Umme Habiba

Umme Habiba

حضرت اُمّ حبیبہ ؓ

اُمّ المؤمنین
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی أم المؤمنين رضی حضرت ام حبيبي من الطاعنها لجنہ اماء الله

Page 2

رض حضرت اُم حبيبة

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو بلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت ام حبيبة رض 1 أم المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضى الله تعالى عنها پیارے بچو! آج ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کے حالات پڑھیں گے.آپ کی کہانی کا آغاز اسلام کے آغاز کے ساتھ ہوتا ہے.کیونکہ آپ اور آپ کے شو ہر عبید اللہ بن جحش نے اسلام اس وقت قبول کر لیا تھا جب کہ ابھی مسلمانوں کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا.(1) یہ بہت بڑی نیکی کی بات ہے ان کو اول المسلمین کہا جاتا ہے یعنی بالکل شروع میں اسلام لانے والے.حضرت اُمّ حبیبہ کی دوسری بڑی فضیلت اسلام کے لئے ہجرت کرنا ہے اسلام میں صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑنا ہجرت کہلاتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے اور بہت ثواب دیتا ہے.اسلام میں پہل اور ہجرت کرنے کے بعد جو سب سے بڑا انعام آپ کو ملا وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی بنا تھا.اس طرح آپ کو خیر البشر یعنی دنیا میں سب سے اچھے انسان کا ساتھ ملا اور آپ سارے مومنین کی ماں بنیں.کتنے بڑے بڑے انعامات ہیں جو ان کو ملے.اللہ تعالی آپ کو جنت میں اعلیٰ ترین جگہ دے اور ہمیں ان کی اچھی باتوں

Page 5

حضرت ام حبيبة رض پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.2 آپ کو یہ سُن کر حیرت ہوگی کہ اتنی نیک خاتون اسلام کے سب سے بڑے دشمنوں میں سے ایک، ابوسفیان کی بیٹی تھیں پہلے ان کا نام رملہ تھا.ان کی والدہ کا نام صفیہ بنت ابوالعاص تھا ایک روایت میں ان کا نام ہندہ بھی آیا ہے (2) رملہ کے دو بھائیوں کے نام امیر معاویہ اور یزید تھے امیر معاویہ سلطنت بنی امیہ کے بانی تھے (3)اور یزید بن ابی سفیان فتح مکہ کے دن اسلام لائے عبید اللہ بن جحش سے آپ کی ایک بیٹی حبیبہ پیدا (4) ہوئیں.جس کی وجہ سے آپ اُمّ حبیبہ کہلانے لگیں اور اپنے اصلی نام سے زیادہ ام حبیبہ کے نام سے مشہور ہو ئیں.آپ کے شوہر آنحضرت اللہ کے پھو پھی زاد بھائی تھے (5) مکہ میں بتوں کی پوجا ہوتی تھی مگر یہ اُن سے بیزار تھے اور سمجھتے تھے کہ پیدا کرنے والا معبود خدائے واحد ہے.اس لئے جب اسلام کا پیغام سُنا تو اپنی بیوی سمیت اسلام لے آئے.(6) ابتداء میں جب غریب کمزور لوگوں نے اسلام قبول کیا تو لوگوں نے اس کو کوئی اہمیت نہ دی مٹھی بھر مسلمان ایک صحابی ارقم " کے گھر جمع ہوتے و ہیں عبادت کرتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تازہ ارشاد سُنتے مگر جوں جوں زیادہ لوگ اسلام کی طرف توجہ کرنے لگے توں توں کفارِ

Page 6

حضرت ام حبيبة رض 3 مکہ کے کان کھڑے ہوئے.پھر یہ ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا اور یہ بات پھیل گئی کہ اب بات مکہ کے کمزور لوگوں تک نہیں رہی.حضرت عمر جیسے بہادر نڈر رئیس بھی اسلام میں شامل ہو گئے ہیں تو کھلم کھلا مخالفت کرنے لگے.اور طرح طرح کی تکلیفیں دینے لگے اور جب بھی مسلمان کسی سے اسلام کی بات کرنا چاہتے وہ کسی کو سننے نہ دیتے یہ تو ہم سب کو پتہ ہے کہ ہر نبی کی مخالفت ہوتی ہے.ہر نبی کے ماننے والوں کو تکلیفیں دی جاتی ہیں.جب مکہ والوں کا ظلم انتہا کو پہنچ گیا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو بلایا اور فرمایا مغرب کی طرف سمندر پار ایک زمین ہے.جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے کچھ مسلمان مرد، عورتیں اور بچے ، آپ ﷺ کے اس ارشاد پر ایسے سینیا کی طرف چلے گئے ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی مکہ کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا اُن کے لئے ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا.وہی شخص یہ بات کر سکتا تھا جس

