Language: UR
محسن انسانیت، نبی اطہر،بانی اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پاکیزہ زندگی کے متعلق آپ کے مخالفین اپنی مایوسی،بغض، تکبر اور حق دشمنی کے جذبات میں بہہ کر توہین و گستاخی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ سال 2006ء میں ایسے ہی عناصر نے آزادی ضمیر اور آزادی صحافت کے نام پر بہت ہی گھناؤنی اور ظالمانہ حرکت کی کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے بےہودہ خاکے اور کارٹون بنا کر مختلف کتب اور اخبارات میں شائع کئے، جس پر مختلف مسلم تنظیموں اور مسلمان ممالک نے بڑے سخت ردعمل کا اظہار کیا، آگیں لگائی گئیں اور غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لئے املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اسی تناظر میں امام جماعت احمدیہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خطبات جمعہ کا سلسلہ شروع فرمایا جس سے واضح ہوا کہ ایسے حالات میں ایک حقیقی مومن کا ردعمل کیسا ہوناچاہئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی برتری دیگر مذاہب پر ایک دفعہ پھر واضح ہوکر سب کے سامنے آنے لگی۔ ان خطبات کو اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنزانگلستان نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔
صلى الله اسوہ رسول علي اور خاکوں کی حقیقت حضرت مرزا مسر و ر احمد امام جماعت احمد یہ عالمگیر.خلیفہ اسیح الخامس ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز
اسوہ رسول ﷺ اور خاکوں کی حقیقت (The Blessed Model of the Holy Prophet Muhammad and the Caricatures) Consisting of 5 Friday Sermons of: Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, Imam Jama'at-e-Ahmadiyya, Khalifatul Masih V (URDU) First Published in UK in 2006 Islam International Publications Ltd.Published by: Islalm International Publications Ltd; "Islamabad" Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed in UK at: Raqeem Press Tilford, Surrey Composed by: Mahmood Ahmad Malik Cover Design: Mirza Nadeem Ahmad ISBN: 1 85372 908 6
بسم ا پیش لفظ الله الرحمن الرحيم نحمده و نصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود ابتداء ہی سے حق و باطل اور نور وظلمت کے مابین جنگ رہی ہے.لیکن سنت اللہ کے مطابق جیت ہمیشہ حق اور نور کی ہی ہوتی ہے.بعض لوگوں کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے جو دراصل تکبر کی وجہ سے ہوتا ہے، خدا تعالیٰ کے رسولوں کے بالمقابل کھڑے ہوتے رہے لیکن بالآخر نا کام اور خائب و خاسر ہوئے.اسلام اور فخر کائنات سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں بھی مختلف احباب نے گستاخانہ رویہ اپنایا اور سنت اللہ کے مطابق ناکامی کا منہ دیکھا.حال میں بھی آزادی ضمیر اور آزادی صحافت کا بہانہ بنا کر بعض عناصر نے اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف اپنا بغض نکالنے کے لئے اور غالباً عالم اسلام کے خلاف منافرت پھیلانے کے لئے بیہودہ خاکے اور کارٹون مختلف کتب اور اخبارات میں شائع کئے.اسکے نتیجہ میں مختلف مسلم تنظیموں اور اسلامی ممالک میں بڑا شدید رد عمل ظاہر ہوا اور آگیں لگائی گئیں اور غصہ کا اظہار کرنے کے لئے توڑ پھوڑ بھی کی گئی.جماعت احمدیہ کے قیام کا بڑا مقصد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے سچی تعلیمات کو دنیا میں پھیلایا جائے.اس لئے ایسے مواقع پر جماعت کا رد عمل آگیں لگانے اور توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے یہ ہوتا ہے کہ معترضین کے اعتراضات کے تسلی بخش جواب دئے
جائیں اور اس طرح اسلام کا حقیقی اور سچا پیغام دنیا تک پہنچانے کی کوشش کی جائے.چنانچہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان حالیہ واقعات کے متعلق سیر حاصل بحث اپنے ان خطبات جمعہ میں فرمائی ہے جو آپ نے اس سال 10 فروری.17 فروری.24 فروری.3 مارچ اور 10 مارچ کو مسجد بیت الفتوح، مورڈن.لندن میں ارشاد فرمائے.ان خطبات سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے حالات میں ایک حقیقی مومن کا رد عمل کیا ہونا چاہئے اور کس طرح صورتحال سے نمٹنا چاہئے.احباب کو چاہئے کہ نہ صرف خود ان ارشادات کا مطالعہ کریں بلکہ اپنے جاننے والوں کو بھی مطالعہ کے لئے دیں تا کہ انہیں بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آگاہی ہو.اس غرض سے ان ارشادات کا ترجمہ مختلف زبانوں میں بھی کروا کے انشاء اللہ طبع کروایا جائے گا.خاکسار منیر الدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف جون 2006 iv
!!! پیش لفظ.....فهرست مضامین فہرست مضامین خطبہ جمعہ مؤرخہ 10 فروری2006ء ڈنمارک اور مغربی ممالک میں انتہائی غلیظ کارٹونوں کی اشاعت پر عالم اسلام کا رد عمل...بعض انصاف پسندوں کا تبصرہ مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط رد عمل سے غیروں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے.....احمدی کے رد عمل کا طریق اسلام اور آنحضرت ﷺ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعود نے کرنا تھا آنحضرت ﷺ کا اسوہ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی.....احمدی نوجوانوں کو صحافت میں جانا چاہئے 1......جھنڈے جلانے یا توڑ پھوڑ کرنے سے آنحضرت ﷺ کی عزت قائم نہیں ہوسکتی اپنے درد و دعاؤں میں ڈھالیں اور آنحضرت ﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں خطبہ جمعہ مؤرخہ 17 فروری 2006ء دوسروں کے جذبات سے کھیلنا نہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر > 1 3 5 6 9 0 12 15 17 19 20 257 2 الله الله 23 25
آنحضرت ﷺ کی تو ہین پر مبنی حرکات پر اصرار غضب الہی کو بھڑ کانے کا موجب ہے.ان حالات میں احمدی کا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟.....اسلام کی شان و شوکت اور آنحضرت ﷺ کے تقدس کو مسیح و مھدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے 26 26 27 نزول مسیح کا حقیقی مطلب اور مسیح و مھدی کے بعض کام نیز اس کی صداقت کے بعض دلائل 28 30 31 34 35 37 38 41 45 48 49 50 52 vi مسیح موعود کا خزانے لٹانے سے مراد سر صلیب اور قتل خنزیر کی تشریح مسیح موعود نے امت مسلمہ میں سے ہی آنا تھا مسیح اور مھدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.مسیح موعود د ینی لڑائیوں کو موقوف کر دے گا...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلفیہ بیان کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں آسمانی شہادت اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعود کی محبت دلوں میں بٹھائے گا اور سب فرقوں پر آپ کے فرقہ کو غالب کرے گا خطبہ جمعہ مؤرخہ 24 فروری 2006ء مغربی ممالک اور اخبارات کا دوہرا معیار مسلمانوں کی کسمپرسی کی انتہائی خوفناک حالت مسلمانوں کے انتشار اور کمزوری کی اصل وجہ آنحضرت ﷺ کی نافرمانی اور مسیح و مھدی کا انکار ہے.....دعا کرنے اور برکات حاصل کرنے کا اصل طریق
61 62 67 69 69 لله له له لا له م م 73 73 75 77 78 82 84 86 89 91 vii فتوحات صرف اور صرف دعا سے ہی حاصل ہو سکتی ہیں اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر کوشش کی جائے خطبہ جمعہ مؤرخہ 3 /مارچ2006ء.....اخبار جنگ ،لندن میں جماعت احمدیہ کے متعلق جھوٹی اور بے بنیاد خبر کی اشاعت محض شرارت اور شرانگیزی ہے.اس جھوٹی خبر پھیلانے والے کو میں یہی کہتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور لعنة الله على الكاذبين کارٹونوں کے فتنہ کے خلاف جماعت احمدیہ کا رد عمل اور کوششیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضور ﷺ سے عشق مسلمان حکومتوں کو مفاد پرست ملاں اور عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہیے..حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ آنحضرت ﷺ کا عظیم الشان مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں مسئلہ جہاد بالسیف کی حقیقت جماعت کے خلاف جھوٹی خبر اور گھناؤنی سازش کی پوری تحقیق کروائی جائینگی تا کہ اصل مقاصد سامنے آسکیں خطبہ جمعہ مؤرخہ 10 / مارچ 2006ء...مسلمانوں کے بعض گروہوں کے خلاف اسلام عمل غیر مسلموں کو اسلام پر حملے کرنے میں ممد و معاون بنتے ہیں
viii 104 95 95 92 92 غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم کفار مکہ اور دشمنان اسلام کی زیادتیوں اور ظلم کے بالمقابل آنحضور عیسی عظیم الشان اسوه حسنه اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اسلام میں آزادی ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلا ہے انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرت ﷺ کا بے مثال عملی نمونہ
☆☆ صلى الله آنحضرت ﷺ کے پیار، محبت اور رحمت کے اُسوہ کو دنیا کو بتانا چاہئے.ہر ملک میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کی ضرورت ہے.☆☆ ڈنمارک میں انتہائی غلیظ ، توہین آمیز اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے کارٹونوں کی اشاعت کی پُرزور مذمت اور اس کے خلاف اسلامی تعلیمات کے دائرہ میں رہتے ہوئے جماعت احمدیہ کے رد عمل اور اس کے مثبت اثرات کا تذکرہ.☆☆ اس قسم کی حرکتوں سے ان لوگوں کے اسلام سے بغض اور تعصب کا اظہار ہوتا ہے.اور ان گندے ذہن والوں کے ذہنوں کی غلاظت اور خدا سے دُوری نظر آجاتی ہے.☆☆ جھنڈے جلانا، ہڑتالیں کرنا ، توڑ پھوڑ کرنا یا فساد پھیلانا احتجاج کا صحیح طریق نہیں ہے.ہمیں اپنے رویے اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں.ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہونا چاہئے جس سے آنحضرت ﷺ کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.☆☆ احمد یوں کو صحافت کا شعبہ اپنانے کی تحریک خطبه جمعه فرموده مؤرخہ 10 فروری 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ 1
2
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ (سورة الانبياء : آیت 108) إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اللَّهَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالَّا خِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا (سورة الاحزاب : آيات 57-58) ڈنمارک اور مغربی ممالک میں انتہائی غلیظ کارٹونوں کی اشاعت پر عالم اسلام کا رو عمل آجکل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے، ابھارنے والے، کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم وغصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہورہا ہے.بہر حال قدرتی طور پر اس حرکت پر رد عمل کا اظہار ہونا چاہئے تھا.اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرت ﷺ سے محبت و عشق میں یقیناً دوسروں سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ 3
والسلام کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے اور کئی احمدی خط بھی لکھتے ہیں اور اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں، تجاویز دیتے ہیں کہ ایک مستقل مہم ہونی چاہئے ، دنیا کو بتانا چاہئے کہ اس عظیم نبی کا کیا مقام ہے تو بہر حال اس بارے میں جہاں جہاں بھی جماعتیں Active ہیں وہ کام کر رہی ہیں لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے.اس زمانے میں دوسرے مذاہب والے مذہبی بھی اور مغربی دنیا بھی اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں.اس وقت مغرب کو مذہب سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے.ان کی اکثریت دنیا کی لہو و لعب میں پڑ چکی ہے.اور اس میں اس قدر hvove ہو چکے ہیں کہ ان کا مذہب چاہے اسلام ہو ، عیسائیت ہو یا اپنا کوئی اور مذہب جس سے یہ منسلک ہیں ان کی کچھ پرواہ نہیں وہ اس سے بالکل لا تعلق ہو چکے ہیں.اکثریت میں مذہب کے تقدس کا احساس ختم ہو چکا ہے بلکہ ایک خبر فرانس کی شاید پچھلے دنوں میں یہ بھی تھی کہ ہم حق رکھتے ہیں ہم چاہے تو نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کا بھی کارٹون بنا سکتے ہیں.تو یہ تو ان لوگوں کا حال ہو چکا ہے.اس لئے اب دیکھ لیں یہ کارٹون بنانے والوں نے جو انتہائی قبیح حرکت کی ہے اور جیسی یہ سوچ رکھتے ہیں اور اسلامی دنیا کا جو رد عمل ظاہر ہوا ہے اس پر ان میں سے کئی لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ یہ رد عمل اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے حالانکہ اس کا معاشرے سے کوئی تعلق نہیں ہے.اب تو ان لوگوں کی اکثریت جیسا کہ میں نے کہا اخلاق باختہ ہو چکی ہے.آزادی کے نام پر بے حیائیاں اختیار کی جارہی ہیں ، حیا تقریباً ختم ہوچکی ہے.4
بعض انصاف پسندوں کا نتبصرہ بہر حال اس بات پر بھی ان میں سے ہی بعض ایسے لکھنے والے شرفاء ہیں یا انصاف پسند ہیں انہوں نے اس نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ اس رد عمل کو اسلام اور مغربی سیکولر جمہوریت کے مقابلے کا نام دیا جائے.انگلستان کے ہی ایک کالم لکھنے والے رابرٹ فسک (Robert Fisk) نے کافی انصاف سے کام لیتے ہوئے لکھا ہے.ڈنمارک کے ایک صاحب نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرے اور مغربی سیکولر جمہوریت کے درمیان تصادم ہے اس بارے میں انہوں نے لکھا کہ یہ بالکل غلط بات ہے، یہ کوئی تہذیبوں کا یا سیکولر ازم کا تصادم نہیں ہے.وہ لکھتے ہیں کہ یہ آزادی اظہار کا مسئلہ بھی نہیں ہے.بات صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق پیغمبر پر خدا نے براہ راست اپنی تعلیمات نازل کیں وہ زمین پر خدا کے ترجمان ہیں جبکہ یہ ( یعنی عیسائی سمجھتے ہیں، (اب یہ عیسائی لکھنے والا لکھ رہا ہے کہ انبیاء اور ولی ان کی تعلیمات انسانی حقوق اور آزادیوں کے جدید تصور سے ہم آہنگ نہ ہونے کے سبب تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو گئے ہیں.مسلمان مذہب کو اپنی زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور صدیوں کے سفر اور تغیرات کے باوجود ان کی یہ سوچ برقرار ہے جبکہ ہم نے مذہب کو عملاً زندگی سے علیحدہ کر دیا ہے.اس لئے ہم اب مسیحیت بمقابلہ اسلام نہیں بلکہ مغربی تہذیب بمقابلہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور اس بنیاد پر یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہم اپنے پیغمبروں یا ان کی تعلیمات کا مذاق اڑا سکتے ہیں تو آخر باقی مذاہب کا کیوں نہیں.پھر لکھتے ہیں کہ کیا یہ رویہ اتنا ہی بے ساختہ ہے.کہتے ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ کوئی دس بارہ برس پہلے ایک فلم Last Temptation of christ ریلیز ہوئی تھی جس میں حضرت عیسی کو ایک عورت کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں دکھانے پر بہت شور مچا تھا اور پیرس میں کسی نے مشتعل ہو کر ایک سینیما کو نذر آتش کر دیا تھا.ایک فرانسیسی نو جوان قتل بھی ہوا تھا.5
اس بات کا کیا مطلب ہے.ایک طرف تو ہم میں سے بھی بعض لوگ مذہبی جذبات کی تو ہین برداشت نہیں کر پاتے مگر ہم یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ مسلمان آزادی اظہار کے ناطے گھٹیا ذوق کے کارٹونوں کی اشاعت پر برداشت سے کام لیں.کیا یہ درست رویہ ہے.جب مغربی را ہنما یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبارات اور آزادی اظہار پر قدغن نہیں لگا سکتے تو مجھے ہنسی آتی ہے.کہتے ہیں کہ اگر متنازعہ کارٹونوں میں پیغمبر اسلام کی بجائے ہم والے ڈیزائن کی ٹوپی کسی یہودی ربی (Rabbi) کے سر پر دکھائی جاتی تو کیا شور نہ مچتا کہ اس سے اینٹی سیمٹ ازم (Anti Semitism) کی بو آتی ہے یعنی یہودیوں کے خلاف مخالفت کی بو آتی ہے اور یہودیوں کی مذہبی دلآزاری کی جارہی ہے.اگر آزادی اظہار کی حرمت کا ہی معاملہ ہے تو پھر فرانس، جرمنی یا آسٹریا میں اس بات کو چیلنج کرنا قانونا کیوں جرم ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں یہودیوں کی نسل کشی نہیں کی گئی.ان کارٹونوں کی اشاعت سے اگر ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوئی جو مسلمانوں میں مذہبی اصلاح یا اعتدال پسندی کے حامی ہیں اور روشن خیالی کے مباحث کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوتا.لیکن ان کارٹونوں سے سوائے اس کے کیا پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ اسلام ایک پر تشدد مذہب ہے.ان کارٹونوں نے جہاں چہار جانب اشتعال پھیلانے کے اور کیا مثبت اقدام کیا ہے؟ روزنامه جنگ لندن 7 فروری 2006، صفحه 31 بہر حال کچھ رویہ بھی مسلمانوں کا تھا جس کی وجہ سے ایسی حرکت کا موقع ملا لیکن ان لوگوں میں شرفاء بھی ہیں جو حقائق بیان کرنا جانتے ہیں.مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط رو عمل سے غیروں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع ملتا ہے میں نے مختلف ملکوں سے جو وہاں رد عمل ہوئے ، یعنی مسلمانوں کی طرف سے بھی اور 6
ان یوروپین دنیا کے حکومتی نمائندوں یا اخباری نمائندوں کی طرف سے بھی جواظہار رائے کیا گیا ان کی رپورٹیں منگوائی ہیں.اس میں خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جنہوں نے اخبار کے اس اقدام کو پسند نہیں کیا.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہیں نہ کہیں سے کسی وقت ایسا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جس سے ان گندے ذہن والوں کے ذہنوں کی غلاظت اور خدا سے دوری نظر آ جاتی ہے.اسلام سے بغض اور تعصب کا اظہار ہوتا ہے.لیکن میں یہ کہوں گا که بد قسمتی سے مسلمانوں کے بعض لیڈروں کے غلط رد عمل سے ان لوگوں کو اسلام کو بدنام کرنے کا موقع مل جاتا ہے.یہی چیزیں ہیں جن سے پھر یہ لوگ بعض سیاسی فائدے بھی اٹھاتے ہیں.پھر عام زندگی میں مسلمان کہلانے والوں کے رویے ایسے ہوتے ہیں جن سے یہاں کی حکومتیں تنگ آ جاتی ہیں.مثلاً کام نہ کرنا، زیادہ تر یہ کہ گھر بیٹھے ہوئے ہیں ، سوشل ہیلپ (Social Help) لینے لگ گئے.یا ایسے کام کرنا جن کی اجازت نہیں ہے یا ایسے کام کرنا جن سے ٹیکس چوری ہوتا ہو اور اس طرح کے اور بہت سے غلط کام ہیں.تو یہ موقع مسلمان خود فراہم کرتے ہیں اور یہ ہوشیار تو میں پھر اس سے فائدہ اٹھاتی ہیں.بعض دفعہ ظلم بھی ان کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے لیکن مسلمانوں کے غلط رد عمل کی وجہ سے مظلوم بھی یہی لوگ بن جاتے ہیں اور مسلمانوں کو ظالم بنا دیتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ شاید مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت اس توڑ پھوڑ کو اچھا نہیں سمجھتی لیکن لیڈرشپ یا چند فسادی بد نام کرنے والے بدنامی کرتے ہیں.اب مثلاً ایک رپورٹ ڈنمارک کی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوا، ڈینش عوام کا رد عمل یہ ہے کہ اخبار کی معذرت کے بعد مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس معذرت کو مان لیں اور اس مسئلے کو پر امن طور پر ختم کریں تا کہ اسلام کی اصل تعلیم ان تک پہنچے اور Violence سے بیچ جائیں.پھر یہ ہے کہ ٹی وی پر پروگرام آرہے ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کے بچے ڈینشوں کے 7
خلاف رد عمل دیکھ کر کہ ان کے ملک کا جھنڈا جلایا جا رہا ہے، ایمبیسیز جلائی جا رہی ہیں بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں.وہ یہ محسوس کر رہے ہیں گویا جنگ کا خطرہ ہے اور ان کو مار دینے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں.اب عوام میں بھی اور بعض سیاستدانوں میں بھی اس کو دیکھ کر انہوں نے ناپسند کیا ہے اور ایک رد عمل یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ مسلمانوں کی اس دلآزاری کے بدلے میں خود ہمیں ایک بڑی مسجد مسلمانوں کو بنا کر دینی چاہئے جس کا خرچ یہاں کی فرمیں ادا کریں اور کوپن ہیگن کے سپریم میئر نے اس تجویز کو پسند کیا ہے.پھر مسلمانوں کی اکثریت بھی جیسا کہ میں نے کہا کہتی ہے کہ ہمیں معذرت کو مان لینا چاہئے لیکن ان کے ایک لیڈر ہیں جو 27 تنظیموں کے نمائندے ہیں وہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ اگر چہ اخبار نے معذرت کر دی ہے تاہم وہ ایک بار پھر ہمارے سب کے سامنے آ کر معذرت کرے تو ہم مسلمان ملکوں میں جا کر بتائیں گے کہ اب تحریک کو ختم کر دیں.اسلام کی ایک عجیب خوفناک تصویر کھینچنے کی یہ کوشش کرتے ہیں.بجائے صلح کا ہاتھ بڑھانے کے ان کا رجحان فساد کی طرف ہے.ان فسادوں سے جماعت احمدیہ کا تو کوئی تعلق نہیں مگر ہمارے مشنوں کو بھی فون آتے ہیں ، بعض مخالفین کی طرف سے دھمکیوں کے خط آتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے.اللہ تعالیٰ جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں،مشن ہیں محفوظ رکھے اور ان کے شر سے بچائے.بہر حال جب غلط رد عمل ہو گا تو اس کا دوسری طرف سے بھی غلط اظہار ہوگا.جیسا کہ میں نے کہا کہ جب ان لوگوں نے اپنے رویے پر معافی وغیرہ مانگ لی اور پھر مسلمانوں کا رد عمل جب سامنے آتا ہے تو اس پر باوجود یہ لوگ ظالم ہونے کے، بہر حال انہوں نے ظلم کیا ایک نہایت غلط قدم اٹھایا، اب مظلوم بن جاتے ہیں.تو اب دیکھیں کہ وہ ڈنمارک میں معافیاں مانگ رہے ہیں اور مسلمان لیڈر اڑے ہوئے ہیں.پس ان مسلمانوں کو بھی ذرا 8
عقل کرنی چاہئے کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے ردعمل کے طریقے بدلنے احمدی کے رد عمل کا طریق اور جیسا کہ میں نے کہا تھا شاید بلکہ یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے رد عمل کے طریق اور ہیں.یہاں میں یہ بھی بتا دوں کہ کوئی بعید نہیں کہ ہمیشہ کی طرح وقتا فوقتا یہ ایسے شوشے آئندہ بھی چھوڑتے رہیں، کوئی نہ کوئی ایسی حرکت کر جائیں جس سے پھر مسلمانوں کی دل آزاری ہو.اور ایک مقصد یہ بھی اس کے پیچھے ہو سکتا ہے کہ قانونا مسلمانوں پر خاص طور پر مشرق سے آنے والے اور برصغیر پاک و ہند سے آنے والے مسلمانوں پر اس بہانے پابندی لگانے کی کوشش کی جائے.بہر حال قطع نظر اس کے کہ یہ پابندیاں لگاتے ہیں یا نہیں، ہمیں اپنے رویے، اسلامی اقدار اور تعلیم کے مطابق ڈھالنے چاہئیں ، بنانے چاہئیں.جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اسلام کے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ابتداء سے ہی یہ سازشیں چل رہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کیونکہ اس کی حفاظت کرنی ہے، وعدہ ہے اس لئے وہ حفاظت کرتا چلا آ رہا ہے ،ساری مخالفانہ کوششیں ناکام ہو جاتی ہیں.اسلام اور آنحضرت علیہ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعود نے کرنا تھا اس زمانہ میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور بعد میں آپ کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے آپ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور ردعمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے صلى الله 9
نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تا کہ وہ لوگ جو احمد یوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کر کے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں آنحضرت علی کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی دردنہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں.ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے.قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر نا پاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کاروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں.اب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عشق رسول کی غیرت پر دو مثالیں دیتا ہوں.پہلی مثال عبد اللہ آتھم کی ہے جو عیسائی تھا.اس نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے انتہائی غلیظ ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دجال کا لفظ نعوذ باللہ استعمال کیا.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ایک مباحثہ بھی چل رہا تھا، ایک بحث ہو رہی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا، بحث چلتی رہی اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا.یعنی جو الفاظ اس نے کہے ہیں اس کی پکڑ کے لئے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوئی تو میں نے اس سے کہا کہ ایک بحث تو ختم ہوگئی مگر ایک رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب ”اندرونہ بائیبل میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجال کے نام سے پکارا ہے.اور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا جانتا ہوں اور دین اسلام کو من جانب اللہ یقین رکھتا ہوں.پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا.اور 10
وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول کو کاذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہاویہ میں گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے.یعنی راستباز اور صادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بد زبانی نہ چھوڑے.یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کر دینا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے با کی اور شوخی اور بد زبانی مستوجب سزا ٹھہرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جب میں نے یہ کہا تو اس کا رنگ فق ہو گیا، چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے تب اس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع سر کے ہلانا شروع کیا جیسا ایک ملزم خائف ایک الزام کا سخت انکار کر کے تو بہ اور انکسار کے رنگ میں اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار کہتا تھا کہ تو بہ تو بہ میں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور پھر بعد میں بھی اسلام کے خلاف کبھی نہیں بولا.تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھنے والے شیر خدا کا رد عمل.وہ للکارتے تھے ایسی حرکتیں کرنے والوں کو.پھر ایک شخص لیکھر ام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا تھا.اس کی اس دریدہ دہنی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی.وہ باز نہ آیا.آخر آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی دردناک موت کی خبر دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ایک دشمن اللہ اور رسول کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور ناپاک کلے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھر ام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعاسنی اور جب میں نے اس پر بددعا کی تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ 6 سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا.یہ 11
ان کے لئے نشان ہے جو بچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بڑی درد ناک موت مرا.آنحضور ﷺ کا اسوہ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھاؤ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوؤں سے آگاہ کرو جو دنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان کو ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقے سے کس کو پکڑنا ہے.پھر خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کے نام سے لکھی گئی.پھر ایک رسالے ”ورتمان“ نے ایک بیہودہ مضمون شائع کیا جس پر مسلمانان ہند میں ایک جوش پیدا ہو گیا.ہر طرف مسلمانوں میں ایک جوش تھا اور بڑا سخت رد عمل تھا.اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفتہ امسیح الثانی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بھائیو! میں درد مند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جولڑ پڑتا ہے.وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے.(اب یہ حدیث کے مطابق ہے کہ غصہ کو دبانے والا اصل میں بہادر ہوتا ہے.فرمایا کہ ) ” بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کرے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا.آپ نے فرمایا اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوں کا عہد کرو.پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے.پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو.دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے.اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں ، محاسن خوبصورت زندگی پتہ لگے، اسوہ پتہ لگے.تیسرے یہ کہ 12
آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے.(انوار العلوم جلد نهم صفحه 555-556) اب ہر ایک مسلمان کا عام آدمی کا بھی لیڈروں کا بھی فرض ہے.اب دیکھیں باوجود آزادی کے یہ مسلمان ممالک جو آزاد کہلاتے ہیں آزاد ہونے کے باوجود ابھی تک تمدنی اور اقتصادی غلامی کا شکار ہیں.ان مغربی قوموں کے مرہون منت ہیں ان کی نقل کرنے کی طرف لگے ہوئے ہیں.خود کام نہیں کرتے زیادہ تر ان پر ہمارا انحصار ہے.اور اسی لئے یہ وقتا فوقتا مسلمانوں کے جذبات سے یہ کھیلتے بھی رہتے ہیں.پھر آپ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی شروع کروائے.تو یہ طریقے ہیں احتجاج کے، نہ کہ توڑ پھوڑ کرنا فساد پیدا کرنا.اور ان باتوں میں جو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کی تھیں سب سے زیادہ احمدی مخاطب ہیں.ان ملکوں کی بعض غلط روایات غیر محسوس طریقے پر ہمارے بعض خاندانوں میں داخل ہورہی ہیں.میں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی مخاطب تھے.یہ جو اچھی چیزیں ہیں ان کے تمدن کی وہ تو اختیار کریں لیکن جو غلط باتیں ہیں ان سے ہمیں بچنا چاہئے.تو ہمارا ری ایکشن (Reaction) یہی ہونا چاہئے کہ بجائے صرف توڑ پھوڑ کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے ، ہم دیکھیں ہمارے عمل کیا ہیں ، ہمارے اندر خدا کا خوف کتنا ہے، اس کی عبادت کی طرف کتنی توجہ ہے، دینی احکامات پر عمل کرنے کی طرف کتنی توجہ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی طرف کتنی تو جہ ہے.پھر دیکھیں خلافت رابعہ کا دور تھا جب رشدی نے بڑی توہین آمیز کتاب لکھی تھی.اس وقت حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبات بھی دیئے تھے اور ایک کتاب بھی لکھوائی تھی.پھر جس طرح کہ میں نے کہا یہ حرکتیں ہوتی رہتی ہیں.گزشتہ سال کے شروع 13
میں بھی اس طرح کا ایک مضمون آیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بارے میں.اس وقت بھی میں نے جماعت کو بھی اور ذیلی تنظیموں کو بھی توجہ دلائی تھی کہ مضامین لکھیں خطوط لکھیں، رابطے وسیع کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی خوبیاں اور ان کے محاسن بیان کریں.تو یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حسین پہلوؤں کو دنیا کو دکھانے کا سوال ہے یہ توڑ پھوڑ سے تو نہیں حاصل ہوسکتا.اس لئے اگر ہر طبقے کے احمدی ہر ملک میں دوسرے پڑھے لکھے اور سمجھدار مسلمانوں کو بھی شامل کریں کہ تم بھی اس طرح پر امن طور پر یہ رد عمل ظاہر کرو اپنے رابطے بڑھاؤ اور لکھو تو ہر ملک میں ہر طبقے میں اتمام حجت ہو جائے گی اور پھر جو کرے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.اللہ تعالیٰ نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے.جیسا کہ خود فرماتا ہے ﴿وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِيْنَ (سورة الانبياء: آیت 108 ) کہ ہم نے تجھے نہیں بھیج مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت کے طور پر.اور آپ سے بڑی ہستی، رحمت بانٹنے والی ہستی، نہ پہلے کبھی پیدا ہوئی اور نہ بعد میں ہوسکتی ہے.ہاں آپ کا اُسوہ ہے جو ہمیشہ قائم ہے اور اس پر چلنے کی ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہئے.اور اس کے لئے بھی سب سے بڑی ذمہ داری احمدی کی ہے، ہم پر ہی عائد ہوتی ہے.تو بہر حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین تھے اور یہ لوگ آپ کی یہ تصویر پیش کرتے ہیں جس سے انتہائی بھیانک تصور ابھرتا ہے.پس ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیار محبت اور رحمت کے اسوہ کو دنیا کو بتانا چاہئے اور ظاہر ہے اس کو بتانے کے لئے مسلمانوں کو اپنے رویے بھی بدلنے پڑیں گے.دہشت گردی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ سے بچنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی ہے.جب تک کہ آپ پر مدینہ میں آ کر جنگ ٹھونسی نہیں گئی.پھر بہر حال اللہ تعالیٰ کی اجازت سے دفاع میں جنگ کرنی پڑی.لیکن وہاں بھی کیا حکم تھا کہ وَقَاتِلُوا 14
فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ـ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ﴾ (سورة البقرة: آیت (191) کہ اے مسلمانو! لڑ واللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں مگر زیادتی نہ کرو یقینا اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اپنے پر نازل ہونے والی شریعت پر عمل کرنے والے تھے.ان کے بارے میں ایسے نازیبا خیالات کا اظہار کرنا انتہائی ظلم ہے.بہر حال جس طرح یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے معافی مانگ لی ہے اور ہمارے مبلغ کی بھی رپورٹ ہے کہ ان میں سے ایک نے معافی مانگی تھی اظہار کیا تھا.جماعت احمدیہ کی کارٹونوں کی اشاعت کے خلاف فوری کارروائی دوسرے مسلمانوں کو تو یہ جوش ہے کہ ہڑتالیں کر رہے ہیں توڑ پھوڑ کر رہے ہیں کیونکہ ان کا رد عمل یہی ہے کہ توڑ پھوڑ ہو اور ہڑتالیں ہوں اور جماعت احمدیہ کا اس واقعہ کے بعد جو فوری رد عمل ظاہر ہونا چاہئے تھا وہ ہوا.احمدی کا رد عمل یہ تھا کہ انہوں نے فوری طور ان پر اخباروں سے رابطہ پیدا کیا.اور پھر یہ کوئی آج کی بات نہیں ہے کہ 2006ء کی فروری میں ہڑتالیں ہو رہی ہیں.یہ واقعہ تو گزشتہ سال کا ہے.ستمبر میں یہ حرکت ہوئی تھی تو اُس وقت ہم نے کیا کیا تھا.یہ جیسا کہ میں نے کہا ستمبر کی حرکت ہے یا اکتوبر کے شروع کی کہہ لیں.تو ہمارے مبلغ نے اس وقت فوری طور پر ایک تفصیلی مضمون تیار کیا اور جس اخبار میں کارٹون شائع ہوا تھا ان کو یہ بھجوایا اور تصاویر کی اشاعت پر احتجاج کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم کے بارے میں بتایا کہ یہ ہمارا احتجاج اس طرح ہے ہم جلوس تو نہیں نکالیں گے لیکن قلم کا جہاد ہے جو ہم تمہارے ساتھ کریں گے.اور تصویر کی اشاعت پر اظہار افسوس کرتے ہیں.اس کو بتایا کہ ضمیر کی آزادی تو ہوگی لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ دوسروں کی دلآزاری کی جائے.بہر حال اس کا مثبت رد عمل ہوا.ایک مضمون بھی اخبار کو 15
بھیجا گیا تھا جو اخبار نے شائع کر دیا.ڈینش عوام کی طرف سے بڑا اچھار ڈ عمل ہوا کیونکہ مشن میں بذریعہ فون اور خطوط بھی انہوں نے ہمارے مضمون کو کافی پسند کیا ، پیغام آئے.پھر ایک میٹنگ میں جرنلسٹ یونین کے صدر کی طرف سے شمولیت کی دعوت ملی.وہاں گئے وہاں وضاحت کی کہ ٹھیک ہے تمہارا قانون آزادی ضمیر کی اجازت دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کے مذہبی رہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کو ہتک کی نظر سے دیکھو اور ان کی ہتک کی جائے.اور یہاں جو مسلمان اور عیسائی اس معاشرے میں اکٹھے رہ رہے ہیں ان کے جذبات کا بہر حال خیال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا.پھر ان کو بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر حسین تعلیم ہے اور کیسا اسوہ ہے اور کتنے اعلیٰ اخلاق کے آپ مالک تھے اور کتنے لوگوں کے ہمدرد تھے، کس طرح ہمدرد تھے خدا کی مخلوق سے اور ہمدردی اور شفقت کے مظہر تھے.چند واقعات جب ان کو بتائے کہ بتاؤ کہ جو ایسی تعلیم والا شخص اور ایسے عمل والا شخص ہے اس کے بارے میں اس طرح کی تصویر بنانی جائز ہے؟ تو جب یہ باتیں ہمارے مشنری کی ہوئیں تو انہوں نے بڑا پسند کیا بڑا سراہا.اور ایک کارٹونسٹ نے برملا یہ اظہار کیا کہ اگر اس طرح کی میٹنگ پہلے ہو جاتی تو وہ ہرگز کارٹون نہ بناتے ، اب انہیں پتہ چلا ہے کہ اسلام کی تعلیم کیا ہے.اور ساروں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ٹھیک ہے ڈائیلاگ (Dialogue) کا سلسلہ چلتا رہنا چاہئے.پھر صدر یونین کی طرف سے بھی پریس ریلیز جاری کی گئی جس کا مسودہ بھی سب کے سامنے سنایا گیا اور ٹی وی پر انٹر ویو ہوا جو بڑا اچھا رہا.پھر منسٹر سے بھی میٹنگ کی.تو بہر حال جماعت کوشش کرتی ہے.دوسرے ملکوں میں بھی اس طرح ہوا ہے.تو بہر حال جہاں بنیاد تھی وہاں جماعت نے کافی کام کیا ہے.اور کارٹون کی وجہ جو بنی ہے وہ یہ ہے کہ ڈنمارک میں ایک ڈینش رائٹر نے ایک کتاب لکھی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 16
کی زندگی اور قرآن جو مارکیٹ میں آچکی ہے.اس کتاب والے نے کچھ تصویریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا کر بھیجنے کو کہا تھا تو بعضوں نے بنا ئیں.وہ تصویر میں تھیں اور اپنا نام ظاہر نہیں کیا کہ مسلمانوں کا رد عمل ہوگا.تو بہر حال یہ کتاب ہے جو وجہ بن رہی ہے اس اخبار میں بھی کارٹون ہی وجہ بنی تھی تو اس بارے میں بھی ان کو مستقل کوشش کرتے رہنا چاہئے اور دنیا میں ہر جگہ اگر اس کو پڑھ کر جہاں جہاں بھی اعتراض کی باتیں ہوں وہ پیش کرنی چاہئیں اور جواب دینے چاہئیں.لیکن وہاں ڈنمارک میں یہ بھی تصور ہے کہتے ہیں بعض مسلمانوں کے ذریعہ غلط کارٹون جو ہم نے شائع ہی نہیں کئے وہ دکھا کے مسلمان دنیا کو ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے.پتہ نہیں یہ سچ ہے یا جھوٹ ہے لیکن ہماری اس فوری توجہ سے ان میں احساس بہر حال پیدا ہوا ہے.یہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا ان لوگوں کو تو آج پتہ لگ رہا ہے.جبکہ یہ تین مہینے پہلے کی بات ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ہر ملک میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے.خاص طور پر جو اسلام کے بارے میں جنگی جنونی ہونے کا ایک تصور ہے اس کو دلائل کے ساتھ رد کرنا ہمارا فرض ہے.پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ اخباروں میں بھی کثرت سے لکھیں.اخباروں کو ، لکھنے والوں کو سیرت پر کتابیں بھی بھیجی جاسکتی ہیں.احمدی نوجوانوں کو صحافت میں جانا چاہئے پھر یہ بھی ایک تجویز ہے آئندہ کے لئے ، یہ بھی جماعت کو پلان (Plan) کرنا چاہئے کہ نو جو ان جرنلزم (Journalism) میں زیادہ سے زیادہ جانے کی کوشش کریں جن کو اس طرف زیادہ دلچسپی ہو تا کہ اخباروں کے اندر بھی ان جگہوں پر بھی ، ان لوگوں کے ساتھ بھی ہمارا نفوذ رہے.کیونکہ یہ حرکتیں وقتا فوقتا اٹھتی رہتی ہیں.اگر میڈیا کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وسیع تعلق قائم ہو گا تو ان چیزوں کو روکا جاسکتا ہے، ان بیہودہ حرکات کو روکا جاسکتا 17
ہے.اگر پھر بھی اس کے بعد کوئی ڈھٹائی دکھاتا ہے تو پھر ایسے لوگ اس زمرے میں آتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی.جیسا کہ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا﴾ (سورة الاحزاب: آیت 58) یعنی وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے ان پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اس نے ان کے لئے رسوا کن عذاب تیار کیا ہے.یہ حکم ختم نہیں ہو گیا.ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نبی ہیں.آپ کی تعلیم ہمیشہ زندگی دینے والی تعلیم ہے.آپ کی شریعت ہر زمانے کے مسائل حل کرنے والی شریعت ہے.آپ کی پیروی کرنے سے اللہ تعالیٰ کا قرب ملتا ہے.تو اس لئے یہ جو تکلیف ہے یہ آپ کے ماننے والوں کو جو تکلیف پہنچائی جا رہی ہے کسی بھی ذریعہ سے اس پر بھی آج صادق آتی ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات زندہ ہے وہ دیکھ رہی ہے کہ کیسی حرکتیں کر رہے ہیں.پس دنیا کو آگاہ کرنا ہمارا فرض ہے.دنیا کو ہمیں بتانا ہوگا کہ جو اذیت یا تکلیف تم پہنچاتے ہو اللہ تعالیٰ اس کی سزا آج بھی دینے کی طاقت رکھتا ہے.اس لئے اللہ اور اس کے رسول کی دلآزاری سے باز آؤ.لیکن جہاں اس کے لئے اسلام کی تعلیم اور آنحضرت ی کے اسوہ کے بارے میں دنیا کو بتانا ہے وہاں اپنے عمل بھی ہمیں ٹھیک کرنے ہوں گے.کیونکہ ہمارے اپنے عمل ہی ہیں جو دنیا کے منہ بند کریں گے اور یہی ہیں جو دنیا کا منہ بند کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں.جیسا کہ میں نے رپورٹ میں بتایا تھا وہاں ایک مسلمان عالم پر یہی الزام منافقت کا لگایا جارہا ہے کہ ہمیں کچھ کہتا ہے اور وہاں جا کے کچھ کرتا ہے، ابھارتا ہے.وہ شاید میں نے رپورٹ پڑھی نہیں.تو ہمیں اپنے ظاہر اور باطن کو، اپنے قول و فعل کو ایک کر کے یہ عملی نمونے دکھانے ہوں گے.18
صد الله جھنڈے جلانے یا توڑ پھوڑ کرنے سے آنحضرت علی کی عزت قائم نہیں ہو سکتی مسلمان کہلانے والوں کو بھی میں یہ کہتا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ احمدی ہیں یا نہیں، شیعہ ہیں یا سنی ہیں یا کسی بھی دوسرے مسلمان فرقے سے تعلق رکھنے والے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر جب حملہ ہو تو وقتی جوش کی بجائے ،جھنڈے جلانے کی بجائے، توڑ پھوڑ کرنے کی بجائے ، ایمبیسیوں پر حملے کرنے کی بجائے اپنے عملوں کو درست کریں کہ غیر کو انگلی اٹھانے کا موقع ہی نہ ملے.کیا یہ آگیں لگانے سے سمجھتے ہیں کہ آنحضرت علی کی عزت اور مقام کی نعوذ باللہ صرف اتنی قدر ہے کہ جھنڈے جلانے سے یا کسی سفارتخانے کا سامان جلانے سے بدلہ لے لیا.نہیں ہم تو اس نبی کے ماننے والے ہیں جو آگ بجھانے آیا تھا ، وہ محبت کا سفیر بن کر آیا تھا، وہ امن کا شہزادہ تھا.پس کسی بھی سخت اقدام کی بجائے دنیا کو سمجھا ئیں اور آپ کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں بتائیں.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل اور سمجھ دے لیکن میں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ ان کو تو پتہ نہیں یہ عقل اور سمجھ آئے کہ نہ آئے لیکن آپ میں سے ہر بچہ، ہر بوڑھا، ہر جوان ، ہر مرد اور ہر عورت بیہودہ کارٹون شائع ہونے کے ردعمل کے طور پر اپنے آپ کو ایسی آگ لگانے والوں میں شامل کریں جو کبھی نہ بجھنے والی آگ ہو، جو کسی ملک کے جھنڈے یا جائیدادوں کو لگانے والی آگ نہ ہو جو چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میں بجھ جائے.اب بڑے جوش سے لوگ کھڑے ہیں (پاکستان کی ایک تصویر تھی ) آگ لگا رہے ہیں جس طرح کوئی بڑا معرکہ مار رہے ہیں.یہ پانچ منٹ میں آگ بجھ جائے گی، ہماری آگ تو ایسی ہونی چاہئے جو ہمیشہ لگی رہنے والی آگ ہو.وہ آگ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کی 19
آگ جو آپ کے ہر اسوہ کو اپنانے اور دنیا کو دکھانے کی آگ ہو.جو آپ کے دلوں اور سینوں میں لگے تو پھر لگی رہے.یہ آگ ایسی ہو جو دعاؤں میں بھی ڈھلے اور اس کے شعلے ہر دم آسماں تک پہنچتے رہیں.صلى الله اپنے درد کو دعاؤس میں ڈھالیں اور آنحضرت ﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں پس یہ آگ ہے جو ہر احمدی نے اپنے دل میں لگانی ہے اور اپنے درد کو دعاؤں میں ڈھالنا ہے.لیکن اس کے لئے پھر وسیلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی بننا ہے.اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو کھینچنے کے لئے ، دنیا کی لغویات سے بچنے کے لئے ، اس قسم کے جو فتنے اٹھتے ہیں ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو دلوں میں سلگتا رکھنے کے لئے ، اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کے لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار درود بھیجنا چاہئے.کثرت سے درود بھیجنا چاہئے.اس پرفتن زمانے میں اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ڈبوئے رکھنے کے لئے اپنی نسلوں کو احمدیت اور اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ہر احمدی کو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی سختی سے پابندی کرنی چاہئے کہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورة الاحزاب: آيت (57) كم اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجا کرو کیونکہ اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا، بلکہ اس کے تو کئی حوالے ہیں کہ مجھ پر تو اللہ اور اس کے فرشتوں کا درود بھیجنا ہی کافی ہے تمہیں جو حکم ہے وہ تمہیں محفوظ رکھنے کے لئے ہے.(تفسیر در منثور بحواله ترغیب اصفہانی.مسند دیلی بحواله درود شریف صفحہ 158 مرتبه مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری.جدید ایڈیشن) 20
پس ہمیں اپنی دعاؤں کی قبولیت کے لئے اس درود کی ضرورت ہے.باقی اس آیت اور اس حدیث کا جو پہلا حصہ ہے اس سے اس بات کی ضمانت مل گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے اور استہزاء کی چاہے یہ لوگ جتنی مرضی کوشش کر لیں اللہ اور اس کے فرشتے جو آپ پر سلامتی بھیج رہے ہیں ان کی سلامتی کی دعا سے مخالف کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر حملوں سے ان کو کبھی کچھ حاصل نہیں ہوسکتا.اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے اور تمام دنیا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہرانا ہے.اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس زمانہ میں آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر چھوڑا ہے.حضرت مولا نا عبد الکریم سیالکوٹی کا ایک حوالہ ہے، اقتباس ہے، کہتے ہیں کہ ” ایک بارمیں نے خود حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا آپ فرماتے تھے کہ درود شریف کے طفیل اور کثرت سے یہ درجے خدا نے مجھے عطا کئے ہیں اور فرمایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہوتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں.یقینا کوئی فیض بدوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.اور فرمایا کہ درود شریف کیا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو.(اخبار الحكم جلد 7 نمبر 8 صفحه 7 پرچہ 28/ فروری 1903ء) 21
اللہ کرے کہ ہم زمانے کے فتنوں سے بچنے کے لئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دلوں میں قائم رکھنے کے لئے ، آپ کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ درود بھیجتے ہوئے ، اللہ کی طرف جھکتے ہوئے ، اس سے مدد مانگتے ہوئے اس کے فضل اور فیض کے وارث بنتے چلے جائیں.اللہ ہماری مدد کرے.22
☆☆ ☆☆ صلى الله آنحضرت ﷺ کی تو ہین پر مبنی حرکات پر اصرار اور انہیں تسلسل اور ڈھٹائی سے کرتے چلے جانا اللہ تعالی کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب ہے.یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جو دنیا میں آرہی ہیں یہ صرف ایشیا کیلئے مخصوص نہیں ہیں خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارنگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے.اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للكارو ہی ہیں وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے وہ اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.مسلمان ممالک اور مسلمان کہلانے والے بھی اپنے رویے درست کریں.آنحضرت ﷺ کے مقام اور آپ کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھیں.آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی ﷺ کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.اس کو ☆☆ پہچانیں ، اس کے پیچھے چلیں.صلى الله اسلام کی شان و شوکت اور آنحضرت علیہ کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا اور کروانا ہے.انشاء اللہ.☆☆ احمدی اپنے اپنے حلقہ میں کھل کر ہر مذہب والے کو سمجھائیں کہ ہر مذہب کی تعلیم کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 17 فروری 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ 23
24
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں، اس سے پہلے جو دو خطبے دیئے تھے انہی کے مضمون کے بارے میں کچھ کہنا چاہتا تھا.لیکن پھر جو نا زیبا اور بیہودہ حرکت مغرب کے بعض اخباروں نے کی اور جس کی وجہ سے مسلم دنیا میں غم وغصہ کی ایک لہر دوڑی اور اس پر جو رد عمل ظاہر ہوا اس بارے میں میں نے کچھ کہنا ضروری سمجھا تا کہ احمدیوں کو بھی پتہ لگے کہ ایسے حالات میں ہمارے رویے کیسے ہونے چاہئیں.ویسے تو اللہ کے فضل سے پتہ ہے لیکن یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے.اور دنیا کو بھی پتہ چلے کہ ایک مسلمان کا صحیح رد عمل ایسے حالات میں کیا ہوتا ہے.دوسروں کے جذبات سے کھیلنانہ تو جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر جہاں ہم دنیا کو سمجھاتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی مقدس ہستیوں کے بارے میں کسی بھی قسم کا نازیبا اظہار خیال، کسی بھی طرح کی آزادی کے زمرے میں نہیں آتا.تم جو جمہوریت اور آزادی ضمیر کے چیمپین بن کر دوسروں کے جذبات سے کھیلتے ہو یہ نہ ہی جمہوریت ہے اور نہ ہی آزادی ضمیر ہے.ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اور کچھ ضابطہ اخلاق ہوتے ہیں.جس طرح ہر پیشے میں ضابطہ اخلاق ہیں، اسی طرح صحافت کے لئے بھی ضابطہ اخلاق ہے اور اسی طرح کوئی بھی طرز حکومت ہو اس کے بھی قانون و قاعدے ہیں.25
