Ume Muzaffar

Ume Muzaffar

حضرت سرور سلطان صاحبہ

المعروف اُمّ مظفر ؓ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

Book Content

Page 1

بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی حضرت سرور سلطان صاحبہ المعروف أمّ مظفر رضى الله تعالى عنها لجنہ اماءاللہ

Page 2

حضرت سرور سلطان صاحبہ المعروف أمّ مظفر رضى الله تعالى عنها

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لوصد سالہ خلافت جو ہلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت اُم مظفر 1 پیارے بچو! حضرت سرور سلطان صاحبہ المعروف أمّ مظفر رضى الله تعالى عنها قادیان دارالامان کی مبارک بستی میں اللہ تعالیٰ کے ایک پیارے بندے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کا مبارک گھر تھا.جس میں آپ علیہ السلام کے ساتھ اور بھی بابرکت وجود رہتے تھے.اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام سے بہت خوش تھا اور آپ علیہ السلام کی عبادات کو پیار سے دیکھتا تھا.پھر آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی اصلاح کے لئے بچن لیا اور مسیح اور مہدی بنایا.جب اللہ تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو اُسے بہت سے انعام ، بہت سی نعمتیں اور برکتیں عطا فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کے گھر کو برکتوں سے بھر دیا اور وعدہ فرمایا: تیرا گھر برکت سے بھرے گا اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا اور خواتین مبارکہ میں سے جن میں سے تو بعض کو اُس کے بعد پائے گا تیری نسل بہت ہوگی.“ (1) آج ہم آپ کو جو کہانی سنائیں گے وہ ایسی ہی ایک نیک خاتون

Page 5

حضرت ام مظفر 2 کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت دُور سے لاکر دار المسیح میں بسایا اور وہ نیک نسلوں کی ماں بنیں.پشاور میں ایک مخلص خاندان تھا.جس کے سربراہ حضرت مولوی غلام حسن خان نیازی صاحب 17 مئی 1890 ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوئے.آپ میونسپل بورڈ سکول پشاور میں اُستاد تھے.بعد میں ترقی کر کے رجسٹرار ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں آپ کا تذکرہ فرمایا ہے.(2) آپ کی ایک بیٹی سرور سلطان صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منجھلے بیٹے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نکاح میں آئیں.ان کے رشتہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یوں تحریر فرمایا:.وو...آج تک میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانے لڑکے کے لئے تحریک کرواؤں جس کی عمر 10 برس کی ہے اور صحت اور متانت و مزاج اور ہر ایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے ہیں اور آپ کی تحریر کے موافق ، عمریں بھی باہم ملتی ہیں اس لئے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارہ میں استخارہ بھی کروں گا اور بصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرمائیں اور اس قدر علم ہو

Page 6

حضرت اُم مظفر 3 کہ قرآن شریف با ترجمہ پڑھ لے، نماز اور روزہ اور زکوۃ اور حج کے مسائل سے باخبر ہو نیز با آسانی محط لکھ سکے اور پڑھ سکے اور لڑکی کے نام سے مطلع فرما دیں اور اس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں.“ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا کہ:.چونکہ دونوں کی عمریں چھوٹی ہیں تین 66 برس تک شادی میں تو قف ہو گا.“ اس کے بعد 10 مئی 1906ء کو حضرت میر ناصر نواب صاحب، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اور دیگر احباب قادیان سے پشاور پہنچے اور دلہن سرور سلطان صاحبہ کے ساتھ 16 مئی کو واپس قادیان آگئے.اس طرح ایک مبارک خاتون حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بہو اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی بیوی بن کر الدائر میں داخل ہوئیں.پشاور اور قادیان کے رہن سہن میں زمین و آسمان کا فرق تھا مگر یہ سارے فرق اس 'الدار‘ میں ملنے والی محبتوں اور شفقتوں نے مٹا دیے، حضرت سید ہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ جیسی شفیق ماں نے آپ کو سینے سے لگا لیا، نئے ماحول سے آشنا کرنے کے لئے پیار سے سب باتیں سمجھا تیں ، بلکہ کئی دفعہ اپنے ساتھ بھی سکلا لیتیں ، تا کہ ماں کی یاد بے چین نہ کرے.کتنا خوش نصیب گھرانہ تھا جہاں محبتوں کا راج تھا!

Page 7

حضرت اُم مظفر 4 حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ سے روایت ہے."میری منجھلی بھا بھی جان سیدہ سرور سلطان صاحبہ چھوٹی عمر میں شادی ہو کر ہمارے گھر آگئی تھیں.کچھ چھوٹی عمر ہونے کی وجہ سے اور کچھ طبیعت میں شوخی کی وجہ سے ایک دن ہم چھت پر بیٹھے خربوزے کھا رہے تھے.آپ نے خربوزہ کھا کر چھلکا نیچے پھینک دیا.وہ چھلکا ایک نوکر کے سر پر لگا.اُس نے بُرا مناتے ہوئے یہ کہا تو ایویں جاہیں !“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وضو کر رہے تھے.کسی نے نوکر کی یہ بات آپ علیہ السلام کو بتا دی تو آپ علیہ السلام بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اُس نے سرور سلطان کو گالی نہیں دی.میری نسل کو گالی دی ہے.چنانچہ دیکھ لو! حضرت منجھلے بھائی صاحب کے تمام بچے سیدہ سرور سلطان صاحبہ کے بطن سے ہوئے اور سب کے سب دینی اور دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ مقام پر ہیں.(3) محترم نواب محمود احمد خان صاحب اپنی نانی کی یاد میں اُن سے سُنے ہوئے واقعات اس طرح بیان کرتے ہیں:.دو الدار میں ابتدائی دنوں کا ایک بہت مزے کا واقعہ ہے آپ گھر میں سنایا کرتی تھیں کہ جب میری شادی ہوئی میری عمر بہت چھوٹی تھی.رخصتی سے پہلے میرے والد صاحب نے بار بار یہ نصیحت فرمائی کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تمہارے کمرے میں تشریف لائیں تم نے ان کے

