Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جوہلی حضرت ام الفضل لبابة الكبرى من الالم عليه لجنہ اماء الله
حضرت ام الفضل لباب الكبر کی ہی درس رضی اللہ عنھا
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جو بلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تا کہ بچوں میں بھی ان جیسا بنے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.آمین
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 1 پیارے بچو! حضرت ام الفضل لبابة الكبری رضی اللہ عھا آج ہم جن خاتون کا ذکر پڑھیں گے وہ پیارے رسول ﷺ کی محترم چیچی حضرت ام الفضل لبابہ الکبرٹی ہیں.1500 سال پہلے جب آنحضرت علی پیدا ہوئے اس وقت عرب کے لوگ گمراہی کے اندھیروں میں گھرے ہوئے تھے.باپ دادا کا دین چھوڑ نا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر آپ علی نے کی با برکت صحبت سے یہ گمراہ لوگ بھی ایمان لے آئے اور آپ ﷺ کے دین کی سچائی پر باپ دادا کا دین قربان کر دیا.ان قربانیوں میں مردوں کے علاوہ عورتوں نے بھی قابل قدر حصہ ڈالا ہے.حضرت خدیجۃ الکبری سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والی خاتون تھیں.ان کے بعد جو پہلی عورت اسلام میں داخل ہوئیں اور فوراً ایمان لائیں وہ نبی کریم علیہ کی حقیقی بچی حضرت ام الفضل لبابہ تھیں.آئیے ! اب ہم آپ کو حضور میلے کی ان پیاری چچی کے متعلق کچھ بتاتے ہیں.ان کا نام لبابہ اور لقب کبرئی تھا، لیکن عام طور پر اپنی
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 2 کنیت ام الفضل کے نام سے مشہور تھیں.ان کے والد کا نام حارث، ان کی والدہ کا نام ہند تھا لیکن کہیں خولہ بنت عوف بھی ملتا ہے.الله آپ حضور اقدس مے کی چچی ، منہ بولی ماں اور آپ ملنے کی سالی یعنی اُم المومنین حضرت میمونہ کی بہن بھی تھیں.اس کے علاوہ بھی ام الفضل کی کئی بہنیں خاندان بنو ہاشم اور قریش میں بیاہی ہوئی تھیں.مثلا حضرت میمونہ، رسول اللہ ا سے صلى الله حضرت لبابہ الکبری ، حضرت عباس سے جو رسول پاک ﷺ کے چچا تھے، الله حضرت سلمی ، حضرت حمزہ سے یہ بھی حضور ﷺ کے چچا تھے.حضرت اسمان حضرت جعفر طیار سے یہ حضرت علی کے بھائی تھے.یہی وجہ تھی کہ لوگ حضرت اُم لفضل کی والدہ ہند پر رشک کرتے تھے کہ سمدھیا نے جہاں بیٹیاں بیاہی گئی ہوں ، کے لحاظ سے قریش کی کوئی عورت ان کے ہم پلہ نہیں تھی.بلکہ ان کی نسبت یہ مشہور تھا کہ سرالی قرابت میں ان کا کوئی نظیر نہیں.صلى الله جب آپ کی بہن حضرت میمونہ کی شادی حضور ﷺ سے ہوئی تو اس بابرکت تعلق کی وجہ سے اہل نجد کی اسلام کے ساتھ مخالفت اور دشمنی میں واضح کمی آگئی.
