Language: UR
توہین رسالت کی سزا کے طورکسی انسان کو قتل کرنے کی تعلیم قطعی طور پر قرآن کریم میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی سنت نبوی سے ایسا ثابت اور مشہود ہے، اس کتاب میں جملہ حقائق اور دلائل کے ساتھ اس قطعی حقیقت کو قریباً 300 صفحات پر مصنف نے سال 2018ء میں 6 ابواب میں تقسیم کرکے پیش کیا ہے جس سے نہ صرف زیر نظر موضوع پر قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر پر محاکمہ کیا گیا ہے بلکہ تاریخ اسلام سے متعلقہ واقعات کا پس منظر اور حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز توہین کے واقعات کی روک تھام کے لئے جماعت احمدیہ کی اختیار کردہ قابل عمل راہ بھی سمجھائی گئی ہے۔
کلام اللہ اور سنت و تعلیمات نبوی کی شہادت توئین رسالت کی سرا قتل نہیں ہے
i } کلام اللہ اور سنت و تعلیماتِ نبوی کی شہادت توہین رسالت کی سزا قتل نہیں ہے تصنیف ہادی علی چوہدری *****
ii } انسانیت، انسان اور اس کے خون کے سب سے بڑے محافظ رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِين مُحَمَّد رسول الله صلى الله ولم صلی تیم ملی تیم ملی تیم ملی تیم ملی ام (جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں)
( iii } بسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِم الْكَرِيمَ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوعُوْدَّ خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر پیش لفظ ***** نسل انساں میں کشت و خون اور قتل و غارت گری ابتداء سے ہی جاری دکھائی دیتی ہے.چنانچہ اس سلسلے میں قرآن کریم نے حضرت آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور قابیل کا ذکر بھی کیا ہے.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان مذہبی تھا یا غیر مذہبی ، وہ کسی نہ کسی وجہ سے قتل و خون کرتا ہی چلا آیا ہے.تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان کو ہلاک کرنے والا انسان جاہل و غیر مہذب بھی تھا اور تہذیب و تعلیم یافتہ بھی.بلکہ تہذیب و تعلیم یافتہ انسان پہلے بھی اس ظلم میں دو ہاتھ آگے ہی تھا اور ابھی بھی آگے ہی ہے.بلکہ اب تو وہ لاکھوں انسان ہلاک کر کے بھی تسکین نہیں پاتا.بہر حال اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان کو بیماریوں، درندوں، طوفانوں ، زلزلوں یا دیگر قدرتی آفات نے اتنی تعداد میں ہلاک نہیں کیا جتنی کثرت سے خود انسان نے انسان کو ہلاک کیا ہے.تاریخ یہ بھی ثابت کرتی ہے کہ انسان کو اس قتل و غارت اور ظلم و استبداد سے نکالنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء علیہم السلام نے بہت بڑا اور بنیادی کردار ادا کیا ہے.مگر محسن انسانیت ، رحمۃ للعلمین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ یکم نے انسانیت کو، انسان کو اور انسان کے خون کو سب سے زیادہ بچایا اور سب سے بڑھ کر کمال تحفظ فراہم فرمایا ہے.آپ نے بذاتِ خود انسان
{ iv } کے لئے رحمت، محبت، اخوت، سهولت، دوستی، صلح و آشتی، عفو و در گزر، صبر ووفا، ایثار و پیار اور برداشت کے اعلیٰ ، بلند اور بیمثال نمونے بھی پیش فرمائے اور قیامت تک قائم رہنے والے محکم درس بھی دیئے.یہ ایک ناقابل تردید حقیقت بھی ہے اور انسانی تحفظ کی تاریخ کا ایک سنہرا اور کھلا ہو ا باب ہے.جس کی تفصیل قارئین آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے انشاء اللہ.قارئین یہ بھی واضح طور پر مشاہدہ کریں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی علیم نے شریعت میں کسی جگہ بھی توہین و تنقیص رسول کی سزا قتل تو کجا ذرہ برابر جبر و تشدد بھی قرار نہیں دی.اس سب کچھ کے باوجود بد قسمتی یہ ہے کہ خود کو اسی رحمتِ عالم ا کی طرف منسوب کرنے والے اپنے بعض غلط اور جھوٹے نظریات کی اتباع میں قتل و خون اور جبر و ظلم کے علمبر دار بن گئے ہیں.انہوں نے توہین رسول کے نعرے کو کشت و خون کا ذریعہ بنا کر اپنے خونی عقائد و نظریات کی بنیاد بنالیا ہے.وہ اپنے خون آشام نظریات یا عزائم کے تحقق کے لئے بعض آیاتِ قرآنیہ کو غلط معنے پہناتے ہیں.بعض واقعات جو رسول اللہ صلی ایم کی مبارک زندگی میں یا آپ کے بعد رونما ہوئے ان کو غلط منظر اور ماحول میں لا کر پیش کرتے ہیں یا ان کی ایسی تشریحات کرتے ہیں کہ جن کا اس مسئلے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.علاوہ ازیں انہوں نے ایسی روایات کو بھی رواج دیا ہے جو بے بنیاد تھیں یا سرے سے ہی جھوٹی تھیں.بہر حال یہ ایک المیہ ہے کہ ان خود ساختہ باطل تشریحات اور جعلی روایات کی بھینٹ چڑھ کر اسلامی دنیا ایک بہت بڑے نقصان سے دو چار ہوئی ہے.مسلمانوں کی قیمتی جانوں کا ضیاع اس قوم کو تنزل و ادبار کی گہرائیوں میں اتار چکا ہے.لیکن جو سب سے بڑا اور ناقابل تلافی نقصان اسلام کو پہنچا ہے ، وہ ہمارے آقا و مولی محسن انسانیت، رحمۃ للعلمین حضرت محمد مصطفی علی للی نمک کی بابرکت ذات اور آپ کے حسین ترین چہرے پر ظلم و جبر کے بد نما داغ لگانے کی کارروائی ہے.اس نے دنیا کو رسول اللہ صلی یم اور آپ کی رحمت کے قریب آنے کی بجائے دور کر دیا ہے اور اسے آپ کے پیغام کو قبول کرنے سے روک
{ V } دیا ہے.یہ کارروائی تخلیق کائنات کی وجہ اور اس کی دلیل کو مبہم بلکہ مسخ کرنے کی بھی کھلی کھلی جسارت ہے.پس ان کارروائیوں کو اب ہر حال میں ختم ہو ناضروری ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے عاجز کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور اسے اسلام کی حسین تعلیم اور رسول اللہ صلی ایم کی عالمین پر وسیع پر رحمت ذات سے ظلم و جبر اور قتل و خون کے دھبوں کو صاف کرنے کا ذریعہ فرمائے.یہ کوشش آپ کے ناموس کی حفاظت کے حقیقی طریقوں اور مستقیم راستوں کی نشاندہی کرنے والی ہو اور دنیا پر آپ کی رحمتوں کی ازلی ابدی سچائیاں واضح کرنے والی ہو.وما توفیقی الا باللہ العظیم.اس عاجز کی یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس عاجز گنہگار کو اپنے پیارے حبیب صلی ال نیم کے صدقے بخش دے اور اخروی زندگی میں اس کے قدموں میں جگہ دے.آخر میں خاکسار ان سب مخلصوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے جنہوں نے اس تصنیف میں خاکسار کی مدد فرمائی.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ صلى الل علم کے عاشقوں میں شمار فرمائے.خاکسار ہادی علی چوہدری فروری 2019ء *****
vi } اللهم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلِّمُ أَنَّكَ حَمِيدٌ مجِيد
مفید 1 2 7 9 14 15 17 20 20 24 27 28 28 31 vii } فہرست مضامین مضمون باب اوّل 1: آیات جو توہین رسالت کی سزا ”قتل“ کے لئے پیش کی جاتی ہیں پہلی آیت: "وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِي.....(التوبه : 61 ) اذیت اور اس پر رد عمل رسول الله صلى الم کو اذیت ایک اور آیت: "أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ.....( التوبه : 63) لفظ يُحَادِد کے معنے اور مفہوم ایک خوبصورت تعلیم 2 آیات جو صبر کی اور توہین کرنے والے سے عفو و درگز، اعراض اور صرف نظر کی تعلیم دیتی ہیں رسول اللہ صلی علیم کی باتوں کو توڑنے مروڑنے والے زبان کے زخم شاتم کا جبر امسلمان ہونا مومن کا قتل سنگین سزاؤں میں بھی معافی کی گنجائش
viii 33 35 37 39 3: رؤوف در حیم نبی صلی ا م بار بار تعلیم عفو و احسان خاص طور پر جراحات اللسان پر صبر کی تعلیم عام طور پر معاف کرنے ، صرف نظر کرنے اور مغفرت کی دعا کرنے کی تعلیم باب دوم ان روایات پر محاکمہ جو اپنے مؤقف میں قتل شاتم و گستاخ رسول کے قائل پیش کرتے ہیں 43 46 55 61 60 66 70 75 77 81 83 85 87 89 کعب بن اشرف عرب شاعری ابورافع عصماء بنت مروان ابو عفگ عقبہ بن ابی معیط زینب بنت الحارث گالیاں دینے والی ایک عورت ایک شاتم یہودیہ دشمن کے لئے کافی ہونا اور خون کا اکارت جانا شاتم یہودیہ.ایک اور روایت زندیق سوزی 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
95 95 98 102 102 104 108 110 113 117 120 123 126 131 134 136 137 137 138 ix } روایت اور اس کی سند عکرمہ بربری مرتدین اور ان کا قتل دین بدلنا مرتد سوزی عبد الرزاق واقدی آنحضرت صلی اللہ نام کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا حضرت زبیر کا ایک شخص کو قتل کرنا نابینا اور اس کی بیوی مزید پہلو یہ حق رسول اللہ صلی الی یکم کے سوا کسی اور کے لئے نہیں ہے عبد العزبی بن خطل ابن خطل کی دو داشتائیں حارث بن نفیل مقیس بن صابہ ایک بہت بڑی واقعاتی دلیل مَنْ سَبَ نَبِيَّاً فَاقْتُلُوهُ حيح ☆ 11 12 13 14 15 16 17 18 19 حيح 20
138 139 142 143 147 152 153 155 158 161 164 167 170 173 175 175 178 X } روایت کے ماخذ اور اس کا زمانہ روایت کی سند کی اور اس کی حیثیت غیر مستند ہونے کے مزید واضح ثبوت روایت کا نا قابل عمل حصہ روایت کے متن کا تجزیہ روایت کے الفاظ میں تبدل خلاصه کلام مرتد کا قتل یمن میں ایک مرتدہ سفیان ہذیلی محمد بن ابی بکڑ کے بارے میں ایک روایت منافق کی گردن کشی آیات کے شان نزول کی حقیقت 21 22 23 24 25 ایک ریکارڈ باب سوم کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول کا ایک مختصر تجزیہ کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول " جھوٹے راوی اور "الصارم المسلول......
↓ xi } 182 197 199 200 202 205 210 211 228 235 238 241 241 243 243 246 248 253 نقض بے ربط اور الٹا استدلال بے ترتیب اور وضعی کہانی قتل کی وجہ ، لسانی ایذاء!!! سئینہ یہودی کا قتل ( اب جس یہودی پر تم قابو پائو اُسے قتل کر دو.) بے سر و پاروایات اور صحابہ پر ایک الزام شاتم جنوں کا قتل ! مؤمن اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے ؟ ذوالخویصرہ اور کتاب ' الصارم.........شارع اسلام صلی الی یکم کی پیش کردہ تعریف مسلم عبد اللہ بن ابی بن سلول کا معاملہ دنیا کا سب سے طاقتور انسان، محمد رسول اللہ صلی الالم ا : عفو کا حکم ۲: پہاڑوں کے فرشتے کی پیشکش : ابو جہل کا خوف : آپ کے ہمراہ الہی طاقت کا ایک اور مظاہرہ ایک بڑی فوج کے مقابل پر تنہا یہودی کا السالم علیک ، کہنا
260 262 268 269 277 279 285 287 291 298 299 300 302 304 305 306 xii } کیارسول اللہ صلی اللہ ہم کو گالی پہنچتی ہے؟ امت کا فرض ہے کہ وہ شاتم رسول کو معاف نہ کرے !! قرآن کریم کو گالیاں امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں“ ایک سنہری اصول، ایک قیمتی سبق کتاب ”الصارم المسلول......کا پس منظر باب چهارم قتل شاتم کے مسئلہ پر اجماع کا ڈھونگ قتل شاتم کے مسئلے پر نام نہاد اجماع کی پگڈنڈی اس اجماع کی حقیقت حضرت ابو بکر عمر الله حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام احمد بن حنبل" عدم اجماع کی ایک اور شہادت
311 312 313 314 315 315 317 317 319 321 322 322 325 331 334 334 xiii } باب پنجم رسول اللہ صلی الم کی سیرت پاک کا ایک حقیقت افروز تجزیاتی مطالعہ حلف الفضول حجر اسود کا قضیہ نفع رساں اوصاف حمیدہ آسانی عطا فرمانے والے بیحد دیالو سادگی پسند ، حلیم الطبع اور منکسر المزاج محتم حيا غلاموں، یتیموں بے کسوں اور خادموں پر شفقت بے کسوں کا والی زیادتی کرنے والوں پر بھی سایہ تر تم شدید ترین ظلموں پر صبر و برداشت سب سے بڑے گستاخ سے بھی عفو و شفقت امن و سلامتی کا پیغامبر شفقت على خلق الله انسان، انسانیت اور انسانی خون کا سب سے بڑا محافظ انبیاء علیہم السلام کی گواہی
335 xiv 336 337 337 340 340 341 344 347 348 349 353 355 357 358 359 363 32 } دعوتِ حق کے لئے جارحیت سے گریز کی خواہش ذہنی اور جسمانی اذیت دینے والوں کو در گزر جانی دشمن پر عفو و مہربانی میثاق مدینہ ، قوموں کے لئے امن و سلامتی کا ابدی عہد ، معاہدہ معاہدہ شکنی پر در گزر قیام امن کے لئے ہر ممکنہ کوشش أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا خونریزی سے پاک فتح تشنگانِ لہو پر لطف و کرم سزائے موت پر بھی سایہ عفو ور حمت ایک قابل ذکر واقعہ.عکرمہ کی معافی عدو مبین پر سائیان رحمت و کرم سزا یافتگان کی معافی قتل سے ہاتھ روکو ارادہ قتل کے مجرم کو معافی اور دعا قتل پر شدت درد سیرت طیبہ کا ایک اور تابناک پہلو ا.جادوگری کی ذلیل جسارت پر معافی:
366 366 370 371 373 376 379 380 383 386 390 390 394 XV } ۲.سازشوں کا اڈہ:.مسجد ضرار اور اس کا انہدام : ۴.منافقوں کی سرگرمیاں ۵.منافقوں کی ایک خوفناک سازش.ابو عامر راہب انسان اور انسانی خون کے تحفظ کے بعض احکام باب ششم توہین رسالت کی روک تھام کی ممکنہ تدابیر ہمارے فریضے ملکی تدابیر عالمی تدابیر حرف آخر ناموس رسالت کی تحفظ کا الہی نظام زندہ نبی اور خد اتعالیٰ کا اعلیٰ درجہ کا نبی صلی ال تیم ل الام الى الام الى اللي على اللام الى الام
توہین رسالت کی سزا باب اوّل { 1 - قتل نہیں ہے وہ آیات جو توہین رسالت کی سزا قتل کے لئے پیش کی جاتی ہیں ***** قرآن کریم کسی نبی کے شاتم یعنی اس کو گالی دینے والے یا اس کی توہین کے مر تکب کے قتل کے نظریئے کو کلیہ کر ڈکرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ایک آیت بھی ایسی نہیں ہے جو ایسے نظریئے کی حقیقی دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہو.بنیادی طور پر یہی ایک مضبوط دلیل اور منطقی پہلو ہے جس کے تحت احادیث صحیحہ میں بھی کوئی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ مذکور ہو کہ رسول کریم صلی الیم نے کسی کو صرف اور صرف سب وشتم کی وجہ سے قتل کیا تھا یا کرایا تھا.یہ اور بات ہے کہ بعض لوگ ایسے تھے کہ جن کے دیگر سنگین جرائم انہیں سزاوار قتل ٹھہراتے تھے تو انہیں ان جرائم کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی تھی.مگر ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی کو محض سب و شتم کی وجہ سے سزائے موت سنائی گئی تھی یا اسے قتل کیا گیا تھا.یہ ایک نہایت واضح اور حقیقت افروز مطالعہ ہے جو جملہ حقائق و دلائل کے ہمراہ آئندہ ابواب میں پیش ہو گا.چونکہ توہین رسالت کی سزا کے لئے قتل کی تعلیم قطعی طور پر قرآن کریم میں موجود نہیں ہے.لہذا جو آیت کریمہ بھی اس نظریئے کے قائلین اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں وہ دُور کی کوڑی لاتے ہیں.کیونکہ عبارۃ النص اور دلالۃ النص تو کیا ایسا نظر یہ اشارة النص سے بھی ہر گز ثابت نہیں ہو تا.لہذاوہ اپنے وحشیانہ نظریات کے تحت ان آیات کے ایسے مفہوم نکالتے ہیں جن کو قرآن کریم واضح طور پر رد کرتا ہے اور اسوہ رسول صلی للی کم کا ان -
توہین رسالت کی سزا 2} { 2 } قتل نہیں ہے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس قطعی طور پر یہ ایک غلط موقف ہے جسے قائلین قتل شاتم قرآن کریم سے کسی طور پر بھی ثابت کر سکے ہیں نہ کر سکتے ہیں.لیکن ان کی مشکل یہ ہے کہ چونکہ وہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ سزا ایک شرعی حیثیت رکھتی ہے اس لئے کسی نہ کسی طور پر وہ اسے قرآنِ کریم سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے اول طور پر جس آیت سے استدلال پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ : وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِئَ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنٌ خَيْرٍ لَكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ“ (سورۃ التوبہ 61 ) کہ ان میں سے وہ لوگ بھی ہیں جو نبی کو اذیت پہنچاتے ہیں، تکلیفیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں هُوَ أُذُن کہ یہ تو ہر وقت سننے کا کان بنا ہوا ہے.یعنی لوگوں کی چغلیاں سنتا اور ان پر عمل کرتا اور ان پر ایمان لاتا ہے اور یکطرفہ باتیں سن کر ان کے مطابق فیصلے کرتا ہے.یہ کفار اور منافقوں کے خیالات ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُلْ أُذُنْ خَيْرِ لَكُمْ وہ کان تو ہے مگر بھلائی کی باتوں پر کان دھرتا ہے.وہ ایسا کان ہے جو تمہاری بھلائی کا کان ہے.تمہارے لئے شر کی بات کو قبول نہیں کرتا.تمہاری خیر کی بات کو قبول کرنے والا ہے.يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور مومنوں کے لئے ایمان رکھتا ہے.یعنی مومنوں کی سچی باتیں سنتا ہے.وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ اور وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے مختم رحمت ہے.وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُول اللہ اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو اذیت دیتے ہیں.لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے.
توہین رسالت کی سزا ( 3 )- قتل نہیں ہے یہ آیت ہے جو اول طور پر پیش کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی الی یکم کو اذیت دینے والوں پر عذاب الیم کی تلوار لٹکا دی گئی ہے.اس سے وہ بچ نہیں سکتے.ان کا موقف یہ ہے کہ اس آیت میں عذاب الیم سے مراد یہ ہے کہ اذیت دینے والے جس کسی کے بھی ہاتھ لگیں وہ انہیں قتل کر دے.یعنی قتل کرنے والا خود ان پر عذاب الیم بن کر ٹوٹے.حالانکہ اس آیت سے یا قرآن کریم میں کسی بھی مقام پر مذکور الفاظ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ " سے یہ نتیجہ کسی طرح بھی اخذ نہیں ہو تا کہ کسی شاتم کی گردن مار نا کسی فرد پر دینی فرض ہے.ظاہر ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی للی کم کو ایذاء پہنچانے کا ذکر تو واضح طور پر موجود ہے اور ایسا کرنے والوں کو دردناک عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے.مگر اس آیت میں یا اس کے سیاق و سباق میں دنیا میں اس ایذاء دہی کی سزا کے کسی قانون کا ذکر نہیں ہے.نہ ہی شائم کو قتل کرنے کا اشارہ تک موجود ہے.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی کم نے بھی ایذاء دینے والوں کے لئے اس آیت کے تحت کوئی سزا تجویز نہیں فرمائی.نہ ہی بعد میں خلفائے راشدین یا دیگر صحابہ نے انہیں کوئی سزا دی.تو یہ آیت پیش کر کے یہ کہنا کہ اس سے شاتم رسول کے قتل کا ایسا قانون وضع ہوتا ہے کہ ہر کوئی آزاد ہے کہ کوئی کسی بھی شخص کو شاتم قرار دے کر اسے قتل کر دے، درست نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی خبریں قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ تحریر ہیں.خاص طور پر عذاب الیم کی وعید بھی قرآن کریم میں متعد د گناہوں پر بیبیوں کی تعداد میں بیان ہوئی ہے.چنانچہ تمام کجیاں خواہ وہ عقائد سے تعلق رکھتی ہوں یا اعمال سے ، اللہ تعالیٰ کے حضور ناپسندیدہ ہیں اور وہ ان سب کجیوں کے ذکر کے بعد کسی نہ کسی عذاب کی خبر دیتا ہے.لیکن ایک بات ہر جگہ بالکل واضح اور فیصلہ شدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں کسی انسان کو کوئی اجازت
توہین رسالت کی سزا ( 4 ) } قتل نہیں ہے نہیں دی کہ وہ کسی کے عقائد کی بناء پر کسی کو سزا دے.اس کی ایک مثال بھی قرآن کریم میں موجود نہیں ہے.باقی جہانتک بعض مخصوص بد اعمال، جرائم کا یا معاملات کا تعلق ہے، تو شریعت نے ان پر مخصوص سزائیں مقرر فرمائی ہیں.جن کی تخصیص و تعیین خودر سول الله صلى ال عالم نے فرما دی ہے.جہانتک رسول اللہ صلی علیکم کی توہین و تنقیص یا اذیت پر کسی قسم کی سزا کا تعلق ہے تو شریعت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے.اس لئے شریعت نے کسی فرد یا افراد کے لئے یہ جائز نہیں کیا کہ وہ کسی کو از خود عذاب دے اور قتل کرے.اس اصول کو رسول اللہ صلی الیم نے بڑی وضاحت اور تاکید کے ساتھ اور سخت وعید شدید کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: " إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الَّذِيْنَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا.“ ( مسلم كتاب البر و الفضلة والآداب باب الوعيد الشديد...کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عذاب دے گا جو اس دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں.یہاں امام مسلم نے آنحضرت صلی لیلی کیم کے اس ارشاد پر ” الْوَعِيْدُ الشَّدِيدُ “ کا عنوان باندھا ہے.یعنی جو کسی کو اس دنیا میں عذاب دیتے ہیں ان کے لئے یہ ایک شدید خوف دلانے والی بات ہے.اس انذار سے بغیر کسی ابہام کے واضح ہے کہ اس دنیا میں کسی کو عذاب دینا ممنوع ہے اور اس نہی کی خلاف ورزی کر کے خود اللہ تعالیٰ کے عذاب کا مورد بننے کی واضح جسارت ہے.اسلام نے ملکی اور ریاستی قوانین تفصیل کے ساتھ وضع فرمائے ہیں.ان کی خلاف ورزی پر مخصوص سزائیں بھی تجویز فرمائی ہیں اور ان کا نفاذ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری قرار دیا ہے.پس ان سے تجاوز کر کے اور آگے بڑھ کر قانون اپنے ہاتھ میں لینا اسلام نے کسی کے لئے جائز قرار نہیں دیا.انتہائی افسوسناک بات ہے کہ انسان کو تکالیف اور عذابوں سے بچانے والا اور جب سے دنیا بنی ہے انسانی خون کا سب سے بڑا محافظ جو قدم قدم پر انسان کو انسان ہی کے ظلم سے محفوظ
توہین رسالت کی سزا ( 5 ) قتل نہیں ہے رکھنے کے اقدام کرتا ہے، اسی پر یہ لوگ نعوذ باللہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ کسی کی گالی پر فوراً اس کے قتل کا حکم دیتا تھا اور اگر اتفاق سے کبھی وہ حکم نہیں بھی دیتا تھا تو بھی صحابہ ایسے شخص کو قتل کر دیتے تھے اور وہ اس سے خوش ہو جاتا تھا.اِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ازلی ابدی سچائی یہ ہے کہ وہ رحمتہ اللعلمین تو انسان کے ساتھ ماں سے بھی بڑھ کر رحم کے جذبات رکھتا تھا.آں ترتمہا کہ خلق از وے بدید کس نہ دیدہ در جہاں از مادرے جو رحم اور رحمت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللظلم سے دیکھی وہ اس دنیا میں کسی نے اپنی ماں سے بھی نہ پائی تھی.اس مذکورہ بالا زیر بحث آیت میں اور مجموعی طور پر بھی قرآن کریم میں جس عذاب الیم کا ذکر ہے ، وہ کافروں، منافقوں، مرتدوں، متکبروں، آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں، حد سے بڑھنے والوں، اللہ کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرنے والوں.ملحدوں ، ظالموں وغیرہ کے لئے بار بار استعمال ہوا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے لئے یہ وعید بالتاکید موجود ہے ، وہ بھی رسول اللہ صلی لنی کیم کے ارد گرد تھے.وہ بھی اسی معاشرے میں مسلسل اپنی کارروائیاں کرتے پھرتے تھے.مگر اس آیت میں مذکور اذیت دینے والوں سمیت وہ تمام افراد جن کے ساتھ عذاب الیم کی وعید منسلک کی گئی ہے ، رسول اللہ صلی الی یکم نے ان میں سے کسی ایک کو بھی اس جرم کی سزا نہیں دی.بلکہ اسے جرم بھی قرار نہیں دیا.لہذا اس آیت میں مذکور عَذَاب الیہ کی وجہ سے اگر توہین کرنے والے یا اذیت دینے والے کی سزا قتل قرار پاتی ہے تو دیگر آیات میں مذکور باقی سب لوگوں کی سزا بھی تو ” عذاب الیم “ بیان ہوئی ہے.وہاں اس سے قتل مراد کیوں نہیں لی جاتی.یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی
توہین رسالت کی سزا { } 6 — قتل نہیں ہے وعید سے ایک جگہ معنے اور لئے جائیں اور دوسری جگہ اور.واقعہ یہ ہے کہ ان تمام میں سے کسی ایک کو بھی اس لفظ کی وجہ سے ہلاک نہیں کیا گیا یا اس کی ہلاکت کی اجازت نہیں دی گئی.جب عملاً ایسا نہیں ہوا اور واقعہ ایسا نہیں کیا گیا تو پھر توہین کے مرتکب کو قتل کرنے کی دلیل کیا ٹھہری؟ اس آیت کو پیش کرنے کا جواز کیا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ظلم و خونریزی کی باتیں ہیں اور رسول اللہ صلی علیکم کو بد نام کرنے کی گندی اور ذلیل کو ششیں ہیں.مذکورہ بالا آیت کے ساتھ ایک آیت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَاباً مُّهِيناً “ (الاحزاب : 58) کہ وہ لوگ جو اللہ اور رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر اس دنیا میں بھی لعنت کی گئی اور آخرت میں بھی لعنت کی گئی اور ان کے لئے ذلیل کرنے والا، رسوا کن عذاب مقدر ہے.قائلین قتل شاتم اس آیت سے استنباط کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں تو رسول اللہ صل اللی کم کو اذیت دینے والوں کو عذاب دے گا مگر یہ آیت دنیا میں بھی تو لعنت کی بات کرتی ہے.لہذا یہاں انہیں یہ اختیار ہے کہ وہ کسی پر بھی ایسا الزام لگا کر اسے قتل کر دیں.پھر عملاً یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ دنیا میں یہ خود ان توہین کرنے والوں پر اللہ کی لعنت بن کے برسیں گے.یعنی وہ لعنت یہ لوگ خود ہیں جو توہین کرنے والوں پر برستی ہے.اس بارے میں قرآن کریم میں جب ہم راہنمائی تلاش کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جس طرح عذاب الیم کئی طرح کے مجرموں کے لئے آیا ہے اسی طرح لعنت کا محاورہ بھی اس میں عام ہے.یہود میں سے نبیوں کی مخالفت کرنے والوں اور بد عہدوں کے متعلق بھی کثرت سے ہے کہ ان پر بار بار لعنت پڑتی رہی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اور نبیوں کی زبان سے بھی.دنیا میں بھی ان پر غضب نازل ہوا
توہین رسالت کی سزا ( 7 ) 7} قتل نہیں ہے اور آخرت میں بھی ہو گا.مگر اس کا یہ نتیجہ تو کسی طور بھی اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کریم ان قائلین قتل شاتم کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ ہر یہودی کو جہاں دیکھیں قتل کر دیں.قرآن کریم میں لعنت کا لفظ ایک ہی معنی و مفہوم میں آیا ہے.اس کا جو معنی ایک آیت میں ہے وہی دوسری جگہ بھی ہے.کسی جگہ بھی اس کے معنوں میں کسی کے لئے یہ اختیار داخل نہیں ہے کہ کوئی کسی پر الزام لگا کر اسے قتل کر دے.پس اس آیت کو قتل شاتم کے لئے پیش کرنا کسی منطق، کسی فلسفے اور کسی دلیل کے مطابق درست نہیں.اذیت اور اس پر رد عمل ان آیات کو قرآن کریم کی دیگر آیات کی روشنی میں اگر دیکھا جائے کہ رسول اللہ لی لی ایم کو پہنچائی گئی اس اذیت پر آپ کا اور آپ کے صحابہ کار ڈ عمل کیا تھا؟ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی بر کس طرح عمل کیا؟ اور مومنوں کو اس بارہ میں کیا کرنا چاہئے وغیرہ امور بالکل واضح ہو تعير جاتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لتبلونَ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيراً وَإِن تَصْبِرُواْ وَتَتَّقُواْ فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ“ (آل عمران: 187) ترجمہ: تم ضرور اپنے اموال اور اپنی جانوں کے معاملے میں آزمائے جائو گے اور تم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور ان سے جنہوں نے شرک کیا، بہت اذیتناک باتیں سنو گے.اور اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو یقیناً یہ ایک بڑا باہمت کام ہے.یہ آیت ان لوگوں کی پیش کردہ اوپر والی آیات کا واضح اور جامع جواب ہے کہ جب بھی تم اذیت کی باتیں سنو تو تمہارا رد عمل اور تمہارا شیوہ یہ ہونا چاہئے کہ صبر کو تھامو اور تقوی
توہین رسالت کی سزا { 8 } قتل نہیں ہے اختیار کرو.کسی کو قتل کرنا ہمت اور بہادری نہیں ہے بلکہ اصل ہمت اور بہادری اور بڑا پن یہ ہے کہ تم صبر کرو.اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ غیر مبہم ، بڑی واضح اور انتہائی روشن تعلیم ہے اور ایک زبر دست حکمت عملی ہے جو مخالفوں، منافقوں، مشرکوں اور اہل کتاب کی ہرزہ سرائی اور زبان درازی کے رد عمل کے طور پر مومنوں کو سکھائی گئی ہے.چنانچہ رسول اللہ صلی علیکم کی حیات مبارکہ اور صحابہ کی ساری زندگی گواہ ہے کہ انہوں نے اس تعلیم پر صد فی صد عمل کیا اور اللہ تعالیٰ کے اس حکم اور تعلیم کی کسی رنگ میں بھی نافرمانی نہیں کی.پھر اللہ تعالی مزید ارشاد فرماتا ہے: ”وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلاً (الاحزاب: 49) ترجمہ : کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کر اور ان کی ایذارسانی کو نظر انداز کر دے.اور اللہ پر توکل کر اور اللہ ہی کار ساز کے طور پر کافی ہے.دَ اذَا هُمْ کے معنے کیا ہیں؟ یہی کہ ان کی اذیت کو چھوڑ دے.اسے نظر انداز کر دے.اسے محسوس نہ کر.اس سے صرفِ نظر کر.معلوم ہوتا ہے کہ قائلین قتل شاتم نے یہ آیت پڑھی نہیں یا ان کا خیال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے نعوذ باللہ اپنے پیارے رب کی اس نصیحت پر عمل نہیں کیا ؟ یہ آیت سورۃ الاحزاب کی ہے جس کا نزول 5 سے 8 ہجری تک ہو تا رہا ہے.لیکن اس سے پہلے ابتدائی سورتوں میں بھی یہی تعلیم موجود ہے.عملاً قائلین قتل شاتم کا خیال یہ قرار پاتا ہے کہ ایک طرف یہ تعلیم مسلسل نازل ہو رہی ہے اور دوسری طرف نعوذ باللہ آپ اس تعلیم کی طرف توجہ ہی نہیں فرمار ہے اور نہ صبر فرماتے ہیں بلکہ مسلسل قتل و خون کا حکم دیتے چلے جارہے
توہین رسالت کی سزا ( 9 } قتل نہیں ہے ہیں.کیا یہ لوگ یہ اسوہ پیش کر رہے ہیں رحمۃ للعالمین کا ؟ کیا یہ لوگ خدا تعالیٰ کے سب سے پیارے نبی صلی الی ایم کے بارے میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ اللہ تعالیٰ کے نافرمان تھے ؟ پس یہ ہیں وہ اپنے ہی دوست“ جو کمین گاہ میں چھپ کر تمام دنیا کے محسن صلی للہ ہم پر تیر چلاتے ہیں.چنانچہ اگر گھر کے رکھوالے ہی اس طرح کے چور نکلیں تو پادری فانڈر ، پادری عماد الدین اور سلمان رشدی جیسوں کو کس طرح الزام دیا جا سکتا ہے ؟ رسول اللہ صلی الم کو اذیت مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيْتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُ وا وَلَا مُسْتَأْنِسِيْنَ لِحَدِيْثِ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَداً إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللهِ عَظِيماً“ (الاحزاب:54) ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! نبی کے گھروں میں داخل نہ ہوا کر و سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کی دعوت دی جائے مگر اس طرح نہیں کہ اس کے پکنے کا انتظار کر رہے ہو لیکن ( کھانا تیار ہونے پر) جب تمہیں بلایا جائے تو داخل ہو اور جب تم کھا چکو تو منتشر ہو جاؤ اور وہاں ( بیٹھے ) باتوں میں نہ لگے رہو.یہ (چیز) یقینا نبی کے لئے تکلیف دہ ہے مگر وہ تم سے ( اس کے اظہار پر ) شرماتا ہے اور اللہ حق سے نہیں شرماتا.اور اگر تم اُن ( ازواج نبی) سے کوئی چیز مانگو تو پر دے کے پیچھے سے مانگا کرو.یہ تمہارے اور ان کے دلوں کے لئے زیادہ پاکیزہ (طرز عمل) ہے.اور
توہین رسالت کی سزا { 10 ) قتل نہیں ہے تمہارے لئے جائز نہیں کہ تم اللہ کے رسول کو اذیت پہنچاؤ اور نہ ہی یہ جائز ہے کہ اس کے بعد کبھی اُس کی بیویوں (میں سے کسی ) سے شادی کرو.یقینا اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑی بات ہے.یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جو مسلمان تھے.اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ان کے اس مذکورہ بالا رویے سے بھی رسول اللہ صلی کم کو اذیت پہنچتی تھی.اگر بقول قائلین قتل شاتم اذیت کی وجہ سے قتل واجب ہوتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا نعوذ باللہ رسول اللہ صلی للی یکم نے ان سب کو قتل نہ کر کے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی ؟ پھر فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ آذَوْا مُوسَى فَبَرَّأَهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيهاً (الاحزاب:70) ترجمہ : اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جنہوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی.پس اللہ نے اُسے اُس سے بری کر دیا جو انہوں نے کہا اور اللہ کے نزدیک وہ وجیہ تھا.اس آیت میں جن مومنوں کا ذکر ہے جو کسی نا فہمی یا نادانستہ طور پر رسول اللہ صلی الی یوم کے لئے اذیت کا موجب بنے تھے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو انہیں قتل کرنے کی تعلیم نہیں دی تھی بلکہ انہیں ایک قسم کی سرزنش کی تھی کہ وہ ان لوگوں کی طرح نہ بنیں جنہوں نے پہلے زمانے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اذیت دی تھی.اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی ا ظلم کو ان لوگوں کے لئے کسی اور گرفت یا سز اوغیرہ کا کوئی ارشاد نہیں فرمایا.اللہ تعالیٰ پہلے انبیاء کا اور ان کی امتوں کا ذکر کر کے حکایت بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے بھی مخالفوں کی اذیتوں کے مقابلے میں ان میں سے کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ اخلاق کے اعلیٰ تقاضوں کے تحت اسی صبر اور توکل کا ذکر کیا ہے انبیاء نے انہیں جس کی تلقین فرمائی تھی.یہی
توہین رسالت کی سزا { 11 - قتل نہیں ہے صبر اور توکل تھا جو انبیاء اور ان پر ایمان لانے والوں کی حقیقی طاقت تھا.انسانوں کو قتل کرنا کبھی بھی انبیاء کا مقصود و مطلوب نہیں ہوا.کیونکہ وہ انسانوں کی ہلاکت کے لئے نہیں، ان کو بقا عطا کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں.وہ ان کے لئے زحمت نہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت لے کر آتے ہیں.وہ خود قربانیاں پیش کر کے دوسروں کو زندگیاں عطا کرتے ہیں.چنانچہ وہ اور ان کے پیروکار ہر اذیت برداشت کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو یہی کہتے ہیں کہ وَمَا لَنَا أَلا نَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدَانَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَيْتُمُونَا وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ (ابراہیم : 13) ترجمہ : اور ہمیں کیا ہوا ہے کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں جب کہ اس نے ہماری راہوں کی طرف (خود) ہمیں ہدایت دی ہے.اور ہم یقینا اس پر صبر کریں گے جو تم ہمیں تکلیف پہنچاؤ گے اور اللہ ہی پر پھر چاہئے کہ تو کل کرنے والے تو کل کریں.یہ آیت کھول کھول کر منادی کر رہی ہے کہ صبر سے اور اللہ تعالیٰ پر توکل سے بہتر اور کوئی چیز نہیں جو اذیتوں کا مداوا کر سکے.قرآن کریم بتا رہا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم وہ ہے جو اس نے سب نبیوں اور ان کے ماننے والوں کو دی ہے.چنانچہ پہلے نبیوں کی امتیں بھی اسی الہی سنت کے مطابق اذیتوں پر صبر کرتی تھیں اور ان کی بقا کا نسخہ بھی یہی صبر اور تو گل تھا.رسول اللہ صل ا م چونکہ انبیاء کی تمام حسین اور خوبصورت تعلیموں کے جامع تھے.لہذا آپ کا صبر اور توکل بھی دیگر انبیاء کے مقابل پر بیحد زیادہ ، وسیع اور جامع تھا.قرآن کریم میں ان گزشتہ حکایات کو بیان کرنے کا اصل مقصود یہی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یوم کے پیروکار اور امتی بھی بدرجہ اولیٰ ہر اذیت پر صبر کے اعلیٰ نمونے دکھائیں اور اللہ تعالیٰ پر انتہائی تو کل کریں.مگر افسوس ہے کہ آج کے نام نہاد امتی ہیں کہ اس سنہری تعلیم کو اپنے خوں آشام ارادوں کی بھینٹ چڑھا رہے ہیں.بات بات پر بے صبری دکھاتے ہیں اور مومنانہ سنت تو کل سے منحرف ہیں.
توہین رسالت کی سزا ( 12 )- قتل نہیں ہے قرآن کریم میں دیگر انبیاء اور ان کے متبعین کی اذیتوں کا بھی ذکر کثرت سے موجود ہے جو اُن کے مخالفوں نے انہیں دیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے صبر کا بھی ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس صبر کی وجہ سے ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی مدد آئی.فرمایا: وَلَقَدْ كُذِبَتْ رُسُلٌ مِن قَبْلِكَ فَصَبَرُوا عَلَى مَا كُذِبُوا وَأُوْذُوا حَتَّى أَتَاهُمْ نَصْرُنَا وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ وَلَقَدْ جَاءَ كَ مِن نَّبَإِ الْمُرْسَلِينَ “ (الانعام: 35) ترجمہ : اور یقیناً تجھ سے پہلے بھی رسول جھٹلائے گئے تھے اور انہوں نے اس پر کہ وہ جھٹلائے گئے اور بہت اذیت دیئے گئے، صبر کیا یہاں تک کہ ان تک ہماری مدد آپہنچی.اور اللہ کے کلمات کو کوئی تبدیل کرنے والا نہیں اور یقینا تیرے پاس مرسلین کی خبریں آچکی ہیں.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بڑا واضح طور بتایا ہے کہ کسی کو قتل کرنے سے نہیں بلکہ اذیتوں پر صبر اختیار کرنے سے اللہ کی مدد اترتی ہے.نیز تنبیہ فرمائی کہ یہی ذریعہ ہے اللہ کی مدد کے مستحق بننے کا کہ تکذیب اور اذیتوں پر صبر کرو.وَلا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ یہ وہ طریق ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کوئی تبدیلی نہیں فرمائی.حیرت ہے کہ اس واضح تعلیم کو ترک کر کے قتل وغارت گری کے طریقوں کو کیوں اپنایا جاتا ہے.بلکہ یہانتک ظلم کیا جاتا ہے کہ اس کشت و خون کو رسول اللہ صلی ا یلم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.حالانکہ آپ ہر قسم کی قربانی کر کے دوسروں کو سکھ پہنچانے کی کوشش فرماتے تھے.ان کی بھلائی کے لئے اپنی جان کو گو یا ہلاکت تک پہنچا دیتے تھے.آپ کو تعلیم یہ تھی کہ
توہین رسالت کی سزا { 13 } قتل نہیں ہے " كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْراً لَّهُم مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَتُوكُمُ الأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ 0 ( ال عمران: 111،112) ترجمہ: تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لے آتے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر ہوتا.ان میں مومن بھی ہیں مگر اکثر ان میں سے فاسق لوگ ہیں.وہ تمہیں ایک طرح کی اذیت کے سوا ہر گز نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.اور اگر وہ تم سے قتال کریں گے تو ضرور تمہیں پیٹھ دکھا جائیں گے.پھر وہ مدد نہیں دیئے جائیں گے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ امت کا منصب اور اس کا لائحہ عمل یہ بیان فرماتا ہے کہ تم لوگوں کی خیر خواہی اور بھلائی کے لئے نکلے ہو.ان کی مدد اور ان کے فائدے کے لئے نکلے ہو.ان کو نقصان پہنچانا یا ان کا قتل و خون کرنا تمہارا کام نہیں ہے.تم انہیں ہلاک کرنے کے لئے نہیں نکالے گئے.کیونکہ تمہارے مخالف تمہیں صرف کچھ اذیت ہی دے سکتے ہیں.اس سے بڑھ کر وہ کچھ نہیں کر سکتے.وہ غلبہ اسلام سے متعلق تقدیر الہی میں کسی صورت میں بھی روک نہیں بن سکتے.اللہ تعالیٰ کی نصرت اور غلبہ صبر اور توکل کرنے والے مومنوں ہی کا مقدر ہے.لہذا ان کی طرف سے اذیت پر قتل و غارت کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی تمہیں اس کی کوئی تعلیم دی گئی ہے.بلکہ یہ تعلیم دی گئی ہے کہ ان کو معاف کرو اور ان کی بھلائی کرو اور ان کے لئے ہدایت کی راہیں واضح اور کشادہ کرو تا وہ ہدایت پا کر اللہ تعالیٰ کے دین کے معاون و مددگار بنیں.
توہین رسالت کی سزا { 14 |-- قتل نہیں ہے ایک اور آیت ہے.حسب ذیل آیت کریمہ بھی گستاخ رسول کے قتل کی سزا کے ثبوت میں پیش کی جاتی "أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّهُ مَن يُحَادِدِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَأَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِداً فِيْهَا ذَلِكَ الْخِزْى العظيم (التوبہ: 63) ترجمہ : کیا انہیں علم نہیں کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتا ہے تو اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں وہ لمبا عرصہ رہنے والا ہے.وہ بہت بڑی رسوائی ہے.اس کے ساتھ وہ یہ آیت بھی منسلک کرتے ہیں: "إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أُوْلَبِكَ فِي الآذرينَ “ (المجادلہ: 21) کہ یقیناوہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں.یہی انتہائی ذلیل لوگوں میں سے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ سزا جہنم کی آگ اور بہت بڑی رسوائی ، اس وقت تک لاگو نہیں ہو گی جب تک ایسے شخص کو وہ خود قتل نہ کر دیں.حالانکہ اس آیت کو یا اس کے الفاظ کو جس رُخ سے بھی پرکھ لیں، اس میں کسی جگہ کوئی شائبہ تک موجود نہیں کہ شاتم رسول کی توہین کے مرتکب کو قتل کیا جائے.اس آیت میں تو ایسے لوگوں کی جزاء جہنم قرار دی گئی ہے اور ذلت ورسوائی کی وعید دی گئی ہے جو رسول اللہ صلی علیکم کی مخالفت کرتے ہیں.جب اللہ تعالی خود یہ رہنمائی فرماتا ہے کہ اس کی اور اس کے رسول صلی ا یکم سے دشمنی کرنے والوں کی یہ ذلت ورسوائی ان کے قتل سے نہیں ، ان کے مغلوب ہونے کی وجہ سے ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس سے اگلی آیت میں فرماتا ہے:
توہین رسالت کی سزا ( 15 } قتل نہیں ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ أَنَا وَرُسُلِن إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزيز (المجادلہ: 22) کہ اللہ نے لکھ چھوڑا ہے کہ ضرور میں اور میرے رسول غالب آئیں گے.یقینا اللہ بہت طاقتور اور کامل غلبے والا ہے.ان آیات میں قتل و غارت کی بجائے اتنا جواب دے دیا کہ ایسی گستاخی کرنے والے خود انتہائی ذلیل ہونے والے ہیں.یہ ذلت ان کے قتل کی وجہ سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی وجہ سے ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں کے غالب آجانے کی وجہ سے ہے.اس کے نتیجے میں ان دشمنوں کی شکست اور نکبت ان کے مذموم ارادوں میں نامرادی کے باعث ساری دنیا کے سامنے ان کی ذلت کا مبینہ ثبوت ہے.یہ ذلت ان کے قتل سے حاصل نہیں ہو سکتی تھی.پس قرآن کریم کی پیش فرمودہ واضح اور غیر مبہم تعلیمات کے ہوتے ہوئے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ احکامِ شریعت سے اور رسول اللہ صلی علیم سے آگے بڑھ کر خو د ظالمانہ احکام مرتب لفظ ' يُحَادِد کے معنی و مفہوم قرآن کریم کی سب سے مستند اور جامع لغت کے مصنف حضرت امام راغب نے يُحَادِد کے معنے اللہ اور رسول کے مخالف کے بیان فرمائے ہیں.اس مخالفت کو يُعادِد یا يُعادون کے الفاظ سے بیان کرنا یا تو روکنے کے اعتبار سے ہے یا الْحَدِید (یعنی لوہے ) کے استعمال سے یعنی جنگ کی وجہ سے.پھر امام راغب الحد کے معنے یہ لکھتے ہیں: "الْحَاجِزُ بَيْنَ الشَّيْئَيْنِ الَّذِي يَمْنَعُ اخْتَلَاطَ أَحَدِهِمَا بِالآخِرِ کہ دو چیزوں کے درمیان ایسی روک جو اُن کو باہم ملنے سے روک
توہین رسالت کی سزا { 16 } قتل نہیں ہے دے.پھر وہ لکھتے ہیں: "حَدُّ الشَّيْئ - اَلْوَصْفُ الْمُحِيْطُ بِمَعْنَاهُ الْمُمَيِّزُ لَهُ عَنْ غَيْرِهِ کہ کسی چیز کا وہ وصف جو اسے دوسروں سے ممتاز کر دے.ان معنوں میں اس زیر بحث آیت کا مفہوم انتہائی خوبصورت رنگ میں نکھر کر سامنے آجاتا ہے کہ مخالفوں کی جھوٹی اور ظالمانہ مخالفت اور دشمنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سچائی کو مزید ممتاز اور روشن کر دیتی ہے.ان کی مخالفت اور دشمنی ہی دراصل ان کی ناکامی، ذلت اور موت ہے.ان کی یہ دشمنی ہی حقیقت میں ایک حد فاصل بن جاتی ہے.جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی ال یکم کو معزز و ممتاز کر دیتی ہے.یہاں دوسرے معنے بھی بالکل واضح ہیں کہ اگر کوئی دشمنی کی بنا پر ظاہری ہتھیاروں سے حملہ کرے اور لوہے یعنی تیغ و تفنگ کا استعمال کرے تو اس کے دفاع میں لوہے کی یہ چیزیں استعمال کرنی ضروری ہو جاتی ہیں.رسول اللہ صلی للی کم کا یہ دفاع بھی آپ کو دشمنوں پر غالب اور ممتاز کر دے گا.یہاں مد نظر رہے کہ يُعادِ د عربی کے قواعد کے مطابق مفاعلہ کا صیغہ ہے.صیغے کی اس شکل میں مقابلے کا مفہوم بنیادی طور پر شامل ہوتا ہے.یعنی اگر وہ ہتھیار اٹھائیں تو مقابل پر تمہیں بھی ہتھیار اٹھانے کی ضرورت ہے.چنانچہ اگر یہ صور تحال واقع ہو تو بھی اللہ اور اس کا رسول غالب رہیں گے.دشمنوں کے اٹھائے ہوئے ہتھیار ہی ان کی دشمنی روکنے کا موجب بن جائیں گے.یہ وہ عام منظر ہے جو ہمیں رسول اللہ صلی علیم کی تمام زندگی میں نظر آتا ہے کہ آپ کے دشمنوں نے ہتھیار اٹھائے تو وہ ان کے اپنے ہی قلع قمع کا موجب بن گئے.اس سارے منظر کا گالی گلوچ یا توہین رسالت کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں ہے.
توہین رسالت کی سزا ( 17 ) قتل نہیں ہے پس اس آیت کو ہزار بار بھی پڑھا جائے تب بھی اس کا کوئی ایک لفظ اشارہ یا کنایہ یہ نشاندہی نہیں کرتا کہ توہین رسول کے مر تکب کو قتل کیا جائے.نہ ہی کسی طور پر اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی رسول اللہ صلی علیکم پر سب و شتم کرے تو لوگوں کو اختیار ہے کہ اسے قتل کر پر دیں.ایک اور جگہ مومنوں کو جہاد سے روکنے والوں کا ذکر ہے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ (الاحزاب : 20) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ وہ تیز زبانوں سے تمہیں ایذاء پہنچاتے ہیں.اس آیت کو اگر مذکورہ بالا آیت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پھر یہ مفہوم پید اہو سکتا ہے کہ زیر بحث آیت میں يُعادِد سے مراد تیز کاٹنے والی زبانوں کے زخم ہیں یعنی وہ گالی گلوچ، ہرزہ سرائی، غیبت اور توہین وغیرہ سے یہ زخم لگاتے ہیں.مگر ان سخت الفاظ کے ذکر کے باوجود اللہ تعالیٰ انہیں قتل کرنے کی کوئی سزا تجویز نہیں فرماتا.پس یہ ایک ظلم ہے جو توہین رسالت یا شتم رسول یا گستاخ رسول کو قتل کرنے کے دعویداروں کی طرف سے اللہ تعالیٰ پر ،رحمتہ للعالمین صلی الی کم پر اور اسلام پر روار کھا جاتا ہے.الغرض رسول اللہ صلی ال نیم کے دشمنوں کے لئے جس جہنم کی آگ ، اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے، نیز بڑی رسوائی وغیرہ کلمات کا یہ معنی یا مطلب نکالا گیا ہے کہ انہیں قتل کرنے کا اختیار ہر ایرے غیرے کو مل جاتا ہے، ایک قطعی جھوٹا اور انتہائی ظالمانہ معنی اور مطلب ہے.اسے رسول اللہ صلی اہل علم کی طرف منسوب کرنا بذات خود آپ کی توہین ہے اور آپ کی طرف ایک گھناؤنا ظلم منسوب کرنا ہے.جسے ہر سچا مسلمان دل و جان سے رڈ کرتا ہے.
توہین رسالت کی سزا 18 } قتل نہیں ہے ایک خوبصورت تعلیم انبیاء کے مخالف یا ان کی جماعتوں میں شامل ہونے والے منافق ہمیشہ ہی ان کی تکذیب اور تنقیص کرتے رہے ہیں.اس پہلو سے رسول اللہ صلی للی نیلم کے زمانے کے مخالف یا منافق بھی کوئی الگ طرز کے نہیں تھے.وہ آپ کو اذیتیں بھی دیتے تھے، آپ کی تکذیب بھی کرتے تھے اور آپ کے خلاف جھوٹی باتیں کرنے اور اذیت ناک باتیں تراشنے میں بھی پیش پیش تھے.انہیں قتل کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ جہاں بھی تکذیب، تنقیص، توہین اور استہزاء والی ایسی باتیں ہوں وہاں سے وہ اٹھ آیا کریں تا کہ کسی جھگڑے یا دینگے فساد کا موقع پید اہو کر بات قتل و خون تک نہ پہنچ جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعاً “ ( النساء: 141) ترجمہ : اور یقیناً اس نے تم پر کتاب میں یہ حکم اتارا ہے کہ جب تم سنو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جارہا ہے یا ان سے تمسخر کیا جا رہا ہے تو اُن لوگوں کے پاس نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں.ضرور ہے کہ اس صورت میں تم معا اُن جیسے ہی ہو جاؤ.یقیناً اللہ سب منافقوں اور کافروں کو جہنم میں اکٹھا کرنے والا ہے.اس آیت میں کسی شاتم یا تو ہین کے مر تکب کو قتل کرنے یا اس سے لڑنے جھگڑنے کی کوئی تعلیم، ہدایت یا نصیحت نہیں ہے.بلکہ اپنے جذبات اور اپنی غیرت کی قربانی کر کے اس مجلس سے اُٹھ آنے کی تلقین فرمائی گئی ہے.چنانچہ مکار فرمایا:
***** توہین رسالت کی سزا { 19 } قتل نہیں ہے وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُم بِوَكِيْلِ هِ لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَةٌ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ“ (الانعام:67 (69) ترجمہ: اور تیری قوم نے اس کو جھٹلا دیا ہے حالانکہ وہی حق ہے.تو کہہ دے کہ میں تم پر ہر گز نگران نہیں ہوں.ہر پیش خبری کا ایک وقت اور ایک جگہ مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے.اور جب تو دیکھے اُن لوگوں کو جو ہماری آیات سے تمسخر کرتے ہیں تو پھر ان سے الگ ہو جا یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں.اور اگر کبھی شیطان تجھ سے اس معاملہ میں بھول چوک کروا دے تو یہ یاد آجانے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھ.رسول اللہ صلی العلیم کی تکذیب یعنی آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا قرار دینا تو ہین سے بھی شدید تر ہے.مگر اس کے باوجو د آیت میں مذکور تعلیم ہے جو توہین کے مقابل پر اور اس کے رد عمل کے طور پر ہے.یہ تعلیم ہے جو امن عامہ کی ضامن ہے.جو قتل و خون میں مانع ہے.جو دشمنوں کو بھی دوستوں میں بدلنے کی طاقت رکھتی ہے.چونکہ نبی کے کاموں میں سے ایک بڑا کام انسان کو قتل و غارت سے بچانا اور اسے امن و سلامتی میں لے کر آنا ہوتا ہے.اس لئے وہ خود بھی یہی نمونہ دکھاتا ہے اور اپنے متبعین کو بھی ہر طرح کے جسمانی یا جذباتی جبر و تشدد پر عفو و در گزر اور صبر و استقامت اور معاف کرنے کے ایسے اسلوب سکھاتا ہے کہ وو وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (الشوری:44 ) کہ جو صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ اُولو العزم باتوں میں سے ہے.
توہین رسالت کی سزا { 20 ) قتل نہیں ہے آیات جو صبر کی اور توہین کرنے والے سے عفو و در گز، اعراض اور صرف نظر کی تعلیم دیتی ہیں ***** اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کثرت کے ساتھ ایسی تعلیم اتاری ہے کہ جس میں مومنوں کو ہر قسم کی مشکلات، تکالیف، ایڈا، جبر و تشدد پر صبر اختیار کرنے کی تلقین فرمائی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف لانے ،انسانیت کے شرف کو قائم کرنے اور انسان کو ہلاکتوں سے بچانے کا نام ہے.اس کے لئے مومنوں کو ہر قسم کی قربانی دینے کی تلقین فرما کر انہیں اجر عظیم کا وارث ٹھہرایا ہے.اس کے بر عکس بات بات پر توہین و تنقیص کا مدعا کھڑا کر کے قتل و ہلاکت اور کشت و خون سے بار بار منع فرمایا ہے.چنانچہ درج ذیل آیات قرآنیہ انہی تعلیماتِ خداوندی کی آئینہ دار ہیں.یہ تعلیمات رسول اللہ صلی علیم کے اور آپ کے پیروکاروں کے صدق وصفا اور صبر و عفا جیسے اخلاق حسنہ کی بھی منہ بولتی داستا نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِ الْجَاهِلِينَ ( القصص : 56) ترجمہ : اور جب وہ کسی لغو بات کو سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال.تم پر سلام ہو.ہم جاہلوں کی طرف رغبت نہیں رکھتے.اس آیت میں ہرزہ سرا اور لغو گو جاہلوں کو قتل کرنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان.صرفِ نظر کی تعلیم دی ہے.یہاں اللہ تعالیٰ اپنے پسندیدہ مومنوں کا نمونہ پیش فرماتا ہے اور بتاتا
توہین رسالت کی سزا { 21 ) قتل نہیں ہے ہے کہ ان کا طریق ہے کہ جب وہ کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تو ایسا کرنے والوں سے نہ صرف اعراض کرتے ہیں بلکہ اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں.ان کے لئے سلامتی کی دعا کرتے ہیں اور ایسی جہالت کے مرتکبوں سے بے رغبتی اختیار کرتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ قتل و غارت کی بجائے دعوت الی اللہ ، نیک اعمال کی بجا آوری، برائی کو نیکی اور بدی کو احسن سے دفع کرتے ہوئے صبر کی تلقین فرماتا ہے کہ وو وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحاً وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا الشَّيْئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (لحم السجده:34 تا36) ترجمہ : اور بات کہنے میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک اعمال بجالائے اور کہے کہ میں یقینا کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں.نہ اچھائی برائی کے برابر ہو سکتی ہے اور نہ برائی اچھائی کے ( برابر ).ایسی چیز سے دفاع کر کہ جو بہترین ہو.تب ایسا شخص جس کے اور تیرے درمیان دشمنی تھی وہ گویا اچانک ایک جاں نثار دوست بن جائے گا.اور یہ مقام عطا نہیں کیا جاتا مگر اُن لوگوں کو جنہوں نے صبر کیا.اور یہ مقام عطا نہیں کیا جاتا مگر اُسے جو بڑے نصیب والا ہے.کیسی خوبصورت تعلیم ہے کہ بُرائی کرنے والے کے مقابل پر صرف بُرائی سے پر ہیز کرنے کی تلقین نہیں کی گئی، بلکہ اس کے مقابل پر حسنہ یعنی نیکی اور احسن طریق اختیار کرنے کی رغبت دلائی ہے.پھر اس کے نتیجے میں دشمن کے دوست بننے کی ضمانت بھی دی ہے.یہی اسلام تعلیم کا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف لانے کے لئے انسانوں کو اور ان کی زندگیوں کو محفوظ رکھا جائے اور انہیں دعوت و تبلیغ کے ذریعے ، اچھی باتوں اور نیک نمونے کے ذریعے اسلام کی
توہین رسالت کی سزا ( 22 )- قتل نہیں ہے طرف راغب کیا جائے.لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کے ایک متشدد طبقے نے اس انتہائی خوبصورت تعلیم کورڈ کر کے پس پشت ڈال دیا ہے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے نام پر، رسول اللہ لی ایم کے نام پر اور قرآن و اسلام کے نام پر قتل و غارت اور دہشت گردی اختیار کرتے ہوئے دنیا کو اس حسین اور دلکش مذہب سے متنفر کر دیا ہے.اگر یہی لوگ اس پاک اور دلر با الہی تعلیم پر عمل کر کے بُرائی کو نیکی سے اور سینہ کو حسنہ میں بدلنے کی سعی کرتے اور رحمۃ نمية العلمين صلی ا یکم کی عفو ورحمت سے لبریز پاک سیرت دنیا کے سامنے پیش کرتے تو یقینا آج دنیا مسلمانوں سے چھلک رہی ہوتی.اسلام اعتراضات، نفرتوں اور دشمنیوں سے محفوظ ہوتا اور سیّد المطہرین علی ای کم کی ذات پاک و بابرکات پر گند اچھالنے والے نہ ہونے کے برابر ہوتے.اللہ تعالیٰ کفریہ باتوں اور کفریہ اعمال سے حفاظت کی ضمانت اور تسلی دیتے ہوئے یہ بھی فرماتا ہے: " يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُم.....لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌّ وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ (المائدہ:42) ترجمہ : اے رسول! تجھے وہ لوگ غمگین نہ کریں جو کفر میں تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یعنی وہ جو اپنے مونہوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے......ان کے لئے اس دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بہت بڑا عذاب مقدر ہے.شاتم رسول کے قتل کے قائل کہتے ہیں کہ گالی دینے سے شاتم کا فر ہو جاتا ہے اس لئے سے قتل کرنا واجب ہے.مگر یہ آیت کہتی ہے کہ جو کفر کرتا ہے اس کا کفر تمہیں کسی غم و حزن میں نہیں ڈال سکتا.اس لئے اس کے بارے میں کسی فکر کی ضرورت نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ اگر
توہین رسالت کی سزا { 23 ) قتل نہیں ہے خودایسی مضبوط اور حتمی ضمانت فراہم کرتا ہے تو پھر کسی شاتم و گستاخ رسول کے قتل کی تعلیم کے کوئی معنے نہیں ہیں.اس آیت میں بھی دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب کی وعید ہے.خنزی یعنی رسوائی کے معنے کسی طور پر بھی قتل کے نہیں ہیں.یعنی اس دنیا میں ایسے لوگ جو کفر کرتے ہیں، محض رسوائی اور ذلت ہی اٹھاتے ہیں.رسول اللہ صلی للی علم کا کفر ، آپ کی مخالفت اور گستاخی کر کے وہ خود اپنے ہی ہاتھوں دنیا میں اپنی عزت و تکریم کا جنازہ اٹھا چکے ہوتے ہیں.روحانی اور معاشرتی لحاظ سے گویا وہ ایک طرح مرچکے ہوتے ہیں.انہیں جسمانی طور پر مارنے کی کوئی تعلیم نہیں ہے.اس کے ساتھ جس عذاب کی تقدیر ان کے لئے منسلک ہے وہ بھی آخرت کا عذاب ہے.الغرض اس آیت سے بھی قطعی فیصلہ یہی قرار پاتا ہے کہ گستاخ رسول کے قتل کا عقیدہ ایسا ہے کہ جسے قرآن کریم کلیہ رد فرماتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اسی نوع کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے بیان فرماتا ہے: وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئاً يُرِيدُ اللَّهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالإِيْمَانِ لَن يَضُرُّوا اللهَ شَيْئاً وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ هِ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْماً وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ( ال عمران: 177 179) ترجمہ : اور تجھے دکھ میں نہ ڈالیں وہ لوگ جو کفر میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں.یقیناً وہ ہر گز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.اللہ یہ چاہتا ہے کہ آخرت میں ان کا کچھ بھی حصہ نہ رکھے.اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ( مقدر ) ہے.یقیناً وہ لوگ جنہوں نے ایمان کے بدلے کفر خرید لیا وہ ہر گز اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے.اور ان کے لئے بہت دردناک عذاب ( مقدر) ہے.اور ہر گز وہ لوگ گمان
توہین رسالت کی سزا ( 24 )- قتل نہیں ہے نہ کریں جنہوں نے کفر کیا کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہتر ہے.ہم تو انہیں محض اس لئے مہلت دے رہے ہیں تاکہ وہ گناہ میں اور بھی بڑھ جائیں.اور ان کے لئے رُسوا کر دینے والا عذاب ( مقدر ).ہے.یعنی ایسے لوگ جو کفر اختیار کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ مہلت دیتا ہے تا کہ وہ مہلت سے فائدہ اٹھائیں اور کفر و گناہ کو ترک کریں.مگر وہ ایسا نہیں کرتے.ان کے اس منفی طرز عمل پر اللہ تعالیٰ پھر منطقی نتیجے کا ذکر فرماتا ہے کہ بالآخر وہ گناہوں میں بڑھ جاتے.مگر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ اس آیت میں بھی انہیں قتل کرنے کی کوئی تعلیم نہیں ہے بلکہ ڈھیل اور مہلت دینے کا حکم ہے تاکہ ان پر ہر رنگ اور پہلو سے حجت تمام ہو جائے.پس یہ تعلیم قتل شاتم میں واضح طور پر مانع ہے.یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان آیات میں تسلسل کے ساتھ عذاب عظیم، عذاب الیم اور عذاب مہین کا ذکر ہے.مگر ان کے قتل اور ان کی گردنیں مارنے وغیرہ الفاظ کا کہیں ذکر نہیں ہے.تاریخ شاہد ہے کہ عملاً بھی کوئی واقعہ ایسار و نما نہیں ہوا کہ ان کو قتل کیا گیا.کیونکہ رسول اللہ صلی اللی یکی نے ایسا کرنے والوں کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ رکھا تھا.چنانچہ آپ کی پاک سیرت اور اسلام کی روشن تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کیا گیا.رسول اللہ صلی ال نیلم کی باتوں کو توڑنے مروڑنے والے رسول اللہ صلی للی کم کی باتوں کو بگاڑنا، ان کو مختلف معنے پہنانا اور انہیں تضحیک کا نشانہ بنانا وغیرہ وغیرہ ایسے فعل ہیں جن کی بنیاد واضح گستاخی پر استوار ہے.اس گستاخی میں وہ ساری ساری رات بھی گزار دیتے ہیں.اس کے باوجود انہیں قتل کرنے کی تعلیم نہیں دی گئی.بلکہ ایسے
توہین رسالت کی سزا ( 25 ) قتل نہیں ہے گستاخوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ آپ کو صرف یہی تعلیم دیتا ہے کہ ان سے اعراض کرو اور اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھو.ان سے اللہ تعالیٰ خود نپٹے گا.کسی انسان کو ان کے قتل کی اجازت نہیں دی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيَقُولُونَ طَاعَةٌ فَإِذَا بَرَزُوا مِنْ عِندِكَ بَيَّتَ طَابِفَةٌ مِنْهُمْ غَيْرَ الَّذِي تَقُولُ وَاللَّهُ يَكْتُبُ مَا يُبَيِّتُونَ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلاً “ (النساء:82) ترجمہ : اور وہ ( محض منہ سے ) اطاعت کہتے ہیں ! پھر جب وہ تجھ سے الگ ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک گروہ ایسی باتیں کرتے ہوئے رات گزارتا ہے جو اس سے مختلف ہیں جو تو کہتا ہے.اور اللہ ان کی رات کی باتوں کو احاطہ تحریر میں لے آتا ہے.پس ان سے اعراض کر اور اللہ پر توکل کر اور اللہ کار ساز کے طور پر کافی ہے.اس آیت میں انہی لوگوں کا ذکر ہے جو وہ رسول اللہ صلی علیم پر بہتان باندھتے ہیں.آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو آپ نے کی نہیں ہو تیں.آپ کی توہین و تنقیص کی یہ ایک واضح جسارت ہے جس کے وہ مر تکب ہوتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ ان سے اعراض یعنی رُخ موڑنے اور صرفِ نظر کی تلقین فرماتا ہے.اسی طرح یہ بھی فرماتا ہے: وَإِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيْلَ (الحجر: 86) ترجمہ : اور ساعت ضرور آنے والی ہے.پس بہت عمدہ طریق پر در گزر کر.قرآن کریم مجرموں کو قتل کرنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ فیصلے کی گھڑی کی بات فرماتا ہے کہ جب وقت آئے گا تو لازماً ان کا فیصلہ ہو گا.اس سے پہلے ان سے بہت عمدہ طریق پر در گزر
توہین رسالت کی سزا { 26 ) قتل نہیں ہے کرنے کی تلقین فرماتا ہے.پھر قرآن کریم رسول اللہ صلی ا لی ایم کو وارونگی سے روکتا ہے اور نصیحت کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتا ہے: فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ لَسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِ إِلَّا مَن تَوَلَّى وَكَفَرَ فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَه إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ (الغاشیہ : 2 تا27) ترجمہ : پس بکثرت نصیحت کر.تو محض ایک بار بار نصیحت کرنے والا ہے.تو ان پر داروغہ نہیں.ہاں وہ جو پیٹھ پھیر جائے اور انکار کر دے.تو اُسے اللہ سب سے بڑا عذاب دے گا.یقیناً ہماری طرف ہی اُن کا کوٹنا ہے.پھر یقینا ہم پر ہی اُن کا حساب ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ کسی وضاحت سے فرماتا ہے کہ عذاب دینا اس کا کام ہے.منہ پھیر لینے والے اور کفر اختیار کرنے والے کے عذاب کو اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اسے جب رسول اللہ صلی علیکم کے اختیار میں بھی نہیں دیا تو کسی اور کو یہ اختیار کس طرح مل سکتا ہے ؟ پس یہ دعوی کہ جو توہین رسول کا مر تکب ہو اسے قتل کیا جا سکتا ہے یا اسے کوئی بھی سزا دے سکتا ہے منافی قرآن دعوی ہے.یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ اسلام جرائم کی روک تھام اور امن عامہ کے قیام کے لئے حدود و تعزیرات کا ایک مکمل اور جامع نظام پیش فرماتا ہے.لیکن اس نظام میں کسی جگہ بھی جذبات کے مجروح ہونے کی کوئی سزا نہیں رکھتا.بلکہ مہذب دنیا کے بھی کسی قانون میں ایسی سزا نہیں ہے.جیسا کہ قارئین آئندہ صفحات میں دیکھیں گے کہ قرآن کریم کسی کی طرف سے جذبات کی انگیخت پر یا جذبات مجروح کرنے پر ہمیشہ اعراض، صبر اور توکل پر خاص زور دیتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے:
توہین رسالت کی سزا ( 27 )- قتل نہیں ہے فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ (الرعد:41) ترجمہ: تو (ہر صورت) تیراکام صرف کھول کھول کر پہنچا دینا ہے اور حساب ہمارے ذمہ ہے.اس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہی پیغام دیا ہے کہ حساب لینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے.یہ کسی اور کے اختیار میں نہیں دیا گیا.کوئی اسلام کا انکار کر کے کفر اختیار کرے یا سب و شتم رسول کی وجہ سے کافر قرار دے دیا جائے (جیسا کہ بعض مفتی کہتے ہیں کہ شتم رسول سے کفر لازم آتا ہے )، اس کے قتل کا کسی کو اختیار نہیں دیا گیا.اللہ تعالیٰ نے لفظ ”عَلَيْكَ “استعمال فرما کر ایسے شخص کو احسن رنگ میں پیغام پہنچانا فرض قرار دیا ہے اور کفر سے باز نہ آنے والے یا پیغام کو ذکر دینے والے کے حساب کا ذمہ اپنے پر لیا ہے.اس واضح اور جامع ارشادِ باری تعالیٰ کے ہوتے ہوئے کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ کسی کا حساب اپنے ذمہ لے کر اس پر کفر کا فتوی دے اور اسے واجب القتل قرار دے.زبان کے زخم کہتے ہیں کہ زبان کے زخم نیزوں کے زخموں سے زیادہ گہرے اور تکلیف دہ ہوتے ہیں.جیسا کہ ایک شاعر کہتا ہے.جَرَاحَاتُ السِّنَانِ لَهَا الْتِنَامُ وَلَا يَلْتَامُ مَا جَرَحَتْ لِسَانُ کہ نیزوں کے لگائے ہوئے زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں مگر زبان کے لگائے گئے زخم کا اند مال نہیں ہے.
توہین رسالت کی سزا { 28 ) قتل نہیں ہے لوگوں کی ایذارساں باتوں، بہتانوں ، سب و شتم اور توہین و تنقیص کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بڑی وضاحت کے ساتھ تعلیم نازل فرمائی ہے.بار بار اور کھول کھول کر یہ تلقین فرمائی ہے کہ ایسا جرم کرنے والوں کی سزا اللہ تعالیٰ خود دے گا.کسی کو جبر کرنے کی اجازت نہیں دی.ہاں! انہیں قرآن کریم کے ذریعے تذکیر و تبلیغ کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍ فَذَكِّرْ بِالْقُرْآنِ مَنْ يَخَافُ وَعِيْدِ“ (ق: 46) ترجمہ : ہم اُسے سب سے زیادہ جانتے ہیں جو وہ کہتے ہیں اور تو ان پر زبر دستی اصلاح کرنے والا نگران نہیں ہے.پس قرآن کے ذریعہ اُسے نصیحت کرتا چلا جاجو میری تنبیہہ سے ڈرتا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ نے کس طرح واضح طور پر کھول کر بیان فرمایا ہے کہ کوئی خواہ کچھ بھی کہے ، وہ ان باتوں کی حقیقت کو جانتا ہے.وہ ایسی باتیں کرنے والوں پر جبر کرنے سے منع فرماتا ہے.پس وہ فرماتا ہے کہ کسی توہین کے مرتکب یا سب و شتم کرنے والے کو قتل نہیں کرنا بلکہ اسے قرآن کریم کے مطابق تذکیر و نصیحت کرنی ہے.پس اگر کسی کو قتل کر دیا جائے تو یہ اللہ تعالی کے اس حکم کی کھلی کھلی نافرمانی ہے.شاتم کا جبر امسلمان ہونا شاتم رسول کے قتل کے قائل بار بار بعض فقہاء کا یہ قول بھی بیان کرتے ہیں کہ اگر شاتم مسلمان ہو جائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا.قائلین قتل شاتم کے عجیب رنگ ہیں.ایک طرف کہتے ہیں کہ جو مسلمان سب و شتم کرے وہ کافر ہو جاتا ہے اور دوسری طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر شاتم مسلمان ہو جائے تو اسے کچھ نہ کہا جائے گا.یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا.بہر حال اگر یہ بات ہے کہ شاتم مسلمان ہو جائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا تو عرض ہے کہ یہ بھی بعض
توہین رسالت کی سزا ( 29 )- قتل نہیں ہے خاص مکتب فکر کے فقہاء کے اپنے فیصلے ہوں گے مگر ہیں واضح طور پر منافی احکام الہی.کیونکہ اس سے منافق تو پید اہو سکتے ہیں، سب و شتم کا مداوا نہیں ہو سکتا.یعنی جو شخص اپنی موت کے ڈر ، مسلمان ہو گا ، وہ لازماً بنیادی طور پر اپنے اندر نفاق کی جڑیں رکھتا ہو گا.اللہ تعالیٰ اس طرح اسلام قبول کرنے کی کسی جگہ، کسی وقت اور کسی طور پر اجازت دیتا ہے نہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے.بلکہ واضح طور پر ممانعت فرماتا اور مکمل حوصلہ شکنی کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ނ ہے: وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَن فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعاً أَفَأَنتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ وَمَا كَانَ لِنَفْسٍ أَن تُؤْمِنَ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَيَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ“ (یونس: 101 100) ترجمہ : اور اگر تیر ارب چاہتا تو جو بھی زمین میں بستے ہیں اکٹھے سب کے سب ایمان لے آتے.تو کیا تو لوگوں کو مجبور کر سکتا ہے.حتٰی کہ وہ ایمان لانے والے ہو جائیں.اور کسی نفس کو اختیار نہیں کہ وہ ایمان لائے مگر اللہ کے اذن کے ساتھ.اور وہ ان کے چہروں ) پر جو عقل سے کام نہیں لیتے ( ان کے دل کی ) پلیدی تھوپ دیتا ہے.پس کسی کو کسی بھی بہانے سے جڑ ا مسلمان بنانا اسلام کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے.مومن کا قتل اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کسی مومن کا قتل گناہ کبیرہ قرار دیا ہے.اس وقت دنیا میں عملاً یہ ہو رہا ہے کہ اس گناہ کے مرتکب متشد دلوگ کسی پر بھی شتم رسول کا جھوٹا الزام دے کر اسے قتل کر دیتے ہیں.یہ زمین میں فساد پیدا کرنے اور کشت وخون کے دروازے کھولنے کا کھلا کھلا عمل ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم اور رسول اللہ صلی علیم کی سنت اور اس کے فرمودات سے واضح
توہین رسالت کی سزا { 30 ) قتل نہیں ہے بغاوت ہے.جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اور امر واقع بھی یہی ہے کہ کسی کو قتل کرنے کی قرآن کریم نے انتہائی سختی سے ممانعت کی ہے.مگر انسانوں اور انسانیت کے دشمن توہین رسول کا نام نہاد مسئلہ کھڑا کر کے یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ محض فتنہ پر دازی کے سبب کسی کو قتل کر دیتے ہیں اور اس پر یہ الزام دھر دیتے ہیں کہ اس نے رسول اللہ صل اللی کم کی توہین کی تھی.حالانکہ مقتول عملاً آپ سے محبت کرنے والا ہوتا ہے.یہ ظالمانہ نتیجے ہیں جو ایسے خوفناک منافی اسلام عقیدے کی وجہ سے فی زمانہ کثرت کے ساتھ ظاہر ہو رہے ہیں.اس کے نتیجے میں رسول اللہ صلی علیکم، اسلام اور قرآن کریم پر بے تحاشہ باتیں اور الزام تراشیاں ہوتی ہیں.اس سے اسلام کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے اور پہنچ چکا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ مومنوں کو عمداً قتل کرنے کی انتہائی تحدید کرتے ہوئے فرماتا ہے: پر وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيْهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء:94) ترجمہ : اور جو جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے.وہ اس میں بہت لمبا عرصہ رہنے والا ہے.اور اللہ اس پر غضبناک ہوا اور اس لعنت کی، اور اس نے اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے.اس آیت میں جہنم، غضب، لعنت اور عذاب عظیم وغیرہ تمام سزائیں مذکور ہیں.ان کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ قتل کرنے والوں سے سخت اور انتہائی ناراضگی کا اظہار فرماتا ہے.اس سے یہ مسئلہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جب یہ لوگ اذیت والی آیت پر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ چونکہ وہاں عذاب کا ذکر ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے قتل کیا جانا ضروری ہے.وہ اسی دلیل کو یہاں قاتل پر کیوں لاگو نہیں کرتے ؟ یہاں تو مزید زور اور سختی سے قتل کرنے والے پر لاگو کرنی چاہئے کیونکہ یہاں جہنم ، غضب، لعنت اور عذاب عظیم جیسے شدید
توہین رسالت کی سزا { 31 ) قتل نہیں ہے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ کے ان غضبناک اظہارات کے باوجود قاتلین کو موت کی سزا نہیں دی جاتی.بلکہ انہیں الٹا مجاہد اور ہیر و قرار دیا جاتا ہے.کیا یہ رسول اللہ صلی علیم اور آپ کی شریعت کے ساتھ مذاق اور استہزاء نہیں ہے؟ کیا یہ اللہ تعالیٰ کے فرمودات اور رسول اللہ صلی علیم کی پر رحمت سنت کی توہین نہیں ہے ؟ جس کا آج کے خونخوار نام نہاد علماء گلی گلی قریہ قریہ ارتکاب کر رہے ہیں.سنگین سزاؤں میں بھی معافی کی گنجائش اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محاربت اور فساد و بغاوت ایسے قومی جرم ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سخت سے سخت سزائیں تجویز فرمائی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَاداً أَن يُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ مِنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذُلِكَ لَهُمْ خِنْيٌّ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ هِ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيم (المائد 34: 35) ترجمہ : یقیناً اُن لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں یہ ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا دار پر چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں دیس نکالا دے دیا جائے.یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں تو ان کے لئے بڑا عذاب ( مقدر) ہے.سوائے ان لوگوں کے جو اس سے پیشتر تو بہ کر لیں کہ تم ان پر غالب آجاؤ.پس جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.
توہین رسالت کی سزا { 32 ) قتل نہیں ہے اس آیت میں مذکوران سنگین جرائم کی سزاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے معافی کی بھی مکمل گنجائش رکھی ہے اور اصحاب متقدرت کو تو بہ قبول کرنے اور معاف کرنے کی رغبت دلائی ہے.جب ایسے سنگین ترین جرائم پر بھی اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کرنے اور عفو و در گزر کی گنجائش رکھتا ہے تو توہین رسول جس کی شریعت میں کہیں بھی سزا قتل قرار نہیں دی گئی ، کیونکر معافی نہیں ہو سکتی.کیونکر ایسے شخص کی تو بہ کو قبول نہیں کیا جاسکتا؟ دراصل ظلم وجبر کے رسیا لوگ اپنی وحشتوں کی تسکین کے لئے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی علیم کے نام پر زمین میں فساد کرتے ہیں اور قتل و خون ان کے مرغوب مشغلے ہیں.*****
توہین رسالت کی سزا { 33 ) قتل نہیں ہے رؤف در حیم نبی صلی الله یم ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ملی لی یم کی تو فطرت ہی خیر خواہی اور عفو و رحمت کے خمیر سے اٹھائی گئی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس کی گواہی مہیا کرتے ہوئے فرماتا ہے: لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( التوبہ : 128) ترجمہ : یقیناً تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اُٹھاتے ہو ( اور ) وہ تم پر ( بھلائی چاہتے ہوئے ) حریص (رہتا) ہے.مومنوں کے لئے بے حد مہربان ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.رسول اللہ صلی ایم کی زندگی کا لمحہ لمحہ شاہد ہے کہ آپ بنی نوع انسان کے لئے آسانیاں چاہنے اور ان کا انتظام کرنے والے تھے.انسان کی مشقت اور تکلیف آپ پر شاق گزرتی تھی.اس جذبے ہی کی تجلی تھی کہ آپ کا دامن رافت و رحمت ساری کائنات پر دراز تھا.کسی پر سختی کرنا آپ کے لئے ناممکن تھا.اللہ تعالیٰ مزید ارشاد فرماتا ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّين" (ال عمران:160) ترجمہ: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا.اور اگر تو تند خُو ( اور ) سخت دل ہو تا تو وہ ضرور تیرے گر د سے دُور بھاگ جاتے.پس ان سے در گزر کر اور ان کے لئے بخشش کی دعا کر اور (ہر ) اہم معاملہ میں ان سے مشورہ کر.پس جب تو ( کوئی ) فیصلہ کر لے تو پھر اللہ ہی پر تو کل کر.یقینا اللہ تو گل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے.
توہین رسالت کی سزا ( 34 )- قتل نہیں ہے اس آیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی نرمی اور عفو درگزر کی شہادت مہیا فرمائی ہے.کیونکہ رسول اللہ صلی الہ علم کی زندگی کی ہر ادا عفو و در گزر پر استوار رہی ہے.ان آیات کے ہوتے ہوئے شاتم رسول کے قتل کے مدعی کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ان گواہیوں کو رڈ فرما دیا تھا؟ کیا نعوذ باللہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی ان شہادتوں کو جھٹلا دیا تھا اور ہر موقعے پر قتل و خون کا مظاہرہ کیا تھا؟ ہر گز نہیں.خدا کی قسم! ایسا ہر گز نہیں تھا.رسول اللہ نام پر قتل وغارت گری کا الزام لگانے والے خود جھوٹے ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی گواہی ان کے برعکس ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وو ” وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْى هُمْ يَنتَصِرُونَ ، وَجَزَاء سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ (الشوری:40،41) ترجمہ : اور وہ جن پر جب زیادتی ہوتی ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں.اور بدی کا بدلہ ، کی جانے والی بدی کے برابر ہوتا ہے.پس جو کوئی معاف کرے بشر طیکہ وہ اصلاح کرنے والا ہو تو اس کا اجر اللہ پر ہے.یقینا وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.رسول اللہ صلی ا یکم کواللہ تعالیٰ نے جو تعلیم دی اس میں کسی قسم کی زیادتی اور ظلم کا شائبہ تک نہیں.مثلاً یہ کہ بدی کا بدلہ اگر چکانا ہے تو اس بدی کے برابر بدلہ لیا جائے.حتی کہ جنگوں اور لڑائیوں میں بھی ” وَلاَ تَعْتَدُوا کہ زیادتی نہ کرو، کا حکم ہمیشہ غالب رہا.آپ کو یہ فرمایا گیا کہ بدی کا بدلہ بدی کے برابر ہی ہو گا لیکن اگر عفو اور اصلاح مد نظر رہے تو وہ زیادہ بہتر ہے.ایسی تعلیم رکھنے والے، ایسی تعلیم دینے والے اور اس پر ہمیشہ عمل کرنے اور کرانے والے پر یہ الزام دینا کہ وہ گالی دینے والے کو جب تک قتل نہ کروا لیتا تھا اس وقت تک اسے چین نہ آتا تھا، کھلا کھلا بہتان ہے.
توہین رسالت کی سزا { 35 ) قتل نہیں ہے اس زیر بحث آیت کا ذکر قبل ازیں مَنْ يُحَادِد والی آیت میں بھی گزر چکا ہے.اس جگہ صرف اتنی عرض ہے کہ اس میں بدلہ لینے کا بھی ذکر ہے کہ وہ جن پر جب زیادتی ہوتی ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں.وہ بدلہ کیا ہے ؟ اور رسول اللہ صلی اللی یکم نے اس بدلے کا کیا نمونہ پیش فرمایا؟ چنانچہ جب ہم آپ کی پاک سیرت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دو پہلو تھے.ایک یہ کہ سب کو بیک جنبش زبان معاف کر دیا اور دوسرے یہ کہ آپ نے نیکیوں، بھلائیوں اور خیر کے کاموں میں ان مخالفوں سے آگے سے آگے بڑھنے کی سعی فرمائی.ان کی بہبود کے کاموں میں احسان کے تمام پہلوؤں کو بروئے کار لائے.یعنی ظلم کا انتقام عفو ، احسانات اور نیکیوں میں سبقت کے ذریعے لیا.بار بار تعلیم عفو و احسان درج ذیل آیات میں رسول اللہ صلی علیم کو اللہ تعالیٰ نے اذیت دینے والوں، بد زبانی کرنے والوں وغیرہ سے اعراض اور ان کے سب و شتم پر بار بار صبر ، صرف نظر ، عفو اور احسان کی تعلیم دی ہے.فرمایا: " وَأَن تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى“ (البقرہ: 238) ترجمہ: اور تمہارا عفو سے کام لینا تقویٰ سے زیادہ قریب ہے.خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ “ (الاعراف:200) ترجمہ : عفو اختیار کر اور معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر.وو الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّمَاءِ وَالضَّرَاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ( ال عمران: 135 ) ترجمہ : ( یعنی وہ لوگ جو آسائش میں بھی خرچ کرتے ہیں
توہین رسالت کی سزا { 36 ) قتل نہیں ہے اور تنگی میں بھی اور غصہ دیا جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں.اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.سبحان اللہ ! کیا خوبصورت تعلیم ہے کہ نہ صرف یہ کہ غصے کو پی جانا ہے بلکہ لوگوں کو معاف کرنا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ان پر احسان کرنا ہے.یہ نمایاں اور امتیازی کر دار ہے جو رسول اللہ صلی الی یوم نے بار بار پیش فرمایا اور مومنوں میں پیدا فرمایا.کیا ایسی تعلیم کوئی اور مذہب پیش کر سکتا ہے؟ کیا ایسی تعلیم ہر اس تلوار ، ہر تیر اور ہر خنجر کو کند نہیں کر دیتی جو رسول اللہ صلی الل نیلم کے نام پر قتل و غارت کے لئے سونتی گئی ہو.کیا قتیل عفو و احسان بہتر نہیں ہے مقتول تیغ و تفنگ سے ؟ لازماً اور یقیناً کشتہ لطف و کرم بہتر ہے اور لاکھ درجے بہتر ہے.پھر قائلین قتل شاتم کیوں از راہِ ظلم گھاٹے اور خسارے کا سودا کرتے ہیں.وو " فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ “(الاحقاف:36) ترجمہ : پس صبر کر جیسے اولو العزم رسولوں نے صبر کیا اور ان کے بارہ میں جلد بازی سے کام نہ لے.اگر دیگر انبیاء اولو العزم تھے اور دامن صبر کو تھامنے والے تھے تو رسول اللہ صلی ا لم تو ان کے اوصاف کے جامع تھے.آپ ان سے ہزار گنا بڑھ کر صبار اور صاحب شکیبائی تھے.آپ ہر گز ہر گز کسی کی بد زبانی پر انگیخت ہونے والے نہیں تھے اور نہ کبھی ہوئے.وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ “ (الشوری:44 ) ترجمہ : اور جو صبر کرے اور بخش دے تو یقینا یہ اولو العزم باتوں میں سے ہے.اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ صبر و حوصلہ اور دوسرے کے گناہ معاف کرنا اور اس کے لئے مغفرت طلب کرنا ایسے کام ہیں جو ترقی و کمال کے زینے ہیں.مسلمان اگر ترقی اور عروج حاصل
توہین رسالت کی سزا { 37 ) قتل نہیں ہے کر سکتے ہیں تو کشت و خون سے نہیں بلکہ ان اوصاف کے ذریعے جن کی طرف اللہ تعالی ہدایت فرماتا ہے.سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ (الرعد: 25) ترجمہ : سلام ہو تم پر بسبب اس کے جو تم نے صبر کیا.پس کیا ہی اچھا ہے گھر کا انجام.اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں سلامتی کا انعام اور آخرت میں اچھے گھر کا وعدہ انہی لوگوں کے لئے ہے جو صبر کرتے ہیں.پس یہ تعلیمات اور ہدایات ہیں جو اللہ تعالیٰ رسول للہ صلی ا یم اور آپ کے متبعین کو بار بار پیش فرماتا ہے اور ان پر عمل کی بہترین سے بہترین اور اعلیٰ سے اعلیٰ اجر اور انعام کے وعدے کرتا ہے.خاص طور پر جراحات اللسان پر صبر کی تعلیم درج ذیل آیات ہیں جو خاص طور پر باتوں اور زبان سے لگائے گئے زخموں کے بارے میں سکون افزا، خوبصورت اور دلکش تعلیم پر مبنی ہے.اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی نیلم کو یہ ہدایت عطا فرماتا ہے: وو اصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ إِنَّهُ أَوَّابٌ “(ص: 18) ترجمہ: صبر کر اُس پر جو وہ کہتے ہیں اور ہمارے بندے داؤد کو یاد کر جو بڑی دسترس والا تھا.یقینا وہ عاجزی سے بار بار جھکنے والا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حضرت داؤد علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر آپ کے اقتدار ، طاقت اور دسترس کے حوالے سے کیا ہے.یعنی باوجود اس کے کہ آپ ایسے لوگوں کو جو آپ کے لئے صبر کی آزمائش کا موجب تھے، اپنی غیر معمولی طاقت کے ذریعہ ختم کر سکتے تھے.
توہین رسالت کی سزا ( 38 ) قتل نہیں ہے مگر آپ نے یہ نہیں کیا بلکہ صبر سے ہی کام لیا.لہذا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی علیم کو حضرت داؤد علیہ السلام کی مثال پیش فرمائی اور طاقت کے استعمال کی بجائے صبر کی تلقین فرمائی.پھر فرمایا: فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ “ (ق:40،41) ترجمہ: پس صبر کر اس پر جو وہ کہتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ (اس کی ) تسبیح کر سورج کے طلوع سے پہلے اور غروب سے پہلے بھی.اور رات کے ایک حصہ میں بھی اس کی تسبیح کر اور سجدوں کے بعد بھی.اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لوگوں کی طرف سے توہین و تنقیص کارڈ عمل یہ سکھایا ہے کہ اس پر صبر کرنا ہے اور صبح و شام اور دن رات اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کرنی ہے.کوئی غم و غصہ نہیں دکھانا.کسی قسم کا جبر و جارحیت کا مظاہرہ نہیں کرنا.چنانچہ رسول اللہ صلی علیم کی تمام عمر شاہد ہے کہ آپ اس تعلیم پر ہر دم اور ہر لمحہ عمل پیرا تھے.یہی مذکورہ بالا تعلیم درج ذیل آیت میں دوبارہ پیش فرمائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید انسان کے اندر سکینت اور رضا کی شمع روشن کرتی ہے: " فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبَّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَمِنْ آنَاءِ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضَى (طل:131) ترجمہ : پس جو وہ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر.سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے نیز رات کی گھڑیوں میں بھی تسبیح کر اور دن کے کناروں میں بھی تا کہ تو راضی ہو جائے.
توہین رسالت کی سزا ہے: { 39 ) قتل نہیں ہے پھر اللہ تعالیٰ بد زبانوں کی دشنام دہی اور بد زبانی پر ایک اور ہدایت دیتے ہوئے فرماتا وَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلاً “ (المزمل:11) ترجمہ: اور صبر کر اُس پر جو وہ کہتے ہیں اور اُن سے اچھے رنگ میں جدا ہو جا.یہ اسی تعلیم کا دوسرا رُخ ہے جو گزشتہ صفحات میں سورۃ النساء کی آیت 141 میں بیان کیا گیا ہے کہ ” فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا نِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ کہ ان لوگوں کے پاس نہ بیٹھو.یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں.یعنی لڑائی جھگڑے اور مار کٹائی کی بجائے پہلو تہی کرتے ہوئے اس مجلس سے اچھے طریق پر اٹھ آنا چاہئے.اس قدر ضبط و احتیاط کی لاثانی تعلیم دنیا میں کہیں نہیں مل سکتی.کیونکہ جب عقائد اور ایمان کے جذبات جھوٹی باتوں اور باطل کلام کے ذریعے مجروح کئے جارہے ہوں تو صبر وضبط کے بندھن ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں.جذبات کی ایسی انگیخت کے وقت ہجر جمیل یعنی اچھے طریق پر جدا ہونا انتہائی مشکل کام ہے.لیکن امن عامہ کے قیام اور مخالفوں کو شر مندہ اور اسلام کی تعلیم کی طرف مائل کرنے پر مجبور کرنے کے لئے یہ ایک مجرب نسخہ ہے جو ہمیشہ کار گر رہا ہے.یہ نسخہ رسول اللہ صلی الیم کو عطا کیا گیا اور آپ نے اسے ہر جگہ آزمایا اور اپنے متبعین کو اسے بروئے کار لانے کی تلقین فرمائی.
توہین رسالت کی سزا { 40 ) قتل نہیں ہے عام طور پر معاف کرنے، صرفِ نظر کرنے اور مغفرت کی دعا کرنے کی ذیل میں وہ آیات درج کی جارہی ہیں جن میں بالکل واضح الفاظ میں رسول اللہ صل اللی یکم کو اور آپ کے متبعین کو عفو و در گزر ، غلطیاں معاف کرنے ، دعا کرنے اور احسان کرنے کی تلقین فرمائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ” وَإِن تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيم (التغابن:15) ترجمہ : اور اگر تم “ عفو سے کام لو اور در گزر کرو اور معاف کر دو تو یقینا اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.وو " وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (النور:23) ترجمہ: پس چاہئے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے.اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.یعنی معاف کرنے اور در گزر کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مغفرت منسلک ہے.اسی کی تلاش کے لئے اللہ تعالیٰ مومنوں کو بار بار توجہ دلاتا ہے کہ اس کی مغفرت کی تلاش میں جلدی کرو اور اپنی موت سے پہلے اسے حاصل کرو.وو فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاصْفَحُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ “ (المائدہ:14) ترجمہ : پس ان سے در گزر کر اور صرف نظر کر.یقینا اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے." فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقرہ: 110)
توہین رسالت کی سزا √( 41 }- محل نہیں ہے ترجمہ: پس ( اُن سے ) عفو سے کام لو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ ظاہر کر دے.یقینا اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے.ہمارا ایمان ہے بلکہ ہر سچے مسلمان کا ایمان ہے کہ رسول اللہ صل ال ہم نے قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کو اپنے جوارح، اپنے اعمال، اپنے اقوال، اپنے دل اور اپنی روح پر جاری فرمایا.چنانچہ حضرت عائشہ نے تو یہ گواہی مہیا فرمائی تھی کہ آپ کا خُلق قرآن پر استوار تھا.مگر حضرت انس بن مالک آپ کی زندگی کے آخری لمحات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے آپ کے چہرے کو دیکھا تو وہ گویا قرآن کا ایک ورق تھا.(ابن سعد ذکر امر رسول الله أبا بكر أن يصلي بالناس فی مرضم و ابن کثیر ) یہ پاک، رحیم و کریم ، عفو و رؤف ذات تھی، جس نے اپنے رب میں جذب ہو کر اس کے ایک ایک حکم، ایک ایک تعلیم اور ایک ایک اشارے کی پورے کمال اور حسن و خوبی کے ساتھ تعمیل کی.اس نے انہی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہر قسم کے گالی گلوچ، بد زبان بد گو ملزم یا مجرم کو معاف کیا.کسی کو قتل کی سزا نہیں دی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍوَ بَارِكْ وَ سَلِّمْ أَنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ *****
قتل نہیں ہے { 42 } يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ توہین رسالت کی سزا
توہین رسالت کی سزا باب دوم { 43 ) قتل نہیں ہے ان روایات پر محاکمہ جو قتل شاتم و گستاخ رسول کے قائل اپنے موقف میں پیش کرتے ہیں ***** اس باب میں مختلف کتب سے ایسی روایات لے کر ان پر حقیقت افروز بحث کی گئی ہے جو شتم و توہین رسول کے قتل کی دلیل کے طور پر متفرق مصنفین نے پیش کی ہیں.ان کے علاوہ بھی اگاؤ کا روایات ایسی ہیں جنہیں اس لئے ترک کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اندرونی خود تضادی و خود تر دیدی اور پراگندگی کی شکار اور بے حوالہ و بے بنیاد ہیں.ان کے وضعی اور جعلی ہونے کی وہ خود ثبوت ہیں.مگر یہ روایات جو اس باب میں زیر بحث لائی گئی ہیں، وہ ہیں جو توہین رسالت کی سزا قتل کے قائل اس مسئلے میں بنیادی حیثیت دیتے ہیں.قارئین ملاحظہ فرمائیں گے کہ ان میں سے بھی بعض وہ ہیں جو واضح طور پر وضعی ہیں، بعض ایسی ہیں جن سے استدلال غلط کیا گیا ہے اور بعض ایسی ہیں جو کسی طرح بھی سب و شتم کے مسئلے میں نہیں لی جاسکتیں.مگر انہیں گھسیٹ کر اس مسئلے میں لایا گیا ہے.بہر حال ذیل میں ریخ اسلام سے خون کے دھبوں کی صفائی، رسول اللہ صلی ال نیم کی رحیم و کریم ذات کے ناموس کی حفاظت اور آپ کی پاک ذات کو آپ کی طرف منسوب کئے گئے جھوٹے خون سے پاک کرنے کے لئے ہر روایت پر دلائل اور وجوہات کے ساتھ تفصیلی بحث کی گئی ہے.گستاخ و شاتم رسول کے قتل کے سلسلے میں عموماً پہلے جو مثالیں یا دلیلیں پیش کی جاتی ہیں وہ دو یہودی سرداروں، کعب بن اشرف اور دوسری ابو رافع کی ہیں.تاریخ کے مستند ریکارڈ
توہین رسالت کی سزا ( 44 )- قتل نہیں ہے سے واضح ہے کہ یہ دونوں وہ یہودی لیڈر تھے جو اپنے اموال خرچ کر کے انفرادی طور پر بھی لوگوں کو اور عرب قبائل کو بھی اسلام کے خلاف بھڑ کانے اور جنگ کے لئے انگیخت کرنے میں پیش پیش تھے.یہاں یہ مڈ نظر رہے کہ وہ زمانہ آج کے زمانے کی طرح نہیں تھا کہ جہاں منظم ، مقام اور معین حکومتیں قائم تھیں.نہ ایک حکومت کا دائرہ خاص طور پر ایک مخصوص رقبے یا علاقے پر جغرافیائی حدود میں منضبط تھا اور اس کے ساتھ ایک دوسری حکومت کا دائرہ ایک اور جغرافیائی حدود سے محدود و معتین تھا.بلکہ اُس زمانے میں عرب سب قبائل و اقوام کا ایک مشترک ملک تھا.اس ملک میں علاقائی تقسیمیں بھی سیاسی و علاقائی تقسیمیں نہیں تھیں.بلکہ وہ محض قبائلی اور قومی تقسیمیں تھیں جو حکومتوں کے درمیان کوئی جغرافیائی یا نظریاتی حدیں نہیں کھینچتی تھیں.عرب میں سب ایک دوسرے کے حلیف بن کر باہمی دوستیوں کے معاہدوں اور دشمنوں کے خلاف اکٹھے اور متحد ہونے کے معاہدوں کی صورت میں رہتے تھے.چنانچہ اس زمانے میں اگر کوئی عہد شکنی کی جاتی تھی تو جس کے خلاف عہد شکنی کی جاتی تھی اسے بھی تمام اخلاقی اور مروجہ قانونی بنیادوں کے تحت حق تھا کہ وہ اس کی سزا مقرر کرے یا عملاً سزا دے.اس کے اس حق پر کسی کو کوئی اعتراض کا حق نہیں تھا.آنحضرت صلی ا ہم نے ان دونوں مذکورہ بالا سرغنوں کی مختلف سازشوں اور محار بانہ کارروائیوں کو انتہاء تک برداشت کیا.مگر وہ تھے کہ اسلام کے خلاف اپنی سازشوں میں کسی مقام پر رکنے کا نام نہ لیتے تھے.یہاں کوئی بھی انصاف پسند اگر تجزیہ کرے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ دنیا کے کسی بھی قانون کے تحت ان پر محاربت اور بغاوت کی فردِ جرم عائد ہوتی تھی.لہذا ان دونوں کے قتل کو آنحضرت صلی کم کی شان میں گستاخی یا آپ پر سب و شتم کے نتیجے میں قتل
توہین رسالت کی سزا ( 45 ) قتل نہیں ہے قرار دینا، حد سے بڑھی ہوئی حماقت ہے اور دشمنان اسلام کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے والی بات ہے.اس اجمالی بیان کے بعد اب ذیل میں ان واقعات کا فردا فردا محاکمہ پیش ہے.یہاں ایک وضاحت یہ بھی پیش خدمت ہے کہ آئندہ صفحات میں امام ابن تیمیہ کی طرف منسوب کتاب " الصارم المسلول علی شاتم الرسول “ کے حوالے بھی پیش کئے گئے ہیں.یہ حوالے یا اقتباس اس کتاب سے لئے گئے ہیں جو ادارہ الدرر السنیۃ نے انٹرنیٹ پر مہیا کی ہے.ہم نے صفحات کے ساتھ ابواب اور ذیلی عناوین کا حوالہ بھی دیا ہے تاکہ عبارت ڈھونڈھنے میں مشکل نہ ہو.*****
توہین رسالت کی سزا 1 کعب بن اشرف { 46 - قتل نہیں ہے مدینے کے ایک یہودی کعب بن اشرف کے قتل کے واقعے کو اس موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ شتم رسول یا توہین رسالت کی سزا قتل ہے.کیونکہ اسے اسی جرم کی سزا کے طور پر قتل کیا گیا تھا.اس واقعے کا پس منظر اور تفصیل یہ ہے کہ جنگ بدر میں اسلام کی فتح نے مدینے کے ر یہودیوں کی دلی عداوت کو پوری طرح ظاہر کر دیا تھا.مدینے کے یہودی قبیلے بنو قینقاع کی میٹنہ فتنہ پر دازیوں اور سرکشیوں کی وجہ سے انہیں وہاں سے جلا وطن کیا گیا.ان کی یہ جلاوطنی بھی مدینے کے دوسرے یہودی قبائل کو نہ عبرت دلا سکی اور نہ ہی انہیں اصلاح کی طرف مائل کر سکی.لہذاوہ اپنی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں میں ترقی کرتے گئے.چنانچہ کعب بن اشرف کے قتل کا واقعہ سازشوں اور فتنہ پر دازیوں کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.کعب گومذہب یہودی تھا لیکن یہودی النسل نہ تھا، بلکہ باپ کی طرف سے عرب تھا.اس کا باپ اشرف قبیلہ بنو نہان کا ایک ہوشیار اور چلتا پر زہ آدمی تھا جس نے مدینے آکر بنو نضیر کے ساتھ تعلقات پیدا کئے.وہ ان کا حلیف بن گیا اور بالآخر اس نے ان میں اتنا اقتدار اور رسوخ پیدا کر لیا کہ قبیلہ بنو نضیر کے رئیس اعظم ابو رافع بن ابی الحقیق نے اپنی لڑکی اُسے رشتے میں دے دی.(ابن ہشام ، مقتل کعب بن اشرف.دار الکتب العلمیہ، بیروت.ایڈیشن 2001ء) اسی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا جس نے بڑے ہو کر اپنے باپ سے بھی بڑھ کر رتبہ حاصل کیا.حتی کہ بالآخر اُسے یہ حیثیت حاصل ہو گئی کہ عرب کے یہودی اسے اپنا ایک سردار قرار دیتے تھے.کعب ایک قادر الکلام شاعر ، نہایت دولت مند آدمی اور وجہیہ و شکیل شخص تھا.وہ ہمیشہ اپنی قوم کے علماء اور دوسرے ذی اثر لوگوں کو اپنی مالی فیاضی سے اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا.(زرقانی، قتل کعب بن
توہین رسالت کی سزا ( 47 ) قتل نہیں ہے الاشرف ، دار الکتب العلمیہ، بیروت) مگر اخلاقی نقطہ نگاہ سے وہ نہایت گندے اخلاق کا آدمی تھا اور خفیہ چالوں اور ریشہ دوانیوں کے فن میں بھی اسے کمال حاصل تھا.یہاں یہ بات ذہن نشین رکھنے والی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ظلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو کعب بن اشرف نے دوسرے یہودیوں کے ساتھ مل کر اُس معاہدے میں شرکت کی جو آنحضرت صلی للی کم اور یہود کے درمیان باہمی دوستی اور امن و امان اور مشتر کہ دفاع کے متعلق تحریر کیا گیا تھا.(زرقانی، قتل کعب بن الا شرف، دار الکتب العلمیہ ، بیروت.لیکن حقیقت یہ ہے کہ کعب کے دل میں ایک طبعی منافقت اور حسد کی وجہ سے اندر ہی اندر بغض و عداوت کی آگ سلگنے لگی تھی.اس نے خفیہ چالوں اور مخفی ساز باز سے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ یکم کی مخالفت شروع کر دی.چنانچہ لکھا ہے کہ کعب ہر سال یہودی علماء و مشائخ کو بہت سی مالی معاونت کر تا تھا.آنحضرت صلی نیلم کی مدینے ہجرت کے بعد جب یہ لوگ اپنے سالانہ وظائف لینے کے لئے اس کے پاس گئے تو اس نے باتوں باتوں میں اُن کے پاس آپ کا ذکر شروع کر دیا اور اُن سے آپ کے متعلق مذہبی کتب کی بناء پر رائے دریافت کی.انہوں نے بتایا کہ بظاہر تو یہ وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کا ہمیں وعدہ دیا گیا تھا.کعب اس جواب پر بہت بگڑا اور اس نے انہیں سخت ست کہہ کر وہاں سے رخصت کر دیا اور جو مالی امداد وہ انہیں دیا کرتا تھا ، وہ نہ دی.یہودی علماء کی جب روزی بند ہوئی تو کچھ عرصے کے بعد پھر کعب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں علامات کے سمجھنے میں غلطی لگ گئی تھی.ہم نے دوبارہ غور کیا ہے دراصل محمد (صلی م ) وہ نبی نہیں ہے جس کا وعدہ دیا گیا تھا.اس جواب سے کعب کا مطلب حل ہو گیا اور اس نے خوش ہو کر ان کو سالانہ امداد دے دی.(زرقانی ، قتل کعب بن الاشرف، دار الکتب العلمیہ، بیروت) یہ تو محض ایک مذہبی مخالفت تھی جو چنداں قابل اعتراض نہیں ہو سکتی تھی اور نہ اس بناء پر کعب کو زیر الزام سمجھا جاسکتا تھا.مگر اس کے بعد
توہین رسالت کی سزا 48 } قتل نہیں ہے رسول اللہ صلی الی ظلم کے خلاف کعب کی مخالفت زیادہ خطرناک اور عملی صورت اختیار کرتی گئی اور بالآخر جنگ بدر کے بعد تو اس نے ایسا رویہ اختیار کیا جو سخت مفسدانہ اور فتنہ انگیز تھا اور جس کے نتیجے میں مسلمانوں کے لئے نہایت خطر ناک حالات پید اہو گئے.اصل بات یہ تھی کہ بدر سے پہلے کعب یہ سمجھتا تھا کہ مسلمانوں کا یہ جوشِ ایمانی ایک عارضی چیز ہے اور آہستہ آہستہ یہ سب لوگ خود بخود منتشر ہو کر اپنے آبائی مذہب کی طرف لوٹ جائیں گے.لیکن جب بدر کے موقع پر مسلمانوں کو ایک غیر معمولی فتح نصیب ہوئی اور تقریباً تمام بڑے رؤسائے قریش مارے گئے تو اس نے سمجھ لیا کہ اب یہ نیا دین یو نہی مٹتا نظر نہیں آتا.چنانچہ بدر کے بعد اس نے اسلام کے مٹانے میں اپنی پوری کوشش صرف کر دینے کا تہیہ کر لیا.اس کے دلی بغض و حسد کا سب سے پہلا اظہار اس موقع پر ہوا جبکہ بدر کی فتح کی خبر مدینے پہنچی.اس خبر کو سن کر کعب نے علی رؤس الا شہاد یہ اعلان کیا کہ یہ خبر بالکل جھوٹی معلوم ہوتی ہے.کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ محمد ( صلی ا م ) کو قریش کے ایسے بڑے لشکر پر فتح حاصل ہو اور ملے کے اتنے نامور رئیس خاک میں مل جائیں اور اگر یہ خبر سچ ہے تو پھر اس زندگی سے مرنا بہتر ہے.( ابن ہشام ، مقتل کعب بن اشرف.دار الکتب العلمیہ، بیروت.ایڈیشن 2001ء وابن سعد، سریہ قتل کعب بن الاشرف، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت) پھر جب اس خبر کی تصدیق ہو گئی اور کعب کو یہ یقین ہو گیا کہ واقعی بدر کی فتح نے اسلام کو وہ استحکام دے دیا ہے جس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا تو وہ غیض و غضب سے بھر گیا.اس نے فوراً ستے کی راہ لی اور وہاں جا کر اپنی چرب زبانی اور شعر گوئی کے زور سے قریش کے دلوں کی سلگتی ہوئی آگ کو شعلہ بار کر دیا.ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خون کی نہ بجھنے والی پیاس پیدا کر دی اور اُن کے سینے جذبات انتقام و عداوت سے بھر دیئے.( ابو داؤد کتاب الخراج.....باب کیف کان اخراج الیہود من المدینتہ نیز ابن ہشام ، مقتل کعب بن الا شرف و ابن سعد ، سریہ قتل کعب بن الاشرف ) جب کعب کی اشتعال انگیزی سے اُن کے احساسات میں ایک انتہائی
توہین رسالت کی سزا ( 49 ) قتل نہیں ہے درجے کی انگیخت پیدا ہو گئی تو اس نے ان کو خانہ کعبہ کے صحن میں لے جاکر اور کعبے کے پر دے ان کے ہاتھوں میں دے دے کر اُن سے قسمیں لیں کہ جب تک اسلام اور بانی اسلام کو سطح دنیا سے مثانہ دیں گے ، اُس وقت تک چین نہ لیں گے.(فتح الباری، کتاب المغازی باب قتل کعب بن الاشرف ملے میں یہ آتش فشاں پیدا کر کے اس نے دوسرے قبائل عرب کا رخ کیا اور قوم بقوم پھر کر انہیں مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا یا.(زرقانی ، قتل کعب بن الاشرف) اس نے واپس آکر مدینے میں مسلمان خواتین پر تشبیب کہی.یعنی اپنے جوش دلانے والے اشعار میں نہایت گندے اور فحش طریق پر مسلمان خواتین کا ذکر کیا.(ابن ہشام ، مقتل کعب بن الاشرف) حتی کہ خاندانِ بنوت کی مستورات کو بھی اپنے ان بیہودہ اشعار کا نشانہ بنانے سے دریغ نہ کیا.(طبری ، سن 3ھ ، خبر کعب بن الاشرف و الروض الانف، مقتل کعب بن الاشرف) ملک میں ان اشعار کا چرچا کر وایا.اس کی ان شاعرانہ تشبیبی کارروائیوں کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ آنحضرت صلی ایل ، اہل بیت کی تضحیک کرے، لوگوں کو مسلمانوں سے متنفر کرے اور ان کے دلوں میں دشمنی بھرے.یہ سب کچھ کرنے کے بعد بالآخر اس نے آپ کے قتل کی سازش کی.آپ کو کسی دعوت وغیرہ کے بہانے سے اپنے مکان پر بلا کر بعض نوجوان یہودیوں سے آپ کے قتل کا منصوبہ باندھا.مگر خدا کے فضل سے آپ کو وقت پر اس کی نیت کی اطلاع ہو گئی اور اُس کی یہ سازش کامیاب نہیں ہوئی.(تاریخ الخمیس، سریہ محمد بن مسلمہ لقتل كعب بن الاشرف و زرقانی ، قتل کعب بن الاشرف) جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور کعب کے خلاف عہد شکنی، بغاوت، تحریک جنگ ، فتنہ پردازی، فحش گوئی اور سازش قتل کے الزامات پایہ ثبوت کو پہنچ گئے تب آنحضرت صلی لی ہم نے اس کے خلاف فیصلے کا ارادہ فرمایا.آپ اس بین الا قوام معاہدے کی رُو سے جو مدینے میں آپ کی تشریف آوری کے بعد اہالیانِ مدینہ میں ہوا تھا، مدینے کی جمہوری سلطنت کے صدر اور حاکم اعلیٰ تھے.آپ نے کعب بن اشرف کو اس کی مذکورہ بالا محاربانہ اور باغیانہ کارروائیوں کی وجہ سے اپنے فیصلے میں قتل کا سزاوار قرار دیا.