Page 8

حضرت ام مظفر 5 احترام میں فوراً کھڑے ہو جانا ہے بلکہ یہاں تک فرمایا کہ اگر حضور علیہ السلام کمرے سے چلے جائیں اور تم بیٹھ جاؤ لیکن دہلیز سے کوئی بات یاد آ جائے ، دوبارہ لوٹ آئیں، تو پھر تم کھڑی ہو جانا.لہذا جب حضرت اقدس علیہ السلام پہلی دفعہ مجھ سے ملنے کمرے میں آئے تو میں چار پائی پر بیٹھی تھی گبھراہٹ میں اچانک اٹھ کر چار پائی پر ہی کھڑی ہوگئی ، حضور علیہ السلام مسکرائے اور باہر تشریف لے گئے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب کام سے تھک کر آرام کرنے کے لیے لیٹلتے تو حضرت ام ناصر اور میں حضور علیہ السلام کے پاؤں دبایا کرتی تھیں.آپ علیہ السلام کو تھکن کی وجہ سے نیند فورا آ جاتی تھی.جب آپ علیہ السلام سو جاتے ہم حضور علیہ السلام کے پیروں کی انگلیوں میں گڈ گڈی کرتی تھیں.حضور علیہ السلام جھٹکے سے اُٹھتے ہماری طرف دیکھ کر مسکراتے اور پھر سو جاتے ، لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی حضور علیہ السلام نے بُرا منایا ہو یا ڈانٹا ہو.بچھینے کی بات کا ذکر کرتے وقت اناں کی آواز میں رقت آجاتی.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ :.جب حضرت میاں بشیر احمد صاحب کی شادی تو آجکل کی پود کو دیکھتے ہوئی بچہ ہی تھے.مگر بہت سنجیدگی اور وقار سے وہ پہلے پہل دن بھی گزارے.کوئی نا پختگی یا بچپن کی علامت ، لڑائی جھگڑا کسی قسم کی کوئی بات

Page 9

حضرت ام مظفر 6 میں نے نہیں دیکھی منجھلی بھا بھی جان بیاہ کر آئیں ، تو نہ معاشرت نہ طور و طریق ، نہ وضع قطع لباس وغیرہ نہ زبان کچھ بھی مشترک نہ تھا اور آخر نادان کم عمر تھیں.وہ بے چاری بھی کئی بار اگر وہ تعلقات بگاڑنے والے ہوتے تو بگڑ سکتے تھے.مگر ایسی خوش اسلوبی سے نبھایا کہ ایسے نمونے ملتے مشکل سے ہی ہیں.‘ (4) حضرت سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ کو کئی امتیازی شرف حاصل تھے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ دوسری بہو تھیں جو حضور علیہ السلام کی زندگی میں بیاہ کر خواتین مبارکہ میں شامل ہوئیں اور ذریت طیبہ کا خصوصی شرف حاصل ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے گھر میں آپ کے بطن سے صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبه 17 اگست 1907ء کو پیدا ہوئیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دور کی نسل کی اس ہوتی کو دیکھا اس طرح ترکی نسلاً بعيداً والا الهام ظاہری رنگ میں بھی پورا ہوا.شادی کے بعد پہلالڑ کا پیدا ہوا، حمید احمد نام رکھا گیا، یہ پیارا بچہ ہنستا کھیلتا یکدم فوت ہو گیا.اُس کی والدہ نے پہلے تو صبر رکھا.آخر ایک دلدوز آہ اور شیخ ان کے منہ سے نکلی.حضرت اماں جان کو بھی پوتے کی

Page 10

حضرت اُمّ مظفر 7 وفات کا دُکھ تھا.مگر خدا کی رضا پر راضی تھیں، صحن سے اندر کمرے میں تشریف لائیں اور اپنی بہو کو گلے لگا یا اور فرمایا رونا نہیں ، چیخ مارتا بیتاب ہونا! یہ تواللہ تعالیٰ اپنے محسن اور خالق سے لڑائی ہے کہ " تو نے ہمارا بچہ کیوں لیا !“ وہ حکیم و علیم ہے! اگر نہ دیتا تو اس پر کیا شکوہ ؟ اور اگر ہمیں اس قابل نہیں سمجھا کہ یہ بچہ ہمارے ہاں رہتا تو اس کی یہ مین حکمت ہے.اس نے ایک نعمت واپس لینے پر بشرط صبر و رضا نعمتوں کا وعدہ فرمایا ہے.بس مبر سے کام لو ! بے صبروں پر یہ وعدہ پورا نہ ہوگا ! “ یہ سن کر والدہ مظفر احمد خاموش ہو گسکیں.(5) حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے لختِ جگر اور حضرت اماں جان کی گود کے پالے! آپ کے شریک سفر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے قدم قدم پر آپ کی تربیت ایسے خوبصورت انداز میں کی جوصرف آپ کا ہی حصہ تھی.دو واقعات حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الربع نے بیان فرمائے کہ : قادیان کا ذکر ہے ایک مرتبہ گھر کے کسی فرد کا ذکر ہوا.گرمیوں کی شام تھی چچی جان ( حضرت اُمّ مظفر صاحبہ ) باہر صحن میں پلنگ پر بیٹھی تھیں اور عمو صاحب ( حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) مجھے بازو سے