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 3 الله حضرت اُمّ الفضل کے آنحضرت علی کے خاندان کے ساتھ بہت محبت اور پیار کے تعلقات تھے کہ خود نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ ام الفضل ، میمونہ ، سلمی اور اسماء چاروں بہنیں ہیں.نیز حضرت ام الفضل کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضرت خدیجہ کی وفات پر حضرت ام الفضل اور حضرت اُم یمن نے ان کو نہلایا اور حضرت ام الفضل غم کے اس موقع پر حضور اللہ کوتسلی دیتی رہیں.(1) عرب معاشرے میں جہاں عورت اس درجہ پر نہ سمجھی جاتی تھی کہ زندگی کا کوئی بھی فیصلہ وہ از خود کر لے ، یہ بات حضرت ام الفضل کو بہت نمایاں کرتی ہے کہ انہوں نے اپنے خاوند حضرت عباس سے کہیں پہلے اسلام قبول کیا.سارے خاندان کو چھوڑ کر بالکل اکیلے آنحضرت ملے پر ایمان لانا آپ کی بہادری اور جرات کا ثبوت ہے.ایسی کامل وفا کے ساتھ اسلام پر کار بند ہوئیں کہ نہ صرف اولاد کی دینی تربیت کی بلکہ اولاد میں دین کے لئے وقف کرنے کا جذ بہ بھی پیدا کیا.کفار کی اذیتوں اور سختیوں کی وجہ سے مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی.کفار نے وہاں بھی آرام نہ لینے دیا اور ہجرت کے دوسرے سال خوب ساز وسامان کے ساتھ لیس ہو کر مسلمانوں کو مٹانے کے لئے مدینہ پر چڑھائی کی تیاری کی.مسلمانوں نے دفاع کے لئے تیاری کی اور
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 4 بدر کے مقام پر یہ غزوہ پیش آیا.اس غزوہ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی، اور بے سروسامانی تھی ، اس کے مقابل پر کفار تین گنا تھے اور ہر قسم کے جنگی سامان کے ساتھ لیس تھے اور انہیں یہی گمان تھا کہ اب اسلام کا خاتمہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفار پر فتح بخشی اور مشرکین مکہ کو ذلت کا سامنا ہوا.یہ خبر جب مکہ پہنچی کہ ملکہ کے تمام بڑے بڑے سردار ہلاک ہو چکے ہیں تو گھر گھر سے رونے پیٹنے کی آوازیں بلند ہونے لگیں.صلى الله ابولہب، معاند رسول علی جو دشمنی میں حد سے بڑھا ہوا تھا اُسے تو شکست کا غم اور اتنے بڑے بڑے سرداروں کے مرنے کا غم بر داشت نہیں ہورہا تھا.اُس کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی تھی اور جسم دیکھ اور غصہ سے لڑ کھڑا رہا تھا.اس پریشانی کے عالم میں لڑائی کے مزید حالات معلوم کرنے کے لئے اپنے بھائی عباس بن عبدالمطلب کے گھر جا پہنچا اس وقت جاؤ تک عباس نے اسلام قبول نہ کیا تھا.عباس بھی غزوہ بدر میں کفار کی طرف سے لڑے تھے اور شکست کھانے کے بعد مسلمانوں کے قیدی بن چکے تھے.ابولہب جب عباس کے گھر پہنچا تو اُن کا غلام ابو رافع نیزے بنانے میں مصروف تھا.ابولہب ان کے قریب بیٹھ گیا.اتنے میں کسی نے گھر میں کہا کہ وہ دیکھو ابوسفیان الله بن حارث ( جو کہ نبی کریم ﷺ کا چا زاد بھائی تھا اور ابھی تک اسلام قبول
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 5 نہ کیا تھا) ابھی ابھی لڑائی سے واپس آیا ہے.اس سے لڑائی کے حالات معلوم کرنے چاہئیں.ابولہب نے جب ابوسفیان کو دیکھا تو آواز دی بھیجے ذرا ادھر تو آؤ میرے پاس ! ذرا بتاؤ تو لڑائی میں کیا گزری؟“ وو ابوسفیان نے جواب دیا:.”واللہ ! مسلمانوں کے سامنے ہماری بے بسی کا یہ عالم تھا جیسے مردہ غسل دینے والے کے سامنے بے بس ہوتا ہے.انہوں نے جس کو چاہا مارڈالا اور جس کو چاہا قید کر لیا.ایک عجیب نظارہ ہم نے یہ دیکھا کہ ابلق (سیاہ وسفید رنگ والے گھوڑوں پر سوار سفید پوش آدمیوں نے مار مار کر ہمارا بکر تا بنا دیا.معلوم نہیں یہ کون لوگ تھے ؟ ابو رافع نے جھٹ کہا ”وہ تو فر شتے تھے !“ یہ سنا تھا کہ ابولہب کے تن بدن میں آگ لگ گئی ، بھڑک کر اٹھا اور ابو رافع کے منہ پر ایک زور دار تھپڑ مارا.ابورافع نے اپنے آپ کو ذرا سا سنبھالا اور اس کے ساتھ گتھم گتھا ہو گئے.لیکن جسمانی لحاظ سے چونکہ کمزور تھے ابو لہب نے جلد ہی ان کو زمین پر پٹخا اور مارنا پیٹنا شروع کر دیا.قریب ہی ایک خاتون بیٹھی تھیں وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکیں.فورا اٹھیں اور ایک موٹی سی لکڑی کا ٹکڑا لے آئیں اور اس زور سے
