Language: UR
بسلسلہ خلافت احمدیہ صد سالہ جو بلی رت ام ہانی بنت حضرت ابوطالب نھا لجنہ اماء الله
ت اُم ہانی بنی بنت حضرت ابوطالب عنها
بسم الله الرّحمن الرّحيم خدا تعالیٰ کے فضل سے لجنہ اماءاللہ لو صد سالہ خلافت جوبلی کے مبارک موقع پر بچوں کیلئے سیرت صحابیات پر کتب شائع کرنے کی توفیق مل رہی ہے.کوشش یہ کی گئی ہے کہ کتاب دلچسپ اور آسان زبان میں ہو، تا بچے شوق سے پڑھیں اور مائیں بھی بچوں کو فرضی کہانیاں سنانے کی بجائے ان کتب سے اپنے اسلاف کے کارنامے سنائیں تاکہ بچوں میں بھی ان جیسا بننے کی لگن پیدا ہو.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا حضرت اُم ہانی رضی ا پیارے بچو! ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کی قوت قدسیہ سے فیض پا کر عرب کے لاکھوں روحانی مردے زندہ ہو گئے اور نیک روھیں پروانہ وار شمع رسالت کے گرد اکٹھی ہو گئیں.انہی نیک روحوں میں سے ایک ایسی راہنما ہستی کا ذکر بھی تاریخ میں ملتا ہے جو اسلامی تاریخ کے سنہرے ابواب میں ام ہانی رضی اللہ عھا کے نام سے جانی جاتی ہیں.ان کا اصل نام وو 66 فاختہ تھا.بعض روایات میں ھند بھی بتایا جاتا ہے.والد کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے.اُم ہانی رضی اللہ عنھا بنت ابو طالب عبد مناف بن عبد المطلب اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب حضرت ام ہانی رضی اللہ صحابیت حضرت فاطمہ بنت اسد بن ہاشم.(1) حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ کے والد عبد مناف جن کی کنیت حضرت ابو طالب تھی.آقائے دو جہاں صلى الله حضرت محمد مصطفی مسلے کے حقیقی چاتھے اور آٹھ سال کی عمر سے آپ علی ہے کی تربیت و پرورش کا اعزاز انہیں حاصل ہوا.آپ نے اپنے پیارے بھتیجے کو عزیز از جان رکھا اور انتہائی شفقت اور محبت سے پرورش کی.آپ
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا الله الله نے ہر قسم کے حالات میں آنحضور ﷺ کا ساتھ دیا.جب حضور ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا تو جہاں اللہ کے نیک بندے آپ ﷺ پر دل و جان سے ایمان لے آئے وہاں اہلِ مکہ کی اکثریت نے آپ ﷺ کی پر زور مخالفت کی.ایسے مشکل حالات میں بھی حضرت ابوطالب دشمنوں کے سامنے آپ صلى الله عہ کے لئے ڈھال بنے رہے.بظاہر تو حضرت ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا لیکن آپ کے طرز عمل سے یہی لگتا ہے کہ آپ دل سے اسلام کی خوبیوں کے قائل ہو چکے تھے.حضرت ابوطالب کی زوجہ محترمہ حضرت فاطمہ بنت اسد اور ان کی ساری اولاد کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے نور سے منور کیا.آپ کے صاحبزادے حضرت علی اسلام کے چوتھے خلیفہ راشد تھے.حضرت اُم ہائی کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد بہت ہی نیک فطرت خاتون تھیں.آپ حضرت محمد ملنے کی بچی تھیں اور آپ کو ان کی پرورش کا اعزاز بھی حاصل ہوا.آپ ﷺ سے حضرت فاطمہ کا بہت پیار اور احترام کا رشتہ تھا.اللہ تعالی نے آپ کو ذہانت اور فہم و فراست سے وافر حصہ عطا فر مایا تھا.یہی وجہ تھی کہ آپ اللہ اور اس کے پیارے رسول سے صلى الله کے دعویٰ نبوت کے وقت ہی ایمان لے آئیں.آپ کا دل اللہ تعالیٰ کی
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا محبت سے بھرا ہوا تھا.جب آپ کی وفات ہوئی تو آنحضور ﷺ نے آر کے سرہانے بیٹھ کر درد بھرے انداز میں فرمایا:.وو ” میری امی جان اللہ تعالیٰ آپ پہ اپنی رحمت کی برکھا (بارش) برسائے ، آپ میری والدہ کے بعد میرے لئے ماں کا درجہ رکھتی تھیں.آپ خود بھوکی رہتیں اور مجھے خوب جی بھر کے کھانا کھلاتیں ، خود معمولی کپڑے پہنتیں اور مجھے اچھا لباس پہنا تیں ،خود عمدہ کھانے سے ہاتھ روکے رکھتیں اور مجھے کھانا پیش کر دیتیں.