Page 7

حضرت ام حبيبة رض 4 کے لئے دنیا میں اور ٹھکانہ باقی نہ ر ہے (7) حبشہ میں عیسائی حکومت تھی وہاں بادشاہ کو نجاشی کہتے تھے جیسے اُس وقت کے بادشاہ کا اپنا نام اصحمہ “ تھا مگر وہ اصحمہ نجاشی یا صرف نجاشی کہلاتا تھا.یہ بادشاہ دل کا نیک تھا ، اس نے مہاجرین سے اچھا سلوک کیا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کے دعوی کو پانچ سال ہوئے تو خفیہ ہجرت کرنے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ گئی.ان مہاجرین میں عبید اللہ بن جحش اور حضرت اُمّ حبیبہ بھی تھیں عبید اللہ کی بدقسمتی کہ کسی وجہ سے اُس کا دل اسلام سے کھٹا ہو گیا اور وہ دین سے پھر گیا یعنی مرتد ہو گیا اور اسی حالت میں حبشہ میں وفات پائی.(8) پیارے بچو! حضرت ام حبیبہ کو اللہ تعالی اپنے فضل سے کچی خوا میں دکھاتا تھا جس سے اُنہیں آئندہ ہونے والے واقعات کا اندازہ ہو جاتا آپ فرماتی ہیں.میں نے خواب میں اپنے شوہر عبید اللہ کو انتہائی بُری اور مکروہ صورت میں دیکھا جس سے میں گھبرا گئی اور میں نے یہ تعبیر لی کہ اس کے حال میں تغیر پیدا ہوگا ، صبح ہوتے ہی عبید اللہ بولا : ام حبیبہ میں نے دینوں پر غور کیا اور عیسائیت سے بہتر کوئی دین نہ پایا میں عیسائیت کے قریب آ گیا

Page 8

حضرت ام حبيبة رض 5 تھا.پھر میں نے محمد اللہ کا دین اختیار کر لیا.اب پھر میں عیسائی بن گیا ہوں.میں بولی اللہ کی قسم اُس دین میں تمہارے لئے بھلائی نہیں اور میں نے اس سے اپنا رات کا خواب بیان کیا مگر اُس نے خواب کی پرواہ نہیں کی اور شراب پر ٹوٹ پڑا.یہاں تک کہ موت آ گئی.پھر میں خواب میں دیکھتی ہوں کہ ایک آنے والا مجھے ام المؤمنین کہہ کر پکار رہا ہے.گھبرا کر میری آنکھ کھل گئی اور میں نے اس کی یہ تعبیر لیا کہ مجھ سے رسول اللہ کے نکاح کرلیں گے.(9) اللہ تعالی نے حضرت ام حبیبہ کے دل کو مضبوط رکھا اور وہ اسلام پر قائم رہیں.آپ سوچیئے کہ اتنے سے عرصے میں حضرت ام حبیبہ نے اسلام کی خاطر کتنے دکھ اُٹھائے گھر میں ابوسفیان جیسے ظالم باپ کا سامنا پھر وطن چھوڑنا اور وہ بھی بڑی مشکل سے، پھر پردیس میں شوہر کا مرتد ہونا اور پھر بیوہ ہو جانا.کتنی مشکلات کا سامنا تھا دیکھنا یہ ہے کہ ایک کمزور عورت کا دل کیسے اتنا مضبوط رہا.اس پر اللہ تعالی کا خاص فضل نظر آتا ہے.ایک طرف ایک کے بعد ایک مشکلات آ رہی تھیں تو دوسری طرف ایک کے بعد ایک فضلوں کے دروازے کھل رہے تھے.جب اللہ تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو پھر اُس کا خوب ساتھ دیتا ہے جب سارے جہاں کے

