Ume Haram And Sumaya

Ume Haram And Sumaya

حضرت سُمیّہ ؓ بنتِ خباط، حضرت اُمّ حرام ؓ بنتِ ملحان

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

Book Content

Page 1

حضرت سمیہ رضی اللہ عما بنت خباط حضرت ام حرام بنی اللہ حنا بنت ملحان

Page 2

حضرت اُم حرام بن الام بنت ملحان

Page 3

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 4

حضرت ام حرام بنت ملحان 1 پیارے بچو! حضرت اُمم حرام بنت ملحان صلى الله آپ کو ایک کہانی سناتے ہیں ! ایک دن حضرت محمد علی مدینہ منورہ سے قبا کی بستی تشریف لے گئے ، اور اپنی ایک عزیز کے ہاں صلى ٹھہرے جو آپ ﷺ کو دل و جان سے چاہتی تھیں.انہوں نے حضور میں نے کی خدمت میں کھانا پیش کیا.آپ ﷺ کھانا کھا کر لیٹ گئے تو وہ خاتون صلى الله آپ علی کے سر مبارک کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں جلد ہی حضور مے کو نیند آگئی لیکن تھوڑی دیر کے بعد آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی آپ معہ مسکرا رہے تھے.آپ ﷺ نے فرمایا :.صلى الله صلى الله صلى الله ” میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میری اُمت کو کچھ لوگ سمندر میں جہاد فی سبیل اللہ کیلئے آمادہ سفر ہیں.“ اس خاتون نے عرض کیا :.66 یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، دعا فرمائے کہ مجھے بھی ان لوگوں میں شامل ہونے کی سعادت نصیب ہو.“ رحمۃ اللعالمین ﷺ نے دعا فرمائی اور پھر سو گئے ،تھوڑی دیر بعد

Page 5

حضرت ام حرام بنت ملحان پھر مسکراتے ہوئے اٹھے اور پھر وہی خواب بیان فرمایا.میزبان خاتون نے اب کی بار بھی دُعا کے لئے عرض کیا آ.نے فرمایا:.تم بھی اس جماعت کے ساتھ ہو“ حضور ﷺ کا ارشاد سن کر یہ عورت اس قدر خوش ہوئیں کہ ان کے منہ سے بے اختیار اللہ اکبر اللہ اکبر نکلا.ان خاتون کا نام اُم حرام بن ملحان تھا.آپ صحابیہ تھیں.صحابی اسے کہتے ہیں جنہوں نے آنحضرت علیہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو، اور صحابیات سے مراد وہ خواتین ہیں جنہوں نے حضور ﷺ کا زمانہ پایا اور پھر حضور ﷺ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.بچو! اُس زمانے میں اکثر نام اسی طرح ہوتے تھے.یعنی اتم حرام سے مراد حضرت حرام کی والدہ اور بنت ملحان سے مراد حضرت ملحان کی بیٹی ہے.حضرت اُمّ حرام کا شمار اُن صحابیات میں ہوتا ہے، جنہوں نے صلى الله حضور ﷺ سے تربیت حاصل کی اور اس طرح اپنے خاندان کی خواتین کے لئے نمونہ بن گئیں.جس طرح حضرت ام حرام تاریخ میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں، اسی طرح اُن کے دو بھائی حضرت حرام اور حضرت سلیم بھی تاریخ

