Ume Tahir

Ume Tahir

حضرت اُمّ طاہر

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی حضرت اُمت طاہر لجنہ اماء الله

Page 2

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء بیگم صاحبہ (اُمّ طاہر ) ย

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) حضرت سیدہ مریم النساء ام طاہر صاحبہ حضرت سیدہ مریم النساء ام طاہر صاحبہ جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کی تیسری بیوی تھیں.آپ کے بارے میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں.مریم بیگم مرحومہ ہمارے گھر بہو بن کر آئیں اور بیٹی بن کر رہیں.حضرت اماں جان کی بہت تابعدار، چاہنے والی، جاں نثار، خدمت گزار اور ہم سب بہن بھائیوں سے بلا مبالغہ عاشقانہ محبت رکھنے والی اپنے شوہر نامدار حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی دل و جان سے شیدا ہنس مکھ، گھر کی رونق ، سب عزیزوں سے ، اپنی سب اولاد سے دلی تعلق یعنی جو دوسری بیویوں کے بطن سے اولاد تھی ان کی بھی بہی خواہ اور دل سے محبت کرنے والی رہیں.“ خاندانی حالات محبت تھی مجسم میری مریم چلی ہے پیار خالق سے بڑھانے حضرت سیدہ اُمم طاہر صاحبہ پاک طینت اور پارسا والدین کے ہاں پیدا 1

Page 5

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) ہوئیں.آپ کے والد حضرت ڈاکٹر سید عبدالستارشاہ صاحب نے 1901ء میں احمدیت قبول کی تھی.آپ راضی برضاء، متوکل ، عابد و زاہد اور مستجاب الدعوات بزرگ تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اُن کے بارے میں فرماتے ہیں.”حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب مرحوم اور ان کی زوجہ محترمہ ستارشاہ نہایت درجہ نیک اور پاک نفس بزرگ تھے حتی کہ ایک روایت کے مطابق خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ اُن کے اور اُن کے خاندان کے متعلق بہشتی بر“ کے الفاظ استعمال فرمائے تھے.خود حضرت ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ : دو میں حضور ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) کی مجلس میں نیچے بوری پر بیٹھ گیا حضور کی نظر پڑی تو بار بار اصرار سے کہہ کر مجھے چار پائی پر بٹھلایا اور فرمایا چونکہ آپ سید ہیں اس لئے ہم کو آپ کا احترام منظور ہے.مجھے یہ سنکر خوشی ہوئی کہ یقینی سید ہونے کا علم ہو گیا.! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں (ڈاکٹر سید عبدالستار صاحب) اپنے گھر کے متعلق فرمایا کہ یہ آپ کا گھر ہے آپ کو جو ضرورت ہو بغیر تکلف مجھے اطلاع دیں اور تین تعلقات کا ذکر کیا.ایک یہ کہ آپ ہمارے مرید ہیں.2

Page 6

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) دوسرے آپ سادات سے میں تیسرا ایک اور تعلق ہے جس کے متعلق حضور خاموش رہے.جو بعد میں حضرت سید و امم طاہر صاحبہ کی پیدائش اور آپ کے گھر کی بہو بننے کے بعد ظاہر ہوا.سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کی والدہ ماجدہ حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے ایک رویاء میں حضرت امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کی طرف راہنمائی ہونے پر احمدیت قبول کی.آپ بچپن سے ہی پارسا " کے لقب سے مشہور تھیں.تہجد گزار، دن اور رات دعائیں اور عبادت کرنے والی خاتون تھیں.حضرت سید و مریم بیگم صاحبہ تین بہنیں اور پانچ بھائی تھے.آپ کے تین بھائی خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حافظ قرآن تھے.سب ہی مخلص، متقی اور پر ہیز گار اور خادم دین تھے.حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھیں.جب حضرت مریم بیگم صاحبہ پیدا ہونے والی تھیں تو حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب نے ”بابا اندر ( جو کہ اُن کے ہاں ملازم تھے ) سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے الہاماً فرمایا ہے کہ میں تجھے بیٹا دوں گا" دواڑھائی ماہ بعد بجائے لڑکا پیدا ہونے کے لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام مریم النساء رکھا گیا.اندر صاحب کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے مجھے علیحدہ لے جا کر کہا 3

Page 7

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) کہ خدا تعالیٰ نے مجھے لڑکا دینے کا وعدہ فرمایا تھا.لیکن لڑکی ہوئی ہے.شاید مجھے اللہ تعالیٰ کا الہام مجھنے میں غلطی لگی ہے اور شاید الہام آئندہ کسی وقت پورا ہونا ہو.میں نے عرض کیا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس لڑکی کولڑکوں سے بڑھ کر دے اور یہ اپنی شان اور کام میں بیٹوں سے بھی بڑھ جائے.جب حضرت مریم النساء بیگم صاحبہ کا نکاح سید نا حضرت خلیفہ اسی الثانی سے ہوا تو میں نے مبارک باددی اور عرض کی کہ دیکھ لیجئے یہ لڑ کی لڑکوں سے بڑھ گئی ہے اور اس کی شان بہت بلند ہو گئی ہے.حضرت شاہ صاحب نے خوشی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی اطلاع کا مطلب تم خوب سمجھے ہو.2 سی روایت مولانا برکات احمد راجیکی صاحب نے بیان کی ) خدا تعالیٰ کی تقدیر بھی بعض وقت عجیب رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.بظاہر اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور پیارے بندوں کا امتحان لیتا ہے اور جب وہ اس امتحان میں پورے اترتے ہیں تو وہ اتنا بڑا انعام عطا فرماتا ہے بلکہ نسل در نسل عطا فرماتا چلا جاتا ہے کہ انسان اُس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.اور وہ امتحان جو اُس وقت بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے وہ ان انعامات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا.اسی طرح کا ایک امتحان حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب اور آپ کی زوجہ محترمہ کی زندگی میں بھی آیا اور یہ دونوں بزرگ ہستیاں اپنے اخلاص ، نیکی اور ایمان کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس سے نہایت صبر ،حوصلہ اور 4

Page 8

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) ایمان کی پختگی سے گزرے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد سے نکاح حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صاحبزادوں میں سب سے چھوٹے صاحبزادے تھے.جو 14 جون 1899 کو پیدا ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان دونوں کو ہی بہت ہی پیارے تھے.1907ء میں وہ بہت سخت بیمار ہو گئے ان کو ٹائیفائیڈ کا شدید حملہ ہوا اور زندگی کی کوئی اُمید نہ رہی.اس وقت قادیان میں دو ڈاکٹرز ان کا علاج کر رہے تھے.ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب، دوسرے ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب.حضرت خلیفة اصبح الا ول بھی ان دونوں کے ساتھ علاج میں شامل تھے.مگر بیماری بڑھتی ہی جارہی تھی.انہی دنوں کسی شخص نے خواب دیکھا کہ مرزا مبارک احمد کی شادی ہورہی ہے.تعبیر الرویاء کے لحاظ سے تو اس کا مطلب موت ہے مگر بعض تعبیر کرنے والوں کا یہ بھی خیال ہے کہ اگر ایسے خواب کو ظاہری صورت میں پورا کر دیا جائے تو بعض دفعہ یہ تعبیر مل جاتی ہے پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا آؤ ” مبارک احمد کی شادی کر دیں.جس وقت حضور علیہ السلام یہ باتیں کر رہے تھے تو اتفاقاً حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیگم صحن میں نظر آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اُن کو بلایا اور فرمایا.ہمارا انشاء ہے کہ مبارک احمد کی شادی کر دیں.آپ کی لڑکی مریم ہے.5

Page 9

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) آپ اگر پسند کریں تو اس سے مبارک احمد کی شادی کر دی جائے.اس پر انہوں نے جواب دیا حضور مجھے کوئی عذر نہیں لیکن اگر حضور کچھ مہلت دیں تو میں ڈاکٹر صاحب سے بھی پوچھ لوں.ڈاکٹر صاحب کہیں باہر گئے ہوئے تھے جب وہ آئے تو انہوں نے اس طرح بات شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے دین میں جب کوئی داخل ہوتا ہے تو بعض دفعہ اس کے ایمان کی آزمائش بھی ہوتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان کی آزمائش کرے تو کیا آپ کامیاب رہیں گے؟“ در اصل ایک تو اس سے پہلے ان کے خاندان میں کوئی لڑکی غیر سید" میں بیا ہی نہیں گئی تھی دوسرے ڈاکٹر صاحب خود مرزا مبارک احمد کا علاج کر رہے تھے اور وہ جانتے تھے کہ ان کی حالت نازک ہے.ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ استقامت عطا کرے گا.اس پر حضرت مریم بیگم صاحبہ کی والدہ صاحبہ نے اُن کو بات سُنائی اور بتایا کہ اس طرح میں حضور کے گھر گئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مریم کی شادی مبارک احمد سے کر دیں.یہ بات سُن کر ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ اچھی بات ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ پسند ہے تو ہمیں اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.اُن کا یہ جواب سن کر مریم بیگم صاحبہ کی والدہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.اس پر ڈاکٹر صاحب نے پوچھا کہ 6

