Language: UR
بسلسلہ صد سالہ خلافت احمد یہ جو بلی حضرت اُم رہ رضی اللہ تعالی عنها ره لجنہ اماء الله
حضرت ام عمار رضی رضی اللہ تعالیٰ عنھا ره
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت ام عمارة پیارے بچو! حضرت ام عمارہ رضی اللہ تعالی معما ہم آج آپ کو جن صحابیہ کی کہانی سنا رہے ہیں وہ اُمِ عمارہ کے نام سے مشہور تھیں.حضرت ام عمارہ کا اصل نام نسیبہ تھا لیکن تاریخ اسلام میں آپ اپنی کنیت ام عمارہ ہی سے مشہور ہوئیں.آپ انصار کے قبیلہ خزرج کے معزز خاندان نجار سے تعلق رکھتی ہیں.(1) ہمارے پیارے نبی علیہ کے دادا حضرت عبدالمطلب کی والدہ صلى الله سلمی خاندان نجار سے تھیں جو مدینہ کا ایک معزز خاندان تھا اور حضور علیہ بھی اس خاندان کو بہت محبوب رکھتے تھے.(2) حضرت ام عمارہ ہجرت سے تقریباً چالیس سال پہلے مدینہ میں پیدا ہوئیں.(3) آپ کا پہلا نکاح زید بن عاصم سے ہوا.جو آپ کے چچا زاد تھے.زید سے دو بیٹے عبد اللہ اور حبیب ہوئے.زید کے انتقال کے بعد عر بہ بن عمر و سے نکاح ہوا.جس سے تمیم اورخولہ پیدا ہوئے.(4) حضرت ام عمارہ نے عقبہ ثانیہ کے وقت اسلام قبول کیا.یہ واقعہ
حضرت ام عمارة 2 ہجرت سے تین ماہ قبل ہوا جب حضرت مصعب بن عمر مد بینہ کے ایک وفد کو لے کر مکہ روانہ ہوئے.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ،حضرت کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حج کے موقع پر عید سے اگلے روز ہم بھٹ نیتر پرندے کی طرح کھسک کر عقبہ کی گھاٹی میں اکٹھے ہو گئے.اس وفد میں مردوں کے ساتھ دوعورتیں بھی تھیں.ایک حضرت ام عمارہ اور دوسری بنی سلمی کی اسماء بنت عمرو.وفد کے لوگ گھاٹی میں جمع ہو گئے تو حضور علیہ حضرت عباس کے ساتھ تشریف لائے.عباس اس وقت ظاہر ا مسلمان نہیں ہوئے تھے صلى الله لیکن وہ آنحضرت علیہ کے دلی ہمدرد اور خیر خواہ تھے.مدینہ کے لوگ یہ ارادہ کر کے آئے تھے کہ وہ آنحضرت عمے کو اپنے ساتھ لے کر جائیں گے.اس لئے انہوں نے اسلام قبول کرتے ہی حضور علیہ اور آپ علیہ کے ساتھیوں کو مدینہ آنے کی دعوت دی.آنحضرت علی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ہجرت کا اشارہ ہو چکا ہی.صلى اللهعهم تھا.آپ م ہے خاموش رہے لیکن حضرت عباس نے ان کی اس دعوت پر وفد سے مخاطب ہوکر کہا:.اے خزرج کے گروہ! تم جانتے ہو کہ ہمارا خاندان ہر خطرے صلى الله کے وقت محمد ﷺ کی حفاظت کا ضامن رہا ہے اب تم انہیں یعنی محمد دینے کو
حضرت ام عمارة 3 اپنے پاس لے جانے کی خواہش رکھتے ہو، تو اگر تم ان کی حفاظت کے پورے طور پر ذمہ دار بنتے ہو تو بہتر ورنہ ابھی سے جواب دے دو.“ یہ سن کر حضرت ابراء بن معرور انصاری نے حضرت محمد مے کا ہاتھ تھاما اور عرض کیا:.صلى الله ہمیں اس خدا کی قسم ہے جس نے آپ ﷺ کو حق وصداقت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ہم جنگی سپوت ہیں! ہماری روایات تابندہ تر ہیں ! ہم مرد میدان ہیں ! ہم اپنی جانوں سے بڑھ کر آپ ﷺ کی حفاظت کریں گے!“ یہ وعدے پر قائم رہنے اور بیچ بولنے کا پہلا سبق تھا.جو مکہ کی گھائی میں باندھا گیا.قرآنِ مجید کے بیان کے مطابق یہ وہ سودا تھا جو انصار سے ہمارے آقا ﷺ نے اپنے خدا کی خاطر کیا.جب تک دنیا قائم ہے اس عہد کا ذکر ہوتا رہے گا.اس وفد میں حضرت اُمِ عمارہ اور ان کے شوہر عربہ بن عمر و شامل تھے اس لئے انہیں پہلے ایمان لانے والوں میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہے.اس موقع پر آپ ﷺ نے حضرت ام عمارہ اور اسماء بنت عمرو سے بیعت لی.آپ مہ نے ان دونوں خواتین سے ہاتھ نہیں ملایا.صلى الله کیونکہ آنحضرت عے خواتین سے ہاتھ نہیں ملاتے تھے اور ان کا زبانی
حضرت ام عمارة 4 عہد ہی بیعت کے لئے کافی سمجھتے تھے.(5) اپنے محبوب آقا حضرت محمد مال اللہ کے استقبال کے لئے اہل مدینہ کی ایک بڑی تعداد شہر سے باہر جمع تھی.آپ ﷺ کی تشریف آوری پر انصار اور مہاجرین کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا.الله ہر ایک خاندان یہ چاہتا تھا کہ اسے آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل ہو.آپ میں اللہ ایک اونٹنی پر حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ سوار تھے اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ شہر کی طرف بڑھ رہا تھا.راستہ میں مسلمانوں کے گھروں سے گزرتے تو وہاں کے رہنے والے جوش محبت میں بڑھ بڑھ صلى الله کر عرض کرتے تھے.یا رسول اللہ اللہ! ہمارا گھر ہماری جان و مال حاضر ہے اور ہمارے پاس حفاظت کا سامان بھی ہے ، آپ ﷺ ہمارے پاس تشریف فرما ہوں.آپ علیہ مسکراتے اور ان کے لئے دعائے خیر فرماتے شہر کی طرف بڑھتے جاتے تھے.مسلمان عورتوں اور لڑکیوں نے خوشی کے جوش میں اپنے گھروں کی چھتوں پر چڑھ کر گانا شروع کیا.- طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ لَبِيَّاتِ الْوَدَاع وَجَبَ الشَّكْرُ عَلَيْنَا مَا دَعَا لِلَّهِ دَاع یعنی آج ہم پر کوہ وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند
حضرت ام عمارة 5 نے طلوع کیا ہے.اس لئے اب ہم پر ہمیشہ کے لئے خدا تعالیٰ کا شکر الله واجب ہو گیا ہے.“ مسلمانوں کے بچے خوشی سے مدینہ کی گلی کوچوں میں گاتے پھرتے صلى الله محمد لے آگئے ! خدا کے رسول میں آگئے ، حبشی غلام آپ میے کی تشریف آوری کی خوشی میں تلوار کے کرتب دکھاتے پھرتے تھے.صلى الله آپ ﷺ کا قافلہ چلتے چلتے بنو نجار کے محلہ میں جا پہنچا.اس جگہ بنو نجار کے لوگ ہتھیاروں سے سجے ہوئے صف بند ہو کر آپ علی کے استقبال کے لئے کھڑے تھے.اور قبیلہ کی لڑکیاں دف بجا بجا کر یہ شعر گا رہی تھیں.نَحْنُ جَوَّارٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ يَا حَبَذَا مُحَمَّدٌ مَنْ جَارٍ یعنی ہم قبیلہ بنو نجار کی لڑکیاں ہیں اور ہم کیا ہی خوش قسمت صلى الله ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ ہمارے محلے میں ٹھہر نے کے لئے تشریف لائے ہیں.(6) صلى الله حضور یہ ان بچیوں کے پاس سے گزرے، تو مسکرا کر ان سے فرمایا.بچیو! کیا تم مجھ سے الفت رکھتی ہو.سب نے مل کر جواب دیا ہاں یا رسول اللہ اللہ ! حضور نے فرمایا تم بھی مجھ کو بہت عزیز ہو!.آج بنو نجار کی خوشی کی تو کوئی انتہاء ہی نہ تھی.کیونکہ آپ ﷺ کی
حضرت ام عمارة 6 میزبانی کا شرف حضرت ابوایوب انصاری کو حاصل ہوا تھا جو بنو نجار کے رئیس تھے.رسول کریم ﷺ کی پڑدادی سلمی خاندان بنو نجار ہی سے تعلق رکھتی تھیں.اسی بنا پر رسول کریم اللہ سے رشتہ داری کی وجہ سے بنو نجار مدینہ میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا.صلى الله جس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر مبارک چھ برس تھی تو آپ ملے کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ اپنی لونڈی اُم ایمن کے ہمراہ مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تشریف لے گئیں اور وہاں کم و بیش ایک ماہ تک مقیم ر ہیں.واپسی کے سفر میں ابواء کے مقام پر آپ کی وفات ہو گئی آپ میں نے اُم ایمن کے ہمراہ مکہ پہنچے.اس زمانہ قیام کی باتیں حضور ﷺ کو ساری عمر یا در ہیں.ایک دفعہ جب آپ ﷺ بنو نجار کے محلے سے گزرے تو ایک مکان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہی وہ مکان ہے جہاں میں اپنی والدہ کے ہمراہ ٹھہرا تھا ، پھر آپ علیہ نے ایک تالاب اور ایک میدان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا یہی وہ تالاب ہے جس میں میں نے تیرنا سیکھا تھا اور یہی وہ میدان ہے جس میں میں ایک لڑکی کے ساتھ کھیلا کرتا تھا.(7) مدینہ میں ہجرت کے بعد دینی امور کی حفاظت کے لئے بارہ
حضرت ام عمارة نقیب منتخب کئے تو ان میں حضرت اسعد بن زراہ بنو نجار کے سردار تھے.ہجرت کے بعد کچھ ہی عرصہ بعد حضرت اسعد نے وفات پائی تو صلى الله بنو نجار کے لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.یا رسول الله ما اسعد کی جگہ اب کسی اور کو بنو نجار کا نقیب مقرر فرما ئیں.حضور ﷺ نے فرمایا: ” تم لوگ میرے ماموں ہو ، اس لئے اب بنو نجار کا نقیب میں خود ہوں، حضور ﷺ کا یہ ارشا دسن کر بنو نجار کی مسرت کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا.فی الحقیقت یہ ایک عظیم سعادت تھی جو بنو نجار کو حاصل ہوئی.حضرت ام عمارہ اس عظیم خاندان سے تعلق رکھتی تھیں.(2) صلى الله ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا.اگر میں انصار کے کسی گھرانے میں شامل ہوتا تو بنو نجار میں شامل ہوتا.“ ہجرت کے تیسرے سال کا ذکر ہے شوال کا مہینہ تھا کہ اچانک اہلِ مدینہ کو یہ خبر ملی کہ ابوسفیان تین ہزار کا لشکر جرار لے کر جس میں عرب کے چیدہ چیدہ بہادر شامل ہیں مکہ سے لڑائی کی بھر پور تیاری کر کے نکلا ہے اس لشکر میں ہتھیاروں سے لدے اونٹ اور دوسو بہترین جنگی گھوڑے ہیں اور ان جنگی گھوڑوں کے دستے کی قیادت سپہ سالار خالد بن ولید کے سپرد ہے.
حضرت ام عمارة 8 حالات کو دیکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو بھی جنگ کی تیاری کا حکم دیا اور آپس میں مشورے سے مدینہ سے باہر جنگ کرنے کا ارادہ کیا.مسلمان خواتین کو جب لشکر کی روانگی کی خبر ہوئی تو حضرت ام عمارہ دوسری مسلمان خواتین کے ساتھ رسول کریم میے کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور عرض کی ہمیں بھی جنگ میں شمولیت کی اجازت دیں تا کہ دوران جنگ ہم فوج کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی میں آپ ﷺ کی اور مسلمانوں کی مدد کریں.تاریخ اسلام میں یہ غزوہ حضرت اُمِ عمارہ کی دلیری کی وجہ سے ہمیشہ یادر ہے گا.اس جنگ میں حضرت ام عمارہ نے اپنے خاوند اور دو بیٹوں کے ساتھ شرکت کی.آپ اور آپ کے بیٹوں نے میدانِ جنگ میں جس طرح دشمن کی تلواروں اور تیروں کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کیا.اسلامی تاریخ اسے فراموش نہیں کر سکتی.حضرت ام عمارہ جنگ اُحد میں زخمیوں کو پانی پلاتی پھر رہی تھیں، جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو خطرات میں گھرا پایا تو ان سے برداشت نہ ہوا آپ نے مشکیزہ وہیں زمین پر بلخ کر تلوار اٹھائی اور حضور اللہ کے قریب پہنچ کر کفار کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں.آنحضرت عہ اس وقت حضرت اُمِ عمارہ کی اس بہادری اور
حضرت ام عمارة 9 جرات کو دیکھ کر ان کے لئے دعائیں کرتے رہے.اور ان کا حوصلہ بڑھاتے رہے.حضرت اُم عمارہ جنہوں نے اس تاریخی جہاد میں حصہ لے کر مسلمان عورت کے مقام کو بلند کیا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:.جس وقت اُحد کے مقام پر مسلمانوں میں بھگڈر پڑ گئی اور آنحضرت میلے کے پاس دس آدمی بھی باقی نہ رہے تو میں اور میرا شوہر عربہ بن عمرو اور میرے دو بیٹے عبد اللہ اور حبیب حضور ﷺ کے آگے ہو کر صلى الله دشمن کے غول سے مقابلہ کرتے رہے جب کہ بعض لوگ آپ لے کے صلى الله سامنے ہی بھاگے جاتے تھے.اسی اثناء میں حضور ﷺ کی نظر اچانک مجھ پر پڑی تو آپ مہ نے دیکھا کہ میرے پاس سپر (ڈھال ) نہیں ہے.اس لئے آپ ﷺ نے ایک بھاگنے والے سے جس کے پاس سپر تھی یہ صل الله فرمایا کہ ”اے سپر والے! اپنی سپر کسی لڑنے والے کو دیتا جا !“ چنانچہ اس نے بھاگتے بھاگتے اپنی سپر زمین پر ڈال دی میں جھٹ اسے اٹھا کر آنحضرت علیہ کے سامنے روک بن کر کھڑی ہو گئی.اس وقت مشرک لوگ ہم پر بہت زیا دتیاں کر رہے تھے وجہ یہ تھی کہ وہ سوار تھے اور ہم پیدل.‘ (9) آنحضرت ﷺ کی جانب گھڑ سوار بار بار حملے کر رہے تھے.
حضرت ام عمارة 10 جہاں تک اُم عمارہ اور ان کے بیٹوں کا بس چلتا یہ مشرکین کے سامنے سینہ سپر ہو جاتے.یہ بہت نازک وقت تھا بڑے بڑے بہادروں کے قدم لڑکھڑا گئے.لیکن یہ شیر دل خاتون کو ہ استقامت بن کر میدان جنگ میں ڈٹی ہوئی تھیں اچانک ہی ایک مشرک نے حضرت ام عمارہ کے سر پر پہنچ کر اپنی تلوار کا وار کیا.ام عمارہ نے اسے اپنی ڈھال پر روکا اور وہ مشرک بھاگ گیا.دوبارہ اسی مشرک نے ام عمارہ پر اپنی تلوار کا وار کیا آپ نے اپنی ڈھال پر روکا اور مشرک کے گھوڑے کے پاؤں پر تلوار کا ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ گھوڑا اور سوار دونوں زمین پر گر گئے.اس وقت الله سرکار دو جہاں عملہ سارا واقعہ دیکھ رہے تھے.آپ ﷺ نے ام عمارہ کے بیٹے عبداللہ کو پکار کر فرمایا! عبد اللہ اپنی ماں کی مدد کرو.وہ فوراً ادھر لیکے اور تلوار کے ایک ہی وار سے اس مشرک کو قتل کر دیا.اُسی وقت ایک اور مشرک تیزی سے ادھر آیا اور حضرت عبداللہ کا بایاں باز وزخمی کرتا ہوا نکل گیا.حضرت ام عمارہ نے اس وقت اپنے ہاتھ سے عبد اللہ کے زخم پر پٹی باندھی اور کہا ” بیٹے جاؤ اور جب تک دم میں دم ہے لڑو اس وقت حضور علی نے ان کا جذ بہ جا شاری دیکھ کر فرمایا :.