توہین رسالت کی سزا ( 50 ) قتل نہیں ہے 66 لہذا آپ نے بعض صحابہ کو ارشاد فرمایا کہ اُسے قتل کر دیا جائے.( ابو داؤد کتاب الخراج...باب کیف كان اخراج اليهود من المدينة و بخاری کتاب المغازی باب قتل کعب بن اشرف) آپ کا یہ فیصلہ محارب اور باغی کے بارے میں دونوں مذہبوں کی تعلیمات کے عین مطابق اور میثاق مدینہ کے عین موافق تھا.لیکن اُس وقت چونکہ کعب کی فتنہ انگیزیوں کی وجہ سے مدینے کی فضا ایسی ہو رہی تھی کہ اگر اس کے خلاف باضابطہ طور پر اعلان کر کے اسے قتل کیا جاتا تو مدینے میں ایک خطر ناک خانہ جنگی شروع ہو جانے کا پورا پورا احتمال تھا.جس میں نہ معلوم کیسا کشت و خون ہو تا اور آنحضرت صلی ا ونم کی فطرت ایسی تھی کہ آپ خود ہر ممکن اور جائز قربانی کر کے بین الا قوام کشت و خون کو روکنا چاہتے تھے.قرآن کریم میں عوام الناس کو بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تعلیم نازل فرمائی ہے فَقَاتِلُوا آبِيَّةَ الْكُفْرِ (التوبہ: 12 ) کہ جب وہ اپنا معاہدہ توڑیں تو تم ائمۃ التکفیر سے قتال کرو.چنانچہ آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ کعب کو سر عام قتل نہ کیا جاوے بلکہ چند لوگ خاموشی کے ساتھ کوئی مناسب موقع نکال کر اُسے قتل کر دیں تاکہ عامۃ الناس نہ بھڑک اٹھیں.لہذایہ فریضہ آپ نے قبیلہ اوس کے ایک فدائی صحابی محمد بن مسلمین کے سپر د فرمایا.آپ نے انہیں تاکید فرمائی کہ جو طریق بھی اختیار کریں قبیلہ اوس کے رئیس سعد بن معاذ کے مشورے سے کریں.(زرقانی ، قتل کعب بن اشرف) محمد بن مسلمہؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! قتل کے لئے اس سے کوئی بات تو کہنی ہو گی.یعنی کوئی عذر وغیرہ بنانا پڑے گا.جس کی مدد سے کعب کو اس کے گھر سے نکال کر کسی محفوظ جگہ پر قتل کیا جاسکے.آپ نے ان عظیم الشان اثرات کا لحاظ رکھتے ہوئے جو اس موقع پر ایک خاموش سزا کے طریق کو چھوڑنے سے پیدا ہو سکتے تھے فرمایا 'اچھا'.چنانچہ محمد بن مسلمہ نے سعد بن معاذ کے مشورے سے ابو نائلہ اور دو تین اور ساتھیوں کو اپنے ساتھ لیا اور کعب کے مکان پر پہنچے اور کعب کو اس کے اندرونِ خانہ سے بلا کر کہا: ” ہمارے صاحب ( یعنی محمد رسول اللہ صلی یکی ) ہم سے صدقہ مانگتے ہیں اور ہم تنگ حال ہیں.کیا تم مہربانی کر کے ہمیں کچھ
توہین رسالت کی سزا { 51 ) قتل نہیں ہے قرض دے سکتے ہو ؟ ( یہ بات گو اس موقع کے لئے اختیار کی گئی ہو مگر اپنی جگہ درست تھی کیونکہ آنحضرت صلی علیکم واقعہ اپنے صحابہ سے قومی ضروریات کے لئے چندے اور زکوۃ کا مطالبہ فرمایا کرتے تھے اور یہ بھی درست ہے کہ صحابہ عمو مانادار اور غریب تھے.) وو یہ بات سن کر کعب خوشی سے کود پڑا اور کہنے لگا، واللہ ! ابھی کیا ہے، وہ دن دور نہیں جب تم اس شخص سے بیزار ہو کر اُسے چھوڑ دو گے.محمد نے جواب دیا.خیر ہم تو محمد علی ایم کی اتباع اختیار کر چکے ہیں اور اب ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سلسلے کا انجام کیا ہوتا ہے ، مگر تم یہ بتاؤ قرض دو گے یا نہیں ؟ کعب نے کہا ” ہاں! مگر کوئی چیز رہن رکھو.“ محمد نے پوچھا: "کیا چیز ؟ “ اس بدبخت نے جواب دیا: ”اپنی عورتیں رہن رکھ دو" محمد نے غصے کو دبا کر کہا: ” یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تمہارے جیسے آدمی کے پاس ہم عورتیں رہن رکھ دیں.“ اُس نے کہا: ”اچھا تو پھر بیٹے سہی.“ محمد نے جواب دیا : ” یہ بھی نا ممکن ہے.ہم سارے عرب کا طعن اپنے سر پر نہیں لے سکتے.البتہ اگر تم مہربانی کرو تو ہم اپنے ہتھیار رہن رکھ دیتے ہیں.“ کعب راضی ہو گیا اور محمد بن مسلمہ اور ان کے ساتھی رات کو آنے کا وعدہ دے کر واپس چلے آئے.جب رات ہوئی تو یہ پارٹی ہتھیار وغیرہ لے کر ( کیونکہ وہ اجازت دے چکا تھا اور اب وہ بر ملاطور پر ہتھیار اپنے ساتھ لے جاسکتے تھے ) کعب کے مکان پر پہنچے اور اُسے اس کے گھر سے باتیں کرتے کرتے ایک طرف کو لے آئے.تھوڑی دیر کے بعد چلتے چلتے محمد بن مسلمہ یا اُن کے کسی ساتھی نے کسی بہانے سے کعب کے سر پر ہاتھ ڈالا اور نہایت پھرتی کے ساتھ اس کے بالوں کو مضبوطی سے قابو کر کے اپنے ساتھیوں کو آواز دی، مارو.ان کے ساتھیوں نے جو پہلے سے تیار اور ہتھیار بند تھے فوراً تلواریں چلا دیں.کعب قتل ہو کر گرا اور محمد بن مسلمہ اور اُن کے ساتھی وہاں سے نکل کر آنحضرت صلی ال ظلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ کو اس کے قتل کی اطلاع دی.( بخاری، کتاب المغازی باب
توہین رسالت کی سزا ( 52 } قتل نہیں ہے قتل کعب بن اشرف) مدینے میں جب کعب کے قتل کی خبر مشہور ہوئی تو شہر میں ایک سنسنی پھیل گئی اور یہود کا سخت جوش میں آجانا ایک طبعی بات تھی.چنانچہ صبح ان کا ایک وفد آنحضرت صلی للی یکم کی خدمت میں حاضر ہوا اور شکایت کی کہ ہمارا سر دار کعب بن اشرف قتل کر دیا گیا ہے.آپ نے ان کی باتیں سن کر کہا کہ کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ کعب کس کس جرم کا مر تکب ہوا ہے ؟ اور پھر آپ نے اجمالاً اُن کو کعب کی عہد شکنی، تحریک جنگ، فتنہ انگیزی، فحش گوئی اور سازش قتل و غیرہ کی کارروائیاں یاد دلائیں.(ابو داؤد کتاب الخراج....باب کیف کان اخراج الیبو د من المدينة ، نیز ابن سعد، سریہ قتل کعب بن الاشرف) جس پر وہ لوگ سمجھ گئے کہ وہ ان قومی جرائم کی وجہ اوار قتل تھا.لہذاوہ خاموش ہو گئے.(فتح الباری، کتاب المغازی باب قتل کعب بن اشرف و زرقانی ، قتل کعب بن اشرف) اس کے بعد آنحضرت صلی نیلم نے اُن سے فرمایا کہ تمہیں چاہئے کہ کم از کم آئندہ کے لئے ہی امن اور تعاون کے ساتھ رہو اور عداوت اور فتنہ و فساد کا بیج نہ بوؤ.چنانچہ یہود کی رضامندی کے ساتھ آئندہ کے لئے ایک نیا معاہدہ لکھا گیا اور یہود نے مسلمانوں کے ساتھ امن و امان سے رہنے اور فتنہ فساد کے طریقوں سے بچنے کا از سر نو وعدہ کیا.(ابو داؤد کتاب الخراج باب کیف کان اخراج الیهود و نیز ابن سعد ، سرید قتل کعب بن اشرف) بعد از تحریر یہ عہد نامہ حضرت علی کی سپر دگی میں دے دیا گیا.( ابن سعد، سریہ قتل کعب بن اشرف) سیرت ابن ہشام کے مطابق یہ قتل جمادی الآخرہ 3 ہجری میں ہو ا تھا.پس روزِ روشن کی طرح یہ عیاں ہے کہ کعب اپنے کئی قومی جرموں خصوصاً بغاوت اور فتنہ گری وغیرہ کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا.اس کا ایک بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ یہود نے کعب کے قتل کو بعد میں کبھی مسئلہ نہیں بنایا.چنانچہ تاریخ میں کسی جگہ بھی مذکور نہیں کہ رسول اللہ صلی اللی یم کی اس وضاحت کے بعد یہودیوں نے کبھی کعب بن اشرف کے قتل کا ذکر کر کے
توہین رسالت کی سزا ( 53 ) قتل نہیں ہے مسلمانوں پر الزام قائم کیا ہو.کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ وہ اپنے مستحق انجام کو پہنچا ہے.آپ نے یہود کے سامنے مذکورہ بالا وضاحت میں یہ بات بالکل بیان نہیں فرمائی کہ وہ آپ کی توہین بھی کیا کرتا تھا.بلکہ آپ نے اس کا ذکر تک نہیں فرمایا.یہ ایک قطعی شہادت ہے کہ آپ نے اپنی توہین کو موجب قتل قرار نہیں دیا.یاد رکھنا چاہئے کہ کعب بن اشرف آنحضرت صلی الی ایم کے ساتھ باقاعدہ امن و امان کا معاہدہ کر چکا تھا اور مسلمانوں کے خلاف کاروائی کرنا تو در کنار ، اس نے تو اس بات کا عہد کیا تھا کہ وہ ہر بیرونی دشمن کے خلاف مسلمانوں کی امداد کرے گا اور مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھے گا.اُس نے اس معاہدے کی رُو سے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ جس رنگ میں مدینے میں جمہوری سلطنت کا قیام کیا گیا ہے اُس میں آنحضرت صلی للی کم صدر ہوں گے اور ہر قسم کے تنازعات وغیرہ میں آپ کا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہو گا.چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ اسی معاہدے کے ماتحت یہودی لوگ اپنے مقدمات وغیرہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے تھے اور آپ ان میں فیصلے اور احکام جاری فرماتے تھے.چنانچہ آپ نے زنا کے ایک مقدمے میں یہودی مرد اور اور یہودی عورت کو تورات کے حکم کے مطابق رجم کی سزا بھی سنوائی تھی.( بخاری کتاب الحدود باب رجم فی البلاط ) اسی طرح ان کے اور بھی بہت سے تنازعات کا ذکر مستند روایات میں ملتا ہے جن کے فیصلے رسول اللہ صلی علی رام نے صادر فرمائے تھے.پس یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کعب نے تمام عہد و پیمان کو بالائے طاق رکھ کر مسلمانوں سے ، بلکہ حق یہ ہے کہ حکومت وقت سے غداری کی اور مدینہ میں فتنہ و فساد کا بیج بویا، ملک میں جنگ کی آگ مشتعل کرنے کی بھر پور اور جارحانہ کوشش کی، مسلمانوں کے خلاف قبائل عرب کو خطرناک طور پر اُبھارا، مسلمان عورتوں پر اپنے جوش دلانے والے اشعار میں تشبیب کہی اور آنحضرت علی ایم کے قتل کے منصوبے کئے.نیز یہ
***** توہین رسالت کی سزا ( 54 )- قتل نہیں ہے سب کچھ ایسی حالت میں کیا کہ مسلمان پہلے سے ہی چاروں اطراف سے مصائب میں گھرے ہوئے تھے اور عرب کے خونخوار درندے اُن کے خون کی پیاس میں دیوانے ہو رہے تھے.صحابہ کی ایسی حالت تھی کہ نہ دن آرام میں گزرتا تھا اور نہ رات.دشمن کے حملے کے خطرے اُن کی نیند وں کو حرام کر رہے تھے.ان حالات میں کعب کا جرم بلکہ بہت سے جرموں کا مجموعہ ایسا تھا کہ اس کے خلاف کوئی تعزیری قدم اُٹھایا جانا نا گزیر تھا.ان حالات میں قتل سے کم کوئی اور سزانہ تھی جو یہود کی اس فتنہ پردازی کے سلسلے کو روک سکتی تھی.کتب احادیث اور تواریخ و سیئر میں بیان شدہ اس حقیقت افروز تفصیل کے بعد کعب بن اشرف کے قتل کو توہین کی سزا قرار دینا ہر گز درست نہیں.یہ اس شخص کی عہد شکنی، بغاوت، تحریض جنگ، قتل کی سازش اور فساد کی سزا تھی جو رسول اللہ صلی الم نے معاشرے کو فتنہ و فساد اور کشت و خون سے بچانے کے لئے نہایت پر حکمت طریق سے دی تھی.یہ آپ کی ایسی رحیمانہ کوشش تھی کہ جس سے ایک شخص کی جان کے اتلاف سے بیشمار جانیں بچ گئیں اور معاشرہ بدامنی سے محفوظ ہو گیا..
توہین رسالت کی سزا عرب شاعری: ( 55 ) قتل نہیں ہے مندرجہ بالا سطور میں چونکہ کعب کی شاعری کا ذکر ہوا تھا اس لئے ضروری ہے کہ قبل اس کے کہ ہم دیگر روایات کے تفصیلی تجزیئے میں داخل ہوں، اس معاشرے کے اس بنیادی عنصر کا بھی کچھ جائزہ لیتے جائیں جو توہین رسول کے مسئلے میں اہم کردار کا حامل ہے.اس زمانے میں عرب میں شاعری ایک موثر ذریعہ ابلاغ تھا.آج اگر کسی خبر کی اشاعت کی ضرورت ہو تو اخبار ، ریڈیو، ٹیلیویژن اور انٹر نیٹ وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے.قدیم عرب میں بات کو پھیلانے کے لئے شاعری ایک موثر ترین ذریعہ تھا.وہ لوگ اپنے پیغام یا مقصد کو شعروں میں ڈھال کر سنادیتے تھے.ویسے بھی شعر یاد کرنا اور سنانا سب سے آسان اور کار گر طریق تھا.چنانچہ اس سے پیغام آناً فاناًازبانِ زدِ عام ہو جاتا تھا.زمانہ جاہلیت کے شعراء کا کلام آج تک محفوظ ہے.اس کے اندر جو فصاحت و بلاغت ، زور اور جوش و خروش، آزادگی ، کھلا پن اور طبعی بہاؤ وغیرہ ایسی صفات ہیں جو کسی اور وقت یا زبان کی شاعری میں کم دکھائی دیں گی.اس زمانے کے شعراء میں ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ اپنے دلی خیالات کو نہایت بے تکلفی کے ساتھ بالکل عریاں الفاظ میں کہہ جاتے تھے.کوئی تصنع نہیں.کوئی بناوٹ نہیں.طبیعت پر کوئی زور نہیں.اسی لئے ان کا کلام ، ان کے خیالات، جذبات ، عادات اور ان کی شخصیت کی پوری پوری ترجمانی کرتا تھا.عرب قوم اس خوبی کو خود بھی خوب سمجھتی تھی.چنانچہ ان کے شعراء گویا ایک پہلو سے ملک کے راہنما سمجھے جاتے تھے.انہیں یہ طاقت حاصل تھی کہ اپنے زور کلام سے دو قبائل کے درمیان جنگ کروا دیں اور علاقے میں آگ لگا دیں.عرب کے خاص خاص مقامات میں شعراء جمع ہو کر اپنے کلام کے جو بن دکھاتے تھے.عکاظ کا مقام جو نخلہ اور طائف کے در میان مکہ
توہین رسالت کی سزا ( 56 ) قتل نہیں ہے سے مشرق کی طرف ایک شاداب جگہ ہے، ایسے میلوں کے لئے خاص شہرت رکھتا تھا.یہاں ہر سال ماہِ ذیقعدہ میں میلہ لگتا تھا اور دور دراز سے لوگ جمع ہوتے تھے اور علاوہ دوسرے مشاغل کے مختلف عرب قبائل کے درمیان فصاحت و بلاغت اور شاعری کے مقابلے بھی ہوتے تھے.اگر یہ قادر الکلام شعراء حسّاس شاعرانہ جذبوں کے ساتھ دوسروں پر موئثر تھے تو خود ان کے اپنے حسّاس شاعرانہ دل بھی شعروں کے سوز و ساز سے مر نعش و متاثر ہوتے تھے.چنانچہ یہ ایک اہم تاریخی واقعہ ہے کہ بنو تمیم کا وفد 9ھ میں رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس آیا اور فصاحت اور شاعری کے مقابلے میں حضرت قیس بن ثابت کی فصاحت اور حضرت حسان بن ثابت کی بے نظیر شاعری سے مات کھانے کی وجہ سے اسلام میں داخل ہو گیا.اسی طرح کہتے ہیں کہ عرب کا مشہور شاعر عبد اللہ بن الزبعرای آنحضرت صلی اللی علم کی ہجو کرتا تھا.وہ فتح مکہ کے بعد اس ڈر سے نجران بھاگ گیا تھا کہ کہیں اسے قتل نہ کر دیا جائے.حضرت حسان نے اسے یہ ایک ہی شعر لکھ بھیجا: لَا تَعْدَ مَنْ رَجُلًا أَحَلَّكَ بُغْضُهُ نَجْرَانَ فِي عَيْشِ أَحَذَ لَبِيْمٍ کہ تو ایسے شخص سے مت محروم ہو جس کے بغض نے تجھے دور دراز نجران میں جاڈالا ہے.جہاں تو سب سے کٹ کر بُری زندگی گزار رہا ہے.(ابن ہشام ، باب فی میمی، اسلام ابن الزبعری) یہ شعر عبد اللہ بن الزبعری کے حساس شاعر دل کو اس حد تک گھائل کر گیا کہ وہ واپس آیا اور مدینہ پہنچ کر رسول اللہ علی ایم کے حلقہ غلامی میں داخل ہو کر اسلام کا خادم بن گیا.اور پھر وہ آپ کی سیرت کے حسن و جمال کے مشاہدے کے بعد آپ کے قصیدے لکھنے لگا.
توہین رسالت کی سزا { 57 ) قتل نہیں ہے کم و بیش ایسا ہی معاملہ کعب بن زہیر بن ابی سلمی کے ساتھ ہوا.جب اس کے بھائی بخجیر بن زہیر نے جو قبل ازیں مسلمان ہو چکا تھا، اسے اشعار میں مدینہ آنے اور معافی مانگنے کے پیغام بھیجے تو کعب کے دل کو ان اشعار کے جادو نے رام کر دیا تھا اور اسے رسول اللہ صلی الیکم کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی طلب کرنے اور اسلام قبول کرنے پر مائل کر دیا تھا.ابن زبعری اور کعب کے ساتھ شاعر ہبیرہ بن ابی وہب نے بھی ماضی میں جی بھر کے آنحضرت صلی للی کم کی ہجو کی تھی.مستند کتب تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ نے ان کے قتل کا کوئی اعلان نہیں فرمایا تھا.یہ الگ بات ہے کہ یہ خود مکہ سے بھاگ گئے تھے کہ ان کو بھی کہیں قتل نہ کر دیا جائے.(ابن ہشام ذکر کعب بن زہیر بعد الانصراف عن الطائف) ان واقعات سے ظاہر ہے کہ اگر توہین کی سزا قتل ہوتی تو یا تو بقول بعض فقہاء کے ان تینوں کی توبہ قبول نہ کی جاتی یا ان کو اسلام قبول کرنے سے قبل ہی قتل کر دیا جاتا.الغرض عرب میں شاعری ایک طاقتور ذریعہ تھا جو ایک طرح سے دلوں پر حکومت کرتا تھا.وہاں کے عام طریق کے مطابق ہجو یہ شاعری بھی فریقین کا معمول اور مروجہ دستور کا اہم حصہ تھی.خصوصاً جنگوں اور لڑائیوں میں رزمیہ شعروں کے ساتھ ساتھ مخالف فریق کی ہجو 66 بھی انتہاء کی کی جاتی تھی.چنانچہ جب مخالف سمت سے ایسا ہو تا تو رسول اللہ صلی لی کم بھی حضرت حسان کو مخاطب کر کے فرماتے : ” أَهْجُهُمْ وَجِبْرِيلُ مَعَكَ “ ( بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة ) کہ دشمنوں کی ہجو کر.جبریل تیری مدد کرے.یعنی یہ طریق دونوں طرف متوازی رائج تھا.بلکہ مومنوں کی ہجو میں جبریل کی مدد بھی شامل ہوتی تھی.چنانچہ ایک مرتبہ حضرت حسان بن ثابت سردارِ قریش ابوسفیان بن حرب کو مخاطب کر کے کہتے ہیں: هَجَوْتَ مُحَمَّدًا فَأَجَبْتُ عَنْهُ وَعِنْدَ اللَّهِ فِي ذَاكَ الْجَزَاءُ
توہین رسالت کی سزا 58 } قتل نہیں ہے فَإِنَّ أَبِي وَ وَالِدَهُ وَ عِرْضِى لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وَقَاءُ کہ تو نے محمد (صلی ﷺ کی ہجو کی تو میں نے اس کا جواب دیا ہے.اور اس کی جزاء اللہ تعالیٰ کے پاس ہے.پس میر اباپ، دادا اور میری آبرو تم لوگوں سے ناموس محمد (صلی ) کے لئے ایک ڈھال ہے.اگر ہجو یعنی توہین کی سزا قتل ہوتی تو آپ حضرت حسّان بن ثابت گو نہ فرماتے کہ اس کا جواب ہجو سے دو بلکہ کسی بہادر جنگجو صحابی کو بھیجتے کہ ہجو کرنے والے کی ہجو کا جواب تلوار سے دو.آپ کی اس تعلیم سے جو آپ نے اس سلسلے میں حضرت حستان کو دی، واضح ہے کہ زبان کا جواب دینا ضروری ہو تو تلوار سے نہیں بلکہ زبان سے دینا ہے اور تلوار کے جواب کی ضرورت ہو تو تلوار سے دینا ہے.بہر حال ابو سفیان کا ذکر چلا ہے تو یہ تو سب جانتے ہیں کہ یہ وہ شخص تھا جو رسول اللہ صلی ایم کی نہ صرف ہجو و توہین کرنے والا تھا بلکہ مدینے پر بھی مسلسل خوف و ہر اس طاری کرنے والا اور ان پر جنگیں مسلط کر کے کثیر تعداد میں صحابہ کی شہادتوں کا بھی ذمہ دار تھا.وہ ایک مرتبہ مدینے میں آیا بھی تھا.مگر اسے قتل نہیں کیا گیا.اسے قتل نہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ اسلام میں ہجو و تو ہین اور ہتک رسول وغیرہ کبھی بھی قابل تعزیر نہیں ٹھہرائے گئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی کم تو در گزر کرنے والے تھے.مگر ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ غیرت دکھائے اور توہین کرنے والے کو قتل کر کے دم لے.اگر ان کی اس بات کو درست سمجھا جائے تو آپ کے ارد گرد رہنے والے صحابہ نے ابوسفیان کے پہلو سے یہ ذمہ
توہین رسالت کی سزا ( 59 } قتل نہیں ہے داری کیوں ادا نہ کی.حتی کہ آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ نے بھی یہ ذمہ داری ادا نہیں ان کے اس قول میں عجیب تضاد ہے.ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الی یوم رحمۃ للعالمین تھے.لہذا آپ اپنی توہین پر در گزر فرما دیتے تھے، یہ آپ کی رحمت کا تقاضا تھا.دوسری طرف یہ ہر جھوٹی ترین روایت کو بھی کھینچ کھینچ لاتے ہیں اور اس سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی ا یکم توہین و تنقیص کرنے والے کو ضرور قتل کرواتے تھے.یہ دونوں پہلو ایک دوسرے سے متضاد و متصادم ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ شاتم رسول کے قتل کا عقیدہ بے بنیاد ہے اور بعض مقاصد کے حصول کی خاطر اختیار کیا جاتا ہے.آج کا ایک دعویدار اگر یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے اور اس کی غیرت کا تقاضا ہے کہ وہ گستاخِ رسول کو معاف نہ کرے اور اسے قتل کر کے ہی دم لے تو وہ حقیقت میں پھیپھے کٹنی بنتا ہے اور رسول اللہ صلی علیم کے نام کی آڑ لے کر اپنے لئے ظلم و تشدد کے جواز پیدا کرتا ہے.کیا صحابہ اپنے پیارے محبوب آقا کے لئے دنیا کے تمام مسلمانوں سے زیادہ غیرت رکھنے والے اور ناموس رسول کی حفاظت کرنے والے نہ تھے؟ اسی کے لئے انہوں نے کیا کیا قربانیاں نہیں کیں.ان کے خون رسول اللہ صلی علی یم کی محبت میں سچائی کے باعث تلواروں تلے قربانیوں کے جانوروں کی طرح بہائے گئے.وہ اپنی محبت میں صدق و صفار کھتے تھے اور آپ کے ناموس کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں پیش کرتے تھے.مگر آج دوسروں کی جانوں کے در پئے یہ نام نہاد دعویدارانِ محبتِ رسول اپنے نعروں میں وحشت و خونخواری رکھتے ہیں.یہ کسی طرح بھی ناموس رسول کے حوالے سے صحابہ سے ایک ذرہ بھر مشابہت کا نمونہ پیش نہیں کر سکتے.کیونکہ وہ لوگ خود اپنی جانیں قربان کرنے والے تھے اور یہ دوسروں کی جانیں لینے والے ہیں.
توہین رسالت کی سزا ( 60 } قتل نہیں ہے پس یہ حقیقت ہے کہ کسی جنگ میں اگر کسی ہجو گومر دیا عورت کا قتل ہوا تھا تو وہ جنگ میں شمولیت کے باعث جنگی قتل تھا ، وہ کشتہ ہجو و توہین نہ تھا.اس کے علاوہ اگر کسی ایسے مر دیا عورت کا ذکر آتا ہے جس کے ساتھ ہجو یہ اشعار کا بھی ذکر تھا اور اس کے قتل کے لئے رسول اللہ صلی اللہ کا حکم تھا.تو وہ لوگ لازماً ایسے تھے جو یا تو خود کسی سنگین جرم کے مر تکب تھے یا کسی محار بانہ یا باغیانہ کارروائیوں میں شامل تھے یا کسی ایسے گروہ کے رکن تھے.جیسا کہ ابن خطل یا اس کی داشتا ئیں تھیں.ایسے لوگ ہجو کی وجہ سے سزائے قتل کے مستحق نہ ٹھہرے تھے بلکہ کسی دوسرے جرم کی وجہ سے سزاوار قتل قرار پائے تھے.اس کے علاوہ بھی بعض افراد تھے جن کے قتل پر مشتمل روایات پیش کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی الیکم کے بارے میں بد زبانی کی وجہ سے انہیں قتل کیا گیا تھا.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ چونکہ ان روایات سے آپ کے خلاف ایک ظاہری صورت اعتراض کی پیدا ہو جاتی ہے، اس لئے بعض معاندین اسلام اور مستشرقین نے حسب عادت نہایت ناگوار صورت میں ان کا ذکر کیا ہے.ظاہر ہے کہ معاندین اسلام کو جو مواد مہیا ہوا ہے وہ اسی قسم کی روایتوں کو درج کر کے ” اپنے ہی دوستوں“ نے مہیا کیا ہے.ان روایات کی حیثیت کیا ہے اور ان میں مذکور واقعہ قتل کی وجوہات کیا تھیں، ایک حقیقت افروز تجزیہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے.*****
توہین رسالت کی سزا :2 ابورافع { 61 } قتل نہیں ہے ابو رافع کا واقعہ بھی قتل شاتم کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.اس کا اصل نام سلام بن ابی الحقیق تھا.اپنی کنیت کی وجہ سے ابورافع کہلاتا تھا.وہ ایک بہت بڑا تاجر اور دولتمند یہودی رئیس تھا.اس کے قتل کو بھی توہین رسالت کی سزا قرار دیا جاتا ہے.اس کے قتل کی تفصیل اور پس منظر یہ ہے کہ جن یہودی رؤساء کی مفسدانہ انگیخت اور اشتعال انگیزی سے 5 ھ کے آخر میں مسلمانوں کے خلاف جنگ احزاب کا خطر ناک فتنہ برپا ہوا تھا.ان یہودی سرداروں میں سے ایک سردار حیی بن اخطب تو بنو قریظہ کے ساتھ اپنے کیفر کردار کو پہنچ چکا تھا.لیکن ابو رافع خیبر کے علاقے میں اپنی فتنہ خیزی میں مصروف تھا.بلکہ جنگ احزاب میں ذلت بھری ناکامی اور پھر بنو قریظہ کے بد انجام نے اُس کی عداوت کو اور بھی بھڑ کا دیا تھا.چونکہ قبائل غطفان کا مسکن نجد ایک جانب سے خیبر کے قریب تھا اور خیبر کے یہود اور نجد کے غطفانی قبائل آپس میں ہمسائے تھے ، اس لئے اب ابو رافع نے مسجد کے ان جنگجو قبائل کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے کا دستور العمل بنالیا تھا.گویا رسول اللہ صلی الم کی عداوت میں وہ کعب بن اشرف کا پورا پورا مثیل تھا.(ابن ہشام ، مقتل سلام بن ابی الحقیق ) اس کی عداوت کی آگ مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھی اور آنحضرت صلی للی کم کا وجود اُس کی آنکھوں میں مثل خار تھا.چنانچہ اس نے غطفانیوں کو آپ کے خلاف حملہ آور ہونے کے لئے کثیر اموال پیش کئے تھے.(فتح الباری، کتاب المغازی باب قتل ابی رافع عبد اللہ بن ابی الحقیق) تاریخ سے ثابت ہے کہ ماہ شعبان 6 ھ میں قبیلہ بنو سعد کی طرف سے جو خطرہ مسلمانوں کو پیدا ہوا تھا اور اس کے سدِ باب کے لئے حضرت علی کی کمان میں ایک فوجی دستہ مدینے سے روانہ کیا گیا تھا اُس کی پشت پر بھی خیبر کے یہود تھے.ابن سعد جلد 2 صفحہ 56) وہ ابو رافع کی قیادت میں یہ شرارتیں کر رہے تھے.ابو رافع نے اسی پر بس
توہین رسالت کی سزا ( 62 } قتل نہیں ہے نہیں کی.اُس نے بالآخر مجد کے قبائل غطفان اور دوسرے قبیلوں کا پھر بھر پور دورہ کر کے انہیں مسلمانوں کے تباہ کرنے کے لئے جنگ احزاب کی طرح ایک لشکر عظیم کی صورت میں جمع کرنا شروع کر دیا.( ابن سعد جلد 2 صفحہ 66) جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی اور مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے پھر وہی احزاب والے منظر پھرنے لگ گئے تو آنحضرت صلی اللہ علم کی خدمت میں قبیلہ خزرج کے بعض انصاری حاضر ہوئے اور عرض کی کہ اب اس فتنے کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ کسی طرح اس فتنے کے بانی مبانی ابو رافع کا خاتمہ کر دیا جائے.( ابن ہشام ، مقتل سلام بن ابی الحقیق) آپ نے اس بات کو سوچتے ہوئے کہ ملک میں وسیع کشت و خون کی بجائے ایک مفسد اور فتنہ انگیز آدمی کا مارا جانا بہت بہتر ہے ، ان انصار کو اجازت مرحمت فرمائی.آپ نے عبد اللہ بن عتیک انصاری کی سرداری میں چار خزرجی انصار کو ابو رافع کی طرف روانہ فرمایا.مگر چلتے ہوئے تاکید فرمائی کہ کسی عورت یا بچے کو ہر گز قتل نہیں کرنا.( موکا کتاب الجہاد باب النهي عن قتل النساء والولد ان في الغزو) چنانچہ 6 ھ کے ماہ رمضان میں یہ پارٹی روانہ ہوئی (ابن ہشام ، مقتل سلام بن ابی الحقیق ، ابن سعد) اور نہایت ہوشیاری کے ساتھ اپنا کام کر کے واپس آگئی.اس طرح ایک جانب سے اس مصیبت کے بادل مدینے کی فضا سے ٹل گئے.اس واقعے کی تفصیل صحیح بخاری میں ، جو اس معاملے میں صحیح ترین روایت ہے ، مندرجہ ذیل صورت میں بیان ہوئی ہے: براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی یکم نے اپنے صحابہ کی ایک پارٹی ابورافع یہودی کی طرف روانہ فرمائی اور اُن پر عبد اللہ بن عتیک انصاری کو امیر مقرر فرمایا.ابو رافع کا قصہ یہ تھا کہ وہ آنحضرت صلی یک کم کو بہت دُکھ دیا کرتا تھا اور آپ کے خلاف لوگوں کو اُبھارتا تھا اور اُن کی مدد کیا کرتا تھا.عبد اللہ بن عتیک اور اُن کے ساتھی ابو رافع کے قلعے کے قریب پہنچے.جب سورج غروب ہو گیا تو عبد اللہ بن عتیک نے اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑا اور خود قلعے کے
توہین رسالت کی سزا { 63 ) قتل نہیں ہے دروازے کے پاس پہنچے اور اس کے قریب اس طرح چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے جیسے کوئی شخص کسی حاجت کے لئے بیٹھا ہو.جب قلعے کا دروازہ بند کرنے والا شخص دروازے پر آیا تو اس نے عبد الله کی طرف دیکھ کر آواز دی : ” اے شخص! میں قلعے کا دروازہ بند کرنے لگا ہوں تم نے اندر آنا ہو تو جلد آ جاؤ.“عبد اللہ چادر میں لیٹے لپٹائے جلدی سے دروازے کے اندر داخل ہو کر ایک طرف کو چھپ گئے.دروازہ بند کرنے والا شخص دروازہ بند کر کے اور اُس کی کنجی ایک قریب کی کھونٹی سے لٹکا کر چلا گیا.اس کے بعد عبد اللہ بن عتیک سکا اپنا بیان ہے کہ : ” میں اپنی جگہ سے نکلا اور سب سے پہلے میں نے قلعے کے دروازے کا تالا کھول دیا تاکہ ضرورت کے وقت جلدی اور آسانی کے ساتھ باہر نکلا جا سکے.اس وقت ابو رافع ایک چوبارے میں تھا اور اس کے پاس بہت سے لوگ مجلس جمائے بیٹھے تھے.جب یہ لوگ اُٹھ کر چلے گئے اور خاموشی ہو گئی تو میں ابو رافع کے مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلا گیا.میں نے یہ احتیاط کی کہ جو دروازہ میرے راستے میں آتا تھا اُسے میں آگے گزر کر اندر سے بند کر لیتا تھا.جب میں ابو رافع کے کمرے میں پہنچا تو کمرہ بالکل تاریک تھا.اُس وقت وہ چراغ بجھا کر سونے کی تیاری میں تھا.میں نے آواز دے کر ابو رافع کو پکارا.جس کے جواب میں اُس نے کہا.کون ہے ؟ بس میں اس آواز کی سمت کا اندازہ کر کے اُس کی طرف لپکا اور تلوار کا ایک زور دار وار کیا مگر اندھیرا بہت تھا اور میں اُس وقت گھبرایا ہوا تھا.اس لئے تلوار کا وار غلط پڑا اور ابو رافع چیخ مار کر چلا یا جس پر میں کمرے سے باہر نکل گیا.تھوڑی دیر کے بعد میں نے پھر کمرے کے اندر جا کر اپنی آواز کو بدلتے ہوئے پوچھا.ابو رافع یہ شور کیسا ہو ا تھا ؟ اُس نے میری بدلی ہوئی آواز کو نہ پہنچانا اور کہا.تیری ماں تجھے کھوئے مجھ پر ابھی ابھی کسی شخص نے تلوار کا وار کیا ہے.میں یہ آواز سن کر پھر اُس کی طرف لپکا اور تلوار کا وار کیا.اس دفعہ وار کاری پڑا مگر وہ مرا پھر بھی نہیں.چنانچہ میں
توہین رسالت کی سزا { 64 | قتل نہیں ہے نے اُس پر ایک تیسر اوار کر کے اُسے قتل کر دیا.اس کے بعد میں جلدی جلدی دروازے کھولتا ہوا مکان سے باہر نکل آیا، لیکن جب میں سیڑھیوں سے نیچے اتر رہا تھا تو ابھی چند سیڑھیاں باقی تھیں کہ میں سمجھا کہ میں سب قدم اتر آیا ہوں.چنانچہ میں اندھیرے میں گر گیا اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی ( اور ایک روایت میں ہے کہ ٹانگ کا جوڑ اتر گیا ) مگر میں اُسے اپنی پگڑی سے باندھ کر گھسیٹتا ہو اباہر نکل گیا.لیکن میں نے اپنے جی میں کہا کہ جب تک ابو رافع کے مرنے کا اطمینان نہ ہو جائے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا.چنانچہ میں قلعے کے پاس ہی ایک جگہ چھپ کر بیٹھ گیا.جب صبح ہوئی تو قلعے کے اندر سے کسی کی آواز میرے کان میں آئی کہ ابو رافع تاجر حجاز فوت ہو گیا ہے.اس کے بعد میں اُٹھا اور آہستہ آہستہ اپنے ساتھیوں میں آملا.پھر ہم نے مدینے میں آکر آنحضرت صلی اللی علم کو ابو رافع کے قتل کی اطلاع دی.“ ( بخاری کتاب المغازی باب مقتل ابی رافع ) ابو رافع کی خون آشام کارروائیاں تاریخ کا ایک کھلا ہو اور ق ہیں.گزشتہ صفحات میں اس سے ملتے جلتے ایک واقعے میں ایک مفصل بحث مدینہ کے یہودی کعب بن اشرف کے قتل کے بیان میں گزر چکی ہے.لہذا یہاں اس کے اعادے کی ضرورت نہیں.اصولاً اس قدر بیان کافی ہے که ا: ۲ اس وقت مسلمان نہایت کمزوری کی حالت میں چاروں طرف سے مصیبت میں مبتلا تھے اور ہر طرف مخالفت کی آگ شعلہ زن تھی.گویا سارا ملک مسلمانوں کو مٹانے کے لئے متحد ہو رہا تھا.ایسے نازک وقت میں ابو رافع اس آگ پر تیل ڈال رہا تھا جو مسلمانوں کے خلاف مشتعل تھی اور اپنے اثر ورسوخ اور دولت سے عرب کے مختلف قبائل کو اسلام کے خلاف ابھار رہا
توہین رسالت کی سزا ( 65 } قتل نہیں ہے تھا اور اس منصوبے پر تیاری کر رہا تھا کہ غزوہ احزاب کی طرح عرب کے وحشی قبائل پھر متحد ہو کر مدینے پر دھاوا بول دیں.:+ عرب میں اُس وقت کوئی حکومت نہیں تھی کہ جس کے ذریعے دادرسی چاہی جاتی.ہر قبیلہ اپنی جگہ آزاد اور مختار تھا.مدینے میں رسول اللہ صلی علی کی خود عوام کے سربراہ تھے.پس آپ کے فیصلے کے مطابق اپنی حفاظت کے لئے جو تدبیر کی گئی وہاں کے حالات کے مطابق اس سے بہتر اور کوئی صورت نہیں تھی.یہود پہلے سے اسلام کے خلاف بر سر پیکار تھے اور مسلمانوں اور یہود کے درمیان ایک نوع کی جنگ کی حالت قائم تھی.♡: اس وقت ایسے حالات تھے کہ اگر کھلے طور پر یہود کے خلاف فوج کشی کی جاتی تو اس سے بہت بڑا جانی اور مالی نقصان ہوتا اور یہ امکان بھی موجود تھا کہ جنگ کی آگ وسیع ہو کر ملک گیر تباہی کا رنگ پیدا کر دے.چنانچہ عملاً اور واقعاتی شہادتوں کے ساتھ یہ حقیقت ثابت ہو گئی کہ ایک فتنہ پرداز شخص کے قتل سے فریقین کے وسیع نقصان کی حفاظت ہو گئی.*****
توہین رسالت کی سزا :3 عصماء بنت مروان { 66} قتل نہیں ہے قائلین قتل شاتم نے مدینے کی ایک عورت عصماء بنت مروان کا واقعہ بھی اپنے موقف کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے.واقدی اور بعض دوسرے مورخین نے اسے جنگ بدر کے بعد کے واقعات میں تحریر کیا ہے.مگر اس واقعے کا کتب حدیث اور صحیح مستند تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا.نیز اس واقعے پر درایت کی رُو سے بھی غور کیا جائے تو یہ درست ثابت نہیں ہوتا.یہ واقعہ یوں تراشا گیا ہے کہ مدینے میں ایک عورت عصماء نامی اسلام کی سخت دشمن تھی اور آنحضرت صلیال یکم کے خلاف بہت زہر فشاں تھی.وہ اپنے اشتعال انگیز اشعار میں لوگوں کو آپ کے خلاف بہت اکساتی تھی اور آپ کے قتل پر انگیخت کرتی تھی.( ابن ہشام اور واقدی نے بعض وہ اشتعال انگیز اشعار بھی نقل کئے ہیں جو عصماء نے آنحضرت صلی اللہ علم کے خلاف کہے تھے.) (ابن ہشام، سریہ سالم ابن عمیر تقتل ابی عفک و کتاب المغازی للواقدی، ذکر سریہ قتل عصماء بنت مروان و ذکر سریہ قتل ابی عنک) آخر ایک نابینے صحابی عمیر بن عدی نے مشتعل ہو کر رات کے وقت اس کے گھر میں جبکہ وہ سورہی تھی اسے قتل کر دیا اور جب آنحضرت علی ای کم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے اس صحابی کو ملامت نہیں فرمائی بلکہ ایک گونہ اس کے فعل کی تعریف کی.(ابن سعد ، سریہ عمیر بن عدی و ابن ہشام ، غزوة عمير بن عدى الخطمی لقتل عصماء بنت مروان) اس واقعے کو مستشرقین نے نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعہ درست ہی ثابت نہیں ہوتا.پہلی دلیل جو اس کی صحت کے متعلق شبہ پیدا کرتی ہے، یہ ہے کہ کتب احادیث میں اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں ہے.یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتولہ کے نام کے ساتھ اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا.
توہین رسالت کی سزا { 67 ) قتل نہیں ہے (ابو داؤد کتاب الحد و دو باب الحکم فی من سب میں بیشک ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جو عصماء کے قتل کے واقعے سے کچھ ملتا جلتا ہے.خصوصاً وہاں بھی عورت کا قاتل ایک نابینا ہے اور یہاں بھی.لیکن اول تو اس میں قاتل و مقتول کے نام بیان نہیں کئے گئے.دوسرے اس کی بعض تفصیلات بھی اس واقعے کی تفصیلات سے نہیں ملتیں.ابو داؤد کی یہ روایت بھی قتل شاتم کے ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے.اس پر آئندہ صفحات میں الگ بحث کی جارہی ہے.) پھر عصماء کے واقعے کا حدیث ہونا تو دور کی بات ہے، اس کا تو بعض مورخین نے بھی ذکر تک نہیں کیا.حالانکہ اگر حقیقت میں اس قسم کا واقعہ ہوا ہو تا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ اس کے ذکر سے خالی ہو تیں.اس جگہ یہ شبہ نہیں کیا جا سکتا کہ چونکہ اس قسم کے واقعات سے بظاہر آنحضرت صلی ام اور آپ کے صحابہ کے خلاف ایک گونہ اعتراض وارد ہو تا تھا.اس لئے محدثین اور بعض مورخین نے ان کا ذکر ترک کر دیا ہو گا.اس کی اوّل وجہ تو یہ ہے کہ اُن حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جن میں وہ وقوع پذیر ہوئے، یہ واقعات قابل اعتراض نہیں ہیں.دوسرے جو شخص حدیث و تاریخ کا معمولی مطالعہ بھی رکھتا ہے، اس سے یہ بات مخفی نہیں ہو سکتی کہ امام بخاری اور امام مسلم جیسے جامع اور مستند ترین محدث سے لے کر واقدی اور عبد الرزاق جیسے وضاعوں تک مسلمان محدثین و مورخین نے کبھی کسی روایت کے ذکر کو محض اس بناء پر ترک نہیں کیا کہ اس سے اسلام اور بانی اسلام پر بظاہر اعتراض وارد ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مسلمہ طریق تھا کہ جس بات کو بھی ازروئے روایت صحیح پاتے یا سمجھتے تھے اُسے نقل کرنے میں وہ اس کے مضمون کی وجہ سے قطعاً کوئی تامل نہیں کرتے تھے.بلکہ اُن میں سے بعض محدثین اور اکثر مور خین کا تو یہ طریق تھا کہ آنحضرت صلی علی یم اور آپ کے صحابہ کے متعلق جو بات بھی انہیں
توہین رسالت کی سزا 68 } قتل نہیں ہے محققین پر پہنچتی تھی خواہ وہ روایت و درایت دونوں لحاظ سے کمزور اور نا قابل اعتماد ہوتی تو بھی وہ اُسے اپنے مجموعے میں جگہ دے دیتے تھے.وہ اس بات کا فیصلہ مجتہد علماء پر یا بعد میں آنے والے چھوڑ دیتے تھے کہ وہ اصولِ روایت و درایت کے مطابق صحیح و سقیم کا خود فیصلہ کر لیں.ایسا کرنے میں اُن کی نیت یہ ہوتی تھی کہ کوئی بات جو آنحضرت صلی الم اور آپ کے صحابہ کی طرف منسوب ہوتی ہے خواہ وہ درست نظر آئے یا غلط، وہ ذخیرے میں شامل ہونے سے نہ رہ جائے.یہی وجہ ہے کہ تاریخ کی ابتدائی کتابوں میں ہر قسم کے رطب و یابس کا ذخیرہ جمع ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ سب قابل قبول ہیں.بلکہ اب ہر اس محب و عاشق رسول کا کام ہے جو تحقیق کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ قرآن کریم کو حکم بنا کر اس غبار کو جو ایسی غلط اور منفی روایات نے محسن انسانیت ہمارے آقا و مولی رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفی صلی الی یکم کے پاک اور حسین چہرے پر ڈالا ہے ، صاف کرنے کے لئے ان میں سے غلط کو صحیح، منفی کو مثبت اور کمزور کو مضبوط سے جدا کر دے.کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم، انسانیت اور انسانی خون کے محافظ رسول اللہ صلی الیکم کی طرف غلط، منفی اور کمزور باتیں منسوب ہوں.بہر حال اس بات میں ذرہ بھر بھی گنجائش نہیں ہے کہ کسی مسلمان محدث یا مورخ نے کبھی کسی روایت کو محض اس بناء پر رڈ کیا ہو کہ وہ بظاہر آنحضرت صلی اللہ کم یا صحابہ کی شان کے خلاف ہے یا یہ کہ اس کی وجہ سے آپ پر یا اسلام پر کوئی اعتراض وارد ہوتا ہے.چنانچہ کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کے قتل کے واقعات جن کا ذکر گزشتہ صفحات میں تفصیل کے ساتھ بیان ہو چکا ہے، نفس مضمون کے لحاظ سے عصماء اور اس قسم کے دیگر مزعومہ واقعات سے بالکل ملتے جلتے ہیں.تعجب کی بات ہے کہ حدیث اور تاریخ کی تمام کتابوں میں وہ پوری صراحت اور تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں اور کسی مسلمان راوی، محدث یا مورخ نے ان کو ترک نہیں کیا.
توہین رسالت کی سزا 69 | قتل نہیں ہے اندریں حالات عصماء کے قتل کا ذکر کسی حدیث میں نہ پایا جانا، بلکہ ابتدائی مورخین میں سے بعض مستند مورخین کا بھی اس کے متعلق خاموش ہونا اس بات کو ایک حد تک یقینی بنادیتا ہے کہ یہ قصہ بناوٹی ہے اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پا کر تاریخ کا حصہ بن گیا ہے.پھر اگر اس کہانی کی تفصیلات کا جائزہ لیا جائے تو اس کے اندرونی تضادات و اختلافات سے اس کا وضعی ہونا اور بھی یقینی ہو جاتا ہے.کیونکہ تاریخ ابن سعد وغیرہ کی روایت میں عصماء کے قاتل کا نام عمیر بن عدی بیان کیا گیا ہے.سیرت کی کتاب الشفاء میں عمیر بن عدی کو عصماء کی قوم ( بنی خطمہ ) کا ایک شخص قرار دیا ہے.(شرح الشفاء جلد 2 صفحہ 406 باب الاول فی بیان ماحوفی حقہ علیہ السلام سب او نقص) لیکن اس کے مقابلہ میں ابن درید کی روایت میں قاتل کا نام عمیر بن عدی نہیں بلکہ عمشیر ہے.(زرقانی، قتل عمیر العصماء) سہیلی ان دونوں ناموں کو غلط قرار دے کر یہ کہتا ہے کہ دراصل عصماء کو اس کے خاوند نے قتل کیا تھا.(الروض الانف ، غزوات علی ابن طالب الی الیمن) جس کا نام روایتوں میں یزید بن یزید بیان ہوا ہے.( ابن ہشام ، غزوۃ عمیر بن عدی الخطمی لقتل عصماء بنت مروان ) اور پھر بعض روایتوں میں یہ آتا ہے کہ مذکورہ بالا لوگوں میں سے کوئی بھی عصماء کا قاتل نہیں تھا بلکہ اس کا قاتل ایک نامعلوم الاسم شخص تھا جو اسی کی قوم میں سے تھا.(زرقانی، زرقانی، قتل عمیر العصماء) مقتولہ کا نام ابن سعد وغیرہ نے عصماء بنت مروان بیان کیا ہے، لیکن علامہ عبد البر کا یہ قول ہے کہ وہ عصماء بنت مروان نہیں تھی بلکہ دراصل عمیر نے اپنی بہن بنت عدی کو قتل کیا تھا.( الاستیعاب، عمیر بن عدي الخطمی ) قتل کا وقت ابن سعد نے رات کا درمیانی حصہ لیکن زرقانی کی روایت سے دن یا زیادہ سے زیادہ رات کا ابتدائی حصہ ثابت ہوتا ہے لکھا ہے کیونکہ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مقتولہ اُس وقت کھجوریں بیچ رہی تھی.(زرقانی ، قتل عمیر العصماء) الغرض قاتل اور مقتولہ کے اسماء، جملہ تفصیلات، کوائف، واقعات اور اوقات میں اس
توہین رسالت کی سزا { 70 ) قتل نہیں ہے قدر واضح اختلافات اس قصہ کے وضعی اور جعلی ہونے پر کافی سے زیادہ مواد اور ثبوت مہیا کرتے ہیں.چنانچہ ایسے اختلافات و تضادات سے پر واقعات کو کسی عقیدے یا قانون کی بنیاد کے طور پر پیش کرنا نہ صرف انصاف کا خون کرنا ہے بلکہ نعوذ باللہ ، رسول اللہ صلی علیم کے مقدس، رحیم و کریم ، حسین اور پاک چہرہ کو داغدار کرنے کی جسارت ہے.خلاصہ کلام یہ کہ اول تو عصماء کے قتل کا واقعہ روایتاً یا درایتاً درست ہی ثابت نہیں ہو تا.لیکن بالفرض اگر اسے درست سمجھا بھی جائے تو یہ قتل کسی مسلمان کا انفرادی فعل تھا جو کسی انگیخت کے باعث اُس سے ذاتی طور پر سر زد ہوا تھا.شتم و توہین رسول سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا.نیز یہ کہ جیسا کہ ابن سعد کے بیان سے یقینی طور پر ثابت ہے، آنحضرت صلی الی یم نے اُن کے متعلق حکم نہیں دیا تھا.( ابن سعد ، سریہ عمیر بن عدی ) *****
توہین رسالت کی سزا :4 ابو عفك ( 71 ) قتل نہیں ہے مدعیان قتل شاتم نے ابو عنگ کے قتل کا واقعہ بھی اپنی دلیل کے طور پر درج کیا ہیں.عصماء کے واقعے کی طرح اسے بھی واقدی اور بعض دوسرے مورخین نے جنگ بدر کے بعد کے واقعات میں تحریر کیا ہے.اس واقعہ کا بھی کتب حدیث اور صحیح تاریخی روایات میں نشان نہیں ملتا.اور درایت کے لحاظ سے بھی یہ واقعہ درست ثابت نہیں ہوتا.اس فرضی واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک بوڑھا یہودی ابو عفک نامی مدینہ میں رہتا تھا.یہ بھی آنحضرت صلی للہ الم کے خلاف اشتعال انگیز شعر کہتا تھا.کفار کو آپ کے خلاف جنگ کرنے اور آپ کو قتل کر دینے کے لئے ابھارتا تھا.آخر اُسے بھی ایک دن ایک صحابی سالم بن عمیر نے رات کے وقت اُس کے صحن میں قتل کر دیا.(ابن سعد ، سریہ عمیر بن عدی و ابن ہشام ، غزوة عمير بن عدى الخطمي تقتل عصماء بنت مردان) اور ابن ہشام اور واقدی نے اس کے بھی وہ اشتعال انگیز اشعار تحریر کئے ہیں جو اس نے آنحضرت مصلی یکم کے خلاف کہے تھے.(ابن ہشام ، سریہ سالم ابن عمير لقتل ابي عفک و کتاب المغازی للواقدی، ذکر سر یہ قتل عصماء بنت مروان وذکر سریعہ قتل ابی عنک) اس واقعے کو بھی مستشرقین نے حسب معمول نہایت ناگوار صورت میں اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ جرح اور تنقید کے سامنے یہ واقعہ بھی عصماء کے واقعے کی طرح درست ثابت نہیں ہو تا.پہلی بات جو اس کے وضعی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے ، یہ ہے کہ کتب احادیث میں اس واقعے کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا.یعنی کسی حدیث میں قاتل یا مقتول کا نام لے کر اس قسم کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا گیا.لہذا ابو عفک کے واقعے کو کسی طور پر بھی حدیث قرار نہیں دیا جاسکتا.اس واقعہ کا تو یہ حال ہے کہ بعض مورخین نے اس کا ذکر تک نہیں کیا.حالانکہ اگر یہ واقعہ
توہین رسالت کی سزا ( 72 )- قتل نہیں ہے در حقیقت رونما ہوا ہو تاتو کوئی وجہ نہیں تھی کہ کتب حدیث اور بعض کتب تاریخ میں اس کا ذکر موجود نہ ہوتا.پس اس کے قتل کا ذکر حدیث کی کسی کتاب میں نہ پایا جانا، بلکہ ابتدائی مورخین میں سے بعض مستند مورخین کا بھی اس کے درج کرنے سے پہلو تہی کرنا اس بات کو گونہ یقینی بنا دیتا ہے کہ یہ قصہ بناوٹی ہے اور کسی طرح بعض روایتوں میں راہ پا کر تاریخ کا حصہ بن گیا ہے.الغرض اس قصے کی جملہ تفصیلات، کوائف، واقعات اور زمانے میں اس قدر واضح اختلافات اس قصہ کو وضعی اور جعلی ثابت کرتے ہیں.جیسا کہ ابن سعد اور واقدی وغیرہ نے ابو عفک کے قاتل کا نام سالم بن عمیر لکھا ہے لیکن بعض روایتوں میں اس کا نام سالم بن عمرو بیان ہوا ہے.(زرقانی، قتل ابو عفک الیہودی) اور ابن عقبہ نے سالم بن عبد اللہ بیان کیا ہے.( الاصابہ و الاستیعاب ذکر سالم بن عمیر ) اسی طرح ابو عنک مقتول کے متعلق ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ یہودی تھا ، لیکن واقدی اسے یہودی نہیں لکھتا.(کتاب مغازی للواقدی، سریہ قتل ابی عنک) پھر ابن سعد اور واقدی دونوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سالم نے خود جوش میں آکر ابو عفک کو قتل کر دیا تھا، لیکن ایک روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسے آنحضرت صلی الم کی ہدایت سے قتل کیا گیا تھا.(ابن ہشام ، سریه سالم بن عمیر لقتل ابی عنک) زمانہ قتل کے متعلق بھی ابن سعد اور واقدی اسے عصماء کے قتل کے بعد رکھتے ہیں لیکن ابن اسحاق اور ابو الربیع اسے عصماء کے قتل سے پہلے بیان کرتے ہیں.( ابن ہشام ، سری سالم بن عمیر لقتل ابی عنک وزرقانی، قتل عمير العصماء) الغرض یہ جملہ اختلافات رہنمائی کرتے ہیں کہ یہ قصہ جعلی اور وضعی ہے یا اگر اس قتل کی کوئی حقیقت یا وجہ ہے تو وہ ایسی مستور ہے کہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ کیا ہے اور کس نوعیت کی ہے.
توہین رسالت کی سزا { 73 ) قتل نہیں ہے ایک اور دلیل عصماء اور ابو عفک کے قتل کے ان واقعات کے غلط ہونے کی یہ ہے کہ ان دونوں قصوں کا زمانہ وہ بیان کیا گیا ہے جس کے متعلق جملہ موئز خین کا اتفاق ہے کہ اس وقت تک ابھی مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا تنازعہ رونما نہیں ہوا تھا.چنانچہ تاریخ میں غزوہ بنی قینقاع کے متعلق یہ بات مسلّم طور پر بیان ہوئی ہے کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان یہ پہلی لڑائی (اواخر 2ھ) تھی جو وقوع میں آئی اور یہ کہ بنو قینقاع وہ پہلے یہودی تھے جنہوں نے اسلام کی عداوت میں عملی کاروائی کی تھی.(ابن سعد ، غزوہ بنی قینقاع و ابن ہشام، امر بنی قینقاع و طبری سن 2ھ غزوہ بنی قینقاع ) پس یہ کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے کہ اس غزوے سے پہلے یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان اس قسم کا قتل و خون ہو چکا تھا.پھر اگر غزوہ بنو قینقاع سے قبل ایسے واقعات ہو چکے تھے تو یہ ناممکن تھا کہ اس غزوے کی وجوہات وغیرہ کے بیان میں ان واقعات کا ذکر نہ آتا.کم از کم اتنا تو ضروری تھا کہ یہودی لوگ جو ان واقعات کی بناء پر مسلمانوں کے خلاف ایک ظاہری رنگ اعتراض کا پیدا کر سکتے تھے کہ انہوں نے ان کے ساتھ عملی چھیڑ چھاڑ کرنے میں پہل کی ہے.چنانچہ وہ ان واقعات کے متعلق واویلا کرتے.اگر کسی تاریخ میں حتٰی کہ خود ان مورخین کی کتب میں بھی جنہوں نے یہ قصے روایت کئے ہیں قطعاً یہ ذکر نہیں ہے کہ مدینے کے یہود نے کبھی کوئی ایسا اعتراض کیا ہو.اگر کسی شخص کو یہ خیال پیدا ہو کہ شاید انہوں نے اعتراض اُٹھایا ہو مگر مسلمان مورخین نے اس کا ذکر نہ کیا ہو تو یہ ایک غلط اور بے بنیاد خیال ہو گا.کیونکہ جیسا کہ گزشتہ واقعے کے ذکر میں بیان کیا جا چکا ہے کبھی کسی مسلمان محدث یا مورخ نے مخالفین کے کسی اعتراض پر پردہ نہیں ڈالا، چنانچہ مثلاً جب سریہ نخلہ والے قصے میں مشرکین مکہ نے مسلمانوں کے خلاف حرمت والے مہینوں کی بے حرمتی کا الزام لگایا تو مسلمان مورخین نے کمال دیانتداری سے اُن کے اس اعتراض کو اپنی کتابوں میں درج کر دیا.پس اگر اس موقع پر بھی یہود کی طرف سے کوئی اعتراض ہوا ہوتا ، تو تاریخ اس کے ذکر سے خالی نہ ہوتی.الغرض
***** توہین رسالت کی سزا ( 74 )- قتل نہیں ہے جس جہت سے بھی دیکھا جائے یہ قصے صحیح ثابت نہیں ہوتے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یا تو کسی مخفی دشمن اسلام یا ”اپنے ہی دوستوں نے کسی مسلمان کی طرف منسوب کر کے یہ قصے بیان کر دیئے تھے اور پھر وہ مسلمانوں کی روایتوں میں دخل پاگئے.یا پھر کسی کمزور مسلمان نے اپنے قبیلے کی طرف یہ جھوٹا فخر منسوب کرنے کے لئے کہ اس سے تعلق رکھنے والے آدمیوں نے بعض موذی شریروں کو قتل کیا تھا، یہ روایتیں تاریخ میں داخل کر دیں.واللہ اعلم الغرض اوّل تو ابو عفک یہودی کے قتل کا واقعہ عصماء کے واقعہ کی طرح روایتاً یا درایتاً درست ثابت ہی نہیں ہوتا اور اگر بالفرض اسے صحیح تسلیم کر بھی لیا جاوے تو یہ قتل بہر حال کسی مسلمان کا انفرادی فعل تھا جو کسی انگیخت کے باعث اُس سے سرزد ہوا.ابن سعد کے بیان سے یقینی طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی علیم نے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا تھا.(بن سعد ، سربیہ عمیر بن عدی)
توہین رسالت کی سزا :5 عقبہ بن ابی معیط ( 75 )- قتل نہیں ہے قریش مکہ میں سے آنحضرت صلی اللہ ظلم کے دشمن بغیض عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غزوہ بدر کے قیدیوں میں تھا.چونکہ اس نے آپ کی توہین کی تھی، لہذا آپ نے اسے قتل کروادیا تھا.چنانچہ سپین کے قاضی عیاض نے اپنی کتاب ” الشفا میں لکھا ہے کہ عقبہ بن ابی معیط کے بارہ میں بزار نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ عقبہ بلند آواز سے پکارا کہ اے قریش مجھے کیوں قتل کیا جارہا ہے جبکہ میں تمہارے پاس محبوس ہوں.آنحضرت صلی یم نے فرمایا کہ تیرے کفر کی وجہ سے اور رسول اللہ پر افتراء کی وجہ سے.اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ مستند روایت نہیں ہے.چنانچہ اس روایت پر ملا علی القاری نے لکھا ہے کہ بزار نے یہ روایت ابن عباس کی طرف ضعیف سند کے ساتھ منسوب کی ہے.( شرح الشفاء القسم الرابع فی بیان ماھو فی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحه 405) علاوہ ازیں معمولی سی تحقیق سے اس روایت کی حقیقت کھل جاتی ہے کہ یہ روایت وضعی ہے.اس واقعے کی حقیقی اور اصل تفصیل یہ ہے کہ غزوہ بدر میں ستر کفار کو قیدی بنایا گیا تھا.یہ سب وہ لوگ تھے جو آنحضرت صلی للی کم کی تکفیر ، تکذیب، آپ پر افتراء، آپ پر ظلم و تشدد اور آپ کی شدید اور کھلی کھلی ہتک و توہین کے مرتکب تھے.جنگ بدر میں بھی وہ آپ کے قتل کے لئے ہی مکہ سے آئے تھے.اس لحاظ سے ان سب قیدیوں پر ایک ہی فرد جرم یکساں عائد ہوتی
توہین رسالت کی سزا { 76 } قتل نہیں ہے تھی.لیکن سوال یہ ہے کہ ان سب کو کیوں قتل نہ کیا گیا؟ ان میں سے صرف ایک کو کیوں قتل کیا گیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بنیادی طور پر یہ قصہ ہی جھوٹا اور وضعی ہے.غزوہ بدر میں عقبہ بن ابی معیط قید ہی نہ ہو ا تھا.لہذا ممکن ہی نہ تھا کہ وہ قیدیوں میں شامل ہو تا.اس کی وجہ یہ تھی کہ مستند ترین اور صحیح ترین مرفوع متصل روایات سے ثابت شدہ حقیقت یہ ہے کہ عقبہ بن ابی معیط بدر کی لڑائی کے دوران مبینہ طور پر قتل ہوا اور وہ ان مقتولوں میں سے تھا جنہیں بدر میں ہی ایک ہی گڑھے میں اکٹھا دبا دیا گیا تھا.صحیح اور مکمل سند کے ساتھ صرف بخاری ہی میں یہ روایت تین مرتبہ بیان ہوئی ہے.( بخاری کتاب الوضوء باب اذا القى على ظهر الصلى قذر وكتاب الصلوۃ باب المرأة تطرح عن المصلى شيئاً من الاذى وكتاب الجزية باب طرح جيف المشركين....و ابن سعد ) پس یہ قصہ نہ روایت کے اعتبار سے درست ثابت ہو تا ہے ، نہ درایت کے لحاظ سے ، اور نہ ہی مستند تاریخی حقائق کے آئینے میں.پس اس کی جنگی حالت کو شتم رسول کی سزا کے طور پر پیش کر نار سول اللہ ا کی پاک سیرت سے بدیانتی ہے.*****
توہین رسالت کی سزا :6 زینب بنت الحارث ( 77 ) قتل نہیں ہے ایک واقعہ اُس یہودیہ کے قتل کا پیش کیا جاتا ہے جس نے خیبر میں آنحضرت صلی ال ایام کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ عملاً زہر دے دیا تھا.کہا جاتا ہے کہ وہ گستاخ رسول منتھی اس لئے اسے قتل کر دیا گیا.تفصیل اس واقعے کی یہ ہے کہ فتح خیبر کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں کو خیبر میں رہنے کی اجازت کے ساتھ عام آزادی مل چکی تھی اور ان کے روز مرہ کے کام کاج اب معمول پر آنے لگے تھے.آنحضرت صلی اللہ کم بھی ابھی وہیں قیام فرما تھے.اس دوران یہودیوں نے آپ کے قتل کی انتہائی مجرمانہ سازش تیار کی.اس کے لئے انہوں نے با قاعدہ مشورہ کر کے زینب بنت الحارث کو تیار کیا.یہ خیبر کے مشہور جنگجو پہلوان مرحب کی بہن تھی اور ایک یہودی سردار سلام بن میشگم کی بیوی تھی.اس نے حسب سازش انتہائی اخلاص ظاہر کیا اور آپ کے لئے اور آپ کے اب کے لئے بکری کا بھنا ہوا گوشت بھجوانے کی درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا.اس نے یہ پتہ کر لیا تھا کہ آپ کو بکری کی دستی (یعنی انگلی ٹانگ کے اوپر والے حصے) کا گوشت مرغوب ہے.چنانچہ اس نے وہ گوشت بھونا اور اس میں زہر ملایا اور خصوصاً دستی کو خوب زہر آگئیں کیا.(زرقانی و ابن ہشام بقیہ امر خیبر امر الشاق المسمومة) صحابہ نماز مغرب کے بعد جب آنحضرت صلی علی تم اپنے خیمے کو لوٹے تو اس کو دروازے پر انتظار کرتے پایا.آپ نے وجہ پوچھی تو اس نے عرض کی کہ وہ آپ کے لئے اور صحابہ کے لئے بکری کا بھنا ہوا گوشت لائی ہے.آپ نے حسب وعدہ اس کی اس پیشکش کو قبول فرمالیا.(ابن ہشام
توہین رسالت کی سزا { 78 } قتل نہیں ہے بقية امر خيبر امر الشاة المسمومة وواقدی) جب سب اکٹھے ہو کر کھانے کے لئے بیٹھے تو آپ نے اس گوشت سے ایک لقمہ لیا.اسی لمحے دیگر صحابہ نے بھی اس گوشت کی طرف ہاتھ بڑھائے اور بعض نے لقمے منہ میں بھی ڈال لئے.حضرت بشر بن البر ا جو آپ کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بھی لقمہ لیا اور کھا لیا.آنحضرت صلی اللہ یکم نے لقمہ ابھی تھوڑا ہی چبایا تھا کہ آپ کو زہر کا علم ہو گیا.آپ نے فوراً سب صحابہ کو اس گوشت سے ہاتھ کھینچ لینے کا ارشاد کرتے ہوئے فرمایا : ”دستی کی بڑی مجھے بتارہی ہے کہ اسے زہر میں بجھایا گیا ہے.لیکن قبل اس کے کہ آپ اسے کھانے سے منع فرماتے ، حضرت بشر لقمہ نگل چکے تھے.(زرقانی و ابن ہشام بقیہ امر خیبر امر الشاة المسمومة ) یہ بالکل واضح تھا کہ آنحضرت صلی الم کو قتل کرنے کی یہ ایک کھلی کھلی کوشش تھی.چنانچہ آپ نے اس عورت کو بلوایا جس نے اس سازش کو عملی جامہ پہنایا تھا اور اس سے اس جرم کی وجہ دریافت فرمائی.اس نے یہ عذر پیش کیا کہ آپ نے ان کی قوم کا جو حال کیا ہے، وہ آپ سے مخفی نہیں.اس لئے انہوں نے سوچا کہ اگر آپ نبی ہیں تو آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو وہ آپ سے نجات پا جائیں گے.آنحضرت صلی ا ہم نے اسے در گزر فرمایا اور اس سے کوئی انتقام نہ لیا.(ابو داؤد کتاب الديات باب فیمن سلفی جلا سا.....) ابو داؤد اور دیگر کتب میں مذکور روایات میں یہ کثرت سے مذکور ہے کہ آنحضرت صلی ایم نے اس یہودیہ سے در گزر فرمایا اور اس سے کوئی انتقام نہ لیا.آپ کی مستقل سنت سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ نے ہمیشہ ظلم کا انتظام عفو سے لیا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ کسی نے آپ کو تکلیف بھی پہنچائی تو بھی آپ نے کبھی انتقام نہیں لیا.ہاں جب کسی قابل احترام مقام یا چیز کی ہتک اور بے حرمتی کی جاتی جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہو تو آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام
توہین رسالت کی سزا ( 79 )- قتل نہیں ہے لیتے.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعدته امن الانام و اختیاره ) اسی طرح آپ نے تعزیری کارروائی صرف اس شخص پر کی جو کوئی عادی مجرم تھا اور اس کی طرز ایسی تھی کہ وہ آئندہ بھی ایسے جرم کا اعادہ کرنے والا تھا اور اس کا وجو د لازماً بہت سے فتنوں کا موجب بن سکتا تھا.ان حقائق کے پیش نظر یہی بات صحیح ہے کہ آپ نے اس کو کوئی سزا نہیں دی.لیکن اس کے ساتھ ہی کئی ایک روایات میں یہ ذکر بھی موجود ہے کہ اسے قتل کر دیا گیا تھا.مثلاً ابو داؤد میں ہی ایسی دونوں روایتیں ایک ساتھ مذکور ہیں اس کے لئے دیکھیں ابو داؤد کتاب الديات باب ماجاء فى من سقى رجلاً دوسری روایت میں ہے کہ جب آنحضرت صلی الیم نے اس سے پوچھا کہ اس نے ایسا کیوں کیا تو وہ کہنے لگی کہ یہودی آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے.آپ نے فرمایا : ” اللہ تعالی تمہیں ہر گزایسا نہیں کرنے دے گا.“ اس نے کہا کہ کیا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکتے ؟ آپ نے فرمایا : " نہیں.“ (مسلم کتاب السلام باب التم) حضرت بشر بن البراء اس زہر کے اثر سے جانبر نہ ہو سکے.اور جام شہادت نوش کر گئے.اگر بظاہر متضاد ان دونوں روایات کو بیک وقت درست تسلیم کر لیا جائے تو ان میں پیداشدہ تضاد کا حل یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی علیم نے اسے معاف کیا تو اس وقت حضرت بشر زندہ تھے.اس لئے اگر اسے اس وقت سزادی جاتی تو یہ سزا آپ کو زہر دینے کی وجہ سے آپ کی طرف سے انتقام سمجھی جاتی.لیکن آپ نے اپنی رحیمانہ سنت کے تحت اس سے عفو و در گزر کا سلوک کیا اور اسے کچھ نہ کہا اور آئندہ بھی اسے کچھ نہ کہا جاتا لیکن اس کے بعد جب حضرت بشر کی وفات ہو گئی تو پھر اسے قصاص کے طور پر قتل کر دیا گیا.واللہ اعلم
***** توہین رسالت کی سزا نہیں + 80 } قتل نہیں ہے یہ تو اس واقعہ کی حقیقت اور تفصیل تھی مگر سوال یہ ہے کہ اس پورے واقعہ میں ہتک رسول کا کون سا موقع اور کون سا محل ہے ؟ اس واقعہ کا سب و شتم رسول سے دُور کا بھی کوئی تعلق ہے.ہر قاری خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ یہ توہین رسول کا معاملہ تھا یا ایک کھلی کھلی محاربت تھی اور اس میں رسول اللہ صلی اللی علم کو قتل کرنے کا کھلا کھلا اور ثابت شدہ اقدام تھا.پس اس یہودیہ کو شاتم رسول قرار دینا اور اس کا اگر بطور قصاص قتل ہوا بھی تھا تو اسے گالی کا انتقام قرار دینا آپ پر افتراء ہے.آپ کی طرف ایک ایسا فعل منسوب کرنے کی جسارت ہے جو آپ نے نہیں کیا.
توہین رسالت کی سزا :7 { 81 } گالیاں دینے والی ایک عورت قتل نہیں ہے روایت ہے کہ ایک عورت حضور می یی کم کو گالیاں دیتی تھی.آپ نے فرمایا: من يَكْفِينِي عَدُوّی کہ میرے لئے میرے دشمن کو کون کفایت کرے گا؟ حضرت خالد نے عرض کی یارسول اللہ : میں.اس پر آپ نے اجازت دی اور انہوں نے اسے قتل کر دیا.“ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: وَرُوِيَ أَيْضًا أَنَّ امْرَأَةٌ كَانَتْ تَسُبُّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَقَالَ مَنْ يَكْفِيْنِي عَدُوّى فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدُ فَقَتَلَهَا.“ ( شرح الثفا: القسم الرابع في بيان ماھو فی حقہ علیہ السلام سبّ او نقص صفحه 406) ترجمہ : اور یہ روایت کی گئی ہے کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ ہم کو گالیاں دیتی تھی.آپ نے فرمایا! کون ہے جو میرے لئے میرے دشمن کے مقابل پر کافی ہو گا.اس کے لئے خالد بن ولیڈ روانہ ہوئے اور اسے قتل کر دیا.کوئی ایک لمحے کے لئے ذرا سوچے تو سہی کہ وہ لوگ جو بدر ، احد ، احزاب، خیبر ، حسنین اور موتہ جیسے غزوات میں طاقت و تعداد میں اپنے سے کئی گنا زیادہ افواج سے ٹکرانے والے تھے اور سلطنتوں کو فتح کرنے والے تھے ، ایک عورت کی گالیوں سے پریشان ہو رہے تھے !! اس جملہ معترضہ کے بعد عرض ہے کہ جیسا کہ واضح ہے یہ روایت صحاح ستہ میں سے کسی مجموعے میں نہیں ہے ، احادیث کے دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے مجموعوں میں بھی نہیں
توہین رسالت کی سزا ( 82 )- قتل نہیں ہے ہے.چنانچہ اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے اسی محولہ بالا کتاب کے حاشیے میں ملا علی القاری نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ روایت بھی مصنف عبد الرزاق کی ہے.امام همام عبد الرزاق کے بارے میں آگے ذکر آئے گا کہ وہ روایات وضع کرنے میں ید طولیٰ رکھتا تھا اور اسے ائمہ فن حدیث واقدی سے بھی پرلے درجے کا کذاب ثابت کر چکے ہیں.لہذا یہ روایت کلی وضعی اور قطعی طور پر جھوٹی ہے.اس روایت کی ابتداء ہی میں لفظ روی بتا رہا ہے کہ اس کا راوی مجہول و نامعلوم ہے.لہذا واضح طور پر یہ غیر مستند ثابت ہوتی ہے.یعنی اس روایت کا نہ کوئی راوی ہے اور نہ ہی اس عورت کا نام اور اتا پتا معلوم ہے جو قتل کی گئی.پس اپنے جملہ کوائف کے نامعلوم اور مفقود ہونے کے باعث یہ روایت وضعی اور جعلی ہونے کے سوا اور کچھ نہیں.لہذا بیک جنبش قلم رڈ ہو جاتی ہے.ایسی روایات پر عقائد کی بنیادرکھنا پانی کی لہروں پر تحریر جمانے کی کوشش سے کم نہیں ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 83 } قتل نہیں ہے ایک شاتم یہودیہ آنحضرت صلی للہ ﷺ کو گالیاں دینے والی ایک یہودیہ کا قتل بھی عقیدہ قتل شاتم کے اثبات میں پیش کیا جاتا ہے.تحقیق ثابت کرتی ہے کہ روایت قطعی طور پر جھوٹی ہے.چنانچہ ملا علی قاریؒ نے ایسی ہی بے بنیاد ایک اور روایت بھی درج کی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اس قسم کی بے بنیاد اور من گھڑت روایتیں جابجا نظر آتی ہیں.وہ روایت یہ ہے کہ وَ رَوَى ابْنُ أَن شَيْبَةَ عَنِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ رَجُلاً مِّنَ الْمُسْلِمِينَ كَانَ يَأْوِى إِلَى امْرَأَةٍ يَهُودِيَةٍ تُطْعِمُهُ وَ تُحْسِنُ إِلَيْهِ وَلَا تَزَالُ تُؤْذِيهِ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَتَلَهَا فِي لَيْلَةٍ مِنَ اللَّيَالِيَ خَنْقَا فَرَفَعَ ذَلِكَ لَهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ فَأَخْبَرَهُ الرَّجُلُ بِأَنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِيهِ فِيْهِ وَ تَسُبُّهُ وَ تَقَعُ فِيْهِ فَقَتَلَهَا لِذلِكَ اهْدَرَ صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّم دَمَهَا.“ ( شرح الشفا: القسم الرابع فی بیان ما ھو فی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحہ 406) کہ ایک مسلمان شخص ایک یہودیہ کے ہاں پناہ گزیں تھا جو اسے روٹی پانی دیتی تھی اور اس پر مہربان تھی مگر ہمیشہ رسول اللہ صلی ا یکم کے بارے میں اسے اذیت دیتی تھی.چنانچہ ایک رات اس شخص نے اسے گلا گھونٹ کر مار دیا.پھر اس نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ عورت آپ کو گالیاں دے کر اسے اذیت دیتی تھی.لہذا اس نے اسے قتل کر دیا.اس پر آپ نے اس کا خون رائیگاں قرار دیدیا.
توہین رسالت کی سزا 84 } قتل نہیں ہے اس روایت میں ایک راوی ابن ابی شیبہ ہے.اس کے بارے میں لکھا ہے کہ ”وَلَهُ ادهام “ کہ وہ خود ہی کوئی بات سوچ لیتا تھا یاوہ وہمی تھا یا لوگ اس کے بارے میں وہم رکھتے تھے یعنی وہ کوئی مستند شخص نہ تھا.پھر اس قصے میں نہ مقتول یہودیہ کے نام کا ذکر ہے ، نہ قاتل مسلمان کی کوئی شناخت مذکور ہے.کس علاقے میں وہ پناہ گزین تھا اور چھپنے کی وجہ کیا تھی وغیرہ وغیرہ ایسے سوالات ہیں جن کا اس روایت سے کوئی جواب نہیں ملتا.ایسی مہم اور مجہول الحال روایت کس طرح کسی عقیدے یا قانون کی تقویت کا باعث بن سکتی ہے.بلکہ ایسی روایت تو عقائد کی بنیاد کو کمزور اور کھوکھلا کرتی ہے.اس کہانی میں مذکور واضح اندرونی تضاد کو محسوس کرنا بھی ضروری ہے کہ ایک تو وہ عورت اسے پناہ دے رہی ہے اور دوسرے رسول اللہ صلی نیلم کو گالیاں بھی دے رہی ہے.اگر وہ آپ کی دشمن اور بدخواہ تھی تو وہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ آپ کا پیروکار ہے ، اس کو پناہ کس طرح دے سکتی تھی ؟ علاوہ ازیں قاتل کا یہ فعل کوئی قابل تعریف تو نہیں ہے کہ اسے اسلام کی عظمت کے طور پر پیش کیا جائے کہ ایک مہمان مردرات کی تاریکی میں (غالباً سوئی ہوئی) عورت کا گلا گھونٹ دے.یہ تو اس شخص کی بزدلی پر دلیل اور مذہب پر داغ لگانے والی بات ہے.یہ امر بھی قابلِ غور.ہے کہ دیگر جو قصے عورتوں کے قتل پر مشتمل ہیں، تقریباً ان سب میں بھی ایسی ہی غفلت کی حالت میں ان کو قتل کرنے کی کہانی موجود ہے.جس سے ایک یقینی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ قضے وضعی اور خود تراشیدہ ہیں.
توہین رسالت کی سزا ( 85 ) قتل نہیں ہے اُس مسلمان کا عمل حسب ذیل فرمان خدا کے مطابق یہ ہونا چاہئے تھا کہ وہ ایسی گستاخ عورت کو قتل کرنے کی بجائے اس کے گھر کو چھوڑ جاتا اور ایک لمحے کے لئے بھی وہاں نہ ٹھہر تا.چنانچہ ایسی صور تحال کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَى كُم بِوَكِيْلٍ لِكُلِّ نَبَإٍ مُسْتَقَةٌ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (الانعام :6967) ترجمہ : اور تیری قوم نے اس کو جھٹلا دیا ہے حالانکہ وہی حق ہے.تو کہہ دے کہ میں تم پر ہر گز نگران نہیں ہوں.ہر پیش خبری کا ایک وقت اور ایک جگہ مقرر ہے اور عنقریب تم جان لو گے.اور جب تو دیکھے اُن لوگوں کو جو ہماری آیات سے تمسخر کرتے ہیں تو پھر ان سے الگ ہو جا یہاں تک کہ وہ کسی دوسری بات میں مشغول ہو جائیں.اور اگر کبھی شیطان تجھ سے اس معاملہ میں بھول چوک کروا دے تو یہ یاد آجانے پر ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھ.***** دشمن کے لئے کافی ہونا اور خون کا اکارت جانا: ایسی روایات میں ہر قاری دیکھ سکتا ہے کہ انہیں گھڑنے والے ٹکسالی کے یہ دو جملے مسلسل لکھتے چلے گئے ہیں کہ ” مَنْ يَكْفِينِي عَدُوّی “ کہ میرے لئے کون میرے دشمن سے نیئے گا اور فَأَهْدَرَ دَمَهُ یا دَمَهَا کہ رسول اللہ صلی لیلی ہم نے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا.
توہین رسالت کی سزا ( 86 ) قتل نہیں ہے اس ضمن میں یہ حقیقت بھی قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہو گی کہ فقرہ "مَنْ يَكْفِينِي عَدُوّی “ صحاح ستہ میں ایک جگہ بھی مذکور نہیں ہے.نہ موطا امام مالک میں موجود ہے جو کہ سب سے پہلا اور آنحضرت صلی علیم سے سب سے قریبی زمانہ کا مجموعہ احادیث ہے.پس ان اولین اور مستند ترین مجموعوں کی روایات میں ایسے فقرے کا نہ ہونا اور مستند ریکارڈ میں نہ آنا ایک حیرت انگیز معمہ ہے.اگر ایسا کہنار سول اللہ صلی للی یم کی عادت یا سنت ہوتی جو بار بار ظاہر ہوتی تھی تو کم از کم ایک آدھ مرتبہ ہی یہ فقرہ کسی مستند روایت میں ظاہر ہونا چاہئے تھا.مگر ایسا بالکل نہیں ہوا.پس اس معمے کا بظاہر حل یہی دکھائی دیتا ہے کہ ایسی روایات وضعی اور جھوٹی ہیں لہذا قابلِ رڈ ہیں.اس نتیجے تک پہنچنے اور اس کے ثبوت کو بپا یہ یقین تک پہنچانے کے لئے عبد الرزاق اور عکرمہ مولیٰ ابن عباس کا نام کافی ہے.اس میں اگر کوئی کسر باقی رہ جاتی ہے تو وہ بیہقی بھی پوری کر دیتا ہے.جہانتک فقرہ فَاهْدَرَ دَمَهُ یا دَمَهَا‘ کا تعلق ہے ، تو یہ راوی کا بیان ہے جس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو رسول اللہ صلی کم کو گالی دیتا تھا یا دیتی تھی اور اسے کوئی قتل کر دیتا تھا تو اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا جاتا تھا.یہ رسول اللہ صلی علیم پر ایک مفتریانہ جسارت ہے.اس فقرے کا مطلب قاتل اور وقوعے کا واقعہ قتل کی نوعیت کے پیش نظر یہ ہے کہ چونکہ اس مقتول یا مقتولہ کا کوئی وارث نہیں تھا یا قاتل کے سوا کوئی اور شاہد نہیں تھا.لہذا اس مقتول یا مقتولہ کا خونبها کسی کو ادا کرنا ممکن نہ تھا.ایسے مقدمے میں اگر فیصلہ اس طرح ہوا تھا تو یہ اس مقدمے کی اپنی ایک منفرد نوعیت تھی، کسی مستقل قانون کی حیثیت نہ تھی.مگر اپنے ہی دوستوں نے اس فقرے کو ہر وضعی اور جعلی روایت کے ساتھ منسلک کر کے اسے رسول اللہ صلی الم کی طرف منسوب کر دیا ہے.نعوذ باللہ من ذلک
توہین رسالت کی سزا :9 87 } ***** شاتم یہودیہ.ایک اور روایت قتل نہیں ہے سنن ابی داؤد میں ہے : ” حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَن شَيْبَةَ وَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ الْجَرَّاحِ عَنْ جَرِيرٍ عَنْ مُغِيرَةً عَنِ الشَّعْبِي عَنْ عَلِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَةٌ كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ عليه السلام وَ تَقَعُ فِيْهِ فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَانَتْ فَأَبْطَلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله دَمَهَا.“ ( ابو داؤد کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب النبی الا یہ کہ حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت آنحضرت صلی علیم کو گالیاں دیا کرتی تھی، آپ کی بد گوئی اور آپ پر ذختم کرتی تھی.ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا یہاں تک کہ وہ مرگئی تو رسول اللہ صلی لیلی کلیم نے اس کا خون باطل قرار دے دیا.( یعنی اس کا بدلہ نہ دلوایا ) یہ روایت صحاح ستہ میں سے سنن ابی داؤد میں مذکور ہے.مگر یہ گزشتہ روایات میں مذکور انہی کوائف کے نہ ہونے کے باعث محل نظر ہے.یعنی نہ مقتولہ کے نام اور جگہ کا علم ہے نہ قاتل کے نام و شناخت کا ذکر ہے.کس علاقے میں کب یہ واقعہ ہوا، اس کا بھی کوئی ذکر نہیں اس میں لکھا ہے "كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيِّ علبصل و الله کہ وہ آنحضرت صلی الم کو گالیاں دیا کرتی تھی.یعنی یہ اس کی مستقل عادت تھی.اگر ایسا تھا تو اسے اتنی مہلت کیوں دی گئی ؟ اتنا انتظار کیوں کیا گیا ؟ اگر گالیوں کی سزا قتل تھی تو شروع ہی میں اسے قتل کر دیا ہوتا.
توہین رسالت کی سزا 88 } قتل نہیں ہے یہ روایت اپنے تمام کوائف کے ساتھ اسی واقعے کی نشاندہی کرتی ہے جس کا ذکر گزشتہ روایت میں گزر چکا ہے.اس میں فرق صرف یہ ہے کہ یہ روایت سنن ابی داؤد میں مذکور ہے اور اس کی سند بھی موجود ہے.جہانتک اس کی سند اور احوالِ رواۃ کا تعلق ہے تو اس روایت کا ایک راوی مغیرہ ہے جسے تدلیس سے متہم کیا گیا ہے.یعنی وہ خود روایات گھڑ تا ہے.ابن حبان نے اسے مدنیس قرار دیا ہے یعنی اس روایت میں ملاوٹ یا تحریف کی گئی ہے.اس روایت میں ابن ابی شیبہ کا نام بھی آتا ہے.اس کے بارہ میں لکھا ہے کہ ” وَلَهُ أَوْهَا “ کہ وہ وہمی تھا.تیسر ا راوی عبد اللہ بن الجراح ہے.جس کے متعلق لکھا ہے کہ ” يُخْطِی“ وہ خطا کار ہے.ابو حاتم الرازی نے اسے ” كَثِيرُ الْخَطَاءِ“ ودو یعنی کثرت سے غلطیاں کرنے والا قرار دیا ہے.پس ایسے مشکوک اور کمزور راویوں والی روایت کسی عقیدے یا قانون کے لئے بنیاد نہیں بنایا جاسکتا.شاتم عورت کے قتل پر مبنی مذکوہ بالا روایات ایک ہی طرح کی ہیں.کچھ معمولی تبدیلی کے ساتھ مختلف کتب میں مختلف راویوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ درج ہوئی ہیں.اسی طرح یہ سب روایات بنیادی طور پر ابتداء میں بیان شدہ روایت بابت عصماء بنت مروان سے ملتی جلتی ہیں.ان کے راویوں میں اور نفس واقعہ میں واضح طور پر اضطراب کا پایا جانا ان کے غیر مستند ہونے کی کافی دلیل ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 89 } قتل نہیں ہے 10 زندیق سوزی شاتم رسول کی سزا قتل ہے، اس کی تائید میں یہ بھی بار بار کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے ایسے لوگوں کو جلا دیا تھا.اس کے تحت جس روایت کا ذکر کیا جاتا ہے ، اس کا مکمل متن حسب ذیل ہے: عَنْ عِكْرَمَةَ قَالَ : أَتِي عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ- فَبَلَغَ ذُلِكَ ابْنَ عَبّاسٍ، فَقَالَ : لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أَحْرِقْهُمْ - لَنَهَى رَسُولُ اللهِ على الله ، لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ، وَلَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ عليه و الله " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ ( صحیح بخاری کتاب الجہاد و السير باب لا يُعَذِّبُ إِعَذاب الله ) وو عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت علی کے پاس کچھ زندیق پیش کئے گئے.آپ نے ان کو جلا دیا.یہ خبر جب ابن عباس کو پہنچی تو آپ نے فرمایا : اگر میں ہو تا تو انہیں نہ جلا تا.کیونکہ رسول اللہ صلی الل ولم نے ایسا عذاب دینے سے منع فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ خود دیتا ہے.البتہ آپ کے اس قول کے مطابق میں انہیں لاز ما قتل کرتا کہ جو اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو.(جب یہ واقعہ ہوا، اس وقت حضرت ابن عباس بصرہ میں حضرت علی کے مقرر کردہ امیر تھے.) زندیق وہ ہوتا ہے جو ظاہر میں تو اپنا اسلام دکھائے مگر دل کا کفر چھپائے.کہتے ہیں کہ یہ فارسی فقرے ” زندہ کر دای“ سے مغرب (یعنی اسے عربی بنایا گیا) ہے.معلوم ہوتا ہے کہ کثرت استعمال سے کردای کاک، زندہ کے ساتھ لگا رہ گیا اور اگلے حروف کالعدم ہو گئے اور
توہین رسالت کی سزا H 90 } قتل نہیں ہے زندک، پھر مستقل زندیق شکل اختیار کر گیا ( واللہ اعلم).اس کے معنے ہیں.زندہ کرنا.اس سے اصطلاحاً ملحد مراد ہے ، کہ يَدَّعِي أَنَّهُ مَعَ اللهِ الهَا آخَرَ وہ اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود قرار دیتا ہے.پس سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس روایت میں بڑی وضاحت سے لکھا ہے کہ وہ زندیق تھے اور اس روایت میں ایک ذرہ بھر بھی یہ ذکر نہیں ہے کہ وہ لوگ رسول اللہ صلی ال نیم کے شاتم تھے یا آپ کی توہین کرتے تھے.دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری جب یہ روایت کتاب الجہاد والسیر میں لائے ہیں تو وہاں اس سے پہلے آنحضرت صلی للی کم کا وہ ارشاد بھی لائے ہیں جس میں آپ نے اللہ تعالیٰ کا حوالہ دے کر کسی کو جلانے سے قطعی طور پر منع فرمایا ہے.جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں دو آدمیوں کے لئے بھجوایا کہ اگر تم فلاں اور فلاں کو پاؤ تو انہیں آگ میں جلا دو.جب ہم روانہ ہونے لگے تو آپ نے فرمایا : "إِنِّي أَمَرْتُكُمْ اَنْ تُحْرِقُوا فُلاناً فُلاناً وَإِنَّ النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللهُ فَإِنْ وَجَدْتُمُوهُمَا فَاقْتُلُوهُمَا.کہ میں نے فلاں فلاں کو جلانے کا کہا تھا مگر آگ سے تو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی عذاب نہیں دیتا.لہذا اگر تم انہیں پاؤ تو انہیں قتل کر دینا.یہاں امام بخاری نے اس باب کے عنوان اور اس کی پہلی روایت کے ذریعے بتا دیا ہے کہ اس کے تحت وہ روایت جس میں لوگوں کو جلانے کا ذکر ہے ، اگر اس سے مراد زندوں کو جلانا ہے تو یہ آنحضرت صلی کم کے واضح حکم اور اللہ تعالیٰ کے فرمان سے متصادم ہے.تیسری بات یہ ہے کہ امام بخاری پھر یہ روایت کتاب استتابة المرتدین والمعاندین و قتالهم بالحكم المرتد والمرتدة و استنا بتھم میں بھی لائے ہیں.اس روایت سے پہلے آپ نے حسب ذیل آیات اس طریق اور اس ترتیب پر پیش فرمائی ہیں:
توہین رسالت کی سزا و 91 } قتل نہیں ہے وَقَالَ اللهُ تَعَالَى كَيْفَ يَهْدِى اللهُ قَوْماً كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ وَشَهِدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ( أُوْلَبِكَ جَزَاؤُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِمْ لَعْنَةَ اللهِ وَالْمَلائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُواْ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيْمٌ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بَعْدَ إِيْمَانِهِمْ ثُمَّ ازْدَادُ و أَكُفْرَ أَلَّن تُقْبَلَ تَوْبَتُهُمْ وَأُوْلَبِكَ هُمُ الضَّالُونَ ) وَقَالَ ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِن تُطِيعُوا فَرِيقاً مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ يَرُدُّوكُم بَعْدَ إِيْمَانِكُمْ كَافِرِينَ ) وَقَالَ ( إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُ و أَكُفْراً لَّمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلاً ) وَقَالَ ( مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِ اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ) وَقَالَ ( مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيْمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَبِنٌ بِالإِيْمَانِ وَلَكِن من شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْراً فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ( أُولَبِكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَبْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَبِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ لَا جَرَمَ ( يَقُولُ حَقًّا ) أَنَّهُمْ فِي الآخِرَةِ هُمُ الخَاسِرُونَ ) إلى ( لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ )
توہین رسالت کی سزا 92 } قتل نہیں ہے وَقَالَ ) وَلا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَن دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُواْ وَمَن يَرْتَدِدُ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَأُوْلَبِكَ أَصْحَابُ النَّارِهُمْ فِيْهَا خَالِدُونَ) ترجمہ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (بھلا کیسے اللہ ایسی قوم کو ہدایت دے گا جو اپنے ایمان لانے کے بعد کا فر ہو گئے ہوں اور وہ گواہی دے چکے ہوں کہ یہ رسول حق ہے، اور ان کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے ہوں.اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں دیتا.یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا یہ ہے کہ ان پر اللہ کی لعنت ہے اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی.وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.ان سے عذاب کو ہلکا نہیں کیا جائے گا اور نہ وہ کوئی مہلت دیئے جائیں گے.سوائے ان کے جنہوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اصلاح کرلی تو یقینا اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.یقینا وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے گئے ، ان کی تو بہ ہر گز قبول نہ کی جائے گی اور یہی وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہیں.) (ال عمران 7 8 تا 91) اور فرمایا: (اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم نے ان لوگوں میں جنہیں کتاب دی گئی، کسی گروہ کی اطاعت کی تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد ایک دفعہ پھر کافر بنا دیں گے.)(ال عمران:101) اور فرمایا: (یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے ، اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کر دے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے.) ( النساء:138) ان آیات میں کسی جگہ بھی انہیں قتل کرنے کا حکم نہیں ہے.اگر مرتد کی سزا قتل ہوتی تو اس کے بار بار ایمان لانے اور کفر کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا.
توہین رسالت کی سزا 93 } قتل نہیں ہے اور فرمایا: (تم میں سے جو اپنے دین سے مرتد ہو جائے تو ضرور اللہ اس کے بدلے ایک ایسی قوم لے آئے گا جس سے وہ محبت کرتا ہو اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں.مومنوں پر وہ بہت مہربان ہوں گے (اور ) کافروں پر بہت سخت.وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا کوئی خوف نہ رکھتے ہوں گے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بہت وسعت عطا کرنے والا ( اور ) دائمی علم رکھنے والا ہے.) (المائدہ :55) اور فرمایا: ( لیکن وہ جو شرح صدر سے کفر پر راضی ہو گئے ، ان پر اللہ کا غضب ہو گا اور ان کے لئے ایک بڑا عذاب مقدر ہے.یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے آخرت پر ترجیح دیتے ہوئے دنیا کی زندگی کو پسند کر لیا اور اس وجہ سے بھی ہے کہ اللہ ہر گز کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا.یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر اللہ نے مہر لگا دی ہے.اور یہی ہیں جو غافل لوگ ہیں.کوئی شک نہیں) وہ بالکل سچ فرماتا ہے کہ (آخرت میں یقیناً یہی لوگ گھاٹا پانے والے ہوں گے) سے (وہ بہت بخشنے والا، بار بار رحم کرنے والا ہے.) تک (النحل: 107 تا 111) اور فرمایا: (اور وہ لوگ تم سے ہمیشہ جنگ کرتے رہیں گے یہانتک کہ اگر ان میں طاقت ہو تو تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر دیں.اور تم میں سے جو بھی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حال میں مرے کہ وہ کافر ہو تو یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا میں بھی ضائع ہو گئے اور آخرت میں بھی اور یہ وہ لوگ ہیں جو آگ والے ہیں.اس میں وہ لمبا عرصہ رہنے والے ہیں.) ( البقره 218 :) ان تمام آیات کو پیش فرما کر امام بخاری نے ان کے نیچے یہ مذکورہ بالا روایت رکھی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ امام بخاری کا طریق یہ ہے کہ آپ روایت کے اوپر باب کا نام یا عنوان ایسا لاتے ہیں جو اس کے تحت دی گئی روایات کو خوب کھول دیتا ہے اور اس میں موجود مسئلے کا حل
توہین رسالت کی سزا 94 } قتل نہیں ہے سامنے لے آتا ہے.چنانچہ یہاں آپ نے چن چن کر وہ آیات پیش کر دی ہیں جو پکار پکار کر منادی کرتی ہیں کہ محض ارتداد اختیار کرنے والے کو قتل نہیں کیا جاسکتا.لہذا ہر ایسی روایت کی ان آیات کے ساتھ حتی الامکان تطبیق کی جائے گی یا غیر جانبدارانہ تحقیق کر کے اس کی حقیقی تأویل کی جائے گی.تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلی الیکم کی تعلیم یا اُسوے کے خلاف نہ کھڑی ہو.ہاں اگر اس کی تاویل یا تطبیق نہ ہو سکے تو ر ڈ کر دی جائے گی کیونکہ وہ مذکورہ بالا آیات کے خلاف ہو گی.چوتھی بات اس ضمن میں یہ ہے کہ جہائتک زیر بحث روایت میں مذکور تفصیلات کا تعلق ہے.اس روایت کی تشریح میں شرح فتح الباری میں لکھا ہے کہ عمار الدھنی جو اس واقعے میں موجود تھے اور اس کے عینی شاہد ہیں، کہتے ہیں کہ حضرت علی نے ان زند یقوں کو جلایا نہ تھا بلکہ گڑھا کھود کر ان (مقتولوں) کو ایک دوسرے کے اوپر ڈال دیا تھا اور ( دبانے کے بعد ) اوپر آگ جلا دی تھی.شرح فتح الباری میں امام ابن حجر العسقلانی نے کتاب الملل والنحل کے حوالے سے اس بارے میں تفصیلاً لکھا ہے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ رافضی لوگ تھے اور حضرت علی کو الوہیت کے مقام پر رکھتے تھے اور اپنی مسجد میں آپؐ کو خالق اور رازق قرار دیتے ہوئے دعا کرتے تھے.ان کا بڑا سر دار ابن الاسود عبد اللہ بن سبا تھا جو یہود میں سے بظاہر مسلمان ہوا تھا.( تاریخ گواہ ہے کہ یہ شخص حضرت عثمان کے دور خلافت میں عالم اسلام میں بڑے بڑے فتنوں کا بانی مبانی اور سرغنہ تھا.) پھر وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت علیؓ نے انہیں تین دن مسلسل تنبیہہ کی اور ان پر خوب واضح کیا کہ اگر وہ اس سے باز نہ آئے تو انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا.وہ اپنی اس
توہین رسالت کی سزا ( 95 ) قتل نہیں ہے فتنہ پردازی سے نہ رکے تو ایک گڑھا کھدوایا اور انہیں پھر تنبیہ کی.وہ اپنی اس حرکت پر مصر رہے تو بالآخر انہیں قتل کیا گیا اور گڑھے میں دبا کر اوپر آگ جلا دی.روایت اور اس کی سند: فتح الباری شرح صحیح بخاری میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ روایت، جس میں انہیں جلانے کا واقعہ بیان ہوا ہے منقطع روایت ہے.یعنی اس روایت کی سند میں راوی صحابی کے علاوہ کوئی راوی درمیان سے غائب ہے جس کی وجہ سے سند کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہے.لہذا یہ ایک منقطع یعنی کمزور روایت ہے.یہ روایت چونکہ صحاح ستہ میں بخاری کے ساتھ دیگر اور کتب میں بھی آئی ہے.اس لئے اس کی تہہ تک پہنچنا ضروری ہے.اس کے لئے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے.چنانچہ پہلی بات تو یہ ہے کہ روایات کو پرکھنے کا سب سے بڑا اور اول اصول یہ ہے کہ اسے قرآن کریم پر پر کھا جائے.چونکہ یہ روایت قرآن کریم کے مسلّمہ تعلیمات اور اصولوں کے خلاف ہے جن کی نشاندہی خود امام بخاری نے اس کے اوپر آیات پیش کر کے کر دی ہے.اس کی روشنی میں زندہ جلانے کے واقعہ کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جا سکتا.دوسری بات یہ ہے کہ امام بخاری نے روایات جمع کرنے میں گو بہت محتاط اور کڑے اصول رکھے تھے مگر بعض روایات جو در حقیقت درست نہ تھیں کسی طور سے ان اصولوں کی چھلنی میں سے بھی گزر گئی ہیں لیکن امام بخاری کی نظر بصیرت سے اوجھل نہیں ہوئیں.لہذا آپ نے انہیں ہر گز تنہا نہیں چھوڑا.آپ نے ان پر انتہائی بصیرت کے ساتھ باب کا جو عنوان باندھا ہے اس میں اس روایت کا یا تو حل پیش کر دیا ہے یا قاری کو متوجہ کر دیا ہے کہ اسے اصل حکم یعنی قرآن کریم کے مطابق پرکھ لو.اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ﷺ پر تین جھوٹوں
توہین رسالت کی سزا { % ) 96 قتل نہیں ہے کے الزام والی روایت پر آپ نے جو عنوان باندھا ہے وہ آیت قرآنیہ " وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلاً (النساء: 126) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتَا لِلَّهِ حَنِيفاً “ (النحل: 121) اور ” إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لاواة حَلِية (التوبة: 115) ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا دوست بنایا.آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار اور اس کی طرف جھکے رہنے والے تھے.آپ بہت نرم دل اور بُردبار تھے.یعنی آپ نے ہر قاری کو یہ پیغام دیا ہے کہ تین جھوٹوں والی اس روایت کو ان مذکورہ آیات کی روشنی میں پرکھ لو.ممکن ہو تو قرآن کریم سے اس کی تطبیق کر دیا تحقیق کا حق ادا کر کے اس کی قرآنی آیات کے مطابق اچھی تاویل کرو ورنہ اسے ترک کر دو کیونکہ قرآن کریم مقدم ہے اور ہر روایت پر حکم ہے.یہاں بھی آپ نے زیر بحث روایت پر تفصیلی آیات کا گلدستہ رکھ کر محقق کے لئے تحقیق کے دروازے کھول دیئے ہیں تاکہ وہ ان آیات قرآنیہ کے تحت اپنی تحقیق یا تأویل کو ڈھال لے.اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو اس روایت کو ر ڈ کر دے.تیسری بات یہ ہے کہ یہاں ایک عجیب اور دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آتا ہے کہ آیاتِ قرآنیہ کے ذریعے امام بخاری کے کھولے ہوئے تحقیق کے ان دروازوں میں داخل ہوتے ہی اس روایت کے بنیادی راوی عکرمہ سے ملاقات ہو جاتی ہے.تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ عکرمہ خود ایک بد عقیدہ خارجی شخص تھا.لہذا اس سے حضرت علیؓ کے حق میں کسی خیر کی توقع نہیں ہو سکتی تھی.پس اس کے تعارف کے بعد اس روایت کے جھوٹ میں کسی اور تحقیق کی ضرورت نہیں رہتی.لیکن قبل اس کے کہ ہم عکرمہ کے تعارف میں اتریں، یہ ذکر بھی کرتے چلیں کہ روایات اور ان کی اسناد کی جرح و تعدیل پر مشہور محقق مولانا عبد الحئی لکھنوی اپنی مایہ ناز کتاب الرفع والتعميل في الجرح والتعدیل“ میں تحریر کرتے ہیں کہ......اسی لئے امام بخاری نے ان لوگوں میں سے بھی بہتوں سے بغیر جرح کے دلیل لی ہے.مثلاً عکرمہ مولیٰ ابن عباس، اسماعیل
توہین رسالت کی سزا ( 97 ) قتل نہیں ہے بن ابی اولیں، عاصم بن علی اور عمرو بن مرزوق و غیرہ اور امام مسلم نے سوید بن سعید سے دلیل لی وو ہے اور دیگر کئی ایک سے بھی جن پر طعن کیا گیا تھا.کتاب ” الرفع والتكميل......کی اصل عبارت یہ ہے: وو.....وَلِذَلِكَ احْتَجَّ الْبُخَارِثُ بِجَمَاعَةٍ سَبَقَ مِنْ غَيْرِ الْجَرْحِ فِيْهِمْ كَعِكْرَمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، وَ وَاسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي أَوَيْسٍ، وَعَاصِمِ بْنِ عَلِيَّ، وَ عَمْرِو بْنِ مَرْزُوقٍ وَ غَيْرِهِمْ - وَاحْتَجَّ مُسْلِمٌ بِسُوَيْدِ بْنِ سَعِيدِ ، وَجَمَاعَةِ اشْتَهَرَ الطَّعْنُ فِيْهِمْ.“ (باب المرصد الاؤل، فيما يقبل من الجرح والتعديل وما يقبل منهاو تفصيل المفسر والمتهم فيهما.صفحہ 93.الطبعة الثامنة بیروت 2004ء) چونکہ حضرت امام بخاری نے ان بعض مطعون لوگوں کی روایات بھی درج کی ہیں اس لئے بعد میں آنے والے دیگر ائمہ حدیث نے بھی بغیر تحقیق اور چھان بین کی ضرورت سمجھے ان کی ہر روایت قبول کر لی.ان مطعونوں میں ایک عکرمہ مولیٰ ابن عباس بھی ہے.مگر جیسا کہ ابھی بیان کیا گیا ہے کہ حضرت امام بخاری نے محض روایت نہیں لی بلکہ دونوں ابواب میں اس روایت کو قرآن کریم کے مطابق اور رسول اللہ صلی ال یکم کی تعلیمات اور ہدایات کے مطابق پر کھنے کے لئے ہر صاحب علم اور محقق کے لئے رہنما آیات اور روایات پیش کر دی ہیں تاکہ روایت کو اس کی درایت کے مطابق بھی پر کھنے اور اس کے سچا یا جھوٹا ہونے کا فیصلہ ہو سکے.یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ ایک زمانہ روایات کے جمع کرنے کا تھا.اس وقت جمع کرنے والوں نے اپنے اپنے اصولوں اور معیاروں کے مطابق روایات جمع کیں.بعد میں آنے والوں نے ایک طرف جہاں ان روایات کو بغیر چھان بین کے لیا ہے وہاں اس کے بالمقابل بعد میں آنے والے محققین نے ان روایات پر خاطر خواہ جرح بھی کی ہے.انہوں نے روایات کو پر کھنے اور ان کی چھان پھٹک کرنے کے اصول بھی وضع کئے ہیں اور راویوں کے حال احوال،
توہین رسالت کی سزا 98 } قتل نہیں ہے کر دار اور شخصیت وغیرہ پر بھی تفصیلی مواد جمع کر دیا ہے تاحق کے متلاشی اور تحقیق کے جو یاں کسی روایت کو اخذ کرنے میں غلطی نہ کھائیں.لہذا ان روایات کو استعمال کرنے والوں کا فرض تھا کہ وہ بنیادی اصولوں پر قائم رہ کر ان روایات کی جانچ پڑتال کرتے اور صحیح اسلامی عقائد کے خلاف روایات کو استعمال نہ کرتے بلکہ ایسی روایات کو ترک کرتے جو قرآن کریم ، سنتِ رسول ا اور احادیث صحیحہ کے منافی وضع کی گئی تھیں.مگر افسوس ہے کہ قرونِ ماضیہ میں بسا اوقات روایات کے ظاہر پر ہی انحصار کر کے توہین رسالت اور قتل مرتد وغیرہ جیسے ظالمانہ عقائد کی جی بھر کر ترویج کی گئی.عکرمه (بربری): یہ حضرت عبد اللہ ابن عباس کا غلام تھا اور زیر بحث روایت کا بنیادی راوی یہی عکرمہ بربری ہے.بلکہ بہت سی روایات جو اس طرز کی سزاؤں اور کشت و خون پر مشتمل ہیں ان میں اکثر جگہ یہی شخص کار فرما نظر آتا ہے.جیسا کہ قارئین آئندہ بھی بعض روایات میں اس سے ملاقات کریں گے.یہ شخص کون تھا؟ اس کا مقام کیا تھا؟ اس کی حیثیت اور حقیقت کیا تھی ؟ وغیرہ وغیرہ امور درج ذیل تعار فی سطور میں ملاحظہ فرمائیں.ا: فرماتے ہیں: امام ابنِ حجر عسقلانی اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں اسی عکرمہ کے تعارف میں تحریر یحی ابن معین کہتے ہیں کہ امام مالک نے عکرمہ سے صرف اس وجہ سے روایت نہیں لی کہ وہ صفر یہ فرقے کار کن تھا.ابراہیم بن المنذر نے معن بن عیسی اور دوسرے لوگوں سے روایت کی ہے کہ امام مالک اسے غیر ثقہ قرار دیتے تھے اور اس سے روایت نہ کرتے تھے.
توہین رسالت کی سزا ۲ 99 } قتل نہیں ہے ابن لہیعہ ، ابو الاسود سے عکرمہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ وہ قلیل العقل تھا.ما اكذبہ کمال کا جھوٹا شخص تھا.المغرب (مراکش) کے صفر یہ فرقہ کے خیالات رکھتا تھا.یکی ابن معین نے بھی اسے صفر یہ خیالات والا قرار دیا ہے.امام احمد بن حنبل کا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ صفری تھا.:+ ۴ عطاء کا کہنا ہے کہ وہ اباضیہ فرقہ سے منسلک تھا.مصعب الزبیری کا کہنا ہے کہ وہ خارجی تھا.حضرت عبد اللہ بن عمر اپنے غلام نافع کو کہتے تھے کہ اے نافع تیرا بھلا ہو.مجھ پر اس طرح تو جھوٹ نہ باند ھو جس طرح ابن عباس کی طرف عکرمہ جھوٹ منسوب کر تا تھا.ے: بعینہ یہی الفاظ حضرت سعید بن المسیب نے اپنے غلام سے کہے تھے.یجی ابن سعید الانصاری کہتے ہیں کہ عکرمہ کذاب تھا.104ھ میں عکرمہ کی موت مدینے میں ہوئی.اس کا جنازہ مسجد میں لایا گیا مگر کسی نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی.( یعنی کسی شخص کے مردود ہونے کی یہ انتہاء ہے کہ لوگ اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھیں) اس کتاب میں ان مذکورہ بالا معلومات کے علاوہ بھی عکرمہ کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے.(تہذیب التہذیب.الجزء الخامس.حرف العین، عکرمہ البر بری ابوعبداللہ المدنی مولی ابن عباس.لعلامہ ابن حجر العسقلانی.دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع) امام محمد بن احمد عثمان الذہبی اپنی کتاب میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں:
توہین رسالت کی سزا { 100 } قتل نہیں ہے ا: ۲ وہیب بیان کرتے ہیں کہ یحی بن سعید الانصاری کہتے ہیں کہ عکرمہ کذاب تھا.عبد اللہ بن الحارث بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن عبد اللہ بن عباس کے ہاں گیا تو دیکھا کہ عکرمہ حضرت حسن کے دروازے کے سامنے باندھا ہوا ہے.میں نے علی سے کہا: کچھ تو خدا کا خوف کرو.انہوں نے فرمایا کہ یہ خبیث میرے والد پر جھوٹ بولتا ہے.یعنی جھوٹی روایات ان کی طرف منسوب کرتا ہے.:M الصلت ابو شعیب بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن سیرین سے عکرمہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگے کہ......وہ در حقیقت کذاب ہے.ه: مطرف بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ امام مالک مکر مہ کے ذکر سے بھی کراہت کرتے تھے.یعقوب الحضر می اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ عکرمہ مسجد کے دروزاے میں کھڑا ہو کر کہنے لگا کہ اس میں موجو دسب کا فر ہیں.وہ اباضیہ خیالات رکھتا تھا.: ابن مدینی نے کہا ہے کہ وہ مجدہ حروری تھا.(میزان الاعتدال في نفقد الرجال از امام شمس الدین ابو عبد اللہ الذہبی ایڈیشن 1963 ء الناشر دار المعرفية والنشر بیروت.جلد 3.عکرمہ مولی ابن عباس) (نجدہ، اباضیہ اور صفریہ وغیرہ ، عقائد کے جزوی فرقوں کے ساتھ خوارج کے فرقے ہیں.مجدہ فرقہ 38ھ میں ظاہر ہوا.اس کا بانی مسجد بن عامر حنفی تھا.اباضیہ فرقہ کی 58ھ میں عبد اللہ بن اباض التمیمی نے بنیاد رکھی.فرقہ صفریہ کا بانی مخلد بن کہداد تھا.جو بر بری قبائل سے تھا.یہاں ان کے جزوی عقائد کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ جنگ صفین میں امیر معاویہ کی فوجوں کے خلاف جو لوگ حضرت علی کے ہمراہ تھے ، ان میں سے ایک گروہ تحکیم کے واقعہ کے بعد حضرت علی ہو یہ کہہ کر آپ سے الگ ہو گیا کہ آپ حق پر
توہین رسالت کی سزا { 101 } قتل نہیں ہے نہیں.پھر انہوں نے آپ پر کفر کا فتوی صادر کر کے آپ سے جنگ کی اور ہزاروں مسلمانوں کا خون کیا.یہ خارجی تھے.) وو ان مذکورہ بالا کتابوں میں عکرمہ کے قطعی طور پر غیر ثقہ ہونے، جھوٹا اور مردود ہونے اور روایات وضع کرنے جیسی اور بہت سی تفصیلات ہیں.اسی طرح علامہ ابو جعفر محمد بن عمر و العقیلی المکی کی کتاب " الضعفاء الكبير “ مطبوعہ 1984ء.دارالمکتبۃ العلمیہ بیروت ، میں بھی عکرمہ کے بارے میں کافی مواد موجود ہے جو اس کے پرلے درجے کے جھوٹے ہونے کے قطعی ثبوت فراہم کرتا ہے.عمروا اگر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عکرمہ کا فتنہ ذوالخویصرہ والے فتنوں کا ایک شاخسانہ ہے جس کی نشاندہی رسول اللہ لی لی یم نے فرمائی تھی.یہ فتنہ ایسا ہے کہ جس نے نعوذ باللہ نہ صرف آپ کی ذات کو ظالم ثابت کرنے میں اہم کر دار ادا کیا ہے بلکہ عالم اسلام میں تشدد پسندی اور دہشت گردی کے طوفان کھڑے کر دیئے ہیں.جس خدشے کا اظہار رسول اللہ صلی کرم نے فرمایا تھا کہ لوگ باتیں کریں گے کہ محمد (صلی ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتے ہیں، ان لوگوں نے یہ ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی کہ آپ یقینا اپنے ساتھیوں کو مروا دیتے تھے.الغرض مذکورہ بالا اس تحقیق سے ان مصنفین کو توجہ دلانی مقصود ہے جو اندھا دھند ایک ایسے عقیدے کو رائج کرنے کی سعی میں مصروف ہیں جس کی تمامتر عمارت جھوٹ کی بنیاد پر استوار ہے.کیونکہ اسلام ایک سچائی ہے.اس کے سارے عقائد ازلی سچائی پر استوار ہیں اور رسول اللہ صل للہ نام کا ہر فعل اور ہر قول بھی انہی ابدی سچائیوں پر قائم ہے.ان میں سے ایک قول
توہین رسالت کی سزا { 102 قتل نہیں ہے یا ایک فعل بھی ایسا نہیں ہے جس میں ایک ذرہ بھر بھی ظلم کا شائبہ ہو.لہذا قتل شاتم اور قتل مرتد جیسے ظالمانہ عقائد کا اسلام کے عقائد سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.مرتدین اور ان کا قتل !! اگر اُس دور اور زمانے کے حالات کا تفصیلی مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ لفظ مرتد یا ارتداد عام استعمال کے لحاظ سے ان لوگوں پر بولا جاتارہا ہے جو مرتد ہو کر بغاوت پر اتر آئے تھے.جس طرح آنحضرت صلی اللہ کی کی زندگی کے آخری ایام میں اور آپ کے وصال کے بعد بعض قبائل اور سرداروں نے ایسا ارتداد اختیار کیا جو دراصل مدینے کی حکومت کے خلاف کھلی کھلی بغاوت کا اعلان تھا.اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور طلیحہ الاسدی اور دیگر کئی ایسے لوگ تھے جنہوں نے اعلانِ بغاوت کیا تو چونکہ یہ بنیادی طور پر دین سے بھی ارتداد تھا اس لئے ان کے لئے ارتداد یا مرتد کا لفظ عام استعمال کے طور پر جاری ہو گیا.مگر ان سے جنگ اور قتال کی حقیقی وجہ ان کی بغاوت تھی نہ کہ ان کا ارتداد.چنانچہ جو شخص صرف دین کو چھوڑتا ہے اور کسی قسم کی باغیانہ ، محاربانہ یا فساد و تفرقہ والی کوئی کارروائی نہیں کرتا اسے قتل کرنے کا کہیں حکم نہیں ہے.تاریخ اسلام میں رسول اللہ صلی یکم یاخلفائے راشدین کا تائید یافتہ یا تسلیم شدہ ایسا کوئی واقعہ موجود نہیں ہے کہ جس میں کسی کو محض اس وجہ سے قتل کیا گیا تھا کہ اس نے دین اسلام چھوڑنے کا اعلان کیا تھا.دین بدلنا: یہاں اس روایت کا آخری حصہ " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ " کہ جو اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو، قابل غور ہے.اس کا واضح اور آزادانہ مطلب یہ ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں، کوئی بھی اپنا دین بدلے، خواہ وہ عیسائی ہو ، یہودی ہو ، مجوسی ہو یا کسی اور مذہب کا پیروکار ، تو وہ اس اصول کے تحت قتل ہونا چاہئے.چنانچہ وہ لوگ جو اپنا دین بدل کر مسلمان ہوئے ، انہیں بھی قتل کر دینا چاہئے تھا.مگر عملاً اور واقعہ ایسا کبھی نہیں ہوا.پس اس منظر میں یہ بے قید اور بے
توہین رسالت کی سزا 103 { قتل نہیں ہے لگام بیان ہے جو آنحضرت صلی الم کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا کہ جس سے آپ کسی کو اپنا دین بدل کر اسلام میں آنے سے روک رہے ہوں.یہ درست ہے کہ بعض نے ”دینہ“ سے مراد اسلام لیا ہے یعنی جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کرے اسے قتل کر دو.ظاہر ہے کہ یہ شرح گزشتہ صفحات میں مذکور آیات قرآنیہ سے کھلی کھلی متصادم ہے.نیز اسوۃ و سنت رسول صلی للی نام سے بھی مخالف ہے.آپ نے کبھی کسی کے قتل کا حکم صرف اس وجہ سے نہیں دیا کہ وہ دین اسلام سے مرتد ہو گیا تھا.خلفائے راشدین کی زندگیاں بھی اسی قرآنی تعلیم اور اسوہ رسول صلی اللہ ہلم کے عین مطابق تھیں.انہوں نے بھی کسی کو اسلام سے نکل جانے کی وجہ سے قتل کیا نہ اس کے قتل کا حکم دیا.پس یہ تشریح درست نہیں ہے کہ’دینہ“ سے مراد دین اسلام ہے.حضرت امام بخاری نے یہ روایت درج کی ہے مگر ساتھ آیات قرآنیہ بھی رکھ دی ہیں جو اس کو رد کرتی ہیں.اسی طرح مذکورہ بالا دیگر قطعی حقائق بھی رہنمائی کرتے ہیں کہ یہ روایت قابل قبول نہیں ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 11 مرتد سوزی { 104 وو قتل نہیں ہے ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ " مصنف عبد الرزاق روایت کرتے ہیں: خالد بن ولید نے کچھ مرتدوں کو آگ میں جلا دیا.حضرت عمرؓ نے عرض کی اے ابو بکر ! آپ نے خالد کو کھلا چھوڑ دیا.حضرت ابو بکڑ نے فرمایا میں اللہ کی تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا.“( مصنف جلد پنجم حدیث 9412) جہانتک اس روایت کا تعلق ہے، فتح الباری شرح صحیح بخاری کتاب الجہاد والسير باب لا یعذب بعذاب اللہ میں بھی ایک بحث کے سلسلے میں درج کی گئی ہے.مگر وہاں صرف مرتدوں کو جلانے کا ذکر ہے ، باقی تفصیلات نہیں ہیں.اسی روایت کی شرح میں حضرت ابو بکر منکا با غیوں کو جلانا بھی مذکور ہے.جہانتک حضرت ابو بکر کے باغیوں کو جلانے کا ذکر ہے تو یہ قصہ سرے سے ہی جھوٹا ہے.فتح الباری میں یہ روایت کسی سند اور مآخذ کے ذکر کے بغیر درج ہے.نیز یہ کہ ایسے وضعی قصوں کا کسی صحیح روایت اور احادیث کے کسی مستند مجموعے میں ذکر نہیں ملتا جو اُن کے غیر مستند بلکہ وضعی ہونے کا قطعی ثبوت ہے.لیکن بفرض محال ایک لمحہ کے لئے اگر ان روایات کو درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اول تو ان روایات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ان میں جن کی بات ہو رہی ہے وہ مرتد تھے.ان کے ذکر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللی کم پر سب و شتم کا کوئی ذکر نہیں ہے.یعنی یہ ذکر نہیں ہے کہ انہوں نے آپ کو گالی گلوچ کی اور آپ کی کوئی توہین و تنقیص کی.ہاں یہ واضح ہے کہ بغاوت کی تھی جس کو کچلنے کے لئے حضرت ابو بکر کی طرف سے حضرت خالد امور تھے.
توہین رسالت کی سزا { 105 قتل نہیں ہے اسی طرح حضرت ابو بکر کے حوالے سے جو روایت ہے وہ بھی بتارہی ہے کہ وہ لوگ باغی تھے.آپ کا دور انہی بڑی بڑی بغاوتوں کے قلع قمع کا دور تھا.پس یہ تو واضح ہے کہ یہ لوگ آنحضرت اصلی تعلیم پر سب و شتم کرنے والے نہیں تھے بلکہ مرتد ہو کر بغاوت پر اترے ہوئے باغی تھے اور مدینے کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا ارادہ رکھنے والے کھلے کھلے محارب تھے.اس لئے ان کو لڑائی کے ماحول میں قتل کرنا ہر جنگی اصول کے عین مطابق تھا.باقی رہا حضرت ابو بکر کا حضرت خالد کو سزا نہ دینا یا کم از کم تنبیہہ نہ کرنا تو یہ یقیناً اس وجہ سے نہ تھا کہ آپؐ مرتدوں کو جلانے کے قائل تھے یا ان کے قتل کے قائل تھے.بلکہ اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؐ کو صورتحال کا پوری طرح علم تھا کہ جن کو حضرت خالد نے قتل کیا ہے وہ باغی مرتد تھے.بغاوت کو کچلنے کے لئے دنیا کے ہر ملک اور قوم کے اس بنیادی قانون کے مطابق یہ ضروری بلکہ لازمی تھا.نیز حضرت ابو بکر کا یہ کہنا کہ میں اللہ کی تلوار کو نیام میں نہیں کر سکتا، اس وجہ سے تھا کہ آپ کو واقعات کی حقیقت کا علم تھا.حضرت خالد آپ کے حکم سے بغاوتوں کو کچلنے اور باغیوں کی سرکوبی کے لئے مامور تھے اور انتہائی کامیابی کے ساتھ یہ فریضہ سر انجام دے رہے تھے.گزشتہ صفحات میں بیان شدہ حضرت ابو ہریرۃ والی روایت کے مطابق زندہ انسانوں کو آگ میں جلانا بنیادی طور پر شریعت کے خلاف ہے.لہذا حضرت ابو بکر ایسی کارروائی کی پشت پناہی نہیں کر سکتے تھے جس کے نہ کرنے کی رسول اللہ صلی الم نے خود وضاحت فرمائی تھی.روایات کے تمام مناظر کے مطابق حضرت خالد نے کسی دشمن کو زندہ نہیں جلایا.کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہو تا کہ آپ نے زندوں کو جلایا تھا.غالب امکان ہے کہ آپ نے اگر جلانے کی ایسی کوئی کارروائی کی تھی تو اس میں باغیوں کو نہیں بلکہ ان کے سازشی اڈوں کو جلایا ہو گا جس کا
توہین رسالت کی سزا { 106 } قتل نہیں ہے حضرت ابو بکر کو علم تھا.سازشی اڈوں کو جلانے کی یہ کارروائی بعینہ اسی طرح کی ہوگی جس طرح رسول اللہ صلی الیم نے غزوہ تبوک کے لئے روانگی سے قبل مدینہ میں سویلم یہودی کے گھر کو جلو ایا تھا جہاں آپ ، صحابہ، صحابیات اور اسلام کے خلاف سازشیں تیار کی جاتی تھیں.واللہ اعلم اس زیر بحث خود تراشیدہ روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کے کہنے پر حضرت ابو بکر نے حضرت خالد کو کوئی تنبیہہ نہیں کی.ورنہ ایک خلافِ شریعت عمل پر کسی بہانے سے تنبیہ نہ کرنا تو نعوذ باللہ واضح طور پر خلیفتہ الرسول کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی کمزوری منصب خلافت کے منافی ہے.خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر تو دین کی حفاظت کے لئے وہ آہنی عزم و ارادے والے مرد حق تھے کہ انتہائی کمزور اور نازک حالات میں بھی بپھرے ہوئے باغیوں کے سامنے ایک چٹان بن کر کھڑے ہو گئے تھے.ایسے قوی الارادہ شخص کے بارے میں یہ بات تراش لینا کہ آپ ایک خلاف شریعت عمل پر ایک ذرہ بھر بھی سرزنش نہیں کرتے ، ایک انتہائی ظالمانہ خیال ہے.پس یا یہ واقعہ دراصل کچھ اور ہے جس کی تفصیل روایات میں مذکور نہیں ہے یا یہ روایت جعلی اور وضعی ہے.اس روایت کو وضعی اور جعلی تسلیم کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی یم نے زندہ آگ میں جلنے یا جلانے ، دونوں ہی سے منع فرمایا ہے.جلانے والی روایات کے بارے میں تفصیلی وضاحت پہلے گزر چکی ہے.مگر اس پر درج ذیل واقعے سے بھی اصولی طور پر روشنی پڑتی ہے.وہ واقعہ یوں ہے کہ ربیع الآخر 9ھ کو آنحضرت صلی للی تم کو خبر ملی کہ اہل حبشہ میں سے کچھ لوگ جدے کے ساحل پر اترے ہیں.آپ نے حضرت علقمہ کو تین سو افراد کی کمان دے کر ان کی طرف بھجوایا.حبشیوں کو ان کی آمد کا علم ہوا تو وہ اپنی کشتیوں پر سوار ہو کر سمندر میں فرار ہو گئے.
توہین رسالت کی سزا { 107 } قتل نہیں ہے حضرت علقمہ نے ایک جزیرے تک ان کا پیچھا کیا.حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں : ” میں بھی اس مہم میں اس لشکر کے ساتھ تھا.جب یہ مہم ختم ہو گئی تو بعض افراد نے واپس جانے کی اجازت طلب کی.ان میں حضرت عبد اللہ بن حذافہ اسہمی بھی تھے.حضرت علقمہ نے ان کو ان واپس جانے والوں پر امیر مقرر کر دیا.حضرت عبد اللہ بن حذافہ کی طبیعت میں مزاح تھا.راستے میں ایک جگہ انہوں نے کھانا پکانے کے لئے آگ جلائی.حضرت عبد اللہ بن حذافہ کو مذاق سوجھا.آپ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ” کیا تم پر میری اطاعت فرض نہیں ؟ “ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں.“ آپ نے کہا: ”پھر میں جو حکم دوں گا تم پر اس کا بجالا نا فرض ہو گا.“ انہوں نے کہا: ”بے شک.“ آپ نے کہا: ”پھر میں تم پر اپنے اس حق اطاعت کی وجہ سے حکم دیتا ہوں کہ اس آگ میں کو دجاؤ.“ اس حکم کے بعد آپ نے دیکھا کہ ان میں سے بعض اس آگ میں کودنے کے لئے تیار ہو رہے ہیں اور ان کا عزم بتاتا ہے کہ وہ اس میں عملا کو دبھی جائیں گے.چنانچہ آپ نے انہیں روکا اور کہا: ” میں تو تم لوگوں سے مذاق کر رہا تھا.66 جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو یہ تمام واقعہ آنحضرت صلی ال یکم کی خدمت میں ذکر کیا گیا.آپ نے فرمایا: "مَنْ أَمَرَكُمْ مِنْهُمْ بِمَعْصِيَّةٍ فَلَا تُطِيعُوه “ کہ اگر کوئی ایسا حکم دے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو تو اس کی اطاعت نہ کرو.(ابن ماجہ کتاب الجہاد باب لا طاعۃ فی معصیۃ اللہ ور قانی سرید عالقمة الى طائفة من الحبث هو ابن سعد سریہ علقمہ بن نجيز الى الحبشة) بخاری میں یہی واقعہ کتاب المغازی میں سریۃ عبد اللہ بن حذافہ السہمی و علقمہ کے باب میں بھی بیان کیا گیا ہے.وہاں لکھا ہے کہ جب یہ واقعہ آنحضرت صلی علیکم کی خدمت میں پیش ہوا تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: " لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقَيَامَةِ الطَّاعَةُ فِي
توہین رسالت کی سزا { 108 } قتل نہیں ہے الْمَعْرُوفِ کہ اگر وہ اُس (امیر کے حکم کو مان کر آگ ) میں اتر جاتے تو اس سے قیامت تک نہ نکل سکتے کیونکہ اطاعت صرف معروف میں ہوتی ہے.ایک اور روایت یہ بھی ہے کہ آنحضرت صلی ﷺ نے فرمایا: ” لا طَاعَةً فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ تاريخ المیں بعث علقمہ بن مجزز الى الحبشی) کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اطاعت جائز نہیں ،اطاعت معروف میں لازمی ہے.اس روایت سے اظہر من الشمس ہے کہ آگ میں کسی کو جلانا یا خود سوزی معصیت الہی ہے.اگر حضرت خالد نے واقعہ ایسا کیا تھا تو اس فعل پر حضرت ابو بکر کا حضرت خالد کو تنبیہہ نہ کرنا آپ کو ملزم ثابت کرنا ہے.چونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ خلیفۃ الرسول ملزم ہو لہذا یہ قصہ قابل قبول نہیں ہے.پس یہ زیر بحث روایت لازماً وضعی، جعلی اور جھوٹی ہے.ایسی روایت پر شتم رسول کی سزا قتل کے عقیدہ کو قائم کرنا ایک جھوٹی جسارت ہے.اس روایت کے جھوٹا ہونے کا ایک قطعی ثبوت اور بہت بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ یہ روایت مصنف عبد الرزاق سے لی گئی ہے.مصنف عبد الرزاق کی حیثیت کیا تھی ، درج ذیل شہادتوں کو ملاحظہ فرمائیں.ان کے مطالعے سے آپ قطعی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایسی روایت تراش کر اسلام، رسول اللہ صلی علیکم اور خلافت راشدہ کے مخفی دشمنوں نے یا جھوٹے دوستوں نے حضرت ابو بکر کی پاک ذات پر ظلم کیا ہے.عبد الرزاق: ان کا پورا نام ابو بکر عبد الرزاق بن ہمام الصنعانی ' ہے جو 126 ہجری میں ' پیدا ہوئے اور 211ھ میں وفات پائی.ان کا تیار کردہ مجموعہ کروایات مصنف عبد الرزاق کے نام سے مشہور ہے.متعدد روایتیں عبد الرزاق کی اس کتاب سے لی گئی ہیں، جن پر شاتم رسول کی
توہین رسالت کی سزا { 109 | قتل نہیں ہے سزا قتل کے عقیدے کی بناء کی گئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان کے احوال کی حقیقت کا علم ہونے کے بعد عملاً باقی روایتوں پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی.رواۃ کے حالات اور ان کی چھان پھٹک پر مشتمل ایک بنیادی اور مستند کتاب تہذیب التہذیب، میں ان کے متعلق لکھا ہے: "وَقَالَ العَبَّاسُ الْعَنْبَرِيُّ أَنَّهُ لَكَذَّابٌ وَالْوَاقِدِئُ أَصْدَقُ مِنْہ کہ عباس العنبری کہتے ہیں کہ یہ ایسا جھوٹا ایسا کذاب انسان ہے کہ واقدی بھی اس کے مقابل پر بہت سچا دکھائی دیتا ہے.واقدی وہ مورخ ہے جس نے بے تحاشا زیادہ رطب و یابس تاریخ اسلام کے حوالے سے اکٹھا بھی کیا ہے اور اپنی طرف سے نیاتر اشا بھی ہے.اسی لئے مغربی مصنف اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں اور اس سے اخذ کرتے ہیں.کیونکہ رسول اللہ صلی لی یکم اور اسلام پر حملوں کے لئے جو منفی طرز کا مواد انہیں درکار ہے ، وہ انہیں واقدی سے مل جاتا ہے.چنانچہ علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ عباس العنبری کہتے ہیں کہ یہ عبد الرزاق، جس کی یہ روایتیں ہیں اتنا جھوٹا انسان ہے کہ واقدی کو اس کے مقابل پر دیکھو تو واقدی سچا دکھائی دیتا ہے.پھر زید ابن المبارک کے حوالے سے لکھا گیا ہے."كَانَ عَبْدُ الرَّزَّاقُ كَذَاباً يَسْرِقُ الْحَدِيثَ (تہذیب التہذیب، الجزء الخامس صفحہ 216 حرف العین من اسمه عبد الرزاق) کہ وہ صرف کذاب ہی نہیں تھا بلکہ دوسروں کی حدیثیں بھی چوری کیا کرتا تھا اور انہیں اپنی طرف سے منسوب کر دیا کرتا تھا.عبد الرزاق اور واقدی جیسے جعلسازوں اور وضاعوں کے مجموعوں سے جہاں دشمنان اسلام مواد لے کر رسول اللہ صلی الی یم ، اور اسلام پر جی بھر کے بے دریغ حملے کرتے ہیں، وہاں انہی ا وضعی اور جعلی روایات کو آج کے متشرد مسلمان علماء توہین رسول کے مر تکب کے قتل کے حق میں فتوؤں کے طور پر پیش کرتے ہیں.جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا منبع ہی جھوٹا اور وضعی ہے ، جو عملاً اسلام کے حسین چہرے اور رسول اللہ صلی الی یکم کی پاک سیرت پر خون کے دھبے لگانے والا
توہین رسالت کی سزا { 110} قتل نہیں ہے ہے.اسے ترک کر کے عجز و انکسار، رحمت و محبت اور عفو و درگز کی راہ پر چلنا ہی اللہ تعالیٰ اور رسول مقبول صلی ایم کی مرضی ہے.یہی اسلام کی بقا اور انسان کی اپنی روحانی زندگی کی فلاح کی اساس ہے.واقدی کتب اسماء الرجال میں عبد الرزاق کو چونکہ واقدی سے بڑھ کر جھوٹا قرار دیا گیا ہے ، اس لئے واقدی کے حالات کا جائزہ بھی قارئین کی خدمت میں پیش ہے.تا کہ موازنہ کر کے ہر قاری یہ اندازہ کر سکے کہ مصنف عبد الرزاق کو جس شخص سے زیادہ جھوٹا قرار دیا جاتا ہے ، وہ خود کیسا تھا؟ کیا اس کی پیش کردہ خلافِ قرآن و سنت رسول روایات کو قبول کیا جا سکتا ہے ؟ کیا ان پر کسی عقیدے یا قانون کی بنیاد قائم کی جاسکتی ہے ؟ اور اگر ان وضعی روایات پر کسی عقیدے یا قانون کی بنیاد رکھی جائے تو کیا وہ عقیدہ یا قانون سچا کہلا سکتا ہے ؟ ان سوالوں کا ایک ہی جواب ہو گا کہ نہیں اور ہر گز نہیں.واقدی کا نام محمد بن عمر الواقدی تھا.اس کا زمانہ 130ھ سے 207ھ ہے.اس کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: ” مَتَرُولُ الْحَدِيثِ “ واقدی اس قابل نہیں ہے کہ اس سے کوئی روایت لی جائے.امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: "هُوَ كَذَّابٌ يُقَدِّبُ الْحَدِيثَ “ واقدی پرلے درجہ کا جھوٹ بولنے والا شخص ہے جو روایتوں کو بگاڑ بگاڑ کر بیان کرتا ہے.ابواحمد عبد الله بن محمد المعروف بابن عدی: "اَحَادِيْتُهُ غَيْرُ مَحْفُوْظَةٍ وَالْبَلَاءُ مِنْهُ واقدی کی روایتیں قابل اعتبار نہیں ہیں اور یہ خرابی خود اس کے اپنے نفس کی طرف سے ہے.
توہین رسالت کی سزا { 111} قتل نہیں ہے ابو حاتم محمد بن اور لیس : يَضَعُ الْحَدِيثَ “ واقدی اپنے پاس سے جھوٹی حدیثیں بنا بنا کر بیان کرتا تھا.66 علی بن عبد اللہ بن جعفر المعروف بابن المدینی: " يَضَعُ الْحَدِيثَ لَا أَرْضَاهُ فِي شَيءٍ“ واقدی جھوٹی روایتیں بناتا تھا.میرے نزدیک وہ کسی جہت سے بھی قابل قبول نہیں.امام علی بن محمد الدار قطنى فِيْهِ ضُعف “ واقدی کی روایتیں ضعیف ہیں.اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راہویہ: هُوَ عِنْدِى مِمَّنْ يَضَعُ الْحَدِيثَ “ میرے نزدیک واقدی جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ایک تھا.امام شافعی: "كُتُبُ الْوَاقْدِى كُلُّهَا كِذَبٌ كَانَ يَضَعُ الْأَسَانِيدَ “ واقدی کی سب کتابیں جھوٹ کا انبار ہیں.وہ اپنے پاس سے جھوٹی سندیں گھڑ لیا کرتا تھا.امام ابو داود : "لَا أَكْتُبُ حَدِيثَهُ - إِنَّهُ كَانَ يَفْتَعِلُ الْحَدِيثَ “ میرے نزدیک واقدی کی روایات مقبول نہیں.وہ اپنے پاس سے حدیثیں گھڑ لیا کرتا تھا.امام نسائی : الْوَاقْدِى مِنَ الْكَذَابِيْنَ الْمَعْرُوفِينَ بِالْكِذَبِ“ واقدی ایسے جھوٹے لوگوں میں سے تھا جن کا جھوٹ ظاہر اور عیاں ہے اور اسے سب جانتے ہیں.امام نووی: ضَعِيفٌ بِاتِّفَاقِهِمْ “ واقدی سب محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف الروایت ہے.
***** توہین رسالت کی سزا { 112 } قتل نہیں ہے علامہ ذہبی: اسْتَقَرَّ الْإِجْمَاعُ عَلَى وَهْنِ الْوَاقْدِی“سب محققین نے واقدی کے کمزور ہونے کے متعلق اجماع کیا ہے.علامہ ابن خلقان: ضَعَفُوهُ فِي الْحَدِيْثِ وَ تَكَلَّمُوا فِیهِ» محققین نے واقدی کو ضعیف ، قرار دیا ہے اور اس پر بہت اعتراض کئے ہیں.علامہ زرقانی: "الْوَاقْدِى لَا يَحْتَجُ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ فَكَيْفَ إِذَا خَالَفَ “ واقدی اگر کسی بات کے بیان کرنے میں اکیلا ہو تو محققین کے نزدیک اس کی روایت قابل حجت نہیں ہے.پھر اس پر خود قیاس کر لو کہ ایسی بات میں اس کی روایت کا کیا وزن ہو سکتا ہے جو دوسری روایات کے خلاف ہو.یہ شہادتیں ہیں جو متقدمین اور متاخرین نے واقدی کے بارہ میں پیش کی ہیں.ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو واقدی کے ہمعصر ہیں اور اس کے حالات کے عینی شاہد ہیں.الغرض خلاصہ یہ ہے کہ واقدی سب محققین کے نزدیک بالاتفاق ضعیف الروایت ہے.اس قابل نہیں کہ اس سے کوئی روایت لی جائے.مزید تفصیل کے لئے دیکھیں کتب میزان الاعتدال‘ ، تہذیب التہذیب، وفیات الاعیان اور شرح مواہب اللہ نیہ وغیر ہا.
توہین رسالت کی سزا { 113 ) قتل نہیں ہے 12 آنحضرت صلی الیکم کی طرف جھوٹ منسوب کرنے والا وَ رُوِيَ أَنَّ رَجُلاً كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ علاه والله فَبَعَثَ عَلِيّاً وَ الزُّبَيْرَ إِلَيْهِ لِيَقْتُلَاهُ کہ یہ روایت کی گئی ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی علیم کی طرف جھوٹ منسوب کیا.اس پر آپ نے حضرت علیؓ اور حضرت زبیر کو بھیجا تا کہ اسے قتل کر دیں.اس روایت کے بارے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس میں اس شخص کے رسول لله صل ال یکم پر افتراء کا ذکر ہے، کسی سب و شتم اور توہین و تنقیص کا کوئی ذکر نہیں ہے.اس لئے اسے توہین رسول کے مسئلے میں پیش نہیں کیا جا سکتا.دوسری بات یہ ہے کہ یہ روایت نہ صحاح ستہ میں ہے اور نہ ہی کتب حدیث کے دوسرے یا تیسرے درجے کی کتب میں ہے.پھر ڈوی کے لفظ سے ظاہر ہے کہ اس کا راوی مجہول ہے.یعنی نہ اس کے نام کا ذکر ہے نہ اس کی کسی اور شناخت کا.یا اس کا راوی ہے ہی کوئی نہیں ، یعنی یہ خود تراشیدہ روایت ہے.نیز اس روایت کے جھوٹا ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ روایت مبینہ طور پر مصنف عبد الرزاق سے لی گئی ہے.( شرح الشفاء القسم الرابع فی بیان معصوفی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحہ 406) بعینہ اس سے ملتی جلتی ایک اور من گھڑت روایت بیہقی میں بھی درج ہے کہ انصار کی بستیوں میں سے ایک شخص کسی بستی میں آیا اور اس نے لوگوں سے کہا کہ رسول اللہ صلی یم نے مجھے فلاں عورت سے شادی کرنے کا کہا ہے.یہ بات آپ کو معلوم ہوئی تو آپ نے علی اور زبیر رض سے کہا کہ جاؤ اور اسے پاؤ تو قتل کر دو اور تم اسے ضرور پالو گے.پس وہ دونوں نکلے تو انہوں نے اسے اس حالت میں پایا کہ اسے سانپ ڈس کر مار چکا تھا.( شرح الشفاء القسم الرابع في بيان ماھو فی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحه 406)
توہین رسالت کی سزا { 114 } قتل نہیں ہے پس بالکل واضح ہے کہ یہ بہیقی اور مصنف عبد الرزاق کے کرشمے ہیں کہ وضعی اور جھوٹی روایتیں گھڑتے یا جمع کرتے چلے جاتے ہیں.اور آج انسانی خون سے کھیلنے والے ایسی روایت کو اپنے جھوٹے عقیدے کی تائید میں پیش کر کے اپنے عقیدوں کے جھوٹا ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں.کتاب "الصارم......میں اس روایت کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی الم نے فرمایا : "مَنْ كَذَبَ عَلَى مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّاً مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.“ کہ جو جھوٹے طور پر جان بوجھ کر میری طرف کوئی بات منسوب کرے تو وہ اپنا ٹھکانا آگ میں بنائے.( الصارم المسلول......زیر عنوان مسبب تعیین قتل الساب، صفحہ :117) اس کے بعد لکھا ہے کہ انہوں نے اسے جلا دیا.یعنی رسول اللہ صلی الی یکیم کے اس قول کا یہ مطلب تھا کہ اس مرے ہوئے شخص کو جلا دیا جائے.یہ ایک عجیب استدلال ہے کہ ' آگ میں ٹھکانے سے مراد یہ ہے کہ مردہ کو جلا دیا جائے.اگر یہ استدلال درست تسلیم کر لیا جائے تو قرآن کریم میں مثلاً آتا ہے کہ ”وَالَّذِينَ كَفَروا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا أُولَبِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة:40) کہ جنہوں نے کفر کیا اور ہمارے نشانات کو جھٹلایا، یہ آگ میں جھونکے جانے والے ہیں، وہ اس میں لمبا عرصہ رہیں گے.ان تمام کفار اور آیات کی تکذیب کرنے والوں کو زندہ یا ان کے مرنے کے بعد جلا دینا چاہئے تھا.ظاہر ہے کہ ایسے سب لوگ ہمیشہ رسول اللہ صلی الی یوم کے ارد گرد رہے ہیں.حالانکہ اللہ تعالیٰ کا انکار ، رسول کا انکار اور آیات کی تکذیب آپ پر جھوٹ باندھنے سے بڑے جرم ہیں.لیکن تاریخ اسلام کا سچا اور مستند ریکارڈ گواہ ہے کہ ان پر انہیں مار کر جلایا نہیں گیا.بلکہ کسی ایک کے ساتھ بھی یہ سلوک نہیں کیا گیا.ایسے لوگ جب جنگ بدر میں مقتولین کی صورت میں
توہین رسالت کی سزا { 115} قتل نہیں ہے میدان بدر میں ملے تو حضور صلی الی یکم کے انہیں جلایا نہیں بلکہ قلیب بدر میں دفنا دیا.پس اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آگ میں ٹھکانے سے جو مراد کتاب "الصارم......میں لی گئی ہے ، قرآن کریم اور سنت و عمل رسول اللہ صلی علیم کے خلاف ہے.اس لئے قابل رڈ ہے.اگر ایک وضعی روایت پر بناکر کے اس کی تائید میں آنحضرت صلی للی کم کا ایک فرمان پیش کیا گیا ہے اور آپ پر جھوٹ باندھنے والے کو مار کر جلانا اس کے معنے قرار دیئے گئے ہیں تو پھر قرآن کریم میں جو بیبیوں جگہ آگ کے ٹھکانے والوں کا ذکر ہے ، ان سب کو ان کی موت کے بعد جلا دینا چاہئے تھا.مگر ایسا کبھی بھی نہیں کیا گیا اور ایک بار بھی نہیں کیا گیا.پس یہ ایک حتمی ثبوت ہے کہ ” الصارم......“ کا یہ استدلال درست نہیں ہے.یہ تو قرآنِ کریم کے حوالے سے اس بحث کا ایک علمی اور واقعاتی پہلو تھا.مگر اس مذکورہ بالا استدلال کے بعد الصارم...میں اگلی روایت یہ درج کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے جس آدمی کو قتل کرنے اور جلانے کے لئے بھیجا تھا، اسے واپس بلا کر پھر یہ فرمایا تھا: " انی قد أَمَرْتُكَ أَنْ تَضْرِبَ عُنُقَهُ وَأَنْ تَحْرِقْهُ بِالنَّارِ، فَإِنْ أَمْكَنَكَ اللَّهُ مِنْهُ فَاضْرِبْ عُنُقَهُ، وَلَا تُحْرِقْهُ بِالنَّارِ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ، وَلَا أَرَاكَ إِلَّا قَدْ كُفِيْتَهُ.کہ میں نے تمہیں اس کی گردن اڑانے اور اسے آگ میں جلانے کا حکم دیا تھا تو اگر اللہ تجھے اس پر قدرت عطا کرے تو اس کی گردن اڑا دینا اور اسے آگ میں مت جلانا، اس لئے کہ آگ کا عذاب صرف وہ ذات دیتی ہے جو آگ کی مالک ہے اور میر اخیال ہے کہ تمہاری جان اس سے چھوٹ جائے گی.یہ دونوں روایتیں اکٹھی درج کی گئی ہیں.دوسرے یہ کہ پہلی روایت میں آگ میں جلانے کا حکم ہے اور دوسری میں تردید ہے.یہ دونوں ایک دوسری سے متصادم ہیں.اس لئے ان میں سے بہر حال ایک درست ہے اور دوسری نہیں ہے.
***** توہین رسالت کی سزا { 116 } قتل نہیں ہے اگر ان میں سے مؤخر الذکر روایت کو درست گمان کیا جائے تو دیگر روایات جو آگ میں جلانے کا ذکر کرتی ہیں وہ تمام اس سے متصادم ہونے کی وجہ سے خود بخو د ر ڈ ہو جاتی ہیں.یہ حقیقت بہر حال ثابت شدہ ہے کہ آگ میں نہ جلانے والی مؤخر الذکر روایت قرآن کریم اور سنت رسول سے پوری طرح موافق ہونے کی وجہ سے درست قرار پاتی ہے.ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ ﷺ کا فرمان "مَنْ كَذَبَ عَلَى مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.صحیحین میں تقریباً دس مرتبہ مذکور ہے.ان میں کسی جگہ بھی یہ وو قول رسول اس جھوٹ بولنے والے شخص کے واقعے کے ساتھ درج نہیں ہے.مگر کتاب ” وو الصارم.....“ میں لکھا ہے کہ " فَعِنْدَ ذلِكَ قَالَ رَسُولُ الله صلی اللہ کہ " اس موقع پر آپ نے یہ فرمایا.پس یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے کہ رسول اللہ صلی ال نیلم کی اس وعید کو پیش کر کے اسی کے تحت یہ روایت وضع کی گئی ہے اور آپ کی طرف ایک جھوٹا واقعہ منسوب کیا گیا ہے.ونعوذ باللہ من ذلک
توہین رسالت کی سزا { 117 } قتل نہیں ہے 13 حضرت زبیر کا ایک شخص کو قتل کرنا اس روایت کے الفاظ ہیں: "إِنَّ النَّبِيِّ علب و اللهم سَبَّهُ رَجُلٌ، فَقَالَ مَنْ يَكْفِيْنِي عليه عَدُوّى فَقَالَ الزُّبَيْرُ : أَنَا ، فَبَارَزَهُ فَقَتَلَهُ الزُّبَيْرُ - مصنف عبد الرزاق کتاب الجہاد باب من ذقی وجھہ النبي " حديث 9649 و الشفاء صفحہ 222 و شرح الشفاء القسم الرابع فی بیان ماھو فی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحہ 406) ک رسول اللہ صلی اللہ کل کو ایک شخص نے گالی دی.تو آپ نے فرمایا کہ میرے لئے میرے اس دشمن کو کون نپٹے گا.اس پر زبیر نے کہا: میں.چنانچہ زبیر نے اسے مقابلہ کے لئے للکارا اور قتل کر دیا.به مصنف عبد الرزاق صاحب ہیں جو حدیثیں گھڑ گھڑ کے پیش کئے چلے جارہے ہیں.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی علی یم کو کسی نے گالی دی.آپ نے فرمایا: ” مَنْ يَكْفِينِي عَدُوّی کون ہے جو مجھے میرے دشمن سے بچائے ؟ ٹکسالی کا یہ فقرہ تو ہر جگہ چلایا جارہا ہے.ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور اس گالی دینے والے کو قتل کر دیتا ہے.چنانچہ یہاں اس روایت میں حضرت زبیر کو آگے لائے ہیں کہ انہوں نے اس کو قتل کر دیا.جہانتک اس زیر بحث روایت کے مندرجات ،ماحول اور منظر کا تعلق ہے تو حضرت زبیر والا یہ واقعہ غزوہ احزاب کا معلوم ہوتا ہے جب عین لڑائی کے دوران کفار کے لشکر میں سے نوفل بن عبد اللہ آنحضرت صلی اللی علم کے قتل کے لئے آگے بڑھا تو حضرت زبیر بن العوام نے آگے بڑھ کر اسے ڈھیر کر دیا.( زرقانی شرح المواہب اللدنیہ: غزوہ احزاب ) یعنی یہ دورانِ جنگ مبارزت کا منظر ہے نہ کہ سب و شتم کا.
توہین رسالت کی سزا { 118 } قتل نہیں ہے اسی روایت میں فَبَارَزَہ کے لفظ سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ کسی جنگ کا موقع ہے اور مبارزت کا منظر ہے.اس زمانے میں جب جنگ ہوتی تھی تو ابتداء میں ایک ایک کر کے دشمن کا بہا در پہلوان نکلتا تھا اور اپنے مقابل پر آنے کے لئے وہ آواز دیتا تھا تو ادھر سے بھی اس سے مقابلے کے لئے ایک بہادر جانباز نکلتا تھا.چنانچہ اس زیر بحث روایت میں وہی منظر پیش ہوا ہے کہ اس وقت ایک دشمن اسلام نے جنگ کے دوران نکل کر للکارا ہے.آنحضرت صلی ا ہم نے اعلان فرمایا اور یہی آپ کا دستور تھا کہ آپ اعلان فرماتے تھے کہ اس دشمن سے نپٹنے کے لئے کون نکلے گا؟ چنانچہ اس وقت آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حضرت زبیر نکلے اور انہوں نے اس بالمقابل دشمن کو قتل کر دیا.اس مبارزت والے واقعے کو غزوہ احزاب سے منسلک تسلیم کیا جائے تو اسے درست قرار دیا جاسکتا ہے.مگر اس کے باوجو د بھی اسے توہین رسول کے ضمن میں پیش نہیں کیا جاسکتا.اس کا اس مسئلے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے.علاوہ ازیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس روایت کا مصنف جھوٹا اور اول درجے کا جھوٹا ہے ،ایسا جھوٹا کہ واقدی کا چہرہ بھی اس کے سامنے سچادکھائی دے.احادیث صحیحہ اور مستند تاریخی روایات کے مطالعے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور مستند صحیح واقعہ آنحضرت صلی الیم کی زندگی میں ایساد کھائی نہیں دیتا جس میں حضرت زبیر نے کسی کو عام حالات میں آپ کے رُوبر و قتل کیا ہو.اگر اس واقعے کے ساتھ روایتیں بنانے والوں نے تراش خراش کی ہے تو الگ بات ہے مگر اصل واقعے کے مطابق تو میدان کارزار میں دشمن کا دفاع کرنا اور دفاع میں اس کا قتل کرنا کسی قسم کے اعتراض کے تحت نہیں آتا.یہ تو لڑائی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے.مگر اس کو بدل
توہین رسالت کی سزا { 119 قتل نہیں ہے کر اس طرح پیش کرنا کہ گویا آنحضرت علی علی کم باقی ہر حرکت برداشت کر لیتے تھے مگر اپنے اوپر کسی گالی کو برداشت نہیں کر سکتے تھے اور جب تک اس بد زبان شاتم کو قتل نہ کروالیتے نعوذ باللہ آپ کا غیظ و غضب فرو نہ ہو تا تھا.إِنَّ الله وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.دورانِ جنگ مبارزت میں کسی کے قتل کے واقعے کو سب و شتم رسول کی ذیل میں لانا ہی بتاتا ہے کہ تکلف کے ساتھ اور کھینچ تان کر ایک خود تراشیدہ جھوٹے مسئلے کو تقویت دی جارہی ہے جس کا اسلام کی تعلیم سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.اس روایت پر ملا علی قاری نے یہ تبصرہ تحریر کیا ہے کہ عبد الرزاق نے یہ روایت عکرمہ سے مرسل ذکر کی ہے.یعنی اس کی سند میں راویوں کا سلسلہ ٹوٹتا ہے.اور سند صحابی تک نہیں پہنچتی.یعنی یہ روایت ہر گز قابل استناد و اعتبار نہیں ہے.ہاں یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس روایت کی سند صحابی تک تو نہیں پہنچتی مگر ان راویوں تک پکی ہے جو روایتیں گھڑنے میں مشہور معروف ہیں اور جھوٹے ہیں.حضرت زبیر والی جو روایت کتاب الشفاء میں ہے.اس کی شرح میں لکھا ہے کہ اس کا راوی عکرمہ ہے.(شرح الشفاء القسم الرابع فی بیان ماھو فی حقہ علیہ السلام سب او نقص صفحہ 406) یعنی نہلے پر دہلا ہے.ایک تو کتاب کا مصنف عبد الرزاق ہے اور اوپر سے روایت کا راوی ہے عکرمہ.لہذ امسئلہ دو دو چار کی مانند حل ہو جاتا ہے کہ یہ قطعی طور پر وضعی روایت ہے.عملاً غزوہ احزاب کے علاوہ اور ایسا کوئی واقعہ تاریخ اسلام میں رو پذیر نہیں ہوا.*****
توہین رسالت کی سزا 120 } قتل نہیں ہے 14 نابینا اور اس کی بیوی عليه عَنْ عِكْرَمَةَ قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ أَعْلَى كَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِيَّ عل الله وَتَقَعُ فِيْهِ فَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، قَالَ : فَلَمَّا كَانَتْ ذَاتَ لَيْلَةٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِي النَّبِي علاه الله وَ تَشْتُمُهُ فَأَخَذَ المِغْوَلَ فَوَضَعَهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَا عَلَيْهَا فَقَتَلَهَا فَوَقَعَ بَيْنَ رِجْلَيْهَا طِفْلَ فَلَطَّخَتْ مَا هُنَاكَ بِالدَّمِ ، فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللهِ عَليه السلام فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ: اَنْشُدُ اللهَ رَجُلاً فَعَلَ مَا فَعَلَ لِي عَلَيْهِ حَقٌّ إِلا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَى يَتَخَطَّى النَّاسَ وَهُوَ يَتَزَلْزَلُ حَتَّى قَعَدَ بَيْنَ يَدَى النَّبِي فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ : أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ تَشْتُبُكَ وَتَقَعُ فِيْكَ فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي وَازْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِى مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّوْلَوتَيْنِ وَكَانَتْ بِي رَفِيْقَةٌ فَلَمَّا كَانَتْ البَارِحَةَ جَعَلَتْ تَشْتُمُكَ وَتَقَعُ فِيْكَ فَأَخَذْتُ المِغْوَلَ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا وَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ عَليه والله : الاشْهَدُوْا أَنَّ دَمَهَا هَدَر.“ ( ابوداؤ د کتاب الحدود الحكم فيمن سب رسول الله صلى الرم) کہ عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے بیان فرمایا کہ ایک نابینا تھا جس کی اتم الولد تھی.(یعنی وہ لونڈی جو اس شخص کے بچے کی ماں تھی) جو رسول اللہ صلی اللہ تم کو گالیاں دیا کرتی تھی.وہ اسے منع کرتا تھا مگر وہ رکتی نہ تھی.وہ اسے ڈانٹتا تھا لیکن وہ باز نہ آتی تھی.ایک رات وہ نبی کریم صلی علیہ ہم کو برا بھلا کہنے اور گالیاں دینے لگی.تو اس نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ میں اتار دیا اور خود اس پر ٹیک لگادی حتی کہ اسے قتل کر دیا.اس حالت میں اس کی ٹانگوں میں اس کا بچہ بھی آگیا جو خون میں لت پت ہو گیا.جب صبح ہوئی تو یہ واقعہ رسول اللہ صلی تعلیم کی خدمت میں ذکر کیا گیا.آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا : میں ایسا کرنے والے کو اللہ
توہین رسالت کی سزا 121 } قتل نہیں ہے کی اور اپنے حق کی جو میرا اس پر ہے، قسم دیتا ہوں کہ وہ کھڑ ا ہو جائے.اس پر وہ نابینا کھٹڑ اہوا اور لوگوں کو پھاند تا ہوا، کانپتا ہوا آگے آیا حتی کہ نبی کریم صلی ایم کے قدموں میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ وہ اس کا خاوند ہے ، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور بُرا بھلا کہتی تھی.اس نے اسے منع کیا مگر وہ نہ ر کی.اس نے اسے ڈانٹا لیکن وہ باز نہ آئی.اس سے اس کے دو موتیوں جیسے بیٹے ہیں.وہ اس کی رفیقہ حیات تھی مگر رات جب اس نے آپ پر گالی گلوچ کی تو اس نے خنجر لیا اور اس کے پیٹ میں اتار دیا اور خود اس پر ٹیک لگادی حتی کہ اسے قتل کر دیا.رسول اللہ صلی الم نے فرمایا: گواہ رہو اس کا خون رائیگاں ہے.جہانتک وقوعے کے منظر کا تعلق ہے ، چونکہ اس واقعے کا کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے، اس مقدمے میں مزعومہ قاتل جو نابینا ہے، خود مجرم بھی ہے ، مدعی بھی اور اگر وقوعے کا کوئی گواہ ہے تو وہ بھی وہ خود ہی ہے.لہذا اس پر ذرا غور کیا جائے تو حسب ذیل پہلو سامنے آتے ہیں.مثلاً یہ ذاتی غصہ تھایا کیا تھا؟ کسی کو علم نہیں ہے.اس کا بھی کوئی گواہ نہیں ہے.روایت میں واضح طور پر درج ہے کہ گھر میں سب وشتم کا سلسلہ تھا یعنی مقتولہ گالی گلوچ کی عادی تھی.خاوند مسلسل تنبیہہ کرتا تھا مگر وہ سنتی نہ تھی.یعنی وہ تو تکار والی بد زبان عورت تھی اور اگر رسول اللہ صلی للی کم کو گالیاں دیتی تھی تو اپنے خاوند کو کیوں نہ دیتی ہو گی.پس واضح ہے کہ اس کی زبان درازی کی وجہ سے ان کا آپس میں جھگڑا رہتا تھا.اس موقع پر خاوند نے طیش میں آکر اسے قتل کر دیا.یعنی غالب امکان ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی للی کم پر سب و شتم وجہ قتل نہ ہو بلکہ ان کا اپنا جھگڑا اور فساد ہو، کوئی ذاتی انگیخت ہو جس میں بوڑھے نے مغلوب الغضب ہو کر اسے قتل کر دیا.
توہین رسالت کی سزا 122 } قتل نہیں ہے راوی نے تو یہ بیان کیا ہے کہ اس رات اس نے رسول اللہ صلی ا ظلم کے خلاف بد زبانی کی تھی مگر وہ راوی خود وقوعے کا گواہ تو نہیں ہے.راوی اور قاتل کے بیان سے اگر ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس موقع پر در حقیقت کس بات پر جھگڑا ہوا تھا.اس مقدمے میں مزید چند امور ایسے ہیں جن سے صرفِ نظر ممکن نہیں.مثلاً اگر نابینا قاتل مان بھی لیا جائے تو مقتولہ ایسی اتم الولد تھی جس کا کوئی والی وارث نہ تھا.لہذ اقصاص کس نے لینا تھا؟ دیت کس کو دینی تھی ؟ جب قصاص یا دیت کے لئے مدعی ہی کوئی نہیں تھا تو اس نابینے قاتل کو کیونکر قصاص میں قتل کیا جاتا؟ یہ ایسا کیس تھا جو کسی بھی عدالت میں دیا جائے تو دعوی، شہادت، ثبوت یا دلائل وغیرہ مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہ عدالت سے لازماً خارج ہو گا.اس صورتِ حال میں یہی معنے دَمُهَا ھدر کے ہیں کہ اس کا خون رائیگاں چلا گیا.اس کا کوئی والی وارث نہ تھا جو اس کے خون سے کا مطالبہ کرتا.آنحضرت صلی الم نے فرمایا دَمُهَا هَدَر کہ اس کا خون معاف ہے یا رائیگاں ہے.حیرت ہے کہ اس سے یہ ظالمانہ مطلب کس طرح اخذ کیا گیا ہے کہ آپ پر سب و شتم کرنے والے کو جو چاہے قتل کر دے.اس مقتول شاتم کا خون رائیگاں سمجھا جائے گا.یہاں کوئی عام قانون تو بیان نہیں ہوا.بلکہ اس زیر نظر معتین اور منفرد مقدمے پر اس کی اپنی ایک الگ نوعیت کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علم کا ایک معین اور مخصوص فیصلہ ہے کہ یہ مقتولہ، جس کا کوئی والی وارث نہیں، کوئی قصاص کا مطالبہ کرنے والا نہیں، کوئی دیت کا طلبگار نہیں.کسی کو اس کا خونہا ادا کرنا ممکن نہیں ہے عملاً وہ رائیگاں چلا گیا ہے.یہ ہے اس فیصلے کا اصل منظر اور پس منظر.
توہین رسالت کی سزا 123 } قتل نہیں ہے جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ اس واقعے کے نامکمل اور نامعلوم کوائف کے پیش نظر نحضرت صلی اللہ ولیم نے اس کا خون رائیگاں قرار دے دیا.مگر واضح ہو کہ اس میں آپ نے ہر گز کوئی مستقل قانون نہیں بنایا کہ جو آپ کو گالی دے اسے قتل کر دیا جائے تو اس کا خون اکارت جائے گا.نہ ہی آپ نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو چاہے اٹھے اور اپنی کسی انگیخت کی بناء پر کسی کو قتل کر دے اور پھر دعوی کر دے کہ اس نے آپ کو گالی دی تھی.رسول اللہ صلی الم نے ایسی بد لگا می کی اجازت کبھی بھی نہیں دی.اس روایت پر کتاب بلوغ المرام فی احادیث الاحکام کے حوالے سے یہ کہنا کہ ”یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ ہم کو برا کہنے والا قتل کیا جائے گا اور مسلمان ہونے کی صورت میں مرتد ہو جائے گا اور اس سے توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی.“ ناموس رسول اور قانون توہین رسالت صفحہ 182) ایک انتہائی ظالمانہ بات ہے.اس روایت میں آنحضرت صلی اللہ کا کسی قسم کا کوئی حکم نہیں ہے کہ شاتم رسول کو قتل کیا جائے گا یا اگر وہ مسلمان ہے تو وہ مرتد ہو جائے گا.یہ شرح کرنے والوں کی اپنی وحشیانہ ذہنیت سے جنم زدہ الفاظ ہیں.مذکورہ بالا حادثہ تو ایسا تھا کہ جس کی تفصیلات یا حقائق کا سوائے مزعومہ قاتل کے کسی کو علم نہ تھا.اس کا کوئی گواہ نہیں تھا.لہذا جو بیان قاتل نے دیاوہ کسی چشم دید شاہد کا بیان تو نہیں تھا، وہ تو ایک قاتل کا بیان تھا.اس سے اس طرح اصول وضع کرنے کی جسارت کرنا اور آنحضرت علی ای کمی کی طرف انہیں منسوب کرنا بذاتِ خود آپ کے بلند تشریعی مقام کی تنقیص ہے.مزید پہلو: جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس روایت میں مارنے والے کا نام مذکور نہیں ہے ، اور نہ ہی مقتولہ کا نام مذکور ہے.یعنی مزعومہ قاتل بھی مجہول ہے اور مقتولہ بھی.یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک ایسی روایت جس پر ایک عقیدے یا قانون کی بنیاد پڑ رہی ہو ، اس کے
توہین رسالت کی سزا 124 قتل نہیں ہے مرکزی کردار کے نام کا نہ تو روایت کرنے والے کسی راوی کو علم ہو اور نہ ہی صحابہ میں سے کسی ایک کو.اس میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ عکرمہ نے یہ حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے.یہ درست ہے کہ حضرت ابن عباس ایک بہت بڑے عالم دین اور صاحب زہد و اتقاء صحابی تھے.مگر یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ آپ کے ساتھ ظلم یہ کیا گیا ہے کہ آپ کی طرف ایسی روایات منسوب کر دی گئی ہیں جو آپ نے بیان نہیں کیں.(اس حقیقت کا ذکر عکرمہ کے تعارف میں گزر چکا ہے.مگر آپ صرف روایات کے پہلو سے ہی مظلوم نہیں ہیں ، بلکہ تفاسیر کے پہلو سے بھی اپنے ہی دوستوں نے آپؐ پر ہمیشہ تیر چلائے ہیں اور آپ کی طرف آیات قرآنیہ کی غلط تفسیریں منسوب کی ہیں.چنانچہ امام جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے: دو هذِهِ التَّفَاسِيرُ الطَّوَالُ الَّتِي اَسْنَدُوهَا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ غَيْرُ مَرْضِيَّةٍ وَرُوَاتُهَا مجَاهِيْلٌ - ( الاتقان: جلد 2 باب النوع الثامن فی طبقات المفسرین.صفحہ 188 - الناشر دار الندوۃ الجدیدہ بیروت) کہ یہ لمبی تفسیریں جن کو مفسرین نے حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کیا ہے، ناپسندیدہ / ناقابل قبول ہیں اور ان کے راوی مجہول ہیں.علامہ شوکانی نے بھی یہ بات بڑی کھول کر بیان فرمائی ہے.آپ لکھتے ہیں: وَمِنْ جُمْلَةِ التَّفَاسِيرِ الَّتِي لَا يُوْثَقُ بِهَا تَفْسِيرُ ابْنِ عَبَّاسٍ فَإِنَّهُ مَرْوِيٌّ مِنْ طَرِيقِ الكَذَّابِينَ “.(الفوائد المجموعه في الاحاديث الموضوعه از علامه الشوکانی صفحه 111، ومطبوعه در مطبع محمدی لاہور 1303ھ صفحہ 104) کہ وہ تمام تفسیریں میں جن پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، تفسیر ابن عباس بھی ہے کیونکہ وہ جھوٹوں کی راہ (اسناد) سے روایت ہوئی ہیں.
***** توہین رسالت کی سزا 125} قتل نہیں ہے جیسا کہ واضح ہے، زیر بحث روایت کا راوی بھی وہی عکرمہ بر بری خارجی ہے.اسے جہاں بھی موقع ملا ہے، حضرت ابن عباس کی آڑ لے کر اپنا کام کر گیا ہے.پس اس کی بیان کردہ روایات پر جنہوں نے اپنے ظالمانہ عقائد یا قانون کی بنیاد رکھی ہے ، ان کی دلیل کی اصلیت ائم نشرح ہے.پس ان حقائق کے پیش نظر اس روایت کو کسی طرح بھی صحیح حدیث تو کیا ایک عام صحیح بات کے طور پر بھی قبول نہیں کیا جاسکتا.جھوٹے راویوں نے اس طرح کی اکثر روایات حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کی ہیں اور وہ آپ ہی کے نام سے کتب احادیث میں درج ہوئی ہیں.چنانچہ اس نوع کی بعض روایات پر گزشتہ صفحات میں کسی قدر بحث ہو چکی ہے.یہ سب خود ثابت کرتی ہیں کہ یہ واقعات خود بنائے گئے ہیں.ایسی سب روایات کا جزوی اختلاف بھی انہیں قطعی طور پر وضعی ثابت کرتا ہے.
توہین رسالت کی سزا 126 } قتل نہیں ہے :15 یہ حق رسول اللہ صلی علیم کے سوا کسی اور کے لئے نہیں ہے حسب ذیل روایت بھی اس موقف کے لئے پیش کی جاتی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے.چنانچہ لکھا ہے: عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَئِ قَالَ : أَغْلَظَ رَجُلٌ لِأَبِي بَكْرِ الصِّدِّيقَ، فَقُلْتُ ، أَقْتُلُهُ فَانْتَهَزَنِ، وَقَالَ، لَيْسَ هُذَا لِاَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ علل و الله سنن النسائی کتاب تحريم الدم باب الحکم فیمن سب رسول الله ل لام و باب ذکر اختلاف على الاعمش في هذا الحدیث) کہ ابو برزہ الا سلمی کی روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر پر سخت کلامی کی.اس پر میں نے عرض کی: میں اسے قتل کر دوں.اس پر آپ نے مجھے منع کرتے ہوئے فرمایا: یہ رسول اللہ صلی ال نیم کے سوا کسی اور کے لئے جائز نہیں ہے.دوسری روایات میں حضرت ابو بکر کے یہ الفاظ بھی مذکور ہیں: "لَمْ تَكُنْ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ علل و السلام اور وَاللهِ مَا كَانَتْ لِبَشَرِ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صل اللہ.کہ یہ رسول اللہ صلی علیم کے عليه علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہے.محمد علی لی ایم کے علاوہ کسی اور بشر کے لئے نہیں.ليْسَ هُذَا لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ الا اللہ میں لفظ ”ھذا “ قابل غور ہے.یہاں عليه وسلم لفظ هذا سے مراد قتل نہیں ہے.بلکہ یہ حکم قتل کے اختیار کے لئے آیا ہے یا یہ اظہار احترام اور جذبات کا قائم مقام ہے.یعنی معنے یہ ہوں گے کہ صرف رسول اللہ صلی علیم کا اختیار تھا کہ آپ ایسا حکم جاری فرماتے.کوئی اور یہ اختیار نہیں رکھتا.یا اگر گستاخی کی وجہ سے کسی کو قتل کرنے کا جواز ہو تا تو رسول اللہ صلی ال نیلم کی گستاخی کرنے والے کے لئے ہوتا.یا یہ کہ اس طرح کے جذبات غیرت و محبت کا اظہار آپ کے لئے ہونا چاہئے کسی اور کے لئے نہیں.ہماری اس دلیل کی وجہ یہ
توہین رسالت کی سزا 127 } قتل نہیں ہے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ آیت 24 میں باپ ، بیٹوں، بھائیوں، جیون ساتھیوں، رشتہ داروں، اموال، تجارتوں اور گھروں وغیرہ کے لئے جذبات پر اللہ اور اس کے رسول کو ترجیح دینے کی ترغیب دلائی ہے.اسی طرح رسول اللہ صلی علی ایم نے فرمایا ہے: " أَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُولُهُ احَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا ( بخاری کتاب الایمان باب حلاوة الایمان) که انسان ایمان کی حلاوت حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول اسے ہر رشتہ اور ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہو.پس حضرت ابو بکر نے قتل و خون کی بات نہیں کی بلکہ اختیار محکم اور جذبات محبت و احترام کی بات کی ہے کہ ایسے جذبات رسول اللہ صلی ال نیلم کے علاوہ کسی اور کے لئے نہیں ہونے چاہئیں.ہمارا یہ استدلال اس لئے درست ہے کہ خود آنحضرت صلی للی نیلم نے حضرت ابو بکر کو بھی گستاخی کرنے والے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں فرمائی تھی.چنانچہ ' الصارم.....صفحہ 28 پر لکھا ہے کہ ”اَنَّ اَبَا قَحَافَةَ شَتَمَ النَّبِيَّ عليها الله فَاَرَادَ قَتْلَهُ وَأَنَّ ابْنَ أَبَيَّ تَنَقَصَ النَّبِيَّ عليه فَاسْتَاذَنَ ابْنُهُ النَّبِيَّ عل الله في قَتْلِهِ لِذلِك " کہ ابو قحافہ (حضرت ابو بکر کے والد ) نے رسول للہ صلی الم کو گالی دی تو آپ نے ان کو قتل کرنا چاہا.اور عبد اللہ ابن ابی نے رسول اللہ صلی ایم کی تنقیص کی تو اس وجہ سے اس کے بیٹے نے آپ سے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی.تاریخ سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ ان دونوں مواقع پر رسول اللہ صلی نیلم نے ان دونوں شخصوں کو اپنے باپوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی اور وہ دونوں شاتم کبھی بھی قتل نہیں کئے گئے.اس بارے میں حضرت ابو بکر کے سامنے رسول اللہ صلی للی کم کا نمونہ اور فرمان براہِ راست موجود تھا.اور وہ یہ تھا کہ کسی بھی ہستی کے لئے بے اختیاری کے جذبات کی ایسی انگیخت
توہین رسالت کی سزا 128 } قتل نہیں ہے کے موقع پر بھی کسی شاتم کو قتل نہیں کرنا.یعنی قتل کی اجازت ہر گز نہیں ہے.پس اس نظیر کے ہوتے ہوئے حضرت ابو بکر کے بیان فرمودہ لفظ ھذا کے معنے یہ قرار پاتے ہیں کہ ایسے جذبات غیرت و محبت کا اظہار صرف رسول اللہ صلی لیلی کام کے لئے ہونا چاہیئے.کسی دوسرے کے لئے نہیں.دوسرا پہلو جو حضرت ابو بکر نے اپنے بیان لَمْ تَكُنْ لاَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ على الله میں واضح فرمایا ہے، یہ ہے کہ کسی غلطی، جرم یا گناہ پر قتل کی سزا مقرر کرنے کا اختیار صرف رسول اللہ صلی الیم کو تھا.آپ شارع تھے.اس حق کی بنا پر یہ آپ ہی کر سکتے تھے.آپ کے بعد یہ حق کسی کو نہیں دیا گیا حتی کہ خلیفہ راشد کو بھی نہیں دیا گیا.حضرت ابو بکر کے اس قول سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آپ نے امت پر واضح فرمایا ہے کہ جن جرائم کے قتل کا ارشاد رسول اللہ لی ایم نے فرمایا ہے، ان کے سوا کسی اور جرم کی سزا قتل نہیں ہے.چنانچہ جن افراد کے قتل کا ذکر آپ نے بیان فرمایا ہے ، یہ تین لوگ ہیں.جن میں گستاخ رسول یا شاتم رسول کا کسی روایت میں، کسی جگہ ، کوئی ذکر نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں: لا يَحِلُّ دَمُ امْرِيءٍ مُّسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ : رَجُلٌ زَنَى بَعْدَ اِحْصَانٍ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ وَ رَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِباً لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ أَوْ يُنفَى مِنَ الْأَرْضِ أَوْ يَقْتُلُ نَفْسًا فَيُقْتَلُ بِهَا ( ابو داؤد کتاب الحدود الحکم فیمن ارتد) کہ تین وجوہات میں سے کسی ایک کے صدور کے علاوہ کسی ایسے مسلمان کا خون جائز نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں.ایک، وہ زناکار جو شادی شدہ ہو اسے سنگسار کیا جائے گا.دوسرے ، وہ جو ( دین سے) اللہ اور اس کے
توہین رسالت کی سزا 129 | قتل نہیں ہے رسول سے محاربت کرتا ہو انکل جائے ، اسے قتل کیا جائے گا، یا صلیب پر لٹکایا جائے گا یا ملک بدر کیا جائے گا.اور تیسرے، وہ جو کسی کو قتل کرے تو اسے قتل کیا جائے گا.ان تین سزاؤں میں توہین یا سب و شتم کی سزا کا کوئی ذکر نہیں ہے.رسول اللہ صلی الیکم نے اگر شاتم کے لئے قتل کی سزا مقرر نہیں فرمائی تو آپ کے بعد اسے مقرر کرنے کا کسی کو اختیار نہیں ہے.دلچسپ بات یہ ہے کہ ابو برزہ الا سلمی والی اس زیر بحث روایت پر ابو داؤد میں اسی جگہ حضرت امام احمد بن حنبل کا حسب ذیل تبصرہ بھی تحریر ہے.آپ فرماتے ہیں : 6 أَنْ لَمْ يَكُنْ لِأَبِي بَكْرٍ أَنْ يَقْتُلَ رَجُلًا إِلَّا بِإِحْدَى الثَّلَاثِ الَّتِي قَالَهَا رَسُوْلُ اللَّهِ عليه السلام ، كُفر بَعْدَ إِيْمَانِ أَوْ زِنَا بَعْدَ اِحْصَانٍ أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ وَكَانَ لِلنَّبِيَّ أَنْ يقتل.کہ حضرت ابو بکر اس شخص کو قتل کی سزا نہیں دے سکتے تھے کیونکہ رسول اللہ صلى الم نے ان تین کے علاوہ کسی مسلمان کا خون جائز قرار نہیں دیا.ہاں رسول اللہ صلی علی کم اسے یہ سزائے قتل دے سکتے تھے.امام احمد بن حنبل کا یہ تبصرہ بہت خوبصورت، سچا اور انتہائی بصیرت افروز ہے.اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ خلیفہ تو نبی کا جانشین ہوتا ہے.وہ اس کی تعلیم کو نافذ کرنے والا ہوتا ہے ، وہ اسے تبدیل نہیں کرتا.پس خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ رسول اللہ صل الم کے بتائے ہوئے تین امور سے آگے جا کر ایک اور امر پر کسی کے قتل کا فیصلہ صادر فرماتے.سبحان اللہ ! یہ بہت ہی خوبصورت تشریح ہے جو امام احمد بن حنبل نے بیان فرمائی ہے.یہ ان دیگر تمام روایتوں پر ایک روشن رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے جن کو توہین رسالت کی ظالمانہ
توہین رسالت کی سزا 130 } قتل نہیں ہے سزا قتل کے لئے استعمال کیا گیا ہے.پس ان تین پہلوؤں کی موجودگی میں یہ کہنا کہ توہین رسالت کی سزا قتل ہے ایک جھوٹا دعوی ہے جسے قرآن ، سنتِ رسول اور حدیث نبوی سے کوئی سند حاصل نہیں.یہ یادرکھنے کی بات ہے کہ امام احمد بن حنبل ” نے یہاں یہ تبصرہ فرما کر اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ آپ خود بھی گستاخ رسول کے قتل کے قائل نہ تھے.*****
توہین رسالت کی سزا 131 } قتل نہیں ہے 16 عبد العزی بن خطل شاتم رسول کے قتل کے جواز میں لکھا ہے کہ ” صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور صلی الی یکم نے ابن خطل کو اس وجہ سے کہ وہ شاتم رسول تھا حرم میں قتل کر وا دیا.“ (ناموس رسول اور قانون توہین رسالت صفحہ 182) یہاں مصنف نے واضح جھوٹ سے کام لیا ہے.صحیح بخاری میں کسی ایک جگہ بھی ابن خطل کے شاتم ہونے کا ذکر نہیں بلکہ صحاح ستہ میں اور موطا امام مالک میں بھی اس کا ذکر نہیں کہ رسول اللہ صلی الی الم نے اسے شاتم ہونے کی وجہ سے قتل کروایا تھا.مختلف نوعیت کی سزاؤں اور تعزیرات کے واقعات کو کھینچ تان کر شتم و توہین رسول کی ذیل میں لانا پرلے درجہ کی علمی بدیانتی ہے.ابن خطل کا اصل واقعہ یہ ہے کہ اس کا نام عبد العزی تھا اور قبیلہ بنوشیم بن غالب سے تعلق رکھتا تھا.وہ فتح مکہ سے قبل مدینہ آکر مسلمان ہو گیا تھا.آنحضرت صلی للی یکم نے اس کا نام بدل کر عبد اللہ رکھا.اس لئے بعض کتب میں اس کا نام عبد اللہ بن خطل بھی آیا ہے.آپ نے اسے زکوۃ وصدقات کی وصولی کے لئے بعض بستیوں میں بھیجا.آپ نے اس کی مدد کے لئے ایک اور انصاری کو بھی اس کے ساتھ کر دیا.ابن خطل نے اسے راستے میں شہید کر دیا اور خود مرتد ہو کر ملہ فرار ہو گیا.شاعر ہونے کی وجہ سے اس نے آنحضرت صلی اللہ ظلم کی شان میں ہجو یہ شاعری بھی شروع کر دی.مکہ میں اس کی دو داشتا ئیں تھیں جو اس کی اسلام دشمن کارروائیوں میں اس کی آلہ کار تھیں.وہ اس کے اشعار گا گا کر لوگوں کو آپ اور اسلام کے خلاف اشتعال دلاتی تھیں.امر واقع یہ ہے کہ ابن خطل کے سر پر بد عہدی کا جرم بھی تھا اور شہید انصاری کا قصاص بھی.ظاہر ہے کہ اس کے قتل کے حکم میں یہ وجوہات کار فرما تھیں.جب رسول اللہ صلی ا ہم نے سکتے
توہین رسالت کی سزا 132 قتل نہیں ہے میں ڈرود فرمایا تو ابن خطل نادم ہونے یا معافی کا طلبگار ہونے کی بجائے جنگی لباس پہن کر گھوڑے پر سوار اعلان جنگ کے ساتھ یہ دعوی کرتے ہوئے مقابلے کے لئے نکلا کہ وہ آپ کو سکتے میں داخل نہیں ہونے دے گا.لیکن جب اس نے آپ کے ساتھ قدوسیوں کا ایک بڑ الشکر دیکھا تو وہ لرز کر رہ گیا اور فوراً خانہ کعبہ میں پہنچ کر اس کے پردے کی اوٹ میں چھپ گیا.آنحضر.صلى الم نے فرمایا: ”اسے قتل کر دیا جائے.اِنَّ الْكَعْبَةَ لَا تُعِيْذُ مَنْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْقَتْلِ “(فتح الباری شرح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ فتح مکہ کعبہ نہ تو کسی گنہگار کو پناہ دیتا ہے اور نہ ہی واجب شدہ سزا کے نفوذ میں روک بنتا ہے.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں اسے اسی جگہ زمزم اور مقامِ ابراہیم کے درمیان قتل کر دیا گیا.( ابو داؤد کتاب الجہاد باب قتل الاسير ولا يعرض علیہ الاسلام و فتح الباری شرح بخاری کتاب المغازی باب غزوہ فتح مکہ لکھا ہے کہ ابو برزہ الا سلمی نے اسے قتل کیا تھا.(ابو داؤد کتاب الجہاد باب قتل الاسير ولا يعرض علیہ الاسلام) یہ ہے اس کا اصل واقعہ.پس اس کے کھاتے میں بد عہدی، قصاص اور محاربت کے واضح اقدام موجود ہیں.علاوہ ازیں وہ اپنے ساتھ اشاعت فحشاء والی داشتائیں بھی رکھتا تھا.جن کا ذکر آئندہ صفحات میں مذکور ہے.اس کے اور اس کی داشتاؤں کے یہ جرائم انہیں کھلم کھلا محارب ثابت کرتے ہیں.مگر اپنے جھوٹے عقیدے کی تائید میں قائلین قتل شاتم از راه کذب و بدیانتی اسے پیش کرتے چلے جاتے ہیں.اس کی تفصیلات صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں بھی درج ہیں مگر وہاں پر بھی یہ ہر گز مذکور نہیں کہ " فتح مکہ کے دن آنحضور صلی الم نے ابن خطل کو اس وجہ سے کہ وہ شاتم رسول تھا حرم میں قتل کروا دیا.“
***** توہین رسالت کی سزا { 133 ) قتل نہیں ہے پس اس واقعہ سے کسی طرح بھی نہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے نہ دلیل لی جا سکتی ہے کہ محضرت صلی علیہم اپنے شاتم کو قتل کرواتے تھے اور نہ ہی اس روایت کی آڑ میں یہ قانون وضع کیا جاسکتا ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے.اس واقعہ کو غلط مقاصد کے لئے پیش کیا گیا ہے اور اپنی طرف سے اس میں الفاظ داخل کر کے اس سے ظالمانہ استدلال کیا گیا ہے.
توہین رسالت کی سزا :17 ابن خطل کی دو داشتائیں 134} قتل نہیں ہے ابن خطل کی لونڈیوں کے قتل کے حکم کو بھی سب و شتم کی ذیل میں درج کیا گیا ہے.الله (ناموس رسول صلی یم اور قانون توہین رسالت صفحہ 183 182) جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ان کے واقعات کی حقیقت یہ تھی کہ وہ ابنِ خطل کی ہمنوا اور آلہ کار ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ اس کے جرموں میں برابر کی شریک تھیں.وہ اشاعت فاحشہ کی مرتکب تھیں.محفلیں لگا لگا کر اس کی ہجو یہ شاعری گاتیں اور آنحضرت صلی یکم کے خلاف اور اسلام کے خلاف اشتعال پیدا کرتی تھیں.اپنے آقا ابن خطل کے ساتھ اس مسلسل کھلی کھلی محار بانہ اور باغیانہ کارروائیوں کی وجہ سے یہ بھی سزائے قتل کی مستوجب تھیں.ان کی کارروائیاں واضح طور پر فساد فی الارض کا موجب تھیں.چنانچہ اس حکم کی تعمیل میں ایک قتل کی گئی تو دوسری جس کا نام سارہ تھا، فرار ہو گئی.اس نے بعد میں آنحضرت صلی للی نام سے امان کی التجا کی جسے آپ نے قبول فرمایا اور اس سے عفو کا سلوک فرمایا.بعد میں وہ مسلمان ہو گئی.(السیرۃ الحلبیہ فتح مکہ ) بعض تواریخ میں ایک کا نام ارنب اور دوسری کا اتم سعد آیا ہے.( تاریخ الخمیس غزوہ فتح مکہ ) رسول اللہ صلی ال نیلم کے طبعی اور فطرتی رحیمانہ مزاج اور خصوصاً اُن دنوں آپ کے بے پایاں عفو کے آئینے میں یہ فیصلہ کرنا بہت آسان ہے کہ ان دونوں میں سے جو قتل کی گئی اگر وہ قتل سے پہلے آکر آپ سے معافی طلب کر لیتی تو آپ لازماً اسے بھی اپنی وسیع چادرِ عفو ور حمت میں ڈھانپ لیتے.مگر اسے یہ موقع نہ مل سکا اور کسی کے ہاتھوں قتل ہو گئی.اگر بعض لوگوں کے نزدیک شاتم رسول کی سزا قتل ہے تو یہاں ایک کا قتل نہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ ان کا یہ دعوی درست نہیں ہے.کیونکہ شریعت کے ایک حکم کے خلاف بلکہ بقول ان کے اللہ تعالیٰ کی قائم کر وہ ایک حد کے منافی رسول اللہ صلی الیکم دوسری کو ہر گز معاف نہ
توہین رسالت کی سزا 135 } قتل نہیں ہے فرماتے.آپ اسے لازماً قتل کرواتے.پس یہ معاملہ شتم و توہین رسالت کا نہیں ، محاربت و فساد فی الارض کا ہے.اسے شتم و توہین کے قتل کے لئے دلیل کے طور پر پیش کرنا علمی بدیانتی ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 136 } قتل نہیں ہے 18 حارث بن نفیل قتل شاتم کے موضوع پر تقریباً ہر کتاب میں اس کے قتل کو بھی توہین و شتم رسول کی وجہ قرار دیا گیا ہے.یہ بھی فتح مکہ کے ایام میں رونما ہونے والا واقعہ ہے.بعض کتب تاریخ میں حارث بن نفیل کا نام حویرث بن نفیذ آیا ہے.تاریخی تفصیلات سے ثابت ہے کہ یہ شخص اسلام کے خلاف ایک کھلا کھلا محارب تھا.مسلمانوں کی ایذارسانی میں مسلسل سرگرم عمل تھا.یہ ایک ظالم ہبار بن اسود کے ساتھیوں میں سے تھا اور حضرت زینب پر حملہ کرنے میں اس کے ساتھ تھا.اس نے حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ پر بھی حملہ کیا تھا.مختلف رنگ میں آنحضرت صلی ال یکم کو بھی کئی ایک مرتبہ اذیت دے چکا تھا.ہجویہ اشعار کے ذریعے لوگوں کو آپ کے اور اسلام کے خلاف انگیخت کر تا تھا.جو لوگ ملے سے ہجرت کے ارادے سے مدینے جانے کے لئے نکلتے تھے ، یہ ان کے لئے روکیں پیدا کر تا اور انہیں اذیتیں دیتا تھا.یعنی ہر پہلو سے وہ فساد کا سرغنہ تھا.اس محاربت کی وجہ سے اس کے قتل کا اعلان کیا گیا تھانہ کہ سب و شتم کی وجہ سے.قبل اس کے کہ وہ آنحضرت صلی للی نام سے معافی یا امان طلب کرتا، حضرت علی کے سامنے آگیا اور آپ نے اسے قتل کر دیا.(السیرة الطبیہ غزوہ فتح مکہ وابن ہشام غزوہ فتح مکم) *****
توہین رسالت کی سزا 137 } قتل نہیں ہے 19: مقیس بن صبابہ مقیس کو بھی کشتہ سب و شتم قرار دیا گیا ہے.یہ واقعہ یوں ہے کہ غزوہ ذی قرد میں مقیس کے بھائی حضرت ہشام بن صبابہ کو ایک انصاری نے غلطی سے دشمن سمجھ کر شہید کر دیا تھا.مقیس نے اسلام قبول کیا تو آنحضرت صلی اللی کم سے اپنے بھائی کے خون سے کا مطالبہ کیا.آپ نے اس کو دیت دلادی.اس کے باوجود اس نے اس انصاری کو قتل کر دیا اور خود مرتد ہو کر کتے بھاگ گیا.آپ نے اس کی اس محاربت و فساد کی وجہ سے اور مقتول انصاری کے قصاص کے طور پر اسے واجب القتل قرار دیا.(السیرة الحلبیہ غزوہ فتح مکها چنانچہ قبل اس کے کہ یہ آپ سے معافی مانگتا، حضرت تمیلہ بن عبد اللہ نے اس کو بازار میں دیکھ لیا تو قتل کر دیا.(نسائی کتاب تحریم الدم باب الحام في المرتد ) ایک بہت بڑی واقعاتی دلیل: فتح مکہ کے وقت متعدد افراد کے قتل کا حکم دیا گیا تھا.سوال یہ ہے کہ ان میں سے صرف ان چند ایک کے نام لئے جاتے ہیں جو رسول اللہ صلی للی یکم تک پہنچنے سے پہلے قتل ہو گئے تھے.اگر یہ مقتول شاتمین رسول تھے تو وہ سب بھی جن کو معاف کر دیا گیا تھا ، ان پر بھی تو یہی فردِ جرم عائد ہوئی تھی.بلکہ معافی پانے والے بعض تو اس مسلک کے قائلین کے مطابق مبینہ گستاخ و شاتم تھے.اگر شاتم رسول کسی طور بھی معاف نہیں کیا جا سکتا تو ان باقیوں کو کیوں معاف کیا گیا؟ پس آنحضرت صلی علیم کا ان کو معافی دے دینا ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ شاتم کی سزا قتل نہیں ہے.یہی آپ کا اسوہ ہے جس کی اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے اور یہ آپ کی مستقل سنت ہے جس کی پیروی ہر مومن پر فرض ہے.رسول اللہ صلی علیم کے اس اُسوے سے آگے قدم رکھنا بذاتِ خود آپ کی شان میں گستاخی ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 138 } قتل نہیں ہے 20 "مَنْ سَبَ نَبِيَّاً فَاقْتُلُوهُ 66 حضرت علی کی طرف منسوب یہ روایت بھی شاتم رسول کے قتل کے جواز کے لئے بہت کثرت سے پیش کی جاتی ہے.وہ روایت یہ ہے: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نُوحٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ زَبَالَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُوسَى عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِهِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ عَنْ أَبِيْهِ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِى عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ عَهِ اللهِ قَالَ مَنْ سَبَ نَبِيّاً فَاقْتُلُوهُ وَمَنْ سَبَ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ ) الشفاء القسم الرابع في تصرف وجوه الاحکام فیمن تنقصه او سنہ علیہ السلام - الباب الاول فی بیان ما ھو فی حقہ است او نقص......شرح ملا علی قاری صفحہ 304 ) کہ حضرت حسین نے حضرت علیؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کر دو اور جو میرے صحابی کو گالی دے، اسے پیٹو.روایت کے ماخذ اور اس کا زمانہ یہ روایت گو متقدمین اور متاخرین کی تصنیف کردہ : در جن بھر کتب میں درج ہے اور یہ صرف حضرت علی سے مروی ہے.دستیاب معلومات کے مطابق یہ روایت حضرت علی کی وفات کے کم و بیش اڑھائی سو سال بعد سب سے پہلے جس کتاب میں اول طور پر ظاہر ہوئی، المعجم الصغیر ہے جو امام ابو القاسم طبرانی کی تصنیف ہے.امام طبرانی 360 ہجری میں فوت ہوئے.یعنی یہ روایت چوتھی صدی ہجری میں نمودار ہوئی ہے.اس سے پہلے صحاح ستہ میں اور احادیث کے دیگر ابتدائی مجموعوں میں یہ روایت موجود نہیں ہے.چنانچہ ملا علی قاری نے شرح الشفا میں لکھا ہے کہ امام حلبی کہتے ہیں کہ یہ روایت صحاح ستہ میں نہیں ہے اور امام طبرانی اسے ضعیف سند کے ساتھ لائے ہیں.یعنی یہ ایسی روایت ہے جو تین صدیوں کے
توہین رسالت کی سزا 139 } قتل نہیں ہے بعد ایک ایسی سند کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس پر ائمہ فن روایت نے واضح بحث کے ساتھ اسے رڈ کیا ہے.نیز یہ ان روایات میں سے بھی نہیں ہے جو بعد کے زمانوں میں اہل اللہ اور اولیاء اللہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللی کم سے بذریعہ کشف سنیں.امام طبرانی کی تصنیف المعجم الصغیر کے بعد معروف کتابیں مثلاً المعجم الاوسط، الشفاء، فوائد ، الاربعین المرتبة على طبقات الاربعین، تاریخ دمشق (ابن عساکر)، تاریخ بغداد، مجمع الزوائد الفردوس بمأثور الخطاب، المواهب الله نیه ، سبل الهدی، الفتاوی الکبرای اور الصارم المصلول و دیگر سب کتابیں جو اس روایت کو لئے ہوئے ہیں چوتھی صدی کی یا اس کے بعد کی ہیں.بالفرض اگر یہ روایت واقعہ حضرت علی کی اپنی روایت کردہ تھی اور ایک شرعی مسئلہ کی حامل تھی تو اسے احادیث کے اولین درجہ کی صحاح میں درج ہو جانا چاہئے تھا.حضرت امام حسین اور حضرت علی دونوں کبار صحابہ میں اور اولین اہل بیت میں سے تھے.ان کی روایت تو اپنے استناد اور علم روایت و درایت کے اعتبار سے مرفوع متصل اور انتہائی اعلیٰ درجہ کی روایت ہونی چاہئے تھی.مگر یہ ایسی نہیں تھی.اس لئے اس پر ائمہ فن کی اکثریت نے بحث کر کے اسے ضعیف قرار دیا ہے.روایت کی سند کی حیثیت اس روایت پر فن روایت اور علم اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے چوٹی کے علماء نے بخشیں کی ہیں.جن میں سے چند ایک امام ملا علی قاری نے کتاب الشفاء‘ کی شرح میں درج کی ہیں، جو حسب ذیل ہیں.
توہین رسالت کی سزا 140 } قتل نہیں ہے انہوں نے اس روایت کے ایک راوی عبد اللہ بن موسیٰ بن جعفر کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر یہ عبد اللہ بن موسیٰ ہاشمی ہے تو ابن ابی الفوارس نے کہا ہے کہ اس میں شدید تساہل پایا جاتا ہے یعنی لا پرواہی پائی جاتی ہے.علامہ ابو العباس الہاشمی البرقانی نے کہا ہے کہ وہ ضعیف ہے اور وَلَهُ أُصُولٌ رَدِينَةٌ کہ اس روایت کی بنیاد ٹھوس نہیں ہے.امام حافظ ذہبی نے لکھا ہے کہ اگر یہ (عبد اللہ بن موسیٰ) وہی ہے تو اس کی پیش کردہ حدیثیں منقطع ہیں.اگر یہ اس کے علاوہ کوئی اور ہے تو پھر مجھے اس کا علم نہیں ہے.(منقطع روایت وہ ہے جس کی سند میں صحابی کے علاوہ کوئی اور راوی رہ گیا ہو اور سند کا سلسلہ ٹوٹ گیا ہو.مطلب یہ ہے کہ اگر یہ راوی وہی ہے جو اوپر کی سطور میں سمجھا گیا ہے تو یہ روایت مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر کمزور ہے.اور اگر یہ راوی وہ نہیں ہے تو پھر یہ کوئی مجہول الحال راوی ہے، یعنی جس کاروایت وسند کے ائمہ کو علم نہیں.لہذا روایت کے اصولوں کے مطابق اس راوی کی روایت قابل اعتماد نہیں ہے..اس روایت کا دوسرا راوی علی بن موسیٰ ہے.اس کے بارے میں لکھا ہے : ” تَكَلَّمُوا فیہ “ کہ اس کے بارے میں لوگوں نے کلام کیا ہے یعنی اعتراض کئے ہیں.علامہ ابن طاہر نے کہا ہے " يَأْتِي عَنْ أَبِيْهِ بِعَجَابِب.“ کہ وہ اپنے والد کی طرف سے عجیب عجیب باتیں لاتا ہے.امام ذہبی نے کہا ہے کہ ” إِنَّمَا الشَّأْنُ فِي ثُبُوْتِ السَّنَدِ وَإِلَّا فَالرَّجُلُ قَدْ كُذِبَ عَلَيْهِ وَ وُضِعَ عَلَيْهِ نُسْخَةٌ سَابِرَةٌ كَمَا كُذِبَ عَلَى جَدِهِ جَعْفَرَ الصَّادِقَ.کہ سند کا ثبوت محل نظر ہے.یا
توہین رسالت کی سزا { 141 } قتل نہیں ہے پھر اس پر جھوٹ باندھا گیا ہے اور اس کے نام پر ایک پورا پلندہ ڈال دیا گیا ہے.جیسا کہ اس کے اپنے دادا جعفر صادق پر جھوٹ باندھا گیا تھا.(شرح الشفاء القسم الرابع في تصرف وجوه الاحکام فیمن تنقصه او سبتہ علیہ السلام الباب الاول فی بیان ما هو فى حقه....صفحه 403) اس روایت کے حامی اس تمام بحث کو جانتے ہیں جو اس روایت کو ضعیف ثابت کرتی ہے.مگر اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ اسے ضعیف تو کہا گیا ہے مگر اسے موضوع قرار نہیں دیا ان لوگوں کو امام ذہبی کا یہ مذکورہ بالا بیان دیکھنا چاہئے کہ ” فَالرَّجُلُ قَدْ كُذِبَ عَلَيْهِ وَ وُضِعَ عَلَيْهِ نُسْخَةٌ سَابِرَةٌ “ پلندے تیار کر کے کسی دوسرے پر ڈال دینا یا اس کی طرف منسوب کر دینا، وضع کرنا ہی ہے.ایسے مواد کو موضوع ہی کہا جاتا ہے.وہ روایت جس میں سچ ، دیانتداری ، حافظه، نیک شہرت، عبادات وغیرہ میں شہرت اچھی نہ رکھنے والے راوی ہوں، ضعیف کہلاتی ہے.جبکہ موضوع روایت وہ کہلاتی ہے جو جھوٹی ہو یعنی ایک بات غلط یا جھوٹے طور پر آنحضرت صلی یکی کی طرف منسوب کر دی گئی ہو.چنانچہ اس روایت میں یہ بات واضح طور پر موجو د ہے.علم اسماء الرجال اور جرح و تعدیل کے ائمہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، کے علاوہ امام نسائی، امام نور الدین الہیثمی، امام ابن حجر عسقلانی، امام دار قطنی، علامہ ناصر الدین البانی،علامہ یجی ابن معین، امام ابو حاتم الرازی رحمہم اللہ نے اس روایت کے راویوں پر علم روایت کے اعتبار سے واضح اور سنگین شواہد پیش کئے ہیں، یعنی ان کو جھوٹا، کذاب، غیر ثقہ ، ضعیف، موضوع روایات بیان کرنے والے، احادیث کو خلط ملط کرنے والے، احادیث چوری کرنے والے، حافظہ
توہین رسالت کی سزا { 142 - قتل نہیں ہے میں کمزور اور سمجھ بوجھ میں ناقص، لوگ ان کے بارہ میں باتیں کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ بنیادی کمزوریوں والے قرار دیا ہے.اس بحث سے یہ حقیقت کھل جاتی ہے کہ اس روایت کی سند میں ایسے راوی ہیں جونہ صرف یہ کہ غیر مستند ہیں اور مجہول یعنی نا معلوم ہیں بلکہ علم روایت حدیث کے حوالے سے بہت عیب دار ہیں.ان بنیادوں پر یہ روایت اپنا استناد ، اعتماد، مقام اور حیثیت کھو دیتی ہے.چنانچہ کسی نے اسے موضوع قرار دیا ہو یانہ ، عملاً یہ روایت موضوع کے مقام پر ہے.علاوہ ازیں یہ موضوع کیوں ہے اور یہ کہ رسول اللہ صلی علیم نے ایسا ارشاد فرمایا تھا یا نہیں ؟ اس کی وضاحت اگلی سطروں میں بھی ملاحظہ فرمائیں.غیر مستند ہونے کے مزید واضح ثبوت اس روایت کے موضوع ہونے کا واضح اور کھلا کھلا ثبوت یہ ہے کہ یہ قرآن کریم کی تعلیم اور رسول اللہ صلی نیلم کے ارشادات اور آپ کے پاک اُسوے کے خلاف اور اس سے متصادم ہے.امر واقع یہ ہے کہ نبی کریم صلی ا ظلم کی سکتے کی گلیوں میں مسلسل تیرہ سال توہین و تنقیص ہوتی رہی اور صحابہ کی تذلیل کی جاتی رہی.اسی طرح مدینے کے کوچے بھی آپ، ازواج مطہرات اور صحابہ کی توہین و تحقیر کے گواہ ہیں.مگر تاریخ شاہد ہے کہ کبھی ایسا کرنے والے کسی کو نہ قتل کیا گیانہ کوڑے مارے گئے.یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ یہ روایت عملاً رسول اللہ صلی ال یکم اور صحابہ کی زندگیوں میں رونما اور ہونے والے بکثرت واقعات کے کلیۂ خلاف ہے.دوسرا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ یہ حضرت علیؓ سے روایت کی گئی ہے.لیکن حضرت علیؓ کا اپنا عمل کلیہ اس کے خلاف ہے.آپ نے کبھی صحابی کو سب کرنے والے کو کوڑے نہیں
توہین رسالت کی سزا 143 قتل نہیں ہے مارے.اسی طرح کسی اور صحابی نے بھی ایسا کرنے والوں کو سزا نہیں دی.یہ روایت جو دراصل اپنے حکم کے لحاظ سے ایک شرعی قانون کی حامل ہے اگر درست ہوتی اور اس وقت موجود ہوتی تو حضرت علی اور دیگر صحابہ کیوں اس سے پہلو تہی کرتے ؟ پس ثابت ہوتا ہے کہ در حقیقت یہ روایت وضعی ہے.اس لئے نہ تو یہ کوئی اسلامی اصول ہے اور نہ ہی کوئی شرعی قانون.روایت کا ناقابل عمل حصہ : امام ابن تیمیہ کی کتاب' الصارم المسلول کی جلد 2 صفحہ 173 پر یہ روایت بھی درج ہے کہ حضرت خالد بن ولید نے حضرت عبد الرحمن بن عوف کو گالی دی.( یہ واقعہ آنحضرت صلی ایم کے سامنے ہوا یا آپ کو اس کی اطلاع کی گئی، جو بھی صور تحال تھی اس پر آپ نے حضرت خالد کو کوڑے نہیں مروائے.بلکہ) آپ نے فرمایا: ” لا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أَحَدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ میرے صحابہ کو گالی نہ دو کیونکہ اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر لے تو بھی ان میں سے کسی ایک کے ایک نڈ ( غلہ ماپنے کا ایک پیمانہ جو غالباً 68 تولے وزن کے برابر ہے) تو کجا اس کے آدھے کے برابر بھی نہ پہنچے گا.اگر یہ روایت درست ہوتی تو آنحضرت صلی الله یم خو د حضرت خالد بن ولید کو کوڑے مروا کر یا کوئی بدنی سزا دے کر اپنے عمل سے ایک اصول کا نفاذ کر کے شریعت کا ایک قانون پختہ طور پر قائم فرما جاتے.مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ نصیحت کے طور پر صحابہ کے بلند مقام کے بیان پر ہی اکتفا فرمایا.پھر الصارم المسلول میں ابراہیم النخعی سے یہ روایت درج کی گئی ہے : ” شَتْمُ أَبِي بَكْرِ وَعُمَرَ مِنْ الْكَبَابِرِ" اور ابو اسحق السبیعی سے یہ روایت درج کی ہے: ”شَتُمُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ مِنْ
توہین رسالت کی سزا { 144 } قتل نہیں ہے الْكَبَابِرِ الَّتِي قَالَ اللهُ تَعَالَى إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَابِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ ( جلد 2، صفحہ 174) کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو گالی دینا ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن کی بابت اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ جن بڑے گناہوں سے تمہیں روکا جاتا ہے ان سے باز آجاؤ.( یہ سورۃ النساء کی آیت 32 کا ایک جزء ہے) سوال یہ ہے کہ اگر صحابہ کو گالی دینے سے انسان گناہ کبیرہ کا مجرم ٹھہرتا ہے تو اس میں سے دو خلفائے راشدین حضرت عثمانؓ اور حضرت علی اور دیگر تمام صحابہ کیوں مستثنیٰ ہیں.صرف حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کو کیوں اختیار کیا گیا ہے اور باقی سب صحابہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.اگر ایک اصول بنایا گیا تھا تو وہ سب پر یکساں اطلاق پانا چاہئے تھا.یہ کیسا شرعی اصول ہے کہ دو خلفاء پر تو لا گو ہوتا ہے، مگر دیگر دو پر نہیں.دیگر صحابہ پر بھی نہیں.پھر یہ بھی تو ہے کہ اگر دو صحابہ کو گالی دینا کبیرہ گناہ ہے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی کم پر سب و شتم کو خود آپ کی طرف سے اکبر الکبائر قرار دیا ہو تا.مگر سب جانتے ہیں شارع علی ای کم نے ایسانہ کہانہ کیا.دوسرے یہ کہ اگر یہ مسئلہ اتنا ہی سنجیدہ تھا کہ صحابہ کو گالی دینے سے انسان گناہِ کبیرہ کا مجرم ٹھہرتا ہے اور صحابہ کو گالی دینے والے کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اسے کوڑے مارو تو اہل تشیع تو بلا استثناء اس کی زد میں آتے ہیں.انہیں گزشتہ پندرہ صدیوں میں کیوں کسی حکومت نے کسی بھی دور میں توہین صحابہ کی وجہ سے انفرادی طور پر باجماعت کوڑوں کی سزا نہیں سنائی.ان کے دین کی فروعات میں تبرا ایک ایسا بنیادی رکن ہے کہ جس کی وجہ سے وہ تمام صحابہ کو بالعموم شیخین جو صحابہ کے بھی سردار اور پہلے دو راشد خلیفے ہیں، ان کی غیر محدود اور غیر منقطع تسلسل کے ساتھ توہین و تحقیر کرتے چلے جاتے ہیں.اس روایت کے پہلے حصے پر پر تشد د رویے اختیار کرنے والے اس کے دوسرے حصے کو کیوں ترک کر دیتے ہیں ؟ اور
توہین رسالت کی سزا { 145 } قتل نہیں ہے جہانتک صحابہ پر سب کی سزا کا تعلق ہے، اگر یہ مسئلہ دین کے اہم اور بنیادی قوانین سے تعلق رکھتا تھا تو تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے ائمہ سلف کو اس زیر بحث روایت کی روشنی میں درج ذیل روایات کا حل بھی تلاش کرنا چاہئے تھا.یہ معدودے چند روایات ہیں جو صرف صحیح بخاری سے بطور نمونہ پیش ہیں.جبکہ صحیح بخاری میں اور دیگر کتب میں اس نوع کی متعد د روایات موجود ہیں.چنانچہ صحیح بخاری کتاب الصبية و فضلها.....باب من اهدى الى صاحبه و تحریى بعض...میں ایک تفصیلی واقعہ درج کیا گیا ہے اور اس میں حضرت زینب کے بارے میں لکھا ہے فَسَبَتْهَا “ کہ آپ نے حضرت عائشہ پر سب کیا.بخاری کتاب المغازی باب الافک میں ہشام اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : " سَبَبْتُ حَسَّانَ “ میں نے حسان بن ثابت پر سب کیا.بخاری کتاب الادب باب قول الضيف لصاحبي.....میں لکھا ہے: ” فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ فَسَب“ کہ ابو بکر نے غصہ کیا اور سب کیا.ان روایات میں لفظ 'سب استعمال ہوا ہے.ان کے شائع شدہ اردو تراجم میں اس کا عام معنی گالی ہی کیا گیا ہے.ان صحابہ یا صحابیات کو کیوں کوڑوں کی سزا نہیں دی گئی ؟ پیٹا کیوں نہیں گیا؟ یہ سب کبار صحابہ اور صحابیات ہیں.اگر گالی دینے کی سزا وہی ہے جو زیر بحث روایت میں قرار دی گئی ہے تو صحیح کتب کی صحیح روایتوں میں مذکوران تاریخی حقیقوں کو کیوں چھپایا جاتا ہے جو اوپر بیان کی جاچکی ہیں ؟
توہین رسالت کی سزا { 146 } قتل نہیں ہے بات یہیں نہیں ٹھہر جاتی کہ صحابہ نے صحابہ" پر 'سب کیا بلکہ روایات میں رسول اللہ صل الم کے بارہ میں لکھا ہے کہ آپ نے بھی 'سب کیا.چنانچہ درج ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں.:1 فَسَبَّ رَسُولُ اللهِ عليه اللهم الْوَاصِلَةَ وَالْمُسْتَوصِلَةَ“ ( بخاری کتاب اللباس باب وصل الشعر) کہ رسول اللہ صلی للی نیلم نے بال لگانے والی اور لگوانے والی پر 'سب کیا.( اس کے معنے ترجموں میں لعنت کئے گئے ہیں.) :2 قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله أَيَّمَا مُؤْمِنْ سَبَبْتُهُ أَوْ لَعَنْتُهُ أَوْ جَلَدْتُهُ فَاجْعَلُهَا لَهُ زَكَاةً وَرَحْمَةٌ ) تاریخ مدينة دمشق (ابن عساکر ( الجزء الرابع باب ذکر تواضعه لربه و رحمته لاكنه......) که رسول اللہ صلی ال نیلم نے فرمایا کہ اگر کسی مومن کو میں نے سب کیا ہو ( برا کہا ہو ) یا لعنت کی ہو یا اسے پیٹا ہو تو میں اسے اس کے لئے اس کی پاکیزگی اور رحمت قرار دیتا ہوں.اسی باب میں اس کے ساتھ متعدد روایات درج ہیں جن میں اس لفظ کے علاوہ شتمت“ کے الفاظ بھی آئے ہیں.اس کے علاوہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ تبوک کے سفر میں دو آدمیوں کے بارے میں آتا ہے : ” فَسَبَّهُمَا رَسُولُ الله صل الله ( مسند احمد بن حنبل مسند الانصار ، حضرت معاذ بن جبل) کہ رسول اللہ صلی اللہ ہم نے (چشمے پر آپ سے پہلے پہنچنے والے ) دو افراد پر ' سب‘ کیا.ان کے علاوہ ایک روایت ” الصارم المسلول میں یہ بھی درج کی گئی ہے کہ " مَنْ سَبَّ أَصْحَابِ فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ الله الصارم المسلول الجلد الثانی صفحہ 1082 مطبوعہ رمادی
توہین رسالت کی سزا { 147 } قتل نہیں ہے للنشر الموتمن للتوزيع) کہ جس نے میرے صحابی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اللہ تعالیٰ کو گالی دی.اس کا براہِ راست مطلب یہ ہے کہ جو لوگ صحابہ میں سے کسی کو برا بھلا کہتے ہیں وہ در اصل رسول الله صلى اللیل کم کو ( نعوذ باللہ ) برا بھلا کہتے ہیں بلکہ (نعوذ باللہ) اللہ تعالیٰ کو برا بھلا کہتے ہیں.اس سے اندازہ لگائیں کہ اگر لفظ سب کے معنے عرفِ عام والی گالی کریں تو اس کی زد میں کون کون آتا ہے.پس اس زیر بحث خود ساختہ روایت کے حصے ” مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَاضْرِبُوهُ کا قانون اگر انصاف اور عدل کے تقاضوں کے تحت جاری کیا جائے تو دیکھیں کہ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے.صحابی کو سب کرنے سے اگر بدنی سزا دینا رسول اللہ صلی للی کمر کا بیان فرمودہ اور قائم کردہ ایک قانون تھا تو ان تمام سب کرنے والوں کو کیوں زدو کوب نہیں کیا جاتا رہا؟ نیز اس زیر بحث روایت کے خلاف کھڑی ان صحیح حدیثوں کو عمد کیوں نظر انداز کر دیا گیا ہے جو عفو و در گزر اور گستاخی کرنے والوں کو معاف کرنے کا سبق دیتی ہیں ؟ ظاہر ہے کہ ایسے سوالوں کا سوائے اس کے اور کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ زیر بحث روایت ہی بتمام وجوہ قابل رڈ ہے.سب و تو بین خواہ رسول اللہ صلی للی کمر پر کی جاتی تھی یا صحابہ پر ، اس کی سزا قتل یا کوڑے لگانا نہیں تھی، لہذا تاریخ گواہی دیتی ہے کہ کبھی بھی یہ سزا نہیں دی گئی.ا: روایت کے متن کا تجزیہ : اس زیر بحث روایت کے پہلے حصہ میں چار الفاظ ہیں: من جو.یعنی کوئی بھی ہو.چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم.مسلمانوں میں بھی وہ کسی بھی فرقے یا مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو، بلا استثناء من‘ کے احاطہ میں آتا ہے.
توہین رسالت کی سزا 148 قتل نہیں ہے سب اس لفظ کا عام معنی گالی کیا گیا ہے اور عرب لغات میں بھی بنیادی معنی یہی ہے.مگر اس کے ساتھ اس کے معنے العار یعنی عیب زنی اور تقاطع یعنی تعلق منقطع کرنے کے بھی ہیں.اس کے معنے بے عزیتی کے بھی کئے گئے ہیں.امام راغب ” نے اس کے معنوں میں بیہودہ ، بے مقصد بات اور نا مناسب الفاظ بھی تحریر کئے ہیں.احترام، عقیدت، نقرس اور بلند مقام کا تقاضا ہے کہ اگر صحابہ کی طرف سے لفظ 'سب ادا ہو تو اس کے نرم ترین معنے لینا ہی مناسب ہیں.وہاں گالی کے معنے نہیں لئے جاسکتے.حدیث اور سیرت کی کتابوں میں درج ہے کہ رسول اللہ صلی ا کرم کی زبان مبارک سے بھی یہ لفظ ' سب ادا ہوا ہے.لیکن یہ ایک سچائی ہے کہ جب یہ لفظ رسول اللہ صلی للی کم استعمال فرماتے ہیں تو اس کے نرم ترین معنے ہی لینے ہوتے ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہاں عام گالی والے معنے لئے جائیں گے.کیونکہ رسول اللہ صلی علی کم تو کجا، کوئی نبی بھی گالی نہیں دیتا.لہذا سب کے محاوراتی معنے اختیار کرنے ضروری ہیں.اسی طرح کوئی شخص اگر نبی کریم ملی یم یا کسی اور نبی پر سب کرتا ہے تو اس جگہ بھی ان کے لئے نرم ترین معنے لینے ہوں گے.کیونکہ کوئی گالی رسول کریم صلی للہ کم و یا دیگر انبیاء علیہم السلام کو نہیں پہنچتی.: نبياً یہاں نبی نکرہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی بھی نبی.یعنی صرف رسول کریم صل ا ل کر نہیں بلکہ تمام نبی.اگر یہاں مقصود صرف رسول اللہ صلی للی کم ہوتے تو لفظ نبیا کی بجائے النَّبِی" یعنی معرفہ ہو تا تو فقرہ یوں ہوتا ” مَنْ سَبَ النَّبِيَّ فَاقْتُلُوهُ “.پس اس کی نحوی ترکیب کی وجہ سے یہاں معنے یہ لئے جائیں گے کہ کسی بھی نبی کو کوئی برا بھلا کہتا ہے یا گالی دیتا ہے تو فاقتلوہ.اس روایت کے یہ لازمی معنے ہیں.چنانچہ ہر اس شخص کو جو آنحضرت صلی للی نیم
توہین رسالت کی سزا { 149 } قتل نہیں ہے اور آپ سے پہلے یا بعد میں آنے والے نبیوں میں سے کسی کو گالی دیتا ہے تو اس سے فَاقْتُلُوه کے معنوں کے مطابق سلوک ہونا چاہئے.فَاقْتُلُوهُ: اس لفظ کے عام معنے تو جان سے مار دینے کے ہیں.مگر قرآن کریم، حدیث نبوی، عربی زبان اور محاورے کے مطابق قتل کے حقیقی معنوں کے ساتھ اس کے مجازی اور محاوراتی معنے بھی دیکھنے ضروری ہیں.چنانچہ آیت کریمہ " قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا اكْفَرَةُ ، ( عبر: 18) کے بارہ میں مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں قتل کا مطلب لعِنَ ہے.یعنی (ایسے) انسان پر اللہ کی لعنت ہو.اسی طرح ” قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ" (التوبة: 30) اس کا معنی یہ کیا گیا ہے کہ خدا منافقوں پر لعنت ڈالے.حدیث میں ہے " قَاتَلَ اللهُ الْيَهُودَ " کہ اللہ یہود کو ہلاک کرے.اس کا مطلب یہ بھی لیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت ڈالے.اور بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا دشمن ہو.رسول اللہ صلی ا یکم نے نمازی کو حکم دیا ہے کہ اگر نماز میں اس کے آگے سے کوئی گزرے تو قَاتِلُهُ فَإِنَّهُ لَشَيْطن" کہ وہ شیطان ہے اسے سامنے سے ہٹا دو.یہاں اس کے معنے موت کے گھاٹ اتارنے کی بجائے اسے ہٹا دینے کے لئے جاتے ہیں.رہ روایتیں ان معنوں کے ثبوت میں کتب لغت میں درج کی گئی ہیں.
توہین رسالت کی سزا } 150 قتل نہیں ہے اسی طرح کہتے ہیں : ” قَتَلَ الله فلانا اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ اللہ اس کے شر سے بچائے.چنانچہ رسول اللہ صلی علی یلم کے وصال کے فوراًبعد سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کی مجلس میں خلافت کے بارے میں جو ماحول قائم ہوا اس منظر میں حضرت عمرؓ نے کہا: ” قَتَلَ الله سغدًا“ کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سعد بن معاذ) کے شر سے بچائے.دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ” اقْتُلُوا سَعْدًا قَتَلَهُ الله “ (الطبری - جزء الثالث مطبوعہ دارالمعارف مصر، واقعات سنۃ 11 ذكر البر....سقیفہ بنی ساعدة) مراد یہ تھی کہ اسے مقتول سمجھو کہ گویا یہ زندہ ہی نہیں.اس کی بات نہ مانو ، اسے یوں سمجھو کہ وہ گویا قتل ہی ہو گیا، وہ گویا کالعدم ہو گیا ہے، بے حیثیت ہو گیا ہے.حضرت عمر نے جب فرمایا ” اقتلوہ تو کسی نے اس سے موت کے گھاٹ اتار نامراد نہیں لیا.لغت و محاورہ عرب میں سے حسب ذیل مثالیں ملاحظہ فرمائیں.جو لغت عرب میں سے ' تاج العروس ، لسان العرب اور ' المعجم الوسیط “ وغیرہ سے ماخوذ ہیں.چنانچہ لکھا ہے: قَتَلَ الشَّيئَ خَبْرًا وَعِلْمًا.اس نے کسی بات کو علم کے لحاظ سے قتل کر دیا یعنی اس چیز کے بارے میں مکمل علم حاصل کیا.پھر یہ بھی کہتے ہیں.قِيْلَ لِلْخَيْرِ مَقْتُولَةٌ: شراب کو مقتولہ کہا جاتا ہے ، جب اس میں پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کر دی گئی ہو.قتل فُلانا کہا جائے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے دوسرے کو ذلیل ورسوا کر دیا.تَقَبَّلَ الرَّجُلُ لِلمَرْأَة کا مطلب ہے کہ مرد عورت کا مطیع ہو گیا.