Page 10

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) کیا ہوا؟ کیا تم کو یہ تعلق پسند نہیں؟ انہوں نے کہا مجھے پسند ہے.بات یہ ہے کہ جب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نکاح کا ارشاد فر مایا تھا میرا دل دھڑک رہا تھا اور میں ڈرتی تھی کہ کہیں آپ کا ایمان ضائع نہ ہو جائے اور اب آپ کا یہ جواب سن کر میں خوشی سے اپنے آنسو نہیں روک سکی.چنانچہ یہ نکاح ہو گیا.مگر خدا کا فیصلہ صادر ہو چکا تھا اور نکاح کے چند ہی دنوں کے بعد حضرت مرزا مبارک احمد وفات پاگئے اور نھی مریم اڑھائی سال کی عمر میں بیوہ ہو گئی.مگر اللہ تعالی کسی کے اخلاص کو ضائع نہیں کرتا آخر وہی مریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں بہو بن کر آئی اور حضرت مصلح موعود خلیفہ اسیح الثانی کی بیگم بنی اور ان کی وفات کے بعد بھی خدا کے انعاموں کا سلسلہ جاری رہا اور یہی وہ مریم ہیں جس کے بطن سے حضرت خلیفہ امسیح الرابع جیسے عظیم بیٹے نے جنم لیا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفۃ المسیح الثانی سے نکاح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے صاحبزادے تھے اس سلسلے میں فرماتے ہیں.” جب مبارک احمد بقضائے الہی فوت ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اُم المومنین کو وصیت فرمائی کہ یہ لڑکی اب 7

Page 11

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) ہمارے نام کی ہو چکی ہے اب اسے کسی دوسری جگہ نہ جانے دیتا بلکہ ہمارے تینوں لڑکوں میں سے ہی کوئی لڑکا اس سے شادی کر لے.چنانچہ آپ کی اس وصیت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفقہ اسیح الثانی کو اوائل 1921ء میں تو فیق عطا فرمائی کہ آپ نے انہیں اپنے ساتھ عقدِ زوجیت میں منسلک کر لیا.اور اس طرح ہماری یہ بہن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دہری بہو بن گئیں.3 - اخبار الفضل میں اس مبارک نکاح کا اعلان اس طرح شائع ہوا.فروری بروز دوشنبہ بعد نماز فجر مسجد مبارک میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا نکاح مبارک ہوا.خطبہ نکاح مکرم مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے نہایت لطیف اور دلکش انداز میں پڑھا.مہر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب فرماتے ہیں.(ڈاکٹر صاحب کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے نہایت قریبی تعلق تھا) نکاح کا دن نہایت مبارک اور خوشی کا دن تھا اعلان نکاح کے بعد جو نماز فجر کے بعد مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہوا تھا بکثرت احباب طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک قریباً تمام دن خوشی کے ولولے کے ساتھ جمع رہے اس خوشی کے آثار احمدی احباب کے قلوب پر گہرا اثر رکھنے والے تھے بہت سے 8

Page 12

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) دوستوں نے اس موقعہ کے مناسب حال خوش الحانی سے نظمیں پڑھیں ان میں سب سے اول نمبر حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کا تھا جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی خوش الحانی کے ساتھ ”محمود کی آمین والی ساری نظم پڑھ کر سنائی“.جتنی خوشی اور مسرت و جشن کا سماں نکاح والے دن تھا آپ کا رخصتانہ اتنی ہی سادگی کے ساتھ ہوا.مقررہ دن حضرت اُم المومنین ڈاکٹر صاحب کے گھر تشریف لے گئیں اور دلہن کو اپنے ہمراہ دار اسبیح لے آئیں.اس طرح حضرت مریم بیگم صاحبہ دوسری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو بن کر آپ کے الہار میں آگئیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں.یہ ایسا امتیاز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہوؤں میں سے کسی اور کو حاصل نہ ہوا.چنانچہ میں سیدہ مرحومہ کو اُن کا یہ امتیاز اکثر یاد کرایا کرتا تھا اور وہ اسے سُن کر بہت خوش ہوتی تھیں اور کئی دفعہ کہا کرتی تھیں کہ دعا کریں کہ آخرت میں بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک وجود اور آپ کے خاندان کا حصہ بن کر رہوں سوخدا نے ان کی اس خواہش کو پورا فر مایا اور وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور جماعت کی ہزاروں درد بھری دعاؤں کے ساتھ ، ہاں ایسی دعا ئیں جن کی نظیر پہلے بہت کم ملتی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت قریب 9

Page 13

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) خاندان کی مخصوص قبروں میں جگہ پا کر اپنی آخری نیند سورہی ہیں.“ 4 حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ بچپن سے ہی نہایت رحم دل، خدمت گزار اور سخی تھیں.چھوٹے ہونے کی وجہ سے ماں باپ اور بہن بھائیوں کی بے حد لاڈلی تھیں مگر اس لاڈ پیار کے باوجود آپ کی اس نیک فطرت میں کوئی فرق نہ آیا.عام طور پر اگر کوئی بچہ بہت لاڈلا ہو تو زیادہ لاڈ پیار اس کی عادات بگاڑ دیتے ہیں مگر عمر کے ساتھ ساتھ آپ کی یہ خوبیاں اور نمایاں ہوتی گئیں.آپ کے دل میں خدا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے اُنہیں یہ حدیث سنائی کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے ایک صحابی نے قیامت کے متعلق سوال کیا جس پر آپ نے فرمایا کہ تم قیامت کے متعلق پوچھتے ہو کیا اس کے لئے کوئی تیاری بھی کی ہے.اُس نے جواب دیا.یا رسول اللہ اگر تیاری سے نماز، روزہ وغیرہ مراد ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ہاں میں یہ جانتا ہوں کہ میں اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کی سچی محبت رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ درست ہے تو میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ انسان اپنی محبوب ہستیوں سے جدا نہیں کیا جائے گا.میں نے دیکھا کہ جب میں نے ہمشیرہ مرحومہ کو یہ حدیث سنائی تو اُن کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور وہ بے ساختہ کہنے لگیں کہ میں بھی اپنے 10

Page 14

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) دل کو ایسا ہی پاتی ہوں.میں نے کہا پھر آپ کو بھی رسول خدا ﷺ کی یہ خوشخبری مبارک ہو کہ آپ بھی اپنی محبوب ہستیوں کے ساتھ جگہ پائیں گئی.5 حضرت طلیقہ امسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں.مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھاوہ حضرت مسیح موعود علی اسلام پر قربان تھیں ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں.انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا.علمی باتیں نہ کر سکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں.جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ ہوتا تھا تو واپسی پر میں اس یقین کے ساتھ گھر میں گھستا تھا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا.اور یہ میرا قیاس شاذ ہی غلط لکھنا تمہیں دروازے میں انہیں منتظر پاتا.“ 8 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا.آنحضرت ملالہ کی تعریف میں بیڈ بائی بہت پسند تھی بلغ الـعـلـى بـكـمـالـه كَشَفَتْ الدُّجى بِجَمَالِهِ حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ صَلُّوا عَلَيْهِ وَآلِهِ 11

Page 15

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) اور رات بستر پر کئی دفعہ دھیمی آواز میں ترنم کے ساتھ پڑھا کرتی تھیں.مجھے بھی خود مترنم آواز میں ساتھ پڑھوا کر یاد کرواتی تھیں“.7 آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بہت ہی گہرا احترام تھا با وجود بہو ہونے کے ہمیشہ اپنے آپ کو حضور علیہ السلام کی اولاد سے کم مرتبہ سمجھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں:.مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں جب کوئی نازک موقع آتا.میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کر سکتا تھا.ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی تھی چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے تھے.اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں ہے.یہ مر جائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہے گی.ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے.اور تھکان کی شکایت نہیں کی.انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے.یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بد نامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو، بھول جاتیں کھانے پینے کو، بھول جاتیں اپنے بچوں کو، بلکہ بھول جاتیں مجھ کو بھی اور صرف انہیں وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا.اور اس کے 12

