالک شامی جو تو حید اور تثلیث کے جھنجھٹ میں الجھے ہوئے تھے ، یونانی مذہب کے پیروکاروں اور آریوں نے کہ جنہوں نے آپ کے نفس سے گویا مٹتے چلے جانا تھا شاید پہلے ہی اس بات کا اندازہ کر سکتے تھے کہ محمد کیا کہنا چاہتے ہیں.اس دا گی سچائی کو پیش کرتے ہوئے آپ بے فائدہ عقلی مباحثات میں نہ الجھے لیکن اپنے لوگوں کو چند ایسی باتوں پر عمل کروا کر جیسے ذاتی صفائی ، متانت ، روزہ اور نماز ان کی معاشرتی اصلاح میں اپنے آپ کو ضرور لگایا.دوسرے تمام کاموں سے بڑھ کر صدقہ و خیرات کو بہت وقعت دی.آپ نے اپنی میانہ روی سے کہ جس سے دنیا عرصہ پہلے ہی بے خبر تھی آپ نے ہر قسم کے عقیدے کے حامل آدمی کی نجات کو تسلیم کیا بشرطیکہ وہ نیک ہوں.توحید خداوندی کے اعلان کے ساتھ ساتھ آپ نے اس بات کا اضافہ فرمایا کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.جو بھی جاننے کی خواہش رکھتا ہے کہ
648 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل آیا اس کھلے کھلے اعلان کے پھیلانے میں جو جو باتیں عمل میں آئیں آیا وہ ہمارے دور میں موجود دنیا کے نقشے کو جانچنے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکیں گی.اسے اس دعوئی میں دھوکا دہی کے سواء اور باتوں کے نشانات ملیں گے.لیکن بہت سی سلطنتوں کا مذہبی راہنما ہونا اور انسانی آبادی کے ایک تہائی حصہ کی ہدایت کا سامان ہونا شاید ”رسول خداوندی“ کے لقب کی ضرورت کو واضح کر دے.یہ ایک سرا سر غلط فہمی ہے کہ عرب کی ترقی صرف تلوار سے ہی ہوئی.تلوار ایک قومی نظریہ کو تو شاید تبدیل کر سکے لیکن کبھی بھی انسانی سوچ کو نہیں تبدیل کر سکتی.اگر چہ عربی کا طرز استدلال بہت فصیح ہے، عربی زبان کے بہت سارے ممالک کی زبان بنے پہلے جبکہ اسلام افریقہ اور ایشیاء کولوگوں کے بود و باش میں نہ سمایا تھا انہیں کسی بہت گہری علم و بصیرت پر مبنی چیز کی ضرورت تھی.17.تھامس کارلائل (1840ء) ( اعزازی لار ڈریکٹر ایڈنبرا یونیورسٹی) انگریزی زبان کے مشہور انشا پر دازادیب اور مصنف نے اپنے لیکچرز ہیروز اینڈ ہیر وورشپ میں پیغمبروں اور بانیان مذاہب میں صرف محمد عربی (ﷺ) ہی کے وجود کو اس لائق سمجھا کہ وہ آپ کو نبیوں کا ہیرو قرار دے.وہ آپ کی عظمت کو یوں سلام پیش کرتا ہے :."A false man found a religion?...It will not stand for twelve centuries, to lodge a hundred-and-eighty millions; it will fall straightway....This Mahomet, then, we will in no wise consider as an Insanity and Theatricality, a poor conscious ambitious schemer; we cannot conceive him so....To kindle the world; the world's Maker had ordered it so....this deep-hearted Son of the Wilderness, with his beaming black eyes and open social deep soul, had other thoughts in him than ambition....Much has been said of Mahomet's propagating his Religion by the sword....The sword indeed: but where will you get your sword! Every new opinion, at its starting, is precisely in a minority of one.In one man's head alone, there it dwells as yet.One man alone of the whole world believes it; there is one man against all men.That he take a sword, and try to propagate with that, will do little for him....Mahomet himself, after all that can be said about him, was not a sensual man.We shall err widely if we consider this man as a common voluptuary, intent mainly on base enjoyments, -nay enjoyments of any kind....No emperor with his
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 649 اسوہ انسان کامل tiaras was obeyed as this man in a cloak of his own clouting.During three-and-twenty years of rough actual trial.I find something of a veritable Hero necessary for that, of itself....To the Arab Nation it was a birth from darkness into light; Arabia first became alive by means of it.A poor shepherd people, roaming unnoticed in its deserts since the creation of the world: a Hero-Prophet was sent down to them with a word they could believe: see, the unnoticed becomes world-notable, the small has grown world-great; within one century afterwards,...the Great Man was always as lightning out of Heaven; the rest of men waited for him like fuel, and then they too would flame." (22).ترجمہ : ” ( نعوذ باللہ ) ایک جھوٹے آدمی نے مذہب کی بنیاد رکھی؟ ممکن نہیں کہ وہ بارہ صدیوں تک قائم رہے اور ایک ارب اسی لاکھ انسانوں کے دلوں کو مسخر کرے.یہ تو خود بخو د نابود ہو جائے گا.ہم اگر محمد کے کام کو جنون یا ڈرامہ بازی کا نام دیں یا شہرت حاصل کرنے کیلئے منصوبہ بندی کرنے والا تو یہ ایسا تصور نہیں کیا جا سکتا.آپ مد بر تھے.ہم ہم اسے ایسا نہیں سمجھ سکتے.اس دینا کے خالق نے حکم دیا تھا کہ دنیا کو روشن کر دے.صحرا کا یہ وسیع القلب سپوت اپنی سیاہ روشن آنکھوں اور دوسروں میں گھل مل جانے والی طبیعت کے ساتھ اپنے ذہن میں ایک جنون کی بجائے کچھ اور خیالات رکھتا تھا.محمد کا تلوار کے ذریعے اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا ہے.بالکل ! تلوار ہی کے ساتھ ہی ہوا ہو گا ؟ مگر آپ اپنی تلوار کہاں سے لیں گے؟ ہر نیا نظریہ یہ اپنی ابتدائی شکل میں مختصر طور پر ایک اکائی سے شروع ہوتا ہے.ابھی تک وہ ایک تن تنہا آدمی کے ذہن کے کسی گوشے میں ہی رہتا ہے.صرف ایک آدمی تمام دنیا میں سے اس بات پر ایمان رکھتا ہے.صرف ایک آدمی تمام دنیا کے مد مقابل کھڑا ہوتا ہے.اس حال میں تلوار اٹھانا اور اس کے ذریعے اپنا مذہب پھیلانے کی کوشش کرنا اس کیلئے ہرگز فائدہ مند ثابت نہ ہو گا.“ 18.ڈاکٹر گستا وویل (1808 - 1889ء) آنحضرت کی پاکیزہ سیرت کے متعلق یوں گویا ہیں کہ :."Muhammad set a shining example to his people.His character was pure and stainless.His house, his dress, his food.they were characterized by a rare simplicity.So unpretentious was he that he would receive from his companions no special mark of reverence, nor would he accept any service from his slave which he could do
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 650 اسوہ انسان کامل himself.Often and often was he seen in the market purchasing provisions; Often and often was he seen mending his clothes in his room, or milking a goat in his courtyard.He was accessible to all and at all times.He visited the sick and was full of sympathy for all.unlimited was his benevolence and generosity, as also was his anxious care for the welfare of the community.Despite innumerable presents which from all quarters unceasingly poured in for him, he left very little behind, and even that he regarded as state property."(23) ترجمہ محمد نے اپنے لوگوں کے لئے ایک روشن نمونہ قائم کیا آپ کے اخلاق پاک اور بے عیب ہیں.آپ کا گھر ، آپ کا لباس اور آپ کی خوراک سادگی کا بے نظیر نمونہ تھی.سادگی اور بے تکلفی کا یہ عالم تھا کہ کبھی صحابہ سے اپنے لئے خصوصی عزت و توقیر کا تقاضا نہ کرتے اور نہ ہی اپنے غلام سے وہ کام لیتے جو آپ اپنے ہاتھ سے کر سکتے.اکثر و بیشتر آپ بازار میں بذات خود سودا سلف خریدتے ہوئے دکھائی دیتے.اسی طرح اپنے کمرہ میں کپڑوں کی مرمت کرتے ہوئے یا صحن میں دودھ دوہتے ہوئے نظر آتے.آپ کے دروازے ہر کس و ناکس کے لئے ہر وقت کھلے رہتے.آپ بیماروں کی تیمار داری کرتے اور اُن سے ہمدردی کا اظہار کرتے آپ کی شفقت اور فیاضی بے پناہ تھی.معاشرہ کی فلاح و بہبود کا فکر بھی ہر وقت آپ کو دامنگیر رہتا.باوجود بے شمار تحائف کے جو آپ کو مختلف اطراف سے مسلسل پیش ہوتے رہتے تھے آپ گھر میں بہت کم رکھتے.کیونکہ ان کو بھی آپ عوام کا ہی حصہ سمجھتے تھے.“ (27) 19.ایڈورڈ گبن (1737ء) دنیا کے عظیم ترین مؤرخ لکھتے ہیں:."The genius of the Arabian prophet, the manners of his nation, and the spirit of his religion, involve the causes of the decline and fall of the Eastern empire; and our eyes are curiously intent on one of the most memorable revolutions which have impressed a new and lasting character on the nations of the globe.His memory was capacious and retentive; his wit easy and social; his imagination sublime; his judgment clear, rapid, and decisive.He possessed the courage both of thought and action;...The creed of Mohammed is
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 651 اسوہ انسان کامل free from suspicion or ambiguity; and the Koran is a glorious testimony to the unity of God.The prophet of Mecca rejected the worship of idols and men, of stars and planets, on the rational principle that whatever rises must set, that whatever is born must die, that whatever is corruptible must decay and perish....the sayings of Mohammed were so many lessons of truth; his actions so many examples of virtue;...he asserted the liberty of conscience, and disclaimed the use of religious violence:the deputy of Mecca was astonished by the attention of the faithful to the words and looks of the prophet, by the eagerness with which they collected his spittle, a hair that dropped on the ground, the refuse water of his lustrations, as if they participated in some degree of the prophetic virtue.'I have seen,' said he, 'the Chosroes of Persia and the Caesar of Rome, but never did I behold a king among his subjects like Mohammad among his companions.' The devout fervour of enthusiasm acts with more energy and truth than the cold and formal servility of courts....The chiefs of the Koreish were prostrate at his feet.'What mercy can you expect from the man whom you have wronged?' 'We confide in the generosity of our kinsman.' 'And you shall not confide in vain: be gone! you are safe, you are free'....If the slightest credit may be afforded to the traditions of his wives and companions, he maintained, in the bosom of his family, and to the last moments of his life, the dignity of an apostle, and the faith of an enthusiast;...The good sense of Mohammed despised the pomp of royalty; the apostle of God submitted to the menial offices of the family; he kindled the fire, swept the floor, milked the ewes, and mended with his own hands his shoes and his woollen garment.Disdaining the