بلاشبہ آپ اس سے محض اللہ کی رضا اور آخرت کی کامیابی کا ارادہ رکھتی تھیں.66 حضرت فاطمہ کو ایک ایسا اعزاز اللہ تعالیٰ نے عطا فر مایا جوکسی اور عورت کے حصہ میں نہیں آیا.مغسل دیتے وقت آپ ﷺ نے اُن کے جسم پر کافور ملا پانی اپنے دست مبارک سے ڈالا ، پھر اپنی قمیض مرحمت فرمائی کہ اُن کو پہنائی جائے اور اُس کے اوپر چادر کفن کے لئے عطا فرمائی.یہی صلى الله نہیں بلکہ رحمت العالمین علیہ نے جب قبر تیار ہو گئی تو لحد خود تیار کی اور اپنے ہا برکت ہاتھوں سے مٹی نکالی.جب آپ میے اس عمل سے فارغ صلى الله ہوئے تو لحد میں لیٹ کر اُن کے لئے مغفرت کی دعا کی.پھر آپ علیہ نے جنازہ پڑھا کر انہیں لحد میں اتار دیا.(2) آپ کی اولاد میں چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں.لڑکوں کے نام
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا حضرت عقیل، حضرت جعفر، حضرت علیؓ اور حضرت طالب تھے جبکہ لڑکیوں میں حضرت ام ہانی کے علاوہ حضرت جمانہ اور حضرت رابطہ تھیں.آپ کی اولا دکو خدا تعالیٰ نے والدین کے اوصاف حسنہ سے مزین فرمایا تھا.(3) حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا کا نکاح ہبیرہ بن محزم سے ہوا تھا.یہ قریش کے مشہور شاعر تھے لیکن اسلام سے محروم رہے اور فتح مکہ کے وقت حالت شرک میں نجران کی طرف بھاگ گئے.(4) اللہ تعالیٰ نے اُم ہانی رضی اللہ عنہا کو چار بیٹوں حضرت عمرو، حضرت جعدہ ، حضرت ہانی رضی اللہ عنھا ( جن سے آپ کی کنیت تھی ) اور حضرت یوسف سے نوازا.چاروں اسلام لائے اور ساری عمر اسلام کے لئے خدمات سرانجام دیتے رہے.(5) حضرت ام ہانی رضی الہ منافتح مکہ کے موقع پر اسلام لائیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ وہ شروع میں ایمان لے آئیں البتہ اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھیں.مکہ معظمہ میں اُم ہانی رضی اللہ تعاقر آن کریم بڑے غور سے سنا صلى الله کرتی تھیں.آپ فرماتی ہیں کہ ہم رات کو کعبہ کے پاس رسول اللہ ہے کی تلاوت سنا کرتے تھے میں اپنے گھر کی چھت پر ہوتی تھی.(8) آنحضرت ﷺ سے ان کو جو عقیدت تھی ، وہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ فتح مکہ کے زمانہ میں ان کے مکان پر تشریف لائے اور شربت
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا نوش فرمایا.اس کے بعد ان کو دیا انہوں نے کہا میں روزے سے ہوں لیکن الله آپ اللہ کا جھوٹا واپس نہیں کرنا چاہتی.حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر روزہ رمضان کی قضا کا ہے تو کسی دوسرے دن یہ روزہ رکھ لینا اور اگر محض نفل ہے تو اس کی قضا کرنے یا نہ کرنے کا تم کو اختیار ہے.(7) اس روایت سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کو آنحضور علے سے حد درجہ عقیدت و محبت تھی وہاں یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آپ فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھیں اور روزے رکھا کرتی تھیں.آپ خلوص دل اور خلوص نیت سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائی تھیں اور پھر اس پر ثابت قدم رہیں.کوئی دنیاوی طاقت آپ کے ایمان کو نہ ہٹاسکی ، کوئی رشتہ روک نہ بن سکا.حالانکہ ان کے شوہران کے قبول اسلام کی وجہ سے چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے.چار بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری کا بوجھ ان کے کمزور کندھوں پر تھا پھر بھی آپ نے انتہائی دلیری ، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے حالات کا مقابلہ کیا اور خدا تعالیٰ کا دامن تھامے رکھا.اُم ہانی رضی اللہ عنھا کے خاوند جو ایک اعلیٰ پائے کے شاعر تھے اپنے اشعار میں ان کو اسلام قبول کرنے کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے صلى الله آگاہ کیا اور یہ بتانا چاہا کہ دین محمدیہ کی اتباع سے انہیں صرف بھوک