حضرت ام عمارة 11 مَنْ يطيق ما يطيقين يَا أُم عماره! ترجمہ: اے ام عمارہ جتنی طاقت تجھ میں ہے اور کسی میں کہاں ہو گی ؟ اسی اثناء میں وہی مشرک جس نے عبد اللہ کو زخمی کیا تھا.پلٹ کر پھر حملہ آور ہوا.آنحضرت علی نے ام عمارہ سے فرمایا:.”اے ام عمارہ سنبھلنا یہ وہی بد بخت ہے جس نے عبد اللہ کو زخمی کیا تھا.“ حضرت ام عمارہ جوش غضب میں اس کی طرف جھپٹیں اور تلوار کا ایسا کاری وار کیا کہ وہ دوٹکڑے ہو کر نیچے گر پڑا.حضرت ام عمارہ فرماتی ہیں:.دو رسول کریم ﷺ یہ دیکھ کر خوب ہنسے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت کھل گئے اور فرمایا ! اے ام عمارہ آخر تو نے بدلہ لے ہی لیا.اسی اثناء میں ایک بدبخت نے دور سے آنحضرت عے پر پتھر پھینکا.جس سے آپ میلے کے دو دندان مبارک شہید ہو گئے.ابن قمیہ نامی کا فر نے آپ ﷺ پر پھر سے وار کیا.جس سے آپ ﷺ کی زرہ کی دو کڑیاں رخسار مبارک میں کھب گئیں.یہ دیکھ کر شمع رسالت کے پروانے مضطرب ہو کر ادھر متوجہ ہوئے.تو وہی کافر دوبارہ گھوڑا دوڑا تا ہوا آیا اور
حضرت ام عمارة 12 صلى الله آنحضرت ﷺ پر تلوار کا بھر پور وار کیا.حضرت ام عمارہ حضور ﷺ کے قریب ہی تھیں حضرت ام عمارہ نے وار کو اپنے او پر لیا اور پھر تلوار تول کر اس پر اپنا وار کیا.وہ دوہری زرہ پہنے ہوئے تھا.اس لئے اُم عمارہ کی تلوار ہاتھ سے گر گئی اسی دوران ابن قمیہ کو جوابی کاروائی کرنے کا موقع مل گیا.حضرت ام عمارہ کے کندھے پر شدید زخم آیا.لیکن ابن قمیہ کو بھی پھر ٹھہرنے کی جرات نہ ہوئی اور وہ تیزی سے گھوڑا دوڑا کر بھاگ گیا.اس معرکہ میں اُم عمارہ کو 12 زخم لگے.حضرت ام عمارہ کے زخموں سے تیزی سے خون نکل رہا تھا.رسول کریم علیہ نے اپنے سامنے ان کے زخموں پر پٹی بندھوائی اور کئی بہادر صحابہ کا نام لے کر فرمایا واللہ ! آج اُم عمارہ نے ان سب سے بڑھ کر بہادری دکھائی.حضرت اُم عمارہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان میرے لئے دعا فرمائیے کہ جنت میں بھی آپ معدے کی معیت نصیب ہو ، آنحضرت علی نے نہایت توجہ سے ان کے لئے دعا مانگی اور بلند آواز سے فرمایا:.66 " اللَّهُمَّ أَجْعَلُهُمْ رُفَقَائِي فِي الْجَنَّةِ “ ترجمہ: ”اے اللہ ! انہیں جنت میں میرا رفیق بنادے.“ یہ سن کر حضرت ام عمارہ کو بڑی مسرت ہوئی اور ان کی زبان پر
حضرت ام عمارة 13 بے اختیار یہ الفاظ جاری ہو گئے.وو ما ابالی ما اصا بَني مِن الدينا ترجمہ: اب مجھے دنیا میں کسی مصیبت کی پر اوہ نہیں.جنگ کے انتقام پر آنحضرت میں اللہ اس وقت تک گھر تشریف نہ لے گئے.جب تک آپ ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن کعب مازنی کو بھیج کر حضرت ام عمارہ کی خیریت دریافت نہ کر لی.66 حضور ع فرمایا کرتے تھے کہ اُحد کے دن میں دائیں بائیں جدھر نظر ڈالتا تھا ، ام عمارہ ہی اُم عمارہ لڑتی نظر آتی تھیں.“ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد نبوت کا جھوٹا دعوی دار مسیلمہ کذاب نے تقریباً چالیس ہزار لوگوں کو اپنے فریب سے ایک جھنڈے تلے جمع کر لیا.جو شخص اس کی نبوت کا انکار کرتا تھا وہ اس پر سخت ظلم کرتا.اُسی زمانہ میں ایک دن حضرت اُم عمارہ کے فرزند حبیب بن زید عثمان سے مدینہ آ رہے تھے کہ راستے میں اس ظالم کے ہاتھ آگئے.اُس نے ان سے پوچھا محمد عے کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے“ حضرت حبیب نے جواب دیا.” وہ خدا کے سچے رسول ہیں“ مسیلمہ بولا نہیں ! یہ کہو مسیلمہ اللہ کا سچا رسول ہے.“
حضرت ام عمارة 14 حضرت حبیب نے مسیلمہ کی بات نہایت حقارت سے ٹھکرا دی.مسلیمہ نے غضبناک ہوکر اپنی تلوار کے وار سے حضرت حبیب کا ایک ہاتھ شہید کر ڈالا اور ان سے کہا ”اب میری بات مانو گے یا نہیں!“ حضرت حبیب نے جواب دیا ”ہرگز نہیں !“ مسیلمہ نے اب اُن کا دوسرا ہاتھ بھی شہید کر ڈالا اور بولا ” اب بھی میری رسالت تسلیم کر لو تو تمہاری جان بچ سکتی ہے.“ اس عاشق رسول اللہ نے ام عمارہ جیسی بہادر ماں کا دودھ پیا تھا بولے:.66 ہر گز نہیں ہرگز نہیں! “ ”اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ الرَّسُولُ الله“ اب مسیلمہ غصہ سے دیوانہ ہو گیا.اور اُس نے ان کا ایک ایک بند کاٹ کر اپنی نبوت کے ماننے پر اصرار کیا.لیکن اس مرد حق کے پائے ثبات راہ حق سے ذرا بھی نہ ڈگمگائے اور محمد اللہ اللہ کے بچے رسول ہیں پکارتا ہوا اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا.حضرت ام عمارہ نے اپنے مجاہد فرزند کی مظلومانہ شہادت کی خبر سنی تو اپنے بیٹے کی ثابت قدمی اور راہ حق میں جان قربان کرنے پر خدا کا شکر بجالائیں.حضرت حبیب کیوں نہ ثابت قدم رہتے.آخر انہوں نے ام عمارہ جیسی بہادر، بے خوف اور دین اسلام پر مر مٹنے والی عورت کی گود میں
حضرت ام عمارة پرورش پائی تھی.15 حضرت ام عمارہ نے اپنے فرزند کی شہادت پر عہد کیا کہ مسیلمہ سے اس ظلم کا بدلہ لے کر رہیں گی.(10) حضرت ابو بکر صدیق نے اپنے عہدِ خلافت میں حضرت خالد بن ولید کو مسیلمہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا.حضرت ام عمارہ نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق سے اجازت لے کر لشکر میں شمولیت کی.مسیلمہ نے مقابلے کی زبردست تیاری کی اور چالیس ہزار جنگجوؤں کو حضرت خالد بن ولید کے مقابلے پر لا کھڑا کیا.یمامہ کے مقام پر دونوں فوجوں میں گھمسان کا رن پڑا.مسلمان اور مرتدین کی تعداد میں ایک چار کی نسبت تھی.لیکن مجاہدین اسلام دین حق کی خاطر اس بہادری سے لڑے کہ مسیلمہ کی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو مسیلمہ کے بیٹے شرجیل نے اپنے قبیلہ کو مخاطب کر کے کہا:.”اے بنو حنیفہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر مسلمانوں کا مقابلہ کرو! آج قومی غیرت اور بہادری کا دن ہے! اگر تم نے شکست کھائی تو تمہارے اہل وعیال پر مسلمان قبضہ کر لیں گے اس لئے اپنا ننگ و ناموس بچانا چاہتے ہو تو کٹ مرو ! مسلمہ کی تقریر نے بجلی کا کام کیا اور مسلیمہ کی فوج نے مسلمانوں کو
حضرت ام عمارة پیچھے دھکیل دیا.16 مسلمانوں کو اب تک ایسی سخت لڑائی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا.حضرت خالد بن ولید نے مسلمانوں کے تمام قبائل کو الگ الگ کر دیا اور اعلان کیا کہ ہر قبیلہ اپنے علم کے نیچے لڑے تا کہ پتہ چل جائے کہ کون راہِ حق میں ثابت قدمی دکھاتا ہے اس تدبیر کا خاطر خواہ اثر ہوا ہر قبیلے نے شجاعت اور ثابت قدمی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کی اور اس جانبازی سے لڑے کہ مسیلمہ کی فوج کو بھاگ کر حدیقۃ الرحمن میں محصور ہونا پڑا.