Page 9

حضرت ام حبيبة رض 6 لئے رحمت بنا کر بھیجے جانے والے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی تکالیف کی خبر پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل میں ڈالا کہ یہ مظلوم عورت ایک سردار کی بیٹی ہے سرداروں ہی کے قابل ہے آ.سہارا دیں اور ان سے شادی کر کے گھر لے آئیں.مکہ کے سرداروں کے متعلق یہ یادر کھئے کہ عرب میں قبائلی نظام تھا ہر قبیلے کا اپنا سردار ہوتا تھا جسے رئیس کہتے تھے اگر کوئی شادی اس طرح ہوتی کہ ایک قبیلے کا دولھا اور دوسرے قبیلے کی دُلہن تو اُن قبائل میں ایک دوسرے سے آپس میں دوستی کا تعلق قائم ہو جاتا اور اگر ایک قبیلے کی دوسرے قبیلے سے لڑائی ہو جاتی تو بعض اوقات وہ سالوں چلتی اور نسلوں تک جاری رہتی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کا پیغام لائے تھے جس کا مطلب امن قائم کرنا ہے تو آپ ﷺ نے یہ طریق بھی اختیار کیا کہ بعض سردارانِ قریش کی بیٹیوں سے شادی کر کے امن اور محبت کی فضا پیدا کی.قرآن مجید میں لکھا ہے.قریب ہے کہ اللہ تمہارے اور ان میں سے ان لوگوں کے درمیان جن سے تم باہمی عداوت رکھتے تھے محبت ڈال دے.“ (الممتحنه: 8) اور ایسا ہی ہوا ابوسفیان جو جنگ اُحد اور جنگِ احزاب وغیرہ میں

Page 10

حضرت ام حبيبة رض 7 دشمنوں کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا.اس شادی کے بعد مصالحت کی کوششوں میں مصروف نظر آنے لگا.پیارے بچو! ہم نے ہجرت حبشہ کا ذکر کیا ہے جو نبوت کے پانچویں سال ہوئی تھی.نبوت کے بعد تیرہ سال آپ ﷺ مکہ میں رہے مگر پھر مجبور امکہ سے ہجرت کرنی پڑی آپ ﷺ مدینہ تشریف لے آئے اب جو ہم آپ کو واقعہ بتانے لگے ہیں وہ ہجرت کے بعد کا ہے.ہجرت صلى الله کے بعد مدینہ میں حالات پہلے کی نسبت پر سکون تھے اس لئے آپ ملے نے اسلام کی تبلیغ کی مہم کو تیز کر دیا.ان کوششوں میں سے ایک یہ تھی کہ آپ ﷺ نے کچھ بادشاہوں کو خطوط لکھے.جن میں اسلام قبول کرنے کا الله پیغام تھا.یہ خطوط 7 ہجری میں لکھے.ایک خط حبشہ کے بادشاہ اصحمہ نجاشی کو بھی بھیجا.بادشاہ نے آپ ﷺ کا خط آنکھوں کو لگایا اور اسلام قبول کر لیا.(10) یہ خط آپ ﷺ نے حضرت عمرو بن امیہ الضمری کے ہاتھ بھیجا تھا.ان کو آپ ﷺ نے اصحمہ نجاشی کے نام ایک ذاتی خط بھی دیا تھا جس الله میں یہ لکھا تھا کہ وہ آپ ﷺ کا نکاح ابوسفیان کی بیٹی ام حبیبہ سے پڑھا دیں اور دوسرے یہ کہ حضرت جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھیوں کو

Page 11

حضرت ام حبيبة رض 8 جنہیں حبشہ گئے بہت عرصہ ہو گیا تھا اپنے انتظام میں واپس بھجوا دیں.اصحمہ نجاشی نے آپ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں یہ دونوں کام کئے.فوراً نکاح کے انتظامات شروع کر دیئے.سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ سے پوچھا کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام آیا ہے آپ کا کیا خیال ہے.حضرت ام حبیبہ اس خوشگوار وقت کو یاد کرتے ہوئے فرماتی ہیں: ابھی میری عدت پوری ہی ہوئی تھی کہ میرے دروازے پر نجاشی شاہ حبش کا قاصد کھڑا تھا اور اندر آنے کی اجازت مانگ رہا تھا اور اس کی ایک لونڈی جس کا نام ابر ہہ تھا اور اُس کے کپڑوں کی اور تیل کی منتظمہ تھی میرے پاس آ کر کہتی ہے.بادشاہ نے آپ کو یہ کہلا بھیجا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھا ہے کہ میں آپ کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردوں اللہ نے آپ کو خیر کی بشارت دی ہے.بادشاہ سلامت نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ آپ نکاح کے لئے اپنا کوئی وکیل کر دیجئے.(11) حضرت ام حبیبہ اس پیغام سے بے حد خوش ہوئیں.ام حبیبہ نے خالد بن سعید بن العاص کو بلا بھیجا اور انہیں وکیل بنا دیا.اُس مولا کا بے حد شکر ادا کیا اور پیغام لانے والی کو خوشی میں چاندی کے دو کنگن، جھانجن اور

Page 12

حضرت ام حبيبة ย سب انگوٹھیاں دے دیں.(12) 9 شام کو نجاشی نے حضرت جعفر بن ابی طالب اور سب مسلمانوں کو بلا بھیجا جب سب جمع ہو گئے تو اُن کو خطاب کیا." تمام بڑائیاں اس اللہ ہی کے لئے مخصوص ہیں جو بادشاہ ہے اور تمام عیوب ونقائص سے پاک ہے ، جو سلام ہے، امن دینے والا ہے ، غلبہ والا ہے بڑی عزت والا ہے اور ٹوٹے ہوؤں کو جوڑنے والا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حق دار عبادت نہیں اور محمدی ہے اس کے بندے اور رسول ہیں.اور آپ ﷺ وہی ہیں جن کی بشارت حضرت عیسی نے دی لما بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھا ہے کہ میں آپ اکیلے کا نکاح ام حبیبہ سے کرا دوں میں آپ ﷺ کے حکم کو بجالانے کے لئے کھڑا ہوا ہوں میں نے مہر میں اُم حبیبہ کو چار سو دینار دینے کا تہیہ کیا ہے" پھر نجاشی نے وہ دینار لوگوں کے سامنے رکھ دیئے.دلہن کے وکیل حضرت خالد بن سعید نے اس طرح خطاب کیا.تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.میں اس کی بڑائی بیان کرتا ہوں اور اُسی سے اپنے ہر کام میں نصرت واعانت مانگتا ہوں اور میں گواہ ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حق دار عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Page 13

حضرت ام حبيبة رض 10 اس کے بندے اور رسول ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تا کہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب فرما دے اگر چہ مشرکوں کو بُرا معلوم ہواما بعد، ہمیں رسول اللہ کی خواہش پر لبیک کہتا ہوں اور میں نے آپ کے نکاح میں اُمّ حبیبہ کو دے دیا.اللہ تعالیٰ رسول ملے کو اس نکاح میں برکت عطا فرمائے.پھر حضرت خالد بن سعید نے دلہن کا مہر وصول کیا.حضرت اُمّ حبیبہ فرماتی ہیں:.جب مجھے یہ رقم مل گئی تو میں نے ابرہہ کو جس نے مجھے بشارت دی تھی بلوایا اور میں نے اس سے کہا جب تو نے مجھے بشارت دی تھی تو اُس وقت جو میرے پاس تھا وہ سب کا سب میں نے تجھے دے دیا تھا اس وقت میرے پاس نقد رقم نہ تھی، یہ پچاس دینار لے لو اور اپنی ضرورت پوری کرو.لیکن اس نے لینے سے انکار کر دیا پھر میں نے اپناڈ بہ نکالا جس میں نجاشی کی دی ہوئی تمام رقم تھی اور وہ ساری رقم اُسے دے دی.مگر وہ بھی اس نے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ بادشاہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں آپ کی اس رقم میں ذراسی بھی کمی نہ آنے دوں...بس آپ میرا اتنا کام کر دینا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام پہنچا دینا اور آپ مے کو بتا دینا کہ ابرہہ

Page 14

حضرت ام حبيبة رض 11 نے اسلام کو سینہ سے لگا لیا ہے.(13) یہ نکاح محرم سات ہجری بمطابق مئی 628ء کو ہوا اس وقت حضرت ام حبیبہ کی عمر میں برس سے کچھ زائد تھی.(14) نکاح کے کچھ عرصہ بعد سب مہاجرین نے مدینہ جانے کی تیاری شروع کر دی نجاشی نے حضرت اُمّ حبیبہ کو بھی تیار کروایا.تحائف دیئے اور شرجیل بن حسنہ کی نگرانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجوایا.(15) اہر ہہ نے آپ کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اپنی عورتوں کو حکم دے دیا ہے کہ جو کچھ اُن کے پاس عطر ہے وہ سب آپ کو بھیج دیں.پھر جو عطر کے تحائف جمع ہوئے وہ سب بھی آپ کو دے دیئے.ابرہہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی روانگی کے وقت بڑے چاؤ سے آپ کو تیار کیا اور بار بار یہی کہتی کہ میرا سلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دینا.(16) مکہ سے کسمپرسی کی حالت میں ہجرت کرنے والی مدینہ کے ساحل پر شاہِ عرب کی ملکہ بن کر اتری.اس خوش نصیب دلہن کا استقبال بڑے خوشگوار دنوں میں ہوا.خیبر کی مہم میں فتح نصیب ہوئی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کی اس فتح

