Language: UR
بسلسلہ صدسالہ خلافت احمدیہ جوہلی حضرت ام سلمی بھی ان یعنی رضی اللہ عنھا لجنہ اماء الله
حضرت ام سالمی بینی را میں اُمّم رضی اللہ عنھا بنت مين
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو ہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
أم المؤمنین حضرت ام سلمى پیارے بچو! 1 اُم المؤمنین حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا منها آج ہم آپ کو عرب کی سرزمین میں لئے چلتے ہیں جہاں ہمارے پیارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بابرکت قدم پڑے.ان قدموں نے ریگستان کو باغ بنا دیا.ایسا باغ جس کا ایک ایک پھول ہمیں آج بھی معطر کرتا ہے.باغ محمد علے میں صرف مردوں کا حصہ ہی نہ تھا بلکہ عورتیں بھی پیش پیش تھیں.آنحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات بھی انہی مبارک وجودوں علی میں سے تھیں.حضرت اُم سلمی رضی اللہ علھا ایک حسین و جمیل اور باوقار خاتون تھیں.آپ کا اصل نام ہند تھا اور یہ قریش کے ایک معزز گھرانے مخزوم سے تھیں.آپ کے والد کا نام ابی امیہ بن سہیل تھا اور آپ کی والدہ کا نام عاتکہ بنت عامر تھا.ان کا تعلق بنوفر اس سے تھا.(1) آپ کے والد مکہ کے دولتمند اور علی شخص تھے.جو اپنی سخاوت کی وجہ سے زادالت اکب' کے لقب سے مشہور ہوئے.آپ جب بھی کسی سفر میں جاتے تو سارے قافلے کا خرچ خود ہی اٹھاتے.حضرت ام سلمیٰ نے اپنے والدین کے گھر بہت پیارو محبت میں پرورش پائی.آپ کا پہلا نکاح مشہور صحابی اور اپنے چچازاد عبد اللہ بن عبد الاسد سے
اُم المؤمنین حضرت ام سلمى 2 ہوا.لیکن وہ بھی اپنے نام سے زیادہ اپنی کنیت ابوسلمی سے ہی مشہور ہوئے.ابو سلمی کو ایک خصوصیت یہ بھی حاصل تھی کہ آپ نہ صرف آنحضور نے کے رضاعی بھائی تھے بلکہ بڑہ بنت عبد المطلب کے بیٹے ہونے کی وجہ سے صل الله آپ لے کے پھوپھی زاد بھائی بھی تھے.(2) الله جب رسول کریم ﷺ نے نبوت کا دعوی کیا.مکہ شرک و بت پرستی کا گہوارہ تھا.شراب عام تھی اور کوئی بڑی سے بڑی برائی بھی بُرائی نہیں بلکہ فخر سمجھی جاتی تھی.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ نے ان دونوں میاں بیوی کو اسلام قبول کرنے کی توفیق دی.گویا یہ دونوں پہلے اسلام لانے والوں میں سے تھے.یعنی آپ دونوں اُس وقت ایمان لائے جب باقی لوگ اسلام کے متعلق شک میں پڑے ہوئے تھے.یہی وجہ تھی کہ ان کے قبیلے والے ان کے دشمن ہو الله گئے.جب آنحضرت علی نے کفار مکہ کے مظالم دیکھے تو آپ اے نے اپنے صحابہ کو اجازت دی کہ جو شخص اپنے دین اور جان کو بچانے کے لئے ہجرت کرنا چاہے وہ حبشہ کی طرف ہجرت کر لے.چنانچہ ان دونوں میاں بیوی نے 5 نبوی کو سب سے پہلے حبشہ ہجرت کی.حبشہ کا بادشاہ ایک نیک فطرت انسان تھا.اس نے مکہ کے ستائے ہوئے مسلمانوں کو پناہ دی لیکن اپنے ملک سے دور اور سب سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے دوری صحابہ کو ہرگز منظور نہ تھی.جو نہی
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 3 انہوں نے سُنا کہ اب مکہ میں حالات بہتر ہو گئے ہیں تو واپس مکہ کی طرف چل پڑے.یہاں کوئی کر علم ہوا کہ خبر تو خالی تھی اور حالات اور بھی خراب ہو چکے ہیں.اسی لئے اُم سلمی رضی اللہ عنھا اور ابوسلمی رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی طرف دوبارہ ہجرت کی.(5 نبوی اور 6 نبوی میں ).(3) عرب میں یہ رواج تھا کہ شہر کے معزز سمجھے جانے والے لوگ اگر کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتے تو پھر کوئی بڑے سے بڑا دشمن بھی اُس پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اور اگر ایسا کرتا تو دونوں کے قبیلے آپس میں با قاعدہ جنگ شروع کر دیتے.پہلی دفعہ جب یہ دونوں میاں بیوی مکہ واپس آئے تو مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ جاری تھا.اُس وقت آنحضور ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب نے ان دونوں میاں بیوی کو پناہ دی.(4) صلى الله مکہ میں جب کفار کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو آنحضور ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کر جانے کی اجازت دی.اس زمانہ میں ہجرت کرنا بھی انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھا.پھر بھی ہجرت مدینہ کا حکم سُن کر آنحضور ﷺ کی اجازت سے دونوں میاں بیوی اپنے ننھے بیٹے سلمی کو جو خدا نے انہیں ہجرت حبشہ کے دوران دیا تھا، ساتھ لے کر مدینہ کے لئے روانہ ہونے لگے.ایک ہی اونٹ تھا جس پر ابوسلمی نے دونوں کو سوار کیا اور خود اونٹ کی نکیل پکڑ کر چلنے لگے.جو نہی یہ خبر ام سلمی کے قبیلے والوں کو پہنچی تو