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا اور تنگی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ در بدر ر ہیں گی.مگر اُم ہانی رضی الہ عنھا کو یقین کامل تھا کہ یہی صراط مستقیم ہے.رسول ﷺ کی چچا زاد بہن اور حضرت علی کی حقیقی بہن کا اعزاز ہونے کے علاوہ حضرت ام ہانی رضی اللہ محاوہ خوش قسمت صحابیہ تھیں جن کے حصہ میں اور بھی بہت سے اعزازات آئے.فتح مکہ کے موقع پر ایک ایسا اعزاز آپ کے حصہ میں آیا جو کسی صحابیہ کے حصے میں نہیں آیا.فتح مکہ کے دن آپ ﷺ حضرت ام ہانی کے گھر تشریف لے گئے اور شکرانے کے آٹھ نفل نماز ادا کی.یہ چاشت کا وقت تھا آپ فرماتی ہیں کہ میں نے آپ میلے کو اس سے ہلکی پھلکی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہ دیکھا البتہ رکوع و سجود آپ ﷺ نے پورے اطمینان 66 سے کئے.“ صلى الله اُم ہانی رضی اللہ عنھا کو ایک اور اعزاز یہ ملا کہ آپ ﷺ نے ان کے گھر کھانا کھایا اور تعریف کی.یہ کھانا روٹی کے سوکھے ٹکڑے تھے جو پانی میں بھگو کر کھائے اور سالن کی جگہ سر کہ ٹکڑوں پر چھڑک لیا.رسول اللہ علی ہے نے فرمایا: ”اے ام ہانی رضی اللہ عنھا سرکہ بہترین سالن ہے.وہ گھر فقیر نہیں ہوتا جس میں سرکہ ہو.“ (8) صلى الله حضرت ام ہانی رضی لہ منا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضور ﷺ معراج
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا کی رات مکہ میں اُن کے گھر آرام فرمارہے تھے.حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا صلى الله فرماتی ہیں کہ اُس روز عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد آپ ﷺ ہمارے گھر سو گئے تھے ہم نے فجر کی نماز ادا کی پھر یہ ارشاد فرمایا :.يا أُمّ هانى رضى الله عنها جئت إلى بيت المقدس فصيلت فِيهِ ثُمَّ صليت الغداة مَعَكُم الترمزى (۱۷۸/۲) اے اُم ہانی رضی اللہ عنھا میں بیت المقدس گیا وہاں نماز پڑھی اور پھر صبح کی نماز تمہارے ساتھ ادا کی.حضرت اُم ہانی رضی اللہ علما فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یہ صلى الله بات لوگوں کو نہ بتا ئیں آپ علی کو لوگ جھوٹا کہیں گے.آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم میں لوگوں کو یہ ضرور بتاؤں گا.آپ ﷺ نے لوگوں کو معراج کے بارے میں بتایا تو وہ حیران رہ گئے.(9) صلى الله حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا کو حضور علیہ کے ساتھ غزوہ خیبر میں شرکت کا اعزاز بھی حاصل ہوا.حضور ﷺ نے مال غنیمت میں سے ان کو چالیس اونٹوں کے بوجھ جتناغلہ عنایت فرمایا.(10) زمانہ جاہلیت سے یہ حق عورتوں کو ملا ہوا تھا کہ وہ کسی خوف زدہ اور قیدی کو امان دے سکتی تھیں.اس کا پاس رکھتے ہوئے ہمارے پیارے آقا ! صلى الله حضرت محمد علی نے مسلمان عورت کے مقام و مرتبہ کی حفاظت فرمائی اور
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا اس کی عزت کا پورا پورا خیال رکھا.اسے ایک یا دو مردوں کو پناہ دینے کی اجازت دی.حضرت ام ہانی رضی اللہ علما کا اپنے سسرالی عزیزوں کے ساتھ احترام اور محبت کا تعلق تھا اور آپ نے اپنے دو ایسے سرالی رشتہ دار مردوں کو پناہ دی جن کو قتل کرنے کا حکم تھا.ہمارے نبی کریم اللہ نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا.حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا اس واقعہ کے بارے میں بیان کرتی ہیں:.وو " جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ کے بالائی جانب پڑاؤ کیا تو بنو مخزوم کے دو آدمی دوڑ کر میرے پاس آئے اور ان کے پیچھے میرا بھائی علی بن ابی طالب بھی داخل ہوا اور اس نے کہا اللہ کی قسم میں انہیں قتل کروں گا.میں نے اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ میں نے ان کو امان دی.پھر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی آپ ﷺ نے فرمایا اے اُم ہانی خوش آمدید کیسے آنا ہوا ؟ میں نے آپ عمل کو دونوں آدمیوں اور اپنے بھائی علی کا میرے گھر داخل ہونے کا واقعہ بیان کیا.آپ میں لے نے فرمایا : ” جس کو تُو نے پناہ دی اُسے ہم نے پناہ دی ، اے ام ہانی رضی اللہ عھا جس کو تو نے امان دی اسے ہم نے امان دی ، علی ان دونوں کو قتل نہیں کرے گا.“