Page 15

حضرت ام حبيبة رض 12 سے بہت خوش تھے اور کامیاب و با مراد مدینہ واپس تشریف لا رہے تھے.(17) جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو اہم حیہ مدینہ ہی ٹھہر گئیں جب کہ قافلہ کے بعض افراد جو کہ چودہ سال سے بچھڑے ہوئے تھے بے قرار ہو کر آپ معدے کے استقبال کے لئے شہر سے باہر تک گئے آپ ﷺ نے حضرت جعفر بن ابی طالب کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے اپنے ساتھ چمٹا لیا اور اُن کا ماتھا چوما.(18) اس شادی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا ایک بہت پیارا پہلو سامنے آتا ہے.آپ کے سارے جہان کے لئے رحمت بنائے گئے ہیں آپ سے کسی کوغم زدہ اور بے سہارا نہ دیکھ سکتے تھے.دردبٹانے کا حوصلہ رکھتے تھے اور بڑی حکمت سے سب مسلمانوں کی ذمہ داری ادا کرتے تھے.بار ہا ایسا ہوا کہ آپ نے کسی مسلمان عورت کی تنہائی اور تکلیف کا سنتے خاص طور پر جنہوں نے اسلام کے لئے دُکھ اُٹھائے ہوں تو آپ ﷺ اپنے کسی صحابی سے ارشاد فرماتے کہ تم اس سے شادی کر لو.سادہ زمانہ تھا تکلفات نہ ہوتے تھے.ایک خاتون کو چھت اور شوہر کی حفاظت مل جاتی اس سے بہت سے مسئلے پیدا ہی نہ ہوتے.اگر کوئی خاتون

Page 16

حضرت ام حبيبة رض 13 نیکی اور مرتبے میں آپ ﷺ کے قابل ہوتی تو آپ نے خود اُس کا سہارا بن جاتے.ابو سفیان کو اپنی بیٹی ام حبیبہ پر بڑا ناز تھا ایک دفعہ کہا:." میرے ہاں عرب کی حسین ترین اور جمیل ترین عورت موجود ہے (19) یہ حسین و جمیل بیٹی جب اُس شخص کی بیوی بن گئی جس کا وہ جانی وو دشمن تھا تو بے اختیار اس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے.هُوَ الْفَحْلُ لَا يُجْرَعُ اَنْفُهُ یعنی محمد ملا ہے ایسے جواں مرد ہیں کہ اُن کو نیچا نہیں دکھایا جا سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ کو انتہائی پیار، عزت اور شفقت سے رکھا.آپ سے حبشہ کی باتیں شوق سے سُنا کرتے.خاص طور پر اصحمہ نجاشی کے نکاح کے انتظام کرنے اور خطبہ نکاح کے متعلق بہت دفعہ باتیں ہوتیں پھر ابرہہ کا ذکر بھی رہتا جس نے بڑے شوق سے سارے کام کئے.پھر حضرت اُمّ حبیبہ نے آپ ﷺ کو ابرہہ کے اسلام لانے اور آپ علیہ سے محبت کا بھی بتایا اور یہ بھی کہ کتنی دفعہ تاکید کی تھی کہ اُس کا سلام آپ ﷺ کو پہنچاؤں آپ ﷺ نے فرمایا: وعليها السلام و رحمة الله و بركاته

Page 17

حضرت ام حبيبة رض 14 مکہ والوں نے صلح حدیبیہ کی خلاف ورزی کی تھی اب ڈر رہے تھے صلى الله کہ صلح توڑنے کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا.ابوسفیان کو بھیجا کہ آنحضرت ﷺ سے درخواست کرے کہ صلح حدیبیہ کی مدت بڑھا دیں مگر آنحضور نے نے یہ بات نہ مانی تو ابوسفیان وہاں سے اُٹھ کر اپنی بیٹی کے پاس گئے اور حضور یا اللہ کے بستر مبارک پر بیٹھنے لگے تو حضرت ام حبیبہ نے اس بستر کو لپیٹ دیا ابوسفیان نے کہا.بیٹی تم اس بستر کو مجھ پر ترجیح دیتی ہو.بیٹی نے کہا ہاں کیونکہ آپ مشرک ہیں اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بستر ہے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ اس بستر پر بیٹھیں.میں کیسے برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے بستر کو آپ ہاتھ لگائیں جب میں آپ سے جدا ہوئی تھی تو میں کا فرتھی اب مجھے خدا تعالیٰ نے اسلام دیا ہے مجھے علم ہو گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا شان ہے اور آپ کی کیا حیثیت ہے.اتنے کے ایمان کی حالت دیکھ کر ابو سفیان کو سخت مایوسی ہوئی اور شدید غصے میں کہا : لَقَدْ أَصَابَكِ بَعْدِى شَرًّا.تو میرے بعد بہت سی خرابیوں

Page 18

حضرت ام حبيبة رض میں مبتلا ہوگئی ہے.(20) 15 یہی دشمنوں کا سردار ابوسفیان جو جنگ اُحد اور جنگ احزاب میں کفار کے لشکر کا کمانڈر ان چیف تھا.اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں میں سب سے آگے تھا اور فتح مکہ سے پہلے جب آپ ملے دس ہزار قد دسیوں کی فوج لے کر مکہ کی طرف بڑھ رہے تھے.حضرت عباس اپنے ساتھ ابوسفیان کو لے آئے تا کہ آج وہ دیکھیں کہ وہ لوگ جو اپنے شہر سے خالی ہاتھ نکالے گئے تھے اب ان کی کیا شان ہے.یہ واقعہ حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نے بڑے دلچسپ انداز میں لکھا ہے آئیے ہم آپ کی کتاب دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 211 سے ایک اقتباس پڑھیں.وو رات ابوسفیان حضرت عباس کے ساتھ رہا جب صبح اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا مکہ کے لوگ صبح اٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے.اُس نے ادھر ادھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر دوڑتے دیکھا اور اسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے.کوئی صف بندی کر رہا ہے تو ابوسفیان نے گھبراہٹ میں سمجھا کہ شاید میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے چنانچہ اس نے

Page 19

حضرت ام حبيبة رض 16 گھبرا کر حضرت عباس سے پوچھا کہ:.یہ لوگ صبح صبح کیا کر رہے ہیں.حضرت عباس نے کہا تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں.اس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور جب آپ ﷺے رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپ ہے سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں حضرت عباس چونکہ پہرہ پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے اس لئے ابو سفیان نے اُن سے پوچھا.اب یہ کیا کر رہے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد مال کرتے ہیں وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں.عباس نے کہا تم کن خیالات میں پڑے ہو؟ یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان کو حکم دیں کہ کھانا اور پینا چھوڑ د دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں.ابوسفیان نے کہا.میں نے کسری کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا بھی دیکھا ہے لیکن میں نے کسی جماعت کو اُس کا اتنا فدائی نہیں دیکھا جتنا محمد رسول اللہ ہے کی جماعت اُس کی فدائی ہے.

Page 20

حضرت ام حبيبة رض 17 پھر عباس نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج یہ درخواست کرو کہ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں.جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس ابو سفیان کو لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا: ابوسفیان کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں.ابوسفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آپ نہایت ہی ﷺ حلیم ،شریف اور صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں میں اب یہ بات تو سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو کچھ تو ہماری مددکرتا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.اے ابوسفیان ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں ابوسفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں اس بارے میں میرے دل میں کچھ شبہات ہیں.یا رسول اللہ اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اٹھا ئیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے.

Page 21

حضرت ام حبيبة رض 18 آپ ﷺ نے فرمایا:.ہاں ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اُسے امن دیا جائے گا...جو شخص ابوسفیان کے گھر میں گھس جائے اس کو بھی امن دیا جائے حضرت ابوسفیان کے ایمان لانے سے حضرت اُم حبیبہ بہت خوش ہوئیں آپ کی والدہ ہندہ بھی مسلمانوں کی شدید دشمن تھیں.انہوں نے جنگ اُحد کے بعد پیارے آقا کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبایا تھا یہ بہت بہادر اور بے خوف تھیں.جب ابوسفیان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت میں اعلان کرتے سنا تو آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی داڑھی پکڑ لی اور مکہ والوں کو آواز میں دینی شروع کیں کہ آؤ اس پڑھے احمق کو قتل کر دو فتح مکہ کے بعد جب آپ نے عام معافی کا اعلان فرما دیا تو مکہ والوں نے گروہ در گروہ آکر اسلام قبول کر لیا.مردوں کے بعد خواتین آئیں تو ان میں بندہ بھی نقاب پہن کر آئی نقاب پہننا پر دو کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ وہ اتنے مظالم کر چکی تھی اور چاہتی تھی کہ کوئی اسے پہچان نہ سکے.اس اجتماعی بیعت میں شرکت سے حضرت ام حبیبہ کی امی بھی مسلمان ہو گئیں.ام حبیبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے اس خاندان پر بڑے بڑے فضل کئے.والدین اسلام کے دائرے میں آ گئے.آنحضرت معہ کا

Page 22

حضرت ام حبيبة رض 19 دستور تھا کہ جب ایک دفعہ کوئی کلمہ پڑھ لیتا تو پچھلے سارے قصور معاف فرما دیتے.آپ ﷺ کی حضرت ام حبیبہ کے بھائی پر شفقت کا ایک واقعہ پڑھئے.دو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں کہ آپ نے کس قدر اپنے رشتہ داروں کے جذبات کا خیال رکھتے تھے ایک دفعہ آپ علیہ گھر تشریف لائے دیکھا کہ آپ ملنے کی بیوی ام حبیبہ ( جو ابو سفیان کی بیٹی تھیں) کی ران پر ان کے اپنے بھائی کا سر ہے اور وہ اُن کے بالوں سے کھیل رہی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ام حبیبہ کیا آپ کو معاویہ سے بہت پیار ہے انہوں نے جواب دیا.ہاں آپ نے فرمایا مجھے بھی پیارا ہے (21) آپ کی بیٹی حبیبہ نے آغوش نبوت میں پرورش پائی اور قبیلہ ثقیف کے رئیس اعظم داؤد بن طروہ سے منسوب ہوئیں.(22) پیارے بچو! نیکی کی توفیق ملنا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اے اہل بیت یقینا اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی آلائش دور کر

Page 23

حضرت ام حبيبة رض 20 دے اور تمہیں اچھی طرح پاک کر دے.(احزاب: 34) آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان پر عمل کرنے میں خوشی محسوس کرتیں ایک دفعہ آپ نے سُنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص بارہ رکعت نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنادیا جائے گا آپ ساری زندگی بارہ نفل روزانہ پڑھتی رہیں جنت میں گھر کا شوق پیدا ہونا اُس نیک تربیت کا نتیجہ تھا جو آپ علیے اپنی بیویوں کی کرتے رہتے تھے.بخاری میں روایت ہے کہ آپ نے فرمایا یہ سننے کے بعد میں ان رکعتوں کو ہمیشہ پڑھتی ہوں.(23) یہ خواتین مبارکہ مستقلاً مسجد نبوی میں رہتی تھیں ان کے مجرے مسجد سے ملحق تھے یہ بہت بڑی فضلیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان خواتین کو عطا فرمائی.حضرت زینب ابی سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ام المومنین حبیبہ کی خدمت میں حاضر ہوئی ان دنوں آپ کے والد ابوسفیان فوت ہوئے تھے.حضرت ام حبیبہ نے میری موجودگی میں زرد رنگ کی خوشبو منگوائی.پہلے اپنی لونڈی کو لگائی پھر اپنا ہاتھ اپنے رخساروں پر ملا اور ساتھ ہی فرمایا:.خدا کی قسم مجھے خوشبو لگانے کی کوئی خواہش نہیں مگر میں نے رض

Page 24

حضرت ام حبيبة رض 21 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا اللہ تعالی اور آخری دن پر ایمان لانے والی کسی عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی مرنے والے کا سوگ کرے البتہ بیوی اپنے خاوند کے مرنے پر چار ماہ دس دن سوگ میں گزارتی ہے.(24) اس بیان سے اسلام میں مرنے والوں پر سوگ کے حکم واضح ہو گئے.زمانہ جاہلیت میں یعنی اسلام سے پہلے سوگ منانے کے متعلق بھی بڑی خراب رسمیں تھیں.حضرت اُم حبیبہ کی ایک روایت سے اسلام میں موجود ایک بہت بڑے مسئلے کا حل بھی ملتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب سورہ نصر نازل ہوئی تو اس کے مطالب سے یہ اشارہ ملتا تھا کہ آنحضرت ﷺ جن کاموں کے لئے اس دنیا میں موجود تھے وہ ختم ہو چکے ہیں آپ نے بتایا کہ " حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی تھی کہ آپ ﷺ کی عمر حضرت عیسی کی عمر سے نصف ہوگی اور حضرت عیسیٰ کی عمر ایک سو بیس سال تھی.اپنی بیویوں کے دل میں توحید باری تعالیٰ کی عظمت کا خیال آپ ﷺ کو بوقت وفات بھی تھا.آپ کی آخری بیماری میں جب کسی بیوی نے حبشہ کے ایک گرجے کا ذکر کیا جو ماریہ (حضرت مریم) کے نام

Page 25

حضرت ام حبيبة رض 22 سے موسوم تھا تو اپنی بیماری کی تکلیف دہ حالت میں بھی آپ علیہ نے بیویوں کی توجہ تو حید باری کی طرف مبذول کرواتے ہوئے فوراً گفتگو کا رُخ دوسری طرف موڑ دیا اور فرمایا بُرا ہو ان یہودیوں اور عیسائیوں کا جنہوں نے اپنے نبیوں اور بزرگوں کے مزاروں کو سجدہ گاہ بنالیا ہے.(25) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلفائے راشدین نے امہات المؤمنین کے مقام اور مرتبے کے مطابق اُن کو بے حد عزت دی.حضرت عمرؓ نے اپنی عمر کے آخری سال ازواج مطہرات کو کمال حفاظت کے ساتھ حج کروایا پھر حضرت عثمان نے ان کی خواہش پر خود ساتھ جا کر حج کروایا.حضرت عثمان کے عہد میں حضرت اُم سلمہ ، حضرت میمونہ اور حضرت ام حبیبہ کو حج کی سعادت نصیب ہوئی.امہات المؤمنین کو مکمل پردے میں حج کروایا گیا.(26) پیارے بچو! دل تو کرتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی باتیں کرتے رہیں.نیک بیویوں کی باتیں ، آپس میں پیار محبت سے رہنے کی باتیں، نیکی میں آگے بڑھنے اور خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کی دوڑ کی باتیں ، آپ کو شوق پیدا ہو گیا ہے اب آپ خود ایسی کتب کا مطالعہ کریں اور اپنی معلومات بڑھائیں اور اس طرح سوچنے کی عادت ڈالیں کہ ہر

Page 26

حضرت اُم حبیب رض 23 بات سے کوئی سبق یا کوئی اچھا پہلو سیکھیں.آپ کی نیکی کا ایک واقعہ جو آپ کی زندگی کے بالکل آخری دنوں کا ہے.وفات کے وقت آپ نے حضرت عائشہ اور حضرت اُم سلمہ کو اپنے پاس بکا یا اور کہا.سوکنوں میں با ہم جو کچھ ہوتا ہے.وہ ہم لوگوں میں بھی کبھی ہو جایا کرتا تھا.اس لئے مجھ کو معاف کر دو.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں.میں نے معاف کر دیا اور ان کے لئے دعائے مغفرت کی حضرت ام حبیبہ اس بات پر بہت خوش اور مطمئن ہو ئیں اور انہیں دعا دی.سَرِّنِي سَرّك اللہ آپ نے مجھ کو خوش کیا اللہ تعالیٰ آپ کو خوش کرے.(27) آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ آپ نے آنحضور ﷺ کے ساتھ حج کیا تھا.آپ سے 165 حادیث مروی ہیں.آپ نے 44 ہجری میں وفات پائی.(28) ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ سے راضی ہو اور ہم سے بھی ہو.آمين اللهم آمين

Page 27

حضرت ام حبيبة 24 حواله جات مطہر عائلی زندگی صفحہ 76 اسد الغابہ صفحہ 113 ، سیر الصحابیات صفحہ 82 (1) (2) (3) (4) (5) (6) (7) (8) (9) (10) (11) (12) (13) (14) الفضل 31 /اكتوبر 2003ء سیر الصحابیات صفحہ 84 سیرت خاتم النبین صفحہ 827،124 مطہر عائلی زندگی صفحہ 76 دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 121 خلاصہ سیرت خاتم النبیین طبقات ابن سعد جلد ہشتم صفحہ 128 ،135 ابن سعد و زرقانی جلد 3 صفحہ 366 طبقات ابن سعد ہشتم صفحہ 130 تا 132 طبقات ابن سعد ہشتم صفحه 130 تا 132 طبقات ابن سعد ہشتم صفحہ 130 تا 132 الفضل 31 اکتوبر 2003ء

Page 28

حضرت ام حبيبة ย (15) (16) (17) (18) (19) (20) (21) (22) (23) (24) (25) (26) (27) (28) 25 ابن سعد ازواج مطہرات، الفضل 31 اکتوبر 2003ء طبقات ابن سعد صفحہ 132 ابن ہشام ،شبلی ابن ہشام شیلی سیر الصحابيات صفحہ 84 مطہر عائلی زندگی صفحہ 78 الازهار لذوات الخمار صفحہ 319 320 سیر الصحابیات صفحہ 84 مطہر عائلی زندگی صفحہ 78 بخاری کتاب الجنائز باب نمبر 30 صحیح بخاری کتاب الصلوة حديث 1280 طبقات ابن سعد خلاصه مطہر عائلی زندگی صفحہ 79 الفضل 31اکتوبر 2003ء

Page 29

حضرت ام حبيبة ย 26 26 کتب جن سے استفادہ کیا گیا قرآن کریم تفسیر کبیر سیرت خاتم النبین حقائق الفرقان دیباچہ الفرقان دیباچه تفسیر القرآن بخاری شریف الازهار لذوات الخمار سیر الصحابيات اسدالغابہ طبقات ابن سعد تاریخ طبری الفضل اور جماعتی رسائل مدینہ منورہ عبدالمصعود مظہر عائلی زندگی امته الرفیق ظفر ابن هشام شبلی

Page 30

رض حضرت ام حبيبة (Hadrat Umm-e-Habibah") U Published in UK in 2007 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 954 x

Page 30