Page 11

حضرت اُم مظفر 8 پکڑے ٹہل رہے تھے.کسی کا ذکر ہورہا تھا جس نے حضرت عمق صاحب تیک کسی کی کوئی بات غلط رنگ میں پہنچائی تھی.جس سے نا حق آپ کے دل میں کچھ رنج پیدا ہو گیا ،مگر چونکہ آپ ہمیشہ ایسے موقع پر متعلقہ شخص سے دریافت کر لیا کرتے تھے.اس لئے تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کو حقیقت حال معلوم ہوگئی.چنانچہ اسی کے متعلق آپ مجھ سے افسوس کا اظہار فرمارہے تھے کہ بعض لوگ خواہ مخواہ فتنہ کا موجب بن جاتے ہیں.یہ سن کر حضرت پیچی جان نے کہا کہ میں آپ کو ہمیشہ کہتی ہوں کہ وہ شخص نا قابل اعتماد ہے مگر پھر بھی آپ اس سے تعلق رکھتے ہیں.اس پر آپ نے وہیں قدم روک لئے اور ایک ایسی آواز میں جو غصہ والی اور اونچی تو نہیں تھی.مگر اس میں بے پناہ قوت پائی جاتی تھی.فرمایا: دیکھو! مجھے ایسا مت کہو ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی کمزوریوں پر لگا ور رکھتا تو اس کا کسی بندہ سے تعلق نہ ہوتا وہ اپنے بندوں کی کسی خوبی پر نظر رکھ کر اس سے تعلق رکھتا ہے پس وہ میری کیسی ہی بدخواہی کرے میں اس سے تعلق نہیں توڑوں گا پھر دھیمی اور نرم آواز میں فرمانے لگے تم جانتی ہو کہ اس میں بعض بہت بڑی خوبیاں بھی ہیں اور پھر ایک دو نمایاں خوبیوں کا ذکر فرمانے لگے.‘ (6)

Page 12

حضرت ام مظفر 9 آپ کے مزاح اور نصیحت کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ ہے آپ فرماتے ہیں :.اتبا جان (حضرت خلیفہ المسیح الثانی ) اور امی جب کبھی سفر پر جاتے تھے تو مجھے اور بھائی خلیل کو عمو صاحب کے ہاں چھوڑ جایا کرتے تھے.چنانچہ ہمیں بعض اوقات کئی کئی مہینہ آپ کے ہاں ٹھہر نے اور آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کا موقعہ ملتا تھا.ایک مرتبہ رمضان کا مہینہ تھا ، چچی جان بسبب بیماری روزہ رکھنے سے معذور تھیں مگر سحری کے وقت تہجد کی غرض سے اور کچھ کھانے پر خیال رکھنے کی خاطر باقاعدہ ساتھ اُٹھا کرتی تھیں.ایک دفعہ ہم سحری کھا رہے تھے کہ کسی خادمہ کی غلطی پر چچی جان نے ذرا اونچی آواز میں اسے سخت سست کہا.عمو صاحب اُن سے تو کچھ نہ بولے مگر مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے تم جانتے ہو کہ تمہاری چچی جان بیمار میں بیچاری روزے تو رکھ نہیں سکتیں، البتہ ذکر الہی کے لئے اس وقت ضرور اٹھتی ہیں ، وہ دن اور رمضان کا آخری روزہ پھر چچی جان نے کبھی سحری کے وقت آواز بلند نہیں کی.‘ (7) 13 جنوری 1960 ء کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے الفضل میں اعلان فرمایا کہ حضرت ائتم مظفر احمد اپنی طرف سے حج بدل کی خواہش رکھتی

Page 13

حضرت ام مظفر 10 ہیں.سو ایسے مخلص اور دعاؤں کا شغف رکھنے والے دوست مجھے مطلع فرمائیں، جو حج بدل کرنے کے لئے تیار ہوں.مئی 1960ء میں آپ نے اعلان فرمایا کہ چوہدری شبیر احمد صاحب بی.اے واقف زندگی کو حضرت ام مظفر اپنے خرچ پر حج بدل کیلئے بھجوا رہی ہیں.دوست دعا کریں کہ اُنہیں حج کا موقعہ میسر آجائے اور حضرت اُمّم مظفر کی یہ دیرینہ خواہش پوری ہو.(8) جلسہ سالانہ کے ایام میں آپ مستورات کے جلسہ کے انتظامات میں حضرت اُم المؤمنین اور حضرت اُمّم ناصر کے ساتھ مل کر مہمانوں کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتیں.لوائے احمدیت کے لئے سوت کا تا گیا تو آپ اس میں شامل تھیں.1942ء میں حضرت سیّدہ ام ناصر احمد صاحبہ کی کمزور صحت اور بیماری کی وجہ سے لجنہ کی صدر حضرت اُمّم طاہر احمد صاحبہ کو منتخب کیا گیا.تو نا ئب صدر حضرت اُمّم مظفر احمد صاحبہ بنیں.(9) حضرت سیّدہ اُمّم مظفر صاحبہ کو ایک بہت بڑی آزمائش سے گزرنا پڑا محض خدا کے فضل و احسان سے آپ اس امتحان میں پوری انتر میں اور سچائی پر قدم جمائے رکھے.ہوا یہ کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد جماعت میں جو فتنہ اُٹھا اور کچھ لوگ لاہور چلے گئے اُن میں آپ کے والد صاحب بھی تھے قریباً چالیس سال آپ لاہوری جماعت میں