Page 16

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) بعد جب کام ختم ہو جاتا تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لیٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا یہ عورت ابھی کوئی بڑا آپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے.اور وہ کام ان کے بیمار جسم کیلئے واقعہ میں بڑا آپریشن ہی ہوتا تھا.8 جماعت اور احباب جماعت سے جس قدر محبت آپ کے دل میں تھی اس کا اندازہ آپ کے بڑے بھائی حضرت سید زین العابدین کے مضمون سے لگایا جاسکتا ہے وہ فرماتے ہیں.جب حضرت ام طاہر آخری بیماری میں لاہور کے ایک ہسپتال میں داخل تھیں ، 25 دسمبر کی شام کو میں اور طاہر احمد حضرت خلیفتہ ایح الرابغ دونوں اُن سے ملنے گئے تو مجھ سے پوچھا آپ جلسہ پر نہیں جائیں گے؟ میں نے کہا کہ ناظر صاحب تو بار بار تاکید کر رہے ہیں کہ میں تقریر کے لئے پہنچ جاؤں مگر ادھر آپ کا بخار پھر تیز ہو رہا ہے میرا دل جانے کو نہیں چاہتا.غمگین سی ہوکر بولیں.بھائی میں تو اس مبارک موقعہ پر کوئی خدمت کرنے سے رہی آپ بھی میری وجہ سے خدمت سے محروم رہیں ! یہ نہیں ہو سکتا.آپ ضرور جائیں اور پھر جلدی چلے آئیں.میں آبدیدہ ہو گیا.نیکی اور بے بسی کا مجسمہ...پھر مجھے کہا.13

Page 17

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) بھائی! احباب جماعت نے مجھ پر بہت ہی بڑا احسان کیا ہے.بے قراری سے میرے لئے دعائیں کی ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ ایک دفعہ مجھے صحت ہو تو ان کی خدمت میں جو کمی مجھ سے ہوئی ہے وہ پوری کر دوں.یہ کہ کر وہ بھی آبدیدہ ہو گئیں.9 آپ کی شخصیت میں جو نمایاں خوبیاں پائی جاتی تھیں اُن میں بیکسوں، تیموں ،مساکین ، مصیبت زدگان اور مظلوموں سے بے انتہا ہمدردی اور محبت شامل تھی.جب وہ کسی غریب، بیمار یا مصیبت زدہ کو تکلیف میں دیکھتیں تو بے چین ہو جاتی تھیں چنانچہ ان کے گھر میں غریبوں، بیواؤں اور قیموں کا تانتا لگا رہتا تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں.وو مجھے وہ واقعہ غالباً کبھی نہ بھولے گا کہ جب حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی وفات ہوئی تو اس دن میں نے دیکھا کہ ایک غریب مہاجر بہشتی مقبرہ کی سڑک پر رورہا تھا اور جب میں اس کے پاس سے گزرا اور اس کی طرف نظر اٹھائی تو اس نے مجھے سسکیاں لیتے ہوئے کہا کہ آج غریب بالکل یتیم ہو گئے.پھر کہنے لگا بارہ دن پہلے غریبوں کی ماں گزرگئی تھی اور آج باپ بھی رخصت ہوا.اس کا اشارہ سیدہ اُئِم طاہر اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی طرف تھا.میں نے دل میں کہا کہ گو اصل یتیم اور غیر مقیم تو اللہ تعالی کے ساتھ تعلق رکھنے یا نہ رکھنے کے نتیجہ 14

Page 18

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) میں پیدا ہوتا ہے اور جس کا خدا زندہ ہے اور اس کا اس سے تعلق ہے وہ کبھی بھی یتیم نہیں ہوسکتا.مگر اس غریب مہاجر کا کہنا بھی درست ہے کہ ان دو او پر تلے کی موتوں نے قادیان کے غریبوں کے دو بڑے ظاہری سہارے ان سے چھین لئے اور میں نے دعا کی کہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں نعم البدل عطا کرے تا کہ ان دُکھے ہوئے دلوں کی تسکین اور راحت کا سامان پیدا ہو.10 حضرت مولوی ابو العطاء صاحب نے حضرت اُمّم طاہر صاحبہ کے لئے منعقد کئے گئے تعزیتی جلسہ میں فرمایا.حضرت اُم طاہر احمد صرف صاحبزادہ مرزا طاہر احمد کی ماں نہ تھیں بلکہ بیسیوں بیواؤں اور یتامیٰ کی ماں تھیں سینکڑوں غرباء کے لئے بمنزلہ ماں تھیں.آپ اُم المساکین اور اُم الا یا می تھیں.غریب پروری اور خدمت خلق کا جذبہ آپ کے خون میں کھل کر آپ کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا.حمداللہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہراحمد صاحب حضرت خلیفہ مسیح الرابع رحم اللہ تعالی فرماتے ہیں.وفات سے ایک سال پہلے ڈلہوزی میں رمضان کے مہینہ میں باوجود بیماری کے حضور کے تمام عملہ کے لئے سحری کے وقت خود اپنے ہاتھ سے پراٹھے پکا یا کرتی تھیں.بات دراصل یہ تھی کہ حضور ( حضرت 15

Page 19

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) خلیفہ اسیح الثانی) کی طرف سے ان دنوں کے مالی حالات کے پیش نظر جو فریق ملتا تھا اس سے اتنی گنجائش نہیں نکل سکتی تھی کہ گھلا گھی خرچ کیا جا سکے اور جتنا بھی اس غرض کے لئے خرچ کیا جاسکتا تھا اس میں باور چی نے مطلوبہ پراٹھے بنانے سے انکار کر دیا تھا.باورچی مُصر تھا کہ یا مجھے تھی زیادہ دو یا مجھ سے یہ کام نہیں ہو سکتا.ادھر خرچ کی تنگی اس کی اجازت نہیں دیتی تھی.چنانچہ ایک دو روزے اسی کشمکش میں گزر گئے اور عملہ کے اراکین سالن کے ساتھ عام روٹی کھا کر ہی گزارہ کرتے رہے.ماشکی نے امی سے شکایت کی کہ خشک روٹی سے روزے رکھ کر مجھ سے اتنی محنت کا کام نہیں ہوتا ہے.حالانکہ محنت کرنے والوں کو روزے کے دنوں میں اچھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ اسی رات سے آپ نے خود اُٹھ کر پراٹھے پکانے شروع کئے اور اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت عطا فرمائی کہ اسی گھی میں جس میں باورچی کے نزدیک اتنے افراد کیلئے پراٹھے پکنے ناممکن تھے سارے عملے کی ضرورت پوری ہوتی رہی.بیماری کی وجہ سے بعض اوقات آپ کو خاصی تکلیف اٹھانی پڑتی تھی مگر آپ کہتی تھیں کہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ محنت کرنے والے لوگ سحری کے وقت خشک روٹی کھائیں.آپ مزید فرماتے ہیں.16

Page 20

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) بھینسیں رکھنے کا بہت شوق تھا اور صبح کے وقت بڑی کثرت سے لوگ چھاچھ لینے آیا کرتے تھے.جو لوگ زیادہ غریب اور معذور ہوا کرتے تھے اُن کی چھاچھ (لسی ) میں مکھن بھی ڈال دیا کرتی تھیں وفات کے بعد ایک مرتبہ ایک نابینا حافظ صاحب نے بتایا کہ میرے برتن میں ہمیشہ چھاچھ کے ساتھ مکھن بھی بھجوایا کرتی تھیں.11 آپ کی شخصیت جو مختلف خوبیوں کا مجموعہ تھی اس میں ایک اور نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا.اس بارے میں حضرت صاحبزدہ مرزا بشیر احمد صاحب بڑے ہی خوبصورت انداز میں تبصرہ فرماتے ہیں.”مرحومہ کا نمایاں وصف دینی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا تھا.یہ ان کا وصف اس قدر ممتاز تھا کہ عورتوں میں تو خیر ان کی جو پوزیشن تھی وہ تو تھی ہی.ان کا نمونہ اکثر مجاہد مردوں کیلئے قابل رشک تھا.صحت کی خرابی کے باوجود یوں نظر آتا تھا کہ گویا جماعتی کاموں میں حصہ لینے کے لئے ہر وقت چوکس سپاہی کی طرح ایستادہ اور چشم بر اور رہتی ہیں.میں اپنے خاندان کی مستورات سے اکثر ذکر کیا کرتا تھا کہ اس میدان میں اُمّم طاہر دوسروں سے اس قدر آگے اور ممتاز ہیں کہ گویا وہی سارے کاموں پر چھائی ہوئی ہیں اور میں بسا اوقات 17

