Urdu Book 3

Urdu Book 3

اُردو کی کتب (کتاب سوم)

Author: Other Authors

Language: UR

UR
متفرق کتب

Book Content

Page 1

اُردوكى کتاب سوم لمــخـ || محمد حمید کوثر پرنسپل جامعہ احمد یہ قادیان

Page 2

اردو کی کتاب سوم مولانا محمد حمید کوثر $2009 $2017 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان ضلع گورداسپور ، پنجاب، انڈیا، 143516 نام کتاب: مرتبه: اشاعت بار اول (انڈیا) اشاعت لذا بار دوم ( انڈیا ) تعداد: مطبع ناشر Urdu ki ktab-e-Som Muhammad Hameed Kousar 2009 Name of the Book: Compiled by: First edition India: Present edition India: 2017 Quantity: 1000 Printed at: Published by: Fazl-e-Umar Printing Press Qadian Nazarat Nashr-o-Isha,at Qadian Dist; Gurdaspur, Punjab, India, 143516

Page 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم ضروری ہدایات قابل احترام اساتذہ ، وعزیز طلباء !! اردو کی کتاب سوم“ جو آپ کے سامنے ہے ، اگر آپ مندرجہ ذیل ہدایات کو ملحوظ رکھیں گے ، تب آپ اس کتاب سے احسن رنگ میں استفادہ کر سکیں گے.خاکسار اپنے تجربہ کی بناء پر تحریر کر رہا ہے کہ ان چار کتب (مسودات) کے ذریعہ ایسے طلباء کو چھ ماہ میں اُردو سکھائی گئی ہے جو کہ اُردو کا ایک لفظ بھی نہ جانتے تھے.اس مقصد کے حصول کے لئے درج ذیل ہدایات کو پیش نظر رکھنا انتہائی ضروری ہے.ا سب سے پہلے استاد ہر سبق کو عمدہ اور صیح تلفظ کے ساتھ بلند آواز سے پڑھ -1 کر سنائے اور طلباء کتاب سامنے رکھ کر بغور سنیں اور دیکھیں.- ہر سبق کو کم از کم پانچ بار بلند آواز سے پڑھیں اور ہر جملے پر غور کریں کہ اسے کیسے تشکیل دیا گیا ہے.کس چیز کو مذکر و مؤنث اور کہاں واحد وجمع استعمال کیا گیا ہے.ہر سبق کو پڑھنے کے بعد از خود اُس کے مضمون کو زبانی بیان کریں اس سے آپ میں پڑھ کر بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی اور آئندہ تقریر کرنے کا ملکہ بھی پیدا ہوگا.- - ہر سبق کو بار بار خوشخط لکھ کراپنی تحریر کو خوبصورت بنا ئیں.

Page 4

-۵- استاد ہر سبق کے ابتدائی اور آخری ایک دو صفحات کی املاء لکھوائے اور غلطیوں کی تصحیح کرے.-- ہر سبق کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں.اگر اس مرحلہ میں آپ نے خلاصہ لکھنا نہ سیکھا تو آئندہ انتہائی دقت کا سامنا کرنا ہوگا.مشکل الفاظ کے معانی اچھی طرح ذہن نشین کریں.نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں اس سے آپ کو جملے تشکیل دینے کی مشق ہوگی.نظموں کی نثر وضاحت سے لکھیں.یہ بھی انتہائی ضروری ہے.مذکور و بالا ہدایات پر عمل کرنے سے طلباء بہت حد تک اردو پر عبور حاصل کر لیں گے.ان شاء الله تعالى - نوٹ : عربی میں لفظ طلباء اور املاء آخر میں ہمزہ کے ساتھ لکھے جاتے ہیں جبکہ اردو میں ہمزہ کے بغیر بھی لکھے جاتے ہیں خاکسار محمد حمید کوثر

Page 5

1 1.۱۳ ۱۷ ۱۹ ۲۱ ۲۴ ۲۹ ۳۲ ۳۶ ۴۲ ۴۸ ۵۲ فہرست عناوین عناوین اللہ تعالی کی صفات حمد وثنا ( نظم ) سائل کون تھا ؟ انبیاء ورسل ایک لاکھ آدم سرزمین ہند کی ایک خصوصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ کا کرب سب پکار اٹھے آمین آمین سب سے پہلی وحی قرآن مجید فضائل قرآن ( نظم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ بختی کا دن (طائف) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا دا در عب قانون سے کوئی بالا نہیں سبق نمبر 1 ۶ ་་ ۱۲ ۱۳ اله ۱۵

Page 6

۵۴ ۵۷ ۶۰ ۶۴ ۶۷ 4.۷۳ ۷۵ ۷۹ 17 ۱۷ مہمان نوازی اللہ کی راہ میں عظیم قربانی اصحاب صفہ کی حالت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت ایثار اطاعت کا اعلیٰ نمونہ جہاد فی سبیل اللہ ہجوم مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق (نظم) حضرت خباب رضی اللہ عنہ پر ظلم سچ کی برکت حقیقت معلوم کرنے کا انوکھا طریق ایڈیسن قادیان میں فونوگراف آواز آرہی ہے فونوگراف سے (نظم) کھیتوں کی سیر باغ کی سیر سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا گرانقدر مکتوب ۸۳ ۸۶ ۸۹ ۹۳ ۹۵ 1++ ۱۰۴ ۱۰۵ > ۱۸ شکر یہ احباب ۱۹ ۲۰ ۲۱ Σ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ Σ } ۳۲

Page 7

سبق نمبر : 1 : اُردو کی کتاب سوم : اللہ تعالیٰ کی صفات اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو پیدا کیا اور اس میں انسان کی ضرورت و احتیاج کے مطابق مختلف اشیاء بنائیں جن سے ہم ہر لمحے فائدہ اُٹھاتے ہیں.ہر آن اُس کی بنائی ہوئی نعمتوں سے متمتع ومستفید ہوتے ہیں.بعض طلباء یہ سوچتے ہوں گے کہ ہم پر اتنا فضل وکرم کرنے والا مولی ہمیں نظر کیوں نہیں آتا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کائنات کی بہت سی اشیاء ہمیں آنکھوں سے نظر نہیں آتیں ، مگر ہم انہیں محسوس کرتے ہیں.مثلا ہوا ، عقل و فکر ، خوشبو ، توانائی وغیرہ مگر ہم ان کی صفات سے ان کا موجود ہونا تسلیم کرتے ہیں.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات گو ہمیں ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی مگر قرآن مجید اور احادیث میں مذکورہ صفات سے اُسے پہچانا جاتا ہے.اس پہچان کو عرفانِ البی یا معرفت الہی کہتے ہیں.اور یہ معرفت صفات الہیہ پر غور کرنے سے حاصل ہوتی ہے نیز قبولیت دعا کے ساتھ صفات الہیہ کا گہراتعلق ہے.اللہ

Page 8

اُردو کی کتاب سوم : تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اللہ کے پاک نام اور خوبصورت صفات ہیں ان کو یاد کر کے خدا کو پکارو اور اس سے دعا مانگا کرو.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بہت سی صفات ہیں جو شخص ان صفات کو خوب اچھی طرح مستحضر رکھتا ہے وہ جنتی ہے.وہ صفات الہیہ یہ ہیں : الله الرَّبُّ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ الله رب بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ بادشاہ خود پاک ہے خود سلامت اور عالم کو امن دینے والا دوسروں کو پاک کرتا ہے سلامت رکھنے والا الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سب کا نگران غالب ٹوٹے کام بنانے والا کبریائی والا الْخَالِقُ الْبَارِئُ المُصَوِّرُ الْغَفَّارُ پیدا کرنے والا پیدائش کا مناسب حال بہت بخشنے والا آغاز کرنے والا صورت دینے والا

Page 9

الْقَهَّارُ : اُردو کی کتاب سوم : الْوَهَّابُ الرَّزَّاقُ الفتا.صاحب جبروت بہت دینے والا روزی دینے والا کھولنے والا الْعَلِيمُ جاننے والا الرافع الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الْخَافِضُ قبضہ کرنے والا کشادہ کرنے والا پست کرنے والا الْمُعِزُّ المدل السَّمِيعُ بلند کرنے والا عزت دینے والا ذلیل کرنے والا سننے والا الْبَصِيرُ الْحَكَمُ الْعَدْلُ اللطيف دیکھنے والا فیصلہ کرنے والا انصاف کرنے والا بہت باریک بین مہربانی کرنے والا الخَبِيرُ الْحَلِيمُ الْعَظِيمُ الْغَفُورُ باخبر عظمت والا بخشنے والا بردبار الشَّكُورُ العلي الْكَبِيرُ الْحَفيظ شکر گزاروں کا قدردان بلندی والا بڑائی والا حفاظت والا الْمُقِيْتُ الجَلِيلُ الْكَرِيمُ الْحَسِيْبُ کامل قدرت رکھنے والا حساب لینے والا بزرگی والا صاحب کرم تمام عالم کے لئے کافی اس کے سوا کسی کی ضرورت نہیں

Page 10

الرقيب نگهبان الْمُجِيْبُ اُردو کی کتاب سوم : الواسع الْحَكِيمُ قبول کر نیوالا کشائش والا حکمت والا الْوَدُودُ المجيد الْبَاعث الشَّهِيدُ محبت کرنے والا بڑی شان والا اٹھانے والا ہر چیز اس کے سامنے حاضر ہے الْحَقُّ الْقَوِيُّ الْمَتِينُ قوت والا الْوَلِيُّ الْحَميْدُ الْمُحْصِنُ الْمُبْدِى الْوَكِيلُ حقیقی مالک کل عالم کا کارساز زور آور خوبیوں والا کا ئنات کی ہر چیز کی گفتی پہلی بار پناہ دینے والا الْمُعِيدُ الْمُحْيِنُ اور حساب رکھنے والا پیدا کرنے والا الْمُمِيتُ الْحَيُّ دوسری بار پیدا کرنے والا زندہ کرنے والا مارنے والا ہمیشہ زندہ رہنے والا القيوم الْوَاحِدُ الْمَاجِدُ قائم بالذات ہر چیز کو پانے کی عزت والا الْوَاحِدُ وہ ایک ہے قدرت رکھتا ہے الصَّمَدُ الْقَادِرُ الْمُقْتَدِرُ الْمُقَدِّمُ بے احتیاج قدرت والا اقتدار والا آگے کرنے والا

Page 11

الْمُؤَخِّرُ پیچھے کرنے والا الأول اُردو کی کتاب سوم : الآخرُ الظَّاهِرُ سب سے پہلے سب سے پیچھے اپنی قدرتوں کے ذریعہ ظاہر ہے الْبَاطِنُ الْوَالِي الْمُتَعَالى البر نظروں سے مخفی صاحب حکومت مالک بلند صفات والا احسان کرنے والا التَّوَّابُ الْمُنتَقِمُ الْعَفُو الروف تو بہ قبول کرنے والا ( ظالموں سے ) معاف کرنے والا مہربانی کرنے والا بدلہ لینے والا مَالكُ الْمُلْكِ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ الْمُقْسِطُ سلطنت کا مالک جلال والا اکرام والا انصاف کرنے والا الْجَامِعُ الْغَنِيُّ الْمُغْنِي الْمَانِعُ اکٹھا کرنے والا بے پرواہ بے پرواہ کرنے والا روکنے والا النَّافِعُ اَلنُّورُ الْهَادِئُ الضَّار منکرین کو نقصان پہنچانے والا نفع پہنچانے والا روشن کرنے والا ہدایت دینے والا 3

Page 12

اُردو کی کتاب سوم : البَدِيعُ الْبَاقِي الوارث الرَّشِيدُ نئی طرح پیدا ہمیشہ باقی رہنے والا سب کا وارث راه نما کرنے والا الصَّبُورُ الاحد صبر کرنے والا اپنی ذات میں اکیلا (جامع الترمذی ابواب الدعوات ) مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں: کائنات- احتیاج - آن متمتع-مستفید- توانائی.عرفان جوابات لکھیں: (1) اللہ تعالیٰ کو ہم کس طرح پہچان سکتے ہیں؟ (۲) صفات الہیہ یا اسماء حسنی یا در کھنے سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ (۳) صفات الہیہ کا قبولیت دعا سے کیا تعلق ہے؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد ابتدائی حصے کی املا لکھوائے.(۳) ہر طالب علم صفات الہیہ اپنی کاپی پر لکھے اور اُن کو زبانی یاد کرے.

Page 13

: اُردو کی کتاب سوم : : نوٹ:: اگلے ہر سبق کے مشکل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.اس سبق کے الفاظ معانی اور ان کا جملوں میں استعمال بطور نمونہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.الفاظ معانی جملے کائنات دنیا، جہان ہم کو اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی کائنات پر ہمیشہ غور وفکر کرتے رہنا چاہئے.احتیاج ضرورت اللہ تعالیٰ انسان کی ہر احتیاج کو پورا کرنے پر قادر ہے.آن لمحہ گھڑی امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا ایک آن میں لاکھوں انسان مر گئے.متمتع فائدہ اٹھانا علم ایسی چیز ہے جس سے انسان ساری عمر متمتع ہوتا رہتا ہے.مستفید فائدہ حاصل پانی سے دنیا کا ہر جاندار مستفید ہوتا رہتا ہے.کرنے والا توانائی طاقت، انرجی ہم سورج سے سب سے زیادہ توانائی حاصل کرتے ہیں.پہچان زیادہ سے زیادہ عرفان الہی حاصل کرنے کے لئے دعائیں کرتے عرفان رہنا چاہئے.L

Page 14

سبق نمبر : ۲ : اُردو کی کتاب سوم : حمد وثنا حمدو ثنا اُسی کو جو ذات جاودانی ہمسر نہیں ہے اُسکا کوئی نہ کوئی ثانی باقی وہی ہمیشہ ، غیر اسکے سب ہیں فانی غیروں سے دل لگانا جُھوٹی ہے سب کہا فی سب غیر ہیں وہی ہے اک دل کا یار جانی دل میں مرے یہی ہے سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي ہے پاک، پاک قدرت عظمت ہے اسکی عظمت لرزاں ہیں اہل تربت کروبیوں پہ ئیست ہے عام اسکی رحمت کیونکر ہو شکر نعمت ہم سب ہیں اسکی صنعت اس سے کرو محبت

Page 15

: اُردو کی کتاب سوم : غیروں سے کرنا اُلفت کب چاہے اسکی غیرت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يُرَانِي (از درین صفحه ۳۷) ذیل کے الفاظ اور ان کے معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں: حمد ثنا-ذات- جاودانی - ہمسر - ثانی - فانی یار جانی لرزاں-کتر و بیوں- ہیبت-صنعت- اُلفت ہ جوابات لکھیں: (۱) یہ کس کے اشعار ہیں؟ (۲) کس موقعہ پر لکھے گئے تھے؟ (۳) اللہ تعالیٰ کی چند ایسی نعمتیں تحریر کریں جو اس نے آپ میں سے ہر ایک کو عطا کی ہیں.:: : مشق :: (1) ان اشعار کو زبانی یاد کریں.(۲) ان اشعار کی نت لکھیں.(۳) ان اشعار کو کاپی پر خوشخط لکھیں.

Page 16

نمبر سبق نمبر : ۳ : اُردو کی کتاب سوم : سائل کون تھا ؟ ایک روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اس دوران ایک شخص آیا جس کے کپڑے نہایت سفید اور بال کالے تھے اسکی شکل وصورت سے ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ کوئی مسافر ہے جو کسی سفر سے آیا ہو اور صحابہ کرام میں سے کوئی اسے پہچا نتا بھی نہیں تھا.وہ حضور کے سامنے آیا اور بڑی بے تکلفی سے آپ کے گھٹنوں سے گھٹنے ملا کر بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھ لئے پھر حضور سے پوچھا: مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے.حضور نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں.نماز قائم کرے زکوۃ ادا کرے رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو حج کرے.اس اجنبی سائل نے جواب سن کر کہا آپ نے سچ فرمایا صحابہ کو تعجب ہوا کہ یہ اجنبی سوال کرتا ہے اور پھر خود ہی کہتا ہے آپ نے سچ فرمایا.پھر اس اجنبی سائل نے

Page 17

: اُردو کی کتاب سوم : سوال کیا کہ ایمان کیا ہے؟ حضور نے فرمایا کہ تو اللہ اور اس کے فرشتوں اور رسولوں اور قیامت کے دن پر نیز تقدیر خیر اور شر پر کامل یقین رکھے.پھر اس سائل نے پوچھا احسان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا تو اللہ کی اس طرح عبادت کرے کہ تو اُسے دیکھ رہا ہو.اگر تجھے یہ درجہ حاصل نہیں تو تجھے کم از کم یہ یقین تو ضرور ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے.پھر اُس نے سوالوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی.حضور نے فرمایا : اس بارے میں سائل مجھ سے بہتر جانتا ہے.اس پر سائل نے کہا اچھا اس کی علامات ہی بتا دیجئے حضور نے فرمایا کہ ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنے آقا کو جنے گی.دوسری نشانی یہ ہے کہ تو ان لوگوں کو جو کبھی عریاں تھے ، پاؤں میں جوتا نہ تھا، تن پر کپڑا نہ تھا بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہوئے دیکھے گا.حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ سائل مجلس سے چلا گیا.اس کے جانے کہ بعد نبی کریم نے مجھ سے دریافت فرمایا اے عمر ! تجھے معلوم ہے کہ یہ سائل کون تھا ؟ میں نے کہا اللہ اور اُس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.حضور نے فرمایا وہ جبریل علیہ السلام تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے.