Page 14

حضرت ام مظفر شامل رہے.11 یہ بڑی تکلیف کی بات تھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سمدھی خلافت کے منکر ہو گئے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا بے حد دُکھ تھا.دعا ئیں بھی کرتے اور خطوط لکھ کر سمجھانے کی کوشش بھی کرتے.مگر اُن کی بیٹی کو اس بات پر تنگ نہ کرتے اور نہ ہی بیٹی اپنے باپ کی طرف داری کرتیں بلکہ خلافت سے مضبوطی سے وابستہ رہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنے نانا جان سے پوچھا کہ آپ قریباً چالیس سال علیحدہ رہے اب کس طرح بیعت کی.فرمانے لگے: میں اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت کو ر ڈ نہیں کرسکتا....جب ہم علیحدہ ہوئے تو جماعت میں زیادہ با اثر اور معتمد شمار ہوتے تھے پھر اپنا ہیڈ کوارٹر لا ہور چنا.جہاں بغیر ہمیں ملنے کی غرض کے لوگوں کی عام آمد و رفت تھی کیونکہ وہ اہم شہر تھا اور صوبہ پنجاب کا دارالخلافہ.ادھر قادیان جانے کے لئے خاصی مشقت کرنی پڑتی تھی.قادیان ریلوے سٹیشن سے گیارہ بارہ میل کے فاصلے پر تھا یکوں پر تکلیف دہ سفر تین گھنٹے سے زائد کا تھا سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم نے جو عقیدہ پیش کیا وہ بہت نرم تھا لیکن باوجود اس کے ہم دن بدن کمزور اور

Page 15

حضرت ام مظفر 12 تعداد میں کم ہوتے گئے لیکن امامت سے وابستہ حصہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا چلا گیا.میں نے سمجھا کہ میری سمجھ کا قصور تو ہوسکتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں.“ حضرت اُم مظفر کا طرز تحریر بہت عمدہ تھا.الفضل کے خاتم النبین نمبر میں آپ کے مضامین شائع ہوئے جن کے عنوان.الله (1 رسول کریم ﷺ سے صحابیات کا اخلاص.2 تربیت اطفال کے متعلق نبی کریم ﷺ کی اصولی تعلیم.صلى الله نبی کریم مے کی شادیاں آپ کے کمال کا ثبوت ہیں.اب دیکھتے ہیں اس ماں کی گود سے کیسے عظیم الشان بچوں نے جنم لیا.جیسا کہ شروع میں آپ نے پڑھا کہ آپ کی سب سے پہلی خوش نصیب بیٹی حضرت صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ تھیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوئیں اور پرورش حضرت اماں جان اور حضرت مصلح موعود نے کی.1925ء میں مدرسۃ الخواتین کا اجراء ہوا.تو افتتاح کے وقت حضرت صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ بھی طالبات میں شامل تھیں اور 1929ء میں سات خواتین نے مولوی کا امتحان دیا ، سب کامیاب ہوئیں.سیدہ امتہ السلام بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یو نیورسٹی میں اول رہیں.(10) صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کی پیدائش 28 فروری 1913 ء کو

Page 16

حضرت اُم مظفر 13 ہوئی اور آپ کی وجہ سے آپ اُمّم مظفر کے نام سے معروف ہوئیں.آپ حضرت خلیفہ اُسیح الثانی کے داماد تھے.آپ عالمی شہرت رکھنے والے ماہر اقتصادیات تھے.بین الاقوامی اقتصادی اداروں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.آپ نے WORLD BANK اور IMF میں کام کرتے ہوئے ریٹائر ہوئے.آپ متقی دیندار اور مخلص خادم دین تھے.1989 ء سے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے امیر کے طور پر تاریخی خدمات سر انجام دیتے رہے.23 جولائی 2003ء کوامریکہ میں وفات پائی.آپ کو بھی حضرت اماں جان کی زیر تربیت وقت گزارنے کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت اُم مظفر کے ایک واقف زندگی بیٹے صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب کے ہاں ایک ایسے بیٹے نے جنم لیا ، جن کو شہادت کا درجہ نصیب ہوا.شہادت سے پہلے اس عظیم پوتے مرزا غلام قادر نے جارج میسن GEORGE MASON ) یونیورسٹی امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی.چاہتے تو اعلیٰ ملازمت حاصل کر کے دنیا کما سکتے تھے لیکن خاندان مسیح پاک کے اس ہونہار فرزند نے 21 سال کی عمر میں اپنی زندگی وقف کے لئے

Page 17

حضرت ام مظفر پیش کر دی.14 ہماری جماعت کا سب سے بڑا تمغہ حسن کارگردگی خلیفہ وقت کی خوشنودی ہے اور یہ اعزاز قادر کوکئی بار ملا...ربوہ میں کمپوٹر کے شعبے کا آغاز کرنے اور پھر اسے جدید ترین ترقی یافتہ خطوط پر ڈھالنے کی ان کو توفیق ملی، اور بہت تیزی سے مرکز کے تمام دفاتر ، خلافت لا بیرئیری، فضل عمر ہسپتال و دیگر اداراہ جات میں کمپیوٹر کا جدید نظام رائج کیا اور ہر دفتر میں ٹیم تیار کر کے عظیم الشان خدمت جماعت کی کر گئے.(12) آپ کی شہادت پر حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے مرزا غلام قادر احمد صاحب شہید کی اہلیہ نصرت صاحبہ کو روتے ہوئے فون پر فرمایا کہ چھو! اللہ میاں نے اپنے گلشن کا سب وو 66 سے خوبصورت پھول چن لیا ہے.‘ (13) خطبہ جمعہ میں فرمایا:.”مرزا غلام قادر شہید کی رگوں سے وہ خون ٹپکا ہے پاکستان کی سرزمین پر جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان 66 کا خون شامل ہے.“ غلام قادر آئے گھر نور اور برکت سے بھر گیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ پیشگوئی کے طور پر بتا دیا تھا کہ