Page 21

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) تحریک کیا کرتا تھا کہ دوستوں کو بھی جماعتی کاموں میں آگے آنا چاہیے حضرت خلیفہ اسیح یا جماعت کی طرف سے جو تحریک بھی ہوتی تھی سیدو موصوفہ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ اس کا خیر مقدم کرتی تھیں اور پھر اپنے ذاتی اثر اور دن رات کی جدو جہد کے ساتھ اس کے متعلق مستورات میں ایک غیر معمولی حرکت پیدا کر دیتی تھیں".12 جماعتی کاموں میں سے ایک خاص کام جلسہ سالانہ اور مجلس مشاورت کے موقعوں پر انتظامات ہوا کرتے تھے اور جوبلی کے تاریخی جلسہ میں تو یہ کام بہت ہی بڑھا ہوا تھا.زنانہ جلسہ گاہ کا انتظام، پروگرام جلسہ گاہ وغیرہ انہوں نے خود اپنی ذاتی نگرانی میں تیار کروایا.پھر لجنہ اماءاللہ کی طرف سے جو ایڈریس پڑھا گیا وہ بھی آپ نے خود پڑھا.اس ساری ذمہ داری کے ساتھ ساتھ آپ کا اپنا گھر بھی مہمانوں سے بھرا ہوتا تھا ان کے آرام کا خیال بھی ذاتی طور پر رکھتی تھیں غرض ان ایام میں ان تھک محنت اور قربانی کرتیں جس کا تصور بھی مشکل ہے.حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب درد سابق امام مسجد لندن آپ کا ایک عظیم کارنامہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دھیں اپنے مشاہدہ اور یقین کی بناء پر کہ سکتا ہوں کہ احمدی خواتین کا جھنڈا ہرگز نہ بنتا اگر ان کی ذاتی دلچسپی اور توجہ اس طرف نہ ہوتی.اس جھنڈے کا ڈیزائن انہوں نے حضرت صاحب سے منظور 18

Page 22

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) کرایا اور پھر انہی کے زور دینے پر جھنڈا تیار کرایا گیا.اور خواتین کے جلسہ میں اس کا نصب ہونا اور لہرانا سب کچھ انہی کی کوشش کا نتیجہ تھا ورنہ ہمارے پاس وقت اتنا تنگ ہو چکا تھا کہ اس کام کے ہونے کی مجھے کوئی صورت ہی نظر نہ آتی تھی.یہ جھنڈا سیدہ ام طاہر کی جماعتی سعی کا ایک مجسمہ ہے.جس وقت تک لجنہ اور احمدی خواتین کا مرکزی انتظام قائم رہے گا ان کی یہ یادگار بھی زندہ رہے گی.انشاء اللہ " نیز فرماتے ہیں: 66 اس کے علاوہ لوائے احمدیت یعنی جماعت احمدیہ کا جھنڈا تیار ہوا.اس میں بھی ہماری اس بہن کا وافر حصہ ہے.حضرت صاحب ( حضرت خلیفہ اسیح الثانی) کے ارشاد سے یہ عالمگیر جھنڈا صحابہ اور صحابیات کے بابرکت ہاتھوں سے تیار ہوا.صحابیات نے اس کے لئے سوت کا تا مگر یہ کتو ایا کس نے ؟ ہماری بہن نے.میرے درخواست کرنے پر انہوں نے صحابیات کی فہرست تیار کروائی پھر ان کو اطلاع کروائی اور چرخوں کا انتظام فرمایا.اور اس طرح دار المسیح میں سب سوت کتو ا کر وقت پر مجھے بھجوا دیا.پس جماعت کے قومی جھنڈے کی تیاری میں بھی حضرت اُمم طاہر کا ہاتھ کام آیا.کیا ہی مبارک تھا وہ وجود جو جماعت کے کاموں میں اتنا حصہ لیتا تھا فجزاها اللہ احسن الجزاء 13 19

Page 23

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد آپ کی انتظامی قابلیت کا ذکر کرتے ہوئے ایک بہت دلچسپ واقعہ بیان فرماتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی عموماً خاص موقعوں کے انتظامات انہی کے سپر دفرمایا کرتے تھے.مثلاً گھر کی خاص دعوتوں کا انتظام انہی کے سپرد ہوتا تھا.یا کوئی خاص مہمان آجاتا تو اس کی مہمانی کا انتظام بھی زیادہ تر ان کے سپرد کیا جاتا تھا یا اگر کوئی سفر کی تیاری کرنی ہوتی تھی تو ایسے سفر کی تیاری کی انچارج بھی بالعموم وہی ہوا کرتی تھیں.چنانچہ اس وقت مجھے گزشتہ سفر ڈلہوزی کا ایک چھوٹا سا گھر یلو واقعہ یاد آ گیا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی چونکہ گزشتہ سال ایک لمبی بیماری سے اُٹھے تھے اس لئے قیامِ ڈلہوزی کے آخری ایام میں حضور نے صحت کے خیال سے بعض تفریحی سیروں کا انتظام فرمایا تھا.ان سیروں میں سے آخری سیر کا لاٹوپ پہاڑ تک تھی جو ڈلہوزی سے قریباً چھ سات میل چنبہ کی جانب واقع ہے.مستورات کے لئے عموماً گھوڑوں کا انتظام تھا اور مرد پیدل تھے اور ٹرپ کا انتظام بدستور سیّدہ اُمم طاہر کے ہاتھ میں تھا.چونکہ سیدہ موصوفہ نے انتظام وغیرہ کی وجہ سے سب سے آخر میں آنا تھا اس لئے میں نے دیکھا کہ جب ہم اپنے گھروں سے ایک میل نکل آئے تو سیدہ مرحومہ والے گھوڑے پر ان کی بجائے ہماری بڑی ممانی.20 20

Page 24

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) آرہی ہیں.مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہے اور میں نے اس کا ذکر حضرت امیر المومنین سے بھی کیا.اس پر میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرہ پر کسی قدرفکر اور اس کے ساتھ ہی رنج کے آثار ظاہر ہوئے.فکر اس لئے کہ سیدہ ام طاہر کی غیر موجودگی میں کہیں انتظام میں کوئی دقت نہ ہو اور رنج اس لئے کہ ٹرپ کو رونق دینے والی رفیقہ حیات پیچھے رہ گئیں.مگر حضور نے زبان سے صرف اس قدر فر مایا کہ سارا انتظام اہم طاہر نے ہی کیا ہوا ہے اور انہیں ہی معلوم ہے کہ کونسی چیز کہاں ہے اور کونسی کہاں کسی اور کو تو کچھ خبر نہیں.میں نے اشارہ سمجھ کر جلدی سے ایک شخص کو آگے بھگا دیا کہ ڈاک خانہ کے چوک کے پاس جا کر کوئی گھوڑا تلاش کرو اور اگر مل جائے تو فورا لے کر چلے جاؤ اور سیدہ اختم طاہر کو لے آؤ اور خدا کا شکر ہے کہ گھوڑا فورا مل گیا مگر ابھی یہ گھوڑ اواپس جاہی رہا تھا کہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک خادمہ کو لے کر پیدل ہی چلی آرہی ہیں حالانکہ پیدل چلنے سے انہیں سخت تکلیف ہو جایا کرتی تھی.اس وقت میں نے محسوس کیا کہ انہیں دیکھ کر گویا حضرت صاحب کا فکر اور رنج سب دور ہو گیا اور ہم خوشی خوشی آگے روانہ ہو گئے.ان کے پیچھے رہنے کی وجہ معلوم ہوئی کہ جب وہ گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہو رہی تھیں تو حضرت اُم المومنین نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ شوکت ( ہماری بڑی ممانی 21

Page 25

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) صاحبہ ) نے ضرور جانا ہے.ان کے لئے ضرور انتظام کر دو.سیّدہ موصوفہ جنہیں حضرت اماں جان سے انتہائی محبت اور اخلاص تھا فوراً اپنے گھوڑے سے اتر آئیں اور ممانی جان کو اپنا گھوڑا دے کر روانہ کر دیا اور آپ پیدل چل پڑیں.جب حضرت خلیفہ المسح الثانی کی حرم ثانی حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات ہوئی تو ان کے تینوں بچے بہت چھوٹے تھے اور وہ اپنے آخری دنوں میں ان بچوں کی پرورش کی وجہ سے بہت فکر مند تھیں.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ میں نے امتہ الحی مرحومہ سے کہا کہ امتہ الھی تم اس قدر فکر کیوں کرتی ہو اگر میں زندہ رہا تو تمہارے بچوں کا خیال رکھوں گا اور انشاء اللہ انہیں کوئی تکلیف نہ ہونے دوں گا.میں نے ان کی تسلی کے لئے کہنے کو تو کہہ دیا مگر سمجھ نہیں سکتا تھا کہ کیا کروں.آخر امتہ الٹی کی وفات کی پہلی رات میں نے مریم سے کہا.مریم مجھ پر ایک بوجھ آپڑا ہے.کیا تم میری مدد کر سکتی ہو؟ اللہ تعالی کی ہزار ہزار برکتیں ان کی روح پر ہوں.وہ فورا بول پڑیں ہاں میں ان کا خیال رکھوں گی.جس طرح ماں اپنے بچوں کو پالتی ہے.میں ان کو پالوں گی اور دوسرے دن قیوم اور رشید کو لا کر میں نے ان کے حوالے کر دیا.مجھے امتہ ابھی بہت پیاری تھی اور پیاری ہے.مگر میں دیانتداری سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ اگر 22