Page 18

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں: صحابہ کرام معبود اجنبی تقدیر - خیر جوابات لکھیں: مراد ہے؟ شر سائل.لونڈی.عریاں (1) سائل کون تھا ؟ (۲) ارکان اسلام و ارکان ایمان لکھیں؟ (۳) احسان کیا ہے؟ (۴) قیامت کی علامات لکھیں نیز بتائیں لونڈی آقا کو جنے گی“ سے کیا (۵) مشہور فرشتوں کے نام اور ان کے بارے میں تفصیل لکھیں؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کی املاء لکھوائے.(۳) ہر طالب علم اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھے اور بیان کر.۱۲

Page 19

سبق نمبر : ۴ : اُردو کی کتاب سوم : انبیاء ورسل اللہ تعالی نے اس روئے زمین پر انسانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کی جسمانی نشونما اور بقا کے لئے ہر وہ چیز مہیا کی جس کی انہیں حاجت وضرورت تھی اور ان کی روحانی و دینی تربیت کے لئے مختلف ازمنہ و مقامات میں انبیاء ورسل بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا.ایک دفعہ ایک صحابی نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اب تک اس دنیا میں کتنے انبیاء آچکے ہیں؟ حضور نے فرمایا: ایک لاکھ چوبیس ہزار.اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اگر انبیاء نہیں آتے تو اس دنیا میں گمراہی اور ضلالت کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا ان ہی کی بدولت نیکی ، روحانیت تہذیب و تمدن باقی ہے ان ہی کی بدولت دنیا میں ایسے انسان موجود ہیں اور ماضی میں بھی موجود تھے جو اللہ رب العزت کی بچے دل سے اور حقیقی معنوں میں عبادت کرتے ہیں اور کرتے تھے.ہر نبی کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جب کسی نبی نے یہ اعلان کیا کہ اُس ۱۳

Page 20

اُردو کی کتاب سوم : کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے تو اس کے ہم عصروں نے اس کی شدید مخالفت کی اُسے استہزاء و مذاق کا نشانہ بنایا ساحر و مجنون کہا.بہت کم لوگ ایسے تھے جو اس پر ایمان لائے.تاریخ اس حقیقت کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ با وجود اشد مخالفت و عداوت کے نبی اور اُس کی جماعت کے افراد کامیاب و کامران ہوتے رہے اور مخالفین و معاندین ناکام و نامراد ہوتے رہے.تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ دو قسم کے نبی اور رسول آتے رہے ہیں.ایک شریعت والے اور دوسرے اُسی شریعت کی تبلیغ کے لئے ، جیسے موسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نبی تھے اور ہارون علیہ السلام بغیر شریعت کے نبی تھے.ہمارے عقیدے کے مطابق سید نا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم آخری صاحب شریعت نبی ہیں.اب آپ کے بعد قیامت تک آپ جیسا صاحب شریعت نبی نہیں آسکتا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب علیہ السلام بغیر شریعت کے نبی ہیں جنہیں اللہ تعالی نے شریعت محمدیہ کی تبلیغ اور احیاء کے لئے بھیجا ہے.قرآن مجید میں درج ذیل انبیاء ورسل کا ذکر ہوا ہے: (۱) حضرت آدم علیہ السلام (۲) حضرت نوح علیہ السلام (۳) حضرت ابراہیم ۱۴

Page 21

: اُردو کی کتاب سوم : علیہ السلام (۴) حضرت لوط علیہ السلام (۵) حضرت اسماعیل علیہ السلام (۲) حضرت اسحاق علیہ السلام (۷) حضرت یعقوب علیہ السلام (۸) حضرت یوسف علیہ السلام (۹) حضرت ہود علیہ السلام (۱۰) حضرت صالح علیہ السلام (۱۱) حضرت شعیب علیہ السلام (۱۲) حضرت موسیٰ علیہ السلام (۱۳) حضرت ہارون علیہ السلام (۱۴) حضرت داؤد علیہ السلام (۱۵) حضرت سلیمان علیہ السلام (۱۶) حضرت الیاس علیہ السلام (۱۷) حضرت یونس علیہ السلام (۱۸) حضرت ذوالکفل علیہ السلام (۱۹) حضرت السبیع علیہ السلام (۲۰) حضرت ادریس علیہ السلام (۲۱) حضرت ایوب علیہ السلام (۲۲) حضرت ذکریا علیہ السلام (۲۳) حضرت یحیی علیہ السلام (۲۴) حضرت عیسی علیہ السلام (۲۵) حضرت لقمان علیہ السلام (۲۶) حضرت عزیر علیہ السلام (۲۷) حضرت ذوالقرنین علیہ السلام (۲۸) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم (۲۹) حضرت احمد علیہ السلام حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ ہندوستان میں ایک نبی گزرے ہیں جو سانولے رنگ کے تھے اور اُن کا نام کا ھنا ( کنہیا ) تھا.۱۵

Page 22

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں ، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.انبیاء - رُسل بعثت- گمراہی ضلالت- قدریں- نابود بدتر - استہزاء - نامراد- کامران - شریعت - احیاء چہ جوابات لکھیں: (1) دنیا میں کتنے انبیاء آچکے ہیں؟ (۲) انبیاء کی بعثت کا مقصد کیا ہے؟ (۳) نبی کتنی قسم کے ہوتے ہیں؟ (۴) انبیاء اپنے مقاصد میں کامیاب اور مخالفین ناکام کیوں ہوتے رہے؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوش خط لکھیں.(۲) قرآن مجید میں مذکور انبیاء کے اسماء زبانی یادکریں.(۳) استاد اس سبق کی املاء لکھوائے.(۴) طلباء اسے اپنے الفاظ میں لکھیں ۱۶

Page 23

سبق نمبر : ۵ اُردو کی کتاب سوم : ایک لاکھ آدم یورپ کے ملک اسپین کے ممتاز و مشہور صوفی شیخ محی الدین ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ (۵۵۶۰ - ۱۱۶۵۵۶۳۸ - ۱۲۴۰ء) نے اپنی کتاب "فتوحات مکیہ جلد تین میں لکھا ہے کہ: میں نے ایک دفعہ کشفی حالت میں دیکھا کہ میں بیت اللہ کا طواف کر رہا ہوں، اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں.مگر وہ کچھ اجنبی قسم کے لوگ ہیں جن کو میں پہچانتا نہیں.پھر انہوں نے دو شعر پڑھے جن میں سے ایک تو مجھے بھول گیا مگر دوسرا یا در ہا اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: ہم بھی اس مقدس گھر کا سالہا سال سے اسی طرح طواف کرتے رہے ہیں جس طرح آج تم اس کا طواف کر رہے ہو.وہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر تعجب ہوا.پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے اپنا نام بتایا مگر وہ نام بھی ایسا تھا جو میرے لئے بالکل غیر معروف تھا.اس کے بعد وہ شخص مجھ سے کہنے لگا کہ میں تمہارے باپ داداؤں میں سے ہوں.میں نے پوچھا کہ آپ کو وفات پائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے اُس نے کہا کہ چالیس ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر رہا ہے.میں نے کہا ۱۷

Page 24

اُردو کی کتاب سوم : زمانہ آدم پر تو اتنا عرصہ نہیں گزرا.اُس نے کہا کہ تم کس آدم کا ذکر کرتے ہو کیا اُس آدم کا جو تمہارے قریب ترین زمانہ میں ہوا ہے یاکسی اور آدم کا.وہ کہتے ہیں اس پر معا مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث یاد آگئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں اور میں نے سمجھا کہ میرے یہ جدا کبر بھی انہیں میں سے کسی ایک آدم سے تعلق رکھنے والے ہوں گے.(بحوالہ تفسیر کبیر سورۃ الحج (۳) ہ ذیل کے الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز جملوں میں استعمال کریں: کشف طواف مقدس سالہا سال- غیر معروف جذ اکبر چہ جوابات لکھیں: (1) دنیا میں کتنے بر اعظم ہیں ؟ دنیا کا نقشہ بنا کر یورپ اور اسپین کی نشاندہی کریں.(۲) فتوحات مکیہ کس کی تصنیف ہے اور کس زبان میں لکھی گئی ہے؟ (۳) حدیث کے مطابق اب تک کتنے آدم گزر چکے ہیں؟ (۴) کشفی حالت کیا ہوتی ہے؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں تحریر اور بیان کریں.۱۸

Page 25

سبق نمبر : ۶ : اُردو کی کتاب سوم : --- سرزمین ہند کی ایک خصوصیت سرزمین ہند میں ایسی ہے شہرت مجھ کو دی جیسے ہووے برق کا اک دم میں ہر جا انتشار پھر دوبارہ ہے اُتارا تو نے آدم کو یہاں تا وہ نخل راستی اس ملک میں لاوے ثمار میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار پر مسیحا بن کے میں بھی دیکھتا روئے صلیب گر نہ ہوتا نام احمد جس پہ میرا سب مدار ۱۹

Page 26

: اُردو کی کتاب سوم : دشمنو! ہم اُس کی رہ میں مر رہے ہیں ہر گھڑی کیا کروگے تم ہماری نیستی کا انتظار (از در تشین صفحه ۱۴۹) ذیل کے الفاظ اور اُن کے ان کے معانی لکھیں ، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں: چہ جوابات لکھیں: سرز مین- برق - انتشار یکل راستی - شمار داؤدی صفت.رُوئے صلیب- مدار نیستی (۱) یہ اشعار کس کے ہیں؟ (۲) آدم کے ہند میں دوبارہ اُتارنے سے کون مُراد ہیں؟ (۳) داؤد اور جالوت کون تھے؟ :: تمرین :: (۱) ان اشعار کی نثر لکھیں.(۲) ان اشعار کو خوشخط لکھیں.(۳) استاد ابتدائی اشعار کی املاء لکھوائے.۲۰

Page 27

سبق نمبر : ۷ : اُردو کی کتاب سوم : حضرت ابراہیم علیہ السلام.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نام نامی کسی معرفی کا محتاج نہیں.کون ہے جو ابو الانبیاء خلیل اللہ کو نہیں جانتا.مسلمان ،عیسائی ، یہودی سبھی ان کو مانتے ہیں.آپ کا زمانہ موٹے طور پر اکیس بائیس سو سال قبل مسیح قرار دیا گیا ہے.یعنی آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قریبا ستائیس اٹھائیس سو سال پہلے گذرے ہیں.آپ نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے اور عراق کے رہنے والے تھے مگر بعد میں مصر وغیرہ سے ہوتے ہوئے بالآخر جنوبی فلسطین میں آباد ہو گئے.آپ نے تین شادیاں کیں.پہلی بیوی کا نام سارہ تھا دوسری کا نام ہاجرہ تھا اور تیسری کا نام قطورا.ان میں سے مؤخر الذکر کے ذاتی حالات زیادہ معلوم نہیں ہیں مگر اس قدر ذکر غیر مناسب نہ ہوگا کہ وہ قوم مدین کی نسل سے تھیں.حضرت ابراہیم کی پہلی دو بیویوں میں سے سارہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قریبی عزیزوں میں سے تھیں مگر ہاجرہ ایک غیر خاندان سے تھیں اور مصر کی رہنے والی تھیں.ان دونوں ۲۱

Page 28

اُردو کی کتاب سوم : عا کے بطن سے اولاد ہوئی اور اس قدر پھیلی کہ آج دنیا کے ہر گوشہ میں پائی جاتی ہے حضرت ہاجرہ کے بطن سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے جو حضرت ابراھیم علیہ ا السلام کے بڑے لڑکے تھے اور حضرت سارہ سے اسحق علیہ السلام پیدا ہوئے.یہ دونوں بچے خدا کی خاص بشارات کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور دونوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص برکت کے وعدے تھے.اور ان کے نام بھی خدائی الہام کے ماتحت رکھے گئے تھے.اور اسماعیل کے متعلق تو حضرت ابراہیم اور حضرت ہاجرہ کی خاص دُعا بھی تھی جیسا کہ ان کا نام بھی جو دراصل سمع ايل ہے ظاہر کرتا ہے (یعنی خدا نے ان کی دعا سن لی ) چنانچہ ان دونوں بچوں کو خدا تعالیٰ نے عظیم الشان برکات کا وارث بنایا اور حسب وعدہ ان دونوں کی نسل کو دُنیا میں ہر قسم کے انعام سے مالا مال کیا.چنانچہ بنو اسرائیل جن میں حضرت موسیٰ اور حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان اور حضرت مسیح ناصری جیسے عالی مرتبہ نبی پیدا ہوئے ، حضرت اسحاق کی اولاد سے ہیں.مگر اس جگہ ہمارا تعلق بنو اسمعیل سے ہے جو عرب میں آباد ہوئے اور جن سے فخر اولین و آخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود نکلا.( بحواله سيرة خاتم النبین صفحه ۶۵) ۲۲

Page 29

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں: خلیل اللہ.مؤخرالذکر-گوشہ- برکات- عالی مرتبہ انعام سے مالا مال فخر اولین و آخرین- ابوالانبیاء جوابات لکھیں: (۱) ابراہیم علیہ السلام آج سے کتنے ہزار سال قبل گزرے ہیں؟ (۲) آپ کو کن کن مذاہب کے لوگ مانتے ہیں؟ (۳) آپ کسی نبی کی اولاد میں سے تھے؟ (۴) آپ کی کتنی بیویاں تھیں؟ (۵) بنو اسرائیل کون تھے؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) اس سبق کو استاد بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۲۳

Page 30

سبق نمبر : ۸ : اُردو کی کتاب سوم : کر.حضرت ہاجرہ کا کر اسماعیل علیہ السلام ابھی بچہ ہی تھے کہ اُن کی سوتیلی ماں سارہ نے کسی بات پر ناراض ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے کو گھر سے نکال دو.ابراہیم علیہ السلام کو طبعا اس قول پر بہت رنج پیدا ہوا مگر خدا تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا کہ رنجیدہ مت ہو اور اس بات کو بُرا نہ جان بلکہ جیسے سارہ کہتی ہے ویسے ہی کر.اسحاق بھی تیری اولاد ہے مگر مجھے ہاجرہ کے فرزند جے اسماعیل سے ایک قوم بنانا ہے.چنانچہ اس الہی ارشاد کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سینکڑوں میل کا سفر اختیار کر کے حضرت اسماعیل اور ان کی والدہ ہاجرہ کو عرب کے علاقہ حجاز کے اندر وادی بلکہ میں لاکر آباد کیا.یہ وہ وادی ہے جہاں اب مکہ آباد ہے اس وقت یہ ایک بالکل غیر آباد اور ویران وادی تھی.اس وادی میں صفا اور مروہ کی گھاٹیوں کے پاس ان دو بے کس اور بے بس جانوں کو تھوڑے سے زاد کے ساتھ چھوڑ کر حضرت ابرا ہیم اپنے وطن کو واپس روانہ ہوئے.۲۴

Page 31

اُردو کی کتاب سوم : حضرت ابراہیم کو واپس جاتے دیکھ کر حضرت ہاجرہ اُن کے پیچھے پیچھے آئیں اور نہایت درد آمیز الفاظ میں کہنے لگیں : " آپ کہاں جاتے ہیں اور ہم کو اس طرح کیوں اکیلا چھوڑ کر جارہے ہیں ؟ حضرت ابراہیم خاموشی کے ساتھ قدم بڑھاتے گئے اور کوئی جواب نہ دیا.آخر ہاجرہ نے کہا آپ کچھ تو بولیں." کیا خدا نے آپ سے ایسا فرمایا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا: ”ہاں“ اور پھر خاموشی کے ساتھ آگے بڑھتے گئے.اس پر ہاجرہ بولیں : ”اگر اللہ کا حکم ہے تو پھر آپ بے شک جائیں اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا.یہ کہہ کر ہاجرہ واپس لوٹ آئیں.قرآن شریف میں اس واقعہ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ میں ذکر آتا ہے: یعنی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کو چھوڑ کر واپس جانے لگے تو انہوں نے تھوڑی دور جا کر پیچھے نظر ڈالی اور خدا کے حضور یوں دعا کی کہ: اے ہمارے رب !میں نے اپنی نسل کے ایک حصے کو اس غیر آباد بنجر وادی میں تیرے عزت والے گھر کے پاس بسایا ہے.۲۵

Page 32

: اُردو کی کتاب سوم : اے ہمارے رب ! میں نے یہ کام اس لئے کیا ہے کہ تا وہ تیری عبادت کو قائم کریں اور تیرے لئے ان کی زندگی وقف ہو.پس تو لوگوں کے دل ان کی طرف جھکا دے اور انکو اچھے اچھے ثمرات کا رزق عطا کرتا کہ وہ تیرے شکر گزار ہوں.“ (سورہ ابراہیم آیت ۳۸) عام مؤرخین بیان کرتے ہیں اور حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ جب حضرت ہاجرہ کا زاد ختم ہو گیا تو لوازمات بشری کے ماتحت ان کو اپنے بیٹے کے متعلق سخت فکر پیدا ہوا اور وہ ادھر اُدھر پانی کی تلاش میں پھریں مگر پانی کی ایک بوند تک نہ ملی اور بچے کی حالت پیاس سے ابتر ہوتی گئی.آخر ہاجرہ سے اسماعیل کی حالت زار دیکھی نہ گئی اس لئے وہ وہاں سے انھیں تا کہ اپنے بچے کی پیاس کی موت کو نہ دیکھیں اور آسمان کی طرف منہ کر کے روئیں اور پانی کی تلاش میں پھر ادھر اُدھر بھاگیں اور ارد گرد کے علاقہ پر اچھی طرح نظر ڈالنے کی غرض سے صفا کی پہاڑی پر چڑھ گئیں لیکن وہاں سے بھی جب کوئی چیز نظر نہ آئی تو بھاگتی ہوئی مروہ کی پہاڑی پر آئیں وہاں سے پھر دوڑتی ہوئی صفا کی طرف گئیں اور اس طرح انہوں نے ایک نہایت گھبراہٹ اور بیتابی کی حالت میں ان پہاڑیوں پر سات چکر لگائے ۲۶

Page 33

: اُردو کی کتاب سوم : اور ساتھ ساتھ زار زار روتی بھی جاتی تھیں اور اللہ سے دعا بھی کرتی جاتی تھیں.مگر نہ تو کوئی پانی کا پتہ ملتا تھا اور نہ ہی کوئی آدمی نظر آتا تھا.آخر جب ہاجرہ کا کرب انتہا کو پہنچ گیا تو ساتویں چکر کے بعد ہاجرہ کو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ: ”اے ہاجرہ 66 اللہ نے تیری اور تیرے بچے کی آواز سُن لی ہے یہ آواز سن کر وہ واپس آئیں تو جس جگہ بچہ شدت پیاس کی وجہ سے بے تابی کی حالت میں تڑپ رہا تھا وہاں ایک خدائی فرشتہ کو کھڑا پایا جو اپنے پاؤں کی ایڑی اس طرح زمین پر مار رہا تھا کہ گویا کوئی چیز کھود کر نکال رہا ہے.حضرت ہاجرہ آگے بڑھیں تو جس جگہ وہ ایڑی ماررہا تھا وہاں انہوں نے ایک چشمہ پایا جس میں سے پانی پھوٹ پھوٹ کر بہہ رہا تھا.ہاجرہ کی خوشی کی انتہا نہ رہی.اُس نے فورا اپنے بچے کو پانی دیا اور اس خوف سے کہ پانی ضائع نہ ہو جاوے اس کے ارد گرد پتھر رکھ دیئے اور اسے ایک حوض کی صورت میں بنا دیا.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ : ” خدا ہاجرہ پر رحم کرے اگر وہ اس پانی کو نہ روکتی تو وہ ایک بہنے والا چشمہ ہو جاتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ حج میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا ہاجرہ ہی کی مقدس یادگار ہے.(بحوالہ سیرت خاتم التین صفر ۲۶) ۲۷

Page 34

: اُردو کی کتاب سوم : درج ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں اور انہیں جملوں میں استعمال کریں.رنجیدہ - بے کس بے بس.درد آمیز - حالت زار - بے تابی چہ جوابات لکھیں: :: (۱) حضرت سارہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا مطالبہ کیا تھا اور کیوں کیا تھا؟ (۲) حضرت ہاجرہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کیا کہا ؟ (۳) ہاجرہ صفا اور مروہ پہاڑیوں پر کیوں چڑھتی تھیں؟ (۴) حضرت ہاجرہ کو کیا غیبی آواز آئی تھی ؟ : تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کا کچھ حصہ بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں.۲۸

Page 35

سبق نمبر : ۹ : اُردو کی کتاب سوم : سب پکار اٹھے آمین آمین کعبہ کی عمارت کو کسی وجہ سے نقصان پہنچ گیا تھا.اس لئے قریش نے اسے گرا کر پھر از سر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا.مگر گرانے کا کام شروع کرنے سے سب ڈرتے تھے کہ خُدا کا گھر ہے کوئی آفت نہ آجاوے.آخر ولید بن مغیرہ نے جو معمر اور سرداران قریش میں سے تھا اس کام کو شروع کیا اور جب لوگوں نے ایک رات انتظار کر کے دیکھ لیا کہ ولید پر اس وجہ سے کوئی آفت نہیں آئی تو پھر سب شامل ہو گئے.جب پرانی عمارت کو گراتے گراتے حضرت ابراھیم کی بنیادوں پر پہنچے تو رُک گئے اور ان کے اوپر نئی تعمیر شروع کی.اتفاق ایسا ہوا کہ ساحل کے پاس ایک بڑی کشتی ٹوٹ گئی تھی اس کی لکڑی قریش نے خرید لی لیکن چونکہ یہ لکڑی ساری چھت کے لئے ناکافی تھی اس واسطے قریش کعبہ کی اس جدید تعمیر کو ابراہیم خلیل اللہ کی بنیادوں پر کھڑا نہیں کر سکے بلکہ ایک طرف سات ہاتھ جگہ چھوڑ دی اور بعض تبدیلیاں بھی قریش نے کیں.جب قریش کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے حجر اسود کی جگہ پر پہنچے تو قبائل قریش کے اندر اس بات پر سخت جھگڑا ہوا کہ کون سا قبیلہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھے.ہر قبیلہ اس ۲۹

Page 36

اُردو کی کتاب سوم : عزت کو اپنے لئے چاہتا تھا.حتی کہ لوگ آپس میں لڑنے مرنے کو تیار ہو گئے اور بعض نے تو زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق ایک خون سے بھرے ہوئے پیالے میں اُنگلیاں ڈبو کر قسمیں کھائیں کہ لڑ کر مر جائیں گے مگر اس عزت کو اپنے قبیلہ سے باہر نہ جانے دیں گے.اس جھگڑے کی وجہ سے تعمیر کا کام کئی دن تک بند رہا.آخر ابو امیہ بن مغیرہ نے تجویز پیش کی کہ جو شخص سب سے پہلے حرم کے اندر آتا دکھائی دے وہ اس بات میں حکم ہوکر فیصلہ کرے کہ اس موقعہ پر کیا کرنا چاہئے.اللہ کی قدرت لوگوں کی آنکھیں جو اٹھیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے ہیں.آپ کو دیکھ کر سب پکار اُٹھے: ”آمین آمین اور سب نے باتفاق کہا کہ ” ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں.“ جب آپ قریب آئے تو انہوں نے آپ سے حقیقت امر بیان کی اور فیصلہ چاہا.آپ نے اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ایسا فیصلہ فرمایا کہ سب سرداران قریش دنگ رہ گئے اور آفرین پکار اٹھے.آپ نے اپنی چادر لی اور اس پر حجر اسود کو رکھ دیا اور تمام قبائل قریش کے رؤسا کو اس چادر کے کونے پکڑ وادیئے اور چادر اُٹھانے کا حکم دیا.چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اُٹھایا اور کسی کو بھی شکایت نہ رہی.یہ اللہ تعالی کی طرف سے تصویری زبان میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عرب کے مختلف قبائل جواب برسر پیکار ہیں وہ اس پاک وجود کے ذریعہ سے ایک مرکز پر جمع ہو جائیں گے.جب حجر اسود کی اصلی جگہ کے محاذ میں چادر پہنچی تو آپ نے اپنے

Page 37

: اُردو کی کتاب سوم : دست مبارک سے اُسے چادر پر سے اٹھا کر اس کی جگہ پر رکھ دیا.یہ جیسا کہ پہلے کہا گیا تھا تصویری زبان میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ عنقریب نبوت کی عمارت کے کونے کا پھر آپ کے وجود سے اپنی جگہ پر قائم ہوگا.(بحوالہ میرا خاتم انبین صفحہ ۱۸) مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں.از سر نو - آفت-حجر اسود-حرم-حقیقت امر-آفرین محاذ - دست مبارک - آمین - برسر پیکار جوابات لکھیں : (۱) کعبہ کہاں واقع ہے؟ اسلام میں اس کی کیا اہمیت ہے؟ (۲) مکہ کے قریب کون سا سمندر ہے؟ (۳) قریش میں جھگڑا کیوں کھڑا ہوا ؟ (۴) تصویری زبان کیا ہوتی ہے؟ (۵) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فیصلہ کیا؟ : تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاداس کی املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.(۴) عرب کا نقشہ بنا کر بتائیں کہ ساحل کہاں ہے؟ ۳۱

Page 38

سبق نمبر (١٠) : اُردو کی کتاب سوم : سب سے پہلی وحی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں مکہ میں نبوت سے کچھ مدت پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ خواب آنے شروع ہوئے.جو خواب آپ دیکھتے وہ صاف طور سے پورا ہو جاتا تھا.اس وقت آپ کو تنہائی میں رہنا پسند ہو گیا.اور آپ غار حرا میں خلوت فرمانے لگے.اور کئی کئی رات برابر وہاں خدا کی عبادت کیا کرتے.پھر گھر آتے اور کئی روز کی خوراک لے جاتے.یہاں تک کہ آپ کے پاس وحی آگئی.جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت آپ غار حرا میں تھے یہ رمضان کا مہینہ شب قدر اور پیر کا دن تھا کہ ایک فرشتہ آپ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے ظاہر ہو کر اُس نے آپ سے کہا کہ پڑھئے.آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.اس پر اُس فرشتے نے آپ کو پکڑ لیا اور زور سے دبایا یہاں تک کہ آپ کو تکلیف ہوئی.پھر چھوڑ کر آپ سے کہا پڑھئے.آپ نے پھر فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.اس پر فرشتے نے دوبارہ آپ کو زور سے دبایا یہاں تک کہ آپ کو تکلیف ہوئی.پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھئے آپ نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں پھر تیسری دفعہ اس فرشتہ نے آپ کو زور سے دبایا پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ: ۳۲

Page 39

: اُردو کی کتاب سوم : ترجمہ : ” اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جس نے ہر چیز کو پیدا کیا انسان کو گوشت کی بوٹی سے پیدا کیا.پڑھو! اور تمہارا پروردگار بڑا کرم کرنے والا ہے جس نے قلم 66 کے ذریعہ علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جسے وہ جانتا نہ تھا.(سورۃ احلق ) یہ کہہ کر فرشتہ غائب ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس واقعہ کی ہیبت سے دھٹر کنے لگا.آپ غار حرا سے سیدھے حضرت خدیجہ کے پاس واپس آئے اور کہا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمبل ڈال دیا یہاں تک کہ کچھ دیر بعد جب آپ کا دل ذرا ٹھہرا تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سب حال بیان کیا اور کہا کہ میرا تو دم نکلنے لگا تھا اس پر حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ ایسانہ فرمائیے خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی پریشان نہیں کرے گا کیونکہ آپ رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں لوگوں کا بوجھ بٹاتے ہیں ہمیشہ سچ بولتے ہیں جو اچھی باتیں اور لوگوں میں نہیں پائی جاتیں وہ آپ میں موجود ہیں.آپ مہمان نواز ہیں اور تکالیف میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو لیکر اپنے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل کے پاس پہنچیں یہ ورقہ عیسائی ہو چکے تھے اور انجیل سے خوب واقف تھے اور اتنے عمر رسیدہ آدمی تھے کہ ان کی آنکھیں بھی جاتی رہی تھیں.حضرت خدیجہ نے ان سے کہا اے بھائی او را اپنے بھتیجے کا حال تو سنو اور پھر ٣٣

Page 40

: اُردو کی کتاب سوم : اپنی رائے دو.ورقہ نے حال پوچھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب واردات بیان فرمائی.ورقہ نے سن کر کہا کہ اے محمد یہ تو وہ فرشتہ ہے جسے اللہ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا.اے کاش میں آپ کے نبوت کے زمانہ میں جوان ہوتا.اے کاش کہ میں اس وقت تک زندہ ہی رہتا جب آپ کی قوم آپ کو شہر سے نکال دے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا سچ مچ یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے.ورقہ نے کہاہاں جب سے دُنیا پیدا ہوئی ہے ہمیشہ لوگ آپ جیسے نبیوں سے دشمنی کرتے ہیں اور اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ پوری طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا مگر افسوس کہ چند روز کے بعد ہی ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی کا آنا بھی کچھ مدت کے لئے رک گیا.حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دفعہ وحی آنے کے بعد اس کے رُک جانے کا حال بیان فرمانے لگے تو فرمایا کہ ایک دن میں چلا جا رہا تھا کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی او پر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو غارِ حرا میں میرے پاس آیا تھا آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے میں ڈر گیا.گھر کو واپس آیا اور کہنے لگا کہ کمبل اوڑھاؤ کمبل اوڑھاؤ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ وحی نازل فرمائی: ترجمہ: اے کپڑا اوڑھنے والے کھڑا ہو.اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی ۳۴

Page 41

اُردو کی کتاب سوم : بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ اور ہرنا پا کی کو چھوڑ دے.(سورۃ المدثر ۷۷۴-۵) وحی کے نزول کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب کہ آپ عمر کے چالیسویں سال میں تھے اور پھر آخر تک جاری رہا.(مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حصہ اوّل صفحہ ۴۷۰) مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں: خلوت-شب قدر عمر رسیدہ.آنکھیں جانا.واردات مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات لکھیں: (۱) وحی کیا ہوتی ہے؟ (۲) حضرت خدیجہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح تسلی دی؟ (۳) ورقہ کون تھے؟ (۴) ورقہ نے سارا واقعہ سُن کر کیا کہا ؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استادا سے بطور املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۳۵

Page 42

سبق نمبر : 11 : اُردو کی کتاب سوم : قرآن مجید مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق قرآن شریف کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خُدا کا کلام ہے، جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بصورت وحی نازل ہوا.یہ نزول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تئیس سالہ نبوت کی زندگی پر پھیلا ہوا تھا یعنی الہام سے ہی آپ کے دعوی کی ابتداء ہوئی اور قرآن شریف کا آخری حصہ اُس وقت نازل ہوا جبکہ آپ کی وفات بالکل قریب تھی اس طرح اگر آپ کی نبوت کے مجموعی ایام کے مقابلہ پر قرآنی آیات کی مجموعی تعداد کو رکھ کر دیکھا جائے تو روزانہ نزول کی اوسط ایک آیت سے بھی کم بنتی ہے کیونکہ جہاں آپ کی نبوت کے ایام کم و بیش سات ہزار نو سوستر بنتے ہیں وہاں قرآنی آیات کی تعداد صرف چھ ہزار دو صد چھتیں ہے اور چونکہ قرآنی الفاظ کی مجموعی تعداد ستر ہزار نو سو چونتیس (۷۷۹۳۴ ) ہے اسلئے فی آیت بارہ الفاظ کی اوسط ہوئی جس سے روزانہ نزول کی اوسط کم و بیش نو لفظ سمجھی جاسکتی ہے.ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ قرآن ۳۶

Page 43

اُردو کی کتاب سوم : شریف بہت ہی آہستہ آہستہ نازل ہوا تھا اور گو یہ درست ہے کہ قرآن شریف کے نزول میں بعض اوقات ناغے بھی آجاتے تھے اور بعض دوسرے ایام میں ایک ہی وقت میں متعدد آیات اکٹھی نازل ہو جاتی تھیں لیکن پھر بھی قرآن شریف کبھی بھی ایک وقت میں اتنی مقدار میں نازل نہیں ہوا کہ اُسے لکھ کر محفوظ کرنے یا ساتھ ساتھ یاد کرتے جانے میں کوئی مشکل محسوس ہوئی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جو آیات قرآن شریف کی نازل ہوتی جاتی تھیں انہیں ساتھ ساتھ لکھواتے جاتے اور خدائی تفہیم کے مطابق ان کی ترتیب بھی خود مقرر فرماتے جاتے تھے.جن صحابہ سے کاتب وحی کا کام لیا جاتا تھا اُن کے نام اور حالات تفصیل و تعیین کے ساتھ تاریخ میں محفوظ ہیں.ان میں سے زیادہ معروف صحابہ یہ تھے : حضرت ابوبکر حضرت عمرؓ - حضرت عثمان - حضرت علی - زبیر بن العوام- شرجیل بن حسنہ عبداللہ بن رواحہ ابی بن کعب اور زید بن ثابت.اس فہرست سے ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے اسلام سے ہی ایک معتبر جماعت قرآنی وحی کے قلمبند کرنے کے لئے میسر رہی تھی اور اس طرح قرآن شریف نہ صرف ساتھ ساتھ تحریر میں آتا گیا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس کی موجودہ ترتیب بھی جو بعض ۳۷

Page 44

: اُردو کی کتاب سوم : ย مصالح کے ماتحت نزول کی ترتیب سے جدا رکھی گئی ہے قائم ہوتی گئی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جبکہ نزول قرآن مکمل ہو چکا تھا حضرت ابو بکر خلیفہ اول نے حضرت عمر کے مشورہ سے زید بن ثابت انصاری کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی رہ چکے تھے حکم فرمایا کہ وہ قرآن مجید کو با قاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا لکھوا کر محفوظ کر دیں.چنانچہ زید بن ثابت نے بڑی محنت کے ساتھ ہر آیت کے متعلق زبانی اور تحریری ہر دو قسم کی پختہ شہادت مہیا کر کے اسے ایک باقاعدہ مصحف کی صورت میں اکٹھا کر دیا اس کے بعد جب اسلام مختلف ممالک میں پھیل گیا تو پھر حضرت عثمان خلیفہ ثالث کے حکم سے زید بن ثابت کے جمع کردہ نسخہ کے مطابق قرآن شریف کی متعد دمستند کا پیاں لکھوا کر تمام اسلامی ممالک میں بھجوا دی گئیں.(سیرت خاتم النبین صفحہ ۵) قرآن مجید میں ایک سو چودہ ۱۴ سورتیں اور تمیں پارے ہیں.بعض سورتوں کے دو دو نام ہیں.1 الْفَاتِحَة الْبَقَرَة آلِ عِمْرَان ۴ النِّسَاء الْمَائدة الانعام ۳۸

Page 45

الاعراف يونس الرعد ۱۴ : اُردو کی کتاب سوم : الْأَنْفَالِ هود ابْرَاهِيم ۱۲ التّوبَة يوسف ۱۵ الحجر النَّحْل بَنِي اسرائيل | ۱۸ الكَهْف (الاسراء) طه ۲۱ مَريَم Σ الأنبياء الحج ۲۳ الْمُؤمِنُون ۲۴ النُّور الفُرْقَانِ ۲۶ الشُّعَرَاءُ ۲۷ النَّمَل القَصَص ۲۹ العَنْكَبوت ۳۰ الروم لقمان ۳۲ السجدة ۳۳ الاحْزَاب سَبَا ۳۵ فَاطِر ۳۶ } يس الصَّافات ٣٨ ۳۹ ص الزُّمَر المُؤْمِن ام السجدة | ۴۲ الشورى (غافر) ( فُصِّلَت) ۳۹ ۱۶ 19 ۲۲ ۲۵ ۲۸ I ۳۱ ۳۴ ۳۷ ۴۰ 1.

Page 46

۴۳ ۴۶ الزُّخْرُف الاحقاف ۴۴ ۴۷ ۴۹ الْحُجُرَات ۵۰ : اُردو کی کتاب سوم : الدُّخَانِ مُحَمَّد ما ق ۴۵ گے ۵۱ الْجَاثِيَة الْفَتح الزَّاريات ۵۲ الطور ۵۳ النجم ۵۴ الْقَمَرِ الرَّحْمان الواقعة ۵۷ الْحَدِيدِ ۵۸ الْمُجَادِلَة ۵۹ الْحَشَرِ ۶۰ الْمُمْتَحِنَة ۶۱ الصف ۶۲ الْجُمُعَة ٦٣ الْمُنَافِقُونَ ۶۴ التَّغَابُن الطلاق ۶۶ التحريم ۶۷ الْمُلكُ ۶۸ الْقَلَمُ ۶۹ الْحَاقَّة ٧٠ الْمَعَارِج اے نُوح ۷۲ الجن ۷۳ المُزمّل ۷۴ الْمُدَّثر ۷۵ القِيَامَة الدهر (الانسان ۷۷ الْمُرسلات ۷۸ النيا ۷۹ النَّازِعَات ۸۰ عَبَس ΔΙ التكوير २

Page 47

۸۲ : اُردو کی کتاب سوم : الْاِنْفِطَار ۸۳ المُطَفِّفِينَ ۸۴ الْاِنْشِقَاقِ ۸۵ الْبُرُوج ٨٨ الْغَاشِيَة ا الشَّمْس ۸۶ ٨٩ الطَّارِق الفَجْر اللَّيْلِ ۸۷ الأعلى الْبَلَد ۹۲ ۹۴ أَلَمْ نَشْرَح | ۹۵ التين ۹۳ ۹۶ الضحى العلق القدر ☐ العاديات ۱۰۳ 1+7 العصر قريش ۹۸ 1+1 ۱۰۴ ۱۰۷ الْبَيِّنَة ۹۹ الزلزال القارعة ۱۰۲ التَّكَاثُر الهُمَزَة ۱۰۵ الْفِيْل المَاعُون ۱۰۸ الكَوْثَر ١٠٩ الْكَافِرُون 11.النَّصْرِ ااا اللهب (المَسَد) ۱۱۲ الإخلاص ۱۱۳ الْفَلَقِ ۱۱۴ الناس :: تمرین :: مندرجہ بالاسورتوں کے نام ترتیب سے معنی کے ساتھ یاد کریں.

Page 48

سبق نمبر :۱۲ اُردو کی کتاب سوم : فضائل قرآن مجید جمال وحسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے نظیر اس کی نہیں جمتی نظر میں فکر کر دیکھا بھلا کیونکر نہ ہو یکتا کلام پاک رحماں ہے بہارِ جاوداں پیدا ہے اسکی ہر عبارت میں نہ وہ خوبی چمن میں ہے نہ اس سا کوئی بستاں ہے کلام پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز اگر لولوئے عثماں ہے وگر لعل بدخشاں ہے خدا کے قول سے قول بشر کیوں کر برابر ہو وہاں قدرت یہاں درماندگی فرق نمایاں ہے ۴۲

Page 49

: اُردو کی کتاب سوم : ملائک جسکی حضرت میں کریں اقرار لاعلمی سخن میں اس کے ہمتائی ، کہاں مقدور انساں ہے (از در یتین صفحه ۳ ) ذیل کے الفاظ اور معنی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں: جمال وحسن - نظیر - یکتا.بہار جاوداں - بستاں یزداں - ثانی - قول بشر - در ماندگی - نمایاں جوابات لکھیں: (1) یہ اشعار کن کے ہیں؟ اُن کے تعارف پر دس سطر میں لکھیں ! (۲) تولوئے عماں اور لعلِ بدخشاں کیا ہیں؟ :: : تمرین :: (۱) ان اشعار کو خوشخط لکھیں.(۲) ان اشعار کی نت لکھیں.۴۳

Page 50

سبق نمبر : ۱۳ : اُردو کی کتاب سوم : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ سختی کا دن (طائف) ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا احد سے بھی زیادہ سختی کا دن آپ پر آیا ہے.آپ نے فرمایا کہ میں نے تمہاری قوم قریش سے جو مصیبتیں اٹھائی ہیں وہ احد سے بہت بڑھ کر ہیں.اور سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس دن پہنچی جس دن میں طائف میں عبدیالیل کے پاس گیا اس نے میری دعوت رڈ کر دی میں نہایت رنج و ملال کے ساتھ وہاں سے چل نکلا.ان لوگوں نے وہاں کے شہدے اور او باش میرے پیچھے لگا دیئے اور انہوں نے کئی میل تک مجھے ہوش نہ آنے دیا.اتنا مارا اور پتھر برسائے کہ مجھے ہوش نہ رہا کہ کدھر جا رہا ہوں میں نے اپنا منہ بچانے کے لئے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا.اور میرے ہوش و ہواس بیجا نہ

Page 51

: اُردو کی کتاب سوم : تھے.یہاں تک کہ پتھروں کی بارش قرن العالب میں جا کر بند ہوئی تو میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور دیکھا کہ ایک ابر کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر لیا اور اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالی نے آپ کی تبلیغ اور ان لوگوں کا سلوک دیکھ لیا اور اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے اور آپ کو اجازت دی ہے کہ جو چاہیں آپ اُسے حکم کریں.پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا.اور کہا اے محمد اس وقت جو آپ چاہیں میں کر دوں اگر اجازت ہو تو یہ دونوں سامنے والے پہاڑ ان لوگوں پر رکھ دوں میں نے کہا نہیں میں یہ نہیں چاہتا.مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ.خیر آپ نے ان اوباشوں کے ظلم سے ایک باغ میں پناہ لی وہ باغ آپ کے مکہ کے پرانے دشمنوں عقبہ اور شیبہ کا تھا.اُسوقت وہ دونوں وہیں باغ میں موجود تھے.آپ کی مصیبت دیکھ کر ان دشمنوں کو بھی اس وقت ترس آ گیا.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام عد اس نامی کو بلا کر کہا کہ ایک خوشه انگور کا لیکر اس ۴۵

Page 52

: اُردو کی کتاب سوم : ا شخص کو دے آ جو فلاں جگہ بیٹھا ہے عداس انگور لے کر حاضر ہوا اور پیش کر کے کہا کہ اسے کھائیے آپ جب کھانے لگے تو پہلے بسم اللہ پڑھی عد اس نے آپ کے چہرہ کوغور سے دیکھا اور کہا کہ خدا کی قسم یہ کلام تو اس شہر کے لوگ نہیں پڑھا کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو اور تمہارا کیا دین ہے؟ عد اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور میوہ کا رہنے والا ہوں.آپ نے فرمایا کہ پھر تو تم یونٹس کے شہر والے ہو.عد اس نے کہا آپ کیا جانیں کہ یونس کون تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے بھائی تھے.میں بھی نبی ہوں اور وہ بھی نبی تھے.یہ سن کر عد اس جھکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا.یہ نظارہ عقبہ اور شیبہ نے بھی دُور سے دیکھا اور کہنے لگے لو اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی گمراہ کر دیا.جب غلام ان کے پاس واپس آیا تو انہوں نے کہا کم بخت تو نے اس شخص کے سر اور ہاتھوں کو کیوں بوسہ دیا.عداس بولے حضور اس وقت اس شخص سے بہتر اور کوئی شخص پردہ دُنیا میں نہیں ہے.عتبہ شیبہ کہنے لگے عداس افسوس کی بات ہے تمہارا دین تو اس کے دین سے اچھا ہے تم ہرگز اپنے دین کو نہ چھوڑو.(بحوالہ مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب حصہ اول صفحه ۴۸۱) ۴۶

Page 53

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.رنج و ملال.شہدے- او باش.ہوش و ہواس- ترس آنا جوابات لکھیں: (۱) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے شدید دن کون سا تھا؟ (۲) عبدیالیل نے حضور سے کیسا سلوک کیا ؟ (۳) پہاڑ کے فرشتے نے حضور سے کیا کہا؟ (۴) حضور نے پہاڑ کے فرشتے کو کیا جواب دیا ؟ (۵) عداس کہاں کا رہنے والا تھا ؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں.R ۴۷

Page 54

سبق نمبر : ۱۴ : اُردو کی کتاب سوم : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خداداد رعب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ابو جہل کے مرعوب ہونے کے متعلق ایک روایت آتی ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ خدائی سنت اسی طرح پر ہے کہ جو لوگ خدا کے مرسلین کے سامنے زیادہ بیباک ہوتے ہیں عموما انہیں پر خدا تعالیٰ اپنے رسولوں کا رعب زیادہ مسلّط کرتا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اراشہ نامی شخص مکہ میں کچھ اونٹ بیچنے آیا اور ابو جہل نے اس سے یہ اونٹ خرید لئے مگر اونٹوں پر قبضہ کر لینے کے بعد قیمت ادا کرنے میں حیل و حجت کرنے لگا اس پر اراشہ جو مکہ میں ایک اجنبی اور بے یار و مددگار تھا بہت پریشان ہوا اور چند دن تک ابو جہل کی منت سماجت کرنے کے بعد وہ آخر ایک دن جبکہ بعض رؤسائے قریش کعبتہ اللہ کے پاس مجلس جمائے بیٹھے تھے، تو ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے معززین قریش آپ میں سے ایک شخص ابوالحکم نے میرے اونٹوں کی قیمت دبا رکھی ہے آپ مہربانی کر کے مجھے یہ قیمت دلوا دیں.قریش کو شرارت جو سو جبھی تو کہنے لگے ایک شخص یہاں محمد بن عبداللہ نامی رہتا ہے تم اس کے پاس جاؤ وہ تمہیں ۴۸

Page 55

: اُردو کی کتاب سوم : قیمت دلا دے گا.اور اس سے غرض ان کی یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو بہر حال انکار ہی کریں گے اور اس طرح باہر کے لوگوں میں آپ کی سبکی اور ہنسی ہوگی جب اراشہ وہاں سے لوٹا تو قریش نے اس کے پیچھے پیچھے ایک آدمی کر دیا کہ دیکھو ہے کیا تماشہ بنتا ہے.چنانچہ اراشہ اپنی سادگی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں ایک مسافر آدمی ہوں اور آپ کے شہر کے ایک رئیس ابوالحاکم نے میری رقم دبا رکھی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ مجھے یہ رقم دلوا سکتے ہیں پس آپ مہربانی کر کے مجھے میری رقم دلوادیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فورا اُٹھے کھڑے ہوئے کہ چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ آپ اُسے لیکر ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازہ پر دستک دی.ابو جہل باہر آیا تو آپ کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور خاموشی کے ساتھ آپ کا منہ دیکھنے لگا.آپ نے فرمایا: " شخص کہتا ہے کہ اس کے پیسے آپ کی طرف نکلتے ہیں.یہ ایک مسافر ہے آپ اس کا حق کیوں نہیں دیتے ؟ اس وقت ابو جہل کا رنگ فق ہو رہا تھا.کہنے لگا "محمد ٹھہر ومیں ابھی اس کی رقم لا تا ہوں.چنانچہ وہ اندر گیا اور اراشہ کی رقم لاکر اسی وقت اس کے حوالے کر دی.اراشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت شکر یہ ادا کیا اور واپس آکر قریش کی اسی مجلس میں پھر گیا اور وہاں جا کر ان کا بھی شکریہ ادا کیا کہ آپ وو ۴۹

Page 56

اُردو کی کتاب سوم : لوگوں نے مجھے ایک بہت ہی اچھے آدمی کا پتہ بتایا خدا اسے جزائے خیر دے اس نے اسی وقت میری رقم دلا دی.رؤسائے قریش کے منہ میں زبان بند تھی اور وہ ایک دوسرے کی طرف حیران ہو کر دیکھ رہے تھے.جب اراشہ چلا گیا تو انہوں نے اس آدمی سے دریافت کیا جو اراشہ کے پیچھے پیچھے ابو جہل کے مکان تک گیا تھا کہ کیا قصہ ہوا ہے.اس نے کہا واللہ میں نے تو ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے اور وہ یہ کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جا کر ابوالحکم کے دروازہ پر دستک دی اور ابوالحکم نے باہر آ کر محمد کو دیکھا تو اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ گویا ایک قالب بے روح ہے اور جونہی اسے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کہا کہ اس کی رقم ادا کر و اُسی وقت اس نے اندر سے پائی پائی لا کر سامنے رکھ دی.تھوڑی دیر کے بعد ابو جہل بھی اس مجلس میں آپہنچا اسے دیکھتے ہی سب لوگ اس کے پیچھے ہو لئے کہ اے ابو الحکم تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ محمدؐ سے اس قدر ڈر گئے اُس نے کہا خدا کی قسم ! جب میں نے محمد کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اُس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضبناک اونٹ کھڑا ہے اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چوں و چرا کروں گا تو وہ مجھے چھا جائے گا.(بحوالہ سیرۃ خاتم النبین صفحہ ۱۶۳)

Page 57

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.منت سماجت - مجلس جمائے.سبکی.بیباک جوابات لکھیں: (۱) اراشہ نے سب سے پہلے اپنی پریشانی کس کو سنائی ؟ (۲) قریش نے حضور کے پاس جانے کا کیوں مشورہ دیا ؟ (۳) حضور نے ابو جہل کو کیا کہا ؟ (۴) ابوجہل نے رقم فوڑا کیوں ادا کر دی؟ (۵) ابوالحکم اور ابو جہل کون تھا ؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد سبق کے کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۵۱

Page 58

سبق نمبر : ۱۵: : اُردو کی کتاب سوم : قانون سے کوئی بالا نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت نے چوری کر لی کیونکہ اسلامی قوانین کے مطابق چوری کرنے والے کے ہاتھ کائے جاتے تھے اس لئے اُن کو فکر ہوئی کہ اگر اس معزز قبیلہ کی عورت کے ہاتھ کاٹے گئے تو ہماری رسوائی ہوگی.اس لئے انہوں نے سوچا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہا جائے کہ یہ بہت معزز خاندان کی عورت ہے اس لئے اس کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں.اب سوال پیدا ہوا کہ یہ کہنے کون جائے ؟ تو سب نے کہا کہ حضرت زید ( جو کسی زمانہ میں حضور کے متمنی تھے ) کے بیٹے اسامہ کو بھیجا جائے کیونکہ حضور اس سے بہت محبت کرتے ہیں اس لئے امید ہے کہ ان کی سفارش منظور فرمالیں گے.انہوں نے حضرت اسامہ کو اس کے لئے آمادہ کیا جب حضرت اسامہ نے اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں تم سفارش کرتے ہو؟ پھر حضور نے کھڑے ہو کر تقریر کی اور فرمایا تم سے پہلے لوگ اس لئے ہلاک ہوئے کہ جب ان کا کوئی بڑا اور با اثر آدمی چوری کرتا تو اس کو مختلف.۵۲

Page 59

: اُردو کی کتاب سوم : حیلوں بہانوں سے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس کو پوری پوری سزاد یتے.خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دوں گا اور ذرا بھی رعایت نہ کروں گا.ذیل کے الفاظ اور معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں.رسواہونا متینی - آمادہ کرنا.بااثر -حیلوں جوابات لکھیں: (۱) قریش کیوں فکر مند تھے؟ (۲) رسوائی سے بچنے کے لئے انہوں نے کیا سوچا ؟ (۳) حضرت اسامہ نے جا کر کیا عرض کیا ؟ (۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ کے پوچھنے پر کیا جواب دیا ؟ (۵) اسلام میں چوری کی سزا کیا ہے؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کی املاء لکھوائے.(۳) طلباء اسے اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۵۳

Page 60

سبق نمبر : ۱۶ : اُردو کی کتاب سوم : مهمان نوازی مہمان نوازی انسانی اخلاق میں سے ایک بہترین خُلق ہے اور اسلام نے اس پر خاص زور دیا ہے.حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان کا گھر میں آنا اللہ کی رحمت کا نشان ہے یہی وجہ ہے کہ مہمان نوازی صحابہ کرام کی زندگی کا ایک خاص جزو تھا.گوان میں سے اکثر لوگ غریب اور ظاہری اسباب کے لحاظ سے بالکل نا دار تھے لیکن ان کی غربت اور افلاس انہیں مہمان نوازی کے ثواب سے محروم نہیں رکھ سکتا تھا.ایک مرتبہ ایک مہمان دربار نبوی میں آیا.چونکہ اس وقت کے لحاظ سے ایک شخص کی مہمان نوازی بھی آسان نہ تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تحریک فرمائی اور فرمایا کہ جو شخص اس کی مہمان نوازی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے گا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحم کی امید پر اپنے گھر میں موجود سامان خوردو نوش کا جائزہ لئے بغیر حضرت ابوطلحہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں اس مہمان کو اپنے ساتھ گھر لے جاتا ہوں.چنانچہ اسے ساتھ لے گئے.گھر پہنچے تو بیوی سے معلوم ہوا ۵۴

Page 61

: اُردو کی کتاب سوم : کہ کھانے کو کچھ نہیں صرف اتنا ہی کھانا ہے جو بچوں کے لئے بمشکل کفایت کر سکے گا لیکن بیوی کی طرف سے مایوس کن اطلاع کے باوجود انہیں کوئی تشویش نہ ہوئی.اور جذبہ مہمان نوازی میں کوئی فرق نہ آیا.آپ نے بیوی سے کہا کہ زیادہ فکر تو بچوں کا ہی ہے لیکن ان کو پیارو دلا سا د یگر بھو کا ہی سلا دو لیکن ایک مشکل ابھی باقی تھی اور وہ یہ کہ اس وقت کے رسم و رواج کے مطابق مہمان گھر والوں کو ساتھ شامل کرنے پر اصرار کرے گا اس وقت تک پردہ کے احکام بھی ابھی نازل نہیں ہوئے تھے اس کا حل یہ سوچا گیا کہ جب میاں بیوی مہمان کے ساتھ کھانے پر بیٹھیں تو بیوی روشنی ٹھیک کرنے کے بہانہ سے چراغ گل کر دے اور پھر دونوں ساتھ بیٹھ کر یونہی مونہ ہلاتے رہیں کہ گویا کھانا کھا رہے ہیں لیکن دراصل کچھ نہ کھا ئیں اور اس طرح مہمان سیر ہو کر کھانا کھا لے.چنانچہ اس ایثار پیشہ خاندان نے ایسا ہی کیا.بچوں کو فاقہ سے بہلا کر سلا دیا گیا بیوی نے روشنی بجھادی اور میاں بیوی ساتھ بیٹھ کر یونہی مچاکے مارتے رہے کہ گویا بڑے مزے سے کھانا کھا رہے ہیں.اس طرح گھر کے سب لوگ تو فاقہ سے رہے اور مہمان نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا.اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا ایسی پسند آئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ اس کی خبر دی.چنانچہ صبح ہوئی تو آپ نے حضرت ابو طلحہ کو بلایا اور جنتے ہوئے فرمایا کہ رات تم نے مہمان کے ساتھ کیا کیا

Page 62

: اُردو کی کتاب سوم : انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا کیا.آپ نے فرمایا جو کچھ تم نے کیا اسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ عرش پر ہنسا اور اس لئے میں بھی ہنسا ہوں.(بحوالہ مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے ) ہ ذیل کے الفاظ اور معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں: مہمان نوازی-خلق - نادار - افلاس خور و نوش - مایوس کن - تشویش اصرار جوابات لکھیں : (۱) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کے آنے پر کیا اعلان فرمایا تھا؟ (۲) کسی صحابی نے مہمان کو اپنے گھر لے جانے پر رضامندی کا اظہار کیا تھا؟ (۳) صحابی کو ان کی بیوی نے کیا کہا ؟ (۴) میاں بیوی نے مہمان نوازی کا کیا طریق سوچا ؟ (۵) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تقسم فرمانے کی کیا وجہ تھی ؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.

Page 63

سبق نمبر : ۱۷) اُردو کی کتاب سوم : اللہ کی راہ میں عظیم قربانی حضرت عبدالرحمن بن عوف سے احادیث میں ایک ایسا واقعہ بیان ہوا ہے کہ جسے پڑھ کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مجاہدین اسلام کی جانبازی پر جرات و بسالت بھی آفرین کہتی ہے.آپ روایت کرتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں صفیں آراستہ ہوئیں اور حملہ عام ہونے لگا تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ماری تو دونوں جانب انصار کے دو جوان لڑکے پائے ان کو دیکھ کر مجھ پر افسردگی سی طاری ہو گئی میں نے خیال کیا کہ جنگ میں دونوں پہلو جب تک مضبوط نہ ہوں لڑائی کرنا مشکل ہوتا ہے اور وہی شخص اچھی طرح لڑ سکتا ہے جس کے پہلو مضبوط ہوں.اور جب میرے دونوں پہلو اس قدر کمزور ہیں کہ دو کم سن اور نو عمر بچے کھڑے ہیں تو میرے لئے کوئی قابل ذکر لڑائی کرنے کا کیا امکان ہوسکتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ میں ابھی یہ خیال کر ہی رہا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکے نے مجھے آہستہ سے ایسے انداز میں کہ وہ دوسرے لڑکے سے اخفار کھنا چاہتا ہے پوچھا کہ چچا وہ ابو جہل کون ہے جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکالیف پہنچایا کرتا ۵۷

Page 64

: اُردو کی کتاب سوم : تھا.میں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا ہوا ہے کہ اسے قتل کروں گا یا پھر اس مردود کو قتل کرنے کی کوشش میں اپنی جان دے دوں گا.میں نے اس کے سوال کا ابھی جواب نہ دیا تھا کہ دوسرے لڑکے نے بھی بالکل اسی انداز میں یہی سوال کیا.ان بچوں کے اس بلند ارادہ کو دیکھ کر میں حیران ہو گیا اور خیال کرنے لگا کہ بھلا یہ بچے اپنے عہد کو کس طرح پورا کر سکتے ہیں جبکہ ابو جہل قریش کے بڑے بڑے نامی پہلوانوں اور آزمودہ سپاہیوں کے حلقہ میں ہے.تاہم میں نے ان کو ہاتھ کے اشارہ سے ابو جہل کا پتہ دے دیا میرا اشارہ کرنا ہی تھا کہ وہ دونوں نو عمر بچے باز کی طرح جھپٹے اور دشمن کی صفوں کو کاٹتے ہوئے چشم زون میں ابو جہل پر جاپڑے اور اس پھرتی سے اس پر حملہ کیا کہ آن واحد میں اس سرکش انسان کا مغرور سر خاک پر تھا.اور یہ سب کچھ ایسا آنا فاٹا ہوا کہ ابو جہل کے ساتھی دیکھتے ہی رہ گئے.عکرمہ بھی اپنے باپ کے ہمراہ تھے اسے تو وہ نہ بچا سکے مگر ان دونوں میں سے ایک لڑکے یعنی حضرت معاذ پر حملہ آور ہوئے اور تلوار کا ایساوار کیا کہ ان کا ایک بازو کٹ کر لٹکنے لگا.اس قدر شدید زخم کھانے کے باوجود معاذ پیچھے نہیں ہے بلکہ عکرمہ کا پیچھا کیا لیکن وہ بچکر نکل گئے.معاذ نے جنگ بدستور جاری رکھی اور چونکہ کٹا ہو ا ہاتھ لڑنے میں روک ہورہا تھا اس لئے اسے زور کے ساتھ پیچ ۵۸

Page 65

: اُردو کی کتاب سوم : کر الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگے.(بحوالہ مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ ۲۷) الفاظ کے معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں.اخفاء جاں بازی - آفرین - افسردگی - امکان - چشم زدن آزموده - آنِ واحد - سرکش-مغرور- آنا فانا - جرأت و بسالت جوابات لکھیں: (۱) حضرت عبدالرحمن بن عوف کو دوران لڑائی کیوں افسردگی ہوئی ؟ (۲) نوجوان نے عبدالرحمن سے کیا سوال کیا ؟ (۳) بازکون سا پرندہ ہے اور سبق میں اس کی مثال کیوں دی گئی ؟ (۴) ابو جہل کا کیا حشر ہوا ؟ (۵) معاذ نے ہاتھ کٹنے پر کیا کیا ؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) اس سبق کے کچھ حصے کی استاد املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۵۹

Page 66

سبق نمبر : ۱۸ : اُردو کی کتاب سوم : اصحاب صفہ کی حالت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اصحاب صفہ میں سے تھے.یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑے رہتے تھے اور وہیں سوتے تھے.دن کو کچھ مزدوری مل گئی تو کر لی ور نہ خیر.ان لوگوں کے اہل وعیال نہ تھے نہ اُن کے پاس مال تھا نہ کسی کے ذمہ ان کا کھانا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کی کوئی چیز آتی تھی تو ان کو دے دیا کرتے تھے.یہ لوگ آپ کی صحبت میں رہ کر دین کا علم سیکھتے تھے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ خود فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم بعض دفعہ بھوک کے مارے زمین پر پیٹ لگا کر لیٹ جاتا اور بعض دفعہ پیٹ سے پتھر باندھ لیتا تھا.ایک دن میں فاقہ سے تنگ آکر لوگوں کے رستہ میں بیٹھ گیا.چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گذرے میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھا ( وہ آیت یہ تھی: ترجمہ: اور وہ

Page 67

: اُردو کی کتاب سوم : کھانے کو اُس کی چاہت کے ہوتے ہوئے مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.ہم تمہیں محض اللہ کی رضا کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم ہر گز نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ.(الدھر: ۶۷ :9 ) میں نے ابو بکر سے آیت کا مطلب تو اس لئے پوچھا تھا کہ وہ مجھے کچھ کھلا دیں مگر وہ میرے مقصد کو سمجھ نہ سکے اور مطلب بتا کر چل دیئے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ گذرے.میں نے ان سے بھی اسی مطلب کے لئے ایک آیت پوچھی مگر وہ بھی مطلب بتا کر یونہی چلے گئے.اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہیں سے گذرے اور مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میرے دل کی بات اور چہرہ کی حالت سمجھ گئے اور فرمانے لگے اے ابو ہریرہ میں نے کہا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ.فرمایا میرے ساتھ چلو.میں آپ کے پیچھے ہولیا.آپ مجھے گھر میں لے گئے میں نے دیکھا کہ ایک پیالہ دودھ کا وہاں رکھا ہے.آپ نے پوچھا یہ کہاں سے آیا.گھر والوں نے کہا یہ آپ کے لئے ایک عورت تحفہ دے گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ ابو ہریرہ جاؤ سب اصحاب صفہ کو بلا لاؤ.مجھے یہ بات بہت ناگوار گذری اور میں نے خیال کیا کہ اتنا سا تو دودھ ہے کس کس کے پیٹ میں جائے گا.بہتر تو یہ تھا کہ یہ سب مجھے مل جاتا تو ۶۱

Page 68

: اُردو کی کتاب سوم : کچھ سہارا ہو جاتا.اب یہ سب اصحاب صفہ آئیں گے تو میرے لئے خاک بچے گا.مگر خیر میں اٹھا اور سب صفہ والوں کو اندر گھر میں بلالا یا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ اب تم ان سب کو یہ دودھ پلاؤ میں نے وہ پیالہ لیا اور ایک آدمی کو دیا اس نے پیٹ بھر کر دودھ اس میں سے پیا اور پھر وہ پیالہ مجھے واپس دے دیا.میں نے دوسرے شخص کو وہ پیالہ دیا اس نے اپنا پیٹ بھر کر مجھے واپس کیا اسی طرح ایک ایک کر کے میں دیتا جاتا تھا اور وہ لوگ سیر ہوکر مجھے پیالہ واپس کرتے جاتے تھے جب سب پی چکے تو میں نے وہ پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا.آپ اسے ہاتھ میں لے کر مسکرائے اور مجھے سے فرمانے لگے کہ اب فقط تم اور میں باقی رہ گئے ہیں میں نے کہا ہاں یا رسول اللہ.آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور اسے پیو.میں نے تعمیل حکم کی اور جتنی خواہش تھی پی لیا.آپ نے پھر کہا اور پیو.میں نے اور پیا.آپ نے پھر کہا اور پیو میں نے بمشکل اور کچھ پیا اور عرض کیا کہ اب میرے پیٹ میں ذرہ جگہ باقی نہیں رہی.اس پر آپ نے وہ پیالہ خود لے لیا اور بسم اللہ اور الحمد للہ پڑھ کر باقی بچا ہوا نوش فرمالیا.(بحوالہ مضامین حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب حصہ اول صفحہ ۴۴۵) ۶۲

Page 69

اُردو کی کتاب سوم : درج ذیل الفاظ اور ان کے معافی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.فاقہ - ناگوار- سیر ہونا - نوش فرمانا جوابات لکھیں: (۱) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کون تھے ؟ (۲) اصحاب صفہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟ (۳) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آیت کا مطلب کیوں پوچھ رہے تھے؟ (۴) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ کو کیا جواب دیا ؟ (۵) معجزہ کیا ہوتا ہے؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے ایک حصے کی املاء لکھوائے.(۳) سبق کے مضمون کو اپنے الفاظ میں لکھیں.۶۳

Page 70

سبق نمبر : ۱۹ : اُردو کی کتاب سوم : إيثار ایک غزوہ میں حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابو جہل ، حضرت حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ اور حضرت سہیل بن عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے.تینوں جان کنی کی حالت میں تھے اور شدید پیاس محسوس کر رہے تھے.ایسی حالت میں ایک شخص حضرت عکرمہ کے لئے پانی لایا.ظاہر ہے کہ ایسے نازک وقت میں پانی کے چند قطرات ان کے لئے کتنی بڑی قیمتی چیز تھی.عام حالات میں دوسرے کے لئے ایثار کرنا اور اپنے جذبات کو دوسرے کے لئے قربان کر دینا کوئی ایسی مشکل بات نہیں.لیکن جب انسان کو اپنا آخری وقت نظر آرہا ہو اور وہ جانتا ہو کہ اس وقت پانی کا ایک قطرہ میرے لئے آب حیات کا حکم رکھتا ہے اس وقت اپنی حالت کو فراموش کر دینا اور اپنے بھائی کی ضرورت کا احساس کر کے اسے مقدم کرنا کس قدر مشکل کام ہے.اس کا اندازہ ہر شخص بآسانی لگا سکتا ہے.لیکن لاکھوں لاکھ در ود ہوں اس مقدس وجود پر جس نے عرب کے وحشیوں میں جو ایک دوسرے کے ۶۴

Page 71

: اُردو کی کتاب سوم : خُون کے پیاسے تھے ایسا انقلاب عظیم پیدا کر دیا کہ وہ اپنے بھائی کی ضرورت کو دیکھ کر اپنی حالت کو بالکل ہی بھول جاتے تھے.چنانچہ جب پانی حضرت عکرمہ کے پاس لایا گیا تو آپ نے دیکھا کہ سہیل حسرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں.اور آپ کی اسلامی اخوت اور جذبہ ایثار کے لئے یہ چیز نا قابل برداشت ہوگئی کہ خود پانی پی لیں اور آپ کا بھائی پاس ہی پیاسا پڑا ہو.چنانچہ فرمایا کہ پہلے اُن کو پلا ؤ وہ شخص پانی لے کر حضرت سہیل کے پاس پہنچا مگر وہ بھی اسی چشمہ روحانیت سے فیضیاب تھے جس کا ہر اک قطرہ نفسانیت کے لئے موت کا حکم رکھتا تھا.چنانچہ حضرت سہیل کی نظر اس وقت حضرت حارث پر پڑی اور آپ نے دیکھا کہ وہ بھی پانی کو للچائی ہوئی نظروں سے تک رہے ہیں.اس خیال کا آنا تھا کہ آپ کے لئے اس پانی کو اپنے حلق سے اتارنا ناممکن ہو گیا یہ کیونکر ممکن تھا کہ اپنی جان کو اپنے بھائی کی جان سے زیادہ قیمتی سمجھتے اور اسے پیاس کی حالت میں چھوڑ کر خود پانی پی لیتے.چنانچہ پانی لانے والے سے کہا کہ پہلے حضرت حارث کو پلا ؤ وہ پانی لے کر انکے پاس پہنچا نتیجہ یہ ہوا کہ ان تینوں میں سے کوئی بھی پانی نہ پی سکا اور سب نے تشنہ ہی جان عزیز جان آفریں کے سپرد کردی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ : ( بحوالہ مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ۲)

Page 72

اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ کے معانی لکھیں اور انہیں جملوں میں استعمال کریں.ایثار - جان کنی - آب حیات - فراموش - مقدم کرنا - چشمه انقلاب عظیم - فیضیاب - للچائی - تشنہ - جان عزیز - جان آفرین یہ جوابات لکھیں: (۱) تینوں صحابہ کرام کے نام لکھیں جو شہید ہو گئے.(۲) اس واقعہ سے ہمیں کیا سبق ملتا ہے؟ (۳) یہ جذبہ ایثار ان میں کس نے پیدا کیا ؟ (۴) کیا آپ نے بھی کبھی ایثار کا مظاہرہ کیا ہے اپنا واقعہ کوئی لکھیں؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوش خط لکھیں.(۲) استاد اس کی ، یا کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۶۶

Page 73

سبق نمبر (۲۰) : اُردو کی کتاب سوم : اطاعت کا اعلیٰ نمونہ ایک صحابی حضرت سعد الاسود سیاہ رنگ اور کم رو تھے ان کی شکل و شباہت ان کی شادی میں روک تھی اور ان کی ظاہری بدصورتی کی وجہ سے کوئی شخص ان کے ساتھ اپنی لڑکی کے رشتہ پر رضامند نہ ہوتا تھا ایک مرتبہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ کوئی شخص مجھے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کے لئے تیار نہیں ہوتا کیونکہ میری ظاہری شکل وصورت اور رنگ ڈھنگ اچھا نہیں.عمرو بن وہب قبیلہ بنو ثقیف کے ایک نو مسلم تھے جن کی طبیعت میں درشتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد سے فرمایا کہ ان کے دروازہ پر جاکر دستک دو اور بعد سلام کہو کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تمہاری لڑکی کا رشتہ میرے ساتھ تجویز کیا ہے.عمر بن وہب کی لڑکی شکل وصورت کے علاوہ دماغی اور ذہنی لحاظ سے نمایاں حیثیت رکھتی تھی.حضرت سعد ا نکے مکان پر پہنچے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کہا.عمرو بن وہب نے یہ بات سنی تو آپ کے ساتھ سختی سے پیش آئے اور اس تجویز کو ماننے ۶۷

Page 74

اُردو کی کتاب سوم : سے انکار کر دیا لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آگے جو کچھ ہو اوہ اس قدر ایمان پرور بات ہے کہ تمام مذاہب و ملل کی تاریخ اس کی کوئی مثال پیش نہیں کر سکتی.خودلر کی اندر یہ ساری گفتگوسن رہی تھی اس کے باپ نے حضرت سعد کو جو جواب دیا اسے سنکر وہ تو واپس ہو گئے اور اس کے سوا وہ اور کر بھی کیا سکتے تھےلیکن لڑکی خود باہر نکل آئی.حضرت سعد کو آواز دے کر واپس بلایا اور کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ آپ کی شادی کی تجویز کی ہے تو پھر اس میں چوں و چرا کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے یہ تجویز مجھے بسر و چشم منظور ہے اور میں اس چیز پر بخوشی رضامند ہوں جو خدا اور اس کے رسول کو پسند ہے.اور ایمانی جرات سے کام لیکر باپ سے کہا کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز سے اختلاف کر کے بہت بڑی غلطی کی ہے اور بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور قبل اس کے کہ وحی الہی آپ کو رُسوا کر دے اپنی نجات کی فکر کیجئے.لڑکی کی اس ایمان افروز تقریر کا اس کے باپ پر بھی خاطر خواہ اثر ہوا اُن کو اپنی غلطی کا پوری طرح احساس ہو گیا اور فوڑا بھاگے ہوئے دربار نبوی میں پہنچے اور کہا یا رسول اللہ مجھ سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی مجھے سعد کی بات کا یقین نہ آیا تھا اور میں نے خیال کیا کہ وہ یونہی یہ بات کہہ رہے ہیں اس لئے انکار کیا.مگر اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ۶۸

Page 75

: اُردو کی کتاب سوم : ہو چکا ہے اور صدق دل سے معافی کا خواستگار ہوں میں اپنی لڑکی سعد سے بیاہنے کے لئے راضی ہوں.مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ ۱۰۰) مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں، نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں: شکل و شباہت- بدصورتی - دستک- مذاہب وملل جوابات لکھیں: بسر و چشم - جرات - سرزد-خواستگار- درشتی (۱) حضرت سعد الاسود کے رشتہ نہ ہونے کی کیا وجہ تھی ؟ (۲) انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا شکایت کی؟ (۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد کو کیا جواب دیا ؟ (۴) عمرو بن وہب کس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے؟ (۵) لڑکی نے حضرت سعد کو کیا جواب دیا ؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اسکی املا لکھوائے.(۳) طلباء اس کہانی کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۶۹

Page 76

سبق نمبر : ۲۱ : اُردو کی کتاب سوم : جہاد فی سبیل اللہ پچھلے سبق میں آپ نے حضرت سعد الاسود کے بارے میں پڑھا کہ انہیں حصول رشتہ میں سخت مشکلات پیش آئی تھیں اور آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تجویز پر حضرت عمرو بن وہب کی لڑکی نے آپ کے ساتھ رشتہ منظور کر لیا تھا.ہر شخص بآسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ ایک ہمہ صفت منصفہ پاکباز لڑکی کے ساتھ اس قدر تگ و دو اور کوشش کے بعد رشتہ میں کامیابی ان کے لئے کس قدر مسرت کا موجب ہوئی ہوگی.اور کس طرح ان کا دل امنگوں اور آرزؤوں سے لبریز ہوا ہوگا تقریب رخصتانہ کی تکمیل کے سلسلہ میں آپ بیوی کے لئے بازار سے تحائف خریدنے کے لئے نکلے اور عین اس وقت کہ آپ نہایت خوش آئند خواب پورا ہوتا دیکھنے کے سامان فراہم کرنے میں مصروف تھے مناد کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ اے خدا تعالیٰ کے سپاہیو جہاد کے لئے سوار ہو جاؤ اور جنت کی بشارت پاؤ اس آواز کا کان میں پڑنا تھا کہ تمام ولولے سرد پڑ گئے جہاد کا جوش رگوں میں دوڑنے لگا اور نو عروس کے ساتھ شادی کا خیال ہی دل سے نکل گیا اسی روپیہ سے تحائف کی

Page 77

: اُردو کی کتاب سوم : بجائے تلوار نیزہ اور گھوڑ اخرید کیا سر پر عمامہ باندھا اور مہاجرین کے لشکر میں جا کر شامل ہو گئے وہاں سے میدانِ جنگ میں پہنچے اور داد شجاعت دینے لگے.ایک موقعہ پر گھوڑا کچھ اڑا تو نیچے اُتر آئے اور پا پیادہ تیغ زنی کرنے لگے حتی کہ درجہ شہادت پایا.اور نو عروس سے ہم آغوش ہونے کی بجائے عروس شیخ سے ہمکنار ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوخبر ہوئی تو لاش پر تشریف لے گئے آپ کا سر گود میں رکھ لیا اور دعا کی اور تمام سامان مرحوم کی بیوی کے پاس بھجوا دیا.یہ واقعہ کسی حاشیہ آرائی یا تبصرہ کا محتاج نہیں.وہ نوجوان جو خدمت دین کے لئے بلائے جاتے ہیں انہیں اس پر غور وفکر کرتے رہنا چاہئے.مسلم نو جوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ ۲۲)

Page 78

: اُردو کی کتاب سوم : ذیل کے الفاظ اور ان کے معانی لکھیں: حصول رشته تجویز - ہمہ صفت متصله - پاکباز امنگوں - آرزو - لبریز - ولولے - نوعروس-مناد شجاعت- پیاده- تیغ زنی - ہمکنار چہ جوابات لکھیں: :: (۱) منا د نے کیا اعلان کیا ؟ (۲) یہ اعلان سن کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا رد عمل کیا تھا؟ (۳) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شہادت کس طرح ہوئی ؟ (۴) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت کی خبر سنی تو کیا کیا؟ (۵) شہید کے سامان کو کہاں بھجوانے کا حکم دیا؟ مشق :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس سبق کی املاء لکھوائے.(۳) اس ایمان افروز واقعہ کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۷۲

Page 79

سبق نمبر :۲۲ : اُردو کی کتاب سوم : ہجوم مشکلات سے نجات حاصل کرنے کا طریق ذیل میں جو نظم درج کی جاتی ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک صحابی شیخ محمد بخش رئیس کڑیا نوالہ ضلع گجرات کو لکھ کر عطا فرمائی تھی جبکہ وہ سخت مالی مشکلات میں مبتلا تھے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعا کے طفیل ان کی تکالیف دور کر دیں : اک نہ اک دن پیش ہوگا تو فنا کے سامنے چل نہیں سکتی کسی کی کچھ قضا کے سامنے چھوڑنی ہوگی تجھے دُنیائے فانی ایک دن ہر کوئی مجبور ہے حکم خدا کے سامنے مستقل رہنا ہے لازم اے بشر تجھ کو سدا نج و غم پاس و الم فکر و بلا کے سامنے بارگاہِ ایزدی سے نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل گشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے ۷۳

Page 80

: اُردو کی کتاب سوم : چاہئے تجھ کو مٹانا قلب سے نقش دُوئی سر جھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے چاہئے نفرت بدی سے اور نیکی سے پیار ایک دن جانا ہے تجھ کو بھی خدا کے سامنے راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے (از در همین صفحه ۱۹۳) الفاظ اور ان کے معانی لکھیں اور انہیں جملوں میں استعمال کریں.قضا- یاس- ائم - بارگاہ ایزدی- مشکل گشا-حاجت روا- دُوئی- راستی لعلِ بے بہا.فنا چہ جوابات لکھیں: (۱) یہ ظلم کس غرض کے لئے لکھی گئی ؟ (۲) اس نظم کے لکھنے کے بعد کیا اثر ہوا ؟ :: تمرین :: (۱) اس نظم کو زبانی یاد کریں اور لکھیں.(۲) اس نظم کی نشر کریں.۷۴

Page 81

سبق نمبر : ۲۳ : اُردو کی کتاب سوم : لي ضي عنه ظا حضرت خباب پر علم حضرت خباب شروع اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے یہ ایک عورت کے غلام تھے.اور لوہار کا کام کیا کرتے تھے ان کو بھی خدا کے راستہ میں سخت تکلیفیں دی جاتی تھیں.سب سے پہلے گھر سے باہر کے لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے وہ یہ ہیں.حضرت ابو بکر، خباب، صہیب ، بلال، عمار، عمار کی والدہ اور والد.حضرت ابو بکڑ کے سوا باقی یہ لوگ یا تو غلام تھے یا پیشہ ور تھے.اور تھے بھی ادنی درجے کے اس لئے ان پر بڑے بڑے ظلم توڑے جاتے تھے.ان کو لوہے کی زرہیں پہنائی جاتی تھیں اور چلچلاتی دھوپ میں لٹا یا جاتا تھا اور ان پر پتھر رکھے جاتے.گلے میں رسیاں باندھ کر زمین پر گھسیٹا جاتا لوہا گرم کر کے بدن کو داغ دئے جاتے مگر یہ لوگ استقلال سے اسلام پر قائم تھے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے تنگ آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی.آپ کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پر لیٹے تھے.ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہمارے لئے خدا سے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟ ۷۵

Page 82

: اُردو کی کتاب سوم : آپ یہ سن کر اُٹھ بیٹھے.آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمانے لگے تم سے پہلی امتوں میں جو ایمان والے گذر چکے ہیں ان کی تو یہ حالت تھی کہ ایک کو پکڑ کر زمین کھود کر آدھا گاڑ دیتے تھے اور پھر آراہ سے اُسے لکڑی کی طرح چیر ڈالتے تھے مگر وہ اپنے دین پر قائم رہتے تھے اور کسی کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے ادھیڑا جاتا تھا اور وہ کنگھیاں اس کی ہڈیوں تک پہنچ جاتی تھیں.مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے.یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو بھی یقیناً غلبہ دے گا یہاں تک کہ ایک سوار عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک چلا جائے گا اور ایسا امن ہوگا کہ اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہوگا.اور یہ جو بھیڑیے (انسان ) تم کو نظر آتے ہیں یہ بکریوں کی حفاظت کریں گے مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خباب کی دکان پر کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے.جب خباب کی مالکہ کو یہ خبر ماتی تو وہ لوہا گرم کر کے ان کے سر پر رکھا کرتی.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حال سنایا.حضور نے دُعا کی کہ اے اللہ خباب کی مدد کر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خباب کی مالکہ کے سر میں ایسی مرض پیدا ہو گئی کہ وہ کتوں کی طرح بھونکتی رہتی تھی.حکیموں نے یہ نسخہ تجویز کیا کہ اس کے سر پر داغ دیئے جائیں چنانچہ خباب