توہین رسالت کی سزا 151 } قتل نہیں ہے نَاقَةٌ مُقَتَلَةٌ ایسی اونٹنی کو کہتے ہیں جو مالک کے اشارے پر چلتی ہو.ان چند مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل کے معنے عربی میں صرف جان سے مارنے اور موت کے گھاٹ اتارنے کے نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ اپنی صرفی ترکیب ، صور تحال اور تناظر کے لحاظ سے اپنے مجازی اور محاوراتی معنے بھی اپناتا ہے.اسے اکثر مجازی معنوں میں بھی لیا جاتا ہے.اس لئے فَاقْتُلُوہ سے ہر جگہ جان سے مار دینا آیات قرآنیہ، سنتِ رسول صلی الی یکم اور عربی محاورہ کے خلاف ہے.پس جب قرآن کریم، احادیث نبویہ، لغت و محاورہ عرب میں قتل کے دیگر معانی موجود ہوں تو ایسی صورت میں اگر کوئی ایسی یقینی حدیث بھی جس میں ”اقتلُوہ کا لفظ استعمال ہوا ہو تو اس میں اس لفظ کا یہ ترجمہ کرنا کہ اس کو موت کے گھاٹ اتار دو، جائز نہیں ہو گا.کیونکہ وہ قرآن کریم کی صریح آیات اور سنت و اسوہ کر سول صلی اللہ نیلم کے منافی ہو گا.جیسا کہ باب دوم میں متعدد بار ثابت کیا جا چکا ہے کہ آنحضرت مصلی الم نے آپ کی کھلی کھلی توہین کرنے والوں کو کبھی بھی قتل نہیں کیا ، نہ گردن مارنے کا حکم دیا اور نہ ہی کسی صحابی کے غیرت کے تحت اجازت طلب کرنے پر اسے اس کی اجازت دی.بلکہ آپ تو ایسے بد زبانوں کے لئے ہدایت کی دعا کرتے تھے.پس ان حقائق کی بنیاد پر اس زیر بحث روایت کو جہاں قبول نہیں کیا جا سکتا، وہاں اس میں لفظ " فَاقْتُلُوهُ" کے معنے جان سے مار دینا بھی کسی طور پر اختیار نہیں کئے جاسکتے.اس فقرے کے واضح اور موزوں معنے یہی بنتے ہیں کہ جو بھی کسی نبی کے بارے میں ناز یبا یا اس کی شان کے منافی کلام کرے اس کو اس سے رو کو اور اس کی اس بد تمیزی کو کالعدم سمجھو.کیونکہ اس کی فضول حرکت سے نبیوں کی شان میں ایک تنکا برابر فرق بھی نہیں پڑتا.
توہین رسالت کی سزا 152 قتل نہیں ہے پس یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ زیر بحث روایت میں ' فَاقْتُلُوهُ سے جان سے مارنا یا گردن مار نا یا عرف عام کے مطابق قتل کر دینا مراد نہیں ہے.روایت کے الفاظ میں تبدل یہاں یہ بھی قابل ذکر اور قابل فکر بات ہے کہ كتاب المعجم الصغیر جس میں سب سے پہلے یہ روایت نمودار ہوئی وہاں.” مَنْ سَبِّ الأَنْبِيَاءَ“ کے.الفاظ ہیں.چنانچہ لکھا ہے: مَنْ سَبَ الأَنْبِيَاءَ قُتِلَ وَمَنْ سَبَ أَصْحَابِي جُلِدَ.“ یعنی اس پہلی روایت میں سب انبیاء کا ذکر ہے.اس سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اگر بفرض محال اس وضعی روایت کو ایک لمحہ کے لئے مان بھی لیا جائے تو اس میں صرف رسول اللہ صلی الی یم کی بات نہیں ، بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام مذکور ہیں.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ بعد میں یہ روایت کس طرح بدل گئی اور الانبیاء کی بجائے نبیا کا لفظ اختیار کر لیا گیا.الغرض جو بھی ہو اوہ بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ اس روایت کو بنایا گیا ہے اور بعد میں اس کے مضمون پر کسی کو تسلی نہ ہوئی تو اس کے الفاظ کو بھی بدل دیا گیا.جبکہ راوی دونوں میں حضرت علی اور حضرت حسین ہی ہیں.دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ المعجم الصغیر والی روایت میں الفاظ قتل' سے مراد جان سے مار دینا نہیں بلکہ ایمانی لحاظ سے ایسا ہو جانا مراد ہے کہ گویا وہ اپنا ایمان ختم کر چکا ہے ، وہ اپنے ایمان کو مار چکا ہے یا کالعدم ہو چکا ہے.اسی طرح ' جلد سے مراد ہے کہ جو صحابی کو گالی دے وہ گویا ایمانی لحاظ سے از خود پٹ چکا ہے.کیونکہ نبیوں کو ہر گالی دینے والا پکڑا جا سکتا ہے نہ پکڑا گیا ہے.تو اس کے لئے یہ روایت کالعدم اور بے معنے ہو جاتی ہے.کیونکہ قتل میں ایک حتمیت پائی جاتی ہے کہ وہ لاز ما قتل ہو گیا.وہ قتل ہو چکا ہے.اسی طرح تاریخ شاہد ہے کہ کسی صحابی یا صحابیہ کو کوڑے مارے گئے نہ پیٹا گیا تو اس ثابت شدہ واقعاتی حقیقت کی وجہ سے اس کے
توہین رسالت کی سزا 153 | قتل نہیں ہے یہ معنے نہیں لئے جاسکتے کہ نبیوں کو گالی دینے والے کو جان سے مار دیا جائے اور کسی صحابی کو گالی دینے والے کو ظاہری کوڑوں سے مارا پیٹا جائے.ا: خلاصه کلام: یہ روایت ابتدائی صحیح اور مستند مجموعہائے احادیث میں شامل نہیں ہے.یہ چوتھی صدی ہجری میں منصہ شہود پر ابھری ہے.ائمہ فن کے مطابق یہ روایت علم سند اور علم درایت کے لحاظ سے ضعیف روایت ہے بلکہ موضوع ثابت ہوتی ہے.: ہے.: اس روایت میں جو تغیر و تبدل ہوا ہے، اس سے اس کے معنوں میں بھی تبدیلی آئی آنحضرت صلی م ، خلفائے راشدین اور صحابہ کے اپنے عمل سے ثابت ہے کہ یہ بات ان کے زمانے میں بالکل بھی موجود نہیں تھی.نہ ہی اس پر کبھی ان معنوں میں عمل ہوا ہے جو معنے آج متشد دلوگ لیتے ہیں.♡: اس روایت کے تمام الفاظ اُن معنوں کو رد کرتے ہیں جو ایک مخصوص طبقہ محض کشت و خون کے لئے اختیار کرتا ہے.اس روایت کی نحوی ترکیب بتاتی ہے کہ اس میں صرف رسول اللہ صلی ال کی مخصوص نہیں ہیں، بلکہ تمام انبیاء مراد ہیں.
***** توہین رسالت کی سزا ے: رہا ہے.154 } قتل نہیں ہے اس روایت کا ایک جزو یعنی صحابہ کو گالی دینے والے کی سز اوالا حصہ ہمیشہ نا قابل عمل الغرض اس ساری بحث کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ یہ روایت خلاف قرآن کریم، خلاف احکام و سنتِ رسول ا، خلاف عمل خلفائے راشدین و صحابه، خلاف اجماع و طریق ائمہ اور خلاف عقل ہے.اس کی اندرونی شہادت ثابت کرتی ہے کہ یہ روایت وضعی ہے اور نا قابلِ عمل ہے.ایسی وضعی روایات خوبصورت دین اسلام پر الزام قائم کرتی ہیں، اس کی دلکش تعلیم کو متہم کرتی ہیں اور اس سے اس کی بنیادی کشش چھین کر عالمگیر نفرتوں میں اتار دیتی ہیں.لہذا ان کا ترک کر ناضروری ہے.ان کا دین اسلام کی خوبصورت، پرکشش اور پاک تعلیمات سے قطعی طور پر کوئی بھی تعلق نہیں ہے.اسلام ایک پر رحمت، سچا، مثبت اور عملی مذہب ہے.یہ قتل و غارت جیسے وحشیانہ ، جھوٹے، منفی اور مہلک نظریات کو ترک کر کے پر امن اور مثبت راہوں پر آگے سے آگے چلنے کی تلقین کرتا ہے.
توہین رسالت کی سزا 155} قتل نہیں ہے 21 مرتد کا قتل شاتم رسول کے قتل کے جواز میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ” ابن ماجہ نے روایت کی کہ حضرت معاذ بن جبل نے ایک مرتد کو قتل کی سزا دی.اس پر فتح القدیر کا مولف لکھتا ہے کہ جو شخص حضور ملی یکم کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرے اس کی گردن اڑادی جائے.“ (ابن ماجہ جلد 2 ص 281، بحوالہ طبرانی) فتح القدیر نے حوالے کے بغیر یہ روایت ابن ماجہ کے حوالے سے پیش کی ہے جبکہ یہ ت صحیح بخاری کتاب استنابة المرتدین والمعاندین و قتالهم باب حكم المرتد والمرتدة واستا بتهم، ابو داؤد کتاب الحدود اور دیگر کتب میں بھی آئی ہے.اوّل تو یہ دلیل ہی غلط ہے کہ مرتد کو قتل کیا گیا لہذاوہ شاتم رسول تھا.اس روایت میں ایک حرف بھی ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو سکتا ہو کہ اس شخص نے کوئی سب و شتم یا کوئی گالی گلوچ کیا تھا.پس ایسی روایت کو شتم رسول یا توہین رسالت کی سزا قتل کے ثبوت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا ہے؟ علاوہ ازیں ایسا حکم نہ قرآن میں ہے نہ آنحضرت صلی علیہ کم کا کوئی ایسا ارشاد موجود ہے کہ جو محض ارتداد اختیار کرے اسے قتل کر دو.اسے اگر قرار دیا جاسکتا ہے تو حضرت معاذ کی اپنی رائے قرار دیا جا سکتا ہے ، قرآن وحدیث کی ہر گز یہ تعلیم نہیں ہے.جہانتک اس واقعے کا تعلق ہے تو اس روایت میں باقی سب منظر اور کوائف مخفی ہیں کہ وہ شخص محض ارتداد کی وجہ سے پکڑا گیا تھا یا اس نے کوئی اور جرم یا بغاوت وغیرہ کا ارتکاب کیا تھا کہ وہ فساد فی الارض یا محاربت کے زمرے میں آتا ہو.چونکہ اس واقعے کے سارے کوائف
توہین رسالت کی سزا 156 قتل نہیں ہے موجود نہیں اس لئے ایک اہم مسئلے میں قرآن کریم کی واضح آیات کے خلاف فیصلہ ہر گز قابل قبول نہیں ہو سکتا.یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جہاں کوئی حدیث، اثر یاروایت جو خواہ کیسی بھی مستند کیوں نہ ہو ، اگر واضح طور پر قرآن کریم کی کسی آیت یا حکم کے خلاف ہو تو اسے رڈ کر کے قرآن کریم کے حکم کو اپنایا جاتا ہے.چنانچہ یہ روایت بہت سی احادیث صحیحہ کے تو خلاف ہے ہی مگر قرآن کریم کی واضح آیات بھی اس کو ر ڈ کرتی ہیں.(ایسی کچھ آیات حضرت امام بخاری کے حوالے سے دسویں نمبر پر مذکور روایت " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ“ کے ضمن میں تحریر کی جا چکی ہیں) اوّل تو کسی صحابی کی رائے کو قرآن پر اور واضح فرموداتِ رسول پر فوقیت یا ترجیح نہیں دی جاسکتی.دوسرے یہ کہ حضرت معاذ بن جبل ان چنیدہ چار صحابہ میں سے ہیں جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: "خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَربعة“ (ترمذی ابواب المناقب باب مناقب عبد اللہ بن مسعود و أسد الغابہ معاذ بن جبل کہ ان چار سے قرآن سیکھو.ان سے ایسی بات کی توقع کرنا جو قرآن کریم کی واضح تعلیم کے خلاف ہو ، ممکن نہیں ہے.اگر انہوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حوالہ دیا ہے تو اس کا لازما مطلب یہی ہے کہ تفصیلی واقعہ کچھ اور تھا جو اس روایت میں پورا محفوظ نہیں ہو سکا.حضرت ابو موسیٰ اشعری نے جو تفصیل بتائی تھی (جو غالباً روایت میں ریکارڈ نہیں ہو سکی) اس کے مطابق لاز م وہ بغاوت یا فساد کا کوئی عادی مجرم تھا جو قرآنی حکم کے تحت آتا تھا.ورنہ محض ارتداد اختیار کرنے والے کے لئے قرآن کریم کسی ایک جگہ بھی قتل کی سزا تجویز نہیں فرماتا.چنانچہ گزشتہ صفحات میں روایت نمبر 10 کے تحت صحیح بخاری میں امام بخاریؒ کی پیش فرمودہ وہ تمام آیات درج کی گئی ہیں جن میں مرتد کے قتل کی ممانعت ہے.)
***** توہین رسالت کی سزا { 157 } قتل نہیں ہے فتح القدیر کے مصنف ( یعنی عبد الرزاق) کے حوالے سے ایک چڑھاوا اس روایت پر چڑھایا گیا ہے.لیکن نفس روایت کو اگر دیکھا جائے تو فتح القدیر کا تبصرہ اس سے بالکل مختلف ہے.روایت کے الفاظ کے مطابق حضرت معاذ ایک مرتد کو مارنے کی بات کر رہے ہیں، جبکہ فتح القدیر کا مصنف اسے شاتم یا گستاخ رسول کی سزا کے طور پر پیش کر رہا ہے.اسی بناوٹی کارروائی سے ثابت ہو تا ہے کہ ہر قتل کے معاملے کو انتہائی تکلف اور بناوٹ کے ساتھ سب و شتم رسول سے منسلک کیا جاتا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت سب و شتم والے مسئلے سے کسی طرح بھی متعلق نہیں ہے.
توہین رسالت کی سزا 22 یمن میں ایک مرتدہ 158 قتل نہیں ہے قاضی عیاض کی کتاب الشفا کے حوالے سے یہ بے سند روایت بھی شاتم رسول کے قتل کے حق میں پیش کی جاتی ہے.وہ لکھتے ہیں: یمن کے گورنر مہاجر بن امیہ نے حضرت ابو بکر صدیق کو اطلاع دی کہ وہاں ایک عورت مرتد ہو گئی.اس نے رسول اللہ صلی الم کی شان میں گستاخی والا گیت گایا.گورنر نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا اور سامنے والے دو دانت توڑ دیئے.حضرت ابو بکر صدیق کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا.اگر تو فیصلہ کر کے عمل نہ کر چکا ہوتا تو میں اس عورت کے قتل کرنے کا حکم صادر کرتا.اس لئے کہ نبیوں کی تنقیص کی تعزیر حدود جیسی نہیں ہوتی.یا نبیوں کی بیان کردہ سزائیں حدود جیسی نہیں ہو تیں.“ روایت کے الفاظ یہ ہیں: "وَبَدَغَ الْمُهَاجِرَ ابْنَ أَبِي أُمَيَّةَ آمِيرَ الْيَمَنِ لِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةٌ هُنَاكَ فِي الرِّدَةِ غَنَّتْ بِسَبِّ النَّبِيِّ عَلاهُ اللهُ فَقَطَعَ يَدَهَا وَنَزَعَ ثَنِيَّتَهَا فَبَلَغَ ذلِكَ آبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ذَلِكَ فَقَالَ لَهُ لَوْلَا مَا فَعَلْتَ لَأَمَرْتُكَ بِقَتْلِهَا لِأَنَّ حَدَّ الْأَنْبِيَاءِ لَيْسَ يُشْبِهُ الْحُدُودَ ( الشفاء القسم الرابع في تصرف وجوه الاحکام فیمن تنقصہ او سنہ علیہ السلام.الباب الاول فی بیان ما هو فى حقه است او نقص.....مع شرح ملا علی قاری صفحه 406 ) اگر اس بے سند روایت کو درست مان بھی لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب رسول اللہ صلی اللی علم کے وصال سے قبل یمن میں اسود عنسی نے نبوت کا دعوی کر کے عام بغاوت کی اور کھلی کھلی جنگ کا اعلان کر دیا تھا.اس میں یمن کے بہت سے مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا.یمن کے علاقہ صنعاء کے گورنر حضرت شہر بن باذان بھی اس کے مقابلے میں شہید
توہین رسالت کی سزا 159 | قتل نہیں ہے ہو گئے تھے.بالآخر اس بغاوت میں اسود عنسی خود بھی اپنے بہت سے ساتھیوں سمیت قتل ہوا.پھر یہ بغاوت حضرت ابو بکر کے زمانے تک بھی ممتد رہی.جنگوں میں اشتعال دلانے کے لئے رزمیہ اور ہجو یہ شعر گانے والی عور تیں فوج کا جزو اور لڑائی میں مکمل حصہ دار ہوتی ہیں.لہذا لڑائی کے دوران اگر وہ قتل ہوئی تھی تو اس کا قتل لڑائی کے مسلمہ اصولوں میں سے تھا.اسی کی بابت حضرت ابو بکر نے توجہ دلائی تھی کہ ہاتھ کاٹنے یا دانت توڑنے کی سزا تو کوئی سزا نہیں ہے.مگر تم اب اسے یہ سزادے چکے تو اب مزید کارروائی کی ضرورت نہیں.میدانِ کارزار میں اگر سامنے آجائے تو ایسے محارب کو اسی دم قتل کرناضروری ہوتا ہے.قائلین قتل شاتم کی دلیل اس پہلو سے بھی کمزور اور بے بنیاد ثابت ہوتی ہے کہ اگر ہجویہ اشعار یا توہین رسول پر قتل کرنا شرعی سزا کے طور پر قائم اور نافذ ہو چکا ہوتا تو ہاتھ دانت کٹ جانے سے حضرت ابو بکر وہ سز ا ساقط کس طرح کر سکتے تھے ؟ اس کے بعد بھی تو اسے اصل سزا کے تحت قتل کیا جانا ضروری تھا.پس قارئین غور فرمائیں کہ یہ روایت اسی سچائی کا ثبوت مہتا کرتی ہے کہ توہین رسالت کی سزا قتل نہیں ہے.نیز خلیفتہ الرسول کا کسی شرعی حکم سے پہلو تہی کرنا ممکن نہیں.جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے اگر ایک ثاننے کے لئے اس روایت کو درست مان بھی لیا جائے تو حضرت ابو بکر کا مذ کورہ بالا تبصرہ محض یمن میں باغیانہ کارروائیوں اور جنگی حالات کے تحت تھا.عام حالات کے مطابق نہیں تھا.اسی طرح مہاجر بن ابی امیہ نے اگر بطور جرنیل اس عورت کو موقع پر سزادی تھی تو وہ ان کا اپنا فیصلہ تھا.اس سے بڑھ کر اس کی نہ کوئی حیثیت تھی، نہ ہی ان کے اس فعل کو شریعت کا کوئی حکم قرار دیا جا سکتا ہے.
***** توہین رسالت کی سزا { 160 | قتل نہیں ہے ملا علی قاری ” نے اس روایت کے تحت لکھا ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیئے گئے تھے اور ایک اور روایت میں ہے کہ اس کے دونوں پستان کاٹ دیئے گئے تھے.لیکن بہتر تھا کہ یا تو اس کی زبان کاٹ دی جاتی یا اسے قتل کر دیا جاتا.(شرح الشفا صفحہ (406 روایات میں مذکور ان تمام مختلف اور متفرق باتوں میں سے کس کو صحیح اور سچا سمجھا جائے اور کس کو نہ سمجھا جائے.اصل بات یہ ہے کہ اس بے سند روایت میں اتنے اختلافات یقینی طور پر اس روایت کا اضطراب ظاہر کرتے ہیں اور اس کو بنیادی طور پر کمزور بلکہ وضعی ثابت کرتے ہیں.ایسی بے بنیاد روایت پر عقائد کی بنیاد حباب بر آب کے سوا کچھ نہیں.
توہین رسالت کی سزا { 161 } قتل نہیں ہے 23 سفیان ہذیلی ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ”امام سیوطی نے خصائص الکبری میں سفیان ہذیلی کے بارے میں یہ روایت لکھی کہ آنحضور صلی اللہ ﷺ نے اس گستاخ کی نشاند ہی خود فرمائی اور کہا کہ اس وقت وہ وادی نخلہ یا وادی عرنہ میں ہے.تم جاؤ اور اسے قتل کرو.آپ نے عبداللہ بن انہیں کو اپنا عصا مبارک بطور انعام عطا فرمایا.“( الخصائص الکبرای جلد 1 صفحہ 523) لیکن یہ پوری روایت اس طرح ہے کہ بیہقی اور ابو نعیم نے یہ روایت لی ہے کہ عبد اللہ بن انیس فرماتے ہیں کہ انہیں رسول اللہ صلی ال یکم نے فرمایا کہ آپ کو یہ اطلاع ملی ہے : ” إِنَّ ابْنَ تبَيْحَ الهُذَيْلِ يَجْمَعُ النَّاسَ لِيَغُرُونَنِي وَهُوَ بِنَخْلَةَ أَوْ بِعُرَنَةٌ فَاتِهِ فَاقْتُلُهُ ( الخصائص الكبرى جلد 1 صفحہ 390 باب ما وقع في قتل سفیان بن نبی العلی، الناشر دار الکتب العلمیة بیروت) کہ ابن تیج تہذیلی لوگوں کو نخلہ میں یاوادی عرنہ میں جمع کر رہا ہے تاکہ مجھ پر چڑھائی کرے.لہذا جاؤ اور اسے قتل کر دو.جو روایت پیش کی گئی ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ ہذیلی شخص ایک وادی میں کھڑا رسول اللہ صلی للی کم پر کوئی گالی گلوچ نہیں کر رہا تھا جس کے انسداد کے لئے آپ نے اسے قتل کا حکم صادر فرمایا تھا.یہ روایت کسی گالی گلوچ کی نشاندہی نہیں کرتی بلکہ ایک کھلی کھلی محاربانہ کارروائی کی نشاندہی کرتی ہے.ایسی کارروائیوں کو روکنے کے لئے دفاعی اقدامات تو رسول اللہ صلی الی یکم کئی غزوات اور سرایا کے ذریعے بھی فرما چکے ہیں.مثلاً خیبر پر آپ کے غزوے کی بنیاد ہی یہ تھی کہ اہل خیبر مجد کے غطفانی قبائل اور دیگر کئی قبائل سے معاہدے کر کے غزوہ احزاب سے بڑی تعداد میں قبیلوں اور فوجوں کا انتظام کر رہے تھے اور مدینے پر یلغار کے لئے تیار تھے.یہ اطلاع جب رسول اللہ صلی علیم کو پہنچی تو بجائے اس کے کہ وہ مدینے پر چڑھائی کرتے ، آپ نے ان پر
توہین رسالت کی سزا { 162 } قتل نہیں ہے چڑھائی کی.یہی آپ نے غزوہ احزاب کے بعد فرمایا تھا " الانَ نَغْزُوهُمْ وَلَا يَغْزُونَنَا “ یعنی اب وہ ہم پر چڑھائی نہیں کریں گے بلکہ اگر وہ ہمارے خلاف اٹھنے کی کوشش کریں گے تو ہم اپنے دفاع کے لئے ان پر چڑھائی کریں گے.اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علم غزوہ تبوک کے لئے شدید صحرائی گرمی میں سینکڑوں میل کا انتہائی مشقت خیز اور تکلیف دہ سفر اختیار کر کے عرب کے شمال میں تبوک تک تشریف لے گئے.اللہ تعالیٰ نے اس غزوے کا نام ہی الغزوۃ العسرۃ یعنی شدید تنگی و تکلیف والا غزوہ رکھا ہے.اسی طرح اور بھی کئی ایک سرایا اور مہمات ایسی تھیں جو آپ نے ایسی شرارت کرنے والوں کی سرکوبی کے لئے بھجوائیں.آنحضرت صلی ال نیم کے ایسے اقدامات کو کھینچ تان کر توہین کی سزا کے طور پر پیش کرنا آپ پر کھلا کھلا اتہام ہے.آپ نے کسی گالی دینے والے کو صرف گالی کی سزا کے لئے قتل کرنے کا حکم نہیں فرمایا.چنانچہ گزشتہ صفحات میں ہم بدلائل ثابت کر آئے ہیں کہ آپ کی ساری حیات طیبہ میں ایک واقعہ بھی ایسار و نما نہیں ہوا.رسول اللہ صلی اللی یکم نے ایسے اقدام باغیوں اور مسلمانوں پر جنگ مسلط کرنے کی تیاری کرنے والے قبائل کی سرکوبی کے لئے اس لئے کئے کہ تا فریقین کو کثیر جانوں کے اتلاف سے بچایا جائے.کسی جگہ اگر کسی ایک فتنہ پرداز شخص کے قتل کا حکم اس کی بغاوت ، فساد یا محار بانہ کارروائی کی وجہ سے کیا بھی گیا ہے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ ایک شخص کے نقصان سے قبیلے اور قوم کی بکثرت جانوں کی حفاظت ہو سکے.مبادا کہ وہ اس فتنہ پرداز کے پیچھے ہو کر اپنی جانیں گنوا ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے یہ حکم دیا ہے کہ اگر وہ تم پر جنگ مسلط کریں تو اس میں بھی کوشش کرو کہ ائمۃ الکفر کو مارو.اس کی وجہ یہی تھی کہ لاعلمی کے نتیجے میں ان لیڈروں کی اتباع کرنے والوں کی جانیں تلف نہ ہوں.ایک دو یا چند ایک کی ہلاکت سے دیگر سب بچالئے جائیں.
توہین رسالت کی سزا { 163} قتل نہیں ہے اگر رسول اللہ صلی ال نیلم کی زندگی کا محبت اور سچائی کی نظر سے مطالعہ کریں تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آپ انسان کے خون کے محافظ تھے.وہ خون چاہے کسی مسلمان کا تھا یا غیر مسلم کا.آپ کی ساری زندگی آپ کے اس پاک جذبے اور پر رحمت مزاج کی گواہ ہے.پس امام سیوطی نے زیر بحث روایت ویسے تو بیقی کے حوالے سے درج کی ہے جو سند اور اصولِ روایت کے اعتبار سے ایک کمزور روایت ہے مگر اسے بفرض محال درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اسے گالی کے انتقام کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا.*****
توہین رسالت کی سزا { 164 } :24 محمد بن ابی بکر کے بارے میں ایک روایت قتل نہیں ہے توہین رسول کے ضمن میں ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ ”حضرت ابو بکر کے صاحبزادے حضرت محمد کے دور میں ایک امام نے جس کا نام عبد اللہ بن نواحہ تھا، قرآن کی آیات کا مذاق اڑایا اور مفاہیم کے رد و بدل سے یہ الفاظ کہے: قسم ہے آٹا پینے والی عورتوں کی جو اچھی طرح گوندھتی ہیں پھر روٹی پکاتی ہیں پھر شرید بناتی ہیں پھر خوب لقمے لیتی ہیں.“ اس پر حضرت نے اسے قتل کا حکم سنایا اور لمحہ بھر بھی تأخیر نہ فرمائی.( مصنف ابن ابی شیبه باب ارتداد “ سرسری نظر سے ہی اس روایت پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اس میں رسول اللہ صلی ال نیلم کی کو نسی تو ہین ہے یا کونسی گالی ہے جو آپ کو دی گئی ہے ؟ جس کی بناء پر اسے توہین رسول کی سزا قتل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے.اپنے متشدد مقاصد کے حل کے لئے یا اپنے خونی ارادوں کی تسکین کے لئے یہاں حضرت ابو بکر کے صاحبزادے کے ایک فعل کو شریعت کے ایک قانون کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے.یعنی انہوں نے جو کہا یا کیا، وہ ایک شرعی حکم کی حیثیت رکھتا ہے.جو ایسے لوگوں کی نام نہاد اسلامی سلطنت کے سنہری اصولوں میں شمار کیا جائے گا.یہ درست ہے کہ محمد، حضرت ابو بکر کے بیٹے تھے.مگر ان حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ وہ حجتہ الوداع کے ایام میں پیدا ہوئے اور امر واقعہ یہ ہے کہ حجۃ الوداع کے اسی (80) دن بعد رسول اللہ صلی للی نیم کا وصال ہو گیا تھا.لہذا ظاہر ہے کہ انہیں آپ کی صحبت حاصل نہ
توہین رسالت کی سزا { 165} قتل نہیں ہے ہو سکی تھی.اسی طرح انہوں نے بعد میں کوئی خاص دینی تعلیم بھی حاصل نہ کی تھی اور نہ ہی نیکی و تقوی میں ان کا کوئی مقام تھا.وہ ابھی اپنی عمر کے چوتھے سال میں تھے کہ حضرت ابو بکر بھی فوت ہو گئے.لہذا انہیں اپنے مقدس باپ کی تربیت بھی نصیب نہ ہو سکی.مورخین نے لکھا ہے کہ ان کے بزرگ باپ کے سبب لوگ ان کا ادب کرتے تھے جس سے وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ وہ معاشرے میں کوئی خاص حیثیت یا مقام کے حامل ہیں.ورنہ در حقیقت انہیں کسی قسم کی کوئی سبقت حاصل نہ تھی.بعد میں بد بد قسمتی سے یہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھ باغیوں کے گروہ میں شامل ہو کر خلیفہ الرسول حضرت عثمان کی مخالفت کرنے والوں کے سرغنہ تھے.بالآخر جب باغی حضرت عثمان کے گھر کی دیوار پھلانگ کر اندر کو دے تو ان میں محمد بن ابی بکر بھی پیش پیش تھے.یہ وہی تھے جو توہین خلیفۃ الرسول میں گستاخی کی تمام حدوں کے ساتھ ساتھ آپ کے گھر کی دیوار بھی پھلانگ گئے تھے.یہ وہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر حضرت عثمان کی داڑھی پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا تھا.مگر افسوس ہے کہ ایسی توہین خلافت راشدہ کے مرتکب لوگ آج قتل وخون کی ہولیاں کھیلنے والے خونخواروں کے پیشوا بن رہے ہیں.ایک طرف یہ لوگ ایسی وضعی روایتیں پیش کرتے ہیں کہ جو صحابی کو گالی دے اسے کوڑے مارو اور دوسری طرف اسی لمحے ایسے مقدس صحابی کی جو نہ صرف دامادِ رسول تھا بلکہ راشد خلیفۃ الرسول بھی تھا، ممکن حد تک تو ہین بلکہ تذلیل کے مر تکب شخص کو اپنا ہیر وبلکہ بہترین اسوہ قرار دے رہے ہیں.افسوس صد افسوس! کیا اس روایت کے مطابق حضرت عثمان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کی وجہ سے محمد بن ابی بکر خود کوڑوں کی سزا کے مستحق نہ تھے ؟
***** توہین رسالت کی سزا { 166 } قتل نہیں ہے مکرر عرض ہے کہ محمد بن ابی بکر ان باغیوں میں سے تھے جنہوں نے راشد خلیفہ حضرت عثمان سے وہ قمیص اتارنے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا جس کے بارے میں رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا تھا کہ منافق اسے اتارنے کی کوشش کریں گے مگر تم ہر گز نہ اتارنا.مگر محمد بن ابی ر بکر نے انتہائی ظالمانہ عمل سے ردائے خلافت کو اتارنے کے مطالبے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا.لہذا ان کے کسی فعل کو کس طرح ایک شرعی مسئلے کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے یا اس کی تائید میں ان کا ایسا فعل کیونکر بطور دلیل لیا جا سکتا ہے.اگر تاریخی حقائق سے منہ نہ موڑا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ محمد بن ابی بکر صرف حضرت ابو بکر کے صاحبزادے تھے.اس کے علاوہ ان میں کوئی خصوصیت نہ تھی.ان کی زندگی دینی لحاظ سے تلخ حقیقتوں سے لبریز ہے تو انجام اس سے بھی زیادہ بھیانک.چنانچہ بعد میں جب وہ مصر میں والی تھے تو انہیں وہیں قتل کیا گیا اور ان کی لاش کی نا قابل بیان حد تک بے حرمتی کی گئی.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبصَارِ ایسے شخص کو جس کے ساتھ صرف مقدس باپ کا نام لگا ہو ، جبکہ اس کا اپنا دامن دینی خدمات سے تہی ہو ، ہاتھ ظلم و گستاخی سے رنگے ہوئے ہوں، زبان مقدسوں کی توہین و تنقیص سے تر ہو، کسی دینی مسئلے میں سند قرار دینا یا اس کا عمل سند کے طور پر پیش کرنا یقیناً دین سے کھلا کھلا کھلواڑ ہے اور حسین شریعت اسلام و سیرت محمد ی سے مذاق ہے.
توہین رسالت کی سزا { 167 } قتل نہیں ہے 25 منافق کی گردن کشی ایک روایت تفسیر روح المعانی سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ عبد اللہ بن عباس کی سند سے روایت ہے کہ بشر نامی ایک منافق کا کسی یہودی سے کسی معاملے میں تنازعہ تھا.یہودی نے فیصلے کے لئے رسول اللہ صلی ال نیم کے پاس اور منافق نے اسے کعب بن اشرف کے پاس جانے کے لئے کہا.بہر حال دونوں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور آپ نے یہودی کے حق میں فیصلہ دیا.منافق اس فیصلے پر راضی نہ تھا.چنانچہ وہ تنازعہ حضرت عمر کے پاس لے گیا.یہودی نے حضرت عمر کو بتادیا کہ رسول پاک صلی علیہ یکم پہلے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں.یہ شخص اس پر راضی نہ تھا.اس پر حضرت عمرؓ نے منافق سے پوچھا کہ کیا ایسا ہی ہے ؟ اس نے کہا: ”ہاں“.حضرت عمر اندر گئے، اپنی تلوار لی اور آکر منافق کو قتل کر دیا اور کہا: ”جو رسول اللہ صلی ال یکم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا اس شخص کے لئے میرا یہی فیصلہ ہے.“ اس پر یہ آیت نازل ہوئی.فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيماً (النساء: 66 ) ترجمہ: پس نہیں، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں.پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس سے اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں.وو اس روایت کو پیش کرنے والا مصنف لکھتا ہے." حضرت عمرؓ کے اس عمل کی قرآن کریم نے توثیق کی اور یہ اہانت رسول پاک کے لئے سزائے موت کی نظیر ہے.“ ( ناموس رسول اور قانونِ توہین رسالت صفحہ 98 اور 346)
توہین رسالت کی سزا 168 | قتل نہیں ہے مصنف نے جو آیت اپنی کتاب میں بشر اور یہودی والے مذکورہ بالا واقعہ کے شانِ نزول کے طور پر پیش کی ہے ، تفسیر روح المعانی میں اس کا صرف حوالہ موجود ہے.جبکہ اس میں مذکور واقعہ سورۃ النساء کی مذکورہ بالا آیت نمبر 66 کی بجائے اسی سورۃ کی حسب ذیل آیت نمبر 61 کے تحت درج ہے.أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ آمَنُواْ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُواْ إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُواْ بِهِ وَيُرِيْدُ الشَّيْطَانُ أَن يُضِلُّهُمْ ضَلالاً بَعِيداً“ ترجمہ: کیا تو نے ان لوگوں کے حال پر نظر کی ہے جو گمان کرتے ہیں کہ وہ اس پر ایمان لے آئے ہیں جو تجھ پر اتارا گیا اور اس پر بھی جو تجھ سے پہلے اتارا گیا.وہ چاہتے ہیں کہ فیصلے شیطان سے کروائیں جبکہ انہیں حکم دیا تھا کہ وہ اس کا انکار کریں.اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ وہ انہیں دور کی گمراہی میں بہکا دے.پس ظاہر ہے کہ اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے مصنف نے آیت کے تعین میں غلطی کھائی ہے یا جان بوجھ کر وہ آیت پیش کر دی ہے جس سے اس کے گمان میں اس کا مقصد بر آتا تھا.پھر یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ یہاں مصنف تفسیر روح المعانی علامہ الوسی نے بشر اور یہودی والی روایت کے استناد کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا.لیکن جو آیت 66 مصنف نے اپنی دلیل کے لئے پیش کی ہے اس کے تحت جو واقعہ تفسیر روح المعانی میں درج ہے وہ مذکورہ بالا واقعے سے کل یہ مختلف ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ در حقیقت قطعی طور پر وہی سچا واقعہ ہے.اس کے استناد کے لئے علامہ الوسی نے بڑے وثوق اور طمطراق کے ساتھ صحاح ستہ کے سب مصنفین کے نام درج کئے ہیں.صحاح ستہ مرتب کرنے والے ان سب محدثین نے یہ واقعہ لے کر سزائے موت
توہین رسالت کی سزا { 169 } قتل نہیں ہے کی جھوٹی دلیل پیش کرنے والے کی یہ نظیر توڑ کر رکھ دی ہے.مثلاً امام بخاری نے مرفوع متصل سند سے اس آیت کے تحت کتاب التفسیر میں حضرت عروہ سے روایت درج کی ہے جس میں حضرت زبیر اور ایک انصاری کا کھیتوں کے پانی کے سلسلے میں ایک تنازعہ تھا.اس پر حضرت زبیر کا خیال تھا کہ یہ مذکورہ بالا آیت اس بارہ میں نازل ہوئی تھی.بخاری کی روایت مرفوع متصل یعنی ایک اعلیٰ درجہ کی روایت ہے.اس کے مطابق یہودی اور منافق والا واقعہ نہیں ہوا اور نہ کسی ایسے واقعے کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی.بلکہ یہ واقعہ حضرت زبیر اور ایک انصاری کے تنازعہ پر مبنی تھا.پس مصنف نے ریت کی طرح گر جانے والی وضعی روایات پر اپنے موقف کو استوار کر کے جھوٹا موقف قائم کیا ہے.پھر یہی منافق اور یہودی کے تنازعے والا واقعہ جو تفسیر روح المعانی کے حوالہ سے پیش کیا گیا ہے ، کتاب ”الصارم المسلول.....“ (جلد 2 صفحہ 41 المسئلة الثالثيه باب الوجوه الدالة على جواز قتل المنافقين اذا ثبت بالبینۃ ) میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ اس موقع پر سورۃ النساء کی آیت نمبر 61 " أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ......الخ نازل ہوئی تھی اور جبریل نے کہا تھا کہ عمرؓ نے حق اور باطل میں فرق کر دکھایا ہے.پس آپ کا نام فاروق ہو گیا.علامہ الوسی نے روح المعانی میں اس یعنی آیت نمبر 61 کا ایک اور شانِ نزول بھی بتایا ہے کہ یہ ابو برزہ الا سلمی کے بارے میں نازل ہوئی تھی.وہ کا ہن تھا اور یہود میں فیصلے کیا کرتا تھا اور اس غرض سے مسلمان بھی اس کے پاس جاتے تھے.( یہ ابوبرزہ وہی ہیں جن کا ذکر روایت نمبر 15 میں بھی گزر چکا ہے)
توہین رسالت کی سزا 170 } قتل نہیں ہے اس صورتحال میں یہ تو بالکل واضح ہے کہ ان روایات یا واقعات میں سے کوئی ایک درست ہے.لیکن علم روایت و درایت کو جانے والا ہر محقق اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ درست واقعہ وہی ہے جو صحیح بخاری (اصح الکتب بعد کتاب اللہ ) میں درج ہے.کیونکہ اس کی سند مکمل ہے اور صحاح ستہ میں یہ روایت بار بار اخذ کی گئی ہے.اس روایت کے مطابق کوئی قتل نہیں ہوا.باقی روایات وضعی ہیں جو ر ڈ کرنے کے لائق ہیں.روح المعانی کی مذکورہ بالا روایت میں رڈ شدہ واقعے کے بارے میں یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ واقعہ کعب بن اشرف کی زندگی کا ہے یعنی 3 ھ یا اس سے پہلے کا ہے.اس وقت تو عبد اللہ بن عباس مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے.مسلمان تو کیا اس وقت آپ گتے میں کم و بیش 5/4 سال کی عمر کے بچے تھے.اس عمر کا بچہ جو مکے کا رہنے والا تھا، سینکڑوں میل دور مدینے کے ایسے گہرے مسائل اور آیات کے نزول کے پس منظر کو کس طرح جان اور سمجھ سکتا تھا.پس واضح ہے کہ یہ روایت مبینہ طور پر وضعی اور جعلی ہے جو ایک بار پھر حضرت عبد اللہ بن عباس کے نام پر وضع کی گئی ہے.جیسا کہ گزشتہ صفحات میں یہ حقیقت کھول کر بیان کی گئی ہے کہ حضرت ابن عباس پر وضاعوں نے یہ ظلم کیا ہے کہ ان کی طرف وہ روایات و تفاسیر منسوب کر دی ہیں جو انہیں نے بیان نہیں کیں.آیات کے شان نزول کی حقیقت آیات کے شانِ نزول سے عمومی طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ادھر کوئی واقعہ ہوا اور اُدھر فوراً اس کے مطابق آیت اتر آئی اور وہ واقعہ اس آیت کے نزول کا موجب بن گیا.دراصل یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہئے کہ شانِ نزول یا وجہ نزول کا مسئلہ ایک مشکل مسئلہ ہے.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتاب ”الفوز الکبیر میں اس مسئلے پر جامع روشنی ڈالی ہے.
توہین رسالت کی سزا { 171 } قتل نہیں ہے آپ کے اس مضمون کا لب لباب یہ ہے کہ صحابہ یا تابعین جہاں یہ کہتے ہیں نَزَلَتْ في كَذَا یعنی یہ آیت فلاں بارے میں نازل ہوئی تو یہ کسی خاص واقعے سے مخصوص نہیں ہوتا جو آنحضرت صلی ال یکم کے مبارک زمانے میں ہوا اور نزول آیت کا سبب بنا.ان کا یہ طریق تھا کہ وہ ایسے مواقع کا جو آپ کے زمانے میں یا اس کے بعد ہوئے ہوں، ذکر کر کے کہہ دیا کرتے تھے کہ یہ آیت ایسے موقعے پر نازل ہوئی.اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ آیت پوری طرح اس واقعے پر منطبق ہو ، بلکہ اصل حکم پر منطبق ہونی چاہئے.( یعنی واقعے کی نوعیت یا اس کی صور تحال پر اگر کسی آیت کریمہ کا حکم یا تعلیم چسپاں ہو تو اسے اس کے نزول کا گویا منظر قرار دیا جائے.) کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ آنحضرت صلی ظلم کے زمانے میں کوئی واقعہ ہوا اور صحابہؓ نے اس سے متعلق سوال کیا تو اس پر آپ نے اس کا حکم کسی آیت سے اخذ فرما کر موقع پر وہ آیت تلاوت کر دی.ایسے واقعات کو بھی بیان کرتے وقت صحابہ نَزَلَتْ في كَذَا کہہ دیا کرتے تھے.کبھی یہ بھی کہہ دیتے تھے کہ فَأَنْزَلَ اللهُ قَوْلَهُ كَذَا یعنی اللہ نے اپنا حکم اس طرح نازل فرمایا.اس تفصیل کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی علی یم کا اس آیت سے استنباط اور اس وقت قلب مبارک پر جو کچھ القاء ہو اوہ بھی وحی اور نفث فی الروع کی ایک قسم ہے.(نفث فی الروع کا معنی ہے ، دل میں پھونکنا اور اصطلاح میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات جو اللہ کی طرف سے دل میں اترے) اس لئے ایسے موقع پر فانزلت کہنا جائز ہے.ممکن ہے کوئی شخص اسے تکرار نزول سے بھی تعبیر کرلے.محدثین و مفسرین قرآنی آیات کے تحت بہت سی ایسی چیزوں کا ذکر کر دیتے ہیں جو در حقیقت سبب نزول نہیں ہو تیں.مثلاً صحابہ کا اپنے مباحثے میں کسی آیت کو بطور شہادت پیش کرنا،
توہین رسالت کی سزا { 172 } قتل نہیں ہے یا کسی آیت سے مثال دینا، یا آنحضرت صلی علیہ یکم کی تلاوت سے اپنی بات کو ثابت کرنا، یا ایسی حدیث روایت کرنا جو اصل مطلب کی آیت کی موافقت میں ہو ، یا نزول آیت کے موقع کا تعین کرنا، یاجو اسماء آیات میں مہم مذکور ہوں ان کا تعین کرنا، یا کسی قرآنی کلمے کا تلفظ کرنا، یا قرآنی سورتوں اور آیتوں کے فضائل بیان کرنا، یا امر قرآنی کی آنحضرت صلی ی ی ی ی یم نے جس طرح تعمیل کی اس کی شکل.اس قسم کی ساری باتیں در حقیقت اسباب نزول میں شامل نہیں ہیں.نہ ان باتوں کا احاطہ کرنا مفسر کے لئے ضروری ہے.(ملخص از الفوز الکبیر باب شان نزول کی حقیقت) معزز قارئین! الحمد للہ کہ اس باب میں ہم نے وہ تمام روایات جو توہین رسالت کی سزا قتل، کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے پیش کی جاتی ہیں، قرآن کریم، سنت و اسوہ رسول ا اور مستند صحیح روایات کے ذریعے رڈ کر دیا ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ یہ عقیدہ اسلامی عقائد میں سے نہیں ہے بلکہ قرآن کریم، اسلام، اور رسول اللہ صلی علیم کے منشاء کے خلاف ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 173} ایک قابل ذکر تاریخی ریکارڈ امام مالک پیدائش 93ھ (711ء) وفات 179ھ (795ء) امام بخاری پیدائش 13 / شوال 194ھ وفات یکم شوال 256ھ قتل نہیں ہے ابن عباس جب ابن عباس پید اہوئے تو آنحضرت صلی علیکم شعب ابی طالب میں تھے.جب آنحضرت صلی الی یکم کا وصال ہوا تو آپ 13 سال کے تھے.آپؐ 70/ 73 سال کی عمر میں طائف میں فوت ہوئے.(اسد الغابہ ) عکرمہ بربری وفات 104ھ محمد بن عمر الواقدی 130ھ سے 207ھ عبد الرزاق بن ہمام 126ھ سے 211ھ ( واقدی اور یہ دونوں ہمعصر ہیں) ابن سحنون 202ھ تا 256ھ / یا 265ھ قاضی عیاض 544471 امام ابن تیمیه (+13281327) 728 (+1263+1260)661 ابنِ سحنون سے امام ابن تیمیہ تک زمانہ وہ ہے جس میں عالم اسلام کے ایک حصے میں امویوں کی اور دوسرے میں عباسیوں کی سلطنتیں تھیں.حکومتوں میں عیسائی اور یہودی سب شامل تھے.عیسائی مذہبی رہنما اسلام کی اس وسعت قلبی اور ضمیر کی آزادی کی تعلیم سے ہمیشہ سے ہی پریشان و ہراساں تھے کہ عیسائی عوام ان میں یہ کشش دیکھ کر اس میں شامل ہو جائیں گے.لہذا وہ عیسائی نوجوانوں سے سر عام آنحضرت مصلی تعلیم کی توہین و تنقیص کرواتے تھے.اس
توہین رسالت کی سزا 174 } قتل نہیں ہے ماحول اور ضرورت کی وجہ سے حکوت وقت کی ایماء پر اُس وقت کے مفتیوں نے فتوے اور قاضیوں نے ایسے فیصلے جاری کئے.پھر بعد میں انہیں شرعی فتوے قرار دے کر شریعت کا حصہ سمجھ لیا گیا.ان فتووں کے تحقق کے لئے مختلف واقعات کو تکلف اور تصنع سے اور بسا اوقات جھوٹ کے ساتھ شرعی حیثیت دے دی گئی.*****
توہین رسالت کی سزا باب سوم 175 } قتل نہیں ہے كتاب " الصارم المسلول علی شاتم الرسول کا ایک مختصر تجزیہ ***** كتاب "الصارم المسلول على شائم الرسول" یہ کتاب اِس دور میں ایک خاص شہرت کی حامل کتاب ہے.یہ امام ابنِ تیمیہ کی طرف منسوب ہوتی ہے یا اس کے مصنف امام ابنِ تیمیہ قرار دیئے گئے ہیں.آپ کا زمانہ 661ھ (1260 یا1263ء) سے 728ھ (1327 یا 1328 ء) ہے.آپ شام کے علاقے حران کے رہنے والے تھے.نام تقی الدین ابو العباس احمد بن شہاب الدین تھا.آپ کو اپنی صدی کا مجدد بھی مانا گیا ہے.اسلامی علوم پر دسترس کے لحاظ سے آپ کی کتب کو خاص مقام دیا جاتا ہے.آپ کے فلسفے ، تفقہ علم و فضل پر علماء نے اپنی کتب میں سیر حاصل بحثیں کی ہیں.ان تبصروں کے لحاظ سے آپ ایک نابغہ روز گار عالم دین تھے.الغرض دنیائے اسلام میں آپ کے علم و فضل کا چرچا ہے.جہانتک کتاب ” الصارم المسلول.....“ کا تعلق ہے، تو یہ امام ابن تیمیہ کی دیگر کتب سے کچھ الگ اسلوب رکھتی ہے.امام ابن تیمیہ کی اپنی معروف شہرت سے یہ کتاب مطابقت نہیں رکھتی.اس کتاب میں مذکور واقعات و استدلالات کئی جگہ قرآن کریم، سنت و سیرت رسول صلی للہ کم سے متصادم و مخالف ہیں.جو ایک محب رسول کسی طور پر قبول نہیں کر سکتا.اس لئے درج ذیل دو باتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ
توہین رسالت کی سزا { 176 } قتل نہیں ہے اول یہ کہ امام ابن تیمیہ کی شخصیت اگر وہی ہے جو علم و فضل کے حوالے سے معروف ہے تو یہ کتاب خود بولتی ہے کہ یہ آپ کی نہیں ہے.کسی نے کسی وقت آپ کی طرف منسوب کر دی ہے اور اسے پھر ایک خاص مزاج کے مکتبہ فکر نے آپ کے ساتھ پختہ طور پر منسلک کر دیا ہے.چنانچہ ایسی کتابوں کے بارے میں مالکی فقہ کے عالم امام ابو العباس احمد بن عبد العزیز الہلالی المالکی المغربی اپنی کتاب ” نور البصر “ میں لکھتے ہیں: "وَقَدْ حَذَرَ الْعُلَمَاءُ مِنْ تَأْلِيْفٍ مَوْجُوْدَةٍ بِأَيْدِى النَّاسِ تُنْسَبُ إِلَى الْآبِيَّةِ، وَنِسْبَتُهَا بَاطِلَةٌ کہ علماء نے لوگوں کو ان کے پاس موجود تالیفات سے خبر دار کیا ہے جو ائمہ کی طرف منسوب ہوتی ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ (ان ائمہ کی طرف) باطل طور پر منسوب ہیں.(نور البصر فی شرح خطبة المختصر صفحہ 130 دار یوسف بن تاشفین.مکتبه العام مالک) دوم یہ کہ اگر یہ واقعہ امام ابن تیمیہ کی کتاب ہے تو افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ امام موصوف نے اس کتاب میں قرآن کریم اور سنت و سیرتِ رسول صلی للی نام سے منافی اور ان سے متصادم استدلالات کر کے امت کو ہلاکتوں کا راستہ دکھایا ہے.منصفانہ تحقیق اور قوی شواہد کی بنیاد پر ہمار ارخ پہلی بات کی طرف ہے.یعنی یہ کہ یہ کتاب امام ابن تیمیہ کی نہیں ہے.لہذا اس کتاب میں ہم نے امام ابن تیمیہ کی بجائے کتاب الصارم.....“ میں مذکور امور پر جرح و تنقید کر کے سچائی تلاش کرنے کی سعی کی ہے.یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ امام ابن تیمیہ متشد د طبع کے مالک تھے.لیکن ہماری بحث یہ نہیں ہے کہ وہ طبیعت و مزاج کے کیسے تھے.ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آیاتِ قرآنیہ ، سنت و سیرتِ رسول صلی للی کم اور احادیث، روایات و آثار سے ایسے استدلال جو قرآن کریم کی آیات بینہ اور حقیقی سیرت و شمائل نبوی کے سراسر مخالف ہوں ، کیونکر قبول کئے جائیں.ظلم و تشدد اور کشت و خون
توہین رسالت کی سزا { 177 } قتل نہیں ہے کیونکر رسول اللہ صلی الی یم کی طرف منسوب ہوں.چنانچہ کتاب کے مندرجات اور استدلالات کو ہدف جواب بنایا گیا ہے."الصارم المسلول....اور اسی نوع کی دیگر کتب جن میں توہین رسالت کے نعرے کی آڑ میں قتل و غارت اور کشت و خون کی تعلیم دی گئی ہے ، ایک خاص مکتبہ فکر کی ترجمان ہیں.ان کتابوں کی پذیرائی کرنے والے وہ لوگ ہیں جو مذہب میں جبر و تشدد اور قتل و غارت گری کے علمبر دار ہیں جبکہ دیگر مسلمان ان نظریات سے متفق نہیں بلکہ شدت سے ان کے مخالف ہیں.ایسی کتابیں تعلیمات قرآنیہ و سنت نبویہ کی رحیمانہ تعلیمات سے کلیہ مخالف و متصادم ہیں.اسی وجہ سے ان کے مندرجات، ان میں پیش کردہ روایات اور ان سے کئے گئے استدلالات عام علمی معیار سے گرے ہوئے ہیں.اسی طرح ان میں یہ ستم بھی بکثرت موجود ہیں کہ روایات اخذ کرتے وقت ان کے استناد کے سلسلے میں کوئی تحقیق نہیں کی گئی.نیز یہ حقیقت بھی ثابت شدہ ہے کہ وہ روایات جن پر شاتم رسول کے قتل کے عقیدے کی بنیاد رکھی گئی ہے ، ان کے سوتے گدلے ہیں.اگر کوئی روایت صحیح اور مستند ہے تو اس کے استدلالات کو خونی نظریات سے آلودہ کر دیا گیا ہے.اس باب میں ایسی ہی حقیقتوں کو پیش کیا جارہا ہے.یہاں قارئین کی خدمت میں یہ بھی عرض ہے کہ اس باب میں مندرج نظائر کتاب ”الصارم المسلول“ کے صرف پہلے جزو سے بطور نمونہ چند لئے گئے ہیں.ورنہ یہ کتاب ایسی نظیر وں کا طومار ہے اور اس پر تنقید سینکڑوں صفحات کی متقاضی ہے.
توہین رسالت کی سزا جھوٹے راوی اور ” الصارم المسلول 178 }- قتل نہیں ہے کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ جو یہاں زیر بحث ہے ، اس کا رُخ کچھ اور ہے.معلوم ہوتا ہے کہ اس میں زمانے کی روش کے زیر اثر استدلالات و اجتہادات ہوئے ہیں یا حالات کا کوئی ایسا دباؤ ہے کہ اس نے سوچ کے دھارے کو رسول اللہ صلی ال نیم کی صفات رحمت و کرم کی سمت بہنے نہیں دیا.بلکہ اس کے بر عکس جا بجاخون بہانے کی ترغیب دی گئی ہے.اس تبصرے کی وجہ اور بنیاد یہ ہے کہ قرآن کریم کی حکمیت اور سنت و حدیث رسول کے صحیح ریکارڈ کو چھوڑ کر بنیادی طور پر یہ کتاب بکثرت ایسی روایات پر مشتمل ہے جو مبینہ طور پر وضعی اور جعلی ہیں.چنانچہ ان روایات اور راویوں پر گزشتہ ائمہ اور علمائے فن نے بڑی مضبوط اور مدلل تنقیدیں کر کے انہیں رڈ کیا ہے.مثلاً اس کتاب میں بنیادی غلطی یہ ہے کہ اس میں بیشتر بلکہ اکثر روایات واقدی سے لی گئی ہیں اور پھر بڑے اعتماد کے ساتھ ان پر یہ رائے بھی لکھی گئی ہے کہ : إِن كَانَ الْوَاقِدِئُ لَا يُحْتَجُ بِهِ إِذَا انْفَرَدَ، وَلكِنْ لَّا رَيْبَ فِي عِلْمِهِ بِالْمَغَازِي، وَاسْتِعْلَامِ كَثِيرٍ مِنْ تَفَاصِيْلِهَا مِنْ جِهَتِهِ، وَلَمْ نَذْكُرْ عَنْهُ إِلَّا مَا أَسْنَدْنَاهُ عَنْ غَيْرِهِ - “ (الصارم المسلول......زیر عنوان ” والاستدلال بقتل کعب بن اشرف من و جہین » صفحہ 59) کہ واقدی جب تنہا روایت کرے تو اس کی روایت سے حجت نہیں لی جاسکتی مگر اس کے ماہر مغازی ہونے اور اس کی تفصیلات سے آگاہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے.ہم نے واقدی سے وہی کچھ لے کر ذکر کیا ہے جو ہم نے دوسروں سے باسند نقل کیا ہے.یعنی واقدی کے بارے میں بالکل درست تجزیہ کیا گیا ہے کہ اس سے حجت نہیں لی جاسکتی مگر اس کے باوجود اس کتاب ” الصارم....میں اس کی روایات کو کثرت سے لیا بھی گیا
توہین رسالت کی سزا 179 } قتل نہیں ہے ہے.پھر آگے چل کر واقدی کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے : مَعَ مَا فِي الْوَاقِدِي مِنَ الضُّعْفِ (الصارم.....زیر عنوان ” الدلیل السادس قصة امرأة من خطمة كانت تہجو النبي ، صفحہ 70) کہ واقدی میں (روایت کے سلسلے میں) ضعف پایا جاتا ہے.كتاب الصارم المسلول کی یہ ایک بنیادی اور سنگین لغزش ہے کہ اس کی بنیاد زیادہ تر واقدی کی روایات پر استوار ہے.گو مذکورہ بالا اقتباس میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ ”ہم نے واقدی سے وہی کچھ لے کر ذکر کیا ہے جو ہم نے باسند دوسروں سے نقل کیا ہے.مگر یہ بیان قارئین کے لئے محض ایک طفل تسلی کے طور پر ہے.کیونکہ جس روایت میں واقدی موجو د ہو ، چاہے اس کے ساتھ کیسی بھی سند ہو، اس کی وجہ سے اکثر و بیشتر مشکوک، کمزور اور ضعیف بلکہ جیسا کہ ائمہ فن نے بیان کیا ہے ، اکثر وضعی ہوتی ہے.دوسرے یہ کہ اگر دوسروں سے کچھ باسند لیا ہے تو پھر واقدی سے لینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی.مگر اصل بات یہی ہے کہ واقدی اس طرح کا وضعی اور جھوٹا مواد بکثرت مہیا کر دیتا ہے جو اس طرح کے موضوعات کے لئے مرغوب ہے.علاوہ ازیں اس کی روایات کی اسناد بھی محل نظر ہیں.ان میں بھی اکثر خود تراشیدہ ہیں.ہم قطعا یہ نہیں کہتے کہ واقدی کی پیش کردہ ہر روایت ہی جھوٹی ہے.ہمارا دکھ یہ ہے کہ وہ روایات جو آیات قرآنیہ اور سنت و حدیث نبوی کے صحیح مجموعے سے ٹکراتی ہیں، انہیں ترک کیوں نہیں کر دیا گیا.واقدی ہو یا کوئی اور ، جس کی بھی پیش کردہ ایسی روایات جو ہدایت کے مذکورہ بالا ان بنیادی سرچشموں سے سیراب ہوتی ہوں وہ تو درست قرار دی جاسکتی ہیں مگر جو ہر قسم کی توجیہ اور تطبیق کی کوشش کے باوجود ان کے مخالف اور متصادم ہوں وہ بہر حال جھوٹی اور وضعی ہیں.انہیں ترک کرنا ضروری ہے.واقدی اور اس جیسے اور اصحاب نے چونکہ خود ایسی
توہین رسالت کی سزا 180 } قتل نہیں ہے روایات تراشی ہیں اور انہیں کئی لوگوں کی طرف منسوب کر کے کوئی سند بھی مہیا کر دی ہے مگر وہ ہدایت کے ان حقیقی سرچشموں سے مخالف اور متصادم ہیں.اس لئے ائمہ فن نے واقدی کو جھوٹا، روایات تراشنے والا اور سارق یعنی چور قرار دیا ہے.دوسری بنیادی اور فاش غلطی اس کتاب میں یہ ہے کہ اس میں واقدی کے ساتھ ساتھ دیگر وضاعوں مثلاً مصنف عبد الرزاق اور عکرمہ مولیٰ ابن عباس کی روایات بھی بنیادی حیثیت میں شامل ہیں جو اس کتاب کی بنیادوں کو مبینہ طور پر کھو کھلا ، استدلالات کو غلط اور اجتہادات کو بو دا کر رہی ہیں.ظاہر ہے کہ خشت اول چوں نہد معمار کج تا ثریا می رود دیوار کج معماراگر عمارت میں بنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھتا ہے تو دیوار چاہے ثریا تک بلند کر دی جائے، وہ لاز ما ٹیڑھی ہی ہو گی.کتاب ' الصارم......اس شعر میں بیان شدہ حقیقت کی عملی اور جیتی جاگتی تصویر ہے.ہم روایات وضع کرنے والے ان مذکورہ بالا تینوں افراد کا ذکر گزشتہ باب میں تفصیل سے کر آئے ہیں.ظلم یہ ہے بعض آیات قرآنیہ اور روایات صحیحہ کو بھی ان وضعی روایات کے تحت کر کے زیر بحث لایا گیا ہے.حالانکہ رُخ یہ ہونا چاہئے تھا کہ روایات اور ان پر کئے جانے والے اجتہادات کو قرآن کریم اور سنت و حدیث رسول کے مستند ریکارڈ کے سامنے پیش کر کے ہر روایت کی ایسی توجیہہ کی جاتی جو رسول اللہ صلی علیم کی پاک سیرت ، آپ کے عفو و در گزر ، آپ کی وسعت قلبی ، وسعت ظرفی اور کائنات سے وسیع تر دامن رحمت پر داغ نہ لگنے دیتی و الّا اس روایت پر آیت قرانیہ یا سیرت و سنت رسول کو حکم بناکر اسے ترک کر دیا جاتا.اگر ایسا کیا جاتا تو اس سے ایک طرف تو مسائل کا رُخ بالکل درست اور صحیح رہتا اور دوسری طرف رسول اللہ
توہین رسالت کی سزا 181 } قتل نہیں ہے صلی ایم کی وہ خواہش پوری ہو جاتی کہ ” لوگ یہ باتیں نہ کریں کہ محمد (صلی ) اپنے ساتھیوں کو مرواتا ہے.مگر ایسی کتابوں نے یہ ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے کہ آپ نعوذ باللہ اپنے ساتھیوں کو مرواتے تھے اور بار بار مرواتے تھے.چنانچہ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں نکلا کہ آج اسلام کی اور رسول اللہ صلی للی نیم کی مسلسل تو ہین کی جاتی ہے.اس کے ساتھ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ بھی ثابت کیا جاتا ہے کہ نعوذ باللہ آپ کی تلوار لوگوں کو ظالمانہ طور پر کاٹتی رہی ہے اور اسلام کی تعلیم متشددانہ ہے.اگر محسن انسانیت صلی الم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس سچائی کو ثابت اور پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی کہ آپ نہ صرف یہ کہ اپنوں کے خون اور ان کی زندگیوں کو بچاتے تھے بلکہ ظلم کرنے والوں کو بھی بقا عطا کرتے ہوئے معافی پر معافی عطا کرتے چلے جاتے تھے.تو ثابت یہ ہوتا کہ نسل انسانی میں صرف اور صرف ایک آپ ہی ہیں جو انسان، انسانیت اور انسانی خون کے سب سے بڑے محافظ تھے.پھر اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ آج دنیا کی قومیں اس عظیم ، عفو و در گزر اور رحمت کے بحر بیکراں سے فیضیاب ہورہی ہو تیں.ایسی متشد د کتابوں نے نہ صرف دوسری قوموں کے لئے اسلام کی کشش کو سلب کر لیا ہے بلکہ مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کے دلوں میں قساوت ، سینوں میں رعونت اور نظروں میں ایسی خشونت بھر دی ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکار اُن سے بدکتے ہیں.کاش وضعی، ضعیف اور کمزور روایتوں کو کتابوں میں جگہ نہ دی جاتی.صحیح روایات کو غلط معنے نہ پہنائے جاتے.آیات قرآنیہ کی تفسیریں کمزور روایت کے تابع نہ کی جاتیں بلکہ ان جھوٹی اور جعلی روایات کو کلیۂ رڈ کر دیا جاتا.اگر ایسا ہو تا تولازماً ہر عہد میں ہی رسول اللہ صلی علیم کی پر رحمت و پر نور شخصیت اپنی پورے حسن و جمال اور خوبی و کمال سے چمک کر دنیا کے سامنے آتی.اسلام کا سچا، سچا اور حسین چہرہ ہر دور میں ہر
توہین رسالت کی سزا 182 } قتل نہیں ہے ایک کے لئے مقناطیسی کشش رکھتا اور اسلام یقیناً اپنی تعداد ، تعلیم ، عمل اور رحمت کے لحاظ سے آج کلی طور پر دنیا کا غالب مذہب ہو تا.افسوس اور ہزار افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس بنیادی کمزوری اور ناقابل تلافی غلطی کی وجہ سے کتاب الصارم......بجائے فائدہ مند ہونے کے اساسی طور پر ایک ضرر رساں کتاب ہے.جس کے مقصود اور علتِ غائی کا قرآن کریم کی تعلیمات، رسول اللہ صلی علیم کی تعلیمات اور آپ کی ساری زندگی کے پاک اور پر عفو و رحمت اسوہ سے نہ صرف دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ وہ واضح طور پر ان سے متصادم ہے.بتکرار یہ کہنا پڑتا ہے کہ اس سے اسلام کو اندرونی طور پر بھی بیحد نقصان پہنچا ہے اور دشمنوں نے اسلام اور رسول اللہ صلی لی ایم کے خلاف اپنے جھوٹے حملوں کے لئے اس سے جھولیاں بھر بھر کر مواد حاصل کیا ہے.یہ وہ کڑوی حقیقت ہے جس کی گواہی ہر مخالف رسول کی کتاب فراہم کرتی ہے.نقض عهد : اس کتاب میں شتم رسول کو نقض عہد کا ذریعہ قرار دے کر شاتم کے قتل کے جواز کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کے لئے متعدد آیات بھی پیش کی گئی ہیں.یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ایک آیت بھی ایسی نہیں جو براہِ راست اس دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کی جاسکے.چنانچہ اس پوری کتاب میں ان مذکورہ آیات میں سے کسی ایک کا استدلال بھی بر اور است پیش نہیں کیا گیا.ایک بات کے ساتھ دوسری ملا کر پھر اس کے ساتھ ایک اور بات ملا کر پھر اس کے ساتھ ایک اور ملا کر کہیں تیسری چوتھی جگہ جاکر نتائج اخذ کئے گئے ہیں.حالانکہ شریعت کے
توہین رسالت کی سزا 183 } قتل نہیں ہے مسائل کا حل اس طرح نہیں ہوتا.چنانچہ الوجہ الرابع کے تحت زیر عنوان ” سَبُّ الرَّسُولِ يُوْجِبُ نَقْضَ عَهْدِ الذِي “ لکھا ہے: إِنَّهُ قَالَ تَعَالى ( أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَؤُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ (التوبه: (13) فَجَعَلَ هَمَّهُمْ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ مِنَ الْمُحَفِّضَاتِ عَلَى قِتَالِهِمْ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا لَمَا فِيْهِ مِنَ الْأَذَى ، وَ سَبُّهُ أَغْلَظُ مِنَ الْهَمَ بِإِخْرَاجِهِ ، بِدَلِيْلٍ أَنَّهُ عَلَى اللهُ عَفَا عَامَ السلام الْفَتْحِ عَنِ الَّذِينَ هَمُّوا بِإِخْرَاجِهِ، وَلَمْ يَعْفُ عَمَّنْ سَبَّهُ، فَالْذِي إِذَا أَظْهَرَ سَبِّهُ فَقَدْ نَكَتَ عَهْدَهُ، وَفَعَلَ مَا هُوَ أَعْظَمُ مِنَ الْهَمَّ بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ، وَبَدَأَ بِالْأَذَى ، فَيَجِبُ قِتَالَهُ ، ( الصارم.....باب الادلۃ علی انتقاض عھد الذمی الساب.زیر عنوان ”سب الرسول يوجب نقض عهد الذمی“ صفحہ :22) کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”بھلا تم ایسے لوگوں سے کیوں نہ لڑو جنہوں نے اپنی قسموں کو توڑ ڈالا اور پیغمبر خدا کے جلا وطن کرنے کا صتم عزم کر لیا اور انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتدا کی.“اس آیت میں کفار کے رسول کریم صل الی عوام کو جلا وطن کرنے کے ارادے کو ان کے ساتھ جنگ کا محرک اور موجب قرار دیا ہے ، اس لئے کہ اس سے آپ کو تکلیف پہنچتی ہے.مگر آپ کو گالی دینا جلا وطن کرنے کے ارادے سے بھی زیادہ شدید ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو جلا وطن کرنے کا ارادہ کیا تھا، فتح مکہ کے روز اُن کو رسول کریم صلی ا ہم نے معاف کر دیا تھا مگر گالی دینے والوں کو معاف نہیں کیا تھا.بنا بریں ذقی جب آپ کو گالی دے گا تو اپنے عہد کو توڑ دے گا، اور وہ ایسے فعل کا مرتکب ہو گا جو آپ کو جلاوطن کرنے کے ارادے سے عظیم تر ہے اور چونکہ اس نے ایذارسانی کی طرح ڈالی ہے، لہذا اس سے لڑنا واجب ہے.
توہین رسالت کی سزا 184 قتل نہیں ہے قارئین ملاحظہ فرما سکتے ہیں کہ ایک عام معاہدے کو توڑ کر جنگ کرنے والوں سے، جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے کھول کر بتا دیا ہے کہ ” انہوں نے تم سے (عہد شکنی کی) ابتدا کی “ان سے قتال واجب ہے.یہ الفاظ بغیر کسی ابہام کے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہاں جنگی صور تحال کی بات ہو رہی ہے.قتال کا لفظ مقابلے کا مقتضی ہے.یعنی پہل کرتے ہوئے انہوں نے جنگ شروع کی تو تمہیں پورا پورا حق حاصل ہے کہ تم ان کے مقابلے میں ان سے جنگ کرو.یہ لفظ قتال کے براہ راست معنے ہیں.اس صورتحال کا گالی گلوچ سے کوئی بھی تعلق نہیں ہے.معاہدوں کو توڑ دینا ( یعنی عہد شکنی) بالکل الگ چیز ہے اور شتم و تنقیص بالکل الگ.مگر کتاب ” الصارم.....میں خوامخواہ دور کی کوڑی لا کر پہلے اس عہد شکنی کا گالی کے ساتھ موازنہ کیا گیا ہے.اور پھر اس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ گالی دینے والے کی سزا قتل ہے.كتاب الصارم.......کے اس استدلال میں ایک بات اپنی طرف سے زائد بھی داخل کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی الی یکم نے گالی دینے والے کو معاف نہیں کیا.جبکہ صور تحال یہ ہے کہ آپ نے ہر گالی دینے والے کو یعنی جس کا کوئی اور قومی جرم نہیں تھا یا ایسا کوئی جرم نہیں تھا جس کی سزائے قتل اللہ تعالیٰ نے حد کے ساتھ باندھی تھی، ہمیشہ معاف فرمایا تھا.یہ حقیقت ہم اس کتاب میں دلائل قویہ سے ثابت کر چکے ہیں.الغرض یہ ایک مفروضہ ہے کہ رسول اللہ صلی علی کمر پر سب و شتم کرنے سے ذمی کا عہد ٹوٹ جاتا ہے.قرآن کریم یا احادیث صحیحہ سے اس مفروضے کی کوئی بنیاد ثابت نہیں ہے.کسی آیت قرآنی سے بر اور است ایسا کوئی استنباط نہیں ہوتا.بہر حال اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ گالی کا تعلق گندی سوچ یا بسا اوقات محض زبان کی گندگی سے ہے، لیکن اس کا نقض عہد سے کوئی تعلق نہیں.عہد کا توڑنا ایک
توہین رسالت کی سزا 185 }- قتل نہیں ہے ارادے اور فیصلے کا متقاضی ہے.یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ گالی دینے والا لبعض اوقات باوجود اپنے عہد پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہتے ہوئے بھی اپنی گندی زبان، عادت، کسی انگیخت یا کسی منفی رد عمل کی وجہ سے بلکہ بعض اوقات غیر شعوری طور پر گالی دے رہا ہو تا ہے.جس کے عقب میں اس کا عہد توڑنے کا کوئی عزم وارادہ نہیں ہو تا.کتاب "الصارم......میں شاتم رسول کو متعدد بار ناقض عہد قرار دے کر اس پر قتل کا فتوی لگایا گیا ہے.لیکن جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے، امر واقعہ یہ ہے کہ جس عہد کی یہاں بات ہو رہی ہے ، اس کی حقیقت یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں رہنے والا غیر مسلم اس حکومت کی اطاعت میں رہنے کا جو عہد کرتا ہے، یہاں وہ عہد مراد ہے.یہ عہد ملکی قوانین کی پابندی کا عہد ہے.ایسا عہد کرنے والے کو معاہد یا ذقی کہا جاتا ہے.چنانچہ کتاب' الصارم....کی ابتداء ہی میں یہ اصول زیر بحث لایا گیا ہے کہ ذمی کا عہد کن باتوں سے ٹوٹتا ہے.اس پر مختلف مکتبہ ہائے فکر کے فقہاء کی آراء اور فتاویٰ وغیرہ درج کئے گئے ہیں.ان میں سے بعض نے شتم رسول کو نقض عہد کا موجب قرار دیا ہے تو بعض نے اس سے بالکل اتفاق نہیں کیا.ان کے فتوے اور آراء کلی اس کے مخالف ہیں.یعنی یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ اس مسئلہ پر اجماع نہیں ہے.بلکہ یہ سب مخصوص طرز کے علماء کے صرف اجتہادات یار جحانات ہیں.ان سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے.یہ الگ حقیقت ہے کہ کسی آیت کریمہ میں یا قولِ رسول و خلفائے راشدین میں یہ موجود نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی للی علم کو گالی دینے والا ناقض عہد ہے.وو بہر حال یہ ایک تفصیلی بحث ہے جو کتاب کے پہلے باب " إِنَّ مَنْ سَبِّ النَّبِي عل الله عليه مِنْ مُسْلِمٍ أَوْ كَافِي فَإِنَّهُ يَجِبُ قَتْلَهُ“ میں موجود ہے.(اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جس نے بھی رسول اللہ صلی الی یکم کو گالی دی، چاہے مسلمان ہو یا کافر ، اس کا قتل واجب ہے) اس بحث کا تفصیلی
توہین رسالت کی سزا 186 } قتل نہیں ہے مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پہلے شتم رسول کو تکلف اور تصنع کے ساتھ کھینچ کھینچ کر نقض عہد کا موجب قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے اور پھر ناقض عہد کے قتل کا فتوی صادر کر دیا گیا ہے.جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اس مسئلے میں بھی اور باقی امور میں بھی انہی کمزور ، ضعیف اور وضعی روایات کو بنیاد بنا کر قرآن کریم اور سنت و احادیث نبویہ کو اس کے مطابق ڈھالا گیا ہے.ہدایت کے ان بنیادی اور اصل ماخذوں کی تشریحات اُن جھوٹی اور وضعی روایات کے تحت کی گئی ہیں.حالانکہ ان فقیہوں اور علمائے دین کا فرض تھا کہ ہر روایت کو قرآن کریم پر پیش کر کے ان کی صداقت اور صحت کو پر کھتے.اسی طرح رسول اللہ صلی علی یم کی پاک اور پر رحمت سنت کے مطابق ان کی جانچ پڑتال کرتے.مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کا طبعی نتیجہ یہی نکلا کہ مثلاً نقض عہد والے مسئلے میں درج ذیل دونوں پہلو ہی بنیادی طور پر غلط اختیار کر لئے گئے کہ ا: ۲ رسول الله صلی علی کل پر سب و شتم سے عہد ٹوٹ جاتا ہے.عہد توڑنے کی سزا قتل ہے.لہذ اسب و شتم کرنے والا لاز ما قتل کیا جائے گا.جہانتک اس بات کا تعلق ہے کہ رسول اللہ صلی علیم پر سب و شتم سے عہد ٹوٹ جاتا ہے، تو اس سلسلے میں اگر قرآن کریم اور سنت و احادیث صحیحہ سے رہنمائی طلب کی جائے تو جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ ان میں کوئی ایسی تعلیم موجود نہیں جو یہ سکھاتی ہو کہ آپ "پرست یعنی گالی سے عہد ٹوٹ جاتا ہے.جب تک خود عہد والا عہد نہ توڑے، وہ نہیں ٹوٹتا.قرآن کریم بھی تو یہی بتاتا ہے کہ عہد کرنے والا اگر از خود عہد توڑے تو عہد ٹوٹتا ہے.کسی دوسرے کے کہنے سے کسی کا عہد نہیں ٹوٹتا.
توہین رسالت کی سزا 187 } قتل نہیں ہے علاوہ ازیں رسول اللہ صلی علیم کی زندگی پر مشتمل بنیادی کتب تاریخ وسیر میں قبائل اور قوموں کے ساتھ آپ کے کئے ہوئے معاہدوں میں کسی ایک معاہدے میں بھی یہ شق نہیں ملتی کہ جس میں یہ لکھا ہو کہ کوئی آپ کو گالی دے گا تو اس کا عہد ٹوٹ جائے گا.مثلاً نمونے کے طور پر ایک معاہدہ نجران کے عیسائیوں کے ساتھ بھی قرار پایا تھا.اس کی تفصیل یہ ہے کہ عیسائی اکابرین پر مشتمل نجران سے جو وفد آیا تھا اور اس نے آنحضرت صلی الیہ کم سے مباحثہ کیا تھا.اس وفد نے اس مباحثے میں لاجواب ہونے پر عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کرنے کی آپ کی دعوت کو تو قبول نہیں کیا تھا.مگر اسلام کے پر امن نظام کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کی تھی کہ وہ آپ سے صلح کی درخواست کرتے ہیں اور جو حکم آپ انہیں دیں گے وہ انہیں قابلِ قبول ہو گا.چنانچہ آپ نے ان سے حسب ذیل معاہدے پر صلح قبول کی کہ ” وہ دو ہزار ہتھیار جن میں سے ایک ہزار ہتھیار ماہِ رجب میں اور ایک ہزار ماہِ صفر میں دینے ہوں گے، نیز اگر یمن میں کسی مقام پر جنگ ہو تو نجران کے ذمے بطور رعایت تھیں زر ہیں اور تیس نیزے اور تیس اونٹ اور تیس گھوڑے ہوں گے.نجران اور ان کے آس پاس والوں کی جان، مال، مذہب، ملک، زمین ، حاضر ، غائب اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے اللہ تعالیٰ اور محمد نبی صلی امی کی ذمہ داری ہے.نہ تو کوئی استقف (پادری) اس کے منصب سے ، نہ کوئی راہب اس کی رہبانیت سے ، اور نہ کوئی کاہن اس کی کہانت سے ہٹایا جائے گا.“ آنحضرت صلی اللی کم نے انہیں ایک اور معاہدے پر مبنی حسب ذیل تحریر بھی دی جو آپ نے حضرت مغیرہ سے تحریر کروائی: ( مِنْ مُحَمَّدِ النَّبِي لِأَسْقُفِ أَبِي الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ وَ أَسَاقِفَةِ نَجْرَانَ وَكَهَنَتِهِمْ وَمَنْ تَبِعَهُمْ وَرُهْبَانِهِمْ أَنَّ لَهُمْ عَلَى مَا تَحْتَ أَيْدِيهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ وَكَثِيرِ مِنْ بِيَعِهِمْ وَ صَلَوَتِهِمْ
توہین رسالت کی سزا 66 188 - قتل نہیں ہے وَرَهْبَانِيَّتِهِمْ، جَوَارُ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ لا يُغَيَّرُ أَسْقُفُ عَنْ أَسْقُفِيَّتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيَّتِهِ، وَلَا كَاهِنَّ عَنْ كَهَانَتِهِ، وَلَا يُغَيَّرُ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِهِمْ لَا سُلْطَانِهِمْ وَلَا شَيءٍ مِمَّا كَانُوْا عَلَيْهِ (مِنْ ذلِكَ، جَوَادُ اللهِ وَ رَسُولِهِ أَبَداً مَا نَصَحُوْا وَأَصْلَحُوْا فِيْمَا عَلَيْهِمْ غَيْرَ مُثْقِلِينَ بِظُلْمٍ وَلَا ظالِمِينَ.( ابن سعد ذکر و فادات وفد نجران) ترجمہ: محمد نبی صلی یم کی طرف سے اسقف ابو حارث کے لئے اور نجران کے دیگر پادریوں، کاہنوں اور ان کے پیروکاروں اور راہبوں اور ان کے تھوڑے بہت متبعین کے لئے اور ان کے گرجوں، عبادت گاہوں وغیرہ کے لئے امان ہے.ان کے پادریوں میں سے کسی کو اس کے منصب سے ، ان کے راہبوں میں سے کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور ان کے کاہنوں میں سے کسی کاہن کو اس کی کہانت سے ہر گز بر طرف نہیں کیا جائے گا.انہیں ان کے حقوق اور ان کے اختیارات سے جن پر وہ قائم ہیں ، ہٹایا نہیں جائے گا.جب تک وہ خیر خواہ اور صلح جو ر ہیں گے یا ظالموں کے ساتھ ظلم ڈھانے والے نہ ہوں گے ، انہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی پناہ حاصل رہے گی.اس خط کے مندرجات، طبقات ابن سعد باب ذکر بعث رسول اللہ صل العلم الرسل بکتیہ الى الملوک ید عوھم الی الاسلام سے لئے گئے ہیں.لیکن اس میں دو فقرے جو بریکٹ میں ہیں ابن کثیر کتاب الوفود وفد نجران سے بھی شامل کئے گئے ہیں تاکہ آپ کے فرمودات ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں اور قاری اس جامع فرمان کو ایک ہی جگہ ملاحظہ کر سکے.اس مذکورہ بالا معاہدے کو یا کسی بھی قوم و قبیلے سے کئے گئے کسی بھی معاہدے کو دیکھ لیں، اس میں آپ کو ایسی کوئی شق نہیں ملے گی جو یہ بتاتی ہو کہ رسول اللہ صلی الی یکم کو گالی دینے سے کسی معاہد یا ذمی کا عہد ٹوٹ جائے گا.ہاں خیر خواہ، صلح بجو ر ہنے اور ظالموں کا ساتھ نہ دینے کی شرائط موجود ہیں.ان شرائط کے علاوہ تو رسول اللہ صلی الی کلیم نے گالی اور توہین و تنقیص وغیرہ کی
توہین رسالت کی سزا 189 } قتل نہیں ہے کوئی شرط نہیں رکھی.اگر یہ ایسا اہم مسئلہ تھا تو معاہدات میں یہ شق نمایاں طور پر درج ہونی چاہئے تھی.پس فقہاء میں سے کسی کا اگر ایسا اجتہاد یا استدلال ہے جو کسی وقتی ضرورت کے تحت کیا گیا تھا تو یہ محض اس کا اپنا وقتی استدلال یا اجتہاد تھا اور اس کی حیثیت صرف وقتی ہی تھی اور اسی علاقے تک محدود تھی جہاں یہ ضرورت پید ا ہوئی تھی.اس کا شریعت اسلامیہ کے مستقل قوانین اور عقائد سے ہر گز کوئی تعلق نہیں.اسی طرح قرآن کریم اور سنت رسول اور احادیث صحیحہ میں اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے کہ کبھی کسی کے گالی دینے سے کسی پر نقض عہد کی فرد عائد کی گئی ہو.نیز آنحضرت صلی ا ہم نے کبھی بھی اس وجہ سے کسی کو ناقض عہد قرار دے کر قتل نہیں کرایا.آپ کے بعد خلفائے راشدین نے بھی ایسا نہیں کیا.احادیث صحیحہ کے مطابق تو نہ صرف یہ کہ آپ نے کبھی ایسا حکم نہیں دیا بلکہ اس کے برعکس جب بھی کوئی آپ کی توہین کا مر تکب ہوا اور صحابہ نے اسے سزا دینے کے لئے آپ سے اجازت طلب کی تو بھی آپ نے قطعاً ایسی اجازت نہیں دی.ایسے واقعات ایک سے زائد دفعہ ہوئے اور وہ احادیث صحیحہ میں محفوظ ہیں.لہذا آپ کے اس طرزِ عمل، فیصلوں اور مستقل سنت کے برعکس ایسا استدلال ہر گز درست قرار نہیں پا سکتا.الغرض کتاب "الصارم.....میں یہ جو دعوای کیا گیا ہے کہ ”رسول اللہ صلی للی کم پر سب و شتم سے عہد ٹوٹ جاتا ہے.ایک ایسا خود ساختہ اور بے بنیاد دعوی ہے جو قرآن کریم کے احکام ، آپ کی سنت ، واضح ہدایات اور مسلسل عمل سے ہر گز تائید یافتہ نہیں.دوسری بات جو کی گئی ہے کہ ”عہد توڑنے کی سزا قتل ہے.“ اور اس کا نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ ”سب و شتم کرنے والا لاز ما قتل کیا جائے گا.اس کے ثبوت کے لئے سورۃ التوبہ کی چند ابتدائی آیات پیش کر کے استدلال کیا گیا ہے.
توہین رسالت کی سزا { 190 | قتل نہیں ہے جہانتک ان آیات کا تعلق ہے ، تو ان کا پس منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ایک سال سے کچھ زائد عرصہ گزرنے پر جب حج کا مہینہ آیا تو آنحضرت صلی الی ایم نے حضرت ابو بکر کو پہلے اسلامی حج کی ادائیگی کے لئے امیر الحجاج مقرر فرمایا.آپ ذوالقعدہ 9ھ میں بمطابق مارچ 631ء مدینہ سے روانہ ہوئے.اس حج میں سنت ابراہیمی کے مطابق یعنی اسلامی رنگ میں مناسک حج کا قیام ہوا.اللہ تعالیٰ نے سورۃ التوبہ کی انہی آیات میں اسے الج الاکبر کا نام بھی دیا.حضرت ابو بکر ابھی مدینہ سے روانہ ہوئے ہی تھے کہ آنحضرت صلی اللہ تم پر سورۃ التوبہ کی وہ آیات نازل ہوئیں جن میں مشرکوں سے برآت یعنی الزام سے آزاد ہونے نیز چار ماہ کی مہلت کا ذکر ہے کہ وہ اس عرصے میں بے شک سارے عرب میں گھوم پھر کر دیکھ لیں اور پھر اسلامی حکومت سے کسی معاہدے میں داخل ہوں.آنحضرت صلی اللہ علم نے حضرت علی کو فوراً اپنی اونٹنی القصواء دے کر پیچھے روانہ فرمایا اور حکم فرمایا کہ یہ آیات وہ لوگوں کو خود پڑھ کر سنائیں.قافلہ حج ابھی العرج کے مقام پر پہنچا تھا کہ حضرت علی حضرت ابو بکر کی خدمت میں پہنچ گئے.حضرت علی نے آپ کو بتایا کہ آنحضرت صلی ایم نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان لوگوں کے سامنے پڑھ کر سناؤں.(زرقانی، ابن اثیر ، ابن کثیر ، ابن سعد، ابن ہشام حجة ابى بكر الصديق.....) یہ قافلہ کتنے پہنچ کر مناسک حج کی ادائیگی میں مصروف ہو گیا.حضرت ابو بکڑ نے عرفہ کے روز خطبہ ارشاد فرمایا اور مناسک حج کی تعلیم دی اور مسائل حج بیان فرمائے.آپؐ کے بعد حضرت علی نے آنحضرت صلی علم کے ارشاد کی تعمیل میں سورۃ التوبہ کی مذکورہ بالا آیات پڑھیں.لکھا ہے کہ آپ نے سورۃ التوبہ کی ابتدائی چالیس آیات تلاوت کیں.اس کے بعد ہر ایک عہد والے کو اس کا عہد واپس کیا اور مشرکوں کو جو مسلمان ہونا نہیں چاہتے تھے ، ان آیات میں
توہین رسالت کی سزا 191 { قتل نہیں ہے مذکور چار ماہ کی مہلت دی کہ اگر وہ اس مدت میں کسی معاہدے میں منسلک ہو کر اسلامی سلطنت کا جزونہ بنیں گے تو پھر اس کے بعد اللہ اور اس کے رسول صلی علیم پر کسی قسم کا کوئی الزام نہیں ہو گا.اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اہل علم کی طرف سے یہ برکت تھی جو سورۃ التوبہ میں پیش کی گئی ہے.اس پیغام میں چار ماہ کی مدت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سفر کرنے والا اس عرصے میں پورے خطہ عرب میں گھوم پھر کر جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتا ہے اور نیا معاہدہ کر سکتا ہے.حضرت علیؓ نے مزید یہ بھی فرمایا: وَمَنْ كَانَ لَهُ عَهْدٌ عِنْدَ رَسُولِ الله عليه و الله فَهُوَ إِلى مُدَّتِهِ “ (زاد المعاد، فصل فی حجۃ ابی بکر الصديق...) کہ جس شخص کا رسول اللہ صلی الی ظلم کے ساتھ کوئی عہد ہو گا وہ اس کی مدت تک اس کے ساتھ رہے گا.یہ اعلان خطہ عرب میں امن و سلامتی کے عہد و پیمان کا ایک واضح اعلان اور انتظام تھا.مشرکین نے حضرت علی سے کہا کہ ہم تمہارے اور تمہارے چچازاد کے عہد سے بری ہوتے ہیں، سوائے جنگ و حرب کے عہد کے.پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے.ان میں سے بعض کہنے لگے کہ جب قریش ہی مسلمان ہو چکے ہیں تو تم کر بھی کیا سکتے ہو ؟ چنانچہ اس موقعے پر بہت سے مشرک بھی مسلمان ہو گئے.(طبری و ابن اثیر 9ھ) سورۃ التوبہ کی جو آیات کتاب 'الصارم.....میں اپنے مدعا کے لئے لکھی گئی ہیں، ان درج ذیل آیات میں سے آیات 7،8،12،13 اور 14 ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بَرَاء ةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِيْنَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللهِ وَأَنَّ اللهَ مُخْرِئُ الْكَافِرِينَ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ
توہین رسالت کی سزا 192 } قتل نہیں ہے وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الأَكْبَرِ أَنَّ اللهَ بَرِى مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَرَسُولُهُ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ تكُمْ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِى اللَّهِ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيْمٍ وَإِلَّا الَّذِيْنَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَداً فَأَتِتُوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ فَإِذَا انسَلَخَ الأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُواْ لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيْلَهُمْ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلاَمَ اللهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لا يَعْلَمُونَ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ عِندَ اللهِ وَعِندَ رَسُولِهِ إِلَّا الَّذِيْنَ عَاهَدتُّمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ فَمَا اسْتَقَامُوا لَكُمْ فَاسْتَقِيمُوا لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُوا عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُوا فِيكُمْ إِلَّا وَلَا ذِمَّةً يُرْضُونَكُم بِأَفْوَاهِهِمْ وَتَأْتِي قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَاسِقُون اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَناً قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيْلِهِ إِنَّهُمْ سَاءَمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ لاَ يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلا وَلَا ذِمَّةً وَأُوْلَبِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ وَإِن نَكَثُوا أَيْمَانَهُم مِن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَبِيَّةَ الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ أَلاَ تُقَاتِلُونَ قَوْماً نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَؤُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِيْنَ قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْرِهِمْ وَيَنصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَن يَشَاء وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ( التوبة: 1 تا15) ترجمہ: اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری ( کا پیغام بھیجا جارہا) ہے اُن مشرکین کی طرف جن سے تم نے معاہدہ کیا
توہین رسالت کی سزا 193 قتل نہیں ہے ہے.پس چار مہینے تک تم زمین میں خوب چلو پھرو اور جان لو کہ تم اللہ کو ہر گز عاجز نہیں کر سکو گے اور یہ کہ یقینا اللہ کا فروں کو رسوا کر دے گا.اور حج اکبر کے دن سب لوگوں کے سامنے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلانِ عام کیا جاتا ہے کہ اللہ مشرکین سے کلیہ بیزار ہے اور اس کا رسول بھی.پس اگر تم توبہ کر لو تو وہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اگر تم پھر جائو تو جان لو کہ تم ہر گز اللہ کو عاجز نہیں کر سکو گے.پس وہ لوگ جو کافر ہوئے انہیں ایک دردناک عذاب کی خوشخبری دے دے.سوائے مشرکین میں سے ایسے لوگوں کے جن کے ساتھ تم نے معاہدہ کیا پھر انہوں نے تم سے کوئی عہد شکنی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی اور کی مدد بھی نہیں کی.پس تم اُن کے ساتھ معاہدے کو طے کردہ مدت تک پورا کرو.یقینا اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے.پس جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو جہاں بھی تم ( عہد شکن ) مشرکوں کو پائو تو اُن سے لڑو اور انہیں پکڑو اور ان کا محاصرہ کرو اور ہر کمین گاہ پر اُن کی گھات میں بیٹھو.پس اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو.یقیناً اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.اور مشرکوں میں سے اگر کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے یہاں تک کہ وہ کلام الہی سن لے پھر اسے اس کی محفوظ جگہ تک پہنچا دے.یہ ( رعایت ) اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جو علم نہیں رکھتے.مشرکین کا عہد ، سوائے ان کے جن سے تم نے مسجد حرام میں عہد لیا، اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کیسے درست شمار ہو سکتا ہے.پس جب تک وہ تمہارے مفاد میں ( عہد پر قائم رہیں تم بھی ان کے مفاد میں قائم رہو.یقینا اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے.کیسے ( ان کا عہد قابلِ اعتماد) ہو سکتا ہے جبکہ حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غالب آجائیں تو تمہارے متعلق نہ کوئی عہد خاطر میں لاتے ہیں اور نہ کوئی ذمہ داری.( بس ) وہ تمہیں اپنے منہ کی باتوں سے خوش کر دیتے ہیں جبکہ ان کے دل منکر ہوتے ہیں اور ان میں سے اکثر بد کر دار لوگ ہیں.انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے حقیر قیمت قبول کر لی.پس اس کی راہ سے روکا.یقیناً بہت برا
توہین رسالت کی سزا { 194 } قتل نہیں ہے ہے جو وہ کرتے ہیں.وہ کسی مومن کے معاملہ میں نہ کسی عہد کا پاس کرتے ہیں اور نہ کسی ذمہ داری کا.اور یہی وہ لوگ ہیں جو حد سے گزرنے والے ہیں.پس اگر وہ تو بہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں تو وہ دین میں تمہارے بھائی ہیں.اور ہم ایسے لوگوں کی خاطر نشانات کو کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں.اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو کفر کے سرغنوں سے لڑائی کرو.یقینا وہ ایسے ہیں کہ ان کی قسموں کی کوئی حیثیت نہیں ) پس اُن سے لڑائی کرو.اس طرح) ہو سکتا ہے کہ وہ باز آجائیں.کیا تم ایسی قوم سے لڑائی نہیں کرو گے جو اپنی قسمیں توڑ بیٹھے ہوں اور رسول کو ( وطن سے) نکال دینے کا تہیہ کئے ہوئے ہوں اور وہی ہیں جنہوں نے پہلے پہل تم پر ( زیادتی کا ) آغاز کیا.کیا تم ان سے ڈر جاؤ گے جبکہ اللہ زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو، اگر تم مومن ہو.ان سے لڑائی کرو.اللہ انہیں تمہارے ہاتھوں سے عذاب دے گا اور انہیں رسوا کر دے گا اور تمہیں ان کے خلاف نصرت عطا کرے گا اور مومن قوم کے سینوں کو شفاء بخشے گا.اور ان کے دلوں کا غصہ دور کر دے گا.اور اللہ جس پر چاہے تو بہ قبول کرتے ہوئے جھکتا ہے اور اللہ بہت جاننے والا ( اور ) بہت حکمت والا ہے.“ بالکل واضح ہے کہ ان آیات میں مشرکوں کے ساتھ ایسے عہد کا ذکر ہے جو اسلام میں داخلے کا عہد یعنی عہد بیعت نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی سلطنت میں اس کے قوانین کی پابندی کا عہد ہے.مذہب میں داخلے کے لئے چار مہینے ملک میں پھرنے کی شرط نہیں ہوتی.اس کے لئے مطالعے ، تحقیق، دعاؤں اور رجوع الی اللہ کی ضرورت ہوتی ہے.جبکہ ملک میں امن و امان کا عہد کرنے کے لئے ارد گرد اور دوسرے قبائل اور شہروں کے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہوتی
توہین رسالت کی سزا { 195 | قتل نہیں ہے ہے.لہذا انہی آیات میں اسی مذکورہ بالا عہد توڑنے کے بعد بغاوت اور جنگ کی نشاندہی کی گئی ہے.ایسا عہد تو ہر شخص خواہ وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی ملک کا شہری ہی کیوں نہ ہو ، اپنی حکومت سے کرتا ہے.یہ عہد اسلام میں داخلے سے بالکل مختلف عہد ہے.ایسے عہد کے توڑنے کو مذہب اور دین سے نکلنے سے تعبیر کرنا قیاس مع الفارق ہے اور ایک سیدھے سادے مسئلے کو خلط مبحث کر کے الجھانے کی کوشش ہے.یہاں کتاب’ الصارم، میں اس پہلو سے بھی غلطی ہوئی ہے.ملکی قوانین کی پابندی والے عہد کو عہد بیعت یا عہد اسلام سے بدل کر نا حق طور پر قتل و خون والے نتائج نکالے گئے ہیں.اسلام کی تعلیم کے مطابق نہ ملکی عہد توڑنے والے کو قتل کیا جاتا ہے نہ عہد بیعت توڑ کر مرتد ہونے والے کو قتل کیا جاتا ہے.یہ دونوں قضیئے ہی غلط ہیں.یہ الگ بات ہے کہ بعض اوقات صور تحال کی سنگینی کے تحت بغاوت یا محاربت کرنے والے کو قتل کیا جا سکتا ہے.یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ اسے ہر حال میں لازما قتل کیا جائے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ حالات کے مطابق اسے در گزر یا شہر یا ملک بدر بھی کیا جاسکتا ہے.بہر حال اس ملکی عہد کے توڑنے سے کسی کا قتل واجب نہیں ہو تاجب تک کہ وہ بغاوت یا محاربت کر کے فسادنہ برپا کرے.چنانچہ اس کی بڑی مثال مسیلمہ اور اسود عنسی کی ہے کہ انہوں نے جنگ کی اور مبینہ طور پر اسی میں قتل ہوئے.یہ تو وہ تھے جو نقض عہد کر کے محاربت میں ملوث ہوئے اور جنگ کے دوران قتل ہو گئے.لیکن ایک تیسرا بھی تھا جس کا نام طلیحہ الاسدی تھا.اس نے جنگ میں اپنی شکست دیکھی تو اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر فرار ہو گیا اور شام روانہ ہو گیا.(طبری السنتہ الحادية عشرة ذكر بقية الخبر عن غطفان....أمر طلیحہ وابن اثیر ذکر خبر طلیحہ الاسدی )
توہین رسالت کی سزا { 196 } قتل نہیں ہے بعد ازاں ایک مرتبہ طلیحہ عمرے کی غرض سے شام سے لگے آیا.جب راستے میں مدینے کے پاس سے گزرا تو لوگوں کو علم ہو گیا کہ وہ طلیحہ ہے.انہوں نے حضرت ابو بکر کی خدمت میں اس کی اطلاع دی تو آپ نے فرمایا کہ اس سے صرف نظر کرو.اللہ تعالیٰ نے اسے ہدایت دے دی ہے اور وہ اسلام قبول کر چکا ہے.“ ایک روایت کے مطابق طلیحہ نے حضرت عمرؓ کے عہد میں اسلام قبول کیا تھا اور پھر جنگ قادسیہ اور جنگ نہاوند میں بھی شامل ہو ا تھا.( ایضا و اسد الغابہ والاصابہ : طلیحہ بن خویلد ) باوجود اس کے کہ وہ کھلا کھلا محارب تھا اور کئی صحابہ کی شہادت کا موجب بھی بنا تھا.محاربت اور قصاص دونوں جرموں کی وجہ سے اس کے قتل کا کافی جواز موجود تھا مگر اسے در گزر کیا گیا اور قتل نہیں کیا گیا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی ا ہم نے ان لوگوں میں سے جن کے قتل کے حکم صادر فرمائے تھے، ہر ایک کو جو آپ کے پاس عفوو در گزر کی درخواست لے کر آیا، معاف کر دیا تھا.بعینہ حضرت ابو بکر نے بھی طلیحہ سے عفو و در گزر کا سلوک فرمایا.آپ نے یہاں نہ نقض عہد کی کوئی سزا دی اور نہ ہی فرد محاربت عائد کر کے اسے قتل کیا.یہاں یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ حضرت ابو بکر نے اسے اس لئے قتل نہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ اسلام قبول کر چکا تھا.کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے اپنی بغاوت اور محاربت میں شکست کے بعد اپنے اسلام کا کوئی اظہار نہ کیا تھا.اس لئے اس محارب اور ناقض عہد کی سزا اگر قتل تھی تو اس کے عمرے پر آنے سے پہلے ہی اس کا تعاقب کر کے اسے قتل کیا جانا ضروری تھا.مگر حضرت ابو بکر نے اس کے فرار پر اس سے صرفِ نظر کیا اور اس کا تعاقب کر کے اسے قتل نہ کیا.پھر
توہین رسالت کی سزا { 197 H قتل نہیں ہے اسے لوگوں سے بچانے کے لئے آپ نے گویا خود اس کی حفاظت قائم کر دی.یہانتک کہ وہ مسلمان ہو گیا.یہ بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ محاربت یا نقض عہد کا تعلق کسی کے مذہب سے نہیں ہے بلکہ حکومت سے متعلق ہے.یعنی اگر ایک مسلمان بھی اسلامی حکومت سے محاربت کرتا ہے اور اس کے قوانین کے عہد کو توڑتا ہے تو وہ ویسی ہی سزا کا مستحق ہوتا ہے جیسی کا غیر مسلم.نیز ہر قانون کے توڑنے پر سزا اس کے مطابق ہوتی ہے.یہاں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام عہد توڑنے والوں سے قتال کا حکم نہیں دیا بلکہ صرف ائمۃ الکفر سے قتال کا حکم دیا ہے یعنی باقی سب کی بقا کو مد نظر رکھا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اکا ؤ کافتنہ پرداز سرغنوں کے قتل سے عامتہ الناس جو تعداد میں کثرت میں ہوتے ہیں، محفوظ ہو جاتے ہیں.حالانکہ وہ بھی اپنے سرغنوں کے ساتھ نقض عہد کے مر تکب ہو چکے ہوتے ہیں.ان کے قتل کا حکم نہیں ہے.عوام کو اکسانے والے اور فتنے بھڑ کانے والے صرف ائمہ الکفر سے قتال کا حکم ہے.بے ربط اور الٹا استدلال: الصارم.....صفحه 28 زیر عنوان «فصل، الْأَدِلَّةُ مِنَ الْقُرْآنِ الدَّالَّةِ عَلَى كُفْرِ الشَّاتِهِ وقتله، پر سورۃ المجادلہ کی آیت 22 لا تَجِدُ قَوْماً يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللهَ وَرَسُولَهُ " کے شانِ نزول کی بابت لکھا ہے کہ ”اِنَّ مِنْ سَبَبٍ نُزُولِهَا أَنَّ أَبَا قَحَافَةَ شَتَمَ النَّبِيَّ عليه وسلم فَاَرَادَ قَتْلَهُ وَأَنَّ ابْنَ أَبِي تَنَقَصَ النَّبِيَّ فَاسْتَاذَنَ ابْنُهُ النَّبِيَّ علاه الله فِي قَتْلِهِ لِذلِكَ فَثَبَتَ أَنَّ الْمُعَاذَ كَافِرٌ حَلَالُ الدَّم“ کہ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ ابو قحافہ
توہین رسالت کی سزا 198 قتل نہیں ہے (حضرت ابو بکر کے والد) نے رسول اللہ صلی کم کو گالی دی تو آپ نے ان کو قتل کرنا چاہا.اور عبد اللہ ابن ابی نے رسول اللہ صلی الیکم کی تنقیص کی تو اس وجہ سے اس کے بیٹے نے رسول اللہ صلی الی یم سے اسے قتل کرنے کی اجازت طلب کی.ان دو واقعات کو پیش کر کے الصارم المسلول میں ساتھ ہی یہ استدلال کیا گیا ہے.” فَتَبَتَ اَنَّ الْمُعَاذَ كَافِرٌ حَلَالُ الدَّمِ “ کہ اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی للی کم کی مخالفت کرنے والے کا خون مباح ہے.یعنی اسے قتل کرنا جائز ہے.ذرا ان دونوں واقعات پر غور تو کریں کہ اگر معاملہ دونوں کی اجازت تک محدود رہتا تو شاید یہ نتیجہ نکل سکتا تھا کہ گالی دینے والے کی یا توہین و تنقیص کرنے والے کی سزا قتل ہے.مگر جب یہ معلوم ہو جائے کہ در حقیقت ان دونوں مواقع پر رسول اللہ صلی الی ایم نے ان دونوں شخصوں کو اپنے باپوں کو قتل کرنے کی قطعاً اجازت نہیں دی اور وہ دونوں شاتم کبھی بھی قتل نہیں کئے گئے.پھر اس سے یہ استدلال کرنا کہ شاتم رسول کو قتل کیا جائے گا، محض ایک دھونس ہے.یہ استدلال کسی زاویے سے بھی جائز ہے نہ درست.ہاں اس کے برعکس ان دونوں واقعات سے یہ ضرور صاف اور واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ سب و شتم کرنے والا قتل نہیں کیا جائے گا.رسول اللہ صلی الم نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے.مگر یہاں استدلال اس قول رسول سے بالکل مخالف کیا گیا ہے.نہ اس آیت میں قتل کی کوئی بات بیان ہوئی ہے اور نہ ان واقعات میں جو اس آیت کا سبب نزول بتائے گئے ہیں ان میں قتل کی ترغیب دی گئی ہے.بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ دونوں ہی واقعات میں قتل سے واضح طور پر روکا گیا ہے.پس یہ استدلال کسی بھی پہلو سے قابل قبول نہیں ہے.دوسری بات یہ ہے کہ ابو قحافہ نے اگر آنحضرت صلی ایم کی تنقیص کی تھی تو وہ لازماً ہجرت سے پہلے ہی کی ہو گی.کیونکہ فتح مکہ کے موقعے پر تو انہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا.جبکہ
توہین رسالت کی سزا 199 } قتل نہیں ہے عبد اللہ بن ابی بن سلول کی طرف سے کی گئی تو ہین والا واقعہ غزوہ بنی مصطلق کے وقت 5ھ کا ہے.یعنی ان دونوں واقعات میں کئی سالوں کا فرق ہے.پھر کس طرح ان دونوں واقعات کے موقعوں پر اس آیت کا نزول ہو سکتا ہے ؟ پس اس آیت کا شان نزول یہ قرار نہیں دیا جاسکتا.بے ترتیب اور وضعی کہانی: الصارم میں کعب بن اشرف کی ہجو گوئی اور اس کے جواب میں حضرت حسّان بن ثابت کی ہجو کے ذکر میں لکھا ہے : کعب منے آیا تو اس نے اپنا سامان ابو و داعہ بن ابی صبیرہ سہمی کے پاس رکھ دیا.اس کی بیوی عاتکہ بنت اسید بن ابی العیص تھی.اس نے (جنگ بدر میں مرنے والے) قریش کے مرثیہ پر اشعار کہے.نیز حسان نے اس کے جواب میں وہ اشعار سنائے جن میں آپؐ نے ان اہل خانہ کی ہجو کی تھی جن کے ہاں وہ قیام پذیر تھا.جب عاتکہ کو حضرت حسان کی ہجو گوئی کی خبر پہنچی تو اس نے کعب کا سامان باہر پھینک دیا اور کہا: ”اس یہودی سے ہمیں کیا سروکار ؟ تم دیکھتے نہیں کہ حسان ہمارے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے ؟ یعنی ہماری ہجو کر کے ہمیں بے عزت کرتا ہے.“ چنانچہ کعب وہاں سے چلا گیا.كُلَّمَا تَحَوَّلَ عِنْدَ قَوْمٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ عَلَى اللهُ حَشَانًا، فَقَالَ: ابْنُ الاشْرَفِ نَزَلَ عَلَى فُلَانٍ، فَلَا يَزَالُ يَهْجُوْهُمْ حَتَّى نَبَذَ رَحْلَهُ، فَلَمَّا لَمْ يَجِدُ مَأْوَى قَدِمَ مَدِينَةَ “ کہ وہ جب کسی کے پاس قیام کرتا تو رسول اللہ احسان کو بلاتے اور فرماتے کہ کعب فلاں شخص کے پاس ٹھہرا ہوا ہے.حضرت حسّان اس کی ہجو کہتے اور وہ کعب کا سامان باہر پھینک دیتا.پس جب اسے کہیں ٹھکانا نہ ملا تو وہ مدینے لوٹ آیا.“ (الصارم المسلول والاستدلال بقتل کعب بن الا شرف من و جھین صفحه 59:)
توہین رسالت کی سزا 200 | قتل نہیں ہے اس عبارت پر ایک ادنی سے غور سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے.کیونکہ اس کہانی کا منظر یہ ہے کہ کعب بن اشرف مکے میں پھر رہا ہے اور اسے لوگ گھر سے نکال رہے ہیں اور رسول اللہ صلی علی یکم مدینے میں ہیں مگر جب کعب کسی دوسرے گھر میں جاتا ہے تو آپ کو دو سو سے زائد میل دور مدینے میں اسی وقت اس کا علم ہو جاتا ہے.آپ حضرت حستان کو بلاتے ہیں.وہ آپ کے ارشاد پر اس گھر والے کی ہجو کرتے ہیں جس میں کعب ٹھہرتا ہے تو سکتے میں بیٹھا وہ شخص حضرت حسان کی ہجو سن لیتا ہے اور کعب کو گھر سے نکال دیتا ہے.اور یہ کھیل مسلسل ہو تا چلا جاتا ہے حتی کہ کعب بے عزت ہو کر اور تنگ آکر واپس مدینے چلا آتا ہے.یہاں یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خو در سول اللہ صلی الی یکم کو مدینے میں خبر دے دیتا تھا کہ کعب کتے میں کس کے گھر مہمان ہو رہا ہے.مگر مدینے میں بیٹھے بیٹھے ہر بار آپ کا حضرت حستان کو بلانا اور ان کا کعب کے ساتھ اس گھر والوں کی ہجو کہنا اور اس ہجو کا آنا فانا کتے پہنچ جانا اور میز بانوں کا اس ہجو کو سن لینا اور اس کے نتیجے میں کعب کو گھر سے نکال دینا، محض اور محض ایک گپ ہے.ایک دیو مالائی کہانی ہے.اسے کسی طرح بھی ایک سچ اور حقیقت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا.کجا یہ کہ اس پر کسی عقیدے یا قانون کی بنیاد رکھی جائے.جو ایسی من گھڑت کہانیوں کو دین کے مسائل کی بنیاد بناتے ہیں، وہ دراصل دین کو تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں.انا للہ و انا الیہ راجعون قتل کی وجہ، لسانی ایذاء !!! پھر کعب کے معاملے میں الصارم......کے اگلے صفحے 60 پر إِنَّ قَتْلَ ابْنَ الْأَشْرَفِ كَانَ بِسَبَبِ كَثْرَةِ ذُنُوبِهِ“ کے عنوان کے تحت بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کعب بن اشرف کا
توہین رسالت کی سزا 201 } قتل نہیں ہے جرم صرف یہ تھا کہ وہ لسانی ایڈا کا موجب ہوا تھا...اس نے کوئی ایسا کام نہ کیا تھا جس کا تعلق حرب و پیکار سے ہو.پھر مکرر لکھا ہے کہ کعب بن اشرف سے صرف ایذاء باللسان کا جرم صادر ہوا تھا.اس سے مطلب یہ ہے کہ مشرکین کو جنگ و حرب کے لئے ابھار نا زبان سے تھا.عملاً اس نے لڑائی وغیرہ کا کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا.کتاب الصارم.....میں قریش مکہ کو رسول اللہ صلی اللی نیلم کے خلاف جنگ کے لئے انگیخت کرنے کی صحیح روایات اور اور مستند تاریخی حقائق کو گوایسی باتوں کے ذریعے چھپانے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے مگر پھر بھی یہ حقیقت بیان ہو ہی گئی ہے کہ وہ کفار کو ابھارتا تھا.کعب کے جرموں کی فہرست میں لکھا ہے.” وَ حَضَهُمْ عَلَى مَحَارَبَةِ النَّبِيِّ عَل وَالله وَ وَاطَأَهُمْ عَلَى ذلك “ (الصارم المسلول : 60 ) کہ وہ ان ( قریش مکہ) کو نبی کریم اسے جنگ کے لئے ابھارتا تھا اور ان دو 669 کی پشت پناہی کرتا تھا.اگلے صفحہ پر پھر ” تَحْضِیضُہ بھی لکھا ہے.یعنی اس کا (آنحضرت صلى ال علم کے خلاف جنگ کے لئے ابھارنا.اس پہلو سے کتاب کے اندر ہی نفس مضمون کے لحاظ سے ایک واضح ابہام ، الجھاؤ کے ساتھ تضاد بھی پایا جاتا ہے.اول تو یہ کہ محاربت کے لئے انگیخت کرنا کوئی گالی گلوچ یا لسانی ایذاء دہی نہیں ہے بلکہ باقاعدہ اعلان جنگ ہے.دوسرے یہ کہ کسی کو جنگ کے لئے اکسانا یا جنگ کے لئے سازش تیار کرنا، زبان ہی کے کام ہیں.سازشیں زبانوں سے ہی بیان ہوتی اور پروان چڑھتی ہیں.پھر جن کی بنیاد پر باقاعدہ لڑائیاں اور جنگیں ہوتی ہیں.قوانین دنیا میں ایسی کارروائیاں عملاً جنگ میں اترنا اور اس کا کھلا کھلا اعلان قرار پاتی ہیں.قطع نظر اس کے کہ وہ اشعار میں ہو یا نثر میں، ایسی کارروائی ہر پہلو سے محاربت ہی کہلاتی ہے.خصوصاً اُس زمانے میں آج کی طرح تو لکھت پڑھت نہیں تھی.اس زمانے میں تو سب کچھ زبان سے یعنی نظم یا نثر میں ہی ہو تا تھا.
توہین رسالت کی سزا { 202 ) قتل نہیں ہے اگر بات صرف ہجو کی تھی تو یہ عام فہم بات ہے کہ کعب کو محض اشعار میں آنحضرت صلی ایلم کی ہجو کرنے کے لئے دو سو میل سے زائد سفر کر کے مکے جانے کی تو ضرورت ہی کوئی نہیں تھی.صرف لفظی یا لسانی ایذاء دہی کے لئے طویل سفر کی اتنی مشقت اٹھانا، کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے.کیونکہ یہ کام تو مدینے میں بھی ہو سکتا تھا.خاص طور پر جبکہ رسول اللہ صلی ام مدینے میں تھے تو ہجو بھی مدینے میں ہی موکثر تھی، نہ کہ سینکڑوں میل دور اور وہ بھی ان لوگوں کے پاس جا کر جو پہلے سے ہی آپ کے دشمن تھے اور آپ کے خلاف ایک دوسرے سے بڑھ کر ہجو گو تھے اور وہ تعداد میں بھی کثرت سے تھے.اصل بات وہی تھی جس پر 'الصارم میں پر وہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ در حقیقت ایک بڑی سازش کا تانا بانا بننے کے لئے کتے گیا تھا.اس کا مقصد قریش مکہ اور دیگر قبائل کو رسول اللہ صلی ال ظلم کے خلاف جنگ پر اکسانا اور آپ کے قتل پر آمادہ کرنا تھا.یہی تاریخی طور پر ثابت شدہ حقیقت بھی ہے.نشینہ سیہودی کا قتل: ”جس یہودی پر تم قابو پاؤ اسے قتل کر دو.“ (الصارم زیر عنوان، بین محمد بن مسلمۃ و ابن یامین عند معاویہ صفحہ :86) کعب بن اشرف کے واقعے کے ذکر کے بعد ابن ہشام نے یہ روایت نقل کی ہے کہ کعب کے قتل کے بعد آنحضرت صلی العلیم نے صحابہ سے یہ ارشاد فرمایا تھا: ”مَنْ ظَفِرْتُمْ بِهِ مِنْ رِجَالِ يَهُودَ فَاقْتُلُوهُ " کہ اب جس یہودی پر تم قابو پاؤ اسے قتل کر دو.چنانچہ مُخیصہ نامی ایک صحابی نے ایک یہودی پر حملہ کر کے قتل کر دیا تھا.یہ روایت ابو داؤد ( سنن ابی داؤ د کتاب الخراج ) نے بھی درج کی ہے اور ان دونوں روایتوں کا منبع ابن اسحاق ہے.
توہین رسالت کی سزا 203 } قتل نہیں ہے علم روایت کی رُو سے یہ کمزور اور ناقابل اعتماد روایت ہے.کیونکہ ابن ہشام نے تو اسے بغیر کسی قسم کی سند کے لکھا ہے اور ابو داؤد نے جو سند دی ہے وہ اس وجہ سے کمزور اور ناقص ہے کہ اس سند میں ابن اسحاق یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ واقعہ زید بن ثابت کے ایک آزاد کر دہ غلام سے سنا تھا اور اس نامعلوم الاسم غلام نے محیصہ کی ایک بیٹی سے سنا تھا ( اس لڑکی کا نام بھی معلوم نہیں ہے ) اور اس لڑکی نے اپنے باپ سے سنا تھا.وغیرہ وغیرہ.یہ اصول کی بات ہے کہ اس قسم کی روایت جس کے راوی بالکل نامعلوم الاسم اور مجہول الحال ہوں درجہ استناد سے گر جاتی ہے اور قابل قبول نہیں رہتی.سوائے اس کے کہ وہ قرآن کریم اور سنت نبوی کے عین مطابق ہو.درایت کے لحاظ سے بھی یہ قصہ درست ثابت نہیں ہوتا ، کیونکہ آنحضرت صلی اللی سیم کا عام طریق عمل اسے قطعی طور پر جھٹلاتا ہے کہ آپ نے اس قسم کا کوئی عام حکم دیا ہو.یہ اگر کوئی عام حکم ہوتا تو اس کے نتیجے میں یقینا اور عملاً کئی قتل واقع ہو جاتے.کیونکہ اگر اس کو اس کی ظاہری صورت میں لیا جائے تو آنحضرت صلی علیہ کم کا یہ حکم قتل و غارت گری کا ایک کھلا کھلا اور عام اعلان تھا.ایسے واضح اور غیر مبہم حکم کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ صحابہ اس پر عمل کئے بغیر گھروں میں بیٹھے رہتے.اس سے تو کشت و خون کی ایک تاریخ رقم ہو جاتی.لیکن تعجب کی بات ہے کہ روایت میں بلکہ اس وقت کے تمام تاریخی ریکارڈ میں صرف ایک قتل کا ذکر ملتا ہے اور وہ بھی ایک ایسے شخص کا قتل ہے جو غیر معروف تھا.یعنی کسی سیاسی یا مذ ہی اہمیت کا حامل نہ تھا.اس پر مستزاد یہ کہ واقعہ بھی ایسا ہے جسے مجہول الحال راویوں کے سبب ثابت کرنا ممکن نہیں.
توہین رسالت کی سزا 204 | قتل نہیں ہے جیسا کہ گزشتہ باب میں یہ ذکر گزر چکا ہے، اصل بات یہ ہے کہ کعب بن اشرف کے قتل کی وجہ سے محض ایک وقتی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے، محد وش حالات میں اور محدود وقت کے لئے یہ ایک احتیاطی اقدام تھا.یہ کوئی عام اور مستقل حکم نہیں تھا.نیز جب صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ امن کا نیا معاہدہ ہو گیا تھا.(ابو داؤد كتاب الخراج والامارة والفى باب كيف كان اخراج اليهود من المدينة و ابن سعد سرية قتل كعب بن الاشرف) تو اس صورت میں یہ ہر گز قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اس معاہدے کے ساتھ اس قسم کا حکم بھی موجود رہنے دیا گیا تھا.اس معاملے کو سمجھنے کے لئے اس منظر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اگر رسول اللہ صلی یم کی طرف سے یہ کوئی مستقل حکم ہوتا اور مدینے کے یہود کو مسلسل اپنی جانوں کا خوف ہو تا تو وہ اس کے متعلق ضرور واویلا کرتے مگر کسی تاریخی روایت سے ظاہر نہیں ہے کہ معاہدے کے بعد یہود کی طرف سے اس قسم کی کبھی کوئی شکایت کی گئی ہو.پس روایت اور درایت دونوں طرح سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ قصہ وضعی ہے.سنن ابی داؤد میں اور ابن سعد میں اس نئے معاہدے کا معین ذکر موجو د ہے.ابن سعد میں یہ بھی ذکر ہے کہ یہ معاہدہ حضرت علی کے پاس محفوظ تھا.لیکن کسی وجہ سے یہ معاہدہ کسی کتاب میں درج نہیں ہو سکا چنانچہ ان دونوں کتابوں میں اس کا متن موجود نہیں ہے.اگر اس مذکورۃ الصدر واقعے میں کچھ حقیقت سمجھی جاسکتی ہے تو وہ صرف اس قدر ہے کہ جب کعب بن اشرف کے قتل کے بعد مدینے میں ایک شور پیدا ہوا اور وہاں کے یہود جوش میں آگئے تو اُس وقت آنحضرت صلی لی ایم نے یہود کی طرف سے خطرہ محسوس کر کے صحابہ سے یہ فرمایا ہو گا کہ جس یہودی کی طرف سے تمہیں خطرہ ہو اور تم پر حملہ کرے تو اپنے دفاع میں تم اس پر قابو پالو تو اسے قتل کر دو.'مَنْ ظَفِرْتُمْ بِهِ " کا یہی معنی ہے.یعنی (خطرے کے ان مخصوص
توہین رسالت کی سزا ( 205 ) قتل نہیں ہے حالات میں ) اگر کسی یہودی سے اس کے انتقامی جوش میں تمہارا تصادم ہو اور تم اس پر غلبہ پالو تو اسے قتل کر دو.اگر آپ کا یہ حکم عام ہوتا تو الفاظ مَنْ ظَفِرْتُمْ بِهِ کی بجائے مَن وَجَدْتُمْ وغیرہ ہوتے.یعنی جسے پاؤ، اسے قتل کر دو.علاوہ ازیں جہانتک حالات کی عملی شہادت کا تعلق ہے تو اس سے واضح طور پر ثابت ہے کہ یہ حالت صرف چند گھنٹے رہی تھی.کیونکہ دوسرے دن ہی یہود کے ساتھ از سر نو معاہدہ ہو کر امن و امان کی صورت پیدا ہو گئی تھی.گو اس کے بعد بھی چند مخصوص واقعات رونما ہوئے مگر وہ اس مذکورہ بالا واقعے سے منسلک نہیں ہیں.تاریخ میں ان کی وجوہات اور تفصیلات الگ مذکور ہیں.البتہ یہ حقیقت بھی کسی سے اوجھل نہیں ہے کہ یہود ہمیشہ مدینے میں رہے، مسلمانوں کی ان سے معاشرت بھی رہی اور وہ رسول اللہ صلی ال نیلم کے وصال تک آپ کے احسانات سے فیضیاب بھی ہوتے رہے.بے سر و پا روایات اور صحابہ پر ایک الزام : كتاب الصارم.....میں ایک عنوان باندھا گیا ہے " أَصْحَابُ الرَّسُوْلُ يَقْتُلُونَ السَّابَ وَلَوْ كَانَ قَرِيبًا.صحابہ شاتم رسول کو قتل کر دیتے تھے خواہ وہ ان کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو تا تھا.اس عنوان کے تحت لکھا ہے: صحابہ ” جب کسی کے بارے میں سنتے کہ وہ رسول اللہ صلی الم کو گالیاں دیتا اور دکھ پہنچاتا ہے تو وہ اسے قتل کر ڈالتے اگر چہ وہ ان کا قریبی رشتہ دار ہو تا.اس معاملے میں آپ ان کی تائید کرتے اور اس سے خوش ہوتے ، بعض اوقات آپ ایسا کرنے والے کو اللہ اور اس کے رسول کے ” ناصر “ کا لقب دیتے.اس کے تحت یہ روایات درج کی گئی ہیں.
توہین رسالت کی سزا ا: 206} قتل نہیں ہے ابو اسحاق الفزاری نے سیرت پر اپنی مشہور کتاب میں بطریق سفیان ثوری از اسماعیل بن سمیع از مالک بن عمیر سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی ا کرم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ میں نے اپنے والد کو مشرکین میں پایا اور آپ صلی للی یکم کے حق میں اس سے قبیح جملہ سنا، میں اس وقت تک چین سے نہ بیٹھ سکا جب تک نیزہ مار کر اسے موت کی نیند نہ سلا دیا.یہ بات آپ صلی اللی علم پر ناگوار نہ گزری.۲ ایک اور آدمی آپ صلی یم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں نے اپنے والد کو مشرکین میں پایا اور اسے قتل کر دیا اور یہ بات آپ پر نا گوار نہ گزری، اموی وغیرہ نے اسے بدیں سند روایت کیا ہے.:M اسی طرح ابو اسحاق الفزاری نے اپنی کتاب میں حسّان بن عطیہ سے نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی نیلم نے ایک لشکر بھیجا جس میں حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور جابر بھی تھے مشرکین نے صف آرائی کی تو ان میں سے ایک آدمی سامنے آکر رسول اللہ صلی الی یکم کو گالیاں دینے لگا.“ اس کے بعد مبارزت اور قتل کا ذکر ہے اور لڑائی میں قتل کرنے والے صحابی کی شہادت کا بھی ذکر ہے.اس کی شہادت پر رسول اللہ صلی للی یکم نے فرمایا: ” کیا تمہیں اس آدمی پر حیرت ہوئی جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللی علم کی مدد کی.“ (الصارم المسلول : 105,104) جہاں یہ عنوان قطعی طور پر جھوٹا اور غلط ہے، وہاں ان روایات کا سر چشمہ بھی واضح طور پر مکدر ہے.ابو اسحاق الفزاری کی کتاب جو سیرت کی کتاب ہے، اس کی روایت کی صحت اور اس کے استناد کی کوئی ضمانت نہیں ہے.کتاب بھی ایسی مشہور ہے کہ اس کا نام تک بھی درج نہیں کیا گیا.خصوصاً دوسری روایت تو بالکل بے سر و پا ہے.علاوہ ازیں اس میں کسی گالی کا ذکر
توہین رسالت کی سزا 207 | قتل نہیں ہے نہیں.البتہ صرف شرک کا ذکر موجود ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی الہ ہم نے تو کبھی کسی کو شرک کی وجہ سے نہ قتل کروایا نہ کسی کو اس کا قتل کرنے دیا.یہ آپ کی مستقل، متواتر اور ثابت سنت ہے.قرآن کریم کے مطابق شرک کی سزا کا مسئلہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ کسی کو اس وجہ سے قتل کرے کہ وہ مشرک ہے.اگر ایسا حکم ہو تا تو ہر وقت سرزمین عرب مشرکوں کے خون سے سرخ رہتی.خصوصاً فتح مکہ کے بعد کتنے میں مشرکوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی ہوتی.لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا.بلکہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ بھی آنحضرت صلی الی ظلم کے ہمراہ غزوہ حنین میں قبائل ہوازن کے خلاف لڑائی میں شامل ہوئے.پس یہ اس مذکورہ بالا دعوے کو جھوٹا ثابت کرنے اور رڈ کرنے کے لئے کافی دلیل ہے.قبل ازیں امام ابو حنیفہ کے فتوے کا ذکر ہو چکا ہے.اس میں آپ فرماتے ہیں کہ جب مشرک کو قتل کرنے کا حکم نہیں ہے تو شاتم کو کیوں قتل کیا جائے.پس قرآن کریم اور سنتِ رسول صل الم ، احادیث صحیحہ اور امام اعظم کے فتوے کے سو فیصد خلاف کسی بے سر و پاروایت کو قبول نہیں کیا جا سکتا.پس ان بے سند اور من گھڑت روایات میں ایک واضح اور ناروا ظلم کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی علی یکم اور آپ کے صحابہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے.نعوذ باللہ من ذلک تیسری روایت میں جس واقعے کا ذکر کیا گیا ہے وہ میدانِ کارزار سے تعلق رکھتا ہے.جنگ میں مبارزت بھی ہوتی ہے اور رزم و ہجو اور تشبیب بھی.پھر اس میں ہمیشہ فریقین میں سے قتل بھی ہوتے ہیں.یہ جنگ کا خاصہ ہے.اس منظر میں دشمن کے کسی مبارز مقتول کو شاتم رسول قرار نہیں دیا جاتا بلکہ وہ محارب ہونے کی وجہ سے اور جنگ کے طبعی نتائج کی بناء پر قتل ہو تا ہے.
توہین رسالت کی سزا 208 | قتل نہیں ہے اس روایت کے وضعی ہونے کا ایک اور قرینہ یہ بھی ہے کہ اس میں نہ مقتول کے نام کا ذکر ہے اور نہ قاتل کے نام کا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایسی اہم روایت جو ایک عقیدے کے اثبات یا اسے قائم کرنے کے لئے پیش کی جارہی ہو ، اس کے دو بنیادی کردار ہی نا معلوم الاسم اور مجہول الحال ہوں.علاوہ ازیں اس روایت کے ترجمے پر پروفیسر غلام احمد حریری نے لکھا ہے: ” یہ حدیث حسّان بن عطیہ کے ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے.پس یہ روایت مبینہ طور پر مرسل ہونے کی وجہ سے قطعی طور پر قابل استناد نہیں ہے.اسے کسی عقیدے یا قانون کی بنیاد بنانا، اپنے ہاتھوں سے اس عقیدے اور قانون کے جھوٹ کی مبینہ تصدیق ہے.ان روایتوں پر جو عنوان باندھا گیا ہے، وہ سراسر ایک جھوٹا عنوان ہے.کیونکہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ کی بیان شدہ سیرت میں کوئی واقعہ ایسا نہیں ملتا جس میں صحابہ نے گالی دینے والے کو قتل کیا ہو.یہ درست ہے کہ انہوں نے بسا اوقات ایسے جذبات کا اظہار ضرور کیا تھا مگر رسول اللہ صلی علیکم نے اس کی کبھی اجازت نہیں دی.عبداللہ بن ابی بن سلول کوئی ایک دو دفعہ توہین و تذلیل کا مرتکب نہیں ہوا تھا.وہ مسلسل اسی مہم پر قائم تھا.واقعہ افک ( یعنی حضرت عائشہ زوجہ رسول پر نعوذ باللہ بد کاری کا الزام) تراشنے والا اور رسول اللہ لام کو نعوذ باللہ ) اذل کہنے والا یہی شخص تھا.قرض دینے والے ایک گستاخ یہودی نے آپ پر دست درازی تک کی تھی.حنین سے واپسی پر اموال کی تقسیم کے وقت آپ کو دھکیل دھکیل کر جھاڑی میں الجھا دیا گیا تھا.اسی موقعے پر ذوالخویصرہ کی پرلے درجے کی گستاخی کا واقعہ بھی کسی سے مخفی نہیں.یہودی آگر آپ کے بستر کو پاخانے سے گند اگر گیا تھا.طائف کے سفر میں آپ پر تشدد کیا گیا تھا.مکہ میں 13 سال مسلسل ہر قسم کی بدنی و لسانی تحقیر و تنقیص کی گئی تھی وغیرہ
توہین رسالت کی سزا { 209} قتل نہیں ہے وغیرہ، آپ کی گستاخی اور تذلیل کی کتنی اور کیسی کیسی کہانیاں ہیں.مگر قربان جائیں اس رحمتِ مجسم علا الم پر کہ نہ صرف اپنے ساتھیوں کو بلکہ پہاڑوں پر مامور فرشتوں کو بھی یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ کسی کی جان تلف کریں.آنحضرت لیلی لیلی کیم کی ساری زندگی حضرت عائشہ کی بیان فرمودہ اس حقیقت افروز گواہی پر شاہد ناطق ہے کہ " آپ نے کبھی اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا.(مسلم کتاب الفضائل) یعنی آپ نے کبھی کسی اور کو بھی آپ کی شان میں کسی زیادتی یا توہین کرنے والے کی جان لینے کی اجازت نہیں دی.جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ بسا اوقات بعض صحابہ نے آپ سے کسی گستاخ کو قتل کرنے کی اجازت طلب کی مگر ہر موقع پر آپ نے ان کی درخواست رڈ کر دی.آپ نے جن چند لوگوں کے قتل کا ارشاد فرمایاوہ گستاخی یا توہین وسبّ کرنے والے نہ تھے بلکہ ان کے جرم اور تھے جو قومی یا انسانی حقوق کے تحفظ کے لحاظ سے سنگین تھے.انہیں ان جرموں کی سزادی گئی تھی.توہین و تنقیص کی وجہ سے سزا نہیں دی گئی تھی.پس خود تراشیدہ اور بے سروپا، گمنام مجموعوں سے روایات لے کر نبی رحمت کی طرف قتل و خون منسوب کرنا آپ سے انتہائی زیادتی ہی نہیں دشمنی بھی ہے.اس عنوان کے تحت دو تین مزید وہ روایات بھی درج کی گئی ہیں جو روایات والے باب میں زیر بحث آکر رڈ کی جاچکی ہیں.یہاں ان کے تکرار کی ضرورت نہیں.كتاب الصارم.....میں اس جگہ ابن ابی سرح کا قصہ بھی اختصار کے ساتھ درج کیا گیا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ اس واقعے کا ذکر یہاں برعکس دلیل پیش کر رہا ہے.کیونکہ اسے تو قتل نہیں کیا گیا تھا.بلکہ اسے معافی مل گئی تھی.لہذا اس کا یہاں اندراج عبث اور بے مقصد ہے.جسے خو در سول اللہ صلی علیم نے معاف کر دیا اور اسے قتل ہی نہیں کیا گیا تو اس سے ثابت کیسے
توہین رسالت کی سزا { 210 } قتل نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ توہین رسول کی سزا قتل ہے.اس کی معافی تو بذاتِ خود اس بات کی ناقابل تردید دلیل ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل نہیں ہے.الغرض ان وجوہات کی بناء پر یہی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب ' الصارم.....کی یہ بات صحابہ شاتم رسول کو قتل کر دیتے تھے خواہ وہ ان کا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوتا تھا.“ قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے.شاتم جنوں کا قتل ! مذکورہ بالا عنوان کے بعد عنوان " مُؤْمِنُو الْجِنَّ يَقْتُلُ السَّابَ مِنْ كُفَّارِهِمْ “ ویسے ہی مضحکہ خیز ہے جو کتاب "الصارم.......کے استناد کو اور بد نما کر دیتا ہے.عنوان یہ ہے کہ ” کافر جنوں میں سے جو رسول کریم صلی کم کو گالی دیتا تھا مومن جن اسے قتل کر دیتے تھے.“ الصارم.....صفحه 106,105) اس عنوان سے انسان اندازہ کر سکتا ہے کہ کس حد تک نامعقول اور غیر مستند وضعی مواد اس کتاب میں جمع کیا گیا ہے.یہ واقعہ ایک مضحکہ خیز گپ کے سوا اور کچھ نہیں ہے.جنوں اور بھوتوں جیسی تصوراتی غیر مرئی مخلوق کے قصوں پر مبنی ایسی مبینہ گپ سے شریعت کا کوئی مسئلہ کبھی حل ہوا ہے نہ ہو سکتا ہے.کجا یہ کہ اسے مذہبی عقائد کی بنیاد قرار دیا جائے.دیو مالائی کہانیاں شریعت کے مسائل کا حل ہو سکتی ہیں نہ بنیاد.
توہین رسالت کی سزا { 211} قتل نہیں ہے موسمن اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے : الصارم....صفحات 109 تا 113 پر زیر عنوان ” فِعْلُ عَقِيْلِ ابْنِ أَبِي طَالِبٍ بِدُورِ النَّبی وَ آقَارِبہ “ میں آنحضرت صلی اللہ نیم کے اس ارشاد کو ایک مستقل قانون کی حیثیت سے لیا گیا ہے.نیز آخر میں اس سے گالی والے مسئلے کا بھی استدلال کیا ہے.چنانچہ آپ کا مذکورہ بالا ارشاد اس طور پر تحریر کر کے لکھا ہے: ” آپ کا مطلب یہ تھا کہ اگر ہنوز مکانات اس (حضرت علی کے بھائی عقیل) کے قبضے میں ہیں اور تقسیم نہیں ہوئے تو ہم تمام مکانات اسی کو دے دیں گے اور اس کے بھائیوں کو نہیں دیں گے.اس لئے کہ وہ ایک غیر مقسوم میراث ہے.لہذا اب اسے اسلامی احکامات کے مطابق تقسیم کیا جائے گا اور اسلامی تقسیم کی رُو سے ایک مسلم کا فر کا وارث نہیں ہو تا.اگر چہ یہ حکم ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوا، چونکہ ترکہ اس وقت تک تقسیم نہیں ہوا تھا اس لئے اسے اسلامی احکام کے مطابق تقسیم کیا جا سکتا تھا.لہذار سول کریم صلی ایم نے واضح کیا کہ جعفر اور علی کو ابو طالب کی وراثت سے حصہ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں.اگر چہ جائیداد موجود ہو اور جب ان سے فی سبیل اللہ لی گئی تو اب وہ اسے کیونکر واپس لے سکتے ہیں.......اسی طرح اس سے ان گالیوں کا بھی محاسبہ نہیں کیا جائے گا جو اس سے دورِ جاہلیت میں صادر ہوئیں، بنابریں ان لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا.“ (الصارم.....113,112) اس مکمل بحث میں ورثے کی بابت جو توجیہات پیش کی گئی ہیں، وہ قرآنی قوانین وراثت سے واضح طور پر ٹکراتی ہیں.قبل اس کے کہ اس بحث کی سمت چلیں، ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ اس ارشاد نبوی کی تفصیل اور اس کا منظر اور پس منظر کیا ہے ؟
توہین رسالت کی سزا 212 { قتل نہیں ہے اس واقعے کا منظر یہ ہے کہ فتح مکہ کے روز صحابہ نے آنحضرت صلی الم سے دریافت کیا کہ سکتے میں آپ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: "هَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ مَنْزِلٍ ثُمَّ قَالَ لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ وَلَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُؤْمِنَ “ (بخاری کتاب المغازی غزوه فتح مکہ و کتاب الفرائض باب لا بیٹ المسلم الکافر) کہ عقیل نے تو ہمارا کوئی گھر بھی نہیں چھوڑا.یعنی میرے رشتہ داروں نے میری ہجرت کے بعد میری ساری جائیداد بیچ ڈالی ہے.پھر آپ نے فرمایا کہ موسمن کا فر کا وارث نہیں ہو گا اور کافر موسمن کا وارث نہیں ہو گا.(مسلم کتاب الفرائض میں مؤمن کی جگہ 'مسلم' کے الفاظ ہیں.) آنحضرت صلی اللہ کا یہ قول فتح مکہ کے روز کا ہے.اسے بعض علماء نے بھی ایک عام اور مستقل قانون قرار دیا ہے.اس کی دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ یہاں چونکہ نہ دارالحرب کا ذکر ہے اور نہ کسی اور ایسی بات کا جو اس کو مخصوص یا محدود کرتی ہو.اس لئے یہ ایک عمومی اور دائمی حکم قرار پائے گا.ان کا خیال اپنی جگہ مگر اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللی یکم کے بعض احکامات بعض مخصوص تناظر میں ہیں.آپ جب کسی خاص پس منظر میں کوئی بات بیان فرماتے تھے تو اس پس منظر کو جاننے کی وجہ سے صحابہ اس کا مطلب سمجھ رہے ہوتے تھے.اس لئے اس وقت آپ کے اس فرمان کے بارے میں ایسی بحث نہیں اٹھی کہ وہ دائمی حکم ہے ، مشروط ہے یا بعض مخصوص حالات سے تعلق رکھنے والا محدود حکم ہے؟ چونکہ ایسی تفصیلات اس وقت سامنے نہیں آئیں لہذا بعد میں بعض فقہاء نے اس کو ایک عام اور دائمی حکم قرار دے دیا.آنحضرت صلی ا یکم جب یہ فرماتے ہیں کہ نہ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہو گا نہ غیر مسلم مسلمان کا وارث ، تو ماحول اور پس منظر کو سامنے رکھ کر اس فرمان کی نوعیت کو جاننا ضروری ہے
توہین رسالت کی سزا { 213 } قتل نہیں ہے کہ کہیں یہ حکم ایسا تو نہیں ہے جو مخصوص ہے اور بعض حالات کے تناظر میں مشروط ہے یا کسی جنگی پس منظر سے متعلق ہے اور محدود ہے.کیونکہ قرآنِ کریم بسا اوقات بعض خاص حالات کے لئے روز مرہ کے عام احکامات سے ہٹ کر مگر واضح طور پر اجازت دیتا ہے.اجازت کی ایسی صورتوں کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی ہے کہ اگر دشمن ایک کام کرتا ہے تو تمہیں بھی اس دشمن سے اس حد تک ویسا متبادل سلوک کرنے کی اجازت ہے.مثلاد شمن اگر بیت الحرام کی بے حرمتی کرتے ہوئے وہاں لڑتا ہے تو تمہیں بھی صرف اسی حد تک اس جگہ لڑنے کی اجازت ہے.اگر دشمن عہد شکنی کر کے تمہیں نقصان پہنچاتا ہے تو تمہیں بھی صرف اسی حد تک اجازت ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةٌ فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَاسِنِينَ (الانفال: 59) ترجمہ: اور اگر کسی قوم سے تو خیانت کا خوف کرے تو اُن سے ویسا ہی کر جیسا انہوں نے کیا ہو.اللہ خیانت کرنے والوں کو ہر گز پسند نہیں کرتا.اس آیت میں یہ کہا جارہا ہے کہ اگر تم دشمن سے کوئی معاہدہ کرتے ہو اور اس کی وجہ سے خود کو مامون و محفوظ سمجھتے ہو اور اس کی طرف سے کسی حملہ کی توقع نہیں رکھتے.جبکہ وہ اس صور تحال سے فائدہ اٹھا کر معاہدہ شکنی کرتے ہوئے تم پر حملہ کرتا ہے اور تمہیں نقصان پہنچاتا ہے تو اس کی خیانت اور معاہدہ شکنی کے بدلے میں تمہیں بھی عَلی سَوَاء کے اصول کے مطابق اس سے معاہدہ ختم کرنے کی اجازت ہے.ایسی صور تحال میں معاہدہ ختم کرنے کے لئے تمہارا اُسی قدر اور برابر کا عمل جائز ہو گا.پس فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلى سَوَاءٍ کا مطلب یہ ہے کہ بعض جگہ دشمن کا فیصلہ ہوتا ہے جو تمہارے عمل کے لئے بنیاد اور دلیل بنتا ہے.اس منظر میں آنحضرت صلی تعلیم کے اس مذکورہ بالا فرمان میں ایک واضح حکمت اور ایک منصفانہ توازن صاف دکھائی دیتا ہے.
توہین رسالت کی سزا { 214} قتل نہیں ہے اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مثلاً حالت جنگ میں دشمن اگر زیادتی کرتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ گو دشمن نے زیادتی کر کے عہد یا قانون توڑا ہے مگر ہم اپنے عہد کی وجہ سے اس پر زیادتی کرنے کے مجاز نہیں.بلکہ جتنی دشمن نے زیادتی کی ہے، خدا تعالیٰ نے علی سوآء کے قانون کے تابع مومنوں کو اتنی برابر کی کارروائی کی اجازت دی ہے.روز مرہ کی زندگی میں اسی نوع کی اور مثالیں بھی ہیں.مثلاً قرآنِ کریم میں ہے: " لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ“ (النساء: 149) کہ اللہ تعالیٰ بڑی بات کے کھلم کھلا اور بلند بانگ اظہار کو پسند نہیں فرماتا.یعنی اونچی آواز میں بُری بات ہو ، سخت گوئی ہو ، بد کلامی ہو ، جھگڑے کی بات ہو اللہ تعالیٰ اسے ہر گز پسند نہیں فرماتا.إِلَّا مَنْ ظُلِمَ “ سوائے اس کے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہو.یعنی اگر کوئی کسی کے خلاف بد گوئی اور بد تمیزی کر رہا ہے تو اس کو اس کے جواب کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا.ہاں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ اس طریق کو پسند نہیں کرتا، وہ خو د رُک جائے تو اس کو ثواب ہو گا، یہ ایک مستحب بات ہو گی.مگر ہر مظلوم کا یہ حق قائم فرما دیا کہ جتنا اس پر ظلم ہوا ہے اس کا وہ اتنا بدلہ لے سکے.پس یہ وہ وقتی صورت اور ضرورت ہے جو ان احکام میں صاف نظر آتی ہے.جہاں مسلمان کو غیر مسلم کے ورثے سے اور غیر مسلم کو مسلمان کے ورثے سے محروم قرار دیا گیا ہے.وہ وقتی صورت اور ضرورت مبینہ طور پر محاربت یعنی ایک دوسرے سے لڑائی کی حالت تھی اور مسلمانوں کو یہ حکم اُس وقت اِس لئے تھا کہ اُن سے غیر مسلم یہی سلوک روارکھتے تھے.چنانچہ آنحضرت صلی علیم نے جب فتح مکہ کے وقت صحابہ کے استفسار پر یہ جو فرمایا: "هَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ مَنْزِلِ“ کہ عقیل نے میرے لئے کون سا گھر چھوڑا ہے کہ جس میں میں قیام کر سکوں.یعنی آپ کے چچا ابو طالب کے بیٹے عقیل نے آپ کی ساری موروثی جائیداد پر قبضہ کر کے
توہین رسالت کی سزا (215 } قتل نہیں ہے اسے بیچ دیا تھا.اس کا مطلب یہ تھا کہ آپ کا اپنے آباء واجداد کی جائیدادوں میں وراثت کا حق تو موجود تھا لیکن آپ کو ملا اس لئے نہیں کہ وہ جائیدادیں باقی نہیں رہیں.پس یہاں حق وراثت کی نفی نہیں کی گئی.اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض مسلمانوں کے وہ رشتے دار جو مسلمان نہیں ہوئے تھے ، یہ ظلم کر رہے تھے کہ حقیقی وارثوں کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ان ورثوں سے محروم کر رہے تھے.یہ واقعاتی شہادت ہے جس کے تناظر میں آنحضرت صلی ا م کے حکم " لَا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ وَلَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُؤْمِنَ “ کو دیکھا جائے تو اس کی حکمت روشن ہو جاتی ہے اور بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کا یہ حکم نہ وصیت و وراثت کے قرآنی قوانین کے مخالف ہے نہ ان سے متصادم.کیونکہ یہ ایک ایسی حالت سے تعلق رکھتا ہے جہاں دشمن نے جنگی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک زیادتی میں پہل کی تھی.اس ماحول میں رسول اللہ صلی الم فرماتے ہیں کہ ٹھیک ہے ، اگر انہوں نے مسلمان ہونے کی وجہ سے ہمارا حق وراثت کالعدم کیا ہے تو ان کے مقابل 66 پر ہم بھی ان کا حق اس وجہ سے ختم کرتے ہیں کہ وہ کا فر ہیں.یہ " فَانْبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَى سَوَاءٍ “ والا قانون ہے.یہی قانون ایک اور حدیث میں بھی بہت متوازن الفاظ میں بیان ہوا ہے.فرمایا: ”لا يَتَوَارَثُ أَهلُ الْمِئَتَيْنِ شَى (ترمذی ابواب الفرائض لا توازٹ احل المتن و ابو داؤد کتاب الفرائض باب بل یرث المسلم الکافر) کہ دو مختلف ملتوں والے ایک دوسرے کا ورثہ نہیں پائیں گے.ظاہر ہے کہ اس حدیث میں مسلمان ملت اور حربی کا فروالی ملت مراد ہے.اس میں ” يَتوارث “ کے لفظ میں ایک تقابل پایا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا بالمقابل ورثہ نہیں پاتے.”اھلُ الْمِلَّتَيْنِ “ میں بھی کوئی عام حکم نہیں.کیونکہ ساری دنیا میں ورثے کا نظام مذہب کی بناء پر نہیں، خون کے رشتے کی وجہ سے قائم ہے.صحابہ نے بھی جب ورثہ پایا تھا تو اپنے ان ماں باپ وغیرہ ہی سے ورثہ پایا تھا جو
توہین رسالت کی سزا { 216 } قتل نہیں ہے مسلمان نہیں ہوئے تھے.کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ عام حالات میں کسی صحابی نے اپنے والدین کے ورثے سے اس وجہ سے انکار کیا ہو کہ وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے.پس یہ بات خلاف واقعہ بھی ہے اور انسانی تاریخ کے قائم ، جاری اور مسلمہ قانون سے بھی متصادم ہے.اُس زمانے کے عمومی حالات یہ تھے کہ اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمان ہونے والے اپنے مشرک یا کافر والدین کاور شہ پارہے تھے.تمام ریاستیں اور ممالک مثلاً بحرین، یمن، شام، نجران و عمان وغیرہ کے یہود و نصاری نیز ایران کے آتش پرستوں میں سے جو مسلمان ہوئے تھے انہوں نے اپنے ماں باپ کا ورثہ پایا تھا.اس لئے یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ رسول اللہ صلی ا لم نے ایسی بات فرمائی ہو کہ اس سے تمام عالم کی مسلمہ تاریخ کو بدلنے کا تصور پیدا ہو تا ہو.آپ کی شان تو یہ ہے کہ آپ اس حد تک محتاط ہیں کہ ہر بات میں سچائی کے تمام تقاضے اعلیٰ معیار پر پورے فرماتے ہیں.آپ یہ بیان کس طرح دے سکتے ہیں کہ ساری دنیا میں رواج ہے کہ کہیں بھی کوئی ملت دوسری ملت والے کا نہ ورثہ پاتی ہے اور نہ ورثہ دیتی ہے.چنانچہ اس کے بر عکس آپ کے قول يَتَوَارَت “ میں توازن والا تقابلی پہلو نمایاں ہے جس کا یہ معنے ہر لحاظ سے قابل قبول ہے کہ جہاں کوئی ایک حربی کا فر دوسرے کو محروم کرتا ہے ، وہاں ہمیشہ دوسرے شخص کا بھی حق ہوتا ہے کہ وہ اس محروم کرنے والے کو بھی اس کے اس حق سے محروم کر دے.اس مفہوم سے نہ اس فرمان رسول پر زد پڑتی ہے نہ اس کے عملی پہلوؤں پر حرف آتا ہے اور نہ ہی وراثت کا دائمی اصول ٹو تھا ہے.ٹوٹتا مختصر یہ کہ حدیث کے الفاظ میں دونوں امکانات موجود ہیں.خواہ تاریخ ، عقل اور واقعات کے خلاف ترجمہ کیا جائے یاوہ پر حکمت ترجمہ کیا جائے جو آنحضرت صلی ایم کی منشاء کے عین مطابق ٹھہرتا ہے اور مضمون کو خوب روشن کرتا ہے اور اس سے کوئی اختلاف بھی ممکن
توہین رسالت کی سزا { 217 } قتل نہیں ہے نہیں.یعنی اصول لا يتوارث “ ہے کہ جہاں بھی کوئی حربی ملت دوسری کو ورثے سے محروم کرتی ہو ، وہاں قاعدہ یہ ہے کہ وہ بھی اسے اس کے حق سے محروم کر دیا کرتی ہے.اس بحث سے یہ قطعی طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ یہ فرمان نبوی بعض جنگی حالات کے ساتھ مخصوص و محدود ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں اختلاف دین کی بناء پر حق وراثت سے محرومی کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے.اشارہ بھی ایساذکر موجود نہیں کہ کوئی شخص دین کی وجہ سے وارث بنا ہو یا اسی بناء پر وراثت سے محروم ہو ا ہو.بلکہ اس کے بر عکس قرآنِ کریم میں حقوق وراثت کو خونی تعلق کی بناء پر استوار کیا گیا ہے.مثلاً آیاتِ میراث میں فرمایا ”لیلا جالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ( النساء: 8) کہ مردوں کے لئے اس ترکے میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا.نیز لِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَلِدُنِ وَالْأَقْرَبُونَ “ ( النساء: 8) عورتوں کے لئے اس ترکے میں سے ایک حصہ ہے جو والدین اور اقرباء نے چھوڑا.اور ”يُوصِيكُمُ الله في اولادِكُمْ (النساء:12) اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں نصیحت کرتا ہے.اور ” وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُم (النساء: 13) اور تمہارے لئے اس میں سے نصف ہو گا جو تمہاری بیویوں نے ترکہ چھوڑا.اور ” وَلِكُلِّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَلِدُنِ وَالْأَقْرَبُونَ “ (النساء:34) اور ہم نے ہر ایک کے لئے وارث بنائے ہیں اس (مال) کے جو والدین اور اقرباء چھوڑیں.ایسی سب آیات میں خونی رشتوں کی بناء پر حق وراثت کا ہی ذکر ہے ، دین کے اختلاف کی وجہ سے کسی کو محروم الأرث قرار دینے کا کلیہ کوئی ذکر نہیں.خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم نے چونکہ اختلاف دین و مذہب کی بناء پر وراثت کے حقوق کو قائم نہیں فرمایا اس لئے حدیث "لا يَرِثُ الْمُؤْمِنُ الْكَافِرَ وَلَا يَرِثُ الْكَافِرُ الْمُؤْمِنَ ، کو
توہین رسالت کی سزا 218 { قتل نہیں ہے سمجھنے کے لئے ان مخصوص حالات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جو اس وقت رائج تھے.مسلمان اور کفار آپس میں برسر پیکار تھے اور کفار مختلف انواع کی زیادتیاں کرتے تھے جس کے جواب میں قرآن کریم مسلمانوں کو بھی اتنے ہی جوابی سلوک کی اجازت دیتا تھا.یہ کوئی عام اجازت نہیں تھی بلکہ محاربت کی بناء پر اور اس کے رد عمل میں ایک محدود اجازت تھی.وراثت میں بھی کفار کی زیادتی ثابت ہے اس لئے ان مخصوص حالات محاربت میں جو اس وقت رائج تھے ، آنحضرت صلی اللہ کا یہ فرمانا قرآنی مفہوم کے عین مطابق تھا.جو غیر مسلم محارب ہوں اور وہ مسلمانوں سے بر سر پیکار ہوں یا محارب کفار کے مددگار ہوں، قرآنِ کریم ان کے مالی حقوق تسلیم نہیں کرتا، تاکہ ان کی جارحانہ کارروائیوں میں ان کے اموال دشمن کی تقویت کا باعث نہ بنیں.لیکن وہ غیر مسلم جو نہ خود محارب ہوں اور نہ محارب کفار کی مدد کرتے ہوں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : " لَا يَنْهُكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ (المتحہ: 9) کہ اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا اور نہ تمہیں بے وطن کیا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف سے پیش آؤ.یعنی اللہ تعالیٰ تمہیں ان لوگوں کے متعلق ہر گز منع نہیں فرماتا جنہوں نے تمہارے ساتھ دین کے لئے لڑائی نہیں کی کہ ان سے دوستیاں کرو، ان سے تعلقات بڑھاؤ وغیرہ وغیرہ.چونکہ انہوں نے تمہارے ساتھ دین کے معاملے میں لڑائی نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا تھا اس لئے ” أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَ تُقْسِطُوا الیھم“ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو، نیکی کرو اور انصاف کا معاملہ کرو.خدا تعالیٰ تو ایسے لوگوں سے اس حد تک حسن سلوک اور نیکی وغیرہ کی تلقین فرماتا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں سے حسن سلوک کے سب تعلقات تو بڑھائے جائیں
توہین رسالت کی سزا { 219 ) قتل نہیں ہے مگر ان کی وراثت کے بنیادی خونی اور انسانی حقوق پر خط تنسیخ پھیر دیا جائے.یہ تبرُّوهُمْ اور و تُقْسِطُوا الیھم کے خلاف ہے.چونکہ انسان کی وراثت کو دین کے ساتھ باندھنا واضح طور پر الہی قانون اور انصاف کے بنیادی اور عالمی تصور سے متصادم ہے.اس لئے ایسے نظریئے کو آنحضرت صلی اللہ نام کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا.ہاں جس قسم کے تعلق کو منقطع کرنے کا ارشاد فرمایاوہ حکم یہ ہے کہ ان سے دوستیاں نہ بڑھائی جائیں اور گہرے معاشرتی تعلقات کو فروغ نہ دیا جائے.لہذ ا فرمایا: " إِنَّمَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِيْنَ قُتَلُوكُمْ فِي الدِّيْنِ وَأَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَظُهَرُوْا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوْهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ ( المتحن : 10) کہ اللہ تمہیں محض ان لوگوں کے بارہ میں منع کرتا ہے جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہیں نکالنے میں ایک دوسرے کی مدد کی کہ تم انہیں دوست بناؤ.اور جو انہیں دوست بنائے گا تو یہی ہیں جو ظالم ہیں.اسلام کی رُو سے ان لوگوں سے تعلق قطع کرنے کا حکم ہے اور ان سے احسان اور انصاف کا معاملہ اس حد تک چھوڑنے کا حکم ہے جس حد تک انہوں نے ظلم کیا تھا، اس سے زیادہ کی اجازت نہیں.پس صاف ظاہر ہے کہ دونوں حکموں میں مطابقت اس طرح ہو گی کہ جہاں جہاں دشمن کی طرف سے زیادتیاں کی گئی تھیں، رسول کریم صلی اللہ ہم نے ایسی آیات کی روشنی میں بعض مواقع پر مسلمانوں کو بھی جوابی سلوک کی اجازت دی.یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہئے کہ جوابی سلوک کی ایسی اجازت بھی فوڑا نہیں دی بلکہ ایک وقت تک صبر کیا اور جب دیکھا کہ دشمن اس حسن سلوک سے فائدہ نہیں اٹھا رہا اور زیادتیوں پر زیادتیاں کر رہا ہے تو اُس وقت فرمایا کہ تمہیں بھی صرف اسی حد تک اجازت ہے ، اس سے زیادہ کی نہیں.
توہین رسالت کی سزا 220 } قتل نہیں ہے جہانتک خونی رشتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے ان کا غیر معمولی تحفظ فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا: "وَإِنْ جَاهَدُكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمُلَا فَلَا تُطِعْهُمَا وَ صَاحِبُهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (حمن : 16 ) کہ اگر وہ (تیرے ماں باپ) دونوں تجھ سے جھگڑا کریں کہ تو میر اشریک ٹھہر جس کا تجھے علم نہیں تو ان دونوں کی اطاعت نہ کر اور ان دونوں کے ساتھ دنیا میں دستور کے مطابق رفاقت جاری رکھ.یہ آیت بھی صاف بتاتی ہے کہ اگر ماں باپ مشرک ہوں تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو دین کے اختلاف کی وجہ سے ان حقوق سے محروم نہیں کرتا جو ماں باپ کے اولاد پر ہوتے ہیں.ان حقوق میں سے بہت بڑا حق وراثت کا ہے جو ماں باپ کا اولاد پر اور اولاد کا ماں باپ پر ہوتا ہے.پس اس آیت میں یہ تعلیم بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمائی گئی ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ ماں باپ کو ہر گز کسی بھی انسانی حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا خواہ دین کا اختلاف کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو.یہ ایک عظیم الشان تعلیم ہے جس کی نظیر لانے سے دوسرے مذاہب قاصر ہیں.اسی طرح ایک اور آیت میں بھی یہی اصل پیش کیا گیا ہے.فرمایا: "وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ 66 الْمُؤْمِنتِ وَالْمُحْصَنَتُ مِنَ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِذَا اتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ “ (المائدہ:6) اور پاکباز مومن عورتیں اور ان لوگوں میں سے پاکباز عور تیں بھی جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تمہارے لئے حلال ہیں جب تم انہیں نکاح میں لاتے ہوئے ان کے حق مہر ادا کر دو.یعنی ان عورتوں کو جو اہل کتاب میں سے ہیں اور مسلمانوں کی بیویاں ہیں، ایک طرف تو ان کو ان کے اجور ادا کرنے کی تو تلقین ہو.یعنی ان کی زندگی میں تو ان کے حقوق اتنی سختی سے قائم کئے گئے ہوں تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ساتھ ہی ان کے وارث نہ بننے کی بھی بات ہو رہی ہو.اگر وہ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے ورثہ نہیں پائیں گی تو اجور دینے کا جواز ہی نہیں رہتا.انہیں
توہین رسالت کی سزا 221 H قتل نہیں ہے تو ان اجور کا بھی حقدار نہیں ہونا چاہئے تھا.پس ایسی اہل کتاب عورتیں جن کے خاوند مسلمان ہوں اور وہ فوت ہو جائیں تو ان میں سے ایک کی وفات پر دوسرا الاز ما مقررہ حصے کا وارث ٹھہر تا ہے.اسے اس سے محروم کرنے کی کوئی تعلیم قرآن کریم میں نہیں.اسی طرح مقتول کی دیت کے بارے میں قرآنِ کریم سوائے محارب کفار کے مسلم اور غیر مسلم ورثاء میں کوئی تفریق نہیں کرتا.چنانچہ فرمایا: "وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأَ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوْا، فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُةٍ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ طَ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ ، بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيْثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ (النساء: 93) ترجمہ : اور جو کوئی غلطی سے کسی مومن کو قتل کرے تو ایک مومن غلام کا آزاد کرنا ہے اور طے شدہ دیت اس کے اہل کو ادا کرنا ہو گی سوائے اس کے کہ وہ معاف کر دیں.اور اگر وہ ( مقتول) تمہاری دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو اور وہ مومن ہو تب بھی ایک مومن غلام آزاد کرنا ہے.اور اگر وہ ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان عہد و پیمان ہوں تو اس کے اہل کو طے شدہ دییت دینا لازم ہے اور ایک مومن غلام کا آزاد کرنا بھی.اس آیت سے واضح ہے کہ اگر مقتول کسی دشمن قوم سے ہو لیکن مومن ہو تو پھر قاتل کے لئے ایک مومن غلام آزاد کر نالازم ہے ، اس پر دیت لازم نہیں کیونکہ دیت اس کے ورثاء کو ملے گی اور وہ چونکہ غیر مسلم ہیں، دشمن اور محارب ہیں اور مسلمانوں سے پر سر پر کار ہیں اس لئے انہیں دیت کی ادائیگی نہیں کی جائے گی.جبکہ مقتول کے غیر مسلم ورثاء اگر محارب نہ ہوں تو انہیں مسلمان ورثاء کی طرح دیت کا حقدار قرار دیا گیا ہے.
توہین رسالت کی سزا 222} قتل نہیں ہے پس ان آیات کریمہ کی روشنی میں زیر بحث حدیث نبوی کے معنے بھی متعین ہو جاتے ہیں اور انہی معنوں میں یہ حدیث بھی قابل قبول قرار پاتی ہے.قرآنِ کریم نے انسانی حقوق و معاملات کی جو کھلی اور واضح تعلیم دی ہے اس کے دائرے میں ان کو دیکھا جائے تو حقیقت افروز مفہوم یہ بنے گا کہ جہاں غیر تم سے یہ سلوک کریں وہاں تمہیں بھی حق ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ وہی جو ابی سلوک کرو اور یہ نہ سمجھو کہ قرآن تمہیں پابند کر رہا ہے کہ تم ایسی صورت میں بھی ان کو ورثہ دو جب اولاً وہ تمہیں اس سے محروم کر رہے ہوں.اس سے ایک اور زاویہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر غیر مسلم وارث کو محض مذہب کی بناء پر محروم الارث قرار دیا جائے تو وہ وراثت کی محرومی کے خوف سے اور مال کے حصول کے لالچ میں مسلمان ہو جائے گا.یعنی وہ ایمان کی بنیاد پر نہیں مالی مفادات کی بناء پر بظاہر مسلمان ہو جائے گا لیکن اندر سے کافر ہی رہے گا.پس ایسی تعلیم اسلام قبول کرنے والے کو نعوذ باللہ عملاً منافق بنانے والی ثابت ہو گی.الغرض مذکورہ بالا بحث سے قطعی طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی ال کلم کے فرمان کا مقصد یہ ہے کہ وراثت چونکہ بنی نوع انسان کا ایک بنیادی حق ہے اس لئے جو کسی کو اس بنیادی حق سے محروم کرے گا وہ خود بھی اس سے محروم ہو گا.یہ ایک توازن والا اور دوطرفہ انصاف کا قانون ہے.اس کے سوا کسی کو ورثہ سے محروم کرنے کی اجازت نہیں ہو سکتی.ورنہ یہ حدیث قرآن کریم کے دائمی قانون سے متصادم ٹھہرے گی جبکہ اصولی بات یہ ہے کہ حدیث کسی طرح بھی قرآن کریم سے نہیں ٹکراسکتی.جب حدیث میں واضح طور پر احکام ملتے ہوں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کو بھی قبول کریں اور کوئی ایسی صورت نکالیں جس سے ظاہری تضاد اور تصادم دور ہو.لیکن یہ گستاخی ہو گی کہ کہا جائے کہ ہم قرآن کو قبول کریں گے اور حدیث کو چھوڑ دیں
توہین رسالت کی سزا 223) قتل نہیں ہے گے.کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہو گا کہ حدیث تھی تو سچی مگر ہم نے اسے غلط قرار دے دیا.گویا رسول اللہ صلی کم کو نعوذ باللہ قرآن کریم کا علم نہیں تھا یا نعوذ باللہ آپ نے قرآن کریم کے خلاف بات کی تھی.ایسا خیال کرنے والا تو عملاً اپنا تعلق رسول اللہ صلی اللی نام سے کاٹ لے گا.لہذا نہ تو اس کا تعلق رسول سے باقی رہے گانہ قرآن سے.لہذا دوسری صورت یہ ہے کہ چونکہ حدیث نبوی قرآن کریم سے متضاد ہو سکتی ہے نہ متصادم.اس لئے ایسی بات کو جو قرآن کریم سے ہر حال میں ٹکرا رہی ہو ،اس بنیاد پر رڈ کر دیا جائے کہ وہ رسول اللہ صلی یی کم کا کلام نہیں ہو سکتا.یا پھر تیسری صورت یہ ہے کہ حدیث کے وہ معنے تلاش کئے جائیں جن کی رُو سے بظاہر نظر آنے والا تضاد دور ہو جائے اور اس کا مفہوم عین قرآنی منشاء اور مفہوم کے مطابق ہو جائے.یہ طریق ہے جو سب سے صحیح اور قرین تقوی ہے.یہ ایک اصولی اور حقیقی صورتحال کی بحث تھی.لیکن کتاب "الصارم....میں وراثت کے مسئلے کے ساتھ گالیوں کی معافی کو جوڑ کر یہ جو لکھا گیا ہے کہ ” اسی طرح اس سے ان گالیوں کا بھی محاسبہ نہیں کیا جائے گا جو اس سے دورِ جاہلیت میں صادر ہوئیں، بنابر میں ان لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا.“ قیاس مع الفارق ہے.بھلا جائیداد یا وراثت کا گالیوں سے تعلق ہی کیا ہے ؟ جائیدادوں اور گالیوں کا آپس میں کوئی جوڑ اور ناتا نہیں ہے.ان کو ایک دوسرے پر پیش کر کے ایک نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا.وراثت کا قانون قرآنی اصولوں اور قوانین میں بندھا ہوا ایک معین اور حسابی اصول ہے.جبکہ گالی ایک لسانی اور جذباتی معاملہ ہے جس کی وراثت کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے.وراثت ایک سچائی ہے اور انسانی حقوق کا محکم انسانی اور قرآنی قانون ہے جبکہ
توہین رسالت کی سزا 224 | قتل نہیں ہے گالی جھوٹ کی کوکھ سے جنم زدہ قابل رو چیز ہے.بلکہ گالی کا معنی ہی ایسی بُری بات ہے جو خلاف واقعہ ہو.دراصل قتل شاتم کے مدعی ایک دفعہ غلط موقف کے پیچھے چلے ہیں کہ شاتم رسول کو قتل کیا جائے گا.مگر جب دوسری جانب انہیں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ آنحضرت صلی ا تم نے کثرت کے ساتھ بلکہ مجموعی طور پر ہی اصل شاتمین کو معاف کر دیا تھا تو اپنے اس موقف کو سچا ثابت کرنے کے لئے ان واقعات کی ایسی ایسی توجیہات ڈھونڈھتے ہیں جن کا ان سے کوئی جوڑ ہے نہ آپس میں کوئی نسبت.علاوہ ازیں جہانتک مستند روایات اور صحیح ترین تاریخی ریکارڈ کا تعلق ہے وہ ہمیں یہ قطعی ثبوت مہیا کرتا ہے کہ کفارِ مکہ کو فتح مکہ کے روز یہ معافی بیعت سے یعنی ان کے قبول اسلام سے پہلے عطا کی گئی ہے.یہ تو آنحضرت صلی علی یم کا واضح ارشاد ہے کہ اسلام قبول کرنے سے گزشتہ سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں.لہذا تمام گالیاں بلکہ تمام کفریہ اور شرکیہ باتیں بھی معاف ہو جاتی ہیں.مگر یہاں یہ بھی تو ایک ثابت شدہ تاریخی حقیقت ہے کہ یہ معافی ان لوگوں کے قبول اسلام سے قبل دی گئی تھی.اس سے آفتاب نصف النہار کی طرح یہ اصول قائم ہوتا ہے کہ بیعتِ اسلام سے پہلے بھی شاتمین کو معاف کیا جا سکتا ہے اور کیا گیا ہے.چنانچہ اس سے اجماع کا دعوی بھی از خود پاش پاش ہو جاتا ہے.فتح مکہ کے منظر کا ایک رُخ یہ بھی ہے کہ اس وقت وہاں کے سارے مکین مسلمان نہیں تھے.رئیس مکہ صفوان بن امیہ اور مکے کے کم و بیش دوسو مشرک غزوہ حنین میں اسلامی لشکر میں شامل تھے.ملنے کے لوگ عام طور پر اور رؤسائے قریش خاص طور پر آنحضرت صلی للی کم کی توہین و تنقیص کے مبینہ مجرم تھے.انہیں تو آنا فانا قتل کیا جاسکتا تھا.لیکن نہیں کیا گیا.اس کی
توہین رسالت کی سزا { 225 ) قتل نہیں ہے بنیادی اور حقیقی وجہ یہی تھی کہ اسلامی شریعت میں شاتم رسول کو قتل کرنے کا عقیدہ موجود ہی نہیں ہے.یہاں یہ بھی غور طلب بات ہے کہ کتے میں جن دو تین افراد کو قتل کیا گیا تھا انہیں بھی کتاب "الصارم......کے بیان کردہ اسی وراثت والے اصول سے منسلک اصول کہ ” اسی طرح اس سے ان گالیوں کا بھی محاسبہ نہیں کیا جائے گا جو اس سے دورِ جاہلیت میں صادر ہوئیں، بنا بریں ان لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا.“ کے تحت معاف کیوں نہ کیا گیا.الصارم.....کے اس قانون کا جس مقام پر اطلاق ہوا ہے ، یہ مقتولین بھی تو وہیں پر تھے مگر ان پر اس اصول کا اطلاق کر کے ان کی جان بخشی نہیں کی گئی.اس سے ثابت ہو تا ہے کہ کتاب 'الصارم......میں تا پیش کی گئی دلیل کوئی دلیل نہیں ہے، ایک خود ساختہ جواز ہے جس کی بنیاد محض ابہام پر ہے یا خود تضادی پر.اگر یہ ایک سمجیدہ دلیل تھی تو ان تین مقتولوں کے معاملے کو حل کیا جانا چاہئے تھا.اس کے بعد مکرر وراثت والے مسئلے کی جانب لوٹتے ہیں.چنانچہ الصارم.....میں لکھا ہے اگر چہ یہ حکم ابو طالب کی وفات کے بعد نازل ہوا، چونکہ ترکہ اس وقت تک تقسیم نہیں ہوا تھا اس لئے اسے اسلامی احکام کے مطابق تقسیم کیا جا سکتا تھا.لہذار سول کریم صلی اللہ ہم نے واضح کیا کہ جعفر اور علی کو ابو طالب کی وراثت سے حصہ طلب کرنے کا کوئی حق نہیں.اگر چہ جائیداد موجو د ہو اور جب ان سے فی سبیل اللہ لی گئی تو اب وہ اسے کیونکر واپس لے سکتے ہیں.“ ย اس بات کو پر کھنے کا ایک زاویہ تاریخوں کا حساب بھی ہے.اس مسئلے کا مکمل اور تفصیلی منظر یہ ہے کہ حضرت جعفر " 5 نبوی میں حبشہ ہجرت کر گئے تھے.ابو طالب کی وفات اس کے پانچ سال بعد 10 نبوی میں ہوئی.ابو طالب کی جائیداد تقسیم ہوئی یا نہیں ہوئی، اس کا ہمارے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے.لیکن ابو طالب کی وفات کے وقت حضرت علی وہیں گے میں مقیم تھے
توہین رسالت کی سزا { 226 H قتل نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ اپنے والد والے موروثی گھر میں ہی مقیم تھے.یعنی انہوں نے اپنا حق لئے بغیر وہ جائیداد مدینے ہجرت کے ساتھ چھوڑ دی.ادھر حضرت جعفر کی حبشہ سے واپسی تقریباً پندرہ سال بعد 7ھ میں مدینے میں ہوئی اور ایک سال بعد آپ جمادی الاول 8ھ میں جنگ موتہ میں شہید ہو گئے.ان کی شہادت کے تقریباً چار ماہ بعد رمضان المبارک 8ھ میں مکہ فتح ہوا.رسول اللہ صلى الم کا فرمان کہ "مومن کا فر کا وارث نہیں ہو گا اور کافر موسمن کا وارث نہیں ہو گا، فتح مکہ کے موقعے کا ہے.اس وقت حضرت جعفر موجود نہیں تھے.الصارم.....کامذ کورہ بالا تحریر میں حضرت جعفر“ کو حضرت علی کے ساتھ جائیداد کے مطالبے کے معاملے میں اکٹھا کرنا بتاتا ہے مصنف کو اس تاریخی ترتیب ، واقعات اور حقائق کا علم نہیں تھا.لہذا محض ایک مفروضے پر وہ بنیاد قائم کی ہے جس کے نیچے زمین ہی کوئی نہیں ہے.آنحضرت صلی ا م کی ہجرت کے بعد کتنے میں عقیل نے ابوطالب کی جائیداد کو ہی غصب نہیں کیا تھا بلکہ آپ کی موروثی جائیداد کو بھی فروخت کر دیا تھا جس کا آپ نے ذکر فرمایا تھا.اس موقعے پر آپ جو فیصلہ فرماتے ، فاتح ہونے کی وجہ سے اسے نافذ کرنے میں کوئی دقت نہ تھی.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سکتے میں تو کفار مکہ نے مسلمانوں کی جائیدادیں اور اموال غصب کئے تھے، لیکن ہجرت کرنے والے مسلمانوں نے تو ان کے اموال غصب نہیں کئے تھے.چنانچہ ان سے یہ چھینی ہوئی جائیدادیں اور لوٹے ہوئے اموال واپس لینا چنداں مشکل نہ تھا.مسلمان غالب تھے اور اہل مکہ مغلوب.اس منظر میں رسول اللہ صلی اللی علم کا یہ فیصلہ کہ ” مؤمن کافر کا وارث نہیں ہو گا اور کافر مومن کا وارث نہیں ہو گا.“ رحمت کا ایک ایسا فیصلہ تھا جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.یعنی جو مسلمان کفارِ مکہ کے جبر و تشدد کا نشانہ بنتے رہے اور وہاں انہیں ان کی ہر مراد سے محروم کیا گیا تھا، آج وہ اپنی جائیدادوں کو دیکھتے ہوئے بھی اپنے محبوب و محسن آقا و مولیٰ
توہین رسالت کی سزا 227 H قتل نہیں ہے صلی ایم کی ایک آواز پر سب حق چھوڑ رہے تھے.خود آپ بھی نمونہ پیش کرتے ہوئے اپنا حق عقیل کے لئے چھوڑ چکے تھے.آپ کے ایک اشارے پر حضرت علی نے بھی اپنا حق چھوڑ دیا تھا اور اسی طرح دیگر صحابہ میں سے بھی جس کا کوئی حق لگے میں بنتا تھا، اس نے بھی وہ سب چھوڑ دیا.یہ بھی عفو و در گز اور کرم و احسان کی ایک ایسی حسین ادا تھی جس نے نہ صرف قریش مکہ کے بلکہ سارے عرب کے دلوں کو اسلام کے، آپ کے اور خالق حقیقی کے قدموں میں لا ڈالا تھا.افسوس ہے کہ ایسے دلکش اور حسین مضمون کو کتاب ' الصارم......میں سب و شتم کے چکر میں الجھا کر تار تار کر دیا گیا ہے.سب و شتم کی سزاؤں کے جھوٹے ذخیرے جمع کرنے کی بجائے اگر رسول اللہ صلی علیم کی ان احسان خیز فیصلوں اور رحمت افزا نمونوں کے حقیقی اور سچے مجموعے تیار کئے جاتے تو دنیا اس محسن انسانیت (میلی ) کی طرف امڈتی چلی آتی ، بالکل اسی طرح جس طرح کتے کے ظالم آپ کے حسن و احسان کی تجلیات کے مشاہدے کر کے ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر اپنے دلوں کو آپ کے قدموں پر ڈال رہے تھے.اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کتاب ”الصارم“ کے یہ استدلالات خلاف حقیقت، خلاف قرآن اور خلافِ سنتِ رسول ہیں.لہذا اس کتاب کو اپنے عقائد کی بنیاد بنانا ایک جھوٹا اقدام ہے.
توہین رسالت کی سزا 228 ) قتل نہیں ہے ذوالخویصرہ اور کتاب 'الصارم.....اسلامی تاریخ میں ذوالخویصرہ نامی ایک شخص اپنے مذموم کردار کی وجہ سے مشہور ہے جس کا ذکر روایات میں متعدد بار آیا ہے.یہ بنو تمیم قبیلے کا ایک فتنہ پر داز اور گستاخ شخص تھا جس نے غزوہ حنین سے واپسی پر جغرانہ کے مقام پر آنحضرت صلی کم پر اموال کی تقسیم کے سلسلے میں بے انصافی کا الزام لگایا تھا.وہ آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جو کچھ آپ نے آج کیا ہے وہ اس نے دیکھا ہے.آپ نے اس سے پوچھا: ” تو نے کیا دیکھا ہے ؟“ وہ کہنے لگا کہ آج آپ نے انصاف نہیں کیا.آپ نے فرمایا: " تم پر افسوس.اگر میں انصاف نہ کروں گا تو دنیا میں اور کون ہے جو انصاف کرے گا.اگر میں نے انصاف نہیں کیا پھر تو تو خائب و خاسر ہو گیا.اس کی اس گستاخی پر صحابہ غیرت و غصے میں اٹھے.بلکہ حضرت عمرؓ نے تو یہ بھی عرض کی: یار سول اللہ ! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اُڑا دوں.آپ نے فرمایا: "دَعُهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ “.(بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة و مسلم کتاب الزکوۃ باب ذكر الخوارج وصفا تقم و مسند احمد مند المكثرين من الصحابة مسند ابی سعید خدری ” اس کو رہنے دو، کیونکہ اس جیسے اور بھی اس کے ساتھی ہیں.تم ان کی نمازوں کے مقابل پر اپنی نمازوں کو اور ان کے روزوں کے مقابل پر اپنے روزوں کو حقیر جانو گے.یہ قرآن بہت پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا.یہ دین سے اس طرح نکلیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے ( یا تیر شکار کے پار ہو جاتا ہے).“ یعنی یہ لوگ بظاہر دینی احکامات کی پابندی اور عبادات کی ادائیگی میں اس قدر غلو کریں گے کہ ان کے مقابل پر دوسرے لوگ اپنی عبادت کو کم اور ادنی سمجھیں گے لیکن باطنی طور پر یہ
توہین رسالت کی سزا { 229 H قتل نہیں ہے ہدایت اور نور سے خالی ہوں گے.چنانچہ بعد میں یہ شخص اور اس کے قبیلے کے لوگ اس گروہ کے سرغنے بنے جو حضرت علی کے زمانے میں فتنوں میں بنیادی کردار ادا کر نے والے تھے.کتاب "الصارم.....میں دیگر روایات کے ساتھ یہ بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلى الم نے اس موقع پر حضرت عمرؓ کو یہ کہہ کر اس کی گردن اڑانے کی اجازت نہ دی تھی کہ ”لوگ باتیں کریں گے کہ محمد (صلی ا کر) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرواتے تھے.“ یہاں انسان حیران ہوتا ہے اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ نام کے عفو و در گزر اور لطف و احسان کے دامن کی کائنات سے بھی ورے پھیلی ہوئی وسعتوں پر کہ ایک شخص کی فتنہ وشر خیز حالت کو چشم کشفی سے دیکھ بھی رہے ہیں مگر اسے چادر رحمت میں ڈھانپتے بھی چلے جاتے ہیں.آپ نے یہ فرما کر کہ لوگ باتیں کریں گے کہ محمد (صلی اللی) اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرواتے تھے.“اسے اپنے گروہ اصحاب سے باہر بھی نہیں نکالتے.سبحان الله اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ اس پر کتاب "الصارم.....کا تبصرہ یہ ہے: "إِنَّ النَّبِيَّ عَلا الله لَمْ يَمْنَعْ عُمَرَ مِنْ قَتْلِهِ إِلَّا لِئَلَّا يَتَحَدَّثَ النَّاسُ اَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ وَلَمْ يَمْنَعُهُ لِكَوْنِهِ فِي نَفْسِهِ مَعْصُوماً (جزء الاول: باب ماجری فی تقسیم غنائم حنین.صفحہ 123) کہ رسول اللہ صلی السلام کے عمر ہو روکنے کی وجہ یہ نہ تھی کہ وہ شخص بذاتِ خود معصوم الدم ہے.بلکہ آپ نے صرف اس لئے روک دیا تھا کہ لوگ یہ مشہور کر دیں گے کہ محمد (صلی لیکر) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں.اپنی سند اور اصولِ درایت کے لحاظ سے یہ روایت کس درجے کی ہے؟ یہ بحث اپنی جگہ ہے مگر اس تبصرے کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ تھا تو واجب القتل مگر قتل نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی علیم کی شہرت خراب نہ ہو.گویا ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ہر تو ہین کرنے
توہین رسالت کی سزا 230 } قتل نہیں ہے والے کو قتل کیا جائے گا.وہ مرتد ہو جاتا ہے یا اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے ، لہذ ا واجب القتل ہے وغیرہ وغیرہ.لیکن ساتھ ہی وہ یہ واقعہ بھی پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یکم نے ایسے شخص کو قتل نہ کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.اس قتل نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایسا نہ ہو کہ لوگ آپ کے بارے میں یہ باتیں کریں کہ آپ لوگوں کو قتل کرواتے تھے.یعنی نعوذ باللہ اپنی رسالت کو بدنامی کے داغ سے پاک رکھنے کے لئے آپ نے عمر کو منع کر دیا کہ وہ اس گستاخ کو قتل نہ کریں.اگر الصارم.....کی یہ دلیل تسلیم کرلی جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ :1 :2 کسی گستاخ کو قتل نہ کیا جائے کیونکہ اس سے رسول اللہ صلی یی کم کا نام بدنام ہوتا ہے.یہ وجہ ہر زمانے کی طرح آج بھی قائم ہے کہ ایک مسلمان جب کسی کو توہین کی وجہ سے قتل کرتا ہے تو لوگ باتیں کرتے ہیں بلکہ اسے بکثرت شائع کرتے ہیں.اس لئے اس اصول کے تحت آج بہت زیادہ ضرورت ہے کہ کسی کو بھی اس وجہ سے قتل نہ کیا جائے.:3 الصارم......اور اس نوع کی دیگر کتابوں میں ایسی روایات درج کی گئی ہیں جن کے مطابق آنحضرت صلی الل لم نے بعض لوگوں کو گستاخی اور توہین کی وجہ سے قتل کروایا تھا.’ الصارم میں قتل کرنے کی جتنی روایات پیش کی گئی ہیں، وہ یہ بتاتی ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ ہمیشہ ور مسلسل اپنے اس مذکورہ بالا قول کے صریحاً خلاف قتل کروائے.اس کتاب میں جتنی مثالیں بھی دی گئی ہیں وہ سب اس مذکورہ بالا نتیجے کے خلاف جاتی ہیں.ایسے متضاد دلائل یا موقف جہاں مضحکہ خیز ہیں وہاں ایسے واقعات کے ذکر سے لازماً رسول اللہ صلی یکم کی بد نامی بھی ہوتی ہے.مستشرقین ایسے واقعات کو لپک کر لیتے ہیں اور ان کے ذریعے آپ کو بد نام کرتے ہیں.سارے عالم میں آپ کو نعوذ باللہ ظالم اور انسانی خون سے کھیلنے والا ثابت کرنے کی ان کی کوشش مسلسل
توہین رسالت کی سزا 231} قتل نہیں ہے جاری ہے.اس ناپاک مہم میں ان کے ہتھیار یہی روایات ہیں جو اپنے ہی دوستوں نے جمع کر کے پیش کی ہیں.:4 الصارم......کے اس مذکورہ بالا تبصرے سے اصل اصول تو یہی قائم ہوا ہے کہ ضروری نہیں کہ شاتم یا گستاخ کو قتل کیا جائے.مثلاً عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھیوں نے آنحضرت صلی یکم اور آپ کی زوجہ مطہرہ کی نعوذ باللہ بدنامی اور تذلیل کی کوشش کی مگر وہ قتل نہیں ہوا بلکہ اپنی طبعی موت مرا.اس کے قتل نہ کرنے کی کوئی بھی تو جیہہ یا عذر تراش لیا جائے.تو اس سے اصل اصول تو یہی قائم ہوا کہ کسی بھی عذر سے ایسے شخص کو قتل نہیں کیا جائے گا.:5 رسول اللہ صلی الی یکم کا فرمان یہ ہے کہ لوگ باتیں نہ کریں کہ آپ اپنے لوگوں کو مرواتے تھے.اپنے اس قول میں انتہائی واضح الفاظ میں آپ نے یہ بتایا ہے کہ آپ لوگوں کو ہر گز نہیں مرواتے تھے.مگر اس کے ساتھ حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ اپنے ہی دوست کہتے ہیں کہ نہیں، آپ انہیں مرواتے تھے اور آپ نے انہیں واقعۂ مروایا.اور اگر کوئی کسی کومار دیتا تھا تو آپ اسے شاباش اور انعام و اکرام سے نوازتے تھے یا کم از کم اسے کچھ نہ کہتے تھے اور مرنے والے کا خون رائیگاں قرار دے دیتے تھے.پس رسول اللہ صلی للی کم اور ان لوگوں کے خیالوں میں بعد المشرقین و المغر بین ہے.یہ لوگ در حقیقت خود رسول اللہ صلی علی یم کی بدنامی کا موجب بنتے ہیں.دشمن جب دشمنی کی وجہ سے توہین کرنے کی یا بد نام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی اس روش کو دشمنی پر تعبیر کر کے بے وقعت سمجھا جاتا ہے.مگر اصل تو ہین اور بد نامی وہ ہے جو خود پیر وکار الٹے نمونے اور جھوٹے موقف اختیار کر کے کرتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ ان کے لئے ان کے پیشوا یہ کہہ گئے ہیں کہ و
توہین رسالت کی سزا (232 } قتل نہیں ہے امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں“ جیسا کہ پہلے عرض کی گئی ہے کہ کتاب الصارم میں متعد د روایات تحریر کی گئی ہیں کہ رسول اللہ صلی لی لی نے ہجو کرنے والوں یا شتم کرنے والوں کو عملاً اس طرح قتل کر وایا کہ اسے اپنا دشمن قرار دے کر اس سے کفایت طلب کی.گویا جب تک وہ قتل نہ ہو گیا، آپ کو چین نہ آیا.نعوذ باللہ ذوالخویصرہ والی اس مذکورۃ الصدر روایت کے بارے میں بہت اہم بات یہ ہے کہ صحیح مسلم میں امام مسلم نے اسے "کتاب الزکوۃ باب ذکر الخوارج وصفاتھم میں درج کیا ہے.آپ کے مطابق یہ شخص اور اس کے ساتھی خوارج کے بانی مبانی تھے.ان کی اسلام دشمنی بڑی واضح ہے.انہوں نے عملاً اسلام کی جمعیت کو بیحد نقصان پہنچایا ہے.مگر جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ اسے قتل کرنے سے صحابہ کو روک دیا گیا تھا.اسی ضمن میں 'الصارم......میں ایک عنوان یہ بھی قائم کیا گیا ہے." كَانُوا يَرَوْنَ قَتْلَ مَنْ عَلِمُوا أَنَّهُ مِنَ الْخَوَارِجِ“ کہ صحابہ خارجیوں میں سے جس کے بارے میں علم ہو تا اسے قتل کر دیتے تھے.اس عنوان کے تحت یہ واقعہ درج کیا گیا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ الذاریات ، والمرسلات اور والنازعات کے کیا معنے ہیں ؟ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”اپنے سر پر سے کپڑا اتارو.جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے، فرمایا: بخدا! اگر میں تمہارے بال منڈے ہوئے دیکھتا تو تمہارا سر اڑا دیتا.“ (الصارم صفحہ 128:)
توہین رسالت کی سزا ( 233 ) قتل نہیں ہے الصارم......میں دیئے گئے عنوان میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ صحابہ خارجیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے.مگر تعجب ہے کہ ثبوت کے لئے جو واقعہ پیش کیا گیا ہے، اس میں کسی کو قتل نہیں کیا گیا.نہ ہی اس طرح کی کوئی مثال ہے کہ صحابہ میں سے کسی نے کسی ایسے حلیے والے کو قتل کیا تھا.یعنی خارجی جیسا حلیہ نہ رکھنے والے کو قتل نہ کرنا دلیل بن کس طرح سکتا ہے کہ صحابہ خارجیوں کو قتل کر دیا کرتے تھے.پس یہ تو محض ایک مفروضہ ہے اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.اس کے برعکس مسلّمہ حقیقت یہ ہے کہ سوائے محارب فسادیوں کے یا لڑائیوں اور جھڑپوں میں لڑنے والے شخص کے قتل کے علاوہ عام گستاخوں ، بد زبانوں یا خارجیوں وغیرہ کے قتل کا کوئی قانون نہیں تھا جس پر صحابہ عمل پیرا تھے.کتاب "الصارم.....کے مذکورہ بالا دعوے کی قلعی اس سے بھی کھل جاتی ہے کہ خارجیوں نے تو خروج ہی حضرت علی کے دور میں کیا تھا.اس سے پہلے ان کا تو کوئی وجود نہیں تھا، نہ ہی ان کی کوئی علامت، کوئی نام یا گروہ وغیرہ تھا.لہذا حلیے کی تخصیص کی بات ہی بے معنی ہے.پس حضرت عمر والی اس روایت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.خارجی کے قصے والی روایت لازما جعلی ہے جو کتاب ” الصارم “ میں درج ہے.اس سارے مسئلے کے ساتھ جو بات اس کتاب میں نظر انداز کی گئی ہے، یہ ہے کہ عکرمہ مولیٰ حضرت ابن عباس خارجی تھا.کتاب ' الصارم.....میں اس کا نام بار بار جپا گیا ہے اور اس سے بار بار روایات لی گئی ہیں.اس سے ہر قاری اس کتاب کے معیار کا بھی ایک اچھا اندازہ کر سکتا ہے.یہ بھی اس روایت کے جعلی ہونے کا ایک ثبوت ہے.حضرت عمرؓ کے واقعے والی اس روایت کے ساتھ اس کتاب میں یہ خوفناک تبصرہ بھی کیا گیا ہے کہ "إِنَّ الْعَفْوَعَنْ ذَلِكَ كَانَ فِي حَالِ الضُّعْفِ وَالْإِسْتِغْلَافِ زِيرِ عنوان: كَانُوا يَرَوْنَ قَتْلَ مَنْ
توہین رسالت کی سزا 234 } قتل نہیں ہے عَلِمُوا أَنَّهُ مِنَ الْخَوَارِةِ - صفحہ 128) لوگوں کو اس لئے معاف کیا جاتا تھا کہ اسلام کمزور تھا اور لوگوں کی تألیف کی ضرورت تھی.اسے حکمت نہیں، مداہنت کہتے ہیں.زمین و آسمان شہادت دیتے ہیں کہ کسی بھی حالت میں اور کسی بھی دور میں نہ اسلام کبھی کمزور تھانہ رسول اللہ صلی الیم نے کبھی اصولوں کی سودا بازی کی تھی.آپ بفضلہ تعالیٰ و عونہ طاقتور تھے اور اسلام بھی طاقتور تھا.اسی لئے آپ اور صحابہ توہین اور سب و شتم پر عفو و در گزر کرتے تھے کیونکہ ہمیشہ طاقتور معاف کرتا ہے، کمزور معاف نہیں کر سکتا.کیونکہ کمزور تو خو د طاقتور کے رحم و کرم پر ہوتا ہے.اسلام کے خوبصورت اصول تالیف قلوب کا منظر بھی یہ نہیں ہے کہ یہ کمزوری کے باعث یا کمزوری کو چھپانے کے لئے کی جاتی ہے.یہ تو اسلام کا قوت اور بالاتری کا ایک ممتاز اصول ہے.اس سنہری اصول کی وجوہات یا حکمتوں میں سے ایک یہ ہے کہ یہ کمزور اور ضرور تمند کی مدد کے لئے قائم کیا گیا ہے.اس شخص کے معاملے کو کتاب "الصارم.....(باب ” متی اضمر المنافقون النفاق صفحہ 154:) میں آگے جا کر پھر پیش کیا گیا ہے اور وہاں مسلم کی یہ روایت بھی پیش کی گئی ہے کہ حضرت خالد نے کہا: یا رسول اللہ ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ فرمایا: ” نہیں، ممکن ہے یہ نماز پڑھتا ہو “، خالد نے کہا: ”بہت سے نمازی ایسی بات کہتے ہیں جو اُن کے دل میں نہیں ہوتی.“ اس پر رسول اللہ صلی علی کرم نے فرمایا: ” مجھے اس بات کا حکم نہیں دیا گیا کہ میں لوگوں کے دل چیر کر اور بطن پھاڑ کر دیکھا کروں.“ (مسلم کتاب الزکوۃ باب ذكر الخوارج وصفاتھم ) رسول اللہ صلی الی یکم کا یہ کیسا اعلی جواب ہے جو سونے کے حروف سے لکھا جانے والا اور ہیروں سے سجایا جانے کا حقدار ہے.اس میں آپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ بتا دیا ہے کہ
توہین رسالت کی سزا { 235 ) قتل نہیں ہے کسی کے دل کے حالات کو کوئی نہیں جان سکتا جب تک کہ وہ خود انہیں ظاہر نہ کرے.اس لئے یہ سوچ کر کہ فلاں ایسا ہو گا، کسی قسم کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.ت و کسی کے ایمان کے بارے میں کوئی دوسرا شخص فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ خود اپنے ایمان یا عدم ایمان کا اظہار یا اعلان نہ کرے.کسی کو کوئی مرتد قرار نہیں دے سکتا جب تک کہ مرتد خود اپنے ارتداد کا اظہار یا اعلان نہ کرے.فتوی صرف قول یا فعل کے ظاہر پر ہی لگ سکتا ہے.جس کے بارے میں خیال بھی ہو کہ وہ نماز پڑھتا ہو گا، اسے بھی قتل کی ہر گز اجازت نہیں ہے.کجا یہ کہ جو نماز پڑھ رہا ہو اسے قتل کیا جائے.مگر افسوس ہے کہ ان کتابوں کی تشہیر کرنے والے یہ سب جرائم رسول اللہ صلی کم ہی کا نام لے کر کرتے ہیں یا انہیں آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور زمین کو بے گناہوں اور معصوموں کے قتل سے اور ان کے خون سے رنگتے چلے جاتے ہیں.شارع اسلام صلی الی یکم کی پیش فرمودہ تعریف مسلم: مذکورہ بالا روایت میں جو جواب رسول اللہ صلی للی نیلم نے حضرت خالد بن ولید کو دیا ہے، ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے.جس کا اظہار آپ نے ایک سے زائد مرتبہ فرمایا ہے.چنانچہ ذیل میں تین اقتباس پیش کئے جارہے ہیں.جن سے الم نشرح ہے کہ کسی کے اسلام سے کوئی دوسرا انکار نہیں کر سکتا.یعنی کوئی دوسرے شخص کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ مسلمان نہیں ہے.یہ رسول اللہ صلی علیکم کا وہ فیصلہ ہے جو امن و سلامتی کے قیام، روح کافر گری کے قلع قمع
توہین رسالت کی سزا 236 | قتل نہیں ہے اور امت سے کشت و خون کی روک تھام کے لئے ایک انتہائی کلیدی حیثیت رکھتا ہے.چنانچہ آپ نے مدینے میں مردم شماری کے وقت ہر اس شخص کو مسلمان شمار فرمایا جو اپنی زبان سے صرف یہ اظہار کر تا تھا کہ وہ مسلمان ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا: اكتُبُوا لِي مَنْ تَلَفَظَ بِالْإِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ “ (بخاری کتاب الجہاد باب کتابۃ الامام الناس.مسلم کتاب الایمان باب الاستسر ار بالا یمان لخائف) کہ میرے لئے ہر اس شخص کا نام لکھ دو جو اپنے منہ سے مسلمان ہونے کا اظہار کرتا ہے.پھر آپ نے ہر اس شخص کو مسلمان شمار فرمایا مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيْحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ اللَّهِ وَذِمَّةٌ رَسُوْلِهِ فَلَا تُخْفِرُوا اللَّهَ فِي ذِمَّتِه “ ( بخاری کتاب الصلاۃ باب فضل استقبال القبلۃ) کہ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے ، ہمارے قبلے کو اپنا قبلہ قرار دے، ہمارا ذبیحہ کھائے ، وہ مسلمان ہے.ایسے شخص کی حفاظت کرنا خدا اور اس کے رسول کے ذقے ہے.پس تم اے مسلمانو! خدا کے ذمے کو ہر گز نہ توڑنا.یعنی ایسی تاکید فرمائی کہ ان صفات یا اعمال والا شخص ایسا مستند مسلمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول (صلی للی ) اس کی اور اس کے اسلام کی ضمانت دیتا ہے.لہذا اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے.علاوہ ازیں ایک واقعہ ایسا بھی ظہور میں آیا جو رسول اللہ صلی علیم کے اس جواب سے بالکل مشابہ تھا جو آپ نے ذوالخویصرہ کے بارے میں حضرت خالد بن ولید کو ارشاد فرمایا تھا.چنانچہ وہ واقعہ 7ھ کا ہے.جب میفعہ کے سریے میں کفار شکست کھا کر بھاگ گئے تو حضرت اسامہ بن زید اور آپ کے ایک انصاری ساتھی کو میفعہ کا ایک شخص نہیک بن مرداس
توہین رسالت کی سزا { 237 ) قتل نہیں ہے بعض کتب تاریخ نے یہ نام مرد اس بن نہیک بیان کیا ہے ) اپنی بکریاں لے کر ایک پہاڑی پر چڑھتا نظر آیا.انہوں نے اسے جالیا اور جب اسے مارنے لگے تو اس نے جھٹ سے کلمہ طیبہ پڑھ لیا.یعنی اپنی زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کر لیا.یہ سن کر وہ انصاری تو پیچھے ہٹ گئے مگر حضرت اسامہ نے اس پر وار کیا اور اسے قتل کر دیا اور اس کی بکریاں قبضے میں کر لیں.انہوں نے مدینے پہنچ کر جب آنحضرت صلی علی کم کو اس واقعے کی تفصیل بتائی تو آپ کا دل افسوس سے چھلک گیا.حضرت اسامہ کہتے ہیں کہ آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا: " مَنْ لَّكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَوْمَ الْقَيَامَةِ؟ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّمَا قَالَهَا مَخَافَةَ السَّلَامِ قَالَ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ قَالَهَا أَمْ لَا مَنْ لَّكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ فَمَا زَالَ يَقُولُهَا حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أُسلِمُ إِلَّا يَوْمَين (ابوداؤ دکتاب الجہاد باب على ما يقاتل المشركين و زرقانی ذکر خمس سر ا یا قبل مونته ) ترجمہ: ”اے اسامہ ! قیامت کے روز لا اله الا اللہ کے مقابل پر تیر اکون مددگار ہو گا ؟ میں نے عرض کی: یارسول اللہ ! ”اس نے تو تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا.“ آپ نے (غم سے بھر کر فرمایا: ” تو نے اس کا دل کیوں نہ چیر دیکھا کہ تجھے علم ہو جاتا کہ اس نے تلوار کے ڈر سے کلمہ پڑھا تھا یا اس کے بغیر.قیامت کے روز لا الله الا اللہ کے مقابل پر تیرا کون مدد گار ہو گا ؟“ اسامہ کہتے ہیں: "آنحضرت صلی علی کرم یہ دوہراتے جاتے تھے یہانتک کہ میں نے یہ خواہش کی کہ کاش میں اس روز تک مسلمان ہی نہ ہو ا ہو تا.“ اس واقعے میں ایک غیر معمولی تاکید کا منظر ہے جو یہ خوبصورت اور دائمی تعلیم پیش کرتا ہے کہ اگر کوئی اپنے مسلمان ہونے کا جہراً اقرار کرے تو رسول اللہ صلی ا ہم نے کسی کو اسے رو کرنے کا حق نہیں دیا.اسے تسلیم کرنا ضروری ہے خواہ وہ یہ اعلان کیسے ہی حالات میں کر رہا ہو.
توہین رسالت کی سزا 238 } قتل نہیں ہے دل کے حالات تو صرف اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن فتوی ہمیشہ ظاہر پر ہی قرار پاتا ہے.چنانچہ اسی اصول کا اظہار بتکرار رسول اللہ صلی الیم نے یہاں ذوالخویصرہ والے قصے میں بھی فرمایا ہے.بالفاظ دیگر جب انسان کسی کی زبان سے اسلام کے اقرار کو ر ڈ کر کے اس کے دل کے ارادوں کو جاننے کا دعوی کرتا ہے تو اس کا یہ فعل دعوائے خدائی یا خدائی اختیارات کو ہاتھ میں لینے کے مترادف ہے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی ہی میں نے ایسے خیالات یا فیصلوں کی اسلامی تعلیم میں کو ئی گنجائش نہیں رکھی.عبد اللہ بن ابی بن سلول کا معاملہ : كتاب الصارم.....میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی بن سلول کا قصہ بھی پیش کیا گیا ہے.جب اس نے خود کو مدینے کا معزز ترین شخص قرار دے کر کہا تھا کہ وہ مدینے سے ذلیل ترین شخص کو نکال دے گا.یہ رسول اللہ صلی ا ظلم کی شان میں ذلیل ترین گستاخی تھی جس نے جذباتی لحاظ سے صحابہ کے دلوں کو چیر کر رکھ دیا تھا.انہوں نے آپ سے اس کے قتل کی اجازت چاہی مگر آپ نے یہ کہتے ہوئے اس کی اجازت نہ دی کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو مدینے میں بہت سے لوگ اس کی ہمدردی میں اٹھ کھڑے ہوں گے.نیز آپ نے فرمایا: " لِئَلَّا يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَه ، تا کہ ایسانہ ہو کہ لوگ یہ باتیں کریں کہ محمد (صلی ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علم کے اس فیصلے ، اس سلوک اور اس ارشاد پر’ الصارم..‘ میں یہ تبصرہ تحریر ہے کہ فَعَلِمَ أَنَّ مَنْ آذَى النَّبِئَ علاه والله بِمِثْلِ هَذَا الْكَلَامِ جَازَ قَتْلُهُ وَإِنَّمَا تَرَكَ النَّبِئُ ع السلم قَتْلَهُ لَنَا خِيْفَ فِي قَتْلِهِ مِنْ نُفُورِ النَّاسِ عَنِ الْإِسْلَامِ لَمَّا كَانَ ضَعِيفا.“ (زير عنوان ما
توہین رسالت کی سزا { 239 ) قتل نہیں ہے جری فی تقسیم غنائم حنین.صفحہ 123) ترجمہ : پس معلوم ہوا کہ جو رسول اللہ صلی للی کم کو اس طرح کلام سے اذیت پہنچائے ، اس کا قتل کرنا جائز ہو جاتا ہے.مگر رسول اللہ صلی ﷺ نے اسے اس خوف کی وجہ سے قتل نہ کیا کہ لوگ اسلام سے بدک جائیں گے جبکہ اسلام ضعف میں تھا.یہ ایک انتہائی کمزور اور بودی دلیل ہے اور بتکرار پیش کی جاتی ہے.’ الصارم...کا یہ استدلال کسی طور پر اور کسی قیمت پر درست نہیں مانا جاسکتا.کیونکہ رسول اللہ صلی الیکم نعوذ باللہ نعوذ باللہ دل میں کوئی منافقت رکھنے والے یا مداہنت کرنے والے تو نہیں تھے کہ بنیادی اصولوں کا کسی انجانے خوف کی وجہ سے سودا کر لیتے تھے.پس یہ دلیل اپنی تمام تر نا معقولیت کی وجہ سے بیک جنبش قلم رڈ کئے جانے کے لائق ہے.اس کے برعکس یہاں بھی رسول اللہ صلی للی یم کی ردائے عفو و در گز اور لطف و احسان کی وسعت ملاحظہ فرمائیں کہ گستاخیوں میں اخلاق و شرافت کی تمام حدود پھلانگ جانے والے شخص کو بھی لِئَلَّا يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَهُ“ فرما کر اپنے اصحاب میں شامل رکھتے ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ لیکن آنحضرت صلی اللہ نام کے اس کلام کے پیش نظر ایک انتہائی اور اہم قابل غور بات یہ ہے کہ آپ کے رخ انور کو اور اسلام کے حسین اور پاک چہرے کو ہر ایسے فعل کی گرد سے بچانا ضروری ہے جو مذہب کی مبادیات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اسے داغدار کر دے.آپ کی تعلیم اور اسلام کی شریعت کے اندر ایک کشش ہے جو قربانیوں پر استوار ہے اور جذبات کی انگیخت سے پاک ہے.چنانچہ رسول اللہ صلی علی کم کاعبد اللہ بن ابی بن سلول سے سلوک یا اس کے بارے میں آپ کا یہ فیصلہ الصارم.....میں مذکور قتل شاتم والے نظریئے کا بذاتِ خودرڈ
توہین رسالت کی سزا 240} قتل نہیں ہے ہے.الصارم کا یہ استدلال چونکہ رسول اللہ صلی علیکم کے فیصلے اور ارشاد سے براہ راست متصادم ہے اس لئے یقیناً قابل رو ہے.الصارم کی اسی عبارت میں اسے قتل نہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے: ” کہا گان ضعیف کہ اس وقت اسلام ابھی کمزوری کی حالت میں تھا.یہ دلیل بھی واضح طور پر خلاف حقیقت اور خلافِ حق ہے.جیسا کہ آئندہ صفحات میں پیش کر دہ واقعات و حقائق ثابت کریں گے کہ نہ اسلام کسی وقت کمزور تھانہ نعوذ باللہ رسول اللہ صلی ایم کو اپنی تمامتر زندگی میں کبھی کسی قسم کا خوف لاحق ہوا تھا.یہ فقرہ تو اسلام کے دشمنوں کی یا اسلام کے اپنے دوستوں کی دلیل ہے.جو بیک نوک قلم لائق رڈ ہے.رسول اللہ صلی الی ظلم کا اسے در گزر کرنا آپ کی قوت اور آپ کے جبروت کو ظاہر کرتا ہے کہ آپ ہر نوع کی مقدرت رکھتے ہوئے بھی دوسروں کو معاف فرماتے تھے.جہانتک اس مذکورۃ الصدر واقعے کے زمانے کا تعلق ہے تو یہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی کے وقت یعنی ماہِ شعبان 5ھ کا ہے.اس واقعے سے قبل غزوہ بدر، غزوۂ احد اور غزوہ بنی مصطلق جیسے بڑے بڑے معرکوں کے علاوہ دیگر متعدد چھوٹے چھوٹے غزوات وسر ایا میں مسلمان نمایاں طور پر فتحیاب ہو چکے تھے.ان کے علاوہ بنو قینقاع کا واقعہ بھی ہو چکا تھا.نیز کعب بن اشرف وغیرہ کے واقعات بھی رونما ہو چکے تھے.ان تمام واقعات میں تو اسلام کو کسی کمزوری یا ضعف کا سامنا نہیں ہوا.پھر صرف ایک عبد اللہ بن ابی بن سلول کے قتل کے لئے اسلام میں کونسا ضعف پیدا ہو گیا تھا کہ جس کی وجہ سے بظاہر ایک نحیف اور معذرت خواہانہ رخ اختیار کرنا لا بدی تھا.ایسا دوہرا معیار اور دورخی یا نام نہاد حکمت عملی ، رسول اللہ صلی الم کی طرف منسوب کرنا بذات خود آپ کی اور آپ کے منصب کی توہین ہے.سچ تو یہ ہے کہ یہ دلیل جڑ سے ہی کھو کھلی ہے
توہین رسالت کی سزا { 241 } قتل نہیں ہے اور ور قطعی طور پر بودی اور جھوٹی ہے.ایسی ہی دلیلیں ہیں جنہیں اسلام دشمن عناصر ہاتھ لمبے کر کر کے لیتے ہیں اور انہی کو استعمال کر کے اسلام پر حملہ آور ہوتے ہیں.پھر اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے کہ رسول اللہ صل اللہ یا تو ہر دوسری طاقت سے ہر زمانے میں طاقتور اور غالب تھے.اگر کمزوری کی وجہ سے ہی کسی کو قتل نہیں کیا گیا تو فتح مکہ کے وقت تو کمزوری کوئی نہیں تھی.اس وقت صرف چند ایک کے سوا باقی سب شا تموں، توہین کے مر تکلبوں، ہرزہ سراؤں، ظالموں، قاتلوں اور جابروں کو بیک جنبش زبان معاف کر دیا گیا.اصول تو بہر حال اصول ہوتا ہے.اگر اصول یہ ہے کہ شاتم کو ہر حال میں قتل کرنا ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ اصول یہاں کیوں ترک کیا گیا ؟ دنیا کا سب سے طاقتور انسان ، محمد رسول الله صلى الله ولم جیسا کہ ہم نے ابھی اوپر لکھا ہے کہ نہ اسلام کسی وقت بے طاقت تھا، نہ نعوذ باللہ رسول اله صلى ال ہم کسی پہلو سے کبھی کمزور تھے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جسے دنیا کی کوئی دلیل، کوئی منطق اور کوئی طاقت رڈ نہیں کر سکتی.چنانچہ اس سلسلے میں حسب ذیل حقائق ملاحظہ ہوں.ا : عفو کا حکم جب کتنے میں اسلام کی مخالفت اور آنحضرت صلی للی کم اور آپ کے صحابہ پر ظلم و جبر انتہائی شدت اختیار کر گیا تو ایک موقعے پر حضرت عبد الرحمن بن عوف چند اور صحابہ کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی : ” یارسول اللہ ! ہم مشرک تھے تو ہم معزز تھے.کوئی ہماری جانب آنکھ نہ اٹھا سکتا تھا.لیکن جب سے ہم مسلمان ہوئے ہیں کمزور اور ناتواں ہو گئے ہیں.ہمیں ذلت کے ساتھ کفار کے مظالم سہنے پڑتے ہیں.پس یا رسول اللہ ! آپ ہمیں اجازت دیں کہ ہم ظلم کرنے والے کفار کا مقابلہ کر سکیں.“ آپ نے جواباً فرمایا: ” اُمِرْتُ
توہین رسالت کی سزا { 242 } قتل نہیں ہے بِالْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو کا حکم ہے.پس میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.آنحضرت صلی الہ وسلم کا یہ کلام ایک غیر معمولی غالب عظمت کا کلام ہے.ایک طرف آپ اور آپ کے صحابہ کفار کے تمام ظلم و جبر برداشت کرتے چلے جارہے ہیں.جس سے بادی النظر میں یہی دکھائی دیتا ہے کہ انتہائی کمزوری کی حالت ہے، مگر دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ عفو کا حکم ہے.یعنی معاف کرنے کا حکم ہے.یعنی آپ ایسی حالت میں ہیں کہ ان سب مخالفوں سے طاقتور اور ان پر غالب ہیں اور وہ آپ کے ہی رحم و کرم پر ہیں.معاف کرنے کی صلاحیت ہمیشہ طاقتور میں ہوتی ہے.کمزور ، شکست خوردہ اور ہارے ہوئے انسان کی دی ہوئی معافی اور عفو کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ؟ پس رسول اللہ صلی الم کا یہ ارشاد کہ ”مجھے عفو کا حکم ہے، لہذا تمہیں مقابلے میں بھی لڑنے کی اجازت نہیں ہے ، ایک عظیم الشان واقعاتی حقیقت کا آئینہ دار ہے.وہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی یم کے ساتھ تمامتر طاقتوں کے مالک واحد ویگانہ خدا کی طاقت تھی.اس کے فرشتوں کی فوجیں تھیں جو انفرادی طور بھی آپ کے ہر دشمن کے لئے اور بحیثیت مجموعی بھی وہ آپ کے تمام دشمنوں کے لئے کافی تھیں.آپ کے دشمنوں کی تباہی و بربادی صرف اور صرف آپ کے ایک اشارہ ابرو کی منتظر تھی.یہ محض کوئی دعوی نہیں ہے بلکہ واقعات و شواہد سے تائید یافتہ ایسی ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی ال یکم انسانیت کی اور انسان کے خون کی حفاظت کرنے والا اور ان کی ربوبیت کے لئے تڑپنے والا دل رکھتے تھے.آپ ان کی ہلاکت کے لئے نہیں، انہیں محفوظ کر کے اور زندگی دے کر خدائے واحد و یگانہ سے منسلک کرنے کے لئے مبعوث ہوئے تھے.چنانچہ ملاحظہ ہو کہ
توہین رسالت کی سزا { 243 ) قتل نہیں ہے ۲: پہاڑوں کے فرشتے کی پیشکش شوال 10 نبوی میں رسول اللہ صلی اللی نیلم نے تبلیغ کے لئے عرب کے ایک بڑے شہر طائف کا سفر اختیار کیا.یہاں بنو ثقیف آباد تھے.ان کے رئیس اعظم عبدیالیل نے نہ صرف یہ کہ آپ کا پیغام نہ سنا بلکہ آپ کے پیچھے شہر کے اوباش اور آوارہ لوگ بھی لگا دیئے.انہوں نے آپ پر پتھر برسائے اور آپ کو سر تا پا لہولہان کر دیا.مسلسل تین میل تک یہ لوگ آپ کے تعاقب میں رہے اور گالی گلوچ کرتے اور پتھر برساتے رہے.یہاں سے مکہ واپس آتے ہوئے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور کہنے لگا: ” اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے تا اگر ارشاد ہو تو میں پہلو کے یہ دونوں پہاڑ ان لوگوں پر پیوست کر کے ان کا خاتمہ کر دوں.“ آپ نے فرمایا: ” ہر گز نہیں.مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں میں سے وہ لوگ پیدا کر دے گا جو خدائے واحد کی پرستش کریں گے.“ یہ واقعہ گزر جانے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی ملی لیکم کمزور تھے اور اسلام ضعیف تھا.یہ واقعہ تو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کے ساتھ قادر مطلق خدا کی وہ طاقت و قدرت تھی جو قوموں کو پلک جھپکنے میں پہاڑوں تلے دفن کر سکتی تھی.مگر آپ باجو د اس طاقت پر ایک طرح کا اختیار رکھنے کے کسی انتقام کی بجائے انسانی خون کی حفاظت کرنے کو اس لئے ترجیح دیتے تھے کہ آپ کو یہ امید تھی کہ آپ کے ذریعے ہلاکتوں سے محفوظ کر دہ انسان ضرور خدائے واحد و یگانہ کی پرستش کی طرف مائل ہو گا.آپ انتہائی طاقتور ہونے کے باوجود عفو و در گزر اور صبر ورضا کو فوقیت دیتے تھے.اسی کا اظہار آپ نے فرمایا تھا کہ ”اُمِرْتُ بِالْعَفُو.فَلَا تُقَاتِلُوا.“ ۳: ابو جہل کا خوف پھر سکتے میں روز مرہ ہونے والے واقعات بھی ثابت کرتے ہیں کہ باوجو د ہر طرح کے جور و جبر کے آپ کے مخالف سردار آپ سے لرزاں تھے.مثلاً ایک دفعہ اراشہ نامی
توہین رسالت کی سزا { 244} قتل نہیں ہے شخص کے میں اونٹ بیچنے آیا.ابو جہل نے وہ اونٹ اس سے خرید لئے.مگر اونٹوں پر قبضہ لینے کے بعد قیمت ادا کرنے میں حیل و حجت کرنے لگا.اس پر اراشہ جو مکے میں ایک اجنبی اور بے یار و مدد گار تھا، بہت پریشان ہوا.چند دن تک ابو جہل کی منت و سماجت کرنے کے بعد آخر ایک دن جبکہ بعض رؤساء قریش خانہ کعبہ کے پاس مجلس جمائے بیٹھے تھے ، وہ ان لوگوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: ” اے معززین قریش! آپ میں سے ایک شخص ابو الحکم نے میرے اونٹوں کی قیمت دبار کھی ہے.آپ مہربانی کر کے مجھے یہ قیمت دلوا دیں.“ قریش کو شرارت جو سو جبھی تو کہنے لگے : ” ایک شخص یہاں محمد بن عبداللہ نامی رہتا ہے تم اس کے پاس جاؤ.وہ قیمت دلا دے گا.“ ان کی اس سے غرض یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ کی تو بہر حال انکار ہی کریں گے اور اس طرح باہر کے لوگوں میں آپ کی سبکی ہو گی.جب اراشہ وہاں سے رخصت ہوا تو قریش نے اس کے پیچھے ایک آدمی کر دیا کہ دیکھو کیا تماشہ بنتا ہے.چنانچہ اراشہ اپنی سادگی میں آنحضرت مصلی للی نیم کے پاس آیا اور کہنے لگا: ” میں ایک مسافر ہوں اور آپ کے شہر کے ایک رئیس ابو الحکم نے میری رقم دبا رکھی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ مجھے یہ رقم دلواسکتے ہیں.پس آپ مہربانی کر کے مجھے میری رقم دلوادیں.“ آپ فوراً اٹھے اور فرمایا : ” چلو ، میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.“ چنانچہ آپ اسے لے کر ابو جہل کے مکان پر آئے اور دروازے پر دستک دی.ابو جہل باہر آیا تو آپ کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا اور خاموشی سے آپ کا منہ دیکھنے لگا.آپ نے فرمایا: ” یہ شخص کہتا ہے کہ اس کے پیسے آپ کی طرف نکلتے ہیں.یہ ایک مسافر ہے آپ اس کا حق کیوں نہیں دیتے ؟“ اس وقت ابو جہل کا رنگ فق ہو رہا تھا.کہنے لگا: " محمد ! ٹھہرو، میں ابھی اس کی رقم لا تا ہوں.“ چنانچہ وہ اندر گیا اور اراشہ کی رقم لا کر اسی وقت اس کے حوالے کر دی.