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 9 اس واقعہ سے صحابہ کرام نے حضرت ام ہانی رضی اللہ عنھا کے فضل اور شرف کا اعتراف کیا وہ آپ کی بڑی عزت اور احترام کیا کرتے تھے.سرور دو عالم علیہ حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا پر بہت شفقت فرمایا صلى الله کرتے تھے آپ علیہ ان کی دلجوئی کرتے ، ان کے حالات سے باخبر رہتے اور اکثر ان کے گھر تشریف لا کر محبت و شفقت کا اظہار فرماتے.ایک مرتبہ آپ ﷺ نے ام ہانی رضی الہ علما سے فرمایا:.ائم ہانی رضی اللہ کا بکری لے لو یہ با برکت جانور ہے.“ (12) حضرت ام ہانی رضی اللہ عنھا کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حضور علیہ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہ آپ کے بھائی حضرت علی کے الله عقد میں آئیں.حضرت علی کو آنحضرت ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہوا.اس طرح آنحضور ﷺ سے قربت اور بھی بڑھ گئی.ام ہانی رضی اللہ صحا حضور ﷺ کے آرام کا بہت خیال رکھتی تھیں روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب ان کے بچے کم سن تھے تو آپ حضور اللہ کے پاس کم کم جاتی تھیں.ایک بار حضرت عباس نے بیان کیا کہ رسول اللہ ہے آپ کے بارے میں دریافت فرمارہے تھے تو کہنے لگیں:."میرے بچے چھوٹے ہیں.مجھے اچھا نہیں لگتا کہ یہ حضور میں نے کو تنگ کریں یا تکلیف میں ڈالیں."
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 10 حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا سادہ طبیعت کی خوش مزاج خاتون تھیں.آپ کو سلیقہ اور مہمان نوازی اپنی والدہ محترمہ سے ملی.آپ کو اللہ تعالیٰ سے عشق اور اُس پر کامل تو کل تھا.زندگی میں بے شمار تکلیفوں کا سامنا انتہائی صبر اور ہمت سے کیا اور بھی کوئی لفظ بے صبری کا ادا نہ کیا.فصاحت و بلاغت اور ادب آپ کو اپنے والد ماجد کی طرف سے ورثہ میں ملا.قرآن مجید پر غور و فکر کرتی رہتی تھیں.فقہ سے بہت دلچسپی تھی اور بعض فقہی مسائل دریافت بھی کئے.اسی طرح بعض قرآنی آیات کے مفہوم بر اور است آنحضور ﷺ سے پوچھے.مکہ معظمہ میں اُم ہانی رضی اللہ سما کو قریشی خواتین میں عام طور پر اور ہاشمی خواتین میں خاص طور پر بڑی عقلمند، اچھی رائے دینے والی اور ادیب خاتون سمجھا جاتا تھا.حضرت ام ہانی رضی اللہ معا فضل و کمال کے لحاظ سے بڑے بلند مرتبہ پر فائز تھیں ان سے چھیالیس احادیث مروی ہیں.حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا کی روایت کردہ احادیث ،احادیث کی مستند کتب صحاح ستہ میں موجود ہیں.(13) ان سے ان کے بیٹے جعدہ اور پوتے ہارون نے بھی احادیث روایت کیں.(14) ایک بہت پیاری حدیث حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا سے مروی ہے اس حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ کے حوالے سے سب مسلمان خواتین
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 11 اور بچیوں کے لئے ایک پیغام اور ایک نصیحت ہے:.عَن أُمّ هانى رضى الله عنها قَالَتْ: قَالَ رَسُول الله : يَا عَائِشَةُ لِيَكُنُ شَعَارُكِ الْعِلْمَ والْقُرانَ.(15) ترجمہ : حضرت ام ہانی رضی اللہ صحا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اے عائشہ تمہارا شعار قرآن کریم اور علم ہو.یعنی قرآن اور علم کے ساتھ تمہیں اس قدر محبت ہونی چاہیے کہ اس سے زیادہ قریب اور پیاری چیز تمہیں کوئی نہ ہو.