آزادی رائے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے کے جذبات سے کھیلا جائے ، اس کو تکلیف پہنچائی جائے.اگر یہی آزادی ہے جس پر مغرب کو ناز ہے تو یہ آزادی ترقی کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ یہ تنزل کی طرف لے جانے والی آزادی ہے.آنحضرت ﷺ کی توہین پر مبنی حرکات پر اصرار غضب الہی کو بھڑ کانے کا موجب ہے مغرب بڑی تیزی سے مذہب کو چھوڑ کر آزادی کے نام پر ہر میدان میں اخلاقی قدریں پامال کر رہا ہے اس کو پتہ نہیں ہے کہ کس طرح یہ لوگ اپنی ہلاکت کو دعوت دے رہے ہیں.ابھی اٹلی میں ایک وزیر صاحب نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ یہ بیہودہ اور غلیظ کارٹون ٹی شرٹس پر چھاپ کر پہنے شروع کر دیئے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی کہا ہے میرے سے لو.سنا ہے وہاں بیچے بھی جارہے ہیں.کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا علاج یہی ہے.تو ان لوگوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ تو ہمیں نہیں پتہ کہ مسلمانوں کا یہ علاج ہے یا نہیں لیکن ان حرکتوں سے وہ خدا کے غضب کو بھڑکانے کا ذریعہ ضرور بن رہے ہیں.جو کچھ بیوقوفی میں ہو گیا ، وہ تو ہو گیا لیکن اس کو تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کرتے چلے جانا اور اس پر پھر مصر ہونا کہ ہم جو کر رہے ہیں ٹھیک ہے.ان حالات میں احمدی کا رد عمل کیا ہونا چاہئے؟ یہ چیز اللہ تعالیٰ کے غضب کو ضرور بھڑکاتی ہے.تو بہر حال جیسا کہ میں نے کہا تھا باقی مسلمانوں کا رد عمل تو وہ جانیں، لیکن ایک احمدی مسلمان کا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ ان کو سمجھائیں، خدا کے غضب سے ڈرائیں.جیسا کہ پہلے بھی میں کہہ چکا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں اور اپنے قادر و مقتدر خدا کے 26
آگے جھکیں اور اس سے مدد مانگیں.اگر یہ لوگ عذاب کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں تو وہ خدا جو اپنی اور اپنے پیاروں کی غیرت رکھنے والا ہے، اپنی قہری تجلیات کے ساتھ آنے کی بھی طاقت رکھتا ہے.وہ جو سب طاقتوں کا مالک ہے ، وہ جو انسان کے بنائے ہوئے قانون کا پابند نہیں ہے، ہر چیز پر قادر ہے، اس کی چکی جب چلتی ہے تو پھر انسان کی سوچ اس کا احاطہ نہیں کرسکتی، پھر اس سے کوئی بچ نہیں سکتا.پس احمدیوں کو مغرب کے بعض لوگوں کے یا بعض ملکوں کے یہ رویے دیکھ کر خدا تعالیٰ کے حضور مزید جھکنا چاہئے.خدا کے مسیح نے یورپ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے اور امریکہ کو بھی وارننگ دی ہوئی ہے.یہ زلزلے، یہ طوفان اور یہ آفتیں جو دنیا میں آرہی ہیں یہ صرف ایشیا کے لئے مخصوص نہیں ہیں.امریکہ نے تو اس کی ایک جھلک دیکھ لی ہے.پس اے یورپ ! تو بھی محفوظ نہیں ہے.اس لئے کچھ خوف خدا کرو اور خدا کی غیرت کو نہ للکار و لیکن ساتھ ہی میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان ممالک یا مسلمان کہلانے والے بھی اپنے رویے درست کریں.ایسے رویے اور ایسے رد عمل ظاہر کریں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن کو دنیا کے سامنے رکھیں، ان کو دکھا ئیں.تو یہ وہ صحیح رد عمل ہے جو ایک مومن کا ہونا چاہئے.صلى الله اسلام کی شان و شوکت اور آنحضرت ﷺ کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے اب آجکل جو بعض حرکتیں ہو رہی ہیں یہ کون سا اسلامی رد عمل ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیا، اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگا دی.اسلام تو غیر قوموں کی دشمنی میں بھی عدل کو، انصاف کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا، عقل سے چلنے کا حکم دیتا ہے، کجا یہ 27
کہ پچھلے دنوں میں جو پاکستان میں ہو ا یا دوسرے اسلامی ملکوں میں ہو رہا ہے.بہر حال ان اسلامی ممالک میں چاہے وہ غیر ملکیوں کے کاروبار کو یا سفارتخانوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یا اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے عمل ہیں یہ سوائے اسلام کو بدنام کرنے کے اور کچھ نہیں.پس مسلمانوں کو چاہئے ، مسلمان عوام کو چاہئے کہ ان غلط قسم کے علماء اور لیڈروں کے پیچھے چلنے کی بجائے ، ان کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت خراب کرنے کی بجائے ، عقل سے کام لیں.آج مسلمانوں کی بلکہ تمام دنیا کی صحیح سمت کا تعین کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کو بھیجا ہے.اس کو پہچانیں ، اس کے پیچھے چلیں اور دنیا کی اصلاح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے اس مسیح و مہدی کی جماعت میں شامل ہوں کہ اب کوئی دوسرا طریق، کوئی دوسرا رہبر ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے اور چلانے والا نہیں بنا سکتا.اسلام کی شان وشوکت کو بحال کرنے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقدس کو مسیح و مہدی کی جماعت نے ہی قائم کرنا ہے اور کروانا ہے انشاء اللہ.نزول مسیح کا حقیقی مطلب اور مسیح و مہدی کے بعض کام نیز اس کی صداقت کے بعض دلائل پس اس پر ہر ایک کو مسلمان کہلانے والوں کو بھی غور کرنا چاہئے.اور ہمیں بھی ان کو سمجھانا چاہئے اور نام نہاد علماء کی ان بحثوں میں نہیں پڑنا چاہئے کہ جو آنے والا مسیح تھا ابھی نہیں آیا، یا اس نے تو فلاں جگہ اترنا ہے یعنی مہدی نے فلاں جگہ آنا ہے.دراصل جس طرح یہ نظریہ پیش کیا جاتا ہے یہ ایک حدیث کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.اس روایت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح پیش فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : 28
اگر یہ کہا جائے کہ احادیث صاف اور صریح لفظوں میں بتلا رہی ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے اترے گا اور دمشق کے منارہ شرقی کے پاس اس کا اتر نا ہو گا اور دوفرشتوں کے کندھوں پر اس کے ہاتھ ہوں گے تو اس مُصرح اور واضح بیان سے کیوں کر انکار کیا جائے؟“.( یعنی یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو صاف صاف اور کھلا کھلا بیان ہے اس سے کس طرح انکار کیا جا سکتا ہے، یہ لوگ کہتے ہیں.تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ:) اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان سے اترنا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ سچ مچ خا کی وجود آسمان سے اترے بلکہ صحیح حدیثوں میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں ہے.اور یوں تو نزول کا لفظ عام ہے.جو شخص ایک جگہ سے چل کر دوسری جگہ ٹھہرتا ہے اس کو بھی یہی کہتے ہیں کہ اس جگہ اترا ہے.جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں جگہ لشکر اترا ہے یا ڈیرا اترا ہے کیا اس سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ لشکر یا وہ ڈیرا آسمان سے اترا ہے.ماسوائے اس کے خدائے تعالیٰ نے تو قرآن شریف میں صاف فرما دیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آسمان سے ہی اترے ہیں.بلکہ ایک جگہ فرمایا ہے کہ لوہا بھی ہم نے آسمان سے اتارا ہے.پس صاف ظاہر ہے کہ یہ آسمان سے اتر نا اس صورت اور رنگ کا نہیں ہے جس صورت پر لوگ خیال کر رہے ہیں.(ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3صفحہ132-133) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ حدیثیں اس کی وضاحت سے بھری پڑی ہیں.لوگ خود تو اتنا علم نہیں رکھتے اور علماء غلط راہنمائی کرتے ہیں.آپ نے اس سے آگے فرمایا: اس لئے یہودیوں نے بھی غلطی کھائی تھی اور حضرت عیسی کو قبول نہیں کیا تھا“.تو بہر حال یہ ساری لمبی باتیں اور تفصیلیں ہیں، خطبے میں تو بیان نہیں ہوسکتیں.اب جس طرح حالات بدل رہے ہیں، احمدیوں کو بھی چاہئے کہ ان باتوں کو کھول کر اپنے ماحول میں بیان 29
کریں تا کہ جس حد تک اور جتنی سعید روحیں بیچ سکتی ہیں بچ جائیں، جوشر فاء بیچ سکتے ہیں بیچ جائیں.احمدی اپنے اپنے حلقے میں کھل کر ہر مذہب والے کو سمجھائیں کہ ہر مذہب کی تعلیم کے مطابق جس نے آنا تھا وہ آچکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ : اب میں وہ حدیث جو ابو داؤد نے اپنی صحیح میں لکھی ہے ناظرین کے سامنے پیش کر کے اس کے مصداق کی طرف ان کو تو جہ دلاتا ہوں.سو واضح ہو کہ یہ پیشگوئی جو ابو داؤد کی صحیح میں درج ہے کہ ایک شخص حارث نام یعنی حراث ماوراء النہر سے یعنی سمرقند کی طرف سے نکلے گا جو آل رسول کو تقویت دے گا.جس کی امداد اور نصرت ہر ایک مومن پر واجب ہوگی.الہامی طور پر مجھ پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ پیشگوئی اور مسیح کے آنے کی پیشگوئی جو مسلمانوں کا امام اور مسلمانوں میں سے ہوگا دراصل یہ دونوں پیشگوئیاں متحد المضمون ہیں اور دونوں کا مصداق یہی عاجز ہے.مسیح کے نام پر جو پیشگوئی ہے اس کی علامات خاصہ در حقیقت دو ہی ہیں.ایک یہ کہ جب وہ مسیح آئے گا تو مسلمانوں کی اندرونی حالت کو جو اس وقت بغایت درجہ بگڑی ہوئی ہوگی اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا“.اس بارہ میں شروع کے خطبوں میں بھی ذکر ہو چکا ہے.خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی حالت بگڑی ہوئی ہے.اور کسی مصلح کو چاہتی ہے.مسیح موعود کا خزانے لٹانے سے مراد فرمایا کہ : ” اپنی صحیح تعلیم سے درست کر دے گا اور ان کے روحانی افلاس اور باطنی ناداری کو بکلی دور فرما کر جواہرات علوم و حقائق و معارف ان کے سامنے رکھ دے گا“.یعنی یہ خزانے ہیں اور وہ ان کے سامنے روحانی علم کی وضاحت کرے گا.پھر فرمایا: ” یہاں تک کہ وہ لوگ اس دولت کو لیتے لیتے تھک جائیں گے اور ان میں سے کوئی طالب حق روحانی طور پر 30
مفلس اور نادار نہیں رہے گا بلکہ جس قدر سچائی کے بھوکے اور پیاسے ہیں ان کو بکثرت طیب غذا صداقت کی اور شربت شیریں معرفت کا پلایا جائے گا“.یعنی یہ پاکیزہ غذا جو سچائی کی ہے وہ ان کو ملے گی صیح اسلام کی تعلیم ان کو ملے گی مسیح موعود کے ذریعہ سے ہی اور یہ جو معرفت کا میٹھا شربت ہے یہ ان کو پلایا جائے گا.اگر یہ معرفت کا شربت پینے والے ہوتے تو غیر تعمیری قسم کا بلکہ تباہی پھیر نے والا رد عمل جو ان سے ظاہر ہوا ہے اس کی بجائے یہ ایک تعمیری رد عمل دکھاتے اور خدا کے آگے جھکنے والے ہوتے.فرمایا: ” اور علوم حقہ کے موتیوں سے ان کی جھولیاں پُر کر دی جائیں گی“.اسلام کا جو صحیح علم ہے وہ تو ایک بڑا قیمتی خزانہ ہے موتیوں کی طرح ہے، اس سے ان کی جھولیاں پُر کرے گا.اور جو مغز اور لب لباب قرآن شریف کا ہے اس عطر کے بھرے ہوئے شیشے ان کو دیئے جائیں گئے.( یہ جو قرآن کریم کی خوشبو ہے یہ ان کو ملے گی.) کسر صلیب اور قتل خنزیر کی تشریح پھر فرمایا کہ ” دوسری علامت خاصہ یہ ہے کہ جب وہ مسیح موعود آئے گا تو صلیب کو توڑے گا اور خنزیروں کو قتل کرے گا اور دجال یک چشم کو قتل کر ڈالے گا اور جس کا فرتک اس کے دم کی ہوا پہنچے گی وہ فی الفور مر جائے گا.سو اس علامت کی اصل حقیقت جو روحانی طور پر مراد رکھی گئی ہے یہ ہے کہ مسیح دنیا میں آ کر صلیبی مذہب کی شان و شوکت کو اپنے پیروں کے نیچے کچل ڈالے گا.اور ان لوگوں کو جن میں خنزیروں کی بے حیائی، خوکوں کی بے شرمی (یعنی سوروں کی بے شرمی وہ بھی ایک جانور ہی ہے ' اور نجاست خوری ہے ان پر دلائل قاطعہ کا ہتھیار چلا کر ان سب کا کام تمام کرے گا.اور وہ لوگ جو صرف دنیا کی آنکھ رکھتے ہیں مگر دین کی آنکھ بکلی ندارد.بلکہ ایک بدنما ٹینٹ اس میں نکلا ہوا ہے یعنی آنکھ پر پھوڑا سا بنا ہوا ہے ان کو بین حجتوں کی سیف قاطعہ سے ، (ایسی دلیلیوں کی تلوار سے جو کاٹنے والی 31
ہے ”ملزم کر کے ان کی منکرانہ ہستی کا خاتمہ کر دے گا“.تو یہ دلائل ہیں جن سے کاٹنا ہے تا کہ ان کے جو جھوٹے دعوے اور وجود ہیں ان کو ختم کر سکے.” اور نہ صرف ایسے یک چشم لوگ بلکہ ہر ایک کافر جو دین محمدی کو بنظر استحقار دیکھتا ہے.جو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے.مسیحی دلائل کے جلالی دم سے روحانی طور پر مارا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آکر دلیلوں سے اس کو ماریں گے.” غرض یہ سب عبارتیں استعارہ کے طور پر واقع ہیں جو اس عا جز پر بخوبی کھولی گئی ہیں.اب چاہے کوئی اس کو سمجھے یا نہ سمجھے لیکن آخر کچھ مدت اور انتظار کر کے اور اپنی بے بنیاد امیدوں سے پاس کلی کی حالت میں ہو کر ایک دن سب لوگ اس طرف رجوع کریں گے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 141 تا 143.حاشیه) پس آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عیسائیوں کو چیلنج کیا ہے.عیسائیت جس تیزی سے پھیل رہی تھی یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے اس کو روکا ہے.ہندوستان میں اس زمانے میں ہزاروں لاکھوں مسلمان عیسائی ہو رہے تھے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے اس حملے کو نہ صرف روکا بلکہ اسلام کی ساکھ دوبارہ قائم کی.پھر افریقہ میں جماعت احمدیہ نے عیسائیت کی یلغار کو روکا.اسلام کی خوبصورت تصویر دکھائی، ہزاروں لاکھوں عیسائیوں کو احمدی مسلمان بنایا.تو یہ تھے مسیح کے کارنامے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دکھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج تک آپ کی دی ہوئی تعلیم اور دلائل کے ساتھ جماعت احمد یہ دلوں کو جیتتے ہوئے منزلیں طے کر رہی ہے اور انشاء اللہ کرتی چلی جائے گی.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ایک دن یہ لوگ مایوس ہوکر رجوع کریں گے.تو یہ ہے وضاحت اس بات کی کہ کس طرح ان لوگوں کے دجل اور فریب کو ختم کرنا 32
ہے.یہ ہے خنزیر کو قتل کرنے اور صلیبوں کو توڑنے کا مطلب اور دجال سے مقابلے کا مطلب، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.آج بھی جیسا کہ میں نے کہا جماعت احمدیہ ہی ہے جو ہر جگہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہی ہے.گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک پروگرام آ رہا تھا شاید جیو یا ARY پر، یا اسی قسم کے کسی ٹی وی پر جو ایشیا سے آتے ہیں تو اس میں ایک علامہ ڈاکٹر اسرار صاحب یہ فرما رہے تھے کہ کیونکہ مسلمان علماء جاہل تھے اور دینی علم بالکل نہیں تھا.نہ قرآن کا علم تھا ، نہ بائیل کاعلم تھا اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ایک علمی آدمی تھے، بائبل کا علم بھی رکھتے تھے ، دوسرے مذاہب کا علم بھی رکھتے تھے.اس وجہ سے انہوں نے اس وقت عیسائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کا منہ بند کر دیا.ان کے الفاظ کا مفہوم کچھ اس قسم کا تھا.تو بہر حال یہ تو انہوں نے تسلیم کر لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہی (جیسا کہ خود آپ نے فرمایا ) دلائل قاطعہ کے ذریعہ سے، مضبوط دلائل کے ذریعہ سے ان کو رد کیا وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی ہی ہیں جنہوں نے اس وقت عیسائیت کے حملے روکے اور مسلمانوں کو عیسائی ہونے سے بچایا.آگے وہ اپنی اوٹ پٹانگ مختلف وضاحتیں کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھی کچھ بولے کہ میسج نہیں ہو سکتے.بہر حال یہ تو آج تک مانا جاتا ہے کہ اگر عیسائیت کے مقابلے پر کوئی کھڑا ہوا اور اس کی تعلیم کو دلائل سے رڈ کیا تو وہ ایک ہی پہلوان تھا جس کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے.پس چاہے یہ لوگ آج تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے ایک دن ان کو ماننا پڑے گا کہ یہ مسیحی دلائل ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیئے اور جنہوں نے دجال کا خاتمہ کیا اور آپ ہی مسیح موعود ہیں.33
مسیح موعود نے امت مسلمہ میں سے ہی آنا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اس حدیث کا غلط اور ظاہری مطلب لینے کی وجہ سے مسلمان ابھی تک مسیح کا انتظار کر رہے ہیں کہ مسیح ابن مریم آسمان سے فرشتوں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اترے گا.اس کو مزید کھولتے ہوئے کہ ان کا یہ مطلب غلط ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حدیث ہی سے وضاحت فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں کہ : منجملہ ان دلائل کے جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں جو آنے والے مسیح جس کا اس امت کے لئے وعدہ دیا گیا ہے وہ اسی امت میں سے ایک شخص ہو گا بخاری اور مسلم کی وہ حدیث ہے جس میں اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اور اَمَّكُمْ مِنْكُمْ لکھا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا اور تم ہی میں سے ہوگا.چونکہ یہ حدیث آنے والے عیسی کی نسبت ہے اور اسی کی تعریف میں اس حدیث میں حکم اور عدل کا لفظ بطور صفت موجود ہے جو اس فقرہ سے پہلے ہے اس لئے امام کا لفظ بھی اسی کے حق میں ہے.اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اس جگہ منظم کے لفظ سے صحابہ کو خطاب کیا گیا ہے.اور وہی مخاطب تھے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں سے تو کسی نے مسیح موعود ہونے کا دعوی نہیں کیا اس لئے منگم کے لفظ سے کوئی ایسا شخص مراد ہے جو خدا تعالیٰ کے علم میں قائمقام صحابہ ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ صحابہ کا قائمقام ہے.ان کی جگہ پر ہے.” اور وہ وہی ہے جس کو اس آیت مفصلہ ذیل میں قائمقام صحابہ کیا گیا ہے.یعنی یہ کہ ﴿وَاخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.کیونکہ اس آیت نے ظاہر کیا ہے کہ وہ رسول کریم کی روحانیت سے تربیت یافتہ ہے.اور اسی معنی کی رو سے صحابہ میں داخل ہے اور اس آیت کی تشریح میں حدیث ہے لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ ا.سورة الجمعة: ايت 4 34
فارس.اور چونکہ اس فارسی شخص کی طرف وہ صفت منسوب کی گئی ہے جو مسیح موعود اور مہدی سے مخصوص ہے یعنی زمین جو ایمان اور توحید سے خالی ہو کر ظلم سے بھر گئی ہے پھر اس کو عدل سے پر کرنا لہذا یہی شخص مہدی اور مسیح موعود ہے اور وہ میں ہوں“.(تحفہ گولڑویه روحانی خزائن جلد 17.صفحہ 114-115) مسیح اور مہدی ایک ہی وجود کے دو نام ہیں.مسیح موعود د ینی لڑائیوں کو موقوف کر دے گا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید وضاحت فرمائی.فرمایا کہ: حديث لَا مَهْدِى إِلَّا عِيسى جو ابن ماجہ کی کتاب میں جو اسی نام سے مشہور ہے اور حاکم کی کتاب مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کی گئی ہے اور یہ روایت محمد بن خالد الجندی نے ابان بن صالح سے اور ابان بن صالح نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے انس بن مالک سے اور انس بن مالک نے جناب رسول اللہ ﷺ سے کی ہے اور اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ بجز اس شخص کے جو عیسی کی خو اور طبیعت اور طریق پر آئے گا اور کوئی بھی مہدی نہیں آئے گا.یعنی وہی مسیح موعود ہوگا اور وہی مہدی ہو گا جو حضرت عیسی علیہ السلام کی خو اور طبیعت اور طریق تعلیم پر آئے گا.یعنی بدی کا مقابلہ نہ کرے گا اور نہ لڑے گا.اور پاک نمونہ اور آسمانی نشانوں سے ہدایت کو پھیلائے گا.اور اسی حدیث کی تائید میں وہ حدیث ہے جو امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں لکھی ہے جس کے لفظ یہ ہیں کہ يَضَعُ الْحَرْبَ یعنی وہ مہدی جس کا دوسرا نام مسیح موعود ہے دینی لڑائیوں کو قطعاً موقوف کر دے گا.اور اس کی یہ ہدایت ہوگی کہ دین کے لئے لڑائی مت کرو بلکہ دین کو بذریعہ سچائی کے نوروں اور اخلاقی معجزات اور خدا کے قرب کے نشانوں سے پھیلاؤ.سومیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص اس وقت دین کے لئے لڑائی کرتا ہے یا کسی لڑنے والے کی تائید کرتا ہے یا ظاہر یا پوشیدہ طور پر 35
ایسا مشورہ دیتا ہے یا دل میں ایسی آرزوئیں رکھتا ہے وہ خدا اور رسول کا نافرمان ہے“.(یعنی اگر مسلمان دین کے نام پر لڑائی کریں تو ان کی وصیتوں اور حدود اور فرائض سے باہر چلا گیا ہے.(حقیقة المهدی - روحانی خزائن جلد14 صفحه 431 تا 432) اب دیکھ لیں آجکل مسلمانوں کے حالات اس کی تائید کر رہے ہیں.اگر یہ جنگیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہوتیں تو اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے کہ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنين ) (سورة الروم: آیت 48) اور مومنوں کی مدد کرنا ہم پر فرض ٹھہرتا ہے.پس جب اللہ تعالیٰ کی تائید نہیں مل رہی تو سوچنا چاہئے.اگر جنگیں لڑنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو پھر اسلام کے نام پر تو نہ لڑی جائیں.اس زمانے میں مسلمانوں کا دوسری قوموں سے شکست کھانا یہ بھی اس بات کی خدا تعالیٰ کی طرف سے فعلی شہادت ہے کہ جو مسیح آنے کو تھاوہ آ گیا ہے.اور يَضَعُ الْحَرْب کے تحت دینی جنگوں کا جو حکم ہے یہ موقوف ہو چکا ہے.ہاں اگر جہاد کرنا ہے تو دلائل سے کرو، براہین سے کرو.اب مسلمانوں کی اسلام کے نام پر لڑی جانے والی جنگوں کے نتائج تو جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کے مطابق مسلمانوں کے خلاف ہیں اور ہر آنکھ رکھنے والے کو نظر آرہے ہیں.اللہ تعالیٰ کا تو وعدہ ہے کہ میں مومن کی مدد کرتا ہوں اگر مومن ہو تو.تو دوہی باتیں ہیں یا یہ کہ یہ مسلمان مومن نہیں ہیں.یا یہ جنگوں کا وقت غلط ہے اور زمانہ ختم ہو چکا ہے.لیکن یا درکھیں ان لوگوں میں یہ دونوں باتیں ہی ہیں.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مان کر پھر مومن تو نہیں رہ سکتے.اور مسیح اور مہدی کے دعوے کے بعد ، اس کی بات نہ مان کر اللہ تعالیٰ کی مدد کے حقدار نہیں ٹھہر سکتے.پس اس زمانے میں مسیح و مہدی کا جو دعویٰ کرنے والا ہے وہ یقینا سچا ہے.36
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حلفیہ بیان کہ آپ خدا تعالی کی طرف سے ہیں پھر آپ نے اپنی اس سچائی کے لئے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے، ایسا دعویٰ کیا ہے جو کوئی جھوٹا نہیں کر سکتا.آپ فرماتے ہیں کہ : میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام سے پکارا ہے اور اس نے میری تصدیق کے لئے بڑے بڑے نشان ظاہر کئے ہیں جو تین لاکھ تک پہنچتے ہیں جن میں سے بطور نمونہ کسی قدر اس کتاب میں بھی لکھے گئے ہیں.اگر اس کے معجزانہ افعال اور کھلے کھلے نشان جو ہزاروں تک پہنچ گئے ہیں میرے صدق پر گواہی نہ دیتے تو میں اس کے مکالمہ کوکسی پر ظاہر نہ کرتا اور نہ یقینا کہہ سکتا کہ یہ اس کا کلام ہے.پر اس نے اپنے اقوال کی تائید میں وہ افعال دکھائے جنہوں نے اس کا چہرہ دکھانے کے لئے ایک صاف اور روشن آئینہ کا کام دیا.(تتمه حقيقة الوحى روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503) جو اللہ تعالیٰ کے نام کا دعویٰ کرتا ہے اگر اس کا دعوی سچا نہ ہو تو اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیا سلوک کرتا ہے.خود ہی دیکھ لیں اللہ جھوٹے نبی کے متعلق فرماتا ہے ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴾ (سورة الحاقة: آيات 45-46) اور اگر وہ بعض باتیں جھوٹے طور پر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کو ضرور داہنے ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر فرمایا ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴾ (سورة الحاقة: آیت 47) پھر ہم یقینا اس کی رگ جان کاٹ دیتے.37
اب کوئی بتائے کہ کیا اس دعوے کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا کہ میں نبی ہوں اور مجھے تمام تائیدات حاصل ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رگ جان کائی ہے یا اس وعدے کے مطابق کہ ﴿وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ (الروم :48) اور ہم نے مومنوں کی مدد کرنا اپنے پر فرض ٹھہرالیا ہے ، مدد کی ہے اور جماعت کی مدد کرتا چلا جارہا ہے.ایک آواز جو ایک چھوٹی سی بستی سے اٹھی تھی آج پوری شان کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے.آج 181 ممالک میں جماعت احمدیہ قائم ہے.آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والے یورپ میں بھی ، امریکہ میں بھی اور افریقہ کے دور دراز جنگلوں میں بھی اور پیتے ہوئے صحراؤں میں بھی اور جزائر میں بھی موجود ہیں.تو کیا یہ تمام تائیدات الہی آپ کی صداقت پر یقین کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں.اگر یہ شخص جھوٹا ہوتا تو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے مطابق اس کی پکڑ کیوں نہیں کی.کیوں اپنی طرف الہامات منسوب کرنے کی وجہ سے اسے تباہ و برباد نہ کر دیا.پس سوچنے کا مقام ہے.سوچو اور عقل سے کام لو.مسلمانوں کو میں یہ کہتا ہوں، کیوں اپنی دنیا و آخرت خراب کر رہے ہو.ایک جھوٹے کا حال تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں پاکستان میں کسی نے مہدی ہونے کا دعوی کیا تو تھوڑی سی آپس میں فائرنگ کے بعد انہوں نے اس کو گرفتار کر لیا اور اب جیل میں ڈالا ہوا ہے.تو یہ انجام تو فوراً ان کے سامنے آ گیا.اس سے پہلے بھی کئی ہوچکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حق میں آسمانی شہادت بہر حال ، پھر آپ کی صداقت کی ایک آسمانی شہادت بھی ہے جس کا پہلے بھی میں نے ذکر کیا تھا.یعنی چاند اور سورج کا گرہن لگنا.یہ ایک ایسا نشان ہے جس میں کسی انسانی کوشش کا عمل دخل نہیں ہو سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1400 سال 38
