Ume Sulaim

Ume Sulaim

حضرت اُمِّ سُلَیم ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

بسلسلہ صد سالہ خلافت احمدیہ جو بلی رضی اللہ عنہا حضرت اُم سکیم بنی لجنہ اماء الله

Page 2

حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت اُم سلیم پیارے بچو! حضرت رضی رت اُم سلیم رضی اللہ عنھا اُمّ صلى الله آج آپ کو خادم رسول مہ انس بن مالک کی والدہ کے حالات سناتے ہیں جو نہایت نیک اور پارسا عورت تھیں.ان کی اولاد نے ان سے نیکی کے عمدہ نمونے سیکھے.ان کا نام غمیصاء اور کنیت ام سلیم تھی ان کے والد ملحان بن خالد اور والدہ کا نام ملیہ تھا.(1) حضرت ام سلیم بھی عطر سن کے قبول اسلام اور شادی کا واقعہ بڑا اللہ عنھا دلچسپ ہے.اسلام قبول کرنے سے پہلے حضرت ام سلیم بینی اولہ علما کی شادی مالک بن نضر سے ہوئی تھی.اسی زمانہ میں حضرت انس کی پیدائش ہوئی.جلد بعد ہی اُم سُلیم رضی اللہ علما نے اسلام قبول کر لیا.آپ مدینہ میں ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھیں.آپ کے شوہر مالک بن نضر اپنے پرانے مذہب پر قائم رہنا چاہتے تھے.ام سلیم رضی اللہ عنھ کو جب موقع ملتا انہیں اسلام کی تبلیغ کیا کرتیں.یہ مالک کو نا گوار تھا اس لئے وہ ان کے قبول اسلام سے ناراض ہو کر شام چلے گئے اور وہیں ان کا انتقال ہو گیا.مالک کی وفات کے بعد انہی کے قبیلہ کے ایک شخص ابوطلحہ انصاری

Page 5

حضرت ام سلیم 2 نے ( جو مدینہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی تھے ) ام سلیم کو نکاح کا پیغام دیا.مگر چونکہ ابوطلحہ مسلمان نہیں ہوئے تھے.ام سلیم نے ان کے پیغام کا انکار کر دیا.آپ نے اسلامی غیرت کا شاندار نمونہ دکھاتے ہوئے کہا میں مشرک سے ہرگز نکاح نہ کروں گی.(2) حضرت ام سلیم نے حکمت سے ابوطلحہ کو اسلام کے خوبصورت پیغام کی طرف دعوت دی.ابوطلحہ اس قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے جو درختوں کی پوجا کرتے تھے.ام سلیمہ نے ابوطلحہ سے پو چھا کہ کیا تمہیں پتہ نہیں کہ تمہارا معبود جس کی تم عبادت کرتے ہوزمین سے اگتا ہے.انہوں نے کہا کیوں نہیں ! اُمِ سلیم نے کہا، پھر کیا تمہیں ایک درخت کو پوجتے شرم نہیں آتی ؟ ام سلیم نے انہیں اچھی طرح سمجھایا کہ آپ جیسے معزز آدمی کے پیغام کا میں انکار نہیں کر سکتی لیکن مشرک اور مسلمان کے درمیان شادی جائز نہیں ہے.البتہ اگر آپ اسلام قبول کر لیں تو میں آپ سے کوئی حق مہر طلب نہ کروں گی.آپ کا اسلام قبول کرنا ہی میرا مہر ہو گا.چنانچہ ام سلیم کی تبلیغ سے ابوطلحہ نے کچھ عرصہ بعد اسلام قبول کر لیا.اور ام سلیم نے وعدہ اپنا ء کرتے ہوئے ان سے نکاح کیا.اُم سلیم کے بیٹے انس کی ولایت میں یہ نکاح طے پایا.(3)

Page 6

حضرت اُم سلیم 3 جیسا کہ ذکر ہوا ہے انس ام سلیم کی پہلی اولاد تھے جو ان کے اُم پہلے شوہر مالک بن نضر سے تھے.ابوطلحہ سے ان کے دو بیٹے عبد اللہ اور ابوعمیر ہوئے.وہی ابو عمیر جنہوں نے ایک چڑیا پال رکھی تھی اور اس کا صلى الله نام نظیر رکھا تھا.یہ چڑیا ایک دفعہ اچانک کم ہو گئی یا مرگئی تو حضور اے نے ابو عمیر کو پریشان دیکھ کر از راہ مزاح ان سے فرمایا کہ اے ابو عمیر نظیر نے تیرے ساتھ کیا کیا ؟ (4) ابو عمیر کمسنی میں فوت ہو گئے ان کی وفات پر حضور ﷺ نے ام سلیمہ کے نعم البدل کی دعا کی جس کے بعد عبد اللہ پیدا ہوئے اور ان سے ابوطلحہ اور ام سلیم کی نسل چلی.اس بچے کی پیدائش پر ان کی والدہ ام سلیم نے بڑے بیٹے انس کے ہاتھ نوزائیدہ بچے کو دعا اور برکت کی غرض سے حضور ﷺ کی خدمت میں بھجوایا.آنحضور اللہ نے جب انس کو بچہ اٹھائے آتے دیکھا تو فرمایا معلوم ہوتا ہے ام سلیم کے ہاں بچہ ہوا ہے.یہ وہی بچہ تھا جس کی پیدائش سے پہلے حضور اللہ نے اسکے لئے دعا کی تھی.حضور میلے نے پیار سے اس بچہ کو گود میں لے لیا اور مدینہ کی عمدہ اور مشہور کجھور مجھ منگوائی.اسے چبا کر نرم کر کے بچہ کے منہ میں ڈالا تو وہ چوسنے لگا.حضور ﷺ نے فرمایا دیکھو انصار کو کجھور سے کیسی محبت ہے کہ

Page 7

حضرت اُم سلیم نومولود بچہ بھی شوق سے کجھور چوسنے لگا ہے.حضور میلے نے اس بچے کا لگا.نام عبد اللہ رکھا اور اس کے لئے برکت کی دعا کی.روایت ہے کہ عبداللہ کے نو بیٹے ہوئے اور وہ سب کے سب قرآن کے حافظ تھے.ام سلیم کی سیرت کا دلکش اور اہم پہلوان کا حضور ﷺ کی دعاؤں پر کامل یقین ہے.کتنے اہتمام سے وہ اپنے نومولود بچے کو برکت اور دعا کے حصول کے لئے ا.حضور ﷺ کی خدمت میں بھجواتی ہیں تا کحضور ﷺ کی دعاؤں سے صلى الله فیضیاب ہو سکیں.(5) ام سلیم کو خود بھی دعاؤں سے اتنا شغف تھا کہ ایک دفعہ انہوں نے خود حضور یا اللہ سے عرض کیا کہ مجھے کچھ کلمات سکھا ئیں جو اپنی دعاؤں میں پڑھا کروں اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ: تم دس دفعہ سبحان اللہ دس دفعہ الحمد للہ اور دس دفعہ اللہ اکبر کہو ، پھر جو دعا کرو گی اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا.‘ (6) صلى الله دس سال کی عمر میں ان کی والدہ انہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت کرنے کے لئے آپ ﷺ کے پاس لے گئیں اور حضور مینے سے عرض کیا، یا رسول اللہ یہ سوائے میرے ہر انصاری مرد یا عورت نے آپ کو کوئی نہ کوئی تحفہ دیا ہے.میرے پاس بس میرا یہی بچہ ہے.اگر آپ سے اسے قبول فرما لیں تو مجھے بے حد خوشی ہوگی.حضور اللہ نے

Page 8

حضرت ام سلیم 5 الله انس کو اپنے پاس رکھ لیا اور انہوں نے دس سال تک رسول اللہ ﷺ کی خدمت کی توفیق پائی.حضرت انس نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں جو کچھ سیکھا اس کا ذکر اس طرح کیا کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے مجھے یہ نصائح فرما ئیں.(1) اے میرے بیٹے میرے راز کی حفاظت کرنا تم مومن بن جاؤ گے.(2) اگر ہو سکے تو ہمیشہ باوضو رہنا کیونکہ اگر موت کا فرشتہ باوضو شخص کی روح قبض کرے تو وہ اس کے حق میں اچھا گواہ ہوتا ہے.(3) بیٹے ! اگر ہو سکے تو ہمیشہ دعا میں لگے رہنا کیونکہ جب تم دعا میں مشغول ہو گے فرشتے تمہارے لئے دعائیں کریں گے.(4) جب بھی گھر سے نکلو تو کسی کی طرف (بے وجہ ) نظر اٹھا کرمت دیکھنا سوائے اس کے کہ تم سلام کرو اگر اس حال میں گھر جاؤ گے تو تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہوگا اور تمہارے گھر والوں کے لئے برکت کا موجب ہوگا.(5) اگر تم میری اطاعت کرو تو موت سے بڑھ کر تمہیں کوئی چیز محبوب نہ ہو.(7) حضرت اُم سلیم رشتہ میں رسول اللہ ﷺ کی خالہ تھیں اور ان صلى صلى اللهم ان کے شوہر ابوطلحہ رسول اللہ ﷺ کے فدائی عاشق تھے.حضور علا

Page 9

حضرت اُم سلیم 6 کے گھر بے تکلفی سے آتے جاتے تھے اور بعض دفعہ ان کے گھر تشریف لا کر آرام فرماتے.حضرت اُم سلیم آپ ﷺ کو کھانے پینے کی چیزیں پیش کرتیں تو آپ نے انہیں قبول فرما لیتے اور اسی طرح بے تکلفانہ انداز میں دینی سوال بھی کر لیا کرتیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم بڑی شفقت سے ان کو جواب دیتے.ایک دفعہ حضرت ام سلیم کے ہاں رسول اللہ اللہ تشریف لائے وہ گھر پر نہ تھیں آپ آرام کی خاطر بستر پر سور ہے.کسی نے ام سلیم کو اطلاع کی کہ رسول اللہ نے آپ کے بچھونے پر سو رہے ہیں.ام سلیم آئیں تو دیکھا ک حضور مالے پسینہ سے شرابور ہیں.وہ موقع غنیمت جانتے الله ہوئے حضور ﷺ کا پسینہ پونچھ کر شیشی میں بھر نے لگیں حضور ﷺ بھی چونک گئے اور فرمایا کہ یہ کیا کر رہی ہیں.ام سلیم کہنے لگیں کہ اسے اپنی خوشبو کی شیشی میں ڈالوں گی کیونکہ آپ ﷺ کا پسینہ سب سے بڑھ کر خوشبو ہے اور یہ میں اس لئے کر رہی ہوں تا کہ ہمارے بچے اس سے برکت حاصل کر سکیں.آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے.(8) صلى الله اسی طرح ایک مرتبہ حضور اے ام سلیم کے گھر تشریف لائے.انہوں نے حضور اللہ کی خدمت میں کھجور اور مکھن پیش کیا تو حضور ما ہے

Page 10

حضرت اُم سلیم صلى الله نے فرمایا کہ ان چیزوں کو برتن میں ہی رہنے دو میں روزہ سے ہوں.پھر حضور میلے نے گھر میں ایک طرف جا کر نفل نماز ادا فرمائی، ام سلیم اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا کی.ام سلیم نے حضور ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ میری ایک خواہش ہے.حضور ﷺ نے پوچھا، وہ کیا ؟ انہوں نے جواب دیا، آپ کا خادم انس، اس کے لئے دعا کی درخواست ہے.تب حضور ﷺ نے دعا کی ، اے اللہ انس کے مال اور اولاد میں برکت عطا فرما.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کو غیر معمولی طور پر قبول فرمایا.چنانچہ سو تک ان کی اولاد ہوئی.ان کا باغ سال میں دو دفعہ پھل دیتا تھا اور انہوں نے بہت بہی عمر پائی.(1) صلى الله کسی نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ع امہات المؤمنین کے علاوہ صرف اُم سلیمہ کے گھر جاتے ہیں اس کی کیا حکمت ہے؟ صلى الله آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک تو میرا ان سے رحمی رشتہ ہے جس کا حق ادا کرنا مجھ پر لازم ہے دوسرے ان کے والد اور بھائی ایک جنگ میں شہید ہو گئے تھے مجھے اس کا بھی پاس ہے.(10) اُمِ سلیم اور ان کے خاوند ابوطلحہ کا ایک عجیب اور بظاہر نا قابل یقین واقعہ ان کے بیٹے ابو عمیر کی وفات پر ان کے غیر معمولی صبر کا ہے.

Page 11

حضرت اُم سلیم 8 واقعہ یوں ہے کہ ابو عمیر جو ام سلیم کے بہت ہی پیارے بیٹے تھے شدید بیمار ہو گئے.ان دنوں ابو عمیر کے والد بوطلحہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے.اسی بیماری میں ابو عمیرا چانک فوت ہو گئے اس موقع پر ان کی والدہ اُم سلیم نے جنہیں اپنے بیٹے سے بہت محبت تھی.کمال صبر کا نمونہ دکھایا.وہ نہ تو خود پریشان ہو ئیں نہ سفر سے آتے ہی اپنے شوہر کو پریشان کیا.بلکہ بچے کو اللہ کی امانت جان کر صبر کر لیا اور سب گھر والوں سے کہہ دیا کہ کوئی ابوطلحہ کو ان کے بیٹے کی وفات کے بارہ میں نہ بتائے.جب ابو طلحہ رات گئے واپس لوٹے اور بیمار کا حال پو چھا تو اہم سلیم نے بڑے صبر اور عقلمندی سے کام لیتے ہوئے ذومعنی جواب دیا کہ بچہ بہت سکون میں ہے.ان کا مطلب تھا کہ وہ بیماری کی تکلیف سے آزاد ہو کر خدا کے حضور حاضر ہو چکا ہے.ابوطلحہ سمجھے کہ شاید بچہ صحت یاب ہو گیا ہے.پھر اُمِ سلیم نے ابوطلحہ کو کھانا پیش کیا اور وہ دونوں آرام سے سو گئے.اگلی صبح جب نماز کے لئے مسجد نبوی جانے لگے تو ام سلیم نے انہیں روک کر پوچھا ابوطلحہ اگر کوئی شخص ہمارے پاس اپنی کوئی امانت رکھوائے اور پھر واپس مانگ لے تو کیا ہمیں وہ امانت واپس دینی چاہیئے یا نہیں؟ ابوطلحہ نے کہا ہاں کیوں نہیں ؟ اس پر ام سلیم نے ان سے کہا کہ پھر آپ اپنے

Page 12

حضرت اُم سلیم 9 بیٹے کی وفات پر صبر کریں کیونکہ وہ بھی ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت تھا اور اب اس نے ہم سے اپنی امانت واپس لے لی ہے.ابوطلحہ مسجد نبوی میں جا کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو سارا صل الله صلى الله واقعہ کہہ سنایا.حضور علیہ نے فرمایا کہ اللہ تم دونوں کی آج کی رات میں برکت ڈالے اور اس بچے کا نعم البدل عطاء کرے.چنانچہ حضور نے کی یہ دعا ان کے حق میں قبول ہوئی اور اُمِ سلیم کی اولاد میں ایسی برکت پڑی کہ دس بیٹے ہوئے اور سب کے سب قرآن کے حافظ تھے.(11) حضرت ام سلیم کو حضور مال سے بے انتہا محبت تھی.ایک دفعہ اہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے.پیاس محسوس ہونے پر بے تکلفی سے اٹھ کر ان کے مشکیزہ سے منہ لگا کر پانی پی لیا.ام سلیم نے تبرک کی خاطر مشکیزہ کا منہ کاٹ کر اپنے پاس رکھ لیا.(12) ย ام سلیم حضور ﷺ کے ٹوٹے ہوئے بالوں کو بھی شیشی میں محفوظ کر لیتی تھیں.اسی طرح حضور ﷺ کا پسینہ بھی اپنے پاس خوشبو کے طور پر رکھتیں.مگر محتاط اتنی تھیں کہ اپنی وفات سے پہلے وہ وصیت کر گئیں کہ ان چیزوں کو میرے ساتھ دفنا دیا جائے.(13) 5 ہجری میں حضرت زینب سے حضور ﷺ کی شادی کے موقعہ پر

Page 13

حضرت اُم 10 ام سلیم نے گوشت کا عمدہ کھانا تیار کیا اور اپنے بیٹے انسٹ کے ہاتھ کھانے کا بھرا برتن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھجوایا اور کہلا بھیجا کہ اس خوشی کے موقعہ پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ حقیر ساتحفہ قبول فرما ئیں.(14) صلى الله 7 ہجری میں غزوہ خیبر کے بعد حضرت صفیہ کی حضور ﷺ سے شادی ہوئی تو ام سلیم نے ہی حضرت صفیہ کو دلہن بنایا.ام سلیم اکثر حضور ع کے گھر کی خواتین کے ساتھ غزوات اور سفروں پر جایا کرتی صلى الله تھیں.(15) ام سلیم کا ایک اور دلچسپ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کی علی ام سلیم کے ہاں پرورش پانے والی ایک بچی پر نظر پڑی تو از راہ شفقت فرمایا ، ارے تم تو بہت بڑی ہو گئی ہو.پھر از راہ مذاق فرمایا، اور بڑی مت ہوتا.اس پر وہ بچی روتے ہوئے امر سلیم کے پاس چلی گئی.آخر سلیم نے پوچھا میری بچی کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا ہے کہ اب اور بڑی نہ ہوتا.بس اب تو میں کبھی بڑی نہ ہو سکوں گی.یہ سن کر اُم سلیمز جلدی سے اٹھیں اور اپنی چادر اوڑھی اور حضور میلے کی خدمت میں حاضر ہو گئیں.رسول اللہ ﷺ نے پوچھا اُم سلیم کیا ہوا ؟ انہوں نے عرض کیا ، یا رسول اللہ کیا آپ نے میری یتیم بچی کو بد دعا دی

Page 14

حضرت اُم سلیم 11 ہے.حضور ﷺ نے پوچھا وہ کیسے؟ انہوں نے حضور ﷺ کو سارا قصہ نایا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ تو یہی سمجھ رہی ہے کہ آپ اللہ نے یہ کہہ کر اور بڑی نہ ہونا اسے بد دعا دے دی ہے اس پر رسول اللہ ﷺہ ہنس پڑے اور فرمانے لگے اے ام سلیم کیا تمہیں پتہ نہیں کہ میں نے اپنے رب سے کیا شرط کر رکھی ہے؟ میں نے کہہ رکھا ہے کہ میں تو ایک انسان ہوں اور ایک عام انسان کی طرح ہی خوش بھی ہوتا ہوں اور غصے بھی.اگر میں اپنی امت میں سے کسی کے بارہ میں کوئی ایسی بات کہہ دوں جس کا وہ اہل نہ ہوتو وہ بات اس کے لئے قیامت کے دن طہارت, پاکیزگی اور قرب الہی کا موجب بنا دے (16) اس واقعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ام سلیمہ یتیم بچوں کی اپنے گھر میں نہایت پیار اور محبت سے پرورش کیا کرتی تھیں.بچوں کے نازک جذبات، ان کی معصومانہ تکالیف کا احساس کرتیں اور انہیں دور کرنے کی بھی کوشش کرتی تھیں.حضرت ام سلیم حضور ﷺ کی بہت صلى اللهم اطاعت گزار صحابی تھیں اور آپ میلے کے ہر حکم پر عمل کرنے کی کوشش کرتی تھیں.ایک خاتون بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم سے اس بات پر بیعت لی کہ ہم نوحہ نہیں کریں گی.اس عہد کا جن پانچ عورتوں

Page 15

حضرت ام سلیم 12 نے حق ادا کر کے دکھا یا ان میں سے ایک امر سلیمہ بھی تھیں.(17) مدینہ کے ابتدائی دنوں کی بات ہے ایک روز ابو طلحہ ام سلیمہ کے الله پاس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے حضور ﷺ کی آواز میں کمزوری محسوس کی ہے.لگتا ہے کہ حضور ہم مسلسل فاقہ سے ہیں.کیا تمہارے پاس گھر میں کھانے کے لئے کچھ ہے ؟ ام سلیم نے کہا ، ہاں اور پھر فوراً کچھ روٹیاں ایک کپڑے میں لپیٹ کر اپنے پیارے بیٹے انس کے ہاتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجواد ہیں.انس کہتے ہیں ، میں مسجد صلى الله نبوی میں حضور ﷺ کے پاس گیا.آپ ﷺ اپنے صحابہ میں تشریف فرما تھے.میں سامنے جا کر کھڑا ہو گیا.حضور ﷺ نے فرمایا ، کیا ابوطلحہ نے تمہیں کھانے کی کوئی چیز دے کر بھیجا ہے.انس نے عرض کی ، جی صلى الله صلى الله ہاں ! اے اللہ کے رسول علﷺ.رسول اللہ ﷺ نے تمام حاضرین مجلس سے فرمایا کہ چلو ابوطلحہ کی طرف چلیں.انس کہتے ہیں کہ میں نے جا کر الله ابوطلحہ کو بتایا کہ حضور ﷺ صحابہ کے ساتھ تشریف لا رہے ہیں.ابوطلحہ صلى الله نے ام سلیم کو بتایا کہ حضور علیہ تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس کھانے کا مناسب انتظام نہیں ہے.ام سلیم نے بڑے تو کل سے جواب الله دیا کہ اللہ اور اس کا رسول علے بہت بہتر جانتے ہیں.تب ابوطلحہ بھی

Page 16

حضرت ام سلیم 13 تو کل کرتے ہوئے گھر سے نکلے اور حضور میں اللہ کو اپنے ساتھ گھر لے آئے.حضور میلے نے آتے ہی فرمایا کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ.ام سلیم وہی روٹیاں لے آئیں.حضور اللہ کے حکم پر ان روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کئے گئے.ام سلیم نے اپنے گھی کے برتن میں سے کچھ بھی نکال کر ان روٹیوں پر ڈالا پھر رسول اللہ ﷺ نے دعا کی اور فرمایا دس دس کر کے صحابہ اندر آتے جائیں اور کھانا کھاتے جائیں.اس طرح وہاں موجود تمام لوگوں نے کھانا کھایا جن کی تعداد ستر اسی کے قریب تھی.(18) حضرت اُم سلیم انتہائی مہمان نواز اور لوگوں کا بہت خیال رکھنے والی خاتون تھیں.آپ کی قربانی اور ایثار کا ایک مشہور واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضور یا اللہ کے پاس ایک مہمان آیا تو پہلے تو آپ کے نے ازواج مطہرات کی طرف پیغام بھجوایا کہ اس مہمان کی مہمان نوازی کی جائے.اتفاق سے اس وقت کسی کے پاس کچھ نہ تھا جس سے اس مہمان کی مہمان نوازی کی جاتی.پھر جب آپ ﷺ نے صحابہ میں اس کی تحریک فرمائی تو ابوطلحہ نے بخوشی اس کی حامی بھر لی.گھر جا کر اپنی اہلیہ ام سلیم سے کہا کہ یہ حضور ﷺ کا مہمان ہے اس کی ضیافت کا انتظام

Page 17

حضرت اُم سلیم 14 کریں.اس پراُم سلیمہ کہنے لگیں کہ گھر میں صرف بچوں کے لئے ہی معمولی سا کھانا ہے.اس صورتحال میں ان دونوں نے یہ ترکیب سوچی کہ بچوں کو کسی نہ کسی طرح ملا دیا جائے اور کھانا مہمان کی خدمت میں پیش کر دیا جائے.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مین کھانے کے وقت اُم سلیم چراغ ٹھیک کرنے کے بہانے انھیں اور اسے بجھا دیا تا کہ حضور منانے کا مہمان پیٹ بھر کر کھانا کھا لے.جب مہمان نے کھانا شروع کیا تو دونوں میاں بیوی یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ مہمان کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں اور خالی منہ ہلا کر مچا کے لیتے رہے اس طرح انہوں نے رات بھو کے رہ کر گزار دی.صبح جب ابوطلحہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ رات میرے مہمان کے ساتھ جو اچھا سلوک تم نے کیا اللہ بھی اس پر خوشی سے مسکرا رہا تھا.(19) الله حضور ام سلیم اور انصار کی بعض عورتوں کو خدمت کے لئے غزوات میں اپنے ساتھ رکھتے تھے اور یہ خواتین مشکیں بھر بھر کے لاتیں اور لوگوں کو پانی پلاتیں اسی طرح زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کیا کرتی تھیں.آپ کی جرات کا یہ واقعہ بھی مشہور ہے کہ غزوہ حنین کے موقعہ پر صلى الله آپ کے پاس ایک خنجر دیکھ کر آپ کے خاوند ابوطلحہ نے حضور ﷺ سے

Page 18

حضرت اُم سلیم 15 عرض کیا کہ ام سلیم نے بھی کمر بند میں منجر چھپا رکھا ہے.حضور یا اللہ کے پوچھنے پر ام سلیم نے بتایا کہ میرا ارادہ ہے کہ جو مشرک میرے سامنے آئے گا اس کا پیٹ چاک کر دوں گی.اس پر حضور ﷺہ مسکرائے.پھر ام سلیم نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ نے فرار صلى الله صلى الله ہونے والوں کے بارے میں حکم فرما دیں.حضور نے فرمایا کہ تمہیں اس سل الله کی فکر کی کوئی ضرورت نہیں اللہ خود ان کا انتظام کر لے گا.(20) حضرت اُم سلیم" وہ خوش نصیب خاتون تھیں جنہیں رسول ملے نے ان کی زندگی میں جنت کی خوشخبری دی.رسول کریم ﷺ نے اپنی ایک رؤیا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جنت میں کسی کے قدموں کی آہٹ سنی تو مجھے بتایا گیا کہ یہ قمیصاء بنت ملحان ام سلیم ہے.ام سلیم کی وفات حضرت ابو بکر صدیق " کے عہد خلافت میں ہوئی.(21)

Page 19

حضرت اُم 16 (1) حوالہ جات الاصابۃ فی تمیز الصحابہ لابن حجر جلد 8 ( صفحہ 243 - 244 ) (2) الاصابة فی تمیز الصحابہ لابن حجر جلد 8 ( صفحہ 243 ) (3) نسائی کتاب النکاح (4) (6) (7) معجم الاوسط جلد 4 ( صفحہ 280 ) مسلم کتاب الفضائل و کتاب الادب ترمذی کتاب الصلاة علل المتناحیه جلد 1 ( صفحہ 351 ) (8) مسلم کتاب الفصائل (9) بخاری کتاب الصوم (10) مسلم کتاب الفضائل واصابة جلد 8 (صفحہ 243 ) (11) مسلم کتاب الفضائل (12) مسند احمد بن جنبل (13) بخاری کتاب الاستفدان (14) مسلم کتاب الفصائل مناقب الانصار مسلم کتاب الفضائل مناقب الانصار (15)

Page 20

حضرت ام سلیم 17 مسلم کتاب الفضائل مناقب الانصار (17) بخاری کتاب الجنائز (18) بخاری کتاب الاطمعه (19) بخاری کتاب المناقب (20) بخاری کتاب المغازی واصابة جلد 8 ( صفحہ 243 ) (21) مسلم کتاب الفضائل (22) سیر الصحابہ جلده ( صفحه 129 ) از سید سلیمان ندوی

Page 21

حضرت ام سلیم (Hadrat Umm-e-Sulaim") Published in UK in 2007 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: 1 85372 999 x

Page 21