توہین رسالت کی سزا (245 } قتل نہیں ہے وہ آدمی ، جسے انہوں نے اراشہ کے تعاقب میں بھیجا تھا، جب واپس رؤسائے قریش کے پاس آیا تو انہوں نے اس سے روئیداد سنی.اس آدمی نے انہیں بتایا : ” واللہ ! میں نے تو ایک عجیب نظارہ دیکھا ہے اور وہ یہ کہ جب محمد (صلی ﷺ نے جاکر ابو الحکم کے دروازے پر دستک دی تو ابو الحکام نے باہر آکر محمد (صلی ) کو دیکھا تو اس وقت اس کی حالت ایسی تھی کہ گویا ایک قالب بے روح ہے اور جو نہی کہ اسے محمد (صلی ﷺ) نے کہا کہ اس کی رقم ادا کر دو، اسی وقت اس نے اندر سے لا کر پائی پائی اس کے سامنے رکھ دی.“ تھوڑی دیر کے بعد ابو جہل بھی اسی مجلس میں آپہنچا.اسے دیکھتے ہی سب لوگ اسے طعنے دینے لگے کہ اسے کیا ہو گیا تھا کہ وہ محمد (صلی للی ) سے اس قدر ڈر گیا.اس نے کہا: ”خدا کی قسم! جب میں نے محمد (صلی یکم) کو اپنے دروازے پر دیکھا تو مجھے یوں نظر آیا کہ اس کے ساتھ لگا ہوا ایک مست اور غضبناک اونٹ کھڑا ہے اور میں سمجھتا تھا کہ اگر ذرا بھی چون و چرا کروں گا تو وہ مجھے چبا جائے گا.“ (سیرت ابن ہشام، جزو اول، صفحہ : 258 ، 259 زیر عنوان ابو جہل والا راشی.الناشر مکتبہ التوفيقيه الازهر مصر ) یہ واقعہ رسول اللہ صلی الیکم کی اس طاقت کا ترجمان ہے جو آپ کو خاص طور پر اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی.یہ طاقت ایسی تھی جس کے سامنے دنیا کی ہر طاقت بے زور وبے حیثیت تھی.اس طاقت کو آپ کے مخالف اور آپ کے اردگرد لوگ اچھی طرح محسوس و مشاہدہ کرتے تھے.چنانچہ بدر کی لڑائی کے لئے جب مکہ کے رؤساء اور جنگجو لوگ تیار ہوئے تو ابو لہب اور امیہ بن خلف جو وہاں کے بڑے رؤساء میں سے تھے اور رسول اللہ صلی یی کم اور آپ کے صحابہ پر تشدد میں بھی پیش پیش تھے ، جنگ میں جانے سے خوفزدہ بلکہ لرزاں تھے.آپ کا سامنا کرتے ہوئے انہیں جیسے موت سامنے کھڑی دکھائی دیتی تھی.انہیں رسول اللہ صلی الیکم کی پیشگوئیوں کے
توہین رسالت کی سزا { 246 } قتل نہیں ہے باعث چڑھے ہوئے سورج کی طرح یقین تھا کہ اگر وہ جنگ میں شامل ہوئے تو لازماً قتل ہوں گے.۴: آپ کے ہمراہ الہی طاقت کا ایک اور مظاہرہ 7ھ کا واقعہ ہے کہ رسول اللہ صلی یکم غزوہ ذات الرقاع سے واپس جانب مدینہ رواں تھے.راستے میں دو پہر ایک وادی میں پڑی.آنحضرت صلى العالم قیلولے کے لئے یہیں اتر گئے.صحابہ بھی سستانے کے لئے درختوں کا سایہ تلاش کرتے ہوئے ادھر ادھر بکھر گئے.آپ نے ایک بول کے درخت پر اپنی تلوار لٹکائی اور آرام فرمانے لگے.ابھی کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ ایک شخص آیا.اس نے آپ کی تلوار اتار لی.آپ بیدار ہو گئے.وہ شخص تلوار سونت کر کہنے لگا: ” اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا؟“ آپ نے فرمایا : ”میرا اللہ.“ آپ کے اس جواب میں نصرت الہی کی کوئی ایسی تجلی تھی کہ وہ آپ کے اس پر اعتماد جواب کی ایسی خارق عادت ہیبت اس پر طاری ہوئی کہ وہ لرز گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.آپ نے تلوار اٹھائی اور اسے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ” اب مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے ؟“ اس پر وہ آپ سے عفو و در گزر کی درخواست کرنے لگا اور آپ کے قدموں میں بیٹھ گیا.آپ نے فرمایا: ”کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں.اس نے جواب دیا : ”میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ ان لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں.“ آپ نے اسے چھوڑ دیا.حضرت جابر بیان فرماتے ہیں کہ اس شخص نے واپس جا کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ ایک ایسے شخص کے پاس سے آیا ہے جو دنیا میں سب سے بہتر ہے.( بخاری کتاب المغازی غزوہ ذات الرقاع و کتاب الجہاد باب من علق سيفه والسيرة الحلبية غزوة ذات الرقاع )
توہین رسالت کی سزا { 247 | قتل نہیں ہے رسول اللہ صلی ال نیم کے ہمراہ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کی ایسی خارق عادت تائید و طاقت کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح گمان کیا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ کبھی اسلام میں ضعف تھایا آپ کمزور تھے.آپ نے ہمیشہ باوجود غالب ، قوی اور با اختیار ہونے کے آپ پر جان لیوا حملے کرنے والے ہر دشمن کو بخش دیا اور یہاں مذکورہ بالا واقعے میں بھی ایسے ہی ایک جانی دشمن پر عفو و رحمت کا دامن وسیع کر دینا جو آپ پر قتل کے لئے تلوار سونت چکا تھا، آپ کی عالمین کی وسعتوں سے وسیع تر رحمت کا عکاس ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ کو اگر کسی نے کبھی تکلیف پہنچائی تو آپ نے اس سے ہر گز انتقام نہیں لیا.ہاں جب اللہ تعالیٰ یا اس کے محارم کی ہتک یا بے حرمتی کی جاتی تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے تھے.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعد تم الاثام......) رسول اللہ صلی الم کی طرف قتل و خون کی کہانیوں پر مشتمل جعلی اور وضعی روایتیں تراشنے والے اور ان روایتوں کو ہر ممکن سچا ثابت کرنے کی سعی کرنے والے اور انہیں آپ کی طرف منسوب کرنے والے کاش دیکھتے کہ رسول اللہ صلی الیم نے اپنی ساری زندگی میں صرف معدودے چند افراد کے لئے سزائے موت کا اعلان فرمایا تھا.انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ ان واقعات کے جواز میں قوی دلائل پیش کر کے ثابت کرتے کہ آپ کی تجویز کردہ ان سزاؤں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے محارم کی بے حرمتی تھی یا قصاص تھا.یا پھر کوئی قومی جرائم تھے ، جن کی پاداش میں انہیں یہ سزائیں سنائی گئی تھیں.مگر انہوں نے ان سزاؤں کو بھی اور ان کے ساتھ وضعی روایات کے ڈھیر کو بھی رسول اللہ صلی یکم کی پاک سیرت کو داغدار کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا اور دنیا میں وہ کہ وه کامل م کر دکھایا جو منشائے رسول کے خلاف تھا.جس سے بچنے کے لئے آپ واضح طور پر اظہار فرما چکے تھے کہ لِئَلَّا يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَه“ تاکہ ایسا نہ ہو کہ لوگ یہ باتیں کریں کہ محمد (صلی للی ) اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں.مگر یہ لوگ وہ ہیں جنہوں
توہین رسالت کی سزا 248 قتل نہیں ہے نے رسول اللہ صلی علیم کی اس سچی اور پاک خواہش کے علی الرغم یہ ثابت کرنے کی کوششیں انتہاء تک پہنچادیں کہ واقعۂ آپ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتے تھے.اناللہ وانا الیہ راجعون ۵: ایک بڑی فوج کے مقابل پر تنہا غزوۂ حسنین کے موقعے پر اسلامی لشکر بارہ ہزار افراد پر مشتمل تھا.یعنی اس میں دس ہزار وہی قدوسی تھے جو فتح مکہ کے لئے آپ کے ہمراہ تھے اور دو ہزار افراد مکہ سے بھی شامل ہو گئے تھے.پہلے کبھی بھی اسلامی لشکر اتنی بڑی تعداد کو نہیں پہنچا تھا.اس کثرت کو دیکھ کر بعض لوگوں کو فخر بھی ہوا اور عجب بھی.ایک شخص نے یہ بھی کہا: ”آج نَغْلِبَ الْيَوْمَ مِنْ قِلَّةٍ " کہ آج ہم کم تعداد کی وجہ سے نہیں جیتیں گے.یہ ایک نخوت کا کلمہ تھا جو کسی کی زبان سے ادا ہو گیا تھا.ظاہر ہے کہ اس میں یہ اظہار تھا کہ پہلے تو اسلامی لشکر کو کم تعداد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی لیکن اب ہماری تعداد ہی اتنی زیادہ ہے کہ اللہ تعالی کی مدد کے بغیر بھی ہم جیت جائیں گے.ایسا اظہار آنحضرت صلی ایم کے مزاج اور فطرت کے قطعی خلاف تھا.چنانچہ لکھا ہے: ”فَشَقَ ذلِكَ عَلَى النَّبِی الله الله ابن سعد و زرقانی غزوه حنین) کہ یہ کلمہ معجب آنحضرت صلی للی کم پر شاق تھا.اللہ تعالیٰ کو تکبر ویسے ہی پسند نہیں اس لئے اسلامی لشکر میدانِ جنگ میں اس کے نتائج سے بری نہ ہو سکا.اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَيَوْمَ حُنَيْن لا إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ“ (التوبة:25) کہ حنین کا دن، جب تمہاری کثرت نے تمہیں عجب میں مبتلا کر دیا تھا.اسلامی لشکر جب حسنین کے میدان میں پہنچا تو ارد گر د کمین گاہوں میں چھپے ہوئے دشمن کے تیر اندازوں نے دیکھا کہ وہ ان پر خوب بھر پور حملہ کر سکتے ہیں اور وہ عین ان کے نشانہ پر ہیں تو انہوں نے یکدم تیروں کی بوچھاڑ کر دی.اسی لمحے اس کی دیگر فوج نے بھی ان کے ساتھ یکجان ہو کر بھر پور حملہ کیا.گلے کے نو مسلم جو اسلامی فوج میں افراد کی کثرت دیکھ کر اس میں
توہین رسالت کی سزا 249} قتل نہیں ہے شامل ہو گئے تھے اور سمجھتے تھے کہ آج بہادری کے جوہر دکھائیں گے ، اس ناگہانی حملے سے بوکھلا گئے اور اس کی شدت سے حواس باختہ ہو کر واپس لگنے کی طرف بھاگنے لگے.پرانے مسلمان تو اس قسم کے شدائد کے مقابلے کے عادی تھے.مگر دو ہزار نو مسلم اور ان کے ساتھ مشرک بھی جب سہ طرفہ پر زور حملے سے اپنے گھوڑوں اور اونٹوں سمیت پلٹ کر بھاگے تو ان کی بھگدڑ کے باعث اصل اسلامی لشکر کے گھوڑے اور اونٹ بھی بدک گئے.اس طرح سارا لشکر ہی بھگدڑ کا شکار ہو کر پیچھے کی طرف بھاگا.صرف چٹانوں سے زیادہ مضبوط اور پہاڑوں سے زیادہ راسخ ، آنحضرت صلیالی کم کی اولوالعزم ذات تھی جو نیزوں اور تیروں کی اس سہ رخی بوچھاڑ میں پورے وقار کے ساتھ ایستادہ تھی.آپ دو زر ہیں اور خود پہنے ہوئے سفید خچر پر سوار، ڈھال تھامے ہوئے ، بر اور است خدا تعالیٰ کی حفاظت میں سینہ سپر تھے.آپ کے رنگ میں رنگین صحابہ بھی ہر حالت میں آپ پر جان نچھاور کرنے والے تھے.ان میں سے چند وہ تھے جو بھگدڑ کے ریلے میں کسی قدر اِدھر اُدھر ہو گئے تھے لیکن چند ثانیوں میں ہی آپ کی طرف لپک آئے تھے.بعض وہ تھے جو سواریوں کی سرکشی کے باعث ان سے کود کر فوڑا آپ کے پاس پہنچ گئے تھے اور بہت سے وہ تھے جو سواریوں کو بزور موڑ کر آپ کے ارد گرد آنے کے لئے جد و جہد میں تھے.ادھر آنحضرت صلی للی کم بارش کی طرح برستے نیزوں اور تیروں میں بارہ ہزار میں سے چند جانثار صحابہ کے ساتھ کھڑے تھے.شروع میں حضرت ابو بکر ، حضرت عمر، حضرت علی، حضرت عباس، حضرت ابو سفیان بن الحارث ، ان کے بیٹے حضرت جعفر بن ابی سفیان، ابو سفیان کے بھائی حضرت ربیعہ بن حارث، حضرت اسامہ بن زید اور حضرت ایمن بن عبید رضی اللہ عنہم آپ کے پاس تھے.( ابن ہشام وزرقانی غزوہ حنین )
توہین رسالت کی سزا { 250 ) قتل نہیں ہے تیروں کی اس موسلا دھار بارش سے بچاؤ کا بظاہر ایک ہی ذریعہ تھا کہ پیچھے ہٹ جایا جائے جہاں ایک تنگ راستہ تھا اور اس میں سے بھی ایک وقت میں چند آدمی ہی گزر سکتے تھے.اس کے سوا بچنے کا ہر راستہ مسدود بھی تھا اور پُر خطر بھی ، لیکن یہی لمحہ تھا جو فیصلہ کن تھا.چنانچہ اسی لمحے رسول اللہ صلی علیم نے بجائے بچاؤ کی راہ اختیار کرنے کے اپنی سواری کو ایڑ لگائی اور سرعت سے اس جانب مزید آگے بڑھنا شروع کر دیا جو تینوں جانب سے تیروں کے عین درمیان تھی.یہاں آپ نے ایک پر جلال آواز کے ساتھ فرمایا: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَابْنُ عَبْدِ المُطَّلِب“ کہ میں ایک نبی ہوں، میں جھوٹا نہیں ہوں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.اس پر جلال آواز میں پیغام تھا کہ میں اللہ تعالیٰ کا سچا نبی ہوں.اسی ناتے خدا تعالیٰ میری مدد بھی فرماتا ہے اور حفاظت بھی.اس میں ایک ذرہ برابر بھی شک کی گنجائش نہیں ہے.اور یہ دعوی آج میں نیزوں کی انیوں، تیروں کی نوکوں اور تلواروں کی دھاروں پر بلند کر رہا ہوں اور یاد رکھو اس وقت موت کے خطر ناک مقام پر کھڑا ہو کر بھی دشمن کے حملے سے محفوظ ہوں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھے خدائی کا مقام دے دو.میں تو صرف ایک انسان ہوں اور تم جانتے ہو کہ میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں اور خدا تعالیٰ کا ایک بندہ ہوں.آپ کے ساتھ کونسی طاقت تھی ؟ اس کا اعلان آپ نے کچھ دنوں پہلے ہی یعنی فتح مکہ کے وقت بھی اور بعد میں حجتہ الوداع کے موقع پر بھی فرمایا تھا کہ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَ نَصَرَ عَبْدَهُ وَ هَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے.اللہ تعالیٰ کے سوا
توہین رسالت کی سزا { 251 ) قتل نہیں ہے کوئی معبود نہیں اور وہ ایک ہے.جس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور اپنے بندے کی نصرت فرمائی اور صرف اسی اکیلے نے تمام لشکروں کو شکست دی.(بخاری کتاب الحج باب من لم يقرب الکعبۃ ) یعنی آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ تھا اور اسی کی طاقت تھی جس نے آپ کو ہر میدان اور ہر موقع پر فتح نصیب بنایا تھا.بہر حال حنین کے میدان میں اس اعلان کے بعد آپ نے حضرت عباس کو بلایا.ان کی آواز بلند تھی.آپ نے فرمایا عباس! بلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے میرے وہ ساتھیو! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی.اور اے وہ دوستو ! جو سورۃ البقرہ کے زمانہ سے ( یعنی اسلام کے بالکل ابتدائی زمانہ سے جب سورۃ البقرہ کا نزول ہوا) مسلمان ہو.خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.آپ نے اپنی سواری سے نیچے اتر کر زمین سے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور دشمن کی طرف پھینکیں اور فرمایا شَاهَتِ الوُجُودُ “ کہ دشمنوں کے چہرے بگڑ جائیں، اب زور دار حملہ کر و دار دشمن پر خوب وار کرو.یہ آواز سنتے ہی صحابہ نے ٹوٹ کر ایسی بے خودی سے حملہ کیا کہ دشمن شکست کھا کر پسپا ہو گیا.(مسلم کتاب الجہاد با غزوة حنين و سنن الدار می کتاب السیر ) رسول اللہ صلی علیم کے پاک وجود میں اللہ تعالیٰ کی جو تجلی اور طاقت غزوہ حنین کے روز تھی اور جس کے ساتھ آپ اکیلے ہی ہر طاقت پر غالب تھے ، وہی طاقت روز اول سے آپ کے شامل حال تھی.اس حقیقت کو جھٹلا کر آپ کے بارے میں ایسا تبصرہ کہ آپ نے کسی سے انتقام اس لئے نہ لیا یا کسی کو سزا اس لئے نہ دی یا کسی سے لڑائی اس لئے نہ کی یا کسی کو قتل اس لئے نہ کرایا کہ اس وقت اسلام یا مسلمان کی حالت ضعف کی تھی، دشمنانِ اسلام اور دشمنانِ رسول کا فعل ہے.ایسا تبصرہ آپ کی پاک ذات پر بد نما داغ لگانے کی بد نما جسارت ہے.الغرض اسی نوع
توہین رسالت کی سزا { 252 ) قتل نہیں ہے کے دیگر واقعات میں سے ایک ایک واقعہ ببانگ دہل ان لوگوں کی تردید کرتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للی یم نے اس خوف کی وجہ سے کسی کو قتل نہ کیا کہ اسلام حالت ضعف میں تھا.اصل بات یہ تھی کہ آپ کو حکم خداوندی صرف صبر کا تھا.سچائی کے ساتھ اگر صبر کی طاقت ہو تو وہ ہر دوسری طاقت سے زیادہ طاقتور ہے جو کامیابی سے شرطیہ ہمکنار کرتی ہے.رسول اللہ صلی یکم کی کامیابی اور فتوحات اس حقیقت کا عملی ثبوت ہیں.پس رسول اللہ صلی العلیم نے عبد اللہ بن ابی بن سلول وغیرہ توہین کے مر تکب لوگوں کو اسی وجہ سے قتل نہیں کیا تھا کہ تا اس جواز کو ہی ختم کر دیا جائے اور تا ایسا نہ ہو کہ تو ہین اور سب و شتم کرنے والے کو لوگ قتل کرناشروع کر دیں.رسول اللہ صلی الیم نے عفو و در گز اور صبر ورحمت کے جذبات اور قربانیوں اور دعاؤں کے آنسوؤں کے ساتھ جو بند باندھا تھا، اپنے ہی دوستوں“ نے کمزور اور جعلی روایتوں کے بھالوں سے اس میں حتی الامکان شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے.رسول اللہ صلی الم کے صبر و ضبط اور عفو و در گزر کے غیر معمولی نمونوں کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نظر بصیرت ایسے فتنوں کو دیکھ رہی تھی جو آپ ہی کے لئے ایسے جذبات کی بنیاد پر جھوٹے اور ظالمانہ رُخ اختیار کرنے والے تھے.جن ہتھیاروں سے جہاں انسان پر توہین رسول کے الزام لگا کر قتل و خون کا بازار گرم کیا جانے والا تھا، وہاں انہی ہتھیاروں کے ذریعے اسلام اور مقدس بانی اسلام کی پاک ذات پر حملوں کے لئے غیر مسلموں کی قلمیں اور زبانیں غلاظت اگلنے والی تھیں.اور آج یہ منظر اپنی پوری جولانی کے ساتھ دنیا کے سامنے ہے.العیاذ باللہ.الحفیظ والامان
توہین رسالت کی سزا { 253 ) قتل نہیں ہے یہودی کا السّامُ عَلَیک کہنا الصارم...میں یہ واقعہ تین طرح کی روایتوں کے ساتھ لکھا ہے.ایک روایت حضرت عائشہ کی بھی ہے.آپ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی للی نیم کے پاس چند یہودی آئے اور کہا: السامُ عَلَيْكَ.آپ فرماتی ہیں کہ میں سمجھ گئی کہ انہوں نے کیا کہا ہے.چنانچہ میں نے جواب میں کہا: عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، اس پر رسول اللہ صلی یکم نے فرمایا: ”اے عائشہ !ذرا ٹھہرو، إِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرَّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِهِ کہ اللہ تعالیٰ بردبار ہے اور ہر کام میں بردباری کو پسند فرماتا ہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: ”یارسول اللہ ! جو انہوں نے کہا تھا، کیا آپ نے سنا نہیں؟“ آپ نے فرمایا: ” میں نے بھی تو وَعَلَيْكُمْ کہہ دیا تھا.“ الصارم.....زیر عنوان، تحیۃ الیہود للرسول وصحبہ ، صفحہ 150،151) " معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے اس یہودی کو جواب میں عَلَيْكُم “ کہا تھا جو کسی طرح کتابوں میں وَعَلَيْكُم لکھ دیا گیا ہے.کیونکہ وَعَلَيْكُم کا معنی و مطلب ہے ” اور تم پر بھی“.لیکن 'و' کے بغیر عَلَيْكُم کا معنی ہے ”تم پر.چنانچہ قاضی عیاض اپنی کتاب الشفاء میں جو روایت لائے ہیں ، منطقی اور واقعاتی لحاظ سے وہ زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ” قال، اِنَّ الْيَهُودَ إِذَا سَلَّمَ اَحَدَكُمْ يَقُولُ اَلسَّامُ عَلَيْكُمْ، فَقُولُوا عَلَيْكُمْ “ ( الشفا....فصل في اسباب عفوم صلى الليلم عن بعض من اذاه مکتبه الغزالی دمشق و دار الفيحاء - الطبعة الاولی 2000ء) کہ رسول اللہ صلی ال ولیم نے فرمایا کہ اگر کوئی یہودی تمہیں سلام کی بجائے السّامُ عَلَيْكُمْ کہے تو تم اسے جواباً علیکم کہہ دیا کرو.اس میں عَلَيْكُمْ کے ساتھ 'و' نہیں ہے.واللہ اعلم
توہین رسالت کی سزا { 254 ) قتل نہیں ہے لفظ الشام کے معنی 'موت' کے ہیں.کتب حدیث میں اس مضمون کی مختلف روایات درج ہیں.نیز تین مختلف روایات الصارم.......میں بھی درج ہیں.ان سے محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایسا واقعہ ایک سے زائد مرتبہ ہوا ہے.بہر حال یہ ایک بار ہوا یا جتنی بار بھی ہوا ہے ، یہود کی طرف سے ہر بار سخت گستاخی کا مظاہرہ تھا.رسول اللہ صلی اللی ایم نے ایسا کرنے والے کی الفاظ کی اوٹ میں چھپی نیت کو بھانپ کر اسے ویسا ہی جو اب لوٹایا.مگر یہ بالکل ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اسے نہ قتل کروایا اور نہ ہی کوئی اور سزا دینے کا ارشاد فرمایا.یہ روایت رسول اللہ صلی ایم کی سیرت کے حسین در بچوں سے صبر ، جذبات غضب پر حیرت انگیز ضبط، عفو و در گزر ، وسعتِ قلبی اور اعلیٰ ظرفی وغیرہ خوبیوں کے دلکش رنگ دکھاتی ہے.آپ ایک فتح مند ، تمام دنیوی طاقتوں کے جامع اور دنیوی جاہ و جلال کو اپنے قدموں تلے رکھنے والے شہنشاہِ دو عالم تھے جو کسی بھی گستاخ کو کسی بھی نوع کی سزا دینے پر قادر تھے.مگر قربان جائیں اس صبر وضبط کے عالی مرتبت پیکر پر جو گستاخ کی گستاخی کو بغیر کسی جسمانی گزند کے اس طرح اس کی طرف واپس لوٹا دیتا ہے کہ وہ اسی کے منہ پر الٹ جاتی ہے.اس کے ساتھ وہ دوسروں کو اس گستاخ پر سختی کرنے سے بھی کلیتہ روک دیتا ہے.یہ وسیع دل ہے اور یہ پاک نمونہ ہے حبیب کبریا حضرت محمد مصطفیٰ صلی ای کم کاجو دنیا میں تمام انسانیت کی اور ہر انسانی خون کی حفاظت کرنے والا تھا.مگر افسوس ہے کہ آپ کی پاک سیرت کو چھپانے کے لئے یا اس گستاخ کو سزا نہ دینے یا قتل نہ کرنے کا جو انتہائی لاغر اور فضول جواز پیش کیا گیا ہے ، یہ ہے : " إِنَّ هَذَا كَانَ فِي حَالِ ضُعْفِ الْإِسْلَامِ أَلَا تَرَى أَنَّهُ قَالَ لِعَابِشَةَ: مَهْلًا يَا عَابِشَةُ ، فَإِنَّ اللَّهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِكُلِهِ (ايضا صفحہ 151:) کہ یہ اسلام کے ضعف کے حال کی بات ہے.کیا تو یہ نہیں دیکھتا کہ رسول اللہ صلی الم نے حضرت عائشہ سے یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ بردبار ہے اور ہر کام میں بردباری و نرمی کو پسند فرماتا ہے.
توہین رسالت کی سزا (255 } قتل نہیں ہے جیسا کہ پہلے مستند واقعات اور قطعی حقائق سے ثابت کیا جا چکا ہے کہ اسلام کبھی بھی ضعف کی حالت میں نہ تھا.اس بارے میں یہاں مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.مگر آگے جاکر كتاب الصارم.....میں اپنے اس جواب کی تائید میں چند نام پیش کر کے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جواب ان مالکیوں، شافعیوں اور حنبلیوں نے بھی پیش کیا ہے.پھر اس پر خود ہی گونہ تنقید کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ جواب محل نظر ہے کیونکہ یہ واقعہ کعب بن اشرف کے قتل کے بعد کا ہے اور اس وقت تو اسلام طاقت پکڑ چکا تھا.یعنی خود ایک طرح سے جواب بھی تحریر کیا ہے اور ساتھ معلوم بھی ہے کہ بات بن نہیں رہی.اس لئے یہ بھی ساتھ ہی لکھ دیا ہے کہ یہ جواب محل نظر ہے.مگر اس سب کچھ کے باوجود اپنی دلیل وہیں رکھی ہے کہ ضعف اسلام کے باعث گستاخ کو سزا نہ دی گئی تھی.یہاں جملہ معترضہ کے طور پر عرض ہے کہ کتاب ' الصارم......اپنی پہلی دلیل کو بھول چکی ہے کیونکہ جب ابی بن ابی سلول نے گستاخی کا کلمہ کہا تھا تو وہ 5ھ میں کہا تھا اور وہاں اس کتاب میں دلیل یہ قائم کی گئی تھی کہ اس وقت اسلام ضعف میں تھا اس لئے سزا نہیں دی گئی.جبکہ کعب کا واقع 2ھ کا ہے.یہاں یہ کہا جارہا ہے کہ کعب کے زمانہ میں اسلام طاقت پکڑ چکا تھا.اس صورتحال میں یہ واضح ہے کہ یہ لکھنے والے خود اپنے اندر ہی تضاد و ابہام کا شکار ہیں.رسول اللہ صلی الیم نے اس یہودی کو قتل نہیں کیا یا قتل کی اجازت نہیں دی، تو آپ کے اس عمل سے چونکہ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ شدید گستاخوں کو جو آپ کے روبرو بھی آپ پر موت بھیجتے تھے ، آپ اپنی رحمت خاص سے انہیں سزا نہیں دیتے تھے.اس لئے حسب ذیل جواز نکالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ایسی گالی نہیں تھی کہ جس سے عہد ٹوٹ جاتا ہے.( جیسا گزر چکا ہے.یہ قتل کا جواز اس طرح بھی نکالتے ہیں کہ عہد توڑنے کی وجہ سے ناقض عہد
توہین رسالت کی سزا 256 | قتل نہیں ہے قتل کیا جاتا ہے ).یعنی کسی نہ کسی بہانے کوئی جواز نکالا جاتا ہے.ساری کتاب میں روایات اور استدلالات سے اسی طرح کھیلا گیا ہے اور ہر روایت کو پر کھنے کا معیار الگ الگ بنایا گیا ہے.اس واقعے کے بارے میں ایک روایت یہ بھی ہے کہ جب صحابہ نے سنا کہ یہودی نے السَّامُ عَلَيْك کہا تو صحابہ نے اسے قتل کرنے کی اجازت چاہی.جو آپ نے نہیں دی.اس پر تبصرہ یہ کیا گیا ہے کہ اس سے یہ بہر حال ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ایسی گستاخی کی سزا قتل سمجھتے تھے.مگر رسول اللہ صلی الیم نے چونکہ منع کر دیا اس لئے انہوں نے قتل نہ کیا.یہ تضاد ہے جو اس واقعے پر بحث میں موجود ہے جو اس کتاب میں کی گئی ہے.ایک طرف یہ کہا جارہا ہے کہ یہ گالی ایسی نہیں تھی کہ جس کی وجہ سے قتل کیا جاتا اور دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ایسی گستاخی کی سزا قتل سمجھتے تھے.(ایضا صفحہ : 150 تا 152) یعنی صحابہ کے نزدیک وہ گالی اس معیار کی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ یہودی واجب القتل تھا.یہاں گالیوں کا معیار بھی زیر بحث ہے کہ کس معیار کی گالی ہو تو عہد ٹوٹے گا اور اس کی بناء پر وہ شاتم قتل کیا جائے گا.گالی اس معیار سے کم ہو گی تو عہد نہیں ٹوٹے گا لہذاوہ قتل نہیں کیا جائے گا.یہاں یہ بحث تو نظر آتی ہے مگر یہ کہیں نظر نہیں آتا کہ گالی کے معیار کا فیصلہ کون کرے گا؟ اس پر کسی فیصلے کو نہ پاکر ہر قاتل تلوار اٹھائے پھر تا ہے اور اپنا فتوی صادر کر کے کشت وخون کی ہولی کھیلتا چلا جاتا ہے.اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ یہ لوگ رسول اللہ صلی ال نیم کے فیصلے کو قبول نہ کر کے یا اس پر اپنے من پسند جوازوں کے پر دے ڈال کر آپ کی منشاء کے بر خلاف بحثوں میں الجھ گئے ہیں اور قتل و خون کو آپ کی طرف منسوب کرنے کی جسارت کرتے چلے جاتے ہیں.
توہین رسالت کی سزا { 257 ) قتل نہیں ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اس واقعے کو کسی بھی پہلو سے دیکھ لیں.اس سے ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ صحابہ ایسی گستاخی کی سزا قتل سمجھتے تھے.بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ میں سے کسی ایک، دو یا چند نے اپنے پیارے محبوب نبی صلی علیکم کے لئے محبت و غیرت میں غصے کی وجہ سے اس یہودی کو قتل کرنے کے لئے اجازت چاہی مگر رسول اللہ صلی نیلم نے اپنے واضح اور دوٹوک فیصلے سے ثابت فرمایا کہ ان کے اظہارِ غیرت کا یہ رُخ درست نہیں ہے.لہذا آپ نے ان کو قتل کرنے کی اجازت نہ دی.آپ نے یہ ثابت فرمایا کہ حکم الہی کے مطابق ہر اذیت اور تکلیف کے وقت صبر اور عفو کا دامن نہیں چھوڑنا.اپنے کسی عمل سے غیر وں کو یہ موقع نہیں دینا کہ وہ یہ بات کر سکیں کہ محمد (صلی ) اپنے لوگوں کو قتل کرواتے تھے.جہانتک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ کوئی ایسی گالی نہ تھی کہ جس سے عہد ٹوٹ جاتا ہے.( یعنی کوئی معیاری گالی ہو گی تو عہد ٹوٹے گا اور پھر عہد توڑنے والا قتل کیا جاتا ہے) یہ استدلال بھی غلط ہے.کیونکہ ہلاکت کی بددعا بھی ایک بدترین گالی ہے.اگر یہ گالی نہیں ہے تو اس کے بالمقابل باقی اکثر واقعات جنہیں وضعی روایات میں مختلف افراد کے قتل کی بنیاد بنایا گیا ہے ، ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں رہتی.مثلاً ایک شخص اپنے مقصد کے حل کے لئے رسول اللہ ملی ایم کی طرف ایک خلاف واقعہ بات منسوب کرتا ہے تو اسے صرف اسی بات پر گستاخ قرار دے کر اسے قتل کرنے کے لئے لوگوں کو بھیجا جاتا ہے (دیکھیں روایت نمبر 12).اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو یہ معاملہ بد دعا سے کسی پہلو میں بھی سنگین نہ تھا.مگر بقول الصارم.....اسے قتل کرایا گیا.جبکہ اس کے بر عکس بد دعا دینے والے کو بچایا گیا.الغرض اس کتاب میں اکثر ایسے واقعات درج کئے گئے ہیں جن میں ایسی کوئی بات نہ تھی کہ جس کی وجہ سے کسی کو قتل کیا جاتا.مگر اس پر انتہائی تکلف کے ساتھ سب و شتم کا طغرہ سجا کر اسے بطور جو از پیش کیا گیا ہے.
توہین رسالت کی سزا ( 258 ) قتل نہیں ہے اس واقعے میں حضرت عائشہ شکار و عمل اور یہودی کو جواب دینا بتا تا ہے کہ اس کی یہ بد دعا گالی سے بھی بدتر، بد اثر اور زیادہ چھن رکھتی تھی کہ حضرت عائشہ جیسی متحمل، بردبار اور متوازن عورت بھی تڑپ اٹھی اور رد عمل ظاہر کرنے لگی.ایک شخص کی ایسی بد حرکت کو ایسی گالی قرار نہ دینا جس سے "الصارم......کا مزعومہ عہد نہیں ٹوٹتا، عمد اسچائی چھپانے کے برابر ہے.بغض و عناد میں لیٹی ہوئی اس شخص کی بد دعا خو درسول اللہ صلی الیم نے بھی شدت سے محسوس کی تھی.جس کے لئے آپ نے فوراً اسی پر شدت رو عمل کے طور پر اپنے ان طبعی جذبات رحمت کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ نرمی اختیار کرنا ہر دوسرے جذبے سے بہتر ہے کیونکہ اللہ تعالی خود حلیم و بردبار ہے وہ نرمی کو پسند فرماتا ہے.علاوہ ازیں اسی مذکورہ بالا عادت یہود کے تسلسل میں حضرت عبد اللہ بن عمر کی ایک روایت ہے جو شاتم رسول کے سزا کے فلسفہ پر تفصیلی روشنی مہیا کرتی ہے.یہ روایت تفسیر در منثور میں مسند احمد اور طبرانی وغیرہ کتب کے حوالہ سے زیر آیت " وَإِذَا جَاؤُوكَ حَيَوكَ بِمَا لَمْ يُحَيَّكَ بِه الله (المجادلہ: 9) درج ہے.در منثور میں اس کی سند کو محقق کے حوالہ سے حسن قرار عليه دیا گیا ہے.چنانچہ لکھا ہے ” عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا يَقُولُونَ لِرَسُوْلِ اللَّهِ على الله سَامٌ عَلَيْكَ يُرِيدُونَ بِذَلِكَ شَتْمَهُ، ثُمَّ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ: لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ - فَنَزَلَتْ هذِهِ الْآيَةُ : " وَإِذَا جَاؤُوكَ حَيَوكَ بِمَا لَمْ يُحَيِّكَ بِهِ الله (الدر المنثور ، لامام السیوطی مطبوعہ مرکز ہجر والدراسات العربية والاسلامیة- تفسیر سورۃ المجادلہ ) کہ یہودی رسول اللہ صلی علیم کی پاس آتے تو آپ کو ”سَامٌ عَلَيْكَ “ کہتے.یعنی آپ پر موت آئے.اس سے ان کا ارادہ آپ پر ختم ہو تا تھا.پھر اپنے
توہین رسالت کی سزا ( 259 ) قتل نہیں ہے آپ سے کہتے (یا آپس میں بات کرتے) کہ (اگر یہ سچا نبی ہے تو) جو ہم کہتے ہیں اس کی وجہ سے اللہ ہمیں عذاب میں کیوں مبتلا نہیں کرتا.تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی.” أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنَاجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَإِذَا جَاؤُوكَ حَيَّوْكَ بِمَا لَمْ يُحَيْكَ بِهِ اللَّهُ وَيَقُولُونَ فِي أَنفُسِهِمْ لَوْلَا يُعَذِّبُنَا اللَّهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ “ (المجادلہ : 9) ترجمہ : کیا تو نے ان کی طرف نظر نہیں دوڑائی جنہیں خفیہ مشوروں سے منع کیا گیا مگر وہ پھر وہی کچھ کرنے لگے جس سے ان کو منع کیا گیا تھا؟ اور وہ گناہ ، سرکشی اور رسول کی نافرمانی کے متعلق باہم خفیہ مشورے کرتے ہیں.جب وہ تیرے پاس آتے ہیں تو وہ اس طریق پر تجھ سے خیر سگالی کا اظہار کرتے ہیں جس طریق پر اللہ نے تجھ پر سلام نہیں بھیجا اور وہ اپنے دلوں میں کہتے ہیں کہ اللہ ہمیں عذاب کیوں نہیں دیتاجو ہم کہتے ہیں ، ان سے نپٹنے کو جہنم کافی ہو گی.وہ اس میں داخل ہوں گے.پس کیا ہی بر اٹھکانا ہے.66 تفسیر در منثور میں مذکور اس روایت کو آیت قرآنیہ کی تصدیق حاصل ہے کہ وہ تجھ پر شتم کے بعد اس کی سزا کا مطالبہ کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس دنیا میں کوئی سزا مقرر نہیں فرمائی.رسول اللہ صلی الی یم نے بھی کسی کو اس وجہ سے سزا نہیں دی.ہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے قرآن کریم میں جو سزا مقرر فرمائی وہ اخروی زندگی میں جہنم کی آگ ہے جس میں وہ جلیں گے.اللہ تعالیٰ جب دنیا میں اپنا نبی اور رسول بھیجتا ہے تو وہ زمین پر اس کا نمائندہ ہوتا ہے.وہ اس کے لئے سب انسانوں سے زیادہ غیرت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ کا نمائندہ ہونے کی وجہ سے اس کی تکذیب و تکفیر یعنی اسے جھوٹا کہنا اور اس کی سچائی کا انکار کرنا اس کی سب سے بڑی توہین ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرسل دنیا میں اپنے وقت کا سب سے سچا انسان ہوتا ہے.اسے
توہین رسالت کی سزا { 260 | قتل نہیں ہے اس پر کذاب یا جھوٹا قرار دینا اللہ تعالیٰ کی شان میں بھی گستاخی ہے اور اس مرسل کی انتہائی تو ہین اور پر کھلا کھلا شتم ہے.اس کے زمانہ میں ایسے لوگ بے شمار ہوتے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ تو ہین وشتم رسول اس کی سزا انسان کے ہاتھ میں دے دیتا تو سب مکذب و مکفر تہ تیغ کر دیئے جاتے.مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے مرسل کو یا اس کے متبعین کو مکہ بین کے قتل کے احکام نہیں دیئے.اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی تکذیب، توہین یا گستاخی کے بدلہ میں بسا اوقات دردناک عذابوں سے بستیوں کی بستیاں ہلاک کر دیتا ہے مگر یہ وہ خود کرتا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس سلوک سے صاف واضح ہے کہ اس نے اپنے نبی اور رسول کی تکذیب اور توہین کی سزا کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں دی.وہ اگر اس دنیا میں کسی کو سزا دیتا ہے تو اپنے طریقوں سے خود دیتا ہے.کسی انسان کو اس کا اختیار نہیں دیتا.پھر اگلے جہان میں انہیں جہنم کی وعید دیتا ہے.الغرض یہ ثابت شدہ سچائی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی کریم صلی لی ہم نے کسی کو توہین رسالت کی سزا میں کسی گستاخ اور شاتم کو قتل کرنے کا کوئی حکم ارشاد نہیں فرمایا.پھر کتاب وو الصارم “ کابل دے دے کر جواز نکالنے کی کوشش کرنا ایک عبث مشق ہے.کیار سول اللہ صلی الین کو گالی پہنچتی ہے ؟ یہ بھی ایک سوال ہے جس کا جواب خود رسول اللہ صلی علیم نے ارشاد فرمایا ہے.اس کا جو جواب آپ نے مہیا فرمایا ہے ، اس قصے کا مکمل حل پیش کرتا ہے.چنانچہ آپ کا اسوہ یہ تھا کہ آپ نے زبان درازی کرنے والوں ، سب و شتم کرنے والوں، لعن طعن کرنے والوں، تو ہین و تذلیل کے مر تکب لوگوں کے ایسے حملوں کا جواب صرف یہ دیا : " أَلَا تَرَوْنَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللهُ 66 عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ ، يَشْتُمُونَ مُذَمَّبًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّبًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ “ ( الارم....زير
توہین رسالت کی سزا 261 } قتل نہیں ہے عنوان ' اللہ تعالی یکمی رسولہ ویصرف عنہ اذی الناس، صفحہ 115) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل الیم نے فرمایا: کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح کفار کی گالیوں اور ان کی لعنت کو مجھ سے دور رکھتا ہے.وہ تو مذ قم کو گالی دیتے ہیں اور مذ تم پر لعنت کرتے ہیں مگر میں تو محمد ہوں صلی ).یہ حدیث بخاری کتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء الرسول صلی اللہ نام سے لی گئی ہے.آپ کا پُر اعتماد اور بینہ پر استوار یہ جملہ ثابت کرتا ہے کہ وہ باتیں یا وہ لقب القاب جو گستاخوں کی جانب سے آپ کی طرف منسوب کئے گئے ، وہ آپ کی طرف نہیں بلکہ ان کے ایک مزعومہ فرد کی طرف منسوب کئے گئے تھے.آپ کی ذات پر چونکہ وہ چسپاں ہی نہیں ہوتے تھے اس لئے وہ گالی اور وہ لعنت آپ کو نہیں پہنچتی تھی.کیونکہ وہ اپنے مزعومہ مذمم کو ایسا کہتے ہیں اور یقیناً آپ وہ نہیں ہیں.آپ ایک الگ محمد وجود ہیں جس کا کسی بھی مذ قم کے ساتھ کوئی مس تک نہیں.آپ کی ذات تذلیل کرنے والوں کے وہم و گمان سے برتر ہے.آپ کا وجو د ہی اور ہے جو ہر پہلو سے محمد ہے.اس کا ہر قول محمد ، ہر فعل محمد، ہر سوچ محمد اور ہر فکر محمد ہے، ملی ایم.کوئی ایسا الزام آپ پر چسپاں ہی نہیں ہوتا.لہذا آپ ان کی توہین سے کلیہ بری ہیں.مذکورہ بالا حقیقت پیش فرما کر آپ نے انتہائی پر اعتماد سچائی کے ساتھ آپ کی طرف منسوب کی گئی ہر منفی بات کا ہمیشہ ہمیش کے لئے رڈ فرما دیا ہے.پس خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ اس فرمان کے بعد در حقیقت کوئی گالی آپ تک نہیں پہنچتی.لہذا اگر کسی نے اپنے زعم میں آنحضرت صلی علی یکم کو گالی دی بھی ہو تو آپ کے اس پیش فرمودہ پر حقیقت اور سچے اصول کے ہوتے ہوئے آپ کو اس کا ہدف قرار دینا، بذاتِ خود آپ کی شان میں گستاخی ہے.آپ کو عمداً ، تکلفا اور زبر دستی اس گالی کا مورد ٹھہرانے کی جسارت ہے.
توہین رسالت کی سزا { 262} قتل نہیں ہے آپ کے اس قول یا بیان فرمودہ اصول میں دراصل آپ کے متبعین کے لئے بڑا واضح سبق تھا کہ دشمن جو بھی اور جب بھی کوئی منفی بات آپ کی طرف منسوب کرنے کی کوشش کرے گا ، وہ آپ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.آپ وہ مزعومہ وجو د نہیں ہیں جس کی طرف کوئی مذمت منسوب ہو سکتی ہو.آپ محمد ہیں (ملی ی ی ی یعنی مجسم حمد اور تعریف.آپ کا نام بھی محمد ہے اور کام بھی محمد.چنانچہ کسی کی منفی بات، گالی گلوچ وغیرہ وغیرہ آپ تک نہ پہنچ سکتے ہیں نہ آپ کی شان میں ذرہ بھر بھی تخفیف یا تنقیص کر سکتے ہیں.کیونکہ آپ نے خود یہ ضمانت فراہم فرمائی ہے کہ " اللہ تعالیٰ مجھ سے کفار کی گالیوں اور ان کی لعنت کو دور رکھتا ہے.“ پس اس ضمانت کو دل سے تسلیم کر کے شاتمین کو قتل کرنے کے غلط عقیدے کو ترک کر کے اسلام کی تعلیم کو اپنانا اور سنت رسول پر عمل کرناضروری ہے.اس سے پہلے اسلام کے خلاف دشمن کو بہت سا مواد مل چکا ہے جس کے ذریعے وہ سید المعصومین رحمتہ للعالمین صلی ال ی م پر ظالمانہ حملے کرتے ہیں.اسلام کی حسین اور عفو و در گزر پر مبنی اور امن و سلامتی پر استوار تعلیم اور اس پر رسول اللہ صلی یی کم کا خوبصورت نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی اور دعوت و عمل کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہے.امت کا فرض ہے کہ وہ شاتم رسول کو معاف نہ کرے!! الصارم.....میں متعدد مرتبہ لکھا گیا ہے : " إِنَّ النَّبِيَّ عَ اللهِ كَانَ لَهُ أَنْ يَعْفُوَ عَمَّنْ شَتَمَهُ وَ سَبَّهُ فِي حَيَاتِهِ، وَلَيْسَ لِلْأُمَّةِ اَنْ تَعْفُو عَنْ ذلِكَ (الصارم.....زير عنوان متى اضمر المنافقوں النفاق، صفحہ 153) کہ نبی کریم صلی للی یکم کا کام تو تھا کہ آپ اپنی زندگی میں آپ پر سب و شتم کرنے والے کو معاف کریں مگر امت کے لئے ایسا نہیں ہے کہ وہ معاف کرے.
توہین رسالت کی سزا { 263 ) قتل نہیں ہے یہ بالکل خلاف قرآن بیان ہے ، غلط تعلیم ہے جو اسوہ رسول صلی کم کے خلاف اور آپ کی اطاعت واتباع سے انکار یا فرار کا بہانہ ہے.صحابہ کے پاک نمونے بھی قطعی طور پر اسے رڈ کرتے ہیں.یہ کشت و خون کے رسیالوگوں کا صرف ایک دعوی ہے جس کے تحقق کے لئے ان کے پاس کوئی ثبوت اور دلیل نہیں.قرآن کریم میں توہین رسول کے مرتکب کی سزا اگر قتل ہوتی تو یہ بالکل ہی نا ممکن تھا کہ رسول اللہ صلی ا یکم اس پر عمل نہ فرماتے.آپ تو كَانَ خُلُقُهُ القرآن، مجتم قرآن تھے.یہ کہنا کہ سزا کے حکم کے ہوتے ہوئے بھی آپ نے اس پر عمل نہ فرمایا، آپ پر قرآن کریم کی تعلیم پر عمل نہ کرنے کا الزام قائم کرنا ہے.یہ ایک بھیانک جسارت ہے جو رسول اللہ صلی علیکم کے خلاف کی جاتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ صحیح مستند تاریخی ریکارڈ میں اور روایات صحیحہ اور صحیح آثارِ صحابہ میں متعدد واقعات ہیں جو انتہائی وضاحت کے ساتھ یہ ہدایت و رہنمائی مہیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے صحابہ کو کسی بھی گستاخ کو سزا دینے کی اجازت عطا نہیں فرمائی.اس کتاب میں بھی ایسے واقعات کا بار بار ذکر ہوا ہے.مگر اس روشن نمونے کے ہوتے ہوئے اس کے بر خلاف ایک واضح ہٹ دھرمی کے ساتھ رسول اللہ صلی ال نیم کے شرعی نمونے کو رڈ کرنے کے نعرے بلند کئے گئے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں بھی کسی نے آپ سے کسی کو قتل کرنے کا پوچھا ہے تو آپ نے اسے اس سے روکا ہے اور اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی.نیز اس کا پوچھنا ہی بتاتا ہے کہ اس کے لئے آپ کی اجازت درکار تھی.کسی کو بھی کھلا اختیار نہ تھا کہ وہ از خود کسی کو قتل کرنے کی جسارت کرتا ہے.الغرض سنت وحدیث رسول واضح طور پر گواہ ہیں کہ آپ ہمیشہ قتل کرنے سے روکتے تھے.کسی کا از خود یہ اختیار لینا آپ کی نافرمانی ہے اور آپ سے آگے ہو جانے کی جسارت ہے.
توہین رسالت کی سزا ( 264 ) قتل نہیں ہے دراصل قتل گستاخ کا یہ جھوٹا نعرہ ایک بد بختی کی جڑ ہے جس میں امت جکڑی گئی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ شارع اسلام نبی خیر الانام صلی الی ہم سے آگے نکل کر ایک نئی شریعت اختراع کی گئی ہے.آپ نے فرمایا تھا ” الاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَابِهِ“ (بخاری کتاب الجہاد و السير باب يقاتل من وراء الامام.....کہ امام ڈھال ہوتا ہے ، اس کے پیچھے لڑا جاتا ہے.اس سے آگے نہیں.لیکن مذکورہ بالا قسم کے خوفناک مقولے تراش کر رسول اللہ صلی علیم سے آگے بڑھا گیا ہے.جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ہم نے پڑھا ہے کہ مستند روایات کا ایک مجموعہ ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ نے بعض جذباتی لمحوں میں قتل کی اجازت مانگنے پر بھی اس کی اجازت نہیں دی.چنانچہ صحابہ کی اطاعت کا یہ کمال نمونہ تھا کہ اپنی انتہائی غیرت کی وجہ سے جن گستاخوں کے قتل کے لئے انہوں نے اپنے حبیب صلی للی نمی سے اجازت طلب کی تھی، ان میں سے کئی ایک ایسے بھی تھے جو آپ کی وفات کے بعد زندہ تھے ، صحابہ نے آپ کے بعد بھی انہیں قتل نہیں کیا.صحابہ کامیہ پاک نمونہ افرادِ امت کے لئے ایک مشعل راہ ہے.رسول اللہ صلی علی نام کے ان نجوم سے رہنمائی کا حصول رشد و ہدایت کا موجب ہے.رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ آپ کی امت تھے اور امت کے اعلیٰ ترین نمونے اور مجسم اطاعت تھے.انہوں نے جب ایسا نہیں کیا اور آپ نے انہیں ایسا کرنے نہیں دیا تو پھر کسی اور کا یہ کہنا کہ ”نبی کریم ملی ایل ایل کا کام تو تھا کہ آپ اپنی زندگی میں آپ پر سب و شتم کرنے والے کو معاف کریں مگر امت کے لئے ایسا نہیں ہے کہ وہ معاف کرے کلیہ ایک جھوٹا نعرہ ہے.ایسے جھوٹے نعرے کا رسول اللہ صلی علی کم اور آپ کے مقدس خلفاء اور صحابہ سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا.صحابہ اطاعتِ رسول میں امت کے لئے بہترین اور سب سے اعلیٰ و اولی نمونہ تھے ، اور انہوں نے ایسا نہیں کیا.
توہین رسالت کی سزا { 265 ) قتل نہیں ہے یہ نعرہ اس وجہ سے بھی قطعی طور پر جھوٹا نعرہ ہے کہ رسول اللہ صلی للی یکم کے خلفاء نے جو آپ کے امتی بھی تھے، کسی کو اس وجہ سے نہ قتل کیا نہ کسی سے کرایا.اپنے خلفاء کے بارہ میں رسول اللہ صلی الیم نے فرمایا ہے : " عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيَّيْنَ تَمَسَّكُوا بِهَا ، وَ عَضُوْا عَلَيْهَا بالتواجد.(سنن ابی داؤد کتاب السنته باب فی لزوم السنته و جامع ترمذی ابواب العلم باب ما جاء في اخذ بالسنۃ واجتناب البدعۃ) کہ تم پر فرض ہے میری اور میرے خلفائے راشدین مہدین کی سنت کو لازم پکڑو، اس سے چمٹے رہو اور اس کو اپنی داڑھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو.اپنے امتیوں کے لئے رسول اللہ صلی علی یم کی یہ تاکید ہے.اگر آپ نے خود شاتم رسول کے قتل کی سنت قائم نہیں کی اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے بھی یہ سنت قائم نہیں کی تو پھر اس کے قائلین کسی کی سنت پر عمل کرنا چاہتے ہیں.رسول اللہ صل الی ایم نے کسی اور کی سنت کا تو ذکر نہیں فرمایا.پس یہ خود تراشیدہ اور گمراہ کن نعرے ہیں جن کا شریعت اسلامیہ اور سنت رسول وسنت خلفاء سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے.یہ نعرہ کس کا ہے اور کس نے اختراع کیا ہے اور کب اختراع کیا ہے ؟ کوئی نہیں جانتا.خلفائے راشدین اور صحابہ میں سے بہر حال کسی کا نہیں ہے.یہ نعرہ یا دعوی یقیناً بعد کی اختراع ہے.یہ ظالمانہ نعرہ اس لئے بھی رڈ کرنے کے لائق ہے کہ یہ دیگر بہت سی آیات کے ساتھ درج ذیل آیات کریمہ کے بھی صریحاً خلاف ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
توہین رسالت کی سزا 266} قتل نہیں ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ کثیرا (الاحزاب:22) ترجمہ: یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے.اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِ يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ وقُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران : 32،33) ترجمہ : تو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا، اور تمہارے گناہ بخش دے گا.اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.تو کہہ دے اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی.پس اگر وہ پھر جائیں تو یقینا اللہ کا فروں کو پسند نہیں کرتا.پھر اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے : "مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ الله (النساء: 81) کہ جو اس رسول کی اطاعت کرتا ہے وہ دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے.الغرض قرآن کریم میں رسول اللہ صلی ا ظلم کی اطاعت کا بار بار حکم آیا ہے.آپ نے جس کام سے اپنی نگرانی میں صحابہ کو بار بار روکا تھا اسے کسی جذباتی مسئلے کی آڑ لے کر جائز قرار دینا آپ کی حکم عدولی ہے بلکہ اوپر والی آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے روگردانی ہے.آپ کے بعد خلفائے راشدین ہیں جن کی سنت پر عمل کی آپ نے تاکید فرمائی ہے.اگر خلفائے راشدین نے بھی ایسا نہیں کیا تو پھر کسی اور امتی کا کوئی حق نہیں ہے کہ وہ قتل وخون کے نعرے تراشے.
توہین رسالت کی سزا 267 } قتل نہیں ہے آنحضرت صلی للی کم کی بعثت کی ایک غرض مکارم اخلاق کی تمیم تھی.آپ نے صبر وضبط کا جو عالی شان نمونہ خود پیش فرمایا وہی خُلق اور وہی وصف آپ اپنی امت میں بھی پیدا کرنے کے خواہش مند تھے اور فی الحقیقت آپ نے وہ اخلاق ان میں اس طرح پیدا فرمائے کہ جس کی نظیر کسی اور نبی کی امت میں نہیں ملتی.مگر افسوس ہے کہ ایک عرصے بعد ان نورانی نمونوں پر گرد ڈالنے کے لئے عجیب و غریب روایات بھی اختراع کی گئیں اور صحیح روایات کی تشریحات بھی الٹ دی گئیں.إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.جہاں یہ صور تحال انتہائی افسوسناک ہے وہاں رسول اللہ صلی علی کلم نے اپنے سچے کو یہ تسلی بھی فراہم کر دی تھی کہ " اَلا تَرَوْنَ كَيْفَ يَضْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ ، يَشْتُبُونَ مُذَمَّبًا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّبًا وَأَنَا مُحَمَّدٌ “ (الصارم.....زیر عنوان اللہ تعالی یمی رسوله و بصرف عنہ اذی الناس، صفحہ 115:) کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مجھ سے کفار کی گالیوں اور ان کی لعنت کو دور رکھتا ہے.وہ تو مذ تم کو گالی دیتے ہیں اور مذ تم پر لعنت کرتے ہیں مگر میں تو محمد ہوں (صلی نیکی).رسول اللہ صلی علیکم کا یہ قول ہمیں یہ ضمانت مہیا فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں کی گالیوں سے بچایا تھا اور آپ ہمیشہ محمد ہی تھے تو آج اپنے ہی دوستوں کی اڑائی ہوئی گرد سے بھی آپ کلیہ پاک ہیں اور تاروز قیامت پاک ہی رہیں گے.انشاء اللہ الله سة رسول اللہ صلی الم کے ناموس کی حفاظت کے لئے آپ سے سچی غیرت، محبت اور فدائیت کا تقاضا یہ ہے کہ قتل و غارت سے اپنے دل و دماغ کو خون آلود کرنے کی بجائے آپ کے پاک اسوے پر عمل کرتے ہوئے آپ کے خصائل و اخلاق کی نقل کی جائے اور آپ کے رنگ اختیار کئے جائیں تا کہ دنیا محسن محمدی سے آگاہ ہو.
توہین رسالت کی سزا 268 | قتل نہیں ہے قرآن کریم کو گالیاں: إِذَا سَمِعَهُ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ “ (بخاری کتاب تفسیر القرآن، باب لا تجبر بصلاتك ولا تخافت بہا) کہ مشرک جب قرآن کریم کی تلاوت سنتے تو اسے گالیاں دیتے تھے.شریعت نے نزول کے اعتبار سے قرآن کریم اور رسول کریم صلی ال یکم کا ایک ہی معاملہ قرار دیا ہے.الصارم....اور اس نوع کی کتابوں میں آپ کی توہین و تنقیص اور سب و شتم کے مسئلے پر بیحد زور دیا گیا ہے مگر جو قرآن کریم کو گالی دیتا ہے ، ان کتب میں اس کا کوئی ذکر نہیں.اس کے لئے کسی غیرت کا اظہار نہیں ہے.حالانکہ قرآن کریم کے گستاخ کو بھی ویسی ہی سزا کا مستحق ہونا چاہئے.جبکہ اسے بالکل مس بھی نہیں کیا گیا.حالانکہ جرم ایک ہی ہے.کیونکہ آیت کریمہ وَإِذَا قِيْلَ لَهُمْ آمِنُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاء هُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِمَا مَعَهُم “ (البقرہ :92) یہ آیت بتاتی ہے کہ جن دلائل و وجوہ سے رسول اللہ صلی للی علم پر ایمان لازم ہے، انہی دلائل و وجوہ سے قرآن کریم پر ایمان لازم ہے.دونوں ނ ہی اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئے ہیں.لہذا اگر ان دلائل کا انکار کریں تو اسلام ہی ہاتھ.نکل جاتا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ”اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اس پر ایمان لے آؤ جو اللہ نے نازل کیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں جو ہم پر اتارا گیا جبکہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں جو اس کے علاوہ اتارا گیا) ہے.حالانکہ وہ حق ہے جو اس کی تصدیق کر رہا ہے جو ان کے پاس ہے.“ پس دلیل کی مساوات پر مدلول کی مساوات ماننی لازمی ہے.یعنی اگر رسول اللہ صلی الی یوم پر سب کی سزا قتل تھی تو قرآن کریم پر سب کی سزا بھی وہی ہے کیونکہ نزول کے اعتبار سے
توہین رسالت کی سزا { 269 | قتل نہیں ہے دونوں میں مساوات ہے.اسی وجہ سے روایات صحیحہ میں کسی جگہ بھی رسول اللہ صلی للی نام کے شاتم اور قرآن کریم پر ست کرنے والے کے قتل کا کوئی واقعہ درج نہیں ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ شاتم رسول کے قتل کے واقعات وضع کرنے والے قرآن کریم کے مسئلے سے غافل رہ گئے تھے، اس لئے اس بارے میں روایات نہ گھڑی گئیں.ورنہ رسول اللہ صلیالی کم اور قرآن کریم کی توہین کا مسئلہ ایک ہی تھا.امتی باعث رسوائی پیغمبر ہیں“: كتاب الصارم.....میں لکھا ہے: "قَدْ قَدِمْنَا أَنَّ النَّبِيَّ على الله كَانَ يَسْمَعُ مِنَ الْكُفَّارِ وَالْمُنَافِقِيْنَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ أَذًى كَثِيرًا، وَكَانَ يَصْبِرُ عَلَيْهِ امْتِثَالًا لِقَوْلِهِ تَعَالَى (وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ وَدَعْ أَذَاهُمْ ) ( سورة الاحزاب : 49) لِأَنَّ إِقَامَةَ الْحُدُودِ عَلَيْهِمْ كَانَ يُفْضِي إِلَى فِتْنَةٍ عَظِيمَةٍ وَ مُفْسِدَةٍ أَعْظَمُ مِنْ مُفْسِدَةِ الصَّبْرِ عَلَى كَلِمَاتِهِمْ - فَلَمَّا فَتَحَ اللهُ مَكَّةَ وَ دَخَلَ النَّاسُ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا وَ اَنْزَلَ اللَّهُ بَرَأَةٌ قَالَ فِيْهَا.(جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِم) (سورة التوبه: 73) وَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: (لَبِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ ( إِلَى قَوْلِهِ تَعَالَى ) أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلاً).“ (سورة التوبه : 61،62) كتاب الصارم.....کاترجمہ کرتے ہوئے پروفیسر غلام احمد حریری نے اس عبارت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ : " ہم تحریر کر چکے ہیں کہ رسول کریم صلی للی یک کفار و منافقین سے آغاز اسلام میں ایذا دینے والی باتیں سنتے مگر حکم خداوندی کی تعمیل میں صبر و تحمل سے کام لیتے.فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ”کفار اور منافقوں کی اطاعت نہ کیجئے اور ان کی ایذا کو نظر انداز کیجئے.“ ان کو شرعی
توہین رسالت کی سزا { 270} قتل نہیں ہے سزا دی جاتی تو اس سے عظیم فتنہ و فساد کا اندیشہ تھا جو اُن کے اذیت والے کلمات پر صبر کرنے سے بھی عظیم تر ہوتا.جب مکہ فتح ہوا تو لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے تو سورۃ التوبہ کی آیت نازل ہوئی : ”کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کر.“ نیز فرمایا: ”اگر منافق اور وہ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے اور جو ( مدینہ شہر میں بری خبریں اڑایا کرتے ہیں (اپنے کر دار ) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان کے پیچھے لگا دیں گے.پھر وہ تمہارے پڑوس میں نہ رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن، وہ بھی پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور جان سے مار ڈالے گئے.“ ا: الصارم......کی اس عبارت میں حسب ذیل بنیادی غلطیاں موجود ہیں.پہلی آیت وَلا تُطِيع.....سورۃ الاحزاب کی ہے.سورۃ الاحزاب مدنی سورۃ ہے جس کا نزول 5 ھ میں شروع ہوا.اس میں کوئی آیت ملنے کی حالت پر چسپاں نہیں ہو سکتی.کیونکہ متے کے حالات پہلے تھے.ان کے لئے تعلیم اس وقت ہی نازل ہونی چاہئے تھی.رسول اللہ صلی ال یکم اور آپ کے صحابہ کی وہاں سے ہجرت کی وجہ سے جب وہ صور تحال نہ رہی، وہ جبر و تشدد ختم ہو گیا اور وہ دور گزر گیا تو اس کے بعد اس کے لئے حکم کے نزول کی ضرورت ہی کوئی نہ تھی.ستے میں منافقین نہیں تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُواْ عَلَى النِّفَاقِ (سورۃ التوبہ :101) کہ تمہارے اردگرد ۲ بدویوں میں منافق ہیں یا اہل مدینہ میں ہیں جو نفاق پر ڈٹے ہوئے ہیں.
توہین رسالت کی سزا { 271 } قتل نہیں ہے یہ آیت ایک حتمی صور تحال بیان کرتی ہے کہ مکے میں منافق کبھی بھی نہیں تھے ، وہاں یا مومن تھے یا کافر.یہ دوہی گروہ تھے.منافق صرف مدینے میں یا اس کے ارد گر د تھے.اس لئے قرآن کریم کے مطابق اُس زیر بحث آیت کو مکی زندگی پر چسپاں کرنا واضح غلطی ہے.کتاب "الصارم.....کی زیر بحث تحریر یہ ثابت کرتی ہے کہ صبر کی تعلیم صرف اس وقت تک ہے جب انسان کمزور ہو.جب طاقت ہو تو صبر کی ضرورت نہیں رہتی.یہ تعلیم یا یہ اصول اسلام کا نہیں ہے.کسی اور مذہب کا ہو تو الگ بات ہے.اسے اسلام یار سول اللہ صلی نیم کی طرف منسوب کرنا ان کی توہین ہے.کمزوری کے وقت صبر کرنے اور طاقت کے وقت تلوار اٹھا :+ لینے کو بے اصولی تو کہا جاسکتا ہے کوئی تعلیم اور اصول نہیں کہا جاسکتا.۴ وو پھر یہ کہا گیا ہے کہ ” ان کو شرعی سزا دی جاتی تو اس سے عظیم فتنہ وفساد کا اندیشہ تھا جو اُن کے اذیت والے کلمات پر صبر کرنے سے بھی عظیم تر ہوتا.“ اس عبارت میں یہ تضاد بھی جھانکتا دکھائی دیتا ہے کہ دراصل وہ کمزور نہ تھے.وہ سزا دینے کی طاقت رکھتے تھے مگر فتنے کے بڑھنے کے اندیشے سے سزا دینے سے رکے رہے.ایک طرف اسے شرعی سزا کہا جارہا ہے اور دوسری طرف کسی خوف سے اس سے گریز بھی بتایا جارہا ہے.اس طرز عمل کو مداہنت کہا جاتا ہے.جس سے اللہ تعالیٰ نے اصولی اور بنیادی طور پر منع فرمایا ہے.رسول کریم ملی کمر کا دامن ایسی طرز عمل سے ہمیشہ اور کلیہ پاک ہے.ه: سورۃ التوبہ اور الاحزاب کی دوسری آیات کو توہین اور اذیت والے مسئلے کے ساتھ منسلک کرنا بھی درست نہیں ہے.دونوں آیات کے جنگ اور محاربت کے ماحول اور منظر ہیں.ان آیات میں توہین یا اذیت کی باتیں کرنے والوں پر تلوار اٹھانے کی کوئی تعلیم نہیں ہے.کیونکہ اگر ان آیات کا منطوق یہی مناظر ہوتے تو تاریخی طور پر ثابت ہے کہ نعوذ باللہ رسول کریم
توہین رسالت کی سزا { 272} قتل نہیں ہے مایا تم نے کبھی ان پر عمل نہیں کیا کیونکہ آپ نے کبھی کفار اور منافقین پر تلوار نہیں اٹھائی.آپ نے صرف محارب اور جنگ مسلط کرنے والوں پر دفاعی ضرورت کے تحت تلوار اٹھائی تھی.یہ تو کتاب "الصارم.....کی اس تحریر پر کچھ تبصرہ تھا، جس میں کمزوری کی حالت پر صبر اور طاقت کی حالت میں تلوار اٹھانے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا.مگر ظلم کی انتہاء ہے کہ شاتم رسول کو قتل کرنے کے دعویداروں نے قتل و خون کے نظریے کو صرف اپنے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس کی سند کو عفو و در گزر کے شہنشاہ رحمتہ للعالمین صلی ال کمی کی طرف منسوب کیا ہے.انہوں نے آپ کی قوت قدسیہ اور تاثیر روحانیہ کو بھی اپنے کھو کھلے دلائل اور کرم خوردہ سہاروں کی طرح ایسا کمزور قرار دیا ہے کہ گویا اگر تلوار آپ کے قبضہ قدرت میں نہ ہوتی تو آپ کبھی بھی وہ عظیم روحانی انقلاب پیدا نہ کر سکتے جو آپ نے چند سالوں میں کر کے دکھا دیا تھا.اُن کے نزدیک آپ کی مکی زندگی (نعوذ باللہ محض ایک لاچاری اور کمزوری کی دلیل تھی اور آپ کی اصل طاقت، آپ کی تلوار تھی.چنانچہ دیکھیں کہ جماعتِ اسلامی کے امیر مولوی مودودی صاحب کس دلیری اور اعتماد کے ساتھ لکھتے ہیں : "رسول اللہ صلی یکی 13 برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے وعظ و تلقین کاجو موئثر انداز ہو سکتا تھا اسے اختیار کیا.مضبوط دلائل دیئے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا.اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے.اپنے اخلاق اور پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسانہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کیلئے مفید ہو سکتا تھا لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہو جانے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا.......لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی...تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت
توہین رسالت کی سزا { 273 ) قتل نہیں ہے کا زنگ چھوٹنے لگا.طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخود نکل گئے.روحوں کی کثافتیں دُور ہو گئیں اور صرف یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہو گیا بلکہ گر دنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت بھی باقی نہیں رہی جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے.عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اِس سُرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہو گئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پر دوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے.“ (الجہاد فی الاسلام“ باب چہارم ، اشاعت اسلام اور تلوار ، صفحہ 173،174 ایڈیشن 1990 ء ناشر ادارہ ترجمان القرآن) إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وہ یہ بھی کہتے ہیں: ” یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہ صلی علی کرم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا.عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اس کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی ال نیلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی مگر اس کا انتظار نہ کیا کہ یہ دعوت قبول کی جاتی ہے یا نہیں بلکہ قوت حاصل کرتے ہی رومی سلطنت سے تصادم شروع کر دیا.آنحضرت صلی علی یکم کے بعد حضرت ابو بکر پارٹی کے لیڈر ہوئے تو انہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا اور حضرت عمرؓ نے اس حملہ کو آخری مراحل تک پہنچادیا.حقیقت جہاد، صفحہ 65، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور 1964ء) یعنی وہ انتہائی گندہ اور سخت بہیمانہ الزام ہے جو اسلام کے اشد ترین متعصب دشمنوں کی طرف سے آنحضرت صلی اللی کم کی پاک ذات پر لگایا جاتا تھا.جسے یورپ کے یاوہ گو مستشرقین
توہین رسالت کی سزا { 274 } قتل نہیں ہے گزشتہ صدی تک عیسائی دنیا میں اُچھالتے اور دنیا کو اسلام سے متنفر کرتے رہے ہیں وہ دراصل خودان مسلمان رہنماؤں کی طرف سے اس مقدس رسول کی پاک ذات پر لگایا جاتارہا ہے.یہ وہی پتھر ہے جو اس سے پہلے جارج سیل اور سمتھ اور ڈوزئی نے آنحضرت مصلا ل نام پر پھینکا تھا.یہ وہی الزام ہے جو گاندھی جی نے آپ پر اُس وقت لگایا تھا جب وہ اسلام کی تعلیم.ابھی پوری طرح آشنا نہیں تھے اور انہوں نے محض دشمنانِ اسلام یا اسلام کے ”اپنے ہی دوستوں کی کہی ہوئی باتوں کوشن کر یہ تاثر قائم کر لیا تھا.چنانچہ گاندھی جی کے الفاظ میں: اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے.“ اور ڈوزئی (Dozi) کہتا ہے کہ: "محمد کے جرنیل ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر تلقین کرتے تھے.“ اور سمتھ (Smith) کو دعویٰ ہے کہ جرنیلوں کا کیا سوال، خود ” آپ ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسرے میں قرآن لے کر مختلف اقوام کے پاس جاتے ہیں..“ اور جارج سیل ( George Sale) یہ فیصلہ دیتا ہے کہ: ”جب آپ کی جمعیت بڑھ گئی تو آپ نے دعویٰ کیا کہ مجھے ان پر حملہ کرنے اور بزور شمشیر بت پرستی مٹاکر دین حق قائم کرنے کی اجازت منجانب اللہ مل گئی ہے.“ ان سب دشمنانِ اسلام کی تحریریں پڑھیں اور پھر مولوی مودودی کی مندرجہ بالا عبارت کا مطالعہ کریں.کیا یہ بعینہ وہی الزام نہیں جو اس سے پہلے بیسیوں دشمنانِ اسلام نے رحیم و کریم رسول صلی یی کم کی ذات پر لگایا تھا.بلکہ یہ اس سے بھی زیادہ خطر ناک تھا اور اس سے
توہین رسالت کی سزا ( 275 ) وو قتل نہیں ہے بہت بڑھ کر آپ کی قوتِ قدسیہ پر حملہ کرنے والا.آپ دشمنانِ اسلام کی عبارتیں پڑھ کر دیکھ لیں، کہیں بھی آپ کو آنحضرت صلی علیم کی قوت قدسیہ کی مزعومہ کمزوری اور معجزات کی ناطاقتی کا ایسا ہولناک نقشہ نظر نہیں آئے گا جیسا مولوی مودودی نے کھینچا ہے.یعنی آپ کی مسلسل تیرہ سال کی دعوتِ اسلام تو دلوں کو فتح کرنے سے قاصر رہی مگر تلوار اور جبروت نے دلوں کو فتح کر لیا.وعظ و تلقین کے موثر سے موثر انداز تو صحرائی ہواؤں کی نذر ہو گئے مگر نیزوں کی آنی نے دلوں کی گہرائیوں تک اسلام پہنچادیا.آپ کے " مضبوط دلائل“ تو عقل انسانی میں جاگزیں نہ ہو سکے مگر گرزوں کی مار خودوں کو توڑ کر اُن کی عقلوں کو قائل کر گئی.واضح بحثیں اُن کی قوتِ استدلال کو متاثر نہ کر سکیں مگر گھوڑوں کی ٹاپوں نے ان کو اسلام کی صداقتوں کے تمام راز سمجھا دیئے.فصاحت بلاغت بے کار گئی اور زور خطابت دلوں کو اِس درجہ گرمانہ سکا کہ اسلام کانور اُن کے دلوں میں چمک اٹھتا حتی کہ خود عرش کے خدا کی طرف سے ظاہر ہونے والے محیر العقول معجزے بھی خائب و خاسر رہے اور ایک ادنی سی پاک تبدیلی بھی پیدا نہ کر سکے لیکن جب داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی...إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.کیس قدر مضحکہ خیز ہے یہ تصور اور کیسے تحقیر آمیز الفاظ ہیں کہ جن کو پڑھ کر رونا آتا ہے کہ یہ ایک ”اسلامی راہنما“ کے قلم سے نکلے ہیں جو رسول کی محبت کا دعویدار ہے.مولانا کے اِن الفاظ کو پڑھئے اور ”میزان الحق“ کے کینه توز مصنف پادری فنڈر ( Revd Dr C.G.Pfander) کے ان الفاظ کا مطالعہ کیجئے: 66 ”اب حضرت محمد تیرہ سال تک نرمی و مہربانی کے وسائل سے اپنے دین کی اشاعت میں کوشش کر چکے تھے......لہذا اب سے آنحضرت " النبي بالسیف“ کہلائے یعنی نبی تیغ زن بن گئے اور اس وقت سے اسلام کی مضبوط ترین و کار گر دلیل تلوار ہی قرار پائی.“ (میزان الحق صفحه: 468)
توہین رسالت کی سزا { 276 H قتل نہیں ہے وہ مزید لکھتا ہے: ”اگر ہم حضرت محمد (صلی م ) اور اُن کے تابعین کے چال چلن پر غور کریں تو ایسا معلوم ہو گا کہ اب وہ خیال کرنے لگ گئے تھے کہ عقبہ کے موضوع و مقبول اخلاقی قواعد کی پابندی اُن کے لئے ضروری نہ تھی.اب خدا ان سے فقط یہی ایک بات طلب کر تا تھا کہ اللہ کی راہ میں لڑیں اور تیغ و تیر اور خنجر و شمشیر سے قتل پر قتل کرتے رہیں.“ ( میزان الحق صفحہ :499) اور اس کے بعد یہ مصنف حضرت مسیح کی مظلومی کا بڑے فخر سے نعوذ باللہ حضرت رسول اکرم صلی ال نیلم کے مزعومہ جبر کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: آپ کو خداوند یسوع مسیح کلمۃ اللہ اور حضرت محمد (صلی ) بن عبد اللہ میں سے ایک کو پسند کرنا ہے.یا تو اس کو پسند کرنا ہے جو نیکی کرتا پھر ا یا اُس کو جو ”النبی بالسیف “کہلاتا ہے.(تتمہ ، میزان الحق) پھر مولانا مودودی کی تائید میں ایک اور اسلام دشمن مسٹر ہنری کوپی Copey ) ( Henry کے مندرجہ ذیل الفاظ پڑھئے: وو.....اور اپنی نبوت کے تیرھویں سال آپ نے اس امر کا اظہار کیا کہ خدا نے مجھ کونہ صرف بغرض مدافعت جنگ کرنے کی اجازت دی ہے بلکہ اپنا دین بزور شمشیر پھیلانے کی بھی اجازت دی ہے.اہل عرب کی سپین کی تاریخ از ہنر یوپی جلد اول صفحہ 39 مطبوعہ بوسٹن ماخوذ از ” مقدمہ تحقیق الجہاد" صفحہ:31) اور ڈاکٹر اے سپر نگر (Aloy Spranger) کے یہ الفاظ پڑھئے جو مولانا مودودی کی ہم خیالی میں اس رائے کا اظہار کرتے ہیں:.
توہین رسالت کی سزا (277} قتل نہیں ہے اب پیغمبر (صلعم) نے فتنے کے دفع کرنے کیلئے اپنے دشمنوں سے جنگ کرنے کا قانون خدا کے نام سے شائع کیا اور اس وقت سے یہ قاعدہ آپ کے (نعوذ باللہ ) خونی مذہب کا نعرئہ جنگ ہو گیا.“ وہ دشمنانِ اسلام جو آنحضرت صلی یم کے شدید ترین معاندین میں شمار ہوتے ہیں.بُغض و عناد سے جن کے سینے کھولتے ہیں.جو نفرت کی آگ میں جلتے ہیں اگر وہ آنحضرت علی ای یم پر جبر کا الزام لگائیں تو تعجب نہیں.غم تو بہت ہوتا ہے مگر تعجب نہیں.ہاں تعجب ان پر ہے اور حیف اُن پر جو اس معصوم اور مظلوم رسول صلی علیکم کی پیروی کا دم بھر کر بھی آپ کی مقدس ذات پر بربریت کا الزام لگانے کی جسارت کرتے ہیں.( کم و بیش یہ تین صفحے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع کی کتاب ” مذہب کے نام پر خون“ سے ماخوذ ہیں.“) ایک سنہری اصول، ایک قیمتی سبق: یہ سچائی کس طرح ترک کی جاسکتی ہے کہ قتل کرنے سے توہین کرنے والا شاتم اور گستاخ تو قتل ہو کر مر جاتا ہے مگر اس کی گالی یا اس کی بات جو وہ کر گیا ہے ، وہ اس کے قتل سے نہیں ملتی.وہ تو ہین اس کے قتل کے باوجود قائم اور باقی رہتی ہے.ہاں سازشوں اور فتنوں کے لیڈر یا سرغنے جو کہ چند ایک ہوتے ہیں، اگر مارے جائے تو ان کی موت کے ساتھ سازشیں بھی ختم ہو جاتی ہیں.اس لئے رسول اللہ صلی علیم نے کبھی بھی ایسے لوگوں کے قتل کا حکم نہیں فرمایا جو آپ کی توہین یا آپ پر سب و شتم کے مرتکب ہوئے تھے.ہاں ان معدودے چند ایک کو سزائے موت دی جو فتنوں کے بانی مبانی تھے یا دیگر بڑے قومی جرموں کے مر تکب تھے.کیونکہ ان کے منظر سے ہٹ جانے سے یہ جرم پھلنے پھولنے اور پھیلنے سے رک جاتے ہیں بلکہ اکثر ختم ہو جاتے ہیں.اس طرح کثرت سے عام لوگ قتل و خون سے بچ جاتے ہیں.لیکن توہین کرنے والے کو اگر
توہین رسالت کی سزا 278 } قتل نہیں ہے قتل کیا جائے تو وہ باتیں باقی رہ جاتی ہیں جو اُن کی غلیظ زبانوں سے نکلتی ہیں اور اس وقت تک نہیں مٹتیں جب تک ان کا جواب دے کر انہیں نہ مٹایا جائے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ ایک انتہائی سنہری اصول اور ایک قیمتی سبق عطا فرمایا ہے: لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيِي مَنْ حَيَّ عَنْ بينة (الانفال:43) کہ جو ہلاک ہو وہ کھلی کھلی حجت کی رُو سے ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہو وہ کھلی کھلی حجت کی رُو سے زندہ رہے.یعنی اصل ہلاکت جسم کی نہیں دلیل کی ہے اور بینہ کی ہے اور اصل زندگی بھی دلیل اور بینہ کی ہے.کیونکہ انسان تو مر جاتا ہے مگر بینہ نہیں مرتی.پس یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی یی کم کا پاک نمونہ ایک بینہ ہے اور اسلام کی روشن تعلیم ایک بینہ ہے.انہیں کسی زبر دستی یا درشتی اور سختی کی ضرورت نہیں.انہیں قتل و غارت اور کشت و خون کی بھی ہر گز حاجت نہیں.انہیں دراصل سچائی، نیک عمل اور دلیل و برہان کی ضرورت ہے.یہ عناصر ہیں جو ہر حال میں اور ہمیشہ زندہ رہنے والے ہیں.رسول اللہ صلی علیم نے نرمی اختیار کرنے کی تعلیم پر مبنی اپنے فرمودات میں داراصل اسی بات کی فکر فرمائی ہے کہ اگر ایک شخص کو اس وجہ سے قتل کر دیا گیا کہ اس نے آپ پر کوئی الزام لگایا یا کوئی تہمت باندھی تھی یا آپ کی شان میں گستاخی کی تھی تو یہ بعینہ ٹوٹ جائے گی.یعنی لوگ باتیں کریں گے کہ آپ الزام یا تہمت دور نہیں کر سکتے بلکہ لوگوں کو قتل کروا کے زبان بند کرواتے ہیں.گویا آپ کی تعلیم میں نعوذ باللہ کوئی علمی طاقت نہیں تھی، آپ کے اسوہ حسنہ میں کوئی قوت قدسیہ نہیں تھی اور آپ کی سنت مبارکہ میں کوئی روحانی تأثیر نہیں تھی کہ اپنے اوپر سے الزام دور کر سکتی.چنانچہ اس حقیقت سے ، گو ہے یہ کڑوی ، کون انکار کر سکتا ہے کہ تشدد اور شدت پسندی اور غارت گری کے باعث بُری شہرت اسلام کی مقدرہ ترقی کی راہ میں بڑی روکیں ہیں.رسول اللہ صلی للی کم نے ہر ممکن قربانی دے کر ان روکوں کو دور فرمایا تھا.یہ در حقیقت
توہین رسالت کی سزا 279 قتل نہیں ہے امت کے لئے ایک نمونہ، ایک اسوہ اور ایک لائحہ عمل تھا جو آپ نے خود اپنے عمل سے پیش فرمایا تھا.مگر قتل و خون اور غارتگری کے شوقین آپ کی خوبصورت سیرت کے دلکش پہلو پیش کرنے اور ان پر عمل کرنے کی بجائے آپ کی منشاء کے خلاف آپ کی طرف ایسے ایسے قتل منسوب کرتے ہیں جو نہ آپ نے کئے ، نہ کروائے.بلکہ یہ لوگ ایسی سزاؤں کو بھی آپ کی ذات اور آپ کے ناموس سے معنون کر کے پیش کرتے ہیں جو قصاص، محاربت، فساد فی الارض اور قومی جرموں کی واضح ذیل میں آتے ہیں.حالانکہ ان سزاؤں کا آپ کے ناموس سے کسی نوع کا ناتا نہیں تھا.یہ صرف ان کے سنگین جرموں کی طبعی اور عادلانہ جزائیں تھیں جو انہیں دی گئی تھیں.انہیں ناحق طور پر گستاخی و توہین کے عنوانوں میں لپیٹ کر سب سے معصوم نبی، انسانی خون کے محافظ نبی ، نبی کرحمت اور رحمۃ للعالمین مال لیلی کیم کی طرف منسوب کرنا آپ پر انتہائی گھناؤنا ظلم ہے.پس یہ ایک بہت بڑی صداقت ہے کہ اس رؤوف و رحیم نبی کے پاک اور پر رحمت ہاتھ ایک ادنی سے ظلم اور ایک قطرہ برابر خون سے بھی یکسر پاک ہیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍوَ بَارِكْ وَ سَلَّمٌ أَنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ کتاب ”الصارم المسلول“ کا پس منظر : اس باب کے آخر میں یہ جائزہ بھی قارئین کی نذر ہے کہ یہ کتاب کب، کیوں، کس پس منظر اور کس صورتحال میں تحریر ہوئی ؟ چنانچہ اس بارے میں مدراس یونیورسٹی شعبہ عربی، فارسی اور اردو کے ریڈر محمد یوسف کو کن عمری صاحب اپنی کتاب ”امام ابن تیمیہ“ میں زیرِ عنوان " آنحضرت کی شان میں ایک نصرانی کی گستاخی اور ہنگامہ “ تحریر فرماتے ہیں: ر جب 693ھ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کی وجہ سے ایک زبر دست ہنگامہ برپا ہو گیا.مگر اس کے ساتھ ساتھ امام ابن تیمیہ کے غیر معمولی علم و فضل کا ایک نمایاں ثبوت بھی
توہین رسالت کی سزا 280 | قتل نہیں ہے لوگوں کو مل گیا.دمشق میں بہت سے نصرانی رہا کرتے تھے.صلیبی لڑائیوں کی بناء پر نصرانیوں (عیسائیوں) اور مسلمانوں میں ایک زمانہ سے عداوت چلی آرہی تھی.جب صلاح الدین ایوبی نے ملک شام صلیبیوں سے واپس لے لیا تو ان نصرانیں کا طرزِ عمل بدل گیا.وہ بظاہر مسلمانوں کے دوست تھے مگر باطن میں اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتے تھے.چنانچہ بھی بھی اس کا نتیجہ سب و توہین رسول کی صورت میں ظاہر ہوا کرتا تھا.شہاب الدین احمد بن حجی المتوفی 682ھ عربوں کا امیر تھا.وہ اپنی فوج کو لے کر سلطانِ مصر کی جانب سے تاتاریوں کے خلاف لڑنے کے لئے 680ھ میں دمشق آیا تھا.اس کا لڑکا عساف دمشق میں بس گیا تھا.اس کے پاس ایک نصرانی (عیسائی) کا تب ملازم تھا.اس نے آنحضرت ملا لیں کم کی شان میں کئی مرتبہ نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے.اس کی یہ حرکتیں مسلمانوں کو بہت ناگوار گزریں.امام ابن تیمیہ نے شیخ الشافعیہ شیخ زین الدین ابو محمد عبد الله الفارقی المتوفی 703ھ کو ساتھ لے کر دمشق کے نائب سلطنت امیر عز الدین ایبک الحموی المتوفی 703ھ سے ملاقات کی اور اس نصرانی کاتب کی گستاخیوں کی اطلاع دی.امیر موصوف نے وعدہ کیا کہ وہ نصرانی کاتب کو بلا کر اس معاملے کی تحقیق کرے گا.چنانچہ یہ دونوں شیخ وہاں سے واپس ہوئے تو ان کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت تھی.اتفاق ایسا ہوا کہ راستے ہی میں اس نصرانی سے مٹھ بھیڑ ہو گئی.اس کے ساتھ ایک عرب بدو بھی تھا.اس کو دیکھ کر مسلمانوں نے کچھ برابھلا کہنا شروع کیا.وہ عرب بدو نصرانی کی حمایت پر کمربستہ ہو گیا.اور اس نے کہا کہ یہ نصرانی تم لوگوں سے اچھا ہی ہے.یہ سن کر سارا مجمع مشتعل ہو گیا اور دونوں پر اتنے پتھر برسائے گئے کہ دونوں زخمی ہو گئے.جب امیر عز الدین ایبک الحموی کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ بہت ہی افروختہ ہو گیا.اس نے خیال کیا کہ مجمع کی یہ محض امام ابن تیمیہ اور شیخ زین الدین الفارقی کے اشارے سے ہوئی ہے.اس نے فوراً ان دونوں کو بلا بھیجا.اپنے سامنے انہیں دڑے لگوائے اور پھر انہیں مدرسہ غذارو یہ میں بند کرا دیا.حرکت
توہین رسالت کی سزا 281 } قتل نہیں ہے امیر عساف ابن احمد بن حجی اور شاء الدوادین.....نصرانی کی حمایت پر کمربستہ ہو گئے.اس کی وجہ سے خود مسلمانوں میں سخت اختلاف اور انتشار پیدا ہو گیا.نائب سلطنت نے اس مسئلے کے متعلق دو کئی مجلسیں منعقد کیں اور علمائے وقت سے بخشیں کیں.امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ پر ایک کتاب ہی لکھ ڈالی جو " مجلس دائرۃ المعارف حیدر آباد دکن“ سے ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ کے نام سے شائع ہوئی ہے.اس میں اس مسئلے پر چار پہلوؤں سے بحث کی ہے.پہلا یہ کہ نبی کریم صلی للی کمر کے گالی دینے والے کو چاہے وہ مسلمان ہو یا کا فرقتل کر دینا چاہئے.دوسرا یہ کہ اس کا قتل واجب ہے چاہے وہ ذمی ہی کیوں نہ ہو ، زرِ فدیہ لے کر یا اس کے ساتھ احسان کر کے اس کو چھوڑا نہیں جاسکتا.تیسرا یہ کہ گالی دینے والے کو چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، قتل کر دینا چاہئے.اس سے توبہ نہیں کروانی چاہئے.اگر یہ معاملہ سلطان تک پہنچ جائے اور اس پر الزام ثابت ہو جائے تو تو بہ کرنے پر بھی اس کی حد ساقط نہیں ہوتی.چوتھا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علم کو گالی دینے والا کافر ہے چاہے وہ اس کو حلال سمجھے یا حلال نہ سمجھے.اس مسئلے کی نوعیت چاہے کچھ ہی کیوں نہ ہو، مگر اس میں ذرا بھی شبہ نہیں ہے کہ یہ کتاب امام ابن تیمیہ کے وسعت علم اور ان کے اجتہادات و استنباطات کا ایک بین ثبوت ہے.قرآن مجید، احادیث رسول اور آثارِ صحابہ و تابعین و اقوال ائمہ سلف کو جس زور و قوت کے ساتھ پیش کیا ہے، اس کتاب کے مطالعے ہی سے ہو سکتا ہے.اس ایک مسئلے پر اتنی بڑی ضخیم کتاب کا لکھ دینا ان کے غیر معمولی علم و فضل کی ایک زبر دست شہادت ہے.امام ابن تیمیہ کی اس مدلل بحث کے فوراً بعد ہی اس نصرانی نے اسلام قبول کر لیا اور نائب سلطنت کے سامنے اس بات کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس نے آنحضرت صلی الی یم کی شان میں بے ادبی نہیں کی اور اس پر محض جھوٹی تہمت لگائی گئی ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ
توہین رسالت کی سزا 282} قتل نہیں ہے امام ابن تیمیہ کی تحریر کے بعد اس نصرانی کو بچانے کے لئے ایک تدبیر نکالی گئی تھی.عام ابن تیمیہ.مطبوعہ نعمان پبلیکیشنز شائع شدہ 2014ء، صفحہ 98 تا100) کتاب ” امام ابن تیمیہ کے بارے میں اس اقتباس کا سرسری جائزہ لیا جائے تو اس کے دو پہلو سامنے آتے ہیں.اول : یہ ماحول کیا تھا اور اس ماحول میں امام ابن تیمیہ کا اپنا کر دار کیسا تھا؟ دوم یہ کہ اس کتاب کی ماہیت اور حیثیت کیا ثابت ہوتی ہے ؟ ا) (۲ (۳ (1 (۲ (۳ : اول پہلو کے منظر اور ماحول میں امام ابن تیمیہ کے طرزِ عمل میں بلوہ خیزی نمایاں ہے.قرآنی حکم کے تحت اولو الامر کی اطاعت کی بجائے کھلی کھلی بغاوت موجود ہے.واضح طور پر ملکی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی جسارت کی گئی ہے.دوسرے پہلو کے لحاظ سے جس سرعت سے یہ کتاب تحریر کی گئی ہے اس میں تحقیق بلکہ سچائی کا حق ادا نہیں ہوا.جس ماحول اور اثر میں کتاب لکھی گئی ہے، متشددانہ اور باغیانہ ہے.ہنگامی طور پر تصنیف کی گئی اس کتاب میں جو روایات استعمال کی گئی ہیں ان میں سے اکثر کے مآخذ معدوم ہیں.
توہین رسالت کی سزا اله { 283 ) قتل نہیں ہے اس کتاب کی بنیاد اور غرض کے جو چار پہلو بتائے گئے ہیں ، وہ اس موقع پر بھی پورے نہیں ہو سکے.جس سے عملاً یہ کتاب اسی وقت رڈ کر دی گئی تھی.یعنی وہ عیسائی خواہ جان بچانے کی غرض سے ، منافقت سے یا حقیقی ایمان کی وجہ سے مسلمان ہوا، یہ سزا اس سے ساقط کر دی گئی اور اسے قتل نہیں کیا گیا.یعنی کتاب کی غرض یہ تھی کہ شاتم رسول کو بہر حال قتل کیا جائے گا، قابل عمل نہ سمجھا گیا.(۵ آئیں ہیں.(۶ اس کتاب میں جو علم و فضل ہے اس کا کسی حد تک حال ہم گزشتہ صفحات میں واضح کر محمد یوسف کو کن صاحب کی اس تحریر کو آج اپنے وطن عزیز کے حالات پر پیش کریں تو اس وقت کے دمشق کا اور یہاں کا منظر بعینہ ایک ہی ہے.کسی شخص پر تہمت بھی جھوٹی لگائی جاتی ہے ، بلوہ بھی کیا جاتا ہے، ایک شخص کو ملزم قرار دے کر جبر و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ بسا اوقات ماورائے عدالت جان سے مار دیا جاتا ہے.ہاں کوئی ملزم اگر بچ جائے اور اس کا مقدمہ عدالت میں پہنچ جائے تو عدالت میں وہ الزام بھی جھوٹا ثابت ہوتا ہے اور ملزم قتل سے بیچ بھی جاتا ہے.الغرض نو سو سال بعد بھی ماحول اور فضاو ہی ہے جو غاصبانہ، ظالمانہ اور متشددانہ ہے.یہ باب ہمیں توجہ دلاتا ہے کہ کتاب "الصارم المسلول“ کی بجائے کثرت سے قرآن کریم اور سنت و احادیث نبویہ کی امن و سلامتی اور عفو و در گزر والی تعلیمات کی ترویج دی جائے.اسلام کا اصل اور سچا ورثہ یہ ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 284 } يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ قتل نہیں ہے
توہین رسالت کی سزا باب چهارم ( 285 } قتل نہیں ہے مقتل شاتم کے مسئلے پر اجماع کا ڈھونگ ***** اجماع سے مراد امتِ مسلمہ کے ارباب حل و عقد اور اجتہاد کا ملکہ رکھنے والے اصحاب علم کا کسی ایسے مسئلے کے بارے میں اتفاق ہے جس کی ٹھیک ٹھیک وضاحت قرآن یا سنتِ ثابتہ میں موجود نہ ہو.صحابہ کے ایسے اتفاق اور اجماع کو اہل السنت و الجماعت حجت شرعیہ کرتے ہیں.(محاضرات فی تاریخ المذاهب الفقھیۃ صفحہ 72،73 - از الاستاذ محمد ابو زہرہ.مطبوعہ مطبع المدنی ناشر جمیعۃ الدراسات الاسلامیة) تسليم صحابہ کے بعد آنے والے مجتہدین کے اتفاق کی کیا اہمیت ہے ؟ اس سلسلے میں اختلاف ہے.بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ اصولاً یہ اتفاق بھی اجماع اور واجب التسلیم ہے.بعض دوسرے اہل علم کا کہنا ہے کہ دورِ صحابہ کے بعد ایسے اجماع کا وجو د مشتبہ ہے.نہ یہ معین ہے کہ بعد کے زمانے میں کون کون علماء درجہ اجتہاد پر فائز تھے اور کہاں کہاں اور کس کس ملک میں وہ رہتے تھے.اور نہ کسی مسئلے پر ان سب کے اتفاق کا علم عملاً میسر آسکتا ہے."لا يُمْكِنُ أَنْ يَتَفِقَ الْعُلَمَاءُ فِي كُلِ الْأَقَالِيمِ الْإِسْلَامِيَّةِ الْمُتَنَابِيَّةِ عَلَى رَأْي وَاحِدٍ“ (محاضرات في تاريخ المذاهب الفقهية صفحہ 74 ) کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ تمام ممالک اسلامیہ کے علماء ایک رائے پر متفق ہوں.امام مالک اہل مدینہ کے اجماع کو بھی بطور حجت شرعیہ تسلیم کرتے ہیں.کیونکہ اہل مدینہ صحابہ کے عمل مستمر کے شاہد اور گواہ ہیں اور ان کے اتفاق کو جو انتخاب خلافت کے سلسلے میں تھا واجب التسلیم مانا گیا ہے.(محاضرات فی تاریخ المذاهب الفقعینیہ صفحہ 78 از الاستاذ محمد ابو زهره مطبوعہ مطبع
توہین رسالت کی سزا 286 | قتل نہیں ہے المدنی ناشر جمیعۃ الدراسات الاسلامیة و مالک بن انس صفحه 174 از عبد الحلیم الجندى مطبوعہ دارالمعارف القاهره مصر 1983.) شیعہ بھی اپنے مجتہد علماء کے اجماع کو شرعی حجت اور واجب التسلیم قرار دیتے ہیں.ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ اجماع اگر غلط ہو تا تو امام غائب خاموش نہیں رہ سکتے تھے.وہ ضرور ظاہر ہو کر اس کی تصحیح فرما دیتے.(محاضرات في تاريخ المذاهب الفقھیۃ صفحہ 77) اجماع کے بارے میں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی حیثیت نہ قرآن مجید یا حدیث کی سی ہے نہ اس کے مقابل پر اس کا کوئی مقام ہے.ہاں وہ ان کے تابع ہو تو اس کی کوئی حیثیت ہو سکتی ہے.کیونکہ آیات قرآنیہ یا احادیث صحیحہ میں تبدیل نہیں ہو سکتا اور یہ مقام اجماع کا بہر حال نہیں ہے.چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مجد دبارہویں صدی تحریر فرماتے ہیں.وو ” یہ ممکن ہے کہ جس بات پر آیت صادق آتی ہے ، وہ اجماع کے مطلب کی موافقت میں نہ ہو.“ ( الفوز الکبیر فی اصول التفسیر.ترجمہ صفحہ 204 مطبوعہ 1960 ناشر اردو اکیڈمی سندھ کراچی) پس اگر اجماع کسی غلط موقف پر قرار دیا جارہاہو اور آیت قرآنی یا صحیح حدیث اس کے خلاف کھڑی ہو تو وہ اجماع نہیں کہلا سکتا.وہ یقینا بگڑا ہو امسئلہ ہے.اجماع کے حجت ہونے پر بھی علمائے امت میں اختلاف ہے.چنانچہ قَالَ جَمَاعَةٌ مِنْهُمُ الرَّازِيُّ وَالآمَدِيُّ ، إِنَّهُ لَا يُفِيدُ إِلَّا الظَّنَّ (ارشاد الفحول للشوكاني مطبع دار الفضيلة للنشر والتوزيع الریاض.صفحہ 375.المقصد الثانی.الاجماع و فیہ ابحاث، البحث الثالث) کہ علماء کی ایک جماعت جن میں امام رازی اور علامہ آمدی بھی شامل ہیں، اس خیال کے قائل ہیں کہ اجماع سے یقین نہیں، صرف
توہین رسالت کی سزا 287 } قتل نہیں ہے ظن حاصل ہوتا ہے.جہانتک اجماع صحابہ کا تعلق ہے تو علماء کی بھاری اکثریت قائل ہے کہ ” إجْمَاعُ الصَّحَابَةِ حُجَّةٌ بِلَا خِلَافٍ ، ايضا صفحہ 388 - البحث السابع ) کہ صحابہ کا اجماع صحیح حجنت ہے.اس میں کوئی اختلاف نہیں.قتل شاتم کے مسئلے پر نام نہاد اجماع کی پگڈنڈی: قتل شاتم پر نام نہاد جماع کی پگڈندی بظاہر (ابو عبد اللہ ) محمد بن سحنون سے شروع ہوتی ہے.( یہ نام دونوں طرح یعنی دس کی فتحہ اور س کی ضمہ کے ساتھ بولا جاتا ہے ) یہ شام کے قبیلہ تنوخ سے تھے.المغرب (مراکش) میں اپنے دور کے مالکی فقہ کے ایک بڑے عالم اور مفتی قرار دیئے گئے ہیں.جو 202ھ میں پیدا ہوئے اور 256ھ میں فوت ہوئے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیشے کے لحاظ سے یہ ایک سکول استاد تھے.ان کے والد ( سحنون) عبد السلام بن سعید التنوخى المغربي القیروانی بھی مالکی فقہ کے ایک عظیم عالم قرار دیئے گئے ہیں.لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت امام مالک کے شاگردوں ابن القاسم، ابن وہب اور اشہب سے براہ راست علم حاصل کیا تھا.کہا جاتا ہے کہ محمد ابن سحنون نے قریباً دو سو (200) کتب تصنیف کیں.ان کی طرف منسوب ایک کتاب ”فتاوی ابن سحنون“ جو اداره دار ابن القيم للنشر والتوزيع الریاض سعودی عرب اور ادارہ دارابن عفان للنشر والتوزيع القاہرہ مصر کی مشترکہ اشاعت ہے ،2011 ء میں پہلی بار طبع ہوئی.یہ انٹر نیٹ پر موجو د ہے.اس کے دیباچے میں ان کی ہیں کے قریب کتب کے نام درج ہیں.جن میں ایک کتاب کا نام "رسالة فیمن سب النبی صلی اللہ “ بھی ہے.یعنی یہ ،، کتاب رسول اللہ صلی علیکم کو گالی دینے والے کی بابت ہے.مگر یہ کتاب عملاً دستیاب نہیں ہے.بلکہ دو
توہین رسالت کی سزا 288 | محل نہیں ہے یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ کبھی تھی بھی یا نہیں.بہر حال یہ ان کی طرف منسوبہ کتب کی فہرست میں شامل ہے.محمد بن سحنون کی ان مزعومہ یا ان کی طرف منسوب دو صد کتب میں سے جر من محقق ڈاکٹر سبستیان گوئینتھر (Dr Sabestian Guenther) کے مطابق چوبیس (24) کتب کے بارے میں خیال کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان کی ہیں.لیکن ان میں سے صرف تین (3) ہیں جو محفوظ ہیں.وہ اپنے تحقیقی مقالے "Advice for Teachers" میں لکھتے ہیں کہ ابن سحنون کی صرف ایک کتاب یعنی "کتاب آداب امعلمین" ہے جو اُن کی اپنی تصنیف قرار دی جا سکتی ہے.یہ مذکورہ بالا کتاب فتووں کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس میں اساتذہ و معلمین کو تعلیم و تدریس کے آداب و طریق بتائے گئے ہیں.جہاں تک دوسری کتاب ” فتاوی ابن سحنون“ کا تعلق ہے تو یہ ان کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ بعد میں مختلف لوگوں نے فتاویٰ جمع کئے ہیں اور اس مجموعے کو ان کی طرف منسوب کیا ہے.اس میں عام دینی اور فقہی مسائل مذکور ہیں.توہین و تنقیص النبی پر کوئی بحث موجود نہیں ہے.تیسری کتاب ”کتاب الاجوبہ “ ہے.یہ کتاب سوالات و جوابات کی طرز پر مرتب کی گئی ہے.اس میں بھی توہین و تنقیص النبی پر کوئی سوال و جواب نہیں ہے.یہ بھی ابن سحنون کی اپنی تأکیف نہیں ہے.بلکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ایک شاگر د محمد سالم نے ترتیب دی ہے اور اس میں دوسروں نے بھی اضافے کئے ہیں.
توہین رسالت کی سزا 289 H قتل نہیں ہے ان کتابوں کے بارے میں مالکی فقہ کے عالم امام ابو العباس احمد بن عبد العزیز الہلالی المالکی المغربی اپنی کتاب ” نور البصر“ میں لکھتے ہیں: ” وَقَدْ حَذَرَ الْعُلَمَاءُ مِنْ تَأْلِيْفٍ مَوْجُوْدَةٍ بِأَيْدِى النَّاسِ تُنْسَبُ إِلَى الْاَبِيَّةِ، وَنِسْبَتُهَا بَاطِلَةٌ کہ علماء نے لوگوں کو ان کے پاس موجود تالیفات سے خبر دار کیا ہے جو ائمہ کی طرف منسوب ہوتی ہیں اور حال یہ ہے کہ وہ (ان ائمہ کی طرف) باطل طور پر منسوب ہیں.(نور البصر فی شرح خطبة المختصر صفحہ 130 دار یوسف بن تاشفین.مكتبه امام مالک) امام المحجوی کتاب ” الفکر الشامی“ میں لکھتے ہیں: وَ حَذَرُوا مِنْ أَجْوِبَةِ مُحَمَّدِ بْنِ سَحْنُونَ ، فَلَا تَجُوزُ الفَتْوَى مِنْهَا بِوَجْهِ مِنَ الْوَجْه ، کہ انہوں نے محمد بن سحنون کی ( طرف منسوب) کتاب الاجوبہ سے خبر دار کیا ہے کہ ایک وجہ سے اس سے فتوای ( لینا) جائز نہیں.الفکر التسامی فی تاریخ الفقہ الاسلامی.محمد بن الحسن الحجوى الثعالبی.المكتب التوفيقي ونور البصر صفحہ 130) یہ مذکورہ بالا حقائق انٹر نیٹ پر ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.ان حقائق کے تناظر میں آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بنیاد جو محمد بن سحنون کے فتاوی پر قائم کی گئی تھی بالکل کمزور اور بے اعتبار بنیاد ہے.ایسی بنیادوں پر تو دم بھر کے لئے ریت کے گھروندے بھی نہیں ٹھہر تے کجا یہ کہ ان پر بنیادی مذہبی عقائد کو استوار کیا جائے.قتل شاتم کے بارے میں دستیاب کتب سے معلوم ہو تا ہے کہ ابن سحنون کے حوالے وو سب سے پہلے سپین کے قاضی عیاض نے اپنی کتاب ” الشفا“ میں دیئے ہیں.انہوں نے یہ حوالے درج کرتے ہوئے ان کی درایت یا ان کے استناد کی کوئی فکر نہیں کی.انہوں نے ابن سحنون کی کسی کتاب کا بھی کوئی حوالہ نہیں دیا.وہ علمی تحقیق کا حق ادا کئے بغیر انہیں درج کرتے چلے گئے ہیں.یعنی یہ کہنا بے جانہ ہو گا کہ وہ محض بے سند اور لا پتہ عبارتیں ہیں.
توہین رسالت کی سزا 290 | قتل نہیں ہے قاضی عیاض نے شاتم رسول کے قتل کے فتاوی اور مختلف مسالک کے فقہاء کی جو تحریریں یا اقوال جمع کئے ہیں یا ان کی طرف منسوب کئے ہیں ، وہ انہیں اس نظریے کی تقویت کے لئے بار بار استعمال کرتے ہیں.مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا ایسا کرنا اس مخصوص نظریے کو کسی طور بھی سچا ثابت نہیں کر سکتا.کیونکہ وہ تحریریں یا اقوال بنیادی طور پر قرآن کریم، سنت نبوی اور سیرت و شمائل نبوی صلی للہ ہم کے کلیہ مخالف اور متصادم ہیں.مخصوص محرکات ، منظر اور پس منظر میں ان فقہاء وعلماء کے دیئے گئے فتووں سے کسی طرح بھی شریعت نہیں بدل سکتی.ابن سحنون کی طرف منسوب فتوے اگر ایک لمحے کے لئے ان کے اپنے فتوے تسلیم بھی کر لئے جائیں تو بھی ابن سحنون کو بعض لوگوں کی طرف سے دیا گیا مقام یا ان کی اپنی تصنیفی خدمات انہیں شارع تو نہیں بنا سکتیں.اسی طرح بعض مخصوص مسلک کے علماء کا نام نہاد اجماع شریعت میں تبدیلی پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا.پھر یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ ابن سحنون خو د مالکی مسلک کے ہیں.ان کے فتوے یا تحریریں دوسرے مسالک کے لئے کیونکر قابل عمل قرار دیئے جاسکتے ہیں اور وہ کیوں ان کے لئے حجت ٹھہرا دیئے گئے ہیں.صاف ظاہر ہے کہ چونکہ مذہب کی آڑ میں قتل و خون مقصود تھا، اس لئے ان کے فتووں کو باوجو د اختلاف مسلک کے اس ذہنیت کے علماء نے اختیار کیا اور ان سے حجت لی.اس خاص موضوع کے علاوہ ابن سحنون کا نام عام طور پر کسی مسئلے میں کہیں ایسے مقام کے طور پر نظر نہیں آتا کہ وہ ایسے عالم یا امام قرار پائے گئے ہوں کہ ان کے فتوے اہمیت کے ساتھ حجت سمجھے گئے ہوں.ویسے بھی وہ کوئی ایسے قابل تقلید امام نہیں تھے.پس صاف ظاہر ہے کہ ابن سحنون کا نام اور ان کی طرف منسوب کئے گئے نظریات ایک خاص مکتبہ فکر کے لوگوں کو
توہین رسالت کی سزا ( 291 } قتل نہیں ہے صرف مخصوص مقاصد کے لئے محبوب تھے اور آج بھی بغیر کسی تحقیق کے محض اپنے ایسے ہی مقاصد کے حصول کے لئے ان کا نام گھسیٹا جاتا ہے.جیسا کہ اوپر کی سطور سے ظاہر ہے کہ ابن سحنون کے بعد سپین کے قاضی عیاض اجماع کی اس نام نہاد پگڈنڈی پر چلتے دکھائی دیتے ہیں.قاضی عیاض، ابنِ سحنون کے تقریباً دو اڑھائی سو سال بعد یعنی چوتھی صدی ہجری میں ہوئے ہیں.انہوں نے رسول اللہ صلی للی کم کی سیرت اور آپ کے اخلاق و شمائل پر بہت خوبصورت کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی صلی للی مرتب کی مگر افسوس ہے کہ اس کے آخری باب میں قتل شاتم کے خوفناک مسئلے کو ثابت کرنے کی کوشش میں ساری کتاب کے حسن کو داغدار کر دیا ہے.پھر قاضی عیاض کے تقریباً دو سو سال بعد امام ابن تیمیہ کا زمانہ ہے.یعنی چھٹی صدی ہجری.ان کی طرف منسوب کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول“ میں اس پگڈنڈی کو اختیار کیا گیا ہے.شتم رسول کی سزا قتل ثابت کرنے کے لئے یہ ایک بڑی مفصل اور ضخیم کتاب لکھی گئی ہے.پھر ان کے بعد مختلف لوگوں نے انہی مذکورہ بالا دونوں کتابوں سے خوشہ چینی کی ہے.متاخرین نے کوئی نئی تحقیق یانئی بات نہیں لکھی.مگر ہر ایک نے یہ دعویٰ ضرور کیا ہے کہ امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے.اس اجماع کی حقیقت: یہ درست ہے کہ بعض فقہاء یا علماء نے اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے.چنانچہ ان کی آراء کو جمہور کا مسلک یا علماء کا اجماع قرار دے دیا جاتا ہے.یہاں یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ تصنیفات میں یہ نظر آتا ہے کہ فقہاء کا ایک عام طریق یہ بھی ہے کہ وہ
توہین رسالت کی سزا 292 قتل نہیں ہے دوسری آراء بھی درج کرتے ہیں جبکہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان کا اس رائے پر یا اس زیر بحث مسئلے پر اتفاق بھی ہو.چنانچہ وہ اس کے ساتھ اپنی تحقیق یا دلیل پیش نہیں کرتے اور نہ ہی وہ اسے اپنا موقف قرار دیتے ہیں.مگر ایک قاری اپنے مسلک یا نظریے کے مطابق اسے ان کا موقف قرار دے دیتا ہے.یہی مذکورہ بالا طریق ہمیں روایات کے اخذ کرنے میں بھی نظر آتا ہے.جیسا کہ قبل ازیں مولانا عبد الحئی لکھنوی کی کتاب ”الرفع والتکمیل“ کے حوالے سے ذکر ہو چکا ہے کہ امام بخاری نے بعض ایسے راویوں سے بھی روایات لے لی ہیں جن پر پہلوں نے طعن کئے ہوئے ہیں.چنانچہ امام بخاری نے ایک دفعہ جو روایت درج کر لی، بعد میں اسے نقل کرنے والوں نے بغیر کسی دلیل اور تحقیق کے اپنے مجموعوں یا تصنیفات میں درج کر لیا ہے.بعینہ نظر آتا ہے کہ بعض فقہی مسائل یا فتاوای کوکتاب الشفاء" یا کتاب ”الصارم المسلول.......وغيره تصنیفات میں بھی جمع کر دیا گیا ہے اور اس فتوے یا مسئلے کی کچھ متعلقہ یا غیر متعلقہ وجوہات بیان کر دی ہیں اور اسی کو اجماع قرار دے دیا گیا ہے.حالانکہ وہ کسی طرح بھی شرعی لحاظ سے یا شرعی اصطلاح کے مطابق اجماع نہیں کہلا سکتا.کیونکہ دراصل یہ تقلیدی طور پر ایک دوسرے کی آراء پر بعض لوگوں کا اتفاق ہے ، امت کا اجماع ہر گز نہیں ہے.پس یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی الی نظم کو گالی دینے والے کی سزائے قتل پر امت کا اجماع ہے ، درست نہیں ہے.ہاں اسے معدودے چند علماء کا کسی رائے پر تقلیدی اتفاق تو کہا جاسکتا ہے ، اجماع قرار نہیں دیا جا سکتا.قتل شاتم پر لکھی گئی کتب میں چاروں مسلکوں کے علماء کے اتفاق کا ذکر بار بار کیا گیا ہے.لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ ان میں بعض علماء بالکل غیر معروف و غیر مشہور ہیں جن کا کوئی معتین ذکر معلوم نہیں ہے.ان علماء کی حیثیت کیا تھی اور ان کا مقام کیا تھا
توہین رسالت کی سزا 293 | قتل نہیں ہے وغیرہ وغیرہ امور ندارد ہیں.اس لئے محض ان کے ذکر کو اجماع قرار دینا شرعی لحاظ سے ہر گز درست نہیں ہے.بلکہ یہ تو امت پر ایک ظالمانہ دھونس جمانے کی جسارت ہے.علاوہ ازیں ان کتب میں اس مسئلے پر تمام مکاتیب فکر یا تمام مسالک کے علماء کے اجماع کا دعوی محض ایک دعوی ہے جو باوجو د شدید کوشش کے ثابت نہیں ہو تا.کیونکہ اجماع کے اس دعوے میں جگہ جگہ نمایاں نظر آتی ہوئی بڑی بڑی مفارق دراڑیں اور بڑے بڑے اختلافی شگاف ہیں جو بذات خود منادی کر رہے ہیں کہ اس مسئلے پر اجماع کا یہ دعوی جھوٹا ہے.یہ دراڑیں اور شگاف جزوی پہلوؤں میں بھی ہیں اور کئی پہلوؤں میں بھی.جزوی لحاظ سے مثلاً یہ لکھا جاتا ہے کہ مسلمان گالی دے تو قتل کیا جائے اور ذمی دے تو اسے قتل نہ کیا جائے، عورت ہو تو اسے قتل نہ کیا جائے، خواہ وہ مسلمان ہو یا ذمی وغیرہ وغیرہ..کلی لحاظ سے یہ کہ امام ابو حنیفہ نے واضح طور پر شرک کو گالی سے بڑا جرم قرار دیا ہے.یعنی بتایا ہے کہ اگر شرک موجب قتل نہیں ہے تو گالی کی سزا قتل کیسے ہو سکتی ہے.امام احمد بن حنبل نے بھی ایک حدیث پیش کر کے اپنا موقف پیش کر دیا ہے کہ رسول اللہ صلی لی ایم کے نشان کردہ تین جرموں کے علاوہ کسی اور جرم کی سزا قتل نہیں ہے.نیز یہ بھی کہ گستاخی کرنے والے کو قتل کی سزا دینے کا اختیار بھی رسول اللہ صلی اللہ نام کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے.یہ ساری بحثیں انہی کتابوں میں مذکور ہیں جو از خود اندرونی شہادتوں ہی سے ایسے نام نہاد اجماع کا تار وپود بکھیر رہی ہیں.گزشتہ صفحات میں ان تمام روایات کے بارے میں ٹھوس دلائل اور قطعی ثبوت مہیا کئے گئے تھے اور ثابت کیا گیا تھا کہ یا تو وہ خود قابل استناد نہیں ہیں، یا ان سے جو استدلالات کئے گئے ہیں وہ بوجوہ و دلائل قابل ردّ ہیں.ایسی کمزور ، ضعیف، جعلی اور وضعی روایات یا غلط
توہین رسالت کی سزا 294} قتل نہیں ہے استدلالات پر اگر بعض علماء کی آراء اتفاق کرتی ہیں تو وہ کسی بھی تعریف کے لحاظ سے امت کا اجماع نہیں ہے.یہ بھی دیکھنے کی بات ہے کہ بعض مخصوص مزاج کے علماء اور حکمرانوں کے فتووں اور ان کے عمل پر اگر شریعت کے احکام استوار ہوتے ہیں تو امت مسلمہ کے لئے اس سے بڑی بد نصیبی اور کوئی نہیں ہو سکتی.آنحضرت صلی الم نے اگر یہ سزا مقرر نہیں فرمائی تھی تو باقی لوگوں کی مقرر کردہ سزائیں ان کے اپنے موقف ہیں، اسلامی احکام نہیں ہیں.وہ لوگ نہ تو شارع ہیں اور نہ ہی وہ امت کے لئے اسوہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لئے اصل نمونہ اور اسوہ آنحضرت صلی یی کم کو قرار دیا ہے.اس پاک اور پر رحمت اسوے کے خلاف کسی کا فتوی یا عمل کس طرح قابل قبول ہو سکتا ہے.جیسا کہ اوپر ثابت کیا گیا ہے کہ یہ عقیدہ کہ رسول اللہ صلی علیم کو گالی دینے والے کو قتل کر دیا جائے، قرآن کریم کے خلاف، آپ کی تعلیمات اور پاک اسوے سے متصادم ہے.یہ عقیدہ ایک گمراہ کن ، اسلام کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے والا اور آپ کی پاک ذات پر خون کے دھبے لگانے والا عقیدہ ہے.آپ کی پیشگوئی کے مطابق امت کبھی بھی گمراہی پر اکٹھی ہوئی نہ ہو گی.چنانچہ از منہ گزشتہ میں بھی ائمہ اس عقیدے کو ر ڈ کرتے آئے ہیں اور اس دور میں بھی اسے ناقابل تردید دلائل کے ذریعے رڈ کیا جا چکا ہے.چنانچہ اس تناظر میں حسب ذیل چند امور قارئین کی خدمت میں پیش ہیں.ا: اس باب میں ایک بنیادی اور قابل توجہ امر یہ ہے کہ مجموعی جائزے کے مطابق امت کے حقیقی سوادِ اعظم خلفائے راشدین، مجددین اولیاء اللہ اور ائمہ سلف ہیں.ان کی اکثریت بلکہ وہ تمام اس مسئلے میں بالکل خاموش ہیں.کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الیم نے کبھی بھی
توہین رسالت کی سزا ( 295 ) قتل نہیں ہے کسی کو محض اس کے سب و شتم کی وجہ سے قتل نہیں کیا بلکہ معمولی سی بھی سزا نہیں دی.یہ تو محض خاص مزاج کے علماء ہیں جو ایسی آواز اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ شاتم رسول کو قتل کیا جائے.اکثر اوقات ایسے علماء کے ساتھ وقت کی حکومتیں بھی کار فرما نظر آتی ہیں جو اپنے مخصوص مسائل کا حل سمجھتے ہوئے ایسے ظالمانہ نظریات کی پشت پناہی کرتی ہیں اور ان کی تشہیر و نفاذ میں مدد کرتی ہیں.یہ مخصوص طبقہ ہر گز امت کا سوادِ اعظم نہیں ہے.لہذا اس مسئلے پر امت کا قطعی طور پر اجماع نہیں ہے.آپ اس موضوع پر تمام کتابوں کا جائزہ لے لیں تو آپ کو خاص مکتبہ فکر کے اور خاص مزاج کے محض چند لوگ ہی نظر آئیں گے جو یہ نعرہ بلند کر رہے ہوں گے.اس لئے محمد بن سحنون ہوں یا قاضی عیاض، الصارم المسلول.....کے مصنف ہوں یا بعد کے چند نقال مصنفین، جب اجماع کا نعرہ بلند کرتے ہیں تو جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ محض ایک دھونس کی بنیاد پر کرتے ہیں.جو نظائر اور ثبوت وہ اس کے حق میں دیتے ہیں، بالکل کھو کھلے، بودے اور بے بنیاد ہیں.جیسا کہ ان کی علمی اور حقیقی حیثیت روایات والے باب سے بالکل واضح اور عیاں ہے.ایسی کتابوں میں بار بار یہ لکھا گیا ہے کہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سب اس سے متفق ہیں.لہذ اساری امت کا اس پر اجماع ہے.ایسا بیان محض ایک دھو کہ اور ڈھٹائی ہے.حقیقت.ہے کہ ائمہ اربعہ میں سے امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل کے مسلک کو بیان کیا جا چکا ہے کہ وہ خود اس سے متفق نہیں تھے.امام مالک اور امام شافعی سے بھی کسی مستند صحیح روایت سے یہ ثابت نہیں ہے.علمائے سلف نے اگر اس مسئلے پر قلم اٹھایا ہے تو ان کی نیت پر ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں.ہر ایک اپنا موقف اختیار کر سکتا ہے.انہوں نے اپنے موقف کے حق میں جو مواد پیش کیا
توہین رسالت کی سزا 296 | قتل نہیں ہے ہے ، اس پر ہم نے علمی جرح کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ ان کا پیش کردہ مواد مستند نہیں ہے.اسی وجہ سے اس پر قائم کئے گئے ان کے دلائل بھی درست نہیں ہیں.اس کے مقابل پر آنحضرت صلی الم سے لے کر اب تک یعنی پندرہ صدیوں میں پھیلے ہوئے مسلمہ علمائے ربانی میں سے چند ایک کے نام پیش ہیں.یہ بزرگ وہ ہیں جن پر تمام عالم اسلام فخر کرتا ہے.ان میں سے کوئی بھی ہمیں ان دلائل، عقائد یا موقف پر کھڑا نظر نہیں آتا جن پر قتل شاتم کے قائل علماء یا فقہاء قائم تھے.یہ سب علمائے ربانی اس نام نہاد اجماع میں کہیں بھی شامل نہیں ہیں.یہ باخد ا علمائے اسلام وہ ہیں جو رسول اللہ صلی علیم کے زمانے سے آج تک ہر ایک صدی میں موجود رہے ہیں.ان میں بڑے بڑے بیمثال صاحب کشف و الہام، اولیاء اللہ، مجتہد ، متکلم، محدث، متبحر عالم اور مفسر ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے سے غیر مسلموں پر حجت اور امت کے لئے ایمان و ہدایت کے سامان فرماتا رہا ہے.جیسا کہ حضرت سیّد عبد القادر جیلانی، ابوالحسن خرقانی، ابو الحسن الشعری، ابو شریح ، ابو یزید بسطامی، جنید بغدادی، محی الدین ابن العربی، ابو عبید اللہ نیشاپوری ، قاضی ابو بکر باقلانی، سید علی ہجویری داتا گنج بخش، امام غزالی، امام جلال الدین السیوطی، امام حافظ ابن حجر عسقلانی، صالح بن عمر ، ذوالنون مصری، معین الدین چشتی اجمیری، قطب الدین بختیار کاکی ، امام محمد طاہر گجراتی، شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی، فرید الدین پاک پٹنی، نظام الدین دہلوی، شاہ ولی اللہ دہلوی اور سید احمد شہید بریلوی و غیر ہم ہیں.ان علمائے ربانی کی تعداد ہزار ہا تک پہنچتی ہے.ان کے علم و فضل کے واقعات اور تعلیمات پر مبنی کتابیں بکثرت موجو دہیں.ان میں سے کوئی بھی شاتم رسول کے قتل کا قائل دکھائی نہیں دیتا.اس وسیع منظر میں ایک متشددانہ عقیدے پر اجماع کا دعوی جھوٹا اور شر مسار دکھائی دیتا ہے.