(شعار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے ساتھ لگا ر ہے ) حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھکنے والی مبارک خاتون تھیں جیسے جیسے عمر بڑھنے لگی اور جسم کمزور پڑنے لگا تو الله اس صحابیہ کو فکر ستانے لگی کہ عبادت کا حق ادا نہیں ہورہا اس مسئلہ کو لے کر آپ محبوب خدا حضرت محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئیں.اور حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اب میں بوڑھی ہو گئی ہوں چلنے پھرنے میں کمزوری محسوس ہوتی ہے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیجئے جسے بیٹھے بیٹھے پڑھ سکوں.حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک سومرتبہ سُبْحَانَ اللہ ایک سو مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ ایک سو مرتبہ اللهُ اکبر اور ایک سومرتبہ لا إله إِلَّا اللہ کہ لیا کرو.(16) اس طرح آپ ذکر الہی میں مصروف رہتیں.اللہ تعالیٰ کے فضل
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 12 صلى اللهم سے آپ نے لمبی عمر پائی اور چاروں خلفائے راشدین کا زمانہ دیکھا اور اُن سے فیض یاب ہوئیں.چاروں خلفاء راشدین، اصحاب رسول علی اور علماء امت ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے.اور ان کا حد درجہ احترام صلى الله کرتے کیونکہ آنحضور ﷺ کے ہاں ان کو عزت واحترام کا مقام حاصل تھا.انہیں یہ سعادت اور اعزاز آخری دم تک میسر رہا.كُل من عليها فان جو بھی اس دنیائے فانی میں آیا اُسے ایک نہ ایک دن کوچ کر جاتا ہے خواہ انبیاء و صالحین ہوں یا کتنی ہی مبارک اور پیاری ہستیاں.یہی قانونِ قدرت ہے.حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا اپنے بھائی علی کے بعد تک زندہ رہیں.حضرت امیر معاویہ کے زمانہ خلافت میں 50 ہجری میں حضرت اُم ہانی رضی اللہ تھا ایک راضی برضا زندگی گزار کر اپنے خالق حقیقی سے جاملیں.اللہ آپ سے راضی ہو اور اپنی جوار رحمت میں صالحین کے ساتھ جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان جیسی با برکت ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے.آمین (17)
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 13 حوالہ جات (1) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا از ڈاکٹر ذوالفقار کاظم (صفحہ 336) (2) صحابیات طیبات (صفحہ 25,31) (3) تذ کار صحابیات (صفحہ 148) (4) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 336) (5) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا (صفحہ 339) (6) صحابیات طیبات (صفحہ 535) (7) سیر الصحابیات (صفحہ 159) (8) ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 337)
حضرت اُم ہانی رضی اللہ عنھا 14 (9) صحابیات طیبات (صفحہ 534) (1 ازواج مطہرات و صحابیات انسائیکلو پیڈیا ( صفحہ 339 (11) صحابیات طیبات (صفحہ 530) (12) سیر الصحابیات (صفحہ 159) (13) سیر الصحابیات (صفحہ 159) (14) صحابیات طیبات (صفحہ 533) (15) مسند الامام الاعظم کتاب العلم (صفحہ 20 ) بحوالہ حدیقہ الصالحین حدیث نمبر 1006 (16) سیرالصحابیات (صفحہ 159,160) (17) صحابیات طیبات (صفحہ 535)
حضرت اُم ہانی (Hadrat Umm-e-Hani ") Urdu Published in UK in 2008 Islam International Publications Ltd.Published by: Islam International Publications Ltd.'Islamabad' Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, United Kingdom.Printed in U.K.at: Raqeem Press Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ No part of this book may be reproduced or transmitted in any form or by any means, electronic or mechanical, including photocopy, recording or any information storage and retrieval system, without prior written permission from the Publisher.ISBN: