Urdu Book 4

Urdu Book 4

اُردو کی کتب (کتاب چہارم)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

اُردوكى کتاب چهارم محمد حمید کوثر پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان

Page 2

اردو کی کتاب چهارم مولانا محمد حمید کوثر $2009 $2017 1000 فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا ، 143516 نام کتاب: مرتبه اشاعت بار اول (انڈیا): اشاعت ھذا بار دوم ( انڈیا ): تعداد: Name of the Book: Urdu ki kitab-e- Chaharam Muhammad Hameed Kousar Compiled by: First edition India: 2009 Present edition India: 2017 Quantity: 1000 Printed at: Published by: مطبع ناشر Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم ضروری ہدایات قابل احترام اساتذہ ، وعزیز طلباء!! ”اردو کی کتاب چہارم " جو آپ کے سامنے ہے، اگر آپ مندرجہ ذیل ہدایات کو محوظ رکھیں گے ، جب آپ اس کتاب سے احسن رنگ میں استفادہ کر سکیں گے.خاکسارا اپنے تجربہ کی بنا پر تحریر کر رہا ہے کہ ، ان چار کتب کے مسودات کے ذریعہ ایسے طلباء کو چھ ماہ میں اُردو سکھائی گئی ہے جو کہ اُردو کا ایک لفظ بھی نہ جانتے تھے.اس مقصد کے حصول کے لئے درج ذیل ہدایات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے.ا سب سے پہلے استاد ہر سبق کو عمدہ اور صحیح تلفظ کے ساتھ بلند آواز سے پڑھ کر سنائے اور طلباء کتاب سامنے رکھ کر بغور سنیں اور دیکھیں.- ہر سبق کو کم از کم پانچ بار بلند آواز سے پڑھیں اور ہر جملے پر غور کریں کہ اسے کیسے تشکیل دیا گیا ہے.کس چیز کو مذکر اور مؤنث کہاں واحد وجمع استعمال کیا گیا ہے.ہر سبق کو پڑھنے کے بعد از خود اُس کے مضمون کو زبانی بیان کریں اس سے آپ میں پڑھ کر بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور آئندہ تقریر کرنے کا ملکہ بھی پیدا ہو گا.- ہر سبق کو بار بار لکھ کر اپنی تحریر کو خو بصورت بنا ئیں.

Page 4

-۵ استاد ہر سبق کے ابتدائی اور آخری ایک دوصفحات کی املاء لکھوائے اور غلطیوں کی تصحیح کرے.-7 ہر سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں.اگر اس مرحلہ میں آپ نے خلاصہ لکھنانہ سیکھا تو آئندہ انتہائی دقت کا سامنا کرنا ہوگا.-2 مشکل الفاظ کے معانی اچھی طرح ذہن نشین کریں.نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں اس سے آپ کو جملے تشکیل دینے کی مشق ہوگی.نظموں کی نثر وضاحت سے لکھیں.یہ بھی انتہائی ضروری ہے.مذکورہ بالا ہدایات پر عمل کرنے سے طلباء بہت حد تک اردو پر عبور حاصل کر لیں گے.اِن شاءَ الله تعالى - خاکسار محمد حمید کوثر

Page 5

اللہ سبحانہ وتعالیٰ فہرست عناوین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم عناوین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام خلافت احمدیہ صفحہ نمبر ۱۳ ۱۹ ۲۴ ۲۹ ۳۵ ۴۵ ۵۳ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد الصلح الموعود خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ۶۳ میرالدین دلیل سن الثانی الدمعه حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ مرز ۷۴ ۸۰ ۶ L ۹ 1.11 ۱۲

Page 6

۹۲ ۹۸ ± ۱۱۲ ۱۲۶ ۱۳۱ ۱۳۵ f f ۱۳۹ ۱۴۵ ۱۵۱ ۱۴ ۱۵ ۱۶ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اصبح الخامس نصر اللہ نظر اعز يا نظام جماعت احمدیہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کی عظیم شہادت مساوات کا اعلیٰ نمونہ ۱۷ دُعا کے قبول نہ ہونے کی صورت میں حکمت الہی ۱۹ ۲۱ ۲۲ اطاعت وفرمانبرداری کا قابل تقلید نمونہ وہ چراغ جلتا ہے ہمارا وطن ہندوستان طلباء جامعہ احمدیہ کا سفر دہلی نظم ۱۶۷ ۱۷۰ ۱۷۳ 122 ۱۸۰ ۱۸۳ نظم نظم نظم خلافت سے وابستگی کا مقدس عہد مکر یہ احباب ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ N ۲۷

Page 7

سبق نمبر : 1 ▬▬▬▬▬▬▬▬ اُردو کی کتاب چهارم الله سُب الاله لنة وتعالى عزیز طلباء !! اردو کی کتاب چہارم کی ابتداء اس عظیم شخصیت کی تحریر سے کی جارہی ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے امام مہدی“ بنایا اور سلطان القلم کے لقب سے سرفراز فرمایا اس کا بغور مطالعہ کریں اور عبارت کے عمق کو سمجھنے کی کوشش کریں: ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری الذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس ؤف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سُن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.(روحانی خزائن جلد ۱۹، کشتی نوح صفحه ۲۱ ۲۲) اے سننے والو! سنو! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُسی کے

Page 8

اُردو کی کتاب چهارم ہو جاؤ.اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں.ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا.یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے.اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی.وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے با وجود دور ہونے کے اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے...وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نیچے کوئی اور بھی ہے اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں.وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا اور سر چشمہ ہے تمام خوبیوں کا اور جامع ہے تمام طاقتوں کا اور مبداء ہے تمام فیضوں کا اور مرجع ہے ہر ایک شئے کا اور مالک ہے ہر ایک ملک کا اور متصف ہے ہر ایک کمال سے اور منزہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے.اور مخصوص ہے اس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اسی کی عبادت کریں.(رساله الوصیت صفحه اروحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۹)

Page 9

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.بہشت اعلی لذات لعل - چشمه - منادی - معطل - عرش - مجمع صفات کاملہ - مظہر - محامد حقہ - مبداء - مرجع - متصف - منزه جوابات لکھیں - (1) اللہ تعالیٰ میں کون سی اعلیٰ لذات ہیں؟ (۲) دف کیا ہوتی ہے اور کس مقصد کے لئے استعمال کی جاتی ہے؟ (۳) خدا تعالیٰ انسانوں سے کیا چاہتا ہے؟ (۴) اللہ تعالیٰ کی کن صفات کا حضرت مسیح موعود نے مذکورہ عبارت میں ذکر فرمایا ہے؟ (۵) اس سبق میں اللہ تعالیٰ کی کون کون سی صفات بیان کی گئی ہیں؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس سبق کا کچھ حصہ بطور املا لکھوائے.

Page 10

پید سبق نمبر :۲ اُردو کی کتاب چهارم حياة النبی صلی اللہ علیہ وسلم یدائش بچپن اور جوانی : مقدس بانی اسلام سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۱۲ ربیع الاول مطابق ۱۲۰ اگست ۵۷۰ عیسوی کو یا ایک جدید اور غلباً صحیح تحقیق کی رو سے ۹ ربیع الاول مطابق ۲۰ را پریل اے ۵ بروز پیر بوقت صبح پیدا ہوئے.آپ مقبیلہ قریش کی مشہور شاخ بنو ہاشم کے چشم و چراغ تھے.والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ تھا.والد محترم آپ کی پیدائش سے قبل ہی فوت ہو گئے اور آپ یتیم رہ گئے.اس طرح آپ کی پرورش کی عظیم ذمہ داری آپ کے دادا اور مکہ کے سردار عبدالمطلب نے سنبھالی.آپ ابھی چھ ماہ کے تھے کہ مکہ کے دستور کے مطابق پرورش کے لئے آپ کو دائی حلیمہ کے سپرد کیا گیا اور حضور ان کے گھر چار پانچ برس تک رہے.جب سوا چھ برس کے ہوئے تو مادر مشفق کا سایہ بھی سرسے اٹھ گیا.پھر آپ اپنے دادا کی کفالت میں آگئے جنہوں نے نہایت محبت و پیار سے آپ کی پرورش کی.ابھی دو سال بھی گذرنے نہ پائے تھے کہ دادا بھی رحلت فرما گئے.دادا کی خواہش کے لے : بحوالہ سیرت خاتم النبین ہ مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے صاحب ،صفحہ ۹۳ مطبوعہ نظارت نشر و اشاعت قادیان.

Page 11

اُردو کی کتاب چهارم مطابق آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کو اپنی آغوش تربیت میں لے لیا.اور نهایت محبت و پیار اور توجہ سے آپ کی خبر گیری کی.بارہ برس کی عمر میں آپ نے اپنے شفیق چچا ابو طالب کے ساتھ شام کا پہلا سفر کیا.آپ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے تاہم کاروبار کے طور طریقوں سے خوب واقف ہو گئے.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی پاکیزگی دیانت اور امانت اور خوش خلقی پائی جاتی تھی.لین دین کے کھرے اور سچائی کے پابند تھے.اسی وجہ سے آپ صادق اور امین کہلاتے تھے.انہی پاکیزہ خصائل کی وجہ سے مکہ کی ایک مالدار بیوہ حضرت خدیجہ نے آپ سے شادی کر لی.اس شادی کے وقت آنحضور کی عمر پچیس برس اور حضرت خدیجہ کی عمر چالیس سال تھی.حضرت خدیجہ کی اولاد میں حضرت فاطمہ سب سے زیادہ مشہور ہیں.آنحضرت کی بعثت : حضرت خدیجہ سے نکاح کے بعد آپ اپنی دولت غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی اعانت میں صرف کیا کرتے.اپنے فراغت کے اوقات عبادت اور ذکر الہی میں صرف کیا کرتے مکہ کے قریب ایک پہاڑی کی کھوہ تھی جسے غارِ حرا کہتے ہیں

Page 12

اُردو کی کتاب چهارم آپ اکثر وہاں جا کر تنہائی میں عبادت کرتے اور کئی کئی دن تک وہاں ذکر الہی اور دعاؤں میں مصروف رہتے.جب آنحضور چالیس سال کی عمر کو پہنچے تو تاج رسالت سر پر رکھا گیا اور رمضان کے مبارک مہینہ میں وحی کر سالت سے آپ سرفراز کئے گئے سب سے پہلی وحی جو آپ پر نازل ہوئی وہ یہ تھی: :: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ :: جب حکم ملا کہ خاندان اور قوم کو بت پرستی سے روکیں تو آنحضور نے خاموشی سے تبلیغ شروع کی.تین سال بعد اعلانیہ تبلیغ شروع ہو گئی اور آپ نے پہلے مکہ والوں کو تو حید کا پیغام پہنچایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ مسلمان ہو جاتے ان پر کفار سختیاں کرنے لگتے.خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی ایذائیں دی گئیں حتی کہ آپ کو اپنے خاندان سمیت تین سال تک ایک گھائی میں جسے شعب ابو طالب کہتے ہیں محصور رہنا پڑا.جہاں مکمل طور پر آپ کا بائیکاٹ رہا.آپ کے چا ابوطالب جب تک زندہ رہے وہ آپ کی ہر طرح امداد و حمایت کرتے رہے لیکن نبوت کے دسویں سال ابو طالب کی وفات پر یہ بند بھی ٹوٹ گیا اور قریش کی

Page 13

شرارتوں میں اور اضافہ ہو گیا.مدینہ کی طرف ہجرت : اُردو کی کتاب چهارم جب مکہ میں ایذارسانیاں انتہاء کو پہنچ گئیں اور قریش نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومل کر قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو نبوت کے تیرہویں سال حضور خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابو بکر کی معیت میں رات کے وقت مکہ سے نکلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.مکہ سے چار پانچ میل دور غار ثور میں حضور نے تین دن قیام فرمایا اور پھر مدینہ چلے گئے جو لوگ مدینہ میں رہتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے وہ انصار کہلائے جو مسلمان ایذا رسانیوں سے بچنے کے لئے مدینہ میں آجمع ہوئے وہ مہاجر کہلائے.انصار نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں پناہ دی اور آنحضرت نے دونوں میں بھائی چارہ قائم کردیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے بعد دس سال زندہ رہے جب قریش مکہ نے دیکھا کہ مسلمانوں کو مدینہ میں امن حاصل ہو گیا ہے تو انہوں نے متعدد بار مسلمانوں پر چڑھائی کی اور فوجی طاقت سے اسلام کو مٹانا چاہا.مسلمان بھی خود حفاظتی کیلئے مقابلہ میں کھڑے ہو گئے.چنانچہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوئے جن میں جنگ بدر ، جنگِ اُحد اور جنگ احزاب بہت 2

Page 14

اُردو کی کتاب چهارم مشہور ہیں.جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۳۱۳ تھی اور کفار کی تعداد ایک ہزار تھی.جنگ اُحد میں مسلمانوں کی تعداد ۷۰۰ اور دشمن کی تعداد تین ہزار تھی.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطا کی.۵ ہجری میں یہودیوں نے جن کو ان کی شرارتوں اور بد عہدیوں کی وجہ سے مدینہ سے باہر نکال دیا گیا تھا قریش مکہ کو پھر جنگ کیلئے اکسایا اور دوسرے قبائل کو بھی جنگ پر آمادہ کیا.اس کوشش کے نتیجہ میں دس ہزار کا جرارلشکر مدینہ پر حملہ آور ہوا.آنحضور نے شہر کی حفاظت کے لئے اردگرد خندق کھدوائی.قریبا ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ رہا پھر خدا کی نصرت اس رنگ میں آئی کہ ایک رات تیز آندھی آئی اور جو احزاب مدینہ کے گرد خیمے ڈالے پڑے تھے ان کی روشنیاں بجھ گئیں اور دلوں میں خوف طاری ہو گیا.پھر سارے گروہ (احزاب ) ایک ایک کر کے بھاگ گئے اور اپنے ارادوں میں ناکام رہے یہ جنگ احزاب اور جنگ خندق کہلاتی ہے.صلح حدیده ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رؤیا کی بناء پر خانہ کعبہ کی زیارت ( عمرہ) کا ارادہ کیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوئے.حضور کے ہمراہ تقریبا ڈیڑھ ہزار صحابہ کی ایک جماعت تھی.حدیبیہ کے مقام پر قریش نے آپ کا راستہ

Page 15

اُردو کی کتاب چهارم روک لیا.بالآخر مسلمانوں اور قریش میں ایک معاہدہ طے پایا جو صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے.اس معاہدہ کی بناء پر حضور مدینہ واپس آگئے.بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دب کر صلح کر لی ہے لیکن در حقیقت اس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا راستہ صاف ہو گیا اور سیاسی طور پر مسلمانوں کو ایک الگ قوم تسلیم کرلیا گیا.بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط : جب صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں دس سال تک پر امن رہنے کا کفار سے معاہدہ ہو گیا تو حضور نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو سلاطین رہتے تھے ان کو خطوط کے ذریعہ پیغام حق پہنچایا.چنانچہ قیصر روم، کسری پرویز شاه ایران ، مقوقس سلطان مصر، ملک حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو اسلام کی دعوت دی گئی.اس طرح بحرین ، بصرہ اور یمامہ کے حکمرانوں کو بھی خطوط لکھے.فتح مکه: صلح حدیبیہ کی رو سے دس سال تک جنگ بند رکھنے کا معاہدہ ہو چکا تھا.لیکن ۸ ہجری میں خود مکہ والوں نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کی.اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قد دسیوں (صحابہ) کو ساتھ لیکر مکہ کی طرف ٩

Page 16

اُردو کی کتاب چهارم روانہ ہو گئے.قریش کو اس لشکر کے آنے کا اس وقت علم ہوا جب وہ مکہ کے بالکل قریب پہنچ گیا.ابوسفیان نے جو مکہ کا سردار تھا اتنا بڑا لشکر دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور اسلام کا رُعب اس کے دل میں بیٹھ گیا.حضرت عباس کے کہنے پر اس نے اسلام قبول کر لیا.اسلامی لشکر فاتحانہ انداز میں مکہ میں داخل ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لا تشريب عَلَيْكُمُ الْيَوْم ( کہ آج تم پر کوئی الزام نہیں ) کہہ کر عام معافی کا اعلان فرما دیا اور عفو و درگذر کی ایسی مثال قائم کر دی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.فتح مکہ کے بعد اسلام بڑی تیزی سے سارے عرب میں پھیل گیا.تاہم فتح مکہ کے بعد بھی آپ کو بعض غزوات پیش آئے جن میں غزوہ حنین اور غزوہ تبوک زیادہ معروف ہیں.وصال ہجرت کے بعد صرف ایک مرتبہ یعنی ہجرت کے دسویں سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا جو حجتہ الوداع کہلاتا ہے.آپ نے اس موقعہ پر ایک خطبہ دیا اور بطور وصیت آخری نصائح فرمائیں.پھر آپ حج سے فارغ ہو کر واپس مدینہ تشریف لے گئے.مدینہ آکر مرض الموت میں مبتلاء ہو گئے اور ۲۶ مئی ۶۳۲ ء مطابق یکم ربیع الاول گیارہ ہجری بروز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں اس جہانِ فانی

Page 17

اُردو کی کتاب چهارم سے رحلت فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون : اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وال مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلَّمْ - (بحوالہ دینی نصاب صفحه ۲۰۷) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور اولاد ย بیویاں : حضرت خدیجہ - حضرت سودہ - حضرت عائشہ - حضرت حفصہ - حضرت زینب - حضرت ام سلمی - حضرت ام حبیبہ - حضرت زینب بنت جحش ".حضرت جویریہ - حضرت صفیہ - حضرت میمونہ - حضرت ماریہ قبطیہ لڑکے : قاسم عبداللہ (لقب طاہر اور طیب ) ابراہیم لڑکیاں : زینب - رقيه - ام کلثوم - فاطمه ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کا انتقال ہوا اُس وقت آپ کی عمر دو ماہ ہو چکی تھی.(سیرۃ حلبیہ اردو جلد اول صفحه ۱۷۰) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لڑکے اور لڑکیوں کے بارے میں بھی مورخین میں اختلاف ہے اس بارے میں تمام اقوال کو جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور کے بارہ بچے (لڑکے اور لڑکیاں ) تھے.سیرۃ النبی جلد دوم صفحه ۲۴۹، از علامه سید سلیمان ندوی)

Page 18

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.چشم و چراغ - مادر مشفق - سایہ سر سے اُٹھ جانا - کفالت - رحلت آغوش تربیت - خوش خلقی - فارغ البال - ایذا رسانیاں انتہاء کو پہنچنا.معیت میت خونریز معرکہ محاصرہ - سلاطین - جہان فانی جوابات لکھیں - (۱) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ (۲) حضرت حلیمہ کون تھیں؟ (۳) حضور کو صادق اور امین کیوں کہا جاتا تھا؟ (۴) مقوقس کہاں کا بادشاہ تھا ؟ (۵) صلح حدیبیہ کے بارے میں دس سطروں پر مشتمل تفصیل لکھیں؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.۱۲

Page 19

سبق نمبر : ۳ اُردو کی کتاب چهارم حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عہد خلافت ۶۳۲ تا ۶۳۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کو یہ خصوصیت حاصل تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عہد شباب سے ہی گہرے دوستانہ مراسم تھے اور جب آنحضور نے دعویٰ نبوت کیا تو مردوں میں سے سب سے پہلے آپ نے اسلام کی دعوت کو قبول کی اور آنحضور کے دعوی کی تصدیق کر کے صدیق کا لقب پایا.ابتدائی زندگی: حضرت ابوبکر کا نام عبد اللہ ، لقب صدیق اور کنیت ابو بکر تھی.والد کا نام ابو قحافہ اور والدہ کا نام اُم الخیر سلمی تھا.چھٹی پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ ۵۷۲ء میں مکہ میں پیدا ہوئے اور وہیں آپ کا بچپن گزرا.جب جوان ہوئے تو کپڑے کی تجارت کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پاکیزہ اور اوصاف حمیدہ کا گہرا نقش آپ کے دل پر تھا.یہی وجہ ہے کہ جب ۱۳

Page 20

اُردو کی کتاب چهارم آپ کو علم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعوی کیا تو فورا اس کی تصدیق کی اور اسلام قبول کرنے میں اولیت کا شرف حاصل کیا.اسلام قبول کرنے کے بعد خدمت دین کو اپنا شعار بنایا.آپ کی کوششوں سے حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت طلحہ ، حضرت ابو عبیدہ بن جراح، حضرت سعد بن وقاص جیسے جلیل القدر افراد نے اسلام قبول کیا اور ان کی وجہ سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.سفر و حضر صلح اور جنگ میں ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے.آنحضور کے ساتھ تمام معرکوں میں شریک رہے، ہر معاملہ میں آنحضرت آپ سے مشورہ کرتے.ہجرت کے وقت بھی آپ آنحضور کے ساتھ رہے اور جب غار ثور میں آنحضرت نے پناہ لی تو حضرت ابو بکر ساتھ تھے.حجۃ الوداع کے بعد جب آنحضرت بہت بیمار ہو گئے تو آپ نے حضرت ابو بکر کو حکم دیا کہ وہ مسجد نبوی میں امامت کرائیں.ایثار و قربانی مسلمان ہو جانے کے بعد حضرت ابو بکر تن من دھن سے خدمتِ اسلام میں مصروف ہو گئے تجارت کا خیال رہا نہ آرام کا.جب روپیہ کی ضرورت ہوتی وہ قربانی میں پیش پیش ہوتے.ایک موقعہ پر جب دین کی خاطر روپیہ کی بہت ضرورت تھی، حضرت عمر نے اپنے گھر کا نصف اثاثہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ۱۴

Page 21

اُردو کی کتاب چهارم خدمت میں پیش کر دیا اور خیال کیا کہ آج میں ابو بکر سے سبقت لے جاؤں گا.لیکن حضرت ابو بکر نے موقعہ کی نزاکت کے پیش نظر گھر کا سارا مال پیش کر دیا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ گھر میں بھی کچھ چھوڑا ہے یا نہیں تو حضرت ابو بکر نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کا نام گھر میں چھوڑا ہے.اسی اخلاص ، وفاداری اور جاں نثاری کے پیش نظر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بیٹی حضرت عائشہ سے شادی کر لی.دور خلافت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ اپنے تقویٰ علم و معرفت، دانشمندی، معاملہ فہمی اور ایثار و قربانی کی وجہ سے جماعتِ صحابہ میں افضل تھے اور خلافت کے سب سے زیادہ اہل تھے.اگر چہ طبیعت میں نرمی اور منکسر المزاجی بے انتہا تھی لیکن دینی وقار کے معاملہ میں آپ کسی نرمی اور رواداری کے قائل نہ تھے.آغاز خلافت سے ہی بعض مشکلات پیش آئیں لیکن آپ نے بڑی استقامت اور جرات و ہمت سے ان کا مقابلہ کیا اور ان پر قابو پالیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کچھ قبائل بعد جن کے دلوں میں ابھی اسلام اچھی طرح راسخ نہیں تھا مرتد ہو گئے اور پرانی عصبیت ان پر غالب آگئی.انہوں نے خود مختار رہنا پسند کیا اور زکوۃ دینے سے ۱۵

Page 22

اُردو کی کتاب چهارم انکار کر دیا.بلکہ مدینہ پر حملہ کرنے کی سوچنے لگے.حضرت ابو بکر نے خطرہ دیکھ کر مناسب انتظامات کئے اور منکرین زکوۃ کی اچھی طرح سرکوبی کی.بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کے جھوٹے دعوے کئے.اسود عنسی، مسیلمہ کذاب طلیحہ بن خویلد اور ایک عورت سجاح زیادہ معروف ہیں.اسود عنسی تو آنحضرت کی زندگی میں ہی قتل کیا گیا باقیوں نے ارتداد کی رو سے فائدہ اٹھا کر قبائل عرب کو بغاوت پر آمادہ کیا.حضرت ابو بکر نے سب کو زیر کیا.مسیلمہ کذاب قتل ہوا.طلیحہ نے راہ فرار اختیار کی.یہ حضرت ابوبکر کی ہمت اور استقامت ہی تھی جس کے باعث دُور دراز کے علاقوں میں آباد باغیوں کی بھی سرکوبی ہوئی اور سارا جزیرہ عرب مسخر ہوکر اسلامی سلطنت میں شامل ہو گیا.اندرونی خلفشار کو دُور کرنے کے علاوہ حضرت ابو بکر نے پورے عزم کے ساتھ بیرونی دشمنوں کی طرف توجہ کی اور اس زمانہ کی دو عظیم طاقتوں یعنی کسری شاہ ایران اور قیصر روم سے ٹکر لی.عراق اور شام کی فتح کی طرف متوجہ ہوئے.یرموک کے مقام پر رومی سلطنت سے ایک فیصلہ کن جنگ ہوئی جس نے رومی سلطنت کی تسخیر کے دروازے کھول دیئے اور رومیوں کے حوصلے پست کر دیئے.حضرت ابو بک کے دور میں جن فتوحات کا آغاز ہوا ان کی تکمیل خلافت ثانیہ کے دور میں ہوئی حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے حفاظت قرآن ۱۶

Page 23

اُردو کی کتاب چهارم کا بندوبست کیا.یوں تو جب اور جتنا قرآن کریم نازل ہو تا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو لکھوا دیتے.قرآن کریم کی ہر سورۃ اور اس کا نام اور اس کی ترتیب پھر سارے قرآن کریم کی ترتیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حکم الہی سے عمل میں آچکی تھی لیکن یہ قرآن چمڑے کے ٹکڑوں ، پتھر کی سلوں اور کھجور کی چھال وغیرہ پر متفرق رنگ میں لکھا ہوا تھا محض اس خوف سے کہ مبادا قر آن کریم کی عبارت میں بعد ازاں اختلاف ہو جائے آپ نے تمام تحریروں کو جمع کرایا اور حفاظ کی مدد سے سارے قرآن کو یکجا اور محفوظ کر دیا.وفات: حضرت ابو بکر نے ایک دن سردی میں غسل کیا جس کی وجہ سے آپ کو بخار ہو گیا اور آپ پندرہ دن بیمار رہے اس زمانہ میں آپ نے حضرت عمر کو امامت کے فرائض ادا کرنے کیلئے مقرر کیا.بعد ازاں آپ نے اعلان فرما دیا کہ عمر آپ کے بعد جانشین ہوں گے.آپ دو سال تین ماہ اور گیارہ دن خلیفہ رہے.۲۲ اگست ۶۳۴ ء مطابق ۲۱ جمادی الآخر ۱۳ ہجری بروز پیر تریسٹھ سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہوئے.(بحوالہ دینی نصاب صفحہ ۲۱۳) 1

Page 24

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.دوستانہ مراسم - اوصاف حمیدہ - شرف حاصل کرنا - تن من دھن.جاں ثاری تقوی- دانشمندی منکسر المزاج - استقامت عصبیت- راه فرار- مسخر خلفشار-منصف-منزه جوابات لکھیں (۱) حضرت ابوبکر کا نام کیا تھا؟ (۲) کنیت ، نام ، لقب کی تعریف لکھیں؟ (۳) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اعلیٰ قربانی کی کوئی مثال لکھیں ؟ (۴) حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں کن لوگوں نے بغاوت کی ؟ (۵) حضرت ابو بکر کے بیمار ہونے کی وجہ کیا تھی جس کی وجہ سے آپ کی - وفات ہوئی؟ تمرین (۱) استاد اس سبق کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۲) طلباء اس سارے سبق کو خوشخط لکھیں.(۳) طلباء اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں.۱۸

Page 25

سبق نمبر : ۴ ابتدائی زندگی: اُردو کی کتاب چهارم حضرت عمر رضی اللہ عنہ عہد خلافت ۶۳۴ ۶ تا ۶۶۴۴ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ثانی تھے.آپ کا نام عمر ، لقب فاروق اور کنیت ابن خطاب تھی.والد کا نام الخطاب بن تحصیل تھا.۵۸۱ء میں مکہ میں پیدا ہوئے.بچپن میں اپنے والد کے اونٹ وغیرہ چراتے رہے.ذرا ہوش سنبھالا تو لکھنا پڑھنا سیکھا.جوان ہوئے تو تجارت کو ذریعہ معاش بنایا اور اکثر شام و عراق کے سفر کئے.قبول اسلام: اسلام کے ابتدائی ایام میں حضرت عمر اسلام سے سخت دشمنی رکھتے تھے.ایک دن تلوار لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے گھر سے نکلے راستہ میں کسی نے کہا پہلے اپنی بہن کی تو خبر لو وہ مسلمان ہو چکی ہے اس پر فورا بہن کے گھر کا رُخ کیا.وہاں پہنچے تو قرآن مجید کی تلاوت ہورہی تھی اسے سن کر دل صاف ہو گیا ۱۹

Page 26

.اُردو کی کتاب چهارم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ عمر کو اسلام میں داخل کر کے مسلمانوں کو تقویت بخش.حضرت عمرؓ بڑے رعب و دبدبہ کے مالک تھے.اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش رہے.آپ کی معاملہ فہمی کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے بھی اکثر معاملات میں مشورہ فرماتے تھے.دور خلافت: اپنی خلافت کے دور میں حضرت عمر نے ایران و روم کی سلطنتوں کی طرف فوری توجہ دی اور بڑے صبر آزما حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابیاں دیں.ایران و عراق فتح ہوا.پھر شام و مصر فتح ہوئے.بیت المقدس جب سے اہجری میں فتح ہوا تو رومیوں کی درخواست پر حضرت عمر بنفس نفیس وہاں تشریف لے گئے اور صلح کے معاہدہ پر دستخط کئے اور سب کو امان دی.آپ کے دور خلافت میں سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوگئی تھیں مشرق میں افغانستان اور چین کی سرحدوں تک مسلم فوجیں پہنچ چکی تھیں.مغرب میں طرابلس اور شمالی افریقہ تک.شمال میں بحر قزوین تک اور جنوب میں حبشہ تک.ایک دُنیا محو حیرت ہے کہ دس بارہ سال کے قلیل عرصہ