أم المؤمنین حضرت ام سلم 4 ان کی کافرانہ جس نے انہیں شرارت پر آمادہ کر دیا اور انہوں نے ابو سلمیٰ سے کہا کہ تم اکیلے مدینہ جاسکتے ہو لیکن ہم اپنی بیٹی ام سلمیٰ کو ہرگز نہ جانے دیں گے.چنانچہ ابو سلمی اکیلے ہی مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.یہ دیکھ کر ابو سلمی کے قبیلہ بنو الاسد کو بھی جوش آگیا اور وہ بھی مقابل پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اگر تم اس سے اس کی بیوی کو جدا کر رہے ہو تو یہ بچہ بھی ام سلمیٰ کے پاس نہ رہنے دیں گے.ان خدا کے بندوں پر یہ انتہائی آزمائش آئی کہ میاں بیوی اور بچہ تینوں (5)- جدا ہو گئے.(5) حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنھا کا دل اپنے بچے اور خاوند سے جدا ہو کر انتہائی غمگین تھا.اُن کا یہ طریق بن گیا کہ روزانہ اس جگہ پر جہاں سے انہیں اُن کے عزیز خاوند اور پیارے بیٹے سے جُدا کیا گیا وہاں شام تک بیٹھ کر روتی رہتیں.اس جگہ کا نام اصلح تھا.خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر کس طرح مہربان ہوتا ہے اس کا اندازہ انسان لگا ہی نہیں سکتا.ایک دن ایسا ہوا کہ حضرت اُم سلمی ٹیلے پر اُداس بیٹھی رو رہی تھیں کہ اُن کے قبیلہ کا ایک شخص وہاں سے گزرا.آپ کی یہ حالت دیکھی تو اُسے بہت ترس آیا.واپس جا کر وہ اپنے قبیلے والوں سے کہنے لگا کہ اس غریب پر کیوں ظلم کرتے ہو، اس کو جانے دو اور اس کا بچہ بھی اس کے حوالے کر دو.قبیلہ والوں نے اُس کی یہ بات مان لی اور ام سلمیٰ کو اس کا بچہ دے کر مدینہ جانے کی اجازت دے دی.چنانچہ آپ بچہ
اُم المؤمنین حضرت ام سلمی 5 لے کر مدینہ کی طرف اکیلے ہی روانہ ہو گئیں.جب حضرت ام سلما تنعیم کے مقام پر پہنچیں تو عثمان بن طلحہ سے ملاقات ہوئی.اُن کے اُم سلمیٰ اور ان کے خاوند سے بڑے اچھے تعلقات تھے.اُس نے آپ سے پوچھا کہ کدھر کا ارادہ ہے.حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنھا نے جواب دیا مدینے کا.پوچھا کوئی تمہارے ساتھ ہے.جواب میں بولیں ”خدا تعالیٰ اور یہ بچہ عثمان بن طلحہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نے کہا ” تم تنہا کبھی نہیں جاسکتیں.“ یہ کہہ کر اونٹ کی مہار ( رسی) پکڑ لی اور مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.آپ رضی اللہ تھا اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں.میں نے ایسا شریف انسان کبھی نہیں دیکھا.راستے میں جب کہیں ٹھہر نا ہوتا تو اونٹ کو بٹھا کر خود عثمان کہیں دور درخت کے نیچے چلا جاتا اور روانگی کا وقت آتا تو کجا وہ اونٹ پر رکھ کر دور ہٹ جاتا اور کہتا کہ اب سوار ہو جاؤ.غرض مختلف منزلوں پر قیام کرتے ہوئے جب یہ لوگ قبا کے مقام پر پہنچے تو عثمان نے حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنھا سے کہا کہ لو اب تم اپنے شوہر کے پاس چلی جاؤ وہ یہیں مقیم ہیں.اور عثمان نے واپس مکہ کا راستہ لیا.حضرت ام سلمی رضی اللہ تھا جب مدینہ پہنچیں اور لوگوں کے پوچھنے پر اپنے باپ کا نام بتا تیں تو لوگ یقین ہی نہ کرتے کیونکہ انہیں یقین نہ آتا کہ اتنے معزز گھرانے کی بیٹی اکیلا سفر کر سکتی ہے.اس زمانے میں عورت کے تنہا
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 6 سفر کا تصور ہی نہیں تھا مگر آپ رضی اللہ عنھا نے تو حکم رسول علی کے تحت ہجرت مدینہ کی.آپ لوگوں کی حیرت پر خاموش ہو جاتیں.جب حج کا زمانہ آیا اور ام سلمیٰ نے اپنے گھر والوں کو خط بھیجا تب لوگوں کو یقین آیا کہ یہ ابی امیہ کی بیٹی ہیں.چونکہ ابی امیہ مکہ کے معزز شخص تھے چنانچہ ام سلمی کی عزت مدینے والوں کی نظروں میں اور بھی بڑھ گئی.(8) ย ام سلمیٰ رضی اللہ عنھا نے کچھ عرصہ خاوند کے ساتھ مدینہ میں گزارا.یہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک اور بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا.حضرت ابوسلی ایک جانباز، بہادر سپاہی اور شہ سوار تھے.آپ رسول کریم اللہ کے ساتھ غزوہ بدر اور غزوہ احد میں شریک ہوئے.غزوہ احد میں آپ کا بازو ایک زہریلے تیر سے شدید زخمی ہو گیا.علاج الله معالجے سے وقتی طور پر زخم کچھ ٹھیک ہو گیا.آپ کو حضور ﷺ نے ایک دستے کا امیر بنا کر بھیجا.واپس آئے مگر وہ زظم دوبارہ بگڑ گیا اور اُسی کے اثر سے 4 ہجری میں آپ نے وفات پائی.(7) نزع کے وقت جب آنحضور ما اے ابو سلمی کے گھر پہنچے تو اپنے محبوب پر نظر پڑتے ہی روح پرواز کر گئی.آنحضور اللہ نے اپنے دست مبارک سے آپ کی آنکھیں بند کیں اور ان کی مغفرت کے لئے دُعا کی.حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنھا اور ہی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ "ہائے غربت میں
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 7 کیسی موت آئی ، آپ ﷺ نے فرمایا.صبر کرو اور ان کی مغفرت کی دُعا مانگو اور یہ کہو کہ خدایا ! ان سے بہتر ان کا جانشین عطا کر.صلى الله اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے ابو سلمی کی نماز جنازہ پڑھائی.الله آپ ﷺ نے اس میں تکبیریں کہیں.صحابہ نے عرض کیا کہ حضور ﷺ نے سہوا وہ تکبیریں کہیں ہیں.آپ ﷺ نے جواب دیا نہیں بلکہ ابو سلمی تو ہزار تکبیرات کے مستحق تھے.(8) حضرت ابو سلمی کی زندگی کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ام سلمی رضی اللہ علھا نے اپنے میاں سے کہا کہ میں نے سُنا ہے کہ اگر کسی عورت کا خاوند فوت ہو جائے اور اُس کی وفات کے بعد عورت دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ تعالیٰ جنت میں ان دونوں کو اکٹھا کر دے گا.اسی طرح اگر عورت کے فوت ہونے پر مرد دوسرا نکاح نہ کرے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اُسے اس بیوی کا ساتھ عطا فرمائے گا.کیوں نہ ہم یہ عہد کریں کہ نہ آپ میرے بعد شادی کریں نہ میں آپ کی وفات کے بعد شادی کروں گی.یہ سن کر ابو سلمی نے جواب دیا کہ کیا تم میری بات مانو گی.اُم سلمیٰ نے کہا کہ ہاں ! تو حضرت ابو سلمیٰ نے کہا کہ اگر میں پہلے مر جاؤں تو تم ضرور نکاح کر لینا ساتھ ہی خدا تعالیٰ سے دُعا کی کہ اے اللہ میرے بعد اُم سلمی کو مجھ 66 سے بہتر خاوند عطافرما جو نہ اسے رنج پہنچائے ، نہ تکلیف دے.“
أم المؤمنین حضرت ام سلمی 8 (وفات کے وقت آنحضرت علی نے بھی آپ رضی اللہ عنھا کو یہی دُعا سکھلائی) اس دُعا کا بہترین ثمرہ حضرت ام سلمی رضی الہ میں کو حضرت محمد مصطفی میں ہے کی زوجیت کی شکل میں ملا.حضرت ام سلمی کہتی ہیں.میں آنحضرت میا ہے کے کہنے پر دُعا تو مانگتی تھی مگر سوچتی تھی کہ ابو سلمیٰ سے بہتر کون ہوگا.جب حرم نبوی میں آنے کی سعادت ملی تب مجھے اس دُعا کی اہمیت کا اندازہ ہوا.(10).ابو سلمی کی وفات کے کچھ عرصہ کے بعد خدا نے آپ کو ایک بیٹی سے نوازا جس کا نام زینب رکھا گیا.عدت گزارنے کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے ام سلمی کو حضور ﷺ کی طرف سے شادی کا پیغام بھجوایا مگر آپ نے انکار کر دیا.پھر حضرت عمر آنحضرت علینے کا پیغام لے کر پہنچے تو آپ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ اس سے زیادہ میری خوش قسمتی کیا ہو سکتی ہے لیکن مجھے چند عذر ہیں.(11) آپ نے کہا کہ میں سخت غیرت مند ہوں.مجھے ڈر ہے کہ صلى الله آپ علیہ کے مزاج کے خلاف کوئی بات مجھ سے نہ ہو جائے جو آپ ع کو نا گوار ہو تو اس وجہ سے مجھ پر اللہ کا عتاب نہ آجائے اور میں بہت عمر رسیدہ ہو چکی ہوں اور میرے بچے بھی ہیں.اس پر حضور ﷺ نے فرمایا:.جہاں تک تیری نازک مزاجی کا تعلق ہے سو اللہ تعالیٰ اسے دور کر دے گا.رہا معاملہ عمر کا تو میں تجھ سے زیادہ عمر رسیدہ ہوں.اور تیرا بچوں کے لئے فکر مند ہونا تو وہ
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 9 اب تیرے بچے نہیں بلکہ میرے بچے ہیں.(12) حضرت ام سلمیٰ کو اب کیا عذر ہو سکتا تھا.اپنے لڑکے (جن کا نام عمر تھا ) سے کہا کہ اٹھو اور میرا نکاح رسول اللہ علہ سے کرو.اس طرح شوال 4 ہجری کی آخری تاریخوں میں یہ تقریب انجام پائی.(13) حضرت اُم سلمیٰ فرماتی ہیں کہ میں کہتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدعلی کی صورت میں مجھے نعم البدل عطا فرمایا ہے وہ ابو سلمی سے ہر لحاظ سے افضل اور بہتر ہیں.(14) آنحضور ﷺ کی طرف سے ام سلمی رضی اللہ علما کو شادی پر ایک چیکی ، گھڑا اور چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی ملا.یہی سامان تھا جو آپ ﷺ کی باقی ازواج کو بھی ملا تھا.(15) ام سلمى ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ جن کا انتقال ہو چکا تھا کے حجرہ میں بیاہ کر آئیں.آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے پہلے ہی صلى الله دن حضور لینے کے لئے اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کیا.آپ نے کو پیسے، مالیدہ بنایا اور رسالت مآب ﷺ نے تناول فرمایا.(16) آپ رضی اللہ عنھا بہت حیادار تھیں.آنحضرت عیہ کو آپ سے بے حد محبت تھی.آنحضرت مے کا معمول تھا کہ نماز عصر کے بعد ازواج مطہرات کے گھروں میں تشریف لے جاتے.الم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ آپ اللہ سب سے پہلے حضرت ام سلمیٰ کے گھر تشریف لے
اُم المؤمنین حضرت ام سلمى 10 جاتے کیونکہ وہ ہم میں سب سے بڑی تھیں اور اختتام حضرت عائشہ کے حجرے پر کرتے.ایک مرتبہ حضرت ام سلمی آنحضرت ﷺ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں کہ جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضور میا سے باتیں کرتے رہے.ان کے ، الله جانے کے بعد آپ ﷺ نے پوچھا ان کو جانتی ہو؟ عرض کیا آپ ملنے کے جانار صحابی وحیہ کلبی تھے.آپ ﷺ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا.یہ جبرائیل علیہ السلام تھے جو وحیہ کلبی کے روپ میں تشریف لائے.(17) اس طرح اُم سلمی رضی اللہ علما کی بھی جبرائیل علیہ السلام سے ملاقات ہوگئی.آنحضرت ﷺ کی آخری بیماری کے دنوں کی بات ہے.ایک دفعہ حضرت ام سلمی رضی اللہ تھا اور اُم حبیبہ نے جو حبشہ سے ہو آئی تھیں وہاں کے عیسائی معبودوں یعنی گرجہ گھروں کا اور ان کے مجسموں اور تصویروں کا تذکرہ کیا.آپ ﷺ نے فرمایا.ان لوگوں میں جب کوئی نیک آدمی مرتا ہے تو اس کے مقبرے کو عبادت گاہ بنا لیتے ہیں.اور اس کا بُت بنا کر اس میں کھڑا کر دیتے ہیں.قیامت کے روز خدائے عزو جل کی نگاہ میں یہ لوگ بدترین مخلوق ہوں گے.(18) آپ کو غزوہ مریسیع ، غزوہ خیبر، فتح مکہ ، صلح حدیبیہ، معرکۂ طائف اور غزوہ حنین میں رسول کریم ﷺ کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا.(19) غزوہ خندق میں اگر چہ آپ شریک نہ تھیں ، تا ہم اس قدر قریب تھیں کہ
أم المؤمنین حضرت ام سلمی 11 آنحضرت عملے کی گفتگو اچھی طرح سنتی تھیں.فرماتی ہیں کہ مجھے وہ وقت خوب یاد ہے کہ جب سینۂ مبارک غبار سے اٹا ہوا تھا اور آپ ﷺ لوگوں کو اینٹیں اٹھا اٹھا کر دیتے اور اشعار پڑھ رہے تھے کہ دفعتہ عمار بن یاسر پر نظر 66 پڑی فرمایا: '' (افسوس ) ابن سمیه! تجھ کو ایک باغی گروہ قتل کرے گا.‘ (20) حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا نہایت زاہدانہ زندگی بسر کرتی تھیں.آپ بہت سخی اور فیاض تھیں.ضرورت مندوں ہمسکینوں اور سائلوں کی حاجت پوری کرتی تھیں.حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد حکومت میں دوسری امہات المومنین کی طرح حضرت ام سلمیٰ کا بھی بارہ ہزار درہم سالانہ وظیفہ مقرر کیا.آپ اس رقم کا بیشتر حصہ خدا کی راہ میں خدا کے بندوں میں تقسیم کر رض دیتی تھیں.(21) ازواج مطہرات سے پیار کا سلوک رکھتیں.ہمیشہ ثواب کی متلاشی رہتیں.ہر مہینہ میں تین دن ( پیر ، جمعرات اور جمعہ ) روزے رکھتیں ، اپنے پہلے شوہر سے جو اولادتھی اُس کی نہایت عمدگی سے پرورش کی.(22) آنحضرت میں اللہ نے بھی آپ کی اولاد سے محبت کی اور ان پر خصوصی توجہ عنایت فرمائی.آپ روایت کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ میرے گھر پر تھے کہ حضرت فاطمہ تشریف لائیں، حسن و حسین بھی ہمراہ تھے.حضرت اُم سلمی کے پاس اس وقت ان کی صاحبزادی زیب بھی تھیں.آنحضرت مل نے فاطمہ
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 12 حسن و حسین کو خود سے لپٹا لیا اور فرمایا ” اے اہلِ بیت ! تم پر اللہ کی رحمت و سلامتی ہو.“ یہ دیکھ کر حضرت اُم سلمی رو پڑیں.آنحضرت ﷺ نے انہیں روتا دیکھ کر رونے کا سبب پوچھا تو عرض کیا.یا رسول اللہ ! آپ علیہ نے ان بچوں کو صلى الله تو خاص کر لیا اور مجھے اور میرے بچوں کو اہل میں شمار نہ کیا.آپ علیہ نے فرمایا ! بے شک تم اور تمہاری بیٹی بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں.(23) حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا آنحضرت ﷺ سے بے انتہا محبت کرتیں اور آپ میں اللہ کے آرام کا خیال رکھتیں.آپ کے پاس ایک غلام تھا جس کا نام سفینہ تھا.آپ نے اُسے اس شرط پر آزاد کیا کہ آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں وہ ان کی خدمت کرتا رہے گا.(24) آپ نیکی کا حکم دیتیں اور برائی سے روکتی تھیں.ایک دن ان کے بھتیجے نے دو رکعت نماز ادا کی.چونکہ سجدہ گاہ غبار آلود تھی وہ سجدہ کرتے وقت مٹی جھاڑتے.حضرت ام سلمیٰ نے روکا اور فرمایا.آنحضرت ﷺ کے ایک غلام افلح نے ایسا کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا.تَرَبَ وَجْهَكَ الله یعنی الله تیرا چہرا خدا کی راہ میں خاک آلود ہو.یا یہ فرمایا کہ:.6 6 اے اصح اپنا چہرہ مٹی میں ملا ، (25) آنحضرت علیہ کا یہ طریق تھا کہ گھر میں ازواج مطہرات کے سامنے اپنی پریشانی بیان فرماتے اور ان سے مشورہ بھی لیتے.
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 13 حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا بڑی عقلمند اور سمجھدار تھیں.صحیح رائے رکھنے والوں میں ان کا شمار تھا، صلح حدیبیہ کے موقعہ پر آنحضرت مے کو بڑی الجھن پیش آئی جو ام سلمیٰ نے سلجھائی.(28) واقعہ کچھ یوں ہے کہ کیم ذی القعدہ ہجری صلى الله کو نبی کریم ہے عمرہ کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت ام سلمیٰ بھی آپ ملے کے ساتھ تھیں.مگر کفار نے آپ ملالہ کو ایک کنویں کے پاس جس کا نام صلى الله حدیبیہ تھا، کے مقام پر روک دیا اور آپ ﷺ اور آپ کے قافلے کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیا.چنانچہ حدیبیہ کے مقام پر کفار مکہ اور مسلمانوں کے صلى الله درمیان ایک معاہدہ طے پایا.رسول کریم ہے اس پر راضی ہو گئے.معاہدے کی شرائط ظاہری طور پر مسلمانوں کے حق میں نہ تھیں کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ اس سال مسلمان بغیر عمرہ کئے واپس چلے جائیں اس لئے صحابہ مغموم اور دل برداشتہ تھے.مگر آنحضرت علی نے جو بچپن سے ہی عہدوں کے پتے تھے اس معاہدے کی تکمیل کے لئے صحابہ سے فرمایا.اٹھو اور سرمنڈواؤ اور یہیں قربانی کر لو.آپ ﷺ نے تین بار یہ ارشاد فرمایا.مگر غم سے نڈھال صحابہ میں سے کوئی بھی نہ اُٹھا.اس پر حضرت محمد رسول اللہ کے گھر تشریف لائے اور حضرت اُم سلمیٰ سے شکایت سارا واقعہ بیان کیا.حضرت اُم سلمیٰ نے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ ! یہ صلح مسلمانوں پر بہت شاق گزری ہے جس کی وجہ سے وہ افسردہ اور شکستہ دل ہیں.آپ ﷺ کسی سے کچھ نہ فرما ئیں بلکہ با ہر نکل کر قربانی
اُم المؤمنین حضرت ام سلمى 14 کر دیں اور سرمنڈ والیں.صحابہ خود بخود آپ ﷺ کی اتباع کریں گے.حضور ﷺ نے آپ کا مشورہ قبول فرمایا.آپ ﷺ باہر تشریف لائے ، قربانی کی اور سرمنڈوایا.صحابہ کرام نے جب دیکھا تو سمجھ گئے کہ اس فیصلے میں اب کوئی تبدیلی نہیں تو سب نے قربانیاں دیں اور احرام اُتارے.ہجوم کا یہ حال تھا کہ ایک دوسرے پر ٹوٹا پڑتا تھا.اور جلدی میں ہر شخص دوسرے کی حجامت بنانے کی خدمت انجام دے رہا تھا.(27) حضرت ام سلمی رضی اللہ عنھا بہترین ذوق رکھتی تھیں.آپ رضی اللہ علھا اپنے مہربان خاوند کی خوشیوں پر بھر پور خوشی کا اظہار کرتیں.6 ہجری کا واقعہ ہے.جب غزوہ احزاب کے بعد آنحضور علیہ نے بنو قریظہ کے شریر اور بدعہد یہودیوں کا گھیرہ کیا تو حضرت ابولہا بہ انصاری کو یہودیوں سے گفتگو کیلئے بھیجا.ابولبابہ ایک سادہ دل صحابی تھے.دورانِ گفتگو ان سے ایسا اشارہ ہو گیا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ آنحضور ﷺ کا ارادہ ان کی عزاری کے سبب یہودیوں کو قتل کی سزا دینے کا ہے.بعد گفتگو انہیں احساس ہوا کہ انہوں نے تو خدا اور رسول اللہ کے ساتھ خیانت کی ہے.انہیں اپنی اس غلطی پر اس قدر ندامت ہوئی کہ اپنے آپ کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ لیا اور توبہ واستغفار میں مشغول ہو گئے.چند دن بعد جب حضور اکرم میں نے حضرت ام سلمیٰ" کے ہاں تشریف
أم المؤمنین حضرت ام سلم 15 فرما تھے ، تو صبح مسکراتے ہوئے اٹھے.آپ بولیں ، اللہ آپ کو ہمیشہ ہنسائے.اس وقت ہنسی کا سبب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا.ابولبابہ کی توبہ قبول ہو گئی.یہ سن کر ام سلمی" بھی اپنے معزز و مکرم خاوند کی خوشی پر بے حد خوش ہوئیں اور بے اختیار عرض کیا.یارسول اللہ یہ خبر میں ابو لبابہ کو سُناؤں.آپ ﷺ نے اجازت دیدی.اجازت ملتے ہی اُم سلمی اپنے دروازے پر کھڑی ہو گئیں اور پکار کر کہا.ابولہا بہ مبارک ہو تمہاری توبہ قبول ہو گئی.پھر کیا تھا.یہ آواز کانوں میں پڑنی تھی کہ اہل مدینہ ابولبابہ کو مبارکباد دینے کے لئے اکٹھے ہو گئے.(28) ویسے تو تمام صحابیات میں ہی اطاعت رسول ﷺ کی صفت صل الله پائی جاتی تھی مگر ازواج مطہرات رسول ملے بہت ہی فرمانبردار تھیں.حضرت ام سلمی ایک دفعہ اپنے حجرہ میں ہال ہوار ہی تھیں کہ رسول کریم ہی ہے منبر پر تشریف لائے اور خطبہ دینا شروع کیا.ابھی زبان مبارک سے يَا أَيُّهَا النَّاسُ ( یعنی اے لوگو ) ہی نکلا تھا کہ آپ نے اس عورت کو حکم دیا کہ بال باندھ دو.اس نے کہا اتنی بھی کیا جلدی ہے ابھی تو حضور ﷺ نے صلى الله يَا أَيُّهَا النَّاسُ ہی فرمایا ہے.حضرت اُم سلمی اٹھ کھڑی ہو ئیں.اپنے بال خود باندھے اور غصہ سے بولیں.کیا ہم آدمیوں میں شامل نہیں ہیں؟ اس کے بعد بڑے توجہ سے پورا خطبہ سنا.یہ تھی وہ بے مثال اطاعت جو صحابیات کا.
أم المؤمنین حضرت ام سلمى 16 خاصہ تھی.خدا ہمیں بھی ایسی ہی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے.(آمین) حضرت ام سلمی حضور لے کے ہر حکم پر بچے دل سے عمل پیرا ہوئیں.ایک دفعہ آپ نے ایک ہار پہنا ہوا تھا جس میں سونے کا کچھ حصہ شامل تھا.آنحضرت مے جو اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے سادگی کو پسند فرماتے تھے ، اس پر آپ نے نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا تو آپ نے اُس صلى الله ہار کو اُتار ڈالا ( یا توڑ ڈالا ).جب آنحضرت ﷺ کی بیماری لمبی ہوگئی اور آپ اللہ حضرت عائشہ کے حجرہ میں منتقل ہو گئے تو حضرت ام سلمیٰ الله آپ عملے کو دیکھنے آیا کرتی تھیں.ایک دن طبیعت زیادہ بے چین ہوئی تو ضبط نہ کر سکیں.بے ساختہ صحیح نکل گئی.آپ میلے نے منع فرمایا.کہ یہ مسلمانوں کا طریقہ نہیں.آپ کی رسول کریم ﷺ سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی الله الله لگایا جا سکتا ہے کہ آنحضور ﷺ کے موئے مبارک ( آپ ﷺ کے بال ) تبر کا آپ نے ایک چاندی کی ڈبیا میں محفوظ کر لئے تھے.(29) الله 61 ہجری میں حضرت امام حسین نے شہادت پائی.حضرت ام سلمی نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لائے ہیں.نہایت غمگین اور پریشان ہیں.سر اور ریش مبارک غبار آلود ہے.حضرت ام سلمیٰ نے پوچھا.یا رسول اللہ ﷺ یہ کیا حال ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا حسین کے مقتل سے واپس آرہا ہوں.حضرت ام سلمیٰ بیدار ہوئیں تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے.ایسی
أم المؤمنین حضرت ام سلمی صلى الله 17 صلى الله حالت میں زبان سے نکلا.اہل عراق نے حسین کو قتل کیا.خدا ان کو قتل کرے اور حسین کو جنہوں نے ذلیل کیا خدا ان لوگوں پر لعنت کرے.(30) لا آپ کو پڑھنا لکھنا بھی آتا تھا.لیکن جب حضور علے کے نکاح میں آگئیں تو اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے ارشادات کو محفوظ کرتی رہتیں اور آپ ان سے سوال کر کے اپنے علم کو بڑھاتی رہتیں.آپ نے علم صرف سیکھا ہی نہیں بلکہ آگے صحابہ وصحابیات اور تابعین میں بھی پھیلایا.محمود بن لبید فرماتے تھے کہ آنحضرت علی کی سب ہی ازواج مطہرات صلى الله آپ ملے کے ارشادات کو یاد کرتیں مگر حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمی کی ہم پلہ اور کوئی نہ تھی.کہا جاتا ہے کہ اگر حضرت ام سلمیٰ کے فتاوی جمع کئے جائیں تو ایک رسالہ بن جائے.(31) رض گو کہ حضرت ابو ہریرہ اور عمر بہت بڑے عالم تھے مگر حضرت ام سلمی سے انہوں نے بھی فیض حاصل کیا.حدیثیں بیان کرنے کے اعتبار سے عورتوں میں حضرت عائشہ کے بعد آپ کا نمبر آتا ہے.آپ سے 578 احادیث مروی ہیں.(24) حضرت اُم سلمیٰ کو بے شمار احادیث زبانی یاد تھیں.صحابہ آپ سے شرعی مسائل دریافت کرتے.حضرت اُم سلمیٰ کی کوشش یہ ہوتی کہ سوال کرنے والے کو صاف اور واضح جواب دیتیں.(35) آپ گفتگو کرتیں تو خوبصورت اور نیچے تلے جملے استعمال کرتیں.جب عبارت لکھتیں تو اس میں ادب کی
اُم المؤمنین حضرت ام سلمی 18 چاشنی ہوتی.نہایت اچھی تلاوت کرتیں بلکہ قرآن کریم آنحضرت مے کے طرز پر پڑھتیں ، ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ آنحضرت یہ کس طرح تلاوت کرتے تھے ؟ بولیں ایک ایک آیت الگ الگ کر کے پڑھتے اور پھر خود پڑھ کر بتلایا.(36) صلى الله ایک دفعہ چند صحا بہ آپ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور آنحضرت ما کے اندرونِ خانہ زندگی کے بارے میں پوچھا.حضرت اُم سلمی نے جواب دیا کہ آنحضرت ﷺ کا ظاہر و باطن ایک ہے.کس قدر نیچے تلے الفاظ میں سیرۃ النبی ﷺ کا نقشہ آپ نے کھینچ دیا.آنحضرت عمل گھر تشریف لائے تو آپ نے بتایا کہ میں نے صحابہ کو یہ جواب دیا ہے.آپ ﷺ نے فرمایا.تم نے بہت اچھا جواب دیا.(37) آپ نے اپنی بیماری کا ذکر آنحضور ﷺ سے کیا تو آپ ﷺ نے طواف کے متعلق فرمایا کہ جب نماز فجر ہو تو تم اونٹ پر سوار ہو کر طواف کرلو.چنانچہ آپ رضی اللہ عنھا نے ایسے ہی کیا.(38) حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے مجھے سکھلایا کہ مغرب کی اذان کے وقت یہ پڑھا کرو اَلَّلهُمَّ إِنَّ هَذَا إِقْبَالُ لَيْلِكَ وَادْبَارُ نَهَارِكَ وَأَصْواتُ دُعَائِكَ فَاغْفِرْلِي ترجمہ: اے اللہ یہ تیری رات کے آنے اور دن کے جانے اور تیرے بلانے
أم المؤمنین حضرت ام سلم کی آواز کا وقت ہے سو مجھے بخش دے دے.(38) 19 الحضور اللہ کو ان سے اس قدر محبت تھی کہ ایک مرتبہ جب اُم سلمی صلى الله صل الله نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! قرآن میں عورتوں کا ذکر کیوں نہیں تو آپ معہ منبر پر تشریف لے گئے اور یہ آیات تلاوت فرمائیں.إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُومِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ سورت الاحزاب آیت 36 ( مسند احمد ) - (39) اُم سلمی رضی اللہ عنھا اپنے والد کی طرح بے حد سخی تھیں اور دوسروں کو بھی سخاوت کی تلقین کرتیں.یہ ناممکن تھا کہ ان کے گھر سے کوئی سائل خالی ہاتھ چلا جائے.تھوڑا بہت جو کچھ ہوتا اُسے دے دیتیں.ایک مرتبہ چند مساکین جن میں عورتیں بھی تھیں ان کے گھر آگئے.بڑی لجاجت سے سوال کیا.اس وقت ایک خاتون ام الحسین بھی آپ رضی اللہ علہ کے پاس بیٹھی تھیں.انہوں نے مانگنے والوں کو ڈانٹا تو اُم سلمی رضی اللہ عنھا نے فرمایا.ہمیں اس کا حکم نہیں ہے.ان کو خالی ہاتھ نہ جانے دو.کچھ نہ کچھ دے دو خواہ ایک کھجور ہی ہو.حضرت عبدالرحمن بن عوف روایت کرتے ہیں کہ میرے پاس بہت سا مال اکٹھا ہو گیا حتی کہ مجھے بربادی کا ڈر پیدا ہو گیا.میں حضرت اُم سلمی" کے پاس گیا تو آپ رضی اللہ مانے فرمایا اسے خرچ کر دو.میں نے رسول کریم میے کو کہتے سُنا ہے کہ میرے صحابہ میں کچھ ایسے بھی ہیں جو مجھ کو میری موت کے بعد پھر بھی نہیں دیکھیں گے.(40)
أم المؤمنین حضرت ام سلمی 20 20 حضرت عمر فاروق نے اپنے عہد میں دوسری امہات المومنین کی طرح آپ کا وظیفہ بھی بارہ ہزار درہم سالانہ مقرر کیا تو آپ رضی اللہ معھا اس رقم کا بیشتر حصہ خدا کی راہ میں اُس کے بندوں میں تقسیم کر دیتیں.(41) صلى الله آپ رضی اللہ عنھا کی چار اولادیں تھیں جو پہلے خاوند ابو سلمی سے تھیں.جبکہ رسول اللہ اللہ سے کوئی اولاد نہ تھی.اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.بیٹے سلمی اور عمر ، بیٹیاں درّہ اور زینب تھیں.(42)سب بچوں نے آنحضرت ﷺ کے زیر سایہ پرورش پائی.عمر نے بیان کیا کہ میں آنحضور میلے کی گود میں پرورش پاتا تھا.ایک مرتبہ آپ ﷺ کے ساتھ کھانے کو جو بیٹھا تو پیالے میں ہر طرف ہاتھ ڈالنے لگا.آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا.بسم اللہ پڑھ اور داہنے ہاتھ سے کھا اور اپنے آگے سے کھا.(43) اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے ان بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دی.حضرت اُم سلمی رضی اللہ عنھا ازواج مطہرات میں سب سے آخر میں وفات پانے والی خاتون تھیں.آپ نے 21 سال عمر پائی.60 ہجری میں آپ کی وفات ہوئی.حضرت ابو ہریرہ نے نماز جنازہ پڑھائی پھر جنت البقیع میں تدفین ہوئی.ان کے بیٹے حضرت عمر اور حضرت سلمیٰ نے لحد میں اُتارا.(44) خدا تعالیٰ آپ رضی اللہ عنھا کے درجات بلند فرمائے اور آپ کی خوبیوں کو اپنانے کی ہمیں توفیق دے( آمین ).
أم المؤمنین حضرت ام سلم 224 21 حوالہ جات (1) سیر الصحابیات از سید سلمان ندوی (صفحه 56 ) (2) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کا ظلم (158,157) (3) امہات المومنین از مولانا محمد عبد المعبود (صفحه 563) (4) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 159) (5) امہات المومنین از مولانا محمد عبد المعبود ( صفحه 564) (6) امہات المومنین از حکیم محمود احمد ظفر (صفحه 212 نا215) (7) امت مسلمہ کی مائیں از مفتی محمد عاشق الہی (صفحہ 103) (8) امہات المومنین از حکیم محمود احمد ظفر (صفحہ 216) (1) ازواج مطہرات حیات و خدمات از ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قاری (صفحہ 135) (10) امہات المومنین از مولانا عبد المعبود (صفحه 570,568) (11) سیر الصحابیات از سید سلمان ندوی (صفحه 58) (12) امہات المومنین از مولانا عبد المعبود (صفحه 572) (13) سیر الصحابیات از سید سلمان ندوی (صفحه 58) (14) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 166 )
اُم المؤمنین حضرت ام سلمی (15) سیر الصحابيات (صفحہ 59) (16) امت مسلمہ کی مائیں (صفحہ 107) 222 22 (17) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 166,169 ) (18) سیر الصحابیات (صفحہ 64) (19) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 168) (20) سیر الصحابیات (صفحہ 61) (21) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 173) (22) سیر الصحابیات (صفحہ 69) (23) سیر الصحابیات (صفحہ 69) (24) سیر الصحابیات (صفحہ 60) (25) سیر الصحابیات (صفحہ 69,70) (26) امت مسلمہ کی مائیں (صفحہ 108,107 ) امہات المومنین از حکیم محمود احمد ظفر (صفحه 223 ) (28) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 141 ) (29) عائلی زندگی (صفحہ 62.61 ) (30) ازواج مطہرات و صحابیات (صفحہ 172) (31) امت مسلمہ کی مائیں (صفحہ 110)
أم المؤمنین حضرت ام سلم 223 23 (32) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 173 ) اور امہات المومنین از حکیم محمود احمد ظفر (صفحہ 228 ) (33) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 149) اور ازواج مطہرات وصحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 148) (34) سیره الصحابیات ( صفحہ 66 ) اور ازواج مطہرات وصحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 169 ) (35) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 148 ) (36) سیر الصحابیات (صفحہ 62 ) (37) امت مسلمہ کی مائیں (صفحہ 112) (38) عائلی زندگی (صفحہ 61) (39) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 146 ) (40) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 173) (41) ازواج مطہرات حیات و خدمات (صفحہ 147) (42) امت مسلمہ کی مائیں (صفحہ 116) (43) ازواج مطہرات وصحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 174) (44) ازواج مطہرات صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 174)
حضرت ام سلمیٰ بنت معین 1 رض (Hadrat Umm e Salma" Bint e Mueen) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ أم المؤمنین حضرت ام سلمى No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.