Page 18

حضرت ام مظفر 15 تیرے گھر میں تیری اولاد میں ایک ایسا شخص پیدا ہوگا ، نو جوان ، جو اپنے گھر کو جس میں پیدا ہوگا برکت اور نور سے بھر دے گا.“ تو یہ اللہ کا احسان ہے ہم اگر بظاہر روتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ساتھ استغفار کی بھی بہت توفیق ملتی ہے کہ رو کس بات پر رہے ہو ، اتنا بڑا اعزاز ایک انسان بے اختیار ہو جاتا ہے.(14) آپ کی چھوٹی بہو آصفہ مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر بریگیڈیر مرزا امبشر احمد صاحب بتاتی ہیں کہ :.ہم رتن باغ لاہور میں رہتے تھے میرا رشتہ طے ہو چکا تھا.میں کافی حکمی تھی.امی جان ( حضرت سیدہ نواب مہار کہ بیگم صاحبہ ) نے مجھے کام کہا جو مجھ سے معیار کے مطابق نہ ہوا.آپ نے کوئی لحاظ نہ کیا ، کچھ فاصلے پر میری ممانی جان (میری ساس صاحہ) بیٹھی تھیں.اُن کو آواز دے کر کہا کہ ”بھا بھی جان میں آپ کو ابھی سے بتائے دیتی ہوں کہ میری بیٹی آپ کے بیٹے کا گھر خاک میں اڑائے گی.انہوں نے بھی سن کر ایک قہقہہ لگایا.( گویا نہ ماں نے بیٹی کا عیب بتانے میں شرم کی اور نہ ساس نے بُرا منایا.یہی اصول تو گھروں کو جنت بنانے والے ہیں ) میں ایک سال اپنے سسرال میں رہی ، میری ممانی جان جو پشاور کی تھیں اور ذرا سخت کبھی جاتی تھیں.میں شادی سے پہلے اُن سے بہت ڈرتی تھی لیکن امی جان کی تربیت کی وجہ سے نہ مجھے

Page 19

حضرت ام مظفر 16 اُن سے اور نہ انہیں مجھ سے کوئی شکایت ہوئی.یہاں میں یہ بھی کہتی چلوں کہ میری ممانی جان بذات خود بہت اچھی ساس تھیں.انہوں نے کبھی میری کسی کوتا ہی اور غلطی پر مجھے نہیں ٹو کا.اب سوچ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ انہوں نے میری بے شمار غلطیاں کس طرح خندہ پیشانی سے معاف کیں.“ (15) آپ بہت متقی اور پر ہیز گارخاتون تھیں اور تقویٰ میں بہت بلند مقام رکھتی تھیں.آپ خدا تعالیٰ سے بہت ڈرنے والی اور تمام عبادات کو مع تمام شرائط ادا کرنے والی تھیں.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اپنی عظیم ماں کے ذکر خیر ان خوبصورت الفاظ میں فرماتے ہیں.”ہمارے بچپن کے ایام میں قادیان کی زندگی بڑی پرسکون اور سادہ تھی.مجھے یاد ہے کہ اسکول جانے سے پہلے اماں خود بچوں کے لئے ناشتہ تیار کرتیں.چائے پشاوری روغنی پیالوں میں، پراٹھوں کے ساتھ ، رس بکرم کے ساتھ ، چولہے کے ارد گرد پیڑھیوں پر بیٹھے ہمیں ناشتہ کراتیں اور اسکول جانے سے پہلے دعاؤں کے ساتھ رخصت کرتیں.چولہے مٹی کے ہوتے تھے.جس میں لکڑی جلتی تھی اور یہ عمل بڑی محنت چاہتا تھا.لکڑی اکثر گیلی ہوتی اور باورچی خانہ دھویں سے بھر جاتا تھا.بچوں کی بیماری میں ان کا بہت خیال رکھتیں ، دوائی پلاتے وقت

Page 20

حضرت اُم مظفر 17 یا شافی ! ، یا کافی ! ، کچھ اس سوز اور درد سے کہتیں کہ ان کی یہ دعائیہ آواز آج بھی میرے کانوں میں گونج جاتی ہے.اماں کی طبیعت میں غصہ بھی تھا لیکن بڑا اوقتی اور سطحی اور ایک لحظہ میں جاتارہتا تھا.اس سلسلہ میں ایک دلچسپ بات اور شہادت کا بھی ذکر کر دوں جب میری (مرزا مظفر احمد ) شادی کا پیغام گیا تو ہماری بڑی پھوپھی ( حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) نے حضرت صاحب کے اشارہ پر بی بی (میری بیوی امتہ القیوم ) سے بات کی اور اس طرح شروع کی ، کہ میاں بشیر احمد منجھلے بھائی کے بچوں کی شادیاں بھی اب ہوں گی.میرے چھوٹے بھائی حمید احمد کے نام سے بات شروع کی تو اس پر بی بی (امتہ القیوم ) بولیں کہ اماں کی سخت طبیعت کے تاثر کی وجہ سے ان کے بچوں کو کون اپنی بیٹی دینے پر راضی ہوگا.حضرت صاحب کو جب یہ بات پہنچی تو انہوں نے بی بی کو خط لکھا کہ اماں کی طبیعت میں سختی ضرور ہے لیکن دل کی بہت اچھی ہیں.اتنے سالوں سے ہمارے ساتھ ہیں ، بڑی پیار کرنے والی ہیں کیا تم سے نہیں کریں گی، ہاں اگر کوئی اور وجہ ہے تو یہ اور بات ہے میں اس معاملہ میں دعا کرؤں گا.حضرت صاحب کی دعا کا اثر تھا کہ بی بی امتہ القیوم کی طبیعت میں انشراح پیدا ہو گیا.اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اصل چیز دعا کی برکت ہے