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 652 اسوہ انسان کامل penance and merit of a hermit, he observed, without effort or vanity, the abstemious diet of an Arab and a soldier.On solemn occasions he feasted his companions with rustic and hospitable plenty; but in his domestic life many weeks would elapse without a fire being kindled on the hearth of the prophet....It is not the propagation, but the permanency of his religion, that deserves our wonder: the same pure and perfect impression which he engraved at Mecca and Medina is preserved, after the revolutions of twelve centuries, by the Indian, the African, and the Turkish proselytes of the Koran.If the Christian apostles, St.Peter or St.Paul, could return to the Vatican, they might possibly inquire the name of the Deity who is worshiped with such mysterious rites in that magnificent temple:...But the Turkish dome of St.Sophia, with an increase of splendour and size, represents the humble tabernacle erected at Medina by the hands of Mohammad.The Mohammedans have uniformly withstood the temptation of reducing the object of their faith and devotion to a level with the senses and imagination of man.'I believe in one God, and Mohammed the apostle of God,' is the simple and invariable profession of Islam....From the Atlantic to the Ganges the Kuran is acknowledged as the fundamental code, not only of theology but of civil and criminal jurisprudence; and the laws which regulate the actions and the property of mankind are guarded by the infallible and immutable sanction of the will of God....He piously supposed, as the basis of his religion, the truth and sanctity of their prior revelations, the virtues and miracles of their founders,...he breathed among the faithful a spirit of charity and friendship; recommended the practice of the social virtues; and checked, by his laws and precepts, the
اسوہ انسان کامل 653 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی thirst of revenge, and the oppression of widows and orphans."(24) ترجمہ : عرب کے نبی کی غیر معمولی ذہنی صلاحیت.اس کی قوم کے طور و اطوار اور اس کے مذہب کی روح مشرقی سلطنتوں کے انحطاط کی وجوہات بنیں اور ہماری آنکھیں بے چینی سے ایک ایسے یادگار انقلاب میں اٹک کر رہ جاتی ہیں جس نے ایک نیا اور دیر پا کر دار دنیا کی اقوام کیلئے نمونہ کے طور پر چھوڑا...آپ کا حافظہ وسیع اور تیز تھا.آپ کی ذہانت ( لوگوں کیلئے ) آسان اور عام مہم تھی، آپ کے خیالات انتہائی اعلیٰ ، آپ کے فیصلے بالکل واضح، فوری اور حتمی ، آپ سوچ و عمل ہر دو میدانوں میں درک رکھتے تھے.محمد کے عقائد شک و شبہ سے بالا ہیں.اور قرآن خدا تعالیٰ کی وحدانیت کی ایک عظیم الشان دلیل.مکہ کے نبی نے بتوں اور انسانوں ، ستاروں اور سیاروں کی پرستش اس عقلی دلیل قائم کرتے ہوئے رو کیا کہ جو چیز بھی طلوع ہوتی ہے اسے ضرور غروب ہونا ہوتا ہے.اور جو بھی پیدا ہوتا ہے اسے ضرور مرتا ہے اور جو بھی اپنی اصلی حالت کھو سکتا ہے ضرور شکست وریخت کا شکار ہوتا ہے یہاں تک کہ ختم ہو جاتا ہے محمد کے اقوال اپنے اندر بہت سی سچائیاں لیے ہوئے ہیں اور آپ کی سنت بہت پیارے نیکی کے نمونے سے معطر ہے.آپ نے ضمیر کی آزادی پر زور دیا اور مذہب کے نام پر تشدد کو ختم کر دیا ملکہ کا سردار ایمان لانے والوں کی محمد سے عقیدت پرسششدر رہ گیا جس طرح وہ آپ کے الفاظ اور نظروں پر توجہ کرتے ، اس عقیدت پر کہ جس سے وہ محمد کے لعاب دہن کو اکٹھا کرتے ، یا زمین پر گرنے والے بال کو یا آپ کے غسل سے بچے ہونے پانی کو لیتے گویا یہ تمام اشیاء نبوت کا کوئی حصہ ہوں.میں نے دیکھا ہے انہوں نے کہا ایرانی خسرو پرویز اور قیصر روم کولیکن میں نے کبھی بھی کسی بھی بادشاہ کیلئے اس کے عوام کے دلوں میں ایسی عقیدت نہیں دیکھی جیسی محمد کے مانے والوں کے دلوں میں ان کیلئے ہے، انتہائی والہانہ اور مخلصانہ گرم جوشی دربار کی سرد اور رسمی غلامی کی نسبت کہیں زیادہ شدت اور سچائی سے اثر انداز ہوتی ہے.قریش کے سردار آپ کے قدموں پر گر پڑتے ہیں 'تم ایک ایسے آدمی سے کیا رحم کی امید کر سکتے ہو جسے تم نے جھوٹا قرار دے دیا ہو؟ ہمیں اپنے عزیز کی سخاوت پر اعتماد ہے اور تمہارے اعتماد کوٹھیس نہ پہنچائی جائے گی.چلے جاؤ! تم محفوظ ہو تم آزاد ہو، اگر آپ کی ازواج اور صحابہ سے مروی روایات میں سے تھوڑے سے حصے کو بھی تسلیم کر لیا جائے تو آپ میں اپنے گھر میں اور اپنے آخری لمحات میں اپنی ذات کے اندر ایک رسول کی سی بڑائی اور ایک حوصلہ مند مرد کا یقین (موجود) نظر آتا ہے محمد کی نفیس طبیعت شاہی نمود و نمائش کو پسند نہ کرتی تھی.اللہ تعالیٰ کے نبی اپنے گھر میلو کام کاج بھی کر لیا کرتے تھے ، آپ آگ جلا لیتے تھے ، فرش پر جھاڑو لگا دیتے، بھیڑ کا دودھ دوہ لیتے اور آپ اپنے ہاتھوں سے اپنے جوتوں کو گانٹھ لیتے اور اون کے پوشاک کو بھی رفو کر لیتے.آپ نے راہبانہ تکلیف اور طریق کا رکو نا پسند فرماتے ہوئے بغیر تصنع یا خود نمائی کے ایک عربی اور ایک فوجی کی متوازن خوراک کو استعمال کیا.بعض خوشی کے مواقع پر آپ اپنے صحابہ کی دیہی قسم کی اشیاء سے وافر مقدار سے دعوت بھی کرتے مگر تا ہم اپنے گھر میں بعض اوقات ہفتے گزر جاتے اور چولہے میں آگ نہ جلتی.محمد کے مذہب کے پھیلنے کی بجائے اس کا تسلسل سے قائم رہنا ہمارے لئے حیران کن ہے وہی خالص اور اصل عکس جو آپ نے مکہ اور مدینہ میں کندہ کیسے بارہ صدیاں گزر جانے کے
654 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل بعد بھی ہندوستانی، افریقی اور ترکی اقوام کے قرآن پر ایمان لانے جیسے انقلاب انگیز واقعات کے باوجود اب تک محفوظ ہیں.اگر کسی طرح عیسائی رسول مقدس پطرس یا مقدس پولوس ویٹیکن میں واپس آجائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ اس دیوتا کا نام پوچھیں جس کی عبادت عجیب و غریب انداز سے اس عظیم الشان گرجا گھر میں کیجاتی ہے.لیکن ترکی کے سینٹ صوفیہ کا گنبدا اپنے حجم اور سجاوٹ میں اضافے کے ساتھ مدینہ میں محمد کے ہاتھوں تعمیر شدہ ایک سادہ سی مسجد کا عکس پیش کرتا ہے.محمدی لوگ مل کر اپنے مذہب کے کسی حصہ میں تبدیلی یا دین سے وابستگی کے خلاف جس حد تک انکی استعداد تھی اور جس قدر انسانی ذہن تصور میں لاسکتا ہے باتوں کی مزاحمت کرتے رہے.لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ایک سادہ اور غیر متبدل اسلامی عقیدہ ہے.اوقیانوس سے گنگا تک قرآن کریم نہ صرف مذہبی اور الہیات کے بارے میں بلکہ معاشرتی اور تعزیراتی قوانین کے ضمن میں بھی مسلمہ طرز عمل ہے.اور وہ اصول جو انسانوں کے اعمال اور اموال کو متوازن کرتے ہیں خطا سے مبرا احکام خداوندی کی نا قابل تغیر تصدیق سے محفوظ کیے گئے ہیں....وہ نیک نیتی سے اپنے سے پہلے نازل ہونے والے کلام الہی کو اپنے مذہب کی بنیاد کے طور پر مانتے تھے، ان کا تقدس کرتے اور ان مذاہب کے بانیوں کی نیکی اور ان کے معجزات کو سچ مانتے انہوں نے ایمان لانے والوں میں سخاوت اور دوستی کی روح پھونک دی ، معاشرتی نیکیوں کو بجالانے کا حکم دیا.اپنے قوانین اور ضابطہ سے بدلے کی خواہش کو قابو میں کیا اور بیواؤں اور یتیموں پر زیادتیوں کو ختم کیا.“ 20 مسٹر پرنکل کنیڈی (Pringle Kennedy) نے اپنی انگریزی کتاب "عربین سوسائٹی ایٹ دی ٹائم آف محمد“ میں لکھا:.."Muhammad was, to use a striking expression, the man of the hour.In order to understand his wonderful success, one must study the conditions of his times.Five and half centuries and more had elapsed when he was born since Jesus had come into the world.At that time, the old religions of Greece and Rome, and of the hundred and one states along the Mediterranean, had lost their vitality.In their place, Caesarism had come as a living cult.The worship of the state as personified by the reigning Caesar, such was the religion of the Roman Empire.Other religions might exist, it was true; but they had to permit this new cult by the side of them and predominant over them.But Caesarism failed to satisfy.The Eastern religions and superstitions (Egyptian, Syrian, Persian) appealed to many in the
اسوہ انسان کامل 655 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی Roman world and found numerous votaries.The fatal fault of many of these creeds was that in many respects they were so ignoble...When Christianity conquered Caesarism at the commencement of the fourth century, it, in its turn, became Casarised.No longer was it the pure creed which had been taught some three centuries before.It had become largely de-spiritualized, ritualized, materialized....How, in a few years all this was changed, how, by 650AD a great part of this world become a different world from what it had been before, is one of the most remarkable chapters in human history...This wonderful change followed, if it was not mainly caused by, the life of one man, the Prophet of Mecca...Whatever the opinion one may have of this extraordinary man....There can be no difference as to the immensity of the effect which his life has had on the history of the world.To those of us, to whom the man is everything, the milieu but little, he is the supreme instance of what can be done by one man."(25) ترجمہ: ” کھلے لفظوں میں ( کہا جائے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) زمانہ کے عظیم انسان تھے.آپ کی حیران کن کامیابی کے لئے ہمیں لازماً ان کے حالات زمانہ کو مجھنا چاہئے.حضرت عیسی کی پیدائش کے ساڑھے پانچ سوسال بعد آپ اس دنیا میں تشریف لائے.اس زمانہ میں یونان ، روم اور بحیرہ عرب کی ایک سو ایک ریاستوں کے تمام قدیم مذاہب اپنی افادیت کھو چکے تھے.اس کی جگہ رومن حکومت کا دبدبہ ایک زندہ حقیقت کا روپ دھار چکا تھا.اور شنہشاہ قیصر روم کے مطابق حکومت وقت کی پرستش اور اطاعت گویا رومی حکومت کا مذہب بن چکا تھا.یہ بجا کہ دیگر مذاہب بھی موجود تھے.مگر وہ اپنے مذہب کے باوجود اس نئے عوامی روش کے پابند ہو چکے تھے.لیکن شہنشاہیت روما دنیا کو سکون نہ دے سکی.چنانچہ مشرقی مذاہب اور مصر، شام اور ایران کی تو ہم پرستی نے رومی سلطنت میں نفوذ شروع کیا اور مذہبی لوگوں کی اکثریت کو زیر اثر کر لیا.ان تمام مذاہب کی مہلک خرابی یہ تھی کہ وہ کئی پہلوؤں سے قابل شرم حد تک گر چکے تھے.عیسائیت جس نے چوتھی صدی میں سلطنت روما کو فتح کیا تھا، رومن اقتدار اپنا چکی تھی.اب عیسائیت وہ خالص فرقہ نہ رہا تھا جس کی تعلیم اسے تین صدیاں قبل دی گئی تھی.وہ سراسر غیر روحانی تمول پسند اور مادیت زدہ ہو چکی
656 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل تھی.پھر کیسے چند ہی سالوں میں اس حالت میں ایک انقلاب پیدا ہو گیا؟ ہاں یہ کیسے ہوا کہ 650ء ( محمد کی بعثت کے بعد ) میں دنیا کا ایک بہت بڑا خطہ پہلے کے مقابل پر ایک مختلف دنیا میں تبدیل ہو گیا.بلاشبہ یہ تاریخ انسانی کا ایک انتہائی شاندار باب ہے.پھر یہ انقلاب آگے بڑھا انتہا پرست عیسائیوں اور مستشرقین کی مخالفانہ رائے کے باوجود ان گہرے اثرات میں کوئی کمی نہیں آسکتی جو آپ کی زندگی نے تاریخ عالم پر ثبت کئے.ماننا پڑتا ہے کہ آپ ( رسول اللہ ) انسان کے بر پا کردہ انقلاب کی اعلیٰ ترین مثال ہیں.21 لیمر ٹین اپنی کتاب "ہسٹری آف ترکی میں تحریر کرتے ہیں :."Philosopher, orator, apostle, legislator, warrior, conqueror of ideas, restorer of rational dogmas; the founder of twenty terrestrial empires and of one spiritual empire, that is Muhammad.As regards all standards by which human greatness may be measured, we may ask, is there any man greater than he?"(26) فلاسفر، مقرر ، رسول، قانون دان، جنگجو ، ذہنوں کو فتح کرنے والا ، حکمت کے اُصول قائم کرنے والا، ہیں دنیوی سلطنتوں اور ایک روحانی سلطنت کا بانی یہ سب کچھ تھامحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم).وہ تمام معیار جن سے انسانی عظمت کا پتہ لگایا جاسکتا ہے، ان کے لحاظ سے ہم بجاطور پر یہ سوال کر سکتے ہیں کیا اس ( محمد) سے عظیم تر کوئی انسان (دنیا میں ) ہے؟ 22.شہنشاہ فرانس نپولین بونا پارٹ (1769-1821ء) نے رسول اللہ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:.محمد اللہ کی ذات ایک مرکز ثقل تھی جس کی طرف لوگ کھنچے چلے آتے تھے.ان کی تعلیمات نے لوگوں کو اپنا مطیع و گرویدہ بنالیا اور ایک گروہ پیدا ہو گیا جس نے چند ہی سال میں اسلام کا غلغلہ نصف ( معلومہ ) دنیا میں بلند کر دیا.اسلام کے ان پیروؤں نے دنیا کو جھوٹے خداؤں سے چھڑالیا.انہوں نے بت سرنگوں کر دیئے.موسیٰ و عیسی کے پیروؤں نے 15 سو سال میں کفر کی نشانیاں اتنی منہدم نہ کی تھیں جتنی ان متبعین اسلام نے صرف پندہ سال میں کر دیں.حقیقت یہ ہے کہ محمد کی ہستی بہت ہی بڑی تھی.“ (27) 23.فرانسیسی حکمران لا مارٹن(1790-1869ء) رسول اللہ کے پیدا کردہ انقلاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.اگر مقصد کی عظمت ، وسائل کی قلت اور حیرت انگیز نتائج ! ان تین باتوں کو انسانی تعقل و تفکر کا بلند معیار مانا جائے تو کون ہے جو تاریخ کی کسی قدیم یا جدید شخصیت کو محمد (ع) کے مقابل پر لانے کی ہمت کر سکے.لوگوں کی شہرت ہوئی کہ انہوں نے فوجیں بناڈالیں ، قوانین وضع کرائے اور سلطنتیں قائم کر ڈالیں.لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ انہوں نے
657 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل حاصل کیا کیا؟ صرف مادی قوتوں کی جمع پونجی؟ وہ تو ان کی آنکھوں کے سامنے لٹ گئی.بس صرف یہی ایک آدمی ایسا ہے جس نے یہی نہیں کہ فوجوں کو مرتب کیا، قوانین وضع کئے اور مملکتیں، سلطنتیں قائم کیں بلکہ اس کی نظر کیمیا اثر نے لاکھوں متنفس ایسے پیدا کر دئیے ، جو اس وقت کی معلوم دنیا کی ایک تہائی آبادی پر مشتمل تھے اور اس سے بھی آگے بڑھ کر، انہوں نے قربان گاہوں کو ، خداؤں کو ، دین و مذہب کے پیروکاروں کو خیالات و افکار کو ، عقاید و نظریات کو ، بلکہ روحوں کو بدل ڈالا.پھر صرف ایک کتاب کی بنیاد پر ، جس کا لکھا ہوا ہر لفظ قانون تھا ، ایک ایسی روحانی اُمت کی تشکیل کر دی گئی جس میں ہر زمانے ، وطن ، قومیت کا حامل فرد موجود تھا.وہ ہمارے سامنے مسلم قومیت کی ایک نا قابل فراموش خصوصیت یہ چھوڑ گئے کہ صرف ایک ان دیکھے، خدا سے محبت، اور ہر معبود باطل سے نفرت...عالم الہیات ، فصاحت و بلاغت میں یکتائے روزگار، رسول (بانی مذہب)، آئین و قانون ساز ) شارع، سپه سالار، فاتح اصول و نظریات ، معقول، عقائد کو جلا بخشنے والے، بلا تصویر مذہب کے مبلغ، بیسیوں علاقائی سلطنتوں کے معمار، دینی روحانی حکومت کے موسس ، یہ ہیں محمد رسول اللہ ( جن کے سامنے پوری انسانیت کی عظمتیں بیچ ہیں ) اور انسانی عظمت کے ہر پیمانے کو سامنے رکھ کر ہم پوچھ سکتے ہیں ، ہے کوئی جو اُن سے زیادہ بڑا، اُن سے بڑھ کر عظیم ہو؟ کسی انسان نے اتنے قلیل ترین وسائل کے ساتھ ، اتنا جلیل ترین کارنامہ انجام نہیں دیا، جو انسانی ہمت و طاقت سے اس قدر ماورا تھا.محمد (ﷺ ) اپنی فکر کے ہر دائر ہے اور اپنے عمل کے ہر نقشہ میں ، جس بڑے منصو بہ کو روبہ عمل لائے ، اُس کی صورت گری بجز اُن کے کسی کی مرہون منت نہ تھی اور مٹھی بھر صحرائیوں کے سوا ان کا کوئی معاون و مددگار نہ تھا اور آخر کار ایک اتنے بڑے مگر دیر پا انقلاب کو برپا کردیا، جو اس دنیا میں کسی انسان سے ممکن نہ ہو سکا.کیونکہ اپنے ظہور سے لے کر اگلی دوصدیوں سے بھی کم عرصہ میں اسلام، فکر و عقیدہ اور طاقت و اسلحہ دونوں اعتبار سے سارے عرب پر اور پھر ایک اللہ کا پرچم بلند کرتے ہوئے فارس، خراسان، ماوراء النہر، مغربی ہند ، شام، مصر، حبشہ، شمالی افریقہ کے تمام معلوم علاقوں پر بحر متوسط کے جزیروں پر اور اندلس کے ایک حصہ پر بھی چھا گیا.“ (28) 24.پروفیسر ٹی ایل وسوانی (1920ء) اپنے فاضلانہ مضمون میں لکھتے ہیں : اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام تعصب کی تعلیم دیتا ہے.یہ اعتراض خود غرضانہ حیلہ جوئی اور جہالت کی ایک معجون مرکب ہے.اسلام کے تو معنی ہی صلح ہیں.قرآن کریم کے گلستان معانی سے ایک ایک پھول صلح.خیراندیشی اور محبت کی خوشبو لئے ہوئے اہل بصیرت کی مشام جاں کو معطر کر رہا ہے.قرآن کریم کی ہر ایک سورت بسم اللہ الرحمن الرحیم کے معنی خیز الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہے.اسلامی صحیفہ مقدسہ میں ایک مقام پر مرقوم ہے.“ اہل کتاب مثلاً عیسائی، یہودی اور مسلمان جو خدا کی وحدانیت اور روح کے غیر فانی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں.خیرات دیتے ہیں اور غرباء لطف و فیض روار کھتے ہیں اور یتیموں کی خبر گیری کرتے ہیں.اور وہی اصحاب فلاح ہیں.“ ذہب میں کوئی جبر نہیں یہ قرآن کریم کا ایک حکم ہے.نبی کریم نے کمال فراخدلی کے ساتھ فرمایا کہ ابراہیم مسلمان تھے.اس ارشاد نبوی سے کہ ایک پختہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور جسن کے ہاتھوں سے خلق خدا امان میں
658 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل ہو.آنحضرت کے ذہن مبارک میں ایک بچے مسلمان کو جو تصور تھا وہ خوب واضح ہو جاتا ہے نبی کریم نے مندرجہ ذیل جامعیت کے ساتھ مسلمان کی زندگی کا دستورالعمل پیش کر دیا ہے.تمام لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک کرو جیسا تم چاہتے ہو کہ وہ تمھارے ساتھ سلوک کریں.جو چیز اپنے لئے پسند نہیں کرتے دوسروں کیلئے بھی پسند نہ کرو.“ یہ انوکھی بات نہیں کہ یہودیوں نے اسلامی ممالک میں قیام پذیر ہونے کو عیسائیوں کے زیر سایہ سکونت پذیر ہونے پر ترجیح دی.ایک دن رسول اکرم کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا اور جب آنحضرت کو بتلایا گیا کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے تو آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ”کیا وہ ذی روح انسان نہ تھا جو ہمارے لئے عبرت آموز نہیں ہوسکتا.یہودی بھی ایسا ہی ذی روح انسان ہے جیسے خدا کا کوئی اور بندہ ہو سکتا ہے.لیکن مسیحی یورپ نے تو کمال شدت کے ساتھ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیا ہے.“ (29) 25.مہاتما گاندھی جی مہاراج ( 1914ء) ہندولیڈ ر کا آنحضور کے بارے میں تحقیق کا لب لباب یوں ہے کہ سیرت النبی کے مطالعہ سے میرے اس عقیدہ میں مزید پختگی اور استحکام آگیا کہ اسلام نے تلوار کے بل پر کائنات انسانیت میں رسوخ حاصل نہیں کیا.بلکہ پیغمبر کی انتہائی سادگی ، انتہائی بے نفسی ہعہو دو مواشیق کا انتہائی احترام.اپنے رفقاء ومتبعین کے ساتھ گہری وابستگی جرات.بے خوفی اللہ تعالیٰ پر کامل بھر دستہ اور اپنے مقصد ونصب العین کی حقانیت پر کامل اعتمادا سلام کی کامیابی کے حقیقی اسباب تھے.“ (30) 26 مشہور آریہ مصنف پر کاش دیوی (1907ء) لکھتے ہیں:.فی الواقع آنحضرت کی ذات سے جو جو فیض دنیا کو پہنچے اُن کے لئے نہ صرف عرب بلکہ تمام دنیا کو اُن کا شکر گذار ہونا مناسب ہے.کون کونسی تکلیفیں ہیں جو اس بزرگ نے نسل انسان کے لئے اپنے اوپر برداشت نہیں کیں اور کیا کیا مصیبتیں ہیں جو اُن کو اس راہ میں اُٹھانی نہیں پڑیں.عرب جیسے ایک وحشی اور کندہ نا تراش ملک کو تو حید کی راہ دکھانا اور اُن بدیوں سے روکنا جو عادت میں داخل ہوگئی تھیں کچھ سہل کام نہ تھا.تنگ دل اور متعصب لوگ ایسے بزرگ کی نسبت کچھ ہی کہیں لیکن جو لوگ انصاف پسند اور کشادہ دل ہیں وہ کبھی محمد صاحب کی ان بے بہا خدمات کو جو وہ نسل انسان کے لئے بجالائے بُھلا کر احسان فراموش نہیں ہو سکتے وہ اپنی فضیلت کا ایسا جھنڈا کھڑا کر گئے ہیں جس کے نیچے اب تیرہ چودہ کروڑ دنیا کے آدمی پناہ گزین ہیں اور اُن کے نام پر جان دینے کے لئے مستعد کھڑے ہیں.‘ (31) 27.بیروت کے مسیحی اخبار الوطن نے 1911ء میں لاکھوں عرب عیسائیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا انسان کون ہے؟ اس کے جواب میں ایک عیسائی عالم داور مجاعص نے لکھا:.دنیا کا سب.سب سے بڑا انسان وہ ہے جس نے دس برس کے مختصر زمانہ میں ایک نئے مذہب ایک نئے فلسفہ، ایک نئی
659 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل شریعت اور ایک نئے تمدن کی بنیاد رکھی، جنگ کا قانون بدل دیا، اور ایک نئی قوم پیدا کی اور ایک نئی طویل العمر سلطنت قائم کر دی ہے.ان تمام کارناموں کے باوجود وہ امی اور ناخواندہ تھا، وہ کون ؟ محمد بن عبد اللہ قریشی ، عرب اور اسلام کا پیغمبر ، اس پیغمبر نے اپنی عظیم تحریک کی ہر ضرورت کو خود ہی پورا کر دیا.اور اپنی قوم اور اپنے پیروؤں کے لئے اور اس سلطنت کے لئے جس کو اس نے قائم کیا ،ترقی اور دوام کے اسباب بھی خود مہیا کر دئیے.(32) 28.کونسٹن در جبل جارجیو (وزیر خارجہ رومانیہ ) نے اپنی کتاب ”محمد میں رسول اللہ کے انقلاب کو دنیا کا عظیم ترین انقلاب قرار دیتے ہوئے لکھا:.عربستان میں جو انقلاب حضرت محمد پر با کرنا چاہتے تھے وہ انقلاب فرانس سے کہیں بڑا تھا...انقلاب فرانس فرانسیسیوں کے درمیان مساوات پیدا نہ کر سکا مگر پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے انقلاب نے مسلمانوں کے درمیان مساوات قائم کر دی اور ہر قسم کے خاندانی طبقاتی اور مادی امتیازات کو مٹادیا " (33) الله امام الزماں حضرت بانی جماعت احمدیہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بلندشان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسانِ کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا.نجوم میں نہیں تھا.قمر میں نہیں تھا.آفتاب میں بھی نہیں تھا.وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرڈ اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی یہ ہیں.“ (34) جید میں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمد ہے ( ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر ) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے.اس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں.افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا.وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا.اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی.اس لئے خدا نے جو اس کے دل کے راز کا واقف تھا اسکو تمام انبیاء اور تما اولین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں.وہی ہے جو سر چشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے.وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذریت شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے.جو اس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے.“ (35) جلد وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گذرا کہ لاکھوں مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یک دفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا.کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچادیا اور وہ
660 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی اسوہ انسان کامل عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں.اللَّهُمَّ صَلَّ وَسَلَّمْ وَبَارِكُ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَغَمِّهِ وَ حُزُنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَاَنْزِلُ عَلَيْهِ أَنْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ.“ (36) حمد "ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلہ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوان مرد نبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نبی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں.یعنی وہی نبیوں کا سردار رسولوں کا فخر تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمدمصطفی واحد مجتبی ہی ہے ہے.جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی.(37) میر امذ ہب یہ ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ کو الگ کیا جاتا اور کل نبی جو اس وقت تک گذر چکے تھے.سب کے سیب اکٹھے ہوکر وہ کام اور وہ اصلاح کرنا چاہتے.جو رسول اللہ ﷺ نے کی ہرگز نہ کر سکتے.ان میں وہ دل اور وہ قوت نہ تھی جو ہمارے نبی کو لی تھی ہمارے نبی کریم ﷺ نے وہ کام کیا ہے، جو نہ الگ الگ اور نہ مل جل کر کسی سے ہو سکتا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ (38) جید وہ انسان جس نے اپنی ذات سے اپنی صفات سے اپنے افعال سے اپنے اعمال سے اور اپنے روحانی اور پاک قومی کے پر زور دریا سے کمال تام کا نمونہ علماً وعملاً وصدقاً وثباتا دکھلایا اور انسان کامل کہلایا.وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسان کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالم کا عالم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا.وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیا ء امام الاصفیاء ختم المرسلين فخر النهبین جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداء دنیا سے تو نے کسی پر نہ بھیجا ہو.“ (39)..حسینانِ عالم ہوئے شرمگیں پھر اُس پر وہ اخلاق اکمل تریں ز ہے خُلق کامل ز ہے حسنِ تام جو دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں کہ دشمن بھی کہنے لگے آفرین عَلَيْكَ الصَّلَوةُ عَلَيْكَ السَّلام يَارَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَبَعْثٍ ثَانِي اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِک عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد
اسوہ انسان کامل 661 حواله جات 1 مسند احمد جلد 3 ص 456 جلد 2 ص 398 ، جلد 1 ص 398 2 دلائل النبوه للبيهقى جلد 1 ص 176 ترمذی (40) كتاب المناقب باب 8 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی The 100:A Ranking of the most influential persons of 4 History, Carol Publishing Group, 1978, pp.3-10 Beshore, George: Science in Early Islamic cultures.Grolier 5 publishing 1998, p.8 Rao, K.S.Ramakrishna.Moliammad: The Prophet.Abdul 6 Rahman, 1996, pp.1-14 Armstrong, Karen: Muhammad A Biography of the Prophet.7 p164-266, p11,12,44 (i) Watt, W.Montgomery: Muhammad: Prophet and 8 Statesman.Oxford University Press, 1974, pp.210-37 (ii)W.Montgomery Watt, Muhammad at Medina, page:336 Michener, James A: "Islam the Misunderstood Religion", 9 Readers Digest.May 1955, pp 77-86 Muhammad and Teachings of Quran by Johan Davenport 127 10 Roy M.N.The Historical role of Islam, Renaissance publishers 11 Calcutta India 1958, p 4-5,6,34 Hitti, Philip K: "Muhammad the Prophet of Allah", History of the 12 Arabs, Chapter VIII.London: Macmillan & Co., 1960, pp.119-22 Nehru, Jawaharlal: Glimpses of World tlistory.The John Day 13 Company, 1942, pp.142-145
اسوہ انسان کامل 14 اسلام پر نظر ص 9,16مترج لائلپور مطبوعه 1957ء 662 نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی احمد مظهر ایڈووکیٹ Vaglieri, Laura Veccia: An Interpretation of Islam, Volume III, 15 Chapter 30.The American Fazi Mosque, 1958, p.24,28,67,68 Sir William Muir, Life of Mahomet 16 Muir, William: The Life of Mahomet.John & Grant, 1923, pp.17 509-13 S.P.Scott, History of the Moorish Empire in Europe, J.B 18 Lippincott Company, philadelphina & London, 1904 Vol 1,p.93,126 Arnold, Thomas W.: The Spread of Islam in the World, 19 Goodword Books, New Delhi, India, 2003, pp.34 and 44 Smith, R.Bosworth, Muhammad and Mohammadanism Page 20 40,41 London...1876 (Secon Ed) Draper, John: History of the Intellectual Development of 21 Europe, Volume I, Chapter XI.Harper & Brothers, 1875, pp.329-32 Carlyle, Thomas: The Hero as a Prophet (second chapter) in 22 Heroes and Hero Worship.Oxford University Press, 1965, pp.58-101 Wells, H.G: The Outline of World History, Garden City 23 books, 1956, pp.493 Gibbon Edward: The History of the Decline and Fall of the 24 Roman Empire, Chapter L.J.M.Dent& Sons Ltd., 1931, pp.207-92 Arabian Society at the time of Muhammad page 8-10,18-21 28
نبیوں میں سب سے بزرگ اور کامیاب نبی 663 Lamartine, History of Turky, Page:276 اسوہ انسان کامل 26 27 بونا پارٹ اور اسلام از شیفلر(پیرس) 79 بحواله پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر میں ص Lamartine, Histoire deca Turquie Pairis 1854 vol 2 p.276,277 28 بحواله نقوش رسول نمبر 11 ص 542-540 29 اخبار زمیندار 29 اگست 1920 ص 1 30 منقول از مسلم راجپوت یکم اکتوبر 1914 31 پرکاش دیوی،سوانح عمری حضرت محمد صاحب ص25 32 سيرت النبی جلد 4 ص400 تالیف علامه سیدسلیمان ندوی 33 پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظر ص 153 میں 34 آئینه کمالاتِ اسلام ایڈیشن اول ص 160-161 35 حقيقة الوحی ایڈیشن اول ص 118-119 36 بركات الدعا صفحه 13 روحانی خزائن جلد6صفحه 9 تا 11 37 سراج منیرروحانی خزائن جلد12ص82 38 ملفوظات جلداول ص 420 نیا ایڈیشن 39 اتمام الحجه روحانی خزائن جلد 8 ص 308
اسوہ انسان کامل 664 اے خدا مناجات و ندم، بنامِ مصطف رکش شدی ، د ر ہر مقامے ناصرے در دست من گیر ، ا ز ر و لطف و کرم در مهم باش یار یا ورے تکیه برزور تو دارم گرچه من ہمچو خاکم، بلکہ زاں ہم کمترے اے میرے خدا! مصطفی کے نام کا واسطہ! جس کا تو ہر جگہ مددگار ر ہا ہے.اپنے لطف وکرم سے میرا ہاتھ پکڑلے اور میرے کاموں میں میرا دوست اور مددگار بن جا.میں محض تیری قوت پر بھروسہ رکھتا ہوں اگر چہ میں خاک کی طرح ہوں بلکہ اس سے بھی کم تر.
اسوہ انسان کامل 665 المراجع والمصادر 1- القرآن الحكيم المراجع والمصادر المعجم المفهرس الالفاظ للقرآن الكريم 2- تفسير القرآن الجامع الاحكام القرآن تفسير القرآن العظيم احکام القرآن الدر المنثور في التفسير الماثور اسباب النزول تفسیر کبیر -3- كتب حديث جامع صحیح بخاری صحیح مسلم سنن الترمذي سنن ابوداؤد سنن النسائي سنن ابن ماجه مسند احمد بن حنبل مؤطا امام مالک شمائل النبوية الترمذي محمد فؤاد عبدالباقي دار المعرفة بيروت ابوعبدالله محمدبن احمد الانصاري القرطبي (المتوفى 671ھ) داراحياء التراث العربي بيروت.دار الكتاب العربي امام ابوالفداء حافظ ابن كثير الدمشقي (المتوفى 774ھ) ابوبکر احمد بن على الرازي الجصاص ( المتوفى 370ھ) داء الكتاب العربي بيروت جلال الدین سیوطی (المتوفى0911) دار الفكر بيروت علامه واحدی.دار الفکر بیروت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام ابو عبدالله محمد بن اسماعيل البخاري (المتوفى 254ھ) امام ابو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري (المتوفى 261ھ) ابوعیسی محمد بن عيسى الترمذى ( المتوفى 279ھ) ابوداؤد سلیمان ابن اشعث (المتوفی 275ھ) احمد بن شعيب النسائي ( المتوفى 303ھ) امام ابو عبدالله بن يزيد بن ماجه ( المتوفى 273) امام احمد بن حنبل (المتوفى241) مؤسسة قرطبة القاهرة امام مالک بن انس (المتوفی 179) محمد بن على الحكيم الترمذي
اسوہ انسان کامل 666 المراجع والمصادر التاج الجامع الاصول في احاديث الرسول سنن دارمی المعجم الكبير المعجم الصغير كتاب الدعاء مستدرك على الصحيحين الشيخ منصور علی تاصف داراحياء التراث بيروت ابومحمدعبدالله بن عبدالرحمان الدارمي ( المتوفى 255ھ) للحافظ ابی القاسم سليمان بن احمد الطبراني (المتوفى 360ھ) مصر للحافظ ابی القاسم سليمان بن احمد الطبراني دار الفکر بیروت للحافظ ابی القاسم سليمان بن احمد الطبراني امام ابو عبدالله حاکم نیشا پوری دار الكتاب العلمية بيروت مجمع الزوائد و منبع الفوائد حافظ نور الدين على بن ابى بكر الهيثمي ( المتوفى 0807) دار الفکر بيروت سنن الكبرى حافظ ابوبکر احمد بن حسين البيهقى ( المتوفى 458ھ) مطبعة مجلس دائر المعارف مصر الترغيب والترهيب من الحديث امام حافظ عبدالعظیم بن عبدالقوى المنذرى المتوفى 656ھ) الشريف دار الكتب العلمية بيروت عمدة القاری شرح بخاری علامه بدرالدین عینی (المتوفی 755ھ) ادارة الطباعة المنيرية بمصر فتح الباری شرح بخاری علامه احمد علی ابن حجر عسقلانی ( المتوفى 0854) دار المعرفة بيروت تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي تاريخ الصغير عبدالله المبارک پوری دار الكتب العلميه بيروت امام بخارى المكتبة الاثرية سانگله هل جامع اهل حدیث باغ والی ضلع شیخوپوره الجامع الصغير في احاديث البشير علامه جلال الدین سیوطی (المتوفی 911ھ) طبع بمطبعة الميمنية بمصر والنذير كنز العمال في سنن الأقوال والافعال مشكوة المصابيح تحفة الذاكرين بعدة الحصن الحصين للشوكاني المقاصد الحسنه نوادر الاصول في معرفة اخبار الرسول شمائل المحمديه مجمع بحار الانوار علاء الدین علی بن حسام الدين المتقى هندى ( المتوفى 975ھ) مؤسسة الرسالة طبعه خامسة 1981 المكتبة المدنية الرقميه محمد بن عبدالله الخطيب التبريزى ( المتوفى 743ھ) محمد بن علی بن محمد شوکانی المتوفی 1250ھ) دار القلم بيروت طبعه اولی 1984 علامه عبدالرحمن سخاوی دار الكتب العربيه المتوفى 902) مكتبه الخانجي مصر محمد بن على الحكيم الترمذي قاهره امام ترمذی علامه طاهر گجراتی
المراجع والمصادر اسوہ انسان کامل المكتبه الشاملة المعجم المفهرس للحديث 4- كتب سيرت وتاريخ 667 دار الكتب العلمية بيروت الدکتورای و نسک (م1936ء) مكتبة بريل في مدينة السيرة النبويه الابن هشام الطبقات الكبرى ابو محمد عبدالمالک بن هشام (المتوفی 218) موقع الاسلام (المكتبة الشاملة) محمد بن سعد بن منيع بصری دارصاد: بیروت شرح العلامه الزرقاني على المواهب للقسطلاني (المتوفى 0943) دار الكتب العلمية بيروت لبنان اللدنيه عيون الاثرفي فنون المغازى و شمائل محمد بن عبدالله بن یحی بن سید الناس والسير زاد المعاد في هدي خير العباد الامام عبدالله محمد بن ابي بكر مؤسسة الرسالة السيرة الحلبية من انسان العيون في علامه علی بن برهان الدين الحلبي الشافعي (المتوفى 1044ھ) سيرة الامين والمامون السيرة المحمدية السيرة الحلبيه الروض الأنف شرح سیرت ابن هشام دلائل النبوة ومعرفة احوال اصحاب الشريفه دلائل النبوة الوفا باحوال المصطفى الجامع في السيرة النبويه مختصر سيرة الرسول وفاء الوفاء باخبار دار المصطفى دار المعرفة بيروت از علامه علی این برهان الدین حلبی.دار المعرفة بيروت ابوعبدالرحمن السهيلي (المتوفى 581ھ) دار الفرقه للطباع والنشر يير بیروت لبنان ابوبکر احمد بن الحسين البيهقى موقع جامع الحديث اسماعیل بن ابی نعیم الاصبهانی تالیف ابو الفرج عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزي (المتوفى 597ھ) سميرة الزايد المطبعة العلميه محمد بن عبد الوهاب نور الدین علی بن احمد السمهووى (المتوفی 911ھ) دار احياء التراث العربي بيروت الشفا بتعريف حقوق المصطفى ابو الفضل عياض موسى ( المتوفى 544ھ) مطبعة مصطفى البابي الحلبي دار الفكر بيروت 1988
اسوہ انسان کامل نصب الراية في تخريج احاديث الهداية | نوادر الأصول في حادث الرسول شرح السنة نسيم الرياض شرح شفا للقاضي عیاض موسوعه نضرة النعيم في مكارم اخلاق الرسول الكريم فقه السيرة نهاية الايجاز في ساكن سيرة الحجاز الاخلاق النبي الخصائص الكبرى تور اليقين في : رة سيد المرسلين سير الرحيق المختوم السيرة المحمديه 668 اما مجملا الدین ابی محمد ابو ایوب حكيم الترمذي دار الجبل بيروت امام الحسين بن مسعود البغوى احمد شهاب الدين الخفاجي المراجع والمصادر دار الكتاب العربي صالح بن عبد الله عبدالرحمن بن محمد دارالوسیله و حمامه جده سعوديه دكتور محمد سعيد رمضان السيوطى دار الفكر بيروت وفاعه رافع الطهطاوى حافظ ابو محمد جعفر بن حيان الاصبهانی.دار الکتاب العربي جلال الدین سیوطی المتوفی 0911) دار الكتب العلمية.بيروت 1985 شیخ محمد الخضرى داء الاحياء التراث العربي بيروت الشيخ صفی الرحمان مبارک پوری مولوی کرامت علی دهلوی اسد الغابه في معرف فة الصحابه علامه ابن الاثير (المتوفى 630ھ) داراحياء التراث العربي بيروت الاصابه في تمييز الصحابه امام حافظ شهاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی (المتوفى 463ھ) دار الجيل بيروت الاكمال في اسماء الرجال ولی الدین ابو عبدالله محمدبن عبدالله الخطيب مترجم مولانا اشتیاق احمد ، مولانا معراج الحق نور محمد کارخانه تجارت کتب کراچی الاكمال في رفع الارتياب عن المؤتلف والمختلف في الاسماء الكامل في ضعفاء الرجال ازواج النبي على بن هبة الله بن ابى تصرين ماكولا دار الكتب العلمية بيروت حافظ ابی احمد عبدالله بن عدى الجرجاني (المتوفى 365ھ) دار الكتب العلمية بيروت محمد بن يوسف الصالحي تاريخ الرسل والملوک ابو جعفر محمد ابن جریر الطبری المتوفی 310ھ) مكتبة خياط بيروت الكامل في التاريخ البدايه والنهايه كتاب الخراج علی بن ابی الکرم ابن الاثیر دار صادر بیروت مطبوعه( 1965ء) الامام عماد الدين ابو الفداء اسماعيل بن عمر بن كثير (المتوفى 774ھ) مكتبة المعارف بيروت ومكتبة النصر الرياض القاضی ابویوسف بيروت مطبعة المنيرية مصر
اسوہ انسان کامل 669 المراجع والمصادر تاريخ الخميس في احوال انفس النفيس تاريخ الخلفاء تاريخ البغداد معجم البلدان كتاب المغازى (فتوح العرب) اردو ترجمه شروع الحرب شيخ حسين بن محمد الديار البكرى ( المتوفى 1582ھ) موسسة شعبان بيروت جلال الدين سيوم طی (المتوفی 911ھ) نور محمد اصح المطابع کارخانه تجارت کتب آرام باغ کراچی حافظ ابی بکر احمد بن على الخطيب البغدادي ياقوت الحموي.(المتوفى 626ھ) بيروت دار صادر بیروت از محمدبن عمر بن واقدى (المتوفى 207 ) مترجم ممتاز بیگ ذمی شان فتوح البلدان (اردو) نفیس اکیڈمی ابو الحسن احمد بن يحيى بن جابر البغدادي بالبلاذرى کراچی سيرة النبي (اردو) سيرة خاتم النبين (اردو) رحمة للعالمين (اردو) سيرة النبي محمد اللہ کے غیر مسلم مداح اور ثناخوان نقوش وسول تمير (المتوفى 279ھ) از علامه شبلی نعمانی دار الاشاعت اردو بازار کراچی مرزابشیر احمدص ایم اے محمد سلیمان منصورپوری سید سلیمان ندوی عنصری صابری محمد احسن تهامی دارالتذکیر محمد طفیل اداره فروغ اردو لاهور سوانح عمری حضرت شرده پرکاش دیوجی پرچارک براهمو دهرم پبلشر نرائن دت سهگل محمد صاحب (أودى پیغمبر اسلام غیر مسلموں کی نظره 5-دیگر کتب میں اینڈ سنز یک سیلراندرون لوہاری گیٹ لاهور.پنجاب آرٹ پریس لاهور مؤلف محمد یحیی پیام پبلشرز لاهور اتمام الحجه (روحانی خزائن جلد 8 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیه السلام بانی جماعت احمدیه | ازاله اوهام (روحانی خزائن جلد 3) آئینه کمالات اسلام (روحانی خزائن جلد5 بركات الدعا(روحانی خزائن جلد6 چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23) 11 // 11 1 "
اسوہ انسان کامل سراج منیر (روحانی خزائن جلد12) حقيقة الوحى (روحانی خزائن جلد22 ملفوظات حضرت بانی جماعت احمديه فرهنگ آصفیه اخبار زمیندار 29 اگست 1920 مسلم راجپوت یکم اکتوبر 1914 المبسوط المنقذ من الضلال الفقه مجموع انتخاب قرآن 6-انگریزی کتب 670 " سیداحمد دهلوی اُردوسائنس بورڈ المراجع والمصادر بجواء محافظه مصر علامہ شمس الدين السرخس مطبعة السعادة اللغزالي الاهو طبع اول 1971 An Interpretation of ISLAM Arabian Society at the time of Muhammad 1-History of Turky 2-Histoire deca Turquie Pairis History of the Moorish Empire in Europe Life of Muhammad Muhammad a Biography of Prophet Muhammad and Mohammadanism Lodon...1876 Muhammad and Teaching of Quran, Shaikh Muhammad Ashraf, Kamhmiri Bazar Lahore, West Pakistan Apology for Mohammad and the Quran The speaches and the table talk of the prophet Mohammad 1-Muhammad at Medina, 2-Muhammad:Prophet and State sman Islam the Misunderstood Religion The Historical role of Islam "Muhammad the Prophet of Allah Laura Veccia Vaglieri Pringle Kennedy Lamartine S.P.Scott Sir William Muir Karen Armstrong Smith, R.Bosworth John Davenport John Davenport Stainley Lane Poole W.Montgomery Watt Michener, James A Roy M.N Hitti, Philip K
اسوہ انسان کامل المراجع والمصادر Glimpses of World tlistory The 100, A ranking of the most influential persons in History The Spread of Islam in the World History of the Intellectual Development of Europe, Volume I Heroes and Hero Worship London, George G.Harrap, Co.LTD 39-41 Parker Street Kingsway Calcutta and Sydney.Science in Early Islamic cultures.Moliammad: The Prophet.Abdul Rahman The Outline of World History The History of the Decline and Fall of the Roman Empire Arabian Society at the time of Muhammad Historian history of the world Apology for mohammad and the quran The speaches and the table talk of the prophet mohammad A history of the intellectual development of europe Encyclopedia britannica 671 Nehru, Jawaharlal Michael H.Hart Arnold, Thomas W Draper, John Thomas Carlyle Beshore, George Rao, K.S.Ramakrishna Wells, H.G Gibbon Edward john devenport stainley lane poole john william draper ترجمه جناب شیخ محمد احمد مظهر ایڈووکیٹ (Interpretation of Islam) اسلام پر نظر بونا پارٹ اور اسلام از شیفلر(پیرس) لائلپور شهنشاه فرانس نپولین بونا پارٹ
672 اشاريه 481،480،474،473،467،464 ابن شہاب زہری : 322 445505.499.495.493.490.482 527،524515،513،512،507 ابن عیینہ: 504 548،545،541،535،534529 ابوایوب انصاری:.232،144،17 544 566.564.563.560.553.549 603،601،582،579،576،570 ابو البختری: 406 اسوہ انسان کامل اسماء 16.15.10.8.654.3.1 67.66-60-47-46.42.41.32.25 111.110.105.82-74.73.72.70 132 131 130 129 128 117 116 ابواسید : 430،318 ابوا جلیس : 263 والطفيل: 200 621-613-612.609-605-604 147.146.141.136.135.134 629-628-626-625-623-622 163.162.160.155.153.148 255.246.8638.636.635.634.632.631 175.171.169.168.167.166 644-643-642-641-640-639 189.185.181.178.177.176 422-351-279-265653-650-649-648-647-646 230-227-206-205-204.194 612.431 660.659.657.656.655.654 246.244.242.241.240.232 250،249،248،247 251 252 ابو العاص بن ربیع : 2 ، 431 432، 480 ابو امامہ باہلی: 360، 491،434 561 ابو بصیر : 411،176 37.30.22.16.11.7.2 83.77.76.73.49.41.40.39 155.138.137.119.96.85 206.200.178.167.162.158 264.252.224.213.212.210 324-317-299-289-288-269 352.351.349.348.333.326 416-415-408-392.368.353 451.450.447.437.423.420 480-472-471-470.458.456 127.124.106.73.3-1262-259-258-257-256.255 602-565.457.344.271 658.621.606 272-270.268.267.264.263 311.292.286.279.277.274 322،314 339،326،323 ، 340 ابراہیم بن محمد : 304،38،32،5 438.360 352.351.350.348.347.342 1366-365-363-362-359.354 206380-378-376-373-372-370 391،386،385،384382،381 ابن ابی کبشہ : -521 394،392 395 396 397 398 ابن اسحاق:-242 410،408،404،399 411 412 ابن الحارث: 201 427،425،419،418،415،414 ابن الدغنہ : 543 211-462-458-451-442-441-434
اسوہ انسانِ کامل 549.543.527.498.497.494 597.574.571.554.551.550 673 411.382.176.30-355.354.260.254.253.212 607.549.495.488.391 ابودجانہ:.380،375،370،24 606،605،604،602،598، 607 ابو طلحہ انصاری: 233،228،49 ابوسعده : 145 642.617.608 ابو جہل : 130،35،21،15،13 496.407.374.373.344 598.574.550 ابو سہل: 544،175 ابو شعیب انصاری: 337 ابوطارق : 259 247،168،167،145، 255 ، 259 ابو عامر: 267،144،25 352 524،523،406،405،353 ابو عبد الله : 596 525 ابو خیمه : 236 ابوداؤد: 574 ابو عامر: 370،144 ابو عبد اللہ بن طہفہ : - 476،332 ابوتر صافہ: 587 ابو عبیدہ بن الجراح : 224،162 ابوكبير : 56 227-226 ابوذرغفاری : - 87،10، 249 250 ابو عزه عمر و بن عبد الله : 480 617،613،606،483،342،301 البوعزیز بن عمیر : 479 ابورافع : 433،178 ابورمہ: 595،75 ابوزرعہ : 451 ابوسعید بن معلی : 77 ابو عماره:255 ابو عمیر : 595 ابوقتادة: 430،141،97 ابو قحافہ : 472،73 ابولیا به بدری: - 581 ابولبابہ: 369 ابولہب : 258،245،244،200 354.349.348 ابولیلی: 435،54 ابومرشد غنوی:-369 ابو ہریرہ : 102، 133،126،120 ابوسعید خدری :.121، 216،207 ابو قلابه: 465 424.371 291.219.163.144 520.492.476.475 581.492.433.217 ابو مسعود بدری:.562،482،298 ابوسفیان ابن حارث: 201 ابو موسی اشعری :- 144،69 ابی بن خلف:.350،9 ابی بن کعب : 361،230 ابوسفیان - 28،25،24،23،20 ابواسید : 430 167،135،73،35،32،31،29 ابوالحسن : 437 255-246-8390-389-379-342-322-273 406،405 407 525،414408 ابوایوب انصاری: 544،144 ابو سلمہ:497،359،25،11،7 ابوسيف: 360 ابواهاب:-97 ابو بردة : 571 ابوطالب: 6،5،4،1، 8، 9، 13،10 ابو برزہ اسلمی:.121 185.166.141.113.66.14 ابوتراب:.303 660.621.111.110.87_7 ارقم بن ارقم : 245،8 اسامہ بن زید : 425،361،76،2 اسحاق :-602،271 اسرائیل: 556 اسماعیل: 55،3 اسماعیل بن ایاس: 241
اسوہ انسانِ کامل 674 اسماء بنت ابوبکر :.224،200،7 امام ابو یوسف: 513،512 504.312 امام بخاری: - 140 براء بن عازب:.192،161، 223 437 اسماء بنت عمیس :.496،495،227 امامہ بنت ابی العاص :.436،431 بسورتھ اسمتھ : 644 امیہ بن الصلت : 110،54 بلال : - 101،84،83،48،10،7 اسماء بنت یزید: 575 اسود عنسی:.158،157،39 امیہ بن خلف : 406،353،1689 اشعث بن سلیم : 259 انجمہ :.465 257-243.209.192.176.137 333.332.325.323.321.318 اشعث بن قیس: 279 انس بن مالک : 137،125،57، 141 336 ،392،391،390،349،348 اکم بن صیلی: 249 الا راشی: 205،175 آمنہ بنت وہب : -3 ام الفضل: - 121 ام ایمن: 3614 ام جمیل: 349 299.233.217.205.186.142 532.484.426.384.353.314 471.436.430.423.414.393 607.590.573 594591،573572،558،533 بہترین حکیم : 535 انس بن نضر : 229 بھتی: 512 ایاس بن معاذ : 263 نجیر : 529 ایس پی سکاٹ :.643 بحیرای راهب: 664 ام حرام بنت ملحان: - 142، 159 ایوب: 301 ام حکیم: 202 ام زرعہ: 451 بدیل بن ورقاء: - 381 أبي بن كعب : 361،230،120،86 بُریدہ اسلمی:.367،264،210،55 أسيد بن حضیر: 300، 422،392 423 دانه : 66 ام سلمہ :.25، 201،117،87،30 أم العلاء: 557 454.437.420.411.383.359 597.497.457 217 ام حبيبة - 30432 پر کاش دیوی: 658،362 پر نگل کنیڈی: 654 لی امیر کر پائنٹس : 467 ام سلیم: 586،497،484،237 أم كلثوم : 2 ، 5، 360،348،23،10 ثابت بن قیس : 290،28 ام سیف: 438 ام عطیہ: 432 ام عیاش : 433 434.433.431.398 امیمہ بنت شراحیل - 98 آدم: 622،394 ثمامہ بن اثال :.409،270،269،2 506-505-410 ثوبان بن مالک: 535،485،234 ام کلثوم: _433،431،348،23،5 آرمسٹرانگ :-481،458،366 مونه: 200 434 ام معبد : 53 629.581.576 آلر وکسیلی: 638 ام ہانی : 178 ، 528،393،187 بازان: 273،157،156،32،31 جابر بن سمرہ:.121 ،594،122 جابر بن عبداللہ:.138،53،52 326.268.263.235.234.161
اسوہ انسانِ کامل 574.563.494.436.368.335 593.587.586.575 جبريل : 14، 89،88،82،55 حبیب: 260 675 خومرث بن نقیذ بن وہب :.397 حجر اسود : 74،5 ، 124،100، 127 خالد بن سعید : 252 419.393.351 245،230،148،118،109 262 حرام بن ملحان : - 230 470-353-314-288-275-266 622.554.542 جبلہ بن ایم شاہ غسان: - 275 جبیر بن مطعم : - 221 جنامه: -473 جر يجره:534 حذیفہ بن یمان:-86 حسن بن اسود : 506 حسن بن علی : 287،172،99،52 574.438.437.435.423 اشاریہ خالد بن ولید : 162،35،34،24 526.524.252 خالد بن ہشام : 485 خباب : 348،256،118،10 606.349 خبیب :.266،25، 267 حسین بن علی : 287،172،99،57 خدیجہ بنت خویلد : -6،5،1، 13،7 484.438-437-436-435-423 جریر بن عبداللہ المحلی: 597،276،143 574،560،533 جسٹینین: 647 جعده:614،529 جعفر طیار :.12 ،171،34،33،32 حسان بن ثابت : 287،233،41،32 حفصہ بنت عمر: 290،90،23،2 497.458.457.456.452.298 332.304.302.274.254.227 605.498 623،580،496،495،494،361 حکم بن ابی العاص : 146 حکم: 589 جلبيب: 211 جمیلہ: 55 جندب : 251،54، 358 جیفر :-276 جویری - 109،28 حارث بن ابی شمر : 275 حارث بن صمہ :.270، 380 حارث بن ابی ضرار: 28 165.112.96.95.82.59.14 205-200-199.194.185.167 269.260.243.241.232.217 473.444.443.391.360.315 555.554.542.520.497.483 640.623.607 خرافہ : 451 خزیمہ بن حکیم :.167، 193 194 حکیم بن حزام:.406،188 خوات بن جبير : - 596 حلیمہ سعدیہ:.36،4، 419،487 تحریم بن اوس : 162 حمزہ بن عمر و اسلمی : 216 255.36.24.21.12: 527.525.510.494.395 حمزہ بن عبد الله : 558 حویرث: 145 حارث بن هشام : 528،527،322 حويطب بن عزی: 176 حارث:.527،398 حیی بن اخطب: 252 حاطب بن ابی بلتعہ : 413،388،274 خون: 55 دانیال: 621 داؤد:184،68،67 وجیہ الکلی : 273 ڈبلیو ٹنگمری واٹ:.631،378 ڈر پر جان ولیم: 646 ڈیون پورٹ:.577،355 ذی القلاع حمیری: 276 رافع بن خدیج : 561
اسوہ انسانِ کامل 676 ربیع بنت معوذ :.325،561 زینب بنت جحش: 26، 362،304،298 ربیع بنت نضر : 426 زید بن عمرو: 67 ربیعہ اسلمی:.209 210 234، 485 زهره بن معبد : 225 رفاعہ: 369،186 348-23-11-10-5:2 433.360 سائب بن عبد الله : 194،173 473-419 617.584.491 سلمہ بن الاکوع : 407،370 سلیمان: 621،449 363.349.10.7 498.445.444.87.14.1: 549.257.2566 زاہر: 217،184 سائب بن یزید : - 141 سوط : 597 ست اُپدیشن: 515 سہل بن حنیف : 370 شین لے پول: - 414,396 سہل بن سعد :.591،326 549-543-506-225-178 سہیل بن عمرو : - 176 177 ، 381 زبیر بن العوام: 10، 173،11 سراقہ بن مالک:.17 ،158 159 بل : 125،55 550-510-380-348-243-194 زكريا : - 127 زید بن ثابت : - 361 زید بن حارثہ :.34،26،25،7،6 سعد بن ابی وقاص :.13،7، 19، 108 382 411.30-354-322.212.162.145.142 605.407.374 277-241.234‹233<232<230‹227 سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ: - 463 سلیط بن عمرو عامری: 275 392،315،266،260،243،242 سعد بن خیشمه : 236 574.542.494.484.483.471 594 زید بن الخیل: - 616 زید بن دشنه : 230 زید بن سعنہ : - 534،533 زید بن العوام : 7 زید مدنی: 236 زید بن اسلم :.120 شجاع بن وهب الاسدی: - 275 سعد بن ربیع : 493،230،229 شداد بن اوس: 581،68 سعد بن عبادہ :.361،234،212 شید : 54 406-261-574.521.416-414.390.389 سعد بن معاد:.21، 29، 168، 229 شیخ محمد احمد مظہر: 638 شیرویہ :-273،32 سعد بن تکریم: 280 سعد بن خولی: 499 سعد بن ابی سرح: 522 سعید بن زید : -7 زينب: 303،237،26،25،5 سفینه 594 431.415.398.395.361 523.493.484 شیماء ینت نفیلہ:.473،163،162،36 صفوان بن امیہ: - 322،230،186 545.526.507.482.398 صفوان بن عمیر :.507 سلام بن ابی الحقیق: - 378،377 صفوان بن معطل : - 27 303 سلمان رشدی:-629 زینب بنت ابی سلمہ: 304 صفوان:.527،416،415 سلمان فارسی: 408،379،28 صفیہ بنت حیی:.2 ،144،34،33
اسوہ انسانِ کامل 677 498.457.452.425.305.303 320،317،314311،306،304 عبدالرحمن بن عائذ : 368 صفیہ بنت عبد المطلب : 361،556 336،333،326 350،342،337 عبدالرحمن بن عبد الله : 580 صہیب : 596349337،10 415،380،362،358 425،416 عبدالرحمن بن ابزئی : 492 رض ضماد : 248 ضمام بن ثعلبہ: -277 طارق بن زیاد: 160 طاہر: 431،3605 434426 435 ،443 444 445 عبد العرب : 397 446 447 448 449 450 451 عبدالقیس: 614545336 276457.456.455.454.453.452 247.234.138.34 490.489.484.476.473.458 طفیل بن عمرو دوسی:.250،133،13 535.532.520.515.509.493 522-521.431.318 606.537.252.251 574573572،571،570،557 عبد اللہ بن عبد المطلب : 3 طلحہ بن عبد اللہ : 291،243 594593،591،586،585،584 عبد اللہ بن ابی بن سلول:23،182 طلحہ بن عبید الله : 7 640-623-622-605.599.598 طلحہ : 550380،34824 عباد بن بشر : 300 415-412-385-265-112-27 521.515.480.416 طيب : 431،360 عُبادہ بن صامت : 142 عاص بن وائل: 350 عقبہ بن مسعود: 374 عبد الله بن سعد بن ابی سرح : 522،160 عبداللہ بن عمر: 120،101،100 عاصم بن ثابت : 370 عامیہ:55 عامر بن طفیل: 267 عامر بن ربیعہ: 558 عتبہ بن ابی لہب : 247،11614 421-406-348-261 عقبہ بن ابی معیط : - 350،1469 353.352 عامر : 407،370،349،226 عقبہ بن عامر: 613،472 220-219-208-204.192.184 492.476.407.320.292.290 617.591.587.581.540 عبداللہ بن حجش : 49325،20 عبد اللہ بن جعفر : 580496495 عائش: 40،27،26،22،14،1 عباس بن مرداس السلمی : 206 عبد اللہ بن سعد بن خولی: 499 70،59،56،5453،51،46،41 عباس بن مطلب : 241 8683،82،77،72 87 88 89 90 عبد الحمید بن سلمہ : 143 عبد اللہ بن ارقم : 606 عبد الله بن محمد : 437،4365 107،105،101،100،97،96،91 عبدالرحمان بن ابی بکر : 586288 عبد اللہ بن ابوبکر : 16 117،112،117،112 131،118 عبدالرحمان بن حارث : 344 عبد اللہ بن ابی الحمساء: 194175 165،154137 192177،166 عبد الرحمان بن عوف : - 7 ، 11 ،21، 83 عبد اللہ بن ابی اوفی : 557 8 288،243،192،187،10 عبد اللہ بن ابی حدر دالاسلمی: -421 213.212.210.206.200.199 302-298-262-243-236-224 550.499.386 612.422
اسوہ انسانِ کامل 678 عبداللہ بن اُنیس : 332 عبداللہ بن عامر : 290 عبد اللہ بن جدعان : 340،255 عبد اللہ بن جبیر خزاعی: 558 عد اس: 261،14 عرباض بن ساریہ: - 386118 عبد اللہ بن جعفر : 496495،139 عبد اللہ بن جبیر: 408،37324 عروہ بن زبیر : 554 عبداللہ بن حارث: 573،429 عبد الله بن حرام : 234 عبداللہ بن حذافہ بن قیس: 272 عبداللہ بن ابی ربیعہ: 190 عروہ بن مسعود: 267،232،231 381.350 عبدالله بن خطل : 397 عبد اللہ بن سہل : 511 عروہ بارقی: 188،140 عبد اللہ بن رواحہ:361،265،89،54 عبد الله بن طارق: 266 الله بن : عزی: 351259،74،73،66 عبد اللہ بن سبیل : 573 عبدا: 162 عداء بن خالد بن ہو ذہ: 189 عبد اللہ بن اریقط : 16 عبد المطلب : 2462447436 عفیف: 241 عبد اللہ بن سعد : 398 551-498-488-277-247 عقبہ بن ابی معیط : 352،350،9 353 عبداللہ بن عباس : 98،86،60،41 622560 عقبہ بن عامر: 613472 143.140.121.118.112.111 عبد مناف: 549350،244 عقبہ بن حارث : 97 360،314217،205،181،157 عبدیالیل: 260،14 عقیل بن ابی طالب : 421،396-480 عکاشه: 423 عكاظ:263،259 عتبہ بن ابولہب : 247،168116 عطاف بن بشر: 301 487،471،352،539،536،361 عبید الله: 429 591،590،581،556،544523 عبید بن عمیر : 529 594 عبداللہ بن عتیک انصاری: 142 421.406-348-261 عبد اللہ بن عمرو : 520351 عتیبہ بن ابولہب : 348،146 عبد اللہ بن عمرو بن العاص : 350،148 عثمان: 24 عکرمہ بن ابی جہل :: 202.35.24 525.524.523.507.398.391 528-527-526 عبد اللہ بن قیس ( ابو موسیٰ اشعری : 144 عثمان بن طلحہ: 39439335 علامہ قاضی عیاض: 555 عبداللہ بن مسعود :.102،87،10،7 عثمان بن مظعون : 557411،237 علاء بن حضرمی: 276 120 134 146، 227 228 ،352 عثمان بن عفان : 2 ، 7 ، 23،11،10 علامہ ابن بطال: 491 493.472.430.374.371.358 173،160،37،30 226194 علی بن ابی طالب : 22،17،8،6،5 617-602-589.564 55-52-39-38-37.33.29.24 381-353-352-349-348-243 عبداللہ ھوزنی: 325 عبد اللہ بن سلام : 270،169 533 573 473.470.434.433.432.411 606.574.551.550.522.497 249.245.244.226.187.113 371.331.318.297.287.279 عدی بن حاتم طائی : 2 ، 38 323,277 482،452،437،420،398،388
اسوہ انسان کامل 679 606،551،550،533،528،494 عمرو بن ہشام ( ابو جہل): 130،8 میں: 574 عمار بن یاسر : 550 256.255 عمر بن الخطاب: 30،23،17،12 عمرو بن حریث: 121 اشاریہ قیس بن سعد : 414390 قیس بن عاصم : 615،119 73،72،69،55،49،41،40،37 عمیر بن وهب : -1 526،507،48 قیصر : 241،232،15837،31 135-130-116-100-77-76 159.158.155.145.144.136 " عوف بن مالک اشجعی : 118،86 596.492 621-571-275-274-273-271 656.653 224213،206،201،182،162 عیاش بن ابی ربیعہ : 528،148 کارلائل: 648 245،226،225 ،255 256 257 عیسی : 148،76 ،271،163 272 کرسف: 301 273 657،656،626،606،274 کریمہ بنت کلثوم حمیری : 302 325.319.318.317.289.275 275:38.37389.388.382-361-345-333 کسری : 571،241،232،158 457،456،450،423،420،406 غورث بن حارث: 521،269 498،497،479،470،463،458 فاطمہ: 424 621 کسری بن هرمز : 272،159 528،521،515،508،506،499 فاطمہ الزھراء: 41،24،22،5،2 کسری شاہ ایران: 14647،31 563.558.551.550.543.534 606-605-604-602.591.571 642.617.607.607 303-287-233-146-139.57 423.398.370.352.351.320 506-273-272-159.157.156 545.543 433،431،427،425 434 435 کعب:_38 عمران بن حصین : 579،548 عمرو:352،29 556494482،465،452،437 کعب بن اسد قرظی : 169 573.572.562 کعب بن زھیر : 529,112 عمرو بن العاص : 276148،3411 فاطمہ بنت خطاب : - 2567 كعب بن مجرة : 236213 عمرو بن حرام: 234 عمرو بن حضرمی : -20 عمرو بن اخطب: - 141 عمرو بن امیہ ضمری : 274 عمرو بن حزم: 514 : فرعون: 602،419384371 کعب بن مالک: 30038 301 422-408.375.301 فروہ بن عمرو: 273 274 فروہ بن مسیک مرادی: 342 کنانہ بن ربیع : 378 فروہ بن نوفل الاشجعی : 69 629-581-576-481 فضالہ بن عمیر : 528، 529 فضل بن عباس: 302 عمرو بن عنبه : 242,198 243 قاسم: 431،360 قلب: 385 کیرن آرمسٹرانگ: 458،366 گین : 363 گستاو ویل : 650 لات: 348،259،19475،66 عمرو بن سالم : 177 عمرو بن عبدود : 406
اسوہ انسانِ کامل 351 لامارشن: 656 لبيد : 116110 لقیط بن صبره: 336 لوتھر : 646 لوط :565 لیمرٹین: 656 ليلى القفيه : 434 ماریہ قبطیہ: 438،360،32 مالک میں حویرث: 269 محمد بن بشیر انصاری: 162 محمد بن عبد الله : 560411،382 محمد بن قاسم : 163 محمد بن مسلمہ: 384230,162 680 مسٹر فلپ: 635 مسٹر جو اہل لعل نہرو : - 637 مسٹر تھامس ڈبلیو آرنلڈ : 643 مسروق: 236 مسطح بین اتاش: 200 مسعود: 260 مسور بن مخرمه : 562 اشاریہ مقوقس (شاہ مصر ):-275،27432 مقیس بن شما به : 398 لمئن: 646 ملک الجبال: 132 منات: 351 منذر بن جریر : 209 منذر بن عائذ : 336 مسیح ابن مریم " : 271،12 272 منذر بن ساوی العبدی: 276 645-576-560 مسیلمہ کذاب: - 527،158:39 مصعب بن عمیر :.2282415،11 607.479.348.264-229 موسى : 156،76،41،37،35 426-422-419-384-226-179 612-606-602-566-536-504 657.621 مطعم بن عدی: 112،15،13،10 موسیٰ بن انس : 322 607.542.508.372 مولانا روم: 326،242 محمود بن ربیع : 595 محمود بن سلمہ: 384 مطرف: 100 میسرہ:385 معاذ بن جبل: 128122،69،2 میمنہ: 385 574.495.362.361.276 میمونہ : 343،199،86،34 محمود بن لبید انصاری: 374 محمود پاشافلکی مصری: -1 معاویہ بن حکم : 291،208160 498.455 محیصه : 511 معاویہ بن ابوسفیان: 322 نابغہ ابولیلی:54 مخرمہ: 562317،190 معاویہ ابن حیده: 465 مرجب:.521،407،370 مغرور: 483 436-332-274254 نجاشی:.232،171،32،12،11 مریم : 45527477،76،12 مغیرہ بن شعبہ : 246231،75 نضر بن حارث: 4061689 مسٹر آرتھر : 395 مسٹر برنارڈشا: 633 مسٹر آر اے نیکلسن: 613 مسٹر مائیکل ہارٹ : 623 508.494.332 مقداد بن الاسود : 138 227،139 مقداد بن عمر و کندی: 71 476-334.333.228 مسٹر کے.ایس.راما کرشنا راؤ: 626 مقدمہ: 385 نعمان بن بشیر : 420،280،97 256: نعیمان: 598،597 نوح: 300،106 نوفل بن حارث : 480
اسوہ انسان کامل نوفل بن عبد اللہ مخزومی : 510 نوفل: 510421 وائله : 58 وحشی بن حرب : 527 681 یعقوب : 416،271 یعلی بن مرہ: 510140 ی علی عامری: 436 یمان : 374 اہل نجد : 291،267 اہل نجران: 513512،271 اللہ قبیلہ: 614 بجیلہ: 597 ورقہ بن نوفل:.341،3167 یوسف : 458395،342،301 بکر :_387،177،35 و گیری: 485،466،399،363 638.515 ولید بن مغیرہ:.350،9 ولید بن ولید: 148 605-602-566-565 280: یونس بن متی" : 261،15 566،262 بنو تغلب: 614512 قبائل ولیم میور: 372،262،21،15،3 از وشنوه: 248 بنور بعہ:.-613 بنوزرعہ: 613 بنو مصطلق : 28،27 480-414-399-398-392-391 641.640.549 اسد: 614379 614264210: بنو نوفل: 372 ینی ابزی: 323 ہارون:.606،22637 الجمع : 379 بنی اسرائیل: 618,225,188 بنی حنیفہ: 409،269 ہاشم:.247 الجون: 98 ہیل: 7473 اُمور یوں: 502،367 بنی سلمہ: 332 هرقل: - 273176171،37 امیہ:-246 ٹیمی: 597 بنی سلیم :.379230267،25 الصبار: 37،36،29،27،21،1 بنی کم : 264 هبار بن اسود: 523431 49 138،112،56 ،186،178 ، 187 بنی عامر :267،25 هند بن ابی حاله: 533 ہندین خدیجہ: 520 ہند بنت عقبہ: 526525 حوزہ بن علی حنفی : 275 یاسر : 10،7 ،606،541،349،348 میریدین یا بنوس: 46 یزید بن عبد الله : -141 234219،212،210 235 ،263 بنی عبد کلال: 262 336،316،306،264 344337 بنی عبد المطلب : 331،202 471،426،422،421،409،380 بنی عذره: 280 476474473 479 499،480 بنی عمرو بن عوف:.83،58،17 554551،543،523،514508 بنی عوف : 508 614.608.607.599.591 اوس: 607،416،263،18،15 609 يسعياه: 621،540 يسوع مسیح: 621 اہل حیرة: 512 بنی قریظہ : 169،112،84،29،2 609.562.421.378.377.179 ین مشفق: 336 بنی نضیر :.169112،29،25،2
اشاریہ 682 اسوہ انسانِ کامل 265.25 452.421.378.377.316.179 609.514 قریظہ : 377،169112،8429 غطفان:.25 ،379،378،33،29 412 609.421.378 قصی بن کلاب: 244280 قوم موسی: 227 غفار: 406342،250،249 بنى الجرمز: 613 بنى الحرقه : 613 عجیب : 336،323،280،145 614-613 ثقیف : 26021975،36 261 فرز مینوں:.502،367 616.607.508.507.267 فروه:_279278 قیس عیلان: 340 قضاع: 280 قینقاع: 609،377،187،179،29،23 کنانہ: 340،259 فزاره: 616614379،378 محمود: _247،168،37 543-265-25- جبر جاسیوں:.502،367 حارث بن كعب: 514 قریش: 11،10،9،8،7،6،5،3 کنده: 324279،278،121،120 کنعانیوں:.502،367 276-272-3 20 19 18 17 16 15 14 13 12 424349255 31.30.29.26.25.24.23.21 379-0 136.116.66-37.36.35.34 473168.167.166.155.154.146 614: 200.178 177 176.172-169 209318243-242-232-231.206.205 تجار : - 147 253.250.247.246.245.244 366-271.179.76-263-261-260.257.255.254 514-512-503-502 348-340-315-272-266-265 354.257.246.166.13.10_ -363.354.352.351.350.349 608.607.606-406.394.372 388.387.381.379.372.371 424-265406-405-398-396-394-391 ہمدان: 278258 279 ہندو: 658 ہوازن: 322،202،36،25،5 419.414.413.412.411.410 505-484-481-480-479-420 542.536.528.525.522.506 614.551.482 606.581.549.548.545.544 یوسیوں:.502،367 653.613-609-607 حتیوں:.502،367 614.505.409.269.39 جو یوں: 502،367 302 406.387.178.177.35_ 614.545.424.408 خزرج265،26318،15 609.607.574.265.416 دارتين : 324 324:0 دوس: 250،219،13313 537.252.251 صابي:-3 عاد: 247،168 عبدالاشهبل : 263 عبد القيس : 614545 عبس: 430 عذره:614280
683 544508،497،481،480،479 غزوة بدر الموعد :- 2 608-597.559 غزوہ بنو لحیان : 2 بئر معونہ :- 2 267 بنو مصطلق : 498،415،28،27،2 اسوہ انسانِ کامل یورپی : 644 یورپین : 647 یونانی: 647،635،626 25.23.19.18.3<21: 147.84.77-34-33-29-28 191.187.179.173.172.169 272-271-270.268.265.192 366-318-316-300-299-276 غزوہ بنو قریظہ :- تبوک : 596،300،37،2 جنگ احزاب اخندق : 57،29،28 غزوہ دومۃ الجندل :- 2 ،61426 378،235،169161،13584 غزوہ ذات الرقاع :- 408،406،392،387،380،379 غزوہ طائف :- 510.471.410 377 378 383،379 384 385 جنگ بعاث : 598263 غزوہ قینقاع :-2 غزوہ موتہ :495361،302،234 747336-353119_E 178-176-173-167.112.84.76 275.270-267-201.194.179 324-323-322-297-279-276 391.390.387.367.343-336 399.398.397.395.394.392 472.471.424.414.413.406 523.522.507.506.494.473 616.529.527.526.525.524 74.37.36-322-421-413-412-409-408-406 322-320-277-202-200-178 536.505.482.473.426.323 551.546 503-502-494-480-455-452 511.510.509.508.506.504 564.535.521.514.513.512 629613612،610،609،608 حمراء الاسد : 545 658.637.631 خیبر :-135،133،33،12،2 غزوات 345.173.172.144.141.140 452.407.406.386-384-370 521.498.471 واقعہ ربیع : 266،25،2 ذات الرقاع :-550،551،268،25،2 صفین :-288 يوم الروم : 278 صلح حدیبیہ : 34.33.30.29.19.2- 178 177 176-161-160-35 387.383.380.343.231.226 563-551-550-412-410-409 مقامات ابواء: 4 اجیاد: 252 361.345.25-24-23_ <407-387-376-375-374-373 472.471 افریقہ: -11 ،648،638،628،396 عمرہ قضا: 176 غزوہ بنو قریظہ :-562،84 84.73.52.28.25<23<2_ 374-373-370-361-226-161 407-406-405-379-376-375 494.493.487.459.410.408 608.527.506.499.497 72.23.22:20.9.2.1 146.134.113.112.99.84 227.187.175.168.155.154 352-342-266-264-230-229 404.388.373-372.371.369 433،431،420،410،406،405 غزوه ذي قرد :-398378،2
اشاریہ 523.499.411.410.387.383 684 بلدح: 67 اسوہ انسانِ کامل 657 امریکہ: 635،612،611،485،482 بئر معونہ:.267،231،230،25 اندلس:657 انگلستان:.634628 ایران:15915814328 656-379-273<272.162 551.550 بیت اللہ : 127،12491،7422 حرم: 381،344230،177،84 *350-278.250.249.143 382-381-380-352-351 424.410.394.393.387 608.551.550.502 507.424.411.410.383 551-524 ایشیاء:-648،638628 ایلہ: 514 حرة الوبره: 72 حمراء الاسد:545،377،25 حنین: 322،32037،36 323 بیت المقدس: 22، 127،125 574.473.426.415.399 16202 343-5735 بیت عینون: 324 بیت مدراس: 270 271 بیروت:659 ایلیاء مقام: 275 بحر اوقیانوس: 626160 بحر متوسط:-657 بحر ہند : 160 تبوک: 276423638،37 345 خانہ کعبہ : - 1، 22،13،12،10،5،3 جبرالٹر: 160 بحرین: 325،311،2765، 98.82.81.73.72.67.35.30 177.166.145.143.122.110 250-249-246-241.224.206 350-267-260-257.256.255 382.381.380.372.352.351 397.394.393.390.389.387 551-448-428-472-419-414 201- 498.494.430.336-326 بحیرہ احمر: 160 بحیرہ اسود: 160 بحیرہ روم: 160 جزیرہ روس صقلیہ : 160 جزیره قبر ص: 160142 جعرانہ: 200178،15936 بحیرہ عرب: 565،160 جنت البقیع :618،88،23 خبری: 324 607.595 77.32 31.12.11.2.1-* 271،257،255،254207،171 خراسان:-657 136 135-33-32-31-455-450-436-433-332-274 378-332-303-272-268-160 411-409-386-385-384-383 509.493.453.422.413.412 657.606.598.572.543.498 621.157.156 351.161: 574511.510 232.97.35.34.31.30- 245 382.381.380-343-274-272 99-24-23-22-21-20 155.154.146.134.113 369-266-226-175.168 388-387-377-372.371 481.433.421.405.404 524-510-508 برک الغماد : 227 بصری: 273،194185،344.597
اسوہ انسانِ کامل دار الندوہ:_246224168 ذوالحلیفہ : -381 ذوالمجاز: 259 ووالخلصه : 143 ذي قرد چراہ گاه: 378 685 صنعاء:39 ،162،158 ،542،379 فدک : 3252 مبا: 386 طابه یا طیبہ : 345 قباء:-1 قرن الثعالب : 262،132 طائف : 1، 37،36،15،14،2 قسطنطنیہ: 160،145 5،38 47 12،8 1، 1 132،13 کعبہ یمانی: 143 244166.127.125.8:259.231.156.145.133 349.344.331.256.254.245 276-275-267-262-260 266-265-252- 162160.37.31.15: 623-606-536.473 2019 118 653 273-272-271.233.176.167 63881.54393836342928 189،181،173،135،134102 ماوراءالنهر : 657 263-259- 19.18.17.16.12.2.1 27.26.25.24.23.22.21.20 281-278-272-271-258-246 463-462-418.339.323.286 625.616.545.542.513.488 37.35.34.33.32.30.29.28 648-647-636-631-628.626 82.59.58.57.48.43.41.38 660.659.658.657.653 127.112.108.97.90.88.84 206.127.125.99: 326-342-289-276-275.274 656-623-545-340 رومانیہ: 659 رومیوں: 274273233،160 626-571-340.324.276 656-653-635 چین: 160 سلع : 137 156.155.148.137.135.133 556-298 سندھ: 163 178.177.176.172.169.161 عزوراء: 108 32.31.28.26.20.5: 188-187.186-183-181.179 607-230-262-16-15-1 167.162.160-146-66-38-34 207.204.201-200.193.192 263.259: 274-273.250.194.187.185 224-220-218-217.211.209 324276: 432-412-410.379.324.277 243-237.233-232-228-226 608-549-543-22416 268-267-266-264-263-252 88.82.8167.76_7 657-656-614-613 105.91 شامی:.647،40،34 شعب ابی طالب : 11313،1 276-273-272-271-270-269 317.316.314.311.297.292 344-342-336-324.323.318 376-374-373-365.363.345 614275 354-263-260-258.257.166 فاران: 621 607.549.542.372 272-15604.475.427.317.269