Page 6

حضرت ام حرام بنت ملحان 3 صلى الله میں اپنی صحبت جو انہیں حضور ﷺ سے اور اسلام کی خاطر جانفشانی کا جذ بہ رکھتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں.حضرت حرام کی شہادت تو قاتل کے مسلمان ہونے کا سبب بن گئی.اُس زمانے کے صحابہ اور صحابیات کا ایمان بہت اعلیٰ مدارج رکھتا تھا ، کیونکہ وہ حضور ﷺ کی صحبت رکھتے تھے اور نبی کی تربیت ایک اور ہی رنگ رکھتی ہے.ایک اور خصوصیت جو ان لوگوں میں نظر آتی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ ہر وقت خدا کی راہ میں شہید ہونے کی تڑپ رکھتے تھے اور یہ تڑپ ہمیں حضرت حرام کی شہادت کے واقعہ میں بھی نظر آتی ہے.حضرت حرام کو جنہوں نے شہید کیا اُن کا نام جبار بن سلمیٰ ہے جو صلى الله بعد میں مسلمان ہو گئے تھے.واقعہ کچھ یوں ہے جب حضرت حرام بن ملحان کو معرکہ بیئر معونہ ( معرکہ وہ جنگ ہے جس میں آنحضرت عے خود شریک نہیں ہوئے ) میں جب قاتل جبار بن سلمیٰ نے نیزہ مارا جو ان کے سینہ سے پار ہو گیا اور خون کا ایک فوارہ نکلا.حضرت حرام نے شہید ہوتے ہوئے فرمایا:.فزت برب الکعبہ ، یعنی کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.اس جملہ سے مراد یہ تھی کہ آپ کو ساری زندگی شہادت کا شوق رہا اور اب جب کہ خدا تعالیٰ نے شہادت عطا کر دی تو آپ نے اپنی زندگی کا وو

Page 7

حضرت ام حرام بنت ملحان مقصد پالیا.یہ کلمہ اپنے اندر اتنا جذبہ رکھتا تھا کہ اس نے جہار بن سلمی کے دل پر ایسا اثر کیا کہ وہ فوراً ایمان لے آئے اور مسلمان ہو گئے.اسی معرکہ میں حضرت سلیم بھی شہید ہوئے.(1) حضرت ام حرام کی بہن ام سلیم نے اپنے دس سالہ بیٹے انس کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا اور فرمایا یا رسول اللہ ہے یہ میرا بیٹا ہے.میری یہی تمنا ہے کہ یہ آپ ﷺ کی خدمت کیا کرے اس کو اپنے خادموں میں شامل فرمائیں اور اس کے لئے دعا کریں.حضرت ام حرام کے بہن اور بھائیوں کے ذکر سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا خاندان یعنی حضرت ملحان کی اولا د اسلام کی طرف الله سبقت لینے والے اولین کامیاب لوگ ہیں جو حضور ﷺ اور اسلام کی صلى الله محبت سے سرشار تھے.اس جانثار خاندان کی ایک بیٹی حضرت ام حرام بنت ملحان ہیں.آپ کی والدہ کا نام ملیکہ بنت مالک تھا.آپ حضور ﷺ کی رشتے کی خالہ تھیں اور مشہور صحابی حضرت انس بن مالک کی حقیقی خالہ بھی تھیں.ان کی پہلی شادی حضرت عمرو بن قیس سے ہوئی جو اُن صحابہ میں سے تھے جنہوں نے پہلے اسلام قبول کیا ، اسی طرح ان کے نوجوان بیٹے

Page 8

حضرت ام حرام بنت ملحان 5 قیس بن عمرو بھی خدا کے فضل سے انہیں لوگوں میں شامل ہوئے.یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے نور نے سارے گھرانے کو منور کر دیا اور سب خواتین اور مرد رسول اللہ علیہ پر اپنی جان فدا کرنے کے لئے تیار ہو صلى الله ہجرت نبوی علی کے بعد جب غزوات کا سلسلہ شروع ہوا تو دونوں باپ بیٹا غزوہ بدر میں 313 سرفروشوں میں شامل ہو کر بہت بہادری سے لڑے.3ھ میں غزوہ اُحد میں جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان جہاد میں پہنچے اور مردانہ وارلڑتے ہوئے شہید ہوئے.حضرت اُم حرام نے دونوں بھائیوں ، خاوند اور بیٹے کی شہادت الله کو محبت الہی اور محبت رسول ﷺ میں بڑی دلیری سے برداشت کیا اور خود بھی راہ حق میں جان کی قربانی دینے کے لئے بے تاب رہنے لگیں.اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ان کا دوسرا نکاح جلیل القدر صحابی حضرت عبادہ بن صامت سے ہو گیا.(2) قباء کی بستی مدینہ منورہ سے دومیل کے فاصلے پر تھی.اسی بستی میں اسلام کی پہلی مسجد قباء کی بنیاد رکھی گئی.اس مبارک بستی میں حضرت عبادہ بن صامت کا مکان تھا.جس میں حضرت ام حرام بیاہ کر آئیں.