Page 21

حضرت اُم مظفر 18 جس پر والدین کو انحصار رکھنا چاہیئے.بی بی کہتی ہیں کہ شادی کے بعد یہ حال رہا کہ اماں نے مجھ سے بے حد پیار اور شفقت کا سلوک کیا اور قادیان کے زمانہ تک یہ حالت رہی کہ جب میرے دو چھوٹے بھائیوں کی شادی ہوئی تو ہمارا کمرہ بھی دلہن کی طرح سجایا.شفقت اور پیار کی بات چلی تو ایک اور واقعہ بھی یہاں لکھ دوں.اماں کو ساجدہ ( بنت و فیع الزماں خا ان کی پہلی بیوی ) سے بہت پیار تھا.کئی روز سے اس کی طرف سے کوئی خط یا اطلاع نہ آئی تو طبیعت میں بہت گبھراہٹ پیدا ہوئی.لملازمہ سے کہا کہ جاؤ اس کی نانی سے جا کر پتہ کرو کیا بات ہے، خیریت سے تو ہے ! ملازمہ کہنے لگی کہ آپ کی بیٹی امتہ المجید (جن سے وقیع الزمان کی شادی ہوئی تھی) کے بیٹی ہوئی ہے.اسی مصروفیت یا بیماری میں ساجدہ خط نہ لکھ سکی ہو گی.اماں کہنے لگیں مجھے نوزائیدہ بچی کا اتنا خیال نہیں.مجھے تو اس جوان جہان کا فکر ہے تم جاؤ اور پتہ کرو غرضیکہ جن سے تعلق ہو، وہ بہت گہرا ہوتا تھا.“ حضرت مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں :.”اماں اچانک بیمار ہو کر لاہور آئیں انہی دنوں ایک روز میرا ایک سرکاری دورہ پر ہندوستان جانے کا پروگرام تھا.دوسرے افسران کی بیگمات کا بھی ساتھ جانے کا

Page 22

حضرت اُم مظفر 19 پروگرام تھا.بی بی کا بھی پروگرام بن گیا لیکن اماں کی بیماری کی وجہ سے انہوں نے اپنے جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا اور مجھے کہا کہ اماں کو پتہ نہ چلے کہ میں بھی جارہی تھی.مگر اماں کا اصرار تھا تم بھی جاؤ سیر ہو جائے گی.بی بی کو اچانک سخت نزلہ ہو گیا تو انہوں نے اماں کو کہا لیں اب تو مجھے زکام و بخار ہو گیا ہے، میں نہیں جاتی ، انہاں نے اس پر چنے کی تھیلیاں بنا کر انہیں گرم کرنے کا اہتمام کیا.خدا کے فضل سے زکام اور بخار جاتا رہا.اب نہ جانے کا ایک ہی بہانہ باقی تھا کہ اماں کی طبیعت اچھی نہیں لیکن انہاں نے کہا میرے ساتھ میری ملازمہ آئی ہوئی ہے.گھر میں دوسرے ملازم بھی ہیں دو چار روز کی بات ہے یہ میرا خیال رکھ لیں گے.تم ضرور جاؤ ایک پیار اور شفقت کا سلوک تھا کہ دوسروں کی خوشی کی خاطر اپنے آرام کا خیال حائل نہ ہونے دیا.گھر میں کام کرنے والوں سے بڑی ہمدردی اور مروت کا سلوک کرتی تھیں.ابا جان کے پاس ان کے کام کے لئے باہر یا بازار وغیرہ بھیجتی تو اگر اندازے سے زیادہ تاخیر ہوتی تو بہت گبھراتی تھیں.کہ نہ معلوم کہیں کسی حادثہ کا شکار نہ ہو گیا ہولیکن وہ پہنچ جاتا تو سارا بُرا بھلا بھول جاتی تھیں.اماں کی بیماری میں احمد ولبیا بیا نے آپ کا بہت خیال رکھا.

Page 23

حضرت اُم مظفر 20 آپ نے بھی اُن کے بچوں کے ساتھ اپنے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کی طرح سلوک کرتیں.مستورات جو بہت با قاعدگی سے آتی تھیں اور جن کا اکثر آنا جانا رہتا تھا.ان میں غربا کی کافی تعداد تھی لال پری جو سرحد سے آکر قادیان میں آباد ہو گئی تھیں اور ربوہ کے زمانے میں کافی کمزور اور ضیعف ہوگئی تھیں.وہ جب آتیں تو واپسی پر بشیر (ملازم) کو کہہ کر ٹا نگا منگوا کر گھر بھجواتیں اور ساتھ کہتیں تم کمزور ہوگئی ہو کم نکلا کرو.کہیں گر کر چوٹ نہ لگ جائے لیکن جب وہ کچھ روز نظر نہ آتیں تو بشیر کو بھیج کر ہلاتیں اس مروت کا سلوک زندگی بھر رہا.آپ کی نواسی محترمہ صبیحہ بیگم صاحبہ اہلیہ صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب بھی فرماتی ہیں کہ انہاں پٹھانوں کے ساتھ بہت شفقت سے پیش آتیں اور بہت خیال رکھتیں.محترم نواب محمود احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں: اماں (حضرت ائم مظفر ) کو بچوں سے بے حد پیار تھا لیکن طبیعی طور پرلڑکوں سے لڑکیوں کی نسبت زیادہ پیار کرتی تھیں.کوشش کے باوجود کے اظہار نہ ہو ، اس امتیاز کی جھلک کبھی کبھی نظر آ جاتی تھی.مجھے یاد ہے جب میرے ہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے لڑکی شازیہ پیدا ہوئی تو گود میں لے کر