Page 83

: اُردو کی کتاب سوم : بھی لوہا گرم کر کے اس کے سر کو داغ دیتے رہتے تھے.یہ خدائی انتقام تھا.حضرت عمر نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک دن ان سے پوچھا کہ اے خباب سناؤ تمہیں مکہ کے کافروں سے کیا کیا تکالیف پہنچا کرتی تھیں.خباب.بولے اے امیر المؤمنین میری پیٹھ دیکھ لو.حضرت عمر نے دیکھ کر کہا کہ میں نے آج تک ایسی پیٹھے کسی کی نہیں دیکھی.خباب کہنے لگے کہ آگ روشن کی جاتی تھی اور اس دہکتی آگ پر وہ لوگ مجھے لٹا دیتے تھے اور پکڑ کر دبائے رکھتے تھے یہاں تک کہ میری چربی پگھل کر آگ کو بجھا دیتی تھی.اب اے پڑھنے والے یہ حال سن کر سچ سچ بتا نا کہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام زبر دستی اور تلوار کے زور سے پھیلا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جبراً مسلمان بناتے تھے آیا یہ اعتراض ٹھیک ہے ؟ تم فورا بول اٹھو گے کہ ہرگز نہیں.حقیقت یہی ہے کہ جوشخص بھی مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے دل کی محبت سے اور خدا پر ایمان لاکر مسلمان ہوتا تھا کیا خباب جیسے لوگ زبر دستی مسلمان کئے جاسکتے تھے؟.( بحوالہ مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ جلد اول صفحه ۵۰۵) LL

Page 84

اُردو کی کتاب سوم : الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں.پیشہ ور - استقلال- دھکتی آگ - جبریہ چہ جوابات لکھیں: (۱) حضرت خباب کیا کام کرتے تھے؟ (۲) غلام کیا ہوتا ہے تفصیل سے لکھیں؟ (۳) مسلمانوں پر کس طرح ظلم کئے جاتے تھے ؟ (۴) مظلوم مسلمانوں نے حضور سے کیا درخواست کی؟ (۵) خباب کی مالکہ کو کیا سزا ملی؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصے کی املا لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں.LA

Page 85

سبق نمبر : ۲۴ اُردو کی کتاب سوم : سچ کی برکت ۱۸۷۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف امرتسر کے عیسائی رلیا رام وکیل نے ایک مقدمہ دائر کیا جس کی تفصیل حضور نے کچھ اس طرح تحریر فرمائی ہے : اس عاجز نے اسلام کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رکیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا.چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں اسلام کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقا اس کو دشمنانہ حملہ کیلئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانونا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع تھی اور ایسے مُجرم کی سزا میں قوانین ڈا کٹھانہ کی رُو سے پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے.سواس نے مخبر بن کر افسران ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کر دیا.اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو.رویا میں اللہ تعالیٰ نے 29

Page 86

: اُردو کی کتاب سوم : میرے پر ظاہر کیا کہ ”رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح تل کر واپس بھیج دیا ہے.میں جانتا ہوں ،، کہ سید اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آسکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا.رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تسلی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں.مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑ نا نہیں چاہتا.جو ہوگا سو ہوگا.تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا.اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا کہ کیا یہ خط تم نے.اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا؟ اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے ؟ جب میں نے بلا تو قف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ ۸۰

Page 87

: اُردو کی کتاب سوم : کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا.مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے کچھ علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا ور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر میں سمجھتا تھا کہ ہر یک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نونو (No-NO) کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجالایا جس نے ایک افسر انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اُس بلا سے مجھ کو نجات دی.میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اُتارنے کے لئے ہاتھ مارا میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اُس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا کہ خیر ہے خیر ہے.“ (روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۹۷ آئینہ کمالات اسلام ) غور فرمائیے ! اس مقدمہ میں آپ کے لئے کتنا سخت امتحان تھا.اگر آپ کی ΔΙ

Page 88

اُردو کی کتاب سوم : جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید اس مشکل امتحان میں ثابت قدم نہ رہ سکتا.مگر آپ جو صداقت مجسم تھے اپنے موقف پر نہایت استقلال کے ساتھ قائم رہے اور اپنے وکلاء کے مشورہ کو قبول نہ فرما کر عدالت میں صحیح صحیح بیان دیا.الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں.مطبع - بطلان - افروختہ نظبر - بجز - دروغ گوئی - راستی جوابات لکھیں: اظہار دینا.رہائی.مدعی.بلا توقف-محصول- نج کی بات (۱) یہ مقدمہ کس سنہ میں اور کس جگہ دائر کیا گیا؟ (۲) جو جرم عائد کیا گیا تھا اس کی تفصیل لکھیں.(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وکیل نے کیا مشورہ دیا.(۴) حاکم عدالت نے حضور سے کیا سوال کیا ؟ (۵) حضور کا کیا جواب تھا؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط اپنی کاپی میں لکھیں.(۲) استاد املا لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں.(۴) پنجاب کا ایک نقشہ بنا کر قادیان، گورداسپور اور امرتسر کی نشاندہی کریں.۸۲

Page 89

سبق نمبر : ۲۵ : اُردو کی کتاب سوم : حقیقت معلوم کرنے کا انوکھا طریق ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ایک شخص کی دو بیویاں تھیں اور دونوں کا ایک ایک بیٹا تھا.ایک کی عمر تقریبا چھ ماہ دوسرے کی آٹھ ماہ ہوگی.وہ دونوں بچوں سے بہت محبت کرتا تھا.وہ ایک طویل سفر پر جا رہا تھا اس لئے دونوں بیویوں کو تاکید کی کہ بچوں کا خاص خیال رکھیں کیونکہ وہ جس جگہ رہائش پذیر تھا وہ جنگل کا علاقہ تھا اور جنگل میں خونخوار درندوں کی بہتات تھی.اس آدمی کے روانہ ہونے کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ ایک دن بڑی بیوی کے لڑکے کو خونخوار بھیٹر یا اٹھا کر لے گیا اس بڑی بیوی نے فورا چھوٹی بیوی کا لڑکا گود میں اٹھالیا اور کہنے لگی یہ میرا بیٹا ہے، تیرے مٹے کو بھیٹر یا اٹھا کر لے گیا ہے چھوٹی بیوی چیختی چلاتی رہی کہ یہ میرا بیٹا ہے مگر اُس کی کوئی نہیں سن رہا تھا.کوئی گواہ بھی نہ تھا جس نے یہ منظر دیکھا ہو.یا دونوں بچوں کو پہچانتا ہو.جب یہ جھگڑا کسی طرح بھی حل ہوتا نظر نہ آیا تو چھوٹی بیوی حضرت b داؤد علیہ السلام (۱۰۳۷-۹۷۰ ق م) کے پاس فریاد لے کر گئی اور بچہ دلوانے کی ۸۳

Page 90

: اُردو کی کتاب سوم : التجا کی.حضرت داؤد علیہ السلام نے پورا واقعہ اور دونوں کے بیانات سننے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ یہ بچہ بڑی بیوی کا ہی ہے.جب وہ دونوں فیصلہ سن کر دربار سے لوٹ رہی تھیں تو حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام ملے.چھوٹی نے فریاد کی کہ مجھے انصاف نہیں ملا.میرے ساتھ ظلم ہوا ہے.مجھ مظلومہ کو انصاف دلوائیے.حضرت سلیمان علیہ السلام نے تمام حالات سننے کے بعد فرمایا میں اس تنازعہ کا فیصلہ ابھی کرتا ہوں.ایک چھری منگوا تا ہوں اور بچے کے دو ٹکڑے کر کے آدھا بڑی کو دے دیتا ہوں اور آدھا چھوٹی کو.چھوٹی بیوی جو بچے کی حقیقی ماں تھی یہ سنتے ہی تڑپ اُٹھی اور کہنے لگی اللہ آپ پر رحم کرے ایسا نہ کیجئے یہ بچہ بڑی بیوی کو ہی دے دیجئے یہ اُسی کا ہے میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوتی ہوں.بڑی بیوی خاموش کھڑی رہی.اس منظر اور دونوں کے رد عمل سے حضرت سلیمان علیہ السلام حقیقت حال سمجھ گئے اور بچہ چھوٹی بیوی کے سپر د کر دیا کیونکہ آپ نے دیکھا کہ اُس کی حقیقی اور سچی ماں یہ برداشت ہی نہ کر سکی کہ اس کا بچہ اس کی نظروں کے سامنے دوٹکڑے کر دیا جائے اس لئے بے ساختہ شیخ اٹھی یہ بچہ بڑی کا ہے اُسی کو دے دو.اور بڑی بیوی کی خاموشی یہ بتا رہی تھی کہ اگر بچہ دوٹکڑے ہو جائے تو اُسے کوئی پرواہ نہیں.اور حقیقی ماں یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتی.۸۴

Page 91

: اُردو کی کتاب سوم : ہ ذیل کے الفاظ اور ان کے معانی لکھیں اور جملوں میں استعمال جوابات لکھیں: انوکھا.گذشتہ-فریاد- التجا- تنازعہ- دستبردار حقیقت حال- درندے.پرندے.چرند (1) اس سبق سے آپ کو کیا نصیحت ملتی ہے؟ (۲) آدمی نے بیویوں کو بچوں کا خاص خیال رکھنے کی کیوں تاکید کی تھی؟ (۳) داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام میں کیا رشتہ ہے؟ (۴) فیصلہ سن کر چھوٹی بیوی اپنے مطالبے سے کیوں دستبردار ہو گئی ؟ (۵) بڑی بیوی کی خاموشی سے کیا ظاہر ہوتا تھا؟ :: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کی املاء لکھوائے.(۳) طلباء اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.۸۵

Page 92

سبق نمبر : ۲۶ : اُردو کی کتاب سوم : اید پسن EDISON ۱۹۳۱-۱۸۴۷ عصر حاضر کی ایجادات کے موجدین میں سے ایڈیسن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے.وہ امریکہ کے ایک غریب گھرانے کا نو جوان تھا جو ۱۸۴۷ء میں پیدا ہوا.اس کے والدین انتہائی غریب و نادار تھے.گزر بسر بڑی مشکل سے ہوتی تھی.اسی فقر و فاقہ نے ایڈیسن کو بچپن سے ہی اخبار بیچنے پر مجبور کر دیا.روزانہ پریس سے اخبار خرید لیتا اور ریلوے اسٹیشن پر فروخت کرتا اور جب گاڑی آتی اُس پر سوار ہو کر اُس میں فروخت کرتا اور جہاں گاڑی رکتی اس اسٹیشن پر بھی اخبار فروخت کرتا.اخبار فروخت کرنے کے ساتھ اُسے بجلی کی تاروں اس کے آلات اس کے نظام پر غور کرنے اور دیکھنے کا بھی بہت شوق تھا.ایک روز اپنے معمول کے مطابق وہ اسٹیشن پر اخبارات فروخت کر رہا تھا کہ اچانک اُس نے دوسال کے ایک بچے کو دیکھا جو کہ ریلوے پٹڑی پار کرنے لگا تھا کہ اس اثنا میں دوسری طرف ۸۶

Page 93

: اُردو کی کتاب سوم : سے ایک تیز رفتار مال گاڑی آگئی.ایڈیسن نے فورا وقت کی نزاکت کو محسوس کر لیا.اُس نے بچے کی طرف تیز دوڑ لگائی اور اُسے باز کی طرح اُچک کر دوسری طرف پار ہو گیا مگر اس کوشش میں اس کی ایڑی شدید زخمی ہوگئی.یہ بچہ ایک مالدار اسٹیشن ماسٹر کا تھا اس نے ایڈیسن کو کوئی بڑا انعام دینا چاہا اور اس نے ایڈیسن سے اس بارے میں پوچھا ایڈیسن نے جواب میں کہا کہ مجھے بجلی کے بارے میں علم کے حصول کا شوق ہے.چنانچہ اُس متمول انسان نے اس کی تعلیم کے تمام اخراجات خوشی خوشی برداشت کئے اور اس نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے علم حاصل کیا اور ایسی ایجادات کیں جو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی.اس کی ایجادات میں سے بجلی کا بلب اور فونوگراف قابل ذکر ہیں.ان سے مخلوق خدا کو بے انتہا فائدہ ہوا.ہر گھر میں رات کو جلنے والا بلب ایڈیسن ہی کا مرہون منت ہے.بہر حال ہر انسان کی طرح اُسے بھی ایک دن اس دُنیا سے جانا تھا.چنانچہ ۱۹۳۱ء میں وہ اس جہانِ فانی سے اپنی یادیں پیچھے چھوڑتا ہوا ہمیشہ کے لئے کوچ کر گیا.AL

Page 94

: اُردو کی کتاب سوم : الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں جوابات لکھیں: تعارف- گزر بسر - اثنا.وقت کی نزاکت - متمول جاں فشانی- ایجادات- مرہون منت.جہانِ فانی (1) ایڈیسن کہاں کا رہنے والا تھا ؟ (۲) وہ اخبار کیوں بیچتا تھا؟ (۳) اُس نے بچے کو پٹڑی پر دیکھا تو کیا کیا ؟ (۴) متمول آدمی نے اس کو کیا بدلہ دیا ؟ (۵) ایڈیسن کی ایجادات میں سے کچھ کا ذکر کریں؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاداس کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں اور بیان کریں.ΑΛ

Page 95

سبق نمبر : ۲۷) اُردو کی کتاب سوم : قادیان میں فونوگراف سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی عالمگیر اشاعت کا مقصد لے کر مبعوث ہوئے تھے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ نشر واشاعت کے کام میں مدد دینے والی اکثر و بیشتر اہم ایجادوں کا زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور حیات (۱۸۳۵ - ۱۹۰۸ء) کے گرد چکر لگاتا ہے.ان میں سے ہر ایک ایجاد ایسی ہے جس کا وجود حضرت مسیح موعود کے بین الاقوامی مشن کو فروغ دینے کے لئے از بس ضروری تھا ان ایجادات میں سے ایک فونوگراف ہے جس کی ایجاد۱۸۷۷ء میں ایڈیسن نے کی مگر ہندوستان آئے ہوئے اسے چند سال ہوئے ہوں گے کہ حضور سے مخلص اور جماعت کی ایک برگزیدہ ہستی حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے فونو گراف خریدا.حضرت اقدس کو اکتوبر ۱۹۰۱ء میں اس کی اطلاع ہوئی.حضور جو دُنیا میں اپنی آواز پہنچانے کی صبح و شام نئی نئی راہیں سوچتے تھے بہت خوش ہوئے.....نو نوگراف کا تجربہ کرنے کے لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ جب وہ قادیان آئیں تو فونوگراف ساتھ ۸۹

Page 96

: اُردو کی کتاب سوم : لیتے آویں.چنانچہ وہ وسط نومبر ۱۹۰۱ء میں حضور کی خدمت میں لائے اور ۱۵ نومبر ۱۹۰۱ء کو نماز عصر کے بعد اس کے ریکارڈ سنائے اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی دوسلنڈروں میں آواز ریکارڈ کی.قادیان میں فونوگراف کا چرچا ہوا تو دوسرے لوگوں میں بھی اس کے دیکھنے کی بڑی خواہش ہوئی.قادیان کے آریہ سماجی لالہ شرمیت رائے کو تو اس قدر اشتیاق ہوا کہ انہوں نے براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی درخواست کردی.یہ ۲۰ نومبر ۱۹۰۱ء کا واقعہ ہے.حضور نے نماز ظہر کے وقت حضرت نواب صاحب سے اس کا تذکرہ فرمایا تو نواب صاحب نے اس کی بخوشی اجازت دے دی.ان لوگوں کا فونوگراف دیکھنا تو محض تماشائی کے رنگ میں تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسے تبلیغ کا ایک بھاری ذریعہ بنالیا اور وہ یوں کہ حضور نے چند منٹوں میں خاص اس تقریب کے لئے ایک لطیف اور تبلیغی نظم کہی جس کے ابتدائی دو شعر یہ تھے.آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے ڈھونڈ و خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دل پاک وصاف سے کم تر نہیں یہ مشغلہ بہت کے طواف سے

Page 97

اُردو کی کتاب سوم : حضرت اقدس کی ہدایت کے تحت مولا نا عبد الکریم صاحب رضی اللہ عنہ نے یہ ظلم اور اس کے علاوہ عجب نوریست در جانِ محمد کے مصرعہ والی مشہور نظم اور قرآن مجید کی چند آیات پڑھیں نیز حضور کی ایک فارسی نظم کے چند اشعار منشی نواب خان صاحب ثاقب آف مالیر کوٹلہ نے پڑھے جو فونوگراف میں محفوظ کر لئے گئے.یہ تیاری مکمل ہو چکی تو ساڑھے چار بجے کے قریب حضرت اقدس علیہ السلام کے بالا خانہ کے صحن میں فونوگراف رکھ دیا گیا.حضرت اقدس کی طرف سے تحریری اطلاع ملنے پر نہ صرف لالہ شرمپت رائے اور آریہ سماج کا سیکرٹری بلکہ دوسرے اور ہندو اور مسلمان کثیر تعداد میں پہنچ گئے.لالہ شرمیت رائے کو فونوگراف کے قریب بٹھایا گیا.فونوگراف نے سب سے پہلے مالیر کوٹلوی کے لب ولہجہ میں اشعار سنائے پھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی سریلی آواز سے حضرت اقدس کی تازہ اور قدیم نظم نشر ہوئی.حضرت اقدس کی تازہ نظم دوبارہ سنائی گئی اور دونوں مرتبہ جماعت کے بزرگوں کے چہرے خوشی سے تمتما اُٹھے اور ان پر ایک وجد کی سی کیفیت طاری رہی مگر لالہ شرمپت رائے اور دوسرے غیر مسلموں کا رنگ بالکل فق ہو جاتا تھا.بہر حال حضرت اقدس نے تبلیغ اسلام کا حق ۹۱

Page 98

: اُردو کی کتاب سوم : ادا کر دیا اور یہ تجربہ تبلیغی نکتہ نگاہ سے نہایت درجہ کامیاب ثابت ہوا.آخر میں قرآن شریف مولانا عبد الکریم صاحب کی زبان سے سنایا گیا اور یہ جلسہ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے دنیا میں پہلا جلسہ تھا برخاست ہوا.(بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ ۱۹۲) ذیل کے الفاظ اور اُن کے معانی لکھیں نیز انہیں جملوں میں استعمال کریں: عالمگیر اشاعت.نشر واشاعت.فروغ بین الاقوامی برگزیدہ ہستی.چہرے تمتما اٹھے چه جوابات لکھیں: (1) فونوگراف خرید نے اور قادیان لانے والے صحابی کا نام لکھیں.(۲) لاله شرمیت رائے نے کیا درخواست کی؟ (۳) فونوگراف سے نظم سننے کے بعد ان کا تاثر کیا تھا؟ (۴) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فونوگراف سے کیا فائدہ اُٹھایا ؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد کچھ حصے کی املاء لکھوائے.(۳) اس سبق کو اپنے الفاظ میں لکھیں.۹۲

Page 99

سبق نمبر : ۲۸ : اُردو کی کتاب سوم : آواز آرہی ہے یہ فونوگراف سے آواز آرہی ہے یہ فونو گراف سے ڈھونڈ و خُدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے جب تک عمل نہیں ہے دلِ پاک وصاف سے کم تر نہیں یہ مشغلہ بُت کے طواف سے باہر اگر نہیں دل مردہ غلاف سے حاصل ہی کیا ہے جنگ و جدال و خلاف سے وہ دین ہی کیا ہے جس میں خدا سے نشاں نہ ہو تائید حق نہ ہو مَدَدِ آسماں نہ ہو مذہب بھی ایک کھیل ہے جب تک یقیں نہیں جو ٹور سے تہی ہے خدا سے وہ دیں نہیں ۹۳

Page 100

: اُردو کی کتاب سوم : دین خدا وہی ہے جو دریائے نور ہے جو اس سے دُور ہے وہ خدا سے بھی دور ہے دین خدا وہی ہے جو ہے وہ خدا نما کس کام کا وہ دیں جو نہ ہووے گرہ کشا جن کا یہ دین نہیں ہے نہیں اُن میں کچھ بھی دم دُنیا سے آگے ایک بھی چلتا نہیں قدم وہ لوگ جو کہ معرفت حق میں خام ہیں بت ترک کر کے پھر بھی جوں کے غلام ہیں دار کا دریا در کا (از در همین صفحه ۵۱) الفاظ اور اُن کے معانی لکھیں اور انہیں جملوں میں استعمال کریں.لاف و گزاف-مشغلہ-غلاف- جدال- تہی-خدا نما- گرہ کشا :: تمرین :: (1) اس نظم کی نثر لکھیں.(۲) استاد کچھ اشعار زبانی لکھوائے.۹۴

Page 101

سبق نمبر ۲۹: اُردو کی کتاب سوم : کھیتوں کی سیر (الدَّرَجَةُ الْمُمَهَدَة ( کے طلباء نے موسم بہار کے آخر میں اپنے استاد کے ساتھ پنجاب کے کھیتوں کی سیر کی استاد و طلباء میں جو گفتگو ہوئی وہ درج ذیل ہے: استاد استاد : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے: ( ترجمہ ) ہم ایک بنجر زمین کی طرف پانی ہانک کر لے جاتے ہیں.پھر اس پانی کے ذریعہ کھیتی نکالتے ہیں جس سے اُن کے جانور بھی کھاتے ہیں اور خود وہ بھی کھاتے ہیں.“ چلتے چلتے ہم گندم کے کھیت کے پاس پہنچ گئے جو انتہائی سرسبز تھا اور بالیاں نکل رہی تھیں.یہ گندم کا کھیت ہے.گندم ماہ اکتوبر نومبر میں بوئی جاتی ہے اور اپریل میں کائی جاتی ہے.اس کا بیج کھیت میں بکھیر دیا جاتا ہے گندم کے کھیت کو تین چار بار ہی سیراب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح دھان (جس سے چاول نکلتا ہے) ماہ جون جولائی ۹۵

Page 102

طالب علم استاد : : اُردو کی کتاب سوم : میں بویا جاتا ہے.دونوں کے بونے میں فرق یہ ہے کہ ، دھان کے پیج پہلے ایک جگہ بوئے جاتے ہیں اور جب اس کے پودے ایک بالشت کے قریب ہو جاتے ہیں تو انہیں اکھاڑ کر دوسرے کھیت میں ایک ایک بالشت کے فاصلے پر لگایا جاتا ہے.دھان کے کھیت میں ہر وقت پانی کھڑا رہنا چاہئے تب ہی فصل عمدہ ہوتی ہے.اس کھیت میں کیا بویا گیا ہے؟ ساتھ کے کھیت میں سبزیاں بوئی گئی ہیں.یہ کدو کا کھیت ہے اس کھیت میں بھنڈی توری بوئی گئی ہے.اگلے کھیت میں آپ بینگن دیکھ رہے ہیں.آگے والے کھیت میں کریلے بوئے گئے ہیں.اس کھیت میں آپ چھوٹی چھوٹی منڈیروں پر خربوزے لکڑی کھیرے کے چھوٹے چھوٹے پودے دیکھ رہے ہیں.وہ دیکھیں دریائے بیاس کے کنارے تربوز بوئے جار ہے ہیں.یہ سب مئی جون میں بازار میں بکنے آجائیں گے.طالب علم : اس کھیت سے کسان زمین کھود کر کیا نکال رہا ہے؟ ۹۶

Page 103

استاد : : اُردو کی کتاب سوم : کسان زمین کھود کر گاجریں نکال رہا ہے جسے دھو کر ہم کچا اور پکا کر کھاتے ہیں.اسی طرح مولی بھی زمین کے اندر ہوتی ہے جوا کھاڑ کر نکالی جاتی ہے.طالب علم : موسم گرما کی سبزیوں کے بارے میں تو آپ نے بتا دیا موسم سرما کی سبزیاں بھی بتادیجئے.استاد : قادیان کے گرد و نواح میں درج ذیل سرمائی سبزیاں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں.آلو ، گوبھی ،مٹر ، پالک ٹماٹر ، شلجم،سرسوں کا ساگ.طالب علم : اب سبزیوں کا ذکر ہوا ہے تو یہ بھی بتا دیں کہ ان کا سالن پکانے کے لئے اس میں مزید کیا ڈالا جاتا ہے؟ استاد پیاز ، لہسن ، خشک یا ہرا دھنیا ، ادرک ،سبز یعنی ہری اور سُرخ یعنی لال مرچ اسی طرح کالی مرچ، زیرہ وغیرہ مسالے بھی ڈالے جاتے ہیں.ہندوستان کے بعض علاقوں میں املی، پودینہ بھی سالن میں ڈالا جاتا ہے.۹۷

Page 104

طالب علم استاد : اُردو کی کتاب سوم : آج کل کھانے میں سلا دکھانے کا بہت رواج ہو گیا ہے یہ کن سبزیوں سے بنایا جاتا ہے؟ جی ہاں صحت کے لئے سلا دکھانا بہت مفید ہے.یہ عام طور پر کھیرا، گاجر، مولی، پودینہ، پیاز وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر بنایا جاتا ہے.طالب علم : استاد عالی جناب ! اس کسان کو دیکھئے ٹریکٹر سے کھیت استاد میں ہل چلا رہا ہے.جی ہاں ، اب کھیتوں میں کام کرنا آسان ہو گیا ہے.پہلے بیل جوت کر ہل چلایا جاتا تھا جس میں بہت محنت کرنی ہوتی تھی اب ٹریکٹر کے ذریعہ یہ کام آسان ہو گیا ہے.پہلے کسان ہاتھ سے گندم اور دھان کی فصل کاٹتا تھا مگر اب مشینیں یہ کام کرتی ہیں.اسی طرح سینچائی اور آبپاشی کے طریق بدل گئے ہیں.اب جگہ جگہ زمین سے پانی نکالنے والے پمپ لگ گئے ہیں جو بھلی اور ڈیزل سے چلتے ہیں.۹۸

Page 105

: اُردو کی کتاب سوم : مندرجہ ذیل الفاظ اور ان کے معانی لکھیں نیز جملوں میں استعمال کریں جوابات لکھیں: -: بنجر - بالیاں - سیراب - بالشت - آبپاشی (1) گندم کس ماہ میں بوئی کائی جاتی ہے؟ (۲) دھان کو بونے ولگانے کا طریق کیا ہے؟ (۳) موسم گرما کی سبزیاں لکھیں.(۴) موسم سرما کی سبزیاں لکھیں.(۵) آبیاری کے قدیم وجدید طریق لکھیں.:: تمرین :: (۱) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) استاد اس کے کچھ حصے کی املا لکھوائے.(۳) آپ بھی کسی رخصت کے دن سیر کا منصوبہ بنائیں اور سیر کے حالات لکھیں.٩٩

Page 106

سبق نمبر : ۳۰ : اُردو کی کتاب سوم : باغ کی سیر کھیتوں کی سیر کے بعد ہم ایک بہت بڑے باغ میں داخل ہو گئے.جس میں آم، جامن، شہتوت، انار، امرود سنترے، کھجور، کے بڑے بڑے درخت تھے.استاد لب علم : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں باغات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : ( ترجمہ ) اور ہم نے آسمان سے ایک اندازہ کے مطابق پانی اُتارا پھر اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اُس کے اٹھا لینے پر بھی قادر ہیں.پھر ہم نے تمہارے لئے اس سے باغات بنائے کھجور کے بھی اور انگوروں کے بھی ان میں تمہارے لئے بہت پھل پیدا کئے گئے ہیں اور اُن سے تم کھاتے ہو.“ (المؤمنون : ۲۳-۱۹) درختوں کے بارے میں ہمیں کچھ بتا ئیں.

Page 107

استاد : اُردو کی کتاب سوم : آپ دیکھ رہے ہیں کہ درخت کا ایک حصہ زمین کے اندر ہے اُسے جڑ کہا جاتا ہے.درخت جڑ کے ذریعہ زمین سے پانی حاصل کرتے ہیں.درخت کا جو حصہ زمین کے اوپر ہوتا ہے اُسے تنا کہا جاتا ہے.تنے سے شاخیں اور ٹہنیاں پھوٹتی ہیں.شاخوں سے کونپل اور شگوفے نکلتے ہیں.طالب علم : درختوں پر پھل کیسے لگتے ہیں؟ استاد : یہ آم کا درخت ہے.فروری میں اس پر پھول لگیں گے.جسے مقامی زبان میں بُور کہا جاتا ہے پھر اس میں چھوٹے چھوٹے آم لگیں گے جو رفتہ رفتہ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں.ماہ جولائی اگست میں یہ پک کر کھانے کے قابل ہو جاتے ہیں.پنجاب میں آم کو پھلوں کا راجا کہا جاتا ہے.جامن اور امرود کے درختوں کو بھی پہلے پھول اور پھر پھل لگتے ہیں.طالب علم : یہ درخت کس چیز کا ہے؟ اس کا تنا بھی باقی درختوں کے تنوں سے مختلف ہے ایسا کیوں ہے؟ 1+1

Page 108

: : اُردو کی کتاب سوم : استاد یہ کھجور کا درخت ہے جس کے پھلوں کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے.کھجوریں زیادہ تر عرب اور ریگستانی علاقے میں ہوتی ہیں.اکتوبر میں یہ درخت پر پکنا شروع ہوتی ہیں.پنجاب میں ان کی پیدا وار کم ہے.طالب علم : یہ بڑی بڑی بیلیں کس پھل کی ہیں؟ استاد : یہ انگور کی بیلیں ہیں.آپ نے دیکھا کہ آم ، امرود ، جامن کے درختوں کا تنا سیدھا اور مضبوط ہوتا ہے.مگر انگور کی بیل مضبوط نہیں ہوتی.اُسے کسی دوسری لکڑی کے سہارے سے باندھ دیا جاتا ہے.انگور بہت ہی لذیذ اور میٹھا پھل ہے.عزیز طلباء!! کچھ درختوں کے پھل ہم کھاتے ہیں جیسے: آم، جامن، انگور کھجور ، وغیرہ.کچھ پودوں کے پتے ہم کھاتے ہیں جیسے: پالک ، سرسوں کا ساگ ، باتھو وغیرہ.کچھ پودوں کے تنے ہم چوستے ہیں جیسے گنا ۱۰۲

Page 109

طلباء : اُردو کی کتاب سوم : کچھ پودوں کی جڑیں ہم کھاتے ہیں جیسے: مولی ، گاجر ، شلجم، شکر قندی و غیره اکثر پودوں کے دانے ہم کھاتے ہیں جیسے : گندم ، مکئی ، چاول، جوار، بو وغیرہ.اس سیر سے ہمیں بہت فائدہ ہوا.ان پھلوں اور سبزیوں درختوں اور پودوں کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جن کے بارے میں اب تک کتابوں میں پڑھتے یا سنتے تھے.چہ جمع کی واحد لکھیں: پودے.جڑیں.شاخیں.پتے.بیلیں.سبزیاں- اشجار- انتثمار چہ جوابات لکھیں: (1) جڑ کسے کہتے ہیں؟ (۲) تنا کسے کہتے ہیں؟ (۳) گنے سے کیا بنتا ہے؟ (۴) جڑ کے ذریعہ پودا کیا حاصل کرتا ہے؟ :: تمرین :: (1) اس سبق کو خوشخط لکھیں.(۲) آپ بھی باغ کی سیر کریں اور تمام کو ائف وحالات قلمبند کریں.۱۰۳

Page 110

: اُردو کی کتاب سوم : سید نا حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا گرانقدر مکتوب خاکسار نے جامعہ احمدیہ میں نئے داخل ہونے والے طلباء کے لئے (۱) اُردو کی کتاب اول اور (۲) اُردو کی کتاب دوم مرتب کیں اور اسے بغرض دُعا اپنے پیارے محبوب آقا سید نا حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں بھجوایا تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت درج ذیل جواب مرحمت فرمایا :- وامل عن من لدنا تلقا لميرا أنا كما لك لما فيها سم الله اليوم العالم لشتله وتصلى على رسوله الكريم وعلى عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ والتامر لندن 27-9-2008 مکرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ قادیان السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ آپ کی طرف سے اُردو کی پہلی اور دوسری کتابیں ملی ہیں.ماشاء اللہ آپ نے بہت اچھی کوشش کی ہے.اُردو سیکھنے کے لئے امید ہے یہ کافی مفید ثابت ہوں گی.ہمارے جتنے بھی باہر کے ملکوں میں جامعات ہیں ان سب کو بھی یہ 50-50 کی تعداد میں بھجوائیں.ان جامعات میں سیرالیون، تنزانیہ، غانا، نائیجیریا، کینیڈا، جرمنی، یو کے، انڈونیشیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے جامعات شامل ہیں.جزاکم اللہ احسن الجزاء.والسلام خاکسار ۱۰۴ خليفة المسيح الخامس

Page 111

اُردو کی کتاب سوم : شکریہ احباب خاکساران اساتذہ کرام کا شکر گزار ہے جنہوں نے اس کتاب کی نظر ثانی فرمائی.جزاھم الله احسن الجزاء طلباء کو مختلف انداز تحریر سے متعارف کروانے کے لئے مندرجہ ذیل کتب سے بھی تحریرات کو شامل یا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کے مصنفین کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین.تفسیر کبیر.سیدنا حضرت امصلح الموعود رضی اللہ عنہ سيرة خاتم النبین - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ.تاریخ احمدیت جلد سوم-مولا نا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت ربوہ در مشین.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے - محترم رحمت اللہ خان صاحب شاکر خاکسار محمد حمید کوثر ۱۰۵

Page 111