Page 9

حضرت اُمِ حرام بنت ملحان 6 آنحضور ﷺ حضرت ام حرام کی بے حد عزت کرتے تھے اور اُن کا بہت خیال رکھتے تھے.حضور اللہ نے حضرت ام حرام کے بھائی کی مظلومانہ شہادت کو بہت محسوس کیا تھا.اس لئے دل جوئی کے پیشِ نظر کبھی کبھی حضرت ام حرام کے گھر تشریف لاتے اور کچھ دیر اُن کے گھر آرام فرماتے.صلى الله حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس ย آئے اس حال میں کہ میری والدہ ام سلیم اور میری خالہ اُم حرام موجود تھیں.آپ ﷺ نے فرمایا کھڑے ہو جاؤ میں تمہیں نماز پڑھاؤں، جبکہ فرض نمازوں کا وقت نہ تھا.پھر آپ ﷺ نے ہمیں نماز پڑھائی اور ہم ب گھر والوں کے لئے دین و دنیا کی ہر خیر و بھلائی کے لئے دُعا فرمائی.(3) صلى الله بارہ ربیع الاول 11 ہجری کو حضور ﷺ کا وصال ہوا.اس حال صلى الله میں کہ آپ یہ حضرت ام حرام سے راضی تھے.اب ام حرام کی زندگی اس انتظار میں گزرنے لگی کہ کب بحری جنگ ہو اور وہ اُس میں شمولیت کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کریں.آخر نبی اکرم ﷺ کے خواب کی تعبیر تیسرے خلیفہ راشد حضرت عثمان کے عہدِ خلافت میں یوں پوری ہوئی کہ 28 ہجری میں حاکم شام امیر معاویہؓ نے امیر المومنین کی ย

Page 10

حضرت ام حرام بنت ملحان صلى 7 اجازت سے جزیرہ قبرص کی فتح کے لئے ایک بحری بیڑہ روانہ کیا.چونکہ رسول اکرم نے کی یہ حدیث تھی کہ جو اسلامی لشکر پہلی بحری جنگ میں حصہ لے گا جنتی ہو گا.بہت سے جلیل القدر صحابہ بھی اس لشکر میں شامل ہوئے.حضرت ام حرام کو راہ خدا میں جہاد کرنے اور رتبہ شہادت پر فائز ہونے کی بے حد تمنا تھی ، اس لئے وہ بھی اپنے شوہر حضرت عبادہ بن صامت کے ہمراہ اس لشکر میں شامل ہو کر قبرص گئیں.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی عطاء کی اور قبرص اسلامی حکومت میں شامل ہوا.جب مجاہدین اس مہم کی تکمیل کے بعد واپس ہونے لگے تو حضرت ام حرام بھی سواری پر بیٹھنے لگیں.گھوڑا منہ زور تھا اس نے انہیں زمین پر گرا دیا.حضرت اُم حرام زخمی ہو گئیں اور انہیں زخموں کی تاب نہ لا کر شہادت کے مرتبہ پر فائز ہوئیں.یہ واقعہ 28 ہجری کو پیش آیا.اس طرح حضرت اُمِ حرام پہلے سمندری شہیدوں میں سے تھیں اور وہ پہلی مجاہدہ خاتون تھیں.بحر ابیض میں پہلی جنگ کرنے والی خاتون اور بحری جنگ میں سب سے پہلی راہ حق میں شہید ہو نے والی صحابیہ کا اعزاز بھی انہیں حاصل تھا.آپ کو سر زمین قبرص میں دفن کیا گیا.حضرت اُمِ حرام کی اولاد میں تین لڑکوں کے نام ملتے ہیں.حضرت عمر و بن قیس انصاری سے حضرت قیس اور حضرت عبد اللہ اور