(11) حضرت براء بن مالک دیوار پھاند کر باغ کے اندر کو دگئے اور لڑتے بھڑتے باغ کے دروازے کو کھول دیا.اب مرتدین اور مسلمانوں کے درمیان فیصلہ کن لڑائی شروع ہو گئی.جنگ یمامہ میں حضرت اُم عمارہ بھی شروع سے لے کر اب تک بڑے جوش اور جذب سے لڑ رہی تھیں.انہوں نے کئی بار مسیلمہ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہر بار بنو حنیفہ کی آہنی دیوار راستے میں حائل ہو جاتی.حضرت خالد بن ولید بھی مسلسل مسیلمہ کو جہنم داخل کرنے کی فکر میں تھے لیکن انہیں موقع نہیں مل رہا تھا.بارہ سو کے قریب مسلمان جام شہادت نوش کر چکے تھے.جن میں حضرت زید بن خطاب ،حضرت ابو حنیفہ،
حضرت ام عمارة 17 حضرت سالم ، مولی ابو حذیفہ اور حضرت ثابت بن قیس جیسے بڑے بڑے صحابہ کرام تھے ، مرتدین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی.آخر کارلڑائی کا رخ پلٹنا شروع ہو گیا.مسیلمہ نے جب شکست قریب دیکھی تو اپنے مریدوں سے کہا اگر اپنا نگ و ناموس بچانا ہے تو بچا لو یہ سن کر حضرت ام عمارہ نے اُسے تاک لیا اور زخم پر زخم کھاتی اور اپنی برچھی سے راستہ بناتی اُس کی طرف بڑھیں اس کوشش میں انہیں گیارہ زخم آئے اور ایک ہاتھ بھی کلائی سے کٹ گیا.مسیلمہ کے قریب پہنچ کر اپنی برچھی سے اس پر حملہ کیا وہ انہیں قتل کرنا چاہتی تھیں کہ دو ہتھیار مسلیمہ پر ایک ساتھ پڑے اور وہ کٹ کر گھوڑے سے نیچے جاپڑا.حضرت ام عمارہ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اپنے پہلو میں اپنے فرزند عبداللہ کو کھڑے پایا.اور قریب ہی وحشی کھڑے تھے.وحشی نے بھی اپنا حریہ مسیلمہ پر پھینکا تھا.اور عبد اللہ نے بھی اسی وقت اُس پر تلوار کا وار کیا تھا.(12) یادر ہے یہ وہی وحشی ہیں جنہوں نے جنگ احد میں رسول کریم علی اللہ کے چا حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا.آنحضرت میے کو اپنے چچا سے بہت صلى الله محبت تھی.غزوہ طائف میں مسلمان ہو کر جب وحشی رسول کریم ہے کے
حضرت ام عمارة 18 سامنے آیا.تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وحشی ! میرے سامنے نہ آیا کرو.اُس وقت وحشی نے اپنے دل میں عہد کیا کہ جس ہاتھ سے میں نے رسول خدال اللہ کے چچا کو شہید کیا تھا.جب تک اسی ہاتھ سے اسلام کے کسی بڑے دشمن کو قتل نہ کر لوں چھین نہ لوں گا.چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق کے عہد خلافت میں یمامہ کی جنگ میں مسیلمہ کو قتل کر کے عہد کو پورا کیا.حضرت اُم عمارہ اپنے فرزند (حبیب) کے قاتل اور مسلمانوں کے اس بدترین دشمن کی موت پر سجدہ شکر بجالائیں.حضرت خالد بن ولید امیر لشکر ، حضرت ام عمارہ کی فضیلت اور مرتبے سے آگاہ تھے انہوں نے بڑی تندہی سے ان کا علاج کروایا.کچھ عرصہ بعد ان کے زخم مندمل ہو گئے لیکن ایک ہاتھ ہمیشہ کے لئے راہ خدا میں جدائی دے گیا.(13) جب کبھی اس واقعہ کا ذکر ہوتا تو حضرت ام عمارہ حضرت خالد بن ولیڈ کی بہت تعریف کرتیں اور فرماتیں ” خالد نے بڑی غمخواری سے میرا علاج کروایا ، وہ بہت ہمدرد اور نیک انسان ہیں.“ حضرت ام عمارہ کو سرور عالم ملے سے نہایت درجہ عقیدت تھی اسی وجہ سے وہ ہر وقت حضور علی پر اپنی جان قربان کرنے کے لئے آمادہ