Page 27

اُردو کی کتاب چهارم میں ایک بے سروسامان اسلامی حکومت اس طرح منظم حکومتوں پر چھا گئی.حضرت عمر نے توسیع سلطنت اور فتوحات کے ساتھ ساتھ ملکی انتظامات کی طرف بہت توجہ دی.ملک کو مختلف صوبوں میں تقسیم کیا اور ہر صوبے میں حاکم صوبہ، فوجی ، میرنشی، افسر مال، پولیس افسر ، قاضی اور خزانچی مقرر کئے.عدالت، پولیس اور فوج کے الگ الگ محکمہ جات قائم کئے.ڈاک کا انتظام کیا.جیل خانے بنائے.ٹکسال بنا کر چاندی کے سکے رائج کئے.مدینہ میں نیز تمام ضلعی مراکز میں بیت المال قائم کئے.فوج کی تنخواہیں اور مستحقین کے وظیفے مقرر کئے اور دفتری نظام کی داغ بیل ڈالی رفاہِ عامہ کے سلسلہ میں بڑے بڑے شہروں میں مسافر خانے تعمیر کرائے.مکہ اور مدینہ کے درمیان چوکیاں، سرائے اور حوض تعمیر کرائے اور کئی نہریں کھدوائیں.حضرت عمر نے 99 میل ایک لمبی نہر کھدوا کر دریائے نیل کو بحر احمر ( بحر قلزم ) سے ملا دیا جس سے تجارت کو بہت فروغ ہوا اور مصر کے جہاز براہِ راست مدینہ کی بندرگاہ آنے لگے حضرت عمرؓ نے سنہ ہجری کا آغاز کیا اور اسلامی تقویم (کیلینڈر) کی ابتداء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے سال سے کی.سیرت: حضرت عمرؓ بڑی سادہ زندگی بسر کرتے تھے.باوجود وسیع سلطنت کے حکمران ۲۱

Page 28

اُردو کی کتاب چهارم ہونے کے آپ کے کپڑوں میں کئی پیوند لگے ہوتے تھے.دنیاوی عیش وعشرت سے کوئی سروکار نہ تھا.خلیفہ بننے کے بعد تجارت کا پیشہ ترک کر دیا اور بیت المال سے دو در هم روزانہ وظیفہ لیتے.انتظامی معاملات میں کسی کا لحاظ نہ کرتے.عدل وانصاف اور رعایا کی بہبودی کا فکر آپ کی سیرت کی نمایاں خصوصیت ہے.رات کو گشت کر کے لوگوں کی ضروریات کا علم حاصل کرتے اور غریبوں اور یتیموں اور بے کسوں کو فوری امداد پہنچاتے.ایک دفعہ دیکھا کہ ایک عورت دردزہ میں مبتلاء ہے اور کوئی پاس نہیں فورا گھر آئے اور اپنی بیوی کو ساتھ لیکر گئے تا کہ اس کی دیکھ بھال ہو سکے.شہادت: ایک دن عیسائی غلام ابولؤلؤ نے حضرت عمر سے شکایت کی کہ میرا آقا مجھے سے روزانہ دو درہم وصول کرتا ہے وہ نقاشی ، نجاری اور آہنگری میں بڑا ماہر تھا حضرت عمرؓ نے اس کے پیشے اور آمدنی کے پیش نظر اس رقم کو معقول قرار دیا اس فیصلے سے ناراض ہو کر اگلے دن اس نے نماز فجر کے وقت خنجر سے آپ پر حملہ کر دیا.حضرت عمران زخموں سے جانبر نہ ہو سکے اور ۲۶ ذوالحجہ ۲۳ ہجری کو بروز بدھ ۶۳ سال کی عمر میں وفات پائی.وفات کے بعد آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ کے حجرہ میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا گیا.(بحوالہ دینی نصاب صفحہ ۲۱۷) ۲۲

Page 29

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.ہوش سنبھالنا.ذریعہ معاش دل صاف ہونا - دوش بدوش رہنا.معاملہ نہی صبر آزما بنفس نفیس - داغ بیل ڈالنا - رفاہ عام عیش و عشرت - سروکا جوابات لکھیں - (۱) حضرت عمر بچپن میں کیا کام کرتے تھے؟ (۲) حضرت عمر کی عداوت اسلام کس وجہ سے زائل ہوگئی ؟ (۳) بیت المقدس کس شہر کا نام ہے؟ (۴) ملکی انتظامات کے لئے حضرت عمر نے کیا کیا ؟ (۵) حضرت عمر کی شہادت کس طرح ہوئی ؟ (۱) طلباء اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد سبق کا کچھ حصہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں.۲۳

Page 30

سبق نمبر : ۵ اُردو کی کتاب چهارم ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ عہد خلافت ۶۴۴ ۶ تا ۶۵۶ ابتدائی زندگی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ قریش کے مشہور خاندان بنوامیہ سے تعلق رکھتے تھے.پانچویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملتا ہے.آپ معمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سال چھوٹے تھے.آپ کا ذریعہ معاش بھی تجارت تھا.دولت کی فراوانی کی وجہ سے غنی مشہور ہوئے.شرم وحیا جود و سخاوت عقل و فہم اور شرافت کی وجہ سے آپ نے بڑی شہرت پائی.طبیعت میں مرد باری اور انکسار کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اور ہر ایک سے حسن سلوک کرتے تھے.جب آپ مشرف باسلام ہو گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی رقیہ کا نکاح آپ سے کر دیا.قریش مکہ نے جب مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تو آپ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی کچھ عرصہ بعد پھر مکہ میں آگئے اور بعد ازاں مدینہ کی طرف ہجرت کی.جنگ بدر کے دوران حضرت رقیہ رحلت فرما گئیں تو آنحضرت ۲۴

Page 31

اُردو کی کتاب چهارم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم کو آپ کے عقد نکاح میں دے دیا اس وجہ سے آپ گوز والنورین کا لقب ملا.ایثار و قربانی حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ بڑے فیاض اور سخی تھے.مالی جہاد میں پیش پیش رہتے آپ کی دولت سے مسلمانوں کو بڑا فائدہ پہنچا.مدینہ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا.آپ نے مسلمانوں کی تکلیف دیکھ کر میں ہزار درہم میں کنواں خرید لیا اور مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.جنگ تبوک کے موقع پر دس ہزار دینار نقد کے علاوہ ایک ہزار اونٹ اور ستر گھوڑے مع ساز و سامان پیش کئے.جنگ بدر کے علاوہ تمام جنگوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.جنگ بدر کے موقع پر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب پیچھے رہے.صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عثمان بطور سفیر قریش مکہ کے پاس بھیجے گئے اور جب آپ کی شہادت کی افواہ اڑائی گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کو ان کا ہاتھ قرار دیکر ان کی طرف سے بیعت قبول کی اور دوسرے صحابہ نے از سر کو عہد وفا باندھا.اسی کو بیعت رضوان کہتے ہیں.حضرت عثمان ان دس ۲۵

Page 32

اُردو کی کتاب چهارم صحابہ میں سے ایک تھے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں جنت کی بشارت دی اور عشرہ مبشرہ کہلائے.عہد خلافت : حضرت عمر نے وفات سے قبل چھ صحابہ کو نامزد کیا اور فرمایا کہ میری وفات کے بعد آپس میں مشورہ کر کے اپنے میں سے کسی کو امیر المومنین منتخب کر لیں.وہ چھ افراد یہ تھے حضرت عثمان ، حضرت علی ، حضرت زبیر بن عوام، حضرت طلحہ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص.اکثر صحابہ کی رائے حضرت عثمان کے حق میں تھی اس لئے ان کے انتخاب کا اعلان کر دیا گیا.حضرت عثمان کے عہد میں فتوحات کا سلسلہ جاری رہا.آرمینیا ، افریقہ اور قبرص کے علاقے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے اسی طرح وسط ایشیا کے بہت سے علاقے فتح ہوئے گویا سلطنت کی حدود وسط ایشیا سے لیکر شمالی افریقہ کے مغربی کنارے تک پھیل گئیں.فتوحات کے ساتھ ساتھ استحکام سلطنت کا کام بھی جاری رہا.بحری فوج اور بیڑے کا قیام بھی حضرت عثمان کا ایک بڑا کارنامہ ہے.آپ نے قرآن کریم کی حفاظت کے پیش نظر حضرت ابوبکر والے نسخہ کی نقول تیار ۲۶

Page 33

اُردو کی کتاب چهارم کروائیں اور ان کی اشاعت سارے عالم اسلام میں کی.اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض علاقوں میں اختلاف قرآت دیکھا گیا.اہل بصرہ، اہل کوفہ ، اہل حمص آیات کو الگ الگ رنگ میں پڑھتے.حضرت عثمان نے اہل مکہ کی قرآت کو بہترین قرار دیا اور اسی کے مطابق قرآن کریم کی کتابت کی گئی اور قریش کا رسم الخط اختیار کیا گیا.عرب کے مختلف علاقوں نیز غیر عرب قوموں کے میل جول کے با عث لب ولہجہ اور قرآت کے فرق سے یہ اندیشہ ہو سکتا تھا کہ کہیں تحریف کا راستہ نہ کھل جائے.حضرت عثمان نے ہمیشہ کے لئے اس راستہ کو مسدود کر دیا.شہادت: حضرت عثمان ” جس وقت خلیفہ منتخب ہوئے ان کی عمر ہے برس تھی.خلافت کے پہلے چھ سال امن و امان سے گذرے لیکن آخری چھ سالوں میں بعض وجوہات کے باعث فتنے کھڑے ہوئے.بالآخر یہ شورشیں رنگ لائیں اور حضرت عثمان بارہ سال کی خلافت کے بعد ۳۵ هجری میں شہید کر دیئے گئے.وفات کے وقت آپ کی عمر ۸۲ سال تھی.(بحوالہ دینی نصاب ۲۳۰) ۲۷

Page 34

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.ذریعہ معاش فراوانی - جود و سخاوت- بردباری- انکسار مشرف با سلام - عرصہ حیات تنگ کرنا.افواہ اڑانا جوابات لکھیں - (۱) قریش نے مکہ میں مسلمانوں کا عرصہ حیات کیوں تنگ کر رکھا تھا؟ (۲) حضرت عثمان کی دولت سے مسلمانوں کو کیا فوائد حاصل ہوئے تھے؟ (۳) حضرت عثمان کو کہاں اور کیوں سفیر بنا کر بھیجا گیا تھا؟ (۴) عشرہ مبشرہ کون ہیں اور ان کے نام کیا ہیں؟ (۵) سب سے بہترین قرآت کس کی ہوتی ہے؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصہ کی املا لکھوائے.(۳) طلباء اس کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں.٢٨

Page 35

سبق نمبر : ۶ اُردو کی کتاب چهارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہ ابتدائی زندگی: عہد خلافت ۶۵۶ تا ۶۶۱ء حضرت علی کرم اللہ وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا ابو طالب کے فرزند تھے.بعثت نبوی سے قریباً آٹھ برس پہلے مکہ میں پیدا ہوئے.والدہ کا نام فاطمہ تھا.حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے جس سال مکہ میں قحط پڑا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی کو اپنے گھر لے آئے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو بچوں میں سب سے پہلے حضرت علی ایمان لائے اس وقت اُن کی عمر تقریبا دس سال تھی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے گھر سے نکلے اس وقت حضرت علی آپ کی چارپائی پر سو گئے تا کہ دشمن کو یہی گمان ہو کہ حضور وہیں ہیں اور وہ حضور کا تعاقب نہ کریں.اس سے حضرت علی کی جاں نثاری اور شجاعت کا بھی پتہ لگتا ہے.کچھ عرصہ بعد حضرت علی بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے.۲ ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ۲۹

Page 36

اُردو کی کتاب چهارم صاحبزادی حضرت فاطمہ کا نکاح آپ سے کر دیا.اس طرح آپ کو نبی اکرم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا.عہد خلافت : حضرت عثمان کی شہادت کے بعد آپ خلیفہ منتخب ہوئے.اس وقت حالات بہت نا موافق تھے.عوام کا مطالبہ تھا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لیا جائے.حضرت طلحہ اور زبیر بھی اسی خیال کے مؤید تھے لیکن حضرت علی محسوس کرتے تھے کہ باغیوں کا اس وقت بہت زور ہے جب تک امن وسکون نہ ہو حکومت کیلئے قصاص کی کاروائی کرنا بہت مشکل ہے.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر جیسے ذی اثر صحابہ فوری بدلہ لینے کے بڑے حامی تھے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے انہیں بہت سمجھایا کہ خلیفہ وقت کے خلاف کھڑا ہونا مناسب نہیں لیکن انہوں نے اس نصیحت کی کوئی قدر نہ کی.جنگ جمل : حضرت عائشہ کو حالات کا پوری طرح علم نہ تھا وہ بھی اس امر کی تائید میں تھیں کہ قاتلین عثمان سے فوری انتقام لیا جائے.حضرت علیؓ نے بہت کوشش کی کہ رض ۳۰

Page 37

اُردو کی کتاب چهارم باہمی جنگ و جدال کا دروازہ نہ کھلے لیکن تمام کوششیں بے کار گئیں اور فریقین میں خونریز جنگ ہو کر رہی.حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اگر چہ حضرت عائشہ کی طرف سے جنگ کے لئے میدان میں آئے لیکن جنگ ہونے سے قبل ہی لشکر سے الگ ہو گئے تاہم کسی مخالف کے ہاتھوں مارے گئے اور حضرت عائشہ کے لشکر کی شکست ہوئی تاہم فتح کے بعد حضرت علی نے اعظم المؤمنین حضرت عائشہ کی حفاظت کا پورا اہتمام کیا اور جب وہ مدینہ جانے لگیں تو خود الوداع کہنے گئے.چونکہ اس جنگ میں حضرت عائشہ ایک اونٹ پر سوار تھیں اس لئے اس جنگ کو جنگ جمل کہتے ہیں.(جمل کے معنی اونٹ کے ہیں ) حضرت عائشہ کو بعد میں ساری عمر اس امر کا افسوس رہا کہ کیوں انہوں نے حضرت علی کے خلاف جنگ میں حصہ لیا.جنگ صفین : جنگ جمل کے بعد حضرت علی نے امیر معاویہ کو پھر ایک مرتبہ بیعت کر لینے کی تلقین کی لیکن وہ کسی طرح اس امر پر آمادہ نہ ہوئے انہوں نے عمرو بن عاص والی مصر کو اپنا ہمنوا بنایا اور جنگ کی تیاری کی اور ۸۵ ہزار کا لشکر لیکر حضرت علی کے خلاف صف آراء ہو گئے.حضرت علی کے ساتھ بھی ۸۰ ہزار کا لشکر تھا.سات دن ۳۱

Page 38

اُردو کی کتاب چهارم تک جنگ کا سلسلہ جاری رہا.ساتویں دن قریب تھا کہ امیر معاویہ کا لشکر شکست کھا جائے کہ عمرو بن عاص نے ایک چال چلی.قرآن مجید نیزوں پر رکھ کر بلند کئے اور تجویز پیش کی کہ ثالث مقرر کر کے فیصلہ کر لیا جائے.حضرت علی کے کچھ ساتھی بھی اس دھوکے میں آگئے اور انہوں نے ثالث کی تجویز کو قبول کرنے پر آمادگی ظاہر کی.اپنی صفوں میں انتشار دیکھ کر مجبور حضرت علی نے اس تجویز کو قبول کر لینے پر آمادگی ظاہر کی.حضرت علیؓ کی طرف سے ابوموسیٰ اشعری اور امیر معاویہ کی طرف عمرو بن عاص ثالث مقرر ہوئے.ابو موسیٰ اشعری صوفی منش آدمی تھے لیکن عمرو بن عاص بہت جہاندیدہ سیاسی تھے انہوں نے ابو موسی اشعری کو یہ کہہ کر ہم خیال بنالیا کہ حضرت علی اور امیر معاویہ دونوں کو معزول کر کے نیا انتخاب کیا جائے.چنانچہ ابو موسیٰ نے اس کا اعلان کر دیا لیکن عمرو بن عاص نے کہا میں حضرت علیؓ کے معزول کئے جانے کی تائید کرتا ہوں لیکن امیر معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں اس طرح عمرو بن عاص نے لوگوں کو دھوکا دیا.خوارج کا ظہور : جب حضرت علی کو اس سیاسی فریب کا علم ہوا تو وہ پھر جنگ کی تیاری کرنے لگے.اسی اثناء میں انہیں علم ہوا کہ ان کی جماعت کا ایک گروہ اس وجہ سے ۳۲

Page 39

اُردو کی کتاب چهارم الگ ہو گیا ہے کہ کیوں ثالثی کی تجویز کو قبول کیا گیا انہوں نے اپنا ایک الگ امیر مقرر کر لیا اور اس طرح مسلمان تین گروہوں میں بٹ گئے.حضرت علی نے ان کی سرکوبی کے لئے ایک لشکر تیار کیا پہلے تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب وہ ضد پر قائم رہے تو دونوں لشکروں میں خونریز جنگ ہوئی اور کئی ہزار خارجی مارے گئے صرف چند لوگ زندہ بیچ رہے.شہادت: اگر چہ خارجیوں کو شکست ہوگئی لیکن ان شوریدہ سر لوگوں نے سوچا کہ کامیابی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ حضرت علی، امیر معاویہ، اور عمرو بن عاص تینوں کو بیک وقت قتل کر دیا جائے چنانچہ انہوں نے اس بارے میں منصوبہ تیار کیا.امیر معاویہ پر حملہ کارگر نہ ہوا.عمرو بن عاص ضعین وقت پر باہر چلے گئے اس لئے بیچ گئے لیکن جو شخص حضرت علی کو قتل کرنے کیلئے مقرر ہوا وہ قاتلانہ حملہ میں کامیاب ہوا.اس طرح حضرت علی ۲۰ رمضان ۴۰ ہجری کو پونے پانچ سال کی خلافت کے رض بعد تریسٹھ سال کی عمر میں شہید کر دیئے گئے.(بحوالہ دینی نصاب ۲۲۳) ۳۳

Page 40

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.کثیر العیال- تعاقب کرنا.حالات نا موافق ہونا جوابات لکھیں مؤید ذی اثر - جنگ و جدل - آمادہ ہونا - صف آراء جہاندیدہ-سرکوبی کرنا.حملہ کارگر ہونا.شوریدہ سر (۱) حضرت علی کی جاں نثاری اور شجاعت کا علم کسی واقعہ سے ہوتا ہے؟ (۲) قصاص کی کاروائی کیا تھی جس کا حضرت علی سے مطالبہ کیا جارہا تھا؟ (۳) ثالث مقرر ہونے والے افراد نے کیا فیصلہ کیا ؟ (۴) خوارج کون تھے؟ (۵) حضرت علی کی شہادت کیسے ہوئی ؟ تمرین (1) طلباء اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد سبق کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۳۴

Page 41

سبق نمبر : ۷ اُردو کی کتاب چهارم حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی عليه الصلوة والسلام ابتدائی زندگی: ( ۱۹۰۸ - ۱۸۳۵.بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام ۱۴شوال ۱۲۵۰ هجری مطابق ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء بروز جمعه قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب (بھارت) میں پیدا ہوئے.آپ فارسی قوم کے ایک نہایت معزز خاندان کے چشم و چراغ تھے.آپ کے مورث اعلیٰ حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب سمرقند سے ہندوستان تشریف لائے تھے.آپ کے والد کا نام حضرت مرزا غلام مرتضیٰ اور والدہ کا نام چراغ بی بی تھا.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت میں نیکی و پاکیزگی اور متانت و سنجیدگی پائی جاتی تھی.دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود کی طرف ذرا بھی راغب نہ تھے.تنہائی کو پسند کرتے اور گہرے غور و خوض کے عادی تھے.ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی.پھر والد کے مقرر کردہ اساتذہ سے آپ نے فارسی پڑھی اور کچھ صرف و نحو نیز ۳۵

Page 42

اُردو کی کتاب چهارم منطق و فلسفہ اور حکمت کا علم حاصل کیا.جوانی میں بھی خلوت نشینی پسند رہی.قرآن کریم و احادیث نبوی نیز دوسرے مذاہب کی مذہبی کتب کا مطالعہ آپ کا محبوب مشغلہ تھا اور بیشتر وقت یا دالہی یا قرآن کریم پر غور وفکر میں گذرتا تھا.عشق محمد آپ کے رگ و ریشہ میں رچا ہوا تھا.بس ایک ہی خواہش اور ایک ہی دھن تھی کہ کسی طرح دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت ہو اور اسلام کا نورآشکار کیا جائے.آپ کے مذہبی شغف اور گوشہ نشینی کی وجہ سے آپ کے والد بزرگوار کو یہ فکر دامنگیر رہتا کہ اس بچے کی آئندہ زندگی کیسے بسر ہوگی.اگر چہ آپ کی طبیعت کا میلان دنیا داری کے کاموں کی طرف قطعا نہ تھا تاہم آپ نے والد ماجد کی اطاعت کے جذبہ سے ان کے اصرار پر کچھ عرصہ سیالکوٹ میں ملازمت کی اور جدی جائیداد کے حصول کے سلسلہ میں مقدمات کی پیروی بھی کی.لیکن بہت جلد والد کی اجازت سے ان امور سے دستکش ہو گئے اور تبلیغ حق کی مہم میں بدل و جان مصروف ہوئے.۱۸۷۶ء میں والد ماجد کا انتقال ہو گیا انکی وفات سے قبل الہاما اللہ تعالیٰ نے اس حادثہ کی اطلاع آپ کو دی اور اليْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کے الفاظ میں یہ بھی ڈھارس بندھائی کہ وہ خود آپ کا کفیل ہوگا.والد کی وفات کے ۳۶

Page 43

اُردو کی کتاب چهارم بعد ہی مکالمات و مخاطبات الہیہ کا سلسلہ بڑے زور وشور سے شروع ہو گیا.وہ زمانہ روحانی لحاظ سے انتہائی ظلمت و تاریکی کا تھا.دنیا کا بیشتر حصہ مشرکانہ عقائد و رسوم میں مبتلا تھا یا اپنے خالق و مالک سے یکسر بے گا نہ تھا.ایک طرف عیسائی منا د اسلام پر حملے کر رہے تھے تو دوسری طرف آریہ سماج و بر ہمو سماج والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے خلاف گندہ دہنی اور الزام تراشی میں مصروف تھے.علماء اسلام فروعی مسائل اور ایک دوسرے کے خلاف تکفیر بازی میں اس قدر الجھے ہوئے تھے کہ انہیں خدمت دین کا ذرا بھی ہوش نہ تھا.جو حالات کی نزاکت کا احساس رکھتے تھے ان میں استطاعت نہ تھی کہ مخالفین کے حملوں کا جواب دیتے.ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کے دل میں یہ جوش ڈالا کہ آپ اسلام کی حقانیت کو دنیا پر واضح کریں.چنانچہ آپ نے ایک کتاب براہین احمدیہ نامی تصنیف فرمائی اور تمام مذاہب کے پیروں کو چیلنج کیا کہ وہ حسن و خوبی اور براہین و دلائل میں قرآن کریم کا مقابلہ کر کے دس ہزار روپیہ کا انعام حاصل کریں لیکن کسی کو اس مقابلہ کی جرات نہ ہوئی.اس کتاب کی اشاعت نے مذہبی دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا.اپنے تعریف میں رطب اللسان تھے اور غیر پر سکتہ کا عالم طاری ہو گیا تھا.۳۷

Page 44

اعلانِ ماموریت و مسیحیت : اُردو کی کتاب چهارم ۱۸۸۲ء میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ماموریت کا پہلا الہام نازل ہوا اور آپ کو یہ علم دیا گیا کہ اس زمانہ میں تجدید دین اور احیائے اسلام کی خدمت آپ کے سپرد کی گئی ہے تاہم آپ نے باقاعدہ فوری طور پر کسی قسم کا دعویٰ نہیں کیا لیکن متواتر الہامات کے باعث ۱۸۸۵ء میں آپ نے اپنے آپ کو محض مجد دوقت کی حیثیت سے پیش کیا حالانکہ جو الہامات ۱۸۸۳ء میں اور اس کے بعد ہوئے ان میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے صریح طور پر مسیح، نبی اور نذیر کے ناموں سے یاد کیا تھا بات دراصل یہ ہے کہ آپ فدائیت کے نہایت اعلیٰ مقام پر تھے اور طبیعت میں اس درجہ انکسار پایا جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان بزرگ خطابات کی یہی تو جیہہ کرتے کران سے مقصود محض کثرت مکالمہ و مخاطبہ ہے اور زیادہ وضاحت ہوئی تو ایک عرصہ تک اپنے مقام کو جزوی نبوت سے تعبیر کرتے رہے لیکن پھر ۱۸۹۰ء اور ۱۹۰۰ء کے درمیانی عرصہ میں آپ پر اس امر کا کامل انکشاف ہو گیا کہ آپ نبوت کے مقام پر ہی فائز ہیں اس رنگ میں کہ ایک پہلو سے آنحضرت کے امتی ہیں اور کثرت مکالمہ الہیہ کے لحاظ سے نبوت کے مقام پر فائز ہیں.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ۳۸

Page 45

اُردو کی کتاب چهارم بنیاد ڈالی اور لدھیانہ میں پہلی بیعت لی.اس روز چالیس افراد بیعت کر کے اس سلسلہ میں داخل ہوئے.بیعت کرنے والوں میں اولیت کا شرف حضرت حاجی الحرمین حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا جو بعد میں آپ کے خلیفہ اول منتخب ہوئے.۱۸۹۰ء میں آپ نے مسیح موعود ہونے کا اعلان کیا.اس اعلان کے ساتھ ہی آپ کے خلاف ایک طوفان بے تمیزی امڈ آیا.بڑے بڑے علماء نے آپ کے خلاف کفر کے فتوے دئے لیکن خدائے تعالیٰ کی تائید و نصرت کے نشانات پے در پے ظاہر ہورہے تھے آپ نے تمام سجادہ نشینوں ، پیروں ، فقیروں کو مقابلہ کی دعوت دی.مباحثات و مناظرات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور لوگوں پر آپ کی صداقت منکشف ہوتی چلی گئی.پھر آپ نے ملکفر علماء کو دعوت مباہلہ بھی دی کہ اگر چاہیں تو اس رنگ میں خدائے تعالی کے فیصلہ کو دیکھ لیں.علماء کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لیڈروں اور نمائندوں کو بھی مقابلہ کے لئے للکارا.ہندوؤں میں سے پنڈت لیکھرام ، عیسائیوں میں سے پادری عبد اللہ آتھم اور امریکہ کا جھوٹا مدعی نبوت ڈاکٹر الیگزینڈر ڈوئی اور مسلمانوں میں سے رسل بابا امرتسری ، چراغ دین جمونی، رشید احمد گنگوہی ، عبد الرحمن محی الدین لکھو کے والے ، مولوی گلام دستگیر قصوری، محمد ۳۹

Page 46

اُردو کی کتاب چهارم حسین بھینی والا و غیر هم مقابلہ کر کے حسب پیشگوئی ہلاک ہوئے اور آپ کے منجانب اللہ ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر گئے.پھر آپ نے قبولیت دعا کا حربہ استعمال کیا اور تمام مذاہب کے لوگوں کو یہ دعوت دی کہ اگر ان کا مذہب سچا ہے تو مقبولیت کا نشان مقابلہ میں دکھا ئیں مگر کسی کو اس مقابلہ کی ہمت نہ ہوئی.غرض قبولیت دعا علمی مقابلوں ، تائیدات سماوی اور بکثرت امور غیبیہ کے اظہار کے ذریعہ ثابت کیا کہ زندہ نبی ہمارے سید و مولی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور زندہ مذہب صرف اسلام ہے.اسلام کی حقانیت اور اپنے دعوی کی صداقت کو ظاہر کرنے کیلئے آپ نے کم و بیش اسی (۸۰) کتب اُردو اور عربی میں تصنیف فرما ئیں.ہزار ہا اشتہارات مختلف ممالک میں شائع فرمائے اور سینکڑوں نظار میر اسلام کی تائید میں کیں.بادشاہوں اور امراء کو خطوط لکھے اور انہیں دعوت حق دی.پھر آپ نے مسلمانوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی اور تجدید دین کا کام اس رنگ میں کیا جس رنگ میں مسیح و مہدی کیلئے کرنا مقدر تھا.نہ صرف زمین پر آپ کی صداقت کے نشان ظاہر ہوئے بلکہ آسمان نے بھی اس کی گواہی دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے ظہور مہدی کیلئے یہ علامت بیان فرمائی تھی کہ رمضان کے مہینہ میں چاند کو اس کی گرہن کی راتوں میں سے پہلی رات کو اور سورج کو گرہن کے مقررہ دنوں میں سے

Page 47

اُردو کی کتاب چهارم درمیانی دن گرہن لگے گا عین اس پیشگوئی کے مطابق مشرقی ممالک میں ۲۰ مارچ ۱۸۹۴ء کو چاند گرہن ہوا.اور ۶ را پریل کو سورج کو گرہن لگا اور یہ دونوں گرہن اس سال رمضان کے مہینہ میں واقع ہوئے.مغربی ممالک میں بھی اگلے سال ٹھیک انہی شرائط کے ساتھ رمضان میں گرہن لگا اور یہ سماوی نشان اسلام کی صداقت، آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی صداقت ، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی زبر دست دلیل ٹھہرے گویا خود خالق ارض و سماء نے یہ گواہی دی کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہی مسیح موعود اور مہدی ہیں جن کے بارے میں سابقہ انبیاء اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے واضح پیشگوئیاں فرمائی تھیں.اولاد آپ کی پہلی شادی اپنے خاندان میں ہوئی جس سے دولڑ کے مرزا سلطان احمد اور مرز افضل احمد پیدا ہوئے.آپ کی دوسری شادی ۱۸۸۴ء میں دہلی کے ایک مشہور سادات خاندان (خاندان میر درد) میں ایسے وقت میں ہوئی جبکہ آپ کی عمر ۵۰ برس ہو چکی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی پیشگوئی يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ یعنی مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کی اولاد ہوگی ) کے مطابق اس شادی سے ایک نئے خاندان کی بنیاد پڑی اور آپ کو وہ مبشر اولا د عطا ہوئی جس کیلئے برکت پانا اور ملکوں میں کثرت سے پھیلنا مقدر ہے.آپ کی دوسری بیوی کا نام حضرت سیدہ نصرت جہاں تھا جو بعد میں اماں جان کہلائیں.آپ کے بطن سے پانچ لڑکے اور ۴۱

Page 48

اُردو کی کتاب چهارم پانچ لڑکیاں پیدا ہوئیں جن کے نام یہ ہیں: (۱) صاحبزادی عصمت ( ولادت ۱۵ را پریل ۱۸۸۶ء وفات جولائی ۱۸۹۱ء) (۲) بشیر اول ( ولادت ۷ اگست ۱۸۸۷ ء وفات ۴ نومبر ۱۸۸۸ء کی (۳) حضرت مصلح موعود صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ( ولادت ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء وفات ۸/۷ نومبر کی شب ۱۹۶۵ء) (۴) صاحبزادی شوکت ( ولادت ۱۸۹۱ء وفات ۱۸۹۲ء) (۵) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ عنہ ولادت ۲۰ / اپریل ۱۸۹۳ ء وفات ۲ ستمبر ۱۹۶۳ء) (۶) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ ولادت ۲۴ مئی ۱۸۹۵ ء وفات ۲۶ دسمبر ۱۹۶۱ء) (۷) حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا ( ولادت ۲ مارچ ۱۸۹۷ ء وفات ۲۳/۲۲ مئی ۱۹۷۷ء درمیانی شب ) (۸) حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب.(ولادت ۱۴ جون ۱۸۹۹ ء وفات ۶ استمبر ۱۹۰۷ء) (۹) صاحبزادی امته النصیر (ولادت ۲۸ جنوری ۱۹۰۳ء وفات ۳ دسمبر ۱۹۰۳ء ) (۱۰) حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا (ولادت ۲۵ جون ۹۰۴ وفات ۶ جون ۱۹۸۷) ۴۲

Page 49

وفات : اُردو کی کتاب چهارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چوہتر سال عمر پائی.ساری عمر رات دن خدمت اسلام میں لگے رہے.جس دن وفات پائی اس سے پہلی شام تک ایک کتاب کی تصنیف میں مشغول تھے.اس سے اس سوز و گداز اور اس اخلاص و جوش کا پتہ لگتا ہے جو آپ کو اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کو ثابت کرنے کیلئے تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے حق میں ارشاد فرمایا کہ اس کو میرا اسلام پہنچانا یہ گویا اس کے حق میں سلامتی کی دُعا اور پیشگوئی تھی.باوجود اس کے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ الصلوۃ والسلام کی ہزار مخالفتیں ہوئیں اور آپ کو قتل کرنے کے بہت منصوبے کئے گئے مگر خدائی نوشتوں کے مطابق وہ سب ناکام ہوئے اور آپ اپنا کام ختم کر کے طبعی موت سے ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو لاہور میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے.آپ کا جنازہ قادیان لایا گیا اگلے روز حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اول منتخب ہوئے اور انہوں نے ہی حضور کی نماز جنازہ پڑھائی.اس کے بعد میت کو بہشتی مقبرہ میں سپردخاک کردیا گیا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ : ( بحواله دینی نصاب صفحه ۲۲۷) ۴۳

Page 50

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.چشم و چراغ مورث اعلی - متانت غور و خوض - خلوت نشینی رگ وریشہ میں رچنا.فکر دامنگیر رہنا.دستکش ہونا.بدل و جان یکسر بے گانہ ہونا.تہلکہ مچانا.طوفان بے تمیزی امر آنا جوابات لکھیں - - (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بچپن میں کون سے علوم حاصل کئے؟ (۲) آپ کے والد صاحب کو کیا فکر دامنگیر تھی؟ (۳) اُس زمانے کے عقائد و حالات کیا تھے؟ (۴) آپ کی کس کتاب نے دُنیا میں تہلکہ مچادیا ؟ (۵) آپ کی مخالفت کب اور کیوں شروع ہوئی ؟ تمرین (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس سبق کا کچھ حصہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ اور اہم امور اپنی کاپی میں لکھیں.