Page 11

حضرت ام حرام بنت ملحان 8 حضرت عبادہ بن صامت سے محمد.(4) حضرت قیس نے غزوہ اُحد میں اپنے باپ کے ساتھ شہادت پائی.حضرت ام حرام سے پانچ احادیث مروی ہیں.(5) حضرت أم حرام ان جلیل القدر صحابیات میں سے تھیں جو نیکیوں میں سبقت لے گئیں اور اپنے اعلیٰ اخلاق و فضائل کی بدولت مسلمان عورتوں کے لئے مشعل راہ بنیں.اُن کی زندگی اور موت خدا اور اُس کے رسول کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھی.اپنی زندگی میں ہر دکھ انتہائی صبر و حو صلے سے برداشت کیا اور راضی برضار ہیں.حضرت ام حرام کے فضائل میں یہ ہی کافی ہے کہ حضور علی نے اپنی مہربانی ولطف وکرم ان کے ساتھ خاص طور پر رکھتے تھے اور ان کو اپنے اہل بیت کا درجہ دیتے تھے.انہی فضیلتوں اور عظیم اعمال کے ساتھ اسلام کی تاریخ میں وہ زندہ جاوید ہو گئیں.اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہو.

Page 12

1 2 3 4 5 حضرت ام حرام بنت ملحان 6 حوالہ جات عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 55) تذ کار صحابیات از طالب ہاشمی (صفحہ 401,402) عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 57) تذ کارِ صحابیات از طالب ہاشمی (صفحہ 403,404) عہد نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 57)

Page 13

حضرت ام حرام بنت ملحان (Hadhrat Umme-Haram" bint-e-malhan"") Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 14

حضرت سمیہ رضی الله عنها بنت خباط

Page 15

بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین

Page 16

حضرت سمیہ بنت خباط 1 پیارے بچو! حضرت سمیہ رضی اللہ معا بنت خباط جب رسول خداﷺ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو آپ ﷺ پر جو خاتون سب سے پہلے ایمان لائیں وہ رسول اللہ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجۃ الکبر می نتھیں.اسی طرح اسلام کی راہ میں صبر و حوصلہ سے باوجود کمزوری اور بڑھاپے کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے سب سے پہلے شہید ہونے والی بھی ایک خاتون ہی تھیں.جن کا نام حضرت سمیہ رضی اللہ عنھا تھا اور تاریخ انہیں اُمّ عمار بن یاسر کے خوبصورت نام سے یاد کرتی ہے.وہ اُن شہید ، زوجہ شہید اور خود شہید ہ تھیں.حضرت سمیہ ابتدائی اسلام لانے والوں میں تھیں.وہ ساتویں نمبر پر مسلمان ہوئیں اور جن سات لوگوں نے ابتداء میں اپنے اسلام کو ظاہر کیا حضرت سمیہ ان میں شامل تھیں.رسول اللہ ﷺ کو نبوت کا دعویٰ کئے ہوئے تین برس گزر چکے تھے کہ حکم ہوا، اپنی نبوت کا کھلم کھلا اعلان کریں اور لوگوں کو تو حید کی طرف بلا ئیں.چنانچہ آپ ﷺ نے اعلانیہ دین اسلام کی تبلیغ کا کام