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 6 ابولہب کے سر پر مارا کہ اسکے سر سے خون کا فوارہ پھوٹ پڑا.پھر گرج دار آواز میں بولیں:.وو ” بے حیا! اس کا آقا موجود نہیں ہے اور تو اس کو کمز ور سمجھ کر مار رہا ہے ابو لہب کو ہمت نہ ہوئی کہ اس بہادر خاتون کا مقابلہ کرے اس نے وہاں سے بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی.یہ غیرت مند اور بہادر خاتون جنہوں نے ابو لہب جیسے دشمن اسلام اور دشمن خدا کو ایسی رسوائی اور ذلت سے دو چار کیا.حضرت عباس کی اہلیہ (ابولہب کی بھا بھی ) حضرت ام الفضل تھیں.تاریخ اسلام میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ یہ واقعہ چاہ زمزم کی چاردیواری کے اندر پیش آیا جس کے قریب ہی حضرت عباس کا مکان واقع تھا.تاریخ میں حضرت ام الفضل لباتہ الکبری کے ایک بچے خواب کا ذکر بھی ملتا ہے یہ خواب اس مومنہ خاتون کے خدا تعالیٰ کے ساتھ بچے تعلق صلى الله کو بھی ظاہر کرتا ہے.اور نبی کریم ع کے ساتھ اتھاہ محبت اور عقیدت کی نشاندہی کرتا ہے.حضرت ام الفضل نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ کے جسم مبارک کا کوئی حصہ ان کے گھر میں ہے.انہوں نے اپنا خواب صلى الله نبی کریم ﷺ کے سامنے بیان کیا اور آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اس کی
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ 7 اللہ تعالیٰ میری پیاری بیٹی حضرت فاطمہ کو ایک فرزند عطا فرمائے گا اور تم اس کو دودھ پلاؤ گی.“ کچھ عرصہ کے بعد حضرت فاطمۃ الزھرہ کے ہاں ایک فرزند حضرت حسین کی پیدائش ہوئی حضرت ام الفضل نے ان کی پرورش کی اور اس حوالے سے ان کی رضائی والدہ بھی کہلا ئیں.اس لئے سارا خاندان نبوت آپ کی بہت عزت و تکریم کرتا تھا.ہمیں معلوم ہے کہ حسن اور حسین حضرت فاطمہ کے بیٹے اور رسول مقبول ﷺ کے پیارے نواسے تھے.آپ یہ جتنی محبت اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ سے کرتے تھے اتنے ہی یہ بچے بھی آپ ﷺ کو پیارے تھے ان کو گود میں لیتے کندھوں پر اٹھاتے نماز پڑھتے ہوئے سجدہ میں جاتے تو یہ دونوں بچے آپ ع کی گردن مبارک پر سوار ہو جاتے.جب تک یہ بچے اوپر سے اتر نہ جاتے صلى الله آپ نے سجدہ سے سر نہ اٹھاتے.صل حسین وہی تھے جنہوں نے واقعہ کربلا کے دردناک حالات میں عظیم الشان شہادت پائی.پیارے آقامیہ نے تو ان کے بچپن میں ہی ان کی شہادت کی پیش گوئی فرما دی تھی.آپ ﷺ کی بے پایاں محبت کا اندازہ اس واقعہ سے لگالیں کہ جس زمانہ میں حضرت حسین
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 8 حضرت ام الفضل کی گود میں پرورش پا رہے تھے.تو ایک دن آپ اس ننھے بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں صلى الله حاضر ہوئیں.آپ ﷺ نے اپنے پیارے نواسے کو اپنی گود میں لے لیا اور پیار کرنے لگے ننھے حسین نے اپنے نانا جان محترم کی گود میں پیشاب کر دیا.حضرت ام الفضل جو پاس ہی بیٹھی تھیں لپک کر آگے بڑھیں اور بچے کو فوراً اپنے آقا کی گود سے لے لیا اور جھڑک کر کہا.ارے تھے تو نے یہ کیا کیا ؟ رسول کریم ﷺ کو ذرا بھی پسند نہ تھا کہ ان کے پیارے اور لاڈلے نواسے کو کوئی جھٹر کے اس لئے آپ ﷺ نے ام الفضل سے فرمایا." ام الفضل تو نے میرے بچے کو یونہی جھڑ کا جس سے مجھے دو تکلیف ہوئی.“ اس کے بعد نبی کریم ﷺ نے پانی منگوایا اور لباس مبارک کا پیشاب والا حصہ دھلوایا.(2) ہجرت سے تین سال پہلے حضرت ام الفضل نے بنو ہاشم اور بنوعبدالمطلب کے ساتھ شعب ابی طالب کی گھاٹی میں تین سال گزارے.یہ وہ دن تھے جب قریش نے ان کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا.سخت تنگی اور تکلیف کا زمانہ تھا.بھوک اور فاقے تھے.
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى صحابہ کرام نے کتنے دن پتے کھا کر گزارہ کیا.حضرت ام الفضل نے صبر ورضا کے ساتھ یہ دن کاٹے.یہی وہ وقت تھا جب آپ کے ہاں ایک بیٹے حضرت عبداللہ کی پیدائش ہوئی.(3) حضرت عباس یعنی حضرت ام الفضل کے شوہر اور نبی کریم ما صلى الله کے چچا اس بچے کو گود میں اٹھا کر حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے نبی کریم ﷺ نے اپنا لعاب دہن اس نومولود کے منہ میں رکھا اور اس بچے کے لئے خیر و برکت کی دعا کی.یہ بچہ نبی کریم ﷺ کی بابرکت دعا کے نتیجہ میں آسمان علم و فضل کا ایک روشن ستارہ بنا.عبد اللہ جسے تاریخ میں ابن عباس کے نام سے جانا جاتا ہے.(4) حضرت ام الفضل کو ہجرت کی سعادت بھی ملی.فتح مکہ سے کچھ عرصہ پہلے آپ کے شوہر نے اعلامیہ اسلام قبول کیا.اس موقع پر اس خاندان نے نبی کریم ﷺ سے اجازت حاصل کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کی.(5) نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی میں ایک ہی حج کیا.اور اس مجید الواداع کے موقع پر حضرت ام الفضل کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ وہ آپ مے کے ساتھ تھیں.حج کی عبادات بجالانے کے دوران عرفہ کے دن (وادی عرفات
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 10 میں قیام کے دوران) بعض لوگوں نے خیال کیا کہ حضور علی روزے سے ہیں.صلى الله جب حضرت ام الفضل کولوگوں کے اس شک کے بارے میں معلوم ہوا تو انہوں نے ایک دودھ کا پیالہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھیجا.آپ ﷺ نے دودھ پی لیا.اس سے لوگوں کا شک دور ہو گیا.صلى الله حضرت ام الفضل نبی کریم ع سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتی تھیں نبی کریم ﷺ کو بھی اپنی چچی سے خاصا احترام اور محبت کا تعلق تھا.حقیقت تو یہ ہے کہ سارا خاندان نبوت ہی حضرت ام الفضل کی بہت صلى الله عزت کرتا تھا.آپ ﷺ اکثر حضرت ام الفضل کے گھر تشریف لے جاتے.اگر دو پہر کا وقت ہوتا تو وہیں آرام فرماتے.حضرت ام الفضل کو یہ سعادت بھی حاصل تھی کہ وہ پیارے نبی ﷺ کا سر مبارک اپنی گود میں رکھتیں، آپ ﷺ کے بالوں میں انگلیاں پھیر تیں ، آپ ﷺ کے بالوں کو صاف کرتیں ، گرد نکالتیں، تنکے و غیره دور کرتیں اور ان میں کنگھی کرتیں.(6) حضرت ام الفضل" نہ صرف ابتدا میں اسلام لانے والوں میں سے تھیں بلکہ بہت مضبوط ایمان کی مالک تھیں.آپ نماز کا بہت اہتمام کرتیں اور ہر پیر اور جمعرات کو نفلی روزے بھی رکھتی تھیں.آپ شاعرہ بھی
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 11 تھیں اور آپ کے شعر اور مر مجھے بہت خوبصورت تھے.(7) آپ کے شوہر حضرت عباس کی کنیت ابو الفضل تھی.یہ صلى الله نبی کریم ﷺ سے تقریبا تین سال پہلے پیدا ہوئے.ان کا تعلق قبیلہ النمر سے تھا.حضرت عباس نبی کریم ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے.حضرت عباس کا شمار قریش کی مشہور ہستیوں میں ہوتا تھا.قریش نے عباس کو ” ذوالرائی“ کا خطاب دے رکھا تھا.کیونکہ تمام اہم معاملات میں ان سے مشورہ لیتے تھے.نبی پاک ﷺ نے جب دعوت حق پہنچانے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے لبیک کہنے والی خاتون ان کی اہلیہ ام الفضل تھیں (حضرت خدیجہ کے بعد ).اس وقت گو کہ حضرت عباس نے کھلم کھلا صلى الله اسلام قبول نہ کیا لیکن نبی کریم علیہ کی حفاظت کرنے اور مدد میں کوئی کمی نہ رہنے دی.غزوہ بدر میں عباس کفار کی طرف سے لڑے اور قیدی بن کر مسلمانوں کے پاس آئے تاریخ میں آتا ہے کہ ان قیدیوں کے کپڑے پھٹ گئے تھے.عباس لمبے قد کاٹھ کے تھے کسی کا کپڑا ان کو پورا نہ آتا تھا.اس موقع پر عبد اللہ بن ابی رئیس نے ( جو کہ منافق تھا) نے اپنا کرتہ منگوا کر عباس کو پہنایا.اور جب اس منافق کی موت ہوئی تو نبی کریم اللہ نے اپنے چچا عباس پر کیے جانے والے احسان کو اس طرح اتارا کہ اپنا