پہلے جس طرح معتین رنگ میں پیشگوئی کی تھی اور ہمیں بتایا تھا اس طرح معتین طور پر اس زمانے میں بھی جبکہ سائنس نے ترقی کر لی ہے اتنے رستے بلکہ قریب کے رستے کی بھی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کہ رمضان کا مہینہ ہو گا فلاں تاریخ کو سورج کو گرہن لگے گا اور فلاں تاریخ کو چاند کو گرہن لگے گا.حدیث میں آتا ہے.إِنَّ لِمَهْدِينَا ايَتَيْنِ لَمْ تَكُوْنَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لِاَوَّلِ لَيْلَةٍ مِّنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِّصْفِ مِنْهُ (سنن دار قطني كتاب العيدين باب صفة صلوة الخسوف) یعنی ہمارے مہدی کی صداقت کے لئے دو ہی نشان ہیں اور یہ صداقت کے دونوں نشان کسی کے لئے جب سے دنیا بنی ہے کبھی ظاہر نہیں ہوئے.رمضان میں چاند گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات چاند کو اور سورج گرہن کے دنوں میں سے درمیانے دن سورج کو گرہن لگے گا.چنانچہ یہ گرہن 1894ء میں لگا اور 13-14-15 تاریخوں میں سے 13 تاریخ کو رمضان کے مہینے میں چاند کو گرہن لگا.27-28-29 تاریخوں میں سے 28 تاریخ کو رمضان میں سورج کو گرہن لگا.یہ آپ کی صداقت کی بڑی واضح دلیل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ میرے علاوہ اس وقت دعویٰ بھی کسی کا نہیں تھا.بعض مولوی ، قمر وغیرہ کی بحث میں پڑتے ہیں تو قمر تو بعض کے نزدیک دوسری رات کے بعد کا چاند اور بعض کے نزدیک تیسری رات کے بعد کا چاند کہلا تا ہے.اب کوئی دکھائے کہ کیا تائید کے اس نشان سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ کوئی دعوئی موجود تھا.اگر دعوئی ہے تو صرف ایک شخص کا ہے جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اسے ہیں.حضرت مسیح موعود اللہ نے بڑا واضح فرمایا ہے کہ بے شمار علامتیں 39
پوری ہورہی ہیں.اگر میں نہیں تو کوئی دوسرا آیا ہوا ہے تو دکھاؤ.کیونکہ وقت بہر حال تقاضا کر رہا ہے.لیکن یہ لوگ دکھا تو نہیں سکتے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی سچے دعوے دار ہیں کیونکہ زمینی اور آسمانی تائیدات آپ کے حق میں ہیں.اللہ تعالیٰ کا بتایا ہوا معیار نبوت آپ کی تائید کر رہا ہے.خود کچھ لوگ ماضی میں بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ آپ پاک صاف شخصیت کے مالک تھے.آپ کا ماضی بھی پاک تھا، آپ کی جوانی بھی پاک تھی.علمی بھی تھے اور اسلام کی خدمت بھی آپ سے زیادہ کسی نے نہیں کی.یہ غیروں نے بھی تسلیم کیا.پھر سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اگر عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں تو ان کا اللہ ہی حافظ ہے.کیونکہ کسی کو مانے کی توفیق بھی اللہ کے فضل سے ہی ملتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ” اب بتلاویں اگر یہ عاجز حق پر نہیں ہے تو پھر کون آیا جس نے اس چودھویں صدی کے سر پر مجدد ہونے کا ایسا دعویٰ کیا جیسا کہ اس عاجز نے.کیا کوئی الہامی دعاوی کے ساتھ تمام مخالفوں کے مقابل پر ایسا کھڑا ہوا جیسا کہ یہ عاجز کھڑا ہوا.تَفَكَّرُوْا وَتَنَدَّمُوا وَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تَغْلُوا (یعنی غور کرو، کچھ شرم کرو، اللہ سے ڈرو کیوں بے حیائیوں میں آگے بڑھ رہے ہو.اور اگر یہ عاجز مسیح موعود ہونے کے دعوی میں غلطی پر ہے تو آپ لوگ کچھ کوشش کریں کہ مسیح موعود جو آپ کے خیال میں ہے انہیں دنوں میں آسمان سے اتر آوے کیونکہ میں تو اس وقت موجود ہوں، مگر جس کے انتظار میں آپ لوگ ہیں وہ موجود نہیں اور میرے دعوی کا ٹوٹنا صرف اسی صورت میں متصور ہے کہ اب وہ آسمان سے اتر ہی آوے تا میں ملزم ٹھہر سکوں.( یہ اس وقت آپ نے ساروں کو پینج دیا تھا.) '' آپ لوگ اگر سچ پر ہیں تو سب مل کر دعا کریں کہ مسیح ابن مریم جلد آسمان سے اترتے دکھائی دیں.اگر آپ حق پر ہیں تو یہ دعا قبول ہو جائے گی کیونکہ اہل حق کی دعا مبطلین کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی 40
ہے“.( یعنی جو بچے ہوں اس کی دعا جھوٹے کے مقابل پر قبول ہو جایا کرتی ہے.”لیکن آپ یقینا سمجھیں کہ یہ دعا ہر گز قبول نہیں ہوگی کیونکہ آپ غلطی پر ہیں.مسیح تو آپکا لیکن آپ نے اس کو شناخت نہیں کیا.اب یہ امید موہوم آپ کی ہرگز پوری نہیں ہو گی.یہ زمانہ گزر جائے گا اور کوئی ان میں سے میسیج کو اترتے نہیں دیکھے گا“.(ازالہ اوہام حصه اول روحانی خزائن جلد 3صفحه 179) پھر آپ نے فرمایا: ” اسی لئے میں کہتا ہوں کہ یہ لوگ دین اور سچائی کے دشمن ہیں.اور اگر اب بھی ان لوگوں کی کوئی جماعت دلوں کو درست کر کے میرے پاس آوے تو میں اب بھی اس بات کے لئے حاضر ہوں کہ ان کے لغو اور بیہودہ شبہات کا جواب دوں اور ان کو دکھلاؤں کہ کس قدر خدا نے ایک فوج کثیر کی طرح میری شہادت میں پیشگوئیاں مہیا کر رکھی ہیں جو ایسے طور سے ان کی سچائی ظاہر ہوئی ہے جیسا کہ دن چڑھ جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ مسیح موعود کی محبت دلوں میں بٹھائے گا اور سب فرقوں پر آپکے فرقہ کو غالب کریگا اب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا اگر کوئی آنا چاہے تو سوسال کے بعد آج بھی دلوں کو درست کر کے آنے والی شرط قائم ہے.اور جو آتے ہیں وہ حق کو پا بھی لیتے ہیں.فرمایا کہ: ” یہ نادان مولوی اگر اپنی آنکھیں دیدہ و دانستہ بند کرتے ہیں تو کریں.سچائی کو ان سے کیا نقصان؟ لیکن وہ زمانہ آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ بہتیرے فرعون طبع ان پیشگوئیوں پر غور کرنے سے غرق ہونے سے بچ جائیں گے.خدا فرماتا ہے کہ میں حملہ پر حملہ کروں گا یہاں تک کہ میں تیری سچائی دلوں میں بٹھا دوں گا.پس اے مولو یو ! اگر تمہیں خدا 41
سے لڑنے کی طاقت ہے تو لڑو.مجھ سے پہلے ایک غریب انسان مریم کے بیٹے سے یہودیوں نے کیا کچھ نہ کیا اور کس طرح اپنے گمان میں اس کو سولی دے دی.مگر خدا نے اس کو سولی کی موت سے بچایا اور یا تو وہ زمانہ تھا کہ اس کو صرف ایک مگار اور کذاب خیال کیا جاتا تھا.اور یا وہ وقت آیا کہ اس قدر اُس کی عظمت دلوں میں پیدا ہو گئی کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو خدا کر کے مانتا ہے.اگر چہ ان لوگوں نے کفر کیا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا مگر یہ یہودیوں کا جواب ہے“.( یعنی یہ اللہ کی طرف سے یہودیوں کو جواب دیا گیا ہے کہ ) ' جس شخص کو وہ لوگ ایک جھوٹے کی طرح پیروں کے نیچے پھل دینا چاہتے تھے وہی یسوع مریم کا بیٹا اس عظمت کو پہنچا کہ اب چالیس کروڑ انسان اس کو سجدہ کرتے ہیں.اور بادشاہوں کی گردنیں اس کے نام کے آگے جھکتی ہیں.سومیں نے اگر چہ یہ دعا کی ہے کہ یسوع ابن مریم کی طرح شرک کی ترقی کا میں ذریعہ نہ ٹھہرایا جاؤں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے گا.لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے“.اور اللہ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں یہ سچائی ظاہر ہو رہی ہے اور ہوتی چلی جا رہی ہے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا.اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.42
سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.میں اپنے نفس میں کوئی نیکی نہیں دیکھتا اور میں نے وہ کام نہیں کیا جو مجھے کرنا چاہئے تھا.اور میں اپنے تئیں صرف ایک نالائق مزدور سمجھتا ہوں.یہ محض خدا کا فضل ہے جو میرے شامل حال ہوا.پس اُس خدائے قادر اور کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اس مشت خاک کو اس نے باوجود ان تمام بے ہنریوں کے قبول کیا“.(تجليات الهيه - روحانی خزائن جلد 20صفحہ408-410) پس یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دعوی ہے یا پیشگوئی ہے اور ہم ہر روز اس کو پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.لیکن ہر مذہب وقوم کے لئے بھی یہ غور کا مقام ہے.مسیح موعود کی جماعت اللہ تعالیٰ کے ان سے کئے گئے وعدہ کے مطابق ترقی کرتی چلی جا رہی ہے اور جیسا کہ میں نے کہا ہر روز ہم ترقی کو دیکھتے ہیں.پس مسلمان بھی غور کریں ( جو احمدیوں کے علاوہ مسلمان ہیں ) کہ مسیح ومہدی جو آنے کو تھا وہ آچکا ہے.اور اس کی صداقت کے لئے قرآن وحدیث میں بے شمار ثبوت موجود ہیں.قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی مل جاتے ہیں.جن میں سے ایک دو کا میں نے ذکر بھی کیا ہے.زمانے کی حالت بھی اس کو پکار رہی ہے.اب کس انتظار میں بیٹھے ہو.کچھ تو اے لوگو سوچو.عیسائیوں کے لئے بھی جس مسیح نے دوبارہ آنا تھا آ گیا ہے.اور باقی مذاہب والوں کو بھی ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے جس نے آنا تھا وہ آ گیا ہے.اب اگر ایک دوسرے کے جذبات کا احترام سکھانا ہے تو اسی مسیح و مہدی نے سکھانا ہے.اب اگر تمام مذاہب کے انبیاء کا احترام سکھانا ہے تو اس مسیح موعود نے سکھانا ہے.اب اگر دنیا میں امن اور پیار اور محبت پھیلانی ہے تو اسی مسیح موعود نے پھیلانی ہے.اب اگر انسانیت کو دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دلانی ہے تو اسی مسیح موعود و مہدی موعود نے دلانی ہے.اب اگر اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے دکھانے ہیں اور بندے 43
کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکنے کے طریق بتانے ہیں تو اسی مسیح و مہدی نے بتانے ہیں.پس اگر دنیا ان تمام باتوں کا حصول چاہتی ہے تو تمام نبیوں کی پیشگوئیوں کے مطابق آنے والے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور مسیح و مہدی کی تعلیم پر عمل کرنے والے بن جائیں.ورنہ ہمیں تو اللہ تعالی کی قہری تجلی کے سائے منڈلاتے نظر آ رہے ہیں جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا سے خبر پا کر ہمیں بتا چکے ہیں.پس آپ جو احمدی ہیں ان سے بھی میں یہ کہوں گا کہ ہر احمدی اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ کرے.اور اپنی اصلاح کے ساتھ دنیا کو بھی اس انذار سے آگاہ کرے.اللہ تعالیٰ ان دنیا داروں پر رحم کرے اور ان کو حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.44
آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر بعض مغربی ممالک اور اخبارات کی طرف سے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے اور ان کے دوہرے اخلاقی معیاروں کا تذکرہ مغربی دنیا کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف جراتوں کا سبب خود مسلمانوں کی اندرونی حالت بھی ہے اور عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دو چار ہے.آنحضرت ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کو بہت جگہ دیں.آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے جس نے اس زمانہ کے امام کو پہچانا کہ آنحضرت ﷺ کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں.ނ فضا میں اتنا در و د صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.☆☆ ( قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت اقدس مسیح موعود السلام کے ارشادات کے حوالہ سے درود شریف کی اہمیت و برکات کا ذکر کرتے ہوئے بکثرت درود پڑھنے اور امت مسلمہ کے لئے دعاؤں کی خصوصی تحریک) خطبه جمعه فرموده مؤرخہ 24 فروری 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ 45
46
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ - أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ - اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (سورة الاحزاب: آیت 57) گزشتہ جو مضمون چل رہے ہیں یعنی گزشتہ کئی ہفتے سے جو واقعات ہو رہے ہیں، آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے پر مغرب کے بعض اخباروں اور ملکوں نے جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، آج بھی مختصر ا اس کے بارے میں کچھ کہوں گا.اور اس کے رد عمل میں بعض اخباروں اور ملکوں کے خلاف مسلمان ممالک میں جو ہوا چل رہی ہے اس بارے میں میں کہنا چاہتا ہوں.یہ انفرادی طور پر بھی ہیں، اجتماعی طور پر بھی ہیں، حکومتی سطح پر بھی احتجاج ہو رہے ہیں بلکہ اسلامی ممالک کی آرگنائزیشن (او آئی سی) نے بھی کہا ہے کہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالا جائے گا کہ معذرت بھی کریں اور ایسا قانون بھی پاس کریں کہ آزادی صحافت اور آزادی ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچیں، کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو پھر دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں.ان ملکوں کا یا آرگنا ئزیشن کا یہ بڑا اچھا رد عمل ہے.اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک میں اتنی مضبوطی پیدا کر دے اور ان کو توفیق دے کہ یہ حقیقت میں دلی درد کے ساتھ دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے ایسے فیصلے کروانے کے قابل ہوسکیں.47
مغربی ممالک اور اخبارات کا دوہرا معیار گذشتہ دنوں ایران کے ایک اخبار نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس حرکت کا بدلہ لینے کے لئے اپنے اخبار میں مقابلے کروائے گا جس میں دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کے ساتھ جو سلوک ہوا تھا اس سلوک کے حوالے سے، ان کے کارٹون بنانے کا مقابلہ ہوگا.گو یہ اسلامی رد عمل نہیں ہے، یہ طریق اسلامی نہیں ہے لیکن مغربی ممالک جو آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں اور ہرقسم کی بیہودگی کو اخبار میں چھاپنے کو آزادی صحافت کا نام دیتے ہیں ان کو اس پر برانہیں منانا چاہئے ، جو منایا گیا.یا تو برا نہ مناتے یا پھر یہ جواب دیتے کہ جس غلطی سے دنیا میں فساد پیدا ہو گیا ہے ہمیں چاہئے کہ اب کسی مذہب یا اس کے بانی اور نبی یا کسی قوم کے بارے میں ایسی سوچ کو ختم کر کے پیار اور محبت کی فضا پیدا کریں.لیکن اس طرح کے جواب کی بجائے ڈنمارک کے اس اخبار کے ایڈیٹر نے جس میں یہ کارٹون شائع ہونے پر دنیا میں سارا فساد شروع ہوا ہے، اس نے ایران کے اس اعلان پر یہ کہا ہے کہ وہاں جو اخبار میں کارٹون بنانے کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا گیا ہے یعنی جنگ عظیم دوم میں یہودیوں سے متعلقہ جو بھی کارٹون بننے تھے وہ ایک قوم پر ظلم ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کارٹون بننے تھے.کسی نبی کی ہتک یا تو ہین کے بارے میں نہیں بنے تھے.تو بہر حال ایڈیٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہم اس میں قطعاً حصہ نہیں لیں گے.اور اپنے قارئین کی تسلی کرواتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمارے قاری تسلی رکھیں کہ ہمارے اخلاقی معیار ابھی تک قائم ہیں.ہم ایسے نہیں کہ حضرت عیسی کے یا ہالوکاسٹ کے کارٹون شائع کریں.اس لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی بھی حالت میں ایرانی اخبار اور میڈیا کے اس بد ذوق قسم کے مقابلے میں حصہ لیں.تو یہ ہیں ان کے معیار، جو اپنے لئے اور ہیں اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کے لئے اور ہیں.بہر حال یہ اُن کے کام ہیں ، کئے جائیں.48
مسلمانوں کی کسمپرسی کی انتہائی خوفناک حالت اب دیکھیں کہ معیاروں کا یہ حال.پچھلے دنوں یہاں کے ایک مصنف نے 17 سال پہلے ایک واقعہ لکھا تھا، بات لکھی تھی ، آسٹریا میں گیا اور وہاں جا کر اس پر مقدمہ ہو گیا تین سال کی قید ہوگئی.تو بہر حال یہ تو ان کے طریقے ہیں.اپنے لئے برداشت نہیں کرتے لیکن ہمیں بھی دیکھنا چاہئے کہ ہماری اپنی حالت کیا ہے؟ یہ جراتیں جو انہیں یعنی مغربی دنیا میں پیدا ہورہی ہیں ہماری اپنی حالت کی وجہ سے تو نہیں ہور ہیں.جو صورت ہمیں نظر آتی ہے اس سے صاف نظر آتا ہے کہ مغربی دنیا کو پتہ ہے کہ مسلمان ممالک ان کے زیر نگیں ہیں ان کے پاس ہی آخر انہوں نے آنا ہے.آپس میں لڑتے ہیں تو ان لوگوں سے مدد لیتے ہیں.یہ جو پابندیاں یورپ کے بعض ملکوں کے سامان پر لگائی گئی ہیں اس کے خلاف احتجاج کے طور پر یہ بھی ان لوگوں کو پتہ ہے کہ چند دن تک معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا اور وہی چیزیں جو بازار سے اٹھا لی گئی ہیں، اس وقت مارکیٹ سے غائب ہیں وہی ان ملکوں میں دوبارہ مارکیٹ میں آجائیں گی.اب ان ملکوں میں جو مسلمان رہتے ہیں وہ بھی یہ چیزیں کھا رہے ہیں، استعمال کر رہے ہیں.ڈنمارک میں ہی ( ڈنمارک کے خلاف سب سے زیادہ احتجاج ہے ) تقریباً دولاکھ مسلمان ہیں اور کافی بڑی اکثریت پاکستانی مسلمانوں کی ہے وہ بھی تو آخر وہ چیزیں استعمال کر رہے ہیں.تو بہر حال یہ عارضی رد عمل ہیں اور ختم ہو جائیں گے.اب دیکھیں ہماری حالت.یہ جو عراق میں تازہ واقعہ ہوا ہے کہ امام بارگاہ کا گنبد بم دھماکے سے اڑایا گیا ہے.تو نتيجة سُنیوں کی مسجدوں پر بھی حملے ہوئے اور وہ بھی تباہ ہوری ہیں.یہ کسی نے دیکھنے اور سوچنے کی کوشش نہیں کی کہ تحقیق کر لیں کہ کہیں ہمیں لڑانے کے لئے دشمن کی شرارت ہی نہ ہو.کیونکہ یہ ہم یہ اسلحہ جو سب کچھ لیا جا رہا ہے، یہ بھی تو انہیں ملکوں سے لیا جاتا ہے.لیکن یہ اس طرح سوچ ہی نہیں سکتے.ایک تو عقل کے اندھے ہو 49
جاتے ہیں، ان کو غصے اور فرقہ واریت میں سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا کرنا ہے.دوسرے بدقسمتی سے جو منافقت کرنے والے ہیں وہ بھی دشمن سے مل جاتے ہیں جس سے دشمن فائدہ اٹھاتا ہے اور ان کو سوچنے کی طرف آنے ہی نہیں دیتا.بہر حال یہ جونئی صورتحال عراق میں پیدا ہوئی ہے یہ ملک کو سول وار (Civil War) کی طرف لے جا رہی ہے.آج کل تو تقریباً شروع ہے.اور اب وہاں پہ لیڈروں کو بڑی مشکل پیش آ رہی ہے کہ یہ صورتحال اب سنبھالی نہیں جائے گی.مسلمان سے مسلمان کے لڑنے کی یہ صورتحال افغانستان میں بھی ہے پاکستان میں بھی ہے، ہر فرقہ دوسرے فرقے کے بارے میں پر تشد د فضا پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، مذہب کے نام پر آپس میں ایک دوسرے کو مار رہے ہوتے ہیں.جبکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا﴾ (سورة النساء: آیت 94) یعنی جو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہوگی اور وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ اس سے ناراض ہو گا اور اس کو اپنی جناب سے دور کر دے گا اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا.مسلمانوں کے انتشار اور کمزوری کی اصل وجہ آنحضرت ﷺ کی نافرمانی اور مسیح و مہدی کا انکار ہے تو دیکھیں ، اب یہ ایک دوسرے کو مار رہے ہیں.فتنہ پیدا کرنے والے، بھڑ کانے والے ان لیڈروں کے کہنے پر جن میں اکثریت مذہبی لیڈروں کی ہے، یہ سب فتنے اُن سے پیدا ہورہے ہیں.مار دھاڑ ہو رہی ہے قتل و غارت ہو رہی ہے کہ قتل کرو تو ثواب کماؤ اور جنت کے وارث بنو گے.جبکہ اللہ تعالیٰ جہنم میں ڈال رہا ہے اور لعنت بھیج رہا ہے.50
پاکستان میں ، بنگلہ دیش میں یا دوسرے ملکوں میں جہاں احمدیوں کو بھی شہید کیا جاتا ہے یہی ہیں جو جنت کا لالچ دے کر جہنم میں لے جانے والے کام کروائے جاتے ہیں.بہر حال میں یہ کہ رہا تھا کہ یہ جو مسلمانوں کی حرکتیں ہیں ان سے مسلمانوں کے دشمن فائدہ اٹھاتے ہیں اور مسلمان کی طاقت کم کرتے چلے جا رہے ہیں اور ان مسلمانوں کو عقل نہیں آ رہی.بہر حال یہ تو ظاہر وباہر ہے کہ یہ عقل ماری جانا اور یہ پھٹکار اس لئے ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نہیں مانا اور نہ ہی مان رہے ہیں نہ اس طرف آتے ہیں اور آپ کے مسیح و مہدی کی تکذیب کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہی ہے اور وہ ہر احمدی کو کرنی چاہئے.اس طرف پہلے بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدا ان کو عقل اور سمجھ دے اور یہ منافقین اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر اسلام کو بدنام کرنے والے اور ایک دوسرے کا گلا کاٹنے والے نہ بنیں.بہر حال جو کچھ بھی ہے جب اسلام کے دشمن ان مسلمانوں کو کسی نہ کسی ذریعے سے ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو احمدی بہر حال درد محسوس کرتا ہے.کیونکہ یہ لوگ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے ہیں یا منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان بھٹکے ہوئے مسلمانوں میں سے ایک بہت بڑی تعداد کم علمی کی وجہ سے ان لیڈروں اور علماء کی باتوں میں آکر ایسی نامناسب حرکتیں اور کارروائیاں کر جاتی ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ہماری دعائیں سنتے ہوئے ان لوگوں کو ، ان نام نہاد علما کے چنگل سے چھڑائے اور یہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے انجانے میں یا بیوقوفی میں اور اسلام کی محبت کے جوش میں آکر جو اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں وہ نہ بنیں.اللہ تعالیٰ ان کو سیدھی راہ بھی دکھائے ، کیونکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے دشمن کو اسلام پر گند اچھالنے کا موقعہ ملتا 51
ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر بھی توہین آمیز حملے کرنے کا موقع ملتا ہے.پس ہر احمدی کو آجکل دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ عالم اسلام اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے انتہائی خوفناک حالت سے دوچار ہے.اگر ہمارے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا عشق اور محبت ہے تو ہمیں امت کے لئے بھی بہت زیادہ دعائیں کرنی چاہئیں.اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو ہم پہلے بھی کر رہے ہیں.دعا کرنے اور برکات حاصل کرنے کا اصل طریق لیکن آج میں توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ دعائیں ہمیں کس طرح کرنی چاہئیں.یہ دعا کرنے کے طریقے اور اسلوب بھی ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی سکھائے ہیں جن سے ہماری بھی اصلاح ہوتی ہے اور دعا کی قبولیت کے نظارے بھی ہم دیکھ سکتے ہیں.ایک حدیث میں آتا ہے حضرت عمر بن خطاب فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا آسمان اور زمین کے درمیان ٹھہر جاتی ہے اور جب تک تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے اس میں سے کوئی حصہ بھی ( خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے ) او پر نہیں جاتا.صر (ترمذى كتاب الصلوة باب ما جاء في فضل الصلوة على النبي علي الله) یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں ہمیں واضح فرمایا ہے.جو آیت میں نے ابھی پڑھی ہے کہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ - يَأْيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِمُوْا تَسْلِيمًا (سورة الاحزاب: آيت 57) کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے بھی نبی پر رحمت بھیجتے ہیں اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور سلام بھیجو.52
قرآن کریم میں بے شمار احکام ہیں جن کے کرنے کا حکم ہے اور ان پر عمل کرنے کے نتیجے میں کیا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیارے بن جاؤ گے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے وارث ٹھہرو گے، اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بن جاؤ گے، جہنم سے بچائے جاؤ گے، جنت میں داخل ہوگے.یہاں یہ حکم ہے کہ یہ اتنا بڑا اور عظیم کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے پیارے نبی ﷺ پر درود وسلام بھیجتا ہے.اس لئے یہ ایسا عمل ہے جس کو کر کے تم اُس عمل کی پیروی کر رہے ہو یا اس کام کی پیروی کر رہے ہو جو خدا تعالیٰ کا فعل ہے.تو جب اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے حکموں پر عمل کرنے سے اتنے بڑے اجروں سے نوازتا ہے تو اس کام کے کرنے سے جو خود خدا تعالیٰ کرتا ہے کس قدر نوازے گا.اور یہ یقیناً خالص ہو کر بھیجا گیا درود اُمت کی اصلاح کا باعث بھی بنے گا.اُمت کو رسوائی سے بچانے کا باعث بھی بنے گا.ہماری اصلاح کا باعث بھی بنے گا.اور ہماری دعاؤں کی قبولیت کا بھی ذریعہ بنے گا.ہمیں دجال کے فتنوں سے بچانے کا ذریعہ بھی بنے گا.احادیث میں درود کے فوائد مختلف روایات میں ملتے ہیں.ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن لوگوں میں سے سب سے زیادہ میرے نزدیک وہ شخص ہو گا جو اُن میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجنے والا ہوگا.(ترمذى.كتاب الصلوة باب ما جاء في فضل الصلوة على النبي علي الله) پھر فرمایا : جو شخص مجھ پر دلی خلوص سے ایک بار درود بھیجے گا اس پر اللہ تعالیٰ دس بار درود بھیجے گا اور اسے دس درجات کی رفعت بخشے گا (اور اس کی دس نیکیاں لکھے گا ) اور دس گناہ معاف کرے گا.(سنن النسائى كتاب السهو باب الفضل فى الصلوة على النبي علي الله) 53
اب دیکھیں دلی خلوص شرط ہے.بہت سے لوگ دعائیں کرنے یا کروانے والے یہ لکھتے ہیں کہ ہم دعا ئیں بھی بہت کر رہے ہیں آپ بھی دعا کریں اور در دو بھی پڑھتے ہیں لیکن لمبا عرصہ ہو گیا ہے ہماری دعائیں قبول نہیں ہور ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ در و د کس طرح بھیجو.فرمایا کہ صَادِقاً مِّنْ نَّفْسِہ اس طرح بھیجو کہ خالص ہو جاؤ.درود بھیجتے ہوئے ہر کوئی اپنے نفس کو ٹولے، اپنے دل کو ٹولے کہ اس میں دُنیا کی کتنی ملونیاں ہیں اور کتنا خالص ہو کر درود بھیجنے کی طرف توجہ ہے.کتنا خالص ہو کر در و دبھیجا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: دو درودشریف جو حصول استقامت کا ایک زبر دست ذریعہ ہے بکثرت پڑھومگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدنظر رکھ کر اور آپ کے مداراج اور مراتب کی ترقی کے لئے اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قبولیت دعا کا شیریں اور لذیذ پھل تم کو ملے گا.دو (ريويو آف ريليجينز اردو جلد 3.نمبر 1.صفحه 115) پس یہ ہیں درود بھیجنے کے طریقے.پھر آپ نے فرمایا کہ: ” (اے لوگو!) اس محسن نبی پر درود بھیجو جو خداوند رحمن ومنان کی صفات کا مظہر ہے.کیونکہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے اور جس دل میں آپ کے احسانات کا احساس نہیں اُس میں یا تو ایمان ہے ہی نہیں اور یا پھر وہ ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے.اے اللہ ! اس امی رسول اور نبی پر درود بھیج جس نے آخرین کو بھی پانی سے سیر کیا ہے جس طرح اس نے اولین کو سیر کیا اور انہیں اپنے رنگ میں رنگین کیا تھا اور انہیں پاک لوگوں میں داخل کیا تھا.(ترجمه از عربی ] اعجاز المسیح - روحانی خزائن.جلد 18.صفحہ5-6) 54
اس طرح خالص ہو کر درود بھیجیں گے جس سے ایک جماعتی رنگ بھی پیدا ہو جائے تو وہ ایسا درود ہے جو پھر اپنے اثرات بھی دکھاتا ہے.ایسے لوگ جو کہتے ہیں درود کا اثر نہیں ہوتا ان پر اس حدیث سے بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام سے بھی بات واضح ہو جانی چاہئے اور کبھی بھی درود بھیجنے سے تنگ نہیں آنا چاہئے بلکہ اپنے نفس کو ٹولنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو مجھ پر درود نہ بھیجے وہ بڑا بخیل ہے، کنجوس ہے.اور اس بخل کی وجہ سے جہاں وہ بخل کرنے کا گناہ اپنے اوپر سہیڑ رہا ہوتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو رہا ہوتا ہے.جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ایک بار درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس مرتبہ درود بھیجتا ہے.(جلاء الافهام.صفحه 318 بحواله سنن النسائي یہ اللہ تعالیٰ کی سلامتی حاصل کرنا تو ایسا سودا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض صحابہ بھی سب دعا ئیں چھوڑ کر صرف درود بھیجا کرتے تھے.ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک سمج خلقی اور بداعتباری کی بات ہے کہ ایک شخص کے پاس میراذکر ہو اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے.(جلاء الافهام.صفحه 327 مطبوعه 1897ء.امرتسر) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور آپ کی صحبت اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے“.(تفسير درّمنثور بحواله تاريخ خطيب وترغیب اصفهانی بحوالہ درود شریف.صفحہ 160) یہ جو آجکل کے نام نہاد جہاد ہورہے ہیں غیروں سے بھی جنگیں ہیں اور آپس میں بھی 55
ایک دوسرے کی گردنیں کاٹی جارہی ہیں.اب ان علماء سے کوئی پوچھے کہ تم جو بے علم اور اَن پڑھ مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر (جو مذہبی جوش میں آکر اپنی طرف سے غیرت اسلامی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غلط حرکتیں کرتے ہیں )، ان کی جو تم غلط رہنمائی کرتے ہو تو یہ کون سا اسلام ہے؟ اسلام کی تعلیم تو یہ ہے کہ جب تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات سنو، باتیں سنو تو آپ کے محاسن بیان کرو.آپ پر درود بھیجو.یہ تمہارے جہاد سے زیادہ افضل ہے.جان دینے سے زیادہ بہتر ہے کہ دعاؤں اور درود کی طرف توجہ دو.اور اس زمانے میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے یہ اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ بجائے تشدد کے دعاؤں اور درود پر زور دو اور اس کے ساتھ ہی اپنی اصلاح کی بھی کوشش کرو.اپنے نفسوں کو ٹولو کہ کس حد تک ہم آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والے ہیں.یہ وقتی جوش تو نہیں ہے جو بعض طبقوں کے ذاتی مفاد کی وجہ سے ہمیں بھی اس آگ کی لپیٹ میں لے رہا ہے؟.پس ہمیں چاہئے کہ جہاں اپنی اصلاح کی طرف توجہ دیں وہاں اپنے ماحول میں اگر مسلمانوں کو سمجھا سکتے ہوں تو ضرور سمجھائیں کہ غلط طریقے اختیار نہ کرو بلکہ وہ راہ اختیار کرو جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے پسند کیا ہے اور وہ راہ ہمیں بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے میری رضا حاصل کرنی ہے، جنت میں جانا ہے تو مجھ پر درود بھیجو.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ” جو شخص مجھ پر درود نہیں بھیجتا اس کا کوئی دین ہی نہیں.“ (جلاء الافهام.بحواله محمد بن.حمدان مروزی) 56
پھر ایک موقع پر آپ نے فرمایا : " کثرت سے اللہ کو یاد کرنا اور مجھ پر درود بھیجنا تنگی کے دور ہونے کا ذریعہ ہے.“ (جلاء الافهام فصل الموطن السادس والعشرون من مواطن الصلوة عليه علي اللهم عند المام الفقر والحاجة اوخوف) اب یہ جو رزق کی تنگی ہے.حالات کی تنگی ہے.آجکل مسلمانوں پر بھی جو تنگیاں وارد ہورہی ہیں.مغرب نے اپنے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں اور ان مسلمان ممالک کے لئے اور اصول رکھے ہوئے ہیں، اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا جائے اور ان برکات سے فیضیاب ہو ا جائے جو درود پڑھنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وابستہ کر رکھی ہیں.ایک روایت ہے.( تھوڑا سا حصہ پہلے بھی بیان کیا ہے ) اس کی تفصیل ایک اور جگہ بھی آتی ہے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.” قیامت کے روز اس دن کے ہر ایک ہولناک مقام میں تم میں سے سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ شخص ہو گا جس نے دنیا میں مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا ہوگا.(تفسير در منثور بحواله شعب الايمان للبيهقى وتاريخ ابن عساكر ) دیکھیں اب کون نہیں چاہتا کہ قیامت کے دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ پائے.اور ہر خطر ناک جگہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ کر نکلتا چلا جائے.یقینا ہر کوئی اللہ تعالی کے غضب سے بچنا چاہتا ہے تو پھر یہ اس سے بچنے کا اور آپ لے کے قرب میں رہنے کا طریق ہے جو آپ نے ہمیں بتایا ہے.اس لئے ہر وقت مومن کو درود بھیجنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے اور ہر موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے درود بھیجنا چاہئے.ایک روایت میں آتا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت 57
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ” جو شخص ایک دن میں ہزار بار مجھ پر درود بھیجے گاوہ اسی زندگی میں جنت کے اندر اپنا مقام دیکھ لے گا“.(جلاء الافہام.بحواله ابن الغازى وكتاب الصلوة على النبى لأبي عبدالله المقدسي) تو درود کی برکت سے جو تبدیلیاں پیدا ہوں گی وہ اس دنیا کی زندگی کو بھی جنت بنانے والی ہوں گی.اور یہی عمل اور نیکیاں اور پاک تبدیلیاں ہیں جو جہاں اس دنیا میں جنت بنا رہی ہوں گی ، اگلے جہان میں بھی جنت کی وارث بنا رہی ہوں گی.حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” جب تم مؤذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی وہی الفاظ دہراؤ جو وہ کہتا ہے.پھر مجھ پر درود بھیجو.جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ تعالیٰ اس پر دس گنا رحمتیں نازل فرمائے گا.پھر فرمایا میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ مانگو یہ جنت کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک بندے کو ملے گا اور میں امید رکھتا ہوں کہ وہ میں ہی ہوں گا.جس کسی نے بھی میرے لئے اللہ سے وسیلہ مانگا اس کے لئے شفاعت حلال ہو جائے گی“.(صحيح مسلم كتاب الصلوة.باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه صلى الله ثم يصلى على النبي ) عليه وسلم پس یہ جو اذان کے بعد کی دعا ہے اس کو ہر احمدی کو یاد کرنا چاہئے اور پڑھنا چاہئے.درود بھیجنے کی اہمیت اور درود کے فوائد تو واضح ہو گئے لیکن بعض لوگ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کس طرح درود بھیجیں.مختلف لوگوں نے مختلف درود بنائے ہوئے ہیں.لیکن اس بارے میں ایک حدیث ہے.58
حضرت کعب مجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ پر سلام بھیجنے کا تو ہمیں علم ہے مگر آپ پر درود کیسے بھیجیں.فرمایا کہ یہ کہو کہ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وعَلى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.وَبَارِك عَلى مُحَمَّدٍ وعَلى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد - (صحیح ترمذی ابواب الوتر، باب ما جاء فى صفة الصلوة على النبي تو یہ ہے.جو نماز کا درود ہے وہ ذرا اور تفصیل میں ہے.صلى الله عليه وسلم.پھر اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی کو خط میں نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ : ” نماز تہجد اور اور اد معمولی میں آپ مشغول رہیں.تہجد میں بہت سے برکات ہیں.بیکاری کچھ چیز نہیں.بیکار اور آرام پسند کچھ وزن نہیں رکھتا.وقال الله تعالى ﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (سورة العنكبوت: آیت 70) درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے : اللَّهُمَّ صَلِّ عَالَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ - فرمایا کہ: وو ” جو الفاظ ایک پرہیز گار کے منہ سے نکلتے ہیں اُن میں ضرور کسی قدر برکت ہوتی ہے.پس خیال کر لینا چاہئے کہ جو پر ہیز گاروں کا سردار اور نبیوں کا سپہ سالار ہے اس کے منہ سے جو لفظ نکلے ہیں وہ کس قدر متبرک ہوں گے.غرض سب اقسام درود شریف سے یہی 59
درود شریف زیادہ مبارک ہے.( مختلف قسمیں ہیں درود شریف کی ان میں سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے.) '' یہی اس عاجز کا ورد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضروری نہیں.اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینے میں انشراح اور ذوق پایا جائے“.(مکتوبات احمدیه.جلد اوّل.صفحه 17-18) تو یہ وہی درود ہے جو ہم نماز میں پڑھتے ہیں، جیسا کہ میں نے کہا، اور زیادہ تر اسی کا ورد کرنا چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ تعداد نہیں دیکھنی چاہئے.حدیث میں آیا ہے کہ جو ایک ہزار مرتبہ کرتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ کرتا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بعض لوگوں کو تعداد بتائی.کسی کو سات سو دفعہ روزانہ پڑھنایا گیارہ سودفعہ پڑھنا بتایا.تو یہ کم ہرشخص کے اپنے حالات اور معیار کے مطابق ہے، بدلتا رہتا ہے.بہر حال یہ درود شریف ہمیں پڑھنا چاہئے اس لئے میں نے جو بلی کی دعاؤں میں بھی ایک تو وہ حضرت مسیح موعود کی الہامی دعا ہے: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اَللّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ.اس کے علاوہ میں نے کہا تھا کہ درود شریف بھی پورا پڑھا جائے تو اس لئے کہا تھا کہ اصل درود شریف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا اس کو ہمیں اپنی دعاؤں میں ضرور شامل رکھنا چاہئے.لیکن وہی بات جس طرح حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ اتنا ڈوب کر پڑھیں کہ ایک خاص کیفیت پیدا ہو جائے اور جب اس طرح ہوگا تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن رہے ہوں گے.60
فتوحات صرف اور صرف دعا سے ہی حاصل ہوسکتی ہیں یہ زمانہ جو آ خرین کا زمانہ ہے جس زمانے سے اسلام کی فتوحات وابستہ ہیں اور یہ فتوحات ہم سب جانتے ہیں کہ تلواروں یا بندوقوں یا تو پوں اور گولوں سے نہیں ہوئیں اس میں سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہے.پھر دلائل و براہین کا ہتھیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا ہے.اور اسی کے ذریعے سے انشاء اللہ تعالیٰ اسلام نے غالب آنا ہے.اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اور اللہ تعالیٰ کا قرب اور برکات حاصل کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے ہم آیت میں دیکھ چکے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو اور مختلف احادیث سے بھی ہم نے دیکھ لیا کہ یہ سب کچھ بغیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے ممکن نہیں ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی بتایا ہے کہ مجھے جو مقام ملا ہے اسی درود بھیجنے کی وجہ سے ملا ہے.اور اسلام کی آئندہ فتوحات کے ساتھ بھی اس کا خاص تعلق ہے.اپنے اس مقام کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسیح و مہدی بنا کر دنیا میں بھیجنے کی صورت میں دیا.ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ : بعد اس کے جو الہام ہے وہ یہ ہے.صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ سَيِّدِ وُلْدِ آدَمَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّين.اور درود بھیج محمد اور آل محمد پر جوسردار ہے آدم کے بیٹوں کا اور خاتم الانبیاء ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ سب مراتب اور تفضلات اور عنایات اسی کے طفیل سے ہیں اور اسی سے محبت کرنے کا یہ صلہ ہے.سبحان اللہ اس سرور کائنات کے حضرت احدیت میں کیا ہی اعلیٰ مراتب ہیں اور کس قسم کا قرب ہے کہ اس کا محب خدا کا محبوب بن جاتا ہے اور اس کا خادم ایک دنیا کا مخدوم بنایا جاتا ہے“.(یعنی دنیا اس کی خادم ہو جاتی ہے.اس مقام پر مجھ کو یاد آیا کہ ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہو گیا.اسی رات خواب میں دیکھا کہ 61
آب زلال کی شکل پرنور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں (فرشتے ) لئے آتے ہیں اور ایک نے اُن میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھی..اور ایسا ہی عجیب ایک اور قصہ یاد آیا ہے کہ ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں.یعنی ارادہ الہی احیاء دین کے لئے جوش میں ہے.( دین کو نئے سرے سے زندہ کرنے کے لئے ہے.لیکن ہنوز ملاء اعلیٰ پر شخص مُحیی کے تعین ظاہر نہیں ہوئی' (جس نے زندہ کرنا ہے پتہ نہیں لگ رہا وہ کون ہے.اس لئے وہ اختلاف میں ہے.اسی اثناء میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک مُحیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا.هَذَا رَجُلٌ يُحِبُّ رَسُوْلَ اللہ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے.اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے.سو وہ اس شخص میں متحقق ہے“.( یعنی اس میں موجود ہے.) " اور ایسا ہی الہام متذکرہ بالا میں جو آل رسول پر درود بھیجنے کا حکم ہے سو اس میں بھی یہی ستر ہے کہ افاضہ انوار الہی میں محبت اہلِ بیت کو بھی نہایت عظیم دخل ہے.اور جو شخص حضرت احدیت کے مقربین میں داخل ہوتا ہے وہ انہیں طیبین اور طاہرین کی وراثت پاتا ہے اور تمام علوم و معارف میں ان کا وارث ٹھہرتا ہے.(براہین احمدیہ.ہر چہار حصص.حاشیه در حاشیه نمبر 3.روحانی خزائن جلد 1.صفحه 597-598) اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کے لئے ضروری ہے کہ مسیح موعود کی جماعت میں شامل ہو کر کوشش کی جائے پس آج احیاء دین کے لئے اسلام کی کھوئی ہوئی شان و شوکت واپس لانے کے 62
لئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں کھڑا ہونے کے لئے ، اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو کھڑا کیا ہے اس کے پیچھے چلنے سے اور اس کے دئے ہوئے براہین اور دلائل سے جو اللہ تعالیٰ نے اسے بتائے ہیں اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے سے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا پوری آب و تاب اور پوری شان و شوکت کے ساتھ دنیا میں لہرائے گا.انشاء اللہ.اور لہراتا چلا جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس زمانہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اور لوگوں کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام پر کیسے سخت دن ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم فرمایا جو کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرے گا.اس لئے مسلمانوں کو فرمایا کہ اب اپنی ضدیں چھوڑو اور غور کرو کہ کیا اللہ تعالیٰ ایسے حالات میں بھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں ان کی عزت قائم کرنے کے لئے جوش میں نہیں آیا جبکہ وہ درود بھیجتا ہے؟ اقتباس پورا اس طرح ہے.فرمایا کہ: یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا.میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک دردر کھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے.وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس زمانہ سے بڑھ کر اسلام پر گذرا ہے جس میں اس قد رسب و شتم اور تو ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو 63
محسوس کر لیں.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدرسب و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتا اور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کر کے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا.جبکہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں کہ اس توہین کے وقت میں اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کی صورت میں کیا ہے.(ملفوظات.جلد 3 صفحہ 8-9.جدید ایڈیشن) یہ فقرہ دیکھیں کہ اس طرح جماعت احمد یہ پر بہت بڑی ذمہ داری پڑتی ہے جو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب کرتے ہیں.پس جہاں ایسے وقت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے یقینا اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر درود بھیجتے ہوں گے، بھیج رہے ہوں گے، بھیج رہے ہیں.ہمارا بھی کام ہے جنہوں نے اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشق صادق اور امام الزمان کے سلسلہ اور اس کی جماعت سے.منسلک کیا ہوا ہے کہ اپنی دعاؤں کو درود میں ڈھال دیں اور فضا میں اتنا در و د صدق دل کے ساتھ بکھیریں کہ فضا کا ہر ذرہ درود سے مہک اٹھے اور ہماری تمام دعا ئیں اس درود کے وسیلے سے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ کر قبولیت کا درجہ پانے والی ہوں.یہ ہے اس پیار اور محبت کا اظہار جو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہونا چاہئے اور آپ کی آل سے ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو بھی عقل دے، سمجھ دے کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کو پہچانیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس روحانی فرزند کی جماعت میں شامل ہوں جو صلح، امن اور محبت کی فضا کو دوبارہ دنیا میں پیدا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو بلند کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عقل دے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف 64
منسوب ہونے کے باوجود آج پھر دیکھ لیں چودہ سو سال کے بعد بھی اسی مہینے میں جب محرم کا مہینہ ہی چل رہا ہے اور اسی سرزمین میں پھر مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے مگر سبق کبھی بھی نہیں سیکھا اور ابھی تک خون بہاتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو عقل دے اور اس عمل سے باز آ ئیں اور اپنے دل میں خدا کا خوف پیدا کریں اور اسلام کی سچی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.یہ سب کچھ جو یہ کر رہے ہیں زمانے کے امام کو نہ پہچاننے کی وجہ سے ہورہا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انکار کی وجہ سے ہو رہا ہے.پس آج ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ جس نے اس زمانہ کے امام کو پہچانا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے جذبے کی وجہ سے بہت زیادہ درود پڑھیں ، دعائیں کریں، اپنے لئے بھی اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی تا کہ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ کو تباہی سے بچالے.آنحضرت ﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں میں امت مسلمہ کو بہت جگہ دیں.غیروں کے بھی ارادے ٹھیک نہیں ہیں.ابھی پتہ نہیں کن کن مزید مشکلوں اور ابتلاؤں میں اور مصیبتوں میں ان لوگوں نے گرفتار ہونا ہے اور ان مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑنا ہے.اور کیا کیا منصوبے ان کے خلاف ہورہے ہیں.اللہ ہی رحم کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سیدھے راستے پر چلا تار ہے.اللہ تعالیٰ کے ہم شکر گزار بندے ہوں.اور اس کا شکر کریں کہ اس نے ہمیں اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق دی ہے.اور اب اس ماننے کے بعد اس کا حق ادا کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اور ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلانے والا بنائے.65
66
السلام حضرت مسیح موعود اس پر جہاد کو منسوخ کرنے ، اسلامی احکامات کو تبدیل کرنے اور آنحضرت ﷺ کی تعلیمات اور آپ کے عہد کے خاتمہ کا الزام سراسر تہمت اور انتہائی گھناؤنا الزام ہے.☆☆ ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول ﷺ ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں.ہ جو ڈنمارک کے اخبار میں آنحضرت ﷺ کی توہین پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کے حوالہ سے روزنامہ جنگ میں جماعت احمدیہ کے خلاف سراسر جھوٹی اور خلاف حقیقت خبر کی اشاعت محض شرارت اور شر انگیزی ہے.✰✰ ایسی جھوٹی خبر پھیلانے والے کے متعلق میں یہی کہتا ہوں کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ اللہ تعالیٰ اب ان بدفطرتوں کو عبرت کا نشان بنادے.خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 3 مارچ 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ 67
68
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.اخبار جنگ، لندن میں جماعت احمدیہ کے متعلق جھوٹی اور بے بنیاد خبر کی اشاعت محض شرارت اور شر انگیزی ہے کل لندن سے شائع ہونے والے جنگ اخبار نے ایک ایسی خبر شائع کی ہے جس کا جماعت احمدیہ کے عقائد سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے.اور خالصتاً شرارت سے یہ خبر شائع کی گئی ہے.نہ صرف عقائد کے خلاف ہے بلکہ جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کوئی وجود ہی نہیں ہے.یہ خبر شاید یہاں کے حوالے سے پاکستان وغیرہ میں بھی چھپی ہوگی ، کل نہیں تو آج چھپ گئی ہوگی، کیونکہ یہ اخبار اپنی بکری بڑھانے کے لئے ایسی خبریں شائع کرنے میں بڑی جلدی کرتے ہیں.سرکولیشن بڑھانے کے لئے اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کرنے اور جھوٹ کے پلندے شائع کرنے کے عادی ہو چکے ہیں.ان کا جو پاکستان کا ایڈیشن ہے اس کے بارے میں ہم سب کو پتہ ہے،سب کے علم میں ہے کہ آئے دن ہمارے بارہ میں ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں ، جھوٹ بولتے رہتے ہیں.گذشتہ دنوں میں ڈنمارک کے اخبار میں جو لغو اور بیہودہ خاکے بنائے گئے تھے اور پھر دوسری دنیا میں بھی بنائے تھے ، ان کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک انتہائی غم و غصے کی لہر 69
پیدا ہوئی ہوئی ہے.ہڑتالیں ہو رہی ہیں، جلوس نکالے جا رہے ہیں.بہر حال جو بھی غصے کا اظہار ہے، جب اس کو کوئی سنبھالنے والا نہ ہو، اس بہاؤ کو کوئی روکنے والا نہ ہو، اس کو صحیح سمت دینے والا نہ ہو تو پھر اسی طرح ہی رد عمل ظاہر ہوا کرتے ہیں.کیونکہ مسلمان جیسا بھی ہو، نمازیں پڑھنے والا ہے یا نہیں، اعمال بجالانے والا ہے یا نہیں لیکن ناموس رسالت کا سوال آتا ہے تو بڑی غیرت رکھنے والا ہے، مر مٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.ان حالات میں اس خبر کو شائع کرنا اور پھر کل جمعرات کے دن شائع کرنا جبکہ آج جمعہ کے روز اکثر جگہوں پر پھر جلوس نکالنے اور ہڑتالیں کرنے اور اس طرح کے کے رد عمل کا پروگرام ہے تو یہ چیز خالصتاً اس لئے کی گئی تھی کہ احمدیوں کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.یہ انتہائی ظالمانہ اور فتنہ پردازی کی کوشش ہے تا کہ اس خبر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم علم مسلمانوں کو بھڑ کا کر احمدیوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا جائے.بہر حال یہ ان کی کوششیں ہیں کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے جب احمدیوں کے خلاف لا علم، کم علم مسلمانوں کو بھڑ کا یا نہ جائے.آپ میں سے کئی لوگوں نے یہ خبر پڑھی ہو گی لیکن چونکہ سب پڑھتے نہیں ہیں اس لئے میں یہ خبر پڑھ دیتا ہوں.کوپن ہیگن کے حوالے سے سے یہ خبر شائع ہوئی ہے.ان کے رپورٹر ہیں ڈاکٹر جاوید کنول صاحب ، وہ کہتے ہیں کہ ” ڈنمارک کے خفیہ ادارے کے ایک ذمہ دار افسر نے اپنا نام اور عہدہ صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر کارٹون ایشو پر گفتگو کرتے ہوئے جنگ اخبار کو بتایا کہ ستمبر 2005ء میں قادیانیوں کا سالانہ جلسہ ڈنمارک میں ہوا جس میں قادیانیوں کے مرکزی ذمہ داران نے شرکت کی ، اس موقع پر قادیانیوں کے ایک وفد نے ایک ڈینش وزیر سے ملاقات کے دوران جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کے علمبردار ہیں“.یہاں تک تو ٹھیک ہے، ہم نے انہیں خاص طور پر تو نہیں بتایا مگر ہمارا دعویٰ یہی ہے کہ جماعت احمد یہ ہی اسلام کی حقیقی تعلیمات کی 70
علمبردار ہے.آگے لکھتے ہیں کہ ان کے نبی مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے.ٹھیک ہے لیکن شرائط کے ساتھ منسوخ قراردے دیا ہے.پھر آگے لکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلامی احکامات (نعوذ باللہ ) تبدیل کر دیئے ہیں.یہ سرا سرا تہام اور الزام ہے.اس لئے (آگے ذرا دیکھیں اس کی شرارت ) کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور ان کا عہد ختم ہو چکا ہے.نعوذ باللہ.اخبار لکھتا ہے کہ قادیانیوں کی اس یقین دہانی پر کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکارصرف سعودی عرب تک محدود ہیں، 30 ستمبر کو ڈ منیش اخبار نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے 12 کارٹون شائع کئے جن کا مرکزی نکتہ فلسفہ جہاد پر حملہ کرنا تھا.اعلی ڈینش افسر نے کہا کہ ہمیں جنوری کے آغاز تک اس بات کا یقین تھا کہ قادیانیوں کا دعوی سچا تھا کیونکہ جنوری تک سوائے سعودی عرب کے کسی اسلامی ملک نے ہم سے با قاعدہ احتجاج نہیں کیا تھا.او آئی سی کی خاموشی ہمارے یقین کو پختہ کر رہی تھی.اس ذمہ دار افسر نے اس نمائندے کو اس ملاقات کی ویڈیو ٹیپ بھی سنائی.جس میں ڈینیش اردو اور انگریزی زبان میں گفتگوریکارڈ تھی.(روزنامه جنگ لندن، 2/مارچ 2006ء صفحه 1 و 3) گویا اس سے باتیں تینوں زبانوں میں ہورہی تھیں.جھوٹ کے تو کوئی پاؤں نہیں ہوتے.ایسی بے بنیاد خبر ہے کہ انتہا ہی نہیں ہے، یہ ڈاکٹر جاوید کنول صاحب شاید جنگ کے کوئی خاص نمائندے ہیں.پہلے تو خیال تھا کہ ڈنمارک میں ہے لیکن اب پتہ لگا ہے کہ یہ صاحب اٹلی میں ہیں اور وہاں سے جنگ کی اور جیو کی نمائندگی کرتے ہیں.اور قانو نا یہ ویسے بھی جو ابھی تک مجھے پتہ لگا ہے کہ ڈنمارک کے حوالے سے یہ خبر کسی اخبار میں نہیں دے سکتے.71
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ الزام لگایا ہے کہ جماعت کا ستمبر میں جلسہ ہوا.جماعت احمدیہ وجہ سے کا گزشتہ سال کا جلسہ ستمبر میں تو وہاں ہوا ہی نہیں تھا.میرے جانے کی وجہ - سکینڈے نیوین ممالک کا اکٹھا جلسہ ہوا تھا اور وہ سویڈن میں ہوا تھا.اور ایم ٹی اے پر ساروں نے دیکھا کہ کیا ہم نے باتیں کیں اور کیا نہیں کیں.ڈنمارک میں میرے جانے پر ایک ہوٹل میں ایک ریسیپشن (Reception) ہوئی تھی جس میں کچھ اخباری نمائندے، پریس کے نمائندے بھی تھے اور دوسرے پڑھے لکھے دوست بھی اس میں تھے.سرکاری افسران بھی تھے ، ایک وزیر صاحبہ بھی آئی ہوئی تھیں اور وہاں قرآن ، حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے اسلام کی خوبصورت اور امن پسند تعلیم کا ذکر ہوا تھا.اور جو کچھ بھی وہاں کہا گیا تھا وہ صاف تھا،کھلا تھا.کوئی چھپ کے بات نہیں ہوئی تھی.اور اخباروں نے وہاں شائع بھی کیا تھا بلکہ تھوڑا سا ان کے ٹی وی پروگرام میں بھی آیا تھا.اور کوئی علیحدہ ملاقات نہیں تھی اور وہی جو ریسیپشن میں میری تقریر تھی میرے خیال میں ایم ٹی اے نے بھی دکھا دی ہے.نہیں دکھائی تو اب دکھا دیں.بہر حال یہ ٹھیک ہے کہ شاید وہاں تقریر میں ہی ان لکھنے والے صاحب کی طرح لوگوں کا ذکر ہوا ہو کہ یہ چند لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کرنے والے ہیں ورنہ مسلمان اکثریت اس طرح کے جہاد اور دہشت گردی کو نا پسند کرتی ہے.بہر حال ہماری طرف منسوب کر کے بہت بڑا جھوٹ بولا گیا ہے.شاید کوئی جھوٹا ترین شخص بھی یہ بات کہتے ہوئے کچھ سوچے کیونکہ آج کل تو ہر چیز ریکارڈ ہوتی ہے.اور ان صاحب کے بقول اردو انگریزی اور ڈینش میں ویڈیو ٹیپ بھی موجود ہیں.تو اگر بچے ہیں تو یہ یھیں دکھا دیں ، ہمیں بھی دکھا دیں.پتہ چل جائے گا کہ کون بولنے والے ہیں، کیا ہیں.72
اس جھوٹی خبر پھیلانے والے کومیں یہی کہتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور لعنۃ اللہ علی الکاذبین بہر حال اس جھوٹی خبر پھیلانے والے کو پہلی بات تو میں یہی کہتا ہوں کہ یہ سراسر جھوٹ ہے اور لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِین.اگر تم سچے ہو تو تم بھی یہی الفاظ دو ہرا دو.لیکن کبھی بھی نہیں دوہرا سکتے اگر رتی بھر بھی اللہ کا خوف ہوگا.ویسے تو ان لوگوں میں خدا کا خوف کم ہی ہے.لیکن اگر نہیں بھی دوہراتے تب بھی اس شدت کا جھوٹ بول کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس دعا کے نیچے یہ لوگ آچکے ہیں.بہر حال جماعت احمد یہ کے خلاف ایسی مذموم حرکتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں اور مسلسل ہورہی ہیں.اور جب بھی اپنے زعم میں ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو نا کامی کا منہ دکھاتا ہے اور جماعت احمدیہ سے اپنے پیار کا وہ اظہار کرتا ہے جو پہلے سے بڑھ کر اس کا فضل لے کر آتا ہے.کارٹونوں کے فتنہ کے خلاف جماعت احمد یہ کارڈ عمل اور کوششیں جب سے یہ کارٹون کا فتنہ اٹھا ہے سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے یہ بات اٹھائی تھی اور اس اخبار کو اس سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی.اس کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں.پھر دسمبر ، جنوری میں ہم نے دوبارہ ان اخباروں کولکھا تھا اور بڑا کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا ان دنوں میں میں قادیان میں تھا جب ہمارے مبلغ نے وہاں اخبار کولکھا تھا.ہمارے مبلغ کا اخبار میں انٹر ویو شائع ہوا تھا.تو اس اخبار نے یہ لکھنے کے بعد کہ جماعت احمدیہ کا رڈ عمل اس بارے میں کیا ہے اور یہ لوگ توڑ پھوڑ کی بجائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کو اپنی زندگی میں ڈھال کر پیش کرنا چاہتے ہیں.آگے وہ لکھتا ہے کہ اس کا یہ مطلب 73
نہیں ( امام صاحب کا انٹرویو تھا نا) کہ امام کو ان کارٹونوں سے تکلیف نہیں پہنچی بلکہ ان کا دل کارٹونوں کے زخم سے چُور ہے.بلکہ اس تکلیف نے انہیں اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ فوری طور پر ان کارٹونوں کے بارے میں ایک مضمون لکھیں چنانچہ انہوں نے وہ مضمون لکھا اور وہاں ڈنمارک کے اخبار میں شائع ہوا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق ہی ہے جس نے جماعت میں بھی اس محبت کی اس قدر آگ لگا دی ہے کہ یورپ میں عیسائیت سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں آنے والے یوروپین باشندے بھی اس عشق و محبت سے سرشار ہیں.چنانچہ ڈنمارک کے ہمارے ایک احمدی مسلمان عبد السلام میڈسن صاحب کا انٹرویو بھی اخبارVenster Bladet نے 16 فروری 2006ء کو شائع کیا ہے.ایک لمبا انٹرویو ہے.اس کا کچھ حصہ میں آپ کو سناتا ہوں.ترجمہ اس کا یہ ہے کہ میڈسن صاحب نے مزید کہا کہ ڈنمارک کے وزیر اعظم کو مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کرنی چاہئے تھی کیونکہ لوگ ان خاکوں کو دیکھ کر غصہ میں آتے ہیں.اگر وزیر اعظم نے مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ مسئلہ کس قدرا ہم تھا اور اس کے کیا نتائج پیدا ہو سکتے تھے.اور یہ جور د عمل سامنے آیا ہے یہ بالکل وہی ہے جو میں ان خاکوں کی اشاعت پر محسوس کر رہا تھا کہ رد عمل ہوگا.کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسلمان کے لئے زندگی کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں مثال ہیں.جب ایسی ذات پر توہین آمیز حملہ کیا جائے تو یہ ہر ایک مسلمان کے لئے تکلیف دہ امر ہے.اور وہ اس پر دکھ محسوس کرتا ہے.عبدالسلام میڈسن صاحب یہ کہتے ہیں کہ یولنڈ پوسٹن جو وہاں کا اخبار تھا اس کو ان 74
خاکوں کی اشاعت سے کیا حاصل ہوا ہے.پھر آگے وہ لکھتا ہے کہ میڈسن صاحب کو بھی اس امر کی بہت تکلیف ہوئی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے شائع کئے گئے ہیں.پھر کہتا ہے کہ میڈسن صاحب نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ کے بارے میں بڑی تفصیل سے ملتا ہے کہ ان کا حلیہ مبارک کیا تھا، کیسا تھا.پھر انہوں نے لکھا کہ یہ ایک گندی بچگانہ حرکت ہے.پھر انہوں نے لکھا ہے کہ ڈنمارک میں قانون توہین موجود ہے، پہلے میرے خیال میں اس کی ضرورت نہ تھی مگر اب میرے خیال میں فساد کو روکنے کے لئے اس قانون کو اپلائی (Apply) کرنے کی ضرورت ہے تا کہ فساد نہ ہو.کہتے ہیں کہ باقی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین تو خدا تعالیٰ کا معاملہ ہے وہ خود ہی اس کی سزا دے گا.تو یہ دیکھیں ایک یوروپین احمدی مسلمان کا کتنا پکا ایمان ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس گھناؤنی حرکت کرنے پر یہ ہمارے رد عمل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہمارے دلوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے لاکھوں کروڑوں حصے زیادہ ہے جو ہم پر اس قسم کے اتہام اور الزام لگاتے ہیں.اور یہ سب کچھ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے ہے جس کی تصویر کشی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کی ہے.جس کو خوبصورت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دکھایا ہے.کوئی بھی احمدی کبھی یہ نہیں سوچ سکتا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں یہ 75
حال تھا کہ حسان بن ثابت کا یہ شعر پڑھ کر آپ کی آنکھیں آنسو بہایا کرتی تھیں.وہ شعر یہ ہے کہ كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِكْ فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ (دیوان حسان بن ثابت) تو تو میری آنکھ کی پتلی تھا جو تیرے وفات پا جانے کے بعد اندھی ہوگئی.اب تیرے بعد جو چاہے مرے، مجھے تو صرف تیری موت کا خوف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ کاش یہ شعر میں نے کہا ہوتا.تو ایسے شخص کے متعلق کہنا کہ نعوذ باللہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا سمجھتا ہے یا اس کے ماننے والے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مقام دیتے ہیں.بہت گھناؤنا الزام ہے.ہمیں تو قدم قدم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہونے کے نظارے آپ میں دکھائی دیتے ہیں.ایک جگہ آپ فرماتے ہیں.اُس نور پر فدا ہوں اُس کا ہی میں ہو ا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے (قادیان کے آریہ اور ہم.روحانی خزائن جلد 20.صفحه 456) تو جو اپنا سب کچھ اس نور پر فدا کر رہا ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اب نہیں رہا اور انہوں نے یہ کہا ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مقام زیادہ اونچا ہو گیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام آخری نبی ہیں اور پھر یہ کہ ہم نے ان کو یہ کہہ دیا کہ ٹھیک ہے یہ ہمارا عقیدہ ہے آپ آخری نبی ہیں اب ہم اخبار کو کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ نعوذ باللہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ 76
وسلم کے کارٹون بناؤ.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اور لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ.انتہائی بچگانہ بات ہے کہ ہمارے کہنے پر ، صرف اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ ہم اجازت دیں اور وہ کارٹون شائع کر دیں جن کی ڈنمارک میں تعداد ہی چند سو ہے.خبر لگاتے ہوئے یہ اُردو اخبار کچھ آگے پیچھے بھی غور کر لیا کرے.مسلمان حکومتوں کو مفاد پرست ملاں اور عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے ڈنمارک کی حکومت بیچاری تو شاید اتنی عقل سے عاری نہ ہو لیکن یہ خبر لکھنے والے اور شائع کرنے والے بہر حال عقل سے عاری لگتے ہیں.اور سوائے ان کے دلوں میں فتنے کے کچھ نظر نہیں آتا.سوائے مسلمانوں کو انگیخت کرنے کے، بھڑ کانے کے کوئی اس خبر کا مقصد نظر نہیں آتا کہ اس نام پر مسلمان جوش میں آ جاتے ہیں اس لئے جن مسلمان ملکوں میں، بنگلہ دیش میں ، انڈونیشیا میں یا پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فضا ہے وہاں اور فساد پیدا کیا جائے.اور کوئی بعید نہیں ہے کہ بعض مفاد پرست عناصر نے اس بہانے ان ملکوں میں یہ تحریک شروع کی ہو کہ حکومتوں کے خلاف تحریک چلائی جائے.کیونکہ ہم نے ابھی تک عموماً یہی دیکھا ہے کہ احمدیوں کے خلاف چلی ہوئی تحریک آخر میں حکومتوں کے خلاف اُلٹ جاتی ہے.اس لئے ان ملکوں کی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہئے اور مفاد پرست ملاں یا ان عناصر کی چال میں نہیں آنا چاہئے.جہاں تک ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو شعر پڑھے تھے اس سے ہم نے دیکھ لیا، کچھ اندازہ ہو گیا اور ہر احمدی کے دل میں جو مقام ہے وہ ہر احمدی جانتا ہے.گزشتہ خطبات میں میں اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں.اس تعلق میں خطبات دے چکا ہوں.تکلیف کا اظہار ہم کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں.تمام دنیا میں ہماری طرف سے احتجاجی بیان بھی شائع ہوئے ہیں، پریس ریلیز بھی شائع ہوئی ہیں.اور یہ سب بیان ہم نے کوئی کسی کو دکھانے کے 77
لئے یا کسی کی خاطر یا مسلمانوں کے خوف یا ڈر کی وجہ سے نہیں دیئے.بلکہ یہ ہمارے ایمان کا ایک حصہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق تو ڑ کر ہماری زندگی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند حوالے میں پڑھوں گا.اس سے بات مزید کھولتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیمات کا خلاصہ آپ فرماتے ہیں کہ : ” ہمارے مذہب کا خلاصہ اور کپ کباب یہ ہے کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گزران سے کوچ کریں گے“.( یعنی کہ اسی ایمان کے ساتھ ہم اس دنیا سے جائیں گے.” یہ ہے کہ حضرت سیدنا ومولانا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبيين وخير المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے“.(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحه 169-170) تو یہ ہے ہمارے ایمان کا حصہ اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے.تو جس کا یہ ایمان ہو اس کے بارے میں کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس کے واسطے کے بغیر وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے یا نبوت مل گئی.پھر آپ فرماتے ہیں: " صراط مستقیم فقط دین اسلام ہے اور اب آسمان کے نیچے فقط ایک ہی نبی اور ایک ہی کتاب ہے یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جو اعلیٰ و افضل سب نبیوں سے اور اتم و اکمل سب رسولوں سے اور خاتم الانبیاء اور خیر الناس ہیں جن کی پیروی سے خدائے تعالیٰ ملتا ہے اور ظلماتی پردے اٹھتے ہیں اور اسی جہان میں کچی نجات کے آثار 78
نمایاں ہوتے ہیں اور قرآن شریف جو کچی اور کامل ہدایتوں اور تاثیروں پر مشتمل ہے جس کے ذریعہ سے حقانی علوم اور معارف حاصل ہوتے ہیں اور بشری آلودگیوں سے دل پاک ہوتا ہے، اور انسان جہل اور غفلت اور شبہات کے حجابوں سے نجات پا کر حق الیقین کے مقام تک پہنچ جاتا ہے.( براہین احمدیہ ہر چہار ص.حاشیہ در حاشیہ نمبر 3.روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 557-558) یعنی کہ اب جو کچھ بھی ملنا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ملنا ہے.اور آپ پر ہی نبوت کامل ہوتی ہے آپ کی تعلیم سے ہی جو اندھیرے ہیں وہ دُور ہوتے ہیں اور روشنی ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب بھی اسی سے ملنا ہے.حقیقی نجات بھی اسی سے ملنی ہے اور دل کی گندگیاں اسی سے صاف ہونی ہیں جو تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے.پھر آپ فرماتے ہیں: ” ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اظہار سچائی کے لئے ایک مجدد اعظم تھے جو گم گشتہ سچائی کو دوبارہ دنیا میں لائے.اس فخر میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی بھی نبی شریک نہیں کہ آپ نے تمام دنیا کو ایک تاریکی میں پایا اور پھر آپ کے ظہور سے وہ تاریکی نور سے بدل گئی.جس قوم میں آپ ظاہر ہوئے ، آپ فوت نہ ہوئے جب تک کہ اس تمام قوم نے شرک کا چولہ اتار کر تو حید کا جامہ نہ پہن لیا.اور نہ صرف اس قدر بلکہ وہ لوگ اعلیٰ مراتب ایمان کو پہنچ گئے اور وہ کام صدق اور وفا اور یقین کے ان سے ظاہر ہوئے کہ جس کی نظیر دنیا کے کسی حصہ میں پائی نہیں جاتی.یہ کامیابی اور اس قدر کامیابی کسی نبی کو بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نصیب نہیں ہوئی.یہی ایک بڑی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے کہ آپ ایک ایسے زمانہ میں مبعوث اور تشریف فرما ہوئے جبکہ زمانہ نہایت درجہ کی ظلمت میں پڑا ہوا تھا اور طبعا ایک عظیم الشان مصلح کا خواستگار تھا.اور پھر آپ نے ایسے وقت میں دنیا سے انتقال فرمایا جبکہ لاکھوں انسان شرک اور بت پرستی کو 79
چھوڑ کر تو حید اور راہ راست اختیار کر چکے تھے اور درحقیقت یہ کامل اصلاح آپ ہی سے مخصوص تھی کہ آپ نے ایک قوم وحشی سیرت اور بہائم خصلت کو انسانی آداب سکھلائے“.( جو وحشی قوم تھی اور جانوروں کی طرح زندگی گزارنے والے تھے ان کو انسانی آداب سکھلائے.یا دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ بہائم کو انسان بنایا ( یعنی جانور کو انسان بنایا )’ اور پھر انسانوں سے تعلیم یافتہ انسان بنایا اور پھر تعلیم یافتہ انسانوں سے باخدا انسان بنایا اور روحانیت کی کیفیت ان میں پھونک دی اور بچے خدا کے ساتھ ان کا تعلق پیدا کر دیا.وہ خدا کی راہ میں بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے اور چیونٹیوں کی طرح پیروں میں کچلے گئے مگر ایمان کو ہاتھ سے نہ دیا بلکہ ہر ایک مصیبت میں آگے قدم بڑھایا.پس بلا شبہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم روحانیت قائم کرنے کے لحاظ سے آدم ثانی تھے بلکہ حقیقی آدم وہی تھے جن کے ذریعے اور طفیل سے تمام انسانی فضائل کمال کو پہنچے اور تمام نیک قو تیں اپنے اپنے کام میں لگ گئیں اور کوئی شاخ فطرت انسانی کی بے بارو بر نہ رہی.اور ختم نبوت آپ پر نہ صرف زمانہ کے تاخر کی وجہ سے ہوا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ تمام کمالات نبوت آپ پر ختم ہو گئے.اور چونکہ آپ صفات الہیہ کے مظہر اتم تھے اس لئے آپ کی شریعت صفات جلالیہ و جمالیہ دونوں کی حامل تھی.اور آپ کے دو نام محمد اور احمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی غرض سے ہیں.اور آپ کی نبوت عامہ میں کوئی حصہ بخل کا نہیں بلکہ وہ ابتداء سے تمام دنیا کے لئے ہے.(لیکچر سیالکوٹ.روحانی خزائن جلد 20صفحہ206-207) یہ ہے جماعت احمدیہ کی تعلیم کہ آنحضرت ﷺ کا فیضان آج تک قائم ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ: "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نئی شریعت ، نئی کتاب نہ آئے گی ، نئے احکام نہ آئیں گے“.(اور یہ کہتے ہیں کہ نئی 80
شریعت لے آئے اور مرزا غلام احمد کو بالا سمجھتے ہیں.) ” یہی کتاب اور یہی احکام رہیں گے.جو الفاظ میری کتاب میں نبی یا رسول کے میری نسبت پائے جاتے ہیں اس میں ہر گز یہ منشاء نہیں ہے کہ کوئی نئی شریعت یا نئے احکام سکھائے جاویں.بلکہ منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ضرورت حقہ کے وقت کسی کو مامور کرتا ہے تو ان معنوں سے کہ مکالمات الہیہ کا شرف اس کو دیتا ہے“.( یعنی اس سے بولتا ہے.) اور غیب کی خبریں اس کو دیتا ہے اس پر نبی کا لفظ بولا جاتا ہے“.(جس سے بھی زیادہ تر اللہ تعالیٰ بولے گا ، کلام کرے گا اس پر نبی کا لفظ بولا دو جاتا ہے ).اور وہ مامور نبی کا خطاب پاتا ہے.یہ معنی نہیں ہیں کہ نئی شریعت دیتا ہے یا وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو نعوذ باللہ منسوخ کرتا ہے“.( یہ الزم ہم پر لگا رہے ہیں ).بلکہ یہ جو کچھ اسے ملتا ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سچی اور کامل اتباع سے ملتا ہے اور بغیر اس کے مل سکتا ہی نہیں“.(الحكم.10/ جنوری 1904ء.صفحہ2) پس جب دعویٰ کرنے والا دوٹوک الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ میں سب کچھ اس سے حاصل کر رہا ہوں اور اس کے بغیر کچھ بھی مل نہیں سکتا.اور اس کے ماننے والے بھی اس یقین پر قائم ہیں کہ یہ آنحضرت ﷺ کا غلام صادق ہے تو پھر افتراء اور جھوٹ پر مبنی باتیں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں بے چینی پیدا کی جائے.اور ایسے لوگ ہمیشہ سے کرتے آ رہے ہیں.فتنہ پیدا کرنے کے علاوہ یہ شیطانی قوتوں کو (شیطان تو ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے) حسد کی آگ ان کو جلاتی رہتی ہے.یہ جماعت کی ترقی دیکھ نہیں سکتے ان کی آنکھوں میں جماعت کی ترقی کھنکتی ہے.اور چاہے یہ جتنی مرضی گھٹیا حرکتیں کر لیں پہلے بھی یہ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی شاید کرتے رہیں گے.اس قسم کے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، شیطان نے تو قائم رہنا ہے یہ ترقی ان کی گھٹیا حرکتوں سے رکنے والی نہیں ہے.انشاءاللہ.81
کا صلى الله آنحضرت علی عظیم الشان مقام حضرت مسیح موعود کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ : دو وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو.وہ ملائک میں نہیں تھا، نجوم میں نہیں تھا، قمر میں نہیں تھا، آفتاب میں بھی نہیں تھا ، وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا.وہ لعل اور یا قوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا.غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا.( نہ زمینی چیز میں تھا اور نہ آسمان میں تھا.) ” صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سیدالانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں“.(ان ماننے والوں کو جتنا جتنا کسی کا ایمان تھا اس کے مطابق دیا گیا.” اور امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے“.( کہ تمام جو انسان کے حصے ہیں عقل ہے، علم ہے اور دوسرے حواس ہیں ان کی جو اعلی طاقت ہے، اعلیٰ معیار ہے وہ انسان کامل کو ملا.) ” اور پھر انسان کامل برطبق آیت إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الَّا مَنتِ إِلَى أَهْلِهَا ).( یعنی اس انسان کامل نے اس آیت کے مطابق کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے اہل کے سپر د کرو.” اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ، ہمارے مولی ، ہمارے ہادی نبی ا.سورة النساء: آیت 59 82
امی ، صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی.(آئینه کمالات اسلام روحانی خزائن.جلد 5.صفحہ 160-162) پس یہ لوگ جو اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق سمجھتے ہیں اور ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان سے بالا سمجھتے ہیں.یہ بتائیں، ان کے تو مقصد ہی صرف یہ ہیں کہ ذاتی مفاد حاصل کئے جائیں ان کے علاوہ کچھ بھی نہیں.یہ اپنے علماء میں سے کسی ایک کے منہ سے بھی اس شان کیا، اس شان کے لاکھویں حصہ کے برابر بھی کوئی الفاظ ادا کئے ہوئے دکھا سکیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائے ہیں.یہ اس عاشق صادق کے الفاظ ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکت کے بارے میں جسے تم لوگ جھوٹا کہتے ہو.اس شخص کی تو ہر حرکت وسکون اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تھا.یہ گہرائی، یہ نہم ، یا ادراک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کبھی کہیں اپنے لٹریچر میں تو دکھاؤ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور جماعت کی ہمیشہ یہی تعلیم ہے اور اس پر چلتی ہے کہ ہم قانون کے اندر رہتے ہوئے برداشت کر لیتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ : ” ہمارے مذہب کا خلاصہ یہی ہے.مگر جولوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر نا پاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں ان سے ہم کیونکر صلح کریں.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں.خدا ہمیں اسلام 83
" پر موت دے.ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جا تار ہے“.(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحه 459 ) تو یہ ہے ہماری تعلیم.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دی ہوئی تعلیم ہے اور یہ ہے ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی بھڑکائی ہوئی آگ اور اس کا صحیح فہم اور ادراک جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دیا.اس کے بعد بھی یہ کہنا کہ نعوذ باللہ خاکے بنانے کے سلسلہ میں اخبار اور حکومت ڈنمارک کو احمدیوں نے encourage کیا تھا.اس کے بعد انہوں نے خاکے شائع کئے.تو ان لوگوں پر سوائے اللہ تعالیٰ کی لعنت کے اور کچھ نہیں ڈالا جا سکتا.مسئلہ جہاد بالسیف کی حقیقت اب دوسری بات یہ ہے کہ جہاد کو منسوخ کر دیا ہے.اُس نے پہلی بات یہ کھی ہے لیکن اہم وہ بات تھی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونعوذ باللہ ہی نہیں مانتے یا ان کی تعلیم اب منسوخ ہو گئی ہے.دوسری بات اس نے جہاد کی منسوخی کی لکھی ہے اس بارے میں مسلمانوں کے اپنے لیڈر گذشتہ دنوں میں جب اُن پر پڑی ہے اور جن طاقتوں کے یہ طفیلی ہیں اور جن سے لے کر کھاتے ہیں انہوں نے جب ان کو دبایا تو انہیں کے کہنے پر یہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ جو آج کل جہاد کی تعریف کی جاتی ہے اور یہ کہ بعض مسلمان تنظیمیں آئے دن حرکتیں کرتی رہتی ہیں یہ جہاد نہیں ہے اور اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف ہے.اخباروں میں ان لوگوں کے بیان چھپ چکے ہیں.جماعت احمدیہ کا تو پہلے دن سے ہی یہ مؤقف ہے اور یہ نظریہ ہے اور یہ تعلیم ہے کہ فی زمانہ ان حالات میں جہاد بند ہے اور یہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے.اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : 84
”ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بزرگ صحابہ کی لڑائیاں یا تو اس لئے تھیں کہ کفار کے حملہ سے اپنے تئیں بچایا جائے اور یا اس لئے تھیں کہ امن قائم کیا جائے.اور جو لوگ تلوار سے دین کو روکنا چاہتے ہیں ان کو تلوار سے پیچھے ہٹایا جائے.مگر اب کون مخالفوں میں سے دین کے لئے تلوار اٹھاتا ہے.اور مسلمان ہونے والے کو کون روکتا ہے اور مساجد میں نماز پڑھنے اور بانگ دینے سے کون منع کرتا ہے“.(ترياق القلوب.روحانی خزائن جلد 15- صفحه 159-160) یعنی اذان دینے سے کون منع کرتا ہے.صرف پاکستان میں احمدیوں کو ہی منع کیا جا رہا ہے.لیکن اس کے باوجود ہم خاموش ہیں، ہم نے تو کوئی شور نہیں مچایا.بغیر اذان کے نماز پڑھ لیتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں کہ : صحیح بخاری ( کتاب الانبیاء باب نزول عیسی ابن مریم ” میں مسیح موعود کی شان میں صاف حدیث موجود ہے کہ يَضَعُ الحَرب یعنی مسیح موعود لڑائی نہیں کرے گا.تو پھر کیسے تعجب کی بات ہے کہ ایک طرف تو آپ لوگ اپنے منہ سے کہتے ہیں کہ صحیح بخاری قرآن شریف کے بعد اصح الکتب ہے، اور دوسری طرف صحیح بخاری کے مقابل پر ایسی حدیثوں پر عقیدہ کر بیٹھتے ہیں کہ جو صریح بخاری کی حدیث کے منافی پڑی ہیں.(ترياق القلوب.روحانی خزائن جلد 15 صفحه 159) پس یہ جماعت احمدیہ کا نظریہ ہے اور قرآن و حدیث کے مطابق ہے.اور ببانگ دہل کھلے طور پر ہم یہ اعلان کرتے ہیں، کہتے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ اب یہ لوگ جو جہاد جہاد کرتے پھر رہے ہیں جس کی آڑ میں سوائے دہشت گردی کے کچھ نہیں ہوتا یہ جہاد نہیں ہے اور سراسر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے.85
ابھی کل ہی کراچی میں جو خود کش حملہ ہوا ہے یہی لوگ ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں.پھر ایسے حملے میں اپنے ملک کی معصوم جانیں بھی یہ لوگ لے لیتے ہیں.یہ غلط حرکتیں کر کے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے انکاری تو یہ لوگ خود ہو رہے ہیں.احمدی تو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پہنچانے کا جہاد کر رہے ہیں.کون ہے ان لوگوں میں سے جو اسلام کے پیغام کو اس طرح دنیا کے کونے کونے میں پہنچا رہا ہو.ہاں تمہاری اس دہشت گردی اور اسلام کو بدنام کرنے والی جو جہادی کوششیں ہیں ان میں احمدی نہ کبھی پہلے شامل ہوئے ہیں اور نہ آئندہ ہوں گے.بہر حال یہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کی مذموم کوششیں ہیں ، ہوتی رہی ہیں.جماعت کے خلاف جھوٹی خبر اور گھناؤنی سازش کی پوری تحقیق کروائی جائے گی تا کہ اصل مقاصد سامنے آسکیں تو اس اخبار کو بھی میں کہتا ہوں، ان کو یہ یادرکھنا چاہئے کہ یہ وہ ملک نہیں ہے جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو، پاکستان کی طرح کہ اگر ملاں کی مرضی ہوگی یا ان کی مرضی ہوگی قانون پر عملدرآمد ہو جائے گا اور انصاف نہیں ہو گا.بہر حال کچھ نہ کچھ حد تک ان لوگوں میں انصاف ہے.ہم سارے کوائف اکٹھے کر رہے ہیں، رپورٹس منگوا ر ہے ہیں.یہ خبر دے کر اس افسر کے حوالے سے کہ ڈنمارک کے افسر نے کہا ہے کہ احمدیوں کی یقین دہانی پر کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم منسوخ ہو گئی ہے ہم نے یہ کارٹون شائع کئے تھے گویا ڈنمارک کی حکومت پر بھی اس سے الزام ثابت ہورہا ہے کہ وہاں کی حکومت بھی اس کام میں ملوث ہے.جبکہ وہاں کے وزیر اعظم شور مچارہے ہیں، کئی دفعہ بیان دے چکے ہیں کہ یہ اخبار کا کام ہے ہم اس کو نا پسند کرتے ہیں لیکن آزادی صحافت کی وجہ سے کچھ کہ نہیں سکتے.86
آزادی صحافت کیا چیز ہے، کیا نہیں وہ ایک الگ معاملہ ہے.لیکن بہر حال وہ اس چیز سے انکاری ہیں اور یہ اخبار کہہ رہا ہے کہ نہیں حکومت اس میں شامل ہے.تو اس خبر کے خلاف تو ڈنمارک کی حکومت بھی کارروائی کا حق رکھتی ہے.آج کل جبکہ مسلمان دنیا میں ڈنمارک کے خلاف آگ بھڑ کی ہوئی ہے اس اخبار نے ایک من گھڑت خبر شائع کر کے ان کے حوالے سے شائع کی ہے یہ تو مزید اس آگ کو تیل دینے والی بات ہے، ہوا دینے والی بات ہے.ہم نے جو ان سے رابطے کئے ہیں ڈنمارک کی اعلیٰ سیکیورٹی ایجنسی کے افسر نے تو صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے، تردید کی ہے کہ بالکل کبھی اس طرح نہیں ہوا اور نہ کوئی ہمارے پاس ایسی خبر ہے.بہر حال وہ کہتے ہیں ہم مزید تحقیق کریں گے اس سے مزید باتیں کھل جائیں گی.پہلے انہوں نے اخبار میں یہ خبر لکھی کہ اس کی ویڈیو ٹیپ ہمارے پاس ہے لیکن ہم نے جو اپنے رابطے کئے تو اب یہ کہنے لگے ہیں کہ نہیں ویڈ یوٹیپ نہیں آڈیوٹیپ ہے.تو جیسا کہ میں نے کہا کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے.یہ اپنے بیان بدلتے رہیں گے.اور یہی پاکستانی صحافت کا یا اس صحافت کا جس پر پاکستانی اثر ہے، حال ہے.لیکن بہر حال میں یہ بتا دوں کہ بات اب یہاں اس طرح ختم نہیں ہوگی.ہم پر یہ جو اتنا گھناؤنا الزام لگایا ہے اور ان حالات میں احمدیوں کے خلاف جو سازش کی گئی ہے ہم اس کو جہاں تک یہاں کا قانون ہمیں اجازت دیتا ہے انشاء اللہ انجام تک لے کر جائیں گے تاکہ مسلمانوں کو ، کم از کم ان مسلمانوں کو جو شریف فطرت لوگ ہیں، ان نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کے اخلاقی معیار کا پتہ لگ سکے.ہم پر تو ہمیشہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا گھناؤنے الزام لگائے جاتے رہے ہیں لیکن ہم ہمیشہ صبر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد، اس تعلیم کو سامنے رکھتے رہے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ : 87
صلى الله میں خوب جانتا ہوں کہ ہماری جماعت اور ہم جو کچھ ہیں اس حال میں اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی کہ ہم صراط مستقیم پر چلیں اور آنحضرت ﷺ کی کامل اور سچی اتباع کریں.قرآن شریف کی پاک تعلیم کو اپنا دستور العمل بناویں اور ان باتوں کو ہم اپنے عمل اور حال سے ثابت کریں نہ صرف قال سے.اگر ہم اس طریق کو اختیار کریں گے تو یقین یا درکھو کہ ساری دنیا بھی مل کر ہم کو ہلاک کرنا چاہے تو ہم ہلاک نہیں ہو سکتے.اس لئے کہ خدا ہمارے ساتھ ہوگا“.(انشاء اللہ ) (الحكم.24/ستمبر 1904ء.صفحه نمبر4) اللہ ہمیں ہمیشہ اس نصیحت کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیتار ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے اور ان بدفطرتوں کو اب عبرت کا نشان بنائے.88
☆☆ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجوانہ نعروں اور عمل سے غیر مذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں.✰✰ آنحضرت یہ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپ نے کئے.☆☆ آنحضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت سے آزادی ضمیر، آزادی مذہب اور مذہبی رواداری کے نہایت خوبصورت واقعات کا دلنشیں تذکرہ خطبه جمعه فرموده مؤرخہ 10 / مارچ 2006ء بمقام مسجد بیت الفتوح لندن.برطانیہ 89
90
أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ - اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.مسلمانوں کے بعض گروہوں کے خلاف اسلام عمل غیر مسلموں کو اسلام پر حملے کرنے میں ممد و معاون بنتے ہیں آنحضرت اللہ کی ذات پر غیر مسلموں کی طرف سے جو یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپ نعوذ باللہ ایسا دین لے کر آئے جس میں سوائے بختی اور قتل وغارت گری کے کچھ اور ہے ہی نہیں اور اسلام میں مذہبی رواداری ، برداشت اور آزادی کا تصور ہی نہیں ہے اور اسی تعلیم کے اثرات آج تک مسلمانوں کی فطرت کا حصہ بن چکے ہیں.اس بارہ میں کئی دفعہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بدقسمتی سے مسلمانوں میں سے ہی بعض طبقے اور گروہ یہ تصور پیدا کرنے اور قائم کرنے میں ممدومعاون ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کے اسی نظریے اور عمل نے غیر اسلامی دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارہ میں لغو اور بیہودہ اور انتہائی نازیبا اور غلیظ خیالات کے اظہار کا موقع پیدا کیا ہے.جبکہ ہم جانتے ہیں کہ بعض طبقوں اور گروہوں کے عمل مکمل طور پر اسلامی تعلیم اور ضابطہ اخلاق کے خلاف ہیں.اسلام کی تعلیم تو ایک ایسی خوبصورت تعلیم ہے جس کی خوبصورتی اور حسن سے ہر تعصب سے پاک شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.91
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کے متعلق اسلام کی خوبصورت تعلیم قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کی اس خوبصورت تعلیم کا ذکر ملتا ہے جس میں غیر مسلموں سے حسن سلوک ، ان کے حقوق کا خیال رکھنا ، ان سے انصاف کرنا، ان کے دین پر کسی قسم کا جبر نہ کرنا، دین کے بارہ میں کوئی سختی نہ کرنا وغیرہ کے بہت سے احکامات اپنوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لئے ہیں.ہاں بعض حالات میں جنگوں کی بھی اجازت ہے لیکن وہ اس صورت میں جب دشمن پہل کرے ، معاہدوں کو توڑے، انصاف کا خون کرے ظلم کی انتہا کرے یا ظلم کرے لیکن اس میں بھی کسی ملک کے کسی گروہ یا جماعت کا حق نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کا کام ہے کہ فیصلہ کرے کہ کیا کرنا ہے، کس طرح اس ظلم کو ختم کرنا ہے نہ کہ ہر کوئی جہادی تنظیم اٹھے اور یہ کام کرنا شروع کر دے.کفار مکہ اور دشمنان اسلام کی زیادتیوں اور ظلم کے بالمقابل آنحضور علی کا عظیم الشان اسوہ حسنہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی جنگوں کے مخصوص حالات پیدا کئے گئے تھے جن سے مجبور ہو کر مسلمانوں کو جوابی جنگیں لڑنی پڑیں.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ آج کل کی جہادی تنظیموں نے بغیر جائز وجوہات کے اور جائز اختیارات کے اپنے جنگجو آنہ نعروں اور عمل سے غیر مذہب والوں کو یہ موقع دیا ہے اور ان میں اتنی جرات پیدا ہوگئی ہے کہ انہوں نے نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے آنحضرت ﷺ کی پاک ذات پر بیہودہ حملے کئے ہیں اور کرتے رہے ہیں جبکہ اس سراپا رحم اور محسن انسانیت اور عظیم محافظ حقوق انسانی کا تو یہ حال تھا کہ آپ جنگ کی حالت میں بھی کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے جو دشمن کو سہولت نہ مہیا کرتا ہو.آپ کی زندگی کا ہر عمل، ہر فضل ، آپ کی زندگی کا پل پل اورلمحہ لحہ اس بات کا 92
گواہ ہے کہ آپ مجسم رحم تھے اور آپ کے سینے میں وہ دل دھڑک رہا تھا کہ جس سے بڑھ کر کوئی دل رحم کے وہ اعلیٰ معیار اور تقاضے پورے نہیں کر سکتا جو آپ نے کئے ، امن میں بھی اور جنگ میں بھی ، گھر میں بھی اور باہر بھی ، روزمرہ کے معمولات میں بھی اور دوسرے مذاہب والوں سے کئے گئے معاہدات میں بھی.آپ نے آزادی ضمیر ، مذہب اور رواداری کے معیار قائم کرنے کی مثالیں قائم کر دیں.اور پھر جب عظیم فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو جہاں مفتوح قوم سے معافی اور رحم کا سلوک کیا ، وہاں مذہب کی آزادی کا بھی پورا حق دیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی اعلیٰ مثال قائم کر دی کہ لَا اكْـــاه فـــى الـديـن (سورة البقره: آیت 257) کہ مذہب تمہارے دل کا معاملہ ہے، میری خواہش تو ہے کہ تم سچے مذہب کو مان لو اور اپنی دنیا و عاقبت سنوار لو، اپنی بخشش کے سامان کر لو لیکن کوئی جبر نہیں.آپ کی زندگی رواداری اور آزادی مذہب و ضمیر کی ایسی بے شمار روشن مثالوں سے بھری پڑی ہے.ان میں سے چند ایک کا میں ذکر کرتا ہوں.کون نہیں جانتا کہ مکہ میں آپ کی دعویٰ نبوت کے بعد کی 13 سالہ زندگی کتنی سخت تھی اور کتنی تکلیف دہ تھی اور آپ نے اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ یھیم نے کتنے دکھ اور مصیبتیں برداشت کیں.دوپہر کے وقت تپتی ہوئی گرم ریت پر لٹائے گئے ، گرم پتھر ان کے سینوں پر رکھے گئے.کوڑوں سے مارے گئے ، عورتوں کی ٹانگیں چیر کر مارا گیا، قتل کیا گیا شہید کیا گیا.آپ پر مختلف قسم کے مظالم ڈھائے گئے.سجدے کی حالت میں بعض دفعہ اونٹ کی اوجھڑی لا کر آپ کی کمر پر رکھ دی گئی جس کے وزن سے آپ اٹھ نہیں سکتے تھے.طائف کے سفر میں بچے آپ پر پتھراؤ کرتے رہے، بیہودہ اور غلیظ زبان استعمال کرتے رہے.ان کے سردار ان کو ہلا شیری دیتے رہے ، ان کو ابھارتے رہے.آپ اتنے زخمی ہو گئے کہ سر سے پاؤں تک لہولہان ہیں ، اوپر سے بہتا ہوا خون جوتی میں بھی آ گیا.93
شعب ابی طالب کا واقعہ ہے.آپ کو، آپ کے خاندان کو ، آپ کے ماننے والوں کو کئی سال تک محصور کر دیا گیا.کھانے کو کچھ نہیں تھا، پینے کو کچھ نہیں تھا.بچے بھی بھوک پیاس سے بلک رہے تھے، کسی صحابی کو ان حالات میں اندھیرے میں زمین پر پڑی ہوئی کوئی نرم چیز پاؤں میں محسوس ہوئی تو اسی کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا کہ شاید کوئی کھانے کی چیز ہو.یہ حالت تھی بھوک کی اضطراری کیفیت.تو یہ حالات تھے.آخر جب ان حالات سے مجبور ہوکر ہجرت کرنی پڑی اور ہجرت کر کے مدینہ میں آئے تو وہاں بھی دشمن نے پیچھا نہیں چھوڑا اور حملہ آور ہوئے.مدینہ کے رہنے والے یہودیوں کو آپ کے خلاف بھڑکانے کی کوشش کی.ان حالات میں جن کا میں نے مختصر اذکر کیا ہے اگر جنگ کی صورت پیدا ہو اور مظلوم کو بھی جواب دینے کا موقع ملے ، بدلہ لینے کا موقع ملے تو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ پھر اس ظلم کا بدلہ بھی ظلم سے لیا جائے.کہتے ہیں کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے.لیکن ہمارے نبی علية و اللہ نے اس حالت میں بھی نرم دلی اور رحمت کے اعلیٰ معیار قائم فرمائے.مکہ سے آئے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گذرا تھا تمام تکلیفوں کے زخم ابھی تازہ تھے.آپ کو اپنے ماننے والوں کی تکلیفوں کا احساس اپنی تکلیفوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا.لیکن پھر بھی اسلامی تعلیم اور اصول وضوابط کو آپ نے نہیں تو ڑا.جو اخلاقی معیار آپ کی فطرت کا حصہ تھے اور جو تعلیم کا حصہ تھے ان کو نہیں تو ڑا.آج دیکھ لیں بعض مغربی ممالک جن سے جنگیں لڑ رہے ہیں ان سے کیا کچھ نہیں کرتے.لیکن اس کے مقابلہ میں آپ کا اسوہ دیکھیں جس کا تاریخ میں ، ایک روایت میں یوں ذکر ملتا ہے.جنگ بدر کے موقع پر جس جگہ اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا تھا وہ کوئی ایسی اچھی جگہ نہیں تھی.اس پر حباب بن منذر نے آپ صلی اللہ سے دریافت کیا کہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالنے کی جگہ منتخب کی ہے آیا یہ کسی خدائی الہام کے ماتحت ہے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بتایا 94
ہے یا یہ جگہ آپ نے خود پسند کی ہے؟ آپ کا خیال ہے کہ فوجی تدبیر کے طور پر یہ جگہ اچھی ہے؟ تو آنحضرت علی اللہ نے فرمایا کہ یہ تو محض جنگی حکمت عملی کے باعث میرا خیال تھا کہ یہ جگہ بہتر ہے، اونچی جگہ ہے تو انہوں نے عرض کی کہ یہ مناسب جگہ نہیں ہے.آپ لوگوں کو لے کر چلیں اور پانی کے چشمہ پر قبضہ کر لیں.وہاں ایک حوض بنالیں گے اور پھر جنگ کریں گے.اس صورت میں ہم تو پانی پی سکیں گے لیکن دشمن کو پانی پینے کے لئے نہیں ملے گا.تو آپ نے فرمایا ٹھیک ہے چلو تمہاری رائے مان لیتے ہیں.چنانچہ صحابہ چل پڑے اور وہاں پڑاؤ ڈالا.تھوڑی دیر کے بعد قریش کے چند لوگ پانی پینے اس حوض پر آئے تو صحابہ نے روکنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا: نہیں ان کو پانی لے لینے دو.(السيرة النبوية لابن هشام جلد نمبر 2.صفحه 284.غزوة بدر الكبرى.مشورة الحباب على الرسول عليه الله) اسلام تلوار کے زور سے نہیں بلکہ حسن اخلاق اور اسلام میں آزادی ضمیر و مذہب کی تعلیم سے پھیلا ہے تو یہ ہے اعلیٰ معیار آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا کہ باوجود اس کے کہ دشمن نے کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے بچوں تک کا دانہ پانی بند کیا ہوا تھا.لیکن آپ نے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے دشمن کی فوج کے سپاہیوں کو جو پانی کے تالاب، چشمے تک پانی لینے کے لئے آئے تھے اور جس پر آپ کا تصرف تھا، آپ کے قبضے میں تھا، انہیں پانی لینے سے نہ روکا.کیونکہ یہ اخلاقی ضابطوں سے گری ہوئی حرکت تھی.اسلام پر سب سے بڑا اعتراض یہی کیا جاتا ہے کہ تلوار کے زور سے پھیلایا گیا.یہ لوگ جو پانی لینے آئے تھے ان سے زبر دستی بھی کی جا سکتی تھی کہ پانی لینا ہے تو ہماری شرطیں مان لینا.کفار کئی جنگوں میں اس طرح کرتے رہے 95
ہیں.لیکن نہیں ، آپ نے اس طرح نہیں فرمایا.یہاں کہا جاسکتا ہے کہ ابھی مسلمانوں میں پوری طاقت نہیں تھی ، کمزوری تھی ، اس لئے شاید جنگ سے بچنے کیلئے یہ احسان کی کوشش کی ہے.حالانکہ یہ غلط بات ہے.مسلمانوں کے بچے بچے کو یہ پتہ تھا کہ کفار مکہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں اور مسلمان کی شکل دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے.اس لئے یہ خوش فہمی کسی کو نہیں تھی اور آنحضرت ﷺ کو تو اس قسم کی خوش فہمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.آپ نے تو یہ سب کچھ ، یہ شفقت کا سلوک سراپا رحمت ہونے اور انسانی قدروں کی پاسداری کی وجہ سے کیا تھا.کیونکہ آپ نے ہی ان قدروں کی پہچان کی تعلیم دینی تھی.پھر اس دشمن اسلام کا واقعہ دیکھیں جس کے قتل کا حکم جاری ہو چکا تھا.لیکن آپ نے نہ صرف اسے معاف فرمایا بلکہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے اسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت آپ نے عطا فرمائی.چنانچہ اس واقعہ کا ذکر یوں ملتا ہے کہ : ابو جہل کا بیٹا عکرمہ اپنے باپ کی طرح عمر بھر رسول اللہ علیم اللہ سے جنگیں کرتا رہا.فتح مکہ کے موقع پر بھی رسول کریم صلی اللہ کے اعلان عفو اور امان کے باوجود فتح مکہ کے موقع پر ایک دستے پر حملہ آور ہوا اور حرم میں خونریزی کا باعث بنا.اپنے جنگی جرائم کی وجہ سے ہی وہ واجب القتل ٹھہرایا گیا تھا.لیکن مسلمانوں کے سامنے اس وقت کوئی نہیں ٹھہر سکا تھا.اس لئے فتح مکہ کے بعد جان بچانے کیلئے وہ یمن کی طرف بھاگ گیا.اس کی بیوی رسول اللہ علیم اللہ سے اس کی معافی کی طالب ہوئی تو آپ نے بڑی شفقت فرماتے ہوئے اسے معاف فرما دیا.اور پھر جب وہ اپنے خاوند کو لینے کیلئے خود گئی تو عکرمہ کو اس معافی پر یقین نہیں آتا تھا کہ میں نے اتنے ظلم کئے ہوئے ہیں، اتنے مسلمان قتل کئے ہوئے ہیں، آخری دن تک میں لڑائی کرتا رہا تو مجھے کس طرح معاف کیا جا سکتا ہے.بہر حال وہ کسی طرح یقین دلا کر اپنے خاوند عکرمہ کو واپس لے آئی.چنانچہ جب عکرمہ واپس آئے تو آنحضرت علی الی اللہ 96
کے دربار میں حاضر ہوئے اور اس بات کی تصدیق چاہی تو اس کی آمد پر رسول اللہ صلی اللہ نے اس سے احسان کا حیرت انگیز سلوک کیا.پہلے تو آپ دشمن قوم کے سردار کی عزت کی خاطر کھڑے ہو گئے کہ یہ دشمن قوم کا سردار ہے اس لئے اس کی عزت کرنی ہے.اس لئے کھڑے ہو گئے اور پھر عکرمہ کے پوچھنے پر فرمایا کہ واقعی میں نے تمہیں معاف کر دیا ہے.(موطا امام مالک کتاب النكاح.نكاح المشرك اذا اسلمت زوجته (قبله) عکرمہ نے پھر پوچھا کہ اپنے دین پر رہتے ہوئے ؟ یعنی میں مسلمان نہیں ہوا.اس شرک کی حالت میں مجھے آپ نے معاف کیا ہے، آپ نے مجھے بخش دیا ہے.تو آپ نے فرمایا کہ ہاں.اس پر عکرمہ کا سینہ اسلام کیلئے کھل گیا اور بے اختیار کہہ اٹھا کہ اے محمد (اللہ) آپ واقعی بے حد حلیم اور کریم اور صلہ رحمی کرنے والے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ کے حسن خلق اور احسان کا یہ معجزہ دیکھ کر عکرمہ مسلمان ہو گیا.(السيرة الحلبيه.جلد سوم صفحه 109 - مطبوعه بيروت.باب ذكر مغازية عالم فتح مكة شرفها الله تعالى) تو اسلام اس طرح حسن اخلاق سے اور آزادی ضمیر و مذہب کے اظہار کی اجازت سے پھیلا ہے.حسن خلق اور آزادی مذہب کا یہ تیر ایک منٹ میں عکرمہ جیسے شخص کو گھائل کر گیا.آنحضرت اللہ نے قیدیوں اور غلاموں تک کو یہ اجازت دی تھی کہ جو مذہب چاہو اختیار کرو.لیکن اسلام کی تبلیغ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم کے بارہ میں بتاؤ کیونکہ لوگوں کو پتہ نہیں ہے.یہ خواہش اس لئے ہے کہ یہ تمہیں اللہ کا قرب عطا کرے گی اور تمہاری ہمدردی کی خاطر ہی ہم تم سے یہ کہتے ہیں.چنانچہ ایک قیدی کا ایک واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے.سعید بن ابی سعید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول کریم عبید اللہ نے 97
نجد کی طرف مہم بھیجی تو بوحنیفہ کے ایک شخص کو قیدی بنا کر لائے جس کا نام شمامہ بن اثال تھا.صحابہ نے اسے مسجد نبوی کے ستون کے ساتھ باندھ دیا.رسول کریم عبد اللہ اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے ثمامہ تیرے پاس کیا عذر ہے یا تیرا کیا خیال ہے کہ تجھ سے کیا معاملہ ہو گا.اس نے کہا میر اظن اچھا ہے.اگر آپ مجھے قتل کر دیں تو آپ ایک خون بہانے والے شخص کو قتل کریں گے اور اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.اور اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہے لے لیں.اس کے لئے اتنا مال اس کی قوم کی طرف سے دیا جاسکتا تھا.یہاں تک کہ اگلا دن چڑھ آیا.آپ علیہ اللہ پھر تشریف لائے اور ثمامہ سے پوچھا کیا ارادہ ہے.چنانچہ ثمامہ نے عرض کی کہ میں تو کل ہی آپ سے عرض کر چکا تھا کہ اگر آپ انعام کریں تو آپ ایک ایسے شخص پر انعام کریں گے جو کہ احسان کی قدردانی کرنے والا ہے.آپ عیدی اللہ نے اس کو وہیں چھوڑا.پھر تیسرا دن چڑھا پھر آپ اس کے پاس گئے آپ نے فرمایا اے ثمامہ تیرا کیا ارادہ ہے؟ اس نے عرض کی جو کچھ میں نے کہنا تھاوہ کہہ چکا ہوں.آپ علی اللہ نے فرمایا اسے آزاد کر دو.تو تمامہ کو آزاد کر دیا گیا.اس پر وہ مسجد کے قریب کھجوروں کے باغ میں گیا اور غسل کیا اور مسجد میں داخل ہو کر کلمہ شہادت پڑھا.اور کہا اے محمد علی اللہ بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ نا پسند آپ کا چہرہ ہوا کرتا تھا اور اب یہ حالت ہے کہ مجھے سب سے زیادہ محبوب آپ کا چہرہ ہے.بخدا مجھے دنیا میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ آپ کا دین ہوا کرتا تھا.لیکن اب یہ حالت ہے کہ میرا محبوب ترین دین آپ کا لایا ہوا دین ہے.بخدا میں سب سے زیادہ ناپسند آپ کے شہر کو کرتا تھا.اب یہی شہر میرا محبوب ترین شہر ہے.آپ کے گھوڑ سواروں نے مجھے پکڑ لیا جبکہ میں عمرہ کرنا چاہتا تھا.آپ علیم اس کے بارہ میں کیا ارشاد فرماتے ہیں.رسول اللہ علیم اللہ سے پوچھا کہ جا تو میں عمرہ کرنے کے لئے رہا تھا اب آپ کا کیا ارشاد 98
ہے.تو رسول اللہ صل اللہ نے اُسے خوشخبری دی، مبارکباددی اسلام قبول کرنے کی اور اسے حکم دیا کہ عمرہ کرو، اللہ قبول فرمائے گا.جب وہ مکہ پہنچا تو کسی نے کہا کہ کیا تو صابی ہو گیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ میں محمد رسول اللہ علب اللہ پر ایمان لے آیا ہوں اور خدا کی قسم اب آئندہ سے یمامہ کی طرف سے گندم کا ایک دانہ بھی تمہارے پاس نہیں آئے گا یہانتک کہ نبی ﷺ اسکی اجازت مرحمت فرما دیں.(بخاری کتاب المغازى باب وفد بنى حنيفه.وحديث تُمَامة بن اثال) ایک دوسری روایت میں ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ عمرہ کرنے گئے تو کفار مکہ نے ان کے اسلام کا معلوم ہونے پر انہیں مارنے کی کوشش کی یا مارا.اس پر انہوں نے کہا کہ کوئی دانہ نہیں آئے گا.اور یہ اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک نبی کریم صلی اللہ کی طرف سے اجازت نہ آجائے.چنانچہ اس نے جاکے اپنی قوم کو کہا اور وہاں سے غلہ آنا بند ہو گیا.کافی بری حالت ہو گئی.پھر ابوسفیان آنحضرت علی اللہ کی خدمت میں درخواست علی عليه لے کر پہنچے کہ اس طرح بھوکے مر رہے ہیں اپنی قوم پر کچھ رحم کریں.تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ غلہ اس وقت ملے گا جب تم مسلمان ہو جاؤ بلکہ فورا ثمامہ کو پیغام بھجوایا کہ یہ پابندی ختم کرو، یہ ظلم ہے.بچوں، بڑوں ، مریضوں ، بوڑھوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے ان کو مہیا ہوتی چاہئے.(السيرة النبوية لابن هشام أسر ثمامة ابن أثال الحنفى واسلامه.خروجه الى مكّة وقصته مع قريش) تو دوسرے یہ دیکھیں کہ قیدی تمامہ سے یہ نہیں کہا کہ اب تم ہمارے قابو میں ہو تو مسلمان ہو جاؤ.تین دن تک ان کے ساتھ حسن سلوک ہوتا رہا اور پھر حسن سلوک کے بھی اعلیٰ معیار قائم ہوئے.آزاد کر دیا اور پھر دیکھیں ثمامہ بھی بصیرت رکھتے تھے اس آزادی کو حاصل 99
کرتے ہی انہوں نے اپنے آپ کو آپ عیبی یا اللہ کی غلامی میں جکڑے جانے کیلئے پیش کر دیا کہ اسی غلامی میں میری دین و دنیا کی بھلائی ہے.پھر ایک یہودی غلام کو مجبور نہیں کیا کہ تم غلام ہو میرے قابو میں ہو اس لئے جو میں کہتا ہوں کرو، یہاں تک کہ اس کی ایسی بیماری کی حالت ہوئی جب دیکھا کہ اس کی حالت خطرہ میں ہے تو اس کے انجام بخیر کی فکر ہوئی.یہ فکر تھی کہ وہ اس حالت میں دنیا سے نہ جائے جبکہ خدا کی آخری شریعت کی تصدیق نہ کر رہا ہو بلکہ ایسی حالت میں جائے جب تصدیق کر رہا ہو.تا کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے سامان ہوں.تب عیادت کے لئے گئے اور اسے بڑے پیار سے کہا کہ اسلام قبول کر لے.چنانچہ حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم عیب اللہ کا ایک خادم یہودی لڑکا تھا جو بیمار ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ اس کی عیادت کیلئے تشریف لے گئے اسکے سرہانے تشریف فرما ہوئے اور فرمایا تو اسلام قبول کر لے.ایک اور روایت میں ہے اس نے اپنے بڑوں کی طرف دیکھا لیکن بہر حال اس نے اجازت ملنے پر یا خود ہی خیال آنے پر اسلام قبول کرلیا.(صحيح بخاري كتاب الجنائز باب: اذا اسلم الصبي فمات.حدیث نمبر 1356) تو یہ جو اسلام اس نے قبول کیا یہ یقیناً اس پیار کے سلوک اور آزادی کا اثر تھا جو اس لڑکے پر آپ کی غلامی کی وجہ سے تھا کہ یقیناً یہ سچا مذہب ہے اس لئے اس کو قبول کرنے میں بچت ہے.کیونکہ ہو نہیں سکتا کہ یہ سرا پا شفقت و رحمت میری برائی کا سوچے.آپ یقیناً برحق ہیں اور ہمیشہ دوسرے کو بہترین بات ہی کی طرف بلاتے ہیں ، بہترین کام کی طرف ہی بلاتے ہیں، اسی کی تلقین کرتے ہیں.پس یہ آزادی ہے جو آپ نے قائم کی.دنیا میں کبھی اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی.100
آپ صلی اللہ دعوی نبوت سے پہلے بھی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب اور زندگی کی آزادی پسند فرماتے تھے اور غلامی کو ناپسند فرماتے تھے.چنانچہ جب حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے شادی کے بعد اپنا مال اور غلام آپ کو دے دیئے تو آپ نے حضرت خدیجہ کو فرمایا کہ اگر یہ سب چیزیں مجھے دے رہی ہو تو پھر یہ میرے تصرف میں ہوں گے اور جوئیں چاہوں گا کروں گا.انہوں نے عرض کی اسی لئے میں دے رہی ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں غلاموں کو بھی آزاد کر دوں گا.انہوں نے عرض کی آپ جو چاہیں کریں میں نے آپ کو دے دیا، میرا اب کوئی تصرف نہیں ہے، یہ مال آپ کا ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلاموں کو بلایا اور فرمایا کہ تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ بھی غرباء میں تقسیم کر دیا.جو غلام آپ نے آزاد کئے ان میں ایک غلام زید نامی بھی تھے وہ دوسرے غلاموں سے لگتا ہے زیادہ ہوشیار تھے، ذہین تھے.انہوں نے اس بات کو سمجھ لیا کہ یہ جو مجھے آزادی ملی ہے یہ آزادی تو اب مل گئی ، غلامی کی جو مہرلگی ہوئی ہے وہ اب ختم ہو گئی لیکن میری بہتری اسی میں ہے کہ میں آپ عیب اللہ کی غلامی میں ہی ہمیشہ رہوں.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے آپ نے مجھے آزاد کر دیا ہے لیکن میں آزاد نہیں ہوتا ہمیں تو آپ کے ساتھ ہی غلام بن کے رہوں گا.چنانچہ آپ آنحضور عبید اللہ کے پاس ہی رہے اور یہ دونوں طرف سے محبت کا، پیار کا تعلق بڑھتا چلا گیا.زید ایک مالدار خاندان کے آدمی تھے ، اچھے کھاتے پیتے گھر کے آدمی تھے، ڈاکوؤں نے ان کو اغوا کر لیا تھا اور پھر ان کو بیچتے رہے اور بکتے بکاتے وہ یہاں تک پہنچے تھے تو ان کے جو والدین تھے رشتہ دار عزیز بھی تلاش میں تھے.آخر ان کو پتہ لگا کہ یہ لڑ کا مکہ میں ہے تو مکہ آگئے اور پھر جب پتہ لگا کہ آنحضرت علی اللہ کے پاس ہیں تو آپ کی مجلس عليه وسلم میں پہنچے اور وہاں جا کے عرض کی کہ آپ جتنا مال چاہیں ہم سے لے لیں اور ہمارے بیٹے کو 101
آزاد کر دیں، اس کی ماں کا رورو کے برا حال ہے.تو آپ نے فرمایا کہ میں تو اس کو پہلے ہی آزاد کر چکا ہوں.یہ آزاد ہے.جانا چاہتا ہے تو چلا جائے اور کسی پیسے کی مجھے ضرورت نہیں ہے.انہوں نے کہا بیٹے چلو.بیٹے نے جواب دیا کہ آپ سے مل لیا ہوں اتنا ہی کافی ہے.کبھی موقع ملا تو ماں سے بھی ملاقات ہو جائے گی.لیکن اب میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا.میں تو اب آنحضرت علی یا اللہ کا غلام ہو چکا ہوں آپ سے جدا ہونے کا مجھے سوال نہیں.ماں باپ سے زیادہ محبت اب مجھے آپ علی ہی اللہ سے ہے.زید کے باپ اور چچا وسلم وغیرہ نے بڑا زور دیا لیکن انہوں نے انکار کر دیا.زید کی اس محبت کو دیکھ کر آنحضرت ل اللہ نے فرمایا تھا کہ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے.اس صورتحال کو دیکھ کر پھر زید کے باپ اور چچا وہاں سے اپنے وطن واپس چلے گئے اور پھر زید ہمیشہ وہیں رہے.( ملخص از دیباچه تفسير القرآن صفحه 112) تو نبوت کے بعد تو آپ کے ان آزادی کے معیاروں کو چار چاند لگ گئے تھے.اب تو آپ کی نیک فطرت کے ساتھ آپ پر اُترنے والی شریعت کا بھی حکم تھا کہ غلاموں کو ان کے حقوق دو.اگر نہیں دے سکتے تو آزاد کر دو.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو مار رہے تھے تو آنحضرت علی اللہ نے دیکھا اور بڑے غصے کا اظہار فرمایا.اس پر ان صحابی نے اس غلام کو آزاد کر دیا.کہا کہ میں ان کو آزاد کرتا ہوں.تو آنحضرت عبید اللہ نے فرمایا تم نہ آزاد کرتے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آتے.(صحيح مسلم کتاب الایمان.باب صحبة الممالیک حدیث نمبر 4308) تو اب دیکھیں یہ ہے آزادی.پھر دوسرے مذہب کے لوگوں کیلئے اپنی اظہار رائے کا 102
حق اور آزادی کی بھی ایک مثال دیکھیں.اپنی حکومت میں جبکہ آپ کی حکومت مدینے میں قائم ہو چکی تھی اس وقت اس آزادی کا نمونہ ملتا ہے.ایک روایت میں آتا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے.ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی.مسلمان نے کہا اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو تمام جہانوں پر منتخب کر کے فضیلت عطا کی.اس پر یہودی نے کہا اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اور چن لیا.اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھایا اور یہودی کو تھپڑ مار دیا.یہودی شکایت لے کر آنحضرت علیہ اللہ کے پاس حاضر ہوا جس پر آنحضرت صلی اللہ نے مسلمان سے تفصیل پوچھی اور پھر فرمايا: لَا تُخَيَّرُونى عَلَى مُوسی کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو.(بخاری کتاب الخصومات باب ما يذكر في الأشخاص والخصومة بين المسلم واليهود) تو یہ تھا آپ کا معیار آزادی ، آزادی مذہب اور ضمیر ، کہ اپنی حکومت ہے ، مدینہ ہجرت کے بعد آپ نے مدینہ کے قبائل اور یہودیوں سے امن و امان کی فضا قائم رکھنے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا جس کی رو سے مسلمانوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے یا مسلمانوں کے ساتھ جو لوگ مل گئے تھے، وہ مسلمان نہیں بھی ہوئے تھے ان کی وجہ سے حکومت آپ عبید اللہ کے ہاتھ میں تھی.لیکن اس حکومت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ دوسری رعایا ، رعایا کے دوسرے لوگوں کے ، ان کے جذبات کا خیال نہ رکھا جائے.قرآن کریم کی اس گواہی کے باوجود کہ آپ تمام رسولوں سے افضل ہیں، آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ انبیاء کے مقابلہ کی وجہ سے فضا کو مکدر کیا جائے.آپ نے اس یہودی کی بات سن کر مسلمان کی ہی سرزنش کی کہ تم لوگ اپنی لڑائیوں میں انبیاء کو نہ لایا کرو.ٹھیک ہے تمہارے نزدیک میں تمام رسولوں سے افضل ہوں.اللہ تعالیٰ بھی اس کی گواہی دے رہا ہے لیکن ہماری حکومت میں ایک شخص کی دلآزاری 103
اس لئے نہیں ہونی چاہئے کہ اس کے نبی کو کسی نے کچھ کہا ہے.اس کی میں اجازت نہیں دے سکتا.میرا احترام کرنے کیلئے تمہیں دوسرے انبیاء کا بھی احترام کرنا ہوگا.تو یہ تھے آپ کے انصاف اور آزادی اظہار کے معیار جو اپنوں غیروں سب کا خیال رکھنے کیلئے آپ نے قائم فرمائے تھے.بلکہ بعض اوقات غیروں کے جذبات کا زیادہ خیال رکھا جاتا تھا.انسانی اقدار کو قائم کرنے اور مذہبی رواداری کے لئے آنحضرت علی کا بے مثال عملی نمونہ آپ کے انسانی اقدار قائم کرنے اور آپ کی رواداری کی ایک اور مثال ہے.روایت میں آتا ہے عبد الرحمن بن ابی لیلہ بیان کرتے ہیں کہ سہل بن حنیف اور قیس بن سعد قادسیہ کے مقام پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے پاس سے ایک جنازہ گزرا.تو وہ دونوں کھڑے ہو گئے.جب ان کو بتایا گیا کہ یہ ذمیوں میں سے ہے تو دونوں نے کہا کہ ایک دفعہ نبی کریم للہ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ احتراما کھڑے ہو گئے.آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے.اس پر رسول کریم عبیدی اللہ نے فرمایا کہ اليْسَتْ نَفْسًا کیا وہ عليه وسلم انسان نہیں ہے.(صحیح بخارى كتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودى) پس یہ احترام ہے دوسرے مذہب کا بھی اور انسانیت کا بھی.یہ اظہار اور یہ نمونے ہیں جن سے مذہبی رواداری کی فضا پیدا ہوتی ہے.یہ اظہار ہی ہیں جن سے ایک دوسرے کے لئے نرم جذبات پیدا ہوتے ہیں اور یہ جذبات ہی ہیں جن سے پیار، محبت اور امن کی فضا پیدا ہوتی ہے.نہ کہ آجکل کے دنیا داروں کے عمل کی طرح کہ سوائے نفرتوں کی فضا پیدا 104
کرنے کے اور کچھ نہیں.پھر ایک روایت میں آتا ہے فتح خیبر کے دوران تو رات کے بعض نسخے مسلمانوں کو ملے.یہودی آنحضرت عبد السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ ہماری کتاب مقدس ہمیں واپس کی جائے اور رسول کریم صلی اللہ نے صحابہ کو حکم دیا کہ یہود کی مذہبی کتابیں ان کو واپس کردو.(السيرة الحلبية ـ باب ذكر مغازية عل الله غزة خيبر.جلد 3 صفحه 49) باوجود اس کے کہ یہودیوں کے غلط رویے کی وجہ سے ان کو سزائیں مل رہی تھیں آپ نے یہ برداشت نہیں فرمایا کہ دشمن سے بھی ایسا سلوک کیا جائے جس سے اس کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے.یہ چند انفرادی واقعات میں نے بیان کئے ہیں اور میں نے ذکر کیا تھا کہ مدینہ میں ایک معاہدہ ہوا تھا.اُس معاہدے کے تحت آنحضرت عبیدی اللہ نے جو شقیں قائم فرمائی تھیں، نے جو روایات پہنچی ہیں ان کا میں ذکر کرتا ہوں کہ کس طرح اس ماحول میں جا کر آپ نے رواداری کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی ہے اور اُس معاشرہ میں امن قائم فرمانے کیلئے آپ کیا چاہتے تھے؟ تاکہ معاشرہ میں بھی امن قائم ہو اور انسانیت کا شرف بھی قائم ہو.مدینہ پہنچنے کے بعد آپ نے یہودیوں سے جو معاہدہ فرمایا اس کی چند شرائط یہ تھیں کہ -1.مسلمان اور یہودی آپس میں ہمدردی اور اخلاص کے ساتھ رہیں گے اور ایک دوسرے کے خلاف زیادتی یا ظلم سے کام نہ لیں گے.( اور باوجود اس کے کہ ہمیشہ اس شق کو یہودی توڑتے رہے مگر آپ احسان کا سلوک فرماتے رہے یہاں تک کہ جب انتہا ہوگئی تو یہودیوں کے خلاف مجبوراً سخت اقدام کرنے پڑے.) 2.دوسری شرط یہ تھی کہ ہر قوم کو مذہبی آزادی حاصل ہوگی.( باوجود مسلمان اکثریت 105
کے تم اپنے مذہب میں آزاد ہو.) -3 تیسری شرط یہ تھی کہ تمام باشندگان کی جانیں اور اموال محفوظ ہوں گے اور ان کا احترام کیا جائے گا سوائے اس کے کہ کوئی شخص ظلم یا جرم کا مرتکب ہو.(اس میں بھی اب کوئی تفریق نہیں ہے.جرم کا مرتکب چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو اس کو بہر حال سزا ملے گی.باقی حفاظت کرنا سب کا مشتر کہ کام ہے ، حکومت کا کام ہے.) -4.پھر یہ کہ ہر قسم کے اختلاف اور تنازعات رسول اللہ علی الی اللہ کے سامنے فیصلہ کیلئے پیش ہوں گے اور ہر فیصلہ خدائی حکم کے مطابق کیا جائے گا“.(اور خدائی حکم کی تعریف یہ ہے کہ ہر قوم کی اپنی شریعت کے مطابق.فیصلہ بہر حال آنحضرت عبیدی اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے کیونکہ اس وقت حکومت کے مقتدر اعلیٰ آپ تھے.اس لئے آپ نے فیصلہ فرمانا تھا لیکن فیصلہ اس شریعت کے مطابق ہوگا اور جب یہودیوں کے بعض فیصلے ایسے ہوئے ان کی شریعت کے مطابق تو اس پر ہی اب عیسائی اعتراض کرتے ہیں یا دوسرے مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ جی ظلم ہوا.حالانکہ ان کے کہنے کے مطابق ان کی شرائط پر ہی ہوئے تھے.) پھر ایک شرط یہ ہے کہ ” کوئی فریق بغیر اجازت رسول اللہ (صلی اللہ ) کے جنگ کیلئے نہیں نکلے گا.اس لئے حکومت کے اندر رہتے ہوئے اس حکومت کا پابند ہونا ضروری ہے.اب یہ جو شرط ہے یہ آجکل کی جہادی تنظیموں کیلئے بھی راہنما ہے کہ جس حکومت میں رہ رہے ہیں اس کی اجازت کے بغیر کسی قسم کا جہاد نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ اس حکومت کی فوج میں شامل ہو جائیں اور پھر اگر ملک لڑے یا حکومت تو پھر ٹھیک ہے.) ہر علیل پھر ایک شرط ہے کہ اگر یہودیوں اور مسلمانوں کے خلاف کوئی قوم جنگ کرے گی تو وہ ایک دوسرے کی امداد میں کھڑے ہوں گے“.(یعنی دونوں میں سے کسی فریق کے خلاف اگر جنگ ہوگی تو دوسرے کی امداد کریں گے اور دشمن سے صلح کی صورت میں مسلمان 106
اور غیر مسلم دونوں کو اگر صلح میں کوئی منفعت مل رہی ہے، کوئی نفع مل رہا ہے، کوئی فائدہ ہورہا ہے تو اس فائدہ کو ہر ایک حصہ رسدی حاصل کرے گا.) اسی طرح اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہوگا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے.پھر ایک شرط ہے کہ ” قریش مکہ اور ان کے معاونین کو یہود کی طرف سے کسی قسم کی امداد یا پناہ نہیں دی جائے گی.‘ ( کیونکہ مخالفین مکہ نے ہی مسلمانوں کو وہاں سے نکالا تھا.مسلمانوں نے یہاں آکر پناہ لی تھی اس لئے اب اس حکومت میں رہنے والے اس دشمن قوم سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کر سکتے اور نہ کوئی مددلیں گے.) ہر قوم اپنے اخراجات خود برداشت کرے گی“.( یعنی اپنے اپنے خرچ خود کریں گے.) اس معاہدہ کی رو سے کوئی ظالم یا آتم یا مفسد اس بات سے محفوظ نہیں ہوگا کہ اسے سزا دی جاوے یا اس سے انتقام لیا جاوے“.(یعنی جیسا کہ پہلے بھی آچکا ہے کہ جو کوئی ظالم ہو گا، گناہ کرنے والا ہو گا غلطی کرنے والا ہو گا.بہر حال اس کو سزا ملے گی ، پکڑ ہوگی.اور یہ بلاتفریق ہوگی ، چاہے وہ مسلمان ہے یا یہودی ہے یا کوئی اور ہے.) (ملخص از سیرت خاتم النبيين.صفحه 279) پھر اسی مذہبی رواداری اور آزادی کو قائم رکھنے کیلئے آپ نے نجران کے وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دی اور انہوں نے مشرق کی طرف منہ کر کے اپنی عبادت کی.جبکہ صحابہ کا خیال تھا کہ نہیں کرنی چاہئے.آپ نے کہا کوئی فرق نہیں پڑتا.پھر اہل نجران کو جو امان نامہ آپ نے دیا اس کا بھی ذکر ملتا ہے اس میں آپ نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری قبول فرمائی کہ مسلمان فوج کے ذریعہ سے ان عیسائیوں کی (جو نجران میں آئے تھے ) سرحدوں کی حفاظت کی جائے گی.ان کے گرجے ان کے عبادت خانے ، مسافر خانے خواہ وہ کسی دور دراز علاقے میں ہوں یا شہروں میں ہوں یا پہاڑوں میں ہوں یا 107
جنگلوں میں ہوں ان کی حفاظت مسلمانوں کی ذمہ داری ہے.ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی ہوگی اور اُن کی اس آزادی عبادت کی حفاظت بھی مسلمانوں پر فرض ہے اور آنحضرت صلی اللہ نے فرمایا کیونکہ اب یہ مسلمان حکومت کی رعایا ہیں اس لئے اس کی حفاظت اس لحاظ سے بھی مجھ پر فرض ہے کہ اب یہ میری رعایا بن چکے ہیں.پھر آگے ہے کہ اسی طرح مسلمان اپنی جنگی مہموں میں انہیں (یعنی نصاری کو ) ان کی مرضی کے بغیر شامل نہیں کریں گے.ان کے پادری اور مذہبی لیڈر جس پوزیشن اور منصب پر ہیں وہ وہاں سے معزول نہیں کئے جائیں گے.اسی طرح اپنے کام کرتے رہیں گے.ان کی عبادت گاہوں میں مداخلت نہیں ہوگی وہ کسی بھی صورت میں زیر استعمال نہیں لائی جائیں گی.نہ سرائے بنائی جائیں گی نہ وہاں کسی کو ٹھہرایا جائے گا اور نہ کسی اور مقصد میں ان سے پوچھے بغیر استعمال میں لایا جائے گا.علماء اور راہب جہاں کہیں بھی ہوں ان سے جزیہ اور خراج وصول نہیں کیا جائے گا.اگر کسی مسلمان کی عیسائی بیوی ہو گی تو اسے مکمل آزادی ہوگی کہ وہ اپنے طور پر عبادت کرے.اگر کوئی اپنے علماء کے پاس جا کر مسائل پوچھنا چاہے تو جائے.گرجوں وغیرہ کی مرمت کیلئے آپ نے فرمایا کہ اگر وہ مسلمانوں سے مالی امداد لیں اور اخلاقی امداد لیں تو مسلمانوں کو مدد کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہتر چیز ہے اور یہ نہ قرض ہوگا اور نہ احسان ہوگا بلکہ اس معاہدہ کو بہتر کرنے کی ایک صورت ہو گی کہ اس طرح کے سوشل تعلقات اور ایک دوسرے کی مدد کے کام کئے جائیں.(تلخیص از زاد المعاد في هدي خير العباد.فصل في قدوم وفد نجران) تو یہ تھے آپ صلی اللہ کے معیار مذہبی آزادی اور رواداری کے قیام کیلئے.اس کے باوجود آپ پر ظلم کرنے اور تلوار کے زور پر اسلام پھیلانے کا الزام لگانا انتہائی ظالمانہ حرکت ہے.108
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : پس جبکہ اہل کتاب اور مشرکین عرب نہایت درجہ بدچلن ہو چکے تھے اور بدی کر کے سمجھتے تھے کہ ہم نے نیکی کا کام کیا ہے اور جرائم سے باز نہیں آتے تھے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے تو خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کے ہاتھ میں عنان حکومت دے کر ان کے ہاتھ سے غریبوں کو بچانا چاہا.اور چونکہ عرب کا ملک مطلق العنان تھا اور وہ لوگ کسی بادشاہ کی حکومت کے ماتحت نہیں تھے اس لئے ہر ایک فرقہ نہایت بے قیدی اور دلیری سے زندگی بسر کرتا تھا“.( کوئی قانون نہیں تھا کیونکہ کسی کے ماتحت نہیں تھے ) ” اور چونکہ ان کیلئے کوئی سزا کا قانون نہ تھا.اس لئے وہ لوگ روز بروز جرائم میں بڑھتے جاتے تھے.پس خدا نے اس ملک پر رحم کر کے آنحضرت عبدلیل اللہ کو اس ملک کیلئے نہ صرف رسول کر کے بھیجا بلکہ اس کے.....ملک کا بادشاہ بھی بنا دیا اور قرآن شریف کو ایک ایسے قانون کی طرح مکمل کیا جس میں دیوانی، فوجداری ، مالی سب ہدایتیں ہیں.سو آنحضرت صلی اللہ بحیثیت ایک بادشاہ ہونے کے تمام فرقوں کے حاکم تھے اور ہر ایک مذہب کے لوگ اپنے مقدمات آپ سے فیصلہ کراتے قرآن شریف سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ ایک مسلمان اور ایک یہودی کا آنجناب کی عدالت میں مقدمہ آیا تو آنجناب نے تحقیقات کے بعد یہودی کو سچا کیا اور مسلمان پر اس کے دعوی کی ڈگری کی.(اس کا ذکر میں کر چکا ہوں.پس بعض نادان مخالف جو غور سے قرآن شریف نہیں پڑھتے وہ ہر ایک مقام کو آنحضرت عبید اللہ کی رسالت کے نیچے لے آتے ہیں حالانکہ ایسی سزائیں خلافت یعنی بادشاہت کی حیثیت سے دی جاتی تھیں“.(یعنی یہ حکومت کا کام ہے.) ” بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کے بعد نبی جدا ہوتے تھے اور بادشاہ جدا ہوتے تھے 109
جوامورسیاست کے ذریعے سے امن قائم رکھتے تھے مگر آنحضرت علی اللہ کے وقت میں یہ دونوں عہدے خدا تعالیٰ نے آنجناب“.( یعنی آنحضرت علی السلم " ہی کو عطا کئے اور جرائم پیشہ لوگوں کو الگ الگ کر کے باقی لوگوں کے ساتھ جو برتاؤ تھا وہ آیت مندرجہ ذیل سے ظاہر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے وَقُلْ لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَبَ وَالْأُمِّيِّينَ ءَ أَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا - وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلغُ (الجزو نمبر ۳- سورة آل عمران) ا اور اے پیغمبر اہل کتاب اور عرب کے جاہلوں کو کہو کہ کیا تم دین اسلام میں داخل ہوتے ہو.پس اگر اسلام قبول کر لیں تو ہدایت پاگئے.اور اگر منہ موڑیں تو تمہارا تو صرف یہی کام ہے کہ حکم الہی پہنچا دو.اس آیت میں یہ نہیں لکھا کہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم ان سے جنگ کرو.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ صرف جرائم پیشہ لوگوں کیلئے تھا کہ مسلمانوں کو قتل کرتے تھے یا امن عامہ میں خلل ڈالتے تھے اور چوری ڈاکہ میں مشغول رہتے تھے.اور یہ جنگ بحیثیت بادشاہ ہونے کے تھا ، نہ بحیثیت رسالت“.(یعنی کہ جب آپ حکومت کے مقتدر اعلیٰ تھے تب جنگ کرتے تھے اس لئے نہیں کرتے تھے کہ نبی ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا - إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (الجزونمبر ۲ - سورة البقرة) ۲ - ( ترجمہ ) تم خدا کے راہ میں ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں.یعنی دوسروں سے کچھ غرض نہ رکھو اور زیادتی مت کرو.خدا زیا دتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا“.(چشمه معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحه 242-243) پس جس نبی پاک عیب اللہ پر یہ شریعیت اتری ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پر اترے ہوئے احکامات کے معاملہ میں زیادتی کرتا ہو.آپ علیہ وسلم نے تو فتح مکہ کے موقع 1.سورة آل عمران: آیت 21 ۲.سورة البقرة: آيت 191 110
پر بغیر اس شرط کے کہ اگر اسلام میں داخل ہوئے تو امان ملے گی عام معافی کا اعلان کر دیا تھا.اس کی ایک مثال ہم دیکھ بھی چکے ہیں.اس کی مختلف شکلیں تھیں لیکن اس میں یہ نہیں تھا کہ ضرور اسلام قبول کرو گے تو معافی ملے گی.مختلف جگہوں میں جانے اور داخل ہونے اور کسی کے جھنڈے کے نیچے آنے اور خانہ کعبہ میں جانے اور کسی گھر میں جانے کی وجہ سے معافی کا اعلان تھا.اور یہ ایک ایسی اعلیٰ مثال تھی جو ہمیں کہیں اور دیکھنے میں نہیں آئی.مکمل طور پر یہ اعلان فرما دیا کہ لا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کہ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہے.ہزاروں درود اور سلام ہوں آپ صلی اللہ پر جنہوں نے اپنے یہ اعلیٰ نمونے قائم فرمائے اور عليه وسلم ہمیں بھی اس کی تعلیم عطا فرمائی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی بھی توفیق دے.111