Page 17

حضرت سمیہ بنت خباط له 2 شروع کر دیا.اس پر کفار مکہ نے آپ ملنے کی شدید مخالفت شروع کر دی الله وہ نہ صرف آپ ﷺ کے جانی دشمن بن گئے بلکہ اسلام لانے والوں پر بھی طرح طرح کے ظلم کرنے لگے.انہیں پریشان کرنے اور دمان اسلام سے دور کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.حتی کہ صاحب اثر افراد حضرت ابو بکر ، حضرت عثمان ، حضرت طلحہ بھی ان کے مظالم کا نشانہ بنے.اس سے ان مسلمان اصحاب کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے یارو مددگار تھے.ان میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے.ان عظیم ہستیوں نے کمزوری اور بڑھاپے کے باوجود ان کفار مکہ کے ظلم اور سختی کا بڑے حوصلہ اور ہمت سے مقابلہ کیا اور شہادت کے مقام پر فائز ہو کر ہمیشہ کی زندگی پائی.ان میں سر فہرست نام حضرت سمیہ بنت خباط کا ہے.حضرت سمیہؓ بنت خباط کا شمار نہایت بلند پایہ صحابیات میں ہوتا ہے.ان کے باپ دادا میں صرف ان کے والد خباط کا نام معلوم ہے کب اور کیسے مکہ پہنچے ؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں.صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ایامِ جاہلیت میں مکہ کے ایک قبیلہ بنومخزوم کے رئیس

Page 18

حضرت سمیہ بنت خیاط ابو حذیفہ بن المغیرہ کی کنیز تھیں.آپ کی شادی حضرت یا سٹرین عامر سے ہوئی جو آپ ملنے کے دعویٰ نبوت سے تقریباً پینتالیس سال پہلے یمن سے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اپنے ایک گمشدہ بھائی کی تلاش میں مکہ آئے مگر بہت تلاش کے باوجود وہ بھائی نہ ملا.حضرت یا سر کے دونوں بھائی واپس چلے گئے لیکن آپ نے مکہ میں مستقل قیام کر لیا.قیام کے دوران حضرت یا سرمین عامر اور ابو حذیفہ بن مغیرہ محرومی کی دوستی ہو گئی.ابو حذیفہ نے یا سٹرکی شادی اپنی کنیز حضرت سمیہ سے کر دی.ان سے حضرت سمیہ کے تین بیٹے حضرت عمار ، حضرت عبداللہ اور حریث پیدا ہوئے.ان کے دو بیٹے حضرت عمار اور حضرت عبداللہ اسلام لائے جب کہ تیسرے بیٹے حریث کو اسلام سے پہلے ہی کسی نے قتل کر دیا تھا.رحمت عالم ع بچپن اور جوانی کا زمانہ طے کر رہے تھے کہ حضور ﷺ کی حیات اقدس کا یہ سارا دور آلِ یا سر کے سامنے گزرا اور انہوں نے حضور علیہ کی عظیم ترین شخصیت اور اعلیٰ سیرت و کردار کا نہایت گہرا اثر قبول کیا.جب حضور ﷺ نے نبی ہونے کا دعوئی فرمایا تو اس خاندان نے فوراً اسلام قبول کر لیا.

Page 19

حضرت سمیہ بنت خباط ย مسلمانوں کے لئے یہ ایک بہت صبر آزما وقت تھا.مکہ کا جو شخص اسلام قبول کرتا وہ مشرکین مکہ کے غضب کا نشانہ بنتا.مشرکین اس معاملے میں اپنے قریب ترین رشتہ داروں کا بھی لحاظ نہیں کرتے تھے.حضرت یاسر یمن سے آئے ہوئے تھے اور حضرت سمیہ ابھی تک بنو مخزوم کی غلامی میں تھیں.اس لئے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے میں کوئی چیز روکاوٹ نہ تھی.چنانچہ انہوں نے اس بے کس، مظلوم خاندان پر ایسے ایسے مظالم ڈھائے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی.حضرت یاسر اور حضرت سمیہ دونوں بہت ضعیف اور کمزور تھے.مگر وہ اسلام پر اتنی مضبوطی سے قائم تھے کہ مشرکین کے بے پناہ مظالم بھی ان کو ایک لمحہ کے لئے بھی حق سے نہ ہٹا سکے.ان کا ایمان پہاڑوں کی طرح مضبوط تھا ، جن کو نہ طوفان کی موجیں بہا سکیں اور نہ تیز و تند ہوائیں ان کا کچھ بگاڑ سکیں ، یہی حال ان کے بیٹوں کا تھا.ان مظلوموں کو لوہے کی زر میں پہنا کر مکہ کی تپتی ریت پر لٹانا ، ان کی پیٹے پر گرم کو کلے رکھنا اور پانی میں غوطے دینا کفار کا روزانہ کا معمول تھا.حضور اکرم علی حضرت سمیہ اور ان کے خاندان کے پاس سے گزرے جن کو عذاب دیا جار ہا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:.اے آل یا سر ! تمہیں خوشخبری ہو تمہارا ٹھکانہ جنت ہوگا" ย