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 12 لباس مبارک اس لاش کو پہنانے کے لئے دیا.ہجری میں عباس نے کھلم کھلا اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا فتح مکہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہنے کی سعادت پائی.اس کے بعد غزوہ حنین میں دشمنوں کی سخت تیراندازی کے مقابل پر نبی کریم علیہ کی حفاظت کے لئے صبر و ہمت کے ساتھ نہ صرف کھڑے رہے، بلکہ خوب مقابلہ کیا.حضرت عباس زمانہ جاہلیت میں چونکہ سود کا کاروبار کرتے تھے حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم اللہ نے فرمایا:.جاہلیت کے تمام سود معاف کر دیئے گئے ہیں اور سب سے پہلے 66 میں اپنے خاندان عباس بن عبدالمطلب کا سود معاف کرتا ہوں.“ نبی کریم ﷺ کی آخری بیماری میں بھی عباس اور ان کے گھرانے نے تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا آپ علیہ کی تجہیز و تکفین میں آپ صلى اور آپ کے دونوں صاحبزادے شامل ہوئے.حضرت عباس معمر کے لحاظ سے چونکہ بنو ہاشم کی بزرگ شخصیت تھے اس لئے نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد لوگ ان کے پاس تعزیت کے لئے آتے اور تمام صحابہ کرام حضرت عباس کے ساتھ ایسی عزت و احترام سے پیش آتے جیسے نبی کریم علیہ کی حیات مبارکہ میں پیش آتے تھے.ہر
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 13 کام میں ان سے مشورہ کرتے.اگر سواری پر کہیں جا رہے ہوتے تو خلیفہ المسلمین بھی سواری سے اتر جاتے اور حضرت عباس کو سواری پر بیٹھا کر لگام خود تھام کر پیدل چلتے اور انہیں جہاں جانا ہوتا وہاں پہنچاتے.حضرت عباس نے حضرت عثمان غنی کے دور خلافت میں 32 ہجری کو وفات پائی اس وقت ان کی عمر 86 یا 88 برس تھی.حضرت عثمان نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عبد اللہ بن عباس نے قبر میں اتارا.(8) حضرت ام الفضل اور حضرت عباس کے ہاں سات اولادیں ہوئیں.ان میں چھ بیٹے اور ایک بیٹی تھی.بیٹوں کے نام فضل ، عبداللہ، عبید الله معبد، قسم، عبدالرحمن اور ایک بیٹی ام حبیبہ ہے.(9) اولاد کی اچھی تربیت ہی ایک ایسا ورثہ ہے جو رہتی دنیا تک کے لئے صدقہ جاریہ ہوتا ہے.حضرت اُمّ الفضل اس لحاظ سے خوش قسمت تھیں کہ ان کی اولادیں اکثر علم وفضل میں اعلیٰ مقام رکھتی تھیں.بالخصوص حضرت عبداللہ اور عبید اللہ نے علم و فضل میں اتنا بلند مرتبہ حاصل کیا کہ اُمت کے ستون کہلائے.آپ کے صاحبزادے حضرت عبد اللہ بن عباس نبی کریم اللہ سے بے پناہ محبت رکھتے تھے.اکثر و بیشتر نبی کریم ﷺ کے گھر مبارک پر اپنی خالہ اُم المؤمنین حضرت میمونہ کے پاس حاضر ہوتے اور وہیں
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى 14 سو رہتے.وہاں نبی کریم ﷺ کو وضو کرواتے اور دیگر خدمات بجا لاتے.حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ خلافت میں آپ نے بزرگ صحابہ سے علم حاصل کیا.(10) حضرت ام الفضل کے بڑے صاحبزادے حضرت فضل بن عباس تھے.آپ نے شروع ہی میں اسلام قبول کیا لیکن اعلان بعد میں کیا.فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم اللہ کے ساتھ رہنے کی توفیق پائی.غزوہ حنین میں جب دشمن کی بے پناہ تیراندازی سے مسلمانوں نے افرا تفری پھیل گئی اس وقت حضرت فضل نبی کریم ﷺ کو تیروں کی زد سے بچانے کے لئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کھڑے ہو گئے تھے.اور آپ کو یہ مرتبہ بھی حاصل ہے کہ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے انہیں اپنی سواری پر بٹھایا اور اسی موقع پر آپ ہی نے نبی کریم ﷺ کی پشت پر چادر تان رکھی تھی تا کہ آپ ع کو دھوپ سے بچایا جا سکے.صلى الله نبی کریم ﷺ جب آخری خطبہ کے لئے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے ، فضل بن عباس نے سہارا دے رکھا تھا.نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جسد مبارک کو غسل دینے کی سعادت بھی ان کو نصیب ہوئی.تیرہ ہجری جنگ اجنادین میں مردانہ وار لڑتے ہوئے آپ کی شہادت ہوئی.