Page 24

حضرت اُم مظفر 21 اماں کو ملوانے لے گیا، میری والدہ اور اماں کے گھر ساتھ ساتھ تھے.میں نے اپنی بیٹی کو انہاں کے پلنگ پر ساتھ لٹا دیا کہ یہ میری بیٹی ہے تو پنجانی میں کہنے لگیں گوی اے! (بیٹی ہے ) تھوڑی دیر کے بعد میں نے اس کو اُٹھایا تو احمد بی بی نے انہاں کو کہا کہ اودی اپنے شوق نال گرمی ملان لایا کچھ دینا نہیں؟ تو ایک عجیب سی مسکراہٹ چہرے پر آئی اور اپنے تکیے کے نیچے ہاتھ ڈال کر کچھ رقم مجھے دی اور میری اہلیہ شافی کی خیریت پوچھی.گھر کے ماحول میں سب بچے آپ سے پنجابی میں مخاطب ہوتے آپس میں بھی پنجابی بولتے.نانی اماں تو ہند کو پہنچابی میں جواب دیتیں جبکہ ابا جان اردو میں جواب دیتے.اپنے بچوں کی صحت و عافیت دریافت کرنے کے لئے خطوط لکھتیں.اُن کی خوشیوں میں خوش ہوتیں.دعاؤں سے نوازتیں.“ پٹھان گھرانوں کے افراد کا بہت خصوصی لحاظ تھا.ان کی خاطر تواضع سے بہت خوش ہو تیں اپنے ملازموں سے بہت اچھا سلوک کرتیں.بشیر ملازم ہونے کے باوجود بیٹے کی طرح تھا.آپ کا سسرالی اور میکہ کے سب رشتہ داروں سے بڑا تعلق تھا.

Page 25

حضرت اُم مظفر 22 خاص طور پر اپنے بھائیوں میں سے عبدالرحمن صاحب سے جو آپ سے بہت پیار کرتے اور آپ بھی ان سے خاص تعلق رکھتیں.آپ کی لمبی بیماری کے دوران آپ کے ہاں مقیم رہے اور بہت توجہ سے تیمار داری میں حصہ لیا.حضرت اُم مظفر صاحبہ کی صحت خراب رہتی تھی جس کا لازمی طور پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد پر بہت اثر ہوتا تھا لیکن ان خدا رسیدہ ہستیوں کی سوچ دیکھئے وہ جو مغموم ہوتے تو صرف اس لئے نہیں کہ ایک شوہر بیوی کے لئے پریشان ہے بلکہ وہ اس پریشانی کی وجہ اپنے ایک دوست کو لکھتے ہیں جس نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ ائم مظفر کی بیماری پر گھرایا نہ کریں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا.اس پر آپ نے ایک نوٹ لکھا جس میں بتایا.کہ میری گبھراہٹ کن وجوہ کی بناء پر تھی.ان میں ایک وجہ آپ نے یہ کھی کہ اس وقت ام مظفر احمد وہ آخری بہو ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اپنے گھر سے رخصت ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئیں.آپ کی صحت کے لئے دعا کی غرض سے الفضل میں بے حد دردمندانہ انداز میں دعاؤں کی درخواست کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.جیسا کہ احباب کو علم ہے کہ ام مظفر احمد قریباً 5 سال سے مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہوکر بہت کمزور ہو چکی ہیں اور اکثر وقت درد اور وو

Page 26

حضرت اُم مظفر 23 23 بے چینی میں گزرتا ہے.بہت فکر مند اور پریشان رہتی ہیں اور ان کی اس حالت کا لاز ما مجھ پر بھی اثر پڑتا ہے اور میں اپنی انتہائی خواہش کے باوجود اس رنگ میں دینی خدمت نہیں کر سکتا ، جس کی میرے دل میں تڑپ ہے.زائد از نصف صدی کے قریب ترین رفاقت کوئی معمولی چیز نہیں ہوتی اور ان کی حالت کا دوسرے پر اثر پڑ نالازمی امر ہے اور میں تو ویسے بھی اب ضعیف اور کئی عوارض میں مبتلا ہوں.پس مخلصین اور صحابہ کرام سے درخواست ہے کہ وہ اتم مظفر کیلئے خاص دردمندانہ دل سے دعا کریں.“ (17) حضرت اُم مظفر نے ایک نہایت کامیاب و کامران دور حضرت قمر الانبیاء کے ساتھ 57 سال تک گزارا اور 1960ء سے صاحب فراش (بستر پر تھیں.پہلے اعصابی تکلیف کی وجہ سے بیمار ر ہیں پھر کو لہے کی ہڈی میں دوبارہ فریکچر ہونے کی وجہ سے بیماری اور طول پکڑ گئی تھی.اگر چہ فریکچر ٹھیک ہو گیا تھا لیکن بغیر سہارے کے چل پھر نہیں سکتیں تھیں.آپ نے بیماری کا طویل عرصہ بہت خندہ پیشانی سے گزارا اور اس طرح صبر و شکر کا بہت اعلیٰ نمونہ قائم کیا.یوں تو آپ لمبے عرصے سے صاحب فراش تھیں لیکن پھر گردوں میں انفیکشن کی وجہ سے طبیعت زیادہ خراب ہو گئی اور بہت تیز بخار ہو گیا.ہر ممکن علاج کے باوجو د طبیعت سنجل نہ سکی بالآخر یکم فروری 1970 ء بروز اتوارساڑھے چھ بجے اس دارِ فانی سے

Page 27

حضرت ام مظفر رحلت فرما گئیں.24 24 سیدنا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث اس روز مسجد مبارک میں نماز عصر کے پڑھانے کے بعد آپ کے گھر البشری (جو کہ ربوہ میں دالصدر غربی میں واقع ہے) میں تشریف لائے.حضور کے تشریف لانے کے بعد حضرت سیدہ کا جنازہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد کوٹھی کے اندرونی حصہ سے باہر لائے.تابوت کو باہر ایک اور چار پائی پر رکھا گیا.جس کے ساتھ لمبے لمبے بانس لگے ہوئے تھے تا کہ ہزاروں احباب کو کندھا دینے میں آسانی ہو.جنازہ کوٹھی کے بیرونی حصہ سے سوا چار بجے اُٹھا یا گیا.سیدنا حضرت خلیلة أسبح الثالث حضرت سیدہ موصوفہ کے صاحبزادگان ، داماد اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر افراد جنازہ کو کندھوں پر اُٹھا کر کوٹھی کے بیرونی حصہ سے اُٹھا کر سڑک تک لائے.حضور اور خاندان کے دیگر افراد نے دور تک جنازہ کو کندھا دیا.نیز احباب کو بھی راستہ میں ایک خاص نظام کے تحت کندھا دینے کا موقع دیا گیا.اس طرح ہزاروں احباب کے کندھوں پر جنازہ بہشتی مقبرہ پہنچا.جہاں حضور نے نماز جنازہ پڑھائی.جس میں ربوہ کے مقامی احباب اور باہر کے ملکوں سے آنے والے سے ہزاروں کی تعداد میں احباب شامل ہوئے.نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جنازہ کو اس چار دیواری میں

Page 28

حضرت اُم مظفر 25 لا یا گیا.جہاں حضرت اماں جان ، حضرت خلیفۃالمسیح الثانی اور دیگر وفات یافتہ بزرگوں کے مزار ہیں.تابوت کو قبر میں اتارنے میں بھی حضرت خلفیة امسیح الثالث، حضرت سیدہ مرحومہ کے پانچوں فرزند، چاروں دامادوں اور ایک بھائی نیز خاندان کے بعض دیگر افراد نے حصہ لیا.قبر تیار ہونے پر حضور نے دعا کرائی.اس طرح حضرت سیدہ ام مظفر احمد صاحبہ کے جسدِ اطہر کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مزار کے پہلو میں دفن کیا گیا.(18) آپ کی اولاد :.(1) صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا رشید احمد صاحب ابن صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیگم صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بنت حضرت خلیلة امسیح الثانی اور حضرت سید ہ امتہ الحی صاحبہ.(3) صاحبزادہ مرزا احمید احمد صاحب بیگم صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحب بنت حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت ام ناصر صاحبہ.4) صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ نواب محمد احمد خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب و حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ.(5) صاحبزادہ مرز امنیر احمد صاحب بیگم محترمہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت

Page 29

حضرت اُم مظفر 26 حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 6) صاحبزادہ ڈاکٹر بریگیڈیر مرزا بشر احمد صاحب بیگم محترمہ آصفه مسعوده صاحبه بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ.7) صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بیگم محترمہ قدسیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.8) صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ بیگم محترم میجر وقیع الزمان خان صاحب ابین محترم رفیع الزمان خان صاحب.(9 9) صاحبزادی امتہ الطیف بیگم صاحبہ ونگ کمانڈ رسید محمد احمد صاحب ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ:.الله نبی کریم ﷺ کا قول ” جنت ماں کے قدموں تلے ہے جہاں ایک طرف ماں کی بچوں کی تربیت کی اہمیت پر تاکید کرتا ہے وہاں ایک رنگ میں بچوں پر ماں باپ کی خدمت اور ان کی دعاؤں سے فیضیاب ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے.ماں کا وجود خدائے رحیم و رحمان کے فیض کا مظہر ہے.بچے کی پیدائش پر اس کے پہلے سانس سے اپنی آخری سانس تک ہمہ تن اس کی خدمت میں مصروف رہتی ہے.اپنی راتوں کی نیند اس کی

Page 30

حضرت ام مظفر 27 27 تیمار داری پر قربان کرتی ہے.بغیر کسی معاوضہ یا اس کی توقع کے....دنیا کی کوئی دولت ڈھونڈنے سے بھی ایسی خدمت کسی قیمت پر خرید نہیں سکتی.دعا اور دعا کی درخواست کے ساتھ کہ اے میرے مولا دیکھ ایک بے قرار روح اور بے چین دل رات کی کامل خاموشی میں تیرے حضور سجد و ریز ہے.تو بچے وعدوں والا ہے.ایک مضطرب کی دردمندانہ پکار کو سن اور میرے ماں باپ کو اپنے پیار اور رضا کی چادر میں ڈھانپ لے اور جنت کی بہترین نعمتیں عطا فرمائے.آمین آپ کی وفات پر ایک نظم الفضل میں شائع ہوئی جس میں آپ کے سیرت کے سب پہلوں پر روشنی پڑتی ہے.چل بسی ہے آج اس دنیا سے وہ خاتون پاک جس کے دم سے جی رہا تھا گھر کا ہر صغرو کبیر جو سخی تھی اور فنی تھی اور نیک و پاک تھی پارسا پر ہیز گاری اور تو کل کی نظیر جس کے در سے کوئی بھی خالی نہ جاتا تھا بشر مفلس و نا دار و مسکین و یتامی و فقیر دین احمد پر فدا راہ خدا کی جاں نثار احمدیت کا ستوں لجنہ اما اللہ کی میر (20)

Page 31

حضرت اُم مظفر 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 28 حوالہ جات تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 140 313 اصحاب صدیق وصفا صفحہ 97 خواتین مبارکه صفحه 243 مصنفہ فرحت مبشر حیات بشیر صفحہ 186 سیرت و سوانح حضرت اماں جان صفحہ 261 حیات بشیر صفحہ 178 حیات بشیر صفحہ 230-231 حیات بشیر صفحہ 131 تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 496 تاریخ لجنہ جلد اوّل صفحہ 155 ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر مرز اغلام قادر احمد صفحه 62 مرز اغلام قادر احمد صفحه 142-143 الفضل 14 اگست 1960ء

Page 32

29 29 حضرت اُم مظفر سیرت و سوانح حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ 43 الفضل 14 اگست 1960 ء الفضل ربوہ 3 فروری 1970ء الفضل ربوہ 27 ستمبر 1994ء الفضل 12 فروری 1970ء 15 16 17 18 19

Page 33

المعروف اُم مظفر رضی اللہ تعالیٰ عنہا rd' (Hadhrat Sarwar Sultan Sahiba "") Published in UK in 2009 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 33