Page 51

سبق نمبر : ٨٠ اُردو کی کتاب چهارم خلافت احمدیہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خلافت راشدہ کا وعدہ دیا ہے.چنانچہ سورہ نور کی آیت ۵۶ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ”اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ اُن کو زمین میں خلیفہ بنا دے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور جو دین اُس نے اُن کے لئے پسند کیا ہے وہ اُن کیلئے اُسے مضبوطی سے قائم کر دے گا اور اُن کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کیلئے امن کی حالت تبدیل کر دے گا وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہیں بنائیں گے اور جو لوگ اس کے بعد بھی انکار کریں گے وہ نافرمانوں میں سے قرار دیئے جائیں گے.“ لیکن یا درکھنا چاہئے کہ یہ وعدہ چار ذمہ داریوں کے ساتھ مشروط ہے اوّل ۴۵

Page 52

اُردو کی کتاب چهارم یہ کہ مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ کی طرف سے خلافت راشدہ کے قیام کے وعدہ پر ایمان رکھتی ہو دوم یہ کہ خلافت حقہ کی منشاء کے مطابق اعمالِ صالحہ پر کار بند ہو.سوم یہ کہ توحید کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانیاں دینے کی صلاحیت رکھتی ہو.چہارم یہ کہ ہر حال میں خلیفہ وقت کی اطاعت کو مقدم رکھتے ہوئے اباء واستکبار کے انجام کو جو آخر کار فسق تک پہنچادیتا ہے ہمیشہ ملحوظ رکھتی ہو.چنانچہ تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک امت مسلمہ ان چار ذمہ داریوں کو ادا کرتی رہی اللہ تعالیٰ ان کو خلافت راشدہ کے انعام سے سرفراز فرماتا رہا.لیکن جب یہ شرائط مفقود ہوگئیں اور مسلمانوں میں اختلاف اور انتشار پھیل گیا اور اعمالِ صالحہ سے دُوری اور اطاعت و فرمانبرداری کی روح ختم ہو گئی تو یہ انعام چھین لیا گیا اور ظالم حکمرانوں کا لمبا دور شروع ہو گیا.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس زمانہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند جلیل حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مهدی معہود کی بعثت کے ذریعے امت محمدیہ میں پھر ایک ایسی پاک جماعت کا قیام عمل ۴۶

Page 53

اُردو کی کتاب چهارم میں آیا جو سورہ نور میں بیان فرمودہ چار شرائط سے آراستہ ہو گئی جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع ہوا.یہ نظام خلافت اسی سابقه خلافت راشدہ کا تسلسل ہے جو آج سے چودہ سو برس قبل سید نا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منہاج نبوت پر قائم ہوا تھا اس خلافت راشدہ کے بعد امت محمدیہ میں جو مختلف دور آنے والے تھے اور آخر حضرت امام مہدی علیہ السلام کے بعد دوبارہ اسی خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع ہونے والا تھا اس بارے میں مخبر صادق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ پیشگوئی کے رنگ میں بیان فرمایا تھا: چنانچہ مسند احمد مشکوۃ کی اس حدیث کا ترجمہ یوں ہے: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں نبوت (یعنی نبی کا وجود ) اس وقت تک رہے گی جب تک خدا چاہے گا پھر اسے اللہ تعالیٰ اُٹھالے گا پھر (نبی کے وصال کے معا بعد ) خلافت طریق نبوت پر قائم ہو جائے گی.جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا یہ ۴۷

Page 54

اُردو کی کتاب چهارم ثبوت قائم رہے گی پھر اسے بھی وہ اٹھالے گا.اس کے بعد کاٹنے والی یعنی لوگوں پر ظلم کرنے والی بادشاہت کا دور آئے گا جب تک خدا کا منشاء ہوگا یہ دور چلتا رہے گا پھر خدا اسے بھی اُٹھا دے گا اسکے بعد جبری حکومت کا دور آئے گا یعنی ایسی حکومت آئے گی جو جمہوریت کے اصول کے خلاف ہوگی.پھر کچھ عرصہ کے بعد یہ دور بھی ختم ہو جائے گا اس کے بعد دوبارہ خلافت کا دور آئے گا جو ابتدائی دور کی طرح نبوت کے طریق پر قائم ہوگا.راوی کہتے ہیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.یہ لطیف حدیث اسلام کی لہر دار تاریخ کا ایک دلچسپ اور مکمل خلاصہ پیش کر رہی ہے اور ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال حکمت سے ہر دور کا علیحدہ علیحدہ نقشہ کھینچنے کے لئے ایسے نادر الفاظ چنے ہیں جنہوں نے حقیقتا دریا کو کوزے میں بند کر کے رکھ دیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے نبوت کا دور ہے جو گویا اس سارے نظام کا مرکزی نقطہ ہے اس کے بعد خلافت کا دور شروع ہوگا مگر خلافت سے مُراد عام خلافت نہیں جیسے بعض اوقات جابر حکمرانوں کا نام بھی خلیفہ رکھ دیا جاتا ہے لیکن یہاں خلافت علی منہاج ۴۸

Page 55

اُردو کی کتاب چهارم ثبوت مراد ہے.چنانچہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت قائم ہوئی اس کے بعد آپ نے ملنگا عاشا کا ذور بیان فرمایا ہے جو گویا کاٹنے والا اور ظلم ڈھانے والا دور تھا یہ وہ دور تھا جس میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور خاندان نبوت کے کئی دوسرے افراد ظلم کا شکار ہو گئے اور اسی دور میں حضرت ابو بکر کے عالی مرتبہ نواسہ حضرت عبداللہ بن زبیر بھی شہید کئے گئے اور یہی وہ دور تھا جس میں حجاج بن یوسف کی تلوار نے ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کر دیا تھا اس کے بعد ملنگا جبریہ کا دور بیان فرمایا ہے یعنی ایسی بادشاہت جس میں سابق دور کی طرح انتہائی ظلم وستم کا رنگ تو نہ ہوگا مگر وہ اسلام کے جمہوری نظام پر قائم نہیں ہوگی بلکہ جبری رنگ کی حکومت ہوگی چنانچہ اسلام میں یہ جبری دور حکومت صدیوں تک چلتا رہا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ پھر دوبارہ خلافت علی منہاج نبوت کا دور قائم ہو جائے گا یعنی اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں میں سے کسی مقرب بندہ کو ظلتی اور ۴۹

Page 56

اُردو کی کتاب چهارم بروزی طور پر نبوت کے انعام سے نواز کر اسکے ذریعہ پھر سے خلافت راشدہ کا سلسلہ شروع فرمائے گا.راوی بیان کرتے ہیں کہ اس قدر بیان فرمانے کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.یعنی خلافت علی منہاج نبوت کے دور میں پھر اسلام کو غلبہ نصیب ہوگا اور یہ آخری دور خلافت وہی ہے جو خدا کے فضل سے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت کے ساتھ شروع ہو چکا ہے.چنانچہ حدیث کی مشہور کتاب مشکوۃ میں جہاں یہ حدیث نقل کی گئی ہے وہاں اس کے حاشیہ میں یہ درج ہے کہ اس دوسرے دور سے مراد مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے.بانی جماعت احمدیہ علیہ السلام نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ قبل اس نعمت خلافت کی بشارت دیتے ہوئے جماعت کو ان الفاظ میں تسلی دلائی تھی کہ : وو سواے عزیز و! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سواب ممکن نہیں

Page 57

اُردو کی کتاب چهارم ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی (یعنی اپنے وصال کی خبر سے.ناقل ) غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خُدا اُس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دُعا کرتے رہو اور چاہئیے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دُعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہو اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.“ الوصیت صفحه ۵ ، ۶ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۵) اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر ۵۱

Page 58

اُردو کی کتاب چهارم میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان تمام روحوں کو جو زمین کی متفرق آبادیوں میں آباد ہیں کیا یورپ کیا ایشیا ان سب کو جو نیک فطرت با 66 رکھتے ہیں توحید کی طرف کھینچے اور اپنے بندوں کو دین واحد پر جمع کرے.“ (الوصیت صفحه ۶ ) حضرت بانی جماعت احمدیہ کی وفات ۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو ہوئی اور اگلے دن ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جماعت احمدیہ میں خلافت علی منہاج نبوت کا بابرکت سلسلہ حضرت حاجی الحرمین حافظ قرآن حکیم مولانا نور الدین صاحب کے ذریعے شروع ہوا جنہیں جماعت نے خلیفہ اسیح الاوّل کے طور پر منتخب کر کے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کی سعادت حاصل کی.(بحوالہ دینی نصاب صفحه ۲۳۴) ۵۲

Page 59

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.اعمال صالحہ کار بند- اباء واستکبار- اختلاف و انتشار سرفراز - تسلسل مخبر صادق- خلافت علی منہاج نبوت ظلل بروز مجسم قدرت دوسری قدرت مظہر جوابات لکھیں (۱) خلافت کے قائم رہنے کا وعدہ کن شرائط کے ساتھ مشروط ہے؟ (۲) جب وہ شرائط پوری نہ کی گئیں تو کیا نتیجہ نکلا ؟ (۳) مُلكًا عاضا کس دور کو کہا جاتا ہے؟ (۴) دو قدرتوں سے کیا مراد ہے؟ (۵) قدرت ثانیہ کے مظہر کون ہیں؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) اس سبق کے کچھ حصے کی استاد املا لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۵۳

Page 60

سبق نمبر : ۹ اُردو کی کتاب چهارم حضرت خلیفۃ البیع الاول رضی اللہ عنہ ابتدائی زندگی: ۱۸۴۱ تا ۱۹۱۴ حاجی الحرمین حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ۱۸۴۱ء میں پنجاب کے ایک قدیم شہر بھیرہ میں پیدا ہوئے.والد کا نام حافظ غلام رسول اور والدہ کا نام نور بخت تھا.۳۲ ویں پشت میں آپ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے.آپ کے خاندان میں بہت سے اولیاء و مشائخ گذرے ہیں.گیارہ پشت سے تو حفاظ کا سلسلہ بھی برابر چلتا آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس مقدس خاندان کو ابتداء سے ہی قرآن کریم سے والہانہ شغف رہا ہے.ابتدائی تعلیم تو ماں باپ سے حاصل کی پھر لاہور اور راولپنڈی میں تعلیم پائی.نارمل اسکول سے فارغ ہوکر چار سال پنڈ داد خان میں اسکول کے ہیڈ ماسٹر رہے.پھر ملازمت ترک کر دی اور ۵۴

Page 61

اُردو کی کتاب چهارم حصول علم کے لئے رام پور لکھنو میرٹھے اور بھوپال کے سفر اختیار کئے.ان ایام میں آپ نے عربی، فارسی، منطق، فلسفہ، طب غرض ہر قسم کے مروج علوم سیکھے.قرآن کریم سے قلبی لگاؤ تھا اور اس کے معارف آپ پر کھلتے رہتے تھے تو کل کا اعلیٰ مقام حاصل تھا.دعاؤں سے ہر وقت کام لیتے تھے جہاں جاتے غیب سے آپ کے لئے سہولت کے سامان پیدا ہو جاتے اور لوگ آپ کے گرویدہ ہو جاتے ایک مرتبہ ایک رئیس زادہ کا علاج کیا تو اس نے اس قدر روپیہ دیا کہ آپ پر حج فرض ہو گیا چنانچہ آپ مکہ ، مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے تشریف لے گئے.حج بھی کیا اور وہاں کنی اکابر علماء، فضلاء سے حدیث پڑھی اس وقت آپ کی عمر چو بیس پچیس برس تھی.بلا د عرب سے ہند واپس آکر بھیرہ میں درس و تدریس اور مطب کا آغاز کیا.مطلب کی شان یہ تھی کہ مریضوں کے لئے نسخے لکھنے کے دوران احادیث وغیرہ بھی پڑھاتے.۱۸۷۷ء میں لارڈلٹن وائسرائے ہند کے دربار میں شرکت کی.کچھ عرصہ بھوپال میں قیام کیا پھر ریاست جموں و کشمیر میں ۱۸۷۶ء سے ۱۸۹۲ء تک شاہی طبیب رہے.

Page 62

اُردو کی کتاب چهارم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت: گورداسپور کے ایک شخص کے ذریعہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غائبانہ تعارف ہوا اور حضور کا ایک اشتہار بھی نظر سے گذرا.مارچ ۱۸۸۵ء میں قادیان پہنچ کر حضور علیہ السلام سے ملاقات کی.اس وقت حضور نے نہ کوئی دعویٰ کیا تھانہ بیعت لیتے تھے تا ہم فراست صدیقی سے آپ نے حضور کو شناخت کیا اور حضور کے گرویدہ ہو گئے.حضور کے ارشاد پر آپ نے پادری تھامس ہاول کے اعتراضات کے جواب میں کتاب فصل الخطاب اور پنڈت لیکھرام کی کتاب تکذیب براہین کے جواب میں تصدیق براہین احمدیہ تصنیف فرمائی.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء میں جب لدھیانہ میں بیعت اولی ہوئی تو سب سے اوّل آپ نے بیعت کا شرف حاصل کیا.ستمبر ۱۸۹۲ء میں ریاست کشمیر سے آپ کا تعلق منقطع ہو گیا تو بھیرہ میں مطلب جاری کرنے کے لئے ایک بڑا مکان تعمیر کرایا.ابھی وہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے بموجب قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ رہے.قادیان میں ایک مکان بنوا کر اس میں مطب شروع کیا.حضرت مسیح موعود ۵۶

Page 63

اُردو کی کتاب چهارم علیہ السلام کے ساتھ دربار شام میں نیز سیر و سفر میں ہمرکاب رہتے.حضور کی مقدس اولاد کو قرآن و حدیث پڑھاتے.صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے پھر طالب علموں کو درس حدیث دیتے اور طب پڑھاتے.بعد نماز عصر روزانہ درس قرآن کریم دیتے عورتوں میں بھی درس ہوتا.مسجد اقصیٰ میں پنجوقت نماز اور جمعہ کی امامت کراتے جب قادیان میں کالج قائم ہوا تو اس میں عربی پڑھاتے رہے.دسمبر ۱۹۰۵ء میں انجمن کار پرداز مصالح قبرستان کے امین مقرر ہوئے جب صدر انجمن قائم ہوئی تو اس کے پریزیڈنٹ مقرر ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حوالہ جات نکالنے میں مدد دیتے اور حضور کی تصانیف کی پروف ریڈنگ کرتے.مباحثات میں مدد دیتے اخبار الحکم اور البدر کی قلمی معاونت فرماتے.قرآن کریم کا مکمل ترجمہ کیا اور چھپوانے کے لئے مولوی محمد علی صاحب کو دیا لیکن صرف پہلا پارہ چھپ سکا.خلافت کا دور ۲۷ مئی ۱۹۰۸ء کو جبکہ آپ کی عمر ۶۷ سال تھی خلیفہ منتخب ہوئے.قریبا بارہ سو افراد نے بیعت خلافت کی.مستورات میں سب سے پہلے حضرت اماں ۵۷

Page 64

جان رضی اللہ عنہا نے بیعت کی.اُردو کی کتاب چهارم شروع خلافت سے ہی واعظین سلسلہ کا تقرر ہوا.حضرت شیخ غلام احمد صاحب ، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی رضوان اللہ علیھم ، اولین واعظ مقرر ہوئے جنہوں نے ملک کے طول و عرض میں پھر کر سلسلہ کی خدمات سرانجام دیں.بے شمار تقاریر کیں مباحثات کئے اور متعدد مقامات پر جماعتیں قائم کیں.آپ کے دور خلافت میں گرلز سکول اور اخبار ٹو ر کا ۱۹۰۹ء میں اجراء ہوا.شاخ دینیات مدرسہ احمد یہ بن گئی.۱۹۱۰ء میں مسجد نور کی بنیاد رکھی گئی اسی طرح مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی اسکول اور اس کے بورڈنگ کی بنیاد رکھی گئی.مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی کوششوں سے انجمن انصار اللہ کا قیام عمل میں آیا اور اخبار الفضل جاری ہوا.۱۹۱۳ء میں یورپ میں سب سے پہلا احمد یہ مشن قائم ہوا.مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو صدرانجمن احمدیہ کے ۵۸

Page 65

اُردو کی کتاب چهارم سرکردہ ممبر تھے ابتداء سے ہی مغربیت زدہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی ان کی یہ خواہش تھی کہ جماعت کا نظام اسی رنگ میں چلائیں جیسے دنیاوی انجمنیں چلاتی ہیں.اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی لنگر خانہ کے انتظام اور سلسلہ کے دوسرے کاموں پر اعتراض کرتے رہتے تھے اور اخراجات کے بارے میں حضور علیہ السلام کی ذات پر بھی نکتہ چینی کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے.حضور علیہ السلام کی زندگی میں تو ان کی کچھ پیش نہیں گئی لیکن حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں انہوں نے پر پرزے نکالنے شروع کئے.خلافت کے دور میں جو پہلا جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۰۸ء میں ہوا اس میں ایسی تقاریر کا انتظام کیا جس سے مقصود جماعت میں یہ خیال پیدا کرنا تھا کہ دراصل صدر انجمن احمد یہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشین اور خلیفہ ہے لیکن حضرت خلیفہ اول نے ان خیالات کی تردید کرتے ہوئے ضرورت خلافت اور اطاعت خلیفہ پر زور دیا اور فرمایا: " تم نے خود میری بیعت نہیں کی بلکہ میرے مولیٰ نے تمہارے دلوں کو ۵۹

Page 66

اُردو کی کتاب چهارم میری طرف جھکا دیا پس تمہیں میری فرمانبرداری ضروری ہے.“ ۱۹۱۰ ء میں آپ گھوڑے سے گر گئے اور بہت چوٹیں آئیں.علالت کا سلسلہ طویل ہو گیا اس دوران ایک مرتبہ آپ نے وصیت تحریر فرمائی یعنی خلیفہ محمود اس سے ظاہر ہے کہ آپ اپنے بعد صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کو خلیفہ نامزد کرنا چاہتے تھے.آپ نے اپنی علالت کے دوران حضرت صاحبزادہ موصوف کو اپنی جگہ امام الصلوۃ مقرر فرمایا.یوں بھی آپ ان کی بہت تعظیم و تکریم کرتے تھے اور بر ملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ اپنے تقوی وطہارت اطاعت امام اور تعلق باللہ میں ان کو ایک خاص مقام حاصل ہے.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا یہی کارنامہ ہے کہ آپ نے خلافت کے نظام کو مضبوطی سے قائم کر دیا اور خلافت کی ضرورت و اہمیت کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کر کے اس عقیدہ کو جماعت میں راسخ کر دیا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.انسانی منصوبوں سے کوئی شخص خلیفہ نہیں بن سکتا.خلافت کے الہی نظام کو مٹانے کیلئے منکرین خلافت نے جو فتنہ و فساد برپا کیا اور لوگوں کو

Page 67

اُردو کی کتاب چهارم ورغلانے اور اپنا ہم خیال بنانے کی جو کاروائیاں کی گئیں آپ نے ان کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا.وفات: غرض آپ اپنی خلافت کے سارے دور میں جہاں قرآن کریم و احادیث نبوی کے درس و تدریس میں منہمک اور کوشاں رہے وہاں خلافت کے مسئلہ کو بار بار تقریروں اور خطبات میں واضح کیا یہاں تک کہ جماعت کی غالب اکثریت نے اس حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لیا علالت کے دوران خفیہ ٹریکٹوں کی اشاعت نے آپ کو بہت دُکھ پہنچایا اور آپ کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا.بالآخر آپ نے ۱۳ مارچ ۱۹۱۴ء بروز جمعہ داعی اجل کو لبیک کہا اور اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ : (از دینی نصاب صفحه ۲۴۰) ۶۱

Page 68

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.شجرہ نسب - مشائخ- پشت- والہانہ شغف- مروجہ علوم قلبی لگاؤ - رئیس زاده- علماء، فضلاء- غائبانہ تعارف فراست صدیقی گرویدہ - مطب - قلمی معاونت معتمدین جوابات لکھیں - (1) مولانا نورالدین صاحب پر حج کب اور کیونکر فرض ہوا؟ (۲) آپ نے کس سنہ میں اور کہاں حضرت مسیح موعود سے ملاقات کی ؟ (۳) آپ قادیان میں دھونی رما کر کیوں بیٹھ گئے ؟ (۴) الحکم، البدر اخبارات کی تفصیل لکھیں؟ (۵) ۱۹۱۰ء میں کون سا حادثہ پیش آیا جس سے آپ شدید زخمی ہوئے ؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس سبق کا کچھ حصہ بطور املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۶۲

Page 69

بق نمبر ١٠٠ ابتدائی زندگی: اُردو کی کتاب چهارم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد لمصلح الموعو خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ۱۸۸۹ء تا ۱۹۶۵ء ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ حضرت خلیفہ الحی الثانی رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اس لحاظ سے ممتاز اور نمایاں ہے کہ اس کے بارے میں سابقہ انبیاء و صلحاء کی پیشگوئیاں موجود ہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نشانات اور اس کی پیہم تائیدات نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ ہی وہ موعود خلیفہ ہیں جسکا وعدہ دیا گیا تھا.ابتدائی زندگی: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو ایک مسیحی نفس لڑکے کی پیدائش کی خبر دی اور بتایا کہ وہ دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور بتلایا گیا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں ضرور پیدا ہو جائے گا.اس پیشگوئی کے مطابق سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت اماں ۶۳

Page 70

اُردو کی کتاب چهارم جان نصرت جہاں بیگم کے بطن سے ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء بروز ہفتہ تولد ہوئے.الہام الہی میں آپ کا نام محمود، بشیر ثانی، فضل عمر اور مصلح موعود بھی رکھا گیا اور کلمہ اللہ نیز فخر رسل کے خطابات سے نوازا گیا.آپ کے بارہ میں الہاما یہ بھی بتایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا.خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا وہ جلد جلد بڑھے گا اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.چونکہ آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سی بشارات ملی تھیں اس لئے حضور آپ کا بہت خیال رکھتے.کبھی آپ کو ڈانٹ ڈپٹ نہیں کی.بچپن سے آپ کی طبیعت میں دین سے رغبت تھی دعا میں شغف تھا اور نمازیں بہت توجہ سے ادا کرتے تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تعلیم الاسلام میں پائی.صحت کی خرابی اور نظر کی کمزوری کے باعث آپ کی تعلیمی حالت اچھی نہ رہی اور ہر جماعت میں رعایتی ترقی پاتے رہے.مڈل اور انٹرنس اور (میٹرک) کے سرکاری امتحانوں میں فیل ہوئے اس طرح دنیاوی تعلیم ختم ہوگئی.اسی درسی تعلیم کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ عنہ نے اپنی خاص تربیت میں لیا قرآن کریم کا ترجمہ تین ماہ میں پڑھا دیا.پھر بخاری بھی تین ماہ میں پڑھادی.کچھ طلب بھی پڑھائی اور چند عربی کے رسالے پڑھائے قرآنی علم کا انکشاف تو محبت الہی سے ہوتا ہے مگر یہ درست ہے کہ قرآن کریم کی چاٹ حضرت خلیفہ اسیح الاول نے ہی لگائی.جب آپ کی عمر سترہ اٹھارہ سال کی تھی تو ایک دن.۶۴

Page 71

اُردو کی کتاب چهارم خواب میں ایک فرشتہ ظاہر ہوا اور اس نے سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائی اس کے بعد سے تفسیر قرآن کا علم خدائے تعالیٰ خود عطا کرتا چلا گیا.۱۹۰۶ء میں جب آپ کی عمر سترہ سال تھی صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو مجلس معتمدین کا رکن مقرر کیا.۲۶ مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو غم کا ایک پہاڑ آپ پر ٹوٹ پڑا غم اس بات کا تھا کہ سلسلہ کی مخالفت زور پکڑے گی اور لوگ طرح طرح کے اعتراضات کریں گے تب آپ نے حضور کے جسدِ اطہر کے سرہانے کھڑے ہوکر اپنے رب سے عہد کیا کہ: اگر سارے لوگ بھی آپ ( یعنی مسیح موعود ) کو چھوڑ دیں اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا.“ یہ عہد آپ کی اولوا العزمی اور غیرت دینی کی ایک روشن دلیل ہے.تاریخ شاہد ہے کہ آپ نے اس عہد کو خوب نبھایا.قرآن کریم کا فہم آپ کو بطور محبت عطا ہوا تھا جس کا اظہار اُن تقاریر سے ہوتا تھا جو آپ وقتا فوقتنا جلسہ سالانہ پر یا دوسرے مواقع پر کرتے تھے.آیت کریمہ لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کے مطابق سیہ اس امر کا ثبوت تھا کہ سیدنا پیارے محمود کے دل میں خدا اور اس کے رسول اور اس

Page 72

اُردو کی کتاب چهارم کے کلام پاک کی محبت کے سوا کچھ نہ تھا.لیکن بُرا ہوحسد اور بغض کا کہ منکرین خلافت آپ کے خلاف بھی منصوبے بناتے رہے اور کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح خلیفہ اول آپ سے بدظن ہو جائیں ان کو آپ سے دشمنی اس بنا پر تھی کہ اول آپ خلیفہ اول کے کامل فرمانبردار اور حضور کے دست و بازو اور زبردست موید تھے.دوسرے آپ کے تقوی طہارت تعلق باللہ اجابت دعا اور مقبولیت کی وجہ سے انہیں نظر آرہا تھا کہ جماعت میں آپ کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت روز بروز ترقی کر رہی ہے اور خود حضرت خلیفہ اسیح الاوّل بھی آپ کا بے حد اکرام کرتے ہیں ان وجوہات کے باعث آپ کا وجود منکرین خلافت کو کھٹکتا تھا.خلافت اولی کے دور میں آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں نیز بلا د عرب و مصر کا سفر کیا.حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے.1911ء میں آپ نے مجلس انصار اللہ قائم فرمائی اور ۱۹۱۳ء میں اخبار الفضل جاری کیا اور اس کی ادارت کے فرائض اپنی خلافت کے دور تک نہایت قابلیت اور عمدگی سے سرانجام دیئے.عہد خلافت : حضرت خلیفۃ الی الاول کی وفات کے بعد ۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو مسجد نور میں خلافت کا انتخاب ہوا.دو اڑھائی ہزار افراد نے جو اس وقت موجود تھے بیعت ۶۶

Page 73

اُردو کی کتاب چهارم خلافت کی.قریبا پچاس افراد ایسے تھے جنہوں نے بیعت نہیں کی تھی اور اختلاف کا راستہ اختیار کیا.اختلاف کرنے والوں میں مولوی محمد علی صاحب اور خواجہ کمال الدین صاحب جو اپنے آپ کو سلسلہ کا عمود سمجھتے تھے پیش پیش تھے.خلافت سے انکار اور حبل اللہ سے ناقدری کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ رسول کی تخت گاہ قادیان سے منقطع ہوئے، صدر انجمن احمدیہ سے منقطع ہوئے ، نظام وصیت سے منقطع ہوئے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت سے منکر ہوئے اور اپنے کئی عقائد ونظریات میں اس لئے تبدیلی کرنے پر مجبور ہوئے کہ شاید عوام میں مقبولیت حاصل ہو لیکن وہ بھی نصیب نہ ہوئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا عہد خلافت اسلام کی ترقی اور بے نظیر کامیابیوں کا درخشاں دور ہے.اس باون سالہ دور میں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی نصرتوں کے ایسے عجیب در عجیب نشانات ظاہر ہوئے کہ ایک دنیا ورطہ حیرت میں پڑ گئی اور دشمن سے دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہ رہا کہ اس سلسلہ عالیہ احمدیہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور یہ کہ امام جماعت احمد یہ بے نظیر صلاحیتوں کے مالک ہیں.آپ کے اس باون سالہ دور میں مخالفتوں کے بہت سے طوفان اُٹھے.اندرونی اور بیرونی فتنوں نے سراٹھایا مگر آپ کے پائے استقلال کو ذرا جنبش نہ ہوئی اور یہ الہی قافلہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب ۶۷

Page 74

اُردو کی کتاب چهارم بدستور بڑھتا گیا.ہر فتنہ کے بعد جماعت کی قربانی اور فدائیت کی روح میں نمایاں ترقی ہوئی اور قدم آگے ہی آگے بڑھتا گیا.جس وقت منکرین خلافت مرکز سلسلہ کو چھوڑ کر گئے اس وقت انجمن کے خزانے میں چند آنوں کے سوا کچھ نہ تھا لیکن جس وقت آپ کا وصال ہوا اس وقت صدرانجمن اور تحریک جدید کا بجٹ اکہتر لاکھ نواسی ہزار تک پہنچ چکا تھا.اختلاف کے وقت ایک کہنے والے نے مدرسہ تعلیم الاسلام کے متعلق کہا: ”یہاں اُتو بولیں گے لیکن خدا کی شان کہ وہ مدرسہ نہ صرف کالج بنا بلکہ اس کے نام پر بیسیوں تعلیمی ادارے مختلف ممالک میں قائم ہوئے.حضرت مصلح موعودؓ کے بارے میں جو کچھ اللہ تعالی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتلایا تھا وہ لفظ لفظ پورا ہوا حضرت فضل عمر جلد جلد بڑھے اور دنیا کے کناروں تک اشاعت اسلام کے مراکز قائم کر کے شہرت پائی.آپ کے بہت سے کارناموں میں سے چند کا ذکر اختصار سے ذیل میں کیا جاتا ہے: 1) جماعتی کاموں میں مضبوطی پیدا کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کر کے نظارتوں کا نظام قائم کیا.(۲) بیرونی ممالک میں تبلیغ کا کام وسیع پیمانے پر چلانے کے لئے ۱۹۳۴ میں تحریک جدید قائم فرمائی اور صدرانجمن احمدیہ سے الگ ایک نئی انجمن یعنی تحریک جدید ۶۸

Page 75

اُردو کی کتاب چهارم انجمن احمدیہ کی بنیاد رکھی اس کے نتیجہ میں بفضل ایزدی یورپ، ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے مختلف ممالک اور جزائر میں نے تبلیغی مشن قائم ہوئے ہینکڑوں مساجد تعمیر ہوئیں ، قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور کثرت کے ساتھ اسلامی لٹریچر مختلف زبانوں میں شائع کیا گیا اور لاکھوں افراد اسلام کے نور سے منور ہوئے.(۳) اندرون ملک دیہاتی علاقوں میں تبلیغ کے کام کو موثر رنگ میں چلانے کیلئے ذیلی تنظیمیں یعنی انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ قائم فرمائیں تا کہ مرد اور عورتیں، بچے اور جو ان سب اپنے اپنے رنگ میں آزادانہ طور پر تعلیم وتربیت کا کام جاری رکھ سکیں اور نئی نسل میں قیادت کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں.ان تنظیموں کا قیام جماعت پر احسان عظیم ہے.(۴) جماعت میں مل جل کر اور منتظم رنگ میں کام کو جاری رکھنے کے لئے مجلس شوری کا قیام فرمایا.(۵) قرآنی علوم کی اشاعت اور ترویج کیلئے درس قرآن کا سلسلہ جماعت میں جاری رکھا.تفسیر کبیر کے نام سے کئی جلدوں میں ایک تعلیم تفسیر لکھی جس میں قرآنی حقائق و معارف کو ایسے اچھوتے انداز میں پیش کیا کہ دل تسلی پاتے ہیں اور اسلام کی حقانیت خوب واضح ہوتی ہے اس کے علاوہ ہر طبقہ کے لوگوں میں قرآنی 19

Page 76

اُردو کی کتاب چهارم علوم کا چسکا پیدا کرنے کیلئے قرآن کریم کی ایک نہایت مختصر مگر عام فہم تغییر الگ تحریر فرمائی جس کا نام تفسیر صغیر ہے.(۶) بحیثیت امام اور خلیفہ وقت جماعتی ذمہ داریوں کو نبھانے کے علاوہ آپ نے ملک وملت کی خدمت میں نمایاں اور قابل قدر حصہ لیا.آپ کی تعظیمی صلاحیتوں کے پیش نظر مسلمانان کشمیر کو آزادی دلانے کیلئے جب آل انڈیا کشمیر کمیٹی قائم ہوئی تو آپ کو اس کا صدر منتخب کیا گیا.ہراہم سیاسی مسئلہ کے بارے میں آپ نے مسلمانان ہند کی رہنمائی کی اور بیش قیمت مشوروں کے علاوہ دامے درمے سخنے ہر طرح ان کی امداد کی.کئی مرتبہ اپنے سیاسی مشوروں کو کتابی شکل میں شائع کر کے ملک کے تمام سر بر آوردہ اشخاص تک نیز ترجمہ کے ذریعہ ممبران برٹش پارلیمنٹ اور برٹش کیبنٹ تک پہنچایا.(۷) تقسیم ملک کے وقت جہاں آپ نے مسلمانوں کی حفاظت اور بہبود کیلئے مقدور بھر کوششیں کیں وہاں اپنی جماعت کے لئے ۱۹۴۸ء میں ربوہ جیسے بے آب و گیاہ علاقہ میں ایک فعال مرکز قائم کیا.(۸) آپ نے تاریخ اسلام کے واقعات کو بہتر رنگ میں سمجھنے اور یا در رکھنے کیلئے ہجری شمسی سنہ جاری فرمایا.

Page 77

اُردو کی کتاب چهارم ۹) آپ نے متعدد والیان ریاست اور سربراہان مملکت کو تبلیغی خطوط ارسال کئے اور انہیں احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے روشناس کرایا ان میں امیر امان اللہ خان والی افغانستان، نظام دکن، پرنس آف ویلز اور لارڈارون وائسرائے ہند خاص طور پر قابل ذکر ہیں.۱۹۳۹ ء میں خلافت کے پچیس سال پورے ہونے پر سلور جوبلی کی تقریب منعقد ہوئی اور جماعت نے تین لاکھ کی رقم اپنے امام کے حضور تبلیغ اسلام کی توسیع کیلئے پیش کی پھر ۱۹۶۴ء میں جب خلافت ثانیہ پر پچاس سال پورے ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے حضور اظہار تشکر کے طور پر خاص دعائیں کی گئیں اور اپنے پیارے امام کے مقاصد عالیہ کی تکمیل کے لئے جماعت نے پچیس لاکھ سے زائد رقم بطور شکرانہ پیش کی.۱۹۴۴ء میں بذریعہ رویا والہام آپ پر اس امر کا انکشاف ہوا کہ آپ ہی وہ مصلح موعود ہیں جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی تھی اس انکشاف کے اعلان کے لئے آپ نے ہوشیار پور، لدھیانہ، لاہور اور دہلی میں جلسے منعقد کر کے معرکۃ الآراء تقاریر کیں اور اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر کیا.آپ نے یورپ کا دو مرتبہ سفر کیا.پہلی مرتبہ آپ ۱۹۲۴ء میں ویمبلے ا

Page 78

اُردو کی کتاب چهارم کا نفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے جہاں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے اپنے اپنے مذاہب کی خوبیاں بیان کیں اس کانفرنس میں آپ کا مضمون احمدیت یعنی حقیقی اسلام انگریزی میں ترجمہ ہوکر پڑھا گیا.۱۹۵۴ء میں آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا علاج سے زخم تو بظاہر مندمل ہو گئے لیکن تکلیف جاری رہی اس لئے ۱۹۵۵ء میں آپ دوسری مرتبہ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.وفات: مندرجہ بالا سانحہ فاجعہ کے بعد آپ کی صحت برابر گرتی چلی گئی یہاں تک کہ وہ المناک گھڑی آ پہنچی جب آپ تقدیر الہی کے ماتحت اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ : یہ ۸ اور ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب تھی.حضرت امیر المؤمنین صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے 9 نومبر کو بہشتی مقبرہ ربوہ کے وسیع احاطہ میں نماز جنازہ پڑھائی اور پچاس ہزار افراد نے دلی دعاؤں اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ آپ کو سپر د خاک کیا.(بحوالہ دینی نصاب صفحہ ۲۴۶) ۷۲

Page 79

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.ممتاز و نمایاں پیہم - تائیدات - ذہین و فهیم - تولد - رستگاری - شغف موهبت - دست و باز و حبل اللہ تخت گاه - پائے استقلال- الو بولنا غم کا پہاڑ ٹوٹنا جوابات لکھیں (۱) حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے کا رہانے نمایاں تحریر کریں؟ (۲) آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر کیا عہد کیا تھا؟ (۳) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے کتنے عرصہ میں قرآن مجید اور بخاری کا ترجمہ پڑھا؟ (۴) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نظارتوں کا نظام کب جاری فرمایا ؟ (۵) آپ نے یورپ کا سفر کتنی مرتبہ اور کب کب اختیار کیا ؟ تمرین (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کا کچھ حصہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۷۳

Page 80

بق نمبر :.اُردو کی کتاب چهارم ابتدائی زندگی: حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ ١٩٠٩ء تا ۱۹۸۲ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جہاں اولاد کی بشارت دی تھی وہاں ایک نافلہ کی بھی خاص طور پر بشارت دی تھی جیسا کہ فرمایا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَـــافــلـةً لَّكَ (حقیقة الوحی صفحه ۹۵ ، تذکرہ صفحہ ۶۴۶) یعنی ایک لڑکے کی ہم تجھے بشارت دیتے ہیں جو تیرا پوتا ہوگا.مواہب الرحمن صفحہ ۱۲ میں بھی پانچویں فرزند یعنی پوتے کی بشارت موجود ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایک خاص فرزند کی بشارت دی تھی.چنانچہ آپ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:." مجھے بھی خدائے تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہوگا.تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۳۶) غرض حضرت خلیفة أسبح الثالث رحمہ اللہ بھی ایک رنگ سے موعود خلیفہ ۷۴

Page 81

اُردو کی کتاب چهارم ۱۷۰ تھے.ان پیش خبریوں کے مطابق حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسح الثالث ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کو بوقت شب پیدا ہوئے.۷ را پریل ۱۹۲۲ء کو جبکہ آپ کی عمر تیرہ سال تھی حفظ قرآن کی تکمیل کی توفیق ملی.بعد ازاں حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب سے عربی اور اردو پڑھتے رہے پھر مدرسہ احمدیہ میں دینی علوم کی تحصیل کے لئے باقاعدہ داخل ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.اس کے بعد میٹرک کا امتحان دیا اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوکر ۱۹۳۴ء میں بی اے کی ڈگری حاصل کی.اگست ۱۹۳۴ء میں آپ کی شادی ہوئی.ستمبر ۱۹۳۴ء کو بغرض تعلیم انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کر کے نومبر ۱۹۳۸ء میں واپس تشریف لائے.یورپ سے واپسی پر جون ۱۹۳۹ء سے اپریل ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ کے پرنسپل رہے.فروری ۱۹۳۹ء میں مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر بنے.اکتو بر ۱۹۴۹ء میں جب حضرت خلیفہ السیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بنفس نفیس خدام الاحمدیہ کی صدارت کا اعلان فرمایا تو نومبر ۱۹۵۴ء تک بحیثیت : نائب صدر مجلس کے کاموں کو نہایت عمدگی سے چلاتے رہے.مئی ۱۹۴۴ء سے لیکر نومبر ۱۹۶۵ء تک یعنی تا انتخاب خلافت تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کے فرائض ۷۵

Page 82

اُردو کی کتاب چهارم سرانجام دیئے.جون ۱۹۴۸ء سے جون ۱۹۵۰ء تک فرقان بٹالین کشمیر کے محاذ یر داد شجاعت دیتے رہے آپ اس بٹالین کے انتظامی کمیٹی کے ممبر تھے.۱۹۵۳ء میں پنجاب میں فسادات ہوئے اور مارشل لاء کا نفاذ ہوا تو اس وقت آپ کو گرفتار کر لیا گیا.اس طرح سنت یوسفی کے مطابق آپ کو کچھ عرصہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑیں.۱۹۵۴ء میں مجلس انصار اللہ کی زمام قیادت آپ کے سپرد کی گئی.مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا.کالج کے پرنسپل کے علاوہ صدر انجمن احمد یہ کے کاموں کی نگرانی بھی تا انتخاب خلافت آپ کے سپرد رہی.تقسیم ملک سے قبل باؤنڈری کمیشن کے لئے مواد فراہم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا اور حفاظت مرکز قادیان کے کام کی براہ راست نگرانی کرتے رہے.دورِ خلافت: حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے اپنے عہد خلافت میں ہی آئندہ نئے خلیفہ کے انتخاب کے لئے ایک مجلس مقرر فرما دی تھی جو مجلس انتخاب خلافت کے نام سے موسوم ہوئی حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وفات پر اس مجلس کا اجلاس ۸ نومبر کو بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد 24

Page 83

اُردو کی کتاب چهارم صاحب ناظر اعلیٰ منعقد ہوا جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو آئندہ کے لئے خلیفہ منتخب کیا گیا.اراکین مجلس انتخاب نے اسی وقت آپ کی بیعت کی اس کے بعد انتخاب کا اعلان ہوا اور انداز اپانچ ہزار افراد نے اسی دن آپ کی بیعت کی پھر بیرونی جماعتوں نے تاروں اور خطوط کے ذریعہ اقرار اطاعت کیا اور ساری جماعت نے والہانہ انداز میں قدرت ثانیہ کے تیسرے مظہر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ کو اپنا امام تسلیم کیا.مسجد بشارت کی تاسیس: حضور نے جون تا اکتوبر ۱۹۸۰ ء یورپ کا جو سفر کیا اس کا اہم ترین واقعہ مسجد بشارت پید رو آباد کی تأسیس تھا.اس سفر کے دوران حضور اسپین تشریف لے گئے اور قرطبہ سے بائیس تیس میل قصبہ پیدروآباد میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی جو حضور کے عہد مبارک میں ہی پایہ تکمیل کو پہنچ گئی.حضور نے اس کا نام مسجد بشارت تجویز فرمایا اور اس کے افتتاح کے لئے ۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کی تاریخ مقرر فرمائی.یہ مسجد ۷۴۴ سال بعد تعمیر ہونے والی اسپین کی پہلی مسجد ہے.مسجد کی بنیاد رکھے جانے کے وقت پید رو آباد کے ہزاروں مرد عورتوں اور بچوں نے بڑی خوشی سے اس تقریب LL

Page 84

اُردو کی کتاب چهارم میں شرکت کی.قصبہ کی ایک معمر ترین عورت اور ایک سب سے کم عمر بچے نے بھی بذریعہ اپنی والدہ سنگِ بنیاد رکھنے کی سعادت حاصل کی.آپ نے اپنے عہد خلافت میں بہت سی تحریکات جاری فرمائیں.ہر تحریک پر جماعت نے دل و جان سے لبیک کہا.آپ نے ساری دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دیا: محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں مورخہ ۸، ۹ جوان ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب آپ مختصری علالت کے بعد وفات پاگئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ * ۱۰ جون کو سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعد نماز عصر احاطہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی جس میں ایک لاکھ کے قریب افراد شریک ہوئے.نماز جنازہ کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے پہلو میں جانب شرق آپ کی تدفین عمل میں لائی گئی.آپ نے ۷۳ سال کی عمر پائی.(از دینی نصاب صح ۲۵۳) LA

Page 85

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.بنفس نفیس - دار شجاعت - قید و بند - صعوبتیں سنت یوسفی- نمایاں کردار.پایہ تکمیل جوابات لکھیں - (۱) حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے بچپن اور جوانی میں کون کون سے علوم حاصل کئے؟ (۲) آپ کس کس تعلیمی ادارہ کے پرنسپل رہے؟ (۳) " مجلس انتخاب خلافت کے کیا فرائض ہیں؟ (۴) اسپین کس براعظم کا ملک ہے؟ (۵) مسجد بشارت اسپین میں کتنے سالوں کے بعد تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی ؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) اس سبق کے کچھ حصے کو استاد بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۷۹

Page 86

بق نمبر : ۱۲۰ ) ابتدائی زندگی: اُردو کی کتاب چهارم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۹۲۸ء تا ۲۰۰۳ء ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت مصلح موعود کی حرم ثالث حضرت سیدہ ام طاہر مریم بیگم صاحبہ کے بطن سے ۱۸دسمبر ۱۹۲۸ء ۵ رجب ۱۳۴۷ھ کو پیدا ہوئے.حضور کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور سید خاندان کے چشم و چراغ تھے.بڑے عابد و زاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے جنہوں نے ۱۹۰۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا.آپ کی والدہ حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ نہایت پارسا اور بزرگ خاتون تھیں جو اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا بے حد خیال رکھتی تھیں اور اسے نیک ، صالح اور عاشق ۸۰

Page 87

قرآن دیکھنا چاہتی تھیں.اُردو کی کتاب چهارم حضرت صاحبزادہ صاحب نے ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک پاس کر کے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی.۷ دسمبر ۱۹۴۹ء کو جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور ۱۹۵۳ء میں نمایاں کامیابی کے ساتھ شاہد کی ڈگری لی.اپریل ۱۹۵۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ یورپ تشریف لے گئے اور لندن یونیورسٹی کے اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی.۴ سراکتو بر ۱۹۵۷ء کور بوہ واپس تشریف لائے.۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو وقف جدید کی تنظیم کا ناظم ارشاد مقرر فرمایا.آپ کی نگرانی میں اس تنظیم نے بڑی تیز رفتاری سے ترقی کی.حضرت مصلح موعود کی زندگی کے آخری سال میں اس تنظیم کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا جو خلافت ثالثہ کے آخری سال میں بڑھ کر دس لاکھ پندرہ ہزار تک پہنچ گیا.نومبر ۱۹۶۰ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے پہلی مرتبہ اس عظیم اجتماع میں خطاب فرمایا اس کے بعد قریبا ہر سال ہی جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خطاب فرماتے ΔΙ

Page 88

اُردو کی کتاب چهارم رہے.۱۹۶۱ء میں آپ افتاء کمیٹی کے ممبر مقرر ہوئے.۱۹۶۶ء سے نومبر ۱۹۶۹ء تک مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے.یکم جنوری ۱۹۷۰ء کو فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مقر ہوئے.۱۹۷۴ء میں جماعت احمد یہ کے ایک نمائندہ پانچ رکنی وفد نے حضرت خلیفہ مسیح الثالث کی قیادت میں پاکستان اسمبلی کے سامنے جماعت احمدیہ کے موقف کی حقانیت کو دلائل و براہین سے واضح کیا آپ اس وفد کے ایک رکن تھے.یکم جنوری ۱۹۷۹ء کو آپ صدر مجلس انصار اللہ مقرر ہوئے اور خلیفہ منتخب ہونے تک اس عہدہ پر فائز رہے.۱۹۸۰ء میں آپ احمد یہ آرکیکٹس اینڈ انجینئرز ہے ایسوسی ایشن کے سرپرست مقرر ہوئے.جلسہ سالانہ ۱۹۸ء کے موقعہ پر اس ایسو سی ایشن نے جلسہ کی تقاریر کا ساتھ کے ساتھ انگریزی اور انڈونیشین زبان میں ترجمہ پیش کرنے کا کامیاب تجربہ کیا.دور خلافت: ۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی مقرر کردہ مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس بعد نماز ظہر مسجد مبارک میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک ۸۲

Page 89

اُردو کی کتاب چهارم احمد صاحب وکیل الاعلی تحریک جدید منعقد ہوا اور آپکو بالاتفاق خلیفی مسیح الرابع منتخب کیا گیا اور تمام حاضرین مجلس نے انتخاب کے معا بعد حضور کی بیعت کی.۱۰ ستمبر ۱۹۸۲ء کو حسب پروگرام حضور نے مسجد بشارت اسپین کا تاریخ ساز افتتاح فرمایا اور واضح کیا کہ احمدیت کا پیغام امن و آشتی کا پیغام ہے اور محبت و پیار سے اہل یورپ کے دل اسلام کیلئے فتح کئے جائیں گے.مسجد بشارت پید رو آباد کے افتتاح کے وقت مختلف ممالک سے آنے والے قریبا دو ہزار نمائندے اور دو ہزار کے قریب اہالیان اسپین نے شرکت کی.ریڈیو ٹیلی ویژن اور اخبارات کے ذریعہ مسجد بشارت کے افتتاح کا سارے یورپ بلکہ دوسرے ممالک میں بھی خوب چرچا ہوا اور کروڑوں لوگوں تک سرکاری ذرائع سے اسلام کا پیغام پہنچ گیا.الحمد للہ علی ذالک.داعی الی اللہ بننے کی تحریک: سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی نے ۱۹۸۳ء کے آغاز میں ہی اپنے متعدد خطبات جمعہ میں جماعت کے دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ موجودہ زمانہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اور ۸۳

Page 90

اُردو کی کتاب چهارم بچہ دعوت الی اللہ کے فریضہ کو ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے تا کہ وہ ذمہ داریاں کما حقہ ادا کی جاسکیں جو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالی ہیں.تحریک کا پس منظر : اس تحریک کا پس منظر بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس وقت ایسے مہلک ہتھیار ایجاد ہو چکے ہیں جن کے ذریعہ چندلمحوں میں وسیع علاقوں سے زندگی کے آثار تک مٹائے جاسکتے ہیں.ایسے خطرناک دور میں جبکہ انسان کی تقدیر لاند ہی طاقتوں کے ہاتھ میں جاچکی ہے اور زمانہ تیزی سے ہلاکتوں کی طرف جارہا ہے.احمدیت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.آخری ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی نا کام ہوگا تو دنیا نے لازما ہلاک ہو جانا ہے اور اگر کامیاب ہو جائے تو دنیا کو لمبے عرصہ تک اس قسم کی ہلاکتوں کا خوف دامنگیر نہیں رہے گا.دعوت الی اللہ کے تقاضے:.داعی الی اللہ بننے کے کیا تقاضے ہیں اور وہ کس طرح پورے کئے جاسکتے ۸۴

Page 91

اُردو کی کتاب چهارم ہیں.اسبارے میں حضور نے سورہ تم السجدہ کی آیت ( آیت (۳۴) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ مختلف مقاصد کی طرف بلانے والوں میں سے سب سے زیادہ مستحسن اور پیاری آواز اس بلانے والے کی ہے جو اپنے رب کی طرف بلائے لیکن اس کے ساتھ تین شرطیں لگادیں.(۱) وہ اللہ کی طرف بلائے (۲) وہ عمل صالح رکھتا ہو (۳) وہ اعلان کرے کہ میں مسلمان ہوں.در حقیقت اس آیت میں مسلمان بننے کی تعریف میں یہ امر شامل کر دیا کہ اس کیلئے داعی الی اللہ ہونا اور عمل صالح بجالا نا ضروری ہے.داعی الی اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت میں بلانے والے کا ذاتی کوئی مقصد پنہاں نہ ہو.وہ خالصہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اس کی طرف بلائے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ آیت نمبر 1 میں فرمایا: یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کے نفوس بھی خرید لئے ہیں اور ان کے اموال بھی اور وہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت عطا فرمائے گا.اس سودے میں نفوس کی قربانی بھی طلب کی گئی ہے اور اموال کی بھی اور نفوس کو مقدم کر کے اسے شرط اول قرار دیا ہے.۸۵

Page 92

اُردو کی کتاب چهارم پس عمل صالح میں جان کی قربانی ، وقت کی قربانی ، اور مال کی قربانی سب آگئیں محض چندے ادا کر کے یہ سمجھ لینا کہ ذمہ داری ادا ہو گئی بالکل غلط ہے.یہ تو لنگڑا ایمان ہوا جس کی وجہ سے لازما دعوۃ الی اللہ کے کام میں نقص ہوگا.اس وقت قریبا سوا تین لاکھ عیسائی مبلغ دنیا میں کام کر رہے ہیں.ان کے مقابل دوسویا چارسو مبلغوں کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں غالب نہیں کیا جا سکتا.حضور نے فرمایا کہ میں تمام دنیا کے احمدیوں کو متنبہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد ان میں سے ہر ایک کو لازما مبلغ بننا پڑے گا خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی شعبہ سے ہو اور اسے خدا کے حضور اس کا جوابدہ ہونا پڑے گا.دعوۃ الی اللہ کا طریق: دعوۃ الی اللہ کس طرح کرنی ہے اس ضمن میں حضور نے سورۃ النحل کی آیات: (۱۲۶تا۱۲۹) کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر خدا کی طرف بلانا ہے تو اس طبعی جذبہ سے بلاؤ کہ گویا تم نے خدا کو پالیا ہے اور اس سے تمہارا ذاتی تعلق قائم ہو چکا ہے.پالینے کی ۸۶

Page 93

اُردو کی کتاب چهارم آواز میں ایک یقین ، ایک شوکت اور ایک کشش ہوتی ہے جیسے عید کا چاند دیکھ لینے والا دوسروں کو بڑے وثوق اور شوق سے چاند دیکھنے کی دعوت دیتا ہے.خدائے تعالی کو پائے بغیر آواز کھو کھلی اور بے اثر رہتی ہے.پھر جو شخص خدا کو پالیتا ہے وہ دعوت الی اللہ کا پورا اہل ہو جاتا ہے اسے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں رہتی.بعض لوگ تبلیغ کے معاملہ میں اپنی کم علمی کا عذر پیش کرتے ہیں.یہ نفس کا دھوکا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جوسب سے بڑے اور کامیاب داعی الی اللہ تھے وہ ظاہری علوم سے بالکل بے بہرہ تھے.آپ کے امی ہونے میں ایک یہ حکمت بھی تھی کہ کم علمی کے سوال کو باطل کیا جائے.جو شخص خدا کو پالیتا ہے اسے دلائل خود بخود آ جاتے ہیں.پس کتابوں کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے اول اور اصل کام یہی ہے کہ خدائے تعالی سے ذاتی طور پر مضبوط تعلق قائم کیا جائے کسی فرد نے خدا کو پالیا ہے یا نہیں اس کا ثبوت اس کی گفتار اور کردار سے مل سکتا ہے جو شخص عمل صالح نہیں رکھتا گالی گلوچ سے پر ہیز نہیں کرتا دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے ہے ظلم کرتا اور لین دین کے معاملات میں صاف نہیں وہ ۸۷

Page 94

اُردو کی کتاب چهارم کس طرح کہہ سکتا ہے کہ اس نے خدا کو پالیا ہے.دعوت الی اللہ کے بارے میں دوسری بات یہ فرمائی کہ وہ بالحکمہ ہونی چاہئے.حکمت کے بہت سے پہلو ہیں مثلاً (۱) موقعہ محل کے مطابق بات کی جائے (۲) گفتگو کے دوران سب سے مضبوط دلیل پہلے پیش کی جائے (۳) عمومی تبلیغ کے علاوہ بعض سنجیدہ اور مناسب افراد کو منتخب کر کے انہیں پیغام حق پہنچایا جائے.(۴) منتخب شدہ افراد کو صرف ایک دفعہ تبلیغ کافی نہیں.سچائی بار بار ان کے گوش گزار کی جائے.(۵) کوئی شخص بات سنے کیلئے تیار نہ ہو تو اسے نصیحت کی بات کہہ کر اعراض کیا جائے.تیسری بات یہ بتلائی کہ دعوت موعظہ حسنہ کے رنگ میں شروع کی جائے.مخاطب کو بتلایا جائے کہ تبلیغ میں ان کا ذاتی مفاد کوئی نہیں بلکہ اس کی ہمدردی اور بھلائی مقصود ہے کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن قوموں نے خدا کی طرف بلانے والوں کا انکار کیا ہے وہ بالآخر ہلاک ہو گئے ہیں اس لئے آج جو پکارنے والا پکار رہا ہے منظمندی اسی میں ہے کہ اس کے پیغام پر کان دھرا جائے.۸۸

Page 95

اُردو کی کتاب چهارم پھر آیت وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إلَّا بالله کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دعوت الی اللہ میں ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب مخاطب بھڑک اٹھتے اور درپئے آزار ہو جاتے ہیں ایسی صورت میں فرمایا کہ بہترین طرز عمل یہ ہے کہ زیادتی پر صبر کیا جائے.قول کے لحاظ سے صبر یہ ہے کہ اذیتوں کو دیکھ کر دعوت الی اللہ کا کام ترک نہیں کرنا اور نہ کسی سے خوف کھانا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تیرہ سال تک شدید ایذاؤں کے باوجود دعوۃ الی اللہ میں مصروف رہے.عمل کے لحاظ سے عبر یہ ہے کہ گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا.ان حالات میں غصہ کی بجائے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے اور محبت و پیار سے سمجھاتے چلے جانا چاہئے.احسن عمل یہ ہے کہ بدی کا جواب اچھائی اور حسن سلوک سے دو اس سے بدی خود بخود کم ہو جائے گی پھر صبر سے کام کرتے چلے جاؤ تو تمہاری استقامت میں اثر پیدا کرے گی.محبت کا سلوک جاری ہے اور قول و فعل میں حسن برقرارر ہے تو اس کا نتیجہ بالآخر یہ نکلتا ہے کہ جو پہلے جانی دشمن ہوتے ہیں وہ دلی دوست بن جاتے ہیں.ومَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللہ میں یہ بھی فرمایا کہ خدائے تعالی کی مدد کے بغیر دعوت ۸۹

Page 96

اُردو کی کتاب چهارم الی اللہ کا کام کامیابی سے نہیں کیا جا سکتا.اس لئے دعوت کے کام کے دوران اول وآخر دعاؤں پر زور دو اور خدائے تعالیٰ سے استعانت طلب کرتے رہو دلوں کو بدلنا اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور نتائج اسی کے فضل سے ہی خاطر خواہ نکلتے ہیں.مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ انٹرنیشنل : مور محمد سے جنوری ۱۹۹۴ء کے دن کو اللہ تعالیٰ نے یہ عظمت بھی عطا فرمائی ہے کہ اسلام کے بصیرت افروز پیغام کو تمام دنیا میں پہنچانے کیلئے اور اسلام کی خوبیوں کو تمام دنیا پر واضح کرنے کیلئے جماعت احمدیہ کو اپنا سیٹیلائٹ ٹیلی ویژن سٹیشن چلانے کی توفیق ملی الحمد للہ اس سے قبل سیٹلائٹ کے ذریعہ حضور کا خطبہ ۳۱ جولائی سے نشر ہونا شروع ہو چکا تھا.آپ کے کم و بیش ۲۱ سالہ دورِ خلافت میں جماعت احمدیہ نے بہت ترقی کی ترقیات کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہی تھا کہ ۱۹ اپریل ۲۰۰۳، کوحضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی لندن میں وفات ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ : (از دینی نصاب صفحه ۲۶۹) ۹۰

Page 97

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.مستجاب الدعوات- پارسا - مؤقف حقانیت-خوف دامنگیر رہنا.چشم و چراغ جوابات لکھیں - (۱) حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بچپن اور جوانی تعالی میں کیا تعلیم حاصل کی؟ (۲) آپ نے شاہد کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ (۳) قدرت ثانیہ کے مظہر رابع سے کیا مراد ہے؟ (۴) دعوۃ الی اللہ کا کیا طریق ہے؟ (۵) کیا آپ بھی اس منصوبہ اور طریق کے مطابق دعوۃ الی اللہ کرتے ہیں؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) اس سبق کے کچھ حصے کو استاد بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۹۱

Page 98

اُردو کی کتاب چهارم ۱۳ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خليفة المسيح الخامس نَصَرَهُ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا تاریخ ولادت : ۱۵ستمبر ۱۹۵۰ء حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کے پڑپوتے ، حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے اور سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے نواسے ہیں.آپ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں.آپ ۱۵ ستمبر ۱۹۵۰ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے.۱۹۶۷ء میں ساڑھے سترہ سال کی عمر میں نظام وصیت میں شامل ہوئے تعلیم الاسلام ہائی اسکول ربوہ سے میٹرک اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کرنے کے بعد ۱۹۷۶ء میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایگریکلچرل اکنامکس میں ایم ایس سی کی.۱۹۷۷ء میں وقف کیا اور نصرت جہاں اسکیم کے تحت اگست ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۵ ء تک غانا میں مقیم رہے.اس عرصہ آٹھ سال کے دوران آپ دو سال کے ۹۲

Page 99

اُردو کی کتاب چهارم لئے بطور پرنسپل احمد یہ سیکنڈری اسکول سلا گا رہے.چار سال کے لئے بطور پرنیل احمد یہ سیکنڈری اسکول ایسا چہ میں کام کیا اس کے بعد دو سال کے لئے احمد یہ زرعی فارم نمالے شمالی غانا کے مینجر رہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے ٹمالے کے مقام پر قریباً تین سال قیام کیا.ٹمالے سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر DEPALE نامی گاؤں میں ۱۲۵۰/ایکڑ اراضی جماعت کو زراعت کے لئے دی گئیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس فارم میں چاول اور مکی کاشت کی یہاں آپ نے چارا یکڑ پر گندم کاشت کرنے کا کامیاب تجربہ بھی کیا.ملک میں تصور تھا کہ غانا میں گندم کاشت نہیں کی جاسکتی بفضل خدا یہ تجربہ کامیاب رہا اس سے قبل کبھی غانا میں گندم کی کاشت کا تجربہ نہیں کیا گیا تھا.نانا میں منعقدہ انٹرنیشنل ٹریڈ کا نفرنس میں اسی گندم کی نمائش کی گئی اور وزارت زراعت کو فارمولہ پیش کیا گیا.۱۹۸۵ء میں غانا سے ربوہ کے لئے واپسی ہوئی.۱۹۸۵ء میں مجلس خدام الاحم یہ مرکز یہ میں مہتم تجنید رہے.یکم مارچ ۱۹۸۵ء میں آپ کا بطور نائب وکیل المال ثانی شعبہ وصایا تقرر ہوا جہاں آپ ۱۹ جون ۱۹۹۴ ء تک خدمات بجالاتے رہے.یکم نومبر ۱۹۸۵ء تا اکتوبر ۱۹۸۹ء مہتم خدام الاحمدیہ مجالس بیرون کے طور پر خدمات سرانجام دیں.۱۹۸۸ء تا ۱۹۹۵ء ممبر قضاء بورڈ کے طور پر خدمت کی ۹۳

Page 100

اُردو کی کتاب چهارم سعادت پائی.نومبر ۱۹۸۹ء کو بطور نائب صدر خدام الاحمدیہ مرکز یہ تقرر ہوا.۱۹ جون ۱۹۹۴ء میں آپ کا تقرر بطور ناظر تعلیم صدر انجمن احمد یہ ہوا.۱۹۹۴ ء تا ۱۹۹۷ء چیئر مین ناصر فاؤنڈیشن رہے اسی عرصہ میں آپ بطور صدر تزئین ربوہ کمیٹی بھی خدمات بجالاتے رہے.آپ نے گلشن احمد نرسری کی توسیع کی اور ربوہ کو سرسبز بنانے کیلئے ذاتی کوشش کی اور نگرانی فرمائی.یکم جنوری ۱۹۹۵ء کو آپ قائد ذہانت و صحت جسمانی مجلس انصار اللہ پاکستان مقرر ہوئے.۱۹۹۵ء تا ۱۹۹۷ء قائد تعلیم القرآن مجس انصار اللہ پاکستان کے طور پر خدمات بجالاتے رہے.دسمبر ۱۹۹۷ء کو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے آپ کا تقرر بطور ناظر اعلیٰ و امیر مقامی فرمایا.بطور ناظر اعلیٰ آپ ناظر ضیافت اور ناظر زراعت کے طور پر بھی خدمت بجالاتے رہے.آپ تا انتخاب خلافت خامسہ اس منصب پر فائز رہے.اگست ۱۹۹۸ء کو آپ کا تقرر بطور صدر مجلس کار پرداز ہوا.اگست ۱۹۹۸ء کو آپ نے گلشن احمد نرسری ربوہ متصل جامعہ احمد یہ ربوہ کا افتتاح فرمایا.۳۰ را پریل ۱۹۹۹ء میں معاندین احمدیت کی جانب سے آپ پر ایک جھوٹا مقدمہ بنایا گیا اور اس مقدمہ کی وجہ سے آپ 9 مئی تک اسیر راہ مولی رہے اور امئی ۱۹۹۹ء کو آپ کی رہائی عمل میں آئی.۹۴

Page 101

اُردو کی کتاب چهارم یکم ستمبر ۲۰۰۲ء کو آپ نے جامعہ احمد یہ جو نیئر سیکشن ربوہ کا افتتاح فرمایا.اپریل ۲۰۰۳ ء کو آپ نے سندھ کا سفر فر مایات ۱۹ را پریل ۲۰۰۳ء کو حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے لندن میں انتقال کے بعد مور محہ ۱۲۲ اپریل ۲۰۰۳ء کو مجلس انتخاب خلافت کا اجلاس مسجد فضل لندن میں منعقد ہوا اس موقعہ پر مسجد فضل کے اندر اور باہر لوگوں کا ایک جم غفیر موجود تھا ہجوم کی وجہ سے مسجد کا احاطہ خالی کروالیا گیا تا کہ زیادہ سے زیادہ احباب جماعت اس بابرکت کا روائی کو دیکھ سکیں.ہجوم کا یہ عالم تھا کہ سڑکیں بھی بھری ہوئی تھیں.ت کونسل نے سڑکیں عام ٹریفک کے لئے بند کر دی تھیں.تمام ممبران قطار میں لگ کر کارڈ دکھا کر مسجد فضل میں داخل ہوئے اور دروازہ بند کر دیا گیا.صدر صاحب اور سیکرٹری صاحب کرسیوں پر بیٹھے جبکہ باقی سب ممبران بلاک میں تقسیم ہوکر زمین پر بیٹھے.اجلاس کی کاروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا اس کے بعد مکرم سیکرٹری صاحب نے قواعد پہلے اردو میں اور پھر انگریزی میں پڑھ کر سنائے اس کے بعد انتخاب خلافت کے لئے نام پیش ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب خلیفتہ اسیح الخامس منتخب ہوئے اور وہاں موجود تمام اراکین نے حضور ۹۵

Page 102

اُردو کی کتاب چهارم کے دست مبارک پر بیعت کی اس کے بعد مکرم سکریٹری صاحب نے ایم ٹی اے پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب کا اعلان کیا اس کے بعد وہاں پر موجود تقریبا گیارہ ہزار افراد نے بھی بیعت کی سعادت حاصل کی.مورخہ ۲۳ را پریل کو حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے خطاب عام کے بعد بیعت لی اور اس کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ کے عہد خلافت میں جماعت احمد یہ انتہائی برق رفتاری سے ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے جس کی جھلک ہر ملک میں نمایاں نظر آرہی ہے.خلافت خامسہ کے مبارک عہد میں ہی عالمگیر جماعت احمدیہ نے خلافت احمد یہ صد سالہ جو ہلی بڑی کامیابی سے ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء وشکر بجالاتے ہوئے منائی ہے.اس موقعہ پر تبلیغ اسلام کے لئے خصوصی تقریبات و جلسے ہوئے ان میں سے بعض ملکی جلسوں میں حضرت خلیفہ امسیح الخامس نَصَرَهُ الله نَصْرًا عَزِيزا بنفس نفیس شریک ہوئے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے آقا کو ہر آن اپنی حفظ وامان میں رکھے نیز روح القدس سے تائید و نصرت فرماتا چلا جائے.آمین.۹۶

Page 103

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.اراضی کاشت تجدید - قضاء - تقرر - قائد ذہانت - قاعد - ضیافت - معاندین – اسیر - ہجوم - برق رفتاری جوابات لکھیں - (1) افریقہ میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کیا خدمات تھیں تفصیل لکھیں ؟ (۲) غانا کس براعظم میں واقع ہے اور اس کا دارالحکومت کیا ہے؟ (۳) مسجد فضل کہاں واقع ہے اس کا سنگ بنیا د کب اور کس نے رکھا؟ (۴) کونسل نے سڑکیں عام ٹریفک کے لئے کیوں بند کر دی تھیں؟ (۵) جماعت احمد یہ جو ترقیات کی منازل طے کر رہی ہے اس کی تفصیل لکھیں؟ تمرین (1) اس سبق کا پہلا صفحہ خوشخہ لکھیں.(۲) استادا سے بطور املا لکھوائے.(۳) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دور خلافت میں ہونے والے کا رہائے نمایاں پر ایک مضمون لکھیں؟ ۹۷

Page 104

اُردو کی کتاب چهارم ۱۴ : نظام جماعت احمدیہ یاد رکھنا چاہئے کہ سارے نظام کا اقتدار اعلیٰ خلیفہ وقت کی ذات ہے.اور عالمگیر جماعت کی شاخیں دیباتوں، شہروں سے نکل کر ضلعوں صوبوں اور ملکوں میں پھیلی ہوئی ہیں جو سب تسبیح کے دانوں کی طرح ایک مضبوط اور مربوط دھاگے میں منسلک ہیں جس جگہ بھی تین یا اس سے زائد افراد جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہوں وہاں با قاعدہ جماعت قائم کر دی جاتی ہے اور حسب حالات بذریعہ نامزدگی یا بذریعہ انتخاب وہاں ایک صدر مقرر کر دیا جاتا ہے.بڑی جماعتوں میں امارت کا نظام قائم ہے اس لحاظ سے ہر مقامی جماعت کا صدر یا امیر اعلیٰ عہدیدار ہوتا ہے پھر ہر ضلع یا صوبہ کی جماعتوں کا ایک امیر مقرر ہوتا ہے پھر اس سے اوپر تمام ملک کا ایک نیشنل امیر ہوتا ہے اس کے علاوہ جماعت میں نظام کے مختلف شعبے قائم ہیں اور اس کے نگران سیکرٹری کہلاتے ہیں مثلا سیکرٹری مال ہسیکرٹری تعلیم، سیکر ٹری جائیداد ، سیکرٹری ضیافت و غیره بید تمام عہد یدار بذریعہ انتخاب یا بعض حالتوں میں بذریعہ نامزدگی مقرر کئے جاتے ہیں جو محض رضا کارانہ طور پر اخلاص اور قربانی کے ساتھ جماعت کی خدمات بجالانے میں ۹۸

Page 105

اُردو کی کتاب چهارم خوشی محسوس کرتے ہیں.ان مقامی ضلعی اور صوبائی اور ملکی عہدیداروں کے علاوہ خلیفہ وقت کی نگرانی میں مندرجہ ذیل اہم ادارے کام کرتے ہیں.مجلس شوری یا مجلس مشاورت : یہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو انٹرنیشنل شوری ہے جو خلیفہ وقت کی موجودگی میں منعقد ہوتی ہے جس میں تمام عالمگیر جماعتوں کے نمائندے شامل ہوتے ہیں دوسرے ملکی شوری ہوتی ہے جس میں اُس ملک کی مجلس عاملہ کے علاوہ تمام جماعتوں کے امراء وصدر صاحبان اور جماعتوں کے منتخب نمائندے شریک ہوکر اہم جماعتی مشورے کرتے اور اپنی تجاویز خلیفہ وقت کی خدمت میں راہنمائی اور منظوری کیلئے پیش کرتے ہیں.اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ ملکی شورٹی ہو یا ان نیشنل شوری ہو اس کے نمائندوں کا یہ فرض ہوتا ہے کہ تمام تجاویز پر غور اور مشورہ کرنے کے بعد اپنی تجاویز خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کر دیں.آخری فیصلہ خلیفہ وقت کا ہوتا ہے خواہ وہ شوریٰ کی سفارشات کو پورے طور پر منظور فرمالیس یا ترمیم کے ساتھ منظوری عطا فرمائیں یا ان سفارشات کو کلبی نا منظور کر کے اس کے نقصانات وغیرہ کے بارے میں راہنمائی فرماتے ہوئے نئی ہدایات جاری فرمائیں.جو بھی فیصلہ خلیفہ وقت کی طرف سے صادر ہو جماعت اس کو پورے انشراح ۹۹

Page 106

اُردو کی کتاب چهارم صدر کے ساتھ تسلیم کرتی ہے کیونکہ جماعت اس عقیدہ اور یقین پر قائم ہے کہ خلیفہ وقت دُعا اور غور و فکر کے بعد اللہ کی راہنمائی سے فیصلہ صادر فرماتے ہیں اور جماعت بار ہا یہ مشاہدہ کر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت کے فیصلوں میں برکت بخشتا ہے.صدر انجمن احمدیه یہ جماعت کا سب سے بڑا اور اہم ادارہ ہے جو بانی جماعت احمد یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی ہی میں قائم فرمایا تھا جماعت کے لازمی چندہ جات کا انتظام و التزام اور تمام تربیتی تعلیمی تبلیغی اور رفاہی کاموں کی نگرانی اس انجمن کے سپرد ہے.تمام مقامی ضلعی اور صوبائی امارت کے نظام اس انجمن کی نگرانی میں چلتے ہیں.اس انجمن کے تحت کئی دفاتر اور نظارتیں ہیں ہر نظارت کا اعلیٰ عہدیدار ناظر“ کہلاتا ہے.مثلاً ناظر تعلیم ، ناظر اصلاح وارشاد، ناظر نشر واشاعت، ناظر دعوة الی اللہ، ناظر بیت المال آمد و خرچ ، ناظر امور عامہ وغیرہ اور پوری نظارتوں کا نگران ناظر اعلیٰ کہلاتا ہے.اور پوری صدرانجمن کا ایک صدر ہوتا ہے جو صدر صدرانجمن احمدیہ کہلاتا ہے.تحریک جدید انجمن احمدیه: جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ۱۹۳۴ء میں بیرونی ممالک میں تبلیغ واشاعت اسلام کی غرض سے ایک نئی تحریک جاری

Page 107

اُردو کی کتاب چهارم فرمائی تھی اس تحریک کے چندہ سے جمع ہونے والے اموال اور واقفین زندگی وغیرہ کے انتظام اور بیرونی ممالک کے تبلیغی نظام کی نگرانی کیلئے انجمن تحریک جدید قائم کی گئی.اس ادارے کے تحت بھی مختلف شعبے قائم ہیں ہر شعبے کے انچارج کو وکیل کہا جاتا ہے.مثلاً وکیل التعليم ، وکیل التبشير ، وکیل المال وغیرہ اور او کالتوں کے نگران اعلیٰ کو وکیل اعلیٰ“ کہا جاتا ہے.انجمن کا بھی ایک صدر ہوتا ہے جو صدرانجمن تحریک جدید“ کہلاتا ہے.انجمن احمد یہ وقف جدید : حضرت خلیفتہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اندرونِ ملک کی دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے ۱۹۵۷ء میں وقف جدید کے نام سے ایک تحریک فرمائی تھی اس تحریک سے جمع ہونے والے چندہ کے انتظام اور تعلیم وتربیت کیلئے مقرر کئے گئے معلمین کی نگرانی وغیرہ کیلئے اک علیحدہ انجمن " وقف جدید انجمن احمدی" کے نام سے قائم فرمائی گئی اس انجمن کے تحت مختلف شعبے قائم ہیں اور ہر شعبہ کے انچارج کو ناظم کہا جاتا ہے.اور تمام نظامتوں کا ایک صدر ہوتا ہے جو صدر وقف جدید انجمن احمدیہ کہلاتا ہے.1+1

Page 108

جماعت احمدیہ اور مالی قربانی: اُردو کی کتاب چهارم اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: ( ترجمہ ) اللہ نے مومنوں سے ان کی جانوں اور مالوں کو (اس وعدہ کے ساتھ ) خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی.“ ( تو بہ : ۱) نیز فرماتا ہے : ترجمہ: اور وہ (متقی) نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.(البقرۃ : ۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:اگر میرے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو تو تین دن سے زیادہ اپنے پاس نہ رکھتا.( بخاری کتاب الزکوۃ حدیث نمبر ۱۳۱۵) حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے مالی قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے متعلق ایمان افروز روایت احادیث میں مذکور ہے.حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت سعید بن مالک نے پُر زور اصرار کر کے تیسرے حصے کی قربانی کی اجازت چاہی.حضرت ابوطلحہ نے آیت: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے وو نزول پر بیروھا “باغ وقف کر دیا.۱۰۲

Page 109

اُردو کی کتاب چهارم اس زمانہ میں جماعت احمدیہ میں بھی مالی قربانی کا نظام جاری ہے بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے اپنے دور میں ہی مالی قربانی کی تحریک کی جس کو چندہ عام کا نام دیا گیا اس کی شرح اس وقت چندہ دینے والے کی صوابدید پر تھی مگر بعد میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی شرح سولہواں حصہ مقرر فرمائی جو ہر کمانے والے پر واجب ہے.چندہ وصیت : ۱۹۰۵ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وفات کے قریب آنے کی خبر دی تو آپ نے ایک رسالہ الوصیت تحریر فرمایا جس میں آپ نے بہشتی مقبرہ کے لئے اپنا قطع زمین وقف فرمایا اور مز ید ضروریات کیلئے کچھ رقم کا مطالبہ بھی کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ اسی رسالہ میں فرماتے ہیں:.اس لئے میں نے اپنی ملکیت کی زمین جو ہمارے باغ کے قریب ہے جس کی قیمت ہزار روپیہ سے کم نہیں اس کام کیلئے تجویز کی اور میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا اس میں برکت دے اور اسی کو بہشتی مقبرہ بنادے اور یہ اس جماعت کے پاک دل لوگوں کی خواب گاہ ہو جنہوں نے درحقیقت دین کو دنیا پر مقدم کر لیا اور دنیا کی محبت چھوڑ دی اور خدا کیلئے ہو گئے اور پاک تبدیلی اپنے اندر پیدا کر لی اور رسول ۱۰۳

Page 110

اُردو کی کتاب چهارم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی طرح وفاداری اور صدق کا نمونہ دکھلایا.آمین یا رب العالمين.پھر میں دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یا رب العالمین.پھر تیسری دفعہ دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر کریم ! اے خدائے غفور و رحیم ! تو صرف ان لوگوں کو اس جگہ قبروں کی جگہ دے جو تیرے اس فرستادہ پر سچا ایمان رکھتے ہیں اور کوئی نفاق اور غرض نفسانی اور بدظنی اپنے اندر نہیں رکھتے اور جیسا کہ حق ایمان اور اطاعت کا ہے بجالاتے ہیں اور تیرے لئے اور تیری راہ میں اپنے دلوں میں جان فدا کر چکے ہیں جن سے تو راضی ہے اور جن کو تو جانتا ہے کہ وہ بکلی تیری محبت میں کھوئے گئے اور تیرے فرستادہ سے وفاداری اور پورے ادب اور انشراحی ایمان کے ساتھ محبت اور جانفشانی کا تعلق رکھتے ہیں.امِينُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ “ (الوصیت صفحه ۱۵) پھر فرماتے ہیں :- وو یادر ہے کہ صرف یہ کافی نہ ہوگا کہ جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کا دسواں ۱۰۴

Page 111

اُردو کی کتاب چهارم حصہ دیا جاوے بلکہ ضروری ہوگا کہ ایسا وصیت کرنے والا جہاں تک اس کیلئے ممکن ہے پابند احکام اسلام ہو اور تقویٰ اور طہارت کے امور میں کوشش کرنے والا ہو اور مسلمان خدا کو ایک جاننے والا اور اس کے رسول پر سچا ایمان لانے والا ہو اور نیز حقوق عباد غصب کرنے والا نہ ہو.“ (رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۲۴) ان شرائط مندرجہ میں ایک شرط یہ ہے کہ وہ اپنی ماہانہ یا سالانہ آمد اور اپنی کل جائیداد کا زیادہ سے زیادہ تیسرا حصہ اور کم سے کم دسواں حصہ مقاصد وصیت کیلئے ادا کرے جسے حصہ آمد و حصہ جائیداد کہتے ہیں.اور چندہ ادا کرنے والے مرد کو موصی اور عورت کو موصیہ کہا جاتا ہے جو شخص یہ چندہ (حصہ آمد ) ادا کرے اس پر چندہ عام لا زم نہیں.چنده جلسه سالانه حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء میں خدا تعالیٰ سے اذن پا کر جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی.مرکزی جلسہ کے علاوہ اب یہ جلسہ سالانہ ۷ سے زائد ممالک میں ہر سال منعقد ہوتا ہے.اسکے لئے چندہ کا اعلان خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا جواب تک جاری ہے جس کی شرح ماہانہ آمد کا دسواں حصہ سال بھر میں ادا کرنا ہے.۱۰۵

Page 112

اُردو کی کتاب چهارم چنده تحریک جدید : ۱۹۳۴ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی نے اس تحریک کو جاری فرمایا.اس کے ذریعہ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نام کو بلند کرنا مقصود ہے.آج جماعت احمد یہ اسی مبارک تحریک کے تحت ۱۹۴ ملکوں میں پھیل چکی ہے.ہراحمدی کا اس تحریک میں چندہ ادا کرنا ضروری ہے.چندہ دہندگان کے اعتبار سے اس تحریک کو چار دفاتر میں تقسیم کیا گیا.دفتر چہارم کا آغاز حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے ۱۹۸۵ء میں فرمایا اس میں خصوصی چندہ دینے والوں کو معاونین خصوصی کہا جاتا ہے.چنده وقف جدید سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۵۷ء میں اندرون ملک عوام کو عیسائی یلغار سے بچانے اور دیہاتی جماعتوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اس تحریک کا اعلان فرمایا.۱۹۸۵ء میں حضرت خلیفہ اُسیح الرابع رحمہ اللہ نے اس تحریک کو ساری دنیا کیلئے وسیع کر دیا.اس تحریک کا ایک اہم شعبہ دفتر اطفال ہے جس میں جماعت احمدیہ کے بچے اور بچیاں چندہ ادا کرتے ہیں.1.4

Page 113

زكوة: اُردو کی کتاب چهارم زکوۃ انفاق فی سبیل اللہ کی وہ قسم ہے جو ہر اس مسلمان پر فرض ہے جو ز کوۃ کے نصاب کے تحت آتا ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا ہے.چندہ عام الگ ہے اور زکوۃ الگ ہے: حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:." تیسری چیز چندہ ہے جو دین کے جہاد کیلئے ہوتا ہے.یہ جہاد خواہ تلوار سے ہو یا قلم اور کتب سے یہ بھی ضروری ہے.کیونکہ زکوۃ اور صدقہ غرباء کو دیا جاتا ہے اس سے کتابیں نہیں چھاپی جاسکتیں اور نہ مبلغوں کو دیا جاسکتا ہے.ملائکۃ اللہ صفحہ ۶۲ تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۲۰ء) زکوۃ کا نصاب ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر نقدی اور زیور ہے اور اس کا چالیسواں حصہ ادا کرنا ہوتا ہے اور ایک سال تک پڑی رقم پر ادائیگی فرض ہے.اس زیور پر بھی اس کا نصاب لاگو ہوگا جو ایک سال تک پہنا نہ جائے یا

Page 114

اُردو کی کتاب چهارم ترکیہ اموال کے ڈر سے ایک دفعہ پہنے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو عورتوں کو جو آپ کی خدمت میں کڑوں کے ساتھ حاضر ہوئیں وعید کرتے ہوئے فرمایا: "اگر زکوۃ ادا نہ کی تو خدا قیامت کے دن اس کے مقابل پر آگ کے کڑے پہنائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :- ,, ہر ایک جوز کوۃ کے لائق ہے زکوۃ دے.“ ذیلی تنظیمیں: سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ المسح الثانی نے تربیتی نقطہ نظر سے احباب و خواتین جماعت کو مختلف ذیلی تنظیموں میں تقسیم فرمایا.ان تنظیموں کے بارہ میں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ یہ خالصہ مذہبی تنظیمیں ہیں جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں.یہ تنظیمیں مختلف ادوار سے متعلقہ احباب و خواتین کی تعلیم و تربیت کی ذمہ دار ہیں اور ان کی اخلاقی ، دینی ، روحانی، ذہنی صلاحیتوں کو اُجا گر کرتی رہتی ہیں.جماعت احمدیہ کے ہر فرد کا اپنی عمر کے اعتبار سے ان تنظیموں سے منسلک رہنا ضروری ہے.لجنہ اماء الله : ی احمدی مستورات کی روحانی تنظیم ہے.اس کا قیام ۱۹۲۲ء میں عمل میں آیا I-A

Page 115

اُردو کی کتاب چهارم پندرہ سال سے زائد کی ہر احمدی خاتون اس کی ممبر ہے.آٹھ سے پندرہ سال کی احمدی لڑکیاں ناصرات الاحمدیہ کی ممبر ہوتی ہیں جو لجنہ اماءاللہ تنظیم ہی کی ایک شاخ ہے.جہاں تین ممبرات موجود ہیں وہاں یہ نظیم قائم کی جاتی ہے.اپنی اپنی جگہوں پر ممبرات مختلف دینی روحانی شعبوں مثلاً خدمت خلق ، تبلیغ تعلیم و تربیت کے تحت کام کرتی ہیں.اس تنظیم کا اپنا چندہ.چندہ ممبری کہلاتا ہے جو آمد پر ایک فیصد کے حساب سے ادا کرنا ہوتا ہے جن کی کوئی باقاعدہ آمد نہ ہو وہ اپنی توفیق کے مطابق ادا کر سکتی ہیں جبکہ ناصرات کم از کم ایک روپیہ ماہانہ چندہ ادا کرتی ہیں.مجلس انصاراللہ : یہ احمدی بزرگوں کی تنظیم ہے.چالیس سال سے اوپر تمام مرد حضرات اس تنظیم کے ممبر ہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بنیاد رکھی اس تنظیم کے ممبر انصار اللہ کہلاتے ہیں اس تنظیم کو دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.۴۰ سال سے ۵۵ سال تک کے انصار صف دوم اور ۵۵ سال سے اوپر کے انصار صف اول میں شامل ہیں.اس میں بھی مالی نظام جاری ہے اور ہر ناصر ہر سورو پہیہ پر ایک روپیہ چندہ ادا ہر روپیہ کرتا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ: یہ احمدی نوجوانوں کی روحانی تنظیم ہے جس کا قیام ۱۹۳۸ء کے اوائل میں 1.9

Page 116

+11 اُردو کی کتاب چهارم عمل میں آیا اس تنظیم میں پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کے احمدی نوجوانوں کا شامل ہونا لازمی ہے اس تنظیم کا ہر رکن خادم کہلاتا ہے اس تنظیم کا ماٹو یہ ہے: قوموں کی اصلاح نو جوانوں کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوسکتی.“ مجلس اطفال الاحمدية مجلس خدام الاحمدیہ کی زیر نگرانی سات سے پندرہ سال تک کی عمر کے احمدی بچوں کی ایک الگ تنظیم مجلس اطفال الاحمدیہ کے نام سے قائم ہے جس کا ہر رکن طفل کہلاتا ہے.نوجوانوں کی ذہنی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کیلئے ان کے بھی کئی ایک شعبے ہیں جن میں تعلیم و تربیت، اصلاح وارشاد، خدمت خلق ، وقار عمل وغیر ہ شامل ہیں.ہر خادم جو برسر روزگار ہے سو روپیہ پر ایک روپیہ چندہ ادا کرتا ہے جبکہ طلباء کے لئے الگ شرح مقرر ہے اس کے مطابق ماہوار چند مجلس وصول کیا جاتا ہے.مجلس اطفال الاحمد یہ اپنا الگ چندہ جمع کرتی ہے جس کی شرح ایک روپیہ ماہوار ہے.(دینی نصاب صفحہ ۲۸۳)

Page 117

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.اقتدار اعلی - عالمگیر - مربوط - نامزدگی-عہد یدار- رضا کارانہ ترمیم - التزام صوابدید - خواب گاہ جان فدا کرنا.فرستاده انشراح - جانفشانی - بدعت حقوق اللہ حقوق العباد جوابات لکھیں (۱) نظام جماعت کے تحت جماعت کہاں قائم کی جاتی ہے؟ (۲) ملکی شوری میں کن افراد کو شمولیت کی اجازت ہوتی ہے؟ (۳) جماعتی نظام میں سب سے بڑا اور اہم ادارہ کون سا ہے؟ (۴) جماعت احمدیہ میں کتنی قسم کے چندہ جات ہیں؟ (۵) ذیلی تنظیمیں کون کون سی ہیں؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.

Page 118

سبق نمبر : ۱۵ اُردو کی کتاب چهارم صاحبزادہ عبداللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کی عظیم شهادت تاریخ شہادت : ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء عزیز طلباء !! سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک جلیل القدر صحابی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو مورخہ ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ کو افغانستان میں اس وجہ سے شہید کر دیا گیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے اور آپ کی جماعت میں شامل ہو گئے تھے.اس واقعہ کا بغور بار بار مطالعہ کریں.حضرت صاحبزادہ سید محمد عبد اللطیف رضی اللہ عنہ کی ولادت ۱۸۵۳ء میں ہوئی.آپ کے والد صاحب کا نام سید محمد شریف تھا.آپ افغانستان کے صوبہ پکتیا کے علاقہ خوست کے رہنے والے تھے.آپ کے گاؤں کا نام سید گاہ ہے جو کہ دریائے عمل کے کنارہ پر آباد ہے.پکتیا میں چند گاؤں آپ کی ملکیت تھے.زرعی اراضی کا رقبہ سولہ ہزار کنال تھا اس میں باغات اور پن چکیاں بھی تھیں.اسکے علاوہ ضلع بنو میں بہت سی زمین تھی.شہید مرحوم بہت عظیم عالم تھے.عربی فارسی اردو پشتو پر آپ کو عبور حاصل تھا ۱۱۲

Page 119

اُردو کی کتاب چهارم اور آپ کو کئی ہزار حدیثیں زبانی یاد تھیں.ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب آپ کے معتقد تھے.آپ کے علم و تقویٰ کی بنا پر ہی آپ کو اس وقت کے نئے امیر (بادشاہ) افغانستان حبیب اللہ خان کی دستار بندی کے لئے مدعو کیا گیا تھا.قبول احمدیت: ۱۸۹۴ء میں ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں کی تعیین کے لئے کمیشن مقرر ہوا تو برطانوی گورنمنٹ کی طرف سے سر مار ٹیمر ڈیورنڈ اور نواب عبد القیوم خان آف ٹوپی ممبر مقرر ہوئے اور افغانستان کی طرف سے سردار شر مندل خان گورنر سندھ جنوبی اور حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب تجویز ہوئے کمیشن نے ۲۹ مئی ۱۸۹۴ء سے ۳ دسمبر ۱۸۹۴ء تک چھ ماہ میں اپنا حد بندی کا کام ختم کرلیا اور وہ تاریخی ڈیورنڈ لائن قائم ہوئی جو آج بھی پاکستان اور افغانستان کی حد فاصل ہے.حسن اتفاق سے کمیشن کے محرر پشاور کے سید چن بادشاہ صاحب نے ایک مرتبہ دوران گفتگو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوے کا ذکر کیا جس سے حضرت عبدالطیف صاحب بہت متاثر ہوئے سید چن بادشاہ صاحب نے آپ کی خواہش دیکھی تو حضور کی تصنیف آئینہ کمالات اسلام پیش کی جس کے مطالعہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے حد محبت

Page 120

اُردو کی کتاب چهارم ہوگئی.انہوں نے حضور سے رابطہ قائم کرنے کے لئے اپنے بعض خاص شاگردوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان بھیجنا شروع کیا.آپ کے یه مخلص شاگرد قادیان میں حضرت اقدس کی صحبت میں کچھ وقت گزارتے اور تازہ تالیفات لیکر حضرت صاحبزادہ صاحب کے پاس آتے اس طرح حضور کے تازہ حالات کا بھی علم انہیں ہوتا رہتا.ماہ دسمبر ۱۹۰۰ء میں حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب کو اپنے چند شاگردوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اپنی بیعت کا خط دیگر بھجوایا نیز حضور کے لئے کچھ خلعتیں بھی تحفہ کے طور پر بھجوائیں.سفر قادیان: ۱۹۰۲ء میں شہید مرحوم نے حج کا ارادہ کیا اور اس غرض کے لئے آپ کابل سے روانہ ہوئے.بادشاہ حبیب اللہ خان نے بڑی عزت واحترام سے روانہ کیا اور کابل سے خوست اور وہاں سے لاہور تشریف لائے اور ارادہ کیا کہ چند دن قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کر کے اگلا سفر کروں گا.آپ ریل گاڑی کے ذریعہ لاہور سے بٹالہ تشریف لائے.ان دنوں قادیان تک ریل گاڑی نہیں آتی تھی.بٹالہ سے پیدل قادیان تشریف لائے اور جب قادیان پہنچے تو بلند آواز ۱۱۴

Page 121

اُردو کی کتاب چهارم س يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ پڑھنے لگے.قاضی محمد یوسف صاحب کا بیان ہے کہ مہمان خانہ میں جہاں اس وقت جنوب کی طرف پہلا کمرہ ہے اس میں حضرت شہید مرحوم اور ان کے ساتھی ٹھہرے تھے اور جہاں اب کنواں ہے وہاں ہر صبح چار پائی پر رو بقبلہ قرآن کا مطالعہ اور تلاوت فرماتے رہتے.ہر روز نماز با جماعت میں شامل ہونے کی غرض سے مسجد مبارک میں حاضر ہوتے.حضرت شہید صف اول کے جنوبی کونے میں کھڑے ہوتے.بعد از نماز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں بھی بیٹھا کرتے اور موقع بہ موقع کچھ فرمایا بھی کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت شہید مرحوم سے ملاقات کے متعلق اپنے تاثرات یوں لکھے : وو ” جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے اُن کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا.اور جیسا کہ اُن کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا.“ (تذکرة الشهادتین صفحہ سے روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۱۰) ۱۱۵

Page 122

اُردو کی کتاب چهارم شہید مرحوم قادیان میں مختصر قیام کا ارادہ لیکر آئے تھے مگر اس سے پہلے جو کتابوں کے ذریعہ سمجھا تھا چونکہ یہاں بہت کچھ زیادہ دیکھا اس لئے صفائی قلب کی وجہ سے نور الہی کی طرف ایسے جذب کئے گئے کہ سفر حج ملتوی کر کے کئی ماہ تک قادیان میں قیام کئے رکھا.شہید مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو بھی جایا کرتے تھے جب واپس آتے اور حضور اپنے گھر تشریف لے جاتے تو شہید مرحوم فوری طور پر اپنے کپڑوں سے گردو غبار صاف نہیں کرتے تھے جو سیر کے دوران ان پر پڑ جایا کرتا تھا بلکہ کچھ عرصہ انتظار کرتے تھے اور جب ان کو اندازہ ہو جاتا کہ اب حضور نے اپنا لباس صاف کر لیا ہو گا تب اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑتے تھے.مولوی عبد الستار خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ شہید مرحوم نے ان سے فرمایا کہ قادیان شریف میں وہی آرام سے رہتا ہے جو درود شریف بہت پڑھتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل بیعت سے محبت رکھتا ہے مسجد مبارک میں اللہ تعالیٰ نے مکہ اور مدینہ کی برکتیں نازل کی ہیں.جب منارة امسیح مکمل ہو جائے گا تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کمالات اور فیضان کا نزول ہوگا.قادیان میں قیام کے دوران حضرت صاحبزادہ صاحب نے حضرت مولانا ۱۱۶

Page 123

اُردو کی کتاب چهارم نورالدین صاحب سے درخواست کر کے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ میں نے اس لئے کیا کہ میں مولانا کے شاگردوں میں شامل ہو جاؤں کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلیفہ اول ہوں گے.شہید مرحوم ۱۸ نومبر ۱۹۰۲ء کو قادیان تشریف لائے تھے اور آخر جنوری ۱۹۰۳ء کو واپس اپنے وطن جانے کا ارادہ فرمایا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام مع ایک گروہ کثیر الوداع کہنے کیلئے دُور تک بٹالہ کی سڑک پر تشریف لے گئے آخر جب شہید مرحوم رخصت ہونے لگے تو وہ سڑک پر حضور کے قدموں پر گر پڑے اور جدائی کے غم کے مارے ان کی چیخیں نکل گئیں اور زار زار رونے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو بڑی مشکل سے اُٹھایا اور تسلی دی اور رخصت کیا.حضرت مولانا شیر علی صاحب بیان فرماتے ہیں کہ جب صاحبزادہ صاحب واپس افغانستان جانے لگے تو وہ کہتے تھے کہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں اب زندہ نہیں رہوں گا میری موت آ پہنچی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس ملاقات کو آخری ملاقات سمجھتے تھے.رخصت ہوتے وقت وہ حضور کے قدموں میں گر کر زار زار رونے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو اُٹھنے کے لئے کہا اور فرمایا کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے مگر وہ حضور کے قدموں پر گرے رہے آخر آپ نے فرمایا الأَمْرُ فَوْقَ الْآدَبِ اس پر

Page 124

اُردو کی کتاب چهارم وہ اُٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی حسرت کے ساتھ رخصت ہوئے.شہادت: اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پہلے ہی یہ خبر دے دی تھی شَاتَانِ تُذْبَحَانِ وَكُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانِ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور زمین پر کوئی ایسا نہیں جو مرنے سے بچ جائے علم التعبیر میں شاۃ“ کی تعبیر نہایت پر مطیع اور فرمانبردار رعایا بھی ہوتی ہے لہذا بتایا گیا کہ وہ آدمی اپنے بادشاہ کا نہایت مطیع ہوگا.باوجود یہ کہ انہوں نے کوئی قانون شکنی نہ کی ہوگی وہ قتل کئے جائیں گے.اس کے بعد اس ملک پر ایک عام تباہی آئے گی چنانچہ یہ الہام پہلی بار حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذریعہ پورا ہوا جنہیں وسط 1901ء میں گردن میں کپڑا ڈال کر گلا گھونٹ کر نہایت بے دردی سے افغانستان میں وہاں کے بادشاہ عبد الرحمن خان کے حکم سے شہید کروا دیا گیا تھا اور دوسری دفعہ ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء کو حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے ذریعہ یہ پیشگوئی پوری ہوئی.آپ ابھی قادیان میں ہی تھے کہ بعض رؤیا و کشوف کی بنا پر آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ سرزمین افغانستان احمدیت کی تبلیغ کے لئے ان کے لہو کی پیاسی ہے اور آپ بار بار اس کا اظہار بھی فرماتے جاتے تھے.الغرض ۱۱۸

Page 125

اُردو کی کتاب چهارم آپ نے اپنے وطن پہنچ کر سرکاری افسران اور بادشاہ کے مقربین کو تبلیغی خطوط لکھے جو عزیز و اقارب آپ سے ملاقات کے لئے آتے انہیں اپنے سفر قادیان کے تفصیلی حالات سنا کر تبلیغ کرتے اس پر آپ کے رشتہ داروں نے آپ کو سمجھایا کہ آپ ان باتوں سے باز آجائیں ورنہ اگر یہ امیر حبیب اللہ خان کے علم میں آیا تو وہ ہم سب کو قتل کروا دے گا مگر سید الشھداء مرحوم نے فرمایا، میں تو اس بات سے ہرگز - نہیں ٹلوں گا ی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے مجھے اس کا پہنچا نالازم ہے.میں نے اپنا نفس اپنا مال اور اپنی اولاد اس راہ میں دے دی ہے اور تم دیکھ لو گے کہ میں اور میرے اہل و عیال کس طرح اس راہ میں فدا ہوتے ہیں.چنانچہ جب تبلیغی خطوط اور زبانی خبریں افغانستان کے اس وقت کے بادشاہ حبیب اللہ خان کو پہنچیں تو اس نے خوست کے حاکم کے نام حکم جاری کیا کہ صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کی حفاظت میں دارالحکومت کابل بھجوا دیا جائے.بعد ازاں آپ کو خوست سے کابل پہنچایا گیا اور اس قلعہ میں قید کیا گیا جس میں بادشاہ خود رہتا تھا.آپ کو تھکڑی پہنائی گئی جسے غراغراب کہتے ہیں.یہ انسان کوگردن سے پاؤں تک جکڑ دیتی ہے اس کا وزن تقریبا ساٹھ کلو ہوتا ہے اور پاؤں 119

Page 126

اُردو کی کتاب چهارم میں بیڑی وزنی ۸ کلولگادی گئی.آپ تقریبا چار ماہ قید با مشقت میں رہے بعد ازاں کابل کے علماء سے آپ کا ایک تحریری مناظرہ کروایا گیا جس کو مخفی رکھا گیا.عوام کو یہ مناظرہ اس لئے نہ سنایا گیا کہ کہیں وہ صاحبزادہ صاحب کے دلائل کے قائل نہ ہو جائیں.آخر مولویوں نے آپ کو کا فرقرار دینے کا فتویٰ جاری کیا اور سنگسار کرنے کی سزا تجویز کی جس کی بادشاہ حبیب اللہ خان اور اس کے بھائی نصر اللہ خان نے توثیق کی.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں:.امیر صاحب (یعنی بادشاہ) جب اپنے اجلاس میں آیا تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوند زادہ (یعنی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب ) کو بلایا اور کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے.اب کہو کہ کیا تو بہ کرو گے یا سزا پاؤ گے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا اور کہا کہ میں حق سے تو بہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں یہ مجھ سے نہیں ہوگا.جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہوکر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کا غذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سزا سنگسار کرنا ہے تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے ۱۲۰

Page 127

اُردو کی کتاب چهارم میں لٹکا دیا گیا اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کی ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے اور اس رستے سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل (یعنی سنگسار کرنے کی جگہ ) تک پہنچایا جائے.چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسی ڈالی گئی تب اس رسی کے ذریعہ شہید مرحوم کو نہایت ٹھیٹھے ہنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل لے گئے جب مقتل پر پہنچے تو صاحبزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے امیران کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچالیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کرتب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے اور جان کیا حقیقت اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھے سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بارہا کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں آپ چلاویں ۱۲۱

Page 128

اُردو کی کتاب چهارم تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی.پھر بعد اس کے بد قسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر شہید مرحوم پر پڑنے لگے.اور کوئی حاضرین میں ایسا نہ تھا جس نے شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا ( تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد نمبر ۲۰ صفحه ۶ ۵ تا ۵۹) سید احمد نور کا بلی صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت شہید مرحوم کو سنگسار کرنے لے جایا جار ہا تھا تو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.آپ راستہ میں تیزی تیزی اور خوشی خوشی جارہے تھے ایک مولوی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیوں ہیں ابھی آپ کو سنگسار کیا جانے والا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ تھکڑیاں نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا زیور ہے اور مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولا سے ملنے والا ہوں.حضرت صاحبزادہ صاحب کو کابل کے باہر مشرقی جانب ہند و سوزان کے ایک میدان موسومہ یہ سیاہ سنگ میں سنگسار کیا گیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ۱۲۲

Page 129

اُردو کی کتاب چهارم ایک گھنٹہ تک برابر ان پر پتھر برسائے گئے حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا مگر انہوں نے اُف تک نہ کی.ایک شیخ تک نہ ماری.“ ( ملفوظات جلد ۱۰ ، صفحه ۱۴۰) ہائے وہ معصوم اس کی (یعنی بادشاہ افغانستان کی ) نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبح کیا گیا اور باوجود صادق ہونے کے اور باوجود پورا ثبوت دینے کے اور باوجود ایسی استقامت کے کہ صرف اولیاء کو دی جاتی ہے پھر بھی اس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور اس کی بیوی اور اس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.(تذکرۃ الشہا دتینر وحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۵۵) ”اے عبد اللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں میری موت کے بعد ر ہیں گے میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے." (روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۶۰) ”ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بے دردی سے ۱۲۳

Page 130

اُردو کی کتاب چهارم قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیری زمین پر سخت مجرم کا ارتکاب کیا گیا اے بد قسمت زمین ! تو خدا کی نظر سے گر گئی کہ تُو اس ظلم عظیم 66 کی جگہ ہے.(تذکرۃ الشہا دتین روحانی خزائن صفحه ۷۴ ) کابل کی یہ بدقسمت زمین جو شہید مرحوم کا لہو بہانے کے جرم میں اللہ کی نظر سے گرگئی تھی آج تک گری ہوئی ہے اور اس جرم عظیم کا خمیازہ بھگت رہی ہے.اس شہادت کے فورا بعد افغانستان میں ہیضہ کی وباء پھوٹ پڑی سینکڑوں آدمی مرے.اور اس وقت سے قتل و غارت کا جو سلسلہ جاری ہوا اب تک تھمتا نظر نہیں آتا.اللہ کرے اہل افغانستان یہ حقیقت سمجھ جائیں کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام پر ایمان لا کر اور کچی تو بہ کر کے ہی اس جرم کا کفارہ ادا کیا جاسکتا ہے ورنہ یہ بدقسمتی پیچھا نہیں چھوڑے گی.۱۲۴

Page 131

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.زرعی اراضی - پن چکیاں دستار بندی- تأثرات - حد فاصل خلعتیں جذب - الوداع - ہتھکڑی - قید با مشقت - سنگسار - فہمائش - کفاره - مدعو جوابات لکھیں - (۱) شہید مرحوم کتنی اور کون سی زبانوں پر عبور رکھتے تھے؟ (۲) آپ کو احمدیت کا پیغام کب اور کیسے پہنچا ؟ (۳) مسجد مبارک میں آپ کہاں کھڑے ہوتے تھے ؟ (۴) شہید مرحوم اپنے کپڑوں کو جلد کیوں نہ جھاڑتے تھے؟ (۵) کابل کی زمین خدا کی نظر سے کیوں گر گئی ؟ تمرین (۱) اس سبق کے ابتدائی دو صفحات خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس سبق کا آخری صفحہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سارے سبق کا خلاصہ لکھیں.۱۲۵

Page 132

بق نمبر ١٦٢ اُردو کی کتاب چهارم ▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬▬ مُساوات کا اعلیٰ نمونہ مورخہ ۷ ارمضان ۲ هجری مطابق ۱۴ مارچ ۶۲۳ء کو بدر کے میدان میں مسلمانوں اور کفار قریش کے درمیان ایک جنگ ہوئی ، جو تاریخ اسلام میں غزوہ بدر کے نام سے مشہور ہے.اس غزوہ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ افراد پر مشتمل تھی جبکہ کفار کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی.اللہ تعالی نے اپنے وعدہ کے مطابق مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور انہوں نے کفار کے ستر (۷۰) سپاہیوں کو قیدی بنا لیا اور غزوہ کے اختتام پر انہیں مدینہ لے آئے اور مسجد نبوی میں رسیوں سے باندھ دیا انہیں قیدیوں میں سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا عباس اور داماد ابو العاص بھی تھے.اُس وقت دونوں مسلمان نہ تھے.عباس کو آپ سے اور آپ کو اُن سے بہت محبت تھی اُن کے متعلق انصار نے عرض کیا کہ یہ ہمارا بھانجہ ہے ہم انہیں بغیر فدیہ کے چھوڑ دیتے ہیں لیکن گو قیدی کو بطور احسان کے چھوڑ دینا اسلام میں جائز بلکہ پسندیدہ تھا مگر اس موقعہ پر عباس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں مانا اور فرمایا کہ عباس فدیہ ادا کریں تب ۱۲۶

Page 133

اُردو کی کتاب چهارم چھوڑے جائیں.عباس کے متعلق یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب وہ مسجد نبوی میں بندھے ہوئے پڑے تھے تو رات کے وقت ان کے کراہنے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند نہیں آتی تھی.انصار کو معلوم ہوا تو انہوں نے عباس کے بندھن ڈھیلے کر دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا اگر بندھن ڈھیلے کرنے ہوں تو سب کے کرو.عباس کی کوئی خصوصیت نہیں چنانچہ سارے قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دیئے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص بھی اسیران بدر میں سے تھے ان کے فدیہ میں اُن کی زوجہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی زینب نے جو ابھی تک مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں.اُن میں اُن کا ایک ہار بھی تھا یہ ہار وہ تھا جو حضرت خدیجہ نے جہیز میں اپنی لڑکی زینب کو دیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہار کو دیکھا تو مرحومہ خدیجہ کی یاد دل میں تازہ ہوگئی اور آپ چشم پر آب ہو گئے اور صحابہ سے فرمایا اگر تم پسند کرو تو زینب کا مال اُسے واپس کر دو.صحابہ کو اشارہ کی دی تھی زینب کا مال فورا واپس کر دیا گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نقد فدیہ کے قائم مقام ابوالعاص کے ساتھ یہ شرط مقرر کی کہ وہ مکہ میں جاکر زینب کو مدینہ بھجوا دیں اور اس طرح ایک مومن رُوح دار کفر سے نجات پاگئی.کچھ عرصہ بعد ابوالعاس بھی مسلمان ہو کر مدینہ میں ہجرت کر آئے اور اس طرح خاوند بیوی پھر ا کٹھے ہو گئے.۱۲۷

Page 134

اُردو کی کتاب چهارم حضرت زینب کی ہجرت کے متعلق یہ روایت آتی ہے کہ جب وہ مدینہ آنے کے لئے مکہ سے نکلیں تو مکہ کے چند قریش نے ان کو بزور واپس لے جانا چاہا جب انہوں نے انکار کیا تو ایک بد بخت ہبار بن اسود نامی نے نہایت وحشیانہ طریق پر ان پر نیزے سے حملہ کیا جس کے ڈر اور صدمہ کے نتیجہ میں اسقاط ہو گیا بلکہ اس موقعہ پر ان کو کچھ ایسا صدمہ پہنچ گیا کہ اس کے بعد ان کی صحت کبھی بھی پورے طور پر بحال نہیں ہوئی اور بالآخر انہوں نے اسی کمزوری اور ضعف کی حالت میں بے وقت انتقال کیا.حضور کے دامادا بوالعاص قریباً چار سال کے بعد 4 ھجری میں مسلمانوں کے ساتھ ایک اور لڑائی میں بمقام عیص پھر پکڑے گئے اور قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے.ابوالعاص نے اپنی بیوی حضرت زینب کو اطلاع بھجوائی کہ میں اس طرح قید ہو کر مدینہ پہنچ گیا ہوں تم اگر میرے لئے کچھ کر سکتی ہو تو کرو.زینب اس وقت مدینہ میں ہی قیام پذیرتھیں چنانچہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ صبح کی نماز میں مصروف تھے زینب نے گھر کے اندر سے بلند آواز سے پکار کر کہا کہ اے مسلمانو! میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو صحابہ کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا جو کچھ زینب نے کہا ہے وہ آپ لوگوں نے سن لیا ہوگا واللہ مجھے اس کا علم نہیں تھا مگر مومنوں کی ۱۲۸

Page 135

اُردو کی کتاب چهارم 66 جماعت ایک جان کا حکم رکھتی ہے اگر ان میں سے کوئی کسی کا فر کو پناہ دے تو اس کا احترام لازم ہے.پھر آپ نے زینب کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: " جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں.اور جو مال اس مہم میں ابو العاص سے حاصل ہوا تھا وہ اسے لوٹا دیا پھر آپ گھر میں تشریف لائے اور اپنی صاحبزادی زینب سے فرمایا: ابو العاص کی اچھی طرح خاطر تواضع کرو مگر اس کے ساتھ خلوت میں نہ ملو کیونکہ موجودہ حالت میں تمہارا اس کے ساتھ ملنا جائز نہیں ہے.چند روز مدینہ میں قیام کر کے ابو العاص مکہ کی طرف واپس چلے گئے مگر اب ان کا مکہ میں جانا وہاں ٹھہرنے کی غرض سے نہیں تھا کیونکہ انہوں نے بہت جلد اپنے لین دین سے فراغت حاصل کی اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر مسلمان ہو گئے جس پر آپ نے حضرت زینب کو ان کی طرف بغیر کسی جدید نکاح کے لوٹا دیا یعنی زینب کو اجازت دے دی کہ اب وہ ان کے ساتھ ازدواجی تعلقات رکھ سکتی ہیں.ابوالعاص حضرت ابو بکر کے عہد خلافت میں ۱۲ ہجری میں فوت ہوئے اور ان کی اور حضرت زینب کی بیٹی امامہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت عزیز تھیں حضرت فاطمہ کی وفات کے بعد حضرت علی کے نکاح میں آئیں مگر کوئی اولاد نہ ہوئی.( بحوالہ سیرۃ خاتم النبین صفحه ۳۶۸) ۱۲۹

Page 136

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.مساوات اختتام چشم پر آب ہونا غزوه دار کفر - احسان مهم تواضع جوابات لکھیں (1) جنگی قیدی کو کس صورت میں چھوڑا جا سکتا ہے؟ (۲) صحابہ نے سب قیدیوں کے بندھن کیوں ڈھیلے کر دیئے؟ (۳) حضور چشم پر آپ کیوں ہوئے؟ آب (۴) کفار قریش کی وحشت کی کوئی مثال لکھیں؟ (۵) مسلمانوں نے ابوالعاص کو کیوں پناہ دی؟ تمرین (1) اس سبق کے ابتدائی دو صفحات خوشخط لکھیں.(۲) استاداس سبق کا آخری صفحہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.۱۳۰

Page 137

سبق نمبر : ۷ اُردو کی کتاب چهارم دُعا کے قبول نہ ہونے کی صورت میں حکمت الہی حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی تھے.آپ را جیکی ضلع گجرات مغربی پنجاب پاکستان کے رہنے والے تھے.آپ تحریر فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ایک مناظرہ میں شرکت کے لئے لاہور سے بعزم حافظ آباد (ضلع گوجرانوالہ ) رات کے وقت روانہ ہوا.حافظ آباد کے لئے گاڑی سانگلہ ہل جنکشن سے تبدیل ہوتی تھی.میرے پاس کافی سامان تھا جب لاہور والی گاڑی سانگلہ ہل پہنچی تو تین چار بجے کا وقت تھا اتفاق سے کوئی قلی نہ مل سکا میں نے پلیٹ فارم پر اتر کر دریافت کیا کہ حافظ آباد جانے والی گاڑی کب روانہ ہو گی.ایک شخص نے بتایا کہ وہ گاڑی سامنے کے پلیٹ فارم پر تیار کھڑی ہے اور روانہ ہونے والی ہے میں اپنا سامان خود ہی اٹھا کر افتاں و خیزاں پلیٹ فارم کی سیٹرھیوں پر چڑھا.ابھی دوسرے پلیٹ فارم پر نیچے اترا ہی تھا کہ گاڑی چل د ۱۳۱

Page 138

اُردو کی کتاب چهارم پڑی.میں اس کام کی اہمیت کے پیش نظر دوڑتا ہوا اور دعا کرتا ہؤا گارڈ کے ڈبے تک جا پہنچا اور بڑے الحاح سے اُسے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے گاڑی ذرا روکیں یا آہستہ کریں تاکہ میں سوار ہو جاؤں.میں اسی طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑے تضرع سے دعا کر رہا تھا کہ پلیٹ فارم ختم ہو گیا اور گاڑی بھی زیادہ تیز ہوگئی.میں سخت مایوس اور رنجیدہ ہوا یہ کام سلسلہ کا تھا مجھ سے جہاں تک ہوسکا میں نے کوشش کی اور نہایت عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور بھی عرض کرتا رہا لیکن اس نے میری التجا کو نہ سُنا اور میری دُعا کو جونہایت اہم مقصد کے لئے تھی منظور نہ فرمایا اب میں کیا کرتا.مجھے سخت درد اور دکھ محسوس ہورہا تھا اسی حالت میں میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا.ایک شخص نے مجھے اس طرح دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو کہاں جانا تھا افسوس ہے کہ آپ گاڑی سے رہ گئے.میں نے کہا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام کے لئے حافظ آباد پہنچنا تھا.اس نے کہا کہ حافظ آباد جانے والی گاڑی تو وہ سامنے کھڑی ہے اور چند منٹ میں روانہ ہوگی جس ریل گاڑی کے پیچھے آپ بھاگ رہے تھے وہ تو لاہور ۱۳۲

Page 139

اُردو کی کتاب چهارم جارہی تھی.جونہی میں نے یہ بات سنی میرے شکوہ و شکایت کے خیالات جذبات تشکر سے بدل گئے.میں نے حافظ آباد جانے والی گاڑی میں سوار ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر ادا کیا کہ کس طرح اس نے میری دعا کو جو میرے لئے بہت ہی نقصان دہ تھی اور جس کے قبول ہونے کے لئے میں تضرع سے درخواست کر رہا تھا ، رڈ کر کے مجھے تکلیف اور نقصان سے بچالیا.اگر میری دعا قبول ہو جاتی اور میں اس گاڑی میں سوار ہو جاتا جو میں غلطی سے حافظ آباد جانے والی سمجھ رہا تھا جو دراصل لاہور جانے والی تھی تو میں بر وقت حافظ آباد نہ پہنچ سکتا اور نقصان اُٹھاتا.اس واقعہ سے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ دعاؤں کے رڈ ہونے میں بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی خاص مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں جو سراسر انسان کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں جن کو انسان اپنے ناقص علم کی وجہ سے نہیں سمجھت اور نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر وقت دنیا پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے.(بحوالہ حیاۃ قدسی حصہ چہارم صفحہ ۱۸) ۱۳۳

Page 140

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.افتان و خیزاں - الحاج - تضرع - رنجیده - التجا-شکوہ و شکایت جذبات تشکر نقصان دہ مصلحتیں کارفرما - سراسر - رنجیدہ - جوابات لکھیں - کارفرما-سراسر- (1) مولانا غلام رسول صاحب کو کہاں اور کس لئے جانا تھا؟ (۲) ریل کے گارڈ کو مولانا صاحب نے کیا کہا ؟ (۳) مولانا صاحب کے مایوس اور رنجیدہ ہونے کی کیا وجہ تھی؟ (۴) مولانا صاحب نے سجدہ شکر کیوں ادا کیا؟ (۵) اس سبق سے آپ نے کیا سیکھا؟ تمرین (۱) اس سبق کے ابتدائی دو صفحات خوشخط لکھیں.(۲) استاد ابتدائی صفحہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.(۴) اسی طرح کا آپ بھی کوئی واقعہ لکھیں.۱۳۴

Page 141

تسبق نمبر ١٨ اُردو کی کتاب چهارم اطاعت وفرمانبرداری کا قابل تقلید نمونہ (1) حضرت مولانا نورالدین صاحب اپنی ہجرت بھیرہ سے قادیان کا ایمان افروز واقعہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ ریاست کی ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد بھیرہ میں پہنچ کر میرا ارادہ ہوا کہ میں ایک بہت بڑے پیمانہ پر شفاخانہ کھولوں اور ایک عالی شان مکان بنالوں.وہاں میں نے ایک مکان بنایا ابھی وہ نا تمام ہی تھا اور غالبا سات ہزار روپیہ اس پر خرچ ہونے پایا تھا کہ میں کسی ضرورت کے سبب لاہور آیا میرا جی چاہا کہ حضرت صاحب کو بھی دیکھوں اس واسطے میں قادیان آیا چونکہ بھیرہ میں بڑے پیمانہ پر عمارت کا کام شروع تھا اس لئے میں نے واپسی کا یکہ کرایہ کیا تھا یہاں آکر حضرت صاحب سے ملا اور ارادہ کیا کہ آپ سے ابھی اجازت لے کر رخصت ہو جاؤں.آپ نے اثنائے گفتگو مجھ سے فرمایا کہ اب تو آپ فارغ ہو گئے ہیں میں نے کہا ہاں اب تو فارغ ہی ہوں.یکہ والا سے میں نے کہہ دیا کہ اب چلے جاؤ آج اجازت لینا مناسب نہیں ہے کل پرسوں اجازت لیں گے اگلے روز آپ نے فرمایا کہ آپ کو اکیلے رہنے میں تو تکلیف ہوگی آپ اپنی ۱۳۵

Page 142

ایک بیوی کو بلوالیں.اُردو کی کتاب چهارم میں نے حسب ارشاد بیوی کے بلانے کے لئے خط لکھ دیا اور یہ بھی لکھ دیا کہ ابھی میں شاید جلد نہ آسکوں اس لئے عمارت کا کام بند کر دیں.جب میری بیوی آگئی تو آپ نے فرمایا کہ آپ کو کتابوں کا بڑا شوق ہے لہذا میں مناسب سمجھتا ہوں کہ آپ اپنا کتب خانہ منگوالیں.تھوڑے دنوں کے بعد فرمایا کہ دوسری بیوی آپ کی مزاج شناس اور پرانی ہے آپ اس کو ضرور بلالیں.حضرت مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے یہ بھی فرمایا کہ اپنے وطن کا خیال تک بھی نہ کرنا.چنانچہ خدا تعالیٰ کے بھی عجیب تصرفات ہوتے ہیں میرے واہمہ اور خواب میں بھی پھر مجھے وطن کا خیال نہ آیا پھر تو ہم قادیان کے ہی ہو گئے.(۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اکتوبر ۱۹۰۵ء میں قادیان سے دہلی تشریف لے گئے ان دنوں حضرت مولانا نورالدین صاحب قادیان میں ہی رہائش پذیر تھے.دہلی میں حضور علیہ السلام کو نفرس کی تکلیف ہوگئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت خلیفہ اول گوتار دلوائی کہ فوز ادتی پہنچ جائیں تار لکھنے والے نے تار میں Immediate یعنی بلا توقف کے الفاظ لکھ دیئے.حضرت خلیفہ اول ۱۳۶

Page 143

اُردو کی کتاب چهارم کو جب یہ تار ملی تو آپ اپنے مطب میں تشریف رکھتے تھے تار کے ملتے ہی یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ حضرت صاحب نے بلا توقف بلایا ہے میں جاتا ہوں اور گھر میں قدم رکھنے کے بغیر اڈہ خانہ کی طرف روانہ ہو گئے کیفیت یہ تھی کہ اس وقت جیب میں نہ خرچ تھا اور نہ ساتھ کوئی بستر وغیرہ گھر والوں کو اطلاع ملی تو پیچھے ملی سے ایک کمبل کسی شخص کے ہاتھ بھجوا دیا مگر خرچ کا انہیں بھی خیال نہ آیا اور اس وقت شاید گھر میں کوئی رقم ہوگی بھی نہیں.اڈہ خانہ پہنچ کر حضرت خلیفہ اول نے یکہ لیا اور بٹالہ پہنچ گئے مگر ٹکٹ خریدنے کا کوئی سامان نہیں تھا چونکہ گاڑی میں کچھ وقت تھا آپ خدا پر توکل کر کے سٹیشن پر ٹہلنے لگ گئے اتنے میں ایک ہندور کیس آیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر عرض کی کہ میری بیوی بہت بیمار ہے آپ تکلیف فرما کر میرے ساتھ تشریف لے چلیں اور اسے میرے گھر پر دیکھ آئیں.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے فرمایا کہ میں تو امام کے حکم پر دلی جارہا ہوں اور گاڑی کا وقت ہونے والا ہے میں اس وقت نہیں جاسکتا اس نے بمنت عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو یہیں اسٹیشن پر لے آتا ہوں آپ اسے یہیں دیکھ لیں آپ نے فرمایا اگر یہاں لے آؤ اور گاڑی میں کچھ وقت ہو تو میں دیکھ لوں گا چنانچہ وہ اپنی بیوی کو اسٹیشن پر لایا اور آپ نے اسے دیکھ کر سخہ لکھ دیا یہ ہندور ٹیکس چپکے سے گیا اور دلی کا ٹکٹ لا کر حضرت خلیفہ ۱۳۷

Page 144

اُردو کی کتاب چهارم اول کے حوالہ کیا اور ساتھ ہی معقول نقدی بھی پیش کی.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۳۴۲) درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.پیمانه عالی شان - اثنائے گفتگو.حسب ارشاد مزاج شناس-تصرفات- واہمہ- بلا توقف- بمنت-نسخہ جوابات لکھیں - (۱) حضرت مولانا نورالدین کا فراغت کے بعد کیا ارادہ تھا؟ (۲) وہ ارادہ کس شکل میں پورا ہوا ؟ (۳) مولانا صاحب نے اجازت لینا کیوں مناسب نہ سمجھا ؟ (۴) ہندو رئیس نے مولانا صاحب کو کیا کہا ؟ تمرین (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استادا سے بطور املاء لکھوائے.(۳) ہر دو واقعات کا خلاصہ لکھیں.۱۳۸

Page 145

سبق نمبر : 19 اُردو کی کتاب چهارم وہ چراغ جلتا ہے حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر صحابی تھے.آپ ۱۸۹۳ء رمضان ۱۳۱۰ هجری کے پہلے عشرہ میں پہلی بار قادیان تشریف لائے بٹالہ سے قادیان کے لئے بذریعہ ٹانگہ ( یکہ ) یا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا.اس سفر میں عرفانی صاحب کے ساتھ کیا بیتی انہیں کے الفاظ میں پڑھیں.اس وقت بٹالہ میں عصر کے بعد گاڑی پہنچتی تھی اس لئے کہ امرتسر میں گاڑی بدلنی ہوتی تھی.رمضان ۱۳۱۰ کا پہلا عشرہ تھا میں چونکہ اس سفر سے ناواقف تھا اور اس کے علاوہ حضرت کے حضور پیش کرنے کے لئے مختلف قسم کی سبزیوں کا ایک بنڈل تھا.بٹالہ سے کوئی یکہ مل نہ سکا تھا اسی لئے ایک مزدور جو دوانی وال کا ایک چمار تھا لیا.اس نے یقین دلایا کہ میں قادیان کا راستہ جانتا ہوں.بعض اور لوگوں سے پوچھ کر بھی تسلی کی اور بڑا نشان راہ یہ بتایا گیا کہ نہر سے آگے جا کر جو بائیں ۱۳۹

Page 146

اُردو کی کتاب چهارم طرف کا موڑ آئے گا وہ قادیان جاتا ہے اس تحقیق اور مزدور مذکور کی مصروفیت کی وجہ سے کافی دیر ہوگئی اور راستہ میں وہ اپنا سامان اور سودا سلف جو اس نے اپنے لئے خریدا ہوا تھا پہنچانے کے لئے دوانی وال کی سڑک پر واقع کنویں کے پاس مجھے چھوڑ کر گھر گیا اور مجھے کافی دیر انتظار کرنا پڑا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا اور نہر پر پہنچنے سے پہلے ہی تاریکی پھیل گئی اور چونکہ نہر خشک تھی ہمیں نہر کا پتہ بھی نہ لگا اور یہ پہلی غلطی ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ قادیان کا موڈ گزر کر ہم آگے چلے گئے اور مجھے تعجب ہوتا تھا نہر کیوں نہیں آئی یہاں تک کہ ہم ہر چوال کی نہر پر پہنچے وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہم راستہ بھول گئے ہیں اور یہ بھی وہاں کے ایک چوکیدار سے معلوم ہوا تھ کان تو تھی مگر شوق نے اسے محسوس نہ ہونے دیا لیکن جب یہ معلوم ہوا کہ راستہ بھول گئے ہیں تو بڑا بوجھ طبیعت پر ہوا میں جوان تھا طبیعت میں تیزی اور غصہ تھا رہنما پر خفا ہونے لگا کہ تم نے دعویٰ کیا تھا کہ راستہ جانتا ہوں مگر اس کا کچھ نتیجہ نہ تھا اس نے مشورہ دیا کہ اب رات بہت ہوگئی ہے یہاں کوٹھی کے برآمدے میں پڑے رہتے ہیں دن نکلتے ہی چلیں گے اس وقت سفر مناسب نہیں.میں نے ضد کی کہ ابھی واپس چلوغرض ہم واپس ہوئے اور لیل ( گاؤں کا نام) کے پاس پہنچ کر ۱۴۰

Page 147

اُردو کی کتاب چهارم بجائے قادیان کی طرف جانے کے لیل کی طرف جو موڑ تھا ادھر چل پڑے.تھوڑی دور گئے تھے کہ لیل کی بستی سے چار پانچ سکھ ادھر آتے ہوئے ملے وہ مسلح تھے لاٹھی اور کلہاڑی سے انہوں نے ہیبت ناک آواز میں پوچھا کون ہو کہاں جاتے ہوئیں نے کہا کہ قادیان جانا ہے اس پر ان کی آواز میں خشونت کی بجائے نرمی پیدا ہوئی اور کہا یہ تو لیل کا راستہ ہے چلو سڑک پر تمہیں قادیان کا راستہ بتادیتے ہیں مرزا صاحب کے پاس جانا ہوگا میں نے کہا ہاں سردار صاحب وہاں ہی جانا تھا یہ میرا ساتھی راستہ بھول گیا.انہوں نے کہا اب قادیان دُور نہیں تم کو سیدھے ہی راستہ پر ڈال دیتے ہیں آنکھیں بند کر کے چلے جاؤ مرزا صاحب کے باغ کے پاس راستہ ان کے گھر کے قریب ہی نکلتا ہے.غرض وہ سڑک پر آئے اور قادیان کے راستہ پر ہم کو ڈالا میں آج ساتھ سال کے بعد اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے دامن رحمت میں جگہ دے مجھے پر اس وقت اور آج بھی یہ اثر تھا اور ہے کہ یہ حضرت اقدس کی روحانی قوت کا تصرف تھا جن کو میں نے اس وقت دشمن سمجھا تھا اور ایسے وقت میں ان کا مسلح ہو کر نکلنا کچھ معنی رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے ان کو ۱۴۱

Page 148

اُردو کی کتاب چهارم میرے لئے اس سفر کے مقصد نیک کی وجہ سے رہنما بنا دیا.کوئی ایک گھنٹہ یا زیادہ سفر کرنے کے بعد ہم باغ کے آخری سرے پر پہنچے اس کے آگے پایاب پانی کی ڈھاب تھی اور پزادہ کے متصل گنے کا رس نکالنے کا ایک بیلنہ تھا جو بعد میں معلوم ہوا کہ وہ قادیان کے ایک مشہور ارائیں کا تھا پانی کے کنارے پہنچ کر ہم نے زور سے پوچھا کہ راستہ میں پانی کتنا گہرا ہے جواب ملا آؤ گہر انہیں.اس وقت آگے صرف خالی اراضی تھی اور مہمان خانہ کا وہ حصہ جو ایک زمانہ میں پریس اور پھر رتھ خانہ اور موٹر خانہ ہوا اس میں چراغ جلتا تھا اور روشنی تھی اس بیلنا پر پہنچ کر راستہ پوچھا تو انہوں نے اس چراغ کا نشانہ دیکھ کر کہا کہ: وہ چراغ مہمان خانہ میں جلتا ہے انسان جذبات اور تاثرات کا پتلا ہے اور میرے دماغ کو ایک مناسبت ہے کہ وہ مشاہدات سے تأثرات پیدا کرتا ہے اور ایک خوشی کی لہر پیدا ہوئی کہ یہ مبارک فال ہے ہمیں روشنی رہنمائی کر رہی ہے.غرض وہاں پہنچے رمضان کا مہینہ تھا لوگ تہجد اور سحری کے لئے اٹھے ہوئے تھے.حضرت حافظ حامد علی صاحب ۱۴۲

Page 149

اُردو کی کتاب چهارم رضی اللہ عنہ ہی ناظر ضیافت ( کہنا چاہئے ) تھے.ان سے لدھیانہ میں ملاقات ہو چکی تھی.وہ بڑی محبت سے اور بنتے ہوئے ملے اور گول کمرہ میں لے گئے.انہوں نے بے وقت آمد کی کیفیت سنی تو حیران ہوئے اور حضرت اقدس کو اسی وقت اطلاع دی وہ رحم و کرم کا پیکر اسی وقت آیا اور تکلیف دہ سفر کی کیفیت سے متاثر تھا بار بار فرماتے بڑی تکلیف ہوئی اب کھانا کھا کر آرام کر لو اور حافظ صاحب کو کچھ ہدایات دیں.حافظ صاحب نے چار پائی اور بستر مہیا کیا میں جب لیٹ گیا تو وہ میرے پاؤں دبانے کو لیکے.میں نے عذر کیا مگر وہ رکتے نہ تھے آخر میں انہوں نے فرمایا ( وہ آہستہ بولتے تھے ان کی آواز اور حرکات اس وقت میری آنکھوں اور کانوں میں موجود ہیں ) مرزا صاحب نے مجھے حکم دیا ہے کہ بہت تھک گئے ہیں ان کی خدمت کرو.میری آنکھوں میں آنسو آ گئے یہ شفقت اور کرم اور یہ شان مہمان نوازی.(بحوالہ حیات احمد جلد دوم صفحہ ۲۵۸) ۱۴۳

Page 150

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.جلیل القدر - عشرہ سودا سلف میناک-خشونت- پایاب- پزاده - مشاہدات جوابات لکھیں - (۱) حضرت عرفانی صاحب کو کس نہر کے بعد قادیان آنے کے لئے بائیں مڑنا تھا؟ (۲) کس جگہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ قادیان کا راستہ بھول گئے ہیں؟ (۳) راستے میں ملنے والے سکھوں نے کیا کہا ؟ (۴) حضرت عرفانی صاحب نے بیلنہ والے سے کیا پوچھا اور اس نے کیا جواب دیا ؟ (۵) حضرت عرفانی صاحب کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے؟ تمرین (1) اس سبق کا ابتدائی صفحہ خوشخط لکھیں.(۲) استادا سے بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کا خلاصہ لکھیں.(۵) بٹالہ سے ہر چوال تک کا نقشہ بنائیں جس میں بٹالہ ، قادیان ، ہر چوال اور ہر دو نہروں کی نشاندہی کریں.۱۴۴

Page 151

تسبق نمبر : ۲۰ اُردو کی کتاب چهارم ہمارا وطن ہندوستان یوں تو دنیا میں سینکڑوں ملک اور بہت سے دلیش ہیں مگر ہندوستان جیسا کوئی نہیں اس کی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک ہے اس کی ثقافت بہت پرانی اور قدیمی ہے اس کی آغوش میں مختلف مذاہب کے لوگ سینکڑوں سالوں سے انتہائی پیار و محبت سے رہتے چلے آرہے ہیں.ہمارے وطن کی خوبی یہ ہے کہ ہر قوم جو باہر سے آئی اس ملک نے اُسے اپنے دامن میں پناہ دی اسے سونے کی چڑیا کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی سرزمین انتہائی زرخیز اور معدنیات سے بھر پور ہے.ہندوستان کے شمال میں کوہ ہمالیہ کا بلند ترین پہاڑی سلسلہ ہے اس کی بلند چوٹیاں سال بھر برف سے ڈھکی رہتی ہیں کوہ ہمالیہ اس پار سے آنے والی شمالی سردو خشک اور مضر ہواؤں کو اندرون ملک آنے سے روکتا ہے اور اسی طرح اندرون ملک سے بارش سے لدی ہوئی موسمی ہواؤں کو اپنی بلندیوں سے اُس پار جانے سے روکتا ہے اسی وجہ سے کوہ ہمالیہ کے دامن میں کثرت سے بارش ہوتی ہے.بارش کا پانی ۱۴۵

Page 152

اُردو کی کتاب چهارم دریاؤں میں آتا ہے.علاوہ ازیں ان دریاؤں میں ہمالیہ سے پکھلنے والی برف کا پانی بھی بکثرت بہتا ہے یہ دریا ان پہاڑوں سے نہ صرف پانی لاتے ہیں بلکہ نئی مٹی بھی لالا کر زمین کو زرخیز بناتے رہتے ہیں.ہندوستان کے بعض مشہور دریا یہ ہیں: جہلم ، چناب ، راوی ، بیاس تلج ، برھما پتر ، گنگا ، جمنا ، ان دریاؤں کا پانی لاکھوں مربع میل علاقے کو سیراب کرتا اور ان کے باشندوں کی آبی ضروریات کو پورا کرتا ہے ان دریاؤں میں سے گنگا اور جمنا ہندؤوں کے نزدیک بہت مقدس مانے جاتے ہیں.ہمارے ملک پر طویل عرصے تک برطانوی سامراج حکومت کرتا چلا آرہا تھا.انگریز اپنی حکومت کے آخری دور میں ہندوستانیوں پر بہت ظلم و زیادتی کرتے تھے ان کے حقوق غصب کرتے اور ناحق قتل کرتے تھے.مثال کے طور پر انگریزوں کے جنرل ڈائر نے امرتسر کے جلیانوالا باغ میں نہتے ہندوستانیوں پر اندھا دھند گولیاں چلوا کر سینکڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا.آخر وہ وقت آیا جب اہل ہند غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور آزادی کا مطالبہ کیا.آزادی کے حصول کے لئے ہمارے لیڈروں نے بہت محنت کی اور بڑی قربانیاں دیں بڑی طویل جدوجہد کے بعد یہ قربانیاں بار آور ہوئیں ۱۴۶

Page 153

اُردو کی کتاب چهارم اور ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو ہمارا ملک آزاد ہوا اور ملک کا نیا آئین و دستور بنا.ہمارے ملک کا دار الحکومت دہلی ہے.ہندوستان کا کل رقبہ ۳۲۸۷۲۴۰ مربع کلومیٹر ہے.ہندوستان کے اٹھائیس صوبے ہیں جن کے اسماء درج ذیل ہیں: دار الحکومت نام صوبہ زبان آندھرا پردیش حیدرآباد تیلگو، اردو ۲ اروناچل پردیش اٹانگر ہندی آسام وسپور آسامی، بنگالی، بوڈو بہار پٹنہ ہندی ، اردو 3 چھتیس گڑھ رائے پور ہندی گوا پاناجی کوکنی ، مراٹھی N گجرات گاندھی نگر گجراتی، ہندی ہریانہ چنڈی گڑھ ہندی، پنجابی ہماچل پردیش شملہ ہندی، پنجابی 1.جموں کشمیر گرمیوں میں سری نگر اردو، کشمیری، ڈوگری سردیوں میں جموں ۱۴۷

Page 154

اُردو کی کتاب چهارم ۱۲ ۱۳ بنگلور جھاڑکھنڈ رانچی کرناٹک کیرلہ ۱۴ مدھیہ پردیش ہندی کر تر و وننتا پورم ملیالم ، انگلش بھوپال ہندی مہاراشٹر ممیتی مراٹھی ، انگلش منی پور امپھال میٹی میگھالیہ شیلانگ انگلش ، خاسی ، گارو میزورم آئی زول میزو ناگالینڈ کو ہیما انگلش اڑیسہ بھوبنیشور اریہ پنجاب چنڈی گڑھ پنجابی را جستهان جے پور ہندی سگم گیٹوک انگلش تتامل ناڈو چینئی تامل ۱۴۸ ۱۵ ۱۶ ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۱۲۳ ۲۴

Page 155

اُردو کی کتاب چهارم ۲۵ تری پورا اگر تلا انگلش ، بنگالی،کوکبوروک ۲۶ اتر پردیش لکھنو ہندی ، اردو ۲۷ اُتراکھنڈ دہرادون انگلش ، ہندی ، اردو ۲۸ مغربی بنگال کولکاتا بنگالی، نیپالی مرکزی حکومت کے تحت علاقہ جات انڈیمان نکوبار پورٹ بلیئر انگلش ، ہندی ، تامل چنڈی گڑھ چنڈی گڑھ پنجابی، ہندی دا درا اور نگر حویلی سلوسا مراٹھی، گجراتی دمن دیو دمن گجراتی ، انگلش، مراٹھی لکشد پیپ کاوارتی ملیالم دہلی دہلی ہندی، اردو، پنجابی کوڈ و چیری کوڈو چیری فریج ، تامل، انگلش، تیلگو، ملیالم ۱۴۹

Page 156

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.ثقافت- دامن میں پناہ دینا.معدنیات-کوہ ہمالیہ - زرخیز سامراج-حقوق غصب کرنا.موت کے گھاٹ اُتارنا - بارآور ہونا جوابات لکھیں - (۱) ہندوستان دوسرے ممالک کی نسبت کیوں ممتاز ہے؟ (۲) ہندوستان کو سونے کی چڑیا کیوں کہا جاتا ہے؟ (۳) کوہ ہمالیہ کے فوائد لکھیں؟ (۴) ہندوستان کے لوگ آزادی کے لئے کیوں اُٹھ کھڑے ہوئے؟ (۵) انگریزوں سے ظلم کی کوئی ایک مثال لکھیں.تمرین (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے پہلے حصے کی املا لکھوائے.(۳) ہمارا وطن کے زیر عنوان ایک مضمون لکھیں.۱۵۰

Page 157

سبق نمبر : ۲۱ اُردو کی کتاب چهارم طلباء جامعہ احمدیہ کا سفر دہلی اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ: ترجمہ: کیا یہ لوگ زمین میں نہیں پھر تے تا دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا انجام کیا ہو ا تھا.وہ لوگ ان سے طاقت اور پیچھے چھوڑے ہوئے نشانوں کے لحاظ سے بڑے تھے سو اللہ نے ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے تباہ کر دیا اور کوئی بھی اللہ کی گرفت سے ان کو بچانے والا پیدا نہیں ہوا.قرآن مجید کے انہیں ارشادات کے پیش نظر جامعہ احمدیہ قادیان کے طلباء کو سيرُوا فِي الْأَرْضِ پروگرام کے تحت ہر سال بعض تاریخی مقامات دیکھنے کے لئے بھیجوایا جاتا ہے اس سال کے لئے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ جامعہ کے طلباء کو ان مقامات پر لے جایا جائے گا جہاں سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لے گئے تھے نا اور ضمناً دوسرے تاریخی مقامات کو بھی دکھایا جائے گا.چنانچہ اس سلسلے کی پہلی کڑی کے طور پر دہلی کا سفر اختیار کیا گیا.مورخہ ۳۰ جنوری ۲۰۰۸ء کو الدرجه استاد سہ والخمسہ کے طلباء اور اساتذہ کا یہ ۱۵۱

Page 158

اُردو کی کتاب چهارم قافلہ بذریعہ بس سرائے طاہر قادیان سے گیارہ بجے دہلی کے لئے روانہ ہوا اور گیارہ ہی بجے شب دہلی پہنچا ۳۱ جنوری کو بعد نماز فجر مسجد احمد یہ دہلی میں خاکسار ( محمد حمید کوشر ) نے طلباء جامعہ احمدیہ اور موجود حضرات کو اپنی تقریر میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دہلی تین بار تشریف لائے جس کا اختصار اذکر کیا جاتا ہے: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا سفر دہلی : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جب حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ بنت حضرت میر ناصر نواب صاحب سے رشتہ طے پایا تو آپ قادیان سے دہلی کے لئے حافظ حامد علی صاحب اور لالہ ملا وامل صاحب کے ساتھ روانہ ہوئے اور ۱۸ نومبر ۱۸۸۴ء کو خواجہ میر درد رحمہ اللہ علیہ کی مسجد میں عصر و مغرب کے درمیان مولوی سید نذیر حسین صاحب دہلوی نے نکاح پڑھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موقعہ پر مولوی صاحب کو ایک مصلیٰ اور پانچ روپے بطور صد یہ دیئے.نکاح کے بعد رخصتانہ کی تقریب تھی بعد ازاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگلے روز حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ (ام المومنین ) کے ساتھ قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.لیا ۱۵۲

Page 159

دوسرا سفر : اُردو کی کتاب چهارم مسلمان اور عیسائی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ موجود ہیں اور آخری زمانے میں اپنے جسم خاکی کے ساتھ دوبارہ اس دنیا میں واپس آئیں گے.۱۳۰۸ - ۱۸۹۱ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاما فرمایا: "مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہو چکا ہے اور اُسی کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تو آیا ہے.“ (ازالہ اوہام ۲ - صفحہ (۵۶) اس انکشاف کے منظر عام پر آنے کے بعد سعید الفطرت جماعت احمدیہ میں شامل ہونے لگے، مگر اکثریت نے زبر دست مخالفت شروع کردی.حضور نے اپنے دعوی کی تبلیغ واشاعت کے لئے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کیا ، انہی میں سے ایک سفر د بلی کا تھا جہاں آپ ۲۹ ستمبر ۱۸۹۱ء کو تشریف لائے اور نواب لوہارو کی دو منزلہ کوٹھی واقعہ محلہ علیہماراں میں قیام فرما ہوئے.اس سفر میں ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ ۷ ارا کتوبر ۱۸۹۱ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی سید نذیر حسین کے نام ایک اشتہار میں تحریر فرمایا کہ جہاں چاہیں بحث کے لئے حاضر ہو جاؤں گا اور ہر گز تخلف نہ کروں گا.اس اشتہار میں حضور علیہ السلام نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ اگر آپ کسی طرح بحث کرنا نہیں چاہتے تو ایک مجلس میں میرے تمام دلائل سن کر تین مرتبہ قسم کھا کر کہہ دیں کہ یہ دلائل صحیح نہیں ہیں اور صحیح اور یقینی ۱۵۳

Page 160

اُردو کی کتاب چهارم امر یہی ہے کہ حضرت مسیح ابن مریم زندہ بجسدہ العصری آسمان کی طرف اٹھائے گئے ہیں اور یہی میرا عقیدہ ہے، اس پر اگر ایک سال کے اندر اندر آپ خدا کے عبرتناک عذاب سے بچ نکلیں تو میں جھوٹا ہوں.چنانچہ فیصلہ ہوا کہ ۲۰/اکتوبر ۱۸۹۱ء کو عصر کی نماز کے بعد مباحثہ ہو یا قسم اٹھائی جائے جو لوگ دیانتداری سے حق و باطل کا فیصلہ چاہتے تھے وہ اس دن بشدت انتظار کرنے لگے لیکن مخالفین جن کی تعداد زیادہ تھی یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو مسجد ہی میں قتل کر دینا چاہئے.حضور کو ۱/۲۰ کتوبر کی صبح ہی سے یہ پیغام آنے لگے کہ آپ جامع مسجد میں ہر گز نہ جائیں فساد کا اندیشہ ہے.دلی کے لوگ آپ کے قتل کے درپے ہیں.حضور اپنی قیامگاہ سے نماز ظہر و عصر ادا کرنے کے بعد جامع مسجد دہلی کے لئے روانہ ہوئے راستے میں کئی بد بخت گھات میں بیٹھ گئے کہ بندوق سے حضور پر فائز کر دیں لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت کہ جس راہ سے حضرت اقدس اور آپ کے خدام کو جانا تھا بگھی والوں نے کہا کہ ہم اس راہ سے نہیں جائیں گے گویا خدا تعالیٰ نے بکھی والوں کے دل میں ہی دوسرا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ پیدا کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۰ اکتو برا ۱۸۹ کو جامع مسجد دہلی کے جنوبی دروازے سے مسجد میں داخل ہوئے اور سیدھے محراب میں تشریف لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد مولوی سید نذیر حسین ۱۵۴

Page 161

اُردو کی کتاب چهارم صاحب اور مولوی محمد حسین بٹالوی شمالی دروازے سے داخل ہوئے اور اسی دالان میں بیٹھے گئے جس کا سلسلہ دروازے کے اندر قدم رکھتے ہی شروع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی محمد نذیر حسین صاحب کو ایک رقعہ لکھا کہ : میں موجود ہوں ، مجھ سے بحث کریں ، اگر بحث سے عاجز ہیں تو یہ قسم کھالیں کہ میرے نزدیک ابن مریم کا زندہ آسمان پر اُٹھایا جانا قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ قطعیہ بینہ سے ثابت ہے.اس قسم کے بعد اگر ایک سال تک آپ اس جھوٹے حلف کے اثر بد سے محفوظ رہے تو میں آپ کے ہاتھ پر تو بہ کروں گا بلکہ اس مضمون کی تمام کتابیں جلا دوں گا.(بحواله از تاریخ احمدیت جلد دوم صفحه ۲۳۸) افسوس ! مخالف علماء نے اس سنہرے موقع کو ضائع کر دیا نہ بحث کی نہ قسم کھائی.تیسرا سفر: مور حد ۲۱ اکتوبر ۱۹۰۵ء کو صبح آٹھ بجے کے قریب قادیان سے روانہ ہوئے اور رات نو بجے بذریعہ ریل گاڑی امرتسر سے دہلی کے لئے عازم سفر ہوئے.اٹھارہ گھنٹے کی مسافت کے بعد قریبا تین بجے دہلی پہنچے.دہلی میں الف خاں سیاہی والے مکان واقع چتلی قبر متصل مسجد سید رفاعی صاحب میں قیام فرمایا.ان دنوں ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اسٹنٹ سرجن بھی دہلی کے ڈفرن ہسپتال میں متعین تھے.۱۵۵

Page 162

اُردو کی کتاب چهارم مورخه ۱/۲۲ کتوبر ۱۹۰۵ء کو مفتی صاحب نے بعض احباب کی خواہش پر دہلی کی سیر کی اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا: لہو ولعب کے طور پر پھر نا درست نہیں یہ فضول بات ہے میں اس کو پسند نہیں کرتا.ہاں دہلی میں اکثر اولیاء اللہ اورا کا برامت کے مزار ہیں ان پر جانے کا ہمارا بھی ارادہ ہے وہاں ہو آئیں.ایک فہرست ان مزاروں کی تیار کر لی جائے.چنانچہ مندرجہ ذیل بزرگوں کے نام لکھوائے گئے.(۱) خواجہ باقی باللہ صاحب.(۲) خواجہ میر درد صاحب.(۳) شاہ ولی ข اللہ صاحب (۴) خواجہ نظام الدین صاحب (۵) خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی (۶) مخدوم نصیر الدین محمود چراغ صاحب.اس سفر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۱۳ روز دہلی میں مقیم رہے اور ۴ نومبر ۱۹۰۵ء کو دہلی سے روانہ ہوکر ۵ /نومبر کو قریباً گیارہ بجے لدھیانہ پہنچ گئے.حضرت المصلح الموعودؓ کا سفر دبلی : : سید نا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفہ محی الثانی رضی اللہ عنہ کی با دیلی تشریف لائے اور آپ کی دہلی میں ایک اہم ترین تشریف آوری اُس وقت ہوئی جب کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۴ء میں یہ خبر دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوشیار پور میں جس مصلح موعود کے عطا ہونے کی بشارت دی گئی تھی آپ ہی اس کے 6 ۱۵۶

Page 163

اُردو کی کتاب چهارم مصداق ہیں.چنانچہ آپ نے اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان قادیان ، ہوشیار پور، لاہور، لدھیانہ، دہلی کے جلسوں میں فرمایا.۱۶ را پر میل ۱۹۴۴ء کو دہلی تشریف لائے اور نئی دہلی کی کوٹھی ۱۸-۱۹ ونڈسر پیلس میں قیام فرمایا.باقی مہمانان کرام کے قیام کا انتظام فرنیچر ہاؤس کشمیری گیٹ کے وسیع احاطہ میں تھا.جلسہ گاہ ہارڈ نگ لائبریری کے متصل ملکہ کے باغ میں تھا.یہ جگہ ریلوے سٹیشن دہلی کے دوسری طرف بالکل قریب ہی واقع تھی اور پیدل چلنے والے ریلوے پل (جو کاٹھ کا پل کہلاتا ہے ) عبور کرنے کے بعد بآسانی دس منٹ میں پہنچ سکتے تھے اس جلسے میں مخالفین احمدیت نے بہت ہنگامہ کیا مگر جس مقصد کے لئے اس کا انعقاد ہوا تھاوہ احسن طریق پر پورا ہوا.حضرت خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ کا دہلی میں ورود : تاریخی شہر دہلی میں حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 1991ء میں لندن سے تشریف لائے اور تاریخی مقامات دیکھے.حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ کا دہلی میں ورود اس تاریخی شہر کو حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ کی قدم بوسی کا شرف ۲۰۰۵ اور ۲۰۰۸ میں حاصل ہوا.آپ نے بھی دہلی کے تاریخی مقامات کی زیارت کی.۱۵۷

Page 164

اُردو کی کتاب چهارم ہماری سیر کی ابتداء مورخہ ۳۱ جنوری کو صبح ناشتہ کے بعد ہمارا قافلہ تاریخی مقامات کو دیکھنے کے لئے روانہ ہوا ان میں سے بعض کے کوائف درج ذیل ہیں: قلعه تغلق آباد: طلباء کو بتایا گیا کہ یہ قلعہ احمدیہ مسجد سے تقریبا تین کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے.اس قلعہ کے گر دس سے پندرہ میٹر اونچی فصیل ہے اس کے تیرہ دروازے ہیں.سیدنا حضرت اصلح الموعود رضی اللہ عنہ ۱۹۳۸ء میں دہلی تشریف لائے تھے اس سفر کے دوران آپ نے تاریخی مقامات کی بھی سیر کی اور قلعہ تغلق آباد بھی تشریف لائے تھے یہاں آپ پر ایک محویت کی کیفیت طاری ہو گئی جس کے بارے میں حضور نے فرمایا: بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا، یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا تب گوتم بدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ” میں نے پالیا، میں نے پالیا میری کیفیت بھی اس وقت یہی تھی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار میں نے کہا: میں نے پالیا میں نے پا لیا اس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم چلی آرہی تھی اس نے کہا ابا جان آپ نے کیا پالیا میں نے کہا بہت کچھ پالیا مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا اگر اللہ تعالیٰ نے ۱۵۸

Page 165

اُردو کی کتاب چهارم چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا.(سیر روحانی صفحہ ۵) جلسہ سالانہ ۱۹۳۸ء سے آپ نے تقاریر کا سلسلہ شروع کیا جو وقفے وقفے سے ۱۹۵۸ء تک جاری رہا.آپ نے جن سولہ مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا تھا، اس کے مقابل پر عالم روحانی میں ان کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت وجد آفریں پیرایہ میں بیان فرمایا.بارہ تقاریر کا یہ مجموعہ سیر روحانی کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اس قلعہ کو دیکھنے کے بعد ہمارا قافلہ سڑک عبور کر کے بادشاہ غیاث الدین تغلق کی قبر کو دیکھنے گیا اس بادشاہ کے بارے میں سیدنا حضرت اصلح الموعود لمصل فرماتے ہیں: حضرت نظام الدین صاحب اولیاء جو دتی کے ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں ان کے زمانہ کا بھی ایک بادشاہ غیاث الدین تغلق ان کا مخالف ہو گیا.وہ اس وقت بنگال کی طرف کسی جنگ پر جارہا تھا اس نے کہا کہ جب میں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا ان کے مریدوں نے یہ بات سنی تو وہ بڑے گھبرائے اور انہوں نے شاہ صاحب سے آکر کہا کہ حضور جولوگ شاہی دربار میں رسوخ رکھتے ہیں اگر ان کے ذریعہ بادشاہ کے پاس سفارش ہو جائے تو بہتر ہوگا.آپ نے فرمایا ہنوز دلی دور است.ابھی اس نے لڑائی کے لئے جانا ہے اور پھر دشمن سے جنگ کرنی ہے ابھی سے کسی فکر کی کیا ضرورت ہے.جنگ میں فتح ۱۵۹

Page 166

اُردو کی کتاب چهارم حاصل کر کے غیاث الدین تغلق واپس دہلی کے لئے روانہ ہوا اور شہر کی فصیل تک پہنچ گیا تو تب بھی شاہ صاحب نے فرمایا ہنوز دلی دور است ابھی تو فصیل کے باہر ہے اندر تو داخل نہیں ہوا کہ ہمیں گھبراہٹ ہو.اسی رات ولی عہد نے فتح کی خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کی اور شاہانہ جشن منایا.ہزاروں لوگ اس دعوت اور رقص وسرور کی محفل میں شریک ہوئے ولی عہد نے اس دعوت کا انتظام ایک بہت بڑے محل کی چھت پر کیا تھا، چونکہ چھت پر بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے تھے اس لئے اچانک چھت نیچے آگری اور بادشاہ اور اس کے رفقاء سب دب کر ہلاک ہو گئے.صبح جب بادشاہ کی موت کی خبر آئی تو انہوں نے کہا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ : " ہنوز دلی دور است ( تفسیر کبیر جلد افلم صفحه ۳۶، ۳۷) ہمایوں کا مقبرہ: اس مقبرہ میں دوسرے مغل بادشاہ نصیر الدین ہمایوں کی قبر ہے جن کی حکومت ۱۵۳۰ء تا ۱۵۵۶ء رہی.اس مقبرہ میں مغلیہ خاندان کے کئی بادشاہوں نیز شہزادوں کی بھی قبریں ہیں.اس مقبرہ پر نہایت خوشنما اور عظیم الشان عمارت ہے جس میں چاروں طرف خوبصورت باغ ہے.چاروں طرف نہریں ہیں جو کسی زمانہ میں پانی سے بھری رہتی تھیں.یہ عمارت سرخ رنگ کے پتھر سے تعمیر کی گئی ہے.گنبد نہایت خوبصورت سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے اس کی چھت کی بلندی ۱۶۰

Page 167

اُردو کی کتاب چهارم ۸۰ فٹ ہے کہا جاتا ہے کہ آگرہ کا تاج محل ہمایوں کے مقبرہ کا ہی تخیل ہے.اسی مقبرہ سے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے رنگون بھجوا دیا گیا تھا.حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کا مقبرہ: حضرت شیخ نظام الدین اولیاء (۶۳۶ھ -۱۲۳۸ء) کو بدایوں میں پیدا ہوئے.بیس برس کی عمر میں علوم ظاہری کی تعلیم سے فراغت ہوئی تو علم باطنی کی تحصیل کے لئے حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اجودھن پاکپتن حال پاکستان ) چلے گئے اور حضرت بابا صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لی.آپ نے ولی واپس آکر رشد و ہدایت کا کام تازیست جاری رکھا.آپ کی وفات (۵۷۲۵ - ۱۳۲۵ء) کو دہلی میں ہوئی اور یہیں آپ کا مقبرہ ہے جو کہ ہمایوں کے مقبرہ سے قریب تین فرلانگ پر ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۲۹ اکتوبر ۱۹۰۵ء کوحضرت شیخ نظام الدین اولیاء کے مزار پر تشریف لے گئے تھے.افسوس حضرت شیخ صاحب جو دہلی میں قیام توحید کے علمبرداروں میں سے تھے آج اُن کی قبر شرک اور قبر پرستی کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے اللہ تعالی قبر پرست مسلمانوں کو ہدایت دے.آمین.حضرت امیر خسرو کا مزار : حضرت شیخ نظام الدین اولیاء کی قبر سے چند میٹر کے فاصلہ پر جانب جنوب ۱۶۱

Page 168

اُردو کی کتاب چهارم اردو کے مشہور و معروف اور سب سے پہلے شاعر حضرت امیر خسرو کا مزار ہے ان کی وفات حضرت نظام الدین اولیاء کے چھ ماہ بعد ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام امیر خسرو کے مزار پر بھی تشریف لے گئے تھے اور دعا کی تھی.حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ : ข خواجہ قطب الدین بختیار اوشی کا کی حسینی سید ہیں.آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق تک پہنچتا ہے.آپ کا اسم گرامی کمال الدین بن سید موسیٰ ہے اور ایک دوسری روایت میں کمال الدین بن احمد بن موسیٰ بیان کیا گیا ہے.آپ قصبہ اوش فرغانہ میں (۵۲۹ - 11۷ء ) میں پیدا ہوئے.خواجہ بختیار کا کی جب ہندوستان تشریف لائے تو سب سے پہلے ملتان پہنچے اور ملتان میں خواجہ بہاء الدین کے پاس قیام کیا.ملتان میں ہی بابا فرید الدین صاحب سے آپ کی ملاقات ہوئی تو بابا فرید نے انکے ساتھ دہلی جانا چاہا مگر انہوں نے بابا فرید الدین کو بڑے پیار سے فرمایا: بیٹا اپنی تعلیم مکمل کر کے دیلی آجانا.ملتان سے دہلی پہنچے تو سلطان شہاب الدین التمش نے خواجہ صاحب سے درخواست کی کہ شہر میں قیام کریں لیکن انہوں نے دہلی کے مضافات میں قیام کو ترجیح دی.آپ کا قیام تادم آخر دہلی ہی میں رہا.اور یہیں ۱۲۳۶۵۶۳۳ء میں آپ کا انتقال ہوا.آپ کا ۱۶۲

Page 169

اُردو کی کتاب چهارم مزار دہلی میں قطب مینار سے کچھ فاصلے پر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دہلی میں یکم نومبر ۱۹۰۵ء کو حضرت بختیار کا کی کے مزار پر لمبی دعا کی اور واپسی پر ارشاد فرمایا : بعض مقامات نزول برکات کے ہوتے ہیں اور یہ بزرگ چونکہ اولیاء اللہ تھے اس واسطے بھی ہم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اپنے واسطے بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی اور دیگر بہت دعائیں کیں.( ملفوظات جلد چہارم صفحه ۵۲۸ ) دہلی جانے والے جامعہ احمدیہ کے اساتذہ وطلباء کو بھی مورخہ ۳۱ جنوری ۲۰۰۸ء کو حضرت بختیار کاکی کے مزار پر اجتماعی طور پر دعا کی توفیق ملی.حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب حضرت خواجہ باقی باللہ صاحب ۹۷۱ھ.۱۵۶۳ء میں پیدا ہوئے.تعلیم مکمل کرنے کے بعد کسی کامل ولی کی تلاش میں کابل سے ۱۵۹۹ء میں لاہور آئے.تلاش بسیار کے بعد پھر کابل واپس تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ بعد والدہ سے اجازت لے کر دہلی تشریف لے گئے اور فیروز شاہ تغلق کے قلعہ میں قیام پذیر ہو گئے.اسی قیام کے عرصہ میں احمد سرہندی مجدد الف ثانی اور عبد الحق دہلوی کو آپ کی شاگردی کی توفیق ملی.آپ کی تصنیفات میں سے سلسلۂ الاحرار اور خطوط کا مجموعہ قابل ذکر ہیں.خواجہ باقی باللہ کی وفات ۱۰۱۲ھ.۱۶۰۳ء کو دہلی میں ۱۶۳

Page 170

اُردو کی کتاب چهارم ہوئی.وہیں آپ کا مزار ہے.مور مہ ۲۴ را کتوبر ۱۹۰۵ء کو سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت باقی باللہ صاحب کی قبر پر تشریف لے گئے اور دعا کی.اس سفر میں ہمیں حضرت باقی باللہ صاحب کی قبر پر بھی دعا کا موقعہ ملا.آپ کی قبر عید گاہ روڈسنگھاڑا چوک نئی اور پرانی دہلی کے درمیان واقع ہے.آج بھی آپ کے سرہانے کی طرف ایک فارسی نظم سنگ مرمر پر کندہ ہے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۱۴ھ - ۱۷۰۳ء میں دہلی میں پیدا ہوئے.آپ کا ہندوستانی مسلمانوں کی خدمت اور ہندوستان میں اشاعت اسلام کے سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ فارسی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ہے.اس وقت کے علماء قرآن مجید کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرنے کے خلاف تھے لیکن انہوں نے ان کی پرواہ نہیں کی.اللہ تعالی نے آپ کو لائق اولاد سے نوازا ان میں ممتاز عالم شاہ عبد العزیز ، شاہ عبد الغنی اور شاہ عبد القادر ہیں.شاہ عبد القادر صاحب نے پہلی بار اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں ( ترجمہ از عربی عبارت ) وہ مجدد تھے.عالم ربانی تھے.آپ چھوٹے بڑے سب کی نظروں میں امام ہیں جن کی بلندشان میں کسی مومن کو اختلاف نہیں ہے.“ ۱۶۴

Page 171

اُردو کی کتاب چهارم (حمامۃ البشری ، روحانی خزائن جلدے، صفحہ ۲۹۱) مورخہ ۳۰ محرم ۱۱۷۶ھ بمطابق اگست ۱۷۶۲ء میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی وفات پاگئے.آپ کی اور آپ کے صاحبزادگان کی قبریں دہلی دروازہ کے باہر قبرستان مہندیاں میں ہے.حالیہ سفر میں ان سب بزرگان کے مزار پر دعا کی توفیق ملی..حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمۃ اللہ علیہ: اس سفر میں حضرت خواجہ میر درد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی قبر پر بھی دعا کا موقعہ ملا.آپ کی قبر و بستی حضرت خواجہ میر در دشکور کی ڈنڈی، جواہر نہرو مارگ ،نئی دیلی ۲ ، ڈاکٹر ذاکر حسین کالج کے پیچھے موجود ہے.تاریخی مقامات: اس سفر میں اساتذہ و طلباء جامعہ احمدیہ نے درج ذیل تاریخی مقامات کو بھی دیکھا.لال قلعہ، جامع مسجد ، قطب مینار ، راشٹرپتی بھون ، انڈیا گیٹ ، پارلیمنٹ ہاؤس ، لوٹس ٹمپل ، نہر و میوزیم ،نہر و پلانیٹوریم ، اندرا گاندھی میوزیم.ایک دن ورلڈ بک فیئر کو دیکھنے ، جماعت کا لٹریچر تقسیم کرنے اور کتب خریدنے میں صرف کیا گیا.یکم فروری ۲۰۰۸ ء کو نماز جمعہ انڈیا گیٹ کے ایک پارک میں ادا کی گئی.اگلے روز یہ وفد بذریعہ ریل گاڑی امرتسر اور پھر بذریعہ بس قادیان پہنچ گیا.الحمد للہ علی ذالک.۱۶۵

Page 172

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.جسم خاکی سعید الفطرت مصداق- وجد آفریں- عبرتناک تخلف بجسد والعصری.گھات میں بیٹھنا.نصوص صریحہ.قطعیہ بعینہ جوابات لکھیں (۱) سیر و سیاحت کا مقصد قرآن مجید نے کیا بیان فرمایا ہے؟ (۲) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار میں کیا لکھا؟ (۳) جب حضور سے سیر و سیاحت کی اجازت مانگی گئی تو آپ نے کیا جواب دیا ؟ (۴) ہندوستان میں فارسی زبان میں قرآن مجید کا پہلا ترجمہ کرنے والے کون تھے؟ (۵) ہنوز دلی دور است کس کا جملہ ہے؟ (۱) اس سبق کے ابتدائی دو صفحے خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کی املاء لکھوائے.(۳) آپ اپنے کسی سفر کا سفر نامہ لکھیں.

Page 173

تسبق نمبر : ۲۲ اُردو کی کتاب چهارم نظر اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے بیمار عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے جب تک کہ دم میں دم ہے اسی دین پر رہوں اسلام پر ہی آئے جب آئے قضا مجھے بیکس نواز ذات ہے تیری ہی اے خُدا آتا نظر نہیں کوئی تیرے سوا مجھے منجملہ تیرے فضل و کرم کے ہے یہ بھی ایک عیسی مسیح سا ہے دیا رہنما مجھے تیری رضا کا ہوں میں طلب گار ہر گھڑی گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے ۱۶۷

Page 174

اُردو کی کتاب چهارم ہاں ہاں نگاہ رحم ذرا اس طرف بھی ہو بحرِ گند میں ڈوب رہا ہوں بچا مجھے موسیٰ کے ساتھ تیری رہیں لن ترانیاں زنہار میں نہ مانوں گا چہرہ دکھا مجھے احسان نہ تیرا بھولوں گا تازیست اے مسیح پہنچا دے گر تو یار کے در پر ذرا مجھے سجدہ گناں ہوں در پہ ترے اے مرے خدا اُٹھوں گا جب اُٹھائیگی یاں سے قضا مجھے ڈوبا ہوں بحرِ عشق الہی میں شاد میں کیا دے گا خاک فائدہ آب بقا مجھے ( از کلام محمود صفحه) ۱۶۸

Page 175

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.کرم بیمار عشق دم میں دم.قضا.بے کس نواز ذات منجمله - بحر گنه - لن ترانیاں.زنہار- زیست- آب بقا جوابات لکھیں - (1) نظم کن کی ہے؟ (۲) اس نظم میں کیا التجا کی گئی ہے؟ (۳) کس رہنما کے دیئے جانے کا اس میں ذکر ہے؟ (۴) حضرت موسیٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی کیا لن ترانیاں رہیں؟ (۵) شاد کس کا تخلص ہے.تمرین (۱) اس نظم کو زبانی یاد کریں.(۲) اسے خوشخط لکھیں.(۳) اس کی نثر لکھیں.۱۶۹

Page 176

تسبق نمبر ۲۳۰ اُردو کی کتاب چهارم نظ بتاؤں تمہیں کیا کہ کیا چاہتا ہوں ہوں بندہ مگر میں خدا چاہتا ہوں میں اپنے سیاہ خانہ دل کی خاطر وفاؤں کے خالق ! وفا چاہتا ہوں جو پھر سے ہرا کر دے خشک ہر پودا چمن کے لئے وہ صبا چاہتا ہوں مجھے پیر ہرگز نہیں ہے کسی سے میں دُنیا میں سب کا بھلا چاہتا ہوں وہی خاک جس سے بنا بنا میرا پتلا میں اس خاک کو دیکھنا چاہتا ہوں 12.

Page 177

اُردو کی کتاب چهارم نکالا مجھے جس نے میرے چمن سے میں اس کا بھی دل سے بھلا چاہتا ہوں میرے بال و پر میں وہ ہمت ہے پیدا کہ لے کر قفس کو اُڑا چاہتا ہوں کبھی جس کو رشیوں نے منہ سے لگایا وہی جام آب میں پیا چاہتا ہوں رقیبوں کو آرام و راحت کی خواہش مگر میں تو کرب بلا چاہتا ہوں دکھائے جو ہر دَم تِرا حسن مجھ کو مری جاں ! میں وہ آئنہ چاہتا ہوں ( از کلام محمود صفحه ۲۰۹)

Page 178

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں سیاہ خانہ دل- وفا-صبا- بال و پر قفس-جام- رقیب-کرب و بلا جوابات لکھیں - (۱) یہ منظوم کلام کن کا ہے؟ (۲) اس نظم میں کس خواہش و تڑپ کا اظہار کیا گیا ہے؟ (۳) چمن سے نکالنے سے کیا مراد ہے؟ (۴) اس نظم میں کون سا جام پینے کی خواہش کی گئی ہے؟ (۵) اس منظوم کلام میں کرب و بلا کی تمنا کیوں کی گئی ہے؟ تمرين (۱) اس نظم کو زبانی یاد کریں.(۲) اسے خوشخط لکھیں.(۳) اس کی نثر لکھیں.۱۷۲

Page 179

تسبق نمبر : ۲۴ بڑھتی اُردو کی کتاب چهارم نظر خدا کی محبت خدا کرے رہے حاصل ہو تم کو دید کی لذت خدا کرے توحید کی ہو لب شہادت خدا کرے ایمان کی ہو دل میں حلاوت خدا کرے پڑ جائے ایسی نیکی کی عادت خدا کرے سرزد نہ ہو کوئی بھی شرارت خدا کرے حاکم شریعت خدا کرے دلوں رہے حاصل ہو مصطفی کی رفاقت خدا کرے مٹ جائے دل سے زنگ رذالت خدا کرے آجائے پھر سے دور شرافت خدا کرے ۱۷۳

Page 180

اُردو کی کتاب چهارم مل جائیں تم کو زہد و امانت خدا کرے مشہور ہو تمہاری دیانت خدا کرے بڑھتی رہے ہمیشہ ہی طاقت خُدا کرے جسموں کو چھو نہ جائے نقاہت خدا کرے مل جائے تم کو دین کی دولت خدا کرے چمکے فلک ٹل تارة ره قسمت خدا کرے ائے جو بھی آئے مصیبت خدا کرے پہنچے نہ تم کو کوئی اذیت خدا کرے منظور ہو تمہاری اطاعت خدا کرے مقبول ہو تمہاری عبادت خدا کرے قرآن پاک ہاتھ میں ہو دل میں نُور ہو مل جائے مومنوں کی فراست خدا کرے ۱۷۴

Page 181

اُردو کی کتاب چهارم دجال کے بچھائے ہوئے جال توڑ دو حاصل ہو تم کو ایسی ذہانت خدا کرے پرواز ہو تمہاری نہ افلاک سے بلند پیدا ہو بازوؤں میں وہ قوت خدا کرے بطحا کی وادیوں سے جو نکلا تھا آفتاب بڑھتا رہے وہ نور نبوت خدا کرے قائم ہو پھر سے حکم مــحــمــد جہان میں ضائع نہ ہو تمہاری یہ محنت خدا کرے تم ہو خدا کے ساتھ خدا ہو تمہارے ساتھ ہوں تم سے ایسے وقت میں رخصت خدا کر اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے ( از کلام محمود صفحه ۲۵۲) 0000 ۱۷۵

Page 182

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.حلاوت-دید-سرز د- رفاقت- زہد-نقاہت-فراست- بطحا - افلاک جوابات لکھیں (1) یہ نظم کن کو مخاطب کرتے ہوئے لکھی ہے؟ (۲) بطحا کی وادیوں سے کون سا آفتاب نکلا تھا؟ (۳) دجال کے بچھائے ہوئے جال سے کیا مراد ہے؟ تمرین (1) اس نظم کو زبانی یاد کریں.(۲) اسے خوشخط لکھیں.(۳) اس کی نثر لکھیں.124

Page 183

تسبق نمبر : ۲۵ اُردو کی کتاب چهارم نو نهالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے پر ہے یہ شرط کہ ضائع مرا پیغام نہ ہو چاہتا ہوں کہ کروں چند نصائح تم کو تاکہ پھر بعد میں مجھ پر کوئی الزام نہ ہو خدمت دین کو اک فضل الہی جانو اس کے بدلے میں کبھی طالب انعام نہ ہو دل میں ہو سوز تو آنکھوں سے رواں ہوں آنسو تم میں اسلام کا ہو مغز، فقط نام نہ ہو سر میں نخوت نہ ہو آنکھوں میں نہ ہو برق غضب دل میں کینہ نہ ہو لب پر کبھی دشنام نہ ہو خیر اندیشی احباب رہے مد نظر عیب چینی نہ کرو مفسد و تمام نہ ہو 122

Page 184

اُردو کی کتاب چهارم چھوڑ دو حرص کرو زہد و قناعت پیدا زر نہ محبوب بنے سیم دل آرام نہ ہو رغبت دل سے ہو پابند نماز و روزه نظر انداز کوئی حصہ احکام نہ ہو پاس ہو مال تو دو اس سے زکوۃ و صدقہ فکر مسکیں رہے تم کو غم ایام نہ ہو حشر کے روز نہ کرنا ہمیں رسوا و خراب پیارو آموخته درس وفا خام نه ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں آپ کے وقت میں ہو سلسلہ بدنام نہ ہو میری تو حق میں تمہارے دعا ہے پیارو اللہ کا سایہ رہے ناکام نہ ہو ظلمت رنج و غم و درد سے محفوظ رہو میک انوار درخشندہ رہے شام نہ ہو در کادر کا ترکی ( از کلام محمود صفحه (۵۶) ۱۷۸

Page 185

اُردو کی کتاب چهارم درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.نونہال طالب انعام-سوز-مغز-نخوت- خیر اندیشی عیب چین - تمام - دشنام - آموخته-خام- مہر انوار- درخشنده جوابات لکھیں - (۱) یہ منظوم کلام کن کا ہے؟ (۲) یہ اشعار کس کو مخاطب کر کے لکھے گئے ہیں؟ (۳) اس نظم میں کیا نصائح کی گئی ہیں ترتیب سے لکھیں؟ (۱) اس نظم کو زبانی یاد کریں.(۲) اسے خوشخط لکھیں.(۳) اس کی نشرلکھیں.129

Page 186

اُردو کی کتاب چهارم خلافت سے وابستگی کا مقدس عہد مورخہ ۲۷ مئی ۲۰۰۸، کوسیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ساری دنیا کے افراد جماعت سے درج ذیل عہد لیا بعد ازاں خاکسار نے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں درخواست کی کہ جامعہ احمدیہ قادیان کے طلباء کو صبح مجلس دُعا میں ہر روز اس عہد کو دہرانے کی اجازت مرحمت فرمائیں.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت اجازت مرحمت فرمائی.جزاہ اللہ احسن الجزاء.عہد اور حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکتوب گرامی درج ذیل ہے.وو ” اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ آج خلافت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے.اور اس مقدس فریضے کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف رکھیں گے.اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام ۱۸۰

Page 187

اُردو کی کتاب چهارم خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخری دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اسکی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما - اللهم امين - اللهم امِيْنَ - اَللَّهُمَّ امِيْنَ - :: مشق :: درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.لمحات تحمیل استحکام- جدو جہد- مستفیض تلقین -مقدس تکمیل-استحکام- (۱) طلباء اس عہد کو زبانی یاد کریں.(۲) اس عہد کو خوشخط لکھیں.(۳) استاد اس کی املاء لکھوائے.۱۸۱

Page 188

اُردو کی کتاب چهارم حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مکتوب گرامی المتن ان من كانت تنطا ايرا الاتات المالي لندن 10-6-2008 S لحمتُه وتُصلى على رَسُولِهِ الكريم وعلى عبدو المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مکرم محمدحمید کوثر صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ قادیان السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی ٹیکس محررہ ۲۸ مئی ۲۰۰۸ ملی جس میں آپ نے صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی کے موقع پر لئے گئے عہد سے متعلق اپنے پر خلوص جذبات کا اظہار کیا ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آپ نے جامعہ احمدیہ میں ہر روز صبح اسمبلی میں اس عہد کے دہرائے جانے کی اجازت مانگی ہے.ٹھیک ہے کر لیں اجازت ہے.اللہ تعالیٰ سب کو اس عہد کو نبھانے کی توفیق دے.آمین.والسلام خاکسار ۱۸۲ خليفة المسيح الخامس

Page 189

اُردو کی کتاب چهارم شکر یہ احباب خاکساران اسا تذہ کرام کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس کتاب کی نظر ثانی فرمائی.جزاھم الله احسن الجزاء.طلباء کو مختلف انداز تحریر سے متعارف کروانے کے لئے مندرجہ ذیل کتب سے بھی تحریرات کو شامل کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے مصنفین کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.روحانی خزائن-سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سيرة خاتم النبین - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ تاریخ احمدیت جلد دوم - مولا نا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمد بیت ربوہ کلام محمود- سید نا حضرت المصلح الموعود رضی اللہ عنہ دینی نصاب نو مبائعین کی تربیت کے لئے ( شائع کردہ نظارت نشر واشاعت قادیان) حیات قدسی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب قدسی را جیکی رضی اللہ عنہ حیات احمد- حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ خاکسار محمد حمید کوثر ۱۸۳

Page 189