اشاریہ 686 اسوہ انسانِ کامل 625.616-614-613-611-609 21 20 19 18 17 16 15 14 385.383.382.388.379.377 653-647-643-642-638.632 33.31.30.28.27<25.24.23 409.408.407-406.398.387 654 81-76-74736736.35.34 421-415-413-412-411-410 منی:.574263،15 موتہ مقام:.614 291.269.268.267.25_ 109.108.97.90.88.84.83 476.474.473.471.453.431 133.132.131.130.113.112 497.496-487-482-481.479 171.167.148.142.137.136 507.506.505.504.499.498 409 179.178.177.176.173-172 514.513-511-510.509.508 299.271.179.75 224201.194.190.187.185 542.535.529.523.521.515 515-513-512-511 248.247.246.245.229.228 566-261256.255.254.251.250.249 554.550.549.545.544.543 563-562-561-554-550-549 257 258 259 260 261 263 وادی بطحا :81 597.596-591-574-571.564 657-:M 270-268-267-266-265-264 611.610.609.608.607.598 631.616.615.614.613.612 315.297-279-276-275.272 637.628 342.341.336-324-323-322 ہندوستان: 626488،1633 350.349.348.345.344.343 372.367.365.361.354.353 ہندوستانی:.654635 میٹرب: 1 ،137،18،17،16،15،4 263-225-179.168.161 380.379.378.377.376.375 609.607.543.344.264 390.389.387.383.382.381 395 397-396-395-394-392-391 270.161.158.39.2 407.406.405.404.399.398 506.505.410.275 413-412-411-410-409.408 39-32-31-28-521-432-431-424-420-415-414 479.474.473.472.471.443 654-644 مر الظهران: 413،389،388،35 596 127.125-09/ مسجد الحرام : 84 مسجد قباء:59876581 مسجد نبوی : 1، 18، 39، 57،48 409.317.292-270-269.125 529.511.507.475-450-420 616.612.604.598.558 173.162.157.156.144.133 379-280-279-273-263-179 523-522-510-507.506.505 مشعر الحرام: 127،125 515.514.513.512.507.420 529.528.527.526.525.524 499.275.274.32.31_: 614.597.539.526.524 563.543.542.541.539.536 657-656-613-602 یورپ: 634628،466306 608.607.606.574.565.564 13.12.11.8.6.5.4.3:
اسوہ انسان کامل 658-643-638 یونان: 656 687 اشاریہ نجاشی کا وفد : 473،332 ایرانی: 352،340،160،15628 عبد القیس کا وفد : 336 محارب: 324 وفود اوس کا وفد : 263 یلی: 280 بنو حنیفہ کا وفد : 39 ینو خزاعہ کا وفد:.127،35 بنی عذرہ کا وفد : 280 ینی متفق : 336 بجیلہ:.597 بحرین کا وفد : 336 مزینه: 613 مشرکین کا وفد : 38 مضر قبیلہ کا وفد : 318 نجران انصاری کا وفد : 271،75،38 513.511 تصحیحین جنات کا وفد : 15 نہد کا وفد : 55 653.635.574.371.345 بیعت رضوان: 411،2 91.40.39.16.15.2_ 258-241-213-200-160-145 410.383-324-281.263.259 607.574.539.445 شاه ایران: 146،47،31،17 272.159.156 شق القمر : 13،1 میثرب کا وفد : 263،16،15 عربوں: 90،82،51،50،30،26 یمن کا وفد : 614 تجيب: 336،323،280،145 یہود کا وفد : 612 277.273.258.191.154.135 340.334 تغلب: 513 تمیم: 615 ثقیف کا وفد :_616،507،75 جہینہ: 613 دار تین : 324 شعراء ابوكبير هذ لي: 56 غسانی:.275،38 فارسی: 657618617،337 امیہ بن الصلت : 110،54 معراج: 118،106،91،13،1 حسان بن ثابت : 287،233،41،32 زید بن الخيل: 616 سعد بن بكر قبیلہ کا وفد : 277 سعد بن مریم کا وفد : 280 طائف کا وفد : 616507 616_: فروہ قبیلہ کا وفد : 278 طفیل بن عمرو دوسی: 250،133،13 606.537.252.251 576-261 واقعہ افک : 426415،27،2 448 ہندی: 530 عبد الله بن خطل ا عبدالعلی: 397 یشتر بی: 168 عبد اللہ بن رواحہ:361،265،89،54 كعب بن زھیر : 529112،38 قریش کا وفد : 273253166 کندہ کا وفد : 279،120 ہمدان کا وفد : 279 ہوازن کا وفد:.20236 نابغہ ابولیلی : 54 ھوذه بن علی حنفی : 275 متفرق
اسوہ انسان کامل 688 کتاب اسوة انسانِ کامل کے بارہ میں چند آراء کتاب اُسوه انسانِ کامل کے بارہ میں چند آراء مکرم چوہدری محمد علی صاحب ایم.اے وکیل تصنیف تحریک جدید سایت پنل تعلیم الاسلام کا اچار بود) محترم حافظ مظفر احمد صاحب جید عالم اور علوم اسلامیہ خصوصاً علم حدیث کے فاضل استاذ ہیں.آپ نے اپنی کتاب اسوہ انسان کامل، میں انسان کامل سید ولد آدم، خاتم النبین ، امام المرسلین اور ہم سب کے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی کچھ جھلکیاں پیش کی ہیں.اور خوشبودار اور زندہ و تابندہ پھولوں کا گلدستہ سجایا ہے.اور ہمارے دل و دماغ کو معطر کرنے ، روح کو بالیدگی اور ایمان کو ترو تازگی بخشنے والے ایک عظیم خزانے کے دروازے کھولے ہیں.یوں تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ، کیا خلوت اور کیا جلوت، قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ ہے.لیکن حسن و احسان کے اس نا پیدا کنار سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں کا احاطہ کون کرسکتا ہے.شان احمد را که داند جز خداوند کریم اس پس منظر میں محترم حافظ صاحب کی عاشقانہ مساعی کی قدر و قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے.آپ نے جس محبت اور لگن سے یہ پھول چنے ہیں اور جس عرق ریزی سے ایک ایک اندراج کے مستند حوالہ جات دیئے ہیں.وہ قابل داد ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کی مساعی کو قبول فرمائے.آمین.جی چاہتا ہے کہ یہ کتاب اور اس کے تراجم ہرگھر میں موجود ہوں اور سکولوں اور کالجوں میں یہ کتاب نصاب کے طور پر شامل ہو.مــــاشــــاء الـــلـــهـ چشم بددور اللهم بارك وزد مکرم راجہ غالب احمد صاحب لاہور (چیئر مین (ر) پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ) مکرم محترم حافظ مظفر احمد کی تصنیف ”اسوہ انسان کامل“ کے یوں تو بہت سے درخشاں پہلو ہیں.خاکسار کی نظر میں سب سے اہم پہلو نفس مضمون اور انداز تحریر کے اعتبار سے اس کتاب کی عظیم الشان صحت بیان ہے.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و احسان ہوا ہے کہ حافظ صاحب نے کمال سادگی اور پر کاری سے اس سیرت مبارکہ کی کتاب میں حضرت رحمۃ العالمین کے ان تمام اوصاف حمیدہ کی نہ صرف احسن رنگ میں نشان دہی کر دی ہے بلکہ ہر ممکن طور پر ان اوصاف سے منسلک اہم واقعات اور اُن سے متعلق حوالہ جات کو اپنی کتاب میں ہر باب کے آخر میں نہایت مناسب رنگ میں جگہ
اسوہ انسان کامل 689 کتاب اسوة انسانِ کامل کے بارہ میں چند آراء دیدی ہے.اور اس طرح سے اس کتاب کو قاری کے لئے ایک خزانہ بنا دیا ہے.جسے وہ ایک ریفرنس بک“ کے طور پر بھی استعمال کر سکتا ہے.آنحضرت ﷺ کی سیرت پر بلاشبہ یہ ایک منفرد تصنیف قرار پائے گی.اس کا ایک ایک خاص مقام ہمیشہ رہے گا.اللہ تعالیٰ اس مصنف محترم کو ہر رنگ میں جزائے خیر عطا فرمائے.آمین مکرم مجیب الرحمن صاحب ( ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان.راولپنڈی) مکرم حافظ مظفر احمد صاحب نے اپنی کتاب ” اُسوہ انسان کامل“ میں واقعات وسوانخ تاریخی ترتیب سے بیان نہیں کئے.مگر انسانی زندگی کے نشیب و فراز میں آنحضرت کے حسین اسوہ کا ایک دلآویز گلدستہ ترتیب دیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی تسبیح روز و شب کی ایک خوبصورت مالا پروئی ہے.مختلف عناوین کے تحت ہر موضوع پر مستند روایات یکجا کر دی ہیں جو ایک اہم علمی کام ہے.فاضل مصنف نے حضور کی حیات مبارکہ میں سے خدا اور بندے کے ما بین راز و نیاز ، مالک سے مانگنے کے اسلوب، دعوت الی اللہ کے سلیقے ، اپنے عشاق وخدام کی وفاؤں کی قدر دانی، اور الطاف کریمانہ، عائلی زندگی میں حضور کا اسوہ اور رزم و بزم میں حضور کی شخصیت کے روح پرور نمونے دکھائے ہیں.انداز بیان نہایت سادہ اور سلیس ہے جس کی وجہ سے ہر شخص یکساں طور پر اس کتاب سے استفادہ کر سکتا ہے.اس مجموعہ میں ہر اس شخص کے لئے جو اپنی زندگی میں اسوہ رسول پر عمل کرنا چاہتا ہے، روشنی اور راہنمائی کا وافر سامان ہے.یہ کتاب ان لوگوں کے لئے بھی مفید ہے جو اپنے کسی بھی فرض منصبی کی وجہ سے رشد وارشاد سے وابستہ ہوں اور جنہیں مختلف مواقع پرمستند روایات کی تلاش رہتی ہوں توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ کتاب ہر طبقہ کے لوگوں کے لئے مفید اور بابرکت مجموعہ ثابت ہوگی.ایسا مجموعہ تیار کرنے کے لئے جس ذوق و شوق اور لگن کی ضرورت ہوتی ہے وہ محض خدا کے فضل اور کسی مرشد کے پیار کی نظر سے ہی میسر آسکتی ہے.ایں سعادت بزور بازو نیست خدا تعالیٰ حافظ صاحب کو جزائے خیر دے.ان کے مطالعہ اور علم میں مزید وسعتیں عطا فرمائے اور زیر نظر کتاب کو نافع الناس بنائے.آمین.مکرم لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈاکٹر محمود الحسن صاحب راولپنڈی ارڈ وزبان میں بھی سینکڑوں کی تعداد میں حضور کی سوانح عمریاں لکھی گئیں جن میں سیرۃ خاتم النبین ، سیرۃ النبی ،ضیاء النبی ، رحمۃ للعالمین، سیرت طیبہ، انسان کامل، ہادی عالم ، الرحیق المختوم خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حال ہی میں مشہور و معروف سکالر اور عاشق رسول حافظ مظفر احمد کی بڑی جامع اور مبسوط کتاب ” اُسوہ انسانِ کامل شائع ہوئی ہے جو اپنی افادیت کے لحاظ سے حضور اقدس کی شان میں لکھی جانی والی کتابوں میں ایک خوبصورت اضافہ
690 کتاب اسوة انسانِ کامل کے بارہ میں چند آراء اسوہ انسان کامل ہے جس کی تکمیل اور اشاعت پر مصنف حافظ مظفر احمد کی کاوشوں کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے.انہوں نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دے کر اپنی بخشش کا سامان کر لیا ہے اور اُن کی یہ سعی بارگاہ نبوی میں ضرور شرف قبولیت حاصل کرے گی.ایں کار از توایدو مردان چنین کنند انسان کامل اتنی جامع مفصل اور محمدہ پیرائے میں تحریر کی گئی ہے کہ حضور کی سیرت طیبہ کی جامع اور مکمل تصویر قاری کے سامنے آجاتی ہے اور سیرۃ نبوی کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا.أسود انسان کامل اُردو کے سیرتی سوانحی ادب میں ایک خوبصورت اور گراں پا یہ اضافہ ہے.جس کے لئے مکر می حافظ مظفر احمد مبارکباد کے مستحق ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے.آمین.محترم رشید قیصرانی صاحب مرحوم ( ر ) ونگ کمانڈر.ڈیرہ غازی خان یوں تو حضور کی سیرت طیبہ پر بے شمار کتابیں لکھی گئیں ہیں اور بے شمار کتابیں لکھی جائیں گی لیکن جس منفردانداز میں مکرم حافظ صاحب نے یہ بابرکت فریضہ سرانجام دیا ہے وہ منفرد بھی ہے اور قابل ستائش بھی.انسانی زندگی کی ہر ر بگذر پر جہاں جہاں اُس ہادی اعظم اللہ کے نقوش پا موجود ہیں انہیں حافظ صاحب نے ایک ضخیم کتاب میں سمونے کی کوشش کی ہے.کتاب کو بیالیس ابواب ( اب سینتالیس میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر باب میں حضور ﷺ کی زندگی کے کسی ایک پہلو کو مستندا حادیث کے حوالہ جات کے ذریعے اُجاگر کیا گیا ہے.کتاب میں ایسے ایک ہزار سے زائد حوالے درج ہیں جو سیرت نبوی ﷺ پر تحقیق کرنے والوں کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو نگے.اس خاکسار نے کتاب کے مطالعے کے وقت جو بات بطور خاص محسوس کی وہ اس کا انداز تحریر ہے جس سے مجھے بارہا صلى الله یوں محسوس ہوا جیسے میں بھی اُس بابرکت محفل میں موجود ہوں جہاں وہ صاحب خلق عظیم ماہ جلوہ فرما ہیں اور محو گفتگو یا مصروف عمل ہیں زیر نظر کتاب میں اُس پیکر عفو و عنایات کے انداز دلربائی کا بیان ہی کچھ ایسا ہے کہ دورانِ مطالعہ بار ہا میری زبان نے درود وسلام اور میری آنکھوں نے آنسوؤں کا نذرانہ اُس شاہ ولر باعہ کے حضور پیش کیا اور مکرم حافظ صاحب کے لئے بے ساختہ دعائیہ الفاظ زبان پر آتے رہے.خداوند کریم ورحیم انہیں مزید خدمت دین کی توفیق عطا فرمائے.آمین.