Language: UR
عالمی بحران اور امن کی راہ
عالمی بحران اور امن کی راہ معرکۃ الآرا خطابات اور عالمی راہنماؤں کو خطوط حضرت مرزا مسرور احمد فدیہ المسیح الن مس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز خليف امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ
عالمی بحران اور امن کی راہ World Crisis and the Pathway to Peace A Compilation of Speeches and Letters of Hadrat Mirza Masroor Ahmad, Imam and the Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Jama'at Fifth Successor to the Promised Messiah as Urdu Translation first published in UK, 2015 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey, GU10 2AQ United Kingdom For further information please visit: www.alislam.org ISBN: 978 1 84880 123 3
vii 3.21.33.53.81.99 115.131 147 155.163 171.179.187 195 203.211.219 227.235 243.تعارف مصنف فہرست مضامین تعارف عالمی بحران پر اسلامی نقطه نظر..وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات.خطابات ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات..امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد..کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟.اسلام - امن اور محبت کا مذہب.امنِ عالم.وقت کی ضرورت..پوپ بینیڈکٹ X۷۱ کے نام خط اسرائیل کے وزیر اعظم کے نام خط.صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے نام خط صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام خط وزیر اعظم کینیڈا کے نام خط.عالمی راہنماؤں کو خطوط خادم حرمین شریفین سعودی عرب کے بادشاہ کے نام خط عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کے نام خط وزیر اعظم برطانیہ کے نام مخط.جرمنی کی چانسلر کے نام خط..صدر جمہوریہ فرانس کے نام خط..ملکہ برطانیہ کے نام خط.اسلامی جمہوریہ ایران کے راہنما کے نام خط صدر روسی فیڈریشن کے نام خط.
حضرت مرزا مسرور احمد خدمة أسبح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تعارف مصنف حضرت مرزا مسرور احمد خلیقه اصبح الامس ایدہ اللہتعالیٰ بنصرہ العزیز جماعت احمدیہ عالمگیر کے امام اور حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ ہیں.آپ 15 ستمبر 1950ء کور بوہ پاکستان میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مرحوم اور صاحبزادی ناصرہ بیگم احمد مرحومہ کے ہاں پیدا ہوئے.22 اپریل 2003ء کو آپ کا انتخاب جماعت احمدیہ مسلمہ کے پانچویں امام کے طور پر ہوا اور آپ ایک عالمگیر جماعت کے روحانی سربراہ اور انتظامی راہنما کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں.آج اس جماعت کے افراد کروڑوں کی تعداد میں دوصد سے زاید ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں.خلیفہ اسیح الخامس منتخب ہونے کے بعد آپ نے دُنیا میں امن کے بارہ میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے پرنٹ میڈیا اور ڈیجیٹل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ ایک مہم شروع کی.آپ کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے نیشنل چیپٹر ز نے ایسی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں جن سے اسلام کی سچی اور امن پسند تعلیم کا پر چار ہورہا ہے.احمدی مسلمان ، مسلم اور غیر مسلم دنیا میں پیغام امن کے لاکھوں بلکہ کروڑوں اشتہار تقسیم کرنے میں مصروف ہیں.بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کی مجالس منعقد کر رہے ہیں اور قرآن کریم کی نمائشیں لگائی جارہی ہیں تا کہ قرآن کریم کا مقدس پیغام دنیا تک پہنچ سکے.ان مبارک کوششوں کو دُنیا بھر کے میڈیا میں پذیرائی حاصل ہورہی ہے اور یہ ثابت ہو رہا ہے کہ اسلام امن ، حب الوطنی اور خدمت انسانیت کا علمبردار ہے.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2004ء میں سالانہ قومی امن کا نفرنس کا آغاز کیا جس میں امن اور ہم آہنگی کے خیالات اور جذبات کے فروغ کے لیے تمام طبقہ ہائے فکر کے افراد شامل ہوتے ہیں.اس کانفرنس میں ہر سال و زرا ہمبران پارلیمنٹ، سیاست دان، مذہبی راہنما اور دیگر معززین شامل ہوتے ہیں.
vi آپ نے خدمت انسانیت کے فروغ کے لیے دنیا بھر کے سفر بھی اختیار کیے اور آپ کی راہنمائی میں جماعت احمدیہ مسلمہ نے متعد د سکول اور ہسپتال قائم کیے ہیں جو دُنیا کے دُور اُفتادہ علاقوں کے باسیوں کو بہترین تعلیمی اور طبی سہولیات مہیا کر رہے ہیں.حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس وقت برطانیہ کے شہر لندن میں مقیم ہیں.دُنیا بھر کے احمدی مسلمانوں کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے آپ امن اور محبت کے حسین پیغام کے ذریعہ بڑے پر زور انداز میں اسلام کا دفاع کر رہے ہیں.
تعارف آج دنیا ایک تلاطم خیز دور سے گزر رہی ہے.عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے قریباً ہر ہفتہ نئے اور پہلے سے بڑے خطرات پیش آ رہے ہیں.ان ایام کو دوسری عالمی جنگ سے معا پہلے کے زمانہ سے مماثل قرار دیا جارہا ہے اور واضح نظر آ رہا ہے کہ حالات و واقعات دُنیا کو غیر معمولی تیزی کے ساتھ ایک خوفناک تیسری عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہے ہیں.اس بات کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ حالات تیزی سے قابو سے باہر ہورہے ہیں اور لوگ کسی ایسے شخص کے منتظر ہیں جو منظر عام پر آئے اور ایسی ٹھوس اور سنجیدہ راہنمائی کرے جو قابل اعتماد ہو جس کی باتیں دل و دماغ دونوں پر یکساں اثر کریں اور وہ انہیں کسی ایسے راستہ کے موجود ہونے کی اُمید دلائے جو امن کا راستہ ہو.ایک ایٹمی جنگ کے نتائج اس قدر تباہ کن ہیں کہ کوئی ان کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا.اس کتاب میں ہم نے حضرت مرزا مسرور احمد امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کی پیش کردہ راہنمائی کو یکجا کر دیا ہے.پچھلے کئی سالوں سے دُنیا کو جس قسم کے حالات کا سامنا ہے.آپ بلاخوف وخطر دُنیا کو اُن سے آگاہ کر رہے ہیں.سنسنی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے کہ دنیا ان حالات تک کیسے پہنچی اور اب کس طرح تباہی سے بچ سکتی ہے اور اس گلوبل وپیچ میں رہتے ہوئے امن اور تحفظ کی راہ کس طرح متعین ہوسکتی ہے؟ آپ نے وضاحت سے یہ اعلان کیا ہے کہ دُنیا کے لیے امن کے حصول کا واحد راستہ عاجزی اور انصاف کی راہ اپنانے میں اور انکسار اور اطاعت کے ساتھ خدا کی طرف آنے میں ہے.اسی طرح بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی، کمزور کی مدد اور اس کی عزت اور غم خواری اور سچائی اور تقویٰ کے راستہ پر چلتے ہوئے عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اپنے خالق کی طرف واپس رُجوع کرنے میں ہے.آپ نے سب کو بارہا یہ باور کرایا کہ قوموں کے لیے تباہی کے کنارے سے واپسی کا راستہ باہمی
viii تعلقات میں انصاف کی فراہمی کو مرکزی حیثیت دینے میں ہے.اگر آپس میں تنازعات بھی ہوں تو پھر بھی انہیں انصاف سے حل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مستقبل میں نفرتوں کو دور کر کے دیر پا امن کے قیام کا یہی ایک واحد راستہ ہے.یہی قرآن کریم کی وہ تعلیم ہے جس کی طرف آپ نے دُنیا کے راہنماؤں کو اپنے خطوط میں توجہ دلائی ہے.اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ اُنہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو.اور گناہ اور زیادتی کے کاموں ) میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ سزا میں بہت سخت ہے." اسرائیل کے وزیر اعظم کو خط میں آپ نے لکھا: (سورۃ المائدہ : 3) ” میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکنہ کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے.باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ اپنائیں تا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تاب ناک مستقبل مہیا کرسکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذوریوں کا تحفہ دینے والے ہوں.“ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کو آپ نے توجہ دلائی آج ہر طرف اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے یعنی دنیا کے کچھ خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہو چکی ہیں جبکہ بعض اور علاقوں میں عالمی طاقتیں قیام امن کے بہانہ سے مداخلت کر رہی ہیں.آج دُنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے یا کسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے لیکن انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں.عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے.“
تعارف صدر اوباما کو لکھا: ”ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا.آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات بر ملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932 ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں.سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں.ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا.اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے اور یقینا یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا.ایسی صورت حال میں دُنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کریں.بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے جو سب کا خالق ہے اور انسانیت کی بقا کی یہی ایک ضمانت ہے.ور نہ دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی.“ عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم وین جیا بہاؤ کو لکھا: ”میری دعا ہے کہ عالمی را ہنما دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اقوامِ عالم اور افراد کے مابین موجود چھوٹے چھوٹے تنازعات کو عالمگیر بننے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں.“ اور برطانیہ کے وزیر اعظم کو لکھا: میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹادیں.اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی اور نا کامی کی صورت میں ہماری آئندہ ix
☑ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پھیلنے والی مسلسل تباہی و بربادی کا تحفہ دے رہے ہوں گے اور یہ نسلیں اپنے اُن بڑوں کو جنہوں نے دنیا کو عالمی تباہی میں دھکیل دیا، کبھی معاف نہیں کریں گی.میں ایک مرتبہ پھر آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک ایسی عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے.پس اگر آپ چاہیں تو عدل وانصاف کے تقاضے پورے کر کے دنیا کی راہنمائی کر سکتے ہیں.لہذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیام امن کے لیے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی تو فیق بخشے.“ ہماری مخلصانہ دعا ہے کہ اس کتاب میں یکجا کی گئی ہدایات ان مہیب خطرات کے وقت میں بنی نوع انسان کے لیے راہنمائی کا ذریعہ ہوں تا کہ انصاف اور انکسار کے اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اور خدا کی طرف توجہ کرتے ہوئے انسان دیر پا امن کو حاصل کر سکے.آمین پبلشرز
خطابات
عالمی بحران پر اسلامی نقطہ نظر برطانوی پارلیمنٹ، دارالعوام لندن انگلستان 2008ء
جسٹن گرینگ ایم پی کے ہمراہ برطانیہ کے ایوان زیریں میں حضور کا تعارفی دوره 100 hilala All Hakim Nur FIRE EXIT WYA INTERNATIONAL
حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر و العزيز برطانیہ کے ایوان زیریں میں ایک اہم خطاب فرماتے ہوئے 100 Year FIRE EXIT میٹھے Lord Avebury (Liberal Democrats Spokesman for Foreign Affairs), Rt.Hon.Hazel Blears MP (Secretary of State for Communities and Local Government); Hadrat Mirza Masroor Ahmad (Khalifatul-MasiḥV); Justine Greening MP (Shadow Treasury Minister); Gillian Merron MP (Foreign Office Minister); Councillor Louise Hyams (the Lord Mayor of Westminster).Jeremy Hunt MP (Shadow Culture Minister); Rafiq Hayat (National Amir AMA UK); Virendra Sharma MP, Rt.Hon.Malcolm Wicks MP (Former : کھڑے Minister at Department for Business, Enterprise and Regulatory Reform); Rob Marris MP, Simon Hughes MP (President of the Liberal Democrats Party); Martin Linton MP; Alan Keen MP
پیش لفظ امام جماعت احمد یہ حضرت مرز امسر در حد صاحب خلیفہ مسیح کا تاریخی خطاب جو آپ نے 22 اکتو بر کو برطانوی پارلیمنٹ کے ہاؤس آف کامنز میں فرمایا.$2008 یہ استقبالیہ جماعت کے ہیڈ کوارٹرز واقع مسجد فضل، پٹنی کی M.P جسٹن گرینگ کی طرف سے خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے موقع پر دیا گیا جس میں گلین میرن M.P، رائٹ آنریبل ہیزل بلیئر M.P، ایلین کین M.P ، ڈومینک گریو M.P ، سائمن ہیوز M.P، لارڈ ائیرک ایو بری اور دیگر پریس کے معزز ممبران ، سیاستدان اور مختلف شعبہ جات کے ماہرین شامل تھے.
عالمی بحران پر اسلامی نقطہ نظر بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! سب سے پہلے تو میں تمام قابل احترام اور معزز اراکین پارلیمنٹ اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے ایک مذہبی جماعت کے راہنما کو اجازت دی ہے کہ وہ آپ سے کچھ باتیں کر سکے.میں سب سے زیادہ اپنے علاقہ کی معزز رکن پارلیمنٹ JUSTINE GREENING محترمہ جسٹن گرینگ صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے اپنے حلقہ کی ایک چھوٹی سی جماعت کے لیے اُن کی خلافت جو بلی کے موقع پر اس تقریب کے انعقاد کے لیے بے حد کوشش کی ہے.یہ ان کی عظمت اور کشادہ دلی کا ثبوت ہے.نیز یہ بات اس امر کی بھی غماز ہے کہ وہ اپنے حلقہ کے تمام افراد اور مختلف طبقات کے جذبات کا کتنا خیال رکھتی ہیں.اگر چہ جماعت احمدیہ مسلمہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے لیکن یادر ہے کہ یہ اسلام کی سچی تعلیمات کی حقیقی علمبر دار اور نمائندہ جماعت ہے.ہر احمدی جو برطانیہ میں بستا ہے وہ یہاں کا ایک محب وطن اور وفادار شہری ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم ﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا لازمی جزو ہے.بانی جماعت احمدیہ نے جنہیں ہم اس زمانہ کا مصلح اور مسیح موعود مانتے ہیں اسلام کی اس تعلیم کو مزید وضاحت سے پیش فرمایا ہے اور اس پر زور دیا ہے.اپنے دعویٰ کا اعلان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دو حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے.ایک خدا تعالیٰ کا حق اور دوسرے اُس کی مخلوق کا * تَفْسِيْرُ حَتَّى سُوْرَةُ الْقَصَصْ نمبر 86 اور فَتْحُ الْبَارِى فِى شَرْحِ صَحِيحِ الْبُخَارِي بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ....نيز تُحْفَةُ الْأَحْوَذِى شَرْحِ جَامِعِ التَّرْمَذِي بَابُ مَا يَقُولُ
10 حق ! آپ فرماتے ہیں کہ حقوق العباد کی ادائیگی سب سے زیادہ مشکل اور نازک امر ہے.* خلافت کے حوالہ سے آپ کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ خود کو دہرائے اور ایسی قیادت کے نتیجہ میں جنگیں شروع ہو جائیں.اگر چہ اسلام کے خلاف اس قسم کی الزام تراشی کی جاتی ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمد یہ دنیا میں ہمیشہ امن و آشتی کی حقیقی علمبردار کے طور پر جانی جاتی رہے گی.احمدی جس ملک میں بھی رہتے ہوں گے وہ اپنے اپنے ملک کے وفادار شہری ثابت ہوں گے.خلافت احمدیہ کا کام تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو جاری رکھنا اور اسے آگے بڑھانا ہے.اس لیے خلافت احمدیہ سے خائف ہونے کی قطعاً کوئی وجہ نہیں ہے.خلافت احمد یہ تمام احمدیوں کو ان ہر دو فرائض کی ادائیگی کی طرف مسلسل متوجہ رکھتی ہے جن کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ہوئی ہے.یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت دنیا میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہے.چونکہ وقت محدود ہے اس لیے اب میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں.اگر ہم گزشتہ چند صدیوں کی تاریخ کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو ہمیشہ یہ نظر آئے گا کہ اس دور میں جو جنگیں ہوئیں وہ در حقیقت مذہبی جنگیں نہیں تھیں بلکہ زیادہ تر جغرافیائی اور سیاسی نوعیت کی جنگیں تھیں.آج بھی اقوامِ عالم کے مابین جو تنازعات موجود ہیں وہ دراصل سیاسی ، علاقائی اور اقتصادی مفادات کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں انہیں دیکھتے ہوئے مجھے ڈر ہے کہ مختلف ممالک کے سیاسی اور اقتصادی تغیرات ایک عالمگیر جنگ پر منتج ہو سکتے ہیں.ان حالات کے نتیجہ میں صرف امیر ممالک ہی نہیں بلکہ غریب ممالک بھی متاثر ہورہے ہیں.اس لیے طاقتور ممالک پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ مل بیٹھ کر انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں.برطانیہ اُن ممالک میں سے ہے جو ترقی یافتہ دنیا اور ترقی پذیر ممالک دونوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور ہوتا بھی ہے، آپ اگر چاہیں تو عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کر کے دُنیا کی راہنمائی کا کام سر انجام ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر 326
عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر دے سکتے ہیں.ماضی قریب میں برطانیہ نے دُنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً برصغیر پاک و ہند پر حکومت کی ہے اور عدل وانصاف اور مذہبی آزادی کے اعلیٰ معیار قائم کیے ہیں.جماعت احمد یہ مسلمہ اس کی گواہ ہے.بانی جماعت احمدیہ نے عدل و انصاف اور مذہبی آزادی دینے کی برطانوی حکومت کی پالیسی کی بہت تعریف فرمائی ہے.جب بانی جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ کو ان کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر مبارکباددی اور اسلام کا پیغام پہنچایا تو آپ نے خاص طور پر دُعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ برطانوی حکومت کو اس کی کوششوں کا اجر عطا فرمائے جو اس نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کی ہیں.پس ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی سلطنت برطانیہ نے انصاف کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے ہمیشہ اس پر شکر گزاری کا اظہار کیا ہے.ہم یہ بھی اُمید کرتے ہیں کہ مستقبل میں بھی عدل وانصاف برطانوی حکومت کی پہچان بنارہے گا صرف مذہبی معاملات میں ہی نہیں بلکہ ہر لحاظ سے.ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ اپنے اُن اوصاف کو فراموش نہیں کریں گے جو ماضی میں آپ کا حصہ رہے ہیں.آج دُنیا ایک اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے.محدود پیمانہ پر جنگوں کی آگ بھڑک رہی ہے.بعض جگہوں پر بڑی طاقتیں یہ دعوی کر رہی ہیں کہ ہم امن کے قیام کے لیے کوششیں کر رہے ہیں.اندیشہ یہ ہے کہ اگر عدل وانصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو ان چھوٹی چھوٹی جنگوں کے شعلے بہت بلند ہو جائیں گے.اور ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے.اس لیے میری آپ سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کوتاہی سے بچائیں.اب میں مختصر طور پر بیان کروں گا کہ اسلام کی وہ کون سی تعلیمات ہیں جو دُنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہیں یا یہ کہ ان تعلیمات کی روشنی میں دُنیا میں کس طرح امن قائم کیا جا سکتا ہے؟ میری یہ دُعا ہے کہ مسلمان جو ان تعلیمات کے پہلے مخاطب ہیں ان پر عمل پیرا ہوسکیں مگر در حقیقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں اور حکومتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں.
12 آج کے اس دور میں ، جب کہ دُنیا واقعی سمٹ کر ایک گلوبل و پیچ بن گئی ہے جس کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، میں بحیثیت انسان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے.ہمیں انسانی حقوق کے ان مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دینے اور ایسی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جس سے دُنیا میں امن قائم کرنے میں مد دل سکتی ہے.ظاہر ہے کہ یہ کوشش عدل کے تقاضے پورے کرنے کی نیت سے اور پوری دیانتداری سے کی جانی چاہیے.اس دور کے مسائل میں سے ایک مسئلہ اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ مذہب کی وجہ سے پیدا ہوا ہے.مسلمانوں کے بعض گروہ مذہب کے نام پر نا جائز حملے یا خودکش دھماکے کرتے ہیں تا کہ غیر مسلموں کو جن میں فوجی اور معصوم شہری بھی شامل ہیں نقصان پہنچائیں یا ہلاک کریں جس کے نتیجہ میں معصوم مسلمان یہاں تک کہ بچے بھی نہایت بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں.اسلام اس ظالمانہ فعل کو کلیڈ رڈ کرتا ہے.بعض مسلمانوں کے اس بھیانک طرز عمل کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں ایک بالکل غلط تاثر پیدا ہو چکا ہے جس کے نتیجہ میں معاشرہ کے بعض طبقات علی الاعلان اسلام کے خلاف باتیں کرتے ہیں جبکہ بعض دوسرے ایسے ہیں جو اگر چہ کھلم کھلا اظہار تو نہیں کرتے مگر دلوں میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے بھی نہیں رکھتے.یہ وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے مغربی ممالک اور دیگر غیر مسلم ممالک کے لوگوں کے دلوں میں ان چند مسلمانوں کے طرز عمل کے باعث عدم اعتماد پیدا ہو گیا ہے.بہتری کی کوئی صورت پیدا ہونے کی بجائے غیر مسلموں کا رد عمل ہر روز بد سے بدتر ہوتا چلا جا رہا ہے.اس غلط رد عمل کی ایک مثال تو وہ حملے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی سیرت اور کردار پر اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کریم پر کیے جاتے ہیں.اس لحاظ سے برطانوی سیاستدانوں ، خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اور دانشوروں کا رویہ بعض دیگر ممالک کے سیاستدانوں کے رویہ سے مختلف ہے.میں اس کے لیے آپ کا شکر گزار ہوں.ایسے نازک احساسات کو ٹھیس پہنچانے سے نفرتوں میں اضافہ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ نفرت پھر بعض انتہا پسند مسلمانوں کو ایسی حرکتیں کرنے پر آمادہ کرتی ہے جو سراسر غیر اسلامی ہیں جن
عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر 13 کے نتیجہ میں کئی غیر مسلموں کو پھر موقع ملتا ہے کہ وہ اپنی مخالفت کا اظہار کریں.ان حملوں سے ان لوگوں کو جو انتہا پسند نہیں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے گہری محبت رکھتے ہیں شدید تکلیف پہنچتی ہے.ان میں جماعت احمد یہ سرفہرست ہے.ہمارا سب سے اہم کام ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کو آنحضرت ﷺ کے کامل اُسوہ اور اسلام کی حسین تعلیمات سے آگاہ کیا جائے.ہم تمام انبیاء کا سچا احترام کرتے ہیں اور ایمان لاتے ہیں کہ یہ سب خدا کے فرستادہ ہیں.اس لیے ہم تو ان میں سے کسی کے خلاف کوئی بے ادبی نہیں کر سکتے لیکن جب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بے بنیاد اور جھوٹے الزامات سنتے ہیں تو ہمارے دل بے حد رنجیدہ ہو جاتے ہیں.آج جب کہ دنیا مختلف بلاکوں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے، انتہا پسندی بڑھ رہی ہے.نیز مالی اور اقتصادی صورت حال بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ ہرقسم کی نفرتوں کو مٹا دیا جائے اور امن کی بنیادوں کو استوار کیا جائے.اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک دوسرے کے ہر قسم کے جذبات کا خیال رکھا جائے.اگر یہ کام صحیح رنگ میں پوری ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ نہ کیا گیا تو حالات اور زیادہ ابتر ہو جائیں گے اور پھر ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں رہے گا.یہ ایک قابل تحسین بات ہے کہ اقتصادی طور پر مضبوط مغربی ممالک نے غریب اور پسماندہ ممالک کے افراد کو اپنے ملکوں میں آکر آباد ہونے کی اجازت دی ہے.ان لوگوں میں مسلمان بھی شامل ہیں.حقیقی عدل کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کے جذبات اور مذہبی سرگرمیوں کا بھی احترام کیا جائے.یہ وہ طریق ہے جس کو اختیار کر کے لوگوں کے ذہنی اطمینان کو قائم رکھا جا سکتا ہے.ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب کسی فرد کا ذہنی اطمینان اُٹھتا ہے تو پھر معاشرہ کا امن بھی متاثر ہوتا ہے.جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے کہ میں برطانیہ کے سیاستدانوں اور قانون سازی کرنے والوں کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے عدل کے تقاضے پورے کیے ہیں اور اس کے راستہ میں حائل نہیں ہوئے.
14 یہ در حقیقت اسلام کی تعلیم ہے جو ہمیں قرآن کریم نے دی ہے.قرآن یہ اعلان کرتا ہے کہ :.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّين (سورة البقره: 257) ترجمہ: دین میں کوئی جبر نہیں ہے.یہ حکم نہ صرف اس الزام کو ر ڈ کر رہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے بلکہ مسلمانوں کو یہ بتا رہا ہے کہ ایمان لانا ایک ایسا معاملہ ہے جو بندہ اور اُس کے خدا کے درمیان ہے جس میں کسی طرح سے بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے.ہر انسان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے اور عبادت کرنے کی اجازت ہے لیکن اگر مذہب کے نام پر جاری سرگرمیاں دوسروں کے لیے ضرر رساں ہو جائیں اور ملکی قانون کے خلاف ہوں تب اُس ملک کے قانون نافذ کرنے والے اُن کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں کیونکہ اگر کسی مذہب میں کوئی ظالمانہ فعل کیا جارہا ہے تو وہ ہر گز کسی ایسی تعلیم کا حصہ نہیں ہو سکتا جو خدا تعالیٰ کے کسی بھی نبی نے دی ہو.علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر قیام امن کے لیے یہ ایک بنیادی اُصول ہے.اگر کوئی معاشرہ، گروہ یا حکومت آج آپ کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں حارج ہے اور کل کو حالات آپ کے حق میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کبھی بھی اپنے دل میں اُن کے لیے کوئی کینہ یا نفرت نہ رکھیں.آپ کو کبھی انتقام کا خیال نہیں آنا چاہیے بلکہ آپ کا فرض عدل وانصاف کا قیام ہے.قرآن کریم فرماتا ہے:.ترجمہ: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.“ (سورة المائده: 9) یہ وہ تعلیم ہے جو معاشرہ میں امن قائم کرتی ہے.فرمایا کہ اپنے دشمن کے معاملہ میں بھی عدل کو نہ چھوڑو.ابتدائی تاریخ اسلام بتاتی ہے کہ اس تعلیم پر عمل کیا گیا تھا اور عدل وانصاف کے تمام تقاضے پورے
عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر کیے گئے تھے.میں یہاں اس کی بہت زیادہ مثالیں تو پیش نہیں کر سکتا مگر تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ان لوگوں سے کوئی انتقام نہیں لیا تھا جنہوں نے آپ کو شدید تکالیف دی تھیں.آپ نے نہ صرف انہیں معاف کر دیا تھا بلکہ اجازت دی تھی کہ وہ اپنے اپنے دین پر قائم رہیں.آج بھی امن صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے جب دشمن کے لیے بھی عدل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں.اور ایسا صرف مذہبی انتہا پسندی کے خلاف جنگوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر تمام جنگوں میں بھی کیا جانا چاہیے.اسی طرح جو امن حاصل ہوگا درحقیقت وہی پائیدار امن ہوسکتا ہے.گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئی ہیں.اُن کی جو بھی وجو ہات تھیں اگر غور سے دیکھا جائے تو ایک ہی وجہ سب سے نمایاں دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی مرتبہ عدل کو صحیح رنگ میں قائم نہیں کیا گیا تھا.اور پھر وہ آگ جو بظاہر بجھی ہوئی معلوم ہوتی تھی دراصل سلگتے ہوئے انگارے تھے جن سے بالآخر وہ شعلے بلند ہوئے جنہوں نے دوسری مرتبہ ساری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے.وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جار ہے ہیں ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں.موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں.قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اُصول عطا فرمائے ہیں.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے.کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے.کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہوس اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے.یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتا ہے.خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کر کے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی افواج کے ہاتھوں سے ہو.کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دنیا مدد کے لیے آجاتی ہے.بہر حال اس کا 15
16 نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت ﷺ نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کر و.صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر کیونکہ بصورت دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنادے گا پس اُس پر رحم کرتے ہوئے اُسے بچانے کی کوشش کرو.یہ وہ اُصول ہے جو معاشرہ کی چھوٹی سے چھوٹی اکائی سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اطلاق پاتا ہے.اس ضمن میں قرآن کریم فرماتا ہے: ترجمہ: اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو اُن کے درمیان صلح کرواؤ.پس اگر اُن میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کر رہی ہے اُس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے.پس اگر وہ لوٹ آئے تو اُن دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.“ (سورة الحجرات: 10) اگر چہ یہ تعلیم مسلمانوں کے متعلق ہے لیکن اِس اُصول کو اختیار کر کے عالمی امن کی بنیا د رکھی جاسکتی ہے.آغاز میں ہی یہ بات وضاحت سے بیان ہو چکی ہے کہ قیام امن کے لیے سب سے ضروری چیز عدل کا قیام ہے.اور اُصول عدل کی پابندی کے باوجود اگر قیام امن کی کوششیں ناکام ثابت ہوں تو مل کر اُس فریق کے خلاف جنگ کرو جو ظلم کا مرتکب ہو رہا ہے.یہ جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ ظالم فریق امن قائم کرنے کے لیے تیار نہ ہو جائے لیکن جب ظالم اپنے ظلم سے باز آجائے تو پھر عدل کا تقاضا ہے کہ انتقام کے بہانے نہ تلاش کرو.طرح طرح کی پابندیاں مت لگاؤ.ظالم پر ہر طرح سے نظر رکھو لیکن ساتھ ہی اُس کے حالات بھی بہتر بنانے کی کوشش کرو.اِس بد امنی کو ختم کرنے کے لیے جو آج دُنیا کے بعض ممالک میں موجود ہے اور بدقسمتی سے ان میں بعض مسلمان ممالک نمایاں ہیں اُن اقوام کو جنہیں ویٹو کا حق حاصل ہے بطور خاص اس امر کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ کیا صحیح معنوں میں عدل کیا جارہا ہے؟ مدد کی ضرورت پڑنے پر طاقتو را قوام کو ہی مدد کے لیے پکارا جاتا ہے.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ہم اس حقیقت کے گواہ ہیں کہ برطانوی حکومت نے ہمیشہ * صَحِيحُ الْبُخَارِي كِتَابُ الْإِكْرَاهِ بَابُ يَمِيْنِ الرَّجُلِ لِصَاحِبه حديث نمبر 6952
عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر عدل کے قیام کو ترجیح دی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ مجھے اس بات کا حوصلہ ہوا ہے کہ میں ان اُمور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراؤں.دنیا میں امن قائم کرنے کی خاطر ہمیں ایک اور اصول یہ سکھایا گیا ہے کہ دوسروں کی دولت کو للچائی نظروں سے مت دیکھو.قرآن کریم فرماتا ہے : ترجمہ : ” اور اپنی آنکھیں اُس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے اُن میں سے بعض گروہوں کو دنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اس میں اُن کی آزمائش کریں.اور تیرے ربّ کا رزق بہت اچھا اور زیادہ باقی رہنے والا ہے.“ ( سورة طه : 132) دوسروں کی دولت کو لالچ اور حسد سے دیکھنا بھی دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک وجہ ہے.ہر مادی آسائش کے حصول میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کے نتیجہ میں ایک نہ ختم ہونے والے لالچ اور حرص نے جنم لیا ہے.انفرادی سطح پر اس دوڑ نے معاشرہ کے امن کو تباہ کر دیا ہے.قومی سطح پر لالچ کی اس دوڑ کے نتیجہ میں دُنیا کا امن برباد ہوا ہے.تاریخ سے ثابت ہے اور ہر عقل مند آدمی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ دوسروں کی دولت کے حصول کی خواہش لالچ اور حسد کو بڑھاتی ہے جو درحقیقت خسارہ کا سودا ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل پر نظر رکھیں اور ان سے فائدہ اٹھا ئیں.ارضی فتوحات کی کوششیں دراصل ان علاقوں کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے کی جاتی ہیں.قوموں کے گٹھ جوڑ اور بلاکس بنانا در حقیقت بعض ممالک کے قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ہے.اس سلسلہ میں کئی مصنفین نے جو حکومتوں کے مشیر رہ چکے ہیں کتابیں لکھی ہیں جن میں اس امر کی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح بعض ممالک نے بعض دیگر اقوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں.ان مصنفین کے بیانات کس حد تک سچ ہیں یہ وہ خود جانتے ہیں یا خدا بہتر جانتا ہے لیکن ان کے پڑھنے سے جو صورتحال سامنے آتی ہے اس سے ان لوگوں کے دلوں میں جو اپنے غریب ممالک کے وفادار ہیں غصہ پیدا ہوتا ہے.اور دہشت گردی اور اسلحہ کی دوڑ میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے.آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ دُنیا ماضی کی نسبت زیادہ ہوش مند، باشعور اور تعلیم یافتہ ہے.غریب ممالک میں بھی ایسے ذہین لوگ موجود ہیں جنہوں
نے اپنے اپنے میدان علم میں کمال حاصل کر لیا ہے.دنیا کے بڑے تحقیقی مراکز میں انتہا درجہ کے ذہین لوگ مل کر مصروف کار ہیں.ان حالات میں ہونا یہ چاہیے کہ لوگ اکٹھے ہو کر اس غلط طرز فکر کا خاتمہ کریں اور ماضی کی اُن غلطیوں کو دور کریں جن کے نتیجہ میں عداوتوں نے جنم لیا تھا اور جو خوفناک جنگوں پر منتج ہوئی تھیں.خداداد ذہانت اور سائنسی ترقی انسانیت کی بہبود کے لیے استعمال ہونی چاہیے تھی اور ایسا جائز طریق وضع ہونا چاہیے تھا جس پر چل کر ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کیا جا سکے.اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے ہر ملک کو قدرتی وسائل عطا فرمائے ہیں.ان تمام وسائل کو اس رنگ میں بھر پور طریق پر استعمال کرنا چاہیے تھا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی.اللہ تعالی نے بہت سے ممالک کو مختلف فصلیں اگانے کے لیے بہترین آب و ہوا اور ماحول عطا کر رکھا ہے.اگر زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو صیح منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو دنیا کی اقتصادی حالت مضبوط ہو جاتی اور کرہ ارض سے بھوک کا خاتمہ ہو جاتا.جو ممالک معدنی وسائل رکھتے ہیں انہیں ترقی کرنے کا حق ملنا چاہیے اور مناسب قیمت پر آزاد تجارت کے مواقع ملنے چاہئیں.مختلف ممالک کو ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا صحیح طریق یہی ہے اور یہی طریق خدا تعالیٰ کو پسند ہے.خدا تعالی انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تا کہ وہ ان راہوں کا پتہ دیں جن پر چل کر لوگ خدا کا قرب حاصل کریں مگر اس کے ساتھ ساتھ خدا تعالی یہ بھی فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں مکمل آزادی ہے.ہمارے عقاید کے مطابق موت کے بعد جزا سزا ہوگی مگر جب اُس کی مخلوق پر ظلم ہوتا ہے اور عدل وانصاف کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وضع کردہ نظام کے تابع قوانین قدرت کے ذریعہ اس دنیا میں ہی اس کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں.ایسی بے انصافیوں کا شدید رد عمل لوگوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور اس رد عمل کے صحیح یا غلط ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.دنیا کو فتح کرنے کا صحیح طریق یہ ہے کہ غریب اقوام کو وہ مقام دینے کی ہر کوشش کی جائے جو اُن کا حق ہے.18
عالمی بحران پر اسلامی نقطۂ نظر 19 آج کا ایک بڑا مسئلہ اقتصادی بدحالی ہے جسے قرض کے بحران ( credit crunch) کا نام دیا جا رہا ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اس سلسلہ میں جو حقائق سامنے آئے ہیں وہ ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں.اس سلسلہ میں قرآن کریم نے سود سے منع کر کے ہماری راہنمائی فرما دی ہے کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو عائلی، قومی اور عالمی امن کے لیے ایک خطرہ ہے.ہمیں متنبہ کیا گیا ہے کہ سود خور کو ایک دن شیطان پاگل کر دے گا.اس میں مسلمانوں کو تنبیہ ہے کہ وہ ایسی صورتحال سے بچیں.فرمایا کہ سود کا لین دین ختم کر دو کیونکہ جو رو پیتم سود کے ذریعہ حاصل کرتے ہو وہ درحقیقت تمہاری دولت میں کسی اضافہ کا موجب نہیں ہوتا اگر چہ بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں دولت بڑھ رہی ہے.ضرور ایک ایسا وقت آتا ہے جب اس کے حقیقی اثرات ظاہر ہوتے ہیں.قرآن کریم نے ہمیں سودی کاروبار کی اجازت نہیں دی ہے.اور اس سلسلہ میں یہ کہہ کر مزید انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو یہ بات خدا تعالیٰ سے جنگ کے مترادف ہوگی.یہ حقیقت حالیہ اقتصادی بحران سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے.شروع میں افراد جائیداد خریدنے کے لیے قرض لیتے تھے مگر اس کی ملکیت حاصل ہونے سے پہلے مقروض ہونے کی حالت میں مرجاتے تھے لیکن اب حکومتیں ہیں جو مقروض ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے پاگل پن کا شکار ہو چکی ہیں.بڑی بڑی کمپنیاں دیوالیہ ہوگئی ہیں.بعض بینک اور دیگر مالی ادارے بند ہو چکے ہیں یا انہیں مالی طور پر سہارا دیا گیا ہے.اور یہ صورتحال ہر ملک میں خواہ وہ امیر ہے یا غریب نظر آ رہی ہے.آپ اس بحران کے بارہ میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں.لوگوں کا روپیہ جو بینکوں میں تھا وہ تباہ ہو گیا ہے.اب حکومتیں ہی ہیں جو دیکھیں گی کہ کس طرح اور کس حد تک انہیں تحفظ دینا ہے مگر فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ دُنیا کے اکثر ممالک میں گھروں کاروباری لوگوں اور سرکاری عمائدین کا تمام تر ذہنی سکون تباہ و برباد ہو چکا ہے.کیا یہ صورتحال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور نہیں کرتی کہ دُنیا اُس منطقی نتیجہ کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بارہ میں ہمیں پہلے ہی سے انتباہ کر دیا گیا تھا.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان حالات کا انجام کیا ہوگا؟
20 20 اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بتا چکا ہے کہ امن کی طرف آؤ اور اس کی ضمانت صرف اسی صورت میں دی جاسکتی ہے جب صاف ستھری تجارت ہوا اور وسائل کو صحیح طریق پر انصاف کے ساتھ استعمال کیا جائے.اسلامی تعلیمات کے ان چند نکات کا بیان میں اس یاد دہانی کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ دُنیا کا حقیقی امن خدا کی طرف رُجوع کرنے سے وابستہ ہے.خدا کرے کہ ساری دنیا کو یہ بات سمجھنے کی توفیق ملے اسی صورت میں لوگ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے قابل ہوں گے.آخر میں میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو یہاں تشریف لائے اور میری گزارشات کو سنا.
INNERE HRUNG FÜHR ZENTRUM INNERE FÜHRUNG NERE FÜHRU II IIIIII وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات ملٹری ہیڈ کوارٹرز کوبلنز جرمنی 2012ء m der Religionsgemeinschaft Ammadiyya Muslim Jamaal
جرمنی میں وفاق کی فوج کے بر یگیڈ ئیر جزل الوئس باخ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہمراہ INFO INNERE HRUNG حضرت خلیفة المسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جرمنی میں وفاق کی فوج سے خطاب فرماتے ہوئے
1 LAT 2 3 1.Colonel Ulrich, 2.Brigadier General Bach, 3.Colonel Trautvetter, 4.Colonel I.G.Janke, حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کرتے ہوئے
وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات بسم الله الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ! سب سے پہلے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اپنے ہیڈ کوارٹرز میں دعوت دی اور کچھ کہنے کا موقع دیا.جماعت احمدیہ مسلمہ کا سر براہ ہونے کی حیثیت سے میں اسلامی تعلیمات پر کچھ بیان کروں گا.یہ مضمون اس قدر وسیع ہے کہ ایک تقریب یا مختصر وقت میں اس کا احاطہ ناممکن ہے.لہذا میں اپنی گفتگو اسلام کے صرف ایک پہلو تک محدود رکھوں گا.میں سوچ رہا تھا کہ اسلام کے کس پہلو پر بات کروں تو جرمنی کے امیر مکرم عبد اللہ واگس ہاؤ ذ ر صاحب کی طرف سے ایک تجویز موصول ہوئی کہ وطن سے وفاداری اور محبت کے بارہ میں اسلامی تعلیمات پر بات کی جائے.چنانچہ مجھے فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی.اب میں مختصرا اس بارہ میں اسلامی تعلیمات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وطن سے وفاداری اور محبت کہنا یا سننا بہت آسان ہے لیکن در حقیقت یہ چند الفاظ اپنے اندر بہت وسعت ، خوب صورتی اور گہرائی سمیٹے ہوئے ہیں.ان الفاظ کے معانی اور تقاضوں کو سمجھنا دراصل بہت مشکل ہے.بہر حال اس مختصر سے وقت میں میں وطن سے وفاداری اور محبت کے متعلق اسلامی نقطہ نظر پیش کرنے کی کوشش کروں گا.اسلام کی سب سے پہلی اور بنیادی اصل یہ ہے کہ کسی شخص کے قول وفعل میں کسی بھی قسم کا تضاد یا منافقت نہ پائی جائے.حقیقی وفاداری ایک مخلصانہ تعلق کی متقاضی ہوتی ہے.نیز یہ کہ انسان کا ظاہر اور باطن ایک ہو.
26 قومی نقطۂ نظر سے یہ اُصول اور بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے.کسی بھی ملک کے شہری کے لیے ضروری ہے کہ اُس کا اپنے وطن سے رشتہ حقیقی و فاداری پر مبنی ہو.اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ پیدائشی طور پر اس ملک کا باسی ہے یا بعد میں ایمیگریشن یا کسی اور طریق سے اُس نے اُس ملک کی شہریت حاصل کی ہے.وفاداری ایک بہت بڑی خوبی ہے جس کے بہترین مظہر اور نمونہ خدا کے انبیاء ہوتے ہیں.خدا سے اُن کی محبت اور تعلق اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ ہر حال اور تمام معاملات میں اُن کے پیش نظر الہی احکام ہوتے ہیں اور وہ کما حقہ احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے ہیں.اسی طرح خدا سے اُن کی وفاداری کے اُسلوب اور بہترین معیار کا پتہ چلتا ہے.لہذا صرف انبیاء ہی کی وفاداری کے معیار کومثال اور نمونہ کے طور پر پیش کرنا چاہیے.تا ہم اس پر مزید بات کرنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ حقیقی وفاداری کا مطلب کیا ہے؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق وفاداری کی صحیح تعریف اپنے عہد و پیمان کو ہر سطح اور ہر طرح کے حالات میں مشکلات کے باوجود غیر مشروط طور پر ادا کرنا ہے.اسلامی تعلیم کی رُو سے یہ وفاداری کا حقیقی معیار ہے.قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں اپنے وعدے اور عہد ضرور پورے کرنے چاہئیں کیونکہ خدا اُن سے اُن کے تمام عہدوں کے متعلق جو اُنہوں نے کیے پوچھے گا.مسلمانوں کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ اپنے تمام عہدوں کو پورا کریں جس میں خدا تعالیٰ سے کیے گئے عہد بھی شامل ہیں اور دوسرے تمام وعدے بھی جو انہوں نے اپنے اپنے درجہ اور عہدہ کی رعایت سے گئے.یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کا دعوی ہے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ اور مذہب سب سے زیادہ اہم ہیں لہذا خدا سے وفاداری کا عہد ان کی اولین ترجیح ہے.نیز خدا سے کیا ہوا عہد باقی ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے جسے وہ پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ وطن سے وفاداری اور ملکی قوانین کی پاسداری کا عہد ثانوی حیثیت کا حامل ہے.لہذا عین ممکن ہے کہ کسی موقع پر وہ وطن کے وعدہ کو خدا کے لیے قربان کرنے پر تیار ہو جائیں.اس خدشہ کے جواب میں سب سے پہلے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
27 وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات نے خود یہ تعلیم دی ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے.لہذا اسلام اپنے ہر پیروکار سے مخلصانہ حب الوطنی کا تقاضا کرتاہے.خدا اور اسلام سے کچی محبت کرنے کے لیے کسی بھی شخص کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے وطن سے محبت کرے.لہذا یہ بالکل واضح ہے کہ کسی شخص کی خدا سے محبت اور وطن سے محبت کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں ہو سکتا.چونکہ وطن سے محبت کو اسلام کا ایک رکن بنادیا گیا ہے اس لیے یہ واضح ہے کہ ایک مسلمان کو اپنے وطن سے وفاداری کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے کیونکہ یہ خدا سے ملنے اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے.اس لیے یہ ناممکن ہے کہ ایک حقیقی مسلمان کی خدا سے محبت ، اس کی وطن سے سچی محبت اور وفاداری کی راہ میں کبھی رکاوٹ کا باعث بنے.بدقسمتی سے بعض ممالک میں مذہبی حقوق یا تو محدود کر دیئے گئے ہیں یا مکمل طور پر انہیں دینے سے انکار کر دیا گیا ہے.اس لیے یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ جنہیں اپنے ملک میں مظالم کا نشانہ بنایا گیا.کیا وہ پھر بھی قوم اور وطن سے محبت اور وفاداری کا تعلق قائم رکھ سکتے ہیں؟ انتہائی افسوس کے ساتھ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ پاکستان میں ایسے حالات ہیں جہاں حکومت نے ہماری جماعت کے خلاف قانون سازی کر رکھی ہے اور احمدیت کی مخالفت میں ان قوانین کو عملاً لاگو کیا گیا ہے.پس پاکستان میں تمام احمدی مسلمانوں کو قانونا غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے.وہ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے.پاکستان میں احمدیوں پر مسلمانوں کی طرح عبادت کرنے اور اسلامی روایات کے مطابق عمل کرنے کی جس سے ان کے مسلمان ہونے کا اظہار ہوتا ہو، پابندی ہے.اس طرح خود حکومت پاکستان نے ہماری جماعت کے افراد کو عبادت کے بنیادی انسانی حقوق سے محروم کر دیا ہے.اس تناظر میں قدرتی طور پر یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے حالات میں کیا احمدی مسلمان حکومت وقت کے قوانین کی پاسداری کر سکتے ہیں؟ اپنے وطن سے وفاداری کا اظہار کر سکتے ہیں؟ واضح ہو کہ جہاں ایسی انتہائی صورت پیدا ہو جائے وہاں ملکی قانون اور وطن سے محبت دو مختلف چیزیں بن جاتی ہیں.احمدی مسلمان کا ایمان ہے کہ مذہب کے متعلق فیصلہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے اور یہ کہ مذہبی معاملات میں کوئی جبر تر و انہیں رکھا جا سکتا.پس اس بنیادی حق میں قانون کی مداخلت بلاشبہ انتہائی ظلم اور زیادتی کی بات ہے.کسی حکومت کی طرف سے عرصہ دراز سے مسلسل لگائی جانے والی پابندیوں کی دنیا کی بڑی اکثریت مذمت کرتی ہے.
28 یورپ کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس براعظم کے لوگ بھی مذہبی ستم گری کا شکار رہے ہیں جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ اپنا وطن چھوڑ کر کسی دوسرے ملک ہجرت کر گئے.عام منصف مزاج مورخین، حکومتیں اور لوگ اسے ایذا رسانی اور انتہائی ظلم قرار دیتے ہیں.اس قسم کے حالات میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ جہاں مذہب کی وجہ سے زیادتیاں حد سے بڑھ جائیں اور نا قابل برداشت ہو جا ئیں تب کسی شخص کو وہ شہر یا ملک چھوڑ دینا چاہیے اور کسی ایسی جگہ ہجرت کر جانی چاہیے جہاں وہ آزادی اور امن کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا ہو سکے.تاہم اس ہدایت کے ساتھ ساتھ اسلام یہ تعلیم بھی دیتا ہے کہ جیسے بھی کٹھن حالات کیوں نہ ہوں کسی فرد کو ملکی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اسے یہ حق ہے کہ وہ اپنے وطن کے خلاف کسی منصوبہ یا سازش کا حصہ بنے.یہ اسلام کا ایک بالکل واضح اور غیر مہم حکم ہے.شدید تکالیف کو برداشت کرنے کے باوجود لاکھوں احمدی پاکستان میں رہ رہے ہیں.اس امتیازی سلوک اور زندگی کے ہر پہلو میں مسلسل ظلم کو برداشت کرنے کے باوجود انہوں نے اپنے ملک سے مکمل وفاداری اور کچی اطاعت کا رشتہ قائم رکھا ہوا ہے.وہ جس شعبہ میں یا جہاں کہیں بھی تعینات ہیں، اپنے ملک کی ترقی اور کامیابی کے لیے متواتر کوشاں ہیں.کئی دہائیوں سے مخالفین احمد بیت یہ الزام لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ احمدی پاکستان کے وفادار نہیں ہیں لیکن کبھی بھی وہ اس بات کو ثابت نہیں کر سکے یا اپنے دعوی کے ثبوت میں کوئی دلیل نہیں لا سکے.اس کی بجائے حقیقت یہ ہے کہ جب کبھی بھی اپنے وطن پاکستان کے لیے قربانی کی ضرورت پیش آئی ہے احمدی مسلمان ہمیشہ صف اول میں دکھائی دیئے ہیں اور وطن کے لیے ہمیشہ ہر قربانی کے لیے ہمہ وقت تیار رہے ہیں.قانون کا نشانہ بنے اور شکار ہونے کے باوجود احمدی مسلمان ہی ہیں جو کسی بھی دوسرے سے بہتر طور پر ملکی قانون کی پیروی اور پاسداری کرتے ہیں.اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ وہ سچے مسلمان ہیں جو حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہیں.وفاداری کے تعلق میں ایک اور قرآنی تعلیم یہ ہے کہ لوگوں کو ہر اُس چیز سے دُور رہنا چاہیے جو غیر اخلاقی، ناپسندیدہ اور بغاوت کا کوئی پہلو اپنے اندر رکھتی ہو.اسلام کا ایک ممتاز اور خوب صورت پہلو یہ ہے کہ اسلام ہمیں
وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات آخری انجام جہاں خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں کی طرف ہی توجہ نہیں دلاتا بلکہ یہ ہمیں ایسے تمام چھوٹے اور ابتدائی معاملات سے بھی متنبہ کرتا ہے جو انسان کو پُر خطر نتائج کی طرف لے جاتے ہیں.پس اگر اسلامی تعلیم پر مکمل عمل کیا جائے تو تمام معاملات ابتدائی مراحل میں ہی حل ہو جاتے ہیں قبل اس کے کہ حالات بے قابو ہو جائیں.مثال کے طور پر ایک معاملہ جس میں ایک ملک کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہ مال کی حرص ہے.اکثر لوگ مادی خواہشات سے مغلوب ہو جاتے ہیں جو رفتہ رفتہ قابو سے باہر ہوتی چلی جاتی ہیں اور بالآخر ایسی خواہشات لوگوں کو بغاوت پر آمادہ کر دیتی ہیں.لہذا ایسی چیزیں بالآخر وطن سے غداری کا سبب بنتی ہیں.اس کی وضاحت یہ ہے کہ عربی میں بغی کا لفظ اُن لوگوں یا ایسے کاموں کے لیے مستعمل ہے جو اپنے وطن کو نقصان پہنچاتے اور غلط کاموں میں ملوث ہو کر دوسروں کو نقصان پہنچاتے ہیں.اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو دھوکہ دیتے اور غیر قانونی یا ناجائز طریق پر چیزوں کے حصول کی کوشش کرتے ہیں.اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو تمام حدود سے تجاوز کرتے اور نقصان اور خرابی کا باعث بنتے ہیں.اسلام یہ بتاتا ہے کہ ایسے لوگوں سے وفاداری کی اُمید اور توقع نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ وفاداری اور اعلیٰ اخلاق ایک دوسرے کا اٹوٹ انگ ہیں.وفاداری اعلیٰ اخلاق کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور اعلیٰ اخلاق وفاداری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے.اعلیٰ اخلاق کے متعلق لوگوں کا نظریہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتا ہے لیکن اسلام تو صرف خدا کی رضا کے حصول کے مقصد کے گرد ہی گھومتا ہے.چنانچہ مسلمانوں کو یہی ہدایت ہے کہ وہ ہمیشہ ایسے اعمال بجالائیں جن سے خدا خوش ہو.الغرض اسلامی تعلیمات کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہرقسم کی دھوکہ دہی ، بغاوت اور غداری سے سختی کے ساتھ منع فرما دیا ہے خواہ وہ اپنے وطن کے ساتھ ہو یا اپنی حکومت کے ساتھ ! کیونکہ بغاوت یا حکومت کے خلاف کام کرنا ملکی امن و امان کے لیے خطرہ ہوتا ہے.اندرونی بغاوت اور مخاصمت ہمیشہ بیرونی لڑائی جھگڑوں کو دعوت دیتی ہے اور غیروں کو اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ اندرونی خلفشار کا فائدہ اُٹھا ئیں.لہذا ملک وقوم سے بے وفائی کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں.پس ہر وہ چیز جو وطن کو نقصان پہنچاسکتی ہے وہ بغی کے زمرہ میں آتی ہے جسے میں بیان کر چکا ہوں.ان باتوں کے پیش نظر وطن سے وفاداری کا یہ تقاضا ہے کہ انسان صبر کا مظاہرہ کرے، اعلیٰ اخلاق دکھائے اور ملکی قوانین کی پابندی کرے.29
30 دور جدید میں اکثر حکومتیں جمہوری طرز پر ہیں اس لیے اگر کوئی فرد واحد یا گروہ حکومت کو بدلنا چاہے تو انہیں یہ کام مناسب جمہوری طریق کے مطابق ہی کرنا چاہیے اور اپنی آواز پہنچانے کے لیے حق رائے دہی کا سہارا لینا چاہیے.ووٹ ذاتی ترجیحات یا ذاتی مفادات کی وجہ سے نہیں ڈالنے چاہئیں بلکہ اس بارہ میں اسلامی تعلیم یہ ہے کہ کسی کو اپنے ووٹ کے استعمال کا حق وطن سے وفاداری اور محبت کی روح اور قومی بھلائی کو ذہن میں رکھتے ہوئے استعمال کرنا چاہیے.چنانچہ حق رائے دہی استعمال کرتے وقت ذاتی ترجیحات، امیدوار اور پارٹی کونہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں کو مد نظر رکھنا چاہیے جن سے یہ جانچا جا سکے کہ کون سا امیدوار یا کون سی پارٹی ملک وقوم کی ترقی میں مددگار ہوگی.حکومت ایک بہت بڑی امانت ہے اس لیے یہ صرف اس پارٹی کو دی جانی چاہیے جسے ایک ووٹر دیانت داری سے سب سے مناسب اور سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہے یہ ہے حقیقی اسلام اور یہ ہے کچی وفاداری! قرآن کریم کی سورۃ نمبر 4 آیت نمبر 59 میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ امانتیں صرف ان لوگوں کے سپر د کرو جو اس کے اہل ہوں اور لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے وقت انصاف اور ایمان داری سے فیصلہ کرو.پس وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ عنان حکومت صرف انہی لوگوں کو تھمائی جائے جو اس کے صحیح حق دار ہیں تا کہ ملک وقوم ترقی کرے اور ترقی کی دوڑ میں دنیا کی دوسری اقوام کے شانہ بشانہ ہو.دنیا میں کئی جگہ عوام حکومتی پالیسیوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاج میں حصہ لیتے ہیں.نیز تیسری دنیا کے بعض ممالک میں احتجاج کرنے والے سرکاری یا شہریوں کی املاک اور جائیدادیں لوٹتے اور انہیں نقصان پہنچاتے ہیں.حالانکہ ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ وہ یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے افعال کا وطن سے وفاداری اور محبت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ غیر مجرمانہ اور پر امن احتجاج یا ہڑتال بھی معاشرہ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے کیونکہ پر امن احتجاج بھی اکثر قومی معیشت کو لاکھوں کا نقصان پہنچاتا ہے.ایسا رویہ کسی طور پر بھی قوم سے وفاداری کی مثال نہیں سمجھا جا سکتا.اس سلسلہ میں ایک سنہرا اصول جو بانی جماعت احمدیہ مسلمہ نے دیا ہے یہ ہے کہ ہر طرح کے حالات میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ ، انبیاء اور حکام وقت کا مطیع ہو کر رہنا چاہیے.یہ بعینہ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے دی ہے.لہذا اگر کوئی بھی ملک ہڑتال اور احتجاج کی اجازت دیتا
وطن سے محبت کے متعلق اسلامی تعلیمات ہے تو وہ صرف اس حد تک کرنے چاہئیں کہ ان سے ملک یا معیشت کو نقصان نہ پہنچے.ایک اور سوال جواکثر پیدا ہوتا ہے یہ ہے کہ کیا مسلمان یورپین ممالک کی افواج میں بھرتی ہو سکتے ہیں اور اگر بھرتی ہو سکتے ہیں تو کیا وہ ان ممالک کی طرف سے مسلمان ممالک پر فوجی حملہ میں حصہ لے سکتے ہیں؟ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ظلم کے کاموں میں مدد نہیں کرنی چاہیے.ہر مسلمان کو یہ بنیادی حکم ہمیشہ اپنے ذہن میں مستحضر رکھنا چاہیے.جب کسی مسلمان ملک پر اس لیے حملہ کیا جائے کہ اس نے خود پہلے زیادتی اور نا انصافی سے کام لیا تھا اور جارحیت میں پہل کی تھی تب اس طرح کے حالات میں قرآن مسلمان حکومتوں کو نصیحت کرتا ہے کہ انہیں ظالم کا ہاتھ روکنا چاہیے.یعنی انہیں چاہیے کہ ظلم کا سد باب کر کے قیام امن کی کوشش کریں.پس اس طرح کے حالات میں کوئی قدم اٹھانے کی اجازت ہے.تاہم جب زیادتی کرنے والا ملک خود اپنی اصلاح کرلے اور امن کی طرف آ جائے تو پھر اس ملک یا اس کے لوگوں سے کوئی زیادتی نہیں کرنی چاہیے یا جھوٹے بہانے اور عذر بنا کر انہیں زیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ انہیں دوبارہ حسب معمول آزادی اور خود مختاری دے دینی چاہیے.فوج کشی قیام امن کی خاطر ہونی چاہیے نہ کہ اپنے مخصوص مفادات کی تکمیل کے لیے.اسلام بلا تفریق مسلمان یا غیر مسلمان تمام ممالک کو ظلم اور زیادتی سے روکنے کا حق دیتا ہے.لہذا اگر ضرورت پیش آئے تو غیر مسلمان ممالک ان حقیقی مقاصد کے حصول کے لیے مسلمان ممالک پر حملہ آور ہو سکتے ہیں.ان غیر مسلمان ممالک کے مسلمانوں کو اجازت ہے کہ وہ اپنے ممالک کی افواج میں شامل ہو کر دوسرے ملک کو ظلم سے روکیں.جہاں ایسے حالات کا سامنا ہوتو مسلمان فوجی خواهہ وہ کسی بھی مغربی ملک کی فوج میں شامل ہوں انہیں احکام کی تعمیل کرنا ہوگی اور ضرورت پڑنے پر قیام امن کی خاطر جنگ بھی کرنا ہوگی.اگر ایک ملک کی فوج ناجائز طور پر کسی دوسرے ملک پر حملہ کا ارادہ کرتی ہے اور ظالم بن جاتی ہے تو مسلمان کو اختیار ہے کہ وہ فوج کو چھوڑ دے کیونکہ اس صورت میں وہ ظلم کا ساتھ دے رہا ہو گا.ایسا فیصلہ کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک سے بے وفائی کر رہا ہے.در حقیقت اس طرح کے حالات میں اس کی اپنے وطن سے وفاداری کا تقاضا ہو گا کہ وہ ایسا قدم اُٹھائے اور اپنی حکومت کو مشورہ دے کہ وہ خود کو اُس گڑھے میں گرنے سے بچائیں جس میں نا انصاف اور ظالم حکومتیں اور قو میں گرتی ہیں.اگر فوج میں شمولیت لازم ہو اور اسے چھوڑنے کی کوئی صورت نہ ہو اور اس شخص کا ضمیر بوجھل ہو تو اسے وہ ملک چھوڑ دینا چاہیے 31
32 2 لیکن اُسے ملکی قانون کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کی اجازت ہرگز نہیں کیوں کہ کوئی مسلمان ایک ملک میں رہتے ہوئے اس ملک کے خلاف کام کر رہا ہو یا دشمنوں کا ساتھ دے رہا ہو تو اسے اس ملک میں بطور شہری رہنے کا کوئی حق نہیں.پس یہ اسلامی تعلیمات کے صرف چند پہلو ہیں جو تمام بچے مسلمانوں کی وطن سے وفاداری اور محبت کے حقیقی تقاضوں کی طرف راہنمائی کرتے ہیں.وقت مقررہ میں میں نے اس موضوع کو مختصر ا ہی چھوا ہے.آخر پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج دنیا ایک گلوبل و پیچ بن گئی ہے.انسانوں کے ایک دوسرے سے روابط بہت گہرے ہو گئے ہیں.ہر قوم، مذہب اور معاشرہ کے لوگ دنیا کے ہر ملک میں سکونت پذیر ہیں اس لیے ہر قوم کے لیڈ ر تمام لوگوں کے جذبات اور احساسات کو سمجھیں اور ان کا احترام کریں.راہنماؤں اور ان کی حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے چاہئیں جن سے سچائی اور انصاف کی رُوح اور ماحول پروان چڑھے نہ کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جولوگوں میں مایوسی اور بے چینی پیدا کریں.نا انصافیاں اور زیادتیاں ختم ہونی چاہئیں اور اس کے بدلہ میں حقیقی انصاف کے لیے کوشش کرنی چاہیے جس کے حصول کا بہترین طریق یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو پہچانے.پس ہر طرح کی وفاداری خدا سے وفاداری کی بنیاد پر ہونی چاہیے.اگر ایسا ہو جائے تو بہت جلد تمام ممالک کے عوام میں وفاداری کے بہترین معیار قائم ہو جائیں گے اور ساری دنیا میں امن و امان کی نئی راہیں کھل جائیں گی.آخر میں ایک مرتبہ پھر میں آپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے آج مجھے یہاں آنے کی دعوت دی اور میری باتوں کو سنا.اللہ آپ سب پر فضل فرمائے اور اللہ جرمنی پر بھی فضل فرمائے.بہت شکریہ.
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت نویں سالانہ امن کانفرنس لندن انگلستان 2012ء Miational Peace Symposium 2012 International Peace Ahmadiyya Muslim Community UK
NATIONAL PEACE SYMPOSIUM 2012 LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE Ahmadiyya Muslim لندن کے میئر بورس جانسن حضرت اقدس کی خدمت میں لندن بس کا سود نیئر پیش کرتے ہوئے ڈیم میری رچرڈسن صدر یو کے ایس اوایس چلڈرنز و پیچز حضور انور سے قیام امن کی کوششوں کے سلسلہ میں احمد یہ مسلم پر ائز وصول کر رہی ہے الالانا رسولان حضرت مرزا مسرور احمد ليلة امسح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزيز نویں سالانہ امن کا نفرنس سے خطاب فرماتے ہوئے
LOVE National Peace Stim International Prox Nailonel F Pence Sympalan : ernational حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المسیح لخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سمندر پار پاکستانی پریس سے عالمی اُمور پر گفتگو کرتے ہوئے Ahmadiyya Muslim Community &
پیش لفظ 24 مارچ 2012ء کو نویں سالانہ امن کا نفرنس کا انعقاد بیت الفتوح مورڈن میں جماعت احمد یہ مسلمہ انگلستان نے کیا.اس تقریب میں ایک ہزار سے زائد لوگ شامل ہوئے جن میں حکومتی وزرا، سفراء ممالک، ہاؤس آف کامنز اور ہاؤس آف لارڈز کے ممبران میئر آف لندن ، متعدد دیگر معززین، ماہرین، ہمسایہ اور زندگی کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے.امسال کانفرنس کا موضوع ”بین الاقوامی امن تھا.تیسرا سالانہ احمد یہ مسلم انعام برائے فروغ امن، حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے رفاہی اداره SOS Children's Villages انگلستان کو ان کی تمام دنیا میں یتیم اور بے آسرا بچوں کی محرومیاں دور کرنے کے سلسلہ میں مسلسل کوششوں کے اعتراف اور ان کا خواب کہ ہر بچے کے لیے ایک پیارا گھر کی تکمیل کے سلسلہ میں دیا.
معزز شاملین • • • • • • Rt Hon Justine Greening-MP, Secretary of State for Transport Jane Ellison-MP (Battersea) Seema Malhotra-MP (Feltham and Heston) Tom Brake MP (Carlshalton and Wallington) Virendra Sharma-MP (Ealing and Southall) Lord Tariq Ahmad-of Wimbledon HE Wesley Momo Johnson-the Ambassador of Liberia • HE Abdullah Al-Radhi-the Ambassador of Yemen • • • • • HE Miguel Solano-Lopez-the Ambassador of Paraguay Commodore Martin Atherton-Naval Regional Commander Councillor Jane Cooper-the Worshipful Mayor of Wandsworth Councillor Milton McKenzie MBE-the Worshipful Mayor of Barking and Dagenham Councillor Amrit Mann-the Worshipful Mayor of Hounslow Siobhan Benita-independent Mayoral candidate for London Diplomats from several other countries including India, Canada, Indonesia and Guinea 38
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت شہد ہو اور ہم الہ کی حلاوتکےبعد حضر ا ا ا ا ا ا الا علی بنصرہ العزیز نے فرمایا: تمام مہمانان کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ایک سال کے بعد آج پھر میں اپنے تمام معزز مہمانوں کو اس تقریب میں خوش آمدید کہتا ہوں.میں آپ سب لوگوں کا بہت ممنون ہوں کہ آپ نے آج اس تقریب میں شمولیت کے لیے وقت نکالا.آپ میں سے اکثر مہمان اس تقریب کی نوعیت سے بخوبی واقف ہیں جو امن کانفرنس کے نام سے جانی جاتی ہے.ہر سال یہ تقریب جماعت احمدیہ مسلمہ کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے اور دنیا میں قیام امن کی خواہش کی تکمیل کے سلسلہ میں ہماری متعدد کاوشوں میں سے ایک کاوش ہے.آج ہمارے ساتھ کچھ نئے دوست بھی یہاں شامل ہیں جو اس تقریب میں پہلی مرتبہ شامل ہو رہے ہیں جبکہ باقی احباب ہمارے پرانے دوست ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے ہماری کاوشوں میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہے ہیں.بہر حال آپ سب لوگ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور ہمارے ساتھ ساری دنیا میں قیام امن کی خواہش میں شریک ہیں اور اسی تمنا کی وجہ سے آپ آج کی اس تقریب میں شریک ہیں.آپ سب لوگ جو مختلف طبقات فکر، قومیتوں اور مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں.آج اس دلی تمنا کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں کہ دُنیا میں ہر طرف محبت، پیار اور دوستی کا دور دورہ ہو.یہ وہ طریق اور اقدار ہیں جن کی آرزودُنیا کی بڑی اکثریت اپنے دلوں میں رکھتی ہے اور آج دنیا کو اسی چیز کی ضرورت ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہم یہ کا نفرنس ہر سال منعقد کرتے ہیں اور ہر دفعہ ہم سب ان جذبات اور اُمیدوں کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں دنیا میں امن قائم ہوتا ہوا دیکھ لیں اور اسی لیے میں ہر سال آپ سب سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ جس سے بھی آپ کے روابط ہوں اور جہاں کہیں بھی آپ کو موقع ملے امن کو فروغ دینے کی کوشش کریں.مزید برآں جن لوگوں کی سیاسی پارٹیوں یا گورنمنٹ سے وابستگی ہیں.میں ان
سب سے بھی یہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے حلقہ اثر میں اس امن کے پیغام کو پھیلا ئیں.ہر ایک کو یہ باور کرانا بہت ضروری ہے کہ امن عالم کے قیام کے لیے آج اعلیٰ اور اُصولوں پر بنی اخلاقی قدروں کی پہلے سے بہت بڑھ کر ضرورت ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے تو جہاں کہیں اور جب کبھی بھی موقع ملتا ہے ہم کھل کر اپنے اس نقطہ نظر کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا تباہی اور بربادی کے جس راستہ پر گامزن ہے اسے بچانے کا صرف ایک طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم سب پیار، باہمی ہمدردی اور احساس وحدت کو پھیلانے کی کوشش کریں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دنیا اپنے خالق کو جو ایک خدا ہے، پہچان لے.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خالق کی معرفت ہی ہے جو ہمیں اُس کی مخلوق سے محبت اور ہمدردی کی طرف لے جاتی ہے اور جب یہ جذ بہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن جاتا ہے تو پھر ہم خدا کے پیار کو حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں.ہم دنیا میں متواتر صدائے امن بلند کرتے رہتے ہیں اور ہمارے دل دُکھی انسانیت کا درد اور تکلیف محسوس کرتے ہیں یہ کرب ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم بنی نوع انسان کی تکالیف کو کم کرنے اور اس دُنیا کو جس میں ہم رہتے ہیں ایک بہتر جگہ بنانے کی کوشش کریں اور انہی کوششوں کی ایک جھلک ہماری آج کی تقریب میں بھی نظر آ رہی ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں.آپ سب لوگ بھی انہی نیک خواہشات کے حامی ہیں.علاوہ ازیں میں بار بار سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کو قیام امن کی کوشش کرنے کی طرف توجہ دلا چکا ہوں مگر ان تمام کوششوں کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ساری دنیا میں بے چینی اور خلفشار پھیلتا اور بڑھتا چلا جا رہا ہے.آج کی دنیا میں تصادم، بے چینی اور بعض ممالک میں عوام آپس میں ہی لڑائی اور جنگ کر رہے ہیں اور بعض ممالک میں عوام حکومت سے برسر پیکار ہیں یا اس کے برعکس حکام اپنے ہی عوام کے خلاف صف آرا ہیں.دہشت گرد عناصر اپنے مخصوص مفادات کے حصول کے لیے انتشار اور افراتفری کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور معصوم خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو اندھا دھند قتل کر رہے ہیں.بعض ممالک میں سیاسی پارٹیاں اپنے مفادات کے حصول کے لیے باہم مل کر اپنے ملک کی بہبود کے لیے کام کرنے کی بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہی ہیں.ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ کچھ حکومتیں اور ممالک بعض دوسرے ممالک کے قدرتی ذخائر کو متواتر لچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں، دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی 40
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت برتری اور تسلط کو قائم رکھنے کے لئے اپنی تمام کوششیں صرف کر رہی ہیں اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے کوئی بھی حربہ اور ہتھکنڈا استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتیں.اس صورت حال میں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ تو جماعت احمد یہ اور نہ ہی آپ میں سے اکثریت، جو عوام کے نمائندہ ہیں، یہ طاقت اور اختیار رکھتے ہیں کہ مثبت تبدیلی لانے کے لیے کوئی پالیسی بناسکیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس کوئی حکومتی طاقت یا عہدہ نہیں ہے.در حقیقت میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ سیاسی شخصیات جن سے ہمارے دوستانہ مراسم ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ہماری باتوں سے مکمل اتفاق کرتے ہیں وہ بھی جب با اقتدار حلقوں میں ہوتے ہیں تو آواز بلند کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے یا ان کی آواز میں دبا دی جاتی ہیں اور انہیں اپنی رائے پیش کرنے سے روکا جاتا ہے.اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ پارٹی پالیسی اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں یا شاید وہ اپنے سیاسی حلیفوں یا دیگر عالمی قوتوں کے دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں.اس کے باوجود ہم جو ہر سال اس امن کا نفرنس میں شامل ہوتے ہیں.بلاشک وشبہ قیام امن کی خواہش رکھتے ہیں اور یقیناً ہم اپنی آراء اور جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ محبت، ہمدردی اور بھائی چارہ کو تمام مذاہب اقوام اور نسلوں اور تمام لوگوں میں قائم کرنا چاہیے.بد قسمتی سے ہم اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے میں بے بس ہیں.ان نتائج کے حصول کے لیے جن کی ہم خواہش رکھتے ہیں نہ تو ہمارے پاس اختیارات ہیں اور نہ ہی ذرائع.مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل اسی ہال میں ہماری امن کا نفرنس کے دوران میں نے ایک تقریر میں دنیا میں قیام امن کے طریق اور ذرائع پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی اور میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اقوام متحدہ کو کس طرح کام کرنا چاہیے.بعد میں ہمارے بہت ہی محترم دوست لا ر ڈارک ایو بری نے کہا کہ یہ خطاب تو اقوام متحدہ میں سنا جانا چاہیے تھا.یہ اُن کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ انہوں نے بلند حوصلگی اور محبت سے اس بات کا اظہار کیا.بہر حال میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ محض تقاریر اور خطابات کر لینا اور سن لینا کافی نہیں ہے اور صرف اس کے ساتھ امن قائم نہیں ہو سکتا.دراصل اس اہم مقصد کے حصول کی بنیادی شرط تمام معاملات میں مکمل عدل و انصاف ہے.قرآن کریم کی سورۃ نمبر 4 آیت 136 میں ہمیں اس بارہ میں ایک سنہری اُصول اور سبق دیا گیا ہے.اس میں بتایا گیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں خواہ آپ کو اپنے خلاف، اپنے والدین کے خلاف، اپنے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہی گواہی کیوں نہ دینی پڑے.یہ حقیقی انصاف ہے جس میں اجتماعی مفاد کی خاطر ذاتی 41
42 مفادات کو قربان کر دیا جاتا ہے.اگر ہم اِس اُصول کا مجموعی طور پر جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ غیر منصفانہ تجاویز کومنوانے کے طریق جو دولت اور اثر ورسوخ کے بل بوتے پر اختیار کیے جاتے ہیں ترک کر دینے چاہئیں.اس کی بجائے ہر ملک کے نمائندگان اور سفیروں کو خلوص نیت کے ساتھ اور انصاف اور برابری کے اُصولوں کی حمایت کی خواہش کے ساتھ آگے آنا چاہیے.ہمیں ہر قسم کے تعصبات اور امتیاز کو یکسر مٹانا ہوگا کیونکہ قیام امن کا یہی واحد راستہ ہے.اگر ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی یا سلامتی کونسل کا جائزہ لیں تو اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں کی جانے والی تقاریر اور جاری کیے جانے والے بیانات کی بہت تعریفیں کی جاتی ہیں اور سراہا جاتا ہے لیکن یہ پذیرائی بے معنی ہے کیونکہ اصل فیصلے تو پہلے ہی ہو چکے ہوتے ہیں.پس جہاں فیصلے بڑی طاقتوں کے دباؤ اور اثر کے تحت اور انصاف اور حقیقی حق خود ارادیت کے تقاضوں کے خلاف کیے جائیں تو ایسی تقاریر کو کھلی اور بے معنی ہو جاتی ہیں اور صرف دنیا کو دھوکہ دینے کے کام ہی آتی ہیں.تا ہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم عاجز آ کر اپنی کوششیں ترک کر دیں.اس کے برعکس ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے ہمارا نصب العین یہ ہونا چاہیے کہ ہم حکومت کو یہ یاد کرواتے رہیں کہ حالات ہم سے کیا تقاضا کر رہے ہیں.ہمیں ذاتی مفادات رکھنے والے گروہوں کو بھی مسلسل نصیحت کرنی چاہیے تا کہ عالمی سطح پر انصاف کا قیام ہو.صرف اسی صورت میں ہم اس دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بناسکیں گے جو ہم سب کی خواہش ہے.لہذا ہم نہ تو اپنی کوششیں ترک کر سکتے ہیں اور نہ ہی ترک کرنی چاہئیں.اگر ہم ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کرنا چھوڑ دیں گے تو ہمارا شمار بھی ان لوگوں میں ہو گا جو اعلیٰ اخلاقی اقدار اور معیار سے بے بہرہ ہیں.قطع نظر اس بات کے کہ ہماری بات سنی جاتی ہے یا کوئی اثر پیدا کرتی ہے یا نہیں، ہمیں قیام امن کی خاطر دوسروں کو نصائح کرتے رہنا ہو گا.مجھے ہمیشہ یہ دیکھ کر نہایت مسرت ہوتی ہے کہ مذہب وملت کی تفریق سے بالا ہو کر انسانی اقدار کے قیام کی خاطر بھاری تعداد میں لوگ اس تقریب کو سننے کے لیے اور دُنیا میں امن و محبت کے طریق سیکھنے اور ان پر بات کرنے کے لیے اس میں شامل ہوتے ہیں.لہذا میں آپ سب لوگوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے قیام امن کے لیے کوشش کریں تا کہ ہم امید کی کرن کو زندہ رکھ سکیں کیونکہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کے تمام خطوں میں حقیقی امن اور انصاف قائم ہو جائے گا.( انشاء اللہ )
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جب انسانی کوششیں بے کار ہو جاتی ہیں اس وقت خدا تعالیٰ اپنی تقدیر جاری کر کے بنی نوع انسان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیتا ہے.قبل اس کے کہ خدا کی تقدیر حرکت میں آئے اور انسان حکم خدا کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو.بہتر ہوگا کہ دنیا کے لوگ خود ان اہم باتوں کی طرف توجہ کر لیں کیونکہ جب خدا تعالی پکڑنے پر آتا ہے تو اس کا قہر بنی نوع انسان کو انتہائی خوفناک اور بھیا تک انداز میں پکڑتا ہے.آج کے دور میں خدا کی ایک قہری تجلی ایک اور عالمی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوسکتی ہے.اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایسی جنگ کے بداثرات اور تباہی صرف ایک روایتی جنگ یا صرف موجودہ نسل تک ہی محدود نہیں رہیں گے.در حقیقت اس کے ہولناک نتائج آئندہ کئی نسلوں تک ظاہر ہوتے رہیں گے.ایسی جنگ کا المناک نتیجہ تو ان نومولود بچوں کو بھگتنا پڑے گا جواب یا آئندہ پیدا ہوں گے.جو ہتھیار آج موجود ہیں وہ اس قدر تباہ کن ہیں کہ ان کے نتیجہ میں نسلاً بعد نسل بچوں کے جینیاتی یا جسمانی طور پر معذور پیدا ہونے کا اندیشہ ہے.جاپان وہ واحد ملک ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹمی حملہ والے ہولناک تجربہ سے گزرا ہے.آج بھی اگر آپ جاپان جائیں اور وہاں کے لوگوں سے ملیں تو آپ دیکھیں گے کہ جنگ کے بارہ میں ان کی آنکھوں اور ان کی باتوں سے شدید خوف اور نفرت جھلکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت استعمال کیے گئے ایٹمی ہتھیار جنہوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی آج بہت چھوٹے ملکوں کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں سے بھی بہت کم طاقت کے حامل تھے.کہا جاتا ہے کہ جاپان میں سات دہائیاں گزرنے کے بعد بھی بعض نوزائیدہ بچوں میں ایٹم بم کے بداثرات اب بھی ظاہر ہو جاتے ہیں.اگر کسی شخص کو گولی مار دی جائے تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ طبی امداد مہیا ہونے پر اس کی جان بچائی جاسکے لیکن اگر ایٹمی جنگ چھڑ جاتی ہے تو جولوگ براہ راست اس کی زد میں آئیں گے اُن کے بچنے کا کوئی امکان نہیں.لوگ آنا فانا ہلاک ہو جائیں گے یا مجسموں کی صورت میں منجمد ہو جائیں گے اور اُن کی جلد پانی کی طرح بہ جائے گی.پینے کا پانی، غذا اور سبزہ وغیرہ ایٹمی تابکاری سے نا قابل استعمال ہو جائیں گے.اس تابکاری کے اثرات سے جو بیماریاں پیدا ہوں گی ہم ان کا صرف تصور کر سکتے ہیں.ان مقامات پر جہاں براہ راست حملہ نہیں ہوگا اور جہاں تابکاری کے اثرات کم ہوں گے وہاں بھی بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ 43
44 جائیں گے اور ان کی آئندہ نسلیں بھی بہت بڑے خطرات میں گھر جائیں گی.لہذا جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے کہ اس قسم کی جنگ کے ہولناک اور تباہ کن اثرات صرف اس جنگ تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ نسلاً بعد نسل چلیں گے.ایسی جنگوں کے ان نتائج کے باوجود آج بھی ایسے خود غرض اور بے وقوف لوگ موجود ہیں جو اپنی اس ایجاد پر فخر کرتے ہوئے انہیں دنیا کے لیے ایک تحفہ قرار دیتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی توانائی اور ٹیکنالوجی کے برائے نام مفید پہلو انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں اور غفلت کے باعث یا حادثات کی صورت میں یہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کا باعث بن سکتے ہیں.ہم ایسی تبدیلیاں پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جیسا کہ چرنوبل، موجودہ یوکرائن، میں 1986ء میں ایسا ایٹمی حادثہ ہو چکا ہے اور ابھی پچھلے سال ہی جاپان میں زلزلہ اور سونامی کے نتیجہ میں اسے بھی اس قسم کے خطرہ کا سامنا تھا اور تمام ملک ہراساں تھا.جب اس طرح کے حادثات ہوتے ہیں تو متاثرہ علاقوں کو دوبارہ آباد کرنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے.ان کے منفرد اور المناک حادثہ کی وجہ سے جو انہیں سہنا پڑا، جاپانی بہت ہی محتاط ہو چکے ہیں اور اپنے اس خوف و ہراس میں بالکل حق بجانب ہیں.یہ تو سب کو معلوم ہے کہ جنگیں ہلاکت کا پیغام لاتی ہیں جب جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں شمولیت اختیار کی تو اس کی حکومت اور لوگ بخوبی جانتے تھے کہ کچھ لوگ تو بہر حال موت کا شکار ہو جائیں گے.بتایا جاتا ہے کہ جاپان میں قریباً30لاکھ افراد نے جان سے ہاتھ دھوئے اور یہ لکی آبادی کا 4 فیصد بنتا ہے.باوجود اس کے کہ کل اموات کے تناسب سے کئی دوسرے ممالک میں زیادہ اموات واقع ہوئی ہوں گی پھر بھی جاپانی قوم میں جنگ سے نفرت اور کراہت دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے.اس کی واضح وجہ دو ایٹم بم ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر گرائے گئے اور جس کے بداثرات کا وہ آج تک شکار ہیں.جاپانی قوم نے اپنی عظمت اور دوبارہ ابھرنے کی طاقت کا ثبوت اپنے شہروں کو بڑی تیزی سے از سر نو آباد کر کے دیا ہے لیکن یہ واضح رہے کہ اگر ایٹمی ہتھیار آج دوبارہ استعمال ہوتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ بعض ممالک کے کچھ حصے مکمل طور پر دنیا کے نقشہ سے مٹ جائیں اور ان کا نام ونشان بھی باقی نہ رہے.محتاط اندازوں کے مطابق جنگ عظیم دوم میں چھ کروڑ سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہوئیں اور کہا جاتا
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت ہے کہ اس میں چار کروڑ افراد عام شہری تھے.اس طرح بالفاظ دیگر فوجیوں سے زیادہ عام شہری ہلاک ہوئے.باوجود اس کے کہ جاپان کے علاوہ باقی ہر جگہ پر روایتی ہتھیاروں سے جنگ لڑی گئی پھر بھی اتنی شدید تباہی ہوئی.برطانیہ میں پانچ لاکھ لوگ لقمہ اجل بنے.اس وقت برطانیہ کی حکومت نو آبادیاتی طاقت تھی اور اس کی کالونیاں اور وہ ممالک جو برطانیہ کی طرف سے لڑ رہے تھے اگر ان اموات کو بھی شامل کیا جائے تو پھر یہ تعداد کروڑوں میں جا پہنچتی ہے.صرف انڈیا میں ہی سولہ لاکھ افراد لقمہ اجل بنے.تاہم اب حالات بدل چکے ہیں وہ ممالک جو بھی حکومت برطانیہ کی کالونیاں تھے اور جنہوں نے برطانیہ کی طرف سے جنگ میں حصہ لیا.جنگ کی صورت میں اب شاید وہ برطانیہ کے ہی خلاف جنگ کے لیے تیار ہو جائیں.مزید یہ کہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اب تو بعض چھوٹے ممالک نے بھی ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے ہیں.فکر کی بات یہ ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیار ایسے لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں جن کے پاس اتنی قابلیت ہی نہیں ہے یا جو اپنے اعمال کے نتائج کا ادراک نہیں کرنا چاہتے.حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ عواقب سے بالکل بے پروا اور جنگی جنون میں مبتلا ہیں.پس اگر بڑی طاقتوں نے انصاف سے کام نہ لیا اور چھوٹے ملکوں کے احساس محرومی کو ختم نہ کیا اور عمدہ حکمت عملی نہ اپنائی تو حالات بالآخر ہاتھ سے نکل جائیں گے اور پھر جو تباہی اور بربادی ہوگی وہ ہماری سوچ اور تصور سے بھی بڑھ کر ہوگی بلکہ دنیا کی اکثریت جو امن کی خواہاں ہے وہ بھی اس تباہی کی لپیٹ میں آجائے گی.پس میری دلی خواہش اور تمنا یہ ہے کہ تمام بڑی طاقتوں کے راہنما اس خوفناک حقیقت کو سمجھ جائیں اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے اور اپنے عزائم اور مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے ایسی حکمت عملی اپنانے کی کوشش کریں جن سے انصاف کو فروغ دیا جائے اور اسے یقینی بنایا جائے.حال ہی میں روس کے ایک اعلیٰ فوجی کمانڈر نے ایک بیان میں ایٹمی جنگ کے سنگین خطرہ کی طرف نشاندہی کی ہے.ان کا خیال تھا کہ یہ جنگ ایشیا یا کہیں اور نہیں لڑی جائے گی بلکہ یورپ کی سرحدوں پر لڑی جائے گی اور یہ کہ اس کے شعلے مشرقی یورپین ممالک سے بلند ہونے کا خدشہ ہے.اگر چہ کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی ذاتی رائے ہے لیکن میں ان کے خیالات کو خارج از امکان نہیں سمجھتا بلکہ میرا تو خیال ہے کہ اگر ایسی جنگ چھڑ گئی تو غالب امکان ہے کہ ایشیائی ممالک بھی اس میں شامل ہو جائیں گے.45
ایک اور خبر جسے حال ہی میں وسیع پیمانہ پر نشر کیا گیا وہ اسرائیلی ایجنسی موساد کے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے سر براہ کا بیان ہے.امریکہ کے معروف ٹی وی چینل (CBS) کوانٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بات کھل کر سامنے آتی جارہی ہے کہ اسرائیلی حکومت ایران پر حملہ کرنا چاہتی ہے.انہوں نے کہا کہ اگر ایسا حملہ ہوا تو یہ جاننا ہمارے لیے ناممکن ہے کہ اس جنگ کا خاتمہ کہاں اور کیسے ہوگا؟ چنانچہ انہوں نے ایسے کسی بھی حملہ کی پُرزور مخالفت کی.اس ضمن میں میرا خیال یہ ہے کہ ایسی جنگ ایٹمی تباہی پر منتج ہوگی.حال ہی میں ایک اور مضمون میری نظر سے گزرا جس میں مضمون نگار نے بیان کیا کہ معاشی اور سیاسی اعتبار سے دنیا کے موجودہ حالات بالکل ویسے ہی ہیں جیسے 1932ء میں تھے.انہوں نے لکھا کہ بعض ممالک میں عوام کو اپنے سیاستدانوں یا برائے نام جمہوریت پر کوئی اعتماد نہیں.انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس کے علاوہ مزید کئی مشابہتیں ایسی ہیں جنہیں اگر یکجائی صورت میں دیکھا جائے تو آج بالکل وہی تصویر ابھرتی ہے جو دوسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ تھی.کچھ لوگ اس تجزیہ سے شاید اتفاق نہ کریں لیکن میں اُس کے اس تجزیہ سے اتفاق کرتا ہوں اس لیے میرے خیال میں دنیوی حکومتوں کو موجودہ حالات پر انتہائی تشویش اور فکر مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے.اسی طرح بعض مسلمان ممالک کے ظالم حکمرانوں کو جن کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہیں، ہوش کے ناخن لینے چاہئیں.بصورت دیگر اُن کے اعمال اور اُن کی بے وقوفی ان کے اپنے قلع قمع کا ذریعہ بن جائے گی اور وہ اپنے ممالک کو انتہائی ہولناک تباہی کی طرف لے جائیں گے.ہم ممبران جماعت احمد یہ حتی الوسع اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ دنیا اور انسانیت کو تباہی سے بچایا جائے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس زمانہ میں وقت کے امام کو قبول کیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود بنا کر بھیجا اور وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِینَ کے غلام کی حیثیت سے مبعوث ہوئے کیونکہ ہم اپنے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر دل و جان سے عمل پیرا ہیں اس لیے دنیا کی حالت پر ہمارے دل سخت کرب و تکلیف میں مبتلا ہیں.انسانیت کو تباہی اور مصیبت سے بچانے کی ہماری کوششوں کے پیچھے یہی دکھ اور تکلیف کارفرما ہے.اسی لیے خاکسار اور تمام احمدی مسلمان دُنیا میں امن کے حصول کے لیے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کر رہے ہیں.46
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت ایک طریق جس سے میں دُنیا میں فروغ امن کے لیے کوشش کر رہا ہوں.خطوط کا وہ سلسلہ ہے جو میں نے بعض عالمی راہنماؤں کو لکھتے ہیں.چند ماہ قبل میں نے پوپ بینیڈکٹ کو خط لکھا جو ان تک میرے ایک احمدی نمائندہ نے خود مل کر پہنچایا.اس خط میں میں نے انہیں لکھا کہ چونکہ وہ دُنیا کے سب سے بڑے مذہبی فرقہ کے راہنما ہیں.لہذا انہیں قیام امن کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے.اسی طرح حال ہی میں ایران اور اسرائیل کے مابین انتہائی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھتے ہوئے میں نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو اور ایران کے صدر محمود احمدی نژاد کو خطوط لکھے جس میں میں نے دونوں راہنماؤں کو توجہ دلائی کہ جب انسانیت کی خاطر فیصلے کریں تو کسی بھی طرح کی عجلت اور عاقبت نا اندیشی سے فیصلے نہ کریں.حال ہی میں میں نے صدر بارک اوباما اور کینیڈا کے وزیر اعظم سٹیفن ہار پر کو بھی خطوط لکھے اور دونوں کو لکھا کہ دنیا میں امن و آشتی کے قیام کے لیے وہ اپنی ذمہ داریاں اور کردار ادا کریں اور میں مستقبل قریب میں دوسرے سربراہان مملکت اور راہنماؤں کو بھی متنبہ کرنے کے لیے خطوط لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں.میں نہیں جانتا کہ وہ میرے خطوط کو اہمیت دیں گے بھی یا نہیں.لیکن اُن کا رد عمل جیسا بھی ہو تمام دنیا میں موجود کروڑوں احمدی مسلمانوں کے امام اور روحانی پیشوا ہونے کی حیثیت سے اُن کے جذبات اور احساسات کی نمائندگی کرتے ہوئے دُنیا کی اس خطر ناک صورتحال میں میں نے قیام امن کے لیے ایک کوشش تو کی ہے.میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ ان جذبات کا اظہار میں نے کسی خوف کی وجہ سے نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے انسانیت کے لیے سچی محبت کا جذبہ کار فرما ہے.انسانیت کے لیے یہ ہمدردی ہر سچے مسلمان کے دل میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے جو جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں تمام انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے.غالباً آپ حیران ہوں گے اور یہ سن کر آپ کو دھچکا سا لگے گا کہ انسانیت سے ہماری محبت براہ راست آنحضرت ﷺ کی تعلیمات کا ہی نتیجہ ہے.آپ کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ پھر کیوں مسلمان دہشت گرد تنظیمیں معصوم لوگوں کا خون بہا رہی ہیں یا پھر کیوں مسلمان حکومتیں محض اپنی حکومت بچانے کے لیے اپنے ہی عوام کے لیے قتل عام کے حکم جاری کر رہی ہیں؟ الله 47
お میں یہ بات بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ حقیقت میں یہ شرانگیزیاں اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی ہیں اور قرآن کریم کسی بھی طرح کے حالات میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا.ہمارا ایمان ہے کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع میں مسیح موعود اور امام مہدی بنا کر مبعوث کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام اور قرآن کریم کی کچی تعلیمات کے دُنیا میں پھیلانے کے لیے ہی مبعوث ہوئے تھے.آپ بندہ اور خدا تعالیٰ کے مابین تعلق کو قائم کرنے کے لیے بھیجے گئے ہیں.آپ کی بعثت کی غرض یہ ہے کہ تا انسان ایک دوسرے کے حقوق کو پہچانے ، آپ اس لیے بھیجے گئے تا ہر طرح کی مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو.آپ اس لیے بھیجے گئے کہ تا تمام بانیان مذاہب اور انبیاء کی عزت و احترام قائم کی جائے.آپ دنیا کی توجہ اعلیٰ اخلاق اور اقدار کے حصول اور تمام دنیا میں امن، محبت، ہمدردی اور بھائی چارہ کے قیام کے لیے مبعوث ہوئے.آپ دنیا کے کسی حصہ میں چلے جائیں آپ تمام بچے احمدیوں کو ان خصوصیات سے مُرقع پائیں گے.ہمارے لیے نہ تو دہشت گرد اور نہ ہی انتہا پسند نمونہ ہیں اور نہ ظالم حکمران اور نہ ہی مغربی حکومتیں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں.ہم دل و جان سے جس نمونہ کی تقلید کرتے ہیں وہ بانی اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ ہے اور ہمارا لائحہ عمل قرآن کریم ہے.لہذا اس امن کا نفرنس کے ذریعہ میں تمام دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کی تعلیمات اور پیغام محبت، ہمدردی ، نرمی اور امن و آشتی کے سوا کچھ نہیں.افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی ایک انتہائی قلیل تعداد اسلام کی ایک بالکل بگڑی ہوئی تصویر پیش کرتی ہے اور اپنے گمراہ کن عقاید کے مطابق عمل پیرا بھی ہوتی ہے میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کے پیش کردہ اسلام کو حقیقی اسلام نہ سمجھا جائے اور ان کے غلط کاموں کو بہانہ بنا کر مسلمانوں کی امن پسند ا کثریت کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائی جائے یا انہیں ظلم کا نشانہ نہ بنایا جائے.قرآن کریم تمام مسلمانوں کے لیے نہایت مقدس اور سب سے زیادہ قابل تعظیم کتاب ہے.لہذا اس کی توہین کرنا اور قابل اعتراض زبان استعمال کرنا یا اسے جلا دینا یقیناً ایسے اقدام ہیں جن سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے.ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے اقدام کے رد عمل میں انتہا پسند مسلمان اکثر بالکل غلط اور نامناسب
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت 49 قدم اُٹھالیتے ہیں.ابھی حال ہی میں ہم نے افغانستان میں دو ایسے واقعات کے بارہ میں سنا جہاں کچھ امریکی فوجیوں نے قرآن کریم کی ہتک کی اور معصوم عورتوں اور بچوں کو ان کے گھروں میں ماردیا.اسی طرح جنوبی فرانس میں ایک بے رحم انسان نے ایک فرانسیسی فوجی کو بغیر کسی وجہ سے گولی مار کر ہلاک کر دیا اور اس کے چند روز کے بعد وہ شخص ایک سکول میں داخل ہوا اور وہاں تین معصوم یہودی بچوں اور ان کے ایک استاد کو مار ڈالا.ایسا رویہ بالکل غلط ہے اور اس سے کبھی بھی امن قائم نہیں ہو سکتا.اس قسم کے مظالم آئے دن پاکستان اور دوسری جگہوں پر ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح کے اقدامات سے اسلام دشمن عناصر کو اسلام کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار اور بڑے پیمانہ پر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بہانہ مل جاتا ہے.بربریت کے ایسے اظہار جو چھوٹے پیمانہ پر کیے جاتے ہیں یہ کسی ذاتی عناد یا کدورت کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ در حقیقت اس کی وجہ بعض حکومتوں کی نہ صرف داخلی بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنائی گئی غیر منصفانہ پالیسیاں ہوتی ہیں.پس دُنیا میں قیام امن کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر سطح پر اور دنیا کے ہر ملک میں انصاف کے درست معیار قائم کیے جائیں.قرآن کریم نے ایک معصوم جان کے قتل کو تمام انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے.پس ایک مرتبہ پھر مسلمان ہونے کے ناطہ میں یہ بات بالکل واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اسلام کسی بھی نوع، شکل یا طریق سے کیے جانے والے ظلم اور زیادتی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.اسلام کا یہ حکم بالکل قطعی ہے اور اس میں کوئی استثناء نہیں.قرآن کریم اس بارہ میں مزید فرماتا ہے کہ کوئی ملک یا قوم جو تم سے برسر پیکار ہے ان سے بھی معاملہ کرتے وقت مکمل انصاف اور عدل کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھو.ایسا نہ ہو کہ ان میں دشمنی اور رقابت کی وجہ سے ان سے بدلہ لینے کے لیے آپ بے اعتدالیوں کی طرف چلے جائیں.ایک اور بہت اہم ہدایت جو قرآن کریم نے ہمیں دی ہے یہ ہے کہ دوسروں کی دولت اور وسائل کی طرف حسد اور للچائی ہوئی نظروں سے مت دیکھو.میں نے صرف چند ایک اصول آپ کے سامنے پیش کیے ہیں لیکن یہ بہت ہی اہم ہیں کیونکہ یہ معاشرہ میں اور باقی دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کی بنیاد فراہم کرتے ہیں.میری دُعا ہے کہ دنیا ان اہم معاملات کی طرف توجہ دے تا کہ ہم اس تباہی سے بچ جائیں جس تباہی کی طرف ظالم اور جھوٹے لوگ ہمیں لے جارہے ہیں.میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے کافی وقت لے لیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں قیام امن کا
50 موضوع انتہائی اہمیت کا حامل ہے.وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا ہے اور قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے ہم سب کو وقت کی ضرورت کے تحت اس بات کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے.اپنی تقریر ختم کرنے سے پہلے میں ایک اہم بات کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل ملکہ الزبتھ دوم کی ڈائمنڈ جوبلی منائی جا رہی ہے اگر ہم ایک سو پندرہ سال پیچھے 1897ء میں جائیں تو اس وقت ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منائی جارہی تھی.اس وقت بانی جماعت احمدیہ مسلمہ نے ملکہ وکٹوریہ کو مبارکباد کا پیغام بھیجا تھا.اپنے اس پیغام میں آپ نے ملکہ کو اسلام کا پیغام پہنچایا اور آپ نے حکومت برطانیہ کے لیے اور ملکہ کی درازی عمر کے لیے دعا بھی کی تھی اپنے پیغام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا کہ ملکہ کی حکومت کی ایک بہترین خوبی یہ تھی اس کے دور حکومت میں تمام لوگوں کو مذہبی آزادی حاصل تھی.آج حکومت برطانیہ برصغیر پر حکومت نہیں کر رہی لیکن مذہبی آزادی کے اصول برطانوی معاشرہ اور ملکی قوانین کا حصہ بن چکے ہیں جس کی وجہ سے ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے.اس آزادی کی بہترین مثال آج کی یہ مجلس ہے جہاں مختلف مذاہب، عقاید اور نظریات کے ماننے والے ایک جگہ پر دنیا میں قیام امن کی ایک جیسی خواہش لیے ہوئے اکٹھے ہیں.جن الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُس وقت ملکہ کو دُعا دی تھی.انہی الفاظ میں میں ملکہ الر بتھ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں.ہماری محسنہ قیصرہ مبارکہ کو ہماری طرف سے خوشی اور شکر سے بھری ہوئی مبارکباد پہنچے.خدا ملکہ معظمہ کو ہمیشہ خوشی سے رکھے.“ حضرت مسیح موعود نے ملکہ معظمہ کو مزید دعاؤں کا تحفہ پیش کیا اس لیے میں بھی آپ ہی کے الفاظ میں ملکہ الزبتھ کو دعا دیتا ہوں.”اے قادر وکریم ! اپنے فضل و کرم سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں.“
ایٹمی جنگ کے تباہ کن نتائج اور کامل انصاف کی اشد ضرورت پس ہر احمدی مسلمان جو برطانیہ کا شہری ہے یہی جذبات شکر رکھتا ہے.آخر پر ایک مرتبہ پھر میں آپ سب کا تہ دل سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے آج یہاں تشریف لا کر محبت، خلوص اور بھائی چارہ کا مظاہرہ کیا.آپ کا بہت شکریہ.51
انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات کیپیٹل ہل واشنگٹن ڈی سی امریکہ 2012ء
United States of a COMMUNITY MMU ADIYYA LIM COMME United States of Americ MUNITY AHMADWYY MUSLIM CO AHM MUS TY MW YO HUSUSE COMMUNITY HELEN COM AHMADIYY USLIM CO Keith Elison پہلے مسلمان رکن کانگرس حضور انور سے ملاقات کرتے ہوئے MMUNITY America A MM AHMA UNITED STATES AHMADIYY MUSLIM CO United States of AHMADIYYA MUSLIM COMMUNITY-USA Capitol Hill - Washington, DC-June 27, 2012 حضرت مرز امسر وراحمد خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیپیل ہل ریاست ہائے متحد و امریکہ میں ایک فکر انگیز خطاب فرماتے ہوئے Brad Sherman امریکی ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی کے رکن حضور انور کو امریکی پرچم پیش کرتے ہوئے YA OMMUNITY of America MADIVEA MUSLIM COMMUNITY AHMADIYYA MUSLIM COMMUNITY Wed States of Americ ARMALEYYA AHMADIYYA MUSLIM COMMUNITY United States of America AMMADRYTA MUSLIM COMMUNITY AHMADIYYA SLIM COMMUNITY YA COMMUNITY of America YA AHMADO IY MUSLI HMADIYYA USLIM COM Wed States of Av NITY AHMADIYYA MSBAERYYL MEETING IMCOMMUNITY MUSLIM COMMUNITY حضرت مرزا مسروراحمد خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کیپیٹل بل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں دُعا کرتے ہوئے
حضرت مرزا مسرور احمدخلیفہ اس اما ایده ال عالی بنر داری یا کیبلبل کا دورہ הוווו حضرت مرزا مسرور احمد خلیل مسیح الامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز کیمیل بل ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں امریکی نمایدین اور افسران سے خطاب کے بعد
پیش لفظ 27 جون 2012 ء کوکیپیٹل بل واشنگٹن ڈی سی میں ایک تاریخی واقعہ رونما ہوا امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا مسر در احمد صاحب خلیفہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز نے اہم اراکین کانگریں وینٹ، سفیروں، وہائٹ ہاؤس اور سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے سٹاف، غیر سرکاری تنظیموں کے راہنماؤں، مذہبی قائدین، اساتذہ کرام، مشیروں، سفارتی نمائندوں، تھنک ٹینکس اور پینٹا گان کے نمائندوں اور میڈیا کے افراد سے خطاب فرمایا.یہ اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس تھا جس نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے بعض بااثر ترین سیاست دانوں بشمول ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک لیڈ ر محترمہ نینسی پلوسی (Nancy Pelosi) کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ براہ راست اسلام کے پیغام کوسن سکیں.اس تقریب کے بعد حضرت صاحب کو کیپیل ہل کی عمارت کا دورہ کروایا گیا.بعد ازاں آپ کو پورے اہتمام سے ایوان نمائندگان میں لے جایا گیا جہاں آپ کے دورہ امریکہ کے احترام میں ایک قرار داد پیش کی گئی.اس قرار داد کے ابتدائی تعارفی حصہ میں بیان ہے کہ: امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جو جماعت کے رُوحانی اور انتظامی سر براہ ہیں کوان کی واشنگٹن آمد پر خوش آمدید کہتے ہیں اور امن عالم ، انصاف ، عدم تشد، حقوق انسانی ، مذہبی آزادی اور جمہوریت سے ان کی وابستگی کو سراہتے ہیں.“
کیپیٹل بل کی اس تقریب میں شامل ہونے والوں کے نام درج ذیل ہیں : 58 • • • • • U.S.Senator Robert Casey, Sr.(Democrat Pennsylvania) U.S.Senator John Cornyn (Republican Texas) Democratic Leader Nancy Pelosi (Democrat California) U.S.Congressman Keith Ellison (Democrat Minnesota) U.S.Congressman Bradley Sherman (Democrat California) • U.S.Congressman Frank Wolf (Republican Virginia) • U.S.Congressman Michael Honda (Democrat California) • U.S.Congressman Timothy Murphy (Republican Pennsylvania) • U.S.Congresswoman Jeannette Schmidt (Republican Ohio) • U.S.Congresswoman Janice Hahn (Democrat California) • U.S.Congresswoman Janice Schakowsky (Democrat Illinois) • U.S.Congresswoman Jackie Speier (Democrat California) • • • • • • U.S.Congresswoman Zoe Lofgren (Democrat California) U.S.Congresswoman Sheila Jackson Lee (Democrat Texas) U.S.Congressman Gary Peters (Democrat Michigan) U.S.Congressman Thomas Petri (Republican Wisconsin) U.S.Congressman Adam Schiff (Democrat California) U.S.Congressman Michael Capuano (Democrat Massachusetts)
59 انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات • • • • • U.S.Congressman Howard Berman (Democrat California) U.S.Congresswoman Judy Chu (Democrat California) U.S.Congressman Andre Carson (Democrat Indiana) U.S.Congresswoman Laura Richardson (Democrat California) U.S.Congressman Lloyd Poe (Republican Texas) • U.S.Congressman Barney Frank (Democrat • • • • Massachusetts) U.S.Congressman.Bruce Braley (Democrat Iowa) U.S.Congressman Dennis Kucinich (Democrat Ohio) U.S.Congressman Trent Franks (Republican Arizona) U.S.Congressman Chris Murphy (Democrat Connecticut) • U.S.Congressman Hank Johnson (Democrat Georgia) • U.S.Congressman James Clyburn (Democrat South Carolina) • His Excellency Bockari Kortu Stevens, Ambassador of Sierra Leone to the United States • • • • • • Dr.Katrina Lantos Swett, Chairwoman, United States Commission on International Religious Freedom Hon.Tim Kaine, Former Governor of Virginia Amb.Susan Burk, Special Representative of President Barack Obama for Nuclear Nonproliferation Amb.Suzan Johnson Cook, U.S.Ambassador at Large for International Religious Freedom Hon.Khaled Aljalahma, Deputy Chief of Mission, Embassy of the Kingdom of Bahrain to the United States Rev.Monsignor Jean-Francois Lantheaume, First Coun- sellor (Deputy Chief of Mission), The Apostolic Nuncia-
60 ture of the Holy See to the United States • Ms.Sara Al-Ojaili, Public Affairs/Liaison Officer, Embas- • sy of the Sultanate of Oman to the United States Mr.Salim Al Kindie, First Secretary, Embassy of the Sultanate of Oman to the United States • Ms.Fozia Fayyaz, Embassy of Pakistan to the United States • Hon.Saida Zaid, Counselor, Embassy of Morocco to the United States • Hon.Nabeel Munir, Minister-IV (Security Council), Pakistan Permanent Mission to the United Nations • Hon.Josef Renggli, Minister-Counselor, Embassy of Switzerland to the United States • • • • Hon.Alyssa Ayres, Deputy Assistant Secretary for South and Central Asia, U.S.Department of State Amb.Karl Inderfurth, Senior Adviser and Wadhwani Chair in U.S.-India Policy Studies, Center for Strategic and International Studies Hon.Donald A.Camp, Senior Associate, Center for Strategic and International Studies Amb.Jackie Wolcott, Executive Director, U.S.Commission on International Religious Freedom • Dr.Azizah al-Hibri, Commissioner, U.S.Commission on International Religious Freedom • Mr.Isaiah Leggett, County Executive, Montgomery County, Maryland • Ms.Victoria Alvarado, Director, Office of International Religious Freedom, U.S.Department of State • Dr.Imad Dean Ahmad, Director, Minaret of Freedom Institute
61 انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات • • Dr.Zainab Alwani, Assistant Professor of Islamic Studies, Howard University School of Divinity Ms.Deborah L.Benedict, Associate Counsel, U.S.Citi- zenship and Immigration Services, Department of Home- land Security • Ms.Lora Berg, Senior Adviser to Special Representative to Muslim Communities, U.S.Department of State • • • • • • • • Dr.Charles Butterworth, Professor (Emeritus) of Govern- ment and Politics, University of Maryland, College Park Father John Crossin, Executive Director for Secretariat for Ecumenical and Interreligious Affairs, United States Conference of Catholic Bishops Major (Ret.) Franz Gayl, Senior Science Adviser, U.S.Marine Corps.Dr.Sue Gurawadena-Vaughn, Director of International Religious Freedom and South East Asia Programs, Free- dom House Mr.Frank Jannuzi, Head of Washington Office, Amnesty International USA Mr.T.Kumar, International Advocacy Director, Amnesty International USA George Leventhal, Member of the Montgomery County Council Mr.Amer Latif, Visiting Fellow, Wadhwani Chair in U.S.-India Policy Studies, Center for Strategic and International Studies Mr.Tim Lenderking, Director of Pakistan Desk Office, U.S.State Department Mr.Jalal Malik, International Affairs Officer, U.S.Army National Guard
62 • • • • • • • • • • • • • Mr.Naveed Malik, Foreign Service Officer, U.S.Depart- ment of State Ms.Dalia Mogahed, Senior Analyst and Executive Director, Gallup Center for Muslim Studies Mr.Paul Monteiro, Associate Director, White House Office of Public Engagement Major General David Quantock, United States Army Provost General Ms.Tina Ramirez, Director of International and Government Relations, The Becket Fund Rabbi David Saperstein, Director and Counsel, Religious Action Center for Reform Judaism Chaplain, Brigadier General Alphonse Stephenson, Direc- tor of the National Guard Bureau Office of the Chaplain Mr.Knox Thames, Director of Policy and Research, U.S.Commission on International Religious Freedom Mr.Eric Treene, Special Counsel for Religious Discrimi- nation, Civil Rights Division, U.S.Department of Justice Dr.Hassan Abbas, Professor, Regional and Analytical Studies Department, National Defense University Mr.Malik Siraj Akbar, Reagan-Fascell Fellow, National Endowment for Democracy Mr.Matthew K.Asada, Congressional Fellow to Rep.Gary Peters Ms.Stacy Burdett, Director of Government and National Affairs, Anti-Defamation League Ms.Elizabeth Cassidy, Deputy Director for Policy and Research, U.S.Commission on International Religious Freedom
63 • • • • • • • • • • • • • • • انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات Ms.Aimee Chiu, Director of Media, Communication, and Public Relations, American Islamic Congress Mr.Cornelius Cremin, Department of State, Bureau of Democracy, Human Rights and Labor, Acting Deputy Director and Foreign Affairs Officer for Pakistan Mr.Sadanand Dhume, Resident Fellow, American Enterprise Institute Dr.Richard Gathro, Dean of Nyack College, Washington Mr.Joe Grieboski, Chairman, The Institute on Religion and Public Policy Ms.Sarah Grieboski, The Institute on Religion and Public Policy Dr.Max Gross, Adjunct Professor, Prince Alwaleed Bin Talal Center for Muslim-Christian Understanding, Georgetown University Dr.Riaz Haider, Clinical Professor of Medicine, George Washington University Ms.Huma Haque, Assistant Director, South Asia Center, Atlantic Council Mr.Jay Kansara, Associate Director, Hindu American Foundation Mr.Hamid Khan, Senior Program Officer, Rule of Law Center, U.S.Institute for Peace Ms.Valerie Kirkpatrick, Associate for Refugees and U.S.Advocacy, Human Rights Watch Mr.Alex Kronemer, Unity Productions Mr.Paul Liben, Executive Writer, U.S.Commission on International Religious Freedom Ms.Amy Lillis, Foreign Affairs Officer, U.S.Department of State
64 • • • • • • • • • • • Mr.Graham Mason, Legislative Assistant to Rep.Allyson Schwartz Ms.Lauren Markoe, Religion News Service Mr.Dan Merica, CNN.com Mr.Joseph V.Montville, Senior Associate, Merrimack College Center for the Study of Jewish-Christian-Muslim Relations Mr.Aaron Myers, Program Officer, Freedom House Ms.Attia Nasar, Regional Coordinating Officer, U.S.Department of State Ms.Melanie Nezer, Senior Director, US Policy and Advocacy, HIAS Dr.Elliott Parris, Bowie State University Mr.John Pinna, Director of Government and International Relations, American Islamic Congress Mr.Arif Rafiq, Adjunct Scholar, Middle East Institute Ms.Maya Rajaratnam, Amnesty International Ms.Rachel Sauer, Foreign Affairs Officer, U.S.Department of State • Dr.Jerome Schiele, Dean of College of Professional • • • • Studies, Bowie State University Ms.Samantha Schnitzer, Staff, United States Commission on International Religious Freedom Dr.Mary Hope Schwoebel, Senior Program Officer, Academy for International Conflict Management and Peacebuilding, U.S.Institute for Peace Ms.Sarah Schlesinger, International and Government Relations Associate, The Becket Fund Dr.Frank Sellin, Kyrgystan Desk Officer, U.S.Department of State
65 • • • • • • • انصاف کی راہ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات Ms.Anna-Lee Stangl, Christian Solidarity Worldwide Ms.Kalinda Stephenson, Professional Staff, Tom Lantos Human Rights Commission Mr.Jordan Tama, Lead Democratic Staffer, Tom Lantos Human Rights Commission Mr.Shaun Tandon, AFP Dr.Wilhelmus Valkenberg, Professor of Religion and Culture, The Catholic University of America Mr.Anthony Vance, Director of External Affairs, Baha'is of the United States Mr.Jihad Saleh Williams, Government Affairs Representative, Islamic Relief USA Ms.Amelia Wang, Chief of Staff to Congresswoman Judy Chu Ms.Moh Sharma, Legislative Fellow to Congresswoman Judy Chu
امریکی کانگریس قرارداد 709
AUTHENTICATED US GOVERNMENT INFORMATION GPO 112TH CONGRESS 2D SESSION H.RES.709 IV Welcoming His Holiness.Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, the worldwide spiritual and administrative head of the Ahmadiyya Muslim Community, to Washington, DC.and recognizing his commitment to world peace.justice, nonviolence, human rights, religious freedom, and democracy IN THE HOUSE OF REPRESENTATIVES JUNE 27, 2012 Ms.ZOE LOFGREN of California (for herself.Mr.SHERMAN, Mr.CONNOLLY of Virginia, Mr.HINCHEY, Ms.ESHOO, Ms.SPRIER, Ms.RICHARDSON.Mr.SCHIFF, Ms.SCHAKOWSKY, Mr.HONDA, Mr.WOLF.Mr.PETERS.Mr.DENT, Ms.CHU.Mr.BERMAN, Mr.FRANKS of Arizona, Ms.JACK- SON LEE of Texas.Ms.SCHWARTZ, Mr.BRALEY of Iowa, and Mr.MCGOVERN) submitted the following resolution: which was referred to the Committee on Foreign Affairs RESOLUTION Welcoming His Holiness, Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, the worldwide spiritual and administrative head of the Ahmadiyya Muslim Community, to Washington, DC, and recognizing his commitment to world peace, justice, non- violence.human rights, religious freedom, and demoe- racy.Whereas, from June 16, 2012, to July 2, 2012, His Holiness.Hadhrat Mirza Masroor Ahmad, the worldwide spiritual and administrative head of the Ahmadiyya Muslim Com- munity, an international religions organization with mil- 68
69 انصاف کی راہ قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات 2 lions of members across the globe, is making a historic visit to the United States; Whereas His Holiness was elected to become fifth Khalifa to Mirza Ghulam Ahmad, a lifelong position, on April 22.2003: Whereas His Holiness is a leading Muslim figure promoting peace, who in his sermons, lectures, books, and personal meetings has continually advocated the Almadiyya values of service to humanity, universal human rights, and a peaceful and just society; Whereas the Ahmadiyya Muslim Community has suffered re- peated hardships, including discrimination, persecution.and violence: Whereas, on May 28, 2010, 86 Almadi Muslims were killed in Lahore, Pakistan, when two mosques belonging to the Ahmadiyya Muslim Community were attacked by anti- Ahmadiyya terrorists; Whereas despite the continued sectarian persecution that Ahmadi Muslims are subjected to, His Holiness continues to forbid violence: Whereas His Holiness has traveled globally to promote and facilitate service to humanity, meeting with presidents.prime ministers, parliamentarians, and ambassadors of state: Whereas during his visit to the United States, His Holiness will meet thousands of American Muslims in addition to significant United States Government leaders in order to strengthen relationships and find means of establishing peace and justice for all people; and Whereas, on the morning of June 27, 2012, His Holiness will deliver the keynote address at a special bipartisan recep ⚫HRES 709 IH
70 70 I 2 3 tion at the Rayburn House Office Building on Capitol Hill, The Path to Peace: Just Relations Between Na- tions: Now, therefore, be it Resolved, That the House of Representatives- (1) welcomes His Holiness, Mirza Masroor Ahmad to Washington, DC; (2) commends His Holiness for promoting indi- vidual and world peace, as well as individual and world justice: and 3 4 5 6 7 8 9 of violence, even in the face of severe persecution.0 (3) commends His Holiness for his perseverance in counseling Ahmadi Muslims to eschew any form HRES 700 TH
قرارداد 709 یہ قرارداد امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد صاحب جو جماعت کے رُوحانی اور انتظامی سربراہ ہیں کو ان کی واشنگٹن آمد پر خوش آمدید کہنے کے لیے پیش کی جارہی ہے.ہم امن عالم ، انصاف، عدم تشدد، حقوق انسانی ، مذہبی آزادی اور جمہوریت سے ان کی وابستگی کو سراہتے ہیں.یه قرار داد جماعت احمد یہ عالمگیر کے امام اور روحانی اور انتظامی سر براہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تاریخی دورہ کے موقع پر پیش کی جارہی ہے جو آپ 16 جون 2012ء تا 2 جولائی 2012 ء فرمارہے ہیں.یہ قرارداد اس لیے پیش کی جارہی ہے کہ آپ 22 اپریل 2003ء کو حضرت مرزا غلام احمد ( قادیانی علیہ السلام) کے تاحیات خلیفہ منتخب کیے گئے تھے.یہ قرارداد اس لیے بھی پیش کی جارہی ہے کہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب امن کو فروغ دینے والے ایک اہم مسلمان راہنما ہیں.آپ نے اپنے خطبات، تقاریر، کتب، اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ مسلسل خدمت انسانیت، دنیا بھر میں انسانی حقوق اور امن و انصاف پر مبنی معاشرہ کے قیام کے لیے آواز بلند کی ہے.یہ وہ اقدار ہیں جن پر جماعت احمد یہ قائم ہے.یہ قرارداد اس لیے بھی پیش کی جارہی ہے کہ جماعت احمد یہ وہ مسلمان جماعت ہے جو بار بار امتیازی سلوک ظلم و ستم اور تشدد کا نشانہ بنی ہے.28 مئی 2010ء کو چھیاسی احمدی مسلمانوں کو لاہور پاکستان میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب جماعت احمدیہ کی دو مساجد پر دہشت گردوں نے حملہ کیا.یہ قرارداد اس لیے بھی پیش کی جارہی ہے کہ مسلسل فرقہ وارانہ تشددکا نشانہ بننے کے باوجود حضور نے تشدد کا راستہ اختیار کرنے سے ہمیشہ منع فرمایا.
یہ قرار داد اس لیے پیش کی جا رہی ہے کہ 27 جون 2012ء کی صبح کو حضور کیپیل ہل کے Rayburn House Office Building میں دونوں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے دیئے گئے ایک استقبالیہ تقریب میں امن کا راستہ.اقوام عالم کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات“ کے موضوع پر ایک فکر انگیز خطاب فرمائیں گے.پس یہ قرار پایا کہ ایوان نمائندگان: حضرت مرزا مسرور احمد صاحب کو واشنگٹن ڈی سی تشریف لانے پر خوش آمدید کہتا ہے.عالمی اور انفرادی امن نیز عالمی وانفرادی انصاف کے فروغ کے لیے حضور کی کوششوں کو سراہتا ہے.حضور کو اس امر پر بھی سراہتا ہے کہ آپ نے بڑی استقامت سے شدید ظلم کے باوجود احمدیوں کو ہمیشہ یہ تلقین فرمائی کہ ہ کسی قسم کا نقشہ دکا راستہ اختیار نہ کریں.72
انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات بسم اللہ الرحمن الرحیم.مہمانان کرام! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ.خطاب شروع کرنے سے پہلے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ وقت نکال کر میری معروضات کو سننے کے لیے یہاں تشریف لائے.مجھ سے ایک ایسے موضوع پر خطاب کرنے کی درخواست کی گئی ہے جو بہت وسیع ہے اور اس کے کئی پہلو ہیں.اس مختصر وقت میں ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنا میرے لیے ممکن نہیں ہے.مجھے جو موضوع دیا گیا ہے وہ ہے عالمی امن کا قیام.یقیناً یہ ایک اہم ترین اور بہت ضروری مسئلہ ہے جو آج دنیا کو در پیش ہے.تاہم چونکہ وقت قلیل ہے اس لیے میں بہت اختصار سے قیام امن کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر بیان کروں گا جو یہ ہے کہ امن بین الاقوامی تعلقات میں انصاف اور مساوات سے قائم ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ امن اور انصاف کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا.یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں.یہ وہ اصول ہے جسے دنیا کے تمام باشعور اور دانا لوگ سمجھتے ہیں.در حقیقت مفسدوں کے سوا کبھی بھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی معاشرہ ، ملک یا دنیا میں عدل و انصاف قائم ہونے کے باوجود فساد ہوسکتا ہے.تاہم ہمیں دنیا کے بہت سے حصوں میں امن کا فقدان اور فساد نظر آتا ہے.یہ بدامنی اور فساد مختلف ممالک میں اندرونی طور پر بھی پایا جاتا ہے اور دیگر اقوام سے تعلقات کے لحاظ سے بیرونی طور پر بھی موجود ہے حالانکہ حکومتیں انصاف پر مبنی پالیسیاں بنانے کا دعوی کرتی ہیں.باوجود اس کے کہ قیام امن کو بھی اپنا اولین مقصد قرار دیتے ہیں اس امر میں کوئی شک نہیں کہ بالعموم دنیا میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے اور نیچۂ فساد پھیل رہا ہے.اس سے یہ یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں انصاف کے تقاضے پامال ہورہے ہیں.چنانچہ اس امر کی فوری ضرورت ہے کہ جب بھی اور جہاں کہیں بھی بے انصافی پائی جائے تو اس کا تدارک کیا جائے.چنانچہ امام جماعت احمد یہ عالمگیر کی حیثیت سے میں امن کے حصول کے بعض راستوں کا ذکر کرنا چاہوں
74 گا جو انصاف پر مبنی ہیں.جماعت احمد یہ خالصتاً ایک مذہبی جماعت ہے.ہم اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ موعود مسیح اور مصلح جس نے اس زمانہ میں دنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے منور کرنے کے لیے آنا تھا وہ ظاہر ہو چکا ہے.ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی وہ موعود مسیح اور مصلح ہیں اس لیے ہم ان پر ایمان لے آئے ہیں.آپ نے اپنے متبعین کو بار بار یہ تلقین فرمائی ہے کہ وہ اسلام کی اس حقیقی تعلیم پر جو قرآن پر مبنی ہے عمل پیرا ہوں اور اس کی اشاعت کریں.چنانچہ میں جو کچھ بھی قیام امن اور منصفانہ بین الاقوامی تعلقات کے حوالہ سے بیان کروں گا وہ قرآن کی تعلیم پر بنی ہو گا.عالمی امن کے حصول کے لیے آپ سب با قاعدگی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور در حقیقت اس کے لیے بہت کوششیں بھی کرتے رہتے ہیں.آپ اپنی ذہانت اور تخلیقی ذہن کی بدولت امن کے عظیم نظریات، منصوبے اور تصورات پیش کرتے ہیں.لہذا اس موضوع پر دنیوی اور سیاسی نقطۂ نظر سے مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.اس کی بجائے میری ساری توجہ اس امر پر مرکوز ہوگی کہ مذہب کس طرح قیام امن کی بنیاد فراہم کرتا ہے.اس مقصد کے لیے جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ میں قرآن کریم سے بعض بے حد اہم راہنما اُصول پیش کروں گا.سیہ بہت اہم بات ہے جو ہمیشہ یادرکھنی چاہیے کہ انسانی علم اور عقل کامل نہیں ہے بلکہ یقیناً محدود ہے.پس فیصلہ کرتے ہوئے یا سوچ بچار کرتے ہوئے اکثر ایسے محرکات ذہن میں داخل ہو جاتے ہیں جو فیصلہ میں بگاڑ پیدا کر دیتے ہیں اور انسان کو ایسے راستہ پر ڈال دیتے ہیں جہاں وہ اپنے حقوق کے لیے کوشش کر رہا ہوتا ہے.اس کا نتیجہ بالآخر ایک غیر منصفانہ فیصلہ کی صورت میں نکلتا ہے لیکن خدا کا قانون ناقص نہیں ہے اس لیے اس میں کوئی ذاتی مفادات یا نا انصافی کے امکانات موجود نہیں ہیں.یہ اس لیے ہے کہ خدا کو ہر حال اپنی مخلوق کی بھلائی اور بہود عزیز ہے اس لیے اس کا قانون کلیۂ انصاف پر مبنی ہے.جس دن لوگ اس اہم حقیقت کو شناخت کرلیں گے اور اسے سمجھ لیں گے وہ دن ہو گا جب حقیقی اور دائی امن کی بنیاد رکھی جائے گی.بصورت دیگر ہم یہ دیکھیں گے کہ قیام امن کے لیے مسلسل کوششیں تو ہورہی ہوں گی مگر یہ کوئی قابل قدر اور ٹھوس نتائج پیدا نہیں کر رہی ہوں گی.جنگ عظیم اول کے اختتام کے بعد بعض ممالک کے راہنماؤں کی یہ خواہش تھی کہ مستقبل میں اچھے اور
انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات 75 پر امن بین الاقوامی تعلقات قائم ہوں.چنانچہ عالمی امن کے قیام کی ایک کوشش کے طور پر لیگ آف نیشنز قائم کی گئی.اس کا بنیادی مقصد دنیا میں امن قائم کرنا اور آئندہ جنگوں کو روکنا تھا.بدقسمتی سے اس لیگ کے اصول اور اس کی قرار دادوں میں بعض نقائص اور خامیاں تھیں.چنانچہ وہ تمام اقوام کے حقوق کا صحیح رنگ میں مساویانہ تحفظ نہ کر سکے.اس عدم مساوات کا نتیجہ یہ نکلا کہ دیر پا امن قائم نہ ہو سکا.لیگ کی کوششیں ناکام ہو گئیں اور اس کے بر اور است نتیجہ کے طور پر جنگ عظیم دوئم برپاہوئی.اس کے بعد جو بے مثل تباہی اور بربادی ہوئی ہم سب اس سے آگاہ ہیں جس میں قریباً سات کروڑ پچاس لاکھ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں ایک بڑی تعداد معصوم شہریوں کی تھی.یہ جنگ دُنیا کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھی.اس کے نتیجہ میں ایسی پالیساں بنی چاہئیں تھیں جن کے ذریعہ انصاف کی بنیاد پر تمام فریقین کو ان کے جائز حقوق ملتے.اور اس طرح یہ تنظیم عالمی امن کے قیام کا ایک ذریعہ ثابت ہوتی.اس وقت کی حکومتوں نے بلا شبہ ایک حد تک قیام امن کی کوششیں کیں اور اس طرح اقوام متحدہ کی تشکیل عمل میں آئی.تاہم جلد ہی یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ اقوام متحدہ کا اعلیٰ اور بہت اہم بنیادی مقصد پورا نہ ہو سکا.در حقیقت آج بعض حکومتیں ایسے کھلے طور پر بیانات دیتی ہیں جن سے اس کی ناکامی ثابت ہوتی ہے.انصاف کی بنیاد پر قائم بین الاقوامی تعلقات کے متعلق اسلام کیا تعلیم دیتا ہے جو قیام امن کا ذریعہ ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر فرما دیا ہے کہ ہماری قومیتیں اور نسلی پس منظر ہماری شناخت کا ذریعہ تو ہیں لیکن وہ ہمیں کسی قسم کی برتری اور فوقیت کا مستحق نہیں بنا تھیں.چنانچہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ تمام لوگ بحیثیت انسان برابر ہیں.آنحضرت ﷺ نے اپنے آخری خطبہ میں تمام مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ یا درکھیں کہ کسی عربی کو غیر عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے.نہ ہی کسی غیر عربی کو عربی پر کوئی برتری حاصل ہے.پ ﷺ نے سکھایا کہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے نہ ہی کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے.چنانچہ اسلام کی یہ واضح تعلیم ہے کہ تمام قوموں اور نسلوں کے لوگ برابر ہیں.آپ نے یہ بھی واضح فرمایا کہ سب لوگوں کو بلا امتیاز اور بلا تعصب یکساں حقوق ملنے چاہیں.یہ وہ بنیادی اور سنہری اصول ہے جو بین الاقوامی امن اور ہم آہنگی کی بنیا درکھتا ہے.تاہم آج ہم طاقتور اور کمزور اقوام کے مابین فرق اور تقسیم دیکھتے ہیں.مثال کے طور پر اقوام متحدہ میں * سورة الْحُجُرَات : 14
76 ہمیں نظر آتا ہے کہ بعض ممالک کے مابین ایک امتیاز روا رکھا جاتا ہے.چنانچہ سیکورٹی کونسل میں بعض مستقل ممبر ہیں اور بعض غیر مستقل ممبر ہیں.یہ تقسیم ایک اندرونی بے چینی اور بے اطمینانی پیدا کرنے کا ذریعہ ہے.ایسی رپورٹس مسلسل ملتی رہتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض ممالک اس عدم مساوات پر احتجاج کرتے رہتے ہیں.اسلام ہر معاملہ میں کامل عدل اور مساوات کا درس دیتا ہے.چنانچہ سورۃ المائدہ آیت نمبر 3 میں ہمیں ایک اور بہت ہی اہم راہنما اصول ملتا ہے.اس میں یہ بیان ہے کہ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں سے بھی عدل وانصاف کا سلوک کیا جائے جو اپنی دشمنی اور نفرت میں تمام حدود پار کر گئے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں نیکی اور بھلائی کی نصیحت کرے اسے قبول کرنا چاہیے اور جہاں کہیں بھی اور جو کوئی بھی تمہیں گناہ اور نا انصافی کی طرف بلائے تمہیں چاہیے کہ تم اس کو ر ڈ کر دو.ایک سوال طبعا پیدا ہوتا ہے کہ اسلام جس عدل کا تقاضا کرتا ہے اس کا معیار کیا ہے.سورۃ النسآء آیت نمبر 136 میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ خواہ تمہیں اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا اپنے والدین یا اپنے عزیز ترین رشتہ دار کے خلاف گواہی دینی پڑے تب بھی تمہیں انصاف اور سچائی کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کرنا چاہیے.طاقتور ممالک کو غریب اور کمزور ملکوں کے حقوق اپنے حقوق کی حفاظت کی کوشش کرتے ہوئے غصب نہیں کرنے چاہئیں.نہ ہی غریب ممالک کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک روا رکھنا چاہیے.دوسری طرف غریب اور کمزور ممالک کو نہیں چاہیے کہ وہ طاقتور اور امیر ممالک کو نقصان پہنچانے کے موقع کی تلاش میں رہیں بلکہ دونوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ انصاف کے اصولوں کی پوری پوری پابندی کریں.در حقیقت مختلف ممالک کے مابین پر امن تعلقات قائم رکھنے کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے.انصاف پر مبنی بین الاقوامی امن کے ایک اور تقاضا کا ذکر سورۃ الحجر آیت نمبر 89 میں کیا گیا ہے جہاں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کسی فریق کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسروں کی دولت اور ان کے وسائل کو کبھی بھی حاسدانہ رنگ میں دیکھے.اسی طرح کسی ملک کو نہیں چاہیے کہ وہ نا انصافی کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے وسائل پر ان کی مدد کرنے کے جھوٹے عذر کا سہارا لے کر غاصبانہ قبضہ کرلے.اسی طرح تکنیکی مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو نہیں چاہیے کہ وہ دوسری اقوام کے ساتھ غیر منصفانہ تجارتی معاملات یا معاہدات کر کے ناجائز فائدہ
انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات اُٹھائیں.اس طرح مدد یا مہارت فراہم کرنے کی بنیاد پر حکومتوں کو ترقی پذیراً قوام کے اثاثوں یا قدرتی وسائل کو اپنے قابو میں کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.البتہ جہاں کم تعلیم یافتہ افراد یاحکومتوں کو یہ کھانے کی ضرورت ہو کہ وہ اپنے قدرتی وسائل کو کس طرح صحیح رنگ میں استعمال کر سکتے ہیں تو یہ کرنا چاہیے.پھر قوموں اور حکومتوں کو ہمیشہ ان کی خدمت اور مدد کی کوشش بھی کرنی چاہیے جن کے پاس وسائل کم ہیں لیکن یہ مدد اپنے قومی یا سیاسی مفاد کی خاطر یا کسی قسم کا کوئی اور فائدہ اٹھانے کی نیت سے نہیں ہونی چاہیے.ہم دیکھتے ہیں کہ گزشتہ چھ سات عشروں میں اقوام متحدہ نے کئی ایسے پروگرام شروع کیے ہیں اور کئی ایسی فاؤنڈیشنز بنائی ہیں جن کا مقصد غریب ممالک کی مدد کرنا ہے تا کہ وہ ترقی کر سکیں.اس کوشش میں انہوں نے ترقی پذیر ممالک کے قدرتی وسائل کو چھان مارا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجود ان ممالک میں سے کوئی ایک ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک نہیں پہنچا ہے.اس کی ایک وجہ یقینا ان غریب ممالک کی حکومتوں کی وسیع کرپشن ہے.مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک اس کے باوجود اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس قسم کی حکومتوں کے ساتھ چلتے جارہے ہیں.تجارتی وکاروباری معاہدے بھی ہو رہے ہیں اور امداد بھی فراہم کی جارہی ہے.اس کے نتیجہ میں معاشرہ کے غریب اور محروم طبقات کی بے اطمینانی اور بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے.اور یہ صورت حال ان ممالک میں اندرونی فساد اور بغاوت پر منتج ہوتی ہے.ترقی پذیر ممالک کے عوام اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے راہنماؤں کے بلکہ بڑی طاقتوں کے بھی خلاف ہو چکے ہیں.یہ لوگ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں جنہوں نے ان کی مایوسیوں کا فائدہ اٹھایا ہے اور ان کی اس امر میں حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ ان کے ساتھ شامل ہو جا ئیں اور ان کے نفرت انگیز نظریات کو آگے بڑھائیں.اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کا امن تباہ ہو چکا ہے.پس اسلام نے قیام امن کے کئی ذرائع کی طرف ہمیں توجہ دلائی ہے.یہ کامل انصاف کا تقاضا کرتا ہے.یہ ہمیشہ سچی گواہی دینے کا حکم دیتا ہے.اسلام ہم سے یہ چاہتاہے کہ ہم کبھی بھی دوسروں کی دولت کی طرف حسد اور لالچ کی نظر سے نہ دیکھیں.اسلام یہ بھی چاہتاہے کہ ترقی یافتہ اقوام اپنے مفادات کو ایک طرف رکھ کر غریب اور کم ترقی یافتہ اقوام کی در حقیقت بے غرضانہ مدد اور خدمت کریں.اگر ان تمام اصولوں کی پابندی کی جائے تو دنیا میں 77
78 * حقیقی امن قائم ہو جائے گا.اگر مذکورہ بالا تمام اقدامات کے باوجود کوئی ملک سراسر زیادتی کرتے ہوئے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرے اور اُس کے وسائل پر نا جائز طور پر قبضہ کرنا چاہے تو دوسرے ممالک کو چاہیے کہ وہ ضرور اس قسم کے ظلم کو روکنے کے لیے اقدامات کریں.لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی انہیں ہمیشہ انصاف سے کام لینا چاہیے.اسلامی تعلیم پر مبنی اس قسم کا قدم جن حالات میں اُٹھایا جائے گا اس کی تفصیل سورۃ الحجرات میں بیان ہے.جہاں فرمایا کہ جب * دو قوموں کا اختلاف جنگ کی شکل اختیار کر جائے تو دیگر اقوام کو چاہیے کہ وہ انہیں مذاکرات اور سیاسی روابط کی طرف لانے کی پر زور تحریک کریں تا کہ وہ بات چیت کی بنیاد پر صلح کی طرف آسکیں لیکن اگر ایک فریق صلح کی شرائط تسلیم کرنے سے انکار کر دے اور جنگ کی آگ بھڑکائے تو دیگر ممالک اس کو روکنے کے لیے اکھٹے ہو کر اس سے جنگ کریں.جب جارحیت کرنے والی قوم شکست کھا کر باہمی مذاکرات پر آمادہ ہو جائے تب تمام فریق ایک ایسے معاہدہ کے لیے کوشش کریں جس کے نتیجہ میں صلح ہو اور دیر پا امن قائم ہو.ایسی سخت اور غیر منصفانہ شرائط عاید نہیں کرنی چاہئیں جو کسی قوم کے ہاتھ پاؤں باندھ دینے کے مترادف ہوں کیونکہ ان شرائط سے ایک ایسی بے چینی پیدا ہوگی جو بڑھتی اور پھیلتی جائے گی اور بالآخر مزید فساد پر منتج ہوگی.پس ایسے حالات میں جو حکومت فریقین کے مابین صلح کروانے کے لیے ثالث کا کردار ادا کرے تو اسے پورے خلوص اور مکمل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے.اگر کوئی ایک فریق اس کے خلاف بولے تب بھی یہ غیر جانبداری قائم رہنی چاہیے.پس ان حالات میں ثالث کو کسی غصہ کا اظہار یا کوئی انتقامی کارروائی نہیں کرنی چاہیے اور نہ ہی کسی رنگ میں کوئی نا انصافی کرنی چاہیے.ہر فریق کو اس کے جائز حقوق ملنے چاہئیں.پس انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری ہے کہ معاہدہ کی خاطر بات چیت کروانے والے ممالک خود اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں نہ ہی کسی ملک سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.انہیں کسی قسم کی غیر منصفانہ مداخلت نہیں کرنی چاہیے.نہ ہی کسی ایک فریق پر کوئی ناحق دباؤ ڈالنا چاہیے.کسی بھی ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے.ایسے ممالک پر غیر ضروری اور ناحق پابندیاں عاید نہیں کرنی چاہئیں کیونکہ یہ نہ تو انصاف کا طریق ہے اور نہ ہی اس طرح کبھی بھی ممالک کے سورة الحجرات: 10
انصاف کی راہ.قوموں کے مابین انصاف پر مبنی تعلقات 79 مابین تعلقات میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے.محدود وقت کے باعث میں نے بہت اختصار کے ساتھ ان اُمور کا ذکر کیا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ اگر ہم عالمی امن کے خواہاں ہیں تو ہمیں اعلی مقصد کی خاطر ذاتی اور قومی مفادات کو بالائے طاق رکھنا ہو گا اور اس کی بجائے ایسے باہمی تعلقات قائم کرنا ہوں گے جو مکمل طور پر مبنی بر انصاف ہوں.بصورت دیگر آپ میں سے بعض مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مختلف ممالک کے گٹھ جوڑ اور بلا کس کی وجہ سے جو مستقبل میں بن سکتے ہیں یا میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بنے شروع ہو گئے ہیں، بعید نہیں کہ فساد بڑھتا ہی جائے اور بالآخر ایک بڑی تباہی پر منتج ہو.ایسی جنگ اور تباہی کے اثرات یقینی طور پر کئی نسلوں تک باقی رہیں گے.اس لیے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو دنیا کے طاقتور ترین ملک ہونے کے اعتبار سے اپنا کردار حقیقی انصاف کے ساتھ اور ان نیک عزائم کے ساتھ ادا کرنا چاہیے جن کا میں نے ذکر کیا ہے.اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو دنیا ہمیشہ بہت تعریف کے ساتھ آپ کی عظیم کوششوں کو یا در کھے گی.میری دُعا ہے کہ یہ امید ایک حقیقت بن جائے.آخر میں میں آپ سب کا ایک بار پھر بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں.ہم عموماً کسی تقریب کے اختتام پر دُعا کرتے ہیں.اس لیے میں اب دُعا کرواؤں گا اور احمدی احباب میرے ساتھ دُعا کریں گے.آپ سب جو ہمارے مہمان ہیں اپنے طریق کے مطابق دُعا کر سکتے ہیں.
A MESSAGE OF PEACE امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد یوروپین پارلیمنٹ برسا لحیم 2012 ء
AMENT EUR PED EURC NTUL A MESSAGE OF PEACE یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن شلز حضور انور کو خوش آمدید کہتے ہوئے A MESSAGE OF PEACE EVROP KO KOIN PARLAN MENT THE EUROPEAN PARLIAMENT Brussels A MESSAGE OF PEACE Hosted by The European Parliament یورپی پارلیمنٹ میں تقریب کے اختتام پر حضور انور حضرت مرزا مسرور احمدخلیفة المس الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دعا کروارہے ہیں آپ کے دائیں طرف برطانیہ سے یوروپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمارہے ہیں یورپی پارلیمنٹ کے رکن ڈاکٹر چارلس ٹانک اور بائیں طرف امیر جماعت برطانیہ بیٹھے ہیں 50
یورپی پارلیمنٹ میں حضرت خلیفہ اسی الماس ید اللہ تعلی بنصرہ العزیز پریس کانفرنس سے مخاطب ہیں حضور کے ہمراہ برطانیہ کے یورپی پارلیمنٹ کے رکن اور جماعت احمدیہ کے دوست گروپ کے صدر ڈاکٹر چارلس ٹانک بیٹھے ہیں ویسٹ مڈلینڈز سے رکن یورپی پارلیمنٹ اور جنوبی ایشیا کے کے لیے یورپی پارلیمنٹ کے وفد کے رکن فل بنین حضور اقدس سے ملاقات کرتے ہوئے ایسٹونیا سے رکن یورپی پارلیمنٹ اور جماعت کے دوستوں کے حلقہ کے نائب صدرٹن کیلام حضور انور سے ملاقات کرتے ہوئے
پیش لفظ مؤرخہ 3 اور 4 دسمبر 2012، حضرت خلیفہ امس الخامس اید اللہ تعالیٰ بنصرہ العز یز و حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پانچویں خلیفہ اور جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کے سر براہ ہیں، نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ کا پہلا دورہ کیا.جہاں آپ نے 30 ممالک کے 350 نمائندگان سے کھچا کھچ بھرے ہال میں تاریخی خطاب فرمایا.اس تقریب کے میزبان یورپین پارلیمنٹ کے تمام پارٹیوں میں سے حال ہی میں بننے والے احمدی مسلمانوں کا دوست Friends of Ahmadiyya Muslim Group گروپ تھا جس کے سربراه Dr Charles Tannock ممبر پارلیمنٹ برطانیہ ہیں.یہ ممبران پارلیمنٹ کا یورپ کی تمام پارٹیوں میں سے منتخب گروپ ہے جو یورپین پارلیمنٹ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے فروغ اور ان کے مفادات کو یورپ اور باقی ممالک میں پھیلانے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے.اس دورہ کے دوران حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ممبران پارلیمنٹ اور اکابرین سے متعدد ملاقاتیں کیں.جن سے آپ نے ملاقاتیں کیں ان میں درج ذیل احباب شامل تھے.Dr.Charles Tannock (MEP-UK) -- Member of the European Parliament Foreign Affairs Committee, Member of the Sub-Committee on Human Rights, Vice-Chair of the Parliamentary Delegation for relations with the NATO Parliamentary Assembly and Chair of the European Parliament Friends of Ahmadiyya Muslims Group.Tunne Kelam (MEP-Estonia) - Member of the European Parliament's Foreign Affairs Committee, the Sub-Committee on Security and Defence and Vice-Chair of the European Parliament Friends of Ahmadiyya Muslims Group.
Claude Moraes (MEP-UK) --- Vice-Chair of the Delegation for Relations with the Arab Peninsula, Member of the Committee on Civil Liberties, Justice and Home Affairs, Deputy Leader of the European Parliamentary Labour Party and Vice-Chair of the European Parliament Friends of Ahmadiyya Muslims Group.Barbara Lochbihler (MEP-Germany) --- Chair of the European Parliament Sub-Committee on Human Rights.Jean Lambert (MEP-UK) - Member of the European Parliament South Asia Delegation Phil Bennion (MEP-UK) - Member of the European Parliament South Asia Delegation and Chairman of the Lib - Dem European Group.مؤرخہ 4 دسمبر کو اس تقریب اور حضور انور کے مرکزی خطاب سے قبل یورپین پارلیمنٹ کے پریس روم میں بین الاقوامی پریس کانفرنس ہوئی.حضور انور نے چالیس منٹ کی پریس کانفرنس کے دوران میڈیا کے مختلف نمائندگان کے سوالات کے جوابات دیئے جن میں برطانیہ، پین، فرانس، پیجیئم ، پاکستان اور دیگر ممالک کے صحافی اور میڈیا کے اداروں کے نمائندگان شامل تھے.دُنیا میں اسلام کے کردار کے متعلق BBC کے نمائندہ کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ اسلام کا امن کا پیغام عالمی ہے اسی لیے ہمارا مائو ” محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ہے.Spanish میڈیا کے نمائندہ کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا تمام بڑے مذاہب نے اپنی اصل حالت میں امن کا پیغام دیا.اس لیے بچے مسلمان تمام انبیاء پر ایمان لائے.ہر نبی نے خدا کی توحید کا پیغام پھیلایا.مالٹا کے میڈیا کے نمائندہ کے سوال کے جواب میں حضور انور نے فرمایا کہ احمدی مسلمانوں کا کام بنی نوع انسان کو خدا کے قریب لانا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا ہے.88 86
امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد 87 مرکزی تقریب کے دوران ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا.یوروپین پارلیمنٹ کے جماعت احمد یہ مسلمہ کے دوست گروپ Friends of Ahmadiyya Muslim Group کے صدر اور نائب صدر نے امام جماعت احمد یہ عالمگیر حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا اسٹیج پر استقبال کیا.Martin Schulz یورپین پارلیمنٹ کے صدر بھی بالخصوص حضور انور سے ملنے کے لیے تشریف لائے.حضور انور کے مرکزی خطاب سے قبل متعدد ممبران یوروپین پارلیمنٹ نے حاضرین سے خطاب کیا اور جماعت احمد یہ مسلمہ کے پیش کردہ اسلام کے امن کے پیغام کو سراہا.Dr.Charles Tannock ممبر یوروپین پارلیمنٹ، یوروپین پارلیمنٹ کے Friends of Ahmadiyya Muslim Group کے صدر نے کہا: احمدی مسلمان دنیا میں رواداری کی قابل قدر مثال ہیں.“ اب ہم حضرت مرزا مسرور حماد اللہ تعالی بصرہ العزیزخلیفہ مسیح الخامس سربراہ جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کا تاریخی اور مرکزی خطاب پیش کرتے ہیں.
امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکانه آپ سب معزز مہمانوں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور سلامتی ہو.سب سے پہلے میں اس تقریب کی انتظامیہ کا شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میں یہاں آپ سب سے مخاطب ہو سکوں.میں تمام وفود کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جو مختلف ممالک کی نمائندگی کر رہے ہیں اور ان مہمانوں کا بھی جو کوشش کر کے یہاں شامل ہوئے ہیں.وہ لوگ جو جماعت احمدیہ مسلمہ سے اچھی طرح واقف ہیں یا بعض ایسے بھی جو اتنی اچھی طرح واقف نہیں اور انفرادی طور پر احد یوں سے رابطہ میں ہیں، وہ اس بات سے باخبر ہوں گے کہ بطور جماعت ہم مسلسل دنیا کی توجہ امن اور سلامتی کے قیام کی طرف دلاتے رہتے ہیں.اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے یقیناً ہم اپنی بساط بھر کوشش کرتے ہیں.جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ کی حیثیت سے جب بھی کوئی موقع ملتا ہے میں ایسے معاملات پر اکثر بات کرتا ہوں.میں ہمیشہ امن اور باہمی محبت کی ضرورت کی طرف توجہ دلاتا ہوں.یہ کوئی ئی تعلیم نہیں ہے جو احمد یہ جماعت لے کر آئی ہے، سچ تو یہ ہے کہ امن اور باہمی موافقت کا قیام بانی جماعت احمدیہ کے آنے کے اہم ترین مقاصد میں سے ایک تھا.در حقیقت ہمارا ہر عمل ان تعلیمات کے مطابق ہے جو بانی اسلام حضرت محمد پر نازل کی گئیں.آنحضرت ﷺ کے چودہ سوسال بعد وہ پاک تعلیمات جو آپ ﷺ لائے تھے، بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت نے انہیں فراموش کر دیا اورحقیقی اسلام کو از سرنو زندہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بانی جماعت احمد یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی کے عین مطابق مبعوث فرمایا.میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ دنیا میں امن اور ہم آہنگی کے قیام کے تعلق میں جب میں اسلامی تعلیمات پیش کروں گا تو اس نقطہ کو اپنے ذہن میں رکھیں.میں یہ بھی بیان کر دوں کہ امن وسلامتی کے بہت سے پہلو ہیں، جہاں
90 ہر ایک پہلو اپنی ذات میں اہمیت کا حامل ہے وہاں یہ بھی نہایت اہم ہے کہ ہر پہلو دوسرے پہلو سے باہمی ربط رکھتا ہے.مثال کے طور پر معاشرہ میں امن کے قیام کا سب سے بنیادی عصر گھر یلوسکون اور ہم آہنگی ہے.کسی بھی گھر کی صورتحال صرف گھر تک ہی محدود نہیں بلکہ اس کا اپنے ماحول پر بھی گہرا اثر ہوتا ہے اور پھر اس کا اثر وسیع ہو کر شہر کے امن پر اثر انداز ہوتا ہے.اگر گھر میں بے سکونی ہو تو اس کا اثر مقامی ماحول پر ہوگا اور پھر قصبہ یا شہر پر ہوگا.اسی طرح ایک شہر کی امن کی صورتحال پورے ملک کی مجموعی صورتحال پر اثر انداز ہوگی اور پھر پورے ملک کی صورتحال ریجن یا تمام دنیا کے امن وسکون پر اثر ڈالے گی.لہذا یہ بات واضح ہے کہ اگر آپ امن کے صرف ایک پہلوکوزیر بحث لانا چاہتے ہیں تو آپ کو دیکھنا ہوگا کہ اس کا دائرہ محدود نہیں ہے بلکہ پھیلتا چلا جاتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی امن متاثر ہو وہاں دوبارہ امن بحال کرنے کے لیے ظاہری وجوہات اور پس پردہ اصل وجوہات پر بنا کر کے مختلف حکمت عملیاں درکار ہوتی ہیں.جب ہم اس بات کو ذہن میں رکھیں تو یہ واضح ہے کہ ان تمام مسائل پر تفصیلی بحث کرنا اُس سے بہت زیادہ وقت چاہتا ہے جتنا وقت اب میسر ہے.تاہم میں کوشش کروں گا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے چند پہلوؤں کا احاطہ کرسکوں.دور حاضر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے خلاف بہت سے اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں اور دُنیا کی بدامنی اور فساد کا اکثر الزام مذہب کے سر تھوپ دیا جاتا ہے.لفظ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود اس پر ایسے اعتراضات کیے جاتے ہیں.مزید یہ کہ اسلام ایسا مذہب ہے جو دنیا میں امن کے قیام کے لیے معتین راہنمائی دیتا ہے اور اس مقصد کے قیام کے لیے مختلف اصول وضع کرتا ہے.قبل اس کے کہ میں آپ کے سامنے اسلام کی امن پسند اور سچی تعلیم کی ایک جھلک پیش کروں، میں اختصار کے ساتھ دنیا کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لوں گا.مجھے یقین ہے کہ آپ ان معاملات کو پہلے ہی سے بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے لیکن میں اس کو واضح کرنا چاہتا ہوں تا کہ جب میں اسلام کی حقیقی تعلیم پیش کروں تو اس وقت یہ ساری صورتحال آپ پر متحضر ہو.ہم جانتے ہیں بلکہ سب اس بات کو مانتے ہیں کہ دنیا ایک گلوبل و پیچ بن چکی ہے.جیسا کہ جدید ذرائع آمد ورفت یا میڈیا، انٹرنیٹ اور متعدد دیگر ذرائع سے ہم سب باہم ملے ہوئے ہیں.
امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد یہ تمام عناصر ایسے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے دنیا بھر کی قومیں اس حد تک ایک دوسرے کے قریب آچکی ہیں جتنی پہلے کبھی بھی نہ تھیں.ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف نسلوں ، مذاہب اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد باہم مل جل کر مشتمل رہتے ہیں.یقیناً بہت سے ممالک میں ایک بڑی تعداد دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین پر ستنم ہے.یہ مہاجرین اس حد تک معاشرہ میں گھل مل گئے ہیں کہ اب حکومتوں یا عوام کے لیے انہیں نکالنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے تا ہم اس امیگریشن کو روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جارہے ہیں اور قوانین سخت کیے جارہے ہیں لیکن پھر بھی بہت سے ایسے ذرائع ہیں جن سے ایک ملک کا شہری دوسرے ملک میں داخل ہوسکتا ہے.91 غیر قانونی تارکین وطن کے معاملہ کو ایک طرف رکھ دیں تب بھی متعدد بین الاقوامی قوانین موجود ہیں جو ایسے افراد کو تحفظ فراہم کرتے ہیں جو بعض وجوہات کی بنا پر اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوں.ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کثیر تعداد میں مہاجرین کی آمد کے باعث مختلف ممالک میں بے چینی اور اضطراب بڑھ رہا ہے.اس چیز کی ذمہ داری دونوں فریق یعنی مہاجرین اور مقامی لوگوں پر عاید ہوتی ہے.ایک طرف تو بعض مہاجرین ایسے ہیں جو مقامی آبادی میں گھلنا ملنا نہیں چاہتے اور اس وجہ سے وہ مقامی افراد کے جذبات کو برانگیخت کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف بعض مقامی ایسے ہیں جو عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور آنے والوں کے لیے تنگ دلی ظاہر کرتے ہیں.وقت کے ساتھ ساتھ یہ نفرت خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے.خاص طور پر مغربی ممالک میں بعض مسلمانوں اور بالخصوص مہاجرین کے منفی رویہ کے رد عمل کے طور پر مقامی لوگوں میں اس نفرت اور دشمنی کا اظہار اسلام کے خلاف ہوتا ہے.یہ رد عمل اور نفرت کسی چھوٹے پیمانہ پر ہیں بلکہ انتہائی وسیع پیمانہ تک پھیل سکتی ہے اور پھیلتی بھی ہے.اسی وجہ سے مغربی راہنما با قاعدگی سے ان مسائل پر بات کرتے رہتے ہیں.چنانچہ جرمن چانسلر اس وجہ سے یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ مسلمان جرمنی کا حصہ ہیں اور وزیر اعظم برطانیہ مسلمانوں کو معاشرہ میں گھلنے ملنے کی ضرورت پر زور دیتے اور بعض ممالک کے راہنما تو مسلمانوں کو دھمکیاں دینے کی حد تک بھی گئے ہیں.داخلی مسائل کی صورتحال اگر چہ سنگین نہ بھی سہی مگر اس حد تک ضرور خراب ہو چکی ہے کہ یہ پریشانی کا باعث بن چکی ہے.یہ معاملات مزید
92 22 سنگینی اختیار کر سکتے ہیں اور امن کی تباہی کا باعث ہو سکتے ہیں.اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ایسے حالات کا اثر صرف مغرب تک محدود نہ ہوگا بلکہ اس سے تمام دُنیا اور خاص کر مسلمان ممالک متاثر ہوں گے.اس کی وجہ سے مغربی اور مشرقی دنیا کے باہمی تعلقات سخت متاثر ہوں گے.لہذا صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے اور امن کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ تمام فریق باہم مل کر کوشش کریں.حکومتوں کو ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں جن سے باہمی احترام کو فروغ اور تحفظ ملے اور جن پالیسیوں سے دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو یا کسی طور پر نقصان پہنچتا ہوا یسی پالیسیوں کو خلاف قانون قرار دینا چاہیے جہاں تک مہاجرین کا تعلق ہے انہیں بخوشی نئے معاشرہ میں ہم آہنگ ہونا چاہیے اور مقامی افراد کو چاہیے کہ وہ نئے آنے والوں کے لیے اپنا دل کھولیں اور برداشت کا مظاہرہ کریں.مزید یہ کہ مسلمانوں کے خلاف پابندیاں لگانے سے امن حاصل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ صرف یہ پابندیاں لوگوں کے ذہنوں اور تصورات کو تبدیل نہیں کر سکتیں یہ صرف مسلمانوں سے متعلق نہیں بلکہ جب کبھی بھی کسی شخص کو مذہبی یا اعتقادی طور پر زبردستی دبایا جاتا ہے تو اس کا رد عمل منفی ہوتا ہے جو کہ امن کی تباہی کا باعث بنتا ہے.جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بعض ممالک میں بالخصوص مقامی افراد اور مسلمان مہاجرین کے مابین لڑائی جھگڑے بڑھ رہے ہیں.یہ بات واضح ہے کہ دونوں طرف عدم برداشت پائی جاتی ہے اور ایک دوسرے کو جاننے میں ایک قسم کی ہچکچاہٹ ہے.یورپ کے راہنماؤں کو اسے ایک حقیقت کے طور پر قبول کر لینا چاہیے اور یہ سمجھ لینا چاہیے کہ بین المذاہب ہم آہنگی اور برداشت کو فروغ دینا ان کی ذمہ داری ہے.یہ اس لیے بھی ناگزیر ہے کہ ہر یورپی ملک کے درمیان اور خاص کر یورپین ممالک اور مسلمان ممالک کے درمیان خیر خواہی کی فضا قائم ہوتا کہ دنیا کا امن تباہ نہ ہو.میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اس قسم کی تفریق اور مسائل کی بنیاد صرف مذہب اور دینی اعتقادات پر نہیں اور یہ صرف مغربی اور مسلمان ممالک کے درمیان اختلافات کا سوال نہیں بلکہ در حقیقت اس بے چینی کا ایک اہم سبب عالمی معاشی بحران بھی ہے.دراصل جب یہ موجودہ معاشی بحران یا (credit crunch) نہیں تھا تو کسی کو پروا بھی نہیں تھی کہ مسلمان، غیر مسلمان یا افریقن مہاجرین اس کثرت سے بڑھ رہے ہیں.لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور اس صورتحال نے اس تمام بے چینی کو جنم دیا ہے.اس نے
93 امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد یورپین ممالک کے باہمی تعلقات کو بھی متاثر کیا ہے اور یورپین ممالک اور دوسری قوموں کے مابین غصہ اور ناراضگی روز بروز بڑھ رہی ہے.مایوسی کی یہ حالت ہر طرف نظر آتی ہے.یورپی یونین کا قیام یورپین ممالک کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ یہ تمام براعظم کو متحد کرنے کا ذریعہ ہے اور آپ سب کو اس اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے.عوام الناس کی پریشانیوں اور خوف کا ہر حال میں ازالہ ہونا چاہیے.ایک دوسرے کے معاشرہ کے تحفظ کی خاطر ہمیں ایک دوسرے کے جائز اور منصفانہ مطالبات بخوشی قبول کرنے چاہئیں اور ہر ملک کے لوگوں کے مطالبات جائز اور منصفانہ ہی ہونے چاہئیں.یاد رکھیں کہ یورپ کی طاقت کا راز اس کے اسی طرح باہم ایک ہونے اور متحد رہنے میں ہے.ایسا اتحاد نہ صرف آپ کو یہاں یورپ میں فائدہ دے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس براعظم کو اپنی مضبوطی اور اثر ورسوخ قائم رکھنے میں محمد ہوگا.در حقیقت اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ تمام دنیا با ہم ایک ہو جائے.کرنسی کے معاملہ پر ساری دُنیا کو متحد ہونا چاہیے، فری بزنس اور ٹریڈ میں بھی تمام دنیا کو متحد ہونا چاہیے اور آمد ورفت کی آزادی اور امیگریشن کے متعلق ٹھوس اور قابل عمل پالیسیاں بنانی چاہئیں تا کہ دنیا با ہم مل جائے.در حقیقت ممالک کو ایک دوسرے سے تعاون کے مواقع تلاش کرنے چاہئیں تا کہ تفریق کو اتحاد میں بدلا جاسکے.اگر یہ اقدامات کیے جائیں گے تو جلد ہی موجودہ جھگڑے ختم ہو جائیں گے اور ان کی جگہ امن اور باہمی احترام کا بول بالا ہوگا بشرطیکہ حقیقی انصاف کا قیام ہو اور ہر ملک اپنی ذمہ داری کا احساس کرے.بڑے افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے، گو یہ اسلامی تعلیم ہے لیکن اسلامی ممالک آپس میں اتحاد قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں.اگر یہ باہم تعاون کرنے اور اتحاد قائم کرنے کے قابل ہو جاتے تو مسلمان ممالک کو اپنی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے مسلسل مغربی امداد پر انحصار نہ کرنا پڑتا.ان الفاظ کے ساتھ میں اب دنیا میں دیر پا امن کے قیام لیے حقیقی اسلامی تعلیم پیش کرتا ہوں.سب سے پہلے تو اسلام کی سب سے بنیادی تعلیم یہ ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر امن پسند محفوظ ہو.یہ مسلمان کی وہ تعریف ہے جو بانی اسلام حضرت محمد اللہ نے خود بیان فرمائی ہے.کیا اس بنیادی
94 اور خوبصورت اصول کو سننے کے بعد بھی کوئی اعتراض اسلام پر اُٹھ سکتا ہے؟ یقینا نہیں.اسلام یہ سکھاتا ہے کہ اپنی زبان اور ہاتھ سے نا انصافی اور نفرت کا پر چار کرنے والے ہی قابل مواخذہ ہیں.چنانچہ مقامی سطح سے لے کر عالمی سطح تک اگر تمام فریق اس سنہری اصول کی پابندی کرنے لگیں تو ہم دیکھیں گے کہ کبھی بھی مذہبی فساد پیدا نہ ہوگا اور کبھی بھی سیاسی مسائل پیدا نہ ہوں گے اور نہ ہی لالچ اور اقتدار کی ہوس کے باعث فساد پیدا ہو گا.اگر اسلام کے یہ بچے اصول اپنا لیے جائیں تو ممالک میں عوام الناس ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات کا خیال رکھیں گے ، حکومتیں تمام شہریوں کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری ادا کریں گی اور عالمی سطح پر ہر قوم کی ہمدردی اور محبت کے جذبہ کے تحت ایک دوسرے سے مل کر کام کرے گی.دیر پا امن کے قیام کے لیے اسلام کا ایک کلیدی اصول یہ بھی ہے کہ کوئی فریق کسی بھی طور پر فخر اور تکبر کا اظہار ہرگز نہ کرے اور آنحضرت ﷺ نے عملی طور پر بڑے عمدہ انداز میں ایسا کر کے بھی دکھا دیا جب آپ ﷺ نے وہ مشہور کلمات ادا کیے کہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں اور نہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے.نہ ہی یوروپین قوم دیگر قوموں سے اعلیٰ یا افضل ہے اور نہ ہی افریقن ، ایشین یا دُنیا کے کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ کسی دوسرے سے افضل ہیں.قومیتوں، رنگوں اور نسلوں کا اختلاف صرف اور صرف شناخت اور پہچان کے لیے ہے.سچ تو یہ ہے کہ جدید دنیا میں ہم سب ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہیں.یہاں تک کہ آج کی عالمی طاقتیں یورپ اور امریکہ وغیرہ بھی دوسروں سے بالکل کٹ کر گزارہ نہیں کر سکتیں.افریقن ممالک بھی کسی طور دیگر ممالک سے الگ اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی کسی قسم کی ترقی کی امید کر سکتے ہیں اور یہی حال ایشیائی ممالک یا دُنیا کے کسی بھی حصہ سے تعلق رکھنے والوں کا ہے.مثال کے طور پر اگر آپ اپنی معیشت کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو آپ کو لازمی طور پر عالمی تجارت میں حصہ لینا ہوگا.اس بات کی واضح مثال کہ کس طرح دُنیا با ہم ایک دوسرے سے منسلک ہے، یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے یورپی معاشی بحران یا عالمی معاشی بحران نے دنیا کے کم و بیش ہر ملک کو بری طرح متاثر کیا ہے.مزید یہ کہ مختلف ممالک کا سائنس کے میدان میں ترقی کرنا یا دیگر شعبوں میں مہارت حاصل کرنا اس بات کا متقاضی ہے کہ وہ باہم تعاون کریں اور ایک دوسرے کی مدد کریں.
امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا کے رہنے والے خواہ وہ افریقہ ، یورپ، ایشیا یا کسی بھی علاقہ سے تعلق رکھتے ہوں، ان سب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ ذہنی استعداد میں عطا کی گئی ہیں.اگر تمام لوگ بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کارلائیں تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے.تاہم اگر ترقی یافتہ قومیں دیگر کم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک کا استحصال کریں اور ان قوموں کے زرخیز ذہنوں کو ترقی کے مواقع فراہم نہ کریں تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ اضطراب پھیلے گا اور بے چینی عالمی امن اور سلامتی کو تباہ کر دے گی.95 امن کو فروغ دینے کے لیے اسلام کا ایک اور اصول یہ ہے کہ اگر کسی کے حقوق تلف کیے جار ہے ہوں تو اس بات کو ہرگز برداشت نہ کیا جائے.جس طرح ہم اپنی حق تلفی ہوتی نہیں دیکھ سکتے اسی طرح ہمیں دوسروں کے لیے بھی اس ظلم کو ہرگز قبول نہیں کرنا چاہیے.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ جہاں سزا دینی پڑے وہاں یہ خیال رکھا جائے کہ یہ سزا جرم سے مناسبت رکھتی ہوتا ہم اگر معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہو تو معاف کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اور اصل اور بنیادی مقصد اصلاح، مفاہمت اور دیر پا امن کا قیام ہونا چاہیے.تا ہم دیکھنا چاہیے کہ آج کل حقیقت میں کیا ہو رہا ہے؟ اگر کوئی شخص بدی یا نا انصافی کرتا ہے تو متاثرہ شخص اس سے ایسا انتقام لینے کا خواہشمند ہوتا ہے جو اصل جرم سے بالکل مناسبت نہیں رکھتا اور تصور سے بہت بڑھ کر ہوتا ہے.یہ بعینہ وہی صورتحال ہے جو ہم آج فلسطین اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تنازعہ میں دیکھ رہے ہیں.شام، لیبیا اور مصر میں حالات کی کشیدگی پر اہم طاقتوں نے بڑا کھل کر غم وغصہ اور تشویش کا اظہار کیا ہے.حالانکہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ در حقیقت ان ممالک کے داخلی مسائل تھے لیکن فلسطین کے معاملہ پر ایسا نہیں لگتا کہ یہ طاقتیں کوئی تشویش رکھتی ہیں یا ویسی تشویش رکھتی ہیں.اس قسم کے دوغلے معیار کا تاثر مسلمان ممالک کے لوگوں کے دلوں میں دنیا کی اہم طاقتوں کے خلاف رنجشیں اور کینہ بڑھارہا ہے.یہ غصہ اور دشمنی انتہائی خطر ناک ہے اور کسی بھی وقت کسی ہولناک منظر کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے.اس کا نتیجہ کیا ہوگا ؟ ترقی پذیر ممالک کیا کیا نقصان اُٹھائیں گے؟ کیا وہ زندہ بھی رہ پائیں گے؟ ترقی یافتہ ممالک کتنے متاثر ہوں گے؟ یہ صرف خدا ہی جانتا ہے.میں اس کا جواب نہیں دے سکتا اور کوئی شخص بھی اس بات کا
96 96 جواب نہیں دے سکتا.جو بات ہمیں معلوم ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا کا امن بہر حال تباہ ہو جائے گا.یہ بات بھی واضح رہے کہ میں کسی ایک ملک کے حق میں بات نہیں کر رہا.جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہر قسم کا ظلم و ستم، جہاں کہیں بھی ہو، قطع نظر اس کے کہ اس ظلم کا ارتکاب فلسطینیوں کی طرف سے ہویا اسرائیلیوں کی طرف سے یا دنیا کے کسی بھی ملک کی جانب سے ، ہر حال میں اس کا خاتمہ ہونا چاہیے.مظالم کو ختم ہونا چاہیے کیونکہ اگر انہیں پھیلنے دیا گیا تو نفرت کے شعلے لاز ما تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور پھر یہ نفرت اس حد تک بڑھ جائے گی کہ دنیا حالیہ معاشی بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کو بھی بھول جائے گی اور اس کی جگہ پہلے سے بھی بڑھ کر ہولناک صورتحال کا سامنا ہو گا.اس قدر جانیں ضائع ہوں گی کہ ہم اندازہ بھی نہیں کر سکتے.پس یوروپین ممالک ، جو دوسری جنگ عظیم میں بڑے نقصان دیکھ چکے ہیں، ان کا فرض ہے کہ وہ ماضی کے اپنے تجربہ سے سبق حاصل کریں اور دنیا کو تباہی سے بچائیں.ایسا کرنے کے لیے انہیں انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہوں گے اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا.اسلام اس بات پر بہت زور دیتا ہے کہ ہمیشہ کھرا اور منصفانہ رویہ اختیار کیا جائے.اسلام سکھاتا ہے کہ کسی فریق کو ترجیح دیتے ہوئے اس کا ناجائز ساتھ نہ دیا جائے.ہونا یہ چاہیے کہ زیادتی کرنے والے کو معلوم ہو کہ اگر وہ کسی ملک سے نا انصافی کرنے کی کوشش کرے گا تو قطع نظر اس کے کہ اس کا کیا مقام اور رتبہ ہے، عالمی برادری اسے ایسا ہر گز نہ کرنے دے گی.اگر اقوام متحدہ کے ممبر ممالک، وہ ممالک جو یورپی یونین سے مستفید ہوتے ہیں اور وہ ممالک جو بڑی طاقتوں کے زیر اثر ہیں اور غیر ترقی یافتہ بھی ، اس اصول کو اختیار کرلیں تو صرف اسی صورت میں امن قائم ہوسکتا ہے.مزید یہ کہ اگر صرف وہ ممالک جو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور رکھتے ہیں اس بات کو سمجھ جائیں کہ ان سے بھی ان کے اعمال کا مواخذہ کیا جائے گا تو حقیقی طور پر انصاف قائم ہوسکتا ہے.در حقیقت میں اس سے ایک قدم اور آگے جاؤں گا کہ ویٹو پاور کا اختیار کسی بھی صورت امن قائم نہیں کرسکتا کیونکہ اس کے مطابق واضح طور پر تمام ممالک برابری کی سطح پر نہیں ہیں.یہ بات میں نے سال کے آغاز میں امریکہ کے اہم راہنماؤں اور پالیسی سازوں سے Capital Hill میں خطاب کرتے ہوئے بھی کہی تھی.
97 امن کی کنجی.بین الاقوامی اتحاد اگر ہم اقوام متحدہ کی ووٹنگ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھیں گے کہ ویٹو پاور کا استعمال صرف ان لوگوں کے حق میں نہیں ہوا جن پر ظلم کیا گیا اور جو حق پر تھے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مواقع پر ویٹو پاور کا غلط استعمال بھی کیا گیا اور ظلم ختم کرنے کی بجائے ظالم کی مدد کی گئی.یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ ڈھکی چھپی ہو یا جس کا کسی کو علم نہ ہو.بہت سے مبصرین اس بارہ میں کھل کر اظہار خیال کرتے اور لکھتے رہتے ہیں.اسلام کی ایک اور خوبصورت تعلیم یہ ہے کہ معاشرہ میں امن کا قیام اس بات کا متقاضی ہے کہ اپنے غصہ پر ایمانداری اور انصاف کے اصولوں کی خاطر قابو پایا جائے.اسلام کی ابتدائی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ حقیقی مسلمان ہمیشہ اس اصول پر کار بندر ہے اور جنہوں نے اس اصول کی پابندی نہیں کی ان پر آنحضرت ﷺ نے بڑی ناراضگی کا اظہار فرمایا.اس کے باوجود بد قسمتی سے آج ایسی صورت حال نہیں ہے.ایسے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں کہ فوجیں اور سپاہی جو امن کے قیام کے لیے بھجوائے جاتے ہیں وہ ایسے کام کرتے ہیں جو ان کے مقاصد کے سراسر منافی ہوتے ہیں.مثلاً بعض ممالک میں باہر سے آئے ہوئے فوجیوں نے مخالفین کی لاشوں سے انتہائی توہین آمیز سلوک کیا.تو کیا اس طریق سے امن قائم ہو سکتا ہے؟ ایسے سلوک کا رد عمل پھر متاثرہ ملک تک محدود نہیں رہتا بلکہ تمام دنیا میں اس کا اظہار ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ اگر مسلمانوں سے برا سلوک کیا گیا ہو تو مسلمان انتہا پسند اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا کا امن برباد ہو جاتا ہے.حالانکہ ایسا کرنا اسلامی تعلیم کے سراسر منافی ہے.اسلام تو ی تعلیم دیتا ہے کہ امن صرف اس صورت میں قائم ہوسکتا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی اس طریق پر مدد کی جائے کہ جس میں کسی فریق کی طرف داری نہ ہو، کوئی مذموم مقصد نہ ہو اور ہر قسم کی دشمنی سے پاک ہو.امن تب قائم ہوتا ہے جب تمام فریقوں کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں.چونکہ وقت محدود ہے اس لیے میں صرف ایک بات اور بیان کروں گا اور وہ یہ کہ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ دوسروں کی دولت اور ذرائع پر حاسدانہ نظر نہ رکھی جائے.ہمیں دوسروں کی املاک کی حرص نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ بھی امن کی تباہی کا باعث ہے.اگر امیر ممالک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کم ترقی یافتہ ممالک کے ذرائع پر نظر رکھیں گے اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو طبعا بے چینی بڑھے گی.جہاں مناسب ہو وہاں امیر ممالک اپنی خدمات کے صلہ میں کچھ مناسب معاوضہ لے سکتے ہیں جبکہ باقی ذرائع کا اکثر حصہ
ان ممالک کی ترقی اور مقامی لوگوں کا معیار زندگی بڑھانے کے لیے استعمال ہونا چاہیے.انہیں ترقی کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے اور ان کے پاس اختیار ہونا چاہیے کہ وہ بھی کوشش کر کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے معیار تک پہنچ سکیں کیونکہ امن اسی صورت قائم ہو سکتا ہے.اگر ایسے ملکوں کے راہنما ایماندار نہیں ہیں تو مغربی ممالک یا ترقی یافتہ ممالک کو از خود ایسے ملکوں کو امداد فراہم کر کے ان کی ترقی کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے.اور بھی بہت سی باتیں ہیں جو کہی جاسکتی ہیں لیکن وقت کی کمی کے باعث میں جو بیان کر چکا ہوں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.یقیناً جو کچھ میں نے بیان کیا ہے وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کی عکاسی کرتا ہے.یہاں آپ کے ذہنوں میں ایک سوال اٹھ سکتا ہے اس لیے میں پہلے ہی اس کا جواب دے دوں ، وہ یہ کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہی اسلام کی سچی تعلیمات ہیں تو ہم مسلمان دنیا میں اتنی تقسیم اور فتنہ و فساد کیوں دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب میں پہلے دے چکا ہوں جب میں نے ایک مصلح کے آنے کی ضرورت بیان کی تھی، ہمارا ایمان ہے کہ جماعت احمد یہ مسلمہ کے بانی ہی وہ معلم ہیں.ہم جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے اس سچی تعلیم کو جس قدر ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.میں آپ سب سے بھی یہ گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنے اپنے دائرہ کار میں ان معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے کوشش کریں تا کہ تمام دنیا میں دیر پا امن کا قیام ہو.اگر ہم اس مقصد میں کامیاب نہ ہوئے تو دنیا کا کوئی بھی حصہ جنگ کی ہولنا کیوں اور تباہ کن اثرات سے محفوظ نہ رہے گا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام لوگوں کو توفیق دے کہ وہ دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو پس پشت ڈالیں.یہ مغرب کی ترقی یافتہ قومیں ہیں جو آج کی دنیا میں زیادہ اقتدار اور طاقت رکھتی ہیں، اس لیے باقی قوموں کی نسبت آپ کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ ان انتہائی اہم امور کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ دیں.آخر پر میں آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ آپ میری باتیں سننے کے لیے اپنا وقت نکال کر تشریف لائے.اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو.آپ کا بہت بہت شکریہ.98
Liebe für olle Hass für keinen "Es soll EIN ZWANG ein im Glo er Hellige Ko AHM MUSLIN muslim CECC NIEMAND IST ABETUNGSWO AUSSER ALLAH EC MUHAMMAD ST GESANDT ALL الابذكر الله تطمئن القلو کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ اور الله Liche for Alle.Has for Keinen Bait ul Rasheed Moschoe Hamburg بیت الرشید مسجد ہیمبرگ جرمنی 2012 ء MUSLINE FUR FRIEDEN | Deutschied Herding 0 FREIHEIT
CSTEELE NING AN SANDER MOYALITAT
EN ZWANG in Glaubert "Es S K WAN ube حضرت مرزا مسرور احمد خلیفتہ اسی الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد بیت الرشید میں خطاب فرماتے ہوئے
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ بسم اللہ الرحمن الرحیم مہمانانِ گرامی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.سب سے پہلے میں آپ تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے اس تقریب میں شمولیت کے لیے ہماری دعوت کو شرف قبولیت بخشا آپ میں سے اکثر ہماری جماعت سے اچھی طرح آگاہ ہیں یا ان کے جماعت احمدیہ مسلمہ سے رفاقت کے پرانے بندھن ہیں اور مجھے یقین ہے کہ جو حال ہی میں جماعت احمدیہ سے متعارف ہوئے ہیں ان کے دلوں میں بھی یہ خواہش شدت سے پیدا ہوئی ہے کہ وہ ہماری جماعت کے بارہ میں اور زیادہ آگہی حاصل کریں.آپ سب کی یہاں شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کو یقین ہے کہ احمدی مسلمانوں سے ملنے ، رابطہ رکھنے اور ان کی مساجد میں آنے سے آپ کو کوئی خطرہ یا اندیشہ نہیں ہے.یہ سچ ہے کہ آج کی فضا میں جہاں اکثر خبریں اور رپورٹیں اسلام کے بارہ میں شدید منفی ہیں.وہ جو آپ میں غیر مسلم ہیں انہیں اس بات پر تشویش ہو سکتی ہے کہ کسی احمد یہ مسجد میں جانا آپ کے لیے مشکلات اور نقصان کا باعث نہ ہو.تا ہم جیسا میں نے کہا ہے حقیقت یہ ہے کہ آپ کی اس تقریب میں شمولیت اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ کو احمدی مسلمانوں سے کوئی خوف نہیں اور نہ ہی ان سے کوئی خطرہ محسوس کرتے ہیں.اس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ احمدیوں کی قدر کرتے ہیں اور آپ کو یقین ہے کہ وہ آپ کی طرح اور آپ لوگوں کی اکثریت کی طرح مخلص اور شریف لوگ ہیں.یہ کہتے ہوئے میں اس بات کو خارج از امکان نہیں کہتا کہ آپ میں معدودے چند لوگ باوجود یہاں آنے کے اپنے دلوں میں تحفظات اور خدشات رکھتے ہیں یا انہیں اس تقریب میں شمولیت کے منفی نتائج کا اندیشہ ہے.یہ ممکن ہے کہ آپ فکر مند ہوں کہ آپ ان لوگوں کے ہمراہ بیٹھے ہیں جو شدت پسندانہ رجحانات کے حامل ہیں.اگر آپ میں سے کسی کو یہ اندیشہ ہے تو وہ فوراً انہیں دل سے نکال دے.ہم اس حوالہ سے بہت محتاط ہیں.
104 اگر اتفاق سے ہماری مسجد یا علاقہ میں کوئی ایسا شدت پسند داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ہم فوری اقدام کرتے ہوئے اُسے عمارت سے نکال دیتے ہیں.چنانچہ یقین رکھیں کہ آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں.جماعت احمدیہ مسلمه در حقیقت ایسی جماعت ہے جس میں اگر کسی بھی وقت کسی بھی جگہ کوئی رکن شدت پسندانہ رُجحانات کا اظہار کرتا ہے.قانون توڑتا یا امن برباد کرتا ہے تو ایسے لوگوں کا جماعت سے اخراج ہو جاتا ہے.ہم ایسا کرنے کے پابند ہیں کیونکہ ہم لفظ اسلام کی مکمل حرمت کے قائل ہیں جس کا لغوی مطلب امن اور سلامتی ہے.لفظ اسلام کی حقیقی نمائندگی ہماری جماعت ہی کرتی ہے.مسیح کی بعثت ثانی کی سچی تصویر کشی چودہ سو سال پہلے ہی واضح طور پر بانی اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم الشان پیشگوئی میں کی تھی.اس پیشگوئی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک وقت آنے والا ہے جب اُمتِ مسلمہ کی بڑی اکثریت اسلام کی حقیقی اور اصل تعلیمات کو فراموش کر دے گی.پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ اس وقت ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو ایک مصلح مسیح اور مہدی کے طور پر دنیا میں اسلام کا احیاء تو کرے گا.ہم جماعت احمد یہ مسلمہ یقین رکھتے ہیں کہ بانی جماعت حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی وہ شخص ہیں جو اس عظیم الشان پیشگوئی کی تعمیل کے لیے مبعوث کیے گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جماعت پھیل کر دُنیا کے دو سو دو ممالک میں قائم ہو چکی ہے.بفضل خدا ان ممالک میں سے ہر ایک میں تمام پس منظر رکھنے والے اور تمام نسلوں سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگوں نے احمدیت قبول کی.وہ احمدی مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ملکوں کے وفادار شہری کے طور پر بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور اُن کی اپنے اپنے ملک سے محبت اور اسلام سے محبت میں کوئی تضاد یا تصادم نہیں پایا جاتا ہے.حقیقت میں یہ دونوں وفاداریاں ایک دوسرے سے ہم آہنگ اور جڑی ہوئی ہیں.احمدی مسلمان جہاں کہیں بھی رہتے ہیں، قانون کے سب سے زیادہ پابند شہری ہیں.میں بلا شک و شبہ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری جماعت کے اکثر ارکان میں یہ خصوصیات موجود ہیں.ان ہی خوبیوں کے سبب جب کبھی احمدی ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت کرتے ہیں یا مقامی لوگ احمدی ہو جاتے ہیں تو اُن احمدیوں کو اُن نئے معاشروں میں ضم ہونے میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی اور نہ ہی
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ 105 اُن کو اس نئے ملک کی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے سے متعلق کوئی مخمصہ پیش آتا ہے.احمدی جہاں کہیں جائیں گے اپنے اُس وطن سے اسی طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اُس ملک کے وفادار شہریوں کو کرنی چاہیے اور عملاً اس ملک کی ترقی اور بہتری کی کوشش کرتے ہیں.اسلام ہی ہے جو ہمیں اس طرح جینا سکھاتا ہے اسلام ہمیں صرف اس طرز معاشرت کی نصیحت ہی نہیں کرتا بلکہ حکم دیتا ہے کہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہوں ، اُس کے ساتھ مکمل وفاداری کریں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ وطن سے محبت ایک حقیقی مسلمان کے ایمان کا جزو ہے.جب حب الوطنی اسلام کا ایک بنیادی جز و ٹھہرا تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک حقیقی مسلمان اپنے ملک سے عدم وفاداری کا مظاہرہ کرے یا اپنے ملک سے غداری کر کے اپنا ایمان ضائع کرے؟ احمدی مسلمان ہوتے ہوئے ہمارے بڑے بڑے اجتماعات میں جماعت کے تمام افراد بڑے چھوٹے ، مرد و زن سب کھڑے ہو کر خدا کو حاضر وناظر جانتے ہوئے ایک عہد کرتے ہیں اور اس میں وعدہ کرتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے دین بلکہ اپنی قوم اور ملک کے لیے بھی اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں گے.لہذا ان لوگوں سے بڑھ کر اپنے ملک کا وفادار شہری کون ہو سکتا ہے؟ جن کو بار بار ملک کی خدمت کی تلقین کی جاتی ہے اور جن سے بار بار یہ عہد لیا جاتا ہے کہ وہ اپنے عقیدہ ، ملک اور قوم کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے ہر دم تیار رہیں گے؟ بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ چونکہ جرمنی میں زیادہ تر مسلمان پاکستان، ترکی یا دیگر ایشیائی ملکوں سے آئے ہوئے ہیں، اس لیے جب کبھی ملک کے لیے قربانی دینے کا وقت آئے گا تو یہ لوگ جرمنی کی بجائے اپنے آبائی وطنوں کو ترجیح دیں گے.لہذا میں بالوضاحت کہہ دوں کہ جب کوئی شخص جرمنی یا کسی اور ملک کی شہریت اختیار کر لیتا ہے تو وہ اس ملک کا مکمل شہری بن جاتا ہے.اس سال کے شروع میں جرمن ملٹری ہیڈ کوارٹرز کوبلنز میں جب میں نے خطاب کیا تو اس سوال کا جواب دیا تھا.میں نے یہ واضح کیا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق اگر جرمنی کی کسی مہاجر کے آبائی وطن سے جنگ ہوتی ہے.تو اس صورت میں اسے کیا کرنا چاہیے؟ اگر اُس مہاجر کے دل میں اپنے آبائی وطن کی خاطر ہمدردی موجود ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کے دل میں یہ خواہش جنم لے سکتی ہے کہ جرمنی کو نقصان پہنچے یا وہ خود جرمنی کو نقصان پہنچائے تو ایسے آدمی کو فورا اپنی شہریت ترک کر کے اپنے
106 آبائی وطن واپس چلے جانا چاہیے.لیکن اگر وہ وہیں رہتا ہے تو اسلام اپنے ملک سے کسی قسم کی عدم وفاداری کی اجازت نہیں دیتا.یہ ایک قطعی اور حتمی تعلیم ہے.اسلام کسی قسم کے باغیانہ رویہ یا اپنے ملک خواہ آبائی ہو یا اپنایا ہوا ہو، کے خلاف سازش کرنے یا کسی بھی صورت اسے نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیتا.اگر کوئی فرد اپنے اپنائے ہوئے وطن کے خلاف کام کرتا یا اسے نقصان پہنچاتا ہے تو اس کو ملک دشمن اور غدار شمار کیا جانا چاہیے اور ملکی قوانین کے مطابق سزاملنی چاہیے.یہ تو ایک مسلمان مہاجر کا معاملہ ہے.اگر ایک مقامی جرمن یا کسی اور ملک کا شہری مسلمان ہو جاتا ہے تو اُس کے پاس اپنے عظیم وطن سے مطلق وفاداری کے اظہار کے سوا کوئی راستہ نہیں.ایک اور سوال جوا کثر پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک مغربی ملک کسی مسلم ملک سے جنگ کرے تو مغرب میں رہنے والے مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے میں یہ واضح کر دوں کہ بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالوضاحت بتا دیا ہے کہ ہم ایسے زمانہ میں رہ رہے ہیں جس میں مذہبی جنگوں کا بکنی خاتمہ ہو چکا ہے.ماضی میں مسلمانوں اور دوسرے مذاہب کے لوگوں میں جنگیں اور لڑائیاں ہوئیں.ان جنگوں میں غیر مسلموں کا مقصد مسلمانوں کو قتل کرنا اور اسلام کا خاتمہ تھا.شروع شروع کی اکثر جنگوں میں غیر مسلموں نے جارحانہ اقدام اٹھانے میں پہل کی اس لیے مسلمانوں کے پاس اپنے اور اپنے مذہب کے دفاع کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا.تا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح کر دیا ہے کہ اب ایسے حالات نہیں رہے کیونکہ اب ایسی حکومتیں موجود نہیں ہیں جو اسلام کو نابود کرنے کے لیے اعلان جنگ کریں.اس کے برعکس اکثر مغربی اور غیر مسلم ممالک میں بہت زیادہ مذہبی آزادی ہے.ہماری جماعت بہت شکر گزار ہے کہ ایسی آزادیاں موجود ہیں جو غیر مسلم ممالک میں احمدی مسلمانوں کو اسلام کا پیغام پھیلانے کا موقع فراہم کرتی ہیں.اس وجہ سے ہم اس قابل ہوئے کہ مغربی دنیا کو اسلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیم جو کہ امن اور ہم آہنگی پر مبنی ہے سے روشناس کراسکیں.یہ مذہبی آزادی اور رواداری ہی ہے جس کی وجہ سے آج میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں اور حقیقی اسلام کی تعلیم پیش کر رہا ہوں.لہذا فی زمانہ مذہبی جنگوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ایک مسلم اکثریت یا عیسائی اکثریت والا ملک یا کوئی بھی اور ملک غیر مذہبی جنگ کرے تو ایسے ملک میں خواہ وہ ملک عیسائی ہو یا کسی اور مذہب
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ 107 کا ایک مسلم شہری کو کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں اسلام نے ایک سنہری اصول پیش کیا ہے جو یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو ظلم و استبداد کا مد و معاون نہیں ہونا چاہیے.لہذا اگر ظلم کوئی مسلمان ملک کر رہا ہے تو اسے روکا جانا چاہیے اور اگر ظلم کوئی عیسائی ملک کر رہا ہے تو اسے بھی روکا جانا چاہیے.ایک عام شہری کس طرح اپنے ملک کو ظلم اور نا انصافی سے روک سکتا ہے.اس کا جواب بہت آسان ہے.آج کے دور میں ساری مغربی دُنیا میں جمہوریت کا دور دورہ ہے.اگر ایک منصف مزاج شہری یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ملک کی حکومت ظلم پر عمل پیرا ہے تو اس کو اس کی مخالفت میں آواز اٹھانی چاہیے اور اپنے ملک کوسیدھے راستہ پر لانا چاہیے بلکہ ایسے لوگ ایک گروہ کے طور پر بھی یہ کام کر سکتے ہیں.اگر ایک شہری یہ دیکھتا ہے کہ اس کا ملک کسی دوسرے ملک کی خود مختاری کو ختم کرنا چاہتا ہے یا کر رہا ہے تو اسے اپنی حکومت کو تنبیہ کرنی چاہیے اور اپنے تحفظات کو سامنے لانا چاہیے.اپنے مؤقف کے لیے کھڑا ہونا اور پر امن طور پر اپنے تحفظات پیش کرنا سرکشی اور بغاوت نہیں.در حقیقت یہ اپنے ملک سے حقیقی محبت کا اظہار ہے.ایک منصف مزاج شہری بین الاقوامی طور پر دنیا میں اپنے ملک کی رسوائی اور بدنامی برداشت نہیں کر سکتا.لہذا اپنے ملک کو خبر دار کر کے وہ اپنی حُبُّ الوطنی اور وفاداری کا اظہار کرتا ہے.جہاں تک دُنیا اور بین الاقوامی اداروں کا تعلق ہے.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ جہاں کہیں بھی کسی ملک پر ظالمانہ حملہ ہو دوسرے ممالک کو اکٹھا ہو کر ظالم کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے.اگر ظالم قوم ہوش میں آ جائے اور ظلم سے باز آ جائے تو بدلہ میں یا موقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے اس قوم پر ظالمانہ سزائیں اور غیر منصفانہ فیصلے مسلط نہیں کرنے چاہیے.اس لیے اسلام تمام ممکنہ حالات کا حل پیش کرتا ہے اور اس کی تعلیمات کا لب لباب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ امن کو فروغ دے.حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقی مسلمان کی تعریف یہ کی ہے کہ ایسا انسان جس کے ہاتھ اور زبان سے امن پسند لوگ محفوظ رہیں.جیسا کہ میں نے کہا اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان کو ہرگز ظلم او استبداد کا ساتھ نہیں دینا چاہیے.یہی وہ خوبصورت اور پر حکمت تعلیم ہے جو ایک حقیقی مسلمان کی جس کسی بھی ملک میں وہ رہتا ہو، ایک باعزت مقام حاصل کرنے کی طرف راہنمائی کرتی ہے.کوئی شک نہیں کہ تمام سعید فطرت اور شائستہ لوگ یہ چاہیں گے کہ ایسے پر امن اور ذمہ دار افرادان کے معاشرہ میں موجود ہوں.
108 80 نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو زندگی گزارنے کے لیے ایک اور خوبصورت تعلیم دی ہے آپ نے فرمایا کہ ایک حقیقی مومن کو ہمیشہ اچھی اور پاکیزہ چیزوں کی تلاش میں رہنا چاہیے.فرمایا جب کبھی کوئی مسلمان کوئی پر حکمت اور عمدہ بات سنے تو اُسے ذاتی میراث سمجھے.پس جس عزم کے ساتھ انسان اپنی میراث حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسی طرح مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ پر حکمت مشوروں اور نیکی کی باتوں کی جستجو کرتے رہا کریں اور جہاں کہیں بھی انہیں پائیں اُن سے فائدہ اُٹھا لیں.ایسے وقت میں جبکہ مہاجرین کی آبادکاری کے بارہ میں اتنے تحفظات ہیں، یہ اُصول کتنا خوبصورت اور کامل راہنمائی پر مبنی ہے.مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ مقامی معاشروں میں ضم ہونے اور باہمی عزت و احترام کے فروغ کے لیے انہیں چاہیے کہ وہ ہر معاشرہ، علاقہ ، شہر اور ملک کی اچھائیاں معلوم کریں.ان اچھائیوں کا صرف علم ہی کافی نہیں بلکہ مسلمانوں کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ انہیں اپنی زندگیوں میں اپنا ئیں.یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقی معنوں میں باہمی اعتماد اور باہمی محبت اور احترام پیدا کرتی ہے.حقیقی مومن سے بڑھ کر کون امن پسند ہوسکتا ہے.جو نہ صرف اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتا ہے بلکہ اپنے یا کسی بھی اور معاشرہ کی تمام تر اچھائیاں اپنانے کی کوشش کرتا ہے.کون ہے جو اس سے بڑھ کر امن اور سلامتی کو فروغ دے سکتا ہے؟ آج کے ذرائع خبر رسانی کی بدولت دنیا اب ایک گلوبل و پیچ کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہے.یہ وہ امر ہے جس کی پیشگوئی حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے فرمائی تھی.جب آپ نے فرمایا کہ ایک وقت آتا ہے جب تمام دنیا ایک ہوگی اور فاصلے سمٹ جائیں گے.آپ نے فرمایا کہ تیز اور جدید ذرائع اطلاعات کے سبب لوگ پوری دنیا کو دیکھنے کے قابل ہوں گے.در حقیقت یہ قرآن پاک کی پیشگوئی ہے جسے آپ نے بالوضاحت بیان کیا ہے.اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہدایت فرمائی کہ جب ایسا وقت آئے تو لوگوں کو ایک دوسرے کی اچھی چیزوں کے سیکھنے اور اُن پر عمل کرنے کی جستجو کرنی ہوگی تاکہ اس طریق سے وہ اپنی گمشدہ میراث حاصل کر پائیں.دوسرے لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ تمام مثبت باتیں اپنائی جانی چاہئیں جبکہ تمام منفی چیزوں کو مستر د کر دینا چاہیے.قرآن پاک نے بالصراحت یہ حکم دیا ہے کہ سچا مسلمان وہ ہے کہ جو نیکی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے.یہ سب
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ 109 کچھ ذہن میں رکھتے ہوئے کیا کوئی ملک یا معاشرت یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ اپنے درمیان ایسا امن پسند مسلمان برداشت نہیں کر سکتے ؟ گزشتہ سال مجھے برلن کے میئر سے ملنے کا موقع ملا اور میں نے اُن پر واضح کیا کہ ہمیں اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم ہر قوم کے اچھے پہلو کو اپنی میراث کی طرح ہی سمجھو.اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس تعلیم پر عمل پیرا ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پوری دنیا آپ کی حمایت میں کھڑی ہوگی.میں بہت حیران اور افسردہ ہوا جب میں نے سنا کہ جرمنی کے بعض حصوں میں کچھ لوگ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ نہ مسلمان اور نہ ہی اسلام یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ جرمن معاشرہ میں ضم ہوسکیں.یقینا یہ سچ ہے کہ اسلام کی جو تصویر انتہا پسند اور دہشت گرد پیش کرتے ہیں وہ جرمنی تو کیا کسی بھی ملک اور معاشرہ میں ضم ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی.در حقیقت ایک وقت یقیناً آئے گا جب ان شدت پسندانہ نظریات کے خلاف مسلمان ممالک سے بھی صدائے احتجاج بلند ہوگی اور ان حالات میں حقیقی اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کے آئے تھے یقینی طور پر مخلص اور نیک فطرت لوگوں کو اپنی طرف کھینچے گا.اس دور میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے مبعوث کیا ہے اور اسی لیے ان کی جماعت حقیقی اسلام کی تبلیغ بھی کرتی ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہے.واضح ہو کہ کسی بھی دلیل سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ حقیقی اسلام کسی بھی معاشرہ میں ضم نہیں ہوسکتا.حقیقی اسلام تو وہ ہے جو تقویٰ اور نیکی کو پھیلاتا اور ہرقسم کی برائی اور غلط کاری کومستر دکرتا ہے.حقیقی اسلام مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ جہاں بھی برائی اور ظلم دیکھو اس کو روکو.سوال یہ نہیں کہ اسلام ضم نہیں ہو سکتا بلکہ حقیقی اسلام تو معاشرہ کو فطری طور پر مقناطیس کی طرح اپنی طرف کھینچتا ہے.اسلام تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص نہ صرف اپنے لیے امن حاصل کرنے کی کوشش یا خواہش کرے بلکہ وہ دوسرے لوگوں میں امن و آشتی پھیلانے کے لیے اپنی تمام کوششیں سچی ہمدردی کے ساتھ صرف کرے.یہی بے لوث رویہ عالمی امن کے استحکام کا رستہ ہے.کیا دُنیا میں کوئی معاشرہ ایسا ہے جو اس تعلیم کی تعریف نہ کرے اور سوچ کے اس انداز کو نہ سرا ہے؟ یقینا ایک اچھا معاشرہ اپنے اندر برائی اور بداخلاقی کے پھیلنے کی خواہش نہیں کرتا اور نیکی اور امن کے فروغ کی ہرگز مخالفت نہیں کرتا.
110 10 جب ہم نیکی کی تعریف کریں تو یہ ممکن ہے کہ ایک مذہبی شخص اور غیر مذہبی فرد میں اس کی تعریف پر اختلاف ہو.نیکی اور خیر کے مختلف پہلوؤں میں سے اسلام کے بیان کردہ دو پہلو زیادہ اہم ہیں جن میں سے باقی تمام نیکیاں پھوٹتی ہیں.ایک پہلو حقوق اللہ ہے اور دوسرا حقوق العباد.ان میں سے اول الذکر کے بارہ میں ایک مذہبی شخص اور غیر مذہبی شخص میں اختلاف ہو سکتا ہے.دوسرے پہلو میں، جو حقوق العباد کے بارہ میں ہے، کسی کو کوئی اختلاف نہیں.حقوق اللہ اللہ تعالیٰ کی پرستش سے متعلق ہیں اور تمام مذاہب اپنے پیروکاروں کی اپنے اپنے رنگ میں راہنمائی کرتے ہیں اور حقوق العباد کے لحاظ سے مذہب اور معاشرہ دونوں انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں.اسلام ہمیں بڑی گہرائی اور تفصیل کے ساتھ حقوق العباد کی تلقین کرتا ہے.ان تمام تعلیمات کا احاطہ کرنا اس وقت ناممکن ہے تاہم ان میں سے اسلام کے قائم کردہ کچھ اہم حقوق جو امن کے فروغ کے لیے معاشرہ میں ضروری ہیں میں ان کا ذکر کروں گا.اسلام دوسرے لوگوں کی عزت اور جذبات کے احترام کا درس دیتا ہے.ان میں مذہبی احساسات اور معاشرتی تعلقات جیسے عمومی مسائل شامل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر ایک یہودی، جس نے ایک مسلمان کی شکایت کی تھی، کے مذہبی احساسات کا خیال کرتے ہوئے مسلمان کی سرزنش کی اور فرمایا کہ اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فوقیت کا دعوی نہیں کرنا چاہیے تھا.اگر چہ آپ کو علم تھا کہ آخری شرعی کتاب آپ لائے ہیں.اس طریق سے حضرت اقدس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسروں کے احساسات کا خیال رکھتے تھے اور معاشرہ میں امن قائم فرماتے.اسلام کی ایک اور عظیم الشان تعلیم غربا اور محروم لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کے بارہ میں ہے.اس میں ہمیں یہ ایسے مواقع کی جستجو کی تعلیم دیتا ہے جن میں ہمیں محروم لوگوں کی بے لوث انداز میں مدد کرنی چاہیے اور اُن کا کسی صورت استحصال نہیں کرنا چاہیے.بدقسمتی سے آج کے معاشرہ میں جہاں محروم لوگوں کی بظاہر مددکرنے کے لیے نمایاں طور پر منصوبہ اور مواقع پیدا کیے جاتے ہیں.وہ کریڈٹ سسٹم پر مبنی ہیں.جہاں ان کی واپسی مع سود کی جاتی ہے.مثال کے طور پر طلبا کو ان کی تعلیم کی تکمیل کے لیے قرض دیئے جاتے ہیں یا لوگ کا روبار شروع کرنے کے لیے قرض لیتے ہیں.تاہم ان کی ادائیگی کے لیے برسوں اور کبھی کبھی کئی عشرے گزر جاتے ہیں.سالہا سال کی
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ 111 محنت کے بعد بھی یا کسی معاشی بحران کی صورت میں عین ممکن ہے کہ ان کا قرض جوں کا توں باقی ہو یا پہلے سے بھی بُری حالت میں ہو جائے.حالیہ چند برسوں کے دوران ہم نے ایسی ان گنت مثالیں مشاہدہ کی اور سنی ہیں.جب دنیا کے کئی حصے مالی بحرانوں نے غارت کیے.اسلام پر ایک الزام اکثر لگایا جاتا ہے کہ اس میں عورت کو مساوی حقوق حاصل نہیں.یہ الزام بالکل بے بنیاد ہے.اسلام نے عورت کو عزت و وقار دیا ہے.میں ایک دو مثالیں دیتا ہوں.اسلام نے اس وقت عورت کو خاوند کے غلط رویہ رکھنے پرضلع کا حق دیا جب عورت صرف ملکیتی چیز یا متاع خرید و فروخت سمجھی جاتی تھی.جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں عورت کا یہ حق مناسب طریق سے ابھی گزشتہ صدی میں ہی تسلیم کیا گیا ہے.مزید برآں اسلام نے عورت کو اُس وقت وراثت کا حق بخشا جب عورت کا کوئی مرتبہ اور اہمیت نہیں سمجھی جاتی تھی.یورپ میں عورت کو یہ حق نسبتاً حال ہی میں ملا ہے.اسلام ہمسایوں کے حقوق کا بھی تعین کرتا ہے.قرآن پاک اس سلسلہ میں تفصیل سے راہنمائی کرتا ہے کہ ہمسایہ کون ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟ جو آپ کے ساتھ بیٹھتا ہے وہ بھی ہمسایہ ہے اور جو آس پاس کے گھروں میں ہیں چاہے آپ انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے.در حقیقت ہمسائیگی کا دائرہ چالیس گھروں تک وسیع ہے.وہ لوگ بھی ہمسایوں میں شامل ہیں جو آپ کے ہم سفر ہیں.لہذا آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کا خیال رکھیں.اس حق پر اتنا زور دیا گیا کہ حضرت رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ انہیں خیال ہوا کہ غالباً ہمسایہ کو وراثت میں بھی شامل کر دیا جائے گا.حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں تک فرمایا کہ وہ شخص جس سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں ہرگز مسلمان یا مومن کہلانے کا مستحق نہیں.دوسروں کی بہتری کے لیے اسلام کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ تمام لوگ کمزور اور بے آسرا افراد کی مدد اور معاشرتی حالت بہتر بنانے کی ذمہ داری مل جل کر اٹھا ئیں.پس اپنا کردار ادا کرنے اور ان تعلیمات پر عمل کو فروغ دینے کے لیے جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا کے غریب اور محروم ممالک میں ابتدائی اور اعلی تعلیمی وسائل مہیا کر رہی ہے.ہم سکول چلا رہے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے وظائف دے رہے ہیں تا کہ محروم لوگ خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوسکیں.اسلام کا ایک اور حکم یہ ہے کہ تمہیں اپنے وعدے ہر حال میں پورے کرنے چاہئیں اور معاہدات کی
112 پابندی کرنی چاہیے.اس میں وہ تمام وعدے شامل ہیں جو لوگ آپس میں کرتے ہیں.اسلام یہ بھی تقاضا کرتا ہے کہ ایک مسلمان اُس عہد وفاداری کو نبھائے جو وہ اپنے ملک سے ایک شہری کے طور پر باندھتا ہے.اس بارہ میں میں پہلے بات کر چکا ہوں.یہ چند باتیں ہیں جو میں نے آپ کے سامنے یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہیں کہ اسلام کس قدر ہمدردی اور محبت کا مذہب ہے.یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے مخالفین یا وہ لوگ جو اس کی تعلیمات سے پوری طرح آگاہ نہیں بڑی شدت سے اس پر بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا آج کے دور میں جماعت احمدیہ مسلمہ اسلام کا حقیقی پیغام پھیلا رہی ہے اور اس کا عملی اظہار بھی کر رہی ہے.ان باتوں کی روشنی میں میں ان لوگوں سے جو اسلام پر ایک مسلم اقلیت کے طر یہ عمل کو دیکھ کر الزامات لگاتے ہیں درخواست کروں گا کہ وہ ضرور ایسے لوگوں پر اعتراض کریں اور ان پر گرفت کریں لیکن انہیں ہرگز زیب نہیں دیتا کہ یہ غیر منصفانہ مثالیں پیش کر کے اسلام کی حقیقی تعلیمات کی تخفیف کریں اور انہیں بدنام کریں.آپ ہرگز اسلامی تعلیمات کو جرمنی یا کسی اور ملک کے لیے خطرہ خیال نہ کریں.آپ ہر گز فکر نہ کریں کہ آیا ایک مسلمان جرمن معاشرہ کا حصہ بن سکتا ہے یا نہیں.جیسا کہ میں نے پہلے کہا اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ مسلمانوں کو تمام اچھائیاں اپنانے کی تعلیم دیتا ہے.لہذا اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان کسی بھی معاشرہ کا حصہ بن کر اس میں رہ سکتے ہیں.اگر کوئی شخص اس کے برخلاف عمل کرتا ہے تو وہ محض نام کا مسلمان ہے اور اسلام کی حقیقی تعلیمات پر ہرگز عمل پیرا نہیں.پس کسی مسلمان سے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تہذیب ، شائستگی اور نیکی کی تعلیمات کے خلاف کرنے کی یقیناً توقع نہیں رکھی جانی چاہیے مگر ایسے معاملات کا کسی معاشرہ میں جذب ہونے سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ مذہبی آزادی سے متعلق ہے جس پر نہ صرف مسلمان بلکہ تمام مہذب اور دیانتدار لوگ متفق ہیں اور اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور علی الاعلان کہتے ہیں کہ کسی حکومت یا معاشرہ کو یہ حق حاصل نہیں کہ لوگوں کے ذاتی مذہبی معاملات میں مداخلت کرے.میری دُعا ہے کہ جرمنی اور در حقیقت ہر ملک جو مختلف قومیتوں اور ثقافتوں کے حامل لوگوں کا گھر بن چکا ہے، ایک دوسرے کے احساسات و جذبات کے لیے عزت اور حمل کے اعلیٰ ترین معیار کا مظاہرہ کرے.اس بیان فرمودہ طریق سے وہ باہمی محبت، پیار اور امن کو فروغ دینے والوں کا علمبردار بن سکتا
کیا مسلمان مغربی معاشرہ میں ضم ہو سکتے ہیں؟ 113 ہے اور یہ دنیا کے دائگی امن اور سلامتی کا ضامن ہوگا اور اس طرح دنیا کو اس تباہی سے بچایا جاسکتا ہے جس کی طرف وہ باہمی رواداری کے فقدان کی وجہ سے تیزی سے گامزن ہے.ایک خوفناک تباہی کا خطرہ ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے.سو اس تباہی سے بچنے کے لیے ہر ملک، ہر فرد چاہے وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ، اسے بہت ہی احتیاط سے چلنے کی ضرورت ہے.اللہ کرے دُنیا کا ہر شخص اس حقیقت کو سمجھ لے.آخر میں میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے یہاں آنے ،شامل ہونے اور میری باتیں سننے کے لیے وقت نکالا.اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنا فضل فرمائے.آپ سب کا بہت بہت شکریہ.
CENTENARY 2013 اسلام.امن اور محبت کا مذہب 1913 برطانوی پارلیمنٹ لندن برطانیہ 2013ء Ha Maumer Chatail The Ahmadiya Malt CENTENARY LOVE
THE D 1913 - 2013 ہوم سیکریٹری محترمہ تھریسا مے حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گفتگو کا شرف حاصل کر رہی ہیں نائب وزیراعظم جناب تک کلیگ ہاؤس آف کامنز لندن میں حضور انور سے محو گفتگو ہیں جناب ایڈ ڈیوی ایم پی حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی شید و فارن مسٹر جناب ڈگلس الیگزینڈر نے حضرت خلیفہ اسح بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کرتے ہوئے الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل کیا
جناب ایڈ ڈیوی ایم پی حضرت خلیفہ اسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر والعزیز حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ہاؤس آف کامنز کے مغربی ہال کی طرف لے جارہے ہیں جون 2013ء ہاؤس آف کامنز کے باہر ایڈ ڈیوی ایم پی کے ساتھ کھڑے ہیں.لندن 11 جون 2013ء حضرت خلیفہ مسیح الخامس ایدہ اللہ تعلی بنصرہ العزیز لندن کے ہا ؤس آف کامنز میں ممبران پارلیمنٹ وی آئی پی شخصیات اور ڈپلومیٹس سے تاریخی خطاب فرما رہے ہیں
پیش لفظ حضرت اقدس مرزا مسرور احمد خلیفہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز امام جماعت احمد یہ مسلمہ نے مؤرخہ 11 جون 2013ء کو انگلستان میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں پارلیمنٹ ہاؤس لندن میں ایک خطاب فرمایا.اس صد سالہ تقریب میں اڑسٹھ نمایاں شخصیات نے شمولیت کی جن میں تمیں ممبران پارلیمنٹ، بارہ ممبران ہاؤس آف لارڈز جن میں سے کابینہ کے چھڈ ز را شامل تھے.میڈیا کے متعدد نمائندگان جن میں بی بی سی.سکائی ٹیلی ویژن اور آئی ٹیلی ویژن بھی اس تقریب کی عکس بندی کے لیے موجود تھے.دیگر معززین کے علاوہ درج ذیل احباب نے بھی تقریب میں شرکت فرمائی: 1: Secretary of State for Energy and Climate change, The Rt Hon.Ed Davey MP, 2: The Deputy Prime minister, The Rt Hon.Nick Clegg MP, 3: The Home Secretary The Rt Hon.Theresa May MP, 4: The Shadow Foreign Secretary, The Rt Hon.Douglas Alexander MP, 5: The Chairman of the Home Affairs Select Committee Rt Hon.Keith Vaz MP, 6: Member of Parliament for Mitcham and Morden Siobhain McDonaugh MP.
اسلام - امن اور محبت کا مذہب بسم اللہ الرحمن الرحیم معزز مہمانان گرامی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ سب پر اللہ کی رحمتیں اور برکات نازل ہوں.سب سے پہلے میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے ان دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جماعت احمد یہ برطانیہ کی صد سالہ تقریب کے موقع پر ہم سے اپنی دوستی اور گہرے تعلق کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس میں اس تقریب کا انعقاد کیا ہے.میں اُن تمام مہمانوں کا بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے آج کی تقریب میں شامل ہو کر اسے کامیاب بنانے میں حصہ لیا ہے.مجھے خوشی ہے کہ آپ میں سے اکثر اپنی مصروفیات اور میٹنگز چھوڑ کر یہاں تشریف لائے.تشکر کے ان جذبات کے ساتھ میری یہ بھی خواہش اور دُعا ہے کہ وہ تمام شعبہ جات اور احباب جو اس دلکش اور عالیشان عمارت میں کام کرتے ہیں اس ملک اور اس کے رہنے والوں کی خدمت کے حقوق ادا کرنے کی کماحقہ توفیق پائیں.نیز انہیں دیگر ممالک سے اچھے تعلقات استوار کرنے کی احسن رنگ میں توفیق ملے اور انصاف سے کام لیتے ہوئے ایسے فیصلے کرنے والے ہوں جو سب کے لیے مفید ہوں.اگر یہ رُوح پیدا ہو جائے تو اس سے محبت، ہمدردی اور اخوت جیسے بہترین نتائج پیدا ہوں گے اور دُنیا حقیقی امن اور خوش حالی کا گہوارہ بن جائے گی.میرے ساتھ ساتھ تمام احمدی مسلمانوں کی بھی یہی خواہش اور دُعا ہے کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ وطن سے اور بحیثیت مجموعی انسانیت سے گہری محبت بہت ضروری ہے.دراصل احمدی مسلمانوں کا ایمان ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا جزو ہے کیونکہ یہ بانی اسلام حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تاکیدی حکم اور تعلیم ہے.پس میں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہر وہ احمدی مسلمان جو برطانیہ کا شہری ہے خواہ اس کی پیدائش برطانیہ
122 22 میں ہوئی ہو یا کسی اور ملک سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا ہو مکمل طور پر اس ملک کا وفادار ہے اور اس سے سچی محبت رکھتا ہے اور اس قوم کی ترقی اور کامیابی کا خواہاں ہے.برطانیہ میں دیگر اقوام کے لوگ بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں.ایک اندازہ کے مطابق وہ اس ملک کی کل آبادی کا قریباً چودہ یا پندرہ فیصد ہیں.چنانچہ میں برطانوی مقامی افراد کی اعلیٰ صفات مثلاً فراخ دلی اور قوت برداشت کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس کا ذکر کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا کہ کس طرح انہوں نے دیگر ممالک سے تارکین وطن کو اپنے ملک کے افراد کے طور پر قبول کیا اور انہیں برطانوی معاشرہ کا حصہ بننے کا موقع دیا.اس اعتبار سے وہ لوگ جو یہاں رہائش اختیار کرنے کے لیے آئے ان کا بھی اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ خود کو اس ملک کا وفادار شہری ثابت کریں.لہذا انہیں ہر طرح کی بدامنی اور فساد کا قلع قمع کرنے میں حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کرنا چاہیے.جہاں تک احباب جماعت احمدیہ مسلمہ کا تعلق ہے تو وہ جس ملک میں بھی رہائش پذیر ہیں اللہ کے فضل سے اِس اُصول پر سختی سے کاربند ہیں.جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہم اس وقت برطانیہ میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی صد سالہ تقریبات منار ہے ہیں.پچھلے سو سال اس بات کا بین ثبوت اور گواہ ہیں کہ احباب جماعت احمد یہ مسلمہ نے اپنے ملک سے وفاداری کے تقاضوں کو ہمیشہ پورا کیا ہے اور ہمیشہ کسی بھی قسم کی انتہا پسندی، بغاوت اور فساد سے بالکل الگ رہے ہیں.دراصل اس وفاداری کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ ایک حقیقی مسلمان جماعت ہے.ہماری جماعت ایک ممتاز حیثیت کی حامل جماعت ہے کیونکہ ہم نے دُنیا کو ہمیشہ تسلسل کے ساتھ حقیقی اور امن پسند اسلامی تعلیمات سے روشناس کروایا ہے اور ہمیشہ سے ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ ان بچی تعلیمات کو ہی حقیقی اسلام کے طور پر قبول کیا جائے.اس مختصر تمہید کے بعد اب میں اپنے خطاب کے بنیادی موضوع کی طرف آتا ہوں.ہماری جماعت امن، بھائی چارہ اور ہم آہنگی کی علم بردار ہے.ہمارا ایمان ” محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں ہے.بعض غیر مسلم جن سے ہمارے قریبی مراسم ہیں وہ بہت حیران ہوتے ہیں کہ جماعت احمدیہ مسلمہ امن اور بھائی چارہ پر
اسلام.امن اور محبت کا مذہب 123 مشتمل اپنے پیغام کو براہ راست اسلام سے منسوب کرتی ہے.ان کی اس حیرت کا سبب یہ ہے کہ دیگر متعدد نام نہاد مسلمان تنظیمیں اور علما یکسر مختلف خیالات اور رویہ رکھتے ہیں اور کلی مختلف پیغام دے رہے ہیں.اس فرق کو واضح کرنے کے لیے میں اس بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم احمدی مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کے ذریعہ جہاد کا تصور کلیۂ غلط اور قابل تردید ہے جبکہ دیگر مسلمان علماء نہ صرف اس کی ترویج کرتے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہیں.ان کے انہی عقاید کی وجہ سے دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی کئی ایک شدت پسند تنظیمیں اُبھر کر سامنے آئی ہیں.مختلف گروہ ہی نہیں انفرادی طور پر بھی ایسے لوگ سامنے آرہے ہیں جو ان غلط عقاید پر عمل پیرا ہو کر اپنا مفاد حاصل کر رہے ہیں.اس کی ایک تازہ مثال ایک معصوم برطانوی فوجی کا لندن کی گلیوں میں بہیمانہ قتل ہے.اس حملہ کا حقیقی اسلامی تعلیمات سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں.اس کے برعکس اسلام ایسے افعال کی شدید مذمت کرتا ہے.اس طرح کے گھناؤنے منصوبے حقیقی اسلامی تعلیمات اور غلط معانی اخذ کر کے اُس کی غلط تشریحات کرنے والوں کے مابین فرق واضح کر دیتے ہیں جن پر بعض نام نہاد مسلمان اپنے مذموم مقاصد کی خاطر عمل پیرا ہیں.میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ بعض مقامی گروہوں کا ردعمل بھی درست نہیں کیونکہ اس قسم کے رد عمل سے معاشرہ کا امن تباہ ہو سکتا ہے.اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ اسلامی تعلیمات کے بارہ میں ہمارا عقیدہ ہی درست ہے؟ قابلِ غور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ تلوار یا طاقت کے استعمال کی اجازت محض اُس وقت ہے جب اسلام پر مذہبی جنگ مسلط کی جائے.آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک یا مذ ہب ایسا نہیں ہے جو خالصہ مذہب کو بنیاد بنا کر اسلام کے خلاف اعلان جنگ کر رہا ہو.پس مسلمانوں کے لیے کسی طور پر بھی جائز نہیں کہ وہ مذہب کے نام پر کسی دوسرے پر حملہ کر دیں کیونکہ یہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے.قرآن کریم نے صرف ان لوگوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے جنہوں نے اسلام کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا اور تلوار اٹھانے میں پہل کی تھی.ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شہری اپنے ملک یا اپنے ہم وطن دیگر شہریوں کو نقصان پہنچاتا ہے تو وہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے منافی عمل پیرا ہے.
124 حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بھی معصوم کا خون بہانے والا شخص مسلمان نہیں ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں ایسے لوگ کمزور ایمان والے اور گناہ گار ہیں.اب میں اسلام کے چند اور پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہوں جن سے ثابت ہو جائے گا کہ اسلامی تعلیمات کتنی درست ، روشن خیال اور اعلیٰ ہیں اور بعض نام نہاد اسلامی فرقے اسلام کی جو تصویر پیش کرتے ہیں اس سے کسی بھی طور حقیقی اسلام کی نمائندگی نہیں ہوتی.یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ان کے ایسے اقدامات کا مقصد صرف اپنے مذموم مفادات کی تکمیل ہے جن کی خاطر وہ اپنے افعال شنیعہ کے جواز کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں.مذہبی رواداری کی اہمیت پر جتنا زور اسلام دیتا ہے وہ اعلیٰ معیار کسی اور جگہ مانا ناممکن ہے.دیگر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب تک دوسرے مذاہب کو غلط ثابت نہ کر دیا جائے اس وقت تک ان کے مذہب کی صداقت ثابت نہیں ہو سکتی جبکہ اسلام کا نقطہ نظر اس کے برعکس ہے.اسلامی تعلیم یہ ہے کہ اسلام ایک سچا مذ ہب ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لیے بھیجا گیا اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خدا کے تمام انبیاء دُنیا کی تمام اقوام اور لوگوں کی طرف بھیجے گئے.اس بات کا قرآن کریم میں واضح طور پر ذکر موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام انبیاءخدا کی طرف سے پیار اور محبت کی تعلیم دے کر مبعوث کیے گئے.لہذا تمام سچے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ بلا تفریق ان سب پر ایمان لائیں.دوسرا کوئی بھی مذہب اپنے علاوہ دیگر مذاہب اور اقوام کی اس وثوق اور وضاحت کے ساتھ تعریف نہیں کرتا جیسی اسلام کرتا ہے.مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگوں میں انبیاء مبعوث ہوئے اس لیے وہ انہیں جھوٹا سمجھ ہی نہیں سکتے.لہذا مسلمانوں کو خدا کے تمام انبیاء میں سے کسی ایک کی بھی تحقیر یا تضحیک کی ہرگز اجازت نہیں اور نہ ہی یہ اجازت ہے کہ کسی مذہب کے پیروکاروں کی دل آزاری کی جائے.نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض غیر مسلموں کا رویہ اس کے بالکل برعکس ہے.وہ بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف دینے تضحیک کرنے اور دشنام طرازی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اس طرح وہ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہیں.ہم اپنے عقاید کی وجہ سے مخلصانہ مذہبی رواداری اور باہمی ہم آہنگی کے خواہاں ہیں.بدقسمتی سے جب بعض طبقے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں تو بعض نام نہاد مسلمان اس
اسلام.امن اور محبت کا مذہب 125 اشتعال انگیزی کے رد عمل کے طور پر یکسر غلط اور غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا لیتے ہیں.ان کے رد عمل اور جواب کا حقیقی اسلامی تعلیمات سے کوئی واسطہ نہیں اور آپ یقینا کبھی بھی کسی احمدی مسلمان کی طرف سے اس طرح کا منفی رد عمل نہیں دیکھیں گے خواہ اُسے کتنا ہی اشتعال دلایا جائے.ایک گھناؤنا الزام جو بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم پر لگایا جاتا ہے یہ ہے کہ انہوں نے انتہا پسندی کی تعلیم دی اور اسلام کی تبلیغ کے لیے طاقت کے استعمال کو فروغ دیا، اس الزام کا جائزہ لینے اور حقیقت جاننے کے لیے دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم کیا فرماتا ہے: ترجمہ: اور اگر تیرارب چاہتا تو جو بھی زمین میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے.تو کیا تو (سورة يونس: 100) لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے.حتی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں؟ یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ تمام قدرتوں کا مالک خدا بآسانی تمام انسانوں کو جبراً ایک ہی مذہب پر اکٹھا کر سکتا تھا لیکن اس کی بجائے اس نے انسانوں کو اختیار دے دیا ہے کہ چاہیں تو ایمان لائیں اور چاہیں تو ایمان نہ لائیں.اور جب خدا نے بنی نوع انسان کو آزادی اور اختیار دیا ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کا کوئی بھی پیروکار کسی کو کسی بھی طرح جبر مسلمان بنا سکے؟ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے: ترجمہ: اور کہہ دے کہ حق وہی ہے جو تمہارے رب کی طرف سے ہو.پس جو چاہے وہ ایمان لے آئے (سورة الكهف: 30) اور جو چاہےسوا نکار کر دے.یہ اسلام کی حقیقت ہے.یہ اسلام کی حقیقی تعلیم ہے.اگر کسی کا دل چاہتا ہے تو اُسے اسلام کو قبول کرنے کی آزادی ہے لیکن اگر اس کا دل مطمئن نہیں ہے تو اُسے انکار کرنے کی بھی آزادی ہے.چنانچہ اسلام کلیۂ جبروا کراہ اور انتہا پسندی کے خلاف ہے بلکہ اسلام معاشرہ کے تمام طبقات میں امن اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے.دراصل اسلام کے لیے زبر دستی اور جبر و اکراہ کی تعلیم دینا ناممکن محض ہے کیونکہ لفظ اسلام کا مطلب ہی امن کے ساتھ رہنا اور دیگر تمام بنی نوع انسان کو امن فراہم کرنا ہے.تاہم جب ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو
126 ہمیں بہت دکھ اور تکلیف ہوتی ہے.ہر وہ تحقیر آمیز رویہ یابات جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کی جاتی ہے ہمارے کلیجے چھلنی کر دیتی ہے.بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے خدا تعالیٰ اور مخلوق خدا کی محبت ہمارے دلوں میں بٹھائی.آپ ہی ہیں جنہوں نے ہمارے اندر تمام بنی نوع انسان اور ہر ایک مذہب کے لیے محبت اور احترام راسخ کر دیا.مخالفین کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امن پسندانہ تعلیم کا اس سے بڑھ کر کیا جواب اور ثبوت ہوسکتا ہے کہ جب انہیں تبلیغ کی گئی اور اسلام کا پیغام اُن تک پہنچایا گیا تو انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ آپ انہیں ظلم اور گناہ کی طرف بلا رہے ہیں بلکہ اُن کو یہ فکر تھی کہ اس طرح ان کی عزتیں اور مال خطرہ میں پڑ جائیں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف امن اور ہم آہنگی کی تعلیم دی تھی.انہوں نے اس خطرہ کو تسلیم کیا کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کر لیا تو امن کی راہ اپنانے کی وجہ سے ان کے ہمسایہ قبائل یا دیگر اقوام ان کو تباہ و برباد کر دیں گی.غرض اگر اسلام ظلم کی تعلیم دیتا اور تلوار اٹھانے اور اعلان جنگ کرنے کا حکم دیتا تو کافر ہرگز یہ جواز پیش نہ کرتے.وہ کبھی بھی یہ نہ کہتے کہ ان کے قبول اسلام کے پیچھے یہ خوف ہے کہ اسلام کی امن پسندانہ تعلیم دنیا داروں کے ہاتھوں ان کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی ایک صفت السلام بیان فرمائی ہے.یعنی اللہ سلامتی کا سر چشمہ ومنبع ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خدا واقعہ سلامتی کا سر چشمہ ومنبع ہے تو یہ سلامتی بجائے انسانوں کے کسی ایک مخصوص گروہ تک محدود ہونے کے تمام مخلوقات اور تمام بنی نوع انسان پر محیط ہونی چاہیے.اگر خدا کی سلامتی کا مقصد محض چندلوگوں کی حفاظت کرنا ہو تو پھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ ساری دنیا کا خدا ہے.خدا تعالیٰ نے اس بات کا جواب قرآن کریم میں یوں دیا ہے: ترجمہ: اور اس کے یہ کہنے کے وقت کو یاد کرو کہ اے میرے رب ! یہ لوگ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے.پس ( سورة الزخرف : 90 - 89) تو ان سے در گزر کر اور کہہ ” سلام پس عنقریب وہ جان لیں گے.“ ان الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ سلم ایسی تعلیم لائے جو تمام بنی نوع انسان
اسلام.امن اور محبت کا مذہب 127 کے لیے رحمت و رافت کا ذریعہ ہے اور یوں انسانیت کے لیے امن کا باعث ہے.اس آیت میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے امن کے اس پیغام کے جواب میں نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا انکار کیا گیا بلکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمسخر اور حقارت آمیز سلوک کیا.یہیں پر بس نہیں کیا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر دشمنی پر اتر آئے اور فتنہ وفساد پیدا کر دیا.اس کے باوجود حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا سے یہی التجا کی کہ ”میں تو ان کے لیے سلامتی کا خواہاں ہوں لیکن یہ مجھے امن سے رہنے نہیں دیتے اور مجھے دکھ اور تکلیف پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے.“ اس کے جواب میں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ جو کچھ یہ لوگ کر رہے ہیں اس سے صرف نظر کر اور انہیں چھوڑ دے.تمہارا واحد کام دنیا میں امن کا فروغ اور اس کا قیام ہے.ان کی نفرتوں اور زیادتیوں کے جواب میں تم صرف یہ کہو کہ تم پر سلامتی ہو اور انہیں بتاؤ کہ تم ان کے لیے محض سلامتی کا پیغام لائے ہو.پس حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری حیات طیبہ دنیا میں فروغ امن کے لیے وقف کر دی.یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ نصب العین تھا.یقیناً وہ دن آئے گا جب بنی نوع انسان کو یہ احساس ہوگا اور وہ سمجھ جائیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہا پسندی کی کوئی تعلیم نہیں لائے.بنی نوع انسان کو یہ احساس بھی ہو جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اور صرف امن، محبت اور ہمدردی کا پیغام لائے ہیں.مزید یہ کہ اگر اس عظیم نبی کے پیروکار بھی ان زیادتیوں اور مظالم کا اسی طرح پیار کے انداز میں جواب دیں تو بلا شبہ ایک دن آئے گا کہ اسلام کی اس اعلی تعلیم پر اعتراض اٹھانے والے اس تعلیم کی صداقت اور حسن کے قائل ہو جائیں گے.جماعت احمدیہ مسلمہ انہی تعلیمات پر کار بند ہے اور انہی کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے.یہی وہ ہم آہنگی ، رواداری اور ہمدردی کی تعلیم ہے جسے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لیے ہم مصروف عمل ہیں.ہم احمدی مسلمان ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس تاریخی ، بے نظیر اور لاثانی نرمی ، محبت اور شفقت کی تقلید کرتے ہیں کہ کئی سالوں پر محیط سخت تکلیف اور کرب ناک مظالم برداشت کرنے کے بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ واپس تشریف لائے.کئی سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں کو خوراک اور پانی جیسی انتہائی بنیادی ضروریات زندگی سے محروم کر دیا گیا اور کئی کئی دن تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاقے کاٹے ، آپ
128 صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ماننے والوں پر حملے کیے گئے.بعض کو تو انتہائی بہیمانہ اور ظالمانہ تشدد کر کے جان سے ماردیا گیا کہ جس کا کوئی انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.یہاں تک کہ عمر رسیدہ مسلمان مردوں، خواتین اور بچوں تک کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور وحشیانہ اور بہیمانہ بر بریت کا نشانہ بنایا گیا.اس ظلم و ستم کے باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فاتحانہ شان کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کوئی بدلہ نہ لیا بلکہ اعلان عام کروا دیا کہ تم میں سے کسی پر بھی کوئی پکڑ نہیں کیونکہ میں نے تم سب کو معاف کر دیا ہے.میں محبت اور امن وسلامتی کا نبی ہوں.خدا تعالیٰ کی صفت "السلام" کا سب سے زیادہ علم مجھے دیا گیا ہے.وہی خدا ہے جو سلامتی بخشتا ہے.میں تمہاری ساری سابقہ زیادتیاں تمہیں معاف کرتا ہوں اور میں تمہیں سلامتی اور تحفظ کی ضمانت دیتا ہوں.تم مکہ میں آزادی سے رہ سکتے ہو اور تم اپنے اپنے مذہب پر بھی آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے ہو.کسی کے ساتھ کسی قسم کا جبر اور زبردستی نہیں کی جائے گی.بعض انتہائی سرگرم کفار سزا کے خوف سے مکہ چھوڑ کر بھاگ گئے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ انہوں نے مسلمانوں پر ہر قسم کے ظلم و ستم کی حدیں توڑ دی تھیں.تا ہم اس بے مثال ہمدردی اور نرمی اور عفو و درگزر نیز فقید المثال سلامتی اور ہم آہنگی کے اظہار کو دیکھ کر ان کفار کے رشتہ داروں نے انہیں مکہ میں لوٹ آنے کا کہا.انہیں بتایا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلامتی ،تحفظ اور امان دینے کے علاوہ ان سے کوئی سلوک نہیں کیا.یوں وہ ظالم بھی مکہ لوٹ آئے.جب انہوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور رحم ملاحظہ کیا تو اپنی خوشی سے مشرف بہ اسلام ہو گئے.میں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ تاریخ میں محفوظ ہے اور غیر مسلم مؤرخین اور مستشرقین کی ایک بڑی تعداد نے بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے.یہ حقیقی اسلامی تعلیمات ہیں اور یہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے.چنانچہ اسلام اور بانی اسلام پر شدت پسندی اور اس قسم کے دیگر الزامات لگانا انتہائی نا انصافی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اس قسم کے الزام لگائے جاتے ہیں تو ہمیں انتہائی تکلیف اور رنج ہوتا ہے.میں اس بات کا ایک بار پھر اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ آج ہماری جماعت یعنی جماعت احمد یہ مسلمہ ہی اسلام کی حقیقی اور امن پسند تعلیم پر کماحقہ عمل پیرا ہے اور اس کے عین مطابق زندگی بسر کر رہی ہے.میں اس بات کا اعادہ بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ انتہا پسند تنظیموں اور انفرادی طور پر بعض مخصوص لوگوں کے
اسلام.امن اور محبت کا مذہب 129 نفرت انگیز افعال شنیعہ کا حقیقی اسلامی تعلیمات سے دُور کا بھی کوئی تعلق نہیں.انصاف کا تقاضا ہے کہ گروہوں یا افراد کے ذاتی مفادات کو اسلامی تعلیمات کی طرف منسوب نہ کیا جائے.اس طرح کے افعال کو جواز بنا کر کسی بھی مذہب یا اس کے بانی پر نا جائز اعتراضات نہیں اُٹھائے جانے چاہئیں.وقت کی اہم ضرورت ہے کہ عالمی امن اور ہم آہنگی کے قیام کی کوشش میں سب لوگ ایک دوسرے کا اور تمام مذاہب کا احترام قائم کریں بصورت دیگر خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں.دنیا ایک گلوبل و پیچ بن گئی ہے.لہذا باہمی احترام کے فقدان اور امن کے فروغ کے لیے باہمی اتحاد پیدانہ ہونے کی صورت میں صرف مقامی آبادی یا شہر یا کسی ایک ملک کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ در حقیقت یہ تمام دنیا کی تباہی پر منتج ہوگا.ہم سبھی پچھلی دو عالمی جنگوں کی ہولناک تباہیوں سے بخوبی آگاہ ہیں.بعض ممالک کی پالیسیوں کی وجہ سے ایک اور عالمی جنگ کے آثار دنیا کے افق پر نمودار ہورہے ہیں.اگر عالمی جنگ چھڑ گئی تو مغربی دنیا بھی اس کے دیر تک رہنے والے تباہ کن نتائج سے متاثر ہوگی.آئیں خود کو اس تباہی سے بچالیں.آئیں اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو جنگ کے مہلک اور تباہ کن نتائج سے محفوظ کرلیں کیونکہ یہ ملک جنگ ایٹمی جنگ ہی ہوگی اور دُنیا جس طرف جارہی ہے اس میں یقینی طور پر ایک ایسی جنگ چھڑنے کا خطرہ ہے.ان ہولناک نتائج سے بچنے کے لیے انصاف، دیانتداری اور ایمانداری کو اپنانا ہوگا اور وہ طبقے جو نفرتوں کو ہوا دے کر امن عالم کو تباہ کرنے کے درپے ہیں ان کے خلاف متحد ہو کر اُنہیں روکنا ہوگا.میری خواہش اور دلی دُعا ہے کہ خدا تعالی بڑی طاقتوں کو اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں اور فرائض انتہائی منصفانہ اور درست طریق پر نبھانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین آخر پر میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ کوشش کر کے وقت نکال کر تشریف لائے.اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنا فضل فرمائے.آپ کا بہت بہت شکریہ.
امنِ عالم.وقت کی ضرورت نیوزی لینڈ نیشنل پارلیمنٹ لنگٹن نیوزی لینڈ 2013ء EXIT
جناب کنول جیت سنگھ بخشی صاحب حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز سے قرآن کریم کا تحفہ وصول کرتے ہوئے را کیش نیڈو نیوزی لینڈ کے پولیس کمشنر کے نمائندہ کے ایرانی سفارت کار جناب سید ماجد تفریشی خامنی حضور انور طور پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کا شرف حاصل کر رہے ہیں حاصل کر رہے ہیں جناب ڈاکٹر کیم کالڈر ایم پی حضور انو راید و اللہ بنصرہ العزیز سے شرف ملاقات پاتے ہوئے نیوزی لینڈ پارلیمنٹ کے گرینڈ ہال میں سرکاری تقریب کے اختتام پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز دعا کروارہے ہیں
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نیوزی لینڈ پارلیمنٹ کے گرینڈ ہال میں خطاب فرمارہے ہیں جناب کنول جیت سنگھ بخشی صاحب ایم پی اور ان کے ساتھی نیوزی لینڈ پارلیمنٹ کی عمارت کے سامنے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی معیت میں کھڑے ہیں
پیش لفظ جماعت احمد یہ مسلمہ عالمگیر کے سر براہ حضرت مرزا مسرور احمد خلیفہ المسح الا اس نے نیوزی لینڈ کی نیشنل پارلیمنٹ ویلنگٹن (Wellington) میں مورخہ 4 نومبر 2013ء کو ایک تاریخی خطاب فرمایا میمبرز آف پارلیمنٹ، غیر ملکی حکومتوں کے سفارت کار محققین اور دیگر متعددمہمانوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ نے دُنیا کے مختلف حصوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تنازعات کے تناظر میں امنِ عالم کے قیام کے لیے انصاف کی اشد ضرورت پر زور دیا.اس مرکزی خطاب کے بعد دیگر معززین نے بھی اس تقریب سے خطاب کیا.کنول جیت سنگھ بخشی ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ حضرت اقدس مرزا مسرور احمد صاحب یہاں نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور ہم نے آپ کی پُر حکمت باتوں اور خیالات کو سنا.“ ڈاکٹر راجن پرساد ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ یہ نہایت خوشی کا موقع ہے کہ ہم حضور اقدس کو نیوزی لینڈ پارلیمنٹ میں خوش آمدید کہ رہے ہیں.کسی ملک کے شہری کے طور پر احمد یوں کے طرز زندگی اور ان کے امن کے پیغام کے مطابق عمل نے مجھے ہمیشہ بہت متاثر کیا ہے.اس تقریب کے اختتام پر خلیفہ اسی حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایران اور اسرائیل کے سفارت کاروں سمیت دیگر معززین سے بھی ملاقات کی.اس کے بعد کنول جیت سنگھ بخشی ممبر پارلیمنٹ نے حضور اقدس کو پارلیمنٹ کا دورہ کروایا.
امنِ عالم.وقت کی ضرورت بسم اللہ الرحمن الرحیم معزز مہمانان گرامی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.آپ سب پر اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں.سب سے پہلے میں اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس تقریب کے تمام منتظمین اور بالخصوص ممبر پارلیمنٹ محترم کنول جیت سنگھ بخشی صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے موقع دیا کہ میں آج آپ سے خطاب کروں.نیز میں آپ سب لوگوں کا بھی ممنون ہوں جو میرا اخطاب سننے کے لیے یہاں تشریف لائے.بلاشبہ اس پارلیمنٹ ہاؤس میں مختلف سیاست دان اور ممبران پارلیمنٹ باقاعدگی سے ملک کی ترقی کے لیے پالیسیاں اور حکمت عملیاں بنانے اور قانون سازی کے لیے میٹنگز کرتے رہتے ہیں.علاوہ ازیں مجھے یقین ہے کہ کئی ایک سیکولر اور دنیوی راہنما یہاں تشریف لاکر اپنے علم، مہارت اور تجربات کی بنیاد پر آپ سے خطاب کر چکے ہوں گے.تاہم شاید ہی کبھی آپ سے کوئی مذہبی راہنما اور بالخصوص مسلمان راہنما مخاطب ہوا ہو.تاہم مجھے بطور امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر جو خالصہ ایک اسلامی تنظیم ہے اور جس کا واحد مقصد حقیقی اسلامی تعلیمات کا فروغ ہے.آپ کی طرف سے خطاب کا موقع دیا جانا آپ کی کشادہ دلی اور بردباری کی اعلیٰ مثال ہے.میں آپ کے اس پر خلوص رویہ پر آپ کا بے حد ممنون ہوں.شکریہ کے بعد اب میں اپنے خطاب کے بنیادی حصہ کی طرف آتا ہوں.میں اسلام کی خوب صورت تعلیم کے بارہ میں چند باتیں آپ کے گوش گزار کروں گا اور اُس موضوع پر بات کروں گا جو میری دانست میں وقت کی اہم ضرورت ہے اور وہ ہے امنِ عالم کا قیام، سیکولر نقطۂ نظر سے آپ میں سے اکثر سیاست دان انفرادی حیثیت میں بھی اور حکومتی سطح پر بھی حصول امن کے لیے کوشاں ہیں.آپ یقیناً خلوص نیت سے یہ کوششیں کر رہے ہیں اور آپ کو ان کوششوں میں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہوگی.پچھلے کئی سالوں سے آپ کی حکومت دوسری بڑی حکومتوں کو عالمی امن اور باہمی ہم آہنگی کے حصول کے لیے مشورے بھی دیتی رہی ہوگی.
138 بلاشبہ آج دنیا کے حالات انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں اور ساری دُنیا کے لیے لمحہ فکر یہ ہیں.اگر چہ کچھ بڑے تنازعات عرب دنیا میں ظاہر ہورہے ہیں لیکن فی الحقیقت ہر ذی شعور اور عقل مند انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ تنازعات محض اس علاقہ تک ہی محدود نہیں رہیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کسی بھی حکومت اور اس کی عوام کے مابین تنازعہ ایک وسیع عالمی تنازعہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے.ہم جانتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے مابین دو بلاک پہلے ہی بن رہے ہیں.ایک بلاک شامی حکومت کی حمایت کر رہا ہے جبکہ دوسرا باغی گروپ کا حامی ہے.پس واضح ہے کہ یہ صورت حال صرف مسلمان ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ باقی دنیا کے لیے بھی انتہائی خطرہ کی گھنٹی ہے.ہمیں گزشتہ صدی میں ہونے والی دو عالمگیر جنگوں کا دل دہلا دینے والا تجر بہ بھی نہیں بھولنا چاہیے.خصوصاً دوسری جنگ عظیم میں ہونے والی تباہی فقید المثال ہے.محض روایتی ہتھیاروں کے استعمال سے ہی گنجان آباد ہنستے بستے قصبے اور شہر مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور کھنڈر بنا دیئے گئے اور لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں.دوسری جنگ عظیم میں دنیا نے مکمل بر بادی والا وہ واقعہ دیکھا جب جاپان کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا گیا جس نے ایسی تباہی مچائی کہ سننے والا آج بھی کانپ اُٹھتا ہے.ہیروشیما اور ناگا ساکی کے عجائب گھر اس خوف اور دہشت کی یاد تازہ کرنے کے لیے کافی ہیں.دوسری جنگ عظیم میں قریباً ستر ملین لوگ ہلاک ہوئے.کہا جاتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے چالیس ملین عام شہری تھے.پس فوجیوں سے زیادہ عام لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں.مزید برآں جنگ کے بعد کے نتائج بہت دل دہلا دینے والے تھے جن میں جنگ کے نتیجہ میں بعد میں ہونے والی ہلاکتیں بھی لاکھوں کی تعداد میں تھیں.ایٹم بموں کے استعمال کے کئی سال بعد تک تاب کاری اثرات کی وجہ سے نومولود بچوں میں خطرناک جسمانی معذوری ظاہر ہوتی رہی.آج کے دور میں بعض چھوٹے ممالک کے پاس بھی نیوکلیائی ہتھیار ہیں اور ان کے راہنما جنگ کے لیے فورا آمادہ ہو جانے والے لوگ ہیں.ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے اعمال کے تباہ کن نتائج کی کوئی پروا نہیں.اگر ہم ایٹمی جنگ کا تصور کریں تو جو تصویر ابھرتی ہے وہ انسان کو ہلا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے.آج
امنِ عالم.وقت کی ضرورت 139 جو ایٹم بم چھوٹے ممالک کے پاس ہیں وہ شاید دوسری جنگ عظیم میں استعمال ہونے والے بموں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں.پس یہ بے یقینی اور تنازعات کا ماحول ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو دنیا میں قیام امن کے ہیں.یہ بے لیے لمحہ خواہاں ہیں.آج دُنیا کی الم ناک صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف تو لوگ قیام امن کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اپنی انا کا شکار ہو کر فخر اور تکبر کے لبادہ میں ملبوس ہیں اور اپنی برتری اور طاقت ثابت کرنے کے لیے ہر طاقت ور حکومت ہر ممکن قدم اٹھانے پر کمر بستہ ہے.دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دیر پا قیام امن اور مستقبل میں ایسی جنگوں کی روک تھام کے لیے دُنیا نے باہمی افہام و تفہیم سے اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی تھی لیکن ایسا لگتا ہے جیسے لیگ آف نیشنز کی طرح اقوام متحدہ بھی اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام ہو کر اپنا مقام ومرتبہ کھو رہی ہے.اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے تو پھر امن کے لیے خواہ جتنی چاہے تنظیمیں بنالی جائیں ان کی کوششیں ناکام ثابت ہوں گی.میں نے ابھی لیگ آف نیشنز کی ناکامی کا ذکر کیا ہے.یہ تنظیم پہلی جنگ عظیم کے بعد قائم کی گئی تھی جس کا واحد مقصد دُنیا میں امن کا قیام تھا لیکن یہ دوسری جنگِ عظم کو نہ روک سکی جس کے نتیجہ میں بہت زیادہ تباہی ہوئی جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اس جنگ کے نتیجہ میں نیوزی لینڈ میں بھی ہلاکتیں ہوئی تھیں.ایک اندازہ کے مطابق نیوزی لینڈ کے گیارہ ہزار باشندے مارے گئے تھے جن میں سے اکثریت فوجیوں کی تھی حالانکہ نیوزی لینڈ جنگ کے مرکز سے کافی دور تھا یہاں عموماً اس طرح ہلاکتیں نہیں ہوئیں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بحیثیت مجموعی اُس جنگ میں معصوم عوام کی اموات فوجیوں سے کہیں زیادہ تھیں.ذرا سوچیں کہ مارے جانے والے ان عام معصوم لوگوں کا کیا قصور تھا جن میں لا تعداد خواتین اور بچے بھی شامل تھے؟ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو ان ممالک میں رہتے ہیں جو براہِ راست اس جنگ کی لپیٹ میں آئے تھے ان کے دلوں میں پیدائشی اور جبلی طور پر جنگ سے نفرت کے جذبات پائے جاتے ہیں.یقیناً وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ اس پر حملہ کی صورت میں ایک شہری اپنے ملک کا دفاع کرے اور اپنی قوم کی آزادی کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار رہے تاہم اگر تنازعہ کو دوستانہ اور پُر امن طریق پر باہمی بات چیت اور حکمت عملی سے حل کیا جا سکتا ہو تو پھر
140 40 غیر ضروری قتل و غارت گری کو دعوت نہیں دینی چاہیے.پرانے زمانہ کی جنگوں میں زیادہ تر فوجی ہلاک ہوتے تھے اور عوام الناس کا جانی نقصان کم سے کم ہوتا تھا جبکہ آج کل کی جنگوں کے ذرائع میں فضا میں بم باری ، زہریلی گیس اور کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال شامل ہو چکا ہے جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا ہے کہ سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار نیوکلیائی بم کے استعمال کا امکان بھی موجود ہے.چنانچہ آج کل کی جنگیں پرانے زمانہ کی جنگوں سے کلیۂ مختلف ہیں کیونکہ یہ جنگیں انسانیت کو صفحہ ہستی سے کلیۂ مٹا دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں.اس موقع پر قیام امن کے حوالہ سے میں قرآن کریم کی خوب صورت تعلیم آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.ترجمہ: ”نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے ( برابر ).ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو.تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا.( سورة لحم السجده : 35 ) پس قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر قسم کی دشمنیوں اور بغضوں کو مصالحت اور باہمی گفت و شنید سے حل کرنا چاہیے.یقیناً کسی سے نرمی اور حکمت سے بات کرنے سے اس کے دل پر بہت مثبت اور پیار بھرا اثر پیدا ہوگا اور اس سے نفرت اور کینہ ختم ہو جائے گا.بلا شبہ ہم اس زمانہ میں خود کو بہت زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب خیال کرتے ہیں.ہم نے متعدد بین الاقوامی رفاہ عامہ کی تنظیمیں اور ادارے قائم کر رکھے ہیں جو ماؤں اور بچوں کو صحت اور تعلیم کی سہولیات بہم پہنچاتے ہیں.اسی طرح انسانی ہمدردی اور خدا ترسی کے تحت بے شمار دیگر تنظیمیں قائم ہیں.بایں ہمہ ہمیں وقت کی اس اہم ضرورت پر بھی غور کرتے ہوئے سوچنا چاہیے کہ کس طرح ہم خود کو اور دوسروں کو تباہی و بربادی سے بچا سکتے ہیں؟ ہمیں یا درکھنا چاہیے کہ چھ سات دہائیاں پہلے کی نسبت دنیا ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب آچکی ہے.ساٹھ ستر سال پہلے نیوزی لینڈ ایشیا اور یورپ سے ایک دُور اُفتادہ ملک تھا لیکن اب یہ ایک مشتر کہ عالمی برادری کا اہم جزو ہے.پس جنگ کی صورت میں کوئی ملک اور کوئی علاقہ بھی محفوظ نہیں رہے گا.آپ کے راہنما اور سیاست دان قوم کے سر پرست ہیں جو ملک کے تحفظ ، ترقی اور بہتری کے ذمہ دار ہیں.پس انہیں ہمیشہ یہ اہم نکتہ پیش نظر رکھنا چاہیے کہ مقامی جنگوں سے ہی تباہی اور بربادی دُور دُور تک پھیلتی
امنِ عالم.وقت کی ضرورت 141 ہے.ہمیں خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اس نے حال ہی میں بعض بڑی طاقتوں کو عقل اور سمجھ عطا فرمائی اور انہیں یہ احساس پیدا ہوا کہ بڑے پیمانہ پر تباہی پھیلانے والی جنگ کو روکنے کے لیے انہیں قدم اُٹھانا چاہیے.روس کے صدر نے بعض دوسری بڑی طاقتوں کو شام پر حملہ کرنے سے روکنے کی برمحل کوششیں کیں.انہوں نے یہ واضح کیا کہ خواہ کوئی ملک بڑا ہو یا چھوٹا سب کے ساتھ مساویانہ سلوک ہونا چاہیے.انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے اور اگر بعض ممالک نے از خود جنگ چھیڑ دی تو پھر اقوام متحدہ کا بھی وہی حال ہو گا جو لیگ آف نیشنز کا ہوا تھا.میرا خیال ہے کہ وہ اپنے اس تجزیہ میں بالکل درست ہیں.مجھے ان کی تمام حکمت عملیوں سے اگر چہ اتفاق نہیں ہے لیکن دانائی کی بات کو قبول کرنا چاہیے.کاش ! وہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر کہتے کہ اقوام متحدہ کی سیکیو رٹی کونسل کے پانچ مستقل ممبران کے پاس ویٹو کے حق کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہیے تا کہ تمام مالک کے مابین حقیقی عدل وانصاف قائم ہو سکے.پچھلے سال مجھے کیپیٹل بل Capitol Hill) واشنگٹن ڈی سی میں خطاب کا موقع ملا.حاضرین میں متعدد سینیٹرز کانگریس کے لوگ تھنک ٹینک کے نمائندگان اور مختلف طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ لوگ شامل تھے.میں نے انہیں واضح طور پر کہا تھا کہ انصاف کے تقاضے صرف اسی صورت میں پورے ہو سکتے ہیں جب تمام ممالک سے مساوی سلوک کیا جائے.میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ بڑے اور چھوٹے ممالک اور امیر اور غریب اقوام کے مابین فرق کو نمایاں کریں گے اور اگر آپ ویٹو کی نا انصافی کو قائم رکھیں گے تو پھر یقینی طور پر اضطراب اور بے چینی پیدا ہوگی اور واقعہ یہ بے چینیاں دنیا میں نمودار ہونا شروع ہوگئی ہیں.ایک عالمگیر اسلامی جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے میرا یہ فرض ہے کہ میں دُنیا کی توجہ قیام امن کی طرف مبذول کرواؤں.میں یہ اپنا فرض سمجھتا ہوں کیونکہ اسلام کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے.اگر بعض مسلمان ممالک نفرت انگیز اور انتہا پسند اقدامات کریں گے تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہیے کہ اسلامی تعلیم فساد اور بدامنی کو فروغ دیتی ہے.میں نے ابھی قرآن کریم کی ایک آیت کا حوالہ دیا ہے جس میں قیام امن کا طریق سکھایا گیا ہے.مزید برآں بانی اسلام حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متبعین کو یہ تعلیم دی کہ ہمیشہ سلام کیا
142 کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیشہ سلامتی کا پیغام پھیلائیں.آپ کا عملی نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ آپ ہمیشہ تمام غیر مسلموں کو خواہ وہ یہودی ہوں عیسائی ہوں یا کسی دوسرے مذہب کے پیرو کا رسلام کیا کرتے تھے.آپ نے ایسا اس لیے کیا کہ آپ جانتے تھے کہ تمام لوگ خدا کی مخلوق ہیں اور خدا کا نام ”السلام“ ہے.لہذا وہ تمام بنی نوع انسان کے لیے امن اور سلامتی کا خواہش مند ہے.امن کے حوالہ سے میں نے اسلام کی کچھ تعلیمات پیش کی ہیں لیکن میں واضح کر دوں کہ وقت کی کمی کے باعث میں نے صرف چند پہلوؤں کا ذکر کیا ہے.حقیقت میں اسلام تمام انسانوں کے لیے امن اور سلامتی کی تعلیمات اور احکام سے بھرا ہوا ہے.قیام انصاف کے حوالہ سے قرآن کریم کیا فرماتا ہے؟ سورۃ نمبر 5 آیت نمبر 9 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ”اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.(سورۃ المائدہ: 9) اس طرح اس آیت میں قرآن کریم انصاف کے اعلیٰ ترین ممکنہ معیار کا خلاصہ پیش کرتا ہے.یہ حکم ان لوگوں کے لیے جو خود کو مسلمان کہتے ہیں اور پھر بھی ظلم و تعدی سے کام لیتے ہیں کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا نہ ہی یہ ان لوگوں کے لیے جو اسلام کو جابر اور انتہا پسند مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں یا ایسا سمجھتے ہیں اعتراض کی کوئی گنجائش چھوڑتا ہے.قرآن کریم نے اس سے بھی بڑھ کر عدل و انصاف کا بہترین معیار پیش فرمایا ہے.یہ صرف انصاف کی تاکید نہیں کرتا بلکہ عدل کی اس حد تک تاکید کرتا ہے کہ فرماتا ہے: "اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین کے خلاف.خواہ کوئی امیر ہو یا غریب دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے.پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو مبادا عدل سے گریز کرو.اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلو تہی کر گئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے.“ پس دُنیا میں قیام امن کے لیے انصاف کے یہی معیار ہیں جو معاشرہ کی سب سے بنیادی سطح سے لے کر (سورة النساء : 136 )
امنِ عالم.وقت کی ضرورت 143 بین الاقوامی سطح تک سب پر محیط ہیں.تاریخ شاہد ہے کہ بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس تعلیم پر عمل پیرار ہے اور اسے ہر سُو پھیلایا اور اب اس زمانہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے جاں نثار بانی جماعت احمدیہ مسلمہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اس تعلیم کو پھیلایا اور اس کی حمایت کی اور اپنے متبعین کو بھی فروغ امن کی تلقین فرمائی.آپ نے اپنے متبعین کو یہ بھی تاکید کی کہ بنی نوع انسان کی توجہ خدا کے حقوق کی ادائیگی اور مخلوق خدا کے حقوق کی ادائیگی کی طرف دلائیں.یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ تمام لوگوں میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی ضرورت، اہمیت اور انصاف کے بہترین معیار کے قیام پر بھر پور زور دیتی ہے.میری دُعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد مذ ہب اور عقیدہ سے بالا تر ہو کر باہمی حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے تاکہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن جائے.ان چند الفاظ کے ساتھ میں اپنی بات ختم کرتا ہوں اور مجھے یہاں مدعو کر نے اور میری باتیں سننے کے لیے تشریف لانے پر میں ایک بار پھر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.
عالمی راہنماؤں کو خطوط
پوپ بینیڈکٹ XVI کے نام خط
اسم الله الية العالية تحمدُه وَتُعَلى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو القاصر و الحمل بين من الالة شللية لسما انا فتحنا لك فتعاني MILEA MASROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAM 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 31 October 2011 To His Holiness Pope Benedict the XVI, IL is my prayer, that may Allah the Almighty bestow His Grace and Blessings upon you.As Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community, I convey to His Holiness the Pope the message of the Holy Qur'an: Say, 'O people of the book! Come to a word equal between us and you - that we worship none but Allah, and that we associate no partner with Him, and that some of us take not others for lords beside Allah! Islam, nowadays, is under the glare of the world, and is frequently targeted with vile allegations.However, those raising these allegations do so without studying any of Islam's real teachings.Unfortunately, certain Muslim organisations due only to their vested interests have portrayed Islam in a totally wrong light.As a result, distrust has increased in the hearts of the people of Western and non-Muslim countries towards Muslims, to the extent that even otherwise extremely well-educated people make baseless allegations against the Founder of Islam, the Holy Prophet Muhammad (pbuh) The purpose of every religion has been to bring man closer to God and establish human values.Never has the founder of any religion taught that his followers should usurp the rights of others or should act cruelly.Thus, the actions of a minority of misguided Muslims should not be used as a pretext to attack Islam and its Holy Founder, Islam teaches us to respect the Prophets of all religions and this is why it is essential for a Muslim to believe in all of the Prophets who are mentioned in the Holy Bible or in the Holy Qur'an, until and including Jesus Christ We are the humble servants of the Holy Prophet Muhammad) and so we are deeply grieved and saddened by the attacks on our Holy Prophet; but we respond by continuing to present his noble qualities to the world and to disclose even more of the beautiful teachings of the Holy Qur'an, If a person does not follow a particular teaching properly whilst claiming to subscribe to it, then it is he who is in error, not the teaching.The meaning of the word 'Islam' itself means peace, love and security.There should be no compulsion in matters of faith is a clear injunction of the Qur'an.From cover to cover, the Holy Qur'an teaches love, affection, peace, reconciliation and the spirit of sacrifice.The Holy Qur'an states repeatedly that one who does not adopt righteousness is far removed from Allah, and therefore, is far removed from the teachings of 148 48
149 عالمی راہنماؤں کو خطوط Islam.Hence, if anybody portrays Islam as an extreme and violent religion filled with teachings of bloodshed, then such a portrayal has no link with the real Islam.The Ahmadiyya Muslim Community practises only the true Islam and works purely to please God Almighty.If any Church or other place of worship stands in need of protection, they will find us standing shoulder to shoulder with them.If any message resonates from our mosques it.will only be that of Allah is Great and that we bear witness that there is none worthy of worship except Him and Muhammad) is the Messenger of Allah.A factor playing a major role in destroying the peace of the world is that some people perceive that as they are intelligent, well-educated and liberated, they are free to ridicule and mock founders of religions.To maintain peace in society it is necessary for one to eliminate all sentiments of hostility from one's heart and to increase one's levels of tolerance.There is a need to stand in defence of the respect and reverence of each other's Prophet.The world is passing through restlessness and unease and this requires that by creating an atmosphere of love and affection, we remove this anxiety and fear, that we convey a message of love and peace to those around; that we learn to live with ever greater harmony and in a way better than before; and that we recognise the values of humanity.Today, small-scale wars are erupting in the world, while in other places, the superpowers are claiming to try and bring about peace.It is no longer a secret that on the surface we are told one thing, but behind the scenes their real priorities and policies are secretly being fulfilled.Can peace in the world be established in such circumstances is the question.It is with regret that if we now observe the current circumstances of the world closely, we find that the foundation for another world war has already been laid.If after the Second World War a path of equity leading to justice was followed, we would not witness the current state of the world, whereby it has again become engulfed in the flames of war.As a consequence of so many countries having nuclear weapons, grudges and enmities are increasing and the world sits on the precipice of destruction.If these weapons of mass destruction explode, many future generations will never forgive us for having inflicted permanent disabilities upon them.There is still time for the world to pay attention to the rights of the Creator and of His Creatures.I believe that now, rather than focusing on the progress of the world, it is more important, indeed it is essential, that we urgently increase our efforts to save the world from this destruction.There is an urgent need for mankind to recognise its Creator as this is the only guarantor for the survival of humanity; otherwise, the world is rapidly moving towards self-destruction.If today man really wants to be successful in establishing peace, then instead of finding fault with others, he should try to control the Satan within.By removing his own evils, a person should present a wonderful example of justice.I frequently remind the world that these excessive enmities towards others are completely usurping human values and so are leading the world towards obliteration.As you have an influential voice in the world, I urge you to also inform the wider world that by placing obstacles in the way of the natural balance established by God, they are moving rapidly towards annihilation.This message needs to be conveyed further and wider than ever before and with much greater prominence.
All the religions of the world are in need of religious harmony and all the people of the world need a spirit of love, affection and brotherhood to be created.It is my prayer that we all understand our responsibilities and play our role in establishing peace and love, and for the recognition of our Creator in the world.We ourselves have prayer, and we constantly beseech Allah that may this destruction of the world be avoided.I pray that we are saved from the destruction that awaits us.Yours sincerely, Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih V Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community 150
عزت مآب عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم الله الرحمن الرحیم جناب پوپ بینیڈکٹ X۷۱ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اپنا فضل اور رحمتیں نازل فرمائے.امام جماعت احمدیہ مسلمہ کی حیثیت سے میں آنجناب پوپ کو قرآن کریم کا درج ذیل پیغام پہنچاتا ہوں : تو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ ہی کسی چیز کو اس کا شریک ٹھہرائیں گے اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اللہ کے سوا رب نہیں بنائے گا.“ آج کل اسلام دنیا کے لیے تخیہ مشتق بنا ہوا ہے اور بار بار گھٹیا الزامات کی زد میں آرہا ہے.دراصل اسلام کی حقیقی تعلیمات کا مطالعہ کیے بغیر یہ اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں.بدقسمتی سے بعض نام نہاد مسلم تنظیمیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے اسلام کو بالکل غلط انداز میں پیش کر رہی ہیں جس کے نتیجہ میں مغربی اور غیر مسلم ممالک کے باشندوں کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے بدظنی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ بعض انتہائی تعلیم یافتہ لوگ بھی بانی اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بودے الزام لگارہے ہیں.ہر مذہب کا مقصد بندہ کو خدا کے قریب لانا اور انسانی اقدار کا قیام ہے.کسی بھی مذہب کے بانی نے کبھی یہ تعلیم نہیں دی کہ اس کے پیروکار دوسروں کے حقوق غصب کریں یا ظالمانہ کارروائیاں کریں.اس لیے مسلمانوں کی ایک گمراہ اقلیت کی کارروائیوں کو اسلام اور بانی اسلام پر حملہ کا جواز نہیں بنانا چاہیے.اسلام ہمیں تمام مذاہب کے بانی انبیاء علیہم السلام کی تعظیم کا حکم دیتا ہے.چنانچہ ایک مسلمان کے لیے ان تمام انبیاء بشمول حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری ہے جن کا بشمول حضرت عیسی علیہ السلام بائبل یا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے.ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عاجز غلام ہیں.لہذا ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملوں کی وجہ سے ہمیں سخت تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے لیکن اس کے جواب میں ہم دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ پیش کرتے چلے جا رہے ہیں اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم پہلے سے بڑھ کر دنیا کو دکھا رہے ہیں.1151 151
152 اگر کوئی شخص کسی تعلیم کی طرف منسوب ہونے کے دعوی کے باوجود اس تعلیم پر صیح طور پر عمل پیرا نہیں ہوتا تو یہ اس فرد کا قصور ہے نہ کہ تعلیم کا.لفظ اسلام کا مطلب ہی امن، محبت اور تحفظ ہے.دین میں کوئی جبر نہیں ! قرآن کریم کا ایک واضح ارشاد ہے.شروع سے آخر تک قرآن کریم محبت، پیار، امن اور مصالحت کی تعلیم دیتا ہے.قرآن کریم بار بار تا کید کرتا ہے کہ جو تقویٰ اختیار نہیں کرتا وہ اللہ سے بہت دُور ہے.اس لیے اگر کوئی شخص اسلام کو شدت پسند، جبر وتشدد اور خونریزی کی تعلیم دینے والا مذہب بنا کر پیش کرتا ہے تو ایسی تصویر کشی کا حقیقی اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ مسلمہ حقیقی اسلام پر کار بند ہے اور محض خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے کام کرتی ہے.اگر کسی چرچ یا کسی اور عبادت گاہ کو حفاظت کی ضرورت پڑی تو وہ ہمیں اپنے شانہ بہ شانہ پائیں گے.اگر ہماری مساجد سے کوئی پیغام گونجے گا تو وہ صرف یہی ہوگا کہ اللہ سب سے بڑا ہے! اللہ سب سے بڑا ہے! اور ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں! امن عالم کو تباہ کرنے میں ایک بڑا عنصر یہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ دانا تعلیم یافتہ اور آزاد خیال ہیں.لہذا انہیں بانیان مذاہب کی تحقیر اور تذلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے.معاشرتی امن کے قیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص دل سے تمام کدورتیں نکال کر برداشت کے معیار کو بڑھائے.ایک دوسرے کے انبیاء کی تکریم اور تعظیم کے دفاع میں اُٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے.دنیا جس بے چینی اور اضطراب کے دور سے گزر رہی ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پیار اور محبت کی فضا قائم کی جائے.ہم اپنے ماحول میں باہمی اخوت اور محبت کے پیغام کو فروغ دیں اور یہ کہ ہم پہلے سے بڑھ کر رواداری کے ساتھ بہتر انداز میں رہنا سیکھیں اور انسانی اقدار کو مقدم رکھیں.دورِ حاضر میں دنیا میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہو چکی ہیں جبکہ بعض دوسری جگہوں پر عالمی طاقتیں اس بات کی دعویدار ہیں کہ وہ امن کے حصول کے لیے کوشش کر رہی ہیں.یہ بات عیاں ہو چکی ہے کہ ظاہر میں کچھ اور بتایا جارہا ہے جبکہ باطن میں ان کی حقیقی ترجیحات کچھ اور ہیں جن کے لیے در پردہ اور خفیہ منصوبہ بندیوں پر عمل کیا جارہا ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان حالات میں امن عالم قائم ہو سکتا ہے؟ نہایت افسوس کا مقام ہے کہ اگر ہم دنیا کے موجودہ حالات کا غور سے جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے.اگر دوسری عالمی جنگ کے بعد عدل و انصاف کی راہ اپنائی جاتی تو آج دنیا کی یہ حالت نہ ہوتی جس کی وجہ سے یہ ایک بار پھر آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آچکی ہے.متعدد ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہونے
عالمی راہنماؤں کو خطوط 153 کے باعث بغض و عداوت بڑھ رہی ہے اور دُنیا تباہی کے دہانہ پر پہنچ چکی ہے.اگر وسیع پیمانہ پر تباہی پھیلانے والے یہ ہتھیار پھٹ جائیں تو آئندہ نسلیں اس غلطی پر ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی کہ ہم نے انہیں معذوری اور پانچ پن تحفہ میں دیا ہے.اب بھی وقت ہے کہ دنیا خالق اور اس کی مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کی طرف متوجہ ہو جائے.میرے نزدیک اس وقت دنیا کی ترقی پر توجہ دینے کی بجائے یہ زیادہ ضروری ہے کہ ہم دنیا کو اس تباہی سے بچانے کے لیے اپنی مساعی تیز تر کر دیں.فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ بنی نوع انسان اپنے خالق کو پہنچا نہیں کیوں کہ صرف یہی ایک بات انسانیت کے تحفظ کی ضمانت ہے ورنہ دنیا بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے.اگر آج واقعی انسان قیام امن میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو دوسروں میں نقص تلاش کرنے کی بجائے اسے اپنے نفس کے شیطان پر قابو پانا چاہیے.اپنی کوتاہیاں اور کمزوریاں دور کر کے انسان کو انصاف کا بہترین نمونہ بنا ہو گا.میں دنیا کو بار بار توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ ایک دوسرے کے ساتھ حد سے بڑھی ہوئی عداوتیں اور انسانی اقدار کی پامالی دنیا کو تباہی کی طرف لے جارہی ہیں.آپ دنیا میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں اس لیے میں آپ سے ملتمس ہوں کہ باقی دنیا کو بھی آگاہ کریں کہ خدا کے قائم کردہ قدرتی توازن اور ہم آہنگی کی راہ میں رکاوٹ بن کر وہ بہت تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں.اس پیغام کو پہلے سے بہت وسیع پیمانے پر اور بہت نمایاں کر کے پھیلانے کی ضرورت ہے.دنیا کے تمام مذاہب کو مذہبی رواداری اور تمام لوگوں کو محبت، پیار اور بھائی چارہ کی رُوح پیدا کرنے کی ضرورت ہے.میں دعا گو ہوں کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے دنیا کو امن اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اپنے خالق کو پہچاننے میں اپنا کردار ادا کریں.ہماری دعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تباہی سے بچالے.آپ کا خیر خواہ! مرزا مسرور احمد خلیفہ ایسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 31-10-2011
اسرائیل کے وزیر اعظم کے نام خط
بسم الله الحي العليم تحمله وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رقم کے ساتھ هو الناص والطلبن من الله علما سنا انا فتحنا لك متحاشية بروان MIRZA MASRAMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAN 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 156 His Excellency Mr Benjamin Netanyahu Prime Minister of Israel.Jerusalem Dear Prime Minister, 26 February 2012 I recently sent a letter to His Excellency Shimon Peres, President of Israel, regarding the perilous state of affairs emerging in the world.In light of the rapidly changing circumstances, I felt it was essential for me to convey my message to you also, as you are the Head of the Government of your country.The history of your nation is closely linked with prophethood and Divine revelation.Indeed, the Prophets of the Children of Israel made very clear prophecies regarding your nation's future.As a result of disobedience to the teachings of the Prophets and negligence towards their prophecies, the Children of Israel had to suffer difficulties and tribulations.If the leaders of your nation had remained firm in obedience to the Prophets, they could have been saved from enduring various misfortunes and adversities.Thus, it is your duty, perhaps even more so than others, to pay heed to the prophecies and injunctions of the Prophets.I address you as the Khalifa of that Promised Messiah and Imam Mahdi (peace be upon him), who was sent as the servant of the Holy Prophet Muhammad (peace and blessings of Allah be upon him); and the Holy Prophet (peace and blessings of Allah be upon him) was sent as the Mercy for All Mankind amongst the brethren of the Children of Israel in the semblance of Moses (peace be upon him) (Deuteronomy, 18:18).Hence, it is my duty to remind you of God's Message.I hope that you will come to be counted amongst those who hearken to God's Call, and who successfully find the right path; that path which is in accordance with the Guidance of God the Supreme, the Master of the heavens and the earth.We hear reports in the news nowadays that you are preparing to attack Iran.Yet the horrific outcome of a World War is right before you.In the last World War, whilst millions of other people were killed, the lives of hundreds of thousands of Jewish persons were also wasted.As the Prime Minister, it is your duty to protect the life of your nation.The current circumstances of the world indicate that a World War will not be fought between only two countries, rather blocs will come into formation.The threat of a World War breaking out is a very serious one.The life of Muslims, Christians and Jews are all at peril from it.If such a war occurs, it will result in a chain reaction of human destruction.The effects of this catastrophe will be felt by future
157 عالمی راہنماؤں کو خطوط generations, who will either be born disabled, or crippled.This is because undoubtedly, such a war will involve atomic warfare.Hence, it is my request to you that instead of leading the world into the grip of a World War, make maximum efforts to save the world from a global catastrophe.Instead of resolving disputes with force, you should try to resolve them through dialogue, so that we can gift our future generations with a bright future rather than 'gift' them with disability and defects.I shall try to elucidate my views based on the following passages from your teachings, the first extract being from the Zabur: 'Do not fret because of evil-doers.Do not envy those who do wrong.For they shall soon be cut down like the grass, and wither like the green herb.Trust in God, and do good.Dwell in the land, and enjoy safe pasture.Also delight yourself in God, and he will give you the desires of your heart.Commit your way to God.Trust also in him, and he will do this: He will make your righteousness go forth as the dawn, and your justice as the noon day sun.Rest in God, and wait patiently for him.Do not fret because of him who prospers in his way, because of the man who makes wicked plots happen.Cease from anger, and forsake wrath.Do not fret, it leads only to evildoing.For evildoers shall be cut off, but those who wait for God shall inherit the land.For yet a little while, and the wicked will be no more.Yes, though you look for his place, he is not there.But the humble shall inherit the land, and shall delight themselves in the abundance of peace (Zabur; 37:1-11) Similarly, we find in the Torah: 'Thou shalt not have in thy bag divers weights, a great and a small.Thou shalt not have in thine house divers measures, a great and a small.[But] thou shalt have a perfect and just weight, a perfect and just measure shalt thou have: that thy days may be lengthened in the land which the LORD thy God giveth thee.For all that do such things, [and] all that do unrighteously, [are] an abomination unto the LORD thy God.' (Deuteronomy, 25:13-16) Thus, world leaders, and particularly you should terminate the notion of governance by force and should refrain from oppressing the weak.Instead, strive to spread and promote justice and peace.By doing so, you will remain in peace yourselves, you will gain strength and world peace will also be established.It is my prayer that you and other world leaders understand my message, recognise your station and status and fulfil your responsibilities.Yours Sincerely, n.k MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم الله الرحمن الرحیم عزت مآب مسٹر بنیامین نیتن یا ہو وزیراعظم اسرائیل سیه و شلم محترم وزیراعظم صاحب! 159 میں نے حال ہی میں اُس خطر ناک صورت حال کے بارہ میں جو دنیا میں پیدا ہو رہی ہے اسرائیل کے صدر عزت مآب شمعون پیریز کی طرف ایک خط لکھا ہے.دنیا میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے تناظر میں میں نے ضروری سمجھا کہ آپ تک بھی پیغام پہنچاؤں کیونکہ آپ اپنے ملک کی حکومت کے سر براہ ہیں.آپ کی قومی تاریخ نبوت اور وحی الہی سے گہرا تعلق رکھتی ہے.بلاشبہ انبیاء بنی اسرائیل آپ کی قوم کے مستقبل کے متعلق نہایت واشگاف الفاظ میں پیش گوئیاں کر چکے ہیں اور انبیاء کی نافرمانی اور پیش گوئیوں سے غفلت برتنے کے باعث بنی اسرائیل بڑے ابتلاؤں اور مصائب کا شکار ہوئے ہیں.اگر آپ کی قوم کے راہنما انبیاء کی سچی اطاعت کرتے تو مختلف مصائب اور تکالیف سے بچ سکتے تھے.دوسروں کی نسبت شاید آپ پر یہ ذمہ داری زیادہ ہے کہ آپ ان پیش گوئیوں پر کان دھریں اور انبیاء کے احکامات کی تعمیل کریں.میں اُس مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ کی حیثیت سے آپ سے مخاطب ہوں جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کے طور پر بھیجے گئے ہیں.یادر ہے کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند رحمتہ للعالمین بنا کر مبعوث کیا گیا تھا.(استثنا باب 18 آیت 18) میرا فرض بنتا ہے کہ آپ کو خدا کا پیغام پہنچاؤں.مجھے امید ہے کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی آواز پر کان دھرتے اور کامیابی سے درست راستہ پالیتے ہیں، وہ راستہ جو آسمانوں اور زمین کے
160 مالک، اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہدایت کے عین مطابق ہے.آج کل ہم یہ خبریں سن رہے ہیں کہ آپ ایران پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں باوجود اس کے کہ عالمی جنگ“ کے مہلک نتائج آپ کی آنکھوں سے سامنے ہیں.پچھلی عالمی جنگ میں جہاں کروڑوں دیگر لوگ لقمہ اجل بنے تھے وہاں لاکھوں یہود بھی کام آئے تھے.اپنے ملک کا وزیر اعظم ہونے کے ناطہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی قوم کی جانوں کی حفاظت کریں.دنیا کے موجودہ حالات صاف بتا رہے ہیں کہ اب اگلی عالمی جنگ محض دو ممالک کی لڑائی نہیں ہوگی بلکہ ملکوں کے بلاک بن کر سامنے آئیں گے.عالمی جنگ چھڑنے کا خطرہ نہایت سنجیدگی سے سامنے آرہا ہے جس سے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہو دسب کی جانوں کو خطرہ ہے.خدانخواستہ اگر ایسی جنگ بھڑ کی تو یہ انسانی تباہی کا ایک جاری سلسلہ ہوگا جس کا شکار آنے والی نسلیں ہوں گی جو پانچ یا معذور پیدا ہوں گی اس کی وجہ یہ ہے کہ اگلی جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال ہوں گے.میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی مکنہ کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے.باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید اور مذکرات کا راستہ اپنا ئیں تا کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تاب ناک مستقبل مہیا کر سکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذوریوں کا تحفہ دینے والے ہوں.میں اپنی معروضات کی وضاحت میں آپ کی اپنی تعلیمات سے چند حوالے پیش کرتا ہوں: پہلا اقتباس زبور سے ہے: بد کرداروں کے باعث پریشان نہ ہو اور خطا کاروں پر رشک نہ کر! کیونکہ وہ گھاس کی مانند جلد مرجھا جائیں گے اور ہرے پودوں کی طرح جلد پر مردہ ہو جائیں گے.خداوند پر بھروسہ رکھ اور نیکی کر! ملک میں آبادرہ اور محفوظ چراگاہ کا لطف اُٹھا.خداوند میں مسرور رہ! اور وہ تیری دلی مرادیں پوری کرے گا.اپنی راہ خداوند کے سپر دکر ؛ اس پر اعتقاد رکھ اور وہی سب کچھ کرے گا.وہ تیری راست بازی کو سحر کی طرح اور تیرے حق و انصاف کو دو پہر کی دھوپ کی مانند روشن کرے گا.خداوند کے سامنے چپ چاپ کھڑارہ اور صبر سے اس کی آس رکھ ؛ جب لوگ اپنی روشوں میں کامیاب ہوں، اور اپنے برے منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچائیں تب تو پریشان نہ ہو.قہر سے باز آ اور غضب کو چھوڑ دے.بے زار نہ ہو ورنہ تجھ سے بدی سرزد ہوگی.بد کردار کاٹ ڈالے جائیں گے لیکن جن کا تو کل خداوند پر
161 عالمی راہنماؤں کو خطوط ہے وہ زمین کے وارث ہوں گے.کچھ ہی دیر باقی ہے پھر شریر باقی نہیں رہیں گے تم انہیں تلاش کرو گے تو انہیں نہ پاؤ گے لیکن حلیم ملک کے وارث ہوں گے اور خوب اطمینان سے رہیں گے.“ (زبور باب 37 آیت 1 تا 11 ) اسی طرح تو رات میں لکھا ہے: و تم اپنی ہتھیلی میں ایک ہی طرح کے دو ایسے بات نہ رکھنا کہ ایک بھاری ہو اور دوسرا ہلکا ہو.تم اپنے گھر میں ایک ہی طرح کے دو پیمانے نہ رکھنا کہ ایک کم ماپ کا ہو اور دوسرا ز یادہ کا.تمہارے اوزان اور پیمانے صحیح اور درست ہوں تا کہ اس ملک میں جسے خداوند تمہارا خدا تمہیں دے رہا ہے تمہاری عمر دراز ہو کیونکہ ایسے لوگ جو دھوکے سے کام لیتے ہیں خداوند تمہارے خدا کی نظر میں مکروہ ہیں.“ استثنا باب 25 آیت 13 تا 16 ) پس عالمی راہنماؤں کو اور خصوصاً آپ کو دوسروں پر بہ زور باز وحکومت کرنے اور کمزوروں کو دبانے کا تاثر ختم کرنا چاہیے اور اس کے بالمقابل امن و انصاف کے قیام اور ترویج کی کوششوں میں مصروف ہو جانا چاہیے.ایسا کرنے سے آپ خود بھی امن میں آجائیں گے ، آپ کو استحکام نصیب ہوگا اور دنیا میں بھی امن قائم ہو جائے گا.میری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور عالمی راہنماؤں کو میرا پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے.خدا کرے کہ آپ اپنی حیثیت اور مقام کو سمجھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں.آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 26-02-2012
صدر اسلامی جمہوریہ ایران کے نام خط
سم الله العام المالية لحمدُه وَ تُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رقم کے ساتھ هو الناصر والحمل إلى من لذلك شلخنة المانية إِنَّا فَتَحْنَا لَك متحاشية الله مكر وقد نصركم MIRZA MASROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAM His Excellency President of the Islamic Republic of Iran Mahmoud Ahmadinejad Tehran 164 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 5QL, UK 7 March 2012 Dear Mr President, Assalamo Alaikum Wa Rahmatullahe Wa Barakatohu, In light of the perilous state of affairs emerging in the world, I felt that it was essential for me to write to you, as you are the President of Iran, and thus you hold the authority to make decisions which will affect the future of your nation and the world at large.There is currently great agitation and restlessness in the world.In some areas small-scale wars have broken out, while in other places the superpowers act on the pretext of trying to bring about peace.Each country is engaged in activities to either help or oppose other countries, but the requirements of justice are not being fulfilled.It is with regret that if we now observe the current circumstances of the world, we find that the foundation for another world war has already been laid.As so many countries, both large and small, have nuclear weapons, grudges and hostilities are increasing.In such a predicament, the Third World War looms almost certainly before us.As you are aware, the availability of nuclear weapons will mean that a Third World War will be an atomic war.Its ultimate result will be catastrophic, and the long term effects of such warfare could lead to future generations being born disabled or deformed.It is my belief that as followers of the Holy Prophet Muhammad), who was sent to establish peace in the world, and who was the Rahmatullil Aalameen - the Mercy to all of Mankind -we do not and cannot desire for the world to suffer such a fate.This is why my request to you is that as Iran is also a significant power in the world, it should play its role to prevent a Third World War.It is undeniably true that the major powers act with double standards.Their injustices have caused restlessness and disorder to spread all across the world.However, we cannot ignore the fact that some Muslim groups act inappropriately, and contrary to the teachings of Islam.Major world powers have used this as a pretext to fulfil their vested interests by taking advantage of the poor Muslim countries.Thus, I request you once again, that you should focus all of your efforts and energies towards saving the world from a Third World War.The Holy Qur'an teaches Muslims that enmity against any nation should not hinder them from acting in a just manner.In Surah Al Maidah, Allah the Exalted instructs us:
165 عالمی راہنماؤں کو خطوط "And let not the enmity of a people, that they hindered you from the Sacred Mosque, incite you to transgress.And help one another in righteousness and piety; but help not one another in sin and transgression.And fear Allah; surely, Allah is severe in punishment.” (Ch.5:V.3) Similarly, in the same chapter of the Holy Qur'an we find the following commandment to Muslims: "O ye who believe! Be steadfast in the cause of Allah, hearing witness in equity; and let not a people's enmity incite you to act otherwise than with justice.Be always just, that is nearer to righteousness.And fear Allah.Surely, Allah is aware of what you do."(Ch.5:V.9) Hence, you should not oppose another nation merely out of enmity and hatred.I admit that Israel exceeds beyond its limits, and has its eyes cast upon Iran.Indeed, if any country transgresses against your country, naturally you have the right to defend yourself.I lowever, as far as possible disputes should be resolved through diplomacy and negotiations.This is my humble request to you, that rather than using force, use dialogue to try and resolve conflicts.The reason why I make this request is because I am the follower of that Chosen Person of God who came in this era as the True Servant of the Holy Prophet Muhammad(pub), and who claimed to be the Promised Messiah and Imam Mahdi.His mission was to bring mankind closer to God and to establish the rights of people in the manner our Master and Guide, the Rahmatullil Aalameen -the Mercy to all of Mankind the Holy Prophet demonstrated to us.May Allah the Exalted enable the Muslim Ummah to understand this beautiful teaching.Wassalam, Yours Sincerely, 2.Tak MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم عزت مآب صدر صاحب اسلامی جمہوریہ ایران محمود احمدی نژاد - تهران محترم صدر صاحب! 167 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امن عالم کو درپیش حالیہ خطرات نے مجھے مجبور کیا کہ میں آپ کو یہ خط لکھوں.آپ ایران کی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے ایسے فیصلوں کا اختیار رکھتے ہیں جو نہ صرف آپ کی قوم کے مستقبل پر اثر انداز ہونے والے ہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت کے حامل ہیں.آج ہر طرف اضطراب اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے یعنی دنیا کے کچھ خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں شروع ہو چکی ہیں جبکہ بعض اور علاقوں میں عالمی طاقتیں قیام امن کے بہانے سے مداخلت کر رہی ہیں.آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے یا کسی دوسرے ملک کا حمایتی بنا ہوا ہے لیکن انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف کوئی بھی متوجہ نہیں.عالمی حالات کو دیکھتے ہوئے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک اور عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جاچکی ہے.سب جانتے ہیں کہ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے دوسروں کے لیے بغض و کینہ اور دشمنیاں پال رکھی ہیں جو اپنے عروج پر ہیں.اس مشکل صورتحال میں ہمیں تیسری عالمی جنگ کے منڈلاتے ہوئے بادل صاف دکھائی دے رہے ہیں.ایٹمی ہتھیاروں کی یہ فراوانی صاف بتا رہی ہے کہ تیسری عالمی جنگ ایک ایٹمی جنگ ہوگی جس کی وجہ سے وسیع پیمانہ پر تباہی کے علاوہ ایسی جنگوں کا تلخ نتیجہ آئندہ نسلوں کے اپانی یا معذور پیدا ہونے کی صورت میں نکلے گا.میرا ایمان ہے کہ امن کے سفیر اور رحمتہ للعالمین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ناطہ سے ہمیں کبھی بھی برداشت نہیں ہوگا اور نہ ہم برداشت کر سکتے ہیں کہ دنیا میں ایسی تباہی واقع ہو.لہذا ایران سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنی عالمی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے تیسری عالمی جنگ کے امکانات کو کم کرنے
168 میں اپنا مثبت کردار ادا کرے.اس حقیقت میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں کہ عالمی طاقتوں نے دوہرا معیار اپنا رکھا ہے.یقیناً یہ ان طاقتوں کی نا انصافی ہی ہے جس نے دنیا بھر میں بے چینی اور بدامنی پھیلا رکھی ہے.تاہم اس حقیقت سے بھی فرار ممکن نہیں کہ بعض مسلم گروہ اسلامی تعلیم کے منافی اور نا واجب اعمال کے مرتکب ہورہے ہیں.بڑی عالمی طاقتوں نے مسلم ممالک کی اس خامی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس صورتحال کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنالیا ہے اور غریب مسلم ممالک سے فوائد حاصل کیے جارہے ہیں.چنانچہ میں ایک بار پھر درخواست کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر توجہ اور طاقت اس مقصد کے حصول کے لیے وقف کر دیں کہ دنیا سے تیسری عالمی جنگ کا خطرہ بہر صورت ٹل جائے.قرآن کریم مسلمانوں کو تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی ملک کی دشمنی تمہیں انصاف کی راہوں سے روکنے والی نہ ہو.سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو.اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں ) میں تعاون نہ کرو.اور اللہ سے ڈرو یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.“ اسی طرح قرآن کریم میں مسلمانوں کے لیے ہمیں درج ذیل حکم ملتا ہے: ( سورة المائدہ 3) ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو.یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو.“ (سورۃ المائدہ:9) محض دشمنی اور نفرت کی بنا پر آپ کو دوسری قوم کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے.میں مانتا ہوں کہ اسرائیل اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور اس کی نگاہیں ایران پر ہیں.در حقیقت کوئی بھی ملک اگر آپ پر جارحانہ حملہ کرے تو آپ کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے.تاہم جس حد تک ممکن ہو تصفیہ طلب امور کے لیے افہام وتفہیم اور مذاکرات کی راہ اپنانے میں ہی عافیت ہے.میری آپ سے عاجزانہ استدعا ہے کہ اختلافی اُمور حل کرنے کے لیے طاقت کے
169 عالمی راہنماؤں کو خطوط استعمال کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں.میں خدا تعالی کی اُس برگزیدہ ہستی کا پیروکار ہونے کی حیثیت سے آپ سے درخواست گزار ہوں جو اس زمانہ میں حضرت نبی کریم محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی غلام کے طور پر مامور ہوا اور وہ مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے.آپ علیہ السلام کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ انسانیت کو خالق حقیقی سے ملایا جائے اور آپ کے آقا و مطاع رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق پر لوگوں میں عدل و انصاف قائم کیا جائے.اللہ تعالیٰ مسلم امت کو یہ حسین تعلیم سمجھنے کی توفیق نصیب کرے.والسلام آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفہ اسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 07-03-2012
صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نام خط
سم الله الحمد العليم الحمدُه وَ يُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود ا اور تم کے ساتھ خدا کے هو التاجر واشعل إن من الله خلدة سنية د الله بندر MIRZA MASHOOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY President Barack Obama President of the United States of America The White House 1600 Pennsylvania Avenue NW Washington D.C.16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 8 March 2012 172 Dear Mr President, In light of the perturbing state of affairs developing in the world, I felt that it was necessary for me to write to you, as you are the President of the United States of America, a country which is a world superpower, and thus you hold the authority to make decisions which will affect the future of your nation and the world at large.There is currently great agitation and restlessness in the world.Small-scale wars have broken out in certain areas.Unfortunately, the superpowers have not been as successful as was anticipated in their efforts to establish peace in these conflict-hit regions.Globally, we find that almost every country is engaged in activities to either support, or oppose other countries; however, the requirements of justice are not being fulfilled.It is with regret that if we now observe the current circumstances of the world, we find that the foundation for another world war has already been laid.As so many countries, both large and small, have nuclear weapons, grudges and hostilities are increasing between nations.In such a predicament, the Third World War looms almost certainly before us.Such a war would surely involve atomic warfare; and therefore, we are witnessing the world head towards a terrifying destruction.If a path of equity and justice had been followed after the Second World War, we would not be witnessing the current state of the world today whereby it has become engulfed in the flames of war once again..As we are all aware, the main causes that led to the Second World War were the failure of League of Nations and the economic crisis, which began in 1932.Today, leading economists state that there are numerous parallels between the current economic crisis and that of 1932.We observe that political and economic problems have once again led to wars between smaller nations, and to internal discord and discontentment becoming rife within these countries.This will ultimately result in certain powers emerging to the helm of government, who will lead us to a world war.If in the smaller countries conflicts cannot be resolved through politics or diplomacy, it will lead to new blocs and groupings to form in the world.This will be the precursor for the outbreak of a Third World War.Hence, I believe that now, rather than focusing
173 عالمی راہنماؤں کو خطوط on the progress of the world, it is more important and indeed essential, that we urgently increase our efforts to save the world from this destruction.There is an urgent need for mankind to recognise its One God, Who is our Creator, as this is the only guarantor for the survival of humanity; otherwise, the world will continue to rapidly head towards self-destruction.My request to you, and indeed to all world leaders, is that instead of using force to suppress other nations, use diplomacy, dialogue and wisdom.The major powers of the world, such as the United States, should play their role towards establishing peace.They should not use the acts of smaller countries as a pretext to disturb world harmony.Currently, nuclear arms are not only possessed by the United States and other major powers; rather, even relatively smaller countries now possess such weapons of mass destruction, where those who are in power are often trigger-happy leaders who act without thought or consideration.Thus, it is my humble request to you to strive to your utmost to prevent the major and minor powers from crupting into a Third World War.There should be no doubt in our minds that if we fail in this task then the effects and aftermath of such a war will not be limited to only the poor countries of Asia, Europe and the Americas; rather, our future generations will have to bear the horrific consequences of our actions and children everywhere in the world will be born disabled or deformed.They will never forgive their elders who led the world to a global catastrophe.Instead of being concerned for only our vested interests, we should consider our coming generations and strive to create a brighter future for them.May God the Exalted enable you, and all world leaders, to comprehend this message.Yours Sincerely, n.k MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط صدر باراک اوباما بسم اللہ الرحمن الرحیم صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ وائٹ ہاؤس 1600 پنسلوینیا ایونیو.این ڈبلیو واشنگٹن ڈی سی محترم صدر صاحب! 175 دنیا میں بڑھتے ہوئے پریشان کن حالات کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو یہ خط لکھوں کیونکہ آپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر کے منصب پر فائز ہیں اور یہ ایسا ملک ہے جو سب سے بڑی عالمی طاقت ہے.اسی بنا پر آپ کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار ہے جو نہ صرف آپ کی قوم کے مستقبل پر بلکہ عالمی سطح پر اثر انداز ہوتے ہیں.آج دنیا میں غیر معمولی بے چینی اور اضطراب پھیلا ہوا ہے.بعض خطوں میں چھوٹے پیمانہ پر جنگیں لڑی جا رہی ہیں اور بدقسمتی سے عالمی طاقتیں ان شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے اس حد تک مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کی اُن سے توقع کی جاتی ہے.صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کا حمایتی ہے یا پھر کسی ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے اور سبھی نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا ہے.نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے.دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینے اور عداوتیں اپنے عروج پر ہیں.اس گمبھر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں.اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے.گویا یقینا ہم خطرناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں.اگر جنگ عظیم دوم کے بعد
176 عدل وانصاف سے پہلوتہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطر ناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار کھڑے ہیں.ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی نا کامی اور 1932ء میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا.آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں.سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں.ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا.اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق کار اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے اور یقیناً یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہوگا.ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کریں.بنی نوع انسان کو خدائے واحد کو پہچاننے کی سخت اور فوری ضرورت ہے جو سب کا خالق ہے اور انسانیت کی بقا کی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تو رفتہ رفتہ تباہی کی طرف گامزن ہے ہی.میری آپ بلکہ تمام عالمی قائدین و عمائدین سے یہ درخواست ہے کہ دوسری اقوام کی راہنمائی کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارت کاری، سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو بروئے کار لائیں.بڑی عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چھوٹے ممالک کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر دنیا کا نظم ونسق بر باد نہیں کرنا چاہیے.آج صرف امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے پاس ہی ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ نسبتاً چھوٹے ممالک بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان ممالک میں ایسے لوگ برسر اقتدار ہیں جو زیادہ گہری سوجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں اور معمولی باتوں پر اشتعال میں آکر غلط فیصلہ کر سکتے ہیں.میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑ کانے سے باز رکھنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں وقف کر دیں.اگر ہم قیام امن کی کوششوں میں ناکام رہے تو
177 عالمی راہنماؤں کو خطوط یقیناً یہ جنگ ایشیا، یورپ اور امریکہ کے صرف غریب ممالک تک محدود نہیں رہے گی.نیز ہماری آئندہ نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی جب ایٹمی جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں اپاہج یا معذور بچے جنم لیں گے.تو آنے والی نسلیں اس قدر شدید عالمی تباہی کا باعث بننے والے اپنے آباء واجداد کو کبھی معاف نہیں کریں گی.یقینا آج مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے اور اس بات کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ اُن کے لیے روشن مستقبل چھوڑ کر جائیں.اللہ تعالی آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے.آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 08-03-2012
وزیر اعظم کینیڈا کے نام خط
بسم الله العام المحلية تحمله وتصلي عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصي انا فتحنا لك الحامية MILEA MAROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADITYA COMMUNITY IN ISLAM Mr.Stephen Harper Prime Minster of Canada Ottawa, Ontario 180 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 8 March 2012 Dear Prime Minister, In light of the dire state of affairs developing in the world, I felt that it was necessary for me to write to you, as you are the Prime Minister of Canada, and hence you hold the authority to make decisions which will affect the future of your nation and the world at large.There is currently great agitation and restlessness in the world.Small-scale wars have broken out in certain areas.Unfortunately, the superpowers have not been as successful as was anticipated in their efforts to establish peace in these conflict-hit regions.Globally, we find that almost every country is engaged in activities to either support, or oppose other countries; however, the requirements of justice are not being fulfilled.It is with regret that if we now observe the current circumstances of the world, we find that the foundation for another world war has already been laid.As so many countries, both large and small, have nuclear weapons, grudges and hostilities are increasing between nations.In such a predicament, the Third World War looms almost certainly before us.Such a war would surely involve atomic warfare; and therefore, we are witnessing the world head towards a terrifying destruction.If a path of equity and justice had been followed after the Second World War, we would not be witnessing the current state of the world today whereby it has become engulfed in the flames of war once again.As we are all aware, the main causes that led to the Second World War were the failure of League of Nations and the economic crisis, which began in 1932.Today, leading economists state that there are numerous parallels between the current economic crisis and that of 1932.We observe that political and economic problems have once again led to wars between smaller nations, and to internal discord and discontentment becoming rife within these countries.This will ultimately result in certain powers emerging to the helm of government, who will lead us to a world war.If in the smaller countries conflicts cannot be resolved through politics or diplomacy, it will lead to new blocs and grouping to form in the world.This will be the precursor for the outbreak of a Third World War.Hence, I believe that now, rather than focusing on the progress of the world, it is more important and indeed essential, that we urgently increase our efforts to save the world from this destruction.There is an urgent need for mankind to recognise its One God, Who is our Creator, as this is the only guarantor for the survival of humanity; otherwise, the world will continue to rapidly head towards self-destruction.
181 181 عالمی راہنماؤں کو خطوط Canada is widely considered to be one of the most just countries in the world.Your nation does not normally interfere in the internal problems of other countries.Further, we, the Ahmadiyya Muslim Community, have special ties of friendship with the people of Canada.Thus, I request you to strive to your utmost to prevent the major and minor powers from leading us into a devastating Third World War.My request to you, and indeed to all world leaders, is that instead of using force to suppress other nations, use diplomacy, dialogue and wisdom.The major powers of the world, such as Canada, should play their role towards establishing peace.They should not use the acts of smaller countries as a pretext to disturb world harmony.Currently, nuclear arms are not only possessed by the major world powers, rather even relatively smaller countries now possess such weapons of mass destruction; where those who are in power are often trigger-happy leaders who act without thought or consideration.Thus, it is my humble request to you that use all your energy and efforts to prevent a Third World War from occurring.There should be no doubts in our minds that if we fail in this task then the effects and aftermath of such a war, will not be limited to only the poor countries of Asia, Europe and the Americas; rather, our future generations will have to bear the horrific consequences of our actions and children everywhere in the world will be born disabled or deformed.They will never forgive their elders who led the world to a global catastrophe.Instead of being concerned for only our vested interests, we should consider our coming generations and strive to create a brighter future for them.May God the Exalted enable you, and all world leaders, to comprehend this message.Yours Sincerely, MIRZA MASROOR AIIMAD Khalifatul Masih V Head of the Worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط مسٹر سٹیفن ہار پر وزیر اعظم کینیڈا اوٹا وہ.اونٹاریو بسم اللہ الرحمن الرحیم محترم وزیر اعظم صاحب! دُنیا میں بڑھتے ہوئے پریشان کن حالات کے پیش نظر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو یہ خط لکھوں کیونکہ آپ کینیڈا کے وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہیں اور اسی بنا پر آپ کو ایسے فیصلے کرنے کا اختیار ہے جو نہ صرف آپ کی قوم کے مستقبل پر بلکہ عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.آج دنیا میں غیر معمولی بے چینی اور اضطراب پھیلا ہوا ہے.بعض خطوں میں چھوٹے پیمانہ پرجنگیں لڑی جارہی ہیں اور بدقسمتی سے عالمی طاقتیں ان شورش زدہ علاقوں میں قیام امن کے لیے اس حد تک مؤثر کردار ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہیں جس کی اُن سے توقع کی جاتی ہے.صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آج دنیا کا ہر ملک یا تو کسی دوسرے ملک کا حمایتی ہے یا پھر کسی ملک کی دشمنی پر کمر بستہ ہے اور سبھی نے انصاف کا دامن چھوڑ دیا ہے.آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے جو نہایت دکھ کی بات ہے.دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینہ اور عداوتیں اپنے عروج پر ہیں.اس گمبیر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے.گویا یقیناً ہم خطر ناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں.اگر جنگِ عظیم دوم کے بعد عدل و انصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطر ناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کو تیار کھڑے ہیں.ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بنیادی محرکات میں لیگ آف نیشنز کی ناکامی اور 1932ء 183 83
184 میں رونما ہونے والا معاشی بحران سر فہرست تھا.آج دنیا کے چوٹی کے ماہرین معاشیات برملا کہہ رہے ہیں کہ موجودہ دور کے معاشی مسائل اور 1932ء والے بحران میں بہت سی قدریں مشترک دکھائی دے رہی ہیں.سیاسی اور اقتصادی مسائل نے کئی چھوٹے ممالک کو ایک بار پھر جنگ پر مجبور کر دیا ہے اور بعض ممالک داخلی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار ہیں.ان تمام امور کا منطقی نتیجہ ایک عالمی جنگ کی صورت میں ہی نکلے گا.اگر چھوٹے ممالک کے جھگڑے سیاسی طریق اور سفارت کاری کے ذریعہ حل نہ کیے گئے تو لازم ہے کہ دنیا میں نئے جتھے اور بلاک جنم لیں گے اور یقینا یہ امر تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو گا.ایسی صورت حال میں دنیا کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے زیادہ ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ ہم دنیا کو اس عظیم تباہی سے بچانے کی کوشش کریں.آج اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ بنی نوع انسان خدائے واحد کو پہچانے جو سب کا خالق ہے.انسانیت کی بقا کی یہی ایک ضمانت ہے ورنہ دنیا تیزی سے اپنی تباہی کے سامان کر رہی ہے.دُنیا میں بہت سارے لوگ کینیڈا کو انتہائی انصاف پسند ملکوں میں سے ایک گردانتے ہیں.آپ کی قوم عام طور پر دوسرے ممالک کے اندرونی مسائل میں دخل اندازی نہیں کرتی.مزید برآں ہماری جماعت، جماعت احمد یہ عالمگیر کے کینیڈا کی قوم سے خاص دوستانہ مراسم ہیں.اس بنا پر میں آپ سے پر زور استدعا کرتا ہوں کہ اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے دنیا کی چھوٹی بڑی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ میں کودنے سے بچائیں.میری آپ بلکہ تمام عالمی قائدین و عمائدین سے یہ درخواست ہے کہ دوسری اقوام کی راہنمائی کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارت کاری، سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو بروئے کار لائیں.بڑی عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور چھوٹے ممالک کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر دنیا کانظم ونسق بر باد نہیں کرنا چاہیے.آج صرف امریکہ اور دیگر بڑی طاقتوں کے پاس ہی ایٹمی ہتھیار نہیں بلکہ نسبتاً چھوٹے ممالک بھی وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لیس ہیں اور ان ممالک میں ایسے لوگ برسر اقتدار ہیں جو گہری سوجھ بوجھ اور سیاسی بصیرت سے عاری ہیں اور معمولی باتوں پر اشتعال میں آکر غلط فیصلے کر سکتے ہیں.
عالمی راہنماؤں کو خطوط 185 میری آپ سے عاجزانہ درخواست ہے کہ دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کو تیسری عالمی جنگ کے شعلے بھڑ کانے سے باز رکھنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں وقف کر دیں.اگر ہم قیام امن کی کوششوں میں ناکام رہے تو یقیناً یہ جنگ ایشیا، یورپ اور امریکہ کے صرف غریب ممالک تک محدود نہیں رہے گی.نیز ہماری آئندہ نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی جب ایٹمی جنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں اپانچ یا معذور بچے جنم لیں گے.وہ آنے والی نسلیں اس قدر شدید عالمی تباہی کا باعث بننے والے اپنے آباء واجداد کو بھی معاف نہیں کریں گی.یقیناً آج مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی بجائے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کرنی چاہیے اور اس بات کے لیے کوشاں رہنا چاہیے کہ ان کے لیے روشن مستقبل چھوڑ کر جائیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور تمام عالمی لیڈروں کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے.آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة اصبح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 08-03-2012
خادم حرمین شریفین سعودی عرب کے بادشاہ کے نام خط
2 المحمده و يُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ واصل إلى من المقالة ساحة نصية انا فتحنا الد التاهية MIRZA MASIROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMUNITY IN ISLAM 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK Custodian of the Two Holy Places King of the Kingdom of Saudi Arabia Abdullah bin Abdul-Aziz Al Saud Riyadh, Saudi Arabia Respected King Abdullah, Assalamo Alaikum Wa Rahmatullahe Wa Barakatohu, 28 March 2012 Today, I am writing to you with the intention of raising a most important matter, because as the Custodian of the Two Holy Places and the King of Saudi Arabia, you hold a very high station in the Muslim Ummah.For located within your country are the two holiest sites in Islam- Makkah Al-Mukarramah and Madinah Al-Munawwarah-which to love constitutes a part of the faith of Muslims.These sites are also the centres of spiritual progress and are greatly revered by Muslims.In this light, all Muslims and Muslim governments confer special status upon you.This status requires that on the one hand, you should properly guide the Muslim Ummah and on the other, you should strive to create an atmosphere of peace and harmony within Muslim countries.You should also endeavour to develop mutual love and sympathy between Muslims and to enlighten them regarding the essence of: رحَمَاءُ بَيْنَهُم Ultimately, you should strive to create peace in the entire world for the benefit of all of mankind.As Head of the Ahmadiyya Muslim Jama'at and the Khalifa of the Promised Messiah and Imam Mahdi (peace be upon him), it is my request that, irrespective of certain doctrinal disagreements that exist between the Ahmadiyya Muslim Jama'at and other sects of Islam, we should still unite in an effort to establish world peace.We should do our level best to educate the world regarding the true teachings of Islam, which are based on love and peace.By doing so, we can dispel the misconceptions in general that are embedded in the people of the West and the world about Islam.Enmity against other nations or groups should not hinder us from acting in a just manner.Allah the Almighty states in Verse 3 of Surah Al-Ma'idah of the Holy Qur'an: وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ 188
69 189 عالمی راہنماؤں کو خطوط وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ....And let not the enmity of a people, that they hindered you from the Sacred Mosque, incite you to transgress.And help one another in righteousness and piety; but help not one another in sin and transgression.And fear Allah; surely, Allah is severe in punishment.' This is the guiding principle that we should keep in view so that we can fulfil our duty to present the beautiful image of Islam to the world.It is with sentiments of heartfelt love and deep compassion for all Muslims worldwide that I am requesting you to play your role in this regard.We find in the world today that some politicians and so-called scholars are planting seeds of hatred against Islam in an attempt to defame the Holy Prophet (peace and blessing of Allah be upon him).They try to present completely distorted interpretations of the teachings of the Holy Qur'an to achieve their aims.Further, the conflict between Palestine and Israel is worsening every day and hostilities between Israel and Iran have heightened to such an extent that their relationship has severely broken down.Such circumstances require that as an extremely important leader in the Muslim Ummah you should make every effort to resolve these disputes with justice and equality.The Ahmadiyya Muslim Jama'at does everything it possibly can to dispel the hatred against Islam, wherever and whenever it surfaces.Until the entire Muslim Ummah unites as one and makes efforts towards this, peace can never be established.Thus, it is my request to you to do your utmost in this regard.If World War III is indeed destined to occur, at least we should strive to ensure that it does not originate from any Muslim country.No Muslim country or any Muslim individual anywhere in the world, today or in the future, will want to shoulder the blame for being the spark for a global catastrophe, the long-term effects of which will lead to future generations being born with defects or deformities, for if a World War breaks out now, it will surely be fought with nuclear weapons.We have already experienced just a glimpse of the utter devastation caused by atomic warfare when nuclear bombs were dropped on two cities in Japan during World War II.Thus, O King of Saudi Arabia! Expend all your energy and influence to save the world from annihilation! May Allah the Almighty provide you with His Help and Succour, Amin.With prayers for you and for the entire Muslim Ummah of: Wassalam, Yours Sincerely, اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط 191 عزت مآب خادم الحرمین الشریفین بادشاہ سلطنت سعودی عرب عبد الله بن عبد العزیز السعود ریاض سعودی عرب عزت مآب جناب شاہ عبداللہ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آج ایک بہت ہی اہم معاملہ کے حوالہ سے میں آپ کو یہ خط تحریر کر رہا ہوں کیونکہ حرمین شریفین کے خادم اور سعودی عرب کا بادشاہ ہونے کی حیثیت سے امت مسلمہ میں آپ کا مقام بہت بلند ہے.آپ کے ملک میں اسلام کے دو مقدس مقامات مکتہ المکرمہ اور مدینہ المنورہ واقع ہیں جن سے محبت کرنا ہر مسلمان کا جزوایمان ہے.یہ مقامات روحانی ترقی کا مرکز بھی ہیں اور مسلمانوں کے لیے مقدس بھی.چنانچہ تمام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کی نظر میں آپ کا ایک خاص مقام ہے جو آپ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ امت مسلمہ کی درست راہنمائی کریں اور مسلمان ممالک کے مابین امن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کریں.نیز یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا احساس پیدا کریں اور انہیں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کی رُوح سے روشناس کروائیں.اس طرح تمام بنی نوع انسان کی بھلائی کی خاطر آپ کو ساری دنیا میں قیام امن کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے.جماعت احمدیہ مسلمہ کے سر براہ اور مسیح موعود و
192 امام مہدی علیہ السلام کے خلیفہ کی حیثیت سے میری آپ سے درخواست ہے کہ جماعت احمدیہ مسلمہ اور اسلام کے باقی فرقوں کے درمیان بعض اعتقادی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں دنیا میں قیام امن کی کوششوں کے لیے متحد ہو جانا چاہیے.ہمیں دنیا کو اسلام کی سچی تعلیم جو محبت اور امن پر بنی ہے سے آگاہ کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے.ایسا کر کے ہم وہ غلط فہمیاں جو عام طور پر اہل مغرب اور باقی دنیا کے ذہنوں میں اسلام کے خلاف راسخ ہو چکی ہیں دُور کر سکتے ہیں.دوسری قوموں یا لوگوں سے دشمنی ہمیں انصاف پر عمل پیرا ہونے سے روکنے والی نہ ہو.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں سورۃ المائدہ آیت 3 میں فرماتا ہے.اور تمہیں کسی قوم کی دشمنی اس وجہ سے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا تھا اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم زیادتی کرو اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی (کے کاموں) میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو.یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.“ یہ وہ راہنما اُصول ہے جو ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے تا کہ ہم اسلام کا خوبصورت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہوسکیں.تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے دلی محبت اور گہری ہمدردی کے جذبات کے ساتھ میں آپ سے گزارش کر رہا ہوں کہ آپ اس معاملہ میں اپنا کردار ادا کریں.آج کل دنیا میں کچھ سیاست دان اور نام نہاد سکالر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے کے لیے اسلام کے خلاف نفرت کے بیج بورہے ہیں.اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے وہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بالکل ہی توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں.مزید یہ کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین تنازعہ گزرتے ہوئے ہر دن کے ساتھ بگڑ رہا ہے اور اسرائیل اور ایران کے درمیان عداوت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ان کے تعلقات بری طرح خراب ہو چکے ہیں.ان حالات کا تقاضا ہے کہ اُمت مسلمہ کا انتہائی اہم راہنما ہونے کے ناطہ آپ ان تنازعات کو انصاف اور عدل سے حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں.جہاں بھی اور جب بھی اسلام کے خلاف نفرت سر اٹھاتی ہے جماعت احمدیہ مسلمہ اس نفرت کو دور کرنے کے لیے جو کچھ کر سکتی ہے کرتی ہے لیکن جب تک تمام امت مسلمہ متحد نہ ہو جائے اور اس کے حصول کی کوشش نہ کرے امن قائم نہیں ہو سکتا.
193 عالمی راہنماؤں کو خطوط میری آپ سے درخواست ہے کہ اس سلسلہ میں اپنی بھر پور کوشش کریں.اگر تیسری عالمی جنگ واقعی مقدر ہے تو کم از کم ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی ابتدا کسی مسلم ملک کی طرف سے نہ ہو.کوئی بھی مسلم ملک یا فرد واحد جودنیا کے کسی بھی خطہ میں ہو آج یا آئندہ کبھی بھی ایک ایسی عالمی تباہی کا موجب بنا پسند نہیں کرے گا جس کے خوف ناک اثرات کی وجہ سے آئندہ نسلیں معذور اور گولی لنگڑی پیدا ہوں کیونکہ اب اگر ایک عالمی جنگ شروع ہوئی تو یہ یقینا ایٹمی ہتھیاروں سے لڑی جائے گی.ہم پہلے ہی جاپان کے دو شہروں پر ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کا نظارہ کر چکے ہیں.پس اے سعودی عرب کے بادشاہ! دُنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت اور اثر و رسوخ صرف کر دیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو آمین.آپ کے لیے اور تمام مسلم امت کے لیے اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کے ساتھ.آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة اصیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 28-03-2012
عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کے نام خط
اسم الله الرحمن الرحيم تحمدُه وَيُصَلِّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر انا فتحنا لان العامية MILEA MAROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADITYA COMMUNITY IN ISLAM 196 16 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK His Excellency, Premier of the State Council of the People's Republic of China Mr Wen Jiabao Zhongnanhai, China Dear Premier, 9 April 2012 I am sending this letter to you through one of our representatives of the Ahmadiyya Muslim Community.He is the President of our Community in Kababir, Israel and was invited by the Minister for Minorities in China.Our representative was introduced to Chinese officials during a visit by a delegation from China, which included the Deputy Minister for Minorities, to our Mission House in Kababir.The Ahmadiyya Muslim Community is that sect in Islam which firmly believes that the Messiah and Reformer, who was destined to appear in this age as the Mahdi for the guidance of Muslims, as the Messiah for the guidance of Christians and as a guide for the reformation of all mankind, has indeed arrived in accordance with the prophecies of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), and thus we have accepted him.His name was Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad (peace be upon him) from Qadian, India.In accordance with God Almighty's command, he laid the foundation for the Ahmadiyya Muslim Community in 1889.By the time he passed away in 1908, hundreds of thousands of people had joined the fold of the Community.After his demise, the institution of Khilafat was established.Currently, we are in the era of the 5th Khilafat, and I am the 5th Khalifa of the Promised Messiah (peace be upon him).An extremely important and fundamental aspect of our teaching is that in this era religious wars should come to an end.Further, we believe that anyone who desires to convey or spread
197 عالمی راہنماؤں کو خطوط any teaching should only do so in a spirit and atmosphere of love, compassion and brotherhood so that he can become the source of establishing peace, reconciliation and harmony.This important aspect, which is based on the true teachings of Islam, is being promoted and propagated by the Ahmadiyya Muslim Community all over the world.The Community is now spread over 200 countries of the world, and consists of millions of followers.I wish to convey the following message to you: that the world is currently passing through a most harrowing and perilous period.Indeed, it would appear that we are rapidly drawing closer to a world war.You are the leader of a great superpower.In addition, an enormous proportion of the world's population live under your governance.You also possess the right to use the power to veto when required in the United Nations.Hence, in this context, it is my request to you to play your role to save the world from the destruction that looms before us.Irrespective of nationality, religion, caste or creed, we should strive to our utmost to save humanity.In China, after the revolution took place, there was great progress and change.Honourable Mao Zedong, who was a great leader of your nation, established the foundation for high moral standards, which can also be described in other words as the most excellent standard of human values.Although you do not believe in the existence of God and your principles are based on morality, I would like to make it clear that our God, Who is the God as portrayed by Islam, revealed the Qur'an as guidance for all mankind, and the Qur'an inculcates all such morals that you act upon, but it is also filled with even further moral guidance.It contains beautiful teachings expounding the means of sustenance for humanity and establishing human values.If the world the Muslim world in particular-adopt these Qur'anic teachings, all problems and conflicts will be resolved and an atmosphere of peace and harmony will be fostered.Today, the Ahmadiyya Muslim Community endeavours to further this very purpose and objective in every part of the world.Through our peace symposiums and through numerous meetings that I hold with various categories of people and groups from all walks of life, I remind the world of this vital goal.It is my prayer that the leaders of the world act with wisdom and do not allow mutual enmities between nations and people on a small-scale to erupt into a global conflict.It is also my request to you that, as a great superpower of the world, play your role to establish world peace.Save the world from the horrifying consequences of a world war, for if such a war breaks out, it will come to an end with the use of atomic weapons.It is quite
198 possible that as a result, parts of certain countries and areas of the world will be obliterated off the face of the earth.The effects and aftermath of an atomic war will not be limited to just the immediate devastation, rather, the long-term effects will result in future generations being born disabled or with defects.Thus, expend all your energy, capabilities and resources in the effort to save humanity from such dreadful consequences.It will ultimately be to the benefit of your nation to act upon this.It is my prayer that all countries of the world, large and small, come to understand this message.With best wishes and prayers, Yours Sincerely, 2.kuk MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Ilead of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عزت مآب وزیر اعظم عوامی جمہوریہ چین مسٹر وین جیا با ؤ عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم زونگ نہائی.چین معزز وزیر اعظم ! 199 میں آپ کی خدمت میں یہ خط جماعت احمدیہ مسلمہ کے ایک نمائندہ کے ہاتھ بھجوا رہا ہوں جو کبابیر (اسرائیل) میں جماعت کے صدر ہیں جنہیں چین کے وزیر برائے اقلیتی امور نے چین کے دورہ کی دعوت دی تھی.حکام سے ان کا تعارف اس وقت ہوا جب ایک چینی وفد نے کہا بیر میں ہمارے مشن ہاؤس کا دورہ کیا.اس وفد میں اقلیتی امور کے نائب وزیر بھی شامل تھے.جماعت احمد یہ وہ اسلامی فرقہ ہے جس کا ایمان ہے کہ وہ مسیح اور مصلح جس نے اس زمانہ میں مسلمانوں کی ہدایت کے لیے مہدی، عیسائیوں کی ہدایت کے لیے مسیح اور تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے ایک راہنما کے طور پر مبعوث ہونا تھا.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کے عین مطابق ظاہر ہو چکے ہیں اور ہم نے انہیں قبول کیا ہے.آپ کا نام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہے.خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ نے 1889ء میں احمدیہ مسلم جماعت کی بنیاد رکھی.1908ء میں آپ کی وفات تک لاکھوں لوگ آپ کی جماعت میں شامل ہو چکے تھے.آپ کی وفات کے بعد خلافت کا نظام قائم ہوا.اس وقت ہم خلافت خامسہ کے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور میں مسیح موعود علیہ السلام کا پانچواں خلیفہ ہوں.ہماری تعلیم کا ایک بہت ہی اہم اور بنیادی پہلو یہ ہے کہ دور حاضر میں مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہونا چاہیے.ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جو کوئی بھی کسی بھی تعلیم کے پرچار کا خواہش مند ہوا سے اس کی آزادی ہونی چاہیے بشرطیکہ
200 اُس سے قیام امن ، رواداری اور ہم آہنگی و یک جہتی کی رُوح پیدا ہو.اس اہم نکتہ کو جس کا سر چشمہ اسلامی تعلیمات ہیں جماعت احمدیہ مسلمہ تمام دنیا میں فروغ دے رہی ہے.ہماری جماعت جو اللہ کے فضل سے لکھوکھا لوگوں پر مشتمل ہے دُنیا کے دوصد ممالک میں پھیل چکی ہے.میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا اس وقت ایک انتہائی خوفناک اور خطرناک دور سے گزر رہی ہے اور واقعہ ایسا لگ رہا ہے کہ ہم تیزی سے ایک عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہے ہیں.آپ ایک عظیم ملک کے سر براہ ہیں.مزید یہ کہ دنیا کی آبادی کا ایک کثیر حصہ آپ کی حکمرانی کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے.اقوام متحدہ میں ضرورت پڑنے پر آپ کو ویٹو کی طاقت استعمال کرنے کا حق بھی حاصل ہے.اس لیے اس تناظر میں میں آپ سے ملتمس ہوں کہ دنیا کودرپیش تباہی سے بچانے کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کریں.قوم، مذہب، رنگ ونسل اور ذات پات کے فرق سے قطع نظر ہمیں انسانیت کی بقا کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے.چین میں انقلاب کے بعد بہت ترقی اور تبدیلی ہوئی ہے.آپ کی قوم کے عظیم راہنما عزت مآب جناب ماؤزے تنگ نے جن اعلیٰ اخلاقی اقدار کی بنیاد رکھی ، انہیں انسانی اقدار کا ایک اعلیٰ معیار بھی قرار دیا جاسکتا ہے.اگر چہ آپ خدا کے وجود پر ایمان نہیں رکھتے اور آپ کے اُصولوں کی بنیاد محض اخلاقیات پر ہے مگر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اُس خدا نے جس کا تصور اسلام نے پیش کیا ہے، قرآن کریم کو تمام بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لیے نازل کیا ہے اور قرآن کریم وہ تمام اخلاق سکھاتا ہے جن پر آپ عمل پیرا ہیں.تاہم قرآن کریم اس سے بھی بڑھ کر اخلاقی راہنمائی سے بھرا ہوا ہے.یہ انسانیت کی بقا اور اعلیٰ انسانی اقدار کے قیام کی طرف حسین پیرائے میں راہنمائی فرماتا ہے.اگر دُنیا اور بالخصوص مسلم دنیا، ان تعلیمات پر کار بند ہو جائے تو تمام مسائل اور تنازعات کا خاتمہ ہو جائے اور امن اور رواداری کا خوبصورت ماحول پیدا ہو جائے.آج جماعت احمدیہ مسلمہ دنیا کے ہر خطہ میں اس نیک مقصد کے حصول و فروغ کے لیے کوشاں ہے.ہماری امن کانفرنسوں اور دیگر متعدد میٹنگز میں زندگی کے ہر ایک شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوتے ہیں اور میں اُن کی توجہ اس اہم مقصد کی طرف مبذول کرواتا رہتا ہوں.میری دُعا ہے کہ عالمی راہنما دانش مندی سے کام لیتے ہوئے اقوام عالم اور افراد کے مابین موجود
عالمی راہنماؤں کو خطوط چھوٹے چھوٹے تنازعات کو عالمگیر بننے سے بچانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں.201 میں یہ درخواست بھی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ایک عظیم عالمی طاقت ہونے کے باعث آپ دُنیا میں قیام امن کے لیے اپنا مؤثر کردار ادا کریں اور دنیا کو عالمی جنگ کے خوفناک نتائج سے بچائیں کیونکہ اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہوگی اور غالب امکان ہے کہ اس کے نتیجہ میں بعض ممالک کے حصے اور دنیا کے کچھ علاقے صفحہ ہستی سے یکسر مٹ جائیں.یاد رکھنا چاہیے کہ ایٹمی جنگ کی تباہی کے بدنتائج صرف فوری تباہی تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ یہ مہلک نتائج آئندہ نسلوں کی پیدائشی معذوری اور اپانچ پن پر منتج ہوں گے.پس اپنی تمام تر طاقت، صلاحیت اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انسانیت کو اس اندوہ ناک اور مہلک تباہی سے بچانے کی کوشش کریں.میری دُعا ہے کہ دنیا کے تمام بڑے چھوٹے ممالک اس پیغام کی رُوح کو سمجھ جائیں.نیک تمناؤں اور دُعاؤں کے ساتھ ! آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 09-04-2012
وزیر اعظم برطانیہ کے نام خط
اسم الله الرحمن الرحيم تحمله وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر والمحال ان من الملك سلمنا نسيا الا فتحنا لك التحاشية MIZA MASROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY IN ISLAM Prime Minister of the United Kingdom of Great Britain and Northern Ireland Rt.Hon.David Cameron 10 Downing Street, London SWLA ZAA United Kingdom 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 204 15 April 2012 Dear Prime Minister, In light of the perilous and precarious circumstances that the world is currently passing through, I felt it necessary to write to you.As the Prime Minister of the United Kingdom, you have the authority to make decisions that will affect the future of your country, and the world at large.Today, the world stands in dire need of peace because the sparks of war can be seen all around the world.Conflicts between countries on a small-scale are threatening to erupt into a global conflict.We observe that the situation of the world today is similar to the situation in 1932, both economically and politically.There are many other similarities and parallels, which when combined together, form the same image today that was witnessed just prior to the outbreak of the Second World War.If these sparks ever truly ignite, we will witness the terrifying scenario of a Third World War.With numerous countries, large and small, possessing nuclear weapons, such a war would undoubtedly involve atomic warfare.The weapons available today are se destructive that they could lead to generation after generation of children being born with severe genetic or physical defects.Japan is the one country to have experienced the abhorrent consequences of atomic warfare, when it was attacked by nuclear bombs during the Second World War, annihilating two of its cities.Yet the nuclear bombs that were used at that time and which caused widespread devastation, were much less powerful than the atomic weapons that are possessed by even certain small nations today.Therefore, it is the duty of the superpowers to sit down together to find a solution to save humanity from the brink of disaster What causes great fear is the knowledge that the nuclear weapons in smaller countries could end up in the hands of trigger-happy people who either do not have the ability, or who choose not to think about the consequences of their actions.If the major powers do not act with justice, do not eliminate the frustrations of smaller nations and do not adopt great and wise policies, then the situation will spiral out of all control and the destruction that will follow is beyond our comprehension and imagination.Even the majority of the world's population who do desire peace will also become engulfed by this devastation.
205 عالمی راہنماؤں کو خطوط Thus, it is my ardent wish and prayer that you and the leaders of all major nations come to understand this dreadful reality, and so instead of adopting aggressive policies and utilising force to achieve your aims and objectives, you should strive to adopt policies that promote and secure justice.If we look at the recent past, Britain ruled over many countries and left behind a high standard of justice and religious freedom, especially in the Sub-Continent of India and Pakistan.When the Founder of the Ahmadiyya Muslim Community congratulated Her Majesty, Queen Victoria, on her Diamond Jubilee and conveyed to her the message of Islam, he especially prayed for God to generously reward the British Government due to the manner in which it governed justly and with equity.[le greatly praised the British Government for its just policies and for granting religious freedom.In today's world, the British Government no longer rules over the Sub- Continent, but still principles of freedom of religion are deeply entrenched in British society and its laws, through which every person is granted religious freedom and equal rights.This year the Diamond Jubilee of Iler Majesty, Queen Elizabeth II, is being celebrated, which gives Britain an opportunity to demonstrate its standards of justice and honesty to the world.The history of the Ahmadiyya Muslim Community demonstrates that we have always acknowledged this justice whenever displayed by Britain and we hope that in future also, justice will remain a defining characteristic of the British Government, not only in religious matters, but in every respect that you will never forget the good qualities of your nation from the past and that in the current world situation, Britain will play its role in establishing peace worldwide.It is my request that at every level and in every direction we must try our level best to extinguish the flames of hatred.Only if we are successful in this effort, will we be enabled to guarantee brighter futures for our generations to come.However, if we fail in this task, there should be no doubt in our minds that as result of nuclear warfare, our future generations everywhere will have to bear the horrific consequences of our actions and they will never forgive their elders for leading the world into a global catastrophe.I again remind you that Britain is also one of those countries that can and does exert influence in the developed world as well as in developing countries.You can guide this world, if you so desire, by fulfilling the requirements of equity and justice.Thus, Britain and other major powers should play their role towards establishing world peace.May God the Almighty enable you and other world leaders to understand this message.With best wishes and with prayers, Yours Sincerely, 2.k MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط 207 عزت مآب وزیراعظم برطانیہ عظمی و شمالی آئر لینڈ مسٹر ڈیوڈ کیمرون 10.ڈاؤننگ سٹریٹ لندن SW1A2AA برطانیہ بسم اللہ الرحمن الرحیم معزز وزیر اعظم ! آج دنیا بھر کو درپیش خطرات اور بدامنی کے تناظر میں میں آپ کی طرف یہ مکتوب بھیجنا ضروری سمجھتا ہوں.برطانیہ کا وزیر اعظم ہونے کے ناطہ آپ کو ان فیصلوں کا اختیار حاصل ہے جو نہ صرف آپ کے اپنے ملک بلکہ باقی دنیا پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں.آج دُنیا حقیقی امن کی شدید محتاج ہو چکی ہے کیونکہ جنگ کے شعلے ہر طرف بھڑ کائے جا رہے ہیں.ممالک کے باہمی چھوٹے چھوٹے تنازعات ایک عالمی جنگ کا پیش خیمہ بنتے نظر آ رہے ہیں.یوں لگ رہا ہے جیسے آج دنیا کے معاشی اور سیاسی حالات 1932ء جیسے ہو چکے ہیں اسی طرح دیگر شواہد بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ آج دنیا میں بالکل ویسی ہی تصویر ابھر رہی ہے جیسی جنگِ عظیم دوم سے معاقبل تھی اور اگر یہ شعلے بھڑک اُٹھے تو تیسری ہیبت ناک عالمی جنگ ناگزیر ہو جائے گی.دُنیا کے چھوٹے بڑے متعددممالک کے پاس ایٹمی اثاثوں کی بھر مار واضح کر رہی ہے کہ اگلی عالمی جنگ یقیناً ایٹمی جنگ ہو گی.جس قدر مہلک ہتھیار آج موجود ہیں ان کے استعمال کے نتیجہ میں دنیا میں نسلاً بعد نسل اولادیں جینیاتی مسائل لے کر پانچ پیدا ہوں گی.جاپان تو ایٹمی جنگ کے مہلک نتائج بھگت چکا ہے جب جنگ عظیم دوم میں اُس کے دو شہروں کو ایٹم بم گرا کر تباہ و برباد کر دیا گیا تھا.حالانکہ اُس وقت استعمال کیے گئے ایٹم بم جنہوں نے بہت بڑے پیمانہ پر تباہی مچائی تھی ، موجودہ دور میں بعض چھوٹی طاقتوں کے پاس موجود نیوکلیائی ہتھیاروں کے مقابلہ میں بہت کم طاقت و راور بالکل ابتدائی نوعیت کے تھے.چنانچہ دنیا کی بڑی طاقتوں کا فرض ہے کہ وہ مل بیٹھیں اور تباہی کے
208 دہانہ پر پہنچی ہوئی دنیا کو بچانے کے لیے کوئی حل تلاش کریں.زیادہ تشویش ناک امر یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے ممالک کے ایٹمی ہتھیار کہیں ایسے جلد باز لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں جو فوڑ ا ہتھیار اٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں.جن کے پاس نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی اپنے اعمال کے بد نتائج کی فکر ! اگر بڑی عالمی طاقتوں نے عدل سے کام نہ لیا اور چھوٹی قوموں کی محرومیاں ختم نہ کیں اور دنیا کے وسیع تر مفاد میں پر حکمت پالیسیاں اختیار نہ کیں تو حالات تدریجاً قابو سے باہر ہوتے جائیں گے اور ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ تباہی ہوگی.دُنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ جو امن کا خواہاں ہے وہ بھی اس بربادی کی لپیٹ میں آجائے گا.پس میری دلی خواہش اور دُعا ہے کہ آپ اور تمام بڑی عالمی طاقتوں کے سربراہان اس خطرناک حقیقت کا ادراک کریں اور جارحانہ پالیسیاں اپنانے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی بجائے ایسی پالیسیوں پر عمل کریں جودُ نیا میں انصاف کو یقینی بنانے والی ہوں.ماضی قریب کے سرسری مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ نے متعدد ممالک پر حکومت کی اور عدل و انصاف اور مذہبی آزادی فراہم کرنے میں خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں اعلیٰ معیار قائم کیے.چنانچہ جب بانی جماعت احمدیہ نے اپنے زمانہ میں ملکہ وکٹوریہ کو ڈائمنڈ جوبلی پر مبارکباد پیش کی اور انہیں اسلام کا پیغام پہنچایا تو آپ نے عدل و انصاف اور مساوات کے ساتھ حکومت کرنے پر برطانوی حکومت کو دُعاؤں سے بھی نوازا کہ اللہ تعالیٰ حکومت برطانیہ کو اجر عظیم عطا فرمائے اور آپ نے برطانوی حکومت کی انصاف پسند پالیسیوں اور مذہبی آزادی کی فراہمی پر غیر معمولی تعریف بھی کی تھی.آج حکومت برطانیہ برصغیر پر حاکم تو نہیں ہے لیکن مذہبی آزادی کے اصول برطانوی معاشرہ اور دستور میں اچھی طرح راسخ ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے یہاں ہر شہری کو مذہبی آزادی اور مساوی حقوق میسر ہیں.امسال برطانیہ میں ملکہ برطانیہ الزبتھ دوم کی ڈائمنڈ جوبلی کے پر مسرت موقع پر تقریب کا اہتمام کیا جارہا ہے.یہ بہت ہی نادر موقع ہے کہ برطانیہ اپنے انصاف اور دیانت داری کے اعلیٰ معیار دنیا کو بھی دکھائے.جماعت احمدیہ مسلمہ کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی برطانیہ نے انصاف پسندی کا مظاہرہ کیا ہے ہم نے اسے
عالمی راہنماؤں کو خطوط 209 سراہا ہے.خدا کرے کہ یہ عدل و انصاف مستقبل میں بھی حکومت برطانیہ کا طرۂ امتیاز رہے اور خدا کرے کہ عدل و انصاف کی برتری صرف مذہبی معاملات میں ہی نہیں بلکہ تمام امور میں ہمیشہ برطانوی حکومت کا طرہ امتیاز بنا ر ہے اور آپ اپنی قوم کی اعلیٰ اقدار کو ماضی کا حصہ ہی نہ بنا ئیں بلکہ آج بھی امنِ عالم کے قیام میں برطانیہ اپنا کردار احسن رنگ میں نبھاتا چلا جائے.میری درخواست ہے کہ ہم ہر جہت اور ہر ایک پہلو سے اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر دنیا سے نفرت کو مٹا دیں.اگر ہم اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ کامیابی ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہوگی اور ناکامی کی صورت میں ہماری آئندہ نسلیں ہمارے اعمال کی پاداش میں ایٹمی جنگ کی وجہ سے ہر جگہ تباہ کن نتائج کا سامنا کریں گی اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں پھیلنے والی مسلسل تباہی و بربادی کا تحفہ دے رہے ہوں گے اور یہ نسلیں اپنے اُن بڑوں کو جنہوں نے دنیا کو عالمی تباہی میں دھکیل دیا کبھی معاف نہیں کریں گی.میں ایک مرتبہ پھر آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ برطانیہ ایک ایسی عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے.پس اگر آپ چاہیں تو عدل وانصاف کے تقاضے پورے کر کے دنیا کی راہنمائی کر سکتے ہیں.لہذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام مجھنے کی توفیق بخشے.نیک تمناؤں اور دُعاؤں کے ساتھ ! آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفتہ امسح الامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 15-04-2012
جرمنی کی چانسلر کے نام خط
لحمدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر يا جعل على من لذلك ملحة لموا انا فتحنا لك منحاشية MIRZA MASROOR ARMAD HEAD OF THE ARCADIYYA COMMUNITY IN CAM Her Excellency Chancellor of Germany Angela Merkel Bundeskanzleramt Willy-Brandt-Str.1 10557 Berlin 212 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 15 April 2012 Dear Chancellor.In light of the alarming and extremely worrying state of affairs in the world today, I considered it necessary to write to you.As the Chancellor of Germany, a country which has significant power and influence in the world, you have the authority to make decisions that will affect your country and the entire world.Today, when the world is becoming divided into blocs, extremism is escalating and the financial, political and economic situation is worsening, there is an urgent need to extinguish all kinds of hatred and to lay the foundation for peace.This can only be achieved by respecting all of the sentiments of each and every person.However, as this is not being implemented properly, honestly and with virtue, the world situation is rapidly spiralling out of control.We observe that the requirements of justice are not being fulfilled by most nations, and as a result, the foundation for another World War has already been laid.Numerous countries, both large and small, now possess nuclear weapons.Thus, if a World War now breaks out, it is likely that it will not be fought with conventional weapons; rather, it will be fought with atomic weapons.The destruction that will result from a nuclear conflict will be utterly devastating.Its effects will not be limited to only the immediate aftermath; rather future generations will suffer from the long-term effects and will be born with serious medical and genetic defects.Thus, it is my belief that to establish world peace, true justice is required, and the sentiments and the religious practices of all people should be honoured.I appreciate that many Western countries have generously permitted the people of poor or under-developed nations to settle in their respective countries, amongst whom are Muslims as well.Undoubtedly, there is a minority of so-called Muslims who act completely inappropriately and create distrust in the hearts of the people of the Western nations.However, it should be clear that their acts have no link with Islam whatsoever.Such extremists do not truly love the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), who brought a message of peace, love and reconciliation to the world.Indeed, the actions of just a handful of misguided people should not be used as a basis to raise objections against our religion and to hurt the sentiments of the majority of sincere and innocent Muslims.Peace
213 عالمی راہنماؤں کو خطوط in society is a two-way process and can only be established if all parties work together towards mutual reconciliation.Due to the mistrust in the hearts of the people in the West, instead of relationships between nations and people improving, the reaction of some non-Muslims is getting worse by the day and is creating a chasm between the Muslim and non-Muslim world.We observe that on the basis of the misguided acts of certain Muslim groups and nations, the vested interests of some of the major powers are given preference to honesty and justice.Some of the powerful countries of the world desire to maintain easy access to the wealth and resources of certain countries and wish to avoid competing countries from having complete access to these same resources.That is why decisions are often made on the basis of helping people, or establishing world peace.Further, a major factor underlying the current political circumstances in the world is the economic downturn, which is pulling us towards another World War.If truth was truly being exhibited then some of these countries would derive benefit from cach other in a just manner, by forming proper industrial and economic ties, based on fair dealings.They would not try to derive illegitimate benefit from the resources of one another, but instead would seek to come together and mutually assist one another.In short, the disorder prevalent in the world today is based upon one overriding factor, and that is a complete lack of justice, which is causing widespread anxiety and restlessness.Thus, it is my request that strive to your utmost to prevent a World War from breaking out.Utilise all your energy, resources and influence to save the world from the horrific destruction that looms before us.According to reports, Germany will be providing three advanced submarines to Israel which could be armed with nuclear weapons.One German Professor has stated that such a decision will only serve to flare up the already heightened tensions between Israel and Iran.We must remember that nuclear weapons are not possessed by only the major powers of the world; rather, even relatively smaller countries now possess nuclear weapons.What is worrying is that in some of these small countries the leaders are trigger-happy, and appear unconcerned of the consequences of using such weapons.Therefore, once again, it is my humble request to you that try your level best to establish world peace.If we fail in this task there should be no doubt in our minds that a nuclear conflict will cause devastation that will lead to generation after generation being born with defects, and who will never forgive their elders for leading us into a global catastrophe.May God the Almighty enable you, and all world leaders, to understand this message.With best wishes and with prayers, Yours Sincerely,.: MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط محترمہ انجیلا مرکل صاحبه! بسم اللہ الرحمن الرحیم Bundeskanzleramt Willy-Brand-Str.1 10557 Berlin 215 جرمنی.محترمه چانسلر صاحبہ! آج دنیا بھر میں پیدا شدہ خطرناک حالات اور انتہائی تشویش کو دیکھتے ہوئے میں آپ کو یہ خط تحریر کر رہا ہوں.عالمی اثر ورسوخ کے حامل ملک جرمنی کی چانسلر ہونے کی حیثیت سے آپ کو ان فیصلوں کا اختیار حاصل ہے جو نہ صرف آپ کے اپنے ملک پر بلکہ تمام دنیا پر اثر انداز ہو سکتے ہیں.آج دنیا مختلف دھڑوں میں تقسیم ہو رہی ہے، شدت پسندی اپنے عروج پر ہے اور معاشی، سیاسی اور اقتصادی صورتِ حال دگر گوں ہے.اس پس منظر میں فوری طور پر ہر ایک نوع کی نفرت کو ختم کر کے امن کی بنیا در کھنے کی ضرورت ناگزیر ہو چکی ہے.یہ مقصد صرف اور صرف اس صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ جب ہر ایک کے جذبات کا احترام کیا جائے لیکن چونکہ باہمی احترام کے لیے مناسب مکمل دیانت اور نیکی کے جذبہ سے توجہ نہیں کی جارہی اس لیے دُنیا کے حالات تیزی کے ساتھ قابو سے باہر ہوتے جا رہے ہیں.صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اکثر اقوام انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر رہیں.نتیجہ ایک اور عالمگیر جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے.متعدد چھوٹی بڑی اقوام ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہیں.اب اگر عالمی جنگ شروع ہوتی ہے تو امکان ہے کہ وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ایٹمی ہتھیاروں سے لڑی جائے گی اور نیو کلیئر ہتھیاروں سے لڑی جانے والی جنگ کا نتیجہ سرا سر تباہی و بربادی ہی ہو گا جس کے اثرات صرف اسی وقت تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو بہت دیر تک اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور آئندہ کئی نسلیں خطرناک طبی اور جینیاتی مسائل کے ساتھ جنم لیں گی.پس میرا ایمان ہے کہ عالمی امن کے قیام کے لیے حقیقی انصاف کی فراہمی اور تمام اقوام کے جذبات اور مذہبی
216 عبادات کے احترام کی ضرورت ہے.متعدد مغربی ممالک کی طرف سے غریب اور ترقی پذیر اقوام کے افراد جن میں مسلمان بھی شامل ہیں، کو اپنے ہاں بسنے کی اجازت دینے کے فراخ دلانہ فیصلہ کوئیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ نام نہاد مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد ایسی بھی ہے جن کے اعمال کلیہ نامناسب ہیں اور یہ لوگ مغربی اقوام کے دلوں میں شک کا بیج بورہے ہیں.تا ہم واضح ہو کہ ان لوگوں کے افعال کا اسلام سے ڈور کا بھی تعلق نہیں.یہ شدت پسند لوگ بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے جو دنیا کے لیے امن محبت اور رواداری کا پیغام لے کر آئے تھے ، ہر گز سچی محبت نہیں رکھتے.یقینا مٹھی بھر بھٹکے ہوئے لوگوں کی کارروائیوں کو بنیاد بنا کر ہمارے مذہب کو اعتراض کا نشانہ بنانا نیز مخلص اور معصوم مسلم اکثریت کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا ہر گز درست نہیں.کسی بھی معاشرہ میں امن کے قیام کے لیے کوششیں ہمیشہ دوطرفہ ہوا کرتی ہیں اور کامیابی تبھی ممکن ہوا کرتی ہے جب تمام فریق باہمی موافقت کے حصول کے لیے مل کر کوشش کریں.اہل مغرب کے دل میں پائی جانے والی بد اعتمادی ہی ہے جو افراد اور اقوام کے درمیان حائل خلیج کو پاٹنے میں مد ہونے کی بجائے برعکس نتائج پیدا کر رہی ہے.بعض غیر مسلموں کا رد عمل دن بہ دن منفی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم دنیا کے درمیان ایک خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے.چند بھٹکے ہوئے مسلم افراد اور اقوام کی کارروائیوں کی وجہ سے چند بڑی طاقتیں دیانت اور انصاف کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل پر کمر بستہ ہیں.دنیا کی طاقت ورا قوام میں سے بعض کی یہ خواہش ہے کہ وہ کسی طرح چند مخصوص ممالک کی دولت اور وسائل پر اپنی دسترس قائم رکھیں اور دیگر ممالک کو ان وسائل تک رسائی نہ ہو سکے.یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک اپنے غیر منصفانہ فیصلوں میں عوام کی مدد یا امن عالم کے قیام کا تصور پیش کرتے ہیں.مزید برآں موجودہ سیاسی صورت حال کے پس منظر میں ایک بڑا بھاری عصر عالمی معاشی انحطاط بھی ہے جو ہمیں ایک اور عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے.اگر واقعۂ صدق دل سے کام لیا جار ہا تھا تو چاہیے تھا کہ یہ ممالک انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ایک دوسرے کو فائدہ اُٹھانے دیتے اور حسن معاملہ کے ساتھ با قاعدہ باہمی صنعتی اور معاشی روابطہ قائم کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ایک دوسرے کے وسائل سے ناجائز طور پر فائدہ اُٹھانے کی
عالمی راہنماؤں کو خطوط 217 بجائے باہم متحد ہونے کی کوشش کرتے.الغرض آج عالمی افراتفری کا ایک بہت بڑا اور بھاری سبب عدل وانصاف کا فقدان ہے جس کی وجہ سے ہر طرف بے چینی اور بے اطمینانی کا دور دورہ ہے.میری آپ سے استدعا ہے کہ آپ عالمگیر جنگ کو روکنے کے لیے بھر پور جدو جہد کریں اور اپنی تمام تر طاقت، وسائل اور اثر ورسوخ بروئے کار لا کر دنیا کو در پیش خوف ناک تباہی اور بربادی سے بچائیں.اطلاعات کے مطابق جرمنی ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت کی حامل تین جدید آب دوزیں اسرائیل کو فراہم کرنے والا ہے.ایک جرمن پروفیسر نے اس پر کہا ہے کہ یہ فیصلہ ایران اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی کو مزید ہوا دے گا.ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ آج دنیا کی بڑی طاقتیں ہی ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نہیں بلکہ بعض نسبتا چھوٹے ممالک بھی یہ صلاحیت حاصل کر چکے ہیں اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان چھوٹے ممالک میں سے بعض کے حکمران فور الڑائی پر کمر بستہ ہو جاتے ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ وہ ان ہتھیاروں کے استعمال کے عواقب سے لا پروا بھی ہیں.لہذا میں ایک بار پھر آپ سے عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ پورے اخلاص کے ساتھ اپنی تمام تر سعی بروئے کار لا کر امنِ عالم کو یقینی بنائیں.اگر آج ہم قیامِ امن میں ناکام ٹھہرے تو یہ بات یقینی ہے کہ یہ ایٹمی جنگ ایسی تباہی لائے گی کہ نسلاً بعد نسل اپانی اولادیں دنیا کا مقدر ہوں گی اور آئندہ آنے والی وہ تمام نسلیں ان عالمی سربراہوں کو ہرگز معاف نہیں کریں گی جنہوں نے دنیا کو جان بوجھ کر عالمگیر تباہی کی آگ میں دھکیل دیا.اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے.نیک تمناؤں کے ساتھ ! آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 15-04-2012
صدر جمہوریہ فرانس کے نام خط
اسم الله الحمد العليم نحمده وتصلى على رَسُولِهِ الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر واليدل إن من لذلك سلما نسبية الا فتحنا لك التحاميا MIRZA MASROOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMMUNITY ISLAM President of the French Republic His Excellency François Hollande Palais de l'Elysee 55, Rue du Faubourg Saint-Honore 75008 Paris, France 220 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 16 May 2012 Dear Mr President, I would like to first of all take this opportunity to congratulate you on being elected as the new President of France.This is certainly a vast responsibility that has been entrusted to you, and thus I hope and pray that the people of France, and indeed the entire world, come to benefit from your leadership.In light of the rapidly deteriorating state of affairs in the world, I recently wrote a letter to your predecessor, President Nicolas Sarkozy.In the letter I reminded President Sarkozy about his responsibilities as a world leader to uphold justice and I requested him to use all his power and influence to prevent a World War from breaking out.As the newly elected President of France, I considered it necessary to write to you also with the same message, because you now have the authority to make decisions that will affect your nation, and the world at large.It is my belief that the world's governments ought to be extremely concerned at the current circumstances in the world.Injustices and hostilities between nations are threatening to boil over into a global conflict.During the last century, two World Wars were fought.After the First World War, the League of Nations was established, however, the requirements of justice were not fulfilled and consequently, this led to the Second World War, culminating in the use of atom bombs.Subsequently, the United Nations was established for the protection of human rights and to maintain global peace.Thus, the means for avoiding wars were considered, yet today we observe that the foundation for a Third World War has already been laid.Numerous countries, both small and large, possess atom bombs.What is worrying is that some of the smaller nuclear powers are irresponsible and ignorant about the devastating consequences of such weapons.It is not inconceivable that if nuclear weapons are used, the horrific aftermath will become immediately manifest and that day will be like Doomsday.The weapons available Loday are so destructive that they could lead to generation after generation of children being born with severe genetic or physical defects.It is said that in Japan, the one country to have experienced the devastating destruction of atomic warfare, even though seven decades have passed, the effects of the atom bombs are still continuing to be manifest on newborn children.Thus, it is my humble request that strive to your utmost to extinguish the enmities and mistrust between the Muslim and non-Muslim world.Some European countries hold
221 21 عالمی راہنماؤں کو خطوط significant reservations regarding the teachings and traditions of Islam and have placed certain restrictions on them, whilst others are considering how to do so.The animosity that some extremist so-called Muslims already hold towards the West might lead them to reacting in an inappropriate manner which would lead to further religious intolerance and dissention.Islam, however, is a peace-loving religion, which does not teach us to do wrong to stop something wrong.We, the Ahmadiyya Muslim Community, follow this principle and believe in peaceful solutions to all matters.Sadly, we find that a small minority of Muslims present a completely distorted image of Islam and act upon their misguided beliefs.I say out of love for the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him), who was the 'Mercy for all Mankind', that you should not believe this to be the real Islam and thus use such misguided acts as a licence to hurt.The sentiments of the peaceful majority of Muslims.Recently, a merciless and heartless person shot dead some French soldiers in the South of France for no reason, and then some days later, he entered a school and killed three innocent Jewish children and one of their teachers.We also see such cruelties regularly come to pass in other Muslim countries and so all of these acts are giving the opponents of Islam fuel to vent their hatred and a basis upon which to pursue their goals on a large scale.As a Muslim, I shall make it absolutely clear that Islam does not permit cruelty or oppression in any way, shape or form.The Holy Qur'an has deemed the killing of one innocent person without reason akin to killing all mankind.This is an injunction that is absolute and without exception.The Qur'an further states that even if any country or people hold enmity towards you that must not stop you from acting in a fully just and fair manner when dealing with them.Enmitics or rivalries should not lead you to taking revenge, or to acting disproportionately.If you desire conflicts to be resolved in the best manner, endeavour to search for amicable solutions.I appreciate that many Western countries have generously permitted the people of poor or under-developed nations to settle in their respective countries, amongst whom are Muslims as well.Indeed, many Muslims live in your country and thus are also your citizens.The majority are law-abiding and sincere.Moreover, Islam clearly states that love for one's country is part of the faith.The Ahmadiyya Muslim Community acts and promotes this message Throughout the world.This is my message to you also, that if this true Leathing of Islam is spread everywhere, then the requirements of showing love to one's nation and peace, will remain established within each country and between countries of the world.My humble request to you, and indeed to all world leaders, is that instead of using force to suppress other nations, use diplomacy, dialogue and wisdom.The major powers of the world, such as France, should play their role towards establishing peace.They should not use the acts of smaller countries as a basis to disturb world harmony.Thus, I again remind you to strive to your utmost to prevent the major and minor powers from erupting into a Third World War.There should be no doubt in our minds that if we fail in this task then the effects and aftermath of such a war will not be limited to only the poor countries of Asia, Europe and the Americas; rather, our future generations will have to bear the horrific consequences of our actions and children everywhere in the world will be born with defects.It is my prayer that the leaders
222 of the world act with wisdom and do not allow mutual enmities between nations and people on a small-scale to erupt into a global conflict.May God the Exalted enable you, and all world leaders, to comprehend this message.With best wishes and with prayers, Yours Sincerely, 2.Ak MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم صدر جمہوریہ فرانس عزت مآب جناب فرانس ہولاندے Palais de L'Elysee 55, Rue du Faubourg Saint-Honore 75008 پیرس، فرانس 223 محترم صدر صاحب! میں اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے سب سے پہلے آپ کو فرانس کا نیا صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں.یقیناً ایک بہت بڑی ذمہ داری آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہے.اور پُر اُمید اور دُعا گو ہوں کہ فرانسیسی عوام اور ساری دنیا آپ کی قیادت سے بھر پور مستفیض ہوگی.دُنیا میں تیزی سے خرابی کی جانب گامزن حالات کے پیش نظر میں نے حال ہی میں آپ کے پیش رو فرانسیسی صدر نکولس سرکوزی کو خط لکھا تھا.اُس خط میں میں نے صدر سرکوزی کو بہ حیثیت ایک عالمی راہنما کے اُن کی ذمہ داریوں یعنی قیام انصاف کی طرف متوجہ کیا تھا اور اُن سے استدعا کی تھی کہ وہ اپنی طاقت اور اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے عالمگیر جنگ شروع ہونے سے قبل اُسے روک لیں.فرانس کا نیا صدر منتخب ہونے پر میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو بھی یہ پیغام دوں کیونکہ آپ اُن اختیارات کے حامل ہیں جن کا دائرہ نہ صرف آپ کی اپنی قوم بلکہ ساری دنیا تک ممتد ہے.میں سمجھتا ہوں کہ دُنیا کی حکومتوں کو عالمی صورت حال کے بارہ میں انتہائی فکرمند ہونا چاہیے.اقوامِ عالم کی باہمی عداوت اور نا انصافیاں ایک عالمگیر جنگ کی صورت اختیار کرنے کو تیار کھڑی ہیں.گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں.پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں آیا
224 لیکن انصاف کے تقاضے پورے نہ کیے گئے جس کا نتیجہ دوسری عالمی جنگ کی صورت میں نکلا جو ایٹم بم کے استعمال پر منتج ہوئی.ازاں بعد انسانی حقوق کی حفاظت اور عالمی امن کے قیام کے لیے اقوام متحدہ کا ادارہ قائم کر کے سمجھ لیا گیا کہ ہم نے اسباب جنگ کا ازالہ کر لیا ہے لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے.متعدد چھوٹے چھوٹے ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو چکے ہیں اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ بعض چھوٹی ایٹمی طاقتیں نہ صرف غیر ذمہ دار ہیں بلکہ ان ہتھیاروں کی تباہ کاریوں سے نابلد بھی ہیں.آج کے دور میں یہ اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں کہ اگر ایٹمی ہتھیار استعمال ہوئے تو ہر طرف فوری طور پر تباہی اور بربادی ہی بربادی ہوگی اور وہ دن قیامت کا نظارہ ہو گا.جو ہتھیار آج مہیا ہیں وہ اس حد تک مہلک ہیں کہ نسلاً بعد نسل انسانی اولادیں شدید جینیاتی اور جسمانی نقائص لے کر جنم لیں گی.جاپان میں جہاں ایٹمی ہتھیاروں سے حملہ کیا گیا تھا، سات دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی اس کے اثرات نومولود بچوں پر دیکھے جاسکتے ہیں.میری عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنی تمام تر کوششیں صرف کر کے مسلم اور غیر مسلم دنیا کے مابین پنپتی ہوئی عداوت اور بداعتمادی کو مٹا دیں.چند یورپی ممالک کو اسلامی تعلیم اور روایات کے بارہ میں شدید تحفظات ہیں اور وہاں ان پر بعض قدغنیں بھی لگائی جا رہی ہیں جبکہ بعض دوسری اقوام ایسا کرنے کا سوچ رہی ہیں.بعض شدت پسند نام نہاد مسلمانوں کے دلوں میں اہلِ مغرب کے خلاف پہلے سے موجود عداوت انہیں کسی نامناسب رد عمل کی طرف لے جاسکتی ہے جس سے مزید مذہبی عدم برداشت اور اختلافات پیدا ہوں گے.اسلام تو ایک امن پسند مذہب ہے جو ہمیں ایک غلطی کے ازالہ کے لیے دوسری غلطی کرنے کی تعلیم نہیں دیتا.جماعت احمد یہ مسلمہ ای اصول پر کار بند ہے اور تمام مسائل کے پر امن حل پر یقین رکھتی ہے.نہایت درجہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی ایک معمولی اقلیت اسلام کی تصویر کو کلیۂ مسخ کر کے پیش کر رہی ہے اور اپنے بگڑے ہوئے عقائد پر قائم ہے.رحمۃ للعالمین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کے صدقہ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اسے حقیقی اسلام نہ سمجھیں اور نہ ہی ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کے ظالمانہ کردار کو بہانہ بنا کر امن پسند مسلم اکثریت کے جذبات مجروح کریں.حال ہی میں ایک بے رحم اور بے حس انسان نے جنوبی فرانس میں بغیر کسی وجہ کے فائرنگ کر کے کچھ فرانسیسی فوجی جوان ہلاک کر دیئے ہیں اور چند دن
عالمی راہنماؤں کو خطوط 225 بعد ایک سکول میں گھس کر تین بے گناہ یہودی بچوں اور ایک معلمہ کوموت کے گھاٹ اُتار دیا ہے.آئے دن مسلم ممالک میں بھی ایسی بہیمانہ کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں اور ایسے واقعات مخالفین اسلام کو اپنی نفرت اور کدورت کے اظہار کے لیے مواد اور وسیع پیمانہ پر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بنیاد فراہم کرتے رہتے ہیں.ایک مسلمان ہونے کے ناطہ سے میں پُرزور انداز میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام کسی بھی طرح کسی بھی قسم اور نوع کی زیادتی اور ظلم کو روا رکھنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا.قرآن کریم ایک بے گناہ انسان کے بلاوجہ قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے.یہ حکم بالکل واضح ہے اور اس میں کسی بھی قسم کا کوئی استثنا نہیں.قرآن کریم مزید فرماتا ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم تمہارے ساتھ دشمنی رکھتی ہے تو پھر بھی ان کا عناد تمہیں اُن کے ساتھ معاملات کے دوران عدل و انصاف اور راست گوئی سے باز نہ رکھے.دشمنی اور عناد تمہیں بدلہ لینے پر نہ اُکسائیں اور نہ ہی غیر منصفانہ سلوک پر مائل کریں.اگر آپ جھگڑوں کا بطریق احسن تصفیہ چاہتے ہیں تو مسائل کا دوستانہ حل تلاش کریں.میں متعدد مغربی ممالک کی طرف سے غریب اور ترقی پذیر اقوام کے افراد جن میں مسلمان بھی شامل ہیں کو اپنے ہاں بسنے کی اجازت دینے کے فراخ دلا نہ فیصلہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.یقیناً بہت سے مسلمان آپ کے ملک میں سکونت پذیر ہیں اور وہ آپ کے ملک کے شہری بن چکے ہیں اور ان کی اکثریت قانون کا احترام کرتی ہے اور مخلص ہے.اسلام واضح طور پر تاکید کرتا ہے کہ وطن کی محبت ایمان کا حصہ ہے.جماعت احمد یہ مسلمہ ساری دُنیا میں اسی اُصول پر کار بند ہے اور اسی کا پرچار کرتی ہے.میرا پیغام بھی یہی ہے کہ اگر اسی حقیقی اسلامی تعلیم کی ہر جگہ اشاعت کی جائے تو ہر ملک میں وطن سے محبت کے تقاضے بھی پورے ہوں گے اور ہر ملک میں اندرونی طور پر امن قائم ہوگا اور تمام ممالک کے مابین باہمی یگانگت کی فضا بھی قائم ہو جائے گی.آپ اور تمام عالمی سربراہان سے میری عاجزانہ درخواست ہے کہ دوسری اقوام کی راہنمائی کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے بین الاقوامی سیاسی انصرام ، گفت و شنید اور حکمت کی راہ اپنائیں.عالمی طاقتوں مثلاً فرانس کو قیام امن کے لیے اپنا کر دار مثبت رنگ میں نبھانا چاہیے اور انہیں دنیا کے چھوٹے ممالک کے کردار کو بہانہ بنا کر امنِ عالم کو تباہ نہیں کرنا چاہیے.
226 میں ایک بار پھر آپ کو متوجہ کرتا ہوں کہ اپنی پوری کوشش کر کے دنیا کی بڑی چھوٹی تمام حکومتوں کو تیسری عالمی جنگ میں کودنے سے بچائیں.کسی کو ذرہ برابر بھی ابہام نہیں ہونا چاہیے کہ اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو ایسی جنگ کے نتائج ایشیا، یورپ اور براعظم امریکہ کے غریب ممالک تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ ہمارے اعمال کے ہولناک نتائج ہماری آئندہ نسلوں کو بھی بھگتنا ہوں گے اور دنیا میں ہر جگہ معذور بچے پیدا ہوں گے.میری دُعا ہے کہ عالمی سربراہان عقل و دانش سے فیصلے کریں اور اقوام اور افراد کے باہمی چھوٹے چھوٹے تنازعات کو عالمی تنازعہ نہ بننے دیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اور دیگر عالمی سربراہان کو یہ پیغام سمجھنے کی تو فیق بخشے.نیک تمناؤں اور دُعاؤں کے ساتھ ! آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 16-05-2012
ملکہ برطانیہ کے نام خط
121 الحمده وتصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر الى فتحا لك مجانية МИСЛА МАЛКООН АНМАР HEAD OF THE ANIMADIYA COMMUNITY IN AM Her Majesty, Queen Elizabeth II Queen of the United Kingdom and Commonwealth Realms Buckingham Palace London SW1A 1AA United Kingdom 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 19 April 2012 228 Your Majesty, As Head of the Ahmadiyya Muslim Community, and on behalf of the millions of members of the Ahmadiyya Muslim Community worldwide, I express my heartfelt congratulations to Her Majesty, the Queen, on the joyous occasion of the Diamond Jubilee.We are exceptionally grateful to God Almighty for enabling us to partake in this glorious celebration.In particular, all Ahmadi Muslims who are citizens of the United Kingdom take great pleasure and pride in the occasion of the Diamond Jubilee.Therefore, on their behalf, I convey sincere and heartfelt congratulations to Her Majesty.May God the Exalted keep our generous Queen perpetually in happiness and contentment.I beseech the Noble God, Who created the heavens and the earth and filled them with countless blessings for our sustenance, that may He always grant our Queen, whose generous rule comprises many sovereign states and commonwealth nations, with peace, tranquillity and security.Just as Her Majesty is loved and respected by all her subjects, old and young, it is our prayer that Her Majesty comes to be loved by the Angels of God.May the All-Powerful and Mighty God shower Her Majesty generously with His countless spiritual bounties and blessings, just as He has granted her with worldly blessings in abundance.Through these blessings, may all citizens of this great nation be enabled to recognise the Supreme Lord and come to live in mutual love and affection.Irrespective of colour, creed, nationality or religion may all citizens of the United Kingdom show respect and honour to one another, to such a degree, that the positive impact and influence of this attitude extends beyond these shores and spreads to the people of other countries of the world also.May the world, much of which today is embroiled in wars, disorder and enmities instead become a haven of peace, love, brotherhood and friendship.It is my strong belief that the vision and efforts of Her Majesty can play a prominent role towards achieving this critical and overarching objective.In the last century, two World Wars were fought in which millions of lives were lost.If today grievances between nations continue to increase, it will ultimately lead to the outbreak of another World War.The likely use of nuclear weapons in a World War will mean that the world
229 عالمی راہنماؤں کو خطوط will witness untold and horrifying destruction.May God prevent such a catastrophe from occurring and may all people of the world adopt wisdom and sense.It is my humble request to Her Majesty to use the joyous celebration of the Diamond Jubilee, as a favour to mankind, to remind all people that all nations, whether large or small, should come to live in mutual love, peace and harmony.In this context, on the auspicious occasion of the Diamond Jubilee, I would also humbly request.Iler Majesty to give the world the message that the followers of any religion, and even those who do not believe in God, should always respect the sentiments of the people of any other faith.Today, misconceptions regarding Islam are prevalent in the world.This on the one hand wounds the sentiments of peace-loving Muslims, whilst on the other, develops contempt and mistrust against Islam in the hearts of non-Muslims.Thus, it will be an act of great kindness and a favour to the followers of all religions, and indeed the entire world, if Her Majesty counsels all people to be respectful to religions and their followers.May the Noble Lord provide Ilis Help and Succour to our Queen in the fulfilment of this objective.As I mentioned at the beginning of this letter, I am the lead of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community.In this regard, I would like to provide a very brief overview of our Community.The Ahmadiyya Muslim Community firmly believes that the Promised Messiah and Reformer who, according to the prophecies of the Iloly Prophet Muhammad (peace be upon him) and past Prophets was destined to appear in this age, is none other than Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad of Qadian (peace be upon him).In 1889, he founded a pure and righteous community-the Ahmadiyya Muslim Community.His purpose for forming this Community was to establish a relationship between man and God and to incline people towards fulfilling the rights of one another so that they can live in mutual respect, and in goodwill.When Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad (peace be upon him) passed away in 1908, he had approximately 400,000 followers.After his demise, the system of Khilafat was established in accordance with the Divine Will and currently, this humble servant of God is the Fifth Khalifa of the Promised Messiah (peace be upon him).Thus, the Ahmadiyya Muslim Community endeavours to further the mission of its Founder throughout the world.Our message is one of love, reconciliation and brotherhood and our motto is "lawe for All, Hatred for None'.Indeed, this embodies the beautiful teachings of Islam in a nutshell.It would be pertinent to mention here that it is a pleasant coincidence that during the era of the Founder of the Ahmadiyya Muslim Community, the Diamond Jubilee of Her Majesty, Queen Victoria, was celebrated.At the time, the Founder of the Ahmadiyya Community wrote a book, called A Gift for the Queen, in which he wrote a message of congratulations to Queen Victoria.In his message, Hadhrat Mirza Ghulam Ahmad (peace be upon him) congratulated the Queen on her Diamond Jubilee, and for the manner in which all subjects under her rule, including the people of the Sub-Continent of India, were provided with justice and religious freedom and lived in peace.He presented the beautiful teachings of Islam and elucidated the purpose of his advent and claim.Although the people of the Sub-Continent have now been granted independence by the British Government, the fact that in Britain the Government has allowed people of diverse backgrounds and religions to live here, and has granted them all equal rights, freedom of religion and freedom to express and to propagate their beliefs, is ample proof of Britain's very high levels of tolerance.
230 30 Today, there are thousands of Ahmadi Muslims living in the United Kingdom.Many of them have fled here to seek refuge from the persecution they faced in their own countries.Under the generous rule of Her Majesty, they enjoy a peaceful life in which they receive justice, and freedom of religion.For this generosity, I would like to once again express my gratitude from my heart to our noble Queen.I shall conclude my letter with the following prayer for Her Majesty, which is virtually the same prayer that was offered by the Founder of the Ahmadiyya Muslim Community for Her Majesty, Queen Victoria: "O Powerful and Noble God! Through your Grace and Blessings keep our honoured Queen forever joyful, in the same way that we are living joyfully under her benevolent and benign rule.Almighty God! Be kind and loving to her, in the same way that we are living in peace and prosperity under her generous and kind rule." Further, it is my prayer that may God the Exalted guide our honoured Queen in a manner that pleases Ilim.May God the Almighty also guide the progeny of Iler Majesty to become established on the Truth and to guiding others towards it.May the attributes of justice and freedom continue to remain the guiding principles of the British Monarchy.I once again congratulate Her Majesty from my heart on this occasion of great joy.I present my heartfelt and sincere congratulations to our noble Queen.With best wishes and with prayers, Yours Sincerely, MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عزت مآب ملکہ عالیہ الزبتھ ثانی بکنگھم پیلیس لندن 14 SW1A عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم جناب عالیه! جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ کی حیثیت سے نیز دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مسلم جماعت کے کروڑوں افراد کی طرف سے ڈائمنڈ جوبلی کے پر مسرت موقع پر میں ملکہ معظمہ کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.ہم اللہ تعالیٰ کے انتہائی شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں خوشی کے اس شاندار موقع میں شمولیت کی توفیق دی.بالخصوص تمام احمدی مسلمان جو برطانیہ کے شہری ہیں ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر بہت خوشی اور فخر محسوس کر رہے ہیں.میں ان کی طرف سے ملکہ معظمہ کو پُر خلوص دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری فراخ دل ملکہ کو ہمیشہ خوش و خرم رکھے.آمین میں زمین و آسمان کے خالق اور پھر انہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کرنے والے خدائے عظیم سے دُعا گو ہوں کہ وہ ہمیشہ ہماری ملکہ کو امن اور سکون عطا فرمائے اور ہر ایک شر سے محفوظ رکھے.ہماری ملکہ کی فیاضانه فرمانروائی متعدد آزادریاستوں اور دولت مشترکہ کے ممالک پر پھیلی ہوئی ہے.جس طرح ملکہ کی رعایا کیا بوڑھے اور کیا بچے ملکہ سے محبت رکھتے اور عزت کرتے ہیں اسی طرح میری دُعا ہے کہ خدا کے فرشتے بھی ملکہ سے محبت کریں.جس طرح خدا تعالیٰ نے ملکہ کو بے انتہا د نیوی نعما عطا کی ہیں اسی طرح وہ عزیز و قدیر آپ پر بے انتہا روحانی افضال اور برکات بھی نازل فرمائے.اللہ کرے کہ انہی برکات کے طفیل اس عظیم مملکت کے باسی خدائے بزرگ و برتر کی معرفت پائیں اور باہمی پیار، محبت اور اخوت سے زندگی گزار ہیں.رنگ ونسل اور مذہب وملت کی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے ایسی عزت اور احترام سے پیش آئیں کہ اس 231 231
232 رویہ کا مثبت اثر یہاں سے نکل کر دیگر ممالک کے باشندوں میں بھی نفوذ کر جائے.خدا کرے کہ جنگ، بدامنی اور دشمنیوں میں گھری ہوئی دُنیا امن، محبت، اخوت اور اتحاد کا گہوارہ بن جائے.مجھے یقین کامل ہے کہ ملکہ معظمہ کی سوچ اور سعی اس اہم اور عالی مقصد کے حصول کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتی ہے.گزشتہ صدی میں دو عالمی جنگیں لڑی گئیں جن میں کروڑوں جانیں ضائع ہوئیں.اگر آج اقوام عالم میں رنجشیں اسی طرح بڑھتی رہیں تو بالآخر ایک اور عالمی جنگ پر منتج ہوں گی.ایسی عالمی جنگ جس میں کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کا مطلب دنیا کی نا قابل بیان تباہی و بربادی ہوگا! خدا ایسی تباہی سے بچائے اور خدا کرے کہ ہر کوئی عقل و دانش مندی سے کام لے.میں ملکہ معظمہ سے ملتمس ہوں کہ ڈائمنڈ جوبلی کے اس پُر مسرت موقع کو بنی نوع انسان کے لیے ایک کے اور ، انعام کے طور پر استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو نصیحت کریں کہ بڑے اور چھوٹے تمام ممالک باہمی محبت ، امن اور رواداری کو فروغ دیں.اس سلسلہ میں ڈائمنڈ جوبلی کے اس مبارک موقع پر میں ملکہ معظمہ سے یہ بھی عاجزانہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ دنیا کو پیغام دیں کہ خواہ وہ کسی مذہب کے پیروکار ہیں یا د ہر یہ ہیں ہر صورت میں ایک دوسرے کے جذبات کا احترام کریں.آج اسلام کے متعلق غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں.ایک طرف تو اس سے امن پسند مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور دوسری طرف غیر مسلموں کے دل میں اسلام کے بارہ میں نفرت اور بد اعتمادی پنپتی ہے.اگر ملکہ معظمہ تمام لوگوں کو ہر مذہب اور ہر مذہب کے پیروکاروں کی عزت کرنے کا مشورہ دیں تو یہ ان کا احسان عظیم ہو گا.اللہ تعالیٰ ہماری ملکہ کی تائید و نصرت فرمائے.میں نے خط کے شروع میں ذکر کیا کہ میں عالمگیر جماعت احمدیہ مسلمہ کا سر براہ ہوں.جماعت احمدیہ مسلمہ کا مختصر تعارف حسب ذیل ہے.جماعت احمدیہ مسلمہ اس عقیدہ پر مضبوطی سے قائم ہے کہ وہ
عالمی راہنماؤں کو خطوط 233 مسیح موعود اور امام مہدی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور گزشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کے مطابق موجودہ زمانہ میں ظاہر ہونا تھا وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام ہی ہیں.آپ نے 1889ء میں ایک پاک اور متقی جماعت کی بنیاد رکھی اور اس کا نام جماعت احمدیہ سلمہ رکھا.اس جماعت کی تشکیل کا مقصد انسان اور خدا کے مابین زندہ تعلق قائم کرنا اور لوگوں کو حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف متوجہ کرنا تھا تا کہ ہر انسان باہمی احترام اور خیر سگالی کے جذبہ کے تحت زندگی بسر کرے.1908ء میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی وفات ہو گئی.اُس وقت احباب جماعت کی تعداد چار لاکھ تھی.آپ کی وفات کے بعد الہی منشا کے مطابق خلافت کا نظام جاری ہوا اور اس وقت خدا کا یہ عاجز بندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پانچوں خلیفہ ہے.جماعت احمد یہ مسلمہ اپنے بانی کے مشن کو تمام دُنیا میں پھیلانے کے لیے کوشاں ہے.ہمارا پیغام محبت صلح اور اخوت ہے.نیز ہمارا نصب العین ”محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں!“ ہے.یہ دراصل اسلام کی خوبصورت پا کیز تعلیم کا خلاصہ ہے.یہاں یہ ذکر بھی برمحل ہوگا کہ یہ ایک حسین اتفاق ہے کہ بانی جماعت احمدیہ مسلمہ کے دور میں ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی تھی تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اُس وقت ایک کتاب لکھی جس کا نام ” تحفہ قیصریہ ہے.اس کتاب میں آپ نے ملکہ کو اس بات پر مبارک باد کا پیغام بھیجا کہ ان کے عہد حکومت میں برصغیر میں انصاف، مذہبی آزادی اور پُر امن فضا قائم ہو چکی تھی.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے اسلام کی خوب صورت تعلیم اور اپنی بعثت کا مقصد اور دعاوی کوکھول کر بیان کیا.اگر چہ فی زمانہ برصغیر پر برطانیہ کی حکومت نہیں لیکن یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ حکومت برطانیہ نے مختلف قومیت اور مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو مساوی حقوق ، آزادی مذہب، آزادی اظہار اور اپنے عقاید کی تبلیغ کی اجازت کے ساتھ اپنے ملک میں رہنے کی اجازت دے رکھی ہے.یہ برطانیہ کی قوت برداشت کے اعلیٰ معیار کا کافی وشافی ثبوت ہے.آج برطانیہ میں ہزاروں احمدی مسلمان بس رہے ہیں.ان میں سے اکثر اپنے ممالک سے جان بچا کر
234 یہاں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور ملکہ کی فیاض فرماں روائی میں وہ ایک پُر امن زندگی بسر کر رہے ہیں جس میں انہیں انصاف اور مذہبی آزادی حاصل ہے.اس دریادلی پر میں ایک بار پھر ملکہ عالیہ کانہ دل سے شکر گزار ہوں.میں اپنے خط کو ملکہ عالیہ کے لیے اس دُعا پر ختم کرتا ہوں جو حضرت بانی سلسلہ نے ملکہ وکٹوریہ کے لیے کی تھی: ”اے قادر وکریم اپنے فضل سے ہماری ملکہ معظمہ کو خوش رکھ جیسا کہ ہم اس کے سایہ عاطفت کے نیچے خوش ہیں اور اس سے نیکی کر جیسا کہ ہم اس کی نیکیوں اور احسانوں کے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں.“ میری یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ملکہ عالیہ کی اس طور سے راہنمائی فرمائے جس سے وہ راضی ہو جائے.اللہ تعالی ملکہ عالیہ کی نسل کی بھی راہنمائی کرے کہ وہ سچ پر قائم ہو جائیں اور دوسروں کے حقوق کی طرف راہنمائی کریں.خدا کرے کہ انصاف اور آزادی جیسی خوبیاں سلطنتِ برطانیہ کا طرہ امتیاز رہیں.اس نہایت پُر مسرت موقع پر میں ایک بار پھر ملکہ عالیہ کو تہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں.میں دعا گو ہوں کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے دُنیا کو امن اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اپنے خالق کو پہچاننے میں اپنا کردار ادا کریں.ہماری دُعا اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تباہی سے بچالے.آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 19-04-2012
اسلامی جمہوریہ ایران کے راہنما کے نام خط
اسم الله العالم العليم تحتا، وَتُصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ والفعل بن مالك علما نصية نا فتح لك متحاني الله باد MIRZA MASFOOR AHMAD HEAD OF THE AHMADIYYA COMM IN ISLAM Supreme Leader of the Islamic Republic of Iran Ayatollah Syed Ali Hosseini Khamenei Tehran, Iran 236 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 14 May 2012 Respected Ayatollah, Assalamo Alaikum Wa Rahmatullahe Wa Barakatohu, Allah the Almighty has enabled you to serve Islam in Iran and presently, the Government of Iran also functions under your auspices.This requires that we strive to our utmost to convey the correct Islamic teachings to the world.As Muslims, we should endeavour to teach the world to live in peace, love and harmony.In particular, Muslim leaders need to urgently pay heed to this.For this reason, it is my request to you to draw the attention of your Government towards its responsibilities to establishing peace in the world.If Iran is attacked it has the right to defend itself to save the country, however it should not instigate aggression and take the first step forward into any conflict.Instead, an effort should be made to leave aside religious differences and to try and unite upon common values.It is this very approach that we find was adopted in the history of Islam.I am writing this letter to you for the reason that I am a believer, Successor and the Khalifa of the Promised Messiah and Imam Mahdi (peace be upon him), whose advent in this age was prophesied by the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him).The Community he established is known as the Ahmadiyya Muslim Community.With the Grace of Allah, the Community has now spread to 200 countries of the world and has millions of devoted followers across the globe.It is our ardent desire to guide the world towards living in mutual love and peace.To this end, I constantly draw the attention of people from all walks of life.Hence, I recently wrote to the Prime Minister of Israel, the President of the United States of America and also other world leaders.I have also written to Pope Benedict XVI in this regard.As the spiritual leader of a large Islamic nation, I hope that you will come to agree that if the entire Muslim Ummah unites and works together, world peace can be established.We should not pointlessly add fuel to enmities and grudges, rather, we should search for opportunities to establish peace and tranquillity.Further, even enmity or opposition against others should not be devoid of justice.This is what we have been taught in the Holy Qur'an:
237 عالمی راہنماؤں کو خطوط 'O ye who believe! be steadfast in the cause of Allah, bearing witness in equity; and let not a people's enmity incite you to act otherwise than with justice.Be always just, that is nearer to righteousness.And fear Allah.Surely, Allah is aware of what you do.' (Surah Al-Ma'idah, Verse 9).May Allah enable the entire Muslim Ummah and all Muslim governments to understand my message so that they prepare themselves to play their respective roles in an effort to establish peace in the world.It is my love for mankind, developed out of a love for the entire Muslim Ummah, and also because of being a member of the Ummah of the 'Mercy for all mankind' myself, that has led me to writing this letter.May Allah enable the leaders of the world to understand my words and may they actively play a role in establishing world peace.Otherwise, if the haste and recklessness of any nation leads to a full blown war between two nations, such a conflict will not be limited to only those countries; rather the flames of war will engulf the entire world.Thus, it is entirely plausible that a World War will break out, which will not be fought with conventional weapons, but rather with atomic weapons.A nuclear war will result in such horrific and devastating consequences that its aftermath will not only affect those present in the world at the time, rather the long-term effects of such a war would provide the terrifying 'gift to future generations of being born with disabilities and defects.For this reason, no country should assume they are safe from the impending destruction.Therefore, once again, in the name of Allah and His Messenger and out of compassion and love for humanity, I request you to play your role in establishing peace in the world.With best wishes and with prayers, Wassalam, Yours Sincerely, 2.take MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم 239 سر پرست اعلیٰ اسلامی جمهوری ایران آیت اللہ علی حسینی خامنئی تهران - ایران محترم آیت اللہ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایران میں خدمت اسلام کی توفیق بخش رہا ہے.نیز آج کل آپ ایرانی حکومتی مشینری کی سر پرستی کا فریضہ بھی ادا کر رہے ہیں.یہ ذمہ داریاں متقاضی ہیں کہ ہم مخلصانہ کوشش کے ساتھ دُنیا کو اسلام کی حقیقی تعلیم سے روشناس کرائیں.ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو امن، محبت اور اخوت کے ساتھ جینا سکھائیں.مسلمان زعماء کا اس طرف فی الفور متوجہ ہونا از بس ضروری ہے.مجھے امید ہے کہ آپ اپنی حکومت کی توجہ اس طرف مبذول کروائیں گے کہ وہ امنِ عالم کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں کما حقہ ادا کرے.اگر ایران پر حملہ ہوا تو ایران اپنے دفاع کا پورا پورا حق رکھتا ہے لیکن اشتعال کو ہوا دینا اور جھگڑوں میں آگے بڑھ جانا مناسب نہیں.مناسب ہوگا کہ مذہبی اختلافات بھلا کر اتحاد کی کوشش کی جائے اور مشترک اقدار تلاش کی جائیں کیونکہ تاریخ اسلام میں ہمارے اسلاف کا یہی طرز عمل دکھائی دیتا ہے.میں مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو خط لکھ رہا ہوں جن کی بعثت کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی.آپ کی قائم کردہ جماعت ، جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر ہے.آج اللہ کے فضل سے یہ جماعت دُنیا کے دوسو سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے اور اس
240 کے پیروکار کروڑوں کی تعداد میں دنیا بھر میں موجود ہیں.ہم دُنیا کو باہمی محبت اور امن کے ساتھ جینے کا طریق سکھانے میں تن دہی سے مصروف ہیں.اس مقصد کے حصول کے لیے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ لوگوں کو متوجہ کرتا رہتا ہوں.میں نے حال ہی میں اسرائیل کے وزیر اعظم ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدر اور دیگر عالمی سربراہان کو خطوط لکھے ہیں.نیز اسی تعلق میں پوپ بینیڈکٹ XVI کو بھی پیغام بھجوا چکا ہوں.ایک بہت بڑی مسلم قوم کے رُوحانی سربراہ کی حیثیت سے آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اگر تمام مسلمان امت متحد ہو جائے اور مل جل کر کام کرے تو امن عالم کا قیام چنداں مشکل نہیں.ہمیں کبھی بھی بلاوجہ کی دشمنیوں اور عداوتوں کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے بلکہ قیام امن و آشتی کے مواقع پیدا کرنے چاہئیں.کسی کی دشمنی اور مخالفت کو کبھی بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے دینا چاہیے.قرآن کریم میں یہی تعلیم دی گئی ہے: ”اے ایمان دارو! تم انصاف کے ساتھ گواہی دیتے ہوئے اللہ کے لیے ایستادہ ہو جاؤ.اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہر گز اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ تم انصاف نہ کرو تم انصاف کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقوی اختیار کرو.جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے یقیناً آگاہ ہے.“ (المائدہ:9) اللہ تعالی تمام امت مسلمہ اور مسلم حکومتوں کو میرا پیغام سمجھنے کی توفیق بخشے تا وہ امن کے قیام کی کوششوں میں اپنا مثبت کردار احسن طریق پر ادا کرنے کے قابل ہو جائیں.چونکہ میں بھی رحمہ للعالمین کی اُمت کا ایک فرد ہوں اس لیے بنی نوع انسان سے محبت اور اُمت مسلمہ کے لیے ہمدردی نے مجھے ابھارا کہ میں آپ کو خط لکھوں.اے خدا! تو مسلمان سربراہوں کو توفیق بخش کہ وہ میری بات سمجھیں اور امنِ عالم کے قیام میں پورے اخلاص کے ساتھ اپنا کردار ادا کریں ورنہ کسی ایک قوم کی جلد بازی با لا پرواہی دو ممالک کے درمیان خون ریز جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے.پیش آمدہ جنگ کو محض دو ممالک کی جنگ سمجھنا ہماری خام خیالی ہوگی کیونکہ جنگ کے شعلے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے.پس نوشتہ دیوار کو سمجھیں کہ اگر اب عالم گیر جنگ چھڑی تو وہ محض روایتی ہتھیاروں کی لڑائی نہیں ہو
241 عالمی راہنماؤں کو خطوط گی بلکہ اس میں ایٹمی ہتھیاروں کا بھی استعمال ہو گا اور جب محارب اقوام اپنے ایٹمی اثاثوں کا منہ کھولیں گی تو وہ المناکی اور بربادی پھیلے گی کہ صرف موجودہ نسل ہی اس سے متاثر نہیں ہوگی بلکہ آنے والی نسلیں بھی مدت دراز تک جسمانی عوارض اور معذوری کے تحائف لے کر ہی جنم لیں گی.پس کسی ملک کا خود کو محفوظ سمجھنا خام خیالی ہے.میں آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کا واسطہ دے کر ہمدردی خلق اور محبت کی وجہ سے استدعا کرتا ہوں کہ خدا را! امنِ عالم کے قیام کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کریں.نیک تمناؤں کے ساتھ والسلام آپ کا خیر خواہ مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 14-05-2012
صدر روسی فیڈ ریشن کے نام خط
獎 الحمد، وتُصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر انا فتحت لك امتحاني MRZA MASHOOR AHMAD HEAD OF THE AHMADITYA COMMUNITY IN LAM His Excellency Mr.Vladimir Putin President of the Russian Federation The Kremlin 23, Ilyinka Street, Moscow 103132 Russia Dear Mr President, 16 Gressenhall Road Southfields, London SW18 SQL, UK 18 September 2013 I am writing this letter to you as the Head of the Ahmadiyya Muslim Community, an entirely peace-loving and peace-promoting community spread across 204 countries of the world.Due to the prevailing circumstances in the world, I have been reminding the people of the world in my different discourses and addresses, their duty and responsibilities towards their Creator and their fellow beings.Regrettably, I did not have the chance to speak to you directly.however the present day escalating situation in Syria has prompted me to write to you and commend your effort in bringing the world together onto a table of dialogue rather than the battlefield.An attack would risk a war not only in the region but could have led to a world war.I was therefore very pleased to read your recent article in a major Western newspaper in which you highlighted that such a course of action was extremely dangerous and could lead to the war spreading.Due to your stand, the major powers have refrained and have adopted a more conciliatory stance, agreeing to resolve this issue through diplomatic channels.Certainly, I believe that this has saved the world from a colossal and huge destruction.I particularly agreed with your point that if countries decided to act independently and made unilateral decisions then the United Nations would suffer the same fate as the League of Nations and would fail.Certainly, the sparks of war recently ignited but thankfully they now seem to have subsided somewhat.May God the Almighty enable the risk of war to be eliminated altogether as a result of the positive step that has been taken.May the major powers come to care and respect the smaller nations and fulfil their due rights, rather than only being concerned for their own powers of veto.244
245 عالمی راہنماؤں کو خطوط In any case, your efforts towards establishing peace have obliged me to write this letter of thanks to you.I pray that this is not a temporary effort, but rather I hope and pray that you always make efforts towards peace, May Allah enable you to achieve this.For the sake of world peace, wherever I have the opportunity, I draw the attention of people towards establishing peace through justice.Some of my addresses have been published in a book entitled, World Crisis and Pathway to Peace.I am enclosing a copy of this book as a gift for you.With best wishes and with prayers, MIRZA MASROOR AHMAD Khalifatul Masih V Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community
عالمی راہنماؤں کو خطوط بسم اللہ الرحمن الرحیم 247 عزت مآب جناب صدر ریاست ہائے متحدہ روس کریملن 23.الین کا سٹریٹ، ماسکو.103132 روس.محترم صدر صاحب! میں آپ کی خدمت میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے سربراہ کی حیثیت سے یہ خط لکھ رہا ہوں.دوصد چار ممالک میں پھیلی ہوئی یہ جماعت دنیا بھر کو امن کا گہوارہ بنانے کی خواہاں ہے.موجودہ حالات کے پیش نظر میں اپنے خطبات اور خطابات میں بلا امتیاز ہر ایک کو خالق حقیقی کی طرف سے عاید کردہ ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں.افسوس کہ مجھے آپ سے براہِ راست مخاطب ہونے کا بھی موقع نہیں ملا.تاہم شام کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور آپ کی قابل تحسین کوشش نے مجھے آپ کو یہ خط لکھنے پر آمادہ کیا جب آپ نے دنیا کو میدان جنگ میں کودنے کی بجائے باہمی بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دلائی ہے.کسی ملک کے خلاف جارحیت نہ صرف اُس خطہ میں جنگ کا باعث بن سکتی ہے بلکہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے.اس حوالہ سے ایک مؤقر مغربی اخبار میں آپ کا حالیہ مضمون پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی جس میں آپ نے نشان دہی کی ہے کہ ایسا طرز عمل انتہائی خطرناک اور جنگ کے شعلوں کو ہوا دینے والا ہو گا.آپ کے اس واضح اور امن پسند مؤقف کی وجہ سے بڑی بڑی طاقتیں اس سے باز رہیں اور انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے ساتھ سفارت کاری کے ذریعہ گفت و شنید کا راستہ اختیار کیا.میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ آپ کے اس بر وقت قدم نے دنیا کو در پیش ایک بہت بڑی تباہی سے بچالیا ہے.
248 میں آپ کے اس نقطہ نظر کی بھر پور تائید کرتا ہوں کہ اگر مختلف ممالک آزادانہ طور پر اپنی مرضی کے فیصلے کرنا شروع کر دیں تو پھر اقوام متحدہ بھی لیگ آف نیشنز جیسے حالات کا شکار ہوکر یکسر نا کام ہو جائے گی.جنگ کے یقینی شعلے بھڑک اُٹھے تھے لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ اب کسی حد تک ماند پڑ گئے ہیں.اللہ کرے کہ ان مثبت اقدام کی وجہ سے جنگ کے خطرات ہمیشہ کے لیے معدوم ہو جائیں.خدا کرے کہ بڑی طاقتیں صرف ویٹو کا حق استعمال کرنے کی بجائے چھوٹی اقوام کے حقوق بھی حفاظت اور احترام کے ساتھ ادا کرنے والی ہوں.بہر حال آپ کی قیامِ امن کی کوششوں نے مجھے ترغیب دلائی کہ میں آپ کو خط لکھ کر آپ کا شکر یہ ادا کروں.میں دعا کرتا ہوں کہ آپ کی یہ کوشش عارضی ثابت نہ ہو بلکہ مجھے امید ہے اور میں آپ کے لیے دُعا گو ہوں کہ آپ ہمیشہ امن قائم کرنے کی کوششوں میں لگے رہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس مقصد میں کامیابی عطا فرماتا رہے.آمین امنِ عالم کی خاطر جب بھی مجھے موقع ملتا ہے میں لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا رہتا ہوں کہ امن انصاف کے ذریعہ سے قائم ہو سکتا ہے.میرے کچھ خطابات کتابی صورت میں بعنوان ” شائع ہو چکے ہیں.اس کتاب کا ایک نسخہ میں اس خط کے ساتھ آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں.دعاؤں اور نیک تمناؤں کے ساتھ.مرزا مسرور احمد خلیفة المسح الخامس امام جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر 18-09-2013