توہین رسالت کی سزا { 297 ) قتل نہیں ہے اس کے ساتھ اس سچائی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ رسول اللہ صلی ال یکم نے علمائے سوء اور امت کی گمراہی کی بڑی واضح اور کھلے کھلے الفاظ میں نشاندہی کی ہے.گمراہ کرنے والے علمائے سوء کا ذکر مجد دین و اولیاء اللہ کی تحریروں میں عام ہے.یہ الگ بات ہے کہ ان علمائے سوء کے پیچھے چلنے والے لوگ مسلمان بھی کہلاتے ہیں اور امت بھی.لیکن ان کا کسی مسئلے میں اتفاق رسول اللہ صلی للی کم کا یا خلفائے راشدین کا مسلک قرار دینا گناہ بھی ہے اور گمراہی بھی.اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہئے کہ علمائے سوء کا ظالمانہ عقیدہ اور مسلک علمائے ربانی کا عقیدہ و مسلک نہیں ہے.یہ خوں آشام عقیدہ یوں تو اسلام کی پہلی صدی سے ہی کسی نہ کسی رنگ میں جھانکتا دکھائی دیتا ہے.مگر اس نے واضح طور پر علمی اور عملی رنگ میں دوسری صدی میں جڑیں پکڑنی شروع کی ہیں.لیکن یہ حقیقت کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس عقیدے کے پیچھے خود غرض حکومتیں یا مخصوص طرز ہی کے علماء ہیں جو کار فرما ہیں.پندرہ صدیوں میں پھیلے ہوئے علمائے تانی ایسے عقیدے کے علمبر دار نہیں تھے.۲ روایات پر بحث والے باب میں ایسی تمام روایات کا تفصیلی علمی اور تحقیقی تجزیہ و حل پیش کیا گیا ہے جو قائلین قتل شاتم اپنے موقف کے حق میں پیش کرتے ہیں.اُس باب میں بھی لکھا گیا ہے کہ قتل شاتم کے بارے میں فتووں کی بنیاد وہ روایتیں ہیں جن میں غالب اور نمایاں طور پر عبد الرزاق، واقدی اور عکرمہ ہیں.عمومی طور پر یہ افرادان کے بنیادی ماخذ ہیں.انہی کی وجہ سے بھی ایسے متشدد فتوے پھیلے ہیں.جنہیں بعض کتابوں والے بار بار اور بتکرار ہزار لکھتے چلے گئے ہیں.اس مسلسل کوشش سے ایک عام قاری پر یہ تاثر قائم ہونے لگتا ہے کہ اس مسئلے میں گویا بہت سے علماء نے متفق طور پر بہت کچھ لکھا ہے، لہذا یہ درست ہے.مگر جیسا کہ ہم نے ثابت کیا ہے کہ حقیقت اس کے بر عکس ہے.وہ حقیقت یہ ہے کہ بعض مخصوص طرز کے علماء
توہین رسالت کی سزا 298 | قتل نہیں ہے کے ایسے نام نہاد اجماع پر امت محمدیہ ہر گز متفق نہیں ہے.ہر سچا مسلمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شریعت محمدیہ ایسی شریعت نہیں ہے کہ جس کی بنیادوں کو جھوٹی اور وضعی روایات سے سینچا جائے.یہ شریعت اللہ تعالیٰ کی نازل فرمودہ تعلیمات بینہ پر قائم اور کتب قیمہ پر استوار ہے.اس میں ایک ذرہ برابر بھی ظالمانہ احکام ہیں نہ متشددانہ اقدام.:M جہانتک اس دعوے کا تعلق ہے کہ ساری امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے.اس کا ایک مختصر ساواقعاتی جائزہ پیش خدمت ہے.حضرت ابو بکر گزشتہ صفحات میں یہ واقعہ تفصیل زیر بحث لایا جا چکا ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم کے بعد پہلے خلیفۃ الرسول حضرت ابو بکر نے ایک گستاخ کو قتل کی اجازت چاہنے والے شخص ابو برزہ اسلمی کو فرمایا تھا: " لَيْسَ هَذَا لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللهِ لا ا ل م م کہ کسی غلطی، جرم یا گناہ پر قتل کی سزا مقرر کرنے کا اختیار صرف رسول اللہ صلی علی ملک کو تھا.آپ شارع تھے.اس حق کی بنا پر یہ آپ ہی کر سکتے تھے.آپ کے بعد یہ حق کسی کو نہیں دیا گیا حتی کہ خلیفہ راشد کو بھی نہیں.حضرت ابو بکر کے اس قول سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آپ نے امت پر واضح فرمایا ہے کہ جن جرائم کے قتل کا ارشادر رسول اللہ صلی للی یکم نے فرمایا ہے ، ان کے سوا کسی اور جرم یا قصور کی سزا قتل نہیں ہے.چنانچہ جن افراد کے قتل کا ذکر آپ نے بیان فرمایا ہے ، وہ تین لوگ ہیں.ان میں گستاخِ رسول یا شاتم رسول کا کسی روایت میں ، کسی جگہ ، کوئی ذکر نہیں ہے.آپ فرماتے ہیں: لا يَحِلُّ دَمُ امْرِيءٍ مُّسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ : رَجُلٌ زَلَى بَعْدَ اِحْسَانِ فَإِنَّهُ يُرْجَمُ وَ رَجُلٌ خَرَجَ مُحَارِباً لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ فَإِنَّهُ يُقْتَلُ أَوْ يُصْلَبُ
توہین رسالت کی سزا 299 | قتل نہیں ہے اَوْ يُنفَى مِنَ الْأَرْضِ أَوْ يَقْتُلُ نَفْسَا فَيُقْتَلُ بِهَا ( ابوداؤ د کتاب الحدود الحکم فیمن ارتز) که تین وجوہات میں سے کسی ایک کے صدور کے علاوہ کسی ایسے مسلمان کا خون جائز نہیں جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے ساتھ کوئی معبود شریک نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں.ایک وہ جو شادی شدہ زناکار ہو ، اسے سنگسار کیا جائے گا.دوسرے وہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محاربت کا اعلان کرتا ہوا نکلے، اسے قتل کیا جائے گا، یا صلیب دیا جائے گا یا ملک بدر کیا جائے گا.اور تیسرے وہ جو کسی کو قتل کرے تو اسے قتل کیا جائے گا.(یعنی قصاص میں قتل کیا جائے گا.) پس ثابت ہے کہ شارع اسلام رسول اللہ صلی نی یکم نے ان تین کے علاوہ کسی اور جرم میں قتل کی سزا مقرر نہیں فرمائی تو آپ سے آگے بڑھ کر یا آپ کی شریعت کے بر خلاف کسی اور جرم کی سزا میں کسی کو قتل کرنا جائز نہیں.حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی عبد الله: حضرت ابو بکر کا موقف تو اوپر درج ہو چکا ہے.باقی تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں کسی مستند اور صحیح روایت یا اثر سے یہ ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے کسی گستاخ کو صرف گستاخی کی بناء پر قتل کیا ہو.روایات صحیحہ میں ایک بھی ایسی روایت نہیں ہے.(جو روایات اس سلسلے میں پیش کی گئی تھیں، ان کی حقیقت کیا تھی؟ یہ گزشتہ باب میں وضاحت کر دی گئی ہے ).پس تمام خلفائے راشدین نے اس نام نہاد اجتماع میں شامل نہیں ہیں.
توہین رسالت کی سزا 300 } قتل نہیں ہے حضرت امام ابو حنیفہ : عون المعبود فی شرح ابی داؤد میں ”کتاب الحدود باب الحکم فیمن سب رسول الله صلى اليوم کی شرح میں حضرت امام ابو حنیفہ کا قول درج کیا گیا ہے کہ ذمی قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس ( سب و شتم) سے زیادہ بڑا (جرم) ان کا شرک ہے.جیسا کہ گزشتہ صفحات میں بتایا گیا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کے متعلق کتاب الصارم.....میں لکھا ہے کہ حضرت نعمان بن ثابت ( امام ابو حنیفہ) کا مسلک ہے کہ شاتم رسول قتل نہیں ہو گا.کیونکہ وہ شرک پر قائم ہیں جو اس (شتم) سے بہت بڑا جرم ہے اور اس کی کوئی سزا نہیں.حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ فتویٰ ہے جو اپنے اندر بنیادی طور پر معقولی اور منطقی وجو ہات رکھتا ہے.آپ کی دلیل یہ ہے کہ تم یہ جو کہتے ہو کہ رسول اللہ صلی علیکم کا شاتم لاز ما قتل ہونا چاہئے ، تو یہ ایک جذباتی بات ہے جو قرآن کے اصولوں سے ٹکرارہی ہے.کیونکہ شرک کو قرآن کریم نے سب سے بڑا گناہ قرار دیا ہے.چنانچہ مشرک تو قتل نہ ہوں اور اس سے ادنیٰ جرائم والے قتل ہوں، اسے انسانی عقل تسلیم نہیں کرتی.اس لئے امام ابو حنیفہ نے اس نظریئے کو بیک جنبش قلم رڈ کر دیا ہے.امام ابو حنیفہ آئمہ اربعہ میں امام اعظم ہیں اور آپ کو دنیائے اسلام میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہے.مجموعی طور پر ترکی حنفی ہے.پاکستان اور ہندوستان کی بھاری اکثریت حنفی ہے.اسی طرح دیگر ممالک اسلامیہ میں امت کی ایک بڑی اکثریت حنفی ہے.ان سب کے امام کا یہ فتوی ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل نہیں ہے.پس امت کی اتنی بڑی تعداد کو ایک طرف کر کے قتل شاتم کے مسئلے کو امت کا اجماع کہنا کسی طرح سچادعوی نہیں ہے.
توہین رسالت کی سزا { 301 ) قتل نہیں ہے قاضی عیاض نے بھی یہ لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام سفیان ثوری اور اہل کوفہ میں سے ان کے متبعین رسول اللہ صلی الی ظلم کے شاتم کے قتل کے قائل نہ تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: فَأَمَّا الذِي إِذَا صَرَّحَ بِسَبِّهِ أَوْ عَرَّضَ ، أَوِ اسْتَخَفَّ بِقَدَرِهِ، أَوْ وَصَفَهُ بِغَيْرِ الْوَجْهِ الَّذِي كَفَرَ بِهِ فَلَا خِلَافَ عِنْدَنَا فِي قَتْلِهِ اِنْ لَّمْ يُسْلِمُ ، إِنَّا لَمْ نُعْطِهِ الدِّمَّةَ وَالْعَهْدَ عَلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ الْعُلَمَاءِ ، إِلَّا اَبَا حَنِيفَةَ وَالثَّوْرِى وَاِتِّبَاعَهُمَا مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ ، فَإِنَّهُمْ قَالُوا، لَا يُقْتَلُ مَا هُوَ عَلَيْهِ مِنَ الشِّرْكِ أَعْظَمُ ، وَلكِنْ يُوَذَبُ وَيُعَزِّرُ “ ( الشفاء صفحہ 821،822) کہ جہانتک ذمی کا معاملہ ہے ، جب وہ واضح طور پر آنحضرت صلی اللہ ملک کو گالی دے یا تعریض سے کام لے یا آپ کی شان میں تخفیف کرے یا آپ کے وصف میں وہ بات کہے جس سے آپ انکار کرتے ہیں.تو اگر وہ اسلام قبول نہیں کرتا تو اس کے قتل کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی اختلاف نہیں ہے.کیونکہ ہم نے اس بات کے بارے میں اس کی نہ ذمہ داری لی ہے ، نہ اس سے کوئی عہد باندھا ہے.یہ علماء کا قول ہے سوائے ابو حنیفہ اور ثوری کے اور کوفے میں ان کے متبعین کے.وہ کہتے ہیں کہ قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ ان کا شرک اس سے زیادہ بڑا (جرم) ہے.مگر اسے تادیب اور تعزیر کی جائے گی.یعنی مسلم اور ذقی کی بحث تو ایک جزوی بات ہے.امام اعظم نے نفس مضمون میں شرک اصل پیمانہ رکھا ہے.یعنی شرک کا ارتکاب خواہ مسلمان کرے یا کوئی کافر ، وہ سب و شتم سے بہر حال بڑا گناہ ہے.لہذا اگر اس کی سزا قتل نہیں رکھی گئی تو پھر شتم رسول صلی ظلم کی سزا بہر حال قتل نہیں ہو سکتی.
توہین رسالت کی سزا 302} قتل نہیں ہے جہانتک ذمی کی بحث کا تعلق ہے تو امام اعظم نے اس سے یہ بھی انتہائی واضح اصول وضع فرمایا ہے کہ ذمی کے گالی دینے سے اس کا عہد نہیں ٹوٹتا.جب عہد نہیں ٹوٹتا تو پھر اس وجہ سے بھی اس کے قتل کا جواز بھی کالعدم ہو جاتا ہے.حضرت امام مالک: عون المعبود في شرح ابی داؤد کتاب الحدود باب الحلم فيمن سب رسول اللہ صلی ال یکم میں روایت کی شرح میں حضرت امام مالک کا قول بھی درج کیا گیا ہے کہ سب و شتم کرنے والا یہودی و عیسائی قتل کیا جائے گا سوائے اس کے کہ وہ مسلمان ہو جائے.( یعنی اسے مہلت دی جائے گی کہ وہ مسلمان ہو جائے) چنانچہ حضرت امام مالک کی طرف منسوب ایک روایت یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ قاضی عیاض بیان کرتے ہیں کہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک سے یہ مسئلہ پوچھا کہ جو شخص رسالت مآب صلی لی ہم کو برا کہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ بعض علماء اس کے لئے کوڑے تجویز کرتے ہیں.امام مالک نہایت غصے میں آگئے اور فرمایا کہ امت کے نبی صلی ال نام کے خلیفہ وقت ! امت کے نبی صلی اللہ ہم کو گالی دی جائے اور امت اسے ختم نہ کرے تو کیا ایسی امت زندہ رہ سکتی ہے ؟ جو شخص کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے.حضرت امام مالک کا زمانہ 93ھ سے 179ھ تک ہے اور مسلمان بادشاہ خلیفہ ہارون الرشید کا زمانہ 170ھ سے 193ھ تک کا ہے.یعنی حضرت امام مالک نے ہارون الرشید کی خلافت کے نو دس سال دیکھے ہیں.
توہین رسالت کی سزا { 303 ) قتل نہیں ہے قاضی عیاض سپین کے مفتی تھے.ان کے فتووں کی سند اور ان کی حقیقت ، اس مثال سے ظاہر ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہ فتویٰ امام مالک کا ہے.لیکن امام مالک کی کسی اور کتاب کا حوالہ بھی نہیں دیا گیا.کس نے یہ روایت کی ہے ؟ اس کا بھی کچھ پتا نہیں.موطا امام مالک میں تو کسی ایسے فتوے کا ذکر نہیں ہے.یعنی محض ایک بے حوالہ اور بے سند بات لکھی ہے.الغرض ایک وضعی واقعہ ہے جو امام مالک کی طرف منسوب کیا گیا ہے.یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ آپ شریعت کے کامل پابند اور اس کے مسائل پر گہری نظر رکھنے والے تھے.قرآن کریم کی تعلیمات کا انتہائی عرفان رکھتے تھے.روایات کی جانچ پڑتال اور چھان پھٹک پر بھی گہری دسترس تھی.لہذا آپ کسی مسئلے میں رسول اللہ صلی الی یم اور خلیفہ الرسول کے قول اور عمل سے متصادم فتوی نہیں دے سکتے تھے.پس واضح طور پر ایسی بات ان کی طرف از راہ افتراء منسوب کی گئی ہے.جہانتک اس بات کا تعلق ہے جو امام مالک کی طرف منسوب کی گئی ہے کہ ” امت کے نبی صلی اللہ علم کو گالی دی جائے اور امت اسے ختم نہ کرے تو کیا ایسی امت زندہ رہ سکتی ہے ؟“ یہ کلام ہی بتاتا ہے کہ ایسا ہر گز امام مالک کی زبانِ مبارک سے ادا نہیں ہوا.کیونکہ رسول اللہ صلی ال ایم کی مبارک زندگی میں متعد دلوگوں نے رسول اللہ صلی علی کیم پر سب کی.آپ کے روبرو آپ کی گستاخی کی.نہ آپ نے انہیں قتل کیا نہ صحابہ نے.لیکن امت پھر بھی زندہ رہی، پنپتی بھی رہی اور بڑھتی بھی رہی.تاریخ ام شاہد ہے کہ کسی کی گالی سے نہ کسی امت کی زندگی ختم ہوتی ہے نہ کسی شاتم کو قتل کرنے سے کسی امت میں زندگی پید اہوتی ہے.یہ ایسی نامعقول بات ہے کہ امام مالک کی طرف منسوب نہیں ہو سکتی.علاوہ ازیں اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی یکم نے آخری زمانے میں احیائے اسلام کی پیشگوئیاں کی ہیں.اس زمانے میں آپ کی تکذیب اور آپ کی شان میں
توہین رسالت کی سزا 304 | قتل نہیں ہے استہزاء بھی عروج پر ہے.اسکے باوجو دامت زندہ ہے اور اسلام سرعت کے ساتھ دیگر ادیان پر غالب ہو رہا ہے.تو مذکورہ بالا تبصرہ: امت کے نبی صلی الی یم کو گالی دی جائے اور امت اسے ختم نہ کرے تو کیا ایسی امت زندہ رہ سکتی ہے ؟ جو شخص کسی نبی کو گالی دے اسے قتل کیا جائے.امام مالک کا نہیں ہے ، آپ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور یہ قصہ ہی جھوٹا ہے.یہاں یہ بھی مد نظر رہے کہ ہارون الرشید کے اس سوال میں یہ ذکر موجود ہے کہ بعض علماء اس کے لئے کوڑے تجویز کرتے ہیں.“ یہ بیان ایک واضح گواہی ہے کہ سب علماء کا شاتم رسول کے قتل پر اجماع نہ تھا.بعض اس کی سزا کوڑے تجویز کرتے تھے.حضرت امام شافعی: حضرت امام شافعی کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس معاملے میں وہ سب سے زیادہ متشد د تھے.مگر ان کا صرف ایک فتویٰ تھا.لیکن وہ بھی اس طرح بیان ہوا ہے کہ آپ یہ فتویٰ دیا کرتے تھے کہ شاتم رسول کا قتل لازم ہے اور اس پر تمام امت مسلمہ متفق ہے.ان کی اس بات کا کوئی گواہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ ان کا کوئی تحریر شدہ معین فتوی ہے.البتہ کسی کا محض ایک بے سند بیان ہے جسے امام شافعی کا مسلک قرار دیا گیا ہے.بفرضِ محال اگر مان بھی لیا جائے کہ امام شافعی قتل شاتم کے قائل تھے اور آپ کا مسلک یہی تھا تو بھی یہ صرف انہی کا مسلک تھا اور شافعیوں کے لئے تو قابل عمل ہو سکتا ہے ، ساری امت کا مسلک یا اجماع قرار نہیں دیا جا سکتا.
توہین رسالت کی سزا { 305 ) قتل نہیں ہے حضرت امام احمد بن حنبل: ابو برزہ الا سلمی والی روایت، جس پر روایات والے باب میں تفصیلی بحث گزر چکی ہے.اس پر سنن ابی داؤد میں حضرت امام احمد بن حنبل کا یہ تبصرہ بھی لکھا ہے : 6 أَنْ لَمْ يَكُنْ لِأَبِي بَكْرٍ أَنْ يَقْتُلَ رَجُلًا إِلَّا بِإِحْدَى الثَّلَاثِ الَّتِي قَالَهَا رَسُوْلُ اللَّهِ عو الله ، كفرٌ بَعْدَ إِيْمَانٍ أَوْ زِنَا بَعْدَ إِحْصَانٍ أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ وَكَانَ لِلنَّبِيَّ أَنْ يقتل.کہ حضرت ابو بکر اس شخص کو قتل کی سزا نہیں دے سکتے تھے کیونکہ رسول اللہ صلی ال تیم نے ان تین کے علاوہ کسی مسلمان کا خون جائز قرار نہیں دیا.یہ تین جرائم ہیں.ایک وہ شادی شدہ جو زناکار ہو اسے سنگسار کیا جائے گا.دوسرے وہ جو ( دین سے) اللہ اور اس کے رسول سے محاربت کا اعلان کر تا ہو انکل جائے، اسے قتل کیا جائے گا، یا صلیب پر لٹکایا جائے گا یا ملک بدر کیا جائے گا.اور تیسرے وہ جو کسی کو قتل کرے تو اسے قتل کیا جائے گا.ہاں ان تینوں کے علاوہ کسی اور جرم پر اگر دے سکتے تھے تو رسول اللہ صل اللی یک اسے سزائے قتل دے سکتے تھے.امام احمد بن حنبل کا یہ تبصرہ دو ٹوک فیصلہ کن اور انتہائی بصیرت افروز ہے جو واضح کرتا ہے کہ شاتم رسول اس فہرست میں شامل نہیں ہے جو خو درسول اللہ صلی اللہ ہم نے مرتب فرمائی ہے.اس سے زیادہ اس روایت پر مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں.گزشتہ باب میں اس پر تفصیلی بحث ہو چکی ہے.پس ان تین پہلوؤں کی موجودگی میں یہ کہنا کہ توہین رسالت کی سزا قتل پر امت کا اجماع ہے ایک ایک ایسا دعوی ہے جس کی بنیاد دھونس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے.اس نام نہاد اجماع یا مبینہ دھونس میں اکابر ائمہ ہر گز شامل نہیں ہیں.
توہین رسالت کی سزا 306} قتل نہیں ہے عدم اجماع کی ایک اور شہادت: اوپر کی سطروں میں خلفائے راشدین، ائمہ کبار کے ساتھ اہل کوفہ کی شہادتیں پیش کی گئی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی رنگ میں قتل شاتم کے قائل نہ تھے.پھر یہ نام نہاد اجماع اس طرح بھی ٹوٹا ہے کہ قاضی عیاض خود ہی اہل مدینہ کا موقف یوں لکھتے ہیں: وَاخْتَلَفُوا إِذَا سَبَهُ ثُمَّ أَسْلَمَ، فَقِيْلَ - يُسْقِطُ إِسْلَامُهُ قَتْلَهُ لِأَنَّ الإِسْلَامَ يَجُبُّ مَا قَبْلَهُ ، بِخِلَافِ الْمُسْلِمِ إِذَا سَبَّهُ ثُمَّ تَابَ ( الشفاء صفحہ 822) ترجمہ: ان کا اس میں اختلاف ہے کہ گالی کے بعد جب وہ اسلام قبول کر لے.کہا جاتا ہے کہ اس کا اسلام اس سے سزائے قتل کو ساقط کر دیتا ہے.کیونکہ قبول اسلام پہلے کے اعمال کا کفارہ ہو جاتا ہے.اس کے بر عکس کہ ایک مسلمان گالی دے اور پھر تو بہ کرے.یعنی غیر مسلم رسول اللہ صلی کم کو گالی دے اور پھر اسلام قبول کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور اگر مسلمان گالی دے تو اسے قتل کیا جائے گا.زیر بحث کتابوں یعنی الشفا اور الصارم المسلول وغیرہ میں یہ بھی بڑی تکرار کے ساتھ اور بار بار لکھا گیا ہے کہ شاتم کی توبہ بھی قبول نہ کی جائے گی.اسے ہر حال میں قتل کیا جائے گا.مگر ساتھ ہی ان کتابوں میں سے ایک نے اہل مدینہ کے اختلاف کا ذکر کر کے بتا دیا ہے کہ اس پر سب کا اجماع نہیں ہے.ان کتابوں میں ذقی اور غیر ذمی کے قتل یا عدم قتل کی بحثیں بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امت کا اس مسئلے پر قطعی طور پر اجماع نہیں ہے.ان محکم شواہد کی وجہ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ قتل شاتم رسول پر کسی طور پر بھی اجماع کا دعوی درست نہیں ہے.بلکہ حقیقت اس کے الٹ ثابت ہے.کیونکہ خلفائے راشدین، ائمہ اربعہ ، مجد دین، اولیاء اللہ و صلحائے امت جن کے نام اس باب میں درج کئے گئے
توہین رسالت کی سزا 307 قتل نہیں ہے ہیں، یہی سوادِ اعظم ہیں، یہ سب قتل شاتم کے خلاف کھڑے ہیں.یعنی ان سب کا اجماع قتل شاتم کے خلاف ہے.*****
توہین رسالت کی سزا 308 } يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ قتل نہیں ہے
توہین رسالت کی سزا باب ونیم 309 | قتل نہیں ہے رسول اللہ صلی علیم کی سیرت پاک کا ایک حقیقت افروز تجزیاتی مطالعہ ***** رسول اللہ صلی علیکم کے بچپن کے حالات کو بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ دستیاب نہیں ہیں مگر پھر بھی سیرت نویسی کے جملہ تقاضوں کی بھر پور تشفی کے لئے آپ کے بچپن سے نبوت تک کے حالات مستند اور تسلی بخش حد تک محفوظ ہیں.نیز یہ بھی ایک الگ حقیقت ہے کہ آپ کی ابتدائی زندگی کے واقعات اتنی تفصیل کے ساتھ دستیاب ہیں کہ گزشتہ انبیاء میں اس کی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ ایک سیرت نویس جب تحقیق کے بچے تقاضے پورے کرتا ہے تو آپ کے بچپن اور دور جوانی کے حالات میں بھی صبر و تحمل، عفوو درگزر اور حسن اخلاق ہی کو آپ کے جملہ افعال و اعمال اور اقوال پر غالب پاتا ہے.وہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی آپ کی سوانح میں آپ کی کوئی منفی عادت نہیں ڈھونڈھ سکتا.آپ کا ہر قول اور فعل چاہے وہ نبوت سے پہلے کا تھا یا بعد کا، مثبت ہی نہیں، غیر معمولی مثبت تھا بلکہ ایک ایک قول اور ایک ایک فعل خوبی و دلکشی میں سوا تھا.کسی شخص کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کا اندازہ لگانے کے لئے یہ طریق کافی ہے کہ اس کے بچپن اور جوانی کے حالات کا جائزہ لیا جائے.اگر تو ابتداء ہی سے وہ شخص زود رنج ، غصیلا ، تو تکار کا عادی ، جارحیت سے پر اور لڑنے بھڑنے پر آمادہ ہو تو اس کی بچپن اور شباب کی عمر میں اس کے اگر کافی نہیں تو چند ایک واقعات ضرور مل جاتے ہیں، جو نشاند ہی کرتے ہیں کہ وہ اپنی طینت اور فطرت ہی میں ایسی عادتیں رکھنے والا تھا.مگر جہا تک رسول اللہ صل الیکم کی خلق عظیم پر استوار
توہین رسالت کی سزا 310 } قتل نہیں ہے غیر معمولی شخصیت کا تعلق ہے تو آپ کے بچپن اور جوانی کے حالات میں کسی ایک جگہ بھی ایسا ذکر نہیں ملے گا کہ آپ نے کسی ہم عمر کے ساتھ کوئی لڑائی جھگڑا یامار پیٹ تو کجا، اسے ذرہ بھر بھی دکھ دیا ہو.یہانتک کہ گھر میں بھی کبھی کوئی ضد نہیں کی اور نہ ہی کسی تنگی پر حتی کہ بھوک پیاس پر بھی کبھی کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار یا احتجاج کیا.چنانچہ آپ کی بچپن کی دایہ اور رضاعی ماں حضرت اُم ایمن بیان کرتی ہیں : ” میں نے نبی کریم صلی اللہ کل کو کبھی بھی بچپن میں یا بڑی عمر میں ) بھوک یا پیاس کی شکایت کرتے ہوئے نہیں دیکھا.(مدارج النبوة (فارسی) از شاه عبد الحق محدث دہلوی جلد 2 صفحہ 33 مطبوعہ مطبع فیض منشی نولکشور و (اردو) جلد 2 صفحہ 38 مطبوعہ شبیر برادر زاردو بازار لاہور.2004ء ایڈیشن) رسول اللہ صلی ال ل و م بچپن میں اپنی رضاعی ماں حلیمہ سعدیہ کے ہاں بنو سعد میں رہے.بچوں کے ساتھ کھیلے، بکریاں چرائیں اور گھر کے کام کاج کئے مگر ایک بار بھی کسی دھینگا مشتی اور کسی لڑائی جھگڑے میں ملوث نہیں ہوئے.اپنی جوانی کے دور میں آپ کبھی کسی بیہودہ مجلس میں شریک نہیں ہوئے.حتٰی کہ کہانیوں اور شعر و غزل کی مجلسوں میں بھی شرکت نہیں فرمائی.آپ کے عنفوانِ شباب کے زمانے میں حرب فجار ہوئی جو بنو کنانہ بشمول قبیلہ قریش اور قبیلہ قیس عیلان بشمول بنو ہوازن ایک خونریز لڑائی تھی.اس میں آپ اپنے چچاؤں کے ہمراہ تھے.آپ اپنی عمر کے تقاضوں کے تحت لڑائی میں بھر پور حصہ لے سکتے تھے.مگر امر واقعہ ہے کہ لڑائی میں آپ کی شمولیت بالکل محدود تھی.معلوم ہوتا ہے کہ قبائلی حلیف ہونے کے عہد کی وجہ سے آپ کو اس لڑائی میں شامل ہونا پڑا مگر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت آپ کو اس میں جو کر دار ملاوہ یہ تھا کہ آپ اپنے چچاؤں کو صرف تیر پکڑاتے تھے وبس.یعنی عملاً آپ لڑائی میں
توہین رسالت کی سزا { 311 ) قتل نہیں ہے شامل نہیں ہوئے حالانکہ اس وقت آپ کی عمر کم و بیش اٹھارہ میں سال تھی.اس عمر میں تو نوجوان لڑنے بھڑنے میں اپنی طاقت اور مہارت کے جوہر دکھاتے ہیں اور اپنی جان کی پر واہ تک نہیں کرتے.پس آپ کا یہ طرز عمل بتاتا ہے کہ آپ کو لڑائی طبعا نا پسند تھی اور آپ فطرتا امن پسند تھے اور صلح بجو.یہ منظر بھی قابل دید ہے کہ نبوت کے بعد جو جنگیں رسول اللہ صلیالی تم پر مسلط کی گئیں، ان میں گو آپ ہمیشہ میدانِ جنگ کے عین وسط میں رہے مگر آپ کی تلوار سے کوئی قتل نہیں ہوا.سوائے ایک شخص ابی بن خلف کے جو غزوہ احد میں للکار تا ہوا اور لا نَجَوْتُ إِنْ نجا (کہ اگر آپ بچ گئے تو پھر گویا میں نہ بچا پکارتا ہوا آپ کے سامنے آیا.صحابہ نے اسے روکنا چاہا مگر آپ نے فرمایا کہ اسے آگے آنے دو.جب وہ آپ کو قتل کرنے کے لئے آگے بڑھا تو آپ نے اس پر نیزے سے وار کیا جس سے وہ چکرا کر گرا اور پھر چیختا چلاتا ہو ابھاگ گیا.گوز خم بظاہر زیادہ نہ تھا.کفار اسے تسلی بھی دیتے تھے کہ زخم کوئی ایسا نہیں ہے جو مہلک ہو مگر وہ اس ضرب سے کچھ ایسا دہشت زدہ تھا کہ مکے پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں سرف کے مقام میں ہلاک ہو گیا.(ابن ہشام مقتل ابی بن خلف.غزوۃ احد الجزء الثالث صفحہ 19) حلف الفضول: اپنے طبعی رجحان کے تحت ہمیشہ آپ نے رفاہی کاموں میں اور معاشرے کی بہبود میں بھر پور حصہ لیا.تاریخ نے اس حقیقت کو تفصیل کیسا تھ محفوظ کیا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ پہلے کسی وقت عرب کے بعض نیک دل اشخاص کو یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ ایسا معاہدہ کریں کہ وہ ہمیشہ حقدار کو اس کا حق حاصل کرنے میں مدد دیں گے اور ظالم کو اس کے ظلم سے روکیں گے.اس معاہدے
توہین رسالت کی سزا { 312 قتل نہیں ہے کا نام حلف الفضول رکھا گیا.بعد میں اس پر زمانے کی گرد چڑھ گئی اور یہ کالعدم ہو گیا.رسول اللہ صلی ال کم کی جوانی کے زمانے میں آپ کے چا زبیر بن عبد المطلب نے اس کی تجدید کی تو آپ اس کے مستعد اور فقال ممبر بنے اور عملاً لوگوں کے حقوق دلوانے اور ان کے بوجھ ہلکے کرنے میں سب سے بڑھ کر سر گرم عمل تھے.نبوت کے زمانے میں آپ فرماتے تھے : ” میرے لئے اس تنظیم ) میں شامل ہونے کی خوشی اونٹوں جیسی نعمت سے بھی بڑھ کر ہے.مجھے اس معاہدے کا حوالہ دے کر اگر اب بھی مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور مدد کروں گا.“ ( ابن ہشام.حلف الفضول، حدیث رسول الله عن حلف الفضول.مطبعہ توفیقیہ بمصر ) حجر اسود کا قضیہ : رسول اللہ صلی لی ہم نہ صرف لڑائی جھگڑے سے خود بچتے تھے بلکہ آپ نے لوگوں کو بھی اس سے بچانے میں ایک اہم اور موئثر کردار ادا کیا.چنانچہ آپ کے سریر آرائے نبوت ہونے سے بہت پہلے کا واقعہ ہے کہ قریش مکہ نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا ارادہ کیا.تعمیر کے وقت دیوار جب حجر اسود کی بلندی کے برابر پہنچی تو قبائل قریش میں یہ جھگڑا ہو گیا کہ کون سا قبیلہ اسے اس کی جگہ پر رکھے.بحث و تکرار میں نوبت یہانتک پہنچ گئی کہ سبھی لڑنے مرنے کے لئے تیار ہو گئے.بعض نے تو زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق خون میں انگلیاں ڈبو کر قسمیں بھی کھالیں کہ مر جائیں گے مگر اس اعزاز کو اپنے قبیلے سے باہر نہ جانے دیں گے.آخر یہ تجویز پیش ہوئی کہ صبح جو شخص سب سے پہلے حرم میں آئے گا وہی بطور حکم اس قضیے کا فیصلہ کرے گا.یہ ایک ایسی مشکل صور تحال تھی کہ قبائل کی ضد، خود غرضی اور عصبیت کے پیش نظر یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ سوائے آپ کے کوئی اور اسے حل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا تھا.چنانچہ صبح آپ ہی تھے جو سب
توہین رسالت کی سزا 313} قتل نہیں ہے سے پہلے حرم میں مقررہ مقام پر تشریف لائے.جب دوسرے لوگ آئے تو انہوں نے امین امین کہہ کر یہ اقرار کیا کہ وہ سب آپ کے فیصلے پر راضی ہوں گے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت سے ایساد لنشین فیصلہ فرمایا کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھا اور آفرین آفرین کی صدائیں بلند کرنے لگا.یہ فیصلہ ایسا تھا کہ جس نے بڑی آسانی کے ساتھ ہر ایک قبیلے کی عزت، احترام اور خون کی حفاظت کی اور ان میں امن و سلامتی کی فضا بھی قائم کر دی.آپ نے حجر اسود کو اپنی چادر پر رکھا اور تمام رؤوسا کو چادر کے کنارے پکڑا دیئے اور انہیں اسے اوپر اٹھانے کو کہا.جب چادر اس کے رکھنے کی جگہ کے برابر پہنچی تو آپ نے اسے اٹھایا اور دیوار میں اس کی مخصوص جگہ پر رکھ دیا.(الشنا، فصل فی عدلہا و امانته وعفته وصدق لهجته ، طبری، ابن ہشام، ابن سعد، زرقانی و تاریخ الخمیس) یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی علی یم اپنی جوانی کے دور میں بھی امن و سلامتی اور صلح و آشتی کے خوگر تھے.آپ قبائل اور معاشرے کو خون خرابے سے بچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.آپ ہر لمحہ انسانیت اور انسانی خون کی حفاظت کی ترکیب فرماتے تھے.نفع رساں اوصاف حمید و آنحضرت صلی یکم معاشرے میں سب سے زیادہ نفع رساں وجود تھے.آپ کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت خدیجہ فرماتی ہیں: "إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَ وَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِئُ الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلى نَوَابِبِ الْحَقِّ.“ (بخاری کتاب كيف كان بدء الوحی...) کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کو اٹھاتے ہیں ، جو نیکیاں مٹ چکی ہیں ، آپ ان
توہین رسالت کی سزا 314} قتل نہیں ہے کو دوبارہ قائم کرتے ہیں، مہمان نوازی اور تکریم ضیف کرتے ہیں اور ضروریاتِ حقہ میں دوسروں کی مدد کرتے ہیں.یہ سب خوبیاں وہ ہیں جو دیگر وسیع اوصاف کی جامع ہیں.جیسا کہ حضرت خدیجہ کے بیان سے ظاہر ہے کہ یہ خوبیاں معاشرے سے معدوم ہو چکی تھیں، جنہیں آپ نے ہستی عطا فرمائی، جن کا آپ نے احیائے کو فرمایا.یہ سب آپ کی جوانی کے دور کے اعمالِ صالحہ اور اوصاف حسنہ ہیں.یہاں ہر قاری اندازہ کر سکتا ہے کہ جو شخص بچپن اور جوانی کے دور میں ایسے اوصافِ عالیہ سے متصف ہو جو رحمت و کرم کے منبع سے پھوٹ پھوٹ رہے ہوں، وہ اپنی بڑھتی ہوئی عمر میں کیونکر سختی، کشت و خون اور جبر و تشدد کا دلدادہ ہو سکتا ہے.آپ اپنے دورِ شباب میں خدمتِ خلق کے لئے معاشرے میں ایسی نیکیوں کے قیام کی خاطر اپنے طعام و آرام و سکون تو کیا، تن ، من اور دھن کو قربان کر رہے تھے.پس آپ پر قتل و خون کے الزام لگانے والوں کو آپ کی طبعی، نفسیاتی اور قلبی کیفیات پر غور کرنا چاہئے اور تو بہ کرنی چاہئے.آسانی عطا فرمانے والے: روایت ہے کہ ”آپ کو جب بھی دو باتوں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے جو آسان ہوتی اسے اختیار فرماتے.لیکن وہ آسان بات اگر گناہ ہوتی تو پھر آپ اس سے سب سے زیادہ نفرت کے ساتھ دور رہنے والے ہوتے تھے.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعد ته اللا شام.....)
توہین رسالت کی سزا 315} قتل نہیں ہے اپنے نمائندوں کو کسی جگہ بھجواتے تو آپ کی نصیحت ہوتی تھی کہ سسُوا وَلَا تُعَمِّه وا، بشهرُ وا وَلَا تُنفِرُ وا ( بخاری کتاب العلم ماکان رسول الله صل ال توله) که آسائش پیدا کر و اور مشکل پیدا نہ کرو،خوشی پہنچاؤ، نفرت نہ دلاؤ.آپ کی سب کو نصیحت بھی یہی تھی اور پاک فطرت پر استوار آپ کا اپنا عمل بھی یہ تھا کہ آپ ہمیشہ آسانیاں عطا کرنے اور خوشیاں بانٹنے کی کوشش فرماتے تھے.بیحد دیالو: آپ سب سے زیادہ سخی تھے.بھلائی اور سخاوت میں آپ موسلا دھار بارش اور اس میں چلنے والی تیز ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار تھے.(بخاری کتاب بدء الوحی و کتاب الادب باب حسن الخلق والسخا) آپ سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپ نے کبھی ”“ یعنی نہ نہیں کہا.(بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق و السخاو مسلم کتاب الفضائل باب فی سخامه صلى اليوم.آپ کے ان جبلی اوصاف کو دیکھ کر ایک معمولی عقل کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ جو غریبوں اور مسکینوں کے بہبود اور رفاہ عامہ کے لئے ایسی مستقل عادتیں رکھتا ہو وہ انسانوں کے قتل و خون کو کیو نکر پسند کر سکتا ہے؟ سادگی پسند ، حلیم الطبع اور منکسر المزاج: صحیح روایات بتاتی ہیں کہ ”آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی اور آپ ادنیٰ سے ادنی کام کرنے میں بھی کوئی عار نہیں سمجھتے تھے.آپ اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے تھے.گھر کے کام کاج
توہین رسالت کی سزا { 316 ) قتل نہیں ہے کرتے تھے.اپنی جو تیوں کی مرمت کر لیتے تھے.کپڑوں کو خود پیوند لگا لیتے تھے.بکری دوہ لیتے تھے.خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے.اگر وہ آٹا پیتے کبھی تھک جاتا تو آپ اس کی مدد کرتے تھے.بازار سے گھر کا سامان اٹھا کر لے آتے تھے.ہر امیر غریب سے مصافحہ کرتے تھے.سلام کرنے میں پہل کرتے تھے.اگر کوئی معمولی کھجوروں کی دعوت بھی دیتا تو آپ اسے حقیر نہ سمجھتے اور قبول فرماتے تھے.آپ نہایت ہمدرد، نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا.ہر ایک سے بشاشت اور مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے.ایک دل آویز تبسم کی جھلک ہر وقت آپ کے چہرے پر رہتی تھی.آپ خدا تعالیٰ کے خوف اور اس کی بے نیازی سے فکر مند رہتے تھے.آپ کے اندر ترش روئی اور خشک طبعی کا نام و نشان نہ تھا.منکسر المزاج تھے لیکن اس میں کسی کمزوری یا پست ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا.آپؐ بے مثال سخی تھے مگر اسراف نہیں کرتے تھے اور بے جا خرچ سے ہمیشہ بچتے تھے.آپ نرم دل اور رحیم و کریم تھے.آپ کے کھانے میں بھی میانہ روی تھی یعنی اتنا نہ کھاتے کہ ڈکار لیتے رہیں.کبھی حرص و طمع کی وجہ سے ہاتھ نہ بڑھاتے تھے بلکہ آپ صبر وشکر اور قناعت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے.(الشفا الباب الثانی فصل فی تواضعها) آپ میں تکبر کا شائبہ تک نہ تھا.”آپ نہ کسی بات پر ناک چڑہاتے تھے اور نہ اس میں کوئی عار سمجھتے تھے کہ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں اور ان کے کام آئیں اور ان کی مدد کریں.(مسند الدار می باب فی تواضع رسول اللہ صلی ال) آپ کے یہ مذکورہ بالا تمام اوصاف قطعی ثبوت مہیا کرتے ہیں کہ آپ سخت دل اور جابر انسان نہیں تھے کہ کسی کی بد زبانی پر انگیخت ہو کر اسے زیر تعزیر لے آتے.آپ کی فطرت ہی
توہین رسالت کی سزا 317} قتل نہیں ہے رحم و کرم ، ہمدردی اور حلم کے خمیر سے اٹھائی گئی تھی.آپ کی تمام زندگی اسی حلم، ہمدردی اور لطف و کرم پر قائم تھی.محبتم حيا: رسول اللہ صلی علیکم کے صحابہ بتاتے ہیں: ” آپ پر دہ نشین حیادار کنواری سے بھی زیادہ حیار کھتے تھے.جب کوئی چیز آپ کو نا پسند ہوتی تو آپ کے چہرے کے آثار سے ہم آپ کی قلبی کیفیت کو پہچان لیتے تھے.“ (بخاری کتاب المناقب باب فی صفتہ النبی صل الليل ) اس مزاج اور فطرت والے وجود کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ جب تک کسی شاتم کو قتل نہ کر الیتا تھا اسے چین نہ آتا تھا.وہ قتل کرنے والے کو شاباش دیتا تھا وغیرہ وغیرہ، یہ کسی دشمن کا کہناتو ہو سکتا ہے، آپ کے سچے محب کا کہنا نہیں ہو سکتا.غلاموں، یتیموں، بے کسوں اور خادموں پر شد نبوت سے قبل آپ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ نے اپنا ایک غلام زید بن حارثہ آپ کے سپر د کر دیا تھا.آپ نے اس کے ساتھ ایسی محبت و شفقت فرمائی کہ اسے اپنا متبنی بنالیا.اس سے آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ اس کے والد اور چچا جب اس کی تلاش میں پوچھتے بچھاتے ملے آگئے.جب انہوں نے اسے ساتھ لے جانے کا اظہار کیا تو باوجود آپ کی اجازت کے اس نے اپنے سگے والد اور چچا کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ میرے لئے چچا اور والد سے بڑھ کر ہیں.اس پر زید کا باپ غصے میں بولا کہ کیا تو غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہے.زید نے کہا: ”ہاں! کیونکہ میں نے ان میں ایسی خوبیاں دیکھی ہیں کہ اب میں کسی کو ان پر ترجیح نہیں دے
توہین رسالت کی سزا 318} قتل نہیں ہے سکتا.(اسد الغابہ و ابن ہشام اسلام زید بن حارثہ الجزء الاول صفحہ 181 ناشر المکتبۃ التوفیقیۃ الازھر) اور ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.آپ کے ایسے ہی اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے کبھی کسی کو مارا نہیں تھا نہ کسی عورت کو نہ خادم کو.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعد نہ گلاثام....) حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں: ”میں نے رسول اللہ صلی علیم کی خدمت میں دس سال گزارے.اس پورے عرصے میں آپ میرے متعلق کوئی ناپسند بات زبان پر نہ لائے.نہ آپ نے کبھی یہ فرمایا کہ فلاں کام کیوں کیا اور نہ یہ فرمایا کہ فلاں کام کیوں نہ کیا.( بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق و السخا) حضرت خدیجہ کے بیٹے ہند رسول اللہ صلی علیم کے زیر تربیت رہے تھے.ان کا بیان ہے کہ آپ دنیا اور اس کے معاملات کی خاطر کبھی ناراض نہ ہوتے تھے ، نہ ہی آپ اپنی ذات کی خاطر کبھی غصے ہوئے نہ ہی کبھی بدلہ لیا.(شمائل ترمذی باب ماجاء فی کلام رسول اللہ علی تیری) آپ نے کبھی بھی فحش کلامی نہیں کی.( بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق والسخا) آپ یتیموں کی کفالت کے لئے انتہائی درد رکھتے تھے.بیواؤں کے لئے بیحد فکر مند رہتے تھے.بے کسوں پر آپ کا دامن رحمت بارش بھرے بادل کی طرح سایہ فگن تھا.چنانچہ روایت ہے کہ ایک صحابی اپنے غلام کو پیٹ رہے تھے.عقب سے یہ آواز آئی کہ خدا تم پر اس سے زیادہ اختیار اور قدرت رکھتا ہے.اس صحابی نے مُڑ کر دیکھا تو خو درسول اللہ صلی ای کم تھے.عرض کی: یا رسول اللہ ! میں نے اسے اللہ کی خاطر آزاد کر دیا ہے.فرمایا: ” اگر تم ایسا نہ کرتے تو آتش دوزخ تمہیں چھو لیتی.“ (ابو داؤد کتاب الادب باب فی حق الملوک)
توہین رسالت کی سزا 319 قتل نہیں ہے ایسا نرم خو اور ہر کس و ناکس پر دامن تر تم دراز کرنے والا وسیع الظرف رحیم و کریم انسان کس طرح کسی کو صرف اس لئے قتل کر سکتا ہے کہ وہ اسے گالی دیتا ہے.آپ تو مجسم عفو و در گزر تھے اور معاف کر دینا آپ کا عام اور مستقل عمل تھا.یہ آپ کا فطرتی عمل بھی تھا اور آپ کی مستقل تعلیم بھی یہی تھی.آپ کا مضرور تم عام تھا جس کی تجلی ہر ایک پر یکساں تھی.گالی کے بارے میں تو آپ بڑی وضاحت سے فرما چکے تھے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے محمد بنایا ہے مصلی کریں تو کسی کے مذمم کہنے سے آپ کو کس طرح فرق پڑ سکتا ہے؟ روایات صحیحہ شاہد ہیں کہ ہر ایسے واقعے پر آپ ہمیشہ کمال تحمل اور بردباری دکھاتے تھے.یعنی رد عمل میں آپ کا تحمل وبر دباری اور عفو گالی گلوچ کے اثر سے کہیں اور کئی گنا بڑھ کر ہوتا تھا.جس کے نتیجے میں اس بد زبانی اور ہرزہ سرائی کا اثر وہیں اور اسی وقت دب کر رہ جاتا تھا جیسا کہ ”اَلسّامُ عَلَيْكَ “ والا واقعہ اور اسی نوع کے دیگر واقعات اس کی شہادت دیتے ہیں.پس اس قدر وسیع قلب و جگر والے انسان پر یہ تہمت لگانا کہ وہ گالی پر ایسا بھڑکتا تھا کہ قتل کروا کر ہی سکون میں آتا تھا، انتہائی شرمناک ظلم ہے.پھر اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ یہ ظلم آپ کی طرف منسوب ہونے والے.” اپنے ہی دوست“ روا رکھتے ہیں.بے کسوں کا والی: حضرت عبد اللہ بن عمر بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی نیم کے پاس دس درہم تھے.آپ نے ایک کپڑے بیچنے والے سے چار درہم کی قمیص خریدی اور کہنا لی.راستے میں آپ کو ایک انصاری ملا.اس نے آپ سے عرض کی کہ اس کے پاس قمیص نہیں ہے.آپ اسے قمیص
توہین رسالت کی سزا 320 | قتل نہیں ہے عطا فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جنت کا لباس عطا کرے گا.اس پر آپ نے وہ (نئی ) قمیص اسے عطا کر دی.بعد ازاں آپ پھر دوکان پر آئے اور چار درہم میں ایک اور قمیص خرید لی.اب آپ کے پاس دو در ہم باقی تھے.اتنے میں آپ نے دیکھا کہ راستے میں ایک غلام بچی رور ہی ہے.آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ وہ کیوں روتی ہے ؟ اس نے عرض کی: یارسول اللہ ! مجھے میرے مالک نے دو در ہم دیئے تھے کہ میں ان کے لئے آٹا خرید لاؤں مگر وہ دونوں در ہم گم ہو گئے ہیں.رسول اللہ صلی الم نے اسے باقی ماندہ دو در ہم عطا کر دیئے.وہ یہ لے کر بھی رور ہی تھی.آپ نے اسے پوچھا کہ وہ اب کیوں روتی ہے جبکہ اسے دو درہم مل چکے ہیں ؟ اس نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے پیٹیں گے.اس پر آپ اس کے ساتھ اس کے گھر گئے.آپ نے انہیں سلام کہا.پھر دوبارہ سلام کہا.پھر سہ بارہ سلام کہا.اس پر انہوں نے سلام کا جواب دیا.آپ نے پوچھا کہ کیا انہوں نے آپ کا پہلا سلام سن لیا تھا؟ انہوں نے کہا: ”جی.مگر ہم چاہتے تھے کہ آپ ہمیں زیادہ سے زیادہ سلام پہنچائیں.“ انہوں نے پوچھا:” یارسول اللہ ! آپ پر ہمارے ماں باپ قربان جائیں، آپ نے یہاں آنے کی تکلیف کیوں فرمائی ہے.“ آپ نے فرمایا کہ یہ بچی ڈرتی تھی کہ آپ اسے پیٹیں گے.اس پر اس کے مالک نے کہا کہ آپ اس بچی کے ساتھ تشریف لائے ہیں تو آج سے یہ خدائے عز و جل کی رضا کی خاطر آزاد ہے.رسول اللہ صلی علیکم نے انہیں خیر کی اور جنت کی بشارت دی.پھر آپ نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ نے دس ( درہموں) میں ایسی برکت رکھی کہ اپنے نبی کو بھی قمیص پہنائی، ایک انصاری کو بھی قمیص پہنائی اور اس کے ذریعے ایک گردن بھی آزاد کر دی.فالحمد للہ کہ یہ سب اس نے ہمیں اپنی قدرت سے عطا فرمایا.“(المعجم الکبیر از طبرانی.جلد 12 صفحہ 441,442 دار السمع ریاض و تاریخ مدینتہ الدمشق از ابن عساکر جلد 4 صفحہ 89 دار لفکر بیروت) یہ ہے وہ گر از دل اور ہر حال میں انسان کے لئے سکھ چاہنے والا دل جس پر آج کا انسان یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ لوگوں کو قتل کرواتا تھا اور قتل پر خوش ہو تا تھا.اناللہ وانا الیہ راجعون
توہین رسالت کی سزا زیادتی کرنے والوں پر بھی سایہ تر تم : ( 321 ) قتل نہیں ہے روایت ہے کہ ایک دفعہ ایک بدو نے آپ کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے ہوئے بد تمیزی کے ساتھ آپ کی چادر کو ایسے زور کے ساتھ کھینچا کہ اس کی رگڑ سے آپ کی گردنِ مبارک پر نشان آگیا.وہ ساتھ ہی گستاخ لہجے میں کہنے لگا کہ اسے اللہ تعالیٰ کے اس مال سے عطا کیا جائے جو آپ کے پاس پڑا ہے.آپ نے باوجود اس پر قدرت اور طاقت رکھنے کے نہ صرف یہ کہ اس گستاخی پر حلم و بردباری دکھائی بلکہ اس کی مالی مدد کے لئے بھی ارشاد فرمایا.( بخاری کتاب النفقات و کتاب اللباس باب البرد) آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ گواہ ہے کہ کوئی آپ سے زیادتی یابد کلامی کرتا تو آپ اس سے عفو و در گزر کرتے اور اسے کسی قسم کا ضرر نہ پہنچنے دیتے تھے.چنانچہ مذکورہ بالا واقعہ کی نوع کا ایک اور واقعہ ہے کہ ایک یہودی زید بن سعنہ نے آپ کو کچھ قرض دیا اور جلد ہی بڑی گستاخی سے آپ کے کندھے سے چادر کھینچتے ہوئے اس کی واپسی کا مطالبہ کیا.صحابہ میں سے بعض اس پر سختی کرنا چاہتے تھے مگر آپ نے انہیں روک دیا.آپ کا یہی عفو و کرم اس کی ہدایت کا موجب بنا.(مستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابة ذکر اسلام زید بن سعنہ ) یہ رحیم و کریم اور سراپا عفو و رافت ذات ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ آپ گستاخی کرنے والے کو قتل کروا دیتے تھے.آپ کے رحم و کرم اور لطف و عنایات کے ایسے واقعات روز و شب رونما ہوتے تھے.یہ آپ کی زندگی کا جزوِ لازم تھے.مگر ان سے بھی زیادہ لازمی جزو آپ کی پاک سیرت کا یہ تھا کہ عفو و دعا کے ہر واقعے کے ہمراہ آپ کی بخشش وسخا بھی بے انتہاء تھی.
توہین رسالت کی سزا 322 | قتل نہیں ہے شدید ترین ظلموں پر صبر و برداشت: ملہ کے رؤوساء نے ایک فیصلے کے مطابق سال 7 نبوی میں رسول اللہ صلی ای کمر کو اور آپ کے متبعین کو ایک درہ نما گھائی شعب ابی طالب میں اڑھائی تین سال کے لئے محصور کر دیا.باہر سے کسی قسم کی مدد پر بھی سخت پہرے لگا دیئے اور آپ کو کلیہ تمدنی زندگی سے منقطع کر دیا.اس سارے عرصہ میں مردوں، عورتوں اور بچوں نے جس شدت بھوک و پیاس میں اپنے شب و روز بسر کئے ، ان کی دل دہلا دینے والی داستا نہیں ہیں.مگر آپ اور آپ کے صحابہ نے جس صبر واصطبار سے یہ سب کچھ برداشت کیا اور رؤوسائے قریش کے فیصلے کے آگے کوئی جارحیت نہیں کی.صبر واستقامت کی یہ داستان تاریخ عالم میں نہیں ملتی.رسول اللہ صل اللی کم کا یہ اسوہ آپ کے صلح بجو اور امن و امان کے قیام کے لئے ایک عظیم رہنما اسوہ ہے.آپ نے ان ظلم کرنے والوں پر بعد ازاں تسلط پانے کے بعد بھی کوئی سز او غیر ہ مقرر نہیں فرمائی.پس ایسی عظیم الشان اور غیر معمولی صبر اور برداشت کرنے والی ہستی کی طرف کشت وخون کی تعلیم منسوب کرنا ظلم عظیم ہے بلکہ بذاتِ خود آپ کی توہین کا ارتکاب ہے.سب سے بڑے گستاخ پر بھی عفو و شفقت: آنحضرت صلی ا ظلم کی مدینے میں آمد پر قبائل اوس اور خزرج کی اکثریت آپ پر متفقہ ایمان لے آئی.عبد اللہ بن اُبی بن سلول جو قبیلہ خزرج کا ایک نامور لیڈر تھا.اس میں اتنی جرات نہیں تھی کہ کھل کر آپ کی مخالفت کرتا.لیکن وہ اپنے حسد اور بغض کی وجہ سے ہمیشہ خفیہ طور پر آپ کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتا رہا.وہ غزوہ بدر کے بعد اپنی منافقت کی وجہ سے بظاہر مسلمان بھی ہو گیا.
توہین رسالت کی سزا { 323 ) قتل نہیں ہے ت صلی علی ایم کی مدینے ہجرت پر قریش مکہ نے عبد اللہ بن ابی اور دیگر رؤسائے مدینہ کے نام تہدیدی خط لکھا تو یہ آپ سے لڑنے کے لئے تیار ہو گیا لیکن آپ کے سمجھانے پر بظاہر اس کا غصہ تو وقتی طور پر دب گیا مگر اندر بغض اور کینہ قائم رہا.وہ غزوہ اُحد کے موقع پر آنحضرت صلی کی کمی کے ساتھ نکلا تو سہی مگر اپنے تین سو ساتھیوں سمیت راستہ سے ہی واپس لوٹ آیا اور پھر اس نے بعد میں مسلمانوں کے جانی اور مالی نقصان پر آپ کو طعنے بھی دیئے.اس نے یہود مدینہ کے قبائل سے متعدد مواقع پر خفیہ گٹھ جوڑ کر کے اسلام کے خلاف سازشیں تیار کیں.غزوہ احزاب پر اس کی سازش کھل کر سامنے آئی.اس نے حضرت زینب بنت جحش کی شادی کے موقع پر آنحضرت صلی ال یکم کو بدنام کرنے کی با قاعدہ سازش تیار کی اور کئی افتراء تراشے.اس نے غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر انصار اور مہاجرین کو لڑانے کی کوشش کی.اسی غزوے سے واپسی پر حضرت عائشہ پر گھناؤنا الزام تراشا گیا اور مدینے میں اس کی تشہیر کی گئی.اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں اس شخص کو " الَّذِی تَوَلَّى كِبُرُه “ یعنی اس فتنے کا سرغنہ قرار دیا.اس نے غزوہ تبوک کے موقعے پر صحابہ کی مالی قربانیوں پر طعن کئے.صحابہ میں خوف و ہر اس پھیلانے کی کارروائیاں کیں.غزوہ میں شمولیت سے انکار کیا اور واپسی پر آنحضرت صلی ایم کے قتل کی سازش بھی تیار کی.
توہین رسالت کی سزا { 324 ) قتل نہیں ہے ان کے علاوہ اس کی سرکردگی میں روز مرہ بار بار آنحضرت علی کم، ازواج مطہرات اور دیگر صحابہ کی توہین کی کوشش کی جاتی رہی.یه شخص، منافقوں کا سرغنہ بالآخر ماہ شوال میں بیمار ہوا اور بیس دن بیمار رہنے کے بعد ذوالقعدہ کے مہینے میں تاریخ عالم میں منافقت کی سب سے بڑی داستان چھوڑ کر راہی ملک عدم ہو گیا.اس کی علالت کے دوران رحمتہ للعالمین صلی ال یکم اس کی عیادت کو تشریف لے جاتے رہے.جس دن اس کی موت ہوئی، آپ اس کے پاس گئے اور اس سے اس کی سازشوں کی بابت بات کی تو اس نے عرض کی:” یارسول اللہ ! یہ میری موت کا وقت ہے، عتاب کا نہیں.مجھے اپنی یہ قمیص عطا فرمائیں جو آپ نے پہن رکھی ہے اور اسی میں میری تکفین فرمائیں.میری نماز جنازہ بھی آپ پڑھائیں اور میرے لئے دعائے مغفرت بھی کریں.66 اس کی موت واقع ہوئی تو اس کا بیٹا آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ اپنا کرتہ عنایت فرمائیں تا کہ اسے آپ کے کرتے کا کفن پہنایا جائے.آپ نے اسے اپنا کرتہ عطا کیا.چنانچہ عبد اللہ بن ابی کو کفن میں آنحضرت صلی اللہ ظلم کی قمیص پہنائی گئی.عبد اللہ بن ابی کی میت تیار ہوئی تو آنحضرت صلی للی کم کو اطلاع کی گئی.آپ نماز جنازہ کے لئے تشریف لے جانے لگے تو حضرت عمر نے آپ کی خدمت میں اس کی ساری کرتوتوں کا ذکر کر کے عرض کی : ”آپ اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے جو منافق ہے.ایسے لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے.“ آپ ” مسکرائے اور فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے : "اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ، إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ، وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (التوبه :80) کہ تُو ان کے لئے مغفرت طلب کر یا تو ان کے لئے مغفرت نہ طلب کر.اگر تو ان کے لئے ستر مرتبہ بھی
توہین رسالت کی سزا ( 325 } قتل نہیں ہے مغفرت مانگے تب بھی اللہ ہر گز انہیں معاف نہیں کرے گا.یہ اس لئے ہے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کیا اور اللہ بد کر دار لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا.فرمایا: مجھے جب یہ اختیار دیا گیا ہے تو میں نے یہ پہلو اختیار کیا ہے کہ میں اس کے لئے مغفرت طلب کروں اور اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر سے زائد مرتبہ مغفرت طلب کرنے پر اس کی بخشش ہو جائے گی تو میں ضرور اس سے زیادہ بار اس کے لئے بخشش کی دعا کروں گا.یہ سن کر حضرت عمر رحمت و بخشش کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے آگے نہ ٹھہر سکے.آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی.جنازہ کے ساتھ چل کر قبرستان تشریف لے گئے اور تدفین تک وہیں کھڑے رہے.اسے جب قبر میں اتارا گیا تو آپ نے اسے باہر نکالنے کا ارشاد فرمایا.اسے باہر نکالا گیا تو آپ نے اس کا سر اپنی گود میں رکھا اور اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ پر انڈیلا اور اسے قبر میں اتارنے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ اسے قبر میں اتارا گیا اور تدفین کی گئی.اس کی تدفین کے بعد ابھی آپ اس کی قبر سے لوٹے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حسب ذیل آیت کریمہ نازل فرمائی.وَلَا تُصَلَّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ ، إِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَ مَاتُوا وَهُمْ فَسِقُوْنَ وَلَا تُعْجِبُكَ أَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ ، إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ أَنْ يُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كُفِرُونَ ( اتو به :84،85) ترجمہ : اور تو ان میں سے کسی مرنے والے پر کبھی (جنازہ) کی نماز نہ پڑھ اور کبھی اس کی قبر پر دعا کے لئے) کھڑا نہ ہو.یقینا انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کا انکار کر دیا ہے اور وہ اس حالت میں مرے کہ وہ بد کر دار تھے.اور ان کے اموال اور ان کی اولادیں تیرے لئے کوئی کشش پیدا نہ کریں.اللہ محض یہ چاہتا ہے کہ ان ہی کے ذریعے سے انہیں اس دنیا میں ہی عذاب دے.اور ان کی جانیں اس حال میں نکلیں کہ وہ
توہین رسالت کی سزا 326 H قتل نہیں ہے کافر ہوں.( بخاری کتاب التفسير سورة التوبه باب قوله "استغفر لهم أولا تستغفر لهم وترمذی ابواب التفسير باب من سورة التوبه و ابن کثیر 9ھ موت عبد اللہ بن ابی) یہ عجیب بات ہے کہ منافقین کی نماز جنازہ کی ممانعت کی آیات اس وقت نازل ہوئیں جب آنحضرت صلی له م رئیس المنافقین کی نماز جنازہ پڑھا چکے تھے.حالانکہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اس نماز جنازہ کی ادائیگی سے پہلے بھی آپ پر یہ آیات نازل فرما سکتا تھا.لیکن عبد اللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ کے عین بعد ان کا نزول لازماً کسی غیر معمولی حکمت سے خالی نہیں تھا.اس طریق سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو اپنے مجسم رحمت نبی کا حوصلہ اور عفو دکھایا تھا کہ آپ کا سینہ شدید ترین مخالف اور شریر ترین منافق کے لئے بھی رحمت اور بخشش کے جذبات سے لبریز تھا.خلق خدا کی بخشش کے لئے آپ کی بے تابی ایسی تھی کہ فرمایا اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر سے زائد مرتبہ مغفرت طلب کرنے پر اس کی بخشش ہو جائے گی تو میں ضرور اس سے زیادہ بار اس کے لئے بخشش کی دعا کروں گا.اگر یہ آیات عبد اللہ بن ابی کے جنازہ سے پہلے نازل ہو تیں تو شاید آنحضرت صلی اللی علم کا یہ رحمت و بخشش کا عظیم خُلق اور سیرت کا درخشندہ پہلو دنیا سے مخفی رہتا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلَّمَ أَنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.صبر و برداشت کی آخری حدوں تک ضبط و حوصلے کو نہ توڑنے والے پر قتل و ظلم کے الزامات قطعی طور پر جھوٹے ہیں.امن و سلامتی کا پیغامبر : حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوب جہاد کیا.آپ کو اگر کسی نے کبھی تکلیف پہنچائی تو آپ نے اس سے کبھی انتقام نہیں لیا.ہاں جب اللہ تعالیٰ کے کسی
توہین رسالت کی سزا { 327 ) قتل نہیں ہے قابل احترام مقام کی ہتک یا بے حرمتی کی جاتی تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لیتے تھے.(مسلم کتاب الفضائل باب مباعد ته گلا شام......یہاں جہاد سے مراد تلوار کا جہاد نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی امن و سلامتی کی ضامن تعلیم کے نفاذ کے لئے نوع انسان کی بہبود اور شرفِ انسانیت کے قیام کی خاطر اپنے جان ، مال، عزت، نفس، وقت اور آرام کو قربان کرنے کا جہاد تھا.جو آپ کی زندگی کے ہر لمحے میں غیر منقطع تسلسل کے ساتھ جاری تھا.اللہ تعالیٰ کی خاطر انتقام لینا شریعت کے قیام کے بنیادی تقاضوں کے تحت تھا.شرفِ انسان کے قیام کے لئے یہ ایک بنیادی تقاضا تھا.مگر اس میں بھی نرمی اور عفو و در گزر کا اظہار آپ کی سرشت اور فطرت کے مقتضائے حال تھا.لہذا ڈانٹ ڈپٹ ، درشتی ، زجر و توبیخ اور غیظ و غضب سے آپ کا دور کا بھی تعلق نہ تھا.پس آپ کی طرف قتل و خون منسوب کرنا واضح جھوٹ ہے.یہاں جس انتقام کی بات حضرت عائشہ نے کی ہے، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ معصوم اور امن پسند عام لوگوں کو ظلم سے بچانے کے لئے ظالموں کے لئے سزائیں ضروری علاج ہیں.یہ دنیا کے ہر قانون کالازمی جزو ہیں.اسی طرح انسانوں کی عبادت کی جگہیں جو اُن کے نزدیک مقدس مقامات ہیں ، اللہ تعالیٰ کے حقوق کے قیام کے لئے ان کی حفاظت آپ کے اولین فرائض میں تھا.جس کی ادائیگی کے لئے آپ نے بعض کے لئے سزائیں بھی تجویز فرمائیں مگر آپ کی تجویز کردہ ان سزاؤں ان میں بھی عفو و رحمت کا دامن ہمیشہ وسیع رہا.چنانچہ معافی چاہنے والوں کو آپ نے ہمیشہ معاف فرمایا.مقدس مقامات کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ تعلیم نازل فرمائی کہ ان کی ہر صورت میں حفاظت کی جائے.چنانچہ فرمایا:" وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُم
توہین رسالت کی سزا (328) قتل نہیں ہے بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيْهَا اسْمُ اللَّهِ كَثِيراً وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (سورۃ الحج: 41) ترجمہ: اور اگر اللہ کی طرف سے لوگوں کا دفاع ان میں سے بعض کو بعض دوسروں سے بھڑا کر نہ کیا جاتا تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی اور مساجد بھی جن میں بکثرت اللہ کا نام لیا جاتا ہے.اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرتا ہے.یقینا اللہ بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذاہب کے عبادت خانوں کی حفاظت کے انتظام کا اعلان کیا گیا ہے.اس تعلیم کے تحت رسول اللہ صلی الی ایم نے ہر مذہب و ملت کے شعائر کی حفاظت کے لئے معاہدے کئے اور ان کے تقدس کو پامالی سے بچانے کے لئے واضح ارشاد فرمائے اور ان کی حفاظت کی قطعی ضمانت مہیا فرمائی.چنانچہ 10ھ میں نجران کے علاقے سے عیسائی اکابرین کا ایک وفد آنحضرت صلی اللی کم کی خدمت میں مدینے حاضر ہوا.اس وفد کے ساتھ آپ کی تفصیلی بحث ہوئی اور بالآخر آپ کی طرف سے انہیں مباہلے کی دعوت بھی دی گئی.جس کے بعد آپ نے انہیں دعوتِ اسلام بھی دی.انہوں نے آپ کی اس دعوت کو ایمانی اور دینی لحاظ سے تو قبول نہ کیا مگر اسلام کے پر امن نظام کو تسلیم کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ وہ آپ سے صلح کی درخواست کرتے ہیں اور جو حکم آپ انہیں دیں گے وہ انہیں قابل قبول ہو گا.اس پر آپ نے ان سے حسب ذیل امور پر معاہدہ امن کیا کہ ” وہ دو ہزار ہتھیار دیں گے.ان میں سے ایک ہزار ہتھیار ماہِ رجب میں اور ایک ہزار ماہِ صفر میں دینے ہوں گے ، نیز اگر یمن میں کسی مقام پر جنگ ہو تو نجران کے ذمہ بطور رعایت تیں زر ہیں اور تیس نیزے اور تیس اونٹ اور تیس گھوڑے ہوں گے.نجران اور ان کے آس
توہین رسالت کی سزا 329 H قتل نہیں ہے پاس والوں کی جان، مال، مذہب، ملک، زمین، حاضر ، غائب اور ان کی عبادت گاہوں کے لئے اللہ تعالیٰ اور محمد نبی ا کی ذمہ داری ہے.نہ تو کوئی استقف اس کے منصب سے ، نہ کوئی راہب اس کی رہبانیت سے ، اور نہ کوئی کا ہن اس کی کہانت سے ہٹایا جائے گا.“ (ابن سعد ذکر وفادات وفد نجران) آنحضرت صلی الی یکم نے انہیں ایک اور معاہدے پر مبنی حسب ذیل تحریر بھی دی: (مِنْ مُحَمَّدِ النَّبِيِّ ) لِأَسْقُفِ أَبِ الْحَارِثِ بْنِ كَعْبٍ وَ أَسَاقِفَةِ نَجْرَانَ وَكَهَنَتِهِمْ وَمَنْ تَبِعَهُمْ وَرُهْبَانِهِمْ أَنَّ لَهُمْ عَلَى مَا تَحْتَ أَيْدِيهِمْ مِنْ قَلِيْلٍ وَكَثِيرٍ مِنْ بِيَعِهِمْ وَصَلَوْتِهِمْ وَرَهْبَانِيَّتِهِمْ ، جَوَادُ اللهِ وَرَسُولِهِ لَا يُغَيَّرُ أَسْقُفُ عَنْ أَسْقُفِيَّتِهِ، وَلَا رَاهِبٌ مِنْ رَهْبَانِيَّتِهِ، وَلَا كَاهِنَّ عَنْ كَهَانَتِهِ وَلَا يُغَيَّرُ حَقٌّ مِنْ حُقُوقِهِمْ لَا سُلْطَانِهِمْ وَلَا شَيءٍ مِمَّا كَانُوا عَلَيْهِ (مِنْ ذلِكَ، جَوَارُ اللهِ وَ رَسُولِهِ أَبَداً مَا نَصَحُوا وَأَصْلَحُوْا فِيْمَا عَلَيْهِمْ غَيْرَ مُثْقِلِينَ بِظُلْمٍ وَلَا ظالِمِینَ.ترجمہ: محمد نبی صلی اللی کم کی طرف سے اسقف ابو حارث کے لئے اور نجران کے دیگر پادریوں، کاہنوں، اور ان کے پیروکاروں اور راہبوں اور ان کے تھوڑے بہت متبعین کے لئے اور ان کے گرجوں، عبادت گاہوں وغیرہ کے لئے امان ہے.ان کے پادریوں میں سے کسی کو اس کے منصب سے، ان کے راہبوں میں سے کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور ان کے کاہنوں میں سے کسی کا ہن کو اس کی کہانت سے قطعا بر طرف نہیں کیا جائے گا.انہیں ان کے حقوق اور ان کے اختیارات سے جن پر وہ قائم ہیں ، ہٹایا نہیں جائے گا.جب تک وہ خیر خواہ اور صلح جو ر ہیں گے یا ظالموں کے ساتھ ظلم ڈھانے والے نہ ہوں گے ، انہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی پناہ حاصل رہے گی.
توہین رسالت کی سزا 330 } قتل نہیں ہے اس معاہدے کے مندرجات، طبقات ابن سعد ذکر بعثه رسول اللہ صلی ا لم الرسل بكتبه الى الملوک ید عوھم الی الاسلام سے لئے گئے ہیں.لیکن اس میں چند کلمات جو بریکٹ میں ہیں ' ابن کثیر کتاب الوفود وفد نجران سے بھی شامل کئے گئے ہیں تاکہ آنحضرت صلی اللہ ظلم کے فرمودات ایک ہی جگہ جمع ہو جائیں اور قاری اس جامع فرمان کو ایک ہی جگہ ملاحظہ کر سکے.) یہ تحریر جہاں مذہبی آزادی کے لئے آنحضرت صلی یی کم کی جد و جہد کی اعلیٰ مثال ہے وہاں آپ کی وسعت قلبی کی بھی آئینہ دار ہے.اس کے ذریعے آپ نے اسلامی حدود مملکت میں نہ صرف آزادی ضمیر و ومذ ہب کو قائم فرمایا بلکہ اسے احکامِ شریعت میں بھی داخل فرمایا.ان احکام کے ذریعے آپ نے ہر مذہب والے کو مذہبی آزادی کی کھلی فضا مہیا کی جو اسلامی سلطنت کا مطیع و محکوم تھا.آپ نے ان کے جملہ حقوق کا تحفظ نیز فرائض کا تعین کر کے انہیں پر امن زندگی جینے کا اعزاز واعتماد عطا فرمایا.پس ایسے وسیع الظرف انسان کے لئے ایسے وضعی واقعات پیش کرنا کہ وہ گالی دینے والے کو مروا کر دم لیتا تھا، افسوس کا مقام ہے.رسول اللہ صلی علیم کی پاک ذات پر بہت بڑا بہتان ہے.رسول اللہ صلی علی یکم جو انتقام لیتے تھے ، اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو سورۃ الشوری میں مذکور ہے کہ "وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَثْئُ هُمْ يَنتَصِرُونَ (41) کہ جب ان کو کوئی ظلم پہنچتا ہے تو وہ بدلہ لیتے ہیں.لفظ ”يَنتَصِرُون کا ماده من ص ر یعنی 'نصر ہے.اس کے معنے مدد کے ہیں.یعنی "ينتصرون “ میں مدد کا لازم مفہوم شامل ہے.علاوہ ازیں یہ بھی مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے بدلے کے لئے لفظ ”يَنْتَصِرُون استعمال فرمایا ہے ، يَنْتَقِمُونَ ن نہیں
توہین رسالت کی سزا { 331 ) قتل نہیں ہے فرمایا.جس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی علی یم اور آپ کے ساتھی ایسا انتقام لیتے تھے جو اللہ تعالیٰ کی اغراض کے لئے اس کی مدد کے ساتھ منسلک ہوتا تھا.آپ نے اس کا مظاہرہ قرآنی حکم ” فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَات“ (کہ نیک کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو) کے تحت یہ کیا کہ نیک، مثبت اور تعمیری کام کو آگے بڑھایا.انسان کو انفرادی طور پر اور معاشرے کو مجموعی طور پر بُرے، منفی اور تخریبی کاموں سے بچانے کی سعی فرمائی.بُرائی کا اچھائی سے ، بدی کا نیکی سے اور جبر و ظلم کا عفو سے انتقام لیا.انتقام کا یہ خوبصورت اسلوب تھا جو آپ نے اختیار فرمایا.انتقام کی یہ ادائیں تھیں جو آپ نے پیش فرمائیں اور اپنے پیروکاروں کو سکھائیں.یہ انتقام محمدی ہے جس کا ذکر حضرت عائشہ نے فرمایا ہے.اس میں کسی خون خرابے اور ظلم و جبر کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ وہ عفو و در گز اور لطف و احسان سے لبریز تھا.شفقت على خلق الله : آپ رحمۃ للعالمین تھے.آپ کا دامن عفو و کرم اور سایہ کر حمت صرف انسانوں پر ہی وسیع نہیں تھا.وہ تمام مخلوقات پر حاوی تھا.چنانچہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی کی ایک انصاری علی کے باغ میں تھے کہ ایک اونٹ آپ کو دیکھ کر بلبلانے لگا.اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا.آپ اس کے پاس تشریف لے گئے.اس کے سر اور گردن پر ہاتھ پھیرا تو وہ پر سکون ہو گیا.آپ نے پوچھا: ”یہ کس کا اونٹ ہے ؟“ ایک انصاری نوجوان نے عرض کی : ” یہ اس کا اونٹ ہے.“ آپ نے فرمایا: ”اس جانور کے بارے میں تم اللہ کا تقوی کیوں اختیار نہیں کرتے جس کا اللہ نے تمہیں مالک بنایا ہے ؟ اس اونٹ نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھو کار کھتے ہو اور کام بھی زیادہ لیتے ہو.“ (ابو داؤد کتاب الجہاد باب مایو مر بہ من القيام على الدواب والبهائم )
توہین رسالت کی سزا 332 } قتل نہیں ہے ایک سفر میں آپ کے ایک ساتھی نے چڑیا کے بچے پکڑ لئے.وہ چڑیا حضور صلی اللہ نام کے پاس آکر بیقراری سے پھڑ پھڑانے لگی.آپ نے بے تاب ہو کر فرمایا : ” اس چڑیا کو اس کے بچوں کے ذریعے کس نے دکھ پہنچایا ہے ؟ جاؤ اور اسے اس کے بچے واپس لوٹاؤ.( ابو داؤ د کتاب الجہاد باب کراہیۃ حرق العدو بالنار ) ایک صحابی بیان کرتے ہیں : ”ایک دفعہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی الی یم نے چیونٹیوں کابل دیکھا جس پر ہم نے آگ جلائی تھی.آپ نے فرمایا: ”کس نے ایسا کیا ہے ؟“ ہم میں سے بعض نے بتایا کہ انہوں نے ایسا کیا ہے تو آپ نے فرمایا: ” سوائے آگ کے رب کے کسی کے لئے اللہ کا عذاب دینا جائز نہیں.“ (ابو داؤد کتاب الجہاد باب کراہیۃ حرق العدو بالنار) آپ کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جانور کو تیز دھار چھری سے ذبح کرو تا کہ اسے زیادہ تکلیف نہ ہو.(مسلم کتاب الصيد والذبائح باب الامر باحسان بالذبح و ابو داؤد کتاب الضحايا باب فی النھی ان تصبر البہائم والرفق بالذبحة) یہانتک کہ جانوروں کے جذبات کا خیال رکھنے کی تلقین کرتے ہوئے بھی فرمایا کہ جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح نہ کرو.(ابن ماجہ ابواب الذبائح باب اذاذ بحتم فاحسنوا الذبح) یه درد مند پاک اور گداز دل ہے محمد رسول اللہ صلی علی یم کا جو کسی جانور کی تکلیف پر بھی تڑپ اٹھتا ہے اور اس کے جذبات اور درد کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے.جو انسان کو ذرا ذراسی تکلیف سے بچانے پر بھی تعلیم دیتا ہے اور ایسا کرنے والوں کو دعائیں دیتا ہے.حتی کہ راستے سے معمولی سی شاخ جو کسی کی تکلیف کا موجب تھی، اپنے پیارے رب کے حضور اسے ہٹانے والے کے لئے مغفرت کی التجائیں کرتا ہے.(بخاری کتاب المظالم و الغضب باب من اخذ العضن ومايؤذى.....) ایسے
توہین رسالت کی سزا 333 } } قتل نہیں ہے گداز دل انسان کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ کسی انسان کو قتل کرا کے تسلی پاتا تھا، سراسر جھوٹ ہے اور اس پر پرلے درجے کا بہتان ہے بلکہ اس سے بھی پرلے درجے کی گستاخی ہے.یہ چند نمونے کے واقعات ہیں.جبکہ رسول اللہ صلی ال نیم کی ساری زندگی ایسے واقعات رحم و کرم سے چھلک رہی ہے.ان واقعات سے کتب احادیث لبریز ہیں.یہ تمام واقعات چلا چلا کر منادی کرتے ہیں کہ آپ پر کشت و خون کے تمام الزام جھوٹے ہیں.مذکورہ بالا واقعات آپ کے وسیع دل کی نرم اور گداز نفسیاتی کیفیات کی سچی داستانیں بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں اور اس کی تمام مخلوق کے لئے آپ کے قلب پر، آپ کے دماغ پر اور آپ کی روح پر رحمت و کرم اور بخشش و تر قم کے علاوہ اور کچھ نقش نہ تھا.وہ آپ پر ایمان لانے والے تھے یا آپ کے دشمن، آپ پر درود بھیجنے والے مومن تھے یا آپ کی شان میں گستاخی کرنے والے ناعاقبت اندیش، سبھی آپ کے عفو و کرم کے سائبان کے ٹھنڈے سایوں میں محفوظ و مامون تھے.ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنی جان کا خطرہ نہیں تھا.آپ اگر چہ آقا ہیں مگر کمزوروں کی بندہ پروری فرماتے تھے.آپ بادشاہ تھے مگر بیکسوں کے خدمت گزار تھے.وہ مہربانیاں جو مخلوق خدا نے آپ سے دیکھیں وہ کسی نے اپنی ماں سے بھی نہ پائی تھیں.آپ رحمت کے ساتھ کمزوروں کا ہاتھ پکڑنے والے اور نا امیدوں کے لئے پر شفقت غمخوار تھے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدِمٌ بَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ *****
توہین رسالت کی سزا 334 } قتل نہیں ہے ،انسانیت، انسان اور انسانی خون کا سب سے بڑا محافظ وو ***** گزشتہ صفحات میں کتاب ” الصارم المسلول “ کے تجزیئے والے باب میں زیر عنوان ” سب سے طاقتور انسان ، محمد رسول اللہ صلی علیم کے تحت بعض واقعات بیان کئے گئے ہیں.وہ واقعات آپ کے اُس حسین مزاج اور پاک سیرت کے دلکش پہلو سے پر دہ کشائی کرتے ہیں اور گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہر موقع پر انسان کے خون کی حفاظت فرمائی ہے.خواہ وہ خون آپ کے شدید سے شدید جانی دشمن کا ہی کیوں نہ تھا، آپ نے بلا تفریق قوم و قبیلے اور مذہب و ملت اسے تحفظ فرمایا.انبیاء علیہم السلام کی گواہی: ذیل میں چند مزید حقائق پیش کئے جارہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ ظلم کی سیرت کے اسی عظیم ترین اور احسان سے لبریز حسین ترین پہلو کی وضاحت کرتے ہیں کہ آپ ہر موقع اور ہر قدم پر انسانیت کے شرف اور انسان کے خون کی حفاظت فرمانے والے تھے.قبل اس کے کہ آپ کے حسن و احسان سے معمور ان واقعات کے چمن زار کی سیر کو نکلیں، پہلے ایک نظر صحف انبیاء پر بھی ڈالتے ہیں کہ انہوں نے جب آپ کی حسین ذات کو نظر کشفی سے دیکھا تو آپ کے ان اوصاف حمیدہ کی کیا نشاندہی فرمائی ہے.چنانچہ حضرت یسعیاہ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ
توہین رسالت کی سزا { 335 ) قتل نہیں ہے وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا.وہ نہ چلائے گا نہ شور کرے گانہ بازاروں میں اس کی آواز سنائی دے گی.وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائے گا.وہ راستی کے ساتھ عدالت کرے گا.( یسعیاہ: باب 42: آیت 2 تا 4) تورات میں رسول اللہ صلی اللی کم کی بابت علامات کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عمرو سے پوچھا گیا تو آپ نے بتایا: ”وہ نبی تند خو اور سخت دل نہ ہو گا.وہ بازاروں میں شور نہ کرے گا.وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو و در گزر سے کام لے گا.“ (بخاری کتاب البیوع باب کر اہمیت الشعب في الاسواق) حضرت یسعیاہ کی اس پیشگوئی میں مسلے ہوئے سرکنڈے سے مراد وہ بے بس اور بے کس لوگ ہیں جو حالات کی ستم ظریفیوں کے پسے ہوئے ہوں ، وہ نبی ان کی دستگیری فرمائے گا اور ٹمٹماتی ہوئی بتی سے مراد وہ لوگ ہیں جو تباہی کے کنارے کھڑے ہیں ، وہ انہیں اس تباہی سے اس طرح بچالے گا کہ ان کی شمع حیات بجھ نہ پائے گی.حضرت یسعیاہ کی بیان فرمودہ یہ صفات رسول اللہ صلی الیمی کی زندگی کے لمحے لمحے میں اپنی کمال تابانی سے اس طرح جلوہ گر ہیں کہ ان کا فیض ہر ایک کو پہنچتارہا ہے.دعوت حق کے لئے جارحیت سے گریز کی خواہش: رسول اللہ صلی الی ظلم کے سپر د اللہ تعالیٰ کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا تھا.اس فرض کی ادائیگی کے لئے آپ ذرہ بھر مخاصمت سے بھی گریز فرماتے تھے.چنانچہ ایک بار افسوس کا اظہار کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: "الاَرَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ فَإِنَّ قُرَيْشًا مَنَعُوْنِ أَنْ أَبَدِّغَ كَلَامَ ربي (ابو داؤد کتاب السنۃ باب فی القرآن و ترمذی باب فضائل القرآن باب كيف كانت قرآة النبي صال ) یعنی
توہین رسالت کی سزا { 336 ) قتل نہیں ہے کاش! کوئی ایسی جرآت والا شخص ملے جو مجھے اپنی قوم میں لے جاکر رکھ سکے کیونکہ قریش نے مجھے اپنے رب کا کلام پہنچانے سے روک رکھا ہے.یہ پر تشدد اور جابرانہ سلوک تھا جو رسول اللہ صلی الیکم اور آپ کے متبعین کے ساتھ ملے والے روار کھتے تھے.آپ کے اس فقرے کے تجزیے سے آپ کی سیرت کا یہ پہلو انتہائی روشن ہو کر سامنے آجاتا ہے کہ آپ اپنے جان، مال، اہل و عیال اور عزت و ناموس کی بات نہیں کرتے.آپ یہاں اپنی کسی توہین کا شکوہ نہیں فرماتے.بلکہ آپ کو غم ہے تو یہ کہ کتنے میں رہ کر آپ اپنے رب کریم کے پیغام کی تبلیغ نہیں کر سک رہے.آپ کو اپنا سب کچھ چھوڑ کر کہیں جانے کی خواہش ہے تو صرف اس لئے کہ وہاں اپنے رب کے کلام کو لوگوں تک پہنچا سکیں.آپ کی اس بیقراری کے حالات میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے مدینے کا راستہ کھولا اور پھر آپ کے لئے ہر سمت شاہر اہیں کشادہ ہونے لگیں.ذہنی اور جسمانی اذیت دینے والوں کو در گزر: طائف کے واقعے کا ذکر قبل ازیں گزر چکا ہے.وہاں رسول اللہ صلی علی کم کی جو توہین اور تنقیص کی گئی وہ کسی سے مخفی نہیں.وہاں آپ کو بدنی اذیت بھی دی گئی اور گالی گلوچ اور پیغام حق کو گستاخی کے ساتھ رڈ کر کے اصل ذہنی اذیت بھی دی گئی.الغرض کو نسی گستاخی تھی جو آپ سے روا نہیں رکھی گئی.اگر آپ اپنی توہین کا انتقام لینے والے ہوتے تو واپسی پر جب ملک الجبل نے آپ سے یہ عرض کی تھی کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ ان لوگوں کو پہاڑوں کے درمیان کچل دے تو آپ اسے منع نہ فرماتے اور ان گستاخوں کو یہ سزا دلوا کر رہتے.مگر یہ آپ کے رؤوف و رحیم دل کا فیصلہ تھا کہ گالی گلوچ، ظلم و تشدد اور سنگباری کرنے والوں کو بھی زندہ رکھوایا اور آخر کار دعاؤں کے ذریعے اسلام میں داخل کر کے انہیں اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے کارآمد وجو د بنادیا.
توہین رسالت کی سزا 337 } قتل نہیں ہے یہ ہے کھلا کھلا فرق قتل کروانے میں اور زندگی کی حفاظت کرنے میں.خون بہانے میں اور خون بچانے میں.اگر قائلین قتل شاتم اور توہین رسالت کے قتل کے دعویداروں کے نظریے کے مطابق شاتم یاشا تمین کو قتل کر دیا جائے تو ان میں سے وہ لوگ حاصل نہیں کئے جا سکتے جو آگے جا کر اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والے ثابت ہوتے ہیں.جانی دشمن پر عفو و مهربانی: سراقہ بن مالک ہجرت کے سفر میں رسول اللہ صلی الی یم اور حضرت ابو بکر کے تعاقب ا میں تھا تا کہ وہ آپ کو گرفتار کر کے اور کفار مکہ کے سپر د کر کے انعام حاصل کرے.مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ آپ دونوں کو اس کی گرفت سے باہر رکھا اور آپ کی حفاظت فرمائی بلکہ الٹا اسے آپ کے قبضے میں دے دیا.یہ شخص آپ کا جانی دشمن تھا مگر آپ نے اسے نہ صرف معاف کیا بلکہ اسے کسری کے کنگنوں کی بشارت بھی عطا فرمائی.چنانچہ وہ بعد میں مسلمان ہو کر اسلام کا خادم بنا.(اسد الغابہ: سراقہ ) میثاق مدینہ، بین الا قوام امن و سلامتی کا ابدی عہد و معاہدہ: مدینے پہنچ کر سب سے پہلے رسول اللہ صلی علی کریم نے مدینے کے انصار اور مکے سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجروں میں مؤاخاة قائم کی اور بھائی چارے کا معاشرہ تشکیل دیا.اس کے بعد آپ نے وہاں کے دوسرے عناصر یعنی یہودی قبائل، بنو قریظہ، بنو قینقاع، بنو نظیر اور غیر یہودی قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ ایک جمہوری معاہدے کا اہتمام کیا.یہ معاہدہ تاریخ عالم میں میثاق مدینہ کے نام سے ہمیشہ عدل و امن اور عظمت و تقدس کے مقام پر قائم رہے گا.یہ اہم معاہدہ قریبا سنتالیس شقوں پر مشتمل تھا جس کی چند دفعات یہ تھیں.
توہین رسالت کی سزا 338 } قتل نہیں ہے عَلَيْهِمْ هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ مِنْ قُرَيْشٍ وَأَهْلِ يَثْرَبَ وَ إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ.وَاإِنَّهُ مَنْ تَبِعَنَا مِنَ يَهُودٍ فَإِنَّ لَهُ النَّصْرُ وَالأسْوَةٌ غَيْرَ مَظْلُومِينَ وَلَا مُتَنَاصِرِينَ وَانَّ يَهُودَ بَنِي عَوْفٍ أُمَّةٌ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ لِلْيَهُودِ دِيْنَهُمْ وَلِلْمُسْلِمِينَ دِينَهُمْ - وَإِنَّ لِيَهُودَ بَنِي النَّجَارِ مِثْلَ مَا لِيَهُودَ بَنِي عَوْفٍ وَإِنَّ عَلَى الْيَهُودِ نَفَقَتُهُمْ وَعَلَى الْمُسْلِمِينَ نَفَقَتُهُمْ وَأَنَّ بَيْنَهُمُ النَّصْرُ عَلَى مَنْ حَارَبَ أَهْلَ هُذِهِ الصَّحِيفَةِ - (سیرۃ ابن ہشام ، زیر عنوان الرسول یو ادع الیہود.جلد 2، صفحہ 64) میثاق کی ان شقوں کا ترجمہ یہ ہے کہ یہ ایک تحریری معاہدہ ہے جو محمد النبی صلی الی یکم اور مسلمانانِ قریش اور یثرب کے رہنے والوں اور ان کے حلیفوں کے درمیان قرار پایا ہے.اس معاہدے میں شامل تمام طبقات ایک اُمت اور ایک قوم شمار ہوں گے.اس معاہدے میں جو یہود شامل ہیں ضرورت کے وقت اُن سب کی مدد کی جائے گی.ان کے خلاف کسی قسم کا ظلم برداشت نہیں ہو گا اور نہ ان کے خلاف کسی اور کی مدد کی جائے گی.یہودی قبائل مدینے کے جس قبیلے کے حلیف ہیں وہ اُس قبیلے کے ساتھ ایک قوم شمار ہوں گے.مثلاً بنو عوف کے یہودی حلیف ، بنو عوف کے ساتھ اور بنو نجار کے یہودی حلیف، بنو
توہین رسالت کی سزا 339 | قتل نہیں ہے نجار کے ساتھ یکساں حقوق کے مالک ہوں گے.غرض مختلف مسلمان قبائل کے حلیف یہودی سارے مسلمانوں کے ساتھ بطور اُمّتِ واحدہ شامل سمجھے جائیں گے.لیکن یہ شمولیت اور مساوات صرف دنیوی اور انسان کے بنیادی حقوق تک محدود ہو گی.ورنہ دین و مذہب میں ہر شخص آزاد ہو گا.یہودیوں کا اپنادین اور مسلمانوں کا اپنا دین ہو گا.اس میں ایک دوسرے کو دخل دینے کی اجازت نہ ہو گی.قومی ضرورت کے وقت ہر گروہ اپنے اپنے اخراجات کا ذمے دار ہو گا.مسلمان اپنے اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے اور یہودی اپنے اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے.اگر کوئی اور گروہ معاہدے میں شامل قوم سے جنگ کرنے پر آمادہ ہو گا تو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں گے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے ذمے دار ہوں گے.“ امن و آشتی کا یہ منفر د معاہدہ ہے جس کی نظیر نہ پہلے کبھی دنیا میں موجود تھی اور نہ آئندہ اس سے بہتر کوئی معاہدہ ظہور میں آسکتا ہے.میثاق مدینہ رہتی دنیا تک یہ شہادت پیش کرتا رہے گا کہ باوجود اس کے کہ مدینے کے یہود اور منافقین رسول اللہ صلی اللہ علم کو اذیت دینے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے تھے، آپ نے انہیں ان خاص حالات میں ”امت واحدہ “ میں شامل رکھا.آپ نے اسلام کو ایسے وسیع النظر، وسیع القلب اور وسیع الظرف مذہب کے طور پر پیش فرمایا جو دینا کی ہر قوم اور مذہب کو اپنے اندر سمو کر اسے ”امتِ واحدہ“ بنے کی دعوت کے ساتھ اس کے قیام کے لئے عملی لائحہ عمل بھی پیش کرتا ہے.رسول اللہ صلی الی یکم نے ایسے ہی امن کے معاہدے مدینے کے اردگرد بسنے والے بعض قبائل سے بھی کئے.اس کے لئے آپ نے جہاں جانا ضروری سمجھا وہاں آپ بذاتِ خود تشریف لے گئے.مقصد یہ تھا کہ مدینے کے ماحول کو پر امن رکھا جائے.یہاں ایک ایسا معاشرہ پیش کیا
توہین رسالت کی سزا 340 } قتل نہیں ہے جائے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی اصل غرض و غایت ہے.جو اسلِمُ تَسْلَمُ (امن کے معاہدے میں داخل ہو جاؤ تو تمہیں مستقل طور پر امن کی ضمانت مل جائے گی) کا عملی نمونہ ہو.جس کے تحت سب قومیں معاہدوں کی پرامن فضا میں آکر ایک ایسے نظام کی اطاعت میں آجائیں جو ہر ایک کو شرطیہ امن اور اعلیٰ تحفظ کی ضمانت دیتا ہے.رسول اللہ صلی للی نیلم کے ایسے معاہدے خطہ عرب اور پھر ساری دنیا کے لئے پائیدار امن و سلامتی کی نوید تھے جن سے ہر قوم و قبیلے کے افراد کے جانی و مالی اور انسانی حقوق کا تحفظ وابستہ تھا.معاہدہ شکنی پر در گزر : یہود مدینہ نے بار بار میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کارروائیاں کیں مگر رسول اللہ صلی الم نے بھی انہیں بار بار معاف فرمایا.4ھ میں یہود بنی نضیر نے آپ کو اپنے ہاں بلا کر آپ پر مکان کی چھت سے ایک بڑا پتھر آپ پر گرانے کی سازش کی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو وحی کے ذریعے اس کی اطلاع دے کر آپ کی حفاظت فرمائی.(ابن ہشام وابن سعد ) آپ نے انہیں بھی معاف کر دیا.کیونکہ آپ انسانی خون کا تحفظ فرمانے والے اور انسانیت کو خون سے محفوظ رکھنے والے تھے.قیام امن کے لئے ہر ممکنہ کوشش: رسول اللہ صلی اللی علم ہر ممکن امن و آشتی کے قیام کے لئے کوشش فرماتے تھے.چنانچہ حدیبیہ میں معاہدے کے وقت آپ کا فرمانا تھا: "وَالَّذِی نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَسْأَلُوْنِ خُطَّةٌ يُعَظِمُوْنَ
توہین رسالت کی سزا ( 341 } قتل نہیں ہے حُرُمَاتِ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَيْتُهُمْ اِيَّاهَا.“ (بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد....) که بخد اوہ جو مطالبہ بھی حرم کی عزت کے لئے مجھ سے کریں گے میں اسے قبول کروں گا.آپ کے اس فرمان میں دو باتیں بہت واضح طور پر نظر آتی ہیں جو حتمی طور پر امن و سلامتی کی ضامن ہیں اور زمین کو کشت و خون سے بچانے والی ہیں.اوّل یہ کہ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جنگوں کے ذمہ دار صرف اور صرف قریش تھے.اب حدیبیہ میں معاہدے کے ساتھ وہ آئندہ جنگوں سے دستبردار ہو رہے تھے.اسلام کے لئے یہ فتح مبین تھی جس کے لئے شعائر اللہ کی حرمت کے لئے ہر شر ط قبول کی جاسکتی تھی.چنانچہ رسول اللہ صلی الی یکم نے ان کی ہر شرط قبول فرمائی اور عرب سے خونریزی کے اختتام کے لئے ایک بنیادی معاہدہ طے فرمایا.دوم یہ کہ حدیبیہ کے اس معاہدے کی شرائط بظاہر اسلام یا مسلمانوں کے خلاف تھیں مگر آپ نے محض اس لئے ان شرائط کو قبول فرمایا کہ خطہ عرب میں امن و امان اور صلح و آشتی کی فضا قائم ہو جائے.چنانچہ اس طرح آپ نے ایک نہ ختم ہونے والی خونریزی کا صدر دروازہ بند کرنے کی انتہائی اور کامیاب کوشش فرمائی.أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا : آنحضرت صلی اہل علم کا ایک پر از رحمت طریق یہ بھی تھا کہ آپ بسا اوقات قبائل کو یا انفرادی طور پر بعض لوگوں کو (أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا يا أَسْلِمُ تَسْلَمْ) کا پیغام بھجواتے تھے.آپ نے جب بادشاہوں کو خطوط لکھے تو انہیں بھی اسلِمُ تَسْلَم “ کا پیغام دیا.اسی طرح بعض اوقات ہمیں اس طرح کے پیغام جنگی مواقع میں بھی نظر آتے ہیں.اس پیغام کے دو بنیادی معنے ہیں.
توہین رسالت کی سزا 342} قتل نہیں ہے ایک یہ کہ اسلام قبول کر لو یعنی آپ کی رسالت پر ایمان لے آؤ تو سلامت رہو گے.دوسرا معنی یہ ہے کہ ہمارے ساتھ سلامتی اور امن کے معاہدہ کر لو یا ہماری اطاعت قبول کر لو تو تم امن و سلامتی میں آجاؤ گے.رسول اللہ صلی علیم کی سیرت کے منصفانہ مطالعہ سے یہ ثابت ہے کہ آپ کے عمل اور اقدام کے لحاظ سے یہ دونوں معنے اپنے دو مختلف تناظر میں ظاہر ہوئے ہیں.چنانچہ جب آپ نے بادشاہوں کو خط لکھے تو انہیں واضح الفاظ میں اسلام اور ایمان میں داخل ہونے کی دعوت دی اور انہیں ان کے زیر نگیں قوم کے ایمان کا بھی ذمہ دار ٹھہر آیا.یہاں اس پیغام کے پہلے معنے مرادو مقصود تھے.دوسری طرف جب آپ نے حالت جنگ میں اترنے سے پہلے اپنے دشمن کو یہ پیغام دیا تو جنگ کے منظر میں بظاہر یہ ایک دھمکی آمیز پیغام نظر آتا ہے.یعنی تم مسلمان ہو جاؤ تو محفوظ رہو گے ورنہ نہیں.مگر آپ کے مستقل عمل اور آپ کی متواتر سنت نے یہ ثابت کیا کہ یہاں اس کے دوسرے معنے تھے کہ آپ نے انہیں اپنے ماتحت آکر امن و سلامتی کی ضمانت پیش فرمائی.آپ کی تمام جنگوں کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ آپ نے دشمن کے مفتوح ہونے پر اسے کبھی بھی اسلام میں داخل نہیں فرمایا.نہ ہی کسی کو ایمان لانے پر مجبور فرمایا.پس یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہاں اسلم کے معنے اسلام قبول کرنے کے نہیں ہیں بلکہ کامل فرمانبرداری کے ہیں.لہذا جنگوں کے تناظر میں رسول اللہ صلی علیم کے فرمان أَسْلِمْ تَسْلَم کے معنے مطیع ہونے اور کامل فرمانبرداری کے لئے جائیں گے.یہاں یہ مد نظر رہے کہ اسلام کی طرف بلانا آنحضرت علی علیکم کا اصل منصب تھا.اس کے لئے آپ نے ہر کس و ناکس کو دعوت دی.آپ کی شدید خواہش تھی کہ ہر شخص اسلام قبول کر کے دنیوی لحاظ سے بھی کامل امن میں آجائے اور اپنی عاقبت اور آخرت کے اعتبار سے بھی
توہین رسالت کی سزا ( 343 } قتل نہیں ہے مامون ہو جائے.اس دعوت میں آپ نے نہ تو کبھی جارحیت سے کام لیا، نہ جبر سے اور نہ ہی کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی کو اسلام میں داخل کیا.مثلاً آپ نے کبھی کسی قیدی کو قید میں مجبور پاکر اسلام میں داخل نہیں کیا اور نہ ہی کسی قیدی کی قیمت پر اس کے لواحقین کو اسلام میں داخل کیا.پس عام حالات میں اسلام کی دعوت دینا بالکل اور بات ہے اور کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر اسے اسلام میں داخل کرنا بالکل اور بات.خاص جنگ کے مواقع پر ' أَسْلِمُ تَسْلَمُ کا پیغام دینا، جنگ سے گریز، امن ، سلامتی اور صلح کا پیغام ہے نہ کہ دین اسلام میں داخل ہونے کی دعوت.ایسے مواقع پر امن کے معاہدے ہوتے ہیں ، مذہب میں داخل ہونے کے معاہدے نہیں ہو سکتے.آنحضرت صلی الی یم کے اس پیغام میں اللہ تعالیٰ کی اس ہدایت کا عکس بڑا واضح نظر آتا ہے کہ ”وَان جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ (الانفال: 26) کہ اگر وہ صلح کی طرف جھک جائیں تو تو بھی اس کے لئے جھک جا اور اللہ پر توکل کر.مذہب کا تعلق دل کی رغبت اور تسلیم سے ہے.جنگ اور خوف کی حالت میں اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کرتا ہے تو اس وقت غالب امکان یہ ہوتا ہے کہ وہ دل سے نہیں بلکہ اپنی جان کی حفاظت کے لئے یا بالفاظ دیگر اپنے قتل کے خوف سے ، از راہ منافقت ایسا کرتا ہے.مسلمانوں کو جبر کے ساتھ ان کے دین سے پھرانے کی کوشش اصل میں کفار کا شیوہ تھا اور آنحضرت صلی اللہ یکم وعظ و نصیحت کے مختلف طریقوں سے ان کو اس ظالمانہ طریق سے روکتے تھے.پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ آپ خود اپنے ہی مسلک کے خلاف اقدام کرتے ؟ پس ظاہر ہے کہ کسی کو تلوار کے خوف سے اسلام میں داخل کرنا آپ کا نہ پیغام تھا، نہ منشا، نہ طریق.جنگی حالتوں میں أَسْلِمُ تَسْلَم میں آپ کا پیغام یہ تھا کہ صلح و آشتی کے ساتھ ہمارے مطبع ہو کر ہمارے ساتھ مل جاؤ اور امن کے لئے ہماری پیش کش قبول کر لو تو امن و سلامتی میں
توہین رسالت کی سزا 344 } قتل نہیں ہے رہو گے.ہاں اگر مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو یہ تمہارا فیصلہ اور اختیار ہے جس کے تحت ہم تمہیں امن کی ضمانت نہیں دے سکتے.ہاں اگر ہماری سر پرستی میں آتے ہو تو پھر ہر حال میں اور ہر صورت میں ہم تمہارے لئے امن و سلامتی کے ضامن ہیں.آنحضرت صلی علیم کے اس پیغام کے معنے اس کے سوا اور کچھ نہیں تھے اور انہی معنوں کی رُو سے آپ کے اس پیغام میں مذہب تبدیل کرنے کی ہر گز کوئی دھمکی موجود نہیں تھی.یہ ایک مسلّمہ اور واقعاتی حقیقت ہے اور اسلام کی بنیادی تعلیم ہے کہ مذہب میں داخل کرنے کے لئے اسلام کسی جبر کی اجازت نہیں دیتا.آنحضرت صلی الم کا ساری زندگی کا طریق اور آپ کا مستقل عمل یہی تھا کہ آپ نے جب بھی کسی دشمن کو مذکورہ بالا پیغام دیا تو اس کے بعد خواہ وہ شکست کھا کر یا معاہدہ کر کے آپ کے تابع ہوا، آپ نے اس کو کبھی بھی مسلمان ہونے پر مجبور نہیں کیا.اسے اس کے مذہب و مسلک پر ہی رہنے دیا.گو مستشرقین نے بار بار ایسے اعتراض کئے ہیں کہ اسلام میں داخل کرنے کے لئے لوگوں کو مجبور کیا گیا تھا مگر غزوہ بدر سے لے کر سریہ حضرت اسامہ بن زید نیتک کوئی ایک حقیقی مثال بھی ایسی نہیں ہے جس سے وہ یہ ثابت کر سکتے ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ ہم تو کجا مسلمانوں کے کسی امیر لشکر نے بھی فتح حاصل کرنے کے بعد یا معاہدہ کرنے کے بعد کسی کو اپنا مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہونے پر مجبور کیا تھا.خونریزی سے پاک فتح: فتح مکہ کی مہم میں رسول اللہ صلی الل ولم نے انسانی خون کی حفاظت کے لئے کئی تدابیر اختیار فرمائیں.احادیث کا مستند ریکارڈ بتاتا ہے کہ
توہین رسالت کی سزا { 345 ) قتل نہیں ہے ایک تو آپ نے مکے کی طرف اپنے خروج کو خفیہ رکھا.تاکہ کوئی مزاحمت نہ ہو کہ اس کی وجہ سے خونریزی ہو جائے.اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ ان لوگوں کو قتل کرنا نہیں چاہتے تھے جنہوں نے آپ کی ہر نوع کی توہین و تنقیص ہی نہیں کی تھی بلکہ وہ آپ کے جان کے پیاسے بھی تھے.آپ ان کی بھی حفاظت کرنا چاہتے تھے اور ان میں سے اسلام کے لئے خدمات سر انجام دینے والے لوگ حاصل کرنا چاہتے تھے.آپ معفو و در گزر کا وہ معیار اور رحمت و کرم کی وہ مثال قائم کرنا چاہتے تھے جو قوموں کو زندگی عطا کرتا ہے.چنانچہ آپ نے ان لوگوں کو انتہائی حکمت عملی کے ساتھ مدافعت سے باز رکھ کر محفوظ فرمایا.دوسرے یہ کہ آپ نے جذباتی نعروں کی کلیه پیش بندی فرما دی تاکہ فاتحین کے دلوں میں گزشتہ مظالم کے بدلے لینے کے لئے کسی قسم کی انگیخت پیدا نہ ہو.چنانچہ ایک موقع ایسا پیدا ہوا کہ جب فاتحین کا جلوس سے کی گلیوں سے گزر رہا تھا تو انصار کے علم بردار حضرت سعد بن عبادہ نے جوش میں آکر نعرہ بلند کیا : الْيَوْمَ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ - اَلْيَوْمَ تُسْتَحَلُ الْحُرْمَةُ الْيَوْمَ اذَلَ الله قریش کہ آج قتل عام کا دن ہے اور آج کعبے کی حرمت بھی حلال ہو جائے گی.آج اللہ تعالیٰ قریش کے لئے ذلت کے سامان فرمائے گا.جب یہ خبر آپ تک پہنچی تو آپ ناراض ہوئے.کیونکہ اس قسم کے نعرے اشتعال پیدا کر سکتے تھے اور خون ریزی کا باعث بن سکتے تھے.اس لئے آپ نے انہیں نا پسند فرمایا.آپ نے ابوسفیان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ”سعد نے غلط کہا ہے.آج تو رحم کا دن ہے.وَهُذَا يَوْمٌ يُعَلِّمُ اللهُ فِيْهِ الكَعْبَةَ وَيَوْمُ تُكْسَى فِيْهِ الْكَعْبَةُ - كم آج اللہ تعالیٰ کعبے کو عظمت عطا فرمائے گا اور آج کعبے کو غلاف پہنایا جائے گا اور قریش کے لئے عزبات کے سامان ہوں گے.“ پھر آپ نے حضرت سعد بن عبادہ سے انصار کا جھنڈا لے کر ان کے بیٹے حضرت قیس بن سعد کے سپر د کر دیا.تا کہ سعد کو ایک طرح سے سرزنش بھی ہو جائے اور
توہین رسالت کی سزا 346 } قتل نہیں ہے ان کا دل بھی میلا نہ ہو کیونکہ بیٹے کے سپر د جھنڈا ہونے کے یہی معنے ہیں کہ گویا سر داری کا یہ جھنڈا انہی کے گھر میں رہا.بہر حال حضرت سعد سے جھنڈا منتقل کرنے سے باقی سب کو واضح طور پر یہ پیغام مل گیا کہ رسول اللہ صلی الی یکم کو اس موقع پر کسی قسم کی انگیخت پسند نہیں ہو گی.( بخاری کتاب المغازی غزوہ فتح مکه این رکز النبيا الراية وابن ہشام غزوة فتح مكة ، تعرض بعض المشركين لنفر من الصحابة و زرقانی شرح المواہب اللہ نبیہ ، غزوة فتح مكتة ) یہاں بھی رسول اللہ صلی ا لی ایم کے رؤوف و رحیم دل اور پر رحمت جذبات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف لگے والوں کے خون کی حفاظت فرمائی اور دوسری طرف ان کے مفتوح ہو کر شکست خوردہ جذبات بھی مجروح ہونے سے بچالئے.تیسرے آپ کی یہ تاکیدی ہدایت تھی کہ صرف مزاحمت کرنے والوں کا مقابلہ کیا جاۓ.چنانچہ اس مہم میں سوائے معمولی سی ایک جھڑپ کے اور کوئی مزاحمت نہیں ہوئی.آپ کی اس حکمت عملی کی وجہ سے ملنے کی فتح بغیر خونریزی کے انتہائی پر امن طریق پر ہوئی.اس کے نتیجے میں اہل مکہ سب کے سب محفوظ و مصئون ہو گئے.چوتھے یہ کہ آپ نے مکے والوں کے خون اور ان کے جذبات کی اس طرح بھی حفاظت فرمائی کہ آپ نے اعلان کروایا کہ جو شخص مسجد حرام میں پناہ لے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.جو شخص ابو سفیان کے گھر جا کر پناہ لے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.جو اپنے گھر میں دروازے بند کر کے بیٹھ رہے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.وغیرہ وغیرہ.اس اعلان سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں جوش نہ بڑھے اور وہ امن کی خاطر پر سکون رہیں.یہ آپ کے ان اقدامات میں سے چند اقدام کا ذکر ہے جو آپ نے قوم کو ایک بڑی خونریزی سے بچانے کے لئے فرمائے.
توہین رسالت کی سزا ( 347 } قتل نہیں ہے تشنگانِ لہو پر لطف و کرم: سکتے کی فتح کے روزر سول اللہ صلی للی نیلم نے وہاں کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے سالہا سال مخالفت کی.مسلمانوں کو زدو کوب کیا، انہیں قتل کیا، ان پر انسانیت سوز ظلم ڈھائے.اب بتاؤ تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے.وہ جانتے تھے کہ ان سے مخاطب ایک رحیم و کریم ذات ہے.سب نے یک زبان ہو کر کہا: ” جو ایک شریف اور کریم بھائی اپنے خطا کار بھائیوں سے روا رکھ سکتا ہے اور جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا.اس کے سوا ہم آپ سے اور کسی سلوک کی توقع نہیں رکھتے.“ آپ نے اس پر فرمایا: میرا یہی ارادہ تھا.اِذْهَبُوا أَنْتُمُ الطَّلَقَاء لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُم.جاؤ تم آزاد ہو ( کسی قسم کی سزا تو کیا ) آج کا دن کسی کی ملامت کا دن ہے نہ کسی سرزنش کا.آپ نے انہیں دعا دی کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کر دے.آپ کا یہ ایک عام طریق تھا کہ کسی سے عفو و در گزر کا سلوک فرماتے تو اس پر ردائے دعا بھی تان دیتے تھے.اور اگر وہ ضرور تمند ہو تا تو اسے کچھ عطا بھی فرماتے تھے.اسلامی حکومت میں غیر مسلم شہریوں کے بارے میں ایک موقع پر فرمایا: " إِنَّهَا بَدِّلُوا الجِزْيَةَ لِيَكُونَ دِ مَاتُهُمْ كَدِمَابِنَا وَاَمْوَالُهُمْ كَأَمْوَالِنَا.“(الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین (ردالمحتار ) جزء 4 صفحہ 129 - زرقانی شرح المواہب اللدنیہ، جلد 3 صفحہ 278- نصب الرایہ فی تخریج احادیث الہدایہ، جلد 3، صفحہ 381 ) کہ وہ غیر مسلم جو اسلامی حکومت کے شہری ہیں اور باقاعدہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کے خون ہمارے خونوں کی طرح ( محترم و محفوظ ہیں اور ان کے اموال ہمارے اموال کی طرح ( قانونی تحفظات میں ) ہیں.
توہین رسالت کی سزا 348 } قتل نہیں ہے اس فرمانِ رسول میں دیکھیں کہ کس طرح آپ ان لوگوں کے لئے اپنائیت کے جذبات رکھتے ہیں جو مسلمان نہیں تھے مگر اسلام کے معاہدہ امن کے تحت اس کی جغرافیائی حدود میں مقیم تھے.ان کے خون اپنے خون کی طرح اور ان کے اموال اپنے اموال کی طرح قرار دیتے ہیں.ان کے جان ، اموال ، خون اور دیگر امور کی حفاظت کی مکمل ذمہ داری آپ نے لی ہوئی تھی.یہ ہے وہ امن عالم کی ضامن عظیم تعلیم جو آپ نے اپنی امت کو دی ہے تاکہ وہ بھی خونریزی سے باز رہیں اور دیگر مذاہب واقوام کے افراد کے لئے پائیدار امن مہیا کرنے والے ہوں.سزائے موت پر بھی سایہ عفو ور حمت : آپ نے فتح مکہ کے موقع پر بعض جنگی، قومی، محاربت یا قصاص کے مجرموں کے لئے سزائے موت کا اعلان بھی فرمایا.ان کے جرائم ظالمانہ، محاربانہ ، سنگین اور بھیانک تھے.ایسے افراد کم و بیش گیارہ تھے.لیکن جب اس سزا پر تعمیل کا وقت آیا تو ان میں سے بھی سات کو نہ صرف معاف فرما دیا بلکہ ان کی ندامت اور توبہ کی وجہ سے بعض کی دلداری بھی فرمائی.ان مجرموں میں سے جو عملاً قتل ہوئے ان میں سے صرف عبد اللہ بن خطل ایسا تھا جو اس موقع پر بھی محارب ہو کر قتال کے لئے نکلا تھا لہذا قتل ہوا.باقی تین مقتول ایسے تھے جو ت مجسم صلی اللہ ہم تک پہنچنے سے قبل کسی نہ کسی کے ہاتھ لگ گئے تو قتل ہو گئے.ورنہ دیگر سزاوار جو آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر معافی کے طلبگار ہوئے تھے ، آپ نے انہیں معاف فرما دیا تھا.
توہین رسالت کی سزا 349 | قتل نہیں ہے اس رحمت کے سلوک کے پیش نظر آپ کے کریمانہ عمل سے یہ نتیجہ اخذ کر نا چنداں مشکل نہیں کہ اگر قتل ہونے والے بھی آپ کی خدمت میں پیش ہو کر معافی کے طلبگار ہوتے تو آپ ان پر بھی اپنی چادر رحمت دراز کرتے ہوئے ضرور معاف فرما دیتے.پس اس کی وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں تھی کہ آپ ہر حالت اور ہر قیمت پر عفو و در گزر کرنے والے اور انسانی خون کے محافظ تھے.ایسے افراد جنہیں آنحضرت صلی یکم نے سزاوار قتل قرار دینے کے باوجو د معافی دی، مسلمانوں کے خلاف جرائم میں بہت بڑھے ہوئے تھے.بعض وہ بھی تھے جو جنگوں میں مسلمانوں کے بھاری جانی ومالی نقصان کے ذمہ دار بھی تھے.آپ نے سب و شتم تو کیا، ان کی ساری زیادتیاں اور سب ظلم اپنے سایہ معفو ور حمت سے ڈھانپ دیئے.ایک قابل ذکر واقعہ.عکرمہ کی معافی چونکہ یہاں رسول اللہ صلی الیم کے سب و شتم کی سزا کی بات ہو رہی ہے ، اس لئے یہاں عکرمہ بن ابی جہل کا ذکر ایک خاص اہمیت کا حامل ہے.یہ نوجوان ، آپ کے سب سے بڑے دشمن ابو جہل کا بیٹا تھا.یہ بھی اپنی معاندت اور دشمنی میں کسی سے کم نہ تھا.اس کی وجہ سے مسلمانوں نے بہت دُکھ اُٹھائے تھے.اس کے لئے بھی آپ نے سزائے موت کا فرمان جاری فرمایا تھا.وہ اسی کے خوف سے یمن کی طرف بھاگ گیا تھا.اس کی بیوی ام حکیم بنت الحارث مسلمان ہو چکی تھیں.وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئیں: ” آپ عکرمہ کو معاف کر دیں.تا کہ وہ مکہ واپس آسکے.“ ان کی اس درخواست پر آپ نے عکرمہ کو معاف فرما دیا.چنانچہ وہ اپنے خاوند کی تلاش میں نکلیں.ساحل سمندر پر پہنچیں تو جہاز لنگر اُٹھا چکا تھا مگر ابھی ساحل سے دور نہ ہو ا تھا.انہوں نے اپنا دوپٹہ ایک لمبی لکڑی پر باندھا اور اُسے ہوا میں لہرایا.یہ
توہین رسالت کی سزا 350 } قتل نہیں ہے اس بات کی علامت سمجھا گیا کہ کوئی مصیبت زدہ عورت فریاد کر رہی ہے.چنانچہ جہاز رک گیا.ام حکیم ایک چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جہاز تک پہنچیں اور عکرمہ سے کہا: ” اے میرے چا کے بیٹے ! جِئْتُكَ مِنْ أَوْصَلِ النَّاسِ وَابَرِ النَّاسِ وَ خَيْرَ النَّاسِ.کہ میں ایک ایسی ہستی کے پاس سے آئی ہوں جو صلہ رحمی میں سب سے بڑھ کر ہے.احسان میں اُس کی کوئی نظیر نہیں.انسانوں میں سے بہترین انسان ہے.اپنے آپ کو ضائع نہ کرو.میری بات مانو اور میرے ساتھ لگنے واپس چلو.حضور نے آپ کو امان دے دی ہے.چنانچہ عکرمہ اپنی بیوی کے ساتھ واپس ملنے کی طرف چل پڑے.یہاں صرف خون کی حفاظت ہی نہیں ، رسول اللہ صلی الی کام کے شرف انسانیت کے قیام کے انداز بھی ملاحظہ فرمائیں کہ ابھی عکرمہ راستے ہی میں تھے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: عکرمہ واپس آرہا ہے.اُس کے والد کو اس کے سامنے بُرا بھلا نہیں کہنا.فَإِنَّ سَبَّ الْمَيِّتِ يُؤْذِى الْحَقِّ وَلَا يَلْحِقُ الْمَيِّتَ.کہ مرنے والے کی برائی کرنے سے اُس کے زندہ رشتے داروں کو تکلیف پہنچتی ہے اور یہ بر اذکر میت تک نہیں پہنچتا اور نہ وہ سن سکتا ہے.لہذا ایسے عبث فعل سے مومن کو بچنا چاہئے.بہر حال عکرمہ ام حکیم کے ہمراہ مکے پہنچے اور رسول اللہ صلی للی نیم کی خدمت اقدس میں اُنہوں نے حاضر ہو کر عرض کی کہ عکرمہ حاضری کی اجازت چاہتے ہیں.آپ یہ بات سن کر خوشی سے کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”ہاں ہاں دیر کیا ہے ؟ عکرمہ کو جلد لے آؤ.“جب عکرمہ سامنے وو آئے تو آپ نے کہا: ” مَرْحَباً بِالرَّاكِبِ المُهَاجِرِ “ خوش آمدید اے مہاجر سوار! اتنا شاندار اعزاز دیکھ کر وہ حیرت میں ڈوب گئے اور عرض کی: ”میری بیوی ام حکیم کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے.“ آپ نے فرمایا : ”وہ بالکل ٹھیک کہتی ہے.“ یہاں عکرمہ کو وہ ساری
توہین رسالت کی سزا ( 351 } قتل نہیں ہے زیادتیاں اور ظلم یاد آگئے جو وہ ماضی میں کر چکے تھے.ان کا سر شرم کے مارے جھک گیا اور بے اختیار بول اُٹھے.” أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّكَ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ وَقَالَ أَنْتَ اَبَر النَّاسِ وَأَدْنَى النَّاسِ “.یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں.وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.اور آپ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور مجھے یہ بھی یقین ہو گیا ہے کہ آپ تمام لوگوں میں سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور وعدہ وفا کرنے والے ہیں.رسول اللہ صلی یکم نے عکرمہ سے فرمایا: "تم نے جو مانگنا ہے مانگ لو.میری دسترس میں جو کچھ ہوا دوں گا.“ عکرمہ نے عرض کی : ”میری بخشش کے لئے دعا کی جائے کہ دشمنیاں اور عداوتیں میں کر چکا ہوں اور جو گالیاں دے چکا ہوں وہ سب اللہ معاف کر دے.“ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور جناب الہی میں یوں دعا کی: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعِكْرَمَةَ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَ نِيْهَا أَوْ مَنْطَقٍ تَكَلَّم بِهِ وَ مَرْكَبٍ وَضَعَ فِيْهِ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّ عَنْ سَبِيْلِكَ.“ اے میرے اللہ ! تو عکرمہ کی میرے متعلق وہ تمام عداوتیں، دشمنیاں، زیادتیاں اور بڑے بول جو اس نے بولے ہیں، معاف کر دے.“ اس کے بعد عکرمہ نے عرض کی: ”حضور ! میرے لئے کیا حکم ہے؟ آپ نے فرمایا: "کلمہ شہادت کثرت کے ساتھ پڑھا کرو اور اللہ کی راہ میں جہاد کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دو.“ جود عکرمہ نے حضور صلی الی ایم کے سامنے عہد کیا کہ میں جتنا اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے خرچ کیا کرتا تھا، اب اس سے دو گنا اللہ کی راہ کی طرف بلانے کے لئے خرچ کروں گا.نیز جتنی جنگیں میں نے اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے لڑی ہیں، اس سے دو گنی اللہ کی رضا کے حصول کے لئے لڑوں گا.پھر عکرمہ نے جس والہانہ انداز میں اپنے اس عہد کو نبھایا اور اللہ کی راہ میں جو
توہین رسالت کی سزا 352 } قتل نہیں ہے جو قربانیاں پیش کیں اس پر تاریخ گواہ ہے.فَرَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ( تاریخ انمیں، غزوة فتح مگنت، جلد 2، صفحہ 92.ناشر مؤسسة شعبان للنشر والتوزيع بيروت) رسول اللہ صلی علیم کے عفو و در گزر کا یہ واقعہ دراصل آپ کی بعثت کے مقصد کی ایک بے مثال اور اس کے حسین پہلو کو واضح کرتا ہے کہ آپ ہر قیمت پر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر لوگوں کو راہ ہدایت پر گامزن کرنا چاہتے تھے.اس کے لئے آپ نے اپنی ذات کو کلیۃ" کا لعدم کر کے ہر بد ترین سے بدترین ظالم اور بڑے سے بڑے بد زبان ہر زہ گو کو بھی معاف فرمایا.سب جانتے ہیں کہ عکرمہ جو بہت بڑا دشمن اسلام تھا اور اس باپ کا بیٹا تھا جو بنیادی طور پر رسول اللہ صلی علیکم اور آپ کے صحابہ کی تذلیل اور اذیت کا ذمہ دار تھا.اس کے بارے میں آپ یہ ارشاد فرمارہے ہیں کہ باپ کے حوالے سے اس کے جذبات کا خیال رکھو.اس واقعے میں رسول اللہ صلی علیم کی انتہائی کریمانہ دعا کو بھی تو ذرا ملاحظہ کریں.یہ فقرہ پڑھنے والا اور دل پر لکھ لینے والا فقرہ ہے.آپ فرماتے ہیں: ”اے میرے اللہ ! تو عکرمہ کی میرے متعلق وہ تمام عداوتیں، دشمنیاں، زیادتیاں اور بُرے بول جو اس نے بولے ہیں، معاف کر دے.“ یہ دعا کھول کھول کر گواہی دیتی ہے کہ اس نے جو بول بولے تھے ، وہ آپ کے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے.مگر آپ نے اس کی بد کلامی، توہین اور تنقیص پر اسے قتل نہیں کروایا.بلکہ اپنے فطرتی جذبہ معفو و کرم کی بنیاد پر بغیر کسی تردد یا تکلف کے اسے کلیہ معاف کر دیا.آپ کا عفو و در گزر ، معافی اور بخشش کی بلندی ہر ظلم و توہین سے ارفع تھی.چنانچہ جس نے آپ کی تو ہین و تذلیل کی جتنی بھی کوشش کی وہ آپ کے پیمانہ صبر وکرم سے نیچے ہی رہی.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وعَلَى آلِ مُحَمَّدِوَ بَارِكْ وَ سَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ
توہین رسالت کی سزا { 353 ) قتل نہیں ہے یہ مستند تاریخی ریکارڈ شاہد ہے کہ عکرمہ کو یہ معافی دیگر جرائم کے علاوہ سب و شتم پر بھی دی گئی.آپ کو واضح طور پر علم تھا کہ عکرمہ آپؐ کے خلاف بد زبانی کیا کرتا تھا.آپ نے اسے بھی دعا ہی دی تاکہ اس کے دل پر ندامت و غیرہ کا کسی قسم کا کوئی بوجھ باقی نہ رہ جائے اور وہ شرح صدر کے ساتھ اور امن و سلامتی کی ضمانت کے ساتھ اسلام میں قدم رکھے.ایسے بے نظیر رؤوف و رحیم ، وسیع الظرف اور لا متناہی حوصلے والے رسولِ رحمت و کرم صلی ال نیم کے متعلق یہ کلمات زبان یا قلم سے نکالنا کہ آپ سب و شتم کرنے والے کو قتل کرواتے تھے ، بذاتِ خود آپ کی توہین ہے.آپ کی طرف یہ ایک ایسی منفی اور ظالمانہ بات منسوب کی جاتی ہے جو آپ نے کبھی نہیں کی.یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی علیکم نے گالی گلوچ کے بارے میں ایسا ذکر کسی اور کے لئے نہیں فرمایا جیسا عکرمہ کے لئے فرمایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب و شتم میں وہ دیگر شا تمین سے دو ہاتھ آگے بڑھا ہوا تھا اور ان میں سے وہ ایسا تھا جس کے لئے عفو خاص کے ساتھ مغفرت و بخشش کی دعا کی ضرورت تھی.پس آپ کے اس عمل سے ان لوگوں کے دلائل کا حتمی طور پر رڈ ہوتا ہے جو ہر ایک پر سب و شتم کا الزام عائد کر کے اس کے قتل کو اپنے غلط عقائد کے ثبوت کے لئے پیش کرتے ہیں.عدو مبین پر سائبانِ رحمت و کرم: ابوسفیان بن حرب بھی شدید معاندین بلکہ ائمۃ الکفر میں سے تھا.مخالفت اور دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا.جنگ بدر کے بعد وہ دوسو سواروں کے ساتھ چھپ کر آیا اور اس نے مدینے کے یہودیوں کے ساتھ ساز باز کی.دو مسلمانوں کو شہید کیا اور بہت سے مویشی ہانک کر لے گیا.پھر اُحد اور احزاب کی جنگیں اسی کی سر کردگی میں لڑی گئیں.جنگوں میں
توہین رسالت کی سزا 354 } قتل نہیں ہے تشبیب کہہ کر اور رجزیہ اشعار پڑھ پڑھ کر رسول اللہ صلی للی کم کی توہین کا مر تکب ہوا.اعل' ہبل کے نعرے لگواکر وہ اللہ تعالیٰ کی شان میں بھی گستاخی کا مر تکب ہو چکا تھا.رسول اللہ صلی لی ایم کے مکے کے لئے خروج سے دوچار روز قبل ہی وہ مدینے آیا تھا اور آپ سے مل کر بھی گیا تھا.پھر فتح مکہ کی مہم کے دوران وہ حضرت عباس کو ساتھ لے کر مر الظہر ان کے مقام پر بھی آپ سے ملا.آپ کے لئے یہ ایک نادر موقع تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ، اپنے اور اسلام کے اس شدید ترین دشمن کو فوراً قتل کروا دیتے.مگر آپ نے اسے قتل نہیں کر وایا.آپ نے اسے کلیہ معاف کر دیا.دورانِ گفتگو آنحضرت صلی اللہ ہم نے اُس سے پوچھا: ” اب بھی خدا کے سوا کسی اور معبود کو مانتے ہو ؟“ اس نے جواب دیا: ” اگر خدا کے سوا ہمارے یہ بت بھی کوئی 'لاہوتی ، مقام رکھتے تو ہمارا یہ حال نہ ہو تا جو ہوا ہے.“ پھر آپ نے پوچھا: ”میرے رسول ہونے میں اب بھی کوئی شک باقی ہے ؟“ اس نے جواب دیا : ” ابھی دل میں اطمینان نہیں.“ آپ نے اس پر کوئی سختی نہیں فرمائی.حالانکہ وہ آپ کے قبضہ و قدرت میں تھا لیکن حوصلہ ، رحمت اور عطا کی اداد یکھیں کہ فرمایا: ” اچھا سوچو اور اطمینان کی راہیں تلاش کرو.“ پھر آپ نے اس کے اس تذبذب کے با وجو د اس کے گھر کو پناہ گاہ قرار دیا اور اعلان کیا کہ جو لوگ سر دار مکہ ابوسفیان کے گھر پناہ لے گا اُسے کچھ نہیں کہا جائے گا.یہ تھے ہمارے رحیم و کریم رسول اللہ صلی علیکم.جن کے عفو و کرم کے واقعات پر تاریخ عالم حیرت زدہ ہے.آپ نے اپنی سیرت طیبہ اور پاک اخلاق کے ذریعے مکے کے سر داروں اور عام لوگوں کے دل اس طرح موہ لئے کہ سالوں کی دشمنیاں پل بھر میں محبت اور فدائیت میں بدل گئیں.پھر یہی لوگ اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بن کر اسلام کے سچے خادم اور رسول اللہ صلی علیکم
توہین رسالت کی سزا 355 }- قتل نہیں ہے کے جانثار فدائی بنے.انہوں نے اسلام کی اشاعت اور دین کے استحکام کے لئے ایسی ایسی قربانیاں پیش کیں کہ تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے.پس یہ کہنا کہ آپ تو ہین کرنے والوں کو قتل کرواتے تھے ، سفید جھوٹ ہے.آپ بد سے بدترین دشمن کو بھی سایہ بخشش میں لے کر اسے زندگی بخش جام پیش فرماتے تھے.کیونکہ آپ انسانیت کے اور انسان کے خون کے سب سے بڑے محافظ تھے.سزا یافتگان کی معافی: مختلف الانواع قومی و انسانی جرائم اور قصاص کے سزاوار مجرم جن کے لئے رسول اللہ صلی ایم نے سزائے موت کا حکم دیا تھا، حسب ذیل تھے.عبد العزی بن خطل، اس کی دو داشتائیں، عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح، عکرمہ بن ابی جہل، ہبار بن آسود، حارث بن نفیل، سارہ جو بنو عبد المطلب میں کسی کی لونڈی تھی، مقیس بن صابه کتب تاریخ میں مذکورہ بالا افراد کے علاوہ اُسید بن ایاس، وحشی بن حرب ، ہند بنتِ عتبہ زوجہ ابوسفیان، حارث بن ہشام، زہیر بن امیہ ، صفوان بن امیہ اور مشہور شاعر کعب بن زہیر کے اسماء بھی درج ہیں.ان کتب میں ان مؤخر الذکر افراد کے بارے میں آنحضرت صلی یی کم کا واضح طور پر حکم تو نہیں ملتا مگر یہ ضرور نظر آتا ہے کہ ان میں سے بعض سردارانِ قریش تھے اور بعض کے جرائم ایسے تھے کہ وہ خود خوف زدہ تھے کہ ان کو قتل کر دیا جائے گا یا ان کے بارے میں بھی قتل جاری ہو جائے گا اس لئے وہ بھی امان کے طالب ہوئے.یہ آپ کے دامن رحمت کی وسعت تھی کہ باوجود اس کے کہ ان پر حکم قتل جاری ہو چکا تھا ان میں سے جس نے
توہین رسالت کی سزا 356 } قتل نہیں ہے بھی معافی کی درخواست کی، آپ نے اسے معاف فرما دیا.جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ صرف چار افراد ایسے بد قسمت ثابت ہوئے جو سایہ معفو میں آنے سے محروم رہے اور قرار واقعی سزا کے مستحق ٹھہر گئے.یہ سب وہ تھے جو حسب ذیل حکم الہی کے تحت سزا یافتہ قرار پائے تھے.إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَاداً أَن يُقَتَلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا و وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن قَبْلِ أَن تَقْدِرُوا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( المائده: 34،35) ترجمہ : یقیناً ان لوگوں کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ ہے کہ انہیں سختی سے قتل کیا جائے یا دار پر چڑھایا جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیئے جائیں یا انہیں دیں نکالا دے دیا جائے.یہ ان کے لئے دنیا میں ذلت اور رسوائی کا سامان ہے اور آخرت میں تو ان کے لئے بڑا عذاب ( قدر) ہے.سوائے ان لوگوں کے جو اس سے پیشتر تو بہ کر لیں کہ تم ان پر غالب آجاؤ.پس جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.اس حکم الہی میں ایک اہم حصہ یہ بھی ہے کہ ”سوائے ان لوگوں کے جو اس سے پیشتر توبہ کر لیں کہ تم ان پر غالب آ جاؤ.پس جان لو کہ اللہ بہت بخشنے والا ( اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.“ چنانچہ رسول اللہ صلی علی کم کا عمل اس حکم الہی کے عین مطابق تھا اور جو آپ تک پہنچ کر معافی کے طلبگار ہوتے تھے ، آپ انہی کو معاف کرنے کی خواہش رکھتے تھے.آپ نے اس حکم الہی پر کمال عفو و کرم کے ساتھ عمل فرمایا.یعنی ان سزا یافتہ افراد میں سے جو کسی کے قابو آجانے سے پہلے پہلے آپ کے پاس پہنچ گئے، آپ نے انہیں بالکل معاف کر دیا.
توہین رسالت کی سزا ( 357 ) قتل نہیں ہے قتل سے ہاتھ روکو: فتح مکہ کے دوسرے روز رسول اللہ صلی الی یم نے ایک بار پھر بڑے سبق آموز اور جلالی رنگ میں قتل و غارت کے بد نتائج سامنے رکھتے ہوئے اس سے کلیہ ہاتھ اٹھا لینے کا ارشاد فرمایا کہ ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ عَنِ الْقَتْلِ ، فَقَدْ كَثُرَ الْقَتْلُ إِنْ نَفَعَ.(ابن ہشام و السيرة الحلبيه غزوہ فتح مکہ) کہ قتل سے اپنے ہاتھ روکو.قتل تو بہت ہو چکا لیکن کیا اس نے کبھی کوئی فائدہ بھی دیا؟ یہ حکم صرف گنے کی فتح کے ایام تک محدود نہ تھا.یہ انسان کے لئے ایک حیات افزا دائمی پیغام ہے جو قیامت تک انسانی خون کو ضیاع سے بچانے والا ہے.آپ کے اس حکم نے رہتی دنیا تک یہ سچائی قائم فرما دی ہے کہ کشت و خون نے کبھی نفع نہیں دیا.اس نے ہمیشہ نقصان ہی پہنچایا ہے.بلکہ دنیا میں انسان اور انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان قتل و غارت ہی نے پہنچایا ہے.رسول اللہ صلی علی کریم نے بڑے واضح اور پر انذار الفاظ میں دنیا کو عموماً اور مسلمانوں کو خصوصاً اس قطعی زیاں رساں عمل سے پر ہیز اور گریز کی نصیحت فرمائی ہے.آپ فرماتے تھے کہ میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی.جب اس کا ماحول روشن ہو گیا تو پتنگے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے.وہ ان کو آگ سے پرے ہٹانے لگا مگر وہ اس پر غالب ہونے لگے.پس میں تمہیں تمہارے کمر بند سے پکڑ پکڑ کر بچاتا ہوں اور تم اس میں گر گر پڑتے ہو.( بخاری کتاب الرقاق باب الانتهاء عن المعاصی) آپ انسان کو تباہی اور ہلاکت سے بچانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے اور آپ نے ہر ایسی تعلیم پیش فرمائی جو اسے تباہی اور قتل و خون سے بچانے والی تھی.
توہین رسالت کی سزا اراد ہ قتل کے مجرم کو معافی اور دعا: 358 | قتل نہیں ہے ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کے طواف کے وقت ایک شخص فضالہ بن عمیر رسول اللہ صلی ا لی ایم کے قتل کے ارادے سے آپ کے قریب آیا.اللہ تعالیٰ نے اس کے ناپاک ارادے سے آپ کو مطلع فرما دیا.آپ نے اسے بلایا اور پوچھا کہ وہ کس ارادے سے آیا تھا؟ جو ابا اس نے جھوٹ بول دیا.آپ نے مسکرا کر اسے قریب بلایا اور بڑی ملائمت سے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اسے مزید کچھ نہ کہا.فضالہ بعد میں کہتا تھا کہ رسول اللہ صل اللی کلم نے جب اس کے سینے پر ہاتھ رکھا تو اس کی تمام تر نفرت عنقا ہو گئی.وہ اس وقت اسلام قبول کر کے آپ کے دامن رحمت سے وابستہ ہو گیا.(ابن ہشام جزو 4 صفحہ 20 قصة اسلام فضالہ.غزوہ فتح حمایت ) حقیقت یہ ہے کہ یہ شاندار کامیابیاں آپ کے عفو و در گزر ، لطف و کرم، حسن اخلاق ، للہیت اور دعا کی مرہونِ منت تھیں.نیز اس حکمت عملی کا ثمر شیریں تھیں جو اذعم إلى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “ (النحل: 126 ) کے ارشادربانی پر مبنی تھی کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے.آپ نے اس الہی حکم کی کماحقہ تعمیل کی اور کروائی.اسی حربے سے رسول اللہ صلی لی ایم نے بے شمار لوگوں کو ہلاکتوں سے نکال کر ان کے لئے اخروی نجات کے سامان فرما دیئے.سچ یہ ہے کہ گستاخی کرنے والوں کو قتل کر کے کبھی کچھ بھی حاصل نہیں ہوا.جبکہ انہیں معاف کرنے سے اور ان پر دامن بخشش دراز کرنے سے بہت کچھ حاصل ہوا.کیونکہ تلوار جسم کو تو کاٹ دیتی ہے ، کفر اور نفاق کو نہیں کاٹ سکتی.کفر و نفاق کو لطف و کرم، رحمت و دعا اور
توہین رسالت کی سزا 359 | قتل نہیں ہے حسن و احسان کی دھار کاٹتی ہے.مگر جس پر یہ دھار چلتی ہے وہ در حقیقت شربت وصل و بقا پی لیتا ہے اور ابدی زندگی سے ہمکنار ہو جاتا ہے.آنحضرت صلی الم کے عفو و در گزر کی یہ محض چند مثالیں ہیں جو آپ نے سالہا سال کے جانی دشمنوں پر سائبان کی طرح تانے رکھا.اس نوع کے واقعات آپ کے ذریعے دن رات اور صبح و شام ظاہر ہوتے تھے.اپنوں کی غلطیاں معاف کرنے، محبت و شفقت، اُلفت و رافت کے ساتھ ان کی تربیت کرنے اور تزکیۂ نفس کے لئے کوشاں رہنے کے واقعات بھی آپ کی زندگی کے لمحے لمحے کے ساتھ منسلک تھے.آپ اپنے جانی دشمنوں سے عفو و در گزر کرنے والے بھی تھے اور ان کے لئے رؤوف ورحیم بھی.قتل پر شدت درد: فتح مکہ کے بعد قبائل عرب کی اسلام کی طرف رغبت کا خاص ماحول تھا.چنانچہ آنحضرت صلی علیم نے عرب کے مختلف قبائل کی طرف تبلیغی وفود بھیجے.بنو کنانہ کی شاخ بنو جذیمہ جو مکہ کے قریب فیملم کی جانب آباد تھے.آپ نے حضرت خالد بن ولید کو ان کی طرف اسلام کی اطاعت میں آنے کے پیغام کے ساتھ بھجوایا.یہ ایک خالص تبلیغی نیز انہیں اسلامی حکومت کے تحت لاکر امن اور حفاظت مہیا کرنے کی مہم تھی.لیکن ان انقلابی حالات میں بنو جذیمہ کی طرف سے رد عمل کے خدشے سے رسول اللہ صلی یکم نے تین سو پچاس افراد کی فوج بھی ان کے ہمراہ بھجوائی.ان میں مہاجرین و انصار کے ساتھ بنو سلیم کے افراد بھی تھے.(ابن سعد سریۃ خالد بن ولید الی بنی جذیمہ وزرقانی سر یہ حضرت خالد بن ولید الی بنو جذیمہ ) حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جو اس سریے میں شامل تھے ، بیان فرماتے ہیں: ”ان لوگوں نے بنو جذیمہ کو اسلام کی اطاعت میں آنے کی دعوت دی.انہوں نے اس دعوت کو قبول کیا لیکن
توہین رسالت کی سزا { 360 } قتل نہیں ہے 6 6 أَسْلَمْنَا“ کہ ہم مطیع ہوتے ہیں یا مسلمان ہوتے ہیں، کہنے کی بجائے ”صَبَانًا، صَبَانًا ،، کہا.جس کا معنیٰ تھا کہ ہم صابی ہیں ہم صابی ہیں.ان کے اس طرزِ اظہار سے حضرت خالد نے اندازہ لگایا کہ انہوں نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کیا ہے.لہذا ان سے جنگ شروع کر دی جس کے نتیجے میں ان کے بہت سے افراد قتل ہوئے اور بہت سے قیدی بنائے گئے.“ (بخاری کتاب المغازی سریۂ حضرت خالد بن ولید الی بنو جذیمہ ) حضرت عبد اللہ بن عمررؓ فرماتے ہیں.مکہ پہنچ کر ؟ ہم نے آنحضرت صلی نی یکم کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے بڑے ہی درد کے ساتھ اپنے ہاتھ اٹھائے اور دو مرتبہ خدا تعالیٰ کے حضور التجاكي: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِد“ اے اللہ ! جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے برآت چاہتا ہوں.(بخاری کتاب المغازی سریۂ حضرت خالد بن ولید الی بنو جذیمہ ) رسول اللہ صلی اللی کرم نے فورا حضرت علی کو بنو جذیمہ کی طرف روانہ فرمایا اور ان کے مقتولین کا خون بہا اور ان کے اموال کے نقصان کا پورا معاوضہ ادا فرمایا.جب سب ادا ئیگی ہو چکی تو حضرت علی پوری تسلی اور تصدیق کرنے کے بعد وہاں سے ملنے کے لئے روانہ ہوئے.گلے پہنچ کر آپ کی خدمت میں تفصیل پیش کی تو آپ کو قدرے تسلی ہوئی.لیکن ان لوگوں کے قتل کی وجہ سے جو زخم آپ کے دل کو پہنچ چکا تھا اس نے پھر کروٹ لی اور ایک بار پھر آپ کا دل افسوس سے بھر گیا.آپ نے پھر ہاتھ اٹھائے اور خدا تعالیٰ کے حضور وہی التجا کی: ” اللَّهُمَّ إِنِّي ابْرَأُ الَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ “اے اللہ !جو کچھ خالد نے کیا میں اس سے بر آت چاہتا ہوں.یہ التجا آپ نے تین بار دوہرائی.(طبری 8ھ وزرقانی بعث حضرت خالد بن ولید بطرف بنو جذیمہ و ابنِ سعد سریۃ خالد بن ولید الی بنی جذیمة)
توہین رسالت کی سزا 361 } قتل نہیں ہے یہ حالت تھی ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی ال نیم کی کہ آپ اپنے سینے میں کسی کے قتل سے کس قدر دکھ محسوس کرتے تھے کہ تڑپ اٹھتے تھے.آپ تو لوگوں کو ہلاکتوں سے محفوظ رکھنے کے لئے امن و سلامتی کی طرف بلاتے تھے.اگر کسی کا قتل ہو جاتا تو بیتاب ہو جاتے تھے.پس آپ پر ایسا الزام قائم کرنا کہ محض توہین کی وجہ سے یا گستاخی کے باعث آپ لوگوں کو قتل کرواتے تھے، آپ پر کھلا کھلا الزام ہے.یہاں ارباب فہم و دانش خود فیصلہ کریں کہ قرآن کریم کے یہ ارشادات، آنحضرت صلی للی کمر کا یہ سوہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کی یہ سنت واجب التعمیل اور اسلام کا دستور العمل ہے یا نام نہاد فقہاء یا علماء کی یہ ہدایت کہ شاتم رسول کو قتل کرو، اس کا جرم نا قابل معافی اور اس کی سب وشتم نا قابل تلافی ہے.مذکورہ بالا واقعات کی شہادت کی بنیاد پر ہر سچا محب رسول یہی گواہی دے گا کہ خدا کی قسم! میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی للی ریم کے ہاتھ ایسے خون سے کلیہ بری اور پاک وصاف ہیں.آپ نے کبھی بھی اور اپنی زندگی کے کسی دور میں بھی کسی کو اپنی توہین کی وجہ سے قتل نہیں کروایا.یہ مذکورہ بالا تمام واقعات یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آپ کی زندگی میں ایک واقعہ بلکہ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا کہ آپ نے کسی سے اپنی ذات کے لئے انتقام لیا ہو.تو پھر یہ یقینی بات ہے کہ وہ مجموعہ کروایات جو قائلین قتل شاتم پیش کرتے ہیں لاز ما وضعی اور جھوٹا ہے یا اگر کوئی صحیح روایت تھی تو اس سے استدلال جھوٹا پیش کیا گیا ہے.دنیا میں تو تعداد یا وزن بھی عدل و انصاف کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے.یعنی جس گروہ کی تعداد زیادہ ہو وہ کم تعداد پر بھاری ہوتا ہے.اسی طرح اگر ترازو کا ایک پلڑا ایک طرف جھکتا ہو تو اس پلڑے کو بھاری قرار دیا جاتا ہے.خواہ وہ ایک رتی برابر بھی بھاری ہو.مگر یہاں رسول اللہ صلی یی کم یا عفو و کرم اور لطف ورحم سو
توہین رسالت کی سزا { 362 } قتل نہیں ہے فیصد حتمی ہے.آپ کی حیات مبارکہ میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جو آپ کی عالمین پر محیط وسیع رحمت کے مقابل پر ترازو میں دوسرے پلڑے پر رکھا جاسکتا ہو.*****
توہین رسالت کی سزا { 363 ) قتل نہیں ہے سیرت طیبہ کا ایک اور تابناک پہلو ***** رحمۃ للعلمین رسول اللہ صلی ال ظلم کی سیرت طیبہ کا یہ پہلو بھی انتہائی تابناک ہے کہ بعض سرکشوں ، باغیوں اور سازشیوں کی سرکشی، بغاوتوں اور سازشوں پر بھی آپ انہیں سزائے موت نہ دیتے تھے.بلکہ انہیں سبق سکھانے کے لئے ان کے اڈوں اور آلات کو ختم کر دیتے تھے مگر ان کی جانوں کو تلف ہونے سے بچاتے تھے.چنانچہ مدینے میں جو یہودی مقیم تھے ان میں سے بعض کسی نہ کسی موقعے پر اپنے بغض سے مجبور ہو کر ضرور سازش کرتے رہتے تھے.ذیل میں اس نوع کے چند واقعات پیش ہیں.۱) جادوگری کی ذلیل جسارت پر معافی: بعض روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی علی کلم جب مدینے واپس لوٹے تو نعوذ باللہ ایک یہودی نے جس کا نام لبید بن اعصم تھا، آپ پر جادو کر دیا تھا.چنانچہ یہ روایت بخاری میں کتاب الطب "باب هل يستخرج الشحر “ کے علاوہ دو اور جگہوں پر بھی بیان ہوئی ہے.آپ پر جادو ہو جانے کی تشہیر کوئی معمولی بات نہیں تھی.یہ آپ کے مقام و مرتبے اور عزت و تقدس پر انتہائی خوفناک اور گندہ حملہ تھا.کیونکہ جادو کرنے والا جادو زدہ پر ذہنی اور اعصابی لحاظ سے حاوی اور مسلط ہوتا ہے.لہذا آپ پر جادو ہو جانے کا مطلب یہ تھا کہ ایک ناپاک یہودی نے نعوذ باللہ آپ جیسے عظیم الشان نبی، نبیوں کے سردار اور سید الخلق صلی ا ہم کو ذہنی اور اعصابی لحاظ سے زیر کر لیا تھا اور وہ آپ پر مسلط ہو گیا تھا.إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.یہ رسول اللہ صلی اللی کم کی توہین کی یہ ایک انتہائی غلیظ اور گھناؤنی کوشش تھی.
توہین رسالت کی سزا وو 364 } قتل نہیں ہے یہودیوں کی اس انتہائی گندی جسارت پر آپ کو اس قدر تکلیف تھی کہ آپ دعا پر دعا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اس گند کے دور کرنے کی استدعا کرتے تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرشتوں کے ذریعے اس یہودی کے مبینہ ذریعہ و آلات جادو کی اطلاع عطا فرمائی.اس کی تفصیل کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی علیم نے آپ سے فرمایا:......اے عائشہ ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتادی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی ؟ میں نے عرض کی: ” یارسول اللہ ! وہ کیا بات ہے ؟ آپ نے فرمایا (رویا میں ) میرے پاس دو آدمی آئے.ان میں سے ایک میرے سر کی طرف بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کی طرف بیٹھ گیا.پھر ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا اس شخص کو کیا تکلیف ہے ؟ دوسرے شخص نے (فتنہ پردازوں کے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) جواب دیا کہ یہ وہی ہے جسے سحر کیا گیا ہے.اس پر پہلے آدمی نے پوچھا اسے کس نے سحر کیا ہے ؟ دوسرے نے جواب دیا کہ لبید بن اعصم یہودی نے سحر کیا ہے جو بنی زریق کا حلیف ہے.اس پر پہلے شخص نے پھر سوال کیا کس چیز کے ذریعہ سحر کیا گیا ہے ؟ دوسرے نے کہا.ایک کنگھی میں سر کے بالوں کی گر ہیں باندھی گئی ہیں اور پھر اسے کھجور کی ایک خشک شاخ میں لپیٹ کر رکھا گیا ہے.پوچھنے والے نے سوال کیا یہ کنگھی وغیرہ کہاں رکھی ہے؟ دوسرے نے جواب دیا وہ ذروان کے کنوئیں میں رکھی ہے.اس خواب کے بعد آپ آپنے بعض صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور اس کا معائنہ فرمایا.اس پر کھجوروں کے کچھ درخت تھے.پھر آپ حضرت عائشہ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: "عائشہ! میں اسے دیکھ آیا ہوں.اس کنوئیں کا پانی مہندی کے پانی کی طرح سرخی مائل تھا اور اس کے کھجور کے درخت تھوہر کے درختوں کی طرح مکر وہ نظر آتے تھے.“ حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ” میں نے عرض کی کہ آپ نے اس کنگھی وغیرہ کو باہر نکلوا
توہین رسالت کی سزا { 365 ) قتل نہیں ہے کر پھینک کیوں نہ دیا؟ آپ نے فرمایا : ”خدا نے مجھے محفوظ رکھا اور مجھے شفادے دی تو پھر میں اسے باہر پھینک کر لوگوں میں ایک بُری بات کا چر چاکیوں کرتا.البتہ جادو کے مقام یعنی اس کنوئیں کو بند کر وا دیا گیا ہے “.(بخاری کتاب الطب باب هل يستخرج السحر ) رسول اللہ صلی اللی یکم نے ان لوگوں کو بھی معاف کر دیا جو آپ کے خلاف ایسی ذلیل اور گندی حرکت کر کے خوفناک توہین کے مرتکب ہوئے تھے کہ گویا وہ جادو کے ذریعے آپ پر مسلط ہونے کے اعلان کر رہے تھے.مگر انسانی خون کے محافظ اور رحمت مجسم صلی یکیم کے ظرف و حوصلے کی بے کنار وسعتوں کے ساتھ اس کے بے انتہاء عفو و بخشش کو بھی دیکھیں کہ ایسے ناقابلِ معافی جرم کے ارتکاب پر بھی اس شخص کو صاف معاف کر دیا تھا.یہ مجرم ہر طرح سے آپ کے قبضہ و قدرت میں تھے اور آپ انہیں ایک جنبش شمشیر سے تہ تیغ کر سکتے تھے.مگر آپ نہ کبھی ایسا کرتے تھے اور اور نہ ہی کسی کو ایسا کرنے دیتے تھے.آپ معفو اور عطا کے ذریعے ظلم و زیادتی کا بدلہ چکاتے تھے.کاش ! وہ لوگ جو توہین کی سزا قتل قرار دیتے ہیں، اپنے ہاتھ سے تلوار پھینک کر اور اپنی آنکھوں میں اترے ہوئے خون کو صاف کر کے ذرا اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی للی کم کی رحمت و عفو کے ان واقعات کو بھی دیکھ لیں اور آپ کی طرف وہ ظلم منسوب نہ کریں جس کی روک تھام اور انسداد آپ کی بعثت کی ایک بڑی غرض تھی اور اس کے لئے آپ نے بار بار تاکیدی ارشاد فرمائے.
توہین رسالت کی سزا ۲) سازشوں کا اڈہ: { 366} قتل نہیں ہے اسی طرح کا ایک اور مگر مزید سنگین واقعہ یہ بھی ہے کہ سونیکم نامی ایک یہودی مدینے کے علاقے جاسوم میں مقیم تھا.اس کا گھر منافقوں کا گڑھ تھا.منافق وہاں اکٹھے ہوتے اور غزوۂ تبوک کے بارے میں دہشت والی باتیں تراشتے، افواہیں گھڑتے اور پھر انہیں صحابہ میں پھیلاتے تاکہ ان کے حوصلے پست ہوں اور وہ خوف کی وجہ سے اس غزوے میں آنحضرت صلی ا ظلم کے ساتھ نہ جاسکیں.آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے حضرت عمار بن یاسر کو بھیجا کہ وہ ان کو بتا دیں کہ انہوں نے ایسی سازشیں تیار کی ہیں اور منافقانہ باتیں کی ہیں.انہیں جب پتہ چلا کہ آپ گوان کی باتوں کا علم ہو گیا ہے تو وہ آپ کی خدمت میں آکر معذر تیں پیش کرنے لگے.مگر اپنی حرکتیں جاری رکھیں.للمسلمين الغرض آنحضرت صلی الی یم کو جب سازشوں کے اس اڈے کی قطعی تصدیق مل گئی تو آپ کے حکم پر حضرت طلحہ بن عبید اللہ چند صحابہ کے ساتھ گئے اور سویلم کے گھر کو جلا آئے.چنانچہ اس طرح وقتی طور پر سازشوں کا یہ اڈہ ختم ہو گیا.(ابن ہشام غزوہ تبوک، تخذیل المنافقین ومانزل فيهم والسيرة الحلبیہ ذکر ماریہ ملیالم فزوہ تبوک ) یعنی آپ نے ان کے جرائم پر انہیں قتل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی بدنی سزا دی.صرف سازشوں کے اڈے کو ختم کر وا دیا.۳) مسجد ضر ار اور اس کا انہدام: آنحضرت صلی للی رام نے جب ملنے سے ہجرت فرمائی تو مدینے میں داخل ہونے سے پہلے قبا میں قیام فرمایا تھا.آپ نے اس قیام کے دوران وہاں ایک مسجد کی بنیاد بھی رکھی تھی.یہ مسجد بنو عمرو بن عوف کی جگہ میں بنائی گئی تھی.اس کی وجہ سے بنو عمرو کو فضیلت مل گئی.ان کے شریکے
توہین رسالت کی سزا 367 | قتل نہیں ہے والے بنو غنم بن عوف مسلمان تو ہوئے تھے مگر اس مسجد کی وجہ سے بنو عمر و سے حسد کرنے لگے تھے.ان کی اس حالت سے منافقوں نے فائدہ اٹھایا اور انہیں اپنے ساتھ ملالیا.اپنی سازشوں کی تیاری اور خواہشات کی تکمیل کے لئے فتنہ پرداز حاسد ابو عامر راہب بھی قبا میں آٹھہر اتھا.اس نے بنو غنم کو انگیخت کیا کہ وہ بھی بنو عمرو کے مقابل پر مسجد تعمیر کریں جس کے ذریعے وہ اپنے مفادات حاصل کر سکیں گے.اس نے انہیں یہ بھی کہا کہ تم اس مسجد میں جس قدر ممکن ہو اسلحہ ر جنگی سامان جمع کرو.جب رومی فوج مدینے پر حملہ کرے گی تو وہ ان کے ذریعے رسول اللہ لی ایم کو مدینے سے نکال دے گا وغیرہ وغیرہ.یہ کام کروا کے وہ خود ہر قل کو مدینے کے خلاف ابھارنے کے لئے شام روانہ ہو گیا اور اس کی ہدایت پر پیچھے منافق اپنا کام کرتے رہے.ان کی کوششوں سے اُن کے گروہ کے بہت سے لوگ نیز بعض کمزور ایمان والے اس نئی مسجد میں آنے لگے اور یہاں آنحضرت صلی اللی کم اور اسلام کے بارے میں عیب چینیوں اور غیبتوں کے ساتھ سازشیں تیار ہونے لگیں.چنانچہ تکلیف پہنچانے ، کفر پھیلانے، مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے دشمن کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے یہ نام نہاد مسجد ایک اڈہ بن گئی.ادھر آنحضرت ملا لی کی مختلف خبروں کی تصدیق کے لئے ، رومی فوج کی مزعومہ یا متوقع پیش قدمی کو روکنے کے لئے نیز اسلام کی فتوحات کے میدان وسیع کرنے کی غرض سے تبوک کے لئے روانگی کی تیاری میں مصروف تھے.اُدھر منافقوں نے اس نقصان رساں مسجد کو قانونی حیثت دینے کے لئے آپ کی خدمت میں درخواست کی کہ انہوں نے قبا میں ان لوگوں کے لئے جو بیمار ہوں اور رات، بارش یا سردی کی وجہ سے یا کسی اور معذوری و مجبوری کے باعث مسجد قبا میں نہ جاسکتے ہوں، ایک مسجد بنائی ہے.آپ اس میں تشریف لاکر نماز ادا فرمائیں اور دعا کریں تو ان کے لئے برکت کا موجب ہو گا.
توہین رسالت کی سزا 368 | قتل نہیں ہے آپ نے فرمایا: ”میں اس وقت سفر کی تیاری میں ہوں اور شدید مصروف ہوں.اس لئے واپسی پر اس پر غور ہو گا.اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم اس میں آئیں گے اور تمہارے لئے نماز پڑھیں گے.اللہ تعالیٰ نے ان کی اس درخواست کی حقیقت کو اور نام نہاد مسجد کی حیثیت کو آنحضرت صلی علی تم پر حسب ذیل آیات کے ذریعہ آشکار فرمایا: وَالَّذِينَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا غِرَارًا وَكُفْرًا وَ تَفْرِيقامِ بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَارْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكُذِبُونَ لَا b تَقُمْ فِيْهِ اَبَدَاء لَمَسْجِدٌ أَيْسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُوْمَ فِيْهِ فِيْهِ رِجَالٌ b يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِرِينَ أَفَمَنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ لا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِى بَنَوْا رِيْبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمْ ، وَاللَّهُ عَلِيمٌ b حکیم 0 ( التوبه 107 تا110) ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی.ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے تھے جبکہ اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقینا جھوٹے ہیں.تو اس میں کبھی کھڑا نہ ہو.یقیناوہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن ہی سے تقوی پر رکھی گئی ہو زیادہ حقدار ہے کہ تُو اس میں ( نماز کے لئے) قیام کرے.اس میں ایسے مرد ہیں جو خواہش رکھتے ہیں کہ وہ پاک ہو جائیں اور اللہ پاک بننے والوں سے محبت کرتا ہے.پس جس نے اپنی عمارت کی بنیاد اللہ کے تقوی اور (اس کی) رضا پر رکھی ہو کیا وہ بہتر ہے یا وہ جس نے اپنی عمارت کی بنیاد ایک کھو کھلے گر جانے والے کنارے پر رکھی ہو.پس وہ اسے جہنم کی آگ میں ساتھ لے گرے اور اللہ ظالم قوم کو
توہین رسالت کی سزا 369 | قتل نہیں ہے ہدایت نہیں دیتا.ان کی عمارت جو انہوں نے بنائی ہے ہمیشہ ان کے دلوں میں شکوک پیدا کرتی رہے گی.سوائے اس کے کہ ان کے دل (اللہ کی خشیت سے) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں.اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) بہت حکمت والا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ ہم اپنے سفر کو جاری رکھتے ہوئے جب مدینے سے کچھ فاصلے پر ایک مقام ذی آوان پہنچے تو آپ نے مالک بن الد خشم ، معن بن عدی، عامر بن السکن اور وحشی رضی اللہ عنہم اور ایک اور شخص کو بھیجا اور فرمایا: ”اس مسجد کے بنانے والے بڑے ظالم ہیں.ان کی آنکھوں کے سامنے اس کو جلا کر راکھ کر دو.“ وہ پانچوں اس حکم کی تعمیل میں نکلے اور انہوں نے مغرب اور عشاء کے درمیانی وقت میں اسے جلا کر زمیں بوس کر دیا.یہ اڈہ جو مسجد کے نام پر دشمنوں کی کمین گاہ بنایا گیا تھا، مستقل طور پر کالعدم ہو گیا.یہ نام نہاد مسجد چونکہ مسلمانوں کو ضرر پہنچانے کے لئے بنائی گئی تھی اس لئے اسلامی کتب میں یہ مسجد ضرار کے نام سے مشہور ہو گئی.(ابن ہشام امر مسجد الفرار....تاریخ الخمیس، هدم مسجد الضرار والسيرة الحلبيه ، غزوہ تبوک ) یہاں بھی رسول اللہ صلی للی کم کی رحمت و بخشش کی ادا ملاحظہ فرمائیں کہ تخریب کاری اور فساد کے اڈے کو ختم کر دیا مگر ان لوگوں میں سے کسی کو قتل نہیں کرایا.حالانکہ ان کے اقدام انتہائی مفسدانہ اور اسلام کے لئے خطر ناک تھے.وہ آپ کو ہر طرح کا نقصان پہنچانے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے.اُن کے اِن جرموں کی تصدیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آچکی تھی.وہ لوگ آپ کو نقصان پہنچانے اور آپ کے خلاف سازشیں تیار کرتے ہوئے کوئی عزت و احترام سے آپ کا ذکر تو نہیں کرتے تھے.یقینا وہ آپ کے نام اور آپ کے ذکر کے ساتھ توہین و تنقیص خیز کلمات استعمال کرتے تھے.آپ کی قائم کردہ مسجد کے مقابل پر بلکہ مخالفت میں مسجد کی تعمیر ہی
توہین رسالت کی سزا 370 } قتل نہیں ہے آپ کہ توہین کا منہ بولتا ثبوت تھی.اس سب کچھ کے باوجود آپ نے نہ انہیں کوئی سزا دی اور نہ ہی ان میں سے کسی کے قتل کا ارشاد فرمایا.۴) منافقوں کی سرگرمیاں: یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ فتح مکہ کے بعد منافقین مدینہ کے دل شعلہ حسد سے کباب ہو رہے تھے.وہ کسی نہ کسی طریق سے آنحضرت صلی لی کم اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیروں میں انتہائی تڑپ کے ساتھ سرگرم عمل تھے.ان لوگوں کو علم تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ سلطنت روما کی خوب ٹھنی ہوئی ہے اور جنگ موتہ میں ایک باران کا مقابلہ بھی ہو چکا ہے.انہیں یقین تھا کہ اگر قیصر کی فوج تیار ہو کر آئے اور مدینے پر چڑھائی کر دے تو مسلمان لازما پاش پاش ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے یہ خوفناک سازش تیار کی کہ ابو عامر راہب شام جاکر قیصر کو اور عرب عیسائی قبائل کو مدینے پر حملے کے لئے انگیخت کرے گا اور باقی منافق مدینے میں قیصر روم کے حملے کی افواہیں پھیلا کر مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا کریں اور ان کے حوصلے توڑیں.ان کی منصوبہ بندی کا دوسرا رخ یہ تھا کہ اگر رومی فوج مدینہ پر حملہ نہ بھی کرے تو وہ خوف و ہراس پھیلانے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو کم از کم اس قدر انگیخت ضرور کر دیں کہ وہ از خود جا کر رومی سلطنت پر حملہ آور ہو جائیں.چونکہ رومی فوج اس مرتبہ تیار ہو گی لہذاوہ مسلمانوں کو شکست فاش دے گی اور مسلمان تباہ ہو جائیں گے.حتی کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی علیم بھی شہید ہو جائیں گے.آخر کار اسلام ختم ہو جائے گا اور نہ صرف یہ کہ ان سازشیوں کے سینوں کی آگ ٹھنڈی ہو جائے گی بلکہ وہ مدینے کے مطلق العنان خود مختار حکمران بن جائیں گے.
توہین رسالت کی سزا { 371 ) قتل نہیں ہے اس منصوبہ بندی کے تحت ابو عامر راہب ہر قل شاہ روم کے پاس شام روانہ ہو گیا تا کہ اسے اسلام کے خلاف عسکری کارروائی پر انگیخت کرے.وہ ابھی شام ہی میں تھا کہ اسے موت نے آلیا اور راہی ملک عدم ہو گیا.(تاریخ الخمیس واقعات 10 ھ ، موت ابو عامر راہب) ادھر مدینے میں منافق نت نئی افواہوں کے ذریعے شر پھیلانے میں مستعد تھے.وہ روز اس طرح کی کوئی نہ کوئی افواہ پھیلا دیتے کہ فلاں قافلہ آیا تھا جس نے یہ خبر دی کہ قیصر مدینے پر حملے کی تیاری کر رہا ہے.فلاں قافلے والے یہ بتاتے تھے کہ رومی فوج مدینے پر حملہ کر رہی ہے وغیرہ وغیرہ.اس قسم کی افواہیں اس کثرت اور تیزی سے پھیلنی شروع ہوئیں کہ مدینے کی فضا میں خوف کے سائے منڈلانے لگے.چنانچہ آنحضرت صلی الی یکم نے اس صورتحال کو ختم کرنے کا فیصلہ فرمایا کہ اگر ایسی خبروں میں کوئی حقیقت ہوئی بھی تو قبل اس کے کہ رومی فوج اسلامی سلطنت میں داخل ہو، آپ خود جاکر شام کی سرحدوں پر رومی فوج کی نقل و حرکت معلوم کریں گے.اگر اس سے مقابلہ نہ بھی ہو ا تو اس سفر کے اسلام کے حق میں لازماً دیگر بابرکت نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ رسول اللہ صلی علیکم اس سفر پر روانہ ہوئے اور کئی سو میل کی طویل مسافت طے کر کے شام کے سرحدی علاقے میں تبوک کے مقام پر قیام پذیر ہو گئے.یہاں ایک لمبے انتظار کے با وجو درو می افواج سے کوئی مڈ بھیڑ تو نہ ہوئی مگر معاہدوں اور چھوٹی چھوٹی مہمات کے ذریعے ارد گرد کے کئی علاقے آپ کے زیر نگین ہو گئے.الغرض منافقین مدینہ کی اس بہت بڑی سازش پر بھی آپ نے ان میں سے کسی پر کوئی تعزیری کارروائی نہیں فرمائی.منافقوں کی ایک خوفناک سازش: جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اس بار منافقوں کو قطعی یقین تھا کہ مسلمان اگر تبوک جائیں گے تو وہ اس لڑائی میں لازماً شکست کھائیں گے اور آنحضرت صلی کم ( نعوذ باللہ) شہید ہو
توہین رسالت کی سزا { 372 ) قتل نہیں ہے جائیں گے.اس کے بعد مدینے میں منافقوں کی حکومت ہو گی اور وہ اپنی من مانیاں کریں گے.مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی خواہشوں کے علی الرغم آپ فتوحات کے نئے دروازے کھولنے کے بعد اور عظیم کامیابیوں کی خبروں کے ساتھ ایک عظیم فاتح بن کر واپس مدینے پہنچ رہے تھے.اس شان کے ساتھ مدینے میں آپ کے ورودِ مسعود کا منظر بھی منافقوں کے دلوں کو چھلنی اور سینوں کو چاک کر رہا تھا.اس کے ساتھ ان پر یہ خوف بھی طاری تھا کہ آپ کے سامنے ان کی چالوں اور سازشوں کا چونکہ بھانڈا پھوٹ چکا ہے، اس لئے اب آپ ان پر ضرور کوئی نہ کوئی تعزیری کارروائی فرمائیں گے.اس ناقابل برداشت کیفیت سے نکلنے کے لئے انہوں نے یہ بھیانک سازش تیار کی ہوئی تھی کہ آپ کو راستے ہی میں شہید کر دیا جائے.اس غرض کے لئے انہوں نے شروع میں ہی اپنے درجن بھر آدمی آپ کے ساتھ لشکر میں شامل کر دیئے تھے.چنانچہ مدینے سے کچھ فاصلے پر جہاں ایک ایسی گھائی سے گزرنا پڑتا تھا جو بہت تنگ تھی اور اس جگہ سے سوار ایک ایک کر کے گزر سکتے تھے.آپ جب اس کے پاس پہنچے تو رات کا وقت تھا.اس اند ھیرے سے فائدہ اٹھا کر یہ لوگ تیزی سے آگے بڑھ کر اس گھاٹی میں چھپ گئے تا کہ جب آپ ان کے نشانے پر ہوں تو وہ اپنا کام کر جائیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے خبر دی کہ اس راستے پر دشمن چھپا ہوا ہے.آپ نے حضرت حذیفہ بن یمان کو خبر لینے کے لئے بھیجا.حضرت حذیفہ سواری تیز کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے چند نقاب پوش آدمی چھپے ہوئے دیکھے جو ان کے آنے کی وجہ سے بھاگ گئے اور آپ انہیں پہچان نہ سکے.آنحضرت صلی یکم کے عفو و در گزر کی یہ بھی ایک لاثانی مثال ہے کہ آپ نے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا اور ان کا تعاقب کر کے انہیں گرفتار نہیں کروایا.
توہین رسالت کی سزا { 373 ) قتل نہیں ہے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر کہ وہ کون کون تھے ، رسول اللہ صلی الیم نے حضرت حذیفہ کو بھی ان کے ناموں سے آگاہ فرما دیا تھا.اسی وجہ سے حضرت حذیفہ کو ”صَاحِبُ سِيَّ رَسُولِ اللَّهِ عو الله في المُنَافِقِینَ“ یعنی ” منافقوں کے بارہ میں رسول اللہ صلی علی کرم کا راز دان کہا جاتا تھا.ابن کثیر غزوہ تبوک و اسد الغابہ ذکر حضرت حذیفہ بن الیمان) ارادہ قتل رکھنے والے ان منافقوں کو بھی آپ نے معاف فرما دیا اور مدینے جاکر بھی باوجود اس کے کہ آپ کو ان کا معین طور پر علم تھا، ان پر کسی قسم کی تعزیزی کارروائی نہیں فرمائی.(۶) ابو عامر راہب : ނ ابھی غزوہ تبوک اور مسجد ضرار کے سلسلے میں ابو عامر راہب کا ذکر گزرا ہے.یہ قبیلہ خزرج کا ایک فرد تھا جو در حقیقت عیسائی تھا نہ یہودی.لیکن یہود و نصاری کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتا تھا اور ان کے وظائف وغیرہ کا بھی ماہر تھا.اسی وجہ سے یہ ابو عامر راہب کے نام مشہور تھا.جب رسول اللہ صلی الیم ملے سے ہجرت کر کے مدینے تشریف لائے تو یہ شخص اپنے حسد کی بنا پر آپ کو برداشت نہ کر سکا.لہذ ا سکے جا آباد ہوا اور قریش مکہ کو آپ کے خلاف ابھارتا رہا اور اسلام کے خلاف ان کے ساتھ جنگوں میں بھی شامل ہو تا رہا.فتح مکہ کے بعد جب اس کا وہاں رہنا بھی مشکل ہوا تو اپنے مقاصد پورے کرنے کے لئے اس نے یہ ترکیب کی کہ اپنا نام اور حلیہ و ہیئت بدل کر مدینے کے قریب قبا میں سکونت اختیار کر لی.کئی سال مدینے کے لوگوں سے دور رہنے نیز حلیہ تبدیل کر لینے کی وجہ سے لوگ اسے پہچان نہ سکے کہ در حقیقت وہ کون ہے.اس نے قبا میں آکر مدینے کے منافقوں سے تعلقات پیدا کئے.منافقوں کے گروہ میں سے بھی اسے صرف وہی چند لوگ جانتے تھے جن کے ساتھ مل کر وہ اپنے مذموم مقاصد پورے کرنا
توہین رسالت کی سزا { 374 ) قتل نہیں ہے چاہتا تھا.وہ اسلام کو مٹانے کے لئے ایک سازش کے تحت شام روانہ ہوا تھا اور وہ وہیں مر گیا.اسے اللہ تعالیٰ نے اتنی مہلت نہ دی کہ وہ اپنی کسی سازش میں کامیاب ہو سکتا.مگر یہ ایک نا قابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی علیم نے اس کی ان تمام گستاخانہ اور مذموم کارروائیوں پر کبھی اس کے قتل کے لئے اس کے پیچھے آدمی نہیں بھیجے.یہاں ایک تلخ حقیقت کے اظہار اور انتہائی افسوس کے طور پر عرض ہے کہ ایسے نام نہاد محقق، جو توہین رسول کی سزا قتل ثابت کرنے کے لئے ہر جعلی اور من گھڑت روایتیں پیش کرتے ہیں، ان کے مبلغ علم اور حسن تحقیق کا کرشمہ یہ ہے کہ ابو عامر جیسے دشمن رسول اور دشمن اسلام شخص کو بھی عمدہ کردار کے مالک“ اور ” بھلا مانس“ قرار دے دیتے ہیں.چنانچہ تو ہین رسالت کے موضوع پر بڑی گہری تحقیق کے دعویدار سپریم کورٹ کے ایک سینئیر ایڈووکیٹ ابو عامر کے بیٹے حنظلہ (جو اسلام کی آغوش میں آچکے تھے ) کا حوالہ دے کر تحریر کرتے ہیں: بچوں کا اچھا کردار والدین کی اچھی تربیت کا نتیجہ ہوتا ہے اور خاص کر آزادی رائے وہی پیدا کر سکتے ہیں جو خود عمدہ کردار کے مالک ہوں.سو گمان کرنا پڑتا ہے کہ خود ابو عامر بھی بھلا مانس ہی رہا ہو گا.ناموس رسول اور قانون توہین رسالت، چوتھا ایڈیشن 2010ء صفحہ 214 ) اناللہ وانا الیہ راجعون جن لوگوں کی عقل و دانش کے پیمانے کشت و خون کے سبب اس طرح الٹ پلٹ چکے ہوں، ان سے رسول اللہ صلی ال کر کے ناموس کی حفاظت کی کس طرح امید کی جا سکتی ہے.یہ ”اپنے ہی دوست “ ہیں جو کمین گاہوں میں چھپ کر رحمتہ اللعالمین صلی الی ظلم کی توہین میں مجھے ہوئے تیر چلا چلا کر آپ کو دنیا بھر میں رسوا کرتے ہیں.چنانچہ میزان الحق، شیطانی آیات، رنگیلا رسول اور رسالہ ور تمان وغیرہ نے کیا کام کیا ہو گا جو ان ” اپنے ہی دوستوں“ نے کر دکھایا
توہین رسالت کی سزا 375 } قتل نہیں ہے ہے.کروڑ ہا لوگوں کی گمراہی کے ذمے دار شاتمین رسول نہیں، خود یہ ”اپنے ہی دوست“ لوگ ہیں.کسی نے خوب کہا ہے کہ.دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی *****
توہین رسالت کی سزا 376 } قتل نہیں ہے انسان اور انسانی خون کے تحفظ کے بعض احکام ***** انسان، انسانیت اور انسانی خون کے تحفظ کی اس سے بڑھ کر دلیل اور کیا ہو سکتی ہے کہ رسول الله صلى لم اپنی زندگی کی ابتداء سے انتہاء تک اسی کوشش میں رہے کہ انسانیت کا شرف بھی قائم ہو اور انسان اور اس کا خون بھی ہر طرح سے محفوظ ہو.چنانچہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر یعنی اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی امت کو جو تاکیدی حکم ارشاد فرمائے ، ان میں خون خرابے سے بچنے کی بھی پھر پور اور پر زور وصیت تھی.آپ نے فرمایا: أَيُّهَا النَّاسُ! إِسْمَعُوْا قَوْلِي، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلَّى لَا أَلْقَاكُمُ بَعْدَ عَامِي هَذَا بِهَذَا الْمَوْقَفِ أَبَداً، أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ إِلَى أَنْ تَلْقَوْا رَبَّكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، وَكَحُرْمَةِ شَهْرِكُمْ هَذَا، وَإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ فَيَسْأَلُكُمْ عَنْ أَعْمَالِكُمْ وَقَدْ بلغت.“ ( ابن ہشام.باب حجتہ الوداع) ترجمہ : اے لوگو! میری باتیں غور سے سنو.کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اگلے سال میں اس جگہ تمہارے درمیان ہوں گا.اے لوگو! تمہارے لئے ایک دوسرے کے خونوں اور اموال کی حفاظت کرنا اسی طرح واجب ہے جس طرح تم اس دن اور اس مہینے کی حرمت کرتے ہو.حتی کہ تم اپنے رب سے جاملو.وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں جو پہلے ہی اس کے پاس پہنچ چکے ہیں، ضرور پوچھے گا.حجۃ الوداع کے ایک خطبے میں آپ نے یہ بھی فرمایا: ” اے لوگو! جس طرح تمہارا یہ حج کا دن، یہ حج کا مہینہ اور یہ شہر یعنی مکہ مقدس اور محترم ہیں اسی طرح تمہاری جانیں، تمہارے
توہین رسالت کی سزا 377} قتل نہیں ہے مال اور تمہاری آبرو بھی مقدس و محترم ہیں (اور ان کو ہر قسم کا قانونی تحفظ حاصل ہے “.( بخاری کتاب المناسک باب خطبه ایام منی) آپ نے پھر یہ بھی تاکید فرمائی: لا تَرْجِعُوا بَعْدِى كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ ( بخاری کتاب المغازی باب حجتہ الوداع کہ میرے بعد بھٹک نہ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاؤ.ایک طرف یہ اسوہ رسول صلی علیم ہے اور یہ پاک تعلیمات ہیں جو انسانی خون کی حفاظت کی تا قیامت ضمانت مہیا کرتی ہیں اور دوسری طرف آج کے وہ نام نہاد فقہاء اور علماء ہیں جو اس پاک اسوے کے منافی اور ان تعلیمات کے مخالف کشت وخون کی ایسی تلقین کرتے ہیں کہ در ندے بھی ان سے پناہ مانگیں.جب ایک طرف رسول اللہ صلی ال کلم بنفس نفیس اس سبق آموز یا عبرت انگیز حقیقت سے نقاب کشائی فرماتے ہیں: ارْفَعُوْا أَيْدِيَكُمْ عَنِ الْقَتْلِ ، فَقَدْ كَثُرَ الْقَتْلُ إِنْ نَفَعَ.“ ( ابن ہشام والسيرة الحلبي غزوہ فتح مکہ) کہ قتل سے اپنے ہاتھ روکو.قتل تو بہت ہو چکا اور قتل وغارت نے دنیا کو کبھی بھی فائدہ نہیں دیا.ذرا نظر انصاف کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں کہ قتل و خون سے ہاتھ اٹھانے کی تعلیم دینے والا رحمت مجتم پاک وجود جو اپنی تمام تر زندگی دوسروں کے سکھ اور آرام کے لئے جیا، جس نے قدم قدم انسان کو ہلاکتوں سے بچانے کی سعی کی، جس نے انسان کو دکھوں اور تکلیفوں سے بچانے کے لئے سب کچھ تج دیا، تو ایسی تعلیم یا کارروائی جو قتل و خون کے راستے کشادہ کرتی ہو یا غارت گری پر مبنی ہو ، بخدا اس رحمت کامل صلی علیم کی طرف کسی طرح بھی منسوب نہیں ہو سکتی.واللہ ! کوئی ایسا قول و عمل آپ کی طرف منسوب نہیں ہو سکتا ہے جو انسانیت ، انسان، یا انسانی خون کے
توہین رسالت کی سزا 378 } قتل نہیں ہے ضیاع کے دروازے کھولتا ہو.یہ آپ کی پاک سیرت اور حسین عمل کے سراسر خلاف ہے اور کلیہ خلاف ہے.مگر افسوس اور صد ہزار افسوس کہ آج توہین رسول کی سزا قتل کے علمبر دار ایسے خود ساختہ ظالمانہ نعرے کی آڑ میں آپ کی اس واضح ہدایت اور پاک تعلیم کو اپنے خون آلود اور ناپاک قدموں تلے روندتے چلے جاتے ہیں.جیسا کہ ہم نے تفصیلی کو ائف اور حقائق پیش کر کے ثابت کیا ہے ، رسول اللہ صلی للی نیم کی مقدس زندگی کا ایک ایک لمحہ اور پاک سیرت کا ایک ایک لفظ گواہ ہے کہ جہاں بھی اور جب بھی کسی نے آپ کو کسی طور پر بھی دکھ پہنچایا، آپ نے ہر ایسے موقعے پر مارنے ، جھگڑنے ، قتل کرنے اور خون بہانے کی بجائے اپنے خُلق عظیم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف بھی کیا، نوازا بھی اور دعا بھی دی.لیا ظلم کا عفو سے انتقام عَلَيْكَ الصَّلوةُ عَلَيْكَ السَّلَامُ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ***** يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانٍ
توہین رسالت کی سزا J.379 | قتل نہیں ہے توہین رسالت کی روک تھام کی ممکنہ تدابیر ***** اللہ تعالیٰ کے مرسلین علیہم السلام سے استہزاء انسانوں کا وہ سلوک ہے جس پر اللہ تعالیٰ خود بھی اپنے پاک کلام میں يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ (سورۃ لیس: 31) کے الفاظ سے افسوس کا اظہار فرماتا ہے.چنانچہ ایسا ہر دور میں ہوا ہے کہ سوائے ایمان لانے والے کے ، انسان نے ہر نبی کے انکار کے ساتھ استہزاء کیا ہے اور اس کی توہین و تنقیص کی ہے.انسانوں کی اس روش کا بالآخر واقعاتی نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے نبی، مقدس بانی اسلام حضرت محمد مصطفی پر استہزاء بھی بڑے پیمانے اور عالمگیر سطح پر ہوا.انسانوں کے اس سلوک کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک منظر یہ بھی پیش فرما دیا تھا کہ " وَمَا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِكَ “ (سورۃ حم السجدہ : 44) کہ تجھے کچھ نہیں کہا جاتا مگر وہی جو تجھ سے پہلے رسولوں سے کہا گیا ہے.چنانچہ دیگر مذاہب کے پیروکار جو آپ کے مخالف ہیں اسلام پر اور آپ پر ہر طرح کے گندے حملے کرتے ہیں.وہ ہر لمحے آپ کے خلاف انتہائی غلیظ اور اذیتناک بہتان طرازی اور دشنام دہی کرتے ہیں.مگر قرآن کریم ہمیں یہ حوصلہ فراہم کرتا ہے کہ مخالفین و منکرین انبیاء کی یہ سنت بدل نہیں سکتی تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ انہیں قتل کیا جائے بلکہ وہ یہ بتاتا ہے کہ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَ مَنْ حَيَّ عَنْ بَيَّنَةٍ (الانفال: 43) کہ ہلاک شدہ وہی ہوتا ہے جو دلیل سے ہلاک ہو اور زندہ وہی رہتا ہے جو دلیل سے زندہ ہو.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ توہین رسالت کا علاج صرف یہ ہے کہ دلیل، تعلیم ، نمونہ اور تبلیغ سے دنیا کو رسول اللہ صلی نیلم کی
توہین رسالت کی سزا 380 | قتل نہیں ہے غلامی میں لا کر اللہ تعالیٰ سے منسلک کیا جائے اور رسول اللہ صلی للی یکم کے عفو ور حم کو دنیا پر وسیع کیا جائے.آپ کے حسن و احسان کے واقعاتی منظر پیش کئے جائیں.آپ کی پاک تعلیم کی تبلیغ کا دائرہ اتنا پھیلا دیا جائے کہ تمام قوموں پر محیط ہو جائے.ذیل میں چند امور بطور لائحہ عمل پیش ہیں جو بنیادی طور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس خلفاء کی تحریروں سے ماخوذ ہیں.ہمارے فریضے الغرض جہاں یہ استہزاء مقدر تھا وہاں اس کے مداوے کے سامان بھی خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں انبیاء علیہم السلام کے ناموس کی حفاظت کے لئے عموماً اور محبوب کبریاء حضرت محمد مصطفی ملی لی نام کے ناموس کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے بنیادی زاویئے یہ ہیں.(1 ہر مذہب والے اپنی دعوت و تبلیغ میں آزاد ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دیگر بانیان مذاہب پر زبان درازی کریں اور ان کی برائیاں تراشیں اور ان کی تشہیر کریں.بلکہ انہیں چاہئے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائی کے ثبوت کے لئے صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کریں.کیونکہ دوسرے کے مذہب کو بُر اثابت کرنے سے اپنے مذہب کی سچائی ثابت نہیں ہوتی.(r رسول اللہ صلی الل ظلم کے خلاف بدزبانیوں کے علمی دلائل کے ساتھ مدتل تحریر و تقریراً جواب دیئے جائیں.(μ قوی دلائل کے ساتھ یہ حقیقت بپا یہ مثبوت پہنچائی جائے کہ
توہین رسالت کی سزا 381 } قتل نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام مرسل پاک اور برگزیدہ تھے مگر رسول اللہ صلی ایم کی شان سب سے سوا تھی.آپ صفات باری تعالیٰ کے مظہر اتم بھی تھے، مستجمع جمیع صفات انبیاء بھی اور آپ تمام انبیاء علیہم السلام کے ناموس کے محافظ بھی تھے.اپنے آقا و مولیٰ رسول پاک مئی یکم کی پاک اور حسین سیرت، آپ کے اوصاف حمیدہ، آپ کے بلند ترین مقام اور بے نظیر قوت قدسیہ کو حقیقت افروز جامع پیرایہ میں پیش کیا جائے اور ثابت کیا جائے کہ تاقیامت زندہ اور زندگی بخش رسول صرف اور صرف سید الانبیاء محمد رسول اللہ صلی علیم ہیں.اللہ صلی الم الد اس حقیقت سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ سوائے کچھ استثناء کے خواہ علماء ہیں یا عوام الناس، ان کی اخلاقی حالتیں پستی کے پاتال کو پہنچی ہوئی ہیں.ہم رسول اللہ صلی الی یکم سے تو دل و جان ، عشق کرتے ہیں اور فدا ہو کر آپ کو تو مانتے ہیں مگر آپ کی نہیں مانتے.اس کے لئے معاشرے کے نیک دل اور پاک عمل لوگ آگے آئیں اور عملاً مسلمانوں کی دینی، اخلاقی اور روحانی قوتیں بیدار کریں.یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی علی یلم کے پر امن اور پر محبت پیغام کا منکروں اور بد زبانوں تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا اپنا قصور ہے ، ان کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے.قانون تو ظاہری فتنے کا علاج کرتا ہے ، دل کا نہیں کر سکتا.چنانچہ ہمارے لئے اس وقت تک تسلی نہیں ہونی چاہئے جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ صلی ای یار کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت نہ قائم ہو جائے.یہ ایک ازلی سچ یہ ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی للی نام ساری دنیا کے انسان کو حقیقی زندگی عطا کرنے کے لئے آئے تھے ، مارنے کے لئے نہیں.رسول اللہ صلی ا ظلم کی
توہین رسالت کی سزا سنت یہ 382 } قتل نہیں ہے ، یہ تھی کہ آپ نے اپنے جانی دشمنوں کی جانوں کی بھی حفاظت فرمائی اور انہیں زندگی کی حقیقی قدریں بھی عطا فرمائیں.یہ آپ کی عزت و عظمت کی روشن دلیل ہے.آپ انسان کو زندگی بخشنے کے لئے آئے تھے ، ان کی جان نکالنے کے لئے نہیں.پس محمد رسول اللہ صل الم کی عزت دنیا کو زندگی دینے میں ہے نہ کہ اس کی موت کی خواہش کرنے میں.اس تناظر میں توہین رسول صلی ال نیم کے حقیقی انتقام کے لئے مسلمانوں کو ایک عزم باندھنے اور ایک عہد کرنے کی ضرورت ہے.کیونکہ بہادر وہ نہیں جو غصے سے مغلوب ہو کر لڑ پڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب جاتا ہے.بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہوتا.پس ضرورت ہے کہ ناموسِ رسول کی حفاظت اور اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں کم از کم ان چار باتوں کا عہد کیا جائے.اول ہم دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے اور قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں گے.دوم یہ کہ ہم خود تبلیغ اسلام میں پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان ، اپنے مال اور وقت کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے.سوم ملک میں دیگر غیر مذاہب والوں سے اسوۂ رسول صلی الیکم کے مطابق پچہتی اور اتحاد کا سلوک کریں گے.تاکہ وہ ہمارے محبت بھرے سلوک سے رسول اللہ صلی علیم کے ممنون احسان ہوں کہ آپ کی تعلیم ہمیں ایسا نمونہ پیش کرنے کا سبق فراہم کرتی ہے.(۵ جلسہائے سیرت النبی صلی علیم کا قریہ قریہ، شہر شہر اور ملک ملک میں اجراء کیا جائے.رسول الله صلى العلم رحمۃ للعالمین تھے.جیسے سورج تمام عالم پر برابر چمکتا ہے ، اسی طرح رسول اللہ
توہین رسالت کی سزا 383 } قتل نہیں ہے صلى ال علم اس کا فیض تمام جہانوں پر اور تمام انسانوں پر برابر چمکتا ہے.لہذا آپ کی سیرت سے دوسروں کو آگاہ کرنے کی بہت ضرورت ہے.قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی ا ظلم کے جس کردار کو پیش کرتا ہے اسے مسح کرنے کے لئے مخالفین اسلام چاہے ہزار بہانے بنالیں، ہز اردلیلیں اکٹھی کر لیں، ہزار آیتوں اور حدیثوں کو غلط معنے پہنا لیں، محمد رسول اللہ صلی علیم کی ذات اور آپ کی سیرت ان معنوں کو ر ڈ کر دے گی اور دھتکار دے گی.پس محمد رسول اللہ صلی الی یکم عالمین پر وسیع رحمت کو کوئی دھندلا ہی نہیں سکتا.ایک دفعہ مکرر عرض ہے کہ عملی طور پر ان امور پر بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے کہ :1 علماء اپنے اعمال و اقوال کو سنت رسول کے مطابق ڈھالیں اور عامۃ الناس کے لئے نمونہ بنیں.غلیظ اور بازاری زبان استعمال کرنے کی بجائے رسول اللہ صلی علیم کے نمونے پر نرم لہجہ اور پاک الفاظ استعمال کریں.:2 علمائے اسلام بار بار اپنے خطبات اور خطابات میں آنحضرت صلی اللہ ظلم کے اسوے کو اپنانے ، آپ کی سیرت و اخلاق کے رنگ چڑھانے کی تلقین کریں.اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے رسول صلی الی یم کی سیرت و اخلاق کے رنگ چڑھانے کی ترغیب کریں.ملکی تدابیر چونکہ یہ سب کچھ دین اور اسلام کی بنیاد پر اور رسول اللہ صلی علیم کے نام پر ہو رہا ہے.اس لئے اس معاملہ کو رسول اللہ صلی علیم کے اُسوے اور سنت نیز آپ کے طرزِ حکومت کے مطابق سر انجام دینا چاہئے.چنانچہ آپ نے جب مدینے میں ریاست کا قیام فرمایا تو وہاں موجود یہود کے تین قبائل بنو نظیر ، بنو قریظہ اور بنو قینقاع.مشرک قبائل اوس اور خزرج نیز مهاجرین و
توہین رسالت کی سزا 384} قتل نہیں ہے انصار کو اس معاشرہ اور ریاست میں امت واحدہ قرار دیا.فرمایا: ” إِنَّهُمْ أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُونِ النَّاسِ.“ (سیرۃ ابن ہشام، زیر عنوان الرسول یوادع الیہود.جلد 2، صفحہ 64) کہ یہ سب مسلمانوں کے ساتھ بطور امت واحدہ شامل سمجھے جائیں گے.یہ رسول اللہ صلی الک کا قائم کر دہ روشن راستہ اور لائحہ عمل ہے جس میں بلا تفریق مذہب و ملت اور قوم و نسل ہر ایک شہری ملک کی ایک یکساں اگائی تھا.بحیثیت فردِ قوم کسی میں کوئی فرق نہ تھا.رسول اللہ صلی علیکم نے یہ راستہ اور عظیم اصول "اُمَّةٌ وَاحِدَةٌ“ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے.اس پر عمل حتمی طور پر قوم و ملک کو متحد و مضبوط بناتا ہے.فرقہ واریت اور جماعتوں اور قوموں کا استئصال ملک کی بنیادوں کو کھو کھلا اور عمارت کو کمزور کر دیتا ہے.دین و مذہب کی آزادی اور اظہارِ رائے اور آزادی ضمیر پر قدغنیں ملک میں تفریقیں پیدا کرتی ہیں.اس میں پھر اسی طرح ظلم و تشدد اور کشت و خون ہوتا ہے جیسا ہمارے ملک میں ہو رہا ہے.پس میثاق مدینہ کو * * ملک کا بنیادی قانون بنانا چاہئے.وکلاء اور سیاسی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھنے والے مسلمانوں کو متوجہ کیا جائے کہ وہ بھی ارباب حکومت کو بارو کر ائیں کہ جذبات و خیالات اور آزادی رائے میں حدود مقرر کرنے کی ضرورت ہے.اگر کسی قوم یا ملک کا لیڈر شانِ رسول میں گستاخی کرتا ہے تو اس کا جواب بھی علمی طور پر دلیل سے دیا جائے نہ کہ اپنے ہی ملک میں ، اپنے ہی لوگوں کی املاک کی توڑ پھوڑ سے.گستاخی اور توہین کے رڈ کے لئے دلائل و براہین کی ضرورت ہے جو دلوں کو قائل اور انہیں سچائی کی جانب مائل کرتے ہیں.یہ واضح ظلم اور کھلی کھلی بے ہودگی ہے کہ مخالف تو اعتراض کریں اور غلامانِ رحمتہ للعالمین اس کا جواب کشت و خون اور قتل وغارت گری سے دیں.
توہین رسالت کی سزا ( 385 } قتل نہیں ہے مذہب کے نام پر جبر و تشدد اور سر تن سے جدا قسم کے جذبات و عزائم کو روک کر اسوۂ محمدی کے مظاہر پیدا کرنے اور دنیا کو رسول اللہ صلی ال نیم کے اس پاک اسوے سے روشناس کرانے کی ضرورت ہے اور بدلائل ثابت کرنا ضروری ہے اسلام ایک زندہ مذہب ہے اور رسول اللہ صلی الم ایک زندہ اور زندگی بخش رسول ہیں (ملی یکم.آج انسان کی روحانی زندگی کا ضامن صرف اور صرف ایک ہی رسول ہے جس کا نام ہے محمد صلی ال کیا.اس کا پیغام تلوار نہیں ہے بلکہ دلیل اور محبت ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے اور روحوں کو حصارِ محمدی میں محفوظ و مامون کرتی ہے.توہین رسول کے انتقام کے لئے ایسی تحریک کی ضرورت ہے.یہ کون سا اسلامی رد عمل ہے کہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو مار دیا جائے، اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگادی جائے اور اپنے ہی بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ بنادیا جائے.یعنی گناہ تو کوئی کرے اور سر ہم اپنا پھوڑ لیں.ایسی حرکتوں کا اسلام اور سنتِ رسول ا اور انسانیت سے دور کا نہیں.اسلام تو غیر قوموں کی دشمنی میں بھی عدل اور انصاف کو ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا.بلکہ عقل، تحمل اور صبر وعفو سے چلنے کا حکم دیتا ہے.بہر حال غیر ملکیوں کے کاروباروں کو یا سفارتخانوں کو نقصان پہچانے یا اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچانے کے جو عمل ہیں ، حماق بھی سوائے اسلام کو بد نام کرنے کے اور کچھ نہیں ہے.عوام میں یہ شعور اور پھر یقین پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ فتنہ وفساد اور نفرت و افتراق بھڑ کانے والے ان غلط قسم کے علماء اور راہنماؤں کے پیچھے چلنے کی بجائے ، ان کے پیچھے چل کر اپنی دنیا و آخرت کو خراب کرنے کی بجائے ، عقل سے کام لیتے ہوئے اسوہ رسول صلی للی نام اور آپ کی سنت کو لازم پکڑیں.آپ کی سنت کے خلاف احادیث کی من پسند ظالمانہ تشریحات اور خود تراشیدہ روایات کو ترک کر کے اسوہ رسول پر کار بند ہو نا فرض ہے.
توہین رسالت کی سزا 386 } قتل نہیں ہے موجودہ مزاج کو بدلنے کے لئے اور قوم کو قانونا بھی قتل وخون سے روکنے کے لئے حکومت وقت کو حسب ذیل قسم کے اقدام کرنے کی ضرورت ہے.ا : جو قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر از خود کسی کو توہین رسالت کا الزام دے کر قتل کرے اسے مقررہ سزادی جائے.۲ ۴ جو کسی پر تو ہین کا جھوٹا الزام لگائے اسے مقررہ سزادی جائے.جو جھوٹی روایات کی بنیاد پر تعلیم دے اس ادارے اور استاد پر پابندیاں لگائی جائے مدرسوں سے مرنے مارنے والی تعلیمات اور نصاب کو ختم کیا جائے.جو خطیب مسجدوں یا جلسوں میں قتل وغارت والی زہر افشاں تقاریر کریں اور عوام الناس کو بھڑ کائیں ان پر سزائیں اور قدغنیں لگائی جائیں.توہین رسالت کے ملکی قوانین میں مناسب ترامیم کی جائیں.اسی طرح ہر اس قدم کو روکنا ہو گا جو گستاخی و توہین رسول کے نعرے کی آڑ میں فتنہ و فساد کی طرف اٹھ رہا ہو.عالمی تدابیر ا: ہر ملک میں قانون کے محافظوں کو بیدار کیا جائے کہ وہ تمام بانیان و پیشوایان مذاہب کے ناموس کی حفاظت کے لئے موئثر اقدام کریں.وہ ایسے قانون بنائیں کہ جن کے تحت ایسے لوگوں کو قابل تعزیز ٹھہرایا جا سکے جو دوسرے مذہب کے بانی یا پیشوا کی توہین کر کے ایک طرف ان کے پیروکاروں کے دل مجروح کرتے ہیں تو دوسری طرف ملک میں امن عامہ کو خطرے میں
توہین رسالت کی سزا 387 | قتل نہیں ہے ڈالتے ہیں.ملک میں فساد بھڑ کانے کے لئے یہ ایک بنیادی وجہ ہے.جسے دور کرنا حکومت وقت کا کام ہے.یہاں یہ یاد رہے کہ یہ تعزیز توہین رسالت کی نہیں بلکہ فساد فی الارض اور امن عامہ برباد کرنے کی ہوگی.الغرض ارباب اقتدار کو بار بار اس طرف توجہ دلائی جائے کہ امن عامہ کے قیام اور ملک میں بسنے والی مختلف قوموں کے درمیان باہمی بھائی چارے کی فضا کے قیام کے لئے یہ از حد ضروری ہے کہ بانیانِ مذاہب کے تقدس کو قائم کیا جائے اور ان کے خلاف کسی کو بد زبانی کی اجازت نہ دی جائے.ہر مسلمان اپنے اپنے ملک میں ارباب حکومت کو بھی اس بیہودہ گوئی سے باز رہنے اور روکنے کی طرف توجہ دلائے، اور آنحضرت صلی اللہ یلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں ۲ سے آگاہ کرے.: اسی نہج پر مسلمان ممالک اقوامِ متحدہ میں اس مسئلہ کو پیش کر کے اس کا حل نکالیں.بانیان مذاہب کے خلاف دل آزار اور گندی زبان استعمال کرنے کی روک تھام کا قانون بنوائیں.دنیا کے ایک بڑے خطے پر مسلمان حکومتیں قائم ہیں.مسلمان ممالک یو این او (UNO) کا حصہ بھی ہیں، وہ قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کی کوشش کریں، یہ واضح کریں کہ دنیا میں رائج دیگر جرائم کی نسبت کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء کی بے حرمتی کر نازیادہ بڑا جرم ہے.دنیا کے امن کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے.جس کے ذریعے یہ امر یقینی بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلے.: تمام ممالک کے مسلمان فیصلہ کریں کہ اپنے ملک میں حتی الامکان ووٹ ان سیاستدانوں کو دیں گے جو مذہبی رواداری کا اظہار کریں.اس کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ ان دنیاوی
توہین رسالت کی سزا 388) قتل نہیں ہے حکومتوں میں بھی ایک طبقہ کھل کر اسلام اور رسول اللہ صلی اللی کمر پر اس بیہودہ گوئی کے خلاف اظہارِ خیال کرنے والا نکل آئے گا.♡: :i :ii واضح ثبوتوں کے ساتھ دنیا کی حکومتوں نیز UNO کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام وہ پاک اور صلح کار مذہب ہے جس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیا.قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مانا اور انہیں اپنا بی قرار دیا.:iii تمام دُنیا میں یہ فخر خاص صرف قرآن شریف کو حاصل ہے.جس نے دُنیا کی نسبت ہمیں یہ تعلیم دی که لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.(البقره:137 و ال عمران: 85 ) یعنی تم اے مسلمانو! یہ کہو کہ ہم دنیا کے تمام نبیوں پر ایمان لاتے ہیں.اور ان میں تفریق نہیں کرتے کہ بعض کو مانیں اور بعض کو رڈ کر دیں.ایسی صلح کار کوئی اور الہامی کتاب دنیا میں نہیں ہے.قرآن شریف نے خدا تعالیٰ کی رحمتِ عامہ کو کسی خاندان کے ساتھ مخصوص نہیں کیا.اسرائیلی خاندان کے جتنے نبی تھے کیا یعقوب ، کیا اسحق، کیا موسی، کیا داؤ د اور کیا عیسی علیہم السلام سب کی نبوت کو مان لیا.اسی طرح ہر ایک قوم کے نبی جو خواہ وہ ہندوستان میں گزرے ہیں، فارس میں یا دنیا کے کسی اور خطے میں گزرے ہوں، کسی کی تکذیب نہیں کی بلکہ ہر ایک کو ایمان کا لازمی جزو بنایا.اس طرح تمام قوموں کے لئے صلح کی بنیاد ڈالی.مگر افسوس کہ اس صلح بجو اور صلح پسند نبی کو گالیاں دی جاتی ہیں اور توہین و تنقیص کی جاتی ہے.الغرض ایک مضبوط، محکم ، مسلسل اور مخلصانہ جدو جہد اور جہاد کی ضرورت ہے کہ ایسے مثبت، بچے اور حقیقی اقدام اس حد تک کئے جائیں کہ رسول اللہ صلی الی یکم پر اٹھنے والا ہر تیر
توہین رسالت کی سزا 389 قتل نہیں ہے واپس اپنی کمان میں لوٹ جائے اور یہانتک کہ دنیا کی اکثریت آپ کی غلامی میں آکر آپ پر درود بھیجنے والی بن جائے.قرآن کریم کی پیشگوئیوں کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی تقدیر ہے جو لازماً قائم ہونے والی ہے.انشاء اللہ *****
توہین رسالت کی سزا 390 | قتل نہیں ہے حرف آخر توہین رسالت کی حفاظت کا الہی نظام اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الاحزاب : 57) کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی "پر رحمت بھیجتے ہیں.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام قارئین کرام! وہ کیسا عالی مرتبت، عظیم الشان ، بے نظیر ، ارفع و اعلیٰ اور وہم و گمان سے بر تر وجو د ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں.جس پر اللہ تعالیٰ مومنوں کو بھی درود و سلام بھیجنے کی تلقین کرتا ہے کہ وہ بھی اس پر درود وسلام بھیجیں.کائنات میں ہر جگہ موجود اللہ تعالیٰ کے درود و سلام اور کائنات کی وسعتوں میں پھیلے ہوئے فرشتوں کے درود و سلام کے ساتھ اس کرہ ارض کے طول و عرض میں مقیم مومنوں کے درود و سلام کے ہوتے ہوئے چند گندے اور بد زبان لوگوں کی توہین معنے ہی کیا ر کھتی ہے ؟ اس کی حیثیت ہی کیا رہ جاتی ہے ؟ اس پاک نبی کے پاک وجود اور پاک ذات اور پاک ذکر کو جس طرح درود و سلام نے ہر جانب سے اور ہر وقت اپنے ہالے میں ، اپنے گھیرے میں اور کروڑ در کروڑ غلافوں میں لپیٹا ہوا ہے وہاں کسی کی توہین داخل کیسے ہو سکتی ہے ؟ کائنات کی وسعتوں پر پھیلا ہو ا درود و سلام کس طرح کسی سب و شتم اور توہین و تنقیص اُس پار جانے دے سکتا ہے ؟ عقل اس کا جواب دینے سے قاصر ہے.درود و سلام کی اس تجلی یا تقدیر کا ایک منظر وہ بھی ہے جو آج سے اڑ ہائی ر تین ہزار سال پہلے اسرائیلی نبی حضرت حبقوق علیہ السلام نے آنحضرت صلی الم کے لئے اس فصیل درود و سلام کی تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک پیشگوئی کی تھی.اس پیشگوئی میں انہوں نے یہ ذکر فرمایا تھا کہ : ”خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہِ فاران سے اس کا جلال آسمان پر چھا
توہین رسالت کی سزا { 391 ) قتل نہیں ہے گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہو گئی، اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی.اس کے ہاتھ سے کر نہیں نکلتی تھیں اور اس میں اس کی قدرت نہاں تھی.“ (حبقوق باب 3 آیت 3,4) ( تیمان.فدک کے پاس ایک وادی ہے.اسے تیاء کہتے ہیں.مسجد میں بھی اس نام کا ایک مقام ہے.) اس پیشگوئی میں رسول اللہ صلی اللی کم پر درود و سلام کا ایک عظیم منظر بتایا گیا ہے.وہ منظر پر یہ ہے کہ ویسے تو اللہ تعالیٰ اور کائنات کے چپے چپے پر مامور اس کے فرشتوں کا درودو سلام ہی آسمان و زمین کو حمد سے بھر دیتا ہے.لیکن مومنوں کے درود و سلام سے بھی اس زمانے میں ہر لمحے زمین و آسمان بھر چکے ہیں.آج افراد جماعت احمد یہ دنیا کے ہر خطے میں موجود اپنے آقا و مولی حضرت محمد مصطفی ملی لی ایم پر صبح و مساء درود و سلام بھیج رہے ہیں.دن رات کی آمد ورفت یا سورج کے طلوع و غروب کے ساتھ ساتھ دنیا کے ہر حصے میں لمحے لمحے پر درود و سلام چلتا رہتا ہے.یعنی اگر کرہ ارض پر ایک جگہ سورج کے غروب کے ساتھ نماز مغرب کی ادائیگی ہو رہی ہے تو اس سے اگلے علاقے میں چند لمحوں کے بعد نماز مغرب ہو رہی ہوتی ہے اور یہ نماز رفتہ رفتہ آگے سے آگے چلتی جاتی ہے.اسی طرح پیچھے عشاء کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے اور وہ بھی اسی طرح آگے روانہ ہونے لگتی ہے.اس طرح ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور بعینہ سب نمازیں ایک دوسرے کے پیچھے پوری دنیا میں رواں دواں ہوتی چلی جاتی ہیں.پھر ان کے علاوہ تہجدوں ، دیگر نمازوں، سنتوں اور نوافل وغیرہ کے علاوہ ذکر اذکار میں درود و سلام چلتا رہتا ہے.یہ ایسا الہی نظام ہے جو ایک لمحہ بھی نہ معطل ہوتا ہے نہ رکتا ہے ، نہ رک سکتا ہے.ان عملی حقیقتوں کی موجودگی میں یہ ممکن ہی نہیں کہ رسول اللہ صلی ایام تک کسی کی تو ہین پہنچ سکے.اللہ تعالیٰ نے ازل سے ابد تک کے لئے آپ کو درود و سلام اور حمد و تعریف کی
توہین رسالت کی سزا 392 | قتل نہیں ہے آہنی فصیلوں میں محفوظ کر دیا ہے.تو ہین اور رسول اللہ صلی ال یکم کی تکریم و تعظیم کے درمیان ہر ہر لمحہ جاری کروڑوں درودو سلام کا ایسا بند باندھ دیا ہے ، ایک ایسی فصیل کھڑی کر دی ہے جو ہر تو ہین و استہزاء کو آپ تک آنے سے روک دیتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب کفارِ مکہ نے رسول اللہ صلی علیم کی تحقیر اور تخفیف بلکہ آپ کی اذیت کے لئے کیا کچھ نہ کیا تھا، مگر کیا ان سے رسول اللہ صلی الم کی توہین ہو گئی تھی ؟ کیا اس دور کے بعد اب تک ایسا کرنے والوں کی بدزبانیوں کی وجہ سے آپ کی تو ہین ہو گئی تھی ؟ کیا اب ہو سکتی ہے؟ یا آئندہ ہو سکے گی؟ ہر گز نہیں اور ہر گز نہیں.لیکن ان سوالوں کا جواب جو خو د سیّد المعصومین ، اطہر المطہرین، اکرم المکرمین ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی صلی ال یکم نے دیا تھا، وہ کیسا سچا اور عظمتوں کی معراج پر مبنی تھا.آپ نے فرمایا: ” اَلَا تَعْجَبُوْنَ كَيْفَ يَصْرِفُ اللَّهُ عَنِّي شَتْمَ قُرَيْشٍ وَلَعْنَهُمْ ، يَشْتِمُونَ مُذَمَّهَا وَيَلْعَنُونَ مُذَمَّبًا وَ أَنَا مُحَمَّدٌ.“ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلی علی کی کیا یہ تمہارے لئے تعجب خیز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مجھ سے قریش ( یعنی کفار ) کی گالیوں اور ان کی لعنت کو دور رکھتا ہے.وہ تو مذ تم کو گالی دیتے ہیں اور مذ تم پر لعنت کرتے ہیں مگر میں تو محمد ہوں ( کیلی کم).اپنی جس محبوب اور پاک ذات کو اللہ تعالیٰ نے محمد بنایا، محمد قرار دیا اور محمد ثابت فرمایا (صلی ال) ، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کی توہین ہوتی ہے ، بذاتِ خود ایک جھوٹ ہے، ایک توہین آمیز خیال ہے.رسول اللہ صلی ا یکم کی نہ توہین ہو سکتی ہے نہ کوئی ایسا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اگر کوئی اللہ تعالیٰ پر بد زبانی کرتا ہے اور اس کی اس بد حرکت سے اللہ تعالیٰ کی توہین نہیں ہوتی، کوئی سورج یا چاند پر بد زبانی کرتا ہے تو ان کی توہین نہیں ہوتی.اسی طرح اگر کوئی
توہین رسالت کی سزا { 393 ) قتل نہیں ہے رسول پاک صلی للی کم کی توہین کرتا ہے تو ممکن نہیں ہے کہ آپ کی توہین ہو جائے.اس کی مثال یہ بھی ہے کہ جیسا کہ ایک بد انسان نے رسول اللہ صلی ال ظلم پر جادو کیا مگر وہ آپ پر نہیں ہوا.یعنی اس نے تو اپنی طرف سے یہ کیا تھا مگر وہ آپ پر ہو نہیں سکا.جیسے کوئی کسی کو تیر مارے مگر وہ اسے نہ لگے.بعینہ ہر نبی پر استہزاء ضرور ہوتا ہے، اس کی توہین کی کوشش ضرور کی جاتی ہے مگر ان کی تو ہین نہیں ہو سکتی.اللہ تعالیٰ انہیں ہمیشہ مخالفوں کی ایسی حرکتوں سے محفوظ و مصئون رکھتا ہے.وہ عزتوں اور عظمتوں کے بلند ترین مقام پر قائم رہتے ہیں.چنانچہ اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی ا یکم کو باقی تمام دیگر انبیاء علیہم السلام سے زیادہ اور بڑھ کر قابل احترام اور مقدس بنایا ہے.پس رسول اللہ صلی ا ظلم کی کبھی اور کسی طور پر تو ہین ممکن نہیں.جو لوگ تو ہین کے نعرے لگا لگا کر انسانوں کے خون کے درپے ہیں انہیں اس سے ہاتھ کھینچنے چاہئیں اور خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ سید المقدسین، اکرم المکرمین حضرت محمد مصطفی صلی نیم کی نہ توہین ہوئی ہے ، نہ ہوتی ہے اور نہ ہی کبھی ہو گی.انشاء اللہ.لہذ اضرورت ہے کہ اپنے جان سے پیارے اور عزیز اور اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلہ پر بکثرت درود بھیجا جائے تاکہ یہ فصیل درود و سلام تہ بہ ته بلند ، وسیع اور مضبوط ہوتی چلی جائے.تعلیم قارئین کرام! اس زمانے میں ناموس رسول اللہ صلی علیم کی حفاظت کا حقیقی کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذمہ ہے.لہذا یہی وہ جماعت ہے جو آپ کے لائے ہوئے نظام، اور عمل کے مطابق ناموس رسول اللہ صلی الی کم کی حفاظت کرتی ہے، کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور انشاء اللہ کر کے رہے گی.جماعت احمد یہ خلافت حقہ کی الہی قیادت میں ایک مضبوط اور محکم لائحہ عمل رکھتی ہے اور اس کا یہ جہاد ہمیشہ سے جاری ہے اور خلافت حقہ کے تحت ہمیشہ جاری
توہین رسالت کی سزا 394} قتل نہیں ہے رہے گا.یہانتک کہ رسول اللہ صلی اللی علم پر اٹھنے والا ہر تیر واپس اپنی کمان میں لوٹ جائے اور یہانتک کہ دنیا کی اکثریت آپ کی غلامی میں آکر آپؐ پر درود و سلام بھیجنے والی بن جائے.انشاء اللہ.یہ اللہ تعالیٰ کی وہ تقدیر ہے جو کبھی نہ ٹلنے کے لئے جاری ہو چکی ہے اور اپنی تکمیل کی جانب سرعت کے ساتھ رواں دواں ہے.زندہ نبی اور خد اتعالیٰ کا اعلیٰ درجہ کا پیار نبی صلی الیکم حضرت مسیح موعود علیہ السلام امید بہارِ رحمت اور نوشتہ تقدیر پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہم جب انصاف کی نظر سے دیکھتے ہیں تو تمام سلسلۂ نبوت میں سے اعلیٰ درجہ کا جوانمر دنبی اور زندہ نبی اور خدا کا اعلیٰ درجہ کا پیارا نہی صرف ایک مرد کو جانتے ہیں یعنی وہی نبیوں کا سر دار ، رسولوں کا فخر ، تمام مرسلوں کا سرتاج جس کا نام محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی الی یکم ہے جس کے زیر سایہ دس دن چلنے سے وہ روشنی ملتی ہے جو پہلے اس سے ہزار برس تک نہیں مل سکتی تھی و آخری وصیت یہی ہے کہ ہر ایک روشنی ہم نے رسول نبی امی کی پیروی سے پائی ہے اور جو شخص پیروی کرے گا.وہ بھی پائے گا اور ایسی قبولیت اس کو ملے گی کہ کوئی بات اُس کے آگے انہونی نہیں رہے گی.زندہ خدا جو لوگوں سے پوشیدہ ہے اس کا خدا ہو گا اور جھوٹے خدا سب اس کے پیروں کے نیچے کچلے اور روندے جائیں گے.وہ ہر ایک جگہ مبارک ہو گا اور الہی قوتیں اُس کے ساتھ ہوں گی.والسلام علیٰ من اتبع الھدی.“(سراج منیر روحانی خزائن 12 صفحہ 82) يا رَبِّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ دَائِمًا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ بَعْثٍ ثَانِ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَما صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيْدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى ابْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ *****
توہین رسالت کی سزا 395 } قتل نہیں ہے