Page 20

حضرت سمیہ بنت خباط 5 ایک مرتبہ حضرت یا سرہ، حضرت سمیہ اور ان کے بیٹوں کو مصیبت الله میں مبتلا دیکھا تو آپ ﷺ نے فرمایا:.صبر کر و ا الہی آپ یا سر کی مغفرت فرما دے! اور تو نے ان کی مغفرت کر ہی دی.“ بوڑھے یا سر یہ ظلم سہتے سہتے شہید ہو گئے لیکن مشرکین کو پھر بھی اس خاندان پر رحم نہ آیا.اور انہوں نے حضرت سمیہ اور ان کے بچوں پر ظلم کا سلسلہ برابر جاری رکھا.ایک دن حضرت سمیہ دن بھر سختیاں برداشت کر نے کے بعد شام کو گھر آئیں تو ابو جہل نے ان کو گالیاں دینی شروع کر دیں اور پھر اس قدر تیز ہوا کہ حضرت سمیہ کو برچھی مار کر شہید کر دیا.پھر تیر مار کر بیٹے عبداللہ کو بھی شہید کر دیا.اب صرف حضرت عمار باقی رہ گئے تھے.وہ رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور روتے روتے اپنی والدہ کا واقعہ سنایا.رسول علی نے ان کو صبر کی تلقین کی اور فرمایا:.”اے اللہ ! آل یا سر کو دوزخ سے بچا !“ حضرت سمیہ کی شہادت بعثت کے چھٹے سال واقع ہوئی.اس طرح خواتین میں آپ کو سب سے پہلے شہادت نصیب ہوئی.حضرت سمیہ کا قاتل ابو جہل 2 ہجری میں غزوہ بدر میں قتل ہو

Page 21

حضرت سمیہ بنت خباط کر جہنم میں داخل ہوا تو سرور کونین ﷺ کو حضرت سمیہ کی یاد آ گئی.چنان آپ ﷺ نے حضرت عمار بن یاسر کو بلا کر فرمایا :.قَدْ قَتَلَ اللَّهُ قَاتِلَ أُمِّكَ و, اللہ نے تمہاری ماں کے قاتل سے بدلہ لے لیا.“ مسلمان خواتین کی تاریخ میں ایسی کوئی خاتون نہیں ہے جس نے حضرت سمیہ جتنا صبر کیا ہو.انہوں نے صبر کو اپنی عادت بنا لیا تھا.بڑھاپے کی انتہا کو پہنچی ہوئی کمزور خاتون نے صبر واستقامت کی ایسی مثالیں چھوڑیں جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی اور اس کی خوشبو ہمیشہ پھیلتی رہے گی باوجود اس کے کہ ان پر ظلم و ستم روا ر کھے گئے.وہ اپنے عقیدے سے ذرہ بھر بھی نہ نہیں اور چٹان کی مانند ڈٹی رہیں.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 22

7 حضرت سمیہ بنت خباط جن کتب سے استفادہ کیا گیا دور نبوت کی برگزیدہ خواتین (صفحہ 449 تا 453) تذکار صحابیات (صفحه 171 تا 173) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 394 تا 396) 1 -2 -3

Page 23

حضرت سمیہ بنت خباط ra (Hadrat Sumayya Bint e Khibat) Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.

Page 23