حضرت ام عمارة 19 رہتی تھیں.رحمت عالم نے بھی ان پر بڑی شفقت فرماتے تھے.روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت علیہ حضرت ام عمارہ کے الله ہاں تشریف لے گئے تو انہوں نے حضور ﷺ کے سامنے کھانا پیش کیا.آپ ﷺ نے فرمایا " تم بھی کھاؤ“ عرض کیا یا رسول اللہ ! میں روزہ سے ہوں“.رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "کہ روزہ دار کے سامنے اگر کچھ صلى الله کھایا جائے تو فرشتے اس پر درود بھیجتے ہیں ، پھر آپ نے حضرت ام عمارہ کے سامنے کھانا کھایا.آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق بھی کبھی کبھار حضرت اُم عمارہ کے گھر ان کی خبر گیری کے لئے جایا کرتے تھے.(14) امیر المومنین حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں ایک دفعہ مال غنیمت میں بہت سے قیمتی کپڑے مرکز خلافت (مدینہ منورہ) میں موصول ہوئے.ان میں ایک زر کار دو پٹہ بے حد قیمتی تھا.جب مال نقیمت تقسیم ہونے لگا تو سید نا حضرت عمر فاروق نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ اس دوپٹے کا سب سے بڑھ کر حقدار کون ہے؟ کچھ لوگوں نے رائے دی کہ آپ یہ دو پٹہ حضرت عبد اللہ کی بیوی کو دے دیں.حضرت عمر فاروق کچھ دیر سوچتے رہے پھر فرمایا نہیں نہیں ! میں یہ دو پٹہ حضرت اُم عمارہ کو دوں گا.وہ اس کی سب سے زیادہ حقدار ہیں.
حضرت ام عمارة 20 صلى الله کیونکہ غزوہ احد کے بعد میں نے رسول کریم ﷺ سے سنا تھا.احد کے دن میں ام عمارہ کو برابر اپنے دا ئیں اور بائیں لڑتے دیکھتا تھا.“ یہ کہہ کر آپ نے وہ دو پٹہ حضرت ام عمارہ کے پاس بھیج دیا جو مدینہ منورہ کے ایک مکان میں رسول کریم ﷺ کی یادوں کو اپنے دل میں بسائے اپنی زندگی کا آخری زمانہ گزار رہی تھیں..حضرت فاروق اعظم اور تمام صحابہ کرام حضرت ام عمارہ کا بہت احترام کرتے تھے اور ہمیشہ انہیں خاتونِ اُحد کہہ کر یا د کر تے تھے.(15) حضرت اُم عمارہ کی وفات کے بارے میں تمام تاریخیں خاموش ہیں البتہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے عہد خلافت میں موجود تھیں اور انہیں کے دور خلافت میں وفات پائی.اے خاتونِ احد ! رسول پاک کی حفاظت کرنے والی دلیر خاتون تجھے جنت مبارک ہو! تجھے اللہ کا قرب مبارک ہو! تو نے زندگی بھر میدانِ جنگ میں رسول پاک ﷺ کا بھر پور ساتھ دیا اور اب بھی اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ رسول اللہ کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل کئے ہوئے ہے.تیری بے مثال زندگی ہمارے لئے راہ ہدایت ہے.
حضرت ام عمارة 21 حوالہ جات (1) صحابیات.علامہ نیاز فتح پوری (صفحہ نمبر 204) (2) تذ کار صحابیات طالب الہاشمی (صفحہ 390) (3) صحابیات علامہ نیاز فتح پوری (صفحہ نمبر 204) (4) عظیم خواتین اسلام (صفحہ 344) (5) عظیم خواتین اسلام (صفحہ 345) (6) تذکار صحابیات (صفحه 391) (7) تذکار صحابیات (صفحه 390) (8) تذکار صحابیات (صفحه 391) (9) تقریر ” غزوات النبی میں خلق عظیم، حضرت مرزا طاہر احمد صاحب.ماہنامہ خالد ( جون، جولائی 1980ء صفحہ 3) (10) تذکار صحابیات از طالب الہاشمی (صفحہ 397-390) (11) عظیم خواتین اسلام (صفحہ 352) (12) تذکار صحابیات (398-397) (13) عظیم خواتین اسلام (صفحه 353) (14) تذ کار صحابیات (صفحه 399) (15) صحابیات (209-208)
حضرت اُم عمارة (Hadhrat Um-me Ammara" Urdu Published in UK in 2008 rd O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.