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى الله 15 حضرت عبید اللہ بن عباس حضرت عبداللہ کے چھوٹے بھائی صلى الله تھے ہجرت نبوی سے ایک سال پہلے پیدا ہوئے.نبی کریم نے کو حضرت اُمّ الفضل کے بچوں سے بے پناہ محبت تھی ، بار ہا ایسا ہوتا کہ نبی کریم ملے ان کو بلاتے اور کہتے ، جو بھاگ کر پہلے آئے گا میں اُس کو صلى الله فلاں چیز دوں گا.جب تینوں بچے دوڑ کر آتے تو نبی کریم علی ان کو سینے سے لگا لیتے اور پیار کرتے.(11) حضرت ام الفضل کے ان بیٹوں کے علاوہ ایک بیٹی ام حبیبہ کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے.ان کی شادی اسود بن سفیان سے ہوئی ، جن سے دو بچے زرقا اور لیا یہ ہوئے.یہ مکہ میں رہتے تھے.حضرت ام الفضل وہ بلند پایہ صحابیہ تھیں جنہوں نے 20 احادیث بیان کی ہیں.ان کی بیان کردہ احادیث کے راوی حضرت عبداللہ ، دوسرے فرزندان ، عباس اور حضرت انس بن مالک جیسے جلیل القدر صحابی شامل ہیں.(12) آپ وہ مومنہ خاتون تھیں جس نے خود بھی اور بچوں نے بھی نبی کریم ﷺ سے محبت اور عقیدت کا حق ادا کیا اور آپ ﷺ کی شفقتوں اور دعاؤں کے وارث بنے.آپ نے حضرت عثمان غنی ذوالنورین کے عہد خلافت میں مدینہ منورہ میں وفات پائی.اس وقت تک ان کے شو ہرا بھی زندہ تھے.آپ کی نماز جنازہ حضرت عثمان غنی نے پڑھائی.(13)
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى.1 -2 -3 -4 _5 -6 -7 -8 -9 16 حوالہ جات ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ 315-314 اور تذ کار صحابیات از طالب ہاشمی صفحہ 249 تذ کا صحابیات از طالب ہاشمی صفحہ 250-247 نبی کریم ﷺ کا گھرانہ از ڈاکٹر اختر نواز خان صفحہ 215 نبی کریم اللہ کا گھرانہ از ڈاکٹر اختر نواز خان صفحہ 220-219 ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ 316 تذ کا ر صحابیات از طالب ہاشمی صفحہ 250-249 ازواج مطہرات و صحابیات صفحہ 316 نبی کریم عملہ کا گھرانہ از ڈاکٹر اختر نواز خان صفحه 214 تا 219 الله تذ کارصحابیات از طالب ہاشمی صفحہ 250 10.نبی کریم ﷺ کا گھرانہ از ڈاکٹر اختر نواز خان صفحہ 220 11 نبی کریم ﷺ کا گھرانہ از ڈاکٹر اختر نواز خان صفحہ 225 -12 تذ کار صحابیات صحفہ 251 13 - سیر الصحابیات صفحہ 114
حضرت ام الفضل لبابة الكبرى (Hadhrat umm ul Fazal Lubaba tul Kubra") Urdu Published in UK in 2008 O Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.