Page 26

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) وہ زندہ رہتیں تو اس طرح اپنے بچوں کی بیماری میں ان کی تیمارداری کر سکتیں.جس طرح مریم بیگم نے ان کے بچوں کی بیماریوں میں ان کی تیمار داری کی.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی روح کو اپنی گود میں اُٹھا لے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر بھی فضل فرمائے.آمین اُنیس (۱۹) سالہ کا یکدم تین بچوں کی ماں ہو جانا کوئی معمولی بات نہ تھی مگر انہوں نے خوشی سے اس بوجھ کو اٹھایا اور میری اس وقت مدد کی جب ساری دنیا میں میرا کوئی مددگار نہ تھا.انہوں نے مجھے اس وعدہ کی ذمہ داری سے سبکدوش کیا جس سے سبکدوش ہونا میرے بس کی بات نہ تھی.میری نظروں کے سامنے وہ نظارہ آج بھی ہے جب میں قیوم اور رشید کو مرحومہ کے پاس لایا.اور انہوں نے پُر نم آنکھوں سے ان کو اپنے سینہ سے لگاتے ہوئے کہا کہ اب سے میں تمہاری اُمی ہوں اور یہ کبھی ہوئی بچیاں بھی اس وقت سسکتی ہوئی ان کے گلے سے لگ گئیں.14 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب حضرت خلیفہ المسیح الرابع اپنے بچپن کی یادوں میں سے ایک نمایاں یاد جو آپ کے ذہن پر نقش ہوگئی تھی بیان فرماتے ہیں.کہ ان کی بہنوں میں ایک دفعہ محترمہ امتہ الرشید صاحبہ بہت سخت بیمار ہو گئیں جس میں زیادہ تکلیف کے وقت ان کے منہ سے آپا جان آپا 23 23

Page 27

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) جان ( حضرت امتہائی صاحبہ کے بچے آپ ( ام طاہر ) کو " آپا جان کہا کرتے تھے ) کی چیخیں نکلتی تھیں.یہ انہیں کہیں دور سے بلانے کے لئے نہیں ہوتی تھی کیونکہ اکثر ایسے وقت میں اُن کا سر خود اُمّم طاہر صاحبہ کی گود میں ہوا کرتا تھا اور ہر شیخ کے جواب میں وہ سہی جواب دیا کرتی تھیں کہ رشید میں یہیں ہوں دیکھو تم میری گود میں ہو.یہ بچے تو انہوں نے ماں بن کر پالے ہی تھے ویسے بھی دوسرے رشتے داروں سے بھی خاص محبت کرتی تھیں اور بڑے اخلاق سے پیش آتی تھیں اگر کوئی عزیز بیمار ہو جاتا تو اس کی اس طرح خدمت اور تیمار داری کرتیں کہ اپنے آرام کو بھول جایا کرتیں.چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ جب میری لڑکی امتہ السلام سخت بیمار ہوئیں تو اُمم طاہر صاحبہ پورے تین دن رات قریباً مسلسل اس کے سرہانے لگی بیٹھی رہیں اور تیمارداری کے نازک فرائض کو اس محبت اور اخلاص کے ساتھ ادا کیا کہ میرے دل کی گہرائیوں سے دعا نکلتی تھی.یہی سلوک ان کا دوسرے عزیزوں کے ساتھ تھا اور حضرت صاحب خلیفہ اسیح الثانی کی بیماری میں تو ان کی خدمت اور جانثاری انتہاء کو پہنچ جاتی تھی.آخر کار جس کی زندگی کا ایک قابل ذکر حصہ دوسروں کی تیمار داری کے لئے وقف رہا وہ خود بہت سخت بیمار ہوگئیں آپ کی صحت تو عموماً اچھی نہیں رہتی تھی گوہ بعض دنوں میں بظاہر اچھی نظر آنے لگتی تھی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی آپ کی وفات سے کچھ عرصہ پہلے کچھ ڈلہوزی تشریف لے گئے تھے جاتے جاتے حضور نے موسم سرما میں غرباء کی تقسیم 24

Page 28

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) کے لئے جو لحاف تیار کروانے تھے ان کا کام سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کے سپرد کیا اور تاکید کی کہ دو دن کے اندر اندر سارے لحاف تیار ہو جائیں تا کہ دیر ہونے کی وجہ سے غریبوں کو تکلیف نہ ہو.حضرت سیّدہ ام طاہر نے دو دن سارا وقت لگا کر اور بہت سی کارکنات کو اپنے ساتھ رکھ کر یہ لطاف تیار کئے اور بے حد کوفت اُٹھائی اور یہ مشقت آخر کار آپ کی بیماری میں اضافہ کا باعث بنی.بیماری تو کئی سال سے چل رہی تھی مگر عموماً اس کا اظہار کرنے میں حجاب محسوس کرتی تھیں اس لئے بظاہر ٹھیک نظر آتی تھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کیلئے ان تھک محنت کرتی تھیں.حضرت طلیقہ مسیح الثانی اس کی تصویر کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں.بیواؤں کی خبر گیری، بینائی کی پرورش ، کمزوروں کی پریش، جلسہ کا انتظام، باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی اور جب یہ دیکھا جائے کہ اس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چار پائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا.تو احسان شناس کا دل اس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے.اے میرے رب ! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی.15 حضور جب ڈلہوزی کے سفر سے 22 نومبر 1943ء کو واپس تشریف لائے تو اس وقت حضرت اُمّم طاہر صاحبہ بظاہر بالکل اچھی تھیں مگر 24 گھنٹے کے 25

Page 29

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) اندر اندر یعنی 23 نومبر 1943ء کی شام کو بستر میں لیٹ گئیں اور ایسی لیٹیں کہ پھر نہ اٹھیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کے علاج میں کوئی کسر نہیں چھوڑی قادیان میں حضور کے بڑے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب علاج کرتے رہے.جب وہاں افاقہ کی صورت نہ ہوئی تو حضور آپ کو لاہور لے گئے وہاں ڈاکٹر ز نے آپ کے دو آیریشنز کئے مگر حالت دن بدن بگڑتی گئی.ان دو اڑھائی مہینوں میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی با وجود اپنی کمزوری صحت اور سفر کی تکالیف کے دن رات علاج معالجہ اور تیمار داری میں مصروف رہے.حضرت اُمّم طاہر کی نازک اور تشویش ناک حالت کے دوران حضور نے 3 مارچ کو جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں جماعت کو راضی برضاء الہی رہنے کی نصیحت فرمائی جو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے.حضور نے فرمایا:.اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہوا ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ، جہاں تک دعاؤں کا تعلق ہے، دوستانہ رنگ کا معاملہ رکھتا ہے.آقا کے سامنے غلام کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ کوئی بات کرے مگر خدا باوجود آقا ہونے کے اپنے بندوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اس سے دعا ئیں کریں التجائیں کریں....لیکن خدا اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بندہ آقا بننے کی کوشش کرے یعنی وہ یہ خیال کرے کہ جو 26

Page 30

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) کچھ میں کہتا ہوں اللہ تعالیٰ اُسے ضرور قبول کرے.بیشک وہ اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرے مگر اسے سمجھ لینا چاہیے کہ جس طرح دو دوستوں کا آپس میں سلوک ہوتا ہے اس طرح اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کے ساتھ معاملہ ہوتا ہے بھی اللہ تعالیٰ بندے سے کہتا ہے لو میں نے تمہاری دُعا کو سُن لیا اور اپنی تقدیر کو بدل دیا اور کبھی وہ اپنے بندے سے کہتا ہے کہ تم ا.جو کچھ کرتے ہوا سے میری خاطر چھوڑ دو میں اس وقت اپنی مرضی چلانا چاہتا ہوں....مومن کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ آخر دم تک دعائیں کرتا چلا جائے لیکن جب خدا کی مشیت ظاہر ہو جائے ، چاہے خوشی کے رنگ میں چاہیے تھی کے رنگ میں ، تو وہ خدا تعالیٰ پر کسی قسم کے شکوے کا اظہار نہ کرے.آقا آقا ہی ہے اور وہ جس قدر دعا میں مانتا ہے اُس کا احسان ہوتا ہے.پس مومن کو چاہیے وہ ایک طرف تو دعائیں کرتا چلا جائے اور خدا تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور دوسری طرف جب خدا کا فیصلہ صادر ہو جائے چاہے اس کی مرضی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو تو اس کو برداشت کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.16 حضور کے ان ارشادات سے حضور کے بلند مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے.آپ جماعت کو اس عظیم صدمہ سے پہلے ہی تیار کر رہے تھے کہ وہ اس موقع پر خدا تعالی کے متعلق کسی قسم کے شکوہ کا اظہار نہ کریں اور یہ خیال نہ کریں کہ ان کی 27

Page 31

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) دعائیں کیوں قبول نہ ہوئیں.کیونکہ خدا آقا ہے وہ کبھی بندوں کی دعائیں سنتا ہے اور بھی بندوں سے اپنی مرضی منوانا چاہتا ہے.17 تمام جماعت میں آپ کی بیماری کے دوران مسلسل دعاؤں کی غیر معمولی کیفیت پائی جاتی تھی انفرادی دعاؤں کے علاوہ باجماعت تہجد میں خصوصی طور پر آپ کی صحت کے لئے دعائیں کی جاتی رہیں اور صدقات کا سلسلہ بھی مسلسل جاری رہا.قادیان میں تو اس رنگ میں دعا ئیں ہوتی تھیں کہ جیسے لوگ ذبح ہورہے ہوں.مگر بالآخر جیسا کہ حضور نے جماعت کو اس اندوہناک صدمہ کے لئے تیار کرنا شروع کر دیا تھا مشیت ایزدی پوری ہوئی اور 5 مارچ 1944 ء کو حضرت سیدہ اُم طاہر صاحبہ اپنے رب کے حضور جو سب پیاروں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے حاضر ہوگئیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.آپ کی وفات کی خبر سُن کر قادیان میں ایک سناٹا چھا گیا اور ہر طرف اُداسی اور غمگینی پھیل گئی.الفضل نے آپ کی وفات کے متعلق خبر دینے کے بعد لکھا کہ: ”موت بے شک ایک لازمی اور یقینی چیز ہے اور اس سے مفر ناممکن ہے مگر جب وہ اپنا وار کرتی ہے.بالخصوص ایسی صورت میں جب کہ کوئی ایسا قیمتی وجود اس کا نشانہ ہو جس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ مخلوق خدا کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول میں صرف ہو تو رنج وغم کی 28

Page 32

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) گھٹا کا چھا جانا قدرتی بات ہے.ایسے پاک باز انسان کی موت بے شک وصال الہی کا دروازہ ہوتی ہے لیکن زندوں کے لئے بہت بڑے نج اور صدمہ کا باعث ہوتی ہے کیونکہ وہ ان فوائد اور برکات سے محروم ہو جاتے ہیں جو انہیں پہنچ رہے ہوتے ہیں.18 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے آپ کی وفات پر جو مضمون لکھا اس میں وہ آپ کی وفات کے بارے میں لکھتے ہیں: الله ”موت اور فوت تو ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور جلد یا بدیر ہر فرد بشر کوالی تقدیر کے اس اہل دروازہ سے گزرنا پڑتا ہے.مگر مبارک ہے وہ شخص جسے اچھی زندگی کے ساتھ اچھی موت بھی نصیب ہو.اور الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ ہماری مرحومہ بہن نے خدا کی ان دونوں نعمتوں سے پورا پورا حصہ پایا.زندگی تو یوں گزاری کہ سرور کائنات ہے کی نواسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی منتخب کردہ بہو اور بہو بھی دہری بہو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی چہیتی بیوی جس نے اپنے خاوند کے گھر میں ربع صدی تک محبت کا راج کیا.پھر الہی جماعت کے نصف حصہ یعنی احمدی خواتین کی محبوب لیڈر اور جماعتی خدمات میں سب کیلئے اعلیٰ نمونہ.بھلا ایسی زندگی کسے نصیب ہوتی ہے اور موت آئی تو کیسی ؟ پیٹ کی بیماری جس کے متعلق آنحضرت 29

Page 33

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ مومن کیلئے شہادت ہوتی ہے.پھر اس بیماری میں جماعت کے اندر مرحومہ کیلئے خاص دعاؤں اور صدقہ و خیرات کی ایسی غیر معمولی تحریک ، جس کی نظیر نہیں ملتی.پھر عین وفات کے وقت مرحومہ کے ارد گرد تلاوت قرآن اور دعاؤں کا غیر معمولی ماحول.پھر جنازہ میں مومنوں کا عدیم المثال اجتماع جو ساری تاریخ احمدیت میں حقیقہ بے نظیر تھا.پھر جنازہ کی نماز میں غیر معمولی خشوع و خضوع جس کی وجہ سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ لوگوں کے دل پکھل پکھل کر باہر آ رہے ہیں.پھر قبر پر حضرت خلیفۃ اسیح الثانی کی مومنوں کی جماعت کے ساتھ انتہائی سوز و درد کی دعا ئیں اور بالآخر مرحومہ کی وفات پر بہت ہی نیک تحریکات کا آغاز مثلاً مسجد مبارک کی توسیع ، وقف جائیداد کی تحریک، وقف زندگی کی جدید تحریک، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک مزار پر ترقی اسلام کے لئے روزانہ دعاؤں کا اہتمام.یہ سب تحریکات ایسی ہیں جو مرحومہ کی وفات سے براہ راست تعلق رکھتی ہیں اور انشاء اللہ مرحومہ کی روح ان سب مبارک تحریکوں کے غیر معمولی ثواب سے وافر حصہ پائے گی.پھر مرحومہ کی وفات تو مقدر تھی ہیں.مگر خدا نے ایسا تصرف فرمایا کہ ان کی بیماری کو لمبا کر کے ان کی موت کو اس وقت تک روکے رکھا جب تک حضرت 30

Page 34

سیرت حضرت سید مریم النساء (ائم طاہر صاحبہ ) خلیفہ اسی پر پسر موعود کا انکشاف نہ فرما دیا اور اس طرح مرحومہ نے اپنی وفات سے پہلے اس عظیم الشان خوشخبری کو اپنے کانوں سے سُن لیا کہ ان کا سرتاج مصلح موعود ہے.اور اس خبر سے انہوں نے بے حد راحت حاصل کی.یہ سب باتیں ہمارے خدائے قدیر کی قدرت نمائی کا زبر دست کرشمہ ہیں جس نے ہماری مرحومہ بہن کی زندگی اور موت دونوں کو روحانی مٹھاس سے بھر دیا.19 آپ کے عظیم المرتبت شوہر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی آپ کے آخری وقت کی تصویر یوں کھینچتے ہیں کہ: میں قرآن کریم کی بعض سورتیں پڑھ پڑھ کے ان کا ترجمہ کر کر کے انہیں سنا تا رہا اور جب کچھ دیر کے بعد ٹھہر گیا تو انہوں نے کہا کہ اور قرآن پڑھو اس سے میں نے سمجھا کہ انہوں نے اپنی آخری حالت کو معلوم کر لیا ہے.چنانچہ اس وقت میں نے سورۃ یسین پڑھنی شروع کر دی اور میں نے دیکھا کہ وہ بھی اپنی زبان سے یہ دعائیں مانگتی چلی جاتی تھیں کہ لا إِلهَ إِلا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمين O يَا حَيُّى يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ اَسْتَغِيْتُ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَا غُفِرُ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ 31

Page 35

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) الْعَظِيمُ O اور میں نے دیکھا کہ برابر وفات تک اُن کے ہونٹ ملتے رہے اور گوان کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی مگر ان کے ہونٹوں کے ملنے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ برابر وہی دعائیں مانگ رہی ہیں.میں نے ان کی وفات پر جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ میں نے اس جگہ زمین پر خدا تعالیٰ کے حضور شکر کا سجدہ کیا کہ ان کا انجام بخیر ہو گیا.اور تکلیف دہ لیسی بیماری نے ان کے دل میں اپنے رب سے کوئی شکوہ نہیں پیدا کیا.اور اس کی قضا پر وہ راضی ہو کر اس دنیا سے گئیں الحمد للہ رب العالمین.میں سمجھتا ہوں در حقیقت ایک مومن کے لئے سب سے بڑی چیز یہی ہے کہ مرتے وقت اس کی زبان پر اور اس کے عزیزوں کے زبان پر خدا تعالیٰ کا ذکر ہو اور اس کا دل مطمئن ہو اور دعائیں اس کی زبان پر جاری ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو اور اس کی بخشش اس کا احاطہ کرے.وفات کے بعد اُن کی شکل سے کسی طرح بھی یہ ظاہر نہ ہوتا تھا کہ ان کے دل میں موت کے وقت کسی قسم کا کرب تھا بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اطمینان سے سورہا ہو.20 6 مارچ 1944 ء کو آپ کی تجہیز و تکفین ہوئی جس میں بہت ہی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے اور جس طرح آپ کی بیماری کے دوران خصوصی دعاؤں کی طرف جماعت کی توجہ رہی تھی اسی طرح جنازہ میں بھی مسنون دعائیں 32

Page 36

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( أم طاہر صاحبہ ) اتنی رقت اور تضرع کے ساتھ کی گئیں کہ سننے والوں کی چیخیں نکل گئیں.مسنون دعاؤں کے علاوہ بھی ہزاروں افراد نے آپ کے لئے خصوصی دعائیں کیں نماز جنازہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے پڑھائی پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تقریباً قدموں میں آپ کی تدفین ہوئی.قبر تیار ہونے پر حضور نے نہایت درجہ رقت کے ساتھ کسی قدر اونچی آواز میں دعا فرمائی اور اپنی رفیق حیات کو اپنے آقاو مالک کی سپردگی میں دے دیا.اس موقعہ پر اخبار الفضل نے لکھا: غرض سورج غروب ہونے سے قبل وہ مبارک وجود جو جماعت کے لئے نہایت نافع ، بیواؤں اور یتیموں کیلئے ملجاء، مصیبت زدوں اور ستم رسیدوں کے لئے ایک بہت بڑا ظاہری سہارا تھا اور جس کا دربار ہر امیر و غریب کے لئے مساوی طور پر کھلا تھا ہمیشہ کیلئے مادی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا مگر صفحہ عالم پر ایسے نقوش چھوڑ گیا جو انشاء اللہ ابد الآباد تک قائم رہیں گے اور خدا کے فضل و رحمت سے جماعت احمدیہ کی آئندہ نسلوں کے لئے روشنی کے نشان ثابت ہوں گے.جماعت احمدیہ پر اور خصوصاً جماعت کی خواتین پر آپ کے اتنے احسانات ہیں کہ کبھی ان کے شکریہ سے عہدہ برآنہیں ہوسکتیں اس لئے ضروری ہے کہ جماعت کے مرد اور عورتیں سیدہ کی بلندی درجات کے لئے اور آپ کی اولاد کی دینی و دنیوی ترقی کے واسطے ہمیشہ در ددل کے ساتھ دُعا کریں.اے 33

Page 37

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) ارتم از امین خدا تو مرحومه مغفورہ کو اپنے خاص فضل و رحمت کے سایہ میں جگہ دے اور اُن کی اُن تمام نیک مرادوں کو جو دہ زندگی میں رکھتی تھیں بصورت احسن پورا فرما بلکہ اس سے بھی بہت بڑھ کر.آمین کم آمین.21 اس اندوہناک صدمہ کی حالت میں آپ کے تمام بچوں خصوصاً حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع نے جس صبر اور حوصلہ کا نمونہ دکھایا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے.جن دنوں آپ کی اُمی کی حالت انتہائی تشویشناک ہو گئی تھی آپ کے میٹرک کے امتحانات تھے جس کی وجہ سے آپ قادیان میں ہی تھے اگلے دن آپ کا حساب کا پرچہ تھا جس کی تیاری میں مصروف تھے کہ آپ کی والدہ کی وفات کی خبر آگئی اس والدہ کی جس کی جدائی پر پوری جماعت رو رہی تھی آپ نے انتہائی صبر ،حوصلہ، وقار اور رضا جوئی کا مظاہرہ کیا اور کہا مجھے دو تین مرتبہ ایسی خواہیں آچکی ہیں جن سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ بس امی فوت ہو جائیں گی.اگلے دن آپ نے اپنا پر چہ بھی دیا.وہ بچہ جس نے دن رات اس قدر غم اور پریشانی کی حالت میں گزارے ہوں اس کا کمرہ امتحان میں جا کر پر چہ عمل کرنا انتہائی مشکل مرحلہ تھا مگر اپنے نفس پر قابو پانے کی ایسی کوشش صرف اور صرف اللہ کے فضل اور اسی ماں کی تربیت کا نتیجہ تھی.آپ کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے چالیس روزہ 34

Page 38

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) دعاؤں کی تحریک کا آغا ز فرمایا.اس سلسلے میں آپ نے فرمایا: اس کی وجہ میں نے یہ بتائی تھی کہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ شروع شروع میں قبر سے روح کا تعلق زیادہ ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے بھی ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ارواح کا تعلق قبور سے ضرور ہوتا ہے ( الحکم 23 جنوری 1899ء).اسی طرح اولیاء اللہ نے بہت سے کشوف اس بارہ میں بیان کئے ہیں....اسی وجہ سے اُمت محمدیہ کے صلحاء و اولیاء قبروں پر جاتے اور دعا ئیں کیا کرتے تھے.مرنے والے کے لئے بھی ، اپنے لئے بھی اور اس کے دوسرے رشتہ داروں اور عزیزوں کے لئے بھی.ان دعاؤں سے مرنے والے کی روح تسلی پا جاتی ہے.یہ طریق جو عام طور پر لوگوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ قبر پر قرآن پڑھنے لگ جاتے ہیں یہ بالکل لغو ہے.قرآن پڑھنے کا تو ہم کو ثواب ملے گا.مردے کو اس کا کیا ثواب ہو سکتا ہے؟ اصل چیز یہ ہے کہ انسان جب قبر پر جائے تو میت کے لئے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کرے اس کے درجات بلند فرمائے اور اپنے قرب کے دروازے اس کے لئے کھولے.پس چونکہ اس قسم کی دعا کی خاطر میں نے کچھ دن متواتر اُمّم طاہر کی قبر پر جانا تھا.اسلئے میں نے سمجھا کہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی فتوحات کے لئے حضرت مسیح 35

Page 39

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) موعود علیہ السلام کے مزار پر دعاؤں کا سلسلہ شروع کر دیا جائے اور اللہ تعالی سے عرض کیا جائے کہ اے اللہ تو نے اس شخص سے اسلام کی ترقی اور اس کی فتوحات کے متعلق کچھ وعدے کئے تھے.یہ شخص اب فوت ہو چکا ہے اور تیرے یہ وعدے بہر حال ہمارے ذریعے سے ہی پورے ہو ں گے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ہزاروں قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.ہم میں ان کمزوریوں کو دور کرنے کی طاقت نہیں لیکن تو اگر چاہے تو ان کمزوریوں کو بڑی آسانی سے دور کر سکتا ہے.پس تو اپنے فضل سے ان کمزوریوں کو دور فرما اور اپنے اس مامور اور پیارے محبوب سے جو تو نے وعدے کئے ہوئے ہیں ان کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمادے ہم کمزوروں کو طاقت بخش.ہم ناتوانوں کو قوت عطا فرما اور ہمارے اندر اپنے فضل سے تغیر پیدا فرما تا کہ ہم دین کا جھنڈا دنیا میں گاڑ سکیں اور کفر کو نا بود کر سکیں.حضور نے اس چلہ کے آغاز میں دعائیں کرنے کا صحیح طریق کار بیان فرمایا کہ ہر دعا سے پہلے سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے اس کے بعد درودشریف اور پھر جو دعا بھی مانگنی ہو وہ خدا کے حضور عرض کرنی چاہیے.درود کے بارے میں حضور نے فرمایا: ”جب ہم درود پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں 36

Page 40

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج کو بلند فرماتا ہے تو لازماً خدا تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ تحفہ فلاں مومن کی طرف سے آیا ہے.اس پر ان کے دل میں ہمارے متعلق دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی دعا کی وجہ سے ہمیں اپنی برکات سے حصہ دیتا ہے.میں اپنے متعلق بتاتا ہوں کہ جب بھی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر پر دعا کرنے کے لئے آتا ہوں میں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ پہلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کیا کرتا ہوں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے دعا کرتا ہوں اور دعا یہ کرتا ہوں کہ یا اللہ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جو میں اپنے ان بزرگوں کی خدمت میں تحفے کے طور پر پیش کر سکوں.میرے پاس جو چیزیں ہیں وہ انہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتیں.البتہ تیرے پاس سب کچھ ہے اس لئے میں تجھ سے دعا و التجا کرتا ہوں کہ تو مجھ پر احسان فرما کہ میری طرف سے انہیں بخت میں کوئی ایسا تحفہ عطافرما جو اس سے پہلے انہیں جنت میں نہ ملا ہو.میں سمجھتا ہوں جب اس رنگ میں دعا کی جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جنت میں کوئی ایسا تحفہ ملے جو اس سے پہلے انہیں نہ ملا ہو تو وہ ضرور پوچھتے ہیں کہ یا اللہ یہ تحفہ کس کی طرف سے آیا ہے اور جب خدا انہیں بتا تا ہے تو وہ اس کے لئے دعا 37

Page 41

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) کرتے ہیں اور اس طرح دعا کرنے والے کے مدارج بھی بلند ہوتے ہیں.22 چنانچہ حضورخلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے چالیس دن متواتر پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر اور پھر حضرت سیدہ اُمم طاہر صاحبہ کے مزار پر جا کر دعائیں کیں.اس چالیس روزہ دعاؤس کی تحریک کے علاوہ حضور نے آپ کو ثواب پہنچانے کے لئے ایک بڑی رقم وقف کر دی.چنانچہ تفسیر کبیر جلد ششم کو اگست 1945ء میں شائع کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: وو پارہ عم کی تفسیر طباعت کے لئے میں نے دس ہزار روپیہ دیا ہے.اور یہ پارہ اس رقم سے شائع کیا جائے گا.یہ رقم اور اس کا منافع بطور صدقہ جاریہ میری مرحومہ بیوی مریم بیگم، أم طاہر غَفَرَ اللَّهُ لَهَا وَ اَحْسَنَ مَثواها کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے وقف رہے گا اور اس کی آمد سے قرآن کریم ، احادیث اور سلسلہ احمدیہ کی ایسی کتب جو تائید اسلام کے لئے لکھی جائیں شائع کی جاتی رہیں گی اور اُس کا انتظام تحریک جدید کے ماتحت رہے گا.اللہ تعالی اس صدقہ جاریہ کو مرحومہ کے درجات کی بلندی اور قرب الہی کا موجب بنائے.23 حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب حضرت خلیفة المسیح الرابع اپنے مضمون ” میری امی میں بڑے ہی درد بھرے انداز میں فرماتے ہیں: 38

Page 42

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) اپنی مرحومہ ماں کے وہ الفاظ مجھے بار بار یاد آ کر دکھ دیتے تھے جو ایک دفعہ تکلیف کی شدت میں موت کو سرہانے کھڑے دیکھ کر مجھے سے کہے.طاری مجھے یہ بہت احساس ہے کہ میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکی اور جیسا کہ حق تھا تم سے پیار نہیں کیا.بلکہ ہمیشہ بختی کی.یہ صرف تمہاری تربیت کی خاطر تھا.لیکن اس کی بھی مجھے تکلیف ہے تم دعا کرو کہ اللہ تعالی مجھے اس بیماری سے شفا دے دے میں وعدہ کرتی ہوں کہ اب تمہارا خیال رکھوں گی اور گذشتہ ہر کمی کو پورا کروں گی.جب یہ الفاظ مجھے یاد آتے تھے تو دل بے قابو ہو جاتا تھا.آپ مزید فرماتے ہیں.5 / مارچ 1944 ء کو اللَّهُمَّ لَبَيْک کہتے ہوئے اپنی جان جان آفریں کے سپر د کر دی.میں اس وقت قادیان میں تھا.میں نہیں جانتا کہ آخری وقت میں میرا نام بھی اُن کے ذہن میں آیا تھا یا نہیں لیکن یہ توقع ضرور رکھتا ہوں کہ اپنے آخری سانسوں میں انہیں یاد ضرور رکھوں گا“.24 اور یہ وعدہ آپ کے اس عظیم الشان بیٹے نے خوب یا د رکھا اور خوب نبھایا.اپنی وفات سے چند ہفتے پہلے ہی آپ نے جماعت کی غریب اور یتیم بچیوں کی شادی کے موقع پر ایک فنڈ جاری کیا تا کہ کوئی بھی احمدی بچی ایسی نہ ہو 39

Page 43

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) جس کی شادی میں اس کی غربت روک بن جائے اور تمام بچیاں مناسب جہیز کے ساتھ عزت سے رخصت کی جائیں.اس فنڈ کو مریم شادی فنڈ کا نام دیا.یہ وہ صدقہ جاریہ ہے جو آپ نے اس دنیا سے رخصت ہونے سے چند ہفتے پہلے اپنی والدہ کی طرف سے جاری فرمایا.اس کا ثواب انشاء اللہ قیامت تک آپ دونوں کو پہنچتا رہے گا اور ہر بچی کی شادی پر اُس کی اور اُس کے والدین کی دعائیں آپ دونوں کے درجات کی بلندی اور اللہ کے بے حساب فضل اور رحم کھینچنے کا باعث بنیں گی.انشاء اللہ.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع رحمہ للہ تعالی کے ال علاوہ آپ کی تین بیٹیاں تھیں.صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ.صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ.صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ.ان میں سے صرف صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبہ حیات ہیں.آپ کی بیٹیوں نے بھی اپنے اپنے رنگ میں اپنی والدہ کی خوبیوں اور نیکیوں میں سے حصہ پایا اللہ ان سب پر بھی اپنے رحم اور بے حساب فضل کی نظر فرمائے.آمین حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کی وفات پر اپنے مضمون "میری مریم " کے آخر میں آپ کو الوداع کرتے ہوئے جو آخری درد بھرا پیغام دیا اور جو دعائیں آپ کے لئے خدا کے حضور پیش کیں سب جماعت احمد یہ رہتی دنیا تک ان دعاؤں میں شامل ہے.خدا کرے قیامت تک وہ دعا ئیں ان کو پہنچتی رہیں.40

Page 44

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء (أم طاہر صاحبہ ) آمین.حضور فرماتے ہیں: اے مریم کی روح اگر خدا تعالیٰ تم تک میری آواز پہنچا دے تو لو یہ میرا آخری درد بھرا پیغام سُن لو اور جاؤ خدا تعالیٰ کی رحمتوں میں جہاں غم کا نام کوئی نہیں جانتا.جہاں درد کا لفظ کسی کی زبان پر نہیں آتا جہاں ہم ساکنین الارض کی یا کسی کو نہیں ستاتی.والسلام و آخر دعوانا ان الحمد لله ربّ العالمين پھر آگے عربی نظم میں آپ فرماتے ہیں.جس کا ترجمہ یہ ہے غم شیر کی طرح ہوتا ہے اور ہمارے گوشت کو کھا جاتا ہے.اے خدا مجھے اس شیر کا لقمہ نہ بننے دیجیو.اے میرے رب ہمیشہ اُس کے ساتھ رہنا اور اپنا فضل اس پر نازل کرتے رہنا اور اس کا ٹھکانہ ایک بلندشان قبر میں بنانا.اے میرے رب اپنے فضل سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب میں جگہ دینا.جو بڑی بزرگی والے ہیں.بڑا احسان کرنے والے ہیں اور جن کو تو نے بہت عزت بخشی ہے.25 اے اللہ ایسا ہی کر.آمین 41

Page 45

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) حوالہ جات سیرۃ المہدی (حصّہ سوم ) حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب : صفحہ 156 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم صفحہ 293 تابعین اصحاب احمد.حصہ سوم.صفحہ 293 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم صفحہ 305 42 1 7 2 2 3) 4 5

Page 46

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء ( ام طاہر صاحبہ ) 6 تا بعین اصحاب احمد - صفحہ 363 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 تابعین اصحاب احمد - صفحہ 211 تابعین اصحاب احمد.صفحہ 364 تابعین اصحاب احمد - صفحہ 73 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم صفحہ 304-305 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 194-195 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 294 تابعین اصحاب احمد جلد سوم - صفحہ 238 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 361 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم صفحہ 370 خطبہ جمعہ 3 مارچ 1944.الفضل 18 اپریل 1944ء الفضل 18 اپریل 1944ء الفضل 8 مارچ 1944ء تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 318-319 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 337-338 الفضل 8 مارچ1944ء الفضل 7 مئی 1944ء تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 112 تابعین اصحاب احمد صفحہ 224 تابعین اصحاب احمد.جلد سوم.صفحہ 388-389 43

Page 47

سیرت حضرت سیدہ مریم النساء صاحبہ ( امم طاہر) سیدہ مریم (أنتم (Umm-e-Tahir") Published in UK